Professional Documents
Culture Documents
Aap Ka Saffha 24 Nov 2019 Jang Sunday Magazine by Prof DR Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi
Aap Ka Saffha 24 Nov 2019 Jang Sunday Magazine by Prof DR Mujeeb Zafar Anwaar Hameedi
میرا مکتوب ،شام ِل "آپ کا صفحہ" نہ کرنا"،میگزینی گمبھیرتاؤں" کا واحدحل نھیں /24،نومبر 2019ء واال
ین محفل“کو ،اِس قدر الگ، ”آپ کا صفحہ“،اپنے طویل مدیرانہ جوابات کی بِنا پر،گویا ”چھا گیا!“ ،شاید تم نے”متاثر ِ
ت عالی سے سرفراز نھیں فرمایا، لگاوٹ،انس ،اپنائیت ،تحقیق ،محبت،محنت،شفقت،دالر کے ساتھ،پہلے کبھی جوابا ِ
سر پھٹ َ َّول“ کرلے ،مسن ِد شاہی ،راجا جی (سلیم محمد سلیم راجا کی ”راج دھانی“تو بندھ سی گئی ہے ،کوئی الکھ ” َ
ب معمول ”منھ ٹاپتی“ رہ جائے گی ،عبد العلیم ،قصور(ای۔میل) کا پرجا(رعیت)،حس ِ
َ راجا)کے حصے میں آئے گی،
”قصور“ نظرانداز فرماتے ہوئے”فرصتی“ جواب سے نوازا گیا ،اسی طرح صدیقہ افتخار کے گلے میں بھی”فراغتی
ب خط“کی ماال ڈالی گئی ،بھئی حد ہوگئی ”اقرباء پروری“کی ،کاش ،کوئی،میرا شاگر ِد دلبند ،اِس ”میں نہ مانوں“ جوا ِ
صفحے کا انچارج ،ایڈیٹر ہوتا .......مکمل صفحہ ”تذکرۂ حمیدیہ“کے َمیں ناموں ،اور قسطوں قسط رونے پِیٹنے ،گِلے،
شکووں سے لِپا پتا ہوتا،اے کاش!پروفیسر منصور علی خانخاناں کو بھی قارئین پر َرحم آ”ہی“ گیا ،اِس ہفتہ ان کی
تحریرکے الفاظ80”،سالہ سنیاسی ضعف و عالئ ِل عمر رفتہ“ سے یکسر آزاد ،کسی جوان جہان اونٹنی کی طرح
”نخلستان دبستاں“ میں کلیلیں بھرتے نظر آئے ،حاالنکہ ”شتری خصائل“ کی بِنا پر ”بِلبِالتے الفاظ ِ کرجاتے(ٹنٹنا “،Click
ین منصوری“ جو ،عطا فرما رکھے ہیں ،تو؟؟الل کوٹھی ،فیصل آباد کا جاتے)،لیکن” ،بلبالنے کو ،ہللا تعالی نے”قارئ ِ
گجر ”چار شمارہ“ لیٹ ،اشارہ کررہا ہے ،نتیجتا محمد سلیم راجا ،دو ماہ قدیم شمارے پر ”پرجا“کو ،میگزینی ماضی پر
ت نوابانہ“ ،نِری ماض ِی سوختہ ابن نواب ،تمام تر ”پینٹنگ ِ زیس ِ
ب خادم ملک”:ہم نوابِ ، ٹرخائے جارہے ہیں ،بقو ِل جنا ِ
ت مدیرہ“ َر َچا لیں ،گدی ”راجے“ہی پہ تو،اَدھر کھڑی ہئے ....حال،گویا بے حال ہئے!“ ،ہاہا.....نقش بندی الکھ ”مدح ِ
کی سجے گی،
ت ناقاب ِل
باور رہے،یاد رہے،کہ ”پروفیسر مجیب ظفرانوارحمیدی ،گلبرگ ٹاؤن“ ،ہی خاص برائے” :فہرس ِ
اشاعت“ ہے،دوجا کوئی نھیں!!!باقی سب کا ،سبھی کچھ،لکھا،اگال،سوچا،مسکرایا َچھپے گا،
پیارا گھر“ ،اِس ہفتہ ،سورہ ٔعصر کی بنیادی تعلیم لئے مصباح طیب،سرگودھا کی تحریر سے چمکا ،عائشہ ”
صدیقی نے گھر کے بھوکے افراد کی بھوج پوری کا ”کاغذی“ اہتمام فرمایا ،بھئی ”بَڑکااَیپل پڈنگ“کا تو جواب نھیں،
عبد ہللا ثالث“ کی بِیس قسطیں بِیت گئیں ،ککھ وی پَلے نہ پڑسکا،کہ ،ہاشم ندیم صاحب ”فکر“کو ”فلسفہ“ ”
فرمارہے ہیں ،یا ،فلسفے کو ”روح“کی رد و کش سے نتھی کررہے ہیں ،ایسے طول طویل ناول بھگتتے ،ایم۔اے راحت
یاد آجاتے ہیں ،ایسا ناول بنتے کہ سیکڑوں کہانیاں ،بکل مارے،اس ایک ناول کے آنچل میں سوئی رہتیں،مرحوم جب
چاہتے ،ایک نئی کہانی کو نوکِ قلم چبھو کر جگاتے اور شام ِل ناول کرلیتے ،عبدہللا کو ،اگر ”ہللا کے بندے“کے
اوصاف میں بن دیا جاتا تو یہ شاہ کار ناول تھا ،لیکن ”جگ بیتی“کو ”آپ بیتی“ اور ”آپ بیتی“ کو ”جگ ِبیتی“ بنانے کی
الجھن نے ناول کے اصل کو درمیان سے اچک لیا ،پانچویں توانا قسط کے بعد ناول کو زبردستی کئی جہانوں کی سیر
کروائی گئی ،ہفتہ وار ناول تو مسکراتاِ ،کھل ِکھالتا ہونا چاہئے ،جو،ہر قاری کے دل میں ،رضیہ بٹ ،بشری رحمن،
نگہت عبد ہللا ،ماہا ملک ،ثمرہ بخاری،راحت جبیں وغیرہ کے ناولوں کی طرح گھر کرلے ،ادب برائے زندگی ہو ،ادب
ب عالیہ نہ ہو ،ایسے پر پیچ ناول پر تومجھ ایسا کم علم قاری ،چیخ مار ،صفحہ پلٹے گا،
برائے روحانیت و اد ِ
اسکواش“ پر بہت اچھا لکھا گیا،بقایا صفحہ پر تین نئی کتابوں پر تعارف پیش کیا گیا،نئی کتب کی تعدا ِد ”
صفحات کے لحاظ سے ”اعزازئے“پڑھ کر ہوش اڑ گئے ،یہ علم و اَدب،کس پیچیدہ ”اِکنامکل مارکیٹ“ تک جا پہنچا ہے
بھئی؟اتنی گراں (قیمت) کتابیں؟ناشر ،پیپر بیک اِڈیشن چھاپیں،
pp:02/02
شفق رفیع نے مردہ قوم کی تہوں میں پوشیدہ باہمت،رزق حالل کے حصول سے ”منورہ“ خاتون سے
ق حالل کا حق وصول رہی ہے ،سبحان ت کہسار ہے،ظالم دنیا سے اپنے جائز رز ِملوادیا،عورت ہے ،لیکن صور ِ
ہللا......جؤ شفق!تمہارے ”رپوتاژ“کی ”صحافتی للک“ اپنے عروج پر محسوس ہوئی ،بالخصوص ”منظر نامہ“ اور ”پیش
منظر“کو نہایت مہارت سے بیان کیا ،ابراہیم جلیس یاد آگئے ،جب ”جلیس“ بھائی یاد آگئے تو عربی زَ بان کا لفظ،
” َجلَس“” ،اِجالس“ ،کیا کچھ یاد نہ آیا اور پکار اٹھا”:سن ڈے میگزین ،میگزین کاہے کو ہےَ ،جلَ ِس یوم ْ َ
اال َحد(اتوار کے
“،دن کا خاص مصاحب ،مہربان مقرب)ہے
لفظ ”جلیس“کے پچہتر معانی و مفاہیم عربی اور کم و بیش ،اتنے ہی فارسی ہیں ،نعتوں میں ”جلیسہم“ پکارا،
!لکھا گیا،واہ شفق،جؤ
چوڑان میگزین“ بڑھانے کے باوجود میگزین کے ”مواد“ میں تشنگی محسوس ہوتی ہے”،
ِ
فاروق اقدس نے اسالم آباد دھرنے کی صورت حال وضح کرنے کی سعی کی ،لیکن ”فاٹا“ کے خیبر پختون
خا میں انضمام کے تمام تر حقائق َدبَا گئے ،تجاہ ِل عارفانہ سے کام لینا میگزینی مسائل کا حل نھیں ،بھائی فاروق! مہمان
اپنی مرضی سے آتا ہے ،نہ جاتا ہے ،یہی اس دھرنے کے ساتھ ہوا،اللی پاپ پکڑا دیا ،خود ”ایکسٹینشن“ کے پاؤں پر
!!!کلہاڑی مار لی! ہائے رے ”تبدیلی“ ،وے ناما نِیم
رؤف ظفر نے اس ”اسالم“سے متعارف کروادیا ،جو برسوں سے دو ( )2امجدوں میں گِھرا ہوا
ہےِ ،کھل ِکھالتے ”امجد اسالم امجد“ پر بہت کچھ لکھا گیا ،کتب شایع ہوئیں ،مقالہ ہا پڑھے گئے ،لیکن رؤف ظفر ،عام
انداز تحریر کی ِبنأ پر ،گویا”بازی لے گئے“،اِس قدر دل چسپ تحریر کہ میگزین ہاتھ سے رکھنے
ِ فہم ،سلیس اور رواں
کو دل نہ چاہے،اردو ادب پر جناب احمد ندیم قاسمی کا احسان ہے ،کہ ،وہ ”امجد اسالم امجد“ تفویض فرماگئے،
فرخ شہزاد ملک نے کوئٹہ کی سجیاں دِکھا کر للچایاتو محفوظ علی خان نے ”قندھاری نان“ آگے بڑھا کر ہاتھ
پیچھے کرلئے ،واہ وا.....کیسے شاندار ،روایتی ،لذیذ ترین پکوان ہیں کہ بھوک بلک اٹھے،
”لحم شکم“ (اوبیسٹی) پر لکھا اور ہم”فربہی گھٹاؤ مہم“ کے رکن اعظم ہونے کے ناتے،
ِ ڈاکٹر خالد اقبال نے
ہوگئے،وزن حمیدیہ کم بخت کسی طرح 75کلو گرام پر آنے کو تیار نھیں ،چھپ کر
ِ تحریر کی زلفِ گرہ ِگیر کے اسیر
مٹھائی کھالیتا ہوں،
ایم۔ کاشف کے فوٹوز کو نوید رشید نے عالیہ کاشف عظیمی کے تعارفی مکالموں سے سجا کر مدیرہئ میگزین
کے حوالے کردیا،چنانچہ جو شہرت یہ لڑکیاں برس ہا برس میں حاصل کر پاتیں ،وہ مدیرہ کی مہربانی سے ہفتہ بھر
میں کما لیتی ہیں،اِس سلسلے میں ایک طرف تو خواتین اپنے جمال و سنگھار کو فروغ دے لیتی ہیں ،دوسرا پہلو یہ،کہ،
اِن صفحات کی مہربانی سے کئی ماڈل ،عالمی مقابلوں میں روایتی ملبوسات کا ”تعارف“ بھی بن سکتی ہیں،
منور مرزا ،اَمریکا اور یورپ کے مابین حائل ”خلیج“ پاٹ رہے ہیں ،لیکن انٹیلیجنس قوتوں کو بھول رہے ہیں،
یوں لگتا ہے جیسے،جمہوریت کو پیچھے دھکیل کر ”عسکری قیادت“کا جنون ،پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے
ین سرحد کو
اور ”سرحدوں کے محافظ“” ،شہری دفاع“ پر کمر بستہ و ِرضا مند دکھائی دے رہے ہیں ،ہللا بچائے!محافظ ِ
!!!سرحدوں تک محدود رکھے ،آمین