Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 7

‫گذشتہ دنوں دانش پہ احمد اقبال ”مجھے اردو سے کوئی محبت نہیں“‬

‫صاحب کا مضمون‬
‫غالم کہتے ہیں انگریزی بہت بڑی زبان ہے۔‬
‫پھر وہ ایک لے پر جھومنا شروع کر دیتے ہیں۔‬
‫مست ہو کر ناچنا گانا شروع کر دیتے ہیں۔‬
‫اچھا اس گانے میں کوئی لے‪ ،‬تال‪ ،‬سر‪ ،‬راگ‪ ،‬شاعری یا موسیقی تالش کرنے کی کوشش نہ کریں یہ غالموں کا (‬
‫گانا ہے)۔‬

‫مگر عالمہ اقبال فرماتے ہیں‬

‫بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب‬


‫اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی‬

‫اب غالموں کا گانا مالحظہ فرمائیں‬

‫)غالموں کا گانا(‬
‫انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے“‬
‫یہ علم کی زبان ہے‬
‫یہ ایک “انٹرنیشنل لینگویج” ہے”۔‬

‫اور ایسا کہتے ہوئے ان کی گردن اکڑ جاتی ہے‪ ،‬سینہ پھول جاتا ہے اور سر تن جاتا ہے۔‬
‫گویا یہ ان کے والد محترم کی زبان ہے جس کی شان بیان کرنا حق پدری ادا کرنے کے مترادف ہے۔‬

‫جہاں تک علم‪ ،‬سائنس اور ٹیکنالوجی اور انگریزی کی بات ہے اس پر میں کئی دفعہ بات کر چکاہوں اور آپ سب‬
‫کو یہ باور کروا چکا ہوں کہ یہ عقل سے اتنی ہی دور بات ہے جتنا کہ لندن سے نیویارک دور ہے اور اس میں‬
‫حقیقت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔‬

‫کئی بار میں ان سائنسدانوں‪ ،‬انجینئروں‪ ،‬ڈاکٹروں اور عالموں کی بات کر چکا ہوں جن کا انگریزوں یا انگریزی سے‬
‫دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے اپنے شعبے کے امام تھے‪ ،‬نابغہ ہائے روزگار تھے۔ اس ضمن میں‬
‫ارسطو‪ ،‬سقراط‪ ،‬ہومر‪ ،‬ارشمیدس‪ ،‬جالینوس‪ ،‬بو علی سینا‪ ،‬رازی‪ ،‬غزالی‪ ،‬ابن الہیثم اور بقراط سے لے کر پاسچر‪،‬‬
‫آئن سٹائن‪ ،‬لیون ہک‪ ،‬سٹراسبرگر‪ ،‬لیوازے‪ ،‬بوائل‪ ،‬ٹیگور‪ ،‬اقبال‪ ،‬کانٹ‪ ،‬گوئٹے‪ ،‬ٹالسٹائی‪ ،‬موپاساں‪ ،‬والٹیئر‪ ،‬گورکی‪،‬‬
‫عبدالقدیر خان اور بیشمار دوسرے اشخاص کا نام لیا جا سکتا ہے۔‬

‫اب آ جائیے اس بات کی طرف کہ انگریزی ایک” انٹرنیشنل لینگویج “ہے۔‬

‫اچھا آئیں دیکھیں یہ انٹرنیشنل لینگویج کہاں کہاں بولی جاتی ہے‪ ،‬لکھی‪ ،‬پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔‬
‫برطانیہ‪ ،‬امریکہ‪ ،‬آسٹریلیا‪ ،‬نیوزی لینڈ‪ ،‬آدھا کینیڈا اور شاید جنوبی افریقہ۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انٹرنیشنل لینگویج پورے یورپ میں صرف برطانیہ میں استعمال ہوتی ہے اور برطانیہ میں‬
‫بھی ویلز میں ویلش اور اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش استعمال ہوتی ہے۔ برطانیہ کا ایک ہمسایہ ملک آئر لینڈ ہے وہاں‬
‫آئرش زبان استعمال ہوتی ہے۔‬

‫جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے وہاں کی انگریزی اور برطانیہ کی انگریزی میں وہی تعلق ہے جو امیتابھ بچن کی‬
‫بولی ہوئی ہندی اور اردو میں ہے۔‬

‫انگریزی پاکستان‪ ،‬بھارت‪ ،‬فلپائن‪ ،‬زمبابوے‪ ،‬کینیا‪ ،‬نائیجیریا‪ ،‬اور یوگنڈا میں بھی ہے‪ ،‬مگر کتنی ہے یہ آپ سب‬
‫بخوبی جانتے ہیں۔‬

‫اچھا ان ملکوں میں چھدری چھدری انگریزی ہے مگر جہاں جہاں اور جس جس شعبے میں یہ ہے یہ بدعنوانی‪،‬‬
‫گھناونے جرائم کے ساتھ گندھی ہوئی‬
‫ٔ‬ ‫بدانتظامی‪ ،‬نوسربازی‪ ،‬دھوکہ دہی‪ ،‬فریب کاری‪ ،‬وطن فروشی اور کئی دیگر‬
‫ملتی ہے۔ اس کا ان ممالک میں خالص حالت میں پایا جانا ناممکنات میں سے ایک بات ہے۔‬

‫اچھا اب اگر آپ انگریزی سیکھ کر فرانس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے‪،‬‬
‫اگر روس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے‬
‫اور یہی حال جرمنی‪ ،‬سویڈن‪ ،‬ڈنمارک‪ ،‬ناروے‪ ،‬سپین‪ ،‬پرتگال‪ ،‬مالٹا‪ ،‬ترکی‪ ،‬ایران‪ ،‬سعودی عرب‪ ،‬چین‪ ،‬مالئیشیا‪،‬‬
‫انڈونیشیا‪ ،‬کوریا‪ ،‬جاپان اور دنیا کے ‪ 200‬دیگر ممالک میں جانے والوں کا بھی ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں جتنے‬
‫انگریزی بولنے والے ملتے ہیں شاید اس سے کچھ زیادہ ہی اردو بولنے والے بھی مل جائیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ‬
‫فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں انگریزی بولنے والوں سے باقاعدہ نفرت کی جاتی ہے اور ان کو سننے‪،‬‬
‫سمجھنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔‬

‫ان کو علم ہونا چاہئیے کہ دنیا کے اندر پاکستانی غالموں کے سوا انگریزی کو وہ اہمیت دینے کو کوئی ذی ہوش انسان تیار نہیں‬
‫جو اہمیت یہ اپنے زعم میں انگریزی کو دے رہے ہیں۔‬
‫اب جب پاکستانی اپنے زعم میں انگریزی سیکھ کر اپنے آپ کو چیمپئن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو دراصل وہ‬
‫اپنے آپ کو دنیا کے ان چند ممالک تک محدود کر دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم‪ ،‬ان کی مالزمتیں‪ ،‬ان کے کاروبار بھی‬
‫اسی حوالے سے محدود ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان انہی ممالک کا غالم بن کر رہ گیا ہے حاالنکہ‬
‫دنیا ان ممالک کے دائرے سے بہت زیادہ ان ممالک کے دائرے سے باہر ہے مگر پاکستانیوں کی بدقسمتی مالحظہ‬
‫کریں کہ ہمارے غالم حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے ہمیں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے سے تعلقات بنانے‬
‫سے‪ ،‬وہاں جا کر تعلیم حاصل کرنے سے ان کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار کرنے سے روک دیا ہے۔‬

‫گاوں (یا ایک عالمی کمرے) میں بدل چکی ہے‪ ،‬دنیا سکڑ چکی ہے‬ ‫اب جن لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا ایک عالمی ٔ‬
‫اور اب یہاں (ان کی دانست میں) انگریزی کا چلن ہے وہ سوائے احمقوں کی جنت کے گٹر میں رہنے اور ڈبکیاں‬
‫لگانے کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ اب بھال یہ تو بتائیں کہ وہ یورپی یونین جس کی کرنسی ایک ہے‪ ،‬جس کا جھنڈا‬
‫ایک ہے‪ ،‬جس کی ایک پارلیمنٹ ہے‪ ،‬جس کے رکن ممالک کی سرحدیں ختم ہو چکی ہیں کیا اس یورپی یونین نے‬
‫کسی ایک زبان کو رابطے کی زبان مان لیا ہے۔ کیا اس یورپی یونین نے انگریزی کی باالدستی کو تسلیم کر لیا ہے۔‬
‫حقیقت یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔‬

‫میں سائنس کا طالب علم ہوں۔ اب سائنس کی دنیا میں یونانی‪ ،‬الطینی اور فرنچ کو انگریزی سے کہیں زیادہ اہمیت‬
‫حاصل ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ سائنسی اصطالحات اور تشریحات میں انگریزی کا کوئی مقام نہیں ہے)۔ قانون اور‬
‫طب میں یونانی اور الطینی کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کا انگریزی تصور بھی نہیں کر سکتی۔‬
‫فٹبال کی بین اال قوامی تنظیم (فیفا) اور اولمپکس (او آئی سی) کی بین االقوامی تنظیموں کے نام تک انگریزی میں‬
‫نہیں ہیں۔‬

‫اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانیں ہیں جن میں سے ایک انگریزی بھی ہے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ کی‬
‫واحد سرکاری زبان تک نہیں ہے۔‬

‫اب جب یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک نے‪ ،‬اقوام متحدہ نے انگریزی کو کسی قابل نہیں سمجھا تو پاکستانی‬
‫بزرجمہر کیا یورپی یونین کے رکن ممالک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے زیادہ گلوبلیائی ہو گئے ہیں۔ ان کو‬
‫علم ہونا چاہئیے کہ دنیا کے اندر پاکستانی غالموں کے سوا انگریزی کو وہ اہمیت دینے کو کوئی ذی ہوش انسان‬
‫تیار نہیں جو اہمیت یہ اپنے زعم میں انگریزی کو دے رہے ہیں۔‬

‫کیسی عجیب بات ہے ساری دنیا میں ہر شخص غالمی کو اور اس کی ہر نشانی کو باعث نفرت سمجھتا ہے اس سے چھٹکارا پانا‬
‫پاوں میں ڈالے‬‫چاہتا ہے مگر پاکستانی قوم ہے کہ غالم رہنے پر اس کی نشانی کو گلے کا ہار بنائے رکھنے پر اس زنجیر کو ٔ‬
‫رکھنے پر اس طوق کو گردن میں آویزاں کئے رکھنے پر بضد ہے۔‬
‫بات صرف غالمی کی ہے اور اس سے نہ نکلنے کی ہے اور غالمی ہی کو طرز حیات اور مقصد حیات سمجھنے‬
‫کی ہے‪ ،‬ورنہ جب انگریز اس ملک سے دفع دور ہوئے تھے ان کے ساتھ ہی اس زبان کو بھی اس ملک سے دیس‬
‫نکاال دے دینا چاہئیے تھا۔‬

‫کیسی عجیب بات ہے ساری دنیا میں ہر شخص غالمی کو اور اس کی ہر نشانی کو باعث نفرت سمجھتا ہے اس سے‬
‫چھٹکارا پانا چاہتا ہے اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور غالمی سے نکلتے ہی غالمی اور اس کی تمام‬
‫نشانیوں کو مٹا ڈالتا ہے مگر پاکستانی قوم ہے کہ غالم رہنے پر اس کی نشانی کو گلے کا ہار بنائے رکھنے پر اس‬
‫پاوں میں ڈالے رکھنے پر اس طوق کو گردن میں آویزاں کئے رکھنے پر بضد ہے۔‬ ‫زنجیر کو ٔ‬

‫ہے خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب سے‬

‫جی انگریزی ایک انٹرنیشنل لینگویج ہے۔‬


‫جی کیوں کیونکہ ہم اسی طریقے سے اس ملک کے ‪ 20‬کڑور لوگوں کو بدستور غالم بنائے رکھ سکتے ہیں۔ یہ ہے‬
‫اس انٹرنیشنل لینگویج کی حقیقت۔‬

‫بندگی میں گھٹ کے رہ جاتی ہے اک جوئے کم آب‬


‫اور آزادی میں بحر بیکراں ہے زندگی۔‬

‫کیا کیا جائے؟‬

‫ذریعہ تعلیم کے طور پر ہمارے نظام تعلیم پر انگریزی کے مسلط ہونے اور اس کی بربادی کے عمل کو فی الفور‬
‫بند کیا جائے۔‬
‫انگریزی کو ایک الزمی مضمون کے طور پرپڑھانا بند کیا جائے۔‬
‫ہر شعبہ زندگی سے اس کے عمل دخل کو ختم کیا جائے۔‬
‫ہر قسم کے فارم‪ ،‬درخواست اور تعارفی پرچوں کو اردو میں چھاپا جائے۔‬
‫اعلی تعلیم‪ ،‬مقابلے کے امتحان اور تمام مالزمتوں کے لئے انٹرویو اردو میں لئے جائیں۔‬
‫ٰ‬
‫تمام عدالتی‪ ،‬انتظامی‪ ،‬دفتری اور کاروباری امور سے انگریزی کو بے دخل کر کے اردو کو رائج کیا جائے۔‬

‫جہاں تک اہم ملکی اور غیر ملکی زبانوں کی بات ہے ‪ 20‬زبانوں کا ایک گروہ بنایا جائے جس میں سے طالب علم‬
‫کسی ایک زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر چھٹے سے آٹھویں درجے تک پڑھ کر اس کی مناسب شد بد‬
‫حاصل کر سکیں۔ اس طرح پاکستان اور پاکستانی صرف چھ (‪ )6‬ملکوں کے غالم بنے رہنے کے بجائے ساری دنیا‬
‫سے تعلقات قائم کر سکیں گے‪ ،‬آ جا سکیں گے اور آزاد رہنے کے رنگ ڈھنگ سیکھ سکیں گے۔‬

‫کیا ہمارے حکمران‪ ،‬ارباب بست و کشاد‪ ،‬رہنما اور عوام آزادی‪ ،‬ترقی‪ ،‬خوشحالی اور کامیابی کے راستے کا‬
‫انتخاب کرنا چاہتے ہیں یا بدستور غالمی‪ ،‬ذلت‪ ،‬رسوائی اور ناکامی کے گڑھے میں ہی پڑا رہنا چاہتے ہیں۔‬

‫فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے دل یا شکم‬

‫مجھے اردو سے کوئی محبت نہیں —– احمد اقبال‬


‫اس موضوع پر محمد سلیم صاحب اور اردو تحریک کے چند ہمنوا افراد نے فیس بک پہ اظہار خیال کا جو سلسلہ‬
‫شروع کر رکھا ہے اس میں میرے ضمنی سے اختالفی کمنٹ نے مستقبل میں یقینی طور پر درپیش صورت حال‬
‫کی وضاحت نہیں کی اور آرزو پر مبنی ایک جذباتی رد عمل کو جنم دیا۔ ظفر عمران کی ایک پوسٹ یقینا” حوصلہ‬
‫افزا تھی میں صرف “ریکارڈکی درستگی” کیلئے حقایق کو قدرے ترتیب اور تفصیل سے پیش کر دیتا ہوں۔ ۔ غیر‬
‫‪-‬عملیت پسند اپنی خواب آرائی کا سلسلہ جاری رکھیں‬

‫‪ Guns don’t‬پہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ زبان کسی کی دشمن نہیں ہوتی۔ ۔ امریکن قانون کا اصول ہے کہ ‪1-‬‬
‫تاریخ میں متعدد نامور شخصیات کا حوالہ “ہفت زبان” کے طور پر آتا ہے ‪kill people. People kill people‬‬
‫متعدد زبانوں پر عبور ایک قابل فخر صفت تھی اورآج بھی ہے۔ میرے دادا کے گھر میں تو فارسی ہی بولی جاتی‬
‫تھی جو غالبا” ‪ 1923‬تک سرکاری و عدالتی زبان رہی عربی ہم سب پڑھ اور کچھ ترجمے سے سمجھ لیتے ہیں اور‬
‫انگریزی ہماری دوسری مادری زبان بن چکی ہے۔ ۔ میں پنجاب میں پال بڑھا ہوں توبے تکلف گفتگو پنجابی میں‬
‫کرتا ہوں۔ ۔ پشاور سے بی اے کیا تھا تو آدھی پشتو بھی سمجھ لیتا ہوں۔ ۔ پھر صرف اردو سے جزباتی وابستگی اور‬
‫انگریزی کے خالف اتش فشانی چہ معنی دارد؟مجھے تو افسوس ہے کہ سندھی اور بلوچی نہیں جانتا۔ میں‬
‫اردواسپیکنگ کا سیاسی لیبل بہت پہلےاتار چکا ہوں۔‬

‫۔ مسلک میرا آبائی اور سیاست ذاتی معاملہ ہے میں خود کسی زبان۔ ۔ قومیت۔ ۔ قومی پھول۔ جانور ترانے یا جھنڈے ‪2‬‬
‫سے محبت کوال حاصل جذباتیت کے مظاہرے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ تمام قانونی اور غیر قانونی طریقے‬
‫اختیار کر کے امریکا برطانیہ کناڈا آسٹریلیا کی شہریت حاصل کر نے والےپاکستانی ساری جذباتی وفاداریاں بڑی‬
‫سختی اورپھر ذلت اٹھا کے تبدیل کرتے ہیں اورحلف اٹھاکے وہاں کے آئین قانون جھنڈے اور قومی دن کو اپنا‬
‫بنالیتے ہیں۔ ان کا ضمیر ذرا شرمندہ نہیں کرتا اوراس کی مذمت بھی نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت کے تحت ہجرت‬
‫کے سنت ہونے میں کوئی شک نہیں عالمہ اقبال کی ایک نظم میں طارق بن زیاد اپنی کشتیاں جالنے کے بعد اندلس‬
‫کے ساحل پر سپاہیوں سے کہتا ہے “ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست”۔ ۔ اسالم میں وطنیت کا کوئی‬
‫تصور نہیں۔ ۔ االرض فی ہللا۔ ۔ ساری زمین ہللا کی ہے۔‬
‫۔ میں نےکئی سال سے کراچی میں منعقد ہونے والی “عالمی اردو کانفرنس” میں شرکت کی ہے اس میں بھارت ‪3‬‬
‫سمیت دنیا کے ہر ملک سے اردو کے دانشور اردو زبان و ادب کی صورت حال پیش کرتے رہے ہیں۔ دو سال قبل‬
‫“اردو کے مستقبل” پر جو سیشن ہوا اس میں تمام امکانات و خدشات کا جائزہ لیا گیا۔ جائزہ لینے والے ہر شعبے‬
‫کے ماہرین اور اہل دانش تھے‪ ،‬اس میں بھارت کے بہت عظیم ادیب نقاد پروفیسر داکٹر انیس اشفاق بھی تھے (جو‬
‫اس سال ازراہ بندہ پروری مجھے اپنا تازہ شایع ہونے واال ناول “سراب گرداب” دے گئے)۔ ڈاکٹر اشفاق کا استدالل‬
‫مکمل اور سائنٹفک تھا لیکن میں اس تمام سیشن کی تقاریرکا خالصہ پیش کردیتا ہوں۔‬

‫ادبی تاریخ اور روایات سے فارسی ہی “اردو کی مادری زبان” ہےـ‬


‫یہ کہا گیا کہ اس وقت دنیا میں ‪ 600‬زبانیں ہیں۔ بولی کو زبان سے الگ رکھیں۔ عالمی ترتیب کے مطابق پنجابی‬
‫بولنے والوں کا بلحاظ تعداد ساتو نمبر اور اردو کا دسواں ہے۔ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجیکل پیش رفت کو اختیار‬
‫کرنے کی لچک اور صالحیت میں برتری کے باعث انگلش کی حاکمیت تمام دوسری چھوٹی زبانوں کے وجود‬
‫کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے اور اندازہ ہے کہ انگلش کا مقابلہ اس صدی کے اختتام تک صرف ‪ 50‬زبانیں کر‬
‫پائیں گی۔ باقی کی حیثیت محض ایک بولی کی رہ جائے گی۔ ۔ جیسےدنیا کی سب سے بڑی فلم انڈسٹری والے ملک‬
‫بھارت میں اردو فلموں کی بولی ہے جس کو وہ سنسر سرٹیفیکیٹ میں ہندی لکھتے ہیں۔‬

‫۔ زبان کیلئے ضروری ہے کہ اس کا اپنا رسم ا ٰلخط بھی ہو جو بد قسمتی سے اردو نے فارسی کا اختیار کیا ہے ‪4‬‬
‫اور ادبی تاریخ اور روایات سے بھی فارسی ہی “اردو کی مادری زبان” ہےـ اقبال اور فیض تک جام و ساقی۔ ۔‬
‫محتسب و مے خانہ کا حوالہ خالص ایرانی کلچر ہے جس پرآج بھی ہماری شاعری کی تہذیبی روایت قایم ہے۔‬

‫بہت پہلے اس کا ادراک کرشن چندر نے کیا تھا اور رومن انگلش کو مشترکہ رسم الخط کرنے کی ضرورت پر‬
‫زور دیا تھا لیکن اردوتلفظ کے شین قاف زبر پیش گروپ نے وہ ہنگامہ بپا کیا کہ اس کی دور اندیشی کا جنازہ نکال‬
‫دیا لیکن باالخر یہی ہوا۔ پہلے موبایل فون مسیج میں اور اب فیس بک پرسرحد کے دونو طرف اردو کی بورڈ‬
‫استعمال نہ کرنے والےہر قسم کے ابالغ کیلئے رومن ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ۔ بھارت جانے والے اپنے آبائی‬
‫قبرستان کے ہندی مین لکھےاسالمی نا م والے کتبے نہیں پڑھ سکتے۔ فیس بک پر اردو کے شاعر و ادیب ہندی‬
‫اسکرپٹ میں اردو لکھتے ہیں‪ ،‬نہ وہ مجھے پڑھ پاتے ہیں نہ میں انہیں تو تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ وہاں اب بھی اردو‬
‫مشاعروں کا روایتی ماحول ہے جس میں فرش پر بیٹھے حضرات وخواتین اچھے اشعار پر واہ واہ کے ساتھ ان کو‬
‫ہندی میں لکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ ۔ اس وقت تالش مشکل ہے ورنہ میں نراین مودی کا “کالم شاعر بزبان شاعر”‬
‫کی وڈیو پیش کرتا۔ اس نے بڑی اچھی اردو غزل سنائی ہے۔‬

‫۔ غالمی تو ہندو نے ہم سے زیادہ کی۔ ۔ پہلے ہماری جو ترکی ایران اور افغانستان سے تعلق رکھتے تھے پھر ‪5‬‬
‫انگریز کی اور ڈچ کی مگر اس کوآزاد بھارت نے کوئی کمپلکس یا سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ انگریزی بھی ہندی کے‬
‫ساتھ سرکاری زبان ہے اور‪ 30‬صوبوں کی اپنی اپنی زبان بھی کوئی وجہ فساد نہیں۔ لہجے اور تلفظ کے فرق کی‬
‫مضحکہ خیزی مالحظہ کیجے جو ایک مدراسی یا بنگالی کی انگلش میں ہے۔ وہ خود فلموں میں اس کا مذاق اڑاتے‬
‫ہیں لیکن یہی دو صوبے تعلیم کا سو فیصد تناسب رکھتے ہیں۔ اس کے بر عکس کراچی کے “اردو اسپیکنگ” کا‬
‫رجسٹرڈ ٹریڈ مارک رکھنے والوں کی سرائیکی کی سندھی یا پٹھان کی اردو پرمخاصمت کی انتہا دیکھئے کہ وہ‬
‫ایک سیاسی ہنگامہ آرائی اور خونریزی میں الجھ گئے۔ یہ بھی دیکھئے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان‬
‫نفرت کی پہلی عالمت اردو کے معاملے پر‪ 1951‬میں بننے واال “شہید مینار ” ہے۔ ۔ ۔ کتنے “اردو اسپیکنگ” آج یہ‬
‫بتا سکتے ہیں کہ کراچی میں ‪ 1974‬کے شہدائے اردو کون تھے اور کہاں دفن ہیں؟ سوچئے کیا اردو اتنی خوں آشام‬
‫ہے؟ ہرگز نہیں۔ جو بولنے والے بنتے ہیں وہ بھی خوں آشام نہیں۔ (یاد کیجئے اسلحہ پر امریکی قانون کی منطق)۔ ۔‬
‫۔ خوں آشام معاشی اور معاشرتی مسایل ہیں۔‬
‫نصف صدی قبل بابائے اردو نے کہا تھا کہ پٹھان بتاتا ہے کہ “ام روٹی کھا لیا” تو اسے گرامر اور لہجے پہ مت‬
‫ٹوکو۔ وہ اردو بول تو رہا ہے۔ تذکیر و تانیث پر تو دہلی اور لکھنو والے ہی ہمیشہ دست و گریباں رہے۔ “مجھے بات‬
‫کرنا تھی”۔ ۔ اور “مجھے بات کرنی تھی” کا تنازعہ رہا حاالنکہ اردو میں تذکیر و تانیث کا اصول کوئی ہے ہی‬
‫نہیں۔ ۔ کرسی میزمونث ہیں صوفہ اسٹول مذکر۔ ۔ آئی نہ مذکر مگر سنگھار میز مونث۔ ۔ بجلی مونث پنکھا ٹی وی‬
‫مزکر۔ ۔ ۔ ۔ دن مذکر رات مونث۔ ۔ زمین مونث آسمان مزکر۔ ۔ ہا ہاہا‬

‫۔ مسقبل میں اردو کے اختتام کے دو واضح اسباب ہماری ‪ 70‬سالہ تاریخ کا حصہ ہیں جوایک عالمی اردو کانفرنس ‪6‬‬
‫میں بھی زیر بحث آئے‬

‫الف) اس کو کبھی سرکاری مراسلت اور ابالغ کی زبان نہیں بنایا گیا۔(‬

‫اعلی تعلیم و (‬
‫ٰ‬ ‫ب)۔ اس کو ابتدائی الزمی تعلیم کےسوا (جس کا نصاب صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ بناتے ہیں)۔ کبھی‬
‫تدریس کے لئے استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ تدریسی مواد انگلش میں تھا اور آج بھی ہے۔ ‪ 1952‬میں جب راقم پڑھتا‬
‫تھا تو فزکس جی ایل دت اور کیمسٹری نرنجن سنگھ جگندر سنگھ کی تھی ‪ 60‬سال کی بعد کی صورت حال کا جایز‬
‫لینے کیلے میں نےاپنی ہی تیسری نسل کے نوجوانوں سے رابطہ کیا‪ ،‬نتایج یہ سامنے آئے۔‬

‫الف) این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے سول انجینر بننے والے نواسے اور یونی ورسٹی اف انجینییرنگ اینڈ (‬
‫ٹیکنالوجی الہور میں اس شعبے میں چوتھے سمسٹر کی طالبہ نواسی نے بتایا کہ تمام درسی مواد انگریزی میں ہے‬
‫جو برٹش امریکن اور انڈین یا سری لنکن رائٹرز کا ہے۔ اب چینی کتب کے انگریزی ترجمے بھی رائج کر دئیے‬
‫گئے ہیں اور چینی زبان کے ایک سمسٹرکا اضافہ ہوا ہے۔ خال خال پاکستنی نے آسانی کیلئے زیادہ ضخیم کتب کا‬
‫خالصہ بنایا ہے۔ اصل انگریزی درسی کتب کے ‪ 18‬ویں ایڈیشن تک پڑھائے جاتے ہیں تو نظر ثانی شدہ ہوتے ہیں‬
‫اور اپ ڈیٹ کر دئے جاتے ہیں۔‬

‫ب) میری سب سے چھوٹی بہو نے جو آغا خان کراچی میں معالج تھی تصدیق کی کہ طب کے شعبے میں بھی یہی (‬
‫صورت حال ہے۔ البتہ ہسپتالوں میں کام کرنے والے جونیرز کی راہنمائی کیلئے پاکستانی ڈاکٹرز نے مقامی حاالت‬
‫کے مطابق کچھ کتابیں۔ “میڈ ایزی” ٹایپ لکھی ہیں وہ بھی انگلش میں ہیں۔‬

‫ج) میری بڑی بہو نے ‪18‬سال قبل فزیکل کیمسڑی میں کراچی یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لیا تھا اس نے بالکل یہی (‬
‫بتایا کہ ایک بھی کتاب کسی پاکستانی کی نہیں تھی لیکن ایک دو انڈین آتھر تھے مزید پیچھے۔ سب سے بڑی بہو۔‬
‫کراچی کی انجینیر نے بھی ‪ 1995‬کی صورت حال یہی بتائی۔‬

‫د) میرے این ای ڈی کراچی کے سند یافتہ پٹرولیم انجینئر نواسے نے عراق سے بتایا کہ اس شعبے اور میکانیکل (‬
‫اننجینئرنگ میں جرمنی اور اٹلی کو عالمی برتری حاصل ہے تو انہی کی درسی کتب کے انگلش ایڈیشن پڑھائے‬
‫جاتے ہیں۔‬

‫میں نے تو الحمدہلل گھر میں بیٹھے بیٹھے ‪ 60‬سال کا سروے کرلیا۔ آپ اپنے طور پر تفصیلی سروے میں تمام‬
‫یونیورسٹیز کے دیگر شعبوں کی رپورٹ لے سکتے ہیں لیکن میں شرط لگا سکتا ہوں کہ وہ مختلف نہیں ہوں گے۔‬
‫جو کام ‪ 70‬سال میں آپ کے قابل فخر سائنسدان۔ ڈاکٹر انجینئرز نہ کر پائے وہ آ ب کیسے شروع ہوگا؟ کب مکمل‬
‫ہوگا؟ سلیبس کے مطابق کتنی کتابیں درکار ہوں گی ؟ اس کام کی تکمیل سے پہلے قیامت کا آنا ممکن ہے یہ میں‬
‫مان سکتا ہوں۔ ۔ ابھی دنیا ایسے ہی چلتی رہے گی جیسے چل رہی ہے۔ ۔ شغال” میں خواب پرستوں کو ایک سال دیتا‬
‫اعلی تعلیم کے کسی شعبے کی ایک درسی کتاب اردو میں لکھوا کے دکھا دیں جو عالمی معیار پر‬
‫ٰ‬ ‫ہوں۔ یہ مجھے‬
‫ہو۔‬

‫س) آپ کے اردو کالج۔ اردو یونیورسٹی اور انجمن ترقی اردو نے ایوب خاں کے دور یعنی‪ 1958‬سے اب تک (‬
‫کتنے ارب کا بجٹ لیا اورملک کو کیا دیا؟ہمت ہے کسی میں جاننے کی؟ صدر انجمن ترقی اردو مرحوم جمیل الدین‬
‫عالی مرتے وقت اپنی جگہ کس کو بٹھا گئے؟ اپنے ایکٹر سپوت راجو جمیل کو جو اردو جانتا ہی نہیں‪ ، ،‬رکھیں‬
‫احباب مجھے تلخ نوائی پہ معاف۔ ۔ اردو لغت کی ایک من وزن کی جلدیں کس کام کی؟ اردو مترادفات مالحظہ ہوں۔‬
‫۔ الوڈ اسپیکر۔ ۔ آلہ مکبراصوت۔ ۔ ۔ ۔ ایرپورٹ۔ ۔ مطائرہ۔ ۔ ٹکٹ آفس۔ ۔ ادارہ تحفظ نشست۔ ۔ الحول وال۔ ۔ کیا یہ ان‬
‫اعلی تعلیم کیلئے درسی کتب مرتب کراتے جو اب اردو پرستوں کا خواب‬ ‫ٰ‬ ‫کی ذمے داری نہیں تھی کہ ‪ 60‬سال میں‬
‫ہے۔‬

‫ر)۔ ۔ آپ نے میرا حوالہ دیا ہے کہ کیا انگریزی میں مجھے وہ شہرت اور عزت ملتی جو اردو کی وجہ سے ملی؟ (‬
‫‪ THE‬حضرت کس دنیا میں رہتے ہیں آپ؟ مجھے سوگنا پڑھا جاتا اور عزت دایمی ہوتی۔ ۔ شایر ‪ 1980‬میں‬
‫آیا تھا تو میں نے اسکی تلخیص کے‪ 2000‬روپے وصول کئے ‪NAKED FACE by SYDNEY SHELDON‬‬
‫تھے اور اس نے نیویارک میں معاوضے سے اپنا وال یعنی محل بنا لیا تھا۔ ۔ اس کے بعد سے اب تک وہ دو درجن‬
‫ناول لکھ چکا ہے اور ارب پتی ہے۔ وہاں فی لفظ معاوضہ ملتا ہے۔ صرف ‪ 10‬سال قبل مجھے افسوس ہوا کہ میں‬
‫انگریزی لکھ سکتا تھا تو میں نے اردو میں کیوں لکھا۔ ۔ اس وقت میری فیملی میں ایک نواسی اور ایک پوتی فکشن‬
‫لکھ رہی ہیں مگر انگریزی میں۔ ۔ خود میں نے ان کی اردو ادب میں دلچسپی کی حوصلہ شکنی کی۔ ۔ ۔ ۔ کیا آپ‬
‫جانتےہیں کہ ہمارے تمام نوجوانوں کیلئے اب کوئی اشتیاق احمد بھی نہیں بچوں کا کوئی رسالہ نہیں۔ ۔ شہروں میں‬
‫‪ …. ENYD‬نوجوان نسل کے مقبول ترین ناول نویس۔ جو ساری دنیا میں دستیاب ہیں ان میں دو میں نے پڑھے ہیں‬
‫اور بھی بہت ہیں لیکن چیتن بھگت انڈین ہے۔ اس کی وجہ شہرت ‪BLAYTON and CHAYTON BHAGAT‬‬
‫یہ تھی کہ وہ نئی نسل کوپرانی اقدار سے بغاوت پر اکساتا ہے اور اپنی زندگی کی کماں کسی اور کے ہاتھ میں نہ‬
‫دینے کی تبلیغ کرتا ہے جو قدرتی طور پر ٹین ایجرز کو اپیل کرتی ہے۔‬

‫آپ کا یہ خیال ایک سو ایک فیصد غلط ہے کہ پاکستانی مصنف محمد حنیف کو اس وقت شہرت ملی جب اس کا‬
‫‪ THE CASE‬اردو ترجمہ آیا۔ ۔ نہ میں نے یہ دیکھا نہ اس کا نام سنا۔ ۔ لیکن جو ناول مشہور ہوا میں نے پڑھا تھا‬
‫یہ ضیاالحق کے ایر کریش میں مارے جانے کی سیاسی واردات پر ‪OF THE EXPLODING MANGOES‬‬
‫لکھا گیا تھا اور اس کی عالمی وجہ شہرت بنا تھا ورنہ ان کے کئی ناول ہیں وہ ہر سال لٹریری کانفرنس میں ملتے‬
‫ہیں۔ ۔ اس سال ایک اور پاکستانی خاتون کاملہ شمسی کے ناول کو اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ کم سے کم‬
‫دو درجن انڈین پاکستانی فکشن رائٹراس وقت موجود ہیں وہ کسی ادبی معیار کو نہیں کمرشل اینگل کو سامنے‬
‫رکھتے ہیں۔ شاید یہ ٹی وی سیریل بنے یا کسی فلم کے اسکرپٹ کی بنیاد تو وارے نیارے ہو جائیں۔ ۔ پھرمجھے ان‬
‫رایٹرز میں نہ ہونے کاا فسوس کیوں نہ ہو۔‬

‫چونکہ ادیب یا فنکار پیدایشی ہوتا ہے اس لئے رسالے مشاعرے سب ختم ہوجانے کے باوجود نئی غزل ‪ /‬نظم گو‬
‫شعرا مسلسل لکھ رہے ہیں اور کمال کر رہے ہیں۔ شاید فکشن میں صورت حال کم حوصلہ افزا ہے۔‬

‫آپ اردو کی خدمت جاری رکھئے لیکن عملی حقایق سے روگردانی نہ کیجئے سراب اور خواب کی تعبیر کے‬
‫پیچھے بھاگنا آپ کو راس اتا ہے تو انجوائے کیجئے ہے لیکن دنیاوی حقایق جو ہیں رہیں گے۔‬

You might also like