Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 48

‫‪1‬‬

‫ہائے میرا بستہ‬


‫)‪(Ishtiaq Ahmad, Khanewal‬‬

‫! نام کتاب۔ ہائے میرا بستہ‬

‫میں ایک پرائمری جماعت میں پڑھنے وال بچہ ہوں۔‬


‫میری عمر اور جسمانی قوت کا تو سب کو اندازہ ہی‬
‫ہے۔ میرے بستے کے بوجھ سے بھی سبھی واقف ہیں۔‬
‫اس لیے سب مانتے ہیں کہ میرا بستہ میری عمر اور‬
‫میری قوت کے لحاظ سے بڑا ہے۔ میرے کندھوں پر‬
‫نشان ڈال دیتا ہے میری کمر کو دہرا کر دیتا ہے۔ میں‬
‫ہانپتے کانپتے اسے اٹھا کر سکول پہنچتا ہوں اور اسی‬
‫حالت میں سکول سے گھر لوٹتا ہوں۔ سکول میں‬
‫بھی یہ میرے لیے ذہنی اذیت کا باعث بنا رہتا ہے۔ یہ‬
‫بستہ میرے لیے ذہنی اور جسمانی دونوں لحاظ سے‬
‫تکلیف دہ ہے۔ میری عمر کا اگر کوئی بچہ مزدوری‬
‫کرتا ہوا نظر آئے تو سب کو بڑا ترس آتا ہے۔ انسانی‬
‫حقوق کی تنظیمیں بھی جاگ اٹھتی ہیں۔ اخباروں‬
‫میں خبریں بھی لگ جاتی ہیں۔ عالمی سطح پر میرے‬
‫حقوق کی بابت بڑی بڑی کانفرنسیں بھی منقعد ہوتی‬
‫ہیں۔ بچوں کے عالمی دن بھی منائے جاتے ہیں اور ان‬
‫میں میرے حقوق کے بارے میں آوازیں بھی اٹھائی‬
‫جاتی ہیں۔ جب میں ریڈیو‪ ،‬ٹی وی کے پروگرامات‬
‫سنتا اور دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے پوری دنیا‬
‫میرے مسائل حل کرنے کی خاطر متحرک ہو گئی ہے۔‬
‫مگر کسی کو میرا بستہ چھوٹا اور آسان کرنے کی‬
‫فکر نہیں ہے۔ اب تک میں خاموش رہا ہوں۔ اس لیے کہ‬
‫‪2‬‬

‫آپ مجھ سے بڑے ہیں‪ ،‬میرے بزرگ اور بڑے بھائی‬


‫بہنوں کی طرح ہیں۔ آپکا شمار میرے ملک کے‬
‫دانشوروں‪ ،‬اساتذہ اور مفکرین‪ ،‬قائدین اور علماء‬
‫میں ہوتا ہے۔ آپ میرے والدین کی جگہ پر بھی ہیں‬
‫آپکی شان میں گستاخی!۔ توبہ نعوذبااللہ۔ خدا وہ دن نہ‬
‫لئے کہ میری زبان سے کوئی ایسا جملہ نکلے جسے‬
‫آپ سوِء ادب سمجھ بیٹھیں۔ میں اپنے بڑوں کے‬
‫احترام سے خوب واقف ہوں۔ پھر بھی بچہ ہوں۔ اگر‬
‫کوئی غلطی سرزد ہو جائے تو پیشگی دست بستہ‬
‫معافی کا طلبگار ہوں۔ مگر اب میرے صبر کا پیمانہ‬
‫لبریز ہو چکا ہے۔ میں زیادہ دیر تک اپنے اوپر سکتہ‬
‫طاری نہیں کر سکتا۔ میں بھی آخر گوشت پوست کا‬
‫انسان ہوں‪ ،‬میرے سینے میں بھی آپ کی طرح ایک‬
‫دل دھڑکتا ہے۔ آپ کب تک لروں لپوں کے سہارے‬
‫مجھے ٹرخاتے رہیں گے؟ کب تک میرے اس مسئلے کی‬
‫بابت صرف نظر کرتے رہیں گے؟ ڈاکٹروں نے بھی‬
‫میرے بستے کو میری عمر سے بڑا اور میری ذہنی اور‬
‫جسمانی صحت کے لیے نقصان دہ قرار دیا ہے۔ پھر‬
‫بھی کوئی نہیں سنتا۔ حالنکہ آپ سب کو خدا نے‬
‫س خمسہ کی صحیح و سلمت دولت سے نوازا‬ ‫حوا ِ‬
‫ہے۔ آپ ملک کے بہت بڑے دانشور سہی۔ آپ ملک کے‬
‫بہت بڑے ماہر تعلیم سہی۔ آپ ملک کے مانے ہوئے‬
‫پالیسی ساز سہی۔ مانا کہ آپ میری نفسیات کو بھی‬
‫سب سے زیادہ جانتے ہیں۔ مانا کہ آپ محکمہ تعلیم‬
‫میں سیاہ سفید کے مالک ہیں۔ آپ میں بڑے بڑے‬
‫تعلیمی منصوبے تیار کرنے اور ان کو روبہ عمل لنے‬
‫کی صلحیتں موجود ہیں۔ مگر گستاخی معاف! میں‬
‫‪3‬‬

‫ان بڑی بڑی باتوں کو کیسے تسلیم کروں؟ اتنے بڑے‬


‫بڑے کارنامے انجام دینے والے اگر میرے بستے کو چھوٹا‬
‫اور آسان نہیں بنا سکتے تو میرے پاس کیا دلیل ہے کہ‬
‫جس کی بنیاد پر میں آپ کی صلحیتوں کا لوہا‬
‫مانوں؟ میں ایسے ہی غصے میں آ کر جلی کٹی باتیں‬
‫نہیں کر رہا ہوں۔ میں بہت ستایا ہوا ہوں۔ روزانہ ستایا‬
‫جاتا ہوں۔ دن میں کم از دو مرتبہ جسمانی اعتبار سے‬
‫اور دن بھر ذہنی اعتبار سے۔ روزانہ ان دانشوروں کی‬
‫جان کو روتا ہوں جو میری مشکل کو مانتے ہیں مگر‬
‫حل نہیں کرتے۔ میں اتنا کم ظرف نہیں ہوں کہ تنگ‬
‫آکر ِان کو بددعائیں دینا شروع کر دوں۔ نہیں۔ ہرگز‬
‫نہیں۔ ایسا تو مایوس لوگ کیا کرتے ہیں۔ اللہ تعال ٰی‬
‫سے یہ دعا کرنا میرا حق ہے کہ خدا ان ماہرین تعلیم‬
‫اور دانشوروں کو میرے مسئلے کو گنجلک بنانے کی‬
‫بجائے اسے حل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ مجھے‬
‫تو خدائے بذرگ و برتر کی ذات پر پورا بھروسہ ہے۔‬
‫مجھے یقین ہے کہ میں ایک نہ ایک دن اپنی جدوجہد‬
‫میں ضرور کامیاب ہو جاؤں گا۔ اس لیے آپ کی عزت‬
‫و توقیر پر کوئی حرف نہیں آنے دوں گا انشاء اللہ۔‬
‫مگر شکوہ کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں۔ اسی طرح‬
‫جس طرح ایک بیٹا اپنے باپ سے کرتا ہے۔ وہ شکوہ جو‬
‫حدِ ادب کے اندر رہ کر کیا جاتا ہے۔ شاعر مشرق‬
‫حضرت علمہ اقبال رحمتہ اﷲ علیہ نے بھی امت کو‬
‫جنجھوڑنے کے لیے خدا سے شکوہ کیا تھا۔ مجھے بھی یہ‬
‫حق حاصل ہے کہ میں بھی اپنے جیسے لکھوں بچوں‬
‫کی بھلئی کی خاطر آپ سے شکوہ کروں اور آپ کو‬
‫جنجھوڑوں اور آپ کو سوچنے پر آمادہ کروں تاکہ آپ‬
‫‪4‬‬

‫میرے اور میری عمر کے لکھوں بچوں کے ایک اہم‬


‫مسئلے کی طرف متوجہ ہوں ۔‬

‫جب بڑے کسی مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہو‬


‫جائیں تو چھوٹوں کو پھر میدان عمل میں کودنا پڑتا‬
‫ہے۔ اس لیے مجھے چھوٹا سمجھ کر میری باتوں کو‬
‫نظر انداز مت کریں۔ بہر حال میری باتوں میں اگر‬
‫وزن ہو گا تو خود بخود آپ کے دل و دماغ میں اترتی‬
‫چلی جائیں۔ آپ ماننے پر مجبور ہو جائیں گے کہ اپنے‬
‫بستے کے بوجھ تلے ہوئے بچے کی چیخیں واقعی کان‬
‫دھرنے کے لئق ہیں۔ انشاءاللہ بات کروں گا تو دلیل و‬
‫منطق کی طاقت کے ساتھ۔ دھونس دھاندلی نہ کروں‬
‫گا اور نہ ہی کرنے دوں گا۔ آپ سے بس اتنی گزارش‬
‫ہے کہ چھوٹا ہونے کے ناطے میری بات کو درمیان سے نہ‬
‫کاٹیں۔ صبرو تحمل کے ساتھ مجھے سنیں اور اپنے بڑا‬
‫ہونے کا ثبوت دیں میرا بستہ بڑا ہونے میں میرے لیے‬
‫نصاب سازی کرنے والوں کی سطحی سوچ اور ذہنی‬
‫مرعوبیت کا بڑا عمل دخل ہے۔ جی ہاں۔ بات تو بڑی‬
‫ہے مگر کہنا میری مجبوری ہے۔ دنیا میں بڑے بڑے‬
‫مسائل کی بابت لوگ گہرائی کے ساتھ سوچتے ہیں‬
‫اور ان کے حل نکال لیتے ہیں۔ گہرے غورو فکر اور‬
‫منصوبہ بندی کے ساتھ اگر ایٹم بم بنایا جا سکتا ہے‪،‬‬
‫مریخ پر قدم رکھا جا سکتا ہے‪،‬آنکھوں کو خیرہ اور‬
‫ذہن کو ورطہ حیرت میں ڈالنے والے آلت ایجاد ہو‬
‫سکتے ہیں‪ ،‬سمندر کا سینہ چیر کر اس کی تہہ سے‬
‫دولت نکالی جا سکتی ہے۔ خلء میں معلق رہ کر‬
‫عالمی جنگ لڑنے کے منصوبے بنائے جا سکتے ہیں تو‬
‫‪5‬‬

‫میرا بستہ چھوٹا کیوں نہیں کیا جا سکتا؟ انسانوں نے‬


‫خدا کی عطا کی ہوئی عقل و دانش استعمال کر کے‬
‫ستاروں پر کمندیں ڈال لی ہیں مگر میرے ملک کے‬
‫دانشوروں سے میرا بستہ چھوٹا نہیں ہوتا۔ میرا قیاس‬
‫یہ ہے کہ میرے ملک کے دانشوروں کو شائد یہ غلط‬
‫فہمی ہو گئی ہے کہ اگر انہوں نے اپنے دماغ کو غورو‬
‫فکر اور منصوبہ بندی کے لیے استعمال کیا تو یہ کہیں‬
‫گھس کر چھوٹا نہ ہو جائے۔ اس میں سے سوچنے‬
‫سمجھنے کی صلحیت نہ جاتی رہے۔ یہ سوچ و فکر کی‬
‫بھول بھلیوں میں کہیں گم نہ ہو جائے اور بھر اسے‬
‫چراغ لے لے کر نہ ڈھونڈنا پڑ جائے۔ اگر یہ بات ہے تو‬
‫میں چھوٹا ہونے کے ناطے یقین دلتا ہوں کہ یہ نہ تو‬
‫گھس کر چھوٹا ہو گا اور نہ یہ کہیں گم ہو گا۔ بلکہ‬
‫استعمال کرنے سے اس پر جو سالہا سال سے زنگ‬
‫چڑھا ہوا ہے وہ اتر جائے گا۔ اور نیچے سے چمکتا دمکتا‪،‬‬
‫تازہ دم اور چالو حالت میں ایک دماغ نکلے گا۔ وہی‬
‫دماغ میرے بستے کو چھوٹا کرے گا۔ یہ بڑے بڑے دماغ‬
‫جن پر زنگ کی دبیز تہیں چڑھی ہوئی ہیں یہ ان کے‬
‫بس کا روگ نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جن چیزوں کو‬
‫چھوٹا کرنا چاہیے ان کو یہ بڑا کر رہے ہیں اور جنہیں‬
‫بڑا کرنا چاہیے انہیں چھوٹا کرنے کی تگ و دو میں لگے‬
‫ہوئے ہیں۔ مثل اپنی کاروں‪ ،‬کوٹھیوں اور بنگلوں کو‬
‫بڑی سرعت کے ساتھ بڑا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ شائد‬
‫اسی لیے میرے بستے کو بھی اسی رو میں بہتے ہوئے‬
‫بڑا کرتے چلے جا رہے ہیں۔ اپنے دماغ کی جسامت کو‬
‫بھی لگے ہاتھوں بڑھا رہے ہیں مگر افسوس صد‬
‫افسوس کہ اپنی سوچ وفکر اور فہم و تدبر کے دائرے‬
‫‪6‬‬

‫کو تنگ سے تنگ کرتے جا رہے ہیں۔ بڑے سے بڑے‬


‫دماغوں سے نکلنے والے مغز تو پرانی انارکلی سے‬
‫بھی بہت مل جاتے ہیں مگر فقط کھانے کے لیے ۔ ہمیں‬
‫دماغ چاہیں کام کے لیے جو جسامت میں چاہے چھوٹے‬
‫ہی کیوں نہ ہوں مگر ہوں سمارٹ۔ خوب غوروفکر‬
‫کرتے ہوں ۔میرا بستہ اب تک جو کتابوں کی غذا کھا‬
‫کھا کر موٹا ہوتا رہا ہے‪ ،‬یہ انہیں موٹے دماغوں کی‬
‫کارستانی ہے ۔محکمہ تعلیم کو چاہیے کہ وہ نصاب بنانے‬
‫کی ذمہ داری ایسے لوگوں کو سونپے جن کے دماغ‬
‫چھوٹے ہوں مگر ان کا معیار بلند ہو ۔ آپ جانتے ہی‬
‫ہیں کہ آجکل مقدار کی بجائے معیار دیکھا جاتا ہے ۔‬
‫دوسری بات یہ کہ دماغ ان کا اپنا ہو اور سوچ و فکر‬
‫میں آزاد ہو ۔خود دار ہو اور اعتماد کی دولت سے مال‬
‫مال ہو ۔ مجھے خطرہ ہے کہ دوسروں کے دماغ سے‬
‫سوچنے والوں کے سامنے جب میں اپنا مطالبہ رکھوں‬
‫گا تو نصاب کو بڑا چھوٹا کرنے کا اختیار رکھنے والے‬
‫خواتین و حضرات برا نہ مان جائیں ۔میرا مطالبہ ان‬
‫کی طبع نازک پر گراں نہ گزرے ۔اور وہ غصے میں آ کر‬
‫بستہ چھوٹا اور آسان کرنے کی بجائے اسے اور بڑا اور‬
‫پیچیدہ نہ کر دیں اور ساتھ ہی مجھے سکول سے بھی‬
‫نکال باہر کریں ۔اس لیے ڈر لگتا ہے کہ اگر انہیں ناراض‬
‫ہونے کا موقع مل گیا تو لکھوں بچوں کے بستوں کا‬
‫بوجھ اور بڑھ جائے گا ۔کیونکہ مجھ سے پہلے والے لوگ‬
‫اس کی سزا بھگت چکے ہیں ۔میرے بڑے بھائی بتاتے‬
‫ہیں کہ ان کے دور میں انگریزی چھٹی جماعت سے‬
‫شروع ہوتی تھی ۔آپ جانتے ہیں کہ چھٹی جماعت کا‬
‫بچہ ذرا بڑا ہو جاتا ہے اور بستے کا جسمانی اور ذہنی‬
‫‪7‬‬

‫بوجھ کسی قدر آسانی سے اٹھا سکتا ہے ۔ انہوں نے‬


‫بستہ چھوٹا کرنے کا مطالبہ کیا تو نصاب سازی کا‬
‫اختیار رکھنے والوں نے طیش میں آکر اسے اور بڑا‬
‫اور مشکل کر دیا ۔ لیں جناب اور مطالبہ کریں ان‬
‫سے بستہ چھوٹا کرنے کا ۔ پہلے کم از کم ایک انگریزی‬
‫کی کتاب اور اس کے ساتھ تین چار کاپیوں کا بوجھ تو‬
‫نہیں تھا ۔ اب بھی میرے بستے میں ایک انگریزی کی‬
‫کتاب‪ ،‬ایک الفاظ معانی کی کاپی‪ ،‬ایک سبق کے آخر‬
‫میں موجود مشقوں کے لیے اور ایک انگریزی‬
‫خوشخطی کے لیے یہ تو کتابوں کے وزن اٹھانے کی‬
‫بات ہے۔ ایک دفعہ سکول جاتے ہوئے اور ایک دفعہ‬
‫واپس آتے ہوئے انہیں اٹھانا پڑتا ہے۔ اس سے کئی گنا‬
‫زیادہ وزن میرے دماغ پر پڑتا ہے ۔ مجھے جتنی محنت‬
‫اور جتنی توانائی دوسرے تمام مضامین پر خرچ کرنا‬
‫پڑتی ہے اتنی ہی مجھے اکیلی انگریزی کے مضمون پر‬
‫خرچ کرنا پڑتی ہے ۔بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی ۔ پھر‬
‫بھی کم بخت آتی نہیں ہے ۔ رٹے کی چکی پیس پیس‬
‫کر دماغ تھک جاتا ہے ۔ اس پر ط ُّرہ یہ کہ میری سائنس‬
‫کو بھی اتنا پیچیدہ اور غیر فطری بنا دیا ہے کہ جی‬
‫چاہتا ہے سکول سے بھاگ جاؤں ۔میں تو اس نتیجے پر‬
‫پہنچا ہوں کہ میرے بستہ ساز مجھے پڑھنے نہیں دینا‬
‫چاہتے ۔ اخبارات میں کروڑوں روپیہ خرچ کر کے مہم‬
‫چلتے ہیں کہ لوگ اپنے بچوں کو سکول میں داخل‬
‫کروائیں مگر سکول میں ایک غیر ملکی زبان اور غیر‬
‫فطری سائنسی نصاب کا بوجھ ڈال کر میری تمام‬
‫دلچسپیوں کو ختم کر رہے ہیں ۔ان حالت میں میرا‬
‫سکول میں کیسے دل لگ سکتا ہے؟ پھر کہتے ہیں کہ‬
‫‪8‬‬

‫پاکستان میں سکول سے بھاگ جانے والوں بچوں کی‬


‫شرح پوری دنیا سے زیادہ ہے ۔جوں جوں مجھے پڑھائے‬
‫جانے والے علوم کا رشتہ میری قومی زبان سے کاٹتے‬
‫چلے جاتے ہیں توں توں میرے جسم‪ ،‬دماغ‪ ،‬دل اور‬
‫روح کو تکلیف میں مبتل کرتے چلے جاتے ہیں ۔بات تو‬
‫سیدھی ہے کہ فطرت سے انسان جوں جوں گریز کرتا‬
‫چل جائے گا فطرت اس کے راستے میں مشکلت پیدا‬
‫کرتی چلی جائے گی ۔ایک انسان کی بجائے اگر پوری‬
‫قوم فطرت گریز راستے پر چلنا شروع ہو جائے تو‬
‫پوری قوم انحطاط و زوال کا شکار ہو جائے گی ۔‬
‫فطرت گریز راستے پر چلنے کا مطلب خدا سے جنگ‬
‫ہے ۔مجھے کہنے دیجئے کہ میرے بستہ سازوں اور نصاب‬
‫سازوں نے خدا سے جنگ چھیڑ رکھی ہے ۔ اور مجھے‬
‫اور میرے جیسے کروڑوں بچوں کو بطور بیگار اس‬
‫جنگ میں سپاہی کے فرائض انجام دینے کے لیے مجبور‬
‫کیا جا رہا ہے ۔ ممکن ہے کہ لڑتا ہی رہ جاؤں اور یہ‬
‫بھاگ کر کہیں اور چلے جائیں ۔ بہر حال مجھے بہت‬
‫ستایا جا رہا ہے ۔سب سے زیادہ مشق ستم بننے والی‬
‫والی ذات میری ہی ہے ۔ان حالت میں میرا جذباتی‬
‫ہونا فطری سی بات ہے‬

‫یہاں پر کچھ لمحوں کے لیے رک کر میں ٹھنڈے پانی کا‬


‫گلس پینا چاہتا ہوں تاکہ میں اپنے برانگیختہ جذبات کو‬
‫ٹھنڈا کر سکوں ۔ آپ کو بھی رکنے اور سانس لینے کا‬
‫مشورہ دوں گا اس لیے کہ آپ بڑے حساس ہیں کہتے‬
‫ہیں کہ انسان جب بڑی عمر کو پہنچ جاتا ہے تو اس‬
‫کی عادتیں بچوں کی طرح ہو جاتی ہیں ۔ وہ چھوٹی‬
‫‪9‬‬

‫چھوٹی باتوں پر بچوں کی طرح بگڑنا شروع کر دیتا‬


‫ہے ۔آپ محسوس نہ کریں اسی خدشے کے پیش نظر‬
‫مجھے کہیں کہیں رک کر نصیحتیں کرنا پڑتی ہیں ۔اس‬
‫لیے کہ غورو فکر تو فقط ٹھنڈے دل و دماغ سے ہی کیا‬
‫جاتا ہے نا ۔تو خیر میں یہ گذارش کر رہا تھا کہ بستہ‬
‫چھوٹا کرنے کا تعلق گہرے غورو فکر کے ساتھ ہے ۔بستہ‬
‫اور سوچ و فکر کی گہرائی ایک دوسرے کے بالعکس‬
‫متناسب ہیں ۔یعنی بستہ چھوٹا کرنا ہو تو ذرا گہری‬
‫سوچ میں ڈوبنا پڑتا ہے ‪،‬دماغ کے زیادہ خلیوں کو‬
‫سوچنے کی زحمت دینا پڑتی ہے ۔ اور اگر بستہ بڑا‬
‫کرنا ہو تو اس کے لیے سطحی سوچ ہی کافی ہے۔اس‬
‫سے پہلے جو بستے کو بڑا کیا گیا وہ یقینًااسی سوچ کا‬
‫ہی کرشمہ ہے ۔دنیا میں بچوں کے حقوق کی بحالی‬
‫کے لیے بھی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں جو بچوں پر ہونے‬
‫والی زیادتیوں اور ان سے جبری مشقت لینے کے‬
‫خلف آواز اٹھاتی ہیں۔ میری ان سے بھی گذارش کہ‬
‫وہ میری آواز پر بھی کان دھریں ۔میرے مسئلے کو‬
‫بھی سمجھیں ۔بستے کے بوجھ سے میری جھکی ہوئی‬
‫کمر کی طرف بھی دیکھیں ۔میرے ماتھے پر‬
‫پریشانیوں کی شکنوں میں چھپے میرے دل کے درد کو‬
‫محسوس کریں ۔ کیا یہ جبری مشقت نہیں جو ہر روز‬
‫مجھ سے لی جاتی ہے ؟کیا یہ میرا حق نہیں کہ میرا‬
‫بستہ میری عمر ‪ ،‬جسمانی صحت اور ذہنی سطح کے‬
‫مطابق ہو؟ کیا انسانی حقوق کی تنظیموں کو میرے‬
‫مسئلے کو اپنے ایجنڈے میں شامل نہیں کرنا چاہیے؟‬
‫بچوں کے فٹ بال سینے اور ہوٹلوں میں کام کرنے پر‬
‫تو بڑا واویل کرتی ہیں ۔مگر میرے اپنی طاقت سے‬
‫‪10‬‬

‫زیادہ بوجھ اٹھانے پر ان کی چیخیں کیوں دم توڑ جاتی‬


‫ہیں؟ آج جب میرے فہم کو چھیننے ‪،‬مجھے جسمانی اور‬
‫روحانی طور پر کمزور کرنے‪ ،‬مجھے رٹے کا خوگر‬
‫بنانے‪ ،‬میرے علم کی بنیادوں کو کمزور کرنے‪ ،‬میرے‬
‫علم کا میری قومی زبان سے رشتہ کاٹنے‪ ،‬میری‬
‫قومی زبان کی پشت میں خنجر گھونپنے‪ ،‬میری‬
‫سائنسی فہم کی بنیادوں پر تیشہ چلنے اور مجھے‬
‫میری تہذیب و ثقافت سے بیگانہ کرنے کی سازشیں ہو‬
‫رہی ہیں تو یہ سب کیوں خاموش ہیں؟ ان کو اب‬
‫کیوں سانپ سونگھ کیا ہے؟ یہ سب لوگ کیوں مجھے‬
‫ڈوبتا ہوا دیکھ کر خاموش ہیں ۔کیا ان کے لب آزاد نہیں‬
‫ہیں؟ کیا ان کی زبان اب قوت گویائی سے محروم ہو‬
‫چکی ہے؟ اگر نہیں تو پھر مجھے ان کی آواز کیوں‬
‫نہیں سنائی دے رہی؟ کیا ان کی قوت شامہ بھی‬
‫ماؤف ہو چکی ہے ؟کیا انہیں میری دہائی سنائی نہیں‬
‫دے رہی؟معاف کرنا میں ذرا جذباتی ہو گیا تھا ۔میں‬
‫کیا کروں کہ میری حالت تو اس شخص کی سی ہے‬
‫جسے مارا بھی جا رہا ہو اور رونے بھی نہ دیا جا رہا‬
‫ہو ۔میرے سامنے دو ہی راستے ہیں ۔یا تو میں اپنے‬
‫جذبات کے اس الؤ کو دل ودماغ میں ہی رہنے دو ں‬
‫اور اپنی آگ میں آپ ہی جل کر اپنے وجود کو ختم کر‬
‫ڈالوں ۔یا زور زور سے چل ؤں اور اپنی دل خراش‬
‫چیخوں کی لہروں کو کو ظالموں کے کانوں کے پردو‬
‫ں سے ٹکرادوں ۔یہی راستہ میں نے اختیار کیا ہے ۔‬
‫گھٰٹ گھٹ کر مرنے سے تو بہتر ہے کہ جدوجہد کرتے‬
‫ہوئے جان دے دی جائے۔‬
‫‪11‬‬

‫میرے محلے میں ایک امیر زادے رہتے ہیں ۔میں نے جب‬
‫باتوں باتوں میں ان سے اپنے بستے کی بابت بات کی‬
‫تو کہنے لگے کہ بستہ تو ان کا بھی کافی بھاری ہے مگر‬
‫ان کے ابو انہیں کار پر سکول چھوڑ آتے ہیں ۔مجھے‬
‫کہنے لگے کہ تم بھی اپنے ابو سے کہو کہ وہ تمہیں بھی‬
‫تمہارے بستے سمیت سکول چھوڑ آیا کریں ۔میں نے‬
‫ان سے کہا کہ جناب میرے ابو تو منہ نہار کھیتوں میں‬
‫ہل چلنے کے لیے چلے جاتے ہیں‪ ،‬شام کو تھکے ہارے‬
‫گھر لوٹتے ہیں ۔میں اتنا بے وقوف نہیں ہوں کہ ان کی‬
‫مشکلت سمجھے بغیر ان سے مطالبہ شروع کر‬
‫دوں ۔آپ کے ابو تو سارا دن فارغ رہتے ہیں ۔وہ ایک‬
‫زمیندار ہیں ۔اس لیے وہ شائد کام کرنے کی ضرورت‬
‫بھی محسوس نہیں کرتے ۔آپکے ابو سے میرے ابو کا‬
‫معاملہ تو بالکل ہی مختلف ہے ۔پھر آپ انگریزی‬
‫سکول میں پڑھتے ہیں اور میں ٹاٹ سکول میں ۔میں‬
‫نے مزید کہا کہ جناب آپ جیسے تو شائد ملک میں ایک‬
‫فی صد بھی لوگ نہ ہوں ۔زیادہ تعداد تو معاشرے میں‬
‫میرے جیسے تو شائد کے زور پر اپنے ہر مسئلے کو حل‬
‫کر سکتے ہیں ۔آپ نے ٹیوشن پڑھانے کے لیے ہر‬
‫مضمون کا الگ الگ ٹیچر رکھا ہوا ہے ۔ مگر اصل‬
‫مسئلہ تو میرا اور میرے جیسے دوسرے لکھوں بچوں‬
‫کا ہے ۔ بچوں کے لیے نصاب اور دوسری تعلیمی‬
‫پالیسیاں بنانے والے بھی آپ جیسے بچوں کو ہی مد‬
‫نظر رکھ کر بناتے ہیں ۔میرے جیسوں کو نہیں ۔ہم تو‬
‫شائد ان کی نظروں میں اچھوت ہیں ۔ہمارے لیے بنائے‬
‫گئے بے شمار سکولوں میں بیٹھنے کے لیے کمرے نہیں‬
‫ہیں۔کمرے ہیں تو چار دیواری نہیں ہے ۔کہیں پنکھے ہیں‬
‫‪12‬‬

‫تو کہیں میرے جیسے بچے درختوں کے نیچے بیٹھ کر‬


‫گزارا کرتے ہیں۔میرے لیے میرے پالیسی سازوں کے‬
‫ذہن میں یہ خیال بھی نہیں ہوگا کہ کروڑوں روپے کی‬
‫جو رقم اپنی پگڑی کا شملہ اونچا کرنے کے لیے خرچ‬
‫کی جا رہی ہے اس میں سے چند ہزار روپے نکال کر‬
‫میرے سکول کی چار دیواری ہی بنا دی جائے ۔آپ کے‬
‫کمرے گرمیوں میں ٹھنڈے ٹھنڈے اور سردیوں میں گرم‬
‫اور ان کے بھی جو بستہ تشکیل دینے کے اختیارات‬
‫رکھتے ہیں ۔آپ کے مفادات کو وہ اچھی طرح سمجھتے‬
‫ہیں میرے نہیں ۔ٹھنڈے کمروں میں بیٹھنے والوں کو‬
‫چلچلتی دھوپ میں جلنے والوں کے مسائل کا اندازہ‬
‫آخر کیسے ہو سکتا ہے ؟آخر کار جب میری بات کا‬
‫جواب نہ بن پایا تو کہنے لگے کہ تم غریبوں کو تو‬
‫شکوے شکایت کی عادت پڑ چکی ہے ۔یہ حکومتوں کے‬
‫معاملے ہیں۔بھل تمہارے اتنی چھوٹی عمر میں سیاست‬
‫چمکانے سے کیا ہو گا ؟میں نے کہا کہ میں غریب‬
‫ضرور ہوں مگر میری آواز کمزور نہیں ہے ۔میری آواز‬
‫میں حق و انصاف اور دلیل ومنطق کی طاقت‬
‫موجود ہے ۔کمزور وہ ہوتا ہے جو اپنے آپ کو کمزور‬
‫سمجھے ۔میں تو اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھتا ۔اللہ‬
‫کے فضل و احسان سے میں لوگوں کے جسم کو اگر‬
‫متاثر نہ کر سکا تو دماغوں کو تو ضررور سوچنے پر‬
‫مجبور کر دوں گا ۔اور ایک دور آئے گا جب لوگ میرے‬
‫مؤقف کو سمجھیں گئے اور یہ بستہ میری ذہنی اور‬
‫جسمانی عمر سے ضرور ہم آہنگ ہو گا ۔آپ سوچ رہے‬
‫ہوں گے کہ وہ کیسے ؟اس بات کا جواب دینے سے پہلے‬
‫آپ سے پھر یہ گزارش کروں گا کہ میری بات سنتے‬
‫‪13‬‬

‫ہوئے جذباتی نہ ہوں ۔اور تحمل و بربادی سے سماعت‬


‫فرمائیں ۔آپ ذرا دنیا میں ترقی کرنے والے ممالک کے‬
‫بچوں کے بستے کی طرف دیکھ لیں تو آپ کو سمجھ‬
‫آجا ئے گی کہ بستہ کیسے چھوٹا کرنا ہے ؟ان کے بچوں‬
‫کے بستوں کو دیکھیں کہ ان میں کتنی کتابیں ہیں ؟ان‬
‫کے نصاب سازوں نے ان کے بچوں کا بستہ کیسے‬
‫چھوٹا رکھا ہوا ہے؟دراصل جن باتوں میں ہمیں ان کی‬
‫تقلید کرنی چاہیے ان میں ہم کرتے نہیں ہیں اور جن‬
‫باتوں میں ہمیں اپنے فیصلے آپ کرنے چاہیں ان میں‬
‫ہم ان کی تقلید کرنا شروع کر دیتے ہیں۔تقلید بھی‬
‫اندھی ۔اتنی اندھی کہ جس میں اپنے دماغ استعمال‬
‫کرنے گنجائش نہ چھوڑی گئی ہو ۔میں نے اپنے استاد‬
‫محترم سے سوال کیا کہ کن کن ممالک کے بچوں کے‬
‫بستے ہم سے چھوٹے ہیں ؟تو انہوں نے تمام ترقی یافتہ‬
‫ممالک کے نام گنوادیے جن میں امریکہ ‪،‬برطانیہ‬
‫‪،‬فرانس ‪،‬جرمنی ‪،‬جاپان ‪،‬چین ‪،‬اور روس وغیرہ شامل‬
‫ہیں ۔میں نے پھر اپنے استاد محترم سے سوال کیا کہ‬
‫ان کے بستے کیوں چھوٹے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ وہ‬
‫تمام مضامین اپنی قومی زبانوں میں پڑھتے ہیں ۔‬
‫انہوں نے اپنے ملک کے بچوں پر اپنی قومی زبان کے‬
‫علوہ کسی دوسری زبان کا بوجھ نہیں ڈال ۔استاد‬
‫محترم کی بات میرے دل کو لگی ۔اردو میں بول بھی‬
‫سکتا ہوں اور بڑی آسا نی سے میری سمجھ میں‬
‫آجاتی ہے مگر انگریزی ہے کہ کم بخت سمجھ میں ہی‬
‫نہیں آتی ۔انگریزی کے مضامین ‪،‬کہانیاں ‪ ،‬اور کتاب کے‬
‫اسباق کو زیادہ تر رٹا ہی لگا نا پڑتا ہے ۔کتنے خوش‬
‫قسمت ہیں وہ بچے جن کے نصاب سازوں نے ان پر‬
‫‪14‬‬

‫کسی اور زبان کا بوجھ نہیں ڈال۔ مگر ہمارے نصاب‬


‫سازوں نے میری کمر کے ساتھ ساتھ میرے ذہن پر بھی‬
‫تھکا دینے وال بوجھ ڈال ہے ۔میں یہ بات سوچ ہی رہا تھا‬
‫کہ میرے ایک ہم جماعت نے استاد محترم سے سوال‬
‫کر ڈال کہ ہم پر بھی تو عربی کا بوجھ ڈال گیا ہے ۔‬
‫استاد محترم نے کلس کو بڑی ہی حکمت اور دانائی‬
‫کے ساتھ سمجھایا کہ عربی تو قرآن کی زبان ہے ۔اور‬
‫وہ انگریزی سے کئی گنا زیادہ آسان ہے ۔اسے پڑھنا اور‬
‫اسکے ذریعے سے قرآن سمجھنا تو ہم پر فرض ہے ۔‬
‫میرے استاد محترم نے سمجھایا کہ عربی اور اردو میں‬
‫کوئی زیادہ فرق نہیں ہے ۔ان کا مزاج ایک جیسا ہی ہے‬
‫۔ان کا خمیر تقریبا ً ایک جیسی ہی تہذیب و ثقافت‬
‫سے اٹھتا ہے ۔اس لیے جو زبان ہماری تہذیب وثقافت‬
‫کا حصہ ہوا سے سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔انہوں‬
‫نے بتایا کہ جب بچے نورانی قاعدہ پڑھتے ہیں تو عربی‬
‫کے ساتھ ساتھ اردو پڑھنے میں بھی آسانی پیدا ہو‬
‫جاتی ہے۔وہ بتا رہے تھے کہ عربی ‪،‬فارسی اور اردو‬
‫تقریبا ً ملتی جلتی زبانیں ہیں ۔ان کے حروف تہجی‬
‫بھی ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں ۔انہوں نے مزید‬
‫فرمایا کہ کوئی شخص اگر عربی سیکھنا چاہے تو بہت‬
‫سے لوگ سکھانے کے لیے میسر ہیں ۔دینی مدرسوں‬
‫میں بڑی آسانی سے مفتو مفت سیکھی جا سکتی‬
‫ہے ۔عربی کی سرکاری سطح پر سر پرستی نہ ہونے‬
‫کے باوجود بھی آسان ہے ۔ مگر انگریزی سیکھنے کے‬
‫لیے لکھوں اکیڈمیاں قائم ہیں مگر پھر بھی نہں۔‬
‫سیکھی جاتی میرے استاد محترم نے فرمایا کہ بستے‬
‫کو بڑا کرنے میں انگریزی کا ہی زیادہ عمل دخل ہے ۔‬
‫‪15‬‬

‫نصاب سازوں اور ان کے حواریوں نے اس قوم کے‬


‫بچوں پر بہت بڑا ظلم کیا ہے ۔وہ یہ کہ انہوں نے‬
‫انگریزی کو ہماری ضرورت بنایا ہے اردو کو نہیں ۔‬
‫مجھے یہ بات سمجھ نہیں آئی کہ ضرورت سے کیا مراد‬
‫ہے مگر استاد محترم نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ‬
‫ضرورت بنانے سے مراد یہ ہے کہ حکومت نے گیارہویں‬
‫جماعت سے لے کر سولہویں جماعت تک جدید تمام‬
‫سائنسی اور جدید علوم کو انگریزی میں رائج کیا ہے۔‬
‫امتحان انگریزی میں ہوتا ہے ۔اس لیے انگریزی پڑھنے‬
‫کے لیے ہم سب مجبور ہیں ۔جبکہ انگریزوں نے تمام تر‬
‫علوم کو اپنی زبانوں کے سانچے میں ڈھال کر باقی‬
‫زبانوں کی اہمیت کو کم کر دیا ہے ۔دوسری زبانوں‬
‫سے علوم و فنون اخذ کرنے کے لیے انہوں نے‬
‫مخصوص باتوں کے ضرورت کے مطابق ماہرین تیار‬
‫کیے ہیں جو ان زبانوں سے انگریزی میں علوم و فنون‬
‫کو منتقل کیا ہے ۔اسی طرح دوسرے ترقی یافتہ‬
‫ممالک میں بھی سائنسی علوم کو ان کی اپنی ہی‬
‫زبانوں میں دی جاتی ہے ۔استاد محترم نے مزید بتایا‬
‫کہ تمام ماہرین تعلیم ‪،‬ماہرین نفسیات اور ابلغیات کا‬
‫متفقہ فیصلہ ہے کہ بچوں کو تعلیم انکی مادری یا‬
‫قومی زبانوں میں دی جانی چاہیے ۔مگر نہ جانے ہمارے‬
‫نصاب ساز کیوں اس فطری طریقے سے انحراف‬
‫کرتے ہیں ؟فطرت انسان پر اپنا بوجھ نہیں ڈالری ۔‬
‫انسان خود اپنے اوپر بوجھ ڈالتے ہیں استادمحترم‬
‫نےبتایا کہ اگرایک سو لوگوں کو حکومت اس انداز‬
‫سے انگریزی سکھانے سے بہتر ہے ۔کام وہی درست‬
‫اور صحیح نتائج کا حامل ہوتا ہے جو مقاصد کو مد‬
‫‪16‬‬

‫نظر رکھ کر کیا جائے ۔اس کی مثال ایسے ہی ہے‬


‫جیسے کوئی کارخانے کا مالک اگرایک کمپیوٹر اور ایک‬
‫ملزم کے ساتھ جو کام کر سکتا ہے وہ شائد سو‬
‫مزدور بھی مل کر نہ کر سکیں ۔ اگر وہ اس کی بجائے‬
‫سو ملزم رکھے گا تو اسے کون عقلمند کہے گا ؟‬
‫انتظام کاری ہے ہی اسی چیز کا نام کہ کم وسائل کے‬
‫ساتھ زیادہ کا م کرنا ۔آپ سوچ رہے ہونگے کہ ان باتوں‬
‫کا میرے بستے کے ساتھ کیا تعلق ہے ؟تعلق ہے ۔بہت‬
‫گہرا تعلق ہے ۔یہی تو سوچ ہے جس نےمیرے کندھے پر‬
‫ہل پر جوتے ہوئے بیل کی طرح نشان ڈال دیا ہے ۔‬
‫صرف کندھے پر ہی نشان نہیں ڈال بلکہ دماغ کو بھی‬
‫بوجھل کر دیا ہے ۔بہر حال میں اپنے استاد محترم کے‬
‫حوالے سے بات کر رہا تھا ۔وہ اپنے ایک دوست کی‬
‫مثال دیتے ہیں جو ابھی ابھی چین کے سفر سے واپس‬
‫لوٹے ہیں ۔چین میں چینی زبان کے علوہ کوئی اور‬
‫زبان بولتے ہوئے نظر نہیں آتے ۔ملک کے اندر تمام‬
‫اشتہارات چینی زبان میں ہی پڑھتے ہیں ۔ان کو اپنے‬
‫اوپر اعتماد ہے اور اپنی زبان پر بھی ۔وہ اپنی زبان‬
‫فخر کے ساتھ بولتے ہیں ۔چین کا صدر اگر کسی ملک‬
‫میں جاتا ہے تو وہ چینی زبان میں ہی گفتگو کرتا ہے ۔‬
‫فرانس کا صدر اپنی قومی زبان میں ہر جگہ گفتگو‬
‫کرتا ہے ۔جاپان کے صدر یا کسی سرکاری اہل کار کو‬
‫کبھی کسی سے انگریزی میں گفتگو کرتے نہیں سنا ۔‬
‫روس کا صدر اپنی زبان میں ہر بین القوامی موقع‬
‫پر روسی زبان میں گفتگو کرتا ہے ۔انہیں اپنی زبان پر‬
‫بھروسہ ہے اور اسے اپنی غیرت و حمیت کا مسئلہ‬
‫سمجھتے ہیں ۔مگر ہمارے حکمران ہر جگہ انگریزی‬
‫‪17‬‬

‫بول کر اپنے آپ کو انگریزی کا دم چھل ثابت کرنے‬


‫کی کوشش کرتے ہیں ۔دراصل وہ انہیں یہ باور کرانے‬
‫کی کوشش کرتے ہیں کہ اپنی قوم کے کم اور ان کے‬
‫زیادہ وفادار ہیں ۔حیرت کی بات یہ ہے کہ اپنی ہی قوم‬
‫سے خطاب کرتے ہیں تو وہ بھی انگریزی میں ۔اور‬
‫جب قوم سے کچھ چھپانا مقصود ہو تو پھر اپنی تقریر‬
‫میں انگریزی کے ایسے ثقیل فقرے استعمال کرتے ہیں‬
‫کہ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ بھی سمجھنے سے‬
‫قاصر رہیں ۔انگریزی کے القوامی زبان ہونے کا ہوا‬
‫مذکورہ ممالک کو تو اپنے ملک کے بچوں کو انگریزی‬
‫پڑھا نے پر مجبور نہیں کرسکا ۔پوری دنیا میں چیزیں‬
‫اب چین کی بنی ہوئی بکتی ہیں ۔مختلف زبانوں کے‬
‫لیبل لگا کر چین مختلف ممالک کو اپنا مال بیچتا ہے ۔‬
‫یہ کام چند لوگ کر لیتے ہیں ۔اب اس کام کے لیے چین‬
‫اگر پوری قوم کے بچوں کو انگریزی پڑھانا شروع کر‬
‫دے تو اس سے بڑی حماقت اور کیا ہو گی ؟ہمارے ہاں‬
‫تو ریفریجریٹر کے اشتہار میں "ٹھنڈا پانی ہر بار "کی‬
‫لکھا ہوا نظر آتا ہے ۔ ‪ thunda pani her bar‬بجائے‬
‫جیسے اردو میں لکھنے سے پانی گرم ہو جاتا ہو اور‬
‫اردو کو انگریزی رسم الخط میں لکھنے سے پانی‬
‫واقعہی ٹھنڈا ہو جاتا ہو ۔یہی ذہنیت ہے جس نے میرے‬
‫بستے کو بڑا کیا ہوا ہے ۔اگر تمام مضامین کو اپنی‬
‫زبانوں میں پڑھا جائے اور انگریزی کو لزمی قرار‬
‫دینے کی بجائے اختیاری قرار دیا جائے تو ہزاروں‬
‫لکھوں طلباء وطالبات جو انگریزی کی وجہ سے فیل‬
‫ہو تے جارہے ہیں وہ پاس ہو جائیں اور تعلیم کی شرح‬
‫میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو جائے اور غریب آدمی کا‬
‫‪18‬‬

‫بچہ بھی اع ٰلی تعلیم حاصل کر سکے ۔گھر گھر میں‬


‫ڈاکٹر اور انجینئر پیدا ہونے لگیں اور میرے دماغ پر‬
‫بوجھ بننے وال اور کندھے پر لٹکنے وال بستہ دونوں‬
‫ہلکے ہو جائیں ۔آپکو میری مشکل کا کسی حد تک‬
‫انداز ہو گیا ہو گا کہ میں اپنے دماغ سے اور کندھے سے‬
‫انگریزی کا بوجھ ہٹانا چاہتا ہوں ۔میری باجی تین دفعہ‬
‫میٹرک میں فیل ہوئی ہیں فقط انگریزی کی وجہ‬
‫سے ۔میں سمجھتا ہوں کہ جتنی قوت اس نے انگریزی‬
‫پڑھنے پر صرف کی ہے اتنی قوت ‪،‬وسائل اور اتنا‬
‫وقت صرف کر کے وہ ایم اے پاس کرسکتی تھیں ۔‬
‫مقصد تو ہمارا ہے علم حاصل کرنا ۔اس علم کو‬
‫مجھے میری قومی زبان کو سکھائیں ۔جتنا مرضی‬
‫سکھائیں ۔مگر میرے بزرگ ‪،‬میرے نصاب ساز مجھے‬
‫علم سکھانے کی بجائے انگریزی کی صورت میں ایک‬
‫زبان سکھا رہے ہیں ۔مجھے یہ بتائیں کہ کیا جو انگریزی‬
‫جانتا ہے وہی پڑھا لکھا ہوتا ہے ۔انگریزوں کے بچے‬
‫جوان پڑھ ہوتے ہیں ۔بولتے تو وہ بھی انگریزی ہی ہیں ۔‬
‫کیا اس وجہ سے وہ پڑھے لکھے کہلتے ہیں ؟ آخر کیا‬
‫وجہ ہے کہ ہم دن رات انگریزی سیکھنے میں گزار دیتے‬
‫ہیں مگر علم کے سمندر میں تیر رہے ہیں مگر علم‬
‫نام کی چیز ہمارے پاس نہیں ہے ۔ مجھے اپنے سکول‬
‫کی دیوار پر لکھا ہوا وہ جملہ یاد آرہا ہے کہ "ہم علم کے‬
‫سمندر میں تیر رہے ہیں مگر علم کو بھی ترس رہے‬
‫ہیں "۔جی ہاں میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ‬
‫ہمارے پاس علم نہیں ہے ۔اگر علم ہوتا تو ہم بھی ایف‬
‫‪ ۱۶‬طیارے بنا چکے ہوتے ۔ہم بھی بی ‪ ۵۲‬طیارے بناتے۔‬
‫ہم نے بھی ھبل جیسی بڑی دور بین بنائی ہوتی ۔ہم‬
‫‪19‬‬

‫بھی کمپیوٹر بناتے ۔اور دنیا میں فروخت کرتے ۔ہمارے‬


‫خلئی سیارے بھی مریخ کا سفر کر چکے ہوتے ۔ہمارے‬
‫ملک میں بھی تمام ادویات بنتیں ۔ہمارے لوگ بھی‬
‫سائنس اور جدید علوم پر بڑی بڑی کتابیں لکھتے ۔‬
‫ہمارے استاد بتاتے ہیں کہ پاکستان میں تو سوئی بھی‬
‫باہر سے منگوائی جاتی ہے ۔پوری مارکیٹ بیرونی‬
‫ممالک کی بنی ہوئی چیزوں سے بھری ہوئی ہے ۔منہ‬
‫ٹیڑھا کر کے انگریزی کے لمبے لمبے فقرے بول کر‬
‫اپنی علمیت کا رعب جمانے والے میرے ان سوالوں کا‬
‫جواب کیوں نہیں دیتے ؟ یہی لوگ ہیں جو نہ خود ترقی‬
‫کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی قوم کو کوئی سمت دینے کی‬
‫پوزیشن میں ہیں ۔ایسے مصنوعی لوگ مجھے بہت‬
‫برے لگتے ہیں ۔مجھے ایک بات کی سمجھ نہیں آتی کہ‬
‫اپنے لوگوں کے ساتھ تو اپنی زبان میں بات کی جانی‬
‫چاہیے تا کہ اچھی طرح سمجھ آسکے ۔پھر اپنے ہی‬
‫لوگوں کے ساتھ انگریزی کے فقرے اور الفاظ بولنے‬
‫یں؟کیا انگریزی آپس میں گفتگو کرتے‬‫کے کیا معنیٰٰہٰٰ‬
‫ہوئے عربی ‪،‬فارسی اور اردو کے الفاظ بولتے ہیں ؟‬
‫میں یہ کہا رہا تھا کہ ہمارے پاس علم نہیں ہے ۔کیوں‬
‫نہیں ہے ؟ کیا سر جوڑ کر سوچنے کی بات نہیں ہے ؟‬
‫آپ نے شائد اس پر کبھی سوچنے کی زحمت گوارانہ‬
‫کی ہو مگر میں آپ کے دماغوں کے خلیوں کو ضرور‬
‫ہوا لگاؤں گا ۔آپ کو سوچنے پر مجبور کروں گا ۔ آپ‬
‫سوچ رہے ہونگے کہ شائد میں نے غیر متعلق‬
‫گفتگوشروع کر دی ہے ۔ نہیں جناب ہرگز نہیں ۔یہ علم‬
‫نہ ہونے کی وجہ بھی میرا بستہ ہی ہے ۔ جو ضرورت‬
‫سے کہیں بڑا ہے ‪ ،‬مشکل ہے اور ساتھ ساتھ غیر‬
‫‪20‬‬

‫فطری بھی ہے ۔اسے چھوٹا ‪ ،‬آسان اور فطرت سے ہم‬


‫آہنگ کر دیجئے ملک وقوم کے تمام مسائل حل ہو‬
‫جائیں گے ۔علم سمجھ میں آئے گا اور جب سمجھ میں‬
‫آجائے گا تو اس پر عمل کرنا آسان ہوجائے گا۔ علم‬
‫اس لیے سمجھ میں نہیں آتا کہ اسے ہم اپنی زبان‬
‫چھوڑ کر دوسروں کی زبان میں پڑھتے ہیں ۔آسان‬
‫راستوں کو چھوڑ کر جو شخص جان بوجھ کر مشکل‬
‫راستوں کا انتخاب کرتا ہے ۔وہ اپنے وسائل کو ضائع‬
‫کرنے کا خود سامان فراہم کرتا ہے اپنے راستے کی‬
‫دیوار کو خوود اونچا کرتا ہے اور پھر اسے پھلنگنے کے‬
‫لیے مزید توانائیاں اور وسائل جمع کرتا پھرتا ہے ۔کون‬
‫اسے عقلمند کہے گا؟میرا بستہ بڑا کرنے والوں کی‬
‫مثال بھی ایسی ہی ہے ۔مجھے تو یہ میرے ملک کے‬
‫دشمنوں کی ایک چال لگتی ہے ۔دشمن کہاں چاہتا ہے‬
‫کہ ہم ترقی کریں ؟ وہ ہمارے وسائل اور توانائیوں کو‬
‫ہمارے ہی ہاتھوں ضائع کروا کے ہمیں کمزور کرنا چاہتا‬
‫ہے ۔جدید علوم وفنون کو ہماری دسترس سے باہر‬
‫رکھنا چاہتا ہے ۔میرے استاد محترم بتا رہے تھے کہ ہمارا‬
‫دشمن بڑا مکار ہے ۔وہ ہمیں دست نگر اور کمزور‬
‫کرنے کے لیے سب سے پہلے ہمارے تعلیم حاصل کرنے‬
‫کے طریقہ کار کو مشکل بناتا ہے ۔وہ جدید علوم و‬
‫فنون کا رشتہ ہماری قومی زبان سے کاٹتا ہے ۔ اسی‬
‫لیے برصغیر پر قبضہ کرتے ہی اس نے وہاں رائج زبان‬
‫فارسی کو ختم کیا اور تعلیمی اداروں میں انگریزی‬
‫زبان رائج کر کے صدیوں کے تعلیمی ور ثے کو غرق‬
‫کر کے رکھ دیا ۔تا کہ وہاں کے لوگ نہ کچھ پڑھ سکیں ۔‬
‫انگریزوں سے پہلے وہاں کا شرح خواندگی اٹھانوے فی‬
‫‪21‬‬

‫صد تھا ۔ میرے استاِدمحترم نے کتنی پتے کی بات‬


‫فرمائی کہ خود تو سامراجی ممالک تمام قسم کے‬
‫علوم اپنی قومی اور مادری زبانوں میں پڑھتے ہیں‬
‫مگر جن ممالک کو یہ ترقی کرتے ہوئے نہیں دیکھنا‬
‫چاہتے ان میں یہ اپنی زبان رائج کرنے کی سازش‬
‫کرتے ہیں ۔اپنے مقاصد کو پورا کرنے کے لیے وہ چند با‬
‫اختیار لوگوں کو طرح طرح کے ہتھکنڈے استعمال کر‬
‫کے ور غلتے ہیں اور اپنی مرضی کے مطابق ان سے‬
‫نصاب تیار کرواتے ہیں ۔ایسا نصاب جس کا ہماری‬
‫زبان سے رشتہ کمزور سے کمزور ہو ۔ایسا نصاب جو‬
‫غیر فطری ہو۔ایسا نصاب جسے سمجھنے کے لیے کئی‬
‫گنا زیادہ وسائل در کا ر ہوں اس کا پہل ہدف میرا بستہ‬
‫ہوتا ہے اسی لیے انہوں نے انکے مقاصد پر پورا اترنے‬
‫والے نام نہاد دانشوروں کے ذریعے میرے بستے میں‬
‫پہلی جماعت سے ہی انگریزی کی کتاب اور چند‬
‫کاپیاں شامل کر دیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بچے بچپن‬
‫سے ہی انگریزی میں الجھ کر اپنی توانائیوں اور‬
‫وسائل کو ضائع کرنا شروع کر دیں گے ۔اور جدید‬
‫علوم کا حصول ان کے لیے نا ممکن رہے ۔بستے کے‬
‫بہانے دراصل وہ میرے دماغ کو بھی بوجھل بنانا چاہتے‬
‫ہیں ۔مجھے پڑھائی سے بیزار کرنا بھی ان کا مقصد ہے‬
‫۔میری عمر کے ہزاروں بچے انگریزی کے خوف سے‬
‫سکول چھوڑکر بھاگ جاتے ہیں ۔میرا اپنا مشاہدہ ہے کہ‬
‫ہزاروں طلباء و طالبات انگریزی کی وجہ سے‬
‫میٹرک ‪،‬ایف اے اور بی اے نہیں کرپاتے ۔یہی رکاوٹیں‬
‫ہیں جو ہمیں تعلیم نہیں حاصل نہیں کرنے دیتیں ۔میرے‬
‫استاد محترم فرماتے ہیں کہ انگریز خود اپنے ممالک‬
‫‪22‬‬

‫میں عربی ‪،‬فارسی اور اردو کو لزمی قرار کیوں‬


‫نہیں دیتے ؟اسلیے کہ انہوں نے تمام علوم وفنون کو‬
‫اپنے ملکوں میں اپنی زبان میں رائج کیا ہوا ہے ۔وہ‬
‫دوسری زبانوں سے علم تو اخذ کرتے ہیں مگر ان کو‬
‫ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج نہیں کرتے ۔کتنی سمجھ‬
‫داری کا مظاہرہ کرتے ہیں وہ لوگ ۔دراصل میرے بستے‬
‫ق ستم بنانے والے لوگ ذہنی طور پر غلمی‬ ‫کو مش ِ‬
‫کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں ۔یہ لوگ میری‬
‫نفسیات کو نہیں سمجھتے ۔میری طرح کا ہر بچہ اپنی‬
‫زبان میں ہی بات کو سمجھتا ہے ۔ہر بچے کےلیے اس‬
‫کی اپنی زبان میں سیکھنا آسان ہوتاہے اسی کی کار‬
‫ستانی ہے کہ آج ملک پاکستان کا بچہ بچہ ٹیوشن پڑھنے‬
‫پر مجبور ہے سائنس پڑھنے وال تو شائد کوئی طالب‬
‫علم ہی ایسا ہوتا ہو گا جو ٹیوشن کے بغیر امتحان‬
‫پاس کرنے کا تصور بھی کرتا ہو ۔استاد محترم نے‬
‫مزید وضاحت کرتے ہوئے بتایا کہ جتنا پیسہ ‪،‬وقت اور‬
‫توانائیاں ہم انگریزی پڑھنے اورانگریزی میں جدید‬
‫علوم کو پڑھنے میں صرف کرتے ہیں اتنا پیسہ ‪،‬وقت‬
‫اور توانائیاں اردو میں ان علوم کو پڑھنے میں صرف‬
‫کریں اور انگریزی کو بطور اختیاری مضمون پڑھیں‬
‫تو بہت جلد ملک میں سائنس وٹیکنالوجی کا انقلب‬
‫آجائے گا ۔اتنی واضح اوراتنی صاف بات جسے ایک ان‬
‫پڑھ آدمی بھی سمجھ سکتا ہے ۔میں نے اپنے‬
‫استادمحترم سے سوال کیاکہ اتنی سیدھی اور صاف‬
‫بات کو میرا نصاب بنانے والے دانشور کیوں نہیں‬
‫سمجھتے ۔استادمحترم نے ہم سب کے قومی شاعر کا‬
‫حضرت علمہ اقبال کا یہ شعر سنایا کہ‬
‫‪23‬‬

‫غلمی میں نہ کام آتی ہیں تدبیریں نہ تقدیریں‬


‫جو ہو ذوق یقیں پیداتو کٹ جاتی ہیں زنجیریں‬

‫انہوں نے فرمایا کہ دانشور چاہے جتنا بھی بڑا کیوں نہ‬


‫ہوجب تک ذہن سے غلمی کے جراثیم نہیں نکلیں گے‬
‫‪،‬اس طرح کی بات سمجھ میں نہیں آسکتی ۔غلمی‬
‫کا سب سے پہل کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ذہن سے‬
‫غوروفکر کی صلحیت کو ہی چھین لیتی ہے ۔غلم ذہن‬
‫رکھنے والے آدمی کو نہ اپنے اوپر پر اعتماد ہوتا ہے اور‬
‫نہ ہی اپنی زبان اور تہذیب وثقافت پر ۔اس میں اپنے‬
‫گردونواح اور دنیا کے حالت وواقعات سے سبق‬
‫سیکھنے کی صلحیت دم توڑ جاتی ہے ۔اس لیے ایسے‬
‫غلم دانشور اور اپنے آپکو ماہرین تعلیم سمجھنے والے‬
‫پوری قوم کو جدوجہد کی منفی سمت دیتے ہیں ۔‬
‫ترقی کی سمت کو اتنا مشکل بنا دیتے ہیں کہ‬
‫سوائےوسائل ضائع کرنےکےکچھ ہاتھ نہیں آتا۔‬

‫میں آپ کو ایک مزے کی بات بتانا چاہتا ہوں ۔وہ یہ کہ‬


‫پہلے چھٹی جماعت سے انگریزی شروع ہوتی تھی ۔‬
‫پھر چند دانشوروں )بزعم خویش(اسے پہلی جماعت‬
‫سے نافذالعمل کردیا۔یہ سوچ کر کہ بچے پہلی جماعت‬
‫سے ہی انگریزی پڑھنا شروع کریں تو شائد اگلی‬
‫کلسوں میں جا کر علم حاصل کرنے میں آسانی ہو‬
‫گی مگر آسانی بجائے مشکلت میں مزید اضافہ ہو گیا‬
‫۔انگریزی کی طرف غیر ضروری توجہ نے اردو کو بھی‬
‫کمزورکر دیا ہے۔نیتجہ یہ نکل کہ نہ تو انگریزی ہی آئی‬
‫اور نہ ہی اردو ۔دشمن یہی چاہتا ہے کہ ان کا کسی‬
‫‪24‬‬

‫زبان پر بھی عبور نہ ہو ۔یہ کسی زبان میں بھی اچھی‬


‫طرح اظہارِ خیال نہ کر سکیں ‪،‬نہ ہی اس میں کچھ لکھ‬
‫سکیں ۔اس طرح ان کو ان کی تہذیب سےبھی دور‬
‫کر دیا جائے اور علم سے بھی ۔ایسے لوگ پیدا ہوں جو‬
‫منہ بگاڑ کر چند فقرے انگریزی کے بولنے کے سوا‬
‫علوم وفنون سے تہی دست ہوں ۔محض دوسروں کو‬
‫متاثر کرنے اور اپنے غصے کا اظہار انگریزی میں کرنے‬
‫کے قابل ہی بن سکیں ۔ان کے عادات واطوار اور‬
‫رویے ہی غیر فطری بن جائیں ۔علم کو میں اللہ کا نور‬
‫س‬
‫سمجھتا ہوں اور انسان فطری طریقوں کو پ ِ‬
‫پشت ڈال کر کبھی خدا کے نور کو حاصل نہیں کر‬
‫سکتا ۔انگریزاور دیگر ترقی یافتہ ممالک اس لیے کر‬
‫گئے کہ انہوں نے علم حاصل کرنے کے فطری طریقوں‬
‫سے انحراف نہیں کیا ۔اب یہ دانشور سوچ رہے ہونگے‬
‫کہ پہلی جماعت سے انگریزی شروع کرنے سے‬
‫مشکلت اور بڑھ گئیں ہیں اب کوئی ایسا طریقہ‬
‫سوچا جائے کہ بچے پیدا ہونے سے پہلے ہی انگریزی‬
‫سیکھنا شروع کر دیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جس‬
‫قدر قوم کو یہ اپنی قومی زبان سے دور کریں گے اور‬
‫اس کی جگہ بغیر مقاصد کو سامنے رکھے انگریزی پر‬
‫ساری توانائیاں خرچ کریں گے ‪،‬علم کے حصول کو‬
‫اسی قدر مشکلت سے دوچار کریں گے ۔جوں جوں یہ‬
‫انگریزی کو نچلی سطح پر لئیں گے توں توں مجھے‬
‫ٹیوشن پڑھنے پر مجبور کریں گے اور میرے جیسے‬
‫غریب بچوں کی دسترس سے علم کو دور کرتے‬
‫جائیں گے ۔میں یہ بات سمجھنے سے قاصر ہوں کہ‬
‫دوائی کے مثبت اثرات پر جب منفی اثرات غالب‬
‫‪25‬‬

‫آجائیں تو دوائی کو مریض کےلیے کس طرح فائدہ مند‬


‫قرار دیا جا سکتا ہے ؟کاش کوئی مجھےیہ بات سمجھا‬
‫دے کہ علم کے ذرائع کو آسان کرنے سے علم پھیلتا ہے‬
‫یا مشکل بنانے سے ؟انگریزی کی جگہ میرے لیے‬
‫سائنس کی ایک اور کتاب لگوا دیں جو عام فہم اردو‬
‫میں لکھی ہوئی ہو تو تب میں اتنا بوجھ محسوس نہ‬
‫کر وں ۔یہ لوگ میرے ذہن کو کیوں نہیں پڑھتے ؟میری‬
‫قومی زبا ن میں مجھے بنیادی تعلیم کیوں نہیں دیتے؟‬

‫میں کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستان میرے جیسے‬


‫زیادہ سے زیادہ تیس پینتیس فیصد بچے تھوڑا بہت پڑھنا‬
‫جانتے ہیں ۔لگتا ہے میرے نصاب اور بستہ سازوں کا‬
‫اس سے زیادہ ہمیں پڑھانے کا ارادہ نہیں ۔ذرا دیکھیں نا‬
‫کہ میٹرک کے امتحان میں لکھوں بچے ہر سال‬
‫انگریزی میں فیل ہو جاتے ہیں ۔اسی طرح اگر میرا‬
‫پانچویں جماعت کا امتحان صحیح طریقے سے لیا‬
‫جائے اور فیل پاس کا وہی طریقہ رکھا جائے جو میڑک‬
‫میں ہے تو جنا ب من ملک کے لکھوں بچے ہر سال‬
‫پانچویں میں فیل ہو جائیں گے اور لکھوں بچے اسی‬
‫مضمون کی وجہ سے سکول چھوڑ کر بھاگ جائیں‬
‫گے ۔امسال جو پانچویں اور آٹھویں کے سالنہ امتحان‬
‫ہوئے ان میں لکھوں بچے انگریزی اور سائنس کے‬
‫مضمون میں فیل ہوئے اور محکمہ تعلیم نے اس خفت‬
‫سے بچنے کے لیے یہ فارمول جاری کیا کہ جو دو‬
‫مضامین میں فیل ہو اسے پاس کر دیا جائے اور ایسے‬
‫ہی ہوا ۔یہ بات میرے مؤقف کو سو فیصد درست ثابت‬
‫کر تی ہے ۔ذرا اندازہ لگائے کہ لکھوں بچے اگر پرائمری‬
‫‪26‬‬

‫اور مڈل میں فیل ہو گئے تو پھر آگے پڑھنے کے لیے‬


‫کتنے پہنچیں گے ۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ جس اجنبی‬
‫زبان کو سیکھتے ہوئے ملک کے لکھوں طلباء و‬
‫طالبات تعلیم سے محروم رہ جاتے ہیں اس کی جگہ پر‬
‫ہماری اپنی میں تعلیم کیوں نہیں دی جاتی ؟میں علم‬
‫سیکھنے میں آسانی چاہتا ہوں ۔میری نفسیات ‪،‬مزاج‬
‫اور فطرت یہ چاہتی ہے کہ مجھے میری اپنی ہی زبان‬
‫میں تعلیم دی جائے ۔میں سمجھتا ہوں کہ میرے‬
‫پسماندہ رہنے کا راز ہی یہی ہے کہ مجھے علم حاصل‬
‫کرنے کے فطری راستوں سے منحرف کرکے غیر‬
‫فطری اور خار دار راستوں پہ چلنے پر مجبور کیا جا‬
‫رہا ہے ۔ ایک بستہ بھاری ‪،‬دوسرا دماغ بوجھل اور‬
‫تیسرا راستہ پتھریل ۔اسی لیے میری صحت خراب‬
‫‪،‬جسم نحیف ‪،‬دماغ تخلیقی صلحیتوں سے عاری اور‬
‫پاؤں شل ہیں ۔کچھ سمجھ نہیں آتی کہ میں کیا‬
‫کروں ؟ کس کے سامنے فریاد کروں ؟مجھے کوئی‬
‫گلے لگانے وال کوئی نہیں ہے ۔میری آواز کسی کے‬
‫کانوں سےنہیں ٹکراتی ۔میرا درد کوئی بھی بانٹنے‬
‫کےلیے تیار نہیں ہے ۔اس ملک کے لوگ بہرے تو نہیں ہیں‬
‫؟اس کے لوگوں کے سینے میں کیا دل نہیں ہے ؟اگر ہے‬
‫تو پھر کیا دھڑکتا نہیں ہے ؟کیا یہ سماعتوں اور‬
‫بصارتوں سے محروم لوگ ہیں ؟اگر نہیں تو پھر یہ‬
‫میری طرف دیکھتے کیوں نہیں ؟ میری آواز کیوں نہیں‬
‫سنتے ؟مجھے آگے بڑھ کر گلے سے کیوں نہیں لگاتے ؟‬
‫کیا یہ اس عظیم ہستی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی‬
‫امت کے لوگ نہیں ہیں جو بچے کو روتا دیکھ کر‬
‫آنسووں سے اپنی داڑھی مبارک تر کر لیا کرتی ہیں؟‬
‫‪27‬‬

‫جو بے سہارا بچوں کو گود میں اٹھا لیا کرتی تھی ۔‬


‫جس نے مجھے اور میرے جیسے بچوں کو پھولوں سے‬
‫تشبیہ سی تھی۔ یااللہ میں پھر کیوں ایک ایسے بوجھ‬
‫کے نیچے دبا جا رہا ہوں جس کو برداشت کرنے کی‬
‫مجھ میں سکت نہیں ہے ۔مجھے نہ محبت ملتی ہے اور‬
‫نہ تعلیم ۔کوئی ہے جو میرے سر سے اس مشکل‬
‫پسندی کا پتھر ہٹا دے ۔کوئی ہے جومیرےدل کا درد‬
‫محسوس کرے؟کوئی ہے جو مجھے سمجھنے کی‬
‫کوشش کرے؟‬

‫میرے نصاب میں تو در حقیقت صرف دو ہی کتابیں‬


‫ہونی چاہیں ۔ایک ریاضی کی اور دوسری اردو کی ۔‬
‫اردو کی کتاب کے اندر ہی ایک حصہ دینیات کا جس‬
‫میں قرآن کریم کی سورتیں‪ ،‬احادیث اور اخلق و‬
‫کردار کو سنوارنے کے لیے تربیتی مضامین ہوں۔ دس‬
‫پندرہ اسباق پر یہ حصہ اسلمیات کے لیے وقف ہو۔‬
‫اسی طرح اتنے ہی اسباق پر مشتمل سائنس کا ہو۔‬
‫لمبے لمبے سوالت نہ ہوں بلکہ چھوٹے چھوٹے آسان‬
‫فہم انداز میں لکھے ہوئے سوالت اور ان کے چھوٹے‬
‫چھوٹے پیراگراف پر مشتمل جوابات ہوں جن کا میرے‬
‫لیے سمجھنا‪ ،‬یاد کرنا اور اپنے الفاظ میں لکھنا آسان‬
‫ہو۔ اصطلت عام فم اور روزمرہ زندگی میں بولے‬
‫جانے والے الفاظ پر مشتمل ہوں۔جنہیں سمجھنے اور‬
‫یاد کرنے کے لیے مجھے رٹا نہ لگانا پڑے ۔واضح انداز‬
‫سے دی گئی تصویروں کے ذریعے سائنس کو دلچسپ‬
‫بنایا جائے ۔عملی تجربات کے ذریعے مجھے سائنسی‬
‫تصوارات سمجھائے جائیں۔سائنس کی بات چلی ہے تو‬
‫‪28‬‬

‫میں اس ظلم کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو مجھ پر میرا‬


‫نصاب بنانے والوں نے ڈھایا ہے ۔یہ میرا اور میرے جیسے‬
‫لکھوں بچوں کاجیتے جی گل گھونٹنے کے مترادف ہے۔‬
‫میری سائنس کی کتاب سے اردو کی تمام‬
‫اصطلحات کو کر نکال کس انگریزی کی اصطلحا ت‬
‫کو اردو رسم الخط میں لکھ کر میرے دماغ پر ایک‬
‫ایسابھاری پتھر رکھ دیاہے جسے اٹھا کر دوگام چلنا‬
‫میرے اور میرے جیسے لکھوں بچوں کے بس سے باہر‬
‫ہے۔ذرا میری پنجم جماعت کی سائنس کی کتاب کے‬
‫صفحے پر دیکھیں کہ روشنی کے قوانین کو کس انداز‬
‫میں لکھا ہے۔‬

‫۔جب روشنی ایک پلین مرر سے رفلیکٹ ہوتی ہے تو‪۱‬‬


‫اینگل آف‪ (reflection)،‬اس کا اینگل آف ریفلیکشن‬
‫" کے برابر ہوتا ہے)‪ (incident‬انسیڈینس‬
‫عمود اور رفلیکٹڈ‪ (ancident ray)،‬۔انسیڈنٹ رے‪۲‬‬
‫تینوں ایک ہی پلین میں ہوتے)‪ (relected ray‬رے‬
‫ہیں ۔‬

‫جی جناب کچھ پلے پڑا آپ کے ؟میری سائنس کی‬


‫پوری کتاب اس طرح کی غیر فطری اور میرے لیے‬
‫سوہان روح سا سامان فراہم کرنے والی تبدیلیوں سے‬
‫بھری پڑی ہے ۔میں ان نصاب سازوں اور قوم کے‬
‫دانشوروں سے پوچھتا ہوں کہ خدا کے لیے مجھے بتایا‬
‫جائے کہ میری قومی زبان کون سی ہے ؟اب تک تو‬
‫میں سمجھتا رہا ہوں کہ میری قومی زبان اردو ہے ۔‬
‫لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ نصاب سازوں نے اپنی‬
‫‪29‬‬

‫قومی زبان بدلنے کا فیصلہ کر لیا ہے ۔میں پوچھتا ہوں‬


‫میری زبان کے الفاظ کہاں گئے ہیں ؟ان کو کیوں‬
‫نصاب بدر کیا گیا ہے ان کا کیا جرم تھا ؟یہ تو ایسا ہی‬
‫جرم ہے کہ کسی کو اس کے گھر سے زبردستی نکال‬
‫باہر کیا جائے اور اس کی جگہ پر کسی اور کو بٹھا دیا‬
‫جائے ۔کیا ظلم اسی چیز کا نام نہیں ہے ؟میری قومی‬
‫زبان کی یہ ساری اصطلحات اور الفاظ چیخ چیخ کر‬
‫یہ سوال کر رہے ہیں کہ انہیں دیس نکال کیوں دیا گیا‬
‫ہے؟کیا کوئی محب وطن اپنی قومی زبان کی پیٹھ‬
‫میں اس طرح خنجر گھونپ سکتا ہے ؟نہیں نہیں ہرگز‬
‫نہیں ۔کاش یہ میری قومی زبان بدلنے کی بجائے خود‬
‫بدل جاتے !کاش ان کو نصاب بنانے کے لیے نہ منتخب‬
‫کیا جاتا !کاش ان کو میرے مستقبل کے ساتھ کھیلنے‬
‫کی توفیق ہی نہ ملتی ! میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ‬
‫جو قوم اپنی زبان کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ اپنی‬
‫حفاظت بھی نہیں کر سکتی ۔آج یری قومی زبان کے‬
‫الفاظ سے دست بردار ہونے والے کل کو پورے ملک‬
‫سے دست بردار ہونے کے لیے تیار ہو جائیں گے ۔میری‬
‫قومی زبان میری شناخت ہے ۔یہ میری تہذیب او ر‬
‫ثقافت کی علمت ہے ۔اس کے لیے میرے جیسے‬
‫ہزاروں بچوں نے قربانیا ں دی ہیں ۔ بابائے قوم‬
‫قائداعظم رحمتہ اﷲ علیہ نے میری قومی زبان کو اردو‬
‫قرار دیا ہے ۔آئینے جگہ پلین مرر ‪،‬زاویہ ‪،‬انعکاس کی‬
‫جگہ انسیڈنٹ رے ‪،‬ڈھانچے کی جگہ سکیلیٹن ‪،‬نظام‬
‫اخراج کی جگہ ایکسکریٹری سسٹم ‪ ،‬نظام تولید کی‬
‫جگہ ریپروڈکٹو سسٹم اور نہ جانے کتنی اردو زبان کی‬
‫اصلحات کو خیر باد کہہ کر اور ان کی جگہ پر غیر‬
‫‪30‬‬

‫فطری انداز میں انگریزی کی اصلطلحات نافذالعمل‬


‫کر کے مجھے رٹے کا خوگر بنانے اور بنیادی سائنسی‬
‫تصورات کے فہم سے تہی دست کرنے کی قابل مذمت‬
‫کوشش کی ہے۔ میرے سر پر مشکلت کا بھاری پتھر‬
‫رکھنے والوں نے بابائے قوم کی روح کو بھی تڑپا کے‬
‫رکھ دیا ہے ۔مجھے تو شک ہونے لگا ہے کہ کل کو یہ‬
‫ہمارا قومی شاعر بھی کسی انگریز کو نہ قرار دے‬
‫دیں ۔میں اس اقدام کو اپنی قومی زبان کے خلف‬
‫بھی ایک سازش سمجھتا ہوں ۔میرے سائنسی نصاب‬
‫کی وہ درگت بنائی ہے کہ ایسا لگتا ہے جیسے کسی‬
‫بدمست ہاتھی نے ہرے بھرے کھیت کو اپنے پاؤں تلے‬
‫روند کر ویران و بربا د کر دیا ہو ۔میرا دل خون کے‬
‫آنسو روتا ہے جب میں اخبارات میں روزانہ لکھوں‬
‫روپے کے "پڑھا لکھا پنجاب "کے نام سے اشتہارات پر‬
‫ضائع کیے جارہے ہیں ۔ایک طرف حکومت سکول میں‬
‫بچوں کو داخل کروانے کا رونا رو رہی ہے اور دوری‬
‫طرف وہ تمام اقدامات کر رہی ہے کہ میری تمام تر‬
‫نصابی دلچسپیاں ختم کر دی جائیں اور میں سکول‬
‫سے بھاگنے پر مجبور ہو جاؤں ۔مجھے ایسا نصاب دیا‬
‫جا رہا ہے کہ میں رٹہ لگانے پر مجبور ہو جاؤں ۔میرے‬
‫بستے کو ایسی نصابی کتابوں سے بھرا جا رہا ہے جو‬
‫میری تمام تر دلچسپیوں کا گل گھونٹ کر رکھ دے ۔‬
‫کروڑوں روپے کی اس خطیر رقم سے میرے جیسے‬
‫بچوں کے ہزاروں سکولوں کی چاردیواریاں بن سکتی‬
‫تھیں ۔لکھوں غریب بچوں کے بیٹھنے کے لیے ٹاٹ مہیا‬
‫کیے جا سکتے تھے ۔سینکڑوں نئے سکول کھل سکتے‬
‫تھے ۔میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جنہوں نے میرے نصاب‬
‫‪31‬‬

‫اور نظام امتحا ن کو تباہی و بربادی سے دوچار کیا ہے‬


‫وہ اپنے جرم کو تشہیری مہم کے دھوئیں میں چھپانے‬
‫کی کوشش کر رہے ہیں ۔میری قومی زبان کی پیٹھ‬
‫میں خنجر گھونپنے اور میرے فہم کو چند ٹکوں کے‬
‫عوض بیچنے والوں کا یوم حساب آنے کو ہے ۔ان کا‬
‫اللے تلے کامو ں میں پانی کی طرح بہایا جانے وال‬
‫پیسہ میں نے اور میرے جیسے بچوں نے ہی تو کل کلں‬
‫قرض کی صورت میں ادا کرنا ہے ۔مجھے پسماندہ‬
‫غصہ کیوں نہ آئے ؟میں کیوں نہ روؤں ؟مجھے اپنا‬
‫مستقبل تاریک نظر آتا ہے ۔مجھے غصہ کیوں نہ آئے ؟‬
‫مجھے مفت کتابوں کی میٹھی پڑی میں زہرمل کر‬
‫کھلیا جا رہا ہے۔اور ستم بالئے ستم یہ کہ اس زہر کو‬
‫ذرائع ابلغ میں قند بنا کر پیش کیا جا رہا ہے ۔اس سے‬
‫پہلے کہ میری مظلوم زبان سے آہ نکلے اور وہ آسمانوں‬
‫کو چیرتی ہوئی حقیقی فریا د رسا ں تک پہنچ جائے‬
‫اور سنبھلنے کا وقت ستم گروں کے ہاتھ سے نکل‬
‫جائے ۔اے رسم ستم گری کے وارثو !خدا کی لٹھی بے‬
‫آواز ہے۔ایسا نہ ہو ظالمو ں کی اس بستی کو الٹ کر‬
‫رکھ دیا جائے ۔ایسا نہ ہو کہ قہر الہی کو جوش آئے اور‬
‫تمہارے شاہی محل آنا ً فانا ً کھنڈرات کا نقشہ پیش کرنے‬
‫لگ جائیں ۔خدا سے ڈر جاؤ۔میرے فہم کا گلمت گھونٹو‬
‫۔مجھ سے علم کی دولت مت چھینو ۔میرے پاؤں میں‬
‫مشکلت کی زنجیریں مت ڈالو ۔ خدا کی قسم جب‬
‫میں نے اور میرے جیسے دوسرے مظلوم بچوں کے منہ‬
‫بد دعا نکل گئ تو نہیں بچ پاؤ گے ۔اگر یہ سب کچھ‬
‫غیروں کے کہنے پر کر رہے ہو اور میرے علم وفہم کو‬
‫پیسوں کے عوض دشمن کے ہاتھوں فروخت کر رہے ہو‬
‫‪32‬‬

‫تو میرے تمام رشتے تم سے ٹوٹ چکے ہیں ۔میرے ساتھ‬


‫جنگ کرنے کےلیے تیار ہو جاؤ ۔اس جنگ میں آج اگر‬
‫میرا باپ بھی میرے مد مقابل آئے تو نہیں بخشوں گا ۔‬
‫میرا بھا ئی بھی میرے سامنے آئے تو گل کاٹ کے رکھ‬
‫دوں گا ۔یہ رشتے مجھے میرے وطن سے پیار ے نہیں ۔یہ‬
‫رشتے مجھے میری قومی زبان سے عزیز نہیں ہیں ۔‬
‫میں ان رشتوں کو اپنی تہذیب اور ثقافت پر قربان‬
‫کر سکتا ہوں ۔پاکستا ن بھی میرے بذرگوں نے ان‬
‫رشتوں کو قربان کے کے ہی بنا یا تھا ؟میرے استاد‬
‫محترم نے اپنی کتا ب "نئے سائنسی نصاب کا المیہ‬
‫"لکھ کر ایسی حماقت خیز حرکات کرنے والوں کی‬
‫خوب خبر لی ہے ۔آپ اس کتا ب کا ضرور مطالعہ‬
‫کریں ۔معاف کرنا بات ذرا لمبی ہو گئی ۔تو میں اپنے‬
‫لیے وضع کردہ نصاب کے لیے تجاویز پیش کر رہا تھا۔‬
‫سائنس کے علوہ معاشرتی علوم ‪،‬جغرافیہ اور‬
‫معلومات عامہ کے بارے میں بھی دس پندرہ اسباق‬
‫سادہ اور عام فہم انداز سے اسی کتاب میں شامل‬
‫ہونے چاہیں ۔ان سب مضامین پر مشتمل درمیانے سے‬
‫سائز کی ایک ہی کتاب ہو۔بنیادی سطح پر انگریزی‬
‫سکھانے کی بجائے مجھے اپنی زبان میں پڑھنے لکھنے‬
‫اور اس میں بہتر انداز سے اظہار خیال کی مشق‬
‫کروائی جائے۔تاکہ میں بڑی کلسوں میں جا کر اپنے‬
‫مافی الضمیر کا بخوبی اظہار کر سکوں اور جدید‬
‫علوم کو اپنی قومی زبان میں منتقل کرنے کے قابل‬
‫بن سکوں ۔جدید علوم پر اپنی قومی زبان میں‬
‫کتابیں لکھوں اور قومی خود انحصاری کو حاصل‬
‫کرنے میں اپنا بھرپور انداز سے کردار ادا کرسکوں۔‬
‫‪33‬‬

‫اورمیرے بڑوں نے جو جدید علوم پر کتابیں نہ لکھ کر‬


‫میرے لیے خل چھوڑا ہے اس خلءکو پر کر سکوں ۔بڑی‬
‫کلسوں میں پہنچ کر مجھے انگریزی اور دیگر زبانیں‬
‫اس انداز سے سکھائی جائیں کہ میں ان زبانوں سے‬
‫علوم وفنون کو اپنی قومی زبان اردو میں منتقل کر‬
‫سکوں۔موجودہ طریق تعلیم مجھے پسند نہیں ہے جس‬
‫میں طالب علم نہ اپنی زبان میں کچھ لکھنے کے قابل‬
‫ہوتا ہے اور نہ ہی کسی دوسری زبان میں۔‬

‫مجھے یاد آیا کہ مجھے تو خلصے بھی بستے میں ڈال‬


‫کر لے جانے پڑتے ہیں۔اساتذہ بہت روکنے کی کوشش‬
‫کرتے ہیں مگر ہم آنکھ بچاکر انہیں اپنے بستے میں‬
‫چھپانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں ۔ہم ریاضی کے‬
‫سوالت ان سے دیکھ کر حل کرتے ہیں ۔تقریبا ً تمام‬
‫مضامین کے خلصے ہم نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں ۔‬
‫خلصوں میں بنے بنائے سوالت اور ان کے جوابات‬
‫موجود ہوتے ہیں ۔ہمیں انہیں رٹا لگانے میں آسانی‬
‫ہوتی ہے ۔مجھے سمجھ نہیں آتی کہ اساتذہ ہمیں خلصے‬
‫اپنے پاس رکھنے سے منع کیوں کرتے ہیں؟ماناکہ ان کے‬
‫استعمال سے میری تخلیق صلحیتیں دم توڑ جاتی ہیں‬
‫۔یہ مجھے رٹے کا عادی بناتے ہیں ۔یہ سب باتیں اپنی‬
‫جگہ پر بجا ہیں ۔مگر یہ ہمیں خلصوں کے استعمال کو‬
‫روکنے کا کوئی طریقہ ہے ؟میں یہ پوچھتا ہوں کہ یہ‬
‫خلصے بنتے کہاں ہیں؟کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ انہیں‬
‫بننے ہی نہ دیا جائے؟اب جبکہ خلصے بنانے والوں کو‬
‫آزادی ہے ۔دکانوں میں رکھ کر بیچنے کی آزادی ہے ۔ہر‬
‫کتاب خانے تک پہنچانے اور سکولوں میں جا جا کر‬
‫‪34‬‬

‫تعارف کروانے کی آزادی ہے ۔طلباء طالبات کو دکانو‬


‫ں سے خرید کر گھر رکھنے کی آزادی ہے۔ان ساری‬
‫آزادیوں کے ہوتے ہوئے مجھے سکول لے جانے کی‬
‫آزادی کیوں نہیں ہے۔جب برائی کے تمام راستے کھلے‬
‫ہوں تو کیا آخری راستہ بند کرنے سے برائی رک جائے‬
‫گی ؟یہ تو ایسی ہی بات ہے کہ برائی کے کسی درخت‬
‫کو اکھاڑنا مقصود ہو تو اس کے پتوں کو نوچنا شروع‬
‫کر دیا جائے ۔بھئی درخت تو جڑ سے ُاکھاڑنے سے ہی‬
‫اکھڑتا ہے ۔میں یہ پوچھتا ہوں کہ کیا حکومت کے پاس‬
‫اتنی طاقت نہیں ہے کہ وہ خلصوں کو چھپنے ہی سے‬
‫روک دے ۔نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری ۔جب‬
‫حکومت کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ اس برائی کے‬
‫درخت کو جڑ سے اکھاڑڈالے تو پھر نوچنے کا کام کیوں‬
‫کرتی ہے ؟اس سوال پر آپ یقینا ً شکوک وشبہات کا‬
‫شکار ہوئے ہونگے ۔میں تو اچھی طرح سمجھ گیا ہوں۔‬
‫آپ تو مجھ سے بڑے بھی ہیں اور جہاندیدہ بھی ۔آپ کو‬
‫پہلے سے ہی معلوم ہو گا کہ اصل خرابی کہاں ہے ؟‬
‫میں اپنے بڑوں اور بذرگوں کو مشورہ دوں گا کہ ایسے‬
‫لوگوں کو میری قسمت کا فیصلہ کرنے کے لیے منتخب‬
‫کریں جو اہلیت و قابلیت کی دولت سے مال مال‬
‫ہوں ؟جو ملک وقوم سے مخلص ہوں ۔‬

‫میں بات ختم کرنے لگتا ہوں تو پھر کوئی نہ کوئی بات‬
‫ذہن میں آجاتی ہے ۔مجھے یاد آیا کہ میرے استاد محترم‬
‫فرما رہے تھے کہ تمام ترقی یافتہ ممالک کے پرائمری‬
‫سطح کے بچوں کو فقط اوقات مدرسہ میں ہی سب‬
‫کچھ پڑھایا جاتا ہے ۔ان کو گھر میں کرنے کے لیے کام‬
‫‪35‬‬

‫بالکل نہیں دیا جاتا ۔وہاں کی تعلیم و تدریس میں‬


‫میری نفسیات کو خوب مد نظر رکھا جاتا ہے ۔مگر‬
‫یہاں تو ایک گٹھا کاپیوں اور کاغذ کے دستوں کا مجھے‬
‫سکول میں تفویض کردہ گھر کے کام کے لیے رکھنا‬
‫پڑتا ہے ۔میں اس بات کو پھر دہراؤں گا کہ ان ترقی‬
‫یافتہ ممالک کی مثبت چیزیں میرے نصاب سازوں اور‬
‫پالیسی سازوں کو کیوں نظر نہیں آتیں ؟یہ ان سے‬
‫ہمیشہ منفی چیزیں ہی کیوں اخذ کرتے ہیں ؟مجھے‬
‫اخلق باختہ بنانے اور ذرائع ابلغ کے ذریعے میرے دل و‬
‫دماغ کو پراگندہ کرنے کے لیے ان کے نقش قدم پر چلنا‬
‫اپنا فرض عین سمجھتے ہیں مگر ان کی مثبت اپنے‬
‫ہاں رواج دینے سے معلوم نہیں کیوں ڈرتے ہیں ؟اللہ‬
‫تعال ٰی سے میں دعا کرنا اپنا حق سمجھتا ہوں اور‬
‫بارگاہ الہ ٰی میں التجا کرتا ہوں کہ اے اللہ تو اپنے دربا ر‬
‫میں میرے فریا د کو رسائی اور قبولیت کا درجہ‬
‫عنائت فرما دے ۔اے اللہ تو تو دلوں کے بھید جانتا ہے ۔‬
‫میں تیرے سامنے نہ بھی روؤں تو تو میرے دل کی‬
‫کیفیت سے آگاہ ہے ۔اے رب العلمین ہوں ۔یااللہ میری‬
‫سسکیوں کی لج رکھ لے ۔یااللہ اگر تجھے میری کوئی‬
‫نیکی پسند ہے تو ُاس کے طفیل میری پکار کو شرف‬
‫شنوائی بخش دے ۔یااللہ میں اپنی ذات کےلیے کچھ‬
‫نہیں مانگتا ۔ مجھے اس ملک کی قومی ناؤ اس ملک‬
‫صب تعلیم اور نظام تعلیم کے ہاتھوں ڈوبتی ہوئی‬ ‫کے ن ٓ‬
‫محسوس ہو رہی ہے ۔یااللہ تو اسے منجد ھار سے نکال‬
‫کر صحیح و سلمت کنارے پر لگا دے ۔ یا اللہ تیرے نام‬
‫پر بننے والے اس ملک کی قومی زبان اس وقت‬
‫خطرے میں ہے ۔یااللہ اس کا مستقبل غیر محفوظ‬
‫‪36‬‬

‫ہاتھوں میں مجھے نظر آ رہا ہے ۔اسے تومحفوظ اور‬


‫محب وطن ہاتھوں میں تھما دے ۔یااللہ میرے چھوٹے‬
‫چھوٹے ہاتھ تیری بارگاہ میں اٹھے ہیں انہیں خالی مت‬
‫لوٹانا ۔یااللہ میں پورے یقین اور امید کے ساتھ تیری‬
‫بارگاہ میں دست بد دعا ہوا ہوں ۔یااللہ میں ندامت کے‬
‫آنسوؤں کو اپنی پلکوں پر سجا کر تیرے سامنے آیا‬
‫ہوں ۔اے اللہ میں تجھ سے سونے کی تجوریا ں نہیں‬
‫مانگتا ۔یااللہ میں تجھ سے دنیاوی آسائشوں کی دعا‬
‫نہیں مانگتا ۔یااللہ یہ چیزیں بھی میں تجھ سے مانگنے کا‬
‫حق رکھتا ہوں مگر نہ جانے کیوں آج ایسا سوچتے ہی‬
‫اپنے آپ کو خود غرض سمجھنے لگ جاتا ہوں ۔اے اللہ‬
‫میں اس ملک کے نظام تعلیم کو اہل ‪،‬مخلص ‪،‬خدا‬
‫خوف ہاتھوں میں دینے کےلیے تیری بارگاہ میں سر‬
‫بسجود ہوا ہوں اور اپنی پیشانی پر قبولیت اور امید‬
‫ور جا کا نور لے کر اٹھنا چاہتا ہوں ۔یااللہ تجھے اپنے‬
‫جھکی ہوئی پیشانیاں پسند ہیں ۔میری پیشانی پر لگی‬
‫ہوئی مٹی کو بھی شرف قبولیت بخش کر قیمتی بنا‬
‫دے ۔اے خدا ئے بذرگ و برتر میرے بستے کو دشمنوں‬
‫کی سازشوں بچا لے ۔اے میرے پیارے رب !دشمنوں‬
‫کی نظروں میں میرے ملک کا ایٹمی پروگرام کاٹنے‬
‫کی طرح کھٹکتا ہے ۔یااللہ تو جانتا ہے کہ یہ کانامہ ٹاٹو ں‬
‫پر بیٹھ کر پڑھنے والوں نے انجام دیا ہے ۔مگر اب ان‬
‫سے بھی ان کا فہم چھین کر ان کو نادیدہ اور‬
‫اندھیروے راستوں کا ایسا راہی بنایا جارہا ہے جہاں سے‬
‫واپسی کے سب راستے انسانوں کے خون سے رنگے‬
‫ہوئے محسوس ہوتے ہیں ۔اے خدا یا میں کیوں بے چین‬
‫وبے قرار ہوں ؟میرادل کیوں پریشان و مظطرب ہے ؟‬
‫‪37‬‬

‫مجھے تو سکینت وراحت عطا فرما ۔ میرے خوابوں‬


‫کو ٹوٹنے سے بچا ۔میرے دل ودماغ میں ایک انجانا سا‬
‫خوف بس گیا ہے۔ یااللہ اس انجانے خوف سے مجھے‬
‫نجات عطا فرما ۔مجھے بے خوفی اور عزم واستقلل‬
‫کی وہ دولت نصیب فرما کہ میں اپنے ملک اور اس کے‬
‫نو نہالوں کے دشمنوں سے جنگ کر سکوں ۔ہاں میں‬
‫جیت سکتا ہوں ۔یااللہ تیری نصرت اگر میرے شامل‬
‫حال ہو جائے تو میں یہ جنگ جیت سکتا ہوں ۔ہاں میں‬
‫جیت سکتا ہوں ۔میں یہ جنگ جیتوں گا ۔ضرور جیتوں‬
‫گا ۔اے میرے رب مجھے یقین ہےکہ تیری نصرت سے‬
‫میرا دامن بھرنے وال ہے افق کے اس پار سے تیری‬
‫رحمت کی گھٹا ئیں ُاٹھ رہی ہیں ۔یہ ٹھنڈی ہواؤں کے‬
‫جھونکے وہیں سے آرہے ہیں ۔راحت جسم وجاں کے یہ‬
‫پیا مبر جھونکے میری جدوجہد کے ثمر بار ہونے کی‬
‫‪.‬نوید سنا رہے ہیں‬
‫‪38‬‬

‫عصرحاضر میں جب ہر سطح پر امت مسلمہ بببدترین‬


‫زوال کا شکار ہے اور اخلقی اقدار بببری طببرح پامببال‬
‫کی جا رہی ہیں اسلمی معاشرہ کی بحالی اور اصببلح‬
‫کا کام انفرادی اور اجتماعی سطح پر وقببت کببی ا ہم‬
‫ترین ضرورت بن چکا ہے‪ ،‬اس حوالے سے تربیببت اولد‬
‫پر بھرپببور تببوجہ مرکببوز کرنببا والببدین اور بزرگببوں کببا‬
‫اولین فریضہ ہونا چاہئے‪ ،‬بچے ہمارے حببال اور مسببتقبل‬
‫کا اثاثہ اور قومی وملی سرمایہ ہیں‪ ،‬ان بچببوں نبے ہی‬
‫جوان ہو کر ملک و قوم کی باگ ڈور اپنے ہاتھوں میببں‬
‫سنبھالنی ہے اور تعمیر ملت کا فریضہ سبر انجبام دینبا‬
‫ہے۔ اس لئے اگر یہ بچے جو ہماری قوم کے معمببار ہیببں‬
‫ان کی تربیت صحیح اسببلمی خطببوط پببر ہو گببی تببو‬
‫ہمارا مستقبل محفببوظ ہہہاتھوں میببں ہہہو گببا اور صببف‬
‫اقوام میں ہم عزت اور وقار کی فضا میں سانس لببے‬
‫سکیں گے۔ علمہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ نببے اس حقیقببت‬
‫کی نشاندہی اپنے اس شعر میں کیا خوب کر دی ہے۔‬

‫ہے اقبببوام کبببی تقبببدیر‬ ‫ہاتھوں میبببں‬ ‫افبببراد کبببے‬


‫ہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارہ‬
‫‪39‬‬

‫نونہالوں کی تربیببت ک بے ببباب میببں والببدین کببا کببردار‬


‫بنیادی اہمیت رکھتا ہے‪ ،‬ماں کی گود کو بچے کی اولین‬
‫درسگاہ بجا طور پر کہا جاتا ہے۔ نپولین نے درسببت ک ہا‬
‫تھا کہ’’تم مجھے اچھی مائیں دو‪ ،‬میں تمہیں ایک اچھی‬
‫قوم دوں گا‘‘۔ بچے کی سیرت و کبردار میبں مباں کبا‬
‫بڑا ہاتھ ہوتا ہے‪ ،‬مغربی تہذیب پر علمہ اقبال رحمۃ اللببہ‬
‫علیہ نے زبردست تنقید کی اور اسے انسانیت کش بلکہ‬
‫خودکشی کا عمل قراردیتے ہوئے بغیر کسی لگی لپٹی‬
‫کے کہا۔‬

‫تمہاری تہذیب اپنے خنجر سبے آپ ہی خودکشببی کببرے‬


‫گببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببببی‬
‫جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا‬

‫مغربی تہذیب پر علمہ نے اس قدر شببدید حمل بہ کیببوں‬


‫کیا؟ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ یہ تہذیب ایسے مادیت‬
‫پر ست ماحول میں پرورش پاتی ہے جببس میببں بچ بے‬
‫کی پرورش کے حوالے سے مبباں کببا کببردار منفببی اور‬
‫تخریبی نوعیت کا ہو کر رہ گیا ہے‪ ،‬بچببوں س بے دسببت‬
‫برداری اور انہیں حالت کے بے رحم پتھروں کے حببوالے‬
‫‪40‬‬

‫کر کے صرف اپنی ذات کو اولیت دینا مغربی مبباں کببا‬


‫معمول بن چکا ہے‪ ،‬اس طرح خانببدان ٹببوٹ پ ھوٹ کببا‬
‫شکار ہو رہے ہیں اور انسانی اقدار کببا شببیرازہ بکھرتببا‬
‫ہوا نظر آ رہا ہے۔ معلم انسانیت حضور نبی اکرم صلی‬
‫اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ کا حببوالہ اس‬
‫ضمن میں بچے کببی تربیببت و پرداخببت کبے ببباب میببں‬
‫اس حقیقت سے پردہ اٹھاتا ہے جس کی طرف سے ہم‬
‫میں سے اکثر ن بے ال ماشبباء الل بہ آنکھیببں مونببد رک ھی‬
‫ہیں۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مببروی حضببور‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے۔‬

‫واهُ ي ُهَوَّدان ِهِ ا َوْ ي ُن َ ّ‬


‫صَران ِهِ‬ ‫موْل ُوْد ٍ ي ُوْل َد ُ ع ََلی ال ِْفط َْرةِ فَا َب َ َ‬‫ل َ‬ ‫کُ ّ‬
‫ه‬
‫سان ِ ِ‬‫ج َ‬ ‫م ّ‬‫ا َوْ ي ُ َ‬

‫)بخاری‪ ،‬الصحیح‪ ،465 : 1 ،‬رقم ‪(1319 :‬‬

‫’’ہر بچہ فطرت سلیمہ پر پیدا ہوتا ہے۔ اس ک بے والببدین‬


‫یببا اس کببے آببباء )ببباپ داداء( ہیببں جببو اسببے ی ہودی‪،‬‬
‫مجوسی یا عیسائی بنا دیتے ہیں‘‘۔‬
‫‪41‬‬

‫مربی اعظببم حضببور صببلی الل بہ علی بہ وآل بہ وسببلم ک بے‬


‫فرمان کو بھی بچبے کبے والببدین اور بزرگببوں کببو ہمبہ‬
‫وقت اپنے پیش نظر رکھنا چبباہئے۔ آپ صببلی الل بہ علی بہ‬
‫وآلہ وسلم نے فرمایا۔‬

‫عي ّت ِهِ‬
‫ن َر ِ‬ ‫سئ ُوْ ٌ‬
‫ل عَ ْ‬ ‫م ْ‬ ‫م َراٍع وَک ُل ّک ُ ْ‬
‫م َ‬ ‫ک ُل ّک ُ ْ‬

‫)بخاری‪ ،‬الصحیح‪ ،304 : 1 ،‬رقم ‪(853 :‬‬

‫’’تم میں سے ہر کوئی نگببران ہے اور اپنببی رعایببا اور‬


‫ماتحتوں کے بارے میں تم سے جواب طلبی کببی جببائے‬
‫گی‘‘۔‬

‫یہ تعلیم بھی ہمیں معلم اخلق شارع علی بہ السببلم ن بے‬
‫عطا کی ہے۔ ہماری تہذیب و ثقافت میں معاشببرے ک بے‬
‫بزرگ ہمببارا مشببترک اثبباثہ ہوتے ت ھے۔ نئی نسببل کببی‬
‫اٹھان ان بزرگوں کی آغوش عاطفت میں ہوتی ت ھی۔‬
‫انہیں یہ حق حاصل تھاکہ اگر کوئی نوجوان اخلقی بببے‬
‫راہروی میں مبتل نظبر آتبا تبو وہ اسبے اس کبی روش‬
‫بدکے انجام و عببواقب سبے خبببردار کببرے اور اسببلمی‬
‫تعلیمات اور اخلقیات سے انحراف پر اس کببے بڑھتببے‬
‫‪42‬‬

‫ہوئے قدموں کو روکے اور اپنے مواعظ حسنہ سے اسبے‬


‫راہ حببق سببے بھٹکنببے سببے بببازرکھے۔ افسببوس صببد‬
‫افسوس کہ آج ایسے بزرگ خببال خببال رہ گئے ہیببں اور‬
‫نئی نسببل اکببثر و بیشببترگمراہی و ضببللت کببی دلببدل‬
‫میں دھنسی جا رہی ہے۔‬

‫ضببرورت اس امببر کببی ہے کببہ آج اس مربیببانہ اور‬


‫مصلحانہ کردار کو دوبارہ زندہ اور بحببال کیببا جببائے اور‬
‫ابتدا ہی سے بچببوں کببی صببحیح ن ہج پببر رہنمببائی کببی‬
‫جائے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے۔‬

‫ہد معمبببببببار کبببببببج‬ ‫خشبببببببت اول جبببببببوں ن‬


‫تاثریا می نہد دیوار کج‬

‫’’اگر معمببار پہلببی اینببٹ غلببط اور ٹیڑ ھی رکبھ دے تببو‬


‫دیوار کو بلندی تببک ٹیڑ ھا ہونے س بے کیس بے روکببا جببا‬
‫سکے گا‘‘‬

‫آخر میں اخلقیات کے حوالے سے یہ بات کہنببا ضببروری‬


‫ہے کہ اخلق کا کوئی تصور دین کبے بغیببر ممکببن نہیببں‬
‫اور اسلمی اخلق کا سرچشمہ حضور نبی اکرم صلی‬
‫‪43‬‬

‫اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اسوہ حسنہ سے پھوٹتا ہے ک بہ آپ‬


‫صلی اللبہ علیبہ وآلبہ وسببلم کببو خلببق عظیببم کببی اس‬
‫بلندی پر فائز کیاگیا جس سے زیادہ کا تصور بھی نہیببں‬
‫کیا جا سکتا۔ حضور ختمی مرتبت صلی اللبہ علیبہ وآلبہ‬
‫وسلم کا ارشاد ہے کہ مجھے مکارم اخلق کببی تکمیببل‬
‫کیلئے مبعبوث کیاگیبا ہے۔ ل ہذا والبدین بالخصبوص اور‬
‫بزرگوں پر بالعموم فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ بچوں کببی‬
‫ذہنی نشوونما کو ابتدائی عمر میں ہی اخلق محمببدی‬
‫صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سببانچے میببں ڈھالیں تبباکہ‬
‫ان کے دل و دماغ میں آپ صلی الل بہ علی بہ وآل بہ وسببلم‬
‫کی سیرت طیبہ کے نقوش راسخ ہو جائیں۔‬

‫کیا زمانہ تھا جب بڑے بوڑھے اور بزرگ کسی معاشببرے‬


‫کا مشترک اثاثہ ہوا کرتے تھے اور ان کا وجببود مسببعود‬
‫سب کے لئے خیر و برکت کا ببباعث سببمجھا جاتببا ت ھا‪،‬‬
‫بالخصوص نوجوانوں کی تربیت اور کردار سازی میببں‬
‫ان کا عمل دخل بہت نمایاں ہوتا تھا۔ ان کی مثال گویا‬
‫برگد ک بے درخببت کببی سببی ت ھی جببس کببی سببایہ دار‬
‫شاخوں تلے تمازت آفتاب سے ستائے ہوئے مسافر کچھ‬
‫‪44‬‬

‫دیر سستانے کے لئے بیٹھتے اور ان کے خنببک سببایہ سبے‬


‫آسودگی و آرام حاصل کر کے اگلی منزل کببی طببرف‬
‫روانہ ہو جباتے۔ آج کبے مشبینی دور میبں ایسبے بببزرگ‬
‫خال خال ببباقی رہ گئے ہیببں اور ان ک بے مربیببانہ کببردار‬
‫میں وہ اثر پذیری باقی نہیں رہی لیکببن پ ھر ان کببا دم‬
‫غنیمت ہے اور اس سے صرف نظر نہیں کیا جا سببکتا۔‬
‫ان کی نصیحت آموز باتوں سے استفادہ کر کببے ہون ہار‬
‫نوجوان زندگی کی روشن را ہوں س بے ہمکنببار ہو کببر‬
‫ترقی کی منزل کو پا لیتے ہیں۔‬

‫اس بارے میببں کببوئی دورائے نہیببں کبہ ہمبباری نوجببوان‬


‫نسل ال ماشاء اللبہ مببذہب سبے ببے ب ہرہ ہو ر ہی ہے‪،‬‬
‫اسلم کی اخلقی وروحانی تعلیمببات سبے گریببز پببائی‬
‫نے انہیں مادیت پرستی اور حرص و طمع کا اسببیر بنببا‬
‫دیا ہے۔ مادر پبدر آزاد الیکٹرانببک میبڈیا بالخصببوص ٹبی‬
‫وی ڈش اور وی سی آر کے ذریعے جو کچ بھ نوجوانببوں‬
‫کببو دکھایببا جاتببا ہے اس سببے فحاشببی‪ ،‬عریببانی اور‬
‫اخلقی بے راہروی کو فببروغ مببل ر ہا ہے۔ ایسبے میببں‬
‫والدین اور محلے کے بزرگوں کا فببرض عیببن ہے کبہ وہ‬
‫‪45‬‬

‫اپنے بچوں اور نوجوانوں کببی اخلقببی تطہیببر و ت ہذیب‬


‫کے لئے بھرپور کردار ادا کریں۔‬

‫ہمارے اساتذہ کو نئی نسل کببی تعمیببر ک بے لئے بنیببادی‬


‫مصلحانہ کردار ادا کرنا چبباہئے۔ اس ضببمن میببں علمبہ‬
‫اقبببال رحمببۃ اللببہ علیببہ کببی شبباعری اور نببثر میببں‬
‫نوجوانوں کی راہنمائی ک بے لئے جببو پیغببام موجببود ہے‬
‫اس سے استفادہ کیا جا سکتا ہے۔ علمہ اقبال رحمۃ اللہ‬
‫علیہ نے خودی کی جو تعلیم دی ہے اس میں وہ مغربی‬
‫کلچر جو مخرب اخلق ہے کی نفی کرتے ہوئے ایک جگہ‬
‫فرماتے ہیں۔‬

‫نظببر کببو خیببرہ کرتببی ہے چمببک ت ہذیب حاضببرکی‬


‫یہ ضاعی مگر جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری ہے‬

‫علمہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ اپنے ایببک انگریببزی مضببمون‬


‫جس کا عنوان ‪ Political Thoughts in Islam‬ہے‬
‫میں بجاطور پر فرماتے ہیں۔ ’’ہمیں صرف اس بات کا‬
‫ڈر ہے کہ کہیں یورپی کلچر کی آنکھوں کببو خیببرہ کرن بے‬
‫والی چمک دمک ہماری ترقی کے راستے میں حائل ہو‬
‫‪46‬‬

‫کر ہمیں اپنے کلچر کے حقیقی تصور تببک پہنچن بے میببں‬


‫ناکام نہ کر دے۔ وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتبے‬
‫ہیں کہ صدیوں سے ہمارا مذہبی فکر جامد اور بے نمببو‬
‫ہو گیا اور مسلمان نئی نسل‪ ،‬نئے زمانے کببے تقاضببوں‬
‫کو پورا کرنے سے غفلت برت رہے ہیں‪ ،‬وہ مغربی فکببر‬
‫اور اور عملی کمالت کبے اچ ھے پہلبوؤں کبی تحسبین‬
‫کرتے ہیں مگر اس کی ظاہری حالت کو جھوٹے نگببوں‬
‫کی ریزہ کاری سے تعبیر کرتے ہیں‪ ،‬لیکببن ا ہل مغببرب‬
‫کببی علببم جببوئی‪ ،‬تحقببق پسببندی‪ ،‬سائنسببی ترقببی‪،‬‬
‫تسخیر کائنات اور جہاں بینببی کببی تعریببف کرت بے ہیببں‬
‫اس سلسبببلے میبببں ان کبببے یبببہ دو اشبببعار مسبببلمان‬
‫نوجوانوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ فرماتے ہیں۔‬

‫خودی کی موت س بے مشببرق کببی سببر زمینببوں میببں‬


‫ہہہہہہہہوا نبببببہ کبببببوئی خبببببدائی کبببببا راز داں پیبببببدا‬

‫نظببببر آتببببے نہیببببں بببببے پببببردہ حقببببائق ان کببببو‬


‫آنکھ حق کی ہوئی محکمومی و تقلید سے کور‬
‫‪47‬‬

‫دوسرے شعر میں علمہ اقبال رحمبۃ اللبہ علیبہ نبے اس‬
‫بببات کببا شببکوہ کیببا ہے ک بہ افسببوس عصرحاضببر ک بے‬
‫مسلمانوں کی فکر اس قدر جامد ہو گئی ہے کہ انہیببں‬
‫اپنے آباؤ اجداد کے شاندار ماضی کے حقائق س بے ب ھی‬
‫آگاہی نہیں اور محکومی و تقلید نے ان کے جوہر عمببل‬
‫کو کند کر کے رکھ دیا ہے۔‬

‫علمہ نوجوان نسل کو اپنی مل ّببت کببا مسببتقبل تصببور‬


‫کرتے تھے۔ وہ ان نوجوانوں کی تربیت ان میببں ایمببانی‬
‫جذبہ اور دینی بصبیرت پیبدا کبر کبے اس ن ہج پبر کرنبا‬
‫چاہتے تھے کہ وہ صحیح معنوں میں قوم کے معمببار بببن‬
‫سکیں۔ قرآن حکیم سے انہیں جو شببغف ت ھا وہ کسببی‬
‫صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں۔ اسی طرح حضببور نبببی‬
‫اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے انہیببں جببو‬
‫والہانہ محبت اور شیفتگی ت ھی اس کببا اظ ہار ان کببی‬
‫شاعری اور نثری تحریروں میں جابجا ہوتا ہے۔ وہ ی ہی‬
‫جبذبہ اور ذوق و شبوق نوجوانبوں کبی رگ و پبے میبں‬
‫اتارنا چاہتے ہیببں چنببانچہ ان کببی زنببدگیوں کببو قببرآن و‬
‫سیرت نبوی صلی اللہ علی بہ وآل بہ وسببلم کببی تعلیمببات‬
‫‪48‬‬

‫س بے آراسببتہ و پیراسببتہ کرن بے ک بے لئے الل بہ تعببال ٰی ک بے‬


‫حضور پکار اٹھتے ہیں۔‬

‫جوانبببببببببوں کبببببببببو مبببببببببری آہ و سبببببببببحر دے‬


‫ھر ان شببببباہین بچبببببوں کبببببو ببببببال و پبببببردے‬ ‫پ‬

‫ہے‬ ‫ہی‬ ‫خبببببببببببدایا آرزو میبببببببببببری ی‬


‫مرا نورِ بصیرت عام کر دے‬

‫والدین اور اساتذہ پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے وہ‬


‫بچوں کو کلم اقبال کی روح سے آشنا کریببں۔ ان کببے‬
‫اس کردار کا احیاء وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔‬

You might also like