Professional Documents
Culture Documents
مجھے اردو سے کوئی محبت نہیں
مجھے اردو سے کوئی محبت نہیں
صاحب کا مضمون
غالم کہتے ہیں انگریزی بہت بڑی زبان ہے۔
پھر وہ ایک لے پر جھومنا شروع کر دیتے ہیں۔
مست ہو کر ناچنا گانا شروع کر دیتے ہیں۔
اچھا اس گانے میں کوئی لے ،تال ،سر ،راگ ،شاعری یا موسیقی تالش کرنے کی کوشش نہ کریں یہ غالموں کا (
گانا ہے)۔
)غالموں کا گانا(
انگریزی سائنس اور ٹیکنالوجی کی زبان ہے“
یہ علم کی زبان ہے
یہ ایک “انٹرنیشنل لینگویج” ہے”۔
اور ایسا کہتے ہوئے ان کی گردن اکڑ جاتی ہے ،سینہ پھول جاتا ہے اور سر تن جاتا ہے۔
گویا یہ ان کے والد محترم کی زبان ہے جس کی شان بیان کرنا حق پدری ادا کرنے کے مترادف ہے۔
جہاں تک علم ،سائنس اور ٹیکنالوجی اور انگریزی کی بات ہے اس پر میں کئی دفعہ بات کر چکاہوں اور آپ سب
کو یہ باور کروا چکا ہوں کہ یہ عقل سے اتنی ہی دور بات ہے جتنا کہ لندن سے نیویارک دور ہے اور اس میں
حقیقت کا کوئی شائبہ تک نہیں۔
کئی بار میں ان سائنسدانوں ،انجینئروں ،ڈاکٹروں اور عالموں کی بات کر چکا ہوں جن کا انگریزوں یا انگریزی سے
دور پار کا تعلق بھی نہیں تھا مگر وہ اپنے اپنے شعبے کے امام تھے ،نابغہ ہائے روزگار تھے۔ اس ضمن میں
ارسطو ،سقراط ،ہومر ،ارشمیدس ،جالینوس ،بو علی سینا ،رازی ،غزالی ،ابن الہیثم اور بقراط سے لے کر پاسچر،
آئن سٹائن ،لیون ہک ،سٹراسبرگر ،لیوازے ،بوائل ،ٹیگور ،اقبال ،کانٹ ،گوئٹے ،ٹالسٹائی ،موپاساں ،والٹیئر ،گورکی،
عبدالقدیر خان اور بیشمار دوسرے اشخاص کا نام لیا جا سکتا ہے۔
اچھا آئیں دیکھیں یہ انٹرنیشنل لینگویج کہاں کہاں بولی جاتی ہے ،لکھی ،پڑھی اور سمجھی جاتی ہے۔
برطانیہ ،امریکہ ،آسٹریلیا ،نیوزی لینڈ ،آدھا کینیڈا اور شاید جنوبی افریقہ۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ انٹرنیشنل لینگویج پورے یورپ میں صرف برطانیہ میں استعمال ہوتی ہے اور برطانیہ میں
بھی ویلز میں ویلش اور اسکاٹ لینڈ میں اسکاٹش استعمال ہوتی ہے۔ برطانیہ کا ایک ہمسایہ ملک آئر لینڈ ہے وہاں
آئرش زبان استعمال ہوتی ہے۔
جہاں تک آسٹریلیا کی بات ہے وہاں کی انگریزی اور برطانیہ کی انگریزی میں وہی تعلق ہے جو امیتابھ بچن کی
بولی ہوئی ہندی اور اردو میں ہے۔
انگریزی پاکستان ،بھارت ،فلپائن ،زمبابوے ،کینیا ،نائیجیریا ،اور یوگنڈا میں بھی ہے ،مگر کتنی ہے یہ آپ سب
بخوبی جانتے ہیں۔
اچھا ان ملکوں میں چھدری چھدری انگریزی ہے مگر جہاں جہاں اور جس جس شعبے میں یہ ہے یہ بدعنوانی،
گھناونے جرائم کے ساتھ گندھی ہوئی
ٔ بدانتظامی ،نوسربازی ،دھوکہ دہی ،فریب کاری ،وطن فروشی اور کئی دیگر
ملتی ہے۔ اس کا ان ممالک میں خالص حالت میں پایا جانا ناممکنات میں سے ایک بات ہے۔
اچھا اب اگر آپ انگریزی سیکھ کر فرانس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے،
اگر روس جاتے ہیں تو گونگے اور بہرے
اور یہی حال جرمنی ،سویڈن ،ڈنمارک ،ناروے ،سپین ،پرتگال ،مالٹا ،ترکی ،ایران ،سعودی عرب ،چین ،مالئیشیا،
انڈونیشیا ،کوریا ،جاپان اور دنیا کے 200دیگر ممالک میں جانے والوں کا بھی ہوتا ہے۔ ان ملکوں میں جتنے
انگریزی بولنے والے ملتے ہیں شاید اس سے کچھ زیادہ ہی اردو بولنے والے بھی مل جائیں۔ اور اس پر طرہ یہ کہ
فرانس اور جرمنی جیسے ملکوں میں انگریزی بولنے والوں سے باقاعدہ نفرت کی جاتی ہے اور ان کو سننے،
سمجھنے سے انکار کر دیا جاتا ہے۔
ان کو علم ہونا چاہئیے کہ دنیا کے اندر پاکستانی غالموں کے سوا انگریزی کو وہ اہمیت دینے کو کوئی ذی ہوش انسان تیار نہیں
جو اہمیت یہ اپنے زعم میں انگریزی کو دے رہے ہیں۔
اب جب پاکستانی اپنے زعم میں انگریزی سیکھ کر اپنے آپ کو چیمپئن سمجھنا شروع کر دیتے ہیں تو دراصل وہ
اپنے آپ کو دنیا کے ان چند ممالک تک محدود کر دیتے ہیں۔ ان کی تعلیم ،ان کی مالزمتیں ،ان کے کاروبار بھی
اسی حوالے سے محدود ہو جاتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان انہی ممالک کا غالم بن کر رہ گیا ہے حاالنکہ
دنیا ان ممالک کے دائرے سے بہت زیادہ ان ممالک کے دائرے سے باہر ہے مگر پاکستانیوں کی بدقسمتی مالحظہ
کریں کہ ہمارے غالم حکمرانوں اور پالیسی سازوں نے ہمیں دنیا کے ایک بہت بڑے حصے سے تعلقات بنانے
سے ،وہاں جا کر تعلیم حاصل کرنے سے ان کے ساتھ کاروباری تعلقات استوار کرنے سے روک دیا ہے۔
گاوں (یا ایک عالمی کمرے) میں بدل چکی ہے ،دنیا سکڑ چکی ہے اب جن لوگوں کا خیال ہے کہ دنیا ایک عالمی ٔ
اور اب یہاں (ان کی دانست میں) انگریزی کا چلن ہے وہ سوائے احمقوں کی جنت کے گٹر میں رہنے اور ڈبکیاں
لگانے کے اور کچھ نہیں کر رہے۔ اب بھال یہ تو بتائیں کہ وہ یورپی یونین جس کی کرنسی ایک ہے ،جس کا جھنڈا
ایک ہے ،جس کی ایک پارلیمنٹ ہے ،جس کے رکن ممالک کی سرحدیں ختم ہو چکی ہیں کیا اس یورپی یونین نے
کسی ایک زبان کو رابطے کی زبان مان لیا ہے۔ کیا اس یورپی یونین نے انگریزی کی باالدستی کو تسلیم کر لیا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ ان سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔
میں سائنس کا طالب علم ہوں۔ اب سائنس کی دنیا میں یونانی ،الطینی اور فرنچ کو انگریزی سے کہیں زیادہ اہمیت
حاصل ہے۔ (حقیقت یہ ہے کہ سائنسی اصطالحات اور تشریحات میں انگریزی کا کوئی مقام نہیں ہے)۔ قانون اور
طب میں یونانی اور الطینی کو وہ اہمیت حاصل ہے جس کا انگریزی تصور بھی نہیں کر سکتی۔
فٹبال کی بین اال قوامی تنظیم (فیفا) اور اولمپکس (او آئی سی) کی بین االقوامی تنظیموں کے نام تک انگریزی میں
نہیں ہیں۔
اقوام متحدہ کی چھ سرکاری زبانیں ہیں جن میں سے ایک انگریزی بھی ہے۔ بتانا یہ چاہتا ہوں کہ یہ اقوام متحدہ کی
واحد سرکاری زبان تک نہیں ہے۔
اب جب یورپی یونین اور اس کے رکن ممالک نے ،اقوام متحدہ نے انگریزی کو کسی قابل نہیں سمجھا تو پاکستانی
بزرجمہر کیا یورپی یونین کے رکن ممالک اور اقوام متحدہ کے رکن ممالک سے زیادہ گلوبلیائی ہو گئے ہیں۔ ان کو
علم ہونا چاہئیے کہ دنیا کے اندر پاکستانی غالموں کے سوا انگریزی کو وہ اہمیت دینے کو کوئی ذی ہوش انسان
تیار نہیں جو اہمیت یہ اپنے زعم میں انگریزی کو دے رہے ہیں۔
کیسی عجیب بات ہے ساری دنیا میں ہر شخص غالمی کو اور اس کی ہر نشانی کو باعث نفرت سمجھتا ہے اس سے چھٹکارا پانا
پاوں میں ڈالےچاہتا ہے مگر پاکستانی قوم ہے کہ غالم رہنے پر اس کی نشانی کو گلے کا ہار بنائے رکھنے پر اس زنجیر کو ٔ
رکھنے پر اس طوق کو گردن میں آویزاں کئے رکھنے پر بضد ہے۔
بات صرف غالمی کی ہے اور اس سے نہ نکلنے کی ہے اور غالمی ہی کو طرز حیات اور مقصد حیات سمجھنے
کی ہے ،ورنہ جب انگریز اس ملک سے دفع دور ہوئے تھے ان کے ساتھ ہی اس زبان کو بھی اس ملک سے دیس
نکاال دے دینا چاہئیے تھا۔
کیسی عجیب بات ہے ساری دنیا میں ہر شخص غالمی کو اور اس کی ہر نشانی کو باعث نفرت سمجھتا ہے اس سے
چھٹکارا پانا چاہتا ہے اس سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے اور غالمی سے نکلتے ہی غالمی اور اس کی تمام
نشانیوں کو مٹا ڈالتا ہے مگر پاکستانی قوم ہے کہ غالم رہنے پر اس کی نشانی کو گلے کا ہار بنائے رکھنے پر اس
پاوں میں ڈالے رکھنے پر اس طوق کو گردن میں آویزاں کئے رکھنے پر بضد ہے۔ زنجیر کو ٔ
ذریعہ تعلیم کے طور پر ہمارے نظام تعلیم پر انگریزی کے مسلط ہونے اور اس کی بربادی کے عمل کو فی الفور
بند کیا جائے۔
انگریزی کو ایک الزمی مضمون کے طور پرپڑھانا بند کیا جائے۔
ہر شعبہ زندگی سے اس کے عمل دخل کو ختم کیا جائے۔
ہر قسم کے فارم ،درخواست اور تعارفی پرچوں کو اردو میں چھاپا جائے۔
اعلی تعلیم ،مقابلے کے امتحان اور تمام مالزمتوں کے لئے انٹرویو اردو میں لئے جائیں۔
ٰ
تمام عدالتی ،انتظامی ،دفتری اور کاروباری امور سے انگریزی کو بے دخل کر کے اردو کو رائج کیا جائے۔
جہاں تک اہم ملکی اور غیر ملکی زبانوں کی بات ہے 20زبانوں کا ایک گروہ بنایا جائے جس میں سے طالب علم
کسی ایک زبان کو اختیاری مضمون کے طور پر چھٹے سے آٹھویں درجے تک پڑھ کر اس کی مناسب شد بد
حاصل کر سکیں۔ اس طرح پاکستان اور پاکستانی صرف چھ ( )6ملکوں کے غالم بنے رہنے کے بجائے ساری دنیا
سے تعلقات قائم کر سکیں گے ،آ جا سکیں گے اور آزاد رہنے کے رنگ ڈھنگ سیکھ سکیں گے۔
کیا ہمارے حکمران ،ارباب بست و کشاد ،رہنما اور عوام آزادی ،ترقی ،خوشحالی اور کامیابی کے راستے کا
انتخاب کرنا چاہتے ہیں یا بدستور غالمی ،ذلت ،رسوائی اور ناکامی کے گڑھے میں ہی پڑا رہنا چاہتے ہیں۔
Guns don’tپہلی بات یہ سمجھ لیجئے کہ زبان کسی کی دشمن نہیں ہوتی۔ ۔ امریکن قانون کا اصول ہے کہ 1-
تاریخ میں متعدد نامور شخصیات کا حوالہ “ہفت زبان” کے طور پر آتا ہے kill people. People kill people
متعدد زبانوں پر عبور ایک قابل فخر صفت تھی اورآج بھی ہے۔ میرے دادا کے گھر میں تو فارسی ہی بولی جاتی
تھی جو غالبا” 1923تک سرکاری و عدالتی زبان رہی عربی ہم سب پڑھ اور کچھ ترجمے سے سمجھ لیتے ہیں اور
انگریزی ہماری دوسری مادری زبان بن چکی ہے۔ ۔ میں پنجاب میں پال بڑھا ہوں توبے تکلف گفتگو پنجابی میں
کرتا ہوں۔ ۔ پشاور سے بی اے کیا تھا تو آدھی پشتو بھی سمجھ لیتا ہوں۔ ۔ پھر صرف اردو سے جزباتی وابستگی اور
انگریزی کے خالف اتش فشانی چہ معنی دارد؟مجھے تو افسوس ہے کہ سندھی اور بلوچی نہیں جانتا۔ میں
اردواسپیکنگ کا سیاسی لیبل بہت پہلےاتار چکا ہوں۔
۔ مسلک میرا آبائی اور سیاست ذاتی معاملہ ہے میں خود کسی زبان۔ ۔ قومیت۔ ۔ قومی پھول۔ جانور ترانے یا جھنڈے 2
سے محبت کوال حاصل جذباتیت کے مظاہرے سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتا۔ تمام قانونی اور غیر قانونی طریقے
اختیار کر کے امریکا برطانیہ کناڈا آسٹریلیا کی شہریت حاصل کر نے والےپاکستانی ساری جذباتی وفاداریاں بڑی
سختی اورپھر ذلت اٹھا کے تبدیل کرتے ہیں اورحلف اٹھاکے وہاں کے آئین قانون جھنڈے اور قومی دن کو اپنا
بنالیتے ہیں۔ ان کا ضمیر ذرا شرمندہ نہیں کرتا اوراس کی مذمت بھی نہیں کی جاسکتی۔ ضرورت کے تحت ہجرت
کے سنت ہونے میں کوئی شک نہیں عالمہ اقبال کی ایک نظم میں طارق بن زیاد اپنی کشتیاں جالنے کے بعد اندلس
کے ساحل پر سپاہیوں سے کہتا ہے “ہر ملک ملک ماست کہ ملک خدائے ماست”۔ ۔ اسالم میں وطنیت کا کوئی
تصور نہیں۔ ۔ االرض فی ہللا۔ ۔ ساری زمین ہللا کی ہے۔
۔ میں نےکئی سال سے کراچی میں منعقد ہونے والی “عالمی اردو کانفرنس” میں شرکت کی ہے اس میں بھارت 3
سمیت دنیا کے ہر ملک سے اردو کے دانشور اردو زبان و ادب کی صورت حال پیش کرتے رہے ہیں۔ دو سال قبل
“اردو کے مستقبل” پر جو سیشن ہوا اس میں تمام امکانات و خدشات کا جائزہ لیا گیا۔ جائزہ لینے والے ہر شعبے
کے ماہرین اور اہل دانش تھے ،اس میں بھارت کے بہت عظیم ادیب نقاد پروفیسر داکٹر انیس اشفاق بھی تھے (جو
اس سال ازراہ بندہ پروری مجھے اپنا تازہ شایع ہونے واال ناول “سراب گرداب” دے گئے)۔ ڈاکٹر اشفاق کا استدالل
مکمل اور سائنٹفک تھا لیکن میں اس تمام سیشن کی تقاریرکا خالصہ پیش کردیتا ہوں۔
۔ زبان کیلئے ضروری ہے کہ اس کا اپنا رسم ا ٰلخط بھی ہو جو بد قسمتی سے اردو نے فارسی کا اختیار کیا ہے 4
اور ادبی تاریخ اور روایات سے بھی فارسی ہی “اردو کی مادری زبان” ہےـ اقبال اور فیض تک جام و ساقی۔ ۔
محتسب و مے خانہ کا حوالہ خالص ایرانی کلچر ہے جس پرآج بھی ہماری شاعری کی تہذیبی روایت قایم ہے۔
بہت پہلے اس کا ادراک کرشن چندر نے کیا تھا اور رومن انگلش کو مشترکہ رسم الخط کرنے کی ضرورت پر
زور دیا تھا لیکن اردوتلفظ کے شین قاف زبر پیش گروپ نے وہ ہنگامہ بپا کیا کہ اس کی دور اندیشی کا جنازہ نکال
دیا لیکن باالخر یہی ہوا۔ پہلے موبایل فون مسیج میں اور اب فیس بک پرسرحد کے دونو طرف اردو کی بورڈ
استعمال نہ کرنے والےہر قسم کے ابالغ کیلئے رومن ہی استعمال کر رہے ہیں۔ ۔ بھارت جانے والے اپنے آبائی
قبرستان کے ہندی مین لکھےاسالمی نا م والے کتبے نہیں پڑھ سکتے۔ فیس بک پر اردو کے شاعر و ادیب ہندی
اسکرپٹ میں اردو لکھتے ہیں ،نہ وہ مجھے پڑھ پاتے ہیں نہ میں انہیں تو تعلق ختم ہو جاتا ہے۔ وہاں اب بھی اردو
مشاعروں کا روایتی ماحول ہے جس میں فرش پر بیٹھے حضرات وخواتین اچھے اشعار پر واہ واہ کے ساتھ ان کو
ہندی میں لکھ بھی رہے ہوتے ہیں۔ ۔ اس وقت تالش مشکل ہے ورنہ میں نراین مودی کا “کالم شاعر بزبان شاعر”
کی وڈیو پیش کرتا۔ اس نے بڑی اچھی اردو غزل سنائی ہے۔
۔ غالمی تو ہندو نے ہم سے زیادہ کی۔ ۔ پہلے ہماری جو ترکی ایران اور افغانستان سے تعلق رکھتے تھے پھر 5
انگریز کی اور ڈچ کی مگر اس کوآزاد بھارت نے کوئی کمپلکس یا سیاسی ایشو نہیں بنایا۔ انگریزی بھی ہندی کے
ساتھ سرکاری زبان ہے اور 30صوبوں کی اپنی اپنی زبان بھی کوئی وجہ فساد نہیں۔ لہجے اور تلفظ کے فرق کی
مضحکہ خیزی مالحظہ کیجے جو ایک مدراسی یا بنگالی کی انگلش میں ہے۔ وہ خود فلموں میں اس کا مذاق اڑاتے
ہیں لیکن یہی دو صوبے تعلیم کا سو فیصد تناسب رکھتے ہیں۔ اس کے بر عکس کراچی کے “اردو اسپیکنگ” کا
رجسٹرڈ ٹریڈ مارک رکھنے والوں کی سرائیکی کی سندھی یا پٹھان کی اردو پرمخاصمت کی انتہا دیکھئے کہ وہ
ایک سیاسی ہنگامہ آرائی اور خونریزی میں الجھ گئے۔ یہ بھی دیکھئے کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کے درمیان
نفرت کی پہلی عالمت اردو کے معاملے پر 1951میں بننے واال “شہید مینار ” ہے۔ ۔ ۔ کتنے “اردو اسپیکنگ” آج یہ
بتا سکتے ہیں کہ کراچی میں 1974کے شہدائے اردو کون تھے اور کہاں دفن ہیں؟ سوچئے کیا اردو اتنی خوں آشام
ہے؟ ہرگز نہیں۔ جو بولنے والے بنتے ہیں وہ بھی خوں آشام نہیں۔ (یاد کیجئے اسلحہ پر امریکی قانون کی منطق)۔ ۔
۔ خوں آشام معاشی اور معاشرتی مسایل ہیں۔
نصف صدی قبل بابائے اردو نے کہا تھا کہ پٹھان بتاتا ہے کہ “ام روٹی کھا لیا” تو اسے گرامر اور لہجے پہ مت
ٹوکو۔ وہ اردو بول تو رہا ہے۔ تذکیر و تانیث پر تو دہلی اور لکھنو والے ہی ہمیشہ دست و گریباں رہے۔ “مجھے بات
کرنا تھی”۔ ۔ اور “مجھے بات کرنی تھی” کا تنازعہ رہا حاالنکہ اردو میں تذکیر و تانیث کا اصول کوئی ہے ہی
نہیں۔ ۔ کرسی میزمونث ہیں صوفہ اسٹول مذکر۔ ۔ آئی نہ مذکر مگر سنگھار میز مونث۔ ۔ بجلی مونث پنکھا ٹی وی
مزکر۔ ۔ ۔ ۔ دن مذکر رات مونث۔ ۔ زمین مونث آسمان مزکر۔ ۔ ہا ہاہا
۔ مسقبل میں اردو کے اختتام کے دو واضح اسباب ہماری 70سالہ تاریخ کا حصہ ہیں جوایک عالمی اردو کانفرنس 6
میں بھی زیر بحث آئے
الف) اس کو کبھی سرکاری مراسلت اور ابالغ کی زبان نہیں بنایا گیا۔(
اعلی تعلیم و (
ٰ ب)۔ اس کو ابتدائی الزمی تعلیم کےسوا (جس کا نصاب صوبائی ٹیکسٹ بک بورڈ بناتے ہیں)۔ کبھی
تدریس کے لئے استعمال نہیں کیا گیا کیونکہ تدریسی مواد انگلش میں تھا اور آج بھی ہے۔ 1952میں جب راقم پڑھتا
تھا تو فزکس جی ایل دت اور کیمسٹری نرنجن سنگھ جگندر سنگھ کی تھی 60سال کی بعد کی صورت حال کا جایز
لینے کیلے میں نےاپنی ہی تیسری نسل کے نوجوانوں سے رابطہ کیا ،نتایج یہ سامنے آئے۔
الف) این ای ڈی یونیورسٹی کراچی سے سول انجینر بننے والے نواسے اور یونی ورسٹی اف انجینییرنگ اینڈ (
ٹیکنالوجی الہور میں اس شعبے میں چوتھے سمسٹر کی طالبہ نواسی نے بتایا کہ تمام درسی مواد انگریزی میں ہے
جو برٹش امریکن اور انڈین یا سری لنکن رائٹرز کا ہے۔ اب چینی کتب کے انگریزی ترجمے بھی رائج کر دئیے
گئے ہیں اور چینی زبان کے ایک سمسٹرکا اضافہ ہوا ہے۔ خال خال پاکستنی نے آسانی کیلئے زیادہ ضخیم کتب کا
خالصہ بنایا ہے۔ اصل انگریزی درسی کتب کے 18ویں ایڈیشن تک پڑھائے جاتے ہیں تو نظر ثانی شدہ ہوتے ہیں
اور اپ ڈیٹ کر دئے جاتے ہیں۔
ب) میری سب سے چھوٹی بہو نے جو آغا خان کراچی میں معالج تھی تصدیق کی کہ طب کے شعبے میں بھی یہی (
صورت حال ہے۔ البتہ ہسپتالوں میں کام کرنے والے جونیرز کی راہنمائی کیلئے پاکستانی ڈاکٹرز نے مقامی حاالت
کے مطابق کچھ کتابیں۔ “میڈ ایزی” ٹایپ لکھی ہیں وہ بھی انگلش میں ہیں۔
ج) میری بڑی بہو نے 18سال قبل فزیکل کیمسڑی میں کراچی یونیورسٹی سے گولڈ میڈل لیا تھا اس نے بالکل یہی (
بتایا کہ ایک بھی کتاب کسی پاکستانی کی نہیں تھی لیکن ایک دو انڈین آتھر تھے مزید پیچھے۔ سب سے بڑی بہو۔
کراچی کی انجینیر نے بھی 1995کی صورت حال یہی بتائی۔
د) میرے این ای ڈی کراچی کے سند یافتہ پٹرولیم انجینئر نواسے نے عراق سے بتایا کہ اس شعبے اور میکانیکل (
اننجینئرنگ میں جرمنی اور اٹلی کو عالمی برتری حاصل ہے تو انہی کی درسی کتب کے انگلش ایڈیشن پڑھائے
جاتے ہیں۔
میں نے تو الحمدہلل گھر میں بیٹھے بیٹھے 60سال کا سروے کرلیا۔ آپ اپنے طور پر تفصیلی سروے میں تمام
یونیورسٹیز کے دیگر شعبوں کی رپورٹ لے سکتے ہیں لیکن میں شرط لگا سکتا ہوں کہ وہ مختلف نہیں ہوں گے۔
جو کام 70سال میں آپ کے قابل فخر سائنسدان۔ ڈاکٹر انجینئرز نہ کر پائے وہ آ ب کیسے شروع ہوگا؟ کب مکمل
ہوگا؟ سلیبس کے مطابق کتنی کتابیں درکار ہوں گی ؟ اس کام کی تکمیل سے پہلے قیامت کا آنا ممکن ہے یہ میں
مان سکتا ہوں۔ ۔ ابھی دنیا ایسے ہی چلتی رہے گی جیسے چل رہی ہے۔ ۔ شغال” میں خواب پرستوں کو ایک سال دیتا
اعلی تعلیم کے کسی شعبے کی ایک درسی کتاب اردو میں لکھوا کے دکھا دیں جو عالمی معیار پر
ٰ ہوں۔ یہ مجھے
ہو۔
س) آپ کے اردو کالج۔ اردو یونیورسٹی اور انجمن ترقی اردو نے ایوب خاں کے دور یعنی 1958سے اب تک (
کتنے ارب کا بجٹ لیا اورملک کو کیا دیا؟ہمت ہے کسی میں جاننے کی؟ صدر انجمن ترقی اردو مرحوم جمیل الدین
عالی مرتے وقت اپنی جگہ کس کو بٹھا گئے؟ اپنے ایکٹر سپوت راجو جمیل کو جو اردو جانتا ہی نہیں ، ،رکھیں
احباب مجھے تلخ نوائی پہ معاف۔ ۔ اردو لغت کی ایک من وزن کی جلدیں کس کام کی؟ اردو مترادفات مالحظہ ہوں۔
۔ الوڈ اسپیکر۔ ۔ آلہ مکبراصوت۔ ۔ ۔ ۔ ایرپورٹ۔ ۔ مطائرہ۔ ۔ ٹکٹ آفس۔ ۔ ادارہ تحفظ نشست۔ ۔ الحول وال۔ ۔ کیا یہ ان
اعلی تعلیم کیلئے درسی کتب مرتب کراتے جو اب اردو پرستوں کا خواب ٰ کی ذمے داری نہیں تھی کہ 60سال میں
ہے۔
ر)۔ ۔ آپ نے میرا حوالہ دیا ہے کہ کیا انگریزی میں مجھے وہ شہرت اور عزت ملتی جو اردو کی وجہ سے ملی؟ (
THEحضرت کس دنیا میں رہتے ہیں آپ؟ مجھے سوگنا پڑھا جاتا اور عزت دایمی ہوتی۔ ۔ شایر 1980میں
آیا تھا تو میں نے اسکی تلخیص کے 2000روپے وصول کئے NAKED FACE by SYDNEY SHELDON
تھے اور اس نے نیویارک میں معاوضے سے اپنا وال یعنی محل بنا لیا تھا۔ ۔ اس کے بعد سے اب تک وہ دو درجن
ناول لکھ چکا ہے اور ارب پتی ہے۔ وہاں فی لفظ معاوضہ ملتا ہے۔ صرف 10سال قبل مجھے افسوس ہوا کہ میں
انگریزی لکھ سکتا تھا تو میں نے اردو میں کیوں لکھا۔ ۔ اس وقت میری فیملی میں ایک نواسی اور ایک پوتی فکشن
لکھ رہی ہیں مگر انگریزی میں۔ ۔ خود میں نے ان کی اردو ادب میں دلچسپی کی حوصلہ شکنی کی۔ ۔ ۔ ۔ کیا آپ
جانتےہیں کہ ہمارے تمام نوجوانوں کیلئے اب کوئی اشتیاق احمد بھی نہیں بچوں کا کوئی رسالہ نہیں۔ ۔ شہروں میں
…. ENYDنوجوان نسل کے مقبول ترین ناول نویس۔ جو ساری دنیا میں دستیاب ہیں ان میں دو میں نے پڑھے ہیں
اور بھی بہت ہیں لیکن چیتن بھگت انڈین ہے۔ اس کی وجہ شہرت BLAYTON and CHAYTON BHAGAT
یہ تھی کہ وہ نئی نسل کوپرانی اقدار سے بغاوت پر اکساتا ہے اور اپنی زندگی کی کماں کسی اور کے ہاتھ میں نہ
دینے کی تبلیغ کرتا ہے جو قدرتی طور پر ٹین ایجرز کو اپیل کرتی ہے۔
آپ کا یہ خیال ایک سو ایک فیصد غلط ہے کہ پاکستانی مصنف محمد حنیف کو اس وقت شہرت ملی جب اس کا
THE CASEاردو ترجمہ آیا۔ ۔ نہ میں نے یہ دیکھا نہ اس کا نام سنا۔ ۔ لیکن جو ناول مشہور ہوا میں نے پڑھا تھا
یہ ضیاالحق کے ایر کریش میں مارے جانے کی سیاسی واردات پر OF THE EXPLODING MANGOES
لکھا گیا تھا اور اس کی عالمی وجہ شہرت بنا تھا ورنہ ان کے کئی ناول ہیں وہ ہر سال لٹریری کانفرنس میں ملتے
ہیں۔ ۔ اس سال ایک اور پاکستانی خاتون کاملہ شمسی کے ناول کو اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ کم سے کم
دو درجن انڈین پاکستانی فکشن رائٹراس وقت موجود ہیں وہ کسی ادبی معیار کو نہیں کمرشل اینگل کو سامنے
رکھتے ہیں۔ شاید یہ ٹی وی سیریل بنے یا کسی فلم کے اسکرپٹ کی بنیاد تو وارے نیارے ہو جائیں۔ ۔ پھرمجھے ان
رایٹرز میں نہ ہونے کاا فسوس کیوں نہ ہو۔
چونکہ ادیب یا فنکار پیدایشی ہوتا ہے اس لئے رسالے مشاعرے سب ختم ہوجانے کے باوجود نئی غزل /نظم گو
شعرا مسلسل لکھ رہے ہیں اور کمال کر رہے ہیں۔ شاید فکشن میں صورت حال کم حوصلہ افزا ہے۔
آپ اردو کی خدمت جاری رکھئے لیکن عملی حقایق سے روگردانی نہ کیجئے سراب اور خواب کی تعبیر کے
پیچھے بھاگنا آپ کو راس اتا ہے تو انجوائے کیجئے ہے لیکن دنیاوی حقایق جو ہیں رہیں گے۔