Ziddie, Complete Urdu Novel in Urdu Font.

You might also like

You are on page 1of 179

‫ضدی‬ ‫ِ‬

‫)بدیع الجمال(‬
‫مکّمل ناّول۔‬

‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی اسپتال کے وزٹنگ الؤنج میں کھڑے تھے۔‬
‫شوال جا رہی تھی۔ اور یہ بات سکینہ بیگم اور وجاہت علی کے لئے ناقابل قبول تھی۔ شوال سے‬
‫انکے اکلوتے بیٹے کی خوشیاں ‪ ،‬اسکی سانسیں جڑی تھیں۔ شوال کے چلی جاتی تو وہ اپنے بیٹے کو بھی‬
‫کھو دیتے۔ جس کے تصور سے ہی انکا ِدل بند ہو رہا تھا۔ وہ چاہ کر بھی اسے روک نہیں سکتے تھے۔‬
‫’’اب کیا کریں؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے شوہر سے پوچھا۔‬
‫’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ اب صرف رجب ہی کر سکتا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا۔‬
‫سکینہ بیگم نے جلدی جلدی اپنے فون پہ رجب کو کال ِمالئی۔‬
‫’’ہیلو!‘‘‬
‫دو گھنٹیاں بجنے کے بعد رجب نے کال ریسیو کر لی۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ شوال اپنے باپ کے ساتھ جا رہی ہے۔۔۔ تم فورا ً آ کر اسے روکو۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم بہت بوکھالئی ہوئی تھیں۔‬
‫دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی۔‬
‫سکینہ بیگم پہلے جواب کی منتظر رہیں۔ جواب نہ ِمال تو اور بھی پریشان ہو گیئیں۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫انھوں نے قدرے زور دے کر پکارا۔‬
‫’’جی!‘‘‬
‫رجب کی بے تاثر آواز آئی۔‬
‫سن رہے ہو؟۔۔۔ شوال جا رہی ہے۔ آ کر ا ُسے روکو ورنہ وہ چلی جائے گی۔‘‘‬ ‫’’تم ُ‬
‫’’جانے دیں ا ُسے۔‘‘‬
‫رجب کی سفاک آواز ا ُن کی سماعت سے ٹکرائی۔ اور کال کٹ گئی۔‬
‫شوال کا باپ آیا اور اسے لے کر چل پڑا۔ وجاہت علی اور سکینہ بیگم ‪ ،‬دونوں میں سے کوئی بھی‬
‫کچھ کہنے یا کرنے کی ہمت نہ کر پایا۔ شوال کے کپڑوں اور دوائیوں سے بھرا بیگ اب بھی سکینہ بیگم کے‬
‫ہاتھ میں تھا۔ وہ بالکل ساکت‪ ،‬اپنے باپ کے ساتھ جاتی ہوئی شوال کی پشت دیکھ رہی تھیں۔‬
‫آج شوال ویسے ہی ا ُن کی زندگی سے جا رہی تھی‪ ،‬جیسے وہ ا ُن کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔‬
‫بالکل خالی ہاتھ۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫ی کی نند سمیرا کی منگنی کا فنکشن تھا۔ اس کے اّمی اور اّبو اپنی اپنی‬‫اس کی کزن بشر ٰ‬
‫مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے تھے ٰلہذا وہ اکیال ہی اس تقریب میں شرکت کرنے آیا تھا۔ تقریب زیادہ‬
‫بڑی نہیں تھی اسلیے گھر پہ ہی اہتمام کیا گیا تھا۔ مہمانوں کی تعداد اتنی تھی کہ ہال مہمانوں سے بھر‬
‫ت حال نہ تھی۔ ہر کوئی آزادی سے ادھر سے ادھر جا سکتا‬ ‫چکا تھا۔ مگر کھچا کھچ بھرا ُہوا والی صور ِ‬
‫ُ‬
‫تھا اور کسی کو کوئی ڈھونڈنا چاہے تو کھڑے کھڑے ہی نظریں گھما کر بآسانی تالش کر سکتا تھا۔ البتہ‬
‫گھر کی سجاوٹ اور باقی سب انتظامات بہت خوبصورتی سے کئے گئے تھے۔‬
‫اس وقت وہ سمیرا کے بھائی عمیر کے ساتھ فرسٹ فلور پہ ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا‬
‫باتوں میں مصروف تھا جب نیچے ہال میں ایک نسوانی چیخ بلند ہوئی۔ اس نے اور عمیر نے ہڑبڑا کر مڑ کر‬
‫اس وقت وہ سمیرا کے بھائی عمیر کے ساتھ فرسٹ فلور پہ ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا‬
‫باتوں میں مصروف تھا جب نیچے ہال میں ایک نسوانی چیخ بلند ہوئی۔ اس نے اور عمیر نے ہڑبڑا کر مڑ کر‬
‫نیچے ہال میں دیکھا۔‬
‫’’شوال آ گئی۔‘‘‬
‫سمیرا کی چھوٹی بہن عمیرہ نے خوشی سے چال کر پورے ہال کو اطالع دی۔ گویا وہ سب‬
‫لوگ ’شوال‘ کے لئے ہی وہاں جمع تھے۔ عمیرہ خوشی سے تیز تیز چلتی انٹرینس کی طرف بڑھ رہی تھی۔‬
‫اس نے عمیرہ کے ُرخ کے تعاقب میں داخلی دروازے کی سمت دیکھا اور بس نظریں ہٹانا بھول گیا۔ ایک‬
‫لڑکی جو یقینا ً عمیرہ کے اس طرح چالنے پہ ُرک گئی تھی اور سٹ پٹا کر ِادھر ا ُدھر دیکھ رہی تھی۔ اس‬
‫س منظر میں چلی گئی۔ پہلی‬ ‫کی نگاہیں اس پہ جم کر رہ گیئیں۔ وقت تھم سا گیا تھا۔ ساری دنیا جیسے پ ِ‬
‫ہی نظر میں وہ لڑکی اس کے ِدل میں ا ُتر گئی تھی۔‬
‫عمیرہ اس کے پاس پہنچی تو اس نے عمیرہ کو گھرکنے کے انداز میں کچھ کہا۔‬
‫جوابا ً عمیرہ بھی اس سے کچھ کہہ رہی تھی۔‬
‫’’ا ُف یہ عمیرہ بھی ناں۔۔۔۔ میں تو ڈر گیا تھا کہ جانے کیا ہو گیا ہے۔‘‘‬
‫بغل میں کھڑے عمیر نے قدرے جھال کر تبصرہ کیا۔ جس کا اس پہ کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ ابھی‬
‫تک اسی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اب عمیرہ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ پھر وہ عمیرہ کے ساتھ آگے بڑھنے‬
‫لگی۔‬
‫’’شوال!۔‘‘‬
‫ا ُس نے زیِرلب دہرایا۔‬
‫وہ لڑکی مسلسل اس کی نگاہوں کے حصار میں تھی۔‬
‫’’ تمہیں کیا ہوا ہے؟۔۔۔۔ میں تم سے بات کر رہا ہوں۔‘‘‬
‫عمیر نے کہنے کے ساتھ اس کا کندھا جھنجوڑ ڈاال۔‬
‫’’ہاں!۔۔۔‘‘ وہ چونک کر عمیر کی طرف ُمڑا۔ پھر معذرت خواہانہ انداز میں بوال۔ ’’یار! مجھے‬
‫ایک منٹ دینا۔۔۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘‬
‫ُ‬
‫کہہ کر وہ مڑا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا۔ نیچے پہنچ کر وہ سیدھا سٹیج کے پاس کھڑے‬
‫فوٹو گرافر کے پاس گیا اور ا ُس کے کان میں کچھ سر گوشی کی۔ پھر وہ اور فوٹو گرافر دونوں اکٹھے ایک‬
‫طرف چل پڑے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫لوگ سٹیج پہ آ آ کر سمیرا اور اس کے منگیتر کو مبارکباد دے رہے تھے۔ ایک طرف رکھا ٹیبل‬
‫چکا تھا۔‬
‫لوگوں کی طرف سے دیئے گئے تحائف سےبھر ُ‬
‫وہ شازیہ کے ساتھ بیٹھی سامنے اسٹیج کا منظر دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جب شازیہ‬
‫اس کی طرف جھکی۔‬
‫’’لگتا ہے اس فوٹوگرافر کو تمہارا چہرہ کچھ زیادہ ہی بھا گیا ہے۔۔ دولہا دلہن سے زیادہ یہ‬
‫تمہاری تصویریں لے رہا ہے۔‘‘‬
‫’’بس۔ چُپ ہی کر جاؤ شازیہ!۔۔۔ میرے ساتھ تو اکثر ہی شادیوں وغیرہ میں ایسا ہوتا ہے۔‬
‫کیمرہ مین لوگ ایسے پیچھے پڑ جاتے ہیں جیسے انھوں نے مجھ سے پیسے لینے ہوں یا پھر فلم بنا کر‬
‫انھوں نے خود اپنے پاس رکھنی ہو۔۔۔ بہت کوفت ہوتی ہے مجھے۔ اب کسی کی شادی میں شریک بندہ کیا‬
‫کہے ِان کو؟۔۔۔ خوامخواہ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں تماشہ کھڑا کرنا بھی تو اچھا نہیں لگتا۔۔۔‬
‫اور میرے پاپا کا تو تمہیں پتا ہے کہ کتنے سخت ہیں۔۔۔ ا ُن کو ایسی کوئی بات پتا چلے تو وہ یا تو کیمرہ‬
‫مین کو شوٹ کر دیں یا پھر مجھے۔‘‘‬
‫وہ پہلے ہی اس کیمرہ مین سے تپی بیٹھی تھی۔ شازیہ کے مختصر سے تبصرے پہ اس نے‬
‫دبی آواز میں اپنے ِدل کی ساری بھڑاس نکال دی۔‬
‫وہ پہلے ہی اس کیمرہ مین سے تپی بیٹھی تھی۔ شازیہ کے مختصر سے تبصرے پہ اس نے‬
‫دبی آواز میں اپنے ِدل کی ساری بھڑاس نکال دی۔‬

‫’’ا ُف۔۔۔ ٹیبل تو بھر چکی ہے۔ اور ابھی بہت سے لوگوں کا سٹیج پہ جانا باقی ہے۔۔۔ چلو‬
‫شازیہ!۔۔۔ ہم کچھ گفٹس اوپر لے چلتے ہیں۔‘‘‬
‫شازیہ کے دوسری طرف بیٹھی عمیرہ نے کہا۔‬
‫’’نہیں‪ ،‬میں نہیں۔۔۔۔ تم ایسا کرو‪ ،‬شوال کو ساتھ لے جاؤ۔‘‘‬
‫شازیہ نے خود منع کر کے جلدی سے شوال کے نام کا قرعہ ڈال دیا۔ ا ُس نے اچنبھے سے‬
‫شازیہ کو دیکھا۔‬
‫’’جاؤ۔۔ اسی بہانے تمہاری کچھ دیر کے لئے اس فوٹوگرافر سے جان چھوٹ جائے گی۔‘‘‬
‫شازیہ نے اس کی طرف سر جھکا کر سرگوشی کی تو وہ سمجھنے کے انداز میں سر ہال کر‬
‫جلدی سے ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫’’ہاں عمیرہ!۔۔۔ چلو‪ ،‬میں ساتھ چلتی ہوں۔‘‘‬
‫یوں وہ دونوں اسٹیج پہ چلی آئیں۔ عمیرہ نے پانچ چھے ڈبے ایک دوسرے کے اوپر نیچے رکھ‬
‫کر اسے تھما دیئے۔‬
‫’’لو۔۔۔ یہ تم اوپر میرے کمرے میں لے چلو۔۔۔ میں باقی لے کر آتی ہوں۔‘‘‬
‫عمیرہ کی ہدایات پہ وہ تحائف کا مینار ا ُٹھائے اسٹیج سے ا ُتری اور سیڑھیوں کی جانب‬
‫بڑھنے لگی۔‬
‫وہ سیڑھیوں سے دو قدم ہی دور تھی کہ اس کے ہاتھوں میں پکڑے ڈبے کھسکنے لگے۔ وہ‬
‫پریشان ہو گئی۔ اتنے بڑے بڑے ڈبے وہ کسی طور سنبھال نہ پا رہی تھی۔ قریب تھا کہ اوپر کے چاروں‬
‫ڈبے ِگر جاتے کہ دو مہربان ہاتھوں نے بروقت انھیں تھام لیا۔‬
‫’’ارے۔ ارے۔۔۔ سنبھل کر۔‘‘‬
‫عجلت میں کہتے ہوئے اس نوجوان نے اوپر کے چاروں ڈبے ہٹا لئے۔ ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر‬
‫دیکھا اور بھرپور انداز میں مسکرائی۔ اس نوجوان نے بروقت اس کی مدد کر کے اسے ایک بڑی شرمندگی‬
‫سے بچا لیا تھا۔‬
‫’’تھینک یُو۔‘‘ ا ُس نے ممونّیت سے کہا۔‬
‫وہ نوجوان جوابا ً مسکرایا۔‬
‫’’چلیے۔۔ میں لے چلتا ہوں ِانھیں۔‘‘‬
‫نوجوان نے مسکراتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ایک خوبرو‪ ،‬بااعتماد‪ ،‬سلجھا ہوا اور‬
‫خوش مزاج سا نوجوان تھا۔‬
‫’’جی۔‘‘ اس نے مسکرا کر ا ُس کی مدد قبول کی اور سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھا دیئے۔‬
‫اس نوجوان نے اس کی پیروی کی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫عمیرہ کے کمرے میں آ کر اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ڈبے ال کر بیڈ پہ رکھ دیئے۔ وہ نوجوان‬
‫دروازے سے اندر آ کر ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ڈبے رکھ کر واپس مڑی اور اس کے پاس آ کر ڈبے‬
‫اس کے ہاتھوں سے لے لئے۔‬
‫’’تھینک یو سو مچ۔۔۔۔ آپ بروقت مدد کو نہ آتے تو یہ سب گِر جاتے۔‘‘‬
‫اس نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے ا ُس نوجوان کا شکریہ ادا کیا۔ وہ نوجوان جوابا ً فراخ دلی‬
‫سے مسکرایا اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ تب ہی عمیرہ ہاتھوں میں کچھ ڈبے لئے بولتی ہوئی اندر آئی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ تم نے انھیں بیڈ پہ ہی رکھ دیا؟۔‘‘‬
‫عمیرہ کے پوچھنے پہ شوال عمیرہ کی طرف مڑ گئی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ تم نے انھیں بیڈ پہ ہی رکھ دیا؟۔‘‘‬
‫عمیرہ کے پوچھنے پہ شوال عمیرہ کی طرف مڑ گئی۔‬
‫’’تو اور کہاں رکھنا چاہیئے تھا؟‘‘‬
‫شوال کہتے ہوئے عمیرہ کے قریب چلی آئی جو سیدھا چلتی ہوئی بیڈ کے پاس جا ُرکی تھی۔‬
‫’’چلو ٹھیک ہے۔۔۔ ابھی یہیں رکھ دیتے ہیں۔ بعد میں کہیں اور رکھ لیں گے۔‘‘‬
‫عمیرہ نے خودکالمی کے انداز میں کہا اور خود بھی اپنے ہاتھوں میں پکڑے ڈبے بیڈ پہ رکھ‬
‫دیئے۔‬
‫وہ خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’اّمی!۔۔۔ میرا کوریئر تو نہیں آیا؟‘‘‬


‫اس نے سیڑھیاں اتر کر نیچے ہال میں آتے ہوئے بےچینی سے اپنی ماں سے پوچھا جو صوفے‬
‫پہ پالتی مار کر بیٹھی فرصت سے اخبار پڑھ رہی تھیں۔‬
‫’’کیا ہو گیا ہے رجب !؟۔۔۔۔ صبح سے قریب دس بار پوچھ چکے ہو۔۔۔ اب بتا بھی دو کہ ایسا‬
‫جس کے لئے تم اتنے بےتاب ہو رہے ہو؟‘‘‬ ‫کونسا خاص کوریئر آنا ہے ِ‬
‫ھال سا گیئیں۔‬
‫اب کے سکینہ بیگم بھی قدرے ج ّ‬
‫’’چھوڑیں ناں اس کو۔۔۔۔ بتائیں کہ کوریئر آیا کہ نہیں؟‘‘‬
‫وہ بچوں کی طرح ِاٹھال کر بوال تھا۔ اس کی بےتابی بڑھتی جا رہی تھی۔‬
‫’’کوریئر تو نہیں آیا لیکن تمہارے اّبو کی کال دو بار آ چکی ہے۔ وہ تمہیں بُال رہے ہیں۔۔۔‬
‫انھیں تم سے کوئی ضروری کام ہے۔‘‘‬
‫’’ا ُن کو بتا دیں کہ میں نہیں آ سکتا۔‘‘‬
‫اس نے قدرے کوفت ذدہ ہو کر چہرے کے زاویے بگاڑے۔ پھر بوال۔‬
‫’’میں باہر جا کر چوکیدار سے پوچھتا ہوں۔‘‘‬
‫وہ کہہ کر تیز قدموں سے چلتا ہال سے باہر ِنکل گیا۔‬
‫سکینہ بیگم نے اسے یوں جاتا دیکھ کر مایوسی سے سر ہالیا۔‬
‫’’یہ لڑکا بھی ناں!۔۔۔۔ کسی ایک چیز کے پیچھے پڑ جائے تو پھر اسے دنیا میں کسی‬
‫دوسری چیز کی پرواہ نہیں رہتی۔‘‘‬
‫وہ بڑبڑائیں اور سر جھٹک کر نظریں دوبارہ اخبار پہ جما دیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ اپنے کمرے میں بیڈ کے کنارے بیٹھا تھا اور اپنے سامنے بیڈ پہ تصویروں کا ایک ڈھیر لگا‬
‫رکھا تھا۔ وہ ایک کے بعد ایک تصویر ا ُٹھا کر اسے اشتیاق سے دیکھتا تھا اور پھر بیڈ پہ ذرا ذرا فاصلے‬
‫پہ لگائے تصویروں کے چھوٹے چھوٹے ڈھیروں میں سے کسی ایک میں رکھ دیتا تھا۔ ہر نئی تصویر ا ُٹھا‬
‫کر دیکھتے ہوئے ا ُس کی آنکھوں کی چمک اور ستائش بڑھ جاتی تھی۔ ہونٹوں پہ ٹھہری مستقل مسکراہٹ‬
‫بھی گہری ہو جاتی تھی۔ وہ پورے انہماک کے ساتھ تصویروں کو کیٹگرائز کر رہا تھا جب وجاہت علی اس‬
‫کے کمرے کا دروازہ کھول کر تیزی سے اندر آئے۔‬
‫’’رجب! کب سے بُال رہا ہوں۔۔۔ تم آفس کیوں نہیں آ رہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی اپنی ہی دھن میں پوچھتے آگے بڑھے اور بیڈ کے قریب پہنچتے ہی سامنے پھیلی‬
‫تصویریں دیکھ کر ٹھٹک کر ُرک گئے۔‬
‫’’ابو!۔‘‘ رجب نے سر ا ُٹھا کر ا ُنھیں دیکھا اور مسکرایا۔‬
‫’’ادھر آیئے۔۔۔ دیکھیئے!۔۔۔ یہ لڑکی خوبصورت ہے ناں!؟‘‘‬
‫اس کے چہرے کی خوشی اور جوش قابِل دید تھا۔ وجاہت علی نے ایک نظر ا ُس کا جگمگاتا‬
‫’’ادھر آیئے۔۔۔ دیکھیئے!۔۔۔ یہ لڑکی خوبصورت ہے ناں!؟‘‘‬
‫اس کے چہرے کی خوشی اور جوش قابِل دید تھا۔ وجاہت علی نے ایک نظر ا ُس کا جگمگاتا‬
‫چہرہ دیکھا اور ا ُس کے بڑھائی ہوئی تصویر تھام لی۔ تصویر ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے وہ مسکرا‬
‫دیئے۔ ا ُنھوں نے رجب کی طرف دیکھا۔‬
‫شبہ۔۔۔ کون ہے یہ؟‘‘‬‫’’بال ُ‬
‫کسی لڑکی میں اپنے بیٹے کی دلچسپی بھانپ کر انھیں خاصی خوشی ہوئی تھی۔ رجب ا ُٹھ‬
‫کر ان کے قریب چال آیا اور تصویر پہ نظریں جما کر بوال۔‬
‫’’یہ شوال ہے۔۔۔۔ اسرار احمد اینڈ سنز والے ہیں ناں‪ ،‬اسرار احمد۔ ا ُن کی بیٹی ہے۔‘‘‬
‫اسرار احمد کا نام سنتے ہی وجاہت علی کو جھٹکا لگا۔ ا ُنھوں نے ایک دم ہی رجب کی طرف‬
‫دیکھا۔ رجب بھی ا ُن کی طرف دیکھنے لگا۔ مسکراتے ہوئے بوال۔‬
‫’’ابو!۔ مجھے یہ لڑکی پسند ہے۔۔۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫یہ سننا تھا کہ وجاہت علی کا ہاتھ‪ ،‬جس میں انھوں نے تصویر پکڑ رکھی تھی‪ ،‬واضح طور‬
‫پر کانپ گیا۔ معلوم نہیں آسمان ان کے سر پہ ٹوٹا تھا یا قدموں تلے سے زمین سرک گئی تھی۔ مگر جو‬
‫بھی ہوا تھا۔ بہت ہی ُبرا ہوا تھا۔‬
‫ا ُنھوں نے سر ا ُٹھا کر رجب کو دیکھا۔ وہ ان کی رائے جاننے کا منتظر اشتیاق کے ساتھ‬
‫انھیں دیکھ رہا تھا۔‬
‫’’تم اسے کیسے جانتے ہو؟ اور کب سے؟‘‘‬
‫یہ سوال کرتے ہوئے ِاک انجانے خوف سے وجاہت علی کا دل ڈوب رہا تھا۔‬
‫ِ‬
‫’’میں بشریٰ کی نند کی منگنی پہ گیا تھا ناں!۔۔۔ وہیں پہ پہلی بار دیکھا تھا ِاسے۔‘‘‬
‫رجب نے جواب ِدیا۔ پھر اپنے ِدل کا حال سنانے لگا۔‬
‫’’پتا ہے اّبو!۔ جب میں نے اسے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ ُیو َنو لّو ایٹ فرسٹ سائٹ۔۔۔‬
‫بالکل ویسا ہی ہوا۔ مجھے اسے دیکھ کر لگا ہی نہیں کہ یہ کوئی اجنبی ہے۔ ایسے لگا جیسے میں اسے‬
‫برسوں سے تالش کر رہا ہوں۔ اسے دیکھتے ہی میرے ِدل نے کہا کہ رجب!۔ یہی وہ لڑکی ہے جو تمہارے‬
‫لئے بنی ہے۔ اگر تمہاری شادی ہوگی تو صرف اور صرف اسی لڑکی سے ہوگی۔‘‘‬
‫وجاہت علی ا ُسے دیکھتے رہ گئے۔ بہت بڑی پریشانی نے انھیں آن گھیرا تھا۔ رجب کا جواب‬
‫سلی ہوئی تھی کہ ِان دونوں کے درمیان کوئی افیئر نہیں‪ ،‬وہیں رجب کے احساسات‬ ‫سن کر جہاں انھیں ت ّ‬
‫ُ‬
‫نے انھیں خوفزدہ کر دیا تھا۔ رجب کے خاموش ہونے کے بعد بھی کچھ پل کے لئے اسے دیکھتے رہے۔ پھر‬
‫نظریں جھکا کر واپس تصویر دیکھنے لگے۔ ا ُنھیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسے کونسے الفاظ یا‬
‫جس سے وہ اپنی بات آسانی سے بیان کر سکیں۔‬ ‫کونسی زبان استعمال کریں ِ‬
‫’’رجب!۔‘‘‬
‫انھوں نے دھیرے سے اسے پکارا۔ پھر ہمت کر کے ہاتھ میں پکڑی تصویر بیڈ پہ ڈال دی۔‬
‫’’تمہاری شادی اس لڑکی سے نہیں ہو سکتی۔‘‘‬
‫جیسے تیسے کر کے انھوں نے اپنی بات کہہ دی۔ بات مکمل کر کے انھوں نے دوبارہ نظریں‬
‫ا ُٹھا کر رجب کو دیکھا تاکہ اس کا رِدعمل جان سکیں۔‬
‫رجب اس صاف سیدھے اور منفی جواب پہ بُری طرح چونکا۔‬
‫’’کیا مطلب؟‘‘‬
‫وہ ایسے جواب کی توقع ہرگز نہیں کر رہا تھا۔‬
‫’’مطلب وہی ہے جو میں نے کہا ہے رجب!۔۔۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لڑکی کا خیال ِدل سے‬
‫نکال دو۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے دھیمی اور نرم آواز میں سمجھانے کے انداز میں کہا۔‬
‫’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اّبو!۔۔۔ کیوں ممکن نہیں ہے؟‘‘‬
‫وہ بےچین ہو ا ُٹھا۔‬
‫’’رجب!۔‘‘ رجب کی بےچینی وجاہت علی کی پریشانی میں اضافہ کرنے لگی۔ وہ بمشکل اپنی‬
‫وہ بےچین ہو ا ُٹھا۔‬
‫’’رجب!۔‘‘ رجب کی بےچینی وجاہت علی کی پریشانی میں اضافہ کرنے لگی۔ وہ بمشکل اپنی‬
‫ہمتیں مجتمع کر کے وضاحت دینے لگے۔‬
‫’’تم جانتے ہو کہ اسرار احمد کے ساتھ شروع سے ہی ہمارا کامپیٹیشن ہے۔ ہم ہمیشہ ہی‬
‫ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اس کی ہمارے ساتھ اتنی کڑی ٹکر ہونے کے باوجود‬
‫بھی اسرار ہمارے ساتھ اس طرح کی کسی رشتہ داری کے لئے راضی ہوگا؟۔۔۔ ناممکن۔‘‘‬
‫وجاہت علی اپنا اعتماد قائم رکھنے کی پوری کوشش کر رہے تھے مگر پھر بھی اندر کا خوف‬
‫انکے لہجے کو کمزور بنا رہا تھا۔‬
‫’’اّبو! یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔ سَیم پروفیشن کے لوگوں کے بیچ کامپیٹیشن ہوتا‬
‫ہے۔۔۔ یہ کوئی ایسی بڑی یا غیر معمولی بات تو نہیں!۔۔۔ ہمارا ا ُن سے کامپیٹیشن ہے۔۔۔ خدانخواسطہ کوئی‬
‫دشمنی تو نہیں۔۔۔۔‘‘‬
‫رجب اس جواز کو بالکل بھی خاطر میں النے کو تیار نہ تھا۔ اور رجب کا یہ رّویہ وجاہت علی‬
‫کو اور بھی کمزور کر رہا تھا۔‬
‫رجب کہنے لگا۔‬
‫’’اوہ کم آن اّبو!۔۔۔ پلیز‪ ،‬بی ریئلسٹک )‪ (Realistic‬۔ آپ تو بالی ُووڈ کے پیرنٹس کی طرح ری‬
‫ایکٹ کر رہے ہیں۔ کامپیٹیشن کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری ا ُن کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہیں ہو سکتی۔‘‘‬
‫ھی ا ُڑانے کے جیسا تھا۔‬‫رجب کے لئے ا ُن کا اعتراض مک ّ‬
‫وجاہت علی تڑپ ا ُٹھے۔‬
‫’’تم نہیں سمجھتے رجب!۔۔۔ تم ایسا اس لئے کہہ رہے ہو کیونکہ تم اسرار کو جانتے نہیں۔۔‬
‫میں اسرار کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔ بہت ہی ضدی آدمی ہے وہ۔ اس کے لئے یہ کامپیٹیشن‬
‫دشمنی کے جیسا ہی ہے۔ وہ ایسے پروپوزل پہ بالی ُووڈ کے پیرنٹس کی طرح ہی ری ایکٹ کرے گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اسے وضاحت پیش کی۔ پھر ا ُسے قائل کرتے ہوئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ‬
‫کر نرمی سے بولے۔‬
‫’’تم میرا اکلوتا بیٹا ہو رجب! تمہاری خوشی ہمیشہ میرے لئے ہر چیز سے مقدم رہی ہے۔ لیکن‬
‫افسوس کہ میں تمہاری یہ خوشی پوری نہیں کر سکتا۔ اسرار اس رشتے کے لئے کبھی راضی نہیں گا۔‬
‫ا ُس سے ایسی کوئی بات کرنے کا مطلب صرف اپنی عزت گنوانا اور اس کی دشمنی کو اور ہوا دینا ہے۔‬
‫اور کچھ نہیں۔ اسی لئے میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ اس لڑکی کا خیال ِدل سے نکال دو۔ میں تمہیں اس‬
‫سے بھی بڑھ کر کیئیں لڑکیوں سے ِملوا سکتا ہوں۔ تم ان میں سے جس سے بھی چاہو گے میں تمہاری‬
‫شادی کروا دوں گا۔ کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن پلیز۔ ریکویسٹ کرتا ہوں تم سے۔۔ اس لڑکی کا‬
‫نام دوبارہ کبھی مت لینا۔ اسی میں ہم سب کی بھالئی ہے۔‘‘‬
‫گو کہ وجاہت علی نے بہت وضاحت کے ساتھ اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ‬
‫پھر بھی انھیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ ا ُن کی کسی بھی بات پہ قائل نہ ہوا ہو۔وجاہت علی نے مزید‬
‫کچھ کہنے کے لئے منہ کھوال مگر جیب میں رکھا ا ُن کا موبائل فون بج ا ُٹھا۔ انھوں نے فون نکال کر کال‬
‫ریسیو کی۔‬
‫’’ہیلو!‘‘‬
‫’’ہاں‪ ،‬میں آرہا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں پہنچتا ہوں۔‘‘‬
‫کہہ کر انھوں نے فون بند کیا۔ پھر فون واپس جیب میں ڈالتے ہوئے اس سے بولے۔‬
‫’’چلو۔۔ اب آفس چلتے ہیں۔‘‘‬
‫’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس نے ہٹ دھرمی سے کہا۔‬
‫کشمکش میں گھِرے وجاہت علی نے ایک پل کو اس کا چہرہ دیکھا۔ پھر ہتھیار ڈالنے کے انداز‬
‫میں بولے۔‬
‫’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘‬
‫پھر نرمی سے بولے۔’’میری بات پہ ضرور غور کرنا رجب!۔۔۔ میں جان بوجھ کر کبھی تمہیں‬
‫’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘‬
‫پھر نرمی سے بولے۔’’میری بات پہ ضرور غور کرنا رجب!۔۔۔ میں جان بوجھ کر کبھی تمہیں‬
‫جس باپ نے کبھی تمہیں کسی کھلونے سے منع نہیں کیا‪ ،‬وہ تمہاری اتنی‬ ‫کوئی تکلیف نہیں دے سکتا۔۔ ِ‬
‫بڑی خوشی سے انکار کیسے کر سکتا ہے؟۔۔۔۔ پھر بھی میں منع کر رہا ہوں تو تمہارے ہی بھلے کے لئے۔‬
‫ابھی میں چلتا ہوں۔۔۔۔ شام کو باپ بیٹا ِمل کر بیٹھیں گے۔ میں تمہیں اور بہت سی لڑکیوں‬
‫کے بارے میں بتاوٴں گا۔ تمہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور پسند آ جائے گی۔ چلتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی اس کا گال تھپتھپا کر جانے کو ُمڑے۔ وہ انھیں جاتا دیکھتا رہا۔ اس کے چہرے‬
‫سے ہی صاف ظاہر تھا کہ وہ وجاہت علی کی کسی بھی بات سے متفق نہیں ہے۔‬
‫ُ‬
‫سیڑھیوں پہ وجاہت علی کی اپنی بیگم سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ وہ سیڑھیاں اتر رہے تھے جبکہ‬
‫سکینہ بیگم سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔‬
‫’’آپ اکیلے واپس جا رہے ہیں؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے تعجب سے پوچھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ُرک گئی تھیں۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ رجب کی ڈاکٹر سمیع کے ساتھ اپائنمنٹ کب ہے؟‘‘‬
‫وجاہت علی بھی ُرک گئے۔ پہلے سکینہ بیگم کے سوال کا مختصر جواب دیا اور ساتھ ہی اپنا‬
‫سوال داغ دیا۔‬
‫’’میرے خیال سے نیکسٹ ویک ہے۔۔۔ کیوں؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے سوچتے ہوئے جواب دیا اور ساتھ ہی سوال کرتے ہوئے ا ُن کے چہرے سے‬
‫تشویش ظاہر ہونے لگی۔‬
‫’’ا ُنھیں فون کر کے کسی طرح کل کی اپائنمنٹ لے لو۔ ابھی میں جلدی میں ہوں۔ شام کو گھر‬
‫آ کر بات ہوتی ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی اپنی کہہ کر آگے بڑھنے لگے لیکن سکینہ بیگم نے ایک سیڑھی سے زیادہ نہ اترنے‬
‫دیا۔‬
‫’’رجب ٹھیک تو ہے؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے ُرک کر انھیں دیکھا۔ سکینہ بیگم بہت گھبرا گئی تھیں۔ وہ چہرے پہ نرمی لے‬
‫آئے۔‬
‫’’فکر مت کرو۔ ابھی تو وہ ٹھیک ہے۔۔ مگر آگے کا کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ابھی میں جلدی میں‬
‫ہوں۔ بعد میں ایکسپلین کر دوں گا۔ تم ڈاکٹر سمیع سے اپائنمنٹ لے لو۔‘‘‬
‫وجاہت علی کہہ کر تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫شام کا وقت تھا۔ وجاہت علی ہاتھ میں لیپ ٹاپ بیگ لئے کام سے لوٹے۔ سکینہ بیگم پریشانی‬
‫کے عالم میں ہال میں بیٹھی ان ہی کا انتظار کر رہی تھیں۔ انھیں دیکھتے ہی ا ُٹھ کر آگے بڑھ آئیں۔‬
‫’’کیسا ہے وہ؟‘‘‬
‫ُ‬
‫وجاہت علی نے پوچھا۔ یہ تو آج کل ان کا معمول کا سوال بن گیا تھا۔‬
‫’’ویسا ہی۔۔۔ کسی سے کوئی بات کرتا ہے نہ کچھ کھانے پینے کو تیار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سمیع‬
‫بھی آئے تھے۔ مگر وہ ان سے بھی نہیں ِمال۔ اپنے کمرے کا دروازہ تک نہیں کھوال۔ وہ مجبورا ً اسی طرح‬
‫لوٹ گئے۔ مجھے بہت فکر ہو رہی ہے اس کی۔ آج چوتھا دن ہے اسے خود کو کمرے میں بند کئے ہوئے۔ ایسا‬
‫کب تک چلے گا وجاہت!؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم بےحد پریشان و فکر مند تھیں۔‬
‫وجاہت علی فرش کو گھورتے ہوئے جیسے کوئی تدبیر سوچنے لگے۔ کچھ دیر یونہی سوچنے کے‬
‫بعد انھوں نے فیصلہ ُکن انداز میں نظریں ا ُٹھائیں۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔ تم اس کے لئے کھانا تیار کرواؤ۔ میں جا کر اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘‬
‫بعد انھوں نے فیصلہ ُکن انداز میں نظریں ا ُٹھائیں۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔ تم اس کے لئے کھانا تیار کرواؤ۔ میں جا کر اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا تو سکینہ بیگم سر ہال کر کچن کی طرف بڑھ گیئیں۔ جبکہ وجاہت علی‬
‫سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اس کے کمرے میں چلے آئے۔‬
‫رجب بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹا تھا۔ وجاہت علی کو کمرے میں پا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔‬
‫’’رجب!۔ چلو ا ُٹھو۔ ضد چھوڑو اور کھانا کھا لو۔‘‘‬
‫انھوں نے پیار اور نرمی سے کہا۔ مگر رجب کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔ وہ اس کے‬
‫قریب چلے آئے اور جھک کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫’’رجب!۔‘‘‬
‫اس نے اسی طرح لیٹے لیٹے ہی جارحیت کے ساتھ ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔‬
‫’’ہاتھ مت لگائیں مجھے۔‘‘‬
‫’’بیٹا!۔۔۔ کیوں خود کو سزا دے رہے ہو؟۔۔۔ تم جانتے ہو کہ تمہیں اس حال میں دیکھ کر ہمیں‬
‫کتنی تکلیف پہنچتی ہے؟‘‘‬
‫انھوں نے اس کی بدتمیزی نظرانداز کر کے منت سے کہا۔‬
‫’’نہیں‪ ،‬آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ میں نے آپ سے صرف شوال کا رشتہ مانگنے کا کہا‬
‫تھا۔ لیکن آپ میری اتنی سی بھی بات ماننے کو تیار نہیں۔۔۔۔ آپ کو میری خوشی‪ ،‬میری زندگی کی کوئی‬
‫پرواہ نہیں ہے۔۔۔ اسرار احمد ضدی ہے۔ یہ کہہ کہہ کر دراصل ضد آپ کر رہے ہیں۔‘‘‬
‫رجب نے اسی اکھڑپن اور بدلحاظی سے کہا۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں ضد نہیں کر رہا۔۔۔ جیسا تم چاہتے ہو‪ ،‬ویسا ہی ہوگا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ہار مان لی۔‬
‫رجب نے ایک جھٹکے سے پہلو بدل کر اپنے باپ کو دیکھا۔‬
‫’’سچ میں اّبو!‘‘‬
‫انداز میں بےیقینی تھی۔ وہ انھیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ ان کا یقین کرنا چاہتا ہو مگر‬
‫وجاہت علی پہ بھروسہ کر نہ پا رہا ہو۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ بالکل سچ۔۔ میں شوال کا ہاتھ مانگنے جاؤں گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا۔‬
‫’’کب؟‘‘ اس کی تسلی نہیں ہو رہی تھی کہ واقعی وجاہت علی راضی ہو گئے ہیں۔‬
‫’’آج نہیں۔۔۔۔ ابھی رات ہونے والی ہے۔ اور اسرار بھی پتا نہیں کہاں ہو گا۔ کل ویک اینڈ ہے۔‬
‫کل وہ ضرور گھر پہ ہو گا۔ تو کل میں اس کے گھر جا کر اس سے بات کروں گا۔‬
‫اب خوش؟‘‘‬
‫انھوں نے اسے یقین دالیا اور پوچھا تو اس نے مسکرا کر سر ہال دیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ ہال میں بیٹھی تھی۔ اس کا پانچ سال کا بھتیجا اس کے برابر بیٹھا آئی۔َپیڈ پہ گیم کھیل‬
‫رہاتھا۔‬
‫’’چلو‪ ،‬اب مجھے دو۔‘‘ اس نے آئی۔َپیڈ مانگا۔‬
‫’’نہیں۔ میری باری ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘‘‬
‫چڑ گئی۔‬
‫اس کے بھتیجے نے ضدی پن سے کہا۔ وہ ِ‬
‫’’دیکھو قمر!۔۔۔ تم پچھلے پندرہ منٹ سے کھیل رہے ہو۔ اب مجھے باری دو۔‘‘ وہ بےصبری ہو‬
‫رہی تھی۔‬
‫’’نہیں‪ ،‬میری باری ختم ہوگی تو پھر دوں گا۔‘‘‬
‫قمر بھی کہاں ایسے ماننے واال تھا۔‬
‫’’نہیں‪ ،‬میری باری ختم ہوگی تو پھر دوں گا۔‘‘‬
‫قمر بھی کہاں ایسے ماننے واال تھا۔‬
‫’’اچھا۔‘‘ وہ ُبری طرح ِ‬
‫چڑ گئی۔‬
‫’’یہ لو۔‘‘‬
‫اس نے آئی۔پیڈ پہ َرف انداز میں انگلیاں گھما دیں۔ نتیجتا ً قمر نے اپنا چانس ِمس کر دیا۔‬
‫’’مّمی!۔۔۔‘‘‬
‫چالیا پھر غصے سے بپھرا ہوا اس پہ جھپٹا۔‬ ‫چڑ کر ِ‬‫قمر پہلے ِ‬
‫’’پھپھو کی بچی۔۔۔۔‘‘‬
‫وہ تیزی سے ا ُٹھ کر باہر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ قمر کے اس طرح سے چڑنے اور بپھرنے‬
‫پہ اس کی ہنسی نہیں تھم رہی تھی۔ وہ بھاگتی ہوئی باہر آئی۔ روش پہ دوڑتے ہوئے وہ اپنے پیچھے دیکھ‬
‫رہی تھی کہ آیا قمر اس کے پیچھے باہر آیا یا نہیں۔ بھاگتے ہوئے وہ مسلسل ہنس رہی تھی۔ قمر جانے‬
‫کس سبب اندر ہی ُرک گیا تھا۔ وہ پیچھے دیکھتے ہوئے بھاگ رہی تھی کہ سامنے سے آتے کسی آدمی‬
‫سے ٹکرا گئی۔ قریب تھا کہ ِگر جاتی مگر ا ُن صاحب نے اسے پکڑ کر گرنے سے بچا لیا۔ اس نے سیدھا‬
‫کھڑا ہوتے ہوئے چہرہ ا ُٹھا کر دیکھا تو ایک یکسر اجنبی آدمی کو سامنےکھڑا پا کر بری طرح سے گھبرا‬
‫گئی۔‬
‫’’سنبھل کر بیٹے!۔‘‘‬
‫ا ُن صاحب نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔‬
‫’’آئم سوری۔۔۔۔ وہ۔۔ دراصل۔۔۔‘‘‬
‫وہ اس اجنبی کے سامنے ُبری طرح گڑ بڑا گئی۔ شرمندگی کے باعث وہ کوئی وضاحت نہ دے‬
‫سکی تو گڑبڑا کر چہرہ موڑ کر پیچھے ہال کے دروازے کی جانب دیکھا۔ جیسے وہ انھیں کسی طرح سے‬
‫سمجھانا چاہتی ہو۔‬
‫’’کوئی بات نہیں بچے!۔‘‘‬
‫صاحب کی آواز پر اس نےواپس چہرہ گھما کر انھیں دیکھا۔ وہ اس کا گھبرایا ہوا چہرہ‬
‫دیکھ کر پھر سے مسکرا دیئے۔‬
‫’’تم شوال ہو ناں!؟‘‘‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫وہ بمشکل مسکرائی۔ گھبرائے ہوئے ِدل کو تھوڑی ڈھارس ہوئی کہ وہ آدمی اتنا اجنبی بھی‬
‫نہ تھا۔‬
‫’’آپ؟۔۔۔‘‘‬
‫اس نے انھیں بغور دیکھا کہ شاید انھیں پہچان لے۔‬
‫’’میں تمہارے اّبو کا دوست ہوں۔ ا ُن سے ملنے آیا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اپنا تعارف اسی طرح کروانا ہی بہتر سمجھا۔‬
‫’’اچھا۔۔۔‘‘ وہ مسکرا دی۔ اس کے لئے بھی اتنا تعارف کافی تھا۔‬
‫وہ بولی۔‬
‫’’پر سوری‪ ،‬پاپا گھر پہ نہیں ہیں۔۔۔ پاپا اور دونوں بھائی کسی کی فوتگی پہ گئے ہیں۔‘‘‬
‫اب وہ خود کو کافی سنبھال چکی تھی تو اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔‬
‫’’اوہ!۔۔۔‘‘ وجاہت علی پریشان سے ہوگئے۔‬
‫’’کب گئے ہیں؟ کب تک واپس آ جائیں گے؟‘‘‬
‫انھوں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔‬
‫’’کافی دیر ہوگئی ہے۔ تھوڑی دیر تک انھیں واپس آجانا چاہیئے۔‘‘ اس نے بتایا۔‬
‫اس نے دیکھا کہ وجاہت علی خاصے کنفیوز ہو رہے تھے۔‬
‫’’اگر آپ چاہیں تو اندر بیٹھ کر ان کا انتظار کر لیں۔ وہ اب کسی بھی وقت یہاں پہنچتے ہوں‬
‫اس نے دیکھا کہ وجاہت علی خاصے کنفیوز ہو رہے تھے۔‬
‫’’اگر آپ چاہیں تو اندر بیٹھ کر ان کا انتظار کر لیں۔ وہ اب کسی بھی وقت یہاں پہنچتے ہوں‬
‫گے۔‘‘‬
‫اس نے ان کی پریشانی دور کرنے کے خیال سے کہا اور وہ واقعی اس میں کامیاب رہی۔ یہ‬
‫سن کر وجاہت علی کی پریشانی جاتی رہی۔ سر ہال کر بولے۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں انتظار کر لیتا ہوں۔‘‘‬
‫’’آیئے۔‘‘‬
‫اس نے ایک طرف ہو کر انھیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ اس نے انھیں ڈرائنگ روم میں ال‬
‫ِبٹھایا اور خود بھی دوسرے صوفے پہ بیٹھ گئی۔‬
‫’’آپ کچھ لیں گے انکل!۔۔۔ چائے؟ ٹھنڈا؟‘‘‬
‫اس نے آدا ِ‬
‫ب میزبانی نبھائے۔‬
‫’’نہیں‪ ،‬بہت شکریہ بیٹے!۔‘‘ انھوں نے فورا ً منع کیا۔ پھر سوچ کر بولے۔ ’’ویسے۔۔۔۔ آپ کیا‬
‫کرتی ہو؟‘‘‬
‫’’میں نے حال ہی میں بی۔ایس۔سی کے السٹ سمسٹر کے پیپرز دیئے ہیں۔ ابھی رزلٹ کا‬
‫انتظار کر رہی ہوں۔‘‘‬
‫’’ویری گڈ!۔‘‘ وجاہت علی نے متاثر ہونے کے انداز میں اسے سراہا۔ پھر پوچھنے لگے۔‬
‫’’آگے کیا ارادہ ہے؟ کیا ماسٹرز کرنا ہے یا پھر بس اتنا ہی پڑھنا ہے؟‘‘‬
‫’’پتا نہیں‪ ،‬ابھی سوچا نہیں۔۔۔ رزلٹ آجائے تو پھر ِڈیسائیڈ کروں گی کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘‘‬
‫اس نے سادگی اور صاف گوئی سے جواب دیا۔‬
‫تب ہی باہر سے گاڑی کا ہرن بجنے کی آواز آئی۔ دونوں ہی چوکنا ہو گئے۔‬
‫’’پاپا آ گئے ہیں۔ میں ابھی جا کر انھیں آپکی آمد کی خبر دیتی ہوں۔‘‘‬
‫اس نے ُپرجوش ہو کر کہا اور ا ُٹھ کر تقریبا ً بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی۔‬
‫بڑے بھائی کامران گاڑی روک کر اس میں سے باہر نکل رہے تھے۔ وہ سیدھی اسرار احمد کی‬
‫طرف لپکی جو فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے۔‬
‫’’پاپا! آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ میں نے انھیں ڈرائنگ روم میں ِبٹھایا ہے۔‘‘‬
‫’’کون ہے؟‘‘‬
‫سن کر پچھلے دروازے سے نکلتے عمران بھائی نے پوچھا۔‬ ‫اس کی بات ُ‬
‫’’معلوم نہیں۔۔ میں نے نام نہیں پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ پاپا کے دوست ہیں اور ا ُن سے‬
‫ملنا چاہتے ہیں۔‘‘‬
‫اس نے العلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔‬
‫’’تم لوگ اندر چلو۔ میں دیکھتا ہوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کامران اور عمران کو بیک وقت مخاطب کیا اور خود ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ‬
‫گئے۔‬
‫وہ اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ اندر کی جانب چل دی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد نے ڈرائنگ روم کے اندر قدم رکھا۔ سامنے وجاہت علی کو دیکھ کر پہلے وہ حیران‬
‫ہوئے پھر جیسے ان کا دماغ گھوم گیا۔ وجاہت علی بھی ان کو دیکھ کر ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫’’تم!۔۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو؟۔۔۔۔ تمہاری جرٴات کیسے ہوئے میرے گھر میں قدم رکھنے کی؟‘‘‬
‫اسرار احمد جارحانہ انداز میں ان کی طرف بڑھے۔‬
‫وجاہت علی اس صورتحال کا سامنا کرنے کا ذیہن بنا کر آئے تھے۔ پھر بھی اسرار احمد کے‬
‫اس طرح سے بھڑکنے پہ وہ فوری طور پہ گھبرا گئے۔‬
‫وجاہت علی اس صورتحال کا سامنا کرنے کا ذیہن بنا کر آئے تھے۔ پھر بھی اسرار احمد کے‬
‫اس طرح سے بھڑکنے پہ وہ فوری طور پہ گھبرا گئے۔‬
‫’’اسرار!۔۔۔ کالم ڈاؤن۔۔۔ مجھے تم سے ایک بہت اہم کام ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ہاتھ ا ُٹھا کر ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔‬
‫’’کونسا اہم کام؟۔۔۔ دفعان ہو جاؤ یہاں سے۔ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘‬
‫’’اسرار! پلیز۔۔۔ ہمارے درمیان جو بھی اختالفات رہے ہیں۔ پلیز ان سب کو بھول جاؤ۔۔۔۔ آج‬
‫میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آیا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا۔‬
‫یہ بات اسرار احمد کے حلق سے نہ ا ُتر سکی۔‬
‫’’ایکسکیوزمی!۔‘‘‬
‫’’آئم سیریس اسرار!۔۔۔۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک جگہ بیٹھ کر آپس کی غلط فہمیاں دور کر‬
‫لیں۔‘‘ وجاہت علی نے سنجیدگی سے کہا۔‬
‫’’مجھے تمہیں لے کر کوئی غلط فہمیاں نہیں ہیں وجاہت! ۔۔۔ تمہارے اندر کی کمینگی بہت‬
‫اچھے سے جانتا ہوں میں۔‘‘‬
‫اسرار احمد کے لہجے میں زہر ہی زہر تھا۔‬
‫وجاہت علی فورا ً کچھ نہ بول سکے۔ ایک پل کا توقف کر کے مصالحانہ انداز میں بولے۔‬
‫’’میں جانتا تھا کہ تم میرا یقین نہیں کرو گے۔۔۔ چلو ٹھیک ہے۔ تم مجھے ہی قصوروار سمجھ‬
‫لو۔۔۔ لیکن پلیز!۔۔۔ جو ہو چکا ہے اسے بھول کر آج ہم ایک نئے رشتے کی شروعات کرتے ہیں۔ مجھے تم سے‬
‫ایک احسان چاہیئے۔۔۔ یقین کرو۔ زندگی بھر تمہارا احسان مند رہوں گا۔‘‘‬
‫اسرار احمد وجاہت علی کو کھوجتی نظروں سے دیکھنے لگے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ‬
‫رہا تھا کہ آخر کونسا احسان چاہیئے تھا وجاہت علی کو۔‬
‫وجاہت علی اسرار احمد کی الجھن بھانپ گئے۔ ُرک کر خود کو اپنی حاجت بیان کرنے کے لئے‬
‫تیار کیا۔ پھر بولے۔‬
‫’’اسرار!۔۔۔۔ میں اپنے بیٹے کے لئے تمہاری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کے الفاظ اسرار احمد کے لئے کسی ایٹم بمب سے کم نہ تھے۔ وہ تو جیسے سکتے‬
‫میں آ گئے تھے۔‬
‫’’میں زندگی بھر تمہارا احسان مند رہوں گا۔ میرا یقین کرو۔ تمہاری بیٹی کو اپنی بیٹی کی‬
‫طرح رکھوں گا۔ ا ُسے۔۔۔۔‘‘‬
‫’’بس۔‘‘ اسرار احمد کی گرجدار آواز پہ وجاہت علی کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔‬
‫اسرار احمد شعلے برساتی نظروں سے انھیں دیکھتے ہوئے بولے۔‬
‫’’دفعان ہو جاؤ۔۔۔۔۔ ابھی‪ ،‬اسی وقت دفعان ہو جاؤ۔‘‘‬
‫’’اسرار! پلیز!۔ میں۔۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی منمنائے۔‬
‫’’میں کہہ رہا ہوں دفعان ہو جاؤ میرے گھر سے اور دوبارہ کبھی بھی میری بیٹی کا نام اپنی‬
‫زبان پر مت النا۔‘‘‬
‫’’اسرار! تم۔۔۔‘‘‬
‫’’تم جاتے ہو یا میں نوکروں کو بلواؤں؟‘‘ ایک بار پھر اسرار احمد ان کی بات کاٹ کر دھاڑے۔‬
‫اس بار وجاہت علی بس انھیں دیکھ کر رہ گئے۔ اسرار احمد کے ماننے کا کوئی چانس نہیں‬
‫ِدکھ رہا تھا۔‬
‫’’ِنکل جاؤ میرے گھر سے۔‘‘‬
‫اسرار احمد غصے سے پاگل ہو کر چالئے۔‬
‫س توہین سے سرخ ہو گیا۔ چاہنے کے باوجود وہ اسرار احمد کی‬ ‫وجاہت علی کا چہرہ احسا ِ‬
‫اسرار احمد غصے سے پاگل ہو کر چالئے۔‬
‫س توہین سے سرخ ہو گیا۔ چاہنے کے باوجود وہ اسرار احمد کی‬ ‫وجاہت علی کا چہرہ احسا ِ‬
‫اس بدتمیزی کا جواب دینے کی حالت میں نہ تھے۔ انھوں نے شکست خوردہ ہو کر سر جھکا لیا۔ غصے اور‬
‫شکست خوردگی کے ِملے ُجلے احساسات کے ساتھ وہ سر جھکائے وہاں سے چل دیئے۔‬
‫وجاہت علی کے جانے کے بعد اسرار احمد دونوں ہاتھ چہرے پہ رکھ کر وہیں صوفے پہ ڈھے‬
‫سے گئے۔ ا ُن کا فشاِر خون اس وقت آسمان چ ُ‬
‫ھو رہا تھا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ اس نے میری کتنی توہین کی ہے۔ پہلے تو وہ میری بات ہی سننے‬
‫کو تیار نہیں تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بپھر گیا اور مجھے گھر سے نکالنے لگا۔ بڑی ِمنت کرنے کے بعد اس‬
‫نے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔ اور جیسے ہی میں نے رجب اور شوال کی شادی کا ذکر کیا۔۔۔۔ پھر‬
‫تو پوچھو ہی مت کہ اس نے مجھ سے کتنی بدتمیزی کی۔ میں نے بہت کوشش کی‪ ،‬بہت ِمن ّت کی۔ مگر وہ‬
‫کچھ بھی سننے کو تیار نہ ہوا۔ اس نے میری اتنی انسلٹ کی ہے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ مجھے اپنے گھر‬
‫سے نکلوانے کے لئے نوکروں کو بلوانے کے درپے ہوگیا۔ سچ میں سکینہ!۔۔۔ یہ تو رجب کی خوشی کی خاطر‬
‫میرے ہاتھ پاؤں بندھے تھے اور میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ اگر سوال رجب کی خوشی کا نہ ہوتا تو پھر‬
‫میں دیکھتا ا ُسے۔‘‘‬
‫وجاہت علی اپنے کمرے میں بیڈ کے کنارے بیٹھے اپنی بیگم کو سارا واقعہ بیان کر رہے تھے۔‬
‫ا ُن کے لہجے میں مایوسی کے ساتھ ساتھ بے پناہ غصہ اور بے بسی تھی۔‬
‫’’اب رجب سے کیا کہیں گے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے پریشانی سے سوال کیا۔‬
‫سن کر وہ بہت پریشان ہو گئی تھیں۔ وہ بھی وجاہت علی کے برابر بیڈ کے کنارے‬ ‫یہ سب ُ‬
‫بیٹھی تھیں۔ دونوں کی دروازے کی طرف پیٹھ تھی اور دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ رجب دروازے پہ‬
‫سن رہا ہے۔‬‫کھڑا‪ ،‬سینے پہ بازو لپیٹے سب ُ‬
‫’’وہ تو سمجھے گا کہ آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ اور اگر یقین کر بھی لے گا‪ ،‬تو‬
‫بھی پتا نہیں اس کا رِدعمل کیا ہو گا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو رجب کی طرف سے بہت سی فکریں الحق ہو رہی تھیں۔‬
‫وجاہت علی بھی پریشان اور گہری سوچ میں گُم تھے۔‬
‫’’تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ میرے خیال سے۔۔۔ ابھی رجب کو کچھ مت بتاؤ۔ میں پھر کوشش کرتا‬
‫ہوں۔ کچھ اور لوگوں سے بھی کہوں گا کہ اسرار کو سمجھائیں اور اس رشتے کے لئے راضی کریں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کو فی الحال یہی مناسب لگ رہا تھا۔‬
‫’’نہیں اّبو!۔۔۔‘‘ رجب بول پڑا۔‬
‫دونوں میاں بیوی چونک ا ُٹھے۔ ُمڑ کر دروازے کی سمت دیکھا تو رجب کو کھڑا دیکھ کر دونوں‬
‫کے اوسان خطا ہو گئے۔‬
‫’’اب آپ اور کچھ بھی نہیں کریں گے۔۔۔۔ میں آئندہ کبھی شوال سے شادی کرنے کی ضد‬
‫نہیں کروں گا۔‘‘‬
‫اس کے لہجے میں ناکامی کا رنج اور محرومی تھی۔ مگر ساتھ ہی ا ُس کے لہجے میں اپنے‬
‫باپ کے لئے ٹھوس ہدایت تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا پیارا باپ ا ُس کی ضد کے سبب اپنے مقابل کے‬
‫ہاتھوں ذلیل و بےعزت ہو۔‬
‫اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے چلتا بنا۔ صدمہ اور شرمندگی اتنی تھی کہ اس کے لئے مزید‬
‫وہاں کھڑا رہنا محال تھا۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بےیقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں ہی الجھن‬
‫میں گرفتار تھے کہ ا ُنھیں رجب کی بات پہ مطمعین ہونا چاہیئے یا پھر پریشانی ابھی باقی ہے۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بےیقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں ہی الجھن‬
‫میں گرفتار تھے کہ ا ُنھیں رجب کی بات پہ مطمعین ہونا چاہیئے یا پھر پریشانی ابھی باقی ہے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد اپنے بڑے بیٹے کامران کے ساتھ سنوکر کھیل رہے تھے۔ کامران ایک طرف کھڑا‬
‫اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا جب ا ُسے خیال آیا۔‬
‫’’پاپا!۔۔۔۔ کل دوپہر کو کون آیا تھا آپ سے ملنے؟۔‘‘‬
‫ایک الل بال پہ نشانہ سادھتے ہوئے اسرار احمد کا ہاتھ ایک پل کو ُرک گیا۔ اس ذکر نے ان‬
‫کا حلق تک کڑوا کر دیا تھا۔ انھوں نے خود کو سنبھالنے میں کچھ وقت لیا۔‬
‫’’وجاہت علی آیا تھا۔‘‘‬
‫انھوں نے شاٹ لگائی۔‬
‫’’وجاہت علی؟۔۔۔۔۔۔ رجب بلڈرز کا مالک؟‘‘‬
‫کامران جتنا بھی حیران ہوتا کم تھا۔ ’’وہ ہمارے گھر کیسے؟‘‘‬
‫کامران نے انتہائی تعجب کے ساتھ استفسار کیا۔‬
‫’’اپنے بیٹے کے لئے شوال کا رشتہ مانگ رہا تھا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے سرد لہجے میں جواب دیا۔‬
‫’’کیا؟۔۔۔‘‘‬
‫کامران تو اب ورطہء حیرت کی تہہ تک پہنچ گیا۔‬
‫’’یعنی رجب کے لئے شوال کا رشتہ؟۔‘‘ کامران نے حیرت سے کہا۔ پھر اس کی حیرت خوشی‬
‫میں بدل گئی۔ ’’دیٹس امیزنگ۔۔۔ آئی گیس‪ ،‬اٹس اے بیسٹ پروپوزل۔۔۔ رجب سے سامنا ہوا ہے میرا دو چار‬
‫بار۔۔۔ ہی ِاز اے ویری ہینڈسم اینڈ ڈیسینٹ گائے۔۔۔۔ اور ماشا اهلل بہت ذہین بھی ہے۔‘‘‬
‫’’کامران!۔‘‘‬
‫کامران جانے خوشی میں کیا کیا بول جاتا۔ اسرار احمد نے سختی سے اس کی بات کاٹی۔‬
‫’’میں نے ہمیشہ تم لوگوں سے کہا ہے کہ ان لوگوں سے دور رہو۔۔۔ ہمارا ہمیشہ ا ُن لوگوں کے‬
‫ساتھ مقابلہ رہا ہے۔ ا ُن لوگوں کے ساتھ ہم کبھی کوئی رشتہ نہیں جوڑ سکتے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے چٹانوں کی طرح ٹھوس اور سرد لہجے میں کہا۔‬
‫’’یہ تو کوئی قابِل اعتراض بات نہیں پاپا! پروفیشنل الئف میں تو دو سگے بھائیوں کے درمیان‬
‫بھی مقابلہ رہتا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔ اور یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ لوگ خود چل کر ہمارے گھر‬
‫آئے ہیں۔‘‘‬
‫کامران جیسے جی جان سے اس رشتے کے لئے راضی تھا۔‬
‫’’تم نہیں جانتے کامران!۔ بہت ذلیل لوگ ہیں وہ۔۔۔ بہت ہی گھٹیا۔۔۔ دوست بن کر پیٹھ میں‬
‫چھُرا گھونپنے والے۔‘‘‬
‫اسرار احمد ایک اور بال پہ نشانہ سادھ رہے تھے۔‬
‫کامران نے وضاحت طلب نظروں سے انھیں دیکھا۔ اسرار احمد اس کی طرف دیکھے بنا ہی‬
‫وضاحت دینے لگے۔‬
‫’’یہ جو پچھلے کچھ سالوں میں میَں نے اسے بزنس میں پے در پے مات دی ہے ناں!۔۔۔ اسی‬
‫کا بدلہ لینے کے لئے اس نے یہ راہ نکالی ہے۔ میری بیٹی کے ذریعے مجھے کمزور کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔ خوب‬
‫اچھی طرح سمجھتا ہوں ا ُس کے اوچھے ہتھکنڈوں کو۔‘‘‬
‫اسرار احمد کی وضاحت کامران کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھی۔ ا ُسے اسرار احمد کا‬
‫لفظ لفظ صحیح لگا۔‬
‫’’واقعی۔۔۔۔ ایسا ہی ہو گا۔ ورنہ ا ُسے کیا ہماری ہی بہن ملی تھی اپنا بیٹا بیاہنے کے‬
‫لئے؟۔۔۔‘‘‬
‫’’واقعی۔۔۔۔ ایسا ہی ہو گا۔ ورنہ ا ُسے کیا ہماری ہی بہن ملی تھی اپنا بیٹا بیاہنے کے‬
‫لئے؟۔۔۔‘‘‬
‫کامران نے ُپرسوچ انداز میں تبصرہ کیا۔‬
‫’’ہاں۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی۔۔ میں شوال کے لئے فیصلہ کر چکا ہوں۔ ‘‘‬
‫اسرار احمد بال کو ضرب لگانے کے بعد اسے چھید کی طرف جاتا دیکھ رہے تھے۔‬
‫’’کیسا فیصلہ؟‘‘ کامران نے سوال کیا۔‬
‫’’زبیدہ آپا۔۔۔ پچھلے ایک سال سے ناصر کے لئے شوال کا ہاتھ مانگ رہی ہیں۔ اب تک میں‬
‫انھیں شوال کی کم عمری کا کہہ کر ٹالتا آیا ہوں۔ لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ شوال سے پوچھ کر انھیں‬
‫رضامندی دے دوں۔‘‘‬
‫بال پاکٹ میں نہیں گئی تھی۔ اسرار احمد نے کامران کی سمت دیکھا۔‬
‫کامران ایک قدم آگے بڑھ کر ان کے قریب آیا۔‬
‫’’شوال مان جائے گی؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ کامران سے اس کے سوال کا مطلب جاننا چاہتے‬
‫ہوں۔‬
‫’’میرا مطلب ہے کہ۔۔۔‘‘ کامران سوچنے کےلئے اٹکا۔ ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ شوال اور رجب‬
‫کے درمیان کچھ چل رہا ہو؟‘‘‬
‫اسرار احمد اس سوال پہ سکتے میں آگئے۔ پھر بولے تو لہجے میں خوف تھا۔‬
‫’’تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟۔۔۔ کیا تم کچھ جانتے ہو؟‘‘‬
‫’’نہیں‪ ،‬ایسی بات نہیں۔‘‘ کامران نے سختی سے اس کی نفی کی۔ پھر کہنے لگا۔’’میرا مطلب‬
‫ہے کہ ۔۔۔۔ اگر وجاہت علی ہمیں زیر کرنے کے لئے شوال کا ہاتھ مانگ سکتا ہے۔ تو اس کا بیٹا بھی ہم سے‬
‫چوری چھپے شوال کو بہکا سکتا ہے۔۔۔۔ اب اگر وجاہت علی رشتہ مانگنے چال آیا ہے تو ایسے ہی تو نہیں‬
‫آیا ہو گا ناں!۔۔۔۔ ہو سکتا ہے رجب پہلے ہی شوال کو راضی کر چکا ہو۔ اور یہ بھی تو دیکھیں کہ وجاہت‬
‫علی کو شوال ہی نے آپ سے ملوایا ہے۔‘‘‬
‫جس نے انھیں‬‫کامران کی باتوں میں َدم تھا۔ اسرار احمد سوچ میں پڑ گئے۔ ایک خوف تھا ِ‬
‫چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد انھوں نے سر ا ُٹھایا۔‬
‫’’مجھے شوال پہ بھروسہ ہے کامران!۔۔۔ وہ مجھے کبھی دھوکا نہیں دے سکتی۔۔۔ لیکن ان‬
‫لوگوں سے بھی کچھ بعید نہیں۔ میں کوئی مناسب موقع دیکھ کر شوال سے بات کروں گا۔‘‘‬
‫کامران نے ا ُن کی بات کے جواب میں اثبات میں سر ہال دیا۔ اسرار احمد نے سر کی جنبش‬
‫سے ا ُسے اپنی باری کرنے کا اشارہ کیا اور خود ٹیبل سے ذرا دور ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ کامران اپنی باری‬
‫کرنے کے لئے آگے بڑھ آیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ اپنے آفس میں کرسی کی پشت قدرے پیچھے ُجھکا کر بیٹھا گہری سوچ میں گُم تھا۔‬
‫چہرہ غصے سے الل اور ہاتھ میں گھومتا موبائل اندر کی بےقراری عیّاں کر رہا تھا۔ وہ بہت دیر سے اس‬
‫انداز میں بیٹھا سوچ بچار میں ڈوبا تھا۔ آخرکار اس نے فون اپنے سامنے کیا اور کانٹیکٹس لسٹ میں سے‬
‫ایک نمبر ڈھونڈ کر مالیا۔ دو تین گھنٹیاں بجنے کے بعد دوسری طرف سے نسوانی آواز ابھری۔‬
‫’’ہیلو!۔‘‘‬
‫’’کیسی ہو ُبشی!؟‘‘ اس نے حتیٰ املقدور اپنا لہجہ خوش گوار رکھنے کی کوشش کی۔‬
‫’’میں اهلل کا شکر ہے بالکل ٹھیک ہوں۔ تم بتاٴو؟۔۔۔ چاچاجی اور چاچی کیسی ہیں؟‘‘‬
‫’’سب ہی ٹھیک ہیں۔‘‘ اس نے مختصرا ً جواب دیا اور ساتھ ہی مدعے پہ آیا۔‬
‫’’یار بُشی!۔۔۔۔ مجھے تمہاری ایک فیور چاہیئے تھی۔‘‘‬
‫’’کیسی فیور؟‘‘ بشر ٰ‬
‫ی نے پوچھا۔‬
‫’’یار ُبشی!۔۔۔۔ مجھے تمہاری ایک فیور چاہیئے تھی۔‘‘‬
‫ی نے پوچھا۔‬ ‫’’کیسی فیور؟‘‘ بشر ٰ‬
‫’’وہ۔۔۔‘‘ وہ اٹکا۔ پھر بوال۔’’تمہاری نند ہے ناں عمیرہ۔‘‘‬
‫’’ہاں۔۔۔۔‘‘‬
‫ی نے ُپرسوچ انداز میں تائید کی۔ جیسے وہ قیاس کرنا چاہتی ہو کہ رجب اس کا ذکر‬‫بشر ٰ‬
‫کیوں کر رہا ہے۔‬
‫’’اس کی ایک دوست ہے۔ شوال۔۔۔ سمیرا کی منگنی پہ بھی آئی تھی۔ تم جانتی ہو گی۔‘‘‬
‫’’ہاں ہاں‪ ،‬بالکل۔۔۔۔ شوال اور عمیرہ کالج میں ساتھ پڑھتی تھیں۔ بہت اچھی دوستی ہے ان‬
‫کی۔‘‘‬
‫بشریٰ نے تفصیل کے ساتھ تصدیق کی۔‬
‫’’مجھے شوال کا نمبر ال دو پلیز۔‘‘‬
‫اس نے فورا ً اپنی فرمائش داغی۔‬
‫ی اچھل پڑی۔‬ ‫’’کیا؟‘‘ بشر ٰ‬
‫ی کو‬
‫ی حیران ہو گی۔ اس لیے اس نے بشر ٰ‬‫وہ کچھ بھی نہ بوال۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ بشر ٰ‬
‫حیران ہونے کا ٹائم دیا۔‬
‫’’خیریت تو ہے رجب!؟۔۔۔۔ کیا چکر ہے؟‘‘ بشر ٰ‬
‫ی نے ذومعنی انداز میں پوچھا۔‬
‫’’جو تم سمجھ رہی ہو وہی چکر ہے۔‘‘‬
‫سوال اس کی توقع کے مطابق تھا لہذا جواب بھی اس نے پہلے سے سوچ رکھا تھا۔ پھر منت‬
‫بھرے لہجے میں بوال۔‬
‫’’پلیز!۔۔۔ عمیرہ سے شوال کا نمبر لے دو ناں!‘‘‬
‫ی سوچ میں پڑ گئی۔ پھر بولی۔ ’’یہ مشکل ہے۔۔۔۔ آئی مین‪ ،‬سمیرا‬ ‫’’عمیرہ سے۔۔۔ ‘‘ بشر ٰ‬
‫تمہیں پسند کرتی تھی۔ یہ بات عمیرہ بھی جانتی ہے کہ تم نے سمیرا کا پروپوزل ٹھکرایا تھا۔ اب تمہارے‬
‫لئے عمیرہ سے اس کی دوست کا نمبر نہیں مانگ سکتی۔‘‘‬
‫ِ‬
‫ی!۔۔۔ مائی سویٹ کزن۔۔۔ کچھ کرو ناں!۔۔۔ آئی رئیلی نیڈ دیٹ۔‘‘‬‫’’پلیز بشر ٰ‬
‫وہ لجاجت سے بوال۔‬
‫’’میں نے تمہیں بتایا ناں!۔۔۔۔ عمیرہ سے نہیں مانگ سکتی۔ چرانا پڑے گا اس کے فون‬
‫سے۔۔۔۔ اس کے لئے مجھے تھوڑا وقت دو۔‘‘‬
‫بشریٰ نے خود ہی حل بھی بتا دیا۔‬
‫’’او۔کے۔۔۔ لیکن پلیز۔۔۔ کوشش کرنا کہ کام جلدی ہو جائے۔‘‘‬
‫’’ڈونٹ وری۔۔۔ میں پوری کوشش کروں گی۔‘‘‬
‫بشریٰ نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔‬
‫اس کے جلتے ِدل کو تھوڑا قرار ِمال۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد اسٹڈی روم میں رائٹنگ ٹیبل پہ بیٹھے کسی گہری ِفکر میں مبتال تھے۔ تب ہی‬
‫دروازے پہ دستک دے کر شوال نے سر اندر کیا۔‬
‫’’مے آئی کم ِان پاپا!؟‘‘‬
‫’’ہاں شوال!۔۔۔ آؤ۔‘‘‬
‫اسرار احمد سیدھے ہو بیٹھے۔‬
‫شوال کچھ جھجکتی ہوئی ا ُن کی ٹیبل کے قریب چلی آئی۔‬
‫’’پاپا!۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔ اجازت چاہیئے تھی۔‘‘‬
‫اس نے ہچکچاتے ہوئے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔‬
‫’’پاپا!۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔ اجازت چاہیئے تھی۔‘‘‬
‫اس نے ہچکچاتے ہوئے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔‬
‫’’کیسی اجازت؟‘‘ اسرار احمد نے پوچھا۔‬
‫’’آج شام میری کچھ سہیلیاں ‪ Nando’s‬میں گیٹ ٹو گیدر کرنا چاہتی ہیں۔ میں بھی چلی‬
‫ج ا ؤ ں ؟‘ ‘‬
‫ریسٹورینٹ کا سنتے ہی اسرار احمد کے کان کھڑے ہو گئے۔‬
‫’’کون سہیلیاں؟‘‘‬
‫’’تقریبا ً ساری ہی۔۔۔۔ کالج بند ہوئے بہت ِدن گزر گئے ہیں ناں!۔۔۔ اور اب آگے بھی پتا نہیں‬
‫کون کدھر جائے گی۔۔۔ اس لئے ہم سب ایک بار اکٹھی ہونا چاہتی ہیں۔‘‘‬
‫وہ وضاحت تو کر رہی تھی لیکن اندر سےڈر بھی رہی تھی کہ اسرار احمد اجازت نہیں دیں‬
‫گے۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ چلی جانا۔‘‘‬
‫اسرار احمد کے الفاظ نہیں جادو تھے جنہیں سنتے ہی اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی‬
‫مانند چمک ا ُٹھا۔‬
‫’’تھینک یُو پاپا!۔ میں ابھی جا کر انھیں فون کرتی ہوں۔‘‘‬
‫وہ جوشیلے پن میں کہتی ہوئی جانے کو مڑی۔‬
‫’’شوال!‘‘ اسرار احمد نے سنجیدگی سے اسے پکارا۔‬
‫’’جی؟‘‘ اس نے پلٹ کر انھیں دیکھا۔‬
‫اسرار احمد نے اس کے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔‬
‫’’بیٹھو!۔۔۔۔ مجھے تم سے کچھ اہم بات کرنی ہے۔‘‘‬
‫وہ کنفیوز سی ہوتی تابعداری سے کرسی پہ بیٹھ گئی۔‬
‫’’جی؟‘‘‬
‫اس نے اسرار احمد کا چہرہ بغور دیکھا تاکہ وہ کچھ جان سکے۔ اسرار احمد کے چہرے پہ‬
‫بال کی سنجیدگی تھی۔ وہ کوئی قیاس نہ کر سکی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ تم میری بہت ہی الڈلی اور بہت ہی اچھی بیٹی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تم مجھ‬
‫سے کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔۔ اور ابھی جو میں تم سے پوچھوں گا‪ ،‬تم اس کا جواب سچ ہی دو گی۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے تہمید باندھی۔ لہجہ نرم مگر انتہائی سنجیدہ تھا۔‬
‫’’آف کورس پاپا!۔۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘‬
‫اس نے ٹھوس لہجے میں جواب دیا اور پوچھا۔ وہ اندر ہی اندر گھبرانے لگی کہ جانے اسرار‬
‫احمد اس سے کیا سچ جاننا چاہتے تھے۔ ا ُن کے چہرے کی سنجیدگی کسی غیرمعمولی پن کا پتا دے رہی‬
‫تھی۔‬
‫’’تم رجب کو جانتی ہو؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے بنا وقت ضائع کیے صاف اور سیدھا سوال کر ڈاال۔‬
‫’’کون رجب؟‘‘ اس نے ا ُلٹا ا ُن سے سوال کیا۔‬
‫اسرار احمد کا سوال بہت ہی غیر متوقع تھا۔ وہ کچھ بھی نہ سمجھی۔‬
‫’’رجب الفرد۔۔۔ وجاہت علی کا بیٹا۔‘‘‬
‫انھوں نے جوابا ً رجب کا تعارف بیان کیا۔‬
‫’’کون وجاہت علی؟‘‘‬
‫اس کے لئے یہ نام بھی اجنبی تھا۔‬
‫’’اس ِدن جو۔۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد کہتے کہتے ُرک گئے۔ شوال جب کچھ جانتی ہی نہیں تھی تو پھر کیا ضرورت‬
‫تھی اصل ماجرا بیان کرنے کی۔‬
‫اسرار احمد کہتے کہتے ُرک گئے۔ شوال جب کچھ جانتی ہی نہیں تھی تو پھر کیا ضرورت‬
‫تھی اصل ماجرا بیان کرنے کی۔‬
‫’’اس دن کیا پاپا!؟‘‘‬
‫ا ُس نے تجسس سے پوچھا۔‬
‫وہ جاننا چاہتی تھی کہ ا ُن کوئی دو اجنبیوں کے حوالے سے اس سے کیوں پوچھ گچھ کی‬
‫جا رہی ہے۔ بھال اس کا ان لوگوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔‬
‫’’کچھ نہیں۔بس ایسے ہی۔۔۔‘‘ اسرار احمد نے فوری طور پر منع کیا۔ پھر کچھ سوچ کر‬
‫تنبیہہ کرنے کے انداز میں بولے۔‬
‫’’ َپر خیال رکھنا شوال!۔ اگر کوئی رجب نامی لڑکا تمہارے قریب آنے کی کوشش کرے‪ ،‬یا‬
‫تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ تو اس کی باتوں میں ہرگز مت آنا۔ اور فورا ً مجھے خبر کرنا۔ پھر‬
‫میں خود دیکھ لوں گا ا ُسے۔‘‘‬
‫’’کون رجب پاپا!؟ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ کوئی رجب نام کا لڑکا ایسا کچھ کریگا؟‘‘‬
‫وہ ُبری طرح ا ُلجھ کر رہ گئی۔‬
‫’’ہے ایک بیٹا!۔۔۔ ایک گھٹیا باپ کی اوالد۔۔۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو اپنا گھٹیاپن‬
‫دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مجھے نقصان پہنچانے کیلئے میری اوالد کو‬
‫استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے تمہیں خبردار کر رہا ہوں کہ کسی کے جھانسے میں نہ آنا۔‘‘‬
‫’’اوہ۔‘‘ اس نے سمجھ جانے کے انداز میں ’اوہ‘ کیا۔ پھر اسرار احمد کو تسلی دینے کے‬
‫انداز میں بولی۔‬
‫’’آپ فکر نہ کریں پاپا!۔ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو میں آپ کو ضرور بتاؤں گی۔‘‘‬
‫’’شاباش!۔‘‘ اسرار احمد نے اسے سراہا۔‬
‫’’اب میں جاؤں؟‘‘‬
‫اس نے اجازت طلب کی۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ عمران سے کہنا کہ تمہیں چھوڑ آئے۔ شام کو تمہارا اکیلے جانا مناسب نہیں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا اور اپنی جیب سے والٹ نکال لیا۔‬
‫’’اور یہ لو۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے والٹ میں سے کچھ ہزار ہزار کے نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ اس نے‬
‫خوشی سے پیسے تھام لئے۔‬
‫’’تھینک یو پاپا!۔‘‘‬
‫وہ شکریہ ادا کرتی خوشی خوشی ا ُٹھ گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ بیڈ پہ پالتی مارے سامنے پھیالئی ایک شیٹ پہ سکیچ بنا رہی تھی۔ الکھ کوشش کے‬
‫باوجود وہ اپنے مشغلے میں پورا دھیان نہیں لگا پا رہی تھی۔‬
‫’’زبیدہ آپا ایک عرصے سے ناصر کے لئے تمہارا ہاتھ مانگ رہی ہیں۔ اگر تم اس رشتے کے‬
‫لئے راضی ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انھیں ’ہاں‘ کر دوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد کے الفاظ اسکے ذیہن میں گونج کر ا ُسے ڈسٹرب کر رہے تھے۔ سکیچ کھینچتا‬
‫اس کا ہاتھ ُرک گیا۔‬
‫)کیا اب میری شادی ہو جائے گی؟ (‬
‫اس نے قدرے بےیقینی سے سوچا۔ کالج میں سہیلیوں کی باتیں اور کچھ کالس فیلوز کی‬
‫منگنی ہوتے دیکھ کر تو اسے بھی شادی کا شوق چڑھا ہوا تھا۔ اور اب جو اسرار احمد نے اس کی شادی‬
‫طے کرنے کا ذکر کیا تو اسے اس پہ بھی بےچینی ہونے لگی تھی۔ خوشی اور گھبراہٹ کے ِملے ُجلے‬
‫احساسات تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ا ُسے کیا ہو رہا ہے۔‬
‫طے کرنے کا ذکر کیا تو اسے اس پہ بھی بےچینی ہونے لگی تھی۔ خوشی اور گھبراہٹ کے ِملے ُجلے‬
‫احساسات تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ا ُسے کیا ہو رہا ہے۔‬
‫)پہلے منگنی ہوتی تو کتنا مزہ آتا۔ میں اپنی منگنی پہ گالبی لہنگا پہنتی۔ جب میرا منگیتر‬
‫اور میں ایک دوسرے کو انگوٹھی پہناتےتو سب مہمان ہمارے لئے تالیاں بجاتے۔ فوٹو گرافر میرے منگیتر کے‬
‫ساتھ میری بہت پیاری پیاری تصویریں لیتا۔ اور بعد میں مَیں بھی اپنی دوستوں کو اپنے منگیتر کے قصے‬
‫سناتی۔‬
‫اب ناصر پتا نہیں ان حاالت میں بھی مجھے کارڈز یا پھول بھیجے گا یا نہیں۔۔۔ اب دوسرے‬
‫شہر سے تو وہ مجھے ڈنر پہ لے جانے کیلئے نہیں آئے گا۔ اگر کبھی کوئی پھول یا تحفہ بھی نہ بھیجا تو‬
‫میں اپنی دوستوں کو کیا منہ دکھاؤں گی؟۔ کیا بتاؤں گی انھیں۔(‬
‫خواب بنتے بنتے حقیقت کے وسوسے ا ُسے ا ُداس کرنے لگے۔‬
‫ا ُس کے فون کی رنگ ٹون بجنے لگی تو وہ چونک کر خیالوں کی ُدنیا سے باہر آئی۔ سکیچنگ‬
‫پنسلز سیٹ کے پاس رکھا فون ا ُٹھا کر سکرین دیکھی تو صرف فون نمبر آ رہا تھا۔ نام ظاہر نہیں ہو رہا‬
‫تھا۔ جس سے وہ سمجھ گئی کہ اس کالر کا نمبر اس کی کانٹیکٹ ِلسٹ میں نہیں ہے۔‬
‫’’ا َن ناؤن نمبر؟۔‘‘ ا ُس نے سوچا۔‬
‫) کہیں یہ ناصر کی کال تو نہیں۔(‬
‫سوچ کر لبوں پہ شرمیلی مسکان آ ٹھہری۔ گال گالبی ہو ا ُٹھے۔‬
‫ِدل کی تیز دھڑکن کے ساتھ اس نے کال ایکسیپٹ کی۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘ ہچکچاتے ہوئے بمشکل ’ہیلو‘ کہا۔‬
‫’’شوال!؟‘‘‬
‫دوسری طرف سے کسی نے ڈائریکٹ اس کا نام لیا۔‬
‫’’جی‪ ،‬آپ کون؟‘‘ اس نے تصدیق کرنے کے ساتھ ہی سوال کیا۔‬
‫سنی تو نہیں تھی مگر پھر بھی جانے کیوں ا ُسے لگا کہ یہ‬ ‫اس نے ناصر کی آواز زیادہ ُ‬
‫ناصر نہیں تھا۔‬
‫’’میں رجب الفرد بات کر رہا ہوں۔‘‘‬
‫سرد لہجے میں بتایا گیا۔‬
‫یہ سنتے ہی ا ُس کے ہاتھ میں فون ِتھرک گیا۔ رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ خوف سے ٹھنڈے پسینے‬
‫چھوٹنے لگے۔ جب کہ دوسری طرف وہ کہہ رہا تھا۔‬
‫’’آپ کو یاد ہوگا۔ ہم آپ کی دوست عمیرہ کی بہن کی منگنی پہ ِملے تھے۔ اس کے کچھ ہی‬
‫ِدن بعد میرے والد آپ کے گھر بھی گئے تھے۔ میرے لئے آپ کا رشتہ مانگنے۔‘‘‬
‫لہجہ سرد اور سپاٹ تھا۔‬
‫’’رشتہ؟۔۔۔‘‘‬
‫ا ُس کے اعصاب جواب دینے لگے۔‬
‫وہ آدمی کیا کہہ رہا تھا‪ ،‬ا ُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔‬
‫’’جی ہاں۔۔ رشتہ۔‘‘ رجب نے دانت کچکچائے۔ ’’اور یہی وجہ ہے جو میں آپ کو فون کر رہا‬
‫ہوں۔‘‘ لہجے میں تندی آ گئی تھی۔‬

‫’’آپ کو میرا نمبر کہاں سے ِمال؟‘‘‬


‫ا ُس نےگھبرا کر سوال کیا۔‬
‫’’سوال یہ نہیں ہے۔ بلکہ سوال یہ ہے کہ اپنے بیٹے کے لئے رشتہ مانگنے آنے والے ایک باپ‬
‫کی توہین کرنا‪ ،‬اس کو ذلیل کرنا کہاں کی شرافت ہے؟۔۔۔۔ کیا جو بھی آپ کا رشتہ مانگنے آتا ہے‪ ،‬آپ کے‬
‫والد ہر کسی کے ساتھ ِاسی طرح سے پیش آتے ہیں؟‘‘‬
‫’’جی؟۔‘‘ وہ بہت معتجب ہوئی۔‬
‫’’نہیں ِمس شوال!۔۔۔ یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ میں نے آپ سے پیار کیا تھا۔ اپنی‬
‫’’جی؟۔‘‘ وہ بہت معتجب ہوئی۔‬
‫’’نہیں ِمس شوال!۔۔۔ یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ میں نے آپ سے پیار کیا تھا۔ اپنی‬
‫زندگی سے بڑھ کر آپ کو چاہا تھا۔ میرا باپ صرف اور صرف میری ضد کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے‬
‫ھکا‪ ،‬اس کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھایا۔ بدلے میں آپ کے باپ نے کیا سلوک کیا ا ُن‬ ‫حریف کے سامنے ج ُ‬
‫کے ساتھ؟۔۔۔ ا ُن کی توہین کی‪ ،‬ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔‬
‫ُ‬
‫میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اب میں اپنے باپ سے نظریں ِمالؤں تو کیسے؟۔۔۔ مجھے اپنے‬
‫باپ کا سامنا کرنے کے الئق نہیں چھوڑا آپ کے جنگلی باپ نے۔‘‘‬
‫سن کر وہ طیش میں آگئی۔‬ ‫’’ایکسکیوزمی!۔۔۔‘‘ اپنے باپ کے بارے میں سخت الفاظ ُ‬
‫’’ ذرا زبان سنبھال کر۔ میں اپنے پاپا کے بارے میں ایک بھی غلط لفظ نہیں سنوں گی۔‘‘‬
‫اس نے سخت لہجے میں خبردار کیا۔‬
‫’’کیوں؟۔۔۔ غلط الفاظ کہنے کے سارے کاپی رائٹس صرف آپ کے پاپا نے ہی ریزرو کروا رکھے‬
‫ہیں؟‘‘ جوابا ً رجب نے برجستہ طنز کیا۔ اور بوال۔‬
‫’’اگر آپ اپنے باپ کے بارے میں کوئی غلط لفظ نہیں ُ‬
‫سن سکتی تو بتایئے میں اپنے باپ کی‬
‫یہ توہین کیسے برداشت کروں؟ آخر غلط کیا کِیا تھا انہوں نے؟۔۔۔ اپنے بیٹے کے لئے کسی کی بیٹی کا ہاتھ‬
‫مانگنا کونسا جرم ہے؟‘‘‬
‫رجب بھی کچھ کم غصے میں نہیں تھا۔‬
‫’’سنو ِمسٹر!۔‘‘ آخر اس نے بھی دوٹوک اندازمیں بات کرنے کی ٹھان لی۔ بولی۔ ’’ میں‬
‫تمہیں جانتی ہوں نہ ہی اس رشتے وشتے والی کسی بات کی مجھے خبر ہے۔ مجھے تو یہ بھی نہیں معلوم‬
‫کہ تمہارے والِد محترم ہمارے گھر کب تشریف الئے۔ ویسے بھی‪ ،‬ہمارا گھر ایسا نہیں کہ کوئی بھی ایرا‬
‫غیرا منہ ا ُٹھائے ہمارے گھر کے اندر گھس آئے اور ہمیں خبر تک نہ ہو۔۔۔۔‬
‫اور جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے‪ ،‬سمیرا کی منگنی پہ میری کسی بھی لڑکے سے کوئی‬
‫مالقات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ میں نہ تو کسی رجب کو جانتی ہوں اور نہ ہی کسی رجب کے باپ کو۔۔۔ ِاس لئے‬
‫زیادہ بکواس کرنے کی ضرورت نہیں۔۔۔ میرا دماغ خراب کرنے کی بجائے تم کہیں اور نمبر ِمال کر اپنی‬
‫قسمت آزماٴو تو زیادہ بہتر ہے۔ شاید کوئی تمہیں اپنی طرح چھچھوری اور فارغ ِمل جائے۔ دوبارہ مجھے‬
‫فون کیا تو پاپا اور بھائیوں کو بتا کر تمہارا وہ حشر کرواؤں گی کہ یاد رکھو گے خداحافظ ۔‘‘‬
‫اس نے کھری کھری سنا کر فون بند کردیا۔‬
‫’’گھٹیا آدمی۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔‬
‫پھر سوچنے لگی۔‬
‫)سمیرا کی منگنی پہ؟۔۔۔۔ کیا یہ واقعی میں وہاں تھا؟ یا پھر اس نے کہیں سے پتا کروایا‬
‫ہےمیرے بارے میں؟۔(‬
‫وہ اپنے ذیہن پہ زور دینے لگی۔‬
‫)سمیرا کی منگنی پہ تو تین چار چھچھوروں نے مجھ سے فرینک ھونے کی کوشش کی تھی۔‬
‫ان سب ہی کے نام میں جانتی ہوں۔ ان میں سے تو کوئی بھی رجب نہیں تھا۔ تو کیا یہ جھوٹ بول رہا‬
‫ہے؟۔۔۔۔۔ ایسا ہی ہو گا۔ کہہ رہا تھا کہ اس کا باپ ہمارے گھر رشتہ لے کر آیا تھا۔ یہ بھی تو جھوٹ ہے۔‬
‫کوئی کسی کے گھر رشتہ مانگنے جائے اور گھر والوں کو پتا بھی نہ چلے۔ ایسا ہو سکتا ہے بھال!۔۔۔ اور‬
‫اوپر سے کہتا ہے کہ میرے پاپا نے ان کی بےعزتی کی ہے۔ ایسا کب ہوا؟۔۔۔ جھوٹا کہیں کا۔(‬
‫وہ اسی نتیجے پہ پہنچی کہ یہ سب جھوٹ ہے۔ پھر ایک اور سوال اس کے ذیہن میں ا ُٹھا۔‬
‫)لیکن پھر میرا نمبر ا ُس کے پاس کہاں سے آیا؟۔۔۔ اور انفارمیشنز تو چلو ا ُس نے کہیں سے‬
‫اکٹھی کر لی ہونگی۔۔۔ لیکن میرا نمبر؟۔۔۔ یہ کہاں سے لے سکتا ہے؟(‬
‫اس نے سوچا اور تب ہی اس کے ذیہن میں جھماکہ ہوا۔‬
‫)ارے ہاں۔۔۔ وہ فوٹو گرافر۔ سمیرا کی منگنی پہ ایک وہی تو تھا جو سب سے زیادہ میرے‬
‫پیچھے پڑا ہوا تھا اور میں اس کا نام بھی نہیں جانتی۔(‬
‫)ارے ہاں۔۔۔ وہ فوٹو گرافر۔ سمیرا کی منگنی پہ ایک وہی تو تھا جو سب سے زیادہ میرے‬
‫پیچھے پڑا ہوا تھا اور میں اس کا نام بھی نہیں جانتی۔(‬
‫وہ اب اس فوٹوگرافر کے بارے میں سوچ بچار کرنے لگی۔‬
‫)لیکن پاپا جس انداز میں ان لوگوں کا ذکر کر رہے تھے اس سے تو لگتا ہے کہ کافی امیر‬
‫لوگ ہیں۔ وہ فوٹو گرافر بھال کیا امیر ہوگا؟۔۔۔۔ یا پھر۔۔۔۔۔۔ میرے بارے میں انفارمیشنز لینے کے لئے وہ‬
‫فوٹو گرافر بن کر وہاں آیا تھا؟(‬
‫اس نے خود سے سوال کیا۔ پھر خود ہی تائید کی۔‬
‫) ہاں۔۔۔ ایسا ہی ہوگا۔۔۔ پاپا نے کہا تھا ناں کہ یہ لوگ کوئی بھی گھٹیا حرکت کرنے سے‬
‫باز نہیں آتے۔ تو پھر وہی ہوگا۔(‬
‫ِ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫نتیجے پہ پہنچتے ہی اسے ایک خیال آیا اور اس نے اپنا فون اٹھا کر عمیرہ کا نمبر مالیا۔‬
‫’’ہیلو عمیرہ! کیسی ہو؟‘‘‬
‫عمیرہ نے فون ا ُٹھایا تو ا ُس نے مصنوعی خوشدلی سے کہا۔‬
‫سناؤ۔ کیا ہو رہا ہے؟‘‘‬‫’’بالکل ٹھیک۔۔۔ تم ُ‬
‫ِ‬
‫’’عمیرہ!۔۔۔ مجھے تم سے ایک بات پوچھنی ہے۔‘‘ وہ ان رسموں میں پڑنے کی بجائے‬
‫سیدھی مطلب پہ آئی۔ پوچھنے لگی۔‬
‫’’سمیرا کی منگنی کے روز۔ کیا کسی نے تم سے میرا فون نمبر لیا تھا؟‘‘‬
‫’’نہیں۔۔۔۔‘‘ عمیرہ نے حیرت کے ساتھ انکار کیا۔ پھر پوچھنے لگی۔ ’’کیوں؟ کیا ہوا؟‘‘‬
‫’’کچھ نہیں یار! ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔‘ اچھا میں بعد میں بات کرتی ہوں۔‘‘‬
‫ا ُس نے تفصیالت بتانا فی الحال ضروری نہ سمجھا اور کال کاٹ دی۔‬
‫’’کیا یہ وہ فوٹو گرافر نہیں تھا؟۔۔۔۔ پھر اس نے میرا نمبر کہاں سے حاصل کیا؟۔‘‘‬
‫وہ الجھنے لگی۔ کچھ سمجھ نہ آیا تو سر جھٹک دیا۔‬
‫’’لگتا ہے یہ لوگ کوئی بہت پہنچی ہوئی چیز ہیں۔ پاپا کو پریشان کرنے کیلئے مجھے‬
‫استعمال کر رہے ہیں۔ کیا میں پاپا کو اس کال کے بارے میں بتاٴوں؟‘‘‬
‫ا ُس نے خود سے سوال کیا۔‬
‫’’کیا بتاؤں گی ا ُن کو؟۔۔۔ کہ وہ کہہ رہا تھا کہ اس کا باپ میرا رشتہ مانگنے آیا تھا؟۔۔۔‬
‫میں پاپا سے ایسی بات کیسے کہوں؟‘‘‬
‫ا ُسےخاصا آکورڈ محسوس ہوا۔‬
‫’’چھوڑو دفع کرو۔ پھر اگر اس نے کال کی تو بتا دوں گی۔ ابھی رہنے دو۔‘‘‬
‫ا ُس نے سر جھٹکا اور اپنی توجہ واپس سکیچ پہ مرکوز کرنے لگی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ اپنے کمرے میں صوفہ چیئر پہ بالکل ساکت بیٹھا رہ گیا۔ بہت دیر بعد اس کے کان سے‬
‫لگا فون دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ سے سرکنے لگا۔‬
‫’’ سمیرا کی منگنی پہ میری کسی بھی لڑکے سے کوئی مالقات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ میں نہ تو‬
‫کسی رجب کو جانتی ہوں اور نہ ہی کسی رجب کے باپ کو‘‘ اس کے ذیہن میں شوال کے الفاظ گونجے۔‬
‫’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہماری مالقات اتنی مختصر تو نہ تھی کہ اسے یاد نہ رہتی۔۔۔ کیا‬
‫میں اتنا عام صورت ہوں کہ وہ دو ِدن کے لئے بھی مجھے یاد نہ رکھ سکی؟۔۔۔۔ وہ لڑکی‪ ،‬جو پہلی نظر‬
‫میں ہی میرے حواسوں پہ چھا گئی۔ اس کے لئے میں اتنا غیر اہم ہوں کہ اس نے مجھے دو ِدن بھی یاد نہ‬
‫رکھا؟‘‘اس نے ُدکھی ِدل کے ساتھ سوچا۔‬
‫’’میرا دماغ خراب کرنے کی بجائے تم کہیں اور نمبر ِمال کر اپنی قسمت آزماٴو تو زیادہ بہتر‬
‫ہے۔ شاید کوئی تمہیں اپنی طرح چھچھوری اور فارغ ِمل جائے۔‘‘‬
‫’’میرا دماغ خراب کرنے کی بجائے تم کہیں اور نمبر ِمال کر اپنی قسمت آزماٴو تو زیادہ بہتر‬
‫ہے۔ شاید کوئی تمہیں اپنی طرح چھچھوری اور فارغ ِمل جائے۔‘‘‬
‫شوال کے الفاظ اس پہ فرسٹریشن طاری کرنے کو کافی تھے۔‬
‫’’شوال!‘‘ وہ حلق کے بل چالیا۔‬
‫پھر وہ ا ُٹھا اور پاگلوں کی طرح جو چیز اس کے سامنے آئی اس کو ا ُٹھا ا ُٹھا کر پٹخنے‬
‫لگا۔ شدید غم اور غصے کی حالت میں روتے ہوئےاس نے کمرے کی تقریبا ً ساری چیزیں توڑ ڈالیں۔‬
‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی دوڑے دوڑے آئے۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ ‘‘‬
‫’’کیا ہوا رجب!؟۔۔۔‘‘‬
‫’’ کیا کر رہے ہو؟۔۔۔‘‘‬
‫’’ کیا ہو گیا رجب؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی ا ُسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے گھبراہٹ میں پوچھ رہے تھے۔‬
‫وجاہت علی اس کا بازو پکڑ کر روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ نڈھال سا ہو کر رونے لگا۔ وجاہت علی اسے‬
‫بازو سے پکڑے ہوئے کھینچ کر بیڈ تک الئے اور ا ُسے بیڈ پہ ِبٹھا کر خود بھی ا ُس کے پہلو میں بیٹھ گئے۔‬
‫’’کیا ہوا ہے میری جان!۔۔ بتاؤ مجھے؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے محبت سے پوچھا۔‬
‫سکینہ بیگم فکرمندی سے رجب کے قدموں میں آ بیٹھیں۔‬
‫’’وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟ کیسے بھول گئی وہ مجھے؟۔۔۔۔ کیوں یاد نہیں میں‬
‫ا ُسے؟ اس نے میرے وجود کو فراموش کیسے کر دیا؟‘‘‬
‫رجب مسلسل روئے چال جا رہا تھا۔‬
‫’’وجاہت! آپ کچھ کیجیئے۔ اسرار سے دوبارہ بات کریں۔ میں اپنے بیٹے کو اس حال میں نہیں‬
‫دیکھ سکتی۔ جو بھی آپ دونوں کے درمیان اختالفات ہیں آپ اس سے معافی کیوں نہیں مانگ لیتے؟۔۔۔ آخر‬
‫وہ آپ کے بچپن کا دوست ہے۔ کیسے راضی نہیں ہوگا؟۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے جذباتیت میں وجاہت علی سے کہا۔‬
‫ا ُن کے الفاظ سنتے ہی رجب رونا بھول گیا۔ حیرت سے آنکھیں پھاڑے وہ اپنی ماں کو دیکھنے‬
‫لگا۔‬
‫’’اگر اس کے ماننے کا کوئی چانس بنتا تو میں ضرور کوشش کرتا۔ مگر وہ نہیں مانے گا۔ کسی‬
‫صورت نہیں مانے گا۔‘‘‬
‫’’ٹھیک ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں خود جا کر اس سے بات کرتی ہوں۔ دیکھتی ہوں کہ وہ مجھے‬
‫کیسے منع کرتا ہے۔‘‘‬

‫سکینہ بیگم کہتے ہوئے ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔‬


‫’’کہیں نہیں جا رہی تم۔۔۔ میں بتا تو رہا ہوں کہ اسرار کسی صورت نہیں مانے گا۔ وہ بچپن‬
‫سے ہی بہت ضدی ہے۔ اس نے ایک بار انکار کر دیا سو کر دیا۔ اب وہ نہیں مانے گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی بولے تو رجب انھیں دیکھنے لگا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب ہو کیا‬
‫رہا ہے۔‬
‫’’کیوں نہیں مانے گا۔ میں بات کروں گی تو وہ ضرور مانے گا۔ ا ُسے ماننا پڑے گا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم جرح پہ ا ُتر آئیں۔‬
‫’’نہیں‪ ،‬وہ تمہاری بھی نہیں مانے گا۔ تم کچھ بھی کر لو۔ لیکن وہ تمہارے بیٹے کے ساتھ اپنی‬
‫بیٹی بیاہنے پہ کبھی راضی نہیں ہو گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے پھر سے منع کیا۔‬
‫’’کیوں راضی نہیں ہوگا؟‘‘ سکینہ بیگم کو اس انکار کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ’’آخر‬
‫وجاہت علی نے پھر سے منع کیا۔‬
‫’’کیوں راضی نہیں ہوگا؟‘‘ سکینہ بیگم کو اس انکار کی وجہ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ ’’آخر‬
‫ایسا کیا ہوا تھا آپ دونوں کے درمیان جسے بھال کر آپ دونوں کبھی صلح نہیں کر سکتے؟ کیوں وہ آپ‬
‫سے دوبارہ دوستی کرنے کو تیار نہیں؟ کیوں؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے جیسے آج وہ بات جاننے کی ٹھان لی۔‬
‫کمرے میں ایک پل کو خاموشی چھا گئی۔ پھر جب وجاہت علی نے لب کشائی کی تو ان کی زبان‬
‫سے نکلنے والے الفاظ جیسے بم بن کر رجب اور سکینہ بیگم کی سماعت پہ پھوٹے تھے۔‬
‫’’کیوں کہ وہ خود تم سے پیار کرتا تھا۔ تم سے شادی کرنا چاہتا تھا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم لڑکھڑا کر ایک قدم پیچھے ہٹیں۔ رجب ایک ٹک اپنے باپ کو دیکھے گیا۔‬
‫’’کیا؟‘‘‬
‫کچھ پل کی خاموشی کے بعد سکینہ بیگم نے شاک کے عالم میں اپنے شوہر سے سوال کیا۔‬
‫رجب نے چہرہ موڑ کر اپنی ماں کی متحیّر صورت دیکھی۔ پھر واپس چہرہ وجاہت علی کی‬
‫طرف موڑا۔‬
‫’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اّبو!؟۔۔۔۔ اسرار احمد اور آپ کبھی دوست بھی رہے ہیں؟‘‘‬
‫وجاہت علی کے لب ساکت تھے۔ رجب کے سوال پہ بھی ان کے ساکت وجود میں کوئی جنبش نہ‬
‫ہوئی۔ رجب اور سکینہ بیگم جواب طلب نظروں سے انھیں دیکھ رہے تھے۔ باآلخر وجاہت علی نے شکست‬
‫کھاتے ہوئے اپنا سر ُجھکا لیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’میری پسندیدہ گانوں والی کیسٹ پتا نہیں کہاں چلی گئی۔‘‘‬
‫وجاہت اپنے کمرے میں آڈیو ٹیپ ریکارڈر کے سامنے کھڑا ایک جوتوں کے ڈبے میں رکھی بہت‬
‫سی آڈیو کیسٹس ا ُلٹ پلٹ کرتے ہوئے اپنی مطلوبہ کیسٹ ڈھونڈ رہا تھا۔‬
‫اسرار کھڑکی کے سامنے کرسی پہ بیٹھا کھڑکی سے باہر ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ اپنا‬
‫انہماک توڑے بنا وجاہت سے بوال۔‬
‫’’فریدہ خانم کی غزلیں لگا دو۔‘‘‬
‫’’بس کرو تم۔۔۔‘‘ وجاہت جی بھر کر بدمزہ ہوا۔ اپنی مصروفیت ترک کیے بنا کوفت سے بوال۔‬
‫’’پتا نہیں کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ ہر وقت غزلیں سنتے رہتے ہو۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ وہ پوری دلچسپی سے کھڑکی سے باہر‬
‫ف‬‫دیکھنے میں مصروف تھا۔ وجاہت کچھ دیر اس کی طرف سے کسی جوابی کاروائی کا منتظر رہا۔ خال ِ‬
‫توقع کوئی جواب نہ مال تو نظریں ا ُٹھا کر تعجب سے اسرار کی طرف دیکھا۔‬
‫’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے پوچھا۔ ساتھ ہی اسرار احمد کی نظروں کے تعاقب میں کھڑکی سے باہر‬
‫جھانکا۔ آنگن میں لگے بڑے سے شہتوت کے درخت کے نیچے گھر کی سب لڑکیاں جمع تھیں۔ سکینہ جھولے‬
‫پہ بیٹھی تھی اور سب لڑکیاں آپس میں ہنسی مزاق کرتے ہوئے کھلکھال رہی تھیں۔ وجاہت علی کو اس‬
‫سارے منظر میں کچھ بھی غیر معمولی یا دلچسپ نہ لگا۔‬
‫’’یار وجاہت! تمہیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے بےخودی کے عالم میں وجاہت علی کو مخاطب کر کے کہا۔‬
‫’’کیا؟‘‘ وجاہت علی نے تعجب سے پوچھا۔‬
‫’’تمہاری وہ کزن ہے ناں‪ ،‬سکینہ۔ مجھے بہت پسند ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ اماں ابو کو تمہارے‬
‫چاچا کے پاس رشتہ مانگنے کے لئے بھیجوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد کی نظریں ہنوز آنگن میں جھوال جھولتی سکینہ پہ تھیں۔‬
‫اسرار احمد کی بات سن کر وجاہت علی نے نظریں ا ُٹھا کر سکینہ کو دیکھا۔ اس کے دل میں‬
‫اسرار احمد کی نظریں ہنوز آنگن میں جھوال جھولتی سکینہ پہ تھیں۔‬
‫اسرار احمد کی بات سن کر وجاہت علی نے نظریں ا ُٹھا کر سکینہ کو دیکھا۔ اس کے دل میں‬
‫عجیب سی جلن ہونے لگی۔ اس کے منہ سے نکال۔‬
‫’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘‬
‫’’کیوں؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے چونک کر نظریں ا ُٹھا کر وجاہت علی کو دیکھا اور پوچھا۔‬
‫وجاہت علی نے خود کو سنبھاال۔‬
‫’’میرا مطلب ہے۔۔۔ تم ابھی کسی کام سے نہیں لگے۔ چاچا کسی بےروزگار کے ساتھ اپنی بیٹی‬
‫نہیں بیاہیں گے۔ جبکہ نوکری ڈھونڈنے اور پھر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے میں تمہیں اور دو چار سال‬
‫تو لگ ہی جائیں گے۔ ‘‘‬
‫وجاہت علی کو فورا ً یہی جواب سوجھا تھا۔‬
‫’’اوہ۔‘‘ اسرار احمد نے سمجھ جانے کے انداز میں کہا۔ ’’یہ تو کوئی بڑی بات نہیں۔ دوچار‬
‫سال تو کیا۔ میں انشااهلل ایک ہی سال میں اپنے قدموں پہ کھڑا ہو جاؤں گا۔ دیکھنا تم۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ُپرعزم انداز میں کہا۔ اسرار کا جوش و جذبہ وجاہت علی کو پریشان اور خوفزدہ‬
‫کر گیا۔ اس کا دماغ اب کچھ اور سوچ رہا تھا۔‬

‫❊‬ ‫❊‬ ‫❊‬ ‫❊‬ ‫❊‬ ‫❊‬

‫اگلی بار اسرار وجاہت کے گھر گیا تو سب کو ہی ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھِالتے ہوئے خوشی‬
‫مناتے پایا۔ ا ُسے دیکھ کر وجاہت کی اّمی ہاتھ میں لڈو لئے ا ُس کی طرف لپکیں۔‬
‫’’اب تو اسرار بھی آ گیا۔‘‘ کہتے ہوئے وہ قریب آئیں اور لڈو کھالنے کے لئے اس کی طرف‬
‫بڑھایا۔‬
‫’’لو۔ منہ میٹھا کرو۔‘‘‬
‫’’کس خوشی میں خالہ!؟‘‘ اس نے پوچھا اور بڑھایا ہوا لڈو تھامنے کے لئے اپنا ہاتھ اونچا کیا۔‬
‫اسی آن وجاہت بھی اپنے کمرے سے ِنکل کر باہر آیا۔‬
‫’’وجاہت کی شادی طے کر دی ہے ہم نے اپنی سکینہ کے ساتھ۔‘‘‬
‫وجاہت کی امی نے نوید سنائی۔‬
‫لّڈو تھامنے کے لئے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ ُرک گیا۔ اس کے کانوں میں بم پھوٹے تھے یا آسمان‬
‫سے بجلی ِگری تھی؟ ا ُسے کچھ ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی۔ وجاہت‬
‫سرعت سےآگے بڑھا۔‬
‫’’امی بعد میں۔۔۔ بعد میں۔‘‘ کہتے ہوئے وجاہت اسرار کا بازو کھینچ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔‬
‫اسرار احمد کسی بےجان شے کی طرح اس کے ساتھ کھنچا چال گیا۔ کمرے میں آکر وجاہت نے‬
‫دروازہ بند کردیا۔ مڑ کر اسرار احمد کو دیکھا تو اسرار احمد نے بھی صدمے سے بوجھل آنکھیں ا ُٹھا کر‬
‫وجاہت کو دیکھا۔‬
‫’’تمہاری شادی طے ہوگئی ہے سکینہ کے ساتھ؟‘‘ اسرار احمد نے تصدیق طلب نظروں سے‬
‫وجاہت کو دیکھا۔ پھر پوچھنے لگا۔‬
‫’’کیسے؟۔۔۔تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے چاچا کسی بےروزگار کو اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیں‬
‫گے؟۔۔۔ مجھے تو تم نے تین چار سال ُرکنے کا کہا تھا۔ پھر تمہاری نوکری کب لگی؟۔ تم نے تو میرے ساتھ‬
‫ہی تعلیم مکمل کی ہے۔‘‘‬
‫’’ہاں تو میری کونسا ابھی شادی ہو رہی ہے۔ صرف رشتہ طے ہوا ہے۔ شادی تو نوکری لگنے کے‬
‫بعد ہی ہوگی۔‘‘‬
‫وجاہت نے ڈھٹائی سے وضاحت دی۔ اسرار بغور اپنے دوست کی کمینگی اور ڈھٹائی مالحظہ کر‬
‫رہا تھا۔ وجاہت علی اس کی نظروں کی تاب نہ ال سکا۔‬
‫وجاہت نے ڈھٹائی سے وضاحت دی۔ اسرار بغور اپنے دوست کی کمینگی اور ڈھٹائی مالحظہ کر‬
‫رہا تھا۔ وجاہت علی اس کی نظروں کی تاب نہ ال سکا۔‬
‫’’مجھے ان نظروں سے نہ دیکھو اسرار!۔۔۔ یہ ابو اور چاچا کا فیصلہ ہے۔ میرا اس میں کوئی‬
‫ہاتھ نہیں۔۔۔۔ اب میں ابو کے فیصلے کے خالف تھوڑا جا سکتا ہوں۔‘‘ آخر میں اپنی الچارگی ظاہر کی۔‬
‫’’او رئیلی؟۔۔۔ تم تو کبھی اپنے ابو کے فیصلے کے خالف نہیں گئے۔۔۔۔ جیسے میں کچھ جانتا‬
‫نہیں۔۔۔ بےوقوف ہوں ناں!۔۔۔ تم جو کہو گے‪ ،‬میں تمہاری ہر بات پہ یقین کر لوں گا۔‘‘‬
‫اسرار نے طنزا ً کہا۔‬
‫وجاہت سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ اندر ہی اندر گھبرا گیا۔ پھر اس کے ذیہن میں ایک اور‬
‫جھوٹ آیا۔‬
‫’’دراصل۔۔۔۔۔ میں نے سکینہ سے تمہارے بارے میں پوچھا تھا۔۔۔ اس نے تمہیں ریجیکٹ کر کے‬
‫خود میرا نام لیا ہے۔‘‘‬
‫’’پھر جھوٹ۔‘‘ اب کے اسرار غصے سے بپھر گیا۔ ’’اور کتنے جھوٹ بولو گے تم؟ دوست ہوکر‬
‫بھی میری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے تم نے۔ ‘‘ اسرار چالیا۔‬
‫وجاہت اس کی بلند ہوتی آواز پہ گھبرا گیا۔‬
‫’’زیادہ اونچی آواز میں بات مت کرو۔ باہر کوئی سن لے گا۔‘‘‬
‫سن لے۔ کسی کے سن لینے کا ڈر تمہیں ہوگا‪ ،‬مجھے نہیں۔‘‘ اسرار نے بلند آواز میں کہا۔‬ ‫’’تو ُ‬
‫’’میں نے کہا۔ اپنا منہ بند کرو۔‘‘‬
‫وجاہت علی لحاظ‪ ،‬مرّوت ‪ ،‬دوستی۔ سب کچھ باالئے طاق رکھ کر غّرایا۔‬
‫’’نہیں کروں گا۔ کیا کر لو گے تم؟۔ مجھے تم جیسے گھٹیا آدمی کی کسی بات کی کوئی پرواہ‬
‫نہیں ہے۔ میں تم پر اور تمہاری دوستی پہ لعنت بھیجتا ہوں۔ آج سے‪ ،‬ابھی سے۔ میرا اور تمہارا ہر تعلق‪،‬‬
‫ہر واسطہ ختم۔‘‘ اسرار احمد نے حتمی لہجے میں کہا۔‬
‫’’جاؤ۔ جاؤ۔۔۔ میں بھی لعنت بھیجتا ہوں تم پر۔ اصل میں گھٹیا آدمی تم خود ہو۔ مجھے بھی تم‬
‫جیسے کسی شخص سے دوستی رکھنے کا کوئی شوق نہیں جو مجھ سے ملنے کے بہانے آئے اور میرے‬
‫گھر کی عورتوں پہ نظر رکھے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے حقارت کے ساتھ کہا۔‬
‫’’بھاڑ میں جاؤ تم۔‘‘‬
‫اسرار احمد غصے سے کہہ کر آگے بڑھا اور وجاہت کو اپنے راستے سے دھکیل کر ایک طرف ہٹا‬
‫دیا۔ پھر دروازہ کھوال اور غصے سے تن فن کرتا اس گھر سے نکلتا چال گیا۔ گھر کے جس بھی فرد نے‬
‫اسے اس طرح غصے میں جاتے دیکھا۔ وہ اپنی جگہ ہّکابّکا رہ گیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’ میں نے اسے الکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ صرف اور صرف گھر کے بزرگوں کا‬
‫فیصلہ ہے‪ ،‬مگر وہ میری کوئی بھی بات سننے کو تیار نہ ہوا اور دوستی توڑ کر چال گیا۔ اس دن کے بعد‬
‫کتنے ہی سال گزر گئے۔ میں نے اور اسرار نے ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھی۔ کچھ سال گزرنے کے بعد‬
‫ادھر میں نے رجب بلڈرز کا آغاز کیا اور ادھر اس نے اسرار احمد اینڈ سنز کانسٹرکشن کمپنی کھول لی۔‬
‫تب نئے سرے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا مقابلہ ہمارے درمیان‬
‫شروع ہو گیا۔‘‘‬
‫صہ بیان کیا۔ پھر کچھ دیر کے لئے کمرے میں‬‫وجاہت علی نے اپنی بیوی اور بیٹے سے سارا ق ّ‬
‫خاموشی چھا گئی۔‬
‫’’لیکن اب ہم کیا کریں؟۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی۔ میں کل ہی اپنے بیٹے کے لئے اس کی بیٹی کا‬
‫ہاتھ مانگنے جاؤں گی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے ضدی پن سے کہا۔‬
‫ہاتھ مانگنے جاؤں گی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے ضدی پن سے کہا۔‬
‫’’کوئی بھی کہیں نہیں جائے گا اّمی!۔۔۔ اسرار احمد اگر اّبو کے اتنے ہی گہرے دوست تھے تو‬
‫انھیں اّبو پہ اعتبار کرنا چاہیئے تھا۔ تب بھی انھوں نے اّبو کو الزام دیا اور اب بھی اّبو کی صّلح کی‬
‫پیشکش کے بدلےمیں انھوں نے اّبو کی توہین کی۔ اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرے باپ‬
‫کی بےعزتی کرے۔‘‘‬
‫رجب نے اپنے باپ کے لئے محبت اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔پھر وجاہت علی سے معذرت‬
‫خواہانہ انداز میں بوال۔‬
‫’’آئم سوری ابّو!۔۔۔ مجھے آپ دونوں کے اختالفات کی اصل وجہ معلوم نہیں تھی۔ اگر آپ مجھے‬
‫پہلے بتا دیتے تو میں آپ کو ہرگز اس آدمی کے پاس جانے کے لئے مجبور نہ کرتا۔‘‘‬
‫اس نے شرمندگی کا اظہار کیا۔ پھر فیصلہ کن انداز میں بوال۔‬
‫’’اب جو ہوا اس کو بھول جایئے۔ آپ میں سے کسی کو بھی اسرار احمد سے رشتہ مانگنے کی‬
‫ضرورت نہیں۔ جیسا چل رہا ہے‪ ،‬ویسا ہی چلنے دیجیے۔‘‘‬
‫وجاہت علی اپنے لئےبیٹے کی محبت اور غیرت دیکھ کر نہال ہو گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫ت زندگی بہت عجیب اور پریشان ُکن تھے۔ صبح وہ کبھی‬ ‫دن گزرتے جارہے تھے۔ رجب کے معموال ِ‬
‫ناشتہ کرتا تھا اور کبھی ناشتہ کئے بنا ہی گھر سے نکل جاتا تھا۔ دفتر بھی وہ اپنی گاڑی سے جاتا تھا۔‬
‫شام کے پانچ بجتے ہی وہ دفتر سے نکل جاتا تھا اور رات گئے گھر واپس آتا تھا۔ کھانے میں الپرواہی برت‬
‫رہا تھا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنا تو جیسے بھول ہی گیا تھا۔ چھٹی کا دن بھی وہ‬
‫گھر سے باہر یا اپنے کمرے میں بیٹھ کر گزارتا تھا۔ اپنے تمام دوستوں سے بھی اس نے قطع تعلق کر رکھا‬
‫تھا۔ بس ایک ہی کام تھا جو وہ پوری ِدلجمعی سے کر رہا تھا۔ اور وہ تھا شوال کی تصویروں کو اینالرج‬
‫کروا کر فریم کروانا۔ ان کے پوسٹرز بنوا کر کمرے کی دیواروں سے چپکانا اور ان سے باتیں کرنا۔‬
‫پہلے کی طرح ہنسنا بولنا اور کھلکھالنا تو وہ بھول ہی گیا تھا۔ اس کے اس رویے نے اس کے‬
‫ماں اور باپ دونوں کو تشویش میں مبتال کر رکھا تھا۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتے تو وہ کہتا۔‬
‫’’سب ٹھیک ہے اّمی!۔ آپ ایسے ہی پریشان نہ ہوں۔‘‘‬
‫اور وہ لوگ اس سے بحث کرنے کے قابل نہ رہتے۔ اس روز بھی وجاہت علی لنچ بریک میں کھانا‬
‫کھانے کیلئے زبردستی ا ُسے گھر لے آئے۔ گھر آکر وہ سیدھا اپنے کمرےمیں چال گیا۔ فون کوٹ کی جیب‬
‫میں سے نکال کر بستر پہ پھینکا۔ پھر کوٹ اتار رہا تھا کہ اس کے فون پہ کال آنے لگی۔ اس نے آگے‬
‫جھک کر فون دیکھا۔ بشریٰ کی کال تھی۔‬
‫اس نے کوٹ اتار کر بیڈ پہ ایک طرف رکھا اور فون اٹھا کر کال ایکسیپٹ کی۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘‬
‫’’رجب!۔۔ تم شوال میں انٹریسٹڈ نہیں تھے؟۔۔ تم نے مجھ سے مذاق کیا تھا؟۔۔ تم نے کیوں اس‬
‫کا نمبر لیا تھا؟‘‘‬
‫بشریٰ نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ وہ بہت الجھی ہوئی اور پریشان لگ رہی تھی۔ بشریٰ کے اس‬
‫رویے نے اسے بھی گھبراہٹ اور الجھن میں ڈال دیا۔‬
‫’’کیوں؟ کیا ہوا بُشی؟‘‘‬
‫اس نے الٹا سوال کیا۔‬
‫’’رجب!۔۔ میں تو سمجھی تھی کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ اس کے گھر اپنا رشتہ‬
‫بھیجو گے۔ لیکن ا ُس کی شادی تو کسی ناصر سے ہو رہی ہے۔‘‘‬
‫بشریٰ نے پریشانی سے کہا۔‬
‫’’کیا؟‘‘ اس کے حواسوں پہ بجلی ِگری۔‬
‫بشریٰ نے پریشانی سے کہا۔‬
‫’’کیا؟‘‘ اس کے حواسوں پہ بجلی ِگری۔‬
‫’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تمہیں ِکس نے بتایا؟‘‘‬
‫’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔ عمیرہ کافی دنوں سے اپنی دوست کی شادی کی تیاریوں میں مصروف‬
‫تھی۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ دوست شوال ہوگی۔ وہ تو آج میں نے اتفاقا ً اس کی شادی‬
‫کا انویٹیشن کارڈ دیکھ لیا تو پتا چال کہ اس کی شادی کسی ناصر نام کے لڑکے سے ہو رہی ہے۔ کل رات‬
‫مہندی کی رسم تھی اور آج نکاح اور رخصتی ہے۔ عمیرہ ا ُسی کی شادی میں جانے کی تیاریاں کر رہی‬
‫ہے۔‘‘‬
‫ال ساری روداد سناکر آخر میں ا ُس کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی۔ ا ُسے‬ ‫ی نے اب تفصی ً‬‫بشر ٰ‬
‫لگا کسی نے اس کے بدن سے روح کھینچ کر الگ کر دی ہو۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی اپنے کمرے میں آئے۔ سکینہ بیگم وہیں موجود تھیں۔‬
‫’’سکینہ!۔ ماسی سے کہو کہ جلدی سے کھانا لگا دے۔ میں ہاتھ منہ دھو کر نیچے آ رہا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کہتے ہوئے واش روم میں چلے گئے۔ جبکہ سکینہ بیگم سر ہال کر کمرے سے باہر نکل‬
‫گیئیں۔‬
‫کچھ ہی پل گزرے تھے جب رجب تیزی سے چلتا کمرے میں داخل ہوا اور سیدھا جا کر املاری کے‬
‫دونوں پٹ وا کر دیئے۔ سیف میں سیکیورٹی کوڈ ڈال کر ان الک کیا اور دراز کھینچ کر اس میں سے وجاہت‬
‫علی کی گن نکال لی۔ اس کے انداز میں بہت عجلت تھی۔ جیسے اسے پاگل پن کا دورا پڑ گیا تھا۔ سانسیں‬
‫پھولی ہوئی اور ہاتھ لرز رہے تھے۔‬
‫ادھر وجاہت علی واش روم کے دروازے سے باہر آئے اور رجب کو سیف کھولے کھڑے‪ ،‬گن کی‬
‫میگزین نکال کر چیک کرتے دیکھ کر انھیں اچنبھا ہوا۔ وہ کچھ پوچھنا چاہتے تھے کہ رجب نے میگزین بھرا‬
‫ہوا پا کر واپس گن میں ڈاال اور گن اپنی کن پٹی پہ رکھ لی۔‬
‫’’رجب!۔‘‘ وجاہت علی اتنی زور سے گرجے کہ درودیوار ہل گئے۔‬
‫رجب بھی اچھل پڑا۔ ُمڑ کر وجاہت علی کو دیکھا۔ پھر فورا ً خود کو سنبھاال۔‬
‫’’آئم سوری اّبو!‘‘‬
‫اس کی لہو رنگ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گیئیں۔ گن واپس کنپٹی پہ رکھ کر گھوڑا دبایا ہی‬
‫چاہتا تھا کہ وجاہت علی نے بجلی کی سی تیزی سے اسے جا لیا۔ ایک ہاتھ سے گن اس کے ہاتھ سے‬
‫چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے وہ دوسرے ہاتھ سے اسے جکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔‬
‫’’چھوڑیئے مجھے۔ مجھے چھوڑ دیجیئے۔ میری زندگی میں وہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔‬
‫چھوڑ دیجیئے مجھے۔ مجھے مر جانے دیں۔ میرے جیتے جی وہ کسی اور کی دلہن نہیں بن سکتی؟۔۔ میری‬
‫زندگی میں اس کی شادی کسی اور سے نہیں ہو سکتی۔‘‘‬
‫وہ چال رہا تھا۔ کسی جنگلی گھوڑے کی طرح وجاہت علی کے ہاتھوں میں مچال جا رہا تھا۔‬
‫وجاہت علی کے لئے اسے قابو کرنا اختیار سے باہر ہو رہا تھا۔‬
‫’’رجب!۔ ہوش میں آؤ۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو کیا؟۔۔ کیا کر رہے ہو تم؟۔۔ بات کیا ہے؟ بتاؤ تو۔‘‘‬
‫وجاہت علی اسے قابو کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتے پوچھ رہے تھے۔‬
‫سکینہ بیگم بھی وہاں بھاگی چلی آئیں اور رجب کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر تو ان کی چیخیں‬
‫نکل گیئیں۔ پھر جلدی سے آگے بڑھ کر وہ پستول چھیننے میں وجاہت علی کی مدد کرنے لگیں۔ سکینہ بیگم‬
‫کی مداخلت سے کام آسان ہوگیا۔ پستول چھین کر سکینہ بیگم نے املاری کے اوپر پھینک دی۔‬
‫’’چھوڑ دیں مجھے۔ مجھے مر جانے دیں۔ میرے جیتے جی شوال کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔‬
‫میں اس کی شادی ہونے سے پہلے ہی مر جاؤں گا۔ شوال!۔۔۔۔ تمہاری ڈولی ا ُٹھنے سے پہلے میرا جنازہ‬
‫ا ُٹھے گا۔ شوال!۔‘‘‬
‫میں اس کی شادی ہونے سے پہلے ہی مر جاؤں گا۔ شوال!۔۔۔۔ تمہاری ڈولی ا ُٹھنے سے پہلے میرا جنازہ‬
‫ا ُٹھے گا۔ شوال!۔‘‘‬
‫چال رہا تھا۔ اور خود کو چھڑانے کے لئے بھرپور مزاحمت کر رہاتھا۔ لیکن اب‬ ‫وہ رو رہا تھا۔ ِ‬
‫ِ‬
‫وجاہت علی کے ساتھ سکینہ بیگم بھی مل گئی تھیں اور دوسری طرف وہ اپنی طاقت کھو رہا تھا۔‬
‫وجاہت علی سکینہ بیگم کی مدد سے کسی طرح اسے کھینچ کر بیڈ تک الئے اور بیڈ پہ اوندھے‬
‫منہ ڈال کر اسے زبردستی بیڈ پہ لٹائے رکھا۔ کیونکہ وہ ابھی تک مزاحمت کر رہا تھا۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ تم ایسا نہیں کر سکتی۔ مجھے گولی مار دیں اّبو!۔۔۔ مجھے مر جانے دیں۔‬
‫وہ میری زندگی میں کسی اور کی ہو جائے گی۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ‘‘‬
‫وہ اب بھی پاگلوں کی طرح چال رہا تھا۔‬
‫’’رجب! ہوش میں آؤ۔ تم سے کس نے کہا کہ وہ کسی اور کی ہونے جا رہی ہے؟‘‘‬
‫وجاہت علی کے لئے یہ ناقابِل یقین بات تھی۔‬
‫’’جس کسی نے بھی کہا ہو۔۔۔ سچ تو یہی ہے۔ آج اس کی شادی ہے۔ میں اس کی شادی ہونے‬
‫سے پہلے مر جاؤں گا۔‘‘‬
‫وہ ُبری طرح رو رہا تھا۔‬
‫’’آج؟۔۔‘‘ وجاہت علی کے لئے یہ دوسرا دھچکا تھا۔ ’’نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ایسا نہیں‬
‫ہونے دوں گا۔‘‘ وجاہت علی کے لئے بھی یہ برادشت کرنا ناممکن تھا۔‬
‫رجب پر سے اپنا دباؤ ہٹاتے ہوئے ٹھوس لہجے میں بولے۔‬
‫’’سنو رجب!۔ اگر ایسا ہے تو میرا فیصلہ بھی سن لو۔ شوال کی شادی صرف تم سے ہوگی اور‬
‫آج ہی ہوگی۔ میں ابھی اور اسی وقت اسے النے جا رہا ہوں۔‘‘‬
‫رجب بےیقینی سے انھیں دیکھے گیا۔ سکینہ بیگم‪ ،‬جو اپنے لرزتے بدن پہ قابو پانے کے لئے دونوں‬
‫ہاتھ آپس میں بھینچ کر ہونٹوں پہ جمائے رجب کو دیکھ رہی تھیں‪ ،‬وہ بھی وجاہت علی کے کلمات سن کر‬
‫ششدر رہ گیئیں۔‬
‫وجاہت علی ا ُٹھ کھڑے ہوئے اور سکینہ بیگم سے بولے۔‬
‫’’ سکینہ!۔ شادی کے تمام انتظامات تم کرو گی۔ میری واپسی تک نکاح‪ ،‬قاضی‪ ،‬سب کا‬
‫بندوبست ہونا چاہیئے۔‘‘‬
‫پھر رجب کی طرف دیکھا۔ جو ا ُٹھ کے بیٹھا حیرت سے انھیں دیکھ رہا تھا۔‬
‫’’رجب!۔ تمہاری دلہن میں لے کر ہی آؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔ تم بس دولہا بننے کی‬
‫تیاری کرو۔‘‘‬
‫کہہ کر انھوں نے اپنی پتلون کی جیب میں سے فون نکاال اور کسی کا نمبر مال کر باہر کی طرف‬
‫چلنے لگے۔‬
‫’’ہیلو۔ ابھی اور اسی وقت اسرار احمد کے گھر پہنچو۔ وہاں کی صورتحال سے مجھے فورا ً آگاہ‬
‫کرو۔‘‘‬
‫وجاہت علی فون پہ کہتے ہوئے منظر سے ہٹ گئے۔ سکینہ بیگم ان سے بہت کچھ کہنا اور پوچھنا‬
‫چاہتی تھیں مگر کچھ بھی نہ بول سکیں۔ وجاہت علی فون پہ بات کرتے منظر سے غائب ہو گئے تو انھوں‬
‫نے ششدر بیٹھے اپنے بیٹے کی طرف چہرہ گھمایا۔‬
‫رجب انھیں اپنی اور متوجہ پا کر ا ُٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫’’اّمی!‘‘‬
‫اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا پوچھے۔‬
‫سکینہ بیگم ساری فکریں اور پریشانیاں بھال کر ُمسکرا دیں۔ آگے بڑھ کر رجب کی پیشانی چوم‬
‫لی۔‬
‫’’میرے چاند!۔ تم بس دولہا بننے کی تیاری کرو۔ دیکھو ہم کیسے آج کے آج شوال کے ساتھ‬
‫تمہاری شادی کرواتے ہیں۔‘‘‬
‫’’میرے چاند!۔ تم بس دولہا بننے کی تیاری کرو۔ دیکھو ہم کیسے آج کے آج شوال کے ساتھ‬
‫تمہاری شادی کرواتے ہیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ُپر جوش ہو کر کہا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’سر! بارات ابھی نہیں پہنچی اور اسرار احمد اپنی بیٹی کے ساتھ کار میں کہیں روانہ ہو رہا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی گاڑی چال رہے تھے جب انھیں فون پہ خبر ملی۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ تم ان کا پیچھا کرو۔ اور مجھے بتاؤ کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔‘‘‬
‫’’ٹھیک ہے سر! ویسے میرے خیال سے تو وہ لوگ پارلر جا رہے ہوں گے۔ آج کے روز دلہن کو‬
‫تیار کروانے کے عالوہ اور کہاں لے کر جائیں گے۔‘‘‬
‫’’صحیح۔‘‘ وجاہت علی نے بھی اس سے اتفاِق رائے کیا۔‬
‫پھر پوچھنے لگے۔‬
‫’’اور گن مین؟ ان کا کیا بنا؟‘‘‬
‫’’ان کو بھی آرڈر دے دیا ہے سر!۔‘‘‬
‫اس آدمی نے اسرار احمد کی کار کا پیچھا کرتے ہوئے بتایا۔‬
‫’’ُگڈ۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا اور ُیو ٹرن لے کر گاڑی شہر کے مرکز کی طرف موڑ دی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫گاڑی شہر کے مشہور بیوٹی پارلر کے باہر رکی۔ اسرار احمد اور شوال گاڑی سے نکل رہے تھے‬
‫جب سڑک کے اس پار ایک کار آکر ُرکی۔ اس کار میں ڈرائیور کے عالوہ دو اور آدمی بھی تھے۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ تم اندر جاؤ۔۔۔ جب فارغ ہو تو مجھے کال کر دینا۔ میں تمہیں لینے آ جاوٴں گا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔‬
‫شوال جواب میں سر ہال کر ہاتھ میں بڑا سا بیگ پکڑےاندر چلی گئی۔‬
‫ادھر وجاہت علی کے فون پہ کال آئی۔ انھوں نے فون ہولڈر میں سے فون نکالے بنا االٴوڈ اسپیکر‬
‫پہ ڈال دیا۔‬
‫’’ہاں بولو۔‘‘ انھوں نے گاڑی چالتے ہوئے پوچھا۔‬
‫’’سر! اسرار احمد اپنی بیٹی کو پارلر چھوڑ کر خود چال گیا ہے۔‘‘‬
‫’’ٹھیک ہے۔ تم وہیں پہ رکو۔ میں بس پہنچتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کو حاالت انڈر کنٹرول پا کر کافی تسلی ہوئی۔ ان کا ذیہن کلیئر ہو چکا تھا کہ‬
‫انھوں نے اب کیا کرنا ہے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ تیار ہوکر سیدھی ریسپشن پہ آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا جس میں وہ لہنگا‬
‫ڈال کر الئی تھی اور اب یقینا ً اس میں اس کا وہ لباس تھا جو اس نے تبدیل کیا تھا۔ اس کا لباس‪ ،‬میک‬
‫اپ اور بال سب ہوچکا تھا۔ صرف زیورات کی کمی تھی جو ظاہر ہے اس نے ہوٹل پہنچ کر ہی پہننے تھے۔‬
‫’’میرا فون؟‘‘‬
‫اس نے ریسپشن پہ آکر اپنا فون طلب کیا۔‬
‫ریسپشنسٹ نے اس کا فون نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔‬
‫’’آپ کو کوئی لینے آئے ہیں۔‘‘‬
‫ریسپشنسٹ نے اس کا فون نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔‬
‫’’آپ کو کوئی لینے آئے ہیں۔‘‘‬
‫ریسپشنسٹ نے فون تھماتے ہوئے اسے مطلع کیا۔ رسپشنسٹ کی نظروں کا اشارہ پا کر اس نے‬
‫پلٹ کر دیکھا۔ وجاہت علی اس کے سر پہ آن کھڑے تھے۔‬
‫’’ارے انکل! آپ؟‘‘‬
‫اسے ا ُن انکل کو دیکھ کر حیرت تو ہوئی مگر وہ ا ُنھیں پہچان لینے پہ خوشی سے مسکرائی۔‬
‫’’اسالم علیکم!‘‘ ا ُس نے تہذیب کا تقاضہ نبھایا۔‬
‫وجاہت علی نے اسے بغور دیکھا۔ وہ سمجھ گئے کہ شوال ابھی تک انھیں نہ جان سکی تھی۔‬
‫صے میں انھوں نے اگلی منصوبہ بندی کر لی اور اسی کے تحت وہ شفقت سے‬ ‫ایک ملحے کے ہزارویں ح ّ‬
‫مسکرائے۔‬
‫’’واعلیکم السالم۔ کیسی ہو بیٹا!‘‘‬
‫’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ مجھے لینے آئے ہیں؟ پاپا نے تو کہا تھا کہ وہ مجھے لینے آئیں گے؟‘‘‬
‫اس نے جواب دینے کے ساتھ پوچھا۔‬
‫’’تمہارے پاپا کو بہت سے کام پڑ گئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘‬
‫انھوں نے روانی سے جھوٹ بوال۔ پھر رسپشنسٹ کی طرف دیکھا۔‬
‫’’کتنا ِبل ہوا؟‘‘‬
‫رسپشنسٹ نے ِبل بتایا۔‬
‫’’کارڈ پےمنٹ ہو سکتی ہے؟‘‘ انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھا۔‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫رسپشنسٹ نے کہا اور ساتھ ہی پی۔ڈی۔قیُو ا ُٹھا کر سامنے ڈیسک پہ رکھ دی۔‬
‫وجاہت علی نے َبل پے کیا۔ پھر کارڈ مشین سے نکال کر اس کی طرف ُمڑے۔‬
‫’’چلیں؟‘‘‬
‫انھوں نے پوچھا تو اس نے سر ہال دیا۔‬
‫وہ وجاہت علی کے ساتھ پارلر سے باہر آئی۔ وجاہت علی کی گاڑی دروازے کے عین سامنے کھڑی‬
‫تھی۔ وجاہت علی نے فرنٹ ڈور کھوال۔‬
‫وہ اندر بیٹھنے لگی کہ وجاہت علی اس کے ہاتھ میں بیگ دیکھ کر بولے۔‬
‫’’یہ مجھے دے دو۔‘‘‬
‫اس نے وجاہت علی کے بڑھائے ہوئے ہاتھ میں اپنا بیگ تھما دیا اور خود کار میں بیٹھ گئی۔‬
‫وجاہت علی نے بیک ڈور کھول کر بیگ پچھلی سیٹ پہ ڈال دیا۔ دروازہ بند کر کے انھوں نے سڑک کے اس‬
‫پار کھڑی گاڑی میں بیٹھے شخص کی طرف دیکھا۔ وہ ان کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ وجاہت علی نے سر‬
‫کی جنبش سے ا ُسے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پہ آ بیٹھے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’ہاں تو بچے! رزلٹ کیسا رہا؟ مجھے یقین ہے کہ تم نے اچھے نمبرز لیے ہوں گے۔‘‘‬
‫گاڑی چالتے ہوئے اس کا دھیان بٹانے کی خاطر انھوں نے اسے باتوں میں لگایا۔‬
‫’’ایک دم فرسٹ کالس۔ میں اے گریڈ میں پاس ہوئی ہوں۔‘‘ ا ُس نے خوشی سے بتایا۔‬
‫’’شاباش! مجھے تم سے یہی ا ُمید تھی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اسے سراہا۔ ساتھ ہی انھوں نے بیک ویو مرر سے اپنے پیچھے آتی گاڑی کو‬
‫دیکھا۔‬
‫اس نے دیکھا کہ وجاہت علی غلط ٹرن لے رہے ہیں۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھوال مگر‬
‫وجاہت علی چوکن ّا تھے۔ بھانپ کر فورا ً بول پڑے۔‬
‫’’بہت جلدی کر دی تمہارے باپ نے تمہاری شادی کروانے میں۔ ابھی تو اس کا ایک تم سے بڑا‬
‫وجاہت علی چوکن ّا تھے۔ بھانپ کر فورا ً بول پڑے۔‬
‫’’بہت جلدی کر دی تمہارے باپ نے تمہاری شادی کروانے میں۔ ابھی تو اس کا ایک تم سے بڑا‬
‫بیٹا بھی رہتا ہے بیاہنے کو۔‘‘‬
‫’’جی ہاں۔۔ عمران بھائی کی کچھ عرصہ پہلے منگنی ہوئی ہے۔ لیکن بھابھی کے ماں باپ ابھی‬
‫کنزہ کی شادی نہیں کروانا چاہتے۔ وہ ماسٹرز کر رہی ہے ناں۔ تو وہ چاہتے ہیں کہ پہلے تعلیم مکمل کر لے‬
‫پھر شادی کروائیں گے۔ اور میرا تو دراصل زبیدہ پھپھو نے جلدی جلدی کی رٹ لگا رکھی تھی۔ تقریبا ً ایک‬
‫سال سے وہ پاپا کے پیچھے پڑی تھیں۔ اب پاپا نے انھیں ہاں کی تو پھر وہ مزید انتظار کرنے کو تیار نہیں‬
‫تھیں۔‘‘‬
‫اس نے معصومیت اور صاف گوئی کے ساتھ وضاحت کردی۔‬
‫’’کون زبیدہ پھپھو؟۔۔۔ اسرار کی تو کسی بھی بہن کا نام زبیدہ نہیں ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی کو ’زبیدہ‘ نام سے الجھن ہوئی۔‬
‫’’ہاں۔ زبیدہ پھپھو پاپا کی کزن ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔‬
‫اسے اچنبھا ہوا کہ اس کے پاپا کا دوست ہو کر بھی انھیں یہ بات کیوں معلوم نہیں۔ یہ بات تو‬
‫انھیں اس کے پاپا سے پوچھ لینی چاہیئے تھی۔ لیکن وہ راستہ دیکھ کر یہ سوال بھول گئی۔‬
‫’’ہم کہاں جا رہے ہیں انکل!؟‘‘ ا ُس نے پوچھا۔‬
‫’’گھر۔‘‘‬
‫انھوں نے مختصرا ً جواب دیا۔‬
‫’’لیکن مجھے تو سیدھا میرج ہال پہنچنا ہے؟۔۔۔۔ ویسے بھی۔ ہمارا گھر اس طرف تو نہیں۔‘‘‬
‫اس نے اپنی الجھن بیان کی۔‬
‫’’ہمارا گھر اسی طرف ہے بیٹا!۔‘‘ وجاہت علی نے کمال اطمینان اور شفقت سے جواب دیا۔‬
‫وہ کچھ بھی نہ سمجھی۔‬
‫’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے پوچھا۔‬
‫’’مطلب یہ کہ لڑکی کا اصل گھر تو اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے ناں!۔۔۔ اور تمہارے شوہر کا‬
‫گھر اسی طرف ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اسی کمال اطمینان سے جواب دیا۔‬
‫وہ بُری طرح الجھ گئی۔ زبیدہ پھپھو کا گھر دوسرے شہر میں تھا۔ اور ِبنا شادی کے وہ وہاں‬
‫کیوں لے جائی جاتی۔ صورتحال پہ غور کیا تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔‬
‫’’کون شوہر؟‘‘‬
‫’’رجب الفرد۔‘‘ وجاہت علی نے ایسے بتایا جیسے ا ُسے سرپرائز دیا ہو۔‬
‫یہ سرپرائز نہیں اس کے لئے شاک تھا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ہتھیلیاں پسینے سے تر‬
‫ہو گیئیں۔‬
‫’’آپ۔۔۔ آپ رجب کو کیسے جانتے ہیں؟ کون ہیں آپ؟‘‘‬
‫اسے یہ سب پوچھنے کا خیال اب آیا تھا۔‬
‫’’میں رجب کا باپ ہوں۔ وجاہت علی۔‘‘‬
‫وجاہت علی کا جواب سن کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔‬
‫’’ریلیکس۔ ریلیکس بیٹا! میں تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں کر رہا۔ ہم سیدھے گھر جا رہے ہیں۔‬
‫وہاں تمہاری رجب کے ساتھ شادی کروائیں گے۔ تمہارا رجب کے ساتھ باقاعدہ نکاح ہوگا۔ فکر مت کرو بیٹا!‬
‫ہم عزت دار لوگ ہیں۔‘‘‬
‫سلی آمیز لہجے میں اسے پیار سے سمجھا رہے تھے۔‬ ‫وہ ت ّ‬
‫شادی ‪ ،‬نکاح‪ ،‬وہ بھی رجب کے ساتھ۔ ا ُس کا سر چکرانے لگا۔‬
‫’’آپ۔‘‘ گھبراہٹ کے غلبے نے اس کا سانس لینا دوبھر کر دیا تھا۔ ’’آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ‬
‫کیسے ہو سکتا ہے؟۔ میں رجب کو نہیں جانتی۔ میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ پلیز مجھے میرے گھر‬
‫’’آپ۔‘‘ گھبراہٹ کے غلبے نے اس کا سانس لینا دوبھر کر دیا تھا۔ ’’آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ‬
‫کیسے ہو سکتا ہے؟۔ میں رجب کو نہیں جانتی۔ میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ پلیز مجھے میرے گھر‬
‫لے چلیں۔ پلیز مجھ پہ رحم کریں۔ آج میری شادی ہے۔ بارات تک پہنچ چکی ہو گی۔ آپ آج کے ِدن میرے‬
‫ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ پلیز انکل!۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ میرے ساتھ یہ ظلم نہ‬
‫کریں۔‘‘‬
‫وہ رو رہی تھی۔ گڑگڑا رہی تھی۔ خوف سے اس کے بدن سے پسینہ چھوٹ رہا تھا۔‬
‫’’یہ ظلم نہیں انصاف ہے میری بیٹی!۔ تم سچائی نہیں جانتی۔ رجب تمہیں بہت چاہتا ہے۔ میں‬
‫جو بھی کر رہا ہوں‪ ،‬اس کی خواہش پر کر رہا ہوں۔ تم بھی جب اس کی محبت دیکھو گی تو خوش ہو گی‬
‫اس شادی سے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اسے منانے کی کوشش کی۔‬
‫’’میرے پاپا!۔ ان کا تو سوچئے۔ آج میری شادی ہے اور میں۔۔۔۔ جب ان کو یہ پتا چلے گا تو ان‬
‫پہ کیا گزرے گی؟۔۔۔ آپ میرے پاپا کو نہیں جانتے۔ وہ مجھے اور آپ کے بیٹے دونوں کو قتل کر دیں گے۔‬
‫پلیز انکل!۔ گاڑی موڑیے۔ اگر آج میں گھر نہ پہنچی تو بہت بڑا طوفان آ جائے گا۔‘‘‬
‫اس نے انتہائی پریشانی کے عالم میں انھیں منانے کے جنت کئے۔‬
‫’’طوفان آ چکا ہے شوال!‘‘ وجاہت علی کے لہجے میں سفاکی در آئی۔ نرم چہرہ کسی چٹان کی‬
‫مانند سخت ہو گیا۔ ’’اگر آج میں تمہیں واپس چھوڑ آیا تو میں اپنا بیٹا کھو دوں گا۔۔۔ صرف تمہارے‬
‫ضدی باپ کی وجہ سے۔ اگر وہ شرافت کے ساتھ میرا پروپوزل ایکسیپٹ کر لیتا تو آج میں یہ سب کرنے پہ‬
‫مجبور نہ ہوتا۔۔۔۔ آج جو بھی تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کا ذمہدار صرف اور صرف تمہارا باپ ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا اور پھر جیسے دھمکانے کے انداز میں بولے۔‬
‫’’ لیکن میں تمہیں یہ بات ابھی کلیئر کر دوں شوال!۔ آج تمہیں رجب سے شادی کرنا ہی‬
‫ہوگی۔۔۔۔ تم رجب کی پسند ہو‪ ،‬اس لئے ہمیں بھی اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز ہو۔ لیکن اگر آج تمہاری‬
‫شادی میرے بیٹے سے نہ ہوئی۔ تو میرا بیٹا تو جان سے جائے گا ہی‪ ،‬ساتھ ہی میں اسرار اور اس کی‬
‫بیٹی دونوں کو جان سے مار دوں گا۔ سمجھ گئی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اپنی خونخوار نظریں اس کے چہرے پہ جما کر کہا۔‬
‫وہ اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ اب مزید کچھ کہنے کی جرٴات نہ سکی۔‬
‫)اب کیا ہوگا؟۔۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مجھے بھی کبھی کوئی اغواء کرے‬
‫گا۔۔۔۔ کیا کروں میں؟ کسی کو مدد کے لئے پکاروں؟۔۔۔ پاپا کو فون کروں؟(‬
‫ا ُس نے ِدل ہی ِدل میں کوئی حل تالش کرتے ہوئے گود میں رکھے اپنے ہاتھ کو دیکھا جس میں‬
‫اس نے اپنا فون پکڑ رکھا تھا۔‬
‫)نہیں۔۔۔ ابھی تک اس آدمی کا دھیان میرے فون کی طرف نہیں گیا۔ اگر اس نے دیکھ لیا تو میرا‬
‫فون چھین لے گا۔ فرار کا واحد راستہ بھی بند ہو جائے گا۔ ابھی صبر کرو شوال! ابھی صبر کرو۔(‬
‫ا ُس نے خود سے کہا اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے بالکل ہی غیر محسوس انداز میں اپنا فون‬
‫واال ہاتھ اپنے دوپٹے کے نیچے کر لیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اس وقت سب لوگ میرج ہال میں جمع تھے۔ سب باراتیوں کو مشروبات پیش کیے جا رہے تھے۔‬
‫زبیدہ خاتون اپنی بہو دیکھنے کو بےتاب تھیں۔‬
‫’’ابھی اور کتنی دیر لگے گی ا ُسے تیار ہونے میں؟۔۔۔ حد ہو گئی اسرار! کب واپس آئے گی وہ؟‬
‫کب نکاح ہوگا؟ کب باقی کی رسمیں ہوں گی؟ ہم نے ٹائم پہ واپس بھی جانا ہے۔ ُملک کے حاالت تم جانتے‬
‫ہو۔۔ آدھی رات کو دلہن دوسرے شہر لےجانے کا رسک کیسے لیں گے ہم؟‘‘‬
‫زبیدہ خاتون کو ماڈرن دکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ فیشن کرتی تھیں۔‬
‫ہو۔۔ آدھی رات کو دلہن دوسرے شہر لےجانے کا رسک کیسے لیں گے ہم؟‘‘‬
‫زبیدہ خاتون کو ماڈرن دکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ فیشن کرتی تھیں۔‬
‫لیکن جب بولتی تھیں تو ا ُن کا پینڈو پن ا ُن کی زبان سے واضح جھلکتا تھا۔ اس وقت بھی اپنی تمام افکار‬
‫بیان کرتے ہوئے وہ اسی پینڈوپن کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔‬
‫’’آپ فکر نہ کریں آپا! اهلل کے فضل و کرم سے سب وقت پہ ہو جائے گا۔ آپ جانتی تو ہیں کہ‬
‫دلہن تیار ہونے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ میں نے اسے تاکید کر دی تھی کہ جیسے ہی فارغ ہو تو مجھے‬
‫فون کردے۔ میں اسے لینے پہنچ جاٴوں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔ ا ُس کا فون آیا ہی چاہتا ہے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے انھیں ُپروثوق لہجے میں تسلی دی۔ پھر انھیں سٹیج کی طرف لے آئے۔‬
‫’’آپ پلیز ادھر آرام سے بیٹھ جایئے۔ میں تھوڑی ہی دیر میں واپس آتا ہوں۔‘‘‬
‫انھوں نے زبیدہ خاتون کو سٹیج پہ سّجی ہوئی نشست پہ ِبٹھایا اور خود تیز قدموں سے چلتے‬
‫ہال کے داخلی دروازے پہ آ پہنچے جہاں علیزہ کسی مہمان خاتون سے خوش گپیوں میں مصروف تھی۔‬
‫’’ایکسکیوزمی!۔‘‘ انھوں نے خاتون سے معذرت کی۔‬
‫’’علیزہ! ذرا ادھر آنا۔‘‘‬
‫ا ُنھوں نے قدرے رازداری سے کہا۔ علیزہ بھی آنکھ کے اشارے سے خاتون سے معذرت کرکے‬
‫اسرار احمد کے ساتھ ایک طرف تنہائی میں چلی آئی۔‬
‫’’پلیز علیزہ! جاکر ذرا زبیدہ آپا کو باتوں میں لگاوٴ۔ شوال کے اب تک نہ آنے پہ بہت پینک ہو رہی‬
‫ہیں۔ شوال کب آئے گی؟ شوال کب آئے گی؟ کی رٹ لگا رکھی ہے انھوں نے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے بڑی کوفت کے ساتھ کہا۔‬
‫’’میں بھی آپ سے یہی پوچھنا چاہتی تھی پاپا! کافی دیر ہو چکی ہے۔ دلہن تیار ہونے میں اتنا‬
‫ٹائم تو نہیں لگتا۔‘‘‬
‫علیزہ نے بھی اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا۔‬
‫’’پتا نہیں۔۔ میں خود اسے کتنی بار کال ٹرائی کر چکا ہوں ۔ لیکن اس کا نمبر آف ہے۔‘‘ اسرار‬
‫احمد نے الچارگی سے کہا۔‬
‫’’اس نے اپنا فون آف کر کے ریسپشن پہ دے رکھا ہوگا۔ اب میک اپ کرواتے ہوئے تو وہ فون‬
‫پاس نہیں رکھ سکتی ناں!۔۔۔ پارلر کے نمبر پہ فون کر کے پتا کر لیں کہ کتنی دیر ہے۔‘‘‬
‫علیزہ نے وضاحت کے ساتھ اپنی رائے دی۔‬
‫’’پارلر کا نمبر میرے پاس تو نہیں۔ تمہارے پاس ہے؟‘‘ اسرار احمد نے جوابا ً کہا اور پوچھا۔‬
‫’’بالکل ہے پاپا! مگر میرا فون مکمل ڈیڈ ہے۔ اور چارجر میں گھر بھول آئی ہوں۔ اب نمبر کیسے‬
‫نکالوں؟‘‘ علیزہ نے پریشانی اور مایوسی سے کہا۔ پھر اس کے زیہن میں آئیڈیا آیا۔‬
‫’’ایسا کرتے ہیں۔ کامران کو پارلر بھیج دیتے ہیں۔ اگر شوال تیار ہوئی تو وہ اسے ساتھ ہی لے‬
‫آئیں گے۔‘‘‬
‫’’نہیں۔ کامران کو رہنے دو۔ میں خود چال جاتا ہوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کہا۔‬
‫تب ہی زبیدہ خاتون اپنا بھاری وجود سنبھالتی لشتم پشتم ا ُن کے پاس آ پہنچیں۔‬
‫ھل گیا ہے۔ ذرا دیکھو تو ِان حرام‬‫’’ہائے علیزہ! تمہارے پاس کچھ ِپنیں ہوں گی۔ میرا ُجوڑا ک ُ‬
‫خوروں کو‪ ،‬مجھ سے اتنے پیسے لئے انھوں نے ُجوڑا بنوانے کے اور دیکھو! ابھی ُکھل بھی گیا۔‘‘‬
‫زبیدہ خاتون نے اپنے ُکھلے ُجوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی ہیئر اسٹائلسٹ کو کوسا۔‬
‫’’ٹھیک ہے علیزہ! تم ِان کی مدد کرو۔ میں چلتا ہوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے بھی علیزہ سے کہا اور جانے کا قصد کیا۔‬
‫’’تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘ زبیدہ خاتون نے جلدی سے پوچھا۔‬
‫’’میں شوال کو النے جا رہا ہوں آپا!‘‘‬
‫اسرار احمد نے چہرہ پیچھے گھما کر انھیں جواب دیا اور واپس گھمانا چاہتے تھے کہ زبیدہ‬
‫’’میں شوال کو النے جا رہا ہوں آپا!‘‘‬
‫اسرار احمد نے چہرہ پیچھے گھما کر انھیں جواب دیا اور واپس گھمانا چاہتے تھے کہ زبیدہ‬
‫خاتون بول پڑیں۔‬
‫’’ارے۔ پھر میں بھی ساتھ ہی چلتی ہوں۔ ہم شوال کو بھی لے لیں گے اور میں اپنا ُجوڑا بھی‬
‫درست کروا لوں گی۔ چلو چلیں۔‘‘‬
‫زبیدہ خاتون کہہ کر اسرار احمد سے آگے چل پڑیں۔ اسرار احمد الچار ا ُن کے پیچھے ہو لئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’اسالم علیکم!‘‘‬
‫اسرار احمد نے رسپشن پہ آ کر کہا۔‬
‫’’واعلیکم السالم!۔‘‘‬
‫رسپشنسٹ نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ ا ُن کا ستقبال کیا۔‬
‫’’میں شوال کو لینےآیا ہوں۔ ا ُسے تیار ہونے میں اور کتنا وقت باقی ہے؟‘‘ اسرار احمد نے پوچھا۔‬
‫’’شوال۔‘‘ رسپشنسٹ چونک گئی۔ بولی۔’’وہ تو چلی گیئیں۔‘‘‬
‫اب چوکنے کی باری اسرار احمد اور زبیدہ خاتون کی تھی۔‬
‫’’کیا؟۔۔۔ ایسے کیسے چلی گئی؟۔۔۔ میں نے ا ُسے کہا تھا کہ وہ فون کر کے مجھے اطالع دے۔‬
‫میں اسے لینے آجاؤں گا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے خودکالمی کے انداز میں اپنی حیرت کا اظہار کیا۔‬
‫پھر پوچھنے لگے۔ ’’کب گئی ہے وہ؟‘‘‬
‫’’کوئی ایک گھنٹے سے ا ُوپر ہو چکا ہے۔ کوئی وجاہت علی آئے تھے انھیں لینے۔ وہ تو بتا رہے‬
‫تھے کہ آپ نے انھیں بھیجا ہے۔ اور وہ ان کے ساتھ چلی گیئیں۔‘‘‬
‫رسپشنسٹ نے تفصی ً‬
‫ال آگاہ کیا۔‬
‫’’وجاہت علی۔‘‘ اسرار احمد کو لگا کہ ا ُنھیں ہارٹ اٹیک آیا چاہتا ہے۔‬
‫’’کون وجاہت علی؟۔‘‘‬
‫زبیدہ خاتون نے جلدی سے خاصے مشکوک انداز میں استفسار کیا۔ جبکہ اسرار احمد‬
‫چال ا ُٹھے۔‬
‫رسپشنسٹ پہ ِ‬
‫’’ایسے کیسے لے گیا وہ؟ آپ نے کیوں جانے دیا؟۔ مجھےاسی وقت اطالع کیوں نہیں دی گئی؟‘‘‬
‫اسرار احمد تو جیسے رسپشنسٹ پہ حملہ آور ہو گئے۔ رسپشنسٹ بُری طرح سے ڈر گئی۔‬
‫چال رہے ہو؟ تمہاری بیٹی کوئی دودھ پیتی بچی تھی جو ا ُسے کوئی بغل میں داب‬ ‫’’اس پہ کیوں ِ‬
‫کر لے گیا اور ِاس نے روکا نہیں؟‘‘‬
‫زبیدہ خاتون نے مداخلت کرتے ہوئے اسرار احمد سے طنزیہ کہا۔ وہ سخت غصے میں تھیں۔ وہیں‬
‫پہ اسرار احمد کی کالس لیتے ہوئے پوچھنے لگیں۔‬
‫’’کون ہے یہ وجاہت علی؟ دیکھو اسرار! مجھے سچ سچ بتاؤ۔۔۔۔ تمہاری بیٹی کا اس کے ساتھ‬
‫چکر تھا؟ تمہارے رویے سے تو مجھے لگتا ہے کہ تمہیں ا ُن دونوں کے بارے میں سب پتا تھا۔ پھر بھی تم‬
‫نے اپنی ایسی اوالد ہمارے متھّے منڈنا چاہی؟‘‘‬
‫ِ‬
‫زبیدہ خاتون ُبری طرح طیش میں آ چکی تھیں۔ اسرار احمد زبیدہ خاتون کے اس ردعمل پہ پہلے‬
‫گھبرا گئے۔ پھر سنبھل کر انھوں نے عجز و انکساری اختیار کر کے کہا۔‬
‫’’ایسی کوئی بات نہیں ہے آپا!۔ پلیز مجھے تھوڑا وقت دیجیے۔ میں ابھی سارا معاملہ کلیئر کرتا‬
‫ہوں۔‘‘‬
‫پھر اپنا فون جیب سے نکال کر شوال کو کال مالئی۔ فون ابھی تک آف تھا۔ انھوں نے فون‬
‫کان سے ہٹایا۔‬
‫’’چلئے۔ ہم یہاں سے چلتے ہیں۔ ‘‘‬
‫کان سے ہٹایا۔‬
‫’’چلئے۔ ہم یہاں سے چلتے ہیں۔ ‘‘‬
‫مصلحتا ً ا ُنھوں نے زبیدہ خاتون کو وہاں سے لے چلنا مناسب سمجھا۔ زبیدہ خاتون غصے‬
‫سے الل چہرہ لئے بادلنخواسطہ ا ُن کے ساتھ باہر چلی آئیں اور گاڑی میں آ بیٹھیں۔ اسرار احمد نے گاڑی‬
‫چال دی۔ ا ُن کا چہرہ ایسا تھا جیسے کسی طوفان نے آ کر سب کچھ تباہ کر دیا ہو۔ پریشانی کے عالم‬
‫میں وہ بار بار شوال کا نمبر ِمال رہے تھے۔‬
‫’’اپنی بیٹی کو کال ِمال رہے ہو؟‘‘ زبیدہ خاتون نے قیاس کیا۔‬
‫پھر اسرار احمد کی تصدیق کا انتظار کئے بنا بڑبڑائیں۔ ’’وہ نہیں ا ُٹھانے والی۔ پتا نہیں‬
‫کہاں وہ اپنا منہ کاال کر رہی ہو گی۔ وہ ا ُٹھائے گی تمہارا فون۔‘‘‬
‫’’آپا! پلیز ایسی باتیں نہ کیجیئے۔ میری بیٹی ایسی نہیں ہے۔ ایک بار اس سے بات ہو جائے۔‬
‫ساری سچائی سامنے آ جائے گی۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے لجاجت سے کہا۔ پھر انھوں نے وجاہت علی کا نمبر ِمالیا۔‬
‫سنی۔ کار کے دروازے کے‬ ‫وجاہت علی ابھی راستے میں تھے جب انھوں نے اپنے فون کی رنگ ُ‬
‫پاکٹ میں سے انھوں نے اپنا فون نکال کر دیکھا۔ اسکرین پہ اسرار احمد کا نام دیکھ کر ا ُنھوں نے ایک‬
‫چور خاموش بیٹھی تھی۔ ا ُن کے‬ ‫چور نگاہ شوال پہ ڈالی۔ شوال دنیا و مافیہا سے بےخبر‪ ،‬صدمے میں ُ‬
‫ہونٹوں پہ شیطانی مسکراہٹ آ ٹھہری۔ فون سائیلنٹ پہ ڈال کر انھوں نے واپس پاکٹ میں رکھ دیا۔‬
‫ادھر اسرار احمد وجاہت علی کے فون نہ ا ُٹھانے پہ ُبری طرح تپ گئے۔‬
‫’’حرام خور!۔ پتا نہیں کہاں لے گیا میری بیٹی کو۔‘‘ وہ بڑبڑائے۔‬
‫زبیدہ خاتون نفی میں سر ہالتے ہوئے تمسخرانہ مسکرائیں۔‬
‫پھر میرج ہال پہنچنے تک اسرار احمد کبھی وجاہت تو کبھی شوال کا نمبر ٹرائی کرتے رہے۔‬
‫وجاہت علی فون ا ُٹھا نہیں رہے تھے اور شوال کا نمبر آف تھا۔‬
‫’’آپا پلیز! خدا کا واسطہ ہے۔ وقت کی نزاکت کو سمجھئے۔ ابھی کسی کو بھی اس بات کی‬
‫خبر نہ ہونے دیں۔ مجھے تھوڑا سا وقت دیجیے۔ میں ابھی جا کر ا ُسے لے کر آتا ہوں۔‘‘‬
‫گاڑی میرج ہال کے سامنے روک کر انھوں نے زبیدہ خاتون سے التجا کی۔ زبیدہ خاتون کچھ‬
‫سنے بغیر طیش کے عالم میں گاڑی سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگیں۔ اسرار احمد ا ُن‬ ‫ب ھ ی کہ ے ُ‬
‫کے تیور دیکھ کر ڈر گئے۔ جھٹ سے کار سے نکلے اور بھاگ کر انھیں سیڑھیوں پہ جا لیا۔‬
‫’’پلیز آپا! میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے ان ہزاروں‬
‫لوگوں کے سامنے رسوا ہونے سے بچا لیجیئے۔‘‘‬
‫وہ دبی آواز میں ا ُن کی منتیں کر رہے تھے۔ زبیدہ خاتون چٹانوں کی طرح سخت چہرہ لیے‬
‫انھیں فراموش کرتی خاموشی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر اینٹرنس کی طرف بڑھنے لگیں۔‬
‫’’ میں تھوڑی ہی دیر میں اسے ال کر آپ کے سامنے حاضر کروں گا۔ شوال آج آپ کے بیٹے‬
‫کے ساتھ ہی بیاہی جائے گی۔‘‘‬
‫اسرار احمد کا آخری جملہ زبیدہ خاتون کو آپے سے باہر کرنے کے لئے کافی تھا۔ وہ اینٹرنس‬
‫سے اندر ہال میں داخل ہو چکی تھیں۔ ُرک کر اسرار احمد پہ دھاڑیں۔‬
‫خدا کا! اپنی بیٹی کے‬ ‫’’بس کرو اسرار احمد!۔ عزت تو تم نے ہماری خراب کی ہے۔ غضب ُ‬
‫سارے کرتوت جانتے ہوئے بھی تم ا ُسے میرے بیٹے کے ساتھ بیاہنے چلے تھے؟۔۔۔ تم نے ہمیں اتنا ِگرا پڑا‬
‫سمجھ رکھا ہے کہ وہ لڑکی جو اپنی شادی کے ِدن بھی جانے ِکس کے ساتھ قریب دو گھنٹے سے اپنا منہ‬
‫کاال کر رہی ہے‪ ،‬ا ُسے میں اپنے گھر کی بہو بناؤں گی؟‘‘‬

‫چالئیں۔ مقصد صرف ہال میں موجود‬ ‫چال سکتی تھیں‪ ،‬وہ ِ‬ ‫زبیدہ خاتون جتنی اونچی آواز میں ِ‬
‫تمام مہمانوں تک اپنی آواز پہنچانا تھا‪ ،‬جو انھوں نے بخوبی پورا کیا۔ پورا ہال ا ُن دونوں کی طرف متوجہ‬
‫ھک گیا۔ ا ُن کا ِدل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔‬
‫ہو گیا۔ اسرار احمد کا سر شرم سے ج ُ‬
‫سینکڑوں لوگوں کی نگاہیں ا ُن پہ جمی تھیں۔ وہ سر ا ُٹھا کر دیکھنے کے بھی الئق نہ رہے تھے۔‬
‫ھک گیا۔ ا ُن کا ِدل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔‬ ‫ہو گیا۔ اسرار احمد کا سر شرم سے ج ُ‬
‫سینکڑوں لوگوں کی نگاہیں ا ُن پہ جمی تھیں۔ وہ سر ا ُٹھا کر دیکھنے کے بھی الئق نہ رہے تھے۔‬
‫زبیدہ خاتون نے اسرار احمد کو لعن طعن کرنے کے بعد سر اونچا کر کے پورے ہال سے خطاب‬
‫کیا۔‬
‫’’سنو تمام باراتیو! ۔۔۔ ابھی واپس چلو۔ کوئی فائدہ نہیں ہے یہاں رکنے کا۔ کیونکہ جس‬
‫لڑکی کی شادی کروانے آئے تھے وہ قریب دو گھنٹے پہلے بیوٹی پارلر سے ہی اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہو‬
‫چکی ہے۔‘‘‬
‫زبیدہ خاتون نے اپنا غصہ اپنی زبان کی گندگی کی صورت باہر نکاال اور وہیں سے ا ُلٹے‬
‫قدموں باہر کی راہ لی۔ ا ُن کے پیچھے ہی انسانوں کا ایک ریوڑ تھا جو باہر کی طرف چل پڑا۔ اسرار احمد‬
‫نے شرم سے ایک کونے میں منہ چھپا لیا۔ لوگ ان کے قریب سے گزر رہے تھے۔ بارات کے ساتھ آئے لوگ‬
‫بھی اور جنہیں انھوں نے مدعو کیا تھا وہ بھی۔ ہر کوئی اپنی اپنی ذہنیّت کے مطابق تبصرہ کر رہاتھا۔‬
‫کوئی ا ُن پہ تمسخرانہ نگاہ ڈال رہا تھا تو کوئی ان پہ ہنس رہا تھا۔ کچھ کی نگاہوں میں ترحم تھا۔ غرض‬
‫ہر کوئی اپنے انداز میں رِدعمل کا اظہار کرتا گزر رہا تھا۔ دو پل میں ہال خالی ہو گیا۔ کچھ لوگ تھے جو‬
‫پھر بھی وہاں ُرک گئے تھے۔ کچھ اپنی متجسس فطرت کے ہاتھوں مجبور آگے کا تماشہ دیکھنا چاہتے تھے‬
‫اور کچھ کو اسرار احمد سے ِدلی ہمدردی تھی۔ لیکن آگے بڑھ کر تسلی کے چند الفاظ بولنے کی کسی میں‬
‫ہمت نہ ہو رہی تھی۔‬
‫علیزہ‪ ،‬کامران‪ ،‬عمران اور علیزہ کے میکے والے۔ سب ایک ساتھ اسرار احمد کے گرد آ جمع‬
‫ہوئے۔ وہ سب بھی نہایت شرمسار تھے۔ سب ہی کی نگاہیں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔ وہ لوگ ایک‬
‫دوسرے سے بھی نظر نہیں ِمال پا رہے تھے۔ لیکن اس وقت ان سب کو اس شرمندگی سے زیادہ اسرار احمد‬
‫کی فکر ہو رہی تھی۔ جو دیوار میں منہ چھپائے بےحس و حرکت کھڑے تھے۔‬
‫’’پاپا!۔‘‘ کامران نے آگے بڑھ کر انھیں شانوں سے تھاما۔ اسرار احمد ٹوٹی شاخ کی طرح‬
‫کامران پہ آ گرے۔ کامران نے ا ُنھیں مضبوطی سے تھام لیا۔ ان کی حالت دیکھ کر ا ُن دونوں بھائیوں اور‬
‫علیزہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔‬
‫’’عمران۔ ایمبولنس بلواؤ۔ جلدی۔‘‘‬
‫کامران نے پریشان ہو کر عمران سے کہا۔‬
‫عمران نے فورا ً تابعداری سے اپنا فون جیب میں سے نکاال۔ مگر اسرار احمد کی آواز نے ا ُسے‬
‫نمبر ِمالنے سے روک دیا۔‬
‫’’نہیں۔ میں اس وقت کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے ابھی اور اسی وقت گھر لے‬
‫چلو۔‘‘‬
‫ش نظر کامران‬‫اس واقعے نے جیسے اسرار احمد کی کمر توڑ دی تھی۔ ا ُن کی حالت کے پی ِ‬
‫نے بھی ضد نہ کی اور ا ُن کے حکم پہ ا ُنھیں سہارا دے کر باہر کے طرف لے جانے لگا۔‬
‫ہال کے اینٹرنس سے لے کر گاڑی تک کا سفر ا ُن کی زندگی کا سب سے طویل اور کٹھن سفر‬
‫ثابت ہوا تھا۔ ہر انسان تو کیا۔ آس پاس کی سب عمارتیں‪ ،‬سڑک سے گزرتی گاڑیاں‪ ،‬آسمان پہ چمکتا‬
‫صے کا ایک ایک زرہ تک‬ ‫جس حصے پہ قدم رکھ کر وہ آگے بڑھ رہے تھے‪ ،‬اس ح ّ‬ ‫سورج‪ ،‬غرض زمین کے ِ‬
‫انھیں اپنا تمسخر ا ُڑاتا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کائنات کی ہر جاندار اور بےجان چیز کو ا ُن‬
‫کی اس ذلت اور رسوائی کی خبر ہے اور سب ہی ا ُن پہ ہنس رہے ہیں۔ ا ُن پہ طنز کر رہے ہیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی کے گھر کے باہر کچھ گن مین کھڑے پہرہ دے رہے تھے اور گھر کے اندر جشن کا سا‬
‫سماں تھا۔ پورا گھر سجا ہوا اور مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ وجاہت علی کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل‬
‫ہوئی۔ پورٹیکو میں گاڑی روک کر انھوں نے سیٹ بیلٹ کھوال۔‬
‫’’چلو بیٹا!‘‘‬
‫شفقت سے کہہ کر وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکلے۔‬
‫’’چلو بیٹا!‘‘‬
‫شفقت سے کہہ کر وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکلے۔‬
‫گھوم کر آ کر انھوں نے اس کی طرف کا دروازہ کھوال تو وہ مجبور اور الچار سی گاڑی سے ا ُتری۔‬
‫’’آؤ۔‘‘‬
‫وہ اس کی کالئی پکڑ کر گھر کی پچھلی طرف چل پڑے۔‬
‫گھر کے عقب کی طرف جاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے فون پہ انھوں نے ایک کال مالئی۔‬
‫’’سکینہ! فورا ً آ کر پیچھے کا دروازہ کھولو۔‘‘‬
‫انھوں نے ڈائریکٹ حکم صادر کیا۔ پھر دوسری طرف کی بات سن کر تسلی آمیز انداز میں بولے۔‬
‫’’ہاں۔ میں لے آیا ہوں۔ کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔‘‘‬
‫انھوں نے کہا اور دوسری طرف کی بات سن کر کال کاٹ دی۔ چند قدم چل کر وہ دونوں گھر کے‬
‫عقبی دروازے پہ پہنچ گئے۔ ا ُسی آن دروازہ ک ُ‬
‫ھال اور سامنے ایک خاتون کھڑی تھیں۔‬
‫’’ویلکم!‘‘ ُپرجوش استقبال کیا۔ بولیں۔’’ایک ہی دن میں ہوٹل بُک نہیں ہو سکتا تھا‪ ،‬اس لئے میں نے‬
‫گھر پہ ہی سارا انتظام کروا لیا۔‘‘‬
‫’’ویلڈن۔‘‘‬
‫وجاہت علی ا ُسے لئے اندر داخل ہوئے۔ بیگم کو سراہا پھر پوچھنے لگے۔‬
‫’’قاضی وغیرہ سب آ گئے ناں؟‘‘‬
‫’’جی ہاں۔۔۔ سب حاضر ہیں۔ کھانا بھی پک رہا ہے۔ وہ بھی ڈنر کے وقت تک تیار ہوگا۔‘‘‬
‫’’گریٹ۔ پھر دیر نہ کرو۔۔ تم اسے لے جاؤ۔ اور نکاح کی تیاری کرو۔ پہلی فرصت میں ہی نکاح‬
‫پڑھوایا جائے گا۔ ایک بار نکاح ہو جائے‪ ،‬اس کے بعد کوئی ٹینشن نہیں۔ باقی کے سارے کام بعد میں آرام‬
‫سے ہوتے رہیں گے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہتے ہوئے ا ُسے کسی بےجان چیز کی طرح آگے بڑھا کر اپنی بیگم کے حوالے کر دیا۔‬
‫’’جی بہتر۔۔۔ آپ بھی جلدی سے تیار ہو جایئے۔ آپ کیلئے نیا سوٹ منگوا کر کمرے میں رکھا ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کے کہنے پہ وجاہت علی سر ہال کر عجلت میں ایک طرف چل دیئے۔‬
‫’’آؤ میرے ساتھ۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم پیار سے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ ٹکا کر ا ُسے اپنے ساتھ لئے دوسری اور چل پڑیں۔‬
‫ان کی ہمراہی میں وہ ایک کمرے میں داخل ہوئی۔ وہاں پہلے ہی کچھ لڑکیاں موجود تھیں جو اسکے‬
‫داخل ہوتے ہی بےتابی سے لپک کر قریب آئیں۔‬
‫’’لڑکیو!۔ جلدی سے قاضی صاحب کو بال الؤ کہ آ کر نکاح پڑھوائیں۔‘‘ سکینہ بیگم نے حکم ِ عام‬
‫صادر کیا۔‬
‫’’اس حالت میں؟۔۔۔ دلہن کا میک اپ تو ٹھیک کر لیں پہلے۔۔۔ کاجل پورے چہرے پہ پھیال ُہوا ہے۔‘‘‬
‫ایک لڑکی نے انتہا درجے کی حیرت کے ساتھ نکتہ چینی کی۔‬
‫’’بعد میں ٹھیک ہوتا رہے گا۔ ابھی دلہن کا چہرہ چادر سے ڈھک دیں گے۔ نکاح کے بعد آرام سے‬
‫میک اپ وغیرہ کر لینا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے فرمان جاری کیا۔ دو لڑکیاں قاضی صاحب کو بالنے کی غرض سے کمرے سے نکل‬
‫گیئیں۔‬
‫’’تم لوگ اس کا خیال رکھو۔ میں رجب کو دیکھ کر ابھی واپس آتی ہوں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم اسے ا ُن لڑکیوں کے حوالے کر کے خود کمرے سے نکل گیئیں۔ وقت بہت ہی کم تھا اور‬
‫شاید یہ واحد موقع ا ُسے ِمال تھا۔ دو چار لڑکیوں نے ا ُسے بازوٴوں سے پکڑ کر آگے بڑھنا چاہا مگر ا ُس نے‬
‫قدم آگے نہ بڑھایا۔‬
‫’’مجھے۔۔۔۔ باتھ روم جانا ہے۔‘‘ اس نے ہمت کر کے کہا۔‬
‫’’آف کورس۔۔۔۔ ادھر آؤ۔‘‘‬
‫اس کی دائیں جانب کھڑی لڑکی نے کہا اور ا ُسے پکڑ کر اسی کمرے کی ایک دیوار میں لگے دروازے‬
‫’’آف کورس۔۔۔۔ ادھر آؤ۔‘‘‬
‫اس کی دائیں جانب کھڑی لڑکی نے کہا اور ا ُسے پکڑ کر اسی کمرے کی ایک دیوار میں لگے دروازے‬
‫تک لے آئی۔‬
‫’’یہ باتھ روم ہے۔ جاؤ۔‘‘‬
‫وہ یہ سنتے ہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی اور درازے کی چٹخنی چڑھا دی۔ ُمڑ کر چاروں‬
‫اور نگاہیں دوڑائیں۔ دوسری دیوار میں چھت سے تھوڑا سا نیچے لگے ایگزاسٹ فین کے عالوہ باتھ روم میں‬
‫اور کوئی کھڑکی‪ ،‬روشندان یا کوئی دوسرا دروازہ نہیں تھا۔ ا ُسے خاصی مایوسی ہوئی۔ مگر اس کے پاس‬
‫مایوس ہونے کیلئے بھی وقت نہیں تھا۔ وہ جلدی سے دروازے سے دور جا کھڑی ہوئی اور دوپٹہ ہٹا کر فون‬
‫سامنے کیا۔ جلدی جلدی میں اس نے اسرار احمد کو کال مالئی اور فون کان سے لگا کر ان کے کال اٹھانے‬
‫کا انتظار کرنے لگی۔‬
‫اسرار احمد اس وقت اپنے کمرے میں نیم مردہ حالت میں بستر پہ پڑے تھے۔ فون ہاتھ سے ذرا‬
‫فاصلے پہ بستر پر ڈال رکھا تھا۔ فون پہ کال آئی تو انھوں نے مرے سے انداز میں ہاتھ بڑھا کر فون ا ُٹھایا‬
‫اور سکرین پہ ا ُبھرا نام دیکھ کر بس ساکت ہو گئے۔ کچھ دیر وہ اسی پوزیشن میں ساکت رہے۔ فون کی‬
‫سکرین پہ ابھرے شوال کے نام پہ نظریں جمائے ان کے چہرے کی سرخی بڑھنے لگی۔ پھر ا ُن کا غصہ ان‬
‫کی آنکھوں سے بھی ظاہر ہونے لگا۔ غیض و غضب سے ان کا وجود لرزنے لگا اور لرزتے ہاتھوں انھوں نے‬
‫کال ایکسیپٹ کر کے فون کان سے لگایا۔‬
‫کال جیسے ہی ایکسیپٹ ہوئی۔ شوال نے اسرار احمد کے ہیلو کہنے کا بھی انتظار نہ کیا۔‬
‫’’ہیلو پاپا!۔‘‘ بے تابی سے بولی۔‬
‫آنکھیں آنسوؤں سے بھر گیئیں۔‬
‫’’اب ِکس لئے فون کیا ہے تم نے؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے بھی اسے کچھ کہنے سنانے کا موقع دیئے بنا غضبناک آواز میں سوال کیا اور اسی‬
‫غضبناکی اور سنگدلی سے بولے۔‬
‫’’آج جس گھر سے تمہاری ڈولی اٹھنی تھی۔ تم نے اس گھر سے میری عزت کا جنازہ نکال دیا۔ اب‬
‫باقی کیا رہ گیا ہے جو تم فون کر رہی ہو؟۔ آئندہ کبھی مجھے یا اس گھر کے کسی بھی فرد سے کوئی‬
‫رابطہ کرنے کی جرٴات مت کرنا۔ تم اب َمر چکی ہو ہمارے لئے۔‘‘‬
‫صہ اس پہ نکال کر کال کاٹ دی۔‬ ‫اسرار احمد نے اپنا سارا غ ّ‬
‫اسرار احمد کے الفاظ نے اس کے دل پر کاری ضرب لگائی تھی۔ آنسو آنکھوں میں ہی ُرک گئے تھے۔‬
‫فون ا ُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پہ ِگر کر ٹوٹ گیا۔ وہ شاک کی سی کیفیت میں دیوار سے پیٹھ‬
‫ِٹکائے کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال بیٹا! دروازہ کھولو۔‘‘‬
‫کچھ ہی دیر میں سکینہ بیگم کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔‬
‫کتنی ہی بار دروازے پہ دستک اور آوازیں لگنے کے بعد جاکر اس کے وجود میں جنبش ہوئی۔ پہلے وہ‬
‫پلکیں جھپکا کر سکتے سے ِنکلی۔ پھر بےجان جسم کو گھسیٹتی دروازے تک پہنچی اور دروازہ کھول دیا۔‬
‫سامنے سکینہ بیگم بہت گھبرائی اور پریشان سی حالت میں کھڑی تھیں۔ اسے صحیح سالمت سامنے پا‬
‫کر ا ُن کی جان میں جان آئی۔‬
‫’’میں تو پریشان ہو گئی تھی۔ تم ٹھیک ہو ناں!؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے فکرمندی اور محبت کے ِملے ُجلے تاثرات کے ساتھ پوچھا۔‬
‫وہ جوابا ً کچھ نہ بولی۔‬
‫’’چلو۔ قاضی صاحب منتظر ہیں۔‘‘‬
‫کہہ کر سکینہ بیگم ا ُس کا بازو پکڑ کر ایک صوفے تک لے آئیں اور ا ُسے ِبٹھا کر خود بھی اس کے‬
‫پہلو میں بیٹھ گیئیں۔ ایک لڑکی نے ا ُس کے سر پہ سفید چارد ڈال کر اس کا چہرہ ڈھک دیا۔‬
‫’’سفینہ!۔۔۔ قاضی صاحب کو بولو کہ اندر آ جائیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ایک لڑکی سے کہا۔‬
‫’’سفینہ!۔۔۔ قاضی صاحب کو بولو کہ اندر آ جائیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ایک لڑکی سے کہا۔‬
‫وہ لڑکی سر ہال کر دروازے پہ گئی اور دروازہ کھول کر قاضی صاحب کو اندر بالیا۔ قاضی صاحب‬
‫کے ساتھ وجاہت علی اور دو اور مرد حضرات بھی اندر داخل ہوئے۔ قاضی صاحب سامنے رکھی کرسی پہ‬
‫بیٹھ گئے اور نکاح پڑھوانے کا آغاز کیا۔‬
‫جب کوئی اپنا آپ کا ِدل دکھاتا ہے تو آپ اس کی سزا بھی خود کو ہی دیتے ہیں۔ اس وقت اسرار‬
‫احمد کے روّیے سے اس کا ِدل اتنا دکھا ہوا تھا کہ اس نے خود کو سزا دینے کے لئے نکاح قبول کر کے‬
‫دستخط کر دیئے۔ نکاح پڑھوانے کے بعد قاضی صاحب رجسٹر ا ُٹھا کر باقی حضرات کی ہمراہی میں کمرے‬
‫سل سرک گئی تھی۔ دونوں‬ ‫سے ِنکل گئے۔ سکینہ بیگم اور وجاہت علی کے سینے پر سے تو ایک پتھر کی ِ‬
‫ہی ا ُس کی رضامندی کی سند حاصل کرنے کے بعد بہت ہلکے پھلکے ہوگئے تھے۔‬
‫’’چلو لڑکیو۔ اب جلدی سے میک اپ کرو۔ میں زیورات لے کر آتی ہوں۔‘‘‬
‫قاضی صاحب کے جانے کے بعد سکینہ بیگم نے اگال حکم جاری کیا اور کمرے سے نکل گیئیں۔‬
‫سرے سے دلہن بنانے کے لئے ا ُس کا میک اپ صاف‬ ‫تمام لڑکیاں ا ُس کے گرد جمع ہو کر ا ُسے نئے ِ‬
‫کرنے لگیں۔‬

‫❊‬ ‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫عمران‪ ،‬کامران اور علیزہ اسرار احمد کے کمرے میں آئے۔ کامران کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ وہ‬
‫قدرے ہچکچاتے ہوئے آگے بڑھا اور اسرار احمد کے سامنے بیڈ کے کنارے بیٹھ گیا۔‬
‫’’پاپا!۔‘‘‬
‫اسرار احمد کمرے میں ا ُن لوگوں کی آمد سے باخبر تھے مگر کوئی رِدعمل ظاہر نہ کیا تھا۔ کامران‬
‫کے پکارنے پہ انھوں نے بس نگاہیں گھما کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’یہ۔۔۔ کوئی ہمارے گھر کے اندر پھینک گیا ہے۔‘‘‬
‫کامران نے ہچکچاہٹ کے ساتھ لفافہ ا ُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور بوال۔‬
‫’’ ا ُن لوگوں نے شوال کا نکاح رجب کے ساتھ کروا دیا ہے۔‘‘‬
‫جب تک کامران نے اپنی بات مکمل کی تب تک اسرار احمد نے لفافہ ہاتھ میں لے کر کھول کر دیکھ‬
‫بھی لیا۔ وہ شوال کے نکاح نامے کی فوٹو کاپی تھی۔‬
‫کامران کے خاموش ہوجانے کے بعد بھی اسرار احمد کچھ نہ بولے اور نکاح نامے کو دیکھتے رہے۔‬
‫پھر انھوں نے ا ُسی خاموشی کے ساتھ وہ کاغذ اور لفافہ اپنے ایک طرف بستر پہ ڈال دیا۔ ایسے‬
‫جیسے اس نکاح نامے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو۔‬
‫’’مجھے معلوم تھا کہ وہ ایسا ہی کریگا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ا ُجڑی ہوئی آواز میں کہا۔‬
‫’’پاپا! ہم کچھ کریں گے نہیں؟‘‘‬
‫عمران بھی آگے بڑھ آیا اور ا ُن کے بیڈ کی پائنتی آ بیٹھا۔ علیزہ بھی گھوم کر بیڈ کے دوسرے کنارے‬
‫پہ آ ٹِکی۔ وہ سب اسرار احمد اور شوال کے لئے بہت پریشان اور فکرمند تھے۔‬
‫اسرار احمد نے ا ُجڑی ہوئی آنکھوں سے عمران کو دیکھا بولے۔‬
‫’’اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟۔ یہ خبر سارے زمانے میں پھیل چکی ہے۔ اب کچھ کرنے سے کیا‬
‫حاصل؟۔۔۔اگر شوال ہی مجھے وقت پہ فون کر کے اطالع کر دیتی تو بھی میں کچھ کر لیتا۔ میں سمجھ رہا‬
‫تھا کہ وجاہت نے شوال سے ا ُس کا فون چھین لیا ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ پھر بھی ا ُس نے مجھے ٹائم پہ‬
‫کال نہیں کی۔ زبیدہ آپا نے بھی جو کیا مجھے ا ُن سے اس کی ا ُمید نہیں تھی۔‘‘‬
‫’’آپ اسطرح خالی ہاتھ میرج ہال واپس آئے ہی کیوں تھے پاپا!؟ ا ُنکو بھی اپنے ساتھ کہیں باہر‬
‫رکھتے اور ہمیں فون کر کے اطالع کر دیتے۔ ہم شوال کو ڈھونڈ التے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔‘‘‬
‫کامران نے کہا۔‬
‫رکھتے اور ہمیں فون کر کے اطالع کر دیتے۔ ہم شوال کو ڈھونڈ التے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔‘‘‬
‫کامران نے کہا۔‬
‫’’ شوال کو چھڑا کر النا کوئی منٹوں کا کھیل نہیں تھا۔ جو تم لوگ جھٹ پٹ جا کر ا ُسے چھڑوا‬
‫التے۔ اور پھر۔۔۔۔ اگر میں تم لوگوں کو بھی بال لیتا تو لوگوں کو شک ہو جاتا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔۔۔۔ ِاسی‬
‫خدشے کے تحت میں نے سوچا کہ میں اور زبیدہ آپا پہلے میرج ہال آ کر کوئی بہانہ بنا کر فنکشن ملتوی‬
‫کردیں۔ پھر میں تم دونوں کے ساتھ ا ُسے ڈھونڈ لوں گا۔ مگر زبیدہ آپا تو کچھ سننے سمجھنے کو تیار ہی‬
‫نہ ہوئیں اور لے کے سارے میں اعالن کر دیا۔ ا ُس کے بعد کرنے کو رہ ہی کیا جاتا ہے۔ میری اور میری بیٹی‬
‫کی رسوائی تو زمانے بھر میں ہو چکی ہے۔‘‘‬
‫’’مگر ہم وجاہت علی کو بھی سبق سکھائے بنا تو نہیں چھوڑ سکتے۔ ا ُسے اپنے کئے کا خمیازہ‬
‫بھگتنا ہوگا۔‘‘‬
‫کامران نے جوشیلے پن سے کہا۔‬
‫’’ وجاہت پہلے ہی ہمیں سارے میں رسوا کر کے اپنا مقصد حاصل کرچکا ہے۔ اب تم لوگ ا ُسے‬
‫پریشان کر کے اپنی بہن کے لئے مشکالت کھڑی مت کرو۔۔۔۔ یہ مت بھولو کہ اب شوال ا ُن کے گھر میں ہے۔‬
‫اگر تم لوگ وجاہت علی کو پریشان کرو گے تو اس کے بدلے وہ وہاں شوال کا جینا مشکل کر دے گا۔‘‘‬
‫’’شوال ا ُن کے گھر ہے ہی کیوں پاپا!۔۔۔ ہم شوال کو وہاں سے نکلوا الئیں گے اور کورٹ کے ذدیعے‬
‫خلع کروا لیں گے۔۔۔۔۔‬
‫ایسے نکاح کروا کے وہ لوگ ہماری بہن پہ قبضہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں بھی یہ نکاح تڑوانا آتا ہے۔‘‘‬
‫عمران نے جوشیلے پن کے ساتھ اپنی رائے دی۔‬
‫’’ٹھیک ہے خلع کروا لیں گے۔ ا ُس کے بعد کیا کرو گے اپنی بہن کا؟ کہاں رکھو گے ا ُسے؟ اب ا ُسے‬
‫کوئی بیاہنے کو تو تیار ہوگا نہیں۔ کیا ساری زندگی ماتھے پہ کلنک لئے وہ ِاسی گھر میں بیٹھی رہے‬
‫گی؟۔۔۔۔۔ یہی چاہتے ہو تم؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے اس کی رائے رّد کرتے ہوئے کہا۔‬
‫’’تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ ہم قبول کر لیں اس رشتے کو؟‘‘ عمران نے سوال کیا۔‬
‫’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ سوائے اس کے کہ اب شوال کو بھول جائیں۔‘‘ اسرار احمد نے کہا۔‬
‫’’ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں پاپا!؟ شوال ہماری بہن ہے۔ ہم کیسے ا ُسے ا ُن لوگوں کے درمیان تنہا‬
‫چھوڑ سکتے ہیں؟ ہماری بہن بےقصور ہے۔‘‘‬
‫عمران کے لئے اسرار احمد کا یہ فیصلہ ناقابِل قبول تھا۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ پھر تم صبح بےغیرتوں کی طرح مٹھائی کا ٹوکرا لے کر چلے جانا وجاہت علی کے گھر۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے طنزیہ کہا۔ پھر بولے۔‬
‫’’ حقیقت کیا ہے۔ یہ صرف ہم ہی جانتے ہیں۔ دنیا والوں کی نظر میں وہ ایک بھاگی ہوئی لڑکی ہے۔‬
‫ا ُس پہ دھبہ لگ چکا ہے۔ اب کیا ہم اس کے پیچھے جاکر دنیا والوں کو یہ دکھائیں کہ ہم بےغیرت ہیں؟۔۔۔‬
‫میری لوگوں میں اتنی عزت تھی۔ اتنا نام تھا۔ اب اتنی بڑی رسوائی کے بعد میں سوچتا ہوں کہ میں‬
‫لوگوں کا سامنا کیسے کروں گا۔ اور تم چاہتے ہو کہ ہم شوال کا پیچھا کریں؟۔۔۔ کیا جواب دوگے لوگوں کے‬
‫سوالوں کا؟ میری بیٹی‪ ،‬جو اپنی شادی کے روز کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ ایسی بیٹی کو گولی‬
‫مارنے کی بجائے میں اسکی فکر کر رہا ہوں۔ ا ُس کے پیچھے جا رہا ہوں۔۔۔۔ جب لوگ یہ باتیں کہیں گے تو‬
‫کیا جواب دوں گا میں انھیں؟۔۔۔ ایک ایک کو پکڑ کر کہوں گا کہ نہیں میری بیٹی بےقصور ہے؟۔ کون یقین‬
‫کریگا میرا؟ لوگ کیا کیا نہیں کہیں گے میرے بارے میں۔۔۔۔ میں ِکس ِکس کی زبان پکڑوں گا؟۔ سارے زمانے‬
‫چکا ہوں۔ اب ’بےغیرت‘ کا ٹھپہ بھی لگوا لوں کیا؟۔‘‘‬ ‫میں بےعزت تو ہو ہی ُ‬
‫اسرار احمد کا انداز حتمی اور ُپراثر تھا۔ انھوں نے جو بھی کہا تھا عمران اور کامران دونوں ا ُن کے‬
‫قائل ہو گئے تھے۔ علیزہ نے بھی خاموشی سے نگاہیں جھکا رکھی تھیں۔ کمرے میں ایک گہری خاموشی‬
‫چھا گئی۔ سب ہی کے چہرے پہ گہرے دکھ کے تاثرات تھے۔‬
‫چھا گئی۔ سب ہی کے چہرے پہ گہرے دکھ کے تاثرات تھے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫جب سکینہ بیگم اسے تھامے کمرے میں الئیں تب رات ہو چکی تھی۔ سکینہ بیگم نے ا ُسے لے جا کر‬
‫پھولوں سے سجی سیج پہ ِبٹھا ِدیا۔ ا ُن کے پیچھے ہی ماسی بھی پھلوں کی ٹوکری ا ُٹھائے اندر داخل‬
‫ہوئی اور ال کر بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی۔‬
‫’’اگر طلب ہو تو یہ پھل کھا لینا۔ ادھر ٹیبل پہ جوس اور پانی کا جگ بھی رکھا ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے شیریں لہجے میں ا ُس سے کہا۔‬
‫وہ بےتاثر چہرہ لئے خاموش بیٹھی رہی۔‬
‫’’اب میں جا کر رجب کو بھیجتی ہوں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا اور ا ُس کے سر پر سے دوپٹہ کھینچ کر ا ُس کے چہرے پہ گھونگٹ ڈال دیا۔‬
‫’’شب بخیر۔‘‘‬
‫محبت سے کہہ کر وہ ماسی کے پیچھے کمرے سے نکل گیئیں اور جاتے جاتے دروازہ بھی بند کر‬
‫گیئیں۔‬
‫دروازہ بند ہونے کی دیر تھی۔ ا ُس نے غصے سے دوپٹہ نوچ پھینکا۔‬
‫’’رجب۔ مائی ُفٹ۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔‬
‫اس وقت ا ُس کے دماغ میں الوا ا ُبل رہا تھا۔ شدید طیش کے عالم میں ا ُس نے بالوں سے گجرے نوچ‬
‫ڈالے اور ساری پنیں نکال کر نفاست سے بندھے بال بکھیر دیئے۔ اس کے بعد وہ اپنے تمام زیورات نوچ نوچ‬
‫کر پھینکنے لگی۔ تب ہی ا ُس کی نظر ا ُٹھ کر دیوار پہ گئی اور پلٹنا بھول گئی۔ کچھ پل کیلئے وہ ایک ٹک‬
‫دیوار پہ لگی اپنی تصاویر دیکھتی رہی۔ پھر وہ ا ُٹھی اور چند قدم چل کر دیوار کے سامنے جا کھڑی‬
‫ہوئی۔‬
‫’’یہ ساری تصویرں تو سمیرہ کی منگنی کے دن کی ہیں۔۔۔ یعنی میرا شک درست تھا۔ وہی فوٹو‬
‫گرافر ہی رجب ہے۔‘‘‬
‫سوچتے ہوئے ا ُس نے چہرہ گھمایا۔ ا ُس کی نظر وینٹی ٹیبل پہ پڑی اور اسے دوسرا دھچکا لگا۔‬
‫وینٹی ٹیبل کی سطح بھی پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ا ُس پہ کچھ خوشبودار شمعیں روشن تھیں اور ا ُن‬
‫شمعوں کے درمیان ایک خوبصورت فریم میں کسی کی تصویر تھی جس نے ا ُسے ُبری طرح چونکا دیا تھا۔‬
‫اس کمرے میں وہ اپنی تصاویر دیکھ کر اتنی حیران نہیں ہوئی تھی جتنی ِاس تصویر کو دیکھ کر۔ ا ُس نے‬
‫ہاتھ بڑھا کر تصویر ا ُٹھا لی۔ ا ُس کی آنکھوں کو کوئی دھوکا نہیں ہوا تھا۔ یہ ا ُسی لڑکے کی تصویر‬
‫تھی۔‬
‫) یہ؟۔۔۔ (‬
‫’’آپ کو یاد ہوگا۔ ہم آپ کی دوست عمیرہ کی بہن کی منگنی پہ ِملے تھے۔‘‘ ا ُس کے ذیہن میں رجب‬
‫کے الفاظ گونجے۔‬
‫) تو کیا یہ رجب ہے؟( ا ُس نے بےیقینی کے ساتھ خود سے سوال کیا۔‬
‫) میرے اهلل!۔۔۔۔ اتنا ڈیسنٹ۔ اتنے سلجھے طریقے سے پیش آنے واال لڑکا۔۔۔۔ اور اندر سے یہ‬
‫کرتوت؟۔۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بظاہر اتنی شرافت سے پیش آنے واال لڑکا اصل میں‬
‫اتنا گھٹیا ہوگا۔(‬
‫وہ یہ جان کر گہرے صدمے سے دوچار ہوئی۔ افسوس بھری نگاہوں سے ا ُس تصویر کو دیکھا اور‬
‫پھر نفرت اور غصے سے ا ُس نے وہ تصویر دور دیوار پہ دے ماری۔ تصویر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گری‬
‫اور ایک آواز کے ساتھ فریم کے ٹکڑے مختلف سمتوں میں بکھر گئے۔ وہ غصے سے چلتی واپس بیڈ کی‬
‫طرف چلی آئی۔ بیڈ کے کنارے بیٹھ کر ا ُس نے دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا۔ وہ صدمے کی کیفیت میں‬
‫جس میں ایک چاقو بھی رکھا‬ ‫بیٹھی تھی۔ نظریں سائیڈ ٹیبل پہ رکھی پھلوں کی ٹوکری پہ جمی تھیں ِ‬
‫تھا۔ اصل میں رجب کون ہے۔ یہ جان کر ا ُسے جو صدمہ پہنچا تھا۔ اب وہ صدمہ بھی غصے میں تبدیل ہو‬
‫چکا تھا۔ تب ہی ا ُسے دروازے کی ناب گھومنے کی آواز آئی۔ وہ بجلی کی سی سرعت سے ا ُٹھی اور پھلوں‬
‫تھا۔ اصل میں رجب کون ہے۔ یہ جان کر ا ُسے جو صدمہ پہنچا تھا۔ اب وہ صدمہ بھی غصے میں تبدیل ہو‬
‫چکا تھا۔ تب ہی ا ُسے دروازے کی ناب گھومنے کی آواز آئی۔ وہ بجلی کی سی سرعت سے ا ُٹھی اور پھلوں‬
‫کی ٹوکری میں سے چاقو نکال کر ہاتھ اپنے پیچھے کر لیا۔ رجب نے کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کیا۔‬
‫پھر پلٹا تو دیکھا کہ شوال بیڈ کے قریب کھڑی ہے۔ بکھرے ہوئے بال اور بنا کسی زیور اور دوپٹے کے۔ وہ‬
‫ا ُسے ایسے حلیے میں پانے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ پھر بھی اس نے زیادہ حیرت کا اظہار نہ کیا اور‬
‫آگے بڑھنے لگا۔ آگے بڑھتے ہوئے ا ُس نے بستر پہ اور شوال کے قدموں میں فرش پہ بکھرے گجرے کے پھول‬
‫اور زیورات بھی دیکھ لئے۔ ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر شوال کو دیکھا۔ شوال کے چہرے پہ چٹانوں کی سی‬
‫سختی تھی اور وہ بالکل خاموش اور ساکت کھڑی ا ُسے ہی دیکھ رہی تھی۔‬
‫’’تو۔۔۔۔ مسٹر رجب!‘‘ شوال نے سرد لہجے میں کہا۔‬
‫رجب ا ُس سے دو قدم کے فاصلے پہ تھا۔ وہیں ُرک گیا اور ُمسکرایا۔‬
‫’’شکر ہے۔ تم نے مجھے پہچانا تو۔‘‘ رجب نے کہا۔‬
‫شوال نے ا ُسے مزید کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔ تلخ لہجے میں بولی۔‬
‫’’تمہیں کیا لگتا ہے؟ نکاح نامے پہ دستخط کروا کر تم لوگ جیت گئے ہو؟‬
‫میرے باپ کو ذلیل کرنے کے لئے تم لوگوں نے میرے ساتھ یہ سب کیا ہے ناں!؟۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے؟‬
‫اب میں تمہاری ملکّیت ہوں؟ تم جو چاہو میرے ساتھ کر سکتے ہو؟۔۔۔۔‬
‫تم نے میری زندگی برباد کی ہے۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘‬
‫وہ خطرناک تیوروں کے ساتھ جیسے چنگاڑی اور اپنا چاقو واال ہاتھ بلند کیا۔ اس کی آنکھوں سے‬
‫جیسے شرارے نکل رہے تھے۔‬
‫رجب ا ُسے حملہ آوار ہوتا دیکھ کر خوفزدہ تو نہ ہوا لیکن ا ُسے رنج ضرور پہنچا تھا۔ ا ُسی رنجیدہ‬
‫آواز میں بوال۔‬
‫’’میں مانتا ہوں کہ جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا۔ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ ہماری شادی اس‬
‫طرح سے ہو۔ لیکن تم جو سمجھ رہی ہو ویسا نہیں ہے۔ حاالت ہی ایسے پیدا ہوگئے کہ ہمارے پاس اور‬
‫کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ ہمیں مجبوری میں یہ قدم ا ُٹھانا پڑا۔ ورنہ ہمارا مقصد تمہارے پاپا کو ذلیل‬
‫کرنا ہرگز نہ تھا۔ ُمجھے آج ہی پتا چال کہ تمہاری کسی اور سے شادی ہو رہی ہے۔ میں تم سے بے پناہ‬
‫پیار کرتا ہوں شوال! کیسے تمہیں کسی اور کی ہونے دیتا؟۔‘‘‬
‫’’جھوٹ ہے یہ سب۔ بکواس کرتے ہو تم۔‘‘‬
‫شوال نے غصے اور نفرت سے کہا۔‬
‫رجب کا ِدل کٹ کر رہ گیا۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو تم جو سزا مجھے دینا چاہتی ہو دے لو۔ لےلو میری جان۔‘‘‬
‫رجب نے شکستہ لہجے میں کہہ کر سینے پہ ہاتھ باندھ لئے۔ گویا مرنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔‬
‫شوال فضا میں ہاتھ بلند کئے ا ُسے گھورتی رہی۔ خواہش تو بہت تھی کہ ابھی ہاتھ میں پکڑا چاقو‬
‫رجب کے سینے میں پیوست کر دے۔ لیکن جب بات عمل کی آتی تھی تو ا ُس کی ساری ہمت جواب دے جاتی‬
‫تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے ارادے پہ عمل کر سکے۔ مگر کسی کو قتل کرنا کیا اتنا آسان ہوتا‬
‫ہے؟ وہ بھی ا ُس لڑکی کے لئے جس نے زندگی میں کبھی کسی کو ُدکھ پہنچانے کا سوچا بھی نہ ہو۔‬
‫ا ُس نے ہمت جٹانے کے لئے دوسرا ہاتھ بھی چاقو پہ رکھ لیا۔ مگر الکھ کوشش کے باوجود وہ رجب پہ‬
‫وار نہ کر سکی۔ صورتحال ایسی تھی کہ وہ ہار بھی تسلیم نہیں کر سکتی تھی۔ اس وقت اگر وہ ہار مان‬
‫لیتی تو ِاس کا مطلب تھا کہ اس نے یہ رشتہ بھی مان لیا ہے اور آج جو کچھ ا ُس کے اور اس کے خاندان‬
‫کے ساتھ ِان لوگوں نے ِکیا تھا۔ ا ُس سب کے آگے بھی سر تسلیم ِ خم کرنے والی بات ہو جاتی۔ جو کہ ا ُسے‬
‫کسی صورت بھی منظور نہ تھا۔‬
‫ا ُسے اور کچھ نہ سوجھا تو فرسٹریشن میں ا ُس نے اپنی ہی جان لینے کے لئے خود پہ وار کر دیا۔‬
‫رجب یہ دیکھ کر بروقت حرکت میں آیا اور چاقو کی نوک ابھی ا ُس کے پیٹ سے قریب ایک سینٹی میٹر کے‬
‫فاصلے پہ تھی جب ا ُس نے شوال کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے روک لیا۔‬
‫’’یہ تم کیا کر رہی ہو؟ پاگل ہو گئی ہو کیا؟‘‘‬
‫فاصلے پہ تھی جب ا ُس نے شوال کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے روک لیا۔‬
‫’’یہ تم کیا کر رہی ہو؟ پاگل ہو گئی ہو کیا؟‘‘‬
‫شوال کے خطرناک ارادے بھانپ کر رجب نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کا چاقو واال ہاتھ مروڑ کر اس‬
‫کی پیٹھ سے لگا لیا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے ا ُسے جکڑنے کے بعد ا ُس کے ہاتھ سے چاقو چھڑانے کی‬
‫کوشش کرنے لگا۔‬
‫’’چھوڑو مجھے۔ چھوڑو میرا ہاتھ۔‘‘‬
‫شوال زخمی شیرنی کی طرح بپھری ہوئی خود کو چھڑانے کے لئے مزاحمت کر رہی تھی۔‬
‫رجب اپنا ایک بازو اس کے گرد ڈال کر ا ُس کی پیٹھ خود سے لگائے ا ُسے جکڑے کھڑا تھا اور اپنے‬
‫دوسرے ہاتھ سے ا ُس کے ہاتھ سے چاقو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔‬
‫اپنی پوری کوشش اور مزاحمت کے باوجود شوال نے جانا کہ اس کے گرد رجب کی گرفت بہت‬
‫مضبوط ہے اور وہ چاقو چھڑوانے میں بھی کامیاب ہوجائے گا۔ چاقو ا ُس کی پیٹھ پیچھے تھا اور وہ واضح‬
‫طور پر محسوس کر رہی تھی کہ ا ُس کا ہاتھ اور چاقو رجب کے بدن سے رگڑ کھا رہا ہے۔ چاقو اپنے ہاتھ‬
‫سے نکلتا پا کر فرسٹریشن میں اس نے وہیں پہ رجب کے پہلو میں ہی چاقو پھیر دیا۔‬
‫’’آہ۔‘‘‬
‫ایک کراہ کے ساتھ رجب نے ا ُسے فورا ً چھوڑ دیا۔‬
‫وہ ایک جھٹکے سے چھوٹی۔ ُمڑ کر دیکھا تو رجب کو پہلو پہ ہاتھ رکھے تکلیف کے ساتھ جھکتے‬
‫پایا۔ درد برداشت کرنے کی کوشش میں لب بھینچے وہ دھیرے دھیرے فرش پہ بیٹھتا چال گیا۔‬
‫وہ بےیقینی سے پھٹی آنکھوں کے ساتھ ا ُسے دیکھ رہی تھی۔ ا ُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ا ُس نے‬
‫رجب کو چاقو مار دیا ہے۔ اور اس کا مارا ہوا چاقو رجب کو لگا ہے‪ِ ،‬اس خوف سے ا ُس کا چہرہ سفید پڑ‬
‫گیا تھا۔ ِاس بات کا یقین ہونے کے باوجود کہ اس کا مارا ہوا چاقو رجب کو لگا ہے۔ پھر بھی ِدل میں‬
‫احمقانہ سی خواہش تھی کہ رجب کو کوئی چوٹ نہ پہنچی ہو۔ ِدل میں یہ خواہش بھی لئے وہ متجسس‬
‫سی رجب کو دیکھے جا رہی تھی۔‬
‫رجب نے فرش پہ دوزانو بیٹھ کر اپنا ہاتھ پہلو سے ہٹا کر سامنے کیا۔ ا ُس کا ہاتھ خون سے لت پت‬
‫تھا۔‬
‫یہ دیکھ کر شوال کے ہاتھ سے چاقو گِر گیا اور بے اختیار حلق سے چیخ بلند ہوئی۔ پھر خوفزدہ ہوکر‬
‫اپنے دونوں ہاتھ منہ پہ جما لئے۔‬
‫رجب نے بیٹھے بیٹھے ہی سر ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا اور ا ُس کی حالت دیکھ کر درد میں بھی ُمسکرا‬
‫دیا۔ پھر ایک خیال کے تحت ا ُس نے اپنا ہاتھ واپس پہلو پہ جما کر اپنا دوسرا ہاتھ بڑھا کر شوال کے‬
‫قدموں میں سے وہ چاقو ا ُٹھایا اور کسی طرح سے ا ُٹھ کر واش روم میں چال گیا۔‬
‫ا ُسی آن دروازے پہ دستک ہونے لگی۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ رجب!۔۔۔۔۔ شوال!۔‘‘‬
‫دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے وجاہت علی اور سکینہ بیگم ان دونوں کو آوازیں دے رہے تھے۔‬
‫وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔‬
‫’’رجب!۔۔ دروازہ کھولو۔ شوال!۔‘‘‬
‫وہ لوگ بنا دروازہ کھلوائے جانے والے نہ تھے۔‬
‫بہت دیر تک سکتے کے عالم میں دروازہ گھورتے رہنے کے بعد ا ُس نے ہمت کر کے بستر پہ پھینکا‬
‫دوپٹہ ا ُٹھا کر گلے میں ڈاال اور جا کر دروازہ کھول دیا۔‬
‫دروازہ کھلتے ہی وجاہت علی اور سکینہ بیگم تو جیسے کمرے کے اندر ا ُمڈ آئے۔ پریشانی کے عالم‬
‫میں کمرے میں چہار سو متالشی نظریں گھمائیں۔‬
‫’’کیا ہوا؟ تم چیخی کیوں؟۔۔۔ رجب کہاں ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ازحد فکرمندی سے پوچھا۔‬
‫وہ ابھی تک سہمی ہوئی تھی۔ سکینہ بیگم کے سوال پر واش روم کی طرف فقط اشارہ ہی کر سکی۔‬
‫وجاہت علی اشارہ پاتے ہی واش روم کے دروازے کی طرف لپکے اور دستک کیا دی گویا دروازہ پیٹ‬
‫وہ ابھی تک سہمی ہوئی تھی۔ سکینہ بیگم کے سوال پر واش روم کی طرف فقط اشارہ ہی کر سکی۔‬
‫وجاہت علی اشارہ پاتے ہی واش روم کے دروازے کی طرف لپکے اور دستک کیا دی گویا دروازہ پیٹ‬
‫ہی ڈاال۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫انھوں نے پریشانی سے آواز دی۔‬
‫’’جی اّبو!‘‘‬
‫اندر سے رجب کی ُپر سکون آواز آئی۔‬
‫’’کیا کر رہے ہو؟ باہر آؤ۔‘‘‬
‫وجاہت علی کی پریشانی کم نہ ہوئی تھی۔ فکرمندی کے عالم میں بیٹے کو حکم دیا۔‬
‫’’ایک منٹ اّبو! چینج کر رہا ہوں۔‘‘‬
‫رجب نے جواب دیا۔‬
‫اس کی آواز بالکل نارمل اور لہجہ معمولی تھا۔‬
‫’’شوال! بتاؤ مجھے۔۔۔ تم چیخی کیوں تھی؟۔۔۔ کیا ہوا ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے فکرمندی سے شوال سے پوچھا۔‬
‫وہ خوف کے عالم میں کوئی جواب نہ دے سکی۔‬
‫’’کیا ہوا ہے شوال!؟۔۔۔ سچ سچ بتاؤ مجھے۔ ‘‘‬
‫وجاہت علی بھی ا ُس سے پوچھ گچھ کرنے کی غرض سے واپس ا ُس کے قریب چلے آئے۔‬
‫وہ ا ُنھیں بس دیکھ کر رہ گئی۔ ایسے‪ ،‬جیسے وہ بولنا بھول گئی ہو۔‬
‫’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ کچھ تو ہوا ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا۔‬
‫پھر تسلی آمیز لہجے میں بولیں۔‬
‫’’دیکھو۔ ڈرو نہیں۔ بتاؤ کیا ہوا ہے؟‘‘‬
‫’’کیا بات ہے اّمی!؟‘‘‬
‫رجب جیسے ا ُس کے لئے نجات کا فرشتہ بن کر آیا۔ واش روم سے نکل کر پوچھا۔‬
‫ا ُسکے باہر نکلتے ہی سکینہ بیگم اور وجاہت علی نے ا ُسے جا کر گھیر لیا۔ شوال نے بھی ُمڑ کر‬
‫دیکھا۔ وہ اپنے دولہا والے لباس کی بجائے کاٹن کے کرتا شلوار میں ملبوس بالکل ٹھیک ٹھاک اور خوش‬
‫دکھائی دے رہا تھا۔‬
‫’’تم تو ٹھیک ہو ناں!؟ شوال کی چیخ ہمیں اپنے کمرے تک سنائی دی تھی۔ کیا ہوا ہے؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے فکرمندی سے پوچھا۔‬
‫ا ُن کے سوال پہ رجب نے نظریں ا ُٹھا کر شوال کی سمت دیکھا اور مسکرا دیا۔‬
‫’’تم ابھی تک سہمی ہوئی ہو؟۔۔۔ اب ریلیکس ہو جاؤ۔۔۔ تمہاری تسلی کے لئے میں ا ُسے مار کر ِبن‬
‫میں پھینک چکا ہوں۔‘‘‬
‫رجب نے بے تکلفانہ لہجے میں ا ُسے تسلی دی۔‬
‫پھر وجاہت علی کی طرف چہرہ موڑا۔‬
‫’’دیوار پہ چھپکلی دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی تھی۔۔۔۔۔ لڑکیاں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔‬
‫معمولی معمولی چیزوں سے بھی ڈر جاتی ہیں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کو وجہ بتا کر ا ُس نے مزاح کے انداز میں تبصرہ کیا۔‬
‫’’ا ُف۔۔۔ تم نے تو ہمیں ڈرا ہی دیا تھا۔۔۔ ہم نے کہا۔ ’ یا اهلل خیر!۔ کیا ہوگیا؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کہتے ہوئے شوال کے قریب آئیں۔‬
‫وہ اب کافی پرسکون نظر آ رہی تھیں۔ شوال کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولیں۔‬
‫’’معاف کرنا بیٹا!۔۔۔ ہم نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کیا۔۔۔۔ اب ہم چلتے ہیں۔‘‘‬
‫شوال سے معذرت کر کے انھوں نے ُمڑ کر وجاہت علی کی اور دیکھا۔‬
‫وجاہت علی نے جواب میں چہرہ موڑ کر رجب کی جانب دیکھا۔‬
‫شوال سے معذرت کر کے انھوں نے ُمڑ کر وجاہت علی کی اور دیکھا۔‬
‫وجاہت علی نے جواب میں چہرہ موڑ کر رجب کی جانب دیکھا۔‬
‫’’اچھا صاحبزادے! شب بخیر۔‘‘‬
‫’’شب بخیر اّبو!‘‘‬
‫رجب نے انھیں جواب میں کہا۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم دروازے کی سمت چل پڑے۔‬
‫رجب غیر محسوس انداز میں سنبھل سنبھل کر قدم ا ُٹھاتا انھیں دروازے تک سی آف کرنے ان کے‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫پیچھے چلنے لگا۔‬
‫’’گڈ نائٹ اّمی!۔‘‘‬
‫دروازے سے نکلتے سمے ا ُس نے سکینہ بیگم سے کہا۔‬
‫’’گڈ نائٹ۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے بھی پیچھے ُمڑ کر دیکھے بنا جواب دیا۔‬
‫ان دونوں کے کمرے سے نکلنے کے بعد ا ُس نے دروازہ بند کر دیا اور وہیں دروازے کی ناب پہ ہاتھ‬
‫جمائے ہوئے ا ُس نے اپنا دوسرا ہاتھ دکھتے پہلو پہ رکھا اور اپنا نچال ہونٹ دانتوں تلے دبا کر درد کی شدت‬
‫برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگا۔‬
‫ِ‬ ‫ُ‬
‫وہ اب بھی خاموش اور ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ دل میں خوف اب بھی کچھ کچھ باقی‬
‫تھا۔ ا ُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے ا ُس نے کسی انسان پہ قاتالنہ حملہ کیا ہے۔‬
‫چند ملحے درد برداشت کرنے کے بعد رجب نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ یہ تسلی کر کے کہ‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم اپنے کمرے میں جا چکے ہیں۔ اس نے دروازہ واپس بند کیا اور ہّمت کر کے چلتا‬
‫اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔ درد کی شدت سے اس کی آنکھیں گالبی ہو رہی تھیں اور چہرے پہ بال کی‬
‫سنجیدگی تھی۔‬
‫’’سنو شوال! اتنا تو تم سمجھتی ہو کہ آج میرے اور تمہارے خاندان کے درمیان بہت سنگین دشمنی‬
‫کی بنیاد پڑ چکی ہے۔‘‘‬
‫وہ سمجھانے کے انداز میں گویا ہوا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بوال۔‬
‫چپ نہیں بیٹھیں گے۔ وہ‬ ‫’’ تمہیں اس طرح سے ا ُٹھا کر النے کے بعد تمہارے پاپا اور بھائی پہلے ہی ُ‬
‫کب کیا کر دیں ِاس کا کچھ اندازہ نہیں۔ ایسے میں اگر تمہیں کچھ ُہوا تو تمہارے پاپا کو قاتل بننے میں‬
‫دیر نہیں لگے گی۔ اور اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوگا۔ کیا تم چاہو گی کہ تمہارے پاپا قاتل بنیں؟۔‬
‫دوسری طرف میں ہوں۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اوالد۔ ا ُن کی زندگی کا مّحور۔ ا ُن کی ُکل کائنات۔‬
‫اگر تمہارے ہاتھوں یا تمہارے پاپا کے ہاتھوں مجھے کوئی نقصان پہنچا تو جان لو کہ میرے اّبو بھی‬
‫تمہارے گھر کا کوئی فرد زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ کبھی ایسا وقت ہماری زندگی میں‬
‫آئے۔ یقینا ً تم بھی نہیں چاہو گی۔۔۔ پہلے ہی دونوں خاندان تباہی کے دہانے پہ کھڑے ہیں۔ ِاس لئے میری تم‬
‫سے التجا ہے کہ تم خود سے کوئی بےوقوفی کر کے حاالت کو اور سنگین مت بناؤ۔ جو ہو چکا ہے سو ہو‬
‫چکا ہے۔ اسے بدال نہیں جا سکتا۔ تم مجھے ایکسیپٹ نہیں کرنا چاہتی تو نہ کرو۔ میں بھی تب تک تمہارے‬
‫ص نّیت کا اعتراف نہیں کرو گی۔ یہ‬ ‫نزدیک نہیں آؤں گا جب تک تم خود میری محبت کی سچائی اور خلو ِ‬
‫میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔۔۔ بدلے میں صرف اتنی فیور چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہے ِاسے‬
‫ہمارے درمیان ہی رہنے دو۔ کیونکہ اگر یہ بات ِاس کمرے سے باہر نکلی‪ ،‬تو پھر میں نہیں جانتا کہ ِاس کا‬
‫انجام کیا ہوگا۔‘‘‬
‫رجب اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوا تو بھی وہ کچھ نہ بول سکی۔ ا ُسے لگ رہا تھا کہ رجب جو‬
‫بھی کہہ رہا تھا وہ صحیح ہے۔‬
‫پل دو پل دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی۔ پھر رجب نے کہا۔‬
‫’’اب تم جا کر کپڑے بدلو اور بےفکر ہو کر بستر پہ سو جاؤ۔ مجھے نیند آئے گی تو کاؤچ پہ ہی سو‬
‫جاؤں گا۔‘‘‬
‫رجب کہہ کر اپنا وجود گھسیٹتا کاؤچ تک گیا اور کاؤچ پہ نیم دراز ہو کر بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔‬
‫جاؤں گا۔‘‘‬
‫رجب کہہ کر اپنا وجود گھسیٹتا کاؤچ تک گیا اور کاؤچ پہ نیم دراز ہو کر بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔‬
‫بظاہر تو وہ سونا چاہتا تھا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ آج کی رات نیند ا ُس کی آنکھوں میں آنے کی نہیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ چاروں ہال میں بیٹھے تھے۔‬


‫’’کیوں صاحبزادے! ہنی مون کے لئے کہاں جانا چاہتے ہو؟‘‘‬
‫گفتگو کے دوران اچانک وجاہت علی نے رجب سے استفسار کیا۔‬
‫’’ہنی مون؟‘‘ رجب کی نظر ِبال ارادہ شوال پہ گئی۔‬
‫شوال التعلق سی اور خاموش بیٹھی تھی۔‬
‫’’ہاں بھئی! اب تمہاری اپنی من پسند لڑکی کے ساتھ شادی ہو گئی ہے۔ ہنی مون پر نہیں لے جانا‬
‫چاہو گے؟‘‘‬
‫وجاہت علی کے انداز میں قابِل دید سرشاری تھی۔ پھر انھوں نے شوال کی طرف ُرخ کیا۔‬
‫’’کیوں شوال! کہاں جانا چاہتی ہو؟‘‘‬
‫’’جی؟‘‘ شوال نے چونک کر وجاہت علی کی طرف دیکھا۔ نفی میں سر ہال کر بولی۔‬
‫’’مجھے نہیں معلوم۔‘‘‬
‫’’ججھکو مت۔ کوئی پسند کی جگہ ہے تو بتا دو۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے شائستگی کے ساتھ پوچھا۔‬
‫رجب ا ُسے بغور دیکھ رہا تھا۔ اس کی مشکل بھانپ کر مداخلت کرتے ہوئے بوال۔‬
‫’’میرا خیال ہے اّمی! کہ پہلے ہم آپس میں ڈسکس کر لیں۔ پھر ڈیسائیڈ کریں گے کہ کہاں جانا ہے۔‘‘‬
‫’’چلو۔۔ جیسے تم لوگوں کی مرضی۔‘‘ وجاہت علی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کیا۔‬
‫شوال نے اپنی بے تاثر نگاہیں ا ُٹھا کر وجاہت علی کو دیکھا اور خاموشی سے نگاہیں واپس جھکا‬
‫لیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’ارے۔ تم کہاں چل دیئے؟‘‘‬


‫ُ‬
‫وجاہت علی آفس کے لئے نکل رہے تھے۔ اسے بھی بالکل تیار لیپ ٹاپ بیگ لئے پورٹیکو میں آتے دیکھ‬
‫کر چونک گئے۔‬
‫’’کام پہ۔ اور کہاں؟‘‘‬
‫اس نے معمول کے انداز میں جواب دیا۔‬
‫’’ابھی دو ِدن پہلے تمہاری شادی ہوئی ہے۔ ابھی چھٹی مارو کام سے۔ اور ہنی مون کا کیا بنا؟‬
‫ابھی تک ڈیسائیڈ نہیں کیا تم لوگوں نے؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے ا ُس سے کہا اور پوچھا۔‬

‫رجب فورا ً کچھ نہ بوال۔ وجاہت علی کے سوال نے اسے رات واال واقعہ یاد ِدال دیا تھا۔‬
‫وہ اپنے کمرے میں کاٴوچ پہ بیٹھا تھا جب بستر پہ بیٹھی شوال نے ا ُسے مخاطب کیا۔‬
‫’’سنو! اپنے ماں باپ کو صاف صاف منع کر دو۔ مجھے تمہارے ساتھ کہیں جانے کا کوئی شوق‬
‫نہیں ہے۔‘‘‬
‫شوال کے سرد اور بے مّروت الفاظ نے ا ُس کا چہرہ تاریک کر دیا تھا۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ جیسے تمہاری مرضی۔‘‘‬
‫اس نے کہہ کر ہاتھ میں لئے آئی پیڈ پہ نگاہیں جما دی تھیں۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ جیسے تمہاری مرضی۔‘‘‬
‫اس نے کہہ کر ہاتھ میں لئے آئی پیڈ پہ نگاہیں جما دی تھیں۔‬
‫شوال کا یہ سرد اور بے اعتناہ رویہ ا ُسے بہت چوٹ پہنچاتا تھا۔ اس کے ِدل کو بھی اور ا ُس کی انا‬
‫کو بھی۔‬
‫وہ گہرا سانس بھر کر خیالوں کی دنیا سے باہر آیا۔‬
‫’’ا ُس نے منع کر دیا ہے ابّو! کہتی ہے کہ ا ُس کا کہیں بھی جانے کا موڈ نہیں ہے۔‘‘ ا ُس نے باپ کے‬
‫چہرے پہ نگاہیں جما کرکہا۔‬
‫پھر مزید بوال۔‬
‫’’میرے خیال سے یہی بہتر رہے گا۔ ابھی وہ شاک میں ہے۔ اور ہمارے بارے میں بھی کچھ نہیں‬
‫جانتی۔ اچھا ہے کہ وہ ابھی ہم سب کے درمیان رہے۔ تاکہ وہ ہمیں جان لے۔ پہلے ہمارے درمیان ایڈجسٹ‬
‫کر لے۔ پھر ہم گھومنے کا پروگرام بھی بنا لیں گے۔‘‘‬
‫اس نے اپنے باپ کو وضاحت دے کر قائل کرنے کی کوشش کی۔‬
‫’’واہ صاحبزادے! تم تو شادی کر کے راتوں رات ہی سمجھدار ہو گئے ہو۔‘‘‬
‫وجاہت علی کو اس کی دور اندیشی سے خوشی ہوئی۔‬
‫وہ جھینپ کر مسکرا دیا۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ اور دوسری سمجھداری کی بات یہ ہے کہ جب ہم کہیں نہیں جا رہے تو پھر گھر میں رہنے‬
‫سے کیا حاصل؟۔ کام پہ جاٴوں گا تو بیوی پہ امپریشن اچھا پڑے گا۔‘‘‬
‫ا ُس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔‬
‫’’ٹھیک ہے بھئی۔ چلے چلو۔ لیکن محتاط رہنا۔ اسرار اور اس کے بیٹوں کا کچھ پتا نہیں۔ تمہیں کوئی‬
‫نقصان نہ پہنچا دیں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ساتھ ہی اپنا خدشہ ظاہر کیا۔‬
‫’’فکر نہ کریں ابّو! میں محتاط ہوں۔‘‘‬
‫ا ُس نے کہا۔ پھر گھوم کر وجاہت علی کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وجاہت علی بھی اپنی طرف کا دروازہ‬
‫کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے ان کے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کیا اور آ کر ڈرائیونگ سیٹ‬
‫سنبھال لی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫شام کے وقت وہ دونوں باپ بیٹا ایک ساتھ کام سے واپس گھر لوٹے۔ وجاہت علی نیچے ہال میں ہی بیٹھ‬
‫گئے۔ جبکہ رجب سیدھا اپنے کمرے میں چال گیا۔‬
‫کمرہ خالی تھا۔ ا ُس نے زیادہ تجسس نہ کیا اور واش روم میں جا کر منہ ہاتھ دھوئے۔ پھر کپڑے بدل‬
‫کر نیچے ہال میں چال آیا۔ سکینہ بیگم اور وجاہت علی ہال میں ہی براجمان آپس میں معمول کی بات چیت‬
‫کر رہے تھے۔‬
‫’’اسالم علیکم اّمی!‘‘‬
‫وہ سیڑھیوں سے اتر کر ا ُن کی طرف بڑھا۔‬
‫’’واعلیکم السالم۔ چائے بنواؤں تمہارے لئے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اس کے سالم کا جواب دے کر پوچھا۔‬
‫’’نہیں شکریہ۔ ‘‘ اس نے سہولت سے منع کیا اور ادھر ا ُدھر متالشی نگاہ دوڑا کر پوچھا۔‬
‫’’شوال کہاں ہے؟‘‘‬
‫’’اپنے کمرے میں تھی۔ تم نے دیکھی نہیں؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے الپرواہی کے ساتھ جوابا ً کہا۔‬
‫’’نہیں۔ وہ کمرے میں نہیں ہے۔‘‘‬
‫رجب نے یوں جواب دیا جیسے ا ُن سے اگال امکان سننا چاہتا ہو۔‬
‫’’نہیں۔ وہ کمرے میں نہیں ہے۔‘‘‬
‫رجب نے یوں جواب دیا جیسے ا ُن سے اگال امکان سننا چاہتا ہو۔‬
‫’’واش روم میں ہوگی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کے اطمینان میں کوئی واضح فرق نہ آیا تھا۔‬
‫’’میں واش روم سے ہو کر آ رہا ہوں اّمی!۔ وہ نہیں ہے۔‘‘‬
‫اب رجب قدرے بے چین ہو ا ُٹھا۔‬
‫’’کیا کہہ رہے ہو؟ وہ تو سارا دن اپنے کمرے میں ہی تھی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم اب پریشان ہو ا ُٹھیں۔‬
‫وجاہت علی ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫’’تمہیں ا ُس کی خبر رکھنی چاہیئے تھی سکینہ! آخر سارا دن کیا کرتی رہی ہو؟‘‘‬
‫وجاہت علی پینک ہو کر اپنی بیگم پر برس پڑے۔‬

‫سکینہ بیگم بھی ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔‬


‫’’میں کیا خبر رکھتی وجاہت!؟ وہ سارا دن کمرے میں ہی تو بند رہتی ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اپنے دفاع میں کہا۔‬
‫’’ڈھونڈو ا ُسے۔ سارے گھر میں تالش کرو۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے جالل کے ساتھ حکم صادر کیا۔‬
‫’’میں باہر جا کر دیکھتا ہوں۔‘‘‬
‫رجب کہہ کر باہر کی طرف بھاگا۔‬
‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی ا ُسے گھر کے اندر ڈھونڈنے لگے۔‬
‫الن میں اس نے چاروں طرف چکر کاٹا۔ چوکیدار اور مالی سے پوچھا۔ سب نے ہی العلمی کا اظہار‬
‫کیا۔‬
‫وہ ُبری طرح گھبرا گیا۔ ملبے ملبے ڈگ بھرتا واپس ہال میں آ گیا۔‬
‫’’اّمی!۔ اّبو! ‘‘ اس نے پکارا۔‬
‫سکینہ بیگم فرسٹ فلور پہ سامنے آئیں اور ریلنگ پہ ہاتھ رکھ کر سوال کیا۔‬
‫’’رجب! ِملی کیا؟‘‘‬
‫وہ بھاگ کر سیڑھیاں پھالنگتا ا ُن کے پاس پہنچا۔‬
‫’’آپ کو بھی نہیں ِملی ؟‘‘ وہ رو دینے کو تھا۔‬
‫وجاہت علی بھی وہاں چلے آئے۔‬
‫’’وہ اسٹڈی میں بھی نہیں ہے۔‘‘‬
‫’’یعنی وہ گھر میں نہیں ہے۔‘‘ رجب کی تو مانو جان ہی نکل گئی۔‬
‫’’سکینہ! میں تمہاری ذمہداری پہ ا ُسے چھوڑ کر گیا تھا۔ تمہاری موجودگی میں کیسے بھاگ گئی‬
‫وہ پھر؟‘‘‬
‫وجاہت علی سکینہ بیگم پہ برس پڑے۔‬
‫’’میں کچھ نہیں جانتی۔ میں نے تو ا ُسے کمرے سے نکلتے تک نہیں دیکھا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کا وجود تھر تھر کانپنے لگا۔ خوف سے ِدل پسلیاں توڑ کر باہر آنے لگا۔‬
‫’’پھر کہاں چلی گئی وہ؟ کیسے؟۔۔۔ تمہیں ا ُس کے پل پل کی خبر ہونی چاہیئے تھی کہ نہیں؟‘‘‬
‫وجاہت علی جیسے کچھ بھی سننے کو تیار نہ تھے۔‬
‫’’ابو!۔۔۔ اّبو پلیز۔۔۔ کچھ کریں۔ ا ُسے ڈھونڈیں۔ اگر اس کے پاپا نے ا ُسے غیرت کے نام پہ قتل کر دیا‬
‫تو؟۔۔۔۔۔ اگر وہ اپنے باپ کے گھر کی بجائے کہیں اور چلی گئی تو؟۔۔۔ وہ کسی غلط آدمی کے ہاتھ لگ‬
‫گئی تو؟۔۔۔۔ کچھ کریں ابو!۔۔۔۔ ڈھونڈیں ا ُسے۔۔۔ اگر وہ نہ ِملی تو میں مر جاؤں گا ابّو!۔ میں مر جاؤں‬
‫گا۔‘‘‬
‫گئی تو؟۔۔۔۔ کچھ کریں ابو!۔۔۔۔ ڈھونڈیں ا ُسے۔۔۔ اگر وہ نہ ِملی تو میں مر جاؤں گا اّبو!۔ میں مر جاؤں‬
‫گا۔‘‘‬
‫وہ رو رو کر اپنے باپ کو جھنجوڑنے لگا۔‬
‫’’فکر نہ کرو رجب! تسلی رکھو۔ میں ابھی ا ُسے ڈھونڈ نکالوں گا۔‘‘ وجاہت علی نے تسلی آمیز انداز‬
‫میں کہہ کر فون جیب سے نکاال اور سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھا دیئے۔‬
‫’’تم بھی آؤ میرے ساتھ۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے رجب کو بھی ساتھ آنے کا کہا اور فون پہ کسی کو کال مالنے لگے۔ ابھی وہ دونوں‬
‫باپ بیٹا دو تین سیڑھیاں ہی ا ُترے تھے کہ پیچھے سے سکینہ بیگم ِ‬
‫چالئیں۔‬
‫’’وہ رہی۔‘‘‬
‫دونوں نے بیک وقت ُمڑ کر دیکھا۔ تب ہی شوال کوریڈور سے نکل کر سامنے آئی۔ رجب بجلی کی سی‬
‫تیزی سے بھاگ کر ا ُس کے پاس پہنچا۔‬
‫سب کی نظریں خود پہ جمی دیکھ کر اسے کسی غیر معمولی پن کا احساس تو ہوا لیکن اس نے‬
‫ماجرا جاننے کے لئے تجسس نہ کیا۔‬
‫’ ’ کہاں تھی تم؟ ‘ ‘‬
‫بھیگی پلکوں کے ساتھ رجب نے بےتابانہ پوچھا۔‬
‫’’میں۔۔۔۔ چھت پر گئی تھی۔‘‘‬
‫اس نے جواب دیا۔‬
‫پھر بھی سب کی نگاہیں اس پہ جمی رہیں۔ وہ وضاحت دینے لگی۔‬
‫’’شام کو پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ رہے ہوتے ہیں۔ ا ُنھیں دیکھ رہی تھی۔‘‘‬
‫ا ُس کا لہجہ بے تاثر اور بے روح تھا۔ جیسے وہ اندر سے مر چکی ہو۔‬
‫سن کر سخت غصہ آیا۔ سو وہ تڑخ ا ُٹھیں۔‬ ‫سکینہ بیگم کو یہ ُ‬
‫’’تو اس میں کونسی نئی بات تھی؟۔۔۔ روز شام کو سارے پرندے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ جاتے‬
‫ہیں۔‘‘‬
‫’’نہیں۔‘‘ ا ُس نے برجستہ نفی کی۔‬
‫بولی۔ ’’سارے پرندے نہیں لوٹتے۔ ا ُن میں سے کچھ شکار ہو جاتے ہیں۔۔۔ اور کچھ پکڑ لئے جاتے‬
‫ہیں۔۔۔۔ قید کر لئے جاتے ہیں۔‘‘‬
‫ا ُس نے ا ُسی مردہ آواز میں جواب دیا۔‬
‫سن کر سکینہ بیگم شرمندہ سی ہو گیئیں۔ وجاہت علی نے بھی غیر محسوس انداز میں‬ ‫ا ُس کا جواب ُ‬
‫اس کی طرف سے ُرخ پھیر لیا۔‬
‫کسی کوشش اور خواہش کے بغیر بھی وہ سارا ماجرا سمجھ گئی۔‬
‫’’آپ لوگوں کو لگا کہ میں بھاگ گئی ہوں؟‘‘‬
‫ا ُس کے سوال پہ سب ہی خاموشی سے ا ُسے دیکھتے رہے۔ ا ُن کی خاموشی ہی اس کے اندازے کی‬
‫تصدیق کو کافی تھی۔‬
‫وہ بولی۔‬
‫ِ‬
‫’’میں بھاگ کر کہاں جاؤں گی؟ میرے لئے کوئی ٹھکانہ بچا ہی کہاں ہے؟۔ اس چاردیواری کے پار‬
‫ُدنیا میرے لئے ختم ہو جاتی ہے۔‘‘‬
‫اس نے مایوسی کے ساتھ کہا اور خاموش قدموں اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’ماسی! ذرا جا کر شوال کو نیچے ُبال الئیں۔ ا ُس سے کہیں کہ مجھے ا ُس سے کام ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے صوفہ جھاڑتی نوکری سے کہا۔‬
‫’’جی اچھا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے صوفہ جھاڑتی نوکری سے کہا۔‬
‫’’جی اچھا۔‘‘‬
‫نوکرانی تابعداری سے کہہ کر کپڑا ہاتھ میں لئے اوپر چلی گئی۔‬
‫ُ‬
‫تھوڑی ہی دیر بعد انھوں نے نوکرانی کے پیچھے شوال کو سیڑھیاں اترتے دیکھا۔ وہ اب بھی بہت‬
‫خاموش اور مرجھائی ہوئی ِدکھ رہی تھی۔ سکینہ بیگم کی نظریں ا ُس پہ جم سی گیئیں۔ ذیہن دور کہیں‬
‫ماضی کی وادیوں میں کھو گیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫سکینہ اور گھر کی کچھ لڑکیاں صحن میں تخت پہ بیٹھیں اّماں کو دالیں صاف کرنے میں مدد دے‬
‫رہی تھیں۔ سکینہ ایک شوخ اور چنچل لڑکی تھی۔ ا ُسے اونچا بولنے کی بہت عادت تھی۔ جب بھی بولتی‬
‫صہ لیتے ہوئے اعالنیہ بولی۔‬‫تھی ایسے لگتا تھا جیسے اعالن کر رہی ہے۔ ِاس وقت بھی گفتگو میں ح ّ‬
‫’’مجھے ِاسالمی مہینوں کے نام بہت پسند ہیں۔ دیکھنا! جب میری بیٹی پیدا ہوگی ناں۔ تو میں ا ُس‬
‫کا نام شوال رکھوں گی۔‘‘‬
‫سامنے بیٹھی اّماں نے اس کے پیچھے کسی کو دیکھا اور اس کی پیٹھ میں دھموکا جڑ دیا۔‬
‫سنی ہے ا ُس نے‬ ‫’’بنا دیکھے بکواس کرتی رہتی ہو کم بخت! ابھی اسرار یہاں سے ُگزر کر گیا ہے۔ ُ‬
‫تمہاری بکواس۔۔۔ کیا سوچے گا کہ ہماری کنواری لڑکی کو بچے پیدا کرنے کا کتنا شوق چرایا ہے!؟‘‘‬
‫سنا ڈالیں۔‬
‫اماں نے اسے سخت سست ُ‬
‫’’اماں! آپ بھی ناں۔‘‘‬
‫سکینہ کمان کی طرح پیٹھ کو خم دے کر ہاتھ سے متاثرہ حصے کو َمل رہی تھی۔ تکلیف سے ُبرا سا‬
‫منہ بنا کر ماں سے شکایتی انداز میں کہا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’آپ نے مجھے ُبالیا ہے؟‘‘‬


‫شوال کی آواز پہ وہ چونک کر ماضی کی یادوں سے باہر نکلیں۔ نظریں ا ُٹھا کر دیکھا۔ شوال ا ُن کے‬
‫سر پہ کھڑی انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھ رہی تھی۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ بیٹھو۔‘‘‬
‫انھوں نے ا ُسے اپنے مقابل بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ شوال نے خاموشی سے ان کے حکم کی تعمیل کی‬
‫اور سر جھکا کر گود میں رکھے اپنے ہاتھوں پہ نظریں جما دیں۔‬
‫’’آج دوپہر میں کیا کھاؤ گی؟ تمہارا جو ِدل چاہ رہا ہے بتا دو۔ میں ماسی سے کہہ کر بنوا دیتی‬
‫ہوں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اپنائیت کے ساتھ سوال کیا۔‬
‫’’کچھ بھی بنوا لیں۔‘‘‬
‫ا ُس نے غیر دلچسپی سے کہا۔‬
‫سکینہ بیگم پل دو پل گہری نظروں سے ا ُسے تکتی رہیں۔ پھر پوچھنے لگیں۔‬
‫’’شوال! تم مجھ سے خفا ہو؟‘‘‬
‫’’نہیں۔‘‘ شوال نے یک لفظی جواب دیا۔ ا ُس نے اپنے ہاتھوں پر سے نظریں نہ ہٹائی تھیں۔‬
‫اس کا جواب سکینہ بیگم کو مطمعین کرنے کے لئے کافی نہ تھا۔‬
‫’’کل میں نے تمہارے ساتھ سختی سے بات کی۔ اس کے لئے مجھے معاف کر دینا بیٹا!۔۔۔۔۔ دراصل‪،‬‬
‫تم ِمل نہیں رہی تھی۔ ہم سب پریشان ہو گئے تھے۔۔۔ اوپر سے وجاہت مجھے ذمہدار ٹھہرا رہے تھے تو میں‬
‫بس۔۔۔۔ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اپنے الفاظ ادھورے چھوڑ کر شوال کے جھکے سر کو بغور دیکھا۔ انھیں ایسے لگ رہا‬
‫تھا جیسے وہ تنہا بول رہی ہوں۔ شوال غائب دماغی کی سی حالت میں وہاں بیٹھی تھی۔‬
‫سکینہ بیگم نے اپنے الفاظ ادھورے چھوڑ کر شوال کے جھکے سر کو بغور دیکھا۔ انھیں ایسے لگ رہا‬
‫تھا جیسے وہ تنہا بول رہی ہوں۔ شوال غائب دماغی کی سی حالت میں وہاں بیٹھی تھی۔‬
‫’’تم کچھ کہو گی نہیں؟‘‘ انھوں نے پوچھا۔‬
‫’’اب میں جاؤں؟‘‘ یہ شوال کا جواب تھا۔‬
‫’’میرے پاس بیٹھنا نہیں چاہتی؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم شکواہ کناں ہوئیں۔‬
‫’’نہیں۔۔۔‘‘ ا ُس نے نفی کی اور بولی۔ ’’میں کچھ پیپرز پھیلے ہوئے چھوڑ آئی ہوں۔ انھیں سمیٹنا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫’’اچھا ٹھیک ہے۔ چلی جانا۔ لیکن تم سے ایک اور بات پوچھنی تھی۔‘‘‬
‫ا ُس کے جواب پہ سکینہ بیگم نے کوئی اعتراض کئے بنا کشادہ ِدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔‬
‫وہ سر جھکائے خاموش بیٹھی رہی۔ گویا ان کے آگے بولنے کی منتظر تھی۔‬
‫’’میں رجب کے نام سے ایک چیرٹی سکول چال رہی ہوں۔ کل سے پھر سے سکول جانا اسٹارٹ کر‬
‫رہی ہوں۔ کیوں نہ تم بھی ساتھ چال کرو۔ گھر میں تو بس سارا وقت اپنے کمرے میں ہی قید رہتی ہو۔‘‘‬
‫’’نہیں۔ میرا کہیں جانے کا من نہیں۔‘‘‬
‫ا ُس نے دھیمی آواز میں منع کیا۔‬
‫’’اچھا لگتا تمہیں۔۔۔ لیکن جیسے تمہاری مرضی۔ میں تمہیں فورس نہیں کروں گی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے قدرے مایوسی سے کہا۔‬
‫گفتگو ختم ہو چکی تھی۔ سو وہ ا ُٹھی اور سیڑھیاں چڑھ گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسکی اور رجب کی شادی کی خوشی میں خاندان والے ان دونوں کو دعوت پہ ُبال رہے تھے۔ ہر روز‬
‫ہی ان کی کہیں نہ کہیں دعوت ہوتی تھی۔ اس وقت بھی وہ اسی وجہ سے رجب کی پھپھو کے گھر موجود‬
‫تھی۔‬
‫کھانے کے بعد وہ سب لوگ ٹی۔وی الؤنج میں آبیٹھے۔ رجب کی پھپو خود سے ہی ا ُس سے باتیں کئے‬
‫ت ضرورت ’ہوں‪،‬‬ ‫جا رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے چپ چاپ ا ُن کی باتیں سن رہی تھی اور بوق ِ‬
‫ہاں‘ کر دیتی تھی۔‬
‫ِ‬
‫’’اتنی ا ُداس کیوں ہو بیٹا!؟ خوش رہا کرو۔ تم خوش قسمت ہو کہ تمہیں رجب جیسا شوہر مال ہے۔‬
‫اتنا نیک‪ ،‬سلجھا ہوا‪ ،‬خوش شکل اور قابل شوہر کہاں ِملتا ہے آج کل کے زمانے میں؟۔۔۔۔ تم رجب کی‬
‫دوسری پھپو اور ماسیوں کے گھر بھی دعوت پہ جا چکی ہو۔ دیکھ لیا ہو گا کہ رجب سارے خاندان میں‬
‫کتنا مقبول ہے۔ خاندان کی تقریبا ً سب ہی لڑکیوں کی خواہش ہے کہ ا ُن کی شادی کسی رجب جیسے لڑکے‬
‫ی کو دیکھو!۔۔۔۔ اب تک دس رشتوں‬ ‫کے ساتھ کی جائے۔۔۔۔ میری تو دونوں بیٹیوں کا آئیڈئل ہے رجب۔ عظم ٰ‬
‫سے انکار کر چکی ہے کہ ا ُن میں سے کوئی بھی ا ُسے ’رجب بھائی‘ جیسا نہیں لگا۔۔۔۔۔ تمہاری شادی‬
‫رجب سے ہوئی ہے اور تم ا ُداس ہو؟‘‘‬
‫ِ‬
‫رجب کی پھپو نے ا ُسے اس کی خوش قسمتی کا احساس دالتے ہوئے ساتھ ہی اپنی حیرت کا بھی‬
‫اظہار کیا۔‬
‫ی کو دیکھو۔‘ انھوں نے کہا تھا۔‬ ‫’عظم ٰ‬
‫ی رجب‬ ‫ی کو ہی دیکھ رہی تھی۔ ا ُس سے تھوڑے فاصلے پہ ایک صوفے پہ عظم ٰ‬ ‫اور وہ واقعی عظم ٰ‬
‫کے پہلو میں اس کے ساتھ بالکل ُجڑ کر بیٹھی تھی۔ اپنا بازو بھی بےتکلفی سے رجب کے کندھے پہ ِٹکا‬
‫ی نے بھی آئی پیڈ پہ نظریں جما رکھی تھیں۔‬ ‫رکھا تھا۔ رجب آئی پیڈ پہ گیم کھیل رہا تھا اور عظم ٰ‬
‫’’دیکھو۔ یہاں سے جمپ کرکے واپس لیفٹ موڑ دو۔‘‘‬
‫ی کو کھیل کر دکھا رہا تھا۔‬ ‫رجب عظم ٰ‬
‫’’اوہ اچھا۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔ میں بھی کہوں کہ یہ ہو کیوں نہیں رہا۔‘‘‬
‫ی کو کھیل کر دکھا رہا تھا۔‬
‫رجب عظم ٰ‬
‫’’اوہ اچھا۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔ میں بھی کہوں کہ یہ ہو کیوں نہیں رہا۔‘‘‬
‫ی نے ہنستے ہوئے سمجھ جانے کے انداز میں کہا۔‬ ‫عظم ٰ‬
‫’’کبھی عقل استعمال کرو تو پتا چلے ناں۔‘‘‬
‫رجب نے عظمیٰ کی ٹانگ کھینچی۔‬
‫رجب ایسے ہی اپنی تمام کزنز کے ساتھ فری تھا۔ اس نے ایسی ہی صورتحال رجب کی دوسری پھپو‬
‫اور ماسیوں کے گھر بھی مشاہدہ کی تھی۔ ہر کسی کے گھر رجب کے جوڑ کی کنواری لڑکیاں موجود‬
‫تھیں۔ اور کمال حیرت کی بات تھی کہ وہ سب لڑکیاں رجب کے ساتھ ایسے بےتکلف تھیں۔ جیسے کوئی‬
‫اپنے سگے بھائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور سب ہی لڑکیوں اور ان کے والدین کے رویے سے صاف ظاہر ہوتا‬
‫تھا کہ انھیں رجب سے خاصا لگاؤ اور محبت ہے۔ پھر کسی نے بھی اپنی بیٹی رجب کے ساتھ بیاہنے کی‬
‫خواہش کیوں نہیں کی تھی؟ کیوں خاندان میں سے کسی کو بھی رجب کی خاندان سے باہر شادی پہ‬
‫اعتراض نہیں تھا؟۔ بہت تعجب کی بات تھی۔ مگر وہ ِدل میں ا ُٹھے یہ سوال زبان پہ ال کر ا ُن لوگوں کو‬
‫اہمّیت نہیں دینا چاہتی تھی۔ ِاس لئے اب بھی وہ خاموشی اختیار کئے بیٹھی رہی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اگلے روز صبح صبح ہی سکینہ بیگم نے ا ُسے نیچے ُبلوا لیا۔‬
‫’’میں چاہتی ہوں کہ آج صبح کی چائے اور ناشتہ تم بناؤ۔‘‘‬
‫وہ کچن میں آئی تو سکینہ بیگم نے ا ُسے شانوں سے تھام کر مان کے ساتھ کہا۔‬
‫ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’فکر مت کرو۔ میں اور ماسی تمہاری پوری مدد کریں گیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اس کی نظروں کے جواب میں تسلی آمیز انداز میں کہا۔‬
‫وہ سر ہال کر ا ُن کے ہمراہ چولہے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔‬
‫چائے‪ ،‬ناشتے کی تیاری کے لئے برتن سے لے کر تمام اجزاء تک سب چیزیں ماسی اور سکینہ بیگم‬
‫ا ُٹھا ا ُٹھا کر ا ُسے پکڑاتی رہیں۔ وہ بس چیزیں لے کر مکس ہی کرتی رہی اور تیار ہونے پہ انھیں ماسی اور‬
‫سکینہ بیگم کے پیش کردہ برتنوں میں نکالتی رہی۔‬
‫’’شاباش! اب تم اوپر جاؤ۔ دیکھو‪ ،‬اگر رجب تیار ہو گیا ہے تو ا ُس سے کہو کہ نیچے آ کر ناشتہ کر‬
‫لے۔ تب تک ہم ناشتہ ٹیبل پہ لگاتے ہیں۔‘‘‬
‫سب تیار ہو چکا تو سکینہ بیگم نے ا ُس سے کہا۔ وہ حکم پا کر خاموشی سے کچن سے ِنکل گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ کمرے میں داخل ہوئی تو نظر سیدھی وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑے رجب پہ پڑی۔ وہ گیلے بال لئے‬
‫بالکل ہی ٹاپ لیس کھڑا تھا۔ ٹیبل پہ سامنے فرسٹ ایڈ باکس کھول رکھا تھا اور وہ اپنے پہلو میں اس‬
‫کے دیئے ہوئے زخم کی نئی مرہم پٹی کر رہا تھا۔ شوال کے دروازہ کھولنے پہ ا ُس نے اچانک چہرہ موڑ کر‬
‫دروازے کی سمت دیکھا۔‬
‫نگاہیں تھیں کہ تیر۔ سیدھی شوال کے ِدل کے پار ہو گیئیں۔ ِدل بہت زور سے دھڑکا۔ وہ نہیں جانتی‬
‫کہ ا ُس نے ِکس طرح اپنے اندر آئے ِاس بھونچال کو چہرے پہ عیاں ہونے سے روکا۔‬
‫’’تم کہاں چلی گئی تھی؟‘‘‬
‫اس کے ِدل کی حالت سے بے خبر رجب نے واپس چہرہ موڑ کر اپنے زخم پہ بینڈیج ٹیپ چپکاتے ہوئے‬
‫سوال کیا۔‬
‫چراتی بیڈ کی طرف بڑھنے لگی۔‬ ‫وہ رجب کے وجود سے نظریں ُ‬
‫’’ناشتہ بنا رہی تھی۔ اگر تم تیار ہو تو جا کر ناشتہ کر لو۔‘‘‬
‫جس سردمہری اور رکھائی سے وہ تنہائی میں ا ُس‬ ‫شوال نے ا ُسی سردمہری اور رکھائی سے کہا۔ ِ‬
‫’’ناشتہ بنا رہی تھی۔ اگر تم تیار ہو تو جا کر ناشتہ کر لو۔‘‘‬
‫جس سردمہری اور رکھائی سے وہ تنہائی میں ا ُس‬ ‫شوال نے ا ُسی سردمہری اور رکھائی سے کہا۔ ِ‬
‫سے بات کرتی تھی۔ تاہم رجب ا ُس کی بےاعتنائی کا زہر صبر کے ساتھ پی جاتا تھا اور ہمیشہ کوشش‬
‫کرتا تھا کہ اپنا روّیہ دوستانہ رکھے۔‬
‫’’مجھے ابھی تھوڑا ٹائم لگے گا۔‘‘‬
‫ِاس وقت بھی شوال کی بےُرخی نظرانداز کر کے ا ُس نے معمول کے سے لہجے میں جواب دیا۔‬
‫چکی تھی۔ رجب جواب دے کر بیڈ کی طرف بڑھا‬ ‫شوال رجب کی طرف پیٹھ دے کر بیڈ کے کنارے بیٹھ ُ‬
‫تو ا ُسکے قریب آتے قدموں کی چاپ سن کر شوال کے ِدل کی دھڑکن اور تیز ہوگئی۔‬
‫’’کمینے کی باڈی کتنی خوبصورت ہے۔‘‘‬
‫تیزی سے دھڑکتے ِدل کو سنبھالنے کی کوشش میں آنکھیں بھینچ کر ا ُس نے دل ہی دل میں کہا۔‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫’’کمینہ خود بھی کتنا خوبصورت ہے۔‘‘‬
‫ساتھ ہی دوسرا اعتراف بھی کیا۔‬
‫ِدل کی اتھل پتھل دھڑکنیں ا ُس کی گھبراہٹ میں اضافہ کر رہی تھیں۔‬
‫’’یا اهلل! کیا ہو رہا ہے مجھے؟ میں کیوں ِاس کمینے آدمی کے آگے کمزور پڑ رہی ہوں؟‘‘‬
‫وہ گہرے گہرے سانس لے کر اپنی گھبراہٹ پہ قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی‬
‫ڈر تھا کہ رجب کو اس کی گھبراہٹ کی بھنک نہ لگ جائے۔‬
‫بےخبر رجب نے بیڈ پر ڈالی شرٹ ا ُٹھا کر پہن لی۔‬
‫’’تم ٹھیک ہو ناں!؟‘‘‬
‫عقب سے رجب نے سوال کر کے ا ُس کی گھبراہٹ اور بڑھا دی۔‬
‫)یا اهلل! کیا ِاسے میرے ِدل کا حال پتا چل گیا؟(‬
‫ا ُس نے سوچا اور احتیاط کے طور پہ رجب کی طرف سے اپنا ُرخ مزید پھیرلیا۔‬
‫’’میں ٹھیک ہوں۔ تم جاؤ نیچے۔‘‘‬
‫ا ُس نے سختی سے کہا۔‬
‫’’تم نہیں چلو گی؟‘‘‬
‫شوال کی دھتکار کو بمشکل پی کر ا ُس نے ہمت کر کے سوال کیا۔ شوال کے سخت روّیے نے ا ُسے‬
‫خاصا ُدکھی کر دیا تھا۔ وہ اب اپنے لہجے میں خوشگواری نہ ال سکا تھا۔ ا ُس کی آنکھوں اور آواز میں‬
‫کرب سمٹ آیا تھا۔‬
‫’’نہیں۔‘‘‬
‫اپنے ِدل کی حالت سے پریشان شوال نے ا ُسی سختی سے جواب دیا۔‬
‫رجب نے نگاہیں جھکا لیں اور خاموشی سے کمرے سے ِنکل گیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ رائٹنگ ٹیبل پہ غائب دماغی کے عالم میں بیٹھی تھی۔ ہاتھ میں پکڑی پنسل روانی کے ساتھ ٹیبل‬
‫پہ پھیالئی شیٹ پہ لکیریں کھینچ رہی تھی۔ دروازے پہ دستک کی آواز پہ وہ ہڑبڑا گئی۔ چہرہ موڑ کر‬
‫دیکھا۔ نوکرانی دروازے میں کھڑی تھی۔‬
‫’’بی بی جی! بیگم صاحبہ آپ کو نیچے بُال رہی ہیں۔‘‘ ا ُس کے دیکھنے پہ نوکرانی نے کہا۔‬
‫’’آتی ہوں۔‘‘‬
‫اس نے مختصرا ً کہہ کر نوکرانی کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ نوکرانی سر ہال کر چلی گئی۔ وہ‬
‫ایک پل کو ویسے ہی ساکت سوچتی رہی پھر اس نے ُپرسوچ انداز میں چہرہ واپس موڑ کر پیپر پہ نگاہ‬
‫ڈالی۔ سامنے پیپر پہ بنا سکیچ دیکھ کر وہ بہت بُری طرح چونکی۔ ا ُس کے سامنے رجب کا ٹاپ لیس سکیچ‬
‫تھا۔ ا ُس نے بےیقینی سے اپنے ہاتھ میں تھامی پنسل کو دیکھا۔ ا ُسے یوں لگا جیسے کسی نے تصویر بنا‬
‫کر اس کے ہاتھ میں پنسل تھما دی ہو۔‬
‫’’یہ؟۔۔۔ میں نے؟۔۔۔۔۔ کیسے؟۔‘‘‬
‫کر اس کے ہاتھ میں پنسل تھما دی ہو۔‬
‫’’یہ؟۔۔۔ میں نے؟۔۔۔۔۔ کیسے؟۔‘‘‬
‫وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی۔ بےچین ہو کر اس نے شیٹ سے نچال پیپر نکاال۔ ا ُس پہ قفس میں قید‬
‫ایک پنچھی کا سکیچ تھا۔‬
‫’’میں تو روز ایسے ہی سکیچز بناتی ہوں۔ پھر آج یہ کیسے؟۔‘‘‬
‫اس نے سامنے پھیالئے سکیچ کو دیکھتے ہوئے خود سے سوال کیا۔‬
‫اس کے اندر کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی۔ ا ُس نے جلدی سے سارے پیپرز سمیٹے اور لے جا کر اپنی‬
‫املاری کے اندر دراز میں رکھ دیئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫سارا دن اپنے کمرے میں بےچینی سے ادھر سے ادھر ٹہلتے گزر گیا۔ اپنی کیفیات خود اس کی ہی‬
‫سمجھ سے باالتر تھیں۔ رجب نے یہ کیسا جادو کیا تھا اس پہ۔ الکھ کوشش کے باوجود وہ رجب کے لئے‬
‫اپنے احساسات نہیں بدل پا رہی تھی۔ وہ ا ُس سے نفرت کرنا چاہتی تھی۔ اس سے دور رہنا چاہتی تھی۔‬
‫مگر ا ُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ان دیکھی مگر بہت ہی مضبوط ڈور ا ُسے رجب کی جانب کھینچے‬
‫چلی جا رہی ہے۔‬
‫کچھ ہی دن پہلے رجب کے باپ نے اسے اس کی شادی کے دن اغواء کیا تھا۔ ا ُسے رجب سے شادی‬
‫کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کا گھر‪ ،‬اس کا باپ‪ ،‬اس کی فیملی۔ ایک ہی پل میں ان لوگوں نے اس سے‬
‫سب کچھ ہمیشہ کے لئے چھین لیا تھا۔ پھر وہ ان لوگوں سے جتنی نفرت کرتی کم تھا۔ ا ُس نے زندگی بھر‬
‫ان لوگوں کو قبول نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ پھر یہ کیا ہوا تھا؟۔ فقط چند ہی دن بعد وہ کیسے ا ُس لڑکے‬
‫کی طرف ملت ّفت ہو سکتی تھی؟ یہ ا ُس کے لئے ناقابِل قبول تھا۔ خود کو یہ اجازت وہ کبھی نہیں دے‬
‫سکتی تھی۔‬
‫ا ُسے صبح سے شام ہو چلی تھی اپنے آپ کو روکنے میں۔ لیکن بےبسی کا احساس تھا کہ بڑھتا‬
‫چال جا رہا تھا۔ ا ُس کی تمام کوششیں بُری طرح ناکام ہو رہی تھیں۔ اور اب تو ا ُس کی فرسٹریشن کی‬
‫کوئی انتہا نہ رہی تھی۔‬
‫کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر دیوار پہ چپکی اس کی تصویروں پہ پڑی۔ دیوار پہ لگی ا ُن‬
‫تصویروں میں ا ُن کی شادی کی تصویروں کا بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ ُرک کر انھیں گھورنے لگی۔ پھر‬
‫جیسے ا ُس پہ پاگل پن کا اٹیک ہوا۔ وہ تصاویر پہ جھپٹی اور ایک پوسٹر کو دونوں ہاتھوں سے نوچ ڈاال۔‬
‫پوسٹر کا عمودی نصف اوپر سے پھٹنا شروع ہو گیا۔‬
‫تب ہی رجب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ وہ کام سے لوٹ رہا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے‬
‫پہلی نظر میں ہی ا ُس نے شوال کے ہاتھوں وہ پوسٹر چاک ہوتے دیکھا۔ ا ُس کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ بیگ‬
‫چھوٹ گیا۔‬
‫چالیا اور بجلی کی سی تیزی سے لپکا۔‬ ‫’’نہیں۔‘‘ وہ صدمے سے ِ‬
‫چالنے پہ ا ُچھل کر پیچھے ہٹی۔ رجب نے‬ ‫وہ رجب کی آمد کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ رجب کے ِ‬
‫صہ اوپر ا ُٹھا کر ہاتھ سے واپس چپکایا اور حفاظتی اقدام کے طور پر پوسٹر‬ ‫پوسٹر کا پھٹ کر لٹکتا ہوا ح ّ‬
‫کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔‬
‫’’نہیں۔ انھیں مت ا ُتارو۔ یہ میری زندگی ہیں۔ پلیز۔۔۔ انھیں مت ا ُتارو۔‘‘‬
‫وہ خوف سے پوسٹر کے ساتھ چپکا التجا کر رہا تھا۔ آنکھوں میں بے پناہ خوف اور آنسو تھے۔ وہ‬
‫تحّیر سے ا ُسے دیکھ کر رہ گئی۔ کچھ دیر وہ یونہی ساکت کھڑی حیرت کے ساتھ رجب کے خوف سے‬
‫لرزتے وجود کو دیکھتی رہی۔ پھر وہ پلٹی اور جا کر بالکونی میں کھڑی ہو گئی۔ رجب کے ِاس روّیے نے ا ُس‬
‫پہ سوچ کے بہت سے در وا کر دیئے تھے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬
‫آج بھی وہ کاؤچ پہ پاؤں اوپر رکھے بیٹھی کلپ بورڈ میں پیپر نتھی کئے پوری توجہ اور دلجمعی کے‬
‫ساتھ سکیچ بنا رہی تھی۔ سکیچ بن چکا تو ا ُس نے کلپ بورڈ سے نکال کر ہاتھ میں لیا اور اسے تنقیدی‬
‫نظروں سے دیکھنے لگی۔ ا ُس نے رجب کا بہت خوبصورت اور پرفیکٹ خاکہ بنایا تھا۔ ا ُس کے لبوں پہ‬
‫مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اپنے آپ سے بہت لڑ چکی تھی وہ۔ آخرکار اس نے اپنے دل کے ہاتھوں شکست‬
‫قبول کر لی تھی۔ وہ سکیچ ہاتھ میں لئے ا ُٹھی اور جا کر املاری کھولی۔ دراز باہر کھینچ کر ا ُس نے تصویر‬
‫دراز میں رکھی اور دراز بند کر کے الک کر دیا۔ چابی املاری کی ُہوک سے لٹکتے ہینڈ بیگ میں رکھ کر وہ‬
‫ُمڑی۔ اس کے بیڈ کے پائنتی غالیچے پہ رجب کا بستر پڑا تھا۔ شروع دنوں میں تو رجب کاؤچ پہ سوتا رہا‬
‫تھا۔ مگر پھر ا ُس نے اپنے لئے غالیچے پہ بستر لگانا شروع کر دیا تھا۔ اور آج صبح جلدی میں وہ بستر‬
‫ا ُٹھائے بنا ہی کام پہ چال گیا تھا۔‬
‫وہ آگے بڑھی اور ا ُوپر اوڑھنے والی چادر ا ُٹھا کر تہہ کی۔ ا ُسے بیڈ پہ رکھ کر ا ُس نے تکیہ ا ُٹھایا۔‬
‫تکیے کے نیچے رکھی اس کی اور رجب کی شادی کی تصویر سامنے آ گئی۔ اس نے تکیہ بھی بیڈ پہ ڈال‬
‫کر جھک کر وہ تصویر ا ُٹھالی۔ تصویر ہاتھ لئے دیکھتے ہوئے وہ بیڈ کے پائنتی ِٹک گئی۔‬
‫) کتنا خوبصورت ہے یہ لڑکا۔ میں کب تک اس سے دور رہوں گی؟۔۔۔۔ آخر ہمارے اس رشتے کا انجام‬
‫کیا ہوگا؟۔( تصویر سے نظریں ا ُٹھا کر وہ خالء میں دیکھنے لگی۔‬
‫) ِان لوگوں نے مجھے میری جڑوں سے کاٹ کر الگ کیا ہے۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بھی میں اب‬
‫کبھی اپنے گھر والوں سے نہیں ِمل سکوں گی۔ میرا باپ اب قیامت تک مجھے نہیں اپنائے گا۔ اس کے لئے‬
‫میں ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتی۔‬
‫تم مجھے الکھ اچھے لگو رجب الفرد!۔ مگر میرا قرب کبھی نہیں پا سکو گے۔ تم بھی میرے لئے‬
‫ویسے ہی ترسو گے۔ جیسے میں اپنے گھر والوں کیلئے ترستی ہوں۔ اگر یہ سلسلہ مرتے دم تک چلے گا تو‬
‫میں بھی ِاسے مرتے دم تک چالؤں گی۔ یہی تم لوگوں کی سزا ہے۔ اور میری بھی۔(‬
‫ا ُس کے کانوں میں اسرار احمد کے الفاظ گونجے۔‬
‫’’ تم اب َمر چکی ہو ہمارے لئے۔‘‘‬
‫ِ‬
‫دو آنسو اس کی دونوں آنکھوں سے ٹپک کر گالوں پہ بہہ نکلے۔ ا ُس نے نچال ہونٹ دانتوں تلے دبا کر‬
‫کرب سے آنکھیں بھینچ لیں۔‬
‫تب ہی دروازے پہ دستک ہوئی۔ ا ُس نے آنکھیں کھول کر ہاتھ کی پشت سے اپنے گالوں پہ بہتے آنسو‬
‫صاف کئے۔ تصویر ا ُٹھا کر تکیے پہ رکھی اور غالیچے پہ بچھی دوسری چادر ا ُٹھا کر جلدی جلدی تہہ کر‬
‫کے بیڈ پہ ڈالی۔ اتنے میں دروازے پہ دوسری دستک بھی ہو گئی۔ وہ تیز قدموں دروازے پہ گئی اور دروازہ‬
‫کھوال۔ سامنے سکینہ بیگم کھڑی تھیں۔‬
‫’’تم ٹھیک ہو ناں؟ دروازہ الک کیوں کر رکھا ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے شائستگی سے پوچھا۔‬
‫ا ُس نے جوابا ً بس اثبات میں سر ہالیا اور انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ گویا آمد کا مقصد‬
‫جاننا چاہتی تھی۔سکینہ بیگم بھی اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ گیئیں۔ ا ُسی خوشمزاجی سے بولیں۔‬
‫’’میں شاپنگ کے لئے جا رہی ہوں۔ چلو۔ تم بھی ساتھ چلو۔‘‘‬
‫’’مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔‘‘ ا ُس نے دھیرے سے جواب دیا۔‬
‫’’اچھا‪ ،‬میری کمپنی کے لئے ہی ساتھ چلی چلو۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے پھر بھی اصرار کیا۔‬
‫وہ کچھ نہ بولی۔‬
‫’’ویسے بھی ہم ماں بیٹی کبھی اکٹھی باہر نہیں ِنکلیں۔ چلو آج کچھ وقت ایک ساتھ گزار لیتے‬
‫ہیں۔‘‘‬
‫ا ُس نے جانا کہ سکینہ بیگم ا ُسے ساتھ لے جانے کا مصّمم ارادہ بنا کر آئی ہیں۔ بار بار انکار کرنے‬
‫کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔‬
‫ا ُس نے جانا کہ سکینہ بیگم ا ُسے ساتھ لے جانے کا مصّمم ارادہ بنا کر آئی ہیں۔ بار بار انکار کرنے‬
‫کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔‬
‫’’چلئے۔‘‘ وہ ا ُسی حالت میں کمرے سے نکلنے لگی۔‬
‫سکینہ بیگم نے سوچا کہ اس سے کپڑے بدلنے کا پوچھ لیں۔ پھر انھوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور‬
‫مسکرا دیں۔‬
‫’’چلو۔‘‘‬
‫وہ سکینہ بیگم کے پیچھے پیچھے چل دی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫مال میں آ کر ا ُسے پتا چال کہ سکینہ بیگم دراصل ا ُسے ہی شاپنگ کروانے الئی تھیں۔ جہاں بھی جا‬
‫رہی تھیں اس کے لئے ہی چیزیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ بھی نہ بولی۔ کسی روبوٹ کی طرح ا ُن کے‬
‫ساتھ چلتی رہی۔ وہ کسی لباس کے بارے میں کہتیں کہ یہ اچھا ہے۔ تو وہ سر ہال دیتی۔ کسی لباس کا‬
‫کہتیں کہ یہ نہیں اچھا۔ تو بھی وہ ا ُن کی تائید میں سر ہال دیتی۔ وہ ا ُس سے ا ُس کی پسند کا رنگ‬
‫پوچھتیں تو وہ التعلقی سے ’کوئی بھی‘ بول دیتی۔ یونہی وہ شاپنگ کے دوران بےدلی کے ساتھ ا ُن کے‬
‫پیچھے پیچھے چلتی رہی۔ کپڑے منتخب کرنے کے دوران بھی ا ُس نے نگاہیں فرش پہ ہی جمائے رکھیں۔ ایک‬
‫سٹور سے شاپنگ کر کے وہ دونوں باہر ِنکلیں تو سکینہ بیگم ُرک کر اس کی طرف ُمڑیں۔‬
‫’’تم تھک گئی ہو گی۔ کیا خیال ہے؟ چل کر کچھ کھا لیں؟‘‘‬
‫اس نے ’جیسے آپ کی مرضی۔‘ کے انداز میں سر ہال دیا۔‬
‫’’چلو اوپر کے۔ایف۔سی میں چل کر برگر لیتے ہیں۔ یا تم کچھ اور کھانا چاہو گی؟‘‘‬
‫ب توقع ا ُس نے منع کیا۔‬
‫’’نہیں۔‘‘ حس ِ‬
‫’’چلو آؤ۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر ایسکلیٹر )‪ (escalator‬کی طرف بڑھ گیئیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ کے۔ایف۔سی میں ٹیبل پہ بیٹھی تھی جب سکینہ بیگم ٹرے میں برگرز اور ڈرنکس لئے آئیں۔‬
‫’’سوری مجھے کافی وقت لگ گیا۔ بہت ملبی قیو تھی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ٹرے ٹیبل پہ رکھ کر اپنی کرسی کھینچتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔‬
‫وہ ایسے بیٹھی تھی جیسے ا ُسے ارد گرد کی کوئی خبر نہ ہو۔ سکینہ بیگم نے کرسی کھینچ کر‬
‫بیٹھنے کے بعد ایک برگر اور ڈرنک ا ُس کے سامنے رکھا۔ شوال نے کسی روبوٹ کی طرح برگر ا ُٹھا لیا اور‬
‫ا ُسے ا َن ریپ کرنے لگی۔‬
‫سکینہ بیگم نے ُرک کر ا ُسے بغور دیکھا۔ پھر سنجیدگی کے ساتھ ا ُسے پکارا۔‬
‫’’شوال!۔‘‘‬
‫اس نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’کیوں اتنی اداس رہتی ہو میری بچی! خوش رہا کرو۔ ہنسا کھیال کرو۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا‬
‫ہے؟ ‘ ‘‬
‫اس نے بنا کچھ کہے نگاہیں واپس جھکا لیں۔‬
‫’’جانتی ہو؟ مجھے ہمیشہ سے ہی ایک بیٹی کی بہت خواہش تھی۔ تم نے آ کر میری زندگی میں اس‬
‫کمی کو پورا کیا ہے۔ ہمارے گھر کی رونق ہو تم۔ آج ہمارے گھر میں جو زندگی ہے وہ بھی تمہاری بدولت‬
‫ہے۔‬
‫جو گزر چکا ہے ا ُسے پیچھے چھوڑ دو۔ وہ سب اب ماضی بن چکا ہے۔ اپنے مستقبل کے بارے میں‬
‫سوچو۔ اپنے حال پہ توجہ دو۔‬
‫کیا تمہیں ہمارے پیار میں کوئی کمی نظر آتی ہے؟ کیا رجب ایسا لڑکا نہیں جس کے ساتھ کوئی‬
‫سوچو۔ اپنے حال پہ توجہ دو۔‬
‫کیا تمہیں ہمارے پیار میں کوئی کمی نظر آتی ہے؟ کیا رجب ایسا لڑکا نہیں جس کے ساتھ کوئی‬
‫لڑکی خوش رہ سکے؟‘‘‬
‫ُ‬
‫سکینہ بیگم بہت محبت اور نرمی کے ساتھ اسے سمجھا رہی تھیں۔‬
‫)موقع اچھا ہے۔ مجھے ان سے ابھی بات کر لینی چاہیئے۔( ا ُس نے سوچا اور ہاتھ میں پکڑا برگر‬
‫ٹرے میں رکھ دیا۔‬
‫’’ایک بات پوچھوں آپ سے؟‘‘ وہ قدرے جھجک محسوس کر رہی تھی۔‬
‫’’ہاں‪ ،‬ہاں! پوچھو۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ا ُس کی حوصلہ افزائی کی۔‬
‫’’رجب۔۔۔۔‘‘ وہ اٹکی۔ سکینہ بیگم نے ا ُسے یوں دیکھا جیسے آگے سننے کو متجسس ہوں۔ آخر کو‬
‫سوال ا ُن کے بیٹے سے متعلق تھا۔‬
‫’’سائیکو ہے؟‘‘ ا ُس نے اپنا سوال مکمل کیا۔‬
‫سکینہ بیگم کا چہرہ یکدم تاریک ہو گیا۔ پھر انھوں نے خود کو سنبھاال اور سر جھکا کر اپنے ذیہن‬
‫میں وضاحت کیلئے الفاظ سوچنے لگیں۔ انھوں نے سوچنے میں کچھ وقت لیا۔ وہ انھیں بغور دیکھ رہی‬
‫تھی۔ باآلخر انھوں نے اپنا جھکا ہوا سر ا ُٹھایا۔‬
‫’’سائیکو کہنا تو خیر مناسب نہ ہوگا۔ لیکن ہاں‪ ،‬ذرا ایکسٹریمسٹ ہے۔ کبھی کوئی چیز ِکلک کر‬
‫جائے تو پھر بہت سیریسلی لے لیتا ہے۔ پھر وہ چیز چاہے کتنی بھی معمولی ہو۔ مگر وہ ا ُسےاپنی زندگی‬
‫اور موت کا مسلۂ بنا لیتا ہے۔ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے بات مکمل کر کے ا ُسے دیکھا۔ وہ انھیں اپنے جواب سے مطمعین نہ لگی۔‬
‫سکینہ بیگم نے گہرا سانس خارج کیا۔ مزید وضاحت کے لئے اپنے اندر ہمت مجتمع کی۔ پھر بولیں۔‬
‫’’اصل میں وہ پیدائشی ایسا نہیں تھا۔ اس کے ذمہدار ہم ہیں۔ ہم نے ہی اسے ضرورت سے زیادہ‬
‫الڈ پیار دے کر پاال ہے۔۔۔۔۔‬
‫لیکن ہم کیا کرتے؟ چار بچوں کی موت کے بعد یہ اکیال تھا جسے اهلل نے زندگی دی تھی۔ پھر ہم‬
‫اسے لے کر ایکسٹرا سینسی ِٹو کیسے نہ ہوتے۔‘‘‬
‫وہ چار بچوں کی موت کا سن کر چونک گئی۔‬
‫سکینہ بیگم نے ا ُس کا چونکنا نوٹ کیا۔ لہذا اسے ساری تفصیل بتانے لگیں۔‬
‫ُ‬
‫’’میری وجاہت سے شادی سےایک سال بعد ہی ہمارے گھر پہال بچہ پیدا ہوا تھا۔ ایک ایسا بچہ‬
‫جس نے بھی دیکھا تھا ڈر گیا تھا۔ ایک ذیہنی اور جسمانی طور پر معذور بچہ۔ ا ُس کے چہرے کا‬ ‫ج سے ِ‬‫ِ‬
‫کوئی بھی نقش درست نہیں تھا۔ ہاتھ پاؤں بھی ٹیڑھے میڑھے تھے۔ ‘‘‬
‫وہ بچہ یاد کر کے سکینہ بیگم کی آنکھوں اور لہجے میں خوف ا ُتر آیا۔‬
‫’’ہم سب ا ُسے دیکھ کر بہت حیران اور پریشان تھے۔ وہ بچہ بیمار بھی تھا اور پیدائش کے کچھ ہی‬
‫ِدن بعد وہ چل بسا۔‬
‫شروع شروع میں مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ بہت تکلیف دہ صورتحال‬
‫ھالنے لگی۔ پھر جلد ہی اهلل نے دوبارہ‬ ‫تھی۔ لیکن دھیرے دھیرے میں ا ُسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر ب ُ‬
‫ا ُمید ِدالئی۔ اگلے بچے کو لے کر میں بہت خوش تھی۔ پہلے میرے ساتھ جو بھیانک واقعہ پیش آیا تھا۔ ا ُس‬
‫تکلیف کا احساس کم کرنے میں اس بچے نے کافی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب وہ پیدا ہوا تو مانو زندگی‬
‫نے ایک بھیانک مذاق کیا تھا۔‬
‫ایسا لگا کہ پھر سے وہی بچہ دوبارہ پیدا ہو گیا ہے۔ ویسا ہی خوفناک۔ ویسا ہی معذور۔۔۔۔‬
‫ڈاکٹرز نے ا ُسے بھی ذیہنی طور پر معذور قرار دے دیا تھا۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسا‬
‫کیوں ہو رہا ہے۔ بہت ہی خوفناک ِدن تھے وہ۔ گود میں ایک خوفناک‪ ،‬معذور بچہ اور خاندان والوں کے عجیب‬
‫وغریب تبصرے۔‬
‫کوئی کہتا کہ کسی کی بد ُدعا لگی ہے۔ کوئی کہتا کہ کسی نے جادو ٹونا کیا ہے۔ کسی نے کہا کہ‬
‫مجھ پہ جنات کا اثر ہے اور یہ ایک ِ‬
‫جّن کا بچہ ہے۔‬
‫کوئی کہتا کہ کسی کی بد ُدعا لگی ہے۔ کوئی کہتا کہ کسی نے جادو ٹونا کیا ہے۔ کسی نے کہا کہ‬
‫مجھ پہ جنات کا اثر ہے اور یہ ایک ِ‬
‫جّن کا بچہ ہے۔‬
‫کیا اذیت بھرے ِدن تھے وہ۔ کچھ ِدن اپنے نصیب میں لکھوا کے الئی سانسیں پوری کر کے وہ بچہ‬
‫بھی مر گیا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے دونوں ہاتھ ا ُٹھا کر گالوں پہ لڑھک آئے آنسو صاف کیے۔‬
‫سن رہی تھی جس کی ا ُس نے کبھی توقع نہیں کی تھی۔‬ ‫وہ دم سادھے ایک ایسی داستان ُ‬
‫سکینہ بیگم نے چند ملحے خود کو کمپوز کرنے میں لگائے۔ پھر بولنا شروع ہوئیں۔‬
‫’’دوسرے بچے کی پیدائش اور موت کے بعد میں بہت ڈر گئی تھی۔ لیکن پھر بھی ِدل میں کہیں نہ‬
‫کہیں ا ُمید باقی تھی کہ ہو سکتا ہے اگلی بار ایسا نہ ہو۔ لیکن اگلی بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ایک‬
‫صے تو اس کے تھے ہی نہیں۔‬ ‫بیٹی ہوئی۔ وہ بھی توقعات سے بڑھ کر خوفناک تھی۔ جسم کے بہت سے ح ّ‬
‫نہ ا ُس کے کان برابر تھے۔ نہ ا ُس کی انگلیاں۔ اوپر کا ہونٹ بھی درمیان سے ناک تک کٹا ہوا تھا۔‬
‫پھر سے ہم نئے سرے سے اذیت سے دوچار ہوئے۔ مگر اس بار یہ اذیت اور پریشانی پہلے سے بھی‬
‫کہیں زیادہ تھی۔ اس بچی کی پیدائش کے بعد میرے سسرال والوں نے مجھے منہوس قرار دے دیا۔‬
‫کچھ دن کے بعد وہ بچی بھی مر گئی۔‬
‫ِ‬
‫کیسی اذیت ناک بات تھی۔ جب بچے پیدا ہوتے تھے تو بھی ُدکھ ملتا تھا اور جب مرتے تھے تو بھی‬
‫چور ہو جاتا تھا۔‬‫ِدل صدمے سے ُ‬
‫صور سے ہی خوف کھانے لگی تھی۔ مگر ساس‪ ،‬سسر کا‬ ‫اب میں مزید کسی بچے کی پیدائش کے ت ّ‬
‫دباٴو۔ نندوں‪ ،‬جٹھانیوں کے طعنے۔ اور وجاہت کا بدلتا رویہ۔ سب نے مجھے کمزور کر دیا۔ اپنی زندگی تباہ‬
‫ہوتی دیکھ کر پھر سے اهلل سے ایک صحتمند اوالد کی فریاد کی۔ مگر زندگی نے پھر سے میرے ساتھ وہی‬
‫مزاق کیا۔ پھر سے قسمت نے مجھے دھوکا دیا۔ چوتھا بیٹا بھی اپنے دوسرے بہن‪ ،‬بھائیوں جیسا وجود اور‬
‫زندگی لے کر آیا اور چال گیا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ضبط کی کوشش میں ہونٹوں پہ مّٹھی جما لی۔‬
‫توقف کرکے بولیں۔‬
‫’’اس کے بعد سے لے کر رجب کی پیدائش تک دکھوں کی ایک طویل داستان ہے۔۔۔۔‬
‫صرف سسرال والے ہی نہیں وجاہت بھی ایسے ابنارمل بچوں کی پیدائش کا ذمہدار صرف مجھے‬
‫قرار دے رہے تھے۔ میرے چاچا چاچی نے مجھ سے باال ہی باال وجاہت کے لئے دوسری دلہن تالش کرنا‬
‫شروع کر دی۔‬
‫خاندان میں تو کوئی بھی وجاہت کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ کر میرے ماں باپ کے ساتھ ناراضگی مول‬
‫نہ لیتا۔ لہذا وہ باہر سے رشتہ تالش کر رہے تھے۔ ُمجھے ِاس کی خبر لگ گئی۔ میں خاموش نہ رہی اور‬
‫وجاہت سے لڑ پڑی۔۔۔ نتیجتا ً مجھے گھر سے نکال دیا گیا۔‬
‫میکے آ کر بھی میری اذیتوں میں کمی نہ آئی۔ میری بڑی بھابھی ا ُمید سے تھی۔ وہ مجھے ہر ِگز‬
‫اپنے قریب نہیں آنے دیتی تھیں۔ کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ میرا منہوس سایہ ا ُن کےہونے والے بچے کو‬
‫نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ماں باپ اپنے بیٹوں کے آگے مجبور اور خاموش تھے۔ ُمجھ سے ہمدردی کر کے‬
‫میرے لئے رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتےتھے۔‬
‫ادھر وجاہت کے لئے بھی لڑکی ِمل گئی تھی۔ وہ مجھے طالق دے کر دوسری شادی کرنا چاہتے‬
‫تھے۔ مگر معلوم ہوا کہ میں پھر سے ا ُمید سے ہوں۔ وجاہت اور چاچا چاچی بچے کی پیدائش تک کے لئے‬
‫ُرک گئے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ ِاس بچے کی موت کے بعد وہ آگے کی کاروائی کریں گے۔‬
‫ہاں! ایسا ہی تھا۔۔۔۔ جو بچہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم ا ُس کی موت کے بعد کا سوچ رہے‬
‫تھے۔ خود میں بھی۔۔۔‬
‫زندگی کا دائرہ بہت ہی تنگ ہو گیا تھا۔ ا ُن حاالت میں میرے لئے سانس لینا بھی دشوار تھا۔ پھر‬
‫ایک معذور بچے کی پیدائش اور اس کے موت کا دردناک خیال۔۔۔ اور ساتھ ہی وجاہت سے طالق۔۔۔۔۔‬
‫زندگی جیسے تاریکیوں میں ڈوب گئی تھی۔ کچھ دکھائی دیتا تھا نہ سجھائی دیتا تھا۔ مجھے‬
‫ی کہ‬ ‫ایسے لگنے لگا تھا جیسے میں واقعی منہوس ہوں۔ اور یہ سب میری نحوست کی وجہ سے ہے۔ حت ٰ‬
‫زندگی جیسے تاریکیوں میں ڈوب گئی تھی۔ کچھ دکھائی دیتا تھا نہ سجھائی دیتا تھا۔ مجھے‬
‫ی کہ‬‫ایسے لگنے لگا تھا جیسے میں واقعی منہوس ہوں۔ اور یہ سب میری نحوست کی وجہ سے ہے۔ حت ٰ‬
‫جب بچے کی پیدائش کا وقت آیا۔ تب بھی میں ا ُس ایک معذور بچے کی موت کے بعد اس کے کفن دفن کا‬
‫سوچ رہی تھی۔‬
‫ُ‬
‫مگر وہ خدا کا معجزہ تھا یا اس کا لطف و کرم۔ اهلل نے مجھے ایک مکمل طور پر صحت مند بچے‬
‫سے نوازا۔ ایسا خوبصورت بچہ‪ ،‬جیسا خاندان میں پہلے کبھی پیدا نہ ہوا تھا۔‬
‫ا ُس بچے نے دنیا میں آکر ہم سب کی زندگیاں بدل دیں۔ خاص طور پر میری۔‬
‫میں جہنم سے ِنکل کر اچانک جن ّت میں پہنچ گئی تھی۔ جو شخص مجھے طالق دینے کو بے تاب‬
‫تھا۔ ا ُس نے آ کر مجھ سے معافی مانگی۔ ساس سسر‪ ،‬بھابھیاں۔ سب ہی کی نظر میں میرا مقام بہت‬
‫اونچا ہو گیا۔۔۔۔‬
‫میں نے سب کو معاف کر دیا۔ میرے جانے ِکس عمل سے خوش ہو کر اهلل نے مجھ پہ اتنا بڑا کرم کیا‬
‫تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی متکبرانہ جملہ میرے منہ سے ِنکلے اور میں عرش سے فرش پہ آ ِگروں۔‬
‫لہذا مجھے بڑی شان کے ساتھ واپس میرے گھر میں الیا گیا۔ چاچا‪ ،‬چاچی نے میرا اور میرے بچے‬
‫کا ُپرتپاک استقبال کیا۔ صدقے خیرات کی گئی۔ وجاہت تو کسی عاشق کی طرح میرے گرد منڈال رہے تھے۔‬
‫ب اوالد کر‬ ‫اور پھر رجب کی پیدائش کے بعد ہم نے مزید اوالد کی خواہش نہیں کی۔ اهلل نے ہمیں صاح ِ‬
‫دیا تھا۔ ہم ِاسی پہ شاکر اور قانع تھے۔ مزید کے اللچ میں پھر سے کسی خوفناک تجربے سے گزرنے کی‬
‫ہمت نہ تھی۔ صرف رجب کو اهلل ملبی عمر دے۔ ہماری یہی خواہش تھی۔‬
‫ہماری توجہ‪ ،‬ہماری محبت‪ ،‬ہماری زندگی کا مرکز و مّحور صرف رجب تھا۔ ایسے میں تم بتاٴو کہ‬
‫ہمیں وہ ضرورت سے زیادہ پیارا کیونکر نہ ہوتا؟۔‬
‫ہماری تو سانسیں ہی ا ُسی کے دم سے چلتی تھیں۔ ہم نے ا ُسے ہر تکلیف سے‪ ،‬ہر ُدکھ سے بچانے‬
‫کی کوشش کی۔ بچے بچپن میں روتے ہیں۔ لیکن ہم اس کے چہرے کا زاویہ بگڑتے دیکھ کر بھی بےچین ہو‬
‫جاتے تھے۔ ا ُس کا رونا‪ ،‬اس کا بیمار ہونا ہماری جان پر بن آتا تھا۔‬
‫ہمیں بہت لوگوں نے ٹوکا۔ سمجھایا کہ ایسا مت کرو۔ بچے کو ضرورت سے زیادہ پیمپر نہ کرو۔‬
‫لیکن ایسی باتیں ہماری سمجھ میں نہ آئیں۔۔۔۔ ہمارے بچے کے چہرے پہ مایوسی کا کوئی تاثر ہماری‬
‫برداشت سے باہر تھا۔ اس کو کسی چیز سے محروم رکھنا ہمیں گوارا نہ تھا۔ اور اس کی آنکھ سے ٹپکا‬
‫ایک آنسو بھی ساری دنیا کی دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔ کیسے ا ُسے رائیگاں بہنے دیتے؟۔۔۔۔‬
‫اسی سوچ کے ساتھ ہم نے ا ُسے پاال۔ اور اسی پیار پیار میں ہم نے اس کے ساتھ دشمنی کر دی۔‬
‫جب ہمیں احساس ہوا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔۔۔۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اگر ا ُسکی ضد پوری کرتے‬
‫ہیں تو اس کی ذیہنی حالت اور بگاڑتے ہیں۔ اور اگر اسے منع کرتے ہیں تو ا ُسے کھو دینے تک کی نوبت آ‬
‫جاتی ہے۔ ہم کریں تو کریں کیا؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے آخر میں بے بسی سے کہا۔‬
‫ا ُسے سامنے بیٹھی عورت سے بےحد ہمدردی محسوس ہوئی۔ اس کا ہر درد آپ بیتی محسوس ہو رہا‬
‫تھا۔ جی چاہا کہ سکینہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر انھیں تسلی دے۔ ا ُن کے ساتھ جو ہوا اس پہ افسوس کا‬
‫اظہار کرے۔ ان سے اپنائیت جتائے۔ مگر پھر ا ُس کے ذیہن میں سکینہ بیگم کے کچھ دیر پہلے کے کہے‬
‫الفاظ گونجے۔‬
‫’’ اس کی آنکھ سے ٹپکا ایک آنسو بھی ساری دنیا کی دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔ کیسے ا ُسے‬
‫رائیگاں بہنے دیتے۔‘‘‬
‫وہیں پہ ا ُس کے دماغ نے پلٹی کھائی۔‬
‫)میں بھی تو کسی کی بیٹی ہوں۔ کسی کی اوالد ہوں۔ اپنی اوالد کی آنکھ سے ٹپکا ایک آنسو بھی‬
‫پورے جہان کی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ کسی اور کی بیٹی کے آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں؟ اسے اس‬
‫کے والدین سے چھینتے ہوئے کوئی احساس نہیں کہ اسے کتنی تکلیف پہنچتی ہے؟۔ ا ُس کے والدین پہ کیا‬
‫گزرتی ہے؟(‬
‫ِ‬
‫ا ُس کا موم کی طرح پگھلتا دل پھر سے پتھر ہو گیا۔‬
‫گزرتی ہے؟(‬
‫ا ُس کا موم کی طرح پگھلتا ِدل پھر سے پتھر ہو گیا۔‬
‫) جو بھی ہے۔ میں اس خاندان کو کبھی معاف کروں گی نہ قبول کروں گی۔(‬
‫ا ُس نے دل ہی دل میں پختہ عہد کیا۔‬
‫پھر نظریں ا ُٹھا کر سکینہ بیگم کو دیکھا۔‬
‫سکینہ بیگم بیتی باتیں ذیہن سے نکال کر اب برگر کی طرف متوجہ ہو رہی تھیں۔‬
‫’’باتوں باتوں میں یہ تو ٹھنڈے ہو گئے۔ جلدی سے کھا لو بھئی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اپنا برگر ا َن ریپ کرتے ہوئے کہا۔‬
‫’’آپ کو کبھی پتا نہیں چال کہ ایسا کیوں تھا؟‘‘‬
‫ا ُس نے من میں آیا سوال کیا۔‬
‫سکینہ بیگم اپنا برگر منہ کی طرف لے جاتے ہوئے ُرک گیئیں۔ ’’کیا؟۔۔۔‘‘‬
‫انھوں نے پوچھا۔ پھر ذرا ذیہن پہ زور دینے سے سمجھ گیئیں۔‬
‫’’تمہارا مطلب ہے۔ وہ معذور بچے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے تصدیق چاہی۔‬
‫وہ خاموشی سے انھیں دیکھتی رہی۔‬
‫سکینہ بیگم بولیں۔‬
‫’’بہت عرصہ تک نہیں پتا تھا۔ نہ ہی کبھی زیادہ تجسس کیا تھا۔ ہماری ساری توجہ اور سوچوں‬
‫کا مرکز رجب ہی تھا۔ لیکن پھر بعد میں تحقیق سے سامنے آیا تو ہمیں بھی احساس ہوا کہ وہ کزنز میرج‬
‫کی وجہ سے تھا۔‬
‫میں اور وجاہت فرسٹ کزنز تھے۔ ہمارے ماں باپ بھی فرسٹ کزنز تھے۔ بس پھر ایسا تو ہونا ہی‬
‫تھا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کا جواب سن کر وہ سارا معاملہ سمجھ گئی۔‬
‫سکینہ بیگم کہہ رہی تھیں۔‬
‫’’ِاسی وجہ سے ہم نے رجب کی خاندان میں شادی نہیں کروائی۔ جب ہمیں پتا چال تھا کہ ہمارے ا ُن‬
‫معذور بچوں کی پیدائش کے پیچھے وجہ کزنز میرج ہے۔ ہم نے ا ُسی دن پورے خاندان میں کہہ دیا کہ رجب‬
‫کی شادی خاندان کی کسی بھی لڑکی سے نہیں ہوگی۔‬
‫خاندان والوں نے بھی ہمارے اس فیصلے کی عزت کی۔ بھال کون رجب کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ کر‬
‫ا ُس کی زندگی برباد کرنا چاہتا۔ بَس پھر تب سے ہی رجب اور اس کی تمام کزنز ایک دوسرے کو سگے بہن‬
‫بھائی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔‘‘‬
‫’’اوہ۔‘‘‬
‫اسے اب رجب کی اپنی کزنز کے ساتھ بےتکلفی اور ا ُن لڑکیوں کا بہناپا سمجھ میں آیا تھا۔‬
‫وہ پھر سے اجنبّیت اور التعلقی اختیار کر کے اب واپس اپنے خول میں جا چکی تھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’ہوں۔۔۔ اچھا ہے۔۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ ا ُسے اپنے ساتھ سکول بھی لے جایا کرو۔‘‘‬
‫رات وجاہت علی اپنے کمرے میں اپنی بیگم سے کہہ رہے تھے۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم بیڈ پہ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔‬
‫’’میں نے ا ُس سے کچھ دن پہلے کہا تھا۔ مگر ا ُس نے منع کر دیا تھا۔‘‘‬
‫’’اور آج کے بارے میں کیا کہتی ہو؟ وہ ہمارے درمیان ایڈجسٹ ہونا شروع ہوئی ہے یا نہیں؟‘‘‬
‫’’ہم۔۔۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم سوچ میں پڑ گیئیں۔‬
‫چکی ہے۔۔۔ اب اس کی چال ڈھال‪ ،‬بولنا چالنا‬ ‫بولیں۔’’ اتنا تو کنفرم ہے کہ وہ اب شاک سے نکل ُ‬
‫سکینہ بیگم سوچ میں پڑ گیئیں۔‬
‫چکی ہے۔۔۔ اب اس کی چال ڈھال‪ ،‬بولنا چالنا‬ ‫بولیں۔’’ اتنا تو کنفرم ہے کہ وہ اب شاک سے نکل ُ‬
‫پہلے کے جیسا نہیں رہا۔۔۔۔ آئی مین۔۔۔ اب ا ُسے دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے مکمل ہوش و حواس میں‬
‫ہے۔۔۔۔ اور آج مجھ سے رجب کے بارے میں بھی پوچھ رہی تھی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے چونک کر سکینہ بیگم کی طرف دیکھا۔‬
‫’’رجب کے بارے میں؟۔۔۔ کیا؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کے لئے یہ بتانا آسان نہ تھا۔ بمشکل بولیں۔‬
‫’’وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا رجب سائیکو ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کا جواب وجاہت علی کو مضطرب و پریشان کر گیا۔‬
‫’’تو تم نے کیا کہا؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے بےچین ہو کر پوچھا۔‬
‫’’وہی جو سچ ہے۔‘‘ سکینہ بیگم نے جواب دیا۔‬
‫وجاہت علی کو اچھا نہ لگا۔ کچھ کہنا چاہا لیکن سکینہ بیگم ان سے پہلے بول پڑیں۔ سمجھانے کے‬
‫انداز میں کہنے لگیں۔‬
‫’’ِاس میں چھپانے والی کیا بات ہے وجاہت؟۔۔۔۔ رجب کی حالت آشکار ہے۔۔۔ اگر میں منع کرتی تو کیا‬
‫وہ میرا یقین کر لیتی؟۔۔۔ بالفرض ابھی میں ا ُسے یقین دال بھی دیتی۔ اور ہفتہ دس ِدن بعد تو اس کے شک‬
‫کی تصدیق ہو ہی جاتی۔ تب کیا عزت رہ جاتی اس کی نظر میں میری؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کی وضاحت نے وجاہت علی کو خاموش کروا دیا۔‬
‫سکینہ بیگم ا ُن کو قائل دیکھ کر اپنی دوسری پریشانی بیان کرنے لگیں۔‬
‫’’لیکن وجاہت! شوال کے بارے میں سوچ کر مجھے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔ وہ اب بھی ہمیں‬
‫ایکسیپٹ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سارا سارا دن اپنے کمرے میں گزار دیتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ‬
‫میں بھلے سے بھوکی‪ ،‬پیاسی رہوں۔ مگر اکیلی رہوں۔ ہم سب سے ُدور۔ اپنے کمرے میں بند۔۔۔۔‬
‫آپ نے کبھی نوٹ کیا؟ وہ ہمیں اّمی ابو‪ ،‬یا انکل آنٹی‪ ،‬کچھ بھی کہہ کر نہیں پکارتی۔ جیسے وہ ہم‬
‫سے بات نہ کرنا چاہتی ہو۔ ہم سے کوئی رشتہ نہ قائم کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔ ‘‘‬
‫’’ہوں۔۔۔ جانتا ہوں۔ ضدی باپ کی بیٹی ہے ناں!۔۔۔۔ اپنے باپ کی طرح ضدی ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کی بات کے جواب میں وجاہت علی نے تبصرہ کیا۔‬
‫’’معلوم نہیں رجب کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اگلی پریشانی ظاہر کی۔‬
‫’’تم نے کبھی رجب سے پوچھا؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے سوال کیا۔‬
‫’’ہاں‪ ،‬پوچھا تھا اس سے۔۔۔ ا ُس نے تو پازیٹو ہی جواب دیا ہے۔ مگر کیا معلوم۔ جھوٹ ہی نہ بول رہا‬
‫ہو۔‘‘‬
‫’’نہیں۔۔ انشااهلل سب صحیح ہو گا۔ اگر وہ رجب کے ساتھ غلط سلوک کرتی تو رجب برداشت نہ کر‬
‫پاتا۔۔۔ اور اگر سب ٹھیک نہیں بھی۔ تو بھی کب تک وہ اپنی ضد پہ قائم رہے گی۔ اب ساری عمر تو اس‬
‫نے ہمارے ساتھ ہی گزارنی ہے۔ آج نہیں تو کل ا ُسے ہمیں قبول کرنا ہی ہوگا۔۔۔۔ ویسے بھی۔ ایک بچہ پیدا‬
‫ہو گیا تو ساری اکڑ بھول جائے گی۔ تب وہ سارے رشتے قبول کرے گی۔۔۔۔ تم تسلی رکھو۔ زیادہ دور نہیں‬
‫ہے وہ وقت۔‘‘‬
‫وجاہت علی کے اندر کا کمینہ انسان اپنی برتری کے احساس سے سرشار اور مطمعین تھا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫دن ہفتے اور ہفتے مہینے بن کر گزرتے چلے گئے۔ سکینہ بیگم کی توجہ‪ ،‬رجب کی محبت اور وجاہت‬
‫علی کی شفقت۔ کچھ بھی ا ُس چٹان کو موم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپنے باپ کی دی چوٹ ِدل پہ آج‬
‫دن ہفتے اور ہفتے مہینے بن کر گزرتے چلے گئے۔ سکینہ بیگم کی توجہ‪ ،‬رجب کی محبت اور وجاہت‬
‫علی کی شفقت۔ کچھ بھی ا ُس چٹان کو موم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپنے باپ کی دی چوٹ ِدل پہ آج‬
‫بھی روِز اّول کی طرح تازہ تھی۔ اگر وہ کبھی اپنی محبت کے ہاتھوں کمزور پڑنے لگتی تو یہ چوٹ ا ُسے‬
‫پھر سے خود کو سزا دینے پر اکساتی۔ نتیجتا ً وہ ابھی تک رجب سے ُدوری اور التعلقی اختیار کئے ہوئے‬
‫تھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫دسمبر لگ چکا تھا۔ سردی بہت بڑھ گئی تھی۔ صبح رجب اکیال ہی کھانستا ہوا ناشتے کی ٹیبل پہ‬
‫آیا۔‬
‫’’شوال کہاں ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم ماسی کے ساتھ ناشتہ لگا رہی تھیں۔ اسے تنہا پا کر پوچھا۔‬
‫’’وہ کہہ رہی ہے کہ ا ُسے ناشتہ نہیں کرنا۔ آپ تھوڑی دیر بعد ناشتہ ا ُس کے کمرے میں بھجوا‬
‫دیجیئے گا۔‘‘ ا ُس نے کہتے ہوئے کرسی سنبھال لی۔‬
‫’’یہ تو ٹھیک نہیں۔۔۔ تم ایسا کرو کہ اس کا اور اپنا ناشتہ اپنے کمرے میں لے جاؤ۔ دونوں ایک‬
‫ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا۔ ساتھ ہی ایک ٹرے لے کر ا ُس میں ناشتہ رکھنے لگیں۔‬
‫وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ا ُسے کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔‬
‫سکینہ بیگم نے پریشان ہو کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’تمہیں تو شدید کھانسی ہو رہی ہے۔۔۔۔ ٹھیک تو ہو تم؟‘‘‬
‫’’کچھ نہیں اّمی! آپ پریشان مت ہوں۔۔۔ گلے میں معمولی سی خراش ہے۔ ناشتے کے بعد دّوا لے لوں‬
‫گا۔‘‘‬
‫ا ُس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا اور سکینہ بیگم کی تیار کردہ ناشتے کی ٹرے ہاتھ بڑھا کر تھام‬
‫لی۔‬
‫’’اچھی بات ہے۔۔ بھولنا مت پھر۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم قدرے مطمعین سی ہو گیئیں۔‬
‫وہ ٹرے لے کر اوپر کی طرف چل دیا۔‬
‫وجاہت علی کام کے لئے تیار سیڑھیاں اتر کر اسی طرف آ رہے تھے۔ دونوں باپ بیٹے نے ایک دوسرے‬
‫کے قریب سے گزرتے ہوئے صبح کے سالم کا تبادلہ کیا۔ پھر وجاہت علی آگے ناشتے کی میز کی طرف بڑھ‬
‫آئے۔‬
‫’’رجب ناشتہ کہاں لے جا رہا ہے؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے میز پہ بیٹھتے ہوئے سکینہ بیگم سے پوچھا۔‬
‫’’کچھ مت پوچھیں وجاہت! میری تو اب کمر ٹوٹ چکی ہے۔‬
‫آٹھ مہینے گزر چکے ہیں۔ مگر یہ لڑکی آج بھی ہم سے ویسی ہی ُدوری بنائے ہوئے ہے۔۔۔ آج بھی‬
‫اس نے ہمارے درمیان بیٹھ کر ناشتہ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ ِاسی لئے میں نے رجب کو ناشتہ دے دیا کہ‬
‫اوپر جا کر ا ُس کے ساتھ ہی ناشتہ کر لے۔‘‘‬
‫چڑی ہوئی تھیں۔‬ ‫سکینہ بیگم سخت مایوس اور قدرے ِ‬
‫وجاہت علی نے ا ُن کی باتوں کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ کسی گہری‬
‫فکر میں مبتال تھے۔ سکینہ بیگم کو کوئی جواب نہ ِمال تو چہرہ موڑ کر بغور شوہر کا چہرہ دیکھا۔‬
‫’’آپ ِکن سوچوں میں ُگم ہیں؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے سوال کیا۔‬
‫وجاہت علی نے ا ُن کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی پریشانی بیان کی۔‬
‫’’کل ڈاکٹر سمیع نے مجھے بالیا تھا۔۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ کوئی ایسی بات ہے جو رجب کو پریشان‬
‫وجاہت علی نے ا ُن کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی پریشانی بیان کی۔‬
‫’’کل ڈاکٹر سمیع نے مجھے بالیا تھا۔۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ کوئی ایسی بات ہے جو رجب کو پریشان‬
‫کر رہی ہے۔ مگر رجب ا ُن سے چھپا رہا ہے۔۔۔‬
‫مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ مجھے ُکچھ پتا ہو؟۔۔۔۔۔ میں تب سے سوچ رہا ہوں کہ آخر ایسی کیا‬
‫بات ہو سکتی ہے؟ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہمارے سامنے تو ہے۔۔۔ پھر رجب کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے؟‬
‫اور وہ ہم سب سے کیوں چھپا رہا ہے؟ حتیٰ کہ ڈاکٹر سمیع سے بھی؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم شوہر کا جواب سن کر سوچ میں پڑ گیئیں۔ پھر تعجب اور بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫بولیں۔‬
‫’’کوئی آئیڈیا نہیں ہے وجاہت!۔۔۔ رجب کو کوئی پریشانی ہو تو وہ خاموش تو نہیں بیٹھتا۔۔۔۔ پھر یہ‬
‫کیسے ہو سکتا ہے کہ ا ُسے کوئی پریشانی بھی ہو اور وہ کسی کو کچھ بتائے بھی نہ۔ ‘‘‬
‫’’معلوم نہیں۔۔۔۔ پر تم فکر مت کرو۔ میں آفس میں بھی پتا کروں گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔‬
‫دونوں میاں بیوی بظاہر چائے پیتے ہوئے گہری سوچ میں پڑ گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫شوال وینٹی ٹیبل پہ رکھی خوشبودار موم بتّیاں الئٹر کی مدد سے روشن کر رہی تھی۔ ا ُسے ِان موم‬
‫بتیوں کی بھینی بھینی مہک بہت پسند تھی۔ ا ُس کے اور رجب کے بیچ یہ ایک ایسی چیز تھی جو دونوں‬
‫کو مشترکہ طور پر پسند تھی۔‬
‫دروازہ کھلنے کی آہٹ پہ ا ُس نے سٹول پہ بیٹھے بیٹھے ہی چہرہ گھما کر دروازے کی سمت دیکھا۔‬
‫رجب ٹرے میں ناشتہ لیے کمرے کے اندر آیا۔‬
‫’’چلو آؤ۔۔۔۔ تمہارے لئے کمرے میں ہی ناشتہ لے آیا ہوں۔ آ کر ناشتہ کر لو۔‘‘‬
‫رجب کہتے ہوئے ایک طرف رکھی میز تک گیا اور ٹرے میز پہ رکھ دی۔ پھر وہ کھانسی کا دورہ پڑنے‬
‫کے سبب میز سے ذرا دور ہٹ کر منہ پہ ہاتھ رکھ کر کھانسنے لگا۔‬
‫شوال نے ٹرے کی طرف دیکھا۔‬
‫بھاپ ا ُڑاتے چائے کے دو کپ دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ یہ ناشتہ صرف اس کے لئے نہیں بلکہ‬
‫رجب کے لئے بھی ہے۔‬
‫وہ ا ُٹھی اور بنا کچھ کہے کمرے سے نکلنے لگی۔‬
‫’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘‬
‫رجب نے سوال کیا۔‬
‫’’مجھے تمہارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ نہیں کرنا۔۔۔ میں باہر الن میں جا رہی ہوں۔‘‘‬
‫ا ُس نے سردمہری سے جواب دیا۔‬
‫’’الن میں ِاس وقت بہت ٹھنڈ ہے۔ اور ابھی اّمی‪ ،‬ابّو بھی ناشتے کی میز پہ موجود ہیں۔۔۔ تمہیں اس‬
‫وقت الن میں جاتے دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ میرے اور تمہارے بیچ کوئی گڑبڑ ہے۔‘‘‬
‫رجب نے دھیمی آواز میں ا ُسے سمجھایا۔‬
‫ا ُس کے اندر جیسے دھواں بھرنے لگا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اب تک شوال کی‬
‫بےاعتناہی کا عادی نہیں ہوا تھا۔ شوال کا سرد رویہ اور دھتکارتے الفاظ آج بھی اس کے ِدل کو زخمی کر‬
‫دیتے تھے۔‬
‫اپنے اندر بھرتا غبار وہ اندر ہی دبا کر قدرے تلخی سے بوال۔‬
‫’’تم ناشتہ کر لو۔ میں تمہارے ساتھ ناشتہ نہیں کروں گا۔‘‘‬
‫کہہ کر وہ ُمڑا اور میز پر سے ایک کپ ا ُٹھا کر لے جا کر واش بیسن میں ساری چائے انڈیل دی۔ پھر‬
‫کھانستا ہوا واش روم سے واپس کمرے میں آیا۔ خالی کپ میز پہ رکھا اور بیڈ پہ ڈاال اپنا لیپ ٹاپ ا ُٹھا کر‬
‫بالکونی میں چال گیا۔‬
‫بالکونی میں کرسی پہ بیٹھ کر ا ُس نے لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر کھول لیا۔ مگر الکھ خواہش کے‬
‫بالکونی میں چال گیا۔‬
‫بالکونی میں کرسی پہ بیٹھ کر ا ُس نے لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر کھول لیا۔ مگر الکھ خواہش کے‬
‫باوجود لیپ ٹاپ کی پاور آن نہ کر سکا۔ آنسو روکنے کی کوشش میں آنکھوں میں جلن ہونے لگی تھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رات گئے جب وہ سو چکی تب رجب کمرے میں آیا۔ املاری میں سے اپنا بستر نکال کر غالیچے پہ لگا‬
‫رہا تھا جب شدید کھانسی کے دورے نے گہری نیند سوئی شوال کو جگا دیا۔‬
‫ا ُس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔ نیم تاریکی میں ا ُس نے اپنے پیروں کی طرف رجب کو کھڑا پایا جو‬
‫اپنی کھانسی پہ قابو پاتے ہوئے غالیچے پہ اپنا بستر لگا رہا تھا۔‬
‫)یہ اب آ رہا ہے گھر؟۔۔۔۔ کہاں تھا یہ اب تک؟(‬
‫ا ُس نے بنا کسی حرکت کے تعجب سے سوچا۔‬
‫رجب بستر بچھا کر ا ُس پہ لیٹ گیا۔ وہ وقفے وقفے سے ا ُس کے کھانسنے کی آواز سنتی رہی۔ پھر‬
‫جانے کب ا ُس کی آنکھ لگ گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫دوسری دفعہ ا ُس کی نیند کوئی چیز گرنے کی زوردار آواز پہ ٹوٹی۔ وہ ہڑبڑا کر ا ُٹھ بیٹھی۔ نیم‬
‫تاریکی میں چہار سو نگاہیں دوڑائیں۔ کمرے میں سب جیسے کا ویسا تھا۔ جبکہ واش روم کی الئٹ آن‬
‫تھی۔ ا ُس نے آگے آکر اپنے بیڈ کے پائنتی سے نیچے جھانکا۔ رجب اپنے بستر میں نہیں تھا۔ ا ُس نےدوبارہ‬
‫چہرہ موڑ کر واش روم کے نیم وا دروازے کی سمت دیکھا۔‬
‫)کیا رجب واش روم میں ہے؟۔۔۔۔ لیکن وہ آواز کیسی تھی؟( ا ُس نے خود سے سوال کیا۔‬
‫کچھ دیر وہ ویسے ہی بیٹھی واش روم کے دروازے پہ نظریں جمائے اندر سے کسی ہلچل کی منتظر‬
‫رہی۔ مگر واش روم میں مکمل خاموشی تھی۔ ا ُس کی تشویش بڑھ گئی۔ باآلخر وہ ا ُٹھی اور تشویش کے‬
‫ساتھ واش روم کی طرف بڑھنے لگی۔‬
‫’’ر۔۔۔۔ رجب!‘‘‬
‫ہچکچاہٹ اور تشویش کے ساتھ‪ ،‬شاید ا ُس نے پہلی بار ا ُسے پکارا تھا۔‬
‫پکارنے کے بعد وہ دروازے سے قدرے ایک طرف ہٹ کر کھڑی جواب ملنے کی منتظر رہی۔ مگر اندر‬
‫جیسے مکمل خاموشی تھی۔‬
‫ا ُس نے ہاتھ بڑھا کر دھیرے سے پورا دروازہ کھول دیا۔‬
‫سامنے رجب فرش پہ بے ہوش پڑا تھا۔ ا ُسے بےہوش دیکھ کر وہ حواس باختہ ہوگئی۔ بھاگ کر ا ُس‬
‫کے پاس پہنچی اور پنجوں کے بل بیٹھ کر رجب کا کندھا جھنجوڑا۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ رجب!‘‘‬
‫ُ‬
‫سن رہا تھا۔ اور اس کا بدن جیسے آگ میں جل رہا تھا۔‬ ‫رجب ا ُس کی کوئی پکار نہیں ُ‬
‫وہ بری طرح گھبرا گئی۔ ا ُٹھی اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم کے کمرے کے باہر پہنچ کر ا ُس نے انکے کمرے کا دروازہ بری طرح پیٹ‬
‫ڈاال۔‬
‫جلد ہی کمرے کی الئٹ آن ہو گئی اور اندر سے وجاہت علی کی آواز آئی۔‬
‫’’کون؟‘‘‬
‫ا ُس نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے پھر سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔‬
‫تھوڑی دیر لگا کر جب وجاہت علی نے دروازہ کھوال تو ا ُن کے ہاتھ میں پستول تھا اور چہرے پہ‬
‫ہوائیاں ا ُڑ رہی تھیں۔ شوال کو سامنے پا کر ا ُن کی ساری پریشانی اچنبھے میں بدل گئی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ تم؟؟؟‘‘ فورا ً بیٹے کی فکر نےآن گھیرا۔‬
‫’’رجب کہاں ہے؟‘‘‬
‫’’شوال!۔۔۔ تم؟؟؟‘‘ فورا ً بیٹے کی فکر نےآن گھیرا۔‬
‫’’رجب کہاں ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم بھی ا ُن کی بغل سے نکل کر سامنے آئیں۔‬
‫’’رجب۔۔۔ باتھ روم میں بے ہوش ہو کر گِر گیا ہے۔‘‘‬
‫ا ُس نے پریشانی کے عالم میں بتایا۔‬
‫وجاہت علی نے ِاس سے آگے کچھ کہنے سننے میں وقت ضائع نہ کیا اور رجب کے کمرے کی طرف‬
‫دوڑ لگا دی۔ ا ُن کے پیچھے پیچھے ہی سکینہ بیگم تھیں اور سکینہ بیگم کے پیچھے وہ۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫فجر کا وقت تھا جب ا ُس نے اپنے کمرے میں گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سنی۔ یہ کال یقینا ً‬
‫سکینہ بیگم یا وجاہت علی کی طرف سے اس کے لئے تھی۔ ِاس وقت گھر میں کوئی نوکر تو تھا نہیں جو‬
‫فون ا ُٹھاتا۔ الچار ا ُسے ہی ا ُٹھنا پڑا۔‬
‫کوریڈور میں آکر ا ُس نے فون اسٹینڈ پہ رکھے فون کا ریسیور ا ُٹھایا۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘‬
‫’’ہیلو شوال!۔۔۔۔ کیسی ہو بیٹا!؟۔۔۔۔ تم اکیلی گھبرا تو نہیں رہی؟‘‘‬
‫دوسری طرف سکینہ بیگم تھیں۔‬
‫’’نہیں۔‘‘ ا ُس نے مختصرا ً جواب دیا۔‬
‫’’میں نے سوچا کہ تمہیں فون کر کے بتا دوں کہ رجب اب ٹھیک ہے۔۔۔۔ تم پریشان نہ ہونا۔‘‘‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫ا ُس نے پھر سے یک لفظی جواب دیا۔‬
‫’’اچھا سنو۔۔۔۔ ایسا کرنا کہ ماسی سے ناشتہ بنوا کر ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دینا۔۔۔ اور اگر تم‬
‫خود بھی اسپتال آنا چاہتی ہو تو ڈرائیور کے ساتھ تم بھی آ جانا۔ میں واپس گھر چلی جاؤں گی۔۔۔ ٹھیک‬
‫ہے؟ ‘ ‘‬
‫ب معمول بہت محبت اور اپنائیت کے ساتھ بول رہی تھیں۔‬ ‫سکینہ بیگم حس ِ‬
‫’’جی۔‘‘ اس نے اب بھی مختصر جواب دیا۔‬
‫’’اچھا خداحافظ۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا تو ا ُس نے بھی جواب میں خداحافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫سکینہ بیگم کی ہدایات کے مطابق ا ُس نے ناشتہ بنوا کر ڈرائیور کے ہاتھ اسپتال بھیج تو دیا مگر خود‬
‫نہ گئی۔‬
‫اس وقت وہ ہال میں سیڑھیوں کے قریب کھڑی صفائی کرتی ماسی کو ہدایات دے رہی تھی جب‬
‫سکینہ بیگم ہال میں داخل ہوئیں۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ تم اسپتال کیوں نہیں آئی؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔‬
‫’’آپ۔۔۔ واپس آ گیئیں؟‘‘ ا ُس نے جھجکتے ہوئے اپنے تعجب کا اظہار کیا۔‬
‫’’بھئی!۔۔۔ مجھے تمہارے شوہر نے واپس گھر بھیج دیا۔ ا ُسے تمہاری فکر ہو رہی تھی کہ تم گھر‬
‫میں اکیلی ہو۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کہتے ہوئے صوفے پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گیئیں۔ وہ کافی تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔‬
‫’’اچھا۔‘‘‬
‫ا ُس نے دھیرے سے کہا اور سیڑھیاں چڑھ کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔‬
‫’’اچھا۔‘‘‬
‫ا ُس نے دھیرے سے کہا اور سیڑھیاں چڑھ کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔‬
‫سکینہ بیگم بس ا ُسے جاتے ہوئے دیکھ کر رہ گیئیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رات کا وقت تھا۔ وجاہت علی اور سکینہ بیگم رجب کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ رجب بستر پہ نیم دراز‬
‫تھا۔ سکینہ بیگم ا ُس کے سامنے بیڈ کے کنارے بیٹھی تھیں۔ جبکہ شوال بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ کنارے پہ‬
‫ِٹکی بیٹھی تھی۔ وجاہت علی بھی رجب کے قریب ُکرسی ڈالے براجمان تھے۔‬
‫’’تو پھر طے ہے۔۔۔ کل آپ غریبوں میں پیسے بانٹئے گا۔ اور میں اپنے سکول کے بچوں میں چکن‬
‫بریانی تقسیم کروا کے ا ُن سے رجب کے لئے ُدعا منگواؤں گی۔۔۔۔ میرا بچہ صحت مند ہو کر اسپتال سے‬
‫لوٹ آیا ہے۔ اب خدا کا شکر بجا النے میں دیر نہیں کریں گے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے فیصلہ کن انداز میں وجاہت علی سے کہا۔‬
‫وجاہت علی نے تائید میں سر ہال دیا۔ جبکہ شوال سر جھکائے بالکل التعلق سی وہاں بیٹھنے پہ‬
‫مجبور تھی۔‬
‫’’آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں اّمی! جیسے مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا تھا۔‘‘ رجب نے کہا۔‬
‫’’خدا نہ کرے۔۔۔ جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہو۔۔۔ خیر کی بات بوال کرو۔‘‘‬
‫رجب کے الفاظ سن کر سکینہ بیگم کے ِدل پہ گھونسا پڑا تھا۔‬
‫’’خیر کی بات بول رہا ہوں ناں!۔۔۔‘‘ رجب نے برجستہ کہا اور بوال۔ ’’رات بہت ہو چکی ہے اور مجھے‬
‫نیند آ رہی ہے۔ آپ دونوں بھی اب جا کر اپنے کمرے میں سو جائیں۔۔۔۔ میری بیماری کی وجہ سے بہت بے‬
‫آرام رہے ہیں آپ دونوں۔ آپ کو اب آرام کرنا چاہیئے۔‘‘‬
‫’’ٹھیک ہے۔ سو جاؤ تم۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کہہ کر ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔ جبکہ وجاہت علی کچھ پس و پیش کرنے لگے۔ ویسے بھی ان‬
‫ماں بیٹے کی گفتگو کے دوران وہ خاصے خاموش اور کسی گہری سوچ میں گم تھے۔‬
‫’’میرے خیال سے۔۔۔۔ رجب ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہے۔ رات میں اسے کسی بھی چیز کی‬
‫ضرورت ہو سکتی ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے پُرسوچ انداز میں تہمید باندھی۔ پھر بولے۔‬
‫’’شوال تو ابھی بچی ہے۔۔۔ ِاسے کہاں ٹھیک سے دیکھ بھال کرنا آتا ہو گا۔۔۔۔ ایسا کرتے ہیں۔ میں‬
‫یہاں رجب کے ساتھ ُرک جاتا ہوں۔ اور تم شوال کو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘‬
‫رجب کو وجاہت علی کی یہ تجویز بےمعنی لگی۔‬
‫’’میں ٹھیک ہوں ابّو! ۔۔۔۔ آپ آرام سے اپنے کمرے میں جا کر سو جائیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو بھی وجاہت علی کا فیصلہ غیر ضروری لگا۔ مگر وہ بولیں کچھ نہ۔‬
‫’’رجب! ‘‘‬
‫وجاہت علی نے تنبیہہ کرنے کے انداز میں رجب کو گہری نظروں سے دیکھا۔‬
‫’’ضد مت کرو بیٹا!۔۔۔ تمہارے اور شوال کے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں۔ ا ُدھر میں بھی اپنے کمرے‬
‫میں ساری رات بےچین رہوں گا۔۔۔۔ میں تمہارے پاس ہوں گا تو تمہاری مدد تو کر سکوں گا!۔ ورنہ اگر خدا‬
‫نخواسطہ رات کو تمہیں کوئی پریشانی ہوئی۔ تو شوال بےچاری یہاں سے ا ُٹھے گی اور جاکر مجھے بُالئے‬
‫گی۔۔۔ ِاس کی بجائے یہ بہتر نہیں کہ میں یہیں پہ سو جاؤں؟۔ تمہاری بروقت مدد بھی کر سکوں گا اور‬
‫شوال اور تمہاری ماں بھی چین کی نیند سوئی رہیں گی۔۔۔‬
‫ہم سب کو ہی ِبالوجہ کی بےآرامی سے بچانے کیلئے کہہ رہاہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔‬
‫رجب الجواب سا ہوگیا۔ سکینہ بیگم بھی کچھ نہ کچھ قائل ہو گیئیں۔ دونوں پارٹیوں کو مثبت ہوتا‬
‫دیکھ کر وجاہت علی نے دیر نہ کی۔‬
‫رجب الجواب سا ہوگیا۔ سکینہ بیگم بھی کچھ نہ کچھ قائل ہو گیئیں۔ دونوں پارٹیوں کو مثبت ہوتا‬
‫دیکھ کر وجاہت علی نے دیر نہ کی۔‬
‫بولے۔‬
‫’’چلو شوال بیٹا!۔۔۔ تم اپنی اّمی کے ساتھ جا کر سو جاؤ۔۔۔ میں ہوں یہاں رجب کے پاس۔‘‘‬
‫وجاہت علی کے حکم پر شوال خاموشی سے ا ُٹھ کر سکینہ بیگم کے ساتھ ہو لی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫سہ پہر کا وقت تھا۔ وجاہت علی ہاتھ میں ایک بڑا سا کاغذی لفافہ لئے ہال میں داخل ہوئے۔‬
‫’’اسالم علیکم صاحب جی!‘‘‬
‫کسی کام سے گزرتی ماسی نے انھیں دیکھ کر سالم کیا۔‬
‫’’واعلیکم السالم۔۔ سکینہ ابھی تک نہیں لوٹی سکول کے فنکشن سے؟‘‘‬
‫سالم کا جواب دینے کے ساتھ ہی وجاہت علی نے پوچھا۔‬
‫’’جی نہیں صاحب جی!۔ ا ُن کا فون آیا تھا۔ کہہ رہی تھیں کہ واپسی میں ذرا دیر ہو جائے گی۔‘‘‬
‫ماسی نے جواب دیا۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔ شوال کو میرے کمرے میں بھیجو۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ماسی کو حکم صادر کر کے اپنے کمرے کا قصد کیا۔‬
‫ماسی بھی ا ُن کے حکم کی تعمیل میں ا ُن کے پیچھے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ وجاہت علی کے کمرے کے دروازے پہ پہنچ کر ُرک گئی۔ دروازہ کھال تھا اور وجاہت علی صوفہ چیئر‬
‫کی پشت پہ سر ڈالے آنکھیں موندے جیسے سو رہے تھے۔ اگر وہ پکارتی تو ا ُسے کسی رشتے کا نام لے کر‬
‫انھیں مخاطب کرنا پڑتا۔ جو کہ ا ُسے کبھی بھی گوارا نہ تھا۔ سو ا ُس نے دروازے پہ ہلکی سی دستک دے‬
‫ڈالی۔‬
‫وجاہت علی نے دستک کی آواز پہ آنکھیں کھولیں اور ا ُسے دیکھ کر سیدھے ہو بیٹھے۔‬
‫’’آؤ شوال بیٹا!۔۔۔ اندر آؤ۔‘‘‬
‫الفاظ میں شفقت مگر آواز میں گہری سنجیدگی تھی۔‬
‫وہ خاموشی سے چل کر ا ُن کے قریب آئی۔‬
‫وجاہت علی کے سامنے کچھ فاصلے پہ ُفٹ ریسٹنگ اسٹول پڑا تھا۔ جس پہ انھوں نے وہ لفافہ ڈال‬
‫رکھا تھا جو وہ باہر سے الئے تھے۔‬
‫’’بیٹھو یہاں پہ۔‘‘‬
‫اسٹول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے گہری سنجیدگی کے ساتھ کہا اور لفافہ ا ُٹھا کر ہاتھوں‬
‫میں لے لیا۔‬
‫وہ بےتاثر چہرہ لئے تابعداری سے اسٹول پہ جا بیٹھی۔‬
‫’’تم ٹھیک ہو ناں! کوئی پریشانی تو نہیں؟۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔‬
‫اس نے جواب میں نفی میں سر ہال دیا۔‬
‫’’رجب کا بخار مکمل طور پہ ا ُتر چکا ہے۔ آج سے تم واپس اپنے کمرے میں سونا۔‘‘‬
‫انھوں نے پھر نرمی سے کہا۔‬
‫ُ‬
‫وہ کچھ نہ بولی۔ اندر ہی اندر الجھنے لگی کہ وجاہت علی اسے خاص طور سے بُال کر یہ بےمعنی‬
‫سی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟‬
‫’’تم نے تین ِدن خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر گزارے۔ میں تمہارے ِاس تعاون کے لئے تمہارا‬
‫ممنون ہوں۔‘‘‬
‫’’تم نے تین ِدن خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر گزارے۔ میں تمہارے ِاس تعاون کے لئے تمہارا‬
‫ممنون ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ایک اور بےمعنی سی بات کی۔‬
‫ا ُس نے اب بھی اپنا جھکا ہوا سر نہ ا ُٹھایا۔‬
‫’’مجھے آج رجب کی رپورٹس ملی ہیں۔‘‘‬
‫اچانک وجاہت علی کا لہجہ انتہائی گھمبیر ہو گیا۔‬
‫ا ُس نے پہلی بار چونک کر سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫جوابا ً وجاہت علی نے لفافے میں سے کاغذات نکال کر ا ُس کی طرف بڑھا دیئے۔ چہرے پہ انتہا کی‬
‫سنجیدگی تھی۔‬
‫’’شوال! میں یہ ُدکھ اکیلے نہیں ا ُٹھا سکوں گا۔ مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔‬
‫’’کیا ُہوا؟‘‘‬
‫وہ خاموش نہ رہ سکی۔ وجاہت علی کے بڑھائے ہوئے کاغذات تھامتے ہوئے سوال کیا۔‬
‫اک انجانے خوف نے ِدل کو ایسے گھیرا کہ ِدل گھبرا کر سینے سے آزاد ہونے کی کوشش میں‬
‫پسلیوں کے قفس پہ ضربیں لگانے لگا۔‬
‫’’رجب کا کینسر السٹ اسٹیج پہ ہے۔۔۔ ڈاکٹرز نے عالج سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔‘‘‬
‫کاغذات تھامے ہوئے ا ُس کا ہاتھ کانپ گیا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یوں لگا جیسے سر پہ کوئی پہاڑ‬
‫ٹوٹا ہو۔‬
‫ا ُس نے بےترتیب سانسوں کے ساتھ پاگلوں کی طرح ایک کے بعد ایک صفحہ پلٹ کر دیکھا۔ اپنی‬
‫آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی ا ُسے یقین نہیں آ رہا تھا۔‬
‫ا ُس نے اپنی بےیقین نگاہیں کاغذات سے ا ُٹھا کر وجاہت علی کو دیکھا۔‬
‫’’یہ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ابو!؟۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ نہیں۔‘‘‬
‫وہ چیخ پڑی۔‬
‫وجاہت علی بھی آنکھوں سے آنسو بہاتے‪ ،‬لب کاٹتے ا ُسے ہی دیکھ رہے تھے۔‬
‫’’یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ یہ سچ نہیں ہے۔۔۔ یہ حقیقت نہیں۔۔۔ میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ یہ‬
‫حقیقت نہیں ہے۔‘‘‬
‫وہ کاغذات کو مٹھیوں میں بھینچے انھیں دیکھتے ہوئے پاگلوں کی طرح بڑبڑا رہی تھی اور رو رہی‬
‫تھی۔ پھر ا ُس نے اپنے دونوں ہاتھوں پہ اپنا سر ِگرا دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔‬
‫وجاہت علی نے کچھ دیر ا ُسے رونے ِدیا۔ پھر سمجھانے کے انداز میں بولے۔‬
‫’’شوال!۔۔۔۔ پلیز سنبھالو خود کو۔۔۔۔ ایسے نہ کرو۔۔ میں نے سوچا تھا کہ تم مجھے ڈھارس دو گی۔‬
‫میرا درد بانٹو گی۔‘‘‬
‫ُ‬ ‫ِ‬
‫وجاہت علی نے اپنا دست شفقت اس کے سر پہ رکھ کر التجائیہ کہا۔‬
‫وہ ا ُسی طرح روتی رہی۔‬
‫وجاہت علی نے جانا کہ وہ ابھی بھی سنبھلنے کی حالت میں نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کچھ دیر‬
‫کیلئے اسےاس کے حال پہ چھوڑ دیا۔‬
‫پھر بولے۔‬
‫’’دیکھو۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں سکینہ واپس آتی ہوگی۔ اس کے بعد رجب بھی آ جائے گا۔۔۔۔ یہ بات ا ُن‬
‫دونوں کو معلوم نہیں پڑنی چاہیئے۔۔۔ سکینہ یہ سہہ نہیں سکے گی۔ اور رجب تو پتا نہیں کیا کر بیٹھے۔۔۔‬
‫پلیز۔ ا ُن کے آنے سے پہلے تمہیں خود کو سنبھالنا ہو گا۔ ان کے سامنے بالکل نارمل طریقے سے پیش آنا ہو‬
‫گا۔ ‘‘‬
‫شوال نے ا ُن کی باتیں سن کر اپنے رونے پہ قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے دھیرے سے اپنا سر‬
‫ا ُٹھایا۔‬
‫’’شاباش!۔۔۔ میری بہادر بیٹی۔۔۔ حوصلہ کرو۔۔ رونے سے کیا حاصل؟۔۔۔ ہمیں خوش رہنا ہے۔ اور‬
‫ا ُٹھایا۔‬
‫’’شاباش!۔۔۔ میری بہادر بیٹی۔۔۔ حوصلہ کرو۔۔ رونے سے کیا حاصل؟۔۔۔ ہمیں خوش رہنا ہے۔ اور‬
‫رجب کو خوش رکھنا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے غمزدہ آواز میں کہا۔‬
‫وہ مزید برداشت نہ کر سکی۔ مٹھیوں میں دبائے پیپرز وہیں پہ پھینک کر باہر کی اور دوڑ لگا دی۔‬
‫وجاہت علی نے ا ُسے روکنے کی کوشش نہ کی۔ انھیں تسلی تھی کہ شوال سکینہ بیگم اور رجب کا‬
‫سامنا کرنے سے پہلے خود کو سنبھال لے گی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫شام کو رجب کام سے لوٹا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو شوال کو سامنے غالیچے پہ جائے نماز‬
‫بچھائے بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ پہلے کبھی ا ُس نے شوال کو کوئی نماز وغیرہ پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ اور‬
‫یہ بےوقت کی نماز تو اس کی سمجھ سے باالتر تھی۔‬
‫اپنی حیرت کا اظہار کئے بنا وہ صوفے کی طرف بڑھ گیا۔ ہاتھ میں پکڑا لیپ ٹاپ بیگ اور ایک رولڈ‬
‫شیٹ صوفے پہ ڈال دی۔ پھر کپڑے بدلنے کی غرض سے پہلے اس نے اپنی آستینوں کے بٹن کھولے۔ پھر‬
‫شرٹ کے بٹن کھولتےہوئے وہ پلٹا۔‬
‫شوال نے ا ُٹھ کر جائے نماز بیڈ پہ ڈال دی تھی۔ چونکہ ا ُس کی طرف بدستور ا ُس کی پیٹھ تھی۔ سو‬
‫وہ جان نہیں سکا کہ وہ کیسے موڈ میں ہے۔‬
‫وہ ا ُسے ُبالنے سے گریز کرتا واش روم کی طرف بڑھنے لگا۔ اپنے ہی دھیان میں وہ شرٹ کے بٹن‬
‫کھولتا شوال کی پیٹھ پیچھے سے گزر رہاتھا جب اچانک شوال نے اس کا بازو پکڑ کر روک لیا اور ُمڑ کر‬
‫ا ُس کے سینے سے لگ گئی۔‬
‫فورا ً ا ُسکی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا ہے۔ پل دو پل تو وہ ویسے ہی بانہیں پھیالئے شاکڈ سا کھڑا‬
‫رہا۔ پھر ا ُس کے وجود میں جنبش ہوئی۔ ا ُس نے ہمت کر کے سر جھکا کر شوال کو دیکھا۔‬
‫وہ ا ُس کے برہنہ سینے میں منہ چھپائے بُری طرح روئے چلی جا رہی تھی۔‬
‫دھیرے دھیرے‪ ،‬جھجکتے ہوئے اور کچھ بے یقینی کے ساتھ۔ ا ُس نے اپنے بازو سمیٹے۔ شوال کا اس‬
‫ُبری طرح سے رونا ا ُسے تشویش میں مبتال کر رہا تھا۔ تکّلف کے ساتھ ا ُس نے شوال کے شانوں پہ اپنے‬
‫ہاتھ ِٹکائے۔‬
‫’’شش۔۔۔۔۔۔ شوال!‘‘‬
‫ا ُس نے بمشکل ا ُس کا نام لیا۔‬
‫’’آئی لّو یُو۔۔۔۔ آئی لّو یُو رجب!۔ ‘‘‬
‫شوال نے جیسے ا ُس کے سامنے اپنی شکست تسلیم کی۔ ساتھ ہی ا ُس کے رونے میں اور شدت آ‬
‫گئی۔‬
‫اتنا اچانک اور غیر متوقع اظہاِرمحبت۔‬
‫رجب کی تو جیسے سانس ہی اٹک گئی۔ پھر ا ُس نے جدوجہد کے ساتھ دو تین بار ملبی ملبی‬
‫سانسیں لے کر اپنی سانسوں کا تسلسل بحال کیا۔ شوال کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے ا ُس کی‬
‫آنکھیں چھلک گیئیں۔‬
‫’’آئی لّو یُو ٹُو۔‘‘‬
‫ا ُس نے کہا۔‬
‫شوال کے رونے کی شدت میں کوئی کمی آ کر نہ دے رہی تھی۔‬
‫’’جانم!۔۔ تم اتنا رو کیوں رہی ہو؟‘‘‬
‫ا ُسے پوچھتے ہی بنی۔‬
‫شوال کچھ نہ بولی۔ بس روتی چلی گئی۔‬
‫چا تھا جانم!۔‘‘‬
‫’’آخر۔ تم نے میری محبت اور خلوص کا اعتراف کر لیا ناں!۔۔۔ میں س ّ‬
‫شوال کچھ نہ بولی۔ بس روتی چلی گئی۔‬
‫چا تھا جانم!۔‘‘‬ ‫’’آخر۔ تم نے میری محبت اور خلوص کا اعتراف کر لیا ناں!۔۔۔ میں س ّ‬
‫قدرے توقف کے بعد ا ُس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔‬
‫’’رجب!‘‘ شوال نے روتے ہوئے ا ُس کا نام لیا۔‬
‫’’ہاں۔‘‘‬
‫’’رجب!‘‘ آواز پہ آنسو غالب آ گئے۔‬
‫’’جانم!۔۔۔ ‘‘‬
‫رجب نے ا ُسے شانوں سے تھام کر خود سے الگ کر کے ا ُس کا چہرہ بغور دیکھا۔‬
‫’’مجھے پریشانی ہو رہی ہے۔ تم اتنا کیوں رو رہی ہو؟‘‘‬
‫ا ُس کے چہرے پہ تشویش تھی۔‬
‫شوال نے رونا بند کرنے کی کوشش کے دوران آنسوؤں سے لبریز آنکھیں ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’وعدہ کرو۔۔۔۔ ‘‘‬
‫ا ُس کی آواز رونے کی وجہ سے بوجھل تھی۔ ُرک کر ہمت مجتمع کی۔ پھر بولی۔‬
‫’’ کہ تم مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤ گے۔ کبھی نہیں۔‘‘‬
‫رجب کے لبوں کو مسکراہٹ چھُو گئی۔‬
‫’’میں وعدہ کرتا ہوں شوال! میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ ہرگز نہیں۔‘‘ ا ُس نے ِدل و جان سے‬
‫عہد کیا۔‬
‫شوال کی تسلی نہ ہوئی۔‬
‫’’کبھی بھی نہیں چھوڑو گے ناں!؟۔۔۔ ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ وعدہ کرو مجھ سے۔‘‘‬
‫’’ہاں ہاں جانم!۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘‬
‫اب کے پھر ا ُس نے وثوق سے کہا۔‬
‫’’اور اگر پھر بھی تم نے میرا ساتھ چھوڑا تو؟۔۔۔۔‘‘‬
‫شوال کا خوف کسی طور کم نہ ہو رہا تھا۔‬
‫چکا۔‘‘‬‫’’تو سمجھ لینا کہ رجب مر ُ‬
‫رجب نے برجستہ کہہ کر ا ُسے بُری طرح ُرال دیا۔‬
‫’’رجب!۔۔‘‘‬
‫چالئی جیسے رجب نے ا ُس کا ِدل کاٹ کر دو ٹکڑے کر دیا ہو۔‬ ‫وہ ایسے ِ‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ ایسے مت روؤ۔۔۔ پلیز!‘‘‬
‫رجب ا ُس کے اسطرح رونے سے گھبرا گیا۔ اپنا آپ مجرم کی طرح محسوس ہونے لگا۔‬
‫جس ِدن تم مرو گے‪ ،‬میں بھی اسی ِدن تمہارے ساتھ ہی مروں گی۔۔۔۔ مجھے‬ ‫’’ایسا مت کہو ۔۔۔۔ ِ‬
‫نہیں جینا تم سے بچھڑ کر۔‘‘‬
‫ا ُس کا رونا کسی طور نہیں تھم رہا تھا۔‬
‫رجب کو ا ُس کی محبت کی شّدتیں محسوس کر کے جہاں سرشاری محسوس ہوئی۔ وہیں شوال کے‬
‫اسطرح سے رونے اور ِان باتوں سے خوف بھی آیا۔ ا ُس کی پیٹھ سہالتے ہوئے بوال۔‬
‫’’جانم!۔ ہم مرنے‪ ،‬بچھرنے کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔ ابھی تو ہم ِملے ہیں۔۔ ِملنے کی باتیں کرو۔‬
‫ایک ساتھ جینے کی باتیں کرو۔۔۔ پیار و محبت کی باتیں کرو۔‘‘‬
‫رجب کا یہ کہنا تھا کہ ا ُس کے رونے میں کمی آنے لگی۔‬
‫’’ادھر بیٹھ جاؤ۔‘‘‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫تسلی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے رجب نے اسے شانوں سے تھام کر بیڈ کے پائنتی بٹھایا۔ خود اس‬
‫کے برابر بیٹھ کر ا ُس کے آنسو پونچھنے لگا۔‬
‫’’اب رونا بند کرو۔۔۔ شاباش۔‘‘‬
‫شوال تقریبا ً رونا بند کر چکی تھی۔ مگر ا ُس کے آنسو پونچھتے پونچھتے رجب کی اپنی آنکھیں‬
‫’’اب رونا بند کرو۔۔۔ شاباش۔‘‘‬
‫شوال تقریبا ً رونا بند کر چکی تھی۔ مگر ا ُس کے آنسو پونچھتے پونچھتے رجب کی اپنی آنکھیں‬
‫چھلک گیئیں۔ وہ جلدی سے چہرہ دوسری اور گھما کر اپنے ہاتھ کی پشت پہ آنسو سمیٹنے لگا۔‬
‫’’اب تم خود کیوں رو رہے ہو؟‘‘‬
‫بھیگی پلکوں‪ ،‬گالبی آنکھوں اور گالبی ناک کی نوک لئے شوال نے قدرے شکواہ کناں لہجے میں ا ُس‬
‫سے سوال کیا۔ رجب نے آنسو پونچتھے ہوئے چہرہ ا ُس کی طرف گھمایا۔‬
‫’’رو نہیں رہا۔۔۔ اوّور ایکسائیٹڈ ہوں۔‘‘‬
‫پھر شوال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بوال۔ ’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ سب ایک حقیقت‬
‫جس حالت میں مَیں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ شام‬ ‫ہے۔۔۔ صبح ِ‬
‫کو تم مجھے اس طرح سے ِملو گی۔ میں زندگی میں پہلے کبھی اتنا خوش نہیں ہوا جتنا کہ آج ہوں۔‘‘‬
‫رجب کی آنکھیں پھر سے پانیوں سے بھر گیئیں۔ جبکہ ہونٹوں پہ ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔‬
‫رجب کے الفاظ سن کر شوال کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔‬
‫)صبح میرے بھی فرشتوں کو خبر نہیں تھی کہ میں شام کو تم سے ایسے ملوں گی۔ مگر۔۔۔۔(‬
‫ا ُس نے سوچا اور رجب کا دائیاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوم لیا۔‬
‫رجب کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔ ا ُس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر بوال۔‬
‫’’اب تم بھی مجھے کبھی خود سے دور مت کرنا شوال!۔۔۔ تمہاری نفرت‪ ،‬تمہاری دھتکار مجھے بہت‬
‫چوٹ پہنچاتی تھی۔ اب اگر پھر سےتم نے مجھ سے نفرت کی‪ ،‬مجھے دھتکارا تو میں برداشت نہیں کر‬
‫پاؤں گا۔ َمر جاؤں گا میں۔‘‘‬
‫ا ُس کی آواز رندھ گئی۔‬
‫شوال روہانسی ہو کر ا ُس کے گلے لگ گئی۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ دوبارہ کبھی ایسی بات اپنی زبان پہ مت النا۔‘‘‬
‫ا ُس کی آنکھوں سے پھر سے آنسو بہہ ِنکلے۔‬
‫’’تم وعدہ کرتی ہو ناں! کہ تم کبھی مجھ سے نفرت نہیں کرو گی؟۔ مجھے کبھی نہیں دھتکارو گی؟۔‬
‫کبھی مجھ سے دور نہیں جاؤ گی؟۔‘‘‬
‫رجب نے بھی بہتے آنسوؤں کے درمیان پوچھا۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔ پّکا وعدہ۔‘‘‬
‫ِ‬
‫ا ُس نے روتے ہوئے اپنے پختہ عہد کا یقین دالیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫صبح وہ کام کے لئے تیار وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا بالوں میں کنگھی کر رہا تھا۔ ٹیبل پہ جلتی‬
‫خوشبودار شمعیں ماحول کو مہکا رہی تھیں۔‬
‫بال سیٹ کر کے وہ نیچے جانے کے لئے مکمل تیار تھا۔ برش ٹیبل پہ رکھ کر پلٹا۔‬
‫شوال بستر میں لیٹی گہری نیند سو رہی تھی۔‬
‫وہ خاموش قدموں ا ُس کے قریب چال آیا۔ بیڈ کے کنارے ِٹک کر اس نے اپنا ایک ہاتھ شوال کے اوپر‬
‫ُ‬
‫سے گزار کر ہتھیلی بیڈ پہ ٹکا دی اور محبت سے شوال کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ا ُس کے ذیہن میں رات کا‬
‫واقعہ تازہ ہو گیا۔‬
‫ھل گئی تھی۔ ا ُس نے کمرے کی نیم تاریکی‬ ‫جب رات کے کسی پہر کروٹ بدلتے ہوئے ا ُس کی آنکھ ک ُ‬
‫میں دیکھا کہ شوال ہیڈ بورڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی ہے۔‬
‫’’شوال! تم جاگ رہی ہو؟‘‘‬
‫اس نے اچنبھے سے پوچھنے کے ساتھ ہی سائیڈ لیمپ آن کردیا۔ چہرہ گھما کر دیکھا تو شوال کو‬
‫آنسو پونچھتے پایا۔‬
‫’’شوال!۔‘‘ وہ بےچین ہو کر ا ُٹھ بیٹھا۔‬
‫آنسو پونچھتے پایا۔‬
‫’’شوال!۔‘‘ وہ بےچین ہو کر ا ُٹھ بیٹھا۔‬
‫’’کیوں رو رہی ہو جانم!؟‘‘‬
‫ا ُس نے گالوں کو پونچھتا شوال کا ہاتھ پکڑ لیا۔‬
‫شوال نے نظریں ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’آٹھ مہینے۔۔۔ رجب! ہماری زندگی کے آٹھ قیمتی ترین مہینے میں نے ایک بےکار کی ضد کی نذر کر‬
‫دیئے۔۔۔ میں اپنی جان دے کر بھی وہ وقت واپس نہیں ال سکتی۔‘‘‬
‫شوال نے انتہائی ُدکھ اور پچھتاوے کے احساس کے ساتھ کہا۔‬
‫پھر مضطرب ہو کر رجب سے سوال کرنے لگی۔‬
‫’’کیوں رجب!؟۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟۔۔۔۔ کیوں وقت نکل گیا میرے ہاتھ سے؟۔۔۔ کیوں‬
‫میں نے اتنی دیر کر دی؟‘‘‬
‫وہ بُری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ رو رو کر پچھتاوے کا اظہار کر رہی تھی۔‬
‫ا ُس کی آواز میں درد کی شدت رجب نے واضح محسوس کی۔ ا ُسے خود سے لگا کر سرگوشیانہ بوال۔‬
‫’’شش۔۔۔۔ ایسے مت سوچو۔۔۔۔ جو ہو چکا‪ ،‬سو ہو چُکا۔۔۔۔ آخرکار ہم ایک ہو تو گئے ناں!۔۔۔ ‘‘‬
‫وہ ا ُس کے بال سہالتے ہوئے ا ُسے دالسہ دے رہا تھا۔ جبکہ وہ روئے چلی جا رہی تھی۔‬
‫چپ کر جاؤ۔۔۔ بھول جاؤ ا ُن باتوں کو۔۔۔ ‪ That’s all over now.‬۔۔۔۔۔‬ ‫’’پلیز۔۔۔ ُ‬
‫مجھےبھی تو دیکھو۔۔۔۔ آج صبح تک مجھے یہ گزرے آٹھ مہینے آٹھ صدیوں سے بھی ملبے لگتے‬
‫تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں ازل سے تمہاری دھتکار سہہ رہا ہوں۔۔۔ لیکن آج شام سے مجھے ایسے لگ‬
‫رہا ہے جیسے وہ وقت کبھی میری زندگی میں آیا ہی نہیں تھا۔۔۔ میری زندگی کی کتاب سے وہ صفحے‬
‫جیسے حضف ہو گئے ہوں۔۔۔ کیا تم بھی میری طرح نہیں سوچ سکتی؟۔۔۔۔‬
‫صہ ہے۔۔۔ بھول جاؤ سب۔۔۔ آگے کے بارے میں سوچو۔۔۔ ہمارے آنے‬ ‫جو گزر چکا وہ اب ماضی کا ح ّ‬
‫والے کل کے بارے میں۔ تب تو ہم ُجدا نہیں ہوں گے۔۔ ہے ناں!؟‘‘‬
‫رجب ا ُسے نرمی سے سمجھا رہا تھا۔ وہ رجب کے سمجھانے پہ خود کو سنبھالنے لگی تھی مگر‬
‫رجب کے آخری جملے ا ُسکا اضطراب بڑھا گئے۔ ا ُس کا جی چاہا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ لیکن‬
‫ا ُسے ایسا ظاہر کرنا تھا جیسے رجب کی باتوں سے اس کے ِدل کو تسلی ِملی ہو۔ ِاس کوشش میں ا ُس کی‬
‫حالت غیر ہونے لگی۔‬
‫’’شوال۔۔۔ شوال پلیز۔۔۔۔ ایسے مت کرو۔ سنبھالو خود کو۔‘‘‬
‫رجب ا ُس کی حالت دیکھ کر بے قرار ہو گیا۔ جیسے تیسے شوال خود کو ُپرسکون کرنے لگی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫ا ُس کا ذیہن واپس حال میں لوٹا۔ شوال کا چہرہ دیکھتے ہوئے وہ قدرے درد کے ساتھ مسکرایا اور‬
‫اپنے ہاتھ کی انگلیوں کی پشت نرمی سے شوال کے گال پہ رگڑی۔‬
‫شوال نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں۔‬
‫وہ چونک گیا۔‬
‫’’سوری۔۔۔ میں تمہیں جگانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ تم واپس سو جاؤ۔‘‘‬
‫ا ُس نے قدرے شرمندگی اور فکر مندی سے کہا۔‬
‫شوال نےاطراف میں ہاتھ ٹیک کر خود کو اونچا کیا۔‬
‫’’تم کام پہ جا رہے ہو؟‘‘‬
‫’’ہوں۔‘‘‬
‫ا ُس نے جواب میں اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫’’پلیز۔ نہ جاؤ ناں!۔ آج گھر پہ رہو۔ میرے ساتھ۔‘‘‬
‫شوال نے ملتجی لہجے میں کہا۔‬
‫’’پلیز۔ نہ جاؤ ناں!۔ آج گھر پہ رہو۔ میرے ساتھ۔‘‘‬
‫شوال نے ملتجی لہجے میں کہا۔‬
‫’’ہوں۔۔۔ دیٹ ُوڈ بی گریٹ۔۔۔ پر گھر والے کیا سوچیں گے؟‘‘‬
‫ا ُس نے ُپر سوچ انداز میں سراہا اور سوال کیا۔‬
‫’’گھر والے گھر پہ ہوں گے ہی نہیں۔۔ اّمی سکول چلی جائیں گی۔ اّبو کام پہ۔ دوپہر تک تو کوئی‬
‫نہیں ہوگا۔ پھر ہم لنچ کرنے باہر چلیں گے۔ ایک ساتھ وقت گزاریں گے۔ اور رات کا کھانا کھا کر واپس آ‬
‫جائیں گے۔‘‘‬
‫’’پالن تو اچھا ہے۔ لیکن اّبو سے کیا کہوں گا کہ کیوں نہیں جا رہا کام پہ؟‘‘‬
‫رجب مشکل میں پڑ گیا۔‬
‫’’پلیز۔۔۔‘‘‬
‫جوابا ً شوال نے التجا کی۔‬
‫’’اچھا میں دیکھتا ہوں۔‘‘‬
‫ا ُس سے شوال کی مسکین صورت دیکھی نہ گئی۔ فورا اٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫ُ‬ ‫ً‬
‫پہلے جاکر رائٹنگ ٹیبل پر سے رولڈ شیٹ اور ایک فائل ا ُٹھائی۔ اور دونوں چیزیں لے کر کمرے سے‬
‫نکل گیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫نیچے پہنچا تو وجاہت علی کو ناشتے کی میز پہ تنہا پایا۔‬


‫’’ُگڈ مورننگ۔۔۔ آپ اکیلے بیٹھے ہیں؟‘‘‬
‫ا ُس نے قریب آ کر وجاہت علی سے کہا۔‬
‫وجاہت علی اورنج جوس پی رہے تھے۔ آواز پہ چہرہ گھما کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’آؤ صاحبزادے!۔۔۔ تمہاری ماں تو سکول جا چکی ہے تو اکیلے ہی بیٹھوں گا۔۔۔ تم کیوں نیچے‬
‫آگئے؟۔۔۔ میں کمرے میں ہی ناشتہ بھجوا دیتا۔ دونوں میاں بیوی اکٹھے بیٹھ کر کرتے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ا ُس کو جواب دینے کے ساتھ ہی نیچے آنے پہ ٹوکا۔‬
‫’’ابّو۔۔ وہ۔۔۔‘‘‬
‫رجب اپنے مقصد کی بات کرتے ہوئے ہچکچا گیا۔ سمجھ نہ آیا کہ کیا کہے‪ ،‬کیسے کہے۔‬
‫’’ہاں۔ بولو۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے فراخ دلی دکھاتے ہوئے ا ُس کی حوصلہ افزائی کی۔‬
‫’’مجھے آج کے لئے چھٹی چاہیئے تھی۔‘‘‬
‫وہ بمشکل کہہ کر ذیہن میں جواز تراشنے لگا۔‬
‫ف توقع وجاہت علی نے کسی حیرت کا اظہار کیا نہ وجہ پوچھی۔‬ ‫خال ِ‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔ کر لو۔‘‘‬
‫ً‬ ‫ُ‬
‫بنا کسی سوال وجاہت علی نے اسے فورا چھٹی دے دی۔‬
‫ا ُسے حیرت تو ہوئی مگر پوچھ نہ سکا۔ ایک پل کو حیرت سے انھیں دیکھا۔ پھر ہاتھ میں پکڑی فائل‬
‫سامنے ٹیبل پہ رکھی اور رول کی ہوئی شیٹ وجاہت علی کی طرف بڑھائی۔‬
‫’’یہ بلیو پرنٹس۔۔۔۔ ابھی ریڈی نہیں ہیں۔۔۔ میں رات کو کرنے کے لئے الیا تھا‪ ،‬مگر نہیں کر سکا۔‘‘‬
‫ا ُس نے ایسے ڈر اور شرمندگی سے کہا جیسے کوئی بچہ سکول میں سبق یاد کر کے نہیں جاتا۔‬
‫’’ڈونٹ وری۔ میں دیکھ لوں گا۔‘‘‬
‫چوں و چرا ا ُس کے ہاتھ سے رول لے لیا۔‬ ‫وجاہت علی نے اب بھی بنا ُ‬
‫وہ اپنی حیرت چھپاتا وہاں سے کھسک آیا۔ آج شاید وجاہت علی کا موڈ کچھ زیادہ ہی اچھا تھا۔‬
‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رات کے وقت سکینہ بیگم اپنے کمرے میں فائر پلیس کے سامنے کرسی ڈالے بیٹھی جلتی آگ کو‬
‫دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ُگم تھیں۔‬
‫وجاہت علی ا ُن سے کچھ فاصلے پہ بیٹھے اپنے فون پہ ویب سرچنگ کر رہے تھے۔ نظر ا ُٹھ کر سکینہ‬
‫بیگم کے متفّکر چہرے پہ پڑی تو پوچھنے لگے۔‬
‫’’کیا سوچ رہی ہو بیگم!؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے چونک کر انھیں دیکھا۔‬
‫وہ پوری توجہ سے انھیں دیکھتے ہوئے جواب کے منتظر تھے۔‬
‫سکینہ بیگم نے گہرا سانس کھینچا اور بولیں۔‬
‫’’میں شوال کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ آج کل بہت عجیب طرح کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔‘‘‬
‫’’کیسی سرگرمیاں؟‘‘‬
‫وجاہت علی چونک گئے۔‬
‫’’اچھی بھلی تو ہے۔۔۔ اب ہنسنے بولنے لگی ہے۔۔ ہمارے درمیان بیٹھتی ہے۔ ہم سے باتیں کرتی ہے۔‬
‫اور تو اور۔۔۔ ا ُس نے ہمیں اّمی ابّو کہہ کر پکارنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اب تمہیں ِکس بات کی ٹینشن‬
‫ہے؟ ‘ ‘‬
‫’’ایسا وہ صرف رجب کی موجودگی میں کرتی ہے وجاہت!‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے پریشانی سے کہا اور اسی پریشانی کے ساتھ بولیں۔‬
‫’’ورنہ صبح جب آپ لوگ کام پہ چلے جاتے ہیں تو وہ واپس اپنے کمرے میں جا کر بند ہو جاتی ہے۔‬
‫چلے کاٹتی رہتی ہے۔ اور‬ ‫نہ کچھ کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔۔ سارا سارا ِدن جائے نماز پہ بیٹھی جانے کونسے ِ‬
‫شام کو جب آپ دونوں واپس آتے ہیں تو بالکل ہی بدل جاتی ہے۔۔ مجھے بہت ا ُلجھن ہوتی ہے ا ُس کی ان‬
‫حرکتوں سے۔۔ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟‘‘‬
‫’’تم نے ا ُس سے پوچھا نہیں؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے مشکوک نظروں سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔‬
‫’’پوچھا تھا۔ مگر ا ُس نے ’کوئی بات نہیں‘ کہہ کر ٹال دیا۔‘‘ سکینہ بیگم نے مایوسی سے کہا۔‬
‫وجاہت علی مطمعین ہوگئے۔‬
‫’’چلو چھوڑو۔ ایسے ا ُس کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان مت کرو۔ ا ُسے ا ُس کے حال پہ‬
‫چھوڑ دو۔ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ ہمارے لئے تو یہی کافی ہے کہ ا ُس نے باآلخر ہمیں قبول کر لیا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے تسلی آمیز انداز میں کہنے کے ساتھ ساتھ انھیں نصیحت کی۔‬
‫’’آپ کو ا ُس کے بارے میں جان کر تعجب نہیں ُہوا؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو وجاہت علی کے معتجب نہ ہونے پہ تعجب ہوا۔‬
‫’’کیوں نہیں ہوا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے سفید جھوٹ بوال۔ قدرے چِڑتے ہوئے بولے۔‬
‫’’لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟۔۔۔۔ اب‪ ،‬جب وہ ہمیں قبول کرنا شروع ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ تو‬
‫نہیں کہ ہم ا ُس کی ہر حرکت پہ جواز مانگیں۔۔۔۔۔ کیا سوچے گی وہ؟ ‪ Give her some space.‬۔۔۔ اگر‬
‫ایسے ہی ا ُس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاؤ گی تو وہ ہم سے پھر سے متنفر ہو جائے گی۔ مت مداخلت‬
‫کرو ا ُس کے معامالت میں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو وجاہت علی کا اسطرح سے بگڑنا اچھا نہیں لگا۔‬
‫’’میں کہاں مداخلت کر رہی ہوں؟۔۔۔ بس مجھے الجھن ہو رہی تھی تو آپ سے ذکر کر دیا۔۔۔۔ آپ‬
‫بھی بالوجہ مجھ پہ چڑھائی کر دیا کریں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم بُرا مان کر ا ُٹھیں اور جا کر باتھ روم میں بند ہو گیئیں۔‬
‫بھی بالوجہ مجھ پہ چڑھائی کر دیا کریں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم ُبرا مان کر ا ُٹھیں اور جا کر باتھ روم میں بند ہو گیئیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫صبح کا وقت تھا۔ وہ بیڈ کے کنارے بیٹھی ا ُجڑی صورت لئے اپنی ِفکروں میں گم تھی۔‬
‫سوا دنیا‬‫)اگر رجب نہیں ہوگا تو میں ِکس کے سہارے زندہ رہوں گی؟۔۔ ِکس کے لئے؟۔۔۔ اب رجب کے ِ‬
‫میں میرا ہے ہی کون؟۔۔۔ رجب نہیں رہے گا تو میری زندگی بالکل بےمعنی ہو جائے گی۔ کچھ نہیں بچے گا‬
‫میری زندگی میں۔ نہ کوئی رشتہ‪ ،‬نہ کوئی جینے کی وجہ۔(‬
‫وہ سوچ رہی تھی۔‬
‫تب ہی رجب کام کے لئے سوٹ پہنے ڈریسنگ روم سے باہر آیا۔‬
‫ا ُس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ آنکھوں میں بھر آئے آنسو جلدی سے صاف کرکے رجب سے‬
‫شکواہ کناں ہوئی۔‬
‫’’تم آج پھر کام پہ جا رہے ہو؟۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ کچھ عرصے کی چھٹیاں لے لو۔ ہم‬
‫کہیں گھومنے چلیں گے۔۔۔۔ لیکن تمہیں تو کام پہ جانے کا شوق ہے۔‘‘ آخر میں وہ مایوسی سے بولی۔‬
‫رجب کو ا ُس پہ بےطرح پیار آیا۔‬
‫’’جانم!۔۔۔۔‘‘‬
‫وہ چل کر ا ُس کے پاس آیا۔‬
‫وہ ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫’’ِکس کم بخت کو کام پہ جانے کا شوق ہے؟ ِدل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم ِدن رات ایک ساتھ‬
‫رہیں۔۔۔ لیکن مجبوری ہے۔ کام کرنا بھی تو ضروری ہے۔۔۔ کیونکہ جو لوگ کام نہیں کرتے۔ وہ زندگی میں‬
‫ناکام رہ جاتے ہیں۔ اور میں ناکام نہیں ہونا چاہتا۔۔ خاص طور سے اب۔۔۔‘‘‬
‫رجب نے محبت سے لبریز لہجے میں ا ُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔‬
‫’’بس تھوڑے ہی ِدنوں کی تو بات ہے۔۔۔ ہم ہنی مون پہ بھی نہیں گئے تھے۔‘‘‬
‫وہ جیسے درخواست پیش کر رہی تھی۔‬
‫چکا ہوں۔‬‫’’میں جانتا ہوں رجب کی جان!۔۔۔ لیکن تمہارے اصرار پر‪ ،‬میں ابّو سے دو بار چھٹی مانگ ُ‬
‫مگر انھوں نے صاف منع کر دیا ہے۔ آج کل ہم ایک بہت اہم پراجیکٹ پہ کام کر رہے ہیں۔ اور میرے سوا یہ‬
‫کام ممکن نہیں۔۔۔۔ یہ پراجیکٹ پورا ہو جائے۔ پھر ضرور میں ملبی چھٹی لوں گا۔ اور ہم ملک سے کہیں باہر‬
‫گھومنے چلیں گے۔ ورلڈ ٹّور پہ۔۔۔ ٹھیک ہے۔‘‘‬
‫رجب نے ا ُسے اللچ دیا۔‬
‫’’کون جانتا ہے کل کیا ہو گا رجب!۔۔۔۔۔ لعنت بھیجو ِاس پراجیکٹ پہ۔۔۔ تم کام کرنا چھوڑ دو۔ بس‬
‫میرے پاس رہو۔ میرے ساتھ۔‘‘‬
‫وہ مایوس اور مضطرب تھی۔‬
‫’’ارے۔۔۔۔‘‘‬
‫رجب ا ُس کی چاہت کی شدت دیکھ کر ہنس ِدیا۔ خوشی سے بوال۔‬
‫چپُکو ہے۔‘‘‬
‫’’مجھے نہیں پتا تھا کہ میری بیوی اتنی ِ‬
‫جسے رجب صحیح سے سمجھ نہ سکا۔‬ ‫ا ُس کے جواب پہ شوال کے چہرے پہ مزید اضطراب آ گیا۔ ِ‬
‫جلدی سے صفائی پیش کرتے ہوئے بوال۔‬
‫’’۔۔۔۔‪‘‘ But don’t mind…. I like it‬‬
‫’’رجب!۔‘‘‬
‫شوال نے ا ُسے دونوں بازوؤں سے تھام کر اپنی تشنہ نگاہیں اس پہ گاڑھ دیں۔‬
‫’’ضد مت کرو جانم!۔۔۔ میں نے کہا ناں کہ یہ پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد گھومنے چلیں گے۔ اینڈ آئی‬
‫پرامس کہ میں یہ کام جلد سے جلد ختم کروں گا۔ ‘‘‬
‫’’ضد مت کرو جانم!۔۔۔ میں نے کہا ناں کہ یہ پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد گھومنے چلیں گے۔ اینڈ آئی‬
‫پرامس کہ میں یہ کام جلد سے جلد ختم کروں گا۔ ‘‘‬
‫وہ ا ُسے قائل کر رہا تھا۔ پھر بوال۔‬
‫’’لیکن ابھی بھی تمہیں دینے کے لئے میرے پاس کچھ ہے۔‘‘‬
‫رجب نے کہا۔ اور جا کر صوفے پہ رکھے اپنے لیپ ٹاپ بیگ میں سے ایک گفٹ ریپر میں لپٹا باکس‬
‫ِنکال کر الیا۔‬
‫’’یہ لو۔۔۔ تمہارے لئے اسپیشلی میں نے انگلینڈ سے منگوایا ہے۔۔۔۔ کھول کر دیکھو ِاسے۔‘‘‬
‫شوال نے باکس لے کر ا ُس کا ریپر ا ُتارنا شروع کیا۔‬
‫’’آئی فون۔‘‘‬
‫آئی فون کا باکس دیکھ کر شوال سرپرائزڈ رہ گئی۔‬
‫رجب ُمسکرایا۔‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫’’ہاں۔۔۔ ُفلی ایکٹو ہے۔ سم شم سب موجود ہے اور میں نے اپنا اور اّمی اور اّبو کا نمبر بھی فیڈ کر‬
‫دیا ہے۔‘‘‬
‫ُ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫شوال باکس کھول چکی تھی۔ فون نکال کر ہاتھ میں لیا۔ پھر سر اٹھا کر رجب کو دیکھا۔‬
‫رجب خوشی سے ُمسکرایا۔‬
‫’’جب بھی مجھے آفس میں فری ٹائم ِمال کرے گا۔ ہم دونوں فیس ٹائم کیا کریں گے۔۔۔ ٹھیک ہے؟‘‘‬
‫شوال نے سر جھُکا کر دھیرے سے اثبات میں ہال ِدیا۔‬
‫ا ُس کے بےچین ِدل کو کچھ نہ کچھ ڈھارس ہوئی تھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی کے آفس میں ا ُن کا پی۔ اے کھڑا نوٹ پیڈ ہاتھ میں لئے ا ُن سے کچھ انسٹرکشنز لیتے‬
‫ہوئے نوٹ کرتا جا رہا تھا۔ وجاہت علی کا سامنے میز پہ رکھا موبائل فون بج ا ُٹھا۔‬
‫’’ایک منٹ۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے فون ا ُٹھا کر دیکھا۔ نامعلوم نمبر دیکھ کر وہ الجھن میں پڑ گئے۔ پھر بھی کال‬
‫ایکسپٹ کر لی۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘‬
‫’’ ابّو! میں شوال بول رہی ہوں۔‘‘‬
‫ا ُن کے کانوں کے پردوں سے شوال کی گھمبیر آواز ٹکرائی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے ناں؟۔۔۔۔ تم ِکس کے فون سے بات کر رہی ہو؟‘‘‬
‫وہ گھبرا گئے۔‬
‫’’یہ میرا نمبر ہے۔۔۔ رجب نے آج صبح ہی مجھے فون دیا ہے۔‘‘‬
‫ا ُس نے اپنے لہجے میں قائم سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔‬
‫وجاہت علی کے چہرے پہ اطمینان چھا گیا۔‬
‫’’بہت خوب۔۔۔ یہ تو بہت اچھا کیا ا ُس نے۔ میں ابھی تمہارا نمبر سیو کر لیتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے خوشی ظاہر کی۔‬
‫’’اّبو!۔۔ آپ رجب کو چھٹیاں کیوں نہیں دے رہے؟‘‘‬
‫شوال نے اب اپنا مدعا بیان کرنے میں دیر نہ کی اور بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔‬
‫وجاہت علی کی سمجھ میں فورا ً کچھ نہ آیا کہ کیا کہیں۔ جبکہ دوسری طرف شوال کہہ رہی تھی۔‬
‫’’ابّو! میں سمجھ سکتی ہوں کہ آپ بھی ا ُسے خود سے دور کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن آپ نے ا ُس کے‬
‫ساتھ تیئس‪ ،‬چوبیس سال گزارے ہیں۔ مگر ُمجھے تو ایسے لگتا ہے جیسے میں نے ابھی تک ا ُس کا چہرہ‬
‫بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا۔۔۔ وہ مجھے پل پل ریت کی طرح اپنے ہاتھوں سے ِنکلتا ِدکھائی دے رہا ہے اور‬
‫میں بالکل بےبس‪ ،‬بس ا ُسے ملحہ ملحہ خود سے دور ہوتا دیکھ رہی ہوں۔ آپ کیوں میری حالت نہیں سمجھ‬
‫بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا۔۔۔ وہ مجھے پل پل ریت کی طرح اپنے ہاتھوں سے ِنکلتا ِدکھائی دے رہا ہے اور‬
‫میں بالکل بےبس‪ ،‬بس ا ُسے ملحہ ملحہ خود سے دور ہوتا دیکھ رہی ہوں۔ آپ کیوں میری حالت نہیں سمجھ‬
‫رہے؟۔۔۔ مجھے ا ُس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے دیجیے۔ کم از کم میں ا ُس کی شکل تو یاد کر سکوں۔‘‘‬
‫وہ رو رہی تھی۔ سسک رہی تھی۔‬
‫وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر ان کے حکم کے منتظر کھڑے پی۔اے کو دیکھا۔‬
‫’’تم جا سکتے ہو۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے پی۔اے سے کہا۔‬
‫پی۔اے جب تک کمرے سے باہر نہ نکل گیا وجاہت علی خاموش بیٹھے ا ُس کی سسکیاں سنتے رہے۔‬
‫پھر بولے۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ کالم ڈاؤن بیٹا!۔۔۔ ایسے نہ سوچو۔ بی پازیٹو۔ رجب ہمارے ساتھ ہے۔ وہ کہیں‬
‫نہیں جائے گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔‬
‫ِ‬
‫’’مجھے جھوٹے دالسے مت دیں ابّو! آپ ا ُسے کچھ چھٹیاں دے دیں ناں! بس تھوڑے سے دن۔‘‘‬
‫ا ُس نے التجا کی۔‬
‫’’شوال! میری بیٹی! بات کو سمجھو۔۔۔ میں کیسے ا ُسے گھر سے دور کہیں تنہا بھیج سکتا ہوں؟‬
‫اگر ایک دو ِدن کی بات ہو تو بھی میں مان لوں۔۔ لیکن تم کہتی ہو کہ ُکچھ ِدن۔۔۔ ِان کچھ ِدنوں میں کیا ہو‬
‫جائے‪ ،‬کس کو خبر ہے؟۔۔۔۔‬
‫ذرا سوچو!۔۔۔۔ تم دونوں گھر سے دور کہیں گئے ہوئے ہو۔ خدانخواسطہ اگر وہاں اچانک رجب کی‬
‫طبعیت ِبگڑ جاتی ہے۔ ایسے میں اکیلی تم کیا کرو گی؟ کیسے مینج کرو گی؟ رجب کی زندگی کا سوال ہے‬
‫یہ۔ کیسے اتنا بڑا رسک لے سکتے ہیں ہم؟۔۔۔۔ بتاؤ! ‘‘‬
‫وجاہت علی کے ایک سوال نے ہی ا ُسے الجواب کر دیا تھا۔‬
‫وہ بالکل خاموش ہوگئی۔‬
‫’’تم سمجھ رہی ہو ناں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے توقف کر کے پوچھا۔‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫سسکی۔‬ ‫وہ شکست خودرہ سے انداز میں ِ‬
‫وجاہت علی تسلی آمیز لہجے میں کہنے لگے۔‬
‫چپ کر جاؤ شاباش۔ میں کوشش کروں گا کہ ا ُسے شام کو جلدی گھر بھیج دیا کروں۔ تم لوگ‬ ‫’’اب ُ‬
‫صبح ناشتہ بھی اپنے کمرے میں ایک ساتھ کر لیا کرو۔ اور چاہو تو اکٹھے باہر ڈنر کے لئے چلے جایا کرو۔‬
‫تم دونوں جتنا مرضی باہر گھومو پھرو‪ ،‬مووی دیکھو‪ ،‬النگ ڈرائیو پہ جاؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔‬
‫لیکن چھٹیوں پہ جانے کی ضد نہ کرو۔ میرا خیال ہے کہ اب تم سمجھ چکی ہو گی؟۔‘‘‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫ایک بار پھر ا ُس نے مایوسی سے ’جی‘ کہہ دیا۔‬
‫’’اچھا۔۔ اب میں تھوڑا کام ختم کر لوں؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے اب اجازت چاہی۔‬
‫’’جی۔۔۔ خدا حافظ۔‘‘‬
‫شوال نے کہہ کر کال کاٹ دی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ لوگ کہیں باہر جارہے تھے۔ سکینہ بیگم نیچے ہال میں کھڑی انتظار کر رہی تھیں۔ رجب گھڑی‬
‫پہنتے ہوئے سیڑھیاں ا ُتر رہا تھا اور شوال ا ُس کے پیچھے پیچھےتھی۔‬
‫’’اّمی!۔۔۔ ڈارئیور سے کہہ ِدیا گاڑی نکالنے کو؟‘‘‬
‫پہنتے ہوئے سیڑھیاں ا ُتر رہا تھا اور شوال ا ُس کے پیچھے پیچھےتھی۔‬
‫’’اّمی!۔۔۔ ڈارئیور سے کہہ ِدیا گاڑی نکالنے کو؟‘‘‬
‫رجب نے سیڑھیاں ا ُترتے ہوئے گھڑی کا بَکل باندھتے ہوئے معمول کے سے انداز میں اپنی ماں سے‬
‫سوال کیا۔‬
‫’’ہاں‪ ،‬کہہ دیا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے بھی معمول کے سے انداز میں جواب دیتے ہوئے نگاہیں ا ُٹھا کر ا ُن کی طرف دیکھا۔‬
‫ا ُن کی نظریں رجب کے پیچھے سیڑھیاں اترتی شوال پہ ٹھہر گیئیں‬
‫ا ُس کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ سیڑھیاں ا ُترے ا ُترے ُرک گئی۔‬
‫’’شوال!۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے زیِرلب پکارا۔‬
‫شوال کو زبردست چکر آیا۔ ا ُس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔‬
‫’’رجب! تھامو ا ُسے۔‘‘ سکینہ بیگم ِ‬
‫چالئیں۔‬
‫رجب ماں کے چالنے پہ بجلی کی سی سرعت سے پلٹا۔‬
‫شوال ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح ا ُس کے بازوؤں میں آ ِگری۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!۔‘‘‬
‫وہ ا ُسے بانہوں میں لئے وہیں سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا۔ گھبراہٹ میں ا ُسے پکارتے ہوئے ا ُس کا گال‬
‫تھپتھپانے لگا۔‬
‫شوال نے آنکھیں کھولیں نہ کوئی جواب دیا۔ وہ مکمل طور پر بےہوش ہو چکی تھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ اسپتال کے کوریڈور میں فکر و بےچینی کے عالم میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔‬
‫’’رجب! نہ اتنی فکر کرو۔ سب خیر ہوگی انشااهلل۔ کیا پتا‪ ،‬کوئی خوشخبری ہو۔‘‘‬
‫بینچ پہ بیٹھی سکینہ بیگم رجب کی حالت کے برخالف کافی مطمعین اور ُپرا ُمید تھیں۔‬
‫سن کر ُرک گیا۔‬ ‫رجب کمر پہ ہاتھ رکھے آگے جا کر واپس پلٹ رہا تھا۔ سکینہ بیگم کی بات ُ‬
‫’’نہیں اّمی! میرا نہیں خیال۔‘‘‬
‫ماں کو دیکھتے ہوئے ا ُس نے ازحد فکرمندی کے ساتھ کہا۔‬
‫تب ہی کمرے سے نکل کر ڈاکٹر صاحبہ باہر آئیں۔ سکینہ بیگم انھیں دیکھ کر ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔‬
‫’’تھوڑی دیر تک ا ُنھیں ہوش آجائے گا۔ آپ ابھی ا ُن کو جا کر دیکھ سکتے ہیں۔‘‘‬
‫رجب نے سنتے ہی تشکرآمیز انداز میں اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرے۔‬
‫’’ا ُسے ہوا کیا ہے ڈاکٹر!؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے سوال کیا۔‬
‫’’کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ ایسا سٹریس اور غذا کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ سٹریسڈ ہیں‬
‫شاید اس لئے کھانے میں غفلت برت رہی ہیں۔ ا ُن کی غذا کا خیال رکھیں اور ہو سکے تو انھیں پریشانی‬
‫سے بچائیں۔‘‘‬
‫ڈاکٹر اپنی سنا کر آگے بڑھ گیئیں۔‬
‫وہ دونوں وہاں حیران کھڑے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پھر بنا کچھ کہے دونوں کمرے کی طرف‬
‫بڑھ گئے۔‬
‫ُ‬
‫کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا شوال بستر پہ بےہوش پڑی تھی۔ وہ اور سکینہ بیگم اس کے قریب‬
‫چلے آئے۔‬
‫ا ُس نے شوال کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہلکا سا دبایا۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫ُ‬
‫شوال نے دھیرے سے چہرہ اس کی طرف موڑا اور آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫شوال نے دھیرے سے چہرہ اس کی طرف موڑا اور آنکھیں کھول کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫شوال نے جیسے ہلکی سی سسکی لی۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔‬
‫’’رو کیوں رہی ہو بیٹا۔ کیا بات ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر اپنائیت کے ساتھ ا ُس کی پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫شوال بنا کچھ کہے روتی رہی۔‬
‫’’ایسے نہیں کرو شوال!۔۔۔ بتاؤ۔ کیا بات ہے؟ تم کیوں پریشان ہو؟‘‘‬
‫’’کوئی بات نہیں۔‘‘‬
‫شوال نے اپنا رونا روکتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ایک ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھ رہی‬
‫تھی۔‬
‫ِ‬
‫’’کوئی تو بات ہے ناں جانم!۔۔۔ اسی وجہ سے تم کھانے پینے میں بھی الپرواہی برت رہی ہو۔‘‘‬
‫صر تھا۔ تب ہی وجاہت علی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئے۔‬ ‫رجب جواب جاننے کو م ّ‬
‫’’رجب! سکینہ! کیسی ہے اب شوال؟‘‘‬
‫وہ بیک وقت بیوی اور بیٹا دونوں سے پوچھتے قریب پہنچے۔‬
‫’’اّبو ! ڈاکٹر نے کہا ہے کہ سٹریس کی وجہ سے ِاس کی یہ حالت ہوئی ہے۔۔۔ اور یہ بتا نہیں رہی‬
‫کہ ِاسے کیا پریشانی ہے۔‘‘‬
‫رجب نے کسی بچے کی طرح اپنے باپ کو اس کی شکایت لگائی۔‬
‫’’اور تم ِاس سے پوچھ پوچھ کر ِاسے ُرال رہے ہو!۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے شوال کو آنسو پونچھتے دیکھا تو بیٹے کو ہلکا سا گھُرکا۔‬
‫پھر شوال سے بولے۔‬
‫’’شوال بیٹا!۔۔۔ ریلیکس۔ روؤ مت شاباش۔‘‘‬
‫ِاس طرح وجاہت علی نے بروقت آ کر ساری صورتحال سنبھال لی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’کیا کہتی ہو؟ ناشتہ کمرے میں منگواؤں یا نیچے چل کر کرو گی؟‘‘‬
‫رجب آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی کی ناٹ سیٹ کر رہاتھا۔‬
‫’’تم نیچے جا کر کرلو۔ میرا ِدل نہیں چاہ رہا۔‘‘‬
‫شوال بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی۔ بیزاری کے ساتھ جوابا ً کہا۔‬
‫رجب نے یہ سنا تو دونوں ہاتھ اپنے پہلوؤں میں ِگرا دیئے۔ پھر ُمڑ کر براِہراست ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’پھر وہی بات!۔۔۔۔۔ ابھی دو ِدن پہلے تم اسپتال میں پورا ِدن گزار کر آئی ہو۔ اب پھر واپس جانا‬
‫چاہتی ہو کیا؟‘‘‬
‫ِ‬
‫’’ایسی کوئی بات نہیں رجب!۔۔۔ بس میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘‬
‫شوال کے چہرے اور لہجے میں واضح بیزاری تھی۔‬
‫رجب چل کر ا ُس کے قریب آگیا۔ بیڈ کے کنارے بیٹھ کر نہایت سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔‬
‫’’تمہیں کیا پریشانی ہے شوال!؟۔۔۔۔ اب تو سب کچھ ٹھیک ہے ہمارے درمیان۔ پھر کیوں کر رہی ہو‬
‫ایسا؟۔۔۔۔ آخر کیوں تم نے کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے؟‘‘‬
‫’’مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے رجب! اب صبح صبح ناشتہ کرنے کا جی نہیں چاہتا تو کیا‬
‫کروں؟۔۔۔ بعد میں کر لوں گی ناں!‘‘‬
‫شوال کی ناشتے کے لئے بیزاری میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔‬
‫’’اب میں تمہاری بالکل بھی نہیں سنوں گا۔۔۔ پہلے بھی تم مجھے ایسے ہی ایکسکیوزز دے کر‬
‫کھانا کھانے سے منع کرتی رہی ہو۔ لیکن اب تمہیں میرے ساتھ نیچے چلنا ہوگا۔‘‘‬
‫’’اب میں تمہاری بالکل بھی نہیں سنوں گا۔۔۔ پہلے بھی تم مجھے ایسے ہی ایکسکیوزز دے کر‬
‫کھانا کھانے سے منع کرتی رہی ہو۔ لیکن اب تمہیں میرے ساتھ نیچے چلنا ہوگا۔‘‘‬
‫رجب صاف اور دوٹوک لہجے میں کہتے ہوئے ا ُٹھنے لگا۔ ساتھ ہی ا ُس کی بھی کالئی پکڑ کر ا ُسے‬
‫اٹھانا چاہا مگر چونک کر واپس بیٹھ گیا۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫ا ُس نے تعجب اور فکر مندی سے شوال کا چہرہ بغور دیکھا۔‬
‫’’تم بتا کیوں نہیں رہی کہ تمہیں بخار ہے؟‘‘ وہ بےچین ہو ا ُٹھا۔‬
‫’’نہیں۔ ہلکا سا ٹمپریچر ہے۔ کچھ دیر تک نارمل ہو جائے گا۔‘‘ شوال نے الپرواہی سے کہتے ہوئے‬
‫اپنا ہاتھ واپس کھینچنے کی کوشش کی۔‬
‫’’تم پتا نہیں کیوں اپنی دشمن ہو رہی ہو۔‘‘‬
‫رجب قدرے خفا سا ہو کر کہتا ا ُس کی کالئی چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا۔‬
‫تھوڑی ہی دیر میں رجب کے ساتھ ساتھ وجاہت علی اور سکینہ بیگم بھی ا ُس کے سر پہ آ موجود‬
‫ہوئے۔‬
‫’’کیا ہوا بیٹا!؟ بخار کیسے ہو گیا؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے شفیق لہجے میں سوال کرتے ہوئے ا ُس کی پیشانی کو چھوا۔‬
‫’’مجھے تو یہ اسپتال سے ڈسچارج کے وقت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ ایک ڈرپ لگنے سے‬
‫اس کی طبعیت کچھ سنبھل گئی تھی تو ان لوگوں نے اسے گھر بھیج دیا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم بھی شوال کے لئے فکر مند ہو رہی تھیں۔‬
‫’’ہوں۔۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے پر سوچ انداز میں ’ہوں‘ کیا۔ پھر بولے۔‬
‫’’میں ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں۔ اور رجب!۔‘‘‬
‫انھوں نے رجب کی طرف چہرہ گھمایا۔‬
‫’’تم آج کام سے چھٹی کرو۔ جب تک شوال ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ تم ِاس کے ساتھ رہو۔ آفس کے کام‬
‫میں دیکھ لوں گا۔‘‘‬
‫رجب نے ا ُن کے حکم پہ تابعداری سے سر ہال ِدیا۔ وہ پہلے سے ہی شوال کے لئے اتنا فکرمند ہو‬
‫رہاتھا کہ کام پہ جانے کا من نہیں کر رہا تھا۔‬
‫’’میں کام پہ جا رہا ہوں۔ ٹھیک ہے؟۔۔ دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘‬
‫وجاہت علی نے کالئی پہ بندھی گھڑی دکھاتے ہوئے کہا۔ پھر شوال سے بولے۔‬
‫’’اچھا شوال بیٹا!۔ میں ڈاکٹر کو بھیج دوں گا۔۔ شام کو جب میں گھر آؤں تو تم بالکل ٹھیک ِملو‬
‫مجھے۔‘‘‬
‫مان بھرا حکم سناتے وجاہت علی کمرے سے نکل گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رجب نے کھانے کی ٹرے ال کر میز پہ رکھی۔ میز پہ بیٹھے سکینہ بیگم اور وجاہت علی نے چونک کر‬
‫ا ُس کی طرف دیکھا۔‬
‫وہ بہت مایوس اور دکھی لگ رہا تھا۔‬
‫’’یہ کیا؟‘‘ سکینہ بیگم نے استفسار کیا۔‬
‫’’وہ نہیں مان رہی ۔‘‘‬
‫رجب نے مایوسی سے کہا اور ہال میں رکھے صوفوں کی طرف پلٹا۔‬
‫’’تم تو کھا لو۔‘‘ سکینہ بیگم نے عقب سے آواز دی۔‬
‫’’مجھے بھوک نہیں ہے۔ آپ لوگ کھائیں۔‘‘‬
‫رجب نے بنا پلٹے یا ُرکے کہا۔ اس کا ِدل جل رہا تھا۔‬
‫’’مجھے بھوک نہیں ہے۔ آپ لوگ کھائیں۔‘‘‬
‫رجب نے بنا پلٹے یا ُرکے کہا۔ اس کا ِدل جل رہا تھا۔‬
‫سکینہ بیگم نے کچھ شکایتی نظروں سے اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔ وجاہت علی کھانے سے اپنا‬
‫ہاتھ روکے بالکل ساکت کچھ سوچ رہے تھے۔ چہرے پہ بال کی سنجیدگی تھی۔ پھر بنا کچھ کہے وہ میز پر‬
‫سے ا ُٹھے اور ہال میں صوفے پہ جا بیٹھے۔‬
‫رجب بہت مایوس اور پریشان بیٹھا تھا۔ وجاہت علی کےاس کے برابر آ بیٹھنے پہ ا ُس نے کوئی‬
‫رِدعمل ظاہر نہ کیا۔‬
‫’’رجب! تم کیوں اپنا کھانا پینا چھوڑ رہے ہو؟ ِفکر نہ کرو۔ تمہاری ماں ا ُس کا خیال رکھ رہی ہے‬
‫ناں! وہ ناشتہ کروا دے گی ا ُسے بعد میں۔‘‘‬
‫رجب کی آنکھوں میں آنسو جمع ہو گئے۔ باپ کی طرف چہرہ موڑ کر بوال۔‬
‫’’دو مہینے گزر چکے ہیں اّبو! دو ِدن ٹھیک رہتی ہے اگلے چار ِدن پھر بستر پہ پڑ جاتی ہے۔ کچھ‬
‫کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ سٹریسڈ ہے۔ ِکس بات کی سٹریس ابّو!؟۔۔۔۔۔۔۔ میں بتا رہا ہوں۔‬
‫ا ُسے کوئی بڑی بیماری ہے اور ِان ناالئق ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ہم ا ُسے کہیں باہر لے چلتے‬
‫ہیں۔ وہاں اس کا عالج کروائیں گے۔‘‘‬
‫رجب شوال کی حالت کو لے کر کافی پریشان اور رنجیدہ تھا۔‬
‫وجاہت علی کو رجب کی حالت دیکھ کر بہت ُدکھ ہوا۔‬
‫رسان سے اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے بولے۔‬
‫’’ایسی کوئی بات نہیں ہے رجب! تم اس طرح کا وہم مت پالو۔۔۔۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا‬
‫ہے کہ بیماری میں ا ُن کا کچھ کھانے پینے کا ِدل نہیں چاہتا۔ اور کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے ا ُن کی‬
‫بیماری نہیں جاتی۔ شوال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ورنہ خدا نہ کرے‪ ،‬ا ُسے کوئی بڑی بیماری‬
‫نہیں ہے۔‘‘‬
‫ا ُن کی باتوں کے جواب میں رجب نے مایوسی سے اپنے آنسو پونچھے۔ صاف ظاہر تھا کہ جواب میں‬
‫وہ بحث تو نہیں کر پا رہا تھا لیکن وجاہت علی کے جواب سے ا ُسے کوئی تسلی نہیں ہوئی تھی۔‬
‫’’تم ِفکر نہ کرو۔۔۔ میں خود شوال کیلئے ناشتہ لے کر جاتا ہوں۔ میں خود ا ُسے کھانے کے لئے راضی‬
‫کروں گا اور ا ُسے سمجھاؤں گا کہ وہ کھانا پینا نہ چھوڑے۔۔۔ تم بھی اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ‬
‫کرلو۔ اور دیکھو کہ میں شوال کو کیسے ناشتہ کرواتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ایسے کہا جیسے ا ُن کیلئے یہ سب چٹکیوں کا کام ہو۔‬
‫وجاہت علی اپنی بات مکمل کر کے ا ُٹھے اور میز کی طرف بڑھ گئے۔‬
‫رجب اپنی جگہ سے تو نہ ا ُٹھا لیکن ا ُس کی نگاہیں وجاہت علی کا تعاقب کر رہی تھیں۔ وجاہت علی‬
‫کی باتوں سے ا ُسے کافی ڈھارس ِملی تھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی ہاتھ میں ناشتے کے لوازمات سے بھری ٹرے لئے کمرے میں آئے تو شوال بستر پہ دراز‬
‫تھی۔ انھیں اندر داخل ہوتا دیکھا تو خود کو گھسیٹ کر اونچی ہو بیٹھی۔‬
‫’’ابّو آپ!۔۔۔ اسالم علیکم!‘‘‬
‫وہ آواز سے ہی بیمار لگ رہی تھی۔‬
‫’’واعلیکم السالم۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے جا کر ٹرے میز پہ رکھ دی۔‬
‫’’کیسی ہو بیٹا!؟ آج بھی طبعیت ٹھیک نہیں؟‘‘‬
‫وجاہت علی شفقت سے پوچھتے ہوئے ا ُس کے قریب آئے۔‬
‫’’کچھ نہیں اّبو!۔۔۔ بس ذرا چکر آ رہے تھے تو اسلئے لیٹ گئی تھی۔‘‘‬
‫ب عادت انکار کیا۔ ا ُس کی شکل سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی بیمار اور کمزور ہے۔‬ ‫شوال نے حس ِ‬
‫’’کچھ نہیں اّبو!۔۔۔ بس ذرا چکر آ رہے تھے تو اسلئے لیٹ گئی تھی۔‘‘‬
‫ب عادت انکار کیا۔ ا ُس کی شکل سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی بیمار اور کمزور ہے۔‬ ‫شوال نے حس ِ‬
‫’’جب کچھ کھاؤ ِپیو گی نہیں تو چکر تو آئیں گے ناں!‘‘‬
‫’’اّبو پلیز۔‘‘‬
‫شوال رو پڑی۔‬
‫’’میرے سامنے کھانے پینے کا ذکر نہ کریں۔ میرا ِدل نہیں چاہتا۔ رجب بھی ہر وقت میرے پیچھے پڑا‬
‫رہتا ہے۔ تنگ آ گئی ہوں ا ُسے منع کر کر کے۔ آخر کیسے کھاؤں میں؟‘‘‬
‫شوال کی آواز میں درد ہی درد تھا۔‬
‫وجاہت علی نے ایسے ہی اپنی تسلی کے لئے چہرہ موڑ کر بند دروازے کو دیکھا۔ پھر واپس موڑ کر‬
‫ا ُسے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے بیڈ کے کنارے بیٹھ گئے۔‬
‫’’شوال! شوال! یہ کیا ہے بیٹا!؟۔۔۔۔ تمہیں میں نے وہ سب اس لئے بتایا تھا تا کہ تم مجھے حوصلہ‬
‫دو‪ ،‬میری ہّمت بندھاؤ۔۔۔ اور تم ہو کہ خود ہی ہّمت ہار کے بیٹھ گئی ہو؟۔۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے دبی آواز میں شکواہ کیا۔‬
‫’’میں کہاں سے ہمت الؤں ابّو!؟۔۔۔ میں آپ جتنی بہادر نہیں ہوں۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ مجھے رجب‬
‫خود سے دور جاتا ِدکھائی دے رہا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ُدنیا کی ساری گھڑیاں روک دوں۔۔۔۔ کیا‬
‫ایسا کرنے سے وقت تھم جائے گا؟۔۔۔۔ کیا ِاس سے سورج کی گردش ُرک جائے گی؟۔۔۔۔۔ یہ وقت کیوں نہیں‬
‫ٹھہر جاتا ابّو!؟ میں اتنی بےبس کیوں ہوں؟‘‘‬
‫وہ ُدکھ اور بےبسی سے رو دی۔‬
‫شوال کی باتیں وجاہت علی کو غمزدہ کر گیئیں۔ ا ُنھیں شوال پہ بےحد ترس آیا۔‬
‫’’ایسے مایوس نہیں ہوتے شوال!‘‘‬
‫انھوں نے محبت اور نرمی سے کہا۔ بولے۔‬
‫’’تمہیں کیا لگتا ہے؟ مجھے رجب سے محبت نہیں؟۔۔۔ مجھے ا ُس کی پرواہ نہیں؟۔۔۔۔ میں کیا ایسے‬
‫ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہوں؟‘‘‬
‫ا ُن کے سوالوں پہ شوال نے اپنے آنسو پونچھ کر پوری توجہ کے ساتھ انھیں دیکھا۔‬
‫وجاہت علی کہنے لگے۔ ’’میں نے رجب کی رپورٹس مختلف ملکوں میں بھیجی تھیں۔ اور تم جانتی‬
‫ہو؟۔۔۔ انگلینڈ سے مجھے پازیٹو جواب بھی ِمال ہے۔ وہاں رجب کا عالج ممکن ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے خوشی سے بتایا۔‬
‫’’کیا؟۔۔۔ سچ اّبو!؟‘‘ شوال نے بےیقینی سے پوچھا۔‬
‫’’بالکل سچ۔۔۔۔ میں تو انگلینڈ جانے کی تیاری بھی شروع کر چُکا ہوں۔ جتنی جلدی ہو سکا میں‬
‫رجب کو لے کر چال جاؤں گا۔۔۔۔ اور دیکھنا تم۔۔۔ رجب بالکل ٹھیک ہو کر میرے ساتھ واپس آئے گا۔‘‘‬
‫’’مجھے یقین نہیں آ رہا ابّو!۔۔۔ میں کہیں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی؟۔۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے‬
‫ن ا ں!؟‘‘‬
‫شوال جتنی خوش تھی اتنی ہی بےیقین بھی تھی۔‬
‫وجاہت علی مسکرا دیئے۔‬
‫’’ایسا ہو سکتا ہے اور ایسا ہو گا۔۔۔ چلو شاباش۔ اب ناشتہ کر لو۔۔۔ آج تم اور رجب ایک ساتھ‬
‫رہو۔ میں اکیال کام پہ چال جاتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کہہ کر ا ُٹھے۔ پھر ا ُس کا سر تھپتھپا کر ا ُس کے لئے ناشتے کی ٹرے النے میز کی طرف‬
‫بڑھ گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ سب ہال میں بیٹھے ٹی۔وی دیکھ رہے تھے۔‬


‫’’رجب! میں ایک ضروری کام سے انگلینڈ جا رہا ہوں۔ تم بھی ساتھ چلو۔ تمہاری خالہ بہت عرصے‬
‫وہ سب ہال میں بیٹھے ٹی۔وی دیکھ رہے تھے۔‬
‫’’رجب! میں ایک ضروری کام سے انگلینڈ جا رہا ہوں۔ تم بھی ساتھ چلو۔ تمہاری خالہ بہت عرصے‬
‫سے تم سے ِملنا چاہتی ہیں۔ میرا کام بھی ہو جائے گا اور تم بھی ا ُن سے ِمل لینا۔‘‘‬
‫’’میں؟۔۔۔‘‘‬
‫رجب اس اچانک پروگرام کا سن کر چونک گیا۔‬
‫سکینہ بیگم کی بھی کچھ ایسی ہی کیفیت تھی۔ جبکہ شوال خاصی مطمعن بیٹھی تھی۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ آج چیک کرنا آن الئن۔۔ اگلے ہفتے کی کوئی بھی ٹکٹ بُک کر لو۔‘‘‬
‫’’ٹھیک ہے۔ پر۔۔۔۔‘‘‬
‫رجب نے کہا اور قدرے جھجک کر بات ادھوری چھوڑ دی۔‬
‫’’َپر؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے پوچھا۔‬
‫ھر بھی لیں گے اور ِاسے بھی خالہ سے ِملوا لیں‬ ‫’’شوال کو بھی ساتھ لے چلتے ہیں۔ ہم گھوم پ ِ‬
‫گے۔۔۔ ویسے بھی شوال کہیں چلنا چاہتی تھی۔ اور میں نے پرامس کیا تھا کہ ہم ورلڈ ٹُور پہ چلیں گے۔۔۔۔‬
‫کیوں شوال! چلو گی ناں!؟‘‘‬
‫رجب نے وجاہت علی کے سامنے وضاحت دے کر آخر میں شوال سے پوچھا۔‬
‫سن کر چونک گئی۔ پھر ا ُس کا ِدل بلیوں ا ُچھلنے لگا۔‬ ‫شوال رجب کے منہ سے اپنے جانے کا ذکر ُ‬
‫وہ رجب کو پل پل اپنی نظروں کے سامنے رکھنا چاہتی تھی۔ خاص طور سے رجب کے آپریشن سے‬
‫پہلے کے ملحات میں۔ کیا معلوم کہ پھر رجب کو دیکھنا نصیب ہو گا یا نہیں۔ پھر وہ کیونکر انکار کرتی۔‬
‫مگر ِاس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی۔ وجاہت علی بول پڑے۔‬
‫’’شوال کو لے تو چلیں۔ لیکن شوال کا پاسپورٹ کہاں ہے؟‘‘‬
‫وجاہت علی کے سوال نے شوال کی خواہش پہ اوس ڈال دی۔ اس کا پاسپورٹ تو اپنے باپ کے گھر‬
‫میں تھا۔‬
‫ِ‬
‫’’ہم۔۔۔۔ کسی کے ذریعے اس کا پاسپورٹ منگوا نہ لیں؟‘‘‬
‫رجب نے تجویز پیش کی۔‬
‫’’ِکس کے ذریعے؟۔۔۔ اور اسرار مانے گا؟۔۔۔۔ ہرِگز نہیں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کا لہجہ سخت ہو گیا۔‬
‫ِ‬
‫سن کر وہ رنجیدہ ہوگئی۔ دل پہ لگے زخم سے خون رسنے لگا۔‬ ‫اپنے باپ کا ذکر ُ‬
‫ا ُس نے تکلیف سے آنکھیں بھینچ لیں۔‬
‫’’تو پھر ہم نیا بنوا لیتے ہیں۔ ارجنٹ پاسپورٹ بنوا لیتے ہیں۔ جلدی بن جائے گا۔‘‘‬
‫رجب نے دوسرا حل پیش کیا۔‬
‫’’ارجنٹ پاسپورٹ تو بن جائے گا بیٹا!‪ ،‬لیکن ارجنٹ ویزا نہیں لگتا۔ اور میں ویزا لگنے تک کا انتظار‬
‫نہیں کر سکتا۔ اتنا ٹائم نہیں ہے میرے پاس۔‘‘‬
‫’’ویزا ہو گا ناں!۔۔‘‘ رجب نے کہا۔ پھر شوال کی طرف مڑا۔‬
‫’’کیوں شوال! تمہارے پاس انگلینڈ کا ویزا ہے؟‘‘‬
‫شوال نے پلکیں ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا اور نفی میں سر ہالیا۔‬
‫رجب بہت مایوس ہوا۔‬
‫وجاہت علی کی طرف واپس چہرہ گھما کر پوچھنے لگا۔‬
‫’’ایسا نہیں ہو سکتا کہ آپ اکیلے چلے جائیں؟۔۔۔۔۔‘‘‬
‫’’کیوں بحث کر رہے ہو رجب!؟۔۔۔۔ ابّو کو وہاں تمہاری ضرورت ہو گی۔۔۔ ہم پھر چلے جائیں گے۔‬
‫ایسا بھی کیا مسلۂ ہے۔‘‘‬
‫رجب کی بات کاٹتے ہوئے شوال نے کہا۔‬
‫’’دیکھا۔ میری بیٹی کتنی سمجھدار ہے۔ جانتی ہے کہ مجھے وہاں تمہاری ضرورت ہو گی۔‘‘‬
‫رجب کی بات کاٹتے ہوئے شوال نے کہا۔‬
‫’’دیکھا۔ میری بیٹی کتنی سمجھدار ہے۔ جانتی ہے کہ مجھے وہاں تمہاری ضرورت ہو گی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے خوش ہو کر کہا۔‬
‫پھر موضوع بدلنے کی غرض سے بولے۔‬
‫’’اب جاؤ شاباش۔ میں آج ہی تمہاری نئی دوائیاں الیا ہوں۔ جا کر ماسی سے کہو کہ وہ تمہیں‬
‫نکال دے۔‘‘‬
‫’’ایک تو ابّو! آپ پتا نہیں کون کون سی دوائیاں ِکھالتے رہتے ہیں مجھے۔ میں بیمار ہوں کیا؟‘‘‬
‫رجب نے دوائیوں کا سنتے ہی بُرا سا منہ بنا لیا۔‬
‫’’جاؤ ناں رجب! دوا لینے میں تمہارا کیا جاتا ہے؟ فائدہ ہی ہے ناں!۔‘‘‬
‫شوال نے پھر سے ا ُسے ٹوکا۔‬
‫’’یہ آپ کی چمچی بنتی جا رہی ہے ابّو! میں بتا رہا ہوں۔‘‘‬
‫رجب مصنوعی انداز میں شکایت کرتا اپنی دوا لینے ا ُٹھ گیا۔‬
‫’’کون سی دوائیں الئے ہیں آپ؟‘‘ سکینہ بیگم نے وجاہت علی سے استفسار کیا۔‬
‫وجاہت علی نے فورا ً شوال کی طرف دیکھا۔ شوال بھی سکینہ بیگم کے ِاس سوال سے گھبرا گئی‬
‫تھی۔‬
‫’’وہ۔۔ ڈاکٹر سمیع نے دی تھیں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کوشش کے باوجود اپنےاندر کے چور کے باعث اعتماد کے ساتھ نہ بول سکے۔‬
‫’’اچھا۔‘‘‬
‫خوش قسمتی سے سکینہ بیگم اپنے ہی دھیان میں تھیں۔ وجاہت علی کی چوری نہ بھانپ سکیں۔‬
‫وجاہت علی نے چپکے سے شوال کی سمت دیکھا۔ شوال نے بھی اسی آن ا ُن کی طرف دیکھا۔ دونوں‬
‫ہی نے ایک ساتھ اطمینان کا سانس لیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’کیا آپ اپنا انگلینڈ کا ٹرپ کچھ عرصہ کیلئے پوسٹ پونڈ نہیں کر سکتے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے شوہر سے سوال کر رہی تھیں۔‬
‫وجاہت علی خاموش بیٹھے جانے کن سوچوں میں گم تھے۔ سکینہ بیگم کے سوال پر چونک کر انھیں‬
‫دیکھا۔‬
‫’’کیوں؟‘‘‬
‫’’اگر ایسا ہو سکے تو آپ شوال کو بھی ساتھ لے جائیں۔۔۔ ا ُس کی طبعیت کو لے کر میں بہت‬
‫خوفزدہ ہوں۔ آپ کی غیرموجودگی میں وہ بیمار پڑ گئی تو میں کیسے مینج کروں گی؟۔۔۔ پتا تو ہے آپ کو۔‬
‫کسی کی سنتی بھی نہیں ہے۔ اسپتال‪ ،‬ڈاکٹر کے تو نام سے ہی چڑتی ہے۔ کیسے سنبھالوں گی میں‬
‫ا ُسے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اپنی پریشانی بیان کی۔‬
‫’’تم ِفکر نہ کرو۔ وہ ٹھیک ہے اب۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے بےفکری سے کہہ کر سر صوفہ چیئر کی پشت پہ ڈال دیا۔‬
‫ِ‬
‫’’کہاں ٹھیک ہے؟۔۔۔ اس کی طبعیت تو ایسے ہی آن آف ہوتی رہتی ہے۔ ایک دو دن سے ٹھیک ہے۔‬
‫ایک دو ِدن بعد پھر بیمار پڑ جائے گی۔‪ ،‬مجھے تو رجب کا اندیشہ درست لگ رہا ہے۔ ہو نہ ہو۔ ا ُسے کوئی‬
‫بڑی بیماری ہے۔ ورنہ ایسے تو کوئی اتنا کمزور اور بیمار نہیں پڑتا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے جرح کرتے ہوئے کہا۔‬
‫’’تم خوامخواہ فکر کر رہی ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی جیسے اس موضوع سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔‬
‫’’آپ پتا نہیں کیوں اس کو اتنا ہلکا لے رہے ہیں۔۔۔ ‘‘‬
‫وجاہت علی جیسے اس موضوع سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔‬
‫’’آپ پتا نہیں کیوں اس کو اتنا ہلکا لے رہے ہیں۔۔۔ ‘‘‬
‫چڑ گیئیں۔ پھر دوسرا خیال آنے پہ بولیں۔‬‫سکینہ بیگم شوہر کی الپرواہی دیکھ کر ِ‬
‫’’اور رجب؟۔۔۔۔ کیا ا ُس کا جانا ضروری ہے؟۔۔۔ اور نہیں تو ا ُسے ہی چھوڑ جائیں۔۔۔۔ ا ُس کی‬
‫موجودگی سے ہی کچھ نہ کچھ تسلی ہو جائے گی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے چہرہ موڑ کر سکینہ بیگم کو دیکھا۔ پھر جیسے ایک فیصلہ کر کے سیدھے ہو‬
‫بیٹھے۔‬
‫’’سکینہ!۔۔۔ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کے چہرے پہ بال کی سنجیدگی تھی۔‬
‫سکینہ بیگم نے انھیں ایسے دیکھا جیسے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایسی بھی کیا خاص بات ہے۔‬
‫وجاہت علی نے تہمید باندھنے کیلئے لب کشائی کی۔‬
‫’’ تمہیں یاد ہے؟۔۔۔ دو ڈھائی مہینے پہلے جب رجب بیمار ہوا تھا! وہ واش روم میں بےہوش ہو کر گِر‬
‫گیا تھا اور شوال ہمیں بالنے آئی تھی؟۔۔۔‘‘‬
‫’’ہاں۔ تو؟۔۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کچھ نہ سمجھیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے تھے۔‬
‫’’ تم نے ا ُن کے کمرے میں کچھ دیکھا تھا؟‘‘‬
‫’’کیا؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو کچھ علم نہ تھا کہ وجاہت علی ِکس بارے میں بات کر رہے تھے۔‬
‫وجاہت علی کے چہرے پہ سنجیدگی کے ساتھ سختی بھی در آئی۔‬
‫’’رجب کا بستر نیچے َرگ پہ لگا ہوا تھا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے انکشاف کیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’یہ فائل رجب کی ہے؟‘‘‬


‫شوال کچن سے نکل رہی تھی۔ نوکرانی کو ہاتھ میں فائل لئے سیڑھیوں کی طرف بڑھتے دیکھا تو‬
‫پوچھا۔‬
‫’’نہیں بی بی جی!۔ بڑے صاحب کی ہے۔ وہ یہاں میز پہ ہی چھوڑ گئے ہیں۔‘‘‬
‫شوال چلتی ہوئی ا ُس کے قریب پہنچ گئی۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔ یہ فائل تم مجھے دو۔ اور جاکر سارے کھڑکیاں دروازے چیک کرو کہ ٹھیک سے بند ہیں‬
‫یا نہیں۔‘‘‬
‫نوکرانی کے ہاتھ سے فائل لے کر وہ تاکید کرتی اوپر سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’ا ُف خدایا!۔۔۔۔ ا ُس کی معمولی سی موسمی بیماری کو آپ نے بلڈ کینسر بنا ِدیا؟۔۔۔ آپ کی زبان‬
‫نہیں لڑکھڑائی ہمارے اکلوتے بیٹے کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہوئے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم منہ پہ ہاتھ رکھے ہّکابّکا وجاہت علی کو دیکھ رہی تھیں۔‬
‫سنا کر انھیں صحیح معنوں میں دّہال دیا تھا۔‬‫وجاہت علی نے اپنا کارنامہ ُ‬
‫’’تو اور کیا کرتا؟۔۔۔ اگر میں یہ جھوٹ نہ بولتا تو وہ ضدی لڑکی ہمارے بیٹے کی جان لے کر ہی َدم‬
‫لیتی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اپنی صفائی پیش کی۔‬
‫تب ہی شوال ہاتھ میں فائل لئے ا ُن کے کمرے کے ا َدھ ُکھلے دروازے پہ پہنچی۔ اندر سے وجاہت علی‬
‫کی نفرت میں ڈوبی آواز آ رہی تھی۔‬
‫تب ہی شوال ہاتھ میں فائل لئے ا ُن کے کمرے کے ا َدھ ُکھلے دروازے پہ پہنچی۔ اندر سے وجاہت علی‬
‫کی نفرت میں ڈوبی آواز آ رہی تھی۔‬
‫جس رجب کو وہ فرش پہ‬ ‫’’اسرار کی بیٹی ہے ناں!۔ ضد ا ُس کے خون میں شامل ہے۔ اب دیکھو!۔۔۔ ِ‬
‫سالتی تھی آج ا ُس کے لئے کیسے تڑپ رہی ہے۔ سارے کس بل نکال دیئے ہیں اس کے۔‘‘‬ ‫ُ‬
‫وجاہت علی کے لہجے میں شوال کے لئے نفرت اور اپنی چاالکی پہ واضح تفاخر تھا۔‬
‫سن کر بُری طرح چونکی تھی۔‬ ‫و ہ یہ ُ‬
‫سکینہ بیگم نے اپنا ایک ہاتھ منہ پر سے ہٹا لیا۔ خوف کی جگہ اب فکرمندی نے لے لی تھی۔‬
‫’’اب کیا کریں گے ہم؟۔۔۔ ایک نہ ایک ِدن تو ا ُسے بتانا ہوگا کہ آپ نے اس سے جھوٹ بوال تھا۔ رجب‬
‫کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ ‪ ،‬کیسے بتائیں گے ا ُسے؟‘‘‬

‫سکینہ بیگم کے الفاظ اس کی سماعت پہ ہتھوڑوں کی طرح برسے۔ ا ُس کا سر چکرانے لگا۔ خود کو‬
‫سنبھالنے کے لئے ا ُس نے دیوار سے ہاتھ ٹیک لیا۔ فائل ہاتھ سے چھوٹ کر قدموں میں جا ِگری۔‬
‫اتنا بڑا دھوکا۔۔۔ اتنا بڑا فریب دیا گیا تھا ا ُسے۔‬
‫ا ُس کی سانسیں بےترتیب اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔‬
‫اندر وجاہت علی کہہ رہے تھے۔‬
‫’’شوال کو کبھی سچ پتا نہیں چلے گا۔۔۔ اسی لئے تو میں اور رجب انگلینڈ جا رہے ہیں۔۔۔ شوال کو‬
‫میں نے بتایا ہے کہ میں رجب کو عالج کی غرض سے انگلینڈ لے جارہا ہوں۔ وہاں کچھ عرصہ رہیں گے۔‬
‫واپس آ کر بتا دوں گا کہ رجب ٹھیک ہو گیا ہے۔‘‘‬
‫صے میں تبدیل ہو گیا۔ رگوں میں خون کی جگہ زہر دوڑنے لگا۔ وہ مزید وہاں‬ ‫اب تو ا ُس کا صدمہ غ ّ‬
‫نہ ُرکی اور کھولتے دماغ کے ساتھ تیز تیز قدم ا ُٹھاتی اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔ غصے سے مٹھیاں‬
‫بھینچے وہ جارحانہ انداز میں چلتی اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچی اور تڑاخ کے ساتھ دروازے کے‬
‫دونوں پٹ وا کر دیئے۔‬
‫رجب نائٹ سوٹ میں ملبوس وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا خوشبودار موم بتّیاں جال رہا تھا۔ شوال کے‬
‫اسطرح سے دروازہ کھولنے پہ ہڑبڑا کر دروازے کی سمت دیکھا۔ پھر اطمینان کا سانس خارج کرکے توجہ‬
‫واپس موم بتیوں کی طرف کر لی۔‬
‫’’آرام سے۔۔ آرام سے۔۔۔ کہاں رہ گئی تھی تم؟‘‘‬
‫معمول کے انداز میں کہا۔‬
‫جسے وہ الئٹر کی مدد سے جال رہا تھا۔ شوال کی‬ ‫ا ُس کا سارا دھیان اس موم بتی کی طرف تھا ِ‬
‫حالت پہ اس نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔‬
‫ا ُدھر شوال غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ آج اس کی ذہنی کیفّیت ایسی تھی کہ رجب کی جان بھی‬
‫ُ‬
‫لے لیتی تو بھی ا ُس کی تسکین نہ ہوتی۔ ِاسی غصے اور پاگل پن میں وہ آگے بڑھی۔‬
‫’’تم بھی ِاس پالن میں برابر کے شریک ہو ناں!؟۔۔۔ یہ کھیل تم سب ِمل کر کھیل رہے تھے ناں میرے‬
‫ساتھ ؟‘‘‬
‫رجب اب کے چونک کر اس کی طرف پلٹا۔‬
‫’’کیا؟۔۔۔ کونسا کھیل؟‘‘ وہ کچھ نہ سمجھا۔‬
‫’’ہاؤ ڈیر ُیو؟۔۔۔ میرے ساتھ اتنا گندا کھیل کھیلنے کی تم نے جرٴات کیسے کی؟‘‘‬
‫چالئی۔ ِاس وقت اگر کوئی ا ُسے دیکھ کر کہتا کہ ا ُس کے وجود میں کوئی جن‬
‫ِ‬ ‫شوال حلق کے بل ِ‬
‫گھُس گیا ہے تو وہ غلط نہ ہوتا۔‬
‫’’ٹھیک کہتے تھے پاپا تم لوگوں کے بارے میں۔۔۔ تم ایک گھٹیا باپ کی گھٹیا اوالد ہو۔‘‘‬
‫وہ چنگاڑی۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫رجب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ بات چاہے کچھ بھی ہو۔ مگر اپنے باپ کی انسلٹ وہ کبھی‬
‫بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔‬
‫رجب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ بات چاہے کچھ بھی ہو۔ مگر اپنے باپ کی انسلٹ وہ کبھی‬
‫بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔‬
‫شوال ا ُس کی یہ چوری اور سینہ زوری برداشت نہ کر سکی۔ وینٹی ٹیبل پہ رکھا گلدان ا ُس کے‬
‫ہاتھ میں آیا۔ ا ُس نے وہی ا ُٹھا کر پوری قوت سے ا ُس کے سر پہ دے مارا۔‬
‫رجب کا سر پھٹ گیا۔‬
‫’’آہ۔‘‘‬
‫وہ کراہا اور گھاؤ پہ ہاتھ رکھ کر لڑکھڑا کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔‬
‫’’میرے جسم کو پانے کے لئے میرے ساتھ فراڈ کیا تم نے۔۔۔۔ میرے سامنے شریف بنے رہے۔ کہا کہ‬
‫جب تک تم قبول نہیں کرو گی تمہارے قریب نہیں آؤں گا۔ اور یہ ہے تمہاری شرافت؟۔۔ تمہاری اصلیت؟۔۔‬
‫اپنے ماں باپ کو ساتھ ِمال کر اتنا بڑا جھوٹ بوال مجھ سے۔۔۔ دھوکے سے‪ ،‬فریب سے میرے وجود کو گندا‬
‫کیا تم نے۔۔۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی غلیظ آدمی!۔‘‘‬
‫چالئی اور ایک اور وار کرنے کے لئےہاتھ میں پکڑا گلدان فضا میں بلند کیا۔‬
‫وہ ہسٹریائی انداز میں ِ‬
‫تب ہی وجاہت علی نے ا ُس کے عقب سے گلدان اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔‬
‫’’کیا ہو رہا ہے یہ؟‘‘‬
‫وجاہت علی گرجے۔‬
‫شوال ا ُن کی طرف مڑی۔ وجاہت علی کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے۔‬
‫سکینہ بیگم نے رجب کے سر سے بہتا خون دیکھا تو بےساختہ چیخ ماری۔ پھر بھاگ کر ا ُس کے‬
‫پاس گیئیں اور ا ُس کے سر کا گھاؤ دیکھنے لگیں۔‬
‫’’کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔ ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔ میں آپ سب کو مار دوں گی۔ مجھ سے جھوٹ بوال‬
‫سن لیا ہے میں نے۔ سب جان چکی ہوں میں۔‘‘ شوال چالئی۔‬ ‫تھاناں!۔۔۔ مجھے دھوکا دیا تھا ناں۔۔۔ سب ُ‬
‫وجاہت علی بری طرح گھبرا گئے۔‬
‫شوال نہ صرف خود جان چکی تھی۔ بلکہ وہ رجب کے بھی سامنے ان کی پول کھول رہی تھی۔‬
‫وجاہت علی نے رجب کی جانب دیکھا۔‬
‫رجب سر پہ ہاتھ رکھے ششدر سا ایک ٹک شوال کو دیکھے جا رہا تھا۔ ا ُس کے برابر کھڑی سکینہ‬
‫بیگم بھی ششدر سی شوال کو دیکھ رہی تھیں۔ رجب کے سر کے گھاؤ پہ ہاتھ جمائے کھڑی وہ بھول‬
‫گیئیں کہ ا ُنھیں رجب کی مرہم پٹی کرنا ہے۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫وجاہت علی اپنی فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے گلدان پھینک کر رجب کی جانب لپکے۔ ’’دکھاؤ مجھے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو ہٹا کر وہ خود رجب کے سر کا گھاؤ دیکھنے لگے۔‬
‫’’میں ٹھیک ہوں ابّو! وہ شوال۔۔۔۔‘‘‬
‫وہ شوال کو لے کر ِفکر مند اور معتجب تھا۔‬
‫’’سکینہ۔۔۔ جلدی سے پٹی الؤ۔‘‘‬
‫چال کر اپنی بیگم کو حکم دیا۔‬
‫رجب کو تھام کر بیڈ کی طرف لے جاتے ہوئے وجاہت علی نے ِ‬
‫سکینہ بیگم واش روم کی طرف بھاگیں۔‬
‫وجاہت علی نے رجب کو بیڈ کے کنارے ال بٹھایا اور خود بھی اس کی بغل میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے‬
‫رجب کے سر کے گھاؤ پہ اپنا ہاتھ جما رکھا تھا۔‬
‫ُ‬
‫سکینہ بیگم واش روم سے فرسٹ ایڈ باکس اٹھا الئیں۔ دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے کی پٹی کرنے‬
‫لگے۔‬
‫ِ‬
‫شوال اب بھی تیز سانسوں کے درمیان انھیں دیکھ رہی تھی۔ ا ُس کے بدن سے ابھی تک شعلے نکل‬
‫رہے تھے۔ البتہ رجب کا گھاؤ اور ا ُن سب کی پریشانی دیکھ کر ا ُس کے ِدل میں جلتی آگ پہ کچھ چھینٹے‬
‫ضرور پڑے تھے۔‬
‫تب ہی ا ُس کی کمر سے درد کی ایسی ٹیس ا ُٹھی کہ مانو ا ُس کی جان نکال چاہتی تھی۔‬
‫’’آہ۔‘‘‬
‫تب ہی ا ُس کی کمر سے درد کی ایسی ٹیس ا ُٹھی کہ مانو ا ُس کی جان نکال چاہتی تھی۔‬
‫’’آہ۔‘‘‬
‫بےساختہ حلق سے برآمد ہوتی چیخ دبانے کی کوشش میں وہ ہلکا سا کراہ کر پیچھے ہٹی۔‬
‫ا ُس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ا ُسے کیا ہوا ہے۔ کمر کے ساتھ پیٹ سے بھی درد ا ُٹھنے لگا تھا۔‬
‫اپنی حالت پہ حیران۔ تکلیف برداشت کرتی وہ پیچھے ہٹنے لگی۔‬
‫ا ُس کی پیٹھ دیوار سے جا لگی۔‬
‫’’آہ۔‘‘‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫درد کی ایک ایسی لہر بدن میں اٹھی تھی کہ وہ بےساختہ قدرے بلند آواز میں کراہی۔ اس نے ایک‬
‫ہاتھ اپنی کمر اور دوسرا پیٹ پہ رکھ لیا۔‬
‫ا ُس کے کراہنے کی آواز سن کر رجب نے نظریں ا ُٹھا کر ا ُس کی سمت دیکھا۔‬
‫درد کی شدت سے وہ دوہری ہوئی جا رہی تھی۔‬
‫’’آہ۔‘‘‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫رجب چِالیا۔‬
‫ابھی سکینہ بیگم ا ُس کے سر کے گرد لپیٹی پٹی پہ دوسری گرہ لگا رہی تھیں کہ وہ ا ُٹھ کر شوال‬
‫کی طرف بھاگا۔‬
‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی ا ُس کے یوں اچانک ا ُٹھ کر بھاگنے پہ پہلے حیران ہوئے پھر شوال کو‬
‫دیکھ کر پریشان ہو ا ُٹھے۔‬
‫’’چھونا مت مجھے تم۔‘‘‬
‫رجب ا ُسے تھامنے کو لپکا تو شوال زخمی شیرنی کے طرح دھاڑی۔‬
‫رجب جہاں تھا‪ ،‬وہیں ُرک گیا۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫ا ُس نے ِفکر مندی سے زیِرلب دہرایا۔‬
‫شوال کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر وہ پھر بھی اپنی تکلیف برداشت کرنے کی جدوجہد‬
‫میں فرش پہ بیٹھتی چلی گئی۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم اس کی حالت دیکھ کر ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫دونوں نے ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا۔‬
‫’’پاپا!‘‘‬
‫چالئی۔‬
‫شوال درد کی شدت سے بلند آواز میں ِ‬
‫’’شوال!۔‘‘‬
‫رجب ا ُس کے مقابل بیٹھ گیا۔‬
‫اس نے درد سے نڈھال شوال کو دونوں کندھوں سے تھامنا چاہا۔ لیکن اس سے پہلے ہی شوال بے‬
‫ہوش ہو کر ا ُس پہ آ ِگری۔ ا ُس کا سر رجب کے سینے سے جا ٹکرایا۔‬
‫’’میں ابھی ایمبیولنس بالتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کہہ کر کمرے سے باہر کی اور بھاگے۔‬
‫سکینہ بیگم بھی تیزی سے چل کر شوال کے قریب آ بیٹھیں۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!۔‘‘‬
‫رجب شوال کا بےہوش وجود اپنی بانہوں میں لئے ا ُس کا گال تھپتھپا رہا تھا۔‬
‫’’ِاسے کیا ہو گیا اّمی!؟‘‘‬
‫گھبراہٹ میں ا ُس کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم اپنے خدشے کو زبان نہ دے سکیں۔ سو اپنے لب سیئے رہیں۔‬
‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اس وقت وہ تینوں اسپتال میں شوال کے کمرے کے باہر منتظر بیٹھے تھے۔‬
‫’’وہ کیا کہہ رہی تھی اّمی!؟۔۔۔ کونسے دھوکے کی بات کر رہی تھی؟‘‘‬
‫رجب نے سرد لہجے میں پوچھا۔‬
‫سکینہ بیگم نے اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔‬
‫وہ پوری آنکھیں کھولے رجب اور سکینہ بیگم کو دیکھ رہے تھے۔ سکینہ بیگم نے نگاہیں پھیر کر‬
‫رجب کی جانب دیکھا۔‬
‫’’میں۔۔ کچھ نہیں جانتی۔۔۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘‘‬
‫کوشش کے باوجود سکینہ بیگم اپنے لہجے کی کمزوری پہ قابو نہ پا سکیں۔ ا ُن کی آواز اور چہرے‬
‫کی گھبراہٹ سے صاف ظاہر تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔‬
‫رجب فورا ً بھانپ گیا۔‬
‫سن لیا‬‫سن لیا ہے اور کیا ُ‬‫’’آپ سب جانتی ہیں۔۔۔ مجھے صاف صاف بتایئے؟۔۔ ا ُس نے کس سے ُ‬
‫ہے؟ ‘ ‘‬
‫سکینہ بیگم اضطراری کیفیت میں انگلیاں مروڑنے لگیں۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ صرف ایک ادھوری بات سن کر اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ ہم اس‬
‫کے بارے میں گھر چل کر بات کریں گے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے مداخلت کرتے ہوئے نرم مگر پُر اعتماد لہجے میں رجب کو سمجھایا۔‬
‫’’کونسی ادھوری بات؟۔۔۔ کیسی غلط فہمی۔؟‘‘‬
‫صر تھا۔‬ ‫رجب جاننے کو بےتاب و م ّ‬
‫وجاہت علی نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھوال۔‬
‫تب ہی کمرے کا دروازہ کھول کر لیڈی ڈاکٹر باہر آئی۔ وجاہت علی فورا ً ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫سکینہ بیگم کے ساتھ رجب بھی ا ُٹھ کھڑا ہوا اور ڈاکٹر کی طرف پلٹا۔‬
‫لیڈی ڈاکٹر کے چہرے پہ بال کی سنجیدگی تھی۔‬
‫سب کو متوجہ پا کر ڈاکٹر خود ہی بول پڑی۔‬
‫’’آئم سوری۔‘‘‬
‫ِاس ایک جملے نے ا ُن تینوں کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی۔ رجب تو جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا۔‬
‫’’رجب!۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر ا ُس کا بازو تھاما۔‬
‫رجب کا سانس سینے میں ہی اٹک گیا تھا۔ بےیقین نگاہیں لیڈی ڈاکٹر پہ گڑھی تھیں۔‬
‫لیڈی ڈاکٹر نے اپنی بات مکمل کی۔‬
‫’’ہم بچے کو نہیں بچا سکے۔‘‘‬
‫سن کر اپنی بےیقین پلکیں جھپکائیں۔‬ ‫رجب نے بچے کا ُ‬
‫لیڈی ڈاکٹر کہہ رہی تھی۔‬
‫’’وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو چکا تھا۔‘‘‬
‫’’بچہ!؟۔۔۔‘‘ وجاہت علی نے زیِرلب دہرایا۔‬
‫لیڈی ڈاکٹر نے چہرہ موڑ کر وجاہت علی کو سرد نگاہوں سے دیکھا۔‬
‫سکس ویکس )‪ (six weeks‬پریگننٹ تھی۔ آپ کو معلوم نہیں کیا؟‘‘‬ ‫’’آپ کی بہو ِ‬
‫سن کر ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ لیا۔ جبکہ لیڈی ڈاکٹر اجتماعی طور پہ انھیں مالمت‬ ‫سکینہ بیگم نے یہ ُ‬
‫کر رہی تھی۔‬
‫’’لگتا ہے کہ آپ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔۔۔ وہ بہت کمزور اور شدید ذیہنی دباؤ‬
‫کا شکار ہے۔ بچہ بھی ِاسی وجہ سے ضائع ہوا ہے۔۔ اور اب اس کی حالت بھی سیریس ہے۔۔۔خیر۔۔۔۔‬
‫’’لگتا ہے کہ آپ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔۔۔ وہ بہت کمزور اور شدید ذیہنی دباؤ‬
‫کا شکار ہے۔ بچہ بھی ِاسی وجہ سے ضائع ہوا ہے۔۔ اور اب اس کی حالت بھی سیریس ہے۔۔۔خیر۔۔۔۔‬
‫ڈاکٹر صاعد ا ُسے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘‘‬
‫ڈاکٹر اپنی بات مکمل کر کے آگے بڑھ گئی۔‬
‫رجب بالکل ہی جیسے ُلٹ ِپٹ کر دونوں ہاتھوں میں سر تھامے کرسی پہ بیٹھ گیا۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ میرے بچے!‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اس کے برابر بیٹھ کر ا ُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫رجب کچھ بھی کہنے سننے کی حالت میں نہیں تھا۔ اس کی لہو رنگ آنکھوں سے تیزاب ٹپک رہا‬
‫تھا۔‬
‫’’رجب! حوصلہ کرو میرے بیٹے! حوصلہ کرو۔‘‘‬
‫وجاہت علی بھی ا ُس کے دوسرے پہلو میں آبیٹھے۔‬
‫’’مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔۔۔ جیسے وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر چیخی تھی۔ مجھے ا ُسی وقت‬
‫شک ہو گیا تھا کہ وہ پریگننٹ ہے۔‘‘‬
‫چور آواز میں کہا۔‬‫سکینہ بیگم نے صدمے سے ُ‬
‫جبکہ رجب اپنے حواس کھو رہا تھا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫صبح کا وقت تھا جب ڈاکٹرز نے شوال کی طبعیت میں کچھ سدھار کی نوید سنائی۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ اب خطرے یا پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔ جب تک اس سے ملنے کی اجازت نہیں ِمل‬
‫جاتی۔ تب تک تم گھر جا کر تھوڑا آرام کر لو۔۔۔۔ سکینہ! تم بھی رجب کے ساتھ چلی جاؤ۔ میں ہوں‬
‫یہاں۔ ‘ ‘‬
‫وجاہت علی نے پہلے اپنے بیٹے پھر بیوی سے کہا۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ میں ا ُسے دیکھے بنا کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘ رجب نے صاف انکار کیا۔‬
‫’’سمجھا کرو رجب!۔۔۔ تمہارے کپڑے خون آلود ہیں۔ ِاس حالت میں ڈاکٹرز تمہیں ویسے بھی اس کے‬
‫قریب نہیں جانے دیں گے۔۔۔۔ گھر جا کر نہا کر کپڑے تو بدل لو۔۔۔ میں ہوں ناں یہاں۔ تم ِفکر کیوں کرتے‬
‫ہو؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے ا ُسے قائل کرنے کی کوشش کی۔‬
‫’’لیکن میں۔۔۔‘‘ رجب پھر جرح کرنا چاہتا تھا۔‬
‫سکینہ بیگم نے ا ُس کے بازو پہ اپنا ہاتھ رکھا۔‬
‫’’مان جاؤ ناں رجب!۔۔۔۔ تم بھی تو ٹھیک نہیں۔ تمہیں بھی تھوڑے آرام کی ضرورت ہے۔‘‘‬
‫رجب نے چہرہ موڑ کر سکینہ بیگم کو دیکھا۔ ا ُس کے ذیہن میں ایک خیال آیا۔ ا ُس نے سوچتے ہوئے‬
‫چہرہ واپس گھما کر وجاہت علی کو دیکھا۔ پھر گردن ہالتے ہوئے بوال۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔ چلئے اّمی!‘‘‬
‫کہہ کر وہ بنا وقت ضائع کیے آگے آگے چل دیا۔ سکینہ بیگم ا ُس کے پیچھے پیچھے ہو لیں۔‬
‫وجاہت علی انھیں قدم قدم دور جاتا دیکھ رہے تھے۔ ا ُن دونوں کی پشت پہ نظریں گاڑھے ا ُن کے‬
‫دماغ میں کچھ چل رہا تھا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫جیسے ہی وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے ہال میں داخل ہوئے۔ دو قدم آگے چل کر ہی رجب ُرک گیا‬
‫اور سکینہ بیگم کا بازو پکڑ کر انھیں بھی روک لیا۔‬
‫سکینہ بیگم نے حیران ہو کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’اب آپ مجھے سچ سچ بتائیں گی کہ کیا بات ہوئی ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے حیران ہو کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’اب آپ مجھے سچ سچ بتائیں گی کہ کیا بات ہوئی ہے؟‘‘‬
‫وہ بہت سخت لہجے میں جواب طلب کر رہا تھا۔‬
‫سکینہ بیگم پریشان ہو گیئیں۔ بنا وجاہت علی سے مشورے یا ا ُن کی اجازت کے سکینہ بیگم کچھ‬
‫بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ رجب نے بھانپ لیا کہ ا ُن کا کوئی ارادہ نہیں کچھ بتانے کا۔‬
‫’’یا تو آپ مجھے اصل بات بتائیں گی۔ یا پھر آج ہی اس گھر سے میرا جنازہ ا ُٹھے گا۔‘‘‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫سکینہ بیگم تڑپ گیئیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں ہمت کر کے ساری حقیقت کھول سنانی پڑی۔‬
‫رجب کبھی حیران‪ ،‬کبھی پریشان تو کبھی پشیمان ہوتا سارے حقائق سنتا رہا۔ جب سکینہ بیگم ساری‬
‫روداد سنا چکیں تب وہ بالکل ایک مجسمے کی مانند کھڑا تھا۔ اس کا وجود پتھر ہو چکا تھا۔ بنا کچھ‬
‫کہے۔ بنا کوئی سوال کئے رجب نے اپنے پتھر وجود کو ایک قدم آگے گھسیٹا۔‬
‫’’رجب میرے بیٹے!‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ا ُس کا بازو پکڑ کر روک لیا۔ رجب رک تو گیا لیکن اس نے چہرہ موڑ کر سکینہ بیگم‬
‫کو نہ دیکھا۔‬
‫’’پلیز! کوئی ا ُلٹی سیدھی حرکت مت کرنا۔۔۔ ہماری خاطر نہ سہی‪ ،‬شوال کی خاطر ہی سہی۔۔۔ وہ‬
‫موت کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ ِاس وقت ا ُسے صرف اور صرف تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ تمہاری کوئی بھی غلط‬
‫حرکت ا ُس کی جان لے سکتی ہے میرے بچے!۔۔۔ پلیز۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے لرزتے ِدل اور وجود کے ساتھ التجا کی۔‬
‫سن کر بنا کچھ کہے شکستہ قدموں آگے بڑھ گیا۔‬ ‫رجب ا ُن کی بات ُ‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫دوپہر کو جب وہ دونوں اسپتال میں واپس پہنچے تو وجاہت علی کو بےچینی سے کوریڈور میں ٹہلتے‬
‫پایا۔‬
‫’’سب ٹھیک ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر پوچھا۔‬
‫وجاہت علی نے اثبات میں سر ہالیا۔ ساتھ ہی رجب پہ نگاہ ڈالی۔ وجاہت علی کے لئے نفرت اور‬
‫ناراضگی ا ُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫انھوں نے ا ُسے مخاطب کیا۔‬
‫رجب ان کو نظرانداز کرتا التعلقی سے دوسری سمت دیکھتا رہا۔‬
‫’’تم یہاں بیٹھو۔ میں واش روم ہو آؤں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ا ُس کی ناراضگی کی شدت کا اندازہ لگانے کےلئے پھر بھی ا ُس سے بات کی۔‬
‫رجب نے اب بھی ان کی کسی بات پہ توجہ دینا گوارا نہیں کیا۔‬
‫وجاہت علی نے سکینہ بیگم کی اور دیکھا۔‬
‫سکینہ بیگم چور سی ہو گیئیں۔‬
‫وجاہت علی انھیں آنکھ سے اشارہ کرتے آگے بڑھ گئے۔‬
‫’’مجھے لگتا ہے کہ میں بھی واش روم ہو آؤں۔ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم بہانہ بناتی وجاہت علی کے پیچھے چل دیں۔‬
‫کوریڈور کا موڑ ُمڑ کر وجاہت علی وہیں ُرک کر پلٹے۔ ا ُن کے پیچھے آتی سکینہ بیگم بھی ُرک کر‬
‫انھیں دیکھنے لگیں۔‬
‫صے میں کیوں ہے؟ تم نے ا ُسے کچھ بتایا تو نہیں؟‘‘‬ ‫’’رجب اتنا غ ّ‬
‫وجاہت علی نے زور زور سے دھڑکتے ِدل کے ساتھ برہمی سے پوچھا۔‬
‫صے میں کیوں ہے؟ تم نے ا ُسے کچھ بتایا تو نہیں؟‘‘‬ ‫’’رجب اتنا غ ّ‬
‫ِ‬
‫وجاہت علی نے زور زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ برہمی سے پوچھا۔‬
‫سکینہ بیگم ِدل ہی ِدل میں اپنے آپ کو وجاہت علی کی سخت سست سننے کو تیار کرنے لگیں۔‬
‫مجبور لہجے میں صفائی پیش کرتے ہوئے بولیں۔‬
‫’’اور کوئی چارہ نہیں تھا وجاہت!۔۔۔ ا ُس نے مجھے خود کشی کی دھمکی دی تھی۔۔۔ اور آپ‬
‫جانتے ہیں کہ وہ صرف دھمکی نہیں دیتا۔‘‘‬
‫’’اهلل میاں!‘‘‬
‫وجاہت علی نے ماتھا پیٹ لیا۔‬
‫’’میں نے ا ُسے تمہارے ساتھ ِاس لئے بھیجا تھا تاکہ میں ا ُس کی غیر موجودگی میں شوال سے بات‬
‫کر سکوں۔۔۔ ا ُسے کچھ بھی کہہ کر رجب کو سچائی بتانے سے روک لیتا۔۔۔ تمہیں بھی فون کر کے‬
‫سمجھانا چاہتا تھا کہ رجب کو کچھ مت بتانا۔ لیکن تمہارے فون پہ کال کی تو وہ بھی میری جیب میں‬
‫بجا۔۔۔ جانے سے پہلے تم ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی؟‘‘‬
‫وجاہت علی دبی آواز میں اپنی بیگم پہ برس پڑے۔‬
‫’’شوال سے بات ہوئی آپ کی؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ا ُن کے رویے کی تلخی نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔‬
‫وجاہت علی نے ابھی تک سر تھام رکھا تھا۔ نفی میں سر ہال کر مایوسی سے بولے۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ ڈاکٹرز نے اس سے بھی ملنے نہیں ِدیا۔‘‘‬
‫پھر اضطراری کیفیت میں پیشانی مسلتے ہوئے بڑبڑائے۔‬
‫’’اهلل میاں!۔۔۔ اب کیا ہو گا؟۔۔۔ رجب کچھ نہ جانتا تو معاملہ سنبھاال جا سکتا تھا۔۔۔ اب سب‬
‫اختیار سے باہر ہو چکا ہے۔۔۔۔ پتا نہیں کیا ہو گا اب۔۔۔۔ ایک تو میرے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹا‪ ،‬شوال اسپتال‬
‫میں ہے۔ اوپر سے اپنا بچہ بھی کھو دیا اس نے۔۔۔ معلوم نہیں یہ لڑکا کیسے ری ایکٹ کرے گا۔۔۔۔ میرا دل‬
‫بہت گھبرا رہا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی بہت خوفزدہ تھے۔‬
‫گھبراہٹ تو سکینہ بیگم کو بھی بہت تھی۔ لیکن وہ کچھ نہ کچھ ُپرا ُمید بھی تھیں۔‬
‫’’پریشان نہ ہوں وجاہت!۔۔۔ شوال کو راضی کرنے کا سوچیں۔ اگر وہ مان جائے گی تو رجب کی‬
‫ناراضگی بھی خودبخود دور ہو جائے گی۔۔۔ میں تو کل رات سے ا ُسے منانے کے بارے میں ہی سوچ رہی‬
‫ہوں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کی تجویز نے وجاہت علی کو بھی ُپرا ُمید کر ِدیا۔‬
‫کمر پہ ہاتھ رکھے وہ اب ِاسی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔‬
‫’’ہوں۔۔۔۔۔ اب یہی ایک راستہ بچا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے پُرسوچ انداز میں کہا۔ پھر بولے۔‬
‫’’اچھا! تم جاؤ۔۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ رجب کو کوئی شک نہ ہو۔‘‘‬
‫جواب میں سکینہ بیگم سر ہال کر پلٹ گیئیں۔‬
‫سکینہ بیگم رجب کے قریب جا کھڑی ہوئیں۔ کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ کمرے سے‬
‫ڈاکٹر باہر نکلی۔‬
‫وہ دونوں ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہو گئے۔‬
‫’’وہ اب ٹھیک ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں انھیں وارڈ میں شفٹ کیا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ چاہیں تو ابھی ا ُن‬
‫سے ِمل سکتے ہیں۔‘‘‬
‫ڈاکٹر نے ُمسکراتے ہوئے مطلع کیا۔‬
‫’’اهلل!۔۔۔۔ تیرا ُ‬
‫شکر۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے دونوں ہاتھ ا ُٹھا کر اهلل کا شکر بجا الیا۔ پھر رجب کی اور دیکھا۔‬
‫’’جاؤ رجب! پہلے تم جا کر ِمل لو ا ُس سے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے محبت سے کہا۔‬
‫’’جاؤ رجب! پہلے تم جا کر ِمل لو ا ُس سے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے محبت سے کہا۔‬
‫’’انھیں وارڈ میں شفٹ کر لینے دیں۔‘‘‬
‫رجب نے ایسے سرد لہجے میں کہا جیسے ا ُسے شوال سے ِملنے میں کوئی ِدلچسپی نہ ہو۔‬
‫ش نظر سکینہ بیگم نے چاہ کر بھی کوئی سوال نہ کیا۔‬ ‫صورتحال کے پی ِ‬
‫تب ہی انھوں نے وجاہت علی کو اس طرف آتا دیکھا۔‬
‫’’یہ کچھ دوائیاں منگوا لیجیے۔‘‘‬
‫ڈاکٹر نے ایک پرچی رجب کی طرف بڑھائی۔‬
‫سکینہ بیگم نے ہاتھ بڑھا کر پرچی لے لی۔ ڈاکٹر پرچی پکڑانے کے بعد دوسری طرف چلی گئی۔‬
‫’’تم یہیں رہو۔ میں یہ دوائیاں منگوا التی ہوں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے محبت اور اپنائیت سے کہا۔‬
‫رجب کچھ نہ بوال۔‬
‫سکینہ بیگم پلٹ کر چلتی وجاہت علی کے قریب آ پہنچیں۔‬
‫’’چلئے۔ یہ دوائیں لے آتے ہیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا۔‬
‫وجاہت علی نے بنا کچھ کہے پرچی تھامی اور قدم موڑ کر واپس چل دیئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫جب وہ دونوں دوائیاں لے کر واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں رجب تھا نہ شوال۔ شوال کو وارڈ میں‬
‫شفٹ کیا جا چکا تھا۔‬
‫’’رجب بھی شوال کے ساتھ ہی ہوگا۔ فون کر کے پتا کرو کہ کونسے وارڈ میں ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے سکینہ بیگم سے کہا۔‬
‫ِ‬
‫سکینہ بیگم نے سر ہال کر اپنا فون نکاال۔ رجب کو کال مالئی مگر کامیابی نہ ہوئی۔‬
‫’’وہ کال نہیں ا ُٹھا رہا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے قدرے گھبرا کر شوہر کو دیکھا۔‬
‫’’فون سائلینٹ پہ ہوگا۔۔ ریسپشن سے پتا کرتے ہیں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا۔‬
‫دونوں میاں بیوی نے ریسپشن کا رخ کر لیا۔‬
‫رسیپشن سے پتا کر کے وہ وارڈ میں آئے۔‬
‫شوال بستر پہ بےسود پڑی تھی۔ رجب وہاں بھی ِندارد تھا۔‬
‫سکینہ بیگم نے شوہر کی جانب دیکھا۔‬
‫’’شوال ہوش میں ہے؟‘‘ وجاہت علی نے پوچھا۔‬
‫سکینہ بیگم اس سوال پہ شوال کی جانب پلٹیں۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!‘‘‬
‫وہ نرم آواز میں شوال کو پکارنے لگیں۔‬
‫’’یہ تھکی ہوئی ہیں۔ انھیں آرام کرنے دیں۔‘‘‬
‫تب ہی عقب سے نرس نے پیشہ وارانہ لہجے میں کہا اور آگے آکر ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیبل پہ رکھ‬
‫دی۔‬
‫ِ‬
‫’’سسٹر!۔۔ میرا بیٹا اس کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ کہاں ہے وہ؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے نرس سے پوچھا۔‬
‫’’نہیں۔۔ ِان کے ساتھ کوئی نہیں آیا۔ انھیں اکیال ہی یہاں الیا گیا ہے۔‘‘‬
‫نرس نے سرنج میں انجیکشن بھرتے ہوئے جواب ِدیا۔‬
‫’’نہیں۔۔ ِان کے ساتھ کوئی نہیں آیا۔ انھیں اکیال ہی یہاں الیا گیا ہے۔‘‘‬
‫نرس نے سرنج میں انجیکشن بھرتے ہوئے جواب ِدیا۔‬
‫سکینہ بیگم مضطرب ہو کر وجاہت علی کی جانب پلٹیں۔‬
‫’’کہاں چال گیا وہ؟‘‘‬
‫انھوں نے وجاہت علی سے استفسار کیا۔‬
‫تب ہی ا ُن کے ہاتھ میں پکڑے فون کی رنگ ٹون بجنے لگی۔ دیکھا تو رجب کی کال تھی۔‬
‫’’ہیلو رجب! کہاں ہو تم؟‘‘‬
‫انھوں نے بےتابی سے پوچھا۔‬
‫ِ‬
‫’’میں راستے میں ہوں۔ گھر جا رہا ہوں۔۔۔ آپ شوال سے ملیں؟ کیسی ہے وہ‘‘‬
‫رجب نے جواب دے کر ساتھ ہی مطلب کی بات پوچھی۔‬
‫ا ُس کا لہجہ بےتاثر تھا۔‬
‫’’شوال ٹھیک ہے۔۔ تم نہیں ِملے اس سے؟۔۔۔‘‘‬
‫’’نہیں۔۔۔ ڈاکٹر سے پوچھیئے کہ اور کب تک اسے اسپتال میں رکھیں گے۔ اور مجھے بتایئے گا‬
‫پھر۔‘‘‬
‫’’اچھا۔۔۔ تم کیوں گھر جا رہے ہو؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا اور پوچھا۔‬
‫’’اّمی! میں گاڑی چال رہا ہوں۔۔۔ گھر پہنچ کر بات ہوتی ہے۔‘‘‬
‫رجب نے جواب دینے سے بچنے کے لئے کہہ کر کال کاٹ دی۔‬
‫سکینہ بیگم نے فون کان سے ہٹا کر وجاہت علی کی سمت دیکھا۔ وہ خوفزدہ تھیں۔‬
‫’’وہ گھر چال گیا ہے۔۔۔ شوال سے ِملے بنا۔۔ مجھے ا ُس کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نےاپنے ِدل کے خدشات شوہر کے سامنے بیان کئے۔‬
‫وجاہت علی بھی سوچنے پہ مجبور ہوگئے۔‬
‫’’تم یہیں رہو۔ میں ا ُس کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو حوصلہ دیتے‪ ،‬کہہ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گئے۔‬
‫سکینہ بیگم نے چہرہ موڑ کر نرس کی جانب دیکھا۔ وہ سرنج میں بھرا انجیکشن شوال کو لگی ڈرپ‬
‫میں منتقل کر رہی تھی۔‬
‫سکینہ بیگم آہ بھر کرسی پہ بیٹھ گیئیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫شوال نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ ا ُجڑی ہوئی نظروں سے اپنے اردگرد دیکھا۔ اسی ملحے سکینہ‬
‫بیگم اس کے سر پہ آن موجود ہوئیں۔‬
‫’’شوال بیٹا!‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھنا چاہا۔‬
‫ا ُس نےاپنا چہرہ نفرت کے ساتھ دوسری جانب پھیر لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔‬
‫سکینہ بیگم نے شکست کھا کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔‬
‫’’ہمیں بہت ُدکھ ہے کہ ہم بچے کو نہ بچا سکے۔‘‘‬
‫اپنے اندر ہمت مجتمع کر کے سکینہ بیگم نے کہا۔‬
‫ُ‬
‫شوال نے اپنی آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔ شدید کرب کے تاثرات اس کے چہرے پہ عیاں تھے۔‬
‫’’اپنی اوالد کو کھونے کا ُدکھ کیا ہوتا ہے۔ میں اچھی طرح سمجھتی ہوں۔۔۔۔ ہمیں معاف کر دو‬
‫میری بچی!۔۔۔ تمہاری طبعیت کی خرابی کی وجہ سے ہمیں کبھی شک ہی نہ ہو سکا کہ تم ا ُمید سے ہو۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کے لہجے میں بےپناہ ُدکھ اور پچھتاوا تھا۔ وہ کچھ بھی نہ بولی۔ جیسے وہ بولنا بھول‬
‫چکی تھی۔‬
‫سکینہ بیگم کے لہجے میں بےپناہ ُدکھ اور پچھتاوا تھا۔ وہ کچھ بھی نہ بولی۔ جیسے وہ بولنا بھول‬
‫چکی تھی۔‬
‫تب ہی وہاں نرس چلی آئی اس کا بلڈ پریشر چیک کرنے۔‬
‫’’سسٹر!۔ میں سونا چاہتی ہوں۔ ِان کو یہاں سے لے جاؤ۔‘‘‬
‫شوال نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں نرس سے کہا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی رجب کے کمرے میں داخل ہوئے۔‬


‫رجب کاؤچ پہ بالکل ساکت بیٹھا‪ ،‬سر کاؤچ کی پشت پہ ڈالے چھت کو ٹکٹکی باندھے گھور رہا تھا۔‬
‫’’رجب!۔۔ ابھی تمہاری ماں کا فون آیا تھا۔ شوال اور گھنٹہ دو گھنٹے تک اسپتال سے ڈسچارج کر‬
‫دی جائے گی۔ چلو‪ ،‬اسے لے آئیں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا۔‬
‫کوشش کے باوجود وہ اپنے بیٹے کے سامنے اعتماد سے بات نہیں کر پا رہے تھے۔‬
‫’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘‬
‫رجب نے صاف انکار کیا۔ لہجہ برف کی طرح سرد تھا۔‬
‫’’کیوں؟۔۔۔ شوال سے کیوں کترا رہے ہو؟۔۔۔ ا ُسے اس وقت سب سے زیادہ تمہاری ضرورت ہے۔‘‘‬
‫رجب کا شوال کےلئے ایسا رویہ وجاہت علی کے لئے ناقابِل فہم تھا۔‬
‫’’آپ چلے جائیے یہاں سے۔۔۔ مجھے تنہا چھوڑ دیں۔ ابھی۔‘‘‬
‫رجب نے اپنی نظروں کا زاویہ بدلے بنا ا ُسی سرد لہجے میں کہا۔‬
‫وجاہت علی اسے دیکھ کر رہ گئے۔ بحث کرنےکا کوئی فائدہ نہیں تھا۔ سو وہ سر جھکا کر کمرے‬
‫سے باہر نکل گئے۔‬
‫نیچے پہنچ کر انھوں نے نوکرانی کو جا لیا۔‬
‫’’ماسی! میں شوال کو النے جا رہا ہوں۔۔۔ آپ رجب پہ نظر رکھیے گا۔ کوئی بھی گڑبڑ ہو تو منیر‬
‫اور شاہد کو ُبال لیجیے گا۔ اور مجھے فورا ً خبر کریے گا۔۔۔ ٹھیک ہے؟‘‘‬
‫انھوں نے اپنے مالی اور ڈرایئور کا نام لے کر تاکید کی۔‬
‫ماسی نے سمجھ جانے کے انداز میں سر ہال دیا۔‬
‫’’چلتا ہوں۔‘‘‬
‫کہہ کر وجاہت علی باہر کی جانب بڑھ گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی جب وارڈ میں پہنچے‪ ،‬شوال بستر سے پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی۔ سر جھکائے وہ بالکل‬
‫خاموش ڈاکٹر کی ہدایات سن رہی تھی۔ جبکہ سکینہ بیگم بیگ میں سارا سامان رکھ چکنے کے بعد بیگ‬
‫کی زپ بند کر رہی تھیں۔‬
‫’’دوا آپ نے باقاعدگی سے لینی ہے اور اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا ہے۔ ہم نے تو اپنی پوری‬
‫تسلی کر لی ہے۔ پھر بھی خدانخواسطہ آپ کو کوئی تکلیف یا پریشانی ہوتی ہے تو فورا ً ِاس نمبر پہ کال‬
‫کیجیے گا۔‘‘‬
‫ہاتھ میں پکڑی فائل پہ انٹری کرتے ہوئے ڈاکٹر نے ایک کاغذ آگے بڑھایا۔‬
‫’’مجھے دے دیجیے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر کاغذ تھام لیا۔‬
‫’’اچھا۔ خدا حافظ۔۔۔ گیٹ ویل سون۔‘‘‬
‫ڈاکٹر نے فائل بیڈ کے پائنتی بنے پاکٹ میں ڈالی اور پیشہ وارانہ مسکراہٹ ا ُچھال کر آگے بڑھ گیا۔‬
‫’’اچھا۔ خدا حافظ۔۔۔ گیٹ ویل سون۔‘‘‬
‫ڈاکٹر نے فائل بیڈ کے پائنتی بنے پاکٹ میں ڈالی اور پیشہ وارانہ مسکراہٹ ا ُچھال کر آگے بڑھ گیا۔‬
‫’’اچھا ہوا کہ آپ ٹائم پہ آ گئے۔ رجب نہیں آیا ساتھ؟‘‘‬
‫ڈاکٹر کے جانے کے بعد سکینہ بیگم شوہر کی طرف متوجہ ہوئیں۔‬
‫’’نہیں۔۔ شوال بیٹا!۔۔۔ کیسی ہو اب؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے مختصر جواب دے کر شوال کو مخاطب کیا۔ جو بستر سے ا ُتر چکی تھی۔‬
‫وجاہت علی کے سوال کا جواب دینے کی بجائے شوال سنبھل سنبھل کر چلتی بیڈ کے پائنتی تک‬
‫پہنچی اور پاکٹ میں سے اپنی فائل نکال کر کھول کر دیکھنے لگی۔‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫بالکل بےتاثر اور خاموش نگاہوں سے کچھ صفحے دیکھنے کے بعد اس نے سر اٹھا کر وجاہت علی‬
‫کو دیکھا۔‬
‫وجاہت علی اس سے دو قدم ہی کے فاصلے پہ کھڑے تھے۔‬
‫ا ُس نے فائل وجاہت علی کی طرف بڑھا دی جسے تھامنے کے لئے وجاہت علی نے اپنا ہاتھ آگے‬
‫بڑھایا۔‬
‫وہ الجھن کا شکار تھے کہ شوال انھیں یہ فائل کیوں پکڑا رہی ہے۔‬
‫’’اب تو آپ کا بدلہ پورا ہو گیا ہوگا ناں!۔۔۔ میں آپ کے بیٹے کو فرش پہ سالتی تھی۔ اور آج آپ کی‬
‫وجہ سے میں نے اپنا بچہ کھو دیا۔ میرے خیال سے اب میری طرف آپ کا کوئی قرض باقی نہیں بچا۔‘‘‬
‫شوال نے صدمے سے چور‪ ،‬ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا اور باہر کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫وجاہت علی خاموش سے ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھتے رہے۔ پھر فائل واپس بیڈ کی پاکٹ میں رکھ‬
‫کر انھوں نے بیگ ا ُٹھایا اور شوال کے پیچھے چل دیئے۔ سکینہ بیگم نے بھی ا ُن کی تقلید کی۔ وہ بہت‬
‫ا ُداس اور ُمضطرب تھیں۔‬
‫وارڈ سے باہر آکر شوال رسپشن کی جانب چل پڑی۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم دونوں ُرک گئے۔‬
‫’’شوال! کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔ ایگزٹ ادھر ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے پیچھے سے آواز دی۔‬
‫شوال سنی ا َن سنی کرتی آگے بڑھتی رہی۔ اس کی چال سے ہی پتا چل رہا تھا کہ وہ بہت بڑے‬
‫صدمے سے دوچار ہے۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫سکینہ بیگم پھر سے پکارتی ہوئی اس کے پیچھے لپکیں۔‬
‫’’کیا میں ایک فون کال کر سکتی ہوں؟‘‘‬
‫شوال نے رسپشن پہ پہنچ کر سوال کیا۔‬
‫سکینہ بیگم اس کا سوال سن کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہی رک گیئیں۔‬
‫رسپشن پہ بیٹھی لڑکی نے بنا کچھ کہے مسکرا کر فون سیٹ ا ُٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔‬
‫’’تھینک یو۔‘‘‬
‫اس نے کہا اور ریسیور اٹھا کر کوئی نمبر ڈائل کرنے لگی۔‬
‫سکینہ بیگم معتجب سی ِدل ہی ِدل میں قیاس آرائی کرنے لگیں کہ وہ آخر ِکسے فون کر رہی ہے۔‬
‫وجاہت علی آہستگی سے چلتے سکینہ بیگم کے قریب آ ُرکے۔ انھیں بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ‬
‫شوال کے ذیہن میں کیا ہے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد اپنے آفس میں بیٹھے ایک فائل پہ نظریں گاڑھے بیٹھے تھے جب ا ُن کے فون کی رنگ ٹون‬
‫بجنے لگی۔‬
‫فائل سے نظریں ہٹائے بنا انھوں نے ایک طرف رکھا اپنا فون ا ُٹھا لیا۔ سامنےال کر دیکھا۔ فون کی‬
‫سکرین پہ ایک لینڈ الئن نمبر دیکھ کر انھیں اچھنبا ہوا۔‬
‫فائل سے نظریں ہٹائے بنا انھوں نے ایک طرف رکھا اپنا فون ا ُٹھا لیا۔ سامنےال کر دیکھا۔ فون کی‬
‫سکرین پہ ایک لینڈ الئن نمبر دیکھ کر انھیں اچھنبا ہوا۔‬
‫’’یہ کہاں کا نمبر ہے؟‘‘‬
‫انھوں نے کال ایکسپٹ کر کے فون کان سے لگایا۔‬
‫’’ہیلو!‘‘‬
‫باپ کی آواز سن کر دوسری طرف شوال کی سانس اٹک گئی اور زبان سلب ہو گئی۔ کیسے بولے؟‬
‫کیا کہے؟۔۔ عقل کام کر رہی تھی نہ ہّمت ساتھ دے رہی تھی۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے پھر سے ’ہیلو‘ کیا۔‬
‫اسرار احمد کال نہ کاٹ دیں۔ یہ خوف دوسرے ہر احساس پہ حاوی ہو گیا۔‬
‫’’پاپا!‘‘ وہ اتنا ہی کہہ پائی۔‬
‫ا ُدھر اسرار احمد یہ آواز سن کر ُبری طرح چونکے۔ ِادھر وجاہت علی اور سکینہ بیگم اپنی اپنی‬
‫جگہ اچھل پڑے۔ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔‬
‫اسرار احمد بھی کچھ نہ سمجھ پائے کہ کیسا رِدعمل ظاہر کریں۔ تقریبا ً گیارہ مہینے بعد آج پہلی‬
‫بار اور اچانک شوال نے ا ُن سے رابطہ کیا تھا۔ فوری طور پر کوئی بھی فیصلہ کر پانا ناممکن تھا۔ اسی‬
‫اثناء میں شوال کی درد بھری آواز ا ُن کے کان کے پردے سے ٹکرائی۔‬
‫چکی ہوں؟‘‘‬ ‫’’پاپا!۔۔۔ کیا میں واقعی مر ُ‬
‫شوال نے یہ سوال اتنے درد کے ساتھ کیا کہ اسرار احمد کا ِدل ِہل گیا۔‬
‫دوسری طرف شوال کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔‬
‫رندھی ہوئی آواز میں جیسے التجا کرنے لگی۔‬
‫’’اگر میرا سگا باپ ہی مجھے مرا ہوا سمجھ لے گا تو کسی اور میری زندگی کی پرواہ کیسے ہوگی‬
‫پاپا!؟‘‘‬
‫شوال ان سے سوال کر رہی تھی۔‬ ‫ُ‬
‫شوال کی آواز‪ ،‬ا ُس کے الفاظ۔۔۔ اسرار احمد کو چونکا گئے۔‬
‫’’ لوگوں کو پرواہ ہوتی ہے تو صرف اپنے بیٹے کی۔ ُدکھ دکھائی دیتا ہے تو صرف اپنے بیٹے کا۔‬
‫خوشی چاہتے ہیں تو صرف اپنے بیٹے کی۔۔۔‬
‫کیا میں کسی کی بیٹی نہیں؟ کیا مجھے درد نہیں ہوتا؟۔۔۔ کیا میری زندگی صرف ایک مذاق ہے؟‬
‫چک ی‬
‫میری زندگی کی پرواہ کون کرے گا؟ میرے دکھوں کا خیال کون کرے گا؟۔۔۔۔ کیا میں واقعی َمر ُ‬
‫ہوں پاپا!؟‘‘‬
‫شوال کا درد اسرار احمد کو تڑپا گیا۔ آنکھوں میں آنسو ا ُتر آئے۔ جنہیں انھوں نے بمشکل پیچھے‬
‫دھکیال۔‬
‫خود کو کمپوز کر کے بولے۔‬
‫’’دیکھو شوال!‘‘‬
‫’’پاپا! آئی لوسٹ مائی چائلڈ۔‘‘‬
‫شوال کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ انتہائی کرب کے عالم میں باپ سے فریاد کرتے ہوئے وہ‬
‫پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔‬
‫اب تو اسرار احمد کا بھی ضبط جواب دے گیا۔ سب کچھ بھال کر بےچینی سے بولے۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ میری بچی!۔۔۔۔ روؤ مت۔۔۔ بتاؤ تم کہاں ہو؟۔۔۔ میں ابھی آ رہا ہوں تمہارے پاس۔‘‘‬
‫شوال کے آنسوؤں نے تھمنے میں کچھ وقت لیا۔ پھر جب بولی تو آواز آنسوؤں سے بوجھل تھی۔‬
‫’’ڈارن ِاٹ۔‘‘‬
‫شوال کو فون پہ اسپتال کا نام و پتا بتاتے سن کر وجاہت علی نے ماتھا پیٹا۔‬
‫’’وہ یہاں آ رہا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی بڑبڑائے اور کالئی سامنے کرکے گھڑی دیکھی۔‬
‫’’وہ یہاں آ رہا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی بڑبڑائے اور کالئی سامنے کرکے گھڑی دیکھی۔‬
‫’’ساڑھے چار۔۔۔ وہ اس وقت آفس میں ہوگا۔ اور اگلے دس منٹ کے اندر وہ یہاں موجود ہوگا۔‘‘‬
‫وجاہت علی بُری طرح جھال گئے۔‬
‫سکینہ بیگم بھی حواس باختہ تھیں۔‬
‫’’اب کیا کریں؟‘‘‬
‫انھوں نے شوہر سے پوچھا۔‬
‫’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ اب صرف رجب ہی کر سکتا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا۔‬
‫ِ‬
‫سکینہ بیگم نے جلدی جلدی اپنے فون پہ رجب کو کال مالئی۔‬
‫’’ہیلو!‘‘‬
‫دو گھنٹیاں بجنے کے بعد رجب نے کال ریسیو کر لی۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ شوال اپنے باپ کے ساتھ جا رہی ہے۔۔۔ تم فورا ً آ کر اسے روکو۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم بہت بوکھالئی ہوئی تھیں۔‬
‫دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی۔‬
‫ِ‬
‫سکینہ بیگم پہلے جواب کی منتظر رہیں۔ جواب نہ مال تو اور بھی پریشان ہو گیئیں۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫انھوں نے قدرے زور دے کر پکارا۔‬
‫’’جی!‘‘‬
‫رجب کی بے تاثر آواز آئی۔‬
‫سن رہے ہو؟۔۔۔ شوال جا رہی ہے۔ آ کر ا ُسے روکو ورنہ وہ چلی جائے گی۔‘‘‬ ‫’’تم ُ‬
‫’’جانے دیں ا ُسے۔‘‘‬
‫رجب کی سفاک آواز ا ُن کی سماعت سے ٹکرائی۔ اور کال کٹ گئی۔‬
‫انھیں لگا جیسے کسی نے ا ُن کے کانوں میں سیسہ پگھال کر ڈال دیا ہو۔ وہ اپنی جگہ ساکت رہ‬
‫گیئیں۔ پھر شوال کو فون رکھ کر مڑتے دیکھا تو ا ُن کے ساکت وجود میں جنبش ہوئی۔‬
‫’’وہ نہیں آ رہا۔ کہہ رہا ہے کہ اسے جانے دیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کے الفاظ وجاہت علی کو بھی حیران کر گئے۔ مگر وہ کچھ بول نہ سکے۔‬
‫شوال انھیں مکمل طور پر نظرانداز کرتی ا ُن کے قریب سے گزر کر آگے بڑھ گئی۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم ا ُس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔‬
‫وہ وزٹنگ ایریا میں آ بیٹھی۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے۔‬
‫’’آپ کچھ کیجیے ناں!‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے شوہر سے کہا۔‬
‫’’میں کیا کر سکتا ہوں۔ جانے کیوں رجب ایسے بی ہیو کر رہا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے تبصرہ کیا۔‬
‫رجب کے رویے نے انھیں حیران و پریشان کر رکھا تھا۔‬
‫’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ اس وقت وہ گھر میں اکیال ہے۔ ا ُس کا کچھ بھروسہ نہیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کی گھبراہٹ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔‬
‫’’ڈرو مت۔ ا ُس کے بارے میں ماسی کو خبردار کر کے آیا ہوں۔ اگر وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت‬
‫کرے گا تو ہمیں فورا ً اطالع ِمل جائے گی۔۔۔ ویسے بھی اسرار تھوڑی ہی دیر میں یہاں پہنچتا ہو گا۔ اس‬
‫کے بعد ہم بھی چلتے ہیں۔ لیکن ابھی ِاسے یہاں اکیال چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا تو سکینہ بیگم خاموش ہو گیئیں۔‬
‫کے بعد ہم بھی چلتے ہیں۔ لیکن ابھی ِاسے یہاں اکیال چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا تو سکینہ بیگم خاموش ہو گیئیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اس وقت وزٹنگ ایریا میں ا ُنکے عالوہ اور کوئی نہیں تھا جب وزٹنگ ایریا کے اس پار سے اسرار‬
‫احمد نمودار ہوئے۔‬
‫پہلی نظر ہی ا ُن کی سر جھکائے منتظر بیٹھی شوال پہ پڑی۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫ُ‬
‫انھوں نے ُرکے بنا وہیں سے اسے پکارا۔‬
‫شوال نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’پاپا!‘‘‬
‫وہ ا ُٹھ کر بھاگتی ہوئی باپ کے سینے سے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔‬
‫اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر اسرار احمد کا دل کٹ کر رہ گیا۔‬
‫’’بس بیٹا!۔۔ بس!۔۔ حوصلہ کرو۔۔۔۔ میں آگیا ہوں ناں!‘‘‬
‫اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اسرار احمد ا ُسے حوصلہ دینے لگے۔ تب ہی ا ُن کی نظر وزٹنگ‬
‫ایریے کے دوسرے کونے میں کھڑے وجاہت علی اور سکینہ بیگم پہ پڑی۔‬
‫اسرار احمد کو اپنی اور دیکھتا پا کر سکینہ بیگم نے وجاہت علی کی جانب دیکھا۔‬
‫ِ‬
‫وجاہت علی کی آنکھوں میں کوئی شرمندگی تو نہ تھی مگر اسرار احمد سے نظر مالنے کا حوصلہ‬
‫بھی نہیں رکھتے تھے۔ سو نظریں چُرا گئے۔‬
‫’’اب گھر چلیں؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے شوال کو خود سے الگ کرکے ا ُس کا چہرہ دیکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔‬
‫شوال اپنے رونے پہ کافی حد تک قابو پا چکی تھی۔ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اثبات میں سر ہال دیا۔‬
‫’’آؤ۔‘‘‬
‫اس کی پیٹھ پہ ہاتھ ِٹکا کر اسرار احمد اپنائیت سے کہتے واپسی کی جانب مڑے۔ مڑتے ہوئے انھوں‬
‫نے پھر ایک نگاہ وجاہت علی پہ ڈالی۔ ِاس بار ا ُن کی نگاہ میں صرف غصہ اور شکایت نہیں تھی۔ بلکہ ا ُن‬
‫کی نگاہوں میں انتقام تھا۔ ا ُن کے دیکھنے کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ ابھی تو وہ خاموشی کے ساتھ‬
‫چپ نہیں بیٹھیں گے۔‬ ‫اپنی بیٹی لے کر جارہے ہیں۔ لیکن اپنی بیٹی کے ساتھ کیے گئے ِاس ناروا سلوک پہ ُ‬
‫اب وجاہت علی کو اسرار احمد کی بیٹی کے ساتھ کی گئی تمام زیادتیوں کا بدلہ چکانا تھا۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم ‪ ،‬دونوں میں سے کوئی بھی کچھ کہنے‪ ،‬کرنے کی ہمت نہ کر پایا۔ شوال‬
‫کے کپڑوں اور دوائیوں سے بھرا بیگ اب بھی سکینہ بیگم کے ہاتھ میں تھا۔ وہ بالکل ساکت‪ ،‬واپس جاتے‬
‫اسرار احمد اور شوال کی پشت دیکھ رہی تھیں۔ آج شوال ویسے ہی ا ُن کی زندگی سے جا رہی تھی‪،‬‬
‫جیسے وہ ا ُن کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ بالکل خالی ہاتھ۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد شوال کو ساتھ لئے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ آ بیٹھے۔ شوال نے ان کے برابر بیٹھتے‬
‫ہی انکے کے کندھے پہ اپنا سر رکھ دیا۔‬
‫اسرار احمد نے بھی جوابا ً اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ گاڑی‬
‫اسرار احمد کے گھر کے راستے پہ چل پڑی۔‬
‫ڈرائیور کی موجودگی میں کوئی بھی بات کہنا یا سننا مناسب نہیں تھا۔ سو دونوں باپ بیٹی نے‬
‫راستہ بھر خاموشی اختیار کئے رکھی۔‬
‫راستہ بھر خاموشی اختیار کئے رکھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫گاڑی گھر کے پورٹیکو میں آ کر رکی۔‬


‫ڈرائیونگ سیٹ پہ بیٹھے وجاہت علی نے چہرہ موڑ کر برابر میں بیٹھی سکینہ بیگم کی جانب دیکھا۔‬
‫’’سکینہ! بس کر دو اب۔‘‘‬
‫بےآواز آنسو بہاتی سکینہ بیگم سے انھوں نے نرمی سے کہا۔‬
‫’’پتا نہیں ِکس کی نظر لگ گئی ہمارے گھر کی خوشیوں کو۔ ابھی ایک پورا دن بھی نہیں گزرا جب‬
‫سب کچھ ٹھیک تھا۔ اور اب۔۔۔۔۔۔ سب کچھ بکھر گیا۔ ہمارے بیٹے کا گھر ٹوٹ گیا۔ اس نے اپنا بچہ کھو‬
‫دیا۔ بیوی چھوڑ کر چلی گئی۔۔۔۔ اور اب آگے پتا نہیں کیا ہونے جا رہا ہے۔ مجھ میں تو ہمت نہیں ہو رہی‬
‫اس کا سامنا کرنے کی۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے غم ذدہ آواز میں کہا۔‬
‫جوابا ً وجاہت علی تن ّفر سے بولے۔‬
‫’’ شوال کے جانے پہ اتنی پریشان مت ہو۔۔۔ رجب تو ویسے بھی اسے ساتھ رکھنے کو تیار نہیں‬
‫تھا۔ وہ تو پہلے سے ہی ا ُسے ایوئڈ کر رہا تھا۔ اچھا ہوا کہ وہ بھی اپنے باپ کے ساتھ دفعان ہو گئی۔‬
‫ورنہ میرے لئے تو اسے اس گھر میں برداشت کرنا مشکل ہو جاتا۔ ایسی ضدی اور بدلحاظ لڑکی۔‬
‫پہلے ہمارے بیٹے کو اس نے ایبیوز کیا۔ ا ُس کی حرکتوں کو روکنے کے لئے میں نے ذرا سا جھوٹ‬
‫کیا بول دیا وہ تو رجب کو قتل کرنے کے درپے ہو گئی۔۔۔۔ اگر ہم وقت پر نہ پہنچتے تو ا ُس نے تو رجب کو‬
‫مار ہی دیا تھا۔‬
‫جان چھوٹی ہماری اس مصیبت سے۔‬
‫اور تم نے اسرار کو دیکھا؟۔۔۔۔ کیسے اکڑتا ہوا لے کر گیا ہے ا ُسے۔۔۔۔ جب لوگ طعنے دیں گے‪ ،‬اس‬
‫طرح بیٹی گھر میں ال کر رکھنے پہ سوال کریں گے ناں! تب دیکھوں گا اس آدمی کی حالت۔۔۔‬
‫یہ تم لکھوا لو مجھ سے۔۔۔ ایک ہفتہ بھی اپنی بیٹی کو نہیں رکھ سکے گا۔۔۔۔ پھر خود ہی منتیں‬
‫کرتا ہوا پیچھے آئے گا کہ ’میری بیٹی کی زندگی تباہ ہو جائے گی۔ ِاسے واپس لے جائیں۔ ‘ ‘‘‬
‫وجاہت علی نے استہزا کے ساتھ اسرار احمد کی نقل اتاری۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اپنی‬
‫خواہش کا اظہار کرنے لگے۔‬
‫’’بس دعا ہے کہ رجب ایک بار ا ُسے واپس نہ النے پہ اڑ جائے۔ پھر رکھے اسرار اپنی بیٹی کو‬
‫ساری زندگی اپنے گھر میں ِبٹھا کر۔ دونوں کے ہوش ٹھکانے آجائیں گے۔ دماغ ساتویں آسمان پہ پہنچے‬
‫ہوئے ہیں دونوں باپ بیٹی کے۔ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم خاموشی سے ا ُن کے خیاالت سن رہی تھیں۔ ان کا چہرہ سپاٹ تھا۔ وہ وجاہت علی‬
‫سے اختالف نہیں کر رہی تھیں تو ان کی تائید بھی نہیں کر رہی تھیں۔‬
‫’’’چلو آؤ اب۔۔۔ اس وقت ہمیں رجب پہ توجہ دینی چاہیئے۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ اس کو‬
‫راضی کیسے کروں گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی بڑبڑاتے ہوئے گاڑی کا دروازہ کھول کر نکلے۔‬
‫سکینہ بیگم بھی دوسری طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکلیں۔دونوں میاں بیوی ساتھ چلتے گھر کے‬
‫اندر داخل ہوئے۔‬
‫ان دونوں کو ہال کے اندر داخل ہوتا دیکھ کر ا ُن کی نوکرانی آگے بڑھ آئی۔ وہ جیسے ا ُن کی آمد کی‬
‫منتظر تھی۔ ا ُن کے عقب میں جھانک کر پوچھنے لگی۔‬
‫’’صاحب جی!۔۔۔صرف آپ دونوں؟۔۔۔۔ کیا شوال بی بی رجب صاحب کے ساتھ آ رہی ہیں؟‘‘‬
‫نوکرانی کا سوال وجاہت علی اور سکینہ بیگم کو چونکا گیا۔‬
‫’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟۔۔۔۔ رجب تو گھر پہ ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اپنی معتجب نگاہیں ماسی پہ گاڑھ دیں۔‬
‫’’یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں؟۔۔۔۔ رجب تو گھر پہ ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اپنی معتجب نگاہیں ماسی پہ گاڑھ دیں۔‬
‫ماسی نے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’نہیں صاحب جی! وہ تو چلے گئے تھے۔‘‘‬
‫’’کہاں چال گیا؟۔۔۔ میں نے آپ کو تنبیہ کی تھی کہ اس کا خیال رکھیں۔ پھر کیسے جانے دیا آپ‬
‫نے ا ُسے؟ مجھے کیوں اطالع نہیں دی؟‘‘‬
‫وجاہت علی برہم ہو کر ماسی پہ برس پڑے۔‬
‫ماسی سہم گئی۔‬
‫’’جی‪ ،‬صاحب جی!۔۔۔ جب وہ جا رہے تھے تو میں نے انھیں روکا تھا۔ مگر انھوں نے کہا کہ آپ نے‬
‫انھیں فون کر کے بالیا ہے۔ اس لئے وہ شوال بی بی کو النے اسپتال جا رہے ہیں۔۔۔‬
‫جب آپ نے خود انھیں بالیا تھا تو میں آپ کو کیا اطالع دیتی؟‘‘‬
‫ماسی نے منمناتے ہوئے ساری صورتحال بیان کی۔‬
‫وجاہت علی نے ُلٹے ِپٹے انداز میں ہاتھوں کی مٹھیوں میں اپنے سر کے بال دبوچ لئے۔ حیران‬
‫پریشان کھڑی سکینہ بیگم کی طرف پلٹے۔‬
‫’’کیا وہ ہمارے پیچھے گیا ہے؟ شوال کو گھر النے؟‘‘‬
‫وجاہت علی اپنی بیگم سے اس امکان کی پختگی کا تّیقن چاہتے تھے۔‬
‫’’ہو سکتا ہے۔۔۔ شاید ا ُس نے بعد میں سوچا ہو اور پھر ا ُسے واپس النے چل دیا ہو۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم ُپریقین نہیں تھیں مگر خود کو دھوکا دینے کی کوشش کر رہی تھیں۔ ساتھ ہی اپنا فون‬
‫نکال کر رجب کا نمبر مالیا۔‬
‫’’بیل جارہی ہے مگر ا ُٹھا نہیں رہا۔‘‘‬

‫کچھ دیر فون کان سے لگائے رکھنے کے بعد ہٹاتے ہوئے انھوں نے وجاہت علی کی سمت دیکھا۔‬
‫جیسے ا ُن کا رِدعمل جاننا چاہتی ہوں۔‬
‫’’میں خود اس کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی بنا وقت ضائع کئے الٹے قدموں ہال سے باہر نکل گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫ان کی گاڑی جب گھر کی پارکنگ میں رکی تو اسرار احمد نے اپنی طرف کا دروازہ کھوال۔‬
‫’’آؤ شوال!۔‘‘‬
‫کہتے ہوئے وہ اترنا چاہتے تھے کہ چونک کر مڑ کر اپنے کندھے پہ رکھا شوال کا سر دیکھا۔ انھیں‬
‫اب معلوم ہوا کہ شوال بےہوش ہو چکی ہے۔‬
‫وہ شوال کو بانہوں میں ا ُٹھاکر گھر کے اندر لے آئے۔‬
‫کامران اور عمران ابھی کام سے لوٹے تھے۔ علیزہ کامران والے صوفے کے قریب کھڑی کوئی بات‬
‫کہہ رہی تھی جب اسرار احمد شوال کو ا ُٹھائے ہال میں داخل ہوئے۔‬
‫کامران ‪ ،‬عمران اور علیزہ پہلے تو تینوں ہی بت بنے بےیقینی سے اسرار احمد اور ان کے ہاتھوں‬
‫میں شوال کا بےہوش وجود دیکھتے رہے۔ پھر وہ دونوں بھائی ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫’’پاپا!۔۔۔ یہ۔۔۔۔ شوال؟۔۔۔۔‘‘‬
‫کامران نے ٹوٹے لفظوں میں استفسار کیا۔‬
‫اس کی بےیقینی میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی تھی۔‬
‫’’علیزہ!۔۔۔ آگے چل کر شوال کے کمرے کا دروازہ کھولو۔‘‘‬
‫کامران کا سوال وقتی طور پہ نظرانداز کرتے ہوئے اسرار احمد نے اپنی بہو کو ایک فوری حکم دیا۔‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫کامران کا سوال وقتی طور پہ نظرانداز کرتے ہوئے اسرار احمد نے اپنی بہو کو ایک فوری حکم دیا۔‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫علیزہ تابعداری سے کہہ کر تیز تیز قدم ا ُٹھاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔‬
‫اوپر پہنچ کر علیزہ نے شوال کے کمرے کا دروازہ کھوال اور خود راستہ چھوڑ کر ایک طرف کھڑی ہو‬
‫گئی۔‬
‫اسرار احمد نے کمرے میں داخل ہو کر شوال کا بےہوش وجود بڑی احتیاط کے ساتھ بستر پہ رکھا۔‬
‫انھیں ایسے لگا جیسے وقت بہت پیچھے چال گیا ہو اور وہ پانچ سالہ شوال کو بستر پہ لِٹا رہے ہوں۔ بچپن‬
‫میں شوال ا ُن کے ساتھ کھیلتے ہوئے یا ا ُن سے کہانی سنتے ہوئے ا ُن کے سینے پہ سر رکھ کر سو جایا‬
‫کرتی تھی۔ تب وہ ایسی ہی احتیاط کے ساتھ ا ُسے بیڈ پہ رکھتے تھے کہ مبادا ا ُس کی نیند نہ ٹوٹ جائے۔‬
‫آج بھی انھیں ایسا ہی لگ رہا تھا۔ فرق یہ تھا کہ اس وقت شوال کو بیڈ پہ ڈالتے ہوئے انھیں ا ُس‬
‫کے وجود کے ٹوٹنے کا ڈر تھا۔‬
‫ا ُن کا ِدل کٹ کر رہ گیا۔‬
‫اسی اثناء میں علیزہ نے املاری سے چادر نکالی اور آگے آکر شوال پہ ڈال دی۔‬
‫اسرار احمد شوال کے پہلو میں بیٹھ کر بےہوش شوال کا چہرہ بغور دیکھنے لگے۔‬
‫کتنی مدت بعد وہ یہ چہرہ دیکھ رہے تھے۔‬
‫گیارہ مہینے‪ ،‬کہنے کو یہ عرصہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ لیکن اس چھوٹے سے عرصے نے شوال کی‬
‫صورت ہی بدل ڈالی تھی۔‬
‫جس پہ بچوں جیسی معصومیت‬ ‫تروتازہ‪ ،‬ہنستا مسکراتا‪ ،‬صحت مند اور گالبی چہرہ۔ وہ چہرہ ِ‬
‫تھی۔ زمانے کی ِفکروں سے بےنیاز‪ ،‬دنیا کی سفاکی سے بے خبر۔ اپنی ہی زندگی میں مست اور خوش‬
‫باش۔‬
‫اور آج۔۔ صرف گیارہ مہینوں بعد۔ ِاس چہرے کی کیا حالت ہو گئی تھی۔ پیلی رنگت‪ ،‬آنکھوں کے‬
‫گرد گہرے حلقے‪ ،‬نہ روشنی‪ ،‬نہ تازگی۔ پریشان‪ ،‬خستہ حال اور اپنی بربادی کی داستان آپ سناتا چہرہ۔‬
‫خشک لبوں میں دبی سسکیاں اور بند آنکھوں کے پیچھے چھپا درد۔‬
‫کیا یہ وہی شوال ہے؟‬
‫ِ‬
‫وہ چہرہ بغور دیکھتے اسرار احمد کے دل نے ا ُن سے سوال کیا۔‬
‫’’پاپا! آئی لوسٹ مائی چائلڈ۔‘‘‬
‫شوال کے الفاظ ا ُن کے ذیہن میں گونجے۔‬
‫) اس کی عمر کی لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھر اپنے نخرے ا ُٹھوا رہی ہوں گی۔ کچھ پڑھ رہی ہوں‬
‫گی۔ کچھ اپنی زندگی میں مگن اور کچھ ِدل میں کئی امنگیں اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ لئے کسی نہ‬
‫کسی میدان میں اپنا نام بنا رہی ہوں گی۔ اور میری بیٹی آج کہاں ہے؟ کِس حال میں ہے؟ کون ہے اس کی‬
‫ِاس خستہ حالی کا ذمہدار۔(‬
‫اسرار احمد ِدل ہی ِدل میں خود سے سوال کر رہے تھے۔‬
‫علیزہ نے خاموشی سے سامنے کے منظر کا مشاہدہ کیا۔ پھر اسرار احمد کو ڈسٹرب کرنا مناسب‬
‫نہ سمجھتے ہوئے چپکے سے کمرے سے نکل گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫سکینہ بیگم جلے پیروں کی بّلی کی طرح ہال میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھیں اور بار بار اپنے‬
‫دونوں ہاتھوں میں دبوچا ہوا اپنا موبائل فون دیکھ رہی تھیں۔ وجاہت علی ہال میں داخل ہوئے تو وہ بےتابی‬
‫سے ان کی طرف لپکیں۔‬
‫’’کہاں رہ گئے تھے آپ؟۔۔۔ کچھ پتا چال رجب کا؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے مایوسی سے سر ہالیا۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ اس کے سارے دوستوں سے بھی پتا کر چکا ہوں۔ کسی کو بھی اس کی خبر نہیں ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے مایوسی سے سر ہالیا۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ اس کے سارے دوستوں سے بھی پتا کر چکا ہوں۔ کسی کو بھی اس کی خبر نہیں ہے۔‘‘‬
‫’’اب کیا کریں۔۔۔ کہاں چال گیا وہ؟ اپنا فون بھی آف کر دیا ہے اس نے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کی گھبراہٹ اپنے عروج پہ تھی۔ وہ رونے لگیں۔‬
‫’’ہمیں پولیس کی مدد لینی ہو گی۔ میں فون کرتا ہوں۔‘‘ وجاہت علی نے کہا اور ہاتھ میں پکڑے فون‬
‫پہ نمبر مالنے لگے۔‬
‫ُ‬
‫ھی جمائے رونا ضبط کر کے ایک امید کے تحت انھیں دیکھنے لگیں۔‬ ‫سکینہ بیگم ہونٹوں پہ مٹ ّ‬
‫فون نمبر مالتے ہوئے وجاہت علی کی انگلیوں کی گردش ُرک گئی۔ ذیہن میں جھماکا ہوا تھا۔‬
‫’’ایک جگہ ہے جہاں وہ جا سکتا ہے اور ہم نے پتا نہیں کیا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہا۔‬
‫سکینہ بیگم نے انتہائی تجسس کے ساتھ انھیں دیکھا۔‬
‫’’کہاں؟‘‘ سکینہ بیگم نے سوال کیا۔‬
‫وجاہت علی کوئی جواب دینے کی بجائے ایک اور نمبر مالنے لگے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد اپنے ہاتھ پہ سر ڈالے نڈھال سے کرسی پہ بیٹھے تھے۔ نظریں سامنے بستر پہ پڑے‬
‫ت گریہ سے لہو رنگ ہو رہی تھیں۔‬ ‫شوال کے بےسدھ وجود پہ جمی تھیں۔ ا ُن کی آنکھیں شد ِ‬
‫عقب میں دروازہ کھال اور علیزہ نے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی انھیں پکارا۔‬
‫’’پاپا!۔۔۔ کھانا تیار ہے۔‘‘‬
‫علیزہ نے قدرے جھجکتے ہوئے دھیمی آواز میں پکار کر کہا۔‬
‫’’تم لوگ کھا لو علیزہ!۔۔۔۔۔ مجھے ڈسٹرب مت کرو۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے علیزہ کی جانب دیکھے بنا کہا۔‬
‫علیزہ بنا بحث کئے خاموشی سے دروازہ بند کر کے چلی گئی۔‬
‫تب ہی اسرار احمد کی جیب میں رکھا فون وائبریٹ ہونے لگا۔‬
‫اسرار احمد نے فون نکال کر دیکھا۔ وجاہت علی کی کال دیکھ کر ا ُن کا چہرہ غصے سے سرخ ہو‬
‫گیا۔ کچھ دیر فون کو گھورنے کے بعد انھوں نے کال ایکسیپٹ کر لی۔‬
‫’’تم نے مجھے فون کرنے کی جرٴات کیسے کی؟۔‘‘‬
‫انھوں نے غّرا کر پوچھا۔‬
‫’’ اسرار! تمہارا غصہ اور ناراضگی اپنی جگہ۔ ابھی پلیز مجھے اتنا بتا دو کہ رجب تمہاری طرف‬
‫آیا کیا؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں ملتجی لہجے میں‬
‫سوال کیا۔‬
‫’’نہیں آیا وہ یہاں۔ اور میری بات کان کھول کر سنو۔۔۔ کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔ تم لوگوں نے‬
‫جو کچھ بھی میرے اور میری بیٹی کے ساتھ کیا ہے۔ میں ضرور اس کا حساب لوں گا۔ اور اپنے بیٹے کو‬
‫بچا کر رکھو۔۔۔ اگر وہ ِاس طرف آیا تو میں ا ُسے گولی مار دوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے غصے اور سختی سے کہہ کر فون کال کاٹ دی۔‬
‫ا ُن کی بلند‪ ،‬غّراتی آواز سن کر شوال جاگ گئی۔‬
‫’’پاپا!‘‘‬
‫شوال نے گھبرا کر ا ُنھیں پکارا۔‬
‫’’ہاں میری بچی!‘‘‬
‫اسرار احمد ا ُٹھ کر بےتابی سے اس کی طرف لپکے۔‬
‫شوال اونچی ہو بیٹھی۔ اسرار احمد نے اس کے سامنے بیٹھ کر ا ُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔‬
‫اسرار احمد ا ُٹھ کر بےتابی سے اس کی طرف لپکے۔‬
‫شوال اونچی ہو بیٹھی۔ اسرار احمد نے اس کے سامنے بیٹھ کر ا ُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔‬
‫’’میں یہاں ہوں۔ تمہارے پاس۔۔۔ گھبراؤ نہیں۔‘‘‬
‫انھوں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔ پھر نرمی سے پوچھنے لگے۔‬
‫’’پانی دوں تمہیں؟‘‘‬
‫شوال نے اثبات میں سر ہال دیا۔‬
‫ُ‬
‫اسرار احمد ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھا جگ اٹھا کر گالس میں پانی انڈیلنے لگے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی نے اپنا فون واال ہاتھ ہونٹوں پہ جما رکھا تھا۔ ِدل سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا۔‬
‫سکینہ بیگم الگ سے پریشان اور مضطرب کھڑی تھیں۔‬
‫’’ اگر وہ وہاں جا رہا ہوا تو؟۔۔۔ اسرار احمد تو ا ُسے مار دے گا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے شدید گھبراہٹ کے عالم میں کہا۔‬
‫’’میں پولیس کو فون کرتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے ہونٹوں پر سے ہاتھ ہٹا کر کہا۔‬
‫کال مالنے کے لئے فون سامنے کیا ہی تھا کہ فون کی بیل بج ا ُٹھی۔ وجاہت علی چونک گئے۔‬
‫’’رجب کی کال ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے بتا کر سکینہ بیگم کو بھی چونکا دیا۔ پھر بےتابی سے کال ایکسیپٹ کر کے فون کان‬
‫سے لگایا۔‬
‫’’ہیلو رجب!‘‘‬
‫’’کیوں؟۔۔۔۔ کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کیوں بوال اتنا بڑا جھوٹ؟۔۔۔‘‘‬
‫رجب نے چھوٹتے ہی پوچھا۔‬
‫وہ ایک مصروف شاہراہ پر گاڑی چال رہا تھا۔‬
‫’’رجب! تم کہاں ہو؟۔۔۔ گھر آؤ بیٹا!۔ ہم آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے۔‘‘‬
‫اس کے سوال نظرانداز کرتے ہوئے وجاہت علی نے بےچینی سے کہا۔‬
‫’’میں گھر نہیں آؤں گا۔ مجھے صرف میرے سوال کا جواب چاہیئے۔۔۔ ‘‘‬
‫رجب نے سخت لہجے میں کہا۔ پوچھنے لگا۔‬
‫’’کیوں کیا آپ نے ایسا؟۔۔۔ کیوں اتنا بڑا کھیل کھیال آپ نے ہماری زندگیوں کے ساتھ؟۔۔۔ ہماری‬
‫بربادی کی وجہ صرف اور صرف آپ ہیں۔۔۔ آپ نے مجھے میری محبت کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ آپ نے‬
‫میرے بچے کی جان لی۔ میرا گھر ٹوٹنے کے ذمہ دار آپ ہیں۔ کیوں کیا آپ نے ایسا۔‘‘‬
‫رجب رو رہا تھا۔ چال دہا تھا۔‬
‫’’ہر بات کا الزام مجھے مت دو رجب! میں نے کچھ بھی شوق سے نہیں کیا۔ وہ لڑکی تمہیں ایبیوز‬
‫کر رہی تھی۔ کھیل رہی تھی تمہاری اور ہماری زندگیوں کے ساتھ۔۔۔ میں نے صرف تمہاری خوشی کی‬
‫خاطر وہ جھوٹ بوال تھا۔ میں صرف چاہتا تھا کہ وہ تمہارے اور اپنے رشتے کو قبول کرے۔‘‘‬
‫’’آپ سے کس نے کہا کہ وہ میرے اور اپنے رشتے کو قبول نہیں کر رہی تھی۔‘‘‬
‫رجب نے تڑخ کر پوچھا۔‬
‫’’اندھا نہیں ہوں میں۔۔۔ سب نظر آتا ہے مجھے۔ میں نے خود تمہارا بستر فرش پہ لگا دیکھا تھا۔‬
‫ا ُسے کس چیز کی کمی تھی؟ اسرار کی بیٹی ہونے کے باوجود میں نے پوری شان و شوکت کے‬
‫ساتھ اپنے بیٹے سے اس کی شادی کروائی۔ اپنے گھر میں رکھا۔ ہر طرح کا آرام دیا۔ کبھی کسی چیز کی‬
‫کمی نہیں ہونے دی۔ ہمیشہ ا ُسے بیٹی کہہ کر پکارا۔ اس سب کے بدلے میں وہ کیا دے رہی تھی ہمیں؟۔۔۔‬
‫دھوکا تو وہ دے رہی تھی۔ تمہاری زندگی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ تم سے شادی کرنے کے‬
‫باوجود وہ تمہارے ساتھ رشتہ نہیں بنا رہی تھی۔ کیسے خاموش رہتا میں؟۔۔۔ آخر میں نے اسے اس گھر‬
‫دھوکا تو وہ دے رہی تھی۔ تمہاری زندگی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ تم سے شادی کرنے کے‬
‫باوجود وہ تمہارے ساتھ رشتہ نہیں بنا رہی تھی۔ کیسے خاموش رہتا میں؟۔۔۔ آخر میں نے اسے اس گھر‬
‫میں رکھا ہوا کیوں تھا؟‘‘‬
‫غصے میں وجاہت علی جو منہ میں آیا بکتے چلے گئے۔‬
‫’’ایکسکیوز می۔۔۔‘‘‬
‫رجب ان کے آخری الفاظ سن کر اچھل پڑا۔‬
‫’’آپ کس کے بارے اتنے گھٹیا انداز میں بات کر رہے ہیں؟۔۔۔ ’گھر میں رکھا ہوا‘ سے کیا مطلب ہے‬
‫آپ کا؟۔۔۔ آپ نے کیوں ’رکھا‘ ہوا تھا اسے گھر میں؟۔۔۔ ُمجھے خوش کرنے کے لئے رکھا ہوا تھا؟۔۔۔‘‘‬
‫اس کے تو تلوؤں میں لگی سر پہ بجھی تھی۔‬
‫ج سے‬‫’’میری بیوی کو ایسی گالی کیسے دی آپ نے؟۔۔۔۔ وہ میری بیوی ہے‪ ،‬کوئی وحشیہ نہیں ِ‬
‫مجھے خوش کرنے کے لئے آپ نے’رکھا‘ ہوا تھا۔‘‘‬
‫’’دیکھو رجب!۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ میں۔‘‘‬
‫رجب کو طیش میں آتا دیکھ کر وجاہت علی گھبرا گئے۔‬
‫’’کیا مطلب تھا آپ کا؟‘‘ رجب چالیا۔‬
‫’’آپ نے خود کیا کیا تھا اس کے ساتھ؟‬
‫ایک انجان آدمی ا ُسے اس کی شادی پر سے ا ُٹھا الیا۔ ال کر اپنے ا ُس بیٹے سے شادی کرنے پہ‬
‫جسے وہ جانتی تک نہیں تھی۔۔۔۔ یوں ا ُسے ِکڈنیپ کر کے گن پوئینٹ پہ شادی کروانے کے بعد‬ ‫مجبور کیا ِ‬
‫آپ اس سے یہ ا ُمید کرتے ہیں کہ اگلے روز وہ آپ کی پوجا کر رہی ہوتی؟۔۔۔ ا ُس کی نظر میں ہماری امیج‬
‫ہی کیا تھی جو وہ ہمیں کوئی عزت دیتی یا ہم سے کوئی رشتہ جوڑتی؟۔۔۔۔‬
‫ی خاندانی خون ہونے کی‬ ‫وہ ہمیں قبول نہیں کر رہی تھی تو یہ اس کے مضبوط کردار اور ایک اعل ٰ‬
‫دلیل تھی۔ ورنہ اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ مجھے لے کر آپ لوگوں سے الگ ہو جاتی۔ لیکن‬
‫اس نے ایسا کبھی نہیں کیا۔‬
‫اور اس سے دور رہنے کا فیصلہ میرا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی بھی رشتہ جوڑنے سے پہلے میں‬
‫اپنی محبت اور اپنے خلوص کے ذریعے ہمارے بارے میں اس کی رائے بدلنا چاہتا تھا۔ ا ُسے ایک بار ہماری‬
‫شرافت کا یقین ہو جاتا تو پھر وہ خود ہی ہم سب کو قبول کر لیتی۔‘‘‬
‫’’ہوں۔‘‘ وجاہت علی تمسخرانہ مسکرائے۔‬
‫’’تمہیں لگتا ہے کہ کبھی تمہاری زندگی میں وہ وقت آتا جب وہ تمہاری محبت اور شرافت دیکھ کر‬
‫تمہیں قبول کر لیتی؟۔۔۔ وہ اسرار احمد کی بیٹی ہے۔ ٹوٹ سکتی ہے لیکن ُجھک نہیں سکتی۔ ‘‘‬
‫’’ِاسی لئے آپ نے ا ُسے توڑ دیا۔ ہاں!؟‘‘‬
‫رجب نے برجستہ کہا۔ پوچھنے لگا۔‬
‫’’خوشی مل گئی ہوگی آپ کو اسے توڑ کر؟۔۔۔ تین مہینے وہ لڑکی آپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپتی‬
‫رہی۔ کچھ کھاتی تھی نہ پیتی تھی۔ پریشان رہ رہ کر موت کے منہ میں چلی گئی تھی وہ۔‬
‫اس سے تو بہت شکایتیں ہیں آپ کو۔ کبھی اس کی اذیتوں کے بارے میں بھی سوچا ہے جو آپ نے‬
‫اس کی زندگی میں بھری ہیں؟۔۔۔۔ یہ سب کر کے ِکسے فائدہ پہنچایا ہے آپ نے؟ آپ کے اس گندے کھیل‬
‫کے نتیجے میں اپنا پہال بچہ تک کھو دیا میں نے۔‘‘‬
‫’’بس رجب!۔۔۔ سارا قصور میرا نہیں ہے۔ اگر اس کا باپ بےجا ضد نہ کرتا تو ایسے حاالت کبھی‬
‫پیدا نہ ہوتے۔ تم گواہ ہو کہ میں خود چل کر گیا تھا اس گھٹیا آدمی سے رشتہ مانگنے۔ لیکن ا ُس نے‬
‫مجھے ذلیل کر کے واپس بھیجا تھا۔ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا سب سے پہال ذمہدار اسرار احمد‬
‫ہے۔ اور پھر اس کی بیٹی ہے۔ میں نے جو بھی کیا‪ ،‬ا ُن کے ہی پیدا کئے ہوئے حاالت میں مجبور ہو کر‬
‫کیا۔‘‘‬
‫وجاہت علی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا دفع کرتے ہوئے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔‬
‫’’جی ہاں۔۔۔ ساری دنیا قصوروار ہے اور صرف آپ بےقصور ہیں۔ آج سے بتیس )‪ (32‬سال پہلے‬
‫وجاہت علی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا دفع کرتے ہوئے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔‬
‫’’جی ہاں۔۔۔ ساری دنیا قصوروار ہے اور صرف آپ بےقصور ہیں۔ آج سے بتیس )‪ (32‬سال پہلے‬
‫جو آپ نے اپنے دوست کی چاہت پہ شب خون مارا تھا۔ اس کا ذمہ دار بھی اسرار احمد ہے۔ آپ تب بھی‬
‫بےقصور تھے۔‘‘‬
‫رجب نے جل کر تن ّفر اور طنز کے ساتھ کہا۔‬
‫وجاہت علی کا چہرہ تپ کر تانبا ہو گیا۔‬
‫’’میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ ہمارا رشتہ ابّو اور چچا کا فیصلہ تھا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے تیز آواز میں کہا۔‬
‫’’جی ہاں۔۔۔ جیسے میں تو آپ کو جانتا ہی نہیں۔‘‘ رجب نے پھر طنز کیا۔ بوال۔‬
‫’’آپ جیسے ہمیشہ ہی معصوم اور بے گناہ رہے ہیں۔ میرے مرنے کے بعد بھی ویسے ہی معصوم اور‬
‫بےگناہ رہیئے گا۔ اور یہی کہیئے گا کہ میری موت کے ذمہ دار بھی اسرار احمد اور اس کی بیٹی ہیں۔ آپ‬
‫بس اپنی معصومیت اور بےگناہی کے ساتھ خوش رہیں۔ خداحافظ۔‘‘‬
‫’’رجب!۔۔۔ رجب!۔۔۔ رجب!۔۔‘‘‬
‫رجب کے تیور وجاہت علی کو ڈرا گئے۔ ا ُس کے طنز نظرانداز کرتے ہوئے وہ ا ُسے پکارتے رہ گئے۔ مگر‬
‫اس نے ایک نہ سنی۔اپنی بات مکمل کرکے اس نے بنا کال کاٹے فون پسنجر سیٹ پہ پٹخ دیا اور شدید‬
‫غصے اور جنون کی حالت میں گاڑی کا ایکسلیٹر دبا دیا۔‬
‫آنا ً فانا ً اس کی گاڑی آگے چلتے ٹرالر کے نیچے گھس گئی۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫وجاہت علی کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔‬
‫فون پہ اب صرف گاڑیوں کے ٹکرانے اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫صبح کا وقت تھا۔ علیزہ‪ ،‬عمران اور اسرار احمد ہال میں بیٹھے تھے۔‬
‫’’پاپا! ا ُس وقت تو آپ نے شوال کی وجہ سے کچھ نہیں کیا تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ اگر ہم اسے‬
‫پریشان کریں گے تو وہ بدلے میں شوال کو پریشان کریگا۔ لیکن ہمارے کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی‬
‫دیکھیں اس آدمی نے ہماری بہن کے ساتھ کیا ِکیا!۔۔ اور اب تو شوال بھی ہمارے پاس ہے۔ اب ہمیں ا ُس‬
‫کے کئے کا بدلہ چکانا چاہیئے۔‘‘‬
‫عمران جذباتی ہوا اپنے باپ سے کہہ رہا تھا۔‬
‫’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ وجاہت نے حد کر دی ہے۔ وہ اتنا ِگر جائے گا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا‬
‫تھا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کامران کی تائید کرتے ہوئے کہا۔ نفرت اور حقارت سے بولے۔‬
‫’’کمینہ انسان۔۔۔۔ اختیار ہاتھ میں آتے ہی اپنے آپ کو خدا سمجھ لیتا ہے۔‘‘‬
‫اسرار احمد کی بات جاری تھی کہ کامران باہر سے تیز تیز چلتا اندر آیا۔ ا ُسے دیکھتے ہی علیزہ‬
‫نے سوال کیا۔‬
‫’’بچے وقت پہ سکول پہنچ گئے؟‘‘‬
‫’’ہاں انھیں پہنچا دیا۔‘‘‬
‫کامران نے عجلت میں جواب دیا اور اسرار احمد اور عمران کی طرف دیکھا۔‬
‫’’آپ لوگوں کو پتا ہے؟ کل رات رجب کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔!‘‘‬
‫کامران نے اطالع دینے کے انداز میں سوال کیا۔‬
‫علیزہ‪ ،‬عمران اور اسرار احمد تینوں اپنی اپنی جگہ اچھل پڑے۔‬
‫’’کیا؟۔۔۔ تم سے کس نے کہا؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے پوچھا۔‬
‫’’کیا؟۔۔۔ تم سے کس نے کہا؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے پوچھا۔‬
‫’’باہر سب لوگ یہی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے اخبار نہیں دیکھا کیا؟‘‘‬
‫کامران نے بتایا اور پوچھا۔‬
‫عمران نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل پہ رکھا اخبار اچک لیا۔‬
‫’’ہمیں اپنی پڑی ہوئی ہے اخبار کا کِس کو ہوش ہے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے بڑبڑانے کے انداز میں کہا۔‬
‫کامران عمران کے برابر آ بیٹھا۔‬
‫’’سنا ہے کافی سیریس ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔‘‘‬
‫کامران نے اخبار دیکھنے کی غرض سے عمران کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔‬
‫’’وہ زندہ بھی بچا ہے یا نہیں؟‘‘‬
‫تشویش کے ساتھ پوچھتے ہوئے اسرار احمد بھی اخبار کی طرف جھک آئے۔ علیزہ بھی اخبار‬
‫دیکھنے کی غرض سے ا ُٹھ کر ا ُن کے صوفے کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔‬
‫’’کچھ پتا نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں سنی میں نے۔‘‘‬
‫کامران نے اخبار پر سے نظریں ہٹائے بنا باپ کو جواب دیا۔‬
‫’’یہ رہی خبر۔‘‘‬
‫عمران نے باآلخر اخبار میں اس کی خبر تالش کر لی۔ وہ چاروں بے تابی سے خبر پڑھنے لگے۔‬
‫’’یہاں تو لکھا ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بچ گیا ہو گا۔ ورنہ اب تک مجھے کہیں نہ کہیں‬
‫سے اطالع پہنچ جاتی۔‘‘‬
‫اسرار احمد کے بےچین ِدل کو تھوڑا سکون ِمال۔‬
‫’’ابھی تک تو بچا ہوگا لیکن بچ جائے گا اس کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ گاڑی کی حالت تو دیکھیئے۔‬
‫جب گاڑی کا یہ حال ہے تو خود اس کا کیا حال ہوا ہوگا؟‘‘‬
‫کامران نے پریشانی اور تشویش سے کہا۔‬
‫اخبار میں چھپی تصویر دیکھ کر کامران کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔‬
‫’’ہاں۔ یہاں بھی لکھا ہے کہ ا ُس کی حالت تشویش ناک ہے۔‘‘‬
‫عمران نے کہا۔ وہ بھی خوفزدہ تھا۔ پھر اسرار احمد کی طرف دیکھا۔‬
‫’’ابھی کیا حالت ہو گی ا ُس کی؟‘‘‬
‫اسرار احمد چہرے پہ گھمبیرتا لئے منہ پہ ہاتھ جمائے بیٹھے تھے۔ عمران کے سوال پہ انھوں نے‬
‫کوئی جواب نہ دیا۔‬
‫’’اب کیا ہوگا پاپا!؟ اگر وہ مر گیا تو؟۔۔۔ شوال آل ریڈی اتنا کچھ سہہ چکی ہے۔ اب یہ کیسے‬
‫برداشت کرے گی؟‘‘‬
‫کامران نے اپنی ِفکر مندی ظاہر کرتے ہوئے باپ سے رائے طلب کی۔‬
‫اسرار احمد نے منہ پر سے ہاتھ ہٹا کر کامران کو دیکھا۔ پھر اخبار پہ نظریں جمائے بیٹھے عمران‬
‫کو۔‬
‫’’عمران! ‘‘‬
‫عمران نے اخبار سے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ کامران تو پہلے سے ان کی طرف متوجہ تھا۔ لہٰذا‬
‫دونوں کو مخاطب کر کے بولے۔‬
‫’’ابھی اسپتال چلو۔ ہمیں اس کی خبر لینی ہو گی۔‘‘‬
‫اسرار احمد کہتے ہوئے ا ُٹھے۔ ان کی نظر صوفے کی پیچھے کھڑی علیزہ پہ پڑی۔‬
‫’’علیزہ! شوال کو اس حادثے کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلنا چاہیئے۔ جب مناسب ہو گا تو میں‬
‫خود ا ُسے بتا دوں گا۔ ابھی ا ُسے یہی بتانا کہ ہم آفس گئے ہیں۔ ہو سکے تو کنزہ کو بھی بال لو۔ دونوں‬
‫بہنیں ِمل کر ا ُس کی ِدلجوئی کرو گی تو وہ بہتر محسوس کرے گی۔ اور مجھے ا ُس کی حالت سے آگاہ‬
‫خود ا ُسے بتا دوں گا۔ ابھی ا ُسے یہی بتانا کہ ہم آفس گئے ہیں۔ ہو سکے تو کنزہ کو بھی بال لو۔ دونوں‬
‫بہنیں ِمل کر ا ُس کی ِدلجوئی کرو گی تو وہ بہتر محسوس کرے گی۔ اور مجھے ا ُس کی حالت سے آگاہ‬
‫رکھنا۔‘‘‬
‫’’ٹھیک ہے پاپا! شوال کی طرف سے آپ بےفکر رہیئے۔ ا ُس کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔‘‘‬

‫علیزہ نے جوابا ً کہا۔‬


‫’’آفرین۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے سراہا۔‬
‫تینوں باپ بیٹے وقت ضائع کیے بنا باہر کی جانب چل دیئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم آپریشن تھیٹر کے باہر بینچ پہ بیٹھے تھے۔ سکینہ بیگم نے نڈھال ہو کر‬
‫وجاہت علی کے کندھے پہ اپنا سر ڈال رکھا تھا۔ وجاہت علی کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوا پڑا تھا۔ وہ‬
‫خوف‪ِ ،‬فکر‪ ،‬پریشانی اور کرب کی انتہاٴوں سے گزر رہے تھے۔‬
‫اسرار احمد اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ وہاں پہنچے۔‬
‫’’وجاہت!۔‘‘‬
‫قریب آ کر انھوں نے دھیرے سے پکارا۔‬
‫وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫سکینہ بیگم بھی وجاہت علی کے کندھے سے سر ا ُٹھا کر سیدھی ہو بیٹھیں۔ اسرار احمد کی آمد‬
‫ا ُن دونوں کے لئے بالکل غیرمتوقع تھی۔‬
‫اگلے ہی پل وجاہت علی کی حیرت غصے میں بدل گئی۔‬
‫’’کیا لینے آئے ہو یہاں؟۔۔۔ میرے بیٹے کو موت کے منہ میں پہنچا کر سکون نہیں ِمال تمہیں جو یہاں‬
‫چلے آئے ہو ہماری بربادی کا نظارہ کرنے؟‘‘‬
‫وجاہت علی اسرار احمد پہ چالنے لگے۔‬
‫اسرار احمد ا ُن کے الفاظ سن کر حیران نہ ہوئے۔ انھیں جیسے ایسے رِدعمل کی پہلے سے توقع‬
‫تھی۔ نظرانداز کرتے ہوئے نرمی سے بولے۔‬
‫’’مجھے اخبار سے اس حادثے کا پتا چال تو رہا نہیں گیا۔ اب کیسا ہے رجب!؟‘‘‬
‫’’مر رہا ہے وہ۔۔۔ لیکن یہ مت سمجھنا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو میں‬
‫جان لے لوں گا تمہاری۔‘‘‬
‫وجاہت علی کا غصہ اور لہجے کی تلخی کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔‬
‫’’آپ پاپا سے ِاس طرح سے بات کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔ ِاس حادثے کا ہم سے کیا تعلق؟‘‘‬
‫جذباتی عمران خاموش نہ رہ سکا۔‬
‫وجاہت علی طیش میں آ کر ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫’’تمہارے باپ کا کوئی تعلق نہیں؟ میرے بیٹے کی بربادی کی وجہ صرف تمہارا باپ ہے۔ اگر یہ‬
‫شوال کو لے کر نہ جاتا تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔‘‘‬
‫’’میرے اهلل۔‘‘‬
‫اسرار احمد وجاہت علی کی کمینگی پہ جل گئے۔‬
‫’’میں سب لڑائی جھگڑے اور اختالفات ایک طرف رکھ کر یہاں آیا تھا تو صرف انسانی ہمدردی کے‬
‫ناطے۔۔۔ کیونکہ اوالد کا ُدکھ کیا ہوتا ہے۔ ِاس کا احساس مجھے کل ہی بہت اچھی طرح سے ہوا ہے جب‬
‫میں اسی اسپتال سے اپنی بیٹی کے ٹکڑے سمیٹ کر لے کر گیا تھا۔‬
‫تم نے میری بیٹی کی جو حالت کی ہے۔ ا ُس کے بعد میں تم لوگوں کی شکل تک دیکھنے کا روادار‬
‫نہیں تھا۔ پھر بھی میں تمہارا دکھ بانٹنے چال آیا۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس وقت بھی تمہاری کمینگی‪،‬‬
‫تم نے میری بیٹی کی جو حالت کی ہے۔ ا ُس کے بعد میں تم لوگوں کی شکل تک دیکھنے کا روادار‬
‫نہیں تھا۔ پھر بھی میں تمہارا دکھ بانٹنے چال آیا۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس وقت بھی تمہاری کمینگی‪،‬‬
‫تمہاری اوالد کے دکھ پہ حاوی ہے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے دبی مگر سخت آواز میں کہہ کر وہاں سے جانے کا ارادہ کیا۔‬
‫تب ہی آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر صاحب باہر آئے۔ ڈاکٹر کو دیکھ کر اسرار احمد ُرک گئے۔ سکینہ‬
‫بیگم بھی ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔‬

‫’’مبارک ہو۔ دوسرا آپریشن بھی سکسیس ُفل رہا ہے۔ ‘‘‬
‫ِ‬
‫ڈاکٹر نے بطوِرخاص کسی کو بھی مخاطب کئے بنا خوش دلی سے مبارک باد دی۔‬
‫’’اهلل تیرا شکر!‘‘‬
‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی‪ ،‬دونوں نے خوش ہو کر باآواز بلند اهلل کا شکر ادا کیا۔‬
‫اسرار احمد نے بھی چین کی سانس لی۔‬
‫’’ابھی کیسی حالت ہے ا ُس کی؟۔۔ وہ ٹھیک تو ہو جائے گا ناں!؟‘‘ اسرار احمد نے آگے بڑھ کر‬
‫فکرمندی کے ساتھ ڈاکٹر سے سوال کیا۔‬
‫’’انشا اهلل۔ انشااهلل۔۔۔ ہم بہت ُپر ا ُمید ہیں۔ لیکن ابھی کوئی حتمی جواب نہیں دے سکتے۔ کیونکہ‬
‫ابھی ایک اور آپریشن کرنا باقی ہے۔ وہ بھی کامیابی سے ہوجائے تو پھر انشااهلل کوئی مسلۂ نہیں۔‘‘‬
‫ڈاکٹر صاحب جواب دے کر اسرار احمد کا کندھا تھپتھپاتے آگے بڑھ گئے۔‬
‫ڈاکٹر کے جواب سے جہاں اسرار احمد کے ِدل کو تسلی ہوئی وہیں انھیں رجب کی حالت کی‬
‫سنگینی کا بھی اندازہ ہوا۔ اب وہ جانے کے ارادے سے ُمڑے تو نظر سکینہ بیگم پہ پڑی۔ سکینہ بیگم نے‬
‫بھی ا ُسی آن ان کی جانب دیکھا۔ پل دو پل خاموشی سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر اسرار‬
‫احمد نے گہرا سانس کھینچا۔‬
‫بولے تو لہجے میں ہچکچاہٹ تھی۔‬
‫’’ چلتا ہوں۔ اهلل تمہارے بیٹے کو صحت دے۔‘‘‬
‫کہہ کر انھوں نے قدم آگے بڑھایا۔‬
‫’’اسرار!‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے جلدی سے آواز دے کر انھیں روک لیا۔‬
‫اسرار احمد نے انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔‬
‫’’شوال کیسی ہے؟۔۔۔۔ ا ُسے بتایا رجب کے بارے میں؟۔۔۔ رجب کو ہوش آ جائے تو پلیز ا ُسے بھی لے‬
‫آنا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے ہچکچاہٹ کے ساتھ بات شروع کی اور آخر تک ا ُن کا لہجہ ملتجی ہو گیا۔‬
‫اسرار احمد کے چہرے پہ سختی در آئی۔ اپنی پوری کھلی آنکھیں سکینہ بیگم کے چہرے پہ جما‬
‫کر سخت لہجے میں بولے۔‬
‫ِ‬
‫’’شوال کو کچھ نہیں بتایا میں نے۔ نہ ہی وہ دوبارہ کبھی آپ لوگوں میں سے کسی سے ملے گی۔‬
‫رجب کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہے تو ِاس کا مطلب یہ نہیں کہ شوال کے ساتھ کی گیئیں آپ کی‬
‫تمام زیادتیاں ِمٹ گیئیں۔‘‘‬
‫’’نہیں۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے شوال کے ساتھ کبھی کوئی زیادتی نہیں کی۔ ہمیشہ ا ُسے اپنی‬
‫بیٹی سمجھا ہے۔ اور رجب تو۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم بےچین ہو کر صفائیاں پیش کر رہی تھیں کہ اسرار احمد نے ا ُن کی بات کاٹ دی۔‬
‫’’مجھے ِاس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ کون اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا رہا ہے۔ میرے لئے‬
‫اہمیت اس بات کی ہے کہ میری بیٹی ِکن تکالیف سے گزری ہے۔۔۔‬
‫میں نے تو اس کے ساتھ کی گئی ایک ایک زیادتی کا بدلہ لینے کی قسم کھا لی تھی۔ لیکن ِاس‬
‫حادثے کے بعد میں نے صرف اس لئے اپنا ارادہ بدل دیا ہے کیونکہ میں ظاملین میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔‬
‫آپ لوگ اتنے پہ ہی خیر مناؤ۔ اس سے مزید کی کوئی ا ُمید مت رکھنا مجھ سے۔‘‘‬
‫حادثے کے بعد میں نے صرف اس لئے اپنا ارادہ بدل دیا ہے کیونکہ میں ظاملین میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔‬
‫آپ لوگ اتنے پہ ہی خیر مناؤ۔ اس سے مزید کی کوئی ا ُمید مت رکھنا مجھ سے۔‘‘‬
‫اسرار احمد سنا کر آگے بڑھ گئے۔ اب کے انھوں نے سکینہ بیگم کو کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں‬
‫دیا اور عمران اور کامران کو ہمراہ لئے تیز تیز ڈگ بھرتے وہاں سے چلے گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اس شام اسرار احمد الن میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جب علیزہ ا ُن کے پاس آ بیٹھی۔‬
‫سنجیدگی کے ساتھ بولی۔‬
‫’’پاپا! میں آپ سے شوال کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘‬
‫’’ہاں بولو۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے حوصلہ افزا انداز میں اجازت دی۔ اخبار ایک طرف رکھ کر پوری طرح ا ُس کی‬
‫طرف متوجہ ہو گئے۔‬
‫’’شوال۔۔۔۔‘‘‬
‫علیزہ نے ُپرسوچ انداز میں بات کا آغاز کیا۔‬
‫بولی۔‬
‫’’مجھے ا ُس کی صورتحال سے خاصی تشویش ہو رہی ہے۔ ایک مہینہ گزر چکا ہے اور وہ ابھی‬
‫تک صدمے کی کیفیت میں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ِاس صدمے سے باہر نہیں نکلنا چاہتی۔‬
‫ہر وقت خاموش اور تنہا رہتی ہے۔ کسی سے بات نہیں کرتی۔ کسی کو اپنے کمرے میں رکنے نہیں‬
‫دیتی۔ قمر اور کنزہ سے ا ُس کی کتنی دوستی تھی۔۔۔۔۔ لیکن اب وہ قمر کو اپنے پاس بیٹھنے بھی نہیں‬
‫دیتی۔ کل بھی کنزہ شوال سے ملنے آئی تھی اور شوال نے اس سے ملنے سے منع کر دیا۔ کہتی ہے کہ‬
‫’مجھے پریشانی ہوتی ہے۔ میں تنہا رہنا چاہتی ہوں۔‘‬
‫ایسا کب تک چلے گا پاپا!؟ اس طرح تو وہ اپنے آپ کو ختم کر لے گی۔‘‘‬
‫اسرار احمد علیزہ کو پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ وہ بول چکی تو اسرار احمد ا ُس کی بات پہ‬
‫غور کرتے ہوئے بولے۔‬
‫’’ہوں۔۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ میں ا ُس سے بات کروں گا۔‘‘‬
‫’’ ایک بات اور ہے پاپا!۔‘‘‬
‫شوال کی طرف سے تسلی ہو گئی تو علیزہ دوسرے موضوع پہ آئی۔‬
‫اسرار احمد نے سوالیہ نظروں سے ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’کل میری امی سے بات ہوئی تھی۔ شوال کے ساتھ جو ہوا۔۔۔ اور ا ُس کے بعد سے جو اس کی‬
‫حالت ہے۔ اس کے مِدنظر وہ کہہ رہی تھیں کہ ابھی کوئی شادی‪ ،‬فنکشن کرنا مناسب نہیں لگتا۔ ِاس لئے‬
‫اگر آپ چاہیں تو عمران اور کنزہ کی شادی کی تاریخ آگے بڑھا دی جائے۔‘‘‬
‫’’نہیں۔۔۔ ِاس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘‬
‫اسرار احمد نے فورا ً منع کیا۔ بولے۔‬
‫’’کنزہ اور عمران کی شادی اگلے ماہ ہی ہوگی۔ اور شوال کی فکر مت کرو۔ میں بات کروں گا ا ُس‬
‫سے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کہا تو علیزہ مطمعین ہو گئی۔‬
‫اسرار احمد گہری سوچ میں ڈوب گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫شوال اپنے کمرے میں دریچے کے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھی تھی۔ کرسی کی پشت پہ سر ڈالے‬
‫ا ُجڑی ویران نگاہیں شیشے کے اس پار کسی غیر مرئی نقطے پہ مرکوز تھیں۔‬
‫شوال اپنے کمرے میں دریچے کے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھی تھی۔ کرسی کی پشت پہ سر ڈالے‬
‫ا ُجڑی ویران نگاہیں شیشے کے اس پار کسی غیر مرئی نقطے پہ مرکوز تھیں۔‬
‫اسرار احمد اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئے۔‬
‫آہٹ پہ اس نے کوئی رِدعمل ظاہر نہ کیا۔ اسرار احمد چلتے ہوئے اس کے قریب آ کھڑے ہوئے۔‬
‫’’شوال!‘‘ انھوں نے دھیرے سے پکارا۔‬
‫شوال نے نگاہوں کا زاویہ بدل کر انھیں دیکھا۔ پھر جیسے چونک کر ا ُٹھنے لگی۔‬
‫’’پاپا! آپ؟‘‘‬
‫’’بیٹھی رہو۔ بیٹھی رہو۔‘‘‬
‫اسرار احمد کہتے ہوئے قریب رکھے ُفٹ سٹول پہ ِٹک گئے۔شوال نے واپس ٹیک لگا لی۔‬
‫’’کیسی ہے میری بیٹی؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے شفقت اور محبت سے پوچھا۔‬
‫’’ٹھیک ہوں۔‘‘‬
‫مری سی آواز میں ا ُس نے جیسے سرگوشی کی۔‬
‫’’یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟۔۔ باہر چل کر بیٹھو۔ کتنا اچھا موسم ہے باہر۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ا ُسے تحریک دینی چاہی۔‬
‫’’میرا ِدل نہیں چاہ رہا۔‘‘‬
‫دھیمی آواز میں ا ُس نے کہا۔‬
‫چہرے اور آنکھوں کی طرح آواز میں بھی ویرانی اور ا ُداسی تھی۔‬
‫اسرار احمد ا ُس کی ا ُجڑی ہوئی صورت دیکھنے لگے۔ وہ ا ُنھیں نہیں دیکھ رہی تھی۔ بلکہ نگاہیں‬
‫باہر خالء میں جمی تھیں۔‬
‫ُ‬
‫کچھ دیر اسے بغور دیکھنے کے بعد اسرار احمد نے اس کا گود میں رکھا ہاتھ دھیرے سے اٹھا کر‬
‫اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔‬
‫نرمی سے گویا ہوئے۔‬
‫’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم اس وقت ِکس مینٹل کرائسس سے گزر رہی ہو۔ تمہارے ساتھ جو ہوا‬
‫ا ُسے قبول کرنا آسان نہیں۔ وہ بھی تمہاری عمر کی بچی کے لئے۔ ‪ I know how hard it is.‬۔ ‘‘‬
‫نرم آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہوئے انھوں نے توقف کیا۔‬
‫شوال نے اپنا انداِز نشست بدال تھا نہ اپنی نظروں کا زاویہ۔ خالء میں دیکھتے ہوئے ایک آنسو‬
‫چپکے سے ا ُس کی آنکھ سے نکال اور گال پہ بہنے لگا۔‬
‫اسرار احمد ا ُس کی کیفیت دیکھ کر اندر سے کٹ کر رہ گئے۔ سنبھل کر ا ُسی نرم آواز میں بولے۔‬
‫’’جب میں تمہاری عمر میں تھا تو مجھے بھی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے ایسے ہی لگتا تھا کہ‬
‫‪ This is the end of the world.‬۔۔۔۔‬
‫ُ‬
‫لیکن آج پیچھے ُمڑ کر دیکھتا ہوں تو وہ واقعات بہت معمولی لگتے ہیں۔ آج ان پریشانیوں کو یاد کر‬
‫کے مسکرا دیتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ جس چیز کو میں اینڈ آف دی ورلڈ سمجھتا تھا وہ تو زندگی کے وہ‬
‫جن سے ہر انسان گزرتا ہے۔‘‘‬ ‫معمولی واقعات ہیں ِ‬
‫اسرار احمد اپنی پریشانیاں یاد کر کے اب بھی ہلکا سا مسکرا دیئے۔‬
‫شوال نے نگاہوں کا زاویہ بدل کر اسرار احمد کو دیکھا۔ ا ُس کے چہرے اور آنکھوں کی ویرانی اور‬
‫ا ُداسی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ بس انھیں دیکھ رہی تھی۔ اسرار احمد کا حوصلہ بڑھانے کےلئے‬
‫اتنا بھی کافی تھا۔‬
‫’’ذرا اپنے سکول کے دن یاد کرو۔ جب سکول میں کسی بچے کے ساتھ جھگڑا ہو جاتا تھا۔۔۔ ٹیسٹ‬
‫میں کوئی سوال نہیں آتا تھا۔ یا کوئی اور مسلۂ کھڑا ہو جاتا تھا۔ تم اور تمہارے ساتھ کے باقی بچوں کو‬
‫یہ مصیبتیں کتنی بڑی لگتی تھیں ا ُس وقت!‬
‫ایسے لگتا تھا جیسے زندگی یہیں پہ ختم ہے۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ ایسا ہی تھا ناں!؟‘‘‬
‫انھوں نے تائید چاہی۔‬
‫ایسے لگتا تھا جیسے زندگی یہیں پہ ختم ہے۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ ایسا ہی تھا ناں!؟‘‘‬
‫انھوں نے تائید چاہی۔‬
‫شوال اب بھی انھیں ا ُسی طرح خاموشی سے دیکھتی رہی۔‬
‫وہ مزید گویا ہوئے۔‬
‫ھی ا ُڑانے جیسی معمولی لگتی ہیں۔‘‘‬ ‫’’لیکن آج جب وہ وقت یاد کرتی ہو تو وہ مشکلیں مک ّ‬
‫ھی ا ُڑانے جیسا معمولی نہیں ہے۔ ‘‘‬ ‫’’لیکن اب جو میرے ساتھ ہوا ہے۔ وہ مک ّ‬
‫صہ لیتے ہوئے رندھی ہوئی آوازمیں کہا۔‬ ‫باآلخر شوال نے ان کی گفتگو میں ح ّ‬
‫ھی ا ُڑانے جیسا معمولی نہیں ہے۔ لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ‬ ‫’’بے شک۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ یہ مک ّ‬
‫تمہاری آگے کی ساری زندگی پہ محیط ہو جائے۔‘‘‬
‫انھوں نے برجستہ کہا۔‬
‫پھر سمجھانے کے انداز میں ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے۔‬
‫’’تم آج زندگی کے جن مراحل سے گزر رہی ہو۔ میں ان مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ جو‬
‫بھی کہہ رہا ہوں اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ رہا ہوں۔۔۔ زندگی کا کوئی بھی حادثہ یا نقصان‪ ،‬زندگی‬
‫جس نے زندگی کے نشیب و فراز نہ دیکھے‬ ‫سے بڑا نہیں ہوتا۔ اور اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں آیا ِ‬
‫ہوں۔۔۔۔۔‬
‫زندگی ِاک جدوجہِد مسلسل کا نام ہے۔ آزمائش در آزمائش کا نام۔۔۔‬
‫ہر انسان کی زندگی میں مصائب اور مشکالت مختلف شکل میں آتے ہیں۔ لیکن آتے ضرور ہیں۔ وقت‬
‫سدا ایک سا نہیں رہتا۔ اور یہ تو شروعات ہے۔ اگر تم شروع میں ہی ِاس طرح ایک حادثے کو ِدل سے لگا لو‬
‫گی تو آگے آنے والی مشکالت کا سامنا کیسے کرو گی؟‘‘‬
‫شوال اب بھی خاموشی سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ ا ُس کی آنکھوں میں بےچینی تھی۔‬
‫اسرار احمد نے توقف کیا۔ پھر ا ُس کا ہاتھ دھیرے سے دباتے ہوئے بولے۔‬
‫’’زندگی ایسے نہیں گزاری جا سکتی جیسےتم گزارنا چاہتی ہو شوال!۔ ہم اپنی زندگی میں پیش‬
‫آنے والی مشکالت کو ٹال نہیں سکتے۔ لیکن اهلل نے ہمیں عقل دی ہے۔ اختیار دیا ہے۔ یہ ہم پہ چھوڑا ہے کہ‬
‫ہم مشکل حاالت کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔‬
‫جو لوگ ہوش مندی سے‪ ،‬عقل اور جرٴات مندی سے زندگی کی مشکالت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ‬
‫ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ جب وہ ایک مشکل کا مقابلہ کر کے ا ُسے ہرا‬
‫دیتے ہیں۔ تب وہ یہ نہیں سوچتے کہ اب زندگی میں کبھی کوئی پریشانی نہیں آئے گی۔۔۔۔ وہ جانتے ہیں‬
‫کہ کل کو کوئی اور مصیبت آئے گی جو ِاس سے بھی بڑی ہوگی۔ لیکن اس سے ان کے حوصلے پست نہیں‬
‫ہوتے۔۔۔ کیونکہ انھیں اپنی عقل پہ بھروسہ ہوتا ہے۔۔۔۔وہ زندگی میں پیش آئی ہر مصیبت سے لڑتے ہیں۔‬
‫ا ُسے ہراتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔‬
‫یہ سچ ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ زندہ نہیں رہتے۔ ایک ِدن مر بھی جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ زندگی میں‬
‫پیچھے ُمڑ کر دیکھتے ہیں تو ا ُنھیں اپنی زندگی سے یا اپنے رب سے کوئی شکواہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ا ُنھیں‬
‫خود پہ فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ لوگ ونرز )‪ (winners‬ہوتے ہیں۔‬
‫اور لوگوں کی ایک وہ قسم ہے جو ذرا سی تیز ہوا چلتی ہے تو وہیں پہ لیٹ جاتے ہیں۔ زنگی کی ہر‬
‫مشکل‪ ،‬ہر مصیبت‪ ،‬ہر امتحان انھیں اپنی ہمت اور عقل سے بڑا لگتا ہے۔ قدم قدم پہ ہار مان لینے والے‬
‫لوگ۔‬
‫زندگی کی کسی آزمائش یا مشکل سے مرتے یہ بھی نہیں۔ اپنی مقررہ مدت پوری کر کے ہی مرتے‬
‫ہیں۔ لیکن ِان کی کم ہمتی اور بذدلی ِان کی زندگی میں جینے الئق کچھ نہیں چھوڑتی۔۔۔۔۔ ُدکھ‪ ،‬رنج‪،‬‬
‫تکالیف اور پریشانیوں کے عالوہ ِان کی زندگی میں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ نتیجتا ً یہ زندگی نہیں گزارتے۔۔۔ بلکہ‬
‫زندگی انھیں گزار دیتی ہے۔ جیسے خالی ہاتھ یہ اس دنیا میں آتے ہیں۔ ا ُس سے زیادہ بدحال اس دنیا سے‬
‫چلے جاتے ہیں۔۔۔۔ مرتے وقت ِان کے پاس کیا ہوتا ہے؟ ُدکھوں سے بھری جھولی اور اهلل سے ڈھیر سارے‬
‫شکوے۔ ‪‘‘ And these people are called the real losers.‬‬
‫اسرار احمد نے اپنی بات مکمل کر کے شوال کا چہرہ دیکھا۔‬
‫شکوے۔ ‪‘‘ And these people are called the real losers.‬‬
‫اسرار احمد نے اپنی بات مکمل کر کے شوال کا چہرہ دیکھا۔‬
‫وہ انھیں بغور سن رہی تھی۔ اب کے ا ُس کا چہرہ نسبتا ً کافی ُپرسکون تھا۔‬
‫وہ نرمی سے مسکرائے۔ پھر بولے۔‬
‫’’اب یہ تم پر منحصر ہے شوال! کہ تم اپنی زندگی ایک ُلوزر کی طرح گزارنا چاہتی ہو؟ یا ایک ِونر‬
‫کی طرح جیت کر‪ ،‬ہر مشکل کا مقابلہ کرکےآگے بڑھتے ہوئے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ا ُسے جوش ِدالنے کی کوشش کی۔‬
‫’’یہ کہنا جتنا آسان ہے۔ کرنا اتنا آسان نہیں ہے پاپا!۔۔۔ جو ُہوا‪ ،‬ا ُسے بھولنا آسان نہیں۔‘‘‬
‫شوال نے دکھ اور مایوسی سے کہا۔‬
‫اسرار احمد نے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’نہیں۔ اور بھولنا چاہیئے بھی نہیں۔ ِاسے تمہیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ لیکن ایک درد کی طرح نہیں۔‬
‫بلکہ ایک سبق کی طرح۔‬
‫اپنی زندگی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھو شوال! ۔ ا ُن پہ غور کرو اور جاننے کی کوشش کرو‬
‫کہ یہ تمہیں کیا پیغام دیتے ہیں۔۔۔۔‬
‫ِ‬ ‫ُ‬
‫ہم زندگی میں جب نقصان اٹھاتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہی بھی ضرور ہوتی ہے۔ ایک ونر‬
‫ہمیشہ جیتتا نہیں۔۔۔۔ زندگی میں کئی مقامات پہ وہ ناکامیوں سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ بہت سے مواقعے پہ‬
‫وہ بہت کچھ کھوتا ہے۔ لیکن وہ ساری زندگی اس دکھ کو ساتھ لئے ِاس پہ ماتم کرتے نہیں گزار دیتا۔‬
‫بلکہ وہ ایک نیا سبق سیکھتا ہے۔ جس سے آگے چل کر وہ زندگی میں بہت استفادہ حاصل کرتا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫’’میرے ساتھ جو ہوا۔۔۔ ا ُس سے میں کیا فائدہ حاصل کروں گی؟۔‘‘‬
‫شوال نے ُدکھ سے کہا۔ آنکھوں میں آنسو بھر گئے تھے۔ وہ اب بھی بہت مایوس اور دکھی تھی۔‬
‫’’فائدے کا سوال بعد میں آتا ہے۔ پہلے تو تم اپنی غلطی تالش کرو۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے برجستہ کہا۔ بولے۔‬
‫’’ایک جگہ بیٹھو۔۔۔۔ اور نیوٹرل ہو کر سارے حاالت و واقعات کا تجزیہ کرو۔ دیکھو کہ کیا ہوا تھا۔‬
‫کیوں ہوا تھا۔ کیا ہو رہا ہے؟۔‬
‫دوسری بات۔۔۔ اپنے آپ کو احساس دالؤ کہ یہ تمہاری زندگی کا ایک فیز ہے۔ پوری زندگی نہیں۔‬
‫اپنے آپ کو ِاس فیز سے نکالو۔ یہ جو دکھ اور مایوسی کی چارد تم نے اوڑھ رکھی ہے۔۔۔ ِاسے ا ُتارو۔ آگے‬
‫بڑھو۔ اپنی زندگی میں خوشی تالش کرو۔‘‘‬
‫’’نہیں پاپا!۔۔۔۔ جو ہو چکا ہے ا ُس کے بعد میرا خوشی کے نام سے ہی ِدل ا ُچاٹ ہو چکا ہے۔ مجھے‬
‫اپنی زندگی سے کوئی ِدلچسپی نہیں رہی۔‘‘‬
‫شوال رو پڑی۔‬
‫’’شوال!‘‘ اسرار احمد آگے جھک آئے۔ ’’ادھر دیکھو میری طرف۔‘‘‬
‫شوال نے بادلنخواسطہ اپنی بھیگی پلکیں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ اسرار احمد رسان سے سمجھانے‬
‫لگے۔‬
‫’’ہم بیمار ہوتے ہیں ناں!۔۔۔ بیماری ہمیں کتنا مجبور اور الچار کر دیتی ہے!۔۔۔ ہم کتنی تکلیف میں‬
‫ہوتے ہیں۔ تو کیا ہم ساری عمر اس بیماری کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں؟۔۔۔۔‬
‫بیماری جتنی بڑی ہوتی ہے۔ ا ُس کے عالج کے لئے بھی ہم اتنے ہی بےچین و بےتاب ہوتے ہیں ناں!۔۔۔‬
‫کڑوی سے کڑوی دوا پی لیتے ہیں۔۔۔۔ ِدل میں تکلیف ہو تو سینہ چاک کروا لیتے ہیں۔ دماغ میں ٹیومر ہو‬
‫جائے تو کھوپڑی تک کھلوانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک بیماری ہے اور ِاس کا‬
‫عالج کروانا ضروری ہے۔۔۔۔ ہماری زندگی کے لئے‪ ،‬ہماری خوشیوں کے لئے۔‬
‫تو کیا زندگی کے ایک تجربے کی تلخی‪ ،‬ایک نقصان سے نکلنے کیلئے ہمیں کوئی کوشش نہیں کرنی‬
‫چاہیئے؟۔۔۔ کیا یہ سینہ چیروانے یا کھوپڑی کھلوانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے؟‘‘‬
‫’’بیماری میں انسان شفا چاہتا ہے پاپا! کیوں کہ ا ُسے اپنی زندگی اور خوشیوں کی پرواہ ہوتی ہے۔‬
‫چاہیئے؟۔۔۔ کیا یہ سینہ چیروانے یا کھوپڑی کھلوانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے؟‘‘‬
‫’’بیماری میں انسان شفا چاہتا ہے پاپا! کیوں کہ ا ُسے اپنی زندگی اور خوشیوں کی پرواہ ہوتی ہے۔‬
‫لیکن جب ِدل پہ چوٹ لگتی ہے تو زندگی میں کوئی خوشی بچتی ہے نہ جینے کی چاہ۔‘‘‬
‫شوال نے جرح کی۔‬
‫اسرار احمد مسکرائے۔‬
‫’’ِدل پہ چوٹ۔‘‘ انھوں نے دہرایا۔‬
‫’’ِدل پہ چوٹ کیا ہوتی ہے؟۔۔۔ ہے کوئی حقیقت ِاس چوٹ کی؟۔۔۔۔‬
‫ِدل کا درد‪ِ ،‬دل کی چوٹ۔۔۔‬
‫ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر کچھ ہوتا ہے تو ہمارے یہاں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے اپنی دو انگلیوں سے اس کی کنپٹی ہلکے سے بجائی۔‬
‫’’خرابی ادھر ہوتی ہے۔ ہماری سوچ میں۔۔۔ ایک کم حوصلہ انسان ایسی ہی باتیں زیہن میں ِبٹھا‬
‫کر ساری عمر سفر )‪ (suffer‬کرتا رہتا ہے۔ جبکہ ایک فائٹر کا ذیہن ایسے نہیں سوچتا۔ کیونکہ اس کے‬
‫حوصلے اور جرٴات کے آگے کوئی درد یا تکلیف زیادہ دیر ٹھہر سکتی ہی نہیں۔‘‘‬
‫اسرار احمد پھر سے ا ُس کے اندر ایک نیا جوش پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔‬
‫شوال کے چہرے پہ تذبذب کے تاثرات تھے۔ ا ُس کے پاس بحث کرنے کو کچھ نہ بچا تھا۔ اسرار احمد‬
‫کی باتوں نے ا ُس کا غم کم بھی کر دیا تھا۔ لیکن جو وہ کہہ رہے تھے۔ ویسا کرنے کو اس کا من اب بھی‬
‫نہیں مان رہا تھا۔‬
‫اسرار احمد نے اس کا چہرہ بغور پڑھا۔ دھیرے سے ا ُس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے واپس سیدھے ہو‬
‫بیٹھے۔‬
‫’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ابھی تمہارے من میں کیا چل رہا ہے۔۔۔‬
‫میں نے حقیقت بیان کی ہے۔ کوئی جادو کی چھڑی نہیں گھمائی جو فوری نتائج کی خواہش‬
‫کروں۔۔۔ تم فرصت سے بیٹھ کر میری باتوں پہ غور کرو گی تو تمہیں میری باتیں سمجھ آجائیں گی۔۔۔‬
‫اب یہ تم پہ ہے کہ تم انھیں سمجھنے میں کتنا وقت لیتی ہو!۔۔۔ چاہو تو ایک ِدن‪ ،‬چاہو تو صدیاں‬
‫لگا دو۔۔۔۔ فیصلہ تمہیں کرنا ہے۔ لیکن ایک باپ ہونے کے ناطے‪ ،‬ایک خیرخواہ ہونے کے ناطے میرا مشورہ‬
‫اور خواہش یہی ہے کہ میری بیٹی اپنی زندگی کے ِاس تجربے کی تلخی اپنی ساری زندگی میں گھولنے کی‬
‫بجائے ایک فائٹر بن کر سامنے آئے۔۔۔ آگے تمہاری مرضی۔‘‘‬
‫اسرار احمد ا ُس کی سوچوں کا ُرخ بدلتے ہوئے ا ُٹھے اور ا ُس کے سر پہ ہلکی سی تھپکی دے کر‬
‫کمرے سے باہر نکل گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اگلی شام اسرار احمد کام سے لوٹے تو شوال اور علیزہ کو ہال میں غالیچے پہ بیٹھے پایا۔ وہ دونوں‬
‫اپنے سامنے عروسی ملبوسات کا ڈھیر لگائے ا ُن کو جانچتے پرکھتے ہوئے آپس میں تبادلۂ خیال بھی کر‬
‫رہی تھیں۔ شوال نہ صرف آج اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی بلکہ وہ بہت بدلی بدلی بھی لگ رہی تھی۔‬
‫بال نئے انداز میں کٹے ہوئے تھے اور ا ُن کا رنگ بھی بدال ہوا تھا۔‬
‫اسرار احمد نے یہ بدالؤ واضح طور پہ نوٹ کیا۔‬
‫ُ‬ ‫ً‬
‫شوال اور علیزہ نے بھی انھیں دیکھ لیا اور احتراما اٹھ کھڑی ہوئیں۔‬
‫’’اسالم علیکم پاپا!‘‘‬
‫علیزہ نے سالم کرنے میں پہل کی۔‬
‫’’واعلیکم السالم! شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟‘‘‬
‫اسرار احمد خوش ِدلی سے کہتے ہوئے ایک طرف رکھے صوفوں کی طرف بڑھ گئے۔‬
‫شوال اور علیزہ ا ُن کی طرف چلی آئیں۔‬
‫’’جی! کامران اور عمران کہاں ہیں؟‘‘‬
‫شوال اور علیزہ ا ُن کی طرف چلی آئیں۔‬
‫’’جی! کامران اور عمران کہاں ہیں؟‘‘‬
‫علیزہ نے جواب دینے کے ساتھ پوچھا۔‬
‫’’وہ دونوں اپنے کسی دوست کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘‬
‫وہ اپنے ہاتھ میں پکڑا لیپ ٹاپ بیگ صوفے کی سائیڈ میں رکھ کر خود بھی بیٹھ گئے۔‬
‫’’پاپا! چائے الؤں آپ کے لئے؟‘‘‬
‫شوال نے پوچھا۔‬
‫’’نہیں۔ ابھی نہیں۔ بھایئوں کو آ لینے دو۔ تم بیٹھو میرے پاس۔‘‘‬
‫انھوں نے محبت سے کہا۔‬
‫’’میں کپڑے سمیٹ کر آتی ہوں۔‘‘‬
‫علیزہ کہہ کر واپس غالیچے کی طرف بڑھ گئی۔ شوال ان کے مقابل آ بیٹھی۔‬
‫’’مجھے خوشی ہو رہی ہے تمہیں دیکھ کر۔‘‘‬
‫اسرار احمد اسے دیکھتے ہوئے بولے۔ ان کے لبوں پہ ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔ شوال نے‬
‫مسکرا کر سر جھکا لیا۔‬
‫اسرار احمد کہنے لگے۔‬
‫’’ کل جس طرح سے تم مجھ سے جرح کر رہی تھی۔ مجھے لگا کہ تمہیں میری باتیں سمجھنے میں‬
‫کچھ وقت لگے گا۔ لیکن تم نے تو مجھے حیران کر دیا۔‘‘ انداز سراہنے واال تھا۔‬
‫’’آپ ٹھیک کہتے تھے پاپا!‘‘‬
‫شوال نے جھکا ہوا سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ بولی۔‬
‫’’ اهلل نے ہمیں صرف ایک زندگی اور صرف ایک جسم دیا ہے۔ ہم اسطرح سے اهلل کی ِاس سب سے‬
‫بڑی نعمت کو ضائع نہیں کر سکتے۔‬
‫مصائب اور تکالیف زنگی میں آتی رہتی ہیں۔ ہمیں ہّمت اور ہوش مندی کے ساتھ ِان کا مقابلہ کر‬
‫کے آگے بڑھنا چاہیئے۔۔۔‬
‫ِاس لئے میں نے سوچا کہ اپنی زندگی میں کچھ بدالؤ الؤں۔ تاکہ میں اپنے آپ کو اس تکلیف سے‬
‫نکال سکوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد کو اپنی بیٹی پہ فخر محسوس ہوا۔‬
‫’’بالکل صحیح فیصلہ کیا تم نے۔‘‘‬
‫شوال ہلکا سا مسکرائی۔ پھر اس کے چہرے پہ ا ُداسی چھا گئی۔‬
‫’’بہت تکلیف ہوتی ہے ایسا کرتے ہوئے پاپا!۔۔۔ لیکن آپ نے صحیح کہا تھا۔ غم خواری بھی ایک‬
‫بیماری ہے۔ اس کے عالج کے لئے کڑوی سے کڑوی دوا بھی پینی چاہیئے۔۔۔ بیماری کو ساتھ لے کر نہیں‬
‫جیا جا سکتا۔‘‘‬
‫شوال کہہ کر خود کو سنبھالنے لگی۔‬
‫اسرار احمد ُدکھ اور خوشی کے ِملے ُجلے تاثرات کے ساتھ ا ُسے دیکھ رہے تھے۔ پھر انھوں نے اس‬
‫کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اس کا صوفے پہ ٹکا ہاتھ ہلکے سے تھپتھپایا۔‬
‫’’کھانا کھانے کے بعد ہم دونوں سنوکر کھیلیں گے۔ ٹھیک ہے۔‘‘‬
‫شوال نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا‪ ،‬مسکرائی اور مستعدی کے ساتھ اثبات میں سر ہال دیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی رجب کے کمرے کے باہر بےچینی سے ٹہل رہے تھے۔ سکینہ بیگم بھی ایک طرف مضطرب‬
‫و پریشان کھڑی تھیں۔‬
‫ڈاکٹر سمیع مایوس چہرہ لئے رجب کے کمرے سے باہر نکلے تو انھوں نے بےتابی سے انھیں جا لیا۔‬
‫’’ڈاکٹر سمیع!‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع مایوس چہرہ لئے رجب کے کمرے سے باہر نکلے تو انھوں نے بےتابی سے انھیں جا لیا۔‬
‫’’ڈاکٹر سمیع!‘‘‬
‫’’آئم سوری وجاہت علی صاحب!۔۔۔ میں اب کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ آپ کا بیٹا پاگل ہو چکا ہے۔۔۔‬
‫آپ جتنے جلدی ہو سکے ِاسے پاگل خانے بھیج دیجیئے۔‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع نے حتمی انداز میں کہا۔‬
‫سکینہ بیگم نے یہ سن کر منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔‬
‫’’نہیں۔‘‘ وجاہت علی کے لئے یہ قبول کرنا ناممکن تھا۔ ’’ایسا مت کہیئے ڈاکٹر سمیع! میرا بیٹا‬
‫پاگل نہیں ہو سکتا۔ میں کسی قیمت پر بھی اسے پاگل خانے نہیں بھیجوں گا۔‘‘‬
‫پاگل خانے کا نام سن کر ہی وجاہت علی خوفزدہ ہو گئے تھے۔‬
‫ڈاکٹر سمیع ہمدردانہ لہجے میں سمجھانے لگے۔‬
‫’’میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں وجاہت صاحب!۔۔۔ لیکن اب اور کوئی حل نہیں ہے۔ ا ُس کو‬
‫یوں گھر میں رکھنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت خودکشی کی کوشش کر سکتا ہے۔‬
‫اور پلیز۔۔۔ آپ اس کے سامنے جانے سے گریز کیجیئے۔ وہ اپنی بیوی اور بچہ کھونے کا ذمہ دار آپ‬
‫کو سمجھتا ہے۔۔۔ آپ کو دیکھ کر اس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ آپ پہ بھی قاتالنہ‬
‫حملہ کر دے۔ ِاسی لئے کہتا ہوں کہ کوئی انہونی ہونے سے پہلے ا ُسے پاگل خانے بھیج دیجیئے۔‘‘‬
‫وجاہت علی ان کا منہ تک رہے تھے۔ ملتجی لہجے میں پوچھنے لگے۔‬
‫’’کیا کوئی اور راستہ نہیں؟۔۔۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ میں اسے کسی بھی صورت پاگل خانے نہیں‬
‫بھیجنا چاہتا۔‘‘‬
‫’’اگر آپ اس کا بھال چاہتے ہیں تو آپ کو ایسا کرنا ہوگا۔۔۔ مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے‬
‫کیا۔ لیکن۔۔۔ اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ میرے قابو میں نہیں آتا اب۔ ا ُسے پاگل خانے لے‬
‫جانا ہی بہتر ہے۔ ‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع نے پھر سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔‬
‫’’نہیں۔ نہیں۔۔۔ وہ پاگل نہیں ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے زور سے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’پاگلوں کو تو کچھ ہوش نہیں ہوتا۔ کچھ خبر نہیں ہوتی۔۔۔ جبکہ رجب تو سب جانتا ہے کہ اس کے‬
‫ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔ مجھے‪ ،‬آپ کو‪ ،‬اپنی ماں کو۔ سب کو پہچانتا ہے۔ پھر وہ پاگل کیسے ہو سکتا‬
‫ہے؟ ‘ ‘‬
‫ِ‬
‫’’جی ہاں! وہ سب کو پہچانتا ہے۔ اسی لئے یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ ا ُسے ابھی پاگل خانے بھجوا‬
‫دیں تاکہ بروقت اس کا عالج ہو سکے۔‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔‬
‫’’ اگر آپ ابھی اس کا عالج کروائیں گے تو وہ جلد ٹھیک بھی ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ا ُس‬
‫کے پوری طرح ہوش کھونے کا انتظار کرتے رہیں اور اس کا عالج ممکن نہ رہے۔‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع انھیں قائل کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ مگر وجاہت علی کا ِدل اپنے بیٹے کو‬
‫پاگل خانے بھیجنے کیلئے کسی صورت نہیں مان رہا تھا۔ ُدکھ اور بے بسی سے انھوں نے منہ پہ اپنا ہاتھ‬
‫جما لیا۔ آنکھوں میں آنسو لئے کوئی حل سوچنے لگے۔‬
‫’’ا ُسے اپنی بیوی واپس چاہیئے ناں! اگر اس کی بیوی واپس آ جائے تو؟‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع نے ا ُن کی تجویز پہ کچھ دیر سوچا۔ پھر سر ہال تے ہوئے بولے۔‬
‫’’کوئی چانس بنتا ہے۔۔۔ اگر اس کی بیوی آ کر اسے پیار سے سمجھائے۔ اسے محبت اور توجہ دے‬
‫تو شاید اس کی حالت میں کچھ سدھار آ سکتا ہے۔۔۔ آپ یہ کوشش کر کے دیکھ لیجیے۔‬
‫چلتا ہوں۔ اهلل حافظ۔‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع آگے بڑھ گئے۔‬
‫سکینہ بیگم منہ پہ ہاتھ جمائے رو رہی تھیں۔‬
‫ڈاکٹر سمیع آگے بڑھ گئے۔‬
‫سکینہ بیگم منہ پہ ہاتھ جمائے رو رہی تھیں۔‬
‫وجاہت علی نے پلٹ کر انھیں خود سے لگا لیا۔‬
‫’’ابھی ہمارا بیٹا دو مہینے اسپتال میں گزار کر آیا ہے۔ اب ہم اسے پاگل خانے بھیج دیں؟۔۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔‬
‫’’جب میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو قبر میں اترتے دیکھتی تھی تو لگتا تھا کہ دنیا‬
‫میں اس سے بڑا ُدکھ اور کوئی نہیں۔۔۔ لیکن یہ دو مہینے جو اسپتال میں گزرے ہیں۔ یہ اذیت اس اذیت‬
‫سے بھی بڑھ کر تھی۔ اور اب کہتے ہیں کہ اسے پاگل خانے بھیج دیں؟۔۔۔ابھی اور کتنے ُدکھ جھیلنا باقی‬
‫ہیں؟۔۔۔ اور کتنا سہیں ہم؟۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم بری طرح رو رہی تھیں۔‬
‫’’صبر۔ صبر۔۔۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میرا بیٹا پاگل نہیں ہے۔۔۔ ‘‘‬
‫ہمدردی جتانے کے انداز میں سکینہ بیگم کا بازو سہالتے ہوئے وجاہت علی بڑبڑائے۔ پھر سکینہ بیگم‬
‫کو ہدایات دیتے ہوئے بولے۔‬
‫’’تم اس پہ نظر رکھو۔ گھر کے سب نوکروں اور اس کے کیئرر سے کہو کہ وہ چوکنا رہے۔ وہ گھر‬
‫سے بھاگ بھی سکتا ہے اور خود کشی کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ اس لئے ا ُسے ہر ِگز تنہا مت‬
‫چھوڑنا۔۔۔ میں شوال کو واپس النے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی کہتے ہوئے تیز تیز قدم ا ُٹھاتے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد اپنے آفس میں بیٹھے تھے۔ لیپ ٹاپ پہ ایک نقشہ کھولے وہ قریب کھڑے کامران کو اس‬
‫نقشے کے بارے میں کچھ سمجھا رہے تھے۔‬
‫کامران لیپ ٹاپ کی سکرین پہ جھکا بغور انھیں سن رہا تھا۔ ٹیبل پہ رکھے ا ُن کے فون پہ بار بار‬
‫کال آ رہی تھی۔ اور میسج پہ میسج۔‬
‫ھال کر اسرار احمد نے فون ا ُٹھایا۔‬ ‫ج ّ‬
‫’’ِاس بےحیا انسان کی کوئی حد نہیں۔‘‘‬
‫جل کر کہتے ہوئے انھوں نے اپنا فون آف کر دیا۔‬
‫’’کون؟‘‘‬
‫کامران نے پوچھا۔‬
‫’’وجاہت کے عالوہ اور کون ہے دنیا میں۔؟‘‘‬
‫اسرار احمد کے چہرے کے زاویے بگڑے ہوئے تھے۔ کڑوے لہجے میں کہا۔ پھر کامران کے چہرے پہ‬
‫الجھن اور تجسس دیکھ کر وضاحت کرنے لگے۔‬
‫’’کل فون کر کے بڑا احسان جتاتے ہوئے بوال کہ شوال کو گھر بھیج دو۔۔۔ میں نے صاف منع کر دیا۔‬
‫اب کل سے سارا ایٹی ٹیوڈ بھال کر منتیں کر رہا ہے کہ میں شوال کو اس کے گھر واپس بھیج دوں۔‘‘‬
‫’’ہمارا کیا دماغ خراب ہے جو ہم اپنی بہن کو واپس اس جگہ بھیجیں گے۔‘‘‬
‫جواب میں کامران بڑبڑایا۔‬
‫ا ُسے بھی وجاہت علی کی مانگ سن کر غصہ آ گیا تھا۔‬
‫اسرار احمد نے سر جھٹکا۔‬
‫’’چھوڑو۔ یہ آدمی اس الئق نہیں کہ ہم ِاس کو ڈسکس کرکےاپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔‘‘‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫کامران نے تائید کی۔‬
‫’’بائی دی وے۔ شوال کو اس بارے میں کچھ نہ بتانا۔‘‘‬
‫ایک خدشے کے تحت انھوں نے کامران سے کہا۔‬
‫’’بائی دی وے۔ شوال کو اس بارے میں کچھ نہ بتانا۔‘‘‬
‫ایک خدشے کے تحت انھوں نے کامران سے کہا۔‬
‫’’ہوں۔‘‘‬
‫کامران نے سمجھ جانے کے انداز میں سر ہالیا۔ پھر خیال آنے پہ پوچھنے لگا۔‬
‫’’ شوال کو رجب کے ایکسیڈنٹ کے بارے میں بتا دیا آپ نے؟‘‘‬
‫’’ہوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے لیپ ٹاپ کی سکرین پہ نظریں جمائے ہوئے فقط ’ہوں‘ کرنے پہ اکتفا کیا۔‬
‫’’تو؟۔۔۔۔ کیا کہا ا ُس نے؟‘‘‬
‫کامران کا تجسس بڑھ گیا۔‬
‫’’کیا کہنا تھاا ُس بےچاری نے؟۔۔۔ ‘‘‬
‫اسرار احمد نے کہا۔ پھر کامران پہ ایک نظر ڈال کر بتانےلگے۔‬
‫صہ ہے۔ اب ا ُس کی زندگی میں رجب کہیں بھی‬ ‫’’وہ کہتی ہے کہ رجب ا ُس کے ماضی کا ایک ح ّ‬
‫نہیں۔ ِاس لئےا ُسے یہ جاننے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ کیا کرتا ہے؟ یاا ُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‘‘‬
‫’’شوال بہت بہادر ہے پاپا! بڑی ہّمت کے ساتھ وہ ِان کڑے حاالت کا مقابلہ کر رہی ہے۔‘‘‬
‫کامران ا ُس کا رِدعمل جان کر خاصا متاثر ہوا۔‬
‫اسرار احمد نے تائید میں سر ہالیا۔ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ انٹرکام کی بیل نے مداخلت کرتے ہوئے‬
‫ا ُن کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔‬
‫انھوں نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘‬
‫’’سر! مسٹر وجاہت علی کی کال ہے۔ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘‬
‫فون آپریٹر نے ا ُن سے کہا۔‬
‫’’چچ۔‘‘‬
‫سال۔‬‫اسرار احمد نے زچ ہو کر اپنی پیشانی کو م ّ‬
‫’’منع کر دو۔‘‘‬
‫انھوں نے سخت لہجے میں کہا۔‬
‫’’میں نے منع کیا تھا سر!۔۔۔ مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ بات نہیں کریں گے تو وہ خود آپ سے‬
‫ملنے آپ کے آفس آجائیں گے۔‘‘ جواب ِمال۔‬
‫اسرار تپ گئے۔‬
‫’’اگر وہ آفس آ جائے تو بھی ا ُسے واپس بھیج دو۔ مجھے اس آدمی سے کوئی بات نہیں کرنی۔‬
‫دوبارہ مجھے ا ُس کا کوئی پیغام مت دینا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے سختی سے کہہ کر ریسیور پٹخ دیا۔ پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر پیشانی‬
‫مسلنے لگے۔ شدید غصے کی وجہ سے وہ کوئی کام کرنے کی حالت میں نہیں رہے تھے۔‬
‫کامران نے اپنے باپ کی حالت مالحظہ کی۔ پھر گہرا سانس خارج کیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی شکستہ قدموں گھر میں داخل ہوئے۔‬


‫سکینہ بیگم ا ُنکی منتظر بیٹھی تھیں۔ ا ُن کو دیکھتے ہی ا ُن کی طرف لپکیں۔‬
‫’’کیا ہوا؟ کوئی بات بنی؟‘‘‬
‫ِ‬
‫آنکھوں میں آس و نراس کے ملے ُجلے تاثرات تھے۔‬
‫وجاہت علی نے شکستگی کے ساتھ سر گھما کر انھیں دیکھا اور نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’نہیں۔ وہ میری کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔ ا ُس کے مطابق میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ میرا‬
‫اصل مقصد ا ُسے اور ا ُس کی بیٹی کو تکلیف پہنچانا ہے۔ ا ُنھیں پریشان کرنے کیلئے ایسا کر رہا ہوں۔‘‘‬
‫’’نہیں۔ وہ میری کوئی بھی بات سننے کو تیار نہیں۔ ا ُس کے مطابق میں جھوٹ بول رہا ہوں۔ میرا‬
‫اصل مقصد ا ُسے اور ا ُس کی بیٹی کو تکلیف پہنچانا ہے۔ ا ُنھیں پریشان کرنے کیلئے ایسا کر رہا ہوں۔‘‘‬
‫کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔‬
‫سکینہ بیگم ا ُن کے پیچھے چل پڑیں۔‬
‫وجاہت علی آ کر ایک صوفے پہ گر سے گئے۔ سر صوفے کی پشت پہ ڈال کر آنکھیں بند کر لیں۔‬
‫’’آپ نے تو کہا تھا کہ کسی کو بھیجیں گے اس سے بات کرنے۔ کیا بنا؟‘‘‬
‫وہ سر ا ُٹھا کر سیدھا ہو بیٹھے۔‬
‫’’ہاں۔ بھیجا تھا ایک جاننے والے کو۔ اسرار کے ساتھ بھی اس کے اچھے تعلقات ہیں۔ اسرار نے‬
‫ا ُسے ا ُلٹا میرے خالف کر دیا ہے۔ وہ ا ُلٹا مجھے بُرا بھال کہہ رہا تھا۔‘‘‬
‫س توہین سے سرخ ہو گیا۔‬ ‫وجاہت علی کا چہرہ احسا ِ‬
‫سکینہ بیگم فورا ً کچھ نہ بولیں۔ کچھ دیر سوچ کر پوچھنے لگیں۔‬
‫’’ڈاکٹر سمیع کے بارے میں کیا خیال ہے؟۔۔۔ اگر ڈاکٹر سمیع جا کر اس سے بات کریں اور ا ُسے‬
‫رجب کی حالت سے آگاہ کریں تو شاید وہ مان جائے۔۔۔ آخر کو ہوسپٹل بھی تو آیا تھا وہ۔‘‘‬
‫ڈاکٹر سمیع کے نام پہ انھوں نے آنکھیں پھاڑ کر سکینہ بیگم کو دیکھا۔ سکینہ بیگم اپنی بات مکمل‬
‫کر چکیں تو طنزیہ بولے۔‬
‫’’یہ صحیح ہے۔۔۔۔ ِاس طرح تو وہ اچھا بھال بھیجنے کو راضی ہوا بیٹھا بھی ُمکر جائے۔ کہے گا‬
‫کہ میں اپنے پاگل بیٹے کے ساتھ ا ُس کی بیٹی باندھ رہا ہوں۔ ساری دنیا میں جو یہ خبر پھیالئے گا‪ ،‬وہ‬
‫الگ۔۔۔ ہر کوئی رجب کو پاگل کہے گا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو احساس ہوا کہ انھوں نے کتنی غلط تجویز دی تھی۔ پھر بھی وہ ہّمت ہارنے کو تیار‬
‫نہیں تھیں۔ کوئی اور راہ تالش کرنے لگیں۔ تھوڑی سی سوچ بچار کے بعد انھیں ایک اور حل سوجھا۔‬
‫وجاہت علی کو دیکھا اور جھجکتے ہوئے بولیں۔‬
‫’’میں بات کروں ا ُس سے؟۔۔۔۔ ہم بچپن میں ایک ساتھ کھیل کر بڑے ہوئے ہیں۔ مجھ سے وہ اتنا ُروڈ‬
‫نہیں ہو سکتا۔‘‘‬
‫’’کوئی فائدہ نہیں۔ وہ تمہاری بھی نہیں سنے گا‪ ،‬مجھے معلوم ہے۔۔۔۔ اسپتال میں تم نے کوشش‬
‫کی تھی ناں صفائی دینے کی۔۔۔ کیا ہوا تھا؟۔۔۔ تمہاری بات کاٹ کر اپنی سنا کر چلتا بنا تھا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے یہ تجویز بھی رد کر دی۔‬
‫پھر پُرسوچ انداز میں بولے۔‬
‫’’مایوس مت ہو۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی راہ تالش کر لوں گا۔ اپنے بیٹے کو پاگل خانے کسی صورت نہیں‬
‫بھیجوں گا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے سر جھکا لیا۔ وہ بھی نہیں چاہتی تھیں کہ رجب پاگل خانے جائے۔ لیکن ا ُسے گھر‬
‫میں رکھنے کی کوئی راہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔‬
‫’’رجب کیسا ہے؟ اکیال تو نہیں چھوڑ رکھا ا ُسے؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے اچانک خیال آنے پہ پوچھا۔‬
‫سکینہ بیگم نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’نہیں۔ ہاشم ہے ا ُس کے پاس۔۔۔‘‘ انھوں نے رجب کے کیئرر کا نام لیا۔ مزید بتاتے ہوئے بولیں۔‬
‫’’ ویسا ہی ہے۔ ہوش میں آتا ہے تو چیخنا چالنا شروع کر دیتا ہے۔ اپنے ہاتھ پاؤں کھول کر بھاگنے‬
‫کی کوشش کرتا ہے۔ اس کوشش میں اپنی کالئیاں تک زخمی کر لی ہیں ا ُس نے۔‘‘‬
‫وہ بہت مایوس اور دکھی تھیں۔‬
‫وجاہت علی جواب میں لب بھینچ کر رہ گئے۔ بےبسی کا احساس انھیں شدت سے ہو رہا تھا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫عمران اور کنزہ کی شادی کا موقع تھا۔ شادی ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ نکاح ہو چکا تھا اور‬
‫عمران اور کنزہ کی شادی کا موقع تھا۔ شادی ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ نکاح ہو چکا تھا اور‬
‫رخصتی کا وقت عنقریب تھا۔ سامنے اسٹیج پہ دولہا اور دلہن بیٹھے تھے۔ دلہن کے گھر والے اور عزیز و‬
‫اقارب اسٹیج پہ دولہا‪ ،‬دلہن کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر کھینچوا رہے تھے۔‬
‫وہ ہال میں لگی کرسیوں کی پہلی رو میں بیٹھی تھی جو خصوصی طور پہ دولہے والوں کے لئے‬
‫رکھوائی گئی تھیں۔ موقعے کی مناسبت اور دولہے کی بہن ہونے کے ناطے وہ بہت اچھے سے تیار ہوئی‬
‫تھی۔ بالشبہ وہ سب میں ممتاز اور خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ لبوں پہ مسکراہٹ لئے وہ سامنے‬
‫اسٹیج پہ چلتا فوٹو سیشن دیکھ رہی تھی جب خاندان کی ایک خاتون ا ُس کے پاس آن کھڑی ہوئیں۔‬
‫’’ہائے شوال!۔۔۔۔ یہ تم ہو؟۔۔۔ پہچانی ہی نہیں جا رہی۔‘‘‬
‫خاتون نے تحّیر کا اظہار خاصے اجڈ پن سے کیا۔‬
‫اس نے آواز پہ چہرہ موڑ کر دیکھا اور خوشدلی سے مسکرائی۔‬
‫’’کیسی ہیں شمشاد خالہ!؟‘‘‬
‫پوچھتے ہوئے ا ُس نے بغل والی کرسی پر سے اپنا کلچ بیگ اٹھا لیا۔‬
‫ُ‬
‫شمشاد بیگم جیسے اس کے کلچ بیگ ا ُٹھانے کی منتظر تھیں۔ جھٹ سے اپنے وجود کا ڈھیر کرسی‬
‫پہ لگا دیا۔‬
‫’’میں تو اهلل کا کرم ہے ٹھیک ٹھاک ہوں۔‘‘ جتانے کے انداز میں اپنا حال بیان کیا۔‬
‫پھر کریدنے کے انداز میں پوچھنے لگیں۔‬
‫’’تمہارا سنا تھا کہ تمہارا ِمس کیریج ہو گیا ہے۔۔۔ اور تم شوہر کا گھر بھی چھوڑ کر میکے آ‬
‫بیٹھی ہو؟‘‘‬
‫پھر لہجے اور آنکھوں میں جلن اور چبھن سمو لی۔‬
‫’’میں تو تم سے اظہاِر افسوس کرنا چاہتی تھی۔ لیکن تم تو بہت خوش لگ رہی ہو!‘‘‬
‫ا ُس کے چہرے پہ سایہ سا آ کر لہرا گیا۔ اسے اسرار احمد کی نصیحت یاد آئی جو انھوں نے گھر‬
‫سے نکلتے وقت اسے کی تھی۔‬
‫’’تم آج اس واقعے کے بعد پہلی بار لوگوں کے اتنے بڑے مجمعے میں جا رہی ہو۔ خیال رکھنا کہ‬
‫ِاس بھیڑ میں بہت سے ُلوزرز بھی ملیں گے۔۔۔ ِان لُوزرز کی ایک خاصّیت یہ بھی ہے کہ خود تو اپنی زندگی‬
‫کی مشکالت کے آگے لیٹے پڑے ہوتے ہیں۔ لیکن کسی اور کو آگے بڑھتا دیکھتے ہیں تو ا ُس کا پائنچہ پکڑ کر‬
‫ا ُسے بھی ِگرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی ناکامی کو غرور کی چادر میں چھپاتے ہیں اور ِکسی دوسرے‬
‫کی کامیابی پہ اعتراضات کی ا ُنگلیاں ا ُٹھاتے ہیں۔۔۔ مختلف طرح کی ِدل شکن باتیں سناتے ہیں۔۔۔ ایسے‬
‫لوگوں سے خبردار رہنا۔ جو لوگ تمہیں ُدکھ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ا ُن کی باتوں کو ِدل سے لگا کر تمہیں‬
‫ا ُن کو خوش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘‬
‫وہ اپنے خیال سے ِنکلی اور شمشاد بیگم کو دیکھ کر ُمسکرائی۔‬
‫’’آپ کس بات کا اظہاِر افسوس کرنا چاہتی تھیں خالہ!؟۔۔۔ آپ کے روّیے اور باتوں سے تو لگ رہا‬
‫ہے کہ آپ کو مجھے خوش دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے۔‘‘‬
‫شمشاد خالہ ایسے صاف جواب کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔ غصے میں آکر وہ بھی سیدھے وار پہ‬
‫ا ُتر آئیں۔‬
‫’’ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔ میں تو بس تمہیں یہ سمجھانا چاہتی تھی کہ جو لڑکیاں اپنے ماں‬
‫باپ کی مرضی کے خالف جا کر بھاگ کر شادی کرتی ہیں۔ ا ُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔‬
‫تم نے اپنے باپ کی نافرمانی کی تھی۔ دیکھ لو‪ ،‬تمہارے ساتھ کیا ہوا۔‘‘‬
‫سکرا کر پی گئی۔ چہرے پہ مصنوعی پچھتاوا ال کر بولی۔‬ ‫وہ یہ زہر م ُ‬
‫’’اب کیا کریں خالہ!۔۔۔ میں آپ کی بیٹی جیسی فرمانبردار نہیں بن سکی۔۔۔ آپ کی بیٹی نے تو‬
‫آنکھیں بند کر کے وہیں شادی کی جہاں آپ کی مرضی تھی۔‘‘‬
‫شمشاد بیگم کی گردن غرور سے اکڑ گئی۔‬
‫’’لیکن سنا ہے کہ اس کے شوہر نے ا ُسے کسی کے ساتھ دیکھ لیا تھا تو اس وجہ سے ا ُسے گھر‬
‫شمشاد بیگم کی گردن غرور سے اکڑ گئی۔‬
‫’’لیکن سنا ہے کہ اس کے شوہر نے ا ُسے کسی کے ساتھ دیکھ لیا تھا تو اس وجہ سے ا ُسے گھر‬
‫سے نکال دیا ہے؟‘‘‬
‫جتانے کے بعد شمشاد بیگم کی طرفداری کرنے کے انداز میں بولی۔‬
‫’’ اگر اس کے تعلقات کسی اور لڑکے کے ساتھ ہیں تو کیا ہوا؟۔۔۔ آپ کی فرمانبردار تو وہ ہے ناں!‘‘‬
‫شمشاد بیگم کی تو ہوا ِنکل گئی۔ انھیں ہرگز توقع نہیں تھی کہ شوال ا ُن کے منہ پہ ایسی کوئی‬
‫بات کہے گی۔ بالشت بھر کی لڑکی نے ا ُنھیں بےعزت کر کے رکھ دیا تھا۔ ا ُن کا دماغ گھوم گیا۔ بہت ِدل‬
‫چاہا کہ یہیں پہ ہنگامہ کر کے ا ُسے خوب برا بھال کہیں۔ لیکن ِدل کی خواہش ِدل میں ہی دبا دی۔ کچھ‬
‫بھی کہنے میں ان کی اپنی بےعزتی تھی۔‬
‫ُ‬
‫شمشاد بیگم کو اپنی اور خونی نظروں سے دیکھتا پا کر اس نے بھنوئیں تان کر انھیں مزید کچھ‬
‫کہنے کا چیلنج کیا۔ شمشاد بیگم غصے سے اس کے پاس سے ا ُٹھ گیئیں۔‬
‫وہ مسکرائی اور سر جھٹک کر نظریں واپس اسٹیج پہ جما دیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫پھر باقی کا فنکشن اچھے سے گزر گیا۔ دلہن کی رخصتی کے وقت وہ ہال کے انٹرینس میں کھڑی‬
‫تھی۔‬
‫کامران اور اسرار احمد‪ ،‬دولہا بنے عمران کے ہمراہ اسٹیج پہ کھڑے تھے۔ سامنے کا منظر دیکھتے‬
‫ہوئے ا ُسے احساس ہی نہ ہوا کہ کب ا ُداسی نے دبے پاؤں آکر ا ُس کے اندر بسیرا کر لیا۔‬
‫علیزہ‪ ،‬اس کی ماں اور باقی بہن‪ ،‬بھایئوں نے روتے ہوئے کنزہ کے گلے لگ کر ا ُسے الود ٰ‬
‫ع کہا۔ پھر‬
‫کنزہ کے والد صاحب کی باری آئی۔ وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کنزہ کے قریب آئے اور کنزہ کے سر پہ‬
‫ہاتھ رکھ کر ا ُسے دعائیں دینے لگے۔‬
‫اس کا ِدل کسی ا َن دیکھے شکنجے نے جکڑ لیا۔ سانس لینا دشوار ہو گیا۔ ارد گرد کی ہر چیز سے‬
‫وحشت ہونے لگی۔ گھٹن کا احساس بڑھنے لگا۔ پہلے وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔ پھر وہ خود پہ اختیار کھو‬
‫بیٹھی اور ُمڑ کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔ شوال کہاں چلی گئی؟‘‘‬
‫پورے ہال میں کھلبلی مچ گئی۔‬
‫اسرار احمد اور دونوں بھایئوں کے عالوہ دولہن اور اس کے گھر والے بھی بری طرح گھبرا گئے۔‬
‫ایسی غیر متوقع صورتحال تھی کہ فورا ً کوئی فیصلہ کرنا مشکل تھا۔‬
‫کامران نے ہوشمندی اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بروقت ایک معقول فیصلہ کیا۔‬
‫’’آپ جاری رکھیے۔ میں اس کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘‬
‫جلدی سےاسرار احمد اور عمران سے کہا اور شوال کے پیچھے بھاگا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رات کے اس وقت وہ فُٹ پاتھ پہ بھاگتی چلی جارہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو‬
‫اور قدموں کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ دیوانہ وار بھاگتے ہوئے وہ خود نہیں جانتی تھی کہ‬
‫وہ کہاں جا رہی ہے۔‬
‫’’شوال!۔۔ ُرکو۔۔۔۔ کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔۔ شوال!۔۔ ُرک جاؤ۔‘‘‬
‫کامران ا ُس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آوازیں دے رہا تھا۔ مگر وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔‬
‫باآلخر سڑک کے موڑ تک پہنچتے پہنچتے کامران نے ا ُسے جا لیا۔‬
‫’’چھوڑ دیجیئے۔ مجھے چھوڑ دیجیئے۔‘‘‬
‫وہ کامران کے ہاتھوں میں مچلی جا رہی تھی۔‬
‫’’شوال! ہوش میں آؤ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔‘‘‬
‫وہ کامران کے ہاتھوں میں مچلی جا رہی تھی۔‬
‫’’شوال! ہوش میں آؤ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔‘‘‬
‫کامران نے ا ُسے کندھوں سے پکڑے ہوئے جھنجھوڑ ڈاال۔ وہ شدت سے رو رہی تھی۔‬
‫’’میں اس شادی میں واپس نہیں جاؤں گی۔۔۔ میں نہیں دیکھ سکتی وہ سب۔۔۔۔ ساری دنیا‬
‫کی بیٹیوں کی شادی ہوتی ہے تو ا ُن کا باپ انھیں ُدعائیں دے کر رخصت کرتا ہے۔ لیکن جب میری شادی‬
‫ہوئی تھی تو میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ تم اب مر چکی ہو۔‘‘ پاگلوں کی طرح روتے ہوئے ا ُس نے زخمی‬
‫لہجے میں کہا۔‬

‫کامران نے تڑپ کر ا ُسے سینے سے لگا لیا۔‬


‫’’ایسے مت کہو شوال!۔۔۔ ایسے مت کہو۔‘‘‬
‫ا ُس کا درد اور وہ الفاظ کامران کو اندر سے تڑپا گئے۔ تسلی آمیز انداز میں دونوں ہاتھوں‬
‫سے ا ُس کے سر کے بال سہالتے ہوئے بوال۔‬
‫چپ۔۔۔ تم شادی میں واپس نہیں جانا چاہتی ناں!۔۔۔۔ کوئی بات نہیں۔۔۔ ہم گھر چلتے‬ ‫چپ۔۔۔ ُ‬‫’’ ُ‬
‫ہیں۔‘‘‬
‫کامران کے دالسہ دینے پہ وہ خود کو سنبھالنے لگی۔‬
‫کامران نے اپنا ایک ہاتھ ا ُس کی پیٹھ پہ ِٹکائے ہوئے دوسرے ہاتھ سے اپنی جیب سے فون‬
‫نکاال اور اسرار احمد کو کال مالئی۔ پہلی گھنٹی پہ ہی اسرار احمد نے کال ریسیو کر لی۔‬
‫’’ہیلو کامران!۔۔۔ کیا ُہوا؟‘‘‬
‫اسرار احمد بہت مضطرب تھے۔‬
‫’’کچھ نہیں پاپا! آپ گھبرائیں نہیں۔۔۔ شوال میرے ساتھ ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔ بس ہم‬
‫ٹیکسی لے کر سیدھے گھر جا رہے ہیں۔ آپ سے باقی بات گھر پہ ہوگی۔ ٹھیک ہے؟‘‘‬
‫کامران نے تسلی آمیز لہجے میں کہہ کر آخر میں ا ُن کی رائے طلب کی۔‬
‫’’ہوں۔۔۔ ٹھیک ہے۔ اپنا اور شوال کا خیال رکھنا۔‘‘‬
‫اسرار احمد کو بھی یہ مناسب لگا۔‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫کامران نے کہہ کر کال کاٹ دی اور شوال کو پہلو سے لگائے ٹیکسی کی تالش میں نظریں‬
‫دوڑانے لگا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رات کے وقت وجاہت علی اور سکینہ بیگم ہال میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔‬
‫’’ مجھے لگتا ہے کہ اسرار کو منانے کے چکر میں مَیں صرف اپنا وقت برباد کر رہا ہوں۔۔۔۔‬
‫مجھے ڈائریکٹ شوال سے بات کرنی چاہیئے۔‘‘‬
‫’’شوال کو اپروچ کیسے کریں گے؟۔۔۔ بالفرض وہ کہیں ِمل بھی جاتی ہے‪ ،‬تو بھی ا ُسے راضی‬
‫کیسے کریں گے؟۔۔۔۔‬
‫پہلے کی طرح دوبارہ ا ُٹھا کر تو نہیں الیا جاسکتا۔ ایسا کر کے تو اپنے ہی پاؤں پہ کلہاڑی‬
‫ماریں گے۔ نہ شوال مانے گی اور نہ ہی رجب ہمیں معاف کرے گا۔۔۔۔ اسرار راضی ہو جاتا تو وہ خود ہی‬
‫شوال کو بھی منا لیتا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔‬
‫وجاہت علی پُرسوچ انداز میں بولے۔‬
‫’’ہوں۔۔۔۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔۔۔ شوال تک پہنچنا اور ا ُسے راضی کرنا بہت مشکل ہے۔‬
‫لیکن ِاس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کوشش تو کرنی ہی ہوگی۔‘‘‬
‫’’اگر ا ُس کا موبائل نمبر کہیں سے ِمل جائے تو؟‘‘‬
‫لیکن ِاس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کوشش تو کرنی ہی ہوگی۔‘‘‬
‫’’اگر ا ُس کا موبائل نمبر کہیں سے ِمل جائے تو؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو ایک راہ سجھائی دی۔‬
‫وجاہت علی نے ا ُسی ُپرسوچ اندازمیں نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’میں کوشش کر چکا ہوں۔ شاید ا ُس نے فون نہیں رکھا ہوا۔‘‘‬
‫پھر نفرت سے بولے۔‬
‫’’بہت چاالک ہے اسرار۔۔۔۔ وہ ا ُسے کوئی بھی ایسی چیز استعمال نہیں کرنے دے گا ِ‬
‫ج س کے‬
‫ذریعے ہم ا ُس سے رابطہ کر سکیں۔‘‘‬
‫تب ہی ہاشم سیڑھیاں ا ُتر کر وہاں آن پہنچا۔‬
‫’’اب میں جاؤں سر!‘‘‬
‫وجاہت علی سے اجازت طلب کی۔‬
‫’’رجب سو گیا؟‘‘ وجاہت علی نے پوچھا۔‬
‫’’جی سر!۔۔۔ انھیں سوئے ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے۔‘‘ ہاشم نے جواب دیا۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔ مگر جلدی واپس آنا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اجازت دی۔‬
‫’’جی سر!‘‘‬
‫ہاشم سر ہال کر بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔‬
‫’’یہ کہاں جا رہا ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے تعجب سے استفسار کیا۔‬
‫’’اسے کوئی پرسنل کام ہے۔۔ کہہ رہا تھا کہ ضروری نمٹانا ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ رجب کے‬
‫سونے کے بعد چلے جانا۔‘‘ وجاہت علی نے مختصرا ً آگاہ کیا۔‬
‫سکینہ بیگم جواب میں کچھ نہ بولیں۔ انھیں اب رجب کی ِفکر ہونے لگی تھی۔‬
‫’’کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔۔۔ رجب کا رویہ الگ سے مجھے دہال رہا ہے۔۔۔ جانے وہ‬
‫لڑکا اتنا خاموش کیوں ہو گیا ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے بڑبڑانے کے انداز میں اپنی پریشانی بیان کی۔‬
‫’’مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی۔ لیکن پہلے سے تو اچھا ہے ناں!۔۔۔۔‬
‫پہلے تو قابو میں ہی نہیں آتا تھا۔ خودکشی کے لئے‪ ،‬اور یہاں سے بھاگنے کے لئے اتنا بےقرار‬
‫تھا کہ خود کو چھڑانے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں زخمی کر لیتا تھا۔ اچھا ہے کہ اب شانت ہو گیا ہے۔‬
‫زیادہ تر سویا پڑا رہتا ہے۔ فی الحال ا ُس کے لئے یہی اچھا ہے’‘‘‬
‫وجاہت علی نے بھی تبصرہ کیا۔‬
‫’’ِاسی وجہ سے تو میں خوفزدہ ہوں۔ا ُس کی یہ خاموشی کسی طوفان کا پتا دے رہی ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اپنے خدشات ظاہر کئے۔‬
‫’’بُری باتیں مت سوچو۔۔۔ اب اتنی تو تسلی ہے کہ کم از کم اب وہ بستر سے بندھا نہیں رہتا۔‬
‫گھر کے اندر آزادی سے گھوم پھر لیتا ہے۔ یہ بھی بڑی بات ہے۔‬
‫ویسے بھی۔۔ ہاشم ہر وقت ا ُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے زیادہ ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کے برعکس وجاہت علی رجب کی خاموشی سے مطمعین تھے۔‬
‫اچانک انھیں اپنے فون کی ہلکی ہلکی رنگ ٹون سنائی دینے لگی۔‬
‫’’یہ میرا فون ہے۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے آواز پہ کان لگاتے ہوئے کہا۔‬
‫پھر کوفت سے بولے۔‬
‫’’ایک تو میں ِاسے کمرے میں ہی بھول آیا ہوں۔۔۔ مصیبت!۔۔۔۔ پتا نہیں ِکس کی کال ہے۔‘‘‬
‫’’میں ا ُٹھا التی ہوں۔‘‘‬
‫’’ایک تو میں ِاسے کمرے میں ہی بھول آیا ہوں۔۔۔ مصیبت!۔۔۔۔ پتا نہیں ِکس کی کال ہے۔‘‘‬
‫’’میں ا ُٹھا التی ہوں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہتے ہوئے اپنا کپ میز پہ رکھا۔‬
‫’’رہنے دو۔۔۔ اب اوپر ہی چلتے ہیں۔۔۔ تم بھی کپ کچن میں رکھ کر آ جاؤ۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کپ میز پہ رکھا اور ا ُٹھ کر اوپر کی طرف چل دیئے۔‬
‫اوپر پہنچنے کے بعد وہ رجب کے کمرے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔‬
‫رجب کے کمرے کے دروازے کے اوپر بنے روشندان سے روشنی باہر فرش پہ پڑ رہی تھی۔‬
‫مستطیل کی شکل میں فرش پہ پڑتی ا ُس روشنی میں ا ُنھیں کچھ سائے سے لہراتے دکھائی دیئے۔ چونکہ‬
‫ا ُن کا پورا دھیان اپنے فون پہ آئی کال کی طرف تھا۔ اس لئے فورا ً غور نہیں کیا اور ان سایوں پہ پاؤں‬
‫رکھتے گزر گئے۔ مگر پھر فورا ً ہی ایسے لڑکھڑا کر پلٹے جیسے ا ُنھیں ا ُن سایوں سے ٹھوکر لگی ہو۔ پھٹی‬
‫سرے پہ گرہ لگا رہے تھے۔‬‫پھٹی آنکھوں سے انھوں نے بغور وہ سائے دیکھے۔ دو ہاتھ ایک لٹکتی رسی کے ِ‬
‫’’اوہ نَو۔‘‘‬
‫ان کے قدموں کے نیچے سے زمین سرک گئی۔ بھاگ کر رجب کے کمرے کی ناب گھمائی مگر‬
‫ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دروازہ اندر سے الکڈ تھا۔‬
‫’’ رجب!‘‘‬
‫وہ چالئے۔ پھر دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔‬
‫’’دروازہ کھولو رجب!۔۔۔ ایسے مت کرو۔۔۔ رجب!‘‘‬
‫وہ دروازے کو دھکے دے کر توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔‬
‫’’کیا ہوا؟‘‘‬
‫حواس باختہ سی سکینہ بیگم وہاں آن پہنچیں۔‬
‫’’جلدی سے نوکروں کو بالؤ۔ رجب اندر خودکشی کر رہا ہے۔۔ بھاگو۔ جلدی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے مختصرترین الفاظ میں بتا کر سکینہ بیگم کو حکم دیا۔ سکینہ بیگم نے رِدعمل‬
‫ظاہر کرنے پہ بھی وقت ضائع نہ کیا اور واپس نیچے کی طرف دوڑ لگا دی۔‬
‫’’رجب!۔۔‘‘‬
‫ِ‬
‫انھوں نے پھر سے ناب گھما کر الک توڑنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی ناکام رہے۔‬
‫اندر رجب بیڈ پہ لیدر کا ُفٹ سٹول رکھ کر ا ُس پہ کھڑا تھا۔ چھت پہ لگی پنکھے کی ُہک میں‬
‫رسی ڈالے ا ُس کے سرے پہ وہ اپنے لئے پھندا تیار کر رہا تھا۔ وجاہت علی کے دروازہ پیٹنے پہ اس کے‬
‫ہاتھوں کی حرکت میں تیزی آ گئی تھی۔ پھندا تیار کر کے ا ُس نے گرہ کی مضبوطی چیک کرنے کے لئے‬
‫رسی کھینچی تو ُہک پہ پڑی گرہ فورا ً کھل گئی۔ وہ سخت جھالیا۔ پھر سے رسی کی ملبائی متعین کرکے‬
‫جلدی جلدی گرہیں لگانے لگا۔ باہر سے آتی آوازوں سے پتا چل رہا تھا کہ باہر کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں۔‬
‫دروازے پہ لگتی ضربوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ا ُس نے جلدی سے پھندا گلے میں ڈاال اور اپنے پیروں کے‬
‫نیچے سے سٹول کھسکا ِدیا۔ ا ُسی آن دروازہ توڑ کر وجاہت علی اور ا ُن کے دو نوکر اندر کمرے میں داخل‬
‫ہوئے۔ سکینہ بیگم ا ُن کے پیچھے داخل ہوئیں اور سامنے پھندے سے لٹکتا اپنے جوان بیٹے کا وجود دیکھ کر‬
‫ا ُن کی چیخیں ِنکل گیئیں۔‬
‫وجاہت علی بھاگتے ہوئے بیڈ پہ جا چڑھے اور اس کا تڑپتا وجود اپنی بانہوں میں جکڑ کر‬
‫اونچا کیا تاکہ پھندا مزید تنگ نہ ہو۔ اتنے میں شاہد نے ُفٹ سٹول واپس بیڈ پہ رکھا اور منیر نے ا ُس پہ‬
‫کھڑے ہو کر رجب کے گلے سے پھندا نکال دیا۔‬
‫رجب بےہوش ہو چکا تھا۔ شاہد اور وجاہت علی نے ا ُسے احتیاط سے تھام کر بیڈ پہ لٹایا۔ ا ُس‬
‫کی سانس اٹک گئی تھی۔‬
‫’’رجب!۔۔ رجب!۔‘‘‬
‫وجاہت علی کا ِدل کانپ رہا تھا۔ وہ ا ُس کی سانس بحال کرنے کے لئے ا ُس کی چھاتی پہ دباؤ‬
‫ڈالنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم بھی کانپتے وجود کے ساتھ آگے بڑھیں اور رجب کے قریب آ کھڑی ہوئیں۔‬
‫ڈالنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم بھی کانپتے وجود کے ساتھ آگے بڑھیں اور رجب کے قریب آ کھڑی ہوئیں۔‬
‫کھردری رسی نے رجب کی گردن چھیل دی تھی۔ ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔‬
‫منیر ہک سے پھندا ا ُتار کر خود بھی نیچے ا ُتر آیا۔ پھندا بیڈ کے کونے پہ ڈال کر بوال۔‬
‫’’میں ایمبولینس بالتا ہوں۔‘‘‬
‫کہہ کر وہ عجلت میں کمرے سے باہر نکل گیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسپتال کے کوریڈور میں وہ دونوں منتظر بیٹھے تھے۔‬


‫ِ‬
‫’’میں کہتی تھی ناں! کہ مجھے ا ُس کی خاموشی سے ڈر لگتا ہے۔۔۔ وہ بہت دنوں سے‬
‫سی؟۔۔۔۔ وہ رسی اس نے کسی ِدن سرونٹ کوارٹرز کے‬ ‫خودکشی کا پالن بنا رہا تھا۔۔۔ آپ نے دیکھی وہ ر ّ‬
‫اسٹور روم سے ا ُٹھائی ہے۔۔۔ ہر وقت خاموش رہنے اور سونے کا ناٹک کرتا تھا۔ تاکہ ہم اس کو تنہا چھوڑ‬
‫دیں۔۔ اور وہی ہوا۔ ہم اس کے جھانسے میں آگئے۔۔۔ جیسے ہی ہم نے اسے سویا ہوا سمجھ کر تنہا‬
‫چھوڑا‪ ،‬اس نے اپنے منصوبے پہ کام کرنا شروع کر دیا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم غمزدہ آواز میں کہہ رہی تھیں۔‬
‫ا ُن کی آواز مدھم اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ اپنی بات مکمل کر کے وہ رونے لگیں۔‬
‫’’بس کرو سکینہ!۔۔۔ حوصلہ کرو۔‘‘‬
‫’’کہاں سے الؤں حوصلہ؟۔۔۔ وہ خوفناک منظر دیکھنے کے بعد کہاں سے الؤں حوصلہ؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے روتے ہوئے کہا۔‬
‫تب ہی ڈاکٹر صاحب کمرے سے نکل کر باہر آئے۔‬
‫ِ‬
‫’’آپ اب مریض کو گھر لے جاسکتے ہیں۔ ابھی دو تین دن تک انھیں بولنے میں پرابلم ہوگی۔‬
‫لیکن ِفکر کی کوئی بات نہیں۔ جلد ہی انشااهلل گلے کو پہنچے زخم بھی بھر جائیں گے۔‘‘‬
‫ڈاکٹر صاحب رجب کی حالت سے آگاہ کرکے آگے بڑھ گئے۔‬
‫’’شکر ہے اهلل میاں!۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے منہ پہ ہاتھ پھیرا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’پاپا! آپ نے مجھے بالیا؟‘‘‬


‫شوال اسرار احمد کی اسٹڈی میں داخل ہوئی۔‬
‫’’ہاں!۔۔۔ آؤ بیٹھو۔‘‘‬
‫اسرار احمد ٹیبل کے اس پار بیٹھے تھے۔ ا ُسے اپنے مقابل بیٹھنے کا اشارہ کیا۔‬
‫شوال قدرے جھجکتی ہوئی کرسی کھینچ کر بیٹھ گئی۔ ا ُسے کچھ کچھ اندازہ تھا کہ اسرار‬
‫احمد اس سے کس بارے میں بات کرنا چاہتے تھے۔‬
‫’’تم اور علیزہ اب خوش تو ہوگی کنزہ کے آنے سے؟۔۔۔ اس کی بہن ہے اور تمہاری بچپن کی‬
‫سہیلی۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے گویا تہمید باندھی۔ لہجہ کسی حد تک دوستانہ تھا۔‬
‫ا ُس نے مجرموں کی طرح سر جھکائے ہوئے بس اثبات میں سر ہالنے پہ اکتفا کیا۔‬
‫’’ا ُس کی رخصتی کے وقت تم خاصی ڈسٹرب ہو گئی تھی۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کہتے ہوئے اس کا چہرہ بغور دیکھا۔ شوال نے شرمندگی سے بوجھل سر ا ُٹھا‬
‫کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’آئم سوری پاپا!۔۔۔ میری اس حرکت کی وجہ سے آپ کو خاصی پریشانی اور شرمندگی کا‬
‫سامنا کرنا پڑا ہوگا۔‘‘‬
‫’’آئم سوری پاپا!۔۔۔ میری اس حرکت کی وجہ سے آپ کو خاصی پریشانی اور شرمندگی کا‬
‫سامنا کرنا پڑا ہوگا۔‘‘‬
‫اس کی آواز بھی شرمندگی کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔‬
‫اسرار احمد نے فورا ً نفی میں سر ہالیا۔‬
‫چکا ہے۔۔۔ معافی تمہیں نہیں‪ ،‬مجھے مانگنی چاہیئے۔‘‘‬ ‫’’کامران مجھے سب بتا ُ‬
‫اسراراحمد کی بھی آواز شرمندگی سے لبریز تھی۔‬
‫اس نے چونک کر انھیں دیکھا۔ وہ بہت افسردہ اور پشیمان تھے۔ وہ وقت یاد کرتے ہوئے انھوں‬
‫نے لب کشائی کی۔‬
‫’’کبھی کبھی انسان کو اپنے منہ سے الفاظ نکالتے وقت احساس ہی نہیں ہوتا کہ ا ُس کے‬
‫الفاظ سامنے والے کو کتنی گہری چوٹ پہنچا رہے ہیں۔‘‘‬
‫وہ نہایت شرمندہ اور متاسف تھے۔ بولے۔‬
‫’’تم جانتی ہو کہ میں اپنی عزت کے معاملے میں کتنا ٹچی تھا۔ وہ وقت میرے لئے بہت کڑا اور‬
‫تکلیف دہ تھا۔ میری عزت اور میری بیٹی۔ میری سب سے کمزور نسیں۔ اور دونوں پہ ہی ایک ساتھ وار ہوا‬
‫تھا۔۔۔۔ اس وجہ سے میں پہلے ہی بہت فرسٹریٹ تھا۔ اوپر سے جب تمہارا فون آیا تو مجھے تمہاری‬
‫صہ آیا کہ جب فون تمہارے پاس تھا تو بروقت مجھے کال کیوں نہیں کی؟۔۔۔ میں غصے‬ ‫بےوقوفی پہ بہت غ ّ‬
‫صہ تم پہ نکال دیا۔‘‘ تاسف سے کہتے ہوئے اسرار احمد آگے جھکے۔‬ ‫سے اتنا بھر گیا کہ سارا غ ّ‬
‫’’حقیقت کیا تھی۔ یہ تو مجھے تمہارے واپس آنے کے بعد تمہارے منہ سے پتا چلی شوال!۔۔۔‬
‫لیکن سّٹل )‪ (still‬میں اپنی ا ُس حرکت کو اینڈورس نہیں کروں گا۔ مجھے تمہیں وہ سب نہیں کہنا چاہیئے‬
‫تھا۔‘‘‬
‫ِ‬
‫اسرار احمد نے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ ا ُنکو اپنے منہ سے نکلے ا ُن الفاظ پہ بہت‬
‫پچھتاوا تھا۔‬
‫’’ِاٹس او۔کے پاپا!۔۔۔ میرا ِدل ضرور ُدکھا تھا۔ لیکن مجھے آپ سے کوئی شکایت نہیں ہے۔‘‘‬
‫ا ُس نے دھیرے سے کہہ کر سر جھکا لیا۔‬
‫اسرار احمد ا ُسے دیکھنے لگے۔ سمجھ میں نہ آیا کہ مزید کیا کہیں۔ پل دو پل وہ شوال کے‬
‫جھکے سر کو دیکھتے رہے۔ پھر بولے۔‬
‫’’میں تم سے ایک اور اہم موضوع پہ بات کرنا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫’’جی!‘‘‬
‫ِ‬
‫شوال نے پوری آمادگی کے ساتھ سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ جیسے ا ُن کی ہر بات سننے کو دل‬
‫و جان سے تیار ہو۔‬
‫’’تم نے اپنی آگے کی زندگی کے بارے میں کیا سوچا ہے؟‘‘‬
‫ا ُن کے سوال کے جواب میں وہ فورا ً کچھ نہ بول سکی۔ سر جھکا کر سوچنے لگی۔‬
‫اسرار احمد ا ُسے بغور دیکھ رہے تھے۔ وہ جواب سننے کے منتظر تھے۔‬
‫’’میں نے ابھی تک کچھ نہیں سوچا پاپا!۔۔ کیا سوچوں میں؟‘‘‬
‫کہتے ہوئے آخر میں سر ا ُٹھا کر اپنے باپ کو سوالیہ نظروں سے دیکھا۔‬
‫’’ کچھ نہ کچھ تو سوچنا چاہیئے تمہیں۔ ہمیشہ تو تم ِاسی حال میں ِاس گھر میں نہیں رہ‬
‫سکتی۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کہا تو ا ُس نے پھر سے سر جھکا لیا۔ وہ خاصے تذبذب کا شکار تھی۔‬
‫’’شوال!۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے نرمی سے پکارا۔‬
‫رسان سے سمجھاتے ہوئے بولے۔‬
‫’’یہ مت سمجھنا کہ تم مجھ پہ بوجھ ہو تو ِاس لئے کہہ رہا ہوں۔ اگر تمہاری جگہ میرا کوئی‬
‫بیٹا ہوتا تو ا ُسے بھی یہی کہتا۔‘‘‬
‫’’یہ مت سمجھنا کہ تم مجھ پہ بوجھ ہو تو ِاس لئے کہہ رہا ہوں۔ اگر تمہاری جگہ میرا کوئی‬
‫بیٹا ہوتا تو ا ُسے بھی یہی کہتا۔‘‘‬
‫اس نے جھکا ہوا سر ا ُٹھایا۔‬
‫’’آئی انڈرسٹینڈ پاپا! آپ کہیئے جو کہنا چاہتے ہیں۔ میں جاننا چاہتی ہوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد سنجیدگی سے گویا ہوئے۔‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫’’دیکھو شوال!۔۔۔۔ آئی انڈرسٹینڈ کہ تم اس وقت مینٹلی اس پوزیشن میں نہیں کہ میں تمہیں‬
‫دوسری شادی کا مشورہ دوں۔۔۔ ابھی یہ تمہارے لئے ممکن نہیں ہے۔۔۔‬
‫لیکن میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی زندگی کا یہ قیمتی وقت ضائع نہ کرو اور آگے بڑھو۔‬
‫اور آگے بڑھنے کے لئے تمہیں اپنے ماضی سے مکمل طور پر پیچھا چھڑانا ہو گا۔‘‘‬
‫شوال انھیں یوں دیکھنے لگی جیسے وہ ا ُن کی بات کا مطلب واضح طور پر نہ سمجھ پائی‬
‫ہو۔‬
‫اسرار احمد نے گہرا سانس خارج کیا۔‬
‫’’میں رجب کی بات کر رہا ہوں۔۔۔ ‘‘‬
‫سن کر ا ُس کا چہرہ تاریک ہو گیا۔‬ ‫رجب کا نام ُ‬
‫اسرار احمد نے اپنی بات جاری رکھی۔‬
‫’’میرے خیال سے ‪ِ ،‬اس وقت تمہارے لئے مناسب یہی ہے کہ تم ملک سے کہیں باہر چلی جاؤ۔‬
‫سرے سے اپنی زندگی کا آغاز کرو۔ زیادہ بہتر ہے کہ فردر اسٹڈیز اسٹارٹ کرلو۔‬ ‫وہاں جا کر بالکل نئے ِ‬
‫لیکن اگر تم ِاسی طرح رجب کے ساتھ رشتے میں بندھی رہو گی تو تمہارا ماضی ہمیشہ‬
‫تمہارے حال سے جڑا رہے گا۔‬
‫وہاں جا کر بھی یہ رشتہ قدم قدم پہ تمہارے آڑے آئے گا۔۔۔۔‬
‫جب بھی تم ماضی کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہو گی۔ یہ رشتہ تمہارے پیروں میں پڑی‬
‫ایک زنجیر کی طرح تمہیں پیچھے ماضی کی طرف کھینچتا رہے گا۔ ایسے میں تم اپنی زندگی میں کبھی‬
‫آگے نہیں بڑھ پاؤ گی۔‬
‫ِاسی لئے۔۔۔ میرا تمہیں یہ مشورہ ہے کہ تم خود کو ِاس بندھن سے آزاد کروا لو۔‘‘‬
‫شوال سر جھکائے ا ُن کے الفاظ پہ غور کرتی رہی۔ وہ اپنی بات مکمل کر چکے پھر بھی وہ‬
‫فورا ً کچھ نہ بولی۔‬
‫پھر ا ُس نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا اور اثبات میں سر ہالیا۔ بولی تو آواز ِکسی گہری کھائی‬
‫سے آتی محسوس ہوئی۔‬
‫’’آپ ٹھیک کہتے ہیں۔۔۔ جو رشتہ نبھانا نہیں‪ ،‬ا ُس کا بوجھ کندھوں پہ ا ُٹھا کر چلنے کا کیا‬
‫فائدہ؟۔۔۔۔۔۔‬
‫لیکن رجب۔۔۔‘‘‬
‫وہ اٹکی۔ پھر نفی میں سر ہالتے ہوئے بولی۔‬
‫’’ وہ مجھے اتنی آسانی سے طالق نہیں دے گا۔‘‘‬
‫’’ہوں۔۔۔‘‘ اسرار احمد نے اتفاق کیا۔ ’’اگر وہ دینے کو راضی ہو گا بھی‪ ،‬تو بھی وجاہت علی‬
‫اسے ایسا نہیں کرنے دے گا۔۔۔ وہ ہمیں تکلیف پہنچانے کا کوئی بھی موقع نہیں چھوڑے گا۔‘‘‬
‫پھر بولے۔‬
‫ِ‬
‫’’لیکن تم فکر نہ کرو۔۔۔۔ میں آج ہی کوئی اچھا سا وکیل تالش کرتا ہوں۔‘‘‬
‫وہ اب ِاس نئے اقدام کے بارے میں سوچنے لگی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد گھر کے الن میں بیٹھے اپنے فون پہ خبریں پڑھ رہے تھے جب انھیں گیٹ کے باہر‬
‫کچھ آوازیں سنائی دیں۔ وہ فون بند کر کے جیب میں رکھتے ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫اسرار احمد گھر کے الن میں بیٹھے اپنے فون پہ خبریں پڑھ رہے تھے جب انھیں گیٹ کے باہر‬
‫کچھ آوازیں سنائی دیں۔ وہ فون بند کر کے جیب میں رکھتے ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫گیٹ سے باہر آ کر دیکھا تو دونوں چوکیداروں کو وجاہت علی کو گھر میں داخل ہونے سے‬
‫روکتے پایا۔ وجاہت علی بھی چوکیداروں کے ساتھ منہ ماری کر رہے تھے۔ اسرار احمد کو دیکھ کر وجاہت‬
‫علی اور دونوں چوکیدار ُرک کر ا ُنکی طرف متوجہ ہو گئے۔‬
‫’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘‬
‫انھوں نے درشت لہجے میں وجاہت علی سے پوچھا۔‬
‫’’مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں شوال سے ملنے آیا ہوں اور ا ُس سے ِملے بنا نہیں‬
‫جاؤں گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی بدلحاظی سے چال ا ُٹھے۔‬
‫اسرار احمد نے گھبرا کر ِادھر ا ُدھر دیکھا۔ سوائے ا ُن چاروں کے گلی میں اور کوئی نہیں تھا۔‬
‫وہ ایک قدم آگے بڑھا کر دبی آواز میں غرائے۔‬
‫ِ‬
‫’’یوں سِرعام تماشہ مت کھڑا کرو۔ شوال تم سے نہیں ملے گی۔ دفعان ہو یہاں سے۔‘‘‬
‫’’آئی ڈونٹ کیئر۔ میں شوال سے ِملنے آیا ہوں اور آج مجھے ا ُس سے ملنے سے کوئی نہیں‬
‫روک سکتا۔‘‘‬
‫ِ‬
‫وجاہت علی جیسے اپنے ہوش کھو بیٹھے تھے۔ آج انھیں اپنے وقار تو کیا‪ ،‬اپنی عزت نفس تک‬
‫کی پرواہ نہیں تھی۔‬
‫’’کتنے نیچ اور گھٹیا قسم کے آدمی ہو تم۔۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے حقارت کے ساتھ ا ُنھیں مالمت کرتے ہوئے کہا اور بولے۔‬
‫’’اس کے ساتھ اتنا سب کرنے کے بعد بھی ِکس بےشرمی سے ا ُس کا نام اپنی زبان پہ ال رہے‬
‫ہو۔۔۔۔ جو کچھ تم لوگوں نے ا ُس کے ساتھ کیا ہے۔ ا ُس کے بعد وہ بہت مشکل سے سنبھلی ہے۔ اب دوبارہ‬
‫تم سے ِمال کر میں ا ُسے پھر سے تکلیف نہیں دوں گا۔‘‘‬
‫چکی ہے لیکن میرا بیٹا َمر رہا ہے۔ میں کیسے ا ُسے اپنی آنکھوں کے‬ ‫’’تمہاری بیٹی سنبھل ُ‬
‫سامنے مرتا دیکھوں؟‘‘ وجاہت علی پھر سے چِالئے۔‬
‫سن کر مالمتی انداز میں گردن نفی میں ہالئی اور استہزائیہ ہنسے۔‬ ‫اسرار احمد نے یہ ُ‬
‫’’باتیں سنو ِاس آدمی کی۔۔۔۔۔ ‘‘‬
‫انھوں نے خود کالمی کی۔ پھر وجاہت علی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھنے لگے۔‬
‫’’تمہارا بیٹا مر رہا ہے؟۔۔۔ ا ُسی بلڈ کینسر سے؟‘‘‬
‫’’اگر میں نے ایک دفعہ جھوٹ بوال تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ہمیشہ جھوٹا ہوں۔ تم‬
‫خود چل کر ا ُس کی حالت دیکھ لو۔‘‘‬
‫وجاہت علی کے ِدل پہ گہری چوٹ لگی تھی۔ بُری طرح سے تڑپ گئے۔‬
‫اسرار احمد نے دوسری اور چہرہ موڑ لیا۔ وجاہت علی کی باتوں پہ یقین نہ کرتے ہوئے وہ‬
‫مالمتی انداز میں نفی میں گردن ہال رہے تھے۔ ا ُن کے یا وجاہت علی کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی‬
‫شوال کی کار وہاں آ کر ُرکی۔ شوال دروازہ کھول کر گاڑی میں سے باہر ِنکلی ۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے‬
‫ایک نظر وجاہت علی اور دوسری اسرار احمد پہ ڈالی۔ اسے دیکھ کر وجاہت علی خوش اور اسرار احمد‬
‫پریشان ہو گئے۔‬
‫’’کیا ہو رہا ہے یہاں؟‘‘‬
‫شوال نے اسرار احمد سے دریافت کیا۔‬
‫سن لو۔ ُمجھے ایک‬ ‫’’شوال!۔۔۔ میں تم سے بات کرنے آیا ہوں۔۔۔ بیٹا پلیز۔ ایک بار میری بات ُ‬
‫موقع دو۔ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫اسرار احمد کو بولنے کا موقع دیئے بغیر وجاہت علی نے موقعے سے فائدہ ا ُٹھاتے ہوئے ا ُس‬
‫سے درخواست کی۔‬
‫اسرار احمد کو بولنے کا موقع دیئے بغیر وجاہت علی نے موقعے سے فائدہ ا ُٹھاتے ہوئے ا ُس‬
‫سے درخواست کی۔‬
‫’’میں تم سے کہہ چکا ہوں وجاہت! کہ شوال کو تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ جاؤ یہاں‬
‫سے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے گھبرا کر وجاہت علی کو ڈانٹا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وجاہت علی پھر سے‬
‫شوال کے زخموں کو کریدیں۔‬
‫’’میں شوال سے بات کرنے آیا ہوں۔ تم اپنا منہ بند رکھو۔‘‘‬
‫وجاہت علی پھر سے بدتمیزی سے اسرار احمد پہ چِالئے۔ شوال یہ صورتحال دیکھ کر گھبرا‬
‫گئی۔ اسرار احمد کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔‬
‫’’پاپا! یہاں تماشہ نہ لگوائیں۔ انھیں اندر آنے دیں۔‘‘‬
‫کہہ کر وہ قریب کھڑے چوکیدار کو گاڑی کی چابی پکڑا کر اندر داخل ہوگئی۔ اسرار احمد‬
‫اور وجاہت علی ا ُس کے پیچھے پیچھے اندر آئے۔ َرن وے پہ چند قدم آگے چل کر وہ ہیڈج )‪ (hedge‬کے‬
‫قریب ُرک گئی۔ ا ُس سے چند قدم پیچھے چلتے اسرار احمد بھی َرن وے کے ایک کنارے پہ کھڑے ہو گئے اور‬
‫دوسرے کنارے پہ وجاہت علی آ ُرکے۔‬
‫سن رہی ہوں۔‘‘‬ ‫’’پاپا! میں ُ‬
‫شوال نے ا ُن کی طرف پیٹھ کیے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ا ُس کی نظریں ہیڈج کی ٹہنیوں پہ‬
‫ا ُگے پت ّوں پہ جمی تھیں۔‬
‫’’شوال! میں تم سے رجب کی زندگی کی بھیک مانگنے آیا ہوں۔ وہ َمر رہا ہے۔ ا ُسے صرف تم‬
‫ہی بچا سکتی ہو۔‬
‫جب سے تم اسے چھوڑ کر گئی ہو۔ وہ اپنے ہوش کھو بیٹھا ہے۔ بار بار خودکشی کی‬ ‫ُ‬
‫جس ِدن تم ا ُسے چھوڑ کر آئی تھی۔ ا ُسی رات ا ُس نے اپنی گاڑی ایک ٹرالر سے دے‬ ‫کوششیں کرتا ہے۔ ِ‬
‫ِ‬
‫ماری تھی۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ا ُس کی چوٹیں بھری ہیں تو ا ُس نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کو‬
‫لٹکا لیا۔۔۔۔‬
‫ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ا ُسے پاگل خانے بھیج دو۔ لیکن میں کیسے ا ُسے پاگل خانے بھیج دوں؟۔۔۔‬
‫میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ میں ا ُسے کھونا نہیں چاہتا۔‬
‫مجبورا ً ا ُسے بستر پہ باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ ِاس ا ُمید پر کہ تم واپس آ جاؤ گی تو وہ تمہیں‬
‫دیکھ کر ٹھیک ہو جائے گا۔‬
‫پلیز شوال!۔۔۔ گھر چلو۔ میرے بچے کو بچا لو۔۔۔ وہ بالکل بےقصور ہے۔ ا ُس نے تمہارے ساتھ‬
‫کوئی دھوکا نہیں کیا۔ وہ کینسر وغیرہ کا جھوٹ۔ وہ صرف میرا پالن تھا۔ وہ بھی ا ُس جھوٹ سے اتنا ہی‬
‫بےخبر تھا جتنی کہ تم۔۔۔۔‬
‫ِ‬
‫اور میں نے وہ جھوٹ تم دونوں کو مالنے کیلئے بوال تھا۔ تم دونوں کی خوشی کیلئے۔۔۔۔۔‬
‫کیونکہ رجب تم سے بےحد پیار کرتا ہے۔ اور میں جان گیا تھا کہ تم بھی ا ُسے چاہتی ہو مگر ایک بےکار‬
‫کی ضد کو لے کر ا ُس سے دُور رہتی ہو۔‬
‫میرا یقین کرو۔۔۔ میرا مقصد صرف اور صرف تم دونوں کو ِمالنا تھا۔ تاکہ تم دونوں ایک ساتھ‬
‫خوش رہو۔ میری کوئی بُری نّیت نہیں تھی شوال!۔۔۔۔‬
‫پھر بھی اگر تم اس کی سزا دینا چاہتی ہو تو مجھے دو۔ رجب کو نہیں۔ وہ بےقصور ہے۔‬
‫ا ُسے تمہاری ضرورت ہے۔ پلیز گھر چلو۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے بہتے آنسوؤں کے درمیان اپنی درخواست پیش کی۔ اس وقت وہ شوال کے آگے‬
‫ہاتھ جوڑنا تو کیا۔ ا ُس کے پاؤں پڑنے کو بھی تیار تھے۔‬
‫شوال لب اور آنکھیں بھینچے ا ُن کا ایک ایک لفظ برداشت کر رہی تھی۔ جبکہ اسرار احمد‬
‫وجاہت علی کو سنتے ہوئے انھیں بغور دیکھ بھی رہے تھے۔‬
‫وجاہت علی کے خاموش ہو جانے کے بعد بھی شوال کچھ دیر کے لئے کچھ نہ بول سکی۔ ا ُس‬
‫نے خود کو مضبوط کرنے میں کچھ وقت لیا۔ پھر سپاٹ آواز میں اسرار احمد کو مخاطب کیا۔‬
‫وجاہت علی کے خاموش ہو جانے کے بعد بھی شوال کچھ دیر کے لئے کچھ نہ بول سکی۔ ا ُس‬
‫نے خود کو مضبوط کرنے میں کچھ وقت لیا۔ پھر سپاٹ آواز میں اسرار احمد کو مخاطب کیا۔‬
‫’’پاپا!۔۔۔ انھوں نے جو کہنا تھا کہہ لیا۔ اب ِان سے کہہ دیں کہ یہ یہاں سے چلے جائیں اور‬
‫دوبارہ کبھی ہمیں تنگ نہ کریں۔ میں انھیں جانتی ہوں نہ ِان کے بیٹے کو۔‘‘‬
‫شوال کہہ کر ُرکی نہیں اور تیز تیز ڈگ بھرتی اندر کی طرف چل پڑی۔‬
‫وجاہت علی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرار احمد ِفکرمند ہو کر اس کے پیچھے لپکے۔‬
‫وجاہت علی بالکل ہارے ہوئے کھڑے ا ُن دونوں کو جاتا دیکھتے رہ گئے۔ پھر انھوں نے گردن‬
‫جھکا لی اور واپسی کے ارادے سے ُمڑے۔‬
‫آج وہ زندگی میں سب کچھ ہار گئے تھے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫سکینہ بیگم تیار ہو کر سیڑھیوں سے ا ُتریں۔ وجاہت علی کو ابھی تک نائٹ سوٹ میں ملبوس‬
‫ہال کے صوفے پہ پاؤں پسارے بیٹھے پایا تو ا ُن کی طرف چلی آئیں۔‬
‫’’آپ آج کام پہ نہیں جائیں گے؟‘‘‬
‫انھوں نے دھیرے سے استفسار کیا۔‬
‫وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا اور سیدھے ہو بیٹھے۔ ا ُن کا ایک ایک انداز شکست‬
‫خوردہ تھا۔‬
‫’’کیا کروں کام پہ جا کر؟۔۔۔۔ ِکس کے لئے کماؤں۔‘‘‬
‫آواز میں صرف مایوسی اور شکست خوردگی تھی۔‬
‫سکینہ بیگم نے آنکھیں بھینچ لیں۔ پھر آہ کے انداز میں سانس خارج کرتے ہوئے ا ُن کے مقابل‬
‫آ بیٹھیں۔‬
‫’’ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔۔۔ انسان اوالد کے لئے ہی سب کچھ کرتا ہے۔ جب وہ ہی نہیں تو پھر‬
‫ِکس کے لئے کرے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نےنہایت ُدکھ سے کہا۔ پھر بولیں۔‬
‫’’لیکن مجھے تو ہر حال میں جانا ہے۔‘‘‬
‫کہتے ہوئے ا ُن کی آنکھیں بھر آئیں۔ انھیں بہت کچھ یاد آنے لگا تھا۔ بہتے آنکھوں میں نمی‬
‫لئے کہنے لگیں۔‬
‫’’میں نے یہ سکول رجب کی پیدائش سے پہلے بنانے کا سوچا تھا۔‬
‫سوچا تھا کہ اپنی باقی کی زندگی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہوئے گزار دوں‬
‫گی۔‬
‫پھر رجب کی پیدائش کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ لیکن میں نے اپنا ارادہ نہیں بدال۔‬
‫سوچا۔۔۔۔ شاید اهلل کو میرا یہی ارادہ پسند آیا تھا جو ا ُس نے مجھ پہ اتنی بڑی نوازش کی۔‬
‫ِاس لئے رجب کے نام پہ یہ سکول قائم کیا۔ تاکہ اهلل تعاٰلی ِان بےکس بچوں کو پڑھانے کے صدقے ہمارے‬
‫بیٹےکو ملبی عمر عطا کرے۔ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے توقف کرتے ہوئے ضبط کی ایک ناکام کوشش کی۔‬
‫پھر بولیں۔‬
‫’’آج بھی یہی سوچ کر جا رہی ہوں کہ شاید ا ُن بچوں کی دعائیں ہمیں لگ جائیں اور اهلل‬
‫ہمارے بیٹے کو ایک نئی زندگی بخش دے۔‘‘‬
‫وجاہت علی ا ُن کی بات کے جواب میں کچھ نہ بولے۔ بس خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے‬
‫رہے۔ وہ بہت رنجیدہ اور افسردہ تھے۔‬
‫سکینہ بیگم رو کر اب اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں جب وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں‬
‫دیکھا۔‬
‫سکینہ بیگم رو کر اب اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں جب وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں‬
‫دیکھا۔‬
‫’’میں سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ کہ رجب کو پاگل خانے بھیج دوں۔‘‘‬
‫’’بھیج دیں ناں!۔۔۔ میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں۔ وہاں کم از کم ہمارا بیٹا زندہ تو ہوگا۔ اور‬
‫کیا پتا وہ جلد ٹھیک ہو کر لوٹ بھی آئے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم رجب کو پاگل خانے بھیجنے کے لئے پوری طرح اماّدہ تھیں۔‬
‫وجاہت علی نے فیصلہ کُن انداز میں اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫’’میں آج ہی پاگل خانے فون کرتا ہوں۔‘‘‬
‫’’صاحب جی! یہ ابھی ابھی ڈاکیا دے کر گیا ہے۔‘‘‬
‫اچانک پیچھے سے نوکر نے آکر ہاتھ میں پکڑا بڑا سا کاغذی لفافہ وجاہت علی کی طرف بڑھا‬
‫دیا۔‬
‫وجاہت علی نے گردن گھما کر نوکر کو دیکھا۔ پھر بڑھا ہوا لفافہ تھام لیا۔‬
‫نوکر واپس ُمڑ گیا۔‬
‫وجاہت علی الجھن کے ساتھ لفافہ کھولنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم بھی متجسس سی انھیں دیکھے گیئیں۔‬
‫’’کیا ہے یہ۔‘‘‬
‫پیپرز نکال کر دیکھتے ہوئے وجاہت علی کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر سکینہ بیگم کو کچھ‬
‫غیرمعمولی پن کا احساس ہوا۔‬
‫’’شوال کے وکیل کی طرف سے نوٹس ہے۔۔۔ شوال نے طالق مانگی ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے جیسے خبر پڑھ کر سنائی۔‬
‫’’کیا؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم کے حواسوں پہ بجلی ِگری۔ ا ُنھوں نے اپنا ایک ہاتھ منہ پہ رکھ لیا۔‬
‫وجاہت علی کچھ نہ بولے۔ وہ پیپرز ہاتھ میں لئے کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر سامنے میز پہ رکھا‬
‫اپنا فون ا ُٹھا کر نمبر مالنے لگے۔‬
‫’’ِکسے فون کر رہے ہیں؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے بےچین ہو کر پوچھا۔‬
‫’’ایک منٹ۔‘‘‬
‫کال ِمال کر فون کان سے لگاتے ہوئے وجاہت علی نے سکینہ بیگم کو خاموش رہنے کا اشارہ‬
‫کیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسرار احمد گاڑی میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے تھے۔ کامران ا ُن کے برابر میں بیٹھا کار چال رہا‬
‫تھا۔ جبکہ عمران پچھلی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ تینوں باپ بیٹا ایک ساتھ کام پہ جا رہے تھے۔‬
‫اسرار احمد کے چہرے پہ گہری سوچ کے سایے تھے۔‬
‫’’کامران!۔۔۔ تمہیں کچھ رجب کی خبر ہے؟ آئی ِمین۔۔۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ کام پہ جاتا‬
‫ہے؟ ‘ ‘‬
‫اچانک انھوں نے کامران کی طرف چہرہ موڑ کر پوچھا۔‬
‫’’معلوم نہیں ۔۔۔ السٹ ا ُس کے بارے میں یہی سنا تھا کہ وہ ہوسپٹل سے ڈسچارج کیا جا‬
‫چکا ہے۔ ا ُس کے بعد کی خبر نہیں۔‘‘‬
‫کامران نے العلمی کا اظہار کیا۔‬
‫’’آپ کیوں پوچھ رہے ہیں پاپا!؟۔۔۔ چھوڑیں ا ُن لوگوں کو۔ میں تو ا ُن کا نام بھی نہیں سننا‬
‫چاہتا۔‘‘‬
‫’’آپ کیوں پوچھ رہے ہیں پاپا!؟۔۔۔ چھوڑیں ا ُن لوگوں کو۔ میں تو ا ُن کا نام بھی نہیں سننا‬
‫چاہتا۔‘‘‬
‫پیچھے سے عمران نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔‬
‫اسرار احمد کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ا ُن کے فون کی رنگ نے مداخلت کی۔ انھوں نے فون‬
‫نکال کر دیکھا۔ وجاہت علی کی کال تھی۔‬
‫انھوں نے کال ریسیو کر لی۔‬
‫’’ہیلو وجاہت علی صاحب! مجھے یقین تھا کہ آپ ضرور کال کریں گے۔۔۔ مجھے زیادہ انتظار‬
‫نہ کروانے کا شکریہ۔‘‘‬
‫خاطب اپنا رکھا تھا۔‬ ‫انھوں نے طنزیہ طرِز ت ٓ‬
‫کامران اور عمران نے وجاہت علی کے نام پہ چونک کر ا ُن کی طرف دیکھا۔‬
‫’’مجھے ابھی تمہارا بھیجا ہوا نوٹس ِمال ہے۔‘‘‬
‫توقع کے برعکس وجاہت علی کا لہجہ ہارا ہوا تھا۔‬
‫’’ہاں تو کہو!۔۔۔۔ تمہیں یہ منظور نہیں ہے؟۔۔۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے اپنی توقعات کے مطابق کہا۔ پھر ِاس متوقع چیلنج کو قبول کرتے ہوئے بولے۔‬
‫’’ایک بات اچھی طرح سے جان لو وجاہت!۔۔۔۔ تم چاہے کچھ بھی کر لو۔ کسی بھی بڑے سے‬
‫بڑے وکیل کو ہائر کر لو۔ پھر بھی یہ طالق ہو کر رہے گی۔‘‘‬
‫ا ُن کا لہجہ ٹھوس اور اٹل تھا۔‬
‫’’ِاسی لئے میں نے تمہیں فون کیا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی ا ُسی ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولے۔‬
‫’’وکیلوں اور کچہریوں کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت کیوں برباد کرتے ہو؟۔۔۔۔ رجب آج ہی طالق‬
‫کے پیپرز پہ سائن کر دے گا۔ بشرطیکہ شوال خود آ کر ا ُس سے طالق مانگے تو۔۔۔۔ اتنا تو میں اپنے بیٹے‬
‫کو جانتا ہوں کہ اگر شوال ا ُس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے منہ سے ا ُس سے طالق کا مطالبہ کرے گی تو‬
‫وہ منع نہیں کرے گا۔‘‘‬
‫اسرار احمد جواب میں فورا ً کچھ نہ بول پائے۔‬
‫وجاہت علی کا رویہ اور رِدعمل دونوں ہی غیر متوقع تھے۔ سو ‪ ،‬جب وہ بولے تو آواز میں وہ‬
‫مضبوطی اور سختی نہیں تھی۔‬
‫’’ٹھیک ہے۔۔۔۔ تمہاری یہ خواہش تو میں پوری کر ہی سکتا ہوں۔ میں خود شوال کو لے کر آؤں‬
‫گا۔ بتاؤ کہ کب اور کہاں آنا ہے؟ تمہارے گھر یا تمہارے آفس؟‘‘‬
‫’’میرے گھر۔۔۔ اینی ٹائم۔۔۔۔ چاہو تو ابھی آ جاؤ۔‘‘‬
‫وجاہت علی پوری طرح سے تعاون کر رہے تھے۔‬
‫اسرار احمد نے پہلے سوچا۔ پھر بولے۔‬
‫’’ہوں۔۔۔ تو ٹھیک ہے۔ آج دوپہر ایک بجے تک آ جاؤں؟‘‘‬
‫’’ٹھیک ہے۔ آ جانا۔ ہم گھر پہ ہی ہیں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے کہہ کر کال کاٹ دی۔‬
‫’’پاپا!۔۔۔ آپ ا ُس سے ِملنے جا رہے ہیں؟۔۔۔ شوال کو لے کر؟‘‘‬
‫عمران اب بھی خاموش نہ رہ سکا۔‬
‫’’ایک منٹ عمران! مجھے بات کرنے دو۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے فون کان سے ہٹانے کے بعد گھر کا نمبر مالتے ہوئے کہا۔‬
‫عمران خاموش ہو گیا۔ اسرار احمد نے فون کان سے لگا لیا۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘ کنزہ نے فون ا ُٹھایا۔‬
‫’’کنزہ بیٹا! میں تمہارا پاپا بول رہاہوں۔ شوال کو بالنا ذرا۔‘‘‬
‫’’جی اچھا۔ آپ ایک منٹ ہولڈ کریں۔‘‘‬
‫’’کنزہ بیٹا! میں تمہارا پاپا بول رہاہوں۔ شوال کو بالنا ذرا۔‘‘‬
‫’’جی اچھا۔ آپ ایک منٹ ہولڈ کریں۔‘‘‬
‫کنزہ نے کہا۔‬
‫وہ انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد شوال کی آواز آئی۔‬
‫’’ہیلو۔‘‘‬
‫’’شوال!۔۔۔ تم آج بارہ بجے تک میرے آفس پہنچ جانا۔ ہم دونوں کہیں جا رہے ہیں۔‘‘‬
‫’’کہاں؟‘‘ شوال نے سوال کیا۔‬
‫’’وہ جب تم آؤ گی تو بتاؤں گا۔ بس تم بارہ بجے میرے آفس پہنچ جانا۔ ٹھیک ہے؟‘‘‬
‫انھوں نے محبت و شفقت سے کہا۔‬
‫’’او۔ کے پاپا! جیسا آپ کہیں۔‘‘‬
‫شوال نے کہا۔‬
‫’’او۔ کے۔ آفس میں ِملتے ہیں پھر۔ اپنا خیال رکھنا۔ اهلل حافظ۔‘‘‬
‫’’اهلل حافظ۔‘‘‬
‫شوال نے کہہ کر فون رکھ دیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫دوپہر ایک بجے کے قریب اسرار احمد اور شوال نے ایک نوکر کی رہنمائی میں وجاہت علی کے‬
‫جس میں طالق کے کاغذات تھے۔‬ ‫گھر کے ہال میں قدم رکھا۔ شوال کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا ِ‬
‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی ہال میں منتظر بیٹھے تھے۔ ا ُن دونوں کو اندر آتا دیکھ کر ا ُٹھ‬
‫کھڑے ہوئے۔‬
‫نوکر انھیں اندر داخل کرنے کے بعد خود واپس ُمڑ گیا۔ اسرار احمد دو ہی قدم آگے بڑھے تھے‬
‫کہ جانا شوال ا ُن کے ساتھ نہیں چل رہی۔ ا ُنھوں نے ُمڑ کر دیکھا۔‬
‫شوال دروازے میں ساکت کھڑی تھی۔ ا ُنھوں نے واپس ُمڑ کر اس کا ہاتھ تھاما۔ ا ُس نے نظریں‬
‫ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫اسرار احمد نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اپنے ساتھ کا یقین دالیا۔‬
‫’’آؤ۔‘‘ انھوں نے کہا۔‬
‫شوال اپنے اندر ہمت مجتمع کرتی ا ُن کے پیچھے چل پڑی۔‬
‫’’اسالم علیکم!۔‘‘‬
‫قریب آنے پہ سکینہ بیگم نے دونوں کو سالم کیا۔ پھر شوال کی طرف دیکھا۔‬
‫’’کیسی ہو شوال!؟‘‘‬
‫وہ چاہ کر بھی شوال کے قریب جانے کی ہمت نہ کر پائیں۔ شوال بھی ا ُن کے سالم کا جواب‬
‫دینا نہیں چاہتی تھی۔ شوال اور سکینہ بیگم دونوں کے لئے یہ آکورڈ سی صورتحال تھی۔‬
‫ایسے میں اسرار احمد نے مداخلت کرتے ہوئے وجاہت علی کو مخاطب کیا۔‬
‫’’تمہارے کہنے کے مطابق میں شوال کو لے آیا ہوں۔ اب ُبالؤ اپنے بیٹے کو۔ ‘‘‬
‫لہجہ سخت اور کھردرا تھا۔‬
‫’’وہ یہاں نہیں آ سکتا۔ تمہیں ا ُس کے کمرے میں جانا ہو گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی کے جواب پہ اسرار احمد نے چونک کر بغور انھیں دیکھا۔ آیا وجاہت علی ا ُن کے‬
‫ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے۔‬
‫لیکن وجاہت علی کے چہرے اور آنکھوں میں کوئی خباثت یا ریا نہیں تھی۔‬
‫اسرار احمد کو جواب دے کر سکینہ بیگم سے بولے۔‬
‫’’سکینہ! جاؤ تم انھیں رجب کے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘‬
‫’’میں؟۔۔۔‘‘‬
‫’’سکینہ! جاؤ تم انھیں رجب کے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘‬
‫’’میں؟۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے بےیقینی سے اپنے شوہر کا چہرہ دیکھا۔ اتنا مشکل کام وہ کیسے کر سکتی‬
‫تھیں۔‬
‫’’تمہیں ہی جانا پڑے گا۔۔۔۔ تم جانتی ہو کہ رجب میرا چہرہ تک نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اپنے لہجے میں ذرا سختی سمو کر کہا۔‬
‫سکینہ بیگم نے بےبسی سے وجاہت علی کو دیکھا۔ پھر شوال اور اسرار احمد کی طرف چہرہ‬
‫موڑا۔‬
‫ُ‬
‫اسرار احمد بغور ان دونوں میاں بیوی کے چہرے پڑھ رہے تھے۔‬
‫’’ آیئے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا تو وہ خاموشی سے ا ُن کے پیچھے چل دیئے۔‬
‫شوال ا ُن کے پیچھے چلتے ہوئے گھبراہٹ جبکہ اسرار احمد کوفت محسوس کر رہے تھے۔ دونوں‬
‫کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔‬
‫وجاہت علی کا اتنی آسانی سے طالق کیلئے ماننا۔ پھر گھر ُبال کر اسطرح کمرے میں بھیجنا۔‬
‫صہ لگ رہا تھا۔ اور ِاسی بات کی اسرار احمد کو کوفت ہو رہی تھی کہ جانے وجاہت‬ ‫سب کسی پالن کا ح ّ‬
‫علی نے اب کیا سوچ رکھا ہے۔‬
‫سکینہ بیگم کی رہنمائی میں وہ دونوں باپ بیٹی رجب کے کمرے میں داخل ہوئے۔‬
‫سامنے رجب بستر پہ پڑا تھا۔ ا ُس کا پورا جسم ایک سفید چادر کے نیچے ڈھکا ہوا تھا‬
‫ماسوائے چہرے کے۔ اس کا کیئرر ہاشم بھی قریب ہی بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ ا ُن لوگوں کو اندر‬
‫داخل ہوتا دیکھ کر ا ُٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫اسرار احمد کی نظر دیوار پہ پڑی اور وہ ایک ملحے کے لئے سب کچھ بھول کر کمرے کی‬
‫دیواروں پہ چپکی شوال کی تصویریں دیکھنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر رجب کی پیشانی پہ نرمی سے ہاتھ رکھا۔‬
‫’’رجب!۔‘‘ انھوں نے نرمی سے پکارا۔‬
‫اسرار احمد تصویروں سے نظریں ہٹا کر رجب کی طرف دیکھنے لگے۔‬
‫جبکہ شوال نے اپنی نظریں فرش پہ جما رکھی تھیں۔ رجب کی طرف دیکھنے کا ا ُس کا من‬
‫چاہ رہا تھا نہ ہمت ہو رہی تھی۔‬
‫’’ا ُٹھو بیٹا!۔۔۔ دیکھو تو ۔۔۔۔ تم سے ِملنے کون آیا ہے؟‘‘‬
‫رجب کو جگاتے ہوئے سکینہ بیگم کے ِدل پہ کیا گزر رہی تھی۔ صرف وہ ہی جانتی تھیں۔‬
‫رجب نہ جاگا تو وہ پھر سے ا ُسے پکارنے لگیں۔‬
‫’’رجب!۔۔۔۔ ا ُٹھو بیٹا!۔۔۔ دیکھو۔ شوال آئی ہے۔‘‘‬
‫شوال کے نام پہ رجب نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔‬
‫نظر سیدھی شوال پہ جا پڑی۔ شوال نے بھی ا ُسی آن نظریں ا ُٹھا کر ا ُس کی طرف دیکھا۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫رجب نے بےچینی سے زیِرلب ا ُس کا نام دہرایا۔‬
‫شوال کے قدم ڈگمگانے لگے۔ اپنی بغل میں کھڑے اپنے باپ کی موجودگی کا احساس کر کے‬
‫بمشکل ا ُس نے اپنے آپ کو اپنے پیروں پہ کھڑا رکھا۔‬
‫’’کیوں آئی ہے یہ ؟۔۔۔ ِاس سے کہیں کہ یہاں سے چلی جائے۔ میں ِاس کا سامنا نہیں کر‬
‫سکتا۔‘‘‬
‫رجب نے کرب کے ساتھ کہتے ہوئے اپنا چہرہ دوسری اور موڑ لیا۔ ا ُس کی گردن سے چادر ذرا‬
‫سی ہٹ گئی اور نیچے سے زخم کا ایک کونا باہر جھانکنے لگا۔‬
‫اسرار احمد نے وہ زخم کا کونا دیکھا لیا۔‬
‫رجب کے جاگنے کی تسلی کر کے سکینہ بیگم چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گیئیں۔ خوف‬
‫اسرار احمد نے وہ زخم کا کونا دیکھا لیا۔‬
‫رجب کے جاگنے کی تسلی کر کے سکینہ بیگم چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گیئیں۔ خوف‬
‫سن کر رجب کی کیا‬ ‫کے عالم میں انھوں نے منہ پہ ہاتھ جما رکھا تھا۔ شوال کے منہ سے طالق کا مطالبہ ُ‬
‫صور سے ہی ا ُن کا ِدل لرز رہا تھا۔ مگر پھر بھی وہ کسی طرح اپنے آپ پہ قابو‬ ‫حالت ہو گی۔ ِاس کے ت ّ‬
‫پائے ہوئے تھیں۔‬
‫اسرار احمد آگے بڑھنے لگے۔‬
‫شوال اپنی جگہ کھڑی رہی۔ وہ صرف اسرار احمد کے حکم پر ہی آگے بڑھنا چاہتی تھی۔‬
‫رجب دوسری طرف منہ موڑے لیٹا آنکھیں بھینچے اپنے آنسو روکنے کی کوششں کر رہا تھا۔‬
‫مگر باغی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر بہہ رہے تھے۔‬
‫اسرار احمد نے قریب پہنچ کر بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ بڑھایا اور رجب کی گردن کے پاس سے‬
‫چادر کا کونا پکڑ کر ایک ہی بار میں ا ُس کے پورے بدن سے چادر ہٹا دی۔‬
‫ا ُس کی گردن کے ِگرد پڑا زخم کا نیم دائرہ‪ ،‬ا ُسکے بندھے ہوئے ہاتھ پاؤں اور ا ُس کے سینے‬
‫جس نے رجب کو اونچا ہونے سے بھی روک رکھا تھا۔ سب کچھ شوال اور‬ ‫کے اوپر سے گزرتی ایک پٹی‪ِ ،‬‬
‫اسرار احمد کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔‬
‫رجب کی یہ حالت دیکھ کر جہاں انھیں دھچکا لگا۔ وہیں رجب کی گردن دیکھ کر شوال کی‬
‫چیخیں ِنکل گیئیں۔ لفافہ ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پہ ِگر گیا اور وہ دونوں ہاتھ منہ پہ جما کر چیختی ہوئی‬
‫پیچھے ہٹنے لگی۔‬

‫سکینہ بیگم اور رجب ا ُس کے چیخنے پہ ا ُچھل پڑے اور گھبرا کر ا ُس کی طرف دیکھنے لگے۔‬
‫اسرار احمد کو پہلے ہی رجب کی حالت دیکھ کر شاک پہنچا تھا۔ ا ُس کے اسطرح چیخنے پہ‬
‫اور بھی بوکھال گئے۔‬
‫’’شوال!۔۔۔ شوال!۔‘‘‬
‫ُ‬
‫چیخیں مارتی خوفزدہ شوال کو سنبھالنے کے لئے وہ اس کی طرف بڑھے۔‬
‫مگر شوال کے لئے وہاں رکنا محال تھا۔ وہ ُمڑی اور بھاگتی ہوئی وہ کمرہ تو کیا اس گھر‬
‫سے بھی نکلتی چلی گئی۔‬
‫ہال میں موجود وجاہت علی ا ُس کی چیخیں سن کر الگ سے گھبرا ا ُٹھے تھے۔ ا ُسے یوں جاتے‬
‫ہوئے اور ا ُس کے پیچھے ہی اسرار احمد کو بھاگتے دیکھ کر وہ اور بھی پریشان ہو گئے۔ سمجھ نہیں آ‬
‫رہا تھا کہ ا ُن دونوں کے پیچھے جائیں یا جا کر رجب کی حالت دیکھیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫گھر سے باہر نکل کر شوال سائیڈ پہ پارک کی ہوئی اپنی گاڑی میں آ بیٹھی اور دونوں ہاتھوں‬
‫سے چہرہ ڈھانک کر رونا شروع کر دیا۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫اسرار احمد نے ا ُسے گاڑی میں بیٹھے دیکھا تو ا ُنھیں قدرے تسلی ہوئی۔ پھر وہ بھی کچھ‬
‫سوچنے لگے۔‬
‫ِ‬
‫اندر شوال رو رہی تھی اور وہ باہر کھڑے گہری غور و فکر میں غلطاں تھے۔ جلد ہی جیسے‬
‫وہ ایک نتیجے پہ پہنچ کر ُمڑے اور ڈرائیونگ سیٹ پہ آبیٹھے۔ شوال ا ُن کے آنے پہ چہرے سے ہاتھ ہٹا کر‬
‫اپنے آنسو پونچھنے لگی۔ آنسو بہتے جا رہے تھے اور وہ پونچھتی جا رہی تھی۔ اسرار احمد نے بغور ا ُس‬
‫کی حالت مالحظہ کی۔‬
‫’’آئم سوری پاپا!۔۔۔ میں ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ بس مجھ سے ہو گیا۔‘‘‬
‫اس نے ا ُسی طرح بہتے آنسو پونچھتے ہوئے شرمندگی کے ساتھ کہا۔ اسرار احمد نے کچھ‬
‫کہے بنا اس کا شانہ تھپتھپایا۔‬
‫’’تم رونا بند کرو تو میں تم سے کچھ اہم باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫کہے بنا اس کا شانہ تھپتھپایا۔‬
‫’’تم رونا بند کرو تو میں تم سے کچھ اہم باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫شوال اب خود کو واقعی میں سنبھالنے لگی۔‬
‫’’جی۔‘‘‬
‫اپنے آنسو پونچھ کر آخرکار وہ اسرار احمد کی طرف دیکھنے الئق ہو گئی۔‬
‫’’شوال!۔۔۔۔ اگر تم ا ُس دھوکے کو ایک طرف رکھ دو۔ یعنی جب تک وہ واقعہ نہیں ہوا تھا ا ُس‬
‫سے پہلے۔۔۔ رجب کا رویہ کیسا تھا تمہارے ساتھ؟‘‘‬
‫شوال کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔‬
‫’’میرا مطلب ہے۔۔۔ کیا کبھی ا ُس نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کی؟ کسی قسم کا غلط برتاؤ‬
‫کیا ہو؟ یا پھر کوئی بےایمانی کی ہو تمہارے ساتھ؟ ‘‘‬
‫شوال نے سر جھکا لیا۔ پھر بنا کچھ کہے نفی میں سر ہال دیا۔‬
‫’’تو کیا وہ مخلص تھا تمہارے ساتھ؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے اگال سوال کیا۔‬
‫ِ‬
‫’’ہاں!۔۔۔ جب تک مجھے ا ُس کے اس فراڈ کا پتا نہیں چال تھا۔ تب تک مجھے یہی لگتا تھا کہ‬
‫وہ مخلص ہے۔‘‘ ا ُس نے جھکا ہوا سر نہ ا ُٹھایا۔‬
‫’’وہ چاہتا تھا تمہیں؟۔۔۔ تمہاری پرواہ کرتا تھا؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے اس فراڈ کا ذکر نظرانداز کرتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔ شوال نے اب اثبات‬
‫میں سر ہالیا۔ زبان سے قبولنا تھوڑا مشکل تھا۔‬
‫’’کیا تم بھی ا ُس سے پیار کرنے لگی تھی؟‘‘‬
‫اسرار احمد کا اگال سوال ا ُسے بُری طرح چونکا گیا۔ ا ُس نے ایک جھٹکے سے سر ا ُٹھا کر‬
‫اسرار احمد کو دیکھا۔‬
‫’’آپ ایسے سوال کیوں پوچھ رہے ہیں پاپا!؟‘‘‬
‫اسرار احمد کچھ کہنے کی بجائے ا ُس کے چہرے پہ نظریں جمائے ا ُسے دیکھ رہے تھے۔‬
‫جیسے ا ُس کا چہرہ پڑھ رہے ہوں۔ ا ُس کے چہرے پہ سوال کی جگہ الجھن بڑھنے لگی۔ اسرار احمد گویا‬
‫ہوئے۔‬
‫’’وہ ِاس لئے کہ رجب بےقصور ہے۔۔۔۔ وجاہت سچ کہہ رہا تھا۔ یہ سارا کھیل ا ُس کا کھیال ہوا‬
‫صہ نہیں تھا۔‘‘‬ ‫تھا۔ رجب اس سازش کا ح ّ‬
‫صہ نہیں تھا۔ تو جو بات میرے اور ا ُس کے درمیان تھی‪ ،‬وہ ا ُس کے‬ ‫’’اگر وہ اس سازش کا ح ّ‬
‫باپ کو کیسے پتا چلی؟‘‘ اس نے سوال ا ُٹھایا۔‬
‫اسرار احمد برجستہ بولے۔‬
‫’’یہ تم ا ُن سے پوچھ سکتی ہو۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ وجاہت کو شک ہو گیا ہو۔۔۔ یا ِکسی اور‬
‫زریعے سے یہ بات اس تک پہنچی ہو۔‬
‫لیکن ‪ ،‬یقین کرو۔ رجب تم سے بہت پیار کرتا ہے۔ وہ کبھی تمہیں دھوکا دینے کے بارے میں‬
‫نہیں سوچ سکتا۔‘‘‬
‫وہ الجواب سی ہو کر ا ُن کا منہ تکنے لگی۔ پھر سر جھکا کر ا ُن کے الفاظ پہ غور کرنے لگی۔‬
‫اسرار احمد خودکالمی کے انداز میں گویا ہوئے۔‬
‫’’ آج مجھے سمجھ آ رہا ہے کہ وجاہت پہلے دن سے ہی سچ بول رہا تھا۔ رجب واقعی میں‬
‫تمہیں چاہتا تھا۔ یہ ا ُس کی چاہت کی شّدت تھی جو وجاہت میرے سامنے اپنا دامن پھیالنے کو تیار ہو‬
‫گیا۔۔۔ میں نے ہی ا ُس کا اعتبار نہ کیا۔‘‘‬
‫اسرار احمد پہ ساری حقیقت واضح ہو چکی تھی۔ وہی حقیقت وہ اب ا ُسے بتال رہے تھے۔‬
‫’’اور تم نے بتایا تھا ناں کہ رجب تھوڑا سائیکو ہے۔۔۔۔ ایسا لڑکا جسے چاہتا تھا۔ وہ کیسے‬
‫ا ُس کی شادی کسی اور سے ہونے دیتا؟۔۔۔۔ یہ بھی ا ُس کی چاہت کی شدت تھی جس نے وجاہت کو تمہیں‬
‫’’اور تم نے بتایا تھا ناں کہ رجب تھوڑا سائیکو ہے۔۔۔۔ ایسا لڑکا جسے چاہتا تھا۔ وہ کیسے‬
‫ا ُس کی شادی کسی اور سے ہونے دیتا؟۔۔۔۔ یہ بھی ا ُس کی چاہت کی شدت تھی جس نے وجاہت کو تمہیں‬
‫ا ُٹھا النے پہ مجبور کر دیا۔‘‘‬
‫سن رہی تھی۔ اسرار احمد ا ُسے‬ ‫وہ پوری آنکھیں کھولے اپنے باپ کے منہ سے سارے حقائق ُ‬
‫قائل کرنے کے انداز میں بولے۔‬
‫’’شوال!۔۔۔یہ بات کلئیر ہے کہ رجب نے تم سے کوئی دھوکا نہیں کیا۔۔۔ وہ بھی تمہاری طرح‬
‫بےخبر تھا۔۔۔۔‬
‫ُدنیا میں اور کوئی بھی تم سے ا ُس جتنی محبت نہیں کر سکے گا شوال!۔۔۔ اگر تم بھی ا ُسے‬
‫ھال کر تم ا ُس کے ساتھ رہنا چاہو تو میری طرف سے پوری اجازت ہے۔‘‘‬
‫چاہتی ہو اور وہ سارا واقعہ ب ُ‬
‫’’پاپا!‘‘‬
‫شوال کو اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا۔‬
‫ضد یا دشمنی تم دونوں کی زندگی سے‬ ‫’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں شوال!۔۔۔۔ میری کوئی بھی ِ‬
‫بڑھ کر نہیں ہے۔‬
‫اگر تم دونوں ایک ساتھ خوش رہ سکتے ہو تو میں تم دونوں کی خوشی میں خوش ہوں۔۔۔‬
‫رہا وجاہت۔۔۔‬
‫ِ‬
‫تو تم ا ُس کی فکر نہ کرو۔۔۔۔ اب میں تمہارے ساتھ ہوں ناں!۔۔ اب ا ُس میں َدم نہیں کہ‬
‫تمہاری زندگی میں کوئی مداخلت کر سکے یا تمہیں کسی طرح سے پریشان کر سکے۔‘‘‬
‫شوال نے ایک بار پھر نگاہیں جھکا لیں۔ ا ُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے‪،‬‬
‫کیسے کہے۔ اتنا اچانک ‪ ،‬اتنا اہم اور غیر متوقع فیصلہ ا ُسے کرنا پڑ رہا تھا۔ عجیب بےبسی تھی۔‬
‫’’پاپا!۔‘‘‬
‫کچھ نہ سمجھ آیا تو وہ رو پڑی۔ اسرار احمد ا ُس کے ِدل کا حال خوب سمجھتے تھے۔ جو‬
‫فیصلہ وہ خود نہیں کر پا رہی تھی۔ انھوں نے کر دیا۔‬
‫’’چلو۔۔۔ باہر ِنکلو۔ ہم واپس اندر جا رہے ہیں۔‘‘‬
‫کہتے ہوئے وہ اپنی اور کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ شوال کی ہّمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی‬
‫طرف کا دروازہ کھول سکتی۔ واپس ا ُس گھر میں جانے کے خیال سے ا ُس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ملبے‬
‫ملبے سانس لیتے ہوئے وہ ِاس ساری صورتحال کو قبول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔‬
‫اسرار احمد گھوم کر آئے اور ا ُس کی طرف کا دروازہ کھول کر اس کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے باہر‬
‫نکال لیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رجب بری طرح سے بپھرا ہوا تھا۔ وجاہت علی اور سکینہ بیگم ا ُسےقابو کرنے کی کوشش کر‬
‫رہے تھے۔‬
‫’’چھوڑ دو مجھے۔۔۔ چھوڑ دو۔۔۔ مجھے آپ کی شکل سے بھی نفرت ہے۔۔۔ میری بربادی کے‬
‫ذمہدار آپ ہیں۔۔۔ آپ نے میرے بچے کو مارا۔ میری بیوی کو آپ نے مجھ سے الگ کیا۔۔۔ آپ کے دھوکے نے‬
‫ہماری زندگی برباد کر دی۔۔۔۔ چلے جائیں میری نظروں کے سامنے سے۔ چلے جائیں۔۔۔ مجھے نفرت ہے آپ‬
‫سے۔۔۔ مجھے نفرت ہے آپ کی اوالد ہونے سے۔ مجھے نفرت ہے ِاس زندگی سے۔ میں مر جانا چاہتا ہوں۔‘‘‬
‫چالئے جا رہا تھا۔ اپنے ہاتھ پاؤں چھڑوانے کی پوری تگ و دو کر رہا تھا۔ اور ِاس‬
‫رجب ِ‬
‫کوشش میں ا ُس کی کالئیوں کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے۔ کالئیوں پہ لپٹی پٹیوں سے خون رسنے لگا‬
‫تھا۔‬
‫ِ‬
‫ہاشم اس اثناء میں سکون آور دوا کا انجیکشن بھر الیا۔‬
‫’’چھوڑ دو مجھے۔ چھوڑو۔‘‘‬
‫رجب انجیکشن دیکھ کر اور بھی بپھر گیا۔‬
‫’’چھوڑ دو مجھے۔ چھوڑو۔‘‘‬
‫رجب انجیکشن دیکھ کر اور بھی بپھر گیا۔‬
‫وجاہت علی نے ا ُس کا بازو بستر سے لگا کر دونوں ہاتھوں سے دباؤ ڈاال تاکہ ہاشم آسانی‬
‫سے انجیکشن لگا سکے۔‬
‫ابھی ہاشم نے انجیکشن کی سوئی رجب کے بازو کی جلد پہ رکھی ہی تھی کہ اسرار احمد‬
‫کی بلند بارعب اور تحکم بھری آواز آئی۔‬
‫’’ُرک جاؤ۔‘‘‬
‫سن کر سب کے سب جہاں تھے ا ُسی حالت میں ُرک گئے۔ حت ٰی کہ رجب بھی۔‬ ‫آواز ُ‬
‫سب نے ایک ساتھ آواز کی سمت دیکھا۔‬
‫اسرار احمد شوال کے ہمراہ دروازے میں کھڑے تھے۔‬
‫رجب پہ جھکے سکینہ بیگم ‪ ،‬وجاہت علی اور ہاشم چہرے پہ الجھن لئے سیدھے کھڑے ہو‬
‫گئے۔ رجب نے ہارے ہوئے انداز میں سر تکّیے پہ ڈال دیا اور پھر سے چہرہ دوسری اور موڑ لیا۔‬
‫جس میں طالق کے کاغذات تھے۔‬ ‫اسرار احمد کو کچھ فاصلے پہ فرش پہ ِگرا وہ لفافہ نظر آیا ِ‬
‫انھوں نے آگے بڑھ کر وہ لفافہ ا ُٹھایا اور سیدھے کھڑے ہو گئے۔‬
‫’’تم دونوں میاں بیوی باہر آؤ۔۔۔ مجھے تم دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ اور لڑکے۔ تم‬
‫بھی باہر آؤ۔ ا َن دونوں کو تنہا چھوڑ دو۔‘‘‬
‫انھوں نے بیک وقت سکینہ بیگم اور وجاہت علی سے کہا۔ پھر ُمڑ کر حوصلہ افزائی کے انداز‬
‫میں شوال کا شانہ تھپتھپاتے کمرے سے باہر ِنکل گئے۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔ پھر‬
‫دونوں اسرار احمد کے پیچھے کمرے سے باہر نکلنے لگے۔ ا ُن کے پیچھے پیچھے ہاشم بھی کمرے سے نکل‬
‫گیا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔‬
‫اسرار احمد کوریڈور سے نکل کر سیڑھیوں کے قریب آ کر ُرک گئے۔ سکینہ بیگم اور وجاہت‬
‫علی بھی ا ُن کے پیچھے آ کھڑے ہوئے۔‬
‫اسرار احمد نے پلٹ کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’میں صرف اور صرف ِان بچوں کی خوشی کے لئے تم سے رشتہ داری قبول کر رہا ہوں۔‘‘‬
‫ب حیات کی مانند وجاہت علی اور سکینہ بیگم کے وجود میں نئی روح پھونک‬ ‫ا ُن کے الفاظ آ ِ‬
‫گئے۔ دونوں نے خوشی اور بےیقینی کے ِملے ُجلے تاثرات کے ساتھ ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔‬
‫پھر وجاہت علی خوشی سے بےقابو ہوتے ہوئے اسرار احمد کی طرف ُمڑے۔‬
‫’’اسرار!‘‘‬
‫کہتے ہوئے وہ ا ُنھیں گلے لگانے کو لپکے۔ مگر اسرار احمد نے ہاتھ ا ُٹھا کر انھیں وہیں روک‬
‫دیا۔‬
‫’’بس۔۔۔۔ میں اگر بچوں کی خوشی کے آگے جھکا ہوں تو ِاس کا مطلب یہ نہیں کہ تمہاری‬
‫اور میری صلح ہو گئی۔ ‘‘‬
‫’’بس کر دو اسرار! بھول جاؤ ان پرانے جھگڑوں کو۔‬
‫ا ُن بچپنے میں کی گئی حماقتوں کو لے کر اب تک ناراضگی بنائے رکھنے کا بھال کیا‬
‫فائدہ؟۔۔۔ اب تو آپ دونوں کے اپنے بچے تک جوان ہو چکے ہیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے بھی انھیں منانے کی کوشش کی۔‬
‫’’میں نے کہا ناں بس!۔۔۔۔ تم کچھ نہیں جانتی اپنے شوہر کے بچپنے اور اس کی حماقتوں کے‬
‫بارے میں۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے سخت لہجے میں سکینہ بیگم کو کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا۔‬
‫سکینہ بیگم اپنے اندر ہّمت نہ کر پائیں کہ اسرار احمد کو اپنی معلومات سے مطلع کرتے ہوئے‬
‫مزید جرح کریں۔ جبکہ اسرار احمد کہہ رہے تھے۔‬
‫’’جوان بچے کا باپ ہونے کے بعد بھی تمہارے شوہر کی حماقتیں اور بچپنا گیا نہیں ہے ابھی‬
‫مزید جرح کریں۔ جبکہ اسرار احمد کہہ رہے تھے۔‬
‫’’جوان بچے کا باپ ہونے کے بعد بھی تمہارے شوہر کی حماقتیں اور بچپنا گیا نہیں ہے ابھی‬
‫تک۔‘‘‬
‫صہ اپنے اندر ہی‬ ‫پھر وجاہت علی کی جانب ُرخ کیا جو اپنے بارے میں یہ الفاظ سن کر اپنا غ ّ‬
‫دبا رہے تھے اور کچھ کہنے سے الچار تھے۔‬
‫’’ایک بات یاد رکھو وجاہت!۔۔۔ اب آئندہ اگر میری بیٹی کو تمہاری طرف سے کوئی پریشانی‬
‫ہوئی۔۔۔۔ تو بہت بُرا حشر کروں گا تمہارا۔‘‘‬
‫چکا ہوں کہ میں نے‬ ‫’’تم ہمیشہ ہی ہر بات کا الزام مجھے دیتے ہو۔ ورنہ میں سچائی بتا ُ‬
‫صرف اور صرف ا ُن دونوں کی بھالئی کے لئے وہ جھوٹ بوال تھا۔ ورنہ شوال کو پریشان کرنا میرا مقصد‬
‫ہرگز نہیں تھا۔‘‘‬
‫صہ تو دکھا نہیں سکتے تھے۔ شکواہ ضرور کردیا۔ ا ُن کے لئے کوئی الزام قبول‬ ‫وجاہت علی غ ّ‬
‫کرنا ہمیشہ ہی بہت مشکل رہا تھا۔‬
‫اسرار احمد بولے کچھ نہ۔ بس مالمتی نظروں سے انھیں دیکھ کر رہ گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫دروازہ بند ہونے کے بعد شوال نے نظریں ا ُٹھا کر اس سے کچھ فاصلے پہ بستر پہ پڑے رجب‬
‫کے وجود کی سمت دیکھا۔ ا ُس نے ابھی تک اپنا چہرہ دوسری جانب موڑ رکھا تھا۔‬
‫وہ دھیرے دھیرے چلتی ا ُس کے قریب پہنچی۔‬
‫’’رجب!‘‘‬
‫ا ُس نے بمشکل ا ُس کا نام لیا۔‬
‫رجب ا ُسی طرح آنکھیں بند کئے خاموش پڑا رہا۔ لیکن ا ُس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں میں‬
‫تیزی آ گئی تھی۔‬
‫’’مجھے معاف نہیں کرو گے؟‘‘‬
‫اس نے روہانسی آواز میں پوچھا۔‬
‫رجب نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔‬
‫’’تم کیوں معافی مانگ رہی ہو؟۔۔۔ دھوکا تو ہم نے تمہیں دیا ہے۔‘‘‬
‫’’تم نے تو نہیں دیا ناں!‘‘‬
‫ا ُس نے جرح کی۔‬
‫’’چلی جاؤ شوال!۔۔۔ میرے باپ نے مجھے تم سے نظریں مالنے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔۔ مجھے‬
‫تم سے شرم آتی ہے۔‘‘‬
‫رجب کا لہجہ ملتجی اور شرمندگی سے لبریز تھا۔ وہ اب بھی شوال کو نہیں دیکھ رہا تھا۔‬
‫شوال نے کچھ کہنے کی بجائے ا ُس کے ہاتھ پاؤں کھولنے شروع کر دیئے۔‬
‫جب وہ ا ُسے مکمل آزاد کر چکی تو رجب کروٹ لے کر دوسری طرف سے بستر سے ا ُترا اور‬
‫شوال کی جانب پیٹھ دے کر کھڑا ہو گیا۔‬
‫شوال اس کے قریب گئی اور ا ُس کا بازو پکڑ کر اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔‬
‫’’میری طرف دیکھو گے نہیں؟‘‘‬
‫ا ُس نے پوچھا۔ پھر دھیرے سے ہاتھ اٹھا کر رجب کی گردن کو ہلکے سے چ ُ‬
‫ھوا۔‬ ‫ُ‬
‫’’ یہ کیا کیا ہے تم نے؟۔۔۔ ‘‘‬
‫ا ُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔‬
‫رجب نے ا ُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ا ُس کی جانب دیکھا۔‬
‫ا ُس کی کالئی پہ لپٹی خون آلود پٹی اور اس میں سے رستا خون شوال کی آنکھوں کے‬
‫سامنے آگیا۔‬
‫ا ُس کی کالئی پہ لپٹی خون آلود پٹی اور اس میں سے رستا خون شوال کی آنکھوں کے‬
‫سامنے آگیا۔‬
‫شوال نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔ ادھر بھی‬
‫یہی حال تھا۔‬
‫’’یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا کے رکھی ہے؟۔۔۔ کیوں رجب!؟‘‘‬
‫جس محبت کو میں اپنی سچائی اور خلوص کے ساتھ جیتنا چاہتا تھا۔‬ ‫’’تو اور کیا کروں؟۔۔۔۔ ِ‬
‫میرے باپ نے دھوکا کر کے ا ُسی محبت کے ریپر میں تمہاری ہمدردی لپیٹ کر مجھے گفٹ کر دی۔‬
‫میری آٹھ مہینے کی تپسیا کو میرے باپ نے ایک ملحے میں ضائع کردیا۔۔۔ اور میں احمقوں‬
‫جس محبت کی جیت کی خوشی مناتا رہا۔ اصل میں وہ محبت تھی ہی نہیں۔ ایک بچے کی طرح‬ ‫کی طرح ِ‬
‫مجھے نّقلی محبت کا کھلونہ دے کر بہالیا گیا تھا۔‘‘‬
‫سن کر شاکڈ رہ گئی۔‬ ‫وہ رجب کی باتیں ُ‬
‫’’رجب!۔۔۔۔ میری محبت جھوٹ تھی؟۔۔۔ میں نے محبت کے نام پہ تم سے ہمدردی کی تھی؟‘‘‬
‫اس نے صدمے کے ساتھ پوچھا۔‬
‫رجب خاموش رہا۔‬
‫ا ُس کی خاموشی کا مطلب ’ہاں‘ تھا۔ جو شوال کو بےقرار کر گیا۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ میں نے کوئی جھوٹ نہیں بوال تم سے۔ کوئی ہمدردی نہیں کی۔‬
‫اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے اّبو کے ا ُس جھوٹ نے مجھے اظہار کرنے پہ مجبور کر دیا‬
‫تھا۔ لیکن میری محبت جھوٹی نہیں تھی۔ تمہارے خلوص‪ ،‬تمہاری سچائی کی میں بہت شروع میں ہی قائل‬
‫ہو گئی تھی۔ اور ِدل ہی ِدل میں تمہیں چاہنے لگی تھی۔ پھر بھی میں نے تم سے فاصلہ رکھا تھا تو ا ُس‬
‫کی کیئیں وجوہات تھیں۔۔۔ میرے ِدل پہ بہت سے زخم تھے‪ ،‬بہت سے ایسے حقائق تھے جو مجھے اظہار‬
‫سے روک رہے تھے۔۔۔۔‬
‫میں تم سے دُور تھی رجب!۔۔۔ لیکن تم سے پیار کرتی تھی۔ اور اب بھی کرتی ہوں۔‘‘‬
‫وہ اپنے الفاظ پہ زور دے کر اسے اپنی محبت کا یقین دالنے کی کوشش کر رہی تھی۔‬
‫رجب نے شاکی نظروں سے ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’تم پھر سے مجھے بہال رہی ہو۔۔۔۔ کہو؟۔۔۔ اب کیا جھوٹ بوال ہے تم سے میرے باپ نے؟ کیا‬
‫کہہ کر تمہیں یہاں آنے اور تمہیں یہ سب کہنے پہ مجبور کیا ہے؟‘‘‬
‫وہ ا ُسے دیکھ کر رہ گئی۔‬
‫’’جب مجھے تم پہ شک ہوا تھا تو میں نے تمہیں کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔‬
‫کیا تم بھی مجھے کوئی موقع نہیں دو گے؟۔۔۔۔ آئی کین پُروّو ِاٹ۔‘‘‬
‫شوال نے ملتجی نظروں سے ا ُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔‬
‫رجب ا ُس کی بات کے جواب میں خاموش رہا۔‬
‫’’کیا تم نے کبھی میرا دراز نہیں کھوال؟۔۔۔ کبھی ا ُس میں کچھ ِمال نہیں تمہیں؟‘‘‬
‫شوال نے پوچھا۔‬
‫رجب نےالجھن سے ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’ کیا؟۔۔۔۔‘‘‬
‫’’میں ابھی دکھاتی ہوں۔۔۔۔ میرے دراز کی چابی کہاں ہے؟‘‘‬
‫شوال نے کہا اور پوچھا۔‬
‫’’وہ تو تمہیں پتا ہو گا۔۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد کسی نے بھی تمہاری کسی چیز کو نہیں‬
‫چھُوا۔‘‘‬
‫رجب نے اپنی العلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔‬
‫شوال نے ’ہاں‘ میں سر ہالیا۔‬
‫’’آل رائٹ!۔۔۔ مجھے دو منٹ دو۔‘‘‬
‫شوال کہہ کر ُمڑی۔‬
‫’’آل رائٹ!۔۔۔ مجھے دو منٹ دو۔‘‘‬
‫شوال کہہ کر ُمڑی۔‬
‫جا کر املاری کھول کر اپنے تہہ کر کے رکھے کپڑوں کے نیچے سے اپنا پرس نکاال۔ ا ُس میں‬
‫سے چابی نکال کر اپنے دراز کا الک کھوال اور دراز باہر کھینچا۔‬
‫رجب ا ُلجھا ہوا اور متجسس سا ا ُس کی پیٹھ دیکھ رہا تھا۔‬
‫زیورات کے ڈبے ایک طرف کر کے ا ُس نے نیچے بچھا ریشمی کپڑا ہٹایا اور اس کے نیچے‬
‫چھپایا کاغذات کا بنڈل نکال کر واپس مڑی۔‬
‫’’یہ لو۔‘‘‬
‫رجب کے قریب آ کر ا ُس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات کا وہ بنڈل رجب کے ہاتھوں میں تھما دیا۔‬
‫بولی۔‬
‫’’یہ تمہارے وہ اسکیچز ہیں جو میں نے ا ُن آٹھ مہینوں میں بنائے تھے۔‘‘‬
‫رجب متحّیر سا ا ُسے دیکھے گیا۔ وہ کہنے لگی۔‬
‫’’تم جانتے ہو کہ آخری تین مہینے میں نے زیادہ تر بیمار رہ کر گزارے تھے۔ اور تقریبا ً سارا‬
‫وقت تم میرے ساتھ ہی تھے۔‬
‫ِان سکیچز کو دیکھو اور بتاؤ کہ تمہاری غیر موجودگی کے اس مختصر سے عرصے میں کیا‬
‫َمیں اتنے سارے سکیچز بنا سکتی تھی؟۔۔۔‬
‫تب تو تمہیں دیکھنے سے میرا ِدل نہیں بھرتا تھا۔ سکیچز کہاں بناتی؟‘‘‬
‫ا ُس نے کہا تو رجب ورق پلٹ پلٹ کر ایک کے بعد ایک سکیچ دیکھنے لگا۔ سکیچز دیکھتے ہوئے‬
‫ا ُس کی حیرت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔‬
‫شوال کہہ رہی تھی۔‬
‫’’یہ سارے سکیچز ا ُن شروع کے آٹھ مہینوں کے ہیں۔ جب میں تم سے پیار کرنے لگی تھی‬
‫لیکن تمہارے قریب آنے سے کتراتی تھی۔ تب میں بیٹھ کر تمہارے سکیچز بنایا کرتی تھی۔‘‘‬
‫’’اتنے زیادہ ٹاپ لیس سکیچز!۔۔۔۔ میں تو ایسے شرٹ نکال کر نہیں گھومتا۔‘‘‬
‫اکثریت ٹاپ لیس سکیچز کی تھی تو رجب کا معتجب ہونا فطری تھا۔ سو اپنی سوالیہ نظریں‬
‫شوال کے چہرے پہ گاڑھ دیں۔‬
‫ا ُس کے تعجب پہ شوال کے ہونٹوں پہ گہری مگر شرمیلی مسکراہٹ آ ٹھہری۔‬
‫’’کیونکہ تم مجھے ٹاپ لیس اچھے لگتے ہو۔‘‘‬
‫شوال نے کہا تو رجب کے لبوں پہ بھی ویسی ہی شرمیلی مسکان بےساختہ تھی۔‬
‫’’کیا؟۔۔۔۔‘‘‬
‫ِ‬
‫’’تمہیں یاد ہے وہ دن؟۔۔۔ جب پہلی بار تمہاری اّمی نے مجھ سے ناشتہ بنوایا تھا؟۔۔۔ میں‬
‫کمرے میں آئی تھی تمہیں ناشتے کے لئے ُبالنے۔ اور تم وینٹی ٹیبل کے سامنے ٹاپ لیس کھڑے اپنے پہلو کے‬
‫زخم کی ڈریسنگ کر رہے تھے؟۔۔۔۔ ‘‘‬
‫شوال ا ُسے وہ ِدن یاد ِدال رہی تھی۔‬
‫رجب کو وہ ِدن بخوبی یاد تھا۔‬
‫’’ہاں۔۔۔۔۔۔‘‘‬
‫یاد کرتے ہوئے بوال۔ پھر حیرت کے ساتھ شوال کو دیکھا۔‬
‫’’اس دن شوال!۔۔۔ بالکل شروع میں ہی؟۔۔۔‘‘‬
‫’’ہاں۔۔۔ اسی ِدن سے میں تمہیں چاہنے لگی تھی۔۔۔۔ کیا اب بھی یقین نہیں کرو گے میرا؟‘‘‬
‫شوال نے کہا اور پوچھا۔‬
‫رجب کا ِدل درد سے بھر گیا۔ شوال بہت پہلے سے ہی اسے چاہنے لگی تھی۔ پھر بھی وہ اتنا‬
‫ُ‬
‫عرصہ ا ُس کی بےاعتنائی سہتا رہا تھا۔ اور آخرکار بدگمان بھی ہو گیا۔ ا ُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ‬
‫ِنکلے۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫ِنکلے۔‬
‫’’شوال!‘‘‬
‫ا ُس کی آواز آنسوؤں سے بوجھل تھی۔‬
‫شوال آگے بڑھ کر ا ُس کے سینے سے لگ گئی۔‬
‫ا ُس نے ا ُسے اپنے بازوؤں کے ح ّ‬
‫صار میں لے لیا۔‬
‫وہ دونوں ہی بےآواز آنسو بہا رہے تھے۔‬
‫’’تم نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ اور تم نے مجھ‬
‫سے بھی وعدہ کیا تھا کہ تم دوبارہ کبھی مجھ سے نفرت نہیں کرو گی۔ کبھی دھتکارو گی نہیں۔‬
‫میں اپنے وعدے پہ آج بھی قائم ہوں۔ لیکن تم نے اپنا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا؟۔۔۔‬
‫میرا اعتبار کیوں نہیں کیا؟۔۔۔ کیوں چلی گئی مجھے چھوڑ کر؟۔‘‘‬
‫ا ُس کے سر پہ پیشانی ٹکائے وہ نہایت ُدکھ سے شکواہ کر رہا تھا۔‬
‫’’آئم سوری۔۔۔۔ آئم سوری۔‘‘‬
‫شوال رو دی۔‬
‫’’جانتی ہو؟۔۔۔ وہ جو واز )‪ (vase‬تم نے مارا تھا۔۔۔ وہ مجھے یہاں نہیں‪ ،‬یہاں لگا تھا۔‘‘‬
‫رجب نے پہلے اپنے سر پہ پھر اپنے ِدل پہ ہاتھ رکھا۔‬
‫’’آئم سوری۔۔۔۔‘‘‬
‫شوال کے رونے میں شدت آ گئی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫کھانے کی میز پہ وجاہت علی‪ ،‬اسرار احمد ‪ ،‬سکینہ بیگم‪ ،‬رجب اور اس کے پہلو میں شوال‬
‫بیٹھی تھی۔ زیادہ بات چیت تو نہیں ہو رہی تھی لیکن ماحول کافی ُپرسکون تھا۔‬
‫سکینہ بیگم نے شوال کی پلیٹ میں اور چاول ڈالے۔‬
‫’’لو ناں بیٹا!۔۔۔ تم تو کچھ کھا ہی نہیں رہی۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے پانی کا گالس ا ُٹھاتے ہوئے شوال کی جانب دیکھا۔‬
‫’’کھانے سے فارغ ہوں تو پھر ہم چلتے ہیں۔‘‘‬
‫چمچ منہ کی طرف لے جاتا رجب کا ہاتھ ُرک گیا۔ وہ اسرار احمد کا چہرہ دیکھنے لگا۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بھی چونک کر ا ُن کی طرف دیکھا۔ حت ٰی کہ شوال بھی آنکھوں‬
‫میں وہی سوال لئے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔‬
‫’’ہم۔۔۔ ہم سے کیا مطلب ہے تمہارا؟۔۔۔۔ تم اور کون؟‘‘‬
‫وجاہت علی نے سب سے پہلے پوچھنے کی ہّمت کی۔‬
‫’’میں اور شوال۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ایسے جواب دیا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ظاہر سی بات ہے۔ اور پانی کا گالس‬
‫لبّوں سے لگا لیا۔‬
‫’’شوال؟۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے جرح کرنا چاہی ۔ اسرار احمد نے پانی پینے کے بعد گالس واپس میز پہ رکھتے‬
‫ہوئے وجاہت علی کی طرف براِہ راست دیکھا۔‬
‫’’ تمہیں کیا لگتا ہے؟۔۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو آج ایسے ہی یہاں چھوڑ کر چال جاؤں گا؟‘‘‬
‫انھوں نے سرد مہری سے سوال کیا۔ پھر ٹھوس لہجے میں بولے۔‬
‫’’تمہیں اپنے بیٹے کی بارات لے کر آنا ہوگا۔ میری بیٹی پوری رسموں کے ساتھ باقاعدہ‬
‫رخصت ہو کر ِاس گھر میں آئے گی۔‘‘‬
‫اسرار احمد بتا نہیں رہے تھے۔ بلکہ حکم سنا رہے تھے۔‬
‫یہ سن کر وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بیک وقت رجب کی جانب دیکھا۔ جبکہ رجب شوال‬
‫اسرار احمد بتا نہیں رہے تھے۔ بلکہ حکم سنا رہے تھے۔‬
‫یہ سن کر وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بیک وقت رجب کی جانب دیکھا۔ جبکہ رجب شوال‬
‫کی جانب دیکھ کر مطمعین سا مسکرا دیا۔ رجب سے نظریں ہٹا کر دونوں میاں بیوی نے ایک دوسے کی‬
‫جانب دیکھا اور طمانیت سے مسکرا دیئے۔‬
‫’’ ہاں ‪ ،‬ہاں ضرور!‘‘‬
‫وجاہت علی نے ہامی بھر لی۔‬
‫’’اور میری بیٹی کا پھر سے نکاح ہو گا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے اور بھی سخت لہجے میں کہتے ہوئے وجاہت علی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال‬
‫کر کہا۔ گویا جاننا چاہتے تھے وجاہت علی کو کوئی اعتراض ہوگا؟‬
‫وجاہت علی بولے کچھ نہیں۔ الجھن سے اسرار احمد کا چہرہ دیکھنے لگے کہ دوبارہ نکاح کا‬
‫کیا مقصد۔‬
‫’’لیکن اس بار نکاح ہماری شرائط کے مطابق ہو گا۔ حق مہر میں پچاس الکھ روپے اور یہ‬ ‫ِ‬
‫گھر شوال کے نام ِلکھ کر دو گے۔‘‘‬
‫سن کر وجاہت علی کا چہرہ فورا ً تاریک ہو گیا۔ نظر سیدھی رجب پہ‬ ‫اسرار احمد کی مانگ ُ‬
‫گئی۔‬
‫وہ بھی حیران سا بیٹھا اسرار احمد کی جانب دیکھ رہا تھا۔ انھوں نے واپس نظریں گھما کر‬
‫اسرار احمد کی جانب دیکھا۔‬
‫’’منظور ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے گویا یہ چیلنج بھی قبول کر لیا۔‬
‫اسرار احمد پہلے حیران ہوئے۔ پھر ا ُن کے چہرے پہ اطمینان آیا چاہتا تھا کہ رجب بول اٹھا۔‬
‫ُ‬
‫’’لیکن مجھے منظور نہیں۔‘‘‬
‫سب نے یک لخت چونک کر رجب کی جانب دیکھا۔‬
‫رجب بوال تو ا ُس کے لہجے میں بھی چٹانوں کی سی سختی تھی۔ اسرار احمد کی جانب‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔‬
‫ِ‬
‫’’میں حق مہر میں اپنا آپ شوال کے نام کر دوں گا۔ لیکن شوال اس گھر میں نہیں رہے گی۔‬
‫یہ گھر‪ ،‬یہ دولت ِمسٹر وجاہت علی کی ہے۔ میرا ِان کی کسی چیز سے کوئی واسطہ نہیں۔‬
‫میں اپنا بزنس‪ ،‬اپنے شئیرز الگ کر رہا ہوں۔ اپنا گھر بھی الگ لوں گا اور شوال رخصت ہو کر‬
‫ا ُسی گھر میں جائے گی۔ ہم وہیں رہیں گے اور میں اپنا سب کچھ شوال کے نام کرنے پہ تیار ہوں۔ لیکن‬
‫میرا ِمسٹر وجاہت علی سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘‬
‫’’رجب ! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ یہ سب کچھ تمہارا ہی تو ہے؟۔۔۔ اور کون ہے میرا جس کو‬
‫دوں گا۔‘‘‬
‫ِ‬
‫وجاہت علی کی تو مانو جان ہی نکل گئی۔‬
‫سکینہ بیگم الگ سے پریشان ہو گئی تھیں۔‬
‫’’یہ سب کچھ آپ کا ہے اور آپ کو ہی مبارک ہو۔ اور آپ ڈیسائڈ کر لیں کے آپ کِس کو دیں‬
‫گے۔‬
‫بہرحال۔ مجھے نہیں چاہیئے۔‘‘‬
‫رجب نے پوری بدلحاظی کے ساتھ وجاہت علی کو جواب دیا۔‬
‫سن رہے تھے۔ جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کر‬ ‫اسرار احمد بغور ا ُن باپ بیٹے کے مکاملے ُ‬
‫رہے ہوں۔‬
‫’’رجب پلیز!۔۔۔ تم ہمارا اکلوتا بیٹا ہو۔۔۔ تمہارے سوا کون ہے ہمارا۔‘‘‬
‫وجاہت علی اتنی آسانی سے ہار ماننے کو تیار نہیں تھے۔ رجب کو راضی کرنا ضروری تھا۔‬
‫ورنہ اگر وہ اپنی کہی پہ اڑ جاتا تو وہ ساری عمر اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترستے رہ جاتے۔‬
‫اسرار احمد ا ُن کی بات کاٹ کر مداخلت کرتے ہوئے سختی سے بول ا ُٹھے۔‬
‫ورنہ اگر وہ اپنی کہی پہ اڑ جاتا تو وہ ساری عمر اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترستے رہ جاتے۔‬
‫اسرار احمد ا ُن کی بات کاٹ کر مداخلت کرتے ہوئے سختی سے بول ا ُٹھے۔‬
‫’’تمہارا کیا پرابلم ہے وجاہت!۔۔۔ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہنا چاہتا ہے تو‬
‫تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟‘‘‬
‫پھر وہ رجب کی جانب ُمڑے۔‬
‫’’ویلڈن برخوردار!۔۔۔ یہ ہوتا ہے ایک مرد کا بات کرنے کا طریقہ۔ آئی الئیکڈ ِاٹ۔ ‘‘‬
‫انھوں نے رجب کی سائیڈ لیتے ہوئے رجب کو سراہا۔‬
‫وجاہت علی کو اسرار احمد کی یہ مداخلت بالکل پسند نہ آئی۔ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ا ُن‬
‫کے پہلو میں بیٹھی سکینہ بیگم نے ا ُن کا بازو دبوچ کر انھیں کچھ بھی کہنے سے روک لیا۔‬
‫اسرار احمد رجب سے کہہ رہے تھے۔‬
‫’’کسی ِدن آؤ ناں میرے گھر۔۔۔۔ کچھ دیر اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ کریں گے۔۔۔ کیا خیال ہے؟‘‘‬
‫’’جی ضرور۔‘‘‬
‫رجب ِدل سے امادہ تھا۔‬
‫’’ِاس ویک اینڈ پہ آ سکتے ہو؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے پوچھا۔‬
‫’’جی ٹھیک ہے۔۔۔ کِس ٹائم؟‘‘‬
‫رجب نے کہا اور پوچھا۔‬
‫’’ اینی ٹائم بیٹا!۔ تمہارا اپنا گھر ہے۔۔۔۔ ضرور آنا پھر۔ میں تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے وعدہ لیا۔‬
‫رجب نے بھی سر ہال کر آنے کی ہامی بھر لی۔‬
‫وجاہت علی بمشکل خاموش بیٹھے تھے۔ کھانے سے بھی ا ُنھوں نے اپنا ہاتھ روک لیا تھا۔‬
‫رجب کا تلخ رویّہ ‪ ،‬ا ُن کےلئے اس کی ناپسندیدگی اور ا ُن سے الگ ہونے کا فیصلہ۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو‬
‫ا ُن کے لئے کبھی بھی قابِل قبول نہیں ہو سکتی تھیں۔ لیکن ایسا ہو رہا تھا اور وہ کوئی اعتراض یا‬
‫احتجاج بھی نہیں کر پا رہے تھے۔‬
‫دوسری طرف اسرار احمد ایک گہری نظر وجاہت علی اور رجب پہ ڈالنے کے بعد کسی سوچ‬
‫میں پڑ گئے تھے۔ ا ُن کے ذیہن میں کچھ چل رہا تھا۔ جیسے وہ ذیہن میں کوئی منصوبہ تیار کر رہے تھے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫واپسی کے وقت سکینہ بیگم‪ ،‬وجاہت علی اور رجب گھر سے باہر تک انھیں چھوڑنے آئے۔‬
‫ِ‬
‫اسرار احمد خداحافظ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ جبکہ شوال سکینہ بیگم سے ملنے‬
‫کے بعد رجب کی طرف پلٹی۔‬
‫’’اچھا رجب! ویک اینڈ پہ ِملیں گے۔‘‘‬
‫رجب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫’’فون ہو گا ناں تمہارے پاس ۔۔۔ کیا نمبر ہے؟‘‘‬
‫رجب نے بےچینی سے پوچھا۔‬
‫شوال نے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’نہیں۔۔ میں نے کوئی فون نہیں رکھا ہوا۔‘‘‬
‫’’اچھا۔ پھر دو منٹ رکو ۔ میں ابھی آیا۔‘‘‬
‫رجب کہہ کر گھر کے اندر بھاگ گیا۔‬
‫وہ وہیں کھڑی رہ کر ا ُس کا انتظار کرنے لگی۔‬
‫جلد ہی رجب واپس آ گیا۔‬
‫’’یہ لو۔ تمہارا فون۔‘‘‬
‫جلد ہی رجب واپس آ گیا۔‬
‫’’یہ لو۔ تمہارا فون۔‘‘‬
‫رجب نے ہاتھ میں پکڑا فون باکس ا ُس کی طرف بڑھایا۔ شوال نے مسکرا کر فون باکس تھام‬
‫لیا۔‬
‫’’فیس ٹائم می۔ او۔ کے؟‘‘‬
‫رجب نے سرگوشیانہ کہا۔‬
‫شوال نے مسکراتے ہوئے سر ہال دیا۔ پھر خدا حافظ کہہ کر گاڑی میں آ بیٹھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ ِدن اس کی زندگی کا ایک یادگار ِدن تھا۔ اسرار احمد کے گھر جاتے ہوئے ا ُس کے ذیہن‬
‫میں ہزاروں باتیں اور مختلف طرح کے خیاالت آ رہے تھے۔ جنکی وجہ سے وہ ا ُن کے گھر جاتے ہوئے کافی‬
‫نروس تھا۔ مگر وہاں پہ اسرار احمد اور باقی سب گھر والوں نے اس کا ُپرتپاک استقبال کیا۔ کامران اور‬
‫عمران بھی ا ُس کی خاطر خاص طور سے گھر پہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ا ُسے گلے لگا کر ِملے۔ اسرار احمد نے‬
‫ا ُسے اپنی دونوں بہوؤں اور دونوں پوتوں سے متعارف کروایا۔ سب کے ساتھ بیٹھ کر ا ُس نے چائے پی۔ بہت‬
‫خوشگوار محفل تھی۔ خوب گپ شپ اور ہنسی مزاق ہوا۔ ا ُسکی ساری گھبراہٹ اور اجنبیت کا احساس‬
‫جاتا رہا۔ سب ہی کے ساتھ اپنائیت محسوس ہو رہی تھی۔ کامران اور عمران تو کیا۔ ا ُس کی تو اسرار‬
‫احمد سے بھی اچھی خاصی دوستی ہو گئی۔ اسرار احمد جس طرح سے گفتگو میں شامل تھے۔ لگ ہی‬
‫نہیں رہا تھا کہ وہ کامران‪ ،‬عمران کے والد تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ا ُن کا کوئی ہم عمر اور پرانا‬
‫دوست بیٹھا ہو۔‬
‫چائے ختم ہونے کے بعد علیزہ اور کنزہ برتن سمیٹنے لگیں تو اسرار احمد معذرت خواہانہ انداز‬
‫میں بولے۔‬
‫’’ اچھا بھئی۔ میں اسٹڈی میں جا کر اپنے ایک دو کام نمٹا لوں۔۔۔ لیکن تم کہیں مت جانا۔ آج‬
‫رات کا کھانا تم ہمارے ساتھ کھا رہے ہو۔‘‘‬
‫’’پر انکل!۔‘‘‬
‫وہ یہ سن کر بوکھال سا گیا۔ پہلی دفعہ ان کے گھر آیا تھا۔ پھر اتنی دیر کیوں کر ُرک سکتا‬
‫تھا۔‬
‫’’نہیں۔‘‘‬
‫ُ‬
‫اسرار احمد نے بےلچک آواز میں کہتے ہوئے اسے ٹوک دیا۔‬
‫’’میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔ ‘‘‬
‫پھر محبت اور نرمی سے بولے۔‬
‫ِ‬
‫’’ تکلف کیوں برت رہے ہو؟۔ تم بچے ہو میرے۔۔۔ اچھا۔ بعد میں ملتے ہیں۔‘‘‬
‫کہہ کر اسرار احمد ا ُٹھ گئے۔‬
‫اسرار احمد کا اصرار دیکھتے ہوئے وہ مزید کچھ نہ کہہ سکا۔‬
‫’’ ہم بھی ابھی آتے ہیں۔‘‘‬
‫ا ُن دونوں کو اکیال چھوڑنے کی غرض سے کامران اور عمران بھی بہانہ بنا کر چل دیئے۔‬
‫سب کے جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کی اور دیکھا۔ دونوں مسکرا دیئے۔‬
‫’’یہیں بیٹھو گے یا میرے کمرے میں چلیں؟‘‘‬
‫شوال نے پوچھا۔‬
‫’’تمہارے کمرے میں چلتے ہیں۔ لیکن ا ُس سے پہلے تم آؤ میرے ساتھ۔‘‘‬
‫وہ کہتا ہوا ا ُٹھ کھڑا ہوا۔‬
‫’ ’ کہاں؟ ‘ ‘‬
‫شوال بھی ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫’ ’ کہاں؟ ‘ ‘‬
‫شوال بھی ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔‬
‫’’میں تمہارے لئے روزز کا ُبکے الیا تھا۔۔۔ گاڑی میں پڑے ُمرجھا رہے ہوں گے۔‘‘‬
‫’’بُکے؟۔۔۔ پہلے تو تم میرے لئے صرف ایک روز دیا کرتے تھے۔‘‘ شوال نے اچنبھے سے کہا۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ مگر ُبکے ِاس لئے الیا ہوں کہ تم یہ نہ کہو کہ میں کنجوس ہوں۔۔۔ ہمیشہ ایک ہی روز‬
‫دیتا ہوں۔‘‘‬
‫جسے پیار کرو ا ُس کے لئے ہوتا ہے۔ جبکہ ُبکے تو گھر کی سجاوٹ‬ ‫’’جی نہیں۔۔۔ ایک روز‪ِ ،‬‬
‫کے لئے ہوتا ہے۔‘‘ شوال نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔‬
‫’’اچھا میڈم! ۔۔۔ ویسے‪ ،‬جو روزز میں تمہارے لئے الیا ہوں۔ وہ پورا بُکے دیکھ کر بھی تمہیں‬
‫اچھا لگے گا۔‘‘‬
‫رجب نے ایسے کہا جیسے کوئی بہت ہی خاص چیز الیا ہو۔‬
‫’’اچھا۔۔۔ ایسا کیا خاص ہے ا ُن میں؟‘‘‬
‫شوال پوچھے بنا نہ رہ سکی۔‬
‫’’چلو ناں۔۔۔ چل کر خود ہی دیکھ لو۔‘‘‬
‫رجب ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑا۔‬
‫پورٹیکو میں پہنچ کر ا ُس نے اپنی کار کی بیک ڈور کھولی اور سیٹ پر سے جو ُبکے ا ُٹھا کر‬
‫ھل گیا۔ ا ُس نے جگمگاتی‬ ‫سرت کے ِملے ُجلے تاثرات سے شوال کا منہ ک ُ‬ ‫ا ُس کی طرف پلٹا تو حیرت و م ّ‬
‫ھلے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔‬ ‫آنکھیں ُبکے پہ جمائے ہوئے اپنے ک ُ‬
‫قوس قزاح کے رنگوں والے گالبوں کا ُبکے رجب نے شوال کی طرف بڑھایا۔‬
‫’’واؤ۔۔۔۔۔ ‘‘‬
‫شوال نے بُکے تھاما۔ پھولوں کو چھوتے ہوئے ا ُسے یقین نہ آیا۔‬
‫’’یہ اصلی ہیں؟‘‘‬
‫ا ُس نے سوالیہ نظروں سے رجب کو دیکھا۔‬
‫’آف کورس۔۔۔ کبھی پہلے دیکھے نہیں تم نے؟۔۔۔‘‘ رجب نے تعجب سے پوچھا۔‬
‫’’دیکھے ہیں۔۔۔ آئی مین‪ ،‬انٹرنیٹ پہ۔۔۔ پر میرا خیال تھا کہ آرٹی ِفشل ہیں۔ یا پھر فوٹو‬
‫ایڈٹنگ کی ہوئی ہے۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ اصلی بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘‬
‫’’خیر۔۔ اصلی ہوتے تو نہیں۔۔۔ لیکن اصلی کو ایسا بنایا جاتا ہے۔‘‘ رجب نے کہا۔‬
‫شوال نے خوشی سے بےقابو ہو کر اپنا بازو ا ُس کے گلے میں ڈال ِدیا۔‬
‫’’تھینک یُو۔۔۔ تھینک یُو۔۔۔ تھینک یُو۔۔۔ ‪‘‘ They are so….. amazing.‬‬
‫شوال بہت خوش تھی۔ اور وہ بھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ بیٹھی رجب سے فیس ٹائم پہ بات کر رہی تھی۔‬
‫’’تم نے اپنا بزنس الگ کر لیا؟‘‘‬
‫ا ُس نے پوچھا۔‬
‫’’نہیں جانم! اتنا آسان تھوڑا ہے۔ ابھی کچھ وقت لگے گا اپنے شیئرز نکالنے میں۔‘‘‬
‫رجب نے جواب دیا۔‬
‫’’اور سات ہفتے بعد ہماری شادی کا فنکشن ہے۔ تب تک تو نہیں ہو سکے گا۔؟‘‘‬
‫شوال نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔‬
‫’’ہاں۔۔۔ اپنے شیئرز الگ کرنے اور پھر اپنا بزنس اسٹارٹ کرنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔‬
‫دو مہینے بہت کم ہیں۔‘‘‬
‫’’ہاں۔۔۔ اپنے شیئرز الگ کرنے اور پھر اپنا بزنس اسٹارٹ کرنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔‬
‫دو مہینے بہت کم ہیں۔‘‘‬
‫’’مکان کا مسلۂ بھی جوں کا توں ہے۔ ا ُس کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟‘‘‬
‫شوال نے دوسری پریشانی ظاہر کی۔‬
‫’’اتنے کم عرصے میں تو ہم اپنا مکان نہیں بنا سکتے۔ اور میں تمہیں ا ُس گھر میں بھی نہیں‬
‫رکھوں گا۔ ہمیں وقتی طور پر کوئی مکان کرایے پہ لینا ہو گا۔‘‘‬
‫’’میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔ تمہارے پاس اتنا پیسہ بھی تو نہیں ہوگا کہ مکان اور بزنس‬
‫دونوں پہ ایک ساتھ خرچہ کر سکو۔ ‘‘‬
‫شوال نے تائید کرتے ہوئے کہا۔ پھر پالننگ کرتے ہوئے بولی۔‬
‫’’ تو پھر ٹھیک ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ ابھی ہم صرف کوئی مکان رینٹ پہ لے کر ا ُسے فرنش‬
‫وغیرہ کرواتے ہیں۔ پھر ہماری شادی کے بعد تم اپنے شیئرز نکال کر اپنا بزنس بھی اسٹارٹ کر لینا۔ اگر‬
‫ابھی تم بزنس کی طرف لگ جاؤ گے تو مکان تالش کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔ پھر ا ُس کی فرنشنگ‪ ،‬کلرنگ‪،‬‬
‫ڈیکوریشن وغیرہ۔ یہ سب بھی تو کرنا ہے۔ میں اکیلی تو یہ سب نہیں کروا سکتی۔۔۔۔ اور ویسے بھی۔ میں‬
‫نہیں چاہتی کہ جب ہم دوبارہ سے ایک ساتھ زندگی کا آغاز کریں تو تم اپنے نئے بزنس میں ا ُلجھ کر‬
‫مجھے اگنور کرو۔‘‘‬
‫اس نے آخر میں منہ ُپھال کر کہا۔‬
‫رجب ا ُس کے منہ پھالنے پہ مسکرا دیا۔‬
‫کچھ سوچتے ہوئے بوال۔‬
‫’’ہوں۔۔۔ ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ ابھی بزنس اور گھر دونوں کا پھڈا کھول لیا تو اگلے دو‬
‫مہینوں میں کوئی ایک کام بھی پورا نہیں ہو گا۔۔۔ اور میں تمہیں کسی صورت بھی ِاس گھر میں نہیں‬
‫رکھوں گا۔‘‘‬
‫جواب میں شوال مطمعین ہو کر مسکرا دی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اس رات وجاہت علی بےچینی کے عالم میں ہال کا طول و عرض ناپ رہے تھے۔ ا ُن کی پریشانی‬
‫کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔‬
‫سکینہ بیگم ہاتھ میں اپنا موبائل فون لئے ا ُن کے قریب آئیں تو انھوں نے اپنا مارچ روک کر‬
‫بےچین نگاہیں ان پہ جما دیں۔‬
‫’’بات ہوئی ا ُس سے؟‘‘‬
‫’’ہاں۔۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ کھانا کھا کر آئے گا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے مطلع کیا۔‬
‫وجاہت علی کے سینے میں آگ لگ گئی۔‬
‫’’دیکھا‪ ،‬دیکھا۔۔۔ مجھے معلوم تھا۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ یہی کہے گا وہ۔۔۔ پچھال ویک اینڈ‬
‫بھی سارا دن وہاں گزارا اس نے۔ اور آج بھی۔۔۔۔ ِاس کے عالوہ مجھے پتا چال ہے کہ پرسوں شام کو وہ‬
‫اسرار کے دونوں بیٹوں‪ ،‬کامران اور عمران کے ساتھ گھوم رہا تھا۔‬
‫میں تمہیں بتا رہا ہوں سکینہ! کہ وہ لوگ ِمل کر اسے بہکا رہے ہیں۔ ورنہ تم ہی بتاؤ۔۔۔ راتو‬
‫رات اسرار کے ِدل میں میرے بیٹے کے لئے ایسی کونسی محبت پیدا ہو گئی ہے؟ جو وہ ا ُسے سارا سارا ِدن‬
‫اپنے گھر میں اپنی آنکھوں کے سامنے ِبٹھا کر نہارتا ہے؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم جواب میں خاموش رہیں۔‬
‫’’ا ُس ِدن میں رجب کو راضی کر لیتا۔ لیکن تم نے مجھے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔ ‘‘‬
‫وجاہت علی سکینہ بیگم پہ الزام دھرنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم خاموش نہ رہ سکیں۔‬
‫وجاہت علی سکینہ بیگم پہ الزام دھرنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم خاموش نہ رہ سکیں۔‬
‫’’اگر میں آپ کو نہ روکتی تو آپ دونوں کی بحث تلخ کالمی میں بدل جاتی۔ ابھی‪ ،‬ابھی ہمارا‬
‫بیٹا اس صدمے سے ِنکل کر کچھ سنبھال تھا۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ پھر سے فرسٹریٹ ہو جاتا؟۔۔۔‘‘‬
‫’’اور اب جو ہو رہا ہے وہ؟۔۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی تڑخ کر بولے۔‬
‫’’دیکھ رہی ہو اس آدمی کی حرکتیں؟۔۔۔۔ ہمارے حاالت کا فائدہ ا ُٹھا کر کیسے وہ رجب کو‬
‫اپنی طرف کر رہا ہے۔‬
‫دیکھ لینا تم۔۔۔ گھر اور کاروبار‪ ،‬دونوں میں میرے اپنے بیٹے کو میرے خالف استعمال کرے‬
‫گا۔‘‘‬
‫پھر خودکالمی کے انداز میں بولے۔‬
‫’’اور میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے کچھ کرنا ہو گا۔‘‘‬
‫وہ کوئی ترکیب سوچنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم پھر سے احتجاجا ً بول ا ُٹھیں۔‬
‫’’آپ کچھ نہیں کریں گے۔ ‘‘‬
‫لہجہ حکمیہ اور دھمکی آمیز تھا۔‬
‫’’ میرا بیٹا بار بار موت کے منہ میں جا کر واپس آیا ہے۔۔۔ ہم نے تو ا ُسے پاگل مان لیا تھا۔‬
‫لیکن یہ اسرار اور اس کی بیٹی ہی ہیں جنہوں نے ا ُسے پھر سے زندگی کی طرف لوٹایا ہے۔۔۔ آج ہمارا بیٹا‬
‫صحیح سالمت ہے تو سب ا ُن کی مہربانی کی بدولت۔۔۔ اس کے بدلے اگر اسرار ہم سے ہمارا سب کچھ‬
‫بھی چھین لے تو ہمیں افسوس نہیں ہونا چاہیئے۔‬
‫چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔ اپنی دولت یا اپنے ذیہنی سکون کی خاطر میں رجب کی زندگی‬
‫پہ کوئی رسک لوں گی نہ آپ کو ایسا کچھ کرنے دوں گی۔‘‘‬
‫وجاہت علی اپنی بیوی کا یہ روپ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔‬
‫وہ اور سکینہ بیگم پیدائش کے وقت سے ایک ساتھ تھے۔ ایک ال ا ُبالی سی‪ ،‬شوخ اور چنچل‬
‫لڑکی۔ جس کے مزاج میں گزرتا وقت کافی ٹھہراؤ لے آیا تھا۔ کبھی بھی اس لڑکی نے کسی سے تیز لہجے‬
‫میں بات نہیں کی تھی۔ ا ُس وقت بھی نہیں جب اسے ا ُن کی دوسری شادی کی تیاریوں کی خبر ہوئی‬
‫تھی۔ تب بھی ا ُنھوں نے روتے ہوئے وجاہت علی سے شکوے کئے تھے اور اپنی نامنظوری ظاہر کی تھی۔‬
‫لیکن ہمیشہ ا ُن کی اطاعت کرنے والی اور ان کے ہر صحیح‪ ،‬غلط کام اور فیصلے کو ِبال اعتراض تسلیم‬
‫کرنے والی یہ امن پسند اور بےضرر سی عورت اس طرح کبھی ا ُن کے مقابلے میں کھڑی ہو گی‪ ،‬ان کو اپنے‬
‫فیصلے سنائے گی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔‬
‫سکینہ بیگم کہہ رہی تھیں۔‬
‫’’ساری زندگی میں نے آپ کے ہر فیصلے کے آگے سر جھکایا ہے۔ کبھی آپ کے کسی بھی‬
‫فیصلے پہ اعتراض نہیں کیا۔۔۔۔ لیکن‪ ،‬اب اگر مجھے معلوم ہوا کہ آپ کی پھر کسی غلط حرکت کی وجہ‬
‫سے میرے بیٹے کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے تو یاد رکھیں وجاہت!۔۔۔ یہ گھر اور دولت لے کر آپ یہاں‬
‫تنہا بیٹھے رہ جائیں گے۔۔۔۔‬
‫فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ آپ کو بیوی اور بیٹا چاہیئے؟۔۔۔ یا اپنا یہ گھر اور دولت؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم دھمکی دے کر‪ ،‬وجاہت علی کو ششدر چھوڑ کر وہاں سے چلی گیئیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اس وقت ہال میں اس کے ساتھ اسرار احمد کے سوا کوئی نہ تھا۔ اسرار احمد نے قریب ٹیبل‬
‫پر سے ٹی۔وی کا ریموٹ ا ُٹھایا۔‬
‫’’فلمیں دیکھتے ہو تم؟‘‘‬
‫پر سے ٹی۔وی کا ریموٹ ا ُٹھایا۔‬
‫’’فلمیں دیکھتے ہو تم؟‘‘‬
‫پوچھتے ہوئے ٹی۔وی آن کر کے ایک انڈین چینل لگا لیا۔‬
‫ا ُس کے جواب دینے سے پہلے ہی بول پڑے۔‬
‫’’آف کورس دیکھتے ہو گے۔۔۔ فیورٹ ہیروئن کون ہے تمہاری؟‘‘‬
‫’’میری جو فیورٹ ہے۔ وہ اب فلمیں ہی نہیں بناتی۔۔۔ اور جو بناتی ہیں۔ وہ ساری ایک جیسی‬
‫لگتی ہیں۔‘‘‬
‫ا ُس کے جواب پہ اسرار احمد نے گہری نظروں سے ا ُسے دیکھا۔‬
‫وہ سمجھ گیا۔ بوال۔‬
‫’’جوہی چاولہ۔‘‘‬
‫’’اچھا!۔۔۔ ہاں‪ ،‬قابِل تعریف لڑکی ہے۔‘‘‬
‫انھوں نے جیسے اعتراف کیا۔ پھر ا ُس کی طرف قدرے ُجھک کر بولے۔‬
‫’’ لیکن میری پسند پوچھو گے ناں۔۔۔ تو میں آج بھی کہوں گا کہ ریکھا جیسا کوئی نہیں‬
‫ہے۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔‘‘‬
‫آخر میں قہقہہ لگا کر رجب کے آگے اپنا ہاتھ پھیال دیا۔‬
‫رجب نے بھی ا ُن کا ساتھ دیتے ہوئے ا ُن کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ مار دیا۔‬
‫وہ کہنے لگے۔‬
‫’’ایسا وقت ہر ایک پہ آتا ہے۔۔۔ جب ہم جوان ہوتے ہیں تو فلموں کی ہیروئینز اچھی لگتی‬
‫ہیں۔۔۔ میں تو ریکھا کے سپنے بھی دیکھا کرتا تھا۔ لیکن جب انسان میری عمر کو پہنچتا ہے تو ٹی۔وی پہ‬
‫ناچتی گاتی ہیروئینز کو دیکھ کر اپنی بیٹیوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔۔۔ تب برداشت نہیں‬
‫ہوتا اور چینل فلِک )‪ (flick‬کر دیتے ہیں۔ ‘‘‬
‫پھر ہونٹوں پہ شرارتی مسکراہٹ ال کر بولے۔ ’’تب اپنے زمانے کی ہیروئینز کو بڑا ِمس کرتے‬
‫ہیں۔‘‘‬
‫ایک بار پھر وہ اور رجب ہنسنے لگے۔‬
‫صہ سناتا ہوں۔ ‘‘‬ ‫’’میں تمہیں اپنی جوانی کا ایک ق ّ‬
‫اسرار احمد ایسے بتانا شروع ہوئے جیسے کوئی مزاحیہ سا واقعہ یاد آ گیا ہو۔‬
‫’’ مجھے بھی جوانی میں ایک لڑکی سے عشق ہو گیا تھا۔ مگر ا ُس لڑکی کی شادی اپنے کزن‬
‫کے ساتھ ہو گئی۔‘‘‬
‫وہ ہنسے۔‬
‫وہ نہیں ہنسا۔ سنجیدگی کے ساتھ انھیں دیکھنے لگا۔‬
‫’’میں بہت مایوس ہوا۔ ایسا لگا جیسے زندگی ختم ہو گئی ہو۔ جینے کا کوئی مقصد نہ رہا‬
‫ہو۔۔۔ ِاس روگ میں مَیں خود کو ختم کرنے لگا۔ سگریٹ پینا شروع کر دیئے۔ اور بہت پیتا تھا۔۔۔‬
‫میرے اّماں ابا نے تین سال تک میری دیوانگی برداشت کی۔ پھر زبردستی ایک لڑکی میری‬
‫زندگی میں شامل کر دی۔‬
‫لیکن میں تب بھی ماضی کی یادوں میں جیتا تھا۔ کبھی ا ُس لڑکی میں دلچسپی نہیں لی۔‬
‫میرے دو بچے بھی پیدا ہو گئے۔ میں انھیں بھی اپنی زندگی میں کوئی جگہ نہ دے سکا۔ وہ لڑکی ماں اور‬
‫باپ‪ ،‬دونوں کی ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ ا ُس کی محبت‪ ،‬ا ُس کا ایثار۔۔۔ کچھ بھی مجھے اس کی طرف نہ‬
‫موڑ سکا۔ پھر جب شوال پیدا ہوئی تو کچھ کامپلی کیشنز کی وجہ سے اس کی حالت بہت بگڑ گئی۔ ا ُن‬
‫ش نظر میں اپنی ذمہداریاں ا ُٹھانے پہ مجبور ہو‬ ‫ِدنوں اّماں ابا بھی ساتھ نہیں تھے۔ تب حاالت کے پی ِ‬
‫گیا۔۔۔ میں اب بھی ایک مشین کی طرح اپنی تمام ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔‬
‫کچھ عرصہ درد اور تکالیف سے لڑنے کے بعد آخر کار میری بیوی زندگی کی جنگ ہار گئی۔‬
‫اس وقت وہ فقط پچیس برس کی تھی۔۔۔ مرتے وقت ا ُس نے اپنی زندگی میں صرف ایک چیز مانگی مجھ‬
‫سے۔ اور وہ یہ کہ میں اپنے بچوں کا خیال رکھوں۔ انھیں ُرلنے نہ دوں۔ ‘‘‬
‫اس وقت وہ فقط پچیس برس کی تھی۔۔۔ مرتے وقت ا ُس نے اپنی زندگی میں صرف ایک چیز مانگی مجھ‬
‫سے۔ اور وہ یہ کہ میں اپنے بچوں کا خیال رکھوں۔ انھیں ُرلنے نہ دوں۔ ‘‘‬
‫صہ کافی سنجیدگی اختیار کر چکا تھا۔ ا ُن کے لہجے اور آواز‬ ‫مزاحیہ انداز میں شروع کیا ق ّ‬
‫میں اپنے کئے پہ بہت پچھتاوا اور ندامت تھی۔‬
‫’’ اس کی موت نے مجھے اندر سے ہال دیا۔ وہ لڑکی‪ ،‬جس کی زندگی میں مجھے اس کی‬
‫موجودگی کا احساس کبھی نہ ہوا تھا۔ ا ُس کے جانے کے بعد ا ُس کی غیرموجودگی ستانے لگی تھی۔ تب‬
‫مجھے احساس ہوا کہ وہ میری زندگی میں کتنی اہم تھی۔۔۔۔‬
‫س جرم۔۔۔۔ میری‬ ‫پچھتاوے۔۔۔۔ ندامت۔۔۔ گزرے وقت کا مالل۔۔۔ ا ُسے نظرانداز کرنے کا احسا ِ‬
‫زندگی اور بھی کٹھن ہو گئی۔ میں اور بھی زیادہ سگریٹ پینے لگا۔ زندگی سے دلچسپی ختم ہو کر رہ‬
‫گئی۔۔۔ لیکن یہ بچے۔۔۔ جن کی ذمہ داریاں میں ایک مشین کی طرح نبھا رہا تھا۔۔ جانے کیوں مجھ سے‬
‫اتنا پیار کرتے تھے۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ مجھ سے لپٹ جاتے تھے۔ میرے ہاتھ پاؤں چومتے‬
‫تھے۔‬
‫ِ‬
‫ان کی محبت‪ ،‬ان کا پیار میں نظرانداز نہ کر سکا۔ میں شرمندہ ہونے لگا کہ یہ بچے میرے‬ ‫ِ‬
‫لئے ایک ذمہ داری سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہیں۔ لیکن میں ِان کے لئے ِان کا سب کچھ ہوں۔۔۔‬
‫یہ احساس مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔ میں نے سوچا کہ میں ان کے ساتھ‬
‫جو کر رہا ہوں‪ ،‬کیا وہ درست ہے؟۔۔۔۔ اور کیوں کر رہا ہوں میں ایسا؟ صرف ِاس لئے کہ مجھےمیری پسند‬
‫کی لڑکی نہیں ِملی ؟۔۔۔۔‬
‫وہ ایک لڑکی نہ ِملنے کی سزا میں نے سب کو دی۔ خود کو‪ ،‬اپنے ماں‪ ،‬باپ کو‪ ،‬اپنی بیوی کو‪،‬‬
‫اور اب اپنے بچوں کو بھی۔‬
‫مجھےاپنی خودغرضی کا احساس ہوا کہ میں نے ایک لڑکی نہ ملنے کے سبب اتنے سارے‬
‫بےقصور لوگوں کو ُدکھ دیا۔ ا ُن کی زندگیاں برباد کیں۔‬
‫ھل گیا۔ لیکن اس بار میں نے اپنی اصالح کرنے کی‬ ‫پچھتاؤں اور ندامت کا ایک اور باب ک ُ‬
‫ٹھانی۔ سوچا کہ اگر اب گزرےہوئے وقت پہ پچھتاؤں گا تو کل پھر ِاس وقت کو پچھتا کر گزارنے پہ پچھتا‬
‫رہا ہوں گا۔۔۔ تب میں نے سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ایک نئے سرے سے اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ‬
‫کیا۔۔۔ اپنی ساری توجہ‪ ،‬اپنی ساری محبت اپنی اوالد کے لئے وقف کر دی۔ ‘‘‬
‫اس نے اسرار احمد کے لہجے میں ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس کیا۔ وہ کہہ رہے تھے۔‬
‫’’بہت مشکل تھا میرے لئے۔۔۔ ا ُس لڑکی کو بھالنا۔۔۔ اپنی غفلت اور کوتاہیوں کو بھالنا۔۔۔ اور‬
‫سب سے مشکل تھا سگریٹ نوشی ترک کرنا۔۔۔۔ باقی سب کچھ پیچھے چھوڑ لیا میں نے۔ لیکن سگریٹ‬
‫تھے کہ کم بخت چھوٹتے ہی نہ تھے۔ ہر روز سگریٹ ا ُٹھا لیتا تھا اور کہتا تھا کہ آج کے بعد نہیں پیوں‬
‫گا۔۔۔ پھر ایک ِدن میں نے سگریٹ ا ُٹھاتے ہوئے اپنے آگے ہار مان لی۔۔۔ کہا کہ یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔‬
‫میں کبھی سگریٹ پینا نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘‬
‫انھوں نے ُرک کر رجب کی اور دیکھا۔‬
‫وہ جیسے ہمہ تن گوش تھا۔ اسرار احمد کی مایوس آنکھوں میں روشنی چمکی۔‬
‫’’جانتے ہو تب مجھے کیا خیال آیا؟۔۔۔۔‘‘‬
‫ذرا کی ذرا توقف کیا۔ پھر بتانے لگے۔‬
‫’’میں نے خود سے کہا کہ جو کام سراسر میری مرضی پہ منحصر ہے۔ اگر میں یہ نہیں کر‬
‫سکتا تو میں زنگی میں کیا کمائی کروں گا؟۔۔۔۔ جو آدمی اپنے ہی آگے ہار جائے‪ ،‬وہ ُدنیا میں کیا جیتے گا؟‬
‫کیا فتح کرے گا؟۔۔۔‘‘‬
‫انھوں نے رجب کی سمت دیکھا۔ رجب تائید کرنے کے انداز میں مبہم سا مسکرایا۔‬
‫’’تب میں نے خود سے کہا۔‬
‫اسرار احمد! یہ کہنا بہت آسان ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا‪ ،‬مجھ سے وہ برداشت نہیں‬
‫ہوتا۔۔۔‬
‫بہت آسان ہے مشکالت سے دور بھاگنا۔‬
‫ہوتا۔۔۔‬
‫بہت آسان ہے مشکالت سے دور بھاگنا۔‬
‫بہت آسان ہے اپنے مصائب سے گھبرا کر ریل کی پٹڑی پر سر رکھ دینا۔۔۔۔‬
‫اگر ہّمت ہے تو تم وہ کر کے ِدکھاؤ جو تمہیں ناممکن لگتا ہے۔۔۔ اپنے ہی آگے ہار جانا سب‬
‫سے بڑی ہار ہے۔ اور خود کو فتح کرنا سب سے بڑی فتح۔۔۔۔ مانوں تمہیں تب‪ ،‬جب تم خود کو فتح کر کے‬
‫ِدکھاؤ۔۔ اپنے نفس کو فتح کر کے ِدکھاؤ۔۔‬
‫اور میرا یقین کرو رجب!۔۔۔ ا ُس وقت ہاتھ میں پکڑا وہ سگریٹ پیا نہیں۔۔۔ وہ ِدن اور آج کا‬
‫ِدن۔۔۔ میں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘‬
‫انھوں نے کہا تو وہ مسکرا دیا۔ وہ یہ سب سن کر ا ُن سے بہت متاثر ہوا تھا۔‬
‫تب ہی انھوں نے رجب کے عقب میں شوال کو ان کی طرف آتے دیکھا۔‬
‫’’آؤ شوال!۔۔۔ بہت صحیح وقت پہ آئی ہو۔‘‘‬
‫انھوں نے ا ُس کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔‬
‫رجب نے چونک کر ُمڑ کر ا ُس کی طرف دیکھا۔‬
‫’’کیا باتیں ہو رہی ہیں؟‘‘‬
‫شوال نے قریب پہنچ کر سوال کیا۔‬
‫’’ادھر آؤ۔ میرے پاس بیٹھو۔‘‘‬
‫ُ‬ ‫ِ‬
‫اسرار احمد نے اس کی کالئی تھام کے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر‬
‫رجب سے مخاطب ہوئے۔‬
‫’’اب ِاس کی ہی مثال دوں میں تمہیں۔۔۔ جب یہ تمہارا گھر چھوڑ کر آئی تھی تو بہت ٹوٹ‬
‫چکی تھی۔ زندگی سے بالکل ہی منہ موڑ لیا تھا اس نے۔۔۔ پھر ایک ِدن میں نے اس کے پاس بیٹھ کر اسے‬
‫سمجھایا۔۔۔۔‬
‫شوال! کیا کہا تھا میں نے تم سے؟‘‘‬
‫ا ُنھوں نے شوال کو آگے کیا۔‬

‫ا ُن کے لہجے میں شوال کے لئے فخر تھا۔‬


‫’’آپ نے کہا تھا کہ زندگی میں پیش آئے تلخ واقعات کو اپنی زندگی کا روگ بنا لینے‬
‫والےدراصل ُلوزرز ہوتے ہیں۔ ِونرز ہمیشہ ایسے تجربات سے سبق حاصل کرکےاپنی زندگی میں آگے بڑھتے‬
‫ہیں۔۔۔‬
‫زندگی کا کوئی بھی حادثہ ہماری زندگی سے بڑا نہیں ہوتا۔ سب ہماری اپنی سوچ اور قو ِ‬
‫ت‬
‫ارادی پہ منحصر ہوتا ہے۔۔۔ ایک ونر کی سوچ والےانسان کو کوئی بھی شخص یا حادثہ ہرا نہیں سکتا۔‬
‫اس کا حوصلہ ہر مشکل اور مصیبت سے بڑا ہوتا ہے۔‘‘‬
‫اس نے اسرار احمد کے الفاظ دہرائے۔‬
‫’’شاباش میرے بچے!‘‘‬
‫اسرار احمد نے فخریہ ا ُسکا شانہ تھپکا۔‬
‫پھر رجب سے بولے۔‬
‫’’اور دیکھا تم نے؟۔۔۔ ِاس نے نہ صرف میری باتوں کو سمجھا۔ بلکہ ان پہ عمل کر کے یہ‬
‫ثابت کیا کہ یہ کوئی ُلوزر نہیں ہے۔‘‘‬
‫ِ‬
‫رجب کو اپنا وقت یاد آ رہا تھا۔ اپنے حاالت اور اپنی بےبسی۔ اس لئے پست آواز اور مؤدبانہ‬
‫لہجے میں جرح کرتے ہوئے بوال۔‬
‫’’لیکن انکل!۔۔۔ ہر مسلۂ آپ کے حوصلے اور قو ِ‬
‫ت ارادی سے حل نہیں ہوتا۔ زندگی میں ایسا‬
‫وقت بھی آتا ہے جب سب کچھ دوسروں کے ہاتھ میں چال جاتا ہے۔ اور آپ کے بس میں کچھ بھی نہیں‬
‫رہتا۔۔۔ ایسے میں انسان مایوس نہ ہو تو کیا کرے۔‘‘‬
‫وہ مایوسی سے کہہ رہا تھا۔‬
‫رہتا۔۔۔ ایسے میں انسان مایوس نہ ہو تو کیا کرے۔‘‘‬
‫وہ مایوسی سے کہہ رہا تھا۔‬
‫’’تو اهلل پہ بھروسہ کرے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے برجستہ کہا۔ بولے۔‬
‫’’ وہ کیا خوب کہا ہے محسن بھوپالی نے۔‬

‫جس نے زندگی دی ہے‪ ،‬وہ بھی سوچتا ہو گا‬


‫زندگی کے بارے میں ِاس قدر نہ سوچا کر۔ ‘‘‬

‫انھوں نے شعر پڑھا۔ پھر اسے تائید طلب نظروں سے دیکھا۔‬


‫’’ کیوں صحیح کہا ہے ناں!؟۔۔۔ کبھی کچھ کام اهلل پر بھی تو چھوڑنے چاہیئں۔۔ سارے‬
‫اختیارات ہم نے اپنے ہاتھوں میں لے لئے ہیں۔ جب کچھ نہیں کر پاتے تو مایوس ہو جاتے ہیں۔ یہ بھول جاتے‬
‫ہیں کہ اوپر بھی کوئی بیٹھا ہے جو سب کچھ کر سکتا ہے۔ کبھی ا ُس پہ بھروسہ کرتے ہوئے ا ُس سے‬
‫مانگو تو سہی۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ا ُسے نہ صرف الجواب کر دیا تھا‪ ،‬بلکہ ا ُس کی سوچوں کا ُرخ بدل دیا تھا۔‬
‫تب ہی جیب میں رکھا ا ُن کا فون بجنے لگا۔‬
‫ا ُنھوں نے اپنا فون نکال کر دیکھا۔‬
‫سن لوں۔‘‘‬
‫’’تم دونوں باتیں کرو۔ میں ذرا یہ فون کال ُ‬
‫معذرت خواہانہ کہتے ہوئے وہ ا ُٹھ کر چلے گئے۔‬
‫’’ بڑے سیریس ٹاپکس پہ ڈسکشن چل رہی تھی آپ دونوں کی۔۔۔۔ تم بور تو نہیں ہوئے ا ُن کی‬
‫باتوں سے؟‘‘‬
‫ا ُن کے جانے کے بعد شوال نے مسکراتے ہوئے ا ُس سے پوچھا۔‬
‫’’ارے نہیں۔۔۔ ‘‘‬
‫وہ نفی میں سر ہال کر مسکرا دیا۔‬
‫’’ ہر ِگز نہیں۔۔۔ وہ مجھے اپنی گزری ہوئی زندگی کے بارے میں بتا رہے تھے۔۔۔ بہت اچھا‬
‫سن کر۔۔ ‪‘‘ Your father is a great man.‬‬ ‫لگا انھیں ُ‬
‫وہ ا ُن سے بہت متاثر ہوا تھا۔‬
‫شوال خوشی سے مسکرائی۔‬
‫’’ ہاں‪ ،‬یہ تو ہے۔ میں خوش قسمت ہوں کہ وہ میرے پاپا ہیں۔‘‘‬
‫اس کے لبوں پہ پھیکی سی مسکراہٹ آ ٹھہری۔ ا ُسے اپنا باپ یاد آ رہا تھا۔ ا ُن کی مہربایناں‬
‫بھی اور ا ُن کی زیادتیاں بھی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اس صبح سکینہ بیگم ناشتے کی میز پہ آئیں تو وجاہت علی کو ابھی تک نائٹ سوٹ میں‬
‫ملبوس‪ ،‬اخبار چہرے کے سامنے پھیالئے ہوئے فرصت سے چائے پیتے پایا۔‬
‫ا ُن کے بیٹھنے کے بعد ماسی نے پین کیکس کی پلیٹ ال کر ا ُن کے سامنے رکھ دی۔‬
‫’’ آج آپ کا آفس جانے کا موڈ نہیں؟‘‘‬
‫اپنے لئے کپ میں چائے نکالتے ہوئے انھوں نے اپنے شوہر سے دریافت کیا۔‬
‫’’ ہاں۔۔۔ آج پہلے کنسٹرکشن سائٹ پہ جانا ہے۔ ذرا دیر سے نکلوں گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی اخبار میں منہمک تھے۔ ا ُسی انداز میں جواب دیا۔‬
‫’’اسالم علیکم!‘‘‬
‫ف معمول رجب وہاں چال آیا۔ بمشکل مدھم سا سالم کر کے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔‬ ‫خال ِ‬
‫’’اسالم علیکم!‘‘‬
‫ف معمول رجب وہاں چال آیا۔ بمشکل مدھم سا سالم کر کے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔‬ ‫خال ِ‬
‫سکینہ بیگم اور وجاہت علی‪ ،‬دونوں ا ُسے دیکھ کر حیران ہوئے۔ مگر بولے کچھ نہ۔‬
‫’’واعلیکم السالم!۔۔۔ تم کام پہ جا رہے ہو؟ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے سالم کا جواب دے کر استفسار کیا۔‬
‫’’جی ہاں۔‘‘‬
‫ا ُس نے جواب دیا۔ پھر وہیں بیٹھے بیٹھے کچن میں کام کرتی ماسی کو آواز لگائی۔‬
‫’’ماسی!۔۔۔ میرے لئے سوفٹ چیز سینڈوچ بنا الئیں پلیز۔‘‘‬
‫کہہ کر ا ُس نے اپنے لئے گالس میں اورنج جوس بھر لیا۔‬
‫وہ جوس پی رہا تھا کہ ڈری سہمی سی ماسی خالی ہاتھ وہاں آئی۔‬
‫’’چھوٹے صاحب!۔۔۔ سوفٹ چیز نہیں ہے گھر میں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم اور رجب‪ ،‬دونوں نے چونک کر ماسی کی طرف دیکھا۔‬
‫سن کر رجب کا دماغ گھوم گیا۔ سکینہ بیگم متوقع ہنگامے کا سوچ کر گھبرا گیئیں۔‬ ‫یہ انکار ُ‬
‫اخبار کے پیچھے وجاہت علی کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔‬
‫رجب نے لب بھینچ کر خود کو کنٹرول کیا۔ پھر غصہ دبا کر نرمی سے بوال۔‬
‫’’ اچھا‪ ،‬چلیں ایک انڈہ فرائی کر دیں اور بیکڈ بینز )‪ (baked beans‬گرم کر کے لے آئیں۔‘‘‬
‫ا ُس کے رِد عمل نے باقی تینوں نفوس کو حیران کر دیا۔ البتہ ماسی حیران ہونے کے ساتھ اور‬
‫بھی پریشان ہو گیئیں۔ خوف سے وہ اپنی جگہ سے ہلیں‪ ،‬نہ کچھ بول سکیں۔‬
‫’’کیا ہوا؟‘‘‬
‫رجب نے اب بھی نرمی سے پوچھا۔‬
‫’’وہ جی۔۔۔ بیکڈ بینز۔۔۔ کل ہی ختم ہو گئے تھے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم ایسے ہو گیئیں کہ اب آئی قیامت۔ سب سے پہلے تو رجب ہاتھ میں پکڑا گالس‬
‫دیوار پہ دے مارے گا۔ا ُنھوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔‬
‫رجب ماسی کی سہمی ہوئی صورت دیکھ کر مسکرا دیا۔ پھر ٹیبل پہ پڑے لوازمات پہ نگاہیں‬
‫دوڑا کر بوال۔‬
‫’’ کوئی بات نہیں۔۔۔ وہ سویٹ اینڈ ساور چٹنی تو ہے ناں؟۔۔۔‘‘‬
‫ماسی نے جلدی سے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫’’ وہی الدیں جلدی سے۔‘‘‬
‫رجب نے کہا تو ماسی جیسے ِاس جان بخشی پہ کچن کی طرف بھاگ کھڑی ہوئیں۔‬
‫’’اّمی!۔۔۔ یہ پین کیکس دیجیے گا پلیز۔‘‘‬
‫رجب نے کہہ کر ایک بار پھر ا ُن دونوں کو حیران کر دیا۔ وجاہت علی نے تو ا ُچھل کر اخبار‬
‫سامنے سے ہٹا کر ا ُسے دیکھنے لگے۔‬
‫سکینہ بیگم الگ بےیقین تھیں۔‬
‫ا ُن دونوں کی حیرت نظرانداز کرتے ہوئے ا ُس نے خود ہی پین کیکس کی پلیٹ گھسیٹ کر اپنے‬
‫سامنے کر لی۔‬
‫ِ‬
‫ماسی چٹنی کی پیالی لئے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئیں۔‬
‫رجب خاموشی سے پین کیکس کے ٹکڑے چٹنی سے لگا لگا کر کھانے لگا۔‬
‫سکینہ بیگم سے اپنی حیرت چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔ رجب نے سارا ناشتہ خاموشی سے‬
‫ختم کیا۔ پھر خداحافظ کہہ کر ا ُٹھ گیا۔‬
‫اس کے جانے کے بعد وجاہت علی نے چہرے کے سامنے پھیالیا اخبار نیچے کیا اور سکینہ‬
‫بیگم کو دیکھا۔‬
‫’’دیکھا آپ نے؟۔۔۔۔ آج ا ُس نے ہمارے درمیان بیٹھ کر ناشتہ کیا۔‘‘‬
‫سرت کے ساتھ کہا۔‬ ‫سکینہ بیگم نے حیرت و م ّ‬
‫’’دیکھا آپ نے؟۔۔۔۔ آج ا ُس نے ہمارے درمیان بیٹھ کر ناشتہ کیا۔‘‘‬
‫سرت کے ساتھ کہا۔‬ ‫سکینہ بیگم نے حیرت و م ّ‬
‫’’ ہاں۔۔۔۔ میں خود حیران ہوں کہ میری موجودگی میں وہ میز پہ کیسے آیا۔ ورنہ آفس میں‬
‫بھی وہ میرے سامنے نہیں آتا۔ ہمارے بیچ تمام کمیونیکیشن کسی تھرڈ پرسن کے ذریعے ہوتی ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی خود حیران تھے۔‬
‫’’ یہ بات بھی ہے‪ ،‬لیکن پین کیکس۔۔۔۔ ا ُسے تو پین کیکس کھانے سے نفرت تھی۔ پھر آج‬
‫کیسے ایک پورا پین کیک کھا کر ا ُٹھا ہے؟۔۔۔ مجھے تو یقین نہیں آ رہا۔۔۔ اتنا کیسے بدل سکتا ہے وہ؟۔۔۔ ‘‘‬
‫’’ہاں۔۔۔ تعجب کی بات تو ہے۔ لیکن شاید آج قسمت ماسی پہ بہت مہربان ہو رہی ہے۔ ورنہ‬
‫ان کی خیر نہیں تھی۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے بھی تبصرہ کیا۔‬
‫’’ خیر۔۔۔ جو ہوا اچھا ہوا۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے کہا۔ پھر موضوع بدلتے ہوئے بولیں۔‬
‫ِ‬
‫’’ رجب بتا رہا تھا کہ اسرار کی خواہش ہے کہ شوال رخصت ہو کر اس گھر میں آئے۔۔۔ یعنی‬
‫شادی وادی سب یہیں پہ ہو گی۔ اگلے ِدن یہ دونوں اپنے گھر میں ُموو ہو جائیں گے۔‘‘‬
‫سن کر وجاہت علی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔‬ ‫یہ ُ‬
‫’’ ذلیل انسان۔۔۔ مجھے نیچا دکھانے کے لئے کر رہا ہے یہ سب۔۔۔ شوال کی ڈولی یہاں بھیج‬
‫کر ا ُس کا ِاس گھر پہ حق جتانا چاہتا ہے۔۔۔ ورنہ تم ہی بتاؤ۔۔۔ جب رجب ا ُسے یہاں پہ رکھنے سے انکار‬
‫چکا ہے تو پھر وہ کیوں ایسی شرط رکھ رہا ہے؟‘‘‬ ‫کر ُ‬
‫اسرار کو کوسنے کے بعد ا ُنھوں نے سکینہ بیگم سے رائے طلب کی۔‬
‫’’ ایسا ہی ہو گا وجاہت!۔۔۔ لیکن ہمیں کیا؟۔۔۔ ہمارے لئے اہمّیت رجب اور اس کی خوشی کی‬
‫ہے۔ جب تک وہ خوش ہے‪ ،‬ہم بھی خوش ہیں۔‘‘‬
‫’’ ہونہہ۔۔۔ ‘‘ وجاہت علی تلخی سے مسکرائے۔‬
‫’’دیکھ لو۔۔۔ رجب بھی کیسے ا ُس کے ساتھ ِمل گیا ہے مجھے ذلیل کرنے کے لئے۔۔۔ میں غلط‬
‫نہیں کہہ رہا تھا۔ ابھی تو شروعات ہے۔ آگے آگے دیکھو ہوتا کیا ہے۔۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی متوقع پریشانیوں اور ذلت کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔‬
‫ِ‬
‫سکینہ بیگم خاموشی سے سوچ رہی تھیں۔ وجاہت علی کے خدشات درست دکھائی دے رہے‬
‫تھے۔ لیکن وہ مکمل بے بس تھیں۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ اپنے آفس میں کرسی کی پشت پہ سر ڈالے گہری سوچ میں گم تھا۔ اپنی کہنی کرسی کی‬
‫آرم ریسٹ پہ ِٹکا کر ہاتھ اونچا کئے‪ ،‬ا ُس میں ری ٹریکٹ ایبل پین )‪ (retractable pen‬پکڑ رکھا تھا۔ بے‬
‫خیالی میں وہ مسلسل کلکنگ کر رہا تھا۔‬
‫اسرار احمد کی باتیں ا ُس کی ذیہن میں گونج رہی تھیں۔‬
‫’’یہ کہنا بہت آسان ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا‪ ،‬مجھ سے وہ برداشت نہیں ہوتا۔۔۔‬
‫بہت آسان ہے مشکالت سے دور بھاگنا۔‬
‫بہت آسان ہے اپنے مصائب سے گھبرا کر ریل کی پٹڑی پر سر رکھ دینا۔۔۔۔‬
‫اگر ہّمت ہے تو تم وہ کر کے ِدکھاؤ جو تمہیں ناممکن لگتا ہے۔۔۔ اپنے ہی آگے ہار جانا سب‬
‫سے بڑی ہار ہے۔ اور خود کو فتح کرنا سب سے بڑی فتح۔۔۔۔ مانوں تمہیں تب‪ ،‬جب تم خود کو فتح کر کے‬
‫ِدکھاؤ۔۔ اپنے نفس کو فتح کر کے ِدکھاؤ۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد کے الفاظ اس کے ذیہن میں گونج رہے تھے۔‬
‫وہ سیدھا ہو بیٹھا۔ سامنے ٹیبل پہ بچھائے ایک نقشے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ نقشے‬
‫پہ نظریں جمائے وہ ملبے ملبے سانس لینے لگا۔ ا ُسے لگا جیسے کمرے میں آکسیجن کم پڑ گئی ہو۔ سانس‬
‫وہ سیدھا ہو بیٹھا۔ سامنے ٹیبل پہ بچھائے ایک نقشے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ نقشے‬
‫پہ نظریں جمائے وہ ملبے ملبے سانس لینے لگا۔ ا ُسے لگا جیسے کمرے میں آکسیجن کم پڑ گئی ہو۔ سانس‬
‫لینا بہت دشوار ہو گیا تھا۔‬
‫) مجھ سے نہیں ہوگا۔۔۔ یہ پین کیکس کھانے جتنا آسان نہیں ہے۔۔ میں نہیں کر سکتا۔(‬
‫ش نظر ہار مانتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا کہ‬ ‫ا ُسے اینگزائٹی اٹیک ہونے لگا۔ اپنی حالت کے پی ِ‬
‫دوسرے خیال نے ا ُسے روک لیا۔‬
‫) نہیں۔ میں ہار نہیں مانوں گا۔ میں کم ہّمت نہیں ہوں۔(‬
‫ا ُس نے خود سے کہا اور وہ نقشے کی شیٹ رول کر کے ا ُٹھ گیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وجاہت علی اپنے آفس میں بیٹھے پرنٹر میں سے نکلتے پیپرز ا ُٹھا ا ُٹھا کر ایک فائل میں لگا رہے‬
‫تھے جب دروازے پہ دستک ہوئی۔‬
‫’’کم ِان۔‘‘‬
‫اپنی مصروفیت ترک کئے بنا انھوں نے اجازت دی۔‬
‫اپنے کام میں وہ اتنے مّحو تھے کہ یہ بھی نہ دیکھا کہ کون آیا ہے۔‬
‫رجب ا ُن کی ٹیبل کے قریب آ کر ُرک گیا۔ سامنے بیٹھے شخص کو مخاطب کرنا ا ُس کے لئے‬
‫زندگی کا سب سے مشکل کام تھا۔‬
‫ان کے کمرے کے دروازے پہ دستک دینے سے لے کر ا ُن کی میز کے قریب آنے تک کا سفر ا ُس‬
‫نے کیسے طے کیا تھا۔ کتنی ہمتیں لگی تھیں۔ یہ صرف وہی جانتا تھا۔ اور ابھی بھی یہ سب سے اونچا‬
‫اور کٹھن پہاڑ سر کرنا باقی تھا۔ ا ُسے لگا کہ اس کا ِدل بند ہو جائے گا۔ اپنی کم ہمتی پہ ا ُسے سخت‬
‫غصہ آیا۔ ا ُس نے یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے آنکھیں بند کر کے اپنی ساری ہمتیں مجتمع کر ڈالیں اور‬
‫آنکھیں کھول کر سامنے بیٹھے شخص کو مخاطب کیا۔‬
‫’’ اّبو !‘‘‬
‫وجاہت علی اپنی جگہ ا ُچھل پڑے۔ فورا ً گردن گھما کر دیکھا۔‬
‫’’رجب! ‘‘‬
‫انھیں جیسے یقین نہ آیا کہ وہ سچ میں ا ُن کے سامنے کھڑا ہے۔‬
‫’’میں۔۔۔ یہ مال کے بلیو پرنٹس دیکھے ہیں۔۔۔ کچھ پوئنٹس ڈسکس کرنا چاہتا تھا۔‘‘‬
‫ا ُس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ اب کی بار ا ُسے بولنے میں زیادہ ِدقت پیش نہیں آئی تھی۔‬
‫’’ہاں ‪ ،‬ہاں۔ ضرور۔ بیٹھو۔‘‘‬
‫وجاہت علی اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر پوری طرح سے ا ُس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ رجب‬
‫کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ اب وہ صرف تھوڑی جھجک محسوس کر رہا تھا۔بیٹھنے کے بعد وہ ہاتھ میں‬
‫پکڑی شیٹ کھول کر میز پہ بچھانے لگا۔‬
‫’’چائے پیو گے؟‘‘‬
‫وجاہت علی ا ُس کی ناراضگی دور ہوتی دیکھ کر پھیلنے لگے۔‬
‫’’جی ضرور۔‘‘‬
‫ف توقع ا ُس نے انکار نہ کیا۔‬‫خال ِ‬
‫وجاہت علی نے خوش ہو کر فورا ً انٹرکام پہ دو کپ چائے آرڈر کر دی۔‬
‫وہ پنسل کپ میں سے ایک کچی پنسل نکال کر ہاتھ میں پکڑے ا ُن کے فارغ ہونے کا منتظر تھا۔‬
‫اب ا ُس کی ہچکچاہٹ بڑی حد تک ختم ہو چکی تھی اور وہ خاصا ُپراعتماد محسوس کر رہا تھا۔‬
‫جب وہ ریسیور رکھ کر ا ُس کی طرف ُمڑے تو وہ نقشہ ا ُنکی طرف کھسکا کر بتانے لگا۔‬
‫’’ اور سب تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔ مجھے یہ ایلویٹر )‪ (elevator‬اور ایسکلیٹر )‪(escalator‬‬
‫کی لوکیشنز ٹھیک نہیں لگ رہیں۔ فرسٹ ٹائم آنے والے کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ کہاں ہیں۔ باقاعدہ‬
‫ڈھونڈنا پڑے گا۔ جبکہ یہاں مال کے سینٹر میں بہت سی جگہ فضول میں خالی ہے۔ میرے خیال سے ایلویٹر‬
‫کی لوکیشنز ٹھیک نہیں لگ رہیں۔ فرسٹ ٹائم آنے والے کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ کہاں ہیں۔ باقاعدہ‬
‫ڈھونڈنا پڑے گا۔ جبکہ یہاں مال کے سینٹر میں بہت سی جگہ فضول میں خالی ہے۔ میرے خیال سے ایلویٹر‬
‫اور ایسکلیٹر دونوں کو یہاں ہونا چاہیئے۔ یُوزرز کیلئے زیادہ اکسیس ایبل بھی ہوں گی اور یہاں سے ہٹانے‬
‫سے یہ تینوں فلورز کے رومز بھی بڑے ہو جائیں گے۔ اور پھر یہ خالی جگہ یوٹالئز بھی اچھے طریقے سے‬
‫ہو جائے گی۔‘‘‬
‫وہ لکیریں کھینچ کھینچ کر وجاہت علی کو ساری بات سمجھا رہا تھا۔‬
‫وجاہت علی نقشے پہ نظریں جمائے بغور ا ُسے سن رہے تھے۔‬
‫’’ہوں۔۔۔ کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔‘‘‬
‫انھوں نے ُپر سوچ انداز میں کہا۔‬
‫پھر بولے۔‬
‫’’ لیکن فائنل چینجز کرنے سے پہلے سکندر صاحب سے یہ بات کرنی ہوگی۔۔۔ ُفسی )‪(fussy‬‬
‫آدمی ہے۔ ِبنا بتائے ایسا کیا تو بعد میں اعتراض نہ کر دے۔‘‘‬
‫وجاہت علی کہہ رہے تھے۔‬
‫تب ہی پیون آ کر چائے کے دو کپ رکھ گیا۔‬
‫’’تو ٹھیک ہے۔۔۔ آج شام کو بُال لیں انھیں۔ ‘‘‬
‫کہتے ہوئے اس نے پیچھے ہو کر کرسی کی پشت سے پیٹھ ٹِکا لی۔‬
‫اب وہ مکمل طور پر ُپراعتماد اور کمفرٹیبل تھا۔ پھر بھی وہ وجاہت علی کو ایک فاصلے پہ‬
‫رکھ کر بات کر رہا تھا۔ اپنی کمزوری دُور کرنے کی خاطر وہ وجاہت علی سے بات تو کر رہا تھا۔ لیکن وہ‬
‫ا ُنھیں معاف کرکے اپنانے کو تیار نہیں تھا۔‬
‫ابھی اس نے چائے کا کپ ا ُٹھایا ہی تھا کہ ا ُس کے فون پہ کال آنے لگی۔‬
‫چائے کا کپ واپس رکھ کر ا ُس نے جیب سے فون نکاال اور کالر کا نام دیکھ کر ا ُس کے ہونٹوں‬
‫پہ مسکراہٹ آ گئی۔‬
‫’’ اسالم علیکم انکل!۔۔۔ کیا حال ہیں؟‘‘‬
‫وجاہت علی اپنا کپ ہونٹوں سے لگائے چائے کا گھونٹ لے رہے تھے۔ رجب کے منہ سے ’انکل‘‬
‫سن کر چونک کر ا ُس کی طرف دیکھا۔‬ ‫ُ‬
‫فون پہ بات کرتے ہوئے ا ُس کی آنکھوں میں جیسے الکھوں جگنوں روشن تھے۔‬
‫’’نہیں۔ میں فارغ ہوں۔ آپ بولیے۔۔۔‘‘‬
‫دوسری طرف کی بات سن کر ا ُس نے جواب میں کہا۔‬
‫وجاہت علی ا ُسے بغور دیکھتے ہوئے قیاس کر رہے تھے کہ دوسری طرف سے کیا ’فرمان‘‬
‫جاری ہو رہے ہیں۔‬
‫’’ جی ضرور۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘‬
‫خوشی سے کہہ کر رجب نے کال کاٹی۔ فون جیب میں رکھتے ہوئے وہ عجلت میں ا ُٹھنے لگا۔‬
‫’’ اّبو!۔۔ آپ خود ہی سکندر صاحب سے بات کر لیجیئے گا۔۔۔ میں اسرار انکل کے آفس جا رہا‬
‫ہوں ا ُن کے ساتھ چائے پینے۔‘‘‬
‫کہہ کر وہ ا ُٹھا اور وجاہت علی کا کوئی بھی جواب سننے کی زحمت کئے بنا یہ جا وہ جا۔‬
‫وجاہت علی ساکت بیٹھے رجب کا چھوڑا ہوا چائے کا کپ دیکھ رہے تھے۔ حسد کی آگ نے ا ُن‬
‫کا پورا وجود اپنی لپٹوں میں لے لیا۔‬
‫’’اسرار!۔۔۔ یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے۔‘‘‬
‫صور سے خطاب کیا۔‬‫صےاور تنفر سے اسرار احمد کے ت ّ‬ ‫انھوں نے غ ّ‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ گاڑی میں بیٹھا مسرور سا سوچ رہا تھا۔‬


‫وہ گاڑی میں بیٹھا مسرور سا سوچ رہا تھا۔‬
‫) کتنا ڈرتا تھا میں یہ کرنے سے۔ لیکن جب کیا تو کچھ بھی مشکل نہ تھا۔ صرف تھوڑی سی‬
‫ہّمت کی تو ضرورت تھی۔۔۔ میں بھی ِکس فضول سے خوف میں مبتال رہا ساری زندگی۔(‬
‫ا ُس نے اپنی حماقت پہ سر ہالیا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫’’شوال بتاتی ہے کہ تم بہت ضدی ہو؟۔۔۔‘‘‬


‫گفتگو کے دوران اسرار احمد نے اس سے پوچھا۔‬
‫ا ُس سہ پہر وہ اسرار احمد کے ساتھ ا ُن کے گھر کے الن میں بیٹھا تھا۔‬
‫’’جی؟۔۔۔‘‘‬
‫اس نے گھبرا کر انھیں دیکھا۔‬
‫فورا ً سمجھ نہ آیا کہ کیا جواب دے۔‬
‫اسرار احمد مسکرائے۔‬
‫’’ گھبراؤ نہیں۔۔۔ ضدی ہونا کوئی ُبرائی تو نہیں۔۔۔ میں خود بہت ضدی ہوں اور میں ِاسے‬
‫غلط نہیں سمجھتا۔۔۔‬
‫بلکہ ضدی ہونا تو ایک خوبی ہے۔ جو آدمی کچھ کرنے کی ٹھان لے اور دنیا کی کوئی طاقت‬
‫ھک کر زمین سے لگ‬ ‫ا ُسے روک نہ پائے۔ وہی تو اصل مرد ہے۔۔۔ وہ لوگ جو ہوا کے ایک ہی جھونکے سے ج ُ‬
‫جاتے ہیں‪ ،‬وہ بھال زندگی میں کیا حاصل کریں گے۔۔۔۔ ہے کہ نہیں؟‘‘‬
‫انھوں نے آخر میں ا ُس سے تائید چاہی۔‬
‫وہ صد فیصد متفّق تھا۔‬
‫’’جی‪ ،‬بالکل۔‘‘‬
‫اس نے سر ہال کر کہا۔‬
‫’’ لیکن کسی مقصد کی ضد کرنا ایک الگ بات ہے اور ضد ہی کو اپنا مقصد بنالینا ایک الگ‬
‫بات ہے۔‬
‫ِ‬
‫ہوتی دونوں ضدیں ہیں۔ لیکن ان کے درمیان جائز و ناجائز کی اتنی باریک لکیر ہوتی ہے کہ ہر‬
‫انسان آسانی سے ِاسے دیکھ نہیں پاتا۔۔۔۔ جو لوگ اپنے ضدی ہونے کی وجہ سے مشہور ہیں۔ ا ُن میں‬
‫اکثریت وہی لوگ ہیں جنہیں کسی مقصد کی ضد نہیں ہوتی۔ بلکہ ضد ہی ا ُن کا مقصد ہوتا ہے۔ اور یہ نہ‬
‫صرف ناجائز ہے‪ ،‬بلکہ ِاس سے انسان کو سوائے خسارے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔‘‘‬
‫تبصرہ کرتے ہوئے اسرار احمد نے نظریں ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔ پھر افسوس بھرے لہجے میں‬
‫کہنے لگے۔‬
‫’’ میری اپنی مثال تمہارے سامنے ہے۔ میں بھی ساری عمر اپنے ضدی ہونے کے گھمنڈ میں‬
‫رہا۔ اور کبھی یہ احساس ہی نہ ہوا کہ میری ضد جائز کی حدود سے ِنکل کر ناجائز کا روپ اختیار کر‬
‫چکی ہے۔ جانا تب‪ ،‬جب ِاس کے سنگین نتائج بھگتے۔ ‘‘‬
‫اچانک انھوں نے سر ا ُٹھا کر رجب کو دیکھا۔‬
‫’’ جانتے ہو میرے تمہارے باپ کے ساتھ کیا اختالفات ہیں؟۔۔۔۔‘‘ ا ُن کی نظروں میں سوال تھا۔‬
‫ا ُس کے ذیہن میں جواب آیا۔ لیکن سمجھ نہ پایا کہ اپنی زبان سے کیسے اپنی ماں کا ذکر‬
‫کرے۔ اسرار احمد کا سوال ہی اتنا اچانک اور غیر متوقع تھا کہ وہ گڑبڑا سا گیا۔اسرار احمد نے ا ُس کے‬
‫جواب کا انتظار کئے بنا اپنی بات آگے بڑھائی۔‬
‫’’سب سمجھتے ہیں کہ ایک ہی فیلڈ میں ہونے کی وجہ سے ہمارے درمیان رائولری ہے۔ لیکن‬
‫اصل بات یہ نہیں ہے۔‘‘‬
‫اصل بات یہ نہیں ہے۔‘‘‬

‫ا ُس نے سر جھکائے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔ اپنی ماں کی وجہ سے اسرار احمد اور وجاہت‬
‫علی کے درمیان ہوئے اس جھگڑے کا ذکر کرنا ہی چاہتا تھا کہ اسرار احمد اپنی ہی دھن میں تھے۔ ا ُس‬
‫کی طرف دھیان دیئے بنا بول پڑے۔‬
‫’’اصل ایشو مجھے تمہارے باپ کے کمینے پن سے ہے۔ ‘‘‬
‫ا ُس نے جھٹکے سے سر ا ُٹھا کر اسرار احمد کو دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔‬
‫’’ایسا احمق آدمی ہے کہ پہلے غلط کام کرتا ہے۔ پھر ا ُس کا الزام دوسرے کے سر پہ ڈال کر‬
‫صر رہتا ہے۔ ‘‘‬‫خود کو بےقصور کہلوانے پہ م ّ‬
‫ا ُن کے الفاظ اس کے لئے غیرمتوقع ضرور تھے۔ لیکن وہ ا ُن سے سو فیصد متفق تھا۔‬
‫اسرار احمد کہہ رہے تھے۔‬
‫سی برس کی عمر میں‬ ‫’’ وہ جیسا آٹھ سال کی عمر میں تھا‪ ،‬آج بھی ویسا ہی ہے۔ اور ا ّ‬
‫بھی ویسا ہی ہو گا۔ گزرتے وقت سےا ُس نے سفید بالوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔۔۔ اس لئے میں نے‬
‫ہمیشہ ا ُس سے نفرت اور ضد کی۔ اور کب یہ ضد میرا مقصد بن گئی۔ مجھے پتا ہی نہ چال۔۔۔ میری ِاسی‬
‫ضد کا نتیجہ تھا کہ وجاہت نے میری بیٹی اس کی شادی کے ِدن اغواء کر لی۔ اپنی وہ ’عزت‘ جو میرے‬
‫لئے زندگی اور موت کا معاملہ تھی۔۔۔ وہ بھی میں نے اپنی ِاسی ناجائز ضد کی وجہ سے کھوئی۔‬
‫جانتے ہو! ا ُس ِدن کتنی ذلت‪ ،‬کتنی رسوائی کا سامنا کیا میں نے؟۔۔۔‬
‫طرح طرح کے لوگ‪ ،‬طرح طرح کی باتیں۔۔۔ پھر اپنی عزت جانے کا ُدکھ‪ ،‬بیٹی کی جدائی کا‬
‫غم ‪ ،‬لوگوں کی تضحیک آمیز نظریں۔ کیا کچھ نہیں سہا میں نے؟۔۔۔ لیکن کبھی اپنی غلطی کا احساس‬
‫نہیں ہوا۔‬
‫وہ تو جب شوال نے مجھے فون کر کے میرے آگے فریاد کی۔ اپنا درد بیان کیا۔ تب میں تڑپ گیا‬
‫اور سب کچھ بھول کر ا ُسے گھر لے آیا۔ تب ا ُس کی ا ُجڑی ہوئی حالت دیکھ کر میں نے خود سے سوال کیا‬
‫کہ کون ہےاس کی اس حالت کا ذمہ دار؟‬
‫اور اس کا جواب تھا’مَیں‘۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ُرک کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫سن رہا تھا۔‬‫وہ انھیں ہی دیکھ رہا تھا اور پوری توجہ سے ُ‬
‫اسرار احمد نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھائی۔‬
‫’’تب مجھے احساس ہوا کہ میں ِکس بھول میں تھا۔‬
‫ِکسے میں اپنی عزت سمجھتا تھا؟۔۔۔‬
‫ِکسے میں اپنی غیرت سمجھتا تھا؟۔۔۔‬
‫اهلل کو ناراض کر کے لوگوں کو خوش کرنے میں لگ جانا عزت ہے؟۔۔۔‬
‫ِان لوگوں کی اتنی ِفکر مجھے کیوں تھی؟۔۔۔‬
‫کیا یہ میرے مالک تھے؟۔۔۔ میرا داتا تھے؟۔۔۔ کون تھے؟۔۔۔‬
‫کیوں میں خود کو اپنے اور اپنی اوالد کے اعمال کے لئے ِان لوگوں کے آگے جواب دہ سمجھتا‬
‫تھا؟۔۔۔ جبکہ ہمارا تو ایمان یہ ہے کہ ہمیں پیدا کرنے والی اهلل کی ذات ہے۔ وہی ہمارا مالک و رازق ہے۔‬
‫ا ُسی کے آگے ہم جواب دہ ہیں۔‬
‫پھر لوگ کچھ نہ کہہ دیں۔ ِاس ِفکر میں اپنی زندگی برباد کرنا۔ اپنی اوالد کی خوشیان قربان‬
‫ی کہ عزت و غیرت کے نام پہ ِان لوگوں کو خوش رکھنے کی خاطر اپنی اوالد کو جان سے مار‬ ‫کرنا۔ حت ٰ‬
‫دینا۔۔۔ کیا یہ عزت ہے؟‬
‫یہ کون سی عزت ہے جو گناہ کر کے کمائی جاتی ہے؟۔۔۔ کون سی عزت ہے جو اهلل کو ناراض‬
‫کر کے حاصل کی جاتی ہے؟‬
‫کسی زمانے میں ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اوالد کی قربانی دیا‬
‫کرتے تھے۔ آج ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کتنے جاہل لوگ تھے۔‬
‫کسی زمانے میں ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اوالد کی قربانی دیا‬
‫کرتے تھے۔ آج ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کتنے جاہل لوگ تھے۔‬
‫اور ہم خود‪ِ ،‬اس ماڈرن دور کے پڑھے لکھے لوگ۔ جن کا معبود صرف ایک اور وہ اهلل کی ذات‬
‫ہے۔ پھر ہم ِان لوگوں کو خوش کرنے میں کیوں لگ گئے ہیں؟ جنہیں ہم اپنے دیوی‪ ،‬دیوتا بھی نہیں‬
‫سمجھتے۔‬
‫ِ‬
‫مالک و رازق اهلل کو مانتے ہیں۔۔۔ اور ہماری پرستش اور قربانیاں ان لوگوں کے لئے ہیں۔۔۔‬
‫کیوں؟‬
‫کیا ہم نے انھیں اپنا خدا بنا لیا ہے؟ جنہیں ہر حال میں خوش رکھنا ہمارے لئے ضروری‬
‫ہے؟۔۔۔ کیا یہ سراسر شرک اور کفر نہیں ہے؟ ‘‘‬
‫’’ ایسا آپ سوچ رہے ہیں انکل!۔۔۔ لیکن لوگ تو یہی سوچتے ہیں کہ بےشک رازق و مالک اهلل‬
‫کی ذات ہے۔ مگر ہم دنیا پہ رہتے تو انسانوں کے درمیان ہیں۔‘‘‬
‫رجب نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے لوگوں کی سوچ بیان کی۔‬
‫’’دنیا پہ انسانوں کے بیچ رہتے ہیں تو کیا اهلل کو چھوڑ کر ا ُن کی پرستش میں لگ جائیں؟۔۔‬
‫ا ُنکو خوش کرنے کے لئے اهلل کے احکامات سے منحرف ہو جائیں؟۔۔۔ اور کیوں ہوں؟۔۔۔ کیا یہ دنیا ِان کی‬
‫ملکیت ہے؟۔۔۔ ا ُن کو خوش نہیں رکھیں گے تو یہ ہمیں نکال دیں گے ِاس دنیا سے؟۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد کے سواالت برجستہ تھے۔ کہنے لگے۔‬
‫’’ میں ِاسی لئے تو اپنی مثال دے رہا ہوں۔ کیوں کہ میں انسانوں کی پرستش بھی کر چکا‬
‫ہوں اور اب اهلل کی بندگی بھی کر رہا ہوں۔‬
‫جب تک انسانوں کو خوش رکھنے میں لگا رہا۔ میں نے اهلل کو بہت ناراض کیا۔ خود بھی ُدکھ‬
‫ا ُٹھائے اور دوسروں کی زندگیاں بھی برباد کیں۔۔۔ کیا حاصل ہوا؟۔۔۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کی خواہش صرف‬
‫آپ کو آپریشن)‪ (oppression‬میں دیکھنا ہے۔ ِان کے لئے قربانیاں دے کر اگر تم سمجھو کہ یہ تم سے‬
‫خوش ہوں گے؟ تو کبھی نہیں۔۔۔ اگر تم اپنا سر کاٹ کر اپنے ہاتھوں سےِان کے قدموں میں رکھو گے۔ تب‬
‫بھی یہ خوش نہیں ہوں گے۔۔۔ اور بالفرض کوئی ہو بھی جاتا ہے تو کیا حاصل؟۔۔۔ اهلل کو ناراض کر کے‬
‫ایک انسان کو خوش کیا تو کیا پایا؟۔۔۔‬
‫لیکن جب سے میں نے اپنا معبود بدال ہے۔ ِان زمین کے خداؤں کو چھوڑ کر صرف اهلل کی‬
‫خوشی کو ترجیح دینا شروع کی ہے۔ ِاس کے نتائج بھی تمہارے سامنے ہیں۔۔۔ اب بھی میں اسی زمین پہ‬
‫ِان ہی لوگوں کے درمیان رہ رہا ہوں۔ ِکسی نے مجھے قتل نہیں ِکیا۔۔۔ بلکہ میں خوش ہوں۔ میرے بچے خوش‬
‫ہیں۔ بشمول تمہارے۔۔۔ اور اهلل ! وہ بھی مجھ سے خوش ہے۔ اور کیا چاہیئے؟۔۔۔ رہ گئے لوگ۔۔۔ تو ا ُنکی‬
‫پرواہ ِکسے ہے؟۔ ‘‘ ا ُنھوں نے کہا۔‬
‫ا ُن کی باتیں رجب کے ِدل کو لگی تھیں۔‬
‫پھر رجب سے پوچھنے لگے۔‬
‫’’ بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ آج ہر آدمی میری تعریف کر رہا ہے۔ میری وہ بیٹی‪ ،‬جس کے‬
‫بارے میں لوگ باتیں کرتے تھے۔ وہی لوگ ہیں جو آج ا ُس کی زندگی پہ اور اس کی قسمت رشک کر رہے‬
‫ہیں۔ صرف ِاس وجہ سے کہ اب میں اهلل کے بتائے ہوئے راستے پہ چلنے لگا ہوں۔ اب میں سمجھ سکتا ہوں‬
‫کہ جو میں نے اپنی معصوم بیٹی کے ساتھ کیا وہ تو غلط تھا ہی۔ لیکن۔۔۔‬
‫اگر ا ُس نے کچھ غلط کیا ہوتا۔ دنیا والے جو کہتے ہیں‪ ،‬جو سمجھتے ہیں۔ وہ اگر سچ بھی‬
‫ہوتا۔ تب بھی مجھے اپنی بیٹی کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیئے تھا۔۔۔ تاکہ ا ُس کا فیصلہ غلط ہونے کی‬
‫صورت میں‪ ،‬جب وہ ٹھوکر کھا کر ِگرنے لگتی تو ا ُسے سنبھال لیتا۔ اور اگر ا ُس کا فیصلہ درست ہوتا تو‬
‫ا ُس کو عزت کے ساتھ قبول کرتا۔‬
‫بحیثیت ایک باپ‪ ،‬یہی تو فرض ہے میرا۔‘‘‬
‫وہ ا ُن کی ہر بات سے متفق تھا۔‬
‫اسرار احمد کے لہجے میں پچھتاوے اور ندامت شامل ہو گئی۔‬
‫’’ لیکن افسوس۔۔۔ مجھے بہت دیر میں عقل آئی۔‬
‫اسرار احمد کے لہجے میں پچھتاوے اور ندامت شامل ہو گئی۔‬
‫’’ لیکن افسوس۔۔۔ مجھے بہت دیر میں عقل آئی۔‬
‫اگر میں وہ ناجائز ضد نہ کرتا۔ اس ِدن‪ ،‬جب وجاہت تمہارے لئے رشتہ مانگنے آیا تھا۔ اگر‬
‫سن لیتا‪ ،‬پھر تم سے ِمل کر اپنی تسلی بھی کر لیتا۔۔ تو کیا‬ ‫میں ایک بار سنجیدگی کے ساتھ ا ُس کی بات ُ‬
‫بگڑ جاتا میرا؟‬
‫تمہارے خلوص‪ ،‬تمہاری سچائی کو دیکھتے ہوئے‪ ،‬میں اپنی ضد چھوڑ کر تم دونوں کی شادی‬
‫کروا دیتا تو کیا یہ بہتر نہیں تھا؟۔۔۔‬
‫میں یہ سمجھا تھا کہ تم لوگوں کی نّیت ٹھیک نہیں۔۔۔ جہاں میں خود ا ُسے بیاہ رہا تھا۔ وہ‬
‫کونسا بہت اچھے لوگ تھے؟۔۔۔۔‬
‫زبیدہ آپا میری اپنی کزن تھیں۔ میرا اپنا خاندان۔ جب مجھ پہ اتنی مشکل گھڑی آئی تو‬
‫ا ُنھوں میری عزت نہیں رکھی۔ ہزاروں لوگوں کے سامنے مجھے ذلیل و رسوا کر کے رکھ ِدیا۔ وہ لوگ مجھے‬
‫اور میری بیٹی کو کیا سکھ دیتے؟۔۔۔‬
‫ا ُس کے بعد بھی۔۔۔ جب تم دونوں کی شادی ہو چکی تھی۔ اپنی بیٹی کی بےگناہی سے بھی‬
‫واقف تھا۔ اور یہ بھی خبر تھی کہ میری بیٹی میرے دشمن کے گھر‪ ،‬اس کے رحم و کرم پر ہے۔ تو کیا‬
‫مجھے یہ عزت و غیرت جیسی بےمعنی چیز کی پرواہ کرنے کی بجائے‪،‬اپنی بیٹی کی ِفکر نہیں کرنی چاہیئے‬
‫تھی؟۔۔‬
‫اگر تب بھی میں ا ُسے چھوڑنے کی بجائے ا ُسےاپنا لیتا۔ اور تمہیں بھی ایک موقع دیتا کہ تم‬
‫اپنے آپ کو پرُوو کرو۔ تو کیا ُبرا ہوتا؟۔۔۔‬
‫ایسے میں تم سفّر کرتے نہ شوال!۔۔۔ تمہیں اور شوال کو وہ سب نہ دیکھنا پڑتا جو تم دونوں‬
‫نے دیکھا اور سہا۔۔۔تم دونوں میاں بیوی کے درمیان وہ فاصلے اور ُدوریاں نہ ہوتیں۔۔۔۔ وجاہت وہ بےوقوفی‬
‫نہ کرتا۔۔ تم دونوں اپنا بچہ نہ کھوتے۔۔۔ میں اسپتال سے ادھ َمری بیٹی ا ُٹھا کر گھر نہ التا۔۔۔ تم خود کو‬
‫ختم کرنے کی کوششیں نہ کرتے۔۔۔۔‬
‫سکھ پہنچایا میں نے؟۔۔۔‘‘‬ ‫آخر کیا فائدہ ہوا میری اس ضد سے؟۔۔۔ ِکس کو ُ‬
‫رجب کی آنکھوں کے سامنے وہ تمام حاالت و واقعات گھوم گئے۔ آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔‬
‫وہ خاموشی سے لب کاٹتے ہوئے آنکھوں میں جمع ہوئے آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کی کوشش کرنے لگا۔‬
‫’’ تم مانتے ہو ناں!۔۔۔ کہ میری ضد ناجائز تھی؟‘‘‬
‫انھوں نے پوچھا۔‬
‫چنتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔‬ ‫ا ُس نے آنکھ سے ٹپکنے کو بےقرار آنسو ا ُنگلی کی پشت پہ ُ‬
‫اسرار احمد اب قدرے سنبھل کر بولے۔‬
‫’’ لیکن اهلل کا الکھ الکھ شکر ہے کہ وقت رہتےا ُس نے مجھے میری بیوقوفی اور غلطی کی‬
‫سنگینی کا احساس ِدالیا۔ اور مجھے اتنی توفیق اور بصیرت عطا کی کہ حاالت کے مطابق ایک صحیح‬
‫فیصلہ کر سکوں۔۔۔‬
‫جس روز وجاہت شوال کو منانے ہمارے گھر آیا تھا۔ اس کی باتیں سن کر مجھے شک ہو گیا‬
‫تھا کہ شاید وہ سچ کہہ رہا ہے۔‬
‫ِاس لئے میں خود تم سے ملنا چاہتا تھا۔ تاکہ اصل حقیقت جان سکوں۔ اسی لئے میں شوال‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫کو لے کر تمہارے گھر گیا تھا۔‬
‫تب تمہاری حالت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وجاہت شروع سے ہی سچا تھا۔۔ میں ہی‬
‫غلط تھا جو اس کا کبھی اعتبار نہ کیا۔ تب میں نے ہر دشمنی‪ ،‬ہر ضد بھال کر تم دونوں کے رشتے کو قبول‬
‫کیا۔ اور دیکھو!۔۔ وہ ایک غلط ضد چھوڑنے سے سب کتنا اچھا ہو گیا ہے۔ ‘‘‬
‫اسرار احمد نے آنکھوں میں نمی لئے مسکرا کر ا ُسے دیکھا۔ پھر بولے۔‬
‫’’ جانتے ہو کہ میں تم سے ایسی باتیں کیوں شیئر کرتا ہوں؟۔۔۔‘‘‬
‫انھوں نے ا ُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ پھر خود ہی جواب دیا۔‬
‫’’ کیوں کہ میں اپنی اوالد کو ہمیشہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ اور تم بھی اب میری اوالد‬
‫انھوں نے ا ُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ پھر خود ہی جواب دیا۔‬
‫’’ کیوں کہ میں اپنی اوالد کو ہمیشہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ اور تم بھی اب میری اوالد‬
‫میں شامل ہو۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میری زندگی کے صحیح اور غلط فیصلوں سے سبق سیکھو۔ تاکہ تم‬
‫وہ غلطیاں نہ دہراؤ جو میں نے کر کے اپنی زندگی میں نقصان ا ُٹھایا۔‘‘‬
‫پھر ا ُسے بتانے لگے۔‬
‫’’ دنیا میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ‪ ،‬جو زندگی میں کبھی بھی‪ ،‬کچھ بھی نہیں‬
‫سیکھتے۔ ہمیشہ احمق ہی رہتے ہیں۔۔ جیسے کہ وجاہت۔‬
‫دوسری کیٹگری میں میری طرح کے لوگ آتے ہیں۔ جو غلطیاں کرتے ہیں‪ ،‬ان سے نقصان ا ُٹھاتے‬
‫ہیں۔ لیکن پھر ان سے سبق حاصل کرتے ہیں۔‬
‫یہ عام سے لوگ ہوتے ہیں۔ ِان میں کوئی خامی نہیں ہوتی تو کوئی قابِل ذکر خوبی بھی نہیں‬
‫ہوتی۔‬
‫لیکن اصل میں عقل مند لوگ وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق لے کر اپنی‬
‫زندگی میں آگے ِنکل جاتے ہیں۔۔۔‬
‫اور میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے عقل مند بنیں۔ وہ میری غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی‬
‫زندگیوں کو کامیاب بنائیں۔۔۔ جیسے کہ میں نے ابھی اپنی ناجائز ضد اور اس کے نتائج کے بارے میں بیان‬
‫کیا۔‬
‫تم بھی ضدی ہو۔ ِاسی لئے چاہتا ہوں کہ تم وقت رہتےجائز اور ناجائز ضد کا فرق کرنا سیکھ‬
‫جاؤ۔‬
‫وقت بہت بےرحم چیز ہے میرے بچے!۔۔۔۔ ایک دفعہ جو غلطی کر دی۔ ا ُس کے بعد آپ کو‬
‫دوبارہ موقع نہیں ِملتا۔ جو غلط کر دیا‪ ،‬سو کر دیا۔ پھر آپ ا ُسے ِمٹا نہیں سکتے۔۔۔ وقت گزر جاتا ہے۔ اور‬
‫آپ ہاتھ َملتے رہ جاتے ہیں۔‘‘‬
‫آخر جملے ادا کرتے وقت ا ُن کے لہجے میں ا ُداسی آ ٹھہری تھی۔‬
‫انھوں نے سر ا ُٹھا کر رجب کو بغور دیکھا۔‬
‫وہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں ُگم تھا۔‬
‫وہ شفقت سے مسکرائے۔‬
‫’’ ایک بات بولوں تم سے؟۔۔۔‘‘‬
‫رجب نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’ وجاہت۔۔ ایک کمینہ انسان ہے۔ ِاس میں کوئی شک نہیں۔۔ وہ کبھی نہیں سدھرے گا۔‬
‫لیکن۔۔۔ اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی سے شدید اختالف ہونے کے باوجود جب وہ اسرار احمد کے منہ سے وجاہت علی‬
‫کے لئے کمینہ یا ایسا کوئی اور غلط لفظ سنتا تھا تو اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ اب بھی وہ ا ُن کا ایسے‬
‫سن کر اندر ہی اندر بُرا محسوس کر رہا تھا۔ لیکن اسرار احمد کا آخری جملہ تو ا ُسے‬ ‫الفاظ میں ذکر ُ‬
‫چونکا گیا۔‬
‫وہ حیران ہو کر انھیں دیکھنے لگا۔‬
‫اسرار احمد پھر سے مسکرائے۔‬
‫’’میں سچ کہتا ہوں۔۔۔‬
‫ایمانداری کی بات ہے۔ میں شاید اپنے تینوں بچوں سے اتنا پیار نہیں کرتا‪ ،‬جتنا وہ اپنے ایک‬
‫اکیلے بیٹے سے کرتا ہے۔ بلکہ یقینا ً ایسا ہی ہے۔‘‘‬
‫وہ انھیں ایک ٹک دیکھے گیا۔‬
‫وہ کہہ رہے تھے۔‬
‫’’ تم نے دیکھا کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ ا ُن کے دوستوں جیسا ہوں۔ ہمارا آپس میں ہنسی‬
‫مزاق بھی چلتا رہتا ہے۔۔ اس کے باوجود میں انھیں اتنی اجازت نہیں دیتا کہ وہ میرے سامنے بدتمیزی‬
‫کریں۔‬
‫مزاق بھی چلتا رہتا ہے۔۔ اس کے باوجود میں انھیں اتنی اجازت نہیں دیتا کہ وہ میرے سامنے بدتمیزی‬
‫کریں۔‬
‫میں اپنے کسی بھی بیٹے کی خوشی کے لئے وجاہت کے آگے ہاتھ پھیالنے کو راضی نہ ہوتا۔۔۔‬
‫کبھی اپنے بیٹے کے لئے کسی کی بیٹی نہ ا ُٹھاتا۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔‘‘‬
‫انھوں نے قطیعت سے کہا۔‬
‫پھر بولے۔‬
‫’’ اور سب چھوڑو۔ آج اگر سب صحیح ہے اور سب خوش ہیں تو یہ سب بھی وجاہت کی ہی‬
‫کوششوں کا نتیجہ ہے۔‬
‫بہت تڑپا ہے وہ تمہاری خاطر۔ شوال کو تم سے مالنے کے لئے بہت منتیں کی ہیں اس نے‬
‫میری۔ اگر وہ اتنی کوششیں نہ کرتا تو آج حاالت بہت ہی افسوس ناک ہوتے۔‘‘‬
‫ا ُسے اپنے باپ کا پیار‪ ،‬ا ُن کی مہربایناں یاد آنے لگیں۔‬
‫اسرار احمد کہہ رہے تھے۔‬
‫’’ اور وجاہت نے یہ سب تم سے بے پناہ محبت میں کیا۔۔۔ تم ا ُس کے ایک بہت ہی پریشئس‬
‫)‪ (precious‬بیٹے ہو۔۔۔‬
‫یہ جو شوال سے اس نے جھوٹ بوال تھا۔ وہ حماقت بھی اس نے تمہاری محبت میں کی‬
‫تھی۔۔۔‬
‫میں تو اسے حماقت ہی کہوں گا۔ اسے سازش کا نام دینا سراسر زیادتی ہے وجاہت کے‬
‫ساتھ۔۔۔ اس بےچارے نے تو اپنی عقل کے مطابق سب کا بھال ہی سوچا تھا۔ یہ بدقسمتی ہوئی کہ غلط‬
‫وقت پہ شوال کو وہ سب پتا چل گیا۔‘‘‬
‫اس واقعے کے ذکر نے اس کی آنکھوں میں مرچیں بھر دیں۔‬
‫وجاہت علی کی زیادتی کے ساتھ اسے شوال کا وہ غصہ‪ ،‬اس کے الفاظ‪ ،‬پھر اس کی بگڑتی‬
‫حالت‪ ،‬بچے کی موت۔ سب یاد آنے لگا۔ پھر اس پہ وجاہت علی کی ڈھٹائی‪ ،‬شوال کے لئے کہے غلط الفاظ۔‬
‫سب کچھ اس کے ذیہن میں تازہ ہو گیا۔ وجاہت علی کے لئے پھر سے ِدل میں نفرت جمع ہونے لگی۔‬
‫اسرار احمد توقف کے بعد بیتے ِدن یاد کرتے ہوئے کہنے لگے۔‬
‫’’ جب میرے بچے چھوٹے تھے اور روتے تھے تو مجھے ان کی پرواہ تک نہیں ہوتی تھی۔ لیکن‬
‫تم کسی ِدن اپنے باپ سے پوچھنا۔۔۔ ا ُس کے پاس تمہارے ایک ایک آنسو کا حساب ہو گا۔‘‘‬
‫اسرار احمد کے ایک ہی جملے نے اس کے اندر جلتی آگ پہ پانی ڈال دیا۔ ا ُسے اپنے باپ سے‬
‫یہ سب پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بخوبی جانتا تھا۔‬
‫اسرار احمد اس کا جھکا ہوا سر دیکھنے لگے۔ وہ عجیب کشمکش میں مبتال تھا۔ ا ُسکے اندر‬
‫جیسے ایک بحث چھڑ چکی تھی۔‬
‫وہ پل دو پل کے لئے خاموش رہنے کے بعد پوچھنے لگے۔‬
‫’’ایک بات پوچھوں تم سے؟۔۔۔‘‘‬
‫اس نے سر ا ُٹھا کر سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اضطراب تھا۔‬
‫’’کیا تم نے اپنے باپ کی خوشی کے لئے کبھی کچھ کیا ہے؟‘‘‬
‫اسرار احمد کے سوال نے ا ُسے مکمل الجواب کر دیا۔ وہ فقط انھیں دیکھ کر رہ گیا۔‬
‫اسرار احمد اب کی بار اس کے جواب کے منتظر تھے۔ ا ُسے یوں الجواب پا کر نرمی سے‬
‫مسکرائے۔ پھر جیسے لہجے میں حسرت سمو کر بولے۔‬
‫’’ والدین اپنے بچوں کی خوشیاں‪ ،‬ا ُن کے برتھ ڈیز‪ ،‬ا ُن کی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں۔۔۔ ِان‬
‫سب کا خیال رکھتے ہیں۔ تو کیا بچوں کو بھی اپنے والدین کی خوشی کا خیال نہیں کرنا چاہیئے؟۔۔۔‬
‫ا ُنھیں بھی کبھی کوئی تحفہ دینا چاہیئے۔۔۔ کبھی تھینک یو بولنا چاہیئے۔‬
‫والدین بھی آپ ہی کی طرح انسان ہوتے ہیں۔ کبھی وہ بھی اوالد تھے۔ کبھی ان کے بھی ماں‬
‫باپ تھے‪ ،‬بہن بھائی تھے۔ لیکن وقت ان سے سب کچھ چھین چکا ہوتا ہے۔ اب ان کے پاس ان کی اوالد‬
‫ہوتی ہے۔۔۔ اور اوالد کا کام ہمیشہ ضرورت یا پریشانی کے وقت والدین کو پکارنا تو نہیں ہوتا۔ کبھی ا ُن کی‬
‫باپ تھے‪ ،‬بہن بھائی تھے۔ لیکن وقت ان سے سب کچھ چھین چکا ہوتا ہے۔ اب ان کے پاس ان کی اوالد‬
‫ہوتی ہے۔۔۔ اور اوالد کا کام ہمیشہ ضرورت یا پریشانی کے وقت والدین کو پکارنا تو نہیں ہوتا۔ کبھی ا ُن کی‬
‫خوشی کے لئے بھی ان کو تھوڑی توجہ دینی چاہیئے۔ ا ُن سےاپنی محبت کا اظہار کرنا چاہیئے۔ ا ُنھیں‬
‫احساس دالنا چاہیئے کہ وہ آپ کے لئے کتنے اہم ہیں۔۔۔ ہے کہ نہیں؟‘‘‬
‫اسرار احمد نے اسے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔‬
‫تب ہی عمران وہاں چال آیا۔‬
‫’’ پاپا!۔۔ اندھیرا چھانے واال ہے۔ کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے؟۔۔۔ رجب شہزادے!۔۔۔ کچھ وقت‬
‫ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو۔‘‘‬
‫عمران نے پہلے اسرار احمد پھر رجب سے کہا۔ اس کے لہجے میں بےتکلفی اور اپنائیت تھی۔‬
‫’’ہم اندر چلنا ہی چاہتے تھے۔۔ چلو رجب!۔‘‘‬
‫اسرار احمد کہتے ہوئے ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫رجب بھی ا ُٹھا اور تینوں اکٹھے اندر کی طرف چل دیئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رجب اور سکینہ بیگم ریسٹورینٹ میں ایک میز کے قریب پہنچے۔‬
‫رجب نے ان کے لئے ایک کرسی کھینچی۔‬
‫’’بیٹھئے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم قدرے معتجب سی ریسٹورینٹ کے ہال میں نظریں دوڑا رہی تھیں۔ اس کے کہنے‬
‫پہ اپنی حیرت نہ چھپا سکیں۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ تم مجھے یہاں کیوں الئے ہو؟‘‘‬
‫’’ڈنر کروانے۔۔۔ ‘‘‬
‫رجب نے مسکراتے ہوئے ا ُنھیں سرپرائز دیا۔‬
‫’’ ڈنر۔۔۔؟ مجھے؟۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کو اور بھی حیرت و مسرت نے آن گھیرا۔‬
‫’’آف کورس۔‘‘‬
‫رجب پھر مسکرایا۔‬
‫’’ ۔ ?‪‘‘ What’s the occasion‬‬
‫سکینہ بیگم نےکرسی پہ بیٹھ کر تعجب کے ساتھ استفسار کیا۔‬
‫دوسری طرف رجب بھی اپنی کرسی سنبھال رہا تھا۔‬
‫محبت اور نرمی سے بوال۔‬
‫’’کوئی اوکیژن نہیں ہے۔۔۔ بس‪ ،‬سوچا کہ آج آپ کو یہاں ڈنر کرواؤں تو لے آیا۔‘‘‬
‫رجب مسلسل مسکراتے ہوئے اپنی خوشی ظاہر کر رہا تھا۔‬
‫وہ انھیں بہت سپیشل محسوس کروانا چاہتا تھا۔ اور سکینہ بیگم ایسا محسوس کر رہی‬
‫تھیں۔‬
‫اپنے مقابل بیٹھے بیٹے کو دیکھتے ہوئے وہ نہال ہو گیئیں۔‬
‫’’رجب!۔۔۔۔۔ تم نے یہ سب میرے لئے کیا ہے؟۔۔۔ آئم سو ہیپی۔۔۔ تھینک یو سو مچ۔‘‘‬
‫’’ ِاٹس آنلی مائی پلیژر مائی لّولی مام!‘‘‬
‫وہ اور بھی محبت سے بوال۔‬
‫پھر رجب نےان کی پسند کا کھانا آرڈر کیا۔ کھانا آنے تک وہ ا ُن سے ادھر ادھر کی باتیں اور‬
‫ہنسی مزاق کرتا رہا۔‬
‫وہ ایک مستقل مسکراہٹ کے ساتھ اس کی باتیں سن رہی تھیں۔ اس کے چٹکلوں پہ کھلکھال‬
‫رہی تھیں۔ ا ُن کو دیکھتے ہوئے ا ُسے احساس ہو رہاتھا کہ وہ شاید زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کو‬
‫وہ ایک مستقل مسکراہٹ کے ساتھ اس کی باتیں سن رہی تھیں۔ اس کے چٹکلوں پہ کھلکھال‬
‫رہی تھیں۔ ا ُن کو دیکھتے ہوئے ا ُسے احساس ہو رہاتھا کہ وہ شاید زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کو‬
‫ایسے خوش دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ آج وہ کسی اور کی خوشی میں خوش نہیں تھیں۔ بلکہ آج وہ اپنے لئے‬
‫خوش تھیں۔ اور اس خوشی نے ا ُن کا چہرہ اور آنکھیں منّور کر دی تھیں۔‬
‫انھیں اسطرح خوش دیکھ کر خود اسے جو خوشی ہو رہی تھی وہ اس کے لئے ناقابِل بیان‬
‫تھی۔ وہ ِدل ہی ِدل میں اسرار احمد کا ممنون ہو رہا تھا۔‬
‫پھر جب کھانا آیا تو ا ُس نے اپنے ہاتھوں سے سکینہ بیگم کو ایک ایک چیز سرو کی۔‬
‫سکینہ بیگم اس کی محبت کے اس اظہار پہ نہال ہوئی جا رہی تھیں۔‬
‫’’ تمہارے مکان کا کیا بنا؟۔۔۔ ‘‘‬
‫کھانا کھاتے ہوئے اچانک خیال آنے پہ سکینہ بیگم نے پوچھا۔‬
‫وہ اپنے کھانے پہ متوجہ تھا۔ سکینہ بیگم کے سوال پہ سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫چوز کرنے کے معاملے میں بہت فسی‬ ‫’’ ہوں۔۔۔۔ ابھی تک کچھ نہیں بن سکا۔۔ شوال مکان ُ‬
‫ہے۔۔۔۔ اب تک بیسّیوں مکان دکھا چکا ہوں ا ُسے۔ ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خامی نکال کر ریجیکٹ کر‬
‫دیتی ہے۔ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم یہ سن کر قدرے گھبرا ا ُٹھیں۔‬
‫’’ جلدی کرو بیٹا!۔۔۔ اب وقت ہی کتنا رہ گیا ہے؟‘‘‬
‫’’جانتا ہوں جانو!۔۔۔ مگر کیا کروں۔؟ ا ُسے پسند آنا بھی تو ضروری ہے۔‘‘‬
‫اس نے الچارگی سے کہا۔‬
‫’’جانو؟۔۔‘‘‬
‫چال دینے کو تھیں۔‬ ‫ً‬
‫سکینہ بیگم کے لئے وہ دوسرا سرپرائز تھا۔ خوشی سے وہ تقریبا ِ‬
‫رجب نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا اور بےساختہ مسکرا دیا۔‬
‫کہنے لگا۔‬
‫’’ یس مائی بیوٹی فُل مام!۔۔۔ آپ کو میری محبت پہ کوئی شک ہے کیا؟‘‘‬
‫سکینہ بیگم مسکرائیں۔‬
‫’’ اچانک یہ کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘‬
‫’’ ہوا کچھ نہیں۔۔۔ بس‪ ،‬میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اپنی فیلنگز کا اظہار ُکھل کر کیا‬
‫کروں گا۔‘‘‬
‫ا ُس نے منہ میں لیٹس کے پتے ٹھونستے ہوئے کہا۔‬
‫سکینہ بیگم مستقل مسکراہٹ کے ساتھ بھنوئیں ا ُچکا کر رہ گیئیں۔‬
‫ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر کھانا کھانے میں مّحو اپنی ماں کو دیکھا۔‬
‫سنجیدہ ہوتے ہوئے بوال۔‬
‫’’ اّمی!۔۔۔ آپ کو پتا ہے‪ ،‬اسرار انکل ایک بہت گریٹ آدمی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ا ُنھوں نے‬
‫زندگی میں بہت غلطیاں کی ہیں۔ اپنی زندگی سمجھداری کے ساتھ احسن طریقے سے نہیں گزاری۔ بالکل‬
‫عام سا آدمی ہیں وہ۔۔۔‬
‫لیکن اّمی!۔۔۔ جو آدمی خود غلطی کر کے نقصان ا ُٹھائے۔ مگر ا ُس کے بارے میں دوسروں کو‬
‫خبردار کرے تاکہ کوئی دوسرا اپنی زندگی میں وہ غلطی نہ دہرائے۔ اس سے بڑھ کر گریٹ آدمی اور کون‬
‫ہو گا؟۔۔۔‘‘‬
‫اس نے توقف کیا۔‬
‫ُ‬
‫سکینہ بیگم حیران سی اسے دیکھ رہی تھیں۔‬
‫وہ لہجے میں قدرے افسوس اور مّحرومی کا احساس لئے کہنے لگا۔‬
‫’’ اّبو اور اسرار انکل میں سب سے بڑا فرق پتا ہے کیا ہے؟۔۔۔‬
‫ابّو خود کسی کے ساتھ زیادتی کر کے الزام بھی اس کے سر پہ ڈالتے ہیں۔ جبکہ اسرار انکل‬
‫کے ساتھ زیادتی بھی ہو تو ا ُس میں بھی وہ اپنا قصور تالش کرتے رہتے ہیں۔‘‘‬
‫اّبو خود کسی کے ساتھ زیادتی کر کے الزام بھی اس کے سر پہ ڈالتے ہیں۔ جبکہ اسرار انکل‬
‫کے ساتھ زیادتی بھی ہو تو ا ُس میں بھی وہ اپنا قصور تالش کرتے رہتے ہیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم ا ُسے دیکھے گیئیں۔‬
‫وہ اور وجاہت علی جو اسرار احمد کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ حقیقت اس کے برعکس لگ‬
‫رہی تھی۔‬
‫’’اّمی!۔۔ ایک بات پوچھوں؟‘‘‬
‫رجب کچھ ہچکچایا۔‬
‫’’ہوں۔۔۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے سر ہال کر اجازت دی۔‬
‫’’ کیا آپ کو کبھی نہیں لگا کہ حقیقت وہ نہیں جو ابّو کی زبانی ہم نے ُ‬
‫سنی تھی؟۔۔۔۔ یہ‬
‫جانتے ہوئے بھی کہ اسرار انکل آپ کو پسند کرتے ہیں۔ پھر سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی انھوں نے آپ‬
‫سے شادی کیوں کی؟۔۔۔۔۔ آپ کو اسرار انکل سے چھیننے کے لئے؟۔۔۔۔‘‘‬
‫ِ‬
‫وہ ا ُن سے یہ باتیں کرتے ہوئے خاصی جھجک محسوس کر رہا تھا۔ مگر پھر بھی وہ اپنے دل‬
‫میں آئی یہ باتیں ا ُن سے ڈسکس کرنا چاہتا تھا۔‬
‫سکینہ بیگم ساکت سی اسے دیکھے گیئیں۔ جیسے ان کے لئے صورتحال کو سمجھنا مشکل‬
‫ہو۔‬
‫’’آئی مین۔۔۔ میں کیسے اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہوں جسے میرا دوست پسند کرتا ہے۔۔۔‬
‫ا َن لیس۔۔۔ میں خود ایسا نہ چاہوں۔۔۔‬
‫اگر داداجان اور ناناجان نے آپ دونوں کی شادی کا فیصلہ کیا تھا تو ابّو نے انکار کیوں نہیں‬
‫کیا؟ انھیں کرنا چاہیئے تھا ناں!‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے گہرا سانس خارج کیا۔‬
‫’’ اب ِان باتوں کو ڈسکس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے رجب!۔۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ‬
‫باتیں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ ‘‘‬
‫’’پھر بھی۔۔۔ اگر ایسی بات تھی تو کیا آپ ابّو کی اس بےایمانی کو معاف کر سکتی ہیں؟‘‘‬
‫وہ جیسے جاننا چاہتا تھا۔‬
‫سکینہ بیگم پھیکا سا مسکرائیں۔‬
‫’’ اگر ایسا کچھ تھا تو وجاہت‪ ،‬اسرار کا مجرم ہیں۔۔۔ میرے نہیں۔‬
‫کیونکہ میں اپنی شادی کے بارے میں اس طرح سے نہیں سوچتی تھی جیسے آج کل کی‬
‫لڑکیاں سوچتی ہیں۔۔۔‬
‫میرے ارمان تو بس بہت سے نئے خوبصورت کپڑے‪ ،‬سونے کے زیورات‪ ،‬شادی کا فنکشن‪ ،‬دلہن‬
‫کا روپ اور بہت سے لوگوں کی اٹینشن تک ہی تھے۔۔۔۔ اور مجھے وہ سب ِمال تھا۔ ِاس لئے وجاہت اور‬
‫اسرار کے اس جھگڑے کی حقیقت کیا ہے؟۔۔ ِاس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم اپنے ا ُن معصوم ارمانوں کو یاد کر کے مسکرا رہیں تھیں۔ ا ُن کے ارمان سن کر‬
‫رجب کے ہونٹوں پہ بھی ویسی ہی مسکراہٹ آ ٹھہری۔ پھر دونوں ماں‪ ،‬بیٹا ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسے‬
‫اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫شوال کافی شاپ میں بیٹھی فون پہ بات کر رہی تھی۔‬


‫’’ کیا کروں پاپا!؟۔۔۔ رجب کہہ رہا ہے کہ ابھی جو مکان دیکھ کر آ رہے ہیں ا ُن میں سے ہی‬
‫کوئی ایک فائنل کر دو۔۔۔۔ وہ مزید کوئی اعتراض نہیں سننا چاہتا۔‘‘‬
‫ھری باپ سے مدد طلب کر رہی تھی۔‬ ‫وہ مشکل میں گ ِ‬
‫اپنے آفس میں بیٹھے اسرار احمد ُپر سوچ انداز میں بولے۔‬
‫ھری باپ سے مدد طلب کر رہی تھی۔‬ ‫وہ مشکل میں گ ِ‬
‫اپنے آفس میں بیٹھے اسرار احمد ُپر سوچ انداز میں بولے۔‬
‫’’ اب تمہیں کوئی بھی اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔ جہاں تک میرا خیال ہے۔۔۔ میں‬
‫ھل کر بات کر سکو۔ انشااهلل وہ ضرور سمجھ جائے گا۔‘‘‬ ‫ا ُسے اس اسٹیج تک ال چکا ہوں کہ تم اس سے ک ُ‬
‫ِ‬
‫یہ سوچ کر ہی شوال گھبرانے لگی۔ اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔‬
‫’’آر یو شیور پاپا!۔۔۔ میں ا ُس سے بات کروں؟۔۔۔ وہ مان جائے گا؟‘‘‬
‫’’مجھے تم پہ پورا بھروسہ ہے شوال!۔۔۔ انشااهلل تم یہ کام بخوبی سر انجام دو گی۔۔۔ بس‪،‬‬
‫اهلل کو یاد کرو اور اعتماد کے ساتھ بات کرو۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے اس کی حوصلہ افزائی کی۔‬
‫تب ہی رجب ٹرے میں آرڈر لئے وہاں آن پہنچا۔‬
‫’’ٹھیک ہے پاپا!۔۔۔ ابھی ہم کافی پینے لگے ہیں۔ آپ سے بعد میں بات ہوتی ہے۔‘‘‬
‫رجب کو دیکھ کر اس نے اپنی گفتگو سمیٹی۔‬
‫اسرار احمد بھی اس کے لہجے کی بدلی ٹون سے سمجھ گئے کہ رجب وہاں آ چکا ہے۔‬
‫’’او۔ کے بیٹا!۔۔۔ انجوئے یور کافی۔۔ آل دی بیسٹ۔ بائے۔‘‘‬
‫کہہ کر انھوں نے کال کاٹ دی۔‬
‫وہ فون کان سے ہٹا کر رجب کی طرف متوجہ ہو گئی جو اس کے مقابل بیٹھنے کے بعد ا ُس‬
‫کے سامنے کافی اور پیسٹیز )‪ (Pasties‬رکھ رہا تھا۔‬
‫’’تھینک یو۔‘‘‬
‫وہ اپنی گھبراہٹ چھپانے کو مسکرائی۔‬
‫رجب اپنا کپ اور براؤنی اپنے سامنے رکھتے ہوئے مسکرایا اور خالی ٹرے ایک طرف کھسکا‬
‫دی۔ شوال اپنی کافی میں چینی ڈال کر چمچ کے ساتھ حل کرنے لگی۔‬
‫جن دنوں ہماری پہلی مالقات ہوئی تھی۔ تب میں اپنی شادی کو لے کر‬ ‫’’ جانتے ہو رجب!۔۔۔ ِ‬
‫کیا خواب دیکھا کرتی تھی؟‘‘‬
‫شوال نے بیتے ِدن یاد کرتے ہوئے مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ رجب نے نظریں ا ُٹھا کر پوری توجہ‬
‫سے اسے دیکھا۔ ا ُس کے لئے یہ جاننا اہم تھا۔ شوال مسکرائی۔‬
‫’’ میں سوچا کرتی تھی کہ میری منگنی ہو گی۔ کالج کی باقی لڑکیوں کی طرح میرا منگیتر‬
‫بھی مجھے ڈنر پہ لے جایا کرے گا۔ ہم فون پہ باتیں کیا کریں گے۔ وہ جب بھی مجھ سے ملنے آیا کرے گا‬
‫تو میرے لئے پھول الیا کرے گا۔ مجھے کوریئر سے گفٹس اور کارڈز موصول ہوا کریں گے۔۔۔ ‘‘‬
‫شوال ہنس دی۔‬
‫رجب گہری مسکراہٹ کے ساتھ ا ُس کی باتیں سن رہا تھا۔ اس کے ہنسنے پہ وہ بھی ہلکا سا‬
‫ہنس دیا۔ شوال کے چہرے پہ سنجیدگی چھا گئی۔‬
‫’’لیکن میرے ساتھ ایسا کچھ نہ ہوا۔ کسی نے مجھے کال نہیں کی‪ ،‬کوئی پھول یا گفٹس نہیں‬
‫ی کہ گن پوائنٹ پہ مجھے ایک ایسے لڑکے سے شادی کرنا پڑی جسے میں جانتی تک نہ تھی۔ ‘‘‬ ‫ملے۔ حت ٰ‬
‫رجب کے چہرے پہ بھی گھمبیرتا چھا گئی۔‬
‫شوال کی آنکھوں میں ٹوٹے سپنوں کی کرچیاں تھیں۔‬
‫’’ میرا کوئی بھی خواب پورا نہیں ہوا۔ مجھے بہت ُدکھ تھا اس بات کا۔۔۔۔ بہت غم تھا کہ وہ‬
‫وقت اب کبھی میری زندگی میں نہیں آ سکتا۔۔‘‘‬
‫شوال نے ا ُداسی کے ساتھ کہا۔‬
‫پھر ا ُسے دیکھ کر خوشی سے مسکرائی۔‬
‫’’ لیکن میں کتنی غلط تھی۔۔۔ آج دیکھو!۔۔۔ ایک لڑکا‪ ،‬جسےمیں بہت پیار کرتی ہوں۔ وہ بھی‬
‫مجھ سے بہت پیار کرتا ہے۔ وہ میرے گھر آتا ہے۔ مجھے پھول اور گفٹس ال کر دیتا ہے۔ مجھ سے فیس ٹائم‬
‫پہ باتیں کرتا ہے۔ مجھے ڈنر پہ لے جاتا ہے۔ مجھ سے بہت ساری باتیں کرتا ہے۔۔۔ پھر رات کو وہ لڑکا‬
‫مجھے گھر بھی ڈراپ کرتا ہے۔۔۔ ِاز ناٹ ِاٹ امیزنگ؟۔۔۔ ‘‘‬
‫پہ باتیں کرتا ہے۔ مجھے ڈنر پہ لے جاتا ہے۔ مجھ سے بہت ساری باتیں کرتا ہے۔۔۔ پھر رات کو وہ لڑکا‬
‫مجھے گھر بھی ڈراپ کرتا ہے۔۔۔ ِاز ناٹ ِاٹ امیزنگ؟۔۔۔ ‘‘‬
‫اس نے اپنی مسرت کا اظہار کیا۔ رجب بھرپور انداز میں مسکرایا۔ شوال تشکر بھرے لہجے‬
‫میں بولی۔‬
‫’’ اهلل کتنا قدرت واال ہے۔ وہ وقت‪ ،‬جو میں سمجھتی تھی کہ اب کبھی میری زندگی میں نہیں‬
‫آ سکتا۔ دیکھو! کیسے ا ُس نے ایسے حاالت پیدا کئے ہیں کہ آج میرے وہ تمام خواب پورے ہو رہے ہیں۔‘‘‬
‫اسے خوش دیکھ کر وہ بھی خوش ہو گیا۔‬
‫’’ انشااهلل تمہارے سب خواب پورے ہوں گے۔۔۔ بس ہم پھر سے ایک ہو جائیں۔ پھر زندگی اور‬
‫بھی حسین ہو گی۔‘‘‬
‫وہ حسین دنوں کی خواہش کرتے ہئے بوال۔ یہیں سے اسے مکان کا خیال آ گیا۔‬
‫’’ اچھا۔۔۔ تو کون سا مکان فائنل کیا تم نے؟۔۔۔‘‘ اس نے پوچھا۔‬
‫شوال کے ہونٹوں سے مسکراہٹ غائب ہو گئی۔ وہ اس کا چہرہ تکنے لگی۔‬
‫’’ دیکھو شوال!۔۔ ہمارے پاس اب بہت کم وقت رہ گیا ہے۔ ہمیں گھر فائنل کرنا ہے۔ اونر سے‬
‫بات کرنی ہے۔ لیگل فارمیلیٹیز‪ ،‬گھر کی کلرنگ‪ ،‬کلیننگ فرنشنگ۔ اور پھر ڈیکوریشن۔۔۔ اتنے کم دنوں میں یہ‬
‫سب کیسے ہو گا۔۔۔ میں تو ریفربشنگ کا بھی سوچ رہا تھا۔ مگر اب وہ اتنے کم دنوں میں پاسبل نہیں ہے۔‬
‫شادی کے بعد ہی ہوگا وہ اب۔‘‘‬
‫رجب کو اب وقت کم رہ جانے پہ بےچینی اور گھبراہٹ ہو رہی تھی۔ پھر قدرے ملتجی لہجے‬
‫میں بوال۔ ’’ تم پلیز ِان تینوں میں سے کوئی سلیکٹ کر لو تاکہ شادی ہونے تک میں اسے ریڈی کروا‬
‫سکوں۔۔۔ نہیں تو شادی کے بعد بھی تمہیں اپنے پاپا کے گھر رہنا پڑے گا۔‘‘‬
‫وہ بغور رجب کی گھبراہٹ مالحظہ کر رہی تھی۔ اس کے آخری جملے پہ مسکرا دی۔‬
‫ِ‬
‫’’ ہاں۔۔ تمہارے لئے تو یہ بھی اچھا ہے۔۔۔۔ اس طرح تم میرے بہانے میرے پاپا سے ملنا جاری‬
‫رکھ سکو گے۔‘‘‬
‫اس نے شرارت سے کہا۔ رجب نے بھنوئیں اچکائیں۔‬
‫’’ اچھا۔۔۔ یعنی کہ میں تمہارا بہانہ بنا کر اصل میں تمہارے پاپا سے ملنے آتا ہوں۔‘‘‬
‫وہ سمجھ جانے کے انداز مصنوعی خفگی ِدکھا کر بوال۔‬
‫’’ تو اور نہیں تو کیا؟۔۔۔ مجھ سے فون پہ کہتے ہو کہ تم سے ِملنے آ رہا ہوں۔۔۔ اور سارا وقت‬
‫پاپا کے پاس بیٹھ کر گزارتے ہو۔‘‘‬
‫اس نے مصنوعی شکواہ کیا۔‬
‫رجب ہنس دیا۔‬
‫’’تم دنیا کی پہلی ایسی بیوی ہو گی جو اپنے باپ سے جلتی ہے۔‘‘‬
‫ا ُس نے کچھ ِاس انداز میں کہا کہ وہ بےساختہ ہنس دی۔‬
‫’’ اچھا سیریسلی بتاؤ ناں!۔۔۔ کون سا گھر لیں پھر؟‘‘‬
‫رجب نے سنجیدہ ہوتے ہوئے پوچھا۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ تمہارا اپنا گھر آل ریڈی موجود ہے۔۔۔ میں اس میں کیوں نہیں رہ سکتی؟‘‘‬
‫اس نے بھی سنجیدگی اختیار کر لی۔‬
‫’’ تمہارا مطلب ہے اّبو کا گھر؟۔۔۔‘‘‬
‫اس نے تصدیق طلب کی۔ اس نے سر ہال کر تصدیق کر دی۔‬
‫رجب نے سوچتے ہوئے نفی میں سر ہالیا۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ جو کچھ اّبو نے تمہارے ساتھ ِکیا۔۔۔ اس کے بعد میں تمہیں کبھی ان کے ساتھ‬
‫نہیں رکھنا چاہتا۔‘‘‬
‫رجب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔‬
‫اس کے لئے آگے بات کرنا مشکل ہو گیا۔ کیسے وہ ا ُس کے فیصلے سے اختالف کرے کہ رجب‬
‫رجب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔‬
‫اس کے لئے آگے بات کرنا مشکل ہو گیا۔ کیسے وہ ا ُس کے فیصلے سے اختالف کرے کہ رجب‬
‫ضد میں آنے کی بجائے اس کی بات مان لے۔‬
‫’’ رجب!۔۔۔ کیا تم ساری زندگی ان سے ناراض رہو گے؟۔۔۔ انھوں نے جو کیا‪ ،‬کیا تم بھول‬
‫نہیں سکتے؟۔ معاف نہیں کر سکتے؟‘‘‬
‫ا ُس نے ڈرتے جھجکتے ملتجی لہجے میں سوال کیا۔رجب حیرت و بےیقینی سے پوری آنکھیں‬
‫کھولے ا ُسے دیکھنے لگا۔‬
‫’’ شوال!۔۔۔ یہ تم کہہ رہی ہو؟۔۔۔ ‘‘‬
‫وہ بے یقین تھا۔ شوال نے اپنا سر جھکا لیا۔‬
‫وہ پوچھنے لگا۔‬
‫’’کیا تم بھول سکتی ہو؟۔۔۔ وہ سب‪ ،‬جو انھوں نے تمہارے ساتھ کیا؟۔۔۔ کیا تم معاف کر‬
‫سکتی ہو؟‘‘‬
‫ا ُسے یقین تھا کہ یہ شوال کے لئے ناقابِل قبول ہے۔‬
‫شوال نے سر ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’ میں معاف کر چکی ہوں رجب!‘‘‬
‫ا ُس نے اپنے ایک ایک لفظ پہ زور دے کر کہا۔ رجب بےیقینی سے پلکیں جھپکا جھپکا کر ا ُسے‬
‫دیکھنے لگا۔ ا ُسے اپنی سماعت پہ یقین نہ آیا۔ ا ُس نے گہرا سانس کھینچا۔ پھر بولی۔‬
‫’’ کیونکہ میرے ساتھ ویسا ہوا نہیں‪ ،‬جیسا کہ بظاہر نظر آ رہا ہے۔ میرے لئے حقیقت کچھ اور‬
‫ہے۔‘‘‬
‫ا ُس نے کہا۔ پھر سر جھکا کر اپنے کافی کے کپ کو گھورتے ہوئے ذیہن میں الفاظ ترتیب دینے‬
‫لگی۔ وہ ا ُس کے آگے بولنے کا بےچینی سے منتظر تھا۔‬
‫ا ُس نے سر ا ُٹھایا۔ ’’جانتے ہو رجب!۔۔۔۔ جب ا ُس حادثے کے بعد میں پاپا کے گھر آگئی‬
‫تھی۔۔۔ تب میں بہت غم کھاتی تھی۔ میرے لئے جیسے زندگی ختم ہو گئی تھی۔ میں ہر وقت اهلل سے‬
‫پوچھتی تھی کہ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟۔۔۔‬
‫پھر پاپا نے مجھ سے کہا کہ جب بھی ہمارے ساتھ کچھ غلط ہوتا ہے۔ ا ُس میں کہیں نہ کہیں‬
‫جس کی وجہ سے‬ ‫ہماری اپنی غلطی بھی ضرور ہوتی ہے۔ اور مجھے اپنی وہ غلطی تالش کرنی چاہیئے ِ‬
‫میں نے اتنا نقصان ا ُٹھایا۔‬
‫پاپا کی بات کو مانتے ہوئے میں نے بہت سوچا۔ بہت غور کیا۔۔۔ لیکن مجھے صرف میرے ساتھ‬
‫ہوئی زیادتیاں ہی نظر آ رہی تھیں۔‬
‫ِ‬
‫پھر جب میں تم سے ملی۔ ہمارے بیچ موجود غلط فہمی کی دھند چھٹ چکی۔ تب میں نے‬
‫دیکھا تو مجھے قدم قدم پہ اپنی ہی غلطیاں نظر آئیں۔‘‘‬
‫اس نے کہا۔ پھر بتانا شروع ہوئی۔‬
‫’’جب میری تمہارے ساتھ شادی ہوئی تھی۔ میرے مطابق تم اور تمہارے ابّو نے میرے پاپا سے‬
‫دشمنی میں میرے ساتھ وہ سب کیا تھا۔ لیکن شادی کی رات تم مجھ سے جس طرح سے پیش آئے‪ ،‬وہ‬
‫میری توقع کے برعکس تھا۔ ا ُس کے بعد بھی مجھے تمہارے اور تمہارے ماں‪ ،‬باپ کے روّیوں سے یقین ہو‬
‫گیا کہ وہ جو کہہ رہے تھے سچ تھا۔ تم میرے ساتھ مخلص تھے۔ اور تمہارے ابّو نے جو بھی کیا تھا۔‬
‫تمہاری محبت میں کیا تھا۔ نہ کہ کسی دشمنی میں۔۔۔‬
‫سچائی جاننے کے بعد مجھے وہ سب کچھ قبول کر لینا چاہیئے تھا۔ لیکن پھر بھی میں اپنی‬
‫ضد پہ اڑی رہی۔۔۔ اهلل نے میرے ِدل میں تمہارے لئے محبت ڈال دی۔ یہ ا ُس کی طرف سے ایک اشارہ تھا‬
‫کہ میں تمہیں قبول کر لوں۔۔۔ لیکن میں پھر بھی نہ مانی۔‬
‫میری یہی خودسری اور نافرمانی اهلل کو پسند نہیں آئی۔ ا ُس نے تمہیں مجھ سے چھیننے کا‬
‫فیصلہ کر لیا۔‬
‫تب مجھے اپنے کئے پہ پچھتاوا ہونے لگا۔ اپنی ناشکری کا احساس ستانے لگا۔۔۔ تمہارے‬
‫فیصلہ کر لیا۔‬
‫تب مجھے اپنے کئے پہ پچھتاوا ہونے لگا۔ اپنی ناشکری کا احساس ستانے لگا۔۔۔ تمہارے‬
‫ھن جانے کے خوف نے میری بھوک پیاس اور نیندیں ا ُڑا دیں۔‬ ‫چ ِ‬
‫تب میں نمازیں پڑھ پڑھ کر اهلل کے آگے ِگڑگڑا ِگڑگڑا کر ا ُس سے تمہاری زندگی کی بھیک‬
‫مانگنے لگی‪ ،‬اپنی کوتاہیوں کی معافیاں طلب کرنے لگی۔‬
‫ھلے‬‫میں ہر رات سوتے وقت یہ خواہش کرتی تھی کہ کاش ایسا ہو کہ جب صبح میری آنکھ ک ُ‬
‫تو معلوم ہو کہ یہ سب ایک خواب تھا۔ تم صحیح سالمت ہو اور میرے پاس ہو۔‬
‫اور اهلل نے میری سن لی۔ ا ُس نے تمہیں مجھے لوٹا دیا۔ تمہاری بیماری کو ایک خواب‪ ،‬ایک‬
‫جھوٹ میں بدل دیا۔‬
‫میرے لئے وہ اهلل کا ایک معجزہ تھا۔ اس کی خاص عنایت تھی جو اس نے مجھ پہ کی‬
‫سنا تھا تو مجھے ا ُسی وقت اهلل کے حضور سجدے میں ِگر کر ا ُس کا شکر بجا النا‬ ‫تھی۔۔۔ جب میں نے یہ ُ‬
‫چاہیئے تھا۔ ا ُس کی بڑائی کا اعتراف کرنا چاہیئے تھا۔۔۔ بے شک اتنی قدرت واال صرف وہی ہو سکتا ہے۔‬
‫لیکن میں نے ایسا نہ کیا۔ میں نےاس کی اس عنایت کو ٹھکرا دیا۔ ایک بار پھر ناشکری‬
‫کی۔۔۔‬
‫اهلل کو میرا یہ فعل پسند نہ آیا۔ ا ُس نے فورا ً ہی مجھے سزا دی۔۔۔ جیسے اچانک ا ُس نے‬
‫تمہاری بیماری کو ایک خواب میں بدل دیا تھا۔۔۔ ویسے ہی ا ُس نے ملحوں میں مجھ سے میرا وہ بچہ چھین‬
‫جس کی مجھے خبر تک نہ تھی۔‬ ‫لیا ِ‬
‫ا ُس وقت تو مجھے اپنا سب سے بڑا مجرم تم اور تمہارے پاپا لگ رہے تھے۔۔۔ لیکن اب سوچتی‬
‫ہوں تو پتا چلتا ہے کہ وہ سب میرے اپنے ہی گناہوں کی سزا تھی۔۔۔ اور جب ثابت ہو چکا ہے کہ سارا‬
‫قصور میرا اپنا تھا۔ تو تمہارے ابّو سے نفرت ِکس بنا پر کروں؟۔۔۔‬
‫ِاس لئے۔۔۔۔ مجھے تمہارے اّبو سے کوئی شکایت نہیں ہے۔‘‘ ا ُس نے کہا۔‬
‫اس کی باتوں پہ غور کرتے ہوئے رجب کی آنکھوں میں پانی جمع ہونے لگا۔‬
‫’’رجب!۔‘‘‬
‫شوال نے گھمبیر آواز میں ا ُسے پکارا۔‬
‫اس نے سر ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫’’ میں پہلے ہی اپنے گناہوں کی سزا بھگت چکی ہوں۔۔۔ اب میں مزید کوئی گناہ نہیں کرنا‬
‫چاہتی۔‘‘‬
‫ا ُس کی آواز میں پچھتاوے اور گناہ کرنے کا خوف تھا۔‬
‫رجب ا ُلجھن سے ا ُسے دیکھنے لگا۔‬
‫وہ اپنی بات واضح کرنے لگی۔‬
‫’’ تم اپنے ماں‪ ،‬باپ کا اکلوتا بیٹا ہو رجب!۔۔۔ میں تمہیں ا ُن سے الگ کر کے ا ُن کی بد ُدعائیں‬
‫نہیں لینا چاہتی۔‬
‫تمہارے ماں‪ ،‬باپ نے اپنی زندگی تمہارے لئے وقف کر کے تمہیں پروان چڑھایا ہے۔۔۔ ا ُس‬
‫چھوٹی سی بھول کی ا ُنھیں اتنی بڑی سزا مت دو۔۔۔‬
‫ا ُنھوں نے تمہیں بےپناہ محبت دی‪ ،‬تمہارے لئے زندگی بھر قربانیاں دیں۔۔۔۔ کیا ِاس کے بدلے‬
‫تم ا ُن کی ایک خطا معاف نہیں کر سکتے؟۔۔۔۔‬
‫خامیاں ِکس میں نہیں ہوتیں؟۔۔۔ خطا ِکس سے نہیں ہوتی؟۔۔۔ کیا تم نے کبھی کوئی غلطی‬
‫نہیں کی؟۔۔۔ کیا کبھی جانے انجانے میں اپنے ماں‪ ،‬باپ کو ُدکھ نہیں ِدیا؟۔۔۔ کیا کبھی انھیں پریشان نہیں‬
‫ِکیا؟۔۔۔ اور سب چھوڑو۔ یہ جو تم بار بار خودکشیوں کی کوششیں کرتے ہو۔۔۔ تمہاری یہ حالت دیکھ کر‬
‫تمہارے ماں‪ ،‬باپ کے ِدل پہ کیا گزرتی ہے۔ کبھی تم نے سوچا ہے؟۔۔۔۔ ‘‘‬
‫رجب نے ٹیبل کی سطح پہ کہنی ٹکا کر اپنی پیشانی تھام لی۔ یہ سب سوچ کر اسکی حالت‬
‫عجیب سی ہو رہی تھی۔‬
‫شوال نے اپنی بات جاری رکھی۔‬
‫عجیب سی ہو رہی تھی۔‬
‫شوال نے اپنی بات جاری رکھی۔‬
‫جس کی تمہیں خبر تک نہیں تھی۔ جب وہ‬ ‫’’ تم نے بھی تو اپنا بچہ کھویا ہے۔ وہ بچہ‪ِ ،‬‬
‫تمہارے نزدیک اتنا اہم ہے تو ذرا ا ُن ماں‪ ،‬باپ کا بھی سوچو! جنہوں نے اپنے لہو سے سینچ کر تمہیں جوان‬
‫کیا ہے۔۔۔‬
‫ِاس سب کے باوجود‪ ،‬کیا انھوں نے کبھی تمہیں تمہاری کسی خطا کی سزا دی؟۔۔۔ کبھی تم‬
‫سے تعلق توڑا؟۔۔۔‬
‫جب انھوں نے ہمیشہ تمہاری ہر خطا کو نظرانداز کیا ہے۔۔ تو کیا تم ا ُن کی ایک خطا کو‬
‫نظرانداز نہیں کر سکتے؟۔۔۔‘‘‬
‫’’شوال!‘‘ اپنی پیشانی مسلتے ہوئے اس نے اذیت کے ساتھ کہا۔‬
‫ا ُس کے اندر اضطراب کا ایک سمندر ٹھاٹھیں مار رہا تھا۔ وہ پہلی بار وہ باتیں سوچ رہا تھا‬
‫جن کا ا ُسے پہلے کبھی خیال نہیں آیا تھا۔ وہ حقائق دیکھ رہا تھا جو پہلے کبھی اس کی نظر سے نہیں‬
‫گزرے تھے۔‬
‫شوال چند ملحے خاموش رہ کر ا ُس کی بےچین حالت مالحظہ کرتی رہی۔ پھر اپنائیت کا‬
‫احساس دالنے کے لئے ا ُس کے کپ کی سائیڈ پہ رکھے ہاتھ پہ اس نے اپنا ہاتھ رکھ دیا۔‬
‫’’ رجب! ‘‘‬
‫اس نے دھیرے اور نرمی سے پکارا۔‬
‫رجب نے اپنی مضطرب نگاہیں ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔‬
‫وہ ا ُسی نرمی سے گویا ہوئی۔‬
‫’’ جانتے ہو!۔۔۔۔ میں بھی ہمیشہ اپنے دونوں بھائیوں سے زیادہ پاپا کے قریب رہی ہوں۔‬
‫کیونکہ بھائی تو تھوڑے بڑے تھے جب ہماری ماما فوت ہوئی تھیں۔ لیکن میں پیدائش کے وقت سے ہی پاپا‬
‫کی گود میں آ گئی تھی۔‬
‫پیدائش کے وقت سے ہی پاپا میرے ساتھ رہے تھے اور انھوں نے ہر قدم پہ مجھے سہارا دیا‬
‫تھا۔ لیکن جب مجھ پہ مشکل وقت آیا‪ ،‬جب مجھے ان کی سب سے زیادہ ضرورت تھی۔۔۔ تب میں نے انھیں‬
‫مدد کے لئے پکارا تو ا ُنھوں نے مجھے دھتکار دیا۔ کہا کہ تم میرے لئے َمر چکی ہو۔۔۔‬
‫صور کر سکتے ہو کہ اس وقت مجھ پہ کیا گزری تھی؟۔۔۔ ‘‘‬ ‫تم ت ّ‬
‫رجب ا ُسے ایک ٹک دیکھے گیا۔‬
‫شوال کی آنکھوں میں آنسو ا ُتر آئے۔‬
‫’’ایک خنجر تھا جو میرے ِدل میں پیوست ہو گیا تھا۔ مجھے کبھی زندگی میں اتنا ُدکھ نہیں‬
‫ِمال تھا جو ا ُنھوں نے وہ ایک جملہ بول کر مجھے دیا تھا۔۔۔۔ وہ زخم آج بھی میرے ِدل پہ تازہ ہے۔۔۔ پھر‬
‫بھی میں نے اپنے ِدل میں کوئی رنجش نہیں رکھی۔ میں آج بھی ان سے اتنا ہی پیار کرتی ہوں جتنا پہلے‬
‫کرتی تھی۔ میرے ِاس زخمی ِدل میں آج بھی ان کے لئےاتنی ہی عزت ہے جتنی پہلے تھی۔۔۔ کیونکہ میں‬
‫جانتی ہوں کہ وہ میرے ’پاپا‘ ہیں۔ وہ کبھی میرے دشمن نہیں ہو سکتے۔‬
‫مجھ سے بھی تو ِبلواسطہ یا بالواسطہ انھیں بہت سے ُدکھ پہنچے ہیں۔۔۔ ایسے میں اگر‬
‫ایک بار انھوں نے میرا ِدل ُدکھا دیا‪ ،‬تو کیا باپ بیٹی کا رشتہ ختم ہو گیا؟۔۔۔ ‘‘‬
‫اس کی نظریں رجب سے جواب طلب کر رہی تھیں۔ ا ُس رجب سے جو ِاس وقت کوئی بھی‬
‫جواب دینے کی حالت میں نہ تھا۔ وہ ابھی تک ا ُسی انداز میں بیٹھا بےچینی میں پیشانی مسل رہا تھا۔‬
‫وہ خود ہی نفی میں سر ہالتے ہوئے بولی۔‬
‫’’نہیں۔۔۔ ایسا نہیں ہوتا رجب!۔۔۔ نہ ہی ایسا ہونا چاہیئے۔‘‘‬
‫رجب نے پیشانی سے ہاتھ ہٹا دیا۔ وہ گہرے گہرے سانس لینے لگا۔ جیسے اسے سانس لینے‬
‫میں دشواری پیش آ رہی ہو۔ ا ُس کی حالت غیر ہونے لگی۔ پھر بھی وہ پوری جان لگا کر اپنے آپ کو‬
‫سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔‬
‫وہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اپنے ہاتھ کے نیچے دبا رجب کا ہاتھ اپنے دونوں‬
‫سنبھالنے کی کوشش کر رہا تھا۔‬
‫وہ اس کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ اپنے ہاتھ کے نیچے دبا رجب کا ہاتھ اپنے دونوں‬
‫ہاتھوں میں لے لیا۔‬
‫’’رجب! ‘‘‬
‫وہ آگے جھکی۔‬
‫رجب نے اپنا دوسرا ہاتھ اپنے سینے پہ رکھ کر اپنا سینہ تھپکا اور اضطرابی کیفیت میں اپنا‬
‫سر ہالتے ہوئے دھیمی آواز میں بوال۔‬
‫’’میں ٹھیک ہوں۔۔ ڈونٹ وری۔‘‘‬
‫کہہ کر اپنا چہرہ کافی کے کپ پہ جھکا لیا۔‬
‫خود کو سنبھالنے کے لئے وہ اپنی توجہ کافی کی طرف بٹانا چاہتا تھا۔‬
‫شوال اپنی پریشان نظریں ا ُس پہ جمائے بیٹھی تھی۔ اب ا ُسے اندازہ ہو رہا تھا کہ رجب سے‬
‫اس کے مزاج کے خالف فیصلہ کروانا ا ُس کی جان تک لے سکتا ہے۔‬
‫ا ُس کی طبیعت سنبھلتی دیکھ کر وہ بھی خاموشی سے اپنی کافی کے کپ پہ جھک گئی۔ اب‬
‫اس میں ہّمت نہیں تھی کہ رجب سے ا ُس کے فیصلے کے بارے میں پوچھتی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫جس کی ہر خوشی میں مَیں اپنی خوشی تالش کرتا رہا۔۔۔۔ کیسی‬ ‫) میرا بیٹا۔۔۔۔ ساری عمر ِ‬
‫عجیب بات ہے۔ آج ا ُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کا ِدن ہے۔ لیکن میں ا ُس کی خوشی میں َمیں‬
‫خوش نہیں ہوں۔۔۔ آج کا ِدن میری زندگی کا سب سے غمگین ِدن ہے۔ کیونکہ آج میری زندگی میں میرے‬
‫بیٹے کا آخری ِدن ہے۔۔۔ َکل وہ مجھے چھوڑ کر چال جائے گا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔‬
‫معلوم نہیں کہ کبھی ا ُس کی شکل بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں۔۔۔۔۔‬
‫اسرار!۔۔۔۔۔۔ برسوں پرانی مات کا بہت اچھا بدلہ لیا ہے تم نے۔۔۔۔۔ (‬
‫وہ بیڈ کے کنارے بیٹھے سوگوار صورت لئے اپنی سوچوں میں گم تھے جب سکینہ بیگم کمرے‬
‫میں آئیں اور ا ُنھیں ایسے بت بنا بیٹھا دیکھ کر بوکھال گیئیں۔‬
‫’’وجاہت!۔۔۔ آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے؟۔۔۔ جلدی کیجیئے ناں!۔۔ کیوں ٹائم ویسٹ کر رہے‬
‫ہیں؟۔۔۔ نیچے مہمان جمع ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ انھیں اٹینڈ کرنا ہے۔ اور ہزاروں کام ہیں۔ میں اکیلی‬
‫کیسے دیکھوں سب؟۔۔۔۔ ‘‘‬
‫وجاہت علی نے گردن گھما کر ا ُنھیں دیکھا۔ وہ دولہے کی ماں ہونے کی حیثیت سے پوری طرح‬
‫سے تیار تھیں۔‬
‫’’ تم کیسے اتنی خوش اور مطمعین ہو سکتی ہو؟۔۔۔ تمہیں کچھ احساس ہے؟۔۔۔ آج آخری ِدن‬
‫رجب ہمارے ساتھ ہے۔ کل وہ ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر ہماری زندگی سے چال جائے گا۔۔۔ پھر کِس کے‬
‫سہارے جیئیں گے ہم؟۔۔‘‘‬
‫وجاہت علی پہ فرسٹریشن طاری ہونے لگی۔‬
‫سکینہ بیگم بےچین ہو ا ُٹھیں۔ ا ُن کے قریب آ کر بولیں۔‬
‫’’ ہمارے لئے سب سے اہم رجب کی خوشی رہی ہے۔۔۔ اور آج بھی ا ُسی کی خوشی کو مقدم‬
‫رکھنا ہو گا۔ وہ گھر ضرور چھوڑ کر جا رہا ہے۔ لیکن ہم سے دور نہیں جائے گا۔ ہم جب چاہے اس سے ِمل‬
‫سکتے ہیں۔‘‘‬
‫ان کا لہجہ تسلی آمیز تھا۔‬
‫وجاہت علی ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔‬
‫’’ ہم؟۔۔۔ ہم نہیں سکینہ بیگم!۔۔ صرف تم۔‬
‫اتنی اجازت وہ صرف تمہیں دے سکتا ہے۔ مجھے نہیں۔۔۔ وہ صرف مجھ سے ضد میں یہ‬
‫گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ آج کے بعد کبھی میری طرف ُمڑ کر نہیں دیکھے گا۔‘‘‬
‫اتنی اجازت وہ صرف تمہیں دے سکتا ہے۔ مجھے نہیں۔۔۔ وہ صرف مجھ سے ضد میں یہ‬
‫گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ آج کے بعد کبھی میری طرف ُمڑ کر نہیں دیکھے گا۔‘‘‬
‫’’ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟۔۔۔ اب تو وہ آپ سےراضی ہو چکا ہے۔ آپ سے باتیں بھی کرتا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے تشویش کے ساتھ دریافت کیا۔‬
‫’’ مجھے سو گز کے فاصلے پہ رکھ کر بات کرتا ہے وہ مجھ سے۔ وہ بھی جب ا ُسے کوئی‬
‫کام پڑ جاتا ہے تب۔ اسے تم راضی ہونا کہتی ہو؟ ‘‘‬
‫وجاہت علی جتا جتا کر بولے۔ پھر دوسری طرف چہرہ موڑ کر خودکالمی کے انداز میں‬
‫بڑبڑانے لگے۔‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫’’ وہ راضی ہو بھی کیسے سکتا ہے۔۔۔۔ اسرار احمد جو مل گیا ہے ا ُسے۔۔۔ وہ اس کے ذریعے‬
‫مجھے خون کے آنسو ُرالئے گا۔‘‘‬
‫’’ اچھا چھوڑیں ناں!۔۔۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟۔۔۔ ہمیں بس ِاس بات کا خیال رکھنا ہے کہ‬
‫ہماری طرف سے رجب کو کوئی شکایت نہ ہو۔‬
‫پلیز۔۔۔ وقت کے تقاضے کو سمجھئے اور جا کر جلدی سے تیار ہو جایئے۔ ‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے منت بھرے لہجے میں کہا۔ وجاہت علی نے سر جھٹکا اور بیڈ پہ ڈاال ا ُن کا‬
‫لباس غصے سے جھپٹنے کے انداز میں ا ُٹھا کر چینجنگ روم کی طرف بڑھ گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫وہ کپڑے بدل کر واپس کمرے میں آئے تو سکینہ بیگم کمرے میں موجود نہ تھیں۔ ہاتھ میں پکڑی‬
‫ٹائی بےدلی سے گلے میں ڈال کر وہ ٹائی کی ناٹ لگانے کے ارادے سے وینٹی ٹیبل کی طرف گھومے۔ نظر‬
‫سیدھی وینٹی ٹیبل کی سطح پہ رکھے ایک خوبصورت ُبکے پہ جا پڑی۔ ا ُس ُبکے میں لفافہ بھی اٹکا ہوا‬
‫تھا جس پہ ا ُن کا نام تحریر تھا۔ انھیں اچنبھا ہوا۔ قریب آ کر لفافہ ا ُٹھا کر انھوں نے اندر موجود کارڈ‬
‫باہر نکاال۔ خوبصورت سے کارڈ پہ گلیٹر کے ساتھ ’‪ ‘Sorry‬لکھا ہوا تھا۔ ا ُنھیں اور بھی تعجب ہوا کہ‬
‫بھال یہ کون بھیجے گا۔ اور کیوں۔۔۔‬
‫ِ‬
‫کارڈ کھول کر اندر دیکھا تو لکھا تھا۔‬

‫پیارے اّبو!‬
‫بہت ِدنوں سے خواہش کر رہا تھا۔ مگر ہّمت نہ کر سکا۔ آج سوچتا ہوں کہ اگر آج بھی نہ‬
‫کہا تو شاید زندگی بھر نہ کہہ سکوں۔‬
‫آئم سوری اّبو!‬
‫آپ کا بیٹا‪،‬‬
‫رجب الفرد۔‬

‫وجاہت علی نے ایک بار نہیں ‪ ،‬اس تحریر کو بار بار پڑھا۔ صرف نام ہی نہیں ہینڈ رائٹنگ بھی‬
‫رجب کی تھی۔ لیکن رجب ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتا تھا۔‬
‫ا ُن کے ِدل کی دھڑکنیں تیز ہو گیئیں۔ حقیقت کیا ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کبھی‬
‫لگتا کہ نظروں کا دھوکا ہے۔ اور کبھی لگتا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں۔ آخرکار کارڈ ہاتھ میں لئے وہ‬
‫کمرے سے ِنکل گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫رجب اپنے کمرے میں وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنی کالئی پہ گھڑی باندھ رہا تھا جب‬
‫وجاہت علی اس کے کمرے کے کھلے دروازے پہ دستک دے کر جھجکتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔‬
‫رجب اپنے کمرے میں وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنی کالئی پہ گھڑی باندھ رہا تھا جب‬
‫وجاہت علی اس کے کمرے کے کھلے دروازے پہ دستک دے کر جھجکتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔‬
‫رجب نے چہرہ گھما کر انھیں دیکھا۔ ا ُن کے چہرے پہ ا ُڑتی ہوائیاں اور ہاتھ میں کارڈ دیکھ‬
‫کر وہ ساکت ہو گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے‪ ،‬کیا کہے۔‬
‫وجاہت علی اس کے قریب چلے آئے۔‬
‫’’ رجب!۔۔۔۔ یہ۔۔۔ میرے خیال سے ِکسی نے مزاق کیا ہے میرے ساتھ۔‘‘‬
‫دھڑکتے ِدل کے ساتھ ا ُنھوں نے کارڈ رجب کی طرف بڑھایا۔ رجب نے کارڈ تھامنے کی بجائے‬
‫اپنا سر جھکا لیا۔‬
‫’’ یہ مزاق نہیں ہے ابّو!۔۔۔ میں خود یہ کارڈ اور بُکے آپ کے کمرے میں رکھ کر آیا ہوں۔‘‘‬
‫رجب نے بِدقت کہا۔‬
‫وجاہت علی کو رجب کے انکار پہ اتنی حیرت نہ ہوتی جتنی اس کے اقرار پہ ہوئی۔ حیرت سے‬
‫پھٹی آنکھوں سے وہ ا ُسے ایک ٹک دیکھے گئے۔‬
‫رجب اپنا جھکا سر نہ ا ُٹھا سکا۔ جانے کونسا ا َن دیکھا بار اس کی گردن پہ آ گرا تھا۔‬
‫’’ تت۔۔۔۔ تم نے!۔۔۔ ِکس لئے؟‘‘‬
‫بہت مشکل سے وجاہت علی نے اٹک اٹک کر پوچھا۔‬
‫رجب نے جھکا ہوا سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔‬
‫’’ ابّو! آپ جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے اّمی سے زیادہ آپ کے کلوز تھا۔ ہمیشہ اّمی سے‬
‫زیادہ آپ پہ بھروسہ کیا۔۔۔ اپنی ہر بات اّمی سے پہلے آپ سے شیئر کی۔۔۔ ِاس لئے۔۔۔ جب آپ نے وہ‬
‫جھوٹ بوال تو میں برداشت نہ کر سکا۔۔۔ اگر وہ حرکت اّمی نے کی ہوتی تو شاید میں برداشت کر لیتا۔۔۔‬
‫لیکن ابّو! آپ۔۔۔۔۔ ‘‘‬
‫جذبات زبان پر غالب آ گئے۔ وہ ُرک کر خود کو سنبھالنے لگا۔ پھر بھی آنسو روانی سے بہے‬
‫چلے جا رہے تھے۔ وجاہت علی اپنی جگہ شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے۔ ا ُن کی آنکھوں میں بھی ندامت‬
‫کی نمی ا ُتر آئی۔‬
‫رجب نے کہنا شروع کیا تو آواز آنسوؤں سے تر تھی۔‬
‫” ‪“I was really Hurt.‬‬
‫ا ُس نے جیسے سر گوشی کی۔ بوال۔‬
‫’’ِاسی لئے میں نے اتنے شدید طریقے سے ری ایکٹ کیا۔۔۔ ‘‘ ا ُس نے اپنے آنسو پونچھے۔‬
‫’’ لیکن اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔ میں نے واقعی آپ کا بہت ِدل دکھایا ہے۔‬
‫آپ کے ساتھ بہت بدتمیزی کی ہے۔۔۔ میں کبھی آپ کا اچھا بیٹا نہیں بن سکا۔ میں بہت ہی خودغرض بیٹا‬
‫ہوں اّبو!۔۔ ہمیشہ آپ سے اپنی ہر جائز‪ ،‬ناجائز ضد منوائی۔ آپ کو ا َن چاہے کام کرنے کے لئے مجبور‬
‫کیا۔۔۔ ہمیشہ آپ کے لئے پریشانی اور ُدکھ کا باعث بنا رہا۔۔ میں نے کبھی آپ کو کوئی خوشی نہیں‬
‫دی۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیں اّبو!۔۔۔ آئم سوری۔‘‘‬
‫وہ رو رہا تھا۔‬
‫ھرے اسے ایک ٹک دیکھے گئے۔ پھر جب یقین ہونے لگا تو‬‫ُ‬ ‫وجاہت علی پہلے تو بےیقینی میں گ ِ‬
‫ا ُس کی بات مکمل ہونے تک وہ بھی جذباتی ہوگئے۔ نم پلکوں کے ساتھ مسکرائے اور آگے بڑھ کر رجب کو‬
‫خود سے لگا لیا۔‬
‫’’ نہیں میرے بچے!۔۔۔ تم میرا بہت ہی اچھا بیٹا ہو۔۔۔ تمہارا وجود ہی میری زندگی کی سب‬
‫سے بڑی خوشی ہے۔‘‘‬
‫اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے انھوں نے ا ُسے دالسہ دینے کے انداز میں کہا۔‬
‫’’میں نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہےاّبو!۔ میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔ میں یہیں‬
‫رہوں گا۔ آپ کے پاس۔۔۔۔ ہم اکٹھے رہیں گے اور اکٹھے کام کریں گے۔۔۔ ہمیشہ۔‘‘‬
‫ِ‬
‫وجاہت علی کو اب ا ُس کے الفاظ پہ حیرت نہ ہوئی۔ البتہ گہرا اطمینان اور خوشی ضرور ملی‬
‫تھی۔ شرمندہ سے ہو کر بولے۔‬
‫وجاہت علی کو اب ا ُس کے الفاظ پہ حیرت نہ ہوئی۔ البتہ گہرا اطمینان اور خوشی ضرور ِملی‬
‫تھی۔ شرمندہ سے ہو کر بولے۔‬
‫’’ تم نے مجھے معاف کر دیا میرے بچے!۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تمہارا شکریہ‬
‫کیسے ادا کروں۔ تھینک ُیو۔۔۔ تھینک ُیو سو مچ۔۔۔ میں آج بہت خوش ہوں۔ بہت ہی زیادہ خوش۔ ‘‘‬
‫پھر دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے سے الگ ہو کر اپنے اپنے آنسو پونچھنے لگے۔‬
‫’’ میرے خیال سے اب میں جا کر اپنی تیاری مکمل کر لوں۔۔۔ کہیں میری تیاری کے سبب ہمیں‬
‫نکلنے میں دیر نہ ہو جائے۔‘‘‬
‫کہتے ہوئے وجاہت علی نے نظریں ا ُٹھا کر رجب کی طرف دیکھا۔‬
‫وہ ہاتھ کی پشت سے اپنے گالوں پہ لڑھک آئے آنسو صاف کر رہا تھا۔‬
‫وجاہت علی چونک گئے۔‬
‫’’ او ہو۔۔۔ ‘‘‬
‫کہہ کر ہاتھ بڑھا کر رجب کا ہاتھ تھام لیا۔ اپنے آگے کر کے اس کی کالئی پہ بندھی گھڑی‬
‫دیکھتے ہوئے بولے۔‬
‫’’ رولیکس۔۔۔۔ واہ بھئی۔۔۔ مبارک ہو۔‘‘‬
‫انھوں نے خوشی سے سراہا۔‬
‫رجب مسکرایا۔‬
‫’’ میرے پاس آپ کو بھی دینے کے لئے کچھ ہے۔ ‘‘‬
‫کہہ کر ا ُس نے جلدی سے وینٹی ٹیبل کا دراز کھینچ کر ایک خوبصورت گفٹ ریپر میں پیک ڈبہ‬
‫ا ُن کی طرف بڑھایا۔‬
‫’’میرے لئے؟۔۔‘‘‬
‫ڈبہ تھامتے ہوئے وجاہت علی نے تعجب سے پوچھا۔‬
‫رجب نے اثبات میں سر ہالیا۔‬
‫’’ کھول کر دیکھئے۔‘‘‬
‫رجب نے اشتیاق کے ساتھ کہا۔‬
‫وجاہت علی نے بھنویں ا ُچکایئں اور خوشی خوشی ریپر اتارنے لگے۔ باکس کھول کر دیکھا تو‬
‫اپنی جگہ ا ُچھل پڑے۔ حیرت و مسرت سے بےساختہ منہ ُکھل گیا۔‬
‫’’ میرے لئے بھی رولیکس!؟‘‘‬
‫انھوں نے گھڑی نکال کر ہاتھ میں لی۔‬
‫’’ہاں۔‘‘ رجب نے کہتے ہوئے ڈبہ اور گھڑی ا ُن کے ہاتھ سے لے لی۔‬
‫’’ آج ہم دونوں باپ بیٹا ایک جیسی گھڑیاں باندھیں گے۔‘‘‬
‫اشتیاق سے کہتے ہوئے اس نے ڈبہ وینٹی ٹیبل پہ رکھا اور واپس مڑ کر اپنے ہاتھوں سے‬
‫وجاہت علی کی کالئی پہ گھڑی باندھنے لگا۔‬
‫وجاہت علی نہال ہو گئے۔‬
‫’’ رجب!۔۔۔ تم نے اپنے لئے لی تھی‪ ،‬یہی کافی تھا میرے لئے۔۔۔ خوامخواہ ِاس کا خرچہ کرنے‬
‫کی کیا ضرورت تھی بیٹا!۔۔۔۔‘‘‬
‫وہ شرمندہ ہونے لگے۔‬
‫’’ضرورت تھی ابّو!۔۔‘‘‬
‫رجب نے گھڑی کا الک لگانے کے بعد ان کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے انھیں دیکھا۔‬
‫’’کیونکہ مجھے ری سینٹلی اپنی ِاس غلطی کا بھی احساس ہوا ہے۔‬
‫میں بھی میری طرح کے اور بیٹوں کی طرح یہ سوچا کرتا تھا کہ ہمارے ماں‪ ،‬باپ ہمیں پال‬
‫جب وہ ہم پہ ڈی پینڈنٹ ہوں گے۔ تب ہم بھی ا ُن کی ذمہ داری‬ ‫پوس کر اپنے پیروں پہ کھڑا کرتے ہیں۔۔۔ تو ِ‬
‫ا ُٹھا لیں گے۔ اگر بیمار ہوں گے تو تیمارداری کر لیں گے۔ ا ُن کے پیر دبا دیں گے۔ چلتے ہوئے سہارا دے دیا‬
‫کریں گے۔ کچھ وقت ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ِدل کا حال پوچھ لیا کریں گے۔‘‘‬
‫ا ُٹھا لیں گے۔ اگر بیمار ہوں گے تو تیمارداری کر لیں گے۔ ا ُن کے پیر دبا دیں گے۔ چلتے ہوئے سہارا دے دیا‬
‫کریں گے۔ کچھ وقت ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ِدل کا حال پوچھ لیا کریں گے۔‘‘‬
‫رجب کہتے کہتے ُرک گیا۔ ا ُس کی جھکی نظروں اور چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ‬
‫مزید کچھ کہنا چاہتا ہے۔ وہ آگے سننے کو بےتاب تھے۔ رجب نے نگاہیں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’ لیکن اّبو!۔۔۔ ہماری سوچ کتنی غلط ہے۔۔۔ ماں‪ ،‬باپ کو کھالنا پالنا‪ ،‬ان کا عالج و معالجہ‬
‫ہی ہماری ذمہداری تو نہیں۔۔۔ بلکہ انھیں خوش رکھنا بھی ہماری اولین ترجیحات میں ہونا چاہیئے۔ ٹھیک‬
‫ا ُسی طرح جیسے ہمارے والدین کو ہمیں خوش رکھنے کی ِفکر رہتی ہے۔۔۔‬
‫ہمارے ماں باپ کے پاس ہمارے سوا اور ہوتا ہی کون ہے؟۔۔۔ ان کے اپنے ماں باپ‪ ،‬بہن بھائی‪،‬‬
‫یار دوست۔۔۔ سب کہیں بہت پیچھے چھوٹ چکا ہوتا ہے۔۔۔ ایسے میں اگر ہم بھی ان کی چھوٹی چھوٹی‬
‫خوشیوں اور خواہشوں کا خیال نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟۔۔۔۔۔ اور ِاس کے لئے ہمیں‪ ،‬ا ُن کے ہم پہ‬
‫ڈی پینڈنٹ ہونے کا انتظار تو نہیں کرنا چاہیئے۔‘‘‬
‫یہ سن کر وجاہت علی کی آنکھیں نم اور سینہ چوڑا ہو گیا۔ اس کے کندھے پہ اپنا ہاتھ جما‬
‫کر بولے۔‬
‫سن! ‘‘‬‫’’آئم پراؤڈ آف ُیو مائی َ‬
‫وہ تفاخر سے مسکرائے۔‬
‫’’رجب!۔۔۔ رجب!۔۔۔ ‘‘‬
‫نیچے سے سکینہ بیگم کے پکارنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔‬
‫’’ ہاں جان!۔۔۔ ابھی آیا۔‘‘‬
‫رجب نے بھی وہیں سے چِال کر انھیں جواب دیا۔ پھر وجاہت علی کی طرف معذرت خواہانہ نظر‬
‫ڈالی۔‬
‫’’میں جاتا ہوں ابّو!۔۔۔ اّمی کی بات سن لوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اثبات میں سر ہال کر اسے تھپکی دی۔وہ تیز تیز چلتا کمرے سے نکل گیا۔‬
‫وجاہت علی اس کے پیچھے کمرے کا کھال دروازہ دیکھتے رہ گئے۔ وہ خوش تو تھے مگر کچھ سوچ رہے‬
‫تھے۔‬
‫’’ اسرار!۔‘‘‬
‫ا ُن کے لبوں نے ہلکی سی جنبش کی۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫اسٹیج پہ دلہن کی فیملی اور باقی خاندان والے دولہا‪ ،‬دلہن کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر‬
‫کھینچوا رہے تھے۔‬
‫وجاہت علی اور سکینہ بیگم ذرا فاصلے پہ ہجوم سے قدرے الگ ہو کر ہال کی دیوار کے ساتھ‬
‫کھڑے تھے۔ نظریں سامنے اسٹیج پہ جمی تھیں۔‬
‫’’ آئی ہوپ کہ سب ٹھیک جا رہا ہے۔ کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟‘‘‬
‫اچانک سکینہ بیگم کو اپنے برابر سے اسرار احمد کی آواز آئی۔‬
‫دونوں میاں‪ ،‬بیوی نے چونک کر ا ُن کی طرف اپنی گردنیں گھمائیں۔‬
‫’’ نہیں۔۔۔ ماشااهلل سب انتظامات بہت اچھے سے کئے گئے ہیں۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم معترف تھیں۔‬
‫پھر بولیں۔‬
‫’’ لیکن اسرار!۔۔ حق مہر میں صرف دو ہزار روپے؟۔۔۔ سب ہی اس پہ حیرت کا اظہار کر رہے‬
‫ہیں۔۔۔ رجب تو اپنے تمام شیئرز شوال کے نام کر رہا تھا۔ اور تم نے بھی تو۔۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے ان کی بات کاٹ دی۔‬
‫’’ اس وقت حاالت کچھ اور تھے۔۔۔ مجھے اپنی بیٹی کی سیکیورٹی درکار تھی۔ لیکن اب میں‬
‫اسرار احمد نے ان کی بات کاٹ دی۔‬
‫’’ اس وقت حاالت کچھ اور تھے۔۔۔ مجھے اپنی بیٹی کی سیکیورٹی درکار تھی۔ لیکن اب میں‬
‫دیکھ رہا ہوں کہ ماشااهلل وہ اتنی سمجھدار اور اسٹرونگ ہو چکی ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے‬
‫وہ پوری دنیا کا مقابلہ کر سکتی ہے۔۔۔ اور ِاس کا ایک ثبوت یہ ہے۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑا لفافہ سکینہ بیگم کی طرف بڑھایا۔‬
‫’’ یہ اس نے تمہارے لئے دیا ہے۔ میں یہی دینے کے لئے تمہارے پاس آیا تھا۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم نے اچنبھے کے ساتھ لفافہ تھام لیا۔‬
‫’’ کیا ہے ِاس میں؟‘‘‬
‫پوچھتے ہوئے انھوں نے لفافہ کھول کر اندر موجود چیک باہر نکاال۔‬
‫وجاہت علی بھی متجسس سے جھانک کر دیکھ رہے تھے۔‬
‫’’ رجب الفرد فاؤنڈیشن اسکول۔۔۔ ایک کروڑ روپے!؟۔۔۔۔‘‘‬
‫چیک پڑھ کر سکینہ بیگم ششدر رہ گیئیں۔ نظریں ا ُٹھا کر اسرار احمد کو دیکھا۔‬
‫’’ یہ اصل میں اس کے جہیز کی رقم ہے۔۔۔ میں جہیز کے طور پر یہ پیسے اس کے اکاؤنٹ‬
‫میں جمع کروانا چاہتا تھا۔ لیکن اس نے لینے سے منع کر دیا۔ وہ رجب کے ساتھ اپنے اچھے مستقبل کی‬
‫خاطر یہ پیسے چیرٹی میں دینا چاہتی ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ تمہیں دے دوں۔۔۔ تم اسکول بھی‬
‫چالتی ہو اور سنا ہے کہ کسی ٹرسٹ کو بھی سپورٹ کرتی ہو۔۔۔ تو جہاں بھی مناسب لگیں خرچ کر‬
‫دینا۔‘‘‬
‫یہ سن کر سکینہ بیگم مسکرائیں۔ انھیں شوال کی ِاس سوچ اور اقدام سے خاصی خوشی‬
‫ہوئی تھی۔‬
‫’’ بہت خوب۔۔۔ اهلل ہمارے بچوں کی خوشیاں سالمت رکھے۔‘‘‬
‫سراہتے ہوئے انھوں نے چیک واپس لفافے میں ڈال کر اپنے پرس میں رکھ لیا۔‬
‫اسرار احمد کو کسی نے بال لیا تو وہ ا ُس جانب بڑھ گئے۔‬
‫پھر رخصتی کے وقت جب شوال اور رجب ا ُٹھ کھڑے ہوئے تو شوال سے ملنے کے لئے خاندان‬
‫والوں کا ایک سیالب اسٹیج پہ ا ُمڈ پڑا۔‬
‫رجب ان لوگوں کو جگہ دینے کے لئے اسٹیج سے ا ُتر کر وجاہت علی اور سکینہ بیگم کے برابر‬
‫میں آ کر کھڑا ہو گیا۔‬
‫ِ‬
‫جب خاندان والوں کے بعد شوال کے اپنے تمام گھر والے بھی اس سے مل چکے۔ تب آخر میں‬
‫اسرار احمد اسٹیج پہ گئے۔ شوال کو خود سے لگا کر ا ُسے دعائیں دیں۔ پھر اسے محبت سے دیکھتے ہوئے‬
‫دھیمی آواز میں بولے۔‬
‫’’ جانتی ہو؟۔۔۔ میں نے یہ بارات‪ ،‬یہ فنکشن کیوں کروایا؟۔۔۔ ‘‘‬
‫شوال نے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔‬
‫’’ کیونکہ میں نے تمہیں جو ُدکھ دیا تھا۔ ا ُس کا مداوا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ میں وہ زخم تو شاید‬
‫نہ ِمٹا سکوں‪ ،‬لیکن ا ُمید کرتا ہوں کہ میری ِاس کوشش نے مرہم ضرور رکھ دیا ہو گا۔‘‘‬
‫شوال کا ِدل بھر آیا۔‬
‫’’ پاپا!۔‘‘ کہہ کر وہ باپ کےسینے سے لگ گئی۔ اچانک آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو ا ُمڈ‬
‫آئے تھے۔‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫’’ میرے دل پہ کوئی زخم باقی نہیں ہے پاپا!۔۔۔ سب مٹ چکا۔۔۔ سب مٹ چکا۔‘‘‬ ‫ِ‬
‫’’ چُپ‪ ،‬چُپ۔۔۔ ‘‘‬
‫اسرار احمد نے اپنے سینے سے لگا اس کا سر تھپتھپاتے ہوئے ا ُسے دالسہ دے کر چپ کروایا۔‬
‫پھر اسے خود سے الگ کر کے ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج سے نیچے ا ُتارا۔‬
‫ِاسی طرح ا ُس کا ہاتھ تھامے چلتے ہوئے وہ رجب کے قریب آئے‪ ،‬جو اپنے ماں‪ ،‬باپ کے درمیان‬
‫کھڑا ا ُن ہی کی جانب متوجہ تھا۔‬
‫اسرار احمد نے اپنے ہاتھ میں پکڑا شوال کا ہاتھ رجب کی طرف بڑھایا۔‬
‫کھڑا ا ُن ہی کی جانب متوجہ تھا۔‬
‫اسرار احمد نے اپنے ہاتھ میں پکڑا شوال کا ہاتھ رجب کی طرف بڑھایا۔‬
‫’’ لو۔۔۔ وعدے کے مطابق۔۔۔ آج میں تمہاری امانت تمہیں واپس سونپ رہا ہوں۔‘‘‬
‫رجب نے ایک قدم آگے بڑھ کر شوال کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف‬
‫دیکھا اور دونوں ہی خوشی سے مسکرا دیئے۔‬
‫ت شفقت رجب کے سر پہ رکھا۔‬ ‫اسرار احمد نے اپنا دس ِ‬
‫’’ جاؤ۔۔۔ اهلل تم دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ خوش رکھے۔۔۔ میری دعائیں تم دونوں کے ساتھ‬
‫ہیں۔‘‘‬
‫ا ُنھوں نے اپنی خوشی اور صدِق ِدل سے دعا دی۔‬
‫’’تھینک یُو انکل!۔‘‘‬
‫رجب خوش ہو کر ا ُن کے گلے لگ گیا۔‬
‫یہ منظر دیکھ کر سکینہ بیگم کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وجاہت‬
‫علی کی کیفیت جاننے کے لئے چہرہ موڑ کر ا ُن کی طرف دیکھا تو انھیں ا ُداس چہرہ لئے کسی گہری سوچ‬
‫میں ُگم فرش کو گھورتے پایا۔ وہ ُدنیا و مافیہا سے مکمل بےخبر دکھائی دے رہے تھے۔‬
‫سکینہ بیگم نےا ُن کے قریب ہو کر چپکے سے انکو ٹہوکا دیا۔ وجاہت علی نے چونک کر ا ُن کی‬
‫طرف دیکھا۔ انھوں نے بھنویں ا ُچکا کر اشارتا ً پوچھا کہ ’کیا بات ہے؟‘‬
‫وجاہت علی نے ویسی ہی غمگین اور ا ُداس صورت کے ساتھ نفی میں سر ہال دیا۔‬
‫پھر دونوں میاں بیوی رجب کے پیچھے چل پڑے۔‬
‫) میرے اهلل!۔۔۔ تیری قدرت کی کوئی حد نہیں۔۔۔ بےشک ہر ناممکن کو ممکن کر کے دکھانے‬
‫واال صرف ُتو ہی ہے۔۔۔۔ میرے ِدل پہ لگا وہ زخم‪ ،‬جو مجھے لگتا تھا کہ مرتے َدم تک میرے ِدل پہ تازہ رہے‬
‫شکر ادا کروں؟۔۔۔ ِکن‬ ‫گا۔ آج ُتو نے ا ُسے ایسے ِمٹایا ہے کہ نشان تک باقی نہیں چھوڑا۔۔۔۔ میں کیسے تیرا ُ‬
‫الفاظ تیری حمدوثناء کروں؟۔۔۔ ہماری تکلیفوں کو تجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ ہماری چھوٹی چھوٹی‬
‫خوشیاں‪ ،‬چھوٹی چھوٹی تکلیفیں بھی تمہارے نزدیک کتنی اہم ہیں ۔۔۔ اور ایک ہم ہیں۔ جو تجھ پہ بھروسہ‬
‫ہی نہیں کرتے۔۔۔ تیری محبت اور عطاؤں سے کتنے غاِفل ہیں ہم لوگ۔۔۔ ہماری خطاؤں کو بخش دے میرے‬
‫شکر بجا النے کی توفیق عطا فرما۔(‬ ‫ب !۔۔۔ ہمیں تم پہ بھروسہ کرنے کی‪ ،‬اور تیرا ُ‬ ‫ر ّ‬
‫رجب کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالے باہر کی جانب چلتے ہوئے ا ُس کا روم روم اهلل کا شکر ادا کر‬
‫رہا تھا۔‬
‫اسرار احمد اور ا ُن کی فیملی شوال اور رجب کو چھوڑنے کے لئے باہر گاڑی تک آئے۔‬
‫ت خود پہلے شوال کے لئے‬ ‫سب ایک بار پھر شوال اور رجب سے گلےِملے۔ اسرار احمد نے بذا ِ‬
‫گاڑی کا دروازہ کھول کر ا ُسے اندر بٹھایا‪ ،‬پھر جاکر رجب کے لئے دروازہ کھوال۔‬
‫شوال کے بھائی‪ ،‬بھابھی سکینہ بیگم اور وجاہت علی کو فردا ً فردا ً خداحافظ کہنے لگے۔‬
‫آخر میں عمران وجاہت علی کے گلے ِمل کر خداحافظ کہنے کے بعد ا ُن سے علیحدہ ہو رہا تھا‬
‫کہ انھوں نے اپنی متالشی نگاہیں ِارد گرد دوڑائیں۔‬
‫’’اسرار کہاں گیا؟‘‘‬
‫بطوِرخاص کسی کو مخاطب کئے بنا سوال کیا۔‬
‫’’پاپا شاید اندر گئے ہیں۔‘‘‬
‫قریب کھڑے کامران نے جواب دیا۔‬
‫وجاہت علی نے سکینہ بیگم کی طرف چہرہ موڑا۔‬
‫’’ سکینہ!۔۔۔ تم بھی ِان کے ساتھ گھر چلی جاؤ۔ میں دوسری گاڑی سے آتا ہوں۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے دولہا‪ ،‬دلہن کی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔‬
‫سن کر اچھل پڑیں۔‬ ‫سکینہ بیگم یہ اچانک فرمان ُ‬
‫’’کیا؟۔۔۔ مگر آپ؟‘‘‬
‫’’ یہ بحث کا وقت نہیں۔۔۔ گھر پہنچ کر بات ہوتی ہے۔ جاؤ تم لوگ۔‘‘‬
‫’’کیا؟۔۔۔ مگر آپ؟‘‘‬
‫’’ یہ بحث کا وقت نہیں۔۔۔ گھر پہنچ کر بات ہوتی ہے۔ جاؤ تم لوگ۔‘‘‬
‫سکینہ بیگم کی بات کاٹ کر اپنا حکم صادر کرتے‪ ،‬بنا وقت ضائع کئے وہ میں ملبے ملبے ڈگ‬
‫بھرتے ہال کے اندر کی طرف بڑھ گئے۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫میرج ہال کے اندر داخل ہو کر چہار سو نظریں دوڑائیں۔ ہال میں چند ویٹر اور صفائی والے‬
‫ایک دو لڑکے گھوم رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر ایک ویٹر ا ُن کی طرف متوجہ ہوا۔‬
‫’’ اسرار صاحب؟۔۔‘‘‬
‫ویٹر کی سوالیہ نظروں کے جواب میں انھوں نے استفسار کیا۔‬
‫’’ا ُدھر ریسٹ روم میں دیکھیئے۔‘‘‬
‫ویٹر نے جواب میں اشارہ کر کے کہا۔‬
‫وجاہت علی تیزی سے ریسٹ روم کی طرف بڑھ گئے۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو‬
‫اسرار احمد کو سامنے ہی واش بیسن کے آگے کھڑا پایا۔ انھوں نےاپنا ایک ہاتھ دیوار سے ٹکا رکھا تھا۔‬
‫وجاہت علی خاموشی سے چلتے ا ُن کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ اپنا ہاتھ ا ُٹھا کر ان کے کندھے‬
‫پہ رکھنا چاہا۔ پھر جھجک کر ُرک گئے۔‬
‫’’اسرار! ‘‘‬
‫انھوں نے دھیرے سے پکارا۔‬
‫اسرار احمد چونکے۔ پھر آنسو پونچھتے ہوئے پلٹ کر انھیں دیکھا۔‬
‫’’ تم گئے نہیں ابھی تک؟‘‘‬
‫بیزاری کے ساتھ دریافت کیا۔‬
‫وجاہت علی کو وہاں پا کر ا ُن کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔‬
‫’’ کیسے جا سکتا ہوں؟۔۔ تمہارا شکریہ ادا کئے بنا؟‘‘‬
‫بدّقت کہا۔ آواز اسرار احمد کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔‬
‫اسرار احمد جلدی جلدی آستین چہرے پہ گھما کر اپنا چہرہ پونچھ رہے تھے۔ وجاہت علی کے‬
‫سامنے تو وہ کبھی بھی آنسو نہ بہاتے۔‬
‫’’ ِاس کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔۔۔ میری بیٹی کو تو تم ایک سال پہلے ہی زبردستی اپنی بہو‬
‫بنا چکے تھے۔‘‘‬
‫لہجے میں چبھن تھی۔‬
‫آنسو تو روک لیے تھے مگر آواز اب بھی نم تھی۔ وہ براِہ راست وجاہت علی کی طرف نہیں‬
‫دیکھ رہے تھے۔ ا ُن کی طرف سے تھوڑا ُرخ موڑ کر کھڑے تھے۔ یہ وجاہت علی کے لئے ان کی ناپسندیدگی‬
‫کا واضح اظہار تھا۔‬
‫’’ میں شوال کی بات نہیں کر رہا۔‘‘‬
‫انھوں نے پھر سے کسی کھائی سے اپنی آواز برآمد کی۔‬
‫اسرار احمد نے چونک کر سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔‬
‫وجاہت علی خود ہی چل کر ا ُن کے مقابل جا کھڑے ہوئے۔‬
‫’’ ساری دنیا کے والدین اپنے بیٹوں کی شادی کرواتے ہیں تو بہو رخصت کروا کے لے کے‬
‫جاتے ہیں۔ لیکن شاید میں دنیا کا واحد باپ ہوں جو اپنا بیٹا رخصت کروا کے لے جا رہا ہے۔‘‘‬
‫ا ُن کی آنکھوں میں نمی ا ُترنے لگی۔‬
‫اسرار احمد نے بغور ا ُن کا چہرہ دیکھا۔ وہ کیا کہہ رہے تھے ا ُنھیں واضح طور پہ سمجھ‬
‫نہیں آیا تھا۔‬
‫وجاہت علی آنکھوں میں نمی لئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں وضاحت کرنے لگے۔‬
‫’’ میری غلطیوں کی وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے بہت ُدور چال گیا تھا۔ اور تمہارے بہت‬
‫وجاہت علی آنکھوں میں نمی لئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں وضاحت کرنے لگے۔‬
‫’’ میری غلطیوں کی وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے بہت ُدور چال گیا تھا۔ اور تمہارے بہت‬
‫قریب۔۔۔ تم چاہتے تو ا ُسے ہمیشہ کے لئے مجھ سے ُدور کر دیتے۔۔ لیکن تم نے ایسا نہیں کیا۔‬
‫رجب نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر شوال چاہتی تو ا ُسے لے کر ہم سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو‬
‫جاتی۔ لیکن ا ُس نے ایسا کبھی نہیں ِکیا۔‬
‫یہ تم دونوں باپ بیٹی کی خاصّیت ہے کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں ا ُٹھاتے۔۔۔‬
‫میرا وہ بیٹا‪ ،‬جو مجھ سے نفرت کرنے لگا تھا۔ میرے ساتھ ایک ٹیبل پہ بیٹھ کر کھانا نہیں‬
‫کھاتا تھا۔۔۔ آج ا ُس نے مجھ سے معافی مانگی‪ ،‬مجھے تحفہ دیا‪ ،‬اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے‬
‫چھوڑ کر نہیں جائے گا۔‘‘‬
‫وجاہت علی نے اسرار احمد کی آنکھوں میں جھانکا۔‬
‫وجاہت علی کے منہ سے ِنکلتے یہ الفاظ اسرار احمد کو حیران کر رہے تھے۔‬
‫وجاہت علی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک گئے۔‬
‫’’ میرا بیٹا ایسا نہیں تھا اسرار!۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ ا ُسے ِاس حد تک بدلنے والے تم ہو۔۔۔‬
‫میں نے اپنے بیٹے کو کھو دیا تھا۔۔۔ تم نے مجھے میرا بیٹا لوٹایا ہے۔‘‘‬
‫وجاہت علی ممونیت کے آنسو بہا رہے تھے۔‬
‫اسرار احمد خاموشی سے ا ُنھیں دیکھے گئے۔ وجاہت علی کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے‬
‫دیکھ کر انھیں حیرت ہو رہی تھی۔‬
‫’’ میں ِکس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں۔‘‘‬
‫س جرم نے لے لی ۔ بہتے آنسوؤں میں شدت آ گئی۔‬ ‫ممونیت کی جگہ پچھتاؤں اور احسا ِ‬
‫’’ کاش۔۔۔ کاش میں نے وہ غلط حرکت نہ کی ہوتی۔۔۔۔ کاش میں اتنا کمینہ نہ ہو گیا ہوتا۔۔۔‬
‫جانے کیوں میں اپنی کزن کے لئے تمہاری پسندیدگی برداشت نہ کر سکا۔ اور وہ چھوٹی حرکت کرنے کے‬
‫بعد بھی خود کو معتبر ثابت کرنے کے لئے اپنی کمینگی پہ ڈٹا رہا۔‘‘‬
‫اب اسرار احمد اور بھی سنجیدگی اور توجہ سے انھیں سننے لگے۔‬
‫ا ُنھوں نے اپنے آنسو پونچھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔‬
‫’’کاش میں نے تمہیں منا لیا ہوتا۔ اپنی غلطی کی معافی مانگ لی ہوتی۔۔۔ اگر میں وقت پہ‬
‫اپنی غلطی مان کر تمہارے آگے جھک جاتا تو اتنا نقصان نہ ا ُٹھاتا۔۔۔ ہمارے بچوں کو بھی وہ سب نہ‬
‫سہنا پڑتا‪ ،‬جو انھوں نے سہا۔ ‘ ‘‬
‫’’ اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔۔۔ جو ہو چکا‪ ،‬سو ہو چکا۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے کہا۔ اب کے ا ُن کا لہجہ سپاٹ تھا۔‬
‫وجاہت علی نے نم پلکیں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ نفی میں سر ہال کر بولے۔‬
‫’’ کیسے نہ پچھتاؤں؟۔۔۔۔ میں نے صرف اپنی کمینگی کے باعث اپنے ہاتھوں سے اپنی سب‬
‫سے قیمتی چیز کھو دی۔۔۔ میں تو ساری زندگی رجب کو اپنی سب سے بڑی دولت سمجھتا رہا۔ لیکن آج‬
‫مجھے احساس ہو رہا ہے کہ تمہیں کھو کر میں کتنے خسارے میں رہا ہوں۔ ِاس وقت تمہاری قدرو قیمت‬
‫مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔۔ تم خود بھی نہیں۔۔۔‘‘‬
‫اسرار احمد یہ سن کر اور بھی حیران ہوئے۔‬
‫وجاہت علی نے اپنی بات جاری رکھی۔‬
‫’’ جانتے ہو؟۔۔۔ میری زندگی کا سب سے بڑا ُدکھ کیا تھا؟۔۔۔۔‘‘ ا ُنھوں نے سوال کیا۔ اسرار‬
‫احمد کی نظروں میں تجسس دیکھ کر جواب میں بولے۔‬
‫’’ اوالد کا ُدکھ۔۔۔ رجب کی پیدائش سے پہلے بھی۔ اور رجب کی پیدائش کے بعد بھی۔۔۔ جب‬
‫میرا پہال بچہ پیدا ہوا تھا۔ تب یہ ُدکھ میری زندگی میں شامل ہوا تھا۔ اور آج تک یہ َکرس )‪ (curse‬میری‬
‫صہ تھی۔‬ ‫زندگی کا ح ّ‬
‫جس نے مجھے ِاس کَرس سے نجات ِدالئی ہے۔۔۔ تم نے میرے بیٹے کو اس‬ ‫لیکن‪ ،‬وہ تم ہو ِ‬
‫جنونی حالت سے باہر نکاال ہے ۔۔۔ میں تو ہمیشہ تم سے دشمنی نبھاتا رہا۔ پھر بھی تم نے مجھ پہ اتنی‬
‫جس نے مجھے ِاس کَرس سے نجات ِدالئی ہے۔۔۔ تم نے میرے بیٹے کو اس‬ ‫لیکن‪ ،‬وہ تم ہو ِ‬
‫جنونی حالت سے باہر نکاال ہے ۔۔۔ میں تو ہمیشہ تم سے دشمنی نبھاتا رہا۔ پھر بھی تم نے مجھ پہ اتنی‬
‫بڑی مہربانی کیسے کی؟۔۔۔‘‘‬
‫’’کیسے نہ کرتا؟۔۔۔ دشمن تو بعد میں بنا تھا۔۔ دوست بچپن سے تھا۔‘‘‬
‫آخر کار اسرار احمد کی ناراضگی بھی َدم توڑ گئی۔‬
‫وجاہت علی یہ سن کر رو پڑے۔‬
‫’’ اسرار!۔۔۔ مجھے معاف کر دو میرے دوست!۔‘‘‬
‫اسرار احمد نے آگے بڑھ کر انھیں گلے سے لگا لیا۔‬
‫آنسو دونوں کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ لیکن ایک گہرا سکون اور اطمینان دونوں دوستوں‬
‫کے سینوں میں ا ُتر گیا تھا۔‬

‫❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊‬

‫ختم شد۔‬

You might also like