Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 2

‫بتاریخ‪/14:‬جوالئی‪2019‬ء‬

‫ِ‬ ‫‪1/3‬‬
‫الرحمن الرحیم‬
‫ٰ‬ ‫بسم ہللا‬
‫آپ کا صفحہ‘‪ ‘،‬ہفت روزہ”سن ڈے میگزین“‪،‬روزنامہ جنگ‪،‬کراچی”‬
‫اشاعت‪/۴۱:‬جوالئی ‪ ۹۱۰۲‬ء‬
‫س ٰلَ ٌم قَ ْو اال ِ ِّمن َّر ِّ‬
‫بۢ َّر ِحیمۢ (یس ‪)58 -‬‬ ‫َ‬
‫)آمین(‬
‫‪By:Prof Dr S Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi‬‬
‫‪Ex: MP-I Federal Education,Pakistan‬‬
‫تعالی َو بَ َرکاتہ‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫!‘وعلیکم السالم َو َرحْ َم ُۃ ِ‬ ‫َ‬
‫!جزاک ہللا خیر‬
‫جوالئی ‪۹۱‬ء کا شمارہ بھی ”چڑھتا سورج“ ثابت ہوا‪،‬جسے سبھی نے دیکھا‪،‬اِستفادہ کیا۔جاذب نظر(محن ت طلب) سرورق کے پیچھے منور مرزا صاحب نے ”امریکی ٹرمپ“ کی ‪۴۱/‬‬
‫بالخصوص ”اسالمی ممالک“کے لئے بے لچک رویِّے کی بات کی‪،‬بھائی میرے‪،‬اس غرور و تکبر کی پوٹ کا یہ حال روز ِّاول سے اُسی طرح قائم ہے‪،‬جس طرح‪ُ ،‬مودی یا اپنے‬
‫طوں کے ٹرمپ کسی پروٹوکول کے قائل نھیں‪،‬کسی”آفیشل“‬ ‫”پاکستانی ٹرمپ“کا‪،‬پاکستانی ٹرمپ کی اصطالح سوشل میڈیا پر سب سے پہلے ”غریب“ نے برتی‪،‬کیونکہ دونوں خِ ِّ‬
‫مجلسی ادب‪،‬آداب‪،‬تہذیب‪،‬نشست و برخاست کے خوگر نھیں‪،‬سوائے اپنی تعریف‪،‬اپنے خود ساختہ‪،‬از سرنوروشن کردہ ماضی کے قصے اور ”میں سب کچھ جانتا ہوں“کی گردان‪،‬اس‬
‫میں پاکستانی ٹرمپ ے کا ایک تکیہ کالم ”چوروں کو جلد پکڑیں گے‪،‬لُوٹی ہوئی رقم واپس الئیں گے!“ شامل کرلیجئے‪،‬ارے خدا کے غافل بندے‪،‬پاکستان کے نیرو!! چور تو سب ہی‬
‫جیلوں میں پڑے ہیں‪،‬اب کس ملک کے چوروں کی بات کی جارہی ہے؟؟ ملک کا دیوالیہ نکل گیا۔ملکی معیشت کا یہ حال ہے کہ مثل مشہور ہے”کھائے گدھا‪،‬مارا جائے جوالہا!“‪،‬‬
‫معیشت پر معیشت دانوں کا‪” ،‬کھیتی‪،‬خصم سیتی“واال معاملہ ہے۔(اب طالب علموں کے لئے ٹِھنکے ٹِھنکے پر مفہوم بھی لکھو کہ‪:‬بیٹا‪”،‬کھیتی خصم سیتی“(ہندی مِ ثل)کا مطلب ہے کہ‬
‫کھیتی مالک کی خبرداری سے ہوتی ہے‪،‬دوسروں پر چھوڑنے سے نھیں)یہاں یہ‪،‬ملکی‪،‬عوامی پُرسان حالی‪ ،‬ہر غم کا مداوا اور ہر رنج کا وظیفہ ہے کہ ”چوروں کو پکڑیں گے‪،‬لُوٹا‬
‫ت حاضرہ پر دل کے پھپھولے پھوڑتا‪ ،‬کوئی تو سُننے‪ ،‬سمجھنے واال ہو۔میراتبصرہ ا سی‬ ‫ہوا مال واپس الئیں گے!“کاش منور مرزا صاحب سامنے ہوتے تو اس قدر برجستہ حال ِ‬
‫تفصیل ضروری ک ے چکر میں طویل ہوجاتا ہے کہ‪،‬نامکمل بات کیسے کروں؟لیکن یہ حقیقت پ ِّکے کاغذ پر لکھ دوں کہ پاکستانی ٹرمپ ‪/ ۲۲‬جوالئی کو واشنگٹن جارہے ہیں‪ ،‬امریکی‬
‫ٹرمپ اُن کے سامنے دو”ٹرمپ کارڈ“( ترپ کے َپتِّے) پھینکے گا۔(‪ )۱‬انڈیا کے منافق‪،‬حاسد وزیر اعظم کو ایک مصنوعی جنگ میں اپنے تین عدد جنگی جہاز دے کر اُس بدبخت کے‬
‫کلیجے کے ناسُور میں لگی انتقام کی آگ بُجھادو(‪)۲‬ہمیں ایران سے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کرنے کو ”راستہ“ دے دو‪ ،‬ماال مال کردیں گے‪،‬اب ”بڑے صاحب“نے سر پر انڈوں کی اتنی بڑی‬
‫ٹوکری بھی نھیں اُٹھائی کہ ‪ ۴۰۰۲‬ء کا دور واپس لے آئیں اور صریحا ا مشرف ثانی ثابت ہوجائیں۔بہرحال وہ تکبر کا استعارہ امریکی ٹرمپ‪ ،‬پاکستانی ٹرمپ کی آنا کانا دیکھ کر فی‬
‫الفور کمرا چھوڑ کر از سر نو شمالی یا جنوبی کوریا نکل جائے گا‪ ،‬کیونکہ اس بد بخت کی گوٹ آج کل کوریا میں پھنسی ہوئی ہے۔منور مرزا صاحب نے بڑے سبھاؤ سے ایران کے‬
‫جوہری عزائم بھی بیان کئے ہیں‪ ،‬بال شبہ بہت اچھا تجزیہ ہے۔‬
‫محمود میاں نجمی حضرت الیاس ؑ (فرزن ِد حضرت ہارون ؑ)کا تذکرہ الئے‪ ،‬مضمون کی خاص الخاص بات ”حضرت الیاس حیات ہیں یا متوفی “ تحقیق ہے‪ ،‬ماشاء ہللا‪ ،‬بہت خُ وب نجمی‬
‫تفسیر قرطبی“(مولف‪:‬ابو عبد ہللا‬ ‫ِ‬ ‫ابن جریر“اور ”‬
‫تفسیر ِ‬
‫ِ‬ ‫میاں‪ ،‬کاش میرے پاس آپ تک رسائی کا کوئی تو رابطہ ہوتا‪،‬کاش‪ ،‬مضمون پڑھ کر شدت سے اپنی چھوٹی سی الئبریری میں ”‬
‫محمد بن احمد) کی کمی کا احساس ہوا۔ ہللا جانے یہ تفاسیر کہاں ملیں گی؟ اب تو نوبت یہ آجائے گی کہ نجمی کے حروف اور قلم و قرطاس اُن سے پُکاریں گے!”بسم ہللا۔۔۔سال ُم‘قو ا‬
‫ال‬
‫ب الرحیم!“ ‪،‬جو کام حضرت فرمارہے ہیں‪ ،‬وہ ”اُم العبادت“ہے اور ”جنگ سن ڈے میگزین“ کس قدر خوش نصیب‪،‬بابرکت جریدہ ہے کہ اس کے بیس عدد صفحات کے دامن‬ ‫مِ ن الر ِ‬
‫!میں ہر ہفتہ ہی ایک نُور موجزن ہوتا ہے‪ ،‬کاش آج کا مسلمان سورۃ الیاسین (یس ٓ)ہی اُردو ترجمہ اور تفسیر کے ساتھ پڑھ‪،‬سمجھ لے‪،‬کاش‬
‫قارئین سنڈے میگزین کو مبارک اور جناب ہاشم ندیم کا شکریہ کہ معرکۃ اآلراء ناول ”عبد ہللا“کا”تھرڈ سیزن“ شروع ہوگیا‪،‬ورنہ درمیان میں کنول بہزاد کے ناولچے‬ ‫ِ‬ ‫نئے ناول کی‬
‫بھی شایع ہوئے لیکن ”عبد ہللا“اسالمی تاریخ کے اُس دور کا ماجرا ہے جب ”بینا مسلمان“‪” ،‬نابینا“نھیں ہوا کرتے تھے‪ ،‬اُن کی چار آنکھیں ہوتیں‪ ،‬دو َچہرے پر‪ ،‬ایک قلب میں‪ ،‬ایک‬
‫فکر ی‪،‬اسی لئے اُن مسلمانوں کے ساتھ معجزے رونما کرتے۔اُمید ہے پہلی قسط کے اختتام ہی سے قارئین کو اس ناول کا شدت سے انتظار رہے گا۔‬
‫ماہر تعلیم یا اہ ِل علم کو انٹرویو کرتے ہیں تو اس عمل کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ موجودہ عہد میں متعلقہ علمی شخصیت کی علمی و تدریسی‬ ‫رؤف ظفر جب بھی کسی ِ‬
‫مساعی کا اندازہ بھی ہوجاتا ہے۔ظاہر ہے‪،‬ہر انسانی ذہن ایک ہی زاویہئ فکر کو نھیں اپنا سکتا‪،‬اسی طرح عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے وائس چانسلر‬
‫‪3/2‬‬
‫پروفیسر ڈاکٹر ضیاء القیوم کی ”تعلیمی انقالبی تبدیلیوں“ سے آگاہی ہوئی‪،‬مکمل پالن تو ڈاکٹر صاحب نے بیان نھیں فرمایا‪،‬لیکن قیاس یہی ہے کہ سُپر انفارمیشن ٹیکنالوجی کے‬
‫حوالوں ہی سے کسی نئے ”سافٹ ویر“کو ڈیزائن کیا جائے گا۔‬
‫(م یں کراچی میں عالمہ اقبال اوپن یونیورسٹی کے نسرین فیاض صاحبہ (ریجنل ڈائریکٹر) کے دور میں صحافت کے سیمینار‪،‬ورکشاپ کراتا‪ ،‬لیکن اب تو ”باتیں زیادہ‪،‬کام کم“ کا‬
‫”سوشل دور “ ہے۔اُس وقت کے پروفیسرز جو اُن ورکشاپس میں طالب علموں کے ہجوم کو علمی لحاظ سے شاداب و سیراب فرمادیا کرتے‪ ،‬اُن میں ڈاکٹر توصیف احمد خان صاحب‪،‬‬
‫صفیہ ملک صاحبہ‪ ،‬استا ِد محترم پروفیسر زکریا ساجد صاحب‪،‬پروفیسر طاہر مسعود صاحب‪ ،‬ایک اور فربہ سے پروفیسر صاحب تھے(‪ ۵۹۹۱‬ء کی بات بتارہا ہوں)‪،‬ان کا نام ذہن میں‬
‫نھیں آرہا‪،‬سیدہ نقوی صاحبہ اور دیگر۔ اُس وقت ”ماس کمیونیکشن “ کی کچھ کتابیں تو عالمہ اقبال یونیورسٹی کے تحت ہی شایع ہوئی تھیں‪ ،‬بہترین علمی‪،‬ادبی‪،‬تحقیقی دور تھا‪ ،‬واہ وا!‬
‫رؤف ظفر اسی طرح میرے ماضی کوکُھرچ کر رکھ دیتے ہیں اور پھر‪ ،‬آپ ”میں نامہ“ ‪ ،‬جو دراصل مینا نامہ ہوتاہے“ کا عدالتی الزام دھرتی ہیں۔منور مرزا صاحب سے ”بے لگام‬
‫عدلیہ“پر ڈھکے چُھپے محتاط‪ ،‬بیدار لفظوں میں کچھ لکھوائیے۔یہ مکمل پیرا شایع نھیں کیجئے گا پلیز)‬
‫عوام پاکستان کے‬ ‫ِ‬ ‫نجم الحسن عطاء ”آئی ایم ایف“ کی اُس دلدل کے بارے میں بتارہے ہیں جو ہم غریب ممالک کا مقدر قرار پاتی ہے‪،‬موجودہ حکومت نے ‪ ۹‬ماہ میں قرض کا پہاڑ‬
‫لئے سجا دیا ہے لیکن بے فکر رہئے‪ ،‬پریشان ہونے کی تو قطعی ضرورت نھیں ”ہم چوروں کو پکڑیں گے‪ ،‬لُوٹا ہوا مال واپس الئیں گے“ ‪،‬‬
‫سونیقہ بی بی سے سجے مرکزی صفحات یقینا ا عالیہ نے سر ڈھانپ کر تحریر فرمائے ہوں گے‪،‬لیکن اِن فوٹو گریفرز کی مجبوری پر رونا آتا ہے کہ آج کل کی تو لیڈی ماڈلز نے‬
‫”دوپٹا“ نام کا تبرک واقعی ماضی کا ایک ورثہ بنادیا ہے‪،‬ضرورت ہی نھیں سمجھا جاتا‪ ،‬ورنہ پہلے کی عورت واقعی پاگل تھی‪ ،‬دس گز کا غرارہ‪،‬سات گز کی قمیص‪ ،‬اُس پرپانچ‬
‫گزکے َرنگے ہوئے دوپٹے‪،‬منہدیائے پیروں میں چھوٹی چھوٹی کوشیاں (کوش= زنانہ سلیپرز )اور دوپٹے کے مختلف حصوں کو سنبھالنے کی لتاڑیں بھی ماں‪،‬نانی‪،‬دادی‪،‬تائی‪،‬‬
‫بھاوج‪ ،‬ممانی‪،‬چچی‪،‬خالہ اور دیگر کی جانب سے بھی دن بھر مال کرتیں‪ ،‬کہ‪”:‬اے بی آنچل تو ٹھیک سے لو‪،‬اے ہئے بی تم سے تو ایک اوڑھنی نہ سنبھالی جاتی‪،‬ارے بِھ ِّنو! یہ ناس‬
‫پیٹی تو گھونگھٹ کو اوچھے کا احسان بنا کے سسرال جائے گی‪،‬میری تربیت کا کھاٹ نکالے گی‪ ،‬ذری دیکھؤ تو‪ ،‬اِس سے ایک ِّپلو نہ اُڑسا جائے ہے‪،‬ائے میں کہوں‪،‬کوئی ب ِّنو رانی‬
‫کے ایک لِیر ہی لٹکا دے گلے میں‪،‬اوڑھنی سنبھالے نہ سنبھلے ہے!“ یہ تھا مشرقی مسلمان عورت کا پردہ۔اب سب آزاد‪ ،‬ہر طرف ”نیا دور“‪،‬ثبوت کے طور پر ساٹھ‪ ،‬ستِّر‪،‬اسِّی کے‬
‫اخبار خواتین‪،‬حُور‪،‬زیب النساء‪ ،‬بانو‪،‬خواتین ڈائجسٹ‪،‬دوشیزہ‪،‬آنچل‪،‬وغیرہ کے سرورق مالحظہ فرمالیجئے۔‬ ‫ِ‬ ‫عشروں کے اخبار جہاں‪،‬‬
‫عازمین حج کے قافلے حجِ بیت ہللا کے لئے جدہ ا ور مدینہ روانہ ہورہے ہیں تو اس ہفتہ ڈاکٹر شکیل احمد نے‬ ‫ِ‬ ‫عازمین حج سے واقعی نیکی فرماڈالی‪ ،‬اِن دنوں‬ ‫ِ‬ ‫ڈاکٹر شکیل احمد نے‬
‫دوران حج شوگر کے مریضوں کو سب سے زیادہ ”ہائپو“کا‬ ‫ِ‬ ‫ذیابطیس شکری کے مریضوں کے لئے بہترین تجاویز تحریر کردیں‪،‬خاص انسولین تک تجویز کردی‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫سفر حج‬
‫دوران ِ‬ ‫ِ‬
‫مسئلہ پیش آتا ہے‪ ،‬جسم بے جان‪ ،‬آنکھیں تقریبا ا بے نُور اور بھوک پیاس اُڑ جاتی ہے‪ ،‬ہائپونکلتے پسینے کی وجہ سے کئی انفیکشن کو بھی جنم دیتا ہے جس سے شکر کے مریض کا‬
‫ہلنا مشکل ہوجاتا ہے‪ ،‬ہللا سبھی کو ساتھ خیریت کے اس مقدس سفرکو لے جائے اور زندہ تندرست واپس اپنے اہل خانہ میں الئے‪،‬یا اگر زندگی کی دھوپ وہیں ڈھل گئی ہوتو ”جنت‬
‫البقیع“ہی مسکن بنائے‪،‬آمین‪ ،‬ہللا کی باتیں‪ ،‬ہللا ہی جانے۔دُنیا کی ہر شے ساتھ چھوڑ دیتی ہے‪،‬سوائے ”شوگر“کے‪ ،‬یہ لحد تک کی ساتھی ہے۔‬
‫اختر علی اختر نے اداکارہ رباب ہاشم سے مالقات کرائی۔‬
‫محمد افضل خضری نے ”فائلر اور نان فائلر“کی مختصر لیکن پُر اثر بحث چھیڑی‪ ،‬بات وہی ہے کہ جب ملک کا بھکاری تک ”الگو شدہ ٹیکس“ادا کرتا ہو تو نان فائلر کون ہوا‪،‬ذرا‬
‫”نادہندہ“ چنگیزخان اعظم سے بھی اُن کی آف شور کمپنیوں کے بارے میں کوئی پوچھنے کی جسارت کرلے جو اَسِّی کی دہائی میں برطانیہ‪ ،‬امریکا‪،‬جرمنی وغیرہ میں بنائی گئیں‬
‫اور اب تک ”چالُو“ہیں۔‬
‫”پیارا گھر“میں ہر جہت کی گھریلو اور مفید تحریر شایع کی جاتی ہے‪ ،‬چونکہ مو ِس ِم برسات کی بظاہر آمد ہے تو حکیم راحت بہترین مضمون الئے‪،‬سہیل رضا تبسم نے خاندانی‬
‫نوجوانان خانہ کی شخصیت سازی کے لئے نہایت عمدہ موضوع کو بیان کیا‪،‬نسل نو کی گفتار واقعی شُتر بے مہار(ثابت ہورہی) ہے‪ ،‬ابھی دو عشرے پہلے تو ہم بمبئی کی‬ ‫ِ‬ ‫اقدار اور‬
‫اُردو کو کوس رہے تھے کہ پوپٹ‪ ،‬لش پش‪ِ ،‬چیتا‪،‬دھانسو‪،‬چماخ ٹماخ جیسے الفاظ استعمال ہورہے تھے لیکن اب تو نوجوان نسل ایسی زَ بان بول تی ہے‪،‬جو نہ دماغ میں‪،‬نہ لغات میں‪،‬‬
‫موسم برسات کے حوالے سے دسترخوان پر مزے مزے کی‬ ‫ِ‬ ‫ہللا ہی جانے یہ تمدن کس ”بولی“ کے ذریعہ سے روشن ہورہاہے اور نوجوانوں کا کردار تاریک ترین‪،‬کسی نامعلوم نے‬
‫انواع اقسام کی مصور چٹنیاں سجادیں‪،‬جزاک ہللا‪ ،‬شکریہ!نام لکھنے میں کیا مصلحت‬
‫‪3/3‬‬
‫کاشان‪،‬ام حبیب‪ ،‬بیگم عزیز‪،‬ن م(کراچی)‪،‬س ( میر پور خاص)‪،‬ر(الہور)‪،‬بنت الباقر وغیرہ جیسے لذیذ‪ ،‬پہلو دار نام کس موقع پر کام آئیں گے؟‬ ‫ِ‬ ‫تھی‪،‬ا ُ ِم‬
‫(ہمری اہلیہ صاحبہ بڑے ”باورچی استحقاق“کے ساتھ گرجیں‪”،‬ارے اِس لڑکی نے نِمکی (لیموں کا اچار)اور امچور(آم کی پھانکوں کو تراش کر قتلوں کی صورت میں تیار کردہ‬
‫اچار)‪،‬سُوکھاتُرنجا(سوکھے پیازلیموں گاجر لہسوڑے کازہریال‪،‬تیزابی ملغوبہ)کسی سے نھیں سُنا‪ ،‬لیمو‪ ،‬کیری کا سیزن ہے‪ ،‬ایک دو اچار ہی لکھ دیتی۔دراصل خاتون عظیم ا ُس‬
‫سنہرے دور کی گزیدہ ہیں جب اِن کی ا ِّم اں جان اِن کے کالج‪ ،‬یونیورسٹی سے آتے ساتھ ہی دس دس سیر نیبو اور کیریاں کٹواتی اور آنگن میں مہینوں وہ اَچار سُکھایا کرتیں‪ ،‬آج تک‬
‫تو وہ اچار گھروالوں کو نصیب نہ ہوئے کیونکہ محلِّے بھر کے لونڈے لپاڑے جو اُن کے لخت جگروں کے دوست تھے‪ ،‬وہ دیواریں پھاند پھاند کر دوپہروں میں تھال کے تھال اور‬
‫کووں‪،‬کبوتروں اور بہو‬
‫مرتبان‪،‬روٹیوں کی تھئی کی تھئی سے ڈکار جاتے‪،‬باقی ماندہ اچار خاتون اپنی بہنوں اور سکھیوں کے ساتھ ”بَرَّ ا “ فرماجاتیں‪،‬اِدھر اماں جان دنیا بھر کے چیل ِّ‬
‫اچار الحاصل“کی تگ و دو میں گذرتیں۔کوئی ”باجی‪،‬آپا‪،‬اپیا‪،‬بجِّو“ لفٹ کراتی تو آموں‬ ‫بیٹیوں اور”نامعلوم افراد“کو بے نقط و بے بھاؤ کی سُنائے جاتیں‪،‬غرض پُوری گرمیاں اِسی ” ِ‬
‫کے درخت کے درخت جھاڑ النے پر ایک آدھ کیری کاٹ کر نمک مرچ لگا کر‪،‬لڑکوں کو بھی دے دیا کرتیں تو گویا ُمنھ میں کرنٹ دوڑ جاتا‪ ،‬توبہ توبہ لڑکیاں بھی کیسا کیسا کاٹھ‬
‫کباڑ‬
‫کھا جاتی ہیں‪،‬ہاہاہا۔۔۔گھر سے عادت ہوتی ہے بیٹی‪،‬تاہم الزامات سسرال سہتا ہے۔)یہ نادراقتباس بھی”ناقاب ِل اشاعت“ یعنی تابندہ حقیقت ٹہرا۔‬
‫”ناقاب ِل فراموش“میں شاہد حسین ماں کی محبت سے مزین‪،‬سبق آموز آپ بیتی سُنا گئے‪ ،‬لیکن دوسری کہانی کا ”اسرار واقعی کُھل نہ سکا“ کہ باقی کہانی کہاں گئی؟بیت الخالء والی‬
‫بدروح کا کیا بنا؟ یہ بھیانک خوا ب نُما کہانی کس نے تراشی؟ وہلل عالم‪ ،‬باقی کہانی یُوں غائب تھی جیسی ایک زمانے میں مرحوم صہبا اختر کی مشاعروں میں پیش کردہ آدھا گز‬
‫طویل ترین نظم‪،‬جن کو اُن کے بے تکلف دوست نیچے سے پھاڑ دیا کرتے تھے اور صہبا اختر صاحب اپنے کالم کی دُھن میں مگن وہی تراشیدہ‪،‬بریدہ غزل پڑھے جاتے۔بھئی رعنا‬
‫فاروقی صاحبہ‪ ،‬اتنی سخت ”ایڈیٹنگ“نھیں میڈم‪ ،‬ہاہاہا‪،‬‬
‫”آپ کا صفحہ“ پر‪،‬سن ڈے میگزین کے ماضی کا بڑا پڑھا جانے واال نام”نادیہ ناز غوری“ دوسری بار نظر نواز ہوا‪ ،‬واقعی نادیہ کی چٹھی ” اعزاز“ کی مستحق تھی‪ ،‬کچھ ادیبوں‬
‫کے نثری الفاظ‪،‬کھنک دار شعری پیراہن اوڑھ لیتے ہیں‪ ،‬نادیہ غوری بھی ان ہی نامہ نگاروں میں سے ہیں‪ ،‬ساتھ عذراجمیل‪،‬حسین شیرازی‪،‬محمد علی آستانہ بغدادی‪،‬نادیہ مغل‪،‬راشد‬
‫علی جیسے کم کم شایع ہونے والے مبصرین بھی نظر آئے۔ای میل بھی سب عمدہ ہیں‪،‬ویسے چاچا چھکن نے محترمہ رعنا فاروقی کی عمر عزیز کیوں دریافت کی ہے؟ کچھ میرے‬
‫ذہن میں کھنک سی ہوئی ہے‪ ،‬چاچا بڑے ہی چاچی اور زمانہ شناس آدمی ہیں‪،‬یُوں ہی ایک طِ فالنہ سُوال نھیں کرنے کے۔افروز برقی نے بھی محف ِل یاراں کو رونق بخشی اور بڑے‬
‫متاثرین میگزین کی خلقت عوامی(عوام جو‬‫ِ‬ ‫میاں کو کہنے دو‪،‬جو کہے‪،‬لکھے جاتے ہیں‪ ،‬وہ آپ جیسی عظیم‪،‬صابرہ شاکرہ مدیرہ جانتی‪،‬سہتی ہے یا یہ بے بس‪،‬بے کس قارئین و‬
‫ہوئے)۔ارے لوگو! ”نواب“ تو ”نائب“ کی جمع ہے تو یہ اپنے ملک نواب صاحب کہاں غائب ہوجاتے ہیں؟کسی نائب ہی کو تڑی لگادیا کریں کہ چل بھائی‪،‬اس ہفتے تُو کاڑھ دے‬
‫کچھ‪،‬لیکن نامے میں فلکی ا عتراضات ضرور شامل ہوں!‬
‫عالیہ کاشف عظیمی صاحبہ ”ابا جان“ کے نام پیار بھرے پیغامات سجا الئیں تو بقیہ جگہ میں ”الطافِ صحافت“‪”،‬یُو ٹرن کریسی“ اور ”چاندنی اکیلی ہے “جیسی باغ و بہار کتابوں سے‬
‫تعارف بھی ہوگیا‪ ،‬واہ وا!‬
‫س ُمند َر کو چھاگل میں بند کرنا“ کوئی ”نرجس ملک“ سے سیکھے‪،‬جس کی ٹیم کی خواتین میں رعنا فاروقی اور عالیہ کاشف عظیمی جیسے‬ ‫دریا اور کوزہ تو پُرانا‪،‬صغیرہ ہوا‪َ ”،‬‬
‫مستند‪ ،‬مقبول اور صحافت کے جیِّد اسمائے گرامی بھی شامل ہیں۔ ہللا پاک آپ سب کو ہر اُس نعمت سے نواز دے جو آپ کے ذہن و قلب میں سمانے کو تیار ہو! آمین!!!‬
‫ٹیم کے ایک ایک فرد کو سلیوٹ!!!(پروفیسرمجیب ظفرانوارحمیدی‪ ،‬گلبرگ ٹاؤن‪،‬کراچی)‬
‫رابطہ‪02136345725 :‬‬
‫‪whatsapp: 03352364711‬‬
‫‪Dated:15-07-2019, Karachi‬‬

You might also like