Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 7

‫کھوسہ‬

‫کھوسہ قوم بلوچ نسل سے ہے اور یہی حقیقت ہے۔ کسی کو اعتراض ہے تو ان کی مرضی وہ‬
‫خود کو نمرود کی اوالد سمجھیں یا ہال کو خان کا حمایتی۔ ہمیں تحقیق کرتے ہوئے ایک راستہ‬
‫ہاتھ آیا اور اسی راستے سے تاریخ کے اس دور میں کھوسہ قبیلے پہ تاریخی ’’سرچ الئیٹ ‘‘‬
‫ڈالتے منزل پہ پہنچنے کے لیے چل نکلے ہیں ۔پہلے پوری بلوچ قوم کی تحقیق کرنے کے بعد جا‬
‫کے بات سمجھ میں آئی ۔‬
‫بلوچ قوم کی قدیم زمانے سے موجودگی کے متعلق کچھ مؤرخین کا خیال ہے کہ جب طوفان نوح‬
‫علیہ السالم کے بعد جب یہ دنیا پھر بسائی گئی تب حضرت نوح علیہ السالم کی نسل سے مکران‬
‫بن فارک بن سام بن نوح علیہ السالم نے وہ عالقہ آباد کیا۔ جن کو اس وقت یا دو ہزار سال پہلے‬
‫سے مکران کہا جاتا ہے ۔ کچھ مؤرخین کا خیال ہے ابتدائی دور میں دُنیا دو قومی نسلوں میں‬
‫تقسیم تھی۔ ایک سامی دوسرا منگولی ۔‬
‫سامی نسل کے افراد بدویانہ اور دراوڑی زندگی کے صحرائی آدمی تھے اور منگولی پہاڑی‬
‫ملکوں کے آریائی زندگی بسر کرنے والے آدمی تھے۔ سامی نسل کے لوگ مصر ‪ ،‬شام ‪ ،‬یونان‪،‬‬
‫روم ‪ ،‬سوڈان اور فارس ممالک میں جبکہ منگولی مشرقی ایشیا کے چین‪ ،‬تاتار ‪ ،‬یاج ماجوج کے‬
‫ملک اور ترکستان میں بسے۔‬
‫مکران ‪ ،‬حلب اور عرب تینوں جغرافیائی طور پر ایک ساتھ تھے۔ اس لیے ان عالقوں کے لوگ‬
‫متبادل تہذیب کے مالک تھے۔ مکران کے لوگوں کو وادی البلوص کی وجہ سے یاد راوڑی زبان‬
‫کے بال (بڑا )‪ ،‬اوچ (اونٹ) ‪،‬نان(کے) کی وجہ سے بلوچا ن کہا جاتا تھا۔ موجودہ براہوئی زبان‬
‫میں بھی یہی مفہوم نکلتا ہے ۔ بلوچ عربوں کی طرح معاشی ضرورتوں کے لیے نقل مکانی کے‬
‫شوقین تھے ۔ بیابان بسانے ہمیشہ بستر بندھا ہوا جس قوم کی صفت میں شامل ہو اس قوم کی‬
‫تعریف کا غذ پہ الفاظ کی صورت میں محفوظ رہنا بہت مشکل ہے ۔ بدویانہ زندگی کے عادتوں‬
‫نے ان کے سینوں کو تاریخ کا خزانہ بلکہ لوح محفوظ بنادیا۔ انہی لوح محفوظ میں محفوظ بلوچی‬
‫اشعار کو دفتر کے نام سے جانا جاتا تھا۔ لہذا یہی دفتر بلوچوں کی ابتدائی مستند تاریخ شمار ہوتی‬
‫ہے ۔ انہی دفتر کے مطابق درفش کاویانی ‪ ،‬نامی جھنڈے تلے بلوچ سپاہیوں نے جنگیں لڑیں۔ مگر‬
‫جس وقت دنیا ئے جہالت پہ اسالم کا آفتاب چمکا اس روشنی سے بلوچوں کی آنکھیں کھل گئیں۔‬
‫وادی بلوص کے لوگ پرائی پگھار پہ پلنے کے بجائے اسالم پہ ایمان الکر مسلمان ہوئے ان میں‬
‫انسانیت کے اوصاف اُجاگر ہوئے۔ یزد گردشاہنشاہ ایران کے محافظ دستے کا کما نڈر’’ سیاہ‬
‫موسی اشعری کے ہاتھ پہ اسالم قبول کر کے تابعی بن گئے۔ سیاہ سواری‬
‫ٰ‬ ‫سواری ‘‘حضرت ابو‬
‫کے ساتھ تمام بلوچ قبیلے مسلمان ہوگئے۔عام طور پر کہاوت ہے کہ ہر بلوچ شیعہ خیال کا ‪،‬ہر‬
‫ہندو کا نگریسی خیال کا اور زیادہ تر پنجابی قادیانی خیال کا ہوتا ہے۔ یہ کہاوت کتنی درست ہے‬
‫کہانہیں جاسکتا ۔باقی بلوچوں کی دفتر کے مطابق ۔’’ہم علی کے مرید ہیں یزید سے جھگڑا‬
‫ہے‘‘۔‬
‫سانحہ کر بال کے بعد ُحب علی دکھاتے ہوئے حلب جیسی دولتمند اور خوبصورت عالقے سے‬
‫بلوچ جالل خان یکدم اپنے خاندان کے ‪44‬بھائیوں کے قافلے کے ساتھ مہاجربن کر مکران میں‬
‫خیمہ زن ہوا۔ پھر ہمت سے حکومت لے کر کیچ عالقے کا حاکم بن گیا۔ جالل خان کے ساتھ بیٹے‬
‫‪ ،‬پوتے ‪ ،‬نواسے ‪ ،‬بھائی بھتیجے ‪ ،‬چچا زاد خالہ زاد تھے۔ ہر ایک خاندان کا الگ قبیلہ بن گیا ۔‬
‫جالل خان کے دادے کا ایک قبیلہ بروہی پہلے ہی بلوچستان کی طرف آیا ہوا تھا۔ بہر حال جو‬
‫بلوچ اس وقت پاکستان میں ہیں۔ وہ اسی جالل خان کی اوالد یا قبیلے کی ہیں۔ ایران اور دیگر‬
‫ملکوں کے بلوچ کسی اور کی اوالد ہیں۔بلوچوں میں میر جالل خان کی نسل پھیل گئی اور مختلف‬
‫قبیلوں میں تقسیم ہوئی۔ میر جالل خان کے دور کا مکران بڑا ملک تھا ۔ اس میں کئی ریاستی‬
‫حکومتیں تھیں ۔ سیستان قیقان ‪ ،‬بنہ ‪ ،‬سیوی ‪،‬مند‪ ،‬قندھار ‪ ،‬قصدار (خضدار) بوقان‪ ،‬قندابیل ‪،‬‬
‫طوران ‪،‬قنز پور (پنجگور) ارمابیل (لسبیلہ )اور مکران جیسے بڑے بڑے شہر تھے۔ ان تمام‬
‫عالقوں اور شہروں پہ بلوچوں کی الگ الگ ریاستی حکومتیں تھیں۔ میر جالل خان کیچ عالقے‬
‫کا حاکم تھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ہوت خان حکومت پر قابض ہوا کیچ عالقے کا حاکم‬
‫تھا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ہوت خان حکومت پر قابض ہوا ۔ہوت کے اوالد سے ہی پنوں‬
‫خان پیدا ہوا جس نے سندھی بیچاری سسی کو درد دیئے۔ ’’بلوچ سخت ذات‘‘تو مشہور ہے ان کو‬
‫ذرا بھی ترس نہیں آیا کہ عورت کے لیے قہر مچا کر جارہے ہیں ۔ ان کے دادا ہوت خان نے بھی‬
‫جبر کر کے اپنے بھائیوں کو مکران سے نکال دیا تھا۔ لہذا ان کے پوتوں سے کیا شکوہ ۔ بلوچ‬
‫قوم کی اپنی انوکھی تہذیب ہے ۔ شاید بلوچی تہذیب میں ایسے جبر رواہیں۔‬
‫کافی دوستوں کا خیال ہے کہ بلوچ عرب ہیں۔ یہ ان کی خام خیالی ہے ۔ غیر تحقیقی مورخوں کے‬
‫خیال کو صحیح سمجھ کر نسبی تاریخ سے دور جانے کی غلطی کرتے ہیں۔ انگریز قوم سب اقوام‬
‫سے تحقیق میں آگے ہے ۔ اس لیے انگریز تحقیق دانوں پہ بھروسہ کرنا چاہیے۔ انگریز مورخیں‬
‫کے مطابق بلوچ قوم کی داڑھیاں گھنی اور پھیلی ہوئی آنکھیں بڑی اور سیاہ پرکشش ہیں۔ ان کے‬
‫بال بھی لمبے ہیں سب سے پکی بات ان کے ماتھے روٹی جیسے ہیں۔‬
‫جبکہ عربوں کی جسمانی بناوٹ اس کے الٹ ہے ۔ ان کی داڑھی ہلکی بال چھوٹے آنکھیں‬
‫غضبناک اور سرناریل جیسا۔ مذہبی معاملے میں بھی عرب انتہا پسند رہے ہیں۔ شرک میں یا‬
‫توحید میں ۔بلوچ بیچار ے خوامخواہ مذہبی مجنوں نہیں ہیں ۔ ’’منہ نہ کریں ۔ مسجد کی طرف‘‘ ۔‬
‫کی کہاوت کی طرح مذہب کو ‪’’ :‬مرشد مولوی کی چیز ‘‘سمجھ کر خوامخواہ قریب نہیں گئے‬
‫ہیں۔‬
‫انگریز محققین کے عالوہ بال ذری‪ ،‬طبری ‪ ،‬مسعودی اور اصطخری جیسے تاریخ اور جغرافیہ‬
‫دانوں نے معلوم کیا ہے کہ ۔’’ بلوچ کرمان کے عالقے میں رہتے ہیں ۔ ان کی اپنی زبان ہے جو‬
‫فارسی سے مختلف ہے ۔ بلوچ خیموں میں رہتے ہیں۔ بھیڑ اور بکریاں پالتے ہیں۔ وہ خوشحال‬
‫ہیں۔ وہ ہمسائیوں کو ضابطے میں رکھتے ہیں تا کہ وہ ان کے معامالت میں مداخلت نہ کریں۔ اس‬
‫لیے ان کے پڑوسی ان سے ڈرتے ہیں۔ فردوسی بھی شاہنا مہ میں لکھتا ہے ۔ ’’ بلوچ کیکاؤس‬
‫ایرانی شہنشاہ کے لشکر میں بھرتی ہوتے تھے ۔وہ سر پر کلغی پہنے بہادر جوان تھے ۔ جن کی‬
‫جنگ میں پُشت کسی نے نہ دیکھی ۔ ان کے جھنڈے پہ شیر کا پنجہ ثبت ہے ۔ یہ قوم آزر بائیجان‬
‫تک رہتی تھی ‘‘۔ اس دلیل سے صاف ظاہر ہے کہ بلوچ ایک الگ اور اہم قوم ہے ۔ جس کی اپنی‬
‫نسل ہے ۔ اس قوم کی کسی دوسری نسل سے کوئی نسبت نہیں ۔ بلوچ قوم کے لوگ وسطی ایشیا‬
‫میں گھومتے پھرتے رہے ہیں ۔ جو وقتی اور عارضی عمل تھا ۔مستقال وہ اپنے ملک مکران سے‬
‫وابستہ رہے ہیں۔ ایسی حقائق کے سامنے آنے کے بعد ہمیں ایک راہ نظر آئی جس کے ذریعے‬
‫یہاں تک چل سکے ہیں۔‬
‫بلوچ اگر عرب نسل کے ہوتے تو ان کے شاعر بھی وہاں کے ماحول کے مطابق زیادہ فصیح‬
‫وبلیغ ہوتے ۔ اور ان کے قدیم تاریخ کا بھی پتہ چل جاتا ۔ دیکھا جائے تو بلوچ ُ‬
‫شعرا میں وہ‬
‫فصاحت وبالغت والی چاشنی نہیں تھی جو عرب شعرا میں تھی ۔ بلوچ قوم کی تاریخ اور‬
‫جغرافیہ کا پتہ ان کے سینہ بسینہ محفوظ شاعری سے چلتا ہے ۔ اس شاعری میں بھی وہ خود کو‬
‫حلب سے نہ نکال سکے ہیں۔ دوسری طرف عربی شعرا نے اپنے جذبات میں اپنا جغرافیہ بیان‬
‫کرتے ہوئے اپنے محبوب کی قوم ‪ ،‬گوٹھ ‪ ،‬ملک کے درخت او چشمے دکھاتے ہوئے وہاں تک‬
‫پہنچنے کے راستے اور مشکالتوں کی تاریخ بھی کھلے دل سے ظاہر کی ہے۔ بلوچی دفتر‬
‫موجب واقعہ کربال کے بعد بلوچ حلب سے ‪44‬قبیلے ساتھ لیکر میر جالل خان کا ذکر کرتے ہیں۔‬
‫قوموں کے ناموں کا بھی فرق رہا ہے ۔ بلوچ خود کو خان یا میر کہلواتے تھے مگر عرب خود‬
‫کو شیخ بُلواتے تھے۔ اب ہم وادی بلوص کے بلوچوں سے ایک میر جالل خان کا شجرہ اس طرح‬
‫بیان کرتے ہیں۔‬
‫اعلمش حلبی (‪637‬عیسوی) کا بیٹا تھامیر بلوچان‪ ،‬جس کا بیٹا تھا میر دوستین۔‬
‫)دوستین کے تین بیٹے ہوئے‪:‬میر عباس ‪،‬میر براہو اورمیر زہرو(میر براہو سیبروہی قبیالنکال‬
‫میر عباس کا بیٹا تھا‪:‬میر ہیئرو۔ جس کا بیٹامیر جالل خان تھا۔‬
‫میر جالل خان کی وفات کی بعد اس کے بیٹے ہوت خان نے جبرا ً اپنے بھائیوں کو کیچ بدر کیا۔‬
‫بلوچی ہمت مطابق ان میں کو رائی مکران میں ‪ ،‬رند شور ان میں‪ ،‬الشار گنداواہ میں ‪ ،‬ڈومکی گا‬
‫جان میں اور جتوئی سبی میں عالقے ہاتھ کر کے آباد ہوئے۔ اس طرح جالل خان کی وفات کے‬
‫بعد ان کی اوالد کا الگ الگ قبیلہ بن گیا ۔ مگر بلوچی آئین کے مطابق تمام قبائل کا ’’دستور‬
‫العمل ‘‘ ایک ہی رہا۔ یعنی سب بلوچوں کی تہذیبی روایات ایک جیسی ہی رہیں۔ وہ چند بنیادی‬
‫روایات یہ تھیں۔‬
‫۔‪1‬۔ ہر قبیلے کو ’’تمن‘‘ کہا گیا‬
‫۔‪2‬۔ ہر تُمن کے بڑے کو تمندار کہا گیا‬
‫۔‪3‬۔ ہر تمن کی شاخیں بنائی گئیں‬
‫۔‪4‬۔ ہر شاخ کے سربراہ کو ’’مقدم ‘‘ کہا گیا‬
‫۔‪5‬۔ ہر شاخ انفرادیت کا حق دیا گیا‬
‫قبائلی نظام کے مطابق درج باال ڈھانچہ بنانے کے بعد ایک قبائلی طریقہ کار تیار کیا گیا جو اس‬
‫طرح ہے ۔‬
‫)۔‪1‬۔ خون کا بدلہ لینا (قتل کرنے سے‬
‫۔‪2‬۔ جس آدمی نے پناہ لی اس کی حفاظت ہر حال میں کرنی پڑے گی چاہے جان بھی قربان کرنی‬
‫پڑے۔‬
‫۔‪3‬۔ جو جائیداد جس کی ہے اس کی حفاظت اس پر الزمی ہے ۔ سردینے سے بھی نہیں ڈرنا‬
‫چاہیے۔‬
‫۔‪4‬۔ مہمان نوازی الزمی ہے ۔ اس کی خدمت اور حفاظت ہر حال میں کرنی ہے۔‬
‫۔‪5‬۔ غیر مسلم ‪ ،‬عورت اور وہ بچے جس نے ابھی تک شلوار نہ پہنی ہو کو کسی بھی حالت میں‬
‫قتل نہیں کرنا ہے۔‬
‫۔‪6‬۔ مخالف قبیلے اور دشمن خاندان کے کسی بھی عورت سے بدلہ نہ لینا بلکہ پرہیز کرنا‬
‫دوران جنگ مذہبی جگہ (مسجد ‪ ،‬مندر‪ ،‬دیول) میں بھاگ کر پناہ لے اسے کچھ نہ‬
‫ِ‬ ‫۔‪7‬۔ جو آدمی‬
‫کہنا۔‬
‫دوران جنگ جو ہتھیار پھینک دے امن طلب کرے اسے نہ ماریں اور نہ نقصان دیں۔‬
‫ِ‬ ‫۔‪ 8‬۔‬
‫۔‪9‬۔ دوارن جنگ کسی بھی فریق کی خواتین قرآن شریف بیچ میں لے آئیں یا خواتین خود درمیان‬
‫میں آئیں تو فورا ً جنگ بند کرنا ۔‬
‫۔‪10‬۔ تنازعات کے بعد سید یا خواتین میڑھ لے کر آئیں تو فورا ً صلح کی بات کرنا اور بدلہ معاف‬
‫کرنا ۔‬
‫۔‪11‬۔ بدکار مرد اور بدکار عورت کو الزم یکدم قتل کرنا۔‬
‫۔‪12‬۔ ’’سید میڑھ ‘‘کے سوائے اور ایسے مفت میں لڑکی کا سنگ (رشتہ ) نہ دینا۔‬
‫انہی رہنما اصولوں پر ’’بلوچی بدویانہ زندگی ‘‘ کا انحصار تھا۔ بلوچی زندگی پر ایک بڑی‬
‫داستان کھوسہ تمن کے لیے تیار کرنا‬
‫ِ‬ ‫مکمل کتاب چاہیے۔ مگر ہمیں توفی الحال ’’دلی چاہی‘‘۔‬
‫ہے ۔ المختصر اس ابتدائی احوال میں یہ دکھانا تھا کہ بلوچ قوم کہاں کے باشندے تھے اور اب‬
‫کہاں اور کن قبائل میں پھیل گئے۔‬
‫کھوسہ تمن کا شجر ِہ نسب اس طرح ہے ۔‬
‫‪:‬میر جالل خان ‪650‬تا ‪730‬۔ اُس کی اوالد کے نام یہ تھے‬
‫رند‪ ،‬الشار ‪،‬کورا‪،‬جاتن ‪،‬عالی ‪،‬ہوت۔‬
‫رند‪:‬مزاری‪ ،‬بگٹی ‪،‬لنڈ ۔ بوزدار ‪،‬مستوئی قبیال‬
‫الشاری‪:‬الشاری ‪ ،‬مگسی ‪ ،‬گرمانی قبیال‬
‫کورا‪:‬کورائی ‪ ،‬کوالچی قبیال‬
‫جاتن‪:‬جتوئی قبیال‬
‫عالی‪:‬مری قبیال‬
‫ہوت‪:‬کھوسہ ٹالپُر قبیال‬
‫ہوت خان‪:‬عالی ‪ ،‬آری ‪،‬عبدو ‪،‬کھوسغ(سید سلیمان ندوی نے لغات قدیم میں لکھا ہے کہ عربی‬
‫زبان میں گنجے کو کو سج کہا جاتا ہے)۔‬
‫عالی‪:‬پنوں مائی سسئی واال‬
‫نوٹ۔ سندھی اخبار کاوش کے مطابق پنوں کا شجرہ یہ ہے‪ :‬پنوں بن عالی بن عمر خان بن محمد‬
‫خان بن بجار خان بن ہوت خان بن جالل خان‬
‫عبدو‪:‬ٹالپر قبیال‬
‫کھوسغ‪:‬حمل خان‬
‫حاجی خان‬
‫سمو خان‬
‫دیگی خان‬
‫بڈھا خان‬
‫)بڈھا خان‪:‬حمل خان‪ ،‬جیا خان ‪،‬عمر خان (عمرانڑیں)‪،‬بلیل خان(بلیالنڑیں‬
‫حمل خان‪:‬اسماعیل خان ‪،‬کھلول خان سردار۔کھلوالنڑیں‬
‫کھلو خان‪:‬جامو خان ‪ُ ،‬چھٹا خان ‪،‬بکھر خان ‪،‬دری خان‬
‫کھوسہ قبیال کی شاخیں‬
‫کھلوالنی۔ جیانی ‪ ،‬عمرانی‪ ،‬بلیالنی‬
‫جامانی ۔ ُچھٹانی‪ ،‬دُریانی‪ ،‬بکھرانی‬
‫جانیانی ۔ جوگیانی‪ ،‬پھیروانی ‪ ،‬باجانی‬
‫زانورانی۔ بشوانی‪ ،‬شادیانی‪ ،‬سہجانی‬
‫نوتکانی۔ سکھانی‪ ،‬بڈھانی‪ ،‬ولیاٹی‬
‫موندرانی۔ ہیبنانی‪ ،‬شاہالنی‪ ،‬مارکھانی‬
‫تگیانی۔ پنجانی‪ ،‬میرالنی ‪ ،‬پیاوانی‬
‫وزیرانی۔ ڈتانی ‪ ،‬جھنڈانی ‪ ،‬عیسانی‬
‫جنگوانی ۔ مانجھانی وغیرہ وغیرہ‬
‫کھوسہ قبیال کی مختصر تعریف‬
‫۔‪ 1‬کھوسہ اور مسکین ؟۔ ہو ہی نہیں سکتا۔ کھوسہ مال ودولت میں مسکین ہوسکتا ہے ۔ مگر‬
‫طبیعت کا مسکین کبھی نہیں ہوسکتا ۔ کھوسہ کنگال بھی خان ہے ۔ پاؤں ننگا ہوبھی جوان ہے ۔‬
‫گھر میں تین دن سے کھانا نہ پکا ہوتو بھی اس انداز سے گفتگو کرے گا اور ایسے دکھائی دے‬
‫گا جو اگال سمجھے گا کہ آدمی الکھوں پہ ماتھاد ھوکے آیا ہے ۔‬
‫)مسکین محمد بخش مجنون کھوسہ(‬
‫۔‪2‬۔ کھوسہ مسلمان ہیں۔ یہ خوبصورت جوان ‪ ،‬پہلوان اور جنگجو قوم ہے۔ سخت جان ‪ ،‬سردی‬
‫گرمی سے بے نیاز ۔مفلسی میں بھی رہنے کے عادی ہیں بہادر ہیں۔ جب بھی برسر عمل ہوتے‬
‫ہیں تو بہادری کے بہترین جو ہر دکھاتے ہیں۔ مگر جب انہیں اکسایانہ جائے تو پھر پر امن اور‬
‫سست وبے فکر رہتے ہیں۔ اس قوم کے آدمی زور آور ‪ ،‬آزاد طبع اور سخت مزاج ہیں ۔ مگر‬
‫ُ‬
‫لگاتار محنت اور تکالیف کے عادی بہترین صالحیتوں کے بھی ما لک ہیں۔‬
‫)کیپٹن ریکس(‬

You might also like