Professional Documents
Culture Documents
الانتباهات المفيده للتهانوي
الانتباهات المفيده للتهانوي
َ
2
البتہ اس بات میں شبہ نہیں کہ کچھ شبہات ایسے تھے کہ
زبانوں پر ان کا تذکرہ بھی باقی نہیں رہا تھا ،اور ان کا ذکر اب
دوبارہ شروع ہوگیا ہے۔ َ
اور بعض شبہات ایسے ہیں کہ اصل میں تووہ پرانے ہی
ہیں ،لیکن اب کسی نئے نام سے ذکر کئے جا رہے ہیں ،یعنی
عنوان نیا ہو گیا ہے۔ َ
3
گردش كر رہے ہىں ،اور پھر ان كا جواب دىا جائے گا ،اس
لىے لوگوں كے شبہات دور كرنے كے لحاظ سے ىہ صورت
زىادہ مفىد معلوم ہو تى ہے۔
اور اگر ان چھوٹےچھوٹے شبہات كا اس طرح جواب
دىا جائے كہ اىك اىك جزئى كو ذكر كىا جائے ،اور پھر اس كا
اور اسى جواب كے ضمن مىں ایسے جواب دىا جائے
ضرورى كلیات اور قاعدے بھى ذكر كر دىے جائىں ،جن كو
سمجھ لىنے سے اىك تو پرانے شبہات كا جواب مل جائے ،اور
دوسرا ىہ كہ اگر زندگى مىں پھر كبھى ان شبہات جىسا كوئى
دوسرا نىا شبہ سامنے آ جائے ،تو اپنا ذہن بھى ان شبہات كو
دور كر سكے ،اس لىے كہ خود اپنا ذہن بھى ان قاعدوں اور
اصولوں كو سمجھ چكا ہو گا۔ تو امىدہے كہ اس طرح جواب دىنے
إن شَاء هللاُ تعَالَى.
سے زىادہ نفع حاصل ہو گاْ ،
4
دى ،اور كوئى بعىد نہىں كہ وعظ كى سفارش كى درخواست بھى
كى ہو۔ جناب نواب صاحب كا رقعہ ،رات كے وقت اسى مضمون
ت خود ما بدولت تشرىف الئے ،اور
كا پہنچا ،اور صبح كو بذا ِّ
اپنے ساتھ ہى كالج لے گئے۔
جمعہ كا دن تھا۔ وہاں ہى نماز پڑھى ،اور ان كے كہنے
كى وجہ سے ،عصر كى نماز تك كچھ بىان كىا ،جس كا خالصہ
آگے «افتتاحى تقرىر» كے عنوان كے تحت مذكور ہے۔ كالج كے
طالب علموں نے جس توجہ سے بىان كو سنا ،اس سے ىہ اندازہ
ہوا كہ ان كو اىك درجے مىں حق كى طلب اور انتظار ہے ،اور
فہم اور انصاف كے آثار بھى معلوم ہوئے۔چنانچہ آئندہ كے لىے
بھى وقتًا فوقتًا ،اصالحى مضامىن اور مواعظ سنانے كے خواہاں
ہوئے ،جس كو احقر نے دىنى خدمت سمجھ كر خوشى سے
منظور كر لىا۔
اور اس حالت كو دىكھ كر ذہن نے ىہ تجوىز كر لىا ،كہ
گذشتہ سطور مىں جس مختصر انداز مىں كتاب لكھنے كا خاكہ
بىان كىا ہے ،اسے مزىد مختصر كروں ،چنانچہ اس تجوىز كے
بعد سابقہ صورت مىں تبدىلى بھى ہو گئى۔ وہ ىہ كہ جزئى جزئى
شبہات كے جمع ہونے كا كام ،جو كہ اوروں كے كرنے كاہے،
اس كا انتظار چھوڑ دىا جائے۔ اور جو شبہات اب تك كانوں سے
خود سنے ہىں ،اور جو اعتراضات كتابوں مىں خود پڑھے ہىں،
صرف اُن كو سامنے ركھ لىا جائے ،اسى كى روشنى مىں
ضرورى مقدار متعىن كر لى جائے،اور پھر اپنے وعظوں كے
ذرىعے ،ان شبہات كے جوابات كو ،ان طالب علموں كے سامنے
بىان كر دىاجائے۔
اور جو لوگ ان مجلسوں مىں موجود نہ ہو سكتے ہوں،
ان كو فائدہ پہنچانے كى غرض سے انہى باتوں كو مختصر كر
كے ،اور اس كا خالصہ تىار كر كے ،لكھ كر شائع بھى كر دىا
جائے۔اور وقت اور حالت كے اختالف كى بنا پر ،خواہ تقرىر
5
پہلے كى جائے اور تحرىر بعد مىں شائع كى جائے ،ىا اس كے
برعكس ،تحرىر پہلے شائع كى جائے ،اور تقرىر بعد مىں ہو۔
اور اگر اس كام كے دوران ہى كچھ حضرات ہمت
فرمائىں ،اور عمومى شبہات كو جمع كر كے مجھ تك پہنچا دىں،
تو جس مختصر تصنىف كا خاكہ پہلے بىان ہو چكا ،اس خاكے
كے مطابق عمل كر كے اسے بھى مرتب كر دىا جائے۔اور اُس
تحرىر كو ،اِّس رسالے كا دوسرا حصہ بنا دىا جائے۔ ورنہ ْ
إن
شَا َء هللاُ تعَالَىاس ابتدائى رسالے كے بھى ،قرىب قریب كافى ہو
جانے كى امىد ہے۔ اور اگر كوئى استاد اىسا مل جائے ،جو اس
رسالے كو سبقًا سبقًا پڑھا دے ،تو اور بھى زىادہ اور كامل نفع
ہو۔
اور اگر هللا تعالى كسى كو ہمت دے ،اور وہ ملحدىن اور
اعتراض كرنے والوں كى كتابوں كو پڑھے ،اور ان كتابوں مىں
سے ،تمدن كے اپنى طرف سے گھڑے ہوئے قواعد ،ىا سائنس
كے ،اسالم كے ساتھ تعارض كى بنىاد پر جو شبہات پىش كىے
گئے ہىں،انہىں جمع كرے اور ان كے تفصىلى جوابات اىك كتاب
مىں قلم بند كر دے ،تو اىسى كتاب «علم كالم جدىد » كے مفہوم
كا ٹھىك ٹھىك مصداق ہو جائے ،جس كا اىك جامع نمونہ،فاصل
طرابلسى كے افادات سے ،ال َح ْمدُ هللِّ تعَالى« ،رسالہ حمىدىہ» كى
مدون بھى ہو چكا ہے ،اور جس كا ترجمہ «سائنس
صورت مىں َّ
واِّسالم» ،كے نام سے ہندوستان مىں شائع ہو چكا ہے ،اور اكثر
طبىعت والوں كو مطبوع ونافع بھى ہوا ہے۔
ق .اَللَّ ُھ َّم یَس ِّْر لَنَا َھذَا
قَ ،وبِّیَ ِّد ِّہ أ َ ِّز َّمةُ التَّحْ ِّق ْی ِّ
ي الت َّ ْوفِّ ْی ِّ
وهللاُ َو ِّل ُّ
ق. ع ْون ََك لَنَا َخی َْر َرفِّ ْی ِّ َّ
الط ِّریْقَ َ ،واجْ عَ ْل َ
6
افتـتاحی تقـریر
جوبطورخطبے کے ہے
ﭷﭸﭹﭺﭻ
()1
. ںﮠﮊَ[سورةَلقمان]15َ: ﮋﮛﮜﮝں
آج کی تقریر کسی خاص موضوع پر وعظ نہیں ہے ،بلکہ
مختصر طور پر صرف ان اسباب کا بیان کرنا مقصد ہے جن کی
وجہ سے علماء کرام کے بیانات سننے كے باوجود آپ کو پورا
فائدہ نہیں ہوا ہوگا۔ اور اگر ان اسباب کی صحیح تشخیص کر
کے ،ان کی تالفی نہ کی گئی ،اور ان غلطیوں کودور نہ کیا گیا
،توآئندہ بھی ایسا ہی ہوتا رہے گا ،کہ اگر علماء کے بیانات سنے
بھى گئے،توفائدہ نہىں ہو گا۔ان اسباب کا حاصل آپ حضرات کی
چند ایک کوتاہیاں ہیں۔
یہ ہے کہ شبہات روحانی بىمارىاں ہیں ، پہلی کوتاہی:
مگر اس کے باوجود انہیں بىمارى نہیں سمجھا گیا۔ یہی وجہ ہے
کہ ان کے ساتھ وہ برتاؤ بھی نہیں کیا گیا جو جسمانی بیماریوں
کے ساتھ کیا جاتا ہے۔دیکھیے! اگر خدا نخواستہ کبھی کوئی
مرض الحق ہواہوگا ،تو کبھی یہ انتظار نہ ہوا ہو گا کہ کالج میں
جو طبیب یا ڈاکٹر مقرر کیا گیا ہے ،وہ خودہمارے کمرے میں آ
کر ہماری نبض دیکھے ،اور عالج کرے۔ بلکہ خود اس کی قیام
گاہ پر حاضر ہوکر ،اس سے اظہار کیا ہو گا۔ اور اگر اس کے
عالج اور تدبیر سے فائدہ نہ ہوا ہو گا ،تو کالج کی حدود سے نکل
کر شہر کے سول سرجن کے پاس ہسپتال جا پہنچے ہوں گے۔
سورۂ لقمان كى آیت كا مذكورہ باال ٹكڑا تالوت كر كے ،اىك لمبا مضمون ()1
بىان كىا گىا تھا ،مگر ىہاں پر اس كا خالصہ لكھا جاتا ہے۔وهللاُ ال ُم َوفِّ ُق.
7
اور اگر اس سے بھی فائدہ نہ ہوا ہو گا ،تو اپنا شہر چھوڑ کر
دوسرے شہروں کا سفر کیا ہو گا۔اور سفر کے مصارف ،معالج
کی فیس ،اور دوائیوں کا سامان ،سب کچھ میں بہت کچھ خرﭺ
بھی کیا ہو گا۔ غرض ،جب تک بیماری سے شفا نہ مل جائے،
تب تک صبر نہ آیا ہو گا۔
پھر كىا وجہ ہے كہ ان شبہات کے پیش آ جانے کے وقت
اس کا انتظار ہوتا ہے کہ :علماء خودہماری طرف متوجہ ہوں۔ آپ
خود ان کے پاس جا کر ان سے کیوں نہیں پوچھتے؟۔اور جا کر
کسی عالم سے پوچھا ،مگر آپ کو شفا نہیں ہوئی ،اور شبہ دور
نہیں ہوا( ،خواہ اس وجہ سے کہ ان کا جواب کافی نہیں تھا ،خواہ
اس وجہ سے کہ وہ جواب آپ کے ذوق کے مطابق نہیں تھا) ،تو
کیا وجہ ہے کہ دوسرے علماء سے جا کر پوچھا نہیں جاتا؟۔یہ
کیسے سمجھ لیا جاتا ہے کہ :اس شبہے کا جواب کسی سے نہ
ہو سکے گا۔ تحقیق کر کے تو دیکھنا چاہیے۔حاالں کہ جس قدر
خرچہ جسم کے عالج میں ہوتا ہے ،یہاں اس کے مقابلے میں
کچھ بھی خرﭺ نہیں ہوتا۔ ایک جوابی خط بھیج کر ،جس عالم سے
چاہو ،جو چاہو ،پوچھنا ممکن ہے۔
دوسری کوتاہی :یہ ہے کہ :اپنی سوﭺ ،فہم اور رائے
پر پورا اعتماد کر لیا جاتا ہے ،کہ ہمارے خیال میں تو کوئی
غلطی نہیں ہے۔اور یہ خىال بھی كسى سے پوچھنے کے لیے
کسی سے رابطہ نہ کرنے کی بڑی وجہ ہے۔ سو یہ بھی بڑی
غلطی ہے۔ اگر اپنے خیاالت کی تحقیق علماء سے کی جانے
لگے ،تواپنی غلطیوں پر اسی وقت اطالع ہونے لگے۔
یہ ہے کہ :اتباع ،یعنی ماننے کی تیسری کوتاہی:
عادت کم ہے۔ اور اسی وجہ سے کسی معاملے میں ماہرین کی
تقلید نہیں کرتے ،یعنی ان کا کہا نہیں مانتے۔ ہرہر معاملے میں
دالئل ،اور اَسرار ،اور ِّل ِّمیَّات ڈھونڈے جاتے ہیں ،حاالں کہ جو
خود کامل نہ ہو ،اسے تقلید کے سوا ،یعنی ماہر کی بات مانے
بغیر چارہ نہیں۔
8
اس سے یہ نہ سمجھ لیا جائے کہ :شرىعت كے ماہر
علماء کے پاس دالئل اور علتوں کا علم نہیں ہے۔ سب کچھ ہے،
مگر بہت سے معامالت ایسے ہیں جو آپ کی عقل سے اوپر کے
ہیں۔ جیسے اقلیدس کی کسی شکل کا ایسے شخص کو سمجھانا
بہت مشكل ہے ،جو اس علم كے لىے متعىن كى گئى حدود ،اس
كے لىے وضع كردہ اصول ،اور اس كے متعارف علوم سے
ناواقف ہو ۔اسی طرح شرائع کے لیے کچھ علم ایسے ہیں جن کا
سیکھنا آالت کے درجے میں ہے ،اور ابتدائی درجے میں ان کا
سیکھنا اس لیے بہت ضروری ہے کہ تحقیق کے طالب کے لیے
ان کا حاصل کرنا ضروری ہے۔ اور جس شخص کے پاس ان
بنیادی علوم وفنون کے حاصل کرنے کى فراغت اور وقت نہ
ہو ،اس کا حل یہی ہے کہ وہ تقلید کرے ،یعنی اس علم كے ماہر
شخص كى مان کر چلے۔
چنانچہ آپ حضرات اپنا دستور العمل اس طرح قرار دیں
کہ :جوشبہ بھی پیش آئے ،اس کو علماء سے پوچھیں۔ اور جب
تک وہ شبہ حل نہ ہو ،برابر ان کے سامنے پیش کرتے رہیں،
اور اپنی رائے پر اعتماد نہ فرمائیں۔ اور اگر کوئی شبہ ایسا پیش
آ جائے کہ تحقیقی طور پر سمجھ نہ آئے ،تو اس وقت ىہ سمجھىں
كہ ہمارے اپنے اندر کمی ہے ،اور ماہر علماء پر اعتماد کریں،
اور ان کا اتباع کریں ،یعنی ان کی بات کومان لیں۔ اِّن شا َء هللا
تعالی ،بہت جلد پوری اِّصالح ہو جائےگی۔
تمہید
مع تقسیم حکمت ،جو بطور مقدمہ کے ہے
جس کوفلسفہ کہتے ہیں ،ایک ایسا عام مفہوم حکمت :
ہے ،جس سے کوئی علم خارج نہیں۔ اور اسی میں شریعت بھی
9
داخل ہے۔اور اسی تعلق کی وجہ سے اس جگہ حکمت سے بحث
کی جارہی ہے۔
وجہ یہ ہے کہ «حکمت» :موجودہ حقائق کے اىسے علم
کا نام ہے ،جو واقع کے مطابق ہو ،اس حیثیت سے کہ اس سے
نفس کو کوئی معتد بہ کمال بھی حاصل ہو۔ اور جتنے بھى علوم
ہیں ،سب میں کسی نہ کسی حقیقت ہی کے احکام ذكر كىے جاتے
ہیں۔
غرض ،پہلے درجے میں اس حکمت کی تقسم کی جائے،
تو دوقسمىں بنتی ہیں ،کیوں کہ جن موجودات(موجود چىزوں)
سے بحث کی جاتی ہے ،یا تو وہ ایسے افعال واعمال (یعنی
حرکات اور کام) ہیں ،جن کا وجودہماری قدرت اوراختیار میں
ہے ،یا ایسے موجودات ہیں ،جن کا وجود ہمارے اختیار میں نہیں۔
ت عملیہ ہے ،اور
پہلی قسم کے احوال جاننے کا نام :حکم ِّ
ت نظریہ ہے۔ اور ان
دوسری قسم کے احوال جاننے کانام :حکم ِّ
دوقسموں میں سے ہر قسم کی تین تین قسمیں ہیں ،کیوں کہ :
ت عملیہ یا تو ایک ایک شخص کے مصالح کا علم حکمی ِّ
ب اَخالق کہتے ہیں۔
ہے ،اور اسی کو تہذی ِّ
اور یا ایک ایسی جماعت کے مصالح کا علم ہے ،جو ایک
گھر میں رہتے ہیں۔ اسے تدبیر المنزل کہتے ہیں۔
اور یا ایسی جماعت کے مصالح کا علم ہے جو ایک شہر
ت مدنیہ کہتے ہیں۔ یہ
یا ایک ملک میں رہتے ہیں۔ اس کو سیاس ِّ
ت عملیہ کی ہوئیں۔
تین قسمیں حکم ِّ
ت نظریہ :یا توایسی چیزوں کے حاالت کا علم اور حکم ِّ
ً
اصال مادَّہ کی محتاج نہیں ،نہ وجود ِّ خارجی میں ،نہ ہے ،جو
علم الہی کہتے ہیں۔
وجو ِّد ذہنی میں۔ اس کو ِّ
اور یا ایسی چیزوں کے احوال کاعلم ہے جو خارجی
وجود میں تو مادے کی محتاج ہیں ،مگر ذہنی وجود میں نہیں۔ اس
علم ریاضی کہتے ہیں۔
کو ِّ
10
اور یا ایسی چیزوں کے احوال کا علم ہے ،جو ذہنی وجود
علم طبعی
ہویا خارجی ،دونوں میں مادے کی محتاج ہیں ،اس کو ِّ
ت نظریہ کی ہیں ،پس حکمت کی کل
کہتے ہیں۔یہ تین قسمیں حکم ِّ
یہ چھے قسمیں ہوئیں۔
ب اخالق۔
تہذی ِّ .1
تدبیر منزل۔ .2
سیاست مدنیہ۔ .3
علم الہی۔ .4
علم ریاضی۔ .5
علم طبعی۔ .6
اور ان قسموں کی آگے بہت سی ذیلی قسمیں بنتی ہیں،
مگر بنیادی اوراصولی قسمیں ان ہی میں منحصر ہیں۔
اب جاننا چاہیے کہ شریعت کا اصلی مقصد (اس بات كى
تعلىم ،ىعنى) ىہ بات بتانا اور سكھانا ہے كہ :خالق (ىعنى هللا تعالى)
كے حقوق كى ادائى ،اور سارى مخلوق كے حقوق كى ادائى ،
اس طریقے سے كرنا ضرورى ہے جس سے ان سب حقوق كى
ادائى ،هللا كى رضا كا ذرىعہ بن جائے ،گو اس كا ىہ فائدہ بھى
ہو سكتا ہے كہ دنىا كے كام بھی بہتر انداز سے ہونے لگىں۔ َ
اور كبھى كبھى ایسا لگتا ہے كہ شرىعت كے حكم كو پورا
كرنے سے دنیا كا فائدہ حاصل نہىں ہو سكتا ،ىا دنىاوى نقصان
ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے ،تو جان لىنا چاہىے كہ :اىسى صورت
مىں شرىعت نے كسى اىك شخص كے فائدے كو سامنے نہىں
ركھا ،بلكہ جمہور ىعنى سارے معاشرے كے لوگوں كے فائدے
كو سامنے ركھ كر حكم دىا ہے۔ اور بعض مرتبہ اىسا بھى ہوتا
ہے كہ كسى بات مىں دنىاوى فائدہ تو تھا ،لىكن اس مىں روحانى
نقصان بھى تھا ،تو شرىعت نے اس روحانى نقصان كو دور
كرنے كے لىے دنىاوى فائدے كو چھوڑ دىا ،اور حكم جارى كر
دیا۔ َبہرحال شرىعت كا اصلى مقصود یہی ہے كہ هللا تعالى كى
رضا حاصل ہو جائے۔
11
اب دىكھو كہ ریاضی كے علم ،ىا طبعى علم (ىعنى مادے
كےعلم ) كو ،هللا تعالى كے ىا بندوں كے حقوق ادا كرنے مىں
کوئی دخل نہیں ہے ،اسى لىے شریعت نے مقصود بنا كر ،ان
سے كچھ بحث نہیں کی۔ اور اگر شرعى علوم مىں کہیں طبعى
علوم ودىگر علوم کا کوئی مسئلہ بىان ہو تا ہے ،تو صرف آلے
كے طور پر بىان ہوتا ہے،
ىا پھر اىسا ہوا كرتا ہے كہ كسى جگہ آگے جا كر (الہى
مسائل اور) شرعى علوم كے مسائل بیان كرنے ہوتے ہىں ،لىكن
ان مسائل كو ذرا آسان كر كے سمجھانے كے لىے دلىل كے طور
پر ،ىا مقدمے كے طور پر طبعى علوم كا ذكر كر دىا جاتا ہے
۔ تو مقصد وہى شرعى اور الہى مسائل كا بىان كرنا ہوتا ہے،
طبعى علوم كو بىان كرنا مقصود نہىں ہوتا۔ اور ہمارى اس بات
ت ِّّل ُ ْو ِّل ْ
ي اّل َ ْلبَابﮊَ كى دلىل ىہ ہے كہ ایسے موقعوں پر ﮋآلیَا ٍ
،جىسے الفاظ كا ذكر ساتھ ہى فرما دىا جاتا ہے۔ َ
ت نظرىہ» كى ،ىعنى تو اب سمجھو كہ :اىك قسم تو «حكم ِّ
ت عملیہ ،اپنى تمام اَقسام سمىت باقی
علم الہى ،اور دوسرے حکم ِّ
ت نظرىہ» (علم الہى)،
رہ گئیں۔چوں کہ ان سب كو ،ىعنى «حكم ِّ
اور تمام اَقسام سمىت حکم ِّ
ت عملیہ كو،مذكورہ مقصد ،ىعنى هللا
تعالى اور هللا كے بندوں كے حقوق كى ادائى مىں دخل ہے ،اس
علوم شرعىہ مىں ان سب قسموں سے كافى بحث كى گئى
ِّ لىے
كو علوم شرعىہ مىں ،حكمت ِّ عملىہ كے مباحث ِّ ہے۔ چنانچہ
اتنى تفصىلى اور كمال سے بىان كر دىا گىا ہے كہ وہ لوگ بھى
جو خود كو فالسفہ كا متَّبع اور پىچھے چلنے واال كہتے ہىں،
ش ِّر ْی َع َة
إن ال َّ صاف لفظوں مىں اس كا اعتراف كر گئے ہىں كہَّ « :
ص ْی ٍل». ع َلى أ َ ْك َمل َوجْ ٍه َوأَت َِّم ت َ ْف ِّ ت ْال َو َ
ط َر َ ض ِّ ص َ
طفَ ِّویَّة قَ ْد قَ َ ال ُم ْ
انتھى(.كشف الظنون لحاجى خلیفة ،وأبجد العلوم وغیرھما).
12
وفكر كرنے كے بعد مجبور ہو كر ىہى اعتراف كرنا پڑا ہے كہ
شرعى علوم كے دالئل نہاىت پختہ اور كامل ترىن درجے كو
پہنچے ہوئے ہىں۔ چنانچہ:
شرىعت مىں جن چىزوں (اور علوم ) سے بحث كى جاتى
ہے،ان مىں سے ایک تو «علم اِّلہی» ہوا ،جس کے فروع (ىعنى
ذىل )میں سے وحى ،نبوت ،اور آخرت كے احوال بھی ہیں۔ اس
کا نام «علم عقائد » ہے۔
اور دوسرے نمبر پر شرىعت مىں جن چىزوں (اور علوم
ت عملیہ» ہے۔ اور شرىعت
) سے بحث كى جاتى ہے ،وہ «حكم ِّ
مىں اس كى درج ذىل قسمىں وارد ہوئی ہیں:
.1عبادات،
.2معامالت ،
.3معاشرات ،
.4اور اخالق۔
اور ىہ قسمىں ،ان مشہور قسموں سے جن كا ذكر پہلے
ت مدنىہ ،علیحدہ
تدبىر منزل ،اور سیاس ِّ
ِّ ہوا ،جىسے تہذیب ِّا َخالق،
اور مختلف نہىں ہىں۔ اور تھوڑا سا غور كرنے سے صاف پتہ
چل جاتا ہے كہ ىہ قسمىں ،انہى مذكورہ باال قسموں مىں ہى داخل
ہىں۔غرض كل پانﭻ علوم اىسے ہىں جنہىں شرعى علوم كہتے
ہىں۔ چار تو وہ قسمىں جن كا ابھى ذكر ہوا ،اور عقائد۔ اور ترتیب
وار انہىں یوں ذكر كىا جا سكتا ہے:
.5عقائد
.6عبادات
.7معامالت
.8معاشرات
.9اور اخالق
اس جگہ مجھےان پانچوں قسموں میں سے ہر اىك قسم
پر بحث كرنا مقصود نہیں ہے ،بلکہ ان میں سےصرف اُن باتوں
پر ہى بحث كروں گا جن پر نوتعلیم یافتہ لوگوں کو كسی وجہ
13
سے شبہ ہو گیا ہے۔ اور چونكہ وہ شبہات اعتقادی ہیں ،اس لىے
ىہاں كى سب بحثوں كا مقصد ىہ ٹھہرا كہ ان امور پر بحث
كروں جن كا تعلق «عقىدے» والى باتوں سے ہے۔
ترتىب كا تقاضا تو ىہ تھا کہ پہلے اىك قسم کے تما م
اىسے مسائل كو اكٹھا كر لىا جاتا جن پر ساتھىوں كو شبہات پىش
آئے ہىں۔ ان كے جوابات سے فارغ ہو كر دوسرى قسم كے مسائل
كو شروع کر لیا جاتا۔ لىكن جولوگ مىرے مخا َ
طب ہىں ،ان كى
توجہ اور نشاط كو باقى ركھنے كے لىے ىہ بات زیادہ مناسب
معلوم ہو رہى ہے كہ ملى ُجلى باتوں پر كالم كروں۔ چنانچہ ،آگے
اسی طور پر اپنے معروضات پیش کروں گاِّ ،إ ْن شَآ َء هللاُ ت َ َعا َلى.
اور اپنى ان معروضات کا لقب «اِّ ْنتِّبَاھَات»تجویز کرتا
ہوں۔ اورىہى تنبىہات اس مجموعے کے مقاصد بھى ہىں۔ اور ان
مقاصد سے پہلے كچھ اىسے قواعد كى تقرىر كى جاتى ہے ،اور
انہىں ذہن نشىن كراىا جاتا ہے ،جو اِّن مقاصد كے ساتھ اصو ِّل
موضوعہ كى نسبت ركھتے ہىں۔ اور مقاصد كى ابحاث مىں
مختلف مقامات پر اُن قواعد كا حوالہ بھى دىا جائے گا ،تاكہ بات
كو سمجھنے اور تسلىم كرنے مىں سہولت اور مدد ہو۔ هللا تعالى
مدد فرمائے۔ آمىن۔ فقط
(حضرت موالنا ) اشرف على عفى عنہ
مقام تھانہ بھون ،ضلع مظفر نگر َ
14
ا ُصو ِّل موضو َعـہ
.1كسی چیز کا سمجھ میں نہ آنا ،اس کے باطل ہونے کی
دلىل نہیں ہے۔
شـرح :باطل ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ دلیل سے اس کا
حق نہ ہونا سمجھ میں آ جائے۔ ىہاں پر دو باتىں ہىں:
اىك تو ىہ ہے كہ :كسى بات كا ہونا (ىا صحىح ہونا) سمجھ
میں نہ آئے۔
اور دوسرا ىہ ہے کہ :اُس بات کا صحىح نہ ہونا معلوم
ہوجائے۔
اور ان دونوں باتوں مىں بہت بڑا فرق ہے۔ َ
پہلى بات كا( ،ىعنى ىہ كہ ا ُس بات کا ہونا سمجھ میں نہ
آئے) ،حاصل یہ ہے کہ :چونكہ كسى چىز كا مشاہدہ نہىں ہوا،
ىعنى ویسا ہوتے نہىں دىكھا،اس لىے ذہن اس چیز کے اسباب یا
کیفیات كو سمجھ ہى نہىں سكا،اس لیے ان اسباب یا کیفیات كو
متعیَّن كرنے میں تذبذب كا شكار ہے ،اور تردُّد اور حىرت مىں
ڈوبا ہوا ہے۔ لیکن سوائے اس کے کہ یہ کہہ دے کہ :یہ کىسے
ہو ہوسكتا ہے؟ ،وہ اس پر قادر نہىں ہے کہ اس بات كے نہ
ہونے پر كوئى عقلى ىا نقلى صحىح دلىل قائم كر سكے۔
اور دوسرى بات کا (ىعنى یہ کہ اس کا نہ ہونا معلوم
ہوجائے) ،حاصل یہ ہے کہ:عقل اُس كى نفى( ،ىعنى اس كے نہ
ہونے ) پر كوئى صحیح عقلى ىا نقلى دلیل قائم کر سکے۔
ً
مثال :کسی دیہاتی نے جسے ریل دیکھنے کا اتفاق نہیں
،ہوا یہ سنا کہ رىل بغىر کسی جانور کے گھسىٹ كر لے جانے
كے ،خود بہ خود ہى چلتى ہے ،تو وہ بڑے تعجب سے كہے گا
15
کہ :یہ کیسے ہو سكتا ہے!!..؟ ،لیکن اس کے ساتھ ہی وہ اس پر
قادر نہیں ہے کہ اس کی نفى (ىعنى اىسا نہ ہو سكنے ) پر دلیل
قائم کر سكے۔ کیوں کہ اس کے پاس خود اس کاکوئی ثبوت نہیں
کہ جانور کے گھسىٹ كر لے جانے کے عالوہ،گاڑی کی تىز
اور دور تك مسلسل حرکت کا ،جانور كے گھسىٹ كر لے جانے
كے عالوہ کوئی اورسبب نہیں ہوسکتا۔ اس کو سمجھ میں نہ آنا
كہتے ہیں۔
اور اگر وہ محض اس بنىاد پر رىل كے چلنے كى نفى
كا حكم کرنے لگے ،اور راوی کو جھوٹا كہنے لگے ،تو عقالً
اس کو بے وقوف سمجھیں گے۔ اور بے وقوف سمجھنے کی
بنىادصرف ىہی ہوگی کہ تیری سمجھ میں نہ آنے سے نفی(نہ ہو
سكنا) کیسے الزم آئی۔ یہ كسى بات كےسمجھ میں نہ آنے کی
مثال ہے۔
اور اگرکوئی شخص کلكتہ سے ریل میں سوار ہوکر دہلی
اُترا ،اور اىك دوسرے شخص نے اس کے سامنے ىہ بیان کیا کہ
آج یہ رىل گاڑی کلکتہ سے دہلی تك كا فاصلہ ایک گھنٹے میں
طے كر كے آئی ہے ،حاالنكہ وہ آدمى خود اس ریل مىں سفر كر
كے كئى گھنٹے مىں ىہ سفر طے كر كے پہنچا ہے ،تو وہ مسافر
اس کی بات نہىں مانے گا ،اور اسے جھوٹا كہے گا۔ اس كى وجہ
ىہ ہے كہ اس کے پاس اس بات كے نفى کی دلیل موجود ہے۔
اور وہ اىك تو خود اس كا اپنا مشاہدہ ہے ،اور دوسرے اس كے
ساتھ سفر كر كے آنے والے وہ د و ڈھائى سومشاہدہ کرنے والوں
كى( ،جو کہ اسی گاڑی سے اُترے ہیں) شہادت اور گواہى ہے۔
یہ اس بات كى مثال ہےكہ كسى بات کا نہ ہونا( ،ىا صحىح نہ ہونا)
سمجھ میں آجائے۔
اسی طرح اگر کسی شخص نے یہ سنا کہ قیامت کے روز
پل صراط پر چلنا ہوگا ،اور وہ بال سے باریک ہوگا۔ اب چوں کہ
پہلےكبھی ایسا واقعہ دیکھا نہیں ہے ،اس لئے یہ بات ذہن مىں
آنا كہ کیوں کر ہوگا؟ ،كىسے ہوگا؟ ،وغیرہ وغیرہ ،تو اس پر
16
تعجب تو ہو سكتا ہے ،اور ممكن ہے كہ ذہن مىں ىہ بات آ جائے
كہ بال سے باریك پل صراط پر كىسے چال جا سكتا ہے!!..؟،
لیکن ظاہر ہے کہ عقل کے پاس اس کی نفى (ىعنى نہ ہو سكنے)
پر بھی کوئی دلیل نہیں ہے،کیوں کہ سرسری نظر میں (اس كى
نفى كى ) اگر كوئى دلیل ہوسکتی ہے تو یہ ہوسكتی ہے کہ قدم
تواتنا زىادہ چوڑا ہے ،اورقدم رکھنے کی جو چیز ہے وہ اتنى
كم چوڑى ہے جس پر پاؤں کاٹکنا ،اور پھر اس پر چلنا ممکن
نہیں ہے۔ لیکن خود اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ مسافت(ىعنى
جس پر چال جائے) ،کی وسعت(ىعنى چوڑائى) كا ،قدم سے ز ىادہ
چوڑا ہونا عقلى لحاظ سے ضروری ہے۔
یہ اور بات ہے کہ عادت یوں ہی دىکھی گئی ،اس کے
خالف نہ دیکھا ہو ،یا دیکھا ہومگراتنا تفاوت(اور واضح فرق )
نہ دیکھا ہو۔جىسے بعض لوگوں کورسی پر چلتے دىكھا ہے،
مگر اس میں كىا محال ہے کہ وہاں عادت ہى بدل دى جائے۔ لہذا،
اگر كوئى شخص پل صراط پر چلنے كى تكذىب کرے گا ،تو اس
کی حالت اس شخص کی سی ہوگی جس نے ریل گاڑى کے،
بغىر جانوروں كے كھىنچنے كے،خود بہ خود چلنے کی تکذیب
کی تھی۔
البتہ اگر کسی شخص نے یہ سنا کہ :هللا تعالی قیامت كے
دن میں فالں بزرگ کی اوالدکو ،اس بزرگ کے قرب اور رشتے
دارى کی وجہ سے مقرب ومقبول بنا لے گا ،اور جنت مىں داخل
كر دے گا ،خواہ اُس بزرگ كا وہ رشتے دار مؤمن ہو ىا مؤمن
نہ ہو۔ تو چونکہ اس کے خالف پر دلیل قائم ہے ،اور دلیل وہ
نصوص اور عبارتىں ہیں جن سے کافركا قىامت مىں نہ بخشا
جانا ثابت ہوتا ہے ،اس لئے اس بات كى نفى کی جائے گی ،اور
اس کو باطل کہا جائے گا۔اور كسى بات كے سمجھ میں نہ آنے
اور كسى بات كے باطل ہو نے مىں ىہى فرق ہے۔
.2جو بات عقلى لحاظ سے ممكن ہواوركوئى صحیح نقلى
دلیل اس عقلى ممكن بات کے وقوع کو بتاتى ہو ،تو اس بات
17
کے وقوع کا قائل ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح اگر نقلى دلیل
اس کے عدَم وقوع ( ،ىعنى واقع نہ ہونے ،ىا واقع نہ ہو سكنے
)کو بتائے ،تو اس كے عدَم وقوع( ،ىعنى واقع نہ ہونے ،ىا واقع
نہ ہو سكنے) کا قائل ہونا ضروری ہے۔ َ
شـرح :واقعات تین قسم کے ہوتے ہیں:
.1اىك قسم :ان واقعات كى ہے جن کے ہونے کو عقل ضروری
اور الزمى بتائے ،مثال :ایک ،دو كا آدھا ہوتا ہے ۔ یہ بات
ایسى الزم الوقوع (ىعنى الزمى طور پر واقع ہونے والى)ہے
کہ ایک اور دو کی حقیقت جاننے کے بعد عقل اس کے
خالف بات کو یقینا غلط كہتى اورسمجھتى ہے۔ اس کو
« َواجب» کہتے ہیں۔
.2دوسرى قسم :ان واقعات كى ہے جن کے نہ ہونے کو عقل
ضروری اور الزم بتائے۔ م ً
ثال :ایک ،دو كے مساوى (ىعنى
برابر) ہے۔ اب ىہ اىسا « َال ِّز ُم النَّ ْفي ِّ»امر ہے ،ىعنى ایسى بات
ہے كہ جس كى نفى اور انكار كرنا الزمى ہے ،كہ عقل اس
بات كو ىقىنًا غلط سمجھتى ہے۔ اس كو « ُم ْمتَنِّ ْع» اور
« َم َحال» كہتے ہىں۔
.3تىسرى قسم :ان واقعات كى ہے جن كے وجود (ىعنى ہونے
) كے بارے مىں نہ تو عقل ىہ كہے كہ :ىہ ہونا الزمى ہے،
(كہ ضرور ہونا چاہىے) ،اور نہ ہى عقل ان كى نفى كو
ضرورى سمجھے ،بلکہ دونوں شقوں کو ُمحْ ت َ َمل قراردے،
(ىعنى عقل ىہ كہے كہ :ہو سكتا ہے كہ اىسا ہو جائے ،اور
ہو سكتا ہے كہ اىسا نہ ہو) ۔ اور اس واقعہ كے ہونے نہ
ہونے کاحكم کرنے کے لئے كسی اور نقلى دلیل پر نظر
كرے۔
ً
مثال یہ کہنا کہ فالں شہر کا رقبہ فالں شہر سے زىادہ ہے۔
اب كسى اىك شہر كے رقبے كا كسى دوسرے شہر كے رقبے
سے زىادہ ہونا اىك اىسى بات ہے كہ ىا تو دونوں شہروں كا رقبہ
18
جانچا اور ماپا جائے ،اور معلوم ہونے پر حكم لگادىا جائے كہ
فالں شہر كا رقبہ فالں سے زىادہ ہے۔ ىا پھر جنہوں نے پہلے
جانﭻ ركھا ہے ،ان كى تقلىد كر كے ( ،ىعنى اس اعتماد پر كہ
فالں شخص نے جو ماپا اور جانچا ہے ،وہ صحىح ہے) ،اسے
مان لىا جائے۔ اور اگر ىہ دونوں باتىں نہ ہوں تو عقل نہ اس كى
صحت كو ضرورى قرار دىتى ہے ،اورنہ ہى اس كے باطل ہونے
كو ضرورى قرار دىتى ہے۔بلكہ اسكے نزدىك احتمال ہے كہ ىہ
حكم صحىح ہو ىا غلط ہو۔ اسے« ُم ْم ِّك ْن» كہتے ہىں۔
پس اىسے « ُم ْم ِّك ْن» امر کا واقع ہونا ،اگر نقلى دلیل سے
ثابت ہو،تو اس کے ثبوت اور وقوع کا اعتقاد «واجب» ہے۔ اور
اگر نقلى دلىل سے اس کا نہ ہوناثابت ہوجائے تو اس کے عدَم
وقوع( ،ىعنى واقع نہ ہونے ) کا اعتقاد ضروری ہے۔ مثال :اوپر
ذكر كى گئى مثال میں ،جانﭻ کے بعد کہیں اس کو صحىح کہا
جائے گا ،اور کہیں غلط۔
اسی طرح آسمانوں کا اس طور سے ہونا ،جیسا جمہور
اہل اسالم کا اعتقاد ہے ،عقلى لحاظ سے «ممکن» ہے۔ ىعنى
صرف عقل کے پاس نہ تو اس کے ہونے کی کوئی دلیل ہے ،اور
نہ ہى اس كے نہ ہونے کی کوئی دلیل ہے۔ عقل دونوں احتمالوں
کو تجویز کرتی ہے۔ اس لئے عقل کو اس کے وقوع یا عدَم وقوع
کا حكم لگانے كے لىے كسى نقلى دلیل کی طرف رجوع کرنا
پڑا۔
چنانچہ قرآن وحدیث سے اس کے وقوع پر داللت کرنے
والی نقلى دلىل مل گئى۔ اس لىے اس کے اس طرح واقع ہونے کا
قائل ہونا الزم اور واجب ہے۔
اور اگر فیثاغورثى نظام کو اس کے عدم وقوع کی نقلى
دلیل سمجھا جائے ،تو یہ محض ناواقفى ہے ،كىوں كہ غایت مافى
الباب ( ،ىعنى زىادہ سے زىادہ اگر كچھ ہو سكتا ہے ،تو )یہى ہو
سكتا ہے كہ اس حساب کی درستی ،آسمانوں کے وجود یا حرکت
پر موقوف نہیں ہے۔ سو کسی امر پر موقوف نہ ہونا ،اس بات
19
كے عدَم كى( ،ىعنى نہ ہونے كى) دلیل نہیں۔ ً
مثال :كسى واقعى
کام کا تحصیل دار پر موقوف نہ ہونا ،اس بات کی دلیل كىسے
ہوسکتی ہے کہ شہر میں تحصیل دار موجود بھی نہیں ہے۔ زىادہ
سے زىادہ ىہى كہا جا سكتا ہے كہ ایسے کا م جس كا پورا ہوجانا،
جس كا پورا ہوناتحصیل دار پر موقوف نہىں تھا ،تحصیل دار کی
شہر مىں موجودگی کی بھى دلیل نہیں ہے۔ لیکن كسى دوسری
دلیل سے تو تحصىل دار كى شہر مىں موجودگی پر استدالل كىا
جا سكتا ہے ،جىسے ىہ كہ تحصىل دار صاحب اپنے دفتر مىں
موجودہوں تو دروازے پر اردَلى موجود رہتا ہے ،اور اس وقت
اَردلى دفتر كے دروازے پر موجود ہے۔ لہذا ىہ اس بات كى دلىل
ہے تحصىل دار صاحب شہر مىں موجود ہىں۔ َ
.3كسى بات كا عقلى لحاظ سے محال ہونا( ،ىعنى نہ ہو سكنا)
اور چىز ہے ،اور ُم ْست َ ْب َعد (ىعنى عادت سے بعىد ہونا)اور چىز
خالف عادت
ِّ ہے۔ محال :عقل كے خالف ہوتا ہے۔ اور ُم ْست َ ْب َعد
ہوتا ہے۔عقل اور عادت كے احكامات ُجدا ُجدا ،ىعنى علىحدہ
علىحدہ ہىں۔ دونوں كو اىك سمجھنا غلطى ہے۔ محال كبھى واقع
نہیں ہوسکتا،جب كہ ُم ْست َ ْب َعد واقع ہوسکتا ہے۔ محال کو خالف ِّعقل
غیْر ُمد َْرك ِّب ْال ِّف ْعل( ،ىعنى اس كو عام
كہیں گے ،اور ُم ْست َ ْب َعد کو َ
طور پر انسان اپنے عادى قُوى كے ذرىعے انجام نہىں دے سكتا)۔
ان دونوں کوایک سمجھنا غلطى ہے۔
شـرح :محال وہ سے جس کے نہ ہونے کو عقل
ضروری بتائے اسے « ُم ْمتَنِّ ْع» بھی کہتے ہىں ،جس کامثال سمىت
ذكر ،اص ِّل موضوع نمبر ()2مىں گزر چکا ہے۔
اور ُم ْست َ ْب َعد :وہ ہے جس کے واقع ہونے كو عقل جائز
(اور درست ) بتائے( ،كہ اىسا ہو سكتا ہے)۔لىكن چونکہ اس کا
وقوع ( ،ىعنى اىسا ہوتے ہوئے)كبھی دیکھا نہیں،ىا دیکھنے والوں
سے بکثرت سنا نہیں ،اس لئے اس کے واقع ہونے کو اچانك
سن کر ،شروع مىں حىرت اور تعجب مىں ڈوب جائے ،جس کا
مثال كے ساتھ ذکر ،ا ص ِّل موضوع نمبر ()1میں« ،کسی چیز
20
کے سمجھ میں نہ آنے» کے عنوان سے کیا گیا ہے۔ ان کے احکام
جدا ُجدا یہ ہیں کہ:
محال کی تکذیب اور انكار :صرف محال ہونے كى بنا پر
ہى «واجب» ہے۔
اور مستبعد کی تکذیب اور انکار :صرف اس كے مستبعد
ہونے كى بنا پر جائز بھى نہىں۔
البتہ اگر «اِّستبعاد» کے عالوہ ،تکذیب اور جھٹالنے كے
كچھ دوسرے دالئل بھى ہوں ،تو تکذیب جائز ہى نہىں ،بلکہ واجب
ہو گى ،جیسا كہ اوپر نمبر ( ،)1اور نمبر ( )2مىں مثالوں سے
معلوم ہو چكا ہے ،کہ اگر کوئی شخص کہے کہ :ایک ،دو كے
برابر ہوتا ہے ،تو اس کی تکذیب ضروری ہے۔ اور اگر کوئی
کہے کہ :رىل بغىر كسى جانور کے لگائے چلتی ہے ،تو تکذیب
جائز نہیں۔ اس كے باوجود كہ اىسے شخص کے نزدیک كہ جس
نے اب تک وہی عادت دیکھی ہو کہ جانور کو گاڑی میں لگا کر
چالتے ہیں ،اس طرح رىل كا چلنا مستبعد اورعجیب ہے۔
بلکہ جتنے واقعات کو بھى غیر عجیب سمجھا جاتا ہے،
وہ سبھى واقع میں عجیب ہیں ،مگر چونكہ ان باتوں كو ہوتے
ہوئے بار بار دىكھتے رہتے ہىں ،اور ان كو ہوتے دىكھنے كى
عادت ہو جاتى ہے ،اور طبىعت اس عجىب بات سے مانوس ہو
جاتى ہے ،تو اس كےعجیب ہونے کی طرف دھىان ہى نہیں جاتا،
غیْر ُم ْست َ ْب َعد اس میں برابر
لیکن واقع میں یہ سب ُم ْست َ ْب َعد اور َ
مثال :ریل کا اس طرح چلنا ،اور نطفے کا رحم میں جا کر ہیں۔ ً
زندہ انسان ہوجانا ،فى نفسہ اِّن دونوں كے عجىب ہونے میں کیا
فرق ہے!!..؟ ۔ بلکہ دوسرى بات واقعہ میں زیادہ عجیب ہے،
مگر جس دیہاتی نے كبھى بھى رىل کو اس طرح چلتے
نہ دىكھا ہو ،اور بچوں كى پىدائش کو ،وہ ہوش سنبھالنے كے
وقت سے ہی بكثرت سنتا آیا ہو،تو ضرور وہ جانور كے
كھىنچنے كے بغىر رىل كے چلنے كو اس وجہ سے عجىب
سمجھے گا كہ اسے اب تك اس عجىب بات كو دىكھنے سننے كا
21
موقع ہى نہىں مال تھا۔ اور دوسرى بات ىعنى بچوں كى تخلىق
وپىدائش كو ،جو كہ رىل كے چلنے سے كہىں زىادہ عجىب ہے،
عجىب نہىں سمجھے گا ،اس لىے كہ اسے اس عجىب كى عادت
تھى اور طبىعت اس عجىب بات سے مانوس تھى۔
اسی طرح جس شخص نے گراموفون سے ہمیشہ باتىں
اور آوازىں نكلتے دیکھا ،مگر ہاتھ پاؤں کو باتیں کرتے نہیں
دیکھا ،وہ گراموفون کے اس فعل کوعجىب نہىں سمجھتا ،اور ہاتھ
پاؤں کے اس فعل کو عجیب سمجھتا ہے۔ اورعجیب سمجھنے کا
تو مضائقہ نہىں ،لیکن یہ سخت غلطی ہے کہ صرف عجیب
نصوص کی تکذیب کومحال سمجھے ،اور محال سمجھ کر
کرے ،یا بالضرورت اس کی تاوىلیں کرے۔
غرض ،صرف استبعاد کی بنىاد پر ،اس میں محال باتوں
كے احکام جاری کرنا ،بہت بڑى اور عظىم غلطى ہے۔ البتہ
اگر استبعاد کے عالوہ ،کوئی اور صحىح دلیل بھی اس کے عدَم
وقوع( ،ىعنى واقع نہ ہو سكنے) پر قائم ہو،تو اس وقت اس کی
نفى كرنا واجب ہو گا ،جیسا كہ نمبر()1میں کلکتہ سے د ہلی
تک ایک گھنٹے میں ریل کے پہنچنے کی مثال ذکر کی گئی ہے۔
اور اگر كوئى صحىح دلیل ،اس بات كے وقوع(ىعنى ہو
سكنے) پر قائم ہو ،اور عدم وقوع (ىعنى نہ ہو سكنے ) پر اس
درجے كى دلىل نہ ہو ،تواس وقت وقوع كا حكم واجب ہو گا۔ ً
مثال:
آج كل تار كے بغىر پىغام پہنچانے والے آالت بننا شروع ہو گئے
ہىں۔لىكن جب تك اس قسم كے آالت نہ بنے تھے ،ىا بن تو چكے
تھے مگر لوگوں مىں مشہور نہ ہوئے تھے ،اور لوگوں نے اس
قسم كے آالت كے بارے مىں كچھ نہىں سنا تھا ،اگر اس وقت
كوئی شخص اس بات کی خبر دیتا کہ میں نے خود اس قسم كے
آلے کودیکھا ہے ،تو وہ خبر دىنے واال ىا تو اىسا شخص ہو تا
كہ جس كے بارے مىں پہلے سے ىقىنى طور پر معلوم ہو تا كہ
ىہ سﭻ ہى بولتا ہے ،اور ىا پھر اىسا شخص ہو تا كہ جس كے
22
بارے مىں پہلے سے ىقىنى طور پر معلوم نہ ہوتا كہ ىہ سﭻ ہى
بولتا ہے۔
تو اگر پہلے سے اس خبردینے والے کا ىقىنى طور پر
سچا ہونا ثابت نہ ہوتا ،تو حقىقت كى دنىا مىں تو پھر بھى اس كى
تکذیب اور اسے جھٹالنے کی كوئى گنجائش نہىں تھی ،مگر
ظاہرى طور پر كچھ گنجائش ہوسکتی تھی كہ اسے جھوٹا سمجھ
لىا جائے ،لیکن اگر اس کاسچا ہونا یقینى طور پر ثابت ہوتا ،تو
پھر تو اسے جھٹالنے كى كوئى گنجائش بالكل ہى نہیں ہو کتی۔
یہ محال اور مستبعد كے وہ احكام ہیں جن مىں وہ اىك دوسرے
سے جدا جدا ہىں۔
اس بنا پر چونكہ پل صراط کا اس كىفىت كے ساتھ ہونا
كہ وہ تلوار سے تىز،اور بال سے بارىك اىك پل ہے ،جس كے
اوپر سے سارى مخلوق كو قىامت كے دن گزرنا ہو گا ،محال
نہیں ،صرف مستبعد ہے ،اور اىك مخبِّر صادق( ،سچے بتانے
والے) نےاس کے وقوع کی خبر دی ہے ،اس لئے اس پل كو
عبور كرنے كى خبر کی نفی كرنا ،اور اسے جھٹالنا سخت غلطى
ہے۔ اسی طرح اس کی دور از كار تاویل کرنا بھى اىك فضول
حركت ہے۔
.4موجود ہونے کے لئے محسوس ومشاہد ہونا الزمى نہیں
ہے۔
واقعات پر وقوع (ىعنى واقع ہونے )کا حكم تین شـرح:
طرح کیا جاتا ہے:
ایک :مشاہدہ ،جىسے :ہم نے زىد كو آتا ہوا دىكھا۔
دوسرے :مخبِّر صادق كى خبر ،جىسے :کسی معتبر آدمی
نے خبردی کہ زید آیا ہے۔ اس میں ىہ شرط ہوگی کہ اس سے
زىادہ كوئى اور صحىح دلىل اس كى مكذِّب (ىعنى اسے جھٹالنے
والى) نہ ہو۔ ً
مثال :كسى نے یہ خبر دی کہ زید رات كو آیا تھا،
اور آتے ہی تم کوتلوار سے زخمی کیا تھا ،حاالں کہ مخاطب
23
کومعلوم ہے کہ مجھے كسى نے زخمی نہیں کیا ،اور نہ اب وہ
زخمی ہے۔پس یہاں مشاہدہ اس کا مكذِّب ہے ،اس لئے اس خبر
کو غیر واقع کہیں گے۔
(مىں -احسن -عرض كروں كہ« :مخبِّر صادق» ،مىں
«صادِّق»كى قىد خود مذكورہ باال شرط كا فائدہ دے رہى ہے۔ اس
لىے كہ مذكورہ باال مثال مىں تلوار سے زخمى كرنے كى خبر
دىنے واال خبر دىنے مىں «صادِّق» نہىں رہا۔ لہذا« ،مخ ِّبر صادِّق
كى خبر» ،خود اىسا عنوان ہے جس مىں سارے مقصود كوسمىٹ
لىا گىا ہے۔ہاں ،حضرت مؤلف كى مثال وضاحت كا فائدہ دے رہى
ہے) ۔وهللا الموفق۔ َ
تیسرے :عقلى استدالل،جىسے دھوپ کو دىكھا ،لىكن نہ
آفتاب كو طلوع ہوتے دىكھا ،اور نہ كسى نے آفتاب كے طلوع
ہونے كى خبر دى ،مگر عقل سے پہچان لىا كہ آفتاب طلوع ہو
گىا ہے ،اس لىے كہ عقل كو ىہ علم حاصل ہے كہ دھوپ تبھى
نكلتى ہے جب آفتاب طلوع ہو چكا ہو۔
ان تینوں واقعات میں وجود کا حكم تو مشترک ہے ،لیکن
محسوس صرف ایک واقعہ ہے ،اور باقی دو غیرمحسوس ہیں۔
تو ثابت ہوا کہ یہ ضرورى نہىں ہے کہ جس امر کو واقع کہا
جائے ،وہ محسوس بھی ہو،اور جومحسوس نہ ہو ،اس کو غیر
واقع کہا جائے۔
مثال :نصوص نے خبردی ہے کہ ہم سے جہت فوق میں
( ،ىعنى اوپر كى جانب مىں) ،سات بہت بڑے بڑے جسم ہیں جن
کوآسمان کہتے ہیں۔ اب اگر اس نظرآنے والے نیلے رنگ كے
خیمے کى وجہ سے ،ہمىں وہ نظر نہ آتے ہوں تو یہ الزم نہیں
کہ صرف اس وجہ سے ان سات آسمانوں كےوقوع (ىعنى موجود
ہونے )كى نفى كر دى جائے ،بلكہ عىن ممكن ہے کہ وہ موجود
ہوں اور چوں کہ مخبِّرصا ِّدق نے اس کی خبردی ہے ،اس لئے
اس کے وجود کا قائل ہونا ضروری ہوگا ،جیسا كہ
اصول ِّموضوع نمبر()2میں مذکورہے۔
24
نصوص منقولہ
ِّ .5منقوالت ِّ محضہ (ىعنى جو باتىں صرف
سے پتہ چلىں) پر ،عقلى دلیل قائم کرنا ممکن نہیں ،اس لیے ایسی
دلیل کامطالبہ كرنا بھى جائز نہیں۔
25
کہ ان واقعات کا عقلى لحاظ سے محال ہونا کسی دلیل سے ثابت
نہیں ،گو سمجھ میں نہ آئے ،کیوں کہ ان دونوں کا ایک ہوناصحىح
نہیں ،جیسا نمبر ( )1میں بیان ہوا ہے ،پس ان واقعات كا واقع
ہو نا ممکن ٹھہرا۔
اور اس ممکن بات کے وقوع کی خبر اىك اىسے شخص
نے دی ہے جس کا سچا ہونا دالئل سے ثابت ہے ،اس لئے نمبر
( )2كے مطابق اس کے واقع ہونے کا قائل ہونا واجب ہوگا۔ اور
اگر ایسے واقعات کی کوئی اىسى دلیل بىان كى جائے جو محض
عقلی ہو ،تو اس دلىل كى حىثىت صرف اتنى سى ہو گى كہ ىہ
بیان کر دىا جائے كہ اىسا ہو جانا كوئى بعىد نہىں ہے۔ اور استدالل
كرنے والے كے ذمے تو اتنى دلىل دىنا بھى نہىں ،اور اس كى
تبرع ہے۔
طرف سے محض ُّ
.6نظیر اور دلیل ،جس کو آج کل ثبوت کہتے ہیں ،ایک
چىزنہیں ،بلكہ دو علىحدہ علىحدہ چىزىں ہىں ،اور مدعى سے دلیل
کا مطالبہ تو جائز ہے ،مگر نظیر کا مطالبہ جائز نہیں۔
شـرحً :
مثال :کوئی شخص ىہ دعوی کرنے کہ شاہ جارج
پنجم نے تخت نشىنى کا دربار دہلی میں منعقد کیاہے۔ اور کوئی
دوسرا شخص كہے کہ :ہم تو تب مانیں گے جب اس بات کی
كوئى نظیر بھی ثابت کرو کہ اس سے پہلے انگلستان كے کسی
اور بادشاہ نے بھى اىساکیا ہو( ،ىعنى ىہ كہ تخت نشىنى کا دربار
دہلی میں منعقد کیاہو)۔ اور اگر تم اس بات كى نظیر نہ السکو،تو
ہم اس واقعے کوغلط سمجھیں گے۔
تو خود سوﭺ كر فىصلہ كىجىے :کیا اس (خبر دىنے والے
)مدعى کے ذ مے كسى نظیر کا پیش کرنا ضرورى ہوگا ،یا یہ
کہہ دىنا کافی ہوگا کہ :ىہ بات تو صحىح ہے كہ اس واقعے کی
نظیر ہمىں معلوم نہیں ہے ،لیکن ہمارے پاس اس واقعے کی اىك
صحىح دلىل موجود ہے۔ اور وہ ىہ كہ اس تخت نشىنى كے دربار
كا مشاہدہ كرنے والے آئے ہىں۔اور اگر اس جگہ جہاں ىہ گفتگو
ہو رہى ہو ،اس دربار كا مشاہدہ كرنے واال كوئى شخص موجود
26
نہ ہو ،تو یوں کہنا کافی ہوگا کہ :ىہ خبر سب اخباروں میں چھپ
گئى ہے۔ کیا اس دلیل کے بعد پھر اس واقعہ کے ماننے کے لئے
كسى نظیر کا بھی انتظار ہوگا!!..؟۔
اسی طرح اگر کوئی شخص ىہ خبر دے اور دعوى كرے
كہ :قیامت کے دن ،ہاتھ پاؤں باتىں کریں گے ،تو كسى سننے
والے كو اس سے،كسى قسم كى نظیر مانگنے كا حق نہیں ہوگا،
اور نہ ہى كسى كو ىہ حق حاصل ہے كہ اس شخص كو نظیر
پیش نہ کرسكنے پر جھٹالنے لگے۔ البتہ اس خبر دىنے والے كى
ىہ ذمے دارى ہے كہ اپنے دعوے پر دلیل قائم کرے۔ اور چوں
کہ وہ منقول محض ہے( ،ىعنى اىسى بات ہے جس كا علم صرف
اور صرف نق ِّل صحىح سے حاصل ہوا ہے) ،اس لىےحسب ِّ
قاعدہ نمبر (، )5اس قدر استدالل کافی ہے کہ اس بات کا محال
ہونا ثابت نہیں۔ اور مخبِّر صا ِّدق نے اس کے واقع ہونے کی
خبردی ہے۔ لہذا ،اِّس بات کے واقع ہونے کا اعتقاد ركھنا واجب
(اور ضرورى )ہے۔
البتہ اگر مستدِّل (ىعنى استدالل كرنے واال) ،کوئی نظیر
تبرع اور احسان ہے۔ مثال :اس کی
بھی پیش کردے ،تو یہ اس كا ُّ
نظیر میں گراموفون کو پیش کردے کہ باوجود جما ِّد محض ہونے
كے ،اس سے کس طرح الفاظ ادا ہوتے ہیں۔
آج کل یہ بڑا ظلم ہے کہ :نوتعلیم یافتہ حضرات ،منقول
باتوں کی نظیر مانگتے ہیں۔ سو اچھى طرح سمجھ لیں کہ ىہ إِّ ْلزَ ا ُم
َما َال َی ْلزَ م ہے( ،ىعنى اىسى چىز كو الزم كر دىنا ہے ،جو الزم
نہىں ہو سكتى)۔
.7عقلى لحاظ سے دىكھا جائے تو عقلى اور نقلى دلىل مىں
تعارض (ىعنى ٹكراؤ) كى چار صوتىں بن سكتى ہىں:
ایك یہ کہ :دونوں قطعى ہوں۔ اس کا کہیں وجود نہیں
ہوسکتا۔ اس لىے كہ دو سچى باتوں مىں تعارض (ٹكراؤ) محال
ہے( ،ىعنى نہىں ہو سكتا)۔
27
دوسرے یہ کہ :دونوں ظنی ہوں۔اگر كبھى اىسى صورت
پىش آ جائے ،تو اگرچہ تعارض كوختم كرنے كے لىے ىہ گنجائش
ہو گى كہ دونوں دلىلوں مىں سے كسى اىك دلىل كے ظاہرى
معنى مراد نہ لىے جائىں ،اور كوئى دوسرا مطلب مراد لے كر
ٹكراؤ كوختم كر دىا جائے ،لىكن «لسانىات» كے اس قاعدے كى
على َّ
الظا ِّھر ہے»( ،ىعنى الفاظ بنا پر كہ« :الفاظ مىں اصل َ :ح ْمل َ
مىں اصل ىہى ہے كہ اُن سے اُن كے ظاہرى معنى مراد لىے
جائىں) :نقل کو ظاہر پر ركھیں گے ،اور عقلى دلیل كى داللت
کو ح َّجت نہىں سمجھىں گے۔
تیسرے یہ کہ :نقلى دلیل قطعى ہو،اور عقلی دلىل ظنى
ہو۔ یہاں یقینًا نقلى دلىل كومقدم رکھیں گے۔
چوتھے یہ کہ :عقلى دلیل قطعى ہو،اور نقلی دلىل ظنى
ہو۔ خواہ اس كا ظنى ہونا ثبوت كے اعتبار سے ہو ،خواہ داللت
كے اعتبار سے :ىہاں عقلى دلىل كو مقدم ركھىں گے ،اور نقلى
دلىل كے معنی اور مطلب میں تاویل کریں گے۔ بس ،صرف یہ
ایک موقعہ اىسا ہے جس مىں رواىت كى بجائے دراىت كو مقدم
كىا جائے گا ،نہ ىہ كہ ہراىك جگہ اس كا دعوى ،ىا اس كا استعمال
شروع كر دىا جائے۔
شـرح :عقلی دلىل کا مفہوم اور مطلب تو ظاہر ہے،
ىعنى اىسى دلىل جس كى بنىاد عقل ہو۔ اورنقلى دلیل :مخبِّرصا ِّدق
کی خبر(،ىعنى سچے خبر دىنے والے كى بتائى ہوئى خبر )کو
کہتے ہیں ،جس کا بیان قاعدہ نمبر ( )4میں ہوا ہے۔
اورتعارض :اسے کہتے ہیں كہ :دوحکم آپس مىں ایک
دوسرے کے ساتھ اس طرح خالف ہو جائىں كہ ایک کو صحىح
ماننے سے دوسرے کا غلط ماننا ضروری ہو ،جیسے :ایك
شخص نے بیان کیا کہ :زىد آج دس بجے دن کو،دہلی کی ٹرین
میں سوار ہوگیا۔ دوسرے نے بیان کیا کہ :زىد آج گیارہ بجے
میرے پاس میرے مکان میں آکر بیٹھا رہا۔ اس کو«تعارض»كہیں
گے۔ چوں کہ تعارض كى صورت مىں اىك بات کو صحىح تسلىم
28
كر لىنے سے ،دوسرى بات کا غلط ہونا الزمى ہوتا ہے ،اس
لىے دو صحیح دلیلوں میں كبھی بھى تعارض نہىں ہوگا۔
اور جب دو دلیلوں میں تعارض ہوگا ،تو اگر تو وہ دونوں
دلىلىں قابل تسلیم ہیں ،تب ىہ صورت اختىار كرىں گے كہ :ایک
اس کے ظاہر پر رکھ کر مان لىں گے ،جب كہ دلىل كو تو
دوسرى دلىل میں كچھ تاویل کرلیں گے ،ىعنى اس دلىل کو اس
کے ظاہری مدلول (اور مطلب) سے ہٹادیں گے،اور اس طرح
سے دونوں دلىلوں كو مان لىں گے۔
اور اگر ایک دلىل قابل تسلیم اور ایک غیر قابل تسلیم ہے:
تو ایک دلىل کو تسلیم كر كے ،دوسرى دلىل کو رد کردیں گے،
ىعنى چھوڑ دىں گے۔ م ً
ثال :مذکورہ باال مثال میں اگر ایك راوی
معتبر اور دوسرا راوى غیر معتبر ہے :تو معتبر کے قول کوتسلیم
كر لىں گے ،اور غیرمعتبر کے قول کو رد كر دىں گے۔ اور اگر
دونوں راوى معتبر ہیں :تو دوسرے قرائن سے جانﭻ كر ،اندازہ
لگائىں گے ،اور ان مىں سے اىك کے قول کومان لىں گے ،اور
دوسرے کے قول میں كوئى تاویل کرلیں گے ،مث ًال :دىگر شہادتوں
سے بھی ثابت ہوا کہ زید دہلی نہیں گیا ،تو یوں کہیں گے کہ :اس
کو شبہ ہوا ہوگا ،یا سوار ہوکر پھر واپس آگیا ہوگا اور اس کو
واپسی کی اطالع نہیں ہوئی۔ َونَحْ ُو ذَ ِّل َك.
جب یہ قاعدہ معلوم ہوگیا ،تو اب سمجھنا چاہىے کہ :كبھی
ایسا ہوتا ہے کہ نقلى اور عقلی دلىل میں ،ظاہرى طور پر تعارض
ہوتا ہے۔تو اىسی صورت مىں اسى قاعدے کے موافق یہ دىكھىں
گے کہ:
.1دونوں دلىلىں قطعى اور ىقىنى ہىں،
.2ىا دونوں دلىلىں ظنى ہىں،
.3ىا نقلى دلىل قطعى ہے ،اور عقلى دلىل ظنى ہے،
.4ىا عقلى دلىل قطعى ہے ،اور نقلى دلىل ظنى ہے ،خواہ ثبوت
كے اعتبار سے ىا داللت كے۔
29
ىعنى نقلى دلىل كے ظنى ہونے كى دو صورتىں ہىں:
ایک صورت ىہ ہے کہ :نقلى دلىل كا ثبوت ظنى ہو ،ىعنى
مثال :كوئى حدیث ہے جس كا ثبوت متواتر سند سے ،ىاً
مشہور سند سے نہىں ہوا۔
دوسرى صورت ىہ ہے كہ :دلىل ثبوت كے اعتبار سے تو
قطعى ہو ،لىكن داللت (اور معنى بتانے) كے اعتبار سے
ظنى ہوً ،
مثال :کوئی آیت ہے ،کہ اس كا ثبوت تو قطعى
ہے ،مگر اس آىت کے دومعنی ہوسکتے ہیں ،اور ان میں
سے جس معنی کو بھی مراد لیا جائے گا ،اس آىت كے
الفاظ سے اسے مراد لىنے كى گنجائش نكل سكتى ہو ،تو
اس كا مطلب ىہ ہے كہ اس آىت كى اس معنى اور مفہوم پر
داللت قطعى نہىں ہے۔ اور داللت كے اعتبار سے ظنى
ہونے كے ىہى معنى ہىں۔
تو تعارض كى ىہ چار صورتىں ہو گئىں۔چنانچہ:
پہلى صورت :كہ دونوں دلىلىں ثبوت اور داللت كے اعتبار
سے قطعى بھى ہوں ،اور پھر متعارض بھى ہوں ،اس كاوجود
محال ہے۔ كىوں كہ جب دونوں جانب ىقىنى طور پر صادق ہىں،
تو دو صادق مىں تعارض كىسے ہو سكتا ہے!!..۔چنانچہ دونوں
صادق ہوں ،اور دونوں مىں تعارض ہو ،ىہ غىر ممكن ہے( ،ىعنى
ممكن ہى نہىں ہے ،اور ہرگز ہرگز اىسا نہىں ہو سكتا) ،اور كوئى
شخص قىامت تك اس كى اىك مثال بھى پىش نہىں كر سكتا۔
اور دوسرى صورت :ىہ ہےكہ دونوں دلىلىں ظنى ہوں۔تو
جب اىسى صورت پىش آ جائے كہ نقلى دلىل بھى ظنى ہو اور
الصدق( ،ىعنى اىسى
عقلى دلىل بھى ظنى ہو ،تو دلىل ِّنقلى مظنون ِّ
نقلى دلىل جس كے سﭻ ہونے كا گمان ہو)،كو مان لىنے كےكے
وجوب (ىعنى ضرورى اور الزمى ہونے ) پر صحىح صحىح
دالئل قائم ہىں،جو اصول وكالم مىں مذكور ہىں۔
الصدق( ،ىعنى اىسى عقلى دلىل
اور دلىل ِّعقلى مظنون ِّ
جس كے سﭻ ہونے كا گمان ہو) كو ماننے كے واجب ہونے پر
30
كوئى صحىح دلىل قائم نہىں ،اس لىے اس وقت نقلى دلىل كو
مقدم ركھىں گے ،اور عقلى دلىل كوغلط سمجھىں گے۔ اس لىے
كہ اس عقلى دلىل كے ظنى ہونے كا خود ىہى مطلب ہے كہ
ممكن ہے كہ غلط ہو۔ تو اس عقلى دلىل كو غلط ماننے مىں بھى
كسى عقلى حكم كى مخالفت نہىں كى گئى۔
اور جب ظنى عقلى دلىل ،اور ظنى نقلى دلىل مىں تعارض
ہو جائے ،تو اس صورت مىں نقلى دلىل كوماننےكى اىك صورت
ىہ بھى ہو سكتى تھى كہ اس نقلى دلىل مىں تاوىل كر لىتے ،ىعنى
اس كو اس كے ظاہرى معنى سے پھىر لىتے۔لىكن چوں كہ بغىر
كسى ضرورت كے تاوىل كرنا خود ممنوع ہے ،اور ىہاں كوئى
ضرورت تھى نہىں ،اس لىے اس طرىقے كو اختىار كرنا:
شرعى لحاظ سے ناجائز اور بدعت،
اور عقلى لحاظ سے غىر مستحسن (ىعنى برا) ہے،
جىسا كہ ابھى غىر مستحسن ہونے كى وجہ ان الفاظ مىں بىان كر
دى گئى ہے « :اس لىے كہ اس عقلى دلىل كے ظنى ہونے كا
خود ىہى مطلب ہے كہ ممكن ہے غلط ہو۔ تو اس عقلى دلىل كو
غلط ماننے مىں بھى كسى عقلى حكم كى مخالفت نہىں كى گئى»۔
اور تىسرى صورت :ىہ ہےكہ دونوں دلىلوں مىں سے
نقلى دلىل قطعى ہو اور عقلى دلىل ظنى ہو ،تو اس كا حكم تو
بدرجہ ا َولى دوسرى صورت واال ہى ہو گا ،كىوں كہ جب نقلى
دلىل ظنى تھى ،تو وہ ظنى ہونے كے باوجود ،ظنى عقلى دلىل
سے مقدم اور بڑھ كر تھى ،تو جب نقلى دلىل قطعى ہو گى ،تو
وہ تو بدرجۂاَولى ظنى عقلى دلىل سے مقدم اور بڑھ كر ہو گى۔
اور چوتھى صورت :ىہ ہےكہ عقلى دلىل تو قطعى
ہو،لىكن نقلى دلىل ظنى ہو ،خواہ ثبوت كے اعتبار سے ،ىا داللت
كے اعتبار سے ،تو اس صورت مىں عقلى دلىل كو تو اس لىے
الصحت ہے( ،ىعنى اس كا صحىح
ى ِّنہىں چھوڑ سكتے كہ وہ قطع ُّ
ہونا قطعى ہے)۔اور اس كے مقابلے مىں جو نقلى دلىل ہے،
اگرچہ وہ ظنى ہے ،لىكن چوں كہ ظنى نقلى دلىل كو قبول كرنے
31
كے وجوب (ىعنى ضرورى ہونے ) پر بھى صحىح صحىح دالئل
قائم ہىں ،جىسا كہ دوسرى صورت كے ذىل مىں بىان ہوا ،اس
لىے اس كو بھى نہىں چھوڑ سكتے۔
چنانچہ اس صورت میں ظنى نقلى دلىل میں تاوىل کر
کے ،اور اسے عقل کے مطابق کر کے اس کو قبول كر لىں گے۔
اور خوب سمجھ لو كہ ىہ وہ خاص موقعہ ہے جس كے بارے مىں
ىہ دعوى كىا جاتا ہے كہ «دراىت مقدَّم ہے رواىت پر» ،ىعنى:
« رواىت»( ،نقلى دلىل) كى بہ نسبت« ،دراىت» (عقلى
دلىل ) مقدَّم ،ىعنى بڑھ كر ہے۔
چنانچہ خاص اس چوتھى صورت مىں ىہ اصول چلتا ہے،
اور دوسرى اور تىسرى صورت مىں اس چوتھے اصول كا
استعمال جائز نہىں ہے ،جىسا كہ دوسرى اور تىسرى صورت
كے ذىل مىں اس كا بىان دالئل كے ساتھ ،تفصىل سے ہو چكاہے۔
اور مزىد غور كىا جائے تو عقلى ونقلى دالئل مىں
تعارض كى مزىد صورتىں بھى نكل سكتى ہىں ،چنانچہ:
پانچوىں صورت :ىہ نكل سكتى ہےكہ نقلى دلىل توظنى
ہو ،اور اس كے معارض عقلى دلىل وہمى اور خىالى ہو۔
اور چھٹى صورت :ىہ نكل سكتى ہےكہ :نقلى دلىل تو
قطعى ہو ،اور اس كے معارض عقلى دلىل وہمى وخىالى ہو۔
لىكن ان صورتوں كا حكم بہت ہى واضح اور ظاہر ہے
كہ :نقلى دلىل كومقدم كرىں گے اور عقلى دلىل كو چھوڑ دىں
گے( ،اور وہ متروك كہالئے گى) ،كىوں كہ جب عقلى باوجود
مظنون ہونے كے مؤخر ومتروك ہے ،تو وہمى وخىالى تو بدرجۂ
اولى ہو گى( ،ىعنى جب عقلى دلىل ظنى ہونے كے باوجود بھى
اتنى قوت نہىں ركھتى كہ قطعى نقلى دلىل ىا ظنى نقلى دلىل كے
مقابلے مىں ٹھہر سكے،تو وہ عقلى دلىل جو ظنى بھى نہىں ،
بلكہ اس سے بھى كم تر درجے كى ہو اور محض وہمى اور
خىالى ہو ،كىسے قطعى وظنى نقلى دلىل كے مقابلے مىں ٹھہر
32
سكے گى)۔
تىسرى صورت كے حكم كے ذىل مىں اس كى نظىر كا
بىان ہو چكا ہے۔ اورىہ سارى بحث نقلى دالئل اور عقلى دالئل كے
درمىان تعارض كے حكم كا تفصىلى بىان ہے۔
یہاں سے ان لوگوں کی غلطى ظاہر ہوگئى جو عقلى دلیل
كو مطلقًا( ،ىعنى ہر صورت مىں) اصل ،اور نقلى دلىل كو اس
كے تابع قراردىتے ہیں ،گو وہ عقلی دلىل ،ظنى بھى نہ ہو بلكہ
محض وہمی اور خیالی ہو ،اور گو اس كے مقابلے مىں آنے والى
نقلى دلىل قطعى ہى ہو۔
اب ىہاں صرف دوسرى اور چوتھى صورت كى مثال
ذکر کى جاتى ہے ،اس لىے كہ پہلى صورت تو كبھى وا قع ہو
ہی نہیں ہوسکتی ۔ اورتىسرى صورت كا حكم بالكل ،بلكہ اس سے
زىادہ بڑھ كر وہى ہو گا جو دوسرى صورت كا ہو گا ،جىسا كہ
()1
۔ اس لىے دوسرى اور چوتھى ،صرف ان ابھى ذكر ہو چكا
دو ہى صورتوں كى مثال بىان كر دىنا كافى ہے۔
دوسرى صورت كى مثال :آفتاب ،ىعنى سورج كے لىے
ت أ َ ْینِّیَّه ثابت ہے ،جس كى دلىل هللا تعالى كے اس فرمان كا
حرك ِّ
بالكل ظاہرى معنى ہے :ﮋﯡﯢﯣﯤﯥﯦ ﯧىى ﯪﯫﯬﯭﮊَ[األنبيآء]،
اور بعض حكماء آفتاب كى حركت صرف محور پر
مانتے ہىں ،جو اىسا دعوى ہے جس كوئى قطعى دلىل قائم نہىں
ت أ َ ْینِّیَّه » کا قائل ہونا ،اور بعض حكماء كے قول
ہے ،پس «حرك ِّ
کا ترک کردینا واجب ہوگا۔
چوتھى صورت كى مثال :اىسے عقلی دالئل جو قطعى
منفصل ىعنى علىحدہ
ِّ ہىں ،ان سے ثابت ہے کہ آفتاب زمین سے
ہے ،اور اپنی حرکت کی كسی حالت میں بھى زمین كو نہىں
چھوتا۔ اورقرآن مجید مىں هللا تعالى كا اِّرشاد ہے كہ :ﮋﭟ ﭠ ﭡ ﭢ
ﭣ ﭤ ﭥ ﭦ ﮊ ٹﮊَ[الكهف.]86َ:اب قرآن مجىد كے الفاظ كے ظاہرى
33
الفاظ مىں غور وفكر كرنے سے پہلے ،ىہ وہم ہو سكتا ہے كہ :
آفتاب كىچڑ كے اىك چشمے مىں غروب ہوتا ہے۔اور ىہ اىسا
ظر» پر محمول ہو سكتاظاہرى معنى ہے جو « ِّوجْ دَان فِّي بَادِّي النَّ ْ
ہے( ،ىعنى سورج كا كىچڑ كے چشمے مىں غروب ہونا ،قرآن
مجىد كى آىت كا اىسا معنى ہے جس مىں غور وفكر كىا جا ئے
تو پتہ چل جاتا ہے كہ اس سے مراد ىہ ہے كہ حضرت ذو القرنىن
كو اىك نظر دىكھنے مىں ىوں معلوم ہوا كہ سورج كىچڑ كے اىك
چشمے مىں غروب ہورہا ہے ،گو حقىقت مىں اىسا نہىں تھا)۔
چنانچہ اس آیت کو اسى معنى پر محمول کیا جائے گا،
ىعنى دیکھنے میں ایسا معلوم ہوا کہ گویا سورج ایک چشمے
میں غروب ہورہا ہے ،جس طرح سمندر کا سفر کرنے والوں کو
ظاہرى نظر میں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ گویا آفتاب سمندر میں
غروب ہورہا ہے۔
وهللاُ تعَالَى أَعلَ ُم.
َ
34
کےپورے متبع رہے ،اور نہ اسالم کے۔ چناں چہ عن قریب
معلوم ہوتا ہے۔
اىك غلطى تو یہ ہے کہ :هللا تعالى كى اىك خاص صفت،
جسے « ِّقدَ ْم» كہتے ہىں ،اس مىں اىك دوسرى چىز كو شرىك كىا،
ىعنى «مادے» كو بھى قدىم مان لىا۔ اورىونان كے حکماء بھی اس
غلطى میں شریک ہیں ۔مگر ان ىونانى حكماء کے پاس تو كوئى
چھوٹی موٹى دلیل بھی تھی ،اگرچہ اس میں ایک لفظى تلبیس
(ىعنى لفظى دھوكے اور گڑبڑ) سے کام لیا گیا ہے۔ چناں چہ
« ِّھدَایَةُ ِّ
الح ْك َمة» وغیرہ میں اس دلیل كا ذكر بھی كىا گىا ہے،
اور راقم( ،ىعنى ان سطور كے لكھنے والے بندے)نے «د َِّرا َیةُ
ص َمة» میں اس کا باطل ہونا بھی دکھال دیا ہے ،اور عرف مىں
ال ِّع ْ
جنہىں سائنسى ماہر كہا جاتا ہے،ان كے پاس تو اس درجے کی
بھی کوئی دلیل نہیں۔
سائنس والوں نے اپنے دیگر دعووں كى طرح ،اس
دعوے میں بھی محض ظن اور تخمىن کی حکمت سے کام لیا
مكونات ِّ موجودہ ،ىعنى بنى
ہے ،ىعنى یہ خیال کیاہے كہ ىہ سب َّ
ہوئى موجود چىزىں ،اگر محض معدوم تھىں ،اور كبھى تھىں ہى
عدم محض سے وجود ہوجانا ،ىعنى كچھ بھى نہ ہونے
نہىں ،تو ِّ
سے كسى چىز كا وجود مىں آ جانا،ہمارى سمجھ میں نہیں آتا۔
لیکن خوب غور کرنا چاہىے کہ کسی چیز کا سمجھ میں
نہ آنا ،کیا اس چىز کے باطل ہونے کی دلیل بن سکتی ہے!!..؟۔
سمجھ میں تو یہ بھی نہیں آتا کہ ایک ایسی موجود چیز ،ىعنى
ت مادى مىں سے
مادہ ،جس کے تمام انحائے وجود ،ىعنى تغىُّرا ِّ
نفس ُوجود مسبُوق بالعدَم نہ ہوا۔
ہر تغیُّر مسبوق بالعدم ہے ،اس کا ِّ
آخر اِّن ُوجودات مىں،اور اُس ُوجود میں فرق کیا ہے؟۔
عدَ ِّم قِّدَم» میں
پس سمجھ میں نہ آنا تو « ِّقدَم» اور « َ
مشترک ہے ،اور «قِّدَم» كے معاملے میں اتنى بات اور زىادہ
ہے کہ :اس کے باطل ہونے پر خود مستقل دلیل بھی قائم ہے۔
اور وہ دلیل موجودہ سائنس کے مقابلے میں تو بہت آسانى سے
35
چلتی ہے ،اورتھوڑى سى تبدىلى اور رد وبدل سے قدىم سائنس
کے مقابلے میں بھی کام دیتی ہے۔
وجہ اس كى یہ ہے کہ موجودہ سائنس میں قدیم مادے
ت جسمیہ سے خالی مانا گیا ہے(ىعنى
کو ایک مدت تک ،صور ِّ
موجودہ سائنس ىہ كہتى ہے كہ اىك عرصہ اىسا گزرا ہے كہ وہ
مادہ جو قدىم ہے ،اس كا كوئى جسم اور كوئى صورت نہىں تھى)۔
تجردمحال
ُّ اور یہ ثابت ہوچکا ہے کہ مادے کا صورت سے
ہے(،ىعنى اىسا نہىں ہو سكتا كہ كوئى مادہ موجود تو ہو ،لىكن اس
كى كوئى صورت اور شكل نہ ہو ) کیوں کہ مادے کی حقیقت
ایک چىز کا بالقوہ وجود ہے۔ اور جس سے فعلیت ہوتی ہے وہ
صورت ہے۔ اور ظاہر ہے کہ بالقوہ وجود،وجود كى قابلیت
ہے۔(ىعنى مادے كى جو تعرىف سائنس كے حالىہ ماہرىن نے كى
ہے ا س كى بنا پر ىہ موقف سامنے آىا ہے كہ :مادے كى حقیقت
بس اتنى سى ہے كہ كوئى چىز بالقوہ وجود ركھتى ہو ،خواہ بالفعل
بنتا ہے اس كا وجود نہ ہو۔ اور ىہ بالقوہ مادہ ،جب بالفعل مادہ
تو جسمانى صورت كے ذرىعے بنتا ہے۔اور ظاہر ہے كہ وجود
كے بالقوہ ہونے كا مطلب ىہ ہے كہ :اس مىں وجود كى ،ىعنى
موجود ہو جانے كى قابلىت ہو۔ حاالنكہ ىہ وجود بالقوہ ،جب تك
بالقوہ ہے ،توفناء محض اور عدم محض ہى توہے۔ تو اس طرح
نتىجہ ىہ نكال كہ عدم محض سے وجود كا ظہور ماننا الزم آىا)۔ َ
پس مادے کو كسى صورت کے بغىر (اور وہ بھى ہمىشہ
سے) موجود کہنا ،درحقیقت «اِّجْ تِّ َماعِّ ُمتَنَافِّیَیْن» کا قائل ہونا ہے،
کہ بالفعل وجودہے بھی ،اور بالفعل وجودنہیں بھی ہے۔پس اس
کا تقاضا تو یہ ہے کہ خود مادہ موجود ہی نہ ہوتا ،بقدم چہ رسد
۔(ىعنى اس بحث كوتسلىم كرنے كا نتىجہ تو ىہ نكلتا ہے كہ خود
مادہ موجود ہى نہ ہو۔ اس لىے كہ مادہ صورت كے بغىر نہىں ہو
سكتا۔ اور جب مادہ بالفعل نہىں ،بلكہ صرف بالقوہ تھا ،تو مطلب
ىہ كہ اس كى كوئى صورت نہىں تھى۔ اور مادہ بغىر صورت
كے نہىں ہو سكتا ،تو گوىا كہ مادہ موجود ہى نہ ہوا۔ اور جب مادہ
36
موجود ہى نہىں ہو گا تو پھر اس غىر موجود چىز پر طارى ہونے
والى صفت ،ىعنى قدم اور عدم قدم كى بحث تك بات پہنچنے كى
نوبت كىسے آ سكتى ہے)۔
اور اگر قدىم فلسفہ کے نظرىے كو مان لىں ،اور
مادےكى کوئی صورت بھی مان لی جائے ،تو ىہ بات ظاہر ہے
کہ :كسى جسم كى صورت،كسى نوع كى صورت كے بغىر نہىں
ہوتى ،اور کوئی نوعى صورت ،كسى شخصى صورت كے بغىر
متحقق ہى نہیں ہو سکتى۔
تو جب بھى اس مادے كى کوئی صورت مانی *
جائے گی ،ال محالہ وہاں كوئى شخصى صورت بھی ہوگی۔
اورشخصى صورت میں تغىر اورتبدُّل ہوتا رہتا ہے۔ پس جب بھى
كوئى متاخر شخصى صورت اس مادے پر آئے گى ،تو دو حال
سے خالی نہیں ہو گى :یا تو پہلی شخصى صورت بھی باقی رہے
گی ،یا زائل ہوجائے گی۔
اگر پہلى شخصى صورت بھى باقى رہى ،تو كسى كا
شخص ہونا اس كى شخصى صورت سے ہى معلوم ہوتا ہے۔اور
جب دو شخصى صورت ہو گئیں تو وہ دو شخص ہوگئے۔پس
الزم آیا كہ اىك شخص ،دو شخص ہو جائے۔ اور یہ محال ہے،
(كبھى نہىں ہو سكتا)۔
اور اگر مادے كى پہلى شخصى صورت زائل ہو كر،
دوسرى شخصى صورت اس پر آئى ،تو پتہ چال كہ وہ پہلى
شخصى صورت قدیم نہىں تھی۔ اس لىے کہ قدیم کا زوال ممتنع
ہے ،پس وہ دوسرى صورت بھى حادث ہوئی ،اور اس سے پہلے
جو شخصى صورت تھی ،اسى دلىل سے وہ بھى حادث ہو گئى۔
پس جب صور ِّ
ت شخصىہ كے تمام افراد كا حادث ہونا ثابت
ہو گىا ،تو مطلق صورت ِّ شخصىہ بھی حادث اور مسبوق
بالعدم ہوئی( ،ىعنى مطلق شخصى صورت كے بارے مىں ىہ
ثابت ہو گىا كہ وہ بھى قدىم ىعنى ہمىشہ سے نہىں تھى ،بلكہ
37
اپنے وجود مىں آنے سے پہلے وہ معدوم تھى ،ىعنى نہىں
تھى)۔
اور جب وہ شخصى صورت معدوم ہوگی ،تو اس وقت
صورت ِّنوعیہ بھى معدوم ہوگی۔
اور جب صور ِّ
ت نوعىہ معدوم ہو گى ،تو اس کے معدوم
ہونے كے وجہ سے صورت ِّ جسمىہ معدوم ہو گى۔
اور صور ِّ
ت جسمىہ کے معدوم ہونے سے مادہ معدوم قرار
پائےگا۔
پس مادے كا قدىم ہونا باطل ہو گىا۔ *
اور مادے كا عدم سے وجود میں آنا جو سمجھ میں نہىں
آتا ،اس کا نام«اِّ ْستِّ ْبعَاد» ہے« ،اِّستْ َحالَه» نہیں۔ اور « ُمست َ ْبعَدَات»
وقوع سے آبى نہىں۔(ىعنى اىسى باتىں جن كا واقع ہونا عقل سے
بہت بعىد ہو ،ان كے واقع ہونے سے انكار نہىں كىا جا سكتا)۔ اور
ان دونوں باتوں ىعنى « ِّا ْستِّ ْب َعاد» اور «اِّستْ َحا َله» ،كو ،آپس مىں
خلط ملط كرنا ،اور ان مىں فرق نہ كر سكنا بہت سی غلطیوں کا
سبب ہے۔
اور اس تفصىل سے ىہ معلوم ہوگیا کہ مادے كے قدىم
ہونے كا عقیدہ اسالم کے خالف ہے۔ اور سائنس حال کے بھى
خالف ہے ،اس لئے کہ آج كل كےسائنس والے خود خدا ہی کے
قائل نہیں ہىں۔ اسى لىے میں نے کہا تھا کہ مادے كے قدىم ہونے
كے قائلىن كى اتباع كرنے والے دونوں کے خالف ہوئے۔
اور اگر حقیقت میں صحىح طرىقے سے غور کیا جائے
،تو مادے كو قدىم ماننے كے بعد ،پھر خود صانع(اسے بنانے
والے هللا تعالى ) ہی کی ضرورت نہیں رہتی ،کیوں کہ جب اس
مادے کی ذات اس کے وجود کی علت ہے ،تو وہ «واجب الوجود
» ہوگیا۔ اور ایک «واجب الوجود» کا دوسرے «واجب الوجود
» کی طرف محتاج ہونا ،خود عقل كے خالف ہے۔
هللا تعالى كا جو تعلق اپنی صفات اور افعال سے ہے ،وہى
38
تعلق اس کا اپنی صفات ،حرکت و حرارت ،اور اپنے افعال
تنوعات وغیرہ سے ہوسکتا ہے۔ پس خدائے بر حق كا قائل ہونا ،
ُّ
ث مادہ پر موقوف ہو گىا۔
خود حدو ِّ
اور اگر «قَد ْیم بالذَّات» اور «قَ ِّدیْم َّ
بالز َمان» میں فرق نکاال
جائے ،تو اس کی گفتگو قدىم فالسفہ سے ہى كى جا سكتى ہے جو
اس كے قائل تھے،اور ىہ بحث بھى قدىم علم کالم میں طے
ہوچکی ہے۔ چوں کہ اِّس وقت کے فالسفہ اس تفرىق کے قائل
نہیں ہىں ،اس لىے اس كو بىان كرنے كى ضرورت ہى نہىں ہے۔
اور اگر کوئی شخص مادے كے اجزاء كو ،اس كى
صورت كے ساتھ قدیم مانے ،اوراس قدىم صورت کو بعد مىں
پىش آنے والى صورتوں کے ساتھ جمع ہو جانے كو بھی مانے،
اس طرح سے کہ وہ مادہ اتنے چھوٹے چھوٹے ذروں کى شكل
ت وہمىہ تو ممكن
ت عقلىہ اور قسم ِّ
مىں تھا كہ جن ذروں میں قسم ِّ
ت فكىہ ممكن نہىں( ،ىعنى مادہ اتنے چھوٹے
ہے ،لىكن قسم ِّ
چھوٹے ذروں كى شكل مىں تھا كہ اتنے چھوٹے ذروں كو عقلى
اور خىالى لحاظ سے تو مزىد چھوٹے ذروں مىں تقسىم كرنے كا
تصور كىا جا سكتا ہے ،لىكن واقعہ مىں انہىں تقسىم كرنا ممكن
كہ جىسا ہو)۔ رہا نہ
دى مقراطسن بھى اىسے اجزاء كا قائل ہوا ہے۔
اور ىا پھر اگر كوئى شخص مادے كے اجزاء كو اس
كى صورت كے ساتھ متصل واحد مان كر اس میں اجزائے
تحلیلیہ کا قائل ہو جائے،...
تو ہم پوچھتے ہیں کہ :یہ ذرات یا اجزاء ،اگر قدیم تھے،
تو اس وقت متحرک تھے یا ساکن تھے؟۔ اگر متحرک تھے ،تو
ان كى حرکت قدیم تھی۔ اور اگر ساکن تھے تو ان کا سکون قدیم
تھا۔ جب كہ اس وقت ہم دىكھتے ہىں كہ بعض جسم اىسے ہىں
جو متحرك ہیں ،اور ان کی حرکت سے وہ اجزاء بھی متحرک
ہیں۔تو پتہ چال كہ اگر قدىم مادہ ساكن تھا ،تو اب اس سے سکون
زائل ہو كر ،وہ متحرك ہو چكا ہے۔ اور اىسے ہى بعض اجسام
39
اىسے ہىں جن کو ہم ساکن دیکھتے ہیں۔تو اگر قدىم مادہ متحرك
تھا ،تو اب اس سے حركت زائل ہو كر وہ ساكن ہو چكا ہے،
چنانچہ اس کے سکون سے وہ اجزا ءبھی ساکن ہو گئے ہیں۔
بہرحال ،حركت اور سكون دونوں کے زوال کا مشاہدہ
ہم کررہے ہیں ،اور قدیم کا زائل ہونا محال ہے۔ پس اِّن اجزا ءکی
حرکت یا سکون کا قدیم ہونا محال ہوا۔اور اجزا ء ،ان دو باتوں
سے خالی نہیں ہو سکتے۔ پس ثابت ہوگیا کہ خود وہ اجزاء بھی
قدىم نہیں ہىں۔
اور اگر مادے كے بارے مىں ىہ بات سمجھ مىں نہىں آتى
كہ هللا تعالى نے اپنے قدرت سے مادے كو اس طرح پىدا كر دىا
كہ وہ معدوم تھا ،اور هللا تعالى كے پىدا كرنے سے موجود ہو
گىا ،تو پہلى بات تو ىہ ہے كہ ىہ سمجھ نہ آنا محض
« ِّا ْستِّ ْب َعاد»اور غائب كو شاہد پر قىاس كرنا ہے۔ اور پھر ىہى كب
سمجھ مىں آتا ہے كہ متغىر چىز قدیم ہو۔ پس سمجھ میں نہ آنا
دونوں میں مشترک ہوا ،اس لئے یہ بھی قابل احتجاج نہىں۔ غرض
مادے كا قدىم ہونا بال غبار (بال شبہ) باطل اور محال ہى رہا۔
اور اگر ہم ان سب دالئل سے قطع نظر کر کے ،مادے
كے قدىم ہونے کومحال نہ بھی کہیں ،پھر بھى مادے كے قدىم
اور ہمىشہ سے موجود ہونے کی بھی کوئی دلیل نہیں ،تو مادے
كا قدىم ہونا ،اور قدىم نہ ہونا ،دونوں باتوں كا احتمال برابر درجے
كا رہے گا۔ چنانچہ اس صورت مىں عقلى لحاظ سے دونوں شقوں
كا قائل ہونا ممكن رہے گا( ،اور كسى اىك جہت كو دوسرى جہت
پر ترجىح حاصل نہ ہوگى)۔
لیکن اىسے امورجو ُمحت َ َم ُل َّ
الطرفَ ْىنہوں ،ىعنى اىسى بات
جس مىں دو طرف كا احتمال ہو ،كہ وہ بات ہو بھى سكتى ہو اور
نہ بھى ہو سكتى ہو ،اگر اس مىں مخبِّر صادق ایک شق کو متعىن
فرماد ے ،تو اس کا قائل ہونا واجب اور الزمى ہوجاتا ہے۔ اور
یہاں مخ ِّبر صادق نے مادے كے حدوث کی شق کو متعین فرمادیا
ہے۔ چنانچہ هللا تعالى نے قرآن مجىد مىں ارشاد فرماىا ہے :ﮋﯸ
40
ﯹﯺﯻﮊَ[البقرة]117َ:۔
اور رسول اكرم ﷺ كا ارشاد ہے« :كان َهللا َولم َيكن َ َّمعهَ
شيءَ»۔ پس نقلى طور پر بھی اس کا قائل ہونا واجب ہوگا۔
یہ پہلى غلطى كا بىان تھا۔ اور وہ دوسری غلطى آگے
بىان كى جاتى ہے۔
41
ت حق
ق تعمىم قدر ِّ
انتبا ِّہ دوم :متعل ِّ
جس پہلی غلطى كا ابھى ذكر كىا گىا ہے،اس کا حاصل
بس ىہ ہے كہ :هللا تعالی کی ایک اىسى صفت جو اسى كے ساتھ
مخصوص ہے( ،ىعنى قدىم ہونا) ،اسے كسى دوسرے کے لئے
(ىعنى مادے كے لىے جوكہ مخلوق ہے) ثابت كیا جانا ہے۔
اور اس دوسری غلطی کا حاصل ىہ ہے كہ :هللا تعالى
کی ایک اىسى صفت ِّکمال جو ىقىنًا اس كو حاصل ہے ،اس کو
ت کمال «عمو ِّم قدرت»
هللا تعالى سے نفى کردینا ہے۔ اور وہ صف ِّ
ہے ،ىعنى ىہ كہ هللا تعالى كى اىك كامل صفت ىہ ہے كہ :اس كى
قدرت عام ہے۔تو آج كل كے بعض لوگوں نے هللا تعالى كے بارے
مىں ىہ كہا كہ :هللا تعالى كى قدرت عام نہىں ہے۔
كىوں كہ اس زمانے کے نو تعلم یافتہ لوگوں كى زبان
اور قلم پر ىہ جملہ جارى دىكھا جاتا ہے كہ :فطرت كے خالف
کوئی امر واقع نہیں ہوسکتا ،اور اس کی دو تقریریں کی جاتی
ہیں :كبھی عقلی رنگ میں ،اور كبھی نقلی پیرائے میں۔
عقلی رنگ یہ ہے کہ مث ًال :ہم دیکھتے ہیں کہ آگ ہمیشہ
جالتی ہے ۔كبھی اس کے خالف ہوتے نہیں دیکھا۔ ہم دیکھتے ہیں
کہ بچہ ماں باپ سے پیدا ہوتا ہے ،كبھی اس کے خالف نہیں
دیکھا۔ تو بس ،جو كچھ اس قاعدے کے خالف ہوگا ،وہ محال
ہے۔
اور بس اتنى سى بات پر ہى معجزات كا انكار کردیا كہ
ق عادت ،ىعنى عادت كے خالف ہىں ،لہذا ،ہم انہىں
چونكہ ىہ خوار ِّ
نہىں مانتے۔بعض لوگوں نے تو صرىح اور صاف لفظوں مىں اس
حكاىت اور واقعے ہى كى تكذىب كر دى ،كہ اىسا ہوا ہى نہىں ہے۔
اور جہاں واقعات كى تکذیب اور انہىں جھٹالنے كى جرأت تو اس
لىے نہىں ہو سكى كہ نص قطعى مىں اس واقعے كے ہونے كا
42
ذكر موجود تھا ،تو وہاں درپردہ انکار کر دىا ،اس طرح کہ باطل
قسم كى تاوىل سے کام لیا۔ اور جب انبىاء كے معجزات کے ساتھ
یہ معاملہ کیا گىا ہو ،تو اولىاء كى كرامات تو كسى شمار مىں ہى
نہىں ۔ اور اس سارى خرابى كى جڑ ان لوگوں كا ىہ اعتقاد ہے
كہ :فطرت كے خالف كسى بات كا ہونا محال ہے۔ كچھ بھى
فطرت كے خالف نہىں ہو سكتا۔
صاحبو! ظاہر ہے استحالہ ،ىعنى کہ یہ كہنا كہ« :كسى
بات كا فطرت كے خالف ہونا محال ہے۔ كچھ بھى فطرت كے
دعوی ہے۔ دعوے كو ثابت كرنے ٰ خالف نہىں ہو سكتا» ،ایک
کے لىے دلىل کی ضرورت ہوتى ہے۔ بس اتنى سى بات دلیل نہىں
بن سكتى كہ :ہم نے كبھی اس طرح ہوتے نہىں دىكھا۔ اس لىے
کہ اس کا حاصل «اِّ ْستِّ ْق َراء» ہے ،اور «اِّ ْستِّ ْق َراء» میں چند جزئیات
کا مشاہدہ ہوتا ہے۔ ان چند جزئیات کے مشاہدے سے دوسری
جزئیات پر استدالل کرنا قطعى نہیں ہوسکتا۔ البتہ اس حكم كو ظن
كے درجے میں ،دوسری جزئیات کے لئے بھی ثابت کہہ سکتے
ہیں۔
لیکن ىہ بات ذہن نشىن رہنى چاہىے كہ ىہ ظن وہاں حجت
ہوگا جہاں اس سے زىادہ قوى اور زىادہ مضبوط دلیل اس کے
معارض اور اس سے ٹكراتى نہ ہو۔ اور وہاں بھی اگر ىہ حكم
لگاىا جائے كہ ہمىشہ اىسا ہى ہو گا ،تو صرف ظن كے درجے
میں ہوگا۔
سلب
اور ىہ اس لىے كہ «دوام سے ضرورت» ،ىعنى « ُ
ا ِّل ْم َكان َ
عن ال َجانِّب ال ُمخا ِّلف» ،ثابت نہیں ہوسکتا ۔ نفى ِّامکان کے
لئے مستقل دلیل درکار ہے۔ ىعنى ہم نے كسى چىز كو كئى مرتبہ
اىك ہى طرح ہوتے دىكھا (آگ سے جلنے كى مثال ذہن مىں ركھ
لىجىے) ،تو ہم نے دوام كا حكم لگا دىا ،كہ ىہ بات ہمىشہ ىوں ہى
ہو گى(،كہ جب آگ روشن ہوگى،توضرور جالئے گى)۔ اس لىے
كہ ہمارے مشاہدے مىں ىوں ہى آىا ہے۔
سلب ا ِّل ْم َكان
تو دوام كے اس حكم سے ضرورت( ،ىعنى « ُ
43
عن ال َجانِّب ال ُمخا ِّلف») ثابت نہىں ہو سكتى ،ىعنى ىہ ثابت نہىں ہو
َ
سكتا كہ :اب ضرورى ہو گىا ہے كہ جب بھى ىہ بات ہو( كہ آگ
جلے) ،تو وىسے ہى ہو جىسا ہم نے دىكھا ہے(كہ جالئے بھى
ب مخالف كا اِّمكان (كہ آگ روشن بھى ہو ،اور
ضرور)۔اور جان ِّ
ممكن ہے كہ نہ جالئے)،بھى ختم ہو گىا ہے۔ لہذا ،اىسا ہو سكتا
ہے كہ كہىں آگ روشن تو ہو ،مگر جالئے نہىں ،گو عادت كے
اعتبار سے اىسا ہى ہوتا ہے آگ جالىا كرتى ہے۔تو اگر كسى
نے اِّمكان كى بھى نفى كرنى ہے (كہ آگ بھڑكنے كے بعد ضرور
جالئے گى ،نہ جالنا ممكن ہى نہىں ہے) ،تواس كے لىے اسے
مستقل دلىل دىنى پڑے گى۔
اور جہاں« ِّا ْستِّ ْق َراء» سے لگائے گئے ظنى حكم كے
مقابلے مىں اس سے قوى تر كوئى اور دلىل آ جائے،تو وہاں اس
ظنى حكم کا اتنا بھی اثر نہىں رہے گا ،بلکہ اس سے مضبوط
تر دلىل پرعمل ہوگا۔
چنانچہ جب امکان کی نفى كى کوئی دلیل موجود نہیں
ہے ،اور چند جزئىات (ىعنى جزئى واقعات ) كے لىے ،اىك قوى
ترىن دلیل(ىعنى قرآن مجىد كى كوئى آیت) ،اس عام حكم (آگ
كے جالنے) كے خالف اىك دوسرے حكم (ىعنى آگ بھڑكنے
كے باوجود نہ جالنے) كے ثابت ہونے پر قائم ہے ،تو پھر کیا
وجہ ہے کہ اس قوى ترىن دلىل كو حجت نہ سمجھا جائے ،یا اس
قوى دلىل میں تاوىل ِّبعید کا ارتکاب کیا جائے ،کیوں کہ تاوىل میں
الظا ِّھر» ہوتا ہے ،ىعنى ظاہرى معنى كو چھوڑ كر عن َّ رف َ
ص ٌ « َ
كسى دوسرے معنى كو اختىار كر لىا جاتا ہے۔اور ىہاں تاوىل كى
ضرورت ہى نہىں ہے،پھركیوں تاوىل کی جائے۔ ورنہ یوں تو ہر
چیز مىں اىسے بعىد بعىد احتماالت پیدا کىے جا سكتے ہىں ،جس
كا نتىجہ ىہ نكلے گا كہ كوئى عبارت ،اور كوئى شہادت بھى
حجت نہ رہے گى۔
اس دعوے کی دلیل کا دوسرا پیرایہ نقلى ہے۔وہ یہ کہ هللا
تعالی نے فرمایا ہے :ﮋﰅﰅﰅ ﰅﰅﰅﮊَ[األحزاب]۔
44
تو صاحبو! اس صحىح دلیل سے صحىح طرىقے سے
استدال ل كرنا دو باتوں پرموقوف ہے:
ایک یہ کہ« :سنت» سے ىہاں مراد « ہر سنت» ہے۔
دوسرے یہ کہ :ﮋﰅﮊکے فاعل میں عموم ہے۔ هللا تعالى ،
اورهللا تعالى كے غیر دونوں کو شامل ہے۔
حاالں کہ دونوں دعووں پر کوئی دلیل نہیں۔ صرف ممکن
نہىں ،بلکہ واقعہ بھی ىہى ہے کہ سىاق وسباق پر نظر كرنے سے
صاف معلوم ہوتا ہے كہ ىہاں «سنت» سے مراد :خاص خاص
اُمور ہیں ،جن كا اِّن آیات میں ذکر ہے ،جن کا حاصل ىہ ہے كہ
:باطل پر حق كا غلبہ ہو گا ،خواہ ىہ غلبہ دلىل وبرہان كے ذرىعے
ہو ،ىا ىہ غلبہ تىغ وسنان ىعنى تىر وتلوار كے ذرىعے ہو۔
اور اگر اس جگہ ﮋﰅ ﮊکے فاعل میں عموم مراد لیا
جائے ،تو ﮋﰅﮊ کا فاعل «هللا كا غیر » ہے ،ىعنى هللا تعالی کے
معمول كو ،کوئی دوسرا شخص نہىں بدل سکتا۔
جىسے:دنیا میں بعض مرتبہ اىسا ہوتا ہے كہ بادشاہ نے
كوئى حكم صادر كىا ،لىكن كسى جماعت كى شورش وغیرہ اس
حكم كے نافذ ہونے مىں حائل ہو جاتى ہے ۔ اور آىت مىں جو خبر
دى ہے كہ هللا تعالى كى سنت اور اس كے معمول كوكوئى دوسرا
تبدىل نہىں كر سكتا ،تو اس خبر سے مقصود هللا كے وعدوں اور
وعىدوں كى توثىق ہے ،كہ ىہ وعدے اور وعىدىں واقع ہو كر
رہىں گى۔
اور اس مدعا کی ایک تیسری تقریر اور بھی سنی گئی
ہے ،جو عقلى ونقلى دلىل سے مرکب ہے۔ وہ یہ کہ هللا تعالى كى
عادت ،اىك فعلى وعدہ ہے۔ اور وعدے میں نص كے ذرىعے
تبدیلى محال ہے۔ پہال مقدمہ عقلی ہے ،اور دوسرا مقدمہ نقلی۔
سو دوسرا مقدمہ تو كسى استثناء كے بغىر صحىح ہے،لىكن پہال
مقدمہ مسلم نہىں ہے۔
بارش كے موسم میں بارش ہوا ہى كرتى ہے۔ لىكن جب
پہلى مرتبہ بارش ہوتے ہوئے پہلى مرتبہ بارش ركى ہو گى ،تو
45
اس وقت تک بارش ركنے كى عادت بھی نہ تھی۔ کیوں کہ عالم
کا حا ِّدث ہونا پہلے ثابت ہوچکا ہے۔ تو اگر وہ عادت(ىعنى بارش
ہونا) وعدہ تھا ،تو اس وعدے میں خالف (بارش كا ركنا)کیسے
واقع ہوگیا!!..؟۔
تنوعات سب حا ِّدث ہیں۔ جب مادےمیں اول نوع پیدا ہوئی
،اور مدت تک اسی نوع کے افراد پیدا ہوتے رہے ،توىہی عادت
ہو گئى تھى۔ پھردوسری نوع کے افراد کیوں پیدا ہونے لگے۔ اور
ىہ سوال وارد ضرور ہو گا ،خواہ مادے مىں تبدىلى بطور ارتقاء
كے ہو ،جیسا کہ سائنس والے كہتے ہىں ،یا بطور نشو ( ،پىدائش
كے) ہو ،جیسا کہ اہ ِّل حق کی تحقیق ہے۔
اگر کہا جائے کہ یہ عادت کے خالف اس لىے نہیں تھا ،
كىوں کہ اصل عادت طبىعى اسباب پر آثار کا مرتب کرنا تھا،
اور یہ سب اس عادت میں داخل ہے ۔
تو ہم کہیں گے کہ :چوں کہ طبىعى اسباب خود قدرت كے
تصرف ،اور قدرت كے ارادے كے تعلق کے محتاج ہیں ،اس
ُّ
لئے اس اصل کی بھى اىك اصل دوسری نكلے گى ،اور وہ ہے:
«ارادے اور قدرت سے تصرف کرنا»۔ پس اصل عادت اس کو
كہىں گے۔ سو یہ اصل اىسى ہے كہ اگر كوئى واقعہ سائنس كے
اصولوں كے خالف واقع ہو بھى جائے ،تو بھى ىہ اصل ىعنى :
«ارادے اور قدرت سے تصرف کرنا» ،محفوظ رہے گى۔
خالف عادت بھی عادت کے موافق
ِّ اس اعتبار سے
ہوگیا۔ ہاں ،صورت كے اعتبار سے اسے عادت كے خالف کہنا
صحىح ہو گا ۔اور حقیقت کے اعتبار سے اسے عادت كے موافق
كہنا درست ہو گا۔پس اىسے واقعات کے انکار كرنے،یا ان كے
مطالب اور معانى مىں تحریف كرنے کی کون سى ضرورت
باقى رہى؟۔
46
47
ق نبوتـ
انتبا ِّہ سوم :متعل ِّ
اس مادہ مىں چند غلطیاں واقع ہورہی ہیں:
اول :وحی کی حقیقت میں ،جس کا حاصل بعض اجتہاد
كے مدعى حضرات نے ىہ كىا ہے كہ :بعض لوگوں مىں فطرى
اعتبار سے اپنی قوم کی فالح و بہبودی اور ہمدردی کا جوش
ہوتا ہے۔ اور اس جوش كى وجہ سے ا ُس پر اسی فكر کے خىاالت
غالب رہتے ہیں۔ اسى تخیالت كے غلبے كى كىفىت مىں اس كى
قوت ِّ خىالىہ بعضے مضامین کو مہیا کر لیتى ہے۔ اور بعض
اوقات اسی غلبے كى كىفىت كى وجہ سے کوئی آواز بھی
اسےسنائى دے جاتى ہے۔ اور بعض اوقات اسی غلبے كى كىفىت
كى وجہ سے اس شخص كو کوئی صورت بھی نظر آجاتی ہے،
اور وہ صورت بات چىت کرتی ہوئی بھى معلوم ہوتی ہے۔ جب
كہ اس آواز یا اس صورت یا اس کالم کا خارج مىں کوئی وجود
نہیں ہوتا ،سب فقط موجودات خیالیہ ہیں ،ىعنى ىہ سب چىزىں
صرف اور صرف اس كى خىالى دنىا مىں موجود چىزىں ہوتى
ہىں ،حقىقى دنىا مىں كچھ بھى نہىں ہوتا ۔
لیکن نبوت کی یہ حقیقت (جو ان لوگوں نے بىان كى ہے)،
صحىح اور صریح نصوص كى بتائى ہوئى حقىقت كے بالکل
خالف ہے۔ نصوس میں تصرىح ہے کہ وحی ایک غىبى فیض
ہے جو كسى فرشتے كے واسطے سے ہوتا سے ،اور وہ فرشتہ
كبھى تو وحى كا اِّلقا کرتا ہے ،جس کوحدیث میں«نَفَ َ
ث ِّف ْي
َر ْو ِّعي» فرمایا ہے۔ كبھی اس کى آواز سنائی دیتی ہے۔ كبھی وہ
سا منے آکر بات کرتا ہے ،جس کوفرمایا ہے«َ :يأتيني َالملكَ
أحيانًاَ،فيتمثَّلَلي»۔
جدید علوم میں ان سب باتوں كا ،اس لىے انکار کیا گیا ہے
کہ خودفرشتوں کے وجود کو بغىر كسى دلیل كے باطل سمجھا
48
گىا ہے ،اور وحى چوں كہ فرشتے كے واسطے سے ہوتى ہے،
اس لىے وحى كو ہى باطل سمجھ لىا گىا۔ سو فرشتوں كے وجود
إن شَا َء هللاُ تعَالَى ،آئندہ كسى انتباہ میں «وجو ِّد
کی تحقیقْ ،
مالئکہ» کی بحث میں آجائے گی ،جس سے معلوم ہوجائے گا کہ
مالئکہ ىعنى فرشتوں کا وجود،عقلى لحاظ سے محال نہىں ہے۔
اور جب عقلی لحاظ سے ممكن چىز کے وجود پر صحىح نقلى
دلىل داللت كر رہى ہو ،تو عقلی طور پر اس بات کا قائل ہونا
واجب ہے۔(دىكھىے اصول موضوعہ نمبر())2۔
دوسری غلطى :معجزات کے متعلق ہے ،جن کی حقیقت
ىہ ہے كہ وہ ایسے اُمور ہوتے ہیں جن کا وقوع ا َسباب طبعیہ
كے واسطے كے بغىر ہوتا ہے۔ سو جدىد علوم والے كوئى دلیل
پىش كىے بغىر ہى ىہ كہتے ہىں كہ معجزات واقع نہىں ہو سكتے،
معجزات کے وقوع کے بھی منکر ہیں۔ اور اسی وجہ گوىا وہ
سے نصوص مىں جن معجزات كے واقع ہونے كا ذكر كىا گىا
ہے ،ان میں دور دراز كى تاویلىں كرتے ہىں ،اور صرف تاوىل
ہى كىا ،اتنى دور كى كوڑى التے ہىں كہ اسے تحریف کہنا ہى
درست معلوم ہوتا ہے۔ اور ىہ سب حركتىں كرنے كا مقصد صرف
ىہ ہوتا ہے كہ ان معجزات كے بارے مىں ىہ ثابت كر دىا جائے
كہ ىہ معجزہ عام عادت كے خالف بات نہىں تھى ،بلكہ انہىں
ا ُ ِّ
مور عادیہ بنایا جاتا ہے ،كہ ىہ تو عام عادت كے بالكل موافق
بات تھى۔ ۔
چنانچہ اکثر معجزات کوتو بالکل غیر عجیب واقعہ ثابت
كىا جاتا ہے ،كہ ان مىں تعجب كى كوئى بات ہى نہىں ہے،جىسے:
ﮋ ﮀﮁﮂﮃﮊَ[البقرة ]60َ:وغیرہ۔
اور جہاں معجزے كى خبر كو غیر عجیب ثابت نہ كر
سكىں ،تو وہاں اسے مسمریزم کی نوع میں داخل کیا جاتا ہے،
جىسے :حضرت موسى علىہ السالم كى الٹھى سانپ بن گئى
تھى ،تو اس كے بارے مىں كہا جاتا ہے كہ ىہ معجزہ نہىں بلكہ
مسمرىزم تھا۔
49
اور ىہ باتىں كہنے والوں كو جو شبہ پىش آىا ہے ،اس
كا منشا ،اور اس كى بنىاد كو (انتبا ِّہ دوم) میں رفع کردیا گیا ہے۔
قادر مطلق نے جس طرح خود اسباب طبعیہ کو ، ِّ پس
اسباب ِّطبعیہ كے بغىر پیدا کیا ،ورنہ تسلسل الزم آئے گا جو كہ
محال ہے،اسى طرح اگر هللا تعالى چاہىں ،تو ان اسباب کے
سبَّبات كو اسباب طبعیہ كے بغىر پیدا کر سکتے ہیں ۔غَایَةُ َما فِّي
م َ
البَابىہ ہے ،ىعنى زىادہ سے زىادہ ىہى ہو سكتا ہے كہ اس طرح
سبَّبات كو ،اسباب طبعیہ كے بغىر پیدا ہونے(،ىعنى اسباب کے م َ
کر دىنے) کو ُم ْست َ ْب َعدكہىں گے ،مگر اِّ ْستِّ َحا َله اور اِّ ْستِّ ْب َعاد ایک
چىز نہیں ہے۔(دىكھىے اصول ِّموضوعہ ())3۔
تىسرى غلطى ىہ ہے كہ :معجزات کو نبوت كى دلیل قرار
نہىں دیا جاتا ،بلکہ دلىل كے بارے مىں ىہ سمجھا جاتا ہے كہ دلىل
حسن ا َخالق میں منحصر ہے۔ اور دلىل
ِّ حسن تعلىم اور
ِّ صرف
كے اس مىں انحصار کی اس كے عالوہ اور كوئى دلىل نہیں بیان
کی جا سکتی كہ اگر خوارق (ىعنى عام عادت سے ہٹ كر واقع
ہونے والى چىزوں ) كو نبوت كى دلىل كہا جائے ،تو مسمرىزم
ستلزم نبوت ہوں گى۔
ِّ اور شعبدے والى چىزىں بھی م
لىكن ىہ دلیل اس لىے بالكل لچرہے کہ در اصل مسمریزم
اور شعبدات خوارق ِّ عادت ہىں ہى نہیں ،بلکہ ان كى بنىاد عىن
اسباب طبعیہ پر ہے۔ہاں ىہ ہے كہ وہ طبعى اسباب عام عوام كى
نگاہوں سے مخفى ہىں ،لىكن ماہرین اسے خوب جانتے ہىں ،اور
وہ انہىں جان کر مدعى کی تصدىق ىا تکذیب ،اور نیز اس کے
ساتھ معارضہ کر سكتے ہیں۔جب كہ انبىاء علیہم السالم کے
معجزات اىسے ہىں كہ منکرین میں سے کوئى شخص بھى نہ
تو ان كے طبعى سبب كى تشخىص كر سكا ،اور نہ ہى کوئی
شخص ان سے معارضہ کرسکا۔ جس سے صاف واضح ہوتا ہے
کہ وہ معجزات واقع میں بھى خوارق ہیں۔
شت َِّركُ ا ِّال ْستِّ ْلزَ ام نہ ہوئے ،
پس معجزات اور شعبدات ُم َ
(ىعنى معجزات اور شعبدے اىك درجے كى چىز نہ رہے ،اور ىہ
50
ق عادت بات درست نہ رہى كہ معجزے كو درست اور خار ِّ
ب معجزہ كو هللاماننے سے جو چىز الزم آتى ہے ،ىعنى صاح ِّ
كا سچا نبى ماننا ،وہى چىز شعبدے كو درست ماننے سے بھى
ق عادت ہوتا ہى نہىں ہے۔
الزم آ جائے ،اس لىے كہ شعبدہ خار ِّ
لہذا ،معجزات سے نبوت الزمى طور پر ثابت ہوتى ہے ،اور
شعبدات سے بالكل ثابت نہىں ہوتى)۔
ىہ ضرورى نہ رہا كہ جو بات معجزے كو درست ماننے
سے الزم آئے (جىسے نبوت كا سچا ہونا)،وہى بات شعبدات كو
درست ماننے سے بھى الزم آ جائے۔ لہذا ،اىسا ہو سكتا ہے كہ
شعبدہ باز شعبدہ دكھائے ،اور اسے نبى نہ مانا جائے)۔
حسن خلق بھی نبى كى نبوت پر
ِّ البتہ حسن ِّ تعلیم اور
داللت كرتے ہىں،لىكن هللا تعالى كى حكمت كا تقاضا ىہ ہوا كہ
:انبیاء علىہم السالم كے مخاطب دونوں قسم كے لوگ ہوا كرتے
ہىں:
اىك تو خواص اہ ِّل فہم ،جو تعلىم اور اَخالق كے درجۂ علیا
كا (كہ وہ بھى خارق ہے) ،اندازہ كر سكتے ہىں،
اور دوسرے عام عوام اور كم عقل لوگ جوحسن ِّتعلیم
حسن اخالق سے استدالل کرنے میں اس وجہ سے غلطی کر
ِّ اور
سکتے ہىں کہ اعلى درجے کا اندازہ نہىں كر سکتے۔ اس لىے
ہرحكىم اورخوش خلق آدمى کو نبی سمجھ لىتے۔
اس لىےاستدالل كا ایک ذریعہ ان کے اِّدراک اور ا ن
كى عقل كے موافق بھی رکھا گیا،جس مىں علم اضطرارى
صحت ِّ دعوى ا نبوت كا پىدا ہو جاتا ہے۔ اور دوسرے اہل شعبدہ
سے ان کوخلط و غلط اس لىے نہیں ہوسکتا کہ یہ بھی دیکھتے
ہیں کہ ان فنون کے ماہرین بھی معارضہ سے عاجز آگئےہىں۔
چوتھى غلطى یہ ہے کہ :نبوت كے احکام كو صرف
مورمعادىہ ،ىعنى آخرت كے معامالت كے متعلق سمجھا۔ اور ا ُ ِّ
معاشى اُمور میں اپنے آپ کوآزاد اور مطلق العنان قراردے دیا،
51
حاالنكہ نصوص اس خىال کی صاف تکذیب کررہی ہیں ،چنانچہ
هللا تعالى نے ارشاد فرماىا ہے :ﮋﭑﭒ ﭓﭔ ﭕپپپپﭚﭛﭜﭝﭞﭟﭠﭡﭢﭣﭤﭥ
شان نزول اىك دنىاوى معاملہ
ﭦ ٹٹ ٹﭪﮊَ[األحزاب]۔ اور اس آىت كا ِّ
ہى ہے۔
ث مباركہ مىں آتا ہے كہ :آپ ﷺ جب مكہ
اور اىك حدى ِّ
مكرمہ سے ہجرت كر كے مدىنہ طىبہ تشرىف الئے ،تو مدىنہ كے
باشندوں كو تابىر ِّ نخل كر تے دىكھا ،جس كى تركىب ىہ ہوتى
تھى كہ كھجوروں كے درختوں مىں كچھ درخت نَر ،اور كچھ
درخت مادہ ہوتے ہىں۔ تو جب ان درختوں پر بُور نكلنے كا موسم
آتا ،تو نر درختوں كا بُور لے كر ،اسے مادہ كھجور كے درختوں
تأبىر
كى جانب اچھاال كرتے ،جس سے زىادہ پھل پڑتا تھا۔ اسے ِّ
نخل كہتے ہىں۔ بادى النظر مىں تأبىر نخل كرتے دىكھا جائے تو
معلوم ہوتا ہے كہ ىہ صرف وہمى سى چىز ہے ،حقىقت كچھ نہىں
ہے۔ اسى وہم سے بچانے كے لىے آپ ﷺ نے تأبىر نخل سے منع
فورا ہى اس سے رك گئے ،لىكن اس سال
ً فرما دىا۔ صحابہ كرام
كھجور كا پھل كم آىا۔ چنانچہ صحابہ نے اس كى كارگزارى گوش
گزار كر دى كہ اس سال تأبىر نخل سے منع فرما دىا گىا تھا ،اس
لىے ہم نے نہىں كىا ،لىكن اس كى وجہ سے پھل كم آىا ہے۔ تو
اس موقعے پر آپ ﷺ نے ارشاد فرماىا كہ « :أنتم َأعلم َبأمورَ
دنياكمَ» ،كہ( :اپنے دنىاوى امور كو سر انجام دىنے كا طرىقہ تم
زىادہ بہتر جانتے ہو)۔
ث تأبىر سے ىہ شبہ پڑ گىا ہے
تو بعض لوگوں كو اس حدى ِّ
كہ :دىن كا تعلق دنىاوى امور سے نہىں ،بلكہ صرف آخرت كے
امور سے ہے۔
توان كا ىہ شبہ كرنا بھى درست نہىں ہے ،كىوں كہ اس
حدىث مىں تو ىہ قىد ہے كہ :جو دنىا كى بات بطور رائے اور
مشورہ كے فرمائى جاوے ،نہ ىہ كہ بطور حكم كے فرمائى
جائے ،تو اس كو تم خود بہتر طرىقے سے سر انجام دے سكتے
ہو۔
52
اور سمجھنے مىں آسانى كے لىے اس كى عقلى نظىر ىہ
ہے كہ :ہم ملك كے حكمرانوں كو دىكھتے ہىں كہ قوانىن مىں
مىں بھى دست اندازى ت باہمى
ہمارے بالكل ذاتى اور معامال ِّ
كرتے ہىں ،تو كىا حقىقى حاكم كو بھى اس كا حق نہىں ہو سكتا!..؟۔
اور اسی چوتھى غلطى كى بنىاد پر ایک پانچویں غلطى
ىہ ہوتى ہےكہ :وہ شرعى احکامات جومعامالت سے متعلق ہیں،
ہر زمانے میں قابل تبدىل سمجھا جاتا ہے۔سو اگر تو یہ احکام
مقصود نہ ہوتے ،جیسا کہ چوتھی غلطی کا حال ہے ،اور پھر
اىسى بات كے قائل ہوتے ،تو واقعۃ اس مىں مضائقہ نہ تھا۔ لىكن
جب ان دنىاوى امور كے احكامات كا مقصود ہونا بھی ثابت ہے،
جیسا کہ چوتھى غلطى كے دور كرنے مىں ثابت ہو گىا ،تو اب
اس بات كا قائل ہونے کى كوئی گنجائش باقى نہیں ہےكہ:
«معامالت سے متعلق احكامات شرعىہ قابل تبدىل ہىں»۔
باقى رہا ىہ عقلى شبہ ،کہ جب زمانے کے بدلنے
سےمصلحتىں بدلتى رہتى ہیں ،اور اسی بناپر شرىعتونمىں نسخ
اور تبدىلى ہوتى آئى ہے ،تو ىہ كىسےہوسکتا ہے کہ حضرت
سرور دوعالم ﷺ تک کل چھ
ِّ عىسى علىہ السالم سے حضوراكرم
سوسال کا فاصلہ ہے ،اس مدت میں تو مصالح مقتضیۂ تبدیل کے
احکام بدل گئے( ،ىعنى ان چھے سو سالوں مىں تو بعض مصالح
اىسے تھے كہ ان كا تقاضا ىہ ہوا كہ احكام بدلے جائىں ،اور
احكام بدل دىے گئے) ،اور آپ ﷺ كے زمانے سے لے كر اس
وقت تک ،اس عرصے سے دو گنى مدت سے بھى زىادہ عرصہ
گزر گىا ،اور اب تک ان مصالح مىں كوئى تبدىلى نہىں ہوئى۔
تو اس کا جواب یہ ہے کہ :اگر قانون كو بنانے واال
اور وضع كرنے واال،اىسا كامل حكمت واال ،اور عالم الغیب
ہو،تو ممکن ہے کہ جب وہ چاہے اىسے قوانین بنادے جن میں
قىامت تك آنے والے تمام زمانوں كى مصلحتوں كى رعاىتوں كا
لحاظ ركھا گىا ہو۔
اور اگر زمانے كے واقعات کو دیکھ کر شبہ کیا جائے
53
کہ :ہم اس وقت كھلی آنکھو ں سے دیکھتے ہیں کہ شریعت پر
عمل کرنے سے بہت سے كاموں میں تنگی پیش آتی ہے ،جس
سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ شرعى احکام اِّس زمانے کے حاالت
كے مناسب نہیں۔
تو اس کا حل یہ ہے کہ :قانون كى تنگى كا حكم اس وقت
صحىح ہو سكتا ہے کہ جب سب لوگ اس قانون پر عمل كر رہے
ہوں اور پھر کام اٹكنے لگىں۔ سوكوئى شخص اس بات كو ثابت
نہیں کرسكتا۔ اور جو تنگى اس وقت پیش آرہی ہے ،اس کا سبب
یہ ہے کہ عمل نہ كرنے والے بہت زیادہ ہیں ،اور عمل كرنے
والے بہت كم ۔ جب شرىعت پر عمل كرنے والے ان تھوڑے سے
لوگوں کو ،شرىعت پر عمل نہ كرنے والے بہت زىادہ لوگوں سے
سابقہ پڑے گا ،تو معامالت مىں کشاکشی تو ضرور ہوگی۔ تو پتہ
طرز معاشرت ہے ،نہ کہ شرىعت
ِّ چال كہ اس تنگى كى بنىاد ہمارا
كے احکام۔
جىسے :كوئى طبیب كسى مریض کو دس چیزیں کھانے
کو بتاتا ہ ،لىكن اس کے گاؤں میں ایک بھی نہیں ملتی۔ تو یہ تنگى
طب كے علم میں نہیں ہوئی ،بلكہ اس قریہ (ىعنى بستى)کی
تجارت میں ہوئی۔ اور كبھى تو اىسا ہوتا ہے كہ واقعى تنگى نہىں
ہوتى ،محض اپنے ذاتی ضرر سے تنگی کا شبہ ہوجاتا ہے۔ تو
كون سا قانون اىسا ہے جس مىں عام عوام كى سہولت اور
مصلحت كى رعاىت كرنے كى وجہ سے اس قسم كا ذاتی ضرر
پىش نہ آ جاتا ہو!!..؟۔
چھٹى غلطى احکام کے متعلق بعض لوگوں کو یہ ہوتی
ہے کہ :وہ اپنى رائے ،اور اپنے ذہن سے شرىعت كے احکام
كى علل غائىہ كو تراش لىتے ہىں ،اور پھر اپنے ذہن سے تراشى
ہوئى علتوں كے وجود اور عدم وجود پر ،شرعى احكامات كے
وجود اور عدم وجود كو دائر سمجھتے ہىں۔اور اس حركت كا
احكام منصوصہ مىں تصرف کرنےلگتے ِّ نتىجہ ىہ ہوتا ہے كہ
ہیں۔ چناں چہ بعض لوگوں كے بارے مىں ىہ سننے مىں آىا كہ :
54
کہ اُنھوں نے محض نظافت كو وضو کی علت ِّ غائىہ سمجھ لىا،
اور جب اپنے آپ کونظیف دیکھا تو وضوکی حاجت ہى نہ
سمجھى ،اور وضو كے بغىر ہى نمازشروع کردی۔
اور بعض لوگوں نے تہذیب اخالق كو نماز کی علت ِّغائىہ
ب اخالق كے حصول کو مقصود سمجھ
سمجھ لىا ،اور بس تہذى ِّ
کر نماز كى ادائى بالكل اڑادی۔ اسی طرح روز ے مىں ،زكاة مىں
اور حج میں تصرفات کىے۔
اور اسی طرح نواہی (ىعنى منع كى گئى چىزوں) كا
معاملہ بھى ہے ،كہ سود ،اور تصویر وغیرہ مىں تصرف کیا،
اور گوىا تمام شریعت کو باطل کردیا۔
اور عالوہ اس کے کہ اس کا الحاد ہونا ظاہر ہے ،خود
اس تقریر کے تمام تر مقدمات اىسے دعوے ہىں جن كى كوئى
دلیل نہیں ہے۔ کیا ممکن نہیں ہے کہ بہت سے احکام تعبدی ہوں،
کہ ان کی اصلی غایت امتثا ِّل امر سے ابتالئے مكلف ہو(،ىعنى
ان احكام كى اصلى غاىت اور مقصود بس ىہ ہو كہ بندوں كو ان
عبادات كا حكم دے كر امتحان لىا جائے كہ كون سا مكلف شخص
حكم كو پورا كرتا ہے ،اور كون حكم كو پورا نہىں كرتا)۔ اور اس
غاىت كے عالوہ جو غایات تجویز کى گئى ہیں ،اس کی کیا دلیل
ہے کہ وہى غایت ہوں!..؟ ۔ممکن ہے وہ غایات ایسے آثار ہوں
جو ان احکام كى نوعى صورت ہى پر مرتب ہوتے ہوں ،جس
طرح بعض دوائىں( ،بلکہ غور كىا جائے تو تمام دوائىں) مؤثر
بالخاصیت ہوتی ہیں۔
پھر یہ بھى تو ممكن ہے کہ کسی کی سمجھ میں كچھ آئے
،اورکسی کے خیال میں كچھ آئے ،تو ایک رائے کودوسری
رائے پرترجىح دىنےکی کیا دلىل ہے؟۔ چنانچہ اس قاعدےِّ « :إذَا
ساقَ َ
طا» كى ُرو سے دونوں كے رائےکوساقط قرار دے ضا :ت َ َ تَعَ َ
ار َ
نفس احكام ہى منعدِّم اور منہدم ہوجائىں گے۔ تو کیا کوئی
کرِّ ،
عقل مند معتق ِّد ملت اس کا قائل ہوسکتا ہے؟۔
اور اسی بنىادى غلطى كى شاخوں مىں سے اىك غلطى
55
ىہ ہے کہ مخالف مذہب کے مقابلے میں اسى طرح كى علتىں بىان
کر کے فروعى احکام كو ثابت کیا جاتا ہے۔ سواس میں بڑی
خرابی یہ ہے کہ علتىں تو محض تخمىنى اور اندازے)ہو تى
ہیں۔اگر ان میں کوئی خدشہ نكل آئے ،تو اصل حكم مختل ٹھہرتا
طرز عمل اختیار كرنا تو مخالفین کو احکام كے
ِّ ہے ،تو اىسا
ابطال کی گنجائش دینا ہے۔
اور موٹی بات تو یہ ہے کہ یہ قوانین ہیں ،اور قانون اور
ضابطے میں کوئی اسرار نہیں ڈھونڈاکرتا۔ اور نہ ہى
اسرار ِّمزعومہ پر قانون میں تغىر و تبدىلى ،ىا اس قانون كوچھوڑ
دىنے کا اختیار ہوا كرتا ہے۔ ہاں! خود قانون بنانے والے کو یہ
اختیارات حاصل ہوتے ہیں۔
اور بعض مجتہدین نے جو بعض احکام میں علتىں تالش
كر كے نكالى ہىں ،كوئى شخص اس سے دھو کا نہ کھائے۔ پہلى
بات تو ىہ ہے كہ :وہاں كچھ مسائل اور امور اىسے تھے جن مىں
نصوص ساكت اور خاموش تھىں ،اور نصوص كى روشنى ہى
مىں حكم كو متعدى كرنے كى ضرورت تھى۔ اور دوسرى بات
ىہ كہ :ان کواس قسم كے مسائل كو حل كرنے کا سلیقہ تھا۔ اور
یہاں دونوں باتىں مفقود ہىں ،كہ نہ تو مسائل كے تعدىہ كى
ضرورت ہے ،نہ ہى مدعى حضرات كو سلىقہ ہے۔ اور اس كے
ساتھ ساتھ كم علمى ،اور اس سے بڑھ كر نفسانى خواہشات كى
اتباع كرنا ،مسائل كى علتوں كو جاننے مىں بڑا حاجب اور ركا
وﭦ ہے۔
ساتویں غلطى جو سارى غلطىوں سے قبىح ہے ،وہ ىہ كہ:
بعض لوگ نبوت كے منكر شخص کی نجات کے قائل ہیں۔ وہ
کہتے ہیں کہ :خود انبیاء علىہم السالم بھی توحید ہی کے لىے آئے
ہیں۔تو جس کو اصل مقصود حاصل ہو جائے ،تو غیرمقصود
چىز کا انکار اس کو نقصان نہىں پہنچا سكتا۔
اس قبىح ترىن غلطى كا مختصر سا نقلى رد كرنے كے
لىے تو وہ نصوص ہى كافى ہیں جو نبوت كے جھٹالنے والوں
56
كے ُخلُ ْود فِّي النَّار(،ىعنى ہمىشہ ہمىشہ جہنم كى آگ مىں رہنے )
پر داللت كرتى ہىں۔
اور اس غلطى كا عقلى رد یہ ہے کہ :حقیقت مىں رسول
هللا كو جھٹالنے واال ،هللا كو جھٹالنے واال بھی ہے ،کیوں کہ وہ
ﮋ ﭴ ﭒﭓﭔﮊَ[الفتح ،]29َ:وغیرہ نصوص کی تکذیب کرتا ہے۔
اور عرفى نظیر یہ ہے کہ اگر کوئی شخص شاہ جارج
پنجم کوتومانے ،مگر گورنر جنرل سے ہمیشہ مخالفت ومقابلے
سے پیش آئے۔ کیاوہ شاہ کے نزدیک کسی قرب یا رتبے یا معافی
کے الئق ہوسکتا ہے!!...؟۔
* * * * *
57
دوسرے یہ کہ :قرآن مىں مسائل سائنس پر منطبق ہونے
كى ،اور مسائل سائنس پر مشتمل ہونے كى كوشش كى جاتى ہے،
(ىعنى اس بات كى كوشش كى جاتى ہے كہ اىك تو ىہ ثابت كىا
جائے كہ قرآن مجىد میں سائنس كے مسائل بىان ہوئے ہىں،اور
دوسرے ىہ ثابت كىا جائے كہ قرآن مجىد مىں جو مسائل بىان ہوئے
ہىں ،وہ سائنس پر منطبق ہوتے اور مكمل فٹ بىٹھتے ہىں) ۔
پہلی غلطی کا جواب وہ نصوص ہیں جن سے بقیہ اصول
کا حجت ہونا ثابت ہوتا ہے ،اور اہ ِّل اصول نے انہىں خوب
تفصىل سے بىان کیا ہے۔ اور اسی غلطی کی اىك شاخ یہ ہے کہ
جس گناہ کے کرنے کو جى چاہتا ہے ،اس سے منع کر دىا
جائے ،تو اس وقت یہ سوال کردیا جاتا ہے کہ :قرآن میں اس
كى ممانعت دکھالؤ۔چناں چہ ڈاڑھی کے متعلق اسى قسم كے
سواالت اخباروں میں شائع ہوئے ہیں۔
پھر ىہ بات بعض لوگوں كى فطرت میں اس حد تك داخل
ہوگئى ہے کہ جب کوئی مذہب كا مخالف کسی بات کوقرآن مجىد
سے ثابت کرنے کا مطالبہ کرتا ہے،تو ىہ لوگ اس مطالبے كو
صحىح ،اور اس كے قرآن سےاِّثبات کواپنے ذمے الزم سمجھ
کر اس کی تالش میں لگ جاتے ہیں۔ اور جو لوگ خود اس پر
قادر نہیں ہوتے كہ قرآن سے تالش كر سكىں ،تو علماء کو مجبور
کرتے ہیں کہ بس ،كہىں قرآن ہی سے ثابت کردو۔
تو جب اس فرع كى بنىاد ہى كا غلط ہونا ثابت ہو چكا ہے،
ع َلى ال َفا ِّسد ہونا بھی ظاہر ہوگیا۔ اب
تو اس فرع كا ِّبنَا ُء ال َفا ِّسد َ
مستقل رد كرنے کی ضرورت باقى نہیں رہى۔
پھرىہ بھى ہے كہ اس دروازے کا ىوں كھول دىنا ،نہایت
ہی بے احتیاطی ہے۔ اور اس کا انجام خود ارکان ِّاسالم کو شرع
سے ثابت نہ ماننا ہو گا۔ ۔ کیا کوئی شخص پانچوں نمازوں کی
كل رکعات کا عدد قرآن مجىد سے ثابت کرسکتا ہے؟ کیا کوئی
شخص زكاة كا نصاب ،اور واجب مقدار کا اِّثبات قرآن مجىد سے
کرسکتا ہے؟۔
58
اور اىسے ہى،اس قسم كے مطالبے كا غیر معقول ہونا ایك
حسى مثال سے بھى سمجھ میں آسکتا ہے ،کہ اگر كوئى شخص
عدالت مىں اپنے دعوے كے ثبوت میں گواہ پیش کرے،تو مدعا
علیہ کواس گواہ پر قانونی جرح کا اختیار تو حاصل ہے۔ لیکن
اگر گواہ پر جرح ہوئى ،او ر وہ جرح میں صاف رہا ،تو مدعى
كو یہ اختیار نہیں ہوتا کہ عدالت سے یہ درخواست کرے کہ:
اگرچہ گواہ غیر مجروح اور معتبر ہے ،مگر میں تو اس دعوے
کو تب تسلیم کروں گا کہ جب اس گواہ كى بجائے فالں معزز
عہدے دار ،یا فالں رئیس اعظم ىا وزىر اعظم ىا گورنر آ كر
گواہی دے۔ تو کیا عدالت اىسی درخواست کو قابل پذیرائی
سمجھے گی۔
اسی راز کے سبب ،فن ِّمناظرہ کا ىہ مسئلہ قرار پایا ہے
کہ مد عی سےنف ِّس دلیل کا مطالبہ ہوسکتا ہے۔ اور نیز ىہ بھى
تصریح کی ہے کہ دلیل کی نفی سے مدلول کی نفى الزم نہىں
آتی ،کیوں کہ دلیل ملزوم ہے ،اور مدلول الزم ہے ،اور اگر ملزوم
كى نفى كر دى جائے ،تو ىہ الزم كى نفى كو مستلزم نہیں ہے۔
تو جو شخص دعوی کرے کہ فالں ا َمر ىا فالں بات شرع سے
ثابت ہے ،اس کو اختیار ہے کہ شرع کی جس دلیل سے چاہے
اس کو ثابت کردے۔کسی کو اس مدعى سے اس طرح كا بے تكا
مطالبہ كرنے کا حق نہىں پہنچتا کہ م ً
ثال :ىہ بات قرآن ہی سے
ثابت کرو۔
ہاں !یہ بات تسلىم ہے کہ یہ چاروں دالئل قوت میں برابر
نہىں ہىں۔ لىكن جىسا فرق اور تفاوت ان چاروں دالئل کى قوت
مىں ہے ،وىسا ہى تفاوت ان كے مدلوالت مىں ہےکہ:
ي الثُّبُوت َوالد ََّال َلة ہىں،
بعض دالئل قطع ُّ
ت َوالد ََّاللَة ہىں، ي الثُّبُو ِّ ظ ِّن ُّ اور بعض دالئل َ
ي الد ََّال َلة ہىں،
ظنِّ ُّ ي الثُّبُوت َ اور بعض دالئل قطع ُّ
ي الد ََّال َلة ہىں، ي الثُّبُوت قَط ِّع ُّ اور بعض دالئل َ
ظ ِّن ُّ
لیکن كسى كو یہ منصب بھی حاصل نہیں ہے کہ ظنى
59
اَحكام کونہ مانے۔ کیا کسی ایسے حاکم ،كہ جس کے فىصلے
كى اپىل نہیں ہوسکتى ،كے بہت سے فىصلے محض اسى بنا پر
صادر نہىں ہوتے کہ اس حاكم نے مقدمۂ ِّ مرجوعہ (ىعنى جس
مقدمے كا فىصلہ كروانے كے لىے اس حاكم كى طرف رجوع
كىا گىا ہے) ،کوکسی قانونى دفعہ میں داخل قرار دیا ہے ،اور وہ
دفعہ ىقىنى ہے ،مگر اس دفعہ مىں داخل کرناظنى ہے ،جس کا
ي الد ََّاللَة ہونا ہے ،لىكن اس كے ي الثُّبُوت َ
ظنِّ ُّ حاصل اس کا قطع ُّ
نہ ماننے سے جو نتىجہ ہو سكتا ہے اسے ہر شخص جانتا ہے۔
ىہ تقرىر پہلى غلطى كے متعلق تھى ،جو قرآن مجىد كے بارے
مىں ہوتى ہے۔
دوسری غلطى :ىعنى قرآن مجىد كے بارے ىہ كوشش
كرنا كہ :اس کا سائنس كے مسائل پر مشتمل ہونا ثابت ہو جائے،
جیسا كہ آج کل اکثر اخباروں اور پر چوں میں اس قسم کے
مضامین دیکھنے میں آتے ہیں ،کہ جب اہل یورپ کی سائنس كے
متعلق كوئى تحقىق دىكھى سنى ،تو جس طرح بن پڑا ،اس کو
كسی آیت کا مدلول بنادیا ،اور اس کو اسالم کی بڑی خیر خواہی،
اور قرآن کے لىے بڑے فخر کی بات ،اور اپنی بڑی ذکاوت
سمجھتے ہیں۔ اور اس غلطی میں تو بہت سے اہل علم کو بھی
مبتال دیکھا جاتا ہے۔
اس میں قرآن مجىد كے بارے مىں ایک غلطی تو ىہی
ہے كہ قرآن کے سائنس كے مسائل پرمشتمل ہونے کوقرآن کا
کمال سمجھا۔ اور وجہ اس کی یہ ہوئی کہ قرآن مجىد کے اصل
موضوع پرنظر نہیں کی گئی۔
اصل میں قرآن مجىد نہ تو سائنس کی کتاب ہے ،نہ تاریخ
کی ،اور نہ ہى جغرافیے کی۔ وہ اصالح ِّارواح کی ایک کتاب
ہے ۔ جس طرح طب كى كسى کتاب مىں كپڑے بننے اور جوتے
بنانے كى صنعت و حرفت كا ذكر نہ ہو ،اور ان شعبوں كى تحقىق
سے خالى ہو ،توىہ طب كى كتاب کے لىے موجب ِّنقصان نہیں
ہے،بلکہ اگر غور کیا جائے تو اس طبى كتاب كا ،كپڑے جوتے
60
بنانے كے طرىقوں پر مشتمل ہونا ،خلط مبحث كى وجہ سے
خود ایک در جے میں موجب نقصان ہے ،اور ان دوسرى ابحاث
سے خالی ہونا کمال كى بات ہے ،بالكل اسی طرح قرآن مجىد
،جو کہ طب روحانی ہے ،ان سائنسى مسائل سے خالی ہونا،
اس کے لىے كچھ بھى نقصان دہ نہیں ،بلکہ یک گونہ کمال ہے۔
البتہ اگر كبھى كہىں ،اس طب ِّ روحانی کی ضرورت سے
سائنس كے كسى جزئى مسئلے كا ذكر ہو جائے ،تو وہ اس
مكملہوتا ہے۔مگر بہ قاعدۂ ِّ
ِّ روحانى عالج كى ضرورت كا
ي یَتَقَد َُّر بِّقَدَ ِّر الض َُّر ْو َرة»،ضرورت كى مقدار سے
«الض َُّر ْو ِّر ُّ
زىادہ كا ذکر نہىں ہوگا۔
چناں چہ توحید (جو كہ اَرواح كى اصالح كے بہت بڑے
اور بنىادى مقدمات مىں سے اىك ہے) ،کے اِّثبات كے لىےآسان
اور فہم كے قرىب ترىن طرىقہ مصنوعات كے ذرىعے توحىد پر
استدالل كرناہے۔ اسى لىے کہیں کہیں اجمال اور اختصار كے
ساتھ آسمان وزمىن ،انسان وحىوان وغىرہ كى پىدائش كے
مضمون كا بىان ہوا ہے۔ اور چوں کہ تفصیل کی ضرورت نہىں
تھی ،اس لىے اس کا ذکر نہیں ہوا۔
غرض سائنس کے مسائل كو بىان كرنا ،قرآن مجىد كے
مقاصد مىں سے نہیں ہے۔ البتہ اگر كبھى ضرورت كى بنا پر،كسى
مقصود كى تائىد كے لىے ،جو كچھ قطعى داللت كے ساتھ بىان
كىا گىا ہے وہ یقینى اورقطعى طور پر صحیح ہے۔ کسی دوسری
دلىل سے كوئى اىسى بات ثابت ہو جو قرآن كے بىان كے خالف
ہو ،تو اس کے خالف کا اعتقاد ركھنا جائز نہیں۔ اگر کوئی
دوسرى دلىل قرآن مجىد كے معارض ہوگی ،تو تحقیق كے بعد
،ىا تو وہ دلیل ہی مخدوش ہوگی ،یا پھر تعارض كا شبہ ہوگا،
حقىقت مىں تعارض نہ ہو گا۔
ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ اىك تو آىت كى (اپنے معنى پر )
داللت قطعی نہ ہو ،اور دوسرے ىہ كہ اس کے خالف پر صحىح
دلىل قائم ہو ،تو وہاں قرآن كى نص کوظاہرى معنى سے پھىر
61
(كر تاوىل كر ) لىں گے ،جىسا كہ اصول ِّموضوعہ نمبر ()7میں
تحقیق سے بىان ہوا۔
دوسری غلطی یہ ہے کہ :اس اوپر کی تقریر سے معلوم
ہو گىا کہ اىسے سائنسى مسائل كا بىان كرنا قرآن مجىد کے
مقاصد مىں سے نہیں ،بلکہ مقصود كے مقدمات مىں سے ہے۔
اور ظاہر ہے کہ استدالل میں مقدمات اىسے ہونے چاہئىں جو
دعوے كو ثابت كرنے سے پہلے ہى مخاطب کے نزدیک تسلىم
شدہ ہوں ،یا بدىہى ہوں ،ىا دلىل كے ذرىعے تسلىم كروا لىے جائىں،
ورنہ ان مقدمات سے اپنے دعوے پر استدالل ہی نہىں ہو سکے
گا۔
جب یہ بات معلوم ہوگئی ،تو اب سمجھنا چاہىے کہ اگر
یہ تسلىم كر لىا جائے كہ ىہ جدید سائنسى تحقیقات ہى (جن كا
سائنس دانوں كو اس دور مىں پتہ چال ہے) ،ان قرآنى آیات کے
مدلوالت و مفہومات ہىں ،اور جىسا كہ ظاہر ہے قرآن كے سب
سے پہلے مخاطب عرب کے لوگ تھے ،جو ان تحقیقات سے
(سرزمىن عرب كے غىر
ِّ بالكل نا آشنا تھے ،تو الزم آئے گا کہ
سائنس دان) مخاطبىن كے سامنے اىسے مقدمات كے ذرىعے
استدالل كىا گىا جو نہ تو مخاطب كے نزدىك تسلىم شدہ تھے ،نہ
بدىہى تھے ،اور نہ ہى ان كے نزدىك ثابت تھے ،گوىا ان مقدمات
میں استدالل کی صالحیت ہی نہیں ہے۔ تو هللا كے کالم کے
طرزاستدالل پر کتنا بڑا دھبہ لگے گا۔
تیسری خرابی اس میں یہ ہے کہ :یہ تحقیقا ت كبھی غلط
بھی ثابت ہوتی رہتی ہیں۔ سواگر ان کوقرآن مجىد كا مدلول بنایا
جائے ،تو اگر كسی وقت كسى تحقیق کا غلط ہونا ثابت ہوگیا ،اور
كتابوں مىں قرآن مجىد كى تفسىر كے ضمن مىں اہل اسالم کا
اقرار مدون ہوگا کہ قرآن مجىد کا دعوى ىہ ہے ،تو اس وقت ایک
ادنی ملحد بھى نہایت آسانی سے قرآن مجىد كى تکذیب پر قادر
ہو سكے گا کہ :قرآن مجىد کا یہ مضمون غلط ہے۔ اور كسى
جزو کا ارتفاع ،كل كے ارتفاع كو مستلزم ہے ،تو قرآن صادق
62
نہ رہے گا۔ اس وقت کىسی دشواری ہوگی۔
اور اگر کوئی شخص یہ احتمال نکالے ،جیسا کہ كچھ
لوگوں نے دعوی بھی کیا ہے کہ :قرآن میں یہ کمال ہے کہ جس
زمانے میں جو بات ثابت ہو ،اس کے الفاظ اسی کے موافق
ہوجاتے ہیں۔تو اس بناپر تو یہ الزم آتا ہے کہ قرآن مجىد کا کوئی
مدلول بھی قابل اعتمادنہىں ہے ،ہر مدلول میں اس كى نقىض كا
احتمال بھی موجود ہے۔ تو یہ تو اىسی بات ہوئی جىسے کسی
چاالک نجومی کی حکایت ہے کہ :اس سے جب پوچھا جاتا کہ
ہمارے لڑکا ہوگا یا لڑکی؟۔ وہ کہہ دیتا کہ :لڑکا نہ لڑکی۔ اور جو
صورت واقع ہوتی،لب ولہجے كے اختالف كى بنا پر عبارت
کواس پر منطبق کردیتا۔ کیا اىسی کتاب کو ہدایت نامہ کہنا صحىح
ہو گا!!..؟۔
چوتھی خرابی اس میں یہ ہے ،جو بالکل ہی غیرت کے
خالف ہے ،کہ اس صورت میں اگر یورپ كے محققىن یہ كہیں
کہ دیکھو! قرآن مجىد کو نازل ہوئے اتنا زمانہ ہو گىا ہے ،مگر
آج تک اسے کسی نے ،یہاں تک کہ خود تمہارے نبى نے بھی
نہىں سمجھا۔ ہمارا احسان مانو کہ ہمارى سائنسى اىجادات كى
بدولت قرآن كى تفسىر تمہىں سمجھ میں آئی ،تو اس کا کیا جواب
ہوگا۔
یہاں تک ان غلطیوں کا بیان تھا جو کالم هللا کے متعلق
واقع ہورہی ہیں۔ اب بقیہ دالئل کی نسبت عرض کرتا ہوں۔
* * * * *
63
انتبا ِّہ پنجـم:
ق حدىث ،من جملہ اصو ِّل اربعۂ متعل ِّ
شرع
حدیث کےمتعلق ىہ غلطى ہے کہ اس کی نسبت یہ خیال
کیا جاتا ہے کہ حدىثىں محفوظ نہیں ہیں ،نہ الفاظ محفوظ ہىں،نہ
ان كے معانى محفوظ ہىں۔
لف ً
ظا تو اس لىے محفوظ نہىں ہىں کہ عہد ِّنبوی میں
حدىثوں كو لكھ كر جمع نہیں کیا گىا ،محض زبانی نقل در نقل
کی عادت تھی۔ تو ایسا حافظہ کہ الفاظ تک یاد رہیں فطرت کے
سرور دو عالم
ِّ خالف ہے۔ اور معنى اس لىے محفوظ نہىں کہ جب
ﷺسے كچھ سنا ،تو المحالہ اس کاكچھ نہ كچھ مطلب بھى سمجھا
،چاہے وہ مطلب آپ کی مراد کے موافق ہو یا موافق نہ ہو۔ اور
حدىث كے الفاظ تو محفوظ رہے نہىں ،جیسا كہ اوپر بیان ہوا۔
پس اسی اپنے سمجھے ہوئے مطلب کو دوسروں کے رو برونقل
کردیا۔پس آپ کی مراد کا محفوظ رہنا بھی ىقىنى نہ ہوا۔ اور جب
نہ الفاظ محفوظ ہیں نہ معانی ،تو حدیث حجت کس طرح
ہوگئی!!..؟۔ اور قرآنى فرقے كے شبہات كا خالصہ اور حاصل
ىہى ہے۔
اورحقیقت میں ىہ غلطى محدثین اور فقہائے سلَف کے
حاالت میں غور نہ کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ ان کو ضعف ِّحافظہ
ت خشیت میں اپنے اوپر قیاس كر لیا ہے۔ان
ت رغبت اور قل ِّ
اور قل ِّ
حضرات كا قوت ِّحافظہ ،تو ان كثىر واقعات سے ثابت ہوتا ہے
جو معنى كے لحاظ سے متواتر ہىں۔ چناں چہ درج ذىل واقعات
سىرت ،تارىخ ،اور اسماء رجال كى كتب مىں مشہور اور معروف
64
ہ ى ں:
حضرت ابن عباس رضى هللا عنہ کا سوشعر کے قصیدے کو
ایک بار سن کر یاد کر لینا،
اور حضرت امام بخاری رحمۃ هللا علىہ کا ایک مجلس میں سو
اىسى حدىثوں كو سن كر،جن كى سند اور متن كو بدل دىا گىا
تھا ،ہرایک سنانے والے کی غلطى بتا بتا كر اسى طرح غلط
طرىقے سے سنانا ،اور اس کے بعد ان سو حدىثوں كو صحىح
صحىح سنا دىنا،
اور امام ترمذى رحمہ هللا تعالى کا نا بىنا ہو جانے كے بعد
ایک راستے سے گزرتے ہوئے اىسے درخت كى شاخوں سے
جو اس وقت باقى نہ رہاتھا بچنے كے لىےسر كا جھکالینا،
اوروجہ دریافت کرنے پر وہاں درخت ہونے کی خبردینا اور
تحقىق سے اس خبر کا صحىح ثابت ہونا،
اور محدثین کا اپنے شیوخ کے امتحان کے لىے گا ہے گاہے
احادیث کى دہرائى کرانا ،اور ایک حرف کی کمی بیشی نہ
نکالنا،
ت حافظہ پرداللت کرنے کے لىے کافی ہے۔ یہ سب باتىں قو ِّ
سي ِّ ُء ال َحا ِّف َ
ظه ُروات کی اسماء الرجال میں نظر کرنے سے َ
روایات کو صحىح رواىات سے خارج کرنا کافی حجت ہے،
اوراس باب میں محدثین نے کافی کاوشىں کی ہىں۔
اور قوت ِّحافظہ کے عالوہ ،چوں کہ هللا تعالی کو ا ُن سے
یہ کام لینا تھا ،اس لىے غىبی طور پر بھی اس مادے میں ان کی
تائید کی گئی تھی۔ چناں چہ حضرت ابو ہرىرہ رضى هللا عنہ كا
ضعف حافظہ كى
ِّ قصہ احادیث میں وارد ہے(،كہ انہوں نے
حضور اكرم ﷺنے ان کى چادرمیں كچھ کلمات
ِّ شكاىت كى ،تو
پڑھ دىے ،اور اُنھوں نے وہ چادر اپنے سینے سے لگا لی) ۔
اور اس پر ىہ شبہ نہ كىا جائے کہ خود حدیث ہی میں تو
کالم ہورہا ہے ،اور پھر حدیث ہی سے استدالل کیا جاتا ہے۔ اصل
بات یہ ہے کہ کالم تو احکام کی حد ىثوں میں ہے ،اور یہ محض
65
ایک قصہ ہے۔اور اىسى احادىث علم تارىخ كى قسموں مىں سے
ہے جس سے بدون اختالف كے احتجاج كىا جاتا ہے ۔ اور اگر
اس قصے پرخالف ِّ فطرت ہونے کا شبہ ہو،تو اس کا جواب
(انتباہ ِّسوم) كے تحت معجزات كى بحث مىں ہوچکا ہے۔
پھر خود ہم کو اس میں بھی کالم ہے کہ اس قصے كو
فطرت كے خالف مانا جائے۔ مسمرىزم كےماہر لوگ ،معمول
شخص کے متخیلہ میں اىسے تصرفات کردىتے ہیں جن سے
غیر معلوم چىزىں منکشف ہو جاتى ہىں ،اور معلوم اشیاء غائب
اور اوجھل ہوجاتی ہیں۔ ہمارے كہنے كا ىہ مقصد نہیں ہے کہ
آپ ﷺ کا یہ تصرف اسی طرح كا تھا ،بلکہ صرف یہ بتانامقصود
ہے کہ اس قصے كو مطلقًا فطرت كے خالف کہنا صحیح نہیں
ہے۔ اور اگر ىہ تسلىم كر بھى لىا جائے ،تو معجزہ ہو گا ،جس
كافىصلہ اس اس سے پہلے ہوچکا ہے۔
اور اس سب بحث كے عالوہ ،ہم نے خوداپنے زمانے
کے قریب كےاىسے حافظے کے لوگ سنے ہیں۔ چناں چہ حافظ
رحمت هللا صاحب الہ آبادی کے حافظے کے واقعات دیکھنے
والوں سے خود مىرى مالقات ہوئى ہے ،اور حکایتیں سنی ہیں۔
یہ تو حافظے کی کیفیت ہوئی۔
اور صحابہ كرام رضى هللا عنہم كو حدىثىں ىاد كرنے،
اور ىاد كرنے كے بعد انہىں ىاد ركھ كر آگے دوسروں تك پہنچانے
كى رغبت اس لىے تھی کہ جناب سرور ِّ دو عالم ﷺ نے اىسے
شخص کودعا دى ہے ،چنانچہ ارشاد فرماىا«َ :نضَّر َهللا َعبدًاَ،
سمعَمقالتيَفحفظهاَووعاﻫاَ،وأدَّاﻫاَكماَسمعها» ،تو وہ حضرات
اس دعا كو لىنے كى نہایت کوشش كىا کرتے تھے ،كہ ہر ممكن
حد تك حدىث كو بعَ ْینِّه ویسے ہى پہنچادیں۔
اور صحابہ كرام رضى هللا عنہم كو ىہ فكر بھى رہتى تھى
كہ كہىں اىسا نہ ہو كہ حدىث كے الفاظ مىں كسى قسم كى تبدىلى
ہو جائے۔ اور انہىں تغىر كا ىہ خوف اس لىے تھا کہ انھوں نے
سرور دو عالم ﷺ سے ىہ سن ركھا تھا کہ«َ:منَکذَبََ
ِّ حضور اكرم
66
ي َماَلم َأَقَلَهََ :فليتب َّوأ َمقعده َمن َالنَّارَ»،حتی کہ بعض صحابہ
علَ ََّ
خوف کے مارے حدیث ہی بیان نہیں کرتے تھے۔
پھر محدثین كرام نے احادىث كے مجموعے لكھے ،تو
لمبى اور طوىل احادیث مىں بعض الفاظ كے بارے مىں تردُّد کرنا،
اور «نَ ُح ْوہُ» اور « ِّمثْلُه» وغیرہ کہنا ،حدىث كے الفاظ كى حفاظت
كے اہتمام اور احتیاط کی صاف دلیل ہے۔اور اىك مدت اىسے ہى
گزر گئى كہ احادىث كو اسى طرح زبانى طور پر كامل احتىاط
اور اہتمام سے رواىت كىا جاتا رہا۔ پھر كتابت اور تدوىن كا دور
آىا تو سندوں كے ساتھ ،كتابى صورت مىں حدىثوں كے مجموعے
مرتب كر لىے گئے۔
تو جب اس باب میں ہمىشہ ہى اتنی بارىك بىنى اور
چھان پھٹك كى جاتى تھى ،تو جس زمانے مىں حدىثوں كى كتابت
اور تدوىن نہىں ہوئى تھى ،اس زمانے مىں بھى حفاظت كا
اہتمام اىسا كامل تھا كہ صرف كتابت نہ كرنے سے احادىث كى
صحت مىں كوئى خلل نہىں آىا۔ بلکہ غور کرنے سے تو زىادہ
مفىد اور معىن ہونا سمجھ مىں آتا ہے ،كىوں كہ لكھنے والے كو
اپنى لكھى ہوئى تحرىر پر اعتماد ہوتا ہے ،اس لىے اس كى
حافظے كى رىاضت كا موقع كم ہو جاتا ہے ،اور معلوم ہى ہے
كہ ہر قوت ریاضت سے بڑھتی ہے۔
ہم نے ا َن پڑھ لوگوں کو،بڑے بڑے طویل وعریض
جزئیات کا حساب زبانی بتاتے اور جوڑتے دیکھا ہے ،بخالف
خواندہ اور پڑھے لكھے لوگوں کے ،كہ لكھے بغىر ان کو خاک
بھی یاد نہیں رہتا۔ اور اِّس وقت لوگوں کے حافظے کى كمزورى
كى ایک وجہ یہ بھی ہے۔
دوسرى وجہ وہ بھی ہے جس کی طرف اوپر اشارہ کیا
گیا ہے کہ هللا تعالی کو ،اُن حضرات سے جو كتابت نہىں جانتے
تھے یہ کام لینا تھا ،اس لىے انہىں بہت پختہ حافظہ دىا گىا ،اور
ا َب تدوین احادیث ،اور اس كے ثمرے اورنتىجے كے طور پر
تدوىن احکام وفقہ كاكام سر انجام دىا جا چكا ،اس لىے بھى لوگ
ِّ
67
اس قسم كے محىر العقول حافظے سےمستغنی ہو گئے ہىں۔
اور فطرى طور پر ىہ اَمر بھى جاری ہے کہ جس وقت
جس چیز کی حاجت ہوتی ہے ،اس کے مناسب قُوی پیدا کر دىے
جاتے ہیں۔ چناں چہ اس وقت مختلف صنعتوں اور ایجادات کے
مناسب دماغوں کا پیدا ہونا ،اس کی تائید کرتا ہے۔
اور اس وقت حدىث كى کتابت نہ كىے جانے كى حكمت
ىہ تھى كہ قرآن مجىد اور حدیث شرىف مىں خلط نہ ہوجائے۔
جب قرآن مجىد کی پوری حفاظت ہوگئی اور خلط ملط ہونے کا
احتمال نہ رہا ،اور مستزاد ىہ كہ مختلف فرقوں کى نفس پرستىوں
سنن ،ىعنى حدیثوں کا جمع ہوجانا، کا ظہور ہوا ،تو اس وقت ُ
اور ان كى كتابت كىا جانا أ َ ْق َرب إِّلَى ا ِّالحتِّیَاط،اور أَع َْون َ
علَى
الدیْن تھا۔ پس نہایت احتیاط سے حدىثىں جمع كى گئىں۔
ِّ
اسماء الرجال کے متون ،اور چناں چہ اسانید ،
مجموعوں كو غور سے دىكھىں تو دل کو پورا یقین ہوجاتا ہے
کہ اقوال وافعال نبویہ ،كسى قسم كے تغىر اور تبدل كے بغىر
اخبار احاد میں بھی جاری ہوتی
ِّ محفوظ ہوگئے ہیں۔ یہ تقریر تو
ہے۔ اور اگر حدیث كى كتابوں کو جمع کر کے ان کے متون
متون حدىث مىں اتحاد و اشتراك
ِّ اور اسانید کو دیکھا جائے تو اكثر
،اور اسانید میں تعدد وتكثر نظر آئے گا ،جس وجہ سے وہ
احادىث متواتر ہوجاتی ہیں۔ اور متواتر رواىت مىں ان شبہات كى
گنجائش ہى نہىں رہتى جو غىر متواتر رواىت كى تحقىق سے
متعلق ہوتے ہىں ،کیوں کہ متواتر رواىت میں راوی کا صدق یا
ضبط یا عدل،كچھ بھی شرط نہیں۔
ىہاں تك حدىث نبوى كے حجت ہونے كا بىان ہوا۔ اس كے
ساتھ ہى ىہ بھى معلوم ہو گىا ہو گا كہ جب حدىث اس قدر احتىاط
اور اہتمام سے نقل كى گئى ہے ،تو دراىت (ىعنى محض عقلى
دلىل ) سے حدىث پر تنقید کرنا ہى غلط ہے ،کیوں کہ صحىح
حدیث كا كم سے كم درجہ بھى وہ ہے جو ثبوت اور داللت ،
دونوں اعتبار سے ظنى ہو۔اور جس چیز کا نام « درایت» رکھا
68
ہے ،اس کا حاصل «دلی ِّل عقلى ظنی »ہے ،اور اصول ِّموضوعہ
نمبر()7میں بڑى وضاحت سے ىہ بات گزر چكى ہے كہ اىسى
نقلى دلىل جو ظنى ہو ،اسے اىسى عقلى دلىل جو ظنى ہو ،پر
ترجىح اور برترى حاصل ہوتى ہے۔
ہاں! حدىث مىں اىك نكتہ اور ہے۔ وہ ىہ كہ حدىث مىں
روایت بالمعنى بھى ہوا كرتى ہے ،ىعنى مفہوم تو وہى ہو جو
رسول هللا ﷺ نے بىان فرماىا تھا ،لىكن تعبىر اور الفاظ مختلف
ہوں ،گوىا راوى حدىث كا اصل معنى اپنے الفاظ مىں بىان كر
دے۔ تو ىہ تسلىم شدہ بات ہے ،نہ تو كوئى اس كا انكار كر سكتا
ہے ،اور نہ كرتا ہے۔ لىكن ىاد ركھنا چاہىے كہ :
اول تو بال ضرورت اس كى عادت نہىں تھى۔اوران كے
حافظے كو دىكھتے ہوئے ضرورت نادر ہوتى تھى۔پھر ىہ ہے
كہ اىك اىك مضمون كو اكثر مختلف صحابہ نے سن سن كر رواىت
كىا ہے ،چناں چہ حدىث كى كتابىں دىكھنے سے معلوم ہو جاتا
ہے۔ سو اگر اىك راوى نے رواىت كو بالمعنى ذكر كىا ہے ،تو
دوسرے نے رواىت باللفظ كر دىا ،اور پھر دونوں كے معانى
متوافق ہونے سے اس كا پتہ چلتا ہے كہ جنہوں نے رواىت
بالمعنى بھى كىا ہے ،انہوں نے اكثر صحىح ہى سمجھا ہے۔ اور
واقعى جس كو هللا كا ڈر ،اور احتىاط كى عادت ہو گى ،وہ معنى
فہمى مىں بھى خوف سے كام لےگا۔ اور شرح صدر كے بغىر
مطمئن نہ ہوگا۔
اور اگر کہیں الفاظ بالکل ہی محفوظ نہ رہے ہوں ،گواىسا
ہونا بہت نادر ہے ،مگر پھر بھی ظاہر ہے کہ بات كرنے والے
كے قرىب رہنے واال ،اس كا مزاج شنا س ہوتا ہے ،اور جس
قدر قرائن مقالہ اور قرائن مقامیہ سے وہ اس کے کالم کو سمجھ
سكتا ہے ،دوسرا ہرگز نہیں سمجھ سکتا۔اس بنا پر صحابہ كرام
رضى هللا عنہم كا فہم قرآن وحدىث جس قدر قابل وثوق ہو گا،
دوسروں كا نہىں ہوسکتا۔ پس ان حضرات كے خالف ،دوسروں
کا قرآن سے یا اپنی عقل سے كچھ سمجھنا ،اور اپنى اس سمجھ
69
کو حدىث كےمخالف دراىت ٹھہرا كر رد كر دىنا کیوں کر قابل
التفات ہوسکتا ہے۔
اور ان تمام امور كا مكمل لحاظ کرتے ہوئے ،پھر بھى
اگركسے شبہے کی گنجائش ہوسکتی ہے ،تو زىادہ سے زىادہ
ىہى ہو سكتا ہے كہ وہ شبہ كسى اىك حدیث کی قطعیت مىں مؤثر
ہو سكتا ہے۔ تو بہت سے بہت یہ ہوگا کہ اىسی ظنى احادیث سے
قطعی احكام ثابت نہ ہوں گے۔ لیکن چوں كہ ظنى احکام بھی
دین كا جزو ہىں ،اور ان پر عمل كرنا واجب ہے ،اس لىے بعض
احادىث كا ظنى ہونا بھى مقصود كے لىے مضر نہ ہوگا۔
یہاں تک ان غلطیوں کا بیان تھا جو کالم هللا کے متعلق
واقع ہورہی ہیں۔ اب بقیہ دالئل کی نسبت عرض کرتا ہوں۔
* * * * *
70
انتبا ِّہ شـثسم:
ق اِّجماع ،من جملہ اصو ِّل شرع
متعل ِّ
اب رہ گیا اجماع اور قیاس ،سواجماع کے متعلق پہلی
غلطى ىہ كى جاتی ہے کہ اس کا ُرتبہ رائے سے زیادہ نہیں
سمجھا جاتا ،اس لىے اس کو حجت ملزمہ( ،ىعنى كوئى حكم الزم
كر دىنے والى حجت) نہیں قرار دیا جاتا۔ سو پہلى بات تو یہ ہے
كہ ىہ مسئلہ منقول ہے ،اس مىں دار ومدار نقل پر ہے۔
سو ہم نے جب نقل کی طرف رجوع کیا ،تو اس میں یہ
قانون پایا کہ :جس امر پر ایک زمانے کے علمائے امت کا اتفاق
ہوجائے ،اس کا اتباع واجب ہے۔ اور اس کے ہوتے ہوئے اپنی
رائے پرعمل کرنا ضاللت اور گمراہى ہے ،خواہ وہ امرعقىدے
سے تعلق ركھتا ہو ،خواہ عمل سے متعلق ہو۔ چناں چہ وہ نقل
اور اس سے استدالل كا ذكر ،کتب اُصول میں بڑى صراحت
سے كىا گىا ہے۔
پس جس طرح قانون كى کوئی کتاب حجت ہو،تو اس
کےکل دفعات واجب العمل ہوتےہیں۔۔ اسی طرح جب قرآن وحدیث
حجت ہیں ،تو ان کے کل قوانین بھى حجت ہوں گے ،اور ان
قوانىن پر عمل كرنا واجب ہو گا۔ اور كتاب وسنت كےاُن قوانین
میں سے ایک قانون یہ بھی ہے کہ اجماع قطعی حجت ہے۔ سو
اس قانون پر عمل بھی واجب ہوگا۔ اور اس قانون کی مخالفت،
واقع اور حقىقت میں اس الہى اور نبوى قانون کی مخالفت ہوگی۔
اور امر تو بہت ہی ظاہر ہے۔
اور اگر یہ مسئلہ منقول نہ بھی نہ ہوتا ،تو بھى فطرى
عقلى قانون بھی ہمىں اس پر مجبور كرتا ہے کہ جب ہم اپنے
71
معامالت میں کثرت رائے کومنفرد رائے پرترجىح دىتے ہیں،
اور کثرت ِّرائے کے مقابلے میں منفرد رائے کو کالعدم سمجھتے
ہیں ،تو اجماع ىعنى امت كے علماء كا اتفاق تو کثرت ِّ رائے
سے كہىں بڑھ کر ہے ،تو وہ منفرد رائے کے مرتبے میں ،یا
اس سے مرجوح اور كم تر کىسے ہوگا!!..؟۔
اور اگر ىہ شبہ ہو کہ بے شک ،منفرد رائے جب اجماع
کے مقابلے مىں آجائے تو قابل ِّوقعت نہ ہوگی ،لیکن اگر ہم بھی
اس اجماع کے خالف پر اتفاق رائے کر لیں ،تب تو ہمارے اتفاق
مىں اجماع كا معارضہ كرنے کی صالحیت ہو سكتى ہے،
تو اس كا جواب یہ ہےکہ ہرشخص کا اتفاق رائے ،ہر
امر میں معتبر نہىں ہوا كرتا ،بلكہ ہر فن مىں اس كے ماہرىن کا
اتفاق ہى معتبر ہوسکتا ہے۔ سواگر ہم انصاف کے ساتھ اپنی دینی
حالت کا ،حضرات ِّسلف کی دىنى حالت سے مقابلہ کریں ،تو كىا
علم اور كىا عمل ،ان كى بہ نسبت اپنی حالت میں اس قدر انحطاط
اور كمى پائیں گے ،كہ جس سے ہمارے اور ان كے درمىان اىسى
ہى نسبت نكلے گى جو غیر ماہر کو ماہر کے ساتھ ہوتی ہے۔ پس
ان کے خالف ہمارا كسى بات پر اتفاق ایسا ہی ہوگا ،جیسا كسى
فن كے ماہرین کے اتفاق کے خالف ،كچھ غیر ماہرین کسى بات
پر اتفاق ،كہ محض بے اثر ہوتا ہے۔ البتہ جس معاملے میں سلَف
سے كچھ منقول نہ ہو ،تو اس میں اس وقت کے علما ءکا اتفاق
بھی قابل اعتبار ہوگا۔
اور اس میں ایک فطری راز ہے ،وہ یہ کہ هللا تعالى كى
عادت ىونہى جاری ہے کہ غرض پرستى کے ساتھ حق كى
تائىد نہیں ہوتی۔ اور خلوص میں تائید ہوتی ہے۔ جب یہ بات طے
ہو چكى ،تو اب سمجھنا چاہىے کہ جس بات میں سلف کا اجماع
موجود ہو ،جس کا حجت ہونا ثابت ہے ،تو اس کے ہوتے ہوئے
ہمىں اپنی رائے سے کام لینے کی كوئى دینی ضرورت ہى نہیں
ہے۔
سو ،بالضرورت اپنی اپنی رائے پرعمل کرنا غرض
72
پرستى كے بغىر تو ہرگز نہ ہوگا ،اس لىے هللا تعالى كى تائىد
ساتھ نہ ہوگی۔ اور جس بات میں اَسالف كا اجماع نہیں ہے،
وہاں دینی ضرورت ہوگی۔ اور دینی ضرورت میں کام کرنا
خلوص كى دلیل ہے۔ اورخلوص والے كام مىں حق كى تائىد
ساتھ ہو جاتی ہے ،اس لىے ُمؤیَّد ِّمنَ هللاِّہونے كى وجہ سے وہى
اتفاق قابل اعتبار ہوگا۔
یہ سارى بحث اس صورت میں ہے جب سلف کا اجماع
صہو گى ،لیکنرائے سے ہوا ہو۔گووہ رائے بھى ُم ْستَنَد إِّلَى النَّ ِّ
كوئى صریح نص موجود نہیں تھی۔ اور ا گر کسی نص کے
صرىح مدلول پر اجماع ہوگیا ہے ،تو اس کی مخالفت نص صرىح
کی مخالفت ہے۔
اور اگر اس کے مخالف کوئی دوسری صرىح نص بھى
ہو،تو آیا اس وقت بھی اس نص كے موافق اجماع کی مخالفت
جائز ہے یا نہیں؟۔
تو بات یہ ہے کہ :تب بھی اس اجماع كى مخالفت جائز
نہیں ہے ،کیوں کہ نص تو نص كے برابر ہو گئى۔ اور ایک کو
اجماع كى موافقت سے قوت حاصل ہوگئی۔ اورقوی دلىل کے
ہوتے ہوئے ضعیف دلىل پر عمل كرنا ،عقل اورنقل كے خالف
ہے۔ بلکہ جب نقلى دلیل سے ىہ بات ثابت ہو چكى ہے كہ
جس امر پر امت كا اجماع ہوا ہو ،اس كا ضاللت اور گمراہى
ہونا ممتنع ہے ،اس لىے اگر اجماع کا مستند(اور بنىاد) کوئی
ظاہرى نص نہ بھی ہو ،اور اس کے خالف کوئی دوسرى نص
موجود ہو،تب بھی ا ُس اجماع کو یہ سمجھ کر مقدم رکھا جائے گا
کہ اجماع کے وقت کوئی نص ظاہر ہوگی ،جو منقول نہیں ہوئی،
(ىعنى جسے آگے نقل نہىں كىا گىا) ،کىوں كہ نص کی مخالفت
ضاللت ہے ،اور اجماع کا ضاللت ہونا محال ہے( ،ىعنى نص كى
مخالفت كرنا گمراہى ہے۔ اور نصوص سے ثابت ہے كہ امت كا
اجماع گمراہى پر نہىں ہو سكتا ،لہذا ،ىہ نہىں ہو سكتا كہ پورى
امت گمراہى پر اكٹھى ہو كر گمراہى پر اجماع كر لے۔ لہذا،
73
جس بات پر اجماع ہوا ہو گا ،ضرور ى ہے كہ وہ گمراہى نہ
ہو)۔
پس اس اجماع کا نص کے مخالف ہونا بھی محال ہے۔تو
المحالہ نص کے موافق ہے۔ اور ىہ اجماع جس نص کے موافق
ہے ،وہ دوسری نص پر اس وجہ سے راجح ہو گئى كہ اس
نص كے ساتھ اجماع كى قوت بھى جڑى ہوئى ہے ۔پس حقىقت
مىں نص پر نص ہى مقدم ہے ،اور اجماع اس نص کے وجود
کی عالمت و امارت ہے ،جس کو «دَ ِّل ْی ِّل إِّنِّي» کہتے ہیں۔ اور
اس طرح كے اجماع كى مثال :بال سفر وبال عذر كےَ ،جمع بَیْن
سنن ترمذی »میں ہے۔ اور دوسرى ص َالتَیْنہے،جس کی حدیث « ُ
ال َّ
سنن
جراحمر کے وقت اذن ِّسحركى ہے ،کہ وہ بھی « ُمثال ف ِّ
ترمذی »میں موجود ہے۔
* * * * *
74
انتبا ِّہ ہفـتم:
ق اِّجماع ،من جملہ اصو ِّل شرع
متعل ِّ
اب صرف قیاس رہ گیا۔ اس میں بھى كئى اىك غلطیاں کی
جاتی ہیں۔
اىك غلطى :قیاس کے معنى اور حقیقت میں كى جاتى
ہے ،ىعنى اس کی واقعى حقیقت کا حاصل تو یہ ہے کہ بہت سى
باتىں اىسى ہوا كرتى ہىں كہ جن کا حکم شرعى نص اور اجماع
میں صراحت سے بیان نہىں کیا گیا ہوتا۔ اور ظاہر ہے کہ شرىعت
مىں کوئی امر مہمل نہیں ہے جس کے متعلق کوئی حكم نہ ہو،
خواہ وہ ا َمر معادی (آخرت سے متعلق ) ہو ،یا معاشی (دنىا كى
زندگى سے متعلق) ہو ،جیسا کہ (انتباہ سوم) کی چوتھی غلطى
کے بیان میں ذکر ہوا ہے۔ اس لىے یہ کہا جائے گا کہ :شرع میں
حكم تو اس كا بھى وارد ہے ،مگر داللت كے مخفى ہونے كى
وجہ سے مخفى ہے۔تو اس مخفى حكم كے استخراج ىعنى سامنے
النے كى ضرورت ہوگی۔
ادلۂ شریعت نے اس کا طریقہ یہ بتایا ہے کہ جن امور کا
حکم نص مىں مذکور ہے ،اس مىں اور جو مسئلہ ہمىں پىش آىا
ہے اور شرىعت نے اس سے سکوت كىا ہے ،ان میں غور کرو،
اور ىہ دیکھو کہ پىش آمدہ امر ،خاص خاص صفات و کیفیات
میں ان منصوص احكام میں سےكس کے زیادہ مشابہ اور كس
سے زىادہ ملتا جلتا ہے۔
پھر یہ دىكھو کہ جس حكم كا ذكر نص مىں ہے ،ظن غالب
كى بنا پر اس منصوص حكم كى بنىاد كون سى صفت اور كون
سى كىفىت ہے۔ پھر جب سمجھ مىں آجا ئے كہ ىہ صفت اور
75
کیفیت اس منصوص حكم كى بنىاد بنتى ہے ،تو اسى صفت اور
امر مسكوت عنہ ( ،ىعنى نئے پىش آمدہ
كىفىت كو دىكھو كہ اس ِّ
مسئلے) مىں بھى متحقق اور موجود ہے ىا نہىں۔ اگر وہى صفت
اور کیفیت ىہاں بھى متحقق اور موجود ہو ،تو اِّس جدىد اَمر كے
لىے بھى وہى حكم ثابت كر دىا جائے گا جو اُس اس امر منصوص
الحكم امر مماثل مىں منصوص ہے(،ىعنى اس نئے مسئلے كے
لىے بھى وہى حكم ثابت ہو گا ،جو اُس منصوص امر كا حكم
تھا جو كہ اِّس جدىد سے ملتا جلتا ہے)۔ اور :
علَیْه» كہتے
جس امر كا حكم منصوص ہو ،اسے « َم ِّقیْس َ
ہىں۔
اور جس نئے امر كے حكم سے سكوت كىا گىا ہے ،اسے
« َم ِّقیْس» كہتے ہىں۔
اور حكم كى بنىاد جس چىز پر ركھى گئى ہے ،اسے « ِّعلَّت»
كہتے ہىں۔
اور حكم كو ثابت كرنے كے عمل كو «تَ ْع ِّدیَه» اور
«قِّیَاس»كہتے ہىں۔
بس ىہ حقىقت ہے اس قیاس کی جس کا حكم شریعت میں
وارد ہے ،جیسا كہ اصولیین سے ثابت کیا ہے۔تو حقیقت مىں حكم
كو ثابت كرنے والى چىز نص ہى ہے ،قیاس اس کو محض ظاہر
كرنے واال ہے۔ اوراب (اِّس زمانے مىں) جس قیاس کا استعمال
کیا جاتا ہے ،اس کی حقیقت صرف رائے محض ہے ،جس میں
مذكورہ باال طرىقے سے كسى نص كو بنىاد بنا كر حكم نہىں لگاىا
جاتا ،جس كو وہ لوگ خود بھى اىسا ہى سمجھتے ہىں۔ چناں چہ
محاورات میں بولتے ہیں کہ ہمارا یہ خیال ہے۔ سوحقیقت میں تو
ىہ مستقل شارع بننے کا دعوی ہے ،جس سے اس قسم كى رائے
كا عقلى لحاظ سے قبىح ہونا ثابت ہے۔ اور اىسى رائے کی
مذمت نصوص اور اكابر كے اقوال میں بھى آئی ہے ،جس سے
اس رائے كا نقلى لحاظ سے قبىح ہونا بھى ثابت ہوتا ہے ،تو اىسا
قىاس عقالً و نقال دونوں طرح مذموم ہوا۔
76
دوسرى غلطى مح ِّل قىاس مىں ہوتى ہے۔ چنانچہ اوپر کی
تقریر سے معلوم ہوا ہوگا کہ قیاس کی ضرورت محض ان امور
مىں ہوتى ہے جوغیرمنصوص ہوں ،اور اس غىر منصوص امر
میں ،كسى منصوص امر كے تعدىہ ،ىعنى اس كا حكم جارى
كرنے كے لىے اس بات كى ضرورت ہوتى ہے كہ منصوص كى
علت تالش كى جائے۔تو جب تك حكم كے تعدىہ كى ضرورت نہ
ہو ،تب تك منصوص حكم كى علت نکالنا بھى جائز نہ ہوگا۔ اب
غلطى یہ کی جاتی ہے کہ بغىر كسى ضرورت كے منصوص
میں بھی علتىں تالش كى جاتى ہىں ،اورپھر خود منصوص حكم
كو وجودا ً وعد ًما ،اسى علت کے وجود وعدم پر دائر کرنا شروع
كر دىتے ہیں ،جیساكہ ( انتبا ِّہ سوم) کی چھٹی غلطی کے بیان میں
ذکر ہوا ہے۔
اور اسی سے ایک تیسری غلطى بھی معلوم ہو گئى ،جو
قیاس كى غرض مىں واقع ہوئى ہے۔ چناں چہ قىاس كى اصلى
غرض تو ىہ ہے كہ منصوص كے حكم كو غىر منصوص مىں
متعدى كىا جائے۔نہ ىہ کہ منصوص حكم مىں تصرف كىاجائے،
جب كہ آج كل ىونہى كىا جاتا ہے۔
چوتھی غلطی :قیاس کے اہل كو متعىن كرنے مىں ہے۔
چناں چہ آج كل ہر شخص كو اس کا اہل سمجھتے ہیں ،جیسا کہ
بعض لوگوں كے لىكچروں مىں ان كى جرأت ىہاں تك دىكھنے
مىں آئى كہ ىوں كہنے لگے :ﮋﭬ ﭭ ﭮ ﭯ ﭰﮊ َ[الكافرون] ،نے
اجتہادکو ہر شخص کے لىے عام کردیاہے ۔حاالں کہ علمائے
اصولیین نے بڑے قوى دالئل كے ساتھ اجتہاد کى شرائط کو ثابت
کردیا ہے ،جس سے عموم كا باطل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور ﮋﭬ ﭭ
ﭮ ﭯ ﭰﮊَ[الكافرون]کے بھى یہ معنی نہیں ہیں۔
اور موٹی سى بات ہے کہ ہرشخص اس کا اہل نہیں
ہوسکتا ،کیوں كہ قیاس اور اجتہاد كى حقىقت كا جو حاصل اوپر
مذکور ہوا ہے ،اس کی نظیر وکالء کاکسی مقدمہ کوكسی دفعہ
کے تحت میں داخل کرنا ہے۔ سو ظاہر ہے کہ اگر ہر شخص
77
اس کا اہل ہو،تو وکالت کے پاس كرنے کی حاجت ہى نہ ہو۔تو
جس طرح یہاں شرائط ہیں کہ قانون پڑھا ہوا ہو ،یاد بھی ہو ،اس
کی غرض بھی سمجھی ہو ،پھر مقدمے کے بارىك اور گہرے
پہلوؤں کو سمجھتا ہو ،تب یہ لىاقت حاصل ہوتی ہے کہ تجویز
کرے کہ یہ مقدمہ فالں دفعہ میں داخل ہے۔ اسی طرح یہاں بھی
سمجھ لىجىے۔
اب یہ دوسری گفتگو ہے کہ آیا اب اس قوت اور ملکہ كا
حامل كوئى شخص پایا جاتا ہے یا نہیں۔ یہ ایک خاص گفتگو
ت غیرمقلدین کے مابىن ہوا
ہے ،جو جماعت ِّ مقلدین اور جماع ِّ
كرتى ہے ،جس میں اس وقت تفصىلى کالم کرنا اس جگہ كے
مقصد سے اىك زائد بحث ہے ،کیوں کہ ىہ مقام ان غلطیوں کے
بیان کا ہے جن میں جدیدعلم والوں کولغزش ہوئی ہے۔
اس لىے اس باب میں صرف اس قدر عرض کرنا کافی
ہے کہ اگر فرض کرلیا جائے کہ ایسا شخص اب بھی پایا جاتا
ہے جس مىں قىاس واجتہادكى پورى مطلوبہ صالحىت موجود
ہے ،تب بھی سالمتی اسی میں معلوم ہوتی ہے کہ اپنے اجتہاد
اور قیاس پر اعتماد نہ كرے ،کیوں کہ ہمارے نفوس میں غرض
پر ستی اور بہانے تالش كرنے كى عادت غالب ہے۔
اگر اجتہاد سے کام لیا جائے گا ،توتقریبا ىقىنى سى بات
ہے كہ ہمیشہ نفس کا میالن اسی طرف ہوگا جو اپنی غرض کے
موافق ہو۔ اور پھر اس کو دیکھ کر دوسرے نا اہل لوگ بھى اس
کا بہانہ ڈھونڈ کر ،خود بھی اجتہاد کا دعوى کرنے لگیں گے۔
اور تقوی اور تدىن سب ختم ہو كر رہ جائے گا۔
او راس کی حسى نظیر یہ ہے کہ ہائی کورﭦ کے ججوں
کے فیصلے کے سامنےکسی دوسرے کو ،حتی کہ ماتحت حكام
کوبھی قانونی دفعہ کے دوسرے معنى سمجھنے کی اجازت
صرف اس بنا پر نہیں دی جاتی کہ ان ججوڑ کو سب سے زیادہ
قانون کے معانى سمجھنے واال سمجھا گیا ہے۔ اور اگر ان کی
مخالفت کی اجازت دے دى جائے ،تو ہر شخص اپنے طور
78
پرکارروائی کر کے ملک میں تشویش اور بدنظمى پھىالنے کا
سبب ہوجائے گا۔ بس ،ىہى نسبت ہم كو تمام مجتہدین کے ساتھ
سمجھنى چاہىے۔
اصو ِّل اربعہ سے متعلق تمام غلطىوں كا حاصل یہ *
ہے کہ:
قرآن کو حجت بھى مانا ،اور ثابت بھى مانا ،... ،مگر اس
کی داللت میں غلطی کی۔
اور حدیث کو حجت تومانا ،مگر ثبوت میں کالم کیا ،اس لىے
داللت سے بحث ہی نہیں کی۔
اور اجماع کو حجت ہی نہیں مانا۔
اور قیاس کی جگہ ایک اور نئى چیز گھڑ کر ،احكام كے
ثبوت كے لىے اس کو اصل معیار قرار دےدیا ،اور وہ نئى
گھڑى ہوئى چیز «رائے» ہے۔
79
انتبا ِّہ ہشـتم:
ت مالئكہ وجن ،ومنہم ق حقىق ِّ
متعل ِّ
ابلىس
فرشتوں اور جنات كا وجود ،جس طرح نصوص اور
اجماع سے ثابت ہے،كبھى تو اس انكار صرف اس بنىاد پر کیا
جاتا ہے کہ اگر وہ جواہر موجود ہوتے تو محسوس ہوتے۔ اور
كبھی اس بنا پر انكار كىا جاتا ہے کہ :كسى چىز كا اس طرح کا
وجود كہ وہ سامنے سے گزر بھى جائے اور محسوس بھى نہ
ہو ،سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ تو انکار کی وجہ ہوئی۔
پھر چوں کہ قرآن مجىد كى آیات میں بھی جگہ جگہ ان
کے وجود کا اثبات کیا گیا ہے ،اورقرآن کے ثبوت میں کالم نہیں
ہوسکتا تھا ،اس لىے ان آیات میں اىسى دور اَز كار تاویلىں کی
جاتی ہیں کہ وہ بالکل تحریف كى حد میں داخل ہو جاتى ہیں۔
جن بنىادوں پر جنات اور فرشتوں كے ظاہری معانی کا
انکار کیا گیا ہے ،ان کا غلط ہونا تو اصول ِّموضوعہ نمبر َ()4
میں ثابت ہوچکا ہے۔ یہ تو تحقىقى جواب ہے۔
اور الزامی جواب یہ ہے کہ :مادے کے بارے مىں تم
خود ىہ كہتے ہو كہ جب تك مادے نے موجودہ صورتىں اختىار
نہىں كى تھىں ،اس وقت تك وہ اىك لطیف قوام كى صورت مىں
تھا ،جس كو «مادہ سدىمىہ» ،اور «اثىریہ» کہتے ہىں۔ اور وہ
اىسا «جوہر »ہے جس كا تم نے بھى كبھى مشاہدہ نہیں کیا۔
اور مستزاد ىہ كہ اگر مادے كى اس كىفىت كو سمجھنا چاہىں،
تو اىك مبہم سے تخىل كے عالوہ كچھ بھى سمجھ مىں نہىں آتا
كہ جس سے تشفى ہو سكے ،چناں چہ یونانیىن اس کے منکر
بھی ہیں،مگر( اپنے دعوے كے صحىح ہونے كے )زعم مىں،
80
اپنے موقف كى دلىل بنانے كى ضرورت پڑ جانے كى بنا پر اس
کو مان لىا جاتا ہے ،حاالں کہ اس پر کوئی دلیل بھی قائم نہیں
ہے ،چناں چہ (انتباہ اول) میں اس کی تحقیق بھی ہوئی ہے۔
پس جب اىسے جواہر کے محال ہونے پرکوئی عقلى دلیل
قائم نہیں ہے ،تو عقلى لحاظ سے ان كا وجود ممکن ہوا۔ اور
جس عقلى لحاظ سےممکن چىز کے وجود پر نقلى دلیل قائم ہو
،اس کے وجود کا قائل ہونا واجب ہوتا ہے۔(اصول ِّموضوعہ
نمبر() )2۔
اورنصوص میں ان جواہر (ىعنى فرشتوں اور جنات) کا
وجود وارد ہے ،اس لىے اىسے جواہر کا قائل ہونا ضرور ہى
واجب ہوگا۔
81
انتبا ِّہ نہـم:
ت آخرت
ق واقعا ِّتـ قبر ،وموجودا ِّ
متعل ِّ
جنت ،دوزخ ،صراط ،مىزان
ان سب حقائق کے ظاہری معانى کا بھى انکار كىا جاتا
ہے۔ اور ان ك انكار كى بنىاد بھی وہى ہے جس بنىاد پر فرشتوں
اور جنات كى حقیقت کا انکار کیا جاتا ہے۔ اور جب ان بنىادوں كا
غىر مستحكم اور بودہ ہونا (انتباہ ہشتم )میں ثابت ہوچکا ،تو ا ُس
سے اِّس انکار کا باطل ہونا بھی معلوم ہوگیا۔اور بعض لوگوں نے
كچھ اور شبہات بھی ذكر کىے ہیں۔ ان میں سے كچھ شبہات تو
اىسے ہىں جن كو قدىم معتزلہ سے نقل كىا گىا ہے ،اور ان کا
مسكت ومفصل جواب کتب کالمیہ میں دے دیا گیا ہے۔
اور بعض شبہات اىسے ہىں جو کسی قدر جدید عنوان سے
پیش کیے جاتے ہیں۔ان تمام شبہات كے مجموعے کا حاصل یہ
ہے کہ:
جب قبر میں مردے كے جسد میں روح نہیں رہتی،
پھراس کو الم اور نعیم(ىعنى درد اور نعمت) کا ادراك کىسے
ہوسکتاہے؟۔
پھر اگال سوال کہ :كان کے بغىر سنتا کیسے ہے؟،
اور زبان كے بغىر جواب کىسے دىتا ہے؟،
اور جنت ودوزخ ہیں کہاں؟،
اورا ُن کی وسعت جس قدر بیان کی جاتی ہے ،وہ کون
سے مکان میں سماسکتے ہیں؟،
اور پل صراط پر چلنا جب کہ وہ اس قدر باریک ہے
،کس طرح ممكن ہے؟،
82
اور میزان میں اعمال،جب كہ وہ اجسام ہى نہیں ہیں،
كىسے رکھے جائیں گے؟ ۔
ان سب کا مشترک جواب یہ ہے کہ :ان سب شبہات کا
حاصل «اِّ ْستِّ ْبعَاد» ہے۔ اور «اِّ ْستِّ ْب َعاد» سے «اِّ ْستِّ َحالَ ْه» ىعنى محال
ہونا الزم نہیں آتا۔ (اصو ِّل موضوعہ نمبر ())3۔
اور جب «اِّ ْستِّ َحالَ ْه» نہیں ہے ،تو عقلى لحاظ سے سبب
امور ممکن ہوئے۔ اورنصوص نے ان سب كے واقع ہونے کی
خبردی ہے ،پس ُوقوع کا قائل ہونا واجب ہے۔(اصو ِّل موضوعہ
نمبر ())3۔
اور ہر ہر شبہے كا خاص خاص ،ىعنى علىحدہ علىحدہ
جواب یہ ہے کہ:
یہ بھی ممکن ہے کہ جسد میں اتنی روح موجود ہو جس
سے دكھ درد ،اور نعمتوں كا ادراک اس كو ہو سکے ،اورىہاں
كے مؤثرات سے متأثر نہ ہو ،اور نہ ہى برزخى مؤثر سے
حركت كرے۔ جس طرح ایك شخص نے مجھ سے بیان کیا کہ:
احتباس بول (ىعنى پىشاب رك جانے كى بىمارى )میں عالج کی
ضرورت سے اس کوبے ہوش کیا گیا ،تو سالئی چڑھانے کی
تکلیف بالكل محسوس نہیں ہوئی۔ لیکن ایك قسم كى گھٹن سے دل
گھبراتا تھا ،اور حركت نہ ہوسکتی تھی۔
اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس جسد کو وہ دكھ درد ،اور
نعمتىں نہ ملتى ہوں جو قبر مىں دفناىا جاتا ہے ،بلكہ روح اپنے
جس مقر (ىعنى قرار گاہ) میں ہے ،وہاں اس پر سب كچھ گزر
جاتا ہو( ،اور جسد سے اس روح كا تعلق چونكہ باقى ہوتا ہے،
اس لىے روح پر گزرنے والے حاالت كا ادراك جسم بھى كرتا
ہو)۔
باقی رہا یہ سوال کہ وہ روح کہاں ہے؟۔تو ممکن ہے کہ
اس وسىع فضا كے كسى حصے مىں ىہ مستقر ہو ،اور وہى عالم
ارواح کہالتا ہو ۔
83
اور اس امکان سے یہ شبہ بھی ختم ہوگیا کہ اگر جسد
جل جائے ىا كوئى جنگلى جانور اسے كھا لے ،تو اس وقت اسے
عذاب وثواب وغیرہ كىسے ہوگا!!..؟۔
رہا یہ کہ بغىر کان كے سننا ،بغىر زبان كے بولنا،
وغىرہ كىسے ہو سكتا ہے؟۔ تو اس كا جواب ىہ ہے كہ :اول تو
ادراک کے لىے یہ آالت عقلى لحاظ سے شرط نہىں ہىں ،محض
عادت كى وجہ سے انہىں شرط مانا جاتا ہے ،تو ان كا درجہ
شرائط عادىہ وعقلىہ مىں سے
ِّ (شرائط عقلىہ ) كا ہوا۔اور
ِّ صرف
ہرایک کے احكام علىحدہ ہیں۔ (اصو ِّل موضوعہ نمبر
())3۔ممکن ہے کہ ا ُس عالم کی عادت ،اِّس عالم كى عادت کے
خالف ہو۔
دوسرے ممکن ہے کہ وہاں روح کو کوئی اور بدن ،جو
اُس عالم كے مناسب ہو ،مل جاتا ہو ،اورا ُس بدن میں بھی اىسے
ہی آالت ہوں ،جیسا کہ بعض اہ ِّل کشف اس کے قائل بھی ہیں،
اور اس کا نام جسم مثالی رکھا ہے۔
اور جنت دوزخ کے بارے مىں بھى عىن ممكن ہے كہ
اُس وسىع فضا كے اندر ہوں جس کو اس زمانے كے فالسفہ
غیرمحدود مانتے ہىں۔ ا
ت موجودہ چلنا ،مستبعد
اور اگرچہ پل صراط پر بہ حال ِّ
ہے ،مگر اس سے محال ہونا الزم نہیں آتا۔( دىكھىے :اصو ِّل
موضوعہ نمبر ())3۔
اور میزان (ىعنى ترازو)میں اعمال کا وزن كىا جانا :اس
طرح ممکن ہے کہ ہر عمل صحىفے مىں درج ہوتا ہے ،اور
وہ صحىفے اجسام ہیں ،جیسا کہ نصوص سے معلوم ہوتا ہے۔
سوممکن ہے کہ ہر اچھے عمل كو صحىفے كے ایک خاص
حصے مىں لکھا جاتا ہو۔ اورحصوں كے بڑھنے سے المحالہ
وزن بھى بڑھے گا۔
نیز ىہ بھى ممكن ہے کہ نامۂ اعمال كے بعض حصے
84
اىسے ہوں جو كمىت مىں برابر ہونے كے باوجود ،خلوص ،تقوى
اور خشىت وغىرہ عوارض كى وجہ سے ہلكے اور بوجھل ہونے
مىں مختلف اور متفات ہو جاتے ہوں۔چناں چہ ہم دىكھتے ہىں كہ
دو اىسے اجسام جن كى مقدار اور ماہىت اىك جىسى ہوتى ہے ،ان
مىں حرارت اور ٹھنڈك كا فرق ہو جانے سے وزن مىں فرق آ جاتا
ہے۔تو ہو سكتا ہے كہ برے اعمال والے صحىفوں مىں اسى طرح
ہو جاتا ہو كہ ان كا وزن ہلكا ہو جاتا ہو۔ اورجب میزان میں یہ
صحىفے تولے جائیں گے ،تو وزن کے تفاوت سے المحالہ اعمال
کا تفاوت معلوم ہوجائے گا۔ اور حد ىثوں سے بھی اسی احتمال کا
طا َقه» اور « ِّس ِّج َّالت» کے
اقرب ہونا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ «بِّ َ
الفاظ كى تصرىح نصوص مىں ہے۔ تو اتنى بات تو واضح ہو گئى
كہ وزن تو حقىقت مىں ہوگا۔ البتہ اس وزن کی اضافت میں
سع ہے۔ پس
جوز ہوا ،ىعنى وزن كىسے كىا جائے گا ،اس مىں تو ُّ
ت ُّ
اگر اسی طرح وہاں بھی ہوجائے تو کیا مضائقہ ہے۔
اور جسم كے اعضاء وجوارح كے بولنے كا شبہ بھى اسى
قبىل سے ہے ،كہ وہ بھى ُمست َ ْبعَدعادى ہے ،محا ِّل عقلى نہىں ہے،
ىعنى عام عادت كے لحاظ سے اىسا ہونا بعىد معلوم ہوتاہے ،ورنہ
عقلى لحاظ سے اىسا ہونا ناممكن نہىں ہے۔ اور جب سے
گراموفون دیکھا ہے،تب سے تو نطق ِّجوارح کو مستبعد کہنا
بھی بے جامعلوم ہونے لگا ہے۔
85
انتبا ِّہ دہـم:
متعلق بعض كائنات طبعىہ
ت مطہرہ کو کائنات ِّطبعیہ سے بحث کرنا
ہر چند کہ شریع ِّ
مقصود نہیں ہ،ے جیسا کہ تمہید میں تفصىل سےبیان کیا گیا
ہے،مگر مقصود كى تكمىل کے لىے تبعًا ،کچھ مباحث اس بارے
میں مختصر طور پر ذكر كىے جاتے ہیں۔ سواگرچہ ہمىں اس
قسم كى چىزوں کی پوری حقیقت کی تحقىق وتفتىش كى اس لىے
ضرورت نہیں ہے کہ وہ شریعت كے اغراض ومقاصد سے تعلق
نہىں ركھتى ،لىكن اىك حد تك كائنات طبعىہ كى بعض چىزوں
كا ذكر نصوص مىں كىا گىا ہے۔ تو ان چىزوں كا ،اِّن نصوص
كالم صادق ہے ،جس قدر اور جس طور پر ذكر كىا
مىں جو كہ ِّ
گىا ہے ،اسى طرح ماننا واجب ہے ،اور اس کی ضد کا اعتقاد
ركھنایا دعوى کرنا سچے كالم کی تکذیب ہے ،اس لىے جائز
نہیں۔ اس لىے ہم اىسے عقائد یا دعووں کی تکذیب کوواجب
سمجھیں گے۔چنانچہ بطور نمونہ ،مثال كے طور پر بعض امور
کا تذکرہ نامناسب نہ ہوگا۔
من جملہ ان کے ،پہلے بشر کا مٹی سے پیدا ہونا ہے،
صراحت سے بىان كىا گىا ہے۔چنانچہ جونصوص میں
مذہب ِّارتقا كى بنىاد پر،اس مسئلے کی نسبت ىہ کہنا کہ :حیوان
ترقی کرکے آدمی بن گیا ،جیسا کہ ڈارون کا وہم ہے،یقینا باطل
ہوگا۔ اس لىے كہ نص تو اس کے خالف بات بتا رہى ہے۔ اور
نصوص كے بىان كے معارض کوئی عقلى دلیل ہے نہیں ،نہ تو
ڈارون کے پاس ،جیسا کہ اس کی تقریر سے ظاہر ہے کہ اس نے
محض اپنی تخمىن اور اندازے سے یہ بات كہہ دى ہے۔ اور نہ
ڈارون کے مقلدىن كے پاس ہى كوئى عقلى دلىل ہے،جیسا کہ ان
کی تقریر سے بھى ظاہر ہوتا ہے ،بلكہ محض ڈارون کی تقلید
86
سے ایسا کہتے ہیں۔ بلکہ اگر غور کر کے دیکھا جائے تو اس
کی تقلید بھی نا تمام ہے ۔اصل میں بھی اور فرع میں بھی۔
اصل میں تو اس طرح کہ :اس کے اس مضحكہ خىز
نظرىے كا قائل ہونے کی بنىاد اور اصل صرف ىہ بات بنى كہ
وہ دہرى تھا ،اور هللا سبحانہ وتعالى كے خالق ہونے كا منكر تھا،
اس لىے مذہب کا قائل ہونا اس كے لىے ممكن نہ ہوا۔ اور مذہب
اپنا سے انكار ہى كى وجہ سے اسے ضرورت پڑى كہ
مذہب ِّارتقا ایجاد کرے۔ پس اس نے ضرورى سمجھا كہ ہر
تكون ىعنى بننےكى طبعى علت اور كىفىت نكالے۔پس شےكے ُّ
انسان کی پیدائش میں ا ُس نے یہ احتمال نکاال۔
اور جو شخص خالق كے وجود کا قائل ہے ،جیسے اہل
صا اہل اسالم ،ان کوخود سے مذہب ِّارتقا ء كا قائل
ملت ،خصو ً
ب خلق کے قائل ہو سکتے ہونے کی ضرورت ہى نہىں۔ وہ مذہ ِّ
ہیں ،اور بشر کی تخلیق بھی اسی طور سے مان سکتے ہیں ،اور
مانتے ہىں۔ پھر ان کو کیا ضرورت پڑی ہے کہ ا ىسے مضحکہ
خىز مذہب کے قائل ہوں۔
اس بحث سے ثابت ہوا کہ :جس اصولى نكتے نے ڈارون
کو صانع كے انكار پر مجبور كىا ،خود اہل اسالم اس اصولى
نكتے میں اس سے متفق نہیں ہىں۔ پس اصل میں تو یوں تقلید نہ
ہوئی۔
رہی فرع ،تو اس میں اس لىے تقلید نا تمام ہے کہ :ڈار ِّون
جو کسی حیوان کے بطور ارتقا ءکے ،آدمی بن جانے کا قائل
ہے ،سو کسی ایک فرد میں اس کا قائل نہیں ہے (كہ ً
مثال كوئى
بندر ترقى كرتے كرتے انسان بن گىا ،اور پھر اس بندر سے انسان
بنے ہوئے فرد كى جو اوالد آگے چلى ،وہ انسان پىدا ہونے
لگى) ،اور نہ ہى اس کواس كا قائل ہونے کی کوئی طبعى
ضرورت ہے۔ بلکہ اس کا قول یہ ہے کہ جس وقت ترقی کرتے
کرتے حىوانى طبیعت میں انسان ہونے کی صالحیت پىداہو گئی،
تو ایک وقت میں ایک بڑى تعداد میں کسی حیوان کے افراد انسان
87
بن گئے۔
اور اہل اسالم چوں کہ اس نظرىے كے قائل نہىں ہو
سكتے ،اس لىے كہ ان كاا ىمان نصوص پر ہے ،اور نصوص مىں
ضرورى طور پر اول البشر کا تو حد وارد ہے( ،ىعنى نصوص
مىں ىہ بات كہ سب سے پہلے اىك انسان كو پىدا كىا گىا تھا ،جس
سے آگے اس كى نسل چلى،اىسے صاف اور صرىح الفاظ مىں
بتائى گئى ہے كہ اسے ماننا ضرورى ہے) ،لہذا ،فرع میں بھی
موافقت نہ ہوئی۔ جیسا كہ اس زمانے میں بعضے بے باک اور
ناعاقبت اندیش گستاخ اس کے قائل ہو گئے ہىں كہ جو بندر سب
سے پہلے آدمى بنا« ،آدم» اسى كا نام ہے۔ نَعُ ْوذُ باهللِّ ِّم ْنهُ.
اس قول میں انبىاء كى جو گستاخی ہے وہ تو الگ رہی۔
افسوس تو یہ ہے کہ اس گستاخی کا قائل ہونے کے بعد بھی ڈار ِّون
کی موافقت کی دولت نصیب نہ ہوئی۔
ازیں سوراندہ ،ازاں سو ماندہ
کی مثال صادق آگئی( ،كہ )۔
اورمن جملہ اِّن امور کے ،رعد و برق ومطر کا تکون
ہے( ،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں سے جن كا ذكر نصوص مىں
آىا ہے ،بادلوں كى گرج ،چمك ،كڑك اور بارش ہے)،کہ روایات
میں ان چىزوں كے بننے اور پىدا ہونے کی اىك کیفیت وارد
ہوئى ہے۔اور آج كل بعض آالت كے ذرىعے سے ان چىزوں كا
ت َك ُّون اور بننا كسى دوسرے طور پر مشاہدہ کرلیا گیا ہے۔ تو جو
باتىں نصوص مىں وارد ہىں ،ان كى صرف اس بنا پر تكذىب
اور صرف اس بنا پر اسے جھٹال دىنا كہ ہمارا مشاہدہ دوسرى
طرح ہوا ہے،جائز نہیں۔
اور ىہ اس لىے کہ اگر دونوں میں تعارض ہوتا ،تب تو
بے شک ایک بات کی تصدیق اور دوسرى بات كى تكذىب
ضرورى ہو جاتى ،كہ مشاہدہ اس بات پر مجبور کرتا ہے ،اور
اىك بات كى تصدىق،دوسرى بات كى تكذىب كو مستلزم ہوتى ،لىكن
88
ىہاں تو تعارض كى كوئى دلىل ہے ہى نہىں ،اس لىے اىك كى
نہىں ہے۔ تصدىق اور دوسرے كى تكذىب كى بھى ضرورت
بلكہ عىن ممکن ہے کہ كبھی اىك نوع کے اسباب سے ان کا
تكون ہوتا ہو ،كبھی دوسری نوع کے اسباب سے ہوتا ہو۔
اور نہ ہى روایات میں اىجاب ِّ كلى كا دعوى ہے۔ اور
مشاہدے سے تو موجبہ کلیہ حاصل ہو ہی نہیں سکتا۔ دونوں جگہ
قضایا جزئىہ ،ىا مہملہ كہ قوت ِّ جزئىہ میں ہے ،حاصل ہوتے
ہیں۔(ىعنى ان اشىاء كے بننے اور تكون كے بارے مىں جو خبر
نصوص دىتى ہىں ،اور جو خبر جدىد آالت كا مشاہدہ دىتا ہے،
دونوں قسم كى خبروں مىں ىہ دعوى نہىں كىا گىا كہ ہمىشہ اسى
اىك سبب سے ىہ چىز بنے گى ،بلكہ ان كا بىان جزئى قضىہ كے
طور پر ہوا ہے ،كہ ان چىزوں كے تكون كا اىك طرىقہ ىہ بھى
ہے)۔تو جب اس قسم كے دو جزئى قضىوں مىں تناقض نہ ہونا
معلوم اور مسلم ہے ،تو تناقض كا دعوى كىسے كىا جا سكتا ہے۔
پس جب تعارض نہىں ہے ،تو دونوں كى تصدىق ممكن ہے ،پھر
رواىات كى تكذىب كى كىا ضرورت ہے۔
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
سے جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے) ،اسباب ِّ طاعون كى
رواىات ہىں ،کہ وہ معاصی ىعنى گناہوں كى وجہ سے ،ىا َوخز
جن ،ىعنى جنات كے كچوكوں سے واقع ہوتا ہے۔سویہ بھی اس
مشاہدے کے معارض نہیں ہے جس مىں اس کا سبب خاص
کیڑے ثابت ہوئے ہیں۔ اس میں بھی وہی تقریر مذكورہ باال ہے،
كہ عىن ممکن ہے کہ كبھی اىك نوع کے اسباب سے ىہ بىمارى
ہوتى ہو ،اور كبھی دوسری نوع کے اسباب سے واقع ہوتى ہو۔
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
سے جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے)،امراض کا متعدی نہ ہونا
ہے۔ اس کا بھی اس وقت تجربے کی بنا پر انکار کیا جاتا ہے۔ سو
غور وفكر كىا جائے تو اس میں بھی تعارض نہیں ہے ،کیوں کہ
« َال َ
عد َْوى» کا ىہ مطلب ہو سكتا ہے كہ وہ ضروری نہیں ،اس
89
طرح سے کہ كبھی تخلف نہ ہو ،اور خالق كى اجازت كے بغىر
عد َْوى» ،ىعنى متعدى
خود مؤثر ہو۔اور مشاہدہ سے اس طرح کا « َ
مرض ہرگز ثابت نہیں ہوا ،بلکہ مشاہدہ اس کے خالف ہے کہ
كبھی عدوی نہیں بھی ہوتا۔ اورنصوں سے ہر امر کا هللا تعالى
كے ارادے پر موقوف ہونا ثابت ہوتا ہے۔
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
سے جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے) ،تعد ِّد ارض ،ىعنى كئى
زمىنوں كا ہونا ہے ،كہ روایات میں مذکور ہے۔ اس کاصرف اس
بنا پر انکار كرنا كہ اب تك ان زمىنوں كا مشاہدہ نہىں ہوا ،جائز
نہیں،کیوں کہ عدم مشاہدہ ،مشاہدۂ ِّعدم کو مستلزم نہیں،اور
احتجاج ثانی سے ہوسکتا ہے نہ اول سے۔ (ىعنى دلىل دوسرى
بنىاد كو بناىا جا سكتا ہے ،نہ كہ پہلى بات كو ،ىعنى مشاہدہ نہ ہونا
دلىل نہىں بن سكتا۔
رہا یہ سوال کہ :روایات میں ان زمىنوں کا اس زمىن
كے نىچے ہونا آیا ہے ،سوہم نے کرۂ ِّ ارض کے گرداگرد پھر
کر دیکھا ،کسی جانب بھی ان کا وجود نہىں ہے۔
اس کا جواب یہ ہے :ممکن ہے کہ وہ اس وسىع فضا
میں ،ہمارى زمىن سے اس قدر دور ہوں کہ نظر نہ آتی ہوں ،یا
بہت چھوٹی نظرآتی ہوں ،اور ہم ان کو کواکب سمجھے ہوئے
ہوں۔ اور ان زمىنوں كا تحت ىعنى نىچے كى جانب ہونا بعض
حاالت اور بعض اوقات کے اعتبار سے ہو ،ورنہ وضع كى
تبدىلى سے كبھی اوپر ہوجاتی ہوں ،كبھى نىچے۔
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
سے جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے)« ،یاجوج ماجوج» کا وجود
ہے۔ یہاں بھی مشاہدہ نہ ہونے سے استدالل ہے ،جس مىں استدالل
کی صالحیت كا نہ ہونا اوپر معلوم ہوا ہے۔ ممکن ہے کہ جس
قطب كى اب تك تحقىق نہىں ہو سكى ،وہاں موجود ہوں۔ اور ىہ
بھى ممکن ہے کہ کوئی بڑا جزیرہ اب تك سامنے آنے سے رہ
گىا ہو۔(اور جب موقع ہو ،تب وہ جزىرہ ظاہر ہو جائے)۔
90
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
سے جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے)،آسمان کا جسم صلب (ىعنى
سخت جسم ہونا) ،اور اس کا متعدد ہونا ہے۔ اس میں بھی اسی
مشاہدہ نہ ہونے كو دلىل بناىا گىا ہے ،اور بارہا اس مىں استدالل
کی صالحیت كا نہ ہونا اوپر معلوم ہو چكا ہے۔
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
سے جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے)،بعض کواکب (ستاروں)
کا متحرک ہونا ہے ،جىسے :شمس اورقمر ،كہ نصوص میں
حرکت کو ان کی طرف منسوب فرمایا گیا ہے ،جس سے صاف
لفظوں مىں ىہى ظاہر ہوتا ہے كہ وہ حقىقت مىں حركت كى صفت
سے متصف ہىں ،نہ ىہ كہ حقىقت مىں تو ساكن ہوں ،اور صرف
دىكھنے مىں اىسا لگے كہ حركت كر رہے ہىں۔
اور اس بحث سے ہمارا مقصود سورج كے ٹھہرے ہونے
کا انکار کرنا ہے ،نہ ىہ كہ ہم زمىن كے متحرك ہونے كا انكار
كر تے ہىں۔ شریعت نے اس سے نفی یا اثبات كے اعتبار سے
بالکل بحث نہیں کی۔ ممکن ہے کہ دونوں میں خاص خاص
حرکتىں ہوتى ہوں ،جس کے مجموعے سے یہ خاص اوضاع
مشاہدہ حاصل ہوتی ہوں۔
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
سے جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے)،سورج كى حركت كے
موجودہ جارى نظام كا اس طور سے بدل جانا ہے کہ وہ بجائے
مشرق کے ،مغرب كى جانب سے طلوع ہو جائے۔ وہ نصوص
ب قىامت مىں سورج كا مغرب سے طلوع ہونا مذكور
جن مىں قر ِّ
ہے ،ان كا صرف اس وجہ سے انكار كىا جاتا ہے كہ مشاہدے
مىں ہمىشہ اىسا ہى آىا ہے كہ سورج مشرق سے نكال كرتا ہے۔تو
اس نظام کا دوامى مشاہدہ ،اس تبدیلى كے محال ہونے كى دلىل
نہىں ہو سكتى جیسا کہ علوم عقلیہ میں ثابت ہو چكاہے۔ اور ظاہر
بھی ىہى ہے کہ دوا م ضرورت کو مستلزم نہىں ہے(ىعنى ىہ
ضرورى نہىں ہے كہ اگر ہمارے مشاہدے مىں كوئى بات ہمىشہ
91
اىك ہى طرح ہوتى نظر آئے ،تو اس كے خالف ہو ہى نہ سكتا ہو۔
زىادہ سے زىادہ اس كى ہمىشگى عادت كہالئے گى۔ اور اس
عادت كے خالف ہوسكنا ممكن ہوگا ،چنانچہ اگر كسى دلىل سے
اس كا خالف ثابت ہو جائے ،تو ممكن كا وقوع ثابت ہو جائے گا)۔
اور سورج كے مغرب سے نكلنے كے بارے مىں ىہ شبہ
ہو كہ اىسا ہونا خالف فطرت ہے ،تو اس کا حل (انتبا ِّہ دوم )میں
ہوچکا ہے۔
اورمن جملہ اِّن امور کے(،ىعنى انہى امور طبعىہ مىں
جن كا ذكر نصوص مىں آىا ہے)،جہت فوق میں جسم سے
بشری کے اس قدر بلند ہونے کا امکان ہے کہ جہاں ہوا موجود
نہ ہو( ،ىعنى انسانى جسم اتنا اوپر كى جانب چال جائے كہ وہاں
ہوا ہى نہ ہو)۔
اس وقت محض اس بنا پر اس بات كا انکار کیا جاتا ہے
كہ :اس جگہ زندہ رہنا فطر ت كے خالف ہے ۔ اور اسی شبہے
حضور اكرم ﷺ كے جسمانى
ِّ نے اس بات كى راہ ہموار كى كہ
طور پر معراج کا انکار كىا جائے۔سو اس كے جواب مىں ىہى
كہنا كافى ہے كہ اوپر انتبا ِّہ دوم مىں (خالف ِّفطرت کی بحث)
مالحظہ فرما کر اس کا جواب حاصل کرلیا جائے۔
کو وسعت دی جائے ،تو عقلی احتمال اور اگر
خالف ِّفطرت ہونے کا بھى قائل نہىں ہونا پڑتا ،کیوں کہ اىسی
خالف
ِّ جگہ جہاں ہوا بھى نہ ہو بشر كا زندہ رہنا ،اس وقت
عادت ہے جب وہاں اىك معتد بہ وقت تك ُمكث بھى ہو( ،ىعنى
جب كافى دىر تك اىسى ہواسے خالى جگہ ٹھہرا بھى رہے)۔ اور
اگر برق وبجلى كى طرح بہت تىز حرکت کے ساتھ وہاں سے
گزر جائے ،تو اس وقت حیات كا باقى رہنا خالف ِّفطرت بھی
نہیں۔
جیسا كہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر انگلى کوتھوڑی دیر تک
آگ میں رکھا جائے تو جل جاتی ہے۔ لیکن اگر كوئى شخص
بڑى تىزى سے جلدی جلدی انگلى كو آگ میں سے نکال كر
92
لے جائے تو نہیں جلتى ،حاالں کہ آگ کے اندر سے عبور ہوا
ہے۔ سواگرمعراج كے قصے مىں بھى ىہ مان لىا جائے كہ اس
طبقے میں سے جس مىں ہوا نہىں ہے ،فورا ً نکال کر اوپرلے
جاىا گىا ،اور وہاں اوپر جا كر پھر ہوا ،یا ہوا کى خاصیت
جىسى کوئی دوسرى چىز فضا یا آسمان میں موجود ہو،تو اس
میں کیا حرج ہے!!..؟۔
93
انتبا ِّہ ىاز دہـم:
متعلق مسئلہ تقدىر
94
اوربعض لوگوں نے نصوص صریحہ کودیکھ کر انکار
کی گنجا ئش تو نہ پائى ،مگر ىہ سمجھ كر کہ اس میں انسان کا
مجبور اور غیرمختار ہونا ،جو کہ مشاہدے كے خالف ہے ،الزم
آتا ہے ،اس کی تفسىر بدل ڈالی ،اور اس کی تفسىر ىہ قرار دی
کہ :تقدىر علم الہى كا نام ہے ،اور علم چوں کہ معلوم میں
تصرف نہیں كرتا ،اس لىے اس کے تعلق سے وہ اشکال الزم
نہیں آتا۔
اور اس کی مثال نجومى كے كسى بات پر مطلع ہونے
،اور اس کى پیشین گوئی کرنے سے دی ،کہ اگر وہ کہہ دے کہ
فالں تاریخ كو ،فالں شخص كنویں میں گر کر مرجائے گا ،اور
ایسا ہی واقع ہوگیا ،تو یوں نہ كہیں گے کہ اس نجومی نے قتل
کردیا۔
لیکن نصوص میں نظر کرنے واال دریافت کرسکتا ہے
اور عقلی مسئلہ بھی ہے کہ جس طرح کوئی واقعہ علم الہى كے
تعلق سے خالی نہیں ،اسی طرح کوئی واقعہ هللا كے ارادے كے
تعلق سے بھی خالی نہیں ہے۔ اور تقدیر کی حقیقت بھى ىہى ہے۔
ہاں اگرکوئی شخص اپنی اصطالح میں اس کا نام«تقدىر» نہ ر
کھے تو نہ ركھے ،لیکن كسى بھى واقعے سے،خود هللا كے اس
ارادے كے تعلق کا انکار تو نہىں كر سكتا۔
پس تقدیر کی تفسىر بد لنے سے اشکال سے کیا نجات
ہوئی!!..؟۔
پس تحقىق اس کی یہ ہے کہ :خود ىہی مقدمہ غلط ہے کہ
ارادۂ خداوندی کے خالف كے محال ہونے سے اختیار کی نفى
الزم آتى ہے۔ اس کے دو جواب ہیں :ایک جواب الزامى ہے،
دوسرا تحقىقى ہے۔
الزامی جواب تو یہ ہے کہ :اگر ارادۂ خداوندی کے خالف
ہونے كے محال ہونے سے اختیار کی نفى الزم آجائے ،تو ظاہر
ہے کہ ارادۂ الہیہ ،خود اَفعال الہیہ سے بھی تو متعلق ہے ،تو
الزم آئے گا کہ خود هللا تعالی کا اختیار بھى اُن افعال پر باقی نہ
95
رہے۔ اور حاالں کہ اس بات کا کوئی عاقل قائل نہیں ہوسکتا۔
اور تحقىقى جواب ،كہ وہی حقیقت میں اس مسئلے کا
راز ہے ،یہ ہے کہ :ارادہ کا تعلق افعا ِّل عباد كے محض وقوع
ہی کے ساتھ نہیں ،بلکہ ایک قید کے ساتھ ہے ،ىعنى وقوع
باختیارہم۔(ىعنى هللا تعالى كے ارادے كا تعلق بندوں كے افعال كے
ساتھ ہوتا ہے ،لىكن ىہ تعلق محض اتنا سا نہىں ہے كہ بندے
كے فعل كے وقوع تك ہى ہو ،اور بس۔ بلكہ اس تعلق مىں ىہ بات
بھى داخل ہے كہ :بندہ اپنے اختىار سے اىك فعل كرے۔ تو جب
بندہ اپنے اختىار سے اىك فعل كرنے لگے گا ،تو هللا كے ارادے
كا تعلق بندے كے اس فعل سے ہو جائے گا ،اور وہ كام واقع ہو
جائے گا)۔
پس جب هللا كے ارادے كا تعلق ،اس متعلق کے وجوب
کو مستلزم ،ہے تو اس سے تو بندوں كا اختیار ،اور اختىار كى
موجودگى مزىد مؤكد اور پكى ہو گئى ،نہ ىہ كہ منفى ہوئى۔ اور
ىہ بہت ہى ظاہر ہے۔
اور یہ شبہ ،کہ اکثردیکھا جاتا ہے کہ جو اس مسئلہ کے
قائل ہىں ،وہ بے دست وپا ہوکر بیٹھ رہتے ہیں ،تو اس کا جواب
یہ ہے کہ :یہ ان کی کاہلی اور سستى کا اثر ہے ،نہ کہ اس مسئلہ
کا ۔ اگر اس مسئلے کا یہ اثر ہوتا تو صحابہ كرام علىہم
الرضوان(نعوذ باهلل) ،سب سے زیادہ كم ہمت ہوتے۔ لىكن
اگرغورکر کے دیکھا جائے تو اس کا اثر تو یہ ہے کہ :اگر تدبیر
ضعیف بھی ہو ،جب بھی کام شروع کردے ،جیسا کہ صحابہ كرام
ان كى نظر هللا تعالى پرتھی ،تو بے رضى هللا عنہم ،كہ
سروسامانی کے باوجود ،محض هللا تعالى پر توكل كر كے
،كىسے جان توڑ کر خطرات میں جا گھسے۔ اور ىہى مضمون
اس آىت مىں بىان كىا گىا ہے :ﮋﭾﯛﯜﮁﯞﮃﭔﮅفئ َةًقليلةَڈفئ َةًﮊﮋڑڑ ک
کککﮊَ[البقرة.]249َ:
اور حدیث میں بڑى وضاحت اور صراحت سے ىہ قصہ
سرور دو عالم ﷺ كے
ِّ حضور اكرم
ِّ آیا ہے کہ :کوئی شخص
96
اجالس میں مقدمہ ہارگیا ،اور ہار کر کہا کہ«َ :حسبي َهللا َونعمَ
الوکيل»۔ تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا« :إنَََّهللاََيلومَعَلَىَالعجزَ،وَلَكَنََ
علَيَكَبَالكيسََ،فَإذَاَغلبكََأمَرََ،فَقَلََ:حسَبَيَهللاََوَنَعَمََالَوَكَيَلَ»۔(رواہ أبو
َ
داود)َ .
البتہ اس عقىدۂ ِّ تقدىر كا یہ اثر الزم ہے کہ وہ تدبیر کو
حقیقی مؤثر نہىں سمجھے گا۔ تو یہ تو خود عقلى ونقلى طور سے
صحىح دلىل كا تقاضا ہے ،اس پر کىا مالمت ہوسکتی ،ہے بلکہ
اگر اس کے خالف کا اعتقاد ہو،تو وہ قابل مالمت ہے۔
اور اىسا عقىدہ ركھنے واال تدبىر اختىار كرنے كا درجہ
اتنا ہى سمجھے گا جیسا رىل كے رك جانے كے نسبت جھنڈی
کا درجہ ہوتا ہے ،كہ نہ تو معطل ہے ،اور نہ مؤثر حقىقى۔ پس
وہ چوکیدار جب کسی خطرے کے وقت ریل کوروکنا چاہے گا،
تو تدبیر تو ىہی کرے گا كہ جھنڈى لہرا دے ،مگر اس کی نظر
زبان حال وہ ىہى مترنم ہو
ِّ ڈرائیور یاگارڈ پر ہى ہوگی ،اور بہ
گا:
زلف تست مشک افشانی ،ا َما عاشقاں
کار ِّ ِّ
مصلحت را تہمتے بر آہوئے چین بستہ اند
رہا یہ کہ جب یہ مسئلہ اس طرح عقل و نقل سے ثابت
ہے ،تو اس کی کاوش (ىعنى اس مىں غور وفكر كرنے)سے
ممانعت کیوں بیان کی جاتی ہے۔
تو اس كى وجہ یہ ہے کہ بعض شبہات عقلى نہیں ہوتے،
بلكہ طبعى ہوتے ہیں ،جن کی شفا کے لىے دلیل کافی نہیں ہوتی،
بلکہ وجدان كےصحىح ہونے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چوں کہ
صحىح وجدان والے لوگ بہت کم ہیں ،اس لىے طبعى امور مىں
کاوش سے اىسے شبہات بڑھنے کا اندیشہ ہوتا ہے ،جو تمدن اور
آخرت دونوں کے لىے مضر ہے۔ اس لىے نبوى حكمت وشفقت
كا تقاضا ىہی ہوا کہ اس سے روك دىا جائے ،جىسا كہ شفیق طبیب
،ضعیف مرىض کوقوی غذا سے روک دىا كرتا ہے۔
97
* * * * *
98
انتبا ِّہ دواز دہـم:
اركان اسالم وعباداتـ
ِّ متعلق
99
غلطى) کے بیان کے ضمن میں ہوچکا ہے ،مگر آسانى سے
سمجھانے كى ضرورت كى وجہ سے دوبارہ بىان كىا جاتا
ہے۔چنانچہ:
كبھی اس میں یہ خرابی ہوگی کہ احکام میں تصرف
وتبدىلى کرے گا ،جیسا كہ اس وقت بعض لوگوں نے قربانی میں
کیا ہے کہ قربانى سے مقصود محض اِّنفا(ىعنى خرﭺ كرنا ) تھا۔
اس وقت مال موىشى كى كثرت ہونے كى وجہ سے اس کی ىہی
اىك صورت تھی۔ اب روپیہ کی حاجت ہے ،لہذا ،ا َب اس کی
صورت بدل دینى چاہىے۔
پھر یہ بھى ہے کہ حكمتیں بھى کہاں تک نکالی جائیں
گی۔ کیا کوئى شخص رکعتوں كى تعداد کی حکمت بتال سکتا
ہے؟۔ اور اگر عقل ان باتوں کے لىے کافی ہوتی ،تو انبیاء علىہم
السالم کے آنے کی ضرورت ہى نہ تھی ،جب کہ دنیا میں ہر
زمانے میں بہت سے عقالء اور حكماء پائے گئے ہیں۔
ا ُن اور اگر حقیقت میں غور کیا جائے،توصرف
مصلحتوں کا اختراع کرناجودرحقیقت سب كى سب دنىا كى
طرف لوٹتى ہیں ،درپردہ آخرت كے مقصود ہونےكا انکا رہے۔
اگر منكرىن سے كہا جائے كہ :آخرت كا عالم ،جو
مسلمانوں كے نزدىك اىك واقعى حقىقت ہے ،آپ بھى فرض كر
لىجىے كہ اگر ہے ،اور ظاہر ہے کہ وہ اىك دوسرا ہى عالم ہے،
تو اس کے خواص ممکن ہے کہ یہاں کے خواص سے كچھ نسبت
نہ رکھتے ہوں ،جیسا كہ ایک اقلیم کو دوسری اقلیم سے كوئى
نسبت نہىں ہوا كرتى ،اور مریخ کو اس زمىن سے كوئى نسبت
نہىں ہے ،اور آخرت كے وہ خواص ہم کومعلوم نہ ہوں ،اور ان
کا حاصل ہونا خالص اعمال پر موقوف ہو،جن کی مناسبت و
ارتباط کی وجہ ہم کو معلوم نہ ہوسکتی ہو ،تو اس مىں كىا عقلى
استبعاد ہے۔
اور اس سب کے عالوہ ،اگر کوئی شخص ىہى معاملہ
حكام وقت كے قوانین کے ساتھ کرنے لگے کہ ہر حكم کی ایک
100
مصلحت اور حکمت اختراع کر کے ،اور اس مصلحت کو
دوسرے سہل طریقے سے حاصل کر کے ،اصل قانون کی
بجاآوری سے انکار کر بىٹھے،تو ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ
وقت كے حکام اس کے واسطے کیا تجویز کریں گے۔
عام سى بات ہے کہ اگر کسی شخص کے نام عدالت سے
ت شہادت سمن آ جائے ،اور وہ اطالع یابی لکھ کر ،عین
بہ حیثی ِّ
تاریخ پر حاضر نہ ہو ،مگر یہ کہہ کر كہ حاضرى سے مقصود
تو بس شہادت ہے ،جس کا دوسرا آسان طریقہ بھى ہے ،اور
رجسٹرى كے ذر یعہ تمام اظہارات قلم بند کر کے ڈاک میں بھىج
دے ،خاص کر جب کہ عدالت كا حاكم اس شخص کے دستخط
بھی پہچانتا ہو،تو کیا ىہ شخص اس اعالن کا مستحق نہ ہو گا
جو کہ سمن میں لكھا ہوا تھا کہ« :اگر حاضر نہ ہوئے ،تو
گرفتارى كا وارنٹ جاری کیا جائے گا»!!.. ،؟۔ یا بجائے سالم
کے ایک پرچہ لکھ کر دے دیا کرے ،تو کیا ىہ کافى ہوگا؟۔
اور ہماری اس تقریر سےکوئی شخص یہ گمان نہ کرے
کہ ہم شرائع اور احکام کو حكم اور ا َسرار سے خالی سمجھتے
ہیں ،یا یہ کہ اس کے اسرار پر حکما ئے اُمت کو بالکل اطالع
نہیں ہوئی۔ ضرور اس میں اسرار بھى ہیں ،اور كسى قدر اطالع
بھی ہوتی ر ہى ہے ،اور اب بھی ہوتى ہے ،لیکن اس كے ساتھ
ہی ذہن مىں ىہ بات پختہ ہونى چاہىے كہ امتثا ِّل امر كا دار ومدار
وہ اطالع نہیں ہے۔ اگر اطالع نہ بھی ہو ،تو بھى شرىعت كے
اركان واوامر كا پورا كرنا واجب ہے۔
بالكل ملك كے قانون كا سا حال ہے کہ رعایا کو اس کے
ماننے میں انکشاف ِّلم (ىعنى علت كے علم ) كا انتظار جرم عظىم
ہے۔ اور پھر بھی جو كچھ بیان کردیا جاتا ہے ،وہ محض تبرع
ہے ،اور جس قدر اطالع ہے وہ بھی ظنى اور تخمىنی ہے۔
اوربعض احكامات اىسے ہىں كہ ان كى علت كى اطالع
تو بالکل بھی نہیں ہے۔ اور اس پر كچھ تعجب بھى نہىں ہے۔ ہم
دیکھتے ہیں کہ گھر کےنوکر کوبعض خانگى انتظامات کی ِّلماور
101
علت معلوم نہىں ہوسکتی ،حاالں کہ وہ منتظم بھی نو کر كى
طرح مخلوق ہى ہے۔ جب مخلوق کومخلوق کے بعض اسرار
معلوم نہیں ،حاالں کہ دونوں كے علم میں نسبت محدود ہے ،تو
اگر مخلوق كو خالق کے اسرار پر بالکل ہی اطالع نہ ہو ،یا
صحىح اطالع نہ ہو سكے ،کیوں کہ دونوں کے علم میں تفاوت
غیرمتنا ہی ہے ،تو اس مىں کیا تعجب ہے !!..؟۔
بلکہ بقول ایك فلسفى كے ،اگر سب احکام کی تمام كى
تمام عقلى وجوہ معلوم ہوجائیں تو شبہ یہ پڑے گا کہ شاید کسی
ایک فرد ،یا اہل عقل كى ایک جماعت نے مل كر یہ مذہب تراشا
ہو ،کہ دوسرے عقال بھی اس کی ِّلم تک پہنﭻ گئے۔ خدائی مذہب
کی شان تو یہ ہونى چاہىے کہ اس کے اسرار تک کسی کو بالکل،
یا بتمامہ رسائی نہ ہو۔
اور ىہ بھى ذہن نشىن رہے كہ اس تقریر سے یہ گمان نہ
کیا جائے کہ جن احکام کی عقلى وجہ سمجھ میں نہىں آئی ،وہ
عقل کے خالف ہیں۔ نہىں ہرگز نہیں۔ عقل کے خالف ہونا اور
بات ہے ،اور عقل میں نہ آنا اوربات ہے۔ (اصو ِّل موضوعہ نمبر
())1۔
102
انتبا ِّہ سىز دہـم:
ت باہمى وسىاسىاتـمتعلق معامال ِّ
اس کے متعلق ایک غلطی یہ کی جاتی ہے کہ معامالت
و سیاسیات کو دین اور شریعت کا حصہ نہیں سمجھتے۔ محض
تمدنی اُمور سمجھ کر اس کا مدار زمانے والوں كى رائے اور
ت زمانہ پر سمجھا جاتا ہے ،اور اس باب میں اپنے آپ
مصلح ِّ
کوتصرف کرنے کا مختار سمجھا جاتا ہے۔ اور اسی بنا پر ربا،
ىعنى سود تک کے حالل کرنے کی فكر میں ہیں ،اور علماء کو
بھی اس کی رائے دىتے ہیں۔ اور ان کے قبول نہ کرنے پر غیظ
و غضب کا اظہار كرتے ،اور ر ان کوترقی کا دشمن سمجھتے
ہیں۔
خوب سمجھ لینا چاہىے کہ سب سے پہلے تو شریعت
میں کسی چیز کے داخل ہونے ىا نہ ہونے کے معیار كى تحقىق
کرلى جائے ،تاکہ اس کا آسانی سے فیصلہ ہوجائے۔ سووہ معىار
صرف ایک ہی چیز ہے :ثواب كا وعدہ ،ىا كسى عذاب كى وعید۔
اس کے بعد آپ قرآن وحدیث کو ہاتھ میں لے کر پڑھو اور غور
کرو۔ ان كے ابواب مىں جگہ جگہ ثواب اور عذاب کے وعدے
اور وعیدیں نظر پڑیں گی۔
پس جب معیار كى تحقىق ہو گئى ،تو اب معامالت اور
سىاسىات كے شرىعت كا جزو ہونے مىں کیا شبہ رہا۔ (انتباہ سوم)
کی چوتھى اور پانچوىں غلطى كے ضمن مىں اس کا ذكر تفصىل
سے ہوچکا ہے۔ البتہ شاید ان مسائل میں شبہ باقی رہے
جومنصوص نہیں ہىں ،بلكہ صرف مجتہدین کے قیاس سے ثابت
ہیں۔ سو ان مسائل کا جزو ِّشریعت ہونا( ،انتبا ِّہ ہفتم) مىں ،پہلى
غلطى كے بىان كےضمن مىں بىان ہو چكا ہے ،اور اور اسى
103
(انتبا ِّہ ہفتم ) مىں چوتھى غلطى كے ضمن مىں ىہ بھى بىان كىا جا
چكا ہے كہ غىر مجتہدكى رائے معتبر نہىں ہوتى ،اور ىہ بھى كہ
ہم لوگ مجتہد نہىں ہىں۔
اس تقریر سے ان سب شبہات کا جواب ہوگیا ،جو ازواج
كى تعداد ،یا طالق ،یا سود ،یا تجارت کی جدید صورتوں مثل
بىمہ وغىرہ ،یا مالزمت کی نئی شاخوں ،یا میراث ،یا حربىوں كے
ساتھ مقاتلہ وغیرہ مسائل کے متعلق پیش کىے جاتے ہیں۔
اور اگر کسی کو معامالت و سیاسیات کے،شرىعت كا
جزو ہونے ،ىا دائمى شریعت نہ ہونے کا شبہ اس بنا پر ہوگیا
ہو کہ ہم بعض سىاسى احکام کو دىكھتے ہىں كہ وہ تمدن كے
لىے مضر ہیں۔ پس یا تو وہ احکام الہی نہیں ہیں ،یا ا ُس زمانے
کے ساتھ خاص ہوں گے۔تو اس کا حل( انتبا ِّہ سوم )میں ،پانچوىں
غلطى سے متعلقہ شبہ كى تقرىر كے ضمن مىں ذكر كر دىا گىا
ہے ،پس ہم کو اس کی بھی ضرورت نہیں کہ ان احکام کو
زبردستی مصالح ِّموہومہ پرمنطبق کر کے ،آیات واحادیث کے
غلط معانى گڑھىں ،اور احکام کوان کی اصلیت سے بدلیں۔
جیسا كہ اسالم كى خیرخواہی كا دعوى كرنے والے
لوگوں كو اس بات کی عادت ہوگئی ہے ،کہ اعتراض كرنے
والے نے جس بنىاد پر اعتراض كى عمارت كو اٹھاىا ہے ،اگر
اس بنىاد كے صحىح ثابت كرنے پر دلىل كا مطالبہ كر دىا جائے،
تو اس كو بے ادبی سمجھ کر ،اعتراض کو تسلیم کر لىتے ہىں،
اور پھر اسالم كے جس حكم پر اعتراض كىا گىا ہے ،خود ہى
اس اعتراض شدہ حكم كو احكام كى فہرست سے نکال باہر كرتے
ہىں ،اور اس کی جگہ دوسرا تحرىف شدہ حكم بھرتی کرکے ،
قرآن كے اس مضمون کے مصداق ہتے ہیں :ﮋﭑﭒﭓﭔﭕپپ پی ﭚ
ﭛپیٹﭟﭠﭡﭢﭣﭤﭥﭦٹٹٹﭪﭫ ﭬﭭﭮﮊَ[آلَعمران].
اور خرابى كى اصل جڑ دنیا كى محبت ،اور دنىا والوں
كى چاپلوسى ہے۔ میں سﭻ کہتا ہوں کہ جن دنیا والوں كى چاپلوسى
میں ،جن بودى بنىادوں كو تسلیم کر کے ،اسالمى اصولوں کو بدال
104
جاتا ہے ،اگر كبھى وہ اہل دنیا ،ہمارے صحىح اصولوں کو
تسلیم کر لیں ،تو ان سے محبت كرنے والے ىہ سارے لوگ بھى
فورا اپنی پرانى رائے کو چھوڑ کر ،ان بنىادوں کوغلط بتالنے
ً
لگیں گے۔ غرض اىسے لوگوں كى توجہ كا قبلہ كچھ دنىا دار
لوگوں كى رضا مندى ہے۔جس چىز میں دنىا داروں كى رضا
ہو ،ىہ بھى اُدھرہی پھر جائیں گے ،جىسے جہاز کا نمازی جہاز
کےگھوم جانے سے خود بھی گھوم جاتا ہے۔
105
انتبا ِّہ چہار دہـم:
متعلق معاشرات وعادا ِّتـ خاصہ
106
یہ کہ :چندہ جب طیب ِّخاطر سے نہ ہو ،یا دھوكے سے ہو تو
ناجائز ہے ،یا جو سواری اور لباس تفاخر ،تکبر اور اظہار ِّشان
کے لىے ہو ،اس سے بچنا واجب ہے ،اور اس جىسے دوسرے
مسائل۔
ان سب امور میں کوئی شخص خود مختار اور آزاد
نہىں ہے۔ اس زمانے میں آزادی کو ایک خاص مشرب ٹھہرا لىا
گیا ہے ،اور اس کى تطبىق كا محل زىادہ تر اىسے ہى امور كو
قرار دىا گىا ہے۔ اور جو كوئى نصىحت كرے ،تو اس سے مختلف
طور پر ا ُ لجھ پڑتے ہىں۔ كبھی ا ُن سے اِّن چىزوں كا ثبوت قرآن
مجىد سے مانگا جاتا ہے ،اور كبھى حد ىثوں میں شبہات نکالے
جاتے ہیں ،كبھی ان کی ِّلم اپنی طرف سے تراش کر ان میں
تصرف کیا جاتا ہے،كبھی ان کی عقلى ِّلم دریافت کی جاتی
ہے،کبھی ان احکام سے تمسخرکیا جاتا ہے ،كبھی ان عادات کى
ت
مصلحتىں بیان کی جاتی ہیں۔ ان سب امور کا جواب (انتباہا ِّ
سابقہ) میں ہوچکا ہے۔
اصل یہ ہے کہ قانونى ضوابط کے سامنے كسی کی رائے
کوئی چیز نہیں ہے ،اور نہ ہى ِّلم کی تفتیش کی اجازت ہے۔
ب فہم كے لىے کوئی حکمت ىا سر بیان کردیا جائے،
اور اگر تقرى ِّ
تو وہ محض تبرع ہے ،وہ اصل جواب نہیں ہے۔ مگر مذاق
ایسا بگڑ گىا ہے کہ ان مضامین کو بڑا وقىع سمجھتے ہیں ،اس
لىے ہم بھی تبرع كے طور پر اتنا بیان کىے دىتے ہیں کہ کیاكسى
شخص کو اپنی زوجہ کے کپڑےپہن کر مجلس میں آنا ،محض
اسی تشبہ کی بنا پر معیوب معلوم نہ ہوگا؟ اور کیا تمدن كے
مدعى حكام كہ سب امور کا مدارمحض عقل ہی پر سمجھتے
ہیں ،حكومتى ىا عدالتى اجالس مىں آنے والوں کے لىے لباس
میں کسی قانونی قىد پرعمل کرانے پر مجبور نہیں کرتے؟۔ اور
کیا اس کی مخالفت توہین ِّعدالت نہیں ہے؟ تو کیا شریعت کو اتنی
دست اندازی کاحق بھى حاصل نہىں ہے،جتنا اىك دنىاوى حاكم كو
ہے!!..؟۔
107
* * * * *
108
انتبا ِّہ پانز دہـم:
ق باطنى وجذباتـِّ نفسانىہ متعلق اَخال ِّ
109
کہتے ہی،ں جس کی حقیقت تلبىس اور خداع ىعنى دھوكہ دہى
رفتار زمانہ کی موافقت کہا
ِّ ہے۔ اور اس مىں ایک وہ ہے جس کو
جاتا ہے ،جس کی حقیقت منافقت ہے۔ اور اسى پر باقى چىزوں
كو بھى قىاس كر لىا جائے۔
اسی طرح دوسرى قسم ،ىعنى بعض وہ اخالق جن
کوذمىمہ میں داخل کیا ہے ،اور حقىقت اور واقع میں وہ حمیدہ
ہیں ،ان بعض میں سے ایک قناعت ہے ،جس کو پست ہمتى
کہتے ہیں۔اور ایک اُن میں سےتو كل و تفویض ہے جس کو تعطل
قرار دیا گیا ہے۔
اور ایک ان میں سے دىنى حمیت اور تصلب فی الدین
ہے ،جس كا نام تعصب وتشدد رکھ دیا ہے۔اور ایک ان مىں سے
بذاذَت ہے ،جس کوتذلل سے تعبیر کرنے ہیں۔ اور ایک ان میں
تقوی ہے ،جس کو وہم اور وسوسہ کہنے لگتے ہیں۔اور
ٰ سے
ایک ان میں سےفضول صحبت سے عزلت ہے ،جس کو وحشت
کہتے ہیں ،اور اسى پر باقى چىزوں كو بھى قىاس كر لىا جائے۔
اور بعض اخالق ذمیمہ اىسے ہىں كہ ان کا نام نہیں بد ال،
مگر اس کے مرتکب ہیں اور اچھا سمجھ کر مرتکب ہیں۔ ایک
ان میں سے سوئے ظن ہے۔ اور ایک ان میں سے ظلم اور
غرىبوں كے حقوق سے بے پروائی ہے۔ اور اىك ان مىں سے
مسكىنوں كے ساتھ بے رحمى ہے۔ اىك ان مىں سے تحقىر ہے۔
اىك ان مىں سے قلت ادب ہے۔اور ایک ان میں اہل ِّ علم اور اہل
دىن كى غیبت اور ان كى عیب جوئی اور عیب گوئی ہے۔
اور ایک ان میں سے ریا و تفاخر ہے۔ ایک ان میں سے
اسراف ہے۔ ایک ان میں سے آخرت سے غفلت ہے ،وغیرہ
وغیرہ۔ اور اِّن تمام اخالق کے حقائق ،اخالق سے متعلقہ كتب
صا حجۃ االسالم
كو دیکھنے سے منکشف ہوسکتے ہیں ،خصو ً
امام غزالی رحمۃ هللا علىہ كى تصنىف كردہ كتب اس کےلىے
بے نظىر ہیں۔
110
* * * * *
111
انتبا ِّہ شانز دہـم:
متعلق اِّستدالل عقلى
112
* * * * *
113
اختتامى التماسـ
سردست اسی قدر مضامىن پر اکتفا کیا جاتا ہے۔ اس كے
بعد اگر هللا تعالی مجھ کو ،یاکسی اورکوتوفىق بخشىں ،تو اسی
موضوع پر جس کی تفصیل «تمہید» میں ذكر کی گئی ہے ،بہت
سے مزىد مضامىن كے اضافے کی گنجائش ہے۔ گویا یہ حصہ
اول ہے ،اور آئندہ كىے جانے والے اضافات دوسرا حصہ بن
جائىں گے۔
ڈڈﮊ ﮋڑﭺﭻکﭬَ .وصلَّى َهللا َتعالى َعلى َخير َخلقه َمح َّمدَ
()1
َّوآلهَوأصحابهَاألمجادَإلىَيومَالتَّنادَ .
الحمد ُ هللِّ تعَالى كہ اس مبارك اور نافع كتاب كى تسہىل كا كام محض هللا ()1
تعالى كے فضل وكرم سے اختتام كو پہنچا۔ وال َح ْمد ُ هللِّ الَّذي بنِّ ْع َمتِّه ت َتِّ ُّم
سلَّ َم َوبَ َ
اركَ َعلَى صلَّى هللاُ ت َعَالَى َو َ آخ ًراَ .و َ ش ْك ُر َّأو ًال َو ِّ
صا ِّل َحاتُ َ .ولَهُ ال َح ْمد ُ َوال ُّ
ال َّ
صحْ بِّ ِّه َوأ ُ َّمتِّه أ َجْ َم ِّع ْین.
الرح َم ِّةَ ،و َعلَى آ ِّل ِّه َو َ النَّبي ِّ الكَریم ،نبِّي ِّ ال ُھدَى َو َّ
وكتبهَ :
أحسَنَأحمَدَعبدَالشَّكَوَر َ
ُ 22جمادَى االُولىَ1440َ ،ﻫ،
[مطابقََ29جنوریَ2019َ ،ء]
صانَھا هللاُ تَعَالَى َ
ع ِّن ال ِّفت َن َوال ُّ
ش ُر ْور مقام سىٹالئٹ ٹاؤن ،بہاولپورَ ،
114