Professional Documents
Culture Documents
"آپ کا صفحہ"،جنگ سن ڈے میگزین،اشاعت:21/جولائی 2019ء،کراچی
"آپ کا صفحہ"،جنگ سن ڈے میگزین،اشاعت:21/جولائی 2019ء،کراچی
پروفیسرسیّدمجیب ظفرانوارحمیدی
جوالئی ۹۱ء کا تازہ دم ،رنگا رنگ ماہرانہ سرورق واال میگزین،دیکھا،مانا ،پڑھاُ ،چونکہ ۱۲/
ہمیشہ ہی میگزین کی ابتدا ”آپ کا صفحہ“سے ہوتی ہے،لہٰ ذا ،اِس ہفتہ بھی سب سے پہلے اِسی سے
آغازکیا،خطوط اور خطوط نگارسارے ہی جانے مانے ،محظوظ کرگئے،مدیرہ صاحبہ نے تقریبا ہر
تبصرے کا جواب دیا لیکن اس بار جوابات میں صحافتی ناقدری اور اخباری صنعت کا ایسا لہو ُرالدینے
واال ”سچ“ موجود تھا کہ طبیعت بے حد اُداس ہوگئی،دل سے اخباری صنعت اور تما م پریس(صحافی
اور عملہ) کے افراد کی بحالی،خوشحالی اور قدردانی کی دعائیں نکلیں۔محمد سلیم راجا کا خط واقعی
قاب ِل انتخاب تھا۔دو تین ہفتے سے”ہرجائی توتا“ غائب ہے اور اب خاص الخاص ِچٹّھی ”محبت آمیز
گالبی ربن اور سرخ پاش لفافے“میں پیش کی جاتی ہے۔زیادہ تر قارئین صفحات میں کمی کی شکایت
وابستگان
ِ بھی کرتے ہیں ،میں اُن سے دست بستہ التماس کروں گا کہ آپ سب میگزین اور متعلقین و
میگزین کی ہر ممکن بقاء کی دعائیں فرمائیے،ہر ہفتہ مختصر ترین صفحات میں رنگارنگ صفحات
پردین و ہدایت ،سیاست،صحافت،گھر گرہستی،عالمی احوال،انٹرویو ،ادب ،تعلیم،کتابوں پر
تبصرے،قارئین کی محفل اور اُن سے رابطہ،شوبزوغیرہ،سبھی کچھ تو اپنی بہترین حالتوں کے ساتھ
موجود ہوتا ہے ،سب سے بڑھ کر زَ بان و بیان اور امال و تلفظات کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے،تو
ایسے اخباری جریدے کو تو عالمی طور پر سراہا جانا چاہئے کہ اس میگزین نے نہ صرف ریاستی
ملحوظ خاطر رکھا ،بلکہ ”پاکستانی پریس“اور ادارتی پالیسی کی ُحرمت کا بھی قدم قدم پر
ِ اصولوں کو
خیال رکھا اور ”ناممکن“کو ”ممکن“بنایا۔بھال کون سی ٹیم اور اُس کی مدیرہ بیس صفحات میں کھینچ
تان کرکے ”والدہ نمبر“”،والد نمبر“”،رمضان اسپیشل“”،عید اسپیشل“”،حج اسپیشل“”،سالنامہ“ وغیرہ
شایع کرسکتی ہے؟؟یعنی،میگزین کا بھی ایک شخص ،اداروں کا کام کررہا ہے ،ادارے اور اپنے پیشے
سے ”وفا“کی اس سے بڑھ کربڑی مثال اور کیاہوگی؟
بہرحال نرجس ملک کے دل کا درد واقعی ُرال گیا ،ہر ممکن تعاون کے لئے ہم کمتر،بے بس
قارئین،ہر لمحہ حاضر ہیں ،بس ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ،یقین رکھئے کہ اچھے دنوں کا آغاز بہت
!جلد ہوگا ،اِن شاء ہللا
!بھال بتائیے
یک آزادیئ پاکستان ،جنگِ بقائےروزنامہ جنگ جیسا وقیع اور وسیع اُردو جریدہ جس نے تحر ِ
ت ریاست(۱۷۹۱ء) اور دیگر قومی سانحات کو اپنی ذاتی ذمہ داری جانتے ریاست(۵۶۹۱ء)،جنگِ شناخ ِ
ت پاکستان“ اور اُس کے اراکین
محسن صحاف ِ
ِ ہوئے روز و شب ریاست اور حکومت کا ساتھ دیا ،آج وہ ”
یفر کردار
و متعلقین کس قدر پریشان ہیں؟ہللا ہی ان کی پریشانیاں دُور کرسکتا ہے اور ظالموکو بدترین ک ِ
!تک پہنچا سکتا ہے،آمین
خاک پڑے ایسی تبدیلی پر،جس ”تبدیلی“نے عوام کے منھ کا نوالہ چھین لیا ،رزق حالل سے
وابستہ محنتی افراد اپنے روزگار اور اپنی تن خواہ تک سے محروم کردئے گئے ،اُس دور میں ”عوام
کا احوال“ خاک تبدیل ہوا ہے؟
روسی بھی گوربا چوف کی جہالت اور ظلم کو اُس وقت تک ”تبدیلی“سمجھتے اور کہتے
رہے،جب تک اُس جاہل،ظالم ،ناتجربہ کار نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردئے اور خود امریکا فرار
ہوگیااور وہیں مستقل قیام کیا۔یہ کیسی تبدیلی ہے،جس میں پاکستان کی نظریاتی
سرحدیں،مذہب،تحریر،تقریرِ ،دین دھرم،معاش،تعلیم ،طرز رہن سہن ،کاربار،روزگار،سیاست،
معیشت،معاش وغیرہ ،سبھی کچھ ”منفی“طور پر تبدیل ہوا
ہے؟؟دوا،غذا،کاغذقلم،کتاب،کاپی،روٹی،کپڑا،مکا ن سبھی منہگائی کے شعلوں میں ہیں۔
آج میگزین پر لکھنے کو دُکھی دل قطعی راضی نھیں،ہمارے محسن صحافی کس قدر اذیت اور
کرب سے دوچار ہیں،ہم کیا کرسکتے ہیں؟ہم سب ہر ممکن تعاون کے لئے حاضر ہیں ،سن ڈے میگزین
کے لئے تو ہماری جانیں بھی حاضر ہیں ،اس میگزین نے ہم سبھی قارئین پر بڑے غیر محسوس
احسانات کئے ہیں۔
پریسا“کی ماڈلنگ سے سجے سرورق اور مرکزی صفحات پر عالیہ کاشف نے بہت اچھا ”
لکھا،عرفان نجمی نے آؤٹ ڈور عکاسی بھی بڑی مہارت سے کی۔ ملبوسات اور پودوں کی”کلر
کمبینیشن“کا خاص خیال رکھا گیا۔منور مرزا صاحب کا تجزیہ ،پاکستانی اور امریکی ٹرمپ سے ممکنہ
مالقات (/۲۲جوالئی ۹۱ء)سے ایک روز قبل شایع ہوئی ،ظاہر ہے لکھی بھی پہلے ہوگی،لیکن تجزیہ کا
ایک ایک لفظ ماہرانہ نظریہ کا عکاس ہے،منور صاحب نے اس مالقات کے مثبت اور منفی ُرخ تحریر
کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماضی کے پاکستانی راہ نماؤں اور موجودہ حکمراں کے ”ویلکم
پروٹوکول“میں واضح فرق ہوگااور آج (/۱۲جوالئی ۹۱ء)کو بخدا یہی ہوا ،ظاہر ہے ایک ماہر،کہنہ
مشق ،منجھے ہوئے تجزیہ کار کے قلم کی آنکھ سو برس آگے تک دیکھتی ہے۔بہترین تجزیہ اور
تصاویر ہیں۔”قصص االنبیاء علیہم السالم“میں اس ہفتہ محمود میاں صاحب نے حضرت داؤد ؑ پر لکھا
اور ایک نادر تصویر بھی تحقیق کے ساتھ شایع کی گئی ہے،مضمون کی تحقیق اور طرز تحریر جامع
بلکہ ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔جزاک ہللا نجمی صاحب!طلعت عمران نے مقبول مبلّغ اور نصاب
ساز عا ِلم شیخ شجاع الدین سے مالقات کرواکے بہت سے ایسے ذہنوں کی گرہیں کھول دیں جو نعوذ باہلل
قرآن حکیم فرقان مجید کو محض عربی زَ بان کی ایک مقدس ترین کتاب سمجھتے ہیں ،حاالنکہ جس قدر
(قرآن مجید)میں ہے،اُتنا وقیع علم”عالمی معارف العلوم کے
ِ وسیع علم (ہر جہت کا) ہللا کے کالم
شدہدائروں“ میں بھی نہ ملے گا۔ناول ”عبد ہللا“ اپنے انداز کے ساتھ جاری ہے۔”پیارا گھر“میں شایع ُ
ڈاکٹر صاحبہ کے الفاظ نہایت قاب ِل قدر ہیں،والدین اور اساتذہ کرام کے عالوہ بچوں کے اخبارات ،کتابوں
اور رسائل کے مدیران کو بھی اِن الفاظ کو مشع ِل راہ بنانے کی ضرورت ہے ،اس وقت پُرانی نسل اور
نئی نسل میں ”کیریر کونسلنگ“”،آگاہی“”،سمجھوتے“”،راہ نمائی“وغیرہ کا فقدان ہے ،ماضی میں جیو
ٹی وی کے پروگرام ”کیرئر گائڈنس“یا ایسے ہی کسی ملتے جلتے عنوان والے پروگرام میں شرکت
ین تعلیم اور طالب علموں کو بھی شریک کیا جاتا،آج کل وہی سعی بھی کی اور اُس پروگرام میں ماہر ِ
ڈاکٹر عزیزہ اپنی تحریروں سے انجام دے رہی ہیں۔عائشہ انعام نے اہم مسئلہ پر لکھا،آج کل نئے تعمیر
سوئی گیس کی سہولت نھیں بلکہ ایل۔پی۔جی گیس کے سلنڈرز شدہ انتہائی قیمتی فلیٹوں اور مکانات میں ُ
استعمال کئے جارہے ہیں ،جن کا استعمال بھی خواتین خانہ اور بچوں کے لئے تو خاصا خطرناک
۔موسم گرما کے دسترخوان پرِ ہے۔سبز االئچی اور کیلے کے طبی فوائد سے مزید آگاہی (حاصل)ہوئی
ین جاں کا اہتمام کرگئے۔”متفرق“کے چاروں مضامین ”جب صحت افزا،رنگا رنگ مشروبات بھی تسک ِ
انسان چاند پر اُترا“(مظفر فاروقی)اور”ریاس ِ
ت مدینہ کے متمنی عوام“(ابراہیم خلیل)”،ترقی کا
راز“(خالد رضوی)”،عالمہ اقبال ؒ کی زندہ دلی“(سید مغنی حیدر) اپنے الفاظ اور اپنی تصاویر کے ساتھ
سبھی ”اصل“تو بیان کرگئے،ہر جذبے کو بیان کرنے کے لئے صوتی،لفظی تاثر ہی ضروری نھیں،
یونان،روم،عرب،اجنتا(اورنگَ اظہار نقوش بہت کچھ بلکہ بہت کچھ بیان کرجاتے ہیں ،شام ،مصر،ِ اکثر
ب
آباد،مغربی ہندستان)،چین،ایلوویرا،وغیرہ کے غاروں کی اندرونی دیواروں نے پُوری پُوری تہذی ِ
پارینہ کو رقم کرادیا۔سن ڈے میگزین کی تصاویر بھی جذبات کے بہترین اظہار کی معراج (بن جاتی)
ہیں۔”ناقاب ِل فراموش“جیسے ادب برائے زندگی سے وابستہ مقبول صفحہ پر اس ہفتہ رعنا فاروقی
صاحبہ نے گذشتہ ہفتے کی ”تشنہ کہانی“کا اختتام بھی دیا اور ایسی دل دہالنے والی کہانی کی مصنفہ
کا نام بھی دے دیا۔اس ہفتہ منظور احمد کی کہانی آنکھیں دُھندال گئی،ایسے ظالم معلم،توبہ اور اس قدر
کار حالل کا لوازمات موجود تھے ،سچ ہے نیک تعلیمی اہلکار،سبحان ہللا! کہانی میں رزق حالل اور ِ
کار حالل اپنانے والے کی ہللا خود حفاظت فرماتاہے ،تعلیمی بورڈ کا افسر ایمان رزق حالل کھانے اور ِ
دار اور علیل طالب علم مظلوم تھا،ظالموں کے نرغے میں دونوں نیکو کار پھنس چکے تھے۔اس لئے
ہللا نے ان دونوں کی غیبی مدد کا سبب پیدا کردیا،اس کہانی کا عنوان ”غیبی امداد“ہوتا،بہت متاثر ُکن
تحریر ہے۔ڈائجسٹ اور ناقاب ِل فراموش میں شایع ہونے والے یہ لکھاری بڑے ہی خوش نصیب ہیں کہ
اول تو ”لکھنا“جانتے ہیں ،دوم ایک ماہر مدیرہ اُن کی تحریروں کی نوک پلک سنوارتی اور بڑے اہتمام
سے شایع فرماتی ہیں ،سچ ہے کہ اگر نو آموز لکھاری کو ایک مشفق مدیر میسر آجائے تو اُس کا قلم
ادب اور تعلیم و تدریس کی بقاء کا ضامن بن جاتاہے،رعنا فاروقی صاحبہ تو برس ہا برس سے جنگ
کی ٹیم کا فعال حصہ ہیں،ماشاء ہللا۔سن ڈے میگزین کی ٹیم کے لئے ہر دعا چھوٹی ہے لیکن پھر بھی ہر
ہفتہ ایک ہی دعا ہے کہ یا ہللا اپنے غیب کے خزانے جنگ اخبار،بالخصوص سن ڈے میگزین کی ٹیم
اور دیگر تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ افراد پر لُٹادے مالک ،سب کی جھولیاں بھردے،
سب کی مشکالت کو آسانیوں اور ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کردے ،یا ہللا! خادم ملک سمیت ملک
کا ہر وہ فرد بہترین،کثیررزق حالل والے روزگار سے وابستہ ہوجائے جو پریشان یا تنگ دست ہے ،یا
ہللا!اُس کو غنی کردے،یا ہللا! ہر شوہر ،ہر بیوی ،ہر اوالد،ہر خانگی رشتے اور ہر گھر کو اپنے اُس
سن ظن کی بناء پر ماال مال کردے ٰالہی جس کا وعدہ تُو نے ابراہیم ؑ و موس ٰی ؑ،
یقین اور اِن کے اُس ُح ِ
یحیی وایوب،یوسف ؑ و محمد ﷺسے کیا،آمین! (پروفیسرسیّدمجیب ظفرانوارحمیدی،گلبرگ ٰ
)ٹاؤن،کراچی
جوالئی ۹۱ء کا تازہ دم ،رنگا رنگ ماہرانہ سرورق واال میگزین،دیکھا،مانا ،پڑھاُ ،چونکہ ۱۲/
ہمیشہ ہی میگزین کی ابتدا ”آپ کا صفحہ“سے ہوتی ہے،لہٰ ذا ،اِس ہفتہ بھی سب سے پہلے اِسی سے
آغازکیا،خطوط اور خطوط نگارسارے ہی جانے مانے ،محظوظ کرگئے،مدیرہ صاحبہ نے تقریبا ہر
تبصرے کا جواب دیا لیکن اس بار جوابات میں صحافتی ناقدری اور اخباری صنعت کا ایسا لہو ُرالدینے
واال ”سچ“ موجود تھا کہ طبیعت بے حد اُداس ہوگئی،دل سے اخباری صنعت اور تما م پریس(صحافی
اور عملہ) کے افراد کی بحالی،خوشحالی اور قدردانی کی دعائیں نکلیں۔محمد سلیم راجا کا خط واقعی
قاب ِل انتخاب تھا۔دو تین ہفتے سے”ہرجائی توتا“ غائب ہے اور اب خاص الخاص ِچٹّھی ”محبت آمیز
گالبی ربن اور سرخ پاش لفافے“میں پیش کی جاتی ہے۔زیادہ تر قارئین صفحات میں کمی کی شکایت
وابستگان
ِ بھی کرتے ہیں ،میں اُن سے دست بستہ التماس کروں گا کہ آپ سب میگزین اور متعلقین و
میگزین کی ہر ممکن بقاء کی دعائیں فرمائیے،ہر ہفتہ مختصر ترین صفحات میں رنگارنگ صفحات
پردین و ہدایت ،سیاست،صحافت،گھر گرہستی،عالمی احوال،انٹرویو ،ادب ،تعلیم،کتابوں پر
تبصرے،قارئین کی محفل اور اُن سے رابطہ،شوبزوغیرہ،سبھی کچھ تو اپنی بہترین حالتوں کے ساتھ
موجود ہوتا ہے ،سب سے بڑھ کر زَ بان و بیان اور امال و تلفظات کی صحت کا خیال رکھا جاتا ہے،تو
ایسے اخباری جریدے کو تو عالمی طور پر سراہا جانا چاہئے کہ اس میگزین نے نہ صرف ریاستی
ملحوظ خاطر رکھا ،بلکہ ”پاکستانی پریس“اور ادارتی پالیسی کی ُحرمت کا بھی قدم قدم پر
ِ اصولوں کو
خیال رکھا اور ”ناممکن“کو ”ممکن“بنایا۔بھال کون سی ٹیم اور اُس کی مدیرہ بیس صفحات میں کھینچ
تان کرکے ”والدہ نمبر“”،والد نمبر“”،رمضان اسپیشل“”،عید اسپیشل“”،حج اسپیشل“”،سالنامہ“ وغیرہ
شایع کرسکتی ہے؟؟یعنی،میگزین کا بھی ایک شخص ،اداروں کا کام کررہا ہے ،ادارے اور اپنے پیشے
سے ”وفا“کی اس سے بڑھ کربڑی مثال اور کیاہوگی؟
بہرحال نرجس ملک کے دل کا درد واقعی ُرال گیا ،ہر ممکن تعاون کے لئے ہم کمتر،بے بس
قارئین،ہر لمحہ حاضر ہیں ،بس ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ،یقین رکھئے کہ اچھے دنوں کا آغاز بہت
!جلد ہوگا ،اِن شاء ہللا
!بھال بتائیے
خاک پڑے ایسی تبدیلی پر،جس ”تبدیلی“نے عوام کے منھ کا نوالہ چھین لیا ،رزق حالل سے
وابستہ محنتی افراد اپنے روزگار اور اپنی تن خواہ تک سے محروم کردئے گئے ،اُس دور میں ”عوام
کا احوال“ خاک تبدیل ہوا ہے؟
روسی بھی گوربا چوف کی جہالت اور ظلم کو اُس وقت تک ”تبدیلی“سمجھتے اور کہتے
رہے،جب تک اُس جاہل،ظالم ،ناتجربہ کار نے روس کے ٹکڑے ٹکڑے نہ کردئے اور خود امریکا فرار
ہوگیااور وہیں مستقل قیام کیا۔یہ کیسی تبدیلی ہے،جس میں پاکستان کی نظریاتی
سرحدیں،مذہب،تحریر،تقریر،دِین دھرم،معاش،تعلیم ،طرز رہن سہن ،کاربار،روزگار،سیاست،
معیشت،معاش وغیرہ ،سبھی کچھ ”منفی“طور پر تبدیل ہوا
ہے؟؟دوا،غذا،کاغذقلم،کتاب،کاپی،روٹی،کپڑا،مکا ن سبھی منہگائی کے شعلوں میں ہیں۔
آج میگزین پر لکھنے کو دُکھی دل قطعی راضی نھیں،ہمارے محسن صحافی کس قدر اذیت اور
کرب سے دوچار ہیں،ہم کیا کرسکتے ہیں؟ہم سب ہر ممکن تعاون کے لئے حاضر ہیں ،سن ڈے میگزین
کے لئے تو ہماری جانیں بھی حاضر ہیں ،اس میگزین نے ہم سبھی قارئین پر بڑے غیر محسوس
احسانات کئے ہیں۔
پریسا“کی ماڈلنگ سے سجے سرورق اور مرکزی صفحات پر عالیہ کاشف نے بہت اچھا ”
لکھا،عرفان نجمی نے آؤٹ ڈور عکاسی بھی بڑی مہارت سے کی۔ ملبوسات اور پودوں کی”کلر
کمبینیشن“کا خاص خیال رکھا گیا۔منور مرزا صاحب کا تجزیہ ،پاکستانی اور امریکی ٹرمپ سے ممکنہ
مالقات (/۲۲جوالئی ۹۱ء)سے ایک روز قبل شایع ہوئی ،ظاہر ہے لکھی بھی پہلے ہوگی،لیکن تجزیہ کا
ایک ایک لفظ ماہرانہ نظریہ کا عکاس ہے،منور صاحب نے اس مالقات کے مثبت اور منفی ُرخ تحریر
کرکے یہ ثابت کردیا ہے کہ ماضی کے پاکستانی راہ نماؤں اور موجودہ حکمراں کے ”ویلکم
پروٹوکول“میں واضح فرق ہوگااور آج (/۱۲جوالئی ۹۱ء)کو بخدا یہی ہوا ،ظاہر ہے ایک ماہر،کہنہ
مشق ،منجھے ہوئے تجزیہ کار کے قلم کی آنکھ سو برس آگے تک دیکھتی ہے۔بہترین تجزیہ اور
تصاویر ہیں۔”قصص االنبیاء علیہم السالم“میں اس ہفتہ محمود میاں صاحب نے حضرت داؤد ؑ پر لکھا
اور ایک نادر تصویر بھی تحقیق کے ساتھ شایع کی گئی ہے،مضمون کی تحقیق اور طرز تحریر جامع
بلکہ ایک سند کی حیثیت رکھتی ہے۔جزاک ہللا نجمی صاحب!طلعت عمران نے مقبول مبلّغ اور نصاب
ساز عا ِلم شیخ شجاع الدین سے مالقات کرواکے بہت سے ایسے ذہنوں کی گرہیں کھول دیں جو نعوذ باہلل
قرآن حکیم فرقان مجید کو محض عربی زَ بان کی ایک مقدس ترین کتاب سمجھتے ہیں ،حاالنکہ جس قدر
(قرآن مجید)میں ہے،اُتنا وقیع علم”عالمی معارف العلوم کے
ِ وسیع علم (ہر جہت کا) ہللا کے کالم
شدہدائروں“ میں بھی نہ ملے گا۔ناول ”عبد ہللا“ اپنے انداز کے ساتھ جاری ہے۔”پیارا گھر“میں شایع ُ
ڈاکٹر صاحبہ کے الفاظ نہایت قاب ِل قدر ہیں،والدین اور اساتذہ کرام کے عالوہ بچوں کے اخبارات ،کتابوں
اور رسائل کے مدیران کو بھی اِن الفاظ کو مشع ِل راہ بنانے کی ضرورت ہے ،اس وقت پُرانی نسل اور
نئی نسل میں ”کیریر کونسلنگ“”،آگاہی“”،سمجھوتے“”،راہ نمائی“وغیرہ کا فقدان ہے ،ماضی میں جیو
ٹی وی کے پروگرام ”کیرئر گائڈنس“یا ایسے ہی کسی ملتے جلتے عنوان والے پروگرام میں شرکت
ماہرین تعلیم اور طالب علموں کو بھی شریک کیا جاتا،آج کل وہی سعی ِ بھی کی اور اُس پروگرام میں
ڈاکٹر عزیزہ اپنی تحریروں سے انجام دے رہی ہیں۔عائشہ انعام نے اہم مسئلہ پر لکھا،آج کل نئے تعمیر
سوئی گیس کی سہولت نھیں بلکہ ایل۔پی۔جی گیس کے سلنڈرز شدہ انتہائی قیمتی فلیٹوں اور مکانات میں ُ
استعمال کئے جارہے ہیں ،جن کا استعمال بھی خواتین خانہ اور بچوں کے لئے تو خاصا خطرناک
(حاصل)ہوئی۔موسم گرما کے دسترخوان پر
ِ ہے۔سبز االئچی اور کیلے کے طبی فوائد سے مزید آگاہی
تسکین جاں کا اہتمام کرگئے۔”متفرق“کے چاروں مضامین ”جب ِ صحت افزا،رنگا رنگ مشروبات بھی
ت مدینہ کے متمنی عوام“(ابراہیم خلیل)”،ترقی کاانسان چاند پر اُترا“(مظفر فاروقی)اور”ریاس ِ
راز“(خالد رضوی)”،عالمہ اقبال ؒ کی زندہ دلی“(سید مغنی حیدر) اپنے الفاظ اور اپنی تصاویر کے ساتھ
سبھی ”اصل“تو بیان کرگئے،ہر جذبے کو بیان کرنے کے لئے صوتی،لفظی تاثر ہی ضروری نھیں،
مصر،یونان،روم،عرب،اجنتا(اورنگ
َ اظہار نقوش بہت کچھ بلکہ بہت کچھ بیان کرجاتے ہیں ،شام، ِ اکثر
ب
آباد،مغربی ہندستان)،چین،ایلوویرا،وغیرہ کے غاروں کی اندرونی دیواروں نے پُوری پُوری تہذی ِ
پارینہ کو رقم کرادیا۔سن ڈے میگزین کی تصاویر بھی جذبات کے بہترین اظہار کی معراج (بن جاتی)
ہیں۔”ناقاب ِل فراموش“جیسے ادب برائے زندگی سے وابستہ مقبول صفحہ پر اس ہفتہ رعنا فاروقی
صاحبہ نے گذشتہ ہفتے کی ”تشنہ کہانی“کا اختتام بھی دیا اور ایسی دل دہالنے والی کہانی کی مصنفہ
کا نام بھی دے دیا۔اس ہفتہ منظور احمد کی کہانی آنکھیں دُھندال گئی،ایسے ظالم معلم،توبہ اور اس قدر
کار حالل کا لوازمات موجود تھے ،سچ ہے نیک تعلیمی اہلکار،سبحان ہللا! کہانی میں رزق حالل اور ِ
کار حالل اپنانے والے کی ہللا خود حفاظت فرماتاہے ،تعلیمی بورڈ کا افسر ایمان رزق حالل کھانے اور ِ
دار اور علیل طالب علم مظلوم تھا،ظالموں کے نرغے میں دونوں نیکو کار پھنس چکے تھے۔اس لئے
ہللا نے ان دونوں کی غیبی مدد کا سبب پیدا کردیا،اس کہانی کا عنوان ”غیبی امداد“ہوتا،بہت متاثر ُکن
تحریر ہے۔ڈائجسٹ اور ناقاب ِل فراموش میں شایع ہونے والے یہ لکھاری بڑے ہی خوش نصیب ہیں کہ
اول تو ”لکھنا“جانتے ہیں ،دوم ایک ماہر مدیرہ اُن کی تحریروں کی نوک پلک سنوارتی اور بڑے اہتمام
سے شایع فرماتی ہیں ،سچ ہے کہ اگر نو آموز لکھاری کو ایک مشفق مدیر میسر آجائے تو اُس کا قلم
ادب اور تعلیم و تدریس کی بقاء کا ضامن بن جاتاہے،رعنا فاروقی صاحبہ تو برس ہا برس سے جنگ
کی ٹیم کا فعال حصہ ہیں،ماشاء ہللا۔سن ڈے میگزین کی ٹیم کے لئے ہر دعا چھوٹی ہے لیکن پھر بھی ہر
ہفتہ ایک ہی دعا ہے کہ یا ہللا اپنے غیب کے خزانے جنگ اخبار،بالخصوص سن ڈے میگزین کی ٹیم
اور دیگر تمام الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا سے وابستہ افراد پر لُٹادے مالک ،سب کی جھولیاں بھردے،
سب کی مشکالت کو آسانیوں اور ناکامیوں کو کامیابیوں میں تبدیل کردے ،یا ہللا! خادم ملک سمیت ملک
کا ہر وہ فرد بہترین،کثیررزق حالل والے روزگار سے وابستہ ہوجائے جو پریشان یا تنگ دست ہے ،یا
ہللا!اُس کو غنی کردے،یا ہللا! ہر شوہر ،ہر بیوی ،ہر اوالد،ہر خانگی رشتے اور ہر گھر کو اپنے اُس
موسی ؑ،
ٰ سن ظن کی بناء پر ماال مال کردے ٰالہی جس کا وعدہ تُو نے ابراہیم ؑ و
یقین اور اِن کے اُس ُح ِ
یحیی وایوب،یوسف ؑ و محمد ﷺسے کیا،آمین! (پروفیسرسیّدمجیب ظفرانوارحمیدی،گلبرگ ٹاؤن، ) ٰ