Farhad123

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 11

‫زاہد علی‬ ‫نام‬

‫‪IS320191017‬‬ ‫رجسٹریشن نمبر‬


‫‪MPhil Islamic studies‬‬ ‫کورس‬
‫‪Research Methodology‬‬ ‫مضمون‬
‫ادیان ثالثہ میں اخالقیات کا تصور‬ ‫عنوان‬
‫جناب ڈاکٹر فرہاد صاحب‬ ‫استاد محترم‬
‫‪Abstract‬‬
‫‪In the name of Allah Almighty who created all the living and non-living things of the universe for the beneficial‬‬
‫‪of human beings. Allah Almighty also made some rules and regulations for the better survival of human beings.‬‬
‫‪These rules and regulations highlight each and every aspect of life in the light of Holy Quran and Sunnah. One‬‬
‫‪of these rules and regulations is good deeds and good manners. Each and every person of the universe‬‬
‫‪naturally like good manners without any boundness of any religion. It means that every religion teaches to‬‬
‫‪their follower to treat everyone with kindness and good attitude and manners.‬‬
‫‪In this topic I will try to explain good manners and bad manners in the light of Christianity, Judaism‬‬
‫‪and Islam and at the last I will compare the religious thoughts of the above mentioned three religions in the‬‬
‫‪light of Bible, Torit and Holy Quran and Hadiths of the respective Holy Prophets.‬‬
‫‪The aim to explain this topic is to explain that each and every religion of the universe teaches the‬‬
‫‪respect of humanity and rights of the all kinds of living things, whenever we become a good human being, we‬‬
‫‪will definitely become good peoples of Allah Almighty.‬‬

‫مقدمہ‬
‫تعالی رب العزت کیلئے جس نے اس کائنات کو خلق کیا اور اس‬ ‫ٰ‬ ‫تمام تعریفیں اس ہللا‬
‫کائنات کی ہر ایک چیز کو انسان کیلئے مسخر کیا اور انسان کو اشرف المخلوقات‬
‫جیسی عظیم شرف سے نوازا اور انسان کو عقل اور خواہش دونوں عظیم نعمتیں عطا‬
‫تعالی رب العزت نے انسان کی زات پر چھوڑ دیا ہے۔ اب اگر انسان‬ ‫ٰ‬ ‫کیئں ۔ابباقی ہللا‬
‫اپنے نفس اور عقل کو ہللا رب العزت کے تابع کر لے تو فرشتوں سے بھی افضل ہو‬
‫جاتا ہے اور اگر اپنے نفس کا غالم بن جائے تو حیوانوں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے۔‬
‫تعالی رب العزت نے انسان کی ہدایت اور رہنمائی کیلئے ہر دور میں انبیاء کرام‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫علیہ السالم بھیجے جنہوں نے انسانوں کو زندگی کے ہر پہلو اور گوشے گوشے میں‬
‫ہدایت پانے کے وہ ہنر اور طریقے بتالئے کہ جن پر عمل پیرا ہو کر انسان اپنے عقل‬
‫اور نفس دونوں کو ہللا تعالی رب العزت کے احکامات کے تابع کر سکتا ہے اور دنیا‬
‫اور آخرت میں کامیابی اور سرخروی حاصل کرسکتا ہے۔‬
‫انبیاء کرام علیہ السالم کی تعلیمات میں سے زندگی کے ہر پہلو پر روشنی ڈالی گئی‬
‫ہیں جن میں سے عقائد اور عبادات سے لے کر رہن سہن کے طور طریقوں اور آپس‬
‫میں تعلقات و معامالت تک کے تعلیمات موجود ہیں۔ ان سب تعلیمات کا مقصد انسانوں‬
‫کی دنیاوی زندگی میں امن و امان کو برقرار رکھنا مقصود و مطلوب تھا۔ چنانچہ انبیاء‬
‫کرام علیہ السالم کی تعلیمات میں سے ایک تعلیم بلند اخالق کی بھی ہیں جس کی تعلیم‬
‫ہر نبی اور ہر پیغمبر علیہ السالم نے اپنی اپنی امت کو دیا ہے۔ اگر انبیاء کرام علیہ‬
‫السالم کی زندگیوں پر روشنی ڈالی جائیں تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگی‬
‫کہ ہر نبی علیہ السالم نے اپنے دور نبوت میں کس طرح اخالقیات کا مظاہرہ کرتے‬
‫ہوئے اپنی امتوں کو دعوت حق کی تبلیغ کی ہے اور کس طرح سے ہللا تعالی کی زات‬
‫کو منوایا ہے؟‬
‫چنانچہ ہر نبی علیہ السالم کو ہللا تعالی رب العزت نے اخالق کے زیور سے آراستہ‬
‫کیا ہے لیکن تمام انبیاء کرام علیہ السالم کے اخالقیات جب اپنے نقتہ عروج پر پہنچے‬
‫ّٰللا علیہ وآلہ‬
‫مصطفی سید االنبیاء صلی ہ‬
‫ٰ‬ ‫تو خاتم النبیین سید المرسلین حضرت محمد‬
‫تعالی رب العزت اپنے محبوب‬ ‫ٰ‬ ‫وسلّم کا حسن خلق بنتا ہے تب ہی تو قرآن مجید میں ہللا‬
‫کے حسن اخالق کی گواہی دیتے ہوے ارشاد فرماتا ہے۔‬
‫انک لعلی خلق عظیم(‪)۱‬‬
‫"یعنی اے میرے حبیب! بالشبہ آپ اخالق کے بلند ترین درجے پر فائز ہیں۔"‬

‫یہ ہے شان رسالت کہ خود ہللا رب العزت اپنے محبوب نبی علیہ السالم کے بلند اخالق‬
‫کی گواہی دے رہے ہیں اور اسی اخالق و کردار کی بدولت آج دنیا جہاں میں خالق دو‬
‫تعالی رب العزت کا نام ہر زبان پر جاری و ساری ہے‬
‫ٰ‬ ‫جہاں پروردگار عالم ہللا‬
‫اس موضوع گفتگو کو منتخب کرنے کا مقصد انسان کی اس عظیم صفت اخالق کی‬
‫اہمیت کو بیان کرنا مقصود ہے کہ کس طرح کسی انسان کے اخالق و کردار سے ہللا‬
‫تعالی رب العزت اور اس کی مخلوقات راضی ہوتی ہے اور کس طرح اخالقیات کی بنا‬
‫پر معاشروں میں امن و سکون کی فضا قائم ہوتی ہے۔ چنانچہ حضرت آدم علیہ السالم‬
‫سے لے کر حضرت محمد مصطفی سید االنبیاء صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم تک تمام انبیاء‬
‫کرام علیہ السالم نے اپنی امتوں کو اخالقیات کا عظیم درس دیا لیکن ہم صرف مذاہب‬
‫عالم میں سے صرف آسمانی مذاہب کے فلسفہ اخالق پر روشنی ڈالنے کی ادنی سی‬
‫کوشش کرتے ہیں حاالنکہ بڑے بڑے سکالرز نے مذاہب عالم کے فلسفہ اخالق پر بہت‬
‫ساری کتابیں تالیف کی ہیں لیکن ہم اپنی استطاعت اور علم کے مطابق اخالقیات کی‬
‫اہمیت ادیان ثالثہ یعنی یہودیت ‪ ،‬عیسائیت‪ ،‬اور اسالم کی تعلیمات کی روشنی میں پیش‬
‫کرتے ہیں۔‬
‫فلسفۂ اخالق کا لغوی و اصطالحی مفہوم‬
‫اور خلق کی جمع ہے۔‬
‫اخالق کا مادہ ’’خ ل ق ‘‘ہے۔ یہ عربی زبان کا مذکر اسم ہے ُ‬
‫اس کی لغوی معنی طبعی خصلتوں جیسے طبیعت‪ ،‬مروت اور عادت کی ہے۔ اسی‬
‫ت عملیہ کی ایک ایسی قسم ہے جسے عربی زبان‬‫طرح ’’علم االخالق‘‘ سے مراد حکم ِ‬
‫فرہنگ‬
‫ِ‬ ‫ت ُخلقیہ‘‘ کہتے ہیناسی طرح فارسی کی مشہور اور معروف لغت ’’‬
‫میں ’’ حکم ِ‬
‫عمید‘‘ میں اخالق کا مفہوم ’’خوے ہا‘‘ جمع خلق درج ہے‪)۲( .‬‬
‫فرہنگ آصفیہ کے مطابق اخالق سے مرا انسان کی عادتیں ‪ ،‬خصلتیں‪ ،‬خوش خوئی‪،‬‬ ‫ِ‬
‫ملنساری‪ ،‬کشادہ پیشانی سے ملنا‪ ،‬خاطر مدارات وغیرہ ہیں اور ساتھ ساتھ وہ علم ہے‬
‫ب نفس‪ ،‬سیاست اور مدن وغیرہ کی بحث ہو۔(‪)۳‬‬ ‫جس میں معا دو معاش تہذی ِ‬
‫‪ (Encyclopaedia‬میں )‪Ethics‬کی تفصیل اس طرح بیان ہے‪) :‬‬
‫انسائیکوپیڈیا امریکن )‪American‬‬
‫‪"Ethics is the branch of philosophy in which men attempt to‬‬
‫‪evaluate and decide upon particular cause of moral action or‬‬
‫)‪general theories of conduct"(۴‬‬
‫"دی آکسفورڈ انگریزی ڈکشنری میں اخالق کا مفہوم کچھ ان الفاظ میں بیان ہوا ہے‪":‬‬
‫‪"The science of moral; the department of study concerned with‬‬
‫)‪the principles of human duty."(۵‬‬
‫بہرحال یہ بات واضع ہے کہ اخالقی احکامات اور تعلیمات کو مختلف پیشوں ‪ ،‬مذاہب‬
‫دستور حیات میں صواب‪ ،‬ناصواب ‪ ،‬خیروشر اور فضیلت و غیر فضیلت جیسے‬ ‫ِ‬ ‫اور‬
‫تصورات میں تقسیم کرنے سے اس کا دائرۂ عمل پوری انسانی زندگی اور معاشرے‬
‫تک بڑھا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کی کسی ایک تعریف اور توجیہہ پر متفق‬
‫ہونا مشکل امرہے‬
‫مندرجہ باال لغوی مطالب کی رو سے یہ بات واضع ہوتی ہے کہ ’’اخالق ‘‘سے مراد‬
‫ایسے سنہرے اصول ہیں جو ہمیں خیرو شر‪ ,‬نیکی و بدی کو پہچاننے میں مدد دیتے‬
‫ہیں اور اخالقی رویوں اور عادات و خصائل کا مجموعہ ہی دراصل فلسفۂ اخالق کے‬
‫دائرۂ بحث میں آتا ہے۔ فلسفۂ اخالق انسانی اعمال اور رویوں کا تجزیہ کرتا ہے کہ اس‬
‫میں کیا ہونا چاہیے؟ کیسا ہونا چاہیے ؟ اور کیوں ہونا چاہیے؟ جیسے سواالت کے‬
‫جوابات تالش کیے جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اخالقی احکامات انفرادی اور اجتماعی‬
‫رویوں کو ایک طرف تو معاشرتی اداروں کے تابع رکھتے ہیں اور دوسری طرف‬
‫مذہبی اور وجدانی تصورات کی روشنی میں انسانی کردار و عمل کو ایسی سمت عطا‬
‫کرتے ہیں جو ’’ابدی مسرت‘‘کی منزل پر منتج ہوتی ہے۔ گویا فلسفۂ اخالق حقائق کے‬
‫ت‬‫بجائے ان کی قدر و قیمت اور ان کے متفقہ معیارات سے بحث کرتا ہے اور خواہشا ِ‬
‫نفسانی کو ایک ترتیب اور توازن عطا کرتا ہے۔‬
‫پروفیسر بختیار حسین صدیقی نے فلسفہ اخالق کی وضاحت کچھ ان الفاظ میں کی ہیں‪:‬‬
‫’’جب خواہشات عقل کی اطاعت کی عادی ہو جاتی ہیں تو اس سے وہ ناقاب ِل تسخیر‬
‫قوت پیدا ہوتی ہے جسے ہم اخالقی قوت کہتے ہیں۔ یہ قوت جتنی قوی ہوگی‪ ،‬اتنی ہی‬
‫پختہ انسان کی سیرت اور اتنی ہی محکم اس کی شخصیت ہوگی۔ یہی وہ قوت ہے جو‬
‫انسان کی مختلف اور متصادم خواہشات کو ایک اصول واحد کے تحت منظم کر کے‬
‫اسے پُرسکون ‪ ،‬پُروقار اور باعزت زندگی کی مسرتوں سے ہمکنار کرتی ہے۔‘‘(‪)۶‬‬
‫انسانی فرائض و زمہ داریوں کے اصولوں کا علم اخالق کے فلسفے کا ایک اہم‬
‫نظام اخالق میں مباحث ملتے‬ ‫ِ‬ ‫موضوع ہے۔ اوامر و نواہی کی صورت میں ہر عمل پر‬
‫ہیں۔ دنیامیں مختلف مذاہب اور تہذیبوں میں فلسفۂ اخالق کی مختلف تعبیر یں کی گئی‬
‫ہیں لیکن ایک امر خصوصی طور پر توجہ طلب ہے کہ بنیادی انسانی رویوں‪،‬‬
‫میالنات‪ ،‬رجحانات اور کردار و اطوار میں مسلمہ آفاقی سچائیوں کو تقریبا ً ہر مذہب‬
‫میں یکساں اہمیت حاصل ہے۔ ابتدائی انسان کسی مافوق الفطرت قوت کے شعور سے‬
‫مظاہر‬
‫ِ‬ ‫زیادہ کائنات کو ایک وحدت تصور کرتا تھا یہاں تک کہ دیوی‪ ،‬دیوتاؤں کو بھی‬
‫قدرت کی شخصی تشکیل ہی سمجھتا تھا۔وادئ دجلہ و فرات‪ ،‬وادئ سندھ‪ ،‬مصر‪،‬‬
‫اناطولیہ‪ ،‬یونان‪ ،‬شام و فلسطین اور ایران کی پرانی قومیں بھی تخلیق کی قائل تھیں‬
‫لیکن یہ تخلیق کو ایک مسلسل عمل سے تعبیر کرتے تھے۔ ان کے ہاں خیر وشر کے‬
‫تصورات بھی پائے جاتے تھے۔‬
‫سامی مذاہب‬
‫سامی مذاہب میں یہودیت‪ ،‬عیسائیت اور اسالم شامل ہیں۔ان تینوں الہامی مذاہب میں‬
‫فلسفۂ اخالق کی جو روایت موجود ہے اس کا مختصر جائزہ پیش خدمت ہے۔‬
‫یہودیت کا فلسفۂ اخالق‬
‫یہودیت مذہب کے عقائد رکھنے والے یہودی سامی النسل تھے ‪ ،‬صحرائے عرب کے‬
‫شمال میں ان کا آبائی وطن تھا جہاں وہ صدیوں تک آباد تھے اور خانہ بدوشی کی‬
‫زندگی بسر کرتے رہے۔یہ مظاہر پرست تھے اور رفتہ رفتہ کثرت پرست اور بعد ازاں‬
‫وحدت پرست ہو گئے۔ عہد نامہ عتیق یہودیت مذہب کا مرکزی ماخذ ہے ۔ اس کی‬
‫تعلیمات کا ماخذ توریت ہے۔عہد نامہ عتیق علمائے یہود کی تالیف کردہ ہے۔ توریت‬
‫بنیادی طور پر اخالقی قصوں اور کہانیوں پر مشتمل ہے جس کا مقصد انسان کی فالح‬
‫موسی علیہ السالم پر نازل ہوئی اور‬
‫ٰ‬ ‫اور اسے سیدھا راستہ دکھانا ہے۔ توریت حضرت‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫انہیں کے دور میں یہودیت نے باقاعدہ مذہب کی شکل اختیار کی۔ جب حضرت‬
‫فرعون مصر کی غالمی سے نجات دال کر انہیں‬
‫ِ‬ ‫علیہ السالم نے عبرانی قوم کو‬
‫فلسطین میں آباد کیا تو پھر ہللا کی طرف سے ایک اخالقی ضابطہ نازل ہوا جس کی‬
‫پابندی ہر یہودی کے لیے الزم قرار پائی۔ یہ ضابطہ دس فرامین یا دس نکات کہالتے‬
‫ہیں جودرج ذیل ہیں‪:‬‬
‫’’‪ -1‬خدا ایک ہے اسی نے تمہیں مصر کی غالمی سے نجات دالئی اور وہ تہس ہوا۔‬
‫‪ - 2‬میرے سوا کسی کو خدا نہ سمجھنا اور نہ اس کی عبادت کرنا‪،‬‬
‫‪3‬۔اپنے خدا کو یاد کرتے رہو کیونکہ اس سے گناہ کم ہوتے ہیں‪،‬‬
‫‪ -4‬ہفتے کے سات دنوں میں سبت کو پاک قرار دیا گیا ہے۔ چھ دن تمہارے ہیں‪ ،‬اس‬
‫میں کام کرو اور ساتواں دن ہللا کا ہے اس میں کام نہ کرو اور اپنے رب کو یاد کرو‪،‬‬
‫‪5‬۔اپنے ماں باپ کی عزت کرو تاکہ ہللا تمہاری بھی عمر دراز کرے‪،‬‬
‫‪ - 6‬خونخوں ریزی سے گریز کرنا ‪،‬‬
‫‪7،‬۔زنا حرام ہے‬
‫‪ 8‬۔ کسی دوسرے فرد کا مال چوری نہ کرنا‪،‬‬
‫‪ 9‬۔ اپنے ہمساے کے خالف جھوٹی گواہی نہ دینا‪،‬‬
‫‪10‬۔اپنے پڑوسی کے مال‪ ،‬عزت یا کسی اور چیز پر اللچ کی نگاہ نہ ڈالنا۔‘‘(‪)۷‬‬
‫اعلی ترین صفات کی حامل ہستی کا ہے اور انسان‬ ‫ٰ‬ ‫یہودیت میں خدا کی ذات کا تصور‬
‫روحانی اور جسمانی ہر دو اعتبار سے خدا کے احکامات پر چلنے کا پابند ہے۔ انسان‬
‫کے لیے یہ ضروری خیال کیا جاتا ہے کہ وہ نیکی ‪ ،‬انصاف اور بھالئی کے کام‬
‫کرے‪ ،‬اپنے اندر اچھی اور نیک صفات پیدا کرے‪ ،‬بُرے کاموں سے گریز اور اجتناب‬
‫کرے اور اپنی زندگی کو دوسروں کی بھالئی اور فائدے کے لیے کام میں الئے۔‬
‫یہودیوں میں خیر و شر‪ ،‬نیکی اور بدی کا باقاعدہ نظام موجود ہے اور جزا و سزا کا‬
‫تصور بھی پایا جاتا ہے۔یہودیت میں اس بات کو تسلیم کیا گیا ہے کہ انسان میں خیر و‬
‫شر خلقی طور پر موجود ہے۔ صرف خدا کی ذات ہے جو شر سے پاک ہے۔ انسان‬
‫اپنی فطرت کے باعث گناہ اور شر کی طرف راغب ہوتا ہے۔ گناہ کرنے سے خدا اور‬
‫انسان کے درمیان تعلق کمزور پڑ جاتا ہے۔ خدا اپنے بندوں کی دعائیں سنتا اور قبول‬
‫کرتا ہے۔ گناہگار اگر اپنی بخشش کے لیے خدا سے رجوع کریں تو ان کے گناہ معاف‬
‫کر دیے جاتے ہیں۔(‪)۸‬‬
‫اعلی انسانی اقدار اور مذہبی تعلیمات تو موجود ہیں لیکن یہ‬
‫ٰ‬ ‫مختصر یہ کہ یہودیت میں‬
‫اور بات ہے کہ ان پر عمل نہ ہو۔ یہودیت کے مطابق زندگی اخالقی تگ و دو کا نام‬
‫ہے اور انسان کو خدا کی الوہی سرگرمیوں میں اس کا رفیق کار بننا ہوتا ہے۔ یہودیت‬
‫کا جوہر اس آیت میں ہے‪:‬‬
‫’’تم میرے لیے پاکیزہ بنو کیونکہ میں تمہارا خداوند پاک ہوں۔‘‘(‪)۹‬‬
‫طرز عمل کی تعلیم دیتی ہے۔ اخالقی اور روحانی ذات‬
‫ِ‬ ‫یہودیت ‪ ،‬اخالقیات اور کامل‬
‫کے لیے یہودیت میں قول ہے کہ‪:‬‬
‫’’پہلے خود کو اور پھر دوسروں کو خوبصورتی دو۔‘‘‬

‫عیسائیت کا فلسفۂ اخالق‬


‫عیسائیت ایک آسمانی اور الہامی مذہب ہے۔ حضرت عیسٰ ی علیہ السالم کے پیروکار‬
‫وں کو عیسائی کہتے پیں۔عیسائیت میں انسانی نجات کے لیے عبادات و معامالت کا‬
‫عیسی علیہ السالم سے متعلق عیسائیوں کا یہ خیال ہے‬
‫ٰ‬ ‫پورا نظام موجود ہے۔ حضرت‬
‫مسیح افالکی باپ کی تجسیم اور انسانیت کے نجات دہندہ‬
‫ؑ‬ ‫عیسی‬
‫ٰ‬ ‫کہ حضرت‬
‫ترک دنیا‪ ،‬تزکیۂ نفس‪ ،‬ہمہ‬
‫ِ‬ ‫عیسی ٰ کی تعلیمات میں خیرات‪ ،‬نفس کشی‪،‬‬
‫ؑ‬ ‫ہیں۔حضرت‬
‫گیر محبت اور خدا پر یقین کا بیج بویا گیا ہے۔ وہ پاکیزگی اور سچائی کی تبلیغ کرتے‬
‫تھے۔‬
‫عیسی ٰ کی اخالقی تعلیمات کے بارے میں ڈاکٹر ظہیر احمد صدیقی کا کہنا‬
‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫عیسی ٰ نے کوئی باقاعدہ ضابطۂ اخالق نہیں دیا تھا۔ ان کی اپنی کوئی‬
‫ؑ‬ ‫ہے کہ "حضرت‬
‫تحریر بھی نہیں۔ ان کے اخالقی اقوال و نظریات ان کے بعد لکھے گئے۔ عیسائیت نے‬
‫بیشتر اخالقی تصورات یہودیت سے وراثت میں لیے ہیں۔عیسائیت میں اخالق کی بنیاد‬
‫دو نظریات ہیں‪ :‬ایک تمام بنی نوع انسان سے محبت ۔دوسرا کفارے کا تصور یعنی‬
‫انسان کی پیدائش ہی گناہ کا نتیجہ ہے اور یوں اس کی تمام تر زندگی گناہ ہے یا گنا ِہ‬
‫عیسی ٰ اپنی جان دے کر ادا کریں گے۔"(‪)۱۰‬‬
‫ؑ‬ ‫عظیم ہے جس کا کفارہ حضرت‬
‫عیسی ٰ کی تعلیمات یہودیت کی تکمیل ہیں اور انہوں نے عیسائی اخالقیات کی‬
‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫تعریف اور دائرۂ کار میں مندرجہ ذیل امور بیان کیے ہیں‪:‬‬

‫‪"Christian Ethics, analytically defined, is the science which‬‬


‫)‪deals with (1) what the Christian man (individual and social‬‬
‫‪should desire and what he should avoid. (2) What he ought and‬‬
‫‪ought not to do (duty.) and (3) what moral power is necessary‬‬
‫(‪to obtain end and accomplish duty (virtue)."(۱۱‬‬
‫عیسائی مذہب میں اخالقیات کی بنیاد ان اوامر و نواہی‪ ،‬فرائض اور فضائل کے مختلف‬
‫حوالوں سے مستحکم اور پائیدارہوتی ہے‪،‬جس میں سب سے بڑا اور موثرذریعہ بائبل‬
‫عیسی علیہ السالم نے خدا کی‬
‫ٰ‬ ‫ہے جو عیسائیت میں مستند سمجھا جاتا ہے۔حضرت‬
‫محبت اور اطاعت پر بہت زور دیا ہے اور اسے بنی آدم کا باپ کہا ہے۔ خدا کی محبت‬
‫اور اطاعت کو اچھوتی تماثیل اور تالزمات کے ذریعے بیان کیا ہے۔ عیسائیت کی‬
‫تعلیمات میں خدا کا تصور شخصی ہے ۔ خدا سب چیزوں کا خالقو مالک ہے۔ علت ّاول‬
‫عیسی علیہ السالم کی اخالقی‬
‫ٰ‬ ‫سے خدا کو مقدس باپ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔حضرت‬
‫تعلیمات کا نچوڑ ان کا ’’پہاڑی وعظ‘‘ ہے جس کے اہم اہم نکاتمندرجہ زیل ہیں‪:‬‬
‫’’‪.۱‬مبارک ہیں وہ جو غریب ہیں‪ ،‬کیونکہ ان کے لیے آسمان کی بادشاہت ہے‪،‬‬
‫‪۲‬۔ مبارک ہیں وہ جو دکھ سہتے ہیں کیونکہ انہیں راحت ملے گی‪،‬‬
‫‪۳‬۔مبارک ہیں وہ جو کمزور ہیں کیونکہ زمین کی میراث پائیں گے‪،‬‬
‫‪۴‬۔مبارک ہیں وہ جو سچائی کے لیے بھوکے اور پیاسے ہیں کیونکہ ان کو تسکین ملے‬
‫گی‪،‬‬
‫‪۵‬۔مبارک ہیں وہ جو دردمند ہیں کیونکہ انہیں رحم حاصل ہوگا‪،‬‬
‫‪۶‬۔مبارک ہیں وہ جن کا دل پاکیزہ ہے کیونکہ وہ خدا کو دیکھیں گے‪،‬‬
‫‪-۷‬مبارک ہیں وہ جو امن پسند ہیں کیوں کہ انہیں خدا کے بیٹے کہا جائے گا‪،‬‬
‫‪-۸‬مبارک ہیں وہ جو سچائی کی خاطر مصلوب کیے جاتے ہیں کیونکہ آسمان کی‬
‫بادشاہت ان کی ہے‪،‬‬
‫‪۹‬۔مبارک ہو تم جب آدمی تم پر میرے حوالے سے ظلم کرتے اور ہر قسم کی بری بات‬
‫کہتے ہیں‪،‬‬
‫‪-۱۰‬خوش اور مسرور رہو کیونکہ آسمان میں تمہارا انعام بہت عظیم ہے کیونکہ‬
‫آدمیوں نے تم سے پہلے آنے والے نبیوں کو بھی قتل کیا۔‘‘(‪)۱۲‬‬
‫عیسی ٰ کی تعلیمات میں بندوں کے درمیان برادرانہ تعلق اور رواداری پر بہت‬
‫ؑ‬ ‫حضرت‬
‫عیسی ٰ نے جن خوبیوں کو خصوصی اہمیت‬ ‫ؑ‬ ‫زور دیا گیا ہے ۔ اس ضمن میں حضرت‬
‫دی ہے ان میں عدل ‪ ،‬مساوات ‪ ،‬عفو و درگزر‪ ،‬عیب جوئی سے پرہیز‪ ،‬عجز و‬
‫انکساری اور اپنے دشمنوں اور برا چاہنے والوں کے ساتھ بھی نیکی کا سلوک کرنا‬
‫عیسی ٰ کی تعلیمات میں نیت اور ارادوں کو خاص‬
‫ؑ‬ ‫وغیرہ سرفہرست ہیں۔ حضرت‬
‫اہمیت حاصل ہے ۔شریر کا مقابلہ نہ کرنے اور بدلہ نہ دینے کی اہمیت کے بارے میں‬
‫انجیل متی (باب ‪، ۵‬آیات ‪۲۱،۲۲‬اور ‪ ۳۸‬تا ‪ )۴۲‬میں فرمایا گیا ہے‪:‬‬
‫’’اور تم سن چکے ہو کہ اگلوں سے کہا تھا کہ خون نہ کرنا اور جو کوئی خون کرے‬
‫گا وہ عدالت کی سزا کے الئق ہوگا اور میں تم سے کہتا ہوں کہ جو کوئی اپنے بھائی‬
‫آتش جہنم کا‬
‫کو پاگل کہے گا وہ سزا عدالت کی اور جو کوئی اسے احمق کہے گا وہ ِ‬
‫سزاوار ہوگا۔ تم سن چکے ہو کہ تم سے کہا گیا تھا کہ آنکھ کے بدلے آنکھ اور دانت‬
‫کے بدلے دانت نہیں‪ ،‬میں تم سے کہتا ہوں کہ شریر کا مقابلہ نہ کرنا بلکہ جو کوئی‬
‫تیرے داہنے گال پر طمانچہ مارے تو دوسرا بھی اس کی طرف پھیر دے اور جو‬
‫کوئی تجھے ایک کوس بیگار میں لے جائے تواس کے ساتھ دو کوس چال جا جو کوئی‬
‫تجھ سے مانگے دے دے اور جو کوئی تجھ سے قرض چاہے اس سے منہ نہ موڑ۔‬
‫‘‘(‪)۱۳‬‬
‫مختصر یہ کہ عیسائیت میں امن و آشتی‪ ،‬محبت‪ ،‬بھائی چارے اور امن و صلح کل کا‬
‫پیغام ملتا ہے اور یہی اس کے اخالقی فلسفے کے نمایاں خدو خال متعین کرتا ہے۔‬

‫اسالم کا فلسفۂ اخالق‬


‫تعالی رب العزت‬‫دین فطرت اسالم خدا کا آخری دین ہے جس کی تکمیل کے لیے ہللا ٰ‬ ‫ِ‬
‫دین اسالم ایک‬
‫نے آنحضرت محمد مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کو معبوث فرمایا۔ ِ‬
‫آفاقی اور دنیا بھر کے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ اس میں‬
‫دین کامل نے ایک‬ ‫اخالقیات کے ایسے سنہری اصول موجود ہیں جن کی بنیاد پر اس ِ‬
‫قلیل عرصے میں پوری دنیا کو متاثر اور اپنے فکری سرمائے سے فیض یاب کیا ہے۔‬
‫نظام اخالق پوری دنیا پر حاوی ہے۔ یہ اپنا مخصوص تصور کائنات ‪ ،‬معیار‬ ‫ِ‬ ‫اسالم کا‬
‫ت محرکہ رکھتا ہے۔ یہ سب مل کر اس کے فلسفۂ اخالق‬ ‫خیر و شر‪ ،‬قوت نافذہ اور قو ِ‬
‫کو ایک مکمل عملی نظام کی شکل دیتے ہیں۔ قرآن پاک میں اخالق فاضلہ کی اہمیت‬
‫پر بہت زور دیا گیا ہے۔ ارشاد ربانی ہے ‪:‬‬
‫س َھا"(‪)۱۴‬‬ ‫’’ َق ْد ا َ ْف َل َح َم ْن زَ ہک َھا َو َق ْد خ َ‬
‫َاب َم ْن َد ہ‬
‫" کامیاب ہو گیا وہ شخص جس نے اپنے نفس کو پاک کیا اور ناکام و نامراد ہو گیا وہ‬
‫شخص جس نے اپنے نفس کو گناہوں کی میل سے ملوث کیا۔"‬
‫ق حسنہ پر بہت زور دیا ہے۔ارشاد‬
‫رسو ِل کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے بھی اخال ِ‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫ق‘‘(‪)۱۵‬‬ ‫َار َم ْاالَ ْخ َال ِ‬
‫’’اِنَّ َما بُعثتُ ِالُتِ ّم َم َمک ِ‬
‫ق حسنہ کی تکمیل کروں۔"‬
‫"میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ اخال ِ‬
‫ق حسنہ پر زور‬ ‫اس لحاظ سے اگر دیکھا جائے تو دین اسالم میں سب سے زیادہ اخال ِ‬
‫ق حسنہ میں وہ تمام اعمال و افعال شامل ہیں جن کے ذریعے تمام انسان‬ ‫دیا گیاہے۔ اخال ِ‬
‫یہ کوششکرتےہیں کہ ان کے بھائی بندوں کو فائدہ پہنچے اور معاشرے میں امن و‬
‫سالمتی پیدا ہو اور معاشرہ صحیح راستے پر ترقی کرے۔ فلسفہ اخالق کو قرآن و‬
‫حدیث میں اس تواتر کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ پورا دین ٰالہیات اور اخالقیات کے‬
‫ستون پر کھڑا محسوس ہوتا ہے۔ حقوق ہللا اور حقوق العباد دونوں میں اخالقی پہلوؤں‬
‫کو مد نظر رکھا گیا ہے اور کوئی بھی اسالمی عمل اخالق سے ماورا نہیں ہے۔‬
‫انفرادی سطح سے لے کر اجتماعی سطح تک انسان کے تمام فکری مدارج میں اسالم‬
‫کا فلسفۂ اخالق ایک توانا اور صحت مند روایت کے ساتھ موجود رہتا ہے۔قرآن پاک‬
‫کے مطابق دنیا کی زندگی میں خیر و شر کی اس آزمائش میں انسان کی اعانت اور‬
‫تعالی نے ابتدا ہی سے اپنے رسولوں اور پیغمبروں کا ایک سلسلہ‬ ‫ٰ‬ ‫رہبری کے لیے خدا‬
‫قائم رکھا جو اپنی تعلیمات کے ذریعے بنی نوع انسان کے اندر ازل سے موجود الوہی‬
‫عنصر کی ہمت افزائی اور خیر و شر میں امتیاز کے لیے واضح اصول اور قوانین‬
‫پیش کرتے رہے۔ اس وجہ سے انسان کے لیے ہمیشہ یہ ممکن رہا ہے کہ وہ اپنی‬
‫تعالی کے طے کردہ‬‫ٰ‬ ‫فطرت کے صالح عنصر کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے خدا‬
‫روحانی اور اخالقی اصولوں کو قبول کر لے اور ان کو اپنی دنیوی زندگی میں مشعل‬
‫ہدایت سمجھے۔(‪)۱۶‬‬
‫صحیح مسلم میں حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا سے مروی ہے کہ‪:‬‬
‫”وہ تمام اخالق جو قرآن میں بیان کیے گئے ہیں نبی علیہ السالم کی ذات میں بدرجۂ‬
‫اتم“موجود ہیں۔ہللا کریم نے اپنے حقیقی کو جملہ کائناتوں اور عوام کے لیے بہترین‬
‫نمونہ بنایا۔‬
‫قرآن مجید سے اس کی شہادت یہ آیات دیتی ہیں‬
‫ّٰللا اُس َْوۃ َح َ‬
‫سنَۃ" (‪)۱۷‬‬ ‫س ْو ِل ہ ِ‬ ‫” لقد کَانَ لَ ُ‬
‫ک ْم فِ ْی َر ُ‬
‫ق حسنہ کے ذیل میں لکھتے ہینکہ‬ ‫گوہرملیسانی نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے اخال ِ‬
‫محسن انسانیت‪ ،‬حضرت محمدصلی ہللا علیہ‬ ‫ِ‬ ‫ق کائنات نے جس طرح اپنے پیغمبر‪،‬‬ ‫"’خال ِ‬
‫ق حسنہ کا کامل و اکمل‬ ‫وآلہ وسلمکی تزئین و آرائش فرمائی‪ ،‬اسی طرح آپ کو اخال ِ‬
‫اسری کا وہ سفر ہے جس‬ ‫ٰ‬ ‫ب‬
‫نمونہ دیا‪ ،‬آپ کی فضیلت و عظمت کا منھ بولتا ثبوت ش ِ‬
‫ت عامہ اور‬ ‫میں ایک الکھ چوبیس ہزار پیغمبر صف در صف کھڑے ہوئے اور سیاد ِ‬
‫تعالی نے سید‬
‫ٰ‬ ‫سرور کائناتصلی ہللا علیہ وسلم نے ادا کیا۔۔۔ ہللا‬
‫ِ‬ ‫عظمی کا فریضہ‬
‫ٰ‬ ‫ت‬
‫اِمام ِ‬
‫البشر صلی ہللا علیہ وسلم کو جہاں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کا فریضہ انجام‬
‫دینے کے لیے تیار کیا‪ ،‬بنی نوع انسان کو دنیوی اور اُخروی فالح سے ہم کنار کرنے‬
‫ق حمیدہ کی تمام خصوصیات کا‬ ‫اوصاف جمیلہ سے نوازا‪ ،‬وہاں آپ کو اخال ِ‬
‫ِ‬ ‫کے لیے‬
‫حامل بھیبنایا۔"(‪)۱۸‬‬
‫المختصر یہ کہ اسالمی فلسفۂ اخالق کی بنیاد دین و دنیا کی خیر‪ ،‬سعادت اور نیکی پر‬
‫ق اسالم کو‬
‫مستحکم ہوتی ہے۔ تمام مسلم مفکرین نے اسالمی روح کے ساتھ اخال ِ‬
‫تشکیل دینے میں قرآن و حدیث کے مسلمہ اصولوں کی پاسداری کی ہے اور یونانی‬
‫فالسفہ کی تعلیمات میں اسالمی روح کو تالش کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہرحال‬
‫اسالمی تعلیمات‪،‬قوانین اور اخالقیات کا اصل منبع قرآن و حدیث ہی ہے اور اس سے‬
‫تمام علوم کے سوتے پھوٹتے ہیں۔‬

‫حوالہ جات‬
‫‪-۱‬قرآن مجید‪ ،‬سورۃ قلم‪ ،‬آیت نمبر ‪۴‬‬
‫‪ -۲‬فرہنگ عمید‪ ،‬تہران‪:‬کتاب خانہ ابن سینا‪1337،‬عیسوی‪،‬ص‪118‬‬
‫فرہنگ آصفیہ‪ ،‬جلد اول‪ ،‬الہور ‪:‬مرکزی اُردو بورڈ‪۱۹۷۷ ،‬ء ص‪۲۸‬۔‪۱۲۷‬‬
‫ِ‬ ‫‪-۳‬‬
‫‪P186,Encyclopedia Americana USA 1986-۴‬‬
‫‪-۵‬۔ ‪The Oxford English Dictionary, Vol III, Oxford at the‬‬
‫‪Clarendon Press, 1978, P 312‬‬
‫‪ -۶‬بختیارحسین صدیقی‪،‬دیباچہ‪ :‬فلسفۂ اخالق(چندمغربی مفکرین کے نظریات) ڈاکٹرا‬
‫سنگ میل پبلی کیشنز‪۱۹۸۹ ،‬ء‪ ،‬ص‪۱۱،۱۰‬‬ ‫ِ‬ ‫بصاراحمد ‪ ،‬الہور‪:‬‬
‫ب عالم کی نظر میں‪ ،‬ص ‪۳۱‬۔‪۳۰‬‬
‫‪ -۷‬گھئی‪،‬او۔پی‪،‬اخالقیات مذاہ ِ‬
‫ب عالم کی نظر میں‪ ،‬ص ‪۳۲‬‬
‫‪ -۸‬گھئی‪،‬او۔پی‪،‬اخالقیات مذاہ ِ‬
‫‪ -۹‬امولیہ رنجن۔مہاپتر‪،‬فلسفۂ مذاہب‪،‬ص ‪۱۷۶‬‬
‫‪ -۱۰‬ظہیراحمدصدیقی‪،‬ڈاکٹر‪،‬اخالقیات ایرانی ادبیات میں‪،‬ص ‪۸۰‬۔‪۷۹‬‬
‫‪Encyclopaedia of Ethics and Religion, P 469 -۱۱‬‬
‫‪ -۱۲‬متی درانجیل مقدس۔نیاعہد نامہ‪،‬الہور‪:‬برٹش اینڈ فارن سوسائٹی‪ ،‬باب ‪ ،۵‬ص ‪۲۱۰‬‬
‫ب عالم کا تقابلی مطالعہ‪ ،‬ص ‪۴۳۴‬‬
‫‪ -۱۳‬غالم رسول‪،‬چودھری ‪،‬مذاہ ِ‬
‫‪ -۱۴‬قرآن حکیم‪ ،‬سورہ الشمس‪ ،‬آیت نمبر ‪۱۰‬۔‪۹‬‬
‫‪ -۱۵‬کنزاالعمال‪ ،‬جلد ‪،۲‬ص ‪۵‬‬
‫‪ -۱۶‬عمادالحسن فاروقی۔دُنیا کے بڑے مذاہب‪،‬ص ‪۳۳۷‬‬
‫‪ -۱۷‬قرآن مجید‪ ،‬سورہ احزاب‪ ،‬آیت نمبر‪۲۱‬‬
‫محسن انسانیت صلی ہللا علیہ وسلم نعت کے آئینے میں‪،‬‬
‫ِ‬ ‫ق‬
‫‪ -۱۸‬گوہر ملیسانی‪ ،‬اخال ِ‬
‫مشمولہ‪ :‬نعت رنگ‪ ،‬کتابی سلسلہ‪ ،‬کراچی‪( ،‬مدیر‪ :‬سید صبیح الدین رحمانی)‪ ،‬شمارہ‬
‫نمبر ‪ ،۲۰‬اگست ‪۲۰۰۸‬ء‪ ،‬ص‪۵۳‬۔‪۵۲‬‬

You might also like