Professional Documents
Culture Documents
دو عظیم مصلح
دو عظیم مصلح
دو عظیم مصلح
=====
حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا اور قاضی محمد طاہر علی الہاشمی حفظہ ہللا دو
ایسے عالم ہیں جن کی اصل قدر ان کے جانے کے عرصہ بعد پتہ چلے گی۔ حافظ
صالح الدین یوسف حفظہ ہللا کو تو ابھی بھی ہللا نے ایک جم غفیر کی نظروں میں ان
کے اصالحی و علمی اقدامات کے سبب الئق تحسین بنا رکھا ہے تاہم قاضی محمد طاہر
علی الہاشمی حفظہ ہللا کے ناقدین فی الحال ان کے مداحوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ دراصل
قاضی صاحب کا اصل قصور یہ رہا ہے کہ انہوں نے شخصیت پرستی کی اس بنیاد کو
ہال کرکے رکھ دیا جس پر برصغیر کے تقریبا تمام مسالک کی مذہبی (دینی نہیں)
عمارات کھڑی ہیں۔ دفاع صحابہ کا اصل و بے الگ جذبہ اگر دیکھنا ہو تو قاضی محمد
طاہر علی الہاشمی صاحب کی کتب کا مطالعہ کرنا چاہیئے۔ جیسے قاطع شرک و بدعت
محمد بن عبدالوہاب نجدی مرحوم ہر مشرکانہ و مبتدعانہ نظرئیے اور اس کے مدعی
کے لئے بے نیام تلوار تھے بعینہ قاضی محمد طاہر علی الہاشمی صاحب کا قلم بھی
ایک شمشیر حاد ہے جو بڑی سے بڑی شخصیت کے خالف کسی صحابی کی معمولی
تنقیص پر چل پڑتی ہے۔ قاضی صاحب خود بھی از حد شخصیت پرست ہیں لیکن ان کی
یہ پرستی صرف صحابہ کی شخصیات تک محدود ہے جن کی اتباع اور جن کے جیسا
ایمان النے کی خود قرآن نے تلقین کررکھی ہے۔ قاضی صاحب جیسا وسیع مطالعہ
تاریخ آج کے دور میں بہت کم لوگوں کو نصیب ہوتا ہے۔ ان کی کتب کے مطالعہ سے
اندازہ ہوتا ہے کہ انہوں نے صرف متقدمین کی کتابیں ہی ازبر نہیں کررکھی بلکہ
موجودہ دور اور ماضی قریب میں جن جن لوگوں نے صحابہ سے متعلق جو کچھ بھی
لکھ رکھا ہے ،قاضی صاحب نے ان سب تحاریر کا احاطہ کررکھا ہے۔ قاضی صاحب
کا معاملہ بھی ابن حزم و ابن تیمیہ و محمد بن عبدالوہاب واال ہی ہوگا یعنی زندگی بھر
مالمت و دشمنوں میں گزر گئی لیکن مابعد وفات دنیا نے انکی قدر جان لی۔ میں یہ تو
کہنے کی جرات نہیں کرسکتا کہ قاضی صاحب ذکر کردہ شخصیات سے کلی مناسبت
رکھتے ہیں ،تاہم جزوی مناسبت تو ہے کہ قاضی صاحب بھی ایک "بدنام مصلح" ہی
ہیں جن کی قدر جاننے کے لئے ابھی امت کو چند اور دہائیوں کا انتظار کرنا ہوگا۔
جہاں تک حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا کی بات ہے تو اعتدال کیا ہوتا ہے ،دین
کیسے سمجھنا ہے ،حکمت کیا ہوتی ہے ،اور باشعور تحریر کسے کہتے ہیں ،یہ سب
کسی کو جاننا ہو تو حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا کے سامنے زانوئے تلمذ طے
کرے۔ سب لوگوں کی نظروں میں کوئی ایک عالم سب سے پسندیدہ ہوتا ہے ،سب سے
اوپر ہوتا ہے۔ میری نظروں میں حیات علماء میں وہ نام حافظ صالح الدین یوسف حفظہ
ہللا کا ہے۔ وہ کونسا موضوع ہوگا جس پر حافظ صاحب کا قلم اٹکتا ہو ،جھجھکتا ہو یا
رکتا ہو۔ آپ جس قدر وسیع المطالعہ ہیں اسی قدر کثیر التصانیف بھی۔ آپ کی تحریر میں
جو سالست و روانی ہے وہ میں نے بہت کم علماء کی تحاریر میں دیکھی ہے۔ آپ کی
جب بھی کوئی کتاب اٹھائی ہمیشہ ختم کرکے واپس رکھی۔ سید مودودی کی خالفت و
ملوکیت پر بہت سے لوگوں نے نقد لکھا اور جس نے لکھا اس نے عمدہ و مدلل لکھا
اور حق ادا کردیا لیکن جو اعتدال ،جو سلجھا ہوا سنجیدہ لہجہ اور جو زور استدالل
حافظ صاحب کی کتاب "خالفت و ملوکیت کی تاریخی و شرعی حیثیت" میں دیکھنے کو
ملتا ہے وہ شائد ہی کسی اور کتاب میں نظرآئے۔ حافظ صاحب کی ہر کتاب کا یہی حال
ہے۔ بعض کتب جو سرورق کی سرخی دیکھنے سے بہت خشک محسوس ہوتی ہیں
جیسے "عورتوں کے امتیازی مسائل و قوانین" یا "واقعہ معراج اور اس کے مشاہدات"
یا پھر "مسئلہ رویت ہالل اور بارہ اسالمی مہینے" وغیرہ لیکن جب انہیں پڑھنے بیٹھو
تو اس قدر جاذب پیرائے میں مضامین کا بیان پڑھنے کو ملتا ہے کہ انسان کتاب مکمل
کئے بنا رہ ہی نہیں پاتا۔ وہ کونسا موضوع ہوگا جس پر حافظ صاحب نے امت کی
رہنمائی نہ کی ہو۔ حافظ صاحب نے لمبی چوڑی صخیم صخیم کتابیں لکھنے سے بہتر
سمجھا کہ عوام الناس کے ذہنی رجحان و مطالعاتی میالن کو مد نظر رکھتے ہوئے
مختصر لیکن جامع تحاریر ہدیہ قارئین کی جائیں تاکہ لوگوں کو دین کی بنیادی و
ضروری تعلیم حاصل کرنے میں آسانی رہے۔ میں جس قدر حافظ صالح الدین یوسف
حفظہ ہللا کی کتب اور ان کے موضوعات پر غور کرتا جاتا ہوں ،ان کی عظمت ،ان
کے مطالعہ اور ان کے دینی رجحان کی رفعت کا مزید قائل ہوتا جاتا ہوں۔ ہم نے حافظ
صاحب کی بہت قدر کی لیکن ابھی بھی ان جیسی شخصیت کو ہم وہ درجہ وہ مقام دینے
میں ناکام رہے ہیں جن کا وہ اصلی استحقاق رکھتے ہیں۔ میں پورے وثوق سے کہتا ہوں
کہ حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا کی اصل قدر لوگ آج سے شائد بیس تیس سال بعد
جان سکیں گے۔ المختصر حافظ صالح الدین یوسف حفظہ ہللا ایک عہد ساز شخصیت
ہیں جن کا مسلمانوں کی علمی تاریخ میں اکیسویں صدی کے ذیل میں اسی طرح ذکر
ہوگا جس طرح امام ابن جوزی ،امام ابن تیمیہ ،ابن قیم ،ابن خلدون ،ابن حجر عسقالنی،
امام شوکانی وغیرہم کا ہوتا رہا ہے۔ میری باتیں شائد آج مبالغہ لگیں لیکن وقت آنے پر
ان شاءہللا لوگ انہیں ثابت پائینگے۔