Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 30

‫لفظ "حدیث" کے لغوی معنی "جدید" کے ہیں۔ حدیث کے مقابلہ میں جو لفظ‬

‫استعمال کیا جاتا ہے وہ "قدیم" ہے۔‬


‫حدیث کو "حدیث" غالبا ً اس لیے کہا جاتا ہے کہ قرآن قدیم ہے اور حدیث قرآن‬
‫کے مقابلے میں جدید ہے۔ اس بات کی تائید صحیح بخاری کی شرح" فتح الباری"‬
‫میں حافظ ابن حجر العسقالنی کے درج ذیل قول سے بھی ہوتی ہے‪:‬‬
‫المراد بالحديث في عرف الشرع ما يضاف إلى النبي صلى هللا عليه وسلم وكأنه أريد به مقابلة القرآن ألنه قديم‬

‫شرعی اصطالح میں حدیث سے مراد وہ اقوال و اعمال ہیں جو رسول ہللا صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں ‪ ،‬گویا حدیث کا لفظ قرآن کے مقابلے میں‬
‫بوال جاتا ہے اس لیے کہ قرآن قدیم ہے اور اس کے مقابلے میں حدیث جدید ہے۔‬

‫حدیث کی اصطالحی تعریف ‪ ،‬محدثین نے یوں بیان کی ہے‪:‬‬


‫حدیث سے مراد وہ اقوال ‪ ،‬اعمال اور تقریر (یعنی تصویب) ہیں جو رسول ہللا‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی جانب منسوب ہوں۔‬
‫بحوالہ ‪ :‬تحذیر الخواص من اکاذیب القصاص ‪ ،‬حافظ سیوطی۔‬

‫حدیث ‪ ،‬تحدیث کا اسم ہے ‪ ،‬پھر اس سے نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے قول ‪ ،‬فعل‬
‫اور تقریر کو موسوم کیا گیا۔‬
‫موسی ابوالبقا‬
‫ٰ‬ ‫بحوالہ ‪ :‬علوم الحدیث و مصطلح ‪ ،‬ایوب بن‬

‫جو بات نبی صلی ہللا علیہ وسلم سے منسوب کر کے کہی جائے اس پر حدیث کا‬
‫اطالق کرنا ‪ ،‬ہللا کے قول { وَأَ َّما بِ ِن ْع َم ِة رَبِ َك َفحَد ِْث( اور اپنے رب کی نعمتوں کو بیان کرتا‬
‫الضحی } ‪:11‬سے مستعار ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫رہ) ‪:‬‬
‫بحوالہ ‪ :‬مقدمہ فتح الملہم ‪ ،‬شبیر احمد عثمانی‬

‫ت خود اپنے اقوال کو "حدیث" کا نام دیا ہے‬


‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے بذا ِ‬
‫اور اس طرح آپ(ص) نے حدیث کی وہ اصطالح پہلے ہی مقرر فرما دی جس پر‬
‫محدثین نے آگے چل کر اتفاق کیا۔ اس بات کی دلیل میں صحیح بخاری کی درج‬
‫ذیل حدیث مالحظہ فرمائیں۔‬

‫عن أبي هريرة أنه قال‪:‬‬


‫قيل‪ :‬يا رسول هللا‪ ،‬من أسعد الناس بشفاعتك يوم القيامة؟‬
‫قال رسول هللا صلى هللا عليه وسلم‪( :‬لقد ظننت ‪ -‬يا أبا هريرة ‪ -‬أن ال يسألني عن هذا الحديث أحد أول منك‪ ،‬لما رأيت من حرصك على الحديث‪،‬‬
‫اسعد الناس بشفاعتي يوم القيامة‪ ،‬من قال ال إله إال هللا‪ ،‬خالصا من قلبه‪ ،‬أو نفسه)۔‬

‫حضرت ابو ھریرہ رضی ہللا عنہ روایت کرتے ہیں کہ‪:‬‬
‫میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے عرض کیا ‪ :‬یا رسول ہللا ! قیامت کے‬
‫دن آپ کی شفاعت سے سب سے زیادہ سعادت کسے ملے گی ؟‬
‫تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫اے ابو ھریرہ ! مجھے یقین تھا کہ تم سے پہلے کوئی اس حدیث کے بارے میں‬
‫مجھ سے دریافت نہیں کرے گا ۔ کیونکہ میں نے حدیث کے متعلق تمہاری حرص‬
‫دیکھ لی تھی ۔‬
‫سنو ! قیامت میں سب سے زیادہ فیض یاب میری شفاعت سے وہ شخص ہوگا ‪،‬‬
‫جو سچے دل سے یا سچے من سے " ال الہ اال هللا " کہے گا ۔‬
‫صحیح بخاری ‪ ،‬كتاب العلم ‪ ،‬باب ‪ :‬الحرص على الحدیث ‪ ،‬حدیث ‪99 :‬‬

‫چونکہ لفظ "حدیث" کی اصطالحی تعریف میں رسول ہللا (ص) کے قول ‪ ،‬فعل‬
‫اور تقریر کا بیان ہوا ہے ‪ ،‬لہذا ان الفاظ (قول ‪ ،‬فعل اور تقریر) کے معانی بھی‬
‫جاننا ضروری ہیں۔‬

‫قول‪:‬‬
‫قول سے مراد نبی صلی ہللا علیہ وسلم کا کالم ہے۔‬
‫مثالً آپ (ص) نے فرمایا ‪ :‬انما االعمال بالنیات (اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے)۔‬
‫(صحیح بخاری ‪ ،‬کتاب العلم)۔‬

‫فعل‪:‬‬
‫فعل سے مراد نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی وہ عملی تعلیم ہے جو صحابہ‬
‫کرام (رضوان ہللا عنہم) کو دی گئی۔ آپ (ص) کی زندگی کے معموالت ‪ ،‬عبادت‬
‫کے طریقے ‪ ،‬معاشرتی اور سماجی تعلقات ‪ ،‬اخالق و کردار اور رویے ‪ ،‬سب‬
‫فعل میں داخل ہیں۔‬

‫تقریر‪:‬‬
‫تقریر سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) کے سامنے کسی شخص نے کوئی کام کیا یا‬
‫آپ(ص) کو اس کی اطالع دی گئی اور آپ(ص) نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار‬
‫نہیں کیا بلکہ خاموش رہے۔ اس وقت آپ(ص) کی خاموشی رضامندی سمجھی‬
‫جائے گی کیونکہ ہللا کے رسول (ص) سے یہ متصور نہیں کہ آپ(ص) کسی‬
‫منکر کو دیکھیں اور اس کی اصالح نہ کریں بلکہ خاموش رہیں ‪ ،‬کیونکہ نبی کا‬
‫معاملہ عام انسانوں سے مختلف ہوتا ہے اور وہ کسی بھی نامناسب امر پر ضرور‬
‫تنبیہ کرتا ہے۔‬

‫دیث کی تعریف اور اس کی اقسام‬


‫تعریف‪:‬‬
‫ہر وہ قول ‪،‬فعل‪،‬تقریر یا صفت جو محمد صلی ہللا علیہ وسلم کی طرف منسوب ہو حدیث‬
‫کہالتی ہے۔‬
‫حدیث کی نوعیت کے اعتبار سے تین اقسام ہیں۔‬
‫حدی ِث قولی‪:‬‬
‫جو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی بات پر مبنی ہو۔‬
‫مثال‬
‫راوی براء بن عازب رضی ہللا عنہ‬
‫''جب تم سجدہ کرو تو اپنی دونوں ہتھیلیوں کو(زمین پر)رکھو اور اپنی دونوں کہنیوں کو‬
‫(زمین سے) بلند رکھو۔''صحیح مسلم‬

‫حدی ِث فعلی‪:‬‬
‫جو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے عمل پر مبنی ہو۔‬
‫مثال‬
‫راوی مغیرہ بن شعبہ رضی ہللا عنہ‬
‫نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے وضو کیا تو اپنی پیشانی کے بالوں‪،‬پگڑی اور موزوں پر مسح‬
‫کیا۔صحیح مسلم‬

‫حدی ِث تقریری‪:‬‬
‫صحابہ کرام رضوان ہللا علیہ اجمعین کا وہ فعل یا قول جو نبی صلی ہللا علیہ وسلم کی‬
‫موجودگی میں ہوا اور آپ نے اسے برقرار رکھا یا آپ علیہ السالم کے سامنے کسی کے‬
‫عمل کا ذکر کیا گیا تو آپ نے اس پر خاموشی اختیار فرمائی ۔۔یعنی منع نہیں کیا۔۔۔‬
‫مثال‬
‫راوی قیس رضی ہللا عنہ بن عمرو بن سہل انصاری‬
‫''رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک آدمی کو صبح کی نماز کے بعد دو رکعتیں‬
‫پڑھتے دیکھا تو فرمایا''صبح کی نماز تو دو رکعت ہے'' اس آدمی نے جواب دیا‪'':‬میں نے‬
‫تھیں‪،‬لہذا اب پڑھ لی ہیں۔''تو رسول ہللا‬
‫ٰ‬ ‫فرض نماز سے پہلے کی دو رکعتیں نہیں پڑھی‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم خاموش ہو گئے۔۔سنن ابی داود‬
‫ٰ‬
‫مشکوۃ‬ ‫تھریڈ از‬

‫اصطالحات‬

‫حدیث‪:‬‬
‫حدیث کی تعریف‪:‬‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے متعلق راویوں کے ذریعے سے جو کچھ‬

‫ہم تک پہنچا ہے‪ ،‬وہ حدیث کہالتا ہے۔ حدیث کو بعض دفعہ سنت‪ ،‬خبر اور‬

‫اثر بھی کہا جاتا ہے۔‬

‫حدیث کی بنیادی اقسام‪:‬‬


‫قولی‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان مذکور ہو ۔‬

‫فعلی‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا فعل مذکور ہو ۔‬
‫تقریری‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا کسی بات پر خاموش رہنا‬

‫مذکور ہو۔‬

‫شمائل نبوی‪:‬‬
‫وہ احادیث جن میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے عادات و اخالق یا بدنی‬

‫اوصاف مذکور ہوں۔‬

‫(نوٹ‪ :‬کسی حدیث کی اصل عبارت ”متن“ کہالتی ہے۔ ”متن ”سے پہلے‪،‬‬

‫راویوں کے سلسلے کو ”سند“ کہتے ہیں۔ ”سند“ کا کوئی راوی حذف نہ ہو‬

‫تو وہ ”متصل“ ورنہ ”منقطع“ ہوتی ہے)۔‬

‫نسبت کے اعتبار سے حدیث کی اقسام‪:‬‬


‫قدسی‪:‬‬
‫تعالی سے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کا وہ فرمان جسے نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ہللا‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫روایت کیا ہو‪ ،‬راویوں کے ذریعے سے ہم تک پہنچا ہو اور قرآن مجید میں‬

‫موجود نہ ہو۔‬
‫حدیث قدسی کی ایک اور تعریف‪ :‬حدیث قدسی وہ حدیث ہے جس میں نبی‬

‫کریم صلی ہللا علیہ وسلم ارشاد فرمائیں‪” :‬ہللا تعالى نے فرمایا ہے۔“‬

‫مرفوع‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں کسی قول‪ ،‬فعل یا تقریر کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬

‫وسلم کی طرف منسوب کیا گیا ہو۔‬


‫موقوف‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں کسی قول‪ ،‬فعل یا تقریر کو صحابی کی طرف منسوب‬

‫کیا گیا ہو۔‬

‫مقطوع‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں کسی قول یا فعل کو تابعی یا تبع تابعی کی طرف منسوب‬

‫کیا گیا ہو۔‬

‫راویوں کی تعداد کے اعتبار سے حدیث کی اقسام‪:‬‬


‫متواتر‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں تواتر کی چار شرطیں پائی جائیں‪:‬‬

‫(ا) اسے راویوں کی بڑی تعداد روایت کرے۔‬

‫(ب) انسانی عقل و عادت ان کے جھوٹا ہونے کو محال سمجھے۔‬

‫(ج) یہ کثرت عہد نبوت سے لے کر صاحب کتاب محدث کے زمانے تک‬

‫سند کے ہر طبقے میں پائی جائے۔‬

‫(د) حدیث کا تعلق انسانی مشاہدے یا سماعت سے ہو۔‬


‫نوٹ‪ :‬راویوں کی جماعت جس نے ایک استاد یا زیادہ اساتذہ سے حدیث کا‬

‫سماع کیا ہو‪” ،‬طبقہ“ کہالتی ہے۔‬

‫خبر واحد‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں متواتر حدیث کی شرطیں جمع نہ ہوں۔‬

‫خبر واحد کی چار قسمیں ہیں‪:‬‬

‫➊ مشھور‬

‫➋ مستفیض‬
‫➌ عزیز‬

‫➍ غریب‬

‫مشھور‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کے راویوں کی تعداد ہر طبقے میں دو سے زیادہ ہو مگر‬

‫یکساں نہ ہو‪ ،‬مثالً کسی طبقے میں تین‪ ،‬کسی میں چار اور کسی میں پانچ‬

‫راوی اسے بیان کرتے ہوں۔‬

‫مشہور حدیث کی ایک اور تعریف‪ :‬مشہور حدیث‪ :‬اس حدیث کو کہتے ہیں‬

‫جسے روایت کرنے والے راوی ہر طبقہ میں کم از کم تین ہوں۔ تین سے‬

‫زیادہ رواۃ والی حدیث کو بھی مشہور ہی کہتے ہیں جب تک وہ تواتر کی‬

‫حد کو نہ پہنچے۔‬

‫تنبیہ‪ :‬خبر کا مشہور ہونا اس کی صحت کی دلیل نہیں ہے۔ بسا اوقات‬

‫جھوٹی خبریں بھی مشہور ہوتی ہیں۔‬


‫تنبیہ ثانی‪ :‬عام طور پر مشہور روایت ایسی روایت کو سمجھا جاتا ہے‬

‫جسے اکثر لوگ جانتے ہوں مثال‪ :‬علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین جانا‬

‫پڑے۔‬

‫مستفیض‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کے راوی ہر طبقے میں دو سے زیادہ اور یکساں تعداد میں‬

‫ہوں یا سند کے اول و آخر میں ان کی تعداد یکساں ہو۔‬

‫عزیز‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کے راوی کسی طبقے میں صرف دو ہوں۔‬
‫غریب‪:‬‬
‫وہ حدیث جسے بیان کرنے واال کسی زمانے میں صرف ایک راوی ہو۔‬

‫اگر وہ صحابی یا تابعی ہے تو اسے ”غریب مطلق“ کہیں گے اور اگر‬

‫کوئی اور راوی ہے تو اسے ”غریب نسبی“ کہیں گے۔‬

‫نوٹ‪ :‬مذکورہ باال اقسام میں سے متواتر حدیث علم الیقین کی حد تک سچی‬

‫ہوتی ہے۔ باقی اقسام مقبول یا مردود ہو سکتی ہیں۔‬


‫غریب حدیث کی ایک اور تعریف‪ :‬غریب حدیث وہ ہوتی ہے جس کی سند‬

‫کے کسی طبقہ میں صرف ایک راوی رہ جائے۔‬

‫تنبیہ‪ :‬عموما لوگ غریب روایت کو ضعیف سمجھتے ہیں‪ ،‬جبکہ ایسا نہیں‬

‫ہے بلکہ غریب روایات صحیح بھی ہوتی ہیں اور ضعیف بھی۔‬

‫وردّ کے اعتبار سے حدیث کی اقسام‪:‬‬


‫قبول َ‬
‫مقبول‪:‬‬
‫وہ حدیث جو واجب العمل ہو۔‬
‫مردود‪:‬‬
‫وہ حدیث جو مقبول نہ ہو۔‬

‫مقبول حدیث کی اقسام و درجات (شرائط قبولیت کے اعتبار‬


‫سے)‪:‬‬
‫صحیح لذاتہ‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں صحت کی پانچ شرطیں پائی جائیں‪:‬‬

‫(ا) اس کی سند متصل ہو‪ ،‬یعنی ہر راوی نے اسے اپنے استاد سے اخذ کیا‬

‫ہو۔‬

‫(ب) اس کا ہر راوی عادل ہو‪ ،‬یعنی کبیرہ گناہوں سے بچتا ہو‪ ،‬صغیرہ‬

‫گناہوں پر اصرار نہ کرتا ہو‪ ،‬شائستہ طبیعت کا مالک اور بااخالق ہو۔ وہ‬

‫کامل الضبط ہو‪ ،‬یعنی حدیث کو تحریر یا حافظے کے ذریعے سے کماحقہ‬

‫محفوظ کرے اور آگے پہنچائے۔‬

‫(و) وہ حدیث شاذ نہ ہو۔‬

‫(ھ) معلول نہ ہو۔‬

‫شاذ اور معلول کی وضاحت آگے آ رہی ہے۔‬

‫صحیح لغیرہ‪:‬‬
‫جب حسن حدیث کی ایک سے زائد سندیں ہوں تو وہ حسن کے درجے سے‬

‫ترقی کر کے صحیح کے درجے تک پہنچ جاتی ہے۔ اسے ”صحیح‬

‫لغیرہ“ کہتے ہیں کیونکہ وہ اپنے غیر (دوسری سندوں) کی وجہ سے‬

‫درجہ صحت کو پہنچی۔‬

‫حسن لذاتہ‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کے بعض راوی صحیح حدیث کے راویوں کی‬

‫نسبت‪« :‬خفیف الضبط» ”ہلکے ضبط والے“ ہوں‪ ،‬باقی شرطیں وہی ہوں۔‬

‫حسن لغیرہ‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کی متعدد سندیں ہوں ہر سند میں معمولی ضعف ہو مگر‬

‫متعدد سندوں سے اس ضعف کی تالفی ہو جائے تو وہ ”حسن لغیرہ“ کے‬

‫درجہ کو پہنچ جاتی ہے۔‬

‫صحیح حدیث کی اقسام و درجات (کتب حدیث میں پائے‬


‫جانے کے اعتبار سے)‪:‬‬
‫متفق علیہ‪:‬‬
‫وہ حدیث جو صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں پائی جائے ”متفق‬

‫اعلی درجہ پر ہوتی ہے۔‬


‫ٰ‬ ‫علیہ“ کہالتی ہے اور صحت کے سب سے‬
‫افراد بخاری‪:‬‬
‫ہر وہ حدیث جو صحیح بخاری میں پائی جائے‪ ،‬صحیح مسلم میں نہ پائی‬

‫جائے۔‬

‫افراد مسلم‪:‬‬
‫ہر وہ حدیث جو صحیح مسلم میں پائی جائے‪ ،‬صحیح بخاری میں نہ پائی‬

‫جائے۔‬

‫صحیح علی شرطھما‪:‬‬


‫وہ حدیث جو صحیح بخاری و صحیح مسلم دونوں میں نہ پائی جائے لیکن‬

‫دونوں ائمہ کی شرائط کے مطابق صحیح ہو۔‬

‫صحیح علی شرط البخاری‪:‬‬


‫وہ حدیث جو امام بخاری کی شرائط کے مطابق صحیح ہو مگر صحیح‬

‫بخاری میں موجود نہ ہو۔‬

‫صحیح علی شرط مسلم‪:‬‬


‫وہ حدیث جو امام مسلم کی شرائط کے مطابق صحیح ہو مگر صحیح مسلم‬

‫میں موجود نہ ہو۔‬


‫صحیح علی شرط غیرھما‪:‬‬
‫وہ حدیث جو امام بخاری و امام مسلم کے عالوہ دیگر محدثین کی شرائط‬

‫کے مطابق صحیح ہو۔‬

‫مردود حدیث کی اقسام انقطاع سند کی وجہ سے‪:‬‬


‫معلق‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کی سند کا ابتدائی حصہ یا ساری سند ہی (عمداً) حذف کر‬

‫دی گئی ہو۔‬

‫معلق کی ایک اور تعریف‪ :‬معلق روایت اسے کہتے ہیں جس میں مصنف‬

‫سند کے آغاز سے کچھ راوي ذکر نہ کرے بلکہ سند درمیان سے یا آخر‬

‫سے بیان کرنا شروع کرے یا دوسرے لفظوں میں جس روایت کي سند کے‬

‫شروع سے کچھ راویوں کو حذف کر دیا جائے۔‬


‫مرسل‪:‬‬
‫وہ حدیث جسے تابعی بالواسطہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے بیان‬

‫کرے۔‬

‫مرسل کی ایک اور تعریف‪ :‬مرسل حدیث اسے کہتے ہیں جس میں تابعي‬

‫ڈائریکٹ نبي کریم صلى ہللا علیہ وسلم سے روایت کرے یعني صحابي کا‬

‫واسطہ ذکر نہ کرے۔‬


‫معضل‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کی سند کے درمیان سے دو یا دو سے زیادہ راوی اکٹھے‬

‫حذف ہوں۔‬

‫منقطع‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کی سند کے درمیان سے ایک یا ایک سے زائد راوی‬

‫مختلف مقامات سے حذف ہوں۔‬

‫مدلس‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی کسی وجہ سے اپنے استاد یا استاد کے استاد کا‬

‫نام (یا تعارف) چھپائے لیکن سننے والوں کو یہ تاثر دے کہ میں نے ایسا‬

‫نہیں کیا‪ ،‬سند متصل ہی ہے‪ ،‬حاالنکہ اس سند میں راویوں کی مالقات اور‬

‫سماع تو ثابت ہوتا ہے مگر متعلقہ روایت کا سماع نہیں ہوتا۔‬

‫مرسل خفی‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی اپنے ایسے ہم عصر سے روایت کرے جس سے‬

‫اس کی مالقات ثابت نہ ہو۔‬


‫معلول یا معلل‪:‬‬
‫وہ حدیث جو بظاہر ”مقبول“ معلوم ہوتی ہو لیکن اس میں ایسی پوشیدہ علت‬

‫یا عیب پایا جائے جو اسے ”غیر مقبول“ بنا دے۔ ان عیوب و علل کا پتہ‬

‫چالنا ماہرین فن ہی کا کام ہے۔ ہر شخص کے بس کی بات نہیں۔‬

‫مردود حدیث کی اقسام راوی کے عادل نہ ہونے کی وجہ‬


‫سے‪:‬‬
‫روایۃ المبتدع‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی بدعت مکفرہ کا قائل و فاعل ہو لیکن اگر راوی کی‬

‫بدعت‪ ،‬مکفرہ نہ ہو اور وہ عادل و ضابط بھی ہو تو پھر اس کی روایت‬

‫معتبر ہو گی یاد رہے بدعت مکفرہ (کافر بنانے والی بدعت) سے ارتداد‬

‫الزم آتا ہے۔‬

‫روایۃ الفاسق‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی کبیرہ گناہوں کا مرتکب ہو لیکن حد کفر کو نہ‬

‫پہنچے۔‬

‫متروک‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی عام بول چال میں جھوٹ بولتا ہو اور محدثین نے‬

‫اس کی روایت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا ہو۔‬

‫موضوع‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کے راوی نے کسی موقع پر حدیث کے معاملہ میں جھوٹ‬

‫بوال ہو‪ ،‬ایسے راوی کی ہر روایت کو موضوع (من گھڑت) کہتے ہیں۔‬

‫مردود حدیث کی اقسام راوی کے ضابط نہ ہونے کی وجہ‬


‫سے‪:‬‬
‫مصحف‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کے کسی لفظ کی ظاہری شکل تو درست ہو مگر نقطوں‪،‬‬

‫حرکات یا سکون وغیرہ کے بدلنے سے اس کا تلفظ بدل گیا ہو۔‬

‫مقلوب‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کے الفاظ میں راوی کی بھول سے تقدیم و تاخیر واقع ہو‬

‫گئی ہو یا سند میں ایک راوی کی جگہ دوسرا راوی رکھا گیا ہو۔‬

‫مدرج‪:‬‬
‫وہ حدیث جس میں کسی جگہ راوی کا اپنا کالم عمدا ً یا سہوا ً درج ہو جائے‬

‫اور اس پر الفاظ حدیث ہونے کا شبہ ہوتا ہو۔‬


‫المزید فی متصل االسانید‪:‬‬
‫جب دو راوی ایک ہی سند بیان کریں‪ ،‬ان میں ایک ثقہ اور دوسرا زیادہ ثقہ‬

‫ہو۔ اگر ثقہ راوی اس سند میں ایک راوی کا اضافہ بیان کرے تو اس کی‬

‫روایت کو «مزید فى متصل االسانید» کہتے ہیں۔‬

‫شاذ‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی مقبول (ثقہ یا صدوق) ہو اور بیان حدیث میں اپنے‬

‫سے زیادہ ثقہ یا اپنے جیسے بہت سے ثقہ راویوں کی مخالفت کرے (شاذ‬

‫کے بالمقابل حدیث کو محفوظ کہتے ہیں)۔‬

‫منکر‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی ضیعف ہو اور بیان حدیث میں ایک یا زیادہ ثقہ‬

‫راویوں کی مخالفت کرے (منکر کے بالمقابل حدیث کو معروف کہتے‬

‫ہیں)۔‬

‫روایۃ سی الحفظ‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی «سي الحفظ»‪ ،‬یعنی پیدائشی طور پر کمزور‬

‫حافظے واال ہو۔‬


‫روایۃ کثیر الغفلۃ‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی شدید غفلت یا کثیر غلطیوں کا مرتکب ہو۔‬

‫روایۃ فاحش الغلط‪:‬‬


‫وہ حدیث جس کے راوی سے فاش قسم کی غلطیاں سرزد ہوں۔‬

‫رویۃ المختلط‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی بڑھاپے یا کسی حادثے کی وجہ سے یادداشت کھو‬

‫بیٹھے یا اس کی تحریر کردہ احادیث ضائع ہو جائیں۔‬

‫مضطرب‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کی سند یا متن میں راویوں کا ایسا اختالف واقع ہو جو حل نہ‬

‫ہو سکے۔‬

‫مردود حدیث کی اقسام راوی کے مجہول ہونے کی وجہ‬


‫سے‪:‬‬
‫روایۃ مجھول العین‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کا راوی ”مجہول العین“ ہو‪ ،‬یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا‬

‫کوئی ایسا تبصرہ نہ ملتا ہو جس سے اس کے ثقہ یا ضعیف ہونے کا پتہ‬


‫چل سکے اور اس سے روایت کرنے واال بھی صرف ایک ہی شاگرد ہو‬

‫جس کے باعث اس کی شخصیت مجہول ٹھہرتی ہو۔‬

‫روایۃ مجھول الحال‪:‬‬


‫وہ حدیث جس کا راوی ”مجہول الحال“ ہو‪ ،‬یعنی اس کے متعلق ائمہ فن کا‬

‫کوئی تبصرہ نہ ملتا ہو اور اس روایت کرنے والے کل دو آدمی ہوں جس‬

‫کے باعث اس کی شخصیت معلوم اور حالت مجہول ٹھہرتی ہو۔ ایسے‬

‫راوی کو ”مستور“ بھی کہتے ہیں۔‬

‫مبھم‪:‬‬
‫وہ حدیث جس کی سند میں کسی راوی کے نام کی صراحت نہ ہو۔‬

‫چند مزید اصطالحات‪:‬‬


‫عدل‪:‬‬
‫یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ دیانت دار اورسچے ہوں‪ ،‬اس‬

‫کا فیصلہ دیگر ناقدین کے اقوال کو سامنے رکھتے ہوئے کیاجاتا ہے۔‬

‫ضبط‪:‬‬
‫یعنی حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگ مضبوط حافظہ کے مالک‬

‫ہوں۔‬
‫تنبیہ‪ :‬متاخرین نے قوت حفظ میں تفاوت کا اعتبار کرتے ہوئے تام الضبط‬

‫کی بنسبت کم تر ضبط والے روای کی منفرد مرویات کے لئے ”حسن“ کی‬

‫اصطالح بنائی ہے لیکن متقدمین ضبط میں یہ تفریق نہیں کرتے تھے بلکہ‬

‫ہر ضابط کی روایت کو وہ صحیح ہی کہتے تھے‪ ،‬اور متقدمین میں بعض‬

‫نے جن احادیث کو حسن کہا ہے تو وہ اصطالحی معنی میں نہیں ہے۔‬

‫بعض حضرات بہت بڑی غلط فہمی کے شکار ہو گئے ہیں اور یہ سمجھ لیا‬

‫کہ متقدمین حسن حدیث کو بھی حجت نہیں سمجھتے تھے لیکن ایسا موقف‬

‫متقدمین میں کسی ایک سے بھی ثابت نہیں دراصل متقدمین ”حسن“ کی‬

‫اصطالح استعمال ہی نہیں کرتے تھے بلکہ متاخرین کی اصطالح میں‬

‫جوروایت ”حسن“ بنتی ہے متقدمین اسے بھی صحیح ہی کہتے تھے۔‬

‫اتصال السند‪:‬‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ حدیث کو روایت کرنے والے تمام لوگوں نے جس‬

‫سے حدیث نقل کی ہے اس سے ان لوگوں نے اس حدیث کو براہ راست‬

‫اخذ کیا ہو۔‬


‫کتب احادیث کی اقسام‪:‬‬
‫کتب صحاح‪:‬‬
‫مولّف نے اپنی کتاب میں صحیح روایات النے کا‬
‫ہر وہ کتاب جس کے َ‬

‫التزام کیا ہو اور ”صحیح“ کے لفظ کو کتاب کے نام کا حصہ بنایا ہو۔ ایسی‬

‫مولّف کے نزدیک صحیح ہوتی ہیں۔‬


‫کتاب کی روایات کم از کم اس کے َ‬

‫اور اگر وہ خود ہی کسی حدیث کی علت بیان کر دے تو اس سے اس کتاب‬

‫کے صحیح ہونے پر حرف نہیں آتا۔‬

‫صحاح ستہ‪:‬‬
‫حدیث کی چھ کتب صحیح بخاری‪ ،‬صحیح مسلم‪ ،‬سنن ابوداؤد‪ ،‬سنن نسائی‪،‬‬

‫جامع ترمذی اور سنن ابن ماجہ ”صحاح ستہ“ کہالتی ہیں۔ انہیں ”اصول‬

‫ستہ“ یا ”کتب ستہ“ بھی کہا جاتا ہے۔‬

‫پہلی دو کتابیں (صحیح بخاری‪ ،‬صحیح مسلم) ”صحیحین“ کہالتی ہیں اور‬

‫یہ صرف اپنے مؤلَّفین کے نزدیک ہی صحیح نہیں ہیں بلکہ پوری امت‬

‫اعلی درجے پر فائز ہیں۔ ان پر اعتراض برائے‬


‫ٰ‬ ‫کے نزدیک صحت کے‬

‫اعتراض کرنے واال شخص‪ ،‬شاہ ولی ہللا محدث دہلوی رحمہ ہللا کے بقول‪،‬‬
‫اجماع امت کا مخالف اور بدعتی ہے۔‬

‫جبکہ آخری چار کتابوں (سنن ابوداؤد‪ ،‬سنن نسائی‪ ،‬جامع ترمذی اور سنن‬

‫ابن ماجہ) کو سنن اربعہ کہتے ہیں۔ گو ان میں ضیعف احادیث موجود ہیں‪،‬‬

‫تاہم صحیح حدیثوں کی کثرت کی وجہ سے اکثر علماء انہیں ”صحاح‬

‫ستہ“ میں شمار کرتے ہیں۔‬

‫جامع‪:‬‬
‫جس کتاب میں اسالم سے متعلق تمام موضوعات‪ ،‬مثالً‪ :‬عقائد‪ ،‬احکام‪،‬‬

‫تفسیر‪ ،‬جنت‪ ،‬دوزخ وغیرہ سے تعلق رکھنے والی احادیث روایت کی گئی‬

‫ہوں‪ ،‬مثالً‪ :‬صحیح بخاری اور جامع ترمذی وغیرہ۔‬

‫سنن‪:‬‬
‫جس کتاب میں صرف عملی احکام سے متعلق احادیث فقہی تبویب و ترتیب‬

‫پر جمع کی گئی ہوں‪ ،‬مثالً‪ :‬سنن ابی داود۔‬

‫مسند‪:‬‬
‫جس کتاب میں ایک صحابی یا متعدد صحابہ کی روایات کو الگ الگ جمع‬

‫کیا گیا ہو‪ ،‬مثالً‪ :‬مسند احمد‪ ،‬مسند حمیدی۔‬

‫مستخرج‪:‬‬
‫جس کتاب میں مصنف کسی دوسری کتاب کی حدیثوں کو اپنی سندوں سے‬

‫روایت کرے‪ ،‬مثالً‪ :‬مستخرج اسماعیلی ٰ‬


‫علی صحیح البخاری۔‬

‫مستدرک‪:‬‬
‫جس کتاب میں مصنف ایسی روایات جمع کرے جو کسی دوسرے مصنف‬

‫کی شرائط کے مطابق ہوں لیکن اس کی کتاب میں نہ ہوں‪ ،‬مثالً‪ :‬مستدرک‬

‫حاکم۔‬

‫معجم‪:‬‬
‫جس کتاب میں مصنف ایک خاص ترتیب کے ساتھ اپنے ہر استاد کی‬

‫روایات کو الگ الگ جمع کرے‪ ،‬مثالً‪ :‬معجم طبرانی۔‬

‫اربعین‪:‬‬
‫جس کتاب میں کسی ایک یا مختلف موضوعات پر چالیس احادیث جمع کی‬

‫گئی ہوں‪ ،‬مثالً‪ :‬اربعین نووی‪ ،‬اربعین ثنائی وغیرہ۔‬


‫جزء‪:‬‬
‫وہ کتاب جس میں صرف ایک راوی یا ایک موضوع کی روایات جمع کی‬

‫گئی ہوں‪ ،‬جسے امام بخاری رحمہ ہللا کی ”جزء رفع یدین“ اور ”جزء‬

‫القراءۃ خلف االمام“ یا امام بیہقی رحمہ ہللا کی ”کتاب القراءۃ خلف‬

‫االمام“ وغیرہ۔‬

You might also like