Professional Documents
Culture Documents
Ziddie, Complete Urdu Novel in Urdu Font.
Ziddie, Complete Urdu Novel in Urdu Font.
Ziddie, Complete Urdu Novel in Urdu Font.
)بدیع الجمال(
مکّمل ناّول۔
سکینہ بیگم اور وجاہت علی اسپتال کے وزٹنگ الؤنج میں کھڑے تھے۔
شوال جا رہی تھی۔ اور یہ بات سکینہ بیگم اور وجاہت علی کے لئے ناقابل قبول تھی۔ شوال سے
انکے اکلوتے بیٹے کی خوشیاں ،اسکی سانسیں جڑی تھیں۔ شوال کے چلی جاتی تو وہ اپنے بیٹے کو بھی
کھو دیتے۔ جس کے تصور سے ہی انکا ِدل بند ہو رہا تھا۔ وہ چاہ کر بھی اسے روک نہیں سکتے تھے۔
’’اب کیا کریں؟‘‘
سکینہ بیگم نے شوہر سے پوچھا۔
’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ اب صرف رجب ہی کر سکتا ہے۔‘‘
وجاہت علی نے کہا۔
سکینہ بیگم نے جلدی جلدی اپنے فون پہ رجب کو کال ِمالئی۔
’’ہیلو!‘‘
دو گھنٹیاں بجنے کے بعد رجب نے کال ریسیو کر لی۔
’’رجب!۔۔۔ شوال اپنے باپ کے ساتھ جا رہی ہے۔۔۔ تم فورا ً آ کر اسے روکو۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم بہت بوکھالئی ہوئی تھیں۔
دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی۔
سکینہ بیگم پہلے جواب کی منتظر رہیں۔ جواب نہ ِمال تو اور بھی پریشان ہو گیئیں۔
’’رجب!‘‘
انھوں نے قدرے زور دے کر پکارا۔
’’جی!‘‘
رجب کی بے تاثر آواز آئی۔
سن رہے ہو؟۔۔۔ شوال جا رہی ہے۔ آ کر ا ُسے روکو ورنہ وہ چلی جائے گی۔‘‘ ’’تم ُ
’’جانے دیں ا ُسے۔‘‘
رجب کی سفاک آواز ا ُن کی سماعت سے ٹکرائی۔ اور کال کٹ گئی۔
شوال کا باپ آیا اور اسے لے کر چل پڑا۔ وجاہت علی اور سکینہ بیگم ،دونوں میں سے کوئی بھی
کچھ کہنے یا کرنے کی ہمت نہ کر پایا۔ شوال کے کپڑوں اور دوائیوں سے بھرا بیگ اب بھی سکینہ بیگم کے
ہاتھ میں تھا۔ وہ بالکل ساکت ،اپنے باپ کے ساتھ جاتی ہوئی شوال کی پشت دیکھ رہی تھیں۔
آج شوال ویسے ہی ا ُن کی زندگی سے جا رہی تھی ،جیسے وہ ا ُن کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔
بالکل خالی ہاتھ۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
ی کی نند سمیرا کی منگنی کا فنکشن تھا۔ اس کے اّمی اور اّبو اپنی اپنیاس کی کزن بشر ٰ
مصروفیات کے باعث نہیں آ سکے تھے ٰلہذا وہ اکیال ہی اس تقریب میں شرکت کرنے آیا تھا۔ تقریب زیادہ
بڑی نہیں تھی اسلیے گھر پہ ہی اہتمام کیا گیا تھا۔ مہمانوں کی تعداد اتنی تھی کہ ہال مہمانوں سے بھر
ت حال نہ تھی۔ ہر کوئی آزادی سے ادھر سے ادھر جا سکتا چکا تھا۔ مگر کھچا کھچ بھرا ُہوا والی صور ِ
ُ
تھا اور کسی کو کوئی ڈھونڈنا چاہے تو کھڑے کھڑے ہی نظریں گھما کر بآسانی تالش کر سکتا تھا۔ البتہ
گھر کی سجاوٹ اور باقی سب انتظامات بہت خوبصورتی سے کئے گئے تھے۔
اس وقت وہ سمیرا کے بھائی عمیر کے ساتھ فرسٹ فلور پہ ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا
باتوں میں مصروف تھا جب نیچے ہال میں ایک نسوانی چیخ بلند ہوئی۔ اس نے اور عمیر نے ہڑبڑا کر مڑ کر
اس وقت وہ سمیرا کے بھائی عمیر کے ساتھ فرسٹ فلور پہ ریلنگ کے ساتھ ٹیک لگائے کھڑا
باتوں میں مصروف تھا جب نیچے ہال میں ایک نسوانی چیخ بلند ہوئی۔ اس نے اور عمیر نے ہڑبڑا کر مڑ کر
نیچے ہال میں دیکھا۔
’’شوال آ گئی۔‘‘
سمیرا کی چھوٹی بہن عمیرہ نے خوشی سے چال کر پورے ہال کو اطالع دی۔ گویا وہ سب
لوگ ’شوال‘ کے لئے ہی وہاں جمع تھے۔ عمیرہ خوشی سے تیز تیز چلتی انٹرینس کی طرف بڑھ رہی تھی۔
اس نے عمیرہ کے ُرخ کے تعاقب میں داخلی دروازے کی سمت دیکھا اور بس نظریں ہٹانا بھول گیا۔ ایک
لڑکی جو یقینا ً عمیرہ کے اس طرح چالنے پہ ُرک گئی تھی اور سٹ پٹا کر ِادھر ا ُدھر دیکھ رہی تھی۔ اس
س منظر میں چلی گئی۔ پہلی کی نگاہیں اس پہ جم کر رہ گیئیں۔ وقت تھم سا گیا تھا۔ ساری دنیا جیسے پ ِ
ہی نظر میں وہ لڑکی اس کے ِدل میں ا ُتر گئی تھی۔
عمیرہ اس کے پاس پہنچی تو اس نے عمیرہ کو گھرکنے کے انداز میں کچھ کہا۔
جوابا ً عمیرہ بھی اس سے کچھ کہہ رہی تھی۔
’’ا ُف یہ عمیرہ بھی ناں۔۔۔۔ میں تو ڈر گیا تھا کہ جانے کیا ہو گیا ہے۔‘‘
بغل میں کھڑے عمیر نے قدرے جھال کر تبصرہ کیا۔ جس کا اس پہ کوئی اثر نہ ہوا۔ وہ ابھی
تک اسی لڑکی کو دیکھ رہا تھا جو اب عمیرہ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ پھر وہ عمیرہ کے ساتھ آگے بڑھنے
لگی۔
’’شوال!۔‘‘
ا ُس نے زیِرلب دہرایا۔
وہ لڑکی مسلسل اس کی نگاہوں کے حصار میں تھی۔
’’ تمہیں کیا ہوا ہے؟۔۔۔۔ میں تم سے بات کر رہا ہوں۔‘‘
عمیر نے کہنے کے ساتھ اس کا کندھا جھنجوڑ ڈاال۔
’’ہاں!۔۔۔‘‘ وہ چونک کر عمیر کی طرف ُمڑا۔ پھر معذرت خواہانہ انداز میں بوال۔ ’’یار! مجھے
ایک منٹ دینا۔۔۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
ُ
کہہ کر وہ مڑا اور تیزی سے سیڑھیاں اتر گیا۔ نیچے پہنچ کر وہ سیدھا سٹیج کے پاس کھڑے
فوٹو گرافر کے پاس گیا اور ا ُس کے کان میں کچھ سر گوشی کی۔ پھر وہ اور فوٹو گرافر دونوں اکٹھے ایک
طرف چل پڑے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
لوگ سٹیج پہ آ آ کر سمیرا اور اس کے منگیتر کو مبارکباد دے رہے تھے۔ ایک طرف رکھا ٹیبل
چکا تھا۔
لوگوں کی طرف سے دیئے گئے تحائف سےبھر ُ
وہ شازیہ کے ساتھ بیٹھی سامنے اسٹیج کا منظر دلچسپی سے دیکھ رہی تھی جب شازیہ
اس کی طرف جھکی۔
’’لگتا ہے اس فوٹوگرافر کو تمہارا چہرہ کچھ زیادہ ہی بھا گیا ہے۔۔ دولہا دلہن سے زیادہ یہ
تمہاری تصویریں لے رہا ہے۔‘‘
’’بس۔ چُپ ہی کر جاؤ شازیہ!۔۔۔ میرے ساتھ تو اکثر ہی شادیوں وغیرہ میں ایسا ہوتا ہے۔
کیمرہ مین لوگ ایسے پیچھے پڑ جاتے ہیں جیسے انھوں نے مجھ سے پیسے لینے ہوں یا پھر فلم بنا کر
انھوں نے خود اپنے پاس رکھنی ہو۔۔۔ بہت کوفت ہوتی ہے مجھے۔ اب کسی کی شادی میں شریک بندہ کیا
کہے ِان کو؟۔۔۔ خوامخواہ اتنے سارے لوگوں کی موجودگی میں تماشہ کھڑا کرنا بھی تو اچھا نہیں لگتا۔۔۔
اور میرے پاپا کا تو تمہیں پتا ہے کہ کتنے سخت ہیں۔۔۔ ا ُن کو ایسی کوئی بات پتا چلے تو وہ یا تو کیمرہ
مین کو شوٹ کر دیں یا پھر مجھے۔‘‘
وہ پہلے ہی اس کیمرہ مین سے تپی بیٹھی تھی۔ شازیہ کے مختصر سے تبصرے پہ اس نے
دبی آواز میں اپنے ِدل کی ساری بھڑاس نکال دی۔
وہ پہلے ہی اس کیمرہ مین سے تپی بیٹھی تھی۔ شازیہ کے مختصر سے تبصرے پہ اس نے
دبی آواز میں اپنے ِدل کی ساری بھڑاس نکال دی۔
’’ا ُف۔۔۔ ٹیبل تو بھر چکی ہے۔ اور ابھی بہت سے لوگوں کا سٹیج پہ جانا باقی ہے۔۔۔ چلو
شازیہ!۔۔۔ ہم کچھ گفٹس اوپر لے چلتے ہیں۔‘‘
شازیہ کے دوسری طرف بیٹھی عمیرہ نے کہا۔
’’نہیں ،میں نہیں۔۔۔۔ تم ایسا کرو ،شوال کو ساتھ لے جاؤ۔‘‘
شازیہ نے خود منع کر کے جلدی سے شوال کے نام کا قرعہ ڈال دیا۔ ا ُس نے اچنبھے سے
شازیہ کو دیکھا۔
’’جاؤ۔۔ اسی بہانے تمہاری کچھ دیر کے لئے اس فوٹوگرافر سے جان چھوٹ جائے گی۔‘‘
شازیہ نے اس کی طرف سر جھکا کر سرگوشی کی تو وہ سمجھنے کے انداز میں سر ہال کر
جلدی سے ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ہاں عمیرہ!۔۔۔ چلو ،میں ساتھ چلتی ہوں۔‘‘
یوں وہ دونوں اسٹیج پہ چلی آئیں۔ عمیرہ نے پانچ چھے ڈبے ایک دوسرے کے اوپر نیچے رکھ
کر اسے تھما دیئے۔
’’لو۔۔۔ یہ تم اوپر میرے کمرے میں لے چلو۔۔۔ میں باقی لے کر آتی ہوں۔‘‘
عمیرہ کی ہدایات پہ وہ تحائف کا مینار ا ُٹھائے اسٹیج سے ا ُتری اور سیڑھیوں کی جانب
بڑھنے لگی۔
وہ سیڑھیوں سے دو قدم ہی دور تھی کہ اس کے ہاتھوں میں پکڑے ڈبے کھسکنے لگے۔ وہ
پریشان ہو گئی۔ اتنے بڑے بڑے ڈبے وہ کسی طور سنبھال نہ پا رہی تھی۔ قریب تھا کہ اوپر کے چاروں
ڈبے ِگر جاتے کہ دو مہربان ہاتھوں نے بروقت انھیں تھام لیا۔
’’ارے۔ ارے۔۔۔ سنبھل کر۔‘‘
عجلت میں کہتے ہوئے اس نوجوان نے اوپر کے چاروں ڈبے ہٹا لئے۔ ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر
دیکھا اور بھرپور انداز میں مسکرائی۔ اس نوجوان نے بروقت اس کی مدد کر کے اسے ایک بڑی شرمندگی
سے بچا لیا تھا۔
’’تھینک یُو۔‘‘ ا ُس نے ممونّیت سے کہا۔
وہ نوجوان جوابا ً مسکرایا۔
’’چلیے۔۔ میں لے چلتا ہوں ِانھیں۔‘‘
نوجوان نے مسکراتے ہوئے اپنی خدمات پیش کیں۔ وہ ایک خوبرو ،بااعتماد ،سلجھا ہوا اور
خوش مزاج سا نوجوان تھا۔
’’جی۔‘‘ اس نے مسکرا کر ا ُس کی مدد قبول کی اور سیڑھیوں کی طرف قدم بڑھا دیئے۔
اس نوجوان نے اس کی پیروی کی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
عمیرہ کے کمرے میں آ کر اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ڈبے ال کر بیڈ پہ رکھ دیئے۔ وہ نوجوان
دروازے سے اندر آ کر ایک طرف ہو کر کھڑا ہو گیا۔ وہ ڈبے رکھ کر واپس مڑی اور اس کے پاس آ کر ڈبے
اس کے ہاتھوں سے لے لئے۔
’’تھینک یو سو مچ۔۔۔۔ آپ بروقت مدد کو نہ آتے تو یہ سب گِر جاتے۔‘‘
اس نے ایک بار پھر مسکراتے ہوئے ا ُس نوجوان کا شکریہ ادا کیا۔ وہ نوجوان جوابا ً فراخ دلی
سے مسکرایا اور کچھ کہنا چاہتا تھا کہ تب ہی عمیرہ ہاتھوں میں کچھ ڈبے لئے بولتی ہوئی اندر آئی۔
’’شوال!۔۔۔ تم نے انھیں بیڈ پہ ہی رکھ دیا؟۔‘‘
عمیرہ کے پوچھنے پہ شوال عمیرہ کی طرف مڑ گئی۔
’’شوال!۔۔۔ تم نے انھیں بیڈ پہ ہی رکھ دیا؟۔‘‘
عمیرہ کے پوچھنے پہ شوال عمیرہ کی طرف مڑ گئی۔
’’تو اور کہاں رکھنا چاہیئے تھا؟‘‘
شوال کہتے ہوئے عمیرہ کے قریب چلی آئی جو سیدھا چلتی ہوئی بیڈ کے پاس جا ُرکی تھی۔
’’چلو ٹھیک ہے۔۔۔ ابھی یہیں رکھ دیتے ہیں۔ بعد میں کہیں اور رکھ لیں گے۔‘‘
عمیرہ نے خودکالمی کے انداز میں کہا اور خود بھی اپنے ہاتھوں میں پکڑے ڈبے بیڈ پہ رکھ
دیئے۔
وہ خاموشی سے کمرے سے نکل گیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ اپنے کمرے میں بیڈ کے کنارے بیٹھا تھا اور اپنے سامنے بیڈ پہ تصویروں کا ایک ڈھیر لگا
رکھا تھا۔ وہ ایک کے بعد ایک تصویر ا ُٹھا کر اسے اشتیاق سے دیکھتا تھا اور پھر بیڈ پہ ذرا ذرا فاصلے
پہ لگائے تصویروں کے چھوٹے چھوٹے ڈھیروں میں سے کسی ایک میں رکھ دیتا تھا۔ ہر نئی تصویر ا ُٹھا
کر دیکھتے ہوئے ا ُس کی آنکھوں کی چمک اور ستائش بڑھ جاتی تھی۔ ہونٹوں پہ ٹھہری مستقل مسکراہٹ
بھی گہری ہو جاتی تھی۔ وہ پورے انہماک کے ساتھ تصویروں کو کیٹگرائز کر رہا تھا جب وجاہت علی اس
کے کمرے کا دروازہ کھول کر تیزی سے اندر آئے۔
’’رجب! کب سے بُال رہا ہوں۔۔۔ تم آفس کیوں نہیں آ رہے۔‘‘
وجاہت علی اپنی ہی دھن میں پوچھتے آگے بڑھے اور بیڈ کے قریب پہنچتے ہی سامنے پھیلی
تصویریں دیکھ کر ٹھٹک کر ُرک گئے۔
’’ابو!۔‘‘ رجب نے سر ا ُٹھا کر ا ُنھیں دیکھا اور مسکرایا۔
’’ادھر آیئے۔۔۔ دیکھیئے!۔۔۔ یہ لڑکی خوبصورت ہے ناں!؟‘‘
اس کے چہرے کی خوشی اور جوش قابِل دید تھا۔ وجاہت علی نے ایک نظر ا ُس کا جگمگاتا
’’ادھر آیئے۔۔۔ دیکھیئے!۔۔۔ یہ لڑکی خوبصورت ہے ناں!؟‘‘
اس کے چہرے کی خوشی اور جوش قابِل دید تھا۔ وجاہت علی نے ایک نظر ا ُس کا جگمگاتا
چہرہ دیکھا اور ا ُس کے بڑھائی ہوئی تصویر تھام لی۔ تصویر ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے وہ مسکرا
دیئے۔ ا ُنھوں نے رجب کی طرف دیکھا۔
شبہ۔۔۔ کون ہے یہ؟‘‘’’بال ُ
کسی لڑکی میں اپنے بیٹے کی دلچسپی بھانپ کر انھیں خاصی خوشی ہوئی تھی۔ رجب ا ُٹھ
کر ان کے قریب چال آیا اور تصویر پہ نظریں جما کر بوال۔
’’یہ شوال ہے۔۔۔۔ اسرار احمد اینڈ سنز والے ہیں ناں ،اسرار احمد۔ ا ُن کی بیٹی ہے۔‘‘
اسرار احمد کا نام سنتے ہی وجاہت علی کو جھٹکا لگا۔ ا ُنھوں نے ایک دم ہی رجب کی طرف
دیکھا۔ رجب بھی ا ُن کی طرف دیکھنے لگا۔ مسکراتے ہوئے بوال۔
’’ابو!۔ مجھے یہ لڑکی پسند ہے۔۔۔ میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔‘‘
یہ سننا تھا کہ وجاہت علی کا ہاتھ ،جس میں انھوں نے تصویر پکڑ رکھی تھی ،واضح طور
پر کانپ گیا۔ معلوم نہیں آسمان ان کے سر پہ ٹوٹا تھا یا قدموں تلے سے زمین سرک گئی تھی۔ مگر جو
بھی ہوا تھا۔ بہت ہی ُبرا ہوا تھا۔
ا ُنھوں نے سر ا ُٹھا کر رجب کو دیکھا۔ وہ ان کی رائے جاننے کا منتظر اشتیاق کے ساتھ
انھیں دیکھ رہا تھا۔
’’تم اسے کیسے جانتے ہو؟ اور کب سے؟‘‘
یہ سوال کرتے ہوئے ِاک انجانے خوف سے وجاہت علی کا دل ڈوب رہا تھا۔
ِ
’’میں بشریٰ کی نند کی منگنی پہ گیا تھا ناں!۔۔۔ وہیں پہ پہلی بار دیکھا تھا ِاسے۔‘‘
رجب نے جواب ِدیا۔ پھر اپنے ِدل کا حال سنانے لگا۔
’’پتا ہے اّبو!۔ جب میں نے اسے دیکھا تو بس دیکھتا ہی رہ گیا۔ ُیو َنو لّو ایٹ فرسٹ سائٹ۔۔۔
بالکل ویسا ہی ہوا۔ مجھے اسے دیکھ کر لگا ہی نہیں کہ یہ کوئی اجنبی ہے۔ ایسے لگا جیسے میں اسے
برسوں سے تالش کر رہا ہوں۔ اسے دیکھتے ہی میرے ِدل نے کہا کہ رجب!۔ یہی وہ لڑکی ہے جو تمہارے
لئے بنی ہے۔ اگر تمہاری شادی ہوگی تو صرف اور صرف اسی لڑکی سے ہوگی۔‘‘
وجاہت علی ا ُسے دیکھتے رہ گئے۔ بہت بڑی پریشانی نے انھیں آن گھیرا تھا۔ رجب کا جواب
سلی ہوئی تھی کہ ِان دونوں کے درمیان کوئی افیئر نہیں ،وہیں رجب کے احساسات سن کر جہاں انھیں ت ّ
ُ
نے انھیں خوفزدہ کر دیا تھا۔ رجب کے خاموش ہونے کے بعد بھی کچھ پل کے لئے اسے دیکھتے رہے۔ پھر
نظریں جھکا کر واپس تصویر دیکھنے لگے۔ ا ُنھیں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ ایسے کونسے الفاظ یا
جس سے وہ اپنی بات آسانی سے بیان کر سکیں۔ کونسی زبان استعمال کریں ِ
’’رجب!۔‘‘
انھوں نے دھیرے سے اسے پکارا۔ پھر ہمت کر کے ہاتھ میں پکڑی تصویر بیڈ پہ ڈال دی۔
’’تمہاری شادی اس لڑکی سے نہیں ہو سکتی۔‘‘
جیسے تیسے کر کے انھوں نے اپنی بات کہہ دی۔ بات مکمل کر کے انھوں نے دوبارہ نظریں
ا ُٹھا کر رجب کو دیکھا تاکہ اس کا رِدعمل جان سکیں۔
رجب اس صاف سیدھے اور منفی جواب پہ بُری طرح چونکا۔
’’کیا مطلب؟‘‘
وہ ایسے جواب کی توقع ہرگز نہیں کر رہا تھا۔
’’مطلب وہی ہے جو میں نے کہا ہے رجب!۔۔۔ یہ ممکن نہیں ہے۔ اس لڑکی کا خیال ِدل سے
نکال دو۔‘‘
وجاہت علی نے دھیمی اور نرم آواز میں سمجھانے کے انداز میں کہا۔
’’یہ آپ کیا کہہ رہے ہیں اّبو!۔۔۔ کیوں ممکن نہیں ہے؟‘‘
وہ بےچین ہو ا ُٹھا۔
’’رجب!۔‘‘ رجب کی بےچینی وجاہت علی کی پریشانی میں اضافہ کرنے لگی۔ وہ بمشکل اپنی
وہ بےچین ہو ا ُٹھا۔
’’رجب!۔‘‘ رجب کی بےچینی وجاہت علی کی پریشانی میں اضافہ کرنے لگی۔ وہ بمشکل اپنی
ہمتیں مجتمع کر کے وضاحت دینے لگے۔
’’تم جانتے ہو کہ اسرار احمد کے ساتھ شروع سے ہی ہمارا کامپیٹیشن ہے۔ ہم ہمیشہ ہی
ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش میں ہوتے ہیں۔ اس کی ہمارے ساتھ اتنی کڑی ٹکر ہونے کے باوجود
بھی اسرار ہمارے ساتھ اس طرح کی کسی رشتہ داری کے لئے راضی ہوگا؟۔۔۔ ناممکن۔‘‘
وجاہت علی اپنا اعتماد قائم رکھنے کی پوری کوشش کر رہے تھے مگر پھر بھی اندر کا خوف
انکے لہجے کو کمزور بنا رہا تھا۔
’’اّبو! یہ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں؟۔۔۔۔ سَیم پروفیشن کے لوگوں کے بیچ کامپیٹیشن ہوتا
ہے۔۔۔ یہ کوئی ایسی بڑی یا غیر معمولی بات تو نہیں!۔۔۔ ہمارا ا ُن سے کامپیٹیشن ہے۔۔۔ خدانخواسطہ کوئی
دشمنی تو نہیں۔۔۔۔‘‘
رجب اس جواز کو بالکل بھی خاطر میں النے کو تیار نہ تھا۔ اور رجب کا یہ رّویہ وجاہت علی
کو اور بھی کمزور کر رہا تھا۔
رجب کہنے لگا۔
’’اوہ کم آن اّبو!۔۔۔ پلیز ،بی ریئلسٹک ) (Realistic۔ آپ تو بالی ُووڈ کے پیرنٹس کی طرح ری
ایکٹ کر رہے ہیں۔ کامپیٹیشن کا مطلب یہ نہیں کہ ہماری ا ُن کے ساتھ کوئی رشتہ داری نہیں ہو سکتی۔‘‘
ھی ا ُڑانے کے جیسا تھا۔رجب کے لئے ا ُن کا اعتراض مک ّ
وجاہت علی تڑپ ا ُٹھے۔
’’تم نہیں سمجھتے رجب!۔۔۔ تم ایسا اس لئے کہہ رہے ہو کیونکہ تم اسرار کو جانتے نہیں۔۔
میں اسرار کو بہت اچھے طریقے سے جانتا ہوں۔ بہت ہی ضدی آدمی ہے وہ۔ اس کے لئے یہ کامپیٹیشن
دشمنی کے جیسا ہی ہے۔ وہ ایسے پروپوزل پہ بالی ُووڈ کے پیرنٹس کی طرح ہی ری ایکٹ کرے گا۔‘‘
وجاہت علی نے اسے وضاحت پیش کی۔ پھر ا ُسے قائل کرتے ہوئے اس کے کندھے پہ ہاتھ رکھ
کر نرمی سے بولے۔
’’تم میرا اکلوتا بیٹا ہو رجب! تمہاری خوشی ہمیشہ میرے لئے ہر چیز سے مقدم رہی ہے۔ لیکن
افسوس کہ میں تمہاری یہ خوشی پوری نہیں کر سکتا۔ اسرار اس رشتے کے لئے کبھی راضی نہیں گا۔
ا ُس سے ایسی کوئی بات کرنے کا مطلب صرف اپنی عزت گنوانا اور اس کی دشمنی کو اور ہوا دینا ہے۔
اور کچھ نہیں۔ اسی لئے میں تم سے کہہ رہا ہوں کہ اس لڑکی کا خیال ِدل سے نکال دو۔ میں تمہیں اس
سے بھی بڑھ کر کیئیں لڑکیوں سے ِملوا سکتا ہوں۔ تم ان میں سے جس سے بھی چاہو گے میں تمہاری
شادی کروا دوں گا۔ کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ لیکن پلیز۔ ریکویسٹ کرتا ہوں تم سے۔۔ اس لڑکی کا
نام دوبارہ کبھی مت لینا۔ اسی میں ہم سب کی بھالئی ہے۔‘‘
گو کہ وجاہت علی نے بہت وضاحت کے ساتھ اسے سمجھانے کی کوشش کی تھی۔ مگر وہ
پھر بھی انھیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ ا ُن کی کسی بھی بات پہ قائل نہ ہوا ہو۔وجاہت علی نے مزید
کچھ کہنے کے لئے منہ کھوال مگر جیب میں رکھا ا ُن کا موبائل فون بج ا ُٹھا۔ انھوں نے فون نکال کر کال
ریسیو کی۔
’’ہیلو!‘‘
’’ہاں ،میں آرہا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں پہنچتا ہوں۔‘‘
کہہ کر انھوں نے فون بند کیا۔ پھر فون واپس جیب میں ڈالتے ہوئے اس سے بولے۔
’’چلو۔۔ اب آفس چلتے ہیں۔‘‘
’’میں نہیں جاؤں گا۔‘‘ اس نے ہٹ دھرمی سے کہا۔
کشمکش میں گھِرے وجاہت علی نے ایک پل کو اس کا چہرہ دیکھا۔ پھر ہتھیار ڈالنے کے انداز
میں بولے۔
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
پھر نرمی سے بولے۔’’میری بات پہ ضرور غور کرنا رجب!۔۔۔ میں جان بوجھ کر کبھی تمہیں
’’اچھا ٹھیک ہے۔‘‘
پھر نرمی سے بولے۔’’میری بات پہ ضرور غور کرنا رجب!۔۔۔ میں جان بوجھ کر کبھی تمہیں
جس باپ نے کبھی تمہیں کسی کھلونے سے منع نہیں کیا ،وہ تمہاری اتنی کوئی تکلیف نہیں دے سکتا۔۔ ِ
بڑی خوشی سے انکار کیسے کر سکتا ہے؟۔۔۔۔ پھر بھی میں منع کر رہا ہوں تو تمہارے ہی بھلے کے لئے۔
ابھی میں چلتا ہوں۔۔۔۔ شام کو باپ بیٹا ِمل کر بیٹھیں گے۔ میں تمہیں اور بہت سی لڑکیوں
کے بارے میں بتاوٴں گا۔ تمہیں ان میں سے کوئی نہ کوئی ضرور پسند آ جائے گی۔ چلتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی اس کا گال تھپتھپا کر جانے کو ُمڑے۔ وہ انھیں جاتا دیکھتا رہا۔ اس کے چہرے
سے ہی صاف ظاہر تھا کہ وہ وجاہت علی کی کسی بھی بات سے متفق نہیں ہے۔
ُ
سیڑھیوں پہ وجاہت علی کی اپنی بیگم سے مڈ بھیڑ ہو گئی۔ وہ سیڑھیاں اتر رہے تھے جبکہ
سکینہ بیگم سیڑھیاں چڑھ رہی تھیں۔
’’آپ اکیلے واپس جا رہے ہیں؟‘‘
سکینہ بیگم نے تعجب سے پوچھا۔ وہ سیڑھیاں چڑھتے چڑھتے ُرک گئی تھیں۔
’’ہاں۔۔۔ رجب کی ڈاکٹر سمیع کے ساتھ اپائنمنٹ کب ہے؟‘‘
وجاہت علی بھی ُرک گئے۔ پہلے سکینہ بیگم کے سوال کا مختصر جواب دیا اور ساتھ ہی اپنا
سوال داغ دیا۔
’’میرے خیال سے نیکسٹ ویک ہے۔۔۔ کیوں؟‘‘
سکینہ بیگم نے سوچتے ہوئے جواب دیا اور ساتھ ہی سوال کرتے ہوئے ا ُن کے چہرے سے
تشویش ظاہر ہونے لگی۔
’’ا ُنھیں فون کر کے کسی طرح کل کی اپائنمنٹ لے لو۔ ابھی میں جلدی میں ہوں۔ شام کو گھر
آ کر بات ہوتی ہے۔‘‘
وجاہت علی اپنی کہہ کر آگے بڑھنے لگے لیکن سکینہ بیگم نے ایک سیڑھی سے زیادہ نہ اترنے
دیا۔
’’رجب ٹھیک تو ہے؟‘‘
وجاہت علی نے ُرک کر انھیں دیکھا۔ سکینہ بیگم بہت گھبرا گئی تھیں۔ وہ چہرے پہ نرمی لے
آئے۔
’’فکر مت کرو۔ ابھی تو وہ ٹھیک ہے۔۔ مگر آگے کا کچھ کہہ نہیں سکتا۔ ابھی میں جلدی میں
ہوں۔ بعد میں ایکسپلین کر دوں گا۔ تم ڈاکٹر سمیع سے اپائنمنٹ لے لو۔‘‘
وجاہت علی کہہ کر تیزی سے سیڑھیاں اترنے لگے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
شام کا وقت تھا۔ وجاہت علی ہاتھ میں لیپ ٹاپ بیگ لئے کام سے لوٹے۔ سکینہ بیگم پریشانی
کے عالم میں ہال میں بیٹھی ان ہی کا انتظار کر رہی تھیں۔ انھیں دیکھتے ہی ا ُٹھ کر آگے بڑھ آئیں۔
’’کیسا ہے وہ؟‘‘
ُ
وجاہت علی نے پوچھا۔ یہ تو آج کل ان کا معمول کا سوال بن گیا تھا۔
’’ویسا ہی۔۔۔ کسی سے کوئی بات کرتا ہے نہ کچھ کھانے پینے کو تیار ہوتا ہے۔ ڈاکٹر سمیع
بھی آئے تھے۔ مگر وہ ان سے بھی نہیں ِمال۔ اپنے کمرے کا دروازہ تک نہیں کھوال۔ وہ مجبورا ً اسی طرح
لوٹ گئے۔ مجھے بہت فکر ہو رہی ہے اس کی۔ آج چوتھا دن ہے اسے خود کو کمرے میں بند کئے ہوئے۔ ایسا
کب تک چلے گا وجاہت!؟‘‘
سکینہ بیگم بےحد پریشان و فکر مند تھیں۔
وجاہت علی فرش کو گھورتے ہوئے جیسے کوئی تدبیر سوچنے لگے۔ کچھ دیر یونہی سوچنے کے
بعد انھوں نے فیصلہ ُکن انداز میں نظریں ا ُٹھائیں۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ تم اس کے لئے کھانا تیار کرواؤ۔ میں جا کر اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘
بعد انھوں نے فیصلہ ُکن انداز میں نظریں ا ُٹھائیں۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ تم اس کے لئے کھانا تیار کرواؤ۔ میں جا کر اس سے بات کرتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے کہا تو سکینہ بیگم سر ہال کر کچن کی طرف بڑھ گیئیں۔ جبکہ وجاہت علی
سیڑھیاں چڑھ کر اوپر اس کے کمرے میں چلے آئے۔
رجب بیڈ پہ اوندھے منہ لیٹا تھا۔ وجاہت علی کو کمرے میں پا کر اس نے آنکھیں بند کر لیں۔
’’رجب!۔ چلو ا ُٹھو۔ ضد چھوڑو اور کھانا کھا لو۔‘‘
انھوں نے پیار اور نرمی سے کہا۔ مگر رجب کے وجود میں کوئی جنبش نہ ہوئی۔ وہ اس کے
قریب چلے آئے اور جھک کر اس کے سر پہ ہاتھ رکھا۔
’’رجب!۔‘‘
اس نے اسی طرح لیٹے لیٹے ہی جارحیت کے ساتھ ان کا ہاتھ جھٹک دیا۔
’’ہاتھ مت لگائیں مجھے۔‘‘
’’بیٹا!۔۔۔ کیوں خود کو سزا دے رہے ہو؟۔۔۔ تم جانتے ہو کہ تمہیں اس حال میں دیکھ کر ہمیں
کتنی تکلیف پہنچتی ہے؟‘‘
انھوں نے اس کی بدتمیزی نظرانداز کر کے منت سے کہا۔
’’نہیں ،آپ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی۔ میں نے آپ سے صرف شوال کا رشتہ مانگنے کا کہا
تھا۔ لیکن آپ میری اتنی سی بھی بات ماننے کو تیار نہیں۔۔۔۔ آپ کو میری خوشی ،میری زندگی کی کوئی
پرواہ نہیں ہے۔۔۔ اسرار احمد ضدی ہے۔ یہ کہہ کہہ کر دراصل ضد آپ کر رہے ہیں۔‘‘
رجب نے اسی اکھڑپن اور بدلحاظی سے کہا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں ضد نہیں کر رہا۔۔۔ جیسا تم چاہتے ہو ،ویسا ہی ہوگا۔‘‘
وجاہت علی نے ہار مان لی۔
رجب نے ایک جھٹکے سے پہلو بدل کر اپنے باپ کو دیکھا۔
’’سچ میں اّبو!‘‘
انداز میں بےیقینی تھی۔ وہ انھیں ایسے دیکھ رہا تھا جیسے وہ ان کا یقین کرنا چاہتا ہو مگر
وجاہت علی پہ بھروسہ کر نہ پا رہا ہو۔
’’ہاں۔۔۔ بالکل سچ۔۔ میں شوال کا ہاتھ مانگنے جاؤں گا۔‘‘
وجاہت علی نے کہا۔
’’کب؟‘‘ اس کی تسلی نہیں ہو رہی تھی کہ واقعی وجاہت علی راضی ہو گئے ہیں۔
’’آج نہیں۔۔۔۔ ابھی رات ہونے والی ہے۔ اور اسرار بھی پتا نہیں کہاں ہو گا۔ کل ویک اینڈ ہے۔
کل وہ ضرور گھر پہ ہو گا۔ تو کل میں اس کے گھر جا کر اس سے بات کروں گا۔
اب خوش؟‘‘
انھوں نے اسے یقین دالیا اور پوچھا تو اس نے مسکرا کر سر ہال دیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ ہال میں بیٹھی تھی۔ اس کا پانچ سال کا بھتیجا اس کے برابر بیٹھا آئی۔َپیڈ پہ گیم کھیل
رہاتھا۔
’’چلو ،اب مجھے دو۔‘‘ اس نے آئی۔َپیڈ مانگا۔
’’نہیں۔ میری باری ابھی ختم نہیں ہوئی۔‘‘
چڑ گئی۔
اس کے بھتیجے نے ضدی پن سے کہا۔ وہ ِ
’’دیکھو قمر!۔۔۔ تم پچھلے پندرہ منٹ سے کھیل رہے ہو۔ اب مجھے باری دو۔‘‘ وہ بےصبری ہو
رہی تھی۔
’’نہیں ،میری باری ختم ہوگی تو پھر دوں گا۔‘‘
قمر بھی کہاں ایسے ماننے واال تھا۔
’’نہیں ،میری باری ختم ہوگی تو پھر دوں گا۔‘‘
قمر بھی کہاں ایسے ماننے واال تھا۔
’’اچھا۔‘‘ وہ ُبری طرح ِ
چڑ گئی۔
’’یہ لو۔‘‘
اس نے آئی۔پیڈ پہ َرف انداز میں انگلیاں گھما دیں۔ نتیجتا ً قمر نے اپنا چانس ِمس کر دیا۔
’’مّمی!۔۔۔‘‘
چالیا پھر غصے سے بپھرا ہوا اس پہ جھپٹا۔ چڑ کر ِقمر پہلے ِ
’’پھپھو کی بچی۔۔۔۔‘‘
وہ تیزی سے ا ُٹھ کر باہر کی طرف بھاگ کھڑی ہوئی۔ قمر کے اس طرح سے چڑنے اور بپھرنے
پہ اس کی ہنسی نہیں تھم رہی تھی۔ وہ بھاگتی ہوئی باہر آئی۔ روش پہ دوڑتے ہوئے وہ اپنے پیچھے دیکھ
رہی تھی کہ آیا قمر اس کے پیچھے باہر آیا یا نہیں۔ بھاگتے ہوئے وہ مسلسل ہنس رہی تھی۔ قمر جانے
کس سبب اندر ہی ُرک گیا تھا۔ وہ پیچھے دیکھتے ہوئے بھاگ رہی تھی کہ سامنے سے آتے کسی آدمی
سے ٹکرا گئی۔ قریب تھا کہ ِگر جاتی مگر ا ُن صاحب نے اسے پکڑ کر گرنے سے بچا لیا۔ اس نے سیدھا
کھڑا ہوتے ہوئے چہرہ ا ُٹھا کر دیکھا تو ایک یکسر اجنبی آدمی کو سامنےکھڑا پا کر بری طرح سے گھبرا
گئی۔
’’سنبھل کر بیٹے!۔‘‘
ا ُن صاحب نے شفقت بھری مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔
’’آئم سوری۔۔۔۔ وہ۔۔ دراصل۔۔۔‘‘
وہ اس اجنبی کے سامنے ُبری طرح گڑ بڑا گئی۔ شرمندگی کے باعث وہ کوئی وضاحت نہ دے
سکی تو گڑبڑا کر چہرہ موڑ کر پیچھے ہال کے دروازے کی جانب دیکھا۔ جیسے وہ انھیں کسی طرح سے
سمجھانا چاہتی ہو۔
’’کوئی بات نہیں بچے!۔‘‘
صاحب کی آواز پر اس نےواپس چہرہ گھما کر انھیں دیکھا۔ وہ اس کا گھبرایا ہوا چہرہ
دیکھ کر پھر سے مسکرا دیئے۔
’’تم شوال ہو ناں!؟‘‘
’’جی۔‘‘
وہ بمشکل مسکرائی۔ گھبرائے ہوئے ِدل کو تھوڑی ڈھارس ہوئی کہ وہ آدمی اتنا اجنبی بھی
نہ تھا۔
’’آپ؟۔۔۔‘‘
اس نے انھیں بغور دیکھا کہ شاید انھیں پہچان لے۔
’’میں تمہارے اّبو کا دوست ہوں۔ ا ُن سے ملنے آیا ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے اپنا تعارف اسی طرح کروانا ہی بہتر سمجھا۔
’’اچھا۔۔۔‘‘ وہ مسکرا دی۔ اس کے لئے بھی اتنا تعارف کافی تھا۔
وہ بولی۔
’’پر سوری ،پاپا گھر پہ نہیں ہیں۔۔۔ پاپا اور دونوں بھائی کسی کی فوتگی پہ گئے ہیں۔‘‘
اب وہ خود کو کافی سنبھال چکی تھی تو اعتماد کے ساتھ جواب دیا۔
’’اوہ!۔۔۔‘‘ وجاہت علی پریشان سے ہوگئے۔
’’کب گئے ہیں؟ کب تک واپس آ جائیں گے؟‘‘
انھوں نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔
’’کافی دیر ہوگئی ہے۔ تھوڑی دیر تک انھیں واپس آجانا چاہیئے۔‘‘ اس نے بتایا۔
اس نے دیکھا کہ وجاہت علی خاصے کنفیوز ہو رہے تھے۔
’’اگر آپ چاہیں تو اندر بیٹھ کر ان کا انتظار کر لیں۔ وہ اب کسی بھی وقت یہاں پہنچتے ہوں
اس نے دیکھا کہ وجاہت علی خاصے کنفیوز ہو رہے تھے۔
’’اگر آپ چاہیں تو اندر بیٹھ کر ان کا انتظار کر لیں۔ وہ اب کسی بھی وقت یہاں پہنچتے ہوں
گے۔‘‘
اس نے ان کی پریشانی دور کرنے کے خیال سے کہا اور وہ واقعی اس میں کامیاب رہی۔ یہ
سن کر وجاہت علی کی پریشانی جاتی رہی۔ سر ہال کر بولے۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ میں انتظار کر لیتا ہوں۔‘‘
’’آیئے۔‘‘
اس نے ایک طرف ہو کر انھیں آگے بڑھنے کا اشارہ کیا۔ اس نے انھیں ڈرائنگ روم میں ال
ِبٹھایا اور خود بھی دوسرے صوفے پہ بیٹھ گئی۔
’’آپ کچھ لیں گے انکل!۔۔۔ چائے؟ ٹھنڈا؟‘‘
اس نے آدا ِ
ب میزبانی نبھائے۔
’’نہیں ،بہت شکریہ بیٹے!۔‘‘ انھوں نے فورا ً منع کیا۔ پھر سوچ کر بولے۔ ’’ویسے۔۔۔۔ آپ کیا
کرتی ہو؟‘‘
’’میں نے حال ہی میں بی۔ایس۔سی کے السٹ سمسٹر کے پیپرز دیئے ہیں۔ ابھی رزلٹ کا
انتظار کر رہی ہوں۔‘‘
’’ویری گڈ!۔‘‘ وجاہت علی نے متاثر ہونے کے انداز میں اسے سراہا۔ پھر پوچھنے لگے۔
’’آگے کیا ارادہ ہے؟ کیا ماسٹرز کرنا ہے یا پھر بس اتنا ہی پڑھنا ہے؟‘‘
’’پتا نہیں ،ابھی سوچا نہیں۔۔۔ رزلٹ آجائے تو پھر ِڈیسائیڈ کروں گی کہ آگے کیا کرنا ہے۔‘‘
اس نے سادگی اور صاف گوئی سے جواب دیا۔
تب ہی باہر سے گاڑی کا ہرن بجنے کی آواز آئی۔ دونوں ہی چوکنا ہو گئے۔
’’پاپا آ گئے ہیں۔ میں ابھی جا کر انھیں آپکی آمد کی خبر دیتی ہوں۔‘‘
اس نے ُپرجوش ہو کر کہا اور ا ُٹھ کر تقریبا ً بھاگتی ہوئی ڈرائنگ روم سے باہر نکل گئی۔
بڑے بھائی کامران گاڑی روک کر اس میں سے باہر نکل رہے تھے۔ وہ سیدھی اسرار احمد کی
طرف لپکی جو فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھول کر باہر نکل رہے تھے۔
’’پاپا! آپ سے کوئی ملنے آیا ہے۔ میں نے انھیں ڈرائنگ روم میں ِبٹھایا ہے۔‘‘
’’کون ہے؟‘‘
سن کر پچھلے دروازے سے نکلتے عمران بھائی نے پوچھا۔ اس کی بات ُ
’’معلوم نہیں۔۔ میں نے نام نہیں پوچھا۔ انھوں نے کہا کہ وہ پاپا کے دوست ہیں اور ا ُن سے
ملنا چاہتے ہیں۔‘‘
اس نے العلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔
’’تم لوگ اندر چلو۔ میں دیکھتا ہوں۔‘‘
اسرار احمد نے کامران اور عمران کو بیک وقت مخاطب کیا اور خود ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ
گئے۔
وہ اپنے دونوں بھائیوں کے ساتھ اندر کی جانب چل دی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد نے ڈرائنگ روم کے اندر قدم رکھا۔ سامنے وجاہت علی کو دیکھ کر پہلے وہ حیران
ہوئے پھر جیسے ان کا دماغ گھوم گیا۔ وجاہت علی بھی ان کو دیکھ کر ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’تم!۔۔۔ یہاں کیا کر رہے ہو؟۔۔۔۔ تمہاری جرٴات کیسے ہوئے میرے گھر میں قدم رکھنے کی؟‘‘
اسرار احمد جارحانہ انداز میں ان کی طرف بڑھے۔
وجاہت علی اس صورتحال کا سامنا کرنے کا ذیہن بنا کر آئے تھے۔ پھر بھی اسرار احمد کے
اس طرح سے بھڑکنے پہ وہ فوری طور پہ گھبرا گئے۔
وجاہت علی اس صورتحال کا سامنا کرنے کا ذیہن بنا کر آئے تھے۔ پھر بھی اسرار احمد کے
اس طرح سے بھڑکنے پہ وہ فوری طور پہ گھبرا گئے۔
’’اسرار!۔۔۔ کالم ڈاؤن۔۔۔ مجھے تم سے ایک بہت اہم کام ہے۔‘‘
وجاہت علی نے ہاتھ ا ُٹھا کر ان کا غصہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔
’’کونسا اہم کام؟۔۔۔ دفعان ہو جاؤ یہاں سے۔ مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔‘‘
’’اسرار! پلیز۔۔۔ ہمارے درمیان جو بھی اختالفات رہے ہیں۔ پلیز ان سب کو بھول جاؤ۔۔۔۔ آج
میں تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے آیا ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے کہا۔
یہ بات اسرار احمد کے حلق سے نہ ا ُتر سکی۔
’’ایکسکیوزمی!۔‘‘
’’آئم سیریس اسرار!۔۔۔۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم ایک جگہ بیٹھ کر آپس کی غلط فہمیاں دور کر
لیں۔‘‘ وجاہت علی نے سنجیدگی سے کہا۔
’’مجھے تمہیں لے کر کوئی غلط فہمیاں نہیں ہیں وجاہت! ۔۔۔ تمہارے اندر کی کمینگی بہت
اچھے سے جانتا ہوں میں۔‘‘
اسرار احمد کے لہجے میں زہر ہی زہر تھا۔
وجاہت علی فورا ً کچھ نہ بول سکے۔ ایک پل کا توقف کر کے مصالحانہ انداز میں بولے۔
’’میں جانتا تھا کہ تم میرا یقین نہیں کرو گے۔۔۔ چلو ٹھیک ہے۔ تم مجھے ہی قصوروار سمجھ
لو۔۔۔ لیکن پلیز!۔۔۔ جو ہو چکا ہے اسے بھول کر آج ہم ایک نئے رشتے کی شروعات کرتے ہیں۔ مجھے تم سے
ایک احسان چاہیئے۔۔۔ یقین کرو۔ زندگی بھر تمہارا احسان مند رہوں گا۔‘‘
اسرار احمد وجاہت علی کو کھوجتی نظروں سے دیکھنے لگے۔ ان کی سمجھ میں کچھ نہیں آ
رہا تھا کہ آخر کونسا احسان چاہیئے تھا وجاہت علی کو۔
وجاہت علی اسرار احمد کی الجھن بھانپ گئے۔ ُرک کر خود کو اپنی حاجت بیان کرنے کے لئے
تیار کیا۔ پھر بولے۔
’’اسرار!۔۔۔۔ میں اپنے بیٹے کے لئے تمہاری بیٹی کا ہاتھ مانگنے آیا ہوں۔‘‘
وجاہت علی کے الفاظ اسرار احمد کے لئے کسی ایٹم بمب سے کم نہ تھے۔ وہ تو جیسے سکتے
میں آ گئے تھے۔
’’میں زندگی بھر تمہارا احسان مند رہوں گا۔ میرا یقین کرو۔ تمہاری بیٹی کو اپنی بیٹی کی
طرح رکھوں گا۔ ا ُسے۔۔۔۔‘‘
’’بس۔‘‘ اسرار احمد کی گرجدار آواز پہ وجاہت علی کے باقی الفاظ منہ میں ہی رہ گئے۔
اسرار احمد شعلے برساتی نظروں سے انھیں دیکھتے ہوئے بولے۔
’’دفعان ہو جاؤ۔۔۔۔۔ ابھی ،اسی وقت دفعان ہو جاؤ۔‘‘
’’اسرار! پلیز!۔ میں۔۔۔۔‘‘
وجاہت علی منمنائے۔
’’میں کہہ رہا ہوں دفعان ہو جاؤ میرے گھر سے اور دوبارہ کبھی بھی میری بیٹی کا نام اپنی
زبان پر مت النا۔‘‘
’’اسرار! تم۔۔۔‘‘
’’تم جاتے ہو یا میں نوکروں کو بلواؤں؟‘‘ ایک بار پھر اسرار احمد ان کی بات کاٹ کر دھاڑے۔
اس بار وجاہت علی بس انھیں دیکھ کر رہ گئے۔ اسرار احمد کے ماننے کا کوئی چانس نہیں
ِدکھ رہا تھا۔
’’ِنکل جاؤ میرے گھر سے۔‘‘
اسرار احمد غصے سے پاگل ہو کر چالئے۔
س توہین سے سرخ ہو گیا۔ چاہنے کے باوجود وہ اسرار احمد کی وجاہت علی کا چہرہ احسا ِ
اسرار احمد غصے سے پاگل ہو کر چالئے۔
س توہین سے سرخ ہو گیا۔ چاہنے کے باوجود وہ اسرار احمد کی وجاہت علی کا چہرہ احسا ِ
اس بدتمیزی کا جواب دینے کی حالت میں نہ تھے۔ انھوں نے شکست خوردہ ہو کر سر جھکا لیا۔ غصے اور
شکست خوردگی کے ِملے ُجلے احساسات کے ساتھ وہ سر جھکائے وہاں سے چل دیئے۔
وجاہت علی کے جانے کے بعد اسرار احمد دونوں ہاتھ چہرے پہ رکھ کر وہیں صوفے پہ ڈھے
سے گئے۔ ا ُن کا فشاِر خون اس وقت آسمان چ ُ
ھو رہا تھا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’میں تمہیں بتا نہیں سکتا کہ اس نے میری کتنی توہین کی ہے۔ پہلے تو وہ میری بات ہی سننے
کو تیار نہیں تھا۔ مجھے دیکھتے ہی بپھر گیا اور مجھے گھر سے نکالنے لگا۔ بڑی ِمنت کرنے کے بعد اس
نے مجھے اپنی بات کہنے کا موقع دیا۔ اور جیسے ہی میں نے رجب اور شوال کی شادی کا ذکر کیا۔۔۔۔ پھر
تو پوچھو ہی مت کہ اس نے مجھ سے کتنی بدتمیزی کی۔ میں نے بہت کوشش کی ،بہت ِمن ّت کی۔ مگر وہ
کچھ بھی سننے کو تیار نہ ہوا۔ اس نے میری اتنی انسلٹ کی ہے کہ میں بتا نہیں سکتا۔ مجھے اپنے گھر
سے نکلوانے کے لئے نوکروں کو بلوانے کے درپے ہوگیا۔ سچ میں سکینہ!۔۔۔ یہ تو رجب کی خوشی کی خاطر
میرے ہاتھ پاؤں بندھے تھے اور میں کچھ کہہ نہیں سکتا تھا۔ اگر سوال رجب کی خوشی کا نہ ہوتا تو پھر
میں دیکھتا ا ُسے۔‘‘
وجاہت علی اپنے کمرے میں بیڈ کے کنارے بیٹھے اپنی بیگم کو سارا واقعہ بیان کر رہے تھے۔
ا ُن کے لہجے میں مایوسی کے ساتھ ساتھ بے پناہ غصہ اور بے بسی تھی۔
’’اب رجب سے کیا کہیں گے؟‘‘
سکینہ بیگم نے پریشانی سے سوال کیا۔
سن کر وہ بہت پریشان ہو گئی تھیں۔ وہ بھی وجاہت علی کے برابر بیڈ کے کنارے یہ سب ُ
بیٹھی تھیں۔ دونوں کی دروازے کی طرف پیٹھ تھی اور دونوں ہی نہیں جانتے تھے کہ رجب دروازے پہ
سن رہا ہے۔کھڑا ،سینے پہ بازو لپیٹے سب ُ
’’وہ تو سمجھے گا کہ آپ غلط بیانی سے کام لے رہے ہیں۔ اور اگر یقین کر بھی لے گا ،تو
بھی پتا نہیں اس کا رِدعمل کیا ہو گا۔‘‘
سکینہ بیگم کو رجب کی طرف سے بہت سی فکریں الحق ہو رہی تھیں۔
وجاہت علی بھی پریشان اور گہری سوچ میں گُم تھے۔
’’تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ میرے خیال سے۔۔۔ ابھی رجب کو کچھ مت بتاؤ۔ میں پھر کوشش کرتا
ہوں۔ کچھ اور لوگوں سے بھی کہوں گا کہ اسرار کو سمجھائیں اور اس رشتے کے لئے راضی کریں۔‘‘
وجاہت علی کو فی الحال یہی مناسب لگ رہا تھا۔
’’نہیں اّبو!۔۔۔‘‘ رجب بول پڑا۔
دونوں میاں بیوی چونک ا ُٹھے۔ ُمڑ کر دروازے کی سمت دیکھا تو رجب کو کھڑا دیکھ کر دونوں
کے اوسان خطا ہو گئے۔
’’اب آپ اور کچھ بھی نہیں کریں گے۔۔۔۔ میں آئندہ کبھی شوال سے شادی کرنے کی ضد
نہیں کروں گا۔‘‘
اس کے لہجے میں ناکامی کا رنج اور محرومی تھی۔ مگر ساتھ ہی ا ُس کے لہجے میں اپنے
باپ کے لئے ٹھوس ہدایت تھی۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا پیارا باپ ا ُس کی ضد کے سبب اپنے مقابل کے
ہاتھوں ذلیل و بےعزت ہو۔
اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے چلتا بنا۔ صدمہ اور شرمندگی اتنی تھی کہ اس کے لئے مزید
وہاں کھڑا رہنا محال تھا۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بےیقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں ہی الجھن
میں گرفتار تھے کہ ا ُنھیں رجب کی بات پہ مطمعین ہونا چاہیئے یا پھر پریشانی ابھی باقی ہے۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بےیقینی سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔ دونوں ہی الجھن
میں گرفتار تھے کہ ا ُنھیں رجب کی بات پہ مطمعین ہونا چاہیئے یا پھر پریشانی ابھی باقی ہے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد اپنے بڑے بیٹے کامران کے ساتھ سنوکر کھیل رہے تھے۔ کامران ایک طرف کھڑا
اپنی باری کا انتظار کر رہا تھا جب ا ُسے خیال آیا۔
’’پاپا!۔۔۔۔ کل دوپہر کو کون آیا تھا آپ سے ملنے؟۔‘‘
ایک الل بال پہ نشانہ سادھتے ہوئے اسرار احمد کا ہاتھ ایک پل کو ُرک گیا۔ اس ذکر نے ان
کا حلق تک کڑوا کر دیا تھا۔ انھوں نے خود کو سنبھالنے میں کچھ وقت لیا۔
’’وجاہت علی آیا تھا۔‘‘
انھوں نے شاٹ لگائی۔
’’وجاہت علی؟۔۔۔۔۔۔ رجب بلڈرز کا مالک؟‘‘
کامران جتنا بھی حیران ہوتا کم تھا۔ ’’وہ ہمارے گھر کیسے؟‘‘
کامران نے انتہائی تعجب کے ساتھ استفسار کیا۔
’’اپنے بیٹے کے لئے شوال کا رشتہ مانگ رہا تھا۔‘‘
اسرار احمد نے سرد لہجے میں جواب دیا۔
’’کیا؟۔۔۔‘‘
کامران تو اب ورطہء حیرت کی تہہ تک پہنچ گیا۔
’’یعنی رجب کے لئے شوال کا رشتہ؟۔‘‘ کامران نے حیرت سے کہا۔ پھر اس کی حیرت خوشی
میں بدل گئی۔ ’’دیٹس امیزنگ۔۔۔ آئی گیس ،اٹس اے بیسٹ پروپوزل۔۔۔ رجب سے سامنا ہوا ہے میرا دو چار
بار۔۔۔ ہی ِاز اے ویری ہینڈسم اینڈ ڈیسینٹ گائے۔۔۔۔ اور ماشا اهلل بہت ذہین بھی ہے۔‘‘
’’کامران!۔‘‘
کامران جانے خوشی میں کیا کیا بول جاتا۔ اسرار احمد نے سختی سے اس کی بات کاٹی۔
’’میں نے ہمیشہ تم لوگوں سے کہا ہے کہ ان لوگوں سے دور رہو۔۔۔ ہمارا ہمیشہ ا ُن لوگوں کے
ساتھ مقابلہ رہا ہے۔ ا ُن لوگوں کے ساتھ ہم کبھی کوئی رشتہ نہیں جوڑ سکتے۔‘‘
اسرار احمد نے چٹانوں کی طرح ٹھوس اور سرد لہجے میں کہا۔
’’یہ تو کوئی قابِل اعتراض بات نہیں پاپا! پروفیشنل الئف میں تو دو سگے بھائیوں کے درمیان
بھی مقابلہ رہتا ہے۔ یہ کوئی بڑی بات نہیں ہے۔۔۔ اور یہ بھی تو دیکھیں کہ وہ لوگ خود چل کر ہمارے گھر
آئے ہیں۔‘‘
کامران جیسے جی جان سے اس رشتے کے لئے راضی تھا۔
’’تم نہیں جانتے کامران!۔ بہت ذلیل لوگ ہیں وہ۔۔۔ بہت ہی گھٹیا۔۔۔ دوست بن کر پیٹھ میں
چھُرا گھونپنے والے۔‘‘
اسرار احمد ایک اور بال پہ نشانہ سادھ رہے تھے۔
کامران نے وضاحت طلب نظروں سے انھیں دیکھا۔ اسرار احمد اس کی طرف دیکھے بنا ہی
وضاحت دینے لگے۔
’’یہ جو پچھلے کچھ سالوں میں میَں نے اسے بزنس میں پے در پے مات دی ہے ناں!۔۔۔ اسی
کا بدلہ لینے کے لئے اس نے یہ راہ نکالی ہے۔ میری بیٹی کے ذریعے مجھے کمزور کرنا چاہتا ہے۔۔۔۔ خوب
اچھی طرح سمجھتا ہوں ا ُس کے اوچھے ہتھکنڈوں کو۔‘‘
اسرار احمد کی وضاحت کامران کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی تھی۔ ا ُسے اسرار احمد کا
لفظ لفظ صحیح لگا۔
’’واقعی۔۔۔۔ ایسا ہی ہو گا۔ ورنہ ا ُسے کیا ہماری ہی بہن ملی تھی اپنا بیٹا بیاہنے کے
لئے؟۔۔۔‘‘
’’واقعی۔۔۔۔ ایسا ہی ہو گا۔ ورنہ ا ُسے کیا ہماری ہی بہن ملی تھی اپنا بیٹا بیاہنے کے
لئے؟۔۔۔‘‘
کامران نے ُپرسوچ انداز میں تبصرہ کیا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔ اور ویسے بھی۔۔ میں شوال کے لئے فیصلہ کر چکا ہوں۔ ‘‘
اسرار احمد بال کو ضرب لگانے کے بعد اسے چھید کی طرف جاتا دیکھ رہے تھے۔
’’کیسا فیصلہ؟‘‘ کامران نے سوال کیا۔
’’زبیدہ آپا۔۔۔ پچھلے ایک سال سے ناصر کے لئے شوال کا ہاتھ مانگ رہی ہیں۔ اب تک میں
انھیں شوال کی کم عمری کا کہہ کر ٹالتا آیا ہوں۔ لیکن اب سوچ رہا ہوں کہ شوال سے پوچھ کر انھیں
رضامندی دے دوں۔‘‘
بال پاکٹ میں نہیں گئی تھی۔ اسرار احمد نے کامران کی سمت دیکھا۔
کامران ایک قدم آگے بڑھ کر ان کے قریب آیا۔
’’شوال مان جائے گی؟‘‘
اسرار احمد نے اسے ایسے دیکھا جیسے وہ کامران سے اس کے سوال کا مطلب جاننا چاہتے
ہوں۔
’’میرا مطلب ہے کہ۔۔۔‘‘ کامران سوچنے کےلئے اٹکا۔ ’’کہیں ایسا تو نہیں کہ شوال اور رجب
کے درمیان کچھ چل رہا ہو؟‘‘
اسرار احمد اس سوال پہ سکتے میں آگئے۔ پھر بولے تو لہجے میں خوف تھا۔
’’تم ایسا کیوں کہہ رہے ہو؟۔۔۔ کیا تم کچھ جانتے ہو؟‘‘
’’نہیں ،ایسی بات نہیں۔‘‘ کامران نے سختی سے اس کی نفی کی۔ پھر کہنے لگا۔’’میرا مطلب
ہے کہ ۔۔۔۔ اگر وجاہت علی ہمیں زیر کرنے کے لئے شوال کا ہاتھ مانگ سکتا ہے۔ تو اس کا بیٹا بھی ہم سے
چوری چھپے شوال کو بہکا سکتا ہے۔۔۔۔ اب اگر وجاہت علی رشتہ مانگنے چال آیا ہے تو ایسے ہی تو نہیں
آیا ہو گا ناں!۔۔۔۔ ہو سکتا ہے رجب پہلے ہی شوال کو راضی کر چکا ہو۔ اور یہ بھی تو دیکھیں کہ وجاہت
علی کو شوال ہی نے آپ سے ملوایا ہے۔‘‘
جس نے انھیںکامران کی باتوں میں َدم تھا۔ اسرار احمد سوچ میں پڑ گئے۔ ایک خوف تھا ِ
چاروں طرف سے گھیر لیا تھا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد انھوں نے سر ا ُٹھایا۔
’’مجھے شوال پہ بھروسہ ہے کامران!۔۔۔ وہ مجھے کبھی دھوکا نہیں دے سکتی۔۔۔ لیکن ان
لوگوں سے بھی کچھ بعید نہیں۔ میں کوئی مناسب موقع دیکھ کر شوال سے بات کروں گا۔‘‘
کامران نے ا ُن کی بات کے جواب میں اثبات میں سر ہال دیا۔ اسرار احمد نے سر کی جنبش
سے ا ُسے اپنی باری کرنے کا اشارہ کیا اور خود ٹیبل سے ذرا دور ہٹ کر کھڑے ہو گئے۔ کامران اپنی باری
کرنے کے لئے آگے بڑھ آیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ اپنے آفس میں کرسی کی پشت قدرے پیچھے ُجھکا کر بیٹھا گہری سوچ میں گُم تھا۔
چہرہ غصے سے الل اور ہاتھ میں گھومتا موبائل اندر کی بےقراری عیّاں کر رہا تھا۔ وہ بہت دیر سے اس
انداز میں بیٹھا سوچ بچار میں ڈوبا تھا۔ آخرکار اس نے فون اپنے سامنے کیا اور کانٹیکٹس لسٹ میں سے
ایک نمبر ڈھونڈ کر مالیا۔ دو تین گھنٹیاں بجنے کے بعد دوسری طرف سے نسوانی آواز ابھری۔
’’ہیلو!۔‘‘
’’کیسی ہو ُبشی!؟‘‘ اس نے حتیٰ املقدور اپنا لہجہ خوش گوار رکھنے کی کوشش کی۔
’’میں اهلل کا شکر ہے بالکل ٹھیک ہوں۔ تم بتاٴو؟۔۔۔ چاچاجی اور چاچی کیسی ہیں؟‘‘
’’سب ہی ٹھیک ہیں۔‘‘ اس نے مختصرا ً جواب دیا اور ساتھ ہی مدعے پہ آیا۔
’’یار بُشی!۔۔۔۔ مجھے تمہاری ایک فیور چاہیئے تھی۔‘‘
’’کیسی فیور؟‘‘ بشر ٰ
ی نے پوچھا۔
’’یار ُبشی!۔۔۔۔ مجھے تمہاری ایک فیور چاہیئے تھی۔‘‘
ی نے پوچھا۔ ’’کیسی فیور؟‘‘ بشر ٰ
’’وہ۔۔۔‘‘ وہ اٹکا۔ پھر بوال۔’’تمہاری نند ہے ناں عمیرہ۔‘‘
’’ہاں۔۔۔۔‘‘
ی نے ُپرسوچ انداز میں تائید کی۔ جیسے وہ قیاس کرنا چاہتی ہو کہ رجب اس کا ذکربشر ٰ
کیوں کر رہا ہے۔
’’اس کی ایک دوست ہے۔ شوال۔۔۔ سمیرا کی منگنی پہ بھی آئی تھی۔ تم جانتی ہو گی۔‘‘
’’ہاں ہاں ،بالکل۔۔۔۔ شوال اور عمیرہ کالج میں ساتھ پڑھتی تھیں۔ بہت اچھی دوستی ہے ان
کی۔‘‘
بشریٰ نے تفصیل کے ساتھ تصدیق کی۔
’’مجھے شوال کا نمبر ال دو پلیز۔‘‘
اس نے فورا ً اپنی فرمائش داغی۔
ی اچھل پڑی۔ ’’کیا؟‘‘ بشر ٰ
ی کو
ی حیران ہو گی۔ اس لیے اس نے بشر ٰوہ کچھ بھی نہ بوال۔ وہ توقع کر رہا تھا کہ بشر ٰ
حیران ہونے کا ٹائم دیا۔
’’خیریت تو ہے رجب!؟۔۔۔۔ کیا چکر ہے؟‘‘ بشر ٰ
ی نے ذومعنی انداز میں پوچھا۔
’’جو تم سمجھ رہی ہو وہی چکر ہے۔‘‘
سوال اس کی توقع کے مطابق تھا لہذا جواب بھی اس نے پہلے سے سوچ رکھا تھا۔ پھر منت
بھرے لہجے میں بوال۔
’’پلیز!۔۔۔ عمیرہ سے شوال کا نمبر لے دو ناں!‘‘
ی سوچ میں پڑ گئی۔ پھر بولی۔ ’’یہ مشکل ہے۔۔۔۔ آئی مین ،سمیرا ’’عمیرہ سے۔۔۔ ‘‘ بشر ٰ
تمہیں پسند کرتی تھی۔ یہ بات عمیرہ بھی جانتی ہے کہ تم نے سمیرا کا پروپوزل ٹھکرایا تھا۔ اب تمہارے
لئے عمیرہ سے اس کی دوست کا نمبر نہیں مانگ سکتی۔‘‘
ِ
ی!۔۔۔ مائی سویٹ کزن۔۔۔ کچھ کرو ناں!۔۔۔ آئی رئیلی نیڈ دیٹ۔‘‘’’پلیز بشر ٰ
وہ لجاجت سے بوال۔
’’میں نے تمہیں بتایا ناں!۔۔۔۔ عمیرہ سے نہیں مانگ سکتی۔ چرانا پڑے گا اس کے فون
سے۔۔۔۔ اس کے لئے مجھے تھوڑا وقت دو۔‘‘
بشریٰ نے خود ہی حل بھی بتا دیا۔
’’او۔کے۔۔۔ لیکن پلیز۔۔۔ کوشش کرنا کہ کام جلدی ہو جائے۔‘‘
’’ڈونٹ وری۔۔۔ میں پوری کوشش کروں گی۔‘‘
بشریٰ نے تسلی آمیز انداز میں کہا۔
اس کے جلتے ِدل کو تھوڑا قرار ِمال۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد اسٹڈی روم میں رائٹنگ ٹیبل پہ بیٹھے کسی گہری ِفکر میں مبتال تھے۔ تب ہی
دروازے پہ دستک دے کر شوال نے سر اندر کیا۔
’’مے آئی کم ِان پاپا!؟‘‘
’’ہاں شوال!۔۔۔ آؤ۔‘‘
اسرار احمد سیدھے ہو بیٹھے۔
شوال کچھ جھجکتی ہوئی ا ُن کی ٹیبل کے قریب چلی آئی۔
’’پاپا!۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔ اجازت چاہیئے تھی۔‘‘
اس نے ہچکچاتے ہوئے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔
’’پاپا!۔۔۔ مجھے۔۔۔۔۔ اجازت چاہیئے تھی۔‘‘
اس نے ہچکچاتے ہوئے اپنی آمد کا مقصد بیان کیا۔
’’کیسی اجازت؟‘‘ اسرار احمد نے پوچھا۔
’’آج شام میری کچھ سہیلیاں Nando’sمیں گیٹ ٹو گیدر کرنا چاہتی ہیں۔ میں بھی چلی
ج ا ؤ ں ؟‘ ‘
ریسٹورینٹ کا سنتے ہی اسرار احمد کے کان کھڑے ہو گئے۔
’’کون سہیلیاں؟‘‘
’’تقریبا ً ساری ہی۔۔۔۔ کالج بند ہوئے بہت ِدن گزر گئے ہیں ناں!۔۔۔ اور اب آگے بھی پتا نہیں
کون کدھر جائے گی۔۔۔ اس لئے ہم سب ایک بار اکٹھی ہونا چاہتی ہیں۔‘‘
وہ وضاحت تو کر رہی تھی لیکن اندر سےڈر بھی رہی تھی کہ اسرار احمد اجازت نہیں دیں
گے۔
’’ٹھیک ہے۔ چلی جانا۔‘‘
اسرار احمد کے الفاظ نہیں جادو تھے جنہیں سنتے ہی اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی
مانند چمک ا ُٹھا۔
’’تھینک یُو پاپا!۔ میں ابھی جا کر انھیں فون کرتی ہوں۔‘‘
وہ جوشیلے پن میں کہتی ہوئی جانے کو مڑی۔
’’شوال!‘‘ اسرار احمد نے سنجیدگی سے اسے پکارا۔
’’جی؟‘‘ اس نے پلٹ کر انھیں دیکھا۔
اسرار احمد نے اس کے سامنے رکھی کرسی کی طرف اشارہ کیا۔
’’بیٹھو!۔۔۔۔ مجھے تم سے کچھ اہم بات کرنی ہے۔‘‘
وہ کنفیوز سی ہوتی تابعداری سے کرسی پہ بیٹھ گئی۔
’’جی؟‘‘
اس نے اسرار احمد کا چہرہ بغور دیکھا تاکہ وہ کچھ جان سکے۔ اسرار احمد کے چہرے پہ
بال کی سنجیدگی تھی۔ وہ کوئی قیاس نہ کر سکی۔
’’شوال!۔۔۔ تم میری بہت ہی الڈلی اور بہت ہی اچھی بیٹی ہو۔ میں جانتا ہوں کہ تم مجھ
سے کبھی جھوٹ نہیں بولتی۔۔ اور ابھی جو میں تم سے پوچھوں گا ،تم اس کا جواب سچ ہی دو گی۔‘‘
اسرار احمد نے تہمید باندھی۔ لہجہ نرم مگر انتہائی سنجیدہ تھا۔
’’آف کورس پاپا!۔۔۔۔ کیا بات ہے؟‘‘
اس نے ٹھوس لہجے میں جواب دیا اور پوچھا۔ وہ اندر ہی اندر گھبرانے لگی کہ جانے اسرار
احمد اس سے کیا سچ جاننا چاہتے تھے۔ ا ُن کے چہرے کی سنجیدگی کسی غیرمعمولی پن کا پتا دے رہی
تھی۔
’’تم رجب کو جانتی ہو؟‘‘
اسرار احمد نے بنا وقت ضائع کیے صاف اور سیدھا سوال کر ڈاال۔
’’کون رجب؟‘‘ اس نے ا ُلٹا ا ُن سے سوال کیا۔
اسرار احمد کا سوال بہت ہی غیر متوقع تھا۔ وہ کچھ بھی نہ سمجھی۔
’’رجب الفرد۔۔۔ وجاہت علی کا بیٹا۔‘‘
انھوں نے جوابا ً رجب کا تعارف بیان کیا۔
’’کون وجاہت علی؟‘‘
اس کے لئے یہ نام بھی اجنبی تھا۔
’’اس ِدن جو۔۔۔‘‘
اسرار احمد کہتے کہتے ُرک گئے۔ شوال جب کچھ جانتی ہی نہیں تھی تو پھر کیا ضرورت
تھی اصل ماجرا بیان کرنے کی۔
اسرار احمد کہتے کہتے ُرک گئے۔ شوال جب کچھ جانتی ہی نہیں تھی تو پھر کیا ضرورت
تھی اصل ماجرا بیان کرنے کی۔
’’اس دن کیا پاپا!؟‘‘
ا ُس نے تجسس سے پوچھا۔
وہ جاننا چاہتی تھی کہ ا ُن کوئی دو اجنبیوں کے حوالے سے اس سے کیوں پوچھ گچھ کی
جا رہی ہے۔ بھال اس کا ان لوگوں سے کیا تعلق ہو سکتا ہے۔
’’کچھ نہیں۔بس ایسے ہی۔۔۔‘‘ اسرار احمد نے فوری طور پر منع کیا۔ پھر کچھ سوچ کر
تنبیہہ کرنے کے انداز میں بولے۔
’’ َپر خیال رکھنا شوال!۔ اگر کوئی رجب نامی لڑکا تمہارے قریب آنے کی کوشش کرے ،یا
تمہاری طرف دوستی کا ہاتھ بڑھائے۔ تو اس کی باتوں میں ہرگز مت آنا۔ اور فورا ً مجھے خبر کرنا۔ پھر
میں خود دیکھ لوں گا ا ُسے۔‘‘
’’کون رجب پاپا!؟ آپ کو کیوں لگتا ہے کہ کوئی رجب نام کا لڑکا ایسا کچھ کریگا؟‘‘
وہ ُبری طرح ا ُلجھ کر رہ گئی۔
’’ہے ایک بیٹا!۔۔۔ ایک گھٹیا باپ کی اوالد۔۔۔ کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں۔ جو اپنا گھٹیاپن
دکھانے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے۔ مجھے نقصان پہنچانے کیلئے میری اوالد کو
استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے تمہیں خبردار کر رہا ہوں کہ کسی کے جھانسے میں نہ آنا۔‘‘
’’اوہ۔‘‘ اس نے سمجھ جانے کے انداز میں ’اوہ‘ کیا۔ پھر اسرار احمد کو تسلی دینے کے
انداز میں بولی۔
’’آپ فکر نہ کریں پاپا!۔ اگر ایسی کوئی بات ہوئی تو میں آپ کو ضرور بتاؤں گی۔‘‘
’’شاباش!۔‘‘ اسرار احمد نے اسے سراہا۔
’’اب میں جاؤں؟‘‘
اس نے اجازت طلب کی۔
’’ہاں۔۔۔ عمران سے کہنا کہ تمہیں چھوڑ آئے۔ شام کو تمہارا اکیلے جانا مناسب نہیں۔‘‘
اسرار احمد نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے کہا اور اپنی جیب سے والٹ نکال لیا۔
’’اور یہ لو۔‘‘
اسرار احمد نے والٹ میں سے کچھ ہزار ہزار کے نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھائے۔ اس نے
خوشی سے پیسے تھام لئے۔
’’تھینک یو پاپا!۔‘‘
وہ شکریہ ادا کرتی خوشی خوشی ا ُٹھ گئی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ بیڈ پہ پالتی مارے سامنے پھیالئی ایک شیٹ پہ سکیچ بنا رہی تھی۔ الکھ کوشش کے
باوجود وہ اپنے مشغلے میں پورا دھیان نہیں لگا پا رہی تھی۔
’’زبیدہ آپا ایک عرصے سے ناصر کے لئے تمہارا ہاتھ مانگ رہی ہیں۔ اگر تم اس رشتے کے
لئے راضی ہو تو میں چاہتا ہوں کہ انھیں ’ہاں‘ کر دوں۔‘‘
اسرار احمد کے الفاظ اسکے ذیہن میں گونج کر ا ُسے ڈسٹرب کر رہے تھے۔ سکیچ کھینچتا
اس کا ہاتھ ُرک گیا۔
)کیا اب میری شادی ہو جائے گی؟ (
اس نے قدرے بےیقینی سے سوچا۔ کالج میں سہیلیوں کی باتیں اور کچھ کالس فیلوز کی
منگنی ہوتے دیکھ کر تو اسے بھی شادی کا شوق چڑھا ہوا تھا۔ اور اب جو اسرار احمد نے اس کی شادی
طے کرنے کا ذکر کیا تو اسے اس پہ بھی بےچینی ہونے لگی تھی۔ خوشی اور گھبراہٹ کے ِملے ُجلے
احساسات تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ا ُسے کیا ہو رہا ہے۔
طے کرنے کا ذکر کیا تو اسے اس پہ بھی بےچینی ہونے لگی تھی۔ خوشی اور گھبراہٹ کے ِملے ُجلے
احساسات تھے۔ وہ سمجھ نہیں پا رہی تھی کہ ا ُسے کیا ہو رہا ہے۔
)پہلے منگنی ہوتی تو کتنا مزہ آتا۔ میں اپنی منگنی پہ گالبی لہنگا پہنتی۔ جب میرا منگیتر
اور میں ایک دوسرے کو انگوٹھی پہناتےتو سب مہمان ہمارے لئے تالیاں بجاتے۔ فوٹو گرافر میرے منگیتر کے
ساتھ میری بہت پیاری پیاری تصویریں لیتا۔ اور بعد میں مَیں بھی اپنی دوستوں کو اپنے منگیتر کے قصے
سناتی۔
اب ناصر پتا نہیں ان حاالت میں بھی مجھے کارڈز یا پھول بھیجے گا یا نہیں۔۔۔ اب دوسرے
شہر سے تو وہ مجھے ڈنر پہ لے جانے کیلئے نہیں آئے گا۔ اگر کبھی کوئی پھول یا تحفہ بھی نہ بھیجا تو
میں اپنی دوستوں کو کیا منہ دکھاؤں گی؟۔ کیا بتاؤں گی انھیں۔(
خواب بنتے بنتے حقیقت کے وسوسے ا ُسے ا ُداس کرنے لگے۔
ا ُس کے فون کی رنگ ٹون بجنے لگی تو وہ چونک کر خیالوں کی ُدنیا سے باہر آئی۔ سکیچنگ
پنسلز سیٹ کے پاس رکھا فون ا ُٹھا کر سکرین دیکھی تو صرف فون نمبر آ رہا تھا۔ نام ظاہر نہیں ہو رہا
تھا۔ جس سے وہ سمجھ گئی کہ اس کالر کا نمبر اس کی کانٹیکٹ ِلسٹ میں نہیں ہے۔
’’ا َن ناؤن نمبر؟۔‘‘ ا ُس نے سوچا۔
) کہیں یہ ناصر کی کال تو نہیں۔(
سوچ کر لبوں پہ شرمیلی مسکان آ ٹھہری۔ گال گالبی ہو ا ُٹھے۔
ِدل کی تیز دھڑکن کے ساتھ اس نے کال ایکسیپٹ کی۔
’’ہیلو۔‘‘ ہچکچاتے ہوئے بمشکل ’ہیلو‘ کہا۔
’’شوال!؟‘‘
دوسری طرف سے کسی نے ڈائریکٹ اس کا نام لیا۔
’’جی ،آپ کون؟‘‘ اس نے تصدیق کرنے کے ساتھ ہی سوال کیا۔
سنی تو نہیں تھی مگر پھر بھی جانے کیوں ا ُسے لگا کہ یہ اس نے ناصر کی آواز زیادہ ُ
ناصر نہیں تھا۔
’’میں رجب الفرد بات کر رہا ہوں۔‘‘
سرد لہجے میں بتایا گیا۔
یہ سنتے ہی ا ُس کے ہاتھ میں فون ِتھرک گیا۔ رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ خوف سے ٹھنڈے پسینے
چھوٹنے لگے۔ جب کہ دوسری طرف وہ کہہ رہا تھا۔
’’آپ کو یاد ہوگا۔ ہم آپ کی دوست عمیرہ کی بہن کی منگنی پہ ِملے تھے۔ اس کے کچھ ہی
ِدن بعد میرے والد آپ کے گھر بھی گئے تھے۔ میرے لئے آپ کا رشتہ مانگنے۔‘‘
لہجہ سرد اور سپاٹ تھا۔
’’رشتہ؟۔۔۔‘‘
ا ُس کے اعصاب جواب دینے لگے۔
وہ آدمی کیا کہہ رہا تھا ،ا ُس کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔
’’جی ہاں۔۔ رشتہ۔‘‘ رجب نے دانت کچکچائے۔ ’’اور یہی وجہ ہے جو میں آپ کو فون کر رہا
ہوں۔‘‘ لہجے میں تندی آ گئی تھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ اپنے کمرے میں صوفہ چیئر پہ بالکل ساکت بیٹھا رہ گیا۔ بہت دیر بعد اس کے کان سے
لگا فون دھیرے دھیرے اس کے ہاتھ سے سرکنے لگا۔
’’ سمیرا کی منگنی پہ میری کسی بھی لڑکے سے کوئی مالقات نہیں ہوئی تھی۔۔۔ میں نہ تو
کسی رجب کو جانتی ہوں اور نہ ہی کسی رجب کے باپ کو‘‘ اس کے ذیہن میں شوال کے الفاظ گونجے۔
’’یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ ہماری مالقات اتنی مختصر تو نہ تھی کہ اسے یاد نہ رہتی۔۔۔ کیا
میں اتنا عام صورت ہوں کہ وہ دو ِدن کے لئے بھی مجھے یاد نہ رکھ سکی؟۔۔۔۔ وہ لڑکی ،جو پہلی نظر
میں ہی میرے حواسوں پہ چھا گئی۔ اس کے لئے میں اتنا غیر اہم ہوں کہ اس نے مجھے دو ِدن بھی یاد نہ
رکھا؟‘‘اس نے ُدکھی ِدل کے ساتھ سوچا۔
’’میرا دماغ خراب کرنے کی بجائے تم کہیں اور نمبر ِمال کر اپنی قسمت آزماٴو تو زیادہ بہتر
ہے۔ شاید کوئی تمہیں اپنی طرح چھچھوری اور فارغ ِمل جائے۔‘‘
’’میرا دماغ خراب کرنے کی بجائے تم کہیں اور نمبر ِمال کر اپنی قسمت آزماٴو تو زیادہ بہتر
ہے۔ شاید کوئی تمہیں اپنی طرح چھچھوری اور فارغ ِمل جائے۔‘‘
شوال کے الفاظ اس پہ فرسٹریشن طاری کرنے کو کافی تھے۔
’’شوال!‘‘ وہ حلق کے بل چالیا۔
پھر وہ ا ُٹھا اور پاگلوں کی طرح جو چیز اس کے سامنے آئی اس کو ا ُٹھا ا ُٹھا کر پٹخنے
لگا۔ شدید غم اور غصے کی حالت میں روتے ہوئےاس نے کمرے کی تقریبا ً ساری چیزیں توڑ ڈالیں۔
سکینہ بیگم اور وجاہت علی دوڑے دوڑے آئے۔
’’رجب!۔۔۔ ‘‘
’’کیا ہوا رجب!؟۔۔۔‘‘
’’ کیا کر رہے ہو؟۔۔۔‘‘
’’ کیا ہو گیا رجب؟‘‘
سکینہ بیگم اور وجاہت علی ا ُسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے گھبراہٹ میں پوچھ رہے تھے۔
وجاہت علی اس کا بازو پکڑ کر روکنے میں کامیاب ہوگئے۔ وہ نڈھال سا ہو کر رونے لگا۔ وجاہت علی اسے
بازو سے پکڑے ہوئے کھینچ کر بیڈ تک الئے اور ا ُسے بیڈ پہ ِبٹھا کر خود بھی ا ُس کے پہلو میں بیٹھ گئے۔
’’کیا ہوا ہے میری جان!۔۔ بتاؤ مجھے؟‘‘
وجاہت علی نے محبت سے پوچھا۔
سکینہ بیگم فکرمندی سے رجب کے قدموں میں آ بیٹھیں۔
’’وہ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے؟ کیسے بھول گئی وہ مجھے؟۔۔۔۔ کیوں یاد نہیں میں
ا ُسے؟ اس نے میرے وجود کو فراموش کیسے کر دیا؟‘‘
رجب مسلسل روئے چال جا رہا تھا۔
’’وجاہت! آپ کچھ کیجیئے۔ اسرار سے دوبارہ بات کریں۔ میں اپنے بیٹے کو اس حال میں نہیں
دیکھ سکتی۔ جو بھی آپ دونوں کے درمیان اختالفات ہیں آپ اس سے معافی کیوں نہیں مانگ لیتے؟۔۔۔ آخر
وہ آپ کے بچپن کا دوست ہے۔ کیسے راضی نہیں ہوگا؟۔‘‘
سکینہ بیگم نے جذباتیت میں وجاہت علی سے کہا۔
ا ُن کے الفاظ سنتے ہی رجب رونا بھول گیا۔ حیرت سے آنکھیں پھاڑے وہ اپنی ماں کو دیکھنے
لگا۔
’’اگر اس کے ماننے کا کوئی چانس بنتا تو میں ضرور کوشش کرتا۔ مگر وہ نہیں مانے گا۔ کسی
صورت نہیں مانے گا۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ اگر ایسا ہے تو میں خود جا کر اس سے بات کرتی ہوں۔ دیکھتی ہوں کہ وہ مجھے
کیسے منع کرتا ہے۔‘‘
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’میری پسندیدہ گانوں والی کیسٹ پتا نہیں کہاں چلی گئی۔‘‘
وجاہت اپنے کمرے میں آڈیو ٹیپ ریکارڈر کے سامنے کھڑا ایک جوتوں کے ڈبے میں رکھی بہت
سی آڈیو کیسٹس ا ُلٹ پلٹ کرتے ہوئے اپنی مطلوبہ کیسٹ ڈھونڈ رہا تھا۔
اسرار کھڑکی کے سامنے کرسی پہ بیٹھا کھڑکی سے باہر ٹکٹکی باندھے دیکھ رہا تھا۔ اپنا
انہماک توڑے بنا وجاہت سے بوال۔
’’فریدہ خانم کی غزلیں لگا دو۔‘‘
’’بس کرو تم۔۔۔‘‘ وجاہت جی بھر کر بدمزہ ہوا۔ اپنی مصروفیت ترک کیے بنا کوفت سے بوال۔
’’پتا نہیں کیا ہوگیا ہے تمہیں۔ ہر وقت غزلیں سنتے رہتے ہو۔‘‘
اسرار احمد نے اس کی بات کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ وہ پوری دلچسپی سے کھڑکی سے باہر
فدیکھنے میں مصروف تھا۔ وجاہت کچھ دیر اس کی طرف سے کسی جوابی کاروائی کا منتظر رہا۔ خال ِ
توقع کوئی جواب نہ مال تو نظریں ا ُٹھا کر تعجب سے اسرار کی طرف دیکھا۔
’’تم کیا کر رہے ہو؟‘‘
وجاہت علی نے پوچھا۔ ساتھ ہی اسرار احمد کی نظروں کے تعاقب میں کھڑکی سے باہر
جھانکا۔ آنگن میں لگے بڑے سے شہتوت کے درخت کے نیچے گھر کی سب لڑکیاں جمع تھیں۔ سکینہ جھولے
پہ بیٹھی تھی اور سب لڑکیاں آپس میں ہنسی مزاق کرتے ہوئے کھلکھال رہی تھیں۔ وجاہت علی کو اس
سارے منظر میں کچھ بھی غیر معمولی یا دلچسپ نہ لگا۔
’’یار وجاہت! تمہیں ایک بات بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
اسرار احمد نے بےخودی کے عالم میں وجاہت علی کو مخاطب کر کے کہا۔
’’کیا؟‘‘ وجاہت علی نے تعجب سے پوچھا۔
’’تمہاری وہ کزن ہے ناں ،سکینہ۔ مجھے بہت پسند ہے۔ سوچ رہا ہوں کہ اماں ابو کو تمہارے
چاچا کے پاس رشتہ مانگنے کے لئے بھیجوں۔‘‘
اسرار احمد کی نظریں ہنوز آنگن میں جھوال جھولتی سکینہ پہ تھیں۔
اسرار احمد کی بات سن کر وجاہت علی نے نظریں ا ُٹھا کر سکینہ کو دیکھا۔ اس کے دل میں
اسرار احمد کی نظریں ہنوز آنگن میں جھوال جھولتی سکینہ پہ تھیں۔
اسرار احمد کی بات سن کر وجاہت علی نے نظریں ا ُٹھا کر سکینہ کو دیکھا۔ اس کے دل میں
عجیب سی جلن ہونے لگی۔ اس کے منہ سے نکال۔
’’یہ نہیں ہو سکتا۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
اسرار احمد نے چونک کر نظریں ا ُٹھا کر وجاہت علی کو دیکھا اور پوچھا۔
وجاہت علی نے خود کو سنبھاال۔
’’میرا مطلب ہے۔۔۔ تم ابھی کسی کام سے نہیں لگے۔ چاچا کسی بےروزگار کے ساتھ اپنی بیٹی
نہیں بیاہیں گے۔ جبکہ نوکری ڈھونڈنے اور پھر اپنے قدم مضبوطی سے جمانے میں تمہیں اور دو چار سال
تو لگ ہی جائیں گے۔ ‘‘
وجاہت علی کو فورا ً یہی جواب سوجھا تھا۔
’’اوہ۔‘‘ اسرار احمد نے سمجھ جانے کے انداز میں کہا۔ ’’یہ تو کوئی بڑی بات نہیں۔ دوچار
سال تو کیا۔ میں انشااهلل ایک ہی سال میں اپنے قدموں پہ کھڑا ہو جاؤں گا۔ دیکھنا تم۔‘‘
اسرار احمد نے ُپرعزم انداز میں کہا۔ اسرار کا جوش و جذبہ وجاہت علی کو پریشان اور خوفزدہ
کر گیا۔ اس کا دماغ اب کچھ اور سوچ رہا تھا۔
اگلی بار اسرار وجاہت کے گھر گیا تو سب کو ہی ایک دوسرے کو مٹھائیاں کھِالتے ہوئے خوشی
مناتے پایا۔ ا ُسے دیکھ کر وجاہت کی اّمی ہاتھ میں لڈو لئے ا ُس کی طرف لپکیں۔
’’اب تو اسرار بھی آ گیا۔‘‘ کہتے ہوئے وہ قریب آئیں اور لڈو کھالنے کے لئے اس کی طرف
بڑھایا۔
’’لو۔ منہ میٹھا کرو۔‘‘
’’کس خوشی میں خالہ!؟‘‘ اس نے پوچھا اور بڑھایا ہوا لڈو تھامنے کے لئے اپنا ہاتھ اونچا کیا۔
اسی آن وجاہت بھی اپنے کمرے سے ِنکل کر باہر آیا۔
’’وجاہت کی شادی طے کر دی ہے ہم نے اپنی سکینہ کے ساتھ۔‘‘
وجاہت کی امی نے نوید سنائی۔
لّڈو تھامنے کے لئے اس کا بڑھا ہوا ہاتھ ُرک گیا۔ اس کے کانوں میں بم پھوٹے تھے یا آسمان
سے بجلی ِگری تھی؟ ا ُسے کچھ ایسا ہی محسوس ہوا تھا۔ اس سے پہلے کہ بات آگے بڑھتی۔ وجاہت
سرعت سےآگے بڑھا۔
’’امی بعد میں۔۔۔ بعد میں۔‘‘ کہتے ہوئے وجاہت اسرار کا بازو کھینچ کر اپنے کمرے میں لے گیا۔
اسرار احمد کسی بےجان شے کی طرح اس کے ساتھ کھنچا چال گیا۔ کمرے میں آکر وجاہت نے
دروازہ بند کردیا۔ مڑ کر اسرار احمد کو دیکھا تو اسرار احمد نے بھی صدمے سے بوجھل آنکھیں ا ُٹھا کر
وجاہت کو دیکھا۔
’’تمہاری شادی طے ہوگئی ہے سکینہ کے ساتھ؟‘‘ اسرار احمد نے تصدیق طلب نظروں سے
وجاہت کو دیکھا۔ پھر پوچھنے لگا۔
’’کیسے؟۔۔۔تم نے تو کہا تھا کہ تمہارے چاچا کسی بےروزگار کو اپنی بیٹی کا رشتہ نہیں دیں
گے؟۔۔۔ مجھے تو تم نے تین چار سال ُرکنے کا کہا تھا۔ پھر تمہاری نوکری کب لگی؟۔ تم نے تو میرے ساتھ
ہی تعلیم مکمل کی ہے۔‘‘
’’ہاں تو میری کونسا ابھی شادی ہو رہی ہے۔ صرف رشتہ طے ہوا ہے۔ شادی تو نوکری لگنے کے
بعد ہی ہوگی۔‘‘
وجاہت نے ڈھٹائی سے وضاحت دی۔ اسرار بغور اپنے دوست کی کمینگی اور ڈھٹائی مالحظہ کر
رہا تھا۔ وجاہت علی اس کی نظروں کی تاب نہ ال سکا۔
وجاہت نے ڈھٹائی سے وضاحت دی۔ اسرار بغور اپنے دوست کی کمینگی اور ڈھٹائی مالحظہ کر
رہا تھا۔ وجاہت علی اس کی نظروں کی تاب نہ ال سکا۔
’’مجھے ان نظروں سے نہ دیکھو اسرار!۔۔۔ یہ ابو اور چاچا کا فیصلہ ہے۔ میرا اس میں کوئی
ہاتھ نہیں۔۔۔۔ اب میں ابو کے فیصلے کے خالف تھوڑا جا سکتا ہوں۔‘‘ آخر میں اپنی الچارگی ظاہر کی۔
’’او رئیلی؟۔۔۔ تم تو کبھی اپنے ابو کے فیصلے کے خالف نہیں گئے۔۔۔۔ جیسے میں کچھ جانتا
نہیں۔۔۔ بےوقوف ہوں ناں!۔۔۔ تم جو کہو گے ،میں تمہاری ہر بات پہ یقین کر لوں گا۔‘‘
اسرار نے طنزا ً کہا۔
وجاہت سے کوئی جواب نہ بن پایا۔ اندر ہی اندر گھبرا گیا۔ پھر اس کے ذیہن میں ایک اور
جھوٹ آیا۔
’’دراصل۔۔۔۔۔ میں نے سکینہ سے تمہارے بارے میں پوچھا تھا۔۔۔ اس نے تمہیں ریجیکٹ کر کے
خود میرا نام لیا ہے۔‘‘
’’پھر جھوٹ۔‘‘ اب کے اسرار غصے سے بپھر گیا۔ ’’اور کتنے جھوٹ بولو گے تم؟ دوست ہوکر
بھی میری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے تم نے۔ ‘‘ اسرار چالیا۔
وجاہت اس کی بلند ہوتی آواز پہ گھبرا گیا۔
’’زیادہ اونچی آواز میں بات مت کرو۔ باہر کوئی سن لے گا۔‘‘
سن لے۔ کسی کے سن لینے کا ڈر تمہیں ہوگا ،مجھے نہیں۔‘‘ اسرار نے بلند آواز میں کہا۔ ’’تو ُ
’’میں نے کہا۔ اپنا منہ بند کرو۔‘‘
وجاہت علی لحاظ ،مرّوت ،دوستی۔ سب کچھ باالئے طاق رکھ کر غّرایا۔
’’نہیں کروں گا۔ کیا کر لو گے تم؟۔ مجھے تم جیسے گھٹیا آدمی کی کسی بات کی کوئی پرواہ
نہیں ہے۔ میں تم پر اور تمہاری دوستی پہ لعنت بھیجتا ہوں۔ آج سے ،ابھی سے۔ میرا اور تمہارا ہر تعلق،
ہر واسطہ ختم۔‘‘ اسرار احمد نے حتمی لہجے میں کہا۔
’’جاؤ۔ جاؤ۔۔۔ میں بھی لعنت بھیجتا ہوں تم پر۔ اصل میں گھٹیا آدمی تم خود ہو۔ مجھے بھی تم
جیسے کسی شخص سے دوستی رکھنے کا کوئی شوق نہیں جو مجھ سے ملنے کے بہانے آئے اور میرے
گھر کی عورتوں پہ نظر رکھے۔‘‘
وجاہت علی نے حقارت کے ساتھ کہا۔
’’بھاڑ میں جاؤ تم۔‘‘
اسرار احمد غصے سے کہہ کر آگے بڑھا اور وجاہت کو اپنے راستے سے دھکیل کر ایک طرف ہٹا
دیا۔ پھر دروازہ کھوال اور غصے سے تن فن کرتا اس گھر سے نکلتا چال گیا۔ گھر کے جس بھی فرد نے
اسے اس طرح غصے میں جاتے دیکھا۔ وہ اپنی جگہ ہّکابّکا رہ گیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’ میں نے اسے الکھ سمجھانے کی کوشش کی کہ یہ صرف اور صرف گھر کے بزرگوں کا
فیصلہ ہے ،مگر وہ میری کوئی بھی بات سننے کو تیار نہ ہوا اور دوستی توڑ کر چال گیا۔ اس دن کے بعد
کتنے ہی سال گزر گئے۔ میں نے اور اسرار نے ایک دوسرے کی شکل نہ دیکھی۔ کچھ سال گزرنے کے بعد
ادھر میں نے رجب بلڈرز کا آغاز کیا اور ادھر اس نے اسرار احمد اینڈ سنز کانسٹرکشن کمپنی کھول لی۔
تب نئے سرے سے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کا مقابلہ ہمارے درمیان
شروع ہو گیا۔‘‘
صہ بیان کیا۔ پھر کچھ دیر کے لئے کمرے میںوجاہت علی نے اپنی بیوی اور بیٹے سے سارا ق ّ
خاموشی چھا گئی۔
’’لیکن اب ہم کیا کریں؟۔۔۔ میں کچھ نہیں جانتی۔ میں کل ہی اپنے بیٹے کے لئے اس کی بیٹی کا
ہاتھ مانگنے جاؤں گی۔‘‘
سکینہ بیگم نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے ضدی پن سے کہا۔
ہاتھ مانگنے جاؤں گی۔‘‘
سکینہ بیگم نے اس خاموشی کو توڑتے ہوئے ضدی پن سے کہا۔
’’کوئی بھی کہیں نہیں جائے گا اّمی!۔۔۔ اسرار احمد اگر اّبو کے اتنے ہی گہرے دوست تھے تو
انھیں اّبو پہ اعتبار کرنا چاہیئے تھا۔ تب بھی انھوں نے اّبو کو الزام دیا اور اب بھی اّبو کی صّلح کی
پیشکش کے بدلےمیں انھوں نے اّبو کی توہین کی۔ اور میں یہ برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی میرے باپ
کی بےعزتی کرے۔‘‘
رجب نے اپنے باپ کے لئے محبت اور غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا۔پھر وجاہت علی سے معذرت
خواہانہ انداز میں بوال۔
’’آئم سوری ابّو!۔۔۔ مجھے آپ دونوں کے اختالفات کی اصل وجہ معلوم نہیں تھی۔ اگر آپ مجھے
پہلے بتا دیتے تو میں آپ کو ہرگز اس آدمی کے پاس جانے کے لئے مجبور نہ کرتا۔‘‘
اس نے شرمندگی کا اظہار کیا۔ پھر فیصلہ کن انداز میں بوال۔
’’اب جو ہوا اس کو بھول جایئے۔ آپ میں سے کسی کو بھی اسرار احمد سے رشتہ مانگنے کی
ضرورت نہیں۔ جیسا چل رہا ہے ،ویسا ہی چلنے دیجیے۔‘‘
وجاہت علی اپنے لئےبیٹے کی محبت اور غیرت دیکھ کر نہال ہو گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
ت زندگی بہت عجیب اور پریشان ُکن تھے۔ صبح وہ کبھی دن گزرتے جارہے تھے۔ رجب کے معموال ِ
ناشتہ کرتا تھا اور کبھی ناشتہ کئے بنا ہی گھر سے نکل جاتا تھا۔ دفتر بھی وہ اپنی گاڑی سے جاتا تھا۔
شام کے پانچ بجتے ہی وہ دفتر سے نکل جاتا تھا اور رات گئے گھر واپس آتا تھا۔ کھانے میں الپرواہی برت
رہا تھا اور اپنے ماں باپ کے ساتھ بیٹھ کر وقت گزارنا تو جیسے بھول ہی گیا تھا۔ چھٹی کا دن بھی وہ
گھر سے باہر یا اپنے کمرے میں بیٹھ کر گزارتا تھا۔ اپنے تمام دوستوں سے بھی اس نے قطع تعلق کر رکھا
تھا۔ بس ایک ہی کام تھا جو وہ پوری ِدلجمعی سے کر رہا تھا۔ اور وہ تھا شوال کی تصویروں کو اینالرج
کروا کر فریم کروانا۔ ان کے پوسٹرز بنوا کر کمرے کی دیواروں سے چپکانا اور ان سے باتیں کرنا۔
پہلے کی طرح ہنسنا بولنا اور کھلکھالنا تو وہ بھول ہی گیا تھا۔ اس کے اس رویے نے اس کے
ماں اور باپ دونوں کو تشویش میں مبتال کر رکھا تھا۔ وہ اس سے بات کرنا چاہتے تو وہ کہتا۔
’’سب ٹھیک ہے اّمی!۔ آپ ایسے ہی پریشان نہ ہوں۔‘‘
اور وہ لوگ اس سے بحث کرنے کے قابل نہ رہتے۔ اس روز بھی وجاہت علی لنچ بریک میں کھانا
کھانے کیلئے زبردستی ا ُسے گھر لے آئے۔ گھر آکر وہ سیدھا اپنے کمرےمیں چال گیا۔ فون کوٹ کی جیب
میں سے نکال کر بستر پہ پھینکا۔ پھر کوٹ اتار رہا تھا کہ اس کے فون پہ کال آنے لگی۔ اس نے آگے
جھک کر فون دیکھا۔ بشریٰ کی کال تھی۔
اس نے کوٹ اتار کر بیڈ پہ ایک طرف رکھا اور فون اٹھا کر کال ایکسیپٹ کی۔
’’ہیلو۔‘‘
’’رجب!۔۔ تم شوال میں انٹریسٹڈ نہیں تھے؟۔۔ تم نے مجھ سے مذاق کیا تھا؟۔۔ تم نے کیوں اس
کا نمبر لیا تھا؟‘‘
بشریٰ نے چھوٹتے ہی پوچھا۔ وہ بہت الجھی ہوئی اور پریشان لگ رہی تھی۔ بشریٰ کے اس
رویے نے اسے بھی گھبراہٹ اور الجھن میں ڈال دیا۔
’’کیوں؟ کیا ہوا بُشی؟‘‘
اس نے الٹا سوال کیا۔
’’رجب!۔۔ میں تو سمجھی تھی کہ تم اس سے شادی کرنا چاہتے ہو۔ اس کے گھر اپنا رشتہ
بھیجو گے۔ لیکن ا ُس کی شادی تو کسی ناصر سے ہو رہی ہے۔‘‘
بشریٰ نے پریشانی سے کہا۔
’’کیا؟‘‘ اس کے حواسوں پہ بجلی ِگری۔
بشریٰ نے پریشانی سے کہا۔
’’کیا؟‘‘ اس کے حواسوں پہ بجلی ِگری۔
’’یہ تم کیا کہہ رہی ہو؟ تمہیں ِکس نے بتایا؟‘‘
’’میں سچ کہہ رہی ہوں۔ عمیرہ کافی دنوں سے اپنی دوست کی شادی کی تیاریوں میں مصروف
تھی۔ میں تو سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ وہ دوست شوال ہوگی۔ وہ تو آج میں نے اتفاقا ً اس کی شادی
کا انویٹیشن کارڈ دیکھ لیا تو پتا چال کہ اس کی شادی کسی ناصر نام کے لڑکے سے ہو رہی ہے۔ کل رات
مہندی کی رسم تھی اور آج نکاح اور رخصتی ہے۔ عمیرہ ا ُسی کی شادی میں جانے کی تیاریاں کر رہی
ہے۔‘‘
ال ساری روداد سناکر آخر میں ا ُس کے قدموں تلے سے زمین کھینچ لی۔ ا ُسے ی نے اب تفصی ًبشر ٰ
لگا کسی نے اس کے بدن سے روح کھینچ کر الگ کر دی ہو۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی اپنے کمرے میں آئے۔ سکینہ بیگم وہیں موجود تھیں۔
’’سکینہ!۔ ماسی سے کہو کہ جلدی سے کھانا لگا دے۔ میں ہاتھ منہ دھو کر نیچے آ رہا ہوں۔‘‘
وجاہت علی کہتے ہوئے واش روم میں چلے گئے۔ جبکہ سکینہ بیگم سر ہال کر کمرے سے باہر نکل
گیئیں۔
کچھ ہی پل گزرے تھے جب رجب تیزی سے چلتا کمرے میں داخل ہوا اور سیدھا جا کر املاری کے
دونوں پٹ وا کر دیئے۔ سیف میں سیکیورٹی کوڈ ڈال کر ان الک کیا اور دراز کھینچ کر اس میں سے وجاہت
علی کی گن نکال لی۔ اس کے انداز میں بہت عجلت تھی۔ جیسے اسے پاگل پن کا دورا پڑ گیا تھا۔ سانسیں
پھولی ہوئی اور ہاتھ لرز رہے تھے۔
ادھر وجاہت علی واش روم کے دروازے سے باہر آئے اور رجب کو سیف کھولے کھڑے ،گن کی
میگزین نکال کر چیک کرتے دیکھ کر انھیں اچنبھا ہوا۔ وہ کچھ پوچھنا چاہتے تھے کہ رجب نے میگزین بھرا
ہوا پا کر واپس گن میں ڈاال اور گن اپنی کن پٹی پہ رکھ لی۔
’’رجب!۔‘‘ وجاہت علی اتنی زور سے گرجے کہ درودیوار ہل گئے۔
رجب بھی اچھل پڑا۔ ُمڑ کر وجاہت علی کو دیکھا۔ پھر فورا ً خود کو سنبھاال۔
’’آئم سوری اّبو!‘‘
اس کی لہو رنگ آنکھیں آنسوؤں سے بھر گیئیں۔ گن واپس کنپٹی پہ رکھ کر گھوڑا دبایا ہی
چاہتا تھا کہ وجاہت علی نے بجلی کی سی تیزی سے اسے جا لیا۔ ایک ہاتھ سے گن اس کے ہاتھ سے
چھیننے کی کوشش کرتے ہوئے وہ دوسرے ہاتھ سے اسے جکڑنے کی کوشش کر رہے تھے۔
’’چھوڑیئے مجھے۔ مجھے چھوڑ دیجیئے۔ میری زندگی میں وہ کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔
چھوڑ دیجیئے مجھے۔ مجھے مر جانے دیں۔ میرے جیتے جی وہ کسی اور کی دلہن نہیں بن سکتی؟۔۔ میری
زندگی میں اس کی شادی کسی اور سے نہیں ہو سکتی۔‘‘
وہ چال رہا تھا۔ کسی جنگلی گھوڑے کی طرح وجاہت علی کے ہاتھوں میں مچال جا رہا تھا۔
وجاہت علی کے لئے اسے قابو کرنا اختیار سے باہر ہو رہا تھا۔
’’رجب!۔ ہوش میں آؤ۔۔۔ پاگل ہو گئے ہو کیا؟۔۔ کیا کر رہے ہو تم؟۔۔ بات کیا ہے؟ بتاؤ تو۔‘‘
وجاہت علی اسے قابو کرنے کی کوشش میں ہلکان ہوتے پوچھ رہے تھے۔
سکینہ بیگم بھی وہاں بھاگی چلی آئیں اور رجب کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر تو ان کی چیخیں
نکل گیئیں۔ پھر جلدی سے آگے بڑھ کر وہ پستول چھیننے میں وجاہت علی کی مدد کرنے لگیں۔ سکینہ بیگم
کی مداخلت سے کام آسان ہوگیا۔ پستول چھین کر سکینہ بیگم نے املاری کے اوپر پھینک دی۔
’’چھوڑ دیں مجھے۔ مجھے مر جانے دیں۔ میرے جیتے جی شوال کسی اور کی نہیں ہو سکتی۔
میں اس کی شادی ہونے سے پہلے ہی مر جاؤں گا۔ شوال!۔۔۔۔ تمہاری ڈولی ا ُٹھنے سے پہلے میرا جنازہ
ا ُٹھے گا۔ شوال!۔‘‘
میں اس کی شادی ہونے سے پہلے ہی مر جاؤں گا۔ شوال!۔۔۔۔ تمہاری ڈولی ا ُٹھنے سے پہلے میرا جنازہ
ا ُٹھے گا۔ شوال!۔‘‘
چال رہا تھا۔ اور خود کو چھڑانے کے لئے بھرپور مزاحمت کر رہاتھا۔ لیکن اب وہ رو رہا تھا۔ ِ
ِ
وجاہت علی کے ساتھ سکینہ بیگم بھی مل گئی تھیں اور دوسری طرف وہ اپنی طاقت کھو رہا تھا۔
وجاہت علی سکینہ بیگم کی مدد سے کسی طرح اسے کھینچ کر بیڈ تک الئے اور بیڈ پہ اوندھے
منہ ڈال کر اسے زبردستی بیڈ پہ لٹائے رکھا۔ کیونکہ وہ ابھی تک مزاحمت کر رہا تھا۔
’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ تم ایسا نہیں کر سکتی۔ مجھے گولی مار دیں اّبو!۔۔۔ مجھے مر جانے دیں۔
وہ میری زندگی میں کسی اور کی ہو جائے گی۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا۔ ‘‘
وہ اب بھی پاگلوں کی طرح چال رہا تھا۔
’’رجب! ہوش میں آؤ۔ تم سے کس نے کہا کہ وہ کسی اور کی ہونے جا رہی ہے؟‘‘
وجاہت علی کے لئے یہ ناقابِل یقین بات تھی۔
’’جس کسی نے بھی کہا ہو۔۔۔ سچ تو یہی ہے۔ آج اس کی شادی ہے۔ میں اس کی شادی ہونے
سے پہلے مر جاؤں گا۔‘‘
وہ ُبری طرح رو رہا تھا۔
’’آج؟۔۔‘‘ وجاہت علی کے لئے یہ دوسرا دھچکا تھا۔ ’’نہیں۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ میں ایسا نہیں
ہونے دوں گا۔‘‘ وجاہت علی کے لئے بھی یہ برادشت کرنا ناممکن تھا۔
رجب پر سے اپنا دباؤ ہٹاتے ہوئے ٹھوس لہجے میں بولے۔
’’سنو رجب!۔ اگر ایسا ہے تو میرا فیصلہ بھی سن لو۔ شوال کی شادی صرف تم سے ہوگی اور
آج ہی ہوگی۔ میں ابھی اور اسی وقت اسے النے جا رہا ہوں۔‘‘
رجب بےیقینی سے انھیں دیکھے گیا۔ سکینہ بیگم ،جو اپنے لرزتے بدن پہ قابو پانے کے لئے دونوں
ہاتھ آپس میں بھینچ کر ہونٹوں پہ جمائے رجب کو دیکھ رہی تھیں ،وہ بھی وجاہت علی کے کلمات سن کر
ششدر رہ گیئیں۔
وجاہت علی ا ُٹھ کھڑے ہوئے اور سکینہ بیگم سے بولے۔
’’ سکینہ!۔ شادی کے تمام انتظامات تم کرو گی۔ میری واپسی تک نکاح ،قاضی ،سب کا
بندوبست ہونا چاہیئے۔‘‘
پھر رجب کی طرف دیکھا۔ جو ا ُٹھ کے بیٹھا حیرت سے انھیں دیکھ رہا تھا۔
’’رجب!۔ تمہاری دلہن میں لے کر ہی آؤں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔ تم بس دولہا بننے کی
تیاری کرو۔‘‘
کہہ کر انھوں نے اپنی پتلون کی جیب میں سے فون نکاال اور کسی کا نمبر مال کر باہر کی طرف
چلنے لگے۔
’’ہیلو۔ ابھی اور اسی وقت اسرار احمد کے گھر پہنچو۔ وہاں کی صورتحال سے مجھے فورا ً آگاہ
کرو۔‘‘
وجاہت علی فون پہ کہتے ہوئے منظر سے ہٹ گئے۔ سکینہ بیگم ان سے بہت کچھ کہنا اور پوچھنا
چاہتی تھیں مگر کچھ بھی نہ بول سکیں۔ وجاہت علی فون پہ بات کرتے منظر سے غائب ہو گئے تو انھوں
نے ششدر بیٹھے اپنے بیٹے کی طرف چہرہ گھمایا۔
رجب انھیں اپنی اور متوجہ پا کر ا ُٹھ کھڑا ہوا۔
’’اّمی!‘‘
اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا پوچھے۔
سکینہ بیگم ساری فکریں اور پریشانیاں بھال کر ُمسکرا دیں۔ آگے بڑھ کر رجب کی پیشانی چوم
لی۔
’’میرے چاند!۔ تم بس دولہا بننے کی تیاری کرو۔ دیکھو ہم کیسے آج کے آج شوال کے ساتھ
تمہاری شادی کرواتے ہیں۔‘‘
’’میرے چاند!۔ تم بس دولہا بننے کی تیاری کرو۔ دیکھو ہم کیسے آج کے آج شوال کے ساتھ
تمہاری شادی کرواتے ہیں۔‘‘
سکینہ بیگم نے ُپر جوش ہو کر کہا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’سر! بارات ابھی نہیں پہنچی اور اسرار احمد اپنی بیٹی کے ساتھ کار میں کہیں روانہ ہو رہا
ہے۔‘‘
وجاہت علی گاڑی چال رہے تھے جب انھیں فون پہ خبر ملی۔
’’ٹھیک ہے۔ تم ان کا پیچھا کرو۔ اور مجھے بتاؤ کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔‘‘
’’ٹھیک ہے سر! ویسے میرے خیال سے تو وہ لوگ پارلر جا رہے ہوں گے۔ آج کے روز دلہن کو
تیار کروانے کے عالوہ اور کہاں لے کر جائیں گے۔‘‘
’’صحیح۔‘‘ وجاہت علی نے بھی اس سے اتفاِق رائے کیا۔
پھر پوچھنے لگے۔
’’اور گن مین؟ ان کا کیا بنا؟‘‘
’’ان کو بھی آرڈر دے دیا ہے سر!۔‘‘
اس آدمی نے اسرار احمد کی کار کا پیچھا کرتے ہوئے بتایا۔
’’ُگڈ۔‘‘
وجاہت علی نے کہا اور ُیو ٹرن لے کر گاڑی شہر کے مرکز کی طرف موڑ دی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
گاڑی شہر کے مشہور بیوٹی پارلر کے باہر رکی۔ اسرار احمد اور شوال گاڑی سے نکل رہے تھے
جب سڑک کے اس پار ایک کار آکر ُرکی۔ اس کار میں ڈرائیور کے عالوہ دو اور آدمی بھی تھے۔
’’ٹھیک ہے۔ تم اندر جاؤ۔۔۔ جب فارغ ہو تو مجھے کال کر دینا۔ میں تمہیں لینے آ جاوٴں گا۔‘‘
اسرار احمد نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔
شوال جواب میں سر ہال کر ہاتھ میں بڑا سا بیگ پکڑےاندر چلی گئی۔
ادھر وجاہت علی کے فون پہ کال آئی۔ انھوں نے فون ہولڈر میں سے فون نکالے بنا االٴوڈ اسپیکر
پہ ڈال دیا۔
’’ہاں بولو۔‘‘ انھوں نے گاڑی چالتے ہوئے پوچھا۔
’’سر! اسرار احمد اپنی بیٹی کو پارلر چھوڑ کر خود چال گیا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ تم وہیں پہ رکو۔ میں بس پہنچتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی کو حاالت انڈر کنٹرول پا کر کافی تسلی ہوئی۔ ان کا ذیہن کلیئر ہو چکا تھا کہ
انھوں نے اب کیا کرنا ہے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ تیار ہوکر سیدھی ریسپشن پہ آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک بڑا سا بیگ تھا جس میں وہ لہنگا
ڈال کر الئی تھی اور اب یقینا ً اس میں اس کا وہ لباس تھا جو اس نے تبدیل کیا تھا۔ اس کا لباس ،میک
اپ اور بال سب ہوچکا تھا۔ صرف زیورات کی کمی تھی جو ظاہر ہے اس نے ہوٹل پہنچ کر ہی پہننے تھے۔
’’میرا فون؟‘‘
اس نے ریسپشن پہ آکر اپنا فون طلب کیا۔
ریسپشنسٹ نے اس کا فون نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’آپ کو کوئی لینے آئے ہیں۔‘‘
ریسپشنسٹ نے اس کا فون نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔
’’آپ کو کوئی لینے آئے ہیں۔‘‘
ریسپشنسٹ نے فون تھماتے ہوئے اسے مطلع کیا۔ رسپشنسٹ کی نظروں کا اشارہ پا کر اس نے
پلٹ کر دیکھا۔ وجاہت علی اس کے سر پہ آن کھڑے تھے۔
’’ارے انکل! آپ؟‘‘
اسے ا ُن انکل کو دیکھ کر حیرت تو ہوئی مگر وہ ا ُنھیں پہچان لینے پہ خوشی سے مسکرائی۔
’’اسالم علیکم!‘‘ ا ُس نے تہذیب کا تقاضہ نبھایا۔
وجاہت علی نے اسے بغور دیکھا۔ وہ سمجھ گئے کہ شوال ابھی تک انھیں نہ جان سکی تھی۔
صے میں انھوں نے اگلی منصوبہ بندی کر لی اور اسی کے تحت وہ شفقت سے ایک ملحے کے ہزارویں ح ّ
مسکرائے۔
’’واعلیکم السالم۔ کیسی ہو بیٹا!‘‘
’’میں بالکل ٹھیک ہوں۔ آپ مجھے لینے آئے ہیں؟ پاپا نے تو کہا تھا کہ وہ مجھے لینے آئیں گے؟‘‘
اس نے جواب دینے کے ساتھ پوچھا۔
’’تمہارے پاپا کو بہت سے کام پڑ گئے ہیں۔ اسی لیے انھوں نے مجھے بھیجا ہے۔‘‘
انھوں نے روانی سے جھوٹ بوال۔ پھر رسپشنسٹ کی طرف دیکھا۔
’’کتنا ِبل ہوا؟‘‘
رسپشنسٹ نے ِبل بتایا۔
’’کارڈ پےمنٹ ہو سکتی ہے؟‘‘ انھوں نے جیب میں ہاتھ ڈالتے ہوئے پوچھا۔
’’جی۔‘‘
رسپشنسٹ نے کہا اور ساتھ ہی پی۔ڈی۔قیُو ا ُٹھا کر سامنے ڈیسک پہ رکھ دی۔
وجاہت علی نے َبل پے کیا۔ پھر کارڈ مشین سے نکال کر اس کی طرف ُمڑے۔
’’چلیں؟‘‘
انھوں نے پوچھا تو اس نے سر ہال دیا۔
وہ وجاہت علی کے ساتھ پارلر سے باہر آئی۔ وجاہت علی کی گاڑی دروازے کے عین سامنے کھڑی
تھی۔ وجاہت علی نے فرنٹ ڈور کھوال۔
وہ اندر بیٹھنے لگی کہ وجاہت علی اس کے ہاتھ میں بیگ دیکھ کر بولے۔
’’یہ مجھے دے دو۔‘‘
اس نے وجاہت علی کے بڑھائے ہوئے ہاتھ میں اپنا بیگ تھما دیا اور خود کار میں بیٹھ گئی۔
وجاہت علی نے بیک ڈور کھول کر بیگ پچھلی سیٹ پہ ڈال دیا۔ دروازہ بند کر کے انھوں نے سڑک کے اس
پار کھڑی گاڑی میں بیٹھے شخص کی طرف دیکھا۔ وہ ان کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ وجاہت علی نے سر
کی جنبش سے ا ُسے پیچھے آنے کا اشارہ کیا اور خود گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پہ آ بیٹھے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’ہاں تو بچے! رزلٹ کیسا رہا؟ مجھے یقین ہے کہ تم نے اچھے نمبرز لیے ہوں گے۔‘‘
گاڑی چالتے ہوئے اس کا دھیان بٹانے کی خاطر انھوں نے اسے باتوں میں لگایا۔
’’ایک دم فرسٹ کالس۔ میں اے گریڈ میں پاس ہوئی ہوں۔‘‘ ا ُس نے خوشی سے بتایا۔
’’شاباش! مجھے تم سے یہی ا ُمید تھی۔‘‘
وجاہت علی نے اسے سراہا۔ ساتھ ہی انھوں نے بیک ویو مرر سے اپنے پیچھے آتی گاڑی کو
دیکھا۔
اس نے دیکھا کہ وجاہت علی غلط ٹرن لے رہے ہیں۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھوال مگر
وجاہت علی چوکن ّا تھے۔ بھانپ کر فورا ً بول پڑے۔
’’بہت جلدی کر دی تمہارے باپ نے تمہاری شادی کروانے میں۔ ابھی تو اس کا ایک تم سے بڑا
وجاہت علی چوکن ّا تھے۔ بھانپ کر فورا ً بول پڑے۔
’’بہت جلدی کر دی تمہارے باپ نے تمہاری شادی کروانے میں۔ ابھی تو اس کا ایک تم سے بڑا
بیٹا بھی رہتا ہے بیاہنے کو۔‘‘
’’جی ہاں۔۔ عمران بھائی کی کچھ عرصہ پہلے منگنی ہوئی ہے۔ لیکن بھابھی کے ماں باپ ابھی
کنزہ کی شادی نہیں کروانا چاہتے۔ وہ ماسٹرز کر رہی ہے ناں۔ تو وہ چاہتے ہیں کہ پہلے تعلیم مکمل کر لے
پھر شادی کروائیں گے۔ اور میرا تو دراصل زبیدہ پھپھو نے جلدی جلدی کی رٹ لگا رکھی تھی۔ تقریبا ً ایک
سال سے وہ پاپا کے پیچھے پڑی تھیں۔ اب پاپا نے انھیں ہاں کی تو پھر وہ مزید انتظار کرنے کو تیار نہیں
تھیں۔‘‘
اس نے معصومیت اور صاف گوئی کے ساتھ وضاحت کردی۔
’’کون زبیدہ پھپھو؟۔۔۔ اسرار کی تو کسی بھی بہن کا نام زبیدہ نہیں ہے۔‘‘
وجاہت علی کو ’زبیدہ‘ نام سے الجھن ہوئی۔
’’ہاں۔ زبیدہ پھپھو پاپا کی کزن ہیں۔‘‘ اس نے جواب دیا۔
اسے اچنبھا ہوا کہ اس کے پاپا کا دوست ہو کر بھی انھیں یہ بات کیوں معلوم نہیں۔ یہ بات تو
انھیں اس کے پاپا سے پوچھ لینی چاہیئے تھی۔ لیکن وہ راستہ دیکھ کر یہ سوال بھول گئی۔
’’ہم کہاں جا رہے ہیں انکل!؟‘‘ ا ُس نے پوچھا۔
’’گھر۔‘‘
انھوں نے مختصرا ً جواب دیا۔
’’لیکن مجھے تو سیدھا میرج ہال پہنچنا ہے؟۔۔۔۔ ویسے بھی۔ ہمارا گھر اس طرف تو نہیں۔‘‘
اس نے اپنی الجھن بیان کی۔
’’ہمارا گھر اسی طرف ہے بیٹا!۔‘‘ وجاہت علی نے کمال اطمینان اور شفقت سے جواب دیا۔
وہ کچھ بھی نہ سمجھی۔
’’کیا مطلب؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’مطلب یہ کہ لڑکی کا اصل گھر تو اس کے شوہر کا گھر ہوتا ہے ناں!۔۔۔ اور تمہارے شوہر کا
گھر اسی طرف ہے۔‘‘
وجاہت علی نے اسی کمال اطمینان سے جواب دیا۔
وہ بُری طرح الجھ گئی۔ زبیدہ پھپھو کا گھر دوسرے شہر میں تھا۔ اور ِبنا شادی کے وہ وہاں
کیوں لے جائی جاتی۔ صورتحال پہ غور کیا تو اس کا ماتھا ٹھنکا۔
’’کون شوہر؟‘‘
’’رجب الفرد۔‘‘ وجاہت علی نے ایسے بتایا جیسے ا ُسے سرپرائز دیا ہو۔
یہ سرپرائز نہیں اس کے لئے شاک تھا۔ اس کے رونگٹے کھڑے ہو گئے اور ہتھیلیاں پسینے سے تر
ہو گیئیں۔
’’آپ۔۔۔ آپ رجب کو کیسے جانتے ہیں؟ کون ہیں آپ؟‘‘
اسے یہ سب پوچھنے کا خیال اب آیا تھا۔
’’میں رجب کا باپ ہوں۔ وجاہت علی۔‘‘
وجاہت علی کا جواب سن کر اس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ گیا۔
’’ریلیکس۔ ریلیکس بیٹا! میں تمہارے ساتھ کچھ غلط نہیں کر رہا۔ ہم سیدھے گھر جا رہے ہیں۔
وہاں تمہاری رجب کے ساتھ شادی کروائیں گے۔ تمہارا رجب کے ساتھ باقاعدہ نکاح ہوگا۔ فکر مت کرو بیٹا!
ہم عزت دار لوگ ہیں۔‘‘
سلی آمیز لہجے میں اسے پیار سے سمجھا رہے تھے۔ وہ ت ّ
شادی ،نکاح ،وہ بھی رجب کے ساتھ۔ ا ُس کا سر چکرانے لگا۔
’’آپ۔‘‘ گھبراہٹ کے غلبے نے اس کا سانس لینا دوبھر کر دیا تھا۔ ’’آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ
کیسے ہو سکتا ہے؟۔ میں رجب کو نہیں جانتی۔ میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ پلیز مجھے میرے گھر
’’آپ۔‘‘ گھبراہٹ کے غلبے نے اس کا سانس لینا دوبھر کر دیا تھا۔ ’’آپ یہ کیا کہہ رہے ہیں۔ یہ
کیسے ہو سکتا ہے؟۔ میں رجب کو نہیں جانتی۔ میں اس سے شادی نہیں کر سکتی۔ پلیز مجھے میرے گھر
لے چلیں۔ پلیز مجھ پہ رحم کریں۔ آج میری شادی ہے۔ بارات تک پہنچ چکی ہو گی۔ آپ آج کے ِدن میرے
ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں؟ پلیز انکل!۔ میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتی ہوں۔ میرے ساتھ یہ ظلم نہ
کریں۔‘‘
وہ رو رہی تھی۔ گڑگڑا رہی تھی۔ خوف سے اس کے بدن سے پسینہ چھوٹ رہا تھا۔
’’یہ ظلم نہیں انصاف ہے میری بیٹی!۔ تم سچائی نہیں جانتی۔ رجب تمہیں بہت چاہتا ہے۔ میں
جو بھی کر رہا ہوں ،اس کی خواہش پر کر رہا ہوں۔ تم بھی جب اس کی محبت دیکھو گی تو خوش ہو گی
اس شادی سے۔‘‘
وجاہت علی نے اسے منانے کی کوشش کی۔
’’میرے پاپا!۔ ان کا تو سوچئے۔ آج میری شادی ہے اور میں۔۔۔۔ جب ان کو یہ پتا چلے گا تو ان
پہ کیا گزرے گی؟۔۔۔ آپ میرے پاپا کو نہیں جانتے۔ وہ مجھے اور آپ کے بیٹے دونوں کو قتل کر دیں گے۔
پلیز انکل!۔ گاڑی موڑیے۔ اگر آج میں گھر نہ پہنچی تو بہت بڑا طوفان آ جائے گا۔‘‘
اس نے انتہائی پریشانی کے عالم میں انھیں منانے کے جنت کئے۔
’’طوفان آ چکا ہے شوال!‘‘ وجاہت علی کے لہجے میں سفاکی در آئی۔ نرم چہرہ کسی چٹان کی
مانند سخت ہو گیا۔ ’’اگر آج میں تمہیں واپس چھوڑ آیا تو میں اپنا بیٹا کھو دوں گا۔۔۔ صرف تمہارے
ضدی باپ کی وجہ سے۔ اگر وہ شرافت کے ساتھ میرا پروپوزل ایکسیپٹ کر لیتا تو آج میں یہ سب کرنے پہ
مجبور نہ ہوتا۔۔۔۔ آج جو بھی تمہارے ساتھ ہو رہا ہے۔ اس کا ذمہدار صرف اور صرف تمہارا باپ ہے۔‘‘
وجاہت علی نے کہا اور پھر جیسے دھمکانے کے انداز میں بولے۔
’’ لیکن میں تمہیں یہ بات ابھی کلیئر کر دوں شوال!۔ آج تمہیں رجب سے شادی کرنا ہی
ہوگی۔۔۔۔ تم رجب کی پسند ہو ،اس لئے ہمیں بھی اپنی بیٹیوں کی طرح عزیز ہو۔ لیکن اگر آج تمہاری
شادی میرے بیٹے سے نہ ہوئی۔ تو میرا بیٹا تو جان سے جائے گا ہی ،ساتھ ہی میں اسرار اور اس کی
بیٹی دونوں کو جان سے مار دوں گا۔ سمجھ گئی۔‘‘
وجاہت علی نے اپنی خونخوار نظریں اس کے چہرے پہ جما کر کہا۔
وہ اتنی خوفزدہ ہو گئی کہ اب مزید کچھ کہنے کی جرٴات نہ سکی۔
)اب کیا ہوگا؟۔۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ مجھے بھی کبھی کوئی اغواء کرے
گا۔۔۔۔ کیا کروں میں؟ کسی کو مدد کے لئے پکاروں؟۔۔۔ پاپا کو فون کروں؟(
ا ُس نے ِدل ہی ِدل میں کوئی حل تالش کرتے ہوئے گود میں رکھے اپنے ہاتھ کو دیکھا جس میں
اس نے اپنا فون پکڑ رکھا تھا۔
)نہیں۔۔۔ ابھی تک اس آدمی کا دھیان میرے فون کی طرف نہیں گیا۔ اگر اس نے دیکھ لیا تو میرا
فون چھین لے گا۔ فرار کا واحد راستہ بھی بند ہو جائے گا۔ ابھی صبر کرو شوال! ابھی صبر کرو۔(
ا ُس نے خود سے کہا اور ہوشیاری سے کام لیتے ہوئے بالکل ہی غیر محسوس انداز میں اپنا فون
واال ہاتھ اپنے دوپٹے کے نیچے کر لیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اس وقت سب لوگ میرج ہال میں جمع تھے۔ سب باراتیوں کو مشروبات پیش کیے جا رہے تھے۔
زبیدہ خاتون اپنی بہو دیکھنے کو بےتاب تھیں۔
’’ابھی اور کتنی دیر لگے گی ا ُسے تیار ہونے میں؟۔۔۔ حد ہو گئی اسرار! کب واپس آئے گی وہ؟
کب نکاح ہوگا؟ کب باقی کی رسمیں ہوں گی؟ ہم نے ٹائم پہ واپس بھی جانا ہے۔ ُملک کے حاالت تم جانتے
ہو۔۔ آدھی رات کو دلہن دوسرے شہر لےجانے کا رسک کیسے لیں گے ہم؟‘‘
زبیدہ خاتون کو ماڈرن دکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ فیشن کرتی تھیں۔
ہو۔۔ آدھی رات کو دلہن دوسرے شہر لےجانے کا رسک کیسے لیں گے ہم؟‘‘
زبیدہ خاتون کو ماڈرن دکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہمیشہ ضرورت سے زیادہ فیشن کرتی تھیں۔
لیکن جب بولتی تھیں تو ا ُن کا پینڈو پن ا ُن کی زبان سے واضح جھلکتا تھا۔ اس وقت بھی اپنی تمام افکار
بیان کرتے ہوئے وہ اسی پینڈوپن کا مظاہرہ کر رہی تھیں۔
’’آپ فکر نہ کریں آپا! اهلل کے فضل و کرم سے سب وقت پہ ہو جائے گا۔ آپ جانتی تو ہیں کہ
دلہن تیار ہونے میں گھنٹوں لگ جاتے ہیں۔ میں نے اسے تاکید کر دی تھی کہ جیسے ہی فارغ ہو تو مجھے
فون کردے۔ میں اسے لینے پہنچ جاٴوں گا۔ آپ فکر نہ کریں۔ ا ُس کا فون آیا ہی چاہتا ہے۔‘‘
اسرار احمد نے انھیں ُپروثوق لہجے میں تسلی دی۔ پھر انھیں سٹیج کی طرف لے آئے۔
’’آپ پلیز ادھر آرام سے بیٹھ جایئے۔ میں تھوڑی ہی دیر میں واپس آتا ہوں۔‘‘
انھوں نے زبیدہ خاتون کو سٹیج پہ سّجی ہوئی نشست پہ ِبٹھایا اور خود تیز قدموں سے چلتے
ہال کے داخلی دروازے پہ آ پہنچے جہاں علیزہ کسی مہمان خاتون سے خوش گپیوں میں مصروف تھی۔
’’ایکسکیوزمی!۔‘‘ انھوں نے خاتون سے معذرت کی۔
’’علیزہ! ذرا ادھر آنا۔‘‘
ا ُنھوں نے قدرے رازداری سے کہا۔ علیزہ بھی آنکھ کے اشارے سے خاتون سے معذرت کرکے
اسرار احمد کے ساتھ ایک طرف تنہائی میں چلی آئی۔
’’پلیز علیزہ! جاکر ذرا زبیدہ آپا کو باتوں میں لگاوٴ۔ شوال کے اب تک نہ آنے پہ بہت پینک ہو رہی
ہیں۔ شوال کب آئے گی؟ شوال کب آئے گی؟ کی رٹ لگا رکھی ہے انھوں نے۔‘‘
اسرار احمد نے بڑی کوفت کے ساتھ کہا۔
’’میں بھی آپ سے یہی پوچھنا چاہتی تھی پاپا! کافی دیر ہو چکی ہے۔ دلہن تیار ہونے میں اتنا
ٹائم تو نہیں لگتا۔‘‘
علیزہ نے بھی اپنی پریشانی ظاہر کرتے ہوئے پوچھا۔
’’پتا نہیں۔۔ میں خود اسے کتنی بار کال ٹرائی کر چکا ہوں ۔ لیکن اس کا نمبر آف ہے۔‘‘ اسرار
احمد نے الچارگی سے کہا۔
’’اس نے اپنا فون آف کر کے ریسپشن پہ دے رکھا ہوگا۔ اب میک اپ کرواتے ہوئے تو وہ فون
پاس نہیں رکھ سکتی ناں!۔۔۔ پارلر کے نمبر پہ فون کر کے پتا کر لیں کہ کتنی دیر ہے۔‘‘
علیزہ نے وضاحت کے ساتھ اپنی رائے دی۔
’’پارلر کا نمبر میرے پاس تو نہیں۔ تمہارے پاس ہے؟‘‘ اسرار احمد نے جوابا ً کہا اور پوچھا۔
’’بالکل ہے پاپا! مگر میرا فون مکمل ڈیڈ ہے۔ اور چارجر میں گھر بھول آئی ہوں۔ اب نمبر کیسے
نکالوں؟‘‘ علیزہ نے پریشانی اور مایوسی سے کہا۔ پھر اس کے زیہن میں آئیڈیا آیا۔
’’ایسا کرتے ہیں۔ کامران کو پارلر بھیج دیتے ہیں۔ اگر شوال تیار ہوئی تو وہ اسے ساتھ ہی لے
آئیں گے۔‘‘
’’نہیں۔ کامران کو رہنے دو۔ میں خود چال جاتا ہوں۔‘‘
اسرار احمد نے کہا۔
تب ہی زبیدہ خاتون اپنا بھاری وجود سنبھالتی لشتم پشتم ا ُن کے پاس آ پہنچیں۔
ھل گیا ہے۔ ذرا دیکھو تو ِان حرام’’ہائے علیزہ! تمہارے پاس کچھ ِپنیں ہوں گی۔ میرا ُجوڑا ک ُ
خوروں کو ،مجھ سے اتنے پیسے لئے انھوں نے ُجوڑا بنوانے کے اور دیکھو! ابھی ُکھل بھی گیا۔‘‘
زبیدہ خاتون نے اپنے ُکھلے ُجوڑے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اپنی ہیئر اسٹائلسٹ کو کوسا۔
’’ٹھیک ہے علیزہ! تم ِان کی مدد کرو۔ میں چلتا ہوں۔‘‘
اسرار احمد نے بھی علیزہ سے کہا اور جانے کا قصد کیا۔
’’تم کہاں جا رہے ہو؟‘‘ زبیدہ خاتون نے جلدی سے پوچھا۔
’’میں شوال کو النے جا رہا ہوں آپا!‘‘
اسرار احمد نے چہرہ پیچھے گھما کر انھیں جواب دیا اور واپس گھمانا چاہتے تھے کہ زبیدہ
’’میں شوال کو النے جا رہا ہوں آپا!‘‘
اسرار احمد نے چہرہ پیچھے گھما کر انھیں جواب دیا اور واپس گھمانا چاہتے تھے کہ زبیدہ
خاتون بول پڑیں۔
’’ارے۔ پھر میں بھی ساتھ ہی چلتی ہوں۔ ہم شوال کو بھی لے لیں گے اور میں اپنا ُجوڑا بھی
درست کروا لوں گی۔ چلو چلیں۔‘‘
زبیدہ خاتون کہہ کر اسرار احمد سے آگے چل پڑیں۔ اسرار احمد الچار ا ُن کے پیچھے ہو لئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’اسالم علیکم!‘‘
اسرار احمد نے رسپشن پہ آ کر کہا۔
’’واعلیکم السالم!۔‘‘
رسپشنسٹ نے پیشہ ورانہ مسکراہٹ کے ساتھ ا ُن کا ستقبال کیا۔
’’میں شوال کو لینےآیا ہوں۔ ا ُسے تیار ہونے میں اور کتنا وقت باقی ہے؟‘‘ اسرار احمد نے پوچھا۔
’’شوال۔‘‘ رسپشنسٹ چونک گئی۔ بولی۔’’وہ تو چلی گیئیں۔‘‘
اب چوکنے کی باری اسرار احمد اور زبیدہ خاتون کی تھی۔
’’کیا؟۔۔۔ ایسے کیسے چلی گئی؟۔۔۔ میں نے ا ُسے کہا تھا کہ وہ فون کر کے مجھے اطالع دے۔
میں اسے لینے آجاؤں گا۔‘‘
اسرار احمد نے خودکالمی کے انداز میں اپنی حیرت کا اظہار کیا۔
پھر پوچھنے لگے۔ ’’کب گئی ہے وہ؟‘‘
’’کوئی ایک گھنٹے سے ا ُوپر ہو چکا ہے۔ کوئی وجاہت علی آئے تھے انھیں لینے۔ وہ تو بتا رہے
تھے کہ آپ نے انھیں بھیجا ہے۔ اور وہ ان کے ساتھ چلی گیئیں۔‘‘
رسپشنسٹ نے تفصی ً
ال آگاہ کیا۔
’’وجاہت علی۔‘‘ اسرار احمد کو لگا کہ ا ُنھیں ہارٹ اٹیک آیا چاہتا ہے۔
’’کون وجاہت علی؟۔‘‘
زبیدہ خاتون نے جلدی سے خاصے مشکوک انداز میں استفسار کیا۔ جبکہ اسرار احمد
چال ا ُٹھے۔
رسپشنسٹ پہ ِ
’’ایسے کیسے لے گیا وہ؟ آپ نے کیوں جانے دیا؟۔ مجھےاسی وقت اطالع کیوں نہیں دی گئی؟‘‘
اسرار احمد تو جیسے رسپشنسٹ پہ حملہ آور ہو گئے۔ رسپشنسٹ بُری طرح سے ڈر گئی۔
چال رہے ہو؟ تمہاری بیٹی کوئی دودھ پیتی بچی تھی جو ا ُسے کوئی بغل میں داب ’’اس پہ کیوں ِ
کر لے گیا اور ِاس نے روکا نہیں؟‘‘
زبیدہ خاتون نے مداخلت کرتے ہوئے اسرار احمد سے طنزیہ کہا۔ وہ سخت غصے میں تھیں۔ وہیں
پہ اسرار احمد کی کالس لیتے ہوئے پوچھنے لگیں۔
’’کون ہے یہ وجاہت علی؟ دیکھو اسرار! مجھے سچ سچ بتاؤ۔۔۔۔ تمہاری بیٹی کا اس کے ساتھ
چکر تھا؟ تمہارے رویے سے تو مجھے لگتا ہے کہ تمہیں ا ُن دونوں کے بارے میں سب پتا تھا۔ پھر بھی تم
نے اپنی ایسی اوالد ہمارے متھّے منڈنا چاہی؟‘‘
ِ
زبیدہ خاتون ُبری طرح طیش میں آ چکی تھیں۔ اسرار احمد زبیدہ خاتون کے اس ردعمل پہ پہلے
گھبرا گئے۔ پھر سنبھل کر انھوں نے عجز و انکساری اختیار کر کے کہا۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے آپا!۔ پلیز مجھے تھوڑا وقت دیجیے۔ میں ابھی سارا معاملہ کلیئر کرتا
ہوں۔‘‘
پھر اپنا فون جیب سے نکال کر شوال کو کال مالئی۔ فون ابھی تک آف تھا۔ انھوں نے فون
کان سے ہٹایا۔
’’چلئے۔ ہم یہاں سے چلتے ہیں۔ ‘‘
کان سے ہٹایا۔
’’چلئے۔ ہم یہاں سے چلتے ہیں۔ ‘‘
مصلحتا ً ا ُنھوں نے زبیدہ خاتون کو وہاں سے لے چلنا مناسب سمجھا۔ زبیدہ خاتون غصے
سے الل چہرہ لئے بادلنخواسطہ ا ُن کے ساتھ باہر چلی آئیں اور گاڑی میں آ بیٹھیں۔ اسرار احمد نے گاڑی
چال دی۔ ا ُن کا چہرہ ایسا تھا جیسے کسی طوفان نے آ کر سب کچھ تباہ کر دیا ہو۔ پریشانی کے عالم
میں وہ بار بار شوال کا نمبر ِمال رہے تھے۔
’’اپنی بیٹی کو کال ِمال رہے ہو؟‘‘ زبیدہ خاتون نے قیاس کیا۔
پھر اسرار احمد کی تصدیق کا انتظار کئے بنا بڑبڑائیں۔ ’’وہ نہیں ا ُٹھانے والی۔ پتا نہیں
کہاں وہ اپنا منہ کاال کر رہی ہو گی۔ وہ ا ُٹھائے گی تمہارا فون۔‘‘
’’آپا! پلیز ایسی باتیں نہ کیجیئے۔ میری بیٹی ایسی نہیں ہے۔ ایک بار اس سے بات ہو جائے۔
ساری سچائی سامنے آ جائے گی۔‘‘
اسرار احمد نے لجاجت سے کہا۔ پھر انھوں نے وجاہت علی کا نمبر ِمالیا۔
سنی۔ کار کے دروازے کے وجاہت علی ابھی راستے میں تھے جب انھوں نے اپنے فون کی رنگ ُ
پاکٹ میں سے انھوں نے اپنا فون نکال کر دیکھا۔ اسکرین پہ اسرار احمد کا نام دیکھ کر ا ُنھوں نے ایک
چور خاموش بیٹھی تھی۔ ا ُن کے چور نگاہ شوال پہ ڈالی۔ شوال دنیا و مافیہا سے بےخبر ،صدمے میں ُ
ہونٹوں پہ شیطانی مسکراہٹ آ ٹھہری۔ فون سائیلنٹ پہ ڈال کر انھوں نے واپس پاکٹ میں رکھ دیا۔
ادھر اسرار احمد وجاہت علی کے فون نہ ا ُٹھانے پہ ُبری طرح تپ گئے۔
’’حرام خور!۔ پتا نہیں کہاں لے گیا میری بیٹی کو۔‘‘ وہ بڑبڑائے۔
زبیدہ خاتون نفی میں سر ہالتے ہوئے تمسخرانہ مسکرائیں۔
پھر میرج ہال پہنچنے تک اسرار احمد کبھی وجاہت تو کبھی شوال کا نمبر ٹرائی کرتے رہے۔
وجاہت علی فون ا ُٹھا نہیں رہے تھے اور شوال کا نمبر آف تھا۔
’’آپا پلیز! خدا کا واسطہ ہے۔ وقت کی نزاکت کو سمجھئے۔ ابھی کسی کو بھی اس بات کی
خبر نہ ہونے دیں۔ مجھے تھوڑا سا وقت دیجیے۔ میں ابھی جا کر ا ُسے لے کر آتا ہوں۔‘‘
گاڑی میرج ہال کے سامنے روک کر انھوں نے زبیدہ خاتون سے التجا کی۔ زبیدہ خاتون کچھ
سنے بغیر طیش کے عالم میں گاڑی سے نکل کر سیڑھیوں کی طرف بڑھنے لگیں۔ اسرار احمد ا ُن ب ھ ی کہ ے ُ
کے تیور دیکھ کر ڈر گئے۔ جھٹ سے کار سے نکلے اور بھاگ کر انھیں سیڑھیوں پہ جا لیا۔
’’پلیز آپا! میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ میری عزت آپ کے ہاتھ میں ہے۔ مجھے ان ہزاروں
لوگوں کے سامنے رسوا ہونے سے بچا لیجیئے۔‘‘
وہ دبی آواز میں ا ُن کی منتیں کر رہے تھے۔ زبیدہ خاتون چٹانوں کی طرح سخت چہرہ لیے
انھیں فراموش کرتی خاموشی کے ساتھ سیڑھیاں چڑھ کر اینٹرنس کی طرف بڑھنے لگیں۔
’’ میں تھوڑی ہی دیر میں اسے ال کر آپ کے سامنے حاضر کروں گا۔ شوال آج آپ کے بیٹے
کے ساتھ ہی بیاہی جائے گی۔‘‘
اسرار احمد کا آخری جملہ زبیدہ خاتون کو آپے سے باہر کرنے کے لئے کافی تھا۔ وہ اینٹرنس
سے اندر ہال میں داخل ہو چکی تھیں۔ ُرک کر اسرار احمد پہ دھاڑیں۔
خدا کا! اپنی بیٹی کے ’’بس کرو اسرار احمد!۔ عزت تو تم نے ہماری خراب کی ہے۔ غضب ُ
سارے کرتوت جانتے ہوئے بھی تم ا ُسے میرے بیٹے کے ساتھ بیاہنے چلے تھے؟۔۔۔ تم نے ہمیں اتنا ِگرا پڑا
سمجھ رکھا ہے کہ وہ لڑکی جو اپنی شادی کے ِدن بھی جانے ِکس کے ساتھ قریب دو گھنٹے سے اپنا منہ
کاال کر رہی ہے ،ا ُسے میں اپنے گھر کی بہو بناؤں گی؟‘‘
چالئیں۔ مقصد صرف ہال میں موجود چال سکتی تھیں ،وہ ِ زبیدہ خاتون جتنی اونچی آواز میں ِ
تمام مہمانوں تک اپنی آواز پہنچانا تھا ،جو انھوں نے بخوبی پورا کیا۔ پورا ہال ا ُن دونوں کی طرف متوجہ
ھک گیا۔ ا ُن کا ِدل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔
ہو گیا۔ اسرار احمد کا سر شرم سے ج ُ
سینکڑوں لوگوں کی نگاہیں ا ُن پہ جمی تھیں۔ وہ سر ا ُٹھا کر دیکھنے کے بھی الئق نہ رہے تھے۔
ھک گیا۔ ا ُن کا ِدل چاہا کہ زمین پھٹے اور وہ اس میں سما جائیں۔ ہو گیا۔ اسرار احمد کا سر شرم سے ج ُ
سینکڑوں لوگوں کی نگاہیں ا ُن پہ جمی تھیں۔ وہ سر ا ُٹھا کر دیکھنے کے بھی الئق نہ رہے تھے۔
زبیدہ خاتون نے اسرار احمد کو لعن طعن کرنے کے بعد سر اونچا کر کے پورے ہال سے خطاب
کیا۔
’’سنو تمام باراتیو! ۔۔۔ ابھی واپس چلو۔ کوئی فائدہ نہیں ہے یہاں رکنے کا۔ کیونکہ جس
لڑکی کی شادی کروانے آئے تھے وہ قریب دو گھنٹے پہلے بیوٹی پارلر سے ہی اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہو
چکی ہے۔‘‘
زبیدہ خاتون نے اپنا غصہ اپنی زبان کی گندگی کی صورت باہر نکاال اور وہیں سے ا ُلٹے
قدموں باہر کی راہ لی۔ ا ُن کے پیچھے ہی انسانوں کا ایک ریوڑ تھا جو باہر کی طرف چل پڑا۔ اسرار احمد
نے شرم سے ایک کونے میں منہ چھپا لیا۔ لوگ ان کے قریب سے گزر رہے تھے۔ بارات کے ساتھ آئے لوگ
بھی اور جنہیں انھوں نے مدعو کیا تھا وہ بھی۔ ہر کوئی اپنی اپنی ذہنیّت کے مطابق تبصرہ کر رہاتھا۔
کوئی ا ُن پہ تمسخرانہ نگاہ ڈال رہا تھا تو کوئی ان پہ ہنس رہا تھا۔ کچھ کی نگاہوں میں ترحم تھا۔ غرض
ہر کوئی اپنے انداز میں رِدعمل کا اظہار کرتا گزر رہا تھا۔ دو پل میں ہال خالی ہو گیا۔ کچھ لوگ تھے جو
پھر بھی وہاں ُرک گئے تھے۔ کچھ اپنی متجسس فطرت کے ہاتھوں مجبور آگے کا تماشہ دیکھنا چاہتے تھے
اور کچھ کو اسرار احمد سے ِدلی ہمدردی تھی۔ لیکن آگے بڑھ کر تسلی کے چند الفاظ بولنے کی کسی میں
ہمت نہ ہو رہی تھی۔
علیزہ ،کامران ،عمران اور علیزہ کے میکے والے۔ سب ایک ساتھ اسرار احمد کے گرد آ جمع
ہوئے۔ وہ سب بھی نہایت شرمسار تھے۔ سب ہی کی نگاہیں شرم سے جھکی ہوئی تھیں۔ وہ لوگ ایک
دوسرے سے بھی نظر نہیں ِمال پا رہے تھے۔ لیکن اس وقت ان سب کو اس شرمندگی سے زیادہ اسرار احمد
کی فکر ہو رہی تھی۔ جو دیوار میں منہ چھپائے بےحس و حرکت کھڑے تھے۔
’’پاپا!۔‘‘ کامران نے آگے بڑھ کر انھیں شانوں سے تھاما۔ اسرار احمد ٹوٹی شاخ کی طرح
کامران پہ آ گرے۔ کامران نے ا ُنھیں مضبوطی سے تھام لیا۔ ان کی حالت دیکھ کر ا ُن دونوں بھائیوں اور
علیزہ کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
’’عمران۔ ایمبولنس بلواؤ۔ جلدی۔‘‘
کامران نے پریشان ہو کر عمران سے کہا۔
عمران نے فورا ً تابعداری سے اپنا فون جیب میں سے نکاال۔ مگر اسرار احمد کی آواز نے ا ُسے
نمبر ِمالنے سے روک دیا۔
’’نہیں۔ میں اس وقت کسی کا سامنا نہیں کرنا چاہتا۔ مجھے ابھی اور اسی وقت گھر لے
چلو۔‘‘
ش نظر کامراناس واقعے نے جیسے اسرار احمد کی کمر توڑ دی تھی۔ ا ُن کی حالت کے پی ِ
نے بھی ضد نہ کی اور ا ُن کے حکم پہ ا ُنھیں سہارا دے کر باہر کے طرف لے جانے لگا۔
ہال کے اینٹرنس سے لے کر گاڑی تک کا سفر ا ُن کی زندگی کا سب سے طویل اور کٹھن سفر
ثابت ہوا تھا۔ ہر انسان تو کیا۔ آس پاس کی سب عمارتیں ،سڑک سے گزرتی گاڑیاں ،آسمان پہ چمکتا
صے کا ایک ایک زرہ تک جس حصے پہ قدم رکھ کر وہ آگے بڑھ رہے تھے ،اس ح ّ سورج ،غرض زمین کے ِ
انھیں اپنا تمسخر ا ُڑاتا محسوس ہو رہا تھا۔ ایسا لگتا تھا کہ کائنات کی ہر جاندار اور بےجان چیز کو ا ُن
کی اس ذلت اور رسوائی کی خبر ہے اور سب ہی ا ُن پہ ہنس رہے ہیں۔ ا ُن پہ طنز کر رہے ہیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی کے گھر کے باہر کچھ گن مین کھڑے پہرہ دے رہے تھے اور گھر کے اندر جشن کا سا
سماں تھا۔ پورا گھر سجا ہوا اور مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ وجاہت علی کی گاڑی گیٹ سے اندر داخل
ہوئی۔ پورٹیکو میں گاڑی روک کر انھوں نے سیٹ بیلٹ کھوال۔
’’چلو بیٹا!‘‘
شفقت سے کہہ کر وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکلے۔
’’چلو بیٹا!‘‘
شفقت سے کہہ کر وہ اپنی طرف کا دروازہ کھول کر باہر نکلے۔
گھوم کر آ کر انھوں نے اس کی طرف کا دروازہ کھوال تو وہ مجبور اور الچار سی گاڑی سے ا ُتری۔
’’آؤ۔‘‘
وہ اس کی کالئی پکڑ کر گھر کی پچھلی طرف چل پڑے۔
گھر کے عقب کی طرف جاتے ہوئے ہاتھ میں پکڑے فون پہ انھوں نے ایک کال مالئی۔
’’سکینہ! فورا ً آ کر پیچھے کا دروازہ کھولو۔‘‘
انھوں نے ڈائریکٹ حکم صادر کیا۔ پھر دوسری طرف کی بات سن کر تسلی آمیز انداز میں بولے۔
’’ہاں۔ میں لے آیا ہوں۔ کوئی پریشانی نہیں ہوئی۔‘‘
انھوں نے کہا اور دوسری طرف کی بات سن کر کال کاٹ دی۔ چند قدم چل کر وہ دونوں گھر کے
عقبی دروازے پہ پہنچ گئے۔ ا ُسی آن دروازہ ک ُ
ھال اور سامنے ایک خاتون کھڑی تھیں۔
’’ویلکم!‘‘ ُپرجوش استقبال کیا۔ بولیں۔’’ایک ہی دن میں ہوٹل بُک نہیں ہو سکتا تھا ،اس لئے میں نے
گھر پہ ہی سارا انتظام کروا لیا۔‘‘
’’ویلڈن۔‘‘
وجاہت علی ا ُسے لئے اندر داخل ہوئے۔ بیگم کو سراہا پھر پوچھنے لگے۔
’’قاضی وغیرہ سب آ گئے ناں؟‘‘
’’جی ہاں۔۔۔ سب حاضر ہیں۔ کھانا بھی پک رہا ہے۔ وہ بھی ڈنر کے وقت تک تیار ہوگا۔‘‘
’’گریٹ۔ پھر دیر نہ کرو۔۔ تم اسے لے جاؤ۔ اور نکاح کی تیاری کرو۔ پہلی فرصت میں ہی نکاح
پڑھوایا جائے گا۔ ایک بار نکاح ہو جائے ،اس کے بعد کوئی ٹینشن نہیں۔ باقی کے سارے کام بعد میں آرام
سے ہوتے رہیں گے۔‘‘
وجاہت علی نے کہتے ہوئے ا ُسے کسی بےجان چیز کی طرح آگے بڑھا کر اپنی بیگم کے حوالے کر دیا۔
’’جی بہتر۔۔۔ آپ بھی جلدی سے تیار ہو جایئے۔ آپ کیلئے نیا سوٹ منگوا کر کمرے میں رکھا ہے۔‘‘
سکینہ بیگم کے کہنے پہ وجاہت علی سر ہال کر عجلت میں ایک طرف چل دیئے۔
’’آؤ میرے ساتھ۔‘‘
سکینہ بیگم پیار سے اس کی پیٹھ پہ ہاتھ ٹکا کر ا ُسے اپنے ساتھ لئے دوسری اور چل پڑیں۔
ان کی ہمراہی میں وہ ایک کمرے میں داخل ہوئی۔ وہاں پہلے ہی کچھ لڑکیاں موجود تھیں جو اسکے
داخل ہوتے ہی بےتابی سے لپک کر قریب آئیں۔
’’لڑکیو!۔ جلدی سے قاضی صاحب کو بال الؤ کہ آ کر نکاح پڑھوائیں۔‘‘ سکینہ بیگم نے حکم ِ عام
صادر کیا۔
’’اس حالت میں؟۔۔۔ دلہن کا میک اپ تو ٹھیک کر لیں پہلے۔۔۔ کاجل پورے چہرے پہ پھیال ُہوا ہے۔‘‘
ایک لڑکی نے انتہا درجے کی حیرت کے ساتھ نکتہ چینی کی۔
’’بعد میں ٹھیک ہوتا رہے گا۔ ابھی دلہن کا چہرہ چادر سے ڈھک دیں گے۔ نکاح کے بعد آرام سے
میک اپ وغیرہ کر لینا۔‘‘
سکینہ بیگم نے فرمان جاری کیا۔ دو لڑکیاں قاضی صاحب کو بالنے کی غرض سے کمرے سے نکل
گیئیں۔
’’تم لوگ اس کا خیال رکھو۔ میں رجب کو دیکھ کر ابھی واپس آتی ہوں۔‘‘
سکینہ بیگم اسے ا ُن لڑکیوں کے حوالے کر کے خود کمرے سے نکل گیئیں۔ وقت بہت ہی کم تھا اور
شاید یہ واحد موقع ا ُسے ِمال تھا۔ دو چار لڑکیوں نے ا ُسے بازوٴوں سے پکڑ کر آگے بڑھنا چاہا مگر ا ُس نے
قدم آگے نہ بڑھایا۔
’’مجھے۔۔۔۔ باتھ روم جانا ہے۔‘‘ اس نے ہمت کر کے کہا۔
’’آف کورس۔۔۔۔ ادھر آؤ۔‘‘
اس کی دائیں جانب کھڑی لڑکی نے کہا اور ا ُسے پکڑ کر اسی کمرے کی ایک دیوار میں لگے دروازے
’’آف کورس۔۔۔۔ ادھر آؤ۔‘‘
اس کی دائیں جانب کھڑی لڑکی نے کہا اور ا ُسے پکڑ کر اسی کمرے کی ایک دیوار میں لگے دروازے
تک لے آئی۔
’’یہ باتھ روم ہے۔ جاؤ۔‘‘
وہ یہ سنتے ہی دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گئی اور درازے کی چٹخنی چڑھا دی۔ ُمڑ کر چاروں
اور نگاہیں دوڑائیں۔ دوسری دیوار میں چھت سے تھوڑا سا نیچے لگے ایگزاسٹ فین کے عالوہ باتھ روم میں
اور کوئی کھڑکی ،روشندان یا کوئی دوسرا دروازہ نہیں تھا۔ ا ُسے خاصی مایوسی ہوئی۔ مگر اس کے پاس
مایوس ہونے کیلئے بھی وقت نہیں تھا۔ وہ جلدی سے دروازے سے دور جا کھڑی ہوئی اور دوپٹہ ہٹا کر فون
سامنے کیا۔ جلدی جلدی میں اس نے اسرار احمد کو کال مالئی اور فون کان سے لگا کر ان کے کال اٹھانے
کا انتظار کرنے لگی۔
اسرار احمد اس وقت اپنے کمرے میں نیم مردہ حالت میں بستر پہ پڑے تھے۔ فون ہاتھ سے ذرا
فاصلے پہ بستر پر ڈال رکھا تھا۔ فون پہ کال آئی تو انھوں نے مرے سے انداز میں ہاتھ بڑھا کر فون ا ُٹھایا
اور سکرین پہ ا ُبھرا نام دیکھ کر بس ساکت ہو گئے۔ کچھ دیر وہ اسی پوزیشن میں ساکت رہے۔ فون کی
سکرین پہ ابھرے شوال کے نام پہ نظریں جمائے ان کے چہرے کی سرخی بڑھنے لگی۔ پھر ا ُن کا غصہ ان
کی آنکھوں سے بھی ظاہر ہونے لگا۔ غیض و غضب سے ان کا وجود لرزنے لگا اور لرزتے ہاتھوں انھوں نے
کال ایکسیپٹ کر کے فون کان سے لگایا۔
کال جیسے ہی ایکسیپٹ ہوئی۔ شوال نے اسرار احمد کے ہیلو کہنے کا بھی انتظار نہ کیا۔
’’ہیلو پاپا!۔‘‘ بے تابی سے بولی۔
آنکھیں آنسوؤں سے بھر گیئیں۔
’’اب ِکس لئے فون کیا ہے تم نے؟‘‘
اسرار احمد نے بھی اسے کچھ کہنے سنانے کا موقع دیئے بنا غضبناک آواز میں سوال کیا اور اسی
غضبناکی اور سنگدلی سے بولے۔
’’آج جس گھر سے تمہاری ڈولی اٹھنی تھی۔ تم نے اس گھر سے میری عزت کا جنازہ نکال دیا۔ اب
باقی کیا رہ گیا ہے جو تم فون کر رہی ہو؟۔ آئندہ کبھی مجھے یا اس گھر کے کسی بھی فرد سے کوئی
رابطہ کرنے کی جرٴات مت کرنا۔ تم اب َمر چکی ہو ہمارے لئے۔‘‘
صہ اس پہ نکال کر کال کاٹ دی۔ اسرار احمد نے اپنا سارا غ ّ
اسرار احمد کے الفاظ نے اس کے دل پر کاری ضرب لگائی تھی۔ آنسو آنکھوں میں ہی ُرک گئے تھے۔
فون ا ُس کے ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پہ ِگر کر ٹوٹ گیا۔ وہ شاک کی سی کیفیت میں دیوار سے پیٹھ
ِٹکائے کھڑی کی کھڑی رہ گئی۔
’’شوال!۔۔۔ شوال بیٹا! دروازہ کھولو۔‘‘
کچھ ہی دیر میں سکینہ بیگم کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی۔
کتنی ہی بار دروازے پہ دستک اور آوازیں لگنے کے بعد جاکر اس کے وجود میں جنبش ہوئی۔ پہلے وہ
پلکیں جھپکا کر سکتے سے ِنکلی۔ پھر بےجان جسم کو گھسیٹتی دروازے تک پہنچی اور دروازہ کھول دیا۔
سامنے سکینہ بیگم بہت گھبرائی اور پریشان سی حالت میں کھڑی تھیں۔ اسے صحیح سالمت سامنے پا
کر ا ُن کی جان میں جان آئی۔
’’میں تو پریشان ہو گئی تھی۔ تم ٹھیک ہو ناں!؟‘‘
سکینہ بیگم نے فکرمندی اور محبت کے ِملے ُجلے تاثرات کے ساتھ پوچھا۔
وہ جوابا ً کچھ نہ بولی۔
’’چلو۔ قاضی صاحب منتظر ہیں۔‘‘
کہہ کر سکینہ بیگم ا ُس کا بازو پکڑ کر ایک صوفے تک لے آئیں اور ا ُسے ِبٹھا کر خود بھی اس کے
پہلو میں بیٹھ گیئیں۔ ایک لڑکی نے ا ُس کے سر پہ سفید چارد ڈال کر اس کا چہرہ ڈھک دیا۔
’’سفینہ!۔۔۔ قاضی صاحب کو بولو کہ اندر آ جائیں۔‘‘
سکینہ بیگم نے ایک لڑکی سے کہا۔
’’سفینہ!۔۔۔ قاضی صاحب کو بولو کہ اندر آ جائیں۔‘‘
سکینہ بیگم نے ایک لڑکی سے کہا۔
وہ لڑکی سر ہال کر دروازے پہ گئی اور دروازہ کھول کر قاضی صاحب کو اندر بالیا۔ قاضی صاحب
کے ساتھ وجاہت علی اور دو اور مرد حضرات بھی اندر داخل ہوئے۔ قاضی صاحب سامنے رکھی کرسی پہ
بیٹھ گئے اور نکاح پڑھوانے کا آغاز کیا۔
جب کوئی اپنا آپ کا ِدل دکھاتا ہے تو آپ اس کی سزا بھی خود کو ہی دیتے ہیں۔ اس وقت اسرار
احمد کے روّیے سے اس کا ِدل اتنا دکھا ہوا تھا کہ اس نے خود کو سزا دینے کے لئے نکاح قبول کر کے
دستخط کر دیئے۔ نکاح پڑھوانے کے بعد قاضی صاحب رجسٹر ا ُٹھا کر باقی حضرات کی ہمراہی میں کمرے
سل سرک گئی تھی۔ دونوں سے ِنکل گئے۔ سکینہ بیگم اور وجاہت علی کے سینے پر سے تو ایک پتھر کی ِ
ہی ا ُس کی رضامندی کی سند حاصل کرنے کے بعد بہت ہلکے پھلکے ہوگئے تھے۔
’’چلو لڑکیو۔ اب جلدی سے میک اپ کرو۔ میں زیورات لے کر آتی ہوں۔‘‘
قاضی صاحب کے جانے کے بعد سکینہ بیگم نے اگال حکم جاری کیا اور کمرے سے نکل گیئیں۔
سرے سے دلہن بنانے کے لئے ا ُس کا میک اپ صاف تمام لڑکیاں ا ُس کے گرد جمع ہو کر ا ُسے نئے ِ
کرنے لگیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
عمران ،کامران اور علیزہ اسرار احمد کے کمرے میں آئے۔ کامران کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ وہ
قدرے ہچکچاتے ہوئے آگے بڑھا اور اسرار احمد کے سامنے بیڈ کے کنارے بیٹھ گیا۔
’’پاپا!۔‘‘
اسرار احمد کمرے میں ا ُن لوگوں کی آمد سے باخبر تھے مگر کوئی رِدعمل ظاہر نہ کیا تھا۔ کامران
کے پکارنے پہ انھوں نے بس نگاہیں گھما کر ا ُسے دیکھا۔
’’یہ۔۔۔ کوئی ہمارے گھر کے اندر پھینک گیا ہے۔‘‘
کامران نے ہچکچاہٹ کے ساتھ لفافہ ا ُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا اور بوال۔
’’ ا ُن لوگوں نے شوال کا نکاح رجب کے ساتھ کروا دیا ہے۔‘‘
جب تک کامران نے اپنی بات مکمل کی تب تک اسرار احمد نے لفافہ ہاتھ میں لے کر کھول کر دیکھ
بھی لیا۔ وہ شوال کے نکاح نامے کی فوٹو کاپی تھی۔
کامران کے خاموش ہوجانے کے بعد بھی اسرار احمد کچھ نہ بولے اور نکاح نامے کو دیکھتے رہے۔
پھر انھوں نے ا ُسی خاموشی کے ساتھ وہ کاغذ اور لفافہ اپنے ایک طرف بستر پہ ڈال دیا۔ ایسے
جیسے اس نکاح نامے کی ان کے نزدیک کوئی اہمیت نہ ہو۔
’’مجھے معلوم تھا کہ وہ ایسا ہی کریگا۔‘‘
اسرار احمد نے ا ُجڑی ہوئی آواز میں کہا۔
’’پاپا! ہم کچھ کریں گے نہیں؟‘‘
عمران بھی آگے بڑھ آیا اور ا ُن کے بیڈ کی پائنتی آ بیٹھا۔ علیزہ بھی گھوم کر بیڈ کے دوسرے کنارے
پہ آ ٹِکی۔ وہ سب اسرار احمد اور شوال کے لئے بہت پریشان اور فکرمند تھے۔
اسرار احمد نے ا ُجڑی ہوئی آنکھوں سے عمران کو دیکھا بولے۔
’’اب ہم کیا کر سکتے ہیں؟۔ یہ خبر سارے زمانے میں پھیل چکی ہے۔ اب کچھ کرنے سے کیا
حاصل؟۔۔۔اگر شوال ہی مجھے وقت پہ فون کر کے اطالع کر دیتی تو بھی میں کچھ کر لیتا۔ میں سمجھ رہا
تھا کہ وجاہت نے شوال سے ا ُس کا فون چھین لیا ہے۔ مگر ایسا نہیں تھا۔ پھر بھی ا ُس نے مجھے ٹائم پہ
کال نہیں کی۔ زبیدہ آپا نے بھی جو کیا مجھے ا ُن سے اس کی ا ُمید نہیں تھی۔‘‘
’’آپ اسطرح خالی ہاتھ میرج ہال واپس آئے ہی کیوں تھے پاپا!؟ ا ُنکو بھی اپنے ساتھ کہیں باہر
رکھتے اور ہمیں فون کر کے اطالع کر دیتے۔ ہم شوال کو ڈھونڈ التے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
کامران نے کہا۔
رکھتے اور ہمیں فون کر کے اطالع کر دیتے۔ ہم شوال کو ڈھونڈ التے۔ مگر آپ نے ایسا نہیں کیا۔‘‘
کامران نے کہا۔
’’ شوال کو چھڑا کر النا کوئی منٹوں کا کھیل نہیں تھا۔ جو تم لوگ جھٹ پٹ جا کر ا ُسے چھڑوا
التے۔ اور پھر۔۔۔۔ اگر میں تم لوگوں کو بھی بال لیتا تو لوگوں کو شک ہو جاتا کہ کوئی گڑبڑ ہے۔۔۔۔ ِاسی
خدشے کے تحت میں نے سوچا کہ میں اور زبیدہ آپا پہلے میرج ہال آ کر کوئی بہانہ بنا کر فنکشن ملتوی
کردیں۔ پھر میں تم دونوں کے ساتھ ا ُسے ڈھونڈ لوں گا۔ مگر زبیدہ آپا تو کچھ سننے سمجھنے کو تیار ہی
نہ ہوئیں اور لے کے سارے میں اعالن کر دیا۔ ا ُس کے بعد کرنے کو رہ ہی کیا جاتا ہے۔ میری اور میری بیٹی
کی رسوائی تو زمانے بھر میں ہو چکی ہے۔‘‘
’’مگر ہم وجاہت علی کو بھی سبق سکھائے بنا تو نہیں چھوڑ سکتے۔ ا ُسے اپنے کئے کا خمیازہ
بھگتنا ہوگا۔‘‘
کامران نے جوشیلے پن سے کہا۔
’’ وجاہت پہلے ہی ہمیں سارے میں رسوا کر کے اپنا مقصد حاصل کرچکا ہے۔ اب تم لوگ ا ُسے
پریشان کر کے اپنی بہن کے لئے مشکالت کھڑی مت کرو۔۔۔۔ یہ مت بھولو کہ اب شوال ا ُن کے گھر میں ہے۔
اگر تم لوگ وجاہت علی کو پریشان کرو گے تو اس کے بدلے وہ وہاں شوال کا جینا مشکل کر دے گا۔‘‘
’’شوال ا ُن کے گھر ہے ہی کیوں پاپا!۔۔۔ ہم شوال کو وہاں سے نکلوا الئیں گے اور کورٹ کے ذدیعے
خلع کروا لیں گے۔۔۔۔۔
ایسے نکاح کروا کے وہ لوگ ہماری بہن پہ قبضہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں بھی یہ نکاح تڑوانا آتا ہے۔‘‘
عمران نے جوشیلے پن کے ساتھ اپنی رائے دی۔
’’ٹھیک ہے خلع کروا لیں گے۔ ا ُس کے بعد کیا کرو گے اپنی بہن کا؟ کہاں رکھو گے ا ُسے؟ اب ا ُسے
کوئی بیاہنے کو تو تیار ہوگا نہیں۔ کیا ساری زندگی ماتھے پہ کلنک لئے وہ ِاسی گھر میں بیٹھی رہے
گی؟۔۔۔۔۔ یہی چاہتے ہو تم؟‘‘
اسرار احمد نے اس کی رائے رّد کرتے ہوئے کہا۔
’’تو پھر ہمیں کیا کرنا چاہیئے؟ ہم قبول کر لیں اس رشتے کو؟‘‘ عمران نے سوال کیا۔
’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ سوائے اس کے کہ اب شوال کو بھول جائیں۔‘‘ اسرار احمد نے کہا۔
’’ہم ایسا کیسے کر سکتے ہیں پاپا!؟ شوال ہماری بہن ہے۔ ہم کیسے ا ُسے ا ُن لوگوں کے درمیان تنہا
چھوڑ سکتے ہیں؟ ہماری بہن بےقصور ہے۔‘‘
عمران کے لئے اسرار احمد کا یہ فیصلہ ناقابِل قبول تھا۔
’’ٹھیک ہے۔ پھر تم صبح بےغیرتوں کی طرح مٹھائی کا ٹوکرا لے کر چلے جانا وجاہت علی کے گھر۔‘‘
اسرار احمد نے طنزیہ کہا۔ پھر بولے۔
’’ حقیقت کیا ہے۔ یہ صرف ہم ہی جانتے ہیں۔ دنیا والوں کی نظر میں وہ ایک بھاگی ہوئی لڑکی ہے۔
ا ُس پہ دھبہ لگ چکا ہے۔ اب کیا ہم اس کے پیچھے جاکر دنیا والوں کو یہ دکھائیں کہ ہم بےغیرت ہیں؟۔۔۔
میری لوگوں میں اتنی عزت تھی۔ اتنا نام تھا۔ اب اتنی بڑی رسوائی کے بعد میں سوچتا ہوں کہ میں
لوگوں کا سامنا کیسے کروں گا۔ اور تم چاہتے ہو کہ ہم شوال کا پیچھا کریں؟۔۔۔ کیا جواب دوگے لوگوں کے
سوالوں کا؟ میری بیٹی ،جو اپنی شادی کے روز کسی اور کے ساتھ بھاگ گئی تھی۔ ایسی بیٹی کو گولی
مارنے کی بجائے میں اسکی فکر کر رہا ہوں۔ ا ُس کے پیچھے جا رہا ہوں۔۔۔۔ جب لوگ یہ باتیں کہیں گے تو
کیا جواب دوں گا میں انھیں؟۔۔۔ ایک ایک کو پکڑ کر کہوں گا کہ نہیں میری بیٹی بےقصور ہے؟۔ کون یقین
کریگا میرا؟ لوگ کیا کیا نہیں کہیں گے میرے بارے میں۔۔۔۔ میں ِکس ِکس کی زبان پکڑوں گا؟۔ سارے زمانے
چکا ہوں۔ اب ’بےغیرت‘ کا ٹھپہ بھی لگوا لوں کیا؟۔‘‘ میں بےعزت تو ہو ہی ُ
اسرار احمد کا انداز حتمی اور ُپراثر تھا۔ انھوں نے جو بھی کہا تھا عمران اور کامران دونوں ا ُن کے
قائل ہو گئے تھے۔ علیزہ نے بھی خاموشی سے نگاہیں جھکا رکھی تھیں۔ کمرے میں ایک گہری خاموشی
چھا گئی۔ سب ہی کے چہرے پہ گہرے دکھ کے تاثرات تھے۔
چھا گئی۔ سب ہی کے چہرے پہ گہرے دکھ کے تاثرات تھے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
جب سکینہ بیگم اسے تھامے کمرے میں الئیں تب رات ہو چکی تھی۔ سکینہ بیگم نے ا ُسے لے جا کر
پھولوں سے سجی سیج پہ ِبٹھا ِدیا۔ ا ُن کے پیچھے ہی ماسی بھی پھلوں کی ٹوکری ا ُٹھائے اندر داخل
ہوئی اور ال کر بیڈ سائیڈ ٹیبل پہ رکھ دی۔
’’اگر طلب ہو تو یہ پھل کھا لینا۔ ادھر ٹیبل پہ جوس اور پانی کا جگ بھی رکھا ہے۔‘‘
سکینہ بیگم نے شیریں لہجے میں ا ُس سے کہا۔
وہ بےتاثر چہرہ لئے خاموش بیٹھی رہی۔
’’اب میں جا کر رجب کو بھیجتی ہوں۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہا اور ا ُس کے سر پر سے دوپٹہ کھینچ کر ا ُس کے چہرے پہ گھونگٹ ڈال دیا۔
’’شب بخیر۔‘‘
محبت سے کہہ کر وہ ماسی کے پیچھے کمرے سے نکل گیئیں اور جاتے جاتے دروازہ بھی بند کر
گیئیں۔
دروازہ بند ہونے کی دیر تھی۔ ا ُس نے غصے سے دوپٹہ نوچ پھینکا۔
’’رجب۔ مائی ُفٹ۔‘‘ وہ بڑبڑائی۔
اس وقت ا ُس کے دماغ میں الوا ا ُبل رہا تھا۔ شدید طیش کے عالم میں ا ُس نے بالوں سے گجرے نوچ
ڈالے اور ساری پنیں نکال کر نفاست سے بندھے بال بکھیر دیئے۔ اس کے بعد وہ اپنے تمام زیورات نوچ نوچ
کر پھینکنے لگی۔ تب ہی ا ُس کی نظر ا ُٹھ کر دیوار پہ گئی اور پلٹنا بھول گئی۔ کچھ پل کیلئے وہ ایک ٹک
دیوار پہ لگی اپنی تصاویر دیکھتی رہی۔ پھر وہ ا ُٹھی اور چند قدم چل کر دیوار کے سامنے جا کھڑی
ہوئی۔
’’یہ ساری تصویرں تو سمیرہ کی منگنی کے دن کی ہیں۔۔۔ یعنی میرا شک درست تھا۔ وہی فوٹو
گرافر ہی رجب ہے۔‘‘
سوچتے ہوئے ا ُس نے چہرہ گھمایا۔ ا ُس کی نظر وینٹی ٹیبل پہ پڑی اور اسے دوسرا دھچکا لگا۔
وینٹی ٹیبل کی سطح بھی پھولوں سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ا ُس پہ کچھ خوشبودار شمعیں روشن تھیں اور ا ُن
شمعوں کے درمیان ایک خوبصورت فریم میں کسی کی تصویر تھی جس نے ا ُسے ُبری طرح چونکا دیا تھا۔
اس کمرے میں وہ اپنی تصاویر دیکھ کر اتنی حیران نہیں ہوئی تھی جتنی ِاس تصویر کو دیکھ کر۔ ا ُس نے
ہاتھ بڑھا کر تصویر ا ُٹھا لی۔ ا ُس کی آنکھوں کو کوئی دھوکا نہیں ہوا تھا۔ یہ ا ُسی لڑکے کی تصویر
تھی۔
) یہ؟۔۔۔ (
’’آپ کو یاد ہوگا۔ ہم آپ کی دوست عمیرہ کی بہن کی منگنی پہ ِملے تھے۔‘‘ ا ُس کے ذیہن میں رجب
کے الفاظ گونجے۔
) تو کیا یہ رجب ہے؟( ا ُس نے بےیقینی کے ساتھ خود سے سوال کیا۔
) میرے اهلل!۔۔۔۔ اتنا ڈیسنٹ۔ اتنے سلجھے طریقے سے پیش آنے واال لڑکا۔۔۔۔ اور اندر سے یہ
کرتوت؟۔۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ بظاہر اتنی شرافت سے پیش آنے واال لڑکا اصل میں
اتنا گھٹیا ہوگا۔(
وہ یہ جان کر گہرے صدمے سے دوچار ہوئی۔ افسوس بھری نگاہوں سے ا ُس تصویر کو دیکھا اور
پھر نفرت اور غصے سے ا ُس نے وہ تصویر دور دیوار پہ دے ماری۔ تصویر دیوار سے ٹکرا کر نیچے گری
اور ایک آواز کے ساتھ فریم کے ٹکڑے مختلف سمتوں میں بکھر گئے۔ وہ غصے سے چلتی واپس بیڈ کی
طرف چلی آئی۔ بیڈ کے کنارے بیٹھ کر ا ُس نے دونوں ہاتھوں میں سر تھام لیا۔ وہ صدمے کی کیفیت میں
جس میں ایک چاقو بھی رکھا بیٹھی تھی۔ نظریں سائیڈ ٹیبل پہ رکھی پھلوں کی ٹوکری پہ جمی تھیں ِ
تھا۔ اصل میں رجب کون ہے۔ یہ جان کر ا ُسے جو صدمہ پہنچا تھا۔ اب وہ صدمہ بھی غصے میں تبدیل ہو
چکا تھا۔ تب ہی ا ُسے دروازے کی ناب گھومنے کی آواز آئی۔ وہ بجلی کی سی سرعت سے ا ُٹھی اور پھلوں
تھا۔ اصل میں رجب کون ہے۔ یہ جان کر ا ُسے جو صدمہ پہنچا تھا۔ اب وہ صدمہ بھی غصے میں تبدیل ہو
چکا تھا۔ تب ہی ا ُسے دروازے کی ناب گھومنے کی آواز آئی۔ وہ بجلی کی سی سرعت سے ا ُٹھی اور پھلوں
کی ٹوکری میں سے چاقو نکال کر ہاتھ اپنے پیچھے کر لیا۔ رجب نے کمرے میں داخل ہوکر دروازہ بند کیا۔
پھر پلٹا تو دیکھا کہ شوال بیڈ کے قریب کھڑی ہے۔ بکھرے ہوئے بال اور بنا کسی زیور اور دوپٹے کے۔ وہ
ا ُسے ایسے حلیے میں پانے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔ پھر بھی اس نے زیادہ حیرت کا اظہار نہ کیا اور
آگے بڑھنے لگا۔ آگے بڑھتے ہوئے ا ُس نے بستر پہ اور شوال کے قدموں میں فرش پہ بکھرے گجرے کے پھول
اور زیورات بھی دیکھ لئے۔ ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر شوال کو دیکھا۔ شوال کے چہرے پہ چٹانوں کی سی
سختی تھی اور وہ بالکل خاموش اور ساکت کھڑی ا ُسے ہی دیکھ رہی تھی۔
’’تو۔۔۔۔ مسٹر رجب!‘‘ شوال نے سرد لہجے میں کہا۔
رجب ا ُس سے دو قدم کے فاصلے پہ تھا۔ وہیں ُرک گیا اور ُمسکرایا۔
’’شکر ہے۔ تم نے مجھے پہچانا تو۔‘‘ رجب نے کہا۔
شوال نے ا ُسے مزید کچھ کہنے کا موقع نہیں دیا۔ تلخ لہجے میں بولی۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے؟ نکاح نامے پہ دستخط کروا کر تم لوگ جیت گئے ہو؟
میرے باپ کو ذلیل کرنے کے لئے تم لوگوں نے میرے ساتھ یہ سب کیا ہے ناں!؟۔۔۔ تمہیں کیا لگتا ہے؟
اب میں تمہاری ملکّیت ہوں؟ تم جو چاہو میرے ساتھ کر سکتے ہو؟۔۔۔۔
تم نے میری زندگی برباد کی ہے۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی۔‘‘
وہ خطرناک تیوروں کے ساتھ جیسے چنگاڑی اور اپنا چاقو واال ہاتھ بلند کیا۔ اس کی آنکھوں سے
جیسے شرارے نکل رہے تھے۔
رجب ا ُسے حملہ آوار ہوتا دیکھ کر خوفزدہ تو نہ ہوا لیکن ا ُسے رنج ضرور پہنچا تھا۔ ا ُسی رنجیدہ
آواز میں بوال۔
’’میں مانتا ہوں کہ جو بھی ہوا اچھا نہیں ہوا۔ میں نے کبھی نہیں چاہا تھا کہ ہماری شادی اس
طرح سے ہو۔ لیکن تم جو سمجھ رہی ہو ویسا نہیں ہے۔ حاالت ہی ایسے پیدا ہوگئے کہ ہمارے پاس اور
کوئی دوسرا راستہ نہیں بچا۔ ہمیں مجبوری میں یہ قدم ا ُٹھانا پڑا۔ ورنہ ہمارا مقصد تمہارے پاپا کو ذلیل
کرنا ہرگز نہ تھا۔ ُمجھے آج ہی پتا چال کہ تمہاری کسی اور سے شادی ہو رہی ہے۔ میں تم سے بے پناہ
پیار کرتا ہوں شوال! کیسے تمہیں کسی اور کی ہونے دیتا؟۔‘‘
’’جھوٹ ہے یہ سب۔ بکواس کرتے ہو تم۔‘‘
شوال نے غصے اور نفرت سے کہا۔
رجب کا ِدل کٹ کر رہ گیا۔
’’ٹھیک ہے۔ اگر یہ جھوٹ ہے تو تم جو سزا مجھے دینا چاہتی ہو دے لو۔ لےلو میری جان۔‘‘
رجب نے شکستہ لہجے میں کہہ کر سینے پہ ہاتھ باندھ لئے۔ گویا مرنے کے لئے تیار کھڑا تھا۔
شوال فضا میں ہاتھ بلند کئے ا ُسے گھورتی رہی۔ خواہش تو بہت تھی کہ ابھی ہاتھ میں پکڑا چاقو
رجب کے سینے میں پیوست کر دے۔ لیکن جب بات عمل کی آتی تھی تو ا ُس کی ساری ہمت جواب دے جاتی
تھی۔ اس نے بہت کوشش کی کہ وہ اپنے ارادے پہ عمل کر سکے۔ مگر کسی کو قتل کرنا کیا اتنا آسان ہوتا
ہے؟ وہ بھی ا ُس لڑکی کے لئے جس نے زندگی میں کبھی کسی کو ُدکھ پہنچانے کا سوچا بھی نہ ہو۔
ا ُس نے ہمت جٹانے کے لئے دوسرا ہاتھ بھی چاقو پہ رکھ لیا۔ مگر الکھ کوشش کے باوجود وہ رجب پہ
وار نہ کر سکی۔ صورتحال ایسی تھی کہ وہ ہار بھی تسلیم نہیں کر سکتی تھی۔ اس وقت اگر وہ ہار مان
لیتی تو ِاس کا مطلب تھا کہ اس نے یہ رشتہ بھی مان لیا ہے اور آج جو کچھ ا ُس کے اور اس کے خاندان
کے ساتھ ِان لوگوں نے ِکیا تھا۔ ا ُس سب کے آگے بھی سر تسلیم ِ خم کرنے والی بات ہو جاتی۔ جو کہ ا ُسے
کسی صورت بھی منظور نہ تھا۔
ا ُسے اور کچھ نہ سوجھا تو فرسٹریشن میں ا ُس نے اپنی ہی جان لینے کے لئے خود پہ وار کر دیا۔
رجب یہ دیکھ کر بروقت حرکت میں آیا اور چاقو کی نوک ابھی ا ُس کے پیٹ سے قریب ایک سینٹی میٹر کے
فاصلے پہ تھی جب ا ُس نے شوال کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے روک لیا۔
’’یہ تم کیا کر رہی ہو؟ پاگل ہو گئی ہو کیا؟‘‘
فاصلے پہ تھی جب ا ُس نے شوال کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے روک لیا۔
’’یہ تم کیا کر رہی ہو؟ پاگل ہو گئی ہو کیا؟‘‘
شوال کے خطرناک ارادے بھانپ کر رجب نے اپنے ایک ہاتھ سے اس کا چاقو واال ہاتھ مروڑ کر اس
کی پیٹھ سے لگا لیا اور اپنے دوسرے ہاتھ سے ا ُسے جکڑنے کے بعد ا ُس کے ہاتھ سے چاقو چھڑانے کی
کوشش کرنے لگا۔
’’چھوڑو مجھے۔ چھوڑو میرا ہاتھ۔‘‘
شوال زخمی شیرنی کی طرح بپھری ہوئی خود کو چھڑانے کے لئے مزاحمت کر رہی تھی۔
رجب اپنا ایک بازو اس کے گرد ڈال کر ا ُس کی پیٹھ خود سے لگائے ا ُسے جکڑے کھڑا تھا اور اپنے
دوسرے ہاتھ سے ا ُس کے ہاتھ سے چاقو چھڑانے کی کوشش کر رہا تھا۔
اپنی پوری کوشش اور مزاحمت کے باوجود شوال نے جانا کہ اس کے گرد رجب کی گرفت بہت
مضبوط ہے اور وہ چاقو چھڑوانے میں بھی کامیاب ہوجائے گا۔ چاقو ا ُس کی پیٹھ پیچھے تھا اور وہ واضح
طور پر محسوس کر رہی تھی کہ ا ُس کا ہاتھ اور چاقو رجب کے بدن سے رگڑ کھا رہا ہے۔ چاقو اپنے ہاتھ
سے نکلتا پا کر فرسٹریشن میں اس نے وہیں پہ رجب کے پہلو میں ہی چاقو پھیر دیا۔
’’آہ۔‘‘
ایک کراہ کے ساتھ رجب نے ا ُسے فورا ً چھوڑ دیا۔
وہ ایک جھٹکے سے چھوٹی۔ ُمڑ کر دیکھا تو رجب کو پہلو پہ ہاتھ رکھے تکلیف کے ساتھ جھکتے
پایا۔ درد برداشت کرنے کی کوشش میں لب بھینچے وہ دھیرے دھیرے فرش پہ بیٹھتا چال گیا۔
وہ بےیقینی سے پھٹی آنکھوں کے ساتھ ا ُسے دیکھ رہی تھی۔ ا ُسے یقین نہیں آرہا تھا کہ ا ُس نے
رجب کو چاقو مار دیا ہے۔ اور اس کا مارا ہوا چاقو رجب کو لگا ہےِ ،اس خوف سے ا ُس کا چہرہ سفید پڑ
گیا تھا۔ ِاس بات کا یقین ہونے کے باوجود کہ اس کا مارا ہوا چاقو رجب کو لگا ہے۔ پھر بھی ِدل میں
احمقانہ سی خواہش تھی کہ رجب کو کوئی چوٹ نہ پہنچی ہو۔ ِدل میں یہ خواہش بھی لئے وہ متجسس
سی رجب کو دیکھے جا رہی تھی۔
رجب نے فرش پہ دوزانو بیٹھ کر اپنا ہاتھ پہلو سے ہٹا کر سامنے کیا۔ ا ُس کا ہاتھ خون سے لت پت
تھا۔
یہ دیکھ کر شوال کے ہاتھ سے چاقو گِر گیا اور بے اختیار حلق سے چیخ بلند ہوئی۔ پھر خوفزدہ ہوکر
اپنے دونوں ہاتھ منہ پہ جما لئے۔
رجب نے بیٹھے بیٹھے ہی سر ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا اور ا ُس کی حالت دیکھ کر درد میں بھی ُمسکرا
دیا۔ پھر ایک خیال کے تحت ا ُس نے اپنا ہاتھ واپس پہلو پہ جما کر اپنا دوسرا ہاتھ بڑھا کر شوال کے
قدموں میں سے وہ چاقو ا ُٹھایا اور کسی طرح سے ا ُٹھ کر واش روم میں چال گیا۔
ا ُسی آن دروازے پہ دستک ہونے لگی۔
’’رجب!۔۔۔ رجب!۔۔۔۔۔ شوال!۔‘‘
دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے وجاہت علی اور سکینہ بیگم ان دونوں کو آوازیں دے رہے تھے۔
وہ اپنی جگہ سے ہل نہ سکی۔
’’رجب!۔۔ دروازہ کھولو۔ شوال!۔‘‘
وہ لوگ بنا دروازہ کھلوائے جانے والے نہ تھے۔
بہت دیر تک سکتے کے عالم میں دروازہ گھورتے رہنے کے بعد ا ُس نے ہمت کر کے بستر پہ پھینکا
دوپٹہ ا ُٹھا کر گلے میں ڈاال اور جا کر دروازہ کھول دیا۔
دروازہ کھلتے ہی وجاہت علی اور سکینہ بیگم تو جیسے کمرے کے اندر ا ُمڈ آئے۔ پریشانی کے عالم
میں کمرے میں چہار سو متالشی نظریں گھمائیں۔
’’کیا ہوا؟ تم چیخی کیوں؟۔۔۔ رجب کہاں ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے ازحد فکرمندی سے پوچھا۔
وہ ابھی تک سہمی ہوئی تھی۔ سکینہ بیگم کے سوال پر واش روم کی طرف فقط اشارہ ہی کر سکی۔
وجاہت علی اشارہ پاتے ہی واش روم کے دروازے کی طرف لپکے اور دستک کیا دی گویا دروازہ پیٹ
وہ ابھی تک سہمی ہوئی تھی۔ سکینہ بیگم کے سوال پر واش روم کی طرف فقط اشارہ ہی کر سکی۔
وجاہت علی اشارہ پاتے ہی واش روم کے دروازے کی طرف لپکے اور دستک کیا دی گویا دروازہ پیٹ
ہی ڈاال۔
’’رجب!‘‘
انھوں نے پریشانی سے آواز دی۔
’’جی اّبو!‘‘
اندر سے رجب کی ُپر سکون آواز آئی۔
’’کیا کر رہے ہو؟ باہر آؤ۔‘‘
وجاہت علی کی پریشانی کم نہ ہوئی تھی۔ فکرمندی کے عالم میں بیٹے کو حکم دیا۔
’’ایک منٹ اّبو! چینج کر رہا ہوں۔‘‘
رجب نے جواب دیا۔
اس کی آواز بالکل نارمل اور لہجہ معمولی تھا۔
’’شوال! بتاؤ مجھے۔۔۔ تم چیخی کیوں تھی؟۔۔۔ کیا ہوا ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے فکرمندی سے شوال سے پوچھا۔
وہ خوف کے عالم میں کوئی جواب نہ دے سکی۔
’’کیا ہوا ہے شوال!؟۔۔۔ سچ سچ بتاؤ مجھے۔ ‘‘
وجاہت علی بھی ا ُس سے پوچھ گچھ کرنے کی غرض سے واپس ا ُس کے قریب چلے آئے۔
وہ ا ُنھیں بس دیکھ کر رہ گئی۔ ایسے ،جیسے وہ بولنا بھول گئی ہو۔
’’تمہاری حالت بتا رہی ہے کہ کچھ تو ہوا ہے۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہا۔
پھر تسلی آمیز لہجے میں بولیں۔
’’دیکھو۔ ڈرو نہیں۔ بتاؤ کیا ہوا ہے؟‘‘
’’کیا بات ہے اّمی!؟‘‘
رجب جیسے ا ُس کے لئے نجات کا فرشتہ بن کر آیا۔ واش روم سے نکل کر پوچھا۔
ا ُسکے باہر نکلتے ہی سکینہ بیگم اور وجاہت علی نے ا ُسے جا کر گھیر لیا۔ شوال نے بھی ُمڑ کر
دیکھا۔ وہ اپنے دولہا والے لباس کی بجائے کاٹن کے کرتا شلوار میں ملبوس بالکل ٹھیک ٹھاک اور خوش
دکھائی دے رہا تھا۔
’’تم تو ٹھیک ہو ناں!؟ شوال کی چیخ ہمیں اپنے کمرے تک سنائی دی تھی۔ کیا ہوا ہے؟‘‘
وجاہت علی نے فکرمندی سے پوچھا۔
ا ُن کے سوال پہ رجب نے نظریں ا ُٹھا کر شوال کی سمت دیکھا اور مسکرا دیا۔
’’تم ابھی تک سہمی ہوئی ہو؟۔۔۔ اب ریلیکس ہو جاؤ۔۔۔ تمہاری تسلی کے لئے میں ا ُسے مار کر ِبن
میں پھینک چکا ہوں۔‘‘
رجب نے بے تکلفانہ لہجے میں ا ُسے تسلی دی۔
پھر وجاہت علی کی طرف چہرہ موڑا۔
’’دیوار پہ چھپکلی دیکھ کر اس کی چیخ نکل گئی تھی۔۔۔۔۔ لڑکیاں بھی کتنی عجیب ہوتی ہیں۔
معمولی معمولی چیزوں سے بھی ڈر جاتی ہیں۔‘‘
وجاہت علی کو وجہ بتا کر ا ُس نے مزاح کے انداز میں تبصرہ کیا۔
’’ا ُف۔۔۔ تم نے تو ہمیں ڈرا ہی دیا تھا۔۔۔ ہم نے کہا۔ ’ یا اهلل خیر!۔ کیا ہوگیا؟‘‘
سکینہ بیگم کہتے ہوئے شوال کے قریب آئیں۔
وہ اب کافی پرسکون نظر آ رہی تھیں۔ شوال کے کندھے پہ ہاتھ رکھ کر بولیں۔
’’معاف کرنا بیٹا!۔۔۔ ہم نے تم لوگوں کو ڈسٹرب کیا۔۔۔۔ اب ہم چلتے ہیں۔‘‘
شوال سے معذرت کر کے انھوں نے ُمڑ کر وجاہت علی کی اور دیکھا۔
وجاہت علی نے جواب میں چہرہ موڑ کر رجب کی جانب دیکھا۔
شوال سے معذرت کر کے انھوں نے ُمڑ کر وجاہت علی کی اور دیکھا۔
وجاہت علی نے جواب میں چہرہ موڑ کر رجب کی جانب دیکھا۔
’’اچھا صاحبزادے! شب بخیر۔‘‘
’’شب بخیر اّبو!‘‘
رجب نے انھیں جواب میں کہا۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم دروازے کی سمت چل پڑے۔
رجب غیر محسوس انداز میں سنبھل سنبھل کر قدم ا ُٹھاتا انھیں دروازے تک سی آف کرنے ان کے
ُ ُ
پیچھے چلنے لگا۔
’’گڈ نائٹ اّمی!۔‘‘
دروازے سے نکلتے سمے ا ُس نے سکینہ بیگم سے کہا۔
’’گڈ نائٹ۔‘‘
سکینہ بیگم نے بھی پیچھے ُمڑ کر دیکھے بنا جواب دیا۔
ان دونوں کے کمرے سے نکلنے کے بعد ا ُس نے دروازہ بند کر دیا اور وہیں دروازے کی ناب پہ ہاتھ
جمائے ہوئے ا ُس نے اپنا دوسرا ہاتھ دکھتے پہلو پہ رکھا اور اپنا نچال ہونٹ دانتوں تلے دبا کر درد کی شدت
برداشت کرنے کی کوشش کرنے لگا۔
ِ ُ
وہ اب بھی خاموش اور ساکت کھڑی اسے دیکھ رہی تھی۔ دل میں خوف اب بھی کچھ کچھ باقی
تھا۔ ا ُسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ کچھ دیر پہلے ا ُس نے کسی انسان پہ قاتالنہ حملہ کیا ہے۔
چند ملحے درد برداشت کرنے کے بعد رجب نے دروازہ کھول کر باہر جھانکا۔ یہ تسلی کر کے کہ
وجاہت علی اور سکینہ بیگم اپنے کمرے میں جا چکے ہیں۔ اس نے دروازہ واپس بند کیا اور ہّمت کر کے چلتا
اس کے مقابل آ کھڑا ہوا۔ درد کی شدت سے اس کی آنکھیں گالبی ہو رہی تھیں اور چہرے پہ بال کی
سنجیدگی تھی۔
’’سنو شوال! اتنا تو تم سمجھتی ہو کہ آج میرے اور تمہارے خاندان کے درمیان بہت سنگین دشمنی
کی بنیاد پڑ چکی ہے۔‘‘
وہ سمجھانے کے انداز میں گویا ہوا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بوال۔
چپ نہیں بیٹھیں گے۔ وہ ’’ تمہیں اس طرح سے ا ُٹھا کر النے کے بعد تمہارے پاپا اور بھائی پہلے ہی ُ
کب کیا کر دیں ِاس کا کچھ اندازہ نہیں۔ ایسے میں اگر تمہیں کچھ ُہوا تو تمہارے پاپا کو قاتل بننے میں
دیر نہیں لگے گی۔ اور اس کا نتیجہ بہت بھیانک ہوگا۔ کیا تم چاہو گی کہ تمہارے پاپا قاتل بنیں؟۔
دوسری طرف میں ہوں۔ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اوالد۔ ا ُن کی زندگی کا مّحور۔ ا ُن کی ُکل کائنات۔
اگر تمہارے ہاتھوں یا تمہارے پاپا کے ہاتھوں مجھے کوئی نقصان پہنچا تو جان لو کہ میرے اّبو بھی
تمہارے گھر کا کوئی فرد زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ اور میں نہیں چاہتا کہ کبھی ایسا وقت ہماری زندگی میں
آئے۔ یقینا ً تم بھی نہیں چاہو گی۔۔۔ پہلے ہی دونوں خاندان تباہی کے دہانے پہ کھڑے ہیں۔ ِاس لئے میری تم
سے التجا ہے کہ تم خود سے کوئی بےوقوفی کر کے حاالت کو اور سنگین مت بناؤ۔ جو ہو چکا ہے سو ہو
چکا ہے۔ اسے بدال نہیں جا سکتا۔ تم مجھے ایکسیپٹ نہیں کرنا چاہتی تو نہ کرو۔ میں بھی تب تک تمہارے
ص نّیت کا اعتراف نہیں کرو گی۔ یہ نزدیک نہیں آؤں گا جب تک تم خود میری محبت کی سچائی اور خلو ِ
میرا وعدہ ہے تم سے۔۔۔۔۔ بدلے میں صرف اتنی فیور چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان جو کچھ بھی ہے ِاسے
ہمارے درمیان ہی رہنے دو۔ کیونکہ اگر یہ بات ِاس کمرے سے باہر نکلی ،تو پھر میں نہیں جانتا کہ ِاس کا
انجام کیا ہوگا۔‘‘
رجب اپنی بات مکمل کر کے خاموش ہوا تو بھی وہ کچھ نہ بول سکی۔ ا ُسے لگ رہا تھا کہ رجب جو
بھی کہہ رہا تھا وہ صحیح ہے۔
پل دو پل دونوں کے درمیان خاموشی حائل رہی۔ پھر رجب نے کہا۔
’’اب تم جا کر کپڑے بدلو اور بےفکر ہو کر بستر پہ سو جاؤ۔ مجھے نیند آئے گی تو کاؤچ پہ ہی سو
جاؤں گا۔‘‘
رجب کہہ کر اپنا وجود گھسیٹتا کاؤچ تک گیا اور کاؤچ پہ نیم دراز ہو کر بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔
جاؤں گا۔‘‘
رجب کہہ کر اپنا وجود گھسیٹتا کاؤچ تک گیا اور کاؤچ پہ نیم دراز ہو کر بازو آنکھوں پہ رکھ لیا۔
بظاہر تو وہ سونا چاہتا تھا۔ لیکن وہ جانتا تھا کہ آج کی رات نیند ا ُس کی آنکھوں میں آنے کی نہیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رجب فورا ً کچھ نہ بوال۔ وجاہت علی کے سوال نے اسے رات واال واقعہ یاد ِدال دیا تھا۔
وہ اپنے کمرے میں کاٴوچ پہ بیٹھا تھا جب بستر پہ بیٹھی شوال نے ا ُسے مخاطب کیا۔
’’سنو! اپنے ماں باپ کو صاف صاف منع کر دو۔ مجھے تمہارے ساتھ کہیں جانے کا کوئی شوق
نہیں ہے۔‘‘
شوال کے سرد اور بے مّروت الفاظ نے ا ُس کا چہرہ تاریک کر دیا تھا۔
’’ٹھیک ہے۔ جیسے تمہاری مرضی۔‘‘
اس نے کہہ کر ہاتھ میں لئے آئی پیڈ پہ نگاہیں جما دی تھیں۔
’’ٹھیک ہے۔ جیسے تمہاری مرضی۔‘‘
اس نے کہہ کر ہاتھ میں لئے آئی پیڈ پہ نگاہیں جما دی تھیں۔
شوال کا یہ سرد اور بے اعتناہ رویہ ا ُسے بہت چوٹ پہنچاتا تھا۔ اس کے ِدل کو بھی اور ا ُس کی انا
کو بھی۔
وہ گہرا سانس بھر کر خیالوں کی دنیا سے باہر آیا۔
’’ا ُس نے منع کر دیا ہے ابّو! کہتی ہے کہ ا ُس کا کہیں بھی جانے کا موڈ نہیں ہے۔‘‘ ا ُس نے باپ کے
چہرے پہ نگاہیں جما کرکہا۔
پھر مزید بوال۔
’’میرے خیال سے یہی بہتر رہے گا۔ ابھی وہ شاک میں ہے۔ اور ہمارے بارے میں بھی کچھ نہیں
جانتی۔ اچھا ہے کہ وہ ابھی ہم سب کے درمیان رہے۔ تاکہ وہ ہمیں جان لے۔ پہلے ہمارے درمیان ایڈجسٹ
کر لے۔ پھر ہم گھومنے کا پروگرام بھی بنا لیں گے۔‘‘
اس نے اپنے باپ کو وضاحت دے کر قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’واہ صاحبزادے! تم تو شادی کر کے راتوں رات ہی سمجھدار ہو گئے ہو۔‘‘
وجاہت علی کو اس کی دور اندیشی سے خوشی ہوئی۔
وہ جھینپ کر مسکرا دیا۔
’’ہاں۔۔۔ اور دوسری سمجھداری کی بات یہ ہے کہ جب ہم کہیں نہیں جا رہے تو پھر گھر میں رہنے
سے کیا حاصل؟۔ کام پہ جاٴوں گا تو بیوی پہ امپریشن اچھا پڑے گا۔‘‘
ا ُس نے ہلکے پھلکے انداز میں کہا۔
’’ٹھیک ہے بھئی۔ چلے چلو۔ لیکن محتاط رہنا۔ اسرار اور اس کے بیٹوں کا کچھ پتا نہیں۔ تمہیں کوئی
نقصان نہ پہنچا دیں۔‘‘
وجاہت علی نے ساتھ ہی اپنا خدشہ ظاہر کیا۔
’’فکر نہ کریں ابّو! میں محتاط ہوں۔‘‘
ا ُس نے کہا۔ پھر گھوم کر وجاہت علی کی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وجاہت علی بھی اپنی طرف کا دروازہ
کھول کر گاڑی میں بیٹھ گئے۔ ڈرائیور نے ان کے بیٹھنے کے بعد دروازہ بند کیا اور آ کر ڈرائیونگ سیٹ
سنبھال لی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
شام کے وقت وہ دونوں باپ بیٹا ایک ساتھ کام سے واپس گھر لوٹے۔ وجاہت علی نیچے ہال میں ہی بیٹھ
گئے۔ جبکہ رجب سیدھا اپنے کمرے میں چال گیا۔
کمرہ خالی تھا۔ ا ُس نے زیادہ تجسس نہ کیا اور واش روم میں جا کر منہ ہاتھ دھوئے۔ پھر کپڑے بدل
کر نیچے ہال میں چال آیا۔ سکینہ بیگم اور وجاہت علی ہال میں ہی براجمان آپس میں معمول کی بات چیت
کر رہے تھے۔
’’اسالم علیکم اّمی!‘‘
وہ سیڑھیوں سے اتر کر ا ُن کی طرف بڑھا۔
’’واعلیکم السالم۔ چائے بنواؤں تمہارے لئے؟‘‘
سکینہ بیگم نے اس کے سالم کا جواب دے کر پوچھا۔
’’نہیں شکریہ۔ ‘‘ اس نے سہولت سے منع کیا اور ادھر ا ُدھر متالشی نگاہ دوڑا کر پوچھا۔
’’شوال کہاں ہے؟‘‘
’’اپنے کمرے میں تھی۔ تم نے دیکھی نہیں؟‘‘
سکینہ بیگم نے الپرواہی کے ساتھ جوابا ً کہا۔
’’نہیں۔ وہ کمرے میں نہیں ہے۔‘‘
رجب نے یوں جواب دیا جیسے ا ُن سے اگال امکان سننا چاہتا ہو۔
’’نہیں۔ وہ کمرے میں نہیں ہے۔‘‘
رجب نے یوں جواب دیا جیسے ا ُن سے اگال امکان سننا چاہتا ہو۔
’’واش روم میں ہوگی۔‘‘
سکینہ بیگم کے اطمینان میں کوئی واضح فرق نہ آیا تھا۔
’’میں واش روم سے ہو کر آ رہا ہوں اّمی!۔ وہ نہیں ہے۔‘‘
اب رجب قدرے بے چین ہو ا ُٹھا۔
’’کیا کہہ رہے ہو؟ وہ تو سارا دن اپنے کمرے میں ہی تھی۔‘‘
سکینہ بیگم اب پریشان ہو ا ُٹھیں۔
وجاہت علی ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’تمہیں ا ُس کی خبر رکھنی چاہیئے تھی سکینہ! آخر سارا دن کیا کرتی رہی ہو؟‘‘
وجاہت علی پینک ہو کر اپنی بیگم پر برس پڑے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’ماسی! ذرا جا کر شوال کو نیچے ُبال الئیں۔ ا ُس سے کہیں کہ مجھے ا ُس سے کام ہے۔‘‘
سکینہ بیگم نے صوفہ جھاڑتی نوکری سے کہا۔
’’جی اچھا۔‘‘
سکینہ بیگم نے صوفہ جھاڑتی نوکری سے کہا۔
’’جی اچھا۔‘‘
نوکرانی تابعداری سے کہہ کر کپڑا ہاتھ میں لئے اوپر چلی گئی۔
ُ
تھوڑی ہی دیر بعد انھوں نے نوکرانی کے پیچھے شوال کو سیڑھیاں اترتے دیکھا۔ وہ اب بھی بہت
خاموش اور مرجھائی ہوئی ِدکھ رہی تھی۔ سکینہ بیگم کی نظریں ا ُس پہ جم سی گیئیں۔ ذیہن دور کہیں
ماضی کی وادیوں میں کھو گیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
سکینہ اور گھر کی کچھ لڑکیاں صحن میں تخت پہ بیٹھیں اّماں کو دالیں صاف کرنے میں مدد دے
رہی تھیں۔ سکینہ ایک شوخ اور چنچل لڑکی تھی۔ ا ُسے اونچا بولنے کی بہت عادت تھی۔ جب بھی بولتی
صہ لیتے ہوئے اعالنیہ بولی۔تھی ایسے لگتا تھا جیسے اعالن کر رہی ہے۔ ِاس وقت بھی گفتگو میں ح ّ
’’مجھے ِاسالمی مہینوں کے نام بہت پسند ہیں۔ دیکھنا! جب میری بیٹی پیدا ہوگی ناں۔ تو میں ا ُس
کا نام شوال رکھوں گی۔‘‘
سامنے بیٹھی اّماں نے اس کے پیچھے کسی کو دیکھا اور اس کی پیٹھ میں دھموکا جڑ دیا۔
سنی ہے ا ُس نے ’’بنا دیکھے بکواس کرتی رہتی ہو کم بخت! ابھی اسرار یہاں سے ُگزر کر گیا ہے۔ ُ
تمہاری بکواس۔۔۔ کیا سوچے گا کہ ہماری کنواری لڑکی کو بچے پیدا کرنے کا کتنا شوق چرایا ہے!؟‘‘
سنا ڈالیں۔
اماں نے اسے سخت سست ُ
’’اماں! آپ بھی ناں۔‘‘
سکینہ کمان کی طرح پیٹھ کو خم دے کر ہاتھ سے متاثرہ حصے کو َمل رہی تھی۔ تکلیف سے ُبرا سا
منہ بنا کر ماں سے شکایتی انداز میں کہا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسکی اور رجب کی شادی کی خوشی میں خاندان والے ان دونوں کو دعوت پہ ُبال رہے تھے۔ ہر روز
ہی ان کی کہیں نہ کہیں دعوت ہوتی تھی۔ اس وقت بھی وہ اسی وجہ سے رجب کی پھپھو کے گھر موجود
تھی۔
کھانے کے بعد وہ سب لوگ ٹی۔وی الؤنج میں آبیٹھے۔ رجب کی پھپو خود سے ہی ا ُس سے باتیں کئے
ت ضرورت ’ہوں، جا رہی تھیں۔ وہ خاموشی سے سر جھکائے چپ چاپ ا ُن کی باتیں سن رہی تھی اور بوق ِ
ہاں‘ کر دیتی تھی۔
ِ
’’اتنی ا ُداس کیوں ہو بیٹا!؟ خوش رہا کرو۔ تم خوش قسمت ہو کہ تمہیں رجب جیسا شوہر مال ہے۔
اتنا نیک ،سلجھا ہوا ،خوش شکل اور قابل شوہر کہاں ِملتا ہے آج کل کے زمانے میں؟۔۔۔۔ تم رجب کی
دوسری پھپو اور ماسیوں کے گھر بھی دعوت پہ جا چکی ہو۔ دیکھ لیا ہو گا کہ رجب سارے خاندان میں
کتنا مقبول ہے۔ خاندان کی تقریبا ً سب ہی لڑکیوں کی خواہش ہے کہ ا ُن کی شادی کسی رجب جیسے لڑکے
ی کو دیکھو!۔۔۔۔ اب تک دس رشتوں کے ساتھ کی جائے۔۔۔۔ میری تو دونوں بیٹیوں کا آئیڈئل ہے رجب۔ عظم ٰ
سے انکار کر چکی ہے کہ ا ُن میں سے کوئی بھی ا ُسے ’رجب بھائی‘ جیسا نہیں لگا۔۔۔۔۔ تمہاری شادی
رجب سے ہوئی ہے اور تم ا ُداس ہو؟‘‘
ِ
رجب کی پھپو نے ا ُسے اس کی خوش قسمتی کا احساس دالتے ہوئے ساتھ ہی اپنی حیرت کا بھی
اظہار کیا۔
ی کو دیکھو۔‘ انھوں نے کہا تھا۔ ’عظم ٰ
ی رجب ی کو ہی دیکھ رہی تھی۔ ا ُس سے تھوڑے فاصلے پہ ایک صوفے پہ عظم ٰ اور وہ واقعی عظم ٰ
کے پہلو میں اس کے ساتھ بالکل ُجڑ کر بیٹھی تھی۔ اپنا بازو بھی بےتکلفی سے رجب کے کندھے پہ ِٹکا
ی نے بھی آئی پیڈ پہ نظریں جما رکھی تھیں۔ رکھا تھا۔ رجب آئی پیڈ پہ گیم کھیل رہا تھا اور عظم ٰ
’’دیکھو۔ یہاں سے جمپ کرکے واپس لیفٹ موڑ دو۔‘‘
ی کو کھیل کر دکھا رہا تھا۔ رجب عظم ٰ
’’اوہ اچھا۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔ میں بھی کہوں کہ یہ ہو کیوں نہیں رہا۔‘‘
ی کو کھیل کر دکھا رہا تھا۔
رجب عظم ٰ
’’اوہ اچھا۔۔۔۔ مجھے نہیں معلوم تھا۔ میں بھی کہوں کہ یہ ہو کیوں نہیں رہا۔‘‘
ی نے ہنستے ہوئے سمجھ جانے کے انداز میں کہا۔ عظم ٰ
’’کبھی عقل استعمال کرو تو پتا چلے ناں۔‘‘
رجب نے عظمیٰ کی ٹانگ کھینچی۔
رجب ایسے ہی اپنی تمام کزنز کے ساتھ فری تھا۔ اس نے ایسی ہی صورتحال رجب کی دوسری پھپو
اور ماسیوں کے گھر بھی مشاہدہ کی تھی۔ ہر کسی کے گھر رجب کے جوڑ کی کنواری لڑکیاں موجود
تھیں۔ اور کمال حیرت کی بات تھی کہ وہ سب لڑکیاں رجب کے ساتھ ایسے بےتکلف تھیں۔ جیسے کوئی
اپنے سگے بھائی کے ساتھ ہوتا ہے۔ اور سب ہی لڑکیوں اور ان کے والدین کے رویے سے صاف ظاہر ہوتا
تھا کہ انھیں رجب سے خاصا لگاؤ اور محبت ہے۔ پھر کسی نے بھی اپنی بیٹی رجب کے ساتھ بیاہنے کی
خواہش کیوں نہیں کی تھی؟ کیوں خاندان میں سے کسی کو بھی رجب کی خاندان سے باہر شادی پہ
اعتراض نہیں تھا؟۔ بہت تعجب کی بات تھی۔ مگر وہ ِدل میں ا ُٹھے یہ سوال زبان پہ ال کر ا ُن لوگوں کو
اہمّیت نہیں دینا چاہتی تھی۔ ِاس لئے اب بھی وہ خاموشی اختیار کئے بیٹھی رہی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اگلے روز صبح صبح ہی سکینہ بیگم نے ا ُسے نیچے ُبلوا لیا۔
’’میں چاہتی ہوں کہ آج صبح کی چائے اور ناشتہ تم بناؤ۔‘‘
وہ کچن میں آئی تو سکینہ بیگم نے ا ُسے شانوں سے تھام کر مان کے ساتھ کہا۔
ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
’’فکر مت کرو۔ میں اور ماسی تمہاری پوری مدد کریں گیں۔‘‘
سکینہ بیگم نے اس کی نظروں کے جواب میں تسلی آمیز انداز میں کہا۔
وہ سر ہال کر ا ُن کے ہمراہ چولہے کے سامنے آ کھڑی ہوئی۔
چائے ،ناشتے کی تیاری کے لئے برتن سے لے کر تمام اجزاء تک سب چیزیں ماسی اور سکینہ بیگم
ا ُٹھا ا ُٹھا کر ا ُسے پکڑاتی رہیں۔ وہ بس چیزیں لے کر مکس ہی کرتی رہی اور تیار ہونے پہ انھیں ماسی اور
سکینہ بیگم کے پیش کردہ برتنوں میں نکالتی رہی۔
’’شاباش! اب تم اوپر جاؤ۔ دیکھو ،اگر رجب تیار ہو گیا ہے تو ا ُس سے کہو کہ نیچے آ کر ناشتہ کر
لے۔ تب تک ہم ناشتہ ٹیبل پہ لگاتے ہیں۔‘‘
سب تیار ہو چکا تو سکینہ بیگم نے ا ُس سے کہا۔ وہ حکم پا کر خاموشی سے کچن سے ِنکل گئی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ کمرے میں داخل ہوئی تو نظر سیدھی وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑے رجب پہ پڑی۔ وہ گیلے بال لئے
بالکل ہی ٹاپ لیس کھڑا تھا۔ ٹیبل پہ سامنے فرسٹ ایڈ باکس کھول رکھا تھا اور وہ اپنے پہلو میں اس
کے دیئے ہوئے زخم کی نئی مرہم پٹی کر رہا تھا۔ شوال کے دروازہ کھولنے پہ ا ُس نے اچانک چہرہ موڑ کر
دروازے کی سمت دیکھا۔
نگاہیں تھیں کہ تیر۔ سیدھی شوال کے ِدل کے پار ہو گیئیں۔ ِدل بہت زور سے دھڑکا۔ وہ نہیں جانتی
کہ ا ُس نے ِکس طرح اپنے اندر آئے ِاس بھونچال کو چہرے پہ عیاں ہونے سے روکا۔
’’تم کہاں چلی گئی تھی؟‘‘
اس کے ِدل کی حالت سے بے خبر رجب نے واپس چہرہ موڑ کر اپنے زخم پہ بینڈیج ٹیپ چپکاتے ہوئے
سوال کیا۔
چراتی بیڈ کی طرف بڑھنے لگی۔ وہ رجب کے وجود سے نظریں ُ
’’ناشتہ بنا رہی تھی۔ اگر تم تیار ہو تو جا کر ناشتہ کر لو۔‘‘
جس سردمہری اور رکھائی سے وہ تنہائی میں ا ُس شوال نے ا ُسی سردمہری اور رکھائی سے کہا۔ ِ
’’ناشتہ بنا رہی تھی۔ اگر تم تیار ہو تو جا کر ناشتہ کر لو۔‘‘
جس سردمہری اور رکھائی سے وہ تنہائی میں ا ُس شوال نے ا ُسی سردمہری اور رکھائی سے کہا۔ ِ
سے بات کرتی تھی۔ تاہم رجب ا ُس کی بےاعتنائی کا زہر صبر کے ساتھ پی جاتا تھا اور ہمیشہ کوشش
کرتا تھا کہ اپنا روّیہ دوستانہ رکھے۔
’’مجھے ابھی تھوڑا ٹائم لگے گا۔‘‘
ِاس وقت بھی شوال کی بےُرخی نظرانداز کر کے ا ُس نے معمول کے سے لہجے میں جواب دیا۔
چکی تھی۔ رجب جواب دے کر بیڈ کی طرف بڑھا شوال رجب کی طرف پیٹھ دے کر بیڈ کے کنارے بیٹھ ُ
تو ا ُسکے قریب آتے قدموں کی چاپ سن کر شوال کے ِدل کی دھڑکن اور تیز ہوگئی۔
’’کمینے کی باڈی کتنی خوبصورت ہے۔‘‘
تیزی سے دھڑکتے ِدل کو سنبھالنے کی کوشش میں آنکھیں بھینچ کر ا ُس نے دل ہی دل میں کہا۔
ِ ِ
’’کمینہ خود بھی کتنا خوبصورت ہے۔‘‘
ساتھ ہی دوسرا اعتراف بھی کیا۔
ِدل کی اتھل پتھل دھڑکنیں ا ُس کی گھبراہٹ میں اضافہ کر رہی تھیں۔
’’یا اهلل! کیا ہو رہا ہے مجھے؟ میں کیوں ِاس کمینے آدمی کے آگے کمزور پڑ رہی ہوں؟‘‘
وہ گہرے گہرے سانس لے کر اپنی گھبراہٹ پہ قابو پانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ساتھ ہی یہ بھی
ڈر تھا کہ رجب کو اس کی گھبراہٹ کی بھنک نہ لگ جائے۔
بےخبر رجب نے بیڈ پر ڈالی شرٹ ا ُٹھا کر پہن لی۔
’’تم ٹھیک ہو ناں!؟‘‘
عقب سے رجب نے سوال کر کے ا ُس کی گھبراہٹ اور بڑھا دی۔
)یا اهلل! کیا ِاسے میرے ِدل کا حال پتا چل گیا؟(
ا ُس نے سوچا اور احتیاط کے طور پہ رجب کی طرف سے اپنا ُرخ مزید پھیرلیا۔
’’میں ٹھیک ہوں۔ تم جاؤ نیچے۔‘‘
ا ُس نے سختی سے کہا۔
’’تم نہیں چلو گی؟‘‘
شوال کی دھتکار کو بمشکل پی کر ا ُس نے ہمت کر کے سوال کیا۔ شوال کے سخت روّیے نے ا ُسے
خاصا ُدکھی کر دیا تھا۔ وہ اب اپنے لہجے میں خوشگواری نہ ال سکا تھا۔ ا ُس کی آنکھوں اور آواز میں
کرب سمٹ آیا تھا۔
’’نہیں۔‘‘
اپنے ِدل کی حالت سے پریشان شوال نے ا ُسی سختی سے جواب دیا۔
رجب نے نگاہیں جھکا لیں اور خاموشی سے کمرے سے ِنکل گیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ رائٹنگ ٹیبل پہ غائب دماغی کے عالم میں بیٹھی تھی۔ ہاتھ میں پکڑی پنسل روانی کے ساتھ ٹیبل
پہ پھیالئی شیٹ پہ لکیریں کھینچ رہی تھی۔ دروازے پہ دستک کی آواز پہ وہ ہڑبڑا گئی۔ چہرہ موڑ کر
دیکھا۔ نوکرانی دروازے میں کھڑی تھی۔
’’بی بی جی! بیگم صاحبہ آپ کو نیچے بُال رہی ہیں۔‘‘ ا ُس کے دیکھنے پہ نوکرانی نے کہا۔
’’آتی ہوں۔‘‘
اس نے مختصرا ً کہہ کر نوکرانی کو وہاں سے جانے کا اشارہ کیا۔ نوکرانی سر ہال کر چلی گئی۔ وہ
ایک پل کو ویسے ہی ساکت سوچتی رہی پھر اس نے ُپرسوچ انداز میں چہرہ واپس موڑ کر پیپر پہ نگاہ
ڈالی۔ سامنے پیپر پہ بنا سکیچ دیکھ کر وہ بہت بُری طرح چونکی۔ ا ُس کے سامنے رجب کا ٹاپ لیس سکیچ
تھا۔ ا ُس نے بےیقینی سے اپنے ہاتھ میں تھامی پنسل کو دیکھا۔ ا ُسے یوں لگا جیسے کسی نے تصویر بنا
کر اس کے ہاتھ میں پنسل تھما دی ہو۔
’’یہ؟۔۔۔ میں نے؟۔۔۔۔۔ کیسے؟۔‘‘
کر اس کے ہاتھ میں پنسل تھما دی ہو۔
’’یہ؟۔۔۔ میں نے؟۔۔۔۔۔ کیسے؟۔‘‘
وہ یقین نہیں کر پا رہی تھی۔ بےچین ہو کر اس نے شیٹ سے نچال پیپر نکاال۔ ا ُس پہ قفس میں قید
ایک پنچھی کا سکیچ تھا۔
’’میں تو روز ایسے ہی سکیچز بناتی ہوں۔ پھر آج یہ کیسے؟۔‘‘
اس نے سامنے پھیالئے سکیچ کو دیکھتے ہوئے خود سے سوال کیا۔
اس کے اندر کی گھبراہٹ بہت بڑھ گئی۔ ا ُس نے جلدی سے سارے پیپرز سمیٹے اور لے جا کر اپنی
املاری کے اندر دراز میں رکھ دیئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
سارا دن اپنے کمرے میں بےچینی سے ادھر سے ادھر ٹہلتے گزر گیا۔ اپنی کیفیات خود اس کی ہی
سمجھ سے باالتر تھیں۔ رجب نے یہ کیسا جادو کیا تھا اس پہ۔ الکھ کوشش کے باوجود وہ رجب کے لئے
اپنے احساسات نہیں بدل پا رہی تھی۔ وہ ا ُس سے نفرت کرنا چاہتی تھی۔ اس سے دور رہنا چاہتی تھی۔
مگر ا ُسے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی ان دیکھی مگر بہت ہی مضبوط ڈور ا ُسے رجب کی جانب کھینچے
چلی جا رہی ہے۔
کچھ ہی دن پہلے رجب کے باپ نے اسے اس کی شادی کے دن اغواء کیا تھا۔ ا ُسے رجب سے شادی
کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ اس کا گھر ،اس کا باپ ،اس کی فیملی۔ ایک ہی پل میں ان لوگوں نے اس سے
سب کچھ ہمیشہ کے لئے چھین لیا تھا۔ پھر وہ ان لوگوں سے جتنی نفرت کرتی کم تھا۔ ا ُس نے زندگی بھر
ان لوگوں کو قبول نہ کرنے کا عہد کیا تھا۔ پھر یہ کیا ہوا تھا؟۔ فقط چند ہی دن بعد وہ کیسے ا ُس لڑکے
کی طرف ملت ّفت ہو سکتی تھی؟ یہ ا ُس کے لئے ناقابِل قبول تھا۔ خود کو یہ اجازت وہ کبھی نہیں دے
سکتی تھی۔
ا ُسے صبح سے شام ہو چلی تھی اپنے آپ کو روکنے میں۔ لیکن بےبسی کا احساس تھا کہ بڑھتا
چال جا رہا تھا۔ ا ُس کی تمام کوششیں بُری طرح ناکام ہو رہی تھیں۔ اور اب تو ا ُس کی فرسٹریشن کی
کوئی انتہا نہ رہی تھی۔
کمرے میں ٹہلتے ٹہلتے اس کی نظر دیوار پہ چپکی اس کی تصویروں پہ پڑی۔ دیوار پہ لگی ا ُن
تصویروں میں ا ُن کی شادی کی تصویروں کا بھی اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ ُرک کر انھیں گھورنے لگی۔ پھر
جیسے ا ُس پہ پاگل پن کا اٹیک ہوا۔ وہ تصاویر پہ جھپٹی اور ایک پوسٹر کو دونوں ہاتھوں سے نوچ ڈاال۔
پوسٹر کا عمودی نصف اوپر سے پھٹنا شروع ہو گیا۔
تب ہی رجب دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ وہ کام سے لوٹ رہا تھا۔ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے
پہلی نظر میں ہی ا ُس نے شوال کے ہاتھوں وہ پوسٹر چاک ہوتے دیکھا۔ ا ُس کے ہاتھ سے لیپ ٹاپ بیگ
چھوٹ گیا۔
چالیا اور بجلی کی سی تیزی سے لپکا۔ ’’نہیں۔‘‘ وہ صدمے سے ِ
چالنے پہ ا ُچھل کر پیچھے ہٹی۔ رجب نے وہ رجب کی آمد کی توقع نہیں کر رہی تھی۔ رجب کے ِ
صہ اوپر ا ُٹھا کر ہاتھ سے واپس چپکایا اور حفاظتی اقدام کے طور پر پوسٹر پوسٹر کا پھٹ کر لٹکتا ہوا ح ّ
کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا۔
’’نہیں۔ انھیں مت ا ُتارو۔ یہ میری زندگی ہیں۔ پلیز۔۔۔ انھیں مت ا ُتارو۔‘‘
وہ خوف سے پوسٹر کے ساتھ چپکا التجا کر رہا تھا۔ آنکھوں میں بے پناہ خوف اور آنسو تھے۔ وہ
تحّیر سے ا ُسے دیکھ کر رہ گئی۔ کچھ دیر وہ یونہی ساکت کھڑی حیرت کے ساتھ رجب کے خوف سے
لرزتے وجود کو دیکھتی رہی۔ پھر وہ پلٹی اور جا کر بالکونی میں کھڑی ہو گئی۔ رجب کے ِاس روّیے نے ا ُس
پہ سوچ کے بہت سے در وا کر دیئے تھے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
آج بھی وہ کاؤچ پہ پاؤں اوپر رکھے بیٹھی کلپ بورڈ میں پیپر نتھی کئے پوری توجہ اور دلجمعی کے
ساتھ سکیچ بنا رہی تھی۔ سکیچ بن چکا تو ا ُس نے کلپ بورڈ سے نکال کر ہاتھ میں لیا اور اسے تنقیدی
نظروں سے دیکھنے لگی۔ ا ُس نے رجب کا بہت خوبصورت اور پرفیکٹ خاکہ بنایا تھا۔ ا ُس کے لبوں پہ
مسکراہٹ نمودار ہوئی۔ اپنے آپ سے بہت لڑ چکی تھی وہ۔ آخرکار اس نے اپنے دل کے ہاتھوں شکست
قبول کر لی تھی۔ وہ سکیچ ہاتھ میں لئے ا ُٹھی اور جا کر املاری کھولی۔ دراز باہر کھینچ کر ا ُس نے تصویر
دراز میں رکھی اور دراز بند کر کے الک کر دیا۔ چابی املاری کی ُہوک سے لٹکتے ہینڈ بیگ میں رکھ کر وہ
ُمڑی۔ اس کے بیڈ کے پائنتی غالیچے پہ رجب کا بستر پڑا تھا۔ شروع دنوں میں تو رجب کاؤچ پہ سوتا رہا
تھا۔ مگر پھر ا ُس نے اپنے لئے غالیچے پہ بستر لگانا شروع کر دیا تھا۔ اور آج صبح جلدی میں وہ بستر
ا ُٹھائے بنا ہی کام پہ چال گیا تھا۔
وہ آگے بڑھی اور ا ُوپر اوڑھنے والی چادر ا ُٹھا کر تہہ کی۔ ا ُسے بیڈ پہ رکھ کر ا ُس نے تکیہ ا ُٹھایا۔
تکیے کے نیچے رکھی اس کی اور رجب کی شادی کی تصویر سامنے آ گئی۔ اس نے تکیہ بھی بیڈ پہ ڈال
کر جھک کر وہ تصویر ا ُٹھالی۔ تصویر ہاتھ لئے دیکھتے ہوئے وہ بیڈ کے پائنتی ِٹک گئی۔
) کتنا خوبصورت ہے یہ لڑکا۔ میں کب تک اس سے دور رہوں گی؟۔۔۔۔ آخر ہمارے اس رشتے کا انجام
کیا ہوگا؟۔( تصویر سے نظریں ا ُٹھا کر وہ خالء میں دیکھنے لگی۔
) ِان لوگوں نے مجھے میری جڑوں سے کاٹ کر الگ کیا ہے۔ ایک ہی شہر میں رہتے ہوئے بھی میں اب
کبھی اپنے گھر والوں سے نہیں ِمل سکوں گی۔ میرا باپ اب قیامت تک مجھے نہیں اپنائے گا۔ اس کے لئے
میں ان لوگوں کو کبھی معاف نہیں کر سکتی۔
تم مجھے الکھ اچھے لگو رجب الفرد!۔ مگر میرا قرب کبھی نہیں پا سکو گے۔ تم بھی میرے لئے
ویسے ہی ترسو گے۔ جیسے میں اپنے گھر والوں کیلئے ترستی ہوں۔ اگر یہ سلسلہ مرتے دم تک چلے گا تو
میں بھی ِاسے مرتے دم تک چالؤں گی۔ یہی تم لوگوں کی سزا ہے۔ اور میری بھی۔(
ا ُس کے کانوں میں اسرار احمد کے الفاظ گونجے۔
’’ تم اب َمر چکی ہو ہمارے لئے۔‘‘
ِ
دو آنسو اس کی دونوں آنکھوں سے ٹپک کر گالوں پہ بہہ نکلے۔ ا ُس نے نچال ہونٹ دانتوں تلے دبا کر
کرب سے آنکھیں بھینچ لیں۔
تب ہی دروازے پہ دستک ہوئی۔ ا ُس نے آنکھیں کھول کر ہاتھ کی پشت سے اپنے گالوں پہ بہتے آنسو
صاف کئے۔ تصویر ا ُٹھا کر تکیے پہ رکھی اور غالیچے پہ بچھی دوسری چادر ا ُٹھا کر جلدی جلدی تہہ کر
کے بیڈ پہ ڈالی۔ اتنے میں دروازے پہ دوسری دستک بھی ہو گئی۔ وہ تیز قدموں دروازے پہ گئی اور دروازہ
کھوال۔ سامنے سکینہ بیگم کھڑی تھیں۔
’’تم ٹھیک ہو ناں؟ دروازہ الک کیوں کر رکھا ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے شائستگی سے پوچھا۔
ا ُس نے جوابا ً بس اثبات میں سر ہالیا اور انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔ گویا آمد کا مقصد
جاننا چاہتی تھی۔سکینہ بیگم بھی اس کی نظروں کا مفہوم سمجھ گیئیں۔ ا ُسی خوشمزاجی سے بولیں۔
’’میں شاپنگ کے لئے جا رہی ہوں۔ چلو۔ تم بھی ساتھ چلو۔‘‘
’’مجھے کچھ نہیں چاہیئے۔‘‘ ا ُس نے دھیرے سے جواب دیا۔
’’اچھا ،میری کمپنی کے لئے ہی ساتھ چلی چلو۔‘‘
سکینہ بیگم نے پھر بھی اصرار کیا۔
وہ کچھ نہ بولی۔
’’ویسے بھی ہم ماں بیٹی کبھی اکٹھی باہر نہیں ِنکلیں۔ چلو آج کچھ وقت ایک ساتھ گزار لیتے
ہیں۔‘‘
ا ُس نے جانا کہ سکینہ بیگم ا ُسے ساتھ لے جانے کا مصّمم ارادہ بنا کر آئی ہیں۔ بار بار انکار کرنے
کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
ا ُس نے جانا کہ سکینہ بیگم ا ُسے ساتھ لے جانے کا مصّمم ارادہ بنا کر آئی ہیں۔ بار بار انکار کرنے
کا کوئی فائدہ نہیں تھا۔
’’چلئے۔‘‘ وہ ا ُسی حالت میں کمرے سے نکلنے لگی۔
سکینہ بیگم نے سوچا کہ اس سے کپڑے بدلنے کا پوچھ لیں۔ پھر انھوں نے اپنا ارادہ ترک کر دیا اور
مسکرا دیں۔
’’چلو۔‘‘
وہ سکینہ بیگم کے پیچھے پیچھے چل دی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
مال میں آ کر ا ُسے پتا چال کہ سکینہ بیگم دراصل ا ُسے ہی شاپنگ کروانے الئی تھیں۔ جہاں بھی جا
رہی تھیں اس کے لئے ہی چیزیں دیکھ رہی تھیں۔ وہ کچھ بھی نہ بولی۔ کسی روبوٹ کی طرح ا ُن کے
ساتھ چلتی رہی۔ وہ کسی لباس کے بارے میں کہتیں کہ یہ اچھا ہے۔ تو وہ سر ہال دیتی۔ کسی لباس کا
کہتیں کہ یہ نہیں اچھا۔ تو بھی وہ ا ُن کی تائید میں سر ہال دیتی۔ وہ ا ُس سے ا ُس کی پسند کا رنگ
پوچھتیں تو وہ التعلقی سے ’کوئی بھی‘ بول دیتی۔ یونہی وہ شاپنگ کے دوران بےدلی کے ساتھ ا ُن کے
پیچھے پیچھے چلتی رہی۔ کپڑے منتخب کرنے کے دوران بھی ا ُس نے نگاہیں فرش پہ ہی جمائے رکھیں۔ ایک
سٹور سے شاپنگ کر کے وہ دونوں باہر ِنکلیں تو سکینہ بیگم ُرک کر اس کی طرف ُمڑیں۔
’’تم تھک گئی ہو گی۔ کیا خیال ہے؟ چل کر کچھ کھا لیں؟‘‘
اس نے ’جیسے آپ کی مرضی۔‘ کے انداز میں سر ہال دیا۔
’’چلو اوپر کے۔ایف۔سی میں چل کر برگر لیتے ہیں۔ یا تم کچھ اور کھانا چاہو گی؟‘‘
ب توقع ا ُس نے منع کیا۔
’’نہیں۔‘‘ حس ِ
’’چلو آؤ۔‘‘
سکینہ بیگم ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر ایسکلیٹر ) (escalatorکی طرف بڑھ گیئیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ کے۔ایف۔سی میں ٹیبل پہ بیٹھی تھی جب سکینہ بیگم ٹرے میں برگرز اور ڈرنکس لئے آئیں۔
’’سوری مجھے کافی وقت لگ گیا۔ بہت ملبی قیو تھی۔‘‘
سکینہ بیگم نے ٹرے ٹیبل پہ رکھ کر اپنی کرسی کھینچتے ہوئے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔
وہ ایسے بیٹھی تھی جیسے ا ُسے ارد گرد کی کوئی خبر نہ ہو۔ سکینہ بیگم نے کرسی کھینچ کر
بیٹھنے کے بعد ایک برگر اور ڈرنک ا ُس کے سامنے رکھا۔ شوال نے کسی روبوٹ کی طرح برگر ا ُٹھا لیا اور
ا ُسے ا َن ریپ کرنے لگی۔
سکینہ بیگم نے ُرک کر ا ُسے بغور دیکھا۔ پھر سنجیدگی کے ساتھ ا ُسے پکارا۔
’’شوال!۔‘‘
اس نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
’’کیوں اتنی اداس رہتی ہو میری بچی! خوش رہا کرو۔ ہنسا کھیال کرو۔ ابھی تمہاری عمر ہی کیا
ہے؟ ‘ ‘
اس نے بنا کچھ کہے نگاہیں واپس جھکا لیں۔
’’جانتی ہو؟ مجھے ہمیشہ سے ہی ایک بیٹی کی بہت خواہش تھی۔ تم نے آ کر میری زندگی میں اس
کمی کو پورا کیا ہے۔ ہمارے گھر کی رونق ہو تم۔ آج ہمارے گھر میں جو زندگی ہے وہ بھی تمہاری بدولت
ہے۔
جو گزر چکا ہے ا ُسے پیچھے چھوڑ دو۔ وہ سب اب ماضی بن چکا ہے۔ اپنے مستقبل کے بارے میں
سوچو۔ اپنے حال پہ توجہ دو۔
کیا تمہیں ہمارے پیار میں کوئی کمی نظر آتی ہے؟ کیا رجب ایسا لڑکا نہیں جس کے ساتھ کوئی
سوچو۔ اپنے حال پہ توجہ دو۔
کیا تمہیں ہمارے پیار میں کوئی کمی نظر آتی ہے؟ کیا رجب ایسا لڑکا نہیں جس کے ساتھ کوئی
لڑکی خوش رہ سکے؟‘‘
ُ
سکینہ بیگم بہت محبت اور نرمی کے ساتھ اسے سمجھا رہی تھیں۔
)موقع اچھا ہے۔ مجھے ان سے ابھی بات کر لینی چاہیئے۔( ا ُس نے سوچا اور ہاتھ میں پکڑا برگر
ٹرے میں رکھ دیا۔
’’ایک بات پوچھوں آپ سے؟‘‘ وہ قدرے جھجک محسوس کر رہی تھی۔
’’ہاں ،ہاں! پوچھو۔‘‘
سکینہ بیگم نے ا ُس کی حوصلہ افزائی کی۔
’’رجب۔۔۔۔‘‘ وہ اٹکی۔ سکینہ بیگم نے ا ُسے یوں دیکھا جیسے آگے سننے کو متجسس ہوں۔ آخر کو
سوال ا ُن کے بیٹے سے متعلق تھا۔
’’سائیکو ہے؟‘‘ ا ُس نے اپنا سوال مکمل کیا۔
سکینہ بیگم کا چہرہ یکدم تاریک ہو گیا۔ پھر انھوں نے خود کو سنبھاال اور سر جھکا کر اپنے ذیہن
میں وضاحت کیلئے الفاظ سوچنے لگیں۔ انھوں نے سوچنے میں کچھ وقت لیا۔ وہ انھیں بغور دیکھ رہی
تھی۔ باآلخر انھوں نے اپنا جھکا ہوا سر ا ُٹھایا۔
’’سائیکو کہنا تو خیر مناسب نہ ہوگا۔ لیکن ہاں ،ذرا ایکسٹریمسٹ ہے۔ کبھی کوئی چیز ِکلک کر
جائے تو پھر بہت سیریسلی لے لیتا ہے۔ پھر وہ چیز چاہے کتنی بھی معمولی ہو۔ مگر وہ ا ُسےاپنی زندگی
اور موت کا مسلۂ بنا لیتا ہے۔ ‘‘
سکینہ بیگم نے بات مکمل کر کے ا ُسے دیکھا۔ وہ انھیں اپنے جواب سے مطمعین نہ لگی۔
سکینہ بیگم نے گہرا سانس خارج کیا۔ مزید وضاحت کے لئے اپنے اندر ہمت مجتمع کی۔ پھر بولیں۔
’’اصل میں وہ پیدائشی ایسا نہیں تھا۔ اس کے ذمہدار ہم ہیں۔ ہم نے ہی اسے ضرورت سے زیادہ
الڈ پیار دے کر پاال ہے۔۔۔۔۔
لیکن ہم کیا کرتے؟ چار بچوں کی موت کے بعد یہ اکیال تھا جسے اهلل نے زندگی دی تھی۔ پھر ہم
اسے لے کر ایکسٹرا سینسی ِٹو کیسے نہ ہوتے۔‘‘
وہ چار بچوں کی موت کا سن کر چونک گئی۔
سکینہ بیگم نے ا ُس کا چونکنا نوٹ کیا۔ لہذا اسے ساری تفصیل بتانے لگیں۔
ُ
’’میری وجاہت سے شادی سےایک سال بعد ہی ہمارے گھر پہال بچہ پیدا ہوا تھا۔ ایک ایسا بچہ
جس نے بھی دیکھا تھا ڈر گیا تھا۔ ایک ذیہنی اور جسمانی طور پر معذور بچہ۔ ا ُس کے چہرے کا ج سے ِِ
کوئی بھی نقش درست نہیں تھا۔ ہاتھ پاؤں بھی ٹیڑھے میڑھے تھے۔ ‘‘
وہ بچہ یاد کر کے سکینہ بیگم کی آنکھوں اور لہجے میں خوف ا ُتر آیا۔
’’ہم سب ا ُسے دیکھ کر بہت حیران اور پریشان تھے۔ وہ بچہ بیمار بھی تھا اور پیدائش کے کچھ ہی
ِدن بعد وہ چل بسا۔
شروع شروع میں مجھے کچھ سمجھ نہ آیا کہ میرے ساتھ کیا ہوا ہے۔ بہت تکلیف دہ صورتحال
ھالنے لگی۔ پھر جلد ہی اهلل نے دوبارہ تھی۔ لیکن دھیرے دھیرے میں ا ُسے ایک بھیانک خواب سمجھ کر ب ُ
ا ُمید ِدالئی۔ اگلے بچے کو لے کر میں بہت خوش تھی۔ پہلے میرے ساتھ جو بھیانک واقعہ پیش آیا تھا۔ ا ُس
تکلیف کا احساس کم کرنے میں اس بچے نے کافی اہم کردار ادا کیا۔ لیکن جب وہ پیدا ہوا تو مانو زندگی
نے ایک بھیانک مذاق کیا تھا۔
ایسا لگا کہ پھر سے وہی بچہ دوبارہ پیدا ہو گیا ہے۔ ویسا ہی خوفناک۔ ویسا ہی معذور۔۔۔۔
ڈاکٹرز نے ا ُسے بھی ذیہنی طور پر معذور قرار دے دیا تھا۔ ہمیں سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ ایسا
کیوں ہو رہا ہے۔ بہت ہی خوفناک ِدن تھے وہ۔ گود میں ایک خوفناک ،معذور بچہ اور خاندان والوں کے عجیب
وغریب تبصرے۔
کوئی کہتا کہ کسی کی بد ُدعا لگی ہے۔ کوئی کہتا کہ کسی نے جادو ٹونا کیا ہے۔ کسی نے کہا کہ
مجھ پہ جنات کا اثر ہے اور یہ ایک ِ
جّن کا بچہ ہے۔
کوئی کہتا کہ کسی کی بد ُدعا لگی ہے۔ کوئی کہتا کہ کسی نے جادو ٹونا کیا ہے۔ کسی نے کہا کہ
مجھ پہ جنات کا اثر ہے اور یہ ایک ِ
جّن کا بچہ ہے۔
کیا اذیت بھرے ِدن تھے وہ۔ کچھ ِدن اپنے نصیب میں لکھوا کے الئی سانسیں پوری کر کے وہ بچہ
بھی مر گیا۔‘‘
سکینہ بیگم نے دونوں ہاتھ ا ُٹھا کر گالوں پہ لڑھک آئے آنسو صاف کیے۔
سن رہی تھی جس کی ا ُس نے کبھی توقع نہیں کی تھی۔ وہ دم سادھے ایک ایسی داستان ُ
سکینہ بیگم نے چند ملحے خود کو کمپوز کرنے میں لگائے۔ پھر بولنا شروع ہوئیں۔
’’دوسرے بچے کی پیدائش اور موت کے بعد میں بہت ڈر گئی تھی۔ لیکن پھر بھی ِدل میں کہیں نہ
کہیں ا ُمید باقی تھی کہ ہو سکتا ہے اگلی بار ایسا نہ ہو۔ لیکن اگلی بار بھی ایسا ہی ہوا۔ ہمارے ایک
صے تو اس کے تھے ہی نہیں۔ بیٹی ہوئی۔ وہ بھی توقعات سے بڑھ کر خوفناک تھی۔ جسم کے بہت سے ح ّ
نہ ا ُس کے کان برابر تھے۔ نہ ا ُس کی انگلیاں۔ اوپر کا ہونٹ بھی درمیان سے ناک تک کٹا ہوا تھا۔
پھر سے ہم نئے سرے سے اذیت سے دوچار ہوئے۔ مگر اس بار یہ اذیت اور پریشانی پہلے سے بھی
کہیں زیادہ تھی۔ اس بچی کی پیدائش کے بعد میرے سسرال والوں نے مجھے منہوس قرار دے دیا۔
کچھ دن کے بعد وہ بچی بھی مر گئی۔
ِ
کیسی اذیت ناک بات تھی۔ جب بچے پیدا ہوتے تھے تو بھی ُدکھ ملتا تھا اور جب مرتے تھے تو بھی
چور ہو جاتا تھا۔ِدل صدمے سے ُ
صور سے ہی خوف کھانے لگی تھی۔ مگر ساس ،سسر کا اب میں مزید کسی بچے کی پیدائش کے ت ّ
دباٴو۔ نندوں ،جٹھانیوں کے طعنے۔ اور وجاہت کا بدلتا رویہ۔ سب نے مجھے کمزور کر دیا۔ اپنی زندگی تباہ
ہوتی دیکھ کر پھر سے اهلل سے ایک صحتمند اوالد کی فریاد کی۔ مگر زندگی نے پھر سے میرے ساتھ وہی
مزاق کیا۔ پھر سے قسمت نے مجھے دھوکا دیا۔ چوتھا بیٹا بھی اپنے دوسرے بہن ،بھائیوں جیسا وجود اور
زندگی لے کر آیا اور چال گیا۔‘‘
سکینہ بیگم نے ضبط کی کوشش میں ہونٹوں پہ مّٹھی جما لی۔
توقف کرکے بولیں۔
’’اس کے بعد سے لے کر رجب کی پیدائش تک دکھوں کی ایک طویل داستان ہے۔۔۔۔
صرف سسرال والے ہی نہیں وجاہت بھی ایسے ابنارمل بچوں کی پیدائش کا ذمہدار صرف مجھے
قرار دے رہے تھے۔ میرے چاچا چاچی نے مجھ سے باال ہی باال وجاہت کے لئے دوسری دلہن تالش کرنا
شروع کر دی۔
خاندان میں تو کوئی بھی وجاہت کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ کر میرے ماں باپ کے ساتھ ناراضگی مول
نہ لیتا۔ لہذا وہ باہر سے رشتہ تالش کر رہے تھے۔ ُمجھے ِاس کی خبر لگ گئی۔ میں خاموش نہ رہی اور
وجاہت سے لڑ پڑی۔۔۔ نتیجتا ً مجھے گھر سے نکال دیا گیا۔
میکے آ کر بھی میری اذیتوں میں کمی نہ آئی۔ میری بڑی بھابھی ا ُمید سے تھی۔ وہ مجھے ہر ِگز
اپنے قریب نہیں آنے دیتی تھیں۔ کیونکہ انھیں لگتا تھا کہ میرا منہوس سایہ ا ُن کےہونے والے بچے کو
نقصان پہنچا سکتا ہے۔ ماں باپ اپنے بیٹوں کے آگے مجبور اور خاموش تھے۔ ُمجھ سے ہمدردی کر کے
میرے لئے رونے کے سوا کچھ نہیں کر سکتےتھے۔
ادھر وجاہت کے لئے بھی لڑکی ِمل گئی تھی۔ وہ مجھے طالق دے کر دوسری شادی کرنا چاہتے
تھے۔ مگر معلوم ہوا کہ میں پھر سے ا ُمید سے ہوں۔ وجاہت اور چاچا چاچی بچے کی پیدائش تک کے لئے
ُرک گئے۔ انھوں نے فیصلہ کیا کہ ِاس بچے کی موت کے بعد وہ آگے کی کاروائی کریں گے۔
ہاں! ایسا ہی تھا۔۔۔۔ جو بچہ ابھی پیدا بھی نہیں ہوا تھا۔ ہم ا ُس کی موت کے بعد کا سوچ رہے
تھے۔ خود میں بھی۔۔۔
زندگی کا دائرہ بہت ہی تنگ ہو گیا تھا۔ ا ُن حاالت میں میرے لئے سانس لینا بھی دشوار تھا۔ پھر
ایک معذور بچے کی پیدائش اور اس کے موت کا دردناک خیال۔۔۔ اور ساتھ ہی وجاہت سے طالق۔۔۔۔۔
زندگی جیسے تاریکیوں میں ڈوب گئی تھی۔ کچھ دکھائی دیتا تھا نہ سجھائی دیتا تھا۔ مجھے
ی کہ ایسے لگنے لگا تھا جیسے میں واقعی منہوس ہوں۔ اور یہ سب میری نحوست کی وجہ سے ہے۔ حت ٰ
زندگی جیسے تاریکیوں میں ڈوب گئی تھی۔ کچھ دکھائی دیتا تھا نہ سجھائی دیتا تھا۔ مجھے
ی کہایسے لگنے لگا تھا جیسے میں واقعی منہوس ہوں۔ اور یہ سب میری نحوست کی وجہ سے ہے۔ حت ٰ
جب بچے کی پیدائش کا وقت آیا۔ تب بھی میں ا ُس ایک معذور بچے کی موت کے بعد اس کے کفن دفن کا
سوچ رہی تھی۔
ُ
مگر وہ خدا کا معجزہ تھا یا اس کا لطف و کرم۔ اهلل نے مجھے ایک مکمل طور پر صحت مند بچے
سے نوازا۔ ایسا خوبصورت بچہ ،جیسا خاندان میں پہلے کبھی پیدا نہ ہوا تھا۔
ا ُس بچے نے دنیا میں آکر ہم سب کی زندگیاں بدل دیں۔ خاص طور پر میری۔
میں جہنم سے ِنکل کر اچانک جن ّت میں پہنچ گئی تھی۔ جو شخص مجھے طالق دینے کو بے تاب
تھا۔ ا ُس نے آ کر مجھ سے معافی مانگی۔ ساس سسر ،بھابھیاں۔ سب ہی کی نظر میں میرا مقام بہت
اونچا ہو گیا۔۔۔۔
میں نے سب کو معاف کر دیا۔ میرے جانے ِکس عمل سے خوش ہو کر اهلل نے مجھ پہ اتنا بڑا کرم کیا
تھا۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ کوئی متکبرانہ جملہ میرے منہ سے ِنکلے اور میں عرش سے فرش پہ آ ِگروں۔
لہذا مجھے بڑی شان کے ساتھ واپس میرے گھر میں الیا گیا۔ چاچا ،چاچی نے میرا اور میرے بچے
کا ُپرتپاک استقبال کیا۔ صدقے خیرات کی گئی۔ وجاہت تو کسی عاشق کی طرح میرے گرد منڈال رہے تھے۔
ب اوالد کر اور پھر رجب کی پیدائش کے بعد ہم نے مزید اوالد کی خواہش نہیں کی۔ اهلل نے ہمیں صاح ِ
دیا تھا۔ ہم ِاسی پہ شاکر اور قانع تھے۔ مزید کے اللچ میں پھر سے کسی خوفناک تجربے سے گزرنے کی
ہمت نہ تھی۔ صرف رجب کو اهلل ملبی عمر دے۔ ہماری یہی خواہش تھی۔
ہماری توجہ ،ہماری محبت ،ہماری زندگی کا مرکز و مّحور صرف رجب تھا۔ ایسے میں تم بتاٴو کہ
ہمیں وہ ضرورت سے زیادہ پیارا کیونکر نہ ہوتا؟۔
ہماری تو سانسیں ہی ا ُسی کے دم سے چلتی تھیں۔ ہم نے ا ُسے ہر تکلیف سے ،ہر ُدکھ سے بچانے
کی کوشش کی۔ بچے بچپن میں روتے ہیں۔ لیکن ہم اس کے چہرے کا زاویہ بگڑتے دیکھ کر بھی بےچین ہو
جاتے تھے۔ ا ُس کا رونا ،اس کا بیمار ہونا ہماری جان پر بن آتا تھا۔
ہمیں بہت لوگوں نے ٹوکا۔ سمجھایا کہ ایسا مت کرو۔ بچے کو ضرورت سے زیادہ پیمپر نہ کرو۔
لیکن ایسی باتیں ہماری سمجھ میں نہ آئیں۔۔۔۔ ہمارے بچے کے چہرے پہ مایوسی کا کوئی تاثر ہماری
برداشت سے باہر تھا۔ اس کو کسی چیز سے محروم رکھنا ہمیں گوارا نہ تھا۔ اور اس کی آنکھ سے ٹپکا
ایک آنسو بھی ساری دنیا کی دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔ کیسے ا ُسے رائیگاں بہنے دیتے؟۔۔۔۔
اسی سوچ کے ساتھ ہم نے ا ُسے پاال۔ اور اسی پیار پیار میں ہم نے اس کے ساتھ دشمنی کر دی۔
جب ہمیں احساس ہوا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔۔۔۔ اب تو یہ عالم ہے کہ اگر ا ُسکی ضد پوری کرتے
ہیں تو اس کی ذیہنی حالت اور بگاڑتے ہیں۔ اور اگر اسے منع کرتے ہیں تو ا ُسے کھو دینے تک کی نوبت آ
جاتی ہے۔ ہم کریں تو کریں کیا؟‘‘
سکینہ بیگم نے آخر میں بے بسی سے کہا۔
ا ُسے سامنے بیٹھی عورت سے بےحد ہمدردی محسوس ہوئی۔ اس کا ہر درد آپ بیتی محسوس ہو رہا
تھا۔ جی چاہا کہ سکینہ بیگم کا ہاتھ پکڑ کر انھیں تسلی دے۔ ا ُن کے ساتھ جو ہوا اس پہ افسوس کا
اظہار کرے۔ ان سے اپنائیت جتائے۔ مگر پھر ا ُس کے ذیہن میں سکینہ بیگم کے کچھ دیر پہلے کے کہے
الفاظ گونجے۔
’’ اس کی آنکھ سے ٹپکا ایک آنسو بھی ساری دنیا کی دولت سے زیادہ قیمتی تھا۔ کیسے ا ُسے
رائیگاں بہنے دیتے۔‘‘
وہیں پہ ا ُس کے دماغ نے پلٹی کھائی۔
)میں بھی تو کسی کی بیٹی ہوں۔ کسی کی اوالد ہوں۔ اپنی اوالد کی آنکھ سے ٹپکا ایک آنسو بھی
پورے جہان کی دولت سے زیادہ قیمتی ہے۔ کسی اور کی بیٹی کے آنسوؤں کی کوئی قیمت نہیں؟ اسے اس
کے والدین سے چھینتے ہوئے کوئی احساس نہیں کہ اسے کتنی تکلیف پہنچتی ہے؟۔ ا ُس کے والدین پہ کیا
گزرتی ہے؟(
ِ
ا ُس کا موم کی طرح پگھلتا دل پھر سے پتھر ہو گیا۔
گزرتی ہے؟(
ا ُس کا موم کی طرح پگھلتا ِدل پھر سے پتھر ہو گیا۔
) جو بھی ہے۔ میں اس خاندان کو کبھی معاف کروں گی نہ قبول کروں گی۔(
ا ُس نے دل ہی دل میں پختہ عہد کیا۔
پھر نظریں ا ُٹھا کر سکینہ بیگم کو دیکھا۔
سکینہ بیگم بیتی باتیں ذیہن سے نکال کر اب برگر کی طرف متوجہ ہو رہی تھیں۔
’’باتوں باتوں میں یہ تو ٹھنڈے ہو گئے۔ جلدی سے کھا لو بھئی۔‘‘
سکینہ بیگم نے اپنا برگر ا َن ریپ کرتے ہوئے کہا۔
’’آپ کو کبھی پتا نہیں چال کہ ایسا کیوں تھا؟‘‘
ا ُس نے من میں آیا سوال کیا۔
سکینہ بیگم اپنا برگر منہ کی طرف لے جاتے ہوئے ُرک گیئیں۔ ’’کیا؟۔۔۔‘‘
انھوں نے پوچھا۔ پھر ذرا ذیہن پہ زور دینے سے سمجھ گیئیں۔
’’تمہارا مطلب ہے۔ وہ معذور بچے؟‘‘
سکینہ بیگم نے تصدیق چاہی۔
وہ خاموشی سے انھیں دیکھتی رہی۔
سکینہ بیگم بولیں۔
’’بہت عرصہ تک نہیں پتا تھا۔ نہ ہی کبھی زیادہ تجسس کیا تھا۔ ہماری ساری توجہ اور سوچوں
کا مرکز رجب ہی تھا۔ لیکن پھر بعد میں تحقیق سے سامنے آیا تو ہمیں بھی احساس ہوا کہ وہ کزنز میرج
کی وجہ سے تھا۔
میں اور وجاہت فرسٹ کزنز تھے۔ ہمارے ماں باپ بھی فرسٹ کزنز تھے۔ بس پھر ایسا تو ہونا ہی
تھا۔‘‘
سکینہ بیگم کا جواب سن کر وہ سارا معاملہ سمجھ گئی۔
سکینہ بیگم کہہ رہی تھیں۔
’’ِاسی وجہ سے ہم نے رجب کی خاندان میں شادی نہیں کروائی۔ جب ہمیں پتا چال تھا کہ ہمارے ا ُن
معذور بچوں کی پیدائش کے پیچھے وجہ کزنز میرج ہے۔ ہم نے ا ُسی دن پورے خاندان میں کہہ دیا کہ رجب
کی شادی خاندان کی کسی بھی لڑکی سے نہیں ہوگی۔
خاندان والوں نے بھی ہمارے اس فیصلے کی عزت کی۔ بھال کون رجب کے ساتھ اپنی بیٹی بیاہ کر
ا ُس کی زندگی برباد کرنا چاہتا۔ بَس پھر تب سے ہی رجب اور اس کی تمام کزنز ایک دوسرے کو سگے بہن
بھائی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔‘‘
’’اوہ۔‘‘
اسے اب رجب کی اپنی کزنز کے ساتھ بےتکلفی اور ا ُن لڑکیوں کا بہناپا سمجھ میں آیا تھا۔
وہ پھر سے اجنبّیت اور التعلقی اختیار کر کے اب واپس اپنے خول میں جا چکی تھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’ہوں۔۔۔ اچھا ہے۔۔ بلکہ میں تو کہوں گا کہ ا ُسے اپنے ساتھ سکول بھی لے جایا کرو۔‘‘
رات وجاہت علی اپنے کمرے میں اپنی بیگم سے کہہ رہے تھے۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم بیڈ پہ آمنے سامنے بیٹھے تھے۔
’’میں نے ا ُس سے کچھ دن پہلے کہا تھا۔ مگر ا ُس نے منع کر دیا تھا۔‘‘
’’اور آج کے بارے میں کیا کہتی ہو؟ وہ ہمارے درمیان ایڈجسٹ ہونا شروع ہوئی ہے یا نہیں؟‘‘
’’ہم۔۔۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم سوچ میں پڑ گیئیں۔
چکی ہے۔۔۔ اب اس کی چال ڈھال ،بولنا چالنا بولیں۔’’ اتنا تو کنفرم ہے کہ وہ اب شاک سے نکل ُ
سکینہ بیگم سوچ میں پڑ گیئیں۔
چکی ہے۔۔۔ اب اس کی چال ڈھال ،بولنا چالنا بولیں۔’’ اتنا تو کنفرم ہے کہ وہ اب شاک سے نکل ُ
پہلے کے جیسا نہیں رہا۔۔۔۔ آئی مین۔۔۔ اب ا ُسے دیکھ کر پتا چلتا ہے کہ وہ اپنے مکمل ہوش و حواس میں
ہے۔۔۔۔ اور آج مجھ سے رجب کے بارے میں بھی پوچھ رہی تھی۔‘‘
وجاہت علی نے چونک کر سکینہ بیگم کی طرف دیکھا۔
’’رجب کے بارے میں؟۔۔۔ کیا؟‘‘
سکینہ بیگم کے لئے یہ بتانا آسان نہ تھا۔ بمشکل بولیں۔
’’وہ مجھ سے پوچھ رہی تھی کہ کیا رجب سائیکو ہے؟‘‘
سکینہ بیگم کا جواب وجاہت علی کو مضطرب و پریشان کر گیا۔
’’تو تم نے کیا کہا؟‘‘
وجاہت علی نے بےچین ہو کر پوچھا۔
’’وہی جو سچ ہے۔‘‘ سکینہ بیگم نے جواب دیا۔
وجاہت علی کو اچھا نہ لگا۔ کچھ کہنا چاہا لیکن سکینہ بیگم ان سے پہلے بول پڑیں۔ سمجھانے کے
انداز میں کہنے لگیں۔
’’ِاس میں چھپانے والی کیا بات ہے وجاہت؟۔۔۔۔ رجب کی حالت آشکار ہے۔۔۔ اگر میں منع کرتی تو کیا
وہ میرا یقین کر لیتی؟۔۔۔ بالفرض ابھی میں ا ُسے یقین دال بھی دیتی۔ اور ہفتہ دس ِدن بعد تو اس کے شک
کی تصدیق ہو ہی جاتی۔ تب کیا عزت رہ جاتی اس کی نظر میں میری؟‘‘
سکینہ بیگم کی وضاحت نے وجاہت علی کو خاموش کروا دیا۔
سکینہ بیگم ا ُن کو قائل دیکھ کر اپنی دوسری پریشانی بیان کرنے لگیں۔
’’لیکن وجاہت! شوال کے بارے میں سوچ کر مجھے بہت گھبراہٹ ہوتی ہے۔۔۔ وہ اب بھی ہمیں
ایکسیپٹ کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سارا سارا دن اپنے کمرے میں گزار دیتی ہے۔ اس کی خواہش ہوتی ہے کہ
میں بھلے سے بھوکی ،پیاسی رہوں۔ مگر اکیلی رہوں۔ ہم سب سے ُدور۔ اپنے کمرے میں بند۔۔۔۔
آپ نے کبھی نوٹ کیا؟ وہ ہمیں اّمی ابو ،یا انکل آنٹی ،کچھ بھی کہہ کر نہیں پکارتی۔ جیسے وہ ہم
سے بات نہ کرنا چاہتی ہو۔ ہم سے کوئی رشتہ نہ قائم کرنا چاہتی ہو۔۔۔۔ ‘‘
’’ہوں۔۔۔ جانتا ہوں۔ ضدی باپ کی بیٹی ہے ناں!۔۔۔۔ اپنے باپ کی طرح ضدی ہے۔‘‘
سکینہ بیگم کی بات کے جواب میں وجاہت علی نے تبصرہ کیا۔
’’معلوم نہیں رجب کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے اگلی پریشانی ظاہر کی۔
’’تم نے کبھی رجب سے پوچھا؟‘‘
وجاہت علی نے سوال کیا۔
’’ہاں ،پوچھا تھا اس سے۔۔۔ ا ُس نے تو پازیٹو ہی جواب دیا ہے۔ مگر کیا معلوم۔ جھوٹ ہی نہ بول رہا
ہو۔‘‘
’’نہیں۔۔ انشااهلل سب صحیح ہو گا۔ اگر وہ رجب کے ساتھ غلط سلوک کرتی تو رجب برداشت نہ کر
پاتا۔۔۔ اور اگر سب ٹھیک نہیں بھی۔ تو بھی کب تک وہ اپنی ضد پہ قائم رہے گی۔ اب ساری عمر تو اس
نے ہمارے ساتھ ہی گزارنی ہے۔ آج نہیں تو کل ا ُسے ہمیں قبول کرنا ہی ہوگا۔۔۔۔ ویسے بھی۔ ایک بچہ پیدا
ہو گیا تو ساری اکڑ بھول جائے گی۔ تب وہ سارے رشتے قبول کرے گی۔۔۔۔ تم تسلی رکھو۔ زیادہ دور نہیں
ہے وہ وقت۔‘‘
وجاہت علی کے اندر کا کمینہ انسان اپنی برتری کے احساس سے سرشار اور مطمعین تھا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
دن ہفتے اور ہفتے مہینے بن کر گزرتے چلے گئے۔ سکینہ بیگم کی توجہ ،رجب کی محبت اور وجاہت
علی کی شفقت۔ کچھ بھی ا ُس چٹان کو موم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپنے باپ کی دی چوٹ ِدل پہ آج
دن ہفتے اور ہفتے مہینے بن کر گزرتے چلے گئے۔ سکینہ بیگم کی توجہ ،رجب کی محبت اور وجاہت
علی کی شفقت۔ کچھ بھی ا ُس چٹان کو موم کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا۔ اپنے باپ کی دی چوٹ ِدل پہ آج
بھی روِز اّول کی طرح تازہ تھی۔ اگر وہ کبھی اپنی محبت کے ہاتھوں کمزور پڑنے لگتی تو یہ چوٹ ا ُسے
پھر سے خود کو سزا دینے پر اکساتی۔ نتیجتا ً وہ ابھی تک رجب سے ُدوری اور التعلقی اختیار کئے ہوئے
تھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
دسمبر لگ چکا تھا۔ سردی بہت بڑھ گئی تھی۔ صبح رجب اکیال ہی کھانستا ہوا ناشتے کی ٹیبل پہ
آیا۔
’’شوال کہاں ہے؟‘‘
سکینہ بیگم ماسی کے ساتھ ناشتہ لگا رہی تھیں۔ اسے تنہا پا کر پوچھا۔
’’وہ کہہ رہی ہے کہ ا ُسے ناشتہ نہیں کرنا۔ آپ تھوڑی دیر بعد ناشتہ ا ُس کے کمرے میں بھجوا
دیجیئے گا۔‘‘ ا ُس نے کہتے ہوئے کرسی سنبھال لی۔
’’یہ تو ٹھیک نہیں۔۔۔ تم ایسا کرو کہ اس کا اور اپنا ناشتہ اپنے کمرے میں لے جاؤ۔ دونوں ایک
ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کر لو۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہا۔ ساتھ ہی ایک ٹرے لے کر ا ُس میں ناشتہ رکھنے لگیں۔
وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر ا ُسے کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔
سکینہ بیگم نے پریشان ہو کر ا ُسے دیکھا۔
’’تمہیں تو شدید کھانسی ہو رہی ہے۔۔۔۔ ٹھیک تو ہو تم؟‘‘
’’کچھ نہیں اّمی! آپ پریشان مت ہوں۔۔۔ گلے میں معمولی سی خراش ہے۔ ناشتے کے بعد دّوا لے لوں
گا۔‘‘
ا ُس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا اور سکینہ بیگم کی تیار کردہ ناشتے کی ٹرے ہاتھ بڑھا کر تھام
لی۔
’’اچھی بات ہے۔۔ بھولنا مت پھر۔‘‘
سکینہ بیگم قدرے مطمعین سی ہو گیئیں۔
وہ ٹرے لے کر اوپر کی طرف چل دیا۔
وجاہت علی کام کے لئے تیار سیڑھیاں اتر کر اسی طرف آ رہے تھے۔ دونوں باپ بیٹے نے ایک دوسرے
کے قریب سے گزرتے ہوئے صبح کے سالم کا تبادلہ کیا۔ پھر وجاہت علی آگے ناشتے کی میز کی طرف بڑھ
آئے۔
’’رجب ناشتہ کہاں لے جا رہا ہے؟‘‘
وجاہت علی نے میز پہ بیٹھتے ہوئے سکینہ بیگم سے پوچھا۔
’’کچھ مت پوچھیں وجاہت! میری تو اب کمر ٹوٹ چکی ہے۔
آٹھ مہینے گزر چکے ہیں۔ مگر یہ لڑکی آج بھی ہم سے ویسی ہی ُدوری بنائے ہوئے ہے۔۔۔ آج بھی
اس نے ہمارے درمیان بیٹھ کر ناشتہ کرنے سے منع کر دیا ہے۔ ِاسی لئے میں نے رجب کو ناشتہ دے دیا کہ
اوپر جا کر ا ُس کے ساتھ ہی ناشتہ کر لے۔‘‘
چڑی ہوئی تھیں۔ سکینہ بیگم سخت مایوس اور قدرے ِ
وجاہت علی نے ا ُن کی باتوں کے جواب میں کچھ نہ کہا۔ چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے وہ کسی گہری
فکر میں مبتال تھے۔ سکینہ بیگم کو کوئی جواب نہ ِمال تو چہرہ موڑ کر بغور شوہر کا چہرہ دیکھا۔
’’آپ ِکن سوچوں میں ُگم ہیں؟‘‘
سکینہ بیگم نے سوال کیا۔
وجاہت علی نے ا ُن کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی پریشانی بیان کی۔
’’کل ڈاکٹر سمیع نے مجھے بالیا تھا۔۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ کوئی ایسی بات ہے جو رجب کو پریشان
وجاہت علی نے ا ُن کی طرف دیکھا۔ پھر اپنی پریشانی بیان کی۔
’’کل ڈاکٹر سمیع نے مجھے بالیا تھا۔۔۔۔ کہہ رہے تھے کہ کوئی ایسی بات ہے جو رجب کو پریشان
کر رہی ہے۔ مگر رجب ا ُن سے چھپا رہا ہے۔۔۔
مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ مجھے ُکچھ پتا ہو؟۔۔۔۔۔ میں تب سے سوچ رہا ہوں کہ آخر ایسی کیا
بات ہو سکتی ہے؟ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہمارے سامنے تو ہے۔۔۔ پھر رجب کو کیا پریشانی ہو سکتی ہے؟
اور وہ ہم سب سے کیوں چھپا رہا ہے؟ حتیٰ کہ ڈاکٹر سمیع سے بھی؟‘‘
سکینہ بیگم شوہر کا جواب سن کر سوچ میں پڑ گیئیں۔ پھر تعجب اور بےبسی کا اظہار کرتے ہوئے
بولیں۔
’’کوئی آئیڈیا نہیں ہے وجاہت!۔۔۔ رجب کو کوئی پریشانی ہو تو وہ خاموش تو نہیں بیٹھتا۔۔۔۔ پھر یہ
کیسے ہو سکتا ہے کہ ا ُسے کوئی پریشانی بھی ہو اور وہ کسی کو کچھ بتائے بھی نہ۔ ‘‘
’’معلوم نہیں۔۔۔۔ پر تم فکر مت کرو۔ میں آفس میں بھی پتا کروں گا۔‘‘
وجاہت علی نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔
دونوں میاں بیوی بظاہر چائے پیتے ہوئے گہری سوچ میں پڑ گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
شوال وینٹی ٹیبل پہ رکھی خوشبودار موم بتّیاں الئٹر کی مدد سے روشن کر رہی تھی۔ ا ُسے ِان موم
بتیوں کی بھینی بھینی مہک بہت پسند تھی۔ ا ُس کے اور رجب کے بیچ یہ ایک ایسی چیز تھی جو دونوں
کو مشترکہ طور پر پسند تھی۔
دروازہ کھلنے کی آہٹ پہ ا ُس نے سٹول پہ بیٹھے بیٹھے ہی چہرہ گھما کر دروازے کی سمت دیکھا۔
رجب ٹرے میں ناشتہ لیے کمرے کے اندر آیا۔
’’چلو آؤ۔۔۔۔ تمہارے لئے کمرے میں ہی ناشتہ لے آیا ہوں۔ آ کر ناشتہ کر لو۔‘‘
رجب کہتے ہوئے ایک طرف رکھی میز تک گیا اور ٹرے میز پہ رکھ دی۔ پھر وہ کھانسی کا دورہ پڑنے
کے سبب میز سے ذرا دور ہٹ کر منہ پہ ہاتھ رکھ کر کھانسنے لگا۔
شوال نے ٹرے کی طرف دیکھا۔
بھاپ ا ُڑاتے چائے کے دو کپ دیکھ کر وہ سمجھ گئی کہ یہ ناشتہ صرف اس کے لئے نہیں بلکہ
رجب کے لئے بھی ہے۔
وہ ا ُٹھی اور بنا کچھ کہے کمرے سے نکلنے لگی۔
’’کہاں جا رہی ہو؟‘‘
رجب نے سوال کیا۔
’’مجھے تمہارے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ نہیں کرنا۔۔۔ میں باہر الن میں جا رہی ہوں۔‘‘
ا ُس نے سردمہری سے جواب دیا۔
’’الن میں ِاس وقت بہت ٹھنڈ ہے۔ اور ابھی اّمی ،ابّو بھی ناشتے کی میز پہ موجود ہیں۔۔۔ تمہیں اس
وقت الن میں جاتے دیکھ کر سمجھ جائیں گے کہ میرے اور تمہارے بیچ کوئی گڑبڑ ہے۔‘‘
رجب نے دھیمی آواز میں ا ُسے سمجھایا۔
ا ُس کے اندر جیسے دھواں بھرنے لگا تھا۔ اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی وہ اب تک شوال کی
بےاعتناہی کا عادی نہیں ہوا تھا۔ شوال کا سرد رویہ اور دھتکارتے الفاظ آج بھی اس کے ِدل کو زخمی کر
دیتے تھے۔
اپنے اندر بھرتا غبار وہ اندر ہی دبا کر قدرے تلخی سے بوال۔
’’تم ناشتہ کر لو۔ میں تمہارے ساتھ ناشتہ نہیں کروں گا۔‘‘
کہہ کر وہ ُمڑا اور میز پر سے ایک کپ ا ُٹھا کر لے جا کر واش بیسن میں ساری چائے انڈیل دی۔ پھر
کھانستا ہوا واش روم سے واپس کمرے میں آیا۔ خالی کپ میز پہ رکھا اور بیڈ پہ ڈاال اپنا لیپ ٹاپ ا ُٹھا کر
بالکونی میں چال گیا۔
بالکونی میں کرسی پہ بیٹھ کر ا ُس نے لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر کھول لیا۔ مگر الکھ خواہش کے
بالکونی میں چال گیا۔
بالکونی میں کرسی پہ بیٹھ کر ا ُس نے لیپ ٹاپ گود میں رکھ کر کھول لیا۔ مگر الکھ خواہش کے
باوجود لیپ ٹاپ کی پاور آن نہ کر سکا۔ آنسو روکنے کی کوشش میں آنکھوں میں جلن ہونے لگی تھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رات گئے جب وہ سو چکی تب رجب کمرے میں آیا۔ املاری میں سے اپنا بستر نکال کر غالیچے پہ لگا
رہا تھا جب شدید کھانسی کے دورے نے گہری نیند سوئی شوال کو جگا دیا۔
ا ُس نے پٹ سے آنکھیں کھولیں۔ نیم تاریکی میں ا ُس نے اپنے پیروں کی طرف رجب کو کھڑا پایا جو
اپنی کھانسی پہ قابو پاتے ہوئے غالیچے پہ اپنا بستر لگا رہا تھا۔
)یہ اب آ رہا ہے گھر؟۔۔۔۔ کہاں تھا یہ اب تک؟(
ا ُس نے بنا کسی حرکت کے تعجب سے سوچا۔
رجب بستر بچھا کر ا ُس پہ لیٹ گیا۔ وہ وقفے وقفے سے ا ُس کے کھانسنے کی آواز سنتی رہی۔ پھر
جانے کب ا ُس کی آنکھ لگ گئی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
دوسری دفعہ ا ُس کی نیند کوئی چیز گرنے کی زوردار آواز پہ ٹوٹی۔ وہ ہڑبڑا کر ا ُٹھ بیٹھی۔ نیم
تاریکی میں چہار سو نگاہیں دوڑائیں۔ کمرے میں سب جیسے کا ویسا تھا۔ جبکہ واش روم کی الئٹ آن
تھی۔ ا ُس نے آگے آکر اپنے بیڈ کے پائنتی سے نیچے جھانکا۔ رجب اپنے بستر میں نہیں تھا۔ ا ُس نےدوبارہ
چہرہ موڑ کر واش روم کے نیم وا دروازے کی سمت دیکھا۔
)کیا رجب واش روم میں ہے؟۔۔۔۔ لیکن وہ آواز کیسی تھی؟( ا ُس نے خود سے سوال کیا۔
کچھ دیر وہ ویسے ہی بیٹھی واش روم کے دروازے پہ نظریں جمائے اندر سے کسی ہلچل کی منتظر
رہی۔ مگر واش روم میں مکمل خاموشی تھی۔ ا ُس کی تشویش بڑھ گئی۔ باآلخر وہ ا ُٹھی اور تشویش کے
ساتھ واش روم کی طرف بڑھنے لگی۔
’’ر۔۔۔۔ رجب!‘‘
ہچکچاہٹ اور تشویش کے ساتھ ،شاید ا ُس نے پہلی بار ا ُسے پکارا تھا۔
پکارنے کے بعد وہ دروازے سے قدرے ایک طرف ہٹ کر کھڑی جواب ملنے کی منتظر رہی۔ مگر اندر
جیسے مکمل خاموشی تھی۔
ا ُس نے ہاتھ بڑھا کر دھیرے سے پورا دروازہ کھول دیا۔
سامنے رجب فرش پہ بے ہوش پڑا تھا۔ ا ُسے بےہوش دیکھ کر وہ حواس باختہ ہوگئی۔ بھاگ کر ا ُس
کے پاس پہنچی اور پنجوں کے بل بیٹھ کر رجب کا کندھا جھنجوڑا۔
’’رجب!۔۔۔ رجب!‘‘
ُ
سن رہا تھا۔ اور اس کا بدن جیسے آگ میں جل رہا تھا۔ رجب ا ُس کی کوئی پکار نہیں ُ
وہ بری طرح گھبرا گئی۔ ا ُٹھی اور باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم کے کمرے کے باہر پہنچ کر ا ُس نے انکے کمرے کا دروازہ بری طرح پیٹ
ڈاال۔
جلد ہی کمرے کی الئٹ آن ہو گئی اور اندر سے وجاہت علی کی آواز آئی۔
’’کون؟‘‘
ا ُس نے جواب میں کچھ کہنے کی بجائے پھر سے دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
تھوڑی دیر لگا کر جب وجاہت علی نے دروازہ کھوال تو ا ُن کے ہاتھ میں پستول تھا اور چہرے پہ
ہوائیاں ا ُڑ رہی تھیں۔ شوال کو سامنے پا کر ا ُن کی ساری پریشانی اچنبھے میں بدل گئی۔
’’شوال!۔۔۔ تم؟؟؟‘‘ فورا ً بیٹے کی فکر نےآن گھیرا۔
’’رجب کہاں ہے؟‘‘
’’شوال!۔۔۔ تم؟؟؟‘‘ فورا ً بیٹے کی فکر نےآن گھیرا۔
’’رجب کہاں ہے؟‘‘
سکینہ بیگم بھی ا ُن کی بغل سے نکل کر سامنے آئیں۔
’’رجب۔۔۔ باتھ روم میں بے ہوش ہو کر گِر گیا ہے۔‘‘
ا ُس نے پریشانی کے عالم میں بتایا۔
وجاہت علی نے ِاس سے آگے کچھ کہنے سننے میں وقت ضائع نہ کیا اور رجب کے کمرے کی طرف
دوڑ لگا دی۔ ا ُن کے پیچھے پیچھے ہی سکینہ بیگم تھیں اور سکینہ بیگم کے پیچھے وہ۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
فجر کا وقت تھا جب ا ُس نے اپنے کمرے میں گھر کے ٹیلی فون کی گھنٹی کی آواز سنی۔ یہ کال یقینا ً
سکینہ بیگم یا وجاہت علی کی طرف سے اس کے لئے تھی۔ ِاس وقت گھر میں کوئی نوکر تو تھا نہیں جو
فون ا ُٹھاتا۔ الچار ا ُسے ہی ا ُٹھنا پڑا۔
کوریڈور میں آکر ا ُس نے فون اسٹینڈ پہ رکھے فون کا ریسیور ا ُٹھایا۔
’’ہیلو۔‘‘
’’ہیلو شوال!۔۔۔۔ کیسی ہو بیٹا!؟۔۔۔۔ تم اکیلی گھبرا تو نہیں رہی؟‘‘
دوسری طرف سکینہ بیگم تھیں۔
’’نہیں۔‘‘ ا ُس نے مختصرا ً جواب دیا۔
’’میں نے سوچا کہ تمہیں فون کر کے بتا دوں کہ رجب اب ٹھیک ہے۔۔۔۔ تم پریشان نہ ہونا۔‘‘
’’جی۔‘‘
ا ُس نے پھر سے یک لفظی جواب دیا۔
’’اچھا سنو۔۔۔۔ ایسا کرنا کہ ماسی سے ناشتہ بنوا کر ڈرائیور کے ہاتھ بھجوا دینا۔۔۔ اور اگر تم
خود بھی اسپتال آنا چاہتی ہو تو ڈرائیور کے ساتھ تم بھی آ جانا۔ میں واپس گھر چلی جاؤں گی۔۔۔ ٹھیک
ہے؟ ‘ ‘
ب معمول بہت محبت اور اپنائیت کے ساتھ بول رہی تھیں۔ سکینہ بیگم حس ِ
’’جی۔‘‘ اس نے اب بھی مختصر جواب دیا۔
’’اچھا خداحافظ۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہا تو ا ُس نے بھی جواب میں خداحافظ کہہ کر فون رکھ دیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
سکینہ بیگم کی ہدایات کے مطابق ا ُس نے ناشتہ بنوا کر ڈرائیور کے ہاتھ اسپتال بھیج تو دیا مگر خود
نہ گئی۔
اس وقت وہ ہال میں سیڑھیوں کے قریب کھڑی صفائی کرتی ماسی کو ہدایات دے رہی تھی جب
سکینہ بیگم ہال میں داخل ہوئیں۔
’’شوال!۔۔۔ تم اسپتال کیوں نہیں آئی؟‘‘
سکینہ بیگم نے آگے بڑھتے ہوئے پوچھا۔
’’آپ۔۔۔ واپس آ گیئیں؟‘‘ ا ُس نے جھجکتے ہوئے اپنے تعجب کا اظہار کیا۔
’’بھئی!۔۔۔ مجھے تمہارے شوہر نے واپس گھر بھیج دیا۔ ا ُسے تمہاری فکر ہو رہی تھی کہ تم گھر
میں اکیلی ہو۔‘‘
سکینہ بیگم کہتے ہوئے صوفے پہ گرنے کے انداز میں بیٹھ گیئیں۔ وہ کافی تھکی ہوئی لگ رہی تھیں۔
’’اچھا۔‘‘
ا ُس نے دھیرے سے کہا اور سیڑھیاں چڑھ کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔
’’اچھا۔‘‘
ا ُس نے دھیرے سے کہا اور سیڑھیاں چڑھ کر واپس اپنے کمرے میں چلی گئی۔
سکینہ بیگم بس ا ُسے جاتے ہوئے دیکھ کر رہ گیئیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رات کا وقت تھا۔ وجاہت علی اور سکینہ بیگم رجب کے کمرے میں بیٹھے تھے۔ رجب بستر پہ نیم دراز
تھا۔ سکینہ بیگم ا ُس کے سامنے بیڈ کے کنارے بیٹھی تھیں۔ جبکہ شوال بیڈ کی دوسری سائیڈ پہ کنارے پہ
ِٹکی بیٹھی تھی۔ وجاہت علی بھی رجب کے قریب ُکرسی ڈالے براجمان تھے۔
’’تو پھر طے ہے۔۔۔ کل آپ غریبوں میں پیسے بانٹئے گا۔ اور میں اپنے سکول کے بچوں میں چکن
بریانی تقسیم کروا کے ا ُن سے رجب کے لئے ُدعا منگواؤں گی۔۔۔۔ میرا بچہ صحت مند ہو کر اسپتال سے
لوٹ آیا ہے۔ اب خدا کا شکر بجا النے میں دیر نہیں کریں گے۔‘‘
سکینہ بیگم نے فیصلہ کن انداز میں وجاہت علی سے کہا۔
وجاہت علی نے تائید میں سر ہال دیا۔ جبکہ شوال سر جھکائے بالکل التعلق سی وہاں بیٹھنے پہ
مجبور تھی۔
’’آپ تو ایسے کہہ رہی ہیں اّمی! جیسے مجھے پتا نہیں کیا ہو گیا تھا۔‘‘ رجب نے کہا۔
’’خدا نہ کرے۔۔۔ جو منہ میں آتا ہے بک دیتے ہو۔۔۔ خیر کی بات بوال کرو۔‘‘
رجب کے الفاظ سن کر سکینہ بیگم کے ِدل پہ گھونسا پڑا تھا۔
’’خیر کی بات بول رہا ہوں ناں!۔۔۔‘‘ رجب نے برجستہ کہا اور بوال۔ ’’رات بہت ہو چکی ہے اور مجھے
نیند آ رہی ہے۔ آپ دونوں بھی اب جا کر اپنے کمرے میں سو جائیں۔۔۔۔ میری بیماری کی وجہ سے بہت بے
آرام رہے ہیں آپ دونوں۔ آپ کو اب آرام کرنا چاہیئے۔‘‘
’’ٹھیک ہے۔ سو جاؤ تم۔‘‘
سکینہ بیگم کہہ کر ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔ جبکہ وجاہت علی کچھ پس و پیش کرنے لگے۔ ویسے بھی ان
ماں بیٹے کی گفتگو کے دوران وہ خاصے خاموش اور کسی گہری سوچ میں گم تھے۔
’’میرے خیال سے۔۔۔۔ رجب ابھی پوری طرح سے ٹھیک نہیں ہے۔ رات میں اسے کسی بھی چیز کی
ضرورت ہو سکتی ہے۔‘‘
وجاہت علی نے پُرسوچ انداز میں تہمید باندھی۔ پھر بولے۔
’’شوال تو ابھی بچی ہے۔۔۔ ِاسے کہاں ٹھیک سے دیکھ بھال کرنا آتا ہو گا۔۔۔۔ ایسا کرتے ہیں۔ میں
یہاں رجب کے ساتھ ُرک جاتا ہوں۔ اور تم شوال کو اپنے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘
رجب کو وجاہت علی کی یہ تجویز بےمعنی لگی۔
’’میں ٹھیک ہوں ابّو! ۔۔۔۔ آپ آرام سے اپنے کمرے میں جا کر سو جائیں۔‘‘
سکینہ بیگم کو بھی وجاہت علی کا فیصلہ غیر ضروری لگا۔ مگر وہ بولیں کچھ نہ۔
’’رجب! ‘‘
وجاہت علی نے تنبیہہ کرنے کے انداز میں رجب کو گہری نظروں سے دیکھا۔
’’ضد مت کرو بیٹا!۔۔۔ تمہارے اور شوال کے بھلے کے لئے کہہ رہا ہوں۔ ا ُدھر میں بھی اپنے کمرے
میں ساری رات بےچین رہوں گا۔۔۔۔ میں تمہارے پاس ہوں گا تو تمہاری مدد تو کر سکوں گا!۔ ورنہ اگر خدا
نخواسطہ رات کو تمہیں کوئی پریشانی ہوئی۔ تو شوال بےچاری یہاں سے ا ُٹھے گی اور جاکر مجھے بُالئے
گی۔۔۔ ِاس کی بجائے یہ بہتر نہیں کہ میں یہیں پہ سو جاؤں؟۔ تمہاری بروقت مدد بھی کر سکوں گا اور
شوال اور تمہاری ماں بھی چین کی نیند سوئی رہیں گی۔۔۔
ہم سب کو ہی ِبالوجہ کی بےآرامی سے بچانے کیلئے کہہ رہاہوں۔‘‘
وجاہت علی نے سمجھانے کے انداز میں کہا۔
رجب الجواب سا ہوگیا۔ سکینہ بیگم بھی کچھ نہ کچھ قائل ہو گیئیں۔ دونوں پارٹیوں کو مثبت ہوتا
دیکھ کر وجاہت علی نے دیر نہ کی۔
رجب الجواب سا ہوگیا۔ سکینہ بیگم بھی کچھ نہ کچھ قائل ہو گیئیں۔ دونوں پارٹیوں کو مثبت ہوتا
دیکھ کر وجاہت علی نے دیر نہ کی۔
بولے۔
’’چلو شوال بیٹا!۔۔۔ تم اپنی اّمی کے ساتھ جا کر سو جاؤ۔۔۔ میں ہوں یہاں رجب کے پاس۔‘‘
وجاہت علی کے حکم پر شوال خاموشی سے ا ُٹھ کر سکینہ بیگم کے ساتھ ہو لی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
سہ پہر کا وقت تھا۔ وجاہت علی ہاتھ میں ایک بڑا سا کاغذی لفافہ لئے ہال میں داخل ہوئے۔
’’اسالم علیکم صاحب جی!‘‘
کسی کام سے گزرتی ماسی نے انھیں دیکھ کر سالم کیا۔
’’واعلیکم السالم۔۔ سکینہ ابھی تک نہیں لوٹی سکول کے فنکشن سے؟‘‘
سالم کا جواب دینے کے ساتھ ہی وجاہت علی نے پوچھا۔
’’جی نہیں صاحب جی!۔ ا ُن کا فون آیا تھا۔ کہہ رہی تھیں کہ واپسی میں ذرا دیر ہو جائے گی۔‘‘
ماسی نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ شوال کو میرے کمرے میں بھیجو۔‘‘
وجاہت علی نے ماسی کو حکم صادر کر کے اپنے کمرے کا قصد کیا۔
ماسی بھی ا ُن کے حکم کی تعمیل میں ا ُن کے پیچھے سیڑھیاں چڑھنے لگی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ وجاہت علی کے کمرے کے دروازے پہ پہنچ کر ُرک گئی۔ دروازہ کھال تھا اور وجاہت علی صوفہ چیئر
کی پشت پہ سر ڈالے آنکھیں موندے جیسے سو رہے تھے۔ اگر وہ پکارتی تو ا ُسے کسی رشتے کا نام لے کر
انھیں مخاطب کرنا پڑتا۔ جو کہ ا ُسے کبھی بھی گوارا نہ تھا۔ سو ا ُس نے دروازے پہ ہلکی سی دستک دے
ڈالی۔
وجاہت علی نے دستک کی آواز پہ آنکھیں کھولیں اور ا ُسے دیکھ کر سیدھے ہو بیٹھے۔
’’آؤ شوال بیٹا!۔۔۔ اندر آؤ۔‘‘
الفاظ میں شفقت مگر آواز میں گہری سنجیدگی تھی۔
وہ خاموشی سے چل کر ا ُن کے قریب آئی۔
وجاہت علی کے سامنے کچھ فاصلے پہ ُفٹ ریسٹنگ اسٹول پڑا تھا۔ جس پہ انھوں نے وہ لفافہ ڈال
رکھا تھا جو وہ باہر سے الئے تھے۔
’’بیٹھو یہاں پہ۔‘‘
اسٹول کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انھوں نے گہری سنجیدگی کے ساتھ کہا اور لفافہ ا ُٹھا کر ہاتھوں
میں لے لیا۔
وہ بےتاثر چہرہ لئے تابعداری سے اسٹول پہ جا بیٹھی۔
’’تم ٹھیک ہو ناں! کوئی پریشانی تو نہیں؟۔‘‘
وجاہت علی نے اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے پوچھا۔
اس نے جواب میں نفی میں سر ہال دیا۔
’’رجب کا بخار مکمل طور پہ ا ُتر چکا ہے۔ آج سے تم واپس اپنے کمرے میں سونا۔‘‘
انھوں نے پھر نرمی سے کہا۔
ُ
وہ کچھ نہ بولی۔ اندر ہی اندر الجھنے لگی کہ وجاہت علی اسے خاص طور سے بُال کر یہ بےمعنی
سی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟
’’تم نے تین ِدن خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر گزارے۔ میں تمہارے ِاس تعاون کے لئے تمہارا
ممنون ہوں۔‘‘
’’تم نے تین ِدن خاموشی کے ساتھ اپنے کمرے سے باہر گزارے۔ میں تمہارے ِاس تعاون کے لئے تمہارا
ممنون ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے ایک اور بےمعنی سی بات کی۔
ا ُس نے اب بھی اپنا جھکا ہوا سر نہ ا ُٹھایا۔
’’مجھے آج رجب کی رپورٹس ملی ہیں۔‘‘
اچانک وجاہت علی کا لہجہ انتہائی گھمبیر ہو گیا۔
ا ُس نے پہلی بار چونک کر سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
جوابا ً وجاہت علی نے لفافے میں سے کاغذات نکال کر ا ُس کی طرف بڑھا دیئے۔ چہرے پہ انتہا کی
سنجیدگی تھی۔
’’شوال! میں یہ ُدکھ اکیلے نہیں ا ُٹھا سکوں گا۔ مجھے تمہارے سہارے کی ضرورت ہے۔‘‘
وجاہت علی نے رندھی ہوئی آواز میں کہا۔
’’کیا ُہوا؟‘‘
وہ خاموش نہ رہ سکی۔ وجاہت علی کے بڑھائے ہوئے کاغذات تھامتے ہوئے سوال کیا۔
اک انجانے خوف نے ِدل کو ایسے گھیرا کہ ِدل گھبرا کر سینے سے آزاد ہونے کی کوشش میں
پسلیوں کے قفس پہ ضربیں لگانے لگا۔
’’رجب کا کینسر السٹ اسٹیج پہ ہے۔۔۔ ڈاکٹرز نے عالج سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔‘‘
کاغذات تھامے ہوئے ا ُس کا ہاتھ کانپ گیا۔ رونگٹے کھڑے ہو گئے۔ یوں لگا جیسے سر پہ کوئی پہاڑ
ٹوٹا ہو۔
ا ُس نے بےترتیب سانسوں کے ساتھ پاگلوں کی طرح ایک کے بعد ایک صفحہ پلٹ کر دیکھا۔ اپنی
آنکھوں سے دیکھنے کے بعد بھی ا ُسے یقین نہیں آ رہا تھا۔
ا ُس نے اپنی بےیقین نگاہیں کاغذات سے ا ُٹھا کر وجاہت علی کو دیکھا۔
’’یہ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے ابو!؟۔۔۔ یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔ نہیں۔‘‘
وہ چیخ پڑی۔
وجاہت علی بھی آنکھوں سے آنسو بہاتے ،لب کاٹتے ا ُسے ہی دیکھ رہے تھے۔
’’یہ نہیں ہو سکتا۔۔۔۔ یہ سچ نہیں ہے۔۔۔ یہ حقیقت نہیں۔۔۔ میں کوئی خواب دیکھ رہی ہوں۔ یہ
حقیقت نہیں ہے۔‘‘
وہ کاغذات کو مٹھیوں میں بھینچے انھیں دیکھتے ہوئے پاگلوں کی طرح بڑبڑا رہی تھی اور رو رہی
تھی۔ پھر ا ُس نے اپنے دونوں ہاتھوں پہ اپنا سر ِگرا دیا اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
وجاہت علی نے کچھ دیر ا ُسے رونے ِدیا۔ پھر سمجھانے کے انداز میں بولے۔
’’شوال!۔۔۔۔ پلیز سنبھالو خود کو۔۔۔۔ ایسے نہ کرو۔۔ میں نے سوچا تھا کہ تم مجھے ڈھارس دو گی۔
میرا درد بانٹو گی۔‘‘
ُ ِ
وجاہت علی نے اپنا دست شفقت اس کے سر پہ رکھ کر التجائیہ کہا۔
وہ ا ُسی طرح روتی رہی۔
وجاہت علی نے جانا کہ وہ ابھی بھی سنبھلنے کی حالت میں نہیں ہے۔ انھوں نے مزید کچھ دیر
کیلئے اسےاس کے حال پہ چھوڑ دیا۔
پھر بولے۔
’’دیکھو۔۔۔۔ تھوڑی دیر میں سکینہ واپس آتی ہوگی۔ اس کے بعد رجب بھی آ جائے گا۔۔۔۔ یہ بات ا ُن
دونوں کو معلوم نہیں پڑنی چاہیئے۔۔۔ سکینہ یہ سہہ نہیں سکے گی۔ اور رجب تو پتا نہیں کیا کر بیٹھے۔۔۔
پلیز۔ ا ُن کے آنے سے پہلے تمہیں خود کو سنبھالنا ہو گا۔ ان کے سامنے بالکل نارمل طریقے سے پیش آنا ہو
گا۔ ‘‘
شوال نے ا ُن کی باتیں سن کر اپنے رونے پہ قابو پانے کی کوشش کرتے ہوئے دھیرے سے اپنا سر
ا ُٹھایا۔
’’شاباش!۔۔۔ میری بہادر بیٹی۔۔۔ حوصلہ کرو۔۔ رونے سے کیا حاصل؟۔۔۔ ہمیں خوش رہنا ہے۔ اور
ا ُٹھایا۔
’’شاباش!۔۔۔ میری بہادر بیٹی۔۔۔ حوصلہ کرو۔۔ رونے سے کیا حاصل؟۔۔۔ ہمیں خوش رہنا ہے۔ اور
رجب کو خوش رکھنا ہے۔‘‘
وجاہت علی نے غمزدہ آواز میں کہا۔
وہ مزید برداشت نہ کر سکی۔ مٹھیوں میں دبائے پیپرز وہیں پہ پھینک کر باہر کی اور دوڑ لگا دی۔
وجاہت علی نے ا ُسے روکنے کی کوشش نہ کی۔ انھیں تسلی تھی کہ شوال سکینہ بیگم اور رجب کا
سامنا کرنے سے پہلے خود کو سنبھال لے گی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
شام کو رجب کام سے لوٹا۔ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو شوال کو سامنے غالیچے پہ جائے نماز
بچھائے بیٹھا دیکھ کر ٹھٹک گیا۔ پہلے کبھی ا ُس نے شوال کو کوئی نماز وغیرہ پڑھتے نہیں دیکھا تھا۔ اور
یہ بےوقت کی نماز تو اس کی سمجھ سے باالتر تھی۔
اپنی حیرت کا اظہار کئے بنا وہ صوفے کی طرف بڑھ گیا۔ ہاتھ میں پکڑا لیپ ٹاپ بیگ اور ایک رولڈ
شیٹ صوفے پہ ڈال دی۔ پھر کپڑے بدلنے کی غرض سے پہلے اس نے اپنی آستینوں کے بٹن کھولے۔ پھر
شرٹ کے بٹن کھولتےہوئے وہ پلٹا۔
شوال نے ا ُٹھ کر جائے نماز بیڈ پہ ڈال دی تھی۔ چونکہ ا ُس کی طرف بدستور ا ُس کی پیٹھ تھی۔ سو
وہ جان نہیں سکا کہ وہ کیسے موڈ میں ہے۔
وہ ا ُسے ُبالنے سے گریز کرتا واش روم کی طرف بڑھنے لگا۔ اپنے ہی دھیان میں وہ شرٹ کے بٹن
کھولتا شوال کی پیٹھ پیچھے سے گزر رہاتھا جب اچانک شوال نے اس کا بازو پکڑ کر روک لیا اور ُمڑ کر
ا ُس کے سینے سے لگ گئی۔
فورا ً ا ُسکی سمجھ میں نہ آیا کہ کیا ہوا ہے۔ پل دو پل تو وہ ویسے ہی بانہیں پھیالئے شاکڈ سا کھڑا
رہا۔ پھر ا ُس کے وجود میں جنبش ہوئی۔ ا ُس نے ہمت کر کے سر جھکا کر شوال کو دیکھا۔
وہ ا ُس کے برہنہ سینے میں منہ چھپائے بُری طرح روئے چلی جا رہی تھی۔
دھیرے دھیرے ،جھجکتے ہوئے اور کچھ بے یقینی کے ساتھ۔ ا ُس نے اپنے بازو سمیٹے۔ شوال کا اس
ُبری طرح سے رونا ا ُسے تشویش میں مبتال کر رہا تھا۔ تکّلف کے ساتھ ا ُس نے شوال کے شانوں پہ اپنے
ہاتھ ِٹکائے۔
’’شش۔۔۔۔۔۔ شوال!‘‘
ا ُس نے بمشکل ا ُس کا نام لیا۔
’’آئی لّو یُو۔۔۔۔ آئی لّو یُو رجب!۔ ‘‘
شوال نے جیسے ا ُس کے سامنے اپنی شکست تسلیم کی۔ ساتھ ہی ا ُس کے رونے میں اور شدت آ
گئی۔
اتنا اچانک اور غیر متوقع اظہاِرمحبت۔
رجب کی تو جیسے سانس ہی اٹک گئی۔ پھر ا ُس نے جدوجہد کے ساتھ دو تین بار ملبی ملبی
سانسیں لے کر اپنی سانسوں کا تسلسل بحال کیا۔ شوال کو اپنی بانہوں کے گھیرے میں لیتے ہوئے ا ُس کی
آنکھیں چھلک گیئیں۔
’’آئی لّو یُو ٹُو۔‘‘
ا ُس نے کہا۔
شوال کے رونے کی شدت میں کوئی کمی آ کر نہ دے رہی تھی۔
’’جانم!۔۔ تم اتنا رو کیوں رہی ہو؟‘‘
ا ُسے پوچھتے ہی بنی۔
شوال کچھ نہ بولی۔ بس روتی چلی گئی۔
چا تھا جانم!۔‘‘
’’آخر۔ تم نے میری محبت اور خلوص کا اعتراف کر لیا ناں!۔۔۔ میں س ّ
شوال کچھ نہ بولی۔ بس روتی چلی گئی۔
چا تھا جانم!۔‘‘ ’’آخر۔ تم نے میری محبت اور خلوص کا اعتراف کر لیا ناں!۔۔۔ میں س ّ
قدرے توقف کے بعد ا ُس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’رجب!‘‘ شوال نے روتے ہوئے ا ُس کا نام لیا۔
’’ہاں۔‘‘
’’رجب!‘‘ آواز پہ آنسو غالب آ گئے۔
’’جانم!۔۔۔ ‘‘
رجب نے ا ُسے شانوں سے تھام کر خود سے الگ کر کے ا ُس کا چہرہ بغور دیکھا۔
’’مجھے پریشانی ہو رہی ہے۔ تم اتنا کیوں رو رہی ہو؟‘‘
ا ُس کے چہرے پہ تشویش تھی۔
شوال نے رونا بند کرنے کی کوشش کے دوران آنسوؤں سے لبریز آنکھیں ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔
’’وعدہ کرو۔۔۔۔ ‘‘
ا ُس کی آواز رونے کی وجہ سے بوجھل تھی۔ ُرک کر ہمت مجتمع کی۔ پھر بولی۔
’’ کہ تم مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤ گے۔ کبھی نہیں۔‘‘
رجب کے لبوں کو مسکراہٹ چھُو گئی۔
’’میں وعدہ کرتا ہوں شوال! میں تمہیں کبھی نہیں چھوڑوں گا۔ ہرگز نہیں۔‘‘ ا ُس نے ِدل و جان سے
عہد کیا۔
شوال کی تسلی نہ ہوئی۔
’’کبھی بھی نہیں چھوڑو گے ناں!؟۔۔۔ ہم ہمیشہ ساتھ رہیں گے۔ وعدہ کرو مجھ سے۔‘‘
’’ہاں ہاں جانم!۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں۔‘‘
اب کے پھر ا ُس نے وثوق سے کہا۔
’’اور اگر پھر بھی تم نے میرا ساتھ چھوڑا تو؟۔۔۔۔‘‘
شوال کا خوف کسی طور کم نہ ہو رہا تھا۔
چکا۔‘‘’’تو سمجھ لینا کہ رجب مر ُ
رجب نے برجستہ کہہ کر ا ُسے بُری طرح ُرال دیا۔
’’رجب!۔۔‘‘
چالئی جیسے رجب نے ا ُس کا ِدل کاٹ کر دو ٹکڑے کر دیا ہو۔ وہ ایسے ِ
’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ ایسے مت روؤ۔۔۔ پلیز!‘‘
رجب ا ُس کے اسطرح رونے سے گھبرا گیا۔ اپنا آپ مجرم کی طرح محسوس ہونے لگا۔
جس ِدن تم مرو گے ،میں بھی اسی ِدن تمہارے ساتھ ہی مروں گی۔۔۔۔ مجھے ’’ایسا مت کہو ۔۔۔۔ ِ
نہیں جینا تم سے بچھڑ کر۔‘‘
ا ُس کا رونا کسی طور نہیں تھم رہا تھا۔
رجب کو ا ُس کی محبت کی شّدتیں محسوس کر کے جہاں سرشاری محسوس ہوئی۔ وہیں شوال کے
اسطرح سے رونے اور ِان باتوں سے خوف بھی آیا۔ ا ُس کی پیٹھ سہالتے ہوئے بوال۔
’’جانم!۔ ہم مرنے ،بچھرنے کی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔ ابھی تو ہم ِملے ہیں۔۔ ِملنے کی باتیں کرو۔
ایک ساتھ جینے کی باتیں کرو۔۔۔ پیار و محبت کی باتیں کرو۔‘‘
رجب کا یہ کہنا تھا کہ ا ُس کے رونے میں کمی آنے لگی۔
’’ادھر بیٹھ جاؤ۔‘‘
ُ ُ
تسلی آمیز لہجے میں کہتے ہوئے رجب نے اسے شانوں سے تھام کر بیڈ کے پائنتی بٹھایا۔ خود اس
کے برابر بیٹھ کر ا ُس کے آنسو پونچھنے لگا۔
’’اب رونا بند کرو۔۔۔ شاباش۔‘‘
شوال تقریبا ً رونا بند کر چکی تھی۔ مگر ا ُس کے آنسو پونچھتے پونچھتے رجب کی اپنی آنکھیں
’’اب رونا بند کرو۔۔۔ شاباش۔‘‘
شوال تقریبا ً رونا بند کر چکی تھی۔ مگر ا ُس کے آنسو پونچھتے پونچھتے رجب کی اپنی آنکھیں
چھلک گیئیں۔ وہ جلدی سے چہرہ دوسری اور گھما کر اپنے ہاتھ کی پشت پہ آنسو سمیٹنے لگا۔
’’اب تم خود کیوں رو رہے ہو؟‘‘
بھیگی پلکوں ،گالبی آنکھوں اور گالبی ناک کی نوک لئے شوال نے قدرے شکواہ کناں لہجے میں ا ُس
سے سوال کیا۔ رجب نے آنسو پونچتھے ہوئے چہرہ ا ُس کی طرف گھمایا۔
’’رو نہیں رہا۔۔۔ اوّور ایکسائیٹڈ ہوں۔‘‘
پھر شوال کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر بوال۔ ’’مجھے یقین نہیں آرہا کہ یہ سب ایک حقیقت
جس حالت میں مَیں تمہیں چھوڑ کر گیا تھا۔۔۔ میرے فرشتوں کو بھی خبر نہیں تھی کہ شام ہے۔۔۔ صبح ِ
کو تم مجھے اس طرح سے ِملو گی۔ میں زندگی میں پہلے کبھی اتنا خوش نہیں ہوا جتنا کہ آج ہوں۔‘‘
رجب کی آنکھیں پھر سے پانیوں سے بھر گیئیں۔ جبکہ ہونٹوں پہ ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔
رجب کے الفاظ سن کر شوال کی آنکھیں بھی بھر آئیں۔
)صبح میرے بھی فرشتوں کو خبر نہیں تھی کہ میں شام کو تم سے ایسے ملوں گی۔ مگر۔۔۔۔(
ا ُس نے سوچا اور رجب کا دائیاں ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر چوم لیا۔
رجب کے ہونٹوں کی مسکراہٹ اور گہری ہو گئی۔ ا ُس کا ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں تھام کر بوال۔
’’اب تم بھی مجھے کبھی خود سے دور مت کرنا شوال!۔۔۔ تمہاری نفرت ،تمہاری دھتکار مجھے بہت
چوٹ پہنچاتی تھی۔ اب اگر پھر سےتم نے مجھ سے نفرت کی ،مجھے دھتکارا تو میں برداشت نہیں کر
پاؤں گا۔ َمر جاؤں گا میں۔‘‘
ا ُس کی آواز رندھ گئی۔
شوال روہانسی ہو کر ا ُس کے گلے لگ گئی۔
’’نہیں۔۔۔ دوبارہ کبھی ایسی بات اپنی زبان پہ مت النا۔‘‘
ا ُس کی آنکھوں سے پھر سے آنسو بہہ ِنکلے۔
’’تم وعدہ کرتی ہو ناں! کہ تم کبھی مجھ سے نفرت نہیں کرو گی؟۔ مجھے کبھی نہیں دھتکارو گی؟۔
کبھی مجھ سے دور نہیں جاؤ گی؟۔‘‘
رجب نے بھی بہتے آنسوؤں کے درمیان پوچھا۔
’’ہاں۔۔۔ میں وعدہ کرتی ہوں۔ پّکا وعدہ۔‘‘
ِ
ا ُس نے روتے ہوئے اپنے پختہ عہد کا یقین دالیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
صبح وہ کام کے لئے تیار وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا بالوں میں کنگھی کر رہا تھا۔ ٹیبل پہ جلتی
خوشبودار شمعیں ماحول کو مہکا رہی تھیں۔
بال سیٹ کر کے وہ نیچے جانے کے لئے مکمل تیار تھا۔ برش ٹیبل پہ رکھ کر پلٹا۔
شوال بستر میں لیٹی گہری نیند سو رہی تھی۔
وہ خاموش قدموں ا ُس کے قریب چال آیا۔ بیڈ کے کنارے ِٹک کر اس نے اپنا ایک ہاتھ شوال کے اوپر
ُ
سے گزار کر ہتھیلی بیڈ پہ ٹکا دی اور محبت سے شوال کا چہرہ دیکھنے لگا۔ ا ُس کے ذیہن میں رات کا
واقعہ تازہ ہو گیا۔
ھل گئی تھی۔ ا ُس نے کمرے کی نیم تاریکی جب رات کے کسی پہر کروٹ بدلتے ہوئے ا ُس کی آنکھ ک ُ
میں دیکھا کہ شوال ہیڈ بورڈ سے ٹیک لگائے بیٹھی ہے۔
’’شوال! تم جاگ رہی ہو؟‘‘
اس نے اچنبھے سے پوچھنے کے ساتھ ہی سائیڈ لیمپ آن کردیا۔ چہرہ گھما کر دیکھا تو شوال کو
آنسو پونچھتے پایا۔
’’شوال!۔‘‘ وہ بےچین ہو کر ا ُٹھ بیٹھا۔
آنسو پونچھتے پایا۔
’’شوال!۔‘‘ وہ بےچین ہو کر ا ُٹھ بیٹھا۔
’’کیوں رو رہی ہو جانم!؟‘‘
ا ُس نے گالوں کو پونچھتا شوال کا ہاتھ پکڑ لیا۔
شوال نے نظریں ا ُٹھا کر ا ُسے دیکھا۔
’’آٹھ مہینے۔۔۔ رجب! ہماری زندگی کے آٹھ قیمتی ترین مہینے میں نے ایک بےکار کی ضد کی نذر کر
دیئے۔۔۔ میں اپنی جان دے کر بھی وہ وقت واپس نہیں ال سکتی۔‘‘
شوال نے انتہائی ُدکھ اور پچھتاوے کے احساس کے ساتھ کہا۔
پھر مضطرب ہو کر رجب سے سوال کرنے لگی۔
’’کیوں رجب!؟۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ میرے ساتھ ایسا کیوں ہوا؟۔۔۔۔ کیوں وقت نکل گیا میرے ہاتھ سے؟۔۔۔ کیوں
میں نے اتنی دیر کر دی؟‘‘
وہ بُری طرح ٹوٹ چکی تھی۔ رو رو کر پچھتاوے کا اظہار کر رہی تھی۔
ا ُس کی آواز میں درد کی شدت رجب نے واضح محسوس کی۔ ا ُسے خود سے لگا کر سرگوشیانہ بوال۔
’’شش۔۔۔۔ ایسے مت سوچو۔۔۔۔ جو ہو چکا ،سو ہو چُکا۔۔۔۔ آخرکار ہم ایک ہو تو گئے ناں!۔۔۔ ‘‘
وہ ا ُس کے بال سہالتے ہوئے ا ُسے دالسہ دے رہا تھا۔ جبکہ وہ روئے چلی جا رہی تھی۔
چپ کر جاؤ۔۔۔ بھول جاؤ ا ُن باتوں کو۔۔۔ That’s all over now.۔۔۔۔۔ ’’پلیز۔۔۔ ُ
مجھےبھی تو دیکھو۔۔۔۔ آج صبح تک مجھے یہ گزرے آٹھ مہینے آٹھ صدیوں سے بھی ملبے لگتے
تھے۔ ایسا لگتا تھا جیسے میں ازل سے تمہاری دھتکار سہہ رہا ہوں۔۔۔ لیکن آج شام سے مجھے ایسے لگ
رہا ہے جیسے وہ وقت کبھی میری زندگی میں آیا ہی نہیں تھا۔۔۔ میری زندگی کی کتاب سے وہ صفحے
جیسے حضف ہو گئے ہوں۔۔۔ کیا تم بھی میری طرح نہیں سوچ سکتی؟۔۔۔۔
صہ ہے۔۔۔ بھول جاؤ سب۔۔۔ آگے کے بارے میں سوچو۔۔۔ ہمارے آنے جو گزر چکا وہ اب ماضی کا ح ّ
والے کل کے بارے میں۔ تب تو ہم ُجدا نہیں ہوں گے۔۔ ہے ناں!؟‘‘
رجب ا ُسے نرمی سے سمجھا رہا تھا۔ وہ رجب کے سمجھانے پہ خود کو سنبھالنے لگی تھی مگر
رجب کے آخری جملے ا ُسکا اضطراب بڑھا گئے۔ ا ُس کا جی چاہا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر روئے۔ لیکن
ا ُسے ایسا ظاہر کرنا تھا جیسے رجب کی باتوں سے اس کے ِدل کو تسلی ِملی ہو۔ ِاس کوشش میں ا ُس کی
حالت غیر ہونے لگی۔
’’شوال۔۔۔ شوال پلیز۔۔۔۔ ایسے مت کرو۔ سنبھالو خود کو۔‘‘
رجب ا ُس کی حالت دیکھ کر بے قرار ہو گیا۔ جیسے تیسے شوال خود کو ُپرسکون کرنے لگی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
ا ُس کا ذیہن واپس حال میں لوٹا۔ شوال کا چہرہ دیکھتے ہوئے وہ قدرے درد کے ساتھ مسکرایا اور
اپنے ہاتھ کی انگلیوں کی پشت نرمی سے شوال کے گال پہ رگڑی۔
شوال نے کسمسا کر آنکھیں کھولیں۔
وہ چونک گیا۔
’’سوری۔۔۔ میں تمہیں جگانا نہیں چاہتا تھا۔۔۔ تم واپس سو جاؤ۔‘‘
ا ُس نے قدرے شرمندگی اور فکر مندی سے کہا۔
شوال نےاطراف میں ہاتھ ٹیک کر خود کو اونچا کیا۔
’’تم کام پہ جا رہے ہو؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
ا ُس نے جواب میں اثبات میں سر ہالیا۔
’’پلیز۔ نہ جاؤ ناں!۔ آج گھر پہ رہو۔ میرے ساتھ۔‘‘
شوال نے ملتجی لہجے میں کہا۔
’’پلیز۔ نہ جاؤ ناں!۔ آج گھر پہ رہو۔ میرے ساتھ۔‘‘
شوال نے ملتجی لہجے میں کہا۔
’’ہوں۔۔۔ دیٹ ُوڈ بی گریٹ۔۔۔ پر گھر والے کیا سوچیں گے؟‘‘
ا ُس نے ُپر سوچ انداز میں سراہا اور سوال کیا۔
’’گھر والے گھر پہ ہوں گے ہی نہیں۔۔ اّمی سکول چلی جائیں گی۔ اّبو کام پہ۔ دوپہر تک تو کوئی
نہیں ہوگا۔ پھر ہم لنچ کرنے باہر چلیں گے۔ ایک ساتھ وقت گزاریں گے۔ اور رات کا کھانا کھا کر واپس آ
جائیں گے۔‘‘
’’پالن تو اچھا ہے۔ لیکن اّبو سے کیا کہوں گا کہ کیوں نہیں جا رہا کام پہ؟‘‘
رجب مشکل میں پڑ گیا۔
’’پلیز۔۔۔‘‘
جوابا ً شوال نے التجا کی۔
’’اچھا میں دیکھتا ہوں۔‘‘
ا ُس سے شوال کی مسکین صورت دیکھی نہ گئی۔ فورا اٹھ کھڑا ہوا۔
ُ ً
پہلے جاکر رائٹنگ ٹیبل پر سے رولڈ شیٹ اور ایک فائل ا ُٹھائی۔ اور دونوں چیزیں لے کر کمرے سے
نکل گیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رات کے وقت سکینہ بیگم اپنے کمرے میں فائر پلیس کے سامنے کرسی ڈالے بیٹھی جلتی آگ کو
دیکھتے ہوئے کسی گہری سوچ میں ُگم تھیں۔
وجاہت علی ا ُن سے کچھ فاصلے پہ بیٹھے اپنے فون پہ ویب سرچنگ کر رہے تھے۔ نظر ا ُٹھ کر سکینہ
بیگم کے متفّکر چہرے پہ پڑی تو پوچھنے لگے۔
’’کیا سوچ رہی ہو بیگم!؟‘‘
سکینہ بیگم نے چونک کر انھیں دیکھا۔
وہ پوری توجہ سے انھیں دیکھتے ہوئے جواب کے منتظر تھے۔
سکینہ بیگم نے گہرا سانس کھینچا اور بولیں۔
’’میں شوال کے بارے میں سوچ رہی ہوں۔ آج کل بہت عجیب طرح کی سرگرمیوں میں مصروف ہے۔‘‘
’’کیسی سرگرمیاں؟‘‘
وجاہت علی چونک گئے۔
’’اچھی بھلی تو ہے۔۔۔ اب ہنسنے بولنے لگی ہے۔۔ ہمارے درمیان بیٹھتی ہے۔ ہم سے باتیں کرتی ہے۔
اور تو اور۔۔۔ ا ُس نے ہمیں اّمی ابّو کہہ کر پکارنا بھی شروع کر دیا ہے۔ اب تمہیں ِکس بات کی ٹینشن
ہے؟ ‘ ‘
’’ایسا وہ صرف رجب کی موجودگی میں کرتی ہے وجاہت!‘‘
سکینہ بیگم نے پریشانی سے کہا اور اسی پریشانی کے ساتھ بولیں۔
’’ورنہ صبح جب آپ لوگ کام پہ چلے جاتے ہیں تو وہ واپس اپنے کمرے میں جا کر بند ہو جاتی ہے۔
چلے کاٹتی رہتی ہے۔ اور نہ کچھ کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔۔ سارا سارا ِدن جائے نماز پہ بیٹھی جانے کونسے ِ
شام کو جب آپ دونوں واپس آتے ہیں تو بالکل ہی بدل جاتی ہے۔۔ مجھے بہت ا ُلجھن ہوتی ہے ا ُس کی ان
حرکتوں سے۔۔ وہ ایسا کیوں کر رہی ہے؟‘‘
’’تم نے ا ُس سے پوچھا نہیں؟‘‘
وجاہت علی نے مشکوک نظروں سے اپنی بیوی کو دیکھتے ہوئے سوال کیا۔
’’پوچھا تھا۔ مگر ا ُس نے ’کوئی بات نہیں‘ کہہ کر ٹال دیا۔‘‘ سکینہ بیگم نے مایوسی سے کہا۔
وجاہت علی مطمعین ہوگئے۔
’’چلو چھوڑو۔ ایسے ا ُس کے بارے میں سوچ سوچ کر خود کو ہلکان مت کرو۔ ا ُسے ا ُس کے حال پہ
چھوڑ دو۔ خود ہی ٹھیک ہو جائے گی۔۔۔ ہمارے لئے تو یہی کافی ہے کہ ا ُس نے باآلخر ہمیں قبول کر لیا
ہے۔‘‘
وجاہت علی نے تسلی آمیز انداز میں کہنے کے ساتھ ساتھ انھیں نصیحت کی۔
’’آپ کو ا ُس کے بارے میں جان کر تعجب نہیں ُہوا؟‘‘
سکینہ بیگم کو وجاہت علی کے معتجب نہ ہونے پہ تعجب ہوا۔
’’کیوں نہیں ہوا۔‘‘
وجاہت علی نے سفید جھوٹ بوال۔ قدرے چِڑتے ہوئے بولے۔
’’لیکن ہم کیا کر سکتے ہیں؟۔۔۔۔ اب ،جب وہ ہمیں قبول کرنا شروع ہوئی ہے تو اس کا مطلب یہ تو
نہیں کہ ہم ا ُس کی ہر حرکت پہ جواز مانگیں۔۔۔۔۔ کیا سوچے گی وہ؟ Give her some space.۔۔۔ اگر
ایسے ہی ا ُس کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاؤ گی تو وہ ہم سے پھر سے متنفر ہو جائے گی۔ مت مداخلت
کرو ا ُس کے معامالت میں۔‘‘
سکینہ بیگم کو وجاہت علی کا اسطرح سے بگڑنا اچھا نہیں لگا۔
’’میں کہاں مداخلت کر رہی ہوں؟۔۔۔ بس مجھے الجھن ہو رہی تھی تو آپ سے ذکر کر دیا۔۔۔۔ آپ
بھی بالوجہ مجھ پہ چڑھائی کر دیا کریں۔‘‘
سکینہ بیگم بُرا مان کر ا ُٹھیں اور جا کر باتھ روم میں بند ہو گیئیں۔
بھی بالوجہ مجھ پہ چڑھائی کر دیا کریں۔‘‘
سکینہ بیگم ُبرا مان کر ا ُٹھیں اور جا کر باتھ روم میں بند ہو گیئیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
صبح کا وقت تھا۔ وہ بیڈ کے کنارے بیٹھی ا ُجڑی صورت لئے اپنی ِفکروں میں گم تھی۔
سوا دنیا)اگر رجب نہیں ہوگا تو میں ِکس کے سہارے زندہ رہوں گی؟۔۔ ِکس کے لئے؟۔۔۔ اب رجب کے ِ
میں میرا ہے ہی کون؟۔۔۔ رجب نہیں رہے گا تو میری زندگی بالکل بےمعنی ہو جائے گی۔ کچھ نہیں بچے گا
میری زندگی میں۔ نہ کوئی رشتہ ،نہ کوئی جینے کی وجہ۔(
وہ سوچ رہی تھی۔
تب ہی رجب کام کے لئے سوٹ پہنے ڈریسنگ روم سے باہر آیا۔
ا ُس کی سوچوں کا تسلسل ٹوٹ گیا۔ آنکھوں میں بھر آئے آنسو جلدی سے صاف کرکے رجب سے
شکواہ کناں ہوئی۔
’’تم آج پھر کام پہ جا رہے ہو؟۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا ناں کہ کچھ عرصے کی چھٹیاں لے لو۔ ہم
کہیں گھومنے چلیں گے۔۔۔۔ لیکن تمہیں تو کام پہ جانے کا شوق ہے۔‘‘ آخر میں وہ مایوسی سے بولی۔
رجب کو ا ُس پہ بےطرح پیار آیا۔
’’جانم!۔۔۔۔‘‘
وہ چل کر ا ُس کے پاس آیا۔
وہ ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’ِکس کم بخت کو کام پہ جانے کا شوق ہے؟ ِدل تو میرا بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم ِدن رات ایک ساتھ
رہیں۔۔۔ لیکن مجبوری ہے۔ کام کرنا بھی تو ضروری ہے۔۔۔ کیونکہ جو لوگ کام نہیں کرتے۔ وہ زندگی میں
ناکام رہ جاتے ہیں۔ اور میں ناکام نہیں ہونا چاہتا۔۔ خاص طور سے اب۔۔۔‘‘
رجب نے محبت سے لبریز لہجے میں ا ُسے سمجھاتے ہوئے کہا۔
’’بس تھوڑے ہی ِدنوں کی تو بات ہے۔۔۔ ہم ہنی مون پہ بھی نہیں گئے تھے۔‘‘
وہ جیسے درخواست پیش کر رہی تھی۔
چکا ہوں۔’’میں جانتا ہوں رجب کی جان!۔۔۔ لیکن تمہارے اصرار پر ،میں ابّو سے دو بار چھٹی مانگ ُ
مگر انھوں نے صاف منع کر دیا ہے۔ آج کل ہم ایک بہت اہم پراجیکٹ پہ کام کر رہے ہیں۔ اور میرے سوا یہ
کام ممکن نہیں۔۔۔۔ یہ پراجیکٹ پورا ہو جائے۔ پھر ضرور میں ملبی چھٹی لوں گا۔ اور ہم ملک سے کہیں باہر
گھومنے چلیں گے۔ ورلڈ ٹّور پہ۔۔۔ ٹھیک ہے۔‘‘
رجب نے ا ُسے اللچ دیا۔
’’کون جانتا ہے کل کیا ہو گا رجب!۔۔۔۔۔ لعنت بھیجو ِاس پراجیکٹ پہ۔۔۔ تم کام کرنا چھوڑ دو۔ بس
میرے پاس رہو۔ میرے ساتھ۔‘‘
وہ مایوس اور مضطرب تھی۔
’’ارے۔۔۔۔‘‘
رجب ا ُس کی چاہت کی شدت دیکھ کر ہنس ِدیا۔ خوشی سے بوال۔
چپُکو ہے۔‘‘
’’مجھے نہیں پتا تھا کہ میری بیوی اتنی ِ
جسے رجب صحیح سے سمجھ نہ سکا۔ ا ُس کے جواب پہ شوال کے چہرے پہ مزید اضطراب آ گیا۔ ِ
جلدی سے صفائی پیش کرتے ہوئے بوال۔
’’۔۔۔۔‘‘ But don’t mind…. I like it
’’رجب!۔‘‘
شوال نے ا ُسے دونوں بازوؤں سے تھام کر اپنی تشنہ نگاہیں اس پہ گاڑھ دیں۔
’’ضد مت کرو جانم!۔۔۔ میں نے کہا ناں کہ یہ پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد گھومنے چلیں گے۔ اینڈ آئی
پرامس کہ میں یہ کام جلد سے جلد ختم کروں گا۔ ‘‘
’’ضد مت کرو جانم!۔۔۔ میں نے کہا ناں کہ یہ پراجیکٹ ختم ہونے کے بعد گھومنے چلیں گے۔ اینڈ آئی
پرامس کہ میں یہ کام جلد سے جلد ختم کروں گا۔ ‘‘
وہ ا ُسے قائل کر رہا تھا۔ پھر بوال۔
’’لیکن ابھی بھی تمہیں دینے کے لئے میرے پاس کچھ ہے۔‘‘
رجب نے کہا۔ اور جا کر صوفے پہ رکھے اپنے لیپ ٹاپ بیگ میں سے ایک گفٹ ریپر میں لپٹا باکس
ِنکال کر الیا۔
’’یہ لو۔۔۔ تمہارے لئے اسپیشلی میں نے انگلینڈ سے منگوایا ہے۔۔۔۔ کھول کر دیکھو ِاسے۔‘‘
شوال نے باکس لے کر ا ُس کا ریپر ا ُتارنا شروع کیا۔
’’آئی فون۔‘‘
آئی فون کا باکس دیکھ کر شوال سرپرائزڈ رہ گئی۔
رجب ُمسکرایا۔
ِ ِ
’’ہاں۔۔۔ ُفلی ایکٹو ہے۔ سم شم سب موجود ہے اور میں نے اپنا اور اّمی اور اّبو کا نمبر بھی فیڈ کر
دیا ہے۔‘‘
ُ ِ ِ
شوال باکس کھول چکی تھی۔ فون نکال کر ہاتھ میں لیا۔ پھر سر اٹھا کر رجب کو دیکھا۔
رجب خوشی سے ُمسکرایا۔
’’جب بھی مجھے آفس میں فری ٹائم ِمال کرے گا۔ ہم دونوں فیس ٹائم کیا کریں گے۔۔۔ ٹھیک ہے؟‘‘
شوال نے سر جھُکا کر دھیرے سے اثبات میں ہال ِدیا۔
ا ُس کے بےچین ِدل کو کچھ نہ کچھ ڈھارس ہوئی تھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی کے آفس میں ا ُن کا پی۔ اے کھڑا نوٹ پیڈ ہاتھ میں لئے ا ُن سے کچھ انسٹرکشنز لیتے
ہوئے نوٹ کرتا جا رہا تھا۔ وجاہت علی کا سامنے میز پہ رکھا موبائل فون بج ا ُٹھا۔
’’ایک منٹ۔‘‘
وجاہت علی نے فون ا ُٹھا کر دیکھا۔ نامعلوم نمبر دیکھ کر وہ الجھن میں پڑ گئے۔ پھر بھی کال
ایکسپٹ کر لی۔
’’ہیلو۔‘‘
’’ ابّو! میں شوال بول رہی ہوں۔‘‘
ا ُن کے کانوں کے پردوں سے شوال کی گھمبیر آواز ٹکرائی۔
’’شوال!۔۔۔۔ سب ٹھیک ہے ناں؟۔۔۔۔ تم ِکس کے فون سے بات کر رہی ہو؟‘‘
وہ گھبرا گئے۔
’’یہ میرا نمبر ہے۔۔۔ رجب نے آج صبح ہی مجھے فون دیا ہے۔‘‘
ا ُس نے اپنے لہجے میں قائم سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔
وجاہت علی کے چہرے پہ اطمینان چھا گیا۔
’’بہت خوب۔۔۔ یہ تو بہت اچھا کیا ا ُس نے۔ میں ابھی تمہارا نمبر سیو کر لیتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے خوشی ظاہر کی۔
’’اّبو!۔۔ آپ رجب کو چھٹیاں کیوں نہیں دے رہے؟‘‘
شوال نے اب اپنا مدعا بیان کرنے میں دیر نہ کی اور بھرائی ہوئی آواز میں پوچھا۔
وجاہت علی کی سمجھ میں فورا ً کچھ نہ آیا کہ کیا کہیں۔ جبکہ دوسری طرف شوال کہہ رہی تھی۔
’’ابّو! میں سمجھ سکتی ہوں کہ آپ بھی ا ُسے خود سے دور کرنا نہیں چاہتے۔ لیکن آپ نے ا ُس کے
ساتھ تیئس ،چوبیس سال گزارے ہیں۔ مگر ُمجھے تو ایسے لگتا ہے جیسے میں نے ابھی تک ا ُس کا چہرہ
بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا۔۔۔ وہ مجھے پل پل ریت کی طرح اپنے ہاتھوں سے ِنکلتا ِدکھائی دے رہا ہے اور
میں بالکل بےبس ،بس ا ُسے ملحہ ملحہ خود سے دور ہوتا دیکھ رہی ہوں۔ آپ کیوں میری حالت نہیں سمجھ
بھی ٹھیک سے نہیں دیکھا۔۔۔ وہ مجھے پل پل ریت کی طرح اپنے ہاتھوں سے ِنکلتا ِدکھائی دے رہا ہے اور
میں بالکل بےبس ،بس ا ُسے ملحہ ملحہ خود سے دور ہوتا دیکھ رہی ہوں۔ آپ کیوں میری حالت نہیں سمجھ
رہے؟۔۔۔ مجھے ا ُس کے ساتھ کچھ وقت گزارنے دیجیے۔ کم از کم میں ا ُس کی شکل تو یاد کر سکوں۔‘‘
وہ رو رہی تھی۔ سسک رہی تھی۔
وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر ان کے حکم کے منتظر کھڑے پی۔اے کو دیکھا۔
’’تم جا سکتے ہو۔‘‘
وجاہت علی نے پی۔اے سے کہا۔
پی۔اے جب تک کمرے سے باہر نہ نکل گیا وجاہت علی خاموش بیٹھے ا ُس کی سسکیاں سنتے رہے۔
پھر بولے۔
’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ کالم ڈاؤن بیٹا!۔۔۔ ایسے نہ سوچو۔ بی پازیٹو۔ رجب ہمارے ساتھ ہے۔ وہ کہیں
نہیں جائے گا۔‘‘
وجاہت علی نے شفقت بھرے لہجے میں کہا۔
ِ
’’مجھے جھوٹے دالسے مت دیں ابّو! آپ ا ُسے کچھ چھٹیاں دے دیں ناں! بس تھوڑے سے دن۔‘‘
ا ُس نے التجا کی۔
’’شوال! میری بیٹی! بات کو سمجھو۔۔۔ میں کیسے ا ُسے گھر سے دور کہیں تنہا بھیج سکتا ہوں؟
اگر ایک دو ِدن کی بات ہو تو بھی میں مان لوں۔۔ لیکن تم کہتی ہو کہ ُکچھ ِدن۔۔۔ ِان کچھ ِدنوں میں کیا ہو
جائے ،کس کو خبر ہے؟۔۔۔۔
ذرا سوچو!۔۔۔۔ تم دونوں گھر سے دور کہیں گئے ہوئے ہو۔ خدانخواسطہ اگر وہاں اچانک رجب کی
طبعیت ِبگڑ جاتی ہے۔ ایسے میں اکیلی تم کیا کرو گی؟ کیسے مینج کرو گی؟ رجب کی زندگی کا سوال ہے
یہ۔ کیسے اتنا بڑا رسک لے سکتے ہیں ہم؟۔۔۔۔ بتاؤ! ‘‘
وجاہت علی کے ایک سوال نے ہی ا ُسے الجواب کر دیا تھا۔
وہ بالکل خاموش ہوگئی۔
’’تم سمجھ رہی ہو ناں کہ میں کیا کہہ رہا ہوں؟‘‘
وجاہت علی نے توقف کر کے پوچھا۔
’’جی۔‘‘
سسکی۔ وہ شکست خودرہ سے انداز میں ِ
وجاہت علی تسلی آمیز لہجے میں کہنے لگے۔
چپ کر جاؤ شاباش۔ میں کوشش کروں گا کہ ا ُسے شام کو جلدی گھر بھیج دیا کروں۔ تم لوگ ’’اب ُ
صبح ناشتہ بھی اپنے کمرے میں ایک ساتھ کر لیا کرو۔ اور چاہو تو اکٹھے باہر ڈنر کے لئے چلے جایا کرو۔
تم دونوں جتنا مرضی باہر گھومو پھرو ،مووی دیکھو ،النگ ڈرائیو پہ جاؤ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔
لیکن چھٹیوں پہ جانے کی ضد نہ کرو۔ میرا خیال ہے کہ اب تم سمجھ چکی ہو گی؟۔‘‘
’’جی۔‘‘
ایک بار پھر ا ُس نے مایوسی سے ’جی‘ کہہ دیا۔
’’اچھا۔۔ اب میں تھوڑا کام ختم کر لوں؟‘‘
وجاہت علی نے اب اجازت چاہی۔
’’جی۔۔۔ خدا حافظ۔‘‘
شوال نے کہہ کر کال کاٹ دی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ لوگ کہیں باہر جارہے تھے۔ سکینہ بیگم نیچے ہال میں کھڑی انتظار کر رہی تھیں۔ رجب گھڑی
پہنتے ہوئے سیڑھیاں ا ُتر رہا تھا اور شوال ا ُس کے پیچھے پیچھےتھی۔
’’اّمی!۔۔۔ ڈارئیور سے کہہ ِدیا گاڑی نکالنے کو؟‘‘
پہنتے ہوئے سیڑھیاں ا ُتر رہا تھا اور شوال ا ُس کے پیچھے پیچھےتھی۔
’’اّمی!۔۔۔ ڈارئیور سے کہہ ِدیا گاڑی نکالنے کو؟‘‘
رجب نے سیڑھیاں ا ُترتے ہوئے گھڑی کا بَکل باندھتے ہوئے معمول کے سے انداز میں اپنی ماں سے
سوال کیا۔
’’ہاں ،کہہ دیا۔‘‘
سکینہ بیگم نے بھی معمول کے سے انداز میں جواب دیتے ہوئے نگاہیں ا ُٹھا کر ا ُن کی طرف دیکھا۔
ا ُن کی نظریں رجب کے پیچھے سیڑھیاں اترتی شوال پہ ٹھہر گیئیں
ا ُس کی طبعیت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ سیڑھیاں ا ُترے ا ُترے ُرک گئی۔
’’شوال!۔‘‘
سکینہ بیگم نے زیِرلب پکارا۔
شوال کو زبردست چکر آیا۔ ا ُس کی آنکھیں بند ہونے لگیں۔
’’رجب! تھامو ا ُسے۔‘‘ سکینہ بیگم ِ
چالئیں۔
رجب ماں کے چالنے پہ بجلی کی سی سرعت سے پلٹا۔
شوال ٹوٹی ہوئی شاخ کی طرح ا ُس کے بازوؤں میں آ ِگری۔
’’شوال!۔۔۔ شوال!۔‘‘
وہ ا ُسے بانہوں میں لئے وہیں سیڑھیوں پہ بیٹھ گیا۔ گھبراہٹ میں ا ُسے پکارتے ہوئے ا ُس کا گال
تھپتھپانے لگا۔
شوال نے آنکھیں کھولیں نہ کوئی جواب دیا۔ وہ مکمل طور پر بےہوش ہو چکی تھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ اسپتال کے کوریڈور میں فکر و بےچینی کے عالم میں یہاں سے وہاں ٹہل رہا تھا۔
’’رجب! نہ اتنی فکر کرو۔ سب خیر ہوگی انشااهلل۔ کیا پتا ،کوئی خوشخبری ہو۔‘‘
بینچ پہ بیٹھی سکینہ بیگم رجب کی حالت کے برخالف کافی مطمعین اور ُپرا ُمید تھیں۔
سن کر ُرک گیا۔ رجب کمر پہ ہاتھ رکھے آگے جا کر واپس پلٹ رہا تھا۔ سکینہ بیگم کی بات ُ
’’نہیں اّمی! میرا نہیں خیال۔‘‘
ماں کو دیکھتے ہوئے ا ُس نے ازحد فکرمندی کے ساتھ کہا۔
تب ہی کمرے سے نکل کر ڈاکٹر صاحبہ باہر آئیں۔ سکینہ بیگم انھیں دیکھ کر ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’تھوڑی دیر تک ا ُنھیں ہوش آجائے گا۔ آپ ابھی ا ُن کو جا کر دیکھ سکتے ہیں۔‘‘
رجب نے سنتے ہی تشکرآمیز انداز میں اپنے چہرے پہ ہاتھ پھیرے۔
’’ا ُسے ہوا کیا ہے ڈاکٹر!؟‘‘
سکینہ بیگم نے سوال کیا۔
’’کوئی پریشانی کی بات نہیں۔ ایسا سٹریس اور غذا کی کمی کی وجہ سے ہوا ہے۔ وہ سٹریسڈ ہیں
شاید اس لئے کھانے میں غفلت برت رہی ہیں۔ ا ُن کی غذا کا خیال رکھیں اور ہو سکے تو انھیں پریشانی
سے بچائیں۔‘‘
ڈاکٹر اپنی سنا کر آگے بڑھ گیئیں۔
وہ دونوں وہاں حیران کھڑے ایک دوسرے کا منہ تکنے لگے۔ پھر بنا کچھ کہے دونوں کمرے کی طرف
بڑھ گئے۔
ُ
کمرے میں داخل ہوئے تو دیکھا شوال بستر پہ بےہوش پڑی تھی۔ وہ اور سکینہ بیگم اس کے قریب
چلے آئے۔
ا ُس نے شوال کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ہلکا سا دبایا۔
’’شوال!‘‘
ُ
شوال نے دھیرے سے چہرہ اس کی طرف موڑا اور آنکھیں کھول کر اسے دیکھا۔
’’شوال!‘‘
شوال نے دھیرے سے چہرہ اس کی طرف موڑا اور آنکھیں کھول کر ا ُسے دیکھا۔
’’رجب!‘‘
شوال نے جیسے ہلکی سی سسکی لی۔ پھر وہ پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
’’رو کیوں رہی ہو بیٹا۔ کیا بات ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر اپنائیت کے ساتھ ا ُس کی پیشانی پہ ہاتھ رکھا۔
شوال بنا کچھ کہے روتی رہی۔
’’ایسے نہیں کرو شوال!۔۔۔ بتاؤ۔ کیا بات ہے؟ تم کیوں پریشان ہو؟‘‘
’’کوئی بات نہیں۔‘‘
شوال نے اپنا رونا روکتے ہوئے کہا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ اپنے ایک ہاتھ سے اپنے آنسو پونچھ رہی
تھی۔
ِ
’’کوئی تو بات ہے ناں جانم!۔۔۔ اسی وجہ سے تم کھانے پینے میں بھی الپرواہی برت رہی ہو۔‘‘
صر تھا۔ تب ہی وجاہت علی تیزی سے کمرے میں داخل ہوئے۔ رجب جواب جاننے کو م ّ
’’رجب! سکینہ! کیسی ہے اب شوال؟‘‘
وہ بیک وقت بیوی اور بیٹا دونوں سے پوچھتے قریب پہنچے۔
’’اّبو ! ڈاکٹر نے کہا ہے کہ سٹریس کی وجہ سے ِاس کی یہ حالت ہوئی ہے۔۔۔ اور یہ بتا نہیں رہی
کہ ِاسے کیا پریشانی ہے۔‘‘
رجب نے کسی بچے کی طرح اپنے باپ کو اس کی شکایت لگائی۔
’’اور تم ِاس سے پوچھ پوچھ کر ِاسے ُرال رہے ہو!۔۔۔‘‘
وجاہت علی نے شوال کو آنسو پونچھتے دیکھا تو بیٹے کو ہلکا سا گھُرکا۔
پھر شوال سے بولے۔
’’شوال بیٹا!۔۔۔ ریلیکس۔ روؤ مت شاباش۔‘‘
ِاس طرح وجاہت علی نے بروقت آ کر ساری صورتحال سنبھال لی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’کیا کہتی ہو؟ ناشتہ کمرے میں منگواؤں یا نیچے چل کر کرو گی؟‘‘
رجب آئینے کے سامنے کھڑا ٹائی کی ناٹ سیٹ کر رہاتھا۔
’’تم نیچے جا کر کرلو۔ میرا ِدل نہیں چاہ رہا۔‘‘
شوال بیڈ کراؤن سے ٹیک لگائے نیم دراز تھی۔ بیزاری کے ساتھ جوابا ً کہا۔
رجب نے یہ سنا تو دونوں ہاتھ اپنے پہلوؤں میں ِگرا دیئے۔ پھر ُمڑ کر براِہراست ا ُسے دیکھا۔
’’پھر وہی بات!۔۔۔۔۔ ابھی دو ِدن پہلے تم اسپتال میں پورا ِدن گزار کر آئی ہو۔ اب پھر واپس جانا
چاہتی ہو کیا؟‘‘
ِ
’’ایسی کوئی بات نہیں رجب!۔۔۔ بس میرا دل نہیں چاہ رہا۔‘‘
شوال کے چہرے اور لہجے میں واضح بیزاری تھی۔
رجب چل کر ا ُس کے قریب آگیا۔ بیڈ کے کنارے بیٹھ کر نہایت سنجیدگی سے پوچھنے لگا۔
’’تمہیں کیا پریشانی ہے شوال!؟۔۔۔۔ اب تو سب کچھ ٹھیک ہے ہمارے درمیان۔ پھر کیوں کر رہی ہو
ایسا؟۔۔۔۔ آخر کیوں تم نے کھانا پینا چھوڑ رکھا ہے؟‘‘
’’مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے رجب! اب صبح صبح ناشتہ کرنے کا جی نہیں چاہتا تو کیا
کروں؟۔۔۔ بعد میں کر لوں گی ناں!‘‘
شوال کی ناشتے کے لئے بیزاری میں کوئی فرق نہ آیا تھا۔
’’اب میں تمہاری بالکل بھی نہیں سنوں گا۔۔۔ پہلے بھی تم مجھے ایسے ہی ایکسکیوزز دے کر
کھانا کھانے سے منع کرتی رہی ہو۔ لیکن اب تمہیں میرے ساتھ نیچے چلنا ہوگا۔‘‘
’’اب میں تمہاری بالکل بھی نہیں سنوں گا۔۔۔ پہلے بھی تم مجھے ایسے ہی ایکسکیوزز دے کر
کھانا کھانے سے منع کرتی رہی ہو۔ لیکن اب تمہیں میرے ساتھ نیچے چلنا ہوگا۔‘‘
رجب صاف اور دوٹوک لہجے میں کہتے ہوئے ا ُٹھنے لگا۔ ساتھ ہی ا ُس کی بھی کالئی پکڑ کر ا ُسے
اٹھانا چاہا مگر چونک کر واپس بیٹھ گیا۔
’’شوال!‘‘
ا ُس نے تعجب اور فکر مندی سے شوال کا چہرہ بغور دیکھا۔
’’تم بتا کیوں نہیں رہی کہ تمہیں بخار ہے؟‘‘ وہ بےچین ہو ا ُٹھا۔
’’نہیں۔ ہلکا سا ٹمپریچر ہے۔ کچھ دیر تک نارمل ہو جائے گا۔‘‘ شوال نے الپرواہی سے کہتے ہوئے
اپنا ہاتھ واپس کھینچنے کی کوشش کی۔
’’تم پتا نہیں کیوں اپنی دشمن ہو رہی ہو۔‘‘
رجب قدرے خفا سا ہو کر کہتا ا ُس کی کالئی چھوڑ کر کمرے سے نکل گیا۔
تھوڑی ہی دیر میں رجب کے ساتھ ساتھ وجاہت علی اور سکینہ بیگم بھی ا ُس کے سر پہ آ موجود
ہوئے۔
’’کیا ہوا بیٹا!؟ بخار کیسے ہو گیا؟‘‘
وجاہت علی نے شفیق لہجے میں سوال کرتے ہوئے ا ُس کی پیشانی کو چھوا۔
’’مجھے تو یہ اسپتال سے ڈسچارج کے وقت بھی ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ وہ ایک ڈرپ لگنے سے
اس کی طبعیت کچھ سنبھل گئی تھی تو ان لوگوں نے اسے گھر بھیج دیا۔‘‘
سکینہ بیگم بھی شوال کے لئے فکر مند ہو رہی تھیں۔
’’ہوں۔۔۔۔‘‘
وجاہت علی نے پر سوچ انداز میں ’ہوں‘ کیا۔ پھر بولے۔
’’میں ڈاکٹر کو فون کرتا ہوں۔ اور رجب!۔‘‘
انھوں نے رجب کی طرف چہرہ گھمایا۔
’’تم آج کام سے چھٹی کرو۔ جب تک شوال ٹھیک نہیں ہو جاتی۔ تم ِاس کے ساتھ رہو۔ آفس کے کام
میں دیکھ لوں گا۔‘‘
رجب نے ا ُن کے حکم پہ تابعداری سے سر ہال ِدیا۔ وہ پہلے سے ہی شوال کے لئے اتنا فکرمند ہو
رہاتھا کہ کام پہ جانے کا من نہیں کر رہا تھا۔
’’میں کام پہ جا رہا ہوں۔ ٹھیک ہے؟۔۔ دیر ہو رہی ہے۔ ‘‘
وجاہت علی نے کالئی پہ بندھی گھڑی دکھاتے ہوئے کہا۔ پھر شوال سے بولے۔
’’اچھا شوال بیٹا!۔ میں ڈاکٹر کو بھیج دوں گا۔۔ شام کو جب میں گھر آؤں تو تم بالکل ٹھیک ِملو
مجھے۔‘‘
مان بھرا حکم سناتے وجاہت علی کمرے سے نکل گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رجب نے کھانے کی ٹرے ال کر میز پہ رکھی۔ میز پہ بیٹھے سکینہ بیگم اور وجاہت علی نے چونک کر
ا ُس کی طرف دیکھا۔
وہ بہت مایوس اور دکھی لگ رہا تھا۔
’’یہ کیا؟‘‘ سکینہ بیگم نے استفسار کیا۔
’’وہ نہیں مان رہی ۔‘‘
رجب نے مایوسی سے کہا اور ہال میں رکھے صوفوں کی طرف پلٹا۔
’’تم تو کھا لو۔‘‘ سکینہ بیگم نے عقب سے آواز دی۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔ آپ لوگ کھائیں۔‘‘
رجب نے بنا پلٹے یا ُرکے کہا۔ اس کا ِدل جل رہا تھا۔
’’مجھے بھوک نہیں ہے۔ آپ لوگ کھائیں۔‘‘
رجب نے بنا پلٹے یا ُرکے کہا۔ اس کا ِدل جل رہا تھا۔
سکینہ بیگم نے کچھ شکایتی نظروں سے اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔ وجاہت علی کھانے سے اپنا
ہاتھ روکے بالکل ساکت کچھ سوچ رہے تھے۔ چہرے پہ بال کی سنجیدگی تھی۔ پھر بنا کچھ کہے وہ میز پر
سے ا ُٹھے اور ہال میں صوفے پہ جا بیٹھے۔
رجب بہت مایوس اور پریشان بیٹھا تھا۔ وجاہت علی کےاس کے برابر آ بیٹھنے پہ ا ُس نے کوئی
رِدعمل ظاہر نہ کیا۔
’’رجب! تم کیوں اپنا کھانا پینا چھوڑ رہے ہو؟ ِفکر نہ کرو۔ تمہاری ماں ا ُس کا خیال رکھ رہی ہے
ناں! وہ ناشتہ کروا دے گی ا ُسے بعد میں۔‘‘
رجب کی آنکھوں میں آنسو جمع ہو گئے۔ باپ کی طرف چہرہ موڑ کر بوال۔
’’دو مہینے گزر چکے ہیں اّبو! دو ِدن ٹھیک رہتی ہے اگلے چار ِدن پھر بستر پہ پڑ جاتی ہے۔ کچھ
کھاتی ہے نہ پیتی ہے۔ ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ سٹریسڈ ہے۔ ِکس بات کی سٹریس ابّو!؟۔۔۔۔۔۔۔ میں بتا رہا ہوں۔
ا ُسے کوئی بڑی بیماری ہے اور ِان ناالئق ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آرہی۔ ہم ا ُسے کہیں باہر لے چلتے
ہیں۔ وہاں اس کا عالج کروائیں گے۔‘‘
رجب شوال کی حالت کو لے کر کافی پریشان اور رنجیدہ تھا۔
وجاہت علی کو رجب کی حالت دیکھ کر بہت ُدکھ ہوا۔
رسان سے اپنے بیٹے کو سمجھاتے ہوئے بولے۔
’’ایسی کوئی بات نہیں ہے رجب! تم اس طرح کا وہم مت پالو۔۔۔۔ بہت سے لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا
ہے کہ بیماری میں ا ُن کا کچھ کھانے پینے کا ِدل نہیں چاہتا۔ اور کچھ نہ کھانے پینے کی وجہ سے ا ُن کی
بیماری نہیں جاتی۔ شوال کے ساتھ بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ورنہ خدا نہ کرے ،ا ُسے کوئی بڑی بیماری
نہیں ہے۔‘‘
ا ُن کی باتوں کے جواب میں رجب نے مایوسی سے اپنے آنسو پونچھے۔ صاف ظاہر تھا کہ جواب میں
وہ بحث تو نہیں کر پا رہا تھا لیکن وجاہت علی کے جواب سے ا ُسے کوئی تسلی نہیں ہوئی تھی۔
’’تم ِفکر نہ کرو۔۔۔ میں خود شوال کیلئے ناشتہ لے کر جاتا ہوں۔ میں خود ا ُسے کھانے کے لئے راضی
کروں گا اور ا ُسے سمجھاؤں گا کہ وہ کھانا پینا نہ چھوڑے۔۔۔ تم بھی اپنی ماں کے ساتھ بیٹھ کر ناشتہ
کرلو۔ اور دیکھو کہ میں شوال کو کیسے ناشتہ کرواتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے ایسے کہا جیسے ا ُن کیلئے یہ سب چٹکیوں کا کام ہو۔
وجاہت علی اپنی بات مکمل کر کے ا ُٹھے اور میز کی طرف بڑھ گئے۔
رجب اپنی جگہ سے تو نہ ا ُٹھا لیکن ا ُس کی نگاہیں وجاہت علی کا تعاقب کر رہی تھیں۔ وجاہت علی
کی باتوں سے ا ُسے کافی ڈھارس ِملی تھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی ہاتھ میں ناشتے کے لوازمات سے بھری ٹرے لئے کمرے میں آئے تو شوال بستر پہ دراز
تھی۔ انھیں اندر داخل ہوتا دیکھا تو خود کو گھسیٹ کر اونچی ہو بیٹھی۔
’’ابّو آپ!۔۔۔ اسالم علیکم!‘‘
وہ آواز سے ہی بیمار لگ رہی تھی۔
’’واعلیکم السالم۔‘‘
وجاہت علی نے جا کر ٹرے میز پہ رکھ دی۔
’’کیسی ہو بیٹا!؟ آج بھی طبعیت ٹھیک نہیں؟‘‘
وجاہت علی شفقت سے پوچھتے ہوئے ا ُس کے قریب آئے۔
’’کچھ نہیں اّبو!۔۔۔ بس ذرا چکر آ رہے تھے تو اسلئے لیٹ گئی تھی۔‘‘
ب عادت انکار کیا۔ ا ُس کی شکل سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی بیمار اور کمزور ہے۔ شوال نے حس ِ
’’کچھ نہیں اّبو!۔۔۔ بس ذرا چکر آ رہے تھے تو اسلئے لیٹ گئی تھی۔‘‘
ب عادت انکار کیا۔ ا ُس کی شکل سے صاف ظاہر تھا کہ وہ کتنی بیمار اور کمزور ہے۔ شوال نے حس ِ
’’جب کچھ کھاؤ ِپیو گی نہیں تو چکر تو آئیں گے ناں!‘‘
’’اّبو پلیز۔‘‘
شوال رو پڑی۔
’’میرے سامنے کھانے پینے کا ذکر نہ کریں۔ میرا ِدل نہیں چاہتا۔ رجب بھی ہر وقت میرے پیچھے پڑا
رہتا ہے۔ تنگ آ گئی ہوں ا ُسے منع کر کر کے۔ آخر کیسے کھاؤں میں؟‘‘
شوال کی آواز میں درد ہی درد تھا۔
وجاہت علی نے ایسے ہی اپنی تسلی کے لئے چہرہ موڑ کر بند دروازے کو دیکھا۔ پھر واپس موڑ کر
ا ُسے دیکھتے ہوئے اس کے سامنے بیڈ کے کنارے بیٹھ گئے۔
’’شوال! شوال! یہ کیا ہے بیٹا!؟۔۔۔۔ تمہیں میں نے وہ سب اس لئے بتایا تھا تا کہ تم مجھے حوصلہ
دو ،میری ہّمت بندھاؤ۔۔۔ اور تم ہو کہ خود ہی ہّمت ہار کے بیٹھ گئی ہو؟۔۔۔۔‘‘
وجاہت علی نے دبی آواز میں شکواہ کیا۔
’’میں کہاں سے ہمت الؤں ابّو!؟۔۔۔ میں آپ جتنی بہادر نہیں ہوں۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ مجھے رجب
خود سے دور جاتا ِدکھائی دے رہا ہے۔ میرا جی چاہتا ہے کہ میں ُدنیا کی ساری گھڑیاں روک دوں۔۔۔۔ کیا
ایسا کرنے سے وقت تھم جائے گا؟۔۔۔۔ کیا ِاس سے سورج کی گردش ُرک جائے گی؟۔۔۔۔۔ یہ وقت کیوں نہیں
ٹھہر جاتا ابّو!؟ میں اتنی بےبس کیوں ہوں؟‘‘
وہ ُدکھ اور بےبسی سے رو دی۔
شوال کی باتیں وجاہت علی کو غمزدہ کر گیئیں۔ ا ُنھیں شوال پہ بےحد ترس آیا۔
’’ایسے مایوس نہیں ہوتے شوال!‘‘
انھوں نے محبت اور نرمی سے کہا۔ بولے۔
’’تمہیں کیا لگتا ہے؟ مجھے رجب سے محبت نہیں؟۔۔۔ مجھے ا ُس کی پرواہ نہیں؟۔۔۔۔ میں کیا ایسے
ہی ہاتھ پہ ہاتھ دھرے بیٹھا ہوں؟‘‘
ا ُن کے سوالوں پہ شوال نے اپنے آنسو پونچھ کر پوری توجہ کے ساتھ انھیں دیکھا۔
وجاہت علی کہنے لگے۔ ’’میں نے رجب کی رپورٹس مختلف ملکوں میں بھیجی تھیں۔ اور تم جانتی
ہو؟۔۔۔ انگلینڈ سے مجھے پازیٹو جواب بھی ِمال ہے۔ وہاں رجب کا عالج ممکن ہے۔‘‘
وجاہت علی نے خوشی سے بتایا۔
’’کیا؟۔۔۔ سچ اّبو!؟‘‘ شوال نے بےیقینی سے پوچھا۔
’’بالکل سچ۔۔۔۔ میں تو انگلینڈ جانے کی تیاری بھی شروع کر چُکا ہوں۔ جتنی جلدی ہو سکا میں
رجب کو لے کر چال جاؤں گا۔۔۔۔ اور دیکھنا تم۔۔۔ رجب بالکل ٹھیک ہو کر میرے ساتھ واپس آئے گا۔‘‘
’’مجھے یقین نہیں آ رہا ابّو!۔۔۔ میں کہیں کوئی خواب تو نہیں دیکھ رہی؟۔۔۔۔ ایسا ہو سکتا ہے
ن ا ں!؟‘‘
شوال جتنی خوش تھی اتنی ہی بےیقین بھی تھی۔
وجاہت علی مسکرا دیئے۔
’’ایسا ہو سکتا ہے اور ایسا ہو گا۔۔۔ چلو شاباش۔ اب ناشتہ کر لو۔۔۔ آج تم اور رجب ایک ساتھ
رہو۔ میں اکیال کام پہ چال جاتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی کہہ کر ا ُٹھے۔ پھر ا ُس کا سر تھپتھپا کر ا ُس کے لئے ناشتے کی ٹرے النے میز کی طرف
بڑھ گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’کیا آپ اپنا انگلینڈ کا ٹرپ کچھ عرصہ کیلئے پوسٹ پونڈ نہیں کر سکتے؟‘‘
سکینہ بیگم اپنے کمرے میں بیٹھی اپنے شوہر سے سوال کر رہی تھیں۔
وجاہت علی خاموش بیٹھے جانے کن سوچوں میں گم تھے۔ سکینہ بیگم کے سوال پر چونک کر انھیں
دیکھا۔
’’کیوں؟‘‘
’’اگر ایسا ہو سکے تو آپ شوال کو بھی ساتھ لے جائیں۔۔۔ ا ُس کی طبعیت کو لے کر میں بہت
خوفزدہ ہوں۔ آپ کی غیرموجودگی میں وہ بیمار پڑ گئی تو میں کیسے مینج کروں گی؟۔۔۔ پتا تو ہے آپ کو۔
کسی کی سنتی بھی نہیں ہے۔ اسپتال ،ڈاکٹر کے تو نام سے ہی چڑتی ہے۔ کیسے سنبھالوں گی میں
ا ُسے؟‘‘
سکینہ بیگم نے اپنی پریشانی بیان کی۔
’’تم ِفکر نہ کرو۔ وہ ٹھیک ہے اب۔‘‘
وجاہت علی نے بےفکری سے کہہ کر سر صوفہ چیئر کی پشت پہ ڈال دیا۔
ِ
’’کہاں ٹھیک ہے؟۔۔۔ اس کی طبعیت تو ایسے ہی آن آف ہوتی رہتی ہے۔ ایک دو دن سے ٹھیک ہے۔
ایک دو ِدن بعد پھر بیمار پڑ جائے گی۔ ،مجھے تو رجب کا اندیشہ درست لگ رہا ہے۔ ہو نہ ہو۔ ا ُسے کوئی
بڑی بیماری ہے۔ ورنہ ایسے تو کوئی اتنا کمزور اور بیمار نہیں پڑتا۔‘‘
سکینہ بیگم نے جرح کرتے ہوئے کہا۔
’’تم خوامخواہ فکر کر رہی ہو۔ ایسا کچھ نہیں ہے۔‘‘
وجاہت علی جیسے اس موضوع سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔
’’آپ پتا نہیں کیوں اس کو اتنا ہلکا لے رہے ہیں۔۔۔ ‘‘
وجاہت علی جیسے اس موضوع سے جان چھڑانا چاہتے تھے۔
’’آپ پتا نہیں کیوں اس کو اتنا ہلکا لے رہے ہیں۔۔۔ ‘‘
چڑ گیئیں۔ پھر دوسرا خیال آنے پہ بولیں۔سکینہ بیگم شوہر کی الپرواہی دیکھ کر ِ
’’اور رجب؟۔۔۔۔ کیا ا ُس کا جانا ضروری ہے؟۔۔۔ اور نہیں تو ا ُسے ہی چھوڑ جائیں۔۔۔۔ ا ُس کی
موجودگی سے ہی کچھ نہ کچھ تسلی ہو جائے گی۔‘‘
وجاہت علی نے چہرہ موڑ کر سکینہ بیگم کو دیکھا۔ پھر جیسے ایک فیصلہ کر کے سیدھے ہو
بیٹھے۔
’’سکینہ!۔۔۔ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی کے چہرے پہ بال کی سنجیدگی تھی۔
سکینہ بیگم نے انھیں ایسے دیکھا جیسے پوچھنا چاہتی ہوں کہ ایسی بھی کیا خاص بات ہے۔
وجاہت علی نے تہمید باندھنے کیلئے لب کشائی کی۔
’’ تمہیں یاد ہے؟۔۔۔ دو ڈھائی مہینے پہلے جب رجب بیمار ہوا تھا! وہ واش روم میں بےہوش ہو کر گِر
گیا تھا اور شوال ہمیں بالنے آئی تھی؟۔۔۔‘‘
’’ہاں۔ تو؟۔۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم کچھ نہ سمجھیں کہ وہ کیا کہنا چاہتے تھے۔
’’ تم نے ا ُن کے کمرے میں کچھ دیکھا تھا؟‘‘
’’کیا؟‘‘
سکینہ بیگم کو کچھ علم نہ تھا کہ وجاہت علی ِکس بارے میں بات کر رہے تھے۔
وجاہت علی کے چہرے پہ سنجیدگی کے ساتھ سختی بھی در آئی۔
’’رجب کا بستر نیچے َرگ پہ لگا ہوا تھا۔‘‘
وجاہت علی نے انکشاف کیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
’’ا ُف خدایا!۔۔۔۔ ا ُس کی معمولی سی موسمی بیماری کو آپ نے بلڈ کینسر بنا ِدیا؟۔۔۔ آپ کی زبان
نہیں لڑکھڑائی ہمارے اکلوتے بیٹے کے بارے میں اتنا بڑا جھوٹ بولتے ہوئے؟‘‘
سکینہ بیگم منہ پہ ہاتھ رکھے ہّکابّکا وجاہت علی کو دیکھ رہی تھیں۔
سنا کر انھیں صحیح معنوں میں دّہال دیا تھا۔وجاہت علی نے اپنا کارنامہ ُ
’’تو اور کیا کرتا؟۔۔۔ اگر میں یہ جھوٹ نہ بولتا تو وہ ضدی لڑکی ہمارے بیٹے کی جان لے کر ہی َدم
لیتی۔‘‘
وجاہت علی نے اپنی صفائی پیش کی۔
تب ہی شوال ہاتھ میں فائل لئے ا ُن کے کمرے کے ا َدھ ُکھلے دروازے پہ پہنچی۔ اندر سے وجاہت علی
کی نفرت میں ڈوبی آواز آ رہی تھی۔
تب ہی شوال ہاتھ میں فائل لئے ا ُن کے کمرے کے ا َدھ ُکھلے دروازے پہ پہنچی۔ اندر سے وجاہت علی
کی نفرت میں ڈوبی آواز آ رہی تھی۔
جس رجب کو وہ فرش پہ ’’اسرار کی بیٹی ہے ناں!۔ ضد ا ُس کے خون میں شامل ہے۔ اب دیکھو!۔۔۔ ِ
سالتی تھی آج ا ُس کے لئے کیسے تڑپ رہی ہے۔ سارے کس بل نکال دیئے ہیں اس کے۔‘‘ ُ
وجاہت علی کے لہجے میں شوال کے لئے نفرت اور اپنی چاالکی پہ واضح تفاخر تھا۔
سن کر بُری طرح چونکی تھی۔ و ہ یہ ُ
سکینہ بیگم نے اپنا ایک ہاتھ منہ پر سے ہٹا لیا۔ خوف کی جگہ اب فکرمندی نے لے لی تھی۔
’’اب کیا کریں گے ہم؟۔۔۔ ایک نہ ایک ِدن تو ا ُسے بتانا ہوگا کہ آپ نے اس سے جھوٹ بوال تھا۔ رجب
کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ ،کیسے بتائیں گے ا ُسے؟‘‘
سکینہ بیگم کے الفاظ اس کی سماعت پہ ہتھوڑوں کی طرح برسے۔ ا ُس کا سر چکرانے لگا۔ خود کو
سنبھالنے کے لئے ا ُس نے دیوار سے ہاتھ ٹیک لیا۔ فائل ہاتھ سے چھوٹ کر قدموں میں جا ِگری۔
اتنا بڑا دھوکا۔۔۔ اتنا بڑا فریب دیا گیا تھا ا ُسے۔
ا ُس کی سانسیں بےترتیب اور دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔
اندر وجاہت علی کہہ رہے تھے۔
’’شوال کو کبھی سچ پتا نہیں چلے گا۔۔۔ اسی لئے تو میں اور رجب انگلینڈ جا رہے ہیں۔۔۔ شوال کو
میں نے بتایا ہے کہ میں رجب کو عالج کی غرض سے انگلینڈ لے جارہا ہوں۔ وہاں کچھ عرصہ رہیں گے۔
واپس آ کر بتا دوں گا کہ رجب ٹھیک ہو گیا ہے۔‘‘
صے میں تبدیل ہو گیا۔ رگوں میں خون کی جگہ زہر دوڑنے لگا۔ وہ مزید وہاں اب تو ا ُس کا صدمہ غ ّ
نہ ُرکی اور کھولتے دماغ کے ساتھ تیز تیز قدم ا ُٹھاتی اپنے کمرے کی طرف چل پڑی۔ غصے سے مٹھیاں
بھینچے وہ جارحانہ انداز میں چلتی اپنے کمرے کے دروازے تک پہنچی اور تڑاخ کے ساتھ دروازے کے
دونوں پٹ وا کر دیئے۔
رجب نائٹ سوٹ میں ملبوس وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا خوشبودار موم بتّیاں جال رہا تھا۔ شوال کے
اسطرح سے دروازہ کھولنے پہ ہڑبڑا کر دروازے کی سمت دیکھا۔ پھر اطمینان کا سانس خارج کرکے توجہ
واپس موم بتیوں کی طرف کر لی۔
’’آرام سے۔۔ آرام سے۔۔۔ کہاں رہ گئی تھی تم؟‘‘
معمول کے انداز میں کہا۔
جسے وہ الئٹر کی مدد سے جال رہا تھا۔ شوال کی ا ُس کا سارا دھیان اس موم بتی کی طرف تھا ِ
حالت پہ اس نے زیادہ توجہ نہیں دی تھی۔
ا ُدھر شوال غصے سے پاگل ہو رہی تھی۔ آج اس کی ذہنی کیفّیت ایسی تھی کہ رجب کی جان بھی
ُ
لے لیتی تو بھی ا ُس کی تسکین نہ ہوتی۔ ِاسی غصے اور پاگل پن میں وہ آگے بڑھی۔
’’تم بھی ِاس پالن میں برابر کے شریک ہو ناں!؟۔۔۔ یہ کھیل تم سب ِمل کر کھیل رہے تھے ناں میرے
ساتھ ؟‘‘
رجب اب کے چونک کر اس کی طرف پلٹا۔
’’کیا؟۔۔۔ کونسا کھیل؟‘‘ وہ کچھ نہ سمجھا۔
’’ہاؤ ڈیر ُیو؟۔۔۔ میرے ساتھ اتنا گندا کھیل کھیلنے کی تم نے جرٴات کیسے کی؟‘‘
چالئی۔ ِاس وقت اگر کوئی ا ُسے دیکھ کر کہتا کہ ا ُس کے وجود میں کوئی جن
ِ شوال حلق کے بل ِ
گھُس گیا ہے تو وہ غلط نہ ہوتا۔
’’ٹھیک کہتے تھے پاپا تم لوگوں کے بارے میں۔۔۔ تم ایک گھٹیا باپ کی گھٹیا اوالد ہو۔‘‘
وہ چنگاڑی۔
’’شوال!‘‘
رجب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ بات چاہے کچھ بھی ہو۔ مگر اپنے باپ کی انسلٹ وہ کبھی
بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
رجب کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ بات چاہے کچھ بھی ہو۔ مگر اپنے باپ کی انسلٹ وہ کبھی
بھی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔
شوال ا ُس کی یہ چوری اور سینہ زوری برداشت نہ کر سکی۔ وینٹی ٹیبل پہ رکھا گلدان ا ُس کے
ہاتھ میں آیا۔ ا ُس نے وہی ا ُٹھا کر پوری قوت سے ا ُس کے سر پہ دے مارا۔
رجب کا سر پھٹ گیا۔
’’آہ۔‘‘
وہ کراہا اور گھاؤ پہ ہاتھ رکھ کر لڑکھڑا کر ایک قدم پیچھے ہٹا۔
’’میرے جسم کو پانے کے لئے میرے ساتھ فراڈ کیا تم نے۔۔۔۔ میرے سامنے شریف بنے رہے۔ کہا کہ
جب تک تم قبول نہیں کرو گی تمہارے قریب نہیں آؤں گا۔ اور یہ ہے تمہاری شرافت؟۔۔ تمہاری اصلیت؟۔۔
اپنے ماں باپ کو ساتھ ِمال کر اتنا بڑا جھوٹ بوال مجھ سے۔۔۔ دھوکے سے ،فریب سے میرے وجود کو گندا
کیا تم نے۔۔۔ میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گی غلیظ آدمی!۔‘‘
چالئی اور ایک اور وار کرنے کے لئےہاتھ میں پکڑا گلدان فضا میں بلند کیا۔
وہ ہسٹریائی انداز میں ِ
تب ہی وجاہت علی نے ا ُس کے عقب سے گلدان اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔
’’کیا ہو رہا ہے یہ؟‘‘
وجاہت علی گرجے۔
شوال ا ُن کی طرف مڑی۔ وجاہت علی کی آنکھوں سے شرارے نکل رہے تھے۔
سکینہ بیگم نے رجب کے سر سے بہتا خون دیکھا تو بےساختہ چیخ ماری۔ پھر بھاگ کر ا ُس کے
پاس گیئیں اور ا ُس کے سر کا گھاؤ دیکھنے لگیں۔
’’کیا ہو رہا ہے؟۔۔۔ ابھی تو کچھ ہوا ہی نہیں۔۔۔۔ میں آپ سب کو مار دوں گی۔ مجھ سے جھوٹ بوال
سن لیا ہے میں نے۔ سب جان چکی ہوں میں۔‘‘ شوال چالئی۔ تھاناں!۔۔۔ مجھے دھوکا دیا تھا ناں۔۔۔ سب ُ
وجاہت علی بری طرح گھبرا گئے۔
شوال نہ صرف خود جان چکی تھی۔ بلکہ وہ رجب کے بھی سامنے ان کی پول کھول رہی تھی۔
وجاہت علی نے رجب کی جانب دیکھا۔
رجب سر پہ ہاتھ رکھے ششدر سا ایک ٹک شوال کو دیکھے جا رہا تھا۔ ا ُس کے برابر کھڑی سکینہ
بیگم بھی ششدر سی شوال کو دیکھ رہی تھیں۔ رجب کے سر کے گھاؤ پہ ہاتھ جمائے کھڑی وہ بھول
گیئیں کہ ا ُنھیں رجب کی مرہم پٹی کرنا ہے۔
’’رجب!‘‘
وجاہت علی اپنی فکرمندی ظاہر کرتے ہوئے گلدان پھینک کر رجب کی جانب لپکے۔ ’’دکھاؤ مجھے۔‘‘
سکینہ بیگم کو ہٹا کر وہ خود رجب کے سر کا گھاؤ دیکھنے لگے۔
’’میں ٹھیک ہوں ابّو! وہ شوال۔۔۔۔‘‘
وہ شوال کو لے کر ِفکر مند اور معتجب تھا۔
’’سکینہ۔۔۔ جلدی سے پٹی الؤ۔‘‘
چال کر اپنی بیگم کو حکم دیا۔
رجب کو تھام کر بیڈ کی طرف لے جاتے ہوئے وجاہت علی نے ِ
سکینہ بیگم واش روم کی طرف بھاگیں۔
وجاہت علی نے رجب کو بیڈ کے کنارے ال بٹھایا اور خود بھی اس کی بغل میں بیٹھ گئے۔ انھوں نے
رجب کے سر کے گھاؤ پہ اپنا ہاتھ جما رکھا تھا۔
ُ
سکینہ بیگم واش روم سے فرسٹ ایڈ باکس اٹھا الئیں۔ دونوں میاں بیوی اپنے بیٹے کی پٹی کرنے
لگے۔
ِ
شوال اب بھی تیز سانسوں کے درمیان انھیں دیکھ رہی تھی۔ ا ُس کے بدن سے ابھی تک شعلے نکل
رہے تھے۔ البتہ رجب کا گھاؤ اور ا ُن سب کی پریشانی دیکھ کر ا ُس کے ِدل میں جلتی آگ پہ کچھ چھینٹے
ضرور پڑے تھے۔
تب ہی ا ُس کی کمر سے درد کی ایسی ٹیس ا ُٹھی کہ مانو ا ُس کی جان نکال چاہتی تھی۔
’’آہ۔‘‘
تب ہی ا ُس کی کمر سے درد کی ایسی ٹیس ا ُٹھی کہ مانو ا ُس کی جان نکال چاہتی تھی۔
’’آہ۔‘‘
بےساختہ حلق سے برآمد ہوتی چیخ دبانے کی کوشش میں وہ ہلکا سا کراہ کر پیچھے ہٹی۔
ا ُس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ا ُسے کیا ہوا ہے۔ کمر کے ساتھ پیٹ سے بھی درد ا ُٹھنے لگا تھا۔
اپنی حالت پہ حیران۔ تکلیف برداشت کرتی وہ پیچھے ہٹنے لگی۔
ا ُس کی پیٹھ دیوار سے جا لگی۔
’’آہ۔‘‘
ُ ُ
درد کی ایک ایسی لہر بدن میں اٹھی تھی کہ وہ بےساختہ قدرے بلند آواز میں کراہی۔ اس نے ایک
ہاتھ اپنی کمر اور دوسرا پیٹ پہ رکھ لیا۔
ا ُس کے کراہنے کی آواز سن کر رجب نے نظریں ا ُٹھا کر ا ُس کی سمت دیکھا۔
درد کی شدت سے وہ دوہری ہوئی جا رہی تھی۔
’’آہ۔‘‘
’’شوال!‘‘
رجب چِالیا۔
ابھی سکینہ بیگم ا ُس کے سر کے گرد لپیٹی پٹی پہ دوسری گرہ لگا رہی تھیں کہ وہ ا ُٹھ کر شوال
کی طرف بھاگا۔
سکینہ بیگم اور وجاہت علی ا ُس کے یوں اچانک ا ُٹھ کر بھاگنے پہ پہلے حیران ہوئے پھر شوال کو
دیکھ کر پریشان ہو ا ُٹھے۔
’’چھونا مت مجھے تم۔‘‘
رجب ا ُسے تھامنے کو لپکا تو شوال زخمی شیرنی کے طرح دھاڑی۔
رجب جہاں تھا ،وہیں ُرک گیا۔
’’شوال!‘‘
ا ُس نے ِفکر مندی سے زیِرلب دہرایا۔
شوال کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ مگر وہ پھر بھی اپنی تکلیف برداشت کرنے کی جدوجہد
میں فرش پہ بیٹھتی چلی گئی۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم اس کی حالت دیکھ کر ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
دونوں نے ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔ دونوں کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا۔
’’پاپا!‘‘
چالئی۔
شوال درد کی شدت سے بلند آواز میں ِ
’’شوال!۔‘‘
رجب ا ُس کے مقابل بیٹھ گیا۔
اس نے درد سے نڈھال شوال کو دونوں کندھوں سے تھامنا چاہا۔ لیکن اس سے پہلے ہی شوال بے
ہوش ہو کر ا ُس پہ آ ِگری۔ ا ُس کا سر رجب کے سینے سے جا ٹکرایا۔
’’میں ابھی ایمبیولنس بالتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی کہہ کر کمرے سے باہر کی اور بھاگے۔
سکینہ بیگم بھی تیزی سے چل کر شوال کے قریب آ بیٹھیں۔
’’شوال!۔۔۔ شوال!۔‘‘
رجب شوال کا بےہوش وجود اپنی بانہوں میں لئے ا ُس کا گال تھپتھپا رہا تھا۔
’’ِاسے کیا ہو گیا اّمی!؟‘‘
گھبراہٹ میں ا ُس کی آنکھوں سے آنسو برسنے لگے۔
سکینہ بیگم اپنے خدشے کو زبان نہ دے سکیں۔ سو اپنے لب سیئے رہیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اس وقت وہ تینوں اسپتال میں شوال کے کمرے کے باہر منتظر بیٹھے تھے۔
’’وہ کیا کہہ رہی تھی اّمی!؟۔۔۔ کونسے دھوکے کی بات کر رہی تھی؟‘‘
رجب نے سرد لہجے میں پوچھا۔
سکینہ بیگم نے اپنے شوہر کی جانب دیکھا۔
وہ پوری آنکھیں کھولے رجب اور سکینہ بیگم کو دیکھ رہے تھے۔ سکینہ بیگم نے نگاہیں پھیر کر
رجب کی جانب دیکھا۔
’’میں۔۔ کچھ نہیں جانتی۔۔۔ مجھے کچھ نہیں معلوم۔‘‘
کوشش کے باوجود سکینہ بیگم اپنے لہجے کی کمزوری پہ قابو نہ پا سکیں۔ ا ُن کی آواز اور چہرے
کی گھبراہٹ سے صاف ظاہر تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہیں۔
رجب فورا ً بھانپ گیا۔
سن لیاسن لیا ہے اور کیا ُ’’آپ سب جانتی ہیں۔۔۔ مجھے صاف صاف بتایئے؟۔۔ ا ُس نے کس سے ُ
ہے؟ ‘ ‘
سکینہ بیگم اضطراری کیفیت میں انگلیاں مروڑنے لگیں۔
’’رجب!۔۔۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ صرف ایک ادھوری بات سن کر اسے غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ ہم اس
کے بارے میں گھر چل کر بات کریں گے۔‘‘
وجاہت علی نے مداخلت کرتے ہوئے نرم مگر پُر اعتماد لہجے میں رجب کو سمجھایا۔
’’کونسی ادھوری بات؟۔۔۔ کیسی غلط فہمی۔؟‘‘
صر تھا۔ رجب جاننے کو بےتاب و م ّ
وجاہت علی نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھوال۔
تب ہی کمرے کا دروازہ کھول کر لیڈی ڈاکٹر باہر آئی۔ وجاہت علی فورا ً ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
سکینہ بیگم کے ساتھ رجب بھی ا ُٹھ کھڑا ہوا اور ڈاکٹر کی طرف پلٹا۔
لیڈی ڈاکٹر کے چہرے پہ بال کی سنجیدگی تھی۔
سب کو متوجہ پا کر ڈاکٹر خود ہی بول پڑی۔
’’آئم سوری۔‘‘
ِاس ایک جملے نے ا ُن تینوں کے پیروں تلے سے زمین کھینچ لی۔ رجب تو جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹا۔
’’رجب!۔‘‘
سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر ا ُس کا بازو تھاما۔
رجب کا سانس سینے میں ہی اٹک گیا تھا۔ بےیقین نگاہیں لیڈی ڈاکٹر پہ گڑھی تھیں۔
لیڈی ڈاکٹر نے اپنی بات مکمل کی۔
’’ہم بچے کو نہیں بچا سکے۔‘‘
سن کر اپنی بےیقین پلکیں جھپکائیں۔ رجب نے بچے کا ُ
لیڈی ڈاکٹر کہہ رہی تھی۔
’’وہ اسپتال پہنچنے سے پہلے ہی ضائع ہو چکا تھا۔‘‘
’’بچہ!؟۔۔۔‘‘ وجاہت علی نے زیِرلب دہرایا۔
لیڈی ڈاکٹر نے چہرہ موڑ کر وجاہت علی کو سرد نگاہوں سے دیکھا۔
سکس ویکس ) (six weeksپریگننٹ تھی۔ آپ کو معلوم نہیں کیا؟‘‘ ’’آپ کی بہو ِ
سن کر ہونٹوں پہ ہاتھ رکھ لیا۔ جبکہ لیڈی ڈاکٹر اجتماعی طور پہ انھیں مالمت سکینہ بیگم نے یہ ُ
کر رہی تھی۔
’’لگتا ہے کہ آپ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔۔۔ وہ بہت کمزور اور شدید ذیہنی دباؤ
کا شکار ہے۔ بچہ بھی ِاسی وجہ سے ضائع ہوا ہے۔۔ اور اب اس کی حالت بھی سیریس ہے۔۔۔خیر۔۔۔۔
’’لگتا ہے کہ آپ لوگ اس کے ساتھ اچھا سلوک نہیں کرتے۔۔۔ وہ بہت کمزور اور شدید ذیہنی دباؤ
کا شکار ہے۔ بچہ بھی ِاسی وجہ سے ضائع ہوا ہے۔۔ اور اب اس کی حالت بھی سیریس ہے۔۔۔خیر۔۔۔۔
ڈاکٹر صاعد ا ُسے بچانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر اپنی بات مکمل کر کے آگے بڑھ گئی۔
رجب بالکل ہی جیسے ُلٹ ِپٹ کر دونوں ہاتھوں میں سر تھامے کرسی پہ بیٹھ گیا۔
’’رجب!۔۔۔ میرے بچے!‘‘
سکینہ بیگم نے اس کے برابر بیٹھ کر ا ُس کے کندھے پہ ہاتھ رکھا۔
رجب کچھ بھی کہنے سننے کی حالت میں نہیں تھا۔ اس کی لہو رنگ آنکھوں سے تیزاب ٹپک رہا
تھا۔
’’رجب! حوصلہ کرو میرے بیٹے! حوصلہ کرو۔‘‘
وجاہت علی بھی ا ُس کے دوسرے پہلو میں آبیٹھے۔
’’مجھے اسی بات کا اندیشہ تھا۔۔۔ جیسے وہ کمر پہ ہاتھ رکھ کر چیخی تھی۔ مجھے ا ُسی وقت
شک ہو گیا تھا کہ وہ پریگننٹ ہے۔‘‘
چور آواز میں کہا۔سکینہ بیگم نے صدمے سے ُ
جبکہ رجب اپنے حواس کھو رہا تھا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
صبح کا وقت تھا جب ڈاکٹرز نے شوال کی طبعیت میں کچھ سدھار کی نوید سنائی۔
’’رجب!۔۔۔ اب خطرے یا پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے۔ جب تک اس سے ملنے کی اجازت نہیں ِمل
جاتی۔ تب تک تم گھر جا کر تھوڑا آرام کر لو۔۔۔۔ سکینہ! تم بھی رجب کے ساتھ چلی جاؤ۔ میں ہوں
یہاں۔ ‘ ‘
وجاہت علی نے پہلے اپنے بیٹے پھر بیوی سے کہا۔
’’نہیں۔۔۔ میں ا ُسے دیکھے بنا کہیں نہیں جاؤں گا۔‘‘ رجب نے صاف انکار کیا۔
’’سمجھا کرو رجب!۔۔۔ تمہارے کپڑے خون آلود ہیں۔ ِاس حالت میں ڈاکٹرز تمہیں ویسے بھی اس کے
قریب نہیں جانے دیں گے۔۔۔۔ گھر جا کر نہا کر کپڑے تو بدل لو۔۔۔ میں ہوں ناں یہاں۔ تم ِفکر کیوں کرتے
ہو؟‘‘
وجاہت علی نے ا ُسے قائل کرنے کی کوشش کی۔
’’لیکن میں۔۔۔‘‘ رجب پھر جرح کرنا چاہتا تھا۔
سکینہ بیگم نے ا ُس کے بازو پہ اپنا ہاتھ رکھا۔
’’مان جاؤ ناں رجب!۔۔۔۔ تم بھی تو ٹھیک نہیں۔ تمہیں بھی تھوڑے آرام کی ضرورت ہے۔‘‘
رجب نے چہرہ موڑ کر سکینہ بیگم کو دیکھا۔ ا ُس کے ذیہن میں ایک خیال آیا۔ ا ُس نے سوچتے ہوئے
چہرہ واپس گھما کر وجاہت علی کو دیکھا۔ پھر گردن ہالتے ہوئے بوال۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ چلئے اّمی!‘‘
کہہ کر وہ بنا وقت ضائع کیے آگے آگے چل دیا۔ سکینہ بیگم ا ُس کے پیچھے پیچھے ہو لیں۔
وجاہت علی انھیں قدم قدم دور جاتا دیکھ رہے تھے۔ ا ُن دونوں کی پشت پہ نظریں گاڑھے ا ُن کے
دماغ میں کچھ چل رہا تھا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
جیسے ہی وہ دونوں آگے پیچھے چلتے ہوئے ہال میں داخل ہوئے۔ دو قدم آگے چل کر ہی رجب ُرک گیا
اور سکینہ بیگم کا بازو پکڑ کر انھیں بھی روک لیا۔
سکینہ بیگم نے حیران ہو کر ا ُسے دیکھا۔
’’اب آپ مجھے سچ سچ بتائیں گی کہ کیا بات ہوئی ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے حیران ہو کر ا ُسے دیکھا۔
’’اب آپ مجھے سچ سچ بتائیں گی کہ کیا بات ہوئی ہے؟‘‘
وہ بہت سخت لہجے میں جواب طلب کر رہا تھا۔
سکینہ بیگم پریشان ہو گیئیں۔ بنا وجاہت علی سے مشورے یا ا ُن کی اجازت کے سکینہ بیگم کچھ
بھی کہنے کی پوزیشن میں نہیں تھیں۔ رجب نے بھانپ لیا کہ ا ُن کا کوئی ارادہ نہیں کچھ بتانے کا۔
’’یا تو آپ مجھے اصل بات بتائیں گی۔ یا پھر آج ہی اس گھر سے میرا جنازہ ا ُٹھے گا۔‘‘
’’رجب!‘‘
سکینہ بیگم تڑپ گیئیں۔ نہ چاہتے ہوئے بھی انھیں ہمت کر کے ساری حقیقت کھول سنانی پڑی۔
رجب کبھی حیران ،کبھی پریشان تو کبھی پشیمان ہوتا سارے حقائق سنتا رہا۔ جب سکینہ بیگم ساری
روداد سنا چکیں تب وہ بالکل ایک مجسمے کی مانند کھڑا تھا۔ اس کا وجود پتھر ہو چکا تھا۔ بنا کچھ
کہے۔ بنا کوئی سوال کئے رجب نے اپنے پتھر وجود کو ایک قدم آگے گھسیٹا۔
’’رجب میرے بیٹے!‘‘
سکینہ بیگم نے ا ُس کا بازو پکڑ کر روک لیا۔ رجب رک تو گیا لیکن اس نے چہرہ موڑ کر سکینہ بیگم
کو نہ دیکھا۔
’’پلیز! کوئی ا ُلٹی سیدھی حرکت مت کرنا۔۔۔ ہماری خاطر نہ سہی ،شوال کی خاطر ہی سہی۔۔۔ وہ
موت کے دہانے پہ کھڑی ہے۔ ِاس وقت ا ُسے صرف اور صرف تمہاری ضرورت ہے۔۔۔ تمہاری کوئی بھی غلط
حرکت ا ُس کی جان لے سکتی ہے میرے بچے!۔۔۔ پلیز۔‘‘
سکینہ بیگم نے لرزتے ِدل اور وجود کے ساتھ التجا کی۔
سن کر بنا کچھ کہے شکستہ قدموں آگے بڑھ گیا۔ رجب ا ُن کی بات ُ
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
دوپہر کو جب وہ دونوں اسپتال میں واپس پہنچے تو وجاہت علی کو بےچینی سے کوریڈور میں ٹہلتے
پایا۔
’’سب ٹھیک ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر پوچھا۔
وجاہت علی نے اثبات میں سر ہالیا۔ ساتھ ہی رجب پہ نگاہ ڈالی۔ وجاہت علی کے لئے نفرت اور
ناراضگی ا ُس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی۔
’’رجب!‘‘
انھوں نے ا ُسے مخاطب کیا۔
رجب ان کو نظرانداز کرتا التعلقی سے دوسری سمت دیکھتا رہا۔
’’تم یہاں بیٹھو۔ میں واش روم ہو آؤں۔‘‘
وجاہت علی نے ا ُس کی ناراضگی کی شدت کا اندازہ لگانے کےلئے پھر بھی ا ُس سے بات کی۔
رجب نے اب بھی ان کی کسی بات پہ توجہ دینا گوارا نہیں کیا۔
وجاہت علی نے سکینہ بیگم کی اور دیکھا۔
سکینہ بیگم چور سی ہو گیئیں۔
وجاہت علی انھیں آنکھ سے اشارہ کرتے آگے بڑھ گئے۔
’’مجھے لگتا ہے کہ میں بھی واش روم ہو آؤں۔ ‘‘
سکینہ بیگم بہانہ بناتی وجاہت علی کے پیچھے چل دیں۔
کوریڈور کا موڑ ُمڑ کر وجاہت علی وہیں ُرک کر پلٹے۔ ا ُن کے پیچھے آتی سکینہ بیگم بھی ُرک کر
انھیں دیکھنے لگیں۔
صے میں کیوں ہے؟ تم نے ا ُسے کچھ بتایا تو نہیں؟‘‘ ’’رجب اتنا غ ّ
وجاہت علی نے زور زور سے دھڑکتے ِدل کے ساتھ برہمی سے پوچھا۔
صے میں کیوں ہے؟ تم نے ا ُسے کچھ بتایا تو نہیں؟‘‘ ’’رجب اتنا غ ّ
ِ
وجاہت علی نے زور زور سے دھڑکتے دل کے ساتھ برہمی سے پوچھا۔
سکینہ بیگم ِدل ہی ِدل میں اپنے آپ کو وجاہت علی کی سخت سست سننے کو تیار کرنے لگیں۔
مجبور لہجے میں صفائی پیش کرتے ہوئے بولیں۔
’’اور کوئی چارہ نہیں تھا وجاہت!۔۔۔ ا ُس نے مجھے خود کشی کی دھمکی دی تھی۔۔۔ اور آپ
جانتے ہیں کہ وہ صرف دھمکی نہیں دیتا۔‘‘
’’اهلل میاں!‘‘
وجاہت علی نے ماتھا پیٹ لیا۔
’’میں نے ا ُسے تمہارے ساتھ ِاس لئے بھیجا تھا تاکہ میں ا ُس کی غیر موجودگی میں شوال سے بات
کر سکوں۔۔۔ ا ُسے کچھ بھی کہہ کر رجب کو سچائی بتانے سے روک لیتا۔۔۔ تمہیں بھی فون کر کے
سمجھانا چاہتا تھا کہ رجب کو کچھ مت بتانا۔ لیکن تمہارے فون پہ کال کی تو وہ بھی میری جیب میں
بجا۔۔۔ جانے سے پہلے تم ساتھ نہیں لے جا سکتی تھی؟‘‘
وجاہت علی دبی آواز میں اپنی بیگم پہ برس پڑے۔
’’شوال سے بات ہوئی آپ کی؟‘‘
سکینہ بیگم نے ا ُن کے رویے کی تلخی نظرانداز کرتے ہوئے پوچھا۔
وجاہت علی نے ابھی تک سر تھام رکھا تھا۔ نفی میں سر ہال کر مایوسی سے بولے۔
’’نہیں۔۔۔ ڈاکٹرز نے اس سے بھی ملنے نہیں ِدیا۔‘‘
پھر اضطراری کیفیت میں پیشانی مسلتے ہوئے بڑبڑائے۔
’’اهلل میاں!۔۔۔ اب کیا ہو گا؟۔۔۔ رجب کچھ نہ جانتا تو معاملہ سنبھاال جا سکتا تھا۔۔۔ اب سب
اختیار سے باہر ہو چکا ہے۔۔۔۔ پتا نہیں کیا ہو گا اب۔۔۔۔ ایک تو میرے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹا ،شوال اسپتال
میں ہے۔ اوپر سے اپنا بچہ بھی کھو دیا اس نے۔۔۔ معلوم نہیں یہ لڑکا کیسے ری ایکٹ کرے گا۔۔۔۔ میرا دل
بہت گھبرا رہا ہے۔‘‘
وجاہت علی بہت خوفزدہ تھے۔
گھبراہٹ تو سکینہ بیگم کو بھی بہت تھی۔ لیکن وہ کچھ نہ کچھ ُپرا ُمید بھی تھیں۔
’’پریشان نہ ہوں وجاہت!۔۔۔ شوال کو راضی کرنے کا سوچیں۔ اگر وہ مان جائے گی تو رجب کی
ناراضگی بھی خودبخود دور ہو جائے گی۔۔۔ میں تو کل رات سے ا ُسے منانے کے بارے میں ہی سوچ رہی
ہوں۔‘‘
سکینہ بیگم کی تجویز نے وجاہت علی کو بھی ُپرا ُمید کر ِدیا۔
کمر پہ ہاتھ رکھے وہ اب ِاسی کے بارے میں سنجیدگی سے سوچ رہے تھے۔
’’ہوں۔۔۔۔۔ اب یہی ایک راستہ بچا ہے۔‘‘
وجاہت علی نے پُرسوچ انداز میں کہا۔ پھر بولے۔
’’اچھا! تم جاؤ۔۔ میں تھوڑی دیر میں آتا ہوں۔ رجب کو کوئی شک نہ ہو۔‘‘
جواب میں سکینہ بیگم سر ہال کر پلٹ گیئیں۔
سکینہ بیگم رجب کے قریب جا کھڑی ہوئیں۔ کچھ کہنے کے لئے لب کھولے ہی تھے کہ کمرے سے
ڈاکٹر باہر نکلی۔
وہ دونوں ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’وہ اب ٹھیک ہیں۔ تھوڑی ہی دیر میں انھیں وارڈ میں شفٹ کیا چاہتے ہیں۔۔۔ آپ چاہیں تو ابھی ا ُن
سے ِمل سکتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر نے ُمسکراتے ہوئے مطلع کیا۔
’’اهلل!۔۔۔۔ تیرا ُ
شکر۔‘‘
سکینہ بیگم نے دونوں ہاتھ ا ُٹھا کر اهلل کا شکر بجا الیا۔ پھر رجب کی اور دیکھا۔
’’جاؤ رجب! پہلے تم جا کر ِمل لو ا ُس سے۔‘‘
سکینہ بیگم نے محبت سے کہا۔
’’جاؤ رجب! پہلے تم جا کر ِمل لو ا ُس سے۔‘‘
سکینہ بیگم نے محبت سے کہا۔
’’انھیں وارڈ میں شفٹ کر لینے دیں۔‘‘
رجب نے ایسے سرد لہجے میں کہا جیسے ا ُسے شوال سے ِملنے میں کوئی ِدلچسپی نہ ہو۔
ش نظر سکینہ بیگم نے چاہ کر بھی کوئی سوال نہ کیا۔ صورتحال کے پی ِ
تب ہی انھوں نے وجاہت علی کو اس طرف آتا دیکھا۔
’’یہ کچھ دوائیاں منگوا لیجیے۔‘‘
ڈاکٹر نے ایک پرچی رجب کی طرف بڑھائی۔
سکینہ بیگم نے ہاتھ بڑھا کر پرچی لے لی۔ ڈاکٹر پرچی پکڑانے کے بعد دوسری طرف چلی گئی۔
’’تم یہیں رہو۔ میں یہ دوائیاں منگوا التی ہوں۔‘‘
سکینہ بیگم نے محبت اور اپنائیت سے کہا۔
رجب کچھ نہ بوال۔
سکینہ بیگم پلٹ کر چلتی وجاہت علی کے قریب آ پہنچیں۔
’’چلئے۔ یہ دوائیں لے آتے ہیں۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہا۔
وجاہت علی نے بنا کچھ کہے پرچی تھامی اور قدم موڑ کر واپس چل دیئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
جب وہ دونوں دوائیاں لے کر واپس پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہاں رجب تھا نہ شوال۔ شوال کو وارڈ میں
شفٹ کیا جا چکا تھا۔
’’رجب بھی شوال کے ساتھ ہی ہوگا۔ فون کر کے پتا کرو کہ کونسے وارڈ میں ہے۔‘‘
وجاہت علی نے سکینہ بیگم سے کہا۔
ِ
سکینہ بیگم نے سر ہال کر اپنا فون نکاال۔ رجب کو کال مالئی مگر کامیابی نہ ہوئی۔
’’وہ کال نہیں ا ُٹھا رہا۔‘‘
سکینہ بیگم نے قدرے گھبرا کر شوہر کو دیکھا۔
’’فون سائلینٹ پہ ہوگا۔۔ ریسپشن سے پتا کرتے ہیں۔‘‘
وجاہت علی نے کہا۔
دونوں میاں بیوی نے ریسپشن کا رخ کر لیا۔
رسیپشن سے پتا کر کے وہ وارڈ میں آئے۔
شوال بستر پہ بےسود پڑی تھی۔ رجب وہاں بھی ِندارد تھا۔
سکینہ بیگم نے شوہر کی جانب دیکھا۔
’’شوال ہوش میں ہے؟‘‘ وجاہت علی نے پوچھا۔
سکینہ بیگم اس سوال پہ شوال کی جانب پلٹیں۔
’’شوال!۔۔۔ شوال!‘‘
وہ نرم آواز میں شوال کو پکارنے لگیں۔
’’یہ تھکی ہوئی ہیں۔ انھیں آرام کرنے دیں۔‘‘
تب ہی عقب سے نرس نے پیشہ وارانہ لہجے میں کہا اور آگے آکر ہاتھ میں پکڑی ٹرے ٹیبل پہ رکھ
دی۔
ِ
’’سسٹر!۔۔ میرا بیٹا اس کے ساتھ یہاں آیا تھا۔ کہاں ہے وہ؟‘‘
سکینہ بیگم نے نرس سے پوچھا۔
’’نہیں۔۔ ِان کے ساتھ کوئی نہیں آیا۔ انھیں اکیال ہی یہاں الیا گیا ہے۔‘‘
نرس نے سرنج میں انجیکشن بھرتے ہوئے جواب ِدیا۔
’’نہیں۔۔ ِان کے ساتھ کوئی نہیں آیا۔ انھیں اکیال ہی یہاں الیا گیا ہے۔‘‘
نرس نے سرنج میں انجیکشن بھرتے ہوئے جواب ِدیا۔
سکینہ بیگم مضطرب ہو کر وجاہت علی کی جانب پلٹیں۔
’’کہاں چال گیا وہ؟‘‘
انھوں نے وجاہت علی سے استفسار کیا۔
تب ہی ا ُن کے ہاتھ میں پکڑے فون کی رنگ ٹون بجنے لگی۔ دیکھا تو رجب کی کال تھی۔
’’ہیلو رجب! کہاں ہو تم؟‘‘
انھوں نے بےتابی سے پوچھا۔
ِ
’’میں راستے میں ہوں۔ گھر جا رہا ہوں۔۔۔ آپ شوال سے ملیں؟ کیسی ہے وہ‘‘
رجب نے جواب دے کر ساتھ ہی مطلب کی بات پوچھی۔
ا ُس کا لہجہ بےتاثر تھا۔
’’شوال ٹھیک ہے۔۔ تم نہیں ِملے اس سے؟۔۔۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ ڈاکٹر سے پوچھیئے کہ اور کب تک اسے اسپتال میں رکھیں گے۔ اور مجھے بتایئے گا
پھر۔‘‘
’’اچھا۔۔۔ تم کیوں گھر جا رہے ہو؟‘‘
سکینہ بیگم نے کہا اور پوچھا۔
’’اّمی! میں گاڑی چال رہا ہوں۔۔۔ گھر پہنچ کر بات ہوتی ہے۔‘‘
رجب نے جواب دینے سے بچنے کے لئے کہہ کر کال کاٹ دی۔
سکینہ بیگم نے فون کان سے ہٹا کر وجاہت علی کی سمت دیکھا۔ وہ خوفزدہ تھیں۔
’’وہ گھر چال گیا ہے۔۔۔ شوال سے ِملے بنا۔۔ مجھے ا ُس کے ارادے ٹھیک نہیں لگتے۔‘‘
سکینہ بیگم نےاپنے ِدل کے خدشات شوہر کے سامنے بیان کئے۔
وجاہت علی بھی سوچنے پہ مجبور ہوگئے۔
’’تم یہیں رہو۔ میں ا ُس کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘
سکینہ بیگم کو حوصلہ دیتے ،کہہ کر وہ باہر کی جانب بڑھ گئے۔
سکینہ بیگم نے چہرہ موڑ کر نرس کی جانب دیکھا۔ وہ سرنج میں بھرا انجیکشن شوال کو لگی ڈرپ
میں منتقل کر رہی تھی۔
سکینہ بیگم آہ بھر کرسی پہ بیٹھ گیئیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
شوال نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ ا ُجڑی ہوئی نظروں سے اپنے اردگرد دیکھا۔ اسی ملحے سکینہ
بیگم اس کے سر پہ آن موجود ہوئیں۔
’’شوال بیٹا!‘‘
سکینہ بیگم نے اس کے سر پہ ہاتھ رکھنا چاہا۔
ا ُس نےاپنا چہرہ نفرت کے ساتھ دوسری جانب پھیر لیا اور آنکھیں بند کر لیں۔
سکینہ بیگم نے شکست کھا کر ہاتھ واپس کھینچ لیا۔
’’ہمیں بہت ُدکھ ہے کہ ہم بچے کو نہ بچا سکے۔‘‘
اپنے اندر ہمت مجتمع کر کے سکینہ بیگم نے کہا۔
ُ
شوال نے اپنی آنکھیں زور سے بھینچ لیں۔ شدید کرب کے تاثرات اس کے چہرے پہ عیاں تھے۔
’’اپنی اوالد کو کھونے کا ُدکھ کیا ہوتا ہے۔ میں اچھی طرح سمجھتی ہوں۔۔۔۔ ہمیں معاف کر دو
میری بچی!۔۔۔ تمہاری طبعیت کی خرابی کی وجہ سے ہمیں کبھی شک ہی نہ ہو سکا کہ تم ا ُمید سے ہو۔‘‘
سکینہ بیگم کے لہجے میں بےپناہ ُدکھ اور پچھتاوا تھا۔ وہ کچھ بھی نہ بولی۔ جیسے وہ بولنا بھول
چکی تھی۔
سکینہ بیگم کے لہجے میں بےپناہ ُدکھ اور پچھتاوا تھا۔ وہ کچھ بھی نہ بولی۔ جیسے وہ بولنا بھول
چکی تھی۔
تب ہی وہاں نرس چلی آئی اس کا بلڈ پریشر چیک کرنے۔
’’سسٹر!۔ میں سونا چاہتی ہوں۔ ِان کو یہاں سے لے جاؤ۔‘‘
شوال نے ٹوٹے ہوئے لہجے میں نرس سے کہا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی جب وارڈ میں پہنچے ،شوال بستر سے پاؤں لٹکا کر بیٹھی تھی۔ سر جھکائے وہ بالکل
خاموش ڈاکٹر کی ہدایات سن رہی تھی۔ جبکہ سکینہ بیگم بیگ میں سارا سامان رکھ چکنے کے بعد بیگ
کی زپ بند کر رہی تھیں۔
’’دوا آپ نے باقاعدگی سے لینی ہے اور اپنی خوراک کا خاص خیال رکھنا ہے۔ ہم نے تو اپنی پوری
تسلی کر لی ہے۔ پھر بھی خدانخواسطہ آپ کو کوئی تکلیف یا پریشانی ہوتی ہے تو فورا ً ِاس نمبر پہ کال
کیجیے گا۔‘‘
ہاتھ میں پکڑی فائل پہ انٹری کرتے ہوئے ڈاکٹر نے ایک کاغذ آگے بڑھایا۔
’’مجھے دے دیجیے۔‘‘
سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر کاغذ تھام لیا۔
’’اچھا۔ خدا حافظ۔۔۔ گیٹ ویل سون۔‘‘
ڈاکٹر نے فائل بیڈ کے پائنتی بنے پاکٹ میں ڈالی اور پیشہ وارانہ مسکراہٹ ا ُچھال کر آگے بڑھ گیا۔
’’اچھا۔ خدا حافظ۔۔۔ گیٹ ویل سون۔‘‘
ڈاکٹر نے فائل بیڈ کے پائنتی بنے پاکٹ میں ڈالی اور پیشہ وارانہ مسکراہٹ ا ُچھال کر آگے بڑھ گیا۔
’’اچھا ہوا کہ آپ ٹائم پہ آ گئے۔ رجب نہیں آیا ساتھ؟‘‘
ڈاکٹر کے جانے کے بعد سکینہ بیگم شوہر کی طرف متوجہ ہوئیں۔
’’نہیں۔۔ شوال بیٹا!۔۔۔ کیسی ہو اب؟‘‘
وجاہت علی نے مختصر جواب دے کر شوال کو مخاطب کیا۔ جو بستر سے ا ُتر چکی تھی۔
وجاہت علی کے سوال کا جواب دینے کی بجائے شوال سنبھل سنبھل کر چلتی بیڈ کے پائنتی تک
پہنچی اور پاکٹ میں سے اپنی فائل نکال کر کھول کر دیکھنے لگی۔
ُ ُ
بالکل بےتاثر اور خاموش نگاہوں سے کچھ صفحے دیکھنے کے بعد اس نے سر اٹھا کر وجاہت علی
کو دیکھا۔
وجاہت علی اس سے دو قدم ہی کے فاصلے پہ کھڑے تھے۔
ا ُس نے فائل وجاہت علی کی طرف بڑھا دی جسے تھامنے کے لئے وجاہت علی نے اپنا ہاتھ آگے
بڑھایا۔
وہ الجھن کا شکار تھے کہ شوال انھیں یہ فائل کیوں پکڑا رہی ہے۔
’’اب تو آپ کا بدلہ پورا ہو گیا ہوگا ناں!۔۔۔ میں آپ کے بیٹے کو فرش پہ سالتی تھی۔ اور آج آپ کی
وجہ سے میں نے اپنا بچہ کھو دیا۔ میرے خیال سے اب میری طرف آپ کا کوئی قرض باقی نہیں بچا۔‘‘
شوال نے صدمے سے چور ،ٹھہرے ہوئے لہجے میں کہا اور باہر کی جانب بڑھ گئی۔
وجاہت علی خاموش سے ہاتھ میں پکڑی فائل کو دیکھتے رہے۔ پھر فائل واپس بیڈ کی پاکٹ میں رکھ
کر انھوں نے بیگ ا ُٹھایا اور شوال کے پیچھے چل دیئے۔ سکینہ بیگم نے بھی ا ُن کی تقلید کی۔ وہ بہت
ا ُداس اور ُمضطرب تھیں۔
وارڈ سے باہر آکر شوال رسپشن کی جانب چل پڑی۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم دونوں ُرک گئے۔
’’شوال! کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔ ایگزٹ ادھر ہے۔‘‘
سکینہ بیگم نے پیچھے سے آواز دی۔
شوال سنی ا َن سنی کرتی آگے بڑھتی رہی۔ اس کی چال سے ہی پتا چل رہا تھا کہ وہ بہت بڑے
صدمے سے دوچار ہے۔
’’شوال!‘‘
سکینہ بیگم پھر سے پکارتی ہوئی اس کے پیچھے لپکیں۔
’’کیا میں ایک فون کال کر سکتی ہوں؟‘‘
شوال نے رسپشن پہ پہنچ کر سوال کیا۔
سکینہ بیگم اس کا سوال سن کر اس سے چند قدم کے فاصلے پر ہی رک گیئیں۔
رسپشن پہ بیٹھی لڑکی نے بنا کچھ کہے مسکرا کر فون سیٹ ا ُٹھا کر اس کے سامنے رکھ دیا۔
’’تھینک یو۔‘‘
اس نے کہا اور ریسیور اٹھا کر کوئی نمبر ڈائل کرنے لگی۔
سکینہ بیگم معتجب سی ِدل ہی ِدل میں قیاس آرائی کرنے لگیں کہ وہ آخر ِکسے فون کر رہی ہے۔
وجاہت علی آہستگی سے چلتے سکینہ بیگم کے قریب آ ُرکے۔ انھیں بھی کوئی اندازہ نہیں تھا کہ
شوال کے ذیہن میں کیا ہے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد اپنے آفس میں بیٹھے ایک فائل پہ نظریں گاڑھے بیٹھے تھے جب ا ُن کے فون کی رنگ ٹون
بجنے لگی۔
فائل سے نظریں ہٹائے بنا انھوں نے ایک طرف رکھا اپنا فون ا ُٹھا لیا۔ سامنےال کر دیکھا۔ فون کی
سکرین پہ ایک لینڈ الئن نمبر دیکھ کر انھیں اچھنبا ہوا۔
فائل سے نظریں ہٹائے بنا انھوں نے ایک طرف رکھا اپنا فون ا ُٹھا لیا۔ سامنےال کر دیکھا۔ فون کی
سکرین پہ ایک لینڈ الئن نمبر دیکھ کر انھیں اچھنبا ہوا۔
’’یہ کہاں کا نمبر ہے؟‘‘
انھوں نے کال ایکسپٹ کر کے فون کان سے لگایا۔
’’ہیلو!‘‘
باپ کی آواز سن کر دوسری طرف شوال کی سانس اٹک گئی اور زبان سلب ہو گئی۔ کیسے بولے؟
کیا کہے؟۔۔ عقل کام کر رہی تھی نہ ہّمت ساتھ دے رہی تھی۔
’’ہیلو۔‘‘
اسرار احمد نے پھر سے ’ہیلو‘ کیا۔
اسرار احمد کال نہ کاٹ دیں۔ یہ خوف دوسرے ہر احساس پہ حاوی ہو گیا۔
’’پاپا!‘‘ وہ اتنا ہی کہہ پائی۔
ا ُدھر اسرار احمد یہ آواز سن کر ُبری طرح چونکے۔ ِادھر وجاہت علی اور سکینہ بیگم اپنی اپنی
جگہ اچھل پڑے۔ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔
اسرار احمد بھی کچھ نہ سمجھ پائے کہ کیسا رِدعمل ظاہر کریں۔ تقریبا ً گیارہ مہینے بعد آج پہلی
بار اور اچانک شوال نے ا ُن سے رابطہ کیا تھا۔ فوری طور پر کوئی بھی فیصلہ کر پانا ناممکن تھا۔ اسی
اثناء میں شوال کی درد بھری آواز ا ُن کے کان کے پردے سے ٹکرائی۔
چکی ہوں؟‘‘ ’’پاپا!۔۔۔ کیا میں واقعی مر ُ
شوال نے یہ سوال اتنے درد کے ساتھ کیا کہ اسرار احمد کا ِدل ِہل گیا۔
دوسری طرف شوال کی آنکھوں سے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔
رندھی ہوئی آواز میں جیسے التجا کرنے لگی۔
’’اگر میرا سگا باپ ہی مجھے مرا ہوا سمجھ لے گا تو کسی اور میری زندگی کی پرواہ کیسے ہوگی
پاپا!؟‘‘
شوال ان سے سوال کر رہی تھی۔ ُ
شوال کی آواز ،ا ُس کے الفاظ۔۔۔ اسرار احمد کو چونکا گئے۔
’’ لوگوں کو پرواہ ہوتی ہے تو صرف اپنے بیٹے کی۔ ُدکھ دکھائی دیتا ہے تو صرف اپنے بیٹے کا۔
خوشی چاہتے ہیں تو صرف اپنے بیٹے کی۔۔۔
کیا میں کسی کی بیٹی نہیں؟ کیا مجھے درد نہیں ہوتا؟۔۔۔ کیا میری زندگی صرف ایک مذاق ہے؟
چک ی
میری زندگی کی پرواہ کون کرے گا؟ میرے دکھوں کا خیال کون کرے گا؟۔۔۔۔ کیا میں واقعی َمر ُ
ہوں پاپا!؟‘‘
شوال کا درد اسرار احمد کو تڑپا گیا۔ آنکھوں میں آنسو ا ُتر آئے۔ جنہیں انھوں نے بمشکل پیچھے
دھکیال۔
خود کو کمپوز کر کے بولے۔
’’دیکھو شوال!‘‘
’’پاپا! آئی لوسٹ مائی چائلڈ۔‘‘
شوال کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے۔ انتہائی کرب کے عالم میں باپ سے فریاد کرتے ہوئے وہ
پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
اب تو اسرار احمد کا بھی ضبط جواب دے گیا۔ سب کچھ بھال کر بےچینی سے بولے۔
’’شوال!۔۔۔ میری بچی!۔۔۔۔ روؤ مت۔۔۔ بتاؤ تم کہاں ہو؟۔۔۔ میں ابھی آ رہا ہوں تمہارے پاس۔‘‘
شوال کے آنسوؤں نے تھمنے میں کچھ وقت لیا۔ پھر جب بولی تو آواز آنسوؤں سے بوجھل تھی۔
’’ڈارن ِاٹ۔‘‘
شوال کو فون پہ اسپتال کا نام و پتا بتاتے سن کر وجاہت علی نے ماتھا پیٹا۔
’’وہ یہاں آ رہا ہے۔‘‘
وجاہت علی بڑبڑائے اور کالئی سامنے کرکے گھڑی دیکھی۔
’’وہ یہاں آ رہا ہے۔‘‘
وجاہت علی بڑبڑائے اور کالئی سامنے کرکے گھڑی دیکھی۔
’’ساڑھے چار۔۔۔ وہ اس وقت آفس میں ہوگا۔ اور اگلے دس منٹ کے اندر وہ یہاں موجود ہوگا۔‘‘
وجاہت علی بُری طرح جھال گئے۔
سکینہ بیگم بھی حواس باختہ تھیں۔
’’اب کیا کریں؟‘‘
انھوں نے شوہر سے پوچھا۔
’’ہم کچھ نہیں کر سکتے۔۔۔ اب صرف رجب ہی کر سکتا ہے۔‘‘
وجاہت علی نے کہا۔
ِ
سکینہ بیگم نے جلدی جلدی اپنے فون پہ رجب کو کال مالئی۔
’’ہیلو!‘‘
دو گھنٹیاں بجنے کے بعد رجب نے کال ریسیو کر لی۔
’’رجب!۔۔۔ شوال اپنے باپ کے ساتھ جا رہی ہے۔۔۔ تم فورا ً آ کر اسے روکو۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم بہت بوکھالئی ہوئی تھیں۔
دوسری طرف مکمل خاموشی چھا گئی۔
ِ
سکینہ بیگم پہلے جواب کی منتظر رہیں۔ جواب نہ مال تو اور بھی پریشان ہو گیئیں۔
’’رجب!‘‘
انھوں نے قدرے زور دے کر پکارا۔
’’جی!‘‘
رجب کی بے تاثر آواز آئی۔
سن رہے ہو؟۔۔۔ شوال جا رہی ہے۔ آ کر ا ُسے روکو ورنہ وہ چلی جائے گی۔‘‘ ’’تم ُ
’’جانے دیں ا ُسے۔‘‘
رجب کی سفاک آواز ا ُن کی سماعت سے ٹکرائی۔ اور کال کٹ گئی۔
انھیں لگا جیسے کسی نے ا ُن کے کانوں میں سیسہ پگھال کر ڈال دیا ہو۔ وہ اپنی جگہ ساکت رہ
گیئیں۔ پھر شوال کو فون رکھ کر مڑتے دیکھا تو ا ُن کے ساکت وجود میں جنبش ہوئی۔
’’وہ نہیں آ رہا۔ کہہ رہا ہے کہ اسے جانے دیں۔‘‘
سکینہ بیگم کے الفاظ وجاہت علی کو بھی حیران کر گئے۔ مگر وہ کچھ بول نہ سکے۔
شوال انھیں مکمل طور پر نظرانداز کرتی ا ُن کے قریب سے گزر کر آگے بڑھ گئی۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم ا ُس کے پیچھے پیچھے ہو لیے۔
وہ وزٹنگ ایریا میں آ بیٹھی۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑے ہو گئے۔
’’آپ کچھ کیجیے ناں!‘‘
سکینہ بیگم نے شوہر سے کہا۔
’’میں کیا کر سکتا ہوں۔ جانے کیوں رجب ایسے بی ہیو کر رہا ہے۔‘‘
وجاہت علی نے تبصرہ کیا۔
رجب کے رویے نے انھیں حیران و پریشان کر رکھا تھا۔
’’مجھے ڈر لگ رہا ہے۔۔ اس وقت وہ گھر میں اکیال ہے۔ ا ُس کا کچھ بھروسہ نہیں۔‘‘
سکینہ بیگم کی گھبراہٹ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جا رہی تھی۔
’’ڈرو مت۔ ا ُس کے بارے میں ماسی کو خبردار کر کے آیا ہوں۔ اگر وہ کوئی الٹی سیدھی حرکت
کرے گا تو ہمیں فورا ً اطالع ِمل جائے گی۔۔۔ ویسے بھی اسرار تھوڑی ہی دیر میں یہاں پہنچتا ہو گا۔ اس
کے بعد ہم بھی چلتے ہیں۔ لیکن ابھی ِاسے یہاں اکیال چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔‘‘
وجاہت علی نے کہا تو سکینہ بیگم خاموش ہو گیئیں۔
کے بعد ہم بھی چلتے ہیں۔ لیکن ابھی ِاسے یہاں اکیال چھوڑ کر نہیں جا سکتے۔‘‘
وجاہت علی نے کہا تو سکینہ بیگم خاموش ہو گیئیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اس وقت وزٹنگ ایریا میں ا ُنکے عالوہ اور کوئی نہیں تھا جب وزٹنگ ایریا کے اس پار سے اسرار
احمد نمودار ہوئے۔
پہلی نظر ہی ا ُن کی سر جھکائے منتظر بیٹھی شوال پہ پڑی۔
’’شوال!‘‘
ُ
انھوں نے ُرکے بنا وہیں سے اسے پکارا۔
شوال نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
’’پاپا!‘‘
وہ ا ُٹھ کر بھاگتی ہوئی باپ کے سینے سے لگ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رو دی۔
اپنی بیٹی کی حالت دیکھ کر اسرار احمد کا دل کٹ کر رہ گیا۔
’’بس بیٹا!۔۔ بس!۔۔ حوصلہ کرو۔۔۔۔ میں آگیا ہوں ناں!‘‘
اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے اسرار احمد ا ُسے حوصلہ دینے لگے۔ تب ہی ا ُن کی نظر وزٹنگ
ایریے کے دوسرے کونے میں کھڑے وجاہت علی اور سکینہ بیگم پہ پڑی۔
اسرار احمد کو اپنی اور دیکھتا پا کر سکینہ بیگم نے وجاہت علی کی جانب دیکھا۔
ِ
وجاہت علی کی آنکھوں میں کوئی شرمندگی تو نہ تھی مگر اسرار احمد سے نظر مالنے کا حوصلہ
بھی نہیں رکھتے تھے۔ سو نظریں چُرا گئے۔
’’اب گھر چلیں؟‘‘
اسرار احمد نے شوال کو خود سے الگ کرکے ا ُس کا چہرہ دیکھتے ہوئے نرمی سے پوچھا۔
شوال اپنے رونے پہ کافی حد تک قابو پا چکی تھی۔ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے اثبات میں سر ہال دیا۔
’’آؤ۔‘‘
اس کی پیٹھ پہ ہاتھ ِٹکا کر اسرار احمد اپنائیت سے کہتے واپسی کی جانب مڑے۔ مڑتے ہوئے انھوں
نے پھر ایک نگاہ وجاہت علی پہ ڈالی۔ ِاس بار ا ُن کی نگاہ میں صرف غصہ اور شکایت نہیں تھی۔ بلکہ ا ُن
کی نگاہوں میں انتقام تھا۔ ا ُن کے دیکھنے کے انداز سے صاف ظاہر تھا کہ ابھی تو وہ خاموشی کے ساتھ
چپ نہیں بیٹھیں گے۔ اپنی بیٹی لے کر جارہے ہیں۔ لیکن اپنی بیٹی کے ساتھ کیے گئے ِاس ناروا سلوک پہ ُ
اب وجاہت علی کو اسرار احمد کی بیٹی کے ساتھ کی گئی تمام زیادتیوں کا بدلہ چکانا تھا۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم ،دونوں میں سے کوئی بھی کچھ کہنے ،کرنے کی ہمت نہ کر پایا۔ شوال
کے کپڑوں اور دوائیوں سے بھرا بیگ اب بھی سکینہ بیگم کے ہاتھ میں تھا۔ وہ بالکل ساکت ،واپس جاتے
اسرار احمد اور شوال کی پشت دیکھ رہی تھیں۔ آج شوال ویسے ہی ا ُن کی زندگی سے جا رہی تھی،
جیسے وہ ا ُن کی زندگی میں داخل ہوئی تھی۔ بالکل خالی ہاتھ۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد شوال کو ساتھ لئے گاڑی کی پچھلی سیٹ پہ آ بیٹھے۔ شوال نے ان کے برابر بیٹھتے
ہی انکے کے کندھے پہ اپنا سر رکھ دیا۔
اسرار احمد نے بھی جوابا ً اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر اپنی گود میں رکھ لیا۔ گاڑی
اسرار احمد کے گھر کے راستے پہ چل پڑی۔
ڈرائیور کی موجودگی میں کوئی بھی بات کہنا یا سننا مناسب نہیں تھا۔ سو دونوں باپ بیٹی نے
راستہ بھر خاموشی اختیار کئے رکھی۔
راستہ بھر خاموشی اختیار کئے رکھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
کچھ دیر فون کان سے لگائے رکھنے کے بعد ہٹاتے ہوئے انھوں نے وجاہت علی کی سمت دیکھا۔
جیسے ا ُن کا رِدعمل جاننا چاہتی ہوں۔
’’میں خود اس کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی بنا وقت ضائع کئے الٹے قدموں ہال سے باہر نکل گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
ان کی گاڑی جب گھر کی پارکنگ میں رکی تو اسرار احمد نے اپنی طرف کا دروازہ کھوال۔
’’آؤ شوال!۔‘‘
کہتے ہوئے وہ اترنا چاہتے تھے کہ چونک کر مڑ کر اپنے کندھے پہ رکھا شوال کا سر دیکھا۔ انھیں
اب معلوم ہوا کہ شوال بےہوش ہو چکی ہے۔
وہ شوال کو بانہوں میں ا ُٹھاکر گھر کے اندر لے آئے۔
کامران اور عمران ابھی کام سے لوٹے تھے۔ علیزہ کامران والے صوفے کے قریب کھڑی کوئی بات
کہہ رہی تھی جب اسرار احمد شوال کو ا ُٹھائے ہال میں داخل ہوئے۔
کامران ،عمران اور علیزہ پہلے تو تینوں ہی بت بنے بےیقینی سے اسرار احمد اور ان کے ہاتھوں
میں شوال کا بےہوش وجود دیکھتے رہے۔ پھر وہ دونوں بھائی ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’پاپا!۔۔۔ یہ۔۔۔۔ شوال؟۔۔۔۔‘‘
کامران نے ٹوٹے لفظوں میں استفسار کیا۔
اس کی بےیقینی میں ابھی تک کوئی کمی نہیں آئی تھی۔
’’علیزہ!۔۔۔ آگے چل کر شوال کے کمرے کا دروازہ کھولو۔‘‘
کامران کا سوال وقتی طور پہ نظرانداز کرتے ہوئے اسرار احمد نے اپنی بہو کو ایک فوری حکم دیا۔
’’جی۔‘‘
کامران کا سوال وقتی طور پہ نظرانداز کرتے ہوئے اسرار احمد نے اپنی بہو کو ایک فوری حکم دیا۔
’’جی۔‘‘
علیزہ تابعداری سے کہہ کر تیز تیز قدم ا ُٹھاتی سیڑھیوں کی جانب بڑھ گئی۔
اوپر پہنچ کر علیزہ نے شوال کے کمرے کا دروازہ کھوال اور خود راستہ چھوڑ کر ایک طرف کھڑی ہو
گئی۔
اسرار احمد نے کمرے میں داخل ہو کر شوال کا بےہوش وجود بڑی احتیاط کے ساتھ بستر پہ رکھا۔
انھیں ایسے لگا جیسے وقت بہت پیچھے چال گیا ہو اور وہ پانچ سالہ شوال کو بستر پہ لِٹا رہے ہوں۔ بچپن
میں شوال ا ُن کے ساتھ کھیلتے ہوئے یا ا ُن سے کہانی سنتے ہوئے ا ُن کے سینے پہ سر رکھ کر سو جایا
کرتی تھی۔ تب وہ ایسی ہی احتیاط کے ساتھ ا ُسے بیڈ پہ رکھتے تھے کہ مبادا ا ُس کی نیند نہ ٹوٹ جائے۔
آج بھی انھیں ایسا ہی لگ رہا تھا۔ فرق یہ تھا کہ اس وقت شوال کو بیڈ پہ ڈالتے ہوئے انھیں ا ُس
کے وجود کے ٹوٹنے کا ڈر تھا۔
ا ُن کا ِدل کٹ کر رہ گیا۔
اسی اثناء میں علیزہ نے املاری سے چادر نکالی اور آگے آکر شوال پہ ڈال دی۔
اسرار احمد شوال کے پہلو میں بیٹھ کر بےہوش شوال کا چہرہ بغور دیکھنے لگے۔
کتنی مدت بعد وہ یہ چہرہ دیکھ رہے تھے۔
گیارہ مہینے ،کہنے کو یہ عرصہ بہت ہی چھوٹا تھا۔ لیکن اس چھوٹے سے عرصے نے شوال کی
صورت ہی بدل ڈالی تھی۔
جس پہ بچوں جیسی معصومیت تروتازہ ،ہنستا مسکراتا ،صحت مند اور گالبی چہرہ۔ وہ چہرہ ِ
تھی۔ زمانے کی ِفکروں سے بےنیاز ،دنیا کی سفاکی سے بے خبر۔ اپنی ہی زندگی میں مست اور خوش
باش۔
اور آج۔۔ صرف گیارہ مہینوں بعد۔ ِاس چہرے کی کیا حالت ہو گئی تھی۔ پیلی رنگت ،آنکھوں کے
گرد گہرے حلقے ،نہ روشنی ،نہ تازگی۔ پریشان ،خستہ حال اور اپنی بربادی کی داستان آپ سناتا چہرہ۔
خشک لبوں میں دبی سسکیاں اور بند آنکھوں کے پیچھے چھپا درد۔
کیا یہ وہی شوال ہے؟
ِ
وہ چہرہ بغور دیکھتے اسرار احمد کے دل نے ا ُن سے سوال کیا۔
’’پاپا! آئی لوسٹ مائی چائلڈ۔‘‘
شوال کے الفاظ ا ُن کے ذیہن میں گونجے۔
) اس کی عمر کی لڑکیاں اپنے ماں باپ کے گھر اپنے نخرے ا ُٹھوا رہی ہوں گی۔ کچھ پڑھ رہی ہوں
گی۔ کچھ اپنی زندگی میں مگن اور کچھ ِدل میں کئی امنگیں اور کچھ کر دکھانے کا جذبہ لئے کسی نہ
کسی میدان میں اپنا نام بنا رہی ہوں گی۔ اور میری بیٹی آج کہاں ہے؟ کِس حال میں ہے؟ کون ہے اس کی
ِاس خستہ حالی کا ذمہدار۔(
اسرار احمد ِدل ہی ِدل میں خود سے سوال کر رہے تھے۔
علیزہ نے خاموشی سے سامنے کے منظر کا مشاہدہ کیا۔ پھر اسرار احمد کو ڈسٹرب کرنا مناسب
نہ سمجھتے ہوئے چپکے سے کمرے سے نکل گئی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
سکینہ بیگم جلے پیروں کی بّلی کی طرح ہال میں ادھر سے ادھر ٹہل رہی تھیں اور بار بار اپنے
دونوں ہاتھوں میں دبوچا ہوا اپنا موبائل فون دیکھ رہی تھیں۔ وجاہت علی ہال میں داخل ہوئے تو وہ بےتابی
سے ان کی طرف لپکیں۔
’’کہاں رہ گئے تھے آپ؟۔۔۔ کچھ پتا چال رجب کا؟‘‘
وجاہت علی نے مایوسی سے سر ہالیا۔
’’نہیں۔۔۔ اس کے سارے دوستوں سے بھی پتا کر چکا ہوں۔ کسی کو بھی اس کی خبر نہیں ہے۔‘‘
وجاہت علی نے مایوسی سے سر ہالیا۔
’’نہیں۔۔۔ اس کے سارے دوستوں سے بھی پتا کر چکا ہوں۔ کسی کو بھی اس کی خبر نہیں ہے۔‘‘
’’اب کیا کریں۔۔۔ کہاں چال گیا وہ؟ اپنا فون بھی آف کر دیا ہے اس نے۔‘‘
سکینہ بیگم کی گھبراہٹ اپنے عروج پہ تھی۔ وہ رونے لگیں۔
’’ہمیں پولیس کی مدد لینی ہو گی۔ میں فون کرتا ہوں۔‘‘ وجاہت علی نے کہا اور ہاتھ میں پکڑے فون
پہ نمبر مالنے لگے۔
ُ
ھی جمائے رونا ضبط کر کے ایک امید کے تحت انھیں دیکھنے لگیں۔ سکینہ بیگم ہونٹوں پہ مٹ ّ
فون نمبر مالتے ہوئے وجاہت علی کی انگلیوں کی گردش ُرک گئی۔ ذیہن میں جھماکا ہوا تھا۔
’’ایک جگہ ہے جہاں وہ جا سکتا ہے اور ہم نے پتا نہیں کیا۔‘‘
وجاہت علی نے کہا۔
سکینہ بیگم نے انتہائی تجسس کے ساتھ انھیں دیکھا۔
’’کہاں؟‘‘ سکینہ بیگم نے سوال کیا۔
وجاہت علی کوئی جواب دینے کی بجائے ایک اور نمبر مالنے لگے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد اپنے ہاتھ پہ سر ڈالے نڈھال سے کرسی پہ بیٹھے تھے۔ نظریں سامنے بستر پہ پڑے
ت گریہ سے لہو رنگ ہو رہی تھیں۔ شوال کے بےسدھ وجود پہ جمی تھیں۔ ا ُن کی آنکھیں شد ِ
عقب میں دروازہ کھال اور علیزہ نے دروازے میں کھڑے کھڑے ہی انھیں پکارا۔
’’پاپا!۔۔۔ کھانا تیار ہے۔‘‘
علیزہ نے قدرے جھجکتے ہوئے دھیمی آواز میں پکار کر کہا۔
’’تم لوگ کھا لو علیزہ!۔۔۔۔۔ مجھے ڈسٹرب مت کرو۔‘‘
وجاہت علی نے علیزہ کی جانب دیکھے بنا کہا۔
علیزہ بنا بحث کئے خاموشی سے دروازہ بند کر کے چلی گئی۔
تب ہی اسرار احمد کی جیب میں رکھا فون وائبریٹ ہونے لگا۔
اسرار احمد نے فون نکال کر دیکھا۔ وجاہت علی کی کال دیکھ کر ا ُن کا چہرہ غصے سے سرخ ہو
گیا۔ کچھ دیر فون کو گھورنے کے بعد انھوں نے کال ایکسیپٹ کر لی۔
’’تم نے مجھے فون کرنے کی جرٴات کیسے کی؟۔‘‘
انھوں نے غّرا کر پوچھا۔
’’ اسرار! تمہارا غصہ اور ناراضگی اپنی جگہ۔ ابھی پلیز مجھے اتنا بتا دو کہ رجب تمہاری طرف
آیا کیا؟‘‘
وجاہت علی نے سب کچھ نظر انداز کرتے ہوئے انتہائی گھبراہٹ کے عالم میں ملتجی لہجے میں
سوال کیا۔
’’نہیں آیا وہ یہاں۔ اور میری بات کان کھول کر سنو۔۔۔ کسی غلط فہمی میں مت رہنا۔ تم لوگوں نے
جو کچھ بھی میرے اور میری بیٹی کے ساتھ کیا ہے۔ میں ضرور اس کا حساب لوں گا۔ اور اپنے بیٹے کو
بچا کر رکھو۔۔۔ اگر وہ ِاس طرف آیا تو میں ا ُسے گولی مار دوں گا۔ یہ میرا وعدہ ہے تم سے۔‘‘
اسرار احمد نے غصے اور سختی سے کہہ کر فون کال کاٹ دی۔
ا ُن کی بلند ،غّراتی آواز سن کر شوال جاگ گئی۔
’’پاپا!‘‘
شوال نے گھبرا کر ا ُنھیں پکارا۔
’’ہاں میری بچی!‘‘
اسرار احمد ا ُٹھ کر بےتابی سے اس کی طرف لپکے۔
شوال اونچی ہو بیٹھی۔ اسرار احمد نے اس کے سامنے بیٹھ کر ا ُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔
اسرار احمد ا ُٹھ کر بےتابی سے اس کی طرف لپکے۔
شوال اونچی ہو بیٹھی۔ اسرار احمد نے اس کے سامنے بیٹھ کر ا ُس کے چہرے پہ ہاتھ پھیرا۔
’’میں یہاں ہوں۔ تمہارے پاس۔۔۔ گھبراؤ نہیں۔‘‘
انھوں نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔ پھر نرمی سے پوچھنے لگے۔
’’پانی دوں تمہیں؟‘‘
شوال نے اثبات میں سر ہال دیا۔
ُ
اسرار احمد ہاتھ بڑھا کر سائیڈ ٹیبل پہ رکھا جگ اٹھا کر گالس میں پانی انڈیلنے لگے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی نے اپنا فون واال ہاتھ ہونٹوں پہ جما رکھا تھا۔ ِدل سوکھے پتے کی طرح لرز رہا تھا۔
سکینہ بیگم الگ سے پریشان اور مضطرب کھڑی تھیں۔
’’ اگر وہ وہاں جا رہا ہوا تو؟۔۔۔ اسرار احمد تو ا ُسے مار دے گا۔‘‘
سکینہ بیگم نے شدید گھبراہٹ کے عالم میں کہا۔
’’میں پولیس کو فون کرتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے ہونٹوں پر سے ہاتھ ہٹا کر کہا۔
کال مالنے کے لئے فون سامنے کیا ہی تھا کہ فون کی بیل بج ا ُٹھی۔ وجاہت علی چونک گئے۔
’’رجب کی کال ہے۔‘‘
وجاہت علی نے بتا کر سکینہ بیگم کو بھی چونکا دیا۔ پھر بےتابی سے کال ایکسیپٹ کر کے فون کان
سے لگایا۔
’’ہیلو رجب!‘‘
’’کیوں؟۔۔۔۔ کیوں کیا آپ نے ایسا؟ کیوں بوال اتنا بڑا جھوٹ؟۔۔۔‘‘
رجب نے چھوٹتے ہی پوچھا۔
وہ ایک مصروف شاہراہ پر گاڑی چال رہا تھا۔
’’رجب! تم کہاں ہو؟۔۔۔ گھر آؤ بیٹا!۔ ہم آرام سے بیٹھ کر بات کریں گے۔‘‘
اس کے سوال نظرانداز کرتے ہوئے وجاہت علی نے بےچینی سے کہا۔
’’میں گھر نہیں آؤں گا۔ مجھے صرف میرے سوال کا جواب چاہیئے۔۔۔ ‘‘
رجب نے سخت لہجے میں کہا۔ پوچھنے لگا۔
’’کیوں کیا آپ نے ایسا؟۔۔۔ کیوں اتنا بڑا کھیل کھیال آپ نے ہماری زندگیوں کے ساتھ؟۔۔۔ ہماری
بربادی کی وجہ صرف اور صرف آپ ہیں۔۔۔ آپ نے مجھے میری محبت کے سامنے شرمندہ کر دیا۔ آپ نے
میرے بچے کی جان لی۔ میرا گھر ٹوٹنے کے ذمہ دار آپ ہیں۔ کیوں کیا آپ نے ایسا۔‘‘
رجب رو رہا تھا۔ چال دہا تھا۔
’’ہر بات کا الزام مجھے مت دو رجب! میں نے کچھ بھی شوق سے نہیں کیا۔ وہ لڑکی تمہیں ایبیوز
کر رہی تھی۔ کھیل رہی تھی تمہاری اور ہماری زندگیوں کے ساتھ۔۔۔ میں نے صرف تمہاری خوشی کی
خاطر وہ جھوٹ بوال تھا۔ میں صرف چاہتا تھا کہ وہ تمہارے اور اپنے رشتے کو قبول کرے۔‘‘
’’آپ سے کس نے کہا کہ وہ میرے اور اپنے رشتے کو قبول نہیں کر رہی تھی۔‘‘
رجب نے تڑخ کر پوچھا۔
’’اندھا نہیں ہوں میں۔۔۔ سب نظر آتا ہے مجھے۔ میں نے خود تمہارا بستر فرش پہ لگا دیکھا تھا۔
ا ُسے کس چیز کی کمی تھی؟ اسرار کی بیٹی ہونے کے باوجود میں نے پوری شان و شوکت کے
ساتھ اپنے بیٹے سے اس کی شادی کروائی۔ اپنے گھر میں رکھا۔ ہر طرح کا آرام دیا۔ کبھی کسی چیز کی
کمی نہیں ہونے دی۔ ہمیشہ ا ُسے بیٹی کہہ کر پکارا۔ اس سب کے بدلے میں وہ کیا دے رہی تھی ہمیں؟۔۔۔
دھوکا تو وہ دے رہی تھی۔ تمہاری زندگی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ تم سے شادی کرنے کے
باوجود وہ تمہارے ساتھ رشتہ نہیں بنا رہی تھی۔ کیسے خاموش رہتا میں؟۔۔۔ آخر میں نے اسے اس گھر
دھوکا تو وہ دے رہی تھی۔ تمہاری زندگی کے ساتھ کھیل رہی تھی۔ تم سے شادی کرنے کے
باوجود وہ تمہارے ساتھ رشتہ نہیں بنا رہی تھی۔ کیسے خاموش رہتا میں؟۔۔۔ آخر میں نے اسے اس گھر
میں رکھا ہوا کیوں تھا؟‘‘
غصے میں وجاہت علی جو منہ میں آیا بکتے چلے گئے۔
’’ایکسکیوز می۔۔۔‘‘
رجب ان کے آخری الفاظ سن کر اچھل پڑا۔
’’آپ کس کے بارے اتنے گھٹیا انداز میں بات کر رہے ہیں؟۔۔۔ ’گھر میں رکھا ہوا‘ سے کیا مطلب ہے
آپ کا؟۔۔۔ آپ نے کیوں ’رکھا‘ ہوا تھا اسے گھر میں؟۔۔۔ ُمجھے خوش کرنے کے لئے رکھا ہوا تھا؟۔۔۔‘‘
اس کے تو تلوؤں میں لگی سر پہ بجھی تھی۔
ج سے’’میری بیوی کو ایسی گالی کیسے دی آپ نے؟۔۔۔۔ وہ میری بیوی ہے ،کوئی وحشیہ نہیں ِ
مجھے خوش کرنے کے لئے آپ نے’رکھا‘ ہوا تھا۔‘‘
’’دیکھو رجب!۔۔۔ میرا وہ مطلب نہیں تھا۔۔۔ میں۔‘‘
رجب کو طیش میں آتا دیکھ کر وجاہت علی گھبرا گئے۔
’’کیا مطلب تھا آپ کا؟‘‘ رجب چالیا۔
’’آپ نے خود کیا کیا تھا اس کے ساتھ؟
ایک انجان آدمی ا ُسے اس کی شادی پر سے ا ُٹھا الیا۔ ال کر اپنے ا ُس بیٹے سے شادی کرنے پہ
جسے وہ جانتی تک نہیں تھی۔۔۔۔ یوں ا ُسے ِکڈنیپ کر کے گن پوئینٹ پہ شادی کروانے کے بعد مجبور کیا ِ
آپ اس سے یہ ا ُمید کرتے ہیں کہ اگلے روز وہ آپ کی پوجا کر رہی ہوتی؟۔۔۔ ا ُس کی نظر میں ہماری امیج
ہی کیا تھی جو وہ ہمیں کوئی عزت دیتی یا ہم سے کوئی رشتہ جوڑتی؟۔۔۔۔
ی خاندانی خون ہونے کی وہ ہمیں قبول نہیں کر رہی تھی تو یہ اس کے مضبوط کردار اور ایک اعل ٰ
دلیل تھی۔ ورنہ اس کی جگہ کوئی اور لڑکی ہوتی تو وہ مجھے لے کر آپ لوگوں سے الگ ہو جاتی۔ لیکن
اس نے ایسا کبھی نہیں کیا۔
اور اس سے دور رہنے کا فیصلہ میرا تھا۔ اس کے ساتھ کوئی بھی رشتہ جوڑنے سے پہلے میں
اپنی محبت اور اپنے خلوص کے ذریعے ہمارے بارے میں اس کی رائے بدلنا چاہتا تھا۔ ا ُسے ایک بار ہماری
شرافت کا یقین ہو جاتا تو پھر وہ خود ہی ہم سب کو قبول کر لیتی۔‘‘
’’ہوں۔‘‘ وجاہت علی تمسخرانہ مسکرائے۔
’’تمہیں لگتا ہے کہ کبھی تمہاری زندگی میں وہ وقت آتا جب وہ تمہاری محبت اور شرافت دیکھ کر
تمہیں قبول کر لیتی؟۔۔۔ وہ اسرار احمد کی بیٹی ہے۔ ٹوٹ سکتی ہے لیکن ُجھک نہیں سکتی۔ ‘‘
’’ِاسی لئے آپ نے ا ُسے توڑ دیا۔ ہاں!؟‘‘
رجب نے برجستہ کہا۔ پوچھنے لگا۔
’’خوشی مل گئی ہوگی آپ کو اسے توڑ کر؟۔۔۔ تین مہینے وہ لڑکی آپ کی آنکھوں کے سامنے تڑپتی
رہی۔ کچھ کھاتی تھی نہ پیتی تھی۔ پریشان رہ رہ کر موت کے منہ میں چلی گئی تھی وہ۔
اس سے تو بہت شکایتیں ہیں آپ کو۔ کبھی اس کی اذیتوں کے بارے میں بھی سوچا ہے جو آپ نے
اس کی زندگی میں بھری ہیں؟۔۔۔۔ یہ سب کر کے ِکسے فائدہ پہنچایا ہے آپ نے؟ آپ کے اس گندے کھیل
کے نتیجے میں اپنا پہال بچہ تک کھو دیا میں نے۔‘‘
’’بس رجب!۔۔۔ سارا قصور میرا نہیں ہے۔ اگر اس کا باپ بےجا ضد نہ کرتا تو ایسے حاالت کبھی
پیدا نہ ہوتے۔ تم گواہ ہو کہ میں خود چل کر گیا تھا اس گھٹیا آدمی سے رشتہ مانگنے۔ لیکن ا ُس نے
مجھے ذلیل کر کے واپس بھیجا تھا۔ یہ جو کچھ بھی ہو رہا ہے اس کا سب سے پہال ذمہدار اسرار احمد
ہے۔ اور پھر اس کی بیٹی ہے۔ میں نے جو بھی کیا ،ا ُن کے ہی پیدا کئے ہوئے حاالت میں مجبور ہو کر
کیا۔‘‘
وجاہت علی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا دفع کرتے ہوئے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔
’’جی ہاں۔۔۔ ساری دنیا قصوروار ہے اور صرف آپ بےقصور ہیں۔ آج سے بتیس ) (32سال پہلے
وجاہت علی ڈھٹائی کے ساتھ اپنا دفع کرتے ہوئے کوئی بھی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار نہیں تھے۔
’’جی ہاں۔۔۔ ساری دنیا قصوروار ہے اور صرف آپ بےقصور ہیں۔ آج سے بتیس ) (32سال پہلے
جو آپ نے اپنے دوست کی چاہت پہ شب خون مارا تھا۔ اس کا ذمہ دار بھی اسرار احمد ہے۔ آپ تب بھی
بےقصور تھے۔‘‘
رجب نے جل کر تن ّفر اور طنز کے ساتھ کہا۔
وجاہت علی کا چہرہ تپ کر تانبا ہو گیا۔
’’میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ ہمارا رشتہ ابّو اور چچا کا فیصلہ تھا۔‘‘
وجاہت علی نے تیز آواز میں کہا۔
’’جی ہاں۔۔۔ جیسے میں تو آپ کو جانتا ہی نہیں۔‘‘ رجب نے پھر طنز کیا۔ بوال۔
’’آپ جیسے ہمیشہ ہی معصوم اور بے گناہ رہے ہیں۔ میرے مرنے کے بعد بھی ویسے ہی معصوم اور
بےگناہ رہیئے گا۔ اور یہی کہیئے گا کہ میری موت کے ذمہ دار بھی اسرار احمد اور اس کی بیٹی ہیں۔ آپ
بس اپنی معصومیت اور بےگناہی کے ساتھ خوش رہیں۔ خداحافظ۔‘‘
’’رجب!۔۔۔ رجب!۔۔۔ رجب!۔۔‘‘
رجب کے تیور وجاہت علی کو ڈرا گئے۔ ا ُس کے طنز نظرانداز کرتے ہوئے وہ ا ُسے پکارتے رہ گئے۔ مگر
اس نے ایک نہ سنی۔اپنی بات مکمل کرکے اس نے بنا کال کاٹے فون پسنجر سیٹ پہ پٹخ دیا اور شدید
غصے اور جنون کی حالت میں گاڑی کا ایکسلیٹر دبا دیا۔
آنا ً فانا ً اس کی گاڑی آگے چلتے ٹرالر کے نیچے گھس گئی۔
’’رجب!‘‘
وجاہت علی کے حلق سے ایک فلک شگاف چیخ نکلی۔
فون پہ اب صرف گاڑیوں کے ٹکرانے اور دھماکوں کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
صبح کا وقت تھا۔ علیزہ ،عمران اور اسرار احمد ہال میں بیٹھے تھے۔
’’پاپا! ا ُس وقت تو آپ نے شوال کی وجہ سے کچھ نہیں کیا تھا۔ آپ نے کہا تھا کہ اگر ہم اسے
پریشان کریں گے تو وہ بدلے میں شوال کو پریشان کریگا۔ لیکن ہمارے کچھ نہ کرنے کے باوجود بھی
دیکھیں اس آدمی نے ہماری بہن کے ساتھ کیا ِکیا!۔۔ اور اب تو شوال بھی ہمارے پاس ہے۔ اب ہمیں ا ُس
کے کئے کا بدلہ چکانا چاہیئے۔‘‘
عمران جذباتی ہوا اپنے باپ سے کہہ رہا تھا۔
’’تم ٹھیک کہتے ہو۔ وجاہت نے حد کر دی ہے۔ وہ اتنا ِگر جائے گا میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتا
تھا۔‘‘
اسرار احمد نے کامران کی تائید کرتے ہوئے کہا۔ نفرت اور حقارت سے بولے۔
’’کمینہ انسان۔۔۔۔ اختیار ہاتھ میں آتے ہی اپنے آپ کو خدا سمجھ لیتا ہے۔‘‘
اسرار احمد کی بات جاری تھی کہ کامران باہر سے تیز تیز چلتا اندر آیا۔ ا ُسے دیکھتے ہی علیزہ
نے سوال کیا۔
’’بچے وقت پہ سکول پہنچ گئے؟‘‘
’’ہاں انھیں پہنچا دیا۔‘‘
کامران نے عجلت میں جواب دیا اور اسرار احمد اور عمران کی طرف دیکھا۔
’’آپ لوگوں کو پتا ہے؟ کل رات رجب کا ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔!‘‘
کامران نے اطالع دینے کے انداز میں سوال کیا۔
علیزہ ،عمران اور اسرار احمد تینوں اپنی اپنی جگہ اچھل پڑے۔
’’کیا؟۔۔۔ تم سے کس نے کہا؟‘‘
اسرار احمد نے پوچھا۔
’’کیا؟۔۔۔ تم سے کس نے کہا؟‘‘
اسرار احمد نے پوچھا۔
’’باہر سب لوگ یہی باتیں کر رہے ہیں۔ آپ نے اخبار نہیں دیکھا کیا؟‘‘
کامران نے بتایا اور پوچھا۔
عمران نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل پہ رکھا اخبار اچک لیا۔
’’ہمیں اپنی پڑی ہوئی ہے اخبار کا کِس کو ہوش ہے۔‘‘
اسرار احمد نے بڑبڑانے کے انداز میں کہا۔
کامران عمران کے برابر آ بیٹھا۔
’’سنا ہے کافی سیریس ایکسیڈنٹ ہوا ہے۔‘‘
کامران نے اخبار دیکھنے کی غرض سے عمران کی طرف جھکتے ہوئے کہا۔
’’وہ زندہ بھی بچا ہے یا نہیں؟‘‘
تشویش کے ساتھ پوچھتے ہوئے اسرار احمد بھی اخبار کی طرف جھک آئے۔ علیزہ بھی اخبار
دیکھنے کی غرض سے ا ُٹھ کر ا ُن کے صوفے کے پیچھے آ کھڑی ہوئی۔
’’کچھ پتا نہیں۔ ایسی کوئی بات نہیں سنی میں نے۔‘‘
کامران نے اخبار پر سے نظریں ہٹائے بنا باپ کو جواب دیا۔
’’یہ رہی خبر۔‘‘
عمران نے باآلخر اخبار میں اس کی خبر تالش کر لی۔ وہ چاروں بے تابی سے خبر پڑھنے لگے۔
’’یہاں تو لکھا ہے کہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ بچ گیا ہو گا۔ ورنہ اب تک مجھے کہیں نہ کہیں
سے اطالع پہنچ جاتی۔‘‘
اسرار احمد کے بےچین ِدل کو تھوڑا سکون ِمال۔
’’ابھی تک تو بچا ہوگا لیکن بچ جائے گا اس کا امکان نظر نہیں آ رہا۔ گاڑی کی حالت تو دیکھیئے۔
جب گاڑی کا یہ حال ہے تو خود اس کا کیا حال ہوا ہوگا؟‘‘
کامران نے پریشانی اور تشویش سے کہا۔
اخبار میں چھپی تصویر دیکھ کر کامران کے رونگٹے کھڑے ہو گئے تھے۔
’’ہاں۔ یہاں بھی لکھا ہے کہ ا ُس کی حالت تشویش ناک ہے۔‘‘
عمران نے کہا۔ وہ بھی خوفزدہ تھا۔ پھر اسرار احمد کی طرف دیکھا۔
’’ابھی کیا حالت ہو گی ا ُس کی؟‘‘
اسرار احمد چہرے پہ گھمبیرتا لئے منہ پہ ہاتھ جمائے بیٹھے تھے۔ عمران کے سوال پہ انھوں نے
کوئی جواب نہ دیا۔
’’اب کیا ہوگا پاپا!؟ اگر وہ مر گیا تو؟۔۔۔ شوال آل ریڈی اتنا کچھ سہہ چکی ہے۔ اب یہ کیسے
برداشت کرے گی؟‘‘
کامران نے اپنی ِفکر مندی ظاہر کرتے ہوئے باپ سے رائے طلب کی۔
اسرار احمد نے منہ پر سے ہاتھ ہٹا کر کامران کو دیکھا۔ پھر اخبار پہ نظریں جمائے بیٹھے عمران
کو۔
’’عمران! ‘‘
عمران نے اخبار سے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ کامران تو پہلے سے ان کی طرف متوجہ تھا۔ لہٰذا
دونوں کو مخاطب کر کے بولے۔
’’ابھی اسپتال چلو۔ ہمیں اس کی خبر لینی ہو گی۔‘‘
اسرار احمد کہتے ہوئے ا ُٹھے۔ ان کی نظر صوفے کی پیچھے کھڑی علیزہ پہ پڑی۔
’’علیزہ! شوال کو اس حادثے کے بارے میں کچھ پتا نہیں چلنا چاہیئے۔ جب مناسب ہو گا تو میں
خود ا ُسے بتا دوں گا۔ ابھی ا ُسے یہی بتانا کہ ہم آفس گئے ہیں۔ ہو سکے تو کنزہ کو بھی بال لو۔ دونوں
بہنیں ِمل کر ا ُس کی ِدلجوئی کرو گی تو وہ بہتر محسوس کرے گی۔ اور مجھے ا ُس کی حالت سے آگاہ
خود ا ُسے بتا دوں گا۔ ابھی ا ُسے یہی بتانا کہ ہم آفس گئے ہیں۔ ہو سکے تو کنزہ کو بھی بال لو۔ دونوں
بہنیں ِمل کر ا ُس کی ِدلجوئی کرو گی تو وہ بہتر محسوس کرے گی۔ اور مجھے ا ُس کی حالت سے آگاہ
رکھنا۔‘‘
’’ٹھیک ہے پاپا! شوال کی طرف سے آپ بےفکر رہیئے۔ ا ُس کا خیال رکھنا میری ذمہ داری ہے۔‘‘
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی اور سکینہ بیگم آپریشن تھیٹر کے باہر بینچ پہ بیٹھے تھے۔ سکینہ بیگم نے نڈھال ہو کر
وجاہت علی کے کندھے پہ اپنا سر ڈال رکھا تھا۔ وجاہت علی کا چہرہ لٹھے کی مانند سفید ہوا پڑا تھا۔ وہ
خوفِ ،فکر ،پریشانی اور کرب کی انتہاٴوں سے گزر رہے تھے۔
اسرار احمد اپنے دونوں بیٹوں کے ہمراہ وہاں پہنچے۔
’’وجاہت!۔‘‘
قریب آ کر انھوں نے دھیرے سے پکارا۔
وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
سکینہ بیگم بھی وجاہت علی کے کندھے سے سر ا ُٹھا کر سیدھی ہو بیٹھیں۔ اسرار احمد کی آمد
ا ُن دونوں کے لئے بالکل غیرمتوقع تھی۔
اگلے ہی پل وجاہت علی کی حیرت غصے میں بدل گئی۔
’’کیا لینے آئے ہو یہاں؟۔۔۔ میرے بیٹے کو موت کے منہ میں پہنچا کر سکون نہیں ِمال تمہیں جو یہاں
چلے آئے ہو ہماری بربادی کا نظارہ کرنے؟‘‘
وجاہت علی اسرار احمد پہ چالنے لگے۔
اسرار احمد ا ُن کے الفاظ سن کر حیران نہ ہوئے۔ انھیں جیسے ایسے رِدعمل کی پہلے سے توقع
تھی۔ نظرانداز کرتے ہوئے نرمی سے بولے۔
’’مجھے اخبار سے اس حادثے کا پتا چال تو رہا نہیں گیا۔ اب کیسا ہے رجب!؟‘‘
’’مر رہا ہے وہ۔۔۔ لیکن یہ مت سمجھنا کہ میں تمہیں چھوڑ دوں گا۔ میرے بیٹے کو کچھ ہوا تو میں
جان لے لوں گا تمہاری۔‘‘
وجاہت علی کا غصہ اور لہجے کی تلخی کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔
’’آپ پاپا سے ِاس طرح سے بات کیوں کر رہے ہیں؟۔۔۔ ِاس حادثے کا ہم سے کیا تعلق؟‘‘
جذباتی عمران خاموش نہ رہ سکا۔
وجاہت علی طیش میں آ کر ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’تمہارے باپ کا کوئی تعلق نہیں؟ میرے بیٹے کی بربادی کی وجہ صرف تمہارا باپ ہے۔ اگر یہ
شوال کو لے کر نہ جاتا تو یہ حادثہ نہ ہوتا۔‘‘
’’میرے اهلل۔‘‘
اسرار احمد وجاہت علی کی کمینگی پہ جل گئے۔
’’میں سب لڑائی جھگڑے اور اختالفات ایک طرف رکھ کر یہاں آیا تھا تو صرف انسانی ہمدردی کے
ناطے۔۔۔ کیونکہ اوالد کا ُدکھ کیا ہوتا ہے۔ ِاس کا احساس مجھے کل ہی بہت اچھی طرح سے ہوا ہے جب
میں اسی اسپتال سے اپنی بیٹی کے ٹکڑے سمیٹ کر لے کر گیا تھا۔
تم نے میری بیٹی کی جو حالت کی ہے۔ ا ُس کے بعد میں تم لوگوں کی شکل تک دیکھنے کا روادار
نہیں تھا۔ پھر بھی میں تمہارا دکھ بانٹنے چال آیا۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس وقت بھی تمہاری کمینگی،
تم نے میری بیٹی کی جو حالت کی ہے۔ ا ُس کے بعد میں تم لوگوں کی شکل تک دیکھنے کا روادار
نہیں تھا۔ پھر بھی میں تمہارا دکھ بانٹنے چال آیا۔۔۔ لیکن افسوس کہ اس وقت بھی تمہاری کمینگی،
تمہاری اوالد کے دکھ پہ حاوی ہے۔‘‘
اسرار احمد نے دبی مگر سخت آواز میں کہہ کر وہاں سے جانے کا ارادہ کیا۔
تب ہی آپریشن تھیٹر سے ڈاکٹر صاحب باہر آئے۔ ڈاکٹر کو دیکھ کر اسرار احمد ُرک گئے۔ سکینہ
بیگم بھی ا ُٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’مبارک ہو۔ دوسرا آپریشن بھی سکسیس ُفل رہا ہے۔ ‘‘
ِ
ڈاکٹر نے بطوِرخاص کسی کو بھی مخاطب کئے بنا خوش دلی سے مبارک باد دی۔
’’اهلل تیرا شکر!‘‘
سکینہ بیگم اور وجاہت علی ،دونوں نے خوش ہو کر باآواز بلند اهلل کا شکر ادا کیا۔
اسرار احمد نے بھی چین کی سانس لی۔
’’ابھی کیسی حالت ہے ا ُس کی؟۔۔ وہ ٹھیک تو ہو جائے گا ناں!؟‘‘ اسرار احمد نے آگے بڑھ کر
فکرمندی کے ساتھ ڈاکٹر سے سوال کیا۔
’’انشا اهلل۔ انشااهلل۔۔۔ ہم بہت ُپر ا ُمید ہیں۔ لیکن ابھی کوئی حتمی جواب نہیں دے سکتے۔ کیونکہ
ابھی ایک اور آپریشن کرنا باقی ہے۔ وہ بھی کامیابی سے ہوجائے تو پھر انشااهلل کوئی مسلۂ نہیں۔‘‘
ڈاکٹر صاحب جواب دے کر اسرار احمد کا کندھا تھپتھپاتے آگے بڑھ گئے۔
ڈاکٹر کے جواب سے جہاں اسرار احمد کے ِدل کو تسلی ہوئی وہیں انھیں رجب کی حالت کی
سنگینی کا بھی اندازہ ہوا۔ اب وہ جانے کے ارادے سے ُمڑے تو نظر سکینہ بیگم پہ پڑی۔ سکینہ بیگم نے
بھی ا ُسی آن ان کی جانب دیکھا۔ پل دو پل خاموشی سے دونوں ایک دوسرے کو دیکھتے رہے۔ پھر اسرار
احمد نے گہرا سانس کھینچا۔
بولے تو لہجے میں ہچکچاہٹ تھی۔
’’ چلتا ہوں۔ اهلل تمہارے بیٹے کو صحت دے۔‘‘
کہہ کر انھوں نے قدم آگے بڑھایا۔
’’اسرار!‘‘
سکینہ بیگم نے جلدی سے آواز دے کر انھیں روک لیا۔
اسرار احمد نے انھیں سوالیہ نظروں سے دیکھا۔
’’شوال کیسی ہے؟۔۔۔۔ ا ُسے بتایا رجب کے بارے میں؟۔۔۔ رجب کو ہوش آ جائے تو پلیز ا ُسے بھی لے
آنا۔‘‘
سکینہ بیگم نے ہچکچاہٹ کے ساتھ بات شروع کی اور آخر تک ا ُن کا لہجہ ملتجی ہو گیا۔
اسرار احمد کے چہرے پہ سختی در آئی۔ اپنی پوری کھلی آنکھیں سکینہ بیگم کے چہرے پہ جما
کر سخت لہجے میں بولے۔
ِ
’’شوال کو کچھ نہیں بتایا میں نے۔ نہ ہی وہ دوبارہ کبھی آپ لوگوں میں سے کسی سے ملے گی۔
رجب کے ساتھ یہ حادثہ پیش آیا ہے تو ِاس کا مطلب یہ نہیں کہ شوال کے ساتھ کی گیئیں آپ کی
تمام زیادتیاں ِمٹ گیئیں۔‘‘
’’نہیں۔ خدا گواہ ہے کہ میں نے شوال کے ساتھ کبھی کوئی زیادتی نہیں کی۔ ہمیشہ ا ُسے اپنی
بیٹی سمجھا ہے۔ اور رجب تو۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم بےچین ہو کر صفائیاں پیش کر رہی تھیں کہ اسرار احمد نے ا ُن کی بات کاٹ دی۔
’’مجھے ِاس بات سے کوئی مطلب نہیں کہ کون اس کے ساتھ کیسا سلوک کرتا رہا ہے۔ میرے لئے
اہمیت اس بات کی ہے کہ میری بیٹی ِکن تکالیف سے گزری ہے۔۔۔
میں نے تو اس کے ساتھ کی گئی ایک ایک زیادتی کا بدلہ لینے کی قسم کھا لی تھی۔ لیکن ِاس
حادثے کے بعد میں نے صرف اس لئے اپنا ارادہ بدل دیا ہے کیونکہ میں ظاملین میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔
آپ لوگ اتنے پہ ہی خیر مناؤ۔ اس سے مزید کی کوئی ا ُمید مت رکھنا مجھ سے۔‘‘
حادثے کے بعد میں نے صرف اس لئے اپنا ارادہ بدل دیا ہے کیونکہ میں ظاملین میں شامل نہیں ہونا چاہتا۔
آپ لوگ اتنے پہ ہی خیر مناؤ۔ اس سے مزید کی کوئی ا ُمید مت رکھنا مجھ سے۔‘‘
اسرار احمد سنا کر آگے بڑھ گئے۔ اب کے انھوں نے سکینہ بیگم کو کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں
دیا اور عمران اور کامران کو ہمراہ لئے تیز تیز ڈگ بھرتے وہاں سے چلے گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اس شام اسرار احمد الن میں بیٹھے اخبار پڑھ رہے تھے جب علیزہ ا ُن کے پاس آ بیٹھی۔
سنجیدگی کے ساتھ بولی۔
’’پاپا! میں آپ سے شوال کے بارے میں کچھ بات کرنا چاہتی ہوں۔‘‘
’’ہاں بولو۔‘‘
اسرار احمد نے حوصلہ افزا انداز میں اجازت دی۔ اخبار ایک طرف رکھ کر پوری طرح ا ُس کی
طرف متوجہ ہو گئے۔
’’شوال۔۔۔۔‘‘
علیزہ نے ُپرسوچ انداز میں بات کا آغاز کیا۔
بولی۔
’’مجھے ا ُس کی صورتحال سے خاصی تشویش ہو رہی ہے۔ ایک مہینہ گزر چکا ہے اور وہ ابھی
تک صدمے کی کیفیت میں ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے وہ ِاس صدمے سے باہر نہیں نکلنا چاہتی۔
ہر وقت خاموش اور تنہا رہتی ہے۔ کسی سے بات نہیں کرتی۔ کسی کو اپنے کمرے میں رکنے نہیں
دیتی۔ قمر اور کنزہ سے ا ُس کی کتنی دوستی تھی۔۔۔۔۔ لیکن اب وہ قمر کو اپنے پاس بیٹھنے بھی نہیں
دیتی۔ کل بھی کنزہ شوال سے ملنے آئی تھی اور شوال نے اس سے ملنے سے منع کر دیا۔ کہتی ہے کہ
’مجھے پریشانی ہوتی ہے۔ میں تنہا رہنا چاہتی ہوں۔‘
ایسا کب تک چلے گا پاپا!؟ اس طرح تو وہ اپنے آپ کو ختم کر لے گی۔‘‘
اسرار احمد علیزہ کو پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ وہ بول چکی تو اسرار احمد ا ُس کی بات پہ
غور کرتے ہوئے بولے۔
’’ہوں۔۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو۔۔۔ میں ا ُس سے بات کروں گا۔‘‘
’’ ایک بات اور ہے پاپا!۔‘‘
شوال کی طرف سے تسلی ہو گئی تو علیزہ دوسرے موضوع پہ آئی۔
اسرار احمد نے سوالیہ نظروں سے ا ُسے دیکھا۔
’’کل میری امی سے بات ہوئی تھی۔ شوال کے ساتھ جو ہوا۔۔۔ اور ا ُس کے بعد سے جو اس کی
حالت ہے۔ اس کے مِدنظر وہ کہہ رہی تھیں کہ ابھی کوئی شادی ،فنکشن کرنا مناسب نہیں لگتا۔ ِاس لئے
اگر آپ چاہیں تو عمران اور کنزہ کی شادی کی تاریخ آگے بڑھا دی جائے۔‘‘
’’نہیں۔۔۔ ِاس کی کوئی ضرورت نہیں۔ ‘‘
اسرار احمد نے فورا ً منع کیا۔ بولے۔
’’کنزہ اور عمران کی شادی اگلے ماہ ہی ہوگی۔ اور شوال کی فکر مت کرو۔ میں بات کروں گا ا ُس
سے۔‘‘
اسرار احمد نے کہا تو علیزہ مطمعین ہو گئی۔
اسرار احمد گہری سوچ میں ڈوب گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
شوال اپنے کمرے میں دریچے کے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھی تھی۔ کرسی کی پشت پہ سر ڈالے
ا ُجڑی ویران نگاہیں شیشے کے اس پار کسی غیر مرئی نقطے پہ مرکوز تھیں۔
شوال اپنے کمرے میں دریچے کے سامنے رکھی کرسی پہ بیٹھی تھی۔ کرسی کی پشت پہ سر ڈالے
ا ُجڑی ویران نگاہیں شیشے کے اس پار کسی غیر مرئی نقطے پہ مرکوز تھیں۔
اسرار احمد اس کے کمرے کا دروازہ کھول کر اندر آئے۔
آہٹ پہ اس نے کوئی رِدعمل ظاہر نہ کیا۔ اسرار احمد چلتے ہوئے اس کے قریب آ کھڑے ہوئے۔
’’شوال!‘‘ انھوں نے دھیرے سے پکارا۔
شوال نے نگاہوں کا زاویہ بدل کر انھیں دیکھا۔ پھر جیسے چونک کر ا ُٹھنے لگی۔
’’پاپا! آپ؟‘‘
’’بیٹھی رہو۔ بیٹھی رہو۔‘‘
اسرار احمد کہتے ہوئے قریب رکھے ُفٹ سٹول پہ ِٹک گئے۔شوال نے واپس ٹیک لگا لی۔
’’کیسی ہے میری بیٹی؟‘‘
اسرار احمد نے شفقت اور محبت سے پوچھا۔
’’ٹھیک ہوں۔‘‘
مری سی آواز میں ا ُس نے جیسے سرگوشی کی۔
’’یہاں اکیلی کیوں بیٹھی ہو؟۔۔ باہر چل کر بیٹھو۔ کتنا اچھا موسم ہے باہر۔‘‘
اسرار احمد نے ا ُسے تحریک دینی چاہی۔
’’میرا ِدل نہیں چاہ رہا۔‘‘
دھیمی آواز میں ا ُس نے کہا۔
چہرے اور آنکھوں کی طرح آواز میں بھی ویرانی اور ا ُداسی تھی۔
اسرار احمد ا ُس کی ا ُجڑی ہوئی صورت دیکھنے لگے۔ وہ ا ُنھیں نہیں دیکھ رہی تھی۔ بلکہ نگاہیں
باہر خالء میں جمی تھیں۔
ُ
کچھ دیر اسے بغور دیکھنے کے بعد اسرار احمد نے اس کا گود میں رکھا ہاتھ دھیرے سے اٹھا کر
اپنے ہاتھوں میں تھام لیا۔
نرمی سے گویا ہوئے۔
’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ تم اس وقت ِکس مینٹل کرائسس سے گزر رہی ہو۔ تمہارے ساتھ جو ہوا
ا ُسے قبول کرنا آسان نہیں۔ وہ بھی تمہاری عمر کی بچی کے لئے۔ I know how hard it is.۔ ‘‘
نرم آواز میں ٹھہر ٹھہر کر بولتے ہوئے انھوں نے توقف کیا۔
شوال نے اپنا انداِز نشست بدال تھا نہ اپنی نظروں کا زاویہ۔ خالء میں دیکھتے ہوئے ایک آنسو
چپکے سے ا ُس کی آنکھ سے نکال اور گال پہ بہنے لگا۔
اسرار احمد ا ُس کی کیفیت دیکھ کر اندر سے کٹ کر رہ گئے۔ سنبھل کر ا ُسی نرم آواز میں بولے۔
’’جب میں تمہاری عمر میں تھا تو مجھے بھی زندگی کے اتار چڑھاؤ سے ایسے ہی لگتا تھا کہ
This is the end of the world.۔۔۔۔
ُ
لیکن آج پیچھے ُمڑ کر دیکھتا ہوں تو وہ واقعات بہت معمولی لگتے ہیں۔ آج ان پریشانیوں کو یاد کر
کے مسکرا دیتا ہوں۔ سوچتا ہوں کہ جس چیز کو میں اینڈ آف دی ورلڈ سمجھتا تھا وہ تو زندگی کے وہ
جن سے ہر انسان گزرتا ہے۔‘‘ معمولی واقعات ہیں ِ
اسرار احمد اپنی پریشانیاں یاد کر کے اب بھی ہلکا سا مسکرا دیئے۔
شوال نے نگاہوں کا زاویہ بدل کر اسرار احمد کو دیکھا۔ ا ُس کے چہرے اور آنکھوں کی ویرانی اور
ا ُداسی میں کوئی فرق نہیں آیا تھا۔ وہ بس انھیں دیکھ رہی تھی۔ اسرار احمد کا حوصلہ بڑھانے کےلئے
اتنا بھی کافی تھا۔
’’ذرا اپنے سکول کے دن یاد کرو۔ جب سکول میں کسی بچے کے ساتھ جھگڑا ہو جاتا تھا۔۔۔ ٹیسٹ
میں کوئی سوال نہیں آتا تھا۔ یا کوئی اور مسلۂ کھڑا ہو جاتا تھا۔ تم اور تمہارے ساتھ کے باقی بچوں کو
یہ مصیبتیں کتنی بڑی لگتی تھیں ا ُس وقت!
ایسے لگتا تھا جیسے زندگی یہیں پہ ختم ہے۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ ایسا ہی تھا ناں!؟‘‘
انھوں نے تائید چاہی۔
ایسے لگتا تھا جیسے زندگی یہیں پہ ختم ہے۔۔۔۔ کیوں؟۔۔۔ ایسا ہی تھا ناں!؟‘‘
انھوں نے تائید چاہی۔
شوال اب بھی انھیں ا ُسی طرح خاموشی سے دیکھتی رہی۔
وہ مزید گویا ہوئے۔
ھی ا ُڑانے جیسی معمولی لگتی ہیں۔‘‘ ’’لیکن آج جب وہ وقت یاد کرتی ہو تو وہ مشکلیں مک ّ
ھی ا ُڑانے جیسا معمولی نہیں ہے۔ ‘‘ ’’لیکن اب جو میرے ساتھ ہوا ہے۔ وہ مک ّ
صہ لیتے ہوئے رندھی ہوئی آوازمیں کہا۔ باآلخر شوال نے ان کی گفتگو میں ح ّ
ھی ا ُڑانے جیسا معمولی نہیں ہے۔ لیکن اتنا بڑا بھی نہیں کہ ’’بے شک۔۔۔ میں مانتا ہوں کہ یہ مک ّ
تمہاری آگے کی ساری زندگی پہ محیط ہو جائے۔‘‘
انھوں نے برجستہ کہا۔
پھر سمجھانے کے انداز میں ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولے۔
’’تم آج زندگی کے جن مراحل سے گزر رہی ہو۔ میں ان مراحل سے گزر کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ جو
بھی کہہ رہا ہوں اپنے تجربے کی روشنی میں کہہ رہا ہوں۔۔۔ زندگی کا کوئی بھی حادثہ یا نقصان ،زندگی
جس نے زندگی کے نشیب و فراز نہ دیکھے سے بڑا نہیں ہوتا۔ اور اس دنیا میں کوئی بھی ایسا نہیں آیا ِ
ہوں۔۔۔۔۔
زندگی ِاک جدوجہِد مسلسل کا نام ہے۔ آزمائش در آزمائش کا نام۔۔۔
ہر انسان کی زندگی میں مصائب اور مشکالت مختلف شکل میں آتے ہیں۔ لیکن آتے ضرور ہیں۔ وقت
سدا ایک سا نہیں رہتا۔ اور یہ تو شروعات ہے۔ اگر تم شروع میں ہی ِاس طرح ایک حادثے کو ِدل سے لگا لو
گی تو آگے آنے والی مشکالت کا سامنا کیسے کرو گی؟‘‘
شوال اب بھی خاموشی سے انھیں دیکھ رہی تھی۔ ا ُس کی آنکھوں میں بےچینی تھی۔
اسرار احمد نے توقف کیا۔ پھر ا ُس کا ہاتھ دھیرے سے دباتے ہوئے بولے۔
’’زندگی ایسے نہیں گزاری جا سکتی جیسےتم گزارنا چاہتی ہو شوال!۔ ہم اپنی زندگی میں پیش
آنے والی مشکالت کو ٹال نہیں سکتے۔ لیکن اهلل نے ہمیں عقل دی ہے۔ اختیار دیا ہے۔ یہ ہم پہ چھوڑا ہے کہ
ہم مشکل حاالت کا سامنا کیسے کرتے ہیں۔۔۔۔
جو لوگ ہوش مندی سے ،عقل اور جرٴات مندی سے زندگی کی مشکالت کا مقابلہ کرتے ہیں۔ وہ لوگ
ہمیشہ خوش رہتے ہیں اور ایک کامیاب زندگی گزارتے ہیں۔ جب وہ ایک مشکل کا مقابلہ کر کے ا ُسے ہرا
دیتے ہیں۔ تب وہ یہ نہیں سوچتے کہ اب زندگی میں کبھی کوئی پریشانی نہیں آئے گی۔۔۔۔ وہ جانتے ہیں
کہ کل کو کوئی اور مصیبت آئے گی جو ِاس سے بھی بڑی ہوگی۔ لیکن اس سے ان کے حوصلے پست نہیں
ہوتے۔۔۔ کیونکہ انھیں اپنی عقل پہ بھروسہ ہوتا ہے۔۔۔۔وہ زندگی میں پیش آئی ہر مصیبت سے لڑتے ہیں۔
ا ُسے ہراتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
یہ سچ ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ زندہ نہیں رہتے۔ ایک ِدن مر بھی جاتے ہیں۔ لیکن جب یہ زندگی میں
پیچھے ُمڑ کر دیکھتے ہیں تو ا ُنھیں اپنی زندگی سے یا اپنے رب سے کوئی شکواہ نہیں ہوتا۔ بلکہ ا ُنھیں
خود پہ فخر محسوس ہوتا ہے۔ یہ لوگ ونرز ) (winnersہوتے ہیں۔
اور لوگوں کی ایک وہ قسم ہے جو ذرا سی تیز ہوا چلتی ہے تو وہیں پہ لیٹ جاتے ہیں۔ زنگی کی ہر
مشکل ،ہر مصیبت ،ہر امتحان انھیں اپنی ہمت اور عقل سے بڑا لگتا ہے۔ قدم قدم پہ ہار مان لینے والے
لوگ۔
زندگی کی کسی آزمائش یا مشکل سے مرتے یہ بھی نہیں۔ اپنی مقررہ مدت پوری کر کے ہی مرتے
ہیں۔ لیکن ِان کی کم ہمتی اور بذدلی ِان کی زندگی میں جینے الئق کچھ نہیں چھوڑتی۔۔۔۔۔ ُدکھ ،رنج،
تکالیف اور پریشانیوں کے عالوہ ِان کی زندگی میں کچھ نہیں ہوتا۔۔۔ نتیجتا ً یہ زندگی نہیں گزارتے۔۔۔ بلکہ
زندگی انھیں گزار دیتی ہے۔ جیسے خالی ہاتھ یہ اس دنیا میں آتے ہیں۔ ا ُس سے زیادہ بدحال اس دنیا سے
چلے جاتے ہیں۔۔۔۔ مرتے وقت ِان کے پاس کیا ہوتا ہے؟ ُدکھوں سے بھری جھولی اور اهلل سے ڈھیر سارے
شکوے۔ ‘‘ And these people are called the real losers.
اسرار احمد نے اپنی بات مکمل کر کے شوال کا چہرہ دیکھا۔
شکوے۔ ‘‘ And these people are called the real losers.
اسرار احمد نے اپنی بات مکمل کر کے شوال کا چہرہ دیکھا۔
وہ انھیں بغور سن رہی تھی۔ اب کے ا ُس کا چہرہ نسبتا ً کافی ُپرسکون تھا۔
وہ نرمی سے مسکرائے۔ پھر بولے۔
’’اب یہ تم پر منحصر ہے شوال! کہ تم اپنی زندگی ایک ُلوزر کی طرح گزارنا چاہتی ہو؟ یا ایک ِونر
کی طرح جیت کر ،ہر مشکل کا مقابلہ کرکےآگے بڑھتے ہوئے۔‘‘
اسرار احمد نے ا ُسے جوش ِدالنے کی کوشش کی۔
’’یہ کہنا جتنا آسان ہے۔ کرنا اتنا آسان نہیں ہے پاپا!۔۔۔ جو ُہوا ،ا ُسے بھولنا آسان نہیں۔‘‘
شوال نے دکھ اور مایوسی سے کہا۔
اسرار احمد نے نفی میں سر ہالیا۔
’’نہیں۔ اور بھولنا چاہیئے بھی نہیں۔ ِاسے تمہیں ہمیشہ یاد رکھنا ہے۔ لیکن ایک درد کی طرح نہیں۔
بلکہ ایک سبق کی طرح۔
اپنی زندگی کے تلخ تجربات سے سبق سیکھو شوال! ۔ ا ُن پہ غور کرو اور جاننے کی کوشش کرو
کہ یہ تمہیں کیا پیغام دیتے ہیں۔۔۔۔
ِ ُ
ہم زندگی میں جب نقصان اٹھاتے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہی بھی ضرور ہوتی ہے۔ ایک ونر
ہمیشہ جیتتا نہیں۔۔۔۔ زندگی میں کئی مقامات پہ وہ ناکامیوں سے بھی دوچار ہوتا ہے۔ بہت سے مواقعے پہ
وہ بہت کچھ کھوتا ہے۔ لیکن وہ ساری زندگی اس دکھ کو ساتھ لئے ِاس پہ ماتم کرتے نہیں گزار دیتا۔
بلکہ وہ ایک نیا سبق سیکھتا ہے۔ جس سے آگے چل کر وہ زندگی میں بہت استفادہ حاصل کرتا
ہے۔‘‘
’’میرے ساتھ جو ہوا۔۔۔ ا ُس سے میں کیا فائدہ حاصل کروں گی؟۔‘‘
شوال نے ُدکھ سے کہا۔ آنکھوں میں آنسو بھر گئے تھے۔ وہ اب بھی بہت مایوس اور دکھی تھی۔
’’فائدے کا سوال بعد میں آتا ہے۔ پہلے تو تم اپنی غلطی تالش کرو۔‘‘
اسرار احمد نے برجستہ کہا۔ بولے۔
’’ایک جگہ بیٹھو۔۔۔۔ اور نیوٹرل ہو کر سارے حاالت و واقعات کا تجزیہ کرو۔ دیکھو کہ کیا ہوا تھا۔
کیوں ہوا تھا۔ کیا ہو رہا ہے؟۔
دوسری بات۔۔۔ اپنے آپ کو احساس دالؤ کہ یہ تمہاری زندگی کا ایک فیز ہے۔ پوری زندگی نہیں۔
اپنے آپ کو ِاس فیز سے نکالو۔ یہ جو دکھ اور مایوسی کی چارد تم نے اوڑھ رکھی ہے۔۔۔ ِاسے ا ُتارو۔ آگے
بڑھو۔ اپنی زندگی میں خوشی تالش کرو۔‘‘
’’نہیں پاپا!۔۔۔۔ جو ہو چکا ہے ا ُس کے بعد میرا خوشی کے نام سے ہی ِدل ا ُچاٹ ہو چکا ہے۔ مجھے
اپنی زندگی سے کوئی ِدلچسپی نہیں رہی۔‘‘
شوال رو پڑی۔
’’شوال!‘‘ اسرار احمد آگے جھک آئے۔ ’’ادھر دیکھو میری طرف۔‘‘
شوال نے بادلنخواسطہ اپنی بھیگی پلکیں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ اسرار احمد رسان سے سمجھانے
لگے۔
’’ہم بیمار ہوتے ہیں ناں!۔۔۔ بیماری ہمیں کتنا مجبور اور الچار کر دیتی ہے!۔۔۔ ہم کتنی تکلیف میں
ہوتے ہیں۔ تو کیا ہم ساری عمر اس بیماری کو ساتھ لے کر چلنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں؟۔۔۔۔
بیماری جتنی بڑی ہوتی ہے۔ ا ُس کے عالج کے لئے بھی ہم اتنے ہی بےچین و بےتاب ہوتے ہیں ناں!۔۔۔
کڑوی سے کڑوی دوا پی لیتے ہیں۔۔۔۔ ِدل میں تکلیف ہو تو سینہ چاک کروا لیتے ہیں۔ دماغ میں ٹیومر ہو
جائے تو کھوپڑی تک کھلوانے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ یہ ایک بیماری ہے اور ِاس کا
عالج کروانا ضروری ہے۔۔۔۔ ہماری زندگی کے لئے ،ہماری خوشیوں کے لئے۔
تو کیا زندگی کے ایک تجربے کی تلخی ،ایک نقصان سے نکلنے کیلئے ہمیں کوئی کوشش نہیں کرنی
چاہیئے؟۔۔۔ کیا یہ سینہ چیروانے یا کھوپڑی کھلوانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے؟‘‘
’’بیماری میں انسان شفا چاہتا ہے پاپا! کیوں کہ ا ُسے اپنی زندگی اور خوشیوں کی پرواہ ہوتی ہے۔
چاہیئے؟۔۔۔ کیا یہ سینہ چیروانے یا کھوپڑی کھلوانے سے بھی زیادہ مشکل کام ہے؟‘‘
’’بیماری میں انسان شفا چاہتا ہے پاپا! کیوں کہ ا ُسے اپنی زندگی اور خوشیوں کی پرواہ ہوتی ہے۔
لیکن جب ِدل پہ چوٹ لگتی ہے تو زندگی میں کوئی خوشی بچتی ہے نہ جینے کی چاہ۔‘‘
شوال نے جرح کی۔
اسرار احمد مسکرائے۔
’’ِدل پہ چوٹ۔‘‘ انھوں نے دہرایا۔
’’ِدل پہ چوٹ کیا ہوتی ہے؟۔۔۔ ہے کوئی حقیقت ِاس چوٹ کی؟۔۔۔۔
ِدل کا دردِ ،دل کی چوٹ۔۔۔
ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اگر کچھ ہوتا ہے تو ہمارے یہاں۔‘‘
اسرار احمد نے اپنی دو انگلیوں سے اس کی کنپٹی ہلکے سے بجائی۔
’’خرابی ادھر ہوتی ہے۔ ہماری سوچ میں۔۔۔ ایک کم حوصلہ انسان ایسی ہی باتیں زیہن میں ِبٹھا
کر ساری عمر سفر ) (sufferکرتا رہتا ہے۔ جبکہ ایک فائٹر کا ذیہن ایسے نہیں سوچتا۔ کیونکہ اس کے
حوصلے اور جرٴات کے آگے کوئی درد یا تکلیف زیادہ دیر ٹھہر سکتی ہی نہیں۔‘‘
اسرار احمد پھر سے ا ُس کے اندر ایک نیا جوش پیدا کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
شوال کے چہرے پہ تذبذب کے تاثرات تھے۔ ا ُس کے پاس بحث کرنے کو کچھ نہ بچا تھا۔ اسرار احمد
کی باتوں نے ا ُس کا غم کم بھی کر دیا تھا۔ لیکن جو وہ کہہ رہے تھے۔ ویسا کرنے کو اس کا من اب بھی
نہیں مان رہا تھا۔
اسرار احمد نے اس کا چہرہ بغور پڑھا۔ دھیرے سے ا ُس کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے واپس سیدھے ہو
بیٹھے۔
’’میں سمجھ سکتا ہوں کہ ابھی تمہارے من میں کیا چل رہا ہے۔۔۔
میں نے حقیقت بیان کی ہے۔ کوئی جادو کی چھڑی نہیں گھمائی جو فوری نتائج کی خواہش
کروں۔۔۔ تم فرصت سے بیٹھ کر میری باتوں پہ غور کرو گی تو تمہیں میری باتیں سمجھ آجائیں گی۔۔۔
اب یہ تم پہ ہے کہ تم انھیں سمجھنے میں کتنا وقت لیتی ہو!۔۔۔ چاہو تو ایک ِدن ،چاہو تو صدیاں
لگا دو۔۔۔۔ فیصلہ تمہیں کرنا ہے۔ لیکن ایک باپ ہونے کے ناطے ،ایک خیرخواہ ہونے کے ناطے میرا مشورہ
اور خواہش یہی ہے کہ میری بیٹی اپنی زندگی کے ِاس تجربے کی تلخی اپنی ساری زندگی میں گھولنے کی
بجائے ایک فائٹر بن کر سامنے آئے۔۔۔ آگے تمہاری مرضی۔‘‘
اسرار احمد ا ُس کی سوچوں کا ُرخ بدلتے ہوئے ا ُٹھے اور ا ُس کے سر پہ ہلکی سی تھپکی دے کر
کمرے سے باہر نکل گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اگلی شام اسرار احمد کام سے لوٹے تو شوال اور علیزہ کو ہال میں غالیچے پہ بیٹھے پایا۔ وہ دونوں
اپنے سامنے عروسی ملبوسات کا ڈھیر لگائے ا ُن کو جانچتے پرکھتے ہوئے آپس میں تبادلۂ خیال بھی کر
رہی تھیں۔ شوال نہ صرف آج اپنے کمرے سے باہر نکلی تھی بلکہ وہ بہت بدلی بدلی بھی لگ رہی تھی۔
بال نئے انداز میں کٹے ہوئے تھے اور ا ُن کا رنگ بھی بدال ہوا تھا۔
اسرار احمد نے یہ بدالؤ واضح طور پہ نوٹ کیا۔
ُ ً
شوال اور علیزہ نے بھی انھیں دیکھ لیا اور احتراما اٹھ کھڑی ہوئیں۔
’’اسالم علیکم پاپا!‘‘
علیزہ نے سالم کرنے میں پہل کی۔
’’واعلیکم السالم! شادی کی تیاریاں ہو رہی ہیں؟‘‘
اسرار احمد خوش ِدلی سے کہتے ہوئے ایک طرف رکھے صوفوں کی طرف بڑھ گئے۔
شوال اور علیزہ ا ُن کی طرف چلی آئیں۔
’’جی! کامران اور عمران کہاں ہیں؟‘‘
شوال اور علیزہ ا ُن کی طرف چلی آئیں۔
’’جی! کامران اور عمران کہاں ہیں؟‘‘
علیزہ نے جواب دینے کے ساتھ پوچھا۔
’’وہ دونوں اپنے کسی دوست کے ساتھ چلے گئے ہیں۔‘‘
وہ اپنے ہاتھ میں پکڑا لیپ ٹاپ بیگ صوفے کی سائیڈ میں رکھ کر خود بھی بیٹھ گئے۔
’’پاپا! چائے الؤں آپ کے لئے؟‘‘
شوال نے پوچھا۔
’’نہیں۔ ابھی نہیں۔ بھایئوں کو آ لینے دو۔ تم بیٹھو میرے پاس۔‘‘
انھوں نے محبت سے کہا۔
’’میں کپڑے سمیٹ کر آتی ہوں۔‘‘
علیزہ کہہ کر واپس غالیچے کی طرف بڑھ گئی۔ شوال ان کے مقابل آ بیٹھی۔
’’مجھے خوشی ہو رہی ہے تمہیں دیکھ کر۔‘‘
اسرار احمد اسے دیکھتے ہوئے بولے۔ ان کے لبوں پہ ایک آسودہ سی مسکراہٹ تھی۔ شوال نے
مسکرا کر سر جھکا لیا۔
اسرار احمد کہنے لگے۔
’’ کل جس طرح سے تم مجھ سے جرح کر رہی تھی۔ مجھے لگا کہ تمہیں میری باتیں سمجھنے میں
کچھ وقت لگے گا۔ لیکن تم نے تو مجھے حیران کر دیا۔‘‘ انداز سراہنے واال تھا۔
’’آپ ٹھیک کہتے تھے پاپا!‘‘
شوال نے جھکا ہوا سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ بولی۔
’’ اهلل نے ہمیں صرف ایک زندگی اور صرف ایک جسم دیا ہے۔ ہم اسطرح سے اهلل کی ِاس سب سے
بڑی نعمت کو ضائع نہیں کر سکتے۔
مصائب اور تکالیف زنگی میں آتی رہتی ہیں۔ ہمیں ہّمت اور ہوش مندی کے ساتھ ِان کا مقابلہ کر
کے آگے بڑھنا چاہیئے۔۔۔
ِاس لئے میں نے سوچا کہ اپنی زندگی میں کچھ بدالؤ الؤں۔ تاکہ میں اپنے آپ کو اس تکلیف سے
نکال سکوں۔‘‘
اسرار احمد کو اپنی بیٹی پہ فخر محسوس ہوا۔
’’بالکل صحیح فیصلہ کیا تم نے۔‘‘
شوال ہلکا سا مسکرائی۔ پھر اس کے چہرے پہ ا ُداسی چھا گئی۔
’’بہت تکلیف ہوتی ہے ایسا کرتے ہوئے پاپا!۔۔۔ لیکن آپ نے صحیح کہا تھا۔ غم خواری بھی ایک
بیماری ہے۔ اس کے عالج کے لئے کڑوی سے کڑوی دوا بھی پینی چاہیئے۔۔۔ بیماری کو ساتھ لے کر نہیں
جیا جا سکتا۔‘‘
شوال کہہ کر خود کو سنبھالنے لگی۔
اسرار احمد ُدکھ اور خوشی کے ِملے ُجلے تاثرات کے ساتھ ا ُسے دیکھ رہے تھے۔ پھر انھوں نے اس
کا حوصلہ بڑھانے کے لئے اس کا صوفے پہ ٹکا ہاتھ ہلکے سے تھپتھپایا۔
’’کھانا کھانے کے بعد ہم دونوں سنوکر کھیلیں گے۔ ٹھیک ہے۔‘‘
شوال نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا ،مسکرائی اور مستعدی کے ساتھ اثبات میں سر ہال دیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی رجب کے کمرے کے باہر بےچینی سے ٹہل رہے تھے۔ سکینہ بیگم بھی ایک طرف مضطرب
و پریشان کھڑی تھیں۔
ڈاکٹر سمیع مایوس چہرہ لئے رجب کے کمرے سے باہر نکلے تو انھوں نے بےتابی سے انھیں جا لیا۔
’’ڈاکٹر سمیع!‘‘
ڈاکٹر سمیع مایوس چہرہ لئے رجب کے کمرے سے باہر نکلے تو انھوں نے بےتابی سے انھیں جا لیا۔
’’ڈاکٹر سمیع!‘‘
’’آئم سوری وجاہت علی صاحب!۔۔۔ میں اب کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ آپ کا بیٹا پاگل ہو چکا ہے۔۔۔
آپ جتنے جلدی ہو سکے ِاسے پاگل خانے بھیج دیجیئے۔‘‘
ڈاکٹر سمیع نے حتمی انداز میں کہا۔
سکینہ بیگم نے یہ سن کر منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔
’’نہیں۔‘‘ وجاہت علی کے لئے یہ قبول کرنا ناممکن تھا۔ ’’ایسا مت کہیئے ڈاکٹر سمیع! میرا بیٹا
پاگل نہیں ہو سکتا۔ میں کسی قیمت پر بھی اسے پاگل خانے نہیں بھیجوں گا۔‘‘
پاگل خانے کا نام سن کر ہی وجاہت علی خوفزدہ ہو گئے تھے۔
ڈاکٹر سمیع ہمدردانہ لہجے میں سمجھانے لگے۔
’’میں آپ کے جذبات سمجھ سکتا ہوں وجاہت صاحب!۔۔۔ لیکن اب اور کوئی حل نہیں ہے۔ ا ُس کو
یوں گھر میں رکھنا خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔ وہ کسی بھی وقت خودکشی کی کوشش کر سکتا ہے۔
اور پلیز۔۔۔ آپ اس کے سامنے جانے سے گریز کیجیئے۔ وہ اپنی بیوی اور بچہ کھونے کا ذمہ دار آپ
کو سمجھتا ہے۔۔۔ آپ کو دیکھ کر اس کی تکلیف بڑھ جاتی ہے۔ کچھ بعید نہیں کہ وہ آپ پہ بھی قاتالنہ
حملہ کر دے۔ ِاسی لئے کہتا ہوں کہ کوئی انہونی ہونے سے پہلے ا ُسے پاگل خانے بھیج دیجیئے۔‘‘
وجاہت علی ان کا منہ تک رہے تھے۔ ملتجی لہجے میں پوچھنے لگے۔
’’کیا کوئی اور راستہ نہیں؟۔۔۔ میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ میں اسے کسی بھی صورت پاگل خانے نہیں
بھیجنا چاہتا۔‘‘
’’اگر آپ اس کا بھال چاہتے ہیں تو آپ کو ایسا کرنا ہوگا۔۔۔ مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے
کیا۔ لیکن۔۔۔ اب معاملہ میرے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ وہ میرے قابو میں نہیں آتا اب۔ ا ُسے پاگل خانے لے
جانا ہی بہتر ہے۔ ‘‘
ڈاکٹر سمیع نے پھر سے انھیں سمجھانے کی کوشش کی۔
’’نہیں۔ نہیں۔۔۔ وہ پاگل نہیں ہے۔‘‘
وجاہت علی نے زور سے نفی میں سر ہالیا۔
’’پاگلوں کو تو کچھ ہوش نہیں ہوتا۔ کچھ خبر نہیں ہوتی۔۔۔ جبکہ رجب تو سب جانتا ہے کہ اس کے
ارد گرد کیا ہو رہا ہے۔۔۔۔ مجھے ،آپ کو ،اپنی ماں کو۔ سب کو پہچانتا ہے۔ پھر وہ پاگل کیسے ہو سکتا
ہے؟ ‘ ‘
ِ
’’جی ہاں! وہ سب کو پہچانتا ہے۔ اسی لئے یہ مشورہ دے رہا ہوں کہ ا ُسے ابھی پاگل خانے بھجوا
دیں تاکہ بروقت اس کا عالج ہو سکے۔‘‘
ڈاکٹر سمیع نے سمجھاتے ہوئے کہا۔ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے بولے۔
’’ اگر آپ ابھی اس کا عالج کروائیں گے تو وہ جلد ٹھیک بھی ہو جائے گا۔ ایسا نہ ہو کہ آپ ا ُس
کے پوری طرح ہوش کھونے کا انتظار کرتے رہیں اور اس کا عالج ممکن نہ رہے۔‘‘
ڈاکٹر سمیع انھیں قائل کرنے کی پوری کوشش کر رہے تھے۔ مگر وجاہت علی کا ِدل اپنے بیٹے کو
پاگل خانے بھیجنے کیلئے کسی صورت نہیں مان رہا تھا۔ ُدکھ اور بے بسی سے انھوں نے منہ پہ اپنا ہاتھ
جما لیا۔ آنکھوں میں آنسو لئے کوئی حل سوچنے لگے۔
’’ا ُسے اپنی بیوی واپس چاہیئے ناں! اگر اس کی بیوی واپس آ جائے تو؟‘‘
ڈاکٹر سمیع نے ا ُن کی تجویز پہ کچھ دیر سوچا۔ پھر سر ہال تے ہوئے بولے۔
’’کوئی چانس بنتا ہے۔۔۔ اگر اس کی بیوی آ کر اسے پیار سے سمجھائے۔ اسے محبت اور توجہ دے
تو شاید اس کی حالت میں کچھ سدھار آ سکتا ہے۔۔۔ آپ یہ کوشش کر کے دیکھ لیجیے۔
چلتا ہوں۔ اهلل حافظ۔‘‘
ڈاکٹر سمیع آگے بڑھ گئے۔
سکینہ بیگم منہ پہ ہاتھ جمائے رو رہی تھیں۔
ڈاکٹر سمیع آگے بڑھ گئے۔
سکینہ بیگم منہ پہ ہاتھ جمائے رو رہی تھیں۔
وجاہت علی نے پلٹ کر انھیں خود سے لگا لیا۔
’’ابھی ہمارا بیٹا دو مہینے اسپتال میں گزار کر آیا ہے۔ اب ہم اسے پاگل خانے بھیج دیں؟۔۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم پھوٹ پھوٹ کر رو دیں۔
’’جب میں اپنی آنکھوں کے سامنے اپنے بچوں کو قبر میں اترتے دیکھتی تھی تو لگتا تھا کہ دنیا
میں اس سے بڑا ُدکھ اور کوئی نہیں۔۔۔ لیکن یہ دو مہینے جو اسپتال میں گزرے ہیں۔ یہ اذیت اس اذیت
سے بھی بڑھ کر تھی۔ اور اب کہتے ہیں کہ اسے پاگل خانے بھیج دیں؟۔۔۔ابھی اور کتنے ُدکھ جھیلنا باقی
ہیں؟۔۔۔ اور کتنا سہیں ہم؟۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم بری طرح رو رہی تھیں۔
’’صبر۔ صبر۔۔۔ میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ میرا بیٹا پاگل نہیں ہے۔۔۔ ‘‘
ہمدردی جتانے کے انداز میں سکینہ بیگم کا بازو سہالتے ہوئے وجاہت علی بڑبڑائے۔ پھر سکینہ بیگم
کو ہدایات دیتے ہوئے بولے۔
’’تم اس پہ نظر رکھو۔ گھر کے سب نوکروں اور اس کے کیئرر سے کہو کہ وہ چوکنا رہے۔ وہ گھر
سے بھاگ بھی سکتا ہے اور خود کشی کی کوشش بھی کر سکتا ہے۔ اس لئے ا ُسے ہر ِگز تنہا مت
چھوڑنا۔۔۔ میں شوال کو واپس النے کی کوشش کرتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی کہتے ہوئے تیز تیز قدم ا ُٹھاتے سیڑھیوں کی طرف بڑھ گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد اپنے آفس میں بیٹھے تھے۔ لیپ ٹاپ پہ ایک نقشہ کھولے وہ قریب کھڑے کامران کو اس
نقشے کے بارے میں کچھ سمجھا رہے تھے۔
کامران لیپ ٹاپ کی سکرین پہ جھکا بغور انھیں سن رہا تھا۔ ٹیبل پہ رکھے ا ُن کے فون پہ بار بار
کال آ رہی تھی۔ اور میسج پہ میسج۔
ھال کر اسرار احمد نے فون ا ُٹھایا۔ ج ّ
’’ِاس بےحیا انسان کی کوئی حد نہیں۔‘‘
جل کر کہتے ہوئے انھوں نے اپنا فون آف کر دیا۔
’’کون؟‘‘
کامران نے پوچھا۔
’’وجاہت کے عالوہ اور کون ہے دنیا میں۔؟‘‘
اسرار احمد کے چہرے کے زاویے بگڑے ہوئے تھے۔ کڑوے لہجے میں کہا۔ پھر کامران کے چہرے پہ
الجھن اور تجسس دیکھ کر وضاحت کرنے لگے۔
’’کل فون کر کے بڑا احسان جتاتے ہوئے بوال کہ شوال کو گھر بھیج دو۔۔۔ میں نے صاف منع کر دیا۔
اب کل سے سارا ایٹی ٹیوڈ بھال کر منتیں کر رہا ہے کہ میں شوال کو اس کے گھر واپس بھیج دوں۔‘‘
’’ہمارا کیا دماغ خراب ہے جو ہم اپنی بہن کو واپس اس جگہ بھیجیں گے۔‘‘
جواب میں کامران بڑبڑایا۔
ا ُسے بھی وجاہت علی کی مانگ سن کر غصہ آ گیا تھا۔
اسرار احمد نے سر جھٹکا۔
’’چھوڑو۔ یہ آدمی اس الئق نہیں کہ ہم ِاس کو ڈسکس کرکےاپنا قیمتی وقت ضائع کریں۔‘‘
’’جی۔‘‘
کامران نے تائید کی۔
’’بائی دی وے۔ شوال کو اس بارے میں کچھ نہ بتانا۔‘‘
ایک خدشے کے تحت انھوں نے کامران سے کہا۔
’’بائی دی وے۔ شوال کو اس بارے میں کچھ نہ بتانا۔‘‘
ایک خدشے کے تحت انھوں نے کامران سے کہا۔
’’ہوں۔‘‘
کامران نے سمجھ جانے کے انداز میں سر ہالیا۔ پھر خیال آنے پہ پوچھنے لگا۔
’’ شوال کو رجب کے ایکسیڈنٹ کے بارے میں بتا دیا آپ نے؟‘‘
’’ہوں۔‘‘
اسرار احمد نے لیپ ٹاپ کی سکرین پہ نظریں جمائے ہوئے فقط ’ہوں‘ کرنے پہ اکتفا کیا۔
’’تو؟۔۔۔۔ کیا کہا ا ُس نے؟‘‘
کامران کا تجسس بڑھ گیا۔
’’کیا کہنا تھاا ُس بےچاری نے؟۔۔۔ ‘‘
اسرار احمد نے کہا۔ پھر کامران پہ ایک نظر ڈال کر بتانےلگے۔
صہ ہے۔ اب ا ُس کی زندگی میں رجب کہیں بھی ’’وہ کہتی ہے کہ رجب ا ُس کے ماضی کا ایک ح ّ
نہیں۔ ِاس لئےا ُسے یہ جاننے سے کوئی دلچسپی نہیں کہ وہ کیا کرتا ہے؟ یاا ُس کے ساتھ کیا ہوتا ہے؟‘‘
’’شوال بہت بہادر ہے پاپا! بڑی ہّمت کے ساتھ وہ ِان کڑے حاالت کا مقابلہ کر رہی ہے۔‘‘
کامران ا ُس کا رِدعمل جان کر خاصا متاثر ہوا۔
اسرار احمد نے تائید میں سر ہالیا۔ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ انٹرکام کی بیل نے مداخلت کرتے ہوئے
ا ُن کی توجہ اپنی جانب کھینچ لی۔
انھوں نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا۔
’’ہیلو۔‘‘
’’سر! مسٹر وجاہت علی کی کال ہے۔ وہ آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں۔‘‘
فون آپریٹر نے ا ُن سے کہا۔
’’چچ۔‘‘
سال۔اسرار احمد نے زچ ہو کر اپنی پیشانی کو م ّ
’’منع کر دو۔‘‘
انھوں نے سخت لہجے میں کہا۔
’’میں نے منع کیا تھا سر!۔۔۔ مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ اگر آپ بات نہیں کریں گے تو وہ خود آپ سے
ملنے آپ کے آفس آجائیں گے۔‘‘ جواب ِمال۔
اسرار تپ گئے۔
’’اگر وہ آفس آ جائے تو بھی ا ُسے واپس بھیج دو۔ مجھے اس آدمی سے کوئی بات نہیں کرنی۔
دوبارہ مجھے ا ُس کا کوئی پیغام مت دینا۔‘‘
اسرار احمد نے سختی سے کہہ کر ریسیور پٹخ دیا۔ پھر کرسی کی پشت سے ٹیک لگا کر پیشانی
مسلنے لگے۔ شدید غصے کی وجہ سے وہ کوئی کام کرنے کی حالت میں نہیں رہے تھے۔
کامران نے اپنے باپ کی حالت مالحظہ کی۔ پھر گہرا سانس خارج کیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
عمران اور کنزہ کی شادی کا موقع تھا۔ شادی ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ نکاح ہو چکا تھا اور
عمران اور کنزہ کی شادی کا موقع تھا۔ شادی ہال مہمانوں سے بھرا ہوا تھا۔ نکاح ہو چکا تھا اور
رخصتی کا وقت عنقریب تھا۔ سامنے اسٹیج پہ دولہا اور دلہن بیٹھے تھے۔ دلہن کے گھر والے اور عزیز و
اقارب اسٹیج پہ دولہا ،دلہن کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر کھینچوا رہے تھے۔
وہ ہال میں لگی کرسیوں کی پہلی رو میں بیٹھی تھی جو خصوصی طور پہ دولہے والوں کے لئے
رکھوائی گئی تھیں۔ موقعے کی مناسبت اور دولہے کی بہن ہونے کے ناطے وہ بہت اچھے سے تیار ہوئی
تھی۔ بالشبہ وہ سب میں ممتاز اور خوبصورت دکھائی دے رہی تھی۔ لبوں پہ مسکراہٹ لئے وہ سامنے
اسٹیج پہ چلتا فوٹو سیشن دیکھ رہی تھی جب خاندان کی ایک خاتون ا ُس کے پاس آن کھڑی ہوئیں۔
’’ہائے شوال!۔۔۔۔ یہ تم ہو؟۔۔۔ پہچانی ہی نہیں جا رہی۔‘‘
خاتون نے تحّیر کا اظہار خاصے اجڈ پن سے کیا۔
اس نے آواز پہ چہرہ موڑ کر دیکھا اور خوشدلی سے مسکرائی۔
’’کیسی ہیں شمشاد خالہ!؟‘‘
پوچھتے ہوئے ا ُس نے بغل والی کرسی پر سے اپنا کلچ بیگ اٹھا لیا۔
ُ
شمشاد بیگم جیسے اس کے کلچ بیگ ا ُٹھانے کی منتظر تھیں۔ جھٹ سے اپنے وجود کا ڈھیر کرسی
پہ لگا دیا۔
’’میں تو اهلل کا کرم ہے ٹھیک ٹھاک ہوں۔‘‘ جتانے کے انداز میں اپنا حال بیان کیا۔
پھر کریدنے کے انداز میں پوچھنے لگیں۔
’’تمہارا سنا تھا کہ تمہارا ِمس کیریج ہو گیا ہے۔۔۔ اور تم شوہر کا گھر بھی چھوڑ کر میکے آ
بیٹھی ہو؟‘‘
پھر لہجے اور آنکھوں میں جلن اور چبھن سمو لی۔
’’میں تو تم سے اظہاِر افسوس کرنا چاہتی تھی۔ لیکن تم تو بہت خوش لگ رہی ہو!‘‘
ا ُس کے چہرے پہ سایہ سا آ کر لہرا گیا۔ اسے اسرار احمد کی نصیحت یاد آئی جو انھوں نے گھر
سے نکلتے وقت اسے کی تھی۔
’’تم آج اس واقعے کے بعد پہلی بار لوگوں کے اتنے بڑے مجمعے میں جا رہی ہو۔ خیال رکھنا کہ
ِاس بھیڑ میں بہت سے ُلوزرز بھی ملیں گے۔۔۔ ِان لُوزرز کی ایک خاصّیت یہ بھی ہے کہ خود تو اپنی زندگی
کی مشکالت کے آگے لیٹے پڑے ہوتے ہیں۔ لیکن کسی اور کو آگے بڑھتا دیکھتے ہیں تو ا ُس کا پائنچہ پکڑ کر
ا ُسے بھی ِگرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اپنی ناکامی کو غرور کی چادر میں چھپاتے ہیں اور ِکسی دوسرے
کی کامیابی پہ اعتراضات کی ا ُنگلیاں ا ُٹھاتے ہیں۔۔۔ مختلف طرح کی ِدل شکن باتیں سناتے ہیں۔۔۔ ایسے
لوگوں سے خبردار رہنا۔ جو لوگ تمہیں ُدکھ میں دیکھنا چاہتے ہیں۔ ا ُن کی باتوں کو ِدل سے لگا کر تمہیں
ا ُن کو خوش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
وہ اپنے خیال سے ِنکلی اور شمشاد بیگم کو دیکھ کر ُمسکرائی۔
’’آپ کس بات کا اظہاِر افسوس کرنا چاہتی تھیں خالہ!؟۔۔۔ آپ کے روّیے اور باتوں سے تو لگ رہا
ہے کہ آپ کو مجھے خوش دیکھ کر افسوس ہو رہا ہے۔‘‘
شمشاد خالہ ایسے صاف جواب کی توقع نہیں کر رہی تھیں۔ غصے میں آکر وہ بھی سیدھے وار پہ
ا ُتر آئیں۔
’’ایسی تو کوئی بات نہیں۔۔۔ میں تو بس تمہیں یہ سمجھانا چاہتی تھی کہ جو لڑکیاں اپنے ماں
باپ کی مرضی کے خالف جا کر بھاگ کر شادی کرتی ہیں۔ ا ُن کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔
تم نے اپنے باپ کی نافرمانی کی تھی۔ دیکھ لو ،تمہارے ساتھ کیا ہوا۔‘‘
سکرا کر پی گئی۔ چہرے پہ مصنوعی پچھتاوا ال کر بولی۔ وہ یہ زہر م ُ
’’اب کیا کریں خالہ!۔۔۔ میں آپ کی بیٹی جیسی فرمانبردار نہیں بن سکی۔۔۔ آپ کی بیٹی نے تو
آنکھیں بند کر کے وہیں شادی کی جہاں آپ کی مرضی تھی۔‘‘
شمشاد بیگم کی گردن غرور سے اکڑ گئی۔
’’لیکن سنا ہے کہ اس کے شوہر نے ا ُسے کسی کے ساتھ دیکھ لیا تھا تو اس وجہ سے ا ُسے گھر
شمشاد بیگم کی گردن غرور سے اکڑ گئی۔
’’لیکن سنا ہے کہ اس کے شوہر نے ا ُسے کسی کے ساتھ دیکھ لیا تھا تو اس وجہ سے ا ُسے گھر
سے نکال دیا ہے؟‘‘
جتانے کے بعد شمشاد بیگم کی طرفداری کرنے کے انداز میں بولی۔
’’ اگر اس کے تعلقات کسی اور لڑکے کے ساتھ ہیں تو کیا ہوا؟۔۔۔ آپ کی فرمانبردار تو وہ ہے ناں!‘‘
شمشاد بیگم کی تو ہوا ِنکل گئی۔ انھیں ہرگز توقع نہیں تھی کہ شوال ا ُن کے منہ پہ ایسی کوئی
بات کہے گی۔ بالشت بھر کی لڑکی نے ا ُنھیں بےعزت کر کے رکھ دیا تھا۔ ا ُن کا دماغ گھوم گیا۔ بہت ِدل
چاہا کہ یہیں پہ ہنگامہ کر کے ا ُسے خوب برا بھال کہیں۔ لیکن ِدل کی خواہش ِدل میں ہی دبا دی۔ کچھ
بھی کہنے میں ان کی اپنی بےعزتی تھی۔
ُ
شمشاد بیگم کو اپنی اور خونی نظروں سے دیکھتا پا کر اس نے بھنوئیں تان کر انھیں مزید کچھ
کہنے کا چیلنج کیا۔ شمشاد بیگم غصے سے اس کے پاس سے ا ُٹھ گیئیں۔
وہ مسکرائی اور سر جھٹک کر نظریں واپس اسٹیج پہ جما دیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
پھر باقی کا فنکشن اچھے سے گزر گیا۔ دلہن کی رخصتی کے وقت وہ ہال کے انٹرینس میں کھڑی
تھی۔
کامران اور اسرار احمد ،دولہا بنے عمران کے ہمراہ اسٹیج پہ کھڑے تھے۔ سامنے کا منظر دیکھتے
ہوئے ا ُسے احساس ہی نہ ہوا کہ کب ا ُداسی نے دبے پاؤں آکر ا ُس کے اندر بسیرا کر لیا۔
علیزہ ،اس کی ماں اور باقی بہن ،بھایئوں نے روتے ہوئے کنزہ کے گلے لگ کر ا ُسے الود ٰ
ع کہا۔ پھر
کنزہ کے والد صاحب کی باری آئی۔ وہ اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کنزہ کے قریب آئے اور کنزہ کے سر پہ
ہاتھ رکھ کر ا ُسے دعائیں دینے لگے۔
اس کا ِدل کسی ا َن دیکھے شکنجے نے جکڑ لیا۔ سانس لینا دشوار ہو گیا۔ ارد گرد کی ہر چیز سے
وحشت ہونے لگی۔ گھٹن کا احساس بڑھنے لگا۔ پہلے وہ دو قدم پیچھے ہٹی۔ پھر وہ خود پہ اختیار کھو
بیٹھی اور ُمڑ کر باہر کی طرف دوڑ لگا دی۔
’’شوال!۔۔۔ شوال!۔۔۔ کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔ شوال کہاں چلی گئی؟‘‘
پورے ہال میں کھلبلی مچ گئی۔
اسرار احمد اور دونوں بھایئوں کے عالوہ دولہن اور اس کے گھر والے بھی بری طرح گھبرا گئے۔
ایسی غیر متوقع صورتحال تھی کہ فورا ً کوئی فیصلہ کرنا مشکل تھا۔
کامران نے ہوشمندی اور حاضر دماغی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بروقت ایک معقول فیصلہ کیا۔
’’آپ جاری رکھیے۔ میں اس کے پیچھے جاتا ہوں۔‘‘
جلدی سےاسرار احمد اور عمران سے کہا اور شوال کے پیچھے بھاگا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رات کے اس وقت وہ فُٹ پاتھ پہ بھاگتی چلی جارہی تھی۔ اس کی آنکھوں سے بہتے آنسو
اور قدموں کی رفتار میں کوئی کمی نہیں آرہی تھی۔ دیوانہ وار بھاگتے ہوئے وہ خود نہیں جانتی تھی کہ
وہ کہاں جا رہی ہے۔
’’شوال!۔۔ ُرکو۔۔۔۔ کہاں جا رہی ہو؟۔۔۔۔ شوال!۔۔ ُرک جاؤ۔‘‘
کامران ا ُس کے پیچھے بھاگتے ہوئے آوازیں دے رہا تھا۔ مگر وہ کچھ نہیں سن رہی تھی۔
باآلخر سڑک کے موڑ تک پہنچتے پہنچتے کامران نے ا ُسے جا لیا۔
’’چھوڑ دیجیئے۔ مجھے چھوڑ دیجیئے۔‘‘
وہ کامران کے ہاتھوں میں مچلی جا رہی تھی۔
’’شوال! ہوش میں آؤ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔‘‘
وہ کامران کے ہاتھوں میں مچلی جا رہی تھی۔
’’شوال! ہوش میں آؤ۔۔۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں۔‘‘
کامران نے ا ُسے کندھوں سے پکڑے ہوئے جھنجھوڑ ڈاال۔ وہ شدت سے رو رہی تھی۔
’’میں اس شادی میں واپس نہیں جاؤں گی۔۔۔ میں نہیں دیکھ سکتی وہ سب۔۔۔۔ ساری دنیا
کی بیٹیوں کی شادی ہوتی ہے تو ا ُن کا باپ انھیں ُدعائیں دے کر رخصت کرتا ہے۔ لیکن جب میری شادی
ہوئی تھی تو میرے باپ نے مجھ سے کہا کہ تم اب مر چکی ہو۔‘‘ پاگلوں کی طرح روتے ہوئے ا ُس نے زخمی
لہجے میں کہا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رات کے وقت وجاہت علی اور سکینہ بیگم ہال میں بیٹھے چائے پی رہے تھے۔
’’ مجھے لگتا ہے کہ اسرار کو منانے کے چکر میں مَیں صرف اپنا وقت برباد کر رہا ہوں۔۔۔۔
مجھے ڈائریکٹ شوال سے بات کرنی چاہیئے۔‘‘
’’شوال کو اپروچ کیسے کریں گے؟۔۔۔ بالفرض وہ کہیں ِمل بھی جاتی ہے ،تو بھی ا ُسے راضی
کیسے کریں گے؟۔۔۔۔
پہلے کی طرح دوبارہ ا ُٹھا کر تو نہیں الیا جاسکتا۔ ایسا کر کے تو اپنے ہی پاؤں پہ کلہاڑی
ماریں گے۔ نہ شوال مانے گی اور نہ ہی رجب ہمیں معاف کرے گا۔۔۔۔ اسرار راضی ہو جاتا تو وہ خود ہی
شوال کو بھی منا لیتا۔‘‘
سکینہ بیگم کو کوئی امکان نظر نہیں آرہا تھا۔
وجاہت علی پُرسوچ انداز میں بولے۔
’’ہوں۔۔۔۔ کہہ تو تم ٹھیک رہی ہو۔۔۔۔ شوال تک پہنچنا اور ا ُسے راضی کرنا بہت مشکل ہے۔
لیکن ِاس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کوشش تو کرنی ہی ہوگی۔‘‘
’’اگر ا ُس کا موبائل نمبر کہیں سے ِمل جائے تو؟‘‘
لیکن ِاس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں۔ کوشش تو کرنی ہی ہوگی۔‘‘
’’اگر ا ُس کا موبائل نمبر کہیں سے ِمل جائے تو؟‘‘
سکینہ بیگم کو ایک راہ سجھائی دی۔
وجاہت علی نے ا ُسی ُپرسوچ اندازمیں نفی میں سر ہالیا۔
’’میں کوشش کر چکا ہوں۔ شاید ا ُس نے فون نہیں رکھا ہوا۔‘‘
پھر نفرت سے بولے۔
’’بہت چاالک ہے اسرار۔۔۔۔ وہ ا ُسے کوئی بھی ایسی چیز استعمال نہیں کرنے دے گا ِ
ج س کے
ذریعے ہم ا ُس سے رابطہ کر سکیں۔‘‘
تب ہی ہاشم سیڑھیاں ا ُتر کر وہاں آن پہنچا۔
’’اب میں جاؤں سر!‘‘
وجاہت علی سے اجازت طلب کی۔
’’رجب سو گیا؟‘‘ وجاہت علی نے پوچھا۔
’’جی سر!۔۔۔ انھیں سوئے ہوئے آدھا گھنٹہ گزر چکا ہے۔‘‘ ہاشم نے جواب دیا۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔ مگر جلدی واپس آنا۔‘‘
وجاہت علی نے اجازت دی۔
’’جی سر!‘‘
ہاشم سر ہال کر بیرونی دروازے کی جانب بڑھ گیا۔
’’یہ کہاں جا رہا ہے؟‘‘
سکینہ بیگم نے تعجب سے استفسار کیا۔
’’اسے کوئی پرسنل کام ہے۔۔ کہہ رہا تھا کہ ضروری نمٹانا ہے۔۔۔ میں نے کہا کہ رجب کے
سونے کے بعد چلے جانا۔‘‘ وجاہت علی نے مختصرا ً آگاہ کیا۔
سکینہ بیگم جواب میں کچھ نہ بولیں۔ انھیں اب رجب کی ِفکر ہونے لگی تھی۔
’’کچھ سمجھ نہیں آ رہا کہ کیا کریں۔۔۔ رجب کا رویہ الگ سے مجھے دہال رہا ہے۔۔۔ جانے وہ
لڑکا اتنا خاموش کیوں ہو گیا ہے۔‘‘
سکینہ بیگم نے بڑبڑانے کے انداز میں اپنی پریشانی بیان کی۔
’’مجھے بھی سمجھ نہیں آرہی۔ لیکن پہلے سے تو اچھا ہے ناں!۔۔۔۔
پہلے تو قابو میں ہی نہیں آتا تھا۔ خودکشی کے لئے ،اور یہاں سے بھاگنے کے لئے اتنا بےقرار
تھا کہ خود کو چھڑانے کی کوشش میں ہاتھ پاؤں زخمی کر لیتا تھا۔ اچھا ہے کہ اب شانت ہو گیا ہے۔
زیادہ تر سویا پڑا رہتا ہے۔ فی الحال ا ُس کے لئے یہی اچھا ہے’‘‘
وجاہت علی نے بھی تبصرہ کیا۔
’’ِاسی وجہ سے تو میں خوفزدہ ہوں۔ا ُس کی یہ خاموشی کسی طوفان کا پتا دے رہی ہے۔‘‘
سکینہ بیگم نے اپنے خدشات ظاہر کئے۔
’’بُری باتیں مت سوچو۔۔۔ اب اتنی تو تسلی ہے کہ کم از کم اب وہ بستر سے بندھا نہیں رہتا۔
گھر کے اندر آزادی سے گھوم پھر لیتا ہے۔ یہ بھی بڑی بات ہے۔
ویسے بھی۔۔ ہاشم ہر وقت ا ُس کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس لئے زیادہ ڈرنے والی کوئی بات نہیں۔‘‘
سکینہ بیگم کے برعکس وجاہت علی رجب کی خاموشی سے مطمعین تھے۔
اچانک انھیں اپنے فون کی ہلکی ہلکی رنگ ٹون سنائی دینے لگی۔
’’یہ میرا فون ہے۔۔۔‘‘
وجاہت علی نے آواز پہ کان لگاتے ہوئے کہا۔
پھر کوفت سے بولے۔
’’ایک تو میں ِاسے کمرے میں ہی بھول آیا ہوں۔۔۔ مصیبت!۔۔۔۔ پتا نہیں ِکس کی کال ہے۔‘‘
’’میں ا ُٹھا التی ہوں۔‘‘
’’ایک تو میں ِاسے کمرے میں ہی بھول آیا ہوں۔۔۔ مصیبت!۔۔۔۔ پتا نہیں ِکس کی کال ہے۔‘‘
’’میں ا ُٹھا التی ہوں۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہتے ہوئے اپنا کپ میز پہ رکھا۔
’’رہنے دو۔۔۔ اب اوپر ہی چلتے ہیں۔۔۔ تم بھی کپ کچن میں رکھ کر آ جاؤ۔‘‘
وجاہت علی نے کپ میز پہ رکھا اور ا ُٹھ کر اوپر کی طرف چل دیئے۔
اوپر پہنچنے کے بعد وہ رجب کے کمرے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
رجب کے کمرے کے دروازے کے اوپر بنے روشندان سے روشنی باہر فرش پہ پڑ رہی تھی۔
مستطیل کی شکل میں فرش پہ پڑتی ا ُس روشنی میں ا ُنھیں کچھ سائے سے لہراتے دکھائی دیئے۔ چونکہ
ا ُن کا پورا دھیان اپنے فون پہ آئی کال کی طرف تھا۔ اس لئے فورا ً غور نہیں کیا اور ان سایوں پہ پاؤں
رکھتے گزر گئے۔ مگر پھر فورا ً ہی ایسے لڑکھڑا کر پلٹے جیسے ا ُنھیں ا ُن سایوں سے ٹھوکر لگی ہو۔ پھٹی
سرے پہ گرہ لگا رہے تھے۔پھٹی آنکھوں سے انھوں نے بغور وہ سائے دیکھے۔ دو ہاتھ ایک لٹکتی رسی کے ِ
’’اوہ نَو۔‘‘
ان کے قدموں کے نیچے سے زمین سرک گئی۔ بھاگ کر رجب کے کمرے کی ناب گھمائی مگر
ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دروازہ اندر سے الکڈ تھا۔
’’ رجب!‘‘
وہ چالئے۔ پھر دروازہ پیٹنا شروع کر دیا۔
’’دروازہ کھولو رجب!۔۔۔ ایسے مت کرو۔۔۔ رجب!‘‘
وہ دروازے کو دھکے دے کر توڑنے کی کوشش کرنے لگے۔
’’کیا ہوا؟‘‘
حواس باختہ سی سکینہ بیگم وہاں آن پہنچیں۔
’’جلدی سے نوکروں کو بالؤ۔ رجب اندر خودکشی کر رہا ہے۔۔ بھاگو۔ جلدی۔‘‘
وجاہت علی نے مختصرترین الفاظ میں بتا کر سکینہ بیگم کو حکم دیا۔ سکینہ بیگم نے رِدعمل
ظاہر کرنے پہ بھی وقت ضائع نہ کیا اور واپس نیچے کی طرف دوڑ لگا دی۔
’’رجب!۔۔‘‘
ِ
انھوں نے پھر سے ناب گھما کر الک توڑنے کی کوشش کی مگر اس میں بھی ناکام رہے۔
اندر رجب بیڈ پہ لیدر کا ُفٹ سٹول رکھ کر ا ُس پہ کھڑا تھا۔ چھت پہ لگی پنکھے کی ُہک میں
رسی ڈالے ا ُس کے سرے پہ وہ اپنے لئے پھندا تیار کر رہا تھا۔ وجاہت علی کے دروازہ پیٹنے پہ اس کے
ہاتھوں کی حرکت میں تیزی آ گئی تھی۔ پھندا تیار کر کے ا ُس نے گرہ کی مضبوطی چیک کرنے کے لئے
رسی کھینچی تو ُہک پہ پڑی گرہ فورا ً کھل گئی۔ وہ سخت جھالیا۔ پھر سے رسی کی ملبائی متعین کرکے
جلدی جلدی گرہیں لگانے لگا۔ باہر سے آتی آوازوں سے پتا چل رہا تھا کہ باہر کافی لوگ جمع ہو چکے ہیں۔
دروازے پہ لگتی ضربوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ ا ُس نے جلدی سے پھندا گلے میں ڈاال اور اپنے پیروں کے
نیچے سے سٹول کھسکا ِدیا۔ ا ُسی آن دروازہ توڑ کر وجاہت علی اور ا ُن کے دو نوکر اندر کمرے میں داخل
ہوئے۔ سکینہ بیگم ا ُن کے پیچھے داخل ہوئیں اور سامنے پھندے سے لٹکتا اپنے جوان بیٹے کا وجود دیکھ کر
ا ُن کی چیخیں ِنکل گیئیں۔
وجاہت علی بھاگتے ہوئے بیڈ پہ جا چڑھے اور اس کا تڑپتا وجود اپنی بانہوں میں جکڑ کر
اونچا کیا تاکہ پھندا مزید تنگ نہ ہو۔ اتنے میں شاہد نے ُفٹ سٹول واپس بیڈ پہ رکھا اور منیر نے ا ُس پہ
کھڑے ہو کر رجب کے گلے سے پھندا نکال دیا۔
رجب بےہوش ہو چکا تھا۔ شاہد اور وجاہت علی نے ا ُسے احتیاط سے تھام کر بیڈ پہ لٹایا۔ ا ُس
کی سانس اٹک گئی تھی۔
’’رجب!۔۔ رجب!۔‘‘
وجاہت علی کا ِدل کانپ رہا تھا۔ وہ ا ُس کی سانس بحال کرنے کے لئے ا ُس کی چھاتی پہ دباؤ
ڈالنے لگے۔
سکینہ بیگم بھی کانپتے وجود کے ساتھ آگے بڑھیں اور رجب کے قریب آ کھڑی ہوئیں۔
ڈالنے لگے۔
سکینہ بیگم بھی کانپتے وجود کے ساتھ آگے بڑھیں اور رجب کے قریب آ کھڑی ہوئیں۔
کھردری رسی نے رجب کی گردن چھیل دی تھی۔ ہلکا ہلکا خون رس رہا تھا۔
منیر ہک سے پھندا ا ُتار کر خود بھی نیچے ا ُتر آیا۔ پھندا بیڈ کے کونے پہ ڈال کر بوال۔
’’میں ایمبولینس بالتا ہوں۔‘‘
کہہ کر وہ عجلت میں کمرے سے باہر نکل گیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد گھر کے الن میں بیٹھے اپنے فون پہ خبریں پڑھ رہے تھے جب انھیں گیٹ کے باہر
کچھ آوازیں سنائی دیں۔ وہ فون بند کر کے جیب میں رکھتے ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
اسرار احمد گھر کے الن میں بیٹھے اپنے فون پہ خبریں پڑھ رہے تھے جب انھیں گیٹ کے باہر
کچھ آوازیں سنائی دیں۔ وہ فون بند کر کے جیب میں رکھتے ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
گیٹ سے باہر آ کر دیکھا تو دونوں چوکیداروں کو وجاہت علی کو گھر میں داخل ہونے سے
روکتے پایا۔ وجاہت علی بھی چوکیداروں کے ساتھ منہ ماری کر رہے تھے۔ اسرار احمد کو دیکھ کر وجاہت
علی اور دونوں چوکیدار ُرک کر ا ُنکی طرف متوجہ ہو گئے۔
’’تم یہاں کیا کر رہے ہو؟‘‘
انھوں نے درشت لہجے میں وجاہت علی سے پوچھا۔
’’مجھے تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ میں شوال سے ملنے آیا ہوں اور ا ُس سے ِملے بنا نہیں
جاؤں گا۔‘‘
وجاہت علی بدلحاظی سے چال ا ُٹھے۔
اسرار احمد نے گھبرا کر ِادھر ا ُدھر دیکھا۔ سوائے ا ُن چاروں کے گلی میں اور کوئی نہیں تھا۔
وہ ایک قدم آگے بڑھا کر دبی آواز میں غرائے۔
ِ
’’یوں سِرعام تماشہ مت کھڑا کرو۔ شوال تم سے نہیں ملے گی۔ دفعان ہو یہاں سے۔‘‘
’’آئی ڈونٹ کیئر۔ میں شوال سے ِملنے آیا ہوں اور آج مجھے ا ُس سے ملنے سے کوئی نہیں
روک سکتا۔‘‘
ِ
وجاہت علی جیسے اپنے ہوش کھو بیٹھے تھے۔ آج انھیں اپنے وقار تو کیا ،اپنی عزت نفس تک
کی پرواہ نہیں تھی۔
’’کتنے نیچ اور گھٹیا قسم کے آدمی ہو تم۔۔۔‘‘
اسرار احمد نے حقارت کے ساتھ ا ُنھیں مالمت کرتے ہوئے کہا اور بولے۔
’’اس کے ساتھ اتنا سب کرنے کے بعد بھی ِکس بےشرمی سے ا ُس کا نام اپنی زبان پہ ال رہے
ہو۔۔۔۔ جو کچھ تم لوگوں نے ا ُس کے ساتھ کیا ہے۔ ا ُس کے بعد وہ بہت مشکل سے سنبھلی ہے۔ اب دوبارہ
تم سے ِمال کر میں ا ُسے پھر سے تکلیف نہیں دوں گا۔‘‘
چکی ہے لیکن میرا بیٹا َمر رہا ہے۔ میں کیسے ا ُسے اپنی آنکھوں کے ’’تمہاری بیٹی سنبھل ُ
سامنے مرتا دیکھوں؟‘‘ وجاہت علی پھر سے چِالئے۔
سن کر مالمتی انداز میں گردن نفی میں ہالئی اور استہزائیہ ہنسے۔ اسرار احمد نے یہ ُ
’’باتیں سنو ِاس آدمی کی۔۔۔۔۔ ‘‘
انھوں نے خود کالمی کی۔ پھر وجاہت علی کو مخاطب کرتے ہوئے پوچھنے لگے۔
’’تمہارا بیٹا مر رہا ہے؟۔۔۔ ا ُسی بلڈ کینسر سے؟‘‘
’’اگر میں نے ایک دفعہ جھوٹ بوال تھا تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں ہمیشہ جھوٹا ہوں۔ تم
خود چل کر ا ُس کی حالت دیکھ لو۔‘‘
وجاہت علی کے ِدل پہ گہری چوٹ لگی تھی۔ بُری طرح سے تڑپ گئے۔
اسرار احمد نے دوسری اور چہرہ موڑ لیا۔ وجاہت علی کی باتوں پہ یقین نہ کرتے ہوئے وہ
مالمتی انداز میں نفی میں گردن ہال رہے تھے۔ ا ُن کے یا وجاہت علی کے مزید کچھ کہنے سے پہلے ہی
شوال کی کار وہاں آ کر ُرکی۔ شوال دروازہ کھول کر گاڑی میں سے باہر ِنکلی ۔ کچھ نہ سمجھتے ہوئے
ایک نظر وجاہت علی اور دوسری اسرار احمد پہ ڈالی۔ اسے دیکھ کر وجاہت علی خوش اور اسرار احمد
پریشان ہو گئے۔
’’کیا ہو رہا ہے یہاں؟‘‘
شوال نے اسرار احمد سے دریافت کیا۔
سن لو۔ ُمجھے ایک ’’شوال!۔۔۔ میں تم سے بات کرنے آیا ہوں۔۔۔ بیٹا پلیز۔ ایک بار میری بات ُ
موقع دو۔ میں تمہیں کچھ بتانا چاہتا ہوں۔‘‘
اسرار احمد کو بولنے کا موقع دیئے بغیر وجاہت علی نے موقعے سے فائدہ ا ُٹھاتے ہوئے ا ُس
سے درخواست کی۔
اسرار احمد کو بولنے کا موقع دیئے بغیر وجاہت علی نے موقعے سے فائدہ ا ُٹھاتے ہوئے ا ُس
سے درخواست کی۔
’’میں تم سے کہہ چکا ہوں وجاہت! کہ شوال کو تم سے کوئی بات نہیں کرنی۔ جاؤ یہاں
سے۔‘‘
اسرار احمد نے گھبرا کر وجاہت علی کو ڈانٹا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کہ وجاہت علی پھر سے
شوال کے زخموں کو کریدیں۔
’’میں شوال سے بات کرنے آیا ہوں۔ تم اپنا منہ بند رکھو۔‘‘
وجاہت علی پھر سے بدتمیزی سے اسرار احمد پہ چِالئے۔ شوال یہ صورتحال دیکھ کر گھبرا
گئی۔ اسرار احمد کو مخاطب کرتے ہوئے بولی۔
’’پاپا! یہاں تماشہ نہ لگوائیں۔ انھیں اندر آنے دیں۔‘‘
کہہ کر وہ قریب کھڑے چوکیدار کو گاڑی کی چابی پکڑا کر اندر داخل ہوگئی۔ اسرار احمد
اور وجاہت علی ا ُس کے پیچھے پیچھے اندر آئے۔ َرن وے پہ چند قدم آگے چل کر وہ ہیڈج ) (hedgeکے
قریب ُرک گئی۔ ا ُس سے چند قدم پیچھے چلتے اسرار احمد بھی َرن وے کے ایک کنارے پہ کھڑے ہو گئے اور
دوسرے کنارے پہ وجاہت علی آ ُرکے۔
سن رہی ہوں۔‘‘ ’’پاپا! میں ُ
شوال نے ا ُن کی طرف پیٹھ کیے ہوئے سپاٹ لہجے میں کہا۔ ا ُس کی نظریں ہیڈج کی ٹہنیوں پہ
ا ُگے پت ّوں پہ جمی تھیں۔
’’شوال! میں تم سے رجب کی زندگی کی بھیک مانگنے آیا ہوں۔ وہ َمر رہا ہے۔ ا ُسے صرف تم
ہی بچا سکتی ہو۔
جب سے تم اسے چھوڑ کر گئی ہو۔ وہ اپنے ہوش کھو بیٹھا ہے۔ بار بار خودکشی کی ُ
جس ِدن تم ا ُسے چھوڑ کر آئی تھی۔ ا ُسی رات ا ُس نے اپنی گاڑی ایک ٹرالر سے دے کوششیں کرتا ہے۔ ِ
ِ
ماری تھی۔۔۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ا ُس کی چوٹیں بھری ہیں تو ا ُس نے گلے میں پھندا ڈال کر خود کو
لٹکا لیا۔۔۔۔
ڈاکٹرز کہتے ہیں کہ ا ُسے پاگل خانے بھیج دو۔ لیکن میں کیسے ا ُسے پاگل خانے بھیج دوں؟۔۔۔
میرا ایک ہی بیٹا ہے۔ میں ا ُسے کھونا نہیں چاہتا۔
مجبورا ً ا ُسے بستر پہ باندھ کر رکھا ہوا ہے۔ ِاس ا ُمید پر کہ تم واپس آ جاؤ گی تو وہ تمہیں
دیکھ کر ٹھیک ہو جائے گا۔
پلیز شوال!۔۔۔ گھر چلو۔ میرے بچے کو بچا لو۔۔۔ وہ بالکل بےقصور ہے۔ ا ُس نے تمہارے ساتھ
کوئی دھوکا نہیں کیا۔ وہ کینسر وغیرہ کا جھوٹ۔ وہ صرف میرا پالن تھا۔ وہ بھی ا ُس جھوٹ سے اتنا ہی
بےخبر تھا جتنی کہ تم۔۔۔۔
ِ
اور میں نے وہ جھوٹ تم دونوں کو مالنے کیلئے بوال تھا۔ تم دونوں کی خوشی کیلئے۔۔۔۔۔
کیونکہ رجب تم سے بےحد پیار کرتا ہے۔ اور میں جان گیا تھا کہ تم بھی ا ُسے چاہتی ہو مگر ایک بےکار
کی ضد کو لے کر ا ُس سے دُور رہتی ہو۔
میرا یقین کرو۔۔۔ میرا مقصد صرف اور صرف تم دونوں کو ِمالنا تھا۔ تاکہ تم دونوں ایک ساتھ
خوش رہو۔ میری کوئی بُری نّیت نہیں تھی شوال!۔۔۔۔
پھر بھی اگر تم اس کی سزا دینا چاہتی ہو تو مجھے دو۔ رجب کو نہیں۔ وہ بےقصور ہے۔
ا ُسے تمہاری ضرورت ہے۔ پلیز گھر چلو۔‘‘
وجاہت علی نے بہتے آنسوؤں کے درمیان اپنی درخواست پیش کی۔ اس وقت وہ شوال کے آگے
ہاتھ جوڑنا تو کیا۔ ا ُس کے پاؤں پڑنے کو بھی تیار تھے۔
شوال لب اور آنکھیں بھینچے ا ُن کا ایک ایک لفظ برداشت کر رہی تھی۔ جبکہ اسرار احمد
وجاہت علی کو سنتے ہوئے انھیں بغور دیکھ بھی رہے تھے۔
وجاہت علی کے خاموش ہو جانے کے بعد بھی شوال کچھ دیر کے لئے کچھ نہ بول سکی۔ ا ُس
نے خود کو مضبوط کرنے میں کچھ وقت لیا۔ پھر سپاٹ آواز میں اسرار احمد کو مخاطب کیا۔
وجاہت علی کے خاموش ہو جانے کے بعد بھی شوال کچھ دیر کے لئے کچھ نہ بول سکی۔ ا ُس
نے خود کو مضبوط کرنے میں کچھ وقت لیا۔ پھر سپاٹ آواز میں اسرار احمد کو مخاطب کیا۔
’’پاپا!۔۔۔ انھوں نے جو کہنا تھا کہہ لیا۔ اب ِان سے کہہ دیں کہ یہ یہاں سے چلے جائیں اور
دوبارہ کبھی ہمیں تنگ نہ کریں۔ میں انھیں جانتی ہوں نہ ِان کے بیٹے کو۔‘‘
شوال کہہ کر ُرکی نہیں اور تیز تیز ڈگ بھرتی اندر کی طرف چل پڑی۔
وجاہت علی کو نظر انداز کرتے ہوئے اسرار احمد ِفکرمند ہو کر اس کے پیچھے لپکے۔
وجاہت علی بالکل ہارے ہوئے کھڑے ا ُن دونوں کو جاتا دیکھتے رہ گئے۔ پھر انھوں نے گردن
جھکا لی اور واپسی کے ارادے سے ُمڑے۔
آج وہ زندگی میں سب کچھ ہار گئے تھے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
سکینہ بیگم تیار ہو کر سیڑھیوں سے ا ُتریں۔ وجاہت علی کو ابھی تک نائٹ سوٹ میں ملبوس
ہال کے صوفے پہ پاؤں پسارے بیٹھے پایا تو ا ُن کی طرف چلی آئیں۔
’’آپ آج کام پہ نہیں جائیں گے؟‘‘
انھوں نے دھیرے سے استفسار کیا۔
وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا اور سیدھے ہو بیٹھے۔ ا ُن کا ایک ایک انداز شکست
خوردہ تھا۔
’’کیا کروں کام پہ جا کر؟۔۔۔۔ ِکس کے لئے کماؤں۔‘‘
آواز میں صرف مایوسی اور شکست خوردگی تھی۔
سکینہ بیگم نے آنکھیں بھینچ لیں۔ پھر آہ کے انداز میں سانس خارج کرتے ہوئے ا ُن کے مقابل
آ بیٹھیں۔
’’ٹھیک کہا آپ نے۔۔۔۔۔ انسان اوالد کے لئے ہی سب کچھ کرتا ہے۔ جب وہ ہی نہیں تو پھر
ِکس کے لئے کرے۔‘‘
سکینہ بیگم نےنہایت ُدکھ سے کہا۔ پھر بولیں۔
’’لیکن مجھے تو ہر حال میں جانا ہے۔‘‘
کہتے ہوئے ا ُن کی آنکھیں بھر آئیں۔ انھیں بہت کچھ یاد آنے لگا تھا۔ بہتے آنکھوں میں نمی
لئے کہنے لگیں۔
’’میں نے یہ سکول رجب کی پیدائش سے پہلے بنانے کا سوچا تھا۔
سوچا تھا کہ اپنی باقی کی زندگی غریب اور نادار بچوں کو مفت تعلیم دیتے ہوئے گزار دوں
گی۔
پھر رجب کی پیدائش کے بعد میری زندگی بدل گئی۔ لیکن میں نے اپنا ارادہ نہیں بدال۔
سوچا۔۔۔۔ شاید اهلل کو میرا یہی ارادہ پسند آیا تھا جو ا ُس نے مجھ پہ اتنی بڑی نوازش کی۔
ِاس لئے رجب کے نام پہ یہ سکول قائم کیا۔ تاکہ اهلل تعاٰلی ِان بےکس بچوں کو پڑھانے کے صدقے ہمارے
بیٹےکو ملبی عمر عطا کرے۔ ‘‘
سکینہ بیگم نے توقف کرتے ہوئے ضبط کی ایک ناکام کوشش کی۔
پھر بولیں۔
’’آج بھی یہی سوچ کر جا رہی ہوں کہ شاید ا ُن بچوں کی دعائیں ہمیں لگ جائیں اور اهلل
ہمارے بیٹے کو ایک نئی زندگی بخش دے۔‘‘
وجاہت علی ا ُن کی بات کے جواب میں کچھ نہ بولے۔ بس خاموشی سے سر جھکائے بیٹھے
رہے۔ وہ بہت رنجیدہ اور افسردہ تھے۔
سکینہ بیگم رو کر اب اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں جب وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں
دیکھا۔
سکینہ بیگم رو کر اب اپنے آنسو پونچھ رہی تھیں جب وجاہت علی نے سر ا ُٹھا کر انھیں
دیکھا۔
’’میں سوچ رہا ہوں۔۔۔۔ کہ رجب کو پاگل خانے بھیج دوں۔‘‘
’’بھیج دیں ناں!۔۔۔ میں بھی تو یہی کہہ رہی ہوں۔ وہاں کم از کم ہمارا بیٹا زندہ تو ہوگا۔ اور
کیا پتا وہ جلد ٹھیک ہو کر لوٹ بھی آئے۔‘‘
سکینہ بیگم رجب کو پاگل خانے بھیجنے کے لئے پوری طرح اماّدہ تھیں۔
وجاہت علی نے فیصلہ کُن انداز میں اثبات میں سر ہالیا۔
’’میں آج ہی پاگل خانے فون کرتا ہوں۔‘‘
’’صاحب جی! یہ ابھی ابھی ڈاکیا دے کر گیا ہے۔‘‘
اچانک پیچھے سے نوکر نے آکر ہاتھ میں پکڑا بڑا سا کاغذی لفافہ وجاہت علی کی طرف بڑھا
دیا۔
وجاہت علی نے گردن گھما کر نوکر کو دیکھا۔ پھر بڑھا ہوا لفافہ تھام لیا۔
نوکر واپس ُمڑ گیا۔
وجاہت علی الجھن کے ساتھ لفافہ کھولنے لگے۔
سکینہ بیگم بھی متجسس سی انھیں دیکھے گیئیں۔
’’کیا ہے یہ۔‘‘
پیپرز نکال کر دیکھتے ہوئے وجاہت علی کے چہرے کے بدلتے رنگ دیکھ کر سکینہ بیگم کو کچھ
غیرمعمولی پن کا احساس ہوا۔
’’شوال کے وکیل کی طرف سے نوٹس ہے۔۔۔ شوال نے طالق مانگی ہے۔‘‘
وجاہت علی نے جیسے خبر پڑھ کر سنائی۔
’’کیا؟‘‘
سکینہ بیگم کے حواسوں پہ بجلی ِگری۔ ا ُنھوں نے اپنا ایک ہاتھ منہ پہ رکھ لیا۔
وجاہت علی کچھ نہ بولے۔ وہ پیپرز ہاتھ میں لئے کچھ سوچ رہے تھے۔ پھر سامنے میز پہ رکھا
اپنا فون ا ُٹھا کر نمبر مالنے لگے۔
’’ِکسے فون کر رہے ہیں؟‘‘
سکینہ بیگم نے بےچین ہو کر پوچھا۔
’’ایک منٹ۔‘‘
کال ِمال کر فون کان سے لگاتے ہوئے وجاہت علی نے سکینہ بیگم کو خاموش رہنے کا اشارہ
کیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسرار احمد گاڑی میں فرنٹ سیٹ پہ بیٹھے تھے۔ کامران ا ُن کے برابر میں بیٹھا کار چال رہا
تھا۔ جبکہ عمران پچھلی سیٹ پہ بیٹھا تھا۔ تینوں باپ بیٹا ایک ساتھ کام پہ جا رہے تھے۔
اسرار احمد کے چہرے پہ گہری سوچ کے سایے تھے۔
’’کامران!۔۔۔ تمہیں کچھ رجب کی خبر ہے؟ آئی ِمین۔۔۔ وہ اپنے باپ کے ساتھ کام پہ جاتا
ہے؟ ‘ ‘
اچانک انھوں نے کامران کی طرف چہرہ موڑ کر پوچھا۔
’’معلوم نہیں ۔۔۔ السٹ ا ُس کے بارے میں یہی سنا تھا کہ وہ ہوسپٹل سے ڈسچارج کیا جا
چکا ہے۔ ا ُس کے بعد کی خبر نہیں۔‘‘
کامران نے العلمی کا اظہار کیا۔
’’آپ کیوں پوچھ رہے ہیں پاپا!؟۔۔۔ چھوڑیں ا ُن لوگوں کو۔ میں تو ا ُن کا نام بھی نہیں سننا
چاہتا۔‘‘
’’آپ کیوں پوچھ رہے ہیں پاپا!؟۔۔۔ چھوڑیں ا ُن لوگوں کو۔ میں تو ا ُن کا نام بھی نہیں سننا
چاہتا۔‘‘
پیچھے سے عمران نے اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
اسرار احمد کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ا ُن کے فون کی رنگ نے مداخلت کی۔ انھوں نے فون
نکال کر دیکھا۔ وجاہت علی کی کال تھی۔
انھوں نے کال ریسیو کر لی۔
’’ہیلو وجاہت علی صاحب! مجھے یقین تھا کہ آپ ضرور کال کریں گے۔۔۔ مجھے زیادہ انتظار
نہ کروانے کا شکریہ۔‘‘
خاطب اپنا رکھا تھا۔ انھوں نے طنزیہ طرِز ت ٓ
کامران اور عمران نے وجاہت علی کے نام پہ چونک کر ا ُن کی طرف دیکھا۔
’’مجھے ابھی تمہارا بھیجا ہوا نوٹس ِمال ہے۔‘‘
توقع کے برعکس وجاہت علی کا لہجہ ہارا ہوا تھا۔
’’ہاں تو کہو!۔۔۔۔ تمہیں یہ منظور نہیں ہے؟۔۔۔۔‘‘
اسرار احمد نے اپنی توقعات کے مطابق کہا۔ پھر ِاس متوقع چیلنج کو قبول کرتے ہوئے بولے۔
’’ایک بات اچھی طرح سے جان لو وجاہت!۔۔۔۔ تم چاہے کچھ بھی کر لو۔ کسی بھی بڑے سے
بڑے وکیل کو ہائر کر لو۔ پھر بھی یہ طالق ہو کر رہے گی۔‘‘
ا ُن کا لہجہ ٹھوس اور اٹل تھا۔
’’ِاسی لئے میں نے تمہیں فون کیا ہے۔‘‘
وجاہت علی ا ُسی ٹوٹے ہوئے لہجے میں بولے۔
’’وکیلوں اور کچہریوں کے چکر میں پڑ کر اپنا وقت کیوں برباد کرتے ہو؟۔۔۔۔ رجب آج ہی طالق
کے پیپرز پہ سائن کر دے گا۔ بشرطیکہ شوال خود آ کر ا ُس سے طالق مانگے تو۔۔۔۔ اتنا تو میں اپنے بیٹے
کو جانتا ہوں کہ اگر شوال ا ُس کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے منہ سے ا ُس سے طالق کا مطالبہ کرے گی تو
وہ منع نہیں کرے گا۔‘‘
اسرار احمد جواب میں فورا ً کچھ نہ بول پائے۔
وجاہت علی کا رویہ اور رِدعمل دونوں ہی غیر متوقع تھے۔ سو ،جب وہ بولے تو آواز میں وہ
مضبوطی اور سختی نہیں تھی۔
’’ٹھیک ہے۔۔۔۔ تمہاری یہ خواہش تو میں پوری کر ہی سکتا ہوں۔ میں خود شوال کو لے کر آؤں
گا۔ بتاؤ کہ کب اور کہاں آنا ہے؟ تمہارے گھر یا تمہارے آفس؟‘‘
’’میرے گھر۔۔۔ اینی ٹائم۔۔۔۔ چاہو تو ابھی آ جاؤ۔‘‘
وجاہت علی پوری طرح سے تعاون کر رہے تھے۔
اسرار احمد نے پہلے سوچا۔ پھر بولے۔
’’ہوں۔۔۔ تو ٹھیک ہے۔ آج دوپہر ایک بجے تک آ جاؤں؟‘‘
’’ٹھیک ہے۔ آ جانا۔ ہم گھر پہ ہی ہیں۔‘‘
وجاہت علی نے کہہ کر کال کاٹ دی۔
’’پاپا!۔۔۔ آپ ا ُس سے ِملنے جا رہے ہیں؟۔۔۔ شوال کو لے کر؟‘‘
عمران اب بھی خاموش نہ رہ سکا۔
’’ایک منٹ عمران! مجھے بات کرنے دو۔‘‘
اسرار احمد نے فون کان سے ہٹانے کے بعد گھر کا نمبر مالتے ہوئے کہا۔
عمران خاموش ہو گیا۔ اسرار احمد نے فون کان سے لگا لیا۔
’’ہیلو۔‘‘ کنزہ نے فون ا ُٹھایا۔
’’کنزہ بیٹا! میں تمہارا پاپا بول رہاہوں۔ شوال کو بالنا ذرا۔‘‘
’’جی اچھا۔ آپ ایک منٹ ہولڈ کریں۔‘‘
’’کنزہ بیٹا! میں تمہارا پاپا بول رہاہوں۔ شوال کو بالنا ذرا۔‘‘
’’جی اچھا۔ آپ ایک منٹ ہولڈ کریں۔‘‘
کنزہ نے کہا۔
وہ انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد شوال کی آواز آئی۔
’’ہیلو۔‘‘
’’شوال!۔۔۔ تم آج بارہ بجے تک میرے آفس پہنچ جانا۔ ہم دونوں کہیں جا رہے ہیں۔‘‘
’’کہاں؟‘‘ شوال نے سوال کیا۔
’’وہ جب تم آؤ گی تو بتاؤں گا۔ بس تم بارہ بجے میرے آفس پہنچ جانا۔ ٹھیک ہے؟‘‘
انھوں نے محبت و شفقت سے کہا۔
’’او۔ کے پاپا! جیسا آپ کہیں۔‘‘
شوال نے کہا۔
’’او۔ کے۔ آفس میں ِملتے ہیں پھر۔ اپنا خیال رکھنا۔ اهلل حافظ۔‘‘
’’اهلل حافظ۔‘‘
شوال نے کہہ کر فون رکھ دیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
دوپہر ایک بجے کے قریب اسرار احمد اور شوال نے ایک نوکر کی رہنمائی میں وجاہت علی کے
جس میں طالق کے کاغذات تھے۔ گھر کے ہال میں قدم رکھا۔ شوال کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا ِ
سکینہ بیگم اور وجاہت علی ہال میں منتظر بیٹھے تھے۔ ا ُن دونوں کو اندر آتا دیکھ کر ا ُٹھ
کھڑے ہوئے۔
نوکر انھیں اندر داخل کرنے کے بعد خود واپس ُمڑ گیا۔ اسرار احمد دو ہی قدم آگے بڑھے تھے
کہ جانا شوال ا ُن کے ساتھ نہیں چل رہی۔ ا ُنھوں نے ُمڑ کر دیکھا۔
شوال دروازے میں ساکت کھڑی تھی۔ ا ُنھوں نے واپس ُمڑ کر اس کا ہاتھ تھاما۔ ا ُس نے نظریں
ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
اسرار احمد نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے اپنے ساتھ کا یقین دالیا۔
’’آؤ۔‘‘ انھوں نے کہا۔
شوال اپنے اندر ہمت مجتمع کرتی ا ُن کے پیچھے چل پڑی۔
’’اسالم علیکم!۔‘‘
قریب آنے پہ سکینہ بیگم نے دونوں کو سالم کیا۔ پھر شوال کی طرف دیکھا۔
’’کیسی ہو شوال!؟‘‘
وہ چاہ کر بھی شوال کے قریب جانے کی ہمت نہ کر پائیں۔ شوال بھی ا ُن کے سالم کا جواب
دینا نہیں چاہتی تھی۔ شوال اور سکینہ بیگم دونوں کے لئے یہ آکورڈ سی صورتحال تھی۔
ایسے میں اسرار احمد نے مداخلت کرتے ہوئے وجاہت علی کو مخاطب کیا۔
’’تمہارے کہنے کے مطابق میں شوال کو لے آیا ہوں۔ اب ُبالؤ اپنے بیٹے کو۔ ‘‘
لہجہ سخت اور کھردرا تھا۔
’’وہ یہاں نہیں آ سکتا۔ تمہیں ا ُس کے کمرے میں جانا ہو گا۔‘‘
وجاہت علی کے جواب پہ اسرار احمد نے چونک کر بغور انھیں دیکھا۔ آیا وجاہت علی ا ُن کے
ساتھ کوئی کھیل تو نہیں کھیل رہے۔
لیکن وجاہت علی کے چہرے اور آنکھوں میں کوئی خباثت یا ریا نہیں تھی۔
اسرار احمد کو جواب دے کر سکینہ بیگم سے بولے۔
’’سکینہ! جاؤ تم انھیں رجب کے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘
’’میں؟۔۔۔‘‘
’’سکینہ! جاؤ تم انھیں رجب کے کمرے میں لے جاؤ۔‘‘
’’میں؟۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم نے بےیقینی سے اپنے شوہر کا چہرہ دیکھا۔ اتنا مشکل کام وہ کیسے کر سکتی
تھیں۔
’’تمہیں ہی جانا پڑے گا۔۔۔۔ تم جانتی ہو کہ رجب میرا چہرہ تک نہیں دیکھنا چاہتا۔‘‘
وجاہت علی نے اپنے لہجے میں ذرا سختی سمو کر کہا۔
سکینہ بیگم نے بےبسی سے وجاہت علی کو دیکھا۔ پھر شوال اور اسرار احمد کی طرف چہرہ
موڑا۔
ُ
اسرار احمد بغور ان دونوں میاں بیوی کے چہرے پڑھ رہے تھے۔
’’ آیئے۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہا تو وہ خاموشی سے ا ُن کے پیچھے چل دیئے۔
شوال ا ُن کے پیچھے چلتے ہوئے گھبراہٹ جبکہ اسرار احمد کوفت محسوس کر رہے تھے۔ دونوں
کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا ہونے جا رہا ہے۔
وجاہت علی کا اتنی آسانی سے طالق کیلئے ماننا۔ پھر گھر ُبال کر اسطرح کمرے میں بھیجنا۔
صہ لگ رہا تھا۔ اور ِاسی بات کی اسرار احمد کو کوفت ہو رہی تھی کہ جانے وجاہت سب کسی پالن کا ح ّ
علی نے اب کیا سوچ رکھا ہے۔
سکینہ بیگم کی رہنمائی میں وہ دونوں باپ بیٹی رجب کے کمرے میں داخل ہوئے۔
سامنے رجب بستر پہ پڑا تھا۔ ا ُس کا پورا جسم ایک سفید چادر کے نیچے ڈھکا ہوا تھا
ماسوائے چہرے کے۔ اس کا کیئرر ہاشم بھی قریب ہی بیٹھا کوئی کتاب پڑھ رہا تھا۔ ا ُن لوگوں کو اندر
داخل ہوتا دیکھ کر ا ُٹھ کھڑا ہوا۔
اسرار احمد کی نظر دیوار پہ پڑی اور وہ ایک ملحے کے لئے سب کچھ بھول کر کمرے کی
دیواروں پہ چپکی شوال کی تصویریں دیکھنے لگے۔
سکینہ بیگم نے آگے بڑھ کر رجب کی پیشانی پہ نرمی سے ہاتھ رکھا۔
’’رجب!۔‘‘ انھوں نے نرمی سے پکارا۔
اسرار احمد تصویروں سے نظریں ہٹا کر رجب کی طرف دیکھنے لگے۔
جبکہ شوال نے اپنی نظریں فرش پہ جما رکھی تھیں۔ رجب کی طرف دیکھنے کا ا ُس کا من
چاہ رہا تھا نہ ہمت ہو رہی تھی۔
’’ا ُٹھو بیٹا!۔۔۔ دیکھو تو ۔۔۔۔ تم سے ِملنے کون آیا ہے؟‘‘
رجب کو جگاتے ہوئے سکینہ بیگم کے ِدل پہ کیا گزر رہی تھی۔ صرف وہ ہی جانتی تھیں۔
رجب نہ جاگا تو وہ پھر سے ا ُسے پکارنے لگیں۔
’’رجب!۔۔۔۔ ا ُٹھو بیٹا!۔۔۔ دیکھو۔ شوال آئی ہے۔‘‘
شوال کے نام پہ رجب نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔
نظر سیدھی شوال پہ جا پڑی۔ شوال نے بھی ا ُسی آن نظریں ا ُٹھا کر ا ُس کی طرف دیکھا۔
’’شوال!‘‘
رجب نے بےچینی سے زیِرلب ا ُس کا نام دہرایا۔
شوال کے قدم ڈگمگانے لگے۔ اپنی بغل میں کھڑے اپنے باپ کی موجودگی کا احساس کر کے
بمشکل ا ُس نے اپنے آپ کو اپنے پیروں پہ کھڑا رکھا۔
’’کیوں آئی ہے یہ ؟۔۔۔ ِاس سے کہیں کہ یہاں سے چلی جائے۔ میں ِاس کا سامنا نہیں کر
سکتا۔‘‘
رجب نے کرب کے ساتھ کہتے ہوئے اپنا چہرہ دوسری اور موڑ لیا۔ ا ُس کی گردن سے چادر ذرا
سی ہٹ گئی اور نیچے سے زخم کا ایک کونا باہر جھانکنے لگا۔
اسرار احمد نے وہ زخم کا کونا دیکھا لیا۔
رجب کے جاگنے کی تسلی کر کے سکینہ بیگم چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گیئیں۔ خوف
اسرار احمد نے وہ زخم کا کونا دیکھا لیا۔
رجب کے جاگنے کی تسلی کر کے سکینہ بیگم چند قدم پیچھے ہٹ کر کھڑی ہو گیئیں۔ خوف
سن کر رجب کی کیا کے عالم میں انھوں نے منہ پہ ہاتھ جما رکھا تھا۔ شوال کے منہ سے طالق کا مطالبہ ُ
صور سے ہی ا ُن کا ِدل لرز رہا تھا۔ مگر پھر بھی وہ کسی طرح اپنے آپ پہ قابو حالت ہو گی۔ ِاس کے ت ّ
پائے ہوئے تھیں۔
اسرار احمد آگے بڑھنے لگے۔
شوال اپنی جگہ کھڑی رہی۔ وہ صرف اسرار احمد کے حکم پر ہی آگے بڑھنا چاہتی تھی۔
رجب دوسری طرف منہ موڑے لیٹا آنکھیں بھینچے اپنے آنسو روکنے کی کوششں کر رہا تھا۔
مگر باغی آنسو پلکوں کی باڑ توڑ کر باہر بہہ رہے تھے۔
اسرار احمد نے قریب پہنچ کر بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ بڑھایا اور رجب کی گردن کے پاس سے
چادر کا کونا پکڑ کر ایک ہی بار میں ا ُس کے پورے بدن سے چادر ہٹا دی۔
ا ُس کی گردن کے ِگرد پڑا زخم کا نیم دائرہ ،ا ُسکے بندھے ہوئے ہاتھ پاؤں اور ا ُس کے سینے
جس نے رجب کو اونچا ہونے سے بھی روک رکھا تھا۔ سب کچھ شوال اور کے اوپر سے گزرتی ایک پٹیِ ،
اسرار احمد کی آنکھوں کے سامنے آ گیا۔
رجب کی یہ حالت دیکھ کر جہاں انھیں دھچکا لگا۔ وہیں رجب کی گردن دیکھ کر شوال کی
چیخیں ِنکل گیئیں۔ لفافہ ہاتھ سے چھوٹ کر فرش پہ ِگر گیا اور وہ دونوں ہاتھ منہ پہ جما کر چیختی ہوئی
پیچھے ہٹنے لگی۔
سکینہ بیگم اور رجب ا ُس کے چیخنے پہ ا ُچھل پڑے اور گھبرا کر ا ُس کی طرف دیکھنے لگے۔
اسرار احمد کو پہلے ہی رجب کی حالت دیکھ کر شاک پہنچا تھا۔ ا ُس کے اسطرح چیخنے پہ
اور بھی بوکھال گئے۔
’’شوال!۔۔۔ شوال!۔‘‘
ُ
چیخیں مارتی خوفزدہ شوال کو سنبھالنے کے لئے وہ اس کی طرف بڑھے۔
مگر شوال کے لئے وہاں رکنا محال تھا۔ وہ ُمڑی اور بھاگتی ہوئی وہ کمرہ تو کیا اس گھر
سے بھی نکلتی چلی گئی۔
ہال میں موجود وجاہت علی ا ُس کی چیخیں سن کر الگ سے گھبرا ا ُٹھے تھے۔ ا ُسے یوں جاتے
ہوئے اور ا ُس کے پیچھے ہی اسرار احمد کو بھاگتے دیکھ کر وہ اور بھی پریشان ہو گئے۔ سمجھ نہیں آ
رہا تھا کہ ا ُن دونوں کے پیچھے جائیں یا جا کر رجب کی حالت دیکھیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
گھر سے باہر نکل کر شوال سائیڈ پہ پارک کی ہوئی اپنی گاڑی میں آ بیٹھی اور دونوں ہاتھوں
سے چہرہ ڈھانک کر رونا شروع کر دیا۔
’’شوال!‘‘
اسرار احمد نے ا ُسے گاڑی میں بیٹھے دیکھا تو ا ُنھیں قدرے تسلی ہوئی۔ پھر وہ بھی کچھ
سوچنے لگے۔
ِ
اندر شوال رو رہی تھی اور وہ باہر کھڑے گہری غور و فکر میں غلطاں تھے۔ جلد ہی جیسے
وہ ایک نتیجے پہ پہنچ کر ُمڑے اور ڈرائیونگ سیٹ پہ آبیٹھے۔ شوال ا ُن کے آنے پہ چہرے سے ہاتھ ہٹا کر
اپنے آنسو پونچھنے لگی۔ آنسو بہتے جا رہے تھے اور وہ پونچھتی جا رہی تھی۔ اسرار احمد نے بغور ا ُس
کی حالت مالحظہ کی۔
’’آئم سوری پاپا!۔۔۔ میں ایسا کرنا نہیں چاہتی تھی۔ بس مجھ سے ہو گیا۔‘‘
اس نے ا ُسی طرح بہتے آنسو پونچھتے ہوئے شرمندگی کے ساتھ کہا۔ اسرار احمد نے کچھ
کہے بنا اس کا شانہ تھپتھپایا۔
’’تم رونا بند کرو تو میں تم سے کچھ اہم باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
کہے بنا اس کا شانہ تھپتھپایا۔
’’تم رونا بند کرو تو میں تم سے کچھ اہم باتیں پوچھنا چاہتا ہوں۔‘‘
شوال اب خود کو واقعی میں سنبھالنے لگی۔
’’جی۔‘‘
اپنے آنسو پونچھ کر آخرکار وہ اسرار احمد کی طرف دیکھنے الئق ہو گئی۔
’’شوال!۔۔۔۔ اگر تم ا ُس دھوکے کو ایک طرف رکھ دو۔ یعنی جب تک وہ واقعہ نہیں ہوا تھا ا ُس
سے پہلے۔۔۔ رجب کا رویہ کیسا تھا تمہارے ساتھ؟‘‘
شوال کچھ نہ سمجھتے ہوئے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔
’’میرا مطلب ہے۔۔۔ کیا کبھی ا ُس نے تمہارے ساتھ کوئی زیادتی کی؟ کسی قسم کا غلط برتاؤ
کیا ہو؟ یا پھر کوئی بےایمانی کی ہو تمہارے ساتھ؟ ‘‘
شوال نے سر جھکا لیا۔ پھر بنا کچھ کہے نفی میں سر ہال دیا۔
’’تو کیا وہ مخلص تھا تمہارے ساتھ؟‘‘
اسرار احمد نے اگال سوال کیا۔
ِ
’’ہاں!۔۔۔ جب تک مجھے ا ُس کے اس فراڈ کا پتا نہیں چال تھا۔ تب تک مجھے یہی لگتا تھا کہ
وہ مخلص ہے۔‘‘ ا ُس نے جھکا ہوا سر نہ ا ُٹھایا۔
’’وہ چاہتا تھا تمہیں؟۔۔۔ تمہاری پرواہ کرتا تھا؟‘‘
اسرار احمد نے اس فراڈ کا ذکر نظرانداز کرتے ہوئے ایک اور سوال کیا۔ شوال نے اب اثبات
میں سر ہالیا۔ زبان سے قبولنا تھوڑا مشکل تھا۔
’’کیا تم بھی ا ُس سے پیار کرنے لگی تھی؟‘‘
اسرار احمد کا اگال سوال ا ُسے بُری طرح چونکا گیا۔ ا ُس نے ایک جھٹکے سے سر ا ُٹھا کر
اسرار احمد کو دیکھا۔
’’آپ ایسے سوال کیوں پوچھ رہے ہیں پاپا!؟‘‘
اسرار احمد کچھ کہنے کی بجائے ا ُس کے چہرے پہ نظریں جمائے ا ُسے دیکھ رہے تھے۔
جیسے ا ُس کا چہرہ پڑھ رہے ہوں۔ ا ُس کے چہرے پہ سوال کی جگہ الجھن بڑھنے لگی۔ اسرار احمد گویا
ہوئے۔
’’وہ ِاس لئے کہ رجب بےقصور ہے۔۔۔۔ وجاہت سچ کہہ رہا تھا۔ یہ سارا کھیل ا ُس کا کھیال ہوا
صہ نہیں تھا۔‘‘ تھا۔ رجب اس سازش کا ح ّ
صہ نہیں تھا۔ تو جو بات میرے اور ا ُس کے درمیان تھی ،وہ ا ُس کے ’’اگر وہ اس سازش کا ح ّ
باپ کو کیسے پتا چلی؟‘‘ اس نے سوال ا ُٹھایا۔
اسرار احمد برجستہ بولے۔
’’یہ تم ا ُن سے پوچھ سکتی ہو۔۔۔۔ ہو سکتا ہے کہ وجاہت کو شک ہو گیا ہو۔۔۔ یا ِکسی اور
زریعے سے یہ بات اس تک پہنچی ہو۔
لیکن ،یقین کرو۔ رجب تم سے بہت پیار کرتا ہے۔ وہ کبھی تمہیں دھوکا دینے کے بارے میں
نہیں سوچ سکتا۔‘‘
وہ الجواب سی ہو کر ا ُن کا منہ تکنے لگی۔ پھر سر جھکا کر ا ُن کے الفاظ پہ غور کرنے لگی۔
اسرار احمد خودکالمی کے انداز میں گویا ہوئے۔
’’ آج مجھے سمجھ آ رہا ہے کہ وجاہت پہلے دن سے ہی سچ بول رہا تھا۔ رجب واقعی میں
تمہیں چاہتا تھا۔ یہ ا ُس کی چاہت کی شّدت تھی جو وجاہت میرے سامنے اپنا دامن پھیالنے کو تیار ہو
گیا۔۔۔ میں نے ہی ا ُس کا اعتبار نہ کیا۔‘‘
اسرار احمد پہ ساری حقیقت واضح ہو چکی تھی۔ وہی حقیقت وہ اب ا ُسے بتال رہے تھے۔
’’اور تم نے بتایا تھا ناں کہ رجب تھوڑا سائیکو ہے۔۔۔۔ ایسا لڑکا جسے چاہتا تھا۔ وہ کیسے
ا ُس کی شادی کسی اور سے ہونے دیتا؟۔۔۔۔ یہ بھی ا ُس کی چاہت کی شدت تھی جس نے وجاہت کو تمہیں
’’اور تم نے بتایا تھا ناں کہ رجب تھوڑا سائیکو ہے۔۔۔۔ ایسا لڑکا جسے چاہتا تھا۔ وہ کیسے
ا ُس کی شادی کسی اور سے ہونے دیتا؟۔۔۔۔ یہ بھی ا ُس کی چاہت کی شدت تھی جس نے وجاہت کو تمہیں
ا ُٹھا النے پہ مجبور کر دیا۔‘‘
سن رہی تھی۔ اسرار احمد ا ُسے وہ پوری آنکھیں کھولے اپنے باپ کے منہ سے سارے حقائق ُ
قائل کرنے کے انداز میں بولے۔
’’شوال!۔۔۔یہ بات کلئیر ہے کہ رجب نے تم سے کوئی دھوکا نہیں کیا۔۔۔ وہ بھی تمہاری طرح
بےخبر تھا۔۔۔۔
ُدنیا میں اور کوئی بھی تم سے ا ُس جتنی محبت نہیں کر سکے گا شوال!۔۔۔ اگر تم بھی ا ُسے
ھال کر تم ا ُس کے ساتھ رہنا چاہو تو میری طرف سے پوری اجازت ہے۔‘‘
چاہتی ہو اور وہ سارا واقعہ ب ُ
’’پاپا!‘‘
شوال کو اپنے کانوں پہ یقین نہ آیا۔
ضد یا دشمنی تم دونوں کی زندگی سے ’’میں ٹھیک کہہ رہا ہوں شوال!۔۔۔۔ میری کوئی بھی ِ
بڑھ کر نہیں ہے۔
اگر تم دونوں ایک ساتھ خوش رہ سکتے ہو تو میں تم دونوں کی خوشی میں خوش ہوں۔۔۔
رہا وجاہت۔۔۔
ِ
تو تم ا ُس کی فکر نہ کرو۔۔۔۔ اب میں تمہارے ساتھ ہوں ناں!۔۔ اب ا ُس میں َدم نہیں کہ
تمہاری زندگی میں کوئی مداخلت کر سکے یا تمہیں کسی طرح سے پریشان کر سکے۔‘‘
شوال نے ایک بار پھر نگاہیں جھکا لیں۔ ا ُس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کہے،
کیسے کہے۔ اتنا اچانک ،اتنا اہم اور غیر متوقع فیصلہ ا ُسے کرنا پڑ رہا تھا۔ عجیب بےبسی تھی۔
’’پاپا!۔‘‘
کچھ نہ سمجھ آیا تو وہ رو پڑی۔ اسرار احمد ا ُس کے ِدل کا حال خوب سمجھتے تھے۔ جو
فیصلہ وہ خود نہیں کر پا رہی تھی۔ انھوں نے کر دیا۔
’’چلو۔۔۔ باہر ِنکلو۔ ہم واپس اندر جا رہے ہیں۔‘‘
کہتے ہوئے وہ اپنی اور کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئے۔ شوال کی ہّمت نہ ہوئی کہ وہ اپنی
طرف کا دروازہ کھول سکتی۔ واپس ا ُس گھر میں جانے کے خیال سے ا ُس کی ٹانگیں کانپ رہی تھیں۔ ملبے
ملبے سانس لیتے ہوئے وہ ِاس ساری صورتحال کو قبول کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔
اسرار احمد گھوم کر آئے اور ا ُس کی طرف کا دروازہ کھول کر اس کا ہاتھ پکڑ کر ا ُسے باہر
نکال لیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رجب بری طرح سے بپھرا ہوا تھا۔ وجاہت علی اور سکینہ بیگم ا ُسےقابو کرنے کی کوشش کر
رہے تھے۔
’’چھوڑ دو مجھے۔۔۔ چھوڑ دو۔۔۔ مجھے آپ کی شکل سے بھی نفرت ہے۔۔۔ میری بربادی کے
ذمہدار آپ ہیں۔۔۔ آپ نے میرے بچے کو مارا۔ میری بیوی کو آپ نے مجھ سے الگ کیا۔۔۔ آپ کے دھوکے نے
ہماری زندگی برباد کر دی۔۔۔۔ چلے جائیں میری نظروں کے سامنے سے۔ چلے جائیں۔۔۔ مجھے نفرت ہے آپ
سے۔۔۔ مجھے نفرت ہے آپ کی اوالد ہونے سے۔ مجھے نفرت ہے ِاس زندگی سے۔ میں مر جانا چاہتا ہوں۔‘‘
چالئے جا رہا تھا۔ اپنے ہاتھ پاؤں چھڑوانے کی پوری تگ و دو کر رہا تھا۔ اور ِاس
رجب ِ
کوشش میں ا ُس کی کالئیوں کے زخم پھر سے ہرے ہو گئے تھے۔ کالئیوں پہ لپٹی پٹیوں سے خون رسنے لگا
تھا۔
ِ
ہاشم اس اثناء میں سکون آور دوا کا انجیکشن بھر الیا۔
’’چھوڑ دو مجھے۔ چھوڑو۔‘‘
رجب انجیکشن دیکھ کر اور بھی بپھر گیا۔
’’چھوڑ دو مجھے۔ چھوڑو۔‘‘
رجب انجیکشن دیکھ کر اور بھی بپھر گیا۔
وجاہت علی نے ا ُس کا بازو بستر سے لگا کر دونوں ہاتھوں سے دباؤ ڈاال تاکہ ہاشم آسانی
سے انجیکشن لگا سکے۔
ابھی ہاشم نے انجیکشن کی سوئی رجب کے بازو کی جلد پہ رکھی ہی تھی کہ اسرار احمد
کی بلند بارعب اور تحکم بھری آواز آئی۔
’’ُرک جاؤ۔‘‘
سن کر سب کے سب جہاں تھے ا ُسی حالت میں ُرک گئے۔ حت ٰی کہ رجب بھی۔ آواز ُ
سب نے ایک ساتھ آواز کی سمت دیکھا۔
اسرار احمد شوال کے ہمراہ دروازے میں کھڑے تھے۔
رجب پہ جھکے سکینہ بیگم ،وجاہت علی اور ہاشم چہرے پہ الجھن لئے سیدھے کھڑے ہو
گئے۔ رجب نے ہارے ہوئے انداز میں سر تکّیے پہ ڈال دیا اور پھر سے چہرہ دوسری اور موڑ لیا۔
جس میں طالق کے کاغذات تھے۔ اسرار احمد کو کچھ فاصلے پہ فرش پہ ِگرا وہ لفافہ نظر آیا ِ
انھوں نے آگے بڑھ کر وہ لفافہ ا ُٹھایا اور سیدھے کھڑے ہو گئے۔
’’تم دونوں میاں بیوی باہر آؤ۔۔۔ مجھے تم دونوں سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ اور لڑکے۔ تم
بھی باہر آؤ۔ ا َن دونوں کو تنہا چھوڑ دو۔‘‘
انھوں نے بیک وقت سکینہ بیگم اور وجاہت علی سے کہا۔ پھر ُمڑ کر حوصلہ افزائی کے انداز
میں شوال کا شانہ تھپتھپاتے کمرے سے باہر ِنکل گئے۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔ پھر
دونوں اسرار احمد کے پیچھے کمرے سے باہر نکلنے لگے۔ ا ُن کے پیچھے پیچھے ہاشم بھی کمرے سے نکل
گیا اور اپنے پیچھے دروازہ بند کر دیا۔
اسرار احمد کوریڈور سے نکل کر سیڑھیوں کے قریب آ کر ُرک گئے۔ سکینہ بیگم اور وجاہت
علی بھی ا ُن کے پیچھے آ کھڑے ہوئے۔
اسرار احمد نے پلٹ کر انھیں دیکھا۔
’’میں صرف اور صرف ِان بچوں کی خوشی کے لئے تم سے رشتہ داری قبول کر رہا ہوں۔‘‘
ب حیات کی مانند وجاہت علی اور سکینہ بیگم کے وجود میں نئی روح پھونک ا ُن کے الفاظ آ ِ
گئے۔ دونوں نے خوشی اور بےیقینی کے ِملے ُجلے تاثرات کے ساتھ ایک دوسرے کی سمت دیکھا۔
پھر وجاہت علی خوشی سے بےقابو ہوتے ہوئے اسرار احمد کی طرف ُمڑے۔
’’اسرار!‘‘
کہتے ہوئے وہ ا ُنھیں گلے لگانے کو لپکے۔ مگر اسرار احمد نے ہاتھ ا ُٹھا کر انھیں وہیں روک
دیا۔
’’بس۔۔۔۔ میں اگر بچوں کی خوشی کے آگے جھکا ہوں تو ِاس کا مطلب یہ نہیں کہ تمہاری
اور میری صلح ہو گئی۔ ‘‘
’’بس کر دو اسرار! بھول جاؤ ان پرانے جھگڑوں کو۔
ا ُن بچپنے میں کی گئی حماقتوں کو لے کر اب تک ناراضگی بنائے رکھنے کا بھال کیا
فائدہ؟۔۔۔ اب تو آپ دونوں کے اپنے بچے تک جوان ہو چکے ہیں۔‘‘
سکینہ بیگم نے بھی انھیں منانے کی کوشش کی۔
’’میں نے کہا ناں بس!۔۔۔۔ تم کچھ نہیں جانتی اپنے شوہر کے بچپنے اور اس کی حماقتوں کے
بارے میں۔‘‘
اسرار احمد نے سخت لہجے میں سکینہ بیگم کو کچھ بھی کہنے سے منع کر دیا۔
سکینہ بیگم اپنے اندر ہّمت نہ کر پائیں کہ اسرار احمد کو اپنی معلومات سے مطلع کرتے ہوئے
مزید جرح کریں۔ جبکہ اسرار احمد کہہ رہے تھے۔
’’جوان بچے کا باپ ہونے کے بعد بھی تمہارے شوہر کی حماقتیں اور بچپنا گیا نہیں ہے ابھی
مزید جرح کریں۔ جبکہ اسرار احمد کہہ رہے تھے۔
’’جوان بچے کا باپ ہونے کے بعد بھی تمہارے شوہر کی حماقتیں اور بچپنا گیا نہیں ہے ابھی
تک۔‘‘
صہ اپنے اندر ہی پھر وجاہت علی کی جانب ُرخ کیا جو اپنے بارے میں یہ الفاظ سن کر اپنا غ ّ
دبا رہے تھے اور کچھ کہنے سے الچار تھے۔
’’ایک بات یاد رکھو وجاہت!۔۔۔ اب آئندہ اگر میری بیٹی کو تمہاری طرف سے کوئی پریشانی
ہوئی۔۔۔۔ تو بہت بُرا حشر کروں گا تمہارا۔‘‘
چکا ہوں کہ میں نے ’’تم ہمیشہ ہی ہر بات کا الزام مجھے دیتے ہو۔ ورنہ میں سچائی بتا ُ
صرف اور صرف ا ُن دونوں کی بھالئی کے لئے وہ جھوٹ بوال تھا۔ ورنہ شوال کو پریشان کرنا میرا مقصد
ہرگز نہیں تھا۔‘‘
صہ تو دکھا نہیں سکتے تھے۔ شکواہ ضرور کردیا۔ ا ُن کے لئے کوئی الزام قبول وجاہت علی غ ّ
کرنا ہمیشہ ہی بہت مشکل رہا تھا۔
اسرار احمد بولے کچھ نہ۔ بس مالمتی نظروں سے انھیں دیکھ کر رہ گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
دروازہ بند ہونے کے بعد شوال نے نظریں ا ُٹھا کر اس سے کچھ فاصلے پہ بستر پہ پڑے رجب
کے وجود کی سمت دیکھا۔ ا ُس نے ابھی تک اپنا چہرہ دوسری جانب موڑ رکھا تھا۔
وہ دھیرے دھیرے چلتی ا ُس کے قریب پہنچی۔
’’رجب!‘‘
ا ُس نے بمشکل ا ُس کا نام لیا۔
رجب ا ُسی طرح آنکھیں بند کئے خاموش پڑا رہا۔ لیکن ا ُس کی آنکھوں سے بہتے آنسوؤں میں
تیزی آ گئی تھی۔
’’مجھے معاف نہیں کرو گے؟‘‘
اس نے روہانسی آواز میں پوچھا۔
رجب نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔
’’تم کیوں معافی مانگ رہی ہو؟۔۔۔ دھوکا تو ہم نے تمہیں دیا ہے۔‘‘
’’تم نے تو نہیں دیا ناں!‘‘
ا ُس نے جرح کی۔
’’چلی جاؤ شوال!۔۔۔ میرے باپ نے مجھے تم سے نظریں مالنے کے قابل نہیں چھوڑا۔۔۔۔ مجھے
تم سے شرم آتی ہے۔‘‘
رجب کا لہجہ ملتجی اور شرمندگی سے لبریز تھا۔ وہ اب بھی شوال کو نہیں دیکھ رہا تھا۔
شوال نے کچھ کہنے کی بجائے ا ُس کے ہاتھ پاؤں کھولنے شروع کر دیئے۔
جب وہ ا ُسے مکمل آزاد کر چکی تو رجب کروٹ لے کر دوسری طرف سے بستر سے ا ُترا اور
شوال کی جانب پیٹھ دے کر کھڑا ہو گیا۔
شوال اس کے قریب گئی اور ا ُس کا بازو پکڑ کر اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی۔
’’میری طرف دیکھو گے نہیں؟‘‘
ا ُس نے پوچھا۔ پھر دھیرے سے ہاتھ اٹھا کر رجب کی گردن کو ہلکے سے چ ُ
ھوا۔ ُ
’’ یہ کیا کیا ہے تم نے؟۔۔۔ ‘‘
ا ُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔
رجب نے ا ُس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر ا ُس کی جانب دیکھا۔
ا ُس کی کالئی پہ لپٹی خون آلود پٹی اور اس میں سے رستا خون شوال کی آنکھوں کے
سامنے آگیا۔
ا ُس کی کالئی پہ لپٹی خون آلود پٹی اور اس میں سے رستا خون شوال کی آنکھوں کے
سامنے آگیا۔
شوال نے اپنے دوسرے ہاتھ سے اس کا دوسرا ہاتھ بھی پکڑ کر اپنے سامنے کیا۔ ادھر بھی
یہی حال تھا۔
’’یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا کے رکھی ہے؟۔۔۔ کیوں رجب!؟‘‘
جس محبت کو میں اپنی سچائی اور خلوص کے ساتھ جیتنا چاہتا تھا۔ ’’تو اور کیا کروں؟۔۔۔۔ ِ
میرے باپ نے دھوکا کر کے ا ُسی محبت کے ریپر میں تمہاری ہمدردی لپیٹ کر مجھے گفٹ کر دی۔
میری آٹھ مہینے کی تپسیا کو میرے باپ نے ایک ملحے میں ضائع کردیا۔۔۔ اور میں احمقوں
جس محبت کی جیت کی خوشی مناتا رہا۔ اصل میں وہ محبت تھی ہی نہیں۔ ایک بچے کی طرح کی طرح ِ
مجھے نّقلی محبت کا کھلونہ دے کر بہالیا گیا تھا۔‘‘
سن کر شاکڈ رہ گئی۔ وہ رجب کی باتیں ُ
’’رجب!۔۔۔۔ میری محبت جھوٹ تھی؟۔۔۔ میں نے محبت کے نام پہ تم سے ہمدردی کی تھی؟‘‘
اس نے صدمے کے ساتھ پوچھا۔
رجب خاموش رہا۔
ا ُس کی خاموشی کا مطلب ’ہاں‘ تھا۔ جو شوال کو بےقرار کر گیا۔
’’رجب!۔۔۔ میں نے کوئی جھوٹ نہیں بوال تم سے۔ کوئی ہمدردی نہیں کی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تمہارے اّبو کے ا ُس جھوٹ نے مجھے اظہار کرنے پہ مجبور کر دیا
تھا۔ لیکن میری محبت جھوٹی نہیں تھی۔ تمہارے خلوص ،تمہاری سچائی کی میں بہت شروع میں ہی قائل
ہو گئی تھی۔ اور ِدل ہی ِدل میں تمہیں چاہنے لگی تھی۔ پھر بھی میں نے تم سے فاصلہ رکھا تھا تو ا ُس
کی کیئیں وجوہات تھیں۔۔۔ میرے ِدل پہ بہت سے زخم تھے ،بہت سے ایسے حقائق تھے جو مجھے اظہار
سے روک رہے تھے۔۔۔۔
میں تم سے دُور تھی رجب!۔۔۔ لیکن تم سے پیار کرتی تھی۔ اور اب بھی کرتی ہوں۔‘‘
وہ اپنے الفاظ پہ زور دے کر اسے اپنی محبت کا یقین دالنے کی کوشش کر رہی تھی۔
رجب نے شاکی نظروں سے ا ُسے دیکھا۔
’’تم پھر سے مجھے بہال رہی ہو۔۔۔۔ کہو؟۔۔۔ اب کیا جھوٹ بوال ہے تم سے میرے باپ نے؟ کیا
کہہ کر تمہیں یہاں آنے اور تمہیں یہ سب کہنے پہ مجبور کیا ہے؟‘‘
وہ ا ُسے دیکھ کر رہ گئی۔
’’جب مجھے تم پہ شک ہوا تھا تو میں نے تمہیں کچھ بھی کہنے کا موقع نہیں دیا تھا۔۔۔۔۔
کیا تم بھی مجھے کوئی موقع نہیں دو گے؟۔۔۔۔ آئی کین پُروّو ِاٹ۔‘‘
شوال نے ملتجی نظروں سے ا ُسے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
رجب ا ُس کی بات کے جواب میں خاموش رہا۔
’’کیا تم نے کبھی میرا دراز نہیں کھوال؟۔۔۔ کبھی ا ُس میں کچھ ِمال نہیں تمہیں؟‘‘
شوال نے پوچھا۔
رجب نےالجھن سے ا ُسے دیکھا۔
’’ کیا؟۔۔۔۔‘‘
’’میں ابھی دکھاتی ہوں۔۔۔۔ میرے دراز کی چابی کہاں ہے؟‘‘
شوال نے کہا اور پوچھا۔
’’وہ تو تمہیں پتا ہو گا۔۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد کسی نے بھی تمہاری کسی چیز کو نہیں
چھُوا۔‘‘
رجب نے اپنی العلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا۔
شوال نے ’ہاں‘ میں سر ہالیا۔
’’آل رائٹ!۔۔۔ مجھے دو منٹ دو۔‘‘
شوال کہہ کر ُمڑی۔
’’آل رائٹ!۔۔۔ مجھے دو منٹ دو۔‘‘
شوال کہہ کر ُمڑی۔
جا کر املاری کھول کر اپنے تہہ کر کے رکھے کپڑوں کے نیچے سے اپنا پرس نکاال۔ ا ُس میں
سے چابی نکال کر اپنے دراز کا الک کھوال اور دراز باہر کھینچا۔
رجب ا ُلجھا ہوا اور متجسس سا ا ُس کی پیٹھ دیکھ رہا تھا۔
زیورات کے ڈبے ایک طرف کر کے ا ُس نے نیچے بچھا ریشمی کپڑا ہٹایا اور اس کے نیچے
چھپایا کاغذات کا بنڈل نکال کر واپس مڑی۔
’’یہ لو۔‘‘
رجب کے قریب آ کر ا ُس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات کا وہ بنڈل رجب کے ہاتھوں میں تھما دیا۔
بولی۔
’’یہ تمہارے وہ اسکیچز ہیں جو میں نے ا ُن آٹھ مہینوں میں بنائے تھے۔‘‘
رجب متحّیر سا ا ُسے دیکھے گیا۔ وہ کہنے لگی۔
’’تم جانتے ہو کہ آخری تین مہینے میں نے زیادہ تر بیمار رہ کر گزارے تھے۔ اور تقریبا ً سارا
وقت تم میرے ساتھ ہی تھے۔
ِان سکیچز کو دیکھو اور بتاؤ کہ تمہاری غیر موجودگی کے اس مختصر سے عرصے میں کیا
َمیں اتنے سارے سکیچز بنا سکتی تھی؟۔۔۔
تب تو تمہیں دیکھنے سے میرا ِدل نہیں بھرتا تھا۔ سکیچز کہاں بناتی؟‘‘
ا ُس نے کہا تو رجب ورق پلٹ پلٹ کر ایک کے بعد ایک سکیچ دیکھنے لگا۔ سکیچز دیکھتے ہوئے
ا ُس کی حیرت میں بھی اضافہ ہو رہا تھا۔
شوال کہہ رہی تھی۔
’’یہ سارے سکیچز ا ُن شروع کے آٹھ مہینوں کے ہیں۔ جب میں تم سے پیار کرنے لگی تھی
لیکن تمہارے قریب آنے سے کتراتی تھی۔ تب میں بیٹھ کر تمہارے سکیچز بنایا کرتی تھی۔‘‘
’’اتنے زیادہ ٹاپ لیس سکیچز!۔۔۔۔ میں تو ایسے شرٹ نکال کر نہیں گھومتا۔‘‘
اکثریت ٹاپ لیس سکیچز کی تھی تو رجب کا معتجب ہونا فطری تھا۔ سو اپنی سوالیہ نظریں
شوال کے چہرے پہ گاڑھ دیں۔
ا ُس کے تعجب پہ شوال کے ہونٹوں پہ گہری مگر شرمیلی مسکراہٹ آ ٹھہری۔
’’کیونکہ تم مجھے ٹاپ لیس اچھے لگتے ہو۔‘‘
شوال نے کہا تو رجب کے لبوں پہ بھی ویسی ہی شرمیلی مسکان بےساختہ تھی۔
’’کیا؟۔۔۔۔‘‘
ِ
’’تمہیں یاد ہے وہ دن؟۔۔۔ جب پہلی بار تمہاری اّمی نے مجھ سے ناشتہ بنوایا تھا؟۔۔۔ میں
کمرے میں آئی تھی تمہیں ناشتے کے لئے ُبالنے۔ اور تم وینٹی ٹیبل کے سامنے ٹاپ لیس کھڑے اپنے پہلو کے
زخم کی ڈریسنگ کر رہے تھے؟۔۔۔۔ ‘‘
شوال ا ُسے وہ ِدن یاد ِدال رہی تھی۔
رجب کو وہ ِدن بخوبی یاد تھا۔
’’ہاں۔۔۔۔۔۔‘‘
یاد کرتے ہوئے بوال۔ پھر حیرت کے ساتھ شوال کو دیکھا۔
’’اس دن شوال!۔۔۔ بالکل شروع میں ہی؟۔۔۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ اسی ِدن سے میں تمہیں چاہنے لگی تھی۔۔۔۔ کیا اب بھی یقین نہیں کرو گے میرا؟‘‘
شوال نے کہا اور پوچھا۔
رجب کا ِدل درد سے بھر گیا۔ شوال بہت پہلے سے ہی اسے چاہنے لگی تھی۔ پھر بھی وہ اتنا
ُ
عرصہ ا ُس کی بےاعتنائی سہتا رہا تھا۔ اور آخرکار بدگمان بھی ہو گیا۔ ا ُس کی آنکھوں سے آنسو بہہ
ِنکلے۔
’’شوال!‘‘
ِنکلے۔
’’شوال!‘‘
ا ُس کی آواز آنسوؤں سے بوجھل تھی۔
شوال آگے بڑھ کر ا ُس کے سینے سے لگ گئی۔
ا ُس نے ا ُسے اپنے بازوؤں کے ح ّ
صار میں لے لیا۔
وہ دونوں ہی بےآواز آنسو بہا رہے تھے۔
’’تم نے مجھ سے وعدہ لیا تھا کہ میں تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جاؤں گا۔ اور تم نے مجھ
سے بھی وعدہ کیا تھا کہ تم دوبارہ کبھی مجھ سے نفرت نہیں کرو گی۔ کبھی دھتکارو گی نہیں۔
میں اپنے وعدے پہ آج بھی قائم ہوں۔ لیکن تم نے اپنا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا؟۔۔۔
میرا اعتبار کیوں نہیں کیا؟۔۔۔ کیوں چلی گئی مجھے چھوڑ کر؟۔‘‘
ا ُس کے سر پہ پیشانی ٹکائے وہ نہایت ُدکھ سے شکواہ کر رہا تھا۔
’’آئم سوری۔۔۔۔ آئم سوری۔‘‘
شوال رو دی۔
’’جانتی ہو؟۔۔۔ وہ جو واز ) (vaseتم نے مارا تھا۔۔۔ وہ مجھے یہاں نہیں ،یہاں لگا تھا۔‘‘
رجب نے پہلے اپنے سر پہ پھر اپنے ِدل پہ ہاتھ رکھا۔
’’آئم سوری۔۔۔۔‘‘
شوال کے رونے میں شدت آ گئی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
کھانے کی میز پہ وجاہت علی ،اسرار احمد ،سکینہ بیگم ،رجب اور اس کے پہلو میں شوال
بیٹھی تھی۔ زیادہ بات چیت تو نہیں ہو رہی تھی لیکن ماحول کافی ُپرسکون تھا۔
سکینہ بیگم نے شوال کی پلیٹ میں اور چاول ڈالے۔
’’لو ناں بیٹا!۔۔۔ تم تو کچھ کھا ہی نہیں رہی۔‘‘
اسرار احمد نے پانی کا گالس ا ُٹھاتے ہوئے شوال کی جانب دیکھا۔
’’کھانے سے فارغ ہوں تو پھر ہم چلتے ہیں۔‘‘
چمچ منہ کی طرف لے جاتا رجب کا ہاتھ ُرک گیا۔ وہ اسرار احمد کا چہرہ دیکھنے لگا۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بھی چونک کر ا ُن کی طرف دیکھا۔ حت ٰی کہ شوال بھی آنکھوں
میں وہی سوال لئے اپنے باپ کو دیکھنے لگی۔
’’ہم۔۔۔ ہم سے کیا مطلب ہے تمہارا؟۔۔۔۔ تم اور کون؟‘‘
وجاہت علی نے سب سے پہلے پوچھنے کی ہّمت کی۔
’’میں اور شوال۔‘‘
اسرار احمد نے ایسے جواب دیا جیسے کہہ رہے ہوں کہ ظاہر سی بات ہے۔ اور پانی کا گالس
لبّوں سے لگا لیا۔
’’شوال؟۔۔۔ لیکن۔۔۔‘‘
وجاہت علی نے جرح کرنا چاہی ۔ اسرار احمد نے پانی پینے کے بعد گالس واپس میز پہ رکھتے
ہوئے وجاہت علی کی طرف براِہ راست دیکھا۔
’’ تمہیں کیا لگتا ہے؟۔۔۔۔ میں اپنی بیٹی کو آج ایسے ہی یہاں چھوڑ کر چال جاؤں گا؟‘‘
انھوں نے سرد مہری سے سوال کیا۔ پھر ٹھوس لہجے میں بولے۔
’’تمہیں اپنے بیٹے کی بارات لے کر آنا ہوگا۔ میری بیٹی پوری رسموں کے ساتھ باقاعدہ
رخصت ہو کر ِاس گھر میں آئے گی۔‘‘
اسرار احمد بتا نہیں رہے تھے۔ بلکہ حکم سنا رہے تھے۔
یہ سن کر وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بیک وقت رجب کی جانب دیکھا۔ جبکہ رجب شوال
اسرار احمد بتا نہیں رہے تھے۔ بلکہ حکم سنا رہے تھے۔
یہ سن کر وجاہت علی اور سکینہ بیگم نے بیک وقت رجب کی جانب دیکھا۔ جبکہ رجب شوال
کی جانب دیکھ کر مطمعین سا مسکرا دیا۔ رجب سے نظریں ہٹا کر دونوں میاں بیوی نے ایک دوسے کی
جانب دیکھا اور طمانیت سے مسکرا دیئے۔
’’ ہاں ،ہاں ضرور!‘‘
وجاہت علی نے ہامی بھر لی۔
’’اور میری بیٹی کا پھر سے نکاح ہو گا۔‘‘
اسرار احمد نے اور بھی سخت لہجے میں کہتے ہوئے وجاہت علی کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال
کر کہا۔ گویا جاننا چاہتے تھے وجاہت علی کو کوئی اعتراض ہوگا؟
وجاہت علی بولے کچھ نہیں۔ الجھن سے اسرار احمد کا چہرہ دیکھنے لگے کہ دوبارہ نکاح کا
کیا مقصد۔
’’لیکن اس بار نکاح ہماری شرائط کے مطابق ہو گا۔ حق مہر میں پچاس الکھ روپے اور یہ ِ
گھر شوال کے نام ِلکھ کر دو گے۔‘‘
سن کر وجاہت علی کا چہرہ فورا ً تاریک ہو گیا۔ نظر سیدھی رجب پہ اسرار احمد کی مانگ ُ
گئی۔
وہ بھی حیران سا بیٹھا اسرار احمد کی جانب دیکھ رہا تھا۔ انھوں نے واپس نظریں گھما کر
اسرار احمد کی جانب دیکھا۔
’’منظور ہے۔‘‘
وجاہت علی نے گویا یہ چیلنج بھی قبول کر لیا۔
اسرار احمد پہلے حیران ہوئے۔ پھر ا ُن کے چہرے پہ اطمینان آیا چاہتا تھا کہ رجب بول اٹھا۔
ُ
’’لیکن مجھے منظور نہیں۔‘‘
سب نے یک لخت چونک کر رجب کی جانب دیکھا۔
رجب بوال تو ا ُس کے لہجے میں بھی چٹانوں کی سی سختی تھی۔ اسرار احمد کی جانب
دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔
ِ
’’میں حق مہر میں اپنا آپ شوال کے نام کر دوں گا۔ لیکن شوال اس گھر میں نہیں رہے گی۔
یہ گھر ،یہ دولت ِمسٹر وجاہت علی کی ہے۔ میرا ِان کی کسی چیز سے کوئی واسطہ نہیں۔
میں اپنا بزنس ،اپنے شئیرز الگ کر رہا ہوں۔ اپنا گھر بھی الگ لوں گا اور شوال رخصت ہو کر
ا ُسی گھر میں جائے گی۔ ہم وہیں رہیں گے اور میں اپنا سب کچھ شوال کے نام کرنے پہ تیار ہوں۔ لیکن
میرا ِمسٹر وجاہت علی سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘
’’رجب ! یہ تم کیا کہہ رہے ہو۔۔۔ یہ سب کچھ تمہارا ہی تو ہے؟۔۔۔ اور کون ہے میرا جس کو
دوں گا۔‘‘
ِ
وجاہت علی کی تو مانو جان ہی نکل گئی۔
سکینہ بیگم الگ سے پریشان ہو گئی تھیں۔
’’یہ سب کچھ آپ کا ہے اور آپ کو ہی مبارک ہو۔ اور آپ ڈیسائڈ کر لیں کے آپ کِس کو دیں
گے۔
بہرحال۔ مجھے نہیں چاہیئے۔‘‘
رجب نے پوری بدلحاظی کے ساتھ وجاہت علی کو جواب دیا۔
سن رہے تھے۔ جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کر اسرار احمد بغور ا ُن باپ بیٹے کے مکاملے ُ
رہے ہوں۔
’’رجب پلیز!۔۔۔ تم ہمارا اکلوتا بیٹا ہو۔۔۔ تمہارے سوا کون ہے ہمارا۔‘‘
وجاہت علی اتنی آسانی سے ہار ماننے کو تیار نہیں تھے۔ رجب کو راضی کرنا ضروری تھا۔
ورنہ اگر وہ اپنی کہی پہ اڑ جاتا تو وہ ساری عمر اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترستے رہ جاتے۔
اسرار احمد ا ُن کی بات کاٹ کر مداخلت کرتے ہوئے سختی سے بول ا ُٹھے۔
ورنہ اگر وہ اپنی کہی پہ اڑ جاتا تو وہ ساری عمر اپنے بیٹے کی شکل دیکھنے کو ترستے رہ جاتے۔
اسرار احمد ا ُن کی بات کاٹ کر مداخلت کرتے ہوئے سختی سے بول ا ُٹھے۔
’’تمہارا کیا پرابلم ہے وجاہت!۔۔۔ اگر وہ اپنی بیوی کے ساتھ الگ گھر میں رہنا چاہتا ہے تو
تمہیں کیوں تکلیف ہو رہی ہے؟‘‘
پھر وہ رجب کی جانب ُمڑے۔
’’ویلڈن برخوردار!۔۔۔ یہ ہوتا ہے ایک مرد کا بات کرنے کا طریقہ۔ آئی الئیکڈ ِاٹ۔ ‘‘
انھوں نے رجب کی سائیڈ لیتے ہوئے رجب کو سراہا۔
وجاہت علی کو اسرار احمد کی یہ مداخلت بالکل پسند نہ آئی۔ کچھ کہنا چاہتے تھے کہ ا ُن
کے پہلو میں بیٹھی سکینہ بیگم نے ا ُن کا بازو دبوچ کر انھیں کچھ بھی کہنے سے روک لیا۔
اسرار احمد رجب سے کہہ رہے تھے۔
’’کسی ِدن آؤ ناں میرے گھر۔۔۔۔ کچھ دیر اکٹھے بیٹھ کر گپ شپ کریں گے۔۔۔ کیا خیال ہے؟‘‘
’’جی ضرور۔‘‘
رجب ِدل سے امادہ تھا۔
’’ِاس ویک اینڈ پہ آ سکتے ہو؟‘‘
اسرار احمد نے پوچھا۔
’’جی ٹھیک ہے۔۔۔ کِس ٹائم؟‘‘
رجب نے کہا اور پوچھا۔
’’ اینی ٹائم بیٹا!۔ تمہارا اپنا گھر ہے۔۔۔۔ ضرور آنا پھر۔ میں تمہارا انتظار کروں گا۔‘‘
اسرار احمد نے وعدہ لیا۔
رجب نے بھی سر ہال کر آنے کی ہامی بھر لی۔
وجاہت علی بمشکل خاموش بیٹھے تھے۔ کھانے سے بھی ا ُنھوں نے اپنا ہاتھ روک لیا تھا۔
رجب کا تلخ رویّہ ،ا ُن کےلئے اس کی ناپسندیدگی اور ا ُن سے الگ ہونے کا فیصلہ۔ یہ وہ چیزیں تھیں جو
ا ُن کے لئے کبھی بھی قابِل قبول نہیں ہو سکتی تھیں۔ لیکن ایسا ہو رہا تھا اور وہ کوئی اعتراض یا
احتجاج بھی نہیں کر پا رہے تھے۔
دوسری طرف اسرار احمد ایک گہری نظر وجاہت علی اور رجب پہ ڈالنے کے بعد کسی سوچ
میں پڑ گئے تھے۔ ا ُن کے ذیہن میں کچھ چل رہا تھا۔ جیسے وہ ذیہن میں کوئی منصوبہ تیار کر رہے تھے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
واپسی کے وقت سکینہ بیگم ،وجاہت علی اور رجب گھر سے باہر تک انھیں چھوڑنے آئے۔
ِ
اسرار احمد خداحافظ کہہ کر گاڑی میں بیٹھ چکے تھے۔ جبکہ شوال سکینہ بیگم سے ملنے
کے بعد رجب کی طرف پلٹی۔
’’اچھا رجب! ویک اینڈ پہ ِملیں گے۔‘‘
رجب نے مسکراتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔
’’فون ہو گا ناں تمہارے پاس ۔۔۔ کیا نمبر ہے؟‘‘
رجب نے بےچینی سے پوچھا۔
شوال نے نفی میں سر ہالیا۔
’’نہیں۔۔ میں نے کوئی فون نہیں رکھا ہوا۔‘‘
’’اچھا۔ پھر دو منٹ رکو ۔ میں ابھی آیا۔‘‘
رجب کہہ کر گھر کے اندر بھاگ گیا۔
وہ وہیں کھڑی رہ کر ا ُس کا انتظار کرنے لگی۔
جلد ہی رجب واپس آ گیا۔
’’یہ لو۔ تمہارا فون۔‘‘
جلد ہی رجب واپس آ گیا۔
’’یہ لو۔ تمہارا فون۔‘‘
رجب نے ہاتھ میں پکڑا فون باکس ا ُس کی طرف بڑھایا۔ شوال نے مسکرا کر فون باکس تھام
لیا۔
’’فیس ٹائم می۔ او۔ کے؟‘‘
رجب نے سرگوشیانہ کہا۔
شوال نے مسکراتے ہوئے سر ہال دیا۔ پھر خدا حافظ کہہ کر گاڑی میں آ بیٹھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ ِدن اس کی زندگی کا ایک یادگار ِدن تھا۔ اسرار احمد کے گھر جاتے ہوئے ا ُس کے ذیہن
میں ہزاروں باتیں اور مختلف طرح کے خیاالت آ رہے تھے۔ جنکی وجہ سے وہ ا ُن کے گھر جاتے ہوئے کافی
نروس تھا۔ مگر وہاں پہ اسرار احمد اور باقی سب گھر والوں نے اس کا ُپرتپاک استقبال کیا۔ کامران اور
عمران بھی ا ُس کی خاطر خاص طور سے گھر پہ ٹھہرے ہوئے تھے۔ ا ُسے گلے لگا کر ِملے۔ اسرار احمد نے
ا ُسے اپنی دونوں بہوؤں اور دونوں پوتوں سے متعارف کروایا۔ سب کے ساتھ بیٹھ کر ا ُس نے چائے پی۔ بہت
خوشگوار محفل تھی۔ خوب گپ شپ اور ہنسی مزاق ہوا۔ ا ُسکی ساری گھبراہٹ اور اجنبیت کا احساس
جاتا رہا۔ سب ہی کے ساتھ اپنائیت محسوس ہو رہی تھی۔ کامران اور عمران تو کیا۔ ا ُس کی تو اسرار
احمد سے بھی اچھی خاصی دوستی ہو گئی۔ اسرار احمد جس طرح سے گفتگو میں شامل تھے۔ لگ ہی
نہیں رہا تھا کہ وہ کامران ،عمران کے والد تھے۔ ایسے لگ رہا تھا جیسے ا ُن کا کوئی ہم عمر اور پرانا
دوست بیٹھا ہو۔
چائے ختم ہونے کے بعد علیزہ اور کنزہ برتن سمیٹنے لگیں تو اسرار احمد معذرت خواہانہ انداز
میں بولے۔
’’ اچھا بھئی۔ میں اسٹڈی میں جا کر اپنے ایک دو کام نمٹا لوں۔۔۔ لیکن تم کہیں مت جانا۔ آج
رات کا کھانا تم ہمارے ساتھ کھا رہے ہو۔‘‘
’’پر انکل!۔‘‘
وہ یہ سن کر بوکھال سا گیا۔ پہلی دفعہ ان کے گھر آیا تھا۔ پھر اتنی دیر کیوں کر ُرک سکتا
تھا۔
’’نہیں۔‘‘
ُ
اسرار احمد نے بےلچک آواز میں کہتے ہوئے اسے ٹوک دیا۔
’’میں کوئی بہانہ نہیں سنوں گا۔ ‘‘
پھر محبت اور نرمی سے بولے۔
ِ
’’ تکلف کیوں برت رہے ہو؟۔ تم بچے ہو میرے۔۔۔ اچھا۔ بعد میں ملتے ہیں۔‘‘
کہہ کر اسرار احمد ا ُٹھ گئے۔
اسرار احمد کا اصرار دیکھتے ہوئے وہ مزید کچھ نہ کہہ سکا۔
’’ ہم بھی ابھی آتے ہیں۔‘‘
ا ُن دونوں کو اکیال چھوڑنے کی غرض سے کامران اور عمران بھی بہانہ بنا کر چل دیئے۔
سب کے جانے کے بعد دونوں نے ایک دوسرے کی اور دیکھا۔ دونوں مسکرا دیئے۔
’’یہیں بیٹھو گے یا میرے کمرے میں چلیں؟‘‘
شوال نے پوچھا۔
’’تمہارے کمرے میں چلتے ہیں۔ لیکن ا ُس سے پہلے تم آؤ میرے ساتھ۔‘‘
وہ کہتا ہوا ا ُٹھ کھڑا ہوا۔
’ ’ کہاں؟ ‘ ‘
شوال بھی ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔
’ ’ کہاں؟ ‘ ‘
شوال بھی ا ُٹھ کھڑی ہوئی۔
’’میں تمہارے لئے روزز کا ُبکے الیا تھا۔۔۔ گاڑی میں پڑے ُمرجھا رہے ہوں گے۔‘‘
’’بُکے؟۔۔۔ پہلے تو تم میرے لئے صرف ایک روز دیا کرتے تھے۔‘‘ شوال نے اچنبھے سے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ مگر ُبکے ِاس لئے الیا ہوں کہ تم یہ نہ کہو کہ میں کنجوس ہوں۔۔۔ ہمیشہ ایک ہی روز
دیتا ہوں۔‘‘
جسے پیار کرو ا ُس کے لئے ہوتا ہے۔ جبکہ ُبکے تو گھر کی سجاوٹ ’’جی نہیں۔۔۔ ایک روزِ ،
کے لئے ہوتا ہے۔‘‘ شوال نے اپنی رائے کا اظہار کیا۔
’’اچھا میڈم! ۔۔۔ ویسے ،جو روزز میں تمہارے لئے الیا ہوں۔ وہ پورا بُکے دیکھ کر بھی تمہیں
اچھا لگے گا۔‘‘
رجب نے ایسے کہا جیسے کوئی بہت ہی خاص چیز الیا ہو۔
’’اچھا۔۔۔ ایسا کیا خاص ہے ا ُن میں؟‘‘
شوال پوچھے بنا نہ رہ سکی۔
’’چلو ناں۔۔۔ چل کر خود ہی دیکھ لو۔‘‘
رجب ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر چل پڑا۔
پورٹیکو میں پہنچ کر ا ُس نے اپنی کار کی بیک ڈور کھولی اور سیٹ پر سے جو ُبکے ا ُٹھا کر
ھل گیا۔ ا ُس نے جگمگاتی سرت کے ِملے ُجلے تاثرات سے شوال کا منہ ک ُ ا ُس کی طرف پلٹا تو حیرت و م ّ
ھلے منہ پہ ہاتھ رکھ لیا۔ آنکھیں ُبکے پہ جمائے ہوئے اپنے ک ُ
قوس قزاح کے رنگوں والے گالبوں کا ُبکے رجب نے شوال کی طرف بڑھایا۔
’’واؤ۔۔۔۔۔ ‘‘
شوال نے بُکے تھاما۔ پھولوں کو چھوتے ہوئے ا ُسے یقین نہ آیا۔
’’یہ اصلی ہیں؟‘‘
ا ُس نے سوالیہ نظروں سے رجب کو دیکھا۔
’آف کورس۔۔۔ کبھی پہلے دیکھے نہیں تم نے؟۔۔۔‘‘ رجب نے تعجب سے پوچھا۔
’’دیکھے ہیں۔۔۔ آئی مین ،انٹرنیٹ پہ۔۔۔ پر میرا خیال تھا کہ آرٹی ِفشل ہیں۔ یا پھر فوٹو
ایڈٹنگ کی ہوئی ہے۔۔۔ میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ یہ اصلی بھی ہو سکتے ہیں۔‘‘
’’خیر۔۔ اصلی ہوتے تو نہیں۔۔۔ لیکن اصلی کو ایسا بنایا جاتا ہے۔‘‘ رجب نے کہا۔
شوال نے خوشی سے بےقابو ہو کر اپنا بازو ا ُس کے گلے میں ڈال ِدیا۔
’’تھینک یُو۔۔۔ تھینک یُو۔۔۔ تھینک یُو۔۔۔ ‘‘ They are so….. amazing.
شوال بہت خوش تھی۔ اور وہ بھی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ اپنے کمرے میں بیڈ پہ بیٹھی رجب سے فیس ٹائم پہ بات کر رہی تھی۔
’’تم نے اپنا بزنس الگ کر لیا؟‘‘
ا ُس نے پوچھا۔
’’نہیں جانم! اتنا آسان تھوڑا ہے۔ ابھی کچھ وقت لگے گا اپنے شیئرز نکالنے میں۔‘‘
رجب نے جواب دیا۔
’’اور سات ہفتے بعد ہماری شادی کا فنکشن ہے۔ تب تک تو نہیں ہو سکے گا۔؟‘‘
شوال نے اندازہ لگاتے ہوئے کہا۔
’’ہاں۔۔۔ اپنے شیئرز الگ کرنے اور پھر اپنا بزنس اسٹارٹ کرنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔
دو مہینے بہت کم ہیں۔‘‘
’’ہاں۔۔۔ اپنے شیئرز الگ کرنے اور پھر اپنا بزنس اسٹارٹ کرنے میں خاصا وقت لگ جائے گا۔
دو مہینے بہت کم ہیں۔‘‘
’’مکان کا مسلۂ بھی جوں کا توں ہے۔ ا ُس کے بارے میں کیا سوچتے ہو؟‘‘
شوال نے دوسری پریشانی ظاہر کی۔
’’اتنے کم عرصے میں تو ہم اپنا مکان نہیں بنا سکتے۔ اور میں تمہیں ا ُس گھر میں بھی نہیں
رکھوں گا۔ ہمیں وقتی طور پر کوئی مکان کرایے پہ لینا ہو گا۔‘‘
’’میں بھی یہی سوچ رہی تھی۔ تمہارے پاس اتنا پیسہ بھی تو نہیں ہوگا کہ مکان اور بزنس
دونوں پہ ایک ساتھ خرچہ کر سکو۔ ‘‘
شوال نے تائید کرتے ہوئے کہا۔ پھر پالننگ کرتے ہوئے بولی۔
’’ تو پھر ٹھیک ہے۔ ایسا کرتے ہیں کہ ابھی ہم صرف کوئی مکان رینٹ پہ لے کر ا ُسے فرنش
وغیرہ کرواتے ہیں۔ پھر ہماری شادی کے بعد تم اپنے شیئرز نکال کر اپنا بزنس بھی اسٹارٹ کر لینا۔ اگر
ابھی تم بزنس کی طرف لگ جاؤ گے تو مکان تالش کرنا مشکل ہو جائے گا۔۔۔ پھر ا ُس کی فرنشنگ ،کلرنگ،
ڈیکوریشن وغیرہ۔ یہ سب بھی تو کرنا ہے۔ میں اکیلی تو یہ سب نہیں کروا سکتی۔۔۔۔ اور ویسے بھی۔ میں
نہیں چاہتی کہ جب ہم دوبارہ سے ایک ساتھ زندگی کا آغاز کریں تو تم اپنے نئے بزنس میں ا ُلجھ کر
مجھے اگنور کرو۔‘‘
اس نے آخر میں منہ ُپھال کر کہا۔
رجب ا ُس کے منہ پھالنے پہ مسکرا دیا۔
کچھ سوچتے ہوئے بوال۔
’’ہوں۔۔۔ ایسا ہی کرنا پڑے گا۔ ابھی بزنس اور گھر دونوں کا پھڈا کھول لیا تو اگلے دو
مہینوں میں کوئی ایک کام بھی پورا نہیں ہو گا۔۔۔ اور میں تمہیں کسی صورت بھی ِاس گھر میں نہیں
رکھوں گا۔‘‘
جواب میں شوال مطمعین ہو کر مسکرا دی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اس رات وجاہت علی بےچینی کے عالم میں ہال کا طول و عرض ناپ رہے تھے۔ ا ُن کی پریشانی
کسی طور کم نہیں ہو رہی تھی۔
سکینہ بیگم ہاتھ میں اپنا موبائل فون لئے ا ُن کے قریب آئیں تو انھوں نے اپنا مارچ روک کر
بےچین نگاہیں ان پہ جما دیں۔
’’بات ہوئی ا ُس سے؟‘‘
’’ہاں۔۔۔۔ وہ کہتا ہے کہ کھانا کھا کر آئے گا۔‘‘
سکینہ بیگم نے مطلع کیا۔
وجاہت علی کے سینے میں آگ لگ گئی۔
’’دیکھا ،دیکھا۔۔۔ مجھے معلوم تھا۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ یہی کہے گا وہ۔۔۔ پچھال ویک اینڈ
بھی سارا دن وہاں گزارا اس نے۔ اور آج بھی۔۔۔۔ ِاس کے عالوہ مجھے پتا چال ہے کہ پرسوں شام کو وہ
اسرار کے دونوں بیٹوں ،کامران اور عمران کے ساتھ گھوم رہا تھا۔
میں تمہیں بتا رہا ہوں سکینہ! کہ وہ لوگ ِمل کر اسے بہکا رہے ہیں۔ ورنہ تم ہی بتاؤ۔۔۔ راتو
رات اسرار کے ِدل میں میرے بیٹے کے لئے ایسی کونسی محبت پیدا ہو گئی ہے؟ جو وہ ا ُسے سارا سارا ِدن
اپنے گھر میں اپنی آنکھوں کے سامنے ِبٹھا کر نہارتا ہے؟‘‘
سکینہ بیگم جواب میں خاموش رہیں۔
’’ا ُس ِدن میں رجب کو راضی کر لیتا۔ لیکن تم نے مجھے کچھ بھی کہنے سے روک دیا۔ ‘‘
وجاہت علی سکینہ بیگم پہ الزام دھرنے لگے۔
سکینہ بیگم خاموش نہ رہ سکیں۔
وجاہت علی سکینہ بیگم پہ الزام دھرنے لگے۔
سکینہ بیگم خاموش نہ رہ سکیں۔
’’اگر میں آپ کو نہ روکتی تو آپ دونوں کی بحث تلخ کالمی میں بدل جاتی۔ ابھی ،ابھی ہمارا
بیٹا اس صدمے سے ِنکل کر کچھ سنبھال تھا۔ اور آپ چاہتے ہیں کہ وہ پھر سے فرسٹریٹ ہو جاتا؟۔۔۔‘‘
’’اور اب جو ہو رہا ہے وہ؟۔۔۔۔‘‘
وجاہت علی تڑخ کر بولے۔
’’دیکھ رہی ہو اس آدمی کی حرکتیں؟۔۔۔۔ ہمارے حاالت کا فائدہ ا ُٹھا کر کیسے وہ رجب کو
اپنی طرف کر رہا ہے۔
دیکھ لینا تم۔۔۔ گھر اور کاروبار ،دونوں میں میرے اپنے بیٹے کو میرے خالف استعمال کرے
گا۔‘‘
پھر خودکالمی کے انداز میں بولے۔
’’اور میں ایسا نہیں ہونے دوں گا۔ مجھے کچھ کرنا ہو گا۔‘‘
وہ کوئی ترکیب سوچنے لگے۔
سکینہ بیگم پھر سے احتجاجا ً بول ا ُٹھیں۔
’’آپ کچھ نہیں کریں گے۔ ‘‘
لہجہ حکمیہ اور دھمکی آمیز تھا۔
’’ میرا بیٹا بار بار موت کے منہ میں جا کر واپس آیا ہے۔۔۔ ہم نے تو ا ُسے پاگل مان لیا تھا۔
لیکن یہ اسرار اور اس کی بیٹی ہی ہیں جنہوں نے ا ُسے پھر سے زندگی کی طرف لوٹایا ہے۔۔۔ آج ہمارا بیٹا
صحیح سالمت ہے تو سب ا ُن کی مہربانی کی بدولت۔۔۔ اس کے بدلے اگر اسرار ہم سے ہمارا سب کچھ
بھی چھین لے تو ہمیں افسوس نہیں ہونا چاہیئے۔
چاہے کچھ بھی ہو جائے۔۔۔ اپنی دولت یا اپنے ذیہنی سکون کی خاطر میں رجب کی زندگی
پہ کوئی رسک لوں گی نہ آپ کو ایسا کچھ کرنے دوں گی۔‘‘
وجاہت علی اپنی بیوی کا یہ روپ دیکھ کر ششدر رہ گئے۔
وہ اور سکینہ بیگم پیدائش کے وقت سے ایک ساتھ تھے۔ ایک ال ا ُبالی سی ،شوخ اور چنچل
لڑکی۔ جس کے مزاج میں گزرتا وقت کافی ٹھہراؤ لے آیا تھا۔ کبھی بھی اس لڑکی نے کسی سے تیز لہجے
میں بات نہیں کی تھی۔ ا ُس وقت بھی نہیں جب اسے ا ُن کی دوسری شادی کی تیاریوں کی خبر ہوئی
تھی۔ تب بھی ا ُنھوں نے روتے ہوئے وجاہت علی سے شکوے کئے تھے اور اپنی نامنظوری ظاہر کی تھی۔
لیکن ہمیشہ ا ُن کی اطاعت کرنے والی اور ان کے ہر صحیح ،غلط کام اور فیصلے کو ِبال اعتراض تسلیم
کرنے والی یہ امن پسند اور بےضرر سی عورت اس طرح کبھی ا ُن کے مقابلے میں کھڑی ہو گی ،ان کو اپنے
فیصلے سنائے گی۔ وہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔
سکینہ بیگم کہہ رہی تھیں۔
’’ساری زندگی میں نے آپ کے ہر فیصلے کے آگے سر جھکایا ہے۔ کبھی آپ کے کسی بھی
فیصلے پہ اعتراض نہیں کیا۔۔۔۔ لیکن ،اب اگر مجھے معلوم ہوا کہ آپ کی پھر کسی غلط حرکت کی وجہ
سے میرے بیٹے کی زندگی خطرے میں پڑ گئی ہے تو یاد رکھیں وجاہت!۔۔۔ یہ گھر اور دولت لے کر آپ یہاں
تنہا بیٹھے رہ جائیں گے۔۔۔۔
فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔ آپ کو بیوی اور بیٹا چاہیئے؟۔۔۔ یا اپنا یہ گھر اور دولت؟‘‘
سکینہ بیگم دھمکی دے کر ،وجاہت علی کو ششدر چھوڑ کر وہاں سے چلی گیئیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اس وقت ہال میں اس کے ساتھ اسرار احمد کے سوا کوئی نہ تھا۔ اسرار احمد نے قریب ٹیبل
پر سے ٹی۔وی کا ریموٹ ا ُٹھایا۔
’’فلمیں دیکھتے ہو تم؟‘‘
پر سے ٹی۔وی کا ریموٹ ا ُٹھایا۔
’’فلمیں دیکھتے ہو تم؟‘‘
پوچھتے ہوئے ٹی۔وی آن کر کے ایک انڈین چینل لگا لیا۔
ا ُس کے جواب دینے سے پہلے ہی بول پڑے۔
’’آف کورس دیکھتے ہو گے۔۔۔ فیورٹ ہیروئن کون ہے تمہاری؟‘‘
’’میری جو فیورٹ ہے۔ وہ اب فلمیں ہی نہیں بناتی۔۔۔ اور جو بناتی ہیں۔ وہ ساری ایک جیسی
لگتی ہیں۔‘‘
ا ُس کے جواب پہ اسرار احمد نے گہری نظروں سے ا ُسے دیکھا۔
وہ سمجھ گیا۔ بوال۔
’’جوہی چاولہ۔‘‘
’’اچھا!۔۔۔ ہاں ،قابِل تعریف لڑکی ہے۔‘‘
انھوں نے جیسے اعتراف کیا۔ پھر ا ُس کی طرف قدرے ُجھک کر بولے۔
’’ لیکن میری پسند پوچھو گے ناں۔۔۔ تو میں آج بھی کہوں گا کہ ریکھا جیسا کوئی نہیں
ہے۔۔۔ ہاہاہاہا۔۔۔‘‘
آخر میں قہقہہ لگا کر رجب کے آگے اپنا ہاتھ پھیال دیا۔
رجب نے بھی ا ُن کا ساتھ دیتے ہوئے ا ُن کے ہاتھ پہ اپنا ہاتھ مار دیا۔
وہ کہنے لگے۔
’’ایسا وقت ہر ایک پہ آتا ہے۔۔۔ جب ہم جوان ہوتے ہیں تو فلموں کی ہیروئینز اچھی لگتی
ہیں۔۔۔ میں تو ریکھا کے سپنے بھی دیکھا کرتا تھا۔ لیکن جب انسان میری عمر کو پہنچتا ہے تو ٹی۔وی پہ
ناچتی گاتی ہیروئینز کو دیکھ کر اپنی بیٹیوں کے چہرے آنکھوں کے سامنے آ جاتے ہیں۔۔۔ تب برداشت نہیں
ہوتا اور چینل فلِک ) (flickکر دیتے ہیں۔ ‘‘
پھر ہونٹوں پہ شرارتی مسکراہٹ ال کر بولے۔ ’’تب اپنے زمانے کی ہیروئینز کو بڑا ِمس کرتے
ہیں۔‘‘
ایک بار پھر وہ اور رجب ہنسنے لگے۔
صہ سناتا ہوں۔ ‘‘ ’’میں تمہیں اپنی جوانی کا ایک ق ّ
اسرار احمد ایسے بتانا شروع ہوئے جیسے کوئی مزاحیہ سا واقعہ یاد آ گیا ہو۔
’’ مجھے بھی جوانی میں ایک لڑکی سے عشق ہو گیا تھا۔ مگر ا ُس لڑکی کی شادی اپنے کزن
کے ساتھ ہو گئی۔‘‘
وہ ہنسے۔
وہ نہیں ہنسا۔ سنجیدگی کے ساتھ انھیں دیکھنے لگا۔
’’میں بہت مایوس ہوا۔ ایسا لگا جیسے زندگی ختم ہو گئی ہو۔ جینے کا کوئی مقصد نہ رہا
ہو۔۔۔ ِاس روگ میں مَیں خود کو ختم کرنے لگا۔ سگریٹ پینا شروع کر دیئے۔ اور بہت پیتا تھا۔۔۔
میرے اّماں ابا نے تین سال تک میری دیوانگی برداشت کی۔ پھر زبردستی ایک لڑکی میری
زندگی میں شامل کر دی۔
لیکن میں تب بھی ماضی کی یادوں میں جیتا تھا۔ کبھی ا ُس لڑکی میں دلچسپی نہیں لی۔
میرے دو بچے بھی پیدا ہو گئے۔ میں انھیں بھی اپنی زندگی میں کوئی جگہ نہ دے سکا۔ وہ لڑکی ماں اور
باپ ،دونوں کی ذمہ داریاں نبھاتی رہی۔ ا ُس کی محبت ،ا ُس کا ایثار۔۔۔ کچھ بھی مجھے اس کی طرف نہ
موڑ سکا۔ پھر جب شوال پیدا ہوئی تو کچھ کامپلی کیشنز کی وجہ سے اس کی حالت بہت بگڑ گئی۔ ا ُن
ش نظر میں اپنی ذمہداریاں ا ُٹھانے پہ مجبور ہو ِدنوں اّماں ابا بھی ساتھ نہیں تھے۔ تب حاالت کے پی ِ
گیا۔۔۔ میں اب بھی ایک مشین کی طرح اپنی تمام ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔
کچھ عرصہ درد اور تکالیف سے لڑنے کے بعد آخر کار میری بیوی زندگی کی جنگ ہار گئی۔
اس وقت وہ فقط پچیس برس کی تھی۔۔۔ مرتے وقت ا ُس نے اپنی زندگی میں صرف ایک چیز مانگی مجھ
سے۔ اور وہ یہ کہ میں اپنے بچوں کا خیال رکھوں۔ انھیں ُرلنے نہ دوں۔ ‘‘
اس وقت وہ فقط پچیس برس کی تھی۔۔۔ مرتے وقت ا ُس نے اپنی زندگی میں صرف ایک چیز مانگی مجھ
سے۔ اور وہ یہ کہ میں اپنے بچوں کا خیال رکھوں۔ انھیں ُرلنے نہ دوں۔ ‘‘
صہ کافی سنجیدگی اختیار کر چکا تھا۔ ا ُن کے لہجے اور آواز مزاحیہ انداز میں شروع کیا ق ّ
میں اپنے کئے پہ بہت پچھتاوا اور ندامت تھی۔
’’ اس کی موت نے مجھے اندر سے ہال دیا۔ وہ لڑکی ،جس کی زندگی میں مجھے اس کی
موجودگی کا احساس کبھی نہ ہوا تھا۔ ا ُس کے جانے کے بعد ا ُس کی غیرموجودگی ستانے لگی تھی۔ تب
مجھے احساس ہوا کہ وہ میری زندگی میں کتنی اہم تھی۔۔۔۔
س جرم۔۔۔۔ میری پچھتاوے۔۔۔۔ ندامت۔۔۔ گزرے وقت کا مالل۔۔۔ ا ُسے نظرانداز کرنے کا احسا ِ
زندگی اور بھی کٹھن ہو گئی۔ میں اور بھی زیادہ سگریٹ پینے لگا۔ زندگی سے دلچسپی ختم ہو کر رہ
گئی۔۔۔ لیکن یہ بچے۔۔۔ جن کی ذمہ داریاں میں ایک مشین کی طرح نبھا رہا تھا۔۔ جانے کیوں مجھ سے
اتنا پیار کرتے تھے۔ مجھے دیکھ کر خوش ہوتے تھے۔ مجھ سے لپٹ جاتے تھے۔ میرے ہاتھ پاؤں چومتے
تھے۔
ِ
ان کی محبت ،ان کا پیار میں نظرانداز نہ کر سکا۔ میں شرمندہ ہونے لگا کہ یہ بچے میرے ِ
لئے ایک ذمہ داری سے بڑھ کر کچھ بھی نہیں ہیں۔ لیکن میں ِان کے لئے ِان کا سب کچھ ہوں۔۔۔
یہ احساس مجھے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر گیا۔۔۔ میں نے سوچا کہ میں ان کے ساتھ
جو کر رہا ہوں ،کیا وہ درست ہے؟۔۔۔۔ اور کیوں کر رہا ہوں میں ایسا؟ صرف ِاس لئے کہ مجھےمیری پسند
کی لڑکی نہیں ِملی ؟۔۔۔۔
وہ ایک لڑکی نہ ِملنے کی سزا میں نے سب کو دی۔ خود کو ،اپنے ماں ،باپ کو ،اپنی بیوی کو،
اور اب اپنے بچوں کو بھی۔
مجھےاپنی خودغرضی کا احساس ہوا کہ میں نے ایک لڑکی نہ ملنے کے سبب اتنے سارے
بےقصور لوگوں کو ُدکھ دیا۔ ا ُن کی زندگیاں برباد کیں۔
ھل گیا۔ لیکن اس بار میں نے اپنی اصالح کرنے کی پچھتاؤں اور ندامت کا ایک اور باب ک ُ
ٹھانی۔ سوچا کہ اگر اب گزرےہوئے وقت پہ پچھتاؤں گا تو کل پھر ِاس وقت کو پچھتا کر گزارنے پہ پچھتا
رہا ہوں گا۔۔۔ تب میں نے سب کچھ پیچھے چھوڑ کر ایک نئے سرے سے اپنی زندگی گزارنے کا فیصلہ
کیا۔۔۔ اپنی ساری توجہ ،اپنی ساری محبت اپنی اوالد کے لئے وقف کر دی۔ ‘‘
اس نے اسرار احمد کے لہجے میں ایک نیا جوش اور ولولہ محسوس کیا۔ وہ کہہ رہے تھے۔
’’بہت مشکل تھا میرے لئے۔۔۔ ا ُس لڑکی کو بھالنا۔۔۔ اپنی غفلت اور کوتاہیوں کو بھالنا۔۔۔ اور
سب سے مشکل تھا سگریٹ نوشی ترک کرنا۔۔۔۔ باقی سب کچھ پیچھے چھوڑ لیا میں نے۔ لیکن سگریٹ
تھے کہ کم بخت چھوٹتے ہی نہ تھے۔ ہر روز سگریٹ ا ُٹھا لیتا تھا اور کہتا تھا کہ آج کے بعد نہیں پیوں
گا۔۔۔ پھر ایک ِدن میں نے سگریٹ ا ُٹھاتے ہوئے اپنے آگے ہار مان لی۔۔۔ کہا کہ یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔
میں کبھی سگریٹ پینا نہیں چھوڑ سکتا۔‘‘
انھوں نے ُرک کر رجب کی اور دیکھا۔
وہ جیسے ہمہ تن گوش تھا۔ اسرار احمد کی مایوس آنکھوں میں روشنی چمکی۔
’’جانتے ہو تب مجھے کیا خیال آیا؟۔۔۔۔‘‘
ذرا کی ذرا توقف کیا۔ پھر بتانے لگے۔
’’میں نے خود سے کہا کہ جو کام سراسر میری مرضی پہ منحصر ہے۔ اگر میں یہ نہیں کر
سکتا تو میں زنگی میں کیا کمائی کروں گا؟۔۔۔۔ جو آدمی اپنے ہی آگے ہار جائے ،وہ ُدنیا میں کیا جیتے گا؟
کیا فتح کرے گا؟۔۔۔‘‘
انھوں نے رجب کی سمت دیکھا۔ رجب تائید کرنے کے انداز میں مبہم سا مسکرایا۔
’’تب میں نے خود سے کہا۔
اسرار احمد! یہ کہنا بہت آسان ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا ،مجھ سے وہ برداشت نہیں
ہوتا۔۔۔
بہت آسان ہے مشکالت سے دور بھاگنا۔
ہوتا۔۔۔
بہت آسان ہے مشکالت سے دور بھاگنا۔
بہت آسان ہے اپنے مصائب سے گھبرا کر ریل کی پٹڑی پر سر رکھ دینا۔۔۔۔
اگر ہّمت ہے تو تم وہ کر کے ِدکھاؤ جو تمہیں ناممکن لگتا ہے۔۔۔ اپنے ہی آگے ہار جانا سب
سے بڑی ہار ہے۔ اور خود کو فتح کرنا سب سے بڑی فتح۔۔۔۔ مانوں تمہیں تب ،جب تم خود کو فتح کر کے
ِدکھاؤ۔۔ اپنے نفس کو فتح کر کے ِدکھاؤ۔۔
اور میرا یقین کرو رجب!۔۔۔ ا ُس وقت ہاتھ میں پکڑا وہ سگریٹ پیا نہیں۔۔۔ وہ ِدن اور آج کا
ِدن۔۔۔ میں نے کبھی سگریٹ کو ہاتھ نہیں لگایا۔‘‘
انھوں نے کہا تو وہ مسکرا دیا۔ وہ یہ سب سن کر ا ُن سے بہت متاثر ہوا تھا۔
تب ہی انھوں نے رجب کے عقب میں شوال کو ان کی طرف آتے دیکھا۔
’’آؤ شوال!۔۔۔ بہت صحیح وقت پہ آئی ہو۔‘‘
انھوں نے ا ُس کا گرم جوشی سے استقبال کیا۔
رجب نے چونک کر ُمڑ کر ا ُس کی طرف دیکھا۔
’’کیا باتیں ہو رہی ہیں؟‘‘
شوال نے قریب پہنچ کر سوال کیا۔
’’ادھر آؤ۔ میرے پاس بیٹھو۔‘‘
ُ ِ
اسرار احمد نے اس کی کالئی تھام کے اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔ اس کے شانے پہ ہاتھ رکھ کر
رجب سے مخاطب ہوئے۔
’’اب ِاس کی ہی مثال دوں میں تمہیں۔۔۔ جب یہ تمہارا گھر چھوڑ کر آئی تھی تو بہت ٹوٹ
چکی تھی۔ زندگی سے بالکل ہی منہ موڑ لیا تھا اس نے۔۔۔ پھر ایک ِدن میں نے اس کے پاس بیٹھ کر اسے
سمجھایا۔۔۔۔
شوال! کیا کہا تھا میں نے تم سے؟‘‘
ا ُنھوں نے شوال کو آگے کیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اس صبح سکینہ بیگم ناشتے کی میز پہ آئیں تو وجاہت علی کو ابھی تک نائٹ سوٹ میں
ملبوس ،اخبار چہرے کے سامنے پھیالئے ہوئے فرصت سے چائے پیتے پایا۔
ا ُن کے بیٹھنے کے بعد ماسی نے پین کیکس کی پلیٹ ال کر ا ُن کے سامنے رکھ دی۔
’’ آج آپ کا آفس جانے کا موڈ نہیں؟‘‘
اپنے لئے کپ میں چائے نکالتے ہوئے انھوں نے اپنے شوہر سے دریافت کیا۔
’’ ہاں۔۔۔ آج پہلے کنسٹرکشن سائٹ پہ جانا ہے۔ ذرا دیر سے نکلوں گا۔‘‘
وجاہت علی اخبار میں منہمک تھے۔ ا ُسی انداز میں جواب دیا۔
’’اسالم علیکم!‘‘
ف معمول رجب وہاں چال آیا۔ بمشکل مدھم سا سالم کر کے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ خال ِ
’’اسالم علیکم!‘‘
ف معمول رجب وہاں چال آیا۔ بمشکل مدھم سا سالم کر کے کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ خال ِ
سکینہ بیگم اور وجاہت علی ،دونوں ا ُسے دیکھ کر حیران ہوئے۔ مگر بولے کچھ نہ۔
’’واعلیکم السالم!۔۔۔ تم کام پہ جا رہے ہو؟ ‘‘
سکینہ بیگم نے سالم کا جواب دے کر استفسار کیا۔
’’جی ہاں۔‘‘
ا ُس نے جواب دیا۔ پھر وہیں بیٹھے بیٹھے کچن میں کام کرتی ماسی کو آواز لگائی۔
’’ماسی!۔۔۔ میرے لئے سوفٹ چیز سینڈوچ بنا الئیں پلیز۔‘‘
کہہ کر ا ُس نے اپنے لئے گالس میں اورنج جوس بھر لیا۔
وہ جوس پی رہا تھا کہ ڈری سہمی سی ماسی خالی ہاتھ وہاں آئی۔
’’چھوٹے صاحب!۔۔۔ سوفٹ چیز نہیں ہے گھر میں۔‘‘
سکینہ بیگم اور رجب ،دونوں نے چونک کر ماسی کی طرف دیکھا۔
سن کر رجب کا دماغ گھوم گیا۔ سکینہ بیگم متوقع ہنگامے کا سوچ کر گھبرا گیئیں۔ یہ انکار ُ
اخبار کے پیچھے وجاہت علی کی بھی کچھ ایسی ہی حالت تھی۔
رجب نے لب بھینچ کر خود کو کنٹرول کیا۔ پھر غصہ دبا کر نرمی سے بوال۔
’’ اچھا ،چلیں ایک انڈہ فرائی کر دیں اور بیکڈ بینز ) (baked beansگرم کر کے لے آئیں۔‘‘
ا ُس کے رِد عمل نے باقی تینوں نفوس کو حیران کر دیا۔ البتہ ماسی حیران ہونے کے ساتھ اور
بھی پریشان ہو گیئیں۔ خوف سے وہ اپنی جگہ سے ہلیں ،نہ کچھ بول سکیں۔
’’کیا ہوا؟‘‘
رجب نے اب بھی نرمی سے پوچھا۔
’’وہ جی۔۔۔ بیکڈ بینز۔۔۔ کل ہی ختم ہو گئے تھے۔‘‘
سکینہ بیگم ایسے ہو گیئیں کہ اب آئی قیامت۔ سب سے پہلے تو رجب ہاتھ میں پکڑا گالس
دیوار پہ دے مارے گا۔ا ُنھوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
رجب ماسی کی سہمی ہوئی صورت دیکھ کر مسکرا دیا۔ پھر ٹیبل پہ پڑے لوازمات پہ نگاہیں
دوڑا کر بوال۔
’’ کوئی بات نہیں۔۔۔ وہ سویٹ اینڈ ساور چٹنی تو ہے ناں؟۔۔۔‘‘
ماسی نے جلدی سے اثبات میں سر ہالیا۔
’’ وہی الدیں جلدی سے۔‘‘
رجب نے کہا تو ماسی جیسے ِاس جان بخشی پہ کچن کی طرف بھاگ کھڑی ہوئیں۔
’’اّمی!۔۔۔ یہ پین کیکس دیجیے گا پلیز۔‘‘
رجب نے کہہ کر ایک بار پھر ا ُن دونوں کو حیران کر دیا۔ وجاہت علی نے تو ا ُچھل کر اخبار
سامنے سے ہٹا کر ا ُسے دیکھنے لگے۔
سکینہ بیگم الگ بےیقین تھیں۔
ا ُن دونوں کی حیرت نظرانداز کرتے ہوئے ا ُس نے خود ہی پین کیکس کی پلیٹ گھسیٹ کر اپنے
سامنے کر لی۔
ِ
ماسی چٹنی کی پیالی لئے بوتل کے جن کی طرح حاضر ہوئیں۔
رجب خاموشی سے پین کیکس کے ٹکڑے چٹنی سے لگا لگا کر کھانے لگا۔
سکینہ بیگم سے اپنی حیرت چھپائے نہ چھپ رہی تھی۔ رجب نے سارا ناشتہ خاموشی سے
ختم کیا۔ پھر خداحافظ کہہ کر ا ُٹھ گیا۔
اس کے جانے کے بعد وجاہت علی نے چہرے کے سامنے پھیالیا اخبار نیچے کیا اور سکینہ
بیگم کو دیکھا۔
’’دیکھا آپ نے؟۔۔۔۔ آج ا ُس نے ہمارے درمیان بیٹھ کر ناشتہ کیا۔‘‘
سرت کے ساتھ کہا۔ سکینہ بیگم نے حیرت و م ّ
’’دیکھا آپ نے؟۔۔۔۔ آج ا ُس نے ہمارے درمیان بیٹھ کر ناشتہ کیا۔‘‘
سرت کے ساتھ کہا۔ سکینہ بیگم نے حیرت و م ّ
’’ ہاں۔۔۔۔ میں خود حیران ہوں کہ میری موجودگی میں وہ میز پہ کیسے آیا۔ ورنہ آفس میں
بھی وہ میرے سامنے نہیں آتا۔ ہمارے بیچ تمام کمیونیکیشن کسی تھرڈ پرسن کے ذریعے ہوتی ہے۔‘‘
وجاہت علی خود حیران تھے۔
’’ یہ بات بھی ہے ،لیکن پین کیکس۔۔۔۔ ا ُسے تو پین کیکس کھانے سے نفرت تھی۔ پھر آج
کیسے ایک پورا پین کیک کھا کر ا ُٹھا ہے؟۔۔۔ مجھے تو یقین نہیں آ رہا۔۔۔ اتنا کیسے بدل سکتا ہے وہ؟۔۔۔ ‘‘
’’ہاں۔۔۔ تعجب کی بات تو ہے۔ لیکن شاید آج قسمت ماسی پہ بہت مہربان ہو رہی ہے۔ ورنہ
ان کی خیر نہیں تھی۔‘‘
وجاہت علی نے بھی تبصرہ کیا۔
’’ خیر۔۔۔ جو ہوا اچھا ہوا۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم نے کہا۔ پھر موضوع بدلتے ہوئے بولیں۔
ِ
’’ رجب بتا رہا تھا کہ اسرار کی خواہش ہے کہ شوال رخصت ہو کر اس گھر میں آئے۔۔۔ یعنی
شادی وادی سب یہیں پہ ہو گی۔ اگلے ِدن یہ دونوں اپنے گھر میں ُموو ہو جائیں گے۔‘‘
سن کر وجاہت علی کا چہرہ غصے سے سرخ ہو گیا۔ یہ ُ
’’ ذلیل انسان۔۔۔ مجھے نیچا دکھانے کے لئے کر رہا ہے یہ سب۔۔۔ شوال کی ڈولی یہاں بھیج
کر ا ُس کا ِاس گھر پہ حق جتانا چاہتا ہے۔۔۔ ورنہ تم ہی بتاؤ۔۔۔ جب رجب ا ُسے یہاں پہ رکھنے سے انکار
چکا ہے تو پھر وہ کیوں ایسی شرط رکھ رہا ہے؟‘‘ کر ُ
اسرار کو کوسنے کے بعد ا ُنھوں نے سکینہ بیگم سے رائے طلب کی۔
’’ ایسا ہی ہو گا وجاہت!۔۔۔ لیکن ہمیں کیا؟۔۔۔ ہمارے لئے اہمّیت رجب اور اس کی خوشی کی
ہے۔ جب تک وہ خوش ہے ،ہم بھی خوش ہیں۔‘‘
’’ ہونہہ۔۔۔ ‘‘ وجاہت علی تلخی سے مسکرائے۔
’’دیکھ لو۔۔۔ رجب بھی کیسے ا ُس کے ساتھ ِمل گیا ہے مجھے ذلیل کرنے کے لئے۔۔۔ میں غلط
نہیں کہہ رہا تھا۔ ابھی تو شروعات ہے۔ آگے آگے دیکھو ہوتا کیا ہے۔۔۔‘‘
وجاہت علی متوقع پریشانیوں اور ذلت کی پیشن گوئی کر رہے تھے۔
ِ
سکینہ بیگم خاموشی سے سوچ رہی تھیں۔ وجاہت علی کے خدشات درست دکھائی دے رہے
تھے۔ لیکن وہ مکمل بے بس تھیں۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ اپنے آفس میں کرسی کی پشت پہ سر ڈالے گہری سوچ میں گم تھا۔ اپنی کہنی کرسی کی
آرم ریسٹ پہ ِٹکا کر ہاتھ اونچا کئے ،ا ُس میں ری ٹریکٹ ایبل پین ) (retractable penپکڑ رکھا تھا۔ بے
خیالی میں وہ مسلسل کلکنگ کر رہا تھا۔
اسرار احمد کی باتیں ا ُس کی ذیہن میں گونج رہی تھیں۔
’’یہ کہنا بہت آسان ہے کہ میں یہ نہیں کر سکتا ،مجھ سے وہ برداشت نہیں ہوتا۔۔۔
بہت آسان ہے مشکالت سے دور بھاگنا۔
بہت آسان ہے اپنے مصائب سے گھبرا کر ریل کی پٹڑی پر سر رکھ دینا۔۔۔۔
اگر ہّمت ہے تو تم وہ کر کے ِدکھاؤ جو تمہیں ناممکن لگتا ہے۔۔۔ اپنے ہی آگے ہار جانا سب
سے بڑی ہار ہے۔ اور خود کو فتح کرنا سب سے بڑی فتح۔۔۔۔ مانوں تمہیں تب ،جب تم خود کو فتح کر کے
ِدکھاؤ۔۔ اپنے نفس کو فتح کر کے ِدکھاؤ۔۔‘‘
اسرار احمد کے الفاظ اس کے ذیہن میں گونج رہے تھے۔
وہ سیدھا ہو بیٹھا۔ سامنے ٹیبل پہ بچھائے ایک نقشے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ نقشے
پہ نظریں جمائے وہ ملبے ملبے سانس لینے لگا۔ ا ُسے لگا جیسے کمرے میں آکسیجن کم پڑ گئی ہو۔ سانس
وہ سیدھا ہو بیٹھا۔ سامنے ٹیبل پہ بچھائے ایک نقشے پہ اپنے دونوں ہاتھ رکھ دیئے۔ نقشے
پہ نظریں جمائے وہ ملبے ملبے سانس لینے لگا۔ ا ُسے لگا جیسے کمرے میں آکسیجن کم پڑ گئی ہو۔ سانس
لینا بہت دشوار ہو گیا تھا۔
) مجھ سے نہیں ہوگا۔۔۔ یہ پین کیکس کھانے جتنا آسان نہیں ہے۔۔ میں نہیں کر سکتا۔(
ش نظر ہار مانتے ہوئے پیچھے ہٹنے لگا کہ ا ُسے اینگزائٹی اٹیک ہونے لگا۔ اپنی حالت کے پی ِ
دوسرے خیال نے ا ُسے روک لیا۔
) نہیں۔ میں ہار نہیں مانوں گا۔ میں کم ہّمت نہیں ہوں۔(
ا ُس نے خود سے کہا اور وہ نقشے کی شیٹ رول کر کے ا ُٹھ گیا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وجاہت علی اپنے آفس میں بیٹھے پرنٹر میں سے نکلتے پیپرز ا ُٹھا ا ُٹھا کر ایک فائل میں لگا رہے
تھے جب دروازے پہ دستک ہوئی۔
’’کم ِان۔‘‘
اپنی مصروفیت ترک کئے بنا انھوں نے اجازت دی۔
اپنے کام میں وہ اتنے مّحو تھے کہ یہ بھی نہ دیکھا کہ کون آیا ہے۔
رجب ا ُن کی ٹیبل کے قریب آ کر ُرک گیا۔ سامنے بیٹھے شخص کو مخاطب کرنا ا ُس کے لئے
زندگی کا سب سے مشکل کام تھا۔
ان کے کمرے کے دروازے پہ دستک دینے سے لے کر ا ُن کی میز کے قریب آنے تک کا سفر ا ُس
نے کیسے طے کیا تھا۔ کتنی ہمتیں لگی تھیں۔ یہ صرف وہی جانتا تھا۔ اور ابھی بھی یہ سب سے اونچا
اور کٹھن پہاڑ سر کرنا باقی تھا۔ ا ُسے لگا کہ اس کا ِدل بند ہو جائے گا۔ اپنی کم ہمتی پہ ا ُسے سخت
غصہ آیا۔ ا ُس نے یہ چیلنج قبول کرتے ہوئے آنکھیں بند کر کے اپنی ساری ہمتیں مجتمع کر ڈالیں اور
آنکھیں کھول کر سامنے بیٹھے شخص کو مخاطب کیا۔
’’ اّبو !‘‘
وجاہت علی اپنی جگہ ا ُچھل پڑے۔ فورا ً گردن گھما کر دیکھا۔
’’رجب! ‘‘
انھیں جیسے یقین نہ آیا کہ وہ سچ میں ا ُن کے سامنے کھڑا ہے۔
’’میں۔۔۔ یہ مال کے بلیو پرنٹس دیکھے ہیں۔۔۔ کچھ پوئنٹس ڈسکس کرنا چاہتا تھا۔‘‘
ا ُس نے ہچکچاتے ہوئے کہا۔ اب کی بار ا ُسے بولنے میں زیادہ ِدقت پیش نہیں آئی تھی۔
’’ہاں ،ہاں۔ ضرور۔ بیٹھو۔‘‘
وجاہت علی اپنا سارا کام کاج چھوڑ کر پوری طرح سے ا ُس کی طرف متوجہ ہو گئے۔ رجب
کرسی کھینچ کر بیٹھ گیا۔ اب وہ صرف تھوڑی جھجک محسوس کر رہا تھا۔بیٹھنے کے بعد وہ ہاتھ میں
پکڑی شیٹ کھول کر میز پہ بچھانے لگا۔
’’چائے پیو گے؟‘‘
وجاہت علی ا ُس کی ناراضگی دور ہوتی دیکھ کر پھیلنے لگے۔
’’جی ضرور۔‘‘
ف توقع ا ُس نے انکار نہ کیا۔خال ِ
وجاہت علی نے خوش ہو کر فورا ً انٹرکام پہ دو کپ چائے آرڈر کر دی۔
وہ پنسل کپ میں سے ایک کچی پنسل نکال کر ہاتھ میں پکڑے ا ُن کے فارغ ہونے کا منتظر تھا۔
اب ا ُس کی ہچکچاہٹ بڑی حد تک ختم ہو چکی تھی اور وہ خاصا ُپراعتماد محسوس کر رہا تھا۔
جب وہ ریسیور رکھ کر ا ُس کی طرف ُمڑے تو وہ نقشہ ا ُنکی طرف کھسکا کر بتانے لگا۔
’’ اور سب تو ٹھیک ہے لیکن۔۔۔ مجھے یہ ایلویٹر ) (elevatorاور ایسکلیٹر )(escalator
کی لوکیشنز ٹھیک نہیں لگ رہیں۔ فرسٹ ٹائم آنے والے کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ کہاں ہیں۔ باقاعدہ
ڈھونڈنا پڑے گا۔ جبکہ یہاں مال کے سینٹر میں بہت سی جگہ فضول میں خالی ہے۔ میرے خیال سے ایلویٹر
کی لوکیشنز ٹھیک نہیں لگ رہیں۔ فرسٹ ٹائم آنے والے کو پتا ہی نہیں چلے گا کہ یہ کہاں ہیں۔ باقاعدہ
ڈھونڈنا پڑے گا۔ جبکہ یہاں مال کے سینٹر میں بہت سی جگہ فضول میں خالی ہے۔ میرے خیال سے ایلویٹر
اور ایسکلیٹر دونوں کو یہاں ہونا چاہیئے۔ یُوزرز کیلئے زیادہ اکسیس ایبل بھی ہوں گی اور یہاں سے ہٹانے
سے یہ تینوں فلورز کے رومز بھی بڑے ہو جائیں گے۔ اور پھر یہ خالی جگہ یوٹالئز بھی اچھے طریقے سے
ہو جائے گی۔‘‘
وہ لکیریں کھینچ کھینچ کر وجاہت علی کو ساری بات سمجھا رہا تھا۔
وجاہت علی نقشے پہ نظریں جمائے بغور ا ُسے سن رہے تھے۔
’’ہوں۔۔۔ کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔‘‘
انھوں نے ُپر سوچ انداز میں کہا۔
پھر بولے۔
’’ لیکن فائنل چینجز کرنے سے پہلے سکندر صاحب سے یہ بات کرنی ہوگی۔۔۔ ُفسی )(fussy
آدمی ہے۔ ِبنا بتائے ایسا کیا تو بعد میں اعتراض نہ کر دے۔‘‘
وجاہت علی کہہ رہے تھے۔
تب ہی پیون آ کر چائے کے دو کپ رکھ گیا۔
’’تو ٹھیک ہے۔۔۔ آج شام کو بُال لیں انھیں۔ ‘‘
کہتے ہوئے اس نے پیچھے ہو کر کرسی کی پشت سے پیٹھ ٹِکا لی۔
اب وہ مکمل طور پر ُپراعتماد اور کمفرٹیبل تھا۔ پھر بھی وہ وجاہت علی کو ایک فاصلے پہ
رکھ کر بات کر رہا تھا۔ اپنی کمزوری دُور کرنے کی خاطر وہ وجاہت علی سے بات تو کر رہا تھا۔ لیکن وہ
ا ُنھیں معاف کرکے اپنانے کو تیار نہیں تھا۔
ابھی اس نے چائے کا کپ ا ُٹھایا ہی تھا کہ ا ُس کے فون پہ کال آنے لگی۔
چائے کا کپ واپس رکھ کر ا ُس نے جیب سے فون نکاال اور کالر کا نام دیکھ کر ا ُس کے ہونٹوں
پہ مسکراہٹ آ گئی۔
’’ اسالم علیکم انکل!۔۔۔ کیا حال ہیں؟‘‘
وجاہت علی اپنا کپ ہونٹوں سے لگائے چائے کا گھونٹ لے رہے تھے۔ رجب کے منہ سے ’انکل‘
سن کر چونک کر ا ُس کی طرف دیکھا۔ ُ
فون پہ بات کرتے ہوئے ا ُس کی آنکھوں میں جیسے الکھوں جگنوں روشن تھے۔
’’نہیں۔ میں فارغ ہوں۔ آپ بولیے۔۔۔‘‘
دوسری طرف کی بات سن کر ا ُس نے جواب میں کہا۔
وجاہت علی ا ُسے بغور دیکھتے ہوئے قیاس کر رہے تھے کہ دوسری طرف سے کیا ’فرمان‘
جاری ہو رہے ہیں۔
’’ جی ضرور۔ میں ابھی آتا ہوں۔‘‘
خوشی سے کہہ کر رجب نے کال کاٹی۔ فون جیب میں رکھتے ہوئے وہ عجلت میں ا ُٹھنے لگا۔
’’ اّبو!۔۔ آپ خود ہی سکندر صاحب سے بات کر لیجیئے گا۔۔۔ میں اسرار انکل کے آفس جا رہا
ہوں ا ُن کے ساتھ چائے پینے۔‘‘
کہہ کر وہ ا ُٹھا اور وجاہت علی کا کوئی بھی جواب سننے کی زحمت کئے بنا یہ جا وہ جا۔
وجاہت علی ساکت بیٹھے رجب کا چھوڑا ہوا چائے کا کپ دیکھ رہے تھے۔ حسد کی آگ نے ا ُن
کا پورا وجود اپنی لپٹوں میں لے لیا۔
’’اسرار!۔۔۔ یہ تم ٹھیک نہیں کر رہے۔‘‘
صور سے خطاب کیا۔صےاور تنفر سے اسرار احمد کے ت ّ انھوں نے غ ّ
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
ا ُس نے سر جھکائے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔ اپنی ماں کی وجہ سے اسرار احمد اور وجاہت
علی کے درمیان ہوئے اس جھگڑے کا ذکر کرنا ہی چاہتا تھا کہ اسرار احمد اپنی ہی دھن میں تھے۔ ا ُس
کی طرف دھیان دیئے بنا بول پڑے۔
’’اصل ایشو مجھے تمہارے باپ کے کمینے پن سے ہے۔ ‘‘
ا ُس نے جھٹکے سے سر ا ُٹھا کر اسرار احمد کو دیکھا۔ وہ کہہ رہے تھے۔
’’ایسا احمق آدمی ہے کہ پہلے غلط کام کرتا ہے۔ پھر ا ُس کا الزام دوسرے کے سر پہ ڈال کر
صر رہتا ہے۔ ‘‘خود کو بےقصور کہلوانے پہ م ّ
ا ُن کے الفاظ اس کے لئے غیرمتوقع ضرور تھے۔ لیکن وہ ا ُن سے سو فیصد متفق تھا۔
اسرار احمد کہہ رہے تھے۔
سی برس کی عمر میں ’’ وہ جیسا آٹھ سال کی عمر میں تھا ،آج بھی ویسا ہی ہے۔ اور ا ّ
بھی ویسا ہی ہو گا۔ گزرتے وقت سےا ُس نے سفید بالوں کے سوا کچھ حاصل نہیں کیا۔۔۔ اس لئے میں نے
ہمیشہ ا ُس سے نفرت اور ضد کی۔ اور کب یہ ضد میرا مقصد بن گئی۔ مجھے پتا ہی نہ چال۔۔۔ میری ِاسی
ضد کا نتیجہ تھا کہ وجاہت نے میری بیٹی اس کی شادی کے ِدن اغواء کر لی۔ اپنی وہ ’عزت‘ جو میرے
لئے زندگی اور موت کا معاملہ تھی۔۔۔ وہ بھی میں نے اپنی ِاسی ناجائز ضد کی وجہ سے کھوئی۔
جانتے ہو! ا ُس ِدن کتنی ذلت ،کتنی رسوائی کا سامنا کیا میں نے؟۔۔۔
طرح طرح کے لوگ ،طرح طرح کی باتیں۔۔۔ پھر اپنی عزت جانے کا ُدکھ ،بیٹی کی جدائی کا
غم ،لوگوں کی تضحیک آمیز نظریں۔ کیا کچھ نہیں سہا میں نے؟۔۔۔ لیکن کبھی اپنی غلطی کا احساس
نہیں ہوا۔
وہ تو جب شوال نے مجھے فون کر کے میرے آگے فریاد کی۔ اپنا درد بیان کیا۔ تب میں تڑپ گیا
اور سب کچھ بھول کر ا ُسے گھر لے آیا۔ تب ا ُس کی ا ُجڑی ہوئی حالت دیکھ کر میں نے خود سے سوال کیا
کہ کون ہےاس کی اس حالت کا ذمہ دار؟
اور اس کا جواب تھا’مَیں‘۔‘‘
اسرار احمد نے ُرک کر ا ُسے دیکھا۔
سن رہا تھا۔وہ انھیں ہی دیکھ رہا تھا اور پوری توجہ سے ُ
اسرار احمد نے شرمندگی کے احساس کے ساتھ اپنی بات آگے بڑھائی۔
’’تب مجھے احساس ہوا کہ میں ِکس بھول میں تھا۔
ِکسے میں اپنی عزت سمجھتا تھا؟۔۔۔
ِکسے میں اپنی غیرت سمجھتا تھا؟۔۔۔
اهلل کو ناراض کر کے لوگوں کو خوش کرنے میں لگ جانا عزت ہے؟۔۔۔
ِان لوگوں کی اتنی ِفکر مجھے کیوں تھی؟۔۔۔
کیا یہ میرے مالک تھے؟۔۔۔ میرا داتا تھے؟۔۔۔ کون تھے؟۔۔۔
کیوں میں خود کو اپنے اور اپنی اوالد کے اعمال کے لئے ِان لوگوں کے آگے جواب دہ سمجھتا
تھا؟۔۔۔ جبکہ ہمارا تو ایمان یہ ہے کہ ہمیں پیدا کرنے والی اهلل کی ذات ہے۔ وہی ہمارا مالک و رازق ہے۔
ا ُسی کے آگے ہم جواب دہ ہیں۔
پھر لوگ کچھ نہ کہہ دیں۔ ِاس ِفکر میں اپنی زندگی برباد کرنا۔ اپنی اوالد کی خوشیان قربان
ی کہ عزت و غیرت کے نام پہ ِان لوگوں کو خوش رکھنے کی خاطر اپنی اوالد کو جان سے مار کرنا۔ حت ٰ
دینا۔۔۔ کیا یہ عزت ہے؟
یہ کون سی عزت ہے جو گناہ کر کے کمائی جاتی ہے؟۔۔۔ کون سی عزت ہے جو اهلل کو ناراض
کر کے حاصل کی جاتی ہے؟
کسی زمانے میں ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اوالد کی قربانی دیا
کرتے تھے۔ آج ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کتنے جاہل لوگ تھے۔
کسی زمانے میں ہندو اپنے دیوی دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے اپنی اوالد کی قربانی دیا
کرتے تھے۔ آج ہم ان کے بارے میں سنتے ہیں تو کہتے ہیں کہ کتنے جاہل لوگ تھے۔
اور ہم خودِ ،اس ماڈرن دور کے پڑھے لکھے لوگ۔ جن کا معبود صرف ایک اور وہ اهلل کی ذات
ہے۔ پھر ہم ِان لوگوں کو خوش کرنے میں کیوں لگ گئے ہیں؟ جنہیں ہم اپنے دیوی ،دیوتا بھی نہیں
سمجھتے۔
ِ
مالک و رازق اهلل کو مانتے ہیں۔۔۔ اور ہماری پرستش اور قربانیاں ان لوگوں کے لئے ہیں۔۔۔
کیوں؟
کیا ہم نے انھیں اپنا خدا بنا لیا ہے؟ جنہیں ہر حال میں خوش رکھنا ہمارے لئے ضروری
ہے؟۔۔۔ کیا یہ سراسر شرک اور کفر نہیں ہے؟ ‘‘
’’ ایسا آپ سوچ رہے ہیں انکل!۔۔۔ لیکن لوگ تو یہی سوچتے ہیں کہ بےشک رازق و مالک اهلل
کی ذات ہے۔ مگر ہم دنیا پہ رہتے تو انسانوں کے درمیان ہیں۔‘‘
رجب نے ان کی بات سے اتفاق کرتے ہوئے لوگوں کی سوچ بیان کی۔
’’دنیا پہ انسانوں کے بیچ رہتے ہیں تو کیا اهلل کو چھوڑ کر ا ُن کی پرستش میں لگ جائیں؟۔۔
ا ُنکو خوش کرنے کے لئے اهلل کے احکامات سے منحرف ہو جائیں؟۔۔۔ اور کیوں ہوں؟۔۔۔ کیا یہ دنیا ِان کی
ملکیت ہے؟۔۔۔ ا ُن کو خوش نہیں رکھیں گے تو یہ ہمیں نکال دیں گے ِاس دنیا سے؟۔۔‘‘
اسرار احمد کے سواالت برجستہ تھے۔ کہنے لگے۔
’’ میں ِاسی لئے تو اپنی مثال دے رہا ہوں۔ کیوں کہ میں انسانوں کی پرستش بھی کر چکا
ہوں اور اب اهلل کی بندگی بھی کر رہا ہوں۔
جب تک انسانوں کو خوش رکھنے میں لگا رہا۔ میں نے اهلل کو بہت ناراض کیا۔ خود بھی ُدکھ
ا ُٹھائے اور دوسروں کی زندگیاں بھی برباد کیں۔۔۔ کیا حاصل ہوا؟۔۔۔ یہ لوگ وہ ہیں جن کی خواہش صرف
آپ کو آپریشن) (oppressionمیں دیکھنا ہے۔ ِان کے لئے قربانیاں دے کر اگر تم سمجھو کہ یہ تم سے
خوش ہوں گے؟ تو کبھی نہیں۔۔۔ اگر تم اپنا سر کاٹ کر اپنے ہاتھوں سےِان کے قدموں میں رکھو گے۔ تب
بھی یہ خوش نہیں ہوں گے۔۔۔ اور بالفرض کوئی ہو بھی جاتا ہے تو کیا حاصل؟۔۔۔ اهلل کو ناراض کر کے
ایک انسان کو خوش کیا تو کیا پایا؟۔۔۔
لیکن جب سے میں نے اپنا معبود بدال ہے۔ ِان زمین کے خداؤں کو چھوڑ کر صرف اهلل کی
خوشی کو ترجیح دینا شروع کی ہے۔ ِاس کے نتائج بھی تمہارے سامنے ہیں۔۔۔ اب بھی میں اسی زمین پہ
ِان ہی لوگوں کے درمیان رہ رہا ہوں۔ ِکسی نے مجھے قتل نہیں ِکیا۔۔۔ بلکہ میں خوش ہوں۔ میرے بچے خوش
ہیں۔ بشمول تمہارے۔۔۔ اور اهلل ! وہ بھی مجھ سے خوش ہے۔ اور کیا چاہیئے؟۔۔۔ رہ گئے لوگ۔۔۔ تو ا ُنکی
پرواہ ِکسے ہے؟۔ ‘‘ ا ُنھوں نے کہا۔
ا ُن کی باتیں رجب کے ِدل کو لگی تھیں۔
پھر رجب سے پوچھنے لگے۔
’’ بلکہ سچائی تو یہ ہے کہ آج ہر آدمی میری تعریف کر رہا ہے۔ میری وہ بیٹی ،جس کے
بارے میں لوگ باتیں کرتے تھے۔ وہی لوگ ہیں جو آج ا ُس کی زندگی پہ اور اس کی قسمت رشک کر رہے
ہیں۔ صرف ِاس وجہ سے کہ اب میں اهلل کے بتائے ہوئے راستے پہ چلنے لگا ہوں۔ اب میں سمجھ سکتا ہوں
کہ جو میں نے اپنی معصوم بیٹی کے ساتھ کیا وہ تو غلط تھا ہی۔ لیکن۔۔۔
اگر ا ُس نے کچھ غلط کیا ہوتا۔ دنیا والے جو کہتے ہیں ،جو سمجھتے ہیں۔ وہ اگر سچ بھی
ہوتا۔ تب بھی مجھے اپنی بیٹی کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہیئے تھا۔۔۔ تاکہ ا ُس کا فیصلہ غلط ہونے کی
صورت میں ،جب وہ ٹھوکر کھا کر ِگرنے لگتی تو ا ُسے سنبھال لیتا۔ اور اگر ا ُس کا فیصلہ درست ہوتا تو
ا ُس کو عزت کے ساتھ قبول کرتا۔
بحیثیت ایک باپ ،یہی تو فرض ہے میرا۔‘‘
وہ ا ُن کی ہر بات سے متفق تھا۔
اسرار احمد کے لہجے میں پچھتاوے اور ندامت شامل ہو گئی۔
’’ لیکن افسوس۔۔۔ مجھے بہت دیر میں عقل آئی۔
اسرار احمد کے لہجے میں پچھتاوے اور ندامت شامل ہو گئی۔
’’ لیکن افسوس۔۔۔ مجھے بہت دیر میں عقل آئی۔
اگر میں وہ ناجائز ضد نہ کرتا۔ اس ِدن ،جب وجاہت تمہارے لئے رشتہ مانگنے آیا تھا۔ اگر
سن لیتا ،پھر تم سے ِمل کر اپنی تسلی بھی کر لیتا۔۔ تو کیا میں ایک بار سنجیدگی کے ساتھ ا ُس کی بات ُ
بگڑ جاتا میرا؟
تمہارے خلوص ،تمہاری سچائی کو دیکھتے ہوئے ،میں اپنی ضد چھوڑ کر تم دونوں کی شادی
کروا دیتا تو کیا یہ بہتر نہیں تھا؟۔۔۔
میں یہ سمجھا تھا کہ تم لوگوں کی نّیت ٹھیک نہیں۔۔۔ جہاں میں خود ا ُسے بیاہ رہا تھا۔ وہ
کونسا بہت اچھے لوگ تھے؟۔۔۔۔
زبیدہ آپا میری اپنی کزن تھیں۔ میرا اپنا خاندان۔ جب مجھ پہ اتنی مشکل گھڑی آئی تو
ا ُنھوں میری عزت نہیں رکھی۔ ہزاروں لوگوں کے سامنے مجھے ذلیل و رسوا کر کے رکھ ِدیا۔ وہ لوگ مجھے
اور میری بیٹی کو کیا سکھ دیتے؟۔۔۔
ا ُس کے بعد بھی۔۔۔ جب تم دونوں کی شادی ہو چکی تھی۔ اپنی بیٹی کی بےگناہی سے بھی
واقف تھا۔ اور یہ بھی خبر تھی کہ میری بیٹی میرے دشمن کے گھر ،اس کے رحم و کرم پر ہے۔ تو کیا
مجھے یہ عزت و غیرت جیسی بےمعنی چیز کی پرواہ کرنے کی بجائے،اپنی بیٹی کی ِفکر نہیں کرنی چاہیئے
تھی؟۔۔
اگر تب بھی میں ا ُسے چھوڑنے کی بجائے ا ُسےاپنا لیتا۔ اور تمہیں بھی ایک موقع دیتا کہ تم
اپنے آپ کو پرُوو کرو۔ تو کیا ُبرا ہوتا؟۔۔۔
ایسے میں تم سفّر کرتے نہ شوال!۔۔۔ تمہیں اور شوال کو وہ سب نہ دیکھنا پڑتا جو تم دونوں
نے دیکھا اور سہا۔۔۔تم دونوں میاں بیوی کے درمیان وہ فاصلے اور ُدوریاں نہ ہوتیں۔۔۔۔ وجاہت وہ بےوقوفی
نہ کرتا۔۔ تم دونوں اپنا بچہ نہ کھوتے۔۔۔ میں اسپتال سے ادھ َمری بیٹی ا ُٹھا کر گھر نہ التا۔۔۔ تم خود کو
ختم کرنے کی کوششیں نہ کرتے۔۔۔۔
سکھ پہنچایا میں نے؟۔۔۔‘‘ آخر کیا فائدہ ہوا میری اس ضد سے؟۔۔۔ ِکس کو ُ
رجب کی آنکھوں کے سامنے وہ تمام حاالت و واقعات گھوم گئے۔ آنکھوں میں جلن ہونے لگی۔
وہ خاموشی سے لب کاٹتے ہوئے آنکھوں میں جمع ہوئے آنسوؤں کو بہنے سے روکنے کی کوشش کرنے لگا۔
’’ تم مانتے ہو ناں!۔۔۔ کہ میری ضد ناجائز تھی؟‘‘
انھوں نے پوچھا۔
چنتے ہوئے اثبات میں سر ہالیا۔ ا ُس نے آنکھ سے ٹپکنے کو بےقرار آنسو ا ُنگلی کی پشت پہ ُ
اسرار احمد اب قدرے سنبھل کر بولے۔
’’ لیکن اهلل کا الکھ الکھ شکر ہے کہ وقت رہتےا ُس نے مجھے میری بیوقوفی اور غلطی کی
سنگینی کا احساس ِدالیا۔ اور مجھے اتنی توفیق اور بصیرت عطا کی کہ حاالت کے مطابق ایک صحیح
فیصلہ کر سکوں۔۔۔
جس روز وجاہت شوال کو منانے ہمارے گھر آیا تھا۔ اس کی باتیں سن کر مجھے شک ہو گیا
تھا کہ شاید وہ سچ کہہ رہا ہے۔
ِاس لئے میں خود تم سے ملنا چاہتا تھا۔ تاکہ اصل حقیقت جان سکوں۔ اسی لئے میں شوال
ِ ِ
کو لے کر تمہارے گھر گیا تھا۔
تب تمہاری حالت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ وجاہت شروع سے ہی سچا تھا۔۔ میں ہی
غلط تھا جو اس کا کبھی اعتبار نہ کیا۔ تب میں نے ہر دشمنی ،ہر ضد بھال کر تم دونوں کے رشتے کو قبول
کیا۔ اور دیکھو!۔۔ وہ ایک غلط ضد چھوڑنے سے سب کتنا اچھا ہو گیا ہے۔ ‘‘
اسرار احمد نے آنکھوں میں نمی لئے مسکرا کر ا ُسے دیکھا۔ پھر بولے۔
’’ جانتے ہو کہ میں تم سے ایسی باتیں کیوں شیئر کرتا ہوں؟۔۔۔‘‘
انھوں نے ا ُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ پھر خود ہی جواب دیا۔
’’ کیوں کہ میں اپنی اوالد کو ہمیشہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ اور تم بھی اب میری اوالد
انھوں نے ا ُسے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ پھر خود ہی جواب دیا۔
’’ کیوں کہ میں اپنی اوالد کو ہمیشہ کامیاب دیکھنا چاہتا ہوں۔۔ اور تم بھی اب میری اوالد
میں شامل ہو۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ تم میری زندگی کے صحیح اور غلط فیصلوں سے سبق سیکھو۔ تاکہ تم
وہ غلطیاں نہ دہراؤ جو میں نے کر کے اپنی زندگی میں نقصان ا ُٹھایا۔‘‘
پھر ا ُسے بتانے لگے۔
’’ دنیا میں تین طرح کے لوگ ہوتے ہیں۔ ایک وہ ،جو زندگی میں کبھی بھی ،کچھ بھی نہیں
سیکھتے۔ ہمیشہ احمق ہی رہتے ہیں۔۔ جیسے کہ وجاہت۔
دوسری کیٹگری میں میری طرح کے لوگ آتے ہیں۔ جو غلطیاں کرتے ہیں ،ان سے نقصان ا ُٹھاتے
ہیں۔ لیکن پھر ان سے سبق حاصل کرتے ہیں۔
یہ عام سے لوگ ہوتے ہیں۔ ِان میں کوئی خامی نہیں ہوتی تو کوئی قابِل ذکر خوبی بھی نہیں
ہوتی۔
لیکن اصل میں عقل مند لوگ وہ ہوتے ہیں جو دوسروں کی غلطیوں سے سبق لے کر اپنی
زندگی میں آگے ِنکل جاتے ہیں۔۔۔
اور میں چاہتا ہوں کہ میرے بچے عقل مند بنیں۔ وہ میری غلطیوں سے سبق سیکھ کر اپنی
زندگیوں کو کامیاب بنائیں۔۔۔ جیسے کہ میں نے ابھی اپنی ناجائز ضد اور اس کے نتائج کے بارے میں بیان
کیا۔
تم بھی ضدی ہو۔ ِاسی لئے چاہتا ہوں کہ تم وقت رہتےجائز اور ناجائز ضد کا فرق کرنا سیکھ
جاؤ۔
وقت بہت بےرحم چیز ہے میرے بچے!۔۔۔۔ ایک دفعہ جو غلطی کر دی۔ ا ُس کے بعد آپ کو
دوبارہ موقع نہیں ِملتا۔ جو غلط کر دیا ،سو کر دیا۔ پھر آپ ا ُسے ِمٹا نہیں سکتے۔۔۔ وقت گزر جاتا ہے۔ اور
آپ ہاتھ َملتے رہ جاتے ہیں۔‘‘
آخر جملے ادا کرتے وقت ا ُن کے لہجے میں ا ُداسی آ ٹھہری تھی۔
انھوں نے سر ا ُٹھا کر رجب کو بغور دیکھا۔
وہ سر جھکائے کسی گہری سوچ میں ُگم تھا۔
وہ شفقت سے مسکرائے۔
’’ ایک بات بولوں تم سے؟۔۔۔‘‘
رجب نے سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
’’ وجاہت۔۔ ایک کمینہ انسان ہے۔ ِاس میں کوئی شک نہیں۔۔ وہ کبھی نہیں سدھرے گا۔
لیکن۔۔۔ اس سے بھی بڑی سچائی یہ ہے کہ وہ تم سے بہت پیار کرتا ہے۔‘‘
وجاہت علی سے شدید اختالف ہونے کے باوجود جب وہ اسرار احمد کے منہ سے وجاہت علی
کے لئے کمینہ یا ایسا کوئی اور غلط لفظ سنتا تھا تو اسے اچھا نہیں لگتا تھا۔ اب بھی وہ ا ُن کا ایسے
سن کر اندر ہی اندر بُرا محسوس کر رہا تھا۔ لیکن اسرار احمد کا آخری جملہ تو ا ُسے الفاظ میں ذکر ُ
چونکا گیا۔
وہ حیران ہو کر انھیں دیکھنے لگا۔
اسرار احمد پھر سے مسکرائے۔
’’میں سچ کہتا ہوں۔۔۔
ایمانداری کی بات ہے۔ میں شاید اپنے تینوں بچوں سے اتنا پیار نہیں کرتا ،جتنا وہ اپنے ایک
اکیلے بیٹے سے کرتا ہے۔ بلکہ یقینا ً ایسا ہی ہے۔‘‘
وہ انھیں ایک ٹک دیکھے گیا۔
وہ کہہ رہے تھے۔
’’ تم نے دیکھا کہ میں اپنے بچوں کے ساتھ ا ُن کے دوستوں جیسا ہوں۔ ہمارا آپس میں ہنسی
مزاق بھی چلتا رہتا ہے۔۔ اس کے باوجود میں انھیں اتنی اجازت نہیں دیتا کہ وہ میرے سامنے بدتمیزی
کریں۔
مزاق بھی چلتا رہتا ہے۔۔ اس کے باوجود میں انھیں اتنی اجازت نہیں دیتا کہ وہ میرے سامنے بدتمیزی
کریں۔
میں اپنے کسی بھی بیٹے کی خوشی کے لئے وجاہت کے آگے ہاتھ پھیالنے کو راضی نہ ہوتا۔۔۔
کبھی اپنے بیٹے کے لئے کسی کی بیٹی نہ ا ُٹھاتا۔۔۔ کبھی بھی نہیں۔۔۔‘‘
انھوں نے قطیعت سے کہا۔
پھر بولے۔
’’ اور سب چھوڑو۔ آج اگر سب صحیح ہے اور سب خوش ہیں تو یہ سب بھی وجاہت کی ہی
کوششوں کا نتیجہ ہے۔
بہت تڑپا ہے وہ تمہاری خاطر۔ شوال کو تم سے مالنے کے لئے بہت منتیں کی ہیں اس نے
میری۔ اگر وہ اتنی کوششیں نہ کرتا تو آج حاالت بہت ہی افسوس ناک ہوتے۔‘‘
ا ُسے اپنے باپ کا پیار ،ا ُن کی مہربایناں یاد آنے لگیں۔
اسرار احمد کہہ رہے تھے۔
’’ اور وجاہت نے یہ سب تم سے بے پناہ محبت میں کیا۔۔۔ تم ا ُس کے ایک بہت ہی پریشئس
) (preciousبیٹے ہو۔۔۔
یہ جو شوال سے اس نے جھوٹ بوال تھا۔ وہ حماقت بھی اس نے تمہاری محبت میں کی
تھی۔۔۔
میں تو اسے حماقت ہی کہوں گا۔ اسے سازش کا نام دینا سراسر زیادتی ہے وجاہت کے
ساتھ۔۔۔ اس بےچارے نے تو اپنی عقل کے مطابق سب کا بھال ہی سوچا تھا۔ یہ بدقسمتی ہوئی کہ غلط
وقت پہ شوال کو وہ سب پتا چل گیا۔‘‘
اس واقعے کے ذکر نے اس کی آنکھوں میں مرچیں بھر دیں۔
وجاہت علی کی زیادتی کے ساتھ اسے شوال کا وہ غصہ ،اس کے الفاظ ،پھر اس کی بگڑتی
حالت ،بچے کی موت۔ سب یاد آنے لگا۔ پھر اس پہ وجاہت علی کی ڈھٹائی ،شوال کے لئے کہے غلط الفاظ۔
سب کچھ اس کے ذیہن میں تازہ ہو گیا۔ وجاہت علی کے لئے پھر سے ِدل میں نفرت جمع ہونے لگی۔
اسرار احمد توقف کے بعد بیتے ِدن یاد کرتے ہوئے کہنے لگے۔
’’ جب میرے بچے چھوٹے تھے اور روتے تھے تو مجھے ان کی پرواہ تک نہیں ہوتی تھی۔ لیکن
تم کسی ِدن اپنے باپ سے پوچھنا۔۔۔ ا ُس کے پاس تمہارے ایک ایک آنسو کا حساب ہو گا۔‘‘
اسرار احمد کے ایک ہی جملے نے اس کے اندر جلتی آگ پہ پانی ڈال دیا۔ ا ُسے اپنے باپ سے
یہ سب پوچھنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ بخوبی جانتا تھا۔
اسرار احمد اس کا جھکا ہوا سر دیکھنے لگے۔ وہ عجیب کشمکش میں مبتال تھا۔ ا ُسکے اندر
جیسے ایک بحث چھڑ چکی تھی۔
وہ پل دو پل کے لئے خاموش رہنے کے بعد پوچھنے لگے۔
’’ایک بات پوچھوں تم سے؟۔۔۔‘‘
اس نے سر ا ُٹھا کر سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں اضطراب تھا۔
’’کیا تم نے اپنے باپ کی خوشی کے لئے کبھی کچھ کیا ہے؟‘‘
اسرار احمد کے سوال نے ا ُسے مکمل الجواب کر دیا۔ وہ فقط انھیں دیکھ کر رہ گیا۔
اسرار احمد اب کی بار اس کے جواب کے منتظر تھے۔ ا ُسے یوں الجواب پا کر نرمی سے
مسکرائے۔ پھر جیسے لہجے میں حسرت سمو کر بولے۔
’’ والدین اپنے بچوں کی خوشیاں ،ا ُن کے برتھ ڈیز ،ا ُن کی چھوٹی چھوٹی کامیابیاں۔۔۔ ِان
سب کا خیال رکھتے ہیں۔ تو کیا بچوں کو بھی اپنے والدین کی خوشی کا خیال نہیں کرنا چاہیئے؟۔۔۔
ا ُنھیں بھی کبھی کوئی تحفہ دینا چاہیئے۔۔۔ کبھی تھینک یو بولنا چاہیئے۔
والدین بھی آپ ہی کی طرح انسان ہوتے ہیں۔ کبھی وہ بھی اوالد تھے۔ کبھی ان کے بھی ماں
باپ تھے ،بہن بھائی تھے۔ لیکن وقت ان سے سب کچھ چھین چکا ہوتا ہے۔ اب ان کے پاس ان کی اوالد
ہوتی ہے۔۔۔ اور اوالد کا کام ہمیشہ ضرورت یا پریشانی کے وقت والدین کو پکارنا تو نہیں ہوتا۔ کبھی ا ُن کی
باپ تھے ،بہن بھائی تھے۔ لیکن وقت ان سے سب کچھ چھین چکا ہوتا ہے۔ اب ان کے پاس ان کی اوالد
ہوتی ہے۔۔۔ اور اوالد کا کام ہمیشہ ضرورت یا پریشانی کے وقت والدین کو پکارنا تو نہیں ہوتا۔ کبھی ا ُن کی
خوشی کے لئے بھی ان کو تھوڑی توجہ دینی چاہیئے۔ ا ُن سےاپنی محبت کا اظہار کرنا چاہیئے۔ ا ُنھیں
احساس دالنا چاہیئے کہ وہ آپ کے لئے کتنے اہم ہیں۔۔۔ ہے کہ نہیں؟‘‘
اسرار احمد نے اسے بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کر دیا۔
تب ہی عمران وہاں چال آیا۔
’’ پاپا!۔۔ اندھیرا چھانے واال ہے۔ کب تک یہاں بیٹھے رہیں گے؟۔۔۔ رجب شہزادے!۔۔۔ کچھ وقت
ہمارے پاس بھی بیٹھ جایا کرو۔‘‘
عمران نے پہلے اسرار احمد پھر رجب سے کہا۔ اس کے لہجے میں بےتکلفی اور اپنائیت تھی۔
’’ہم اندر چلنا ہی چاہتے تھے۔۔ چلو رجب!۔‘‘
اسرار احمد کہتے ہوئے ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
رجب بھی ا ُٹھا اور تینوں اکٹھے اندر کی طرف چل دیئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رجب اور سکینہ بیگم ریسٹورینٹ میں ایک میز کے قریب پہنچے۔
رجب نے ان کے لئے ایک کرسی کھینچی۔
’’بیٹھئے۔‘‘
سکینہ بیگم قدرے معتجب سی ریسٹورینٹ کے ہال میں نظریں دوڑا رہی تھیں۔ اس کے کہنے
پہ اپنی حیرت نہ چھپا سکیں۔
’’رجب!۔۔۔ تم مجھے یہاں کیوں الئے ہو؟‘‘
’’ڈنر کروانے۔۔۔ ‘‘
رجب نے مسکراتے ہوئے ا ُنھیں سرپرائز دیا۔
’’ ڈنر۔۔۔؟ مجھے؟۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم کو اور بھی حیرت و مسرت نے آن گھیرا۔
’’آف کورس۔‘‘
رجب پھر مسکرایا۔
’’ ۔ ?‘‘ What’s the occasion
سکینہ بیگم نےکرسی پہ بیٹھ کر تعجب کے ساتھ استفسار کیا۔
دوسری طرف رجب بھی اپنی کرسی سنبھال رہا تھا۔
محبت اور نرمی سے بوال۔
’’کوئی اوکیژن نہیں ہے۔۔۔ بس ،سوچا کہ آج آپ کو یہاں ڈنر کرواؤں تو لے آیا۔‘‘
رجب مسلسل مسکراتے ہوئے اپنی خوشی ظاہر کر رہا تھا۔
وہ انھیں بہت سپیشل محسوس کروانا چاہتا تھا۔ اور سکینہ بیگم ایسا محسوس کر رہی
تھیں۔
اپنے مقابل بیٹھے بیٹے کو دیکھتے ہوئے وہ نہال ہو گیئیں۔
’’رجب!۔۔۔۔۔ تم نے یہ سب میرے لئے کیا ہے؟۔۔۔ آئم سو ہیپی۔۔۔ تھینک یو سو مچ۔‘‘
’’ ِاٹس آنلی مائی پلیژر مائی لّولی مام!‘‘
وہ اور بھی محبت سے بوال۔
پھر رجب نےان کی پسند کا کھانا آرڈر کیا۔ کھانا آنے تک وہ ا ُن سے ادھر ادھر کی باتیں اور
ہنسی مزاق کرتا رہا۔
وہ ایک مستقل مسکراہٹ کے ساتھ اس کی باتیں سن رہی تھیں۔ اس کے چٹکلوں پہ کھلکھال
رہی تھیں۔ ا ُن کو دیکھتے ہوئے ا ُسے احساس ہو رہاتھا کہ وہ شاید زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کو
وہ ایک مستقل مسکراہٹ کے ساتھ اس کی باتیں سن رہی تھیں۔ اس کے چٹکلوں پہ کھلکھال
رہی تھیں۔ ا ُن کو دیکھتے ہوئے ا ُسے احساس ہو رہاتھا کہ وہ شاید زندگی میں پہلی بار اپنی ماں کو
ایسے خوش دیکھ رہا تھا۔ کیونکہ آج وہ کسی اور کی خوشی میں خوش نہیں تھیں۔ بلکہ آج وہ اپنے لئے
خوش تھیں۔ اور اس خوشی نے ا ُن کا چہرہ اور آنکھیں منّور کر دی تھیں۔
انھیں اسطرح خوش دیکھ کر خود اسے جو خوشی ہو رہی تھی وہ اس کے لئے ناقابِل بیان
تھی۔ وہ ِدل ہی ِدل میں اسرار احمد کا ممنون ہو رہا تھا۔
پھر جب کھانا آیا تو ا ُس نے اپنے ہاتھوں سے سکینہ بیگم کو ایک ایک چیز سرو کی۔
سکینہ بیگم اس کی محبت کے اس اظہار پہ نہال ہوئی جا رہی تھیں۔
’’ تمہارے مکان کا کیا بنا؟۔۔۔ ‘‘
کھانا کھاتے ہوئے اچانک خیال آنے پہ سکینہ بیگم نے پوچھا۔
وہ اپنے کھانے پہ متوجہ تھا۔ سکینہ بیگم کے سوال پہ سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
چوز کرنے کے معاملے میں بہت فسی ’’ ہوں۔۔۔۔ ابھی تک کچھ نہیں بن سکا۔۔ شوال مکان ُ
ہے۔۔۔۔ اب تک بیسّیوں مکان دکھا چکا ہوں ا ُسے۔ ہر کسی میں کوئی نہ کوئی خامی نکال کر ریجیکٹ کر
دیتی ہے۔ ‘‘
سکینہ بیگم یہ سن کر قدرے گھبرا ا ُٹھیں۔
’’ جلدی کرو بیٹا!۔۔۔ اب وقت ہی کتنا رہ گیا ہے؟‘‘
’’جانتا ہوں جانو!۔۔۔ مگر کیا کروں۔؟ ا ُسے پسند آنا بھی تو ضروری ہے۔‘‘
اس نے الچارگی سے کہا۔
’’جانو؟۔۔‘‘
چال دینے کو تھیں۔ ً
سکینہ بیگم کے لئے وہ دوسرا سرپرائز تھا۔ خوشی سے وہ تقریبا ِ
رجب نے نظریں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا اور بےساختہ مسکرا دیا۔
کہنے لگا۔
’’ یس مائی بیوٹی فُل مام!۔۔۔ آپ کو میری محبت پہ کوئی شک ہے کیا؟‘‘
سکینہ بیگم مسکرائیں۔
’’ اچانک یہ کیا ہوا ہے تمہیں؟‘‘
’’ ہوا کچھ نہیں۔۔۔ بس ،میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آئندہ اپنی فیلنگز کا اظہار ُکھل کر کیا
کروں گا۔‘‘
ا ُس نے منہ میں لیٹس کے پتے ٹھونستے ہوئے کہا۔
سکینہ بیگم مستقل مسکراہٹ کے ساتھ بھنوئیں ا ُچکا کر رہ گیئیں۔
ا ُس نے نظریں ا ُٹھا کر کھانا کھانے میں مّحو اپنی ماں کو دیکھا۔
سنجیدہ ہوتے ہوئے بوال۔
’’ اّمی!۔۔۔ آپ کو پتا ہے ،اسرار انکل ایک بہت گریٹ آدمی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ ا ُنھوں نے
زندگی میں بہت غلطیاں کی ہیں۔ اپنی زندگی سمجھداری کے ساتھ احسن طریقے سے نہیں گزاری۔ بالکل
عام سا آدمی ہیں وہ۔۔۔
لیکن اّمی!۔۔۔ جو آدمی خود غلطی کر کے نقصان ا ُٹھائے۔ مگر ا ُس کے بارے میں دوسروں کو
خبردار کرے تاکہ کوئی دوسرا اپنی زندگی میں وہ غلطی نہ دہرائے۔ اس سے بڑھ کر گریٹ آدمی اور کون
ہو گا؟۔۔۔‘‘
اس نے توقف کیا۔
ُ
سکینہ بیگم حیران سی اسے دیکھ رہی تھیں۔
وہ لہجے میں قدرے افسوس اور مّحرومی کا احساس لئے کہنے لگا۔
’’ اّبو اور اسرار انکل میں سب سے بڑا فرق پتا ہے کیا ہے؟۔۔۔
ابّو خود کسی کے ساتھ زیادتی کر کے الزام بھی اس کے سر پہ ڈالتے ہیں۔ جبکہ اسرار انکل
کے ساتھ زیادتی بھی ہو تو ا ُس میں بھی وہ اپنا قصور تالش کرتے رہتے ہیں۔‘‘
اّبو خود کسی کے ساتھ زیادتی کر کے الزام بھی اس کے سر پہ ڈالتے ہیں۔ جبکہ اسرار انکل
کے ساتھ زیادتی بھی ہو تو ا ُس میں بھی وہ اپنا قصور تالش کرتے رہتے ہیں۔‘‘
سکینہ بیگم ا ُسے دیکھے گیئیں۔
وہ اور وجاہت علی جو اسرار احمد کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ حقیقت اس کے برعکس لگ
رہی تھی۔
’’اّمی!۔۔ ایک بات پوچھوں؟‘‘
رجب کچھ ہچکچایا۔
’’ہوں۔۔۔‘‘
سکینہ بیگم نے سر ہال کر اجازت دی۔
’’ کیا آپ کو کبھی نہیں لگا کہ حقیقت وہ نہیں جو ابّو کی زبانی ہم نے ُ
سنی تھی؟۔۔۔۔ یہ
جانتے ہوئے بھی کہ اسرار انکل آپ کو پسند کرتے ہیں۔ پھر سب جانتے بوجھتے ہوئے بھی انھوں نے آپ
سے شادی کیوں کی؟۔۔۔۔۔ آپ کو اسرار انکل سے چھیننے کے لئے؟۔۔۔۔‘‘
ِ
وہ ا ُن سے یہ باتیں کرتے ہوئے خاصی جھجک محسوس کر رہا تھا۔ مگر پھر بھی وہ اپنے دل
میں آئی یہ باتیں ا ُن سے ڈسکس کرنا چاہتا تھا۔
سکینہ بیگم ساکت سی اسے دیکھے گیئیں۔ جیسے ان کے لئے صورتحال کو سمجھنا مشکل
ہو۔
’’آئی مین۔۔۔ میں کیسے اس لڑکی سے شادی کر سکتا ہوں جسے میرا دوست پسند کرتا ہے۔۔۔
ا َن لیس۔۔۔ میں خود ایسا نہ چاہوں۔۔۔
اگر داداجان اور ناناجان نے آپ دونوں کی شادی کا فیصلہ کیا تھا تو ابّو نے انکار کیوں نہیں
کیا؟ انھیں کرنا چاہیئے تھا ناں!‘‘
سکینہ بیگم نے گہرا سانس خارج کیا۔
’’ اب ِان باتوں کو ڈسکس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے رجب!۔۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ یہ
باتیں اپنی اہمیت کھو چکی ہیں۔ ‘‘
’’پھر بھی۔۔۔ اگر ایسی بات تھی تو کیا آپ ابّو کی اس بےایمانی کو معاف کر سکتی ہیں؟‘‘
وہ جیسے جاننا چاہتا تھا۔
سکینہ بیگم پھیکا سا مسکرائیں۔
’’ اگر ایسا کچھ تھا تو وجاہت ،اسرار کا مجرم ہیں۔۔۔ میرے نہیں۔
کیونکہ میں اپنی شادی کے بارے میں اس طرح سے نہیں سوچتی تھی جیسے آج کل کی
لڑکیاں سوچتی ہیں۔۔۔
میرے ارمان تو بس بہت سے نئے خوبصورت کپڑے ،سونے کے زیورات ،شادی کا فنکشن ،دلہن
کا روپ اور بہت سے لوگوں کی اٹینشن تک ہی تھے۔۔۔۔ اور مجھے وہ سب ِمال تھا۔ ِاس لئے وجاہت اور
اسرار کے اس جھگڑے کی حقیقت کیا ہے؟۔۔ ِاس سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘
سکینہ بیگم اپنے ا ُن معصوم ارمانوں کو یاد کر کے مسکرا رہیں تھیں۔ ا ُن کے ارمان سن کر
رجب کے ہونٹوں پہ بھی ویسی ہی مسکراہٹ آ ٹھہری۔ پھر دونوں ماں ،بیٹا ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسے
اور کھانے کی طرف متوجہ ہو گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
جس کی ہر خوشی میں مَیں اپنی خوشی تالش کرتا رہا۔۔۔۔ کیسی ) میرا بیٹا۔۔۔۔ ساری عمر ِ
عجیب بات ہے۔ آج ا ُس کی زندگی کی سب سے بڑی خوشی کا ِدن ہے۔ لیکن میں ا ُس کی خوشی میں َمیں
خوش نہیں ہوں۔۔۔ آج کا ِدن میری زندگی کا سب سے غمگین ِدن ہے۔ کیونکہ آج میری زندگی میں میرے
بیٹے کا آخری ِدن ہے۔۔۔ َکل وہ مجھے چھوڑ کر چال جائے گا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے۔۔۔۔
معلوم نہیں کہ کبھی ا ُس کی شکل بھی دیکھ سکوں گا یا نہیں۔۔۔۔۔
اسرار!۔۔۔۔۔۔ برسوں پرانی مات کا بہت اچھا بدلہ لیا ہے تم نے۔۔۔۔۔ (
وہ بیڈ کے کنارے بیٹھے سوگوار صورت لئے اپنی سوچوں میں گم تھے جب سکینہ بیگم کمرے
میں آئیں اور ا ُنھیں ایسے بت بنا بیٹھا دیکھ کر بوکھال گیئیں۔
’’وجاہت!۔۔۔ آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئے؟۔۔۔ جلدی کیجیئے ناں!۔۔ کیوں ٹائم ویسٹ کر رہے
ہیں؟۔۔۔ نیچے مہمان جمع ہونا شروع ہو چکے ہیں۔ انھیں اٹینڈ کرنا ہے۔ اور ہزاروں کام ہیں۔ میں اکیلی
کیسے دیکھوں سب؟۔۔۔۔ ‘‘
وجاہت علی نے گردن گھما کر ا ُنھیں دیکھا۔ وہ دولہے کی ماں ہونے کی حیثیت سے پوری طرح
سے تیار تھیں۔
’’ تم کیسے اتنی خوش اور مطمعین ہو سکتی ہو؟۔۔۔ تمہیں کچھ احساس ہے؟۔۔۔ آج آخری ِدن
رجب ہمارے ساتھ ہے۔ کل وہ ہمیں ہمیشہ کے لئے چھوڑ کر ہماری زندگی سے چال جائے گا۔۔۔ پھر کِس کے
سہارے جیئیں گے ہم؟۔۔‘‘
وجاہت علی پہ فرسٹریشن طاری ہونے لگی۔
سکینہ بیگم بےچین ہو ا ُٹھیں۔ ا ُن کے قریب آ کر بولیں۔
’’ ہمارے لئے سب سے اہم رجب کی خوشی رہی ہے۔۔۔ اور آج بھی ا ُسی کی خوشی کو مقدم
رکھنا ہو گا۔ وہ گھر ضرور چھوڑ کر جا رہا ہے۔ لیکن ہم سے دور نہیں جائے گا۔ ہم جب چاہے اس سے ِمل
سکتے ہیں۔‘‘
ان کا لہجہ تسلی آمیز تھا۔
وجاہت علی ا ُٹھ کھڑے ہوئے۔
’’ ہم؟۔۔۔ ہم نہیں سکینہ بیگم!۔۔ صرف تم۔
اتنی اجازت وہ صرف تمہیں دے سکتا ہے۔ مجھے نہیں۔۔۔ وہ صرف مجھ سے ضد میں یہ
گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ آج کے بعد کبھی میری طرف ُمڑ کر نہیں دیکھے گا۔‘‘
اتنی اجازت وہ صرف تمہیں دے سکتا ہے۔ مجھے نہیں۔۔۔ وہ صرف مجھ سے ضد میں یہ
گھر چھوڑ کر جا رہا ہے۔ آج کے بعد کبھی میری طرف ُمڑ کر نہیں دیکھے گا۔‘‘
’’ایسا کیوں سوچ رہے ہیں؟۔۔۔ اب تو وہ آپ سےراضی ہو چکا ہے۔ آپ سے باتیں بھی کرتا
ہے۔‘‘
سکینہ بیگم نے تشویش کے ساتھ دریافت کیا۔
’’ مجھے سو گز کے فاصلے پہ رکھ کر بات کرتا ہے وہ مجھ سے۔ وہ بھی جب ا ُسے کوئی
کام پڑ جاتا ہے تب۔ اسے تم راضی ہونا کہتی ہو؟ ‘‘
وجاہت علی جتا جتا کر بولے۔ پھر دوسری طرف چہرہ موڑ کر خودکالمی کے انداز میں
بڑبڑانے لگے۔
ِ ِ
’’ وہ راضی ہو بھی کیسے سکتا ہے۔۔۔۔ اسرار احمد جو مل گیا ہے ا ُسے۔۔۔ وہ اس کے ذریعے
مجھے خون کے آنسو ُرالئے گا۔‘‘
’’ اچھا چھوڑیں ناں!۔۔۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟۔۔۔ ہمیں بس ِاس بات کا خیال رکھنا ہے کہ
ہماری طرف سے رجب کو کوئی شکایت نہ ہو۔
پلیز۔۔۔ وقت کے تقاضے کو سمجھئے اور جا کر جلدی سے تیار ہو جایئے۔ ‘‘
سکینہ بیگم نے منت بھرے لہجے میں کہا۔ وجاہت علی نے سر جھٹکا اور بیڈ پہ ڈاال ا ُن کا
لباس غصے سے جھپٹنے کے انداز میں ا ُٹھا کر چینجنگ روم کی طرف بڑھ گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
وہ کپڑے بدل کر واپس کمرے میں آئے تو سکینہ بیگم کمرے میں موجود نہ تھیں۔ ہاتھ میں پکڑی
ٹائی بےدلی سے گلے میں ڈال کر وہ ٹائی کی ناٹ لگانے کے ارادے سے وینٹی ٹیبل کی طرف گھومے۔ نظر
سیدھی وینٹی ٹیبل کی سطح پہ رکھے ایک خوبصورت ُبکے پہ جا پڑی۔ ا ُس ُبکے میں لفافہ بھی اٹکا ہوا
تھا جس پہ ا ُن کا نام تحریر تھا۔ انھیں اچنبھا ہوا۔ قریب آ کر لفافہ ا ُٹھا کر انھوں نے اندر موجود کارڈ
باہر نکاال۔ خوبصورت سے کارڈ پہ گلیٹر کے ساتھ ’ ‘Sorryلکھا ہوا تھا۔ ا ُنھیں اور بھی تعجب ہوا کہ
بھال یہ کون بھیجے گا۔ اور کیوں۔۔۔
ِ
کارڈ کھول کر اندر دیکھا تو لکھا تھا۔
پیارے اّبو!
بہت ِدنوں سے خواہش کر رہا تھا۔ مگر ہّمت نہ کر سکا۔ آج سوچتا ہوں کہ اگر آج بھی نہ
کہا تو شاید زندگی بھر نہ کہہ سکوں۔
آئم سوری اّبو!
آپ کا بیٹا،
رجب الفرد۔
وجاہت علی نے ایک بار نہیں ،اس تحریر کو بار بار پڑھا۔ صرف نام ہی نہیں ہینڈ رائٹنگ بھی
رجب کی تھی۔ لیکن رجب ایسی حرکت کبھی نہیں کر سکتا تھا۔
ا ُن کے ِدل کی دھڑکنیں تیز ہو گیئیں۔ حقیقت کیا ہے؟ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا۔ کبھی
لگتا کہ نظروں کا دھوکا ہے۔ اور کبھی لگتا کہ وہ ایک خواب دیکھ رہے ہیں۔ آخرکار کارڈ ہاتھ میں لئے وہ
کمرے سے ِنکل گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
رجب اپنے کمرے میں وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنی کالئی پہ گھڑی باندھ رہا تھا جب
وجاہت علی اس کے کمرے کے کھلے دروازے پہ دستک دے کر جھجکتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔
رجب اپنے کمرے میں وینٹی ٹیبل کے سامنے کھڑا اپنی کالئی پہ گھڑی باندھ رہا تھا جب
وجاہت علی اس کے کمرے کے کھلے دروازے پہ دستک دے کر جھجکتے ہوئے اس کے کمرے میں داخل ہوئے۔
رجب نے چہرہ گھما کر انھیں دیکھا۔ ا ُن کے چہرے پہ ا ُڑتی ہوائیاں اور ہاتھ میں کارڈ دیکھ
کر وہ ساکت ہو گیا۔ کچھ سمجھ میں نہ آیا کہ کیا کرے ،کیا کہے۔
وجاہت علی اس کے قریب چلے آئے۔
’’ رجب!۔۔۔۔ یہ۔۔۔ میرے خیال سے ِکسی نے مزاق کیا ہے میرے ساتھ۔‘‘
دھڑکتے ِدل کے ساتھ ا ُنھوں نے کارڈ رجب کی طرف بڑھایا۔ رجب نے کارڈ تھامنے کی بجائے
اپنا سر جھکا لیا۔
’’ یہ مزاق نہیں ہے ابّو!۔۔۔ میں خود یہ کارڈ اور بُکے آپ کے کمرے میں رکھ کر آیا ہوں۔‘‘
رجب نے بِدقت کہا۔
وجاہت علی کو رجب کے انکار پہ اتنی حیرت نہ ہوتی جتنی اس کے اقرار پہ ہوئی۔ حیرت سے
پھٹی آنکھوں سے وہ ا ُسے ایک ٹک دیکھے گئے۔
رجب اپنا جھکا سر نہ ا ُٹھا سکا۔ جانے کونسا ا َن دیکھا بار اس کی گردن پہ آ گرا تھا۔
’’ تت۔۔۔۔ تم نے!۔۔۔ ِکس لئے؟‘‘
بہت مشکل سے وجاہت علی نے اٹک اٹک کر پوچھا۔
رجب نے جھکا ہوا سر ا ُٹھا کر انھیں دیکھا تو اس کی آنکھیں آنسوؤں سے لبریز تھیں۔
’’ ابّو! آپ جانتے ہیں کہ میں ہمیشہ سے اّمی سے زیادہ آپ کے کلوز تھا۔ ہمیشہ اّمی سے
زیادہ آپ پہ بھروسہ کیا۔۔۔ اپنی ہر بات اّمی سے پہلے آپ سے شیئر کی۔۔۔ ِاس لئے۔۔۔ جب آپ نے وہ
جھوٹ بوال تو میں برداشت نہ کر سکا۔۔۔ اگر وہ حرکت اّمی نے کی ہوتی تو شاید میں برداشت کر لیتا۔۔۔
لیکن ابّو! آپ۔۔۔۔۔ ‘‘
جذبات زبان پر غالب آ گئے۔ وہ ُرک کر خود کو سنبھالنے لگا۔ پھر بھی آنسو روانی سے بہے
چلے جا رہے تھے۔ وجاہت علی اپنی جگہ شرم سے پانی پانی ہو رہے تھے۔ ا ُن کی آنکھوں میں بھی ندامت
کی نمی ا ُتر آئی۔
رجب نے کہنا شروع کیا تو آواز آنسوؤں سے تر تھی۔
” “I was really Hurt.
ا ُس نے جیسے سر گوشی کی۔ بوال۔
’’ِاسی لئے میں نے اتنے شدید طریقے سے ری ایکٹ کیا۔۔۔ ‘‘ ا ُس نے اپنے آنسو پونچھے۔
’’ لیکن اب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہو رہا ہے۔ میں نے واقعی آپ کا بہت ِدل دکھایا ہے۔
آپ کے ساتھ بہت بدتمیزی کی ہے۔۔۔ میں کبھی آپ کا اچھا بیٹا نہیں بن سکا۔ میں بہت ہی خودغرض بیٹا
ہوں اّبو!۔۔ ہمیشہ آپ سے اپنی ہر جائز ،ناجائز ضد منوائی۔ آپ کو ا َن چاہے کام کرنے کے لئے مجبور
کیا۔۔۔ ہمیشہ آپ کے لئے پریشانی اور ُدکھ کا باعث بنا رہا۔۔ میں نے کبھی آپ کو کوئی خوشی نہیں
دی۔۔۔۔ مجھے معاف کر دیں اّبو!۔۔۔ آئم سوری۔‘‘
وہ رو رہا تھا۔
ھرے اسے ایک ٹک دیکھے گئے۔ پھر جب یقین ہونے لگا توُ وجاہت علی پہلے تو بےیقینی میں گ ِ
ا ُس کی بات مکمل ہونے تک وہ بھی جذباتی ہوگئے۔ نم پلکوں کے ساتھ مسکرائے اور آگے بڑھ کر رجب کو
خود سے لگا لیا۔
’’ نہیں میرے بچے!۔۔۔ تم میرا بہت ہی اچھا بیٹا ہو۔۔۔ تمہارا وجود ہی میری زندگی کی سب
سے بڑی خوشی ہے۔‘‘
اس کی پیٹھ پہ ہاتھ پھیرتے ہوئے انھوں نے ا ُسے دالسہ دینے کے انداز میں کہا۔
’’میں نے اپنا فیصلہ بدل دیا ہےاّبو!۔ میں آپ کو چھوڑ کر کہیں نہیں جاؤں گا۔۔۔ میں یہیں
رہوں گا۔ آپ کے پاس۔۔۔۔ ہم اکٹھے رہیں گے اور اکٹھے کام کریں گے۔۔۔ ہمیشہ۔‘‘
ِ
وجاہت علی کو اب ا ُس کے الفاظ پہ حیرت نہ ہوئی۔ البتہ گہرا اطمینان اور خوشی ضرور ملی
تھی۔ شرمندہ سے ہو کر بولے۔
وجاہت علی کو اب ا ُس کے الفاظ پہ حیرت نہ ہوئی۔ البتہ گہرا اطمینان اور خوشی ضرور ِملی
تھی۔ شرمندہ سے ہو کر بولے۔
’’ تم نے مجھے معاف کر دیا میرے بچے!۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں تمہارا شکریہ
کیسے ادا کروں۔ تھینک ُیو۔۔۔ تھینک ُیو سو مچ۔۔۔ میں آج بہت خوش ہوں۔ بہت ہی زیادہ خوش۔ ‘‘
پھر دونوں باپ بیٹا ایک دوسرے سے الگ ہو کر اپنے اپنے آنسو پونچھنے لگے۔
’’ میرے خیال سے اب میں جا کر اپنی تیاری مکمل کر لوں۔۔۔ کہیں میری تیاری کے سبب ہمیں
نکلنے میں دیر نہ ہو جائے۔‘‘
کہتے ہوئے وجاہت علی نے نظریں ا ُٹھا کر رجب کی طرف دیکھا۔
وہ ہاتھ کی پشت سے اپنے گالوں پہ لڑھک آئے آنسو صاف کر رہا تھا۔
وجاہت علی چونک گئے۔
’’ او ہو۔۔۔ ‘‘
کہہ کر ہاتھ بڑھا کر رجب کا ہاتھ تھام لیا۔ اپنے آگے کر کے اس کی کالئی پہ بندھی گھڑی
دیکھتے ہوئے بولے۔
’’ رولیکس۔۔۔۔ واہ بھئی۔۔۔ مبارک ہو۔‘‘
انھوں نے خوشی سے سراہا۔
رجب مسکرایا۔
’’ میرے پاس آپ کو بھی دینے کے لئے کچھ ہے۔ ‘‘
کہہ کر ا ُس نے جلدی سے وینٹی ٹیبل کا دراز کھینچ کر ایک خوبصورت گفٹ ریپر میں پیک ڈبہ
ا ُن کی طرف بڑھایا۔
’’میرے لئے؟۔۔‘‘
ڈبہ تھامتے ہوئے وجاہت علی نے تعجب سے پوچھا۔
رجب نے اثبات میں سر ہالیا۔
’’ کھول کر دیکھئے۔‘‘
رجب نے اشتیاق کے ساتھ کہا۔
وجاہت علی نے بھنویں ا ُچکایئں اور خوشی خوشی ریپر اتارنے لگے۔ باکس کھول کر دیکھا تو
اپنی جگہ ا ُچھل پڑے۔ حیرت و مسرت سے بےساختہ منہ ُکھل گیا۔
’’ میرے لئے بھی رولیکس!؟‘‘
انھوں نے گھڑی نکال کر ہاتھ میں لی۔
’’ہاں۔‘‘ رجب نے کہتے ہوئے ڈبہ اور گھڑی ا ُن کے ہاتھ سے لے لی۔
’’ آج ہم دونوں باپ بیٹا ایک جیسی گھڑیاں باندھیں گے۔‘‘
اشتیاق سے کہتے ہوئے اس نے ڈبہ وینٹی ٹیبل پہ رکھا اور واپس مڑ کر اپنے ہاتھوں سے
وجاہت علی کی کالئی پہ گھڑی باندھنے لگا۔
وجاہت علی نہال ہو گئے۔
’’ رجب!۔۔۔ تم نے اپنے لئے لی تھی ،یہی کافی تھا میرے لئے۔۔۔ خوامخواہ ِاس کا خرچہ کرنے
کی کیا ضرورت تھی بیٹا!۔۔۔۔‘‘
وہ شرمندہ ہونے لگے۔
’’ضرورت تھی ابّو!۔۔‘‘
رجب نے گھڑی کا الک لگانے کے بعد ان کا ہاتھ چھوڑتے ہوئے انھیں دیکھا۔
’’کیونکہ مجھے ری سینٹلی اپنی ِاس غلطی کا بھی احساس ہوا ہے۔
میں بھی میری طرح کے اور بیٹوں کی طرح یہ سوچا کرتا تھا کہ ہمارے ماں ،باپ ہمیں پال
جب وہ ہم پہ ڈی پینڈنٹ ہوں گے۔ تب ہم بھی ا ُن کی ذمہ داری پوس کر اپنے پیروں پہ کھڑا کرتے ہیں۔۔۔ تو ِ
ا ُٹھا لیں گے۔ اگر بیمار ہوں گے تو تیمارداری کر لیں گے۔ ا ُن کے پیر دبا دیں گے۔ چلتے ہوئے سہارا دے دیا
کریں گے۔ کچھ وقت ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ِدل کا حال پوچھ لیا کریں گے۔‘‘
ا ُٹھا لیں گے۔ اگر بیمار ہوں گے تو تیمارداری کر لیں گے۔ ا ُن کے پیر دبا دیں گے۔ چلتے ہوئے سہارا دے دیا
کریں گے۔ کچھ وقت ان کے پاس بیٹھ کر ان کے ِدل کا حال پوچھ لیا کریں گے۔‘‘
رجب کہتے کہتے ُرک گیا۔ ا ُس کی جھکی نظروں اور چہرے کے تاثرات سے لگ رہا تھا کہ وہ
مزید کچھ کہنا چاہتا ہے۔ وہ آگے سننے کو بےتاب تھے۔ رجب نے نگاہیں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔
’’ لیکن اّبو!۔۔۔ ہماری سوچ کتنی غلط ہے۔۔۔ ماں ،باپ کو کھالنا پالنا ،ان کا عالج و معالجہ
ہی ہماری ذمہداری تو نہیں۔۔۔ بلکہ انھیں خوش رکھنا بھی ہماری اولین ترجیحات میں ہونا چاہیئے۔ ٹھیک
ا ُسی طرح جیسے ہمارے والدین کو ہمیں خوش رکھنے کی ِفکر رہتی ہے۔۔۔
ہمارے ماں باپ کے پاس ہمارے سوا اور ہوتا ہی کون ہے؟۔۔۔ ان کے اپنے ماں باپ ،بہن بھائی،
یار دوست۔۔۔ سب کہیں بہت پیچھے چھوٹ چکا ہوتا ہے۔۔۔ ایسے میں اگر ہم بھی ان کی چھوٹی چھوٹی
خوشیوں اور خواہشوں کا خیال نہیں کریں گے تو اور کون کرے گا؟۔۔۔۔۔ اور ِاس کے لئے ہمیں ،ا ُن کے ہم پہ
ڈی پینڈنٹ ہونے کا انتظار تو نہیں کرنا چاہیئے۔‘‘
یہ سن کر وجاہت علی کی آنکھیں نم اور سینہ چوڑا ہو گیا۔ اس کے کندھے پہ اپنا ہاتھ جما
کر بولے۔
سن! ‘‘’’آئم پراؤڈ آف ُیو مائی َ
وہ تفاخر سے مسکرائے۔
’’رجب!۔۔۔ رجب!۔۔۔ ‘‘
نیچے سے سکینہ بیگم کے پکارنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔
’’ ہاں جان!۔۔۔ ابھی آیا۔‘‘
رجب نے بھی وہیں سے چِال کر انھیں جواب دیا۔ پھر وجاہت علی کی طرف معذرت خواہانہ نظر
ڈالی۔
’’میں جاتا ہوں ابّو!۔۔۔ اّمی کی بات سن لوں۔‘‘
وجاہت علی نے اثبات میں سر ہال کر اسے تھپکی دی۔وہ تیز تیز چلتا کمرے سے نکل گیا۔
وجاہت علی اس کے پیچھے کمرے کا کھال دروازہ دیکھتے رہ گئے۔ وہ خوش تو تھے مگر کچھ سوچ رہے
تھے۔
’’ اسرار!۔‘‘
ا ُن کے لبوں نے ہلکی سی جنبش کی۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
اسٹیج پہ دلہن کی فیملی اور باقی خاندان والے دولہا ،دلہن کے ساتھ بیٹھ کر تصاویر
کھینچوا رہے تھے۔
وجاہت علی اور سکینہ بیگم ذرا فاصلے پہ ہجوم سے قدرے الگ ہو کر ہال کی دیوار کے ساتھ
کھڑے تھے۔ نظریں سامنے اسٹیج پہ جمی تھیں۔
’’ آئی ہوپ کہ سب ٹھیک جا رہا ہے۔ کوئی پریشانی تو نہیں ہے؟‘‘
اچانک سکینہ بیگم کو اپنے برابر سے اسرار احمد کی آواز آئی۔
دونوں میاں ،بیوی نے چونک کر ا ُن کی طرف اپنی گردنیں گھمائیں۔
’’ نہیں۔۔۔ ماشااهلل سب انتظامات بہت اچھے سے کئے گئے ہیں۔‘‘
سکینہ بیگم معترف تھیں۔
پھر بولیں۔
’’ لیکن اسرار!۔۔ حق مہر میں صرف دو ہزار روپے؟۔۔۔ سب ہی اس پہ حیرت کا اظہار کر رہے
ہیں۔۔۔ رجب تو اپنے تمام شیئرز شوال کے نام کر رہا تھا۔ اور تم نے بھی تو۔۔۔‘‘
اسرار احمد نے ان کی بات کاٹ دی۔
’’ اس وقت حاالت کچھ اور تھے۔۔۔ مجھے اپنی بیٹی کی سیکیورٹی درکار تھی۔ لیکن اب میں
اسرار احمد نے ان کی بات کاٹ دی۔
’’ اس وقت حاالت کچھ اور تھے۔۔۔ مجھے اپنی بیٹی کی سیکیورٹی درکار تھی۔ لیکن اب میں
دیکھ رہا ہوں کہ ماشااهلل وہ اتنی سمجھدار اور اسٹرونگ ہو چکی ہے کہ اپنے حقوق کی حفاظت کے لئے
وہ پوری دنیا کا مقابلہ کر سکتی ہے۔۔۔ اور ِاس کا ایک ثبوت یہ ہے۔‘‘
اسرار احمد نے کہتے ہوئے اپنے ہاتھ میں پکڑا لفافہ سکینہ بیگم کی طرف بڑھایا۔
’’ یہ اس نے تمہارے لئے دیا ہے۔ میں یہی دینے کے لئے تمہارے پاس آیا تھا۔‘‘
سکینہ بیگم نے اچنبھے کے ساتھ لفافہ تھام لیا۔
’’ کیا ہے ِاس میں؟‘‘
پوچھتے ہوئے انھوں نے لفافہ کھول کر اندر موجود چیک باہر نکاال۔
وجاہت علی بھی متجسس سے جھانک کر دیکھ رہے تھے۔
’’ رجب الفرد فاؤنڈیشن اسکول۔۔۔ ایک کروڑ روپے!؟۔۔۔۔‘‘
چیک پڑھ کر سکینہ بیگم ششدر رہ گیئیں۔ نظریں ا ُٹھا کر اسرار احمد کو دیکھا۔
’’ یہ اصل میں اس کے جہیز کی رقم ہے۔۔۔ میں جہیز کے طور پر یہ پیسے اس کے اکاؤنٹ
میں جمع کروانا چاہتا تھا۔ لیکن اس نے لینے سے منع کر دیا۔ وہ رجب کے ساتھ اپنے اچھے مستقبل کی
خاطر یہ پیسے چیرٹی میں دینا چاہتی ہے۔ اس لئے میں نے سوچا کہ تمہیں دے دوں۔۔۔ تم اسکول بھی
چالتی ہو اور سنا ہے کہ کسی ٹرسٹ کو بھی سپورٹ کرتی ہو۔۔۔ تو جہاں بھی مناسب لگیں خرچ کر
دینا۔‘‘
یہ سن کر سکینہ بیگم مسکرائیں۔ انھیں شوال کی ِاس سوچ اور اقدام سے خاصی خوشی
ہوئی تھی۔
’’ بہت خوب۔۔۔ اهلل ہمارے بچوں کی خوشیاں سالمت رکھے۔‘‘
سراہتے ہوئے انھوں نے چیک واپس لفافے میں ڈال کر اپنے پرس میں رکھ لیا۔
اسرار احمد کو کسی نے بال لیا تو وہ ا ُس جانب بڑھ گئے۔
پھر رخصتی کے وقت جب شوال اور رجب ا ُٹھ کھڑے ہوئے تو شوال سے ملنے کے لئے خاندان
والوں کا ایک سیالب اسٹیج پہ ا ُمڈ پڑا۔
رجب ان لوگوں کو جگہ دینے کے لئے اسٹیج سے ا ُتر کر وجاہت علی اور سکینہ بیگم کے برابر
میں آ کر کھڑا ہو گیا۔
ِ
جب خاندان والوں کے بعد شوال کے اپنے تمام گھر والے بھی اس سے مل چکے۔ تب آخر میں
اسرار احمد اسٹیج پہ گئے۔ شوال کو خود سے لگا کر ا ُسے دعائیں دیں۔ پھر اسے محبت سے دیکھتے ہوئے
دھیمی آواز میں بولے۔
’’ جانتی ہو؟۔۔۔ میں نے یہ بارات ،یہ فنکشن کیوں کروایا؟۔۔۔ ‘‘
شوال نے سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔
’’ کیونکہ میں نے تمہیں جو ُدکھ دیا تھا۔ ا ُس کا مداوا کرنا چاہتا تھا۔۔۔ میں وہ زخم تو شاید
نہ ِمٹا سکوں ،لیکن ا ُمید کرتا ہوں کہ میری ِاس کوشش نے مرہم ضرور رکھ دیا ہو گا۔‘‘
شوال کا ِدل بھر آیا۔
’’ پاپا!۔‘‘ کہہ کر وہ باپ کےسینے سے لگ گئی۔ اچانک آنکھوں میں ڈھیر سارے آنسو ا ُمڈ
آئے تھے۔
ِ ِ
’’ میرے دل پہ کوئی زخم باقی نہیں ہے پاپا!۔۔۔ سب مٹ چکا۔۔۔ سب مٹ چکا۔‘‘ ِ
’’ چُپ ،چُپ۔۔۔ ‘‘
اسرار احمد نے اپنے سینے سے لگا اس کا سر تھپتھپاتے ہوئے ا ُسے دالسہ دے کر چپ کروایا۔
پھر اسے خود سے الگ کر کے ا ُس کا ہاتھ پکڑ کر اسٹیج سے نیچے ا ُتارا۔
ِاسی طرح ا ُس کا ہاتھ تھامے چلتے ہوئے وہ رجب کے قریب آئے ،جو اپنے ماں ،باپ کے درمیان
کھڑا ا ُن ہی کی جانب متوجہ تھا۔
اسرار احمد نے اپنے ہاتھ میں پکڑا شوال کا ہاتھ رجب کی طرف بڑھایا۔
کھڑا ا ُن ہی کی جانب متوجہ تھا۔
اسرار احمد نے اپنے ہاتھ میں پکڑا شوال کا ہاتھ رجب کی طرف بڑھایا۔
’’ لو۔۔۔ وعدے کے مطابق۔۔۔ آج میں تمہاری امانت تمہیں واپس سونپ رہا ہوں۔‘‘
رجب نے ایک قدم آگے بڑھ کر شوال کا ہاتھ تھام لیا۔ دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف
دیکھا اور دونوں ہی خوشی سے مسکرا دیئے۔
ت شفقت رجب کے سر پہ رکھا۔ اسرار احمد نے اپنا دس ِ
’’ جاؤ۔۔۔ اهلل تم دونوں کو ہمیشہ ایک ساتھ خوش رکھے۔۔۔ میری دعائیں تم دونوں کے ساتھ
ہیں۔‘‘
ا ُنھوں نے اپنی خوشی اور صدِق ِدل سے دعا دی۔
’’تھینک یُو انکل!۔‘‘
رجب خوش ہو کر ا ُن کے گلے لگ گیا۔
یہ منظر دیکھ کر سکینہ بیگم کے ہونٹوں پہ مسکراہٹ اور آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ وجاہت
علی کی کیفیت جاننے کے لئے چہرہ موڑ کر ا ُن کی طرف دیکھا تو انھیں ا ُداس چہرہ لئے کسی گہری سوچ
میں ُگم فرش کو گھورتے پایا۔ وہ ُدنیا و مافیہا سے مکمل بےخبر دکھائی دے رہے تھے۔
سکینہ بیگم نےا ُن کے قریب ہو کر چپکے سے انکو ٹہوکا دیا۔ وجاہت علی نے چونک کر ا ُن کی
طرف دیکھا۔ انھوں نے بھنویں ا ُچکا کر اشارتا ً پوچھا کہ ’کیا بات ہے؟‘
وجاہت علی نے ویسی ہی غمگین اور ا ُداس صورت کے ساتھ نفی میں سر ہال دیا۔
پھر دونوں میاں بیوی رجب کے پیچھے چل پڑے۔
) میرے اهلل!۔۔۔ تیری قدرت کی کوئی حد نہیں۔۔۔ بےشک ہر ناممکن کو ممکن کر کے دکھانے
واال صرف ُتو ہی ہے۔۔۔۔ میرے ِدل پہ لگا وہ زخم ،جو مجھے لگتا تھا کہ مرتے َدم تک میرے ِدل پہ تازہ رہے
شکر ادا کروں؟۔۔۔ ِکن گا۔ آج ُتو نے ا ُسے ایسے ِمٹایا ہے کہ نشان تک باقی نہیں چھوڑا۔۔۔۔ میں کیسے تیرا ُ
الفاظ تیری حمدوثناء کروں؟۔۔۔ ہماری تکلیفوں کو تجھ سے بہتر کوئی نہیں سمجھتا۔ ہماری چھوٹی چھوٹی
خوشیاں ،چھوٹی چھوٹی تکلیفیں بھی تمہارے نزدیک کتنی اہم ہیں ۔۔۔ اور ایک ہم ہیں۔ جو تجھ پہ بھروسہ
ہی نہیں کرتے۔۔۔ تیری محبت اور عطاؤں سے کتنے غاِفل ہیں ہم لوگ۔۔۔ ہماری خطاؤں کو بخش دے میرے
شکر بجا النے کی توفیق عطا فرما۔( ب !۔۔۔ ہمیں تم پہ بھروسہ کرنے کی ،اور تیرا ُ ر ّ
رجب کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ ڈالے باہر کی جانب چلتے ہوئے ا ُس کا روم روم اهلل کا شکر ادا کر
رہا تھا۔
اسرار احمد اور ا ُن کی فیملی شوال اور رجب کو چھوڑنے کے لئے باہر گاڑی تک آئے۔
ت خود پہلے شوال کے لئے سب ایک بار پھر شوال اور رجب سے گلےِملے۔ اسرار احمد نے بذا ِ
گاڑی کا دروازہ کھول کر ا ُسے اندر بٹھایا ،پھر جاکر رجب کے لئے دروازہ کھوال۔
شوال کے بھائی ،بھابھی سکینہ بیگم اور وجاہت علی کو فردا ً فردا ً خداحافظ کہنے لگے۔
آخر میں عمران وجاہت علی کے گلے ِمل کر خداحافظ کہنے کے بعد ا ُن سے علیحدہ ہو رہا تھا
کہ انھوں نے اپنی متالشی نگاہیں ِارد گرد دوڑائیں۔
’’اسرار کہاں گیا؟‘‘
بطوِرخاص کسی کو مخاطب کئے بنا سوال کیا۔
’’پاپا شاید اندر گئے ہیں۔‘‘
قریب کھڑے کامران نے جواب دیا۔
وجاہت علی نے سکینہ بیگم کی طرف چہرہ موڑا۔
’’ سکینہ!۔۔۔ تم بھی ِان کے ساتھ گھر چلی جاؤ۔ میں دوسری گاڑی سے آتا ہوں۔‘‘
وجاہت علی نے دولہا ،دلہن کی گاڑی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔
سن کر اچھل پڑیں۔ سکینہ بیگم یہ اچانک فرمان ُ
’’کیا؟۔۔۔ مگر آپ؟‘‘
’’ یہ بحث کا وقت نہیں۔۔۔ گھر پہنچ کر بات ہوتی ہے۔ جاؤ تم لوگ۔‘‘
’’کیا؟۔۔۔ مگر آپ؟‘‘
’’ یہ بحث کا وقت نہیں۔۔۔ گھر پہنچ کر بات ہوتی ہے۔ جاؤ تم لوگ۔‘‘
سکینہ بیگم کی بات کاٹ کر اپنا حکم صادر کرتے ،بنا وقت ضائع کئے وہ میں ملبے ملبے ڈگ
بھرتے ہال کے اندر کی طرف بڑھ گئے۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
میرج ہال کے اندر داخل ہو کر چہار سو نظریں دوڑائیں۔ ہال میں چند ویٹر اور صفائی والے
ایک دو لڑکے گھوم رہے تھے۔ انھیں دیکھ کر ایک ویٹر ا ُن کی طرف متوجہ ہوا۔
’’ اسرار صاحب؟۔۔‘‘
ویٹر کی سوالیہ نظروں کے جواب میں انھوں نے استفسار کیا۔
’’ا ُدھر ریسٹ روم میں دیکھیئے۔‘‘
ویٹر نے جواب میں اشارہ کر کے کہا۔
وجاہت علی تیزی سے ریسٹ روم کی طرف بڑھ گئے۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئے تو
اسرار احمد کو سامنے ہی واش بیسن کے آگے کھڑا پایا۔ انھوں نےاپنا ایک ہاتھ دیوار سے ٹکا رکھا تھا۔
وجاہت علی خاموشی سے چلتے ا ُن کے پیچھے جا کھڑے ہوئے۔ اپنا ہاتھ ا ُٹھا کر ان کے کندھے
پہ رکھنا چاہا۔ پھر جھجک کر ُرک گئے۔
’’اسرار! ‘‘
انھوں نے دھیرے سے پکارا۔
اسرار احمد چونکے۔ پھر آنسو پونچھتے ہوئے پلٹ کر انھیں دیکھا۔
’’ تم گئے نہیں ابھی تک؟‘‘
بیزاری کے ساتھ دریافت کیا۔
وجاہت علی کو وہاں پا کر ا ُن کا موڈ خراب ہو گیا تھا۔
’’ کیسے جا سکتا ہوں؟۔۔ تمہارا شکریہ ادا کئے بنا؟‘‘
بدّقت کہا۔ آواز اسرار احمد کے احسانات کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھی۔
اسرار احمد جلدی جلدی آستین چہرے پہ گھما کر اپنا چہرہ پونچھ رہے تھے۔ وجاہت علی کے
سامنے تو وہ کبھی بھی آنسو نہ بہاتے۔
’’ ِاس کی ضرورت ہی کیا ہے؟۔۔۔ میری بیٹی کو تو تم ایک سال پہلے ہی زبردستی اپنی بہو
بنا چکے تھے۔‘‘
لہجے میں چبھن تھی۔
آنسو تو روک لیے تھے مگر آواز اب بھی نم تھی۔ وہ براِہ راست وجاہت علی کی طرف نہیں
دیکھ رہے تھے۔ ا ُن کی طرف سے تھوڑا ُرخ موڑ کر کھڑے تھے۔ یہ وجاہت علی کے لئے ان کی ناپسندیدگی
کا واضح اظہار تھا۔
’’ میں شوال کی بات نہیں کر رہا۔‘‘
انھوں نے پھر سے کسی کھائی سے اپنی آواز برآمد کی۔
اسرار احمد نے چونک کر سوالیہ نظروں سے انھیں دیکھا۔
وجاہت علی خود ہی چل کر ا ُن کے مقابل جا کھڑے ہوئے۔
’’ ساری دنیا کے والدین اپنے بیٹوں کی شادی کرواتے ہیں تو بہو رخصت کروا کے لے کے
جاتے ہیں۔ لیکن شاید میں دنیا کا واحد باپ ہوں جو اپنا بیٹا رخصت کروا کے لے جا رہا ہے۔‘‘
ا ُن کی آنکھوں میں نمی ا ُترنے لگی۔
اسرار احمد نے بغور ا ُن کا چہرہ دیکھا۔ وہ کیا کہہ رہے تھے ا ُنھیں واضح طور پہ سمجھ
نہیں آیا تھا۔
وجاہت علی آنکھوں میں نمی لئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں وضاحت کرنے لگے۔
’’ میری غلطیوں کی وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے بہت ُدور چال گیا تھا۔ اور تمہارے بہت
وجاہت علی آنکھوں میں نمی لئے ٹھہرے ہوئے لہجے میں وضاحت کرنے لگے۔
’’ میری غلطیوں کی وجہ سے میرا بیٹا مجھ سے بہت ُدور چال گیا تھا۔ اور تمہارے بہت
قریب۔۔۔ تم چاہتے تو ا ُسے ہمیشہ کے لئے مجھ سے ُدور کر دیتے۔۔ لیکن تم نے ایسا نہیں کیا۔
رجب نے مجھ سے کہا تھا کہ اگر شوال چاہتی تو ا ُسے لے کر ہم سے ہمیشہ کے لئے الگ ہو
جاتی۔ لیکن ا ُس نے ایسا کبھی نہیں ِکیا۔
یہ تم دونوں باپ بیٹی کی خاصّیت ہے کہ اپنے اختیارات کا ناجائز فائدہ نہیں ا ُٹھاتے۔۔۔
میرا وہ بیٹا ،جو مجھ سے نفرت کرنے لگا تھا۔ میرے ساتھ ایک ٹیبل پہ بیٹھ کر کھانا نہیں
کھاتا تھا۔۔۔ آج ا ُس نے مجھ سے معافی مانگی ،مجھے تحفہ دیا ،اور مجھ سے وعدہ کیا کہ وہ مجھے
چھوڑ کر نہیں جائے گا۔‘‘
وجاہت علی نے اسرار احمد کی آنکھوں میں جھانکا۔
وجاہت علی کے منہ سے ِنکلتے یہ الفاظ اسرار احمد کو حیران کر رہے تھے۔
وجاہت علی کی آنکھوں سے آنسو ٹپک گئے۔
’’ میرا بیٹا ایسا نہیں تھا اسرار!۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ ا ُسے ِاس حد تک بدلنے والے تم ہو۔۔۔
میں نے اپنے بیٹے کو کھو دیا تھا۔۔۔ تم نے مجھے میرا بیٹا لوٹایا ہے۔‘‘
وجاہت علی ممونیت کے آنسو بہا رہے تھے۔
اسرار احمد خاموشی سے ا ُنھیں دیکھے گئے۔ وجاہت علی کو اپنی غلطیوں کا اعتراف کرتے
دیکھ کر انھیں حیرت ہو رہی تھی۔
’’ میں ِکس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں۔‘‘
س جرم نے لے لی ۔ بہتے آنسوؤں میں شدت آ گئی۔ ممونیت کی جگہ پچھتاؤں اور احسا ِ
’’ کاش۔۔۔ کاش میں نے وہ غلط حرکت نہ کی ہوتی۔۔۔۔ کاش میں اتنا کمینہ نہ ہو گیا ہوتا۔۔۔
جانے کیوں میں اپنی کزن کے لئے تمہاری پسندیدگی برداشت نہ کر سکا۔ اور وہ چھوٹی حرکت کرنے کے
بعد بھی خود کو معتبر ثابت کرنے کے لئے اپنی کمینگی پہ ڈٹا رہا۔‘‘
اب اسرار احمد اور بھی سنجیدگی اور توجہ سے انھیں سننے لگے۔
ا ُنھوں نے اپنے آنسو پونچھے جو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔
’’کاش میں نے تمہیں منا لیا ہوتا۔ اپنی غلطی کی معافی مانگ لی ہوتی۔۔۔ اگر میں وقت پہ
اپنی غلطی مان کر تمہارے آگے جھک جاتا تو اتنا نقصان نہ ا ُٹھاتا۔۔۔ ہمارے بچوں کو بھی وہ سب نہ
سہنا پڑتا ،جو انھوں نے سہا۔ ‘ ‘
’’ اب پچھتانے سے کیا فائدہ۔۔۔ جو ہو چکا ،سو ہو چکا۔‘‘
اسرار احمد نے کہا۔ اب کے ا ُن کا لہجہ سپاٹ تھا۔
وجاہت علی نے نم پلکیں ا ُٹھا کر انھیں دیکھا۔ نفی میں سر ہال کر بولے۔
’’ کیسے نہ پچھتاؤں؟۔۔۔۔ میں نے صرف اپنی کمینگی کے باعث اپنے ہاتھوں سے اپنی سب
سے قیمتی چیز کھو دی۔۔۔ میں تو ساری زندگی رجب کو اپنی سب سے بڑی دولت سمجھتا رہا۔ لیکن آج
مجھے احساس ہو رہا ہے کہ تمہیں کھو کر میں کتنے خسارے میں رہا ہوں۔ ِاس وقت تمہاری قدرو قیمت
مجھ سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔۔۔ تم خود بھی نہیں۔۔۔‘‘
اسرار احمد یہ سن کر اور بھی حیران ہوئے۔
وجاہت علی نے اپنی بات جاری رکھی۔
’’ جانتے ہو؟۔۔۔ میری زندگی کا سب سے بڑا ُدکھ کیا تھا؟۔۔۔۔‘‘ ا ُنھوں نے سوال کیا۔ اسرار
احمد کی نظروں میں تجسس دیکھ کر جواب میں بولے۔
’’ اوالد کا ُدکھ۔۔۔ رجب کی پیدائش سے پہلے بھی۔ اور رجب کی پیدائش کے بعد بھی۔۔۔ جب
میرا پہال بچہ پیدا ہوا تھا۔ تب یہ ُدکھ میری زندگی میں شامل ہوا تھا۔ اور آج تک یہ َکرس ) (curseمیری
صہ تھی۔ زندگی کا ح ّ
جس نے مجھے ِاس کَرس سے نجات ِدالئی ہے۔۔۔ تم نے میرے بیٹے کو اس لیکن ،وہ تم ہو ِ
جنونی حالت سے باہر نکاال ہے ۔۔۔ میں تو ہمیشہ تم سے دشمنی نبھاتا رہا۔ پھر بھی تم نے مجھ پہ اتنی
جس نے مجھے ِاس کَرس سے نجات ِدالئی ہے۔۔۔ تم نے میرے بیٹے کو اس لیکن ،وہ تم ہو ِ
جنونی حالت سے باہر نکاال ہے ۔۔۔ میں تو ہمیشہ تم سے دشمنی نبھاتا رہا۔ پھر بھی تم نے مجھ پہ اتنی
بڑی مہربانی کیسے کی؟۔۔۔‘‘
’’کیسے نہ کرتا؟۔۔۔ دشمن تو بعد میں بنا تھا۔۔ دوست بچپن سے تھا۔‘‘
آخر کار اسرار احمد کی ناراضگی بھی َدم توڑ گئی۔
وجاہت علی یہ سن کر رو پڑے۔
’’ اسرار!۔۔۔ مجھے معاف کر دو میرے دوست!۔‘‘
اسرار احمد نے آگے بڑھ کر انھیں گلے سے لگا لیا۔
آنسو دونوں کی آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ لیکن ایک گہرا سکون اور اطمینان دونوں دوستوں
کے سینوں میں ا ُتر گیا تھا۔
❊ ❊ ❊ ❊ ❊ ❊
ختم شد۔