بڑھتی ہوئی شور کی آلودگی اوراسلامی تعلیمات کی روشنی میں اس کا تدارک

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 18

‫‪: 1‬موضوع کا تعارف (‪)Introduction of topic‬‬

‫آواز قدرت کی عطا کردہ بے شمار نعمتوں میں سے ایک بہت خوبصورت نعمت ہے۔‬
‫شاعروں نے سریلی آواز کے الفاظ اپنی شاعری میں استعمال کئے ہیں۔ قدرت کا یہ انمول‬
‫تحفہ کانوں کے ذریعے ہمیں بھلی لہروں سے محظوظ کرتا ہے ۔اور ہم اس ماحول سے لطف‬
‫اندوز ہوتے ہیں۔ رب کریم نے انسان میں سننے کی صالحیت ایک خاص حد تک رکھی ہے‬
‫۔لیکن جب یہ آواز حد سے تجاوز کر جائے تو شور بن جاتی ہے۔موجودہ دور میں "شور کی‬
‫آلودگی" ایک اہم مسئلہ بن چکی اور اس کی وجہ سے بہت سے نقصانات مرتب ہو رہے ہیں۔‬
‫ہوائی جہاز کا شور‪ ،‬ٹریفک‪ ،‬زیادہ دیر اونچی آواز میں موسیقی کا سننا‪ ،‬صنعتی شور اور‬
‫دیگر شور کی آلودگی میں شمار ہوتے ہیں۔ کسی بڑے اسکول‪ ،‬کھیل کے میدان‪ ،‬بہت‬
‫مصروف شاہراہ‪ ،‬ریلوے اسٹیشن یا پھر ہوائی اڈے کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ شور‬
‫کتنا بڑا اور تکلیف دہ مسئلہ بن جاتا ہے۔‬

‫‪: 3‬مقاصد ِتحقیق (‪)Objectives‬‬


‫‪1‬۔عصر حاضر میں شور سے پیدا ہونے والے مسائل سے آگاہی فراہم کرنا۔‬
‫‪2‬۔شور کی آلودگی کو کم کرنے میں اسالمی تعلیمات سے عوام الناس کو باخبرکرنا۔‬
‫‪3‬۔معاشرررتی سررط پر پیڈسررےیکر کےبے جا اسررتعمال سررے پیدا ہونے والےنقصررانات‬
‫سرررے لوگوں کو آگاہ کرنا‪ ،‬نیز مذہبی اور دینی پروگرام میں کم سرررے کم پیڈسرررےیکر‬
‫کےاستعمال کےلئےمذہبی طبقہ کو راغب کرنا۔‬
‫‪: 2‬ضرورت واہمیت (‪)Need and Importance‬‬
‫دنیا بھر میں شور کی آلودگی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس خطرناک بیماری کا‬
‫سامنا بڑے‪ ،‬بچے‪ ،‬جوان اور بوڑھے سب ہی کو کرنا پڑ رہا ہے۔ شور کی آلودگی کی وجہ‬
‫سے سماعت اور ذہنی دبای جیسے مسائل معاشرے میں بہت تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ انسان‬
‫میں سماعت کی صالحیت بیس ہزار ہرٹنز تک ہوتی ہے ۔لیکن اگر اسکی تعداد بڑھ جائے تو‬
‫انسان قوت سماعت سے محروم ہوسکتا ہے۔فضائی آلودگی کے بعد شور انسانی صحت کو‬
‫سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ شور میں سب سے زیادہ پریشان کن ٹریفک کا شور ہے‬
‫اور اس شور سے فالج اور دل کی بیماریوں میں بے پناہ اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی ادارہ‬
‫صحت کے مطابق یورپی ممالک میں ہر تیسرا فرد ٹریفک کے شور کی وجہ سے صحت‬
‫کے مختلف مسائل کا شکار ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق شور دل کی بیماریوں میں پچاس‬
‫فیصد تک اضافہ کر دیتا ہے۔حالیہ تحقیق کے مطابق شور کی آلودگی موٹاپا اور نیند کے‬
‫مسائل میں بھی اضافہ کر رہی ہے۔ نیند کی حالت میں اگر لوگوں کو شور کا سامنا ہو تو اس‬
‫سے بلڈ پریشر (فشار خون) اور دل کے دورے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ شور میں رہنے والے‬
‫افراد دوسری بیماریوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل کا شکار بھی رہتے ہیں۔ شور انسان میں‬
‫چڑ چڑا پن پیدا کرتا ہے جو مزید مختلف نفسیاتی بیماریوں کی اہم وجہ ثابت ہوتا ہے۔‬
‫وہ مزدور افراد جو ایسے کارخانوں میں مزدوری کرتے ہیں جہاں شور زیادہ ہو ان‬
‫میں سر درد‪ ،‬بے چینی اور متلی کی شکایت سامنے آتی ہیں۔ مدافعتی نظام اور پیدائش میں‬
‫نقائص بھی شور کی آلودگی سے منسوب کیا جا رہا ہے۔ شور آلودگی نہ صرف انسان بلکہ‬
‫جانوروں اور ماحولیاتی نطام کے لئے بھی نقصان دہ ہے۔ یورپی ممالک جہاں پالتو جانور‬
‫مثال بلی اور کتوں میں سماعت اور رویے کی تبدیلی جیسے خطرات کی نشاندہی کی جا‬
‫چکی ہے۔‬
‫حال ہی میں کئے گئے ایک سروے کے مطابق کراچی شہر میں شور کا تناسب پچھلے‬
‫دس سا ل میں تیزی سے بڑھا ہے۔ ماہرین کے مطابق کراچی میں مختلف آوازوں جس میں‬
‫خستہ حال بسوں‪ ،‬ان میں بجنے والے پریشر ہارن کا شور‪ ،‬موسیقی کا شور‪ ،‬ریل گاڑیوں کا‬
‫شور اور ہر محلے میں چلنے والے درجنوں کی تعداد میں جنریٹر کے شور نے مستقل رہنے‬
‫والی ذہنی اذیت میں لوگوں کو م بتال کر دیا ہے۔ سب سے زیادہ دس سال سے کم عمر بچے‬
‫متاثر ہو رہے ہیں۔‬
‫شور کی آلودگی پر قابو پانا نہایت ضروری ہے تاکہ لوگوں میں اس سے پیدا ہونے والے‬
‫مسائل سے نجات دپئی جاسکے۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ لوگوں میں شعور بیدار کیا‬
‫جائے کیوں کہ عوام کے تعاون کے بغیر اس پر قابو پانا مشکل ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شور‬
‫کی آلودگی پر قابو پانے کے لئے حکومت کو بھی اہم کردار ادا کرنا ہوگا۔‬
‫‪: 4‬سابقہ کا م کا جائزہ (‪)Literature Review‬‬
‫میر ی تحقیق کے مطابق اس پر پہلے کو ئی کام نہیں ہو ا ۔یہ اپنی نوعیت کا ایم فل‬
‫کی سط پر منفرد کا م ہو گا۔‬
‫‪: 5‬اسلوب تحقیق (‪)Mathod of Research‬‬
‫اس مقالے میں بیانیہ اور تجزیاتی طریقہ تحقیق اپنایا جائے گا۔‬
‫ابواب وفصول کی تفصیل‬
‫باب اول ‪:‬تعارفی مباحث‬
‫فصل اول ‪:‬صوتی آلودگی کا معنی ومفہوم۔‬
‫فصل دوم ‪:‬قرآن حکیم کی روشنی میں صوتی آلودگی کا خاتمہ۔‬
‫الف‪:‬ذکر بالجہر کاجواز اور عدم جواز۔‬
‫ب‪:‬مفسرین کی آراء۔‬
‫فصل سوم‪:‬احادیث کی روشنی میں صوتی آلودگی کا خاتمہ نیز‬
‫ت طیبہ میں اس کے خاتمے کےعملی اقدامات‬‫سیر ِ‬

‫باب دوم‪:‬‬
‫فصل اول ‪:‬صوتی آلودگی اور اس کے اسباب ومحرکات۔‬
‫فصل دوم‪:‬ڈھول‪،‬باجے اور تاشے وغیرہ کاحکم اور دیگر‬
‫ممنوعات شرعیہ نیزکیا موسیقی روح غذاہے؟‬
‫فصل سوم‪:‬صوتی آلودگی کے اثرات ونتائج میں ماہرین نفسیات‬
‫کی آراء۔‬
‫باب سوم ‪:‬‬
‫فصل اول‪ :‬دینی محافل ‪،‬جلسے وجلوس اور اس سے ہونے والی صوتی‬
‫آلودگی۔‬
‫فصل دوم ‪ :‬صوتی آلودگی کے تدارک میں حکومتی اداروں کا کردار۔‬
‫فصل سوم‪:‬متفرقات‬
‫نتا ئج ‪،‬سفارشات وتجاویز‬
‫وسائل وذرائع‬
‫تحقیق میں استفاد ہ مختلف ویب سائٹ سے کیا جائے گا اور اسکے ساتھ مختلف پئبرریز‬
‫سے بھی استفادہ کیا جائے گا۔‬
‫پئبریری پہورگیریژن یونیورسٹی‬
‫پئبریری جی سی یونیورسٹی‬
‫مرکزی پئبریری جامعہ پنجاب پہور‬
‫پئبریری شعبہ علوم اسالمیہ جامعہ پنجاب پہور‬
‫شیخ زاید اسالمک سینٹر پئبریری‬
‫گورنمنٹ پئبریری ماڈل ٹاون پہور‬
‫قائد اعظم پئبریری پہور‬
‫جامعہ سلفیہ پئبریری پہور‬
‫جامعہ نعیمیہ پئبریری پہور‬
‫پئبریری جامعہ المصطفے پہور‬
‫مصادر ومراجع‬
‫قرآن پاک‬
‫صحاح ستہ‬
‫شروحات صحاح ستہ‬
‫تفسیر طبری ازابوجعفر محمدبن جریر طبری‬
‫تفسیرابن کثیراز اپمام المحدث اسماعیل بن کثیر‬
‫اپتقان فی علوم القرآن از جال ل الدین سیوطی‬
‫تفسیرضیاء القرآ ن از پیر محمد کرم شاہ اپزہری‬
‫تفسیر معارف القرآن آز مفتی محمد شفیع‬
‫تفسیر تبیان القرآن از عالمہ غالم رسول سعیدی‬
‫ابواپعلی مودودی‬
‫ٰ‬ ‫تفہیم القرآن از‬
‫تفسیر نعیمی از مفتی احمد یار خان نعیمی‬
‫ویب سائٹ‬
‫اخبارو رسائل‬

‫اگر ہم پہور شہرکی بات کریں تویہ ایک صنعتی اور کثیرآبادی پر‬
‫مشتمل شہر ہے ۔جس کی آبادی دن دگنی رات چگنی کے حساب سے بڑھ‬
‫رہی ہے۔ اور اسی حساب سے اس شہر کے مسائل بھی بڑھ رہے ہیں جن‬
‫میں سرفہرست ماحولیاتی آلودگی شور کی صورتحال ہے جس کو معمولی‬
‫سمجھ کے نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جن کی وجہ سے عوام الناس کی قوت‬
‫و سماعت و قوت برداشت بری طرح متاثر ہوتی ہے اور ان کو شدید‬
‫پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ شور کی آلودگی بنیادی طورپرگاڑیوں کے‬
‫پوڈ سےیکر کے استعمال‪ ،‬جہازوں کی آوازوں‬ ‫شور صنعتوں کی مشینوں‪ٔ ،‬‬
‫اور بلند آوازوں میں گانے بجانے اور ہر اس ایکٹیوٹی سے جنم لیتی ہے‬
‫جس سے آواز‪ ،‬سماعت کی مقرر کردہ حد سے تجاوز کر جائے۔ شور کی‬
‫آلودگی کو ختم کرنے کے لیے ہمیں سخت قوانین بنانے چاہیے ہیں۔ لیکن‬
‫صرف قوانین بنانا مسئلہ کا حل نہیں ہے۔ جب تک عام عوام کو اس کے‬
‫مضر صحت نقصانات سے آگاہی نہیں دی جاتی اور ان کی ذہن سازی نہیں‬
‫کی جاتی تب صرف قوانین بنانا سور مند ثابت نہیں ہوگا۔ جبکہ مقامی یا‬
‫صوبائی حکومتیں اس حوالے سے قانون سازی کر کے ان پر عملدر آمد‬
‫کروا کر ایک پرسکون اور پر فضا ماحول کو پروان چڑھا سکتی ہیں۔‬
‫جنیوا‪ :‬عالمی ادارہ صحت (‪ )WHO‬نے آواز کی آلودگی سے متعلق‬
‫رپورٹ جاری کردی جس میں کہا گیا ہے کہ کرہ ارض پر پیدا ہونے والے‬
‫شور کی وجہ سے دل اور خون کی بیماریاں تیزی سے پھیل رہی ہیں۔‬
‫آلودگی کی ایک کئی ایک اقسام ہیں جن میں سے ایک قسم (نوائس پلوشن )‬
‫یعنی شور سے پیدا ہونے والی آلودگی ہے‪ ،‬یہ انسانی صحت پر بری طرح‬
‫سے اثر انداز ہوتی ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی جانب سے جاری رپورٹ کے مطابق کسی‬
‫مصروف ترین شاہراہ پر دن کے وقت گاڑیوں کی آمدورفت اور ریل کے‬
‫چلنے سے پیدا ہونے والی آواز کی حد ‪ 54‬فیصد تک ہونا چاہیے۔ (یہ حد‬
‫آواز ناپنے والے آلے سے لی گئی)‬
‫ڈبلیو ایچ او کی رپورٹ میں ‪ 54‬فیصد شور کو اس طرح سمجھایا گیا ہے‬
‫کہ کوئی شخص جب آہستہ آواز میں کسی دوسرے سے سرگوشی کرتا ہے‬
‫تو اُس وقت آواز کی حد ‪ 30‬فیصد ہوتی ہے جو قابل برداشت ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق اگر ہیڈ فون لگا کر ہلکی آواز میں ریڈیو یا موبائل سے‬
‫گانے سنے جائیں تو آواز کی شدت ‪ 50‬فیصد ہوتی ہے جبکہ مختلف‬
‫صنعتوں سے پیدا ہونے والی آواز ‪ 100‬فیصد ہوتی ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے شور کی حدود کا تعین کیا تاکہ‬
‫شہریوں کو آلودگی اور صحت کے خطرات سے بچایا جاسکے۔ ڈبلیو ایچ‬
‫او کی سفارشات میں رکن ممالک کی حکومتوں کو تنبیہ کی گئی ہے کہ‬
‫وہ شہری عالقوں میں ایسے اقدامات کریں جن کے ذریعے آوازوں کو‬
‫اُسی حد تک رکھا جائے یا پھر اس سے کم کیا جائے۔‬
‫ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ڈائریکٹر سوزانا یاکب کے مطابق ’کرہ ارض‬
‫پر بہت زیادہ شور کی وجہ سے انسان کے غصے اور پریشانیوں میں‬
‫اضافہ ہوا اور نئی بیماریوں نےبھی جنم لیا جن میں دل اور خون کے کئی‬
‫امراض شامل ہیں‘۔‬
‫‪Noise Pollution‬صوتی آ لو د گی‬
‫آواز قدرت کی بہت خوبصورت اور معجزاتی نعمت ہے‪،‬شاعروں نے‬
‫سریلی اور نقرئی آواز کے الفاظ اپنی شاعری میں استعما ل کےے ہیں۔‬
‫قدرت کا یہ انمول تحفہ کانوں کے ذریعے ہمیں بھلی لہروں سے محظوظ‬
‫کرتاہے اور ہم اپنے ماحول سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔لیکن جب یہ آواز‬
‫حد سے بڑھ جائے تو شور بن جاتی ہے۔ ایسی آواز جو قدرتی عمل میں‬
‫کسی قسم کی رکاوٹ‪ ،‬خرابی یا انسان کے سننے کی طاقت یا برداشت سے‬
‫باہر ہو تو شور کی آلودگی میں شمار ہوتی ہے۔‬
‫شور کی آلودگی بھی ماحولیاتی آلودگی کی ایک قسم ہے۔ جسے‬
‫ہمارے ملک میں کسی بھی طور اہمیت نہیں دی جارہی‪ ،‬حاپنکہ یہ ان‬
‫دیکھی آلودگی ہماری زندگیوں‪،‬جسمانی و ذہنی صحت اور ترقی پر برا ِہ‬
‫راست اور بالواسطہ بہت زیادہ اثرات مرتب کررہی ہے۔ مثالً شور کے‬
‫حد سے زیادہ بڑھنے سے یہ سننے کی ِحس کو بری طرح تباہ کردیتی‬
‫ہے۔ اگر اس کا مقابلہ گرمی اور روشنی کی آلودگی سے کیا جائے تو شور‬
‫کی آلودگی کے عناصر ہمیں کہیں نہیں دکھائی دیں گے مگر آواز کی‬
‫لہریں قدرتی لہروں کی موجودگی میں خطرات کو بڑھادیتی ہیں۔اس بارے‬
‫میں ایک طبی ماہر ڈاکٹرصائقہ کا کہنا ہے کہ شورکی آلودگی سے لوگوں‬
‫میں غصہ اور جھنجالہٹ میں اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫عالمی ادارہ ءصحت نے شور کی سط کے معیار مقرر کر رکھے ہیں۔‬
‫شور کاپیمانہ ڈیسی بل ہے اور عالمی ادارہ صحت کے مطابق رہائشی‬
‫عالقوں میں شور کی حد‪ ،45‬کمرشل عالقوں میں ‪ 55‬اور صنعتی عالقوں‬
‫میں ‪ 65‬ڈیسی بل ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق اس وقت پاکستان کے بڑے‬
‫شہروں مینشور کی آلودگی خطرناک حد تک بڑھ گئی ہے ۔اس بارے میں‬
‫ماہر ماحولیات ڈاکٹر معظم کاکہناہے کہ ملک کے چھ بڑے شہروں میں‬
‫شورکی آلودگی کی شرح بہت زیادہ ہے۔‬
‫ہماری روز مرہ زندگی میں ایسے کئی معموپت ہیں جن کی وجہ‬
‫سے ہم شور کی آلودگی کو خود پرمسلط کرلیتے ہیں جیسے ‪FM‬‬
‫ریڈیوسننے کے لیے کانوں مینائرفون لگانا‪،‬اونچی آواز میں ریڈیو یا ٹیپ‬
‫سننا‪ ،‬جنریٹر کی آوازاورمختلف مشینونکا شور ۔ان سب کی وجہ سے‬
‫ہماری سننے کی ِحس بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ اس کے عالوہ اونچی‬
‫آواز کی وجہ سے ہمارے اندر ایسا تنای پیدا ہوتا ہے جو بعض اوقات دماغ‬
‫کی رگ پھٹنے کا سبب بھی بن سکتا ہے۔اسی بارے میں کراچی کے ایک‬
‫بس ڈرائیورطارق احمد جو کہ ‪-L4‬روٹ کی بس گزشتہ بارہ سال چالرہے‬
‫ہیں‪،‬شور کی آلودگی کے باعث پیش آنیوالی مشکالت کو ان الفاظ میں بیان‬
‫ہیں۔‬ ‫کرتے‬
‫سائنسدانوں کی ریسرچ کے مطابق اگر کوئی شخص مسلسل شور کے‬
‫ماحول میں زندگی بسر کرتا ہے تو اس کے سننے کی ِحس‬
‫بتدریج زائل ہوتی چلی جاتی ہے۔ اس کے عالوہ مصنوعی شور کی آلودگی‬
‫جس میں ٹریفک کا شور شامل ہے‪ ،‬اس کی وجہ سے انسان ٹینشن‪،‬‬
‫اعصابی تنای‪ ،‬بے چینی اور طبعیت میں چڑچڑے پن کا شکار ہوجاتا‬
‫ہے۔جس کی وجہ سے دل کی بیماریاں اور ذہنی صحت پر ب‪±‬را اثر پڑتا‬
‫ہے۔اس بارے میں ڈاکٹر صائقہ کا کہنا ہے۔‬
‫کراچی کے معروف اور سب سے بارونق بازار صدر میں‬
‫الیکٹرونکس کی دکان کے مالک معین الدین اور انکے ساتھی شورکی‬
‫آلودگی کے باعث قوت سماعت میں کمی اور بلڈپریشرکی شکایت کرتے‬
‫ہیں۔‬ ‫نظرآتے‬
‫صدرمیں جب ایک گھریلو خاتون مسزاسلم سے ‪،‬جو کہ کریم آباد سے‬
‫خریداری کیلئے صدر آئی ہوئی تھیں‪ ،‬اس بارے میں پوچھا گیا توانکا کہنا‬
‫تھاکہ انسانی سماعت جب شور کی آواز سے متاثرہونا شروع ہوتی ہے‬
‫توانسان کو کم سنائی دینے لگتا ہے۔ اس حوالے سے ٹریفک پولیس کے‬
‫اہلکار سب سے زیادہ متاثرہوتے ہیں‪ ،‬جو دن رات پرہجوم شاہرایں پر‬
‫ٹریفک کنٹرول کرنے پر مجبور ہیں۔ ایک ٹریفک پولیس اہلکاراختر کا اس‬
‫ہے۔‬ ‫کہنا‬ ‫میں‬ ‫بارے‬
‫ہمارے ملک میں ماحولیاتی تحفظ کے لیے قانون تو موجود ہے لیکن اس‬
‫پر عملدرآمد کے لیے کوئی خاص میکانزم موجود نہیناور اس حوالے سے‬
‫عوام میں آگاہی کی شرح بھی صفر ہے۔حاپنکہ گزشتہ چند برسوں میں‬
‫ماحولیاتی آلودگی ایک عالمی مسئلے کے طور پر سامنے آئی ہے مگر‬
‫ہماری حکومت بہت سے بنیادی مسائل کی طرح اس بڑے مسئلے پر بھی‬
‫پ‪±‬راثر پالیسی بنانے یا کسی قسم کی پالننگ کرنے میں سردست ناکام‬
‫ہے۔‬
‫شور کے نقصانات‬
‫قدرتی طور پر ہماری سماعت یا سننے کی طاقت ‪86‬ڈیسیبل تک شور‬
‫برداشت کر سکتی ہے لیکن جب شور اس حد سے بڑھنا شروع ہوتا ہے‬
‫تو سماعت متاثر ہونا شروع ہو جاتی ہے اور آواز دماغ تک پہنچ جاتی ہے‬
‫جو کہ انتہائی تکلیف دہ ہوتی ہے اور ساتھ ہی اس کے مضر اثرات بھی‬
‫پڑنا شروع ہوجاتے ہیں۔‬
‫مسلسل شور شرابے میں رہنا ذہنی دبای اور ہارمون لیولز کو بڑھاتا ہے۔‬
‫اس کے برعکس خاموشی بہت سی پریشانیاں ختم کرنے میں مددگار ثابت‬
‫ہوتا ہے۔ اس سے ہمارا بلڈ پریشر بھی نارمل رہتا ہے۔‬
‫ایک طبی ماہر کے مطابق اگر شور حد سے بڑھ جائے اور ہم مستقل اس‬
‫کے دائرے میں رہیں تو ہماری سماعت متاثر ہونا شروع ہوجاتی ہے۔‬
‫مزید پڑھیں ‪:‬شور سے بہری ہوتی سماعت کی حفاظت کریں‬
‫شور ہمارے خون پر بھی اثر انداز ہوتا ہے جس کا نتیجہ بعض اوقات‬
‫ہارٹ اٹیک کی صورت میں نکلتا ہے۔‬
‫ایک تحقیق کے مطابق شور شرابے میں رہنے والے بچوں کے اندر‬
‫سیکھنے اور یاد کرنے کا مادہ کم ہوتا ہے اور وہ پڑھنے میں بھی کمزور‬
‫ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس وہ بچے جو پرسکون عالقوں میں مقیم ہیں ان‬
‫میں پڑھنے لکھنے اور یاد رکھنے کی صالحیت بہ نسبت زیادہ ہے۔‬
‫خرابی کی عالمات‬
‫جو کان شور سے متاثر ہوچکے ہوتے ہیں ان کی عالمت یہ ہے کہ ایسے‬
‫انسان کو اپنے کان میں ہلکی سی سیٹی کی آواز آنا شروع ہوجاتی ہے‬
‫جبکہ یہ آواز ماحول میں کہیں بھی موجود نہیں ہوتی اور ساتھ ہی آہستہ‬
‫آہستہ یہ آواز مستقل ہوجاتی ہے۔‬
‫کچھ لوگوں کو سر درد کی شکایت بھی ہوتی ہے جبکہ بعض افراد کو‬
‫اونچا سنائی دینے لگتا ہے۔‬
‫حل کیا ہے؟‬
‫ماہرین کے مطابق درخت بھی شور کو کم کرنے میں مددگار ثابت ہوتے‬
‫ہیں کیونکہ درخت شور کو جذب کرنے کی صالحیت رکھتے ہیں۔ ٰلہذا‬
‫بڑے شہروں میں زیادہ سے زیادہ درخت لگنے چاہئیں تاکہ وہ ماحول کی‬
‫آلودگی کے ساتھ شور کی آلودگی کو بھی کم کریں۔‬
‫صوتی آلودگی‪ ،‬اسباب اور ُمضمرات‬
‫موجودہ دور کو سائنس کا دور کہا جاتا ہے۔ اس دور میں سائنس کی‬
‫تیز رفتار ترقی کے باعث نت نئے اکتشافات و ایجادات ہوئیں… آپت و‬
‫مشینوں کا انبار لگ گیا… سیاسی و طبی‪ ،‬اجتماعی و اقتصادی‪ ،‬معاشی و‬
‫معاشرتی‪ ،‬تہذیبی و تمدنی غرض کہ تمام شعبہ ہائے زندگی میں حیرت‬
‫انگیز کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ سائنس نے اپنا اثر رسوخ و تفوق قائم کرنے‬
‫کے لیے ایسے ایسے آپت مہیا کیے‪ ،‬جن سے انسان آرام طلب‪ ،‬سہل‬
‫انگار‪ ،‬نزاکت پسند‪ ،‬کاہل اور عیش و عشرت کا دلدادہ ہوگیا‪ ،‬اس کی وجہ‬
‫سے شہروں کی وسعت اور صنعتوں کی کثرت ہوئی۔ سائنس کی افادیت‪،‬‬
‫اہمیت اور ضرورت سے تو انکار نہیں کیا جاسکتا‪ ،‬لیکن دوسری طرف‬
‫اس نے ایسے کیمیکلز‪ ،‬تابکاری اثرات و کیمیائی اجزاء کو استعمال کرکے‬
‫ت‬
‫مضر اثرات چھوڑے جن سے زمین و فضا زہر آلود ہوگئی۔ جس قدر حیا ِ‬
‫انسانی کی آرام طلبی و عیش کوشی کے لیے آپت فراہم کیے اس سے‬
‫کہیں زیادہ اس نے نقصان دہ اثرات ونتائج چھوڑ ے جن سے فضا مسموم‬
‫زیر زمین تک ان گیسوں و کھادوں کے جراثیم‬‫ہوگئی‪ ،‬زمین خراب ہوگئی‪ِ ،‬‬
‫گئے۔‬ ‫کر‬ ‫سرایت‬
‫بڑی صنعتوں سے نکلنے والی بھاپ‪ ،‬دھویں اور فضلہ نے پوری فضا کو‬
‫متاثر کیا۔ انسان کے کان‪ ،‬آنکھ‪ ،‬پھیےھڑے اور دوسرے اعضاء متاثر ہوئے۔‬
‫ان خطرات و نقصانات اور منفی نتائج کو عالمی و قومی سط پر دور‬
‫کرنے اور ان کی تالفی کی جدوجہد جاری و ساری ہے۔‬
‫صوتی آلودگی کیا ہے؟ اس کے اسباب و مضر اثرات کیا ہیں؟ ماحول کا‬
‫تحفظ‪ ،‬اور مضر اثرات کا خاتمہ کیسے ممکن ہے؟‬
‫پیمانہ‬ ‫کا‬ ‫شور‬
‫یہ بات ذہن میں رہے کہ شور کو ناپنے کا پیمانہ ڈیسی بیل ہے اور سائنس‬
‫دانوں کے مطابق زیرو ڈیسی بیل کا مطلب وہ کم سے کم آواز ہے جو‬
‫انسانی کان محسوس کرسکتے ہیں۔ ‪ 20‬ڈیسی بیل آواز ایک سرگوشی سے‬
‫پیدا ہوتی ہے‪ 40 ،‬ڈیسی بیل آواز کسی پُرسکون دفتر میں ہوسکتی ہے‪،‬‬
‫‪ 60‬ڈیسی بیل آواز عام گفتگو سے پیدا ہوسکتی ہے‪ ،‬جبکہ ‪ 80‬ڈیسی بیل‬
‫سے اوپر آواز انسانی سماعت کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔ ٰلہذا کسی بھی‬
‫ت سماعت پر منفی اثر مرتب کرتا ہے جسے‬ ‫قسم کا شور و غل ہماری قو ِ‬
‫دوسرے الفاظ مینصوتی آلودگی سے تعبیرکیا جاتا ہے۔ سائنسی اعتبار سے‬
‫انسانی کان عام طور پر شورو غل کی ‪ 55‬تا ‪ 65‬ڈیسی بیل تک کے متحمل‬
‫ہوسکتے ہیں‪ ،‬اس کے عالوہ اگر ‪ 55‬تا ‪ 90‬ڈیسی بیل تک پہنچ جائے تو‬
‫ہیں۔‬ ‫لگتے‬ ‫پڑنے‬ ‫اثرات‬ ‫منفی‬ ‫پر‬ ‫جسم‬ ‫ہمارے‬
‫اسباب‬ ‫کے‬ ‫آلودگی‬ ‫صوتی‬
‫ترقی‬ ‫صنعتی‬
‫موجودہ دور میں صنعت و حرفت نے نہایت تیزی کے ساتھ ترقی کی۔‬
‫بڑے بڑے کارخانے و مراکز قائم کیے گئے۔ ان میں سے بعض کارخانوں‬
‫و فیکٹریوں کا مقصد عام انسانوں کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے‬
‫سامان عیش و عشرت و تعیش پیدا کرنا ہے۔ بعض صنعتیں ایسی‬ ‫ِ‬ ‫بجائے‬
‫ہیں جن کے اغراض و مقاصد میں نہ تو عام انسانی ضروریات و حاجات‬
‫کی تکمیل ہے اور نہ ہی عیش و عشرت کے سامان پیدا کرنا ہے‪ ،‬بلکہ ان‬
‫کے ذریعے جنگی ساز وسامان اور اسلحہ تیار کیا جاتاہے۔ ان کا استعمال‬
‫وہ ممالک کرتے ہیں جن کا مطم نظر پوری دنیا پر باپدستی و حکمرانی‬
‫قائم کرنا ہے‪ ،‬اور وہ روایتی اسلحہ سے لے کر ایٹمی اسلحہ تک تیار‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬اور ان کے بے دریغ استعمال میں تمام قوانین‪ ،‬اصول اور‬
‫ضوابط کو باپئے طاق رکھ دیتے ہیں۔ غرض خود ہی انسان اپنی ہالکت و‬
‫تباہی کا سامان فراہم کررہا ہے‪ ،‬ان میں مستعمل کیمیکلز و تابکاری اثرات‬
‫جن کے ذریعے مضر اثرات اور الیکٹرون ہوا‪ ،‬پانی اور مٹی میں جذب‬
‫ہونے کے بعد جان داروں کی صحت خراب کرنے کا سبب بنتے ہیں‪،‬‬
‫خاص طور سے ایٹمی اثرات نسل در نسل کی تباہی کا باعث ہوتے ہیں۔‬
‫اس صنعت و حرفت کے بے جا استعمال سے صوتی آلودگی کثرت سے‬
‫ہے۔‬ ‫رہی‬ ‫بڑھ‬
‫وسعت‬ ‫کی‬ ‫آبادی‬ ‫شہری‬
‫مادہ پرستی اور دولت کی ریل پیل کے دور میں انسان کی ہوس نے اس‬
‫کو دنیوی بوقلمونیوں اور رنگینیوں میں جکڑ دیا ہے۔ شہرت و ناموری‬
‫کی طلب‪ ،‬عزت و فرماں روائی کی خواہش اور مال و دولت کے حصول‬
‫کے لیے اس نے نہ جانے کیا کیا منصوبے و تدابیر اختیار کیں۔ یہی وجہ‬
‫ہے کہ پہلے انسان قناعت پسند ہوتا تھا اور دیہات و قصبوں میں پُرسکون‬
‫زندگی بسر کرتا تھا‪ ،‬لیکن اب شہروں کی طرف منتقلی کا رجحان عام‬
‫ت آبادی‬
‫ہوگیا ہے اور بالوجہ آبادیوں میں اضافہ ہورہا ہے جس سے کثر ِ‬
‫کے مسائل کا سامنا ہے۔ بڑے بڑے شہروں میں غذا‪ ،‬پانی‪ ،‬صفائی‪ ،‬رہائش‬
‫اور آمد و رفت وغیرہ کے بہت سے ایسے مسائل ہیں جن کا صحت سے‬
‫گہرا تعلق ہے۔ ان میں اصو ِل صحت کی رعایت اور اس کے متعلق کوئی‬
‫ہے۔‬ ‫نہیں‬ ‫پالننگ‬
‫حکومت کے فراہم کردہ اصالحی بورڈ اسی عالقے تک محدود رہتے ہیں‬
‫جہاں سرمایہ دار اور دولت مند طبقہ رہتا ہے۔ عام انسانی زندگی سے یہ‬
‫بورڈ کوئی تعرض کرنا اپنی شان کے خالف سمجھتے ہیں جس سے عام‬
‫زندگی مفلوج رہتی ہے‪ ،‬طرح طرح کی بیماریاں جڑ پکڑتی ہیں اور متعدد‬
‫امراض آسانی سے متعدی ہوتے چلے جاتے ہیں۔ شہروں میں موجود‬
‫ایئرپورٹ اور اسٹیشن‪ ،‬شادی بیاہ یا تفریحی تقاریب‪ ،‬میلے‪ ،‬مذہبی جلسوں‬
‫و مشاعروں میں بجائے جانے والے بینڈ‪ ،‬باجے‪ ،‬قوالیوں اور گانوں کی‬
‫ریکارڈنگ کا شور اور ان میں بے دریغ پئوڈ اسےیکر کے استعمال کی‬
‫وجہ سے صوتی آلودگی عروج پر ہے۔ اسی طرح صوتی آلودگی میں‬
‫نمایاں کردار ادا کرنے والے موجودہ دور کے پُرتعیش ٹیلی ویژن‪ ،‬میوزک‬
‫ہیں۔‬ ‫بھی‬ ‫بازی‬ ‫آتش‬ ‫مزید‬ ‫وغیرہ‬ ‫سسٹم‬
‫اضافہ‬ ‫میں‬ ‫ذرائع‬
‫اس ترقی یافتہ دور میں انسان بہت عجلت پسند ہوگیا ہے جس کی وجہ سے‬
‫وہ نقل و حمل کے نت نئے اور تیز رفتار ذرائع اختیار کرتا ہے۔ اپنی اس‬
‫خواہش و ہوس کو پورا کرنے کے لیے وہ بے دریغ ایسے آپت و گاڑیوں‬
‫کا استعمال کرتا ہے جن سے فضا زہر آلود ہورہی ہے‪ ،‬شور بڑھ رہا ہے‪،‬‬
‫فطری ماحول خراب ہورہا ہے۔ غرض بے ہنگم ٹریفک‪ ،‬موٹر‪ ،‬ریل‬
‫گاڑیوں‪ ،‬کاروں‪ ،‬فیکٹریوں‪ ،‬کارخانوں‪ ،‬مشینوں اور ہوائی جہاز سے پیدا‬
‫ہونے واپ شور غیر محسوس طور پر انسانی صحت کے ساتھ حیوانات‬
‫وغیرہ کی صحت پر بھی بتدریج اثرانداز ہورہا ہے۔ صوتی آلودگی کی‬
‫وجہ سے بھیانک و پُرخطر نتائج سامنے آرہے ہیں۔ تحقیق کے مطابق‬
‫پریشر ہارن اور ٹریفک کے شور سے دنیا بھر میں تقریبا ً بارہ کروڑ لوگ‬
‫ہیں۔‬ ‫مبتال‬ ‫میں‬ ‫بیماریوں‬ ‫سماعتی‬ ‫مختلف‬
‫نقصانات‬ ‫کے‬ ‫آلودگی‬ ‫صوتی‬
‫صوتی آلودگی کا بہت عرصے تک سامنا صحت کے لیے بتدریج نقصان‬
‫کا سبب بن سکتا ہے۔ صوتی آلودگی کے مضر اثرات ماحول کے پراگندہ‬
‫ہونے‪ ،‬پانی‪ ،‬ہوا و غذا کے خراب ہونے پر منتج ہوتے ہیں‪ ،‬جس کی وجہ‬
‫سے مہلک امراض و پعالج بیماریوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ بڑھتے ہوئے‬
‫شور و شغف کے باعث لوگوں کی سماعت متاثر ہورہی ہے۔ برین ہیمبرج‪،‬‬
‫ہارٹ اٹیک‪ ،‬بلڈ پریشر اور شوگر جیسی کئی خطرناک بیماریاں صوتی‬
‫آلودگی کی وجہ سے پیدا ہورہی ہیں۔ اس کے عالوہ نفسیاتی طور پر غصہ‪،‬‬
‫نفرت‪ ،‬چڑچڑاپن‪ ،‬جارحیت‪ ،‬بے خوابی‪ ،‬بدہضمی‪ ،‬سستی‪ ،‬تھکن‪ ،‬بے‬
‫توجہی‪،‬عدم دلچسےی‪ ،‬ذہنی دبائو اور غائب دماغی جیسی خرابیا ں ظہور‬
‫ہیں۔‬ ‫آرہی‬ ‫میں‬
‫ایک تحقیقی رپورٹ کے مطابق جن افراد کو رات میں مسلسل چار سال‬
‫تک ‪ 55‬ڈیسی بیل یا اس سے زیادہ شور و شغف کا سامنا ہو تا ہے اُن میں‬
‫تولیدی صالحیت کم ہوجاتی ہے۔ اتنا شور شرابہ پرانے پنکھے اور‬
‫ایئرکنڈیشنز کے چلنے سے بھی پیدا ہوتا ہے جسے عام طور پر نظرانداز‬
‫کردیا جاتا ہے۔ اس کے عالوہ دن کے اوقات میں ‪ 90‬ڈیسی بیل یا اس سے‬
‫زیادہ شور و غل والے ماحول میں چند ماہ تک انسان کے سکونت اختیار‬
‫کرنے سے بھی مردانہ تولیدی صحت متاثر ہوتی ہے۔ اگر یہ سلسلہ کئی‬
‫سال تک دراز ہوجائے تو مرد بانجھ پن کا شکار ہوجائے گا۔‬
‫اس تشویشناک صورت حال کے پیش نظر ہماری ذمے داری ہے کہ اس‬
‫حفظان صحت کے تئیں جدوجہد کریں۔‬ ‫ِ‬ ‫کا سدباب کریں‪ ،‬ماحول کے تحفظ و‬
‫اس کے لیے مندجہ ذیل تدابیر پیش خدمت ہیں۔ صوتی آلودگی کے خاتمے‬
‫کے لیے معاشرے میں بیداری پیدا کرنے کی ضرورت ہے‪ ،‬کہ معاشرے‬
‫کا ہر فرد یا ادارہ صوتی آلودگی کی روک تھام کے لیے اپنی ذمے داریاں‬
‫پوری کرے۔ انفرادی و اجتماعی طور پر اس کے خاتمے کے لیے کمربستہ‬
‫ہوجائے‪ ،‬اس میں کسی قسم کی کوتاہی‪ ،‬سستی و کاہلی اور بے راہ روی‬
‫نہ برتی جائے۔ جلسوں‪ ،‬مشاعروں اور دیگر رسوم و رواج میں ڈی جے‬
‫وغیرہ تیز آواز کے ساتھ رات دیر تک استعمال نہ ہو اور پوڈ اسےیکر کا‬
‫استعمال نہ کیا جائے۔‬
‫حیدرآباد‪:‬سونونگم جس کے ٹوئٹر پر ’اذان ‘ کے متعلق متنازع‬
‫تبصرے کے بعد مختلف کمیونٹی کی جانب سے اس کا اثر دیکھنے کو مل‬
‫رہا ہے اور جہاں پر ہم آہنگی کے ساتھ اب تک لوگ رہتے تھے اب شور‬
‫کی آلودگی کے متعلق شکایت کرتے ہوئے مندر ‘ گرجا گھر اور مسجد‬
‫سے آنے والی آوازوں پر اعتراض جتارہے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ رات‬
‫‪10‬بجے سے لیکرصب ‪6‬بجے تک یہ آوازیں انہیں پریشان کررہی ہیں جو‬
‫عبادت کے لئے پیڈ اسےیکرس میں پگئی جارہی ہیں۔‬
‫مذہبی اداروں کا دعوی ہے کہ یہ ان کا مذہبی حق ہے ‘ اور ان کے‬
‫قریب میں رہنے والے لوگوں اس کا ایک شکایت طور پر لے رہے ہیں‬
‫اور وہ اس ضمن میں مختلف مذہبی گروپوں سے اپنا اعتراض ظاہر‬
‫کرچکے ہیں جو رات بھر اور صب کے اولین ساعتوں میں پروگرامس‬
‫منعقد کرتے ہیں۔دس مساجد اور مندروں سے آنے والی آواز سے ہورہی‬
‫پریشانی کے متعلق بات کرتے ہوئے ودیا نگر کی ٹی آر ٹی کالونی‬
‫ویلفیراسوسیشن سکریٹری راج شیکھر رای نے کہاکہ ’’ ہم اس کو مذہبی‬
‫رنگ دینا نہیں چاہتے ‘ دونوں مسجد اور مندر وں نے ہمارا جینا دوبھر‬
‫کردیا ہے‘‘۔‬
‫گنیش اتسو کمیٹی کے راج کمار نے کہاکہ ’’ رات بھر چلنے والے تقاریب‬
‫بھی ان میں سے ایک ہیں جس کے لئے ہم ضروری اجازت لیتے ہیں۔‬
‫مذکورہ عبادت لوگو ں میں مذہب اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے عوام کے‬
‫اندر امن قائم کرتی ہے‘‘۔ رضوان قریشی مکہ مسجد کے عالم نے کہاکہ’’‬
‫ایک بار یہ سمجھ لیں کے اذان عبادت کے لئے بالوا ہے ‘ اس کو پی ڈ‬
‫اسےیکر پر کہنے سے روکنا ایک بے تکی بات ہے‘ اور یہ صرف تین یا‬
‫چار منٹ میں مکمل ہوجاتی ہے‘‘۔ پی سی بی کے مطابق شہر کے گیارہ‬
‫مراکز سے حاصل کردہ ڈاٹا سے ہمیں اس بات کا پتہ چال ہے کہ پچھلے‬
‫ایک ماہ میں ‪15-10‬فیصد شور کی آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔‬
‫شور اور اس کے نقصانات‬
‫آلودگی‪ ،‬کوئی بھی ایسا عنصر یا چیز کہ جسکی موجودگی سے ماحول‬
‫کے خراب ہونے یا اسکو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے آلودگی کہالتی‬
‫ہے۔ ہم کبھی فضائی آلودگی کی بات کرتے ہیں ‪،‬کبھی آبی آلودگی کی اور‬
‫کبھی زمینی آلودگی کی۔ لیکن آلودگی کی ایک اور بھی قسم ہے جو دوسری‬
‫اقسام کے مقابلے میں کافی حد تک نظر انداز ہوتی ہے اور جسکی شرح‬
‫میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ وہ ہے‪...‬‬
‫‪August 28, 20181 min‬‬
‫آلودگی‪ ،‬کوئی بھی ایسا عنصر یا چیز کہ جسکی موجودگی سے ماحول‬
‫کے خراب ہونے یا اسکو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے آلودگی کہالتی‬
‫ہے۔ ہم کبھی فضائی آلودگی کی بات کرتے ہیں ‪،‬کبھی آبی آلودگی کی اور‬
‫کبھی زمینی آلودگی کی۔ لیکن آلودگی کی ایک اور بھی قسم ہے جو دوسری‬
‫اقسام کے مقابلے میں کافی حد تک نظر انداز ہوتی ہے اور جسکی شرح‬
‫میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ وہ ہے شور کی آلودگی۔‬
‫آواز(ساینڈ) قدرت کا حسن ہوتا ہے۔ پرندوں کا چہچہانا‪ ،‬ہوایں کا چلنا‪،‬‬
‫پانی کی لہروں کی آواز وغیرہ۔ لیکن جب آواز کی شدت اتنی بڑھ جاۓ کہ‬
‫سماعت پہ گراں گزرے تو وہ شور میں تبدیل ہوجاتی ہے۔ جیسے کسی‬
‫پرندے کا کان کے بالکل نزدیک آ کر بولنا‪ ،‬جیسے آندھی میں چلنے والی‬
‫تیز ہوائیں یا جیسے کسی بےھرے ہوۓ سمندر کی موجیں۔‬
‫شور‪ ،‬انسانی سماعت کو انتہائی حد تک متاثر کر سکتا ہے۔ یعنی اگر طویل‬
‫ت سماعت بھی ختم‬ ‫مدت کے لۓ کافی پٌر شور آواز کانوں میں جاۓ تو قو ِ‬
‫ہوسکتی ہے۔ آواز کی پیمائش کے یونٹ کو ڈیسیبل (ڈی بی )کہتے ہیں۔‬
‫امریکہ کے قومی ادارہء صحت کے مطابق ‪ 75‬ڈی بی سے کم آواز ایک‬
‫عام انسان کی سماعت کو متاثر یا ختم نہیں کر سکتی لیکن اگر آواز ‪85‬‬
‫ڈی بی یا اس سے زائد ہو تو اس کے خطرناک اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫عالوہ ازیں شور کے سبب قلبی بیماریاں بھی رونما ہوسکتی ہیں‪ ،‬نیند میں‬
‫بھی بے قائدگیاں ہو سکتی ہیں جو تھکاوٹ‪ ،‬سستی‪ ،‬کارگردگی میں خلل‬
‫اور چڑاچڑاپن کی وجہ بنتی ہیں۔‬
‫شور کی آلودگی کے بہت سے اسباب ہیں جن میں صنعتکاری(مشینوں کا‬
‫شور)‪ ،‬ٹریفک کا شور‪ ،‬پیڈ اسےیکر کا استعمال‪ ،‬پٹاخے اور بارودی مواد‬
‫کا استعمال وغیرہ۔ ایک تحقیق کے مطابق موٹر سائیکل کی اوسطا ً آواز‬
‫‪ 95‬ڈی بی ہے‪ ،‬ایک میوزک پلیئر کی ‪ 105‬ڈی بی جبکہ آتشبازی اور‬
‫پٹاخوں کی تقریبا ً ‪ 150‬ڈی بی آواز ہوتی ہے۔‬
‫شور کا گہرا اثر بچوں‪ ،‬بزرگوں اور خاص طور پر مریضوں پر ہوتا ہے۔‬
‫ہم بال سوچے سمجھے سگنل پر کھڑے گاڑیوں کے ہارن بجاتے رہتے‬
‫ہیں‪ ،‬جشن منانے کے لئے سائلنسر نکال کر سڑکوں پہ نکل جاتے ہیں‪،‬‬
‫آتشبازی اور پٹاخے‪ ،‬ڈھول دھماکےبجاتے ہیں۔ اونچی آواز میں گانے‬
‫سنتے ہیں جس سے ہم خود بھی نقصان اٹھاتے ہیں اور دوسروں کو بھی‬
‫تکلیف دیتے ہیں۔‬
‫نا صرف انسان‪ ،‬جانور بھی شور کی آلودگی کے باعث انسانوں سے زیادہ‬
‫متاثر ہوتے ہیں۔چونکہ انکی زندگی کی بقاء کا انحصار آواز سے ہوتا ہے‬
‫ت سماعت زیادہ ہوتی ہے۔ اور شور انکی سننے کی‬ ‫تاہم جانوروں کی قو ِ‬
‫صالحیت کو بے حد متاثر کرتا ہے۔ انکے لۓ اپنے شکاری سے بچنا‬
‫مشکل ہوجاتا ہے۔ دوسرے جانوروں کی طرف سے دیے جانے والے‬
‫سگنلز کو سمجھنے سے قاصر ہوجاتے ہیں۔‬
‫شور کی آلودگی کے خاتمے کے لۓ فی الوقت گراں قدر اقدامات نہیں لۓ‬
‫جارہے لیکن انفرادی طور پر اس میں کمی کی جاسکتی ہے اور اس سے‬
‫بچا جا سکتا ہے۔ وہ لوگ جو فیکٹریوں میں کام کرتے ہیں جہاں مشینوں‬
‫کا شور ہوتا ہے انھیں چاہیۓ کہ ائیر پلگز کا استعمال کریں۔ سائیلنسر نکال‬
‫کر سڑکوں پر نا جائیں۔ اپنے انجواۓ کے لۓ میوزک لگائیں لیکن اس بات‬
‫کا دھیان رکھیں کے ارد گرد کسی کو تکلیف نا ہو اور سب سے بڑھ آپکو‬
‫خود کوئی نقصان نا ہو۔ یہ سب صرف تب ممکن ہے جب ہم مکمل طور‬
‫پر شور کو آلودگی سمجھیں اور اس کے خاتمے کی کوشش کریں‬
‫انسان بیمار ہوئے بغیر کتنا شور برداشت کر سکتا کوئی اونچی اور تیز‬
‫آواز شور کب بنتی ہے اور عام انسان بیمار ہوئے بغیر زیادہ سے زیادہ‬
‫کتنا شور برداشت کر سکتے ہیں؟ عالمی ادارہ صحت نے اب پہلی بار‬
‫ایسی حدیں مقرر کر دی ہیں‪ ،‬جن سے زیادہ شور انسانی صحت کے لیے‬
‫خطرہ بن جاتا ہے۔‬

‫کسی بڑے اسکول‪ ،‬کھیل کے میدان‪ ،‬بہت مصروف شاہراہ‪ ،‬ریلوے اسٹیشن‬
‫یا پھر ہوائی اڈے کے قریب رہنے والے جانتے ہیں کہ شور کتنا بڑا اور‬
‫تکلیف دہ مسئلہ بن جاتا ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت یا ڈبلیو ایچ او کے مطابق کسی مصروف شاہراہ پر دن‬
‫کے وقت گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے اوسط شور ‪ 54‬ڈیسیبل تک‬
‫ہونا چاہیے اور ریل گاڑیوں کی آمد و رفت کی وجہ سے ہونے واپ شور‬
‫تو اوسطاﹰ ‪54‬ڈیسیبل سے زیادہ بالکل نہیں ہونا چاہیے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے مطابق ‪54‬ڈیسیبل شور اوسطاﹰ کتنا ہوتا ہے‪ ،‬اس کا اندازہ‬
‫اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب کوئی انسان آہستہ آواز میں کسی‬
‫دوسرے انسان سے کوئی بات کہتا یا سرگوشی کرتا ہے‪ ،‬تو اس کی آواز‬
‫کی شدت اوسطاﹰ ‪ 30‬ڈیسیبل ہوتی ہے۔ اگر ہلکی آواز میں ریڈیو سنا جائے‪،‬‬
‫تو اس سے نکلنے والی آواز کی شدت ‪ 50‬ڈیسیبل ہوتی ہے۔ اس کے‬
‫برعکس بجلی کی کسی آری کے چلنے سے نکلنے والی آواز کا شور ‪100‬‬
‫ڈیسیبل ہوتا ہے۔‬

‫شور صحت کے لیے ایک حقیقی خطرہ‬


‫عالمی ادارہ صحت نے اس حوالے سے شور کی جن حدودں کا تعین کیا‬
‫ہے‪ ،‬وہ عام شہریوں کو شور کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی اور‬
‫صحت کے خطرات سے بچانے کی ایک کوشش ہے۔ ان سفارشات کے‬
‫ساتھ اس عالمی ادارے کے رکن ممالک کی حکومتوں کو یہ بتانے کی‬
‫کوشش کی گئی ہے کہ وہ ایسے اقدامات کریں‪ ،‬جن کے بعد عام شہری‬
‫عالقوں میں شور کو کم سے کم کیا جا سکے۔‬
‫ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی یورپ کے لیے عالقائی ڈائریکٹر سوزانا یاکب‬
‫کے مطابق‪’’ ،‬بہت زیادہ شور صرف غصے اور پریشانی کی وجہ ہی‬
‫نہیں بنتا بلکہ یہ انسانی صحت کے لیے بھی ایک حقیقی خطرہ ہے‪ ،‬جو‬
‫مثال کے طور پر دل اور دوران خون کی کئی بیماریوں کی وجہ بھی بنتا‬
‫ہے۔‘‘‬
‫توانائی کی ماحول دوست تنصیبات بھی پرشور‬
‫شور مختلف ممالک میں صرف شہری آبادیوں کو ہی پریشان نہیں کرتا‬
‫بلکہ یورپ میں تو دیہی اور نیم دیہی عالقوں میں ہوا سے بجلی پیدا کرنے‬
‫والی تنصیبات بھی بہت زیادہ شور کی وجہ بنتی ہیں۔ ان تنصیبات کے لیے‬
‫عالمی ادارہ صحت نے اب اپنی طرف سے اوسطاﹰ ‪ 45‬ڈیسیبل کی حد مقرر‬
‫کی ہے۔‬
‫عام سڑکوں اور شاہراہوں پر ٹریفک بھی بہت زیادہ شور کی وجہ بنتی‬
‫ہے‬
‫جرمنی میں تحفظ ماحول کے وفاقی دفتر کے مطابق جرمن رہائشی عالقوں‬
‫میں رات کے وقت ایسی تنصیبات سے پیدا ہونے والے شور کی پہلے ہی‬
‫سے طے کردہ زیادہ سے زیادہ حد ‪ 50‬ڈیسیبل ہے۔‬
‫صحت دشمن تفریح‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق عام انسانوں کی صحت کے لیے خطرہ‬
‫صرف روزمرہ زندگی کا شور ہی نہیں ہوتا بلکہ وہ شور بھی اتنا ہی‬
‫خطرناک ہے‪ ،‬جن کی وجہ عام لوگ فارغ وقت کی اپنی مصروفیات کے‬
‫ساتھ بنتے ہیں۔ اس طرح کے خطرات میں شراب خانوں‪ ،‬نائٹ کلبوں اور‬
‫کھیلوں کے مختلف مقابلوں کی وجہ سے پیدا ہونے واپ شور بھی شامل‬
‫ہے اور وہ صوتی آلودگی بھی جو بہت اونچی آواز میں موسیقی سننے‬
‫سے پیدا ہوتی ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کی سفارشات کے مطابق عام لوگوں کی صحت کو شور کی‬
‫وجہ سے درپیش خطرات کے ازالے کے لیے پزمی ہو گا کہ ایسے تمام‬
‫ذرائع سے پیدا ہونے والے شور کو ساپنہ اوسط بنیادوں پر ‪ 70‬ڈیسیبل‬
‫سے بھی کم تک محدود کر دیا جائے۔‬
‫م م ‪ /‬ع س ‪ /‬اے ایف پی‪ ،‬ڈبلیو ایچ او‬

You might also like