Professional Documents
Culture Documents
32
32
از
نو ٹ :اس کتاب کو اردو ویب ڈا ٹ لئبریری ٹیم ن ے برقیا کر آپ کی آرگ خدمت می ں پیش کیا ۔
ف ہرستِ ابواب
سر ورق
کو ہا ٹ
میوںں روس نےحکمت یار کی مدد سے مینا کو کوہاوٹں میوںں گلبدن کےلوگووںں سےقتل کروادیا۔ مینا 1987
مرگئی لیکن جمیعت آج بھی زندہ ہے اور افغانی عورتووںں کی فلح اور بہبود کے لۓ کام کررہی ہے۔
سکینہ اسٹیج پرتھی اور میں شامیانےمیں۔ جدھر دیکھو عورتیں ہی عورتیں تھیں اور میں اپنے کو بے جگہ
محسوس کررہا تھا۔
آداب "۔ میوںں نے سر کو ہلتے ہوۓ کہا۔ میرا نام ساجدہ ہے اور میو ں “ راوا “ کےاسپتال میوںں کام کرتی ہوو ں۔ "
میوںں ایک ڈاکٹر ہوو ں۔
میوںں نے اپنا ہاتھ ملنے کےلۓ بڑھایا۔ لیکن اسکا ہاتھ آگےنہ بڑھا۔ میوںں نےاپنا ہاتھ شرمندگی سےگرادیا۔
بُرا نا مانیوںں -اگر میوںں آپ کو پاکستان سے باہر ملتی تو نہ صرف آپ سے ہاتھ ملتی بلکہ گلےلگ جاتی ،آپ"
میرے ہیرو ہیو ں۔ آپ ہی کی وجہ ہے کہ میوںں نیویارک کے بجاۓ یہاوںں پریکٹس کر رہی ہوو ں۔
مجھ کوحیرت میوںں دیکھ کر وہ ہنسی۔ " میوںں آپ کو اس لۓ جانتی ہووںں کہ دو سال پہلےنیویارک میوںں نے ,آپکی
کتاب ' پختون کی بیٹی ' پڑھی تھی۔اس کے پچھلےصفحہ پر آپکی تصویر تھی۔ میں اس کتاب کو پڑھ کر بہت
ںںںںںںںںںںں پاکستان میں پریکٹسںںںں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میڈیکل کالج ختم کرنے کںں
ے بعد می روئی تھی۔ اوراُسی دن می
کرووںں گی اور اپنی بہنووںں کی خدمت کرووںں گی"۔
میری سمجھ میوںں نہیوںں آرہا تھا کہ ایسے موقع پر کیا کہا جاتاہے۔ پہلی بار زندگی میوںں میرے ساتھ یہ ہورہا تھا۔
میوںں خاموش رہا۔
ںںںںںںںںںں؟ "
ںیںںںں دیکھی۔ کیا آپ اب بھی لکھتے ہی
میں نے آپ کی کوئی دوسری کتاب نہ
میرا کام اور دوسری مصروفیات اسکی اجازت نہیوںں دیتے "۔ میوںں نےاس عورت سے جان چھڑانے کی کوشش"
کی۔ میوںں چاہتا تھا کہ یہ موضوع کس طرح جلد ختم ہوجاۓ۔
اب صرف خبریوںں رہ گی ہیوںں اور کہانیاوںں کھوگی ہیو ں"۔ میوںں نے جھنجھل کرجواب دیا۔"
کیااچھاہوتا کہ آپ لکھنا جاری رکھتے۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے آپ کی سب بہنووںں کو"۔ "
میرے پاس ایک کہانی ہے جو صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیو ں"۔ ساجدہ نے کہا۔ "
اس نے سکینہ کو ہماری طرف آتے دیکھا۔
ہاوںں مجھے چھوڑ کے ،تمہںںں تو جانے کی بہت پریکٹس ہے"۔ میوںں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔"
سکینہ نے اپنا منہ دوسری پھر لیا۔ مجھے پتہ تھا کہ میں غلط تھا۔ مگر ہم بے وقوف مرد ہمشہ عورت کو اپنی
کمزوی کا الزام دیتے ہیو ں۔ایک سکوت طاری ہوگیا۔
ہیلو"۔"
پروفیسر صاحب"و۔ں"
" ساجدہ کیا حال ہیںںں"
ٹھیک ہیو ں۔ آپ نے پھر سوچا۔ کہانی لکھنے کا "۔ "
کیا میوںں نے وعدہ کیا تھا؟ " میوںں نے بےدلی سے پوچھا۔ "
نہیوںں تو۔ لیکن میوںں نےسوچا ،میرا ہیرو مجھے مایوس نہیوںں کرے گا "۔ اس نے ہنس کر کہا۔ "
میوںں نے چند سالووںں میوںں کچھ نہیوںں لکھا۔ مجھے یہ بھی نہیوںں پتہ کہ میوںں اب لکھ سکتا ہووںں "۔"
یہ کہانی اپنےآپ کو خود لکھےگی "۔ ساجدہ بولی"
ھمم ۔۔۔ آفس کا نمبر کیسے مل “۔ "
کوہاوٹں میوںں کوئی شخص ایسا نہیوںں جو سکینہ اور اسکے شوہر نسیم اعوان کو نہیوںں جانتا ہو اس لۓ آفس کا "
نمبر حاصل کرنا مشکل نہیوںں تھا "۔
اچھا۔ میوںں کہانی لکھنے کے بارے میوںں سوچووںں گا "۔ میوںں نے بے دلی سے کہا۔ "
ساجدہ نے کہا۔ فی الحال میرے لۓ یہ کافی ہے۔ میوںں آپ کو اگلے ہفتہ کال کرووںں گی۔ خدا حافظ"۔
کیا ہورہا ہے؟ سکینہ نے کہا۔ " کچھ نہیں۔ وہی جو پہلے تھا۔ میں ناصرہ کو‘ بل کنڈ ‘ سے نکالنے کا طریقہ کار
سوچ رہا تھا "۔
آج ہمارے گھر کیسے آنا ہوا ؟ " میوںں نے پوچھا۔ "
" تم دوپہر کے کھانے پر کیا کررہے ہو؟ "
" کیوں؟ "
چلو ساتھ کھاتے ہیوںں "۔ سکینہ نے جواب دیا۔ "
" کیا آج نسیم آفس نہیوںں آۓ ؟ "
وہ ہیوںں یہاوں۔ مگر ان کو پتہ ہے کی میوںں تمہارے ساتھ لنچ کررہی ہووںں "۔"
میرے کان ک ھڑے ہوگے۔ پچھلےدوسالووںں میوںں بہت ہی کم ایساہوا کہ میوںں اور سکینہ نے اکیلے کھانا کھایا ہو۔
میوںں ہمشہ اکیل کھاتا ہووںں یا پھر ہم تین ساتھ کھاتے ہیو ں۔ لیکن میوںں خاموش رہا۔
شہر کی طر ف جانے کے بجاے سکنیہ نےگاڑی کو ہا نگو ضلع کیطرف موڑ دیا۔ میوںں جان گیا کہ ہمٹانڈا ڈیم
ںںںں
ںںںںں کے بیرونی عللقو
کوںہا 7
جارہے ہیوںں جو دریا ٹوی پر بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیم ،کوہا ٹں سے کلومیٹر پر ہے۔ ٹ
میوںں پانی کھیت باڑی کا پانی مہیا کرنے کے لۓٹانڈا ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔آس پاس کے
لوگ بڑی تعداد میں پکنک کے لۓ یہاں آتے ہیں۔ہم نے پانی کے قریب ایک سایہ دار جگہ تلش کی اور زمین پر
دری بیچھا کےاس پر بیٹھ گے۔ سکینہ نےگاڑی سے کھانا نکال کرچادر پرلگایا۔ ہم کھانے کےدوران قدرتی
خوبصورتی کا نظرا کرتے رہے۔ کھانے کے بعد سکینہ نے تھرماس سےگرم گرم چاۓ نکالی۔
تم میرا پہل پیار ہو ،اور کوئی مجھ کواس پیار سے جدا نہیں کرسکتا ،تم میرے پہلے دوست ہو اور زندگی "
بھر کے لۓ دوست ہو۔ ہم دونووںں نے کچھ فیصلے کۓ ،صحیح یاغلط مگروہ ہماری ،خود کی مرضی تھی۔ اب
ہم ان فیصلووںں کو بدل نہیوںں سکتے"۔
میوںں نےاُن گلبی گا لووںں پر دو آنسوووںں کے قطرووںں کو پھسلتے دیکھا۔ بڑی مشکل سے میوںں نےاپنے آپ کو ان
موتیووںں کو پینےں س ے روکاو۔ں
میل کے فاصلہ پر ہے اور تقریباً گاڑی کاسفرڈ یڑھ دوگ نھٹے کا ہے۔ آپ دو 37
ںںںں
پشاور ،کوہاٹں کے جنوب می
ںںںںں پوسٹ جوخوبصورت نظاروں کوںہا
ںںںںںںںںںںک ہے۔ یا ٹراستےلےسکتے یا تو پرانا آرمی روڈ ۔آرمی روڈ ڑں
خطرناک س
ٹںںںںںںںںںں پاس( جوخوبصورت سرنگ
ٹںںںںںںںںںںںںے کا ہے یاپھرآپ ڈیرہ آدم خیل )کوہا
سے بھری ہے۔ پشاور کا سفراس سےدو گھن
کہود کر بنایا گیا ہے یہ بھی کوہاوٹں سے پشاورلےجاتا ہے۔ میوںں ڈ یڑھ گ نھٹے بعد پشاور میوںں تھا۔
میں “ راوا “ کےآفس پر روکا۔ ایک نوجوان افغانی سامنے کے کمرے میں بیٹھا لفافے کہول کر بنک چیک اور
نقدی کے نذرانووںں کو علحیدہ کر رہا تھا۔
ساجدہ کا سیدھا کندھا دروازے کی طرف تھا اور وہ کسی کو ٹیکےلگا رہی تھی۔ میوںں نےمداخلت کرنا مناسب
نہیوںں سمجھا۔ میوںں کافی دیر ک ھڑا اسے دیکھتا رہا۔ ساجدہ نے موڑ کر قطار کو دیکھا اس کی نظر مجھ پڑی اور
وہ ک ھڑی ہوگی۔
میوںں کہا۔ " تم اپنا کام جاری رکہو میوںں انتظار کرسکتا ہوو ں "۔
اچھا آپ مجھے 15منوٹں دیجۓ۔ نرس ساڑہے بارہ بجے آتی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔ "
میوںں جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔
منوٹں کے بعد ساجدہ اپنے آفس سے باہر نکلی۔ اس کے ہاتھ میوںں ایک کھانے کا ٹفن کیریرتھا۔ اس 15
ٹھیک
نے زمیں پر چادر بچھائی اور دو پلیٹوں میں گرم گرم پلؤ نکالاور کہا “ کھاۓ“۔ مجھے بھوک لگی تھی اور
پلؤ کی خوشبو نے بھی مجبور کردیا۔ میوںں نےشکریہ کہہ کر کھانا شروع کردیا۔ کھانے کے دوران ساجدہ نے
پوچھا توآپ نےفصیلہ کیا؟
میری ایک بہن ہے وہ مجھے بہت پیاری ہے۔ وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ اس کا نام سادیہ ہے۔
میوںں نے اپنے بیک پیک سے میری کتاب " پختون کی بیٹی" نکالی اور اس کےسامنے زمین پر رکھ دی۔
وہ ہلی تک نہیو ں۔ " میوںں سمجھ گیا کہ وہ آج زبان نہیوںں کھولے گی۔
جب تم اس کو پڑھ لو تو ڈاکٹر صاحبہ سے کہنا کی تم مجھے کتاب واپس کروگی۔ ڈاکٹر صاحبہ مجھے فون
کردیوںں گیو۔ں سلم"و۔ں
خدا حافظ“و۔ں“
کوئی جواب نہیو ں۔
مجھے ساجدہ کو خیمے کے باہر ملی۔ ہم دونووںں میری جیپ کی طرف چلے۔ جب ہم خیمے سے دور تھے۔
ساجدہ نے کہا”۔ میوںں نےسب سنا”۔
میوںں کہا”۔ دیکہو کیا ہوتا۔ مجھے کوئی امید نہیو ں " ۔
وہ آپ کی کتاب پڑھےگی۔ وہ دس جماعت تک پڑھی ہوئی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔ "
اس کتاب میوںں ایک جادو ہے۔ وہ اس سحر سے نہ بچ پاۓ گی۔ ساجدہ نے قہقہ لگایا۔ “
“ میوںں اس کا انتطار کرووںں گےںں۔ں "
ریمشاں
جب کبھی میوںں اداس ہوتا ہوو ں۔ تومیوںں اپنی ننھی بہن کو کال کرتا ہوو ں۔ میری ننھی سادیہ دنیا کے لیے تییس سال
کی شادی شدہ عورت ہے -میری بھانجی سکینہ اب تین سال کی ہے۔ سادیہ نے اپنی بچی کا نام سکینہ جان
کرسکینہ کے نام پر رکھا ہے اور سکینہ نےاپنی تین سالہ بیٹی کوسادیہ کا نام دیا ہے۔
میں نےگھڑی میں وقت دیکھا ،اس وقت لس انجلیس میں رات کےبارہ بجے ہونگے۔ شاید وہ اوراس کا
شوہرشان اپنی ننھی کوسُل کرخود سونے کی تیاری کر رہے ہووںں گے۔ مجھےشام میوںں کال کرناچاہیے ۔
سکینہ ،شان کی بڑی بہن ہے۔ شادی کے وقت سادیہ اور شان کی عمریوںں اٹھارہ سال کی تھیو ں -اُن دونووںں نے
پڑھائ چھوڑ کر کوہاٹ میں پانچ سال پختون کی بیٹیوں کوظلم کے خلف کام کیا ۔جب میں اپنی خواہشات
سے فارغ ہوا تومیوںں سکینہ کو کھوچکا تھا۔
جب میں چھوٹا تھا تو میں نےسومقصد بناۓ تھے۔ آج وہ تمام مکمل ہوچکے ہیں۔ سکینہ کی زندگی کا مقصد
اپنی پختون کی بیٹیووںں کو ظلم سے نجات دل نا تھا۔ اور میرا مقصد پانچ سال میوںں اپنےمقصدووںں کومکمل کرنے
کا پروگرام۔ پچیس سال کی عمرمیں میرا آخری مقصد ہمالہ کی چوٹی کوفتح کرنا تھا۔ جس میں مجھ کو کئی
شکستوں کے بعد پانچ سال میں فتح ہوئ۔ اس دوران میں سکینہ نے نسیم سے شادی کرلی اوراس کےشوہرنسیم ،
سادیہ اورشان نےاس آرگینائزیشن کوسوٹں اپ کیا۔ آج ان کی وجہ سے ہزارووںں پختون کی بیٹیاوںں ظلم کےشکنجے
سےدور ہیو ں۔ جہاوںں تک میرا سوال ہے میوںں بلندی پرتو پہنچ گیا لیکن وقت نےمیرے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔
اب میوںں بلندی سےگر رہا ہوو ں۔ شاید اس حادثہ کا نام تقدیر ہے۔ جب میوںں واپس آیا توشان اور سادیہ نےاپنی تعلیم
مکمل کر نے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنی تعلیم کوختم کرکے واپس آئیوںں گےاورمیوںں نےشان اور سادیہ کی جگہ لے لی
ہے۔
میں نے رسٹ واچ پر نگاہ ڈالی -اس وقت لس انجلیس میں صبح کے چھ بجے ہوں گے۔ وہ بے بی سکینہ کا
دونوںںںں یونیورسٹی
ڑںںںں دئےاور وہ ں
ٹںںںںںی سکینہ کو ماںں کے پاس چھو
دن بھر کا سامان تیار کر رہی ہوگی تاکہ وہ بی
ںںںںںںںںںںںں اُس کی زندگی میں دخل دوں؟
ںںںں سےایک میل کےفاصلہ پر رہتی ہے۔ کیا می جاسکیں۔ سادیہ ما
“ بھائ جان “۔ سادیہ فون کے دوسرے سِرے پراتنی زور سےچلئ کہ مجھے رسیور رکھ کراسپیکر کوآن کرنا
رمیںںںں
پڑا تاکہ میںں آواز کا حجم کنٹرول کرسکوں۔ دوسری طرف شاید نہ صرف شانٹںاُںںھ گیا ہوگا بلکہ مالِیبو شہںں
تمام لوگوں نےسوچا ہوگا کہ یہ آواز اسپیس شٹّل کی ہے جو موہاوی کے ریگستان میں اتری ہو۔ یہ ریگستان
مالِیبوشہر سے پچاس میل کےفاصلہ پر ہے۔
شان سے بھی ذیادہ “ -میوںں نے مذاق کیا -لیکن مجھےاس کا جواب پتہ تھا۔ “
شرارتی بھائ جان ،وہ محبت الگ ہے -جس میوںں شان اول ہے اور ہاوںں وہ یہاوںں کھڑا سن رہا ہے۔ میوںں نے “
شادی سے پہلے ہی اس کو بتا دیا تھا۔ میرے لئے میرا بھائ نمبر ون ہے ،اور یہ رشتہ کبھی تبدیل نہیوںں ہوگا۔ آپ
میری تمام دوسری محبتووںں میوںں اول ہیو ں ” ۔ سادیہ نےچیغ کر کہا۔ “ اُسے پتہ تھا کہ اگر کوئ مجھ سے پوچھے
ںںںںںںںںںںں اول ،باپ دوئم اور
ںںںںںں وہ مجھے ستاتی تھی کہ میرا نمبر تیسرا تھا۔ ما
تومیرا بھی یہی جواب ہوگا۔ بچپن می
میوںں سوئم لیکن یہ سب بدل گیا جب اس نے دیکھا کہ یہ بھائ اس کے لیے دنیا کو بدل دئےگا۔ تب سے بھیا سے
ذیادہ دنیا میوںں کوئ پیارا نہیوںں ہے۔
تم چیغ کیووںں رہی ہو؟ “ ہمارا فون کنکشن اس وقت اچھا ہے۔ “
"اچھا کہیوںں آپ نے یاد کیسے کیا ہے “
کچھ نہیو ں"۔ "
بولیو ں ،سادیہ میوںں تم سے محبت کرتا ہووںں "۔ "
میوںں نے کہا۔" سادیہ میوںں تم سے محبت کرتا ہووںں "۔ اور میوںں رو پڑا۔ میری بہن بہت ہوشیار ہے۔ اس کو پتہ ہے
کہ میوںں اپنے جذبات کو کتنا ہی چھپاؤوںں وہ ایک جملہ میوںں معلوم کرسکتی ہے کہ میوںں خوش ہووںں یا ناخوش۔
“ بتاۓ بھیا کس نےآپ کا دل دُکھایا ہے۔ میوںں اس کیٹانگ توڑدووںں گی۔ تا کہ وہ آپ کوچھوڑ کرنا جاسکے “
سادیہ نے ہنس کر کہا۔ میوںں نےسادیہ کو اپنی کہانی سنائ -سادیہ خاموشی سے سنتی رہی۔
جب میوںں روکا تواس نے کہا۔“ بھائ جان۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کویہ پتہ ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے”۔
آپ کو پتہ اگرآپ کہیوںں “سادیہ“ اوراس سے پہلے کے دوسرا لفظ بولیوںں میوںں جہاز میوںں سوار ہونگی”۔ “
میرے بے وقوف بھائ جان ،اس کام کو کرو۔ یہی ایک کام ہے جو تمہاری زندگی کو پھر سے سیدھی راہ پہ“
“ -لسکتا ہے
میں نے کہا۔ ” دنیا میں میرے لیے کسی کی بھی محبت اتنی پاک اور بلند نہیں جتنی میری ننھی کی "-
میوںں نےسادیہ کو سسکیاوںں لیتے ہو ۓ سنا۔
اس سے پہلے کہ میں فون ریسیور پر رکھ دوں اس نے کہا”۔ بھائ جان آپ نے یہ کام ایک بارمیرے لیے کیا تھا ،
ںںںںںں
“نا -اب آپ اس کام کو اپنےں لی ےکری
میں صبح جلد اٹھ گیا -جب آفس پہنچا توسات بجے ہیں۔ بلڈنگ سنسان پڑی تھی۔ اِسٹاف ،سکینہ اور نسیم آٹھ
بجےآفس آتےہیں۔ میرا کوئ ٹائم نہیں تھا۔ کبھی تو میں وہیں سوجاتاہوں اور کبھی دس بجے آتا ہوں۔ آدھا
گ نھٹہ اور پندرہ فون کال کے بعد میوںں نے نفسیات کی ماہر ڈاکٹر جمیلہ کا پتہ معلوم کرلیا۔
میوںں نےسکینہ کو کال کیا۔ ” ڈاکٹرجمیلہ کو کال کر کہو کہ میوںں ملنے آرہا ہوو ں ”۔ اور دوسرے لحمہ میوںں گاڑی
میو ں تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ سکینہ کہ پاس دو وثیقہ ہیو ں۔ اس کاخود کا کام اور دوسرا اسکےخاندان کا نام۔
ںںںںں ان
ںںمی
ضلع کوہاٹں میں خٹک اور بندیش کے بعد تیسریڑبںںںی آبادی اعوان کی ہے۔ ایک َاسّی ہزار کی آبادی
ںںںںںںںںں میں
ںںںںں میں اعوان ،ذیادہ تردریا سندھ کے ساتھ ساتھ جنوبی اور مشرقی علقو
کوںہا
ہے۔ ٹ 12
کی تعداد %
آباد ہیو ں۔ اعوان کوہاوٹں کی سیاست میوںں ایک اہم رول ادا کرتے ہیو ں۔ سکینہ ضلع کوہاوٹں کی ایک تحصیل کے
ناظم کی لڑکی ہے۔
ڈاکٹرجمیلہ کی نوکرانی نے دروازہ کھول اور مجھے کھانے کے کمرے میوںں لےگی۔
-آپ نےناشتہ کیا”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے کہا۔ پھراس کا خود ہی جواب دئے دیا “
نورا بی بی ناشتہ لگاؤ”۔ “
سکینہ نے کہا کہ میوںں تمہاری مدد کروو ں۔ یہ کام بہت ضروری ہے۔ میوںں سکینہ کو“راوا“ کی وجہ سے جانتی ہوو ں۔
اُس نے آج تک مجھ سے کوئ ڈاریکٹ درخواست نہیں کی۔ کیا تم ایک اہم شخص ہو؟
یہ ایک افغانی لڑ کی سے متعلق ہے جس کے لئے ڈاکٹرساجدہ نےآپ سے رائے لی تھی”۔ میوںں زور سے ہنسا۔ “
یہ تو کوئ اتنی اہم بات نہیوںں کہ ایک اسٹافر کے بجاۓ سکینہ مجھےخود کال کرے”۔ ڈاکٹر نےحیرت سے کہا۔"
مجھے ریمشاوںں کے مرض کے متعلق کچھ معلومات چاہیو ں”۔ “
یہ نام تو کچھ جانا پہچانا ہے"۔ ڈاکٹر نےاپنی فائل کی ڈراز کھولی۔اور فائل سےایک کاغذ نکال کرمیری "
طرف بڑھایا۔
جنس :لڑکی
قومیت :افغانی
درجہ :مہاجر
آپ نے شدید صدمہ ہونے کی وجہیوںں بیان کی ہیو ں۔ مگر شدید صدمہ کن چیزووںں سےمل کر بنتا ہے۔ میوںں نے
سوال کیاو۔ں
کوئ حادثہ اچانک پیش آیا ہو ،وہ شخص اس حادثہ کے لیے تیار نہ ہو ،اور اس حادثہ سےمقابلہ کرنےمیوںں بے بس
مجبور یا معذور ہو۔ عموماً حادثہ نہیں بلکہ اس حادثہ سے متعلق ذاتی تجربات ٹرّراما کےذمدارہوتے ہیں۔یہ پیشین
گوئ نہیوںں کی جاسکتی کہ کون کس حادثہ سےمتاثرہو کر ذہنی طور پرزخمی ہو جاۓ گا۔
دو ۔ںں مریض ک ےخیالت اور عمل میوںں تبدیلی پیدا کرناو۔ں (Cognitive-Behavioral
Therapy (CBT
ںںںںںںں
تین ۔آرام کرنا اور ذہنی بوجھ کو کم کرنے کی مشقی
ڈاکٹرجمیلہ میری ساتھ گاڑی تک آئ۔ میوںں نےگاڑی کا دوازہ کھول اوراس کی طرف ہاتھ ملنے کی لے مڑا
بجاۓ ہاتھ ملنے کے ڈاکٹر نےاپنےدونووںں ہاتھ میرے کندھووںں پررکھ دۓ – ڈاکٹر جملیہ کی آنکھیوںں نم تھیو ں۔
تم اس کووا پس لسکتے ہو۔اس کوایک مخلص شخص کی ضرورت ہے جو اس کوپدری یا مادری محبت “
دئے۔ اور وہ تم ہو۔
میں نے آج صبح سکینہ کی کال کے بعداور تمہارے آنے سے پہلے ڈاکٹرساجدہ کو کال کیا تھا -ڈاکٹر ساجدہ کہتی
ہیوںں کہ ریمشاوںں اپنےلنچ کےدوران ہرروز تمہاری کتاب پڑھ رہی ہے ۔
اتوار کی صبح تھی میں نےسکینہ کو کال کرکے کہا کہ میں ٹانڈا ڈیم جارہا ہوں -وہ ساتھ آناچابتی تھی مگر
میوںں نے کہا نہیوںں میوںں اکیلےمیوںں کچھ سوچناچاہتا ہوو ں۔ لنچ کا باکس خریدا اورگاڑی کا رخٹانڈا ڈیم کی طرف
کر دیا۔ میں مچھلی کی طرح سمندر کی کمی کرتاہوں اورسمندر تومیرا دوست ہے۔ ٹانڈا ڈیم کے تفریحی حصہ
میوںں زمین پردری بچھائ اورآس پاس کا نظارہ کرنے لگا ۔
کوہاوٹں کاشہردریاِ توئ کےالٹے کنارے پرواقع ہے۔دور کوہاوٹں کے پہاڑ برف سے لدئے تھے۔ کوہاوٹں کےشمال
ںںںںںںں
ںںںںںں۔ مشرق میں ں دریاۓ سندھ کا شور تھا ،جنوب می ںںتھی
میں آفریدی اوراُرک ذائ پہاڑںیاں دیکھائ دئے رہی
ںںںں۔ ضلع بنوں ں اور پشاور کی وادیوں ضلع بنوں اور مغرب میںدریاِخرم اور وزیری پہاڑںیاں نظرآرہی تھی
ٹںںںںںں کی آبادی
چوںںںائ اور ایک سو تین لمبائ کا پہاڑںی علقہ کوہاٹںں کہلتا ہے۔ ضلع کوہا کےدرمیان پچاس میل ڑ
ایک سو بیاسی ہزار ہے۔ ضلع کوہاٹ میں تین تحصلیں ہیں۔ کوہاٹ شمال اور شمال مشرق میں ،ہنگو شمال
ڑںںں ہیںں۔ لیکن ان میں ں
ںںںںںں۔ ہرطرف پہا
مغرب اورتری جنوب میں ہیںں -تمام دریا مشرق سے مغرب کو بہتںےں ہی
سےصرف چیرات کےسلسلہ کی چوٹی جللہ سر پانچ ہزار فوٹں سےذیادہ بلند ہے۔ چیرات ،نیلب ،میرخوالی،
سوانی سر ،میران دائ اور لواگر کےسلسلےتین ہزار کی اونچائ پرہیو ں۔
دوپہر ہوگئی اور میرے پاس ریمشاوںں کی خاموشی کوختم کرنے کا کوئ حل نہ تھا۔ میوںں دریا کے کنارے پرٹہلنے
پراعتباراٹھ گیا ہے -شایداس نےاپنےماوںں باپ اور بہن بھایئووںں کوقتل ہوتےدیکھا ہو۔ یا
ُ لگا۔ شاید اُس کا مردووںں
اس کےساتھ زنا بلجبرہوا ہو۔ لیکن جتنا میوںں سوچتاجاتا تھا اتنا ہی یہ ظاہرہوتا تھا کہ اس خاموشی کو کھولنے کی
کنجی اعتباراوراعتماد ہے۔ میوںں اُس کو کس طرح اس بات کا یقین دلؤوںں کہ میوںں مختلف ہووںں اور وہ میرے لیے
میری بہن سادیہ کی طرح ہے۔ میوںں نےدریا کی گہرائی کوجانچا۔ دریا اس مقام پر پانچ یا چھ فوٹں گہرا تھا۔ پانی
اتنا صاف تھا کہ آپ دریا کے پیندئے میوںں ریت اور کنکر دیکھ سکتے تھے۔
سہ پہرہوگی اور بات وہیوںں آ کر رُک گئی۔ کس طرح اس کو پھر سے بولنا سکھا جاۓ ؟
اچانک دماغ میں بجلی کوندگئ۔ اگراُس نےمیری کتاب پڑھ لی تو وہ مجھے پہچان جاۓگی وہ جان جاۓ گی کہ
میوںں اُس کا بھائ ہووںں وہ میری بہن ہے۔
یکایک میر ی چھٹی حس جاگ گی میوںں نے محسوس کیا کی کوئ دبے پاؤوںں میرے پیچھےآگیا ہے میوںں جلدی سے
ںںںں ملیں اُس
پکںںں لیا۔ ہماری نگاہی
ٹںںںںںںںںںںںںںںںںںںںکرایں میں نےان کو ڑ
مڑا اور اس سے پہلے کہ دو ننھے ہاتھ میرے سینےسے
کی نگاہیوںں شرارت سے بھریوںں تھیوںں میوںں نے اپنےآپ کو دریا میوںں گرنےدیا۔
ںںںںں گرادیا۔ میں ں
ںںںںں نے بھائ جان کودریا می
ںںںںںں چیخیں مار رہی تھی۔ می
جب میں پانی سے ابھرا تو وہ خوشی می
دریا سے باہر نکل کر اس کی طرف دوڑا۔ وہ ڈاکٹر جمیلہ کی طرف پناہ لینے کے لیے دوڑی۔ اس سے پہلے کہ
وہ اُن تک پہونچتی میوںں نےاس کو پک ڑ لیا اورگود میوںںُاٹھا کے پانی تک لیا۔ اس نےسہم کر کہا بھائ جان نہیو ں۔
ںںںںںںںں
ںںںںں نےاسے اپنے بازوڑںںںںیں مار کر رونے لگی۔ می
ںںںںںںںں گی۔اور ڈھا
سںے لپمیں نےاس کو زمین پراتاردیا۔ وہ مجھٹ
چُھپالیا اور جھک کراس کی پیشانی چُوم لی -لمحےگزرگے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا مگروہ بھی اس بھائ
بہن کو جدا نہ کرسکا۔
ںںںںںںںںٹں
رکوہا ٹںںںںںے کے لیے باہ
ںںںر جمیلہ کی زیرعل ج میںں گزارا – میں ا سے ہرروز دوگھن ےڈںاک
اگل ہفتہ ریمشاںںں ن ٹ
دیکھانے لے جاتا۔ ہم کوہاٹ یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی ) کُسٹ( دیکھنےگے۔ کُسٹ ،صوبہ سرحد کی تین آی
ںںںںںںںںںںں ہیںں۔ ریمشان نےایک دنںوہںاںںںں تعلیم
ٹی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ دوسری مال کنڈ اور ہزارہ می
ںںںںںںںںںںںںں
حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم سکینہ رسوخ کی بنا پر پاکستان ائر فورس کا بیس دیکھ سکے۔ انگریزو
نےاس بیس کو قائم کیا اور اب یہ پاکستان ائرفورس کا ٹرینگ سینٹر ہے۔ ریمشان نے پہلی بارہوائی جہاز قریب
سےدیکھے۔ ہم نےسمینوٹں فیکٹری میوںں سمینوٹں بنتے دیکھا۔ کیڈںٹں کالج بھی گے -کیڈںٹں کالج کااپنا ترانہ ہے
جس کو معروف شاعراحمد فراز نےلکھا ہے -احمدفراز جن کا اصلی نام احمد شاہ ہے کوہاٹ میں پیدا ہوۓ -ہم
گورنمنوٹں پوسوٹں گریجویوٹں کالج بھی گے -
بھائ جان -ایک بات پوچھوو ں”۔“
بولو"و۔ں "
"کیا آپ میری کہانی لکھیوںں گے؟ "
" کیا تم ایسا چاہتی ہو ؟ "
“ن یہںں “
ںںںںںںں نہیںں لکھوںںں گا "
" -ٹھیک ہے۔ می
وہ مکمل کہانی ایک وقت میوںں نہیوںں بتاۓ گی۔ وہ اس کہانی میوںں خود حصہ لیناچاہتی ہے۔ جس کا مطلب ہے “
کہ کہانی دوران سفر قسطووںں میوںں لکھنا ہوگا“۔
وہ کسی صورت میوںں اس پر تیار ہے نہیوںں کہ مجھے پوری کہانی ایک ہی وقت میوںں بتاۓ۔ نفساتی لحاظ سے "
ڈاکٹر جمیلہ اس سےاتفاق رکھتی ہیو ں۔ وہ کہتی ہیوںں یکدم ایسا کرنےسےاسےشدیدا فسردگی کا دورہ پڑھ سکتا”۔
میوںں نے کہا۔
اپنےسیکشن سے کچھ کو لوگ اپنےساتھ لےجاؤ۔تمہارا گروپ تو یہ کام دن رات کرتا ہے”۔ "
ِ“ٹھیک میوںں آفریدی اورخٹک کوساتھ لے جاؤوںں گا۔ مگر ان کےاخراجات کہاوںں سےآیئوںں گے "
ہم ان کے اخراجات کو ڈپارٹمنوٹں کےسالنہ تخمینہٴ حساب میوںں جذب کرلیوںں گے”۔ "
" لیکن ان کو بھیس بدلے ہوۓ شامل ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ بات ریمشاں سے چُھپانی ہوگی۔ وہ ان تجربات کوان کی
اصلی شکل میوںں محسوس کرنا چاہتی ہے"۔
میوںں ،سکینہ اور نسیم کانفرنس روم میوںں تھے۔ ڈاکٹرجمیلہ ،سادیہ اور شان آڈیّو لنک پر۔
ہمیوںں ایک سچی کہانی کا پتہ چل ہے جو کہ نہ صرف ہمارے معاشرہ کی بلکہ ہرمعاشرہ کی برائی ہے”۔ نسیم“
نے کہا۔
لیکن اس کی لکھائی میوںں چار مسئلہ ہیوںں جن کے حل کۓ بغیر کام آگے نہیوںں بڑھ سکتا۔ سکینہ نے بات آگے
بڑھائ۔
پہلےتومیوںں دوسرے کام کر رہا ہوو ں۔ دوسرے یہ خرچہ میری حیثیت سے باہر ہے میری آمدنی وہ ہی ہے جو “
دوسال پہلے تھی”۔ میوںں نے مسکرا کر کہا۔
اور ہماری شرکت ،لکھنے والے کو تنخواہ سمیت چھٹی دینے کی ہے " -سکینہ نےقہقہ لگا کر کہا۔"
ںںںںں کودئے سکتی ہںوںںںں PSTDمیں اس"
ہر مؤقف شائع کرسکتی ہوںںں اوراس سے حاصل ہوا پیسہ ریمشا
اور ان ٹریپ کےدوران اس کی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرسکتی ہوو ں"۔ ڈاکٹر جمیلہ نے کہا۔
میرا خیال ہے کہ بقیہ پیسہ ہم امدای سرمایہ میں جمع کرسکتے ہیں -ل س انجلیس کی طرف سے پانچ ہزار "
ںںںںںںںں کو
ںںںںںںںں گے۔ جب کتاب شائع ہوجاۓ تو ریمشا
لکھ لیںںں۔ شروع میں ں شان اور میں یہ پیسہ ہمارے پاس سےدی
امریکہ امدای سرمایہ حاصل کرنے میوںں شرکت کے لیے آنا ہوگا۔اس کےجہاز کا کرایہ بھی ہم دیوںں گے”۔ سادیہ نے
کہا ۔
اوراگراتنا فنڈ نہیوںں مل اوراگر میوںں لکھنےوال ہووںں تو مجھے بھی آنا چاہیے“۔ میوںں نےقہقہ لگا کر کہا۔ “
دیکھا نا شان -بھائی بالکل ویسے کہ ویسے ہی بدھوہیوںں – نسیم اورسکینہ کی صحبت میوںں بھی نہیوںں بدلے”۔ “
سادیہ نے بھی قہقہ لگایا۔ “ ارے یہ تو سب جانتے کہ اگرمصنف کو کتا بیں بیچنا ہوں تواس کو آٹوگراف دینا ہوگا
“اس لیے آپ کو بھی ُبلناہوگا۔ لیکن آپ کاٹکٹ میوںں خود دووںں گی۔ مجھےمیرے پیارے بھیا کو پیار کرنا ہے
میں ریمشاں سے ملنے ڈاکٹر جمیلہ کے گھر پر پہونچا۔ میں نے دستک دینے کے لیے ہاتھ اُٹھایا تھا کہ دروازہ
ںںںںں اور پیشانی کو
ںںںںںںںںںں قدم اُٹھاؤںںں میں زمین پرتھااور ریمشاںںں بےتحاشہ میرےںں
گالو کھٌل اوراس سے پہلے کے می
چوم رہی تھی۔ میوںں نے آہستہ سےاس کوالگ کیا۔
پگلی تجھے کیا پتہ ہے؟ وہ بہت خوش تھی -میوںں نےدل میوںں کہا۔ یہ توبالکل سادیہ ہے۔
ںںںںں نا ؟
ںںںں گۓ۔ بولی
آپ میری سچی کہانی پر ایک کتاب لکھی
میں نےاس کے چہرے سےخوشی کوگزرتےاور رنج کوابھر تے دیکھا۔ جوچہرہ لمحوں پہلے ایک تازہ گلب تھا
اب ایک مُرجھایا ہوا پھول تھا۔ وہ مڑی اور روتی ہوئی گھر میوںں بھاگی۔ میوںں اس کے پیچھے بھاگا۔ اس سے
ںںںںں آپ
ںںںںںںںں ریمشاں کی دیکھ بھال کرتی ہو ٹںںںر جمیلہ نےمجھے روکںں
لیا۔ می ںںںںں ریمشاں کو پکڑ تا۔ ڈاک
پہلے کہ می
ڈرا ئینگ میوںں بیٹھیوںں -ریمشاوںں بائی پولر ہے۔ بائ پولر کےمریض کے مزاج کی کیفیت مزاج تیزی سے ذیادتی
یا کمی میوںں تبدیل ہوتی ہے۔ اُن کےخوشی اورغم کےلحمووںں میوںں انتہا ہے۔ اُن کا موڈ ایک لحمہ خوش ہوسکتا ہے
اور دوسرے لمحے رنجیدہ ۔ ریمشاوںں کو کچھ وقت دو ،وہ آۓ گی۔
ڈاکٹر جمیلہ صحیح تھی۔ ریمشاوںں دس منوٹں میوںں آئ اور میری گود میوںں سرکرلیوٹں گی۔
کردیںںںںں “
“بھیا مجھےمعاف ںں
“اس کے با لووںں میوںں انگلیووںں سے کنگھی کرتے ہوۓ میوںں نے پیار سے کہا۔ “میری پگلی
قند ھار
افغانستان جانے کے لئےسرحد دو جگہ سے کراس کی جاسکتی ہے۔ ایک راستہ تُرخم پردُرہ خیبر سے ہے جو
پشاور کو افغانستان کےشہر جلل آباد سےملتا ہے -دوسرا بلوچستان میں کوئٹہ چمن سے ہے جو کوئٹہ کو
افغانستان میوںں قندھارسےملتا ہے۔ قندھار جانے کا قریبی راستہ کوئٹہ کی سڑک کےذریعہ ہے۔ اس ٢٠٠میل
کے سفر کے لیے ایک ٹوٹی اورگھڑوں سے بھری ہوی دو طرفہ سڑک ہے۔ راستہ نہ صرف دشوار ہے بلکہ رات
کا سفر خطرناک بھی ہے۔ رات کولٹیرے اور ڈاکو اس پر حکومت کرتے ہیو ں۔
ٹںںںںںیفیکیٹ“ لینا
ںںںںںںںںںںںںںںں سفر کےلئے“ نوابجیکشن سر
ہمیںں سفر کےلیےضروری کاغذات بھی لینے تھے۔ قبائلی علقہ می
ہوتا ہے۔
ںںںںںںںںںں
ںہں ریمشا
بس کی سرویس بند تھی لہذا ایک منی وین اور ایک نوجوان ڈرایئور کو نوکر کیا۔ ہم نےیہ فیصلہ کیا ک
اجنبیوںںںں
ٹںںںںک بھی اس وین میںںں ہوںں گے۔ وہ ںں کریںںںں گے۔ آفریدی اورخ
اور میں شوہراور بیوی کی حیثیت سےسفر ں
کیطرح ہمارے ساتھ سفر کریں گے۔ رات کاسفردیادہ خطرناک ہے لہذا ہم نےدوسری صبح کو نکلنے کا منصوبہ
بنایا -
کوئٹہ اپنےدُرہ بولن کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ درہ کوئٹہ اورقندھار کو مل تا ہے۔ شہر کا بڑا بازار جناح روڈ
ٹںںںں
ںںںںں ساج کھائی۔ ساج ،دنبہ کا روس
ںںمی
ںںںںںںں۔ ہم نےدوپہرپرواقع ہے۔ دوسرے بازار قنداری ،لیاقت اورسورجںں
گنج ہی
کیا ہوا گوشت ہوتاہے اور کوئٹہ میں بہت شوق سے کھایاجاتا ہے۔ کوئٹہ کی کباب کی دوکانیں بھی بہت مشہور
ہیو ں۔
مشرق میں دس کلومیٹر پرایک خوبصورت جھیل ہے جس کا نام حنّا ہے۔ ریمشاں پیڈل بوٹ میں بیٹھ کر بہت
خوش ہوئی۔
٥٠کیلومی ڑ ہر خوبصورت وادیِ پِشین ہے جہاوںں پہاڑووںں میوںں سوراخ کرکےانگوری باغووںں کے لئے پانی حاصل
کیاگیا ہے۔ یہاوںں سیب ،انگور ،آلو بخارہ ،آڑو اورخوبانی کی پیداوار ہوتی ہے۔ جھیل سےشام کو واپس آ کرہم نے
کیفے بلدیہ میوںں مقامی بکرے کےگوشت سے تیار کیا ہوابہترین پُلؤ کھایا۔
سورج کی پہلی کرن سے پہلے ہم لوگ منی وین میوںں سوارتھے -تھوڑ ١فاصلہ تہہ کرنے کے بعد شہر کی
کار،ںںںرک ،بائسکل ،رکشا ،گدھاگاڑںںیاں لوگوں
ڑںںںںںںک مصروف رہی۔ ٹگہماگہمی اور کھچا کھچ ختم ہوگی لیکن س
ںںںںںںںںںںںوں میں ڑںںںھ رہی تھی۔ ہندوکش کا شمار پاکستان کےڑں
اونچے پہا ںںںںںں۔ ہماری وین ہندو کش پرچ
ںںتھی
سے بھری ہوئی
ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک مقام ہراسکی اونچائی ٢٥ہزار فیوٹں سے ذیادہ ہے۔ ہماری سڑک سانپ کیطرح قدم قدم
پر بل کھاری ہے۔ اور یہ لگاتاہےکہ بس کےڈرایئور کی ایک غلطی اورہم اللہ سے باتیوںں کررہے ہونگے۔
ںںںںںںںںںںںں تک
ںںںںںںںںں۔ یہ سرحدی شہراسپن بلڈوک ہے۔ اسکےاردگرد میلو
ںںآتے ہی
اچانک ہمیںں ہرطرف خیمے ہی خیمےنظر
خیموں کا شہرآباد ہے۔ افغانستان کے ہزاروں مہاجرخاندان ان خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر
ںںںں پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیںں
ریمشان اُداس ہوگی۔ یہا -
سڑک جو اب تک پکی تھی۔ یہاوںں سے گڑھووںں کا ایک مجموع بن گی ہے۔ ہرقدم پر ہماری منی وین اُچھل رہی ہے
اور ہمارا سر اُسکی چھت سےٹکرا رہاہے۔ دھول اُڑ رہی ہے اور درجہ حرارت ١٢٠ڈگری ہے۔ سڑک
ٹںںں کا
ںںںںںںںںںں جو ہمیںں حطرناک روڈ اور ایکسیڈین
نظرں آتے ہی
ںںںں طرف ہر قسم کی گاڑںیوں کے ڈھانچے ں
کےدونو
ںیںںںں
احساس دِلتے ہ -
تین بجےہم قندھار کےاطراف میں تھے۔ ریمشاں بہت خوش تھی ۔ وہ مجھے اپنا شہردیکھانا چاہتی تھی۔ ہم
نےاس کےگھر کی طرف جانے کےلئےلمبا راستہ لیا۔
بھائ جان یہ دیکھئے اس درگاہ شریف زیارت میوںں حضور صلم کاایک لبادہ ہے جو کہ بخارہ کےامیر نے بابا“
-دُرانی کو تحفہ میں دیا تھا۔“ “ کیا اُسے عام لوگ دیکھ سکتے ہیں۔“ میں نے پوچھا
نہیوںں بھائ جان۔ میوںں نے نانی سے سنا تھا کے کہ انہووںں نے ٢٠سال کی عمر میوںں اس کو دیکھا تھا۔ اب “
“محافظوں کےعلوہ اس کو دیکھنے کا اعجاز صرف طالبان کے مُل عمرکو مل تھا
ںںںںں۔ یہاںںںں ایک عورت اور ٨٠غیرملکی مرد دفن ہیوںں جنہووںں نے “
یہاںں طالبان اور القاعدہ کےممبر دفن ہی
قندھار کےائر پوروٹں اور اسپتال کونارتھ الئنس اور امریکووںں کے قبضہ سے بچانے کے لئے جان دے دی“۔
بھائ آپکو پتہ ہے۔ انہیوںں موقع تھا کہ چلے جاتےاور انہیوںں پتہ تھا کہٹھہرے توموت لزمی ہے وہ جمےرہے “
اوراپنی جان دے دی“ ۔ “ مجھے پتہ ہے میوںں یہاوںں تھی“ ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ میوںں نے اپنےرومال سےاسکی
بھیگی آنکھیں صاف کیں۔ “ نانی کہتی تھیں اس قبرستان کی راکھ میں شفا ہے“ ۔ ریمشاں نے جھک
کرتھوڑی مٹی اٹھائی اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی۔ “ اب ہم میرےگھرچلتے ہیں۔“ اُس نے تھکی ہوئی آواز
میوںں کہا۔
ریمشاوںں نے وین کے ڈرایئور کو اپنےگھر کے راستہ کی راہ نمائی کی۔ ہر سڑک پر ٹینک کےگزرنے کے نشانات
ےٹٹی ہوئی دوکانووںں میوںں دوکان دار اپنا مال بیچ رہے ہیوںں ۔ چوراہے کو
ہیوںں -شہر سے باہر سڑک کے کنار و
کراس کرنے سے پہلے ہماری منی وین رکی ،ایک بچی کہولووںں کے بل گھسیٹی ہوئی وین کے نزدیک آئی۔
پہلے میں نے سوچا کہ اس غریب لڑکی نے کسی کا کیا بیگاڑا تھا لیکن میں فورا سمجھ گیا کہ اس بچی کا قصور
افغانستان میوںں پیدا ہونا ہے۔
گاووںں کی زیادہ ترگھر برباد ہوچکے تھے -ہرگھر پرگولیووںں کےنشان تھے۔ جدھر نگاہ دوڑاؤ -لولے ،لنگڑے
ںیںںںں۔ امریکنوں ں ایسی
ڑںںںںںےڑبںںںے موجود ہ mines
بچے اور لولے ،لنگ استعمال کی تھیںںں جو کھلونوںںں کی
طرح لگتی ہیوںں اور بچےان کو کھلونا سمجھ کے اٹھالیتے تھے۔ .ہم اب گاووںں کی آخری سرے پر
تھے۔گھرسامنےتھا۔ میوںں نےڈرائیور کو کہا کہ وہ جا کرگاووںں کی سرائےٹھہرجائے ۔
سامنےاُجڑے ہوئے میوے کے باغات تھے ۔ جن میوںں کبھی پھل اُگتے ہووںں گے -سیدھ ہاتھ پربہتا ہوا پانی تھا۔
اوراس کے کنارے پردو کچے مکان تھے۔ جن کی دیواریں گولیوں کے نشانوں سے بھری تھیں۔ اور ایک گھر
کا اگل حصہ غائب تھا۔ ریمشاوںں رو رہی تھی ۔
یہ میراگھر ہے جہاوںں میری نانی نےمجھ کو پال۔“ ریمشاوںں نے روتے ہوے کہا۔“
وہ راستہ میرے اسکول کوجاتا ہے“ ۔ “
یہ باغ ہے جہاوںں میوںں زبیدہ کےساتھ آنکھ مچولی کھیلتی تھی“ ۔“
بھائی آپ میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیوںں نا“ ۔“
اس نےمیرا ہاتھ پک ڑ کرمجھ ایک درخت کی پیچھے کھڑا کردیا۔
مجھ ایسا لگا جیسے کوئ میرے دل میوںں چاقوچُبھا رہا ہو۔ میوںں بڑھ کراسےاپنےگلے سےلگا لیا۔
ںںںںںںںںںںں
ںںںںںںںںںں ہرطرف اونچی سوکھی گھانس اُ گ رہی تھی۔ ایک کونےدو کچی قبری
ہم گھر کےاندرداخل ہوئے۔ دلن می
تھیو ں۔
“
ںںںں قبروں
ٹںںں گی اورایک ایک ہاتھ دونو
ںںںں کے درمیان زمین پرلی
وہ میری نانی اور ماںں کی قبریں ہیںں“۔ وہ قبرو
پہ رکھ دیا -
میوںں چبوترے پر لیوٹں گیا۔ اور خاموشی اُسے دیکھتا رہا۔ پتہ نہیوںں کب میری انکھ لگ گی۔
ںںںںںںںںںںںںںی
ںںںںںںںں کافی بڑا ہے۔ اس نے پشاور دیکھا ہے۔ٹںوہ میری بی
ںںںںا بھائی حسن ہے ۔ وہ عمر می
وہ دیکھو وہ جویریہ ڑکاں ب
اور اپنی بہن کو پشاور کے قصےسنارہا ہے۔ انہیں شہر کی باتیں سننا کر سُہانے خواب دیکھلتا ہے۔ مجھے یہ
لڑکا بلکل پسند نہیو ں۔ مگرجویریہ کو اس کے قصووںں کو سننےمیوںں مزا آتا ہے “ ۔
“آج میری بیٹی اسکول سے واپس نہیوںں آی -بہت ڈھونڈا مگر اسکا نشان نہیوںں مل۔ حسن کا بھی پتہ نہیوںں تھا۔“
آج میری بیٹی کا خط آیا ہے۔ پتہ نہیوںں وہ کہاوںں ہے؟ -
دیکھو ریمی بیٹا ،میوںں نے یہ سب خط تمہارے لئے سنھبال کر رکھے ہیو ں۔
آج میری بیٹی لووٹں کرگھر آگی -مگرتواتنی بیمار کیووںں ہے؟
یہ کون ہے؟ یہ تو میری پوتی ہے۔ بیٹی تم مجھ کو دو سال کی لگتی ہو۔
ںںںںںںں ؟
“نانی ،وہ میری ماںں کو زمین میں کیوں چھپا رہے ہی
ریمی کپکپا رہی تھی۔ میوںں نے سفری تھیلے سےکمبل نکال کر اس پر پھیل دیا۔
جب میں اردگرد دیکھ کر واپس لوٹا تو وہ جاگ گی تھی اور مکان سے دور بیٹھی تھی۔ مجھےدیکھ کر وہ
ںںںںںںںںں
ںںںںںںںںں گے۔ اب کبھی ایسا نہ کرین۔ وعدہ کری
“میری طرف دوڑی۔ “بھائی جان۔ آپ مجھے ڑں
اکیلچھو
پہل خط
ماں ماں ایک سال ہوگیا میں نےبابا اورتم کونہیں دیکھا۔ مجھ پتہ ہے کہ ماں میں نےتجھ کو بہت دکھ پنہچایا
ہے۔ حسن نےمجھ سے کہاتھا کہ وہ اورمیوںں پاکستان جاکرشادی کرلیوںں گے۔ میوںں اس کےدھوکےمیوںں آگئی۔ جب
ہم پشاور کی سرحد پر پہنچےتواس نےمجھےایک عورت کےساتھ بھیج دیا اور کہا کہ میوںں بازار سےسامان
لےکرآتا ہوو ں۔
وہ دن اور آج کا دن میوںں نےاس کونہیوںں دیکھا۔ ماوںں میوںں اب آپ کو اپنا منہ نہیوںں دیکھنے کےقابل نہیوںں رہی۔
میوںں اب پاک نہیوںں ہووںں ماو ں۔ مجھ کومعاف کردو۔
تیری بیٹی
٭٭٭
ہمیوںں قندھارسےلوٹےہوۓ دو دن ہوۓ تھے۔ ریمشاو ں ،ڈاکٹرجمیلہ کی طیبی نگرانی میوںں تھی۔
”گھڑ بڑ ہوگی “
-کیا”و۔ں آفریدی نےسوال کیا “
ریمشاوںں گھر سے بھاگ گی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ پشاور کا رُخ کرےگی۔ کیاپشاور میوںں اس وقت اپنےلوگ “
”ہںں؟
ی
”ہںں “
ا
ٹیکسی کا اڈے ،افغانستان کی سرحد اور مہاجروں کے کیمپ پر اپنے آدمی لگا دو۔ اور جیسے ہی کوئ “
-اطلع ملے بتانا “ “ ٹھیک ہے”۔ آفریدی نے کہا
میوںں سکینہ کےدفتر کوکال کرنےوال ہی تھا کہ سکینہ میرے دفتر میوںں داخل ہوئ۔
وہ لڑکی بےوقوف ہے۔ ڈاکٹرجمیلہ کی کال آئ تھی“۔ سکینہ نےغصہ میوںں کہا۔ “
ںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں میری مدد
ٹںںںں اور پشاور کےڈی۔آئ۔جی پولیس سےذاتی درخواست کی ہے کہ وہ اس کوڈھونڈنےمی
میں نے کوہا
کریو ں”و۔ ں
ارے اپنی زبان سنھبالیے۔ آپ میری بہن کو بےوقوف کہہ رہیوںں ہیو ں”۔ میوںں ہنسا۔ “
تو پھر کیا کہووں ؟ وہ اسے کام کیووںں کرتی ہے؟” سکینہ نےمعصومیت سے کہا۔ “
تم اس کو پگلی کہہ سکتی ہو۔ وہ بیمار ہے” میوںں نے ہنس کر کہا۔ “
میوںں یہ خبرسن کر بہت پریشان ہوو ں”۔ سکینہ نے کہا۔ “
اس سے پہلے کہ وہ کسی خطرے میں پڑے ہم اس کو تلش کرلیں گے”۔ میں نےسکینہ کو تسلی دی لیکن “
میرا دل بھی ڈوب رہاتھا۔
٭٭٭
ںںںںں
ںںںںںںںںں۔ جب کم عمر بچےاور بچیو
ٹںںں ان کی لڑکیوں کو کئی طریقےسے حاصل کر تے ہی عبدل غفارخان کےایجن
والی افغانی فیملی سرحد پر پہنچتی ہے عبدل غفارخان کےایجینٹ اس فیملی پرنگاہ رکھتےہیں۔ وہ اس فیملی کو
کیمپ میوںں جگہ لینے میوںں مدد کرتے ہیو ں۔ ایک ایجینوٹں یہ ظاہر کرتا ہے کے وہ ان کی ایک لڑکی سےشادی
کرناچاہتاہے اور پیسووںں کے بدل وہ اس پر تیار ہوجاتے ہیو ں۔ یہ شادی جھوٹی ہوتی ہے اور لڑکی عبدل غفارخان
ںںںںںںںںںںں باپ
ںںںںںںں کواغوا کیاجاتا ہے کچھ کوخریدلیاجاتا ہے۔ وہ غریب ما
کی حویلی میں منتقل کردی جاتی ہے۔ کچھ بچو
ںںںںںںںںںںںںںں۔ بعض خوبصورت بالغ لڑ ںکیوں
ںںںںںںںںںںں اپنے ایک بچے کو پیسے کے لیےںںبیچ دیتے ہی
جن کے چھ سات بچے ہوتے ہی
ںںںںںںںںںںںںںں اس مال کوعمر ،خوبصورتی ،اور کنوارنا کو روزگاری دلنے کے بہانےحویلی پہنچا دیاجاتا ہے۔ںں
نیلم گھرمی
ںںںںںںںںںںںںںں کے،ڑلںںںکیاں اورعورتوں پن کےمطابق تقسیم کیاجاتا ہے۔ ہراتوار یہ نیلم ہوتا ہے۔ پاکستان کا ڑں
امیرطبقہ ان ل
کوجنساتی غلم بنانے کے لیےخریدتے ہیو ں۔ کچھ تاجر ،ان کو پنجاب اور کراچی کےطوائف خانووںں کےلیےخریدتے
ہیو ں۔ نوجوان خوبصورت لڑکے ،بچیاوںں اورعورتیوںں مشرق وسطی والےخریدار اپنےشیخووںں کے لیےخریدتے
ہیں جوان کو جنساتی غلمان کی طرح رکھتے ہیں۔ خریدنےوالوں میں یورپ کےطوائف خانوں کے بھی
ںںںں کو برآمد کیاجاتا
ںںںںںںں کی تعداد میں دوسرے ملکو
ںںںںں -پاکستان کی منڈی سے یہ مال ہرسال ہزارو تاجرہوتے ہی
ہے۔اس مال میوںں پاکستانی ،افغانی ،ایرانی ،بنگلدشی ،فلیپینی ،برمی اور تھائی مال بھی شامل ہے۔
٭٭٭
دوسرا خط
ماں
میں ننگی ہوں -ایک عورت مجھے پردئے کے پیچھے سے اسٹیج پردھکیلتی ہے۔ماں ،کمرہ مردوں سے بھرا
ہے۔ میوںں اپنے کوچھپانے کی کوشش کرتی ہوو ں۔ مگر کہاوںں اور کیسے ؟ میرا کندھا اس عورت کی جک ڑ میوںں ہے۔
میوںں ایک ہاتھ سےاپنا اوپراور ایک ہاتھ سے نیچے کا حصہ چھپانے کی کوشش کرتی ہوو ں۔ ایک مرد ،عورت
سے کہتا ہے کہ اس لڑکی کے ہاتھہٹاؤ۔ وہ میرے ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔ دوسرا مرد کہتا ہے اس کوموڑو۔ایک مرد
پوچھتا ہے کیا یہ کنواری ہے۔ عورت بلند آواز میوںں کہتی ہے۔ یہ دونووںں طرف سے کنواری ہے۔
ایک ہزار۔۔۔ دو ہزار۔۔۔ تین ہزار۔۔۔ چار ہزار۔۔۔
پانچ ہزار ایک -پانچ ہزار دو -بانچ پزار تین۔ بولی بند۔
ماوںں تیری بیٹی کی عصت کی قیمت پاکستان میوںں صرف پانچ پزار رو پیہ ہے۔
تیری بیٹی
٭٭٭
ریمشاں نہا رہی ہے۔ چاۓ بنواؤں” اور بغیرجواب کا انتظار کےگھر کی دیکھ بھال کرنےوالی کوناشتہ تیار “
کرنے کو کہا”۔
“ وہ اپنی ماوںں کے کے خط پڑھ رہی ہے۔ اوراُس سفر پرجانا چاہتی ہے جواُس کی ماوںں سے زبردستی کروایا گیا
تھا”۔
ہال سے قدموں کی آواز آئ اور ہم دونوں خاموشی سےچاۓ پینے لگے۔ ریمشاں نے کمرے میں دا خل ہوکر
مجھےسلم کیا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گی۔
ںںںںںںں کرتی “
”کیا میری بہن مجھ سے پیار نہی
جاؤںںںں گا “
ںںںںں آج شام تم کواسی جگہ لے ں
تم وہی سفر کرناچاہتی ہو جوتمہاریںماںںںں سے زبردستی کروایا گیا۔ می
جہاوںں عورتووںں اور بچووںں کی تجارت ہوتی ہے“ میوںں نے کہا۔
ہاو ں۔ میوںں ہر وہ چیز خود کرناچاہتی ہوو ں۔ جومیری ماوںں سے زبردستی کروائی گی”۔ “
” یہاوںں سے ہمارا راستہ جدا ہوجاتا ہے۔ “
” وہ کیووںں ابھی ابھی تو آپ نے کہا تھا۔۔۔ “
میوںں نے ریمشاوںں کا جملہ کاوٹں دیا” میوںں نے کہا تھا تم وہی سفر کرنا چاہتی ہو جو تمہاری ماوںں سے زبردست کروایا
”گیا۔ کیا میں نے کہا کہ خود ؟
جی نہیوںں “۔ “
ںںںںںں “
یہ سفر تم کو میری حفاظت میںں کرنا گا۔ اور تم اس کو دیکھوگئ ،محسوس کروگی مگراس کا حصہ نہی
بنو گی۔ تم میری ننھی ہواور تم کو میری بات مانی پڑھےگی۔ اگر منظور ہے تو۔۔۔ ”۔
منظور۔ میوںں نےسب کچھ کھودیا ہے۔ آپ ہی تو ایک رہ گۓ ہیو ں”۔ "
ریمشاوںں نے میری بات کاوٹں دی اور اپنے بازو میری گردن میوںں ڈال کر اپنا سرمیرے کندہے پر رکھ دیا”۔
٭٭٭
اب ہم ائر پوروٹں کے سامنے سےگزر رہے تھے۔ تھوڑی دیر میوںں صاحب زاد گل روڈ آگیا۔ آفریدی نےگاڑی
جمرود رووڈں کی طرف موڑیو۔ں
٭٭٭
آفریدی نےگاڑی ایک پرائیووٹں روڈ پرموڑ دی۔ سڑک کے آخرمیوںں ایک عالیشان حویلی تھی۔ دوردور تک کوئ
مکان یا حویلی نہیوںں تھی۔ دروازے پر دوگارڈ بندوقیوںں لیےکھڑے تھے ان میوںں سے ایک نےہم سے کاغذات طلب
کیے۔ آفریدی نے ہم سب کے شناخی کاغذات گارڈ کےحوالے کردیے۔گارڈ نےانہیوںں اپنی لسوٹں سے ملکر دیکھا۔
اس نے کچھ وقت لیا اور میوںں نےاپنی پشانی پر پسینہ محسوس کیا۔گارڈ نے آفریدی کواندر جانے کا اشارہ کیا۔
دوسرےگارڈ نےگیوٹں کھول۔ ہماری گاڑی اندر چلی اور نےگارڈ نےہمارے پیچھےدروازہ بند کردیا۔ میوںں نے
رومال سے اپنی پیشانی پر سے پسینہ صاف کیا۔ سڑک کےدونووںں طرف درخت تھےاور تقربیا سوگز کے فاصلے
پرحویلی تھی۔ محل کےدروازے پر پھر سے کاغذات دیکھے گے اور پھر ہم اندر داخل ہوۓ۔ ایک خوبصورت
ہوسٹیس نےہمارا استقبال کا اور ہمیوںں ایک کمرے میوںں لےگی جہاوںں اندازً بیس یا پچیس میزیوںں لگی تھیو ں۔
ہوسٹیس نے ہمیوںں ایک ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جس پرصرف تین کرسیاوںں تھیو ں۔ ہم نے ریمشاوںں کو اپنے
درمیان میوںں جگہ دی۔
فوٹں کے برابر لگ رہا تھا۔ کمرے کے بیچ میوںں اسٹیج تھا۔ 30 سے 25کمرہ کی لمبای اور چوڑںائ میں
میزوں اور کُرسیوں کو اسٹیج کےاردگرد اس طرح لگایا گیا تھا کہ ہرمہمان اسٹیج کو مکمل طور پر دیکھ
سکے۔ ایک خوبصورت سی لڑکی ہماری میز پرآئ۔ اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کرایا۔
جب سب جگاہیوںں بھرگیوںں تو دروازے سے ایک عمر رسیدہ شخص داخل ہوا اور اسٹیج کےقریب بیٹھ گیا۔ اس
کے ہاتھ میوںں تسبی تھی۔ وہ تسبی پڑھ رہا تھا۔
آفریدی نےمیری طرف جھک کر کہا“۔ یہ عبدل غفارخان ہے”۔
اسٹیج کے پردے کے پیچھے سےایک صحت مند عورت اسٹیج پرآئ اوراس کےساتھ بیس تقریباً کم عمر بچے تھے
ںںںںںںںںںں طرف
ںںںںںںںںںںںے ہوگۓ۔ ان کےدونو جن کی عمریں دس سے بارہ سال کےدرمیان ہونگی۔ بچے ایک قطارڑں
بنا کر کھ
گارڈ تھے۔ لڑکےخوف ذرہ اور گھبراۓ ہوۓ سے تھے۔
عررت نے قطار سے پہلے لڑکے کوسامنے آنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا اپنی جگہ سے نہیوںں ہل۔ ایک گارڈ نے اس
کوذرا سا دھکادیا۔ لڑکا سہما سہما آگے بڑھا۔
اب کم عمر لڑکیوں کی باری تھی۔ دس سے بارہ سالہ خوف ذدہ لڑکیاں کمرے داخل ہوئیں۔ بولی سات ہزار
پرشروع ہوئ۔ اور پندرہ منوٹں میوںں تمام لڑکیاوںں بک چکی تھیو ں۔
کمرے میں اب ایک ذیادہ عمر کی لڑکی داخل ہوئ اس کی عمر شاید پندرہ سے سولہ سال ہوگی۔ بولی آٹھ ہزار
شروع ہوئی۔
کسی نے کہا “ مال دیکھاؤ”۔ عورت نےلڑکی کو کرتہ اتارنے کو کہا۔ جب لڑکی نےحکم نہیوںں مانا۔ گارڈ نے
اسکےہاتھ پک ڑ لیےاور عورت نے قینچی سےاس کی قمیض کاوٹں دی۔ لڑکی نے اپنی چھاتی کو ہاتھووںں سے
چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ قیمت اب نو ہزار تک پہونچ گئی۔
اور دیکھاؤ۔گارڈ نے پھرہاتھ کو پیچھے کر کے پک ڑ لیا۔ عورت نےبڑھ کر لڑکی کی شلوارگرادی۔ لڑکی
نےایک ہاتھ سی چھاتی اور دوسرے سےسامناچھپا نے کی کوشش کی۔ وہ رو رہی تھی۔ عورت نےاس کو
زبردستی موڑا اور اس کی گردن پک ڑ کر اس کو کمر کے بل جھکا دیا۔
میوںں نے ریمشاوںں کی طرف دیکھا۔ اس نےدھیرے سے کہا " بھیا میوںں اُلٹی کرنے والی ہوو ں” ۔ میوںں نےفوراً اس
کا ہاتھ ایک طرف سے پکڑا اورآفریدی نے دوسری طرف سےاور ہم ہوا کی طرح سےحویلی سے باہرتھے۔
ریمشاوںں نےحویلی کے باہر اُلٹی کردی۔
ل ہور
ماوںں ۔ںں
میوںں ایک اندھیرے کمرے میوںں ہووںں ،میرے ہاتھ پیچھے بندھے ہوۓ ہیو ں۔
میرا ایک پاؤوںں چار پائ کےبائیوںں طرف اور دوسرا دائیوںں بندھاہے میرے منہ پرٹیپ لگی ہے۔
میوںں تکلیف سے چیغتی ہووںں مگرمیری آواز منہ سے باہرنہیوںں نکل سکتی۔
پُرانےلہور کی چار دیواری کےاندرشمالی حصہ میں تین اور چارمنزلوں کی عمارتوں سے بنی ہوئ ایک بستی
ہے جس کا نام شاہی محلہ ہے مگریہ جگہ ہیرا منڈی کےنام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کےایک
زمانےمیوںں یہاوںں فنکار رہتےتھے۔ میوںں اور ریمشاوںں الفیصل ہوٹل کےریسٹورانوٹں میوںں بیٹھےچائے پی رہے ہیو ں۔
یہاں کھانےمیں دال ،سبزی ،دبنہ اور بکری کا سالن اور روٹی ملتی ہے۔ کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ یہ جگہ
روشنی گیٹ کےقریب ہے۔ سڑک پر ٹھیلے والےگنے کا رس بیچ رہے ہیں۔ کچھ ٹھیلوں میں آموں سے بھری
ہوئ بالٹیاوںں ہیو ں۔ ریسٹورانوٹں میوںں عورتووںں کےبیٹھنے کی جگہ کےاردگرد پردہ ہے -الفیصل ہوٹل فوروٹں روڈ
پرواقع ہے۔ فوروٹں روڈ مسجد سےگزرتا ہوا روشنی گیوٹں پرختم ہوتا ہے یہاوںں سےاندرونی شہر کےلوگ
حضوری باغ میں داخل ہوتے ہیں پھروہ بادشاہی مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں یا عالمگیر دروازے کےذریعےقعلہ
ںںںںںںںںںںںںںں پر رکشہ ،موٹںراور بائسیکل
ٹںںں روڈ قعلہ کی دیوار کےساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہاںںںں سےفورںیںںںں۔ یہا
میں جاسکتے ہ
کوٹھیک کرنےوالووںں کی دوکانیوںں ہیو ں۔ حجام فوٹں پاتھ پربیھٹے لوگووںں کے بال کاوٹں رہے ہیو ں۔چوک
کےدوسری طرف شرفاء کا محلہ شروع ہوجاتاہے۔
ںںں
ںںںںںں اورشام ،ہیرا منڈی می
ںںںںںں میں گھوتےہی
ںیںںںں۔ دن میں ں ہم لہور کےمختلف سیرگاہو
ہم یہاںںں چار دن سے ہ
ںںںںںںںں اور ہم اندرونی علقہ میںںں
ںںںںں ہوتی ہے تاکہ لوگ اس کی طرف توجہ نہ دی
ںیںںںں۔ ریمشاں ں ہمشہ برقعے می
گرازتے ہ
ںںںںںں
ںںںںںںںںںںںں میں گھومتا ہے اور کنجریو
نہیںں جاتے۔ ہر روز کی طرح آج بھی آفریدی تحقیق کرنےچل گیا۔ وہ ہرروز گلیو
سےگفتگو کرتا ہے۔ اس کا مقصدایسی طوائف کو تلش کرنا ہے جو پندرہ ،بیس سال پہلےیہاں کام کرتی تھی -
پاکستان میں عورت اورمرد کا بغیرشادی کےہم بستری کرنا قانونی طور پرجرم ہے۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی
ہے ہیرا منڈی جوکہ دن میوںں ایک عام تجارت کا بازار ہے اب جسمووںں کی تجارت کا بازار بن جاتا ہے۔
ایک زمانہ تھا کہ چکلہ نےبہت فروغ پایا۔ اس وقت چکلوں میں خوبصورت عورتوں گاہک سےہم بستری کم
کرتی تھیں انکے ساتھ بیٹھ کران سے ادب ،شاعری اور فنون لطیفہ پرباتیں ذیادہ کرتی تھیں ،اس کےعلوہ
مجرا یا ناچ کرنےوالی عورتیں امیروں کا دل ناچ کرلبہا تی تھیں ۔ طوائف کوٹھا اس زمانے میں زی عزت جگہ
ںںںںںں کوں
اپنںے ل
ںںںںں پرامراء ،تعلیم یافتہ اور شریف خاندان کےلوگ اور روشن خیال طبقہ ڑ
سمجھی جاتی تھی جہا
کلسیکل موسیقی ،اردو شاعری آداب اور تہذیب سیکھنے بھیجتا تھا۔ ان کوٹھوں میں سے کچھ پر مصنف ،
موسیقار اور ادیب تخلیقی خیالت کے لیے جمع ہوتےتھے۔ یہ ایک لذائذ نفسانی اور خوشیووںں کی دنیا تھی۔ ان
ںںںں
ںںںں۔ یہ طوائفی
ںںںںں کی معاشوقہ بن جاتی تھی
جگہوںں کی طوائفیں مال دار ،با رسوق اور اعلي عہدے کے ںں
لوگو
اعلی درجہ کی طوائفیوںں کہلتی تھیو ں۔ ان کے نیچے کی دوسرے درجہ کی طوائفیوںں تھیوںں جن کی کیفالت کرنے
والے ملزم پیشہ اور کم مال دار لوگ تھے۔سب سے نیچل درجہ ان طوائفوں کا تھا جن کی کمائی کا ذریعہ جسم
بیچنے پر محدود تھا۔ آج کا ہیرا منڈی صرف جسمووںں کی تجارت ہے۔
تببی گلی میوںں جانے کے کئ راستے ہیو ں۔ ایک راستہ تکسالی گیوٹں سے ہے۔ ہم الٹے ہاتھ دو دفعہ مڑے اور اب
ہمارے سامنے بلڈنگووںں کےدرمیان ایک پتلی اور لمبی گلی تھی جس کےدونووںں طرف چھوٹے راستےتھے۔ سسّتے
ںںںں پرلیٹی
ںںںںںںں سے پلنگو
ڑںںںںی تھیںںں۔ ہم کھلےدروازو
ےںںںیک لگاۓ کھ
میک اپ میں بنی سجی عورتیں دروازوں س ٹ
ہوئ عورتوں کودیکھ سکتے ہیں۔ کجھ جوان عورتیں اپنےسہلیوں سے باتیں کررہی تھیں اور ساتھ ساتھ
کولھو مٹکا رہی تھیں۔ عدنان کی وجہ سے کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ ان کے لئے ہم عدنان کےگاہک
تھے۔
ہم ایک گلیارا میوںں مُڑے اور ایک بلڈنگ میوںں داخل ہوۓ ۔
میوںں نےاپنے بٹوے میوںں سےایک ہزار کا نووٹں نکال کرعدنان کو دیا"۔
نازیہ کےساتہ ہم سامنے کے کمرے میوںں داخل ہوئے۔ کمرے میوںں نازیہ نےاسکی چار لڑکیاوںں سےملوایا جن کی
عمریوںں تقریباً دس سے آٹھارہ سال کے درمیان ہووںں گی۔ ایک عمر رسیدہ عورت بھی کمرے میوںں موجود تھی۔
یہ میری ماوںں ہیو ں۔ اس نے کہا۔
بیٹھتے ہی نازیہ کا پہل سوال تھا ۔" میرے پانچ ہزار "۔
اتنی جلدی نہیو ں " ۔ ریمشاوںں نےاپنا ہاتھ نوٹ و ں پر رکھ دیا۔ "
"تم ہیرا منڈی میں کب سے ہو؟ "
ںںںںںں "
ںںںںںںں میری ماں کا شاہی محلہ میںںں اپنا جھرونکا تھا۔ اس گلی می
میں پیدا ہی یہاںںں ہوئی تھی۔ ایک زمانےمی
تو ہم حالت تبدیل ہونے کے بعد آئے "۔
لڑکیاوںں جو باہر ملکووںں کو بھیجی جاتی ہیو ں۔ ان کے متعلق پتہ ہے تم کو؟ "
"ہاوںں میری ماوںں ۔ پشاور جاکرلڑکیاوںں لتی تھی ۔ان لڑکیووںں کا کنواری ہونا بہت ضروری تھا۔"
ریمشاوںں نے اپنے پرس میوںں سے اپنی ماوںں کی ایک میلی سے تصویر نکال کرنازیہ کودیکھائ ۔
نازیہ نےتصویر کو کچھ دیردیکھا اور اپنی ماوںں کی طرف بڑھادیا۔ اسکی ماوںں نےاپنا چشمہ صاف کرکے تصویر
کو دیکھااور پھر ریمشاوںں کی طرف دیکھا۔ اس نے پھرتصویرکوغورسےدیکھا اورتصویرنازیہ کودے دی ۔
ارے بدھو ،پاکستان اسلمی ملک ہے۔ ہم اگر جسم نیلم لیں تو مجرم ہیں۔ اس لئے متعہ یا نکاح مؤقت کی "
شادی لزمی ہے۔ میرے یہ تیسری شادی ہے"۔
نازیہ تم نےایک ہزار اور کمانا ہیو ں"۔ ریمشاوںں نےسوال کیا۔ "
"ہاوںں وہ کیسے؟ "
میوںں یہاوںں تمہارے ساتھ ایک دن اور ایک رات گزارناچاہتی ہوو ں " ۔ "
یہ کیا ہورہا ہے"۔ میوںں نے ریمشاوںں سےسوال کیا۔ "
بھائی جان ،ہمارا نازیہ سے ملنے کا ایک مقصد یہ بھی تو ہے کہ ماں کی طرح میں بھی یہاں رہ کر "
دیکھوو ں"۔
میوںں نےروکہے لہجہ میوںں کہا۔" میوںں تم پر کیسے بھروسہ کروو ں "۔
بھائی جان ۔میوںں مہاجر کیمپ میوںں اکیلی رہی اور اپنی حفاظت خود کی۔ آپ اطمیناوںں رکھیو ں"۔ "
مجھےیہ بالکل پسند نہیو ں"۔ میوںں نے کہا۔"
ریمشاوںں نےمیری ضرور سے چٹکی لی۔ میری چیخ نکل گی۔ نازیہ ،اسکی ماوںں اور لڑکیاوںں زور سے ہنس پ ڑ
ئیوںںں۔ ں
ںںںں "
ںںںںںں ہوسکتی۔ ہا
ناراضںنہی
ں ںںںںںںںں۔ میں ں آپ سے کبھی بھی
بھائی جان۔ اب جب آپ نے وعدہ کرلیا تو بتادیتی ہو
لیکن میوںں ضدی ضرور ہووںں اور آپ سے وعدہ لئے بغیر نہیوںں چھوڑتی"۔
اور تم سمجھتی ہو کہ مجھے تمہاری چال پتہ نہیوںں تھی"۔ میوںں نےقہقہہ لگا کرکہا۔ "
بھائی اپنی تعریف آپ کرنا اچھی بات نہیوںں ہے"۔ "
آج کی رات اور کل کا دن۔ کل شام میں آ کر لئےجاؤں گا۔ آفریدی یہاں رہےگا اور میں خٹک کے ہاتھ "
تمہاری ضروریات کی چیزیوںں بھیج دووںں گا "۔
ںںںں چار پائ پر بیٹھ گئیںںں
ںںںںںں کوئی وقت نہیںں لگا۔ اور وہ تینو
ریمشاں کوشمیم اور تسنیم سے دوستی کر نےمی
اورگھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ دونوں کی عمروں میں شاید ایک سال کا فرق ہو۔ اور وہ ریمشاں کی ہم
عمر بھی تھیو ں۔ وہ دونووںں ہیرا منڈی میوںں ہی پیدا ہوئ تھیوںں ۔
شام ہونے لگی اور دونووںں نے میک اپ کا سامان نکال کے اپنے چہرے پوتنےشروع کیے ۔
تقریبا ہر پندرہ منوٹں بعد ایک مرد اندرداخل ہوتا اور سجی سجای شمیم اور تسنیم میوںں سے ایک کو پسند کرتا
اور وہ دونووںں دوسرے کمرے میوںں چلے جاتے۔ پانچ یا دس منوٹں میوںں وہ دونووںں باہر آتےاور مرد اپنی پتلون کے
بٹن لگاتا ہوا تیزی سے رخصت ہوجاتا۔ مرد بدصورت ،موٹے اور بڑی عمر کے تھے۔ کچھ میوںں سے تو عجیب
سی بدبو بھی آرہی ہوتی۔
ان گاہکوں کی درمیاں لڑکیوں سے ریمشاں کو پتہ چل۔ کہ جب نازیہ کے پاس اتنے پیسہ ہوجاتے ہیں کہ وہ
پشاور جا کرایک لڑکی خرید سکے وہ خرید لتی ہے۔ اگر لڑکی معمولی شکل کی ہے تو وہ یہیوںں کام کرے گی۔
مقامی گاہکووںں کو وقت نہیوںں ہوتا اُن کوتجربہ کار لڑکی چاہیے۔ معمولی شکل کی لڑکیووںں کو گاہکووںں کے لیے
ںںںںںںںں
ںںںںں سے باندھ دیتے ہی
ںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں اور ٹانگیں کھول کر پلنگ کے پایو
تیار کرنے کے لئے اس کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہی
اورگلی کے بھڑوے ایک بعد ایک آتے ہیں اور زنا کرتے ہیں۔ دس بارہ مردوں سےہم بستری ہونے کے بعد وہ
کوٹھے پر بیٹھانے کے قابل ہوجاتی ہے۔
اگرلڑکی خوبصورت ہو؟ " ریمشاوںں سوال دوسرا سوال کیا۔ "
اگرلڑکی حسین ہو تو اس کے لئے رحیم یار خان خود کسی شیح سےاسکا سودا کرتا ہے۔ یہ لکھوں وال معاملہ
ہے ۔ شیخوں کو کنواری لڑکی چاہیے ۔ وہ ان کو لڑکی کا کنوارہ پن توڑ نا پسند ہے ۔وہ سمجھتے کہ یہ عمل ان
کو جوان بناتا ہے۔ اس کے بعد لڑکی باپ سے بیٹے کو ملتی ہے ۔ اورپندرہ یا بیس دن میں جب بیٹے کا دل بھر
جاتا ہے توشیخ لڑکی کو یہاوںں واپس بھیج دیتے ہیو ں۔ اگرلڑکی کے بچہ ہوجائے تو شیخ اس کےتمام اخراجات
اٹھاتا ہے۔
ریمشاوںں نے پوچھا ۔" وہ کیووںں ۔شیخ کیووںں اخراجات اٹھاتاہے ۔
اس لئے کہ یہ شادیاں ہوتی ہیں ۔تمہیں نہیں پتہ اسلم میں یہ اصول خاص طور پر بنایاگیا۔ اس کو متحہ "
کہتے ہیو ں۔ یہ ہم طوائفووںں کو قانون سے بھی بچاتا ہے۔یہ مشرق وسطی میوںں عام ہے"۔
تم دونووںں اچھی شکل کی ہو۔ ریمشاوںں نے کہا۔ شمیم نےہنس کر کہا میری بہن ہے اس سے پوچھو ۔ مجھے تو
صرف ڈانس کے گروپ میوںں کام مل۔ اس نے تو شیخ کےساتھ بیس دن گزارے۔
تسنیم نے کہا۔ "ہاو ں۔ لیکن افسوس ہے کہ میوںں پیوٹں سے نہیوںں ہوئ۔ ماوںں کو ماہانہ پیسے ملتے" ۔
ںںںںںںں
ڑںںںںںںںں کر اپنےساتھ کمرے می
ںںںں چلنے کو کہا۔ مگر تسنیم اسکا گاہک ہاتھ پک
ریمشاںںںں کو کمرے می
ایک گاہک نے ں
ل ےگیو۔ں
ریمشاں کی آنکھوں سےآنسوچھلک آئےاور وہ خاموشی سے کھڑکی کے قریب کھڑی ہوگی۔ اس کے دل میں یہ
سوالاٹھا۔ کیا کہیوںں عورتووںں کا بھی خدا ہوتا ہے؟
جب سے ریمشاوںں ہیرا منڈی سے واپس آئ وہ بالکل خاموش ہوگی۔ میوںں نےاسکا دل بہلنے کی لئےمیوںں نے اس
کولہور دیکھانے سوچا۔
ٹںںںںںا
ںںںںںںںںںںںںںںںں ان میں سےایک دروازہ چھو
ںںںںں کنارے پر آباد ہے۔ پرانےلہور کےتیرا دروازے ہی
لہور دریاے راوی کےںںبائی
ہےجس کوموری دروازہ کہتےہیں۔ مشرقی دروازے کر دہلی دروزہ کہتے ہیں کیونکہ اس کا ایک رُخ د ہلی کی
ںںںں
ںںںںںںںںںںک قلعہ کوجاتی۔ یہا
سیدھی سٹںںںںںںںںںںںںیشن ہے ۔اسی دروازے کےاندر ایک ڑں
طرف ہے۔ دروازے کے باہر ریلوے اس
مسجد وزیرخان اورسراۓ وزیرخان اور وزیرخان حمام ہے۔ اکبری دروازہ محمد جلل الدین اکبر کےنام
سےموسوم ہے۔یہاوںں ہر قسم کےغلہ کی منڈی ہے جواکبرمنڈی کہلتی ہے۔ اب صرف منڈی رہ گئ ہے۔ موتی
دروازہ جو کہ موچی دروازہ بھی کہلتا ہے۔ یہ دروازہ جمعدار موتی رام کےنام سےموسوم ہے۔ موتی رام اکبر
میںںںں اسکا نام موچی دروازہ میںں بدلںںںںںںںں کے عہدں
ںںںںںں اس دروازے کی حفاظت پر تعینات تھا۔ سکھو کے زمانےمی
گیا۔ اب صرف اسکی یادگار باقی ہے دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ عالمگیردروازہ ،اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے
کے نام سے موسوم ہے۔ دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پرمغل حویلی ہے ،لل خو اور
ںںںں
ںںںںںںں دونوں طرف آتش بازی کا سامان فروخت ہوتا ۔ یہا سادہکرن مسجد محمد صالح ہے۔ اس پتلے ںں
بازارمی
پرسوسال سےایک کباب اور ایک مٹھائ کی دوکان ہے جولہوری اسٹائل میوںں کھانےاور مٹھائ بناتےہیو ں۔
لہاری دروازہ کام نام لہور ی دروازہ ہے جو بگڑ کرلُہاری ہوگیا۔ محمودغزنوی نےاس جگہ راجہ جیپال
سےجنگ جیتی۔ غزنوی نےشہر کوآگ لگادی اور رعایا کا قتل عام کیا۔ یہ شہر کچھ عرصے تک غیر آباد رہا۔
ملک ایاز کے زمانےمیں شہر کی نئ آبادی اسی محلہ سے ہوئ جس کولہور منڈی کہتے ہیں۔ موری دروازہ
ںںںںںںںںںںںںںںں
ںںںں فیصل برج کے نزدیک ہے۔ یہ بھی ملک ایاز سے موسوم ہے۔ ںں
پنجابی زبان می ٹںںںی کے درمیا
لوہاری اور بھا
ںںںں پر
ںںںںںںںںں۔ مشہور انارکلی کا بازار یہا
ںںںںں جس میں سے پانی گہر کا نکلتا ہو کہتے ہی موری اس بدررو کو کہتے ہی
ہے چوٹں خارا ہاوس میوںں لہوری اسٹائیل کا کھانا ملتا ہے۔
پہاڑی دروازہ ،بہاٹ کی قوم سے موسوم ہے۔ سرکولر ،راوئ روڈ ،لوارمال ،موہنی روڈ ،بلل گنج اور لوہارہ
اسںںال
ںںںںںںںںںں کے ٹں
کی سڑکیں یہاںں ملتی ہیںں حضرت داتا گنج کا مزارقریب ہے۔ اس چوک پر کھانے پینے ںں
کی چیزو
بھی ہیں ۔ ٹکسالی دروازہ کےاندر ایک زمانےمیں ایک سکہ بنا کرتا تھا۔ روشنائ دروازہ مسجد بادشائ اور
قعلہ لہور کےدرمیان ہے۔اس دروازہ کے اندرونی میدان اور باہر روشنی کی جاتی تھی ،اسلئے یہ روشنائ دروازہ
کہلیا۔ یہ قعلہ کا بھی دروازہ ہے۔ مستی دروازہ ایک شاہی ملزم کے نام سے مشہور ہے جس کا نام مستی بلوچ
تھا۔اب یہ ایک چھوٹا گیوٹں ہے۔کشمیری دروازہ کا رخ کشمیر کی طرف ہے ۔یہاوںں شاید کشمیری آباد کئےگے
تھے۔ خضری دروازہ کےسامنےایک زمانے میوںں دریاے راوی تھا۔ اسلئےاس کودریا کی نزدیکی کی بنا
پرخضری دروازہ کہاجاتا تھا۔ اب لوگ اس کوشیروں وال دروازہ کہتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ
کےزمانےمیں ہمشہ دوشیروں کے پنجرے رکھے ہوتے تھے۔ تیرواں ذکی دروازہ المعروف مکی یہ دروازہ
پیرذکی شہید کےنام سےمشہور ہے
چوتھی منزل"۔ عدنان نےایک سات منزلہ عمارت کی طرف اشارہ کیا۔"
بلڈنگ ماڈرن اور خوبصورت تھی ۔
ٹھیک ہے ۔پانچ ہزار۔ ایک پیسہ بھی ذیادہ نہیو ں"۔ "
مجھےنازیہ نے تمہارا نام دیا تھا"۔ میں نے ہزار ہزار کےپانچ نوٹ میز پر رکھ دیئے۔ رحیم یار کا منہ کھل رہ"
گیا۔ وہ مجھےحیرت سےدیکھ رہا تھا۔ " یہ لڑکی ایک شیخ کے لئے ہے۔ مجھےاس لڑکی کو دوبئ لےجانا ہے۔ کیا
تمٹرانسپوروٹں کا انتظام کرسکتے ہو۔ ہم دونووںں کے لئے "۔
ںںںںںکیاں ایک
ڑں
دوسری ل ںںںںھ کو دیوار کا سہارا تھا۔
اسکیں پی
ٹ ریمی کو ٹرک کی اندرونی دیوار کے پاس جگہ ملی ۔
دوسرے کے سہارے پر کھڑی تھیو ں۔ٹرک کے دیھرے ھونے یا روکنے اور چلنے سے لڑکیاوںں ایک دوسرے پر
گرتیو ں۔اخر کارٹرک ایک مقررہ رفتار سے چلنے لگا۔وھ شاید ہائ وے پرتھے۔
گرمی کے مارے برا حال تھا۔ٹرک میوںں کو کھڑکی نہیوںں تھیوںں اور۔ لڑکیاوںں پسینے میوںں نچ ڑ رہی تھیو ں۔ سانس
لینا دشوار تھا۔ ہہاوںںٹرک نے اچھلنا شروع کیا۔ سڑک نا ہموار تھی ۔ٹرک کی دیواریوںں لکڑی کے پینل
تھےاور ریمی ان کے درمیاوںں سے باہر دیکھ سکتی تھی پٹوکی اوراکارا کے شہرگزرتے ہوے ساہیوال آیا۔
ساہیوال سےخانیوال تک کی سڑک ٹھیک تھی۔سڑک کے دونوں طرف جہاں تک نگاہ پہنچتی تھی کھیت ہی
کھیت نظر آتے تھے۔ٹرک شام میوںں ملتان پہنچا۔ٹرک ایک مکان کے سامنے رکا ۔ مکان کےاندر پر عورت کی
نگرانی میوںں دو دو لڑکیووںں کو جوڑے کی صورت میوںں پیشاب اور پخانہ کرنے کی اجازت ملی۔ ایک ملزم نے
پتلی دال اور چاول ل کر رکھے ۔
ریمی کو عورت نے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دوسرے کمرے میوںں آفریدی بیٹھا تھا۔ اس نے مقامی ہالی ڈے ان
کا کھانا ریمی کے سامنے رکھ دیا۔ ریمی کھانے پر ٹوٹ پڑی اور ٹھنڈے پانی کے دو گلس پی گئی۔آفریدی نے
پوچھا ٹھیک ہو۔ ریمی نے سر ہلیا۔ عورت نے ریمی کو چلنے کا اشارا کیا۔
ملتان سے لودھران تک سڑک ہموار تھی ۔ خان بیل پی۔اس۔او پر ٹرک ڈرائیور نے پٹرول ڈلوایا۔اور رحیم یار
ںںںں
ںںںںں سے ڑسںںںک کے دونو
خان کی طرف چل۔ رحیم یار خان میں ں ٹرک نہیںں رکا اور سندھ کی طرف چل۔ یہا
طرف لمبے درخت شروع ہو جاتے ہیوںں ۔ وہ گھوٹکی میوںں ایک مکان کے سامنے رکے۔ پھر وہی دال چاول ۔اس
دفعہ ریمی کو دوسرے کمرے میوںں تل ہوا گوشت اور سڑک کے کیفے سے لیا ہوا نان مل۔ یہاوںں سب نے زمین
پرسو کے رات گزاری۔ سکر کا نیا براج بہت خوبصورت ہے۔سکر کے بعد سڑک کے ساتھ ساتھ کھجورووںں کے
درخت شروع ہوجاتے ہیو ں۔ میلووںں تک پیلی کجھوریوںں کے گچھے لٹتے نظر ہیوںں ۔ سڑک کے کنارے گدھے
گاڑیاوںں اورٹریکٹرٹرالیاوںں کھجورووںں سے لددی چلے جارہی ہیو ں۔ کووٹں ڈیگی کا قلعہ سامنے سے گزرتا
ہے۔ہالے اور حیدرآباد سے گزرتے ہوے سڑک پھر ناہموار ہوجاتی ہے
ہالےاور حیدر آباد کے بعد کراچی تک کی سڑک اچھی ہے ۔ آخرسہراب کوتھ سامنے نظر آتا ہے۔اور کراچی
شروع ہوجاتا ہے۔
شاراع فیصل سےٹرک ایک پل پر مڑا۔ پہل اسٹاپ ناظم آباد تھا -پانچ لڑکیووںں کو یہاوںں اتاردیا گیا۔ایک بعدایک
ںںںںںںںںںاپ پر لڑکیاں کم
جگہ آئ۔ عائیشہ منزل ،فیڈرل بی ایریا ،نارتھ کراچی ،مچھر کالونی اور گلشن اقبالٹں۔ ہر اس
ہوتی گئیو ں۔ آخر میوںں ریمی رہ گی۔ عورت نے کھا چلو اترو تمہارہ سفر ختم ھوا۔
ریمی کو عورت نےٹرک سے دکھا دے کراتارا۔ ریمی کو سمجھ نہی آیا کھ عورت نے اس کو دکہا کیووںں دیا۔
اس عورت کو آفریدی پانچ ہزار روپے دئے تھے تاکہ وہ ریمی کی حفاظت کرے۔اور کراچی پہنچنے پر بیچ
لگزری ھوٹل پر اتاردے۔
عورت نے ایک بار ریمی کو زور سے دکھا دیا۔ ریمی زمین پر منہ کے بل گری۔اٹھ ،ک ھڑی حرام زادی
جاسوس۔ ریمی کے منہ سے خون نکل رھا تھا۔ اس نے اپنی قمیض سے خون پوچھا اور اس سے پہلے کھ عورت
ایک اور دکھا دیتی وہ اس گھر کی طرف چل پڑی جس کی طرف عورت نے اشارہ کیا تھا۔
کیا اسکا پولیس سے تعلق ہے"۔ عمر رسیدہ آدمی جو تسبی پڑھ رھا تھا بول۔ "
ہاوںں " عورت نے زہریلے لہجے سے کہا۔ "
یہاوںں مت رکھو ۔ بیج دو سالی کو"۔ "
ھم اسے زیادہ دن یہاوںں نہیوںں رکھ سکتے"۔ "
ایک آدمی جو تینوں میں کم عمر تھا۔وہ ریمی کے قریب آیا اور اسکے اردگرد گھومااور پھر اس نے اپنا ہاتھ
ریمی کرسینہ پر پھرا اور اسکی چہاتیووںں کو اپنے دونووںں ہاتووںں سے دبایا۔
ریمی نے اسکو چانٹا مارا۔ عورت نے فورا ریمی کے ہاتھ پک ڑ لیا اور اسکو مروڑا ۔ ریمی دوھری ھوگی ۔
آدمی نے اسکے دونووںں کہولے کو اپنے ہاتھووںں سے محسوس کیا۔
ریمی نے پیچھے لت مارنے کوشش کی اور وہ منہ کے بل گری ۔ اسک ناک سے خون بہنے لگا۔
تم میوںں سے کوئ بولی بڑا نا چاہتا ہے"۔ عمر رسیدھ شخص نےدوسرووںں سے پوچھا۔ "
میوںں بڑے نیلم انتطار کرووںں گا ۔ مجھے بارہ یا تیرا سال کی بنگالن چاہیۓ۔ ایک مرد نے کہا۔ "
مجھے دس سا ل سے کم کی ،تھائ لڑکی چاہیے”۔ دوسرا بول۔ "
"ٹھیک ھے ۔ یہ تمہاری ہے مگر تم اس کو جلد سے جلد کراچی سےنکالو "
ایک رات کے لیے اسے مجھے دے دو ۔ دو ہزار دوں گا "۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا "
نہیوںں ،شیخ کنواری پسند کرتے ھیو ں۔ یہ ناممکن ہے ۔ میرا لگایا پیسہ ذائع ہوجاۓ گا "۔ نوجوان نے کہا۔ "
نوجوان نے اپنا بٹوہ کھول کر بارہ ہزارگننے اور عمر رسیدہ شخص کے سامنے رکھ دیے۔
نوجوان نے عمر رسیدہ شخص سے رخصت چاہی اور ریمی کو دروازے کی طرف دکھادیا۔
ریمی نے سٹرک پر چلنے کی کوشش کی ۔ نوجوان نے اسکا منہ بند کرکےاس کو پیسنجرسائید کی طرف سے
کارمیوںں دھکیل کر دروازہ لک کردیا۔ جب نوجوان گاڑی میوںں داخل ھوا تو ریمی نےاس پر حملہ کردیا۔
میوںں تمھارا ساتھی ہووںں ۔ کراچی پولیس -اسپیشل برانچ "۔ نوجوان چلیا۔ "
مجھے میرے بھائ کے پاس لے چلو"۔ ریمی چلئ ۔ "
تمہارا بھائ ۔ کیا مطلب تم لھور کی پولیس کی ایجنوٹں نہیوںں ہو؟ " نوجوانس پٹٹا گیا۔ "
میرے ڈیپارٹمنوٹں کے پیسے" ۔ نوجوان نے غصہ سے کہا۔ "
میرا بھائ – تم کودگنے پیسے دے دیگا" ۔ "
تمھارا بھائ کہاوںں ہے"۔ "
ریمی ن ے اس ے میرےں موبل کا نمبر دیاو۔ں
ںںںںںںںںںںںں پوری
ںںںں بیٹھے تھے۔ ریمی سے میپولیس آفیسر نعمان ،آفریدی ،میں اور ریمی ہوٹںل بیچ لگزری کے لن می
بات سن چکا پولیس آفیسر نعمان ،آفریدی ،میوںں اور ریمی ہوٹل بیچ لگزری کے لن میوںں بیٹھے تھے۔ ریمی
،سے میں پوری بات سن چکا تھا۔ اور جس عورت پر ہم نے بھروسہ کیا تھا اسں نے ہمیں دوکا دے دیا تھا
میوںں نے نعمان کو اس کے پیسے لوٹا دۓ اور اسکا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔
اگر میں ریمی کو اس وقت تک اپنے ساتھ رکھوں ۔جب تک کہ مجھے انکے دوبای کر مکمل رابطے پتہ چل "
جائیو ں۔ میوںں ایک پولس آفسر کی حیثت سے ریمی کی پوری حفاظت کا وعدہ کرتا ہوو ں "۔
بھائ ۔گھبرا ئیوںں نہیو ں۔ اگر اسے اپنے کیس کے لئے نقصان پہونچانا ہوتا تو یہ مجھےآپ کے پاس نہیوںں لتے "
آپ اس کی بات تو سن لیو ں " ریمی نے کہا۔
سفر کی تیاری
ںںںں
بتائیںںںں اوراسکونعمان سےمتعلق معلومات دی
ںںںںںںںں نےسکنیہ کو کال کراسکوتمام تفصیل ں
نعمان کےجانے کے بعدمی -
کیا تم ایک دن میں ان کی تصدیق کرسکتی ہو؟ میں تمہیں نعمان کی موبل فون کیمرہ سےلی ہوئ تصویر "
بھیج رھا ھوو ں "۔
" مجھے پتہ ہے۔ لیکن یہ نہیں پتہ کہ اس کو کیسے رُوکوں گا۔ دوسرے وہ ریمشاں پرغلط الزام لگا ہم سب کو
پریشان کرسکتا ہے"۔ میوںں نےسکینہ کوجواب دیا۔
میوںں تمہیوںں شام میوںں کال کرووںں گی۔ اللہ حافظ "۔ "
اللہ حافظ"۔"
" چلو کلفٹن چلیو ں۔ تم نےکبھی اونوٹں کی سواری کی ہے" ۔ میوںں ریمشاوںں سے پُوچھا۔
نہیو ں ،میوںں نےتو نہیوںں بھائی جان " ۔ ریمشاوںں نےمعصومیت سے کہا۔ "
میوںں نےگیراج سےکرائے کی گاڑی نکالی اور ہم پہلےشہر کی طرف چلے۔ برنس روڈ پر بڑی بھ ی ڑ تھی۔ گاڑی
پارک کرنےکی جگہ نہیوںں ملی۔ میوںں نےڈی۔جے سائینس کالج کےقریب ایک گلی میوںں گاڑی پارک کے لک
کردی -اور ہم پیدل برنس روڈ کی طرف چلے۔ جامع کلتھ مارکیٹ سے گزرتےہوئے ریمشاں نےمیرا کندھا ہل
کر کہا۔ "چوڑیاوںں ۔بھائی جان مجھےچوڑیاوںں دلئے ۔ میوںں چوڑیاوںں پہنووںں گی"۔
ٹھیک ہے لیکن اپنی پسند سےلینا مجھ سےنہ پوچھنا کہ کونسی پسند ہیو ں"۔ "
نہیوںں پوچھووںں گی۔ مجھےمیری پسند پتہ ہے"۔ ریمشاوںں نےاترا کے کہا۔ "
تقریبا بیس پچیس سٹ دیکھنے کے ریمشاں نےہا ر مان لی۔ اس نےبسورتےہوے کہا۔" گاؤں میں تو لل ،ہری ،
ںںںںںںںںںںں نا کونسی
ںںںںںںں ہوتےتھے۔ بھائی جان آپ بتائی
ںںںں۔ اتنے رنگ اور ڈیزائن تو نہی
نیلی اور پیلی چوڑیاں ہوتی تھی
لوو ں"و۔ں
میوںں نےدوکان دار کی طرف اشارہ کیا۔ ان کو بتاو کہ کس ڈیزائن میوںں کونسا رنگ چاہیے۔
پندرہ منٹ کے بعد ہم بندوخان کے دوکان پر کگڑے تھے۔ لڑکے نے پراٹھےاور نہاری کا ڈنر باکس یمارے ہاتھ
میوںں دیا اور میوںں نےں اس کی قیمت چُکائی ۔ںں
جب کلفٹن پر پہنچےتوشام ہوگی تھی۔ ہم نےکلفٹن گارڈن میں بیٹھ کر بندوخان کےمشہور پراٹھےاور نہاری
کھائی۔ ہم دونووںں کےہاتھ چکنائی سے بھرگے۔ ریمشاوںں نےتھرماس سےگرم گرم چائےنکال کرمجھےدی اور
خود کےلیے بھی نکالی۔
بھائی آپ نے کہا تھا کہ اونوٹں کی سواری کریوںں گے۔ مجھےتوآپ کےعلوہ کوئی نہیوںں نظر آرہا "۔ "
وہاوںں دیوار تک جا کرساحل سمندر کو دیکھواونوٹں کی بہن" ۔ میوںں نے ہنس کر کہا۔ "
ٹںںںںںں بان ۔ بھائی جان نیچےںںچلیںںںںں نا آپ "
ںںںںںںںںںںںں نےدیکھ لیا -وہ رہا اون
ارے یہ توہہت ہی خوبصورت نظارہ ہے ۔ می
ہر کام میوںں اتنی دیر کیووںں کرتے ہیو ں " ۔
تھوڑی دیرمیں ہم سمندر کی گیلی ریت پرچل رہے تھے ۔ ریمشان ایک بچے کی طرح سمندر سے کھیل رہی
تھی۔ جب پانی واپس جارہا ہوتا تو وہ اس کو پکڑ نے کےلیےدوڑتی۔ جب پانی ساحل کےطرف لوٹتا تو وہ اس
سے بچنے کے لیےساحل کی طرف بھاگتی۔ ایک دفعہ وہ ساحل کی طرف تیز نہیوںں بھاگ سکی اور لہر نےاس کو
ںںںںںںںںںںں
پکڑ لیا۔ ریمشاں ں پانی میں گر کرمکمل بھیگ گئ۔ اس کو یہ اچھا لگا اور پھروہ ساحل کےمتوازی پانی می
بھاگنے لگی۔ میوںں اس کے لڑکپن کودیکھ رہا تھا -مجھےسادیہ کی بےحد یاد آئی۔
صاب ،میم صابو۔ں آپ اونوٹں کی سواری کرےں گا"و۔ں "
میوںں نے پیچھےموڑ کردیکھا۔ اونوٹں بان نےاونوٹں کومیرے قریب بیٹھا دیاتھا۔
اونٹ سواری کے بعد میں ساحل سمندر کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ ریمشاں نے پیچھے کھڑے ہو کراپنی
باہیوںں میرے گلے میوںں ڈال دیوںں ۔اور اپنی تھوڈی کومیرے سر پر رکھ دیا۔
بھائی جان ،مجھے پتہ ہے آپ کےدل میوںں کیا ہے ؟ اور یہ خاطریوںں کیووںں ہیو ں ؟ اور ہم سمندر کے کنارے "
"کیووںں ہیو ں؟" ریمشاوںں زور سے ہنسی ۔ " اچھا ،ایک بھائ کو بہن کی خاطر کرنا منع ہے کیا؟
میرا ایک بھائ ہے جو مجھے بہت بہت پیارا ہے ،جسے جب کوئ چیز پریشان کرتی ہے توسمندر کی طرف "
بھاگتا ہے -آپ اسلئے پریشان ہیں کہ آپ کو پتہ ہے کہ میرے دل میں کیا ہے؟ " ریمشان نےسامنےآ کر میرا ماتھا
پیار سےچوما اور آنکھووںں میوںں آنکھووںں ڈال کر کہا۔
تو سادیہ کی طرح میرا دل کتاب کی طرح کھول لیتی ہے" ۔ میوںں نے کہا۔ "
لو ،یہ کیا بات ہوئ ۔ آپ کےدل کا تارا ہووںں میوںں ۔میوںں تو وہیوںں رہتی ہووںں نا " ۔ ریمشاوںں شرارت سےکہا۔ "
کیا تیرا نعمان کےساتھ جانے کا فیصلہ بدل سکتا ہے؟ " مجھے پتہ تھا کہ اسکا کیا جواب ہوگا۔ "
بھائ جان ۔ جو بولیوںں میوںں آپ کےلیےکرووںں گی۔ لیکن آپ کو پتہ ہے کہ میرا زندہ رہنے کا مقصد ایک ہی ہے "
ںںںںںںںںں جس پرمیری ماں
ںوںںںں جو میری ماں نےسہےاوراس راہ پرسفر کرناچاہتی ہو
ٹںںںھانا چاہتی ہ
میں وہی دکھ ا
کوچلنے پرمجبور کردیاگیاتھا "۔ ریمشاوںں بسورنےلگی۔
تم کرتو رہی ہو ،میری مدد سے"۔ میوںں نےجھنجل کر کہا۔ "
بھائ جان مجھےجانےدو"۔ ریمشاوںں نے میرے بازو پرچٹکی لی ۔ "
میرے موبل فون کی گ نھٹی بجی ۔ " بھائ جان "۔ سادیہ فون پرتھی ۔
آپ بھول رہے ہیں کہ نعمان اسکوگرفتار کرسکتا ہے اور اس سے اس کا سفر رک جائےگا"۔ سادیہ "
نےمجھےیاد دلیا۔
دوسرے ،آپ سکینہ سےاسکی شناخت کروا رہے ہیں اس طرح ہمیں اس کی نوکری اور کردار کا پتہ چل"
جائےگا ،تیسرے ،ریمشاں کو نعمان پر بھروسہ ہے ۔ چوتھے ،آپ اور آفریدی ان پر نگاہ رکھیں گے" ۔ سادیہ
نےسنجیدگی سے کہا۔
اور آخری وجہ ،وہ آپ کی بات نہیوںں مانےگی۔ میوںں نےاسےسمجھا کردیکھ لیا"۔"
لگتا ہے توعقل مندہوگئی ہے"۔ میوںں نےہنس کر کہا۔ "
ہوگئی کہاں سے ،جب عقل بٹ رہی تھی میں آپ کےساتھ ہی تو لئن میں کھڑی تھی۔ بھول گئے"۔ سادیہ "
نےہنس کر کہا۔
تم سے کون بحث کرے اب یو -سی -ایل -اے کی اسٹودینوٹں ہونا"۔ "
یہ تو صحیح ہے ۔ تو پھرمیوںں ریمشاوںں کو بتادووںں کہ آپ مجھ سےہارگئے؟"۔ "
"وہ کیوںں ۔ کیا میں ں نہیںں بتا سکتا؟ "
بھائ جان۔ آپ فون ریمشاوںں کودیوںں اور ساحل سمندر پرچہل قدمی کریو ں"۔ سادیہ بولی۔ "
– تم نےمجھ کوڈانوٹں پڑوادی" ۔ میوںں نے منہ بسورتے ہوے فون ریمشاوںں کو دے دیا "
میں تم کو انفارمیشن فیکس کر رہی ہوں ۔ خلصہ یہ ہے ۔ بندہ 28 ،سال کا ہے۔ اور سی۔ آی۔ ڈی میں آٹھ "
سال سے ہے ۔ ہمبرگ یونیورسٹی جرمنی سے کرِمینالوجی میوںں ڈاکٹر ہے اور پاکستانی انٹرسروس انٹلیجینس نے
سیکرںری ہے ۔ںںماںںںں ،وزارتِ انصاف و عدل میں سرکاری
ٹ ےںںںریننگ دی ہے۔ باپ ،وزارتِ دفاعںںمیںںںں انڈر
اس ٹ
وکیل ہے ۔ دوچھوٹی بہنیں ہیں ۔ ایک اسکول اور دوسری کالج میں ۔افسروں کی رائے میں سنجیدہ اور پیشہ
ور ہے اور جذبات کے بجائےعقل سے کام لیتا ہے۔ کردار کی جانچ پڑتال سے پتہ چل کہ صحیح ہے۔ اب تک کئی
امتیازی تمخےحاصل کرچکا ہے" ۔سکینہ سانس لینے کےلیے رکی۔
" یہ تواچھی خبر کیونکہ ریمشاوںں اپنی بات پر اَ ڑھی ہوئ ہے" میوںں نے کہا۔
مجھے پتہ ہے ۔تم نےسولہ سال کی لڑکی سےہا ر مان لی"۔ سکینہ نےقہقہہ لگایا۔ "
کیا مطلب ؟" میوںں نےپوچھا۔ "
اب بہت ہوشیار مت بنو ۔تمہیوںں پتہ ہے کہ سادیہ اور میوںں ایک دوسرے کےکتنےقریب ہیو ں۔ اگرسادیہ کھانسے "
بھی تو مجھے بتاتی ہے کہ آج وہ کتنی دفعہ کھانسی"۔ سکینہ نے کہا۔
آپ کا شناختی کارڈ مس ریمشاوںں "۔ اسے ریمشاوںں کا نام پتہ تھا۔ "
میرے پاس نہیوںں ہے۔ تم نعمان کو کال کرو" ۔ ریمشان نےرعب سے کہا۔ "
افسر نےموبل پرایک بٹن دبایا -اور ریمشاوںں کےحلیہ اورقدوقامت کو بیان کیا۔
آپ نےسکینہ کےذریعےمیرے متعلق سب تصدیق کرلیا ہوگا"۔ نعمان نےہنس کر کہا۔ "
میوںں سمجھ گیا کہ اس نےہمارے بارے میوںں بھی تحقیقات کیوںں ہیو ں۔
دنیا کے بڑے اور سنگین جرائم میوںں انسانووںں کی تجارت تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ اس وقت دنیا میوںں دو کروڑ "
ستر لکھ انسان غلمی کی زندگی بسر کر رہے ہیو ں۔ عورتووںں کا عالمی بیوپار ایک نیا مسلہ نہیوںں ہے۔ لیکن اب
جرائم کے پیشہ ور نیٹ ورک اس جرم کو کنڑول کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسحلہ اور ناجائز نشہ ور
چیزووںں کا بھی کاروبار کرتے ہیو ں۔ اسلئے ہمارے پاس دو مسائل ہیو ں۔ عورتووںں اور بچووںں کے بنیادی انسانی
حقوق اور ان کی جانی حفاظت "و۔ں نعمان نےں بولنا شروع کیاو۔ں
ںںںںںںںںں
عورتوں اور بچوں کوجنسیاتی اور مزدوری کےغلم بنانے کی تجارت کا منبع اور نقل و مقام ہے ایشیا می
پاکستان ہے۔
نیپالی ،بنگل دیشی ،ہندوستانی ،ایرانی ،برمی ،افغانی ،کازخستانی ،کرگز رتانی ،ترکمینستانی ،ازبکستانی
عورتیوںں کو پاکستان لیا جاتا ہے اورانہیوںں یہاوںں سے مشرق وسطہ ،یورپ اور امریکہ میوںں منتقل کیا جاتا ہے۔
جہاوںں یہ عورتیوںں جنسی غلمی میوںں بیچ دی جاتی ہیوںں ۔
یہ مسئلہ پاکستان کا اپنا اندونی بھی ہے۔جو کہ ہمارے رسم ورواج نے پیدا کیا ہے۔ مگراس سے توتم لوگ واقف
ہو۔
یو۔ایس۔اے کےاسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دو ہزار کی رپورٹ " انسانوں کا بیوپار" کے مطابق ہرسال چھ سےآٹھ
ںںںں اور تیس فی
ںںںںںںں سے ستر فی صد عورتیںں
ان می لکھ عورتیںںں اور بچوں کا عالمی حدود کے آرپار بیوپار ہوتا ہے۔
صد بچےہوتےہیوںں ذیادہ ترملظوم کو عصمت فروشی کےلیے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔
پاکستان میوںں دو ہزار دو کا آرڈیننس نےفیڈرل انویسٹگشن ایجنسی کےاندرانسانووںں کے بیوپار کے خلف کےایک
یونوٹں بنایا ہے اس کوانٹی۔ٹرافکینگ۔یونوٹں کہتے ہیو ں۔ میوںں آج کل کراچی میوںں اس کا ذمہ دار ہوو ں۔
ںںںںںں کامیاب
ڑںںںںںےگروہ کوتباہ کرنںں
ےمی جس کیس میں اس وقت میں کام کر رہا ہوںںں اس میں ہمیںں امید ہے کہ ہم ایک ب
ہوسکتے ہیں ۔ مسئلہ یہ کہ ہرچیزہمارے پلن کےمطابق کام کررہی تھی اورتم لوگ نمودارہوگے۔ اب معاملہ کی
نوعیت بدل گی۔اگر ریمشاوںں اس میوںں حصہ نہیوںں لے گی تو مجھےاپنے کواس تحقیقات سےعلحیدہ کرنا پڑےگا
اورہمارا اس گروہ تعلق ختم ہوجائےگا۔ اورہم ان کی نگرانی نہیوںں رکھ سکیوںں گے" ۔
میرے پاس تم لوگووںں کی پوری رپوروٹں ہے اور مجھےاب یہ بھی پتہ ہے کے ریمشاوںں تمہارا سفر کیا ہے۔ "
تمہارا بھائی تم کو یہاوںں سے آگےنہیوںں لےجاسکتا۔ میوںں اب تمہارا ہم سفرہوو ں۔
سفر
ماوںں ۔ میوںں ایک بیس فوٹں کےٹین کے ڈبےمیوںں بند ہووںں ۔
دسیووںں میری ہم عمر لڑکیاوںں اس ڈبہ میوںں بغیرآواز رورہی ہیوںں دھوپ سےچھت تپ رہی ہے۔
انہووںں نے کہاہے کہ باہر پہرا ہے اور اگر ہم نےکوئی آوازیوںں نکالیوںں تووہ ہمیوںں جان سےمار دیوںں گے۔
ںںںںںںںںںںںںںںںں سامان
پرتھی۔ ریمشاکنںںینر کے باہردیکھا۔ وہ سب سےاوپر والے بسترے ںں
ںںںںں سےٹں
ریمشاں نےچھ انچ کی جالی می
ںںںںںںںں
ڑںںںںی بڑی کرینوں کو بندرگاہ پردیکھ سکتی تھی۔ اور کچھ دورسمندر کا پانی سورج کی کرنو اٹھانےوالی ب
سےجھلملرہاتھا۔ اسکی شلواراورقمیض پسینےمیوںں بھیگ کراسکےجسم سی چپک گی تھیو ں۔ ایسا لگتا
تھاجیسےاس نے کپڑے پہنےغسل کیا ہو۔ وہ بالکل ننگی لگ رہی تھی۔ رات ہونےمیوںں چارگ نھٹےاور باقی
تھےجوانہیوںں اس ڈبےمیوںں گزارنےہووںں گے۔ یہ صرف اس کو پتہ تھا۔
نعمان نےاس کو بتایا تھا کہ کراچی سے بلوچستان کا سفر مکران کوسٹل ہائی وے این دس پر ہوگا -کراچی
سےگوادہرکی بندرگاہ کا سفر بارہ گ نھٹے کا ہے۔ لڑکیووںں لریووںں کے ذریع گوادہر کی بندرگاہ پر لےجایا جائےگا
اور وہاوںں ان کوایک کنٹینر میوںں مقفل کردیا جائےگا۔ رات کےاندھیرے میوںں کرین اس کنٹینر کو پانی کے ایک
جہاز پرلد دےگی۔اوردوبئی کا سفرشروع ہوگا۔ دو دن کے بعد جہاز پوروٹں راشد پر پہنچ جائے گے۔ نعمان نے
کہا تھا کہ وہ اس سےدور نہیوںں ہوگا۔
کنٹینر میوںں اس کومل کر چالیس لڑکیاوںں تھیو ں۔ کنٹینر میوںں دس قطاریوںں تھیو ں۔ ہرقطارمیوںں ایک بنک بیڈ تھا۔
ہر بنک بیڈ پرچار بستر ،چار منزل کا بسترخانہ بنا رہے تھے۔ بستر دو دو فوٹں چوڑے ،دو فوٹں اونچےاور ساڑھے
پانچ فوٹں لمبے تھےاس کا اندازہ ریمشاوںں نےاپنےقد سے لگایا۔ ہر بستر کےسرہانےایک چھ انچ کا سوراخ تھا۔
جس پر لوہے کی جالی تھی۔ اس جالی سے ہوا اور کچھ روشنی کنٹینر میوںں داخل ہورہی تھی۔ ریمشاوںں نے
کھڑکی کے باہر دیکھا سورج نےمغرب کی طرف اپنا سفرجاری رکھا۔سورج ایک نارنگی بن گیا۔ اور اسس
رنگ نے بادلوں میں قوس و قزح کا ایک سماں پیدا کردیا ۔ ریمشان نے اندازہ کیا کہ باہرکا درجہ حرارت اب کم
ہوگیا ہے ۔ لیکن ڈبہ کی گرمی میوںں کوئی کمی نہیوںں ہوئی ۔
ریشماں صرف اوپری منزل کے بستر دیکھ سکتی تھی۔ وقت گرازنےکے لئےریمشاں نےان لڑکیوں کی شہریت
کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اس کےدائیں طرف چارلڑکیوں کے بسترتھے اور بائیں جانب پانچ ۔وہ سب
مختلف ملکووںں سےتعلق رکھتی تھیو ں -سفید رنگ والی شاید ایران ،افغانستان ،یا صوبہ سرحداور کالے رنگ
والی بنگلہ دیش ،ہندوستاوںں اور پاکستان سے ہونگی۔ اسےذیادہ ملکووںں اوران کےجغرافیہ کی علمیت نہیوںں تھی۔
گرمی اور حبس میوںں کچھ کمی ہونے لگی ۔ باہراندھیرا ہوگیا تھا۔
ریمشاں کو اپنی ماں یاد آئی۔ میری ماں یہاں تھی۔ یہ لڑکیاں اسکی ماں کی طرح ہیں۔ جنہیں کچھ نہیں پتہ
ھے کہ وہ کہاوںں ہیوںں ،کیووںں ہیوںں اور کہاوںں لیےجائےجارہی ہیو ں ؟ اس نےاپنی ماوںں کی بے بسی اور بے چینی
محسوس کی۔ ریمشاوںں نے ایک سبکی لی اور اسکی آنکھووںں سےآنسو بہنے لگے۔ ماو ں ،ماوںں اس نے کہنے کی
کوشش کی۔ میں تمہارے پاس ہوں نا ،ماں ۔ تم اب مت ڈرو ۔ میں تمھارے پاس ہوں ماں ۔ اور وہ زارقطار
رون ےلگیو۔ں
کنٹینر نےجیسے پانی کئ جہاز کے ڈیک کو چھوآ جہاز نےچلنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بندرگاہ سےدور
تھے۔ ریمشاں نےمڑ کردیکھا اور بلندآوازمیں کہا
الوعدہ میرے خدا۔اب ہم تیری ملکیت سے باہرہیں۔ ہم تجھےتیری ذمہ دار سے بری کرتے ہیں ۔ اب توہمارا "
خدا نہیوںں ہے ۔یہاوںں سےحیوانووںں کی بستی شروع ہوتی ہے۔ یہاوںں ہمارے خدا دوسرے ہیو ں " ۔
٭٭٭
ڑںںںںںںںںںںںںکیاں
ںںںںںںںںںںں نےدیکھا کہ اس سے پہلے نکلنے والی ل
دروازہ کھول کرایک مرد نےچل کرسب کو باہر آنے کا کہا۔ ریمشا
ایک مرد کے پیچھےایک کھلےدروازے کی طرف جارہی تھیو ں۔ اس نےبھی ان کے پیچھےچلنا شروع کردیا
اوردروازے میں میں داخل ہوگئی وہ ایک چبوترہ پرتھی اور اس کے سامنےایک منزل نیچےایک کھلی ھوئی
جگہ تھی۔ لڑکیاوںں سڑھیاوںں اتررہی تھیوںں ۔ وہ بھی اترنے لگی۔ کمرے میوںں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئ ۔
ریمشاوںں نے بڑی مشکل سےمتلی کو روکا۔ جب آخری لڑکی سیڑھی اترچکی۔ مردووںں نےدروازہ بند کردیا۔
ںںںںںں
ٹںںں چوڑے کمرے می
ٹںںںںںںںںں لمبےاور بیس ف
ریمشاں نے ایک مدھم بلب کی روشنی کمرے کا جائزہ لیا ۔ وہ تقریبا سوف
تھے۔ اس کےدائیوںں طرف کمرے کے آخر میوںں ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔ یہ پاخانہ کرنے کی جگہ ہوگی۔اس سے
پہلے کہ کسی اور لڑکی کواس کاخیال آتا۔ ریمشاوںں کمرے کی طرف بڑھی ۔ جیسے جیسے وہ کمرے کے قریب
ںںںںںںں اندر داخل
ںںںںںںںھا کردیکھا اسکا خیال صحیح تھا۔ ریمشا آتی گئی بدبو میں اضافہ ہوتا گیا۔اس نے دروازے کاٹںپردا ا
ٹٹا ہوا پانی کا نلکا تھا مگرلوٹا نہیو ں۔ اس
ہوئی اور اپنے کوکر رَفع حاجت سےفارغ کیا۔ یہاوںں ایک و
نےاپنےڈوپتے سے کےکنارے سے تینٹکڑے پھاڑے ایک ٹکڑے سے اپنےآپ کو پُونچھا اور پھر پہلےدوسراٹکڑا
کو پانی میوںں گیل کر کر کے اپنے آپ کو صاف کیا اور تیسرے سے سکھایا۔ٹوکری اوپر تک بھری تھی۔
ریمشاوںں نے ڈوپٹے کےگندےٹکڑووںں کوٹوکری کے اُ بھرتے ہوئے ڈھیر پر ڈال دیا۔
ںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں کا ایک
جب ریمشاں باہرنکلی تو پاخانہ کے سامنے ایک لئن بن چکی تھی ۔ پاخانے کےسیدھےہاتھ پر کمبلو
ڈھیرتھا ۔ ریمشاوںں نےلپک کرتین کمبل اٹھا لیےاور کمرے کےاس کونے کا رخ کیا جو پاخانےاورسیٹرھیووںں سے
بہت دورتھا۔ یکے بعددیگر ے دو لڑکیووںں نےاس کی طرف رخ کیا۔ وہ ریمشاوںں کر قریب آ کر رک گئیوںں ۔ایک
ںںں کو ان کا بدن
ںںںں کر بائیں طرف لگا دیاو۔ں ریمشا
ںںںں کر دائیں طرف اور دوسری ن ے ریمشان ے اپنا کمبل ریمشا
دیکھ کر ایسا لگا جیسے کےوہ دونووںں وردیش کرتی ہووںں ۔
ریمشاوںں کی نیند پکی نہیوںں لگی ۔ تھوڑی تھوڑی دیرمیوںں اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اس نےکسی کے چلنے اور
رونے کی آواز سننی اور مردوں کےڈانٹنے کی اور تھپڑ مارنے کی۔ اس نےگھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر
دیکھا۔ چار ،یا پانچ مرد لڑکیوں سے زبردستی زنا کررہے تھے۔ وہ کیا کرسکتی تھی۔ کچھ بھی نہیں ۔ یہی وجہ
تھی کہ اس نےسیٹرھیووںں سےدور جگہ کا انتخاب کیاتھا۔ تھوڑی دیر میوںں ہنگامہ ختم ہوگیا اورمرد جاچکےتھے۔
کچھ عرصہ بعد اس نے پھرچلنےاور رونے کی ڈانٹنے اور تھپڑ مارنے کی آوازیں سننی۔ یہ سلسلہ رات پر
جاری رہا۔اور ریمشاوںں کانپتی رہی۔ شاید یہ ڈر تھا یا سردی یا دونوو ں۔
صبح دروزہ کھل اورسورج کی روشنی نے کمرے کوچمکا دیا۔ ایک مرد نےاندر آ کر کچھ لڑکیووںں کواس کے
ٹںںں میں لت ٹںںںںںںںںںا مارا دوسری کے پی
ڑںںںںںںکیاں ہچکچائیںں۔ مرد نےغصہ سےایک کےچانساتھ جانے کا اشارہ کیا۔ ل
ںںںںںںںں
ںںںںںں لڑکیاں روتی ہوئی اس کے پیچھے چلی پکںںں کرسیڑھی کی طرف کھینچا۔ تینو
ماری اور تیسری کے بال ڑ
دئیو ں۔ کمرے میوںں ایک افسردگی چھاگئی۔ شاید ہرلڑکی اپنے بارے میوںں سوچ رہی تھی کہ اس کے ساتہ کیا ہوگا۔
دو دن کےبھوکی پیاسی لڑکیووںں کےلیے یہ دلیا اورایک نعمت تھی ۔ ریمشاوںں نے اپنا حصہ وصول کیا اور اپنے
کونے میں واپس آکر بیٹھ گئی اور دلیا کھانے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میری ماں نے بھی اس قسم کے جہاز
میوںں سفر کیا ہوگا۔ مگر وہ تو مجھ سے ذیادہ معصوم ہوگی۔ پچیس سال پہلے تواس کو کچھ بھی نہیوںں پتہ ہوگا۔
ںںںںںںںںںںںںںںںںں کو
کیا کسی نے ماںںںںںںںںںں لےجایا جارہا ہے اور میرے ساتھ کیا ہوسکتا ہے ۔ںں
مجںھے کہا
ںںںںںا بہت پتہ ہے کہ ں
توتںھو
مجھے ڑ
تھ پ ڑ مارا ہوگا یا کسی نےاس کے بال کھینچے ہونگے؟
سمندر ظغیانی پرتھا۔ موجزن سمندر سےجہاز جھولے کھا رہا تھا۔ بہت سی لڑکیوں کو متلی ہورہی تھی اور
کچھ َقے کر رہی تھیو ں۔
رات کے ایک پہر میوںں شور وغل اور ہنگامہ شروع ہوگیا۔
برابر کی دونووںں لڑکیووںں نے ایک ساتھ کہا " تم ہمارے ساتھ رہنا"۔
ںںںںںںںںل '
ٹں
خوبصورت ہو ںںںںںے کا فاصلہ پر ہے۔ اس
ںںںں ابودھابی سےایکٹںگھن
ریدا ' ہوٹںل ،دوبئی سٹی کےگرد و نواح می
سےایمرت گولف کلب ،دوبئی ٹںانںںرنیٹ اینڈ میڈیا ٹںسںںی اورجبل علی فری زون بہت قریب ہیںںں۔ عربی میں ں ریدا
اسے کہتے ہیوںں جس پرخدا کا فضل و کرم ہو ۔ اس بیس منزلہ ھوٹل میوںں چار سو شاندار کمرے ہیو ں۔ ایک سو
پچاس ایک ڑ کی زمین پر باغات ،مچھلیووںں سے بھرے تالب اور جگہ جگہ پانی کے آبشار ہیو ں۔
جب منی وین ہوٹل کے کچن کےدروازے پر پہنچی تو سورج کی پہلی کرن ہوٹل کی جھیل پرتلملرہی تھی۔
پہراداروں نےلڑکیوں کوجلد ہی ملزموں کو لےجانےوالی لفٹ سے پانچویں فلور پرپہنچا دیاگیا۔ یہ سارا فلور،
ںںںں پینتیس
ںںںںںںںںںں نے کیا جن کی عمری
' دوبئی ڈانس ٹانںرنیشل' کےلئےمخصوص ہے۔ فلور پر اُن کا اسقتبال پانچ عورتو
ںںںں لڑکیوں کو پانچ گروپ میں تقسیم کردیا گیا۔ ہرکمرےںںمیںںںں چار بنک ںںںںںںںں گی۔ یہا
سے چالیس کے لگ بھگ ہو
بیڈ تھے۔ چار ،چارلڑکیووںں کوایک ،ایک روم میوںں رکھاگیا۔ کپڑووںں کے کلزوٹں عمدہ کپڑووںں سےبھرے تھے۔
میںںںں جمع ہوںں۔ ریمشاں ں اور اسکی ساتھیاںںںلڑکیوں کوحکم دیا گیا کہ وہ نہا دھو کراس فلور کی کانفرنس رومںں
ایک ساتھ رہیو ں۔ لفوٹں کےدروازے پرایک پہرے دار تھا۔اس کےعلوہ ایسا لگتا تھا کہ ان کے فلور پر چلنے
پھرنے پر کوئی کوئی پابندی نہیوںں تھی ۔
ریمشاوںں اور اس کی ساتھیووںں نےنہا کرسادہ کپڑے پہنےاور راہداری میوںں چلتی ہوئی کانفرنس روم میوںں پہنچیو ں۔
کانفرنس روم میں پانچ لمبی میزیں لگی ہوئی تھیں۔ ہر میز کےاردگرد نو کرسیاں تھیں۔اور میزوں پرناشتہ
کے تمام لوازمات تھے۔ ویٹرہاتھ باندھے کھڑے اشارہ کے منتظرتھے۔
ںںںںںںںںںںںںںںںکیوں کو
ڑںاپنی مقررہ لہرایک گروپ کی ذمہ دار ایک عورت تھی جس نے آپنے کو ایک گائیڈ کہا۔ گائیڈ نے
اپنےساتھ بیٹھایا۔ سب لڑکیاوںں ڈری اور سہمی ہوئی تھیوںں مگراس برتاؤ سےان کےحفاظتی خول کمزور
ہونےلگے۔
یہ تو کوئی بُری جگہ نہیوںں ہے"۔ ریمشاوںں کی ایک ساتھی نے بہت دہمی آواز میوںں دوسری ساتھی سے مسکرا "
کر کہا۔
آگے آگےدیکھئے ہوتاہے کیا؟"۔ دوسری ساتھی نےمسکرا کر دہمےسے کہا۔ "
ریمشاوںں کوحیرت ہوئ کہ یہ دونووںں اسےحالت میوںں بھی مسکرا سکتی ہیو ں۔
میوںں آپ کو' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' کی طرف سےخوش آمدید کہتا ہوو ں " ۔ کانفرنس روم کا بڑا سکرین روشن"
ہوگیا۔ ریمشاوںں کوسکرین پرتیس پنیتیس کی عمر کا ایک خوبصورت نوجوان تھا۔
ہماری آرگنائزیشن کا مقصد ملکووںں کے کلچر کو ایک دوسرے کے قریب لنا ہے۔تم اب کو' دوبئی ڈانس "
ٹںںںں
ںںںںںںرکٹر تم کو ڈانس کی تربیت دیں ں گے۔ اورتم ان کو پرائیو
انسں انس
انٹرنیشل کی ملزمت میں ہو۔ ہمارے ڈ ٹ
پارٹیزمیں پیش کروگئ۔ ہرایک کو تمہارے ملکوں سے یہاں لنے میں ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' نے نوے ہزار
درہام خرچ کئے ہیں۔ یہ ہمارا تم کوایڈوانس پیمنٹ ہے ۔ ایک طرح سے بغیر سود کا قرضہ ہے ۔ تمہاری تنخواہ
اتھارہ درہام ہوگی ۔ اس وجہ سے تمہارے پہلے چار سال کی تنخواہ اس قرضہ کو نمٹائے گی۔ اس دوران تمہارے
رہنے کی جگہ ،کپڑے اور کھانا ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' مہیا کرے گا۔ جس کے لیے تمہیوںں ہمارے لیےایک سال
اور کام کرنا ہوگا۔ سب مل کر تم ہمارے لیے پانچ سال کام کروگی۔
اب آپ کی گائیڈ آپ کےٹرینگ اسکیجول سےواقف کریوںں گی"۔ سکرین خالی ہوگیا۔ "
چلو ایک فائدہ تو ہوگا" ۔ ریمشاوںں کی دوسری ساتھی سےدھمی آواز میوںں کہا۔ "
کیا"۔ پہلی نےپوچھا۔ "
ڈانس توسیکھنےکو ملےگا"۔ دوسری نے مسکرا کر دہمےسےکہا۔ "
ریمشاوںں نےسوچا ،یہ دونووںں پاگل ہوگئی ہیو ں۔
ںںںں
ںںںں آواز نکالی تھیںںں نظرنہیںں آئیں۔ ساتھیوںںںں کو وہ لڑںکیاں جنہوںں نے کانفرنس روم می اس دن کے بعد ریمشا
نے ریمشاوںں کو بتایا کہ وہ لڑکیاوںں دوسرے ملکووںں کو بیچ دی جائیوںں گی۔ اگلےدوہفتہ ریمشاوںں نےایسی فلور پرڈانس
ںںںںںںںںںںںںںںکیوں
سکسی تھے۔ لںںںںںں گزارے۔ ناچ ،انڈین کلسیکل تھے مگرانداز بہت ڑں اسٹودیو میں ڈانس سیکھنےمی
کومردوں کوجنسی طور پر اُکسانے کےطریقے سیکھائے گے۔ گائیڈز کمرے کےعلوہ ہروقت ان کے ساتھ ہوتی
ںںںں ساتھیاںںں ابںںںںںںںںںںںںں تھی۔ دونو
تھیںںں۔ ان کے فلور پر پہرا تھا۔ اور کسی کو فلور سے باہرجانے کیںںاجازت نہی
ریمشاں کی اچھی دوست بن گئی تھیں اور ریمشاں ان پر بھروسہ کرنے لگی تھی۔ ایک نے اپنا نام جمیلہ اور
دوسری نے نسرین بتایا۔ دو ہفتہ حتم ہونے تک لڑکیووںں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہاوںں سے فرا ر کا راستہ نہیوںں ہے۔
جن لڑکیووںں نے ایسی کوشش کی ان کو مارا گیاو۔ں ڈں انس کے کپڑے بدلنے کےدوران ریمشاوںں نےان لڑکیووںں کے
بدن پر نیل کے نشان دیکھے۔ ڈانس سےگریجویشن کی رات آئی۔سب لڑکیووںں کو کانفرنس روم میوںں جمع کیا گیا۔
سکرین چمکاو۔ں
آج سےتمہاری ملزمت شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی دیرمیں یہاں ہمارے مہمان آئیں گےتمہارا کام ان کوخوش "
کرنا ہے۔ ان کا دیا ہوا مواضع تمہارا قرضہ نمٹائےگا۔ اگر تم نےایسا نہیوںں کیا توتمہیوںں سخت سزا ملےگی"۔
جب کوئی مہمان تمہںںں پسند کرےاور تمہارے پاس آئے تواس سے پیار اور محبت سے پیش آو اور اپنے کمرے"
ںںںںں لگانا آج
ںںںںں دس منٹ سےذیادہ نہی
ںںمی
ںںںںںںںں واپس آو۔ ہرایک مہمان کوخوش کرنے
میں مدعو کرو۔ اسےخوش کرکےیہا
رات تم ہر ایک کے لئے چالیس چالیس مہمان ہیں۔ "۔ گائیڈ نے اپنے اپنے گروپ سے کہا
ریمشاو ں۔ تم ہم پرنظر رکھنا جب تک ہم کمرے میوںں ناجائیوںں ۔تم اکیلی مہمان کے ساتھ کمرے میوںں مت جانا"۔ "
ایک ساتھی نے کہا۔ " سمجھ رہی ہونا"۔ دوسری نےزور دیا۔
ہاوںں میوںں تم دونووںں سے پہلے کمرے میوںں نہیوںں جاؤوںں گی۔ مگر یہ سب کیا ہو رہا ہے"۔ ریمشاوںں سہم گی۔ اس "
ںںںںںںں ہیںں؟
ںںںںںںںںںںںں ہے؟ بھیا کہا
ںںںں اپنے آپ کو کوسا۔ یہ کسی غلطی ہوئ مجھ سے۔ نعمان کہا
نےدل می
ڑںںںںںںںںںںںںںکیوں کو
ںںںںںں گروپ نےایک کے بعدایک ڈانس پیش کۓ۔ ڈانس کے بعد سب ل کمرا مردوں سے بھرگیا۔ پانچو
ایک لئن میں کھڑا کردیا گیا۔ " ہائے " ۔ ایک ادھیڑعمر کے عربی آدمی جس کی توند چوغےسے بھی نکل
رہی تھی اپنے سڑے ہوے دانت نکال کر کہا۔ ریمشاوںں کواسے دیکھ کر کراہت ہوئی۔ لیکن مگرگروپ گائیڈ کی
نظرگروپ کی تمام لڑکیووںں پر تھی۔ گائیڈ نے ریمشاوںں کوآنکھیوںں نکال کردیکھا۔
سمیرہ "۔ ریمشاوںں نےاسکو اپنا دیا ہوا نام بتایا۔ "
ہم کو مطلب معلوم سمیرہ ،تم ہمارا دوست آج "۔ یہ کہہ کر اس نے ریمشاوںں کی کمرمیوںں ہاتھ ڈال کے اپنی "
طرف کھینچا۔
شراب کی بدبو نے ریمشاوںں کی ناک بھردی۔ اس نےگرفت سےنکلنا چاہا۔ مگرگائیڈ نے پھرآنکھیوںں دیکھائیو ں۔
عربی نے ریمشاں کا بوسہ لینے کے لیے منہ بڑھایا۔ریمشاں نے پھرتی سےگال سامنے کردیا۔ عربی کا بوسہ
ریمشاں کے لبوں کے بجائےاس کےگال پر پڑا۔ اس نے ریمشاں کےگال کا ایک بڑا بوسہ لیا اوراپنےدونوں ہاتھ
ریمشاوںں کےگرد ڈال کراس کے کولہووںں کوپکڑا اور ایک گیند کی طرح دبایا۔ اچانک کیسی نے ریمشاوںں کے
ںںںں
ڑںںںںں کر دیکھا۔ اس کی دونو
ںںںںںںںںںںںں میں توانائی ڈال دی ۔اس نےمو
کندھے پرہاتھ کر کہا چلو۔ اس آواز نے ریمشا
نستین اور جمیلہ ی اپنے مہمانووںں کےساتھ اس کے نزدیک ک ھڑی تھیو ں۔ ریمشاوںں نے پیار سےعربی کوجدا کیا
اوراسکاایک ہاتھ پک ڑ کردروازے کا رخ کیا۔ وہ مہمانووںں کے ساتھ کمرے میوںں داخل ہوئے نسرین نے بار پرجاکر
گلسووںں میوںں شراب انڈیلی اور مہمانووںں کو پیش کی۔ اس نےتین اورگلس بنائے اور ایک ریشماوںں کودیا۔
ریمشاوںں سے پُشتو میوںں کہا ۔
یہ شراب نہیوںں ہے"۔ "
ریمشاوںں حیران رہ گئی ۔ یہ ساتھیاوںں کون ہیو ں ؟ اس نےسوچا۔
ریمشاوںں کےمہمان نےاس کو کھینچ کراپنی گود میوںں بیٹھا لیا۔ اور اسکی چھاتیووںں سے کھیلنے لگا۔
" اس کوشراب پلؤ "۔ جمیلہ نے ریمشاوںں سے پُشتو میوںں کہا۔
ریمشاوںں نے جلدی سےگلساٹھا کر عرب کے منہ سے لگا دیا۔ عربی سارا گلس بغیرسانس لیے پی گیا ۔
ریمشاں نے دوسرے گلس سے ایک بڑا گھونٹ لیا ۔ اور ایک کڑواہٹ محسوس کی۔ عربی نے ریمشاں کے منہ
ںںںںںںںںں
ںیںںںں دیا ۔اور ریمشاں ں کو پورا گلس پینے پر مجبور کردیا۔ گلس ختم کرنے کے بعد ریمشا
ںںںنے نہ
گلسں ہ
سے ٹ
کوسرور آنےلگا اور اس نے اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کیا۔ عربی نے ریمشاں کوگود میں اٹھا کر بستر
پرڈال دیا۔ اس سے پہلے کہ ریمشاں کو کچھ سمجھ آتا ۔ عربی نےایک جھٹکے ریمشاں کا ازار بند کھینچا
اوراس کی شلوار اتاردی۔ اوراپنا چوغا اٹھا کراوراپنی شلوار بھی گرادی۔ ریمشاں کی آنکھیں بند ہورہی
تھیو ں۔ اس نےمزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر نیند اس پرغلبہ پارہی تھی ۔اس محسوس کیا کہ عربی اس کے
دونووںں گھٹنووںں کو ایک دوسرے سے جدا کر رہا ہے۔ اس نے چاہا کہ وہ اس کو روکےمگر وہ ہل نہیوںں سکی۔ اس
ںںںںںںںںںں
ںںںںںںںںںںں رانوں کےدرمیان ۔۔۔۔ چھواءں۔ںریمشاکو آنکھیںںں کھلی رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ پھرعربی نے ںں
اسکی دونو
ںںںںںںںںںںںںںں پر حاوی
ںیںںںں" ۔ عربی اپنے پورے بوجھ سے اس پرگرا۔ اور نیند نے ریمشا
اپنی پوری قوت سے چلئی " نہ
آگئیو۔ں
شِ ٹ”و جملیہ ،یار تم نے اس عربی کوجان سے تو نہیوںں ماردیا۔ نسرین نےجمیلہ سےپوچھا۔“
نہیو ں۔ کہو توماردووںں سالے کو"۔ جمیلہ نے نسرین کو جواب دیا۔ "
اور یہ ریمشاوںں کو کیا ہوا؟" نسرین نے کہا۔ "
بیوقوف نےاپنے جوس کے بجائے نشہ آور شراب پی لی ،جو ہم نے ان لوگووںں کےلیے بنائی تھی"۔ جمیلہ نے "
قہقہہ لگا کر کہا۔
او کے سسٹر ،تم نےاس عربی کا سرٹھیک وقت پرتوڑا۔ ورنہ بےچاری ریمشاوںں ساری زندگی روتی"۔ "
نسرین نےہنس کر کہا۔
میوںں نعمان کو کھڑکی سے پولس کا حملہ کرنے کا سگنل دیتی ہووںں ۔ تم ریمشاوںں کو بہتے پانی کے نیچے کھڑا "
کر کے جگانے کی کوشش کرو۔" جمیلہ نے کہا۔
جملیہ نے کمرے کی لئوٹں کوچار بارجلیا اور بجایا۔ اس نےگیلری میوںں جاکر سامنےوالی بلڈنگ کودیکھا۔
اُسےایک کھڑکی میں لئٹ کوچار بار جلتےبجتے نظرآئی۔ جملیہ نےسگنل دوہرایا۔ اُسےاس سگنل کا جواب بھی
مل ۔ں
ںںںںںںںںںں کی طرح ان تینوں
جمیلہ دوڑں کردروازے پرگئی اور دروازے کو لک کردیا۔ اس کے بعداس نے ںں
پولس والو
عربیووںں کےہاتھ پیچھے کر کےچادرووںں سے باندھ دیۓ اور پھرغسل خانے کا رخ کیا۔
ںںںںںںںںںںںںںںں "
عربیںکوموقع نہی
ںںںںں ہوا۔ تم ویسی ہی ہو۔ جیسی پیدا ہوئی تھی ،میرا مطلب ہے کہ ہم نے ں
سسٹر۔ کچھ نہی
دیا۔ بچارا نےتمہارا ایک ماہ کا قرضہ بھی چکایا اور بدلہ میوںں تم نےاس کو کچہ نہیوںں دیا"۔ جمیلہ نےقہقہہ لگایا۔
اور یہ کیاحماقت کی تم نے انگورکاخالص جوس پی نے کے بجائے نشہ آور شراب پی لی ۔" نسرین نے پوچھا۔ "
او کےسسٹر ریمشاں۔ ہم اب ڈیوٹی پرہیں۔ ہمارے باہرجانے کے بعدتم اس دروازے کو لک رکھنا اور تب "
تک نہ کھولنا جب تک دستک دینےوال یہ نا ثابت کردے کہ وہ تمہارا بھیا ہے۔ جمیلہ نے کہا۔
یہ جمیلہ اور نسرین ہیو ں۔ تم ان کواچھی طرح سےجانتی ہو"۔ نعماوںں نےہنس کرابتدا کی۔ "
جمیلہ اور نسرین نے ریمشان کو آنکھ ماری۔
یہ دونوں تربیت یافتہ انڈرکورایجنٹ ہیں۔ ان کا کام تمہاری حفاظت کرنا اور ہمیں سچویشن سے آگاہ رکھنا "
تھا۔ انہوں نے یہ کام خوبی سےانجام دیا۔ نسرین میرے لیے کام کرتی ہے اور جمیلہ یہاں دوبئی کی خفیہ پولیس
میوںں ہے"۔ نعمان نےسانس لی۔
ںںںںںںںںںں "
ںںںںںں کوثبوتی مواد کےساتھ گرفتار کرلیا ہے ۔ ہماری دونو
ہم نےدوبئی کی خفیہ پولیس کی مدد سے ان ںں
اسمگرو
حکومتوںں ان ک ےخلف قانونی کاروائی کریوںں گی"و۔ں
کھانے کے بھائی جان ،سادیہ کوتفصیل سے آگاہ کرنےلگے۔ جمیلہ اور نسرین کیس سے متلعق باتیوںں کرنےلگیو ں۔
نعمان بووٹں کی ریلینگ کےنزدیک ک ھڑا ہو کرشہر کی روشنیاوںں دیکھ رہا تھا۔
ریمشاوںں نے نعمان کے کندھے پرہاتھ رکھا۔ نعمان نے ریمشاوںں کاہاتھ اپنےدونووںں اپنےدونووںں ہاتھووںں کے درمیان
دبوچاو۔ں
تمہارے ہاتھ بہت نرم اورخوبصورت ہیو ں"۔ نعمان نے کہا۔ "
کیا تمہیوںں وہ سکون مل گیا جس کے لیے تم نے اپنی جان وجسم خطرے میوںں ڈال"۔ نعمان نے پوچھا۔ "
ہاو ں"۔ ریمشاوںں نے جواب دیا۔"
تھوڑی دیر تک وہ دونووںں روشنیووںں کےشہر کو دیکھتے رہے ۔ پھر ریمشاوںں نے سوال کیا۔
" اے روشن اُن کےشہر بتا ۔اب کیا ہوگا" ،۔
میں واپس کراچی جاؤں گا اورایک دوسرے کیس پر کام شروع کردوں گا۔ اور تم ۔ تم سادیہ کے ساتھ "
امریکہ جارہی ہو"۔ نعمان نے مسکرا کر کہا ۔
ہمارے راستے مختلف سمت جاتے ہیں۔ میں پینتس سالہ خفیہ پولیس کا ملزم ۔ میرا چوبیس گھنٹہ گھرسےباہر "
ںںںںںںںںںںں۔ میں ں
ںںںں گزرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک دن کسی کی گولی کا شکارہو کرمرجاؤ مجرموں کا تعاقب کرنےمی
تمہاری زندگی کا ساتھ نہیوںں ہووںں ریمشاو ں" ۔
لیکن ہاوںں اگر تم امریکہ جاکر کریمنالوجی میوںں ماسٹرس کرلو اور پھر واپس آو تومیوںں تم کومیرے "
ڈیپارٹمنوٹں میوںں نوکری دیلنے کا وعدہ کرتا ہوو ں" ۔ نعمان نے ریمشاوںں کےآنسو پونچھتےہوئے کہا۔
پکا وعدہ "۔ ریمشاں نے اپنے ہاتھ نعمان کے کندھے پر رکھ کر کہا "
پکا وعدہ"۔ نعمان نےاپناہاتھ دل پر کر ریمشاوںں کی پیشانی کو چوما ۔ "
ریمشاوںں کےہاتھ پھسل گئے اور اس کی بغلیوںں نعمان کے کندھووںں کوچھو رہی تھیو ں۔۔۔ پھر بووٹں کےفرش پر
چاند کی روشنی میوںں دو سایےایک ہو گئے۔
ختم شد