Professional Documents
Culture Documents
Aap Ka Saffha Daily Jang Sun Day Magazine Issue 14 July 2019 by Prof DR Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Ex Adviser Education Federal Ministry of Education and Corriculam by Grade MP-I
Aap Ka Saffha Daily Jang Sun Day Magazine Issue 14 July 2019 by Prof DR Syed Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi Ex Adviser Education Federal Ministry of Education and Corriculam by Grade MP-I
ِ 1/3
الرحمن الرحیم
ٰ بسم ہللا
آپ کا صفحہ‘ ‘،ہفت روزہ”سن ڈے میگزین“،روزنامہ جنگ،کراچی”
اشاعت/۴۱:جوالئی ۹۱۰۲ء
س ٰلَ ٌم قَ ْو اال ِ ِّمن َّر ِّ
بۢ َّر ِحیمۢ (یس )58 - َ
)آمین(
By:Prof Dr S Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi
Ex: MP-I Federal Education,Pakistan
تعالی َو بَ َرکاتہ
ٰ ہللا
!‘وعلیکم السالم َو َرحْ َم ُۃ ِ َ
!جزاک ہللا خیر
جوالئی ۹۱ء کا شمارہ بھی ”چڑھتا سورج“ ثابت ہوا،جسے سبھی نے دیکھا،اِستفادہ کیا۔جاذب نظر(محن ت طلب) سرورق کے پیچھے منور مرزا صاحب نے ”امریکی ٹرمپ“ کی ۴۱/
بالخصوص ”اسالمی ممالک“کے لئے بے لچک رویِّے کی بات کی،بھائی میرے،اس غرور و تکبر کی پوٹ کا یہ حال روز ِّاول سے اُسی طرح قائم ہے،جس طرحُ ،مودی یا اپنے
طوں کے ٹرمپ کسی پروٹوکول کے قائل نھیں،کسی”آفیشل“ ”پاکستانی ٹرمپ“کا،پاکستانی ٹرمپ کی اصطالح سوشل میڈیا پر سب سے پہلے ”غریب“ نے برتی،کیونکہ دونوں خِ ِّ
مجلسی ادب،آداب،تہذیب،نشست و برخاست کے خوگر نھیں،سوائے اپنی تعریف،اپنے خود ساختہ،از سرنوروشن کردہ ماضی کے قصے اور ”میں سب کچھ جانتا ہوں“کی گردان،اس
میں پاکستانی ٹرمپ ے کا ایک تکیہ کالم ”چوروں کو جلد پکڑیں گے،لُوٹی ہوئی رقم واپس الئیں گے!“ شامل کرلیجئے،ارے خدا کے غافل بندے،پاکستان کے نیرو!! چور تو سب ہی
جیلوں میں پڑے ہیں،اب کس ملک کے چوروں کی بات کی جارہی ہے؟؟ ملک کا دیوالیہ نکل گیا۔ملکی معیشت کا یہ حال ہے کہ مثل مشہور ہے”کھائے گدھا،مارا جائے جوالہا!“،
معیشت پر معیشت دانوں کا” ،کھیتی،خصم سیتی“واال معاملہ ہے۔(اب طالب علموں کے لئے ٹِھنکے ٹِھنکے پر مفہوم بھی لکھو کہ:بیٹا”،کھیتی خصم سیتی“(ہندی مِ ثل)کا مطلب ہے کہ
کھیتی مالک کی خبرداری سے ہوتی ہے،دوسروں پر چھوڑنے سے نھیں)یہاں یہ،ملکی،عوامی پُرسان حالی ،ہر غم کا مداوا اور ہر رنج کا وظیفہ ہے کہ ”چوروں کو پکڑیں گے،لُوٹا
ت حاضرہ پر دل کے پھپھولے پھوڑتا ،کوئی تو سُننے ،سمجھنے واال ہو۔میراتبصرہ ا سی ہوا مال واپس الئیں گے!“کاش منور مرزا صاحب سامنے ہوتے تو اس قدر برجستہ حال ِ
تفصیل ضروری ک ے چکر میں طویل ہوجاتا ہے کہ،نامکمل بات کیسے کروں؟لیکن یہ حقیقت پ ِّکے کاغذ پر لکھ دوں کہ پاکستانی ٹرمپ / ۲۲جوالئی کو واشنگٹن جارہے ہیں ،امریکی
ٹرمپ اُن کے سامنے دو”ٹرمپ کارڈ“( ترپ کے َپتِّے) پھینکے گا۔( )۱انڈیا کے منافق،حاسد وزیر اعظم کو ایک مصنوعی جنگ میں اپنے تین عدد جنگی جہاز دے کر اُس بدبخت کے
کلیجے کے ناسُور میں لگی انتقام کی آگ بُجھادو()۲ہمیں ایران سے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کو ”راستہ“ دے دو ،ماال مال کردیں گے،اب ”بڑے صاحب“نے سر پر انڈوں کی اتنی بڑی
ٹوکری بھی نھیں اُٹھائی کہ ۴۰۰۲ء کا دور واپس لے آئیں اور صریحا ا مشرف ثانی ثابت ہوجائیں۔بہرحال وہ تکبر کا استعارہ امریکی ٹرمپ ،پاکستانی ٹرمپ کی آنا کانا دیکھ کر فی
الفور کمرا چھوڑ کر از سر نو شمالی یا جنوبی کوریا نکل جائے گا ،کیونکہ اس بد بخت کی گوٹ آج کل کوریا میں پھنسی ہوئی ہے۔منور مرزا صاحب نے بڑے سبھاؤ سے ایران کے
جوہری عزائم بھی بیان کئے ہیں ،بال شبہ بہت اچھا تجزیہ ہے۔
محمود میاں نجمی حضرت الیاس ؑ (فرزن ِد حضرت ہارون ؑ)کا تذکرہ الئے ،مضمون کی خاص الخاص بات ”حضرت الیاس حیات ہیں یا متوفی “ تحقیق ہے ،ماشاء ہللا ،بہت خُ وب نجمی
تفسیر قرطبی“(مولف:ابو عبد ہللا ِ ابن جریر“اور ”
تفسیر ِ
ِ میاں ،کاش میرے پاس آپ تک رسائی کا کوئی تو رابطہ ہوتا،کاش ،مضمون پڑھ کر شدت سے اپنی چھوٹی سی الئبریری میں ”
محمد بن احمد) کی کمی کا احساس ہوا۔ ہللا جانے یہ تفاسیر کہاں ملیں گی؟ اب تو نوبت یہ آجائے گی کہ نجمی کے حروف اور قلم و قرطاس اُن سے پُکاریں گے!”بسم ہللا۔۔۔سال ُم‘قو ا
ال
ب الرحیم!“ ،جو کام حضرت فرمارہے ہیں ،وہ ”اُم العبادت“ہے اور ”جنگ سن ڈے میگزین“ کس قدر خوش نصیب،بابرکت جریدہ ہے کہ اس کے بیس عدد صفحات کے دامن مِ ن الر ِ
!میں ہر ہفتہ ہی ایک نُور موجزن ہوتا ہے ،کاش آج کا مسلمان سورۃ الیاسین (یس ٓ)ہی اُردو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھ،سمجھ لے،کاش
قارئین سنڈے میگزین کو مبارک اور جناب ہاشم ندیم کا شکریہ کہ معرکۃ اآلراء ناول ”عبد ہللا“کا”تھرڈ سیزن“ شروع ہوگیا،ورنہ درمیان میں کنول بہزاد کے ناولچے ِ نئے ناول کی
بھی شایع ہوئے لیکن ”عبد ہللا“اسالمی تاریخ کے اُس دور کا ماجرا ہے جب ”بینا مسلمان“” ،نابینا“نھیں ہوا کرتے تھے ،اُن کی چار آنکھیں ہوتیں ،دو َچہرے پر ،ایک قلب میں ،ایک
فکر ی،اسی لئے اُن مسلمانوں کے ساتھ معجزے رونما کرتے۔اُمید ہے پہلی قسط کے اختتام ہی سے قارئین کو اس ناول کا شدت سے انتظار رہے گا۔
ماہر تعلیم یا اہ ِل علم کو انٹرویو کرتے ہیں تو اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ موجودہ عہد میں متعلقہ علمی شخصیت کی علمی و تدریسی رؤف ظفر جب بھی کسی ِ
مساعی کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے،ہر انسانی ذہن ایک ہی زاویہئ فکر کو نھیں اپنا سکتا،اسی طرح عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر
3/2
پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی ”تعلیمی انقالبی تبدیلیوں“ سے آگاہی ہوئی،مکمل پالن تو ڈاکٹر صاحب نے بیان نھیں فرمایا،لیکن قیاس یہی ہے کہ سُپر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے
حوالوں ہی سے کسی نئے ”سافٹ ویر“کو ڈیزائن کیا جائے گا۔
(م یں کراچی میں عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نسرین فیاض صاحبہ (ریجنل ڈائریکٹر) کے دور میں صحافت کے سیمینار،ورکشاپ کراتا ،لیکن اب تو ”باتیں زیادہ،کام کم“ کا
”سوشل دور “ ہے۔اُس وقت کے پروفیسرز جو اُن ورکشاپس میں طالب علموں کے ہجوم کو علمی لحاظ سے شاداب و سیراب فرمادیا کرتے ،اُن میں ڈاکٹر توصیف احمد خان صاحب،
صفیہ ملک صاحبہ ،استا ِد محترم پروفیسر زکریا ساجد صاحب،پروفیسر طاہر مسعود صاحب ،ایک اور فربہ سے پروفیسر صاحب تھے( ۵۹۹۱ء کی بات بتارہا ہوں)،ان کا نام ذہن میں
نھیں آرہا،سیدہ نقوی صاحبہ اور دیگر۔ اُس وقت ”ماس کمیونیکشن “ کی کچھ کتابیں تو عالمہ اقبال یونیورسٹی کے تحت ہی شایع ہوئی تھیں ،بہترین علمی،ادبی،تحقیقی دور تھا ،واہ وا!
رؤف ظفر اسی طرح میرے ماضی کوکُھرچ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر ،آپ ”میں نامہ“ ،جو دراصل مینا نامہ ہوتاہے“ کا عدالتی الزام دھرتی ہیں۔منور مرزا صاحب سے ”بے لگام
عدلیہ“پر ڈھکے چُھپے محتاط ،بیدار لفظوں میں کچھ لکھوائیے۔یہ مکمل پیرا شایع نھیں کیجئے گا پلیز)
عوام پاکستان کے ِ نجم الحسن عطاء ”آئی ایم ایف“ کی اُس دلدل کے بارے میں بتارہے ہیں جو ہم غریب ممالک کا مقدر قرار پاتی ہے،موجودہ حکومت نے ۹ماہ میں قرض کا پہاڑ
لئے سجا دیا ہے لیکن بے فکر رہئے ،پریشان ہونے کی تو قطعی ضرورت نھیں ”ہم چوروں کو پکڑیں گے ،لُوٹا ہوا مال واپس الئیں گے“ ،
سونیقہ بی بی سے سجے مرکزی صفحات یقینا ا عالیہ نے سر ڈھانپ کر تحریر فرمائے ہوں گے،لیکن اِن فوٹو گریفرز کی مجبوری پر رونا آتا ہے کہ آج کل کی تو لیڈی ماڈلز نے
”دوپٹا“ نام کا تبرک واقعی ماضی کا ایک ورثہ بنادیا ہے،ضرورت ہی نھیں سمجھا جاتا ،ورنہ پہلے کی عورت واقعی پاگل تھی ،دس گز کا غرارہ،سات گز کی قمیص ،اُس پرپانچ
گزکے َرنگے ہوئے دوپٹے،منہدیائے پیروں میں چھوٹی چھوٹی کوشیاں (کوش= زنانہ سلیپرز )اور دوپٹے کے مختلف حصوں کو سنبھالنے کی لتاڑیں بھی ماں،نانی،دادی،تائی،
بھاوج ،ممانی،چچی،خالہ اور دیگر کی جانب سے بھی دن بھر مال کرتیں ،کہ”:اے بی آنچل تو ٹھیک سے لو،اے ہئے بی تم سے تو ایک اوڑھنی نہ سنبھالی جاتی،ارے بِھ ِّنو! یہ ناس
پیٹی تو گھونگھٹ کو اوچھے کا احسان بنا کے سسرال جائے گی،میری تربیت کا کھاٹ نکالے گی ،ذری دیکھؤ تو ،اِس سے ایک ِّپلو نہ اُڑسا جائے ہے،ائے میں کہوں،کوئی ب ِّنو رانی
کے ایک لِیر ہی لٹکا دے گلے میں،اوڑھنی سنبھالے نہ سنبھلے ہے!“ یہ تھا مشرقی مسلمان عورت کا پردہ۔اب سب آزاد ،ہر طرف ”نیا دور“،ثبوت کے طور پر ساٹھ ،ستِّر،اسِّی کے
اخبار خواتین،حُور،زیب النساء ،بانو،خواتین ڈائجسٹ،دوشیزہ،آنچل،وغیرہ کے سرورق مالحظہ فرمالیجئے۔ ِ عشروں کے اخبار جہاں،
عازمین حج کے قافلے حجِ بیت ہللا کے لئے جدہ ا ور مدینہ روانہ ہورہے ہیں تو اس ہفتہ ڈاکٹر شکیل احمد نے ِ عازمین حج سے واقعی نیکی فرماڈالی ،اِن دنوں ِ ڈاکٹر شکیل احمد نے
دوران حج شوگر کے مریضوں کو سب سے زیادہ ”ہائپو“کا ِ ذیابطیس شکری کے مریضوں کے لئے بہترین تجاویز تحریر کردیں،خاص انسولین تک تجویز کردی، ِ سفر حج
دوران ِ ِ
مسئلہ پیش آتا ہے ،جسم بے جان ،آنکھیں تقریبا ا بے نُور اور بھوک پیاس اُڑ جاتی ہے ،ہائپونکلتے پسینے کی وجہ سے کئی انفیکشن کو بھی جنم دیتا ہے جس سے شکر کے مریض کا
ہلنا مشکل ہوجاتا ہے ،ہللا سبھی کو ساتھ خیریت کے اس مقدس سفرکو لے جائے اور زندہ تندرست واپس اپنے اہل خانہ میں الئے،یا اگر زندگی کی دھوپ وہیں ڈھل گئی ہوتو ”جنت
البقیع“ہی مسکن بنائے،آمین ،ہللا کی باتیں ،ہللا ہی جانے۔دُنیا کی ہر شے ساتھ چھوڑ دیتی ہے،سوائے ”شوگر“کے ،یہ لحد تک کی ساتھی ہے۔
اختر علی اختر نے اداکارہ رباب ہاشم سے مالقات کرائی۔
محمد افضل خضری نے ”فائلر اور نان فائلر“کی مختصر لیکن پُر اثر بحث چھیڑی ،بات وہی ہے کہ جب ملک کا بھکاری تک ”الگو شدہ ٹیکس“ادا کرتا ہو تو نان فائلر کون ہوا،ذرا
”نادہندہ“ چنگیزخان اعظم سے بھی اُن کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں کوئی پوچھنے کی جسارت کرلے جو اَسِّی کی دہائی میں برطانیہ ،امریکا،جرمنی وغیرہ میں بنائی گئیں
اور اب تک ”چالُو“ہیں۔
”پیارا گھر“میں ہر جہت کی گھریلو اور مفید تحریر شایع کی جاتی ہے ،چونکہ مو ِس ِم برسات کی بظاہر آمد ہے تو حکیم راحت بہترین مضمون الئے،سہیل رضا تبسم نے خاندانی
نوجوانان خانہ کی شخصیت سازی کے لئے نہایت عمدہ موضوع کو بیان کیا،نسل نو کی گفتار واقعی شُتر بے مہار(ثابت ہورہی) ہے ،ابھی دو عشرے پہلے تو ہم بمبئی کی ِ اقدار اور
اُردو کو کوس رہے تھے کہ پوپٹ ،لش پشِ ،چیتا،دھانسو،چماخ ٹماخ جیسے الفاظ استعمال ہورہے تھے لیکن اب تو نوجوان نسل ایسی زَ بان بول تی ہے،جو نہ دماغ میں،نہ لغات میں،
موسم برسات کے حوالے سے دسترخوان پر مزے مزے کی ِ ہللا ہی جانے یہ تمدن کس ”بولی“ کے ذریعہ سے روشن ہورہاہے اور نوجوانوں کا کردار تاریک ترین،کسی نامعلوم نے
انواع اقسام کی مصور چٹنیاں سجادیں،جزاک ہللا ،شکریہ!نام لکھنے میں کیا مصلحت
3/3
کاشان،ام حبیب ،بیگم عزیز،ن م(کراچی)،س ( میر پور خاص)،ر(الہور)،بنت الباقر وغیرہ جیسے لذیذ ،پہلو دار نام کس موقع پر کام آئیں گے؟ ِ تھی،ا ُ ِم
(ہمری اہلیہ صاحبہ بڑے ”باورچی استحقاق“کے ساتھ گرجیں”،ارے اِس لڑکی نے نِمکی (لیموں کا اچار)اور امچور(آم کی پھانکوں کو تراش کر قتلوں کی صورت میں تیار کردہ
اچار)،سُوکھاتُرنجا(سوکھے پیازلیموں گاجر لہسوڑے کازہریال،تیزابی ملغوبہ)کسی سے نھیں سُنا ،لیمو ،کیری کا سیزن ہے ،ایک دو اچار ہی لکھ دیتی۔دراصل خاتون عظیم ا ُس
سنہرے دور کی گزیدہ ہیں جب اِن کی ا ِّم اں جان اِن کے کالج ،یونیورسٹی سے آتے ساتھ ہی دس دس سیر نیبو اور کیریاں کٹواتی اور آنگن میں مہینوں وہ اَچار سُکھایا کرتیں ،آج تک
تو وہ اچار گھروالوں کو نصیب نہ ہوئے کیونکہ محلِّے بھر کے لونڈے لپاڑے جو اُن کے لخت جگروں کے دوست تھے ،وہ دیواریں پھاند پھاند کر دوپہروں میں تھال کے تھال اور
کووں،کبوتروں اور بہو
مرتبان،روٹیوں کی تھئی کی تھئی سے ڈکار جاتے،باقی ماندہ اچار خاتون اپنی بہنوں اور سکھیوں کے ساتھ ”بَرَّ ا “ فرماجاتیں،اِدھر اماں جان دنیا بھر کے چیل ِّ
اچار الحاصل“کی تگ و دو میں گذرتیں۔کوئی ”باجی،آپا،اپیا،بجِّو“ لفٹ کراتی تو آموں بیٹیوں اور”نامعلوم افراد“کو بے نقط و بے بھاؤ کی سُنائے جاتیں،غرض پُوری گرمیاں اِسی ” ِ
کے درخت کے درخت جھاڑ النے پر ایک آدھ کیری کاٹ کر نمک مرچ لگا کر،لڑکوں کو بھی دے دیا کرتیں تو گویا ُمنھ میں کرنٹ دوڑ جاتا ،توبہ توبہ لڑکیاں بھی کیسا کیسا کاٹھ
کباڑ
کھا جاتی ہیں،ہاہاہا۔۔۔گھر سے عادت ہوتی ہے بیٹی،تاہم الزامات سسرال سہتا ہے۔)یہ نادراقتباس بھی”ناقاب ِل اشاعت“ یعنی تابندہ حقیقت ٹہرا۔
”ناقاب ِل فراموش“میں شاہد حسین ماں کی محبت سے مزین،سبق آموز آپ بیتی سُنا گئے ،لیکن دوسری کہانی کا ”اسرار واقعی کُھل نہ سکا“ کہ باقی کہانی کہاں گئی؟بیت الخالء والی
بدروح کا کیا بنا؟ یہ بھیانک خوا ب نُما کہانی کس نے تراشی؟ وہلل عالم ،باقی کہانی یُوں غائب تھی جیسی ایک زمانے میں مرحوم صہبا اختر کی مشاعروں میں پیش کردہ آدھا گز
طویل ترین نظم،جن کو اُن کے بے تکلف دوست نیچے سے پھاڑ دیا کرتے تھے اور صہبا اختر صاحب اپنے کالم کی دُھن میں مگن وہی تراشیدہ،بریدہ غزل پڑھے جاتے۔بھئی رعنا
فاروقی صاحبہ ،اتنی سخت ”ایڈیٹنگ“نھیں میڈم ،ہاہاہا،
”آپ کا صفحہ“ پر،سن ڈے میگزین کے ماضی کا بڑا پڑھا جانے واال نام”نادیہ ناز غوری“ دوسری بار نظر نواز ہوا ،واقعی نادیہ کی چٹھی ” اعزاز“ کی مستحق تھی ،کچھ ادیبوں
کے نثری الفاظ،کھنک دار شعری پیراہن اوڑھ لیتے ہیں ،نادیہ غوری بھی ان ہی نامہ نگاروں میں سے ہیں ،ساتھ عذراجمیل،حسین شیرازی،محمد علی آستانہ بغدادی،نادیہ مغل،راشد
علی جیسے کم کم شایع ہونے والے مبصرین بھی نظر آئے۔ای میل بھی سب عمدہ ہیں،ویسے چاچا چھکن نے محترمہ رعنا فاروقی کی عمر عزیز کیوں دریافت کی ہے؟ کچھ میرے
ذہن میں کھنک سی ہوئی ہے ،چاچا بڑے ہی چاچی اور زمانہ شناس آدمی ہیں،یُوں ہی ایک طِ فالنہ سُوال نھیں کرنے کے۔افروز برقی نے بھی محف ِل یاراں کو رونق بخشی اور بڑے
متاثرین میگزین کی خلقت عوامی(عوام جوِ میاں کو کہنے دو،جو کہے،لکھے جاتے ہیں ،وہ آپ جیسی عظیم،صابرہ شاکرہ مدیرہ جانتی،سہتی ہے یا یہ بے بس،بے کس قارئین و
ہوئے)۔ارے لوگو! ”نواب“ تو ”نائب“ کی جمع ہے تو یہ اپنے ملک نواب صاحب کہاں غائب ہوجاتے ہیں؟کسی نائب ہی کو تڑی لگادیا کریں کہ چل بھائی،اس ہفتے تُو کاڑھ دے
کچھ،لیکن نامے میں فلکی ا عتراضات ضرور شامل ہوں!
عالیہ کاشف عظیمی صاحبہ ”ابا جان“ کے نام پیار بھرے پیغامات سجا الئیں تو بقیہ جگہ میں ”الطافِ صحافت“”،یُو ٹرن کریسی“ اور ”چاندنی اکیلی ہے “جیسی باغ و بہار کتابوں سے
تعارف بھی ہوگیا ،واہ وا!
س ُمند َر کو چھاگل میں بند کرنا“ کوئی ”نرجس ملک“ سے سیکھے،جس کی ٹیم کی خواتین میں رعنا فاروقی اور عالیہ کاشف عظیمی جیسے دریا اور کوزہ تو پُرانا،صغیرہ ہواَ ”،
مستند ،مقبول اور صحافت کے جیِّد اسمائے گرامی بھی شامل ہیں۔ ہللا پاک آپ سب کو ہر اُس نعمت سے نواز دے جو آپ کے ذہن و قلب میں سمانے کو تیار ہو! آمین!!!
ٹیم کے ایک ایک فرد کو سلیوٹ!!!(پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی ،گلبرگ ٹاؤن،کراچی)
رابطہ02136345725 :
whatsapp: 03352364711
Dated:15-07-2019, Karachi