Professional Documents
Culture Documents
Farhad123
Farhad123
Farhad123
مقدمہ
تعالی رب العزت کیلئے جس نے اس کائنات کو خلق کیا اور اس ٰ تمام تعریفیں اس ہللا
کائنات کی ہر ایک چیز کو انسان کیلئے مسخر کیا اور انسان کو اشرف المخلوقات
جیسی عظیم شرف سے نوازا اور انسان کو عقل اور خواہش دونوں عظیم نعمتیں عطا
تعالی رب العزت نے انسان کی زات پر چھوڑ دیا ہے۔ اب اگر انسان ٰ کیئں ۔ابباقی ہللا
اپنے نفس اور عقل کو ہللا رب العزت کے تابع کر لے تو فرشتوں سے بھی افضل ہو
جاتا ہے اور اگر اپنے نفس کا غالم بن جائے تو حیوانوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔
تعالی رب العزت نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے ہر دور میں انبیاء کرام ٰ ہللا
علیہ السالم بھیجے جنہوں نے انسانوں کو زندگی کے ہر پہلو اور گوشے گوشے میں
ہدایت پانے کے وہ ہنر اور طریقے بتالئے کہ جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے عقل
اور نفس دونوں کو ہللا تعالی رب العزت کے احکامات کے تابع کر سکتا ہے اور دنیا
اور آخرت میں کامیابی اور سرخروی حاصل کرسکتا ہے۔
انبیاء کرام علیہ السالم کی تعلیمات میں سے زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی
ہیں جن میں سے عقائد اور عبادات سے لے کر رہن سہن کے طور طریقوں اور آپس
میں تعلقات و معامالت تک کے تعلیمات موجود ہیں۔ ان سب تعلیمات کا مقصد انسانوں
کی دنیاوی زندگی میں امن و امان کو برقرار رکھنا مقصود و مطلوب تھا۔ چنانچہ انبیاء
کرام علیہ السالم کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم بلند اخالق کی بھی ہیں جس کی تعلیم
ہر نبی اور ہر پیغمبر علیہ السالم نے اپنی اپنی امت کو دیا ہے۔ اگر انبیاء کرام علیہ
السالم کی زندگیوں پر روشنی ڈالی جائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی
کہ ہر نبی علیہ السالم نے اپنے دور نبوت میں کس طرح اخالقیات کا مظاہرہ کرتے
ہوئے اپنی امتوں کو دعوت حق کی تبلیغ کی ہے اور کس طرح سے ہللا تعالی کی زات
کو منوایا ہے؟
چنانچہ ہر نبی علیہ السالم کو ہللا تعالی رب العزت نے اخالق کے زیور سے آراستہ
کیا ہے لیکن تمام انبیاء کرام علیہ السالم کے اخالقیات جب اپنے نقتہ عروج پر پہنچے
ّٰللا علیہ وآلہ
مصطفی سید االنبیاء صلی ہ
ٰ تو خاتم النبیین سید المرسلین حضرت محمد
تعالی رب العزت اپنے محبوب ٰ وسلّم کا حسن خلق بنتا ہے تب ہی تو قرآن مجید میں ہللا
کے حسن اخالق کی گواہی دیتے ہوے ارشاد فرماتا ہے۔
انک لعلی خلق عظیم()۱
"یعنی اے میرے حبیب! بالشبہ آپ اخالق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں۔"
یہ ہے شان رسالت کہ خود ہللا رب العزت اپنے محبوب نبی علیہ السالم کے بلند اخالق
کی گواہی دے رہے ہیں اور اسی اخالق و کردار کی بدولت آج دنیا جہاں میں خالق دو
تعالی رب العزت کا نام ہر زبان پر جاری و ساری ہے
ٰ جہاں پروردگار عالم ہللا
اس موضوع گفتگو کو منتخب کرنے کا مقصد انسان کی اس عظیم صفت اخالق کی
اہمیت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ کس طرح کسی انسان کے اخالق و کردار سے ہللا
تعالی رب العزت اور اس کی مخلوقات راضی ہوتی ہے اور کس طرح اخالقیات کی بنا
پر معاشروں میں امن و سکون کی فضا قائم ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السالم
سے لے کر حضرت محمد مصطفی سید االنبیاء صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء
کرام علیہ السالم نے اپنی امتوں کو اخالقیات کا عظیم درس دیا لیکن ہم صرف مذاہب
عالم میں سے صرف آسمانی مذاہب کے فلسفہ اخالق پر روشنی ڈالنے کی ادنی سی
کوشش کرتے ہیں حاالنکہ بڑے بڑے سکالرز نے مذاہب عالم کے فلسفہ اخالق پر بہت
ساری کتابیں تالیف کی ہیں لیکن ہم اپنی استطاعت اور علم کے مطابق اخالقیات کی
اہمیت ادیان ثالثہ یعنی یہودیت ،عیسائیت ،اور اسالم کی تعلیمات کی روشنی میں پیش
کرتے ہیں۔
فلسفۂ اخالق کا لغوی و اصطالحی مفہوم
اور خلق کی جمع ہے۔
اخالق کا مادہ ’’خ ل ق ‘‘ہے۔ یہ عربی زبان کا مذکر اسم ہے ُ
اس کی لغوی معنی طبعی خصلتوں جیسے طبیعت ،مروت اور عادت کی ہے۔ اسی
ت عملیہ کی ایک ایسی قسم ہے جسے عربی زبانطرح ’’علم االخالق‘‘ سے مراد حکم ِ
فرہنگ
ِ ت ُخلقیہ‘‘ کہتے ہیناسی طرح فارسی کی مشہور اور معروف لغت ’’
میں ’’ حکم ِ
عمید‘‘ میں اخالق کا مفہوم ’’خوے ہا‘‘ جمع خلق درج ہے)۲( .
فرہنگ آصفیہ کے مطابق اخالق سے مرا انسان کی عادتیں ،خصلتیں ،خوش خوئی، ِ
ملنساری ،کشادہ پیشانی سے ملنا ،خاطر مدارات وغیرہ ہیں اور ساتھ ساتھ وہ علم ہے
ب نفس ،سیاست اور مدن وغیرہ کی بحث ہو۔()۳ جس میں معا دو معاش تہذی ِ
(Encyclopaediaمیں )Ethicsکی تفصیل اس طرح بیان ہے) :
انسائیکوپیڈیا امریکن )American
"Ethics is the branch of philosophy in which men attempt to
evaluate and decide upon particular cause of moral action or
)general theories of conduct"(۴
"دی آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری میں اخالق کا مفہوم کچھ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے":
"The science of moral; the department of study concerned with
)the principles of human duty."(۵
بہرحال یہ بات واضع ہے کہ اخالقی احکامات اور تعلیمات کو مختلف پیشوں ،مذاہب
دستور حیات میں صواب ،ناصواب ،خیروشر اور فضیلت و غیر فضیلت جیسے ِ اور
تصورات میں تقسیم کرنے سے اس کا دائرۂ عمل پوری انسانی زندگی اور معاشرے
تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کسی ایک تعریف اور توجیہہ پر متفق
ہونا مشکل امرہے
مندرجہ باال لغوی مطالب کی رو سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ’’اخالق ‘‘سے مراد
ایسے سنہرے اصول ہیں جو ہمیں خیرو شر ,نیکی و بدی کو پہچاننے میں مدد دیتے
ہیں اور اخالقی رویوں اور عادات و خصائل کا مجموعہ ہی دراصل فلسفۂ اخالق کے
دائرۂ بحث میں آتا ہے۔ فلسفۂ اخالق انسانی اعمال اور رویوں کا تجزیہ کرتا ہے کہ اس
میں کیا ہونا چاہیے؟ کیسا ہونا چاہیے ؟ اور کیوں ہونا چاہیے؟ جیسے سواالت کے
جوابات تالش کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اخالقی احکامات انفرادی اور اجتماعی
رویوں کو ایک طرف تو معاشرتی اداروں کے تابع رکھتے ہیں اور دوسری طرف
مذہبی اور وجدانی تصورات کی روشنی میں انسانی کردار و عمل کو ایسی سمت عطا
کرتے ہیں جو ’’ابدی مسرت‘‘کی منزل پر منتج ہوتی ہے۔ گویا فلسفۂ اخالق حقائق کے
تبجائے ان کی قدر و قیمت اور ان کے متفقہ معیارات سے بحث کرتا ہے اور خواہشا ِ
نفسانی کو ایک ترتیب اور توازن عطا کرتا ہے۔
پروفیسر بختیار حسین صدیقی نے فلسفہ اخالق کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں کی ہیں:
’’جب خواہشات عقل کی اطاعت کی عادی ہو جاتی ہیں تو اس سے وہ ناقاب ِل تسخیر
قوت پیدا ہوتی ہے جسے ہم اخالقی قوت کہتے ہیں۔ یہ قوت جتنی قوی ہوگی ،اتنی ہی
پختہ انسان کی سیرت اور اتنی ہی محکم اس کی شخصیت ہوگی۔ یہی وہ قوت ہے جو
انسان کی مختلف اور متصادم خواہشات کو ایک اصول واحد کے تحت منظم کر کے
اسے پُرسکون ،پُروقار اور باعزت زندگی کی مسرتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔‘‘()۶
انسانی فرائض و زمہ داریوں کے اصولوں کا علم اخالق کے فلسفے کا ایک اہم
نظام اخالق میں مباحث ملتے ِ موضوع ہے۔ اوامر و نواہی کی صورت میں ہر عمل پر
ہیں۔ دنیامیں مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں فلسفۂ اخالق کی مختلف تعبیر یں کی گئی
ہیں لیکن ایک امر خصوصی طور پر توجہ طلب ہے کہ بنیادی انسانی رویوں،
میالنات ،رجحانات اور کردار و اطوار میں مسلمہ آفاقی سچائیوں کو تقریبا ً ہر مذہب
میں یکساں اہمیت حاصل ہے۔ ابتدائی انسان کسی مافوق الفطرت قوت کے شعور سے
مظاہر
ِ زیادہ کائنات کو ایک وحدت تصور کرتا تھا یہاں تک کہ دیوی ،دیوتاؤں کو بھی
قدرت کی شخصی تشکیل ہی سمجھتا تھا۔وادئ دجلہ و فرات ،وادئ سندھ ،مصر،
اناطولیہ ،یونان ،شام و فلسطین اور ایران کی پرانی قومیں بھی تخلیق کی قائل تھیں
لیکن یہ تخلیق کو ایک مسلسل عمل سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کے ہاں خیر وشر کے
تصورات بھی پائے جاتے تھے۔
سامی مذاہب
سامی مذاہب میں یہودیت ،عیسائیت اور اسالم شامل ہیں۔ان تینوں الہامی مذاہب میں
فلسفۂ اخالق کی جو روایت موجود ہے اس کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔
یہودیت کا فلسفۂ اخالق
یہودیت مذہب کے عقائد رکھنے والے یہودی سامی النسل تھے ،صحرائے عرب کے
شمال میں ان کا آبائی وطن تھا جہاں وہ صدیوں تک آباد تھے اور خانہ بدوشی کی
زندگی بسر کرتے رہے۔یہ مظاہر پرست تھے اور رفتہ رفتہ کثرت پرست اور بعد ازاں
وحدت پرست ہو گئے۔ عہد نامہ عتیق یہودیت مذہب کا مرکزی ماخذ ہے ۔ اس کی
تعلیمات کا ماخذ توریت ہے۔عہد نامہ عتیق علمائے یہود کی تالیف کردہ ہے۔ توریت
بنیادی طور پر اخالقی قصوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے جس کا مقصد انسان کی فالح
موسی علیہ السالم پر نازل ہوئی اور
ٰ اور اسے سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ توریت حضرت
موسی
ٰ انہیں کے دور میں یہودیت نے باقاعدہ مذہب کی شکل اختیار کی۔ جب حضرت
فرعون مصر کی غالمی سے نجات دال کر انہیں
ِ علیہ السالم نے عبرانی قوم کو
فلسطین میں آباد کیا تو پھر ہللا کی طرف سے ایک اخالقی ضابطہ نازل ہوا جس کی
پابندی ہر یہودی کے لیے الزم قرار پائی۔ یہ ضابطہ دس فرامین یا دس نکات کہالتے
ہیں جودرج ذیل ہیں:
’’ -1خدا ایک ہے اسی نے تمہیں مصر کی غالمی سے نجات دالئی اور وہ تہس ہوا۔
- 2میرے سوا کسی کو خدا نہ سمجھنا اور نہ اس کی عبادت کرنا،
3۔اپنے خدا کو یاد کرتے رہو کیونکہ اس سے گناہ کم ہوتے ہیں،
-4ہفتے کے سات دنوں میں سبت کو پاک قرار دیا گیا ہے۔ چھ دن تمہارے ہیں ،اس
میں کام کرو اور ساتواں دن ہللا کا ہے اس میں کام نہ کرو اور اپنے رب کو یاد کرو،
5۔اپنے ماں باپ کی عزت کرو تاکہ ہللا تمہاری بھی عمر دراز کرے،
- 6خونخوں ریزی سے گریز کرنا ،
7،۔زنا حرام ہے
8۔ کسی دوسرے فرد کا مال چوری نہ کرنا،
9۔ اپنے ہمساے کے خالف جھوٹی گواہی نہ دینا،
10۔اپنے پڑوسی کے مال ،عزت یا کسی اور چیز پر اللچ کی نگاہ نہ ڈالنا۔‘‘()۷
اعلی ترین صفات کی حامل ہستی کا ہے اور انسان ٰ یہودیت میں خدا کی ذات کا تصور
روحانی اور جسمانی ہر دو اعتبار سے خدا کے احکامات پر چلنے کا پابند ہے۔ انسان
کے لیے یہ ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیکی ،انصاف اور بھالئی کے کام
کرے ،اپنے اندر اچھی اور نیک صفات پیدا کرے ،بُرے کاموں سے گریز اور اجتناب
کرے اور اپنی زندگی کو دوسروں کی بھالئی اور فائدے کے لیے کام میں الئے۔
یہودیوں میں خیر و شر ،نیکی اور بدی کا باقاعدہ نظام موجود ہے اور جزا و سزا کا
تصور بھی پایا جاتا ہے۔یہودیت میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان میں خیر و
شر خلقی طور پر موجود ہے۔ صرف خدا کی ذات ہے جو شر سے پاک ہے۔ انسان
اپنی فطرت کے باعث گناہ اور شر کی طرف راغب ہوتا ہے۔ گناہ کرنے سے خدا اور
انسان کے درمیان تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔ خدا اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور قبول
کرتا ہے۔ گناہگار اگر اپنی بخشش کے لیے خدا سے رجوع کریں تو ان کے گناہ معاف
کر دیے جاتے ہیں۔()۸
اعلی انسانی اقدار اور مذہبی تعلیمات تو موجود ہیں لیکن یہ
ٰ مختصر یہ کہ یہودیت میں
اور بات ہے کہ ان پر عمل نہ ہو۔ یہودیت کے مطابق زندگی اخالقی تگ و دو کا نام
ہے اور انسان کو خدا کی الوہی سرگرمیوں میں اس کا رفیق کار بننا ہوتا ہے۔ یہودیت
کا جوہر اس آیت میں ہے:
’’تم میرے لیے پاکیزہ بنو کیونکہ میں تمہارا خداوند پاک ہوں۔‘‘()۹
طرز عمل کی تعلیم دیتی ہے۔ اخالقی اور روحانی ذات
ِ یہودیت ،اخالقیات اور کامل
کے لیے یہودیت میں قول ہے کہ:
’’پہلے خود کو اور پھر دوسروں کو خوبصورتی دو۔‘‘
حوالہ جات
-۱قرآن مجید ،سورۃ قلم ،آیت نمبر ۴
-۲فرہنگ عمید ،تہران:کتاب خانہ ابن سینا1337،عیسوی،ص118
فرہنگ آصفیہ ،جلد اول ،الہور :مرکزی اُردو بورڈ۱۹۷۷ ،ء ص۲۸۔۱۲۷
ِ -۳
P186,Encyclopedia Americana USA 1986-۴
-۵۔ The Oxford English Dictionary, Vol III, Oxford at the
Clarendon Press, 1978, P 312
-۶بختیارحسین صدیقی،دیباچہ :فلسفۂ اخالق(چندمغربی مفکرین کے نظریات) ڈاکٹرا
سنگ میل پبلی کیشنز۱۹۸۹ ،ء ،ص۱۱،۱۰ ِ بصاراحمد ،الہور:
ب عالم کی نظر میں ،ص ۳۱۔۳۰
-۷گھئی،او۔پی،اخالقیات مذاہ ِ
ب عالم کی نظر میں ،ص ۳۲
-۸گھئی،او۔پی،اخالقیات مذاہ ِ
-۹امولیہ رنجن۔مہاپتر،فلسفۂ مذاہب،ص ۱۷۶
-۱۰ظہیراحمدصدیقی،ڈاکٹر،اخالقیات ایرانی ادبیات میں،ص ۸۰۔۷۹
Encyclopaedia of Ethics and Religion, P 469 -۱۱
-۱۲متی درانجیل مقدس۔نیاعہد نامہ،الہور:برٹش اینڈ فارن سوسائٹی ،باب ،۵ص ۲۱۰
ب عالم کا تقابلی مطالعہ ،ص ۴۳۴
-۱۳غالم رسول،چودھری ،مذاہ ِ
-۱۴قرآن حکیم ،سورہ الشمس ،آیت نمبر ۱۰۔۹
-۱۵کنزاالعمال ،جلد ،۲ص ۵
-۱۶عمادالحسن فاروقی۔دُنیا کے بڑے مذاہب،ص ۳۳۷
-۱۷قرآن مجید ،سورہ احزاب ،آیت نمبر۲۱
محسن انسانیت صلی ہللا علیہ وسلم نعت کے آئینے میں،
ِ ق
-۱۸گوہر ملیسانی ،اخال ِ
مشمولہ :نعت رنگ ،کتابی سلسلہ ،کراچی( ،مدیر :سید صبیح الدین رحمانی) ،شمارہ
نمبر ،۲۰اگست ۲۰۰۸ء ،ص۵۳۔۵۲