Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 68

‫حیوانوں کی بستی‬

‫از‬

‫سید تفسیر احمد‬

‫نو ٹ‪ :‬اس کتاب کو اردو ویب ڈا ٹ لئبریری ٹیم ن ے برقیا کر آپ کی آرگ خدمت می ں پیش کیا ۔‬

‫ف ہرستِ ابواب‬

‫سر ورق‬

‫‪3‬‬ ‫‪--------‬‬ ‫باب ‪1‬‬ ‫کوباٹ‬

‫‪18‬‬ ‫‪--------‬‬ ‫باب ‪2‬‬ ‫ریمشاں‬

‫‪39‬‬ ‫‪--------‬‬ ‫باب ‪3‬‬ ‫قندھار‬

‫‪52‬‬ ‫‪---------‬‬ ‫باب ‪4‬‬ ‫پشاور‬

‫‪66‬‬ ‫‪--------‬‬ ‫باب ‪5‬‬ ‫لہور‬


‫‪85‬‬ ‫‪--------‬‬ ‫باب ‪6‬‬ ‫کراچی‬

‫‪93‬‬ ‫باب ‪-- 7‬‬ ‫سفر کی تیاری‬

‫‪105‬‬ ‫‪-------‬‬ ‫باب ‪8‬‬ ‫سفر‬

‫‪115‬‬ ‫‪-------‬‬ ‫باب ‪9‬‬ ‫دوبئی‬

‫کو ہا ٹ‬

‫‪(Revolutionary Association of the‬‬


‫سکینہ کوجمیتِ اسلمی زنان افغانستان‬
‫نے" عورتووںں کے حقوق " پر تقریر کے لۓ بلیا تھا۔ )‪Women of (Afghanistan‬‬
‫کیونکہ میوںں مصروف نہیوںں تھا میوںں بھی ساتھ چل آیا۔افغانستان کی روشن خیال عورتووںں نے" مینا" کی‬
‫میں ایک تحریک‬ ‫نمائندگی میوںں افغانستان کی عورتووںں کےانسانی حقوق اور سماجی انصاف کو ے ل ے ‪1977‬‬
‫کہلتی ہے۔مینا نے کالج کو چھوڑ کر اپنی چھوٹی زندگی کے بارہ سال افغانی ‪ RAWA‬شروع کی جو آج‬
‫عورتووںں ک ے ل ے گزاردیوےںں۔ ں‬

‫میوںں روس نےحکمت یار کی مدد سے مینا کو کوہاوٹں میوںں گلبدن کےلوگووںں سےقتل کروادیا۔ مینا ‪1987‬‬
‫مرگئی لیکن جمیعت آج بھی زندہ ہے اور افغانی عورتووںں کی فلح اور بہبود کے لۓ کام کررہی ہے۔‬

‫سکینہ اسٹیج پرتھی اور میں شامیانےمیں۔ جدھر دیکھو عورتیں ہی عورتیں تھیں اور میں اپنے کو بے جگہ‬
‫محسوس کررہا تھا۔‬

‫پروفسیر جی"۔ کسی نے کہا۔ "‬


‫میوںں نے آواز کی جانب نگاہ کی۔‬

‫آداب عرض ہے"۔ "‬


‫میری ایک ہم عمر عورت مجھ سے مخاطب تھی ۔‬

‫آداب "۔ میوںں نے سر کو ہلتے ہوۓ کہا۔ میرا نام ساجدہ ہے اور میو ں “ راوا “ کےاسپتال میوںں کام کرتی ہوو ں۔ "‬
‫میوںں ایک ڈاکٹر ہوو ں۔‬

‫میوںں نے اپنا ہاتھ ملنے کےلۓ بڑھایا۔ لیکن اسکا ہاتھ آگےنہ بڑھا۔ میوںں نےاپنا ہاتھ شرمندگی سےگرادیا۔‬

‫بُرا نا مانیوںں ‪ -‬اگر میوںں آپ کو پاکستان سے باہر ملتی تو نہ صرف آپ سے ہاتھ ملتی بلکہ گلےلگ جاتی ‪ ،‬آپ"‬
‫میرے ہیرو ہیو ں۔ آپ ہی کی وجہ ہے کہ میوںں نیویارک کے بجاۓ یہاوںں پریکٹس کر رہی ہوو ں۔‬

‫مجھ کوحیرت میوںں دیکھ کر وہ ہنسی۔ " میوںں آپ کو اس لۓ جانتی ہووںں کہ دو سال پہلےنیویارک میوںں نے‪ ,‬آپکی‬
‫کتاب ' پختون کی بیٹی ' پڑھی تھی۔اس کے پچھلےصفحہ پر آپکی تصویر تھی۔ میں اس کتاب کو پڑھ کر بہت‬
‫ںںںںںںںںںںں پاکستان میں پریکٹس‬‫ںںںں نے فیصلہ کرلیا تھا کہ میڈیکل کالج ختم کرنے کںں‬
‫ے بعد می‬ ‫روئی تھی۔ اوراُسی دن می‬
‫کرووںں گی اور اپنی بہنووںں کی خدمت کرووںں گی"۔‬

‫میری سمجھ میوںں نہیوںں آرہا تھا کہ ایسے موقع پر کیا کہا جاتاہے۔ پہلی بار زندگی میوںں میرے ساتھ یہ ہورہا تھا۔‬
‫میوںں خاموش رہا۔‬

‫ںںںںںںںںںں؟ "‬
‫ںیںںںں دیکھی۔ کیا آپ اب بھی لکھتے ہی‬
‫میں نے آپ کی کوئی دوسری کتاب نہ‬

‫میرا کام اور دوسری مصروفیات اسکی اجازت نہیوںں دیتے "۔ میوںں نےاس عورت سے جان چھڑانے کی کوشش"‬
‫کی۔ میوںں چاہتا تھا کہ یہ موضوع کس طرح جلد ختم ہوجاۓ۔‬

‫اب صرف خبریوںں رہ گی ہیوںں اور کہانیاوںں کھوگی ہیو ں"۔ میوںں نے جھنجھل کرجواب دیا۔"‬
‫کیااچھاہوتا کہ آپ لکھنا جاری رکھتے۔ مجھے آپ کی ضرورت ہے۔ میرا مطلب ہے آپ کی سب بہنووںں کو"۔ "‬
‫میرے پاس ایک کہانی ہے جو صرف آپ ہی لکھ سکتے ہیو ں"۔ ساجدہ نے کہا۔ "‬
‫اس نے سکینہ کو ہماری طرف آتے دیکھا۔‬

‫"وہ جو ‪ ،‬ہماری طرف آرہی ہںیںںںں کیا آپ کی بیوی ہیںں؟"‬


‫آپ ان کونہیوںں جانتیو ں ‪ ،‬وہ سکینہ ہیو ں"۔ میوںں نے قہقہہ لگا کرکہا۔ "‬
‫جو میوںں نے پڑھاتھا تو وہ سب حقیقت تھی “۔ ساجدہ نے کہا۔ "‬
‫اچھا میوںں چلتی ہوو ں۔ میوںں نے جو کہا ہے آپ اس کے بارے میوںں سوچیو ں۔ خدا حافظ"۔"‬
‫وہ کون تھی؟۔ میوںں تم کو ایک لمحہ بھی اکیل نہیوںں چھوڑ سکتی"۔ سکینہ نے ہنس کر مذاق کیا۔ "‬
‫ںںںںںںںںںں تمہاری گل کی کہانی لکھںوںںںں آج "‬
‫وہ ' راوا ' کی ایک ڈاکٹر ہے۔ ‪ 5‬سال پہلےجس طرح تم نے چاہا تھا کہ می‬
‫وہ بھی تمہاری ہی طرح یہ چاہتی ہے کہ میوںں ایک کہانی لکھووںں “۔‬

‫ہاوںں مجھے چھوڑ کے ‪ ،‬تمہںںں تو جانے کی بہت پریکٹس ہے"۔ میوںں نے موضوع بدلنے کی کوشش کی۔"‬
‫سکینہ نے اپنا منہ دوسری پھر لیا۔ مجھے پتہ تھا کہ میں غلط تھا۔ مگر ہم بے وقوف مرد ہمشہ عورت کو اپنی‬
‫کمزوی کا الزام دیتے ہیو ں۔ایک سکوت طاری ہوگیا۔‬

‫گاڑیووںں کی بھ ی ڑ میوںں ہم نےجیپ تلش کی۔ اور کوہاوٹں کا راستہ پکڑا۔‬

‫فون کی گ نھٹی بجی۔ آفس سکریٹری نے کہا۔ ڈاکڑساجدہ کی کال ہے۔‬

‫میوںں نے کہاو " کنکوٹں کرو"۔‬

‫ہیلو"۔"‬
‫پروفیسر صاحب"و۔ں"‬
‫" ساجدہ کیا حال ہیںںں"‬
‫ٹھیک ہیو ں۔ آپ نے پھر سوچا۔ کہانی لکھنے کا "۔ "‬
‫کیا میوںں نے وعدہ کیا تھا؟ " میوںں نے بےدلی سے پوچھا۔ "‬
‫نہیوںں تو۔ لیکن میوںں نےسوچا ‪ ،‬میرا ہیرو مجھے مایوس نہیوںں کرے گا "۔ اس نے ہنس کر کہا۔ "‬
‫میوںں نے چند سالووںں میوںں کچھ نہیوںں لکھا۔ مجھے یہ بھی نہیوںں پتہ کہ میوںں اب لکھ سکتا ہووںں "۔"‬
‫یہ کہانی اپنےآپ کو خود لکھےگی "۔ ساجدہ بولی"‬
‫ھمم ۔۔۔ آفس کا نمبر کیسے مل “۔ "‬
‫کوہاوٹں میوںں کوئی شخص ایسا نہیوںں جو سکینہ اور اسکے شوہر نسیم اعوان کو نہیوںں جانتا ہو اس لۓ آفس کا "‬
‫نمبر حاصل کرنا مشکل نہیوںں تھا "۔‬

‫اچھا۔ میوںں کہانی لکھنے کے بارے میوںں سوچووںں گا "۔ میوںں نے بے دلی سے کہا۔ "‬
‫ساجدہ نے کہا۔ فی الحال میرے لۓ یہ کافی ہے۔ میوںں آپ کو اگلے ہفتہ کال کرووںں گی۔ خدا حافظ"۔‬

‫میوںں نے فون رکھ دیا۔‬

‫سینکہ آفس میوںں داخل ہوئی۔‬

‫کیا ہورہا ہے؟ سکینہ نے کہا۔ " کچھ نہیں۔ وہی جو پہلے تھا۔ میں ناصرہ کو‘ بل کنڈ ‘ سے نکالنے کا طریقہ کار‬
‫سوچ رہا تھا "۔‬

‫آج ہمارے گھر کیسے آنا ہوا ؟ " میوںں نے پوچھا۔ "‬
‫" تم دوپہر کے کھانے پر کیا کررہے ہو؟ "‬
‫" کیوں؟ "‬
‫چلو ساتھ کھاتے ہیوںں "۔ سکینہ نے جواب دیا۔ "‬
‫" کیا آج نسیم آفس نہیوںں آۓ ؟ "‬
‫وہ ہیوںں یہاوں۔ مگر ان کو پتہ ہے کی میوںں تمہارے ساتھ لنچ کررہی ہووںں "۔"‬
‫میرے کان ک ھڑے ہوگے۔ پچھلےدوسالووںں میوںں بہت ہی کم ایساہوا کہ میوںں اور سکینہ نے اکیلے کھانا کھایا ہو۔‬
‫میوںں ہمشہ اکیل کھاتا ہووںں یا پھر ہم تین ساتھ کھاتے ہیو ں۔ لیکن میوںں خاموش رہا۔‬

‫شہر کی طر ف جانے کے بجاے سکنیہ نےگاڑی کو ہا نگو ضلع کیطرف موڑ دیا۔ میوںں جان گیا کہ ہمٹانڈا ڈیم‬
‫ںںںں‬
‫ںںںںں کے بیرونی عللقو‬
‫کوںہا‬ ‫‪7‬‬
‫جارہے ہیوںں جو دریا ٹوی پر بنایا گیا ہے۔ یہ ڈیم ‪ ،‬کوہا ٹں سے کلومیٹر پر ہے۔ ٹ‬
‫میوںں پانی کھیت باڑی کا پانی مہیا کرنے کے لۓٹانڈا ڈیم بنایا گیا ہے۔ یہ بہت خوبصورت جگہ ہے۔آس پاس کے‬
‫لوگ بڑی تعداد میں پکنک کے لۓ یہاں آتے ہیں۔ہم نے پانی کے قریب ایک سایہ دار جگہ تلش کی اور زمین پر‬
‫دری بیچھا کےاس پر بیٹھ گے۔ سکینہ نےگاڑی سے کھانا نکال کرچادر پرلگایا۔ ہم کھانے کےدوران قدرتی‬
‫خوبصورتی کا نظرا کرتے رہے۔ کھانے کے بعد سکینہ نے تھرماس سےگرم گرم چاۓ نکالی۔‬

‫تم بدھو ہو "۔ سکینہ نے کہا۔ "‬


‫یہ وہ ہی پرانی سکینہ تھی جیسےمدت ہوۓ میوںں جانتا تھا۔‬

‫" تم ساجدہ کی بات کیووںں نہیوںں مانتے؟ "‬


‫میوںں اب سمجھا ‪ ،‬تواس لۓ تم نے میرے لۓ یہ مزے دارکھانا بنایا ہے۔ "‬
‫سکینہ نےاقرار کیا کہ ساجدہ نے مجھ کو راضی کرنے کے لۓ اُس سے درخواست کی تھی۔‬

‫ںںںںںی نہیںں کی "‬


‫یںچھ‬ ‫ںںںںںںںںںںںںں تم نے ایک دن کی بھ ٹ‬
‫اور تم کو بھی کچھ وقت آفس سے دور چاہیے۔ پچھلںےںدوسال می‬
‫ہے”۔‬

‫آفس سے دور ۔ وہ کیسے؟ "‬


‫یہ کہانی صرف پاکستان میوںں ہی نہیوںں ہے؟۔ "‬
‫کیا‪ ،‬مطلب ‪ ،‬کہاوںں ہے؟ "‬
‫مجھے نہیوںں پتہ “ سکینہ نے کہا۔"‬
‫لیکن تمہیوںں اس کہانی کو لکھنا چاہیے۔ یہ کام تم کو پھر سے بیدار کردے گا۔ میوںں تمہیوںں روز دیکھتی ہوو ں۔ تم"‬
‫ایسے لگتے ہو جیسے تم کھوگے ہو۔اور نہیوںں جانتے کہ کیا کرو "۔ سکینہ کی آنکھیوںں نم ہوگیو ں۔‬

‫تم میرا پہل پیار ہو‪ ،‬اور کوئی مجھ کواس پیار سے جدا نہیں کرسکتا ‪ ،‬تم میرے پہلے دوست ہو اور زندگی "‬
‫بھر کے لۓ دوست ہو۔ ہم دونووںں نے کچھ فیصلے کۓ ‪ ،‬صحیح یاغلط مگروہ ہماری ‪ ،‬خود کی مرضی تھی۔ اب‬
‫ہم ان فیصلووںں کو بدل نہیوںں سکتے"۔‬

‫میوںں نےاُن گلبی گا لووںں پر دو آنسوووںں کے قطرووںں کو پھسلتے دیکھا۔ بڑی مشکل سے میوںں نےاپنے آپ کو ان‬
‫موتیووںں کو پینےں س ے روکاو۔ں‬
‫میل کے فاصلہ پر ہے اور تقریباً گاڑی کاسفرڈ یڑھ دوگ نھٹے کا ہے۔ آپ دو‬ ‫‪37‬‬
‫ںںںں‬
‫پشاور ‪ ،‬کوہاٹں کے جنوب می‬
‫ںںںںں پوسٹ جوخوبصورت نظاروں‬ ‫کوںہا‬
‫ںںںںںںںںںںک ہے۔ یا ٹ‬‫راستےلےسکتے یا تو پرانا آرمی روڈ ۔آرمی روڈ ڑں‬
‫خطرناک س‬
‫ٹںںںںںںںںںں پاس( جوخوبصورت سرنگ‬
‫ٹںںںںںںںںںںںںے کا ہے یاپھرآپ ڈیرہ آدم خیل )کوہا‬
‫سے بھری ہے۔ پشاور کا سفراس سےدو گھن‬
‫کہود کر بنایا گیا ہے یہ بھی کوہاوٹں سے پشاورلےجاتا ہے۔ میوںں ڈ یڑھ گ نھٹے بعد پشاور میوںں تھا۔‬

‫میں “ راوا “ کےآفس پر روکا۔ ایک نوجوان افغانی سامنے کے کمرے میں بیٹھا لفافے کہول کر بنک چیک اور‬
‫نقدی کے نذرانووںں کو علحیدہ کر رہا تھا۔‬

‫ڈاکٹر ساجدہ ہیں؟ " میں پوچھا"‬


‫وہ آج فیلڈ میوںں ہیو ں”۔"‬
‫" یہ فیلڈ کہاوںں ہے؟۔ تہوڑی دیر میوںں ڈرائیوروہاوںں جانےوال ہے۔ آپ اس کا پیچھا کرسکتے ہیو ں۔ "‬
‫اچھا میوںں سامنے والی ریسٹورانوٹں میوںں چاۓ پیتا ہوو ں۔ ڈرا ئیور کو بتادینا”۔"‬
‫میوںں نے دودھ میوںں بنی ہوئی گرم چاۓ کی پیالی خرید ی اور آہستہ آہستہ اس کے مزے سےلطف اندوز ہونے لگا۔‬

‫صاحب ‪ ،‬تیار ہو"۔ ڈرائیور نے پوچھا۔"‬


‫فیلڈ ‪ ،‬انسانووںں اور خیمووںں کا ایک سمندر تھی۔ جگہ جگہ پرغلضت کے ڈھیر تھے۔ ہرطرف پانی کے جو ہڑ‬
‫تھے۔ بچووںں کے رونےاور چلنے کی آوازیوںں آرہی تھی۔ خمیووںں کےدروازے کھلے تھے۔ مرد بت بنے بیٹہے‬
‫ںںںںں‬
‫ںںمی‬‫روںںںں پر ایک بے کسی تھی۔‬ ‫ںںںں۔ سب کے چہںں‬ ‫ںںںںںں کررہی تھی‬
‫ںںںںں دوپہر کا کھانا بنانے کی تیاریا‬
‫تھےاور عورتی‬
‫ںںںںں پرایک بڑا اور ایک چہوٹںا‬‫ںںںںںںںںںںںںںںں پہنچے۔ںوںہا‬
‫خاموشی سے ڈرائیور کے پیچہے چلتا رہا۔ آخر ہم ایک کھلی جگہ می‬
‫چوٹے خیمے کے سامنے ایک لمبی قطار تھی۔قطار میوںں کوئی چالیس یا پچاس عورتیوںں اپنے بیمار‬ ‫خیمہ تھا۔ ہ‬
‫چوٹے والےخیمہ میوںں ہونگی”۔‬ ‫بچووںں کو لیے کھڑی تھیو ں۔ ڈرائیور نے کہا۔ "بابو جی‪ ،‬ڈاکٹرنی صاحبہ ہ‬

‫میوںں نے ڈرائیور کا شکریہ ادا کیا اور خیمہ کی طرف چل۔‬

‫ساجدہ کا سیدھا کندھا دروازے کی طرف تھا اور وہ کسی کو ٹیکےلگا رہی تھی۔ میوںں نےمداخلت کرنا مناسب‬
‫نہیوںں سمجھا۔ میوںں کافی دیر ک ھڑا اسے دیکھتا رہا۔ ساجدہ نے موڑ کر قطار کو دیکھا اس کی نظر مجھ پڑی اور‬
‫وہ ک ھڑی ہوگی۔‬
‫میوںں کہا۔ " تم اپنا کام جاری رکہو میوںں انتظار کرسکتا ہوو ں "۔‬

‫اچھا آپ مجھے ‪ 15‬منوٹں دیجۓ۔ نرس ساڑہے بارہ بجے آتی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔ "‬
‫میوںں جا کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گیا۔‬

‫منوٹں کے بعد ساجدہ اپنے آفس سے باہر نکلی۔ اس کے ہاتھ میوںں ایک کھانے کا ٹفن کیریرتھا۔ اس‬ ‫‪15‬‬
‫ٹھیک‬
‫نے زمیں پر چادر بچھائی اور دو پلیٹوں میں گرم گرم پلؤ نکالاور کہا “ کھاۓ“۔ مجھے بھوک لگی تھی اور‬
‫پلؤ کی خوشبو نے بھی مجبور کردیا۔ میوںں نےشکریہ کہہ کر کھانا شروع کردیا۔ کھانے کے دوران ساجدہ نے‬
‫پوچھا توآپ نےفصیلہ کیا؟‬

‫میوںں پہلے کہانی سنناچاہتا ہوو ں”۔ "‬


‫یہ میری کہانی نہیوںں یہ ریمشاوںں کی کہانی ہے۔ میوںں آپ کواس سے ملوادیتی ہوو ں”۔ "‬
‫ریمشاوںں ایک سولہ سال کی افغانی لڑکی ہے۔وہ یہاوںں نرس کی مدد کرتی ہے۔ بہت دکھی ہے لیکن کسی کو "‬
‫بتاتی نہیوںں ‪ ،‬سوتے میوںں ماوںں ماوںں چلتی ہے۔ اس کی تمام فمیلی مرچکی ہے۔ ' راوا ' کے ڈاکٹر جمیلہ دکھایا تھا۔‬
‫ان کا کہنا ہے کے ریمشاوںں کو کسی طرح بولنا ہوگا۔ تاکہ وہ اپنے پرابلم کوسطح پر لے آۓ”۔‬

‫ساجدہ رکو۔ تم نے کہا تھاکے یہ کہانی ہے جو خود کو لکھواۓ گی”۔ "‬


‫ہاوںں تمہیوںں کہانی سننانےوالے کو راضی کرنا ہے اور کہانی خود کو لکھواۓ گی”۔ "‬
‫میوںں جنھجھل کر کہا”۔ تم پاگل ہوگی ہو کیا"۔ اس ماحول نے تم سےعقل چھین لی ہے‬ ‫"‬
‫تم اُس سے صرف ایک دفعہ مل لو ‪ -‬وہ بڑے خیمہ میوںں ہے"۔ "‬
‫میں اتنی دور تک آیا تھا۔ میرے دل میں ایک دفعہ سے پھرلکھنے کی خواہش پیداہوئی تھی۔ لیکن یہ حالت میری‬
‫ںںںںںںں عورت کی‬
‫ےںکیو‬
‫ںںںںں میں آنسو تھے۔ ناجانں‬
‫ںںھو‬
‫ںںںںںںں ساجدہ کی طرف دیکھا۔ اس کی آنک‬
‫علمیت سے باہرتھی۔ می‬
‫آنکھووںں میوںں آنسو دیکھ کر میرا دل پگھل جا تا ہے۔ " کہاوںں ہے وہ؟ "۔‬

‫اسپتال میو ں۔ وہ جو بڑا خیمہ ہے"۔ "‬


‫میوںں کہا۔ کھانے کا شکریہ اور اسپتال کی جانب چل۔ خیمہ میوںںآٹھ دس پلنگ تھے۔ان پر پتلےگدئے اورسفید‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںںںںں‬
‫چادریں تھیںںں۔ تمام بستر مریضوں ں سے بھرے تھے۔ ایک طرف الماری تھی جسکا دروازہ کھل تھا اور اس می‬
‫چوٹی سی میز پراور کرسی تھی۔ وہ ایک سفید کووٹں میوںں تھی۔ ایک‬ ‫کچھ دوائیوںں رکھی تھیو ں۔ ایک طرف ہ‬
‫پلنگ سے دوسرے پر جاتی اور مریضوں کودوا پل رہی تھیْ۔ میں دروا زے کی قریب بیٹھ گیا۔ جب وہ دوا‬
‫ںںںںںںںںںںںںں میں‬
‫ںںںںںںںںںںںںں بیٹھا دیکھا۔ مجھ پرایک نگاہ ڈالی اور پھر اپنے کامو‬
‫دینے سے فارغ ہوئی تو اس نے مجھےوہا‬
‫مصروف ہوگی۔ایک اورگھنٹا گزرگیا۔ اس نے ایک بار پھر مجھےدیکھااور نظرانداز کردیا۔ ایک گھنٹہ‬
‫اورگزرا اور ساجدہ کمرے میوںں داخل ہوئی۔ اسوںں نےمجھے دیکھا اور پھر ریمشاوںں کو۔‬
‫ادھرآؤ "۔ ساجدہ نے ریمشاوںں کو آنے کا اشارہ اور میرے نزدیک زمین پر بیٹھ گئی۔ "‬
‫یہاوںں بیٹہو"۔ ریمشاوںں نےاپنا کووٹں اتار کرمیز پر رکھ دیا اور ساجدہ کے پاس زمین پر بیٹھ گئی۔ "‬
‫یہ تم سے ملنے آۓ ہیو ں۔ یہ سچی کہانیاوںں لکھتے ہیو ں"۔ "‬
‫نرس خیمہ میوںں داخل ہوئی اور ساجدہ کو باہر آنے کا اشارہ کیا۔‬

‫ساجدہ نے کہا ‪ “ -‬دیکھووںں کیا ہوا”۔‬

‫ریمشاوںں سر جھکاۓ بیٹھی رہی۔‬

‫تمہارا نام ریمشاوںں ہے"۔ "‬


‫ریمشاوںں نےس ارٹھا۔ ان آنکہووںں میوںں بے انتہا کرب اور سوز تھا۔‬

‫" تم ‪ 15‬سال کی ہوگی ؟ "‬


‫کوئی جواب نہیو ں۔‬

‫میری ایک بہن ہے وہ مجھے بہت پیاری ہے۔ وہ بھی مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ اس کا نام سادیہ ہے۔‬

‫کوئی جواب نہیو ں۔‬

‫کیا تم اردو پڑھ سکتی ہو؟‬

‫کوئی جواب نہیو ں۔‬

‫میوںں نے اپنے بیک پیک سے میری کتاب " پختون کی بیٹی" نکالی اور اس کےسامنے زمین پر رکھ دی۔‬

‫وہ ہلی تک نہیو ں۔ " میوںں سمجھ گیا کہ وہ آج زبان نہیوںں کھولے گی۔‬

‫جب تم اس کو پڑھ لو تو ڈاکٹر صاحبہ سے کہنا کی تم مجھے کتاب واپس کروگی۔ ڈاکٹر صاحبہ مجھے فون‬
‫کردیوںں گیو۔ں سلم"و۔ں‬

‫کوئی جواب نہیو ں۔‬

‫خدا حافظ“و۔ں“‬
‫کوئی جواب نہیو ں۔‬

‫مجھے ساجدہ کو خیمے کے باہر ملی۔ ہم دونووںں میری جیپ کی طرف چلے۔ جب ہم خیمے سے دور تھے۔‬
‫ساجدہ نے کہا”۔ میوںں نےسب سنا”۔‬

‫میوںں نے ہی نرس سے کہا تھا کہ تھوڑی دیر میوںں آ کر مجھے بللینا۔‬

‫میوںں کہا”۔ دیکہو کیا ہوتا۔ مجھے کوئی امید نہیو ں " ۔‬

‫وہ آپ کی کتاب پڑھےگی۔ وہ دس جماعت تک پڑھی ہوئی ہے"۔ ساجدہ نے کہا۔ "‬
‫اس کتاب میوںں ایک جادو ہے۔ وہ اس سحر سے نہ بچ پاۓ گی۔ ساجدہ نے قہقہ لگایا۔ “‬
‫“ میوںں اس کا انتطار کرووںں گےںں۔ں "‬
‫ریمشاں‬
‫جب کبھی میوںں اداس ہوتا ہوو ں۔ تومیوںں اپنی ننھی بہن کو کال کرتا ہوو ں۔ میری ننھی سادیہ دنیا کے لیے تییس سال‬
‫کی شادی شدہ عورت ہے ‪ -‬میری بھانجی سکینہ اب تین سال کی ہے۔ سادیہ نے اپنی بچی کا نام سکینہ جان‬
‫کرسکینہ کے نام پر رکھا ہے اور سکینہ نےاپنی تین سالہ بیٹی کوسادیہ کا نام دیا ہے۔‬

‫میں نےگھڑی میں وقت دیکھا ‪ ،‬اس وقت لس انجلیس میں رات کےبارہ بجے ہونگے۔ شاید وہ اوراس کا‬
‫شوہرشان اپنی ننھی کوسُل کرخود سونے کی تیاری کر رہے ہووںں گے۔ مجھےشام میوںں کال کرناچاہیے ۔‬

‫سکینہ‪ ،‬شان کی بڑی بہن ہے۔ شادی کے وقت سادیہ اور شان کی عمریوںں اٹھارہ سال کی تھیو ں‪ -‬اُن دونووںں نے‬
‫پڑھائ چھوڑ کر کوہاٹ میں پانچ سال پختون کی بیٹیوں کوظلم کے خلف کام کیا ۔جب میں اپنی خواہشات‬
‫سے فارغ ہوا تومیوںں سکینہ کو کھوچکا تھا۔‬

‫جب میں چھوٹا تھا تو میں نےسومقصد بناۓ تھے۔ آج وہ تمام مکمل ہوچکے ہیں۔ سکینہ کی زندگی کا مقصد‬
‫اپنی پختون کی بیٹیووںں کو ظلم سے نجات دل نا تھا۔ اور میرا مقصد پانچ سال میوںں اپنےمقصدووںں کومکمل کرنے‬
‫کا پروگرام۔ پچیس سال کی عمرمیں میرا آخری مقصد ہمالہ کی چوٹی کوفتح کرنا تھا۔ جس میں مجھ کو کئی‬
‫شکستوں کے بعد پانچ سال میں فتح ہوئ۔ اس دوران میں سکینہ نے نسیم سے شادی کرلی اوراس کےشوہرنسیم ‪،‬‬
‫سادیہ اورشان نےاس آرگینائزیشن کوسوٹں اپ کیا۔ آج ان کی وجہ سے ہزارووںں پختون کی بیٹیاوںں ظلم کےشکنجے‬
‫سےدور ہیو ں۔ جہاوںں تک میرا سوال ہے میوںں بلندی پرتو پہنچ گیا لیکن وقت نےمیرے نیچے سے سیڑھی کھینچ لی۔‬
‫اب میوںں بلندی سےگر رہا ہوو ں۔ شاید اس حادثہ کا نام تقدیر ہے۔ جب میوںں واپس آیا توشان اور سادیہ نےاپنی تعلیم‬
‫مکمل کر نے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنی تعلیم کوختم کرکے واپس آئیوںں گےاورمیوںں نےشان اور سادیہ کی جگہ لے لی‬
‫ہے۔‬

‫میں نے رسٹ واچ پر نگاہ ڈالی ‪ -‬اس وقت لس انجلیس میں صبح کے چھ بجے ہوں گے۔ وہ بے بی سکینہ کا‬
‫دونوںںںں یونیورسٹی‬
‫ڑںںںں دئےاور وہ ں‬
‫ٹںںںںںی سکینہ کو ماںں کے پاس چھو‬
‫دن بھر کا سامان تیار کر رہی ہوگی تاکہ وہ بی‬
‫ںںںںںںںںںںںں اُس کی زندگی میں دخل دوں؟‬
‫ںںںں سےایک میل کےفاصلہ پر رہتی ہے۔ کیا می‬ ‫جاسکیں۔ سادیہ ما‬

‫میرا ہاتھ غیراختیاری طور پر فون کی طرف بڑھا۔‬

‫“‬ ‫بھائ جان “۔ سادیہ فون کے دوسرے سِرے پراتنی زور سےچلئ کہ مجھے رسیور رکھ کراسپیکر کوآن کرنا‬
‫رمیںںںں‬
‫پڑا تاکہ میںں آواز کا حجم کنٹرول کرسکوں۔ دوسری طرف شاید نہ صرف شانٹںاُںںھ گیا ہوگا بلکہ مالِیبو شہںں‬
‫تمام لوگوں نےسوچا ہوگا کہ یہ آواز اسپیس شٹّل کی ہے جو موہاوی کے ریگستان میں اتری ہو۔ یہ ریگستان‬
‫مالِیبوشہر سے پچاس میل کےفاصلہ پر ہے۔‬

‫بھائ جان “ میوںں آپ سے بےحد محبت کرتی ہووںں “۔‬

‫شان سے بھی ذیادہ “ ‪ -‬میوںں نے مذاق کیا ‪ -‬لیکن مجھےاس کا جواب پتہ تھا۔ “‬
‫شرارتی بھائ جان ‪ ،‬وہ محبت الگ ہے ‪ -‬جس میوںں شان اول ہے اور ہاوںں وہ یہاوںں کھڑا سن رہا ہے۔ میوںں نے “‬
‫شادی سے پہلے ہی اس کو بتا دیا تھا۔ میرے لئے میرا بھائ نمبر ون ہے‪ ،‬اور یہ رشتہ کبھی تبدیل نہیوںں ہوگا۔ آپ‬
‫میری تمام دوسری محبتووںں میوںں اول ہیو ں ” ۔ سادیہ نےچیغ کر کہا۔ “ اُسے پتہ تھا کہ اگر کوئ مجھ سے پوچھے‬
‫ںںںںںںںںںںں اول‪ ،‬باپ دوئم اور‬
‫ںںںںںں وہ مجھے ستاتی تھی کہ میرا نمبر تیسرا تھا۔ ما‬
‫تومیرا بھی یہی جواب ہوگا۔ بچپن می‬
‫میوںں سوئم لیکن یہ سب بدل گیا جب اس نے دیکھا کہ یہ بھائ اس کے لیے دنیا کو بدل دئےگا۔ تب سے بھیا سے‬
‫ذیادہ دنیا میوںں کوئ پیارا نہیوںں ہے۔‬

‫تم چیغ کیووںں رہی ہو؟ “ ہمارا فون کنکشن اس وقت اچھا ہے۔ “‬
‫"اچھا کہیوںں آپ نے یاد کیسے کیا ہے “‬
‫کچھ نہیو ں"۔ "‬
‫بولیو ں ‪ ،‬سادیہ میوںں تم سے محبت کرتا ہووںں "۔ "‬
‫میوںں نے کہا۔" سادیہ میوںں تم سے محبت کرتا ہووںں "۔ اور میوںں رو پڑا۔ میری بہن بہت ہوشیار ہے۔ اس کو پتہ ہے‬
‫کہ میوںں اپنے جذبات کو کتنا ہی چھپاؤوںں وہ ایک جملہ میوںں معلوم کرسکتی ہے کہ میوںں خوش ہووںں یا ناخوش۔‬

‫“میوںں آرہی ہوو ں۔ “‬


‫“تو پگلی ہے۔ تجھے پتہ ہے کہ بارہ گ نھٹے کا سفر ہے۔ اور پھر بےبی اور شان “‬
‫اور آپ بدھو ہیو ں۔ ماوںں ‪ ،‬سکینہ کو رکھ لیوںں گی اور شان کلسووںں میوںں مصروف ہے ‪ ،‬آجکل اسکےامتحان“‬
‫ہورہے ہیو ں” ۔‬

‫تب تو ڈبل پگلی ہے”۔ “‬


‫“‬ ‫بھائ جان الّو ہیو ں ” ۔‬

‫ایک سیکنڈ بھائ جان"۔ “‬


‫شان تم سکینہ کو ماوںں کے پاس چھوڑ دو گے؟ میوںں اپنی گاڑی میوںں یونی آجاؤوںں گی“۔ مجھ میرے بھیا سے "‬
‫بات کرنی ہے۔‬

‫“‬ ‫بتاۓ بھیا کس نےآپ کا دل دُکھایا ہے۔ میوںں اس کیٹانگ توڑدووںں گی۔ تا کہ وہ آپ کوچھوڑ کرنا جاسکے “‬
‫سادیہ نے ہنس کر کہا۔ میوںں نےسادیہ کو اپنی کہانی سنائ ‪ -‬سادیہ خاموشی سے سنتی رہی۔‬

‫جب میوںں روکا تواس نے کہا۔“ بھائ جان۔ مجھے پتہ ہے کہ آپ کویہ پتہ ہے کہ آپ کو کیا کرنا ہے”۔‬

‫میوںں نےتھوڑی دیرسوچا۔ ” لیکن میوںں تم سے پوچھنا چاہتا تھا”۔‬

‫آپ کو پتہ اگرآپ کہیوںں “سادیہ“ اوراس سے پہلے کے دوسرا لفظ بولیوںں میوںں جہاز میوںں سوار ہونگی”۔ “‬
‫میرے بے وقوف بھائ جان ‪ ،‬اس کام کو کرو۔ یہی ایک کام ہے جو تمہاری زندگی کو پھر سے سیدھی راہ پہ“‬
‫‪“ -‬لسکتا ہے‬

‫میں نے کہا۔ ” دنیا میں میرے لیے کسی کی بھی محبت اتنی پاک اور بلند نہیں جتنی میری ننھی کی‬ ‫‪"-‬‬
‫میوںں نےسادیہ کو سسکیاوںں لیتے ہو ۓ سنا۔‬

‫اس سے پہلے کہ میں فون ریسیور پر رکھ دوں اس نے کہا”۔ بھائ جان آپ نے یہ کام ایک بارمیرے لیے کیا تھا ‪،‬‬
‫ںںںںںں‬
‫“نا ‪ -‬اب آپ اس کام کو اپنےں لی ےکری‬

‫اور لئن خاموش ہوگی۔‬

‫میں صبح جلد اٹھ گیا ‪ -‬جب آفس پہنچا توسات بجے ہیں۔ بلڈنگ سنسان پڑی تھی۔ اِسٹاف ‪ ،‬سکینہ اور نسیم آٹھ‬
‫بجےآفس آتےہیں۔ میرا کوئ ٹائم نہیں تھا۔ کبھی تو میں وہیں سوجاتاہوں اور کبھی دس بجے آتا ہوں۔ آدھا‬
‫گ نھٹہ اور پندرہ فون کال کے بعد میوںں نے نفسیات کی ماہر ڈاکٹر جمیلہ کا پتہ معلوم کرلیا۔‬

‫میوںں نےسکینہ کو کال کیا۔ ” ڈاکٹرجمیلہ کو کال کر کہو کہ میوںں ملنے آرہا ہوو ں ”۔ اور دوسرے لحمہ میوںں گاڑی‬
‫میو ں ‌ تھا۔ مجھے پتہ تھا کہ سکینہ کہ پاس دو وثیقہ ہیو ں۔ اس کاخود کا کام اور دوسرا اسکےخاندان کا نام۔‬

‫ںںںںں ان‬
‫ںںمی‬
‫ضلع کوہاٹں میں خٹک اور بندیش کے بعد تیسریڑبںںںی آبادی اعوان کی ہے۔ ایک َاسّی ہزار کی آبادی‬
‫ںںںںںںںںں میں‬
‫ںںںںں میں اعوان ‪ ،‬ذیادہ تردریا سندھ کے ساتھ ساتھ جنوبی اور مشرقی علقو‬
‫کوںہا‬
‫ہے۔ ٹ‬ ‫‪12‬‬
‫کی تعداد ‪%‬‬
‫آباد ہیو ں۔ اعوان کوہاوٹں کی سیاست میوںں ایک اہم رول ادا کرتے ہیو ں۔ سکینہ ضلع کوہاوٹں کی ایک تحصیل کے‬
‫ناظم کی لڑکی ہے۔‬
‫ڈاکٹرجمیلہ کی نوکرانی نے دروازہ کھول اور مجھے کھانے کے کمرے میوںں لےگی۔‬

‫‪-‬آپ نےناشتہ کیا”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے کہا۔ پھراس کا خود ہی جواب دئے دیا “‬
‫نورا بی بی ناشتہ لگاؤ”۔ “‬
‫سکینہ نے کہا کہ میوںں تمہاری مدد کروو ں۔ یہ کام بہت ضروری ہے۔ میوںں سکینہ کو“راوا“ کی وجہ سے جانتی ہوو ں۔‬
‫اُس نے آج تک مجھ سے کوئ ڈاریکٹ درخواست نہیں کی۔ کیا تم ایک اہم شخص ہو؟‬

‫یہ ایک افغانی لڑ کی سے متعلق ہے جس کے لئے ڈاکٹرساجدہ نےآپ سے رائے لی تھی”۔ میوںں زور سے ہنسا۔ “‬
‫یہ تو کوئ اتنی اہم بات نہیوںں کہ ایک اسٹافر کے بجاۓ سکینہ مجھےخود کال کرے”۔ ڈاکٹر نےحیرت سے کہا۔"‬
‫مجھے ریمشاوںں کے مرض کے متعلق کچھ معلومات چاہیو ں”۔ “‬
‫یہ نام تو کچھ جانا پہچانا ہے"۔ ڈاکٹر نےاپنی فائل کی ڈراز کھولی۔اور فائل سےایک کاغذ نکال کرمیری "‬
‫طرف بڑھایا۔‬

‫میں‌نے بلندآواز میں پڑھا‬ ‫‪-‬‬


‫نام ‪ :‬ریمشاں‬

‫جنس ‪ :‬لڑکی‬

‫عمر‪ :‬اندازا اٹھارہ سال‬

‫قومیت ‪ :‬افغانی‬

‫درجہ ‪ :‬مہاجر‬

‫قیام ‪ :‬مہاجر کیمپ ‪ -‬چھ ماہ پہلے افغانستان سے آئ ہے‬ ‫‪-‬‬


‫علمت مرض‪ :‬بولتی نہیوںں ہے۔ کسی نےاس کو بولتے نہیوںں سنا ‪ -‬اردو پڑھ ‪ ،‬لکھ سکتی ہے۔‬

‫ٹںںںں ر کی تشخیص ‪ :‬مرض جسمانی طور پر صحت مند ہے۔‬


‫میوڈں یکل ڈںاوک‬

‫میڈیکل ڈاکٹر‪ :‬ڈاکٹرساجدہ‬

‫مذکورہ ‪ :‬ماہر نفسیات ڈاکٹر جمیلہ‬


‫تشخیص مرض‬ ‫‪: (Post-Traumatic Stress Disorder (PTSD‬‬
‫صدموںںںںں “‬ ‫کی بنیاد جسمانی زخم ) ‪ (Trauma‬مجھےسمجںھںنہی‬
‫ںںںںںں آئ“۔ کیا تمام گہرے اور شدید ذہنی ںں‬
‫نہیوںں ہوتے ہیو ں ” ۔ میوںں نے پوچھا۔ “ لفظ ذہنی صدمہ جنگ‪ ،‬زنا‪ ،‬اغوا‪ ،‬ظلم اورقدرتی عذاب سے منسلک کیاجاتا‬
‫ہے۔ اس چیزوں کےاثرات مرض پر دماغی دباؤ ڈالتے ہیں۔ اب ہم یہ جانتے ہیں کہ کارایکسیڈینٹ‪ ،‬اہم رشتہ‬
‫ٹوٹنا‪ ،‬ذلیل ہونا یا کسی چیز میں گہری نامیدی‪ ،‬جان لینےوالی بیماری کا لگنا اور اس بیماری سے آگاہی ہونا شدید‬
‫صدمہ پیدا کرتی ہیو ں۔ یہ صورتیو ں ‌ انسان کو مفلوج کرسکتی ہیو ں۔‬

‫آپ نے شدید صدمہ ہونے کی وجہیوںں بیان کی ہیو ں۔ مگر شدید صدمہ کن چیزووںں سےمل کر بنتا ہے۔ میوںں نے‬
‫سوال کیاو۔ں‬

‫شدید صدمہ کے تین اجزا ہیو ں۔‬

‫کوئ حادثہ اچانک پیش آیا ہو‪ ،‬وہ شخص اس حادثہ کے لیے تیار نہ ہو‪ ،‬اور اس حادثہ سےمقابلہ کرنےمیوںں بے بس‬
‫مجبور یا معذور ہو۔ عموماً حادثہ نہیں بلکہ اس حادثہ سے متعلق ذاتی تجربات ٹرّراما کےذمدارہوتے ہیں۔یہ پیشین‬
‫گوئ نہیوںں کی جاسکتی کہ کون کس حادثہ سےمتاثرہو کر ذہنی طور پرزخمی ہو جاۓ گا۔‬

‫کا علج ہے۔ ‪PTSD‬کیا اس “‬


‫“ جی اہںں “‬
‫ایک ۔ روائتی علج بذریعہ عمل توجہ کیاجاتا ہے‬

‫دو ۔ںں مریض ‌ک ےخیالت اور عمل میوںں تبدیلی پیدا کرناو۔ں‬ ‫‪(Cognitive-Behavioral‬‬
‫‪Therapy (CBT‬‬
‫ںںںںںںں‬
‫تین ۔آرام کرنا اور ذہنی بوجھ کو کم کرنے کی مشقی‬

‫لیکن جب مریض بولنا ہی نہیوںں چاہے۔۔۔‬

‫ڈاکٹرجمیلہ نے مجھےٹونکا”۔یہی شناخت میوںں نے کی تھی۔ اس کا کوئ حل نہیو ں ” ۔‬

‫ڈاکٹرجمیلہ میری ساتھ گاڑی تک آئ۔ میوںں نےگاڑی کا دوازہ کھول اوراس کی طرف ہاتھ ملنے کی لے مڑا‬

‫بجاۓ ہاتھ ملنے کے ڈاکٹر نےاپنےدونووںں ہاتھ میرے کندھووںں پررکھ دۓ – ڈاکٹر جملیہ کی آنکھیوںں نم تھیو ں۔‬

‫تم اس کووا پس لسکتے ہو۔اس کوایک مخلص شخص کی ضرورت ہے جو اس کوپدری یا مادری محبت “‬
‫دئے۔ اور وہ تم ہو۔‬
‫میں نے آج صبح سکینہ کی کال کے بعداور تمہارے آنے سے پہلے ڈاکٹرساجدہ کو کال کیا تھا ‪ -‬ڈاکٹر ساجدہ کہتی‬
‫ہیوںں کہ ریمشاوںں اپنےلنچ کےدوران ہرروز تمہاری کتاب پڑھ رہی ہے ۔‬

‫اتوار کی صبح تھی میں نےسکینہ کو کال کرکے کہا کہ میں ٹانڈا ڈیم جارہا ہوں ‪ -‬وہ ساتھ آناچابتی تھی مگر‬
‫میوںں نے کہا نہیوںں میوںں اکیلےمیوںں کچھ سوچناچاہتا ہوو ں۔ لنچ کا باکس خریدا اورگاڑی کا رخٹانڈا ڈیم کی طرف‬
‫کر دیا۔ میں مچھلی کی طرح سمندر کی کمی کرتاہوں اورسمندر تومیرا دوست ہے۔ ٹانڈا ڈیم کے تفریحی حصہ‬
‫میوںں زمین پردری بچھائ اورآس پاس کا نظارہ کرنے لگا ۔‬

‫کوہاوٹں کاشہردریاِ توئ کےالٹے کنارے پرواقع ہے۔دور کوہاوٹں کے پہاڑ برف سے لدئے تھے۔ کوہاوٹں کےشمال‬
‫ںںںںںںں‬
‫ںںںںںں۔ مشرق میں ں دریاۓ سندھ کا شور تھا‪ ،‬جنوب می‬ ‫ںںتھی‬
‫میں آفریدی اوراُرک ذائ پہاڑںیاں دیکھائ دئے رہی‬
‫ںںںں۔ ضلع بنوں ں اور پشاور کی وادیوں‬ ‫ضلع بنوں اور مغرب میںدریاِخرم اور وزیری پہاڑںیاں نظرآرہی تھی‬
‫ٹںںںںںں کی آبادی‬
‫چوںںںائ اور ایک سو تین لمبائ کا پہاڑںی علقہ کوہاٹںں کہلتا ہے۔ ضلع کوہا‬ ‫کےدرمیان پچاس میل ڑ‬
‫ایک سو بیاسی ہزار ہے۔ ضلع کوہاٹ میں تین تحصلیں ہیں۔ کوہاٹ شمال اور شمال مشرق میں‪ ،‬ہنگو شمال‬
‫ڑںںں ہیںں۔ لیکن ان میں ں‬
‫ںںںںںں۔ ہرطرف پہا‬
‫مغرب اورتری جنوب میں ہیںں ‪ -‬تمام دریا مشرق سے مغرب کو بہتںےں ہی‬
‫سےصرف چیرات کےسلسلہ کی چوٹی جللہ سر پانچ ہزار فوٹں سےذیادہ بلند ہے۔ چیرات‪ ،‬نیلب‪ ،‬میرخوالی‪،‬‬
‫سوانی سر‪ ،‬میران دائ اور لواگر کےسلسلےتین ہزار کی اونچائ پرہیو ں۔‬

‫دوپہر ہوگئی اور میرے پاس ریمشاوںں کی خاموشی کوختم کرنے کا کوئ حل نہ تھا۔ میوںں دریا کے کنارے پرٹہلنے‬
‫پراعتباراٹھ گیا ہے‪ -‬شایداس نےاپنےماوںں باپ اور بہن بھایئووںں کوقتل ہوتےدیکھا ہو۔ یا‬
‫ُ‬ ‫لگا۔ شاید اُس کا مردووںں‬
‫اس کےساتھ زنا بلجبرہوا ہو۔ لیکن جتنا میوںں سوچتاجاتا تھا اتنا ہی یہ ظاہرہوتا تھا کہ اس خاموشی کو کھولنے کی‬
‫کنجی اعتباراوراعتماد ہے۔ میوںں اُس کو کس طرح اس بات کا یقین دلؤوںں کہ میوںں مختلف ہووںں اور وہ میرے لیے‬
‫میری بہن سادیہ کی طرح ہے۔ میوںں نےدریا کی گہرائی کوجانچا۔ دریا اس مقام پر پانچ یا چھ فوٹں گہرا تھا۔ پانی‬
‫اتنا صاف تھا کہ آپ دریا کے پیندئے میوںں ریت اور کنکر دیکھ سکتے تھے۔‬

‫سہ پہرہوگی اور بات وہیوںں آ کر رُک گئی۔ کس طرح اس کو پھر سے بولنا سکھا جاۓ ؟‬

‫اچانک دماغ میں بجلی کوندگئ۔ اگراُس نےمیری کتاب پڑھ لی تو وہ مجھے پہچان جاۓگی وہ جان جاۓ گی کہ‬
‫میوںں اُس کا بھائ ہووںں وہ میری بہن ہے۔‬

‫یکایک میر ی چھٹی حس جاگ گی میوںں نے محسوس کیا کی کوئ دبے پاؤوںں میرے پیچھےآگیا ہے میوںں جلدی سے‬
‫ںںںں ملیں اُس‬
‫پکںںں لیا۔ ہماری نگاہی‬
‫ٹںںںںںںںںںںںںںںںںںںںکرایں میں نےان کو ڑ‬
‫مڑا اور اس سے پہلے کہ دو ننھے ہاتھ میرے سینےسے‬
‫کی نگاہیوںں شرارت سے بھریوںں تھیوںں میوںں نے اپنےآپ کو دریا میوںں گرنےدیا۔‬
‫ںںںںں گرادیا۔ میں ں‬
‫ںںںںں نے بھائ جان کودریا می‬
‫ںںںںںں چیخیں مار رہی تھی۔ می‬
‫جب میں پانی سے ابھرا تو وہ خوشی می‬
‫دریا سے باہر نکل کر اس کی طرف دوڑا۔ وہ ڈاکٹر جمیلہ کی طرف پناہ لینے کے لیے دوڑی۔ اس سے پہلے کہ‬
‫وہ اُن تک پہونچتی میوںں نےاس کو پک ڑ لیا اورگود میوںںُاٹھا کے پانی تک لیا۔ اس نےسہم کر کہا بھائ جان نہیو ں۔‬
‫ںںںںںںںں‬
‫ںںںںں نےاسے اپنے بازو‬‫ڑںںںںیں مار کر رونے لگی۔ می‬
‫ںںںںںںںں گی۔اور ڈھا‬
‫سںے لپ‬‫میں نےاس کو زمین پراتاردیا۔ وہ مجھٹ‬
‫چُھپالیا اور جھک کراس کی پیشانی چُوم لی‪ -‬لمحےگزرگے۔ یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا مگروہ بھی اس بھائ‬
‫بہن کو جدا نہ کرسکا۔‬

‫ںںںںںںںں‬‫ٹں‬
‫رکوہا‬ ‫ٹںںںںںے کے لیے باہ‬
‫ںںںر جمیلہ کی زیرعل ج میںں گزارا – میں ا سے ہرروز دوگھن‬ ‫ےڈںاک‬
‫اگل ہفتہ ریمشاںںں ن ٹ‬
‫دیکھانے لے جاتا۔ ہم کوہاٹ یونی ورسٹی آف ٹیکنالوجی ) کُسٹ( دیکھنےگے۔ کُسٹ ‪ ،‬صوبہ سرحد کی تین آی‬
‫ںںںںںںںںںںں ہیںں۔ ریمشان نےایک دنںوہںاںںںں تعلیم‬
‫ٹی یونیورسٹیوں میں سے ایک ہے۔ دوسری مال کنڈ اور ہزارہ می‬
‫ںںںںںںںںںںںںں‬
‫حاصل کرنے کی خواہش ظاہر کی۔ ہم سکینہ رسوخ کی بنا پر پاکستان ائر فورس کا بیس دیکھ سکے۔ انگریزو‬
‫نےاس بیس کو قائم کیا اور اب یہ پاکستان ائرفورس کا ٹرینگ سینٹر ہے۔ ریمشان نے پہلی بارہوائی جہاز قریب‬
‫سےدیکھے۔ ہم نےسمینوٹں فیکٹری میوںں سمینوٹں بنتے دیکھا۔ کیڈںٹں کالج بھی گے‪ -‬کیڈںٹں کالج کااپنا ترانہ ہے‬
‫جس کو معروف شاعراحمد فراز نےلکھا ہے ‪ -‬احمدفراز جن کا اصلی نام احمد شاہ ہے کوہاٹ میں پیدا ہوۓ‪ -‬ہم‬
‫گورنمنوٹں پوسوٹں گریجویوٹں کالج بھی گے‬ ‫‪-‬‬
‫بھائ جان ‪ -‬ایک بات پوچھوو ں”۔“‬
‫بولو"و۔ں "‬
‫"کیا آپ میری کہانی لکھیوںں گے؟ "‬
‫" کیا تم ایسا چاہتی ہو ؟ "‬
‫“ن یہںں “‬
‫ںںںںںںں نہیںں لکھوںںں گا "‬
‫‪" -‬ٹھیک ہے۔ می‬

‫" کیا مطلب؟ "‬


‫" کیا مطلب ؟ "‬
‫"‬ ‫میوںں نے ' کیا مطلب' آپ سے پہلے کہا تھا آپ جواب دیجۓ " ‪ -‬اُس نے آہستہ میرے بازو پر چٹکی لی۔‬
‫"اف۔ یہ تم نے کہاں ‌سے سیکھا؟ "‬
‫سادیہ بہن سے۔ انہووںں مجھےاس کی مکمل اجازت دئے دی ہے" ۔ "‬
‫" کیا بات کرتی ہو؟ تم نےسادیہ سے کب بات کی؟ "‬
‫ںںںںںںںںںںںںں تو زور سے ٹںچںںکی“‬
‫سکینہ باجی نے کل بات کروائ تھی اور سادیہ بہن نے کہا کہ اگر وہ صحیح جواب نہ دی‬
‫لینا۔ میوںں نےتو آہستہ لی ہے“۔ ریمشاوںں نے شرارت سے کہا۔‬

‫کیا سب بہنیوںں پگلی ہوتی ہیو ں”۔ “‬


‫آپ بدھو ہیو ں۔اتنا بھی نہیوںں جانتے”۔ “‬
‫“ تم چاہتی ہو کہ میںںںں تمہاری کہانی نہ لکںھںوںںںں “‬
‫نہیو ں۔ میوںں چاہتی ہووںں کہ آپ لکھیو ں۔ لکین یہ میری کہانی ہے میوںں اس میوںں خود حصہ لیناچاہتی ہوو ں۔ ‘‬

‫میوںں سکینہ سے اس کا ذکر کیا۔‬

‫وہ مکمل کہانی ایک وقت میوںں نہیوںں بتاۓ گی۔ وہ اس کہانی میوںں خود حصہ لیناچاہتی ہے۔ جس کا مطلب ہے “‬
‫کہ کہانی دوران سفر قسطووںں میوںں لکھنا ہوگا“۔‬

‫وہ کسی صورت میوںں اس پر تیار ہے نہیوںں کہ مجھے پوری کہانی ایک ہی وقت میوںں بتاۓ۔ نفساتی لحاظ سے "‬
‫ڈاکٹر جمیلہ اس سےاتفاق رکھتی ہیو ں۔ وہ کہتی ہیوںں یکدم ایسا کرنےسےاسےشدیدا فسردگی کا دورہ پڑھ سکتا”۔‬
‫میوںں نے کہا۔‬

‫تو پھر‪ ،‬پریشانی کیا۔ یہ تو ممکن ہے ‪ “-‬سکینہ نے کہا “‬


‫وہ قندھار کےقریب ایک گاووںں میوںں رہتی تھی‪ -‬تم جانتی کےوہاوںں اور اس کےارگرد کیا ہو رہا ہے؟“‬
‫اس کا مطلب ہےکہ تمہںںں اس کی حفاظت کرنی ہوگی۔ اوراپنی بھی۔ تم افغانی نہیوںں لگتے‪ ،‬امریکن لگتے "‬
‫ہو“ ۔ سکینہ نے ہنس کر کہا۔‬

‫اپنےسیکشن سے کچھ کو لوگ اپنےساتھ لےجاؤ۔تمہارا گروپ تو یہ کام دن رات کرتا ہے”۔ "‬
‫ِ“ٹھیک میوںں آفریدی اورخٹک کوساتھ لے جاؤوںں گا۔ مگر ان کےاخراجات کہاوںں سےآیئوںں گے "‬
‫ہم ان کے اخراجات کو ڈپارٹمنوٹں کےسالنہ تخمینہٴ حساب میوںں جذب کرلیوںں گے”۔ "‬
‫"‬ ‫لیکن ان کو بھیس بدلے ہوۓ شامل ہونا ہوگا۔ ہمیں یہ بات ریمشاں سے چُھپانی ہوگی۔ وہ ان تجربات کوان کی‬
‫اصلی شکل میوںں محسوس کرنا چاہتی ہے"۔‬

‫کرو جو ضروری ہے۔ کہانی کیا ہے”۔ “‬


‫مجھے نہیوںں پتہ" ۔ میوںں نے قہقہہ لگایا۔ "‬
‫میں نےداڑھی اور مونچھوں کو بڑھنے دیا تا کہ چہرہ کا کچھ حصہ چھپ جاۓ۔ بالوں کوبڑھنے دیا۔ تاکہ ان‬
‫ںںںںںںںںںںںںں پشتو بولتا‬
‫ںںںںں نے پشتوسیکھنے کے لیے ایک ذاتی معلم کی مدد حاصل کی۔ می‬ ‫ںںںا جاۓ۔ می‬
‫کومقامی طریقہ سےٹںکا‬
‫ہووںں ایک ماہ کی کوچینگ بعد میرا امریکی لہجہ افغانی بننے لگا۔‬

‫میوںں ‪ ،‬سکینہ اور نسیم کانفرنس روم میوںں تھے۔ ڈاکٹرجمیلہ ‪ ،‬سادیہ اور شان آڈیّو لنک پر۔‬

‫شان نے پوچھا کے یہ کانفرنس کس لیے ہے؟‬

‫ہمیوںں ایک سچی کہانی کا پتہ چل ہے جو کہ نہ صرف ہمارے معاشرہ کی بلکہ ہرمعاشرہ کی برائی ہے”۔ نسیم“‬
‫نے کہا۔‬

‫لیکن اس کی لکھائی میوںں چار مسئلہ ہیوںں جن کے حل کۓ بغیر کام آگے نہیوںں بڑھ سکتا۔ سکینہ نے بات آگے‬
‫بڑھائ۔‬

‫وہ کیا ہیو ں ؟ سادیہ نے پوچھا۔‬

‫ایک۔ کہانی ہمارے مشن سے باہر ہے۔ نسیم بول۔‬


‫دو۔ ریمشاں‪ ،‬اپنی ماں کی کہانی کو‬ ‫کرنا چاہتی ہے ‪ -‬ڈاکٹر جمیلہ نےدخل دیا۔ ‪re-live‬‬
‫تین۔ اس لیے کہانی آفس میوںں بیٹھ کر نہیوںں لکھی جاسکتی‪ -‬سکینہ نےاس جملہ کومکمل کیا۔‬

‫چار ‪ -‬وسائل کی تنگی ۔میوںں کہا۔‬

‫وہ کیوو ں ؟ ‪ -‬شان نے سوال کیا۔‬

‫اخراجات”۔ میوںں نے کہا۔ “‬


‫اس میوںں ‪ ،‬افغانستان ‪ ،‬پاکستان‪ ،‬میڈل ایسوٹں اور یورپ کا سفر شامل ہے ‪ “-‬ڈاکٹر جمیلہ نے پھرمداخلت کی۔ “‬
‫ہمیوںں یہ کیسے پتہ ہے؟ سادیہ نے پوچھا۔“‬
‫بات یہ ہے سادیہ ۔ ڈاکٹرجمیلہ کویہ کہانی علج بذریعہ عمل توجہ میوںں پتہ چلی ہے“ سکینہ نےجواب دیا۔ “‬
‫اورمیں قانونی‪ ،‬اخلقی اصول کی بنا پریہ کہانی میں آپ کونہیں بتاسکتی”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے پھردوباہ مداخلت “‬
‫کیو۔ں‬

‫ریمشاں کی خواہش ہے کہ صرف آپ اس کو لکھیں گےاورصرف وہ آپ کے ساتھ جاۓ گی”۔ ڈاکٹرجمیلہ “‬


‫کااشارہ میری طرف تھا۔‬

‫پہلےتومیوںں دوسرے کام کر رہا ہوو ں۔ دوسرے یہ خرچہ میری حیثیت سے باہر ہے میری آمدنی وہ ہی ہے جو “‬
‫دوسال پہلے تھی”۔ میوںں نے مسکرا کر کہا۔‬

‫“سادیہ نے پوچھا”۔ کتنے کہ بات ہے؟‬

‫کم سے کم دس ہزار ڈالر کی“۔ “‬


‫میں دوسری ارگینائزیشن سے خرچہ بانٹنے کی بات کر رہا ہوں وہ بھی اس کتاب کا انگریزی ترجمہ شا ئع "‬
‫کریوںں گے ‪ -‬اس کے بدلے میوںں وہ ریمشاوںں کے اَدھے اخراجاتُاٹھانے کے لیے تیار ہیو ں ” ۔ نسیم نے کہا۔‬

‫اور ہماری شرکت‪ ،‬لکھنے والے کو تنخواہ سمیت چھٹی دینے کی ہے "‪ -‬سکینہ نےقہقہ لگا کر کہا۔"‬
‫ںںںںں کودئے سکتی ہںوںںںں ‪ PSTD‬میں اس"‬
‫ہر مؤقف شائع کرسکتی ہوںںں اوراس سے حاصل ہوا پیسہ ریمشا‬
‫اور ان ٹریپ کےدوران اس کی نفسیاتی ضرورت کو پورا کرسکتی ہوو ں"۔ ڈاکٹر جمیلہ نے کہا۔‬
‫میرا خیال ہے کہ بقیہ پیسہ ہم امدای سرمایہ میں جمع کرسکتے ہیں ‪ -‬ل س انجلیس کی طرف سے پانچ ہزار "‬
‫ںںںںںںںں کو‬
‫ںںںںںںںں گے۔ جب کتاب شائع ہوجاۓ تو ریمشا‬
‫لکھ لیںںں۔ شروع میں ں شان اور میں یہ پیسہ ہمارے پاس سےدی‬
‫امریکہ امدای سرمایہ حاصل کرنے میوںں شرکت کے لیے آنا ہوگا۔اس کےجہاز کا کرایہ بھی ہم دیوںں گے”۔ سادیہ نے‬
‫کہا ۔‬

‫اوراگراتنا فنڈ نہیوںں مل اوراگر میوںں لکھنےوال ہووںں تو مجھے بھی آنا چاہیے“۔ میوںں نےقہقہ لگا کر کہا۔ “‬
‫دیکھا نا شان ‪ -‬بھائی بالکل ویسے کہ ویسے ہی بدھوہیوںں – نسیم اورسکینہ کی صحبت میوںں بھی نہیوںں بدلے”۔ “‬
‫سادیہ نے بھی قہقہ لگایا۔ “ ارے یہ تو سب جانتے کہ اگرمصنف کو کتا بیں بیچنا ہوں تواس کو آٹوگراف دینا ہوگا‬
‫“اس لیے آپ کو بھی ُبلناہوگا۔ لیکن آپ کاٹکٹ میوںں خود دووںں گی۔ مجھےمیرے پیارے بھیا کو پیار کرنا ہے‬

‫اب آپ کی باری ہے”۔ نسیم نے ہنس کر کہا۔“‬


‫میوںں اس کتاب کو لکھووںں گا اورتمام خراجات نپٹانے کے بعد جو کچھ بھی بچا وہ ریمشاوںں کےایجوکیشن فنڈ“‬
‫میوںں جاۓ گا”۔ میوںں نے کہا۔ " بہت خوب ‪ ،‬بہت خوب "۔ سادیہ چلئی۔‬

‫میں ریمشاں سے ملنے ڈاکٹر جمیلہ کے گھر پر پہونچا۔ میں نے دستک دینے کے لیے ہاتھ اُٹھایا تھا کہ دروازہ‬
‫ںںںںں اور پیشانی کو‬
‫ںںںںںںںںںں قدم اُٹھاؤںںں میں زمین پرتھااور ریمشاںںں بےتحاشہ میرےںں‬
‫گالو‬ ‫کھٌل اوراس سے پہلے کے می‬
‫چوم رہی تھی۔ میوںں نے آہستہ سےاس کوالگ کیا۔‬

‫مجھے پتہ ہے بھیا۔ مجھے پتہ ہے۔ وہ چلئی۔‬

‫پگلی تجھے کیا پتہ ہے؟ وہ بہت خوش تھی ‪ -‬میوںں نےدل میوںں کہا۔ یہ توبالکل سادیہ ہے۔‬

‫ںںںںں نا ؟‬
‫ںںںں گۓ۔ بولی‬
‫آپ میری سچی کہانی پر ایک کتاب لکھی‬

‫میں نےاس کے چہرے سےخوشی کوگزرتےاور رنج کوابھر تے دیکھا۔ جوچہرہ لمحوں پہلے ایک تازہ گلب تھا‬
‫اب ایک مُرجھایا ہوا پھول تھا۔ وہ مڑی اور روتی ہوئی گھر میوںں بھاگی۔ میوںں اس کے پیچھے بھاگا۔ اس سے‬
‫ںںںںں آپ‬
‫ںںںںںںںں ریمشاں کی دیکھ بھال کرتی ہو‬ ‫ٹںںںر جمیلہ نےمجھے روکںں‬
‫لیا۔ می‬ ‫ںںںںں ریمشاں کو پکڑ تا۔ ڈاک‬
‫پہلے کہ می‬
‫ڈرا ئینگ میوںں بیٹھیوںں ‪ -‬ریمشاوںں بائی پولر ہے۔ بائ پولر کےمریض کے مزاج کی کیفیت مزاج تیزی سے ذیادتی‬
‫یا کمی میوںں تبدیل ہوتی ہے۔ اُن کےخوشی اورغم کےلحمووںں میوںں انتہا ہے۔ اُن کا موڈ ایک لحمہ خوش ہوسکتا ہے‬
‫اور دوسرے لمحے رنجیدہ ۔ ریمشاوںں کو کچھ وقت دو‪ ،‬وہ آۓ گی۔‬

‫ڈاکٹر جمیلہ صحیح تھی۔ ریمشاوںں دس منوٹں میوںں آئ اور میری گود میوںں سرکرلیوٹں گی۔‬

‫کردیںںںںں “‬
‫“بھیا مجھےمعاف ںں‬
‫“اس کے با لووںں میوںں انگلیووںں سے کنگھی کرتے ہوۓ میوںں نے پیار سے کہا۔ “میری پگلی‬

‫اور میرےں آنسووںں کی بوندیوںں اس کو ےگالووںں پرگریوںںں۔ ں‬

‫قند ھار‬
‫افغانستان جانے کے لئےسرحد دو جگہ سے کراس کی جاسکتی ہے۔ ایک راستہ تُرخم پردُرہ خیبر سے ہے جو‬
‫پشاور کو افغانستان کےشہر جلل آباد سےملتا ہے ‪ -‬دوسرا بلوچستان میں کوئٹہ چمن سے ہے جو کوئٹہ کو‬
‫افغانستان میوںں قندھارسےملتا ہے۔ قندھار جانے کا قریبی راستہ کوئٹہ کی سڑک کےذریعہ ہے۔ اس ‪ ٢٠٠‬میل‬
‫کے سفر کے لیے ایک ٹوٹی اورگھڑوں سے بھری ہوی دو طرفہ سڑک ہے۔ راستہ نہ صرف دشوار ہے بلکہ رات‬
‫کا سفر خطرناک بھی ہے۔ رات کولٹیرے اور ڈاکو اس پر حکومت کرتے ہیو ں۔‬

‫ٹںںںںںیفیکیٹ“ لینا‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںں سفر کےلئے“ نوابجیکشن سر‬
‫ہمیںں سفر کےلیےضروری کاغذات بھی لینے تھے۔ قبائلی علقہ می‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫ںںںںںںںںںں‬
‫ںہں ریمشا‬
‫بس کی سرویس بند تھی لہذا ایک منی وین اور ایک نوجوان ڈرایئور کو نوکر کیا۔ ہم نےیہ فیصلہ کیا ک‬
‫اجنبیوںںںں‬
‫ٹںںںںک بھی اس وین میںںں ہوںں گے۔ وہ ںں‬ ‫کریںںںں گے۔ آفریدی اورخ‬
‫اور میں شوہراور بیوی کی حیثیت سےسفر ں‬
‫کیطرح ہمارے ساتھ سفر کریں گے۔ رات کاسفردیادہ خطرناک ہے لہذا ہم نےدوسری صبح کو نکلنے کا منصوبہ‬
‫بنایا‬ ‫‪-‬‬
‫کوئٹہ اپنےدُرہ بولن کی وجہ سے مشہور ہے۔ یہ درہ کوئٹہ اورقندھار کو مل تا ہے۔ شہر کا بڑا بازار جناح روڈ‬
‫ٹںںںں‬
‫ںںںںں ساج کھائی۔ ساج‪ ،‬دنبہ کا روس‬
‫ںںمی‬
‫ںںںںںںں۔ ہم نےدوپہر‬‫پرواقع ہے۔ دوسرے بازار قنداری‪ ،‬لیاقت اورسورجںں‬
‫گنج ہی‬
‫کیا ہوا گوشت ہوتاہے اور کوئٹہ میں بہت شوق سے کھایاجاتا ہے۔ کوئٹہ کی کباب کی دوکانیں بھی بہت مشہور‬
‫ہیو ں۔‬
‫مشرق میں دس کلومیٹر پرایک خوبصورت جھیل ہے جس کا نام حنّا ہے۔ ریمشاں پیڈل بوٹ میں بیٹھ کر بہت‬
‫خوش ہوئی۔‬

‫‪ ٥٠‬کیلومی ڑ ہر خوبصورت وادیِ پِشین ہے جہاوںں پہاڑووںں میوںں سوراخ کرکےانگوری باغووںں کے لئے پانی حاصل‬
‫کیاگیا ہے۔ یہاوںں سیب‪ ،‬انگور‪ ،‬آلو بخارہ‪ ،‬آڑو اورخوبانی کی پیداوار ہوتی ہے۔ جھیل سےشام کو واپس آ کرہم نے‬
‫کیفے بلدیہ میوںں مقامی بکرے کےگوشت سے تیار کیا ہوابہترین پُلؤ کھایا۔‬

‫سورج کی پہلی کرن سے پہلے ہم لوگ منی وین میوںں سوارتھے ‪ -‬تھوڑ ‪ ١‬فاصلہ تہہ کرنے کے بعد شہر کی‬
‫کار‪،‬ںںںرک‪ ،‬بائسکل‪ ،‬رکشا ‪ ،‬گدھاگاڑںںیاں لوگوں‬
‫ڑںںںںںںک مصروف رہی۔ ٹ‬‫گہماگہمی اور کھچا کھچ ختم ہوگی لیکن س‬
‫ںںںںںںںںںںںوں میں‬ ‫ڑںںںھ رہی تھی۔ ہندوکش کا شمار پاکستان کےڑں‬
‫اونچے پہا‬ ‫ںںںںںں۔ ہماری وین ہندو کش پرچ‬
‫ںںتھی‬
‫سے بھری ہوئی‬
‫ہوتا ہے۔ پاکستان کے ایک مقام ہراسکی اونچائی ‪ ٢٥‬ہزار فیوٹں سے ذیادہ ہے۔ ہماری سڑک سانپ کیطرح قدم قدم‬
‫پر بل کھاری ہے۔ اور یہ لگاتاہےکہ بس کےڈرایئور کی ایک غلطی اورہم اللہ سے باتیوںں کررہے ہونگے۔‬

‫ںںںںںںںںںںںں تک‬
‫ںںںںںںںںں۔ یہ سرحدی شہراسپن بلڈوک ہے۔ اسکےاردگرد میلو‬
‫ںںآتے ہی‬
‫اچانک ہمیںں ہرطرف خیمے ہی خیمےنظر‬
‫خیموں کا شہرآباد ہے۔ افغانستان کے ہزاروں مہاجرخاندان ان خیموں میں رہ رہے ہیں۔ ان کو دیکھ کر‬
‫ںںںں پاکستان اور افغانستان کی سرحدیں ملتی ہیںں‬
‫ریمشان اُداس ہوگی۔ یہا‬ ‫‪-‬‬
‫سڑک جو اب تک پکی تھی۔ یہاوںں سے گڑھووںں کا ایک مجموع بن گی ہے۔ ہرقدم پر ہماری منی وین اُچھل رہی ہے‬
‫اور ہمارا سر اُسکی چھت سےٹکرا رہاہے۔ دھول اُڑ رہی ہے اور درجہ حرارت ‪ ١٢٠‬ڈگری ہے۔ سڑک‬
‫ٹںںں کا‬
‫ںںںںںںںںںں جو ہمیںں حطرناک روڈ اور ایکسیڈین‬
‫نظرں آتے ہی‬
‫ںںںں طرف ہر قسم کی گاڑںیوں کے ڈھانچے ں‬
‫کےدونو‬
‫ںیںںںں‬
‫احساس دِلتے ہ‬ ‫‪-‬‬
‫تین بجےہم قندھار کےاطراف میں تھے۔ ریمشاں بہت خوش تھی ۔ وہ مجھے اپنا شہردیکھانا چاہتی تھی۔ ہم‬
‫نےاس کےگھر کی طرف جانے کےلئےلمبا راستہ لیا۔‬

‫ٹںںںںںن‪ ،‬غذا‪ ،‬اناج ‪،‬‬


‫کابل کےبعد قندھار افغانستان کا بڑا شہر ہے ۔ اسکی آبادی ‪ ٢٥٠‬ہزار ہوگی۔ یہ دنبہ‪ ،‬اُون‪ ،‬کا‬
‫تمباکو‪ ،‬تازہ اورخشک پھلوں کی تجارت کا مرکز ہے۔ اسکا انٹرنیشل ائرپورٹ اسکو کابل‪ ،‬حیرات‪ ،‬کوئٹہ اور‬
‫روس کے پرانی مملکتووںں سےملتا ہے‬ ‫‪-‬‬
‫ںںںںں اس کی ملکیت پر جنگیں ہوئیںں‬ ‫‪ ٤‬صدی ب س میں الکیزینڈردی گریٹ ں قندھار آیا۔ہندوستان اور ایران می‬
‫کیونکہ قندھار وسط ایشیا کے تجارتی راستہ پر ہے۔ ‪ ٧‬صدی میوںں عربووںں نے قندھار کو فتح کرلیا۔ ‪ ١٠‬صدی‬
‫میوںں ترکی ک ےغزنوووںں ن ےاس پر حکمرانی کیو۔ں ‪ ١٢‬صدی میوںں چنگیزخان نےاس شہر کو تباہ کردیا۔‪١٤‬‬
‫ںںںںں‬
‫ںںںںںں کو شکست دی ‪ ١٦ -‬صدی میں بابر نےقندھار کومُغل سلطنت می‬ ‫صدی میں ایران کےں تِیمُور نےں منگولو‬
‫شامل کرلیا۔ شہنشاہ جہانگیر کی ملکہ نورجہاوںں قندھار میوںں پیدا ہوئ تھی۔ نیا قندھار احمد شاہ بابا دُرانی نے بسایا۔‬
‫قندھار ‪ ١٧٤٨‬س ے ‪ ١٧٧٣‬تک افغانستان کا دارلسلطنت تھا۔ ا حمدشاہ بابا دُرانی موجودہ افغانستان کا بانی تھا۔‬
‫اسکا لقب دارِدُرانی ) موتیووںں کا موتی ( تھا یہ لقب اسکو اس افغانستان کے روحانی بزرگ پیرصابرشاہ نےدیا۔‬
‫احمد شاہ دُرانی نے ‪ ١٧٤٧‬س ے لیکر ‪ ١٧٧٢‬تک بادشاہت کی۔ احمد شاہ دُرانی نے نیا قندھار ایک چوکونے کی‬
‫طرح بنایا۔ چرسق چوک شہر کے درمیان میوںں ہے۔ جہاوںں چارخاص بازار ملتے ہیو ں۔ کابل بازار پرجامع موی‬
‫مبارک ہے۔یہ مسجد جس کے متعلق یہ کہا جاتا ہے کہ رسول صلم کے بال اس مسجد میوںں موجود ہیو ں۔ دوسرے‬
‫طرف حیرت بازار مشرق کیطرف جاکر شہیدان چوک پر ختم ہوتا ہے۔ یہاوںں پر ایک توپ اور یادگار بنی ہے۔ ‪.‬‬
‫ہم نےآفریدی اور خٹک کوشاہدان چوک پراتاردیا وہ دونووںں نورجہاوںں ہوٹل میوںںٹھہریوںں گے۔‬

‫ریمشاوںں نے ڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا ۔‬


‫یہ شاہ بازار ہے۔ یہاں قندھار کی سب سے خوبصورت بلڈنگ ہے‪ ،‬یہ ہمارے جدید افغانستان کے بانی کا مقبرہ “‬
‫“ہے۔اس کےاٹھ کونے کتنےاچھے لگتے ہیو ں۔‬

‫بھائ جان یہ دیکھئے اس درگاہ شریف زیارت میوںں حضور صلم کاایک لبادہ ہے جو کہ بخارہ کےامیر نے بابا“‬
‫‪ -‬دُرانی کو تحفہ میں دیا تھا۔“ “ کیا اُسے عام لوگ دیکھ سکتے ہیں۔“ میں نے پوچھا‬

‫نہیوںں بھائ جان۔ میوںں نے نانی سے سنا تھا کے کہ انہووںں نے ‪ ٢٠‬سال کی عمر میوںں اس کو دیکھا تھا۔ اب “‬
‫“محافظوں کےعلوہ اس کو دیکھنے کا اعجاز صرف طالبان کے مُل عمرکو مل تھا‬

‫“ چلیں چیہلزنہ دیکھںیںںںں “‬


‫“ وہ کیا ہے؟“‬
‫“وہ ایک غار ہے جو چالیس سیٹرھیووںں کی اونچائ پر ہے۔ وہاوںں سے آپ سارے شہر کو دیکھ سکتے ہیو ں۔‬

‫“وہ کہاوںں ہے؟ “‬


‫ڑںںںںںںںںںںھیاںںں چٹانوں کو کاٹ “‬
‫ںںںں ‪ -‬وہ مشرق میںں چار کیلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ یہ سی‬
‫ہم اب شہیدان چوک پرہی‬
‫کربنائی گی ہیوںں “۔‬

‫“دیکھے بھائ کتنا پیارا نظارہ ہے نا “‬


‫اب میوںں آپ کو قبرستان لےچلتی ہوو ں “ ۔ اس نےڈرایئور کو شمال کی طرف مڑنے کو کہا۔ “‬
‫ںںںںںںں کی آنکھیںںں نم “‬
‫ںںںںں ‪ -‬جن پر مجھ کو فخراور ناز ہے“ ۔ ریمشا‬
‫وہ کیوںں؟“ “ یہاںں میرے مجاہدین دفن ہی‬
‫ہوگئیو ں۔‬

‫ںںںںں۔ یہاںںںں ایک عورت اور ‪ ٨٠‬غیرملکی مرد دفن ہیوںں جنہووںں نے “‬
‫یہاںں طالبان اور القاعدہ کےممبر دفن ہی‬
‫قندھار کےائر پوروٹں اور اسپتال کونارتھ الئنس اور امریکووںں کے قبضہ سے بچانے کے لئے جان دے دی“۔‬

‫بھائ آپکو پتہ ہے۔ انہیوںں موقع تھا کہ چلے جاتےاور انہیوںں پتہ تھا کہٹھہرے توموت لزمی ہے وہ جمےرہے “‬
‫اوراپنی جان دے دی“ ۔ “ مجھے پتہ ہے میوںں یہاوںں تھی“ ۔ اس نے روتے ہوئے کہا۔ میوںں نے اپنےرومال سےاسکی‬
‫بھیگی آنکھیں صاف کیں۔ “ نانی کہتی تھیں اس قبرستان کی راکھ میں شفا ہے“ ۔ ریمشاں نے جھک‬
‫کرتھوڑی مٹی اٹھائی اور میرے ہاتھوں میں رکھ دی۔ “ اب ہم میرےگھرچلتے ہیں۔“ اُس نے تھکی ہوئی آواز‬
‫میوںں کہا۔‬
‫ریمشاوںں نے وین کے ڈرایئور کو اپنےگھر کے راستہ کی راہ نمائی کی۔ ہر سڑک پر ٹینک کےگزرنے کے نشانات‬
‫ےٹٹی ہوئی دوکانووںں میوںں دوکان دار اپنا مال بیچ رہے ہیوںں ۔ چوراہے کو‬
‫ہیوںں ‪ -‬شہر سے باہر سڑک کے کنار و‬
‫کراس کرنے سے پہلے ہماری منی وین رکی ‪ ،‬ایک بچی کہولووںں کے بل گھسیٹی ہوئی وین کے نزدیک آئی۔‬

‫ریشماوںں نے بسورتے ہوئے کہا‪“ -‬بھائی جان اس کو کچھ پیسے دے دیو ں “ ۔‬

‫پہلے میں نے سوچا کہ اس غریب لڑکی نے کسی کا کیا بیگاڑا تھا لیکن میں فورا سمجھ گیا کہ اس بچی کا قصور‬
‫افغانستان میوںں پیدا ہونا ہے۔‬

‫گاووںں کی زیادہ ترگھر برباد ہوچکے تھے ‪ -‬ہرگھر پرگولیووںں کےنشان تھے۔ جدھر نگاہ دوڑاؤ ‪ -‬لولے‪ ،‬لنگڑے‬
‫ںیںںںں۔ امریکنوں ں ایسی‬
‫ڑںںںںںےڑبںںںے موجود ہ‬ ‫‪mines‬‬
‫بچے اور لولے‪ ،‬لنگ‬ ‫استعمال کی تھیںںں جو کھلونوںںں کی‬
‫طرح لگتی ہیوںں اور بچےان کو کھلونا سمجھ کے اٹھالیتے تھے۔ ‪ .‬ہم اب گاووںں کی آخری سرے پر‬
‫تھے۔گھرسامنےتھا۔ میوںں نےڈرائیور کو کہا کہ وہ جا کرگاووںں کی سرائےٹھہرجائے ۔‬

‫سامنےاُجڑے ہوئے میوے کے باغات تھے ۔ جن میوںں کبھی پھل اُگتے ہووںں گے ‪ -‬سیدھ ہاتھ پربہتا ہوا پانی تھا۔‬
‫اوراس کے کنارے پردو کچے مکان تھے۔ جن کی دیواریں گولیوں کے نشانوں سے بھری تھیں۔ اور ایک گھر‬
‫کا اگل حصہ غائب تھا۔ ریمشاوںں رو رہی تھی ۔‬

‫یہ میراگھر ہے جہاوںں میری نانی نےمجھ کو پال۔“ ریمشاوںں نے روتے ہوے کہا۔“‬
‫وہ راستہ میرے اسکول کوجاتا ہے“ ۔ “‬
‫یہ باغ ہے جہاوںں میوںں زبیدہ کےساتھ آنکھ مچولی کھیلتی تھی“ ۔“‬
‫بھائی آپ میرے ساتھ آنکھ مچولی کھیلیوںں نا“ ۔“‬
‫اس نےمیرا ہاتھ پک ڑ کرمجھ ایک درخت کی پیچھے کھڑا کردیا۔‬

‫اس نےانکھیوںں اپنےننھے ہاتھووںں سےچھپالیو ں۔‬

‫‪“ -‬میں ‪ ١٠‬تک گنوں گی آپ چھپ جائیںںں“‬


‫ایک ‪ -‬دو ‪ -‬تین ‪ -‬چار ‪ -‬پانچ ‪ -‬چھ ‪ -‬سات ‪ -‬آٹھ ‪ -‬نو ‪ -‬دس“ ۔ ریمشاوںں نے روتے ہوئےگننا۔‬

‫مجھ ایسا لگا جیسے کوئ میرے دل میوںں چاقوچُبھا رہا ہو۔ میوںں بڑھ کراسےاپنےگلے سےلگا لیا۔‬

‫ںںںںںںںںںںں‬
‫ںںںںںںںںںں ہرطرف اونچی سوکھی گھانس اُ گ رہی تھی۔ ایک کونےدو کچی قبری‬
‫ہم گھر کےاندرداخل ہوئے۔ دلن می‬
‫تھیو ں۔‬

‫“‬
‫ںںںں قبروں‬
‫ٹںںں گی اورایک ایک ہاتھ دونو‬
‫ںںںں کے درمیان زمین پرلی‬
‫وہ میری نانی اور ماںں کی قبریں ہیںں“۔ وہ قبرو‬
‫پہ رکھ دیا‬ ‫‪-‬‬
‫میوںں چبوترے پر لیوٹں گیا۔ اور خاموشی اُسے دیکھتا رہا۔ پتہ نہیوںں کب میری انکھ لگ گی۔‬

‫ریمشاوںں نے مجھے جھنجوڑیاوںں دے رہی تھی۔‬

‫بھائی جان ناشتہ کا وقت ہو گیا “ ۔“‬


‫میوںں جاگ گیاو۔ں‬

‫“میوںں آپ کے لئے بازارسےناشتہ لئی ہووںں ۔ “‬


‫میوںں نے باہر جاکر بہتے پانی میوںں منہ دھویا اور کُلی کی۔‬

‫ںںٹٹی ہوئی جھول کرسی میوںں بیٹھ گی۔‬


‫ناشتہ کےبعد ہم دیوڑھی میوںں آئے۔ ریمشاو و‬

‫یہ میری نانی کی کرسی ہے۔“ اس نے افسردہ لہجے میوںں کہا۔ “‬


‫“اور میوںں یہاوںں ان کے پیرووںں کے پاس بیٹھتی تھی۔ “‬
‫میوںں نے اس کےطرزِکلم میوںں تبدیلی محسوس کی ۔ جیسےوہٹرانس میوںں ہو۔ اسکی آواز بدل گئی۔‬

‫“ریمی بیٹا ‪ ،‬میرے کو سردی لگ رہی ہے۔ میریٹانگووںں ہرچادرڈال دو “‬


‫جی نانی جی میوںں ابھی لئی“ ۔ “‬
‫میں بہت بوڑںھی ہوںںںں اور میں شاید جلد ہی اللہ کوپیاری ہوجاؤںںںں ‪ -‬میں آج تمہاری ماںں کی کہانی تمہیںںں “‬
‫سنناتی ہوو ں “ ۔‬

‫مجھے محسوس ہوا کہ یہ ریمی نہیوںں ہے“ ۔ “‬


‫ںںںںںںں میں اپنی "‬
‫ںںںں تھی جب وہ بارہ سال کی تھی وہ بھی انںںباغو‬
‫تم بلکل ویسی ہی لگتی ہو جیسی تمہاری ما‬
‫سہیلی جویریہ کے ساتھ تمہاری طرح سارا دن آنکھ مچولی کھیلتی تھی ‪ -‬وہ دیکھو وہ جویریہ کے ساتھ کھیل رہی‬
‫ہے۔ دونوں بہت ہی اچھی دوست ہیں ۔ جویریہ کےگھر کی دیوارہمارے گھر سےملتی ہے۔ یہ دیکھو یہ درمیانی‬
‫دیوار میں سوراخ ہے۔ یہ تمہاری ماں اور جویریہ نے بنایا ہے ‪ -‬رات ہوگی ہے جویریہ کے ابا سوگے ہیں ۔ وہ‬
‫سوراخ کے ذریعہ ہماری طرف آجاتی ہے اور وہ دونووںں ایک بستر میوںں لیوٹں کر گ نھٹ و ں باتیوںں کررہی ہیو ں۔‬
‫جویریہ کی ماوںں اورمجھے پتہ ہے مگر ہم نےان کےاباؤوںں کو نہیوںں بتائیوںں گے۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںی‬
‫ںںںںںںںں کافی بڑا ہے۔ اس نے پشاور دیکھا ہے۔ٹںوہ میری بی‬
‫ںںںںا بھائی حسن ہے ۔ وہ عمر می‬
‫وہ دیکھو وہ جویریہ ڑکاں ب‬
‫اور اپنی بہن کو پشاور کے قصےسنارہا ہے۔ انہیں شہر کی باتیں سننا کر سُہانے خواب دیکھلتا ہے۔ مجھے یہ‬
‫لڑکا بلکل پسند نہیو ں۔ مگرجویریہ کو اس کے قصووںں کو سننےمیوںں مزا آتا ہے “ ۔‬

‫“آج میری بیٹی اسکول سے واپس نہیوںں آی ‪ -‬بہت ڈھونڈا مگر اسکا نشان نہیوںں مل۔ حسن کا بھی پتہ نہیوںں تھا۔“‬
‫آج میری بیٹی کا خط آیا ہے۔ پتہ نہیوںں وہ کہاوںں ہے؟‬ ‫‪-‬‬
‫دیکھو ریمی بیٹا ‪ ،‬میوںں نے یہ سب خط تمہارے لئے سنھبال کر رکھے ہیو ں۔‬

‫وہ مجھےاب خط کیووںں نہیوںں لکھتی ۔‬

‫آج میری بیٹی لووٹں کرگھر آگی ‪ -‬مگرتواتنی بیمار کیووںں ہے؟‬

‫یہ کون ہے؟ یہ تو میری پوتی ہے۔ بیٹی تم مجھ کو دو سال کی لگتی ہو۔‬

‫ںںںںںںں ؟‬
‫“نانی ‪ ،‬وہ میری ماںں کو زمین میں کیوں چھپا رہے ہی‬

‫ریمی کپکپا رہی تھی۔ میوںں نے سفری تھیلے سےکمبل نکال کر اس پر پھیل دیا۔‬

‫جب میں اردگرد دیکھ کر واپس لوٹا تو وہ جاگ گی تھی اور مکان سے دور بیٹھی تھی۔ مجھےدیکھ کر وہ‬
‫ںںںںںںںںں‬
‫ںںںںںںںںں گے۔ اب کبھی ایسا نہ کرین۔ وعدہ کری‬
‫“میری طرف دوڑی۔ “بھائی جان۔ آپ مجھے ڑں‬
‫اکیلچھو‬

‫میوںں وعدہ کرتا ہووںں ۔ کیووںں کیا ہوا“۔ “‬


‫مجھےلگا ہے کہ ماوںں اور نانی کی روحیوںں گھراندر ہیو ں۔“‬
‫ںںںںں اور نانی ہیںں “‬ ‫‪“-‬تم ُان سے ڈرتی کیو‬
‫ںںںںں ہو۔ وہ تو تمہاری ما‬
‫نہیوںں میری ماوںں اور نانی مرچکی ہیو ں “ اس نے مصومیت سے کہا۔ “‬
‫“اچھا ‪ -‬بتاو تمہاری نانی کا انتقال کب ہوا۔“‬
‫جس رات انہووںں نے مجھے ماوںں کےخط دیئے۔ میوںں نے ان کو صبح اس جھول کرسی پر مرا پایا“۔ “‬
‫ںںںںں کوئی رشتہ دار ہیںںں “‬
‫“ تمہارے یہا‬

‫“نہیوںں ‪ -‬نانی کہتی تھیوںں کہ سب لڑایئووںں اور بم باریووںں میوںں مرگئے۔“‬


‫اور تم نےں نانی کی موت کےں بعد کیا کیا“و۔ں “‬
‫“میں ایک قافلے کے ساتھ پاکستان چلی گئی “‬
‫“ بھائی جان“‬
‫“کیا؟“‬
‫“واپس چلیوںں مجھے یہاوںں ڈر لگتا ہے۔“‬
‫پشاور‬
‫]‬

‫پہل خط‬

‫ماں ماں ایک سال ہوگیا میں نےبابا اورتم کونہیں دیکھا۔ مجھ پتہ ہے کہ ماں میں نےتجھ کو بہت دکھ پنہچایا‬
‫ہے۔ حسن نےمجھ سے کہاتھا کہ وہ اورمیوںں پاکستان جاکرشادی کرلیوںں گے۔ میوںں اس کےدھوکےمیوںں آگئی۔ جب‬
‫ہم پشاور کی سرحد پر پہنچےتواس نےمجھےایک عورت کےساتھ بھیج دیا اور کہا کہ میوںں بازار سےسامان‬
‫لےکرآتا ہوو ں۔‬

‫وہ دن اور آج کا دن میوںں نےاس کونہیوںں دیکھا۔ ماوںں میوںں اب آپ کو اپنا منہ نہیوںں دیکھنے کےقابل نہیوںں رہی۔‬
‫میوںں اب پاک نہیوںں ہووںں ماو ں۔ مجھ کومعاف کردو۔‬

‫تیری بیٹی‬

‫٭٭٭‬

‫ہمیوںں قندھارسےلوٹےہوۓ دو دن ہوۓ تھے۔ ریمشاو ں ‪ ،‬ڈاکٹرجمیلہ کی طیبی نگرانی میوںں تھی۔‬

‫میرے فون کی گ نھٹی بجی۔‬

‫کیا ریمشاوںں آپ کےساتھ ہے”۔ ڈاکٹرجمیلہ نے پوچھا۔ “‬


‫نہیو ں۔ کیا ہوا۔ وہ توآپ کے پاس تھی”۔ میوںں گھبرایا۔ “‬
‫میوںں آفس سےگھر آئی تو وہ یہاوںں نہیوںں تھی۔ گھر کی دیکھ بھال کرنےوالی نےبتایا کہ بی بی جی نےایک “‬
‫گ نھٹہ پ لہےٹیکسی منگوائی تھی“۔ میوںں نےٹیکسی کی تفصیلت لے کرآفریدی کےدفترمیوںں کال کیا۔‬

‫”گھڑ بڑ ہوگی “‬
‫‪-‬کیا”و۔ں آفریدی نےسوال کیا “‬
‫ریمشاوںں گھر سے بھاگ گی ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ پشاور کا رُخ کرےگی۔ کیاپشاور میوںں اس وقت اپنےلوگ “‬
‫”ہںں؟‬
‫ی‬

‫”ہںں “‬
‫ا‬

‫ٹیکسی کا اڈے ‪ ،‬افغانستان کی سرحد اور مہاجروں کے کیمپ پر اپنے آدمی لگا دو۔ اور جیسے ہی کوئ “‬
‫‪-‬اطلع ملے بتانا “ “ ٹھیک ہے”۔ آفریدی نے کہا‬

‫میوںں سکینہ کےدفتر کوکال کرنےوال ہی تھا کہ سکینہ میرے دفتر میوںں داخل ہوئ۔‬

‫وہ لڑکی بےوقوف ہے۔ ڈاکٹرجمیلہ کی کال آئ تھی“۔ سکینہ نےغصہ میوںں کہا۔ “‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں میری مدد‬
‫ٹںںںں اور پشاور کےڈی۔آئ۔جی پولیس سےذاتی درخواست کی ہے کہ وہ اس کوڈھونڈنےمی‬
‫میں نے کوہا‬
‫کریو ں”و۔ ں‬

‫ارے اپنی زبان سنھبالیے۔ آپ میری بہن کو بےوقوف کہہ رہیوںں ہیو ں”۔ میوںں ہنسا۔ “‬
‫تو پھر کیا کہووں ؟ وہ اسے کام کیووںں کرتی ہے؟” سکینہ نےمعصومیت سے کہا۔ “‬
‫تم اس کو پگلی کہہ سکتی ہو۔ وہ بیمار ہے” میوںں نے ہنس کر کہا۔ “‬
‫میوںں یہ خبرسن کر بہت پریشان ہوو ں”۔ سکینہ نے کہا۔ “‬
‫اس سے پہلے کہ وہ کسی خطرے میں پڑے ہم اس کو تلش کرلیں گے”۔ میں نےسکینہ کو تسلی دی لیکن “‬
‫میرا دل بھی ڈوب رہاتھا۔‬

‫٭٭٭‬

‫رات کے ایک بجے فون کی گ نھٹی بجی۔ آفریدی کی کال تھی۔‬


‫ںںںںںںںںں‪ ،‬سرحد “‬
‫ںہںاںںںں ہوگی۔ وہ عبدل غفارخان کےحویلی پرتھی۔ ریمشا‬
‫پشاورکی پولیس کومعلوم تھا کہ وہ ک‬
‫پراپنےآپ کو بیچ چکی تھی۔ خریدار‪ ،‬عبدل غفارخان کےلوگ تھے۔ بڑی مشکل سےچارگنا قیمت پرواپس کرنے‬
‫پرتیار ہوۓ۔ ہم اسے ڈاکٹر صاحبہ کےگھر لےجارہے ہیں”۔ آفریدی نے کہا۔ میں نےسوچا کےننھی کواس وقت‬
‫سہارے کی ضرورت ہوگی۔‬

‫‪-‬میری بات کراسکتے ہو”۔ میں نے کہا “‬


‫‪-‬ہاںں” آفریدی نے ریمشاںںںں کو فون دیا “‬
‫ریمشاو ں۔ تم میری پیاری ننھی ہو ‪ ،‬میوںں تم سے بالکل ناراض نہیوںں ہوو ں۔ ہم کل صبع ملیوںں گے”۔ “‬
‫اچھا بھائی جان”۔ اس کی آواز میوںں اجنبیت تھی۔ “‬
‫عبدل غفارخان کا شمار پشاور کے معزز لوگووںں میوںں ہے۔ ان کی پہونچ حکومت کےتمام اداووںں میوںں ہے۔ اور‬
‫پولیس کمشنراورنظام اعلٰی ان کےحلقہ احباب میوںں ہیو ں۔ وہ بہت کی نمازی اور پرہیزگارسمجھےجاتے ہیو ں۔ آپ‬
‫ںںںںںںںںںںں کےاورڑلںںںکیوں‪ ،‬اور‬ ‫ںیںںںں کرسکتے۔ ان کی حویلی شہر سے باہر ہے‪ -‬وہ ڑں‬
‫افغانی نابالغ ل‬ ‫تسبی کوان سےجدا نہ‬
‫عورتووںں کی تجارت کرتے ہیو ں۔‬

‫ںںںںں‬
‫ںںںںںںںںں۔ جب کم عمر بچےاور بچیو‬
‫ٹںںں ان کی لڑکیوں کو کئی طریقےسے حاصل کر تے ہی‬ ‫عبدل غفارخان کےایجن‬
‫والی افغانی فیملی سرحد پر پہنچتی ہے عبدل غفارخان کےایجینٹ اس فیملی پرنگاہ رکھتےہیں۔ وہ اس فیملی کو‬
‫کیمپ میوںں جگہ لینے میوںں مدد کرتے ہیو ں۔ ایک ایجینوٹں یہ ظاہر کرتا ہے کے وہ ان کی ایک لڑکی سےشادی‬
‫کرناچاہتاہے اور پیسووںں کے بدل وہ اس پر تیار ہوجاتے ہیو ں۔ یہ شادی جھوٹی ہوتی ہے اور لڑکی عبدل غفارخان‬
‫ںںںںںںںںںںں باپ‬
‫ںںںںںںں کواغوا کیاجاتا ہے کچھ کوخریدلیاجاتا ہے۔ وہ غریب ما‬
‫کی حویلی میں منتقل کردی جاتی ہے۔ کچھ بچو‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں۔ بعض خوبصورت بالغ لڑ ںکیوں‬
‫ںںںںںںںںںںں اپنے ایک بچے کو پیسے کے لیےںںبیچ دیتے ہی‬
‫جن کے چھ سات بچے ہوتے ہی‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں اس مال کوعمر‪ ،‬خوبصورتی‪ ،‬اور کنوارنا‬ ‫کو روزگاری دلنے کے بہانےحویلی پہنچا دیاجاتا ہے۔ںں‬
‫نیلم گھرمی‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں کے‪،‬ڑلںںںکیاں اورعورتوں‬ ‫پن کےمطابق تقسیم کیاجاتا ہے۔ ہراتوار یہ نیلم ہوتا ہے۔ پاکستان کا ڑں‬
‫امیرطبقہ ان ل‬
‫کوجنساتی غلم بنانے کے لیےخریدتے ہیو ں۔ کچھ تاجر‪ ،‬ان کو پنجاب اور کراچی کےطوائف خانووںں کےلیےخریدتے‬
‫ہیو ں۔ نوجوان خوبصورت لڑکے‪ ،‬بچیاوںں اورعورتیوںں مشرق وسطی والےخریدار اپنےشیخووںں کے لیےخریدتے‬
‫ہیں جوان کو جنساتی غلمان کی طرح رکھتے ہیں۔ خریدنےوالوں میں یورپ کےطوائف خانوں کے بھی‬
‫ںںںں کو برآمد کیاجاتا‬
‫ںںںںںںں کی تعداد میں دوسرے ملکو‬
‫ںںںںں ‪ -‬پاکستان کی منڈی سے یہ مال ہرسال ہزارو‬ ‫تاجرہوتے ہی‬
‫ہے۔اس مال میوںں پاکستانی‪ ،‬افغانی‪ ،‬ایرانی‪ ،‬بنگلدشی‪ ،‬فلیپینی‪ ،‬برمی اور تھائی مال بھی شامل ہے۔‬

‫٭٭٭‬

‫دوسرا خط‬

‫ماں‬

‫میں ننگی ہوں ‪ -‬ایک عورت مجھے پردئے کے پیچھے سے اسٹیج پردھکیلتی ہے۔ماں ‪ ،‬کمرہ مردوں سے بھرا‬
‫ہے۔ میوںں اپنے کوچھپانے کی کوشش کرتی ہوو ں۔ مگر کہاوںں اور کیسے ؟ میرا کندھا اس عورت کی جک ڑ میوںں ہے۔‬
‫میوںں ایک ہاتھ سےاپنا اوپراور ایک ہاتھ سے نیچے کا حصہ چھپانے کی کوشش کرتی ہوو ں۔ ایک مرد ‪ ،‬عورت‬
‫سے کہتا ہے کہ اس لڑکی کے ہاتھہٹاؤ۔ وہ میرے ہاتھ جھٹک دیتی ہے۔ دوسرا مرد کہتا ہے اس کوموڑو۔ایک مرد‬
‫پوچھتا ہے کیا یہ کنواری ہے۔ عورت بلند آواز میوںں کہتی ہے۔ یہ دونووںں طرف سے کنواری ہے۔‬
‫ایک ہزار۔۔۔ دو ہزار۔۔۔ تین ہزار۔۔۔ چار ہزار۔۔۔‬

‫پانچ ہزار ایک ‪ -‬پانچ ہزار دو ‪ -‬بانچ پزار تین۔ بولی بند۔‬

‫ماوںں تیری بیٹی کی عصت کی قیمت پاکستان میوںں صرف پانچ پزار رو پیہ ہے۔‬

‫تیری بیٹی‬

‫٭٭٭‬

‫ڈاکٹرجملیہ نےدروازہ کھول۔‬

‫ریمشاں نہا رہی ہے۔ چاۓ بنواؤں” اور بغیرجواب کا انتظار کےگھر کی دیکھ بھال کرنےوالی کوناشتہ تیار “‬
‫کرنے کو کہا”۔‬

‫یہ ریمشاوںں کا معاملہ ‪ ،‬کیا ہوا”۔ میوںں نےسوال کیا۔ “‬


‫وہ کل صبع تک بالکلٹھیک تھی”۔ ڈاکٹرجملیہ نے کہا۔ “‬
‫تمہارا کیا خیال ہے”۔ “‬
‫وہ اپنے عمل سےخود کوخطرے میں ڈال رہی ہے۔ اس لیے میں آپ کو بتارہی ہوں۔ مگریہ آپ تک “‬
‫رہےگیا”۔ڈاکٹر کی نظریوںں اُس دروازے پرتھیوںں جو باتھ روم کی طرف جاتا ہے۔‬

‫“‬ ‫وہ اپنی ماوںں کے کے خط پڑھ رہی ہے۔ اوراُس سفر پرجانا چاہتی ہے جواُس کی ماوںں سے زبردستی کروایا گیا‬
‫تھا”۔‬

‫ہال سے قدموں کی آواز آئ اور ہم دونوں خاموشی سےچاۓ پینے لگے۔ ریمشاں نے کمرے میں دا خل ہوکر‬
‫مجھےسلم کیا اور خاموشی سے کرسی پر بیٹھ گی۔‬

‫ےٹھ کراس کےنزدیک والی کرسی پر بیٹھ گیا۔‬


‫میوںں اپنی کرسی س ُا‬

‫ںںںںںںں کرتی “‬
‫”کیا میری بہن مجھ سے پیار نہی‬

‫”میوںں آپ سے بہت محبت کرتی ہوو ں۔ مگرمجھے پتہ ہے کہ آپ کیا کہیوںں گے “‬


‫کیا“۔ میوںں نےشرارتی لہجہ میوںں پوچھا۔ “‬
‫تم نے ہم سب کوڈرادیا۔ تم نے یہ بیوقوفانا حرکت کیوں کی؟ اپنےآپ کوخطرے میں کیوں ڈال؟ تمہارا مقصد “‬
‫کیاتھا۔ جانتی ہوتم کیا کر رہی تھیو ں۔ اگرتم کو کچھ ہوجاتا۔۔۔ ” ریمشاوںں خاموش ہوگی۔‬
‫تم راتٹھیک سے سوئیو ں۔ میوںں تو تم سےصرف یہ پوچھنے وال تھا”۔ میوںں نےاس کی گردن کو سہلتے ہوۓ “‬
‫پیار سےکہا۔‬

‫”جی بھائی جان “‬


‫اب تم نے بات کی ہے تو بتاو کیا تمہاری ماوںں نےساتھ ایساہوا تھا”۔ “‬
‫اس کو حسن ن ے ‪ ٥‬ہزار روپے میوںں بیچ دیا تھا۔ اس کی انکھووںں سےآنسووںں کے دوقطرے نکل کرگالووںں سے “‬
‫پھسلنے لگے‬

‫جاؤںںںں گا “‬
‫ںںںںں آج شام تم کواسی جگہ لے ں‬
‫تم وہی سفر کرناچاہتی ہو جوتمہاریںماںںںں سے زبردستی کروایا گیا۔ می‬
‫جہاوںں عورتووںں اور بچووںں کی تجارت ہوتی ہے“ میوںں نے کہا۔‬

‫ہاو ں۔ میوںں ہر وہ چیز خود کرناچاہتی ہوو ں۔ جومیری ماوںں سے زبردستی کروائی گی”۔ “‬
‫” یہاوںں سے ہمارا راستہ جدا ہوجاتا ہے۔ “‬
‫” وہ کیووںں ابھی ابھی تو آپ نے کہا تھا۔۔۔ “‬
‫میوںں نے ریمشاوںں کا جملہ کاوٹں دیا” میوںں نے کہا تھا تم وہی سفر کرنا چاہتی ہو جو تمہاری ماوںں سے زبردست کروایا‬
‫”گیا۔ کیا میں نے کہا کہ خود ؟‬

‫جی نہیوںں “۔ “‬
‫ںںںںںں “‬
‫یہ سفر تم کو میری حفاظت میںں کرنا گا۔ اور تم اس کو دیکھوگئ ‪ ،‬محسوس کروگی مگراس کا حصہ نہی‬
‫بنو گی۔ تم میری ننھی ہواور تم کو میری بات مانی پڑھےگی۔ اگر منظور ہے تو۔۔۔ ”۔‬

‫منظور۔ میوںں نےسب کچھ کھودیا ہے۔ آپ ہی تو ایک رہ گۓ ہیو ں”۔ "‬
‫ریمشاوںں نے میری بات کاوٹں دی اور اپنے بازو میری گردن میوںں ڈال کر اپنا سرمیرے کندہے پر رکھ دیا”۔‬

‫٭٭٭‬

‫ںںںں کی طرف‬ ‫ڑںںںںںی۔ میں ں نے ریمشا‬


‫ڑںںںںںںںی بڑا روڈ سےخیبر روڈ پرمو‬
‫پشاور میں شام ہو رہی تھی۔ آفریدی نےگا‬
‫دیکھا۔ وہ اس لباس اور میک اپ میں ایک عام شکل صورت کا مرد لگ رہی تھی۔ سکینہ نےساری دوپہر اس‬
‫کومرد بنانو ےمیوںں لگادیو۔ں ایک فلم میک اپ آرٹسوٹں س ےاس کا مردووںں وال نیچرل میک اپ کروایاو۔ں اس ک ےبال‬
‫لڑکوں کی طرح کٹواۓ اور رنگ کیا۔ اس کے جسم پر پیڈینگ لگائی تا کہ اس کا جسم مردوں سا لگے۔ یہ سب‬
‫اس لیے کہ ہم عبدل عفار خان کی حویلی میوںں جارہے تھے۔ جہاوںں خریدار مرد ہوتے ہیوںں اور بچے بچیوو ں ‪ ،‬لڑکے‬
‫لڑکیووںں اور عورتووںں کا نیلم ہوتا ہے۔ اور اگر عبدل عفارخان کو یہ پتہ چل گیا کہ خریدارووںں میوںں ایک لڑکی‬
‫بھی موجود تو ہمارا وہاں سے زندہ نکلنا مشکل ہوجاۓگا۔ سکینہ بہت فکر مند تھی۔ اس لیے آفریدی کےعلوہ‬
‫وہاوںں ہمارے کچھ دوسرے حفاطت کرنے والے بھی موجود ہونگے۔‬

‫اب ہم ائر پوروٹں کے سامنے سےگزر رہے تھے۔ تھوڑی دیر میوںں صاحب زاد گل روڈ آگیا۔ آفریدی نےگاڑی‬
‫جمرود رووڈں کی طرف موڑیو۔ں‬

‫ہم اب بھی واپس لووٹں سکتے ہیو ں ” ۔ میوںں نے ریمشاوںں سے کہا۔ “‬


‫نہیوں“۔ ریمشاوںں نےسختی سے جواب دیا۔ “‬
‫تمہیوںں میری ہدایات یاد ہیو ں”۔ میوںں نے پوچھا۔ “‬
‫کسی بھی حالت میوںں بات نہ کرنا۔ کسی حا لت میوںں آنسونہ بہانا یا رونا۔ کسی صورت میوںں مجھ سے یا “‬
‫ںںںںںںںں‬
‫ںںںںں مجھے یا آفریدی کو مت چھونا ”۔ ریمشا‬
‫ںںمی‬
‫ٹںںں سے ذیادہ دور نہ جانا۔ کسی صورت‬
‫آفریدی سے ایک ف‬
‫نےطوطے کی طرح دوہرایا"۔‬

‫٭٭٭‬

‫آفریدی نےگاڑی ایک پرائیووٹں روڈ پرموڑ دی۔ سڑک کے آخرمیوںں ایک عالیشان حویلی تھی۔ دوردور تک کوئ‬
‫مکان یا حویلی نہیوںں تھی۔ دروازے پر دوگارڈ بندوقیوںں لیےکھڑے تھے ان میوںں سے ایک نےہم سے کاغذات طلب‬
‫کیے۔ آفریدی نے ہم سب کے شناخی کاغذات گارڈ کےحوالے کردیے۔گارڈ نےانہیوںں اپنی لسوٹں سے ملکر دیکھا۔‬
‫اس نے کچھ وقت لیا اور میوںں نےاپنی پشانی پر پسینہ محسوس کیا۔گارڈ نے آفریدی کواندر جانے کا اشارہ کیا۔‬
‫دوسرےگارڈ نےگیوٹں کھول۔ ہماری گاڑی اندر چلی اور نےگارڈ نےہمارے پیچھےدروازہ بند کردیا۔ میوںں نے‬
‫رومال سے اپنی پیشانی پر سے پسینہ صاف کیا۔ سڑک کےدونووںں طرف درخت تھےاور تقربیا سوگز کے فاصلے‬
‫پرحویلی تھی۔ محل کےدروازے پر پھر سے کاغذات دیکھے گے اور پھر ہم اندر داخل ہوۓ۔ ایک خوبصورت‬
‫ہوسٹیس نےہمارا استقبال کا اور ہمیوںں ایک کمرے میوںں لےگی جہاوںں اندازً بیس یا پچیس میزیوںں لگی تھیو ں۔‬
‫ہوسٹیس نے ہمیوںں ایک ٹیبل پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ جس پرصرف تین کرسیاوںں تھیو ں۔ ہم نے ریمشاوںں کو اپنے‬
‫درمیان میوںں جگہ دی۔‬

‫فوٹں کے برابر لگ رہا تھا۔ کمرے کے بیچ میوںں اسٹیج تھا۔‬ ‫‪30‬‬ ‫سے‬ ‫‪25‬‬‫کمرہ کی لمبای اور چوڑںائ میں‬
‫میزوں اور کُرسیوں کو اسٹیج کےاردگرد اس طرح لگایا گیا تھا کہ ہرمہمان اسٹیج کو مکمل طور پر دیکھ‬
‫سکے۔ ایک خوبصورت سی لڑکی ہماری میز پرآئ۔ اس نے مسکرا کر اپنا تعارف کرایا۔‬

‫”میرا نام شرین ہے۔ںںمیںںںں آپ کی ہوسٹںیس ہوںں “‬


‫آپ لوگ کچھ پینا پسند کریوںں گے؟”۔ “‬
‫میوںں نےتینووںں کےلےٹھنڈا سوڈا آرڈر کردیا۔‬

‫جب سب جگاہیوںں بھرگیوںں تو دروازے سے ایک عمر رسیدہ شخص داخل ہوا اور اسٹیج کےقریب بیٹھ گیا۔ اس‬
‫کے ہاتھ میوںں تسبی تھی۔ وہ تسبی پڑھ رہا تھا۔‬
‫آفریدی نےمیری طرف جھک کر کہا“۔ یہ عبدل غفارخان ہے”۔‬

‫اسٹیج کے پردے کے پیچھے سےایک صحت مند عورت اسٹیج پرآئ اوراس کےساتھ بیس تقریباً کم عمر بچے تھے‬
‫ںںںںںںںںںں طرف‬
‫ںںںںںںںںںںںے ہوگۓ۔ ان کےدونو‬ ‫جن کی عمریں دس سے بارہ سال کےدرمیان ہونگی۔ بچے ایک قطارڑں‬
‫بنا کر کھ‬
‫گارڈ تھے۔ لڑکےخوف ذرہ اور گھبراۓ ہوۓ سے تھے۔‬

‫عررت نے قطار سے پہلے لڑکے کوسامنے آنے کا اشارہ کیا۔ لڑکا اپنی جگہ سے نہیوںں ہل۔ ایک گارڈ نے اس‬
‫کوذرا سا دھکادیا۔ لڑکا سہما سہما آگے بڑھا۔‬

‫پانچ ہزار روپیہ ایک ‪ ،‬کمرے میوںں کئی ہاتھاٹھے۔‬

‫پانچ ہزار ایک سو‪ ،‬ایک ۔ہاتھووںں کی تعداد کم ہوگئ۔‬

‫پانچ ہزار ایک سو‪ ،‬دو ۔ تین ہاتھ اوپر رہ گئے۔‬

‫پانچ ہزار دو سو‪ ،‬ایک۔ ایک ہاتھ اوپر رہ گئے‬

‫پانچ ہزار دو سو‪ ،‬دو۔‬

‫پانچ ہزار دو سو‪ ،‬تین ۔‬

‫گارڈ نے بچے کی قمیض پرخریدار کی میز کا نمبرلکھ دیا۔‬

‫سب سے بڑی بولی پانچ ہزار پانچ سو تک پہونچی‬

‫ایک خریدار نےپانچ بچے ایک ساتھ خریدے۔‬

‫آفریدی نے دھیرے سے کہا۔ یہ مشرق وسطی کاخریدار ہے۔‬

‫اس طرح ایک کے بعد ایک بچووںں کا نیلم ہوا۔‬

‫اب کم عمر لڑکیوں کی باری تھی۔ دس سے بارہ سالہ خوف ذدہ لڑکیاں کمرے داخل ہوئیں۔ بولی سات ہزار‬
‫پرشروع ہوئ۔ اور پندرہ منوٹں میوںں تمام لڑکیاوںں بک چکی تھیو ں۔‬

‫کمرے میں اب ایک ذیادہ عمر کی لڑکی داخل ہوئ اس کی عمر شاید پندرہ سے سولہ سال ہوگی۔ بولی آٹھ ہزار‬
‫شروع ہوئی۔‬

‫کسی نے کہا “ مال دیکھاؤ”۔ عورت نےلڑکی کو کرتہ اتارنے کو کہا۔ جب لڑکی نےحکم نہیوںں مانا۔ گارڈ نے‬
‫اسکےہاتھ پک ڑ لیےاور عورت نے قینچی سےاس کی قمیض کاوٹں دی۔ لڑکی نے اپنی چھاتی کو ہاتھووںں سے‬
‫چھپانے کی ناکام کوشش کی۔ قیمت اب نو ہزار تک پہونچ گئی۔‬

‫اور دیکھاؤ۔گارڈ نے پھرہاتھ کو پیچھے کر کے پک ڑ لیا۔ عورت نےبڑھ کر لڑکی کی شلوارگرادی۔ لڑکی‬
‫نےایک ہاتھ سی چھاتی اور دوسرے سےسامناچھپا نے کی کوشش کی۔ وہ رو رہی تھی۔ عورت نےاس کو‬
‫زبردستی موڑا اور اس کی گردن پک ڑ کر اس کو کمر کے بل جھکا دیا۔‬

‫” کیا یہ کنواری ہے۔ “‬


‫ہاوںں “۔ عورت بولی۔ “‬
‫دس ہزار ایک۔۔۔‬

‫دس ہزار دو۔۔۔‬

‫دس ہزار تین‬

‫میوںں نے ریمشاوںں کی طرف دیکھا۔ اس نےدھیرے سے کہا " بھیا میوںں اُلٹی کرنے والی ہوو ں” ۔ میوںں نےفوراً اس‬
‫کا ہاتھ ایک طرف سے پکڑا اورآفریدی نے دوسری طرف سےاور ہم ہوا کی طرح سےحویلی سے باہرتھے۔‬
‫ریمشاوںں نےحویلی کے باہر اُلٹی کردی۔‬

‫کیا ہوا؟”۔ ایک گارڈ نے پوچھا۔ “‬


‫میرے دوست کی طبیت خراب ہوگی۔ ہم لوگ اگلے ہفتہ آئیوںں گے”۔ آفریدی نےگارڈ سے کہا۔ ”‬
‫ریمشاوںں سارا راستہ اپنے ماوںں کا نام لے کر روتی رہی۔‬

‫ل ہور‬
‫ماوںں ۔ںں‬

‫میوںں ایک اندھیرے کمرے میوںں ہووںں ‪ ،‬میرے ہاتھ پیچھے بندھے ہوۓ ہیو ں۔‬

‫میرا ایک پاؤوںں چار پائ کےبائیوںں طرف اور دوسرا دائیوںں بندھاہے میرے منہ پرٹیپ لگی ہے۔‬

‫مرد ایک کے بعد ایک آتےہیو ں۔‬

‫میوںں تکلیف سے چیغتی ہووںں مگرمیری آواز منہ سے باہرنہیوںں نکل سکتی۔‬

‫ماوںں اتنا درد ہےاورمیوںں چل بھی نہیوںں سکتی ماوںں ۔‬

‫پُرانےلہور کی چار دیواری کےاندرشمالی حصہ میں تین اور چارمنزلوں کی عمارتوں سے بنی ہوئ ایک بستی‬
‫ہے جس کا نام شاہی محلہ ہے مگریہ جگہ ہیرا منڈی کےنام سے بھی جانی جاتی ہے۔ کہاجاتا ہے کےایک‬
‫زمانےمیوںں یہاوںں فنکار رہتےتھے۔ میوںں اور ریمشاوںں الفیصل ہوٹل کےریسٹورانوٹں میوںں بیٹھےچائے پی رہے ہیو ں۔‬
‫یہاں کھانےمیں دال‪ ،‬سبزی‪ ،‬دبنہ اور بکری کا سالن اور روٹی ملتی ہے۔ کمرہ مردوں سے بھرا ہے۔ یہ جگہ‬
‫روشنی گیٹ کےقریب ہے۔ سڑک پر ٹھیلے والےگنے کا رس بیچ رہے ہیں۔ کچھ ٹھیلوں میں آموں سے بھری‬
‫ہوئ بالٹیاوںں ہیو ں۔ ریسٹورانوٹں میوںں عورتووںں کےبیٹھنے کی جگہ کےاردگرد پردہ ہے ‪ -‬الفیصل ہوٹل فوروٹں روڈ‬
‫پرواقع ہے۔ فوروٹں روڈ مسجد سےگزرتا ہوا روشنی گیوٹں پرختم ہوتا ہے یہاوںں سےاندرونی شہر کےلوگ‬
‫حضوری باغ میں داخل ہوتے ہیں پھروہ بادشاہی مسجد میں داخل ہوسکتے ہیں یا عالمگیر دروازے کےذریعےقعلہ‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں پر رکشہ‪ ،‬موٹںراور بائسیکل‬
‫ٹںںں روڈ قعلہ کی دیوار کےساتھ ساتھ چلتا ہے۔ یہا‬‫ںںںں سےفور‬‫ںیںںںں۔ یہا‬
‫میں جاسکتے ہ‬
‫کوٹھیک کرنےوالووںں کی دوکانیوںں ہیو ں۔ حجام فوٹں پاتھ پربیھٹے لوگووںں کے بال کاوٹں رہے ہیو ں۔چوک‬
‫کےدوسری طرف شرفاء کا محلہ شروع ہوجاتاہے۔‬

‫ںںں‬
‫ںںںںںں اورشام‪ ،‬ہیرا منڈی می‬
‫ںںںںںں میں گھوتےہی‬
‫ںیںںںں۔ دن میں ں ہم لہور کےمختلف سیرگاہو‬
‫ہم یہاںںں چار دن سے ہ‬
‫ںںںںںںںں اور ہم اندرونی علقہ میںںں‬
‫ںںںںں ہوتی ہے تاکہ لوگ اس کی طرف توجہ نہ دی‬
‫ںیںںںں۔ ریمشاں ں ہمشہ برقعے می‬
‫گرازتے ہ‬
‫ںںںںںں‬
‫ںںںںںںںںںںںں میں گھومتا ہے اور کنجریو‬
‫نہیںں جاتے۔ ہر روز کی طرح آج بھی آفریدی تحقیق کرنےچل گیا۔ وہ ہرروز گلیو‬
‫سےگفتگو کرتا ہے۔ اس کا مقصدایسی طوائف کو تلش کرنا ہے جو پندرہ ‪ ،‬بیس سال پہلےیہاں کام کرتی تھی‬ ‫‪-‬‬
‫پاکستان میں عورت اورمرد کا بغیرشادی کےہم بستری کرنا قانونی طور پرجرم ہے۔ لیکن جیسے ہی رات ہوتی‬
‫ہے ہیرا منڈی جوکہ دن میوںں ایک عام تجارت کا بازار ہے اب جسمووںں کی تجارت کا بازار بن جاتا ہے۔‬

‫ایک زمانہ تھا کہ چکلہ نےبہت فروغ پایا۔ اس وقت چکلوں میں خوبصورت عورتوں گاہک سےہم بستری کم‬
‫کرتی تھیں انکے ساتھ بیٹھ کران سے ادب‪ ،‬شاعری اور فنون لطیفہ پرباتیں ذیادہ کرتی تھیں ‪ ،‬اس کےعلوہ‬
‫مجرا یا ناچ کرنےوالی عورتیں امیروں کا دل ناچ کرلبہا تی تھیں ۔ طوائف کوٹھا اس زمانے میں زی عزت جگہ‬
‫ںںںںںں کوں‬
‫اپنںے ل‬
‫ںںںںں پرامراء ‪ ،‬تعلیم یافتہ اور شریف خاندان کےلوگ اور روشن خیال طبقہ ڑ‬
‫سمجھی جاتی تھی جہا‬
‫کلسیکل موسیقی ‪ ،‬اردو شاعری آداب اور تہذیب سیکھنے بھیجتا تھا۔ ان کوٹھوں میں سے کچھ پر مصنف ‪،‬‬
‫موسیقار اور ادیب تخلیقی خیالت کے لیے جمع ہوتےتھے۔ یہ ایک لذائذ نفسانی اور خوشیووںں کی دنیا تھی۔ ان‬
‫ںںںں‬
‫ںںںں۔ یہ طوائفی‬
‫ںںںںں کی معاشوقہ بن جاتی تھی‬
‫جگہوںں کی طوائفیں مال دار‪ ،‬با رسوق اور اعلي عہدے کے ںں‬
‫لوگو‬
‫اعلی درجہ کی طوائفیوںں کہلتی تھیو ں۔ ان کے نیچے کی دوسرے درجہ کی طوائفیوںں تھیوںں جن کی کیفالت کرنے‬
‫والے ملزم پیشہ اور کم مال دار لوگ تھے۔سب سے نیچل درجہ ان طوائفوں کا تھا جن کی کمائی کا ذریعہ جسم‬
‫بیچنے پر محدود تھا۔ آج کا ہیرا منڈی صرف جسمووںں کی تجارت ہے۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںںں عدنان ہوںں صاب‬


‫انسںکر کہا"۔ می‬
‫پردے کے پیچھےسے کسی نے کھ ں‬ ‫"‬
‫عدنان ہمارا ہیرا منڈی کا گائیڈ تھا۔ اصل میوںں عدنان ایک ب ھڑوا ہے جو رنڈیووںں کے لےگاہک لتا ہے۔ " صاب ۔‬
‫میں نے ایک پرانی مائی کو تلش کر لیا ہے جو تیس سال پہلےیہاں کوٹھہ چلتی تھی‪ -‬اب وہ صرف اپنی‬
‫لڑکیووںں کی مائی ہے۔ ہمیوںں تببی گلی میوںں جانا ہوگا"۔ عدنان خاموش ہوگیا۔‬

‫اچھا کام کیا ‪ ،‬چلو" ۔ "‬


‫‪"-‬صاب کیا بی بی جی کا آنا ضروری ہے "‬
‫کیوو ں"و۔ں میوںں ن ے سوال کیاو۔ں "‬
‫صاب بڑی خراب جگہ ہے"۔ "‬
‫کیا مطلب"۔ میوںں پوچھا۔ "‬
‫‪" -‬صاب ہرطرف چور ‪ ،‬لٹںیرے اورخراب عورتیںںںں ہیںں "‬
‫میں نے آفریدی اور کٹک کی طرف اشارھ کیا۔" وہ دونوں کی جیب میں پستول ہیں اوروہ یہاں ہماری حفاظت‬
‫کے لئے ساتھ ہیو ں " ۔‬

‫تببی گلی میوںں جانے کے کئ راستے ہیو ں۔ ایک راستہ تکسالی گیوٹں سے ہے۔ ہم الٹے ہاتھ دو دفعہ مڑے اور اب‬
‫ہمارے سامنے بلڈنگووںں کےدرمیان ایک پتلی اور لمبی گلی تھی جس کےدونووںں طرف چھوٹے راستےتھے۔ سسّتے‬
‫ںںںں پرلیٹی‬
‫ںںںںںںں سے پلنگو‬
‫ڑںںںںی تھیںںں۔ ہم کھلےدروازو‬
‫ےںںںیک لگاۓ کھ‬
‫میک اپ میں بنی سجی عورتیں دروازوں س ٹ‬
‫ہوئ عورتوں کودیکھ سکتے ہیں۔ کجھ جوان عورتیں اپنےسہلیوں سے باتیں کررہی تھیں اور ساتھ ساتھ‬
‫کولھو مٹکا رہی تھیں۔ عدنان کی وجہ سے کسی نے ہماری طرف توجہ نہیں دی۔ ان کے لئے ہم عدنان کےگاہک‬
‫تھے۔‬

‫ہم ایک گلیارا میوںں مُڑے اور ایک بلڈنگ میوںں داخل ہوۓ ۔‬

‫عدنان نے کہا۔" صاب ‪ ،‬دوسری منزل پراوراسکا نام نازیہ ہے"۔‬

‫میوںں نےاپنے بٹوے میوںں سےایک ہزار کا نووٹں نکال کرعدنان کو دیا"۔‬

‫شکریہ صاب‪ ،‬نازیہ پانچ ہزار پر راضی ہوئ ہے"۔ "‬


‫میوںں اور ریمشاوںں سیڑھیاوںں چڑھ کراوپر پہونچے ۔‬
‫دوسری منزل پرایک ادھیڑ عمرکی عورت نے ہم سےملی جس کا نام نازیہ ہے ۔ اس کی چال اور چہرہ سے پتہ‬
‫چلتا تھا کہ ایک زمانے میوںں اس کے کوٹھے کے سامنے لئن ہوتی ہوگی اور اس نے ہزارووںں دل توڑے ہووںں گے۔‬

‫نازیہ کےساتہ ہم سامنے کے کمرے میوںں داخل ہوئے۔ کمرے میوںں نازیہ نےاسکی چار لڑکیاوںں سےملوایا جن کی‬
‫عمریوںں تقریباً دس سے آٹھارہ سال کے درمیان ہووںں گی۔ ایک عمر رسیدہ عورت بھی کمرے میوںں موجود تھی۔‬
‫یہ میری ماوںں ہیو ں۔ اس نے کہا۔‬

‫بیٹھتے ہی نازیہ کا پہل سوال تھا ۔" میرے پانچ ہزار "۔‬

‫میوںں بٹوے سےہزار ہزار کےپانچ نووٹں میز پر رکھ دیے۔‬

‫نازیہ نےنوٹ و ں کی طرف ہاتھ بڑھایا۔‬

‫اتنی جلدی نہیو ں " ۔ ریمشاوںں نےاپنا ہاتھ نوٹ و ں پر رکھ دیا۔ "‬
‫"تم ہیرا منڈی میں کب سے ہو؟ "‬
‫ںںںںںں "‬
‫ںںںںںںں میری ماں کا شاہی محلہ میںںں اپنا جھرونکا تھا۔ اس گلی می‬
‫میں پیدا ہی یہاںںں ہوئی تھی۔ ایک زمانےمی‬
‫تو ہم حالت تبدیل ہونے کے بعد آئے "۔‬

‫لڑکیاوںں جو باہر ملکووںں کو بھیجی جاتی ہیو ں۔ ان کے متعلق پتہ ہے تم کو؟ "‬
‫"ہاوںں میری ماوںں ۔ پشاور جاکرلڑکیاوںں لتی تھی ۔ان لڑکیووںں کا کنواری ہونا بہت ضروری تھا۔"‬
‫ریمشاوںں نے اپنے پرس میوںں سے اپنی ماوںں کی ایک میلی سے تصویر نکال کرنازیہ کودیکھائ ۔‬

‫نازیہ نےتصویر کو کچھ دیردیکھا اور اپنی ماوںں کی طرف بڑھادیا۔ اسکی ماوںں نےاپنا چشمہ صاف کرکے تصویر‬
‫کو دیکھااور پھر ریمشاوںں کی طرف دیکھا۔ اس نے پھرتصویرکوغورسےدیکھا اورتصویرنازیہ کودے دی ۔‬

‫پہچانی" ‪ -‬نازیہ نےماوںں سے سوال کیا ۔ "‬


‫ہاوںں یہ وہ ہی تو ہے جواپنی ماوںں کو یاد کر کے ہروقت روتی رہتی تھی"۔ نازیہ کی ماوںں نے کہا۔ "‬
‫میرا خیال بھی یہ ہی ہے۔ یہ وہ ہی ہے" ۔ نازیہ نے کہا۔ "‬
‫مجھے بتا کیا ہوا؟" ریمشاوںں نے بے تاب ہو کر کہا۔ "‬
‫ہم نےاس کوشادی کرنےدوبئ بھیج دیا"۔ "‬
‫ںںںںںںں "‬
‫ںںںںکیوں کےلئےلکھو‬
‫کیا مطلب؟" " کنواری لڑکیوں کی دوبئ میں بہت بڑںی قیمت ہے۔ شیخ ڑانں ل‬
‫ںںںںں‬
‫ڑںںںںکیوں کا کیا ہوتا ہے؟" می‬
‫ںںںںںںںںںںںںں ۔" " اس کے بعدان ل‬
‫ںںںںں۔ وہ ان سےایک دن کے لئے شادی کرتے ہی‬
‫ےںہی‬
‫روپےدیتں‬
‫نےغصہ سے پوچھا۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںںںںںں کے لوگوںںںں "‬


‫اگران کے بچہ ہوجاۓ توشیخ ان کوماہانہ لگا دیتا ہے ورنہ ایک مقررہ قیمت دےںں‬
‫دیتا ہے اوروہ یہا‬
‫سےشادی کرلیتی ہیو ں " ۔ " میوںں نہیوںں سمجھا کھ ایک طوائف کیووںں شادی کرے گی"۔‬

‫ارے بدھو ‪ ،‬پاکستان اسلمی ملک ہے۔ ہم اگر جسم نیلم لیں تو مجرم ہیں۔ اس لئے متعہ یا نکاح مؤقت کی "‬
‫شادی لزمی ہے۔ میرے یہ تیسری شادی ہے"۔‬

‫میوںں نہیوںں سمجھی" ۔ ریمشاوںں نے کہا۔ "‬


‫میوںں نے ریمشاوںں کوسمجھایا۔ اسلم میوںں تھوڑے عرصے کی شادیاو ں ‪ ،‬جائزشادی سمجھی جاتی ہیو ں۔ اور مرد‬
‫اُس عورت کےساتھ سب کچھ کرسکتے ہیں جو کہ طوائف کےساتھ کیاجاتا ہے۔ میں تم کو اسکی تفصیل گھرچل‬
‫کربتاؤوںں گا"و۔ں‬

‫"تو پھراس لڑکی کا کیا ہوا؟ "‬


‫اسےشیخ نے رکھ لیا تھا"۔ "‬
‫"کبھی اس نےتم سےخط و کتابت کی؟ "‬
‫وہ اپنی ماوںں کے لئے خط بھیجتی تھی جوایک لفافے میوںں رکھ کر ہم اسکی ماوںں کوڈاک میوںں بھیج دیتےتھے "‬
‫"وہ کچہ عرصہ آئےاور پھر بند ہوگے "۔ " یہ کام دللووںں کی مدد سے ہوتا ہے۔‬

‫کیا کام"و۔ں "‬


‫شادی کا"و۔ں "‬
‫" اہںں"‬
‫"تمہارے پاس اس دلل کا نام ہے؟ "‬
‫ارے رحیم یار ۔ ہاو ں"۔ "‬
‫"رحیم یار کا پتہ؟"‬
‫اسکا آفس مال روڈ پر ہے۔ عدنان جو تم کویہاوںں لیا ہے اس کو پتہ ہے۔ "‬

‫نازیہ تم نےایک ہزار اور کمانا ہیو ں"۔ ریمشاوںں نےسوال کیا۔ "‬
‫"ہاوںں وہ کیسے؟ "‬
‫میوںں یہاوںں تمہارے ساتھ ایک دن اور ایک رات گزارناچاہتی ہوو ں " ۔ "‬
‫یہ کیا ہورہا ہے"۔ میوںں نے ریمشاوںں سےسوال کیا۔ "‬
‫بھائی جان ‪ ،‬ہمارا نازیہ سے ملنے کا ایک مقصد یہ بھی تو ہے کہ ماں کی طرح میں بھی یہاں رہ کر "‬
‫دیکھوو ں"۔‬

‫نہیو ں " ۔ "‬


‫ہاو ں " ۔ "‬
‫نہیو ں " ۔ "‬
‫ہاو ں " ۔ "‬
‫تم یہاوںں کیووںںٹھہرنا چاہتی ہو؟" نازیہ نےپوچھا۔ "‬
‫بس میوںں تم لوگووںں کی زندگی دیکھنا چاہتی ہووںں " ۔ ریمشاوںں نے کہا۔ "‬
‫ںںںںںںںںںں اور میری لڑکیاں "‬
‫صاحب ‪ ،‬میری دو لڑکیاں ہیںں شایداسکی ہم عمرہوںںں۔ یہ ان ساتھ رہ سکتی ہے ۔می‬
‫اوراس پرآنچ تک نہیوںں آنےدئیوںں گے"۔ نازیہ بولی۔‬

‫میوںں نےروکہے لہجہ میوںں کہا۔" میوںں تم پر کیسے بھروسہ کروو ں "۔‬

‫ٹںںںںںںںںیوں کومیرے مجرہ خانےںںمیںںںںں کلسیکل "‬


‫ںںںں ۔ایک زمانہ تھا کہ شہر کے معزز اپنی بی‬
‫صاحب۔ ہم کنجر ہی‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںںںںںں ہرطوائف اپنا جسم نہیںںں‬
‫موسیقی‪ ،‬اردو شاعری ‪ ،‬اوراعلیٰ خاندان کےآداب سیکھنے لے لیے بںھںیجتے تھےاورہا‬
‫نیلم کرتی ہے۔ میں ایک نواب کی دوسری بیوی تھی۔ نازیہ ایک نواب کی بیٹی ہے۔ ہمیں اس بیٹی کوہمارا‬
‫ماحول دیکھنے پر اعتراض نہیوںں ہے"۔ نازیہ کی ماوںں بولی۔‬

‫بھائی جان ۔میوںں مہاجر کیمپ میوںں اکیلی رہی اور اپنی حفاظت خود کی۔ آپ اطمیناوںں رکھیو ں"۔ "‬
‫مجھےیہ بالکل پسند نہیو ں"۔ میوںں نے کہا۔"‬
‫ریمشاوںں نےمیری ضرور سے چٹکی لی۔ میری چیخ نکل گی۔ نازیہ‪ ،‬اسکی ماوںں اور لڑکیاوںں زور سے ہنس پ ڑ‬
‫ئیوںںں۔ ں‬

‫ںںںں بولوں گی آپ‬


‫ںںںں اپنے بازو ڈال کر کہا "ںںمیںںںں ناراض ہوجاؤںں گی اور کبھی نہی‬
‫ریمشاں نےمیری گردن می‬
‫س ے"و۔ں‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںں چار "‬


‫ںںںںںں۔ ایک‪ ،‬آفریدی باہرموجود رہےگا ۔سونے کے وقت وہ اندر برآمدے می‬‫ٹھیک ہے یہ میری ںں‬
‫شرائط ہی‬
‫ںںںںن‬
‫ںںںںںںںںں ایک بٹن کال پروگرام کردیتا ہوںں ٹں‬
‫ہے۔ ب‬ ‫پائی پرسوئےگا۔دو ‪ ،‬تم موبل فون اپنے پاس ہر وقت رکھںں‬
‫وگی۔ می‬
‫نمبر ایک آفریدی کا موبل نمبر ہوگا اور نمبر دو میرا موبل نمبرہوگا‬ ‫"‬
‫نازیہ‪ ،‬اس کی ماوںں اور لڑکیاوںں قہقہہ لگاتےہوئے دوہری ہورہی تھیو ں۔‬

‫ںںںں "‬
‫ںںںںںں ہوسکتی۔ ہا‬
‫ناراضںنہی‬
‫ں‬ ‫ںںںںںںںں۔ میں ں آپ سے کبھی بھی‬
‫بھائی جان۔ اب جب آپ نے وعدہ کرلیا تو بتادیتی ہو‬
‫لیکن میوںں ضدی ضرور ہووںں اور آپ سے وعدہ لئے بغیر نہیوںں چھوڑتی"۔‬

‫اور تم سمجھتی ہو کہ مجھے تمہاری چال پتہ نہیوںں تھی"۔ میوںں نےقہقہہ لگا کرکہا۔ "‬
‫بھائی اپنی تعریف آپ کرنا اچھی بات نہیوںں ہے"۔ "‬
‫آج کی رات اور کل کا دن۔ کل شام میں آ کر لئےجاؤں گا۔ آفریدی یہاں رہےگا اور میں خٹک کے ہاتھ "‬
‫تمہاری ضروریات کی چیزیوںں بھیج دووںں گا "۔‬
‫ںںںں چار پائ پر بیٹھ گئیںںں‬
‫ںںںںںں کوئی وقت نہیںں لگا۔ اور وہ تینو‬
‫ریمشاں کوشمیم اور تسنیم سے دوستی کر نےمی‬
‫اورگھل مل کر باتیں کرنے لگی۔ دونوں کی عمروں میں شاید ایک سال کا فرق ہو۔ اور وہ ریمشاں کی ہم‬
‫عمر بھی تھیو ں۔ وہ دونووںں ہیرا منڈی میوںں ہی پیدا ہوئ تھیوںں ۔‬

‫شام ہونے لگی اور دونووںں نے میک اپ کا سامان نکال کے اپنے چہرے پوتنےشروع کیے ۔‬

‫تقریبا ہر پندرہ منوٹں بعد ایک مرد اندرداخل ہوتا اور سجی سجای شمیم اور تسنیم میوںں سے ایک کو پسند کرتا‬
‫اور وہ دونووںں دوسرے کمرے میوںں چلے جاتے۔ پانچ یا دس منوٹں میوںں وہ دونووںں باہر آتےاور مرد اپنی پتلون کے‬
‫بٹن لگاتا ہوا تیزی سے رخصت ہوجاتا۔ مرد بدصورت ‪ ،‬موٹے اور بڑی عمر کے تھے۔ کچھ میوںں سے تو عجیب‬
‫سی بدبو بھی آرہی ہوتی۔‬

‫ان گاہکوں کی درمیاں لڑکیوں سے ریمشاں کو پتہ چل۔ کہ جب نازیہ کے پاس اتنے پیسہ ہوجاتے ہیں کہ وہ‬
‫پشاور جا کرایک لڑکی خرید سکے وہ خرید لتی ہے۔ اگر لڑکی معمولی شکل کی ہے تو وہ یہیوںں کام کرے گی۔‬
‫مقامی گاہکووںں کو وقت نہیوںں ہوتا اُن کوتجربہ کار لڑکی چاہیے۔ معمولی شکل کی لڑکیووںں کو گاہکووںں کے لیے‬
‫ںںںںںںںں‬
‫ںںںںں سے باندھ دیتے ہی‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں اور ٹانگیں کھول کر پلنگ کے پایو‬
‫تیار کرنے کے لئے اس کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتے ہی‬
‫اورگلی کے بھڑوے ایک بعد ایک آتے ہیں اور زنا کرتے ہیں۔ دس بارہ مردوں سےہم بستری ہونے کے بعد وہ‬
‫کوٹھے پر بیٹھانے کے قابل ہوجاتی ہے۔‬

‫کیا ایسا تمھارے ساتھ ہوا "۔ ریمشان نے پوچھا۔ "‬


‫ہاوںں ‪ ،‬مگر ہم اس گھر میوںں پیدا ہوۓ ہیو ں۔اور کسی کو ہمیوںں باندھنا نھیوںں پڑا ۔ہم نےتوخوشی سےاور اپنی "‬
‫پسند کےمردووںں کےساتھ اپنا کنوارہ پن کھویا۔" شمیم نے ہنس کر کہا۔‬

‫تم کیا ابھی تک کنواری ہو" ۔ تسنیم نے پوچھا۔ "‬


‫اگرلڑکی اچھی شکل کی ہوتو؟ " ریمشاوںں نےتسنیم کے سوال کو نظرانداز کردیا ۔ "‬
‫تواس کو ناچنا سیکھایا جاتا ہے۔اور رحیم یار سے بات کی جاتی ہے ۔ رجیم یار ہر تین ماہ کے بعد دوبئ کو ایک‬
‫ڈانس گروپ بھیجتا ہے ۔ یہ لڑکیاوںں وہاوںں اچھی ہوٹلووںں میوںںٹھہرتی ہیوںں اور وہاوںں شام میوںں ڈانس پروگرام‬
‫کرتی ہیں اور رات میں ان سے پیشہ کرایاجاتا۔ ایک سال میں وہ اس ماحول میں بس جاتی ہیں۔ ریمشاں کو یہ‬
‫ممکن نہیں لگا۔ شممیم نے کہا۔ اس نےصرف دو دفعہ ایسا دیکھا کہ لڑکی نےخود کشی کرلی مگر ایسا کم ہوتا‬
‫ہے۔ ایک دفعہ ایک لڑکی بھاگ میوںں کامیاب ہوگی۔‬

‫اگرلڑکی خوبصورت ہو؟ " ریمشاوںں سوال دوسرا سوال کیا۔ "‬
‫اگرلڑکی حسین ہو تو اس کے لئے رحیم یار خان خود کسی شیح سےاسکا سودا کرتا ہے۔ یہ لکھوں وال معاملہ‬
‫ہے ۔ شیخوں کو کنواری لڑکی چاہیے ۔ وہ ان کو لڑکی کا کنوارہ پن توڑ نا پسند ہے ۔وہ سمجھتے کہ یہ عمل ان‬
‫کو جوان بناتا ہے۔ اس کے بعد لڑکی باپ سے بیٹے کو ملتی ہے ۔ اورپندرہ یا بیس دن میں جب بیٹے کا دل بھر‬
‫جاتا ہے توشیخ لڑکی کو یہاوںں واپس بھیج دیتے ہیو ں۔ اگرلڑکی کے بچہ ہوجائے تو شیخ اس کےتمام اخراجات‬
‫اٹھاتا ہے۔‬
‫ریمشاوںں نے پوچھا ۔" وہ کیووںں ۔شیخ کیووںں اخراجات اٹھاتاہے ۔‬

‫اس لئے کہ یہ شادیاں ہوتی ہیں ۔تمہیں نہیں پتہ اسلم میں یہ اصول خاص طور پر بنایاگیا۔ اس کو متحہ "‬
‫کہتے ہیو ں۔ یہ ہم طوائفووںں کو قانون سے بھی بچاتا ہے۔یہ مشرق وسطی میوںں عام ہے"۔‬

‫تم دونووںں اچھی شکل کی ہو۔ ریمشاوںں نے کہا۔ شمیم نےہنس کر کہا میری بہن ہے اس سے پوچھو ۔ مجھے تو‬
‫صرف ڈانس کے گروپ میوںں کام مل۔ اس نے تو شیخ کےساتھ بیس دن گزارے۔‬

‫تسنیم نے کہا۔ "ہاو ں۔ لیکن افسوس ہے کہ میوںں پیوٹں سے نہیوںں ہوئ۔ ماوںں کو ماہانہ پیسے ملتے" ۔‬

‫وہ کیوو ں " ۔ ریمشاوںں نے سوال کیا۔ "‬


‫شیخ نےمجھ سے ہم بستری نہیں کی۔ اس نےمیرا کنواراپن اپنے ہا تھ سےتوڑا اس نےکلئ تک اپنے ہاتھ "‬
‫پرچکنائ لگائ اورپھر ہاتھ میرے اندر میوںں داخل کردیا میوںں درد سے بےہوش ہوگی۔ دس دن تک میوںں محل کے‬
‫ڈاکٹر کی نگرانی میوںں تھی اور باقی دس دن تک اس محل میوںں آرام کیا۔ مجھےدنیا کی تمام سہولتیوںں مہیا تھیو ں۔‬
‫وہ ہر روز مجھے تازہ پھول بھیجتا تھا۔ وہ ابھی تک مجھ تحفے بھیجتا ہے۔‬

‫ںںںںںںں‬
‫ڑںںںںںںںں کر اپنےساتھ کمرے می‬
‫ںںںں چلنے کو کہا۔ مگر تسنیم اسکا گاہک ہاتھ پک‬
‫ریمشاںںںں کو کمرے می‬
‫ایک گاہک نے ں‬
‫ل ےگیو۔ں‬

‫ریمشاں کی آنکھوں سےآنسوچھلک آئےاور وہ خاموشی سے کھڑکی کے قریب کھڑی ہوگی۔ اس کے دل میں یہ‬
‫سوالاٹھا۔ کیا کہیوںں عورتووںں کا بھی خدا ہوتا ہے؟‬

‫جب سے ریمشاوںں ہیرا منڈی سے واپس آئ وہ بالکل خاموش ہوگی۔ میوںں نےاسکا دل بہلنے کی لئےمیوںں نے اس‬
‫کولہور دیکھانے سوچا۔‬

‫ٹںںںںںا‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںںں ان میں سےایک دروازہ چھو‬
‫ںںںںں کنارے پر آباد ہے۔ پرانےلہور کےتیرا دروازے ہی‬
‫لہور دریاے راوی کےںںبائی‬
‫ہےجس کوموری دروازہ کہتےہیں۔ مشرقی دروازے کر دہلی دروزہ کہتے ہیں کیونکہ اس کا ایک رُخ د ہلی کی‬
‫ںںںں‬
‫ںںںںںںںںںںک قلعہ کوجاتی۔ یہا‬
‫سیدھی س‬‫ٹںںںںںںںںںںںںیشن ہے ۔اسی دروازے کےاندر ایک ڑں‬
‫طرف ہے۔ دروازے کے باہر ریلوے اس‬
‫مسجد وزیرخان اورسراۓ وزیرخان اور وزیرخان حمام ہے۔ اکبری دروازہ محمد جلل الدین اکبر کےنام‬
‫سےموسوم ہے۔یہاوںں ہر قسم کےغلہ کی منڈی ہے جواکبرمنڈی کہلتی ہے۔ اب صرف منڈی رہ گئ ہے۔ موتی‬
‫دروازہ جو کہ موچی دروازہ بھی کہلتا ہے۔ یہ دروازہ جمعدار موتی رام کےنام سےموسوم ہے۔ موتی رام اکبر‬
‫میںںںں اسکا نام موچی دروازہ میںں بدل‬‫ںںںںںںںں کے عہدں‬
‫ںںںںںں اس دروازے کی حفاظت پر تعینات تھا۔ سکھو‬ ‫کے زمانےمی‬
‫گیا۔ اب صرف اسکی یادگار باقی ہے دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ عالمگیردروازہ ‪ ،‬اورنگ زیب عالمگیر کے بیٹے‬
‫کے نام سے موسوم ہے۔ دروازہ ختم ہوچکا ہے۔ داخل ہوتے ہی سیدھے ہاتھ پرمغل حویلی ہے‪ ،‬لل خو اور‬
‫ںںںں‬
‫ںںںںںںں دونوں طرف آتش بازی کا سامان فروخت ہوتا ۔ یہا‬ ‫سادہکرن مسجد محمد صالح ہے۔ اس پتلے ںں‬
‫بازارمی‬
‫پرسوسال سےایک کباب اور ایک مٹھائ کی دوکان ہے جولہوری اسٹائل میوںں کھانےاور مٹھائ بناتےہیو ں۔‬
‫لہاری دروازہ کام نام لہور ی دروازہ ہے جو بگڑ کرلُہاری ہوگیا۔ محمودغزنوی نےاس جگہ راجہ جیپال‬
‫سےجنگ جیتی۔ غزنوی نےشہر کوآگ لگادی اور رعایا کا قتل عام کیا۔ یہ شہر کچھ عرصے تک غیر آباد رہا۔‬
‫ملک ایاز کے زمانےمیں شہر کی نئ آبادی اسی محلہ سے ہوئ جس کولہور منڈی کہتے ہیں۔ موری دروازہ‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںں‬
‫ںںںں فیصل برج کے نزدیک ہے۔ یہ بھی ملک ایاز سے موسوم ہے۔ ںں‬
‫پنجابی زبان می‬ ‫ٹںںںی کے درمیا‬
‫لوہاری اور بھا‬
‫ںںںں پر‬
‫ںںںںںںںںں۔ مشہور انارکلی کا بازار یہا‬
‫ںںںںں جس میں سے پانی گہر کا نکلتا ہو کہتے ہی‬ ‫موری اس بدررو کو کہتے ہی‬
‫ہے چوٹں خارا ہاوس میوںں لہوری اسٹائیل کا کھانا ملتا ہے۔‬

‫پہاڑی دروازہ ‪ ،‬بہاٹ کی قوم سے موسوم ہے۔ سرکولر‪ ،‬راوئ روڈ ‪ ،‬لوارمال‪ ،‬موہنی روڈ‪ ،‬بلل گنج اور لوہارہ‬
‫اسںںال‬
‫ںںںںںںںںںں کے ٹں‬
‫کی سڑکیں یہاںں ملتی ہیںں حضرت داتا گنج کا مزارقریب ہے۔ اس چوک پر کھانے پینے ںں‬
‫کی چیزو‬
‫بھی ہیں ۔ ٹکسالی دروازہ کےاندر ایک زمانےمیں ایک سکہ بنا کرتا تھا۔ روشنائ دروازہ مسجد بادشائ اور‬
‫قعلہ لہور کےدرمیان ہے۔اس دروازہ کے اندرونی میدان اور باہر روشنی کی جاتی تھی‪ ،‬اسلئے یہ روشنائ دروازہ‬
‫کہلیا۔ یہ قعلہ کا بھی دروازہ ہے۔ مستی دروازہ ایک شاہی ملزم کے نام سے مشہور ہے جس کا نام مستی بلوچ‬
‫تھا۔اب یہ ایک چھوٹا گیوٹں ہے۔کشمیری دروازہ کا رخ کشمیر کی طرف ہے ۔یہاوںں شاید کشمیری آباد کئےگے‬
‫تھے۔ خضری دروازہ کےسامنےایک زمانے میوںں دریاے راوی تھا۔ اسلئےاس کودریا کی نزدیکی کی بنا‬
‫پرخضری دروازہ کہاجاتا تھا۔ اب لوگ اس کوشیروں وال دروازہ کہتے ہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ‬
‫کےزمانےمیں ہمشہ دوشیروں کے پنجرے رکھے ہوتے تھے۔ تیرواں ذکی دروازہ المعروف مکی یہ دروازہ‬
‫پیرذکی شہید کےنام سےمشہور ہے‬

‫چوتھی منزل"۔ عدنان نےایک سات منزلہ عمارت کی طرف اشارہ کیا۔"‬
‫بلڈنگ ماڈرن اور خوبصورت تھی ۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںں ایک شخص‬


‫ٹںںںںریڈر" کا بورڈ تھا۔ آفس کے سامنے والے کمرے می‬
‫چوتھی منزل پرایک دروازے پر" رحیم یار‬
‫نے ہمیوںں روک دیا۔‬

‫کس سےملنا ہے"۔ اس نےریمشاوںں کی طرف دیکھتےہو ے کہا۔ "‬


‫رحیم یار سے"۔ میوںں نے کہا۔ "‬
‫یہاوںں انتظار کرو" ۔ "‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں‬
‫ںںںںںں اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا۔ کمرے می‬
‫ںںہمی‬
‫تھوڑںںی دیر بعد ایک دروازے سےایک رحیم یار باہر آیا اور‬
‫داخل ہونے کے بعد اس نےدروازہ بند کردیا۔‬

‫تمہاری بہن" ۔ وہ بول "‬


‫ہاو ں " ۔ میوںں بول۔ "‬
‫نقاباٹھاؤ"۔ "‬
‫ریمشاوںں نے اپنا نقاب اٹھادیا۔‬

‫ٹھیک ہے ۔پانچ ہزار۔ ایک پیسہ بھی ذیادہ نہیو ں"۔ "‬
‫مجھےنازیہ نے تمہارا نام دیا تھا"۔ میں نے ہزار ہزار کےپانچ نوٹ میز پر رکھ دیئے۔ رحیم یار کا منہ کھل رہ"‬
‫گیا۔ وہ مجھےحیرت سےدیکھ رہا تھا۔ " یہ لڑکی ایک شیخ کے لئے ہے۔ مجھےاس لڑکی کو دوبئ لےجانا ہے۔ کیا‬
‫تمٹرانسپوروٹں کا انتظام کرسکتے ہو۔ ہم دونووںں کے لئے "۔‬

‫رحیم یار بول ۔ " دس ہزار ہووںں گے دونووںں کے"۔‬

‫میوںں نے ہزار کے دس نووٹں اور میز پر رکھ دیے۔‬


‫کراچی‬
‫سری لڑکیاوںں ایک اندھیری گلی میوںں کھڑی تھیوںں ۔ ایک ادھی ڑ عورت اور مرد ان کی نگرانی کررہے تھے ۔‬
‫ایک لڑکی نے کچھ پوچھنے کی کوشش کی اورادھیڑ عورت نے اتنی زور سے اس کے منہ پر چانٹا مارا کہ وہ‬
‫سڑک پرگری ۔اس کے بعد کسی لڑکی کی ہمت نہیوںں ہوئ کہ وہ کچھ کہتی۔گاڑی کے انجن کی آواز آئ اور ایک‬
‫ٹںںںرک میں‬‫ڑںںںںںںںں کیوں کو ٹرک میں دھکیلنا شروع کردیا۔‬
‫ٹرک گلی میں داخل ہواٹ۔ںںںرک کے رکتے ہی عورت نے ل‬
‫سب لڑکیووںں کیلۓ جگہ کم تھی۔ سب بدن سے بدن لگے ک ھڑی ھوگئیو ں۔ عورت نے چل کر کہا اگر کسی نے‬
‫تھوڑی سی آواز نکالی تو میوںں اسکا منہ توڑ دووںں گی۔ اورٹرک کا دروازہ بند کردیا۔‬

‫ںںںںںکیاں ایک‬
‫ڑں‬
‫دوسری ل‬ ‫ںںںںھ کو دیوار کا سہارا تھا۔‬
‫اسکیں پی‬
‫ٹ‬ ‫ریمی کو ٹرک کی اندرونی دیوار کے پاس جگہ ملی ۔‬
‫دوسرے کے سہارے پر کھڑی تھیو ں۔ٹرک کے دیھرے ھونے یا روکنے اور چلنے سے لڑکیاوںں ایک دوسرے پر‬
‫گرتیو ں۔اخر کارٹرک ایک مقررہ رفتار سے چلنے لگا۔وھ شاید ہائ وے پرتھے۔‬

‫گرمی کے مارے برا حال تھا۔ٹرک میوںں کو کھڑکی نہیوںں تھیوںں اور۔ لڑکیاوںں پسینے میوںں نچ ڑ رہی تھیو ں۔ سانس‬
‫لینا دشوار تھا۔ ہہاوںںٹرک نے اچھلنا شروع کیا۔ سڑک نا ہموار تھی ۔ٹرک کی دیواریوںں لکڑی کے پینل‬
‫تھےاور ریمی ان کے درمیاوںں سے باہر دیکھ سکتی تھی پٹوکی اوراکارا کے شہرگزرتے ہوے ساہیوال آیا۔‬
‫ساہیوال سےخانیوال تک کی سڑک ٹھیک تھی۔سڑک کے دونوں طرف جہاں تک نگاہ پہنچتی تھی کھیت ہی‬
‫کھیت نظر آتے تھے۔ٹرک شام میوںں ملتان پہنچا۔ٹرک ایک مکان کے سامنے رکا ۔ مکان کےاندر پر عورت کی‬
‫نگرانی میوںں دو دو لڑکیووںں کو جوڑے کی صورت میوںں پیشاب اور پخانہ کرنے کی اجازت ملی۔ ایک ملزم نے‬
‫پتلی دال اور چاول ل کر رکھے ۔‬

‫ریمی کو عورت نے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ دوسرے کمرے میوںں آفریدی بیٹھا تھا۔ اس نے مقامی ہالی ڈے ان‬
‫کا کھانا ریمی کے سامنے رکھ دیا۔ ریمی کھانے پر ٹوٹ پڑی اور ٹھنڈے پانی کے دو گلس پی گئی۔آفریدی نے‬
‫پوچھا ٹھیک ہو۔ ریمی نے سر ہلیا۔ عورت نے ریمی کو چلنے کا اشارا کیا۔‬

‫ملتان سے لودھران تک سڑک ہموار تھی ۔ خان بیل پی۔اس۔او پر ٹرک ڈرائیور نے پٹرول ڈلوایا۔اور رحیم یار‬
‫ںںںں‬
‫ںںںںں سے ڑسںںںک کے دونو‬
‫خان کی طرف چل۔ رحیم یار خان میں ں ٹرک نہیںں رکا اور سندھ کی طرف چل۔ یہا‬
‫طرف لمبے درخت شروع ہو جاتے ہیوںں ۔ وہ گھوٹکی میوںں ایک مکان کے سامنے رکے۔ پھر وہی دال چاول ۔اس‬
‫دفعہ ریمی کو دوسرے کمرے میوںں تل ہوا گوشت اور سڑک کے کیفے سے لیا ہوا نان مل۔ یہاوںں سب نے زمین‬
‫پرسو کے رات گزاری۔ سکر کا نیا براج بہت خوبصورت ہے۔سکر کے بعد سڑک کے ساتھ ساتھ کھجورووںں کے‬
‫درخت شروع ہوجاتے ہیو ں۔ میلووںں تک پیلی کجھوریوںں کے گچھے لٹتے نظر ہیوںں ۔ سڑک کے کنارے گدھے‬
‫گاڑیاوںں اورٹریکٹرٹرالیاوںں کھجورووںں سے لددی چلے جارہی ہیو ں۔ کووٹں ڈیگی کا قلعہ سامنے سے گزرتا‬
‫ہے۔ہالے اور حیدرآباد سے گزرتے ہوے سڑک پھر ناہموار ہوجاتی ہے‬

‫ہالےاور حیدر آباد کے بعد کراچی تک کی سڑک اچھی ہے ۔ آخرسہراب کوتھ سامنے نظر آتا ہے۔اور کراچی‬
‫شروع ہوجاتا ہے۔‬

‫شاراع فیصل سےٹرک ایک پل پر مڑا۔ پہل اسٹاپ ناظم آباد تھا ‪ -‬پانچ لڑکیووںں کو یہاوںں اتاردیا گیا۔ایک بعدایک‬
‫ںںںںںںںںںاپ پر لڑکیاں کم‬
‫جگہ آئ۔ عائیشہ منزل ‪ ،‬فیڈرل بی ایریا‪ ،‬نارتھ کراچی‪ ،‬مچھر کالونی اور گلشن اقبالٹں۔ ہر اس‬
‫ہوتی گئیو ں۔ آخر میوںں ریمی رہ گی۔ عورت نے کھا چلو اترو تمہارہ سفر ختم ھوا۔‬

‫ریمی کو عورت نےٹرک سے دکھا دے کراتارا۔ ریمی کو سمجھ نہی آیا کھ عورت نے اس کو دکہا کیووںں دیا۔‬
‫اس عورت کو آفریدی پانچ ہزار روپے دئے تھے تاکہ وہ ریمی کی حفاظت کرے۔اور کراچی پہنچنے پر بیچ‬
‫لگزری ھوٹل پر اتاردے۔‬
‫عورت نے ایک بار ریمی کو زور سے دکھا دیا۔ ریمی زمین پر منہ کے بل گری۔اٹھ ‪ ،‬ک ھڑی حرام زادی‬
‫جاسوس۔ ریمی کے منہ سے خون نکل رھا تھا۔ اس نے اپنی قمیض سے خون پوچھا اور اس سے پہلے کھ عورت‬
‫ایک اور دکھا دیتی وہ اس گھر کی طرف چل پڑی جس کی طرف عورت نے اشارہ کیا تھا۔‬

‫کمرے میوںں چار آدمی تھے ۔ یہ ہے وہ حرام زادی عورت نے کہا۔‬

‫کیا اسکا پولیس سے تعلق ہے"۔ عمر رسیدہ آدمی جو تسبی پڑھ رھا تھا بول۔ "‬
‫ہاوںں " عورت نے زہریلے لہجے سے کہا۔ "‬
‫یہاوںں مت رکھو ۔ بیج دو سالی کو"۔ "‬
‫ھم اسے زیادہ دن یہاوںں نہیوںں رکھ سکتے"۔ "‬
‫ایک آدمی جو تینوں میں کم عمر تھا۔وہ ریمی کے قریب آیا اور اسکے اردگرد گھومااور پھر اس نے اپنا ہاتھ‬
‫ریمی کرسینہ پر پھرا اور اسکی چہاتیووںں کو اپنے دونووںں ہاتووںں سے دبایا۔‬

‫ریمی نے اسکو چانٹا مارا۔ عورت نے فورا ریمی کے ہاتھ پک ڑ لیا اور اسکو مروڑا ۔ ریمی دوھری ھوگی ۔‬
‫آدمی نے اسکے دونووںں کہولے کو اپنے ہاتھووںں سے محسوس کیا۔‬

‫ریمی نے پیچھے لت مارنے کوشش کی اور وہ منہ کے بل گری ۔ اسک ناک سے خون بہنے لگا۔‬

‫مجھ سے سودا کرلو ۔آٹھ ہزار “۔ آدمی نے بولی لگائ "‬


‫نو ہزار " دوسرا آدمی بول۔ "‬
‫کم عمر آدمی خاموش رہا "۔ "‬
‫دس ہزار " تیسرا آدمی بول۔ "‬
‫بارہ ہزار ۔ چھاتی اور کھولے بہت چھوٹے ھیو ں۔ میوںں اس سے ذیادہ نہیوںں دے سکتا اور اگر یہ پولیس والی ہے "‬
‫تو وہ اس کے لئے ضرور آئیوںں گے۔ میوںں ایک دن میوںں اسے دوبئی بھیج دووںں گا" نو عمر آدمی نے کہا۔‬

‫تم میوںں سے کوئ بولی بڑا نا چاہتا ہے"۔ عمر رسیدھ شخص نےدوسرووںں سے پوچھا۔ "‬
‫میوںں بڑے نیلم انتطار کرووںں گا ۔ مجھے بارہ یا تیرا سال کی بنگالن چاہیۓ۔ ایک مرد نے کہا۔ "‬
‫مجھے دس سا ل سے کم کی‪ ،‬تھائ لڑکی چاہیے”۔ دوسرا بول۔ "‬
‫"ٹھیک ھے ۔ یہ تمہاری ہے مگر تم اس کو جلد سے جلد کراچی سےنکالو "‬
‫ایک رات کے لیے اسے مجھے دے دو ۔ دو ہزار دوں گا "۔ ان تینوں میں سے ایک نے کہا "‬
‫نہیوںں ‪ ،‬شیخ کنواری پسند کرتے ھیو ں۔ یہ ناممکن ہے ۔ میرا لگایا پیسہ ذائع ہوجاۓ گا "۔ نوجوان نے کہا۔ "‬
‫نوجوان نے اپنا بٹوہ کھول کر بارہ ہزارگننے اور عمر رسیدہ شخص کے سامنے رکھ دیے۔‬

‫اس نے ریمی کو ک ھڑا کیا ۔ ریمی نے لڑنے کی کوشش کی ۔‬

‫نوجوان نے عمر رسیدہ شخص سے رخصت چاہی اور ریمی کو دروازے کی طرف دکھادیا۔‬

‫ریمی نے سٹرک پر چلنے کی کوشش کی ۔ نوجوان نے اسکا منہ بند کرکےاس کو پیسنجرسائید کی طرف سے‬
‫کارمیوںں دھکیل کر دروازہ لک کردیا۔ جب نوجوان گاڑی میوںں داخل ھوا تو ریمی نےاس پر حملہ کردیا۔‬

‫میوںں تمھارا ساتھی ہووںں ۔ کراچی پولیس ‪ -‬اسپیشل برانچ "۔ نوجوان چلیا۔ "‬
‫مجھے میرے بھائ کے پاس لے چلو"۔ ریمی چلئ ۔ "‬
‫تمہارا بھائ ۔ کیا مطلب تم لھور کی پولیس کی ایجنوٹں نہیوںں ہو؟ " نوجوانس پٹٹا گیا۔ "‬
‫میرے ڈیپارٹمنوٹں کے پیسے" ۔ نوجوان نے غصہ سے کہا۔ "‬
‫میرا بھائ – تم کودگنے پیسے دے دیگا" ۔ "‬
‫تمھارا بھائ کہاوںں ہے"۔ "‬
‫ریمی ن ے اس ے میرےں موبل کا نمبر دیاو۔ں‬

‫ںںںںںںںںںںںں پوری‬
‫ںںںں بیٹھے تھے۔ ریمی سے می‬‫پولیس آفیسر نعمان ‪ ،‬آفریدی‪ ،‬میں اور ریمی ہوٹںل بیچ لگزری کے لن می‬
‫بات سن چکا پولیس آفیسر نعمان ‪ ،‬آفریدی‪ ،‬میوںں اور ریمی ہوٹل بیچ لگزری کے لن میوںں بیٹھے تھے۔ ریمی‬
‫‪،‬سے میں پوری بات سن چکا تھا۔ اور جس عورت پر ہم نے بھروسہ کیا تھا اسں نے ہمیں دوکا دے دیا تھا‬

‫میوںں نے نعمان کو اس کے پیسے لوٹا دۓ اور اسکا بہت بہت شکریہ ادا کیا۔‬

‫ایک مسئلہ ہے"۔ نعمان نے کہا۔ "‬


‫میوںں نے نعمان کی طرف دیکھا۔‬
‫اگر میں اپ کی بہن کو واپس نہیںںں لتا اور دوبائ نہیںں پہنچاتا تو میںں ان انسانوں کے تاجروںںںں کو مکمل طور"‬
‫ںںںںںںںں‬‫ںںںںں کہ میںں بھڑںںوا نہیںں ہوںں اور ہم دونوںں خفیہ پولیس سے تھے۔ںں‬
‫اگر می‬ ‫ہرختم نہیںںں کرسکتا۔ وہ سمجھ جائی‬
‫ںںٹٹےگا"۔ نعمان نے کہا۔ " تم کہنا کیا چاہتے ہو؟۔" میوںں نے‬
‫مقامی گروپ کو گرفتار کرلووںں تو پورا رینگ نہیو و‬
‫پوچھا۔‬

‫اگر میں ریمی کو اس وقت تک اپنے ساتھ رکھوں ۔جب تک کہ مجھے انکے دوبای کر مکمل رابطے پتہ چل "‬
‫جائیو ں۔ میوںں ایک پولس آفسر کی حیثت سے ریمی کی پوری حفاظت کا وعدہ کرتا ہوو ں "۔‬

‫نہیوںں ۔ اس کے لئے یہ بہت بڑا صدمہ تھا۔ بھول جاؤ"۔ "‬


‫دیکھو ریمی میں نے تم کو بے عزتی ‪ ،‬بے حرمتی اور ایک ظوائف کی زندگی سے بچایا۔ کیا تم نہیں چاہو "‬
‫ٹٹے اور وہ سب گرفتار ہووںں ۔ نعمان نے ریمی سے سوال کیا۔‬
‫گی کہ ان لوگون کا رینگ و‬

‫ہاوںں ‪ ،‬مگر بھائ جان کی مرضی کے بغیر نہیوںں "۔ "‬


‫نعمان نے میری طرف دیکھا۔‬

‫میرا جواب نہیوںں اب بھی نہیوںں ہے"۔ میوںں نے کہا۔ "‬


‫اس سے پہلے کہ میوںں یا آفریدی داخل انداز ہوتے نعمان نے پھرتی سے ریمی کے ہاتھووںں میوںں ہتھکری ڈال دی‬
‫اور اپنی پستول نکال کر کہاکہ ریمی ایک سرکاری گواہ ہے اور اس وقت تک پولیس کی خفاظت میں رہ گی جب‬
‫تک یہ کیس عدالت میوںں نہیوںں جاتا۔ پھر اس نے اپنے موبیئل فون میوںں کہا۔مجھے فورا بیچ لگژری پر بیک آپ‬
‫چاہیے۔‬

‫بھائ ۔گھبرا ئیوںں نہیو ں۔ اگر اسے اپنے کیس کے لئے نقصان پہونچانا ہوتا تو یہ مجھےآپ کے پاس نہیوںں لتے "‬
‫آپ اس کی بات تو سن لیو ں " ریمی نے کہا۔‬
‫سفر کی تیاری‬

‫ںںںں‬
‫بتائیںںںں اوراسکونعمان سےمتعلق معلومات دی‬
‫ںںںںںںںں نےسکنیہ کو کال کراسکوتمام تفصیل ں‬
‫نعمان کےجانے کے بعدمی‬ ‫‪-‬‬
‫کیا تم ایک دن میں ان کی تصدیق کرسکتی ہو؟ میں تمہیں نعمان کی موبل فون کیمرہ سےلی ہوئ تصویر "‬
‫بھیج رھا ھوو ں "۔‬

‫ںںںںں تصدیق "‬


‫ںںںںںںںںںں ۔اگر نعمان سےمتعلق باتی‬
‫ٹںںںںںںلیجینس سروس میں کچھ لوگ میرے جاننےوالےہی‬
‫وہ توہوسکتاہے۔ ان‬
‫بھی ہوجائیں ۔ پھر بھی میرا خیال ہے کہ یہ میل جھول ریمشاں کےلیےخطرناک ثابت ہوسکتا ہے"۔ سکنیہ‬
‫نےاپناخدشہ ظاہر کیا۔‬

‫"‬ ‫مجھے پتہ ہے۔ لیکن یہ نہیں پتہ کہ اس کو کیسے رُوکوں گا۔ دوسرے وہ ریمشاں پرغلط الزام لگا ہم سب کو‬
‫پریشان کرسکتا ہے"۔ میوںں نےسکینہ کوجواب دیا۔‬

‫میوںں تمہیوںں شام میوںں کال کرووںں گی۔ اللہ حافظ "۔ "‬
‫اللہ حافظ"۔"‬

‫"‬ ‫چلو کلفٹن چلیو ں۔ تم نےکبھی اونوٹں کی سواری کی ہے" ۔ میوںں ریمشاوںں سے پُوچھا۔‬

‫نہیو ں‪ ،‬میوںں نےتو نہیوںں بھائی جان " ۔ ریمشاوںں نےمعصومیت سے کہا۔ "‬
‫میوںں نےگیراج سےکرائے کی گاڑی نکالی اور ہم پہلےشہر کی طرف چلے۔ برنس روڈ پر بڑی بھ ی ڑ تھی۔ گاڑی‬
‫پارک کرنےکی جگہ نہیوںں ملی۔ میوںں نےڈی۔جے سائینس کالج کےقریب ایک گلی میوںں گاڑی پارک کے لک‬
‫کردی‪ -‬اور ہم پیدل برنس روڈ کی طرف چلے۔ جامع کلتھ مارکیٹ سے گزرتےہوئے ریمشاں نےمیرا کندھا ہل‬
‫کر کہا۔ "چوڑیاوںں ۔بھائی جان مجھےچوڑیاوںں دلئے ۔ میوںں چوڑیاوںں پہنووںں گی"۔‬

‫ٹھیک ہے لیکن اپنی پسند سےلینا مجھ سےنہ پوچھنا کہ کونسی پسند ہیو ں"۔ "‬
‫نہیوںں پوچھووںں گی۔ مجھےمیری پسند پتہ ہے"۔ ریمشاوںں نےاترا کے کہا۔ "‬
‫تقریبا بیس پچیس سٹ دیکھنے کے ریمشاں نےہا ر مان لی۔ اس نےبسورتےہوے کہا۔" گاؤں میں تو لل‪ ،‬ہری ‪،‬‬
‫ںںںںںںںںںںں نا کونسی‬
‫ںںںںںںں ہوتےتھے۔ بھائی جان آپ بتائی‬
‫ںںںں۔ اتنے رنگ اور ڈیزائن تو نہی‬
‫نیلی اور پیلی چوڑیاں ہوتی تھی‬
‫لوو ں"و۔ں‬

‫"میں نے کیا کہا تھا؟ "‬


‫مجھےتو بالکل یاد نہیں نا۔ آپ بتائیں نا "۔ ریمشاں نے معصومیت سے کہا "‬
‫ان سب میوںں سے چھ ڈیزائن چنو"۔ "‬
‫مگربھائ جان"۔ "‬
‫"دیرمت کرو "‬
‫ںںںںںںںںںںں پسند "‬
‫"یہ والے۔ مگر مجھےان کےںںرنگ نہی‬

‫میوںں نےدوکان دار کی طرف اشارہ کیا۔ ان کو بتاو کہ کس ڈیزائن میوںں کونسا رنگ چاہیے۔‬

‫پندرہ منٹ کے بعد ہم بندوخان کے دوکان پر کگڑے تھے۔ لڑکے نے پراٹھےاور نہاری کا ڈنر باکس یمارے ہاتھ‬
‫میوںں دیا اور میوںں نےں اس کی قیمت چُکائی ۔ںں‬

‫جب کلفٹن پر پہنچےتوشام ہوگی تھی۔ ہم نےکلفٹن گارڈن میں بیٹھ کر بندوخان کےمشہور پراٹھےاور نہاری‬
‫کھائی۔ ہم دونووںں کےہاتھ چکنائی سے بھرگے۔ ریمشاوںں نےتھرماس سےگرم گرم چائےنکال کرمجھےدی اور‬
‫خود کےلیے بھی نکالی۔‬

‫بھائی آپ نے کہا تھا کہ اونوٹں کی سواری کریوںں گے۔ مجھےتوآپ کےعلوہ کوئی نہیوںں نظر آرہا "۔ "‬
‫وہاوںں دیوار تک جا کرساحل سمندر کو دیکھواونوٹں کی بہن" ۔ میوںں نے ہنس کر کہا۔ "‬
‫ٹںںںںںں بان ۔ بھائی جان نیچےںںچلیںںںںں نا آپ "‬
‫ںںںںںںںںںںںں نےدیکھ لیا‪ -‬وہ رہا اون‬
‫ارے یہ توہہت ہی خوبصورت نظارہ ہے ۔ می‬
‫ہر کام میوںں اتنی دیر کیووںں کرتے ہیو ں " ۔‬

‫تھوڑی دیرمیں ہم سمندر کی گیلی ریت پرچل رہے تھے ۔ ریمشان ایک بچے کی طرح سمندر سے کھیل رہی‬
‫تھی۔ جب پانی واپس جارہا ہوتا تو وہ اس کو پکڑ نے کےلیےدوڑتی۔ جب پانی ساحل کےطرف لوٹتا تو وہ اس‬
‫سے بچنے کے لیےساحل کی طرف بھاگتی۔ ایک دفعہ وہ ساحل کی طرف تیز نہیوںں بھاگ سکی اور لہر نےاس کو‬
‫ںںںںںںںںںںں‬
‫پکڑ لیا۔ ریمشاں ں پانی میں گر کرمکمل بھیگ گئ۔ اس کو یہ اچھا لگا اور پھروہ ساحل کےمتوازی پانی می‬
‫بھاگنے لگی۔ میوںں اس کے لڑکپن کودیکھ رہا تھا ‪ -‬مجھےسادیہ کی بےحد یاد آئی۔‬
‫صاب ‪ ،‬میم صابو۔ں آپ اونوٹں کی سواری کرےں گا"و۔ں "‬
‫میوںں نے پیچھےموڑ کردیکھا۔ اونوٹں بان نےاونوٹں کومیرے قریب بیٹھا دیاتھا۔‬

‫ریمشاوں"و۔ں میوںں چلیاو۔ں"‬


‫ریمشاوںں نےہماری دیکھا اوردوڑتی ہوئی آئ۔‬

‫اونٹ سواری کے بعد میں ساحل سمندر کے کنارے ایک بینچ پر بیٹھ گیا۔ ریمشاں نے پیچھے کھڑے ہو کراپنی‬
‫باہیوںں میرے گلے میوںں ڈال دیوںں ۔اور اپنی تھوڈی کومیرے سر پر رکھ دیا۔‬

‫بھائی جان ‪ ،‬مجھے پتہ ہے آپ کےدل میوںں کیا ہے ؟ اور یہ خاطریوںں کیووںں ہیو ں ؟ اور ہم سمندر کے کنارے "‬
‫"کیووںں ہیو ں؟" ریمشاوںں زور سے ہنسی ۔ " اچھا‪ ،‬ایک بھائ کو بہن کی خاطر کرنا منع ہے کیا؟‬

‫میرا ایک بھائ ہے جو مجھے بہت بہت پیارا ہے ‪ ،‬جسے جب کوئ چیز پریشان کرتی ہے توسمندر کی طرف "‬
‫بھاگتا ہے‪ -‬آپ اسلئے پریشان ہیں کہ آپ کو پتہ ہے کہ میرے دل میں کیا ہے؟ " ریمشان نےسامنےآ کر میرا ماتھا‬
‫پیار سےچوما اور آنکھووںں میوںں آنکھووںں ڈال کر کہا۔‬

‫تو سادیہ کی طرح میرا دل کتاب کی طرح کھول لیتی ہے" ۔ میوںں نے کہا۔ "‬
‫لو‪ ،‬یہ کیا بات ہوئ ۔ آپ کےدل کا تارا ہووںں میوںں ۔میوںں تو وہیوںں رہتی ہووںں نا " ۔ ریمشاوںں شرارت سےکہا۔ "‬
‫کیا تیرا نعمان کےساتھ جانے کا فیصلہ بدل سکتا ہے؟ " مجھے پتہ تھا کہ اسکا کیا جواب ہوگا۔ "‬
‫بھائ جان ۔ جو بولیوںں میوںں آپ کےلیےکرووںں گی۔ لیکن آپ کو پتہ ہے کہ میرا زندہ رہنے کا مقصد ایک ہی ہے "‬
‫ںںںںںںںںں جس پرمیری ماں‬
‫ںوںںںں جو میری ماں نےسہےاوراس راہ پرسفر کرناچاہتی ہو‬
‫ٹںںںھانا چاہتی ہ‬
‫میں وہی دکھ ا‬
‫کوچلنے پرمجبور کردیاگیاتھا "۔ ریمشاوںں بسورنےلگی۔‬

‫تم کرتو رہی ہو‪ ،‬میری مدد سے"۔ میوںں نےجھنجل کر کہا۔ "‬
‫بھائ جان مجھےجانےدو"۔ ریمشاوںں نے میرے بازو پرچٹکی لی ۔ "‬
‫میرے موبل فون کی گ نھٹی بجی ۔ " بھائ جان "۔ سادیہ فون پرتھی ۔‬

‫ننھی‪ ،‬تم اتنی صبح" ۔ "‬


‫ریمشاوںں کا کال آیا تھا۔ اس نے کہا تھا کہ مدد چاہیے" سادیہ بولی۔ "‬
‫وہ کیوو ں؟ میوںں جو ہووںں یہاو ں " ۔ میوںں نےحیرت سے پوچھا۔ "‬
‫اس نے کہا کہ آپ دو ہاتھ کیچٹکیووںں سے باز نہیوںں آو گے۔ چار ہاتھ چاہیو ں " سادیہ نےقہقہہ لگایا۔ "‬
‫اچانک میرے سمجھ میوںں آیا کہ کیا ہورہا ہے۔ دونووںں بہنیوںں میرے خلف ایک دوسرے سےمل گی ہیوںں ۔‬

‫ریمشاوںں صحیح ہے اور آپ کے پاس کوئ چارہ نہیوںں ہے "۔ "‬


‫" وہ کیسے‪ ،‬میوںں اس کو کمرے میوںں بند کرسکتا ہوو ں۔ پھر کہاوںں جائے گی؟ "‬
‫میوںں نےدیکھا ریمشان یہ سن کرہنسنے لگی۔‬

‫آپ بھول رہے ہیں کہ نعمان اسکوگرفتار کرسکتا ہے اور اس سے اس کا سفر رک جائےگا"۔ سادیہ "‬
‫نےمجھےیاد دلیا۔‬

‫دوسرے ‪ ،‬آپ سکینہ سےاسکی شناخت کروا رہے ہیں اس طرح ہمیں اس کی نوکری اور کردار کا پتہ چل"‬
‫جائےگا ‪ ،‬تیسرے‪ ،‬ریمشاں کو نعمان پر بھروسہ ہے ۔ چوتھے‪ ،‬آپ اور آفریدی ان پر نگاہ رکھیں گے" ۔ سادیہ‬
‫نےسنجیدگی سے کہا۔‬

‫اور آخری وجہ ‪ ،‬وہ آپ کی بات نہیوںں مانےگی۔ میوںں نےاسےسمجھا کردیکھ لیا"۔"‬
‫لگتا ہے توعقل مندہوگئی ہے"۔ میوںں نےہنس کر کہا۔ "‬
‫ہوگئی کہاں سے ‪ ،‬جب عقل بٹ رہی تھی میں آپ کےساتھ ہی تو لئن میں کھڑی تھی۔ بھول گئے"۔ سادیہ "‬
‫نےہنس کر کہا۔‬

‫تم سے کون بحث کرے اب یو‪ -‬سی ‪ -‬ایل ‪ -‬اے کی اسٹودینوٹں ہونا"۔ "‬
‫یہ تو صحیح ہے ۔ تو پھرمیوںں ریمشاوںں کو بتادووںں کہ آپ مجھ سےہارگئے؟"۔ "‬
‫"وہ کیوںں ۔ کیا میں ں نہیںں بتا سکتا؟ "‬
‫بھائ جان۔ آپ فون ریمشاوںں کودیوںں اور ساحل سمندر پرچہل قدمی کریو ں"۔ سادیہ بولی۔ "‬
‫– تم نےمجھ کوڈانوٹں پڑوادی" ۔ میوںں نے منہ بسورتے ہوے فون ریمشاوںں کو دے دیا "‬

‫سکینہ کی کال رات بارہ بجے آئی ۔‬

‫میں تم کو انفارمیشن فیکس کر رہی ہوں ۔ خلصہ یہ ہے ۔ بندہ ‪ 28 ،‬سال کا ہے۔ اور سی۔ آی۔ ڈی میں آٹھ "‬
‫سال سے ہے ۔ ہمبرگ یونیورسٹی جرمنی سے کرِمینالوجی میوںں ڈاکٹر ہے اور پاکستانی انٹرسروس انٹلیجینس نے‬
‫سیکرںری ہے ۔ںںماںںںں ‪ ،‬وزارتِ انصاف و عدل میں سرکاری‬
‫ٹ‬ ‫ےںںںریننگ دی ہے۔ باپ ‪ ،‬وزارتِ دفاعںںمیںںںں انڈر‬
‫اس ٹ‬
‫وکیل ہے ۔ دوچھوٹی بہنیں ہیں ۔ ایک اسکول اور دوسری کالج میں ۔افسروں کی رائے میں سنجیدہ اور پیشہ‬
‫ور ہے اور جذبات کے بجائےعقل سے کام لیتا ہے۔ کردار کی جانچ پڑتال سے پتہ چل کہ صحیح ہے۔ اب تک کئی‬
‫امتیازی تمخےحاصل کرچکا ہے" ۔سکینہ سانس لینے کےلیے رکی۔‬

‫"‬ ‫یہ تواچھی خبر کیونکہ ریمشاوںں اپنی بات پر اَ ڑھی ہوئ ہے" میوںں نے کہا۔‬

‫مجھے پتہ ہے ۔تم نےسولہ سال کی لڑکی سےہا ر مان لی"۔ سکینہ نےقہقہہ لگایا۔ "‬
‫کیا مطلب ؟" میوںں نےپوچھا۔ "‬
‫اب بہت ہوشیار مت بنو ۔تمہیوںں پتہ ہے کہ سادیہ اور میوںں ایک دوسرے کےکتنےقریب ہیو ں۔ اگرسادیہ کھانسے "‬
‫بھی تو مجھے بتاتی ہے کہ آج وہ کتنی دفعہ کھانسی"۔ سکینہ نے کہا۔‬

‫شب الخیر"و۔ں "‬


‫سہانےخواب "۔ اور سکینہ نےہنس کر بند کردیا۔ "‬

‫فرنںںںںں لوبی میں ائیر‬


‫ںںںںںںں داخل ہوئے۔ٹ‬
‫ریمشاں ‪ ،‬آفریدی اور میں میکلوڈ روڈ پر سی۔آئ۔ڈی کی آفس بلڈںں‬
‫نگ می‬
‫پورٹ کی طرح سےچیکینگ کروا کرہم کھلےحصہ میں پہنچے۔ پولیس وردی میں ایک شخص ہماری طرف‬
‫بڑھا ۔‬
‫ںںںںںںںں ہیںں؟ "‬
‫"آپ لوگ ڈی۔آجی نعمان سےملنے آئی‬

‫‪ "-‬میں نےاثابت میں سر ہلیا "‬


‫ںںںںںںںں "‬
‫" میں ان کا پی۔ اےںہںوںںںں ‪ -‬کیا میں آپ کے آی۔ڈی کارڈ دیکھ ںں‬
‫سکتاہو‬

‫آفریدی اور میوںں نےاپنےشناختی کارڈ دیکھائے۔‬

‫آپ کا شناختی کارڈ مس ریمشاوںں "۔ اسے ریمشاوںں کا نام پتہ تھا۔ "‬
‫میرے پاس نہیوںں ہے۔ تم نعمان کو کال کرو" ۔ ریمشان نےرعب سے کہا۔ "‬
‫افسر نےموبل پرایک بٹن دبایا‪ -‬اور ریمشاوںں کےحلیہ اورقدوقامت کو بیان کیا۔‬

‫آپ لوگ میرے ساتھ آئے"۔ افسر بول۔ "‬


‫کئ راستوں اور دروازوں سےگزر کرہم ایک وسیع کمرے میں داخل ہوئے ‪ -‬نعمان نےمیز کے پیچھےسےاٹھ‬
‫کرہم سب سےہاتھ ملیا۔ اور ہم کوصوفہ پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور پی۔ اے کو چائے لنے کو کہا۔‬

‫آپ نےسکینہ کےذریعےمیرے متعلق سب تصدیق کرلیا ہوگا"۔ نعمان نےہنس کر کہا۔ "‬
‫میوںں سمجھ گیا کہ اس نےہمارے بارے میوںں بھی تحقیقات کیوںں ہیو ں۔‬

‫دنیا کے بڑے اور سنگین جرائم میوںں انسانووںں کی تجارت تیسرے نمبر پر آتی ہے۔ اس وقت دنیا میوںں دو کروڑ "‬
‫ستر لکھ انسان غلمی کی زندگی بسر کر رہے ہیو ں۔ عورتووںں کا عالمی بیوپار ایک نیا مسلہ نہیوںں ہے۔ لیکن اب‬
‫جرائم کے پیشہ ور نیٹ ورک اس جرم کو کنڑول کرتے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جو اسحلہ اور ناجائز نشہ ور‬
‫چیزووںں کا بھی کاروبار کرتے ہیو ں۔ اسلئے ہمارے پاس دو مسائل ہیو ں۔ عورتووںں اور بچووںں کے بنیادی انسانی‬
‫حقوق اور ان کی جانی حفاظت "و۔ں نعمان نےں بولنا شروع کیاو۔ں‬

‫ںںںںںںںںں‬
‫عورتوں اور بچوں کوجنسیاتی اور مزدوری کےغلم بنانے کی تجارت کا منبع اور نقل و مقام ہے ایشیا می‬
‫پاکستان ہے۔‬

‫نیپالی‪ ،‬بنگل دیشی ‪ ،‬ہندوستانی‪ ،‬ایرانی ‪ ،‬برمی‪ ،‬افغانی ‪ ،‬کازخستانی ‪ ،‬کرگز رتانی ‪ ،‬ترکمینستانی ‪ ،‬ازبکستانی‬
‫عورتیوںں کو پاکستان لیا جاتا ہے اورانہیوںں یہاوںں سے مشرق وسطہ ‪ ،‬یورپ اور امریکہ میوںں منتقل کیا جاتا ہے۔‬
‫جہاوںں یہ عورتیوںں جنسی غلمی میوںں بیچ دی جاتی ہیوںں ۔‬

‫یہ مسئلہ پاکستان کا اپنا اندونی بھی ہے۔جو کہ ہمارے رسم ورواج نے پیدا کیا ہے۔ مگراس سے توتم لوگ واقف‬
‫ہو۔‬
‫یو۔ایس۔اے کےاسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی دو ہزار کی رپورٹ " انسانوں کا بیوپار" کے مطابق ہرسال چھ سےآٹھ‬
‫ںںںں اور تیس فی‬
‫ںںںںںںں سے ستر فی صد عورتی‬‫ںں‬
‫ان می‬ ‫لکھ عورتیںںں اور بچوں کا عالمی حدود کے آرپار بیوپار ہوتا ہے۔‬
‫صد بچےہوتےہیوںں ذیادہ ترملظوم کو عصمت فروشی کےلیے بیچا اور خریدا جاتا ہے۔‬

‫پاکستان میوںں دو ہزار دو کا آرڈیننس نےفیڈرل انویسٹگشن ایجنسی کےاندرانسانووںں کے بیوپار کے خلف کےایک‬
‫یونوٹں بنایا ہے اس کوانٹی۔ٹرافکینگ۔یونوٹں کہتے ہیو ں۔ میوںں آج کل کراچی میوںں اس کا ذمہ دار ہوو ں۔‬

‫لوگوںںںں کوپکڑا ‪ ،‬دو سو اڑتالس کورٹ میں‬


‫دو ہزار چار میںں ہم نے چار سو انتّر کیس پر کام کیا‪ ،‬دو سو نواسی ں‬
‫مقدمے کیے اور بہتر افراد کوسزا دلوائی۔ لیکن ہم اس منحوسیت کو کم کرنےمیوںں کامیاب نہیوںں ہوئےہیوںں ۔‬

‫ںںںںںں کامیاب‬
‫ڑںںںںںےگروہ کوتباہ کرنںں‬
‫ےمی‬ ‫جس کیس میں اس وقت میں کام کر رہا ہوںںں اس میں ہمیںں امید ہے کہ ہم ایک ب‬
‫ہوسکتے ہیں ۔ مسئلہ یہ کہ ہرچیزہمارے پلن کےمطابق کام کررہی تھی اورتم لوگ نمودارہوگے۔ اب معاملہ کی‬
‫نوعیت بدل گی۔اگر ریمشاوںں اس میوںں حصہ نہیوںں لے گی تو مجھےاپنے کواس تحقیقات سےعلحیدہ کرنا پڑےگا‬
‫اورہمارا اس گروہ تعلق ختم ہوجائےگا۔ اورہم ان کی نگرانی نہیوںں رکھ سکیوںں گے" ۔‬

‫نعمان خاموش ہوگیا۔ افسر نےداخل ہو کرسب کوگرم گرم چائےدی۔‬

‫میرے پاس تم لوگووںں کی پوری رپوروٹں ہے اور مجھےاب یہ بھی پتہ ہے کے ریمشاوںں تمہارا سفر کیا ہے۔ "‬
‫تمہارا بھائی تم کو یہاوںں سے آگےنہیوںں لےجاسکتا۔ میوںں اب تمہارا ہم سفرہوو ں۔‬
‫سفر‬
‫ماوںں ۔ میوںں ایک بیس فوٹں کےٹین کے ڈبےمیوںں بند ہووںں ۔‬

‫دسیووںں میری ہم عمر لڑکیاوںں اس ڈبہ میوںں بغیرآواز رورہی ہیوںں دھوپ سےچھت تپ رہی ہے۔‬

‫ہم سب پسینےشرابور ہیو ں۔‬

‫انہووںں نے کہاہے کہ باہر پہرا ہے اور اگر ہم نےکوئی آوازیوںں نکالیوںں تووہ ہمیوںں جان سےمار دیوںں گے۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںںں سامان‬
‫پرتھی۔ ریمشا‬‫کنںںینر کے باہردیکھا۔ وہ سب سےاوپر والے بسترے ںں‬
‫ںںںںں سےٹں‬
‫ریمشاں نےچھ انچ کی جالی می‬
‫ںںںںںںںں‬
‫ڑںںںںی بڑی کرینوں کو بندرگاہ پردیکھ سکتی تھی۔ اور کچھ دورسمندر کا پانی سورج کی کرنو‬ ‫اٹھانےوالی ب‬
‫سےجھلملرہاتھا۔ اسکی شلواراورقمیض پسینےمیوںں بھیگ کراسکےجسم سی چپک گی تھیو ں۔ ایسا لگتا‬
‫تھاجیسےاس نے کپڑے پہنےغسل کیا ہو۔ وہ بالکل ننگی لگ رہی تھی۔ رات ہونےمیوںں چارگ نھٹےاور باقی‬
‫تھےجوانہیوںں اس ڈبےمیوںں گزارنےہووںں گے۔ یہ صرف اس کو پتہ تھا۔‬

‫نعمان نےاس کو بتایا تھا کہ کراچی سے بلوچستان کا سفر مکران کوسٹل ہائی وے این دس پر ہوگا ‪ -‬کراچی‬
‫سےگوادہرکی بندرگاہ کا سفر بارہ گ نھٹے کا ہے۔ لڑکیووںں لریووںں کے ذریع گوادہر کی بندرگاہ پر لےجایا جائےگا‬
‫اور وہاوںں ان کوایک کنٹینر میوںں مقفل کردیا جائےگا۔ رات کےاندھیرے میوںں کرین اس کنٹینر کو پانی کے ایک‬
‫جہاز پرلد دےگی۔اوردوبئی کا سفرشروع ہوگا۔ دو دن کے بعد جہاز پوروٹں راشد پر پہنچ جائے گے۔ نعمان نے‬
‫کہا تھا کہ وہ اس سےدور نہیوںں ہوگا۔‬

‫کنٹینر میوںں اس کومل کر چالیس لڑکیاوںں تھیو ں۔ کنٹینر میوںں دس قطاریوںں تھیو ں۔ ہرقطارمیوںں ایک بنک بیڈ تھا۔‬
‫ہر بنک بیڈ پرچار بستر‪ ،‬چار منزل کا بسترخانہ بنا رہے تھے۔ بستر دو دو فوٹں چوڑے ‪ ،‬دو فوٹں اونچےاور ساڑھے‬
‫پانچ فوٹں لمبے تھےاس کا اندازہ ریمشاوںں نےاپنےقد سے لگایا۔ ہر بستر کےسرہانےایک چھ انچ کا سوراخ تھا۔‬
‫جس پر لوہے کی جالی تھی۔ اس جالی سے ہوا اور کچھ روشنی کنٹینر میوںں داخل ہورہی تھی۔ ریمشاوںں نے‬
‫کھڑکی کے باہر دیکھا سورج نےمغرب کی طرف اپنا سفرجاری رکھا۔سورج ایک نارنگی بن گیا۔ اور اسس‬
‫رنگ نے بادلوں میں قوس و قزح کا ایک سماں پیدا کردیا ۔ ریمشان نے اندازہ کیا کہ باہرکا درجہ حرارت اب کم‬
‫ہوگیا ہے ۔ لیکن ڈبہ کی گرمی میوںں کوئی کمی نہیوںں ہوئی ۔‬

‫ریشماں صرف اوپری منزل کے بستر دیکھ سکتی تھی۔ وقت گرازنےکے لئےریمشاں نےان لڑکیوں کی شہریت‬
‫کا اندازہ لگانے کی کوشش کی۔ اس کےدائیں طرف چارلڑکیوں کے بسترتھے اور بائیں جانب پانچ ۔وہ سب‬
‫مختلف ملکووںں سےتعلق رکھتی تھیو ں ‪ -‬سفید رنگ والی شاید ایران ‪ ،‬افغانستان ‪ ،‬یا صوبہ سرحداور کالے رنگ‬
‫والی بنگلہ دیش‪ ،‬ہندوستاوںں اور پاکستان سے ہونگی۔ اسےذیادہ ملکووںں اوران کےجغرافیہ کی علمیت نہیوںں تھی۔‬
‫گرمی اور حبس میوںں کچھ کمی ہونے لگی ۔ باہراندھیرا ہوگیا تھا۔‬

‫ریمشاں کو اپنی ماں یاد آئی۔ میری ماں یہاں تھی۔ یہ لڑکیاں اسکی ماں کی طرح ہیں۔ جنہیں کچھ نہیں پتہ‬
‫ھے کہ وہ کہاوںں ہیوںں ‪ ،‬کیووںں ہیوںں اور کہاوںں لیےجائےجارہی ہیو ں ؟ اس نےاپنی ماوںں کی بے بسی اور بے چینی‬
‫محسوس کی۔ ریمشاوںں نے ایک سبکی لی اور اسکی آنکھووںں سےآنسو بہنے لگے۔ ماو ں‪ ،‬ماوںں اس نے کہنے کی‬
‫کوشش کی۔ میں تمہارے پاس ہوں نا ‪ ،‬ماں ۔ تم اب مت ڈرو ۔ میں تمھارے پاس ہوں ماں ۔ اور وہ زارقطار‬
‫رون ےلگیو۔ں‬

‫پکںںںا۔ مگرخود کو لوٹ ں‬


‫ںںںں کو مضبوطی سے ڑ‬ ‫ڑںںںںکیوں نے بسترو‬
‫اچانک کنٹینر ہل اور جھولنا شروع کردیا۔ ل‬
‫ٹںںںںںںینر کو ایک‬
‫ںںںں کو پوچھ کر کڑںھںںںکی سے باہر دیکھا۔ کرین ‪ ،‬کن‬
‫ںںںںںں نے آنسوو‬
‫پوٹ سے روکنا نا ممکن تھا۔ ریمشا‬
‫ںںںںںں‬
‫ڑںںںںںںںںںںںںکیاں اب کھڑںںکی کے باہردیکھ کرخوف می‬
‫اونچائی پر لے آئی تھی۔ اوراب جہاز کی طرف لیےجارہی تھی۔ ل‬
‫بسترووںں سے چپکی تھیوںں ۔ تھوڑی سی دیرمیوںں کرین نے کنٹینر کوجہاز کے ڈیک پررکھ دیا۔‬

‫کنٹینر نےجیسے پانی کئ جہاز کے ڈیک کو چھوآ جہاز نےچلنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر بعد وہ بندرگاہ سےدور‬
‫تھے۔ ریمشاں نےمڑ کردیکھا اور بلندآوازمیں کہا‬

‫الوعدہ میرے خدا۔اب ہم تیری ملکیت سے باہرہیں۔ ہم تجھےتیری ذمہ دار سے بری کرتے ہیں ۔ اب توہمارا "‬
‫خدا نہیوںں ہے ۔یہاوںں سےحیوانووںں کی بستی شروع ہوتی ہے۔ یہاوںں ہمارے خدا دوسرے ہیو ں " ۔‬

‫٭٭٭‬

‫ڑںںںںںںںںںںںںکیاں‬
‫ںںںںںںںںںںں نےدیکھا کہ اس سے پہلے نکلنے والی ل‬
‫دروازہ کھول کرایک مرد نےچل کرسب کو باہر آنے کا کہا۔ ریمشا‬
‫ایک مرد کے پیچھےایک کھلےدروازے کی طرف جارہی تھیو ں۔ اس نےبھی ان کے پیچھےچلنا شروع کردیا‬
‫اوردروازے میں میں داخل ہوگئی وہ ایک چبوترہ پرتھی اور اس کے سامنےایک منزل نیچےایک کھلی ھوئی‬
‫جگہ تھی۔ لڑکیاوںں سڑھیاوںں اتررہی تھیوںں ۔ وہ بھی اترنے لگی۔ کمرے میوںں ایک عجیب سی بدبو پھیلی ہوئ ۔‬
‫ریمشاوںں نے بڑی مشکل سےمتلی کو روکا۔ جب آخری لڑکی سیڑھی اترچکی۔ مردووںں نےدروازہ بند کردیا۔‬

‫ںںںںںں‬
‫ٹںںں چوڑے کمرے می‬
‫ٹںںںںںںںںں لمبےاور بیس ف‬
‫ریمشاں نے ایک مدھم بلب کی روشنی کمرے کا جائزہ لیا ۔ وہ تقریبا سوف‬
‫تھے۔ اس کےدائیوںں طرف کمرے کے آخر میوںں ایک چھوٹا سا کمرا تھا۔ یہ پاخانہ کرنے کی جگہ ہوگی۔اس سے‬
‫پہلے کہ کسی اور لڑکی کواس کاخیال آتا۔ ریمشاوںں کمرے کی طرف بڑھی ۔ جیسے جیسے وہ کمرے کے قریب‬
‫ںںںںںںں اندر داخل‬
‫ںںںںںںںھا کردیکھا اسکا خیال صحیح تھا۔ ریمشا‬ ‫آتی گئی بدبو میں اضافہ ہوتا گیا۔اس نے دروازے کاٹںپردا ا‬
‫ٹٹا ہوا پانی کا نلکا تھا مگرلوٹا نہیو ں۔ اس‬
‫ہوئی اور اپنے کوکر رَفع حاجت سےفارغ کیا۔ یہاوںں ایک و‬
‫نےاپنےڈوپتے سے کےکنارے سے تینٹکڑے پھاڑے ایک ٹکڑے سے اپنےآپ کو پُونچھا اور پھر پہلےدوسراٹکڑا‬
‫کو پانی میوںں گیل کر کر کے اپنے آپ کو صاف کیا اور تیسرے سے سکھایا۔ٹوکری اوپر تک بھری تھی۔‬
‫ریمشاوںں نے ڈوپٹے کےگندےٹکڑووںں کوٹوکری کے اُ بھرتے ہوئے ڈھیر پر ڈال دیا۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںںںںںںںں کا ایک‬
‫جب ریمشاں باہرنکلی تو پاخانہ کے سامنے ایک لئن بن چکی تھی ۔ پاخانے کےسیدھےہاتھ پر کمبلو‬
‫ڈھیرتھا ۔ ریمشاوںں نےلپک کرتین کمبل اٹھا لیےاور کمرے کےاس کونے کا رخ کیا جو پاخانےاورسیٹرھیووںں سے‬
‫بہت دورتھا۔ یکے بعددیگر ے دو لڑکیووںں نےاس کی طرف رخ کیا۔ وہ ریمشاوںں کر قریب آ کر رک گئیوںں ۔ایک‬
‫ںںں کو ان کا بدن‬
‫ںںںں کر بائیں طرف لگا دیاو۔ں ریمشا‬
‫ںںںں کر دائیں طرف اور دوسری ن ے ریمشا‬‫ن ے اپنا کمبل ریمشا‬
‫دیکھ کر ایسا لگا جیسے کےوہ دونووںں وردیش کرتی ہووںں ۔‬

‫ریمشاوںں کی نیند پکی نہیوںں لگی ۔ تھوڑی تھوڑی دیرمیوںں اس کی آنکھ کھل جاتی۔ اس نےکسی کے چلنے اور‬
‫رونے کی آواز سننی اور مردوں کےڈانٹنے کی اور تھپڑ مارنے کی۔ اس نےگھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر‬
‫دیکھا۔ چار‪ ،‬یا پانچ مرد لڑکیوں سے زبردستی زنا کررہے تھے۔ وہ کیا کرسکتی تھی۔ کچھ بھی نہیں ۔ یہی وجہ‬
‫تھی کہ اس نےسیٹرھیووںں سےدور جگہ کا انتخاب کیاتھا۔ تھوڑی دیر میوںں ہنگامہ ختم ہوگیا اورمرد جاچکےتھے۔‬
‫کچھ عرصہ بعد اس نے پھرچلنےاور رونے کی ڈانٹنے اور تھپڑ مارنے کی آوازیں سننی۔ یہ سلسلہ رات پر‬
‫جاری رہا۔اور ریمشاوںں کانپتی رہی۔ شاید یہ ڈر تھا یا سردی یا دونوو ں۔‬

‫صبح دروزہ کھل اورسورج کی روشنی نے کمرے کوچمکا دیا۔ ایک مرد نےاندر آ کر کچھ لڑکیووںں کواس کے‬
‫ٹںںں میں لت‬ ‫ٹںںںںںںںںںا مارا دوسری کے پی‬
‫ڑںںںںںںکیاں ہچکچائیںں۔ مرد نےغصہ سےایک کےچان‬‫ساتھ جانے کا اشارہ کیا۔ ل‬
‫ںںںںںںںں‬
‫ںںںںںں لڑکیاں روتی ہوئی اس کے پیچھے چلی‬ ‫پکںںں کرسیڑھی کی طرف کھینچا۔ تینو‬
‫ماری اور تیسری کے بال ڑ‬
‫دئیو ں۔ کمرے میوںں ایک افسردگی چھاگئی۔ شاید ہرلڑکی اپنے بارے میوںں سوچ رہی تھی کہ اس کے ساتہ کیا ہوگا۔‬

‫ںںںںںںںں میں بالٹیاں تھیںںں۔ اور دو مردوں ں‬


‫ںںےہاتو‬
‫ایک گھنٹںںہ بعد ریمشاںں نےان تینڑلںںںکیوں کو واپس آتےدیکھا۔ ان ک‬
‫ںںںںںں‬
‫ٹںںںںںیاں۔ تینوں ں لڑکیوں کےسامنےقطاری‬
‫ںںںںںں میں کاغذ کی پلیٹیں اور پلسٹک کےچمچےاور پانی کی بال‬ ‫کےہاتھو‬
‫بن گئیوںںں۔ ں‬

‫دو دن کےبھوکی پیاسی لڑکیووںں کےلیے یہ دلیا اورایک نعمت تھی ۔ ریمشاوںں نے اپنا حصہ وصول کیا اور اپنے‬
‫کونے میں واپس آکر بیٹھ گئی اور دلیا کھانے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ میری ماں نے بھی اس قسم کے جہاز‬
‫میوںں سفر کیا ہوگا۔ مگر وہ تو مجھ سے ذیادہ معصوم ہوگی۔ پچیس سال پہلے تواس کو کچھ بھی نہیوںں پتہ ہوگا۔‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںںںں کو‬
‫کیا کسی نے ما‬‫ںںںںںںںںںں لےجایا جارہا ہے اور میرے ساتھ کیا ہوسکتا ہے ۔ںں‬
‫مجںھے کہا‬
‫ںںںںںا بہت پتہ ہے کہ ں‬
‫توتںھو‬
‫مجھے ڑ‬
‫تھ پ ڑ مارا ہوگا یا کسی نےاس کے بال کھینچے ہونگے؟‬

‫کیا کیسی نے اس کے پیٹ پر لت ماری ہوگی؟‬

‫کیا اس کےساتھ زنا بلجبر ہوا ہوگا؟‬

‫کیا وہ بے بسی اور تکلیف میں وہ نانی کا نام لے کرچلئی ہوگی؟‬

‫ںںںںںںںںں ماں کی چیخیں ان لڑکیوں کی طرح گونجی ہوںں گی؟‬


‫کیا اس کھوکھلے کمرے می‬

‫کیا ماں کا خدا اس پرہنسا ہوگا ؟‬

‫نعمان اس وقت کہاوںں ہے؟ وہ میری حفاظت کیسے کرےگا؟‬


‫ںںںںںںں سوچ کر ان کو‬
‫ںںںںںںںں سے لے جاؤ ۔ان باتی‬
‫بھیا میںںں وعدہ کرتی ہوںںں میں آپ کی ہر بات مانوگی۔ مجھے یہا‬
‫زبردست متلی ہوئی اور اس نے قَے کردی۔‬

‫سمندر ظغیانی پرتھا۔ موجزن سمندر سےجہاز جھولے کھا رہا تھا۔ بہت سی لڑکیوں کو متلی ہورہی تھی اور‬
‫کچھ َقے کر رہی تھیو ں۔‬

‫ںںںں سمندر کی‬


‫داروںںںں کے درمیان انہںوںںںں نے سورج کی روشنی می‬
‫دوپہرمیںں لڑکیوں کو ڈیک پر لیا گیا اور پہرے ںں‬
‫ںںںںںںںںںںںں لڑکیاں جواس‬
‫ںںںںں کو اتنی بدبو سونگھنے کے بعد تازی ہوا بہت اچھی لگی ۔دونو‬ ‫کھلی ہوا کو سونگھا۔ ںں‬
‫ریمشا‬
‫کے قریب سوئی تھیں ڈیک پر بھی اس سے ذیادہ دور نہیں ہوئیں ۔ شام کو پھر وہی دلیا مل۔ اس دفعہ ریمشان‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں کی‬
‫کودلیا اتنا خراب نہیںں لگا اور وہ پورا پیالہ کھا گئی ۔ رات آئی اور پھراس نے رونے‪ ،‬چلنےاورالتجاؤ‬
‫آوازیوںں سننی ۔اس نے روتے ہوتے کہا ۔ کیا خدا بہرا اوراندھا ہے؟ ۔ کیا وہ نہیوںں دیکھ سکتا کہ ان بیٹیووںں کے‬
‫ساتھ کیا ہورہا ہے؟‬

‫رات کے ایک پہر میوںں شور وغل اور ہنگامہ شروع ہوگیا۔‬

‫برابر کی دونووںں لڑکیووںں نے ایک ساتھ کہا " تم ہمارے ساتھ رہنا"۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںکیوں کو ربر کی‬


‫ریمشاں ان لڑکیوں کےساتھ ڈیک پر آئی۔ کچھ دور شہر کی روشنی نظر آرہی تڑھںی۔ تمام ل‬
‫ںںںں تیزی‬
‫ںںںںں سوار ہوگئ ۔ کشتیا‬
‫ںںںں ان دونوں کے ساتھ ایک کشتی می‬
‫انجن والی کشتیوں میں اتارا جارہا تھا ریمشا‬
‫سے ساحل سمندر کی طرف چلی ۔ ساحل پر مردوں نے سب کو ایک گلی کی طرف جانے کا اشارہ جہاں چھ‬
‫منی وین ان کا انتظار کر رہی تھیو ں۔‬
‫دوبئی‬

‫ںںںںںںںںل '‬
‫ٹں‬
‫خوبصورت ہو‬ ‫ںںںںںے کا فاصلہ پر ہے۔ اس‬
‫ںںںں ابودھابی سےایکٹںگھن‬
‫ریدا ' ہوٹںل‪ ،‬دوبئی سٹی کےگرد و نواح می‬
‫سےایمرت گولف کلب ‪ ،‬دوبئی ٹںانںںرنیٹ اینڈ میڈیا ٹںسںںی اورجبل علی فری زون بہت قریب ہیںںں۔ عربی میں ں ریدا‬
‫اسے کہتے ہیوںں جس پرخدا کا فضل و کرم ہو ۔ اس بیس منزلہ ھوٹل میوںں چار سو شاندار کمرے ہیو ں۔ ایک سو‬
‫پچاس ایک ڑ کی زمین پر باغات‪ ،‬مچھلیووںں سے بھرے تالب اور جگہ جگہ پانی کے آبشار ہیو ں۔‬

‫جب منی وین ہوٹل کے کچن کےدروازے پر پہنچی تو سورج کی پہلی کرن ہوٹل کی جھیل پرتلملرہی تھی۔‬
‫پہراداروں نےلڑکیوں کوجلد ہی ملزموں کو لےجانےوالی لفٹ سے پانچویں فلور پرپہنچا دیاگیا۔ یہ سارا فلور‪،‬‬
‫ںںںں پینتیس‬
‫ںںںںںںںںںں نے کیا جن کی عمری‬
‫' دوبئی ڈانس ٹانںرنیشل' کےلئےمخصوص ہے۔ فلور پر اُن کا اسقتبال پانچ عورتو‬
‫ںںںں لڑکیوں کو پانچ گروپ میں تقسیم کردیا گیا۔ ہرکمرےںںمیںںںں چار بنک‬ ‫ںںںںںںںں گی۔ یہا‬
‫سے چالیس کے لگ بھگ ہو‬
‫بیڈ تھے۔ چار‪ ،‬چارلڑکیووںں کوایک‪ ،‬ایک روم میوںں رکھاگیا۔ کپڑووںں کے کلزوٹں عمدہ کپڑووںں سےبھرے تھے۔‬
‫میںںںں جمع ہوںں۔ ریمشاں ں اور اسکی ساتھیاںںں‬‫لڑکیوں کوحکم دیا گیا کہ وہ نہا دھو کراس فلور کی کانفرنس رومںں‬
‫ایک ساتھ رہیو ں۔ لفوٹں کےدروازے پرایک پہرے دار تھا۔اس کےعلوہ ایسا لگتا تھا کہ ان کے فلور پر چلنے‬
‫پھرنے پر کوئی کوئی پابندی نہیوںں تھی ۔‬

‫ریمشاوںں اور اس کی ساتھیووںں نےنہا کرسادہ کپڑے پہنےاور راہداری میوںں چلتی ہوئی کانفرنس روم میوںں پہنچیو ں۔‬
‫کانفرنس روم میں پانچ لمبی میزیں لگی ہوئی تھیں۔ ہر میز کےاردگرد نو کرسیاں تھیں۔اور میزوں پرناشتہ‬
‫کے تمام لوازمات تھے۔ ویٹرہاتھ باندھے کھڑے اشارہ کے منتظرتھے۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںںکیوں کو‬
‫ڑںاپنی مقررہ ل‬‫ہرایک گروپ کی ذمہ دار ایک عورت تھی جس نے آپنے کو ایک گائیڈ کہا۔ گائیڈ نے‬
‫اپنےساتھ بیٹھایا۔ سب لڑکیاوںں ڈری اور سہمی ہوئی تھیوںں مگراس برتاؤ سےان کےحفاظتی خول کمزور‬
‫ہونےلگے۔‬

‫یہ تو کوئی بُری جگہ نہیوںں ہے"۔ ریمشاوںں کی ایک ساتھی نے بہت دہمی آواز میوںں دوسری ساتھی سے مسکرا "‬
‫کر کہا۔‬

‫آگے آگےدیکھئے ہوتاہے کیا؟"۔ دوسری ساتھی نےمسکرا کر دہمےسے کہا۔ "‬
‫ریمشاوںں کوحیرت ہوئ کہ یہ دونووںں اسےحالت میوںں بھی مسکرا سکتی ہیو ں۔‬

‫میوںں آپ کو' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' کی طرف سےخوش آمدید کہتا ہوو ں " ۔ کانفرنس روم کا بڑا سکرین روشن"‬
‫ہوگیا۔ ریمشاوںں کوسکرین پرتیس پنیتیس کی عمر کا ایک خوبصورت نوجوان تھا۔‬

‫ہماری آرگنائزیشن کا مقصد ملکووںں کے کلچر کو ایک دوسرے کے قریب لنا ہے۔تم اب کو' دوبئی ڈانس "‬
‫ٹںںںں‬
‫ںںںںںںرکٹر تم کو ڈانس کی تربیت دیں ں گے۔ اورتم ان کو پرائیو‬
‫انسں انس‬
‫انٹرنیشل کی ملزمت میں ہو۔ ہمارے ڈ ٹ‬
‫پارٹیزمیں پیش کروگئ۔ ہرایک کو تمہارے ملکوں سے یہاں لنے میں ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' نے نوے ہزار‬
‫درہام خرچ کئے ہیں۔ یہ ہمارا تم کوایڈوانس پیمنٹ ہے ۔ ایک طرح سے بغیر سود کا قرضہ ہے ۔ تمہاری تنخواہ‬
‫اتھارہ درہام ہوگی ۔ اس وجہ سے تمہارے پہلے چار سال کی تنخواہ اس قرضہ کو نمٹائے گی۔ اس دوران تمہارے‬
‫رہنے کی جگہ ‪ ،‬کپڑے اور کھانا ' دوبئی ڈانس انٹرنیشل' مہیا کرے گا۔ جس کے لیے تمہیوںں ہمارے لیےایک سال‬
‫اور کام کرنا ہوگا۔ سب مل کر تم ہمارے لیے پانچ سال کام کروگی۔‬

‫میوںں کام نہیوںں کرووںں گی مجھےگھرجانےدو"۔ ایک لڑکی چلئی۔ "‬


‫دو اور لڑکیووںں نے بھی اس کا ساتھ دیا۔‬

‫ٹھیک ہے تم جاسکتی ہو "۔ نوجوان نے مسکرا کرکہا۔ "‬


‫پہرے دار ان لڑکیووںں کو کمرے سے باہر لےگے۔‬

‫اب آپ کی گائیڈ آپ کےٹرینگ اسکیجول سےواقف کریوںں گی"۔ سکرین خالی ہوگیا۔ "‬
‫چلو ایک فائدہ تو ہوگا" ۔ ریمشاوںں کی دوسری ساتھی سےدھمی آواز میوںں کہا۔ "‬
‫کیا"۔ پہلی نےپوچھا۔ "‬
‫ڈانس توسیکھنےکو ملےگا"۔ دوسری نے مسکرا کر دہمےسےکہا۔ "‬
‫ریمشاوںں نےسوچا ‪ ،‬یہ دونووںں پاگل ہوگئی ہیو ں۔‬

‫ںںںں‬
‫ںںںں آواز نکالی تھیںںں نظرنہیںں آئیں۔ ساتھیو‬‫ںںںں کو وہ لڑںکیاں جنہوںں نے کانفرنس روم می‬ ‫اس دن کے بعد ریمشا‬
‫نے ریمشاوںں کو بتایا کہ وہ لڑکیاوںں دوسرے ملکووںں کو بیچ دی جائیوںں گی۔ اگلےدوہفتہ ریمشاوںں نےایسی فلور پرڈانس‬
‫ںںںںںںںںںںںںںںکیوں‬
‫سکسی تھے۔ ل‬‫ںںںںںں گزارے۔ ناچ ‪،‬انڈین کلسیکل تھے مگرانداز بہت ڑں‬ ‫اسٹودیو میں ڈانس سیکھنےمی‬
‫کومردوں کوجنسی طور پر اُکسانے کےطریقے سیکھائے گے۔ گائیڈز کمرے کےعلوہ ہروقت ان کے ساتھ ہوتی‬
‫ںںںں ساتھیاںںں اب‬‫ںںںںںںںںںںںںں تھی۔ دونو‬
‫تھیںںں۔ ان کے فلور پر پہرا تھا۔ اور کسی کو فلور سے باہرجانے کیںںاجازت نہی‬
‫ریمشاں کی اچھی دوست بن گئی تھیں اور ریمشاں ان پر بھروسہ کرنے لگی تھی۔ ایک نے اپنا نام جمیلہ اور‬
‫دوسری نے نسرین بتایا۔ دو ہفتہ حتم ہونے تک لڑکیووںں کو یہ پتہ چل گیا تھا کہ یہاوںں سے فرا ر کا راستہ نہیوںں ہے۔‬
‫جن لڑکیووںں نے ایسی کوشش کی ان کو مارا گیاو۔ں ڈں انس کے کپڑے بدلنے کےدوران ریمشاوںں نےان لڑکیووںں کے‬
‫بدن پر نیل کے نشان دیکھے۔ ڈانس سےگریجویشن کی رات آئی۔سب لڑکیووںں کو کانفرنس روم میوںں جمع کیا گیا۔‬
‫سکرین چمکاو۔ں‬

‫آج سےتمہاری ملزمت شروع ہوتی ہے۔ تھوڑی دیرمیں یہاں ہمارے مہمان آئیں گےتمہارا کام ان کوخوش "‬
‫کرنا ہے۔ ان کا دیا ہوا مواضع تمہارا قرضہ نمٹائےگا۔ اگر تم نےایسا نہیوںں کیا توتمہیوںں سخت سزا ملےگی"۔‬

‫جب کوئی مہمان تمہںںں پسند کرےاور تمہارے پاس آئے تواس سے پیار اور محبت سے پیش آو اور اپنے کمرے"‬
‫ںںںںں لگانا آج‬
‫ںںںںں دس منٹ سےذیادہ نہی‬
‫ںںمی‬
‫ںںںںںںںں واپس آو۔ ہرایک مہمان کوخوش کرنے‬
‫میں مدعو کرو۔ اسےخوش کرکےیہا‬
‫رات تم ہر ایک کے لئے چالیس چالیس مہمان ہیں۔ "۔ گائیڈ نے اپنے اپنے گروپ سے کہا‬

‫ریمشاو ں۔ تم ہم پرنظر رکھنا جب تک ہم کمرے میوںں ناجائیوںں ۔تم اکیلی مہمان کے ساتھ کمرے میوںں مت جانا"۔ "‬
‫ایک ساتھی نے کہا۔ " سمجھ رہی ہونا"۔ دوسری نےزور دیا۔‬

‫ہاوںں میوںں تم دونووںں سے پہلے کمرے میوںں نہیوںں جاؤوںں گی۔ مگر یہ سب کیا ہو رہا ہے"۔ ریمشاوںں سہم گی۔ اس "‬
‫ںںںںںںں ہیںں؟‬
‫ںںںںںںںںںںںں ہے؟ بھیا کہا‬
‫ںںںں اپنے آپ کو کوسا۔ یہ کسی غلطی ہوئ مجھ سے۔ نعمان کہا‬
‫نےدل می‬

‫ڑںںںںںںںںںںںںںکیوں کو‬
‫ںںںںںں گروپ نےایک کے بعدایک ڈانس پیش کۓ۔ ڈانس کے بعد سب ل‬ ‫کمرا مردوں سے بھرگیا۔ پانچو‬
‫ایک لئن میں کھڑا کردیا گیا۔ " ہائے " ۔ ایک ادھیڑعمر کے عربی آدمی جس کی توند چوغےسے بھی نکل‬
‫رہی تھی اپنے سڑے ہوے دانت نکال کر کہا۔ ریمشاوںں کواسے دیکھ کر کراہت ہوئی۔ لیکن مگرگروپ گائیڈ کی‬
‫نظرگروپ کی تمام لڑکیووںں پر تھی۔ گائیڈ نے ریمشاوںں کوآنکھیوںں نکال کردیکھا۔‬

‫ہائے " ریمشاوںں نے بناؤٹی مسکراہںٹں سے کہا۔ "‬


‫ےٹٹی پھوٹی اردو بولنے کی کوشش کی ۔ "‬
‫تم نام کیا؟"۔ عربی ن و‬

‫سمیرہ "۔ ریمشاوںں نےاسکو اپنا دیا ہوا نام بتایا۔ "‬
‫ہم کو مطلب معلوم سمیرہ ‪ ،‬تم ہمارا دوست آج "۔ یہ کہہ کر اس نے ریمشاوںں کی کمرمیوںں ہاتھ ڈال کے اپنی "‬
‫طرف کھینچا۔‬

‫شراب کی بدبو نے ریمشاوںں کی ناک بھردی۔ اس نےگرفت سےنکلنا چاہا۔ مگرگائیڈ نے پھرآنکھیوںں دیکھائیو ں۔‬

‫عربی نے ریمشاں کا بوسہ لینے کے لیے منہ بڑھایا۔ریمشاں نے پھرتی سےگال سامنے کردیا۔ عربی کا بوسہ‬
‫ریمشاں کے لبوں کے بجائےاس کےگال پر پڑا۔ اس نے ریمشاں کےگال کا ایک بڑا بوسہ لیا اوراپنےدونوں ہاتھ‬
‫ریمشاوںں کےگرد ڈال کراس کے کولہووںں کوپکڑا اور ایک گیند کی طرح دبایا۔ اچانک کیسی نے ریمشاوںں کے‬
‫ںںںں‬
‫ڑںںںںں کر دیکھا۔ اس کی دونو‬
‫ںںںںںںںںںںںں میں توانائی ڈال دی ۔اس نےمو‬
‫کندھے پرہاتھ کر کہا چلو۔ اس آواز نے ریمشا‬
‫نستین اور جمیلہ ی اپنے مہمانووںں کےساتھ اس کے نزدیک ک ھڑی تھیو ں۔ ریمشاوںں نے پیار سےعربی کوجدا کیا‬
‫اوراسکاایک ہاتھ پک ڑ کردروازے کا رخ کیا۔ وہ مہمانووںں کے ساتھ کمرے میوںں داخل ہوئے نسرین نے بار پرجاکر‬
‫گلسووںں میوںں شراب انڈیلی اور مہمانووںں کو پیش کی۔ اس نےتین اورگلس بنائے اور ایک ریشماوںں کودیا۔‬
‫ریمشاوںں سے پُشتو میوںں کہا ۔‬
‫یہ شراب نہیوںں ہے"۔ "‬
‫ریمشاوںں حیران رہ گئی ۔ یہ ساتھیاوںں کون ہیو ں ؟ اس نےسوچا۔‬

‫ریمشاوںں کےمہمان نےاس کو کھینچ کراپنی گود میوںں بیٹھا لیا۔ اور اسکی چھاتیووںں سے کھیلنے لگا۔‬

‫"‬ ‫اس کوشراب پلؤ "۔ جمیلہ نے ریمشاوںں سے پُشتو میوںں کہا۔‬

‫ریمشاوںں نے جلدی سےگلساٹھا کر عرب کے منہ سے لگا دیا۔ عربی سارا گلس بغیرسانس لیے پی گیا ۔‬

‫ریمشاں نے دوسرے گلس سے ایک بڑا گھونٹ لیا ۔ اور ایک کڑواہٹ محسوس کی۔ عربی نے ریمشاں کے منہ‬
‫ںںںںںںںںں‬
‫ںیںںںں دیا ۔اور ریمشاں ں کو پورا گلس پینے پر مجبور کردیا۔ گلس ختم کرنے کے بعد ریمشا‬
‫ںںںنے نہ‬
‫گلسں ہ‬
‫سے ٹ‬
‫کوسرور آنےلگا اور اس نے اپنے آپ کو بہت ہلکا محسوس کیا۔ عربی نے ریمشاں کوگود میں اٹھا کر بستر‬
‫پرڈال دیا۔ اس سے پہلے کہ ریمشاں کو کچھ سمجھ آتا ۔ عربی نےایک جھٹکے ریمشاں کا ازار بند کھینچا‬
‫اوراس کی شلوار اتاردی۔ اوراپنا چوغا اٹھا کراوراپنی شلوار بھی گرادی۔ ریمشاں کی آنکھیں بند ہورہی‬
‫تھیو ں۔ اس نےمزاحمت کرنے کی کوشش کی مگر نیند اس پرغلبہ پارہی تھی ۔اس محسوس کیا کہ عربی اس کے‬
‫دونووںں گھٹنووںں کو ایک دوسرے سے جدا کر رہا ہے۔ اس نے چاہا کہ وہ اس کو روکےمگر وہ ہل نہیوںں سکی۔ اس‬
‫ںںںںںںںںںں‬
‫ںںںںںںںںںںں رانوں کےدرمیان ۔۔۔۔ چھواءں۔ںریمشا‬‫کو آنکھیںںں کھلی رکھنا مشکل ہورہا تھا۔ پھرعربی نے ںں‬
‫اسکی دونو‬
‫ںںںںںںںںںںںںںں پر حاوی‬
‫ںیںںںں" ۔ عربی اپنے پورے بوجھ سے اس پرگرا۔ اور نیند نے ریمشا‬
‫اپنی پوری قوت سے چلئی " نہ‬
‫آگئیو۔ں‬

‫شِ ٹ”و جملیہ ‪ ،‬یار تم نے اس عربی کوجان سے تو نہیوںں ماردیا۔ نسرین نےجمیلہ سےپوچھا۔“‬
‫نہیو ں۔ کہو توماردووںں سالے کو"۔ جمیلہ نے نسرین کو جواب دیا۔ "‬
‫اور یہ ریمشاوںں کو کیا ہوا؟" نسرین نے کہا۔ "‬
‫بیوقوف نےاپنے جوس کے بجائے نشہ آور شراب پی لی ‪ ،‬جو ہم نے ان لوگووںں کےلیے بنائی تھی"۔ جمیلہ نے "‬
‫قہقہہ لگا کر کہا۔‬

‫او کے سسٹر ‪ ،‬تم نےاس عربی کا سرٹھیک وقت پرتوڑا۔ ورنہ بےچاری ریمشاوںں ساری زندگی روتی"۔ "‬
‫نسرین نےہنس کر کہا۔‬

‫میوںں نعمان کو کھڑکی سے پولس کا حملہ کرنے کا سگنل دیتی ہووںں ۔ تم ریمشاوںں کو بہتے پانی کے نیچے کھڑا "‬
‫کر کے جگانے کی کوشش کرو۔" جمیلہ نے کہا۔‬

‫جملیہ نے کمرے کی لئوٹں کوچار بارجلیا اور بجایا۔ اس نےگیلری میوںں جاکر سامنےوالی بلڈنگ کودیکھا۔‬
‫اُسےایک کھڑکی میں لئٹ کوچار بار جلتےبجتے نظرآئی۔ جملیہ نےسگنل دوہرایا۔ اُسےاس سگنل کا جواب بھی‬
‫مل ۔ں‬
‫ںںںںںںںںںں کی طرح ان تینوں‬
‫جمیلہ دوڑں کردروازے پرگئی اور دروازے کو لک کردیا۔ اس کے بعداس نے ںں‬
‫پولس والو‬
‫عربیووںں کےہاتھ پیچھے کر کےچادرووںں سے باندھ دیۓ اور پھرغسل خانے کا رخ کیا۔‬

‫ریمشاوںں سسٹر کے کیا حال ہیو ں " ۔ "‬


‫بےغم صاحبہ جاگنے میوںں وقت لے رہیوںں ہیوںں "۔ نسرین نےہنس کر کہا۔ "‬
‫کالی کافی پلؤ اس کو" ۔ںں "‬
‫چند منوٹں میوںں ریمشاوںں میوںں اتنی سمجھ آئی کہ وہ کہاوںں ہےاور رونےلگی۔‬

‫ںںںںںںںںںںںںںںں "‬
‫عربیںکوموقع نہی‬
‫ںںںںں ہوا۔ تم ویسی ہی ہو۔ جیسی پیدا ہوئی تھی‪ ،‬میرا مطلب ہے کہ ہم نے ں‬
‫سسٹر۔ کچھ نہی‬
‫دیا۔ بچارا نےتمہارا ایک ماہ کا قرضہ بھی چکایا اور بدلہ میوںں تم نےاس کو کچہ نہیوںں دیا"۔ جمیلہ نےقہقہہ لگایا۔‬

‫اور یہ کیاحماقت کی تم نے انگورکاخالص جوس پی نے کے بجائے نشہ آور شراب پی لی ۔" نسرین نے پوچھا۔ "‬
‫او کےسسٹر ریمشاں۔ ہم اب ڈیوٹی پرہیں۔ ہمارے باہرجانے کے بعدتم اس دروازے کو لک رکھنا اور تب "‬
‫تک نہ کھولنا جب تک دستک دینےوال یہ نا ثابت کردے کہ وہ تمہارا بھیا ہے۔ جمیلہ نے کہا۔‬

‫سمجھ آئی" ۔ نسرین نے پوچھا۔ "‬


‫ہاو ں " ۔ ریمشاوںں نے روتے ہوئے کہا۔"‬
‫ٹںںں پر‬
‫ںںںں۔ وہ سب ایک بو‬
‫ںںںںںںںں جمیلہ اور نسرین موجود تھی‬
‫ںںدونو‬
‫شام کے کھانے پر بھائی جان ‪ ،‬نعمان ‪ ،‬سادیہ اور‬
‫تھے ۔ بیک گرونڈ میوںں دوبئی کا شہر بجلی کی روشنیووںں میوںں ڈوبا ہوا تھا۔‬

‫یہ جمیلہ اور نسرین ہیو ں۔ تم ان کواچھی طرح سےجانتی ہو"۔ نعماوںں نےہنس کرابتدا کی۔ "‬
‫جمیلہ اور نسرین نے ریمشان کو آنکھ ماری۔‬

‫یہ دونوں تربیت یافتہ انڈرکورایجنٹ ہیں۔ ان کا کام تمہاری حفاظت کرنا اور ہمیں سچویشن سے آگاہ رکھنا "‬
‫تھا۔ انہوں نے یہ کام خوبی سےانجام دیا۔ نسرین میرے لیے کام کرتی ہے اور جمیلہ یہاں دوبئی کی خفیہ پولیس‬
‫میوںں ہے"۔ نعمان نےسانس لی۔‬

‫ںںںںںںںںںں "‬
‫ںںںںںں کوثبوتی مواد کےساتھ گرفتار کرلیا ہے ۔ ہماری دونو‬
‫ہم نےدوبئی کی خفیہ پولیس کی مدد سے ان ںں‬
‫اسمگرو‬
‫حکومتوںں ان ک ےخلف قانونی کاروائی کریوںں گی"و۔ں‬

‫کھانے کے بھائی جان ‪ ،‬سادیہ کوتفصیل سے آگاہ کرنےلگے۔ جمیلہ اور نسرین کیس سے متلعق باتیوںں کرنےلگیو ں۔‬
‫نعمان بووٹں کی ریلینگ کےنزدیک ک ھڑا ہو کرشہر کی روشنیاوںں دیکھ رہا تھا۔‬
‫ریمشاوںں نے نعمان کے کندھے پرہاتھ رکھا۔ نعمان نے ریمشاوںں کاہاتھ اپنےدونووںں اپنےدونووںں ہاتھووںں کے درمیان‬
‫دبوچاو۔ں‬

‫تمہارے ہاتھ بہت نرم اورخوبصورت ہیو ں"۔ نعمان نے کہا۔ "‬
‫کیا تمہیوںں وہ سکون مل گیا جس کے لیے تم نے اپنی جان وجسم خطرے میوںں ڈال"۔ نعمان نے پوچھا۔ "‬
‫ہاو ں"۔ ریمشاوںں نے جواب دیا۔"‬
‫تھوڑی دیر تک وہ دونووںں روشنیووںں کےشہر کو دیکھتے رہے ۔ پھر ریمشاوںں نے سوال کیا۔‬

‫"‬ ‫اے روشن اُن کےشہر بتا ۔اب کیا ہوگا‪" ،‬۔‬

‫میں واپس کراچی جاؤں گا اورایک دوسرے کیس پر کام شروع کردوں گا۔ اور تم ۔ تم سادیہ کے ساتھ "‬
‫امریکہ جارہی ہو"۔ نعمان نے مسکرا کر کہا ۔‬

‫کیا ہم پھرملیوںں گے؟" ریمشان نے معصومیت سے پوچھا۔ "‬


‫نعمان نےریمشاوںں کیٹھوڈی کواوپ ارٹھایا اور ریمشاوںں کی آنکھووںں میوںں آنکھیوںں ڈال کر کہا۔‬

‫ہمارے راستے مختلف سمت جاتے ہیں۔ میں پینتس سالہ خفیہ پولیس کا ملزم ۔ میرا چوبیس گھنٹہ گھرسےباہر "‬
‫ںںںںںںںںںںں۔ میں ں‬
‫ںںںں گزرتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ایک دن کسی کی گولی کا شکارہو کرمرجاؤ‬ ‫مجرموں کا تعاقب کرنےمی‬
‫تمہاری زندگی کا ساتھ نہیوںں ہووںں ریمشاو ں" ۔‬

‫ریمشاوںں کی آنکھیوںں آنسووںں سے بھیگ گئیو ں۔‬

‫لیکن ہاوںں اگر تم امریکہ جاکر کریمنالوجی میوںں ماسٹرس کرلو اور پھر واپس آو تومیوںں تم کومیرے "‬
‫ڈیپارٹمنوٹں میوںں نوکری دیلنے کا وعدہ کرتا ہوو ں" ۔ نعمان نے ریمشاوںں کےآنسو پونچھتےہوئے کہا۔‬

‫پکا وعدہ "۔ ریمشاں نے اپنے ہاتھ نعمان کے کندھے پر رکھ کر کہا "‬
‫پکا وعدہ"۔ نعمان نےاپناہاتھ دل پر کر ریمشاوںں کی پیشانی کو چوما ۔ "‬
‫ریمشاوںں کےہاتھ پھسل گئے اور اس کی بغلیوںں نعمان کے کندھووںں کوچھو رہی تھیو ں۔۔۔ پھر بووٹں کےفرش پر‬
‫چاند کی روشنی میوںں دو سایےایک ہو گئے۔‬

‫ختم شد‬

You might also like