Professional Documents
Culture Documents
ختم نبوت کورس
ختم نبوت کورس
ختم نبوت کورس
ّللاُ ِب ُک ِل
ّللا َو خَات َ َم النَّ ِب ّٖینَ ۡ َو کَانَ ّٰ کمۡ َو ٰل ِکنۡ َّر ُ
سوۡ َل ّٰ ِ َما کَانَ ُم َح َّمد اَبَا ا َ َحد ِمنۡ ِر َجا ِل ُ
ع ِلیۡ ًما ۔ شَیۡء َ
محمدﷺ تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ،لیکن وہ ہللا کے رسول ہیں ،اور (
) تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ،اور ہللا ہر بات کو خوب جاننے واال ہے
عرب معاشرے میں یہ قبیح رسم موجود تھی کہ وہ لےپالک بیٹے کو حقیقی بیٹا سمجھتے
تھے اور اس لےپالک کو تمام احوال و احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی سمجھتے تھے اور
مرنے کے بعد وراثت،حلت و حرمت ،رشتہ ناطہ وغیرہ تمام احکام میں بھی حقیقی بیٹا ہی
تصور کرتے تھے ۔
جس طرح نسبی بیٹے کے مرجانے یا طالق دینے کے بعد باپ کے لئے حقیقی بیٹے کی
بیوی سے نکاح حرام ہے اسی طرح وہ لےپالک بیٹے کی طالق یافتہ یا بیوہ بیوی سے
نکاح کو حرام سمجھتے تھے ۔
حضرت زید ؓ بن حارث کی اپنی بیوی حضرت زینب ؓ سے ناچاتی ہوگئی اور انہوں نے
حضرت زینب ؓ کو طالق دے دی ۔
تو ہللا ٰ
تعالی نے حضورﷺ کو حکم فرمایا کہ آپ حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیں۔ تاکہ اس
قبیح رسم کا مکمل طور پر خاتمہ ہوجائے۔
جب حضور ﷺ نے حضرت زینب ؓ سے نکاح فرمالیا تو مشرکین نے اعتراض شروع کر
دیا کہ آپ نے اپنے بیٹے کی بیوی سے نکاح کرلیا ہے۔
ان کا اولین اعتراض یہ تھا کہ آپﷺ نے اپنی بہو سے نکاح کیا ہے حاالنکہ آپﷺ کی اپنی
شریعت میں بھی بیٹے کی منکوحہ باپ پر حرام ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا کہ
محمد ﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ،یعنی جس شخص کی مطلقہ
سے نکاح کیا گیا ہے وہ بیٹا تھا کب کہ اس کی مطلقہ سے نکاح حرام ہوتا ؟ تم لوگ تو خود
جانتے ہو کہ محمدﷺ کا سرے سے کوئی بیٹا ہے ہی نہیں ۔
ان کا دوسرا اعتراض یہ تھا کہ اچھا ،اگر منہ بوال بیٹا حقیقی بیٹا نہیں ہے تب بھی اس کی
چھوڑی ہوئی عورت سے نکاح کر لینا زیادہ سے زیادہ بس جائز ہی ہو سکتا تھا ،آخر اس
کا کرنا کیا ضرور تھا ۔ اس کے جواب میں فرمایا گیا مگر وہ ہللا کے رسولﷺ ہیں ،یعنی
رسول ہونے کی حیثیت سے ان پر یہ فرض عائد ہوتا تھا کہ جس حالل چیز کو تمہاری
رسموں نے خواہ مخواہ حرام کر رکھا ہے اس کے بارے میں تمام تعصبات کا خاتمہ کر
دیں اور اس کی حلت کے معاملے میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہنے دیں ۔
پھر مزید تاکید کے لیے فرمایا اور وہ خاتم النبیین ہیں ،یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو
درکنار کوئی نبی تک آنے واال نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصالح ان
کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے واال نبی یہ کسر پوری کر دے ،
ٰلہذا یہ اور بھی ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں ۔
اس کے بعد مزید زور دیتے ہوئے فرمایا گیا کہ ہللا ہر چیز کا علم رکھنے واال ہے یعنی ہللا
کو معلوم ہے کہ اس وقت محمد ﷺ کے ہاتھوں اس رسم جاہلیت کو ختم کرا دینا کیوں
ضروری تھا اور ایسا نہ کرنے میں کیا قباحت تھی ۔
وہ جانتا ہے کہ اب اس کی طرف سے کوئی نبی آنے واال نہیں ہے ٰلہذا اگر اپنے آخری نبی
کے ذریعہ سے اس نے اس رسم کا خاتمہ اب نہ کرایا تو پھر کوئی دوسری ہستی دنیا میں
ایسی نہ ہو گی جس کے توڑنے سے یہ تمام دنیا کے مسلمانوں میں ہمیشہ کے لیے ٹوٹ
جائے ۔ بعد کے مصلحین اگر اسے توڑیں گے بھی تو ان میں سے کسی کا فعل بھی اپنے
پیچھے ایسا دائمی اور عالمگیر اقتدار نہ رکھے گا کہ ہر ملک اور ہر زمانے میں لوگ اس
کا اتباع کرنے لگیں ،اور ان میں سے کسی کی شخصیت بھی اپنے اندر اس تقدس کی
حامل نہ ہو گی کہ کسی فعل کا محض اس کی سنت ہونا ہی لوگوں کے دلوں سے کراہیت
کے ہر تصور کا قلع قمع کر دے ۔
۔2
کمۡ َّمنۡ اِلہٰ ُ ٰ
علی قُلوۡ ِب ُ ار ُکمۡ َو َخت َ َم َ
ص َکمۡ َو اَبۡ َ
سمۡ َع ُ قُلۡ ا َ َر َءیۡتُمۡ اِنۡ اَ َخذَ ّٰ
ّللاُ َ
ف الۡ ٰا ٰی ِ
ت ث ُ َّم ہ ُمۡ یَصۡ ِدفُوۡنَ ۔ ف نُ َ
ص ِر ُ ظرۡ کَیۡ َ ّللاِ یَاۡ ِتیۡ ُکمۡ بِ ّٖہ ۡ اُنۡ ُ
غَیۡ ُر ّٰ
اے پیغمبر ! ان سے ) کہو :ذرا مجھے بتاؤ کہ اگر ہللا تمہاری سننے کی طاقت اور (
تمہاری آنکھیں تم سے چھین لے اور تمہارے دلوں پر مہر لگا دے ،تو ہللا کے سوا کونسا
معبود ہے جو یہ چیزیں تمہیں الکر دیدے؟ دیکھو ہم کیسے کیسے مختلف طریقوں سے
دالئل بیان کرتے ہیں ،پھر بھی یہ لوگ منہ پھیر لیتے ہیں ۔
پھر کیا تم نے اسے بھی دیکھا جس نے اپنا خدا اپنی نفسانی خواہش کو بنا لیا ہے ،اور علم
کے باوجود ہللا نے اسے گمراہی میں ڈال دیا ،اور اس کے کان اور دل پر مہر لگا دی ،
اور اس کی آنکھ پر پردہ ڈال دیا ۔ اب ہللا کے بعد کون ہے جو اسے راستے پر الئے؟ کیا
پھر بھی تم لوگ سبق نہیں لیتے؟
۔4
ٰ
علی اَفۡ َواہ ِ ِہمۡ َو تُک َِل ُمنَا اَیۡدِیۡہِمۡ َو تَشۡہَد ُ اَرۡ ُجلُ ُہمۡ ِب َما کَانُوۡا اَلۡ َیوۡ َم نَخۡ ِت ُم َ
یَکۡ ِسبُوۡنَ ۔
۔5
ّللاُ ع ٰلی قَلۡبِ َ
ک ۡ َو یَمۡ ُح ّٰ ش ِا ّٰ
ّللاُ یَخۡتِمۡ َ علَی ّٰ
ّللاِ َک ِذبًا ۡ فَاِنۡ یَّ َ اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡت َ ٰری َ
صد ُوۡ ِر ۔ ع ِلیۡمۡ ِبذَا ِ
ت ال ُّ اط َل َو ی ُِح ُّق الۡ َح َّق ِب َکلِمٰ ِت ّٖہ ۡ ِانَّہ َ
الۡ َب ِ
بھال کیا یہ لوگ یوں کہتے ہیں کہ اس شخص نے یہ کالم خود گھڑ کر جھوٹ موٹ ہللا کے
ذمے لگا دیا ہے ؟ حاالنکہ اگر ہللا چاہے تو تمہارے دل پر مہر لگا دے ،اور ہللا تو باطل
کو مٹاتا ہے ،اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعے ثابت کرتا ہے ،یقینا وہ سینوں میں
چھپی ہوئی باتوں تک کو جانتا ہے ۔
۔6
۔7
ک فَلۡ َیتَنَافَ ِس الۡ ُمتَنَافِ ُ
سوۡنَ ۔ ٰ
ِخ ٰت ُمہ ِمسۡک ۡ َو فِیۡ ذ ِل َ
اس کی مہر بھی مشک ہی مشک ہوگی ۔ اور یہی وہ چیز ہے جس پر للچانے والوں کو بڑھ
چڑھ کر للچانا چاہیے ۔
ان سات جگہ پر معنی میں قدر مشترک یہ ہے کہ اس کا معنی یہ کیا جاتا ہے کہ کسی چیز
کو اس طرح بند کرنا کہ اندر والی چیز باہر نہ جاسکے اور باہر والی اندر نہ جاسکے۔
مثال "ختم ہللا علی قلوبھم" اس کا مطلب یہ ہے کہ کفار کے دلوں پر ہللا نے مہر لگادی ہے۔
اب ایمان ان کے دل میں داخل نہیں ہوسکتا اور کفر ان کے دل سے باہر نہیں جاسکتا۔
اسی طرح ہماری زیر بحث آیت میں بھی "خاتم النبیین" کا مطلب یہ ہے کہ دائرہ نبوت میں
جتنے نبی آنے تھے وہ آچکے ۔ اب دائرہ نبوت میں نیا نبی نہیں آسکتا۔ اسی طرح دائرہ
نبوت سے کوئی نبی باہر نہیں جاسکتا ۔
ان روایات سے پتہ چال کہ حضور ﷺنے خود ہی خاتم النبیین کی تشریح فرمادی کہ میرے
اوپر رسالت اور نبوت منقطع ہوچکی ہے اور میرے بعد نہ کوئی نیا نبی آئے گا اور نہ
کوئی نیا رسول آئے گا ۔ یعنی نبیوں کی تعداد حضور ﷺ کے تشریف النے سے مکمل
ہوچکی ہے۔
تفسیر در منثور میں امام ابن جریر نے حضرت ابوسعید خدری ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے
جس میں حضرت ابوسعید خدری ؓ فرماتے ہیں کہ
حضورﷺ نے فرمایا
".مثلی و مثل النبیین کمثل رجل بنی دارا فأتمھا إال لبنة واحدۃ ،فجئت انا فأتممت تلک اللبنة"
حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء "
کی مثال ایسے ہے۔ جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ مگر ایک اینٹ کی
"جگہ چھوڑ دے۔ میں آیا تو اس اینٹ کو مکمل کردیا۔
درمنثور (عربی)جلد 12صفحہ 63تفسیر در آیت نمبر 40سورۃ اْلحزاب طبع مصر (
)2003ء
درمنثور (اردو)جلد 5صفحہ 577تفسیر در آیت نمبر 40سورۃ اْلحزاب طبع ضیاء (
)القرآن پبلیکیشنز 2006ء
تفسیر در منثور میں امام ابن جریر نے حضرت جابر ؓ کی ایک روایت نقل کی ہے جس میں
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ
حضورﷺ نے فرمایا
حضرت جابر ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا کہ میری اور انبیاء کی مثال "
ایسے آدمی جیسی ہے۔جو گھر بنائے جیسے ایک آدمی گھر بنائے اسے مکمل کردے۔ اور
اسے اچھا بنائے۔ مگر ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دے۔ جو بھی اس گھر میں داخل ہو اسے
دیکھے تو کہے کہ کتنا اچھا ہے مگر ایک اینٹ کی جگہ ،میں اس اینٹ کی جگہ ہوں۔ مجھ
"پر انبیاء کو ختم کیا گیا۔
درمنثور (عربی)جلد 12صفحہ 63تفسیر در آیت نمبر 40سورۃ اْلحزاب طبع مصر (
)2003ء
درمنثور (اردو)جلد 5صفحہ 577تفسیر در آیت نمبر 40سورۃ اْلحزاب طبع ضیاء (
)القرآن پبلیکیشنز 2006ء
صحابہ کرام ؓ کی خاتم النبیین کی تفسیر سے بھی پتہ چال کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے
تشریف النے سے مکمل ہوچکی ہے۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
امام راغب اصفہانی کی لغات القرآن کی کتاب مفردات القرآن کی تعریف امام سیوطی رح
نے کی ہے۔ اور امام سیوطی رح قادیانیوں کے نزدیک مجدد بھی ہیں۔ لہذا یہ کتاب
قادیانیوں کے نزدیک بھی معتبر ہے۔ امام راغب لکھتے ہیں۔
لسان العرب عربی لغت کی مشہور و معروف کتاب ہے۔یہ کتاب عرب و عجم میں مستند
سمجھی جاتی ہے۔اس میں خاتم النبیین کے بارے میں یوں لکھا گیا ہے۔
خاتمھم و خاتمھم آخرھم عن اللحیانی و محمد صلی ہللا علیہ وسلم خاتم االنبیاء علیہ وعلیھم "
" الصلوۃ والسالم
خاتم القوم زیر کے ساتھ اور خاتم القوم زبر کے ساتھ ،اس کے معنی آخرالقوم ہیں ۔ اور "
"انہیں معانی پر لحیانی سے نقل کیا جاتا ہے۔ محمدﷺ خاتم االنبیاء ہیں یعنی آخری نبی ہیں
یہ تو صرف لغت کی 2کتابوں کا حوالہ دیا گیا ہے جبکہ لغت کی تقریبا تمام کتابوں میں
خاتم النبیین کا یہی مفہوم بیان کیا گیا ہے۔
لیجئے لغت سے بھی خاتم النبیین کا یہی مطلب ثابت ہوا کہ حضورﷺ کے تشریف النے
سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوگئی ہے اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
کوئی ثابت نہیں کر سکتا کہ لفظ " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہو اور وہاں "
اس کا معنی
" آخری " آیا ہو ،یہ چیلنج سو سال سے دیا جارہا ہے لیکن کوئی اس کو توڑ نہیں سکا "
" خاتم الخلفاء یعنی ایسا خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے واال ہے۔"
) چشمہ معرفت صفحہ 318مندرجہ روحانی خزائن جلد 23صفحہ (333
یہاں " خاتم " کی اضافت " جمع " کی طرف ہے اور مرزا صاحب نے اسکا ترجمہ کیا ہے
" آخری خلیفہ " واضح رہے یہ کتاب مرزا صاحب کی زندگی کی آخری کتابوں میں سے
ہے۔
ہم نے مرزا جی کی تحریروں سے نہیں پوچھا ،ہم نے لغت کی کتابوں اور عرب "
"محاوارات سے پوچھا ہے اس لئے ہمارے سامنے مرزا جی کی تحریریں نہ پیش کریں۔
آپ کی تسلی کے لئے لغت سے بھی ثابت کر دیتے ہیں ،غور سے پڑھیے گا۔
خاتم کا مطلب ہوتا ہے قوم کا آخری آدمی (یعنی جب خاتم القوم بوال جائے ) اور اسی سے
ہللا کا یہ فرمان ہے کہ وخاتم النبیین جسکا مطلب ہے آخری نبی۔
جب ختام القوم یا خاتَم القوم یا خاتِم القوم بوال جائے تو اسکا معنی ہوتا ہے قوم کا آخری
آدمی
پھر آگے لکھا ہے " ولکن رسول ہللا وخاتم النبیین أی آخرھم " خاتم النبیین کا مطلب ہے
آخری نبی۔
ہمارے نبی کریمﷺ کا نام خاتم االنبیاء رکھا گیا ،کیونکہ خاتم کسی بھی قوم کے آخری فرد
کو کہتے ہیں۔
قوم " واحد نہیں بلکہ " اسم جمع " ہے ،قوم ایک آدمی کو نہیں کہتے بلکہ بہت سے "
افراد کے مجموعے کو قوم کہتے ہیں ،اس لئے قران کریم اور جہاں بھی " قوم " کا لفظ آیا
ہے وہاں اسکے بعد اسکے لئے جمع کی ضمیریں اور جمع کے صیغے ہی الئیں گئے ہیں
،تاج العروس میں جہاں " خاتم القوم " لکھا ہے اسکے بعد لکھا ہے " آخرھم " یعنی انکا
آخری ،
یہاں " ھم " کی ضمیر " قوم " کی طرف لوٹائی گئی ہے اس سے ثابت ہوتا ہے کہ " قوم "
جمع ہے ،آئیے اب قران کریم سے کچھ مثالیں دیکھتے ہیں۔
لقد ارسلنا نوحا َ َۡ الی قومه فقال یا قوم اعبدوا ہللا مالکم من اله غیرہ انی اخاف علیکم عذاب "
"یوم عظیم۔
ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا پس آپ نے ان سے کہا اے میری قوم ہللا کی
عبادت کرو اسکے عالوہ تمہارا کوئی معبود نہیں میں تم پر بڑے دن کے عذاب سے ڈرتا
ہوں۔
اس جگہ نوح علیہ اسالم فرماتے ہیں " یاقوم " اے قوم اور آگے انھیں جمع کے صیغے
سے خطاب کرتے ہیں " ،اعبدوا " " ،مالکم " اور " علیکم " کے ساتھ ،ثابت ہوا قوم جمع
ہے۔
نہیں بیجھا ہم نے کوئی رسول مگر وہی زبان بولنے واال جو اسکی قوم کی ہو تاکہ وہ ان
کے لئے ( ہللا کی بات ) کھول کر بیان کر سکے
یہاں قوم کا ذکر کر کے " لیبین لھم " میں " ھم " کی ضمیر جمع الئی گئی جو اس بات کی
دلیل ہے کہ قوم جمع ہے۔
" لقد ارسلنا نوحا َ َۡ الی قومه فلبث فیھم الف سنة اال خمسین عاما "
پس ہم نے بیجھا نوح علیہ اسالم کو انکی قوم کی طرف پس وہ رہے ان میں پچاس کم ہزار
سال ۔
یہاں بھی " قوم " کا ذکر کرکے فرمایا " فیھم " اور یہ " ھم " کی ضمیر جمع کی ہے جو
قوم کی طرف لوٹائی گئی۔
قران کریم ایسی مثالوں سے بھرا پڑا ہے ،قوم کا لفظ جہاں بھی آیا ہے اسکی طرف لوٹائی
جانے والی ضمیر اور صیغے جمع ہی آئے ہیں اس لئے اسمیں کوئی شک نہیں کہ یہ اسم
جمع ہے جو ایسے گروہ کے لئے بوال جاتا ہے جس کے بہت سے افراد ہوں ،اور " اقوام
" اسکی جمع الجمع ہے۔
عرب محاورے میں جہاں بھی " خاتم" کی اضافت " جمع " کی طرف آئی ہے وہاں اسکا "
معنی آخری ہو ہی نہیں سکتا بہت سے لوگوں کو خاتم المحدثین ،خاتم الفقہاء یا خاتم
المفسرین کا خطاب دیا گیا ہے ،کیا انکے بعد محدثین ،فقہاء ،مفسرین آنا بند ہو گئے تھے
؟
اگر کسی انسان نے کسی انسان کے بارے میں یہ لفظ بوال ہے تو چونکہ انسان عالم "
الغیب نہیں ہے اس لئے یہی دلیل ہے کہ وہ صرف اپنے زمانے کے بارے میں بات کر رہا
ہے ورنہ اسے معلوم ہی نہیں کہ بعد میں اس سے بڑا محدث ،فقیہ ،یا مفسر بھی پیدا ہو
سکتا ہے۔
نیز یہاں تو سب سے زیادہ " افضل " واال معنی بھی نہیں ہو سکتا اور نہ اسکا یہ مطلب ہو
سکتا ہے کہ اب اس محدث یا فقیہ یا مفسر کی مہر سے ظلی بروزی مفسر یا محدث بنے
گے ،اب مرزائی متعرض ہی بتائے کہ جہاں کسی انسان نے کسی دوسرے انسان کے
بارے میں " خاتم المحدثین یا خاتم المفسرین " لکھا ہے تو اس کے وہ کیا معنی کرتے ہیں ؟
سب آخری مفسر ،سب سے افضل مفسر ،یا ایسا مفسر جس کی مہر سے محدث یا مفسر
بنے گے ؟؟؟
آپ اپنے معنی بیان کرو تاکہ بات اس پر آگے چلے ،ہمارے نزدیک تو صرف یہ تمام
دعوی نہیں کر سکتا کہ آج کے بعد
ٰ مبالغہ کے لئے ہے اور کچھ نہیں ،اور کوئی انسان یہ
کوئی مفسر یا کوئی محدث ایسا پیدا ہو ہی نہیں سکتا جو اسکے زمانے کے محدثین یا
مفسرین سے بڑا ہو ،لیکن ہللا عالم الغیوب ہے جب کسی کے بارے میں فرمائے " خاتم
النبیین " تو وہاں خاتم کا معنی حقیقی لینے میں کوئی خرابی نہیں کیوں کا ہللا کو علم ہے
اب قیامت تک کوئی نبی نہیں پیدا ہونے واال۔
جب قادیانیوں کو کہا جاتا ہے کہ مرزاصاحب نے خاتم االوالد کا مطلب آخری اوالد لیا ہے
تو ان کی من گھرٹ دلیل یہ ہوتی ہے کہ وہ لفظ خاتِم ہےخاتَم نہیں ہے ۔
)یاد رہے کہ مرزا صاحب نے جہاں بھی خاتم لکھا وہاں اس کی کوئی وضاحت نہیں کی(
پہلی بات تو یہ ہے کہ خاتَم اور خاتِم کا یہ من گھرٹ فرق جو مرزائی کرتے ہیں کیا لغت
عرب میں اس کا وجود ہے ؟؟؟
دو تین کتابوں کے حوالے پیش خدمت ہیں ورنہ پچاسوں کتابیں ہیں جو اس معنی کی تائید
میں پیش کی جا سکتی ہیں۔
۔1
ُ
لسان العرب عالم ابن منظور جو ساتویں صدی میں کے بہترین عالم گزرے ہیں۔ ب
صاح ِ
اور ان تمام کا معنی ایک ہی ہے اور وہ کیا کسی چیز کا اخیر۔ختم کرنے واال۔۔
" --کہتے ہیں " ِختا ُم الودای ،خاتَم الوادى ،خاتِم الوادى ،أخیر الوادى
وادی کا اخری کنارہ ۔جہاں وادی ختم ہو جاتی ہے ان الفاظ سے تعبیر کیا جاتا ہے
اور مزید لکھتے ہیں کہ
ِختَا ُم القوم خا ِت ُم ُھ ْم و القوم وخَاتَ ُم ُھم أخرھم "
ُ
)لسان العرب جلد 12صفحہ ( 164
۔2
ختمام القوم خاتِم القوم خاتَم القوم سب کا ایک معنی اخر القوم ۔۔۔۔
" ☆والخاتَم والخا ِتم:من أسماہ النبىﷺ معناہ :آخر االنبیاء :وقال ہللا تعالی ☆ خاتَم النبین "
معلوم ہوا خاتَم ھو یا خا ِتم دونوں کا معنی ایک ہی ہے ۔کسی چیز کا کنارہ ،کسی چیز کی
انتہا ،جہاں پر کوئی چیز ختم ہو جاتی ہے اس کو خاتَم بھی کہتے ہیں خاتِم بھی کہتے ہیں
،ختام ،اور ختم بھی کہتے ہیں یہ تمام کے تمام الفاظ ہم معنی ہیں مترادف ہیں ۔۔۔
یہ معنی آج کے علماء نے نہیں لکھا کہ مرزا صاحب کے تعصب میں مولویوں نے کتابوں
میں لکھ دیا ہو بلکہ یہ معنی ان علماء کرام نے لکھا جو مرزا صاحب کے آنے سے
ہزاروں برس پہلے گزر چکے ہیں اور جن کی کتابیں لغت عرب میں سند کی حثییت رکھتی
ہیں ۔جن کی زبان میں قران نازل ہوا ان علماء کرام کی تحقیق ہے کہ خاتَم ہو یا خاتِم معنی
ایک ہی ہے آخر الشئ اور پھر اس کی مثال دیتے ہوئے لکھتے ہیں جس طرح ہللا تعالی
فرماتا "خاتم النبین" "آخرالنبین" سب نبیوں کے آخر میں آنے واال ۔۔۔
اس تحقیق کے بعد یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ خاتَم کے معنی آخری ہی ہیں اس کے بعد
یہ محض دھوکہ فریب اور دجل و تلبیس ہے اگر یہ کہا جائے کہ خاتَم کے معنی اور خاتِم
کے معنی اور ہیں
ہمارے نزدیک علماء حق اور ائمہ لغت کی تحقیق کے مطابق لفظ خاتَم ہو یا خاتِم ہللا کے
محبوبﷺ کے بعد اب اور کوئی نبی نہیں ہو سکتا ۔
معزز قارئین ہم نے آیت خاتم النبیین پر علمی ،تحقیقی گفتگو سے ثابت کیا کہ خاتم النبیین کا
مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کے تشریف النے سے نبیوں کی تعداد مکمل ہوچکی ہے اب
تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
اب ہم قادیانی جماعت کے اس آیت کے ترجمے اور مفہوم کا جائزہ لیتے ہیں اور آپ کو
بتاتے ہیں کہ قادیانیوں کا ترجمہ کیوں غلط ہے۔
" خاتم النبیین کا مطلب ہے کہ حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبی بنیں گے"
ایک طرف تو کہتے ہیں کہ نبوت حضورﷺ کی اتباع سے ملتی ہے جبکہ یہاں تو مرزا
صاحب نے لکھا ہے کہ مجھے نبوت ماں کے پیٹ میں ہی ملی تھی۔ اب قارئین خود فیصلہ
کریں کہ مرزا صاحب کی کون سی بات درست ہے۔
مرزا صاحب نے خود خاتم النبیین کا ایک جگہ ترجمہ لکھا ہے کہ
"ختم کرنے واال ہے سب نبیوں کا"
)ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 614مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (431
اگر خاتم النبیین کا مطلب یہ ہے کہ حضورﷺ کی مہر سے نبی بنتے ہیں تو خاتم االوالد کا
بھی یہی مطلب ہونا چاہیے کہ مرزا صاحب کی مہر سے مرزا صاحب کے والدین کے گھر
میں اوالد پیدا ہوگی۔ کیا قادیانی یہ معنی خاتم االوالد کا کریں گے؟
یقینا یہ ترجمہ نہیں کریں گے تو پتہ چال کہ قادیانیوں کا کیا گیا ترجمہ سرے سے ہی باطل
ہے۔
ایک طرف قادیانی کہتے ہیں کہ حضور ﷺ کی مہر سے ایک سے زائد نبی بنیں گے۔ جبکہ
دوسری طرف مرزا صاحب اور قادیانی جماعت کا موقف ہے کہ صرف مرزاقادیانی کو ہی
حضورﷺ کی کامل اتباع سے نبوت ملی ہے۔
) حقیقة الوحی صفحہ 391مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (406
مرزا صاحب کے بعد خالفت ہے نبوت نہیں۔ تو اس طرح حضورﷺ خاتم النبی ہوئے ،خاتم
النبیین نہ ہوئے۔ اس لئے خود یہ ترجمہ قادیانیوں کے لحاظ سے بھی باطل ہے۔
اگر خاتم النبیین کا یہ مطلب لیا جائے کہ حضورﷺ کی اتباع سے نبوت ملےگی تو اس کا
مطلب یہ ہوا کہ حضور ﷺ،حضرت آدم علیہ السالم سے لےکر حضرت عیسی علیہ السالم
تک انبیاء کے خاتم نہیں بلکہ اپنے سے بعد آنے والے نبیوں کے خاتم ہیں۔ اور یہ بات قرآن
و حدیث کی منشاء کے خالف ہے۔
یہ معنی محاورات عرب کے بھی بالکل خالف ہے کیونکہ پھر خاتم القوم اور خاتم
المھاجرین کے بھی یہی معنی کرنے پڑیں گے کہ اس کی مہر سے قوم بنتی ہے اور اس
کی مہر سے مھاجر بنتے ہیں۔ اور یہ ترجمہ خود قادیانیوں کے نزدیک بھی باطل ہے۔
= قادیانیوں کو چیلنج
اگر کوئی قادیانی قرآن پاک کی کسی ایک آیت سے یا کسی ایک حدیث سے یا کسی
صحابی یا تابعی کے قول سے خاتم النبیین کا یہ معنی دکھا دے کہ حضورﷺ کی مہر سے
یعنی کامل اتباع سے نبی بنتے ہیں تو اس قادیانی کو منہ مانگا انعام دیا جائے گا ۔ لیکن
"عقیدہ ختم نبوت ازروئے احادیث اور عقیدہ ختم نبوت پر قادیانی عقیدے کا جائزہ"
ویسے تو عقیدہ ختم نبوت تقریبا 210سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت ہے لیکن اس سبق
میں ہم عقیدہ ختم نبوت پر 10احادیث مبارکہ پیش کریں گے ۔
حدیث نمبر1
حضرت سعد بن ابی وقاص ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے علی ؓ سے فرمایا تم مجھ
سے وہی نسبت رکھتے ہو جو ہارون ؑ کو موسی ؑ سے تھی مگر میرے بعد کوئی نبی نہیں۔
س ُھ ُم ْاْل َ ْن ِب َیا ُء ُكلَّ َما سلَّ َم ،قَا َلَ "" :كان ْ
َت َبنُو ِإس َْرا ِئی َل ت َ ُ
سو ُ علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ع ِن النَّ ِبي ِ َ ع ْن أ َ ِبي ُھ َری َْرۃ َ َ ، َ
ُ ْ َ
ون ُخلفَا ُء فَیَكث ُرونَ ، ُ
س َیك ُ ي َب ْعدِي َو َ يَ ،و ِإنَّهُ َال َن ِب َّ َ
ي َخلفَهُ َن ِب ٌّ َ
َھل َك نَ ِب ٌّ
ون فِي أ ُ َّمتِي ث َ َالثُونَ َكذَّابُونَ ُكلُّ ُھ ْم سلَّ َمَ :وإِنَّهُ َ
سیَ ُك ُ ع َل ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ سو ُل َّ
ّللاِ َ ع ْن ثَ ْوبَانَ ،قَا َل :قَا َل َر ُ َ
ي َب ْعدِي۔ َ
يَ ،وأنَا خَات َ ُم النَّ ِب ِیینَ َال َن ِب َّ َ یَ ْز ُ
ع ُم أنَّهُ َن ِب ٌّ
)ترمذی شریف حدیث نمبر 2219باب ما جاء ال تقوم الساعة حتی یخرج کذابون(
حدیث نمبر 6
حضرت ثوبان ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نےمیرے آقا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا
رسالت و نبوت ختم ہوچکی ہے پس میرے بعد نہ کوئی رسول ہے نہ نبی۔
)ترمذی شریف حدیث نمبر 22722باب ذھبت النبوۃ وبقیت المبشرات(
)بخاری حدیث نمبر 896باب ھل علی من ال یشھد الجمعة غسل من النساء والصبیان(
عن جبیر بن مطعم قال سمعت النبی صلی ہللا علیہ وسلم یقول ان لی اسماء ،وانا محمد ،وانا "
احمد،وانا الماحی الذی یمحوہللا بی الکفر ،وانا الحاشر الذی یحشرالناس علی قدمی ،وانا
"العاقب الذی لیس بعدہ نبی
)مشکوۃ حدیث نمبر 5776باب اسماء النبی صلی ہللا علیہ وسلم وصفاته(
ٰ
سلَّ َم:
ع َل ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ سو ُل َّ
ّللاِ َ س ْھل ،قَا َل :قَا َل َر ُ ع ْن َ َ
عةَ َھ َكذَا"" "بُ ِعثْتُ أَنَا َوال َّ
سا َ
حضرت سھل ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے اپنی انگشت شہادت اور درمیانی انگلی
کی طرف اشارہ کر کے فرمایا مجھے اور قیامت کو ان دو انگلیوں کی طرح بھیجا گیا ہے۔
یعنی جس طرح شہادت کی انگلی اور درمیانی انگلی کے درمیان کوئی اور انگلی نہیں (
اسی طرح میرے اور قیامت کے درمیان کوئی اور ایسا انسان نہیں آئے گا جس کو نبوت
)دی جائے گی
)بخاری حدیث نمبر 6503باب قول النبیﷺ بعثت انا والساعة کھاتین(
ان دس احادیث مبارکہ سے بھی یہ بات اظہر من الشمس ہوگئ کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ
کے تشریف النے سے پوری ہوگئی ہے اور حضورﷺ کے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی
ایک نبی کا اضافہ بھی نہیں ہوگا۔
عقیدہ ختم نبوت پر ہمارا یعنی مسلمانوں کا اور قادیانیوں کا اصل اختالف یہ ہے کہ ہمارا
عقیدہ تو یہ ہے کہ نبیوں کی تعداد حضورﷺ تشریف النے سے مکمل ہوئی ۔
جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نبیوں کی تعداد نعوذ باہلل مرزا غالم احمد قادیانی کے آنے سے
مکمل ہوئی ۔ ہم حضورﷺ کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں جبکہ قادیانی
نعوذباہلل مرزا غالم احمد قادیانی کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ مانتے ہیں۔
ہم کہتے ہیں کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا جبکہ قادیانی کہتے ہیں کہ نعوذ
باہلل مرزا غالم احمد قادیانی کے بعد کوئی نبی نہیں بن سکتا۔
ذیل میں چند حوالے پیش خدمت ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ قادیانی مرزا غالم احمد قادیانی
کو نبوت کی عمارت کی آخری اینٹ اور آخری نبی سمجھتے ہیں۔
مسیح موعود کے کئی نام ہیں منجملہ ان میں سے ایک نام خاتم الخلفاء ہے یعنی ایسا "
"خلیفہ جو سب سے آخر میں آنے واال ہے
پس خدا نے ارادہ فرمایا کہ اس پیشگوئی کو پورا کرے اور آخری اینٹ کے ساتھ بناء کو "
"کمال تک پہنچا دے ۔ پس میں وہی اینٹ ہوں
وہ بروز محمدی جو قدیم سے موعود تھا وہ میں ہوں۔ اس لئے بروزی نبوت مجھے "
عطاکی گئی۔اور اس نبوت کے مقابل پر تمام دنیا اب بےدست و پا ہے۔ کیونکہ نبوت پر مہر
ہے۔
ایک بروز محمدی جمیع کماالت محمدیہ کے ساتھ آخری زمانے کے لئے مقدر تھا سو وہ
ظاہر ہوگیا۔ اب بجز اس کھڑکی کے کوئی اور کھڑکی نبوت کے چشمہ سے پانی لینے کے
"لئے باقی نہیں رہی
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (215
جس قدر مجھ سے پہلے اولیاء ،قطب ،ابدال وغیرہ اس امت میں سے گزر چکے ہیں ۔ ان "
کو یہ حصہ کثیر اس نعمت کا نہیں دیا گیا ۔ پس اس وجہ سے نبی کا نام پانے کے لئے
"صرف میں ہی محسوس کیا گیا ہوں۔اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے مستحق نہیں
ہالک ہوگئے وہ جنہوں نے ایک برگزیدہ رسول کو قبول نہیں کیا ۔ مبارک وہ جس نے "
مجھے پہچانا۔ میں خدا کی راہوں میں سب سے آخری راہ ہوں۔ اور میں اس کے سب
نوروں میں سے آخری نور ہوں۔ بدقسمت ہے وہ جو مجھے چھوڑتا ہے ۔ کیونکہ میرے
"بغیر سب تاریکی ہے
عقیدہ ختم نبوت جس طرح قرآن پاک کی آیات اور احادیث مبارکہ سے ثابت ہے اسی طرح
عقیدہ ختم نبوت صحابہ کرام ؓ اور امت محمدیہ کے اجماع سے بھی ثابت ہے۔ جس طرح
کسی بھی مسئلے پر قرآن اور حدیث بطور دلیل ہیں۔ اسی طرح صحابہ کرام ؓ کا اجماع یا
امت کا اجماع بھی کسی مسئلے پر دلیل ہیں۔
آیئے پہلے اجماع کی حقیقت اور اہمیت دیکھتے ہیں اور پھر عقیدہ ختم نبوت پر صحابہ
کرام ؓ کا اجماع اور امت کا اجماع دیکھتے ہیں۔
"اجماع کی حقیقت"
ہللا ٰ
تعالی نے ہمارے آقا و مولی سیدنا محمد مصطفیﷺ کو جو بےشمار انعامات دیئے ہیں
ان میں سے ایک انعام "اجماع امت" بھی ہے۔
اجماع کی حقیقت یہ ہے کہ اگر کسی مسئلے کے حکم پر امت کے علماء مجتہدین اتفاق
کرلیں تو اس مسئلے پر عمل کرنا بھی اسی طرح واجب ہوجاتا ہے۔ جس طرح قرآن اور
احادیث پر عمل کرنا واجب ہے۔
چونکہ حضورﷺ کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا ۔ اور آپﷺ کے بعد کوئی ایسی
ہستی امت میں موجود نہیں تھی جس کے حکم کو غلطی سے پاک اور ہللا ٰ
تعالی کی طرف
تعالی نے امت محمدیہﷺ کے علماء مجتہدین کے اجتہاد کو سے سمجھا جائے ۔ اس لئے ہللا ٰ
یہ درجہ دیا کہ ساری امت کے علماء مجتہدین کسی چیز کے اچھے یا برے ہونے پر متفق
ہوجایئں وہ اس بات کی عالمت ہے کہ وہ چیز ہللا ٰ
تعالی کے ہاں بھی ایسی ہی ہے جیسے
اس امت کے علماء مجتہدین نے سمجھا ہے۔
حضرت انس ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول ہللاﷺ کو فرماتے ہوئے سنا۔ میری امت "
گمراہی پر کبھی جمع نہ ہو گیٰ ،لہذا جب تم اختالف دیکھو تو سواد اعظم (یعنی بڑی
"جماعت) کو الزم پکڑو
اصول کی کتابوں میں اجماع امت کے حجت شرعیہ ہونے اور اس کے لوازمات اور
شرائط کے بارے میں مفصل بحثیں موجود ہیں۔ جن کا خالصہ یہ ہے کہ احکام شرعیہ کی
حجتوں میں قرآن اور حدیث کے بعد تیسرے نمبر پر اجماع کو رکھا گیا ہے۔
اور جس مسئلے پر صحابہ کرام ؓ کا اجماع ہوجائے تو وہ اسی طرح قطعی اور یقینی ہے
جس طرح کسی مسئلے پر قرآن کی آیات قطعی اور یقینی ہیں۔
چنانچہ عالمہ ابن تیمیہ رح لکھتے ہیں کہ
واجماعھم حجتہ قاطعتہ یجب اتباعھا بل ھی اوکد الحجج وھی مقدمتہ علی غیرھا ولیس ھذا "
موضع تقریر ذلک فان ھذا االصل مقرر فی موضعہ ولیس فیہ بین الفقھاء وال بین سائر
"المسلمین الذین ھم المومنون خالف
اجماع صحابہ ؓ حجت قطعیہ ہے بلکہ اس کا اتباع فرض ہے۔ بلکہ وہ تمام شرعی حجتوں "
میں سب سے زیادہ موکد اور سب سے زیادہ مقدم ہے ۔ یہ موقع اس بحث کا نہیں ۔ کیونکہ
ایسے مواقع (یعنی اصول کی کتابوں میں ) یہ بات اہل علم کے اتفاق سے ثابت ہوچکی ہے۔
" اور اس میں تمام فقہاء اور تمام مسلمانوں میں جو واقعی مسلمان ہیں کسی کا اختالف نہیں
اسالمی تاریخ میں یہ بات حد تواتر کو پہنچ چکی ہے کہ مسیلمہ کذاب نے حضورﷺ کی
موجودگی میں نبوت کا دعوی کیا اور ایک بڑی جماعت نے اس کے دعوی نبوت کو تسلیم
بھی کر لیا۔
ایک دفعہ مسیلمہ کذاب کا ایلچی حضورﷺ کے پاس آیا تو حضورﷺ نے اس سے مسیلمہ
کذاب کے دعوی کے بارے میں پوچھا تو ایلچی نے کہا کہ میں مسیلمہ کذاب کو اسکے
تمام دعووں میں سچا سمجھتا ہوں۔ تو جواب میں حضورﷺ نے فرمایا کہ اگر تو ایلچی نہ
ہوتا تو میں تمہیں قتل کروادیتا۔
کچھ عرصے بعد ایک صحابی ؓ نے اس مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو ایک مسجد میں دیکھا
تو اس کو قتل کروادیا۔
مسیلمہ کذاب کے ایلچی کو عبدہللا ابن مسعود ؓ نے قتل کروایا ۔ یہ واقعہ درج ذیل روایت
میں ہے۔
انہوں نے عبدہللا بن مسعود ؓ کے پاس آ کر کہا :میرے اور کسی عرب کے بیچ کوئی "
عداوت و دشمنی نہیں ہے ،میں قبیلہ بنو حنیفہ کی ایک مسجد سے گزرا تو لوگوں کو دیکھا
کہ وہ مسیلمہ پر ایمان لے آئے ہیں ،یہ سن کر عبدہللا بن مسعود ؓ نے ان لوگوں کو بال
بھیجا ،وہ ان کے پاس الئے گئے تو انہوں نے ابن نواحہ کے عالوہ سب سے توبہ کرنے
کو کہا ،اور ابن نواحہ سے کہا :میں نے رسول ہللاﷺ کو فرماتے سنا ہے :اگر تو ایلچی نہ
ہوتا تو میں تیری گردن مار دیتا آج تو ایلچی نہیں ہے ۔ پھر انہوں نے قرظہ بن کعب کو
حکم دیا تو انہوں نے بازار میں اس کی گردن مار دی ،اس کے بعد عبدہللا بن مسعود ؓ نے
"کہا :جو شخص ابن نواحہ کو دیکھنا چاہے وہ بازار میں جا کر دیکھ لے وہ مرا پڑا ہے
جب حضورﷺ کی وفات ہوئ تو اس کے بعد بہت سے فتنوں نے سراٹھایا جن میں منکرین
زکوۃ کا فتنہ بھی تھا ۔ صحابہ کرام ؓ نے منکرین زکوۃ کے خالف بھی جہاد کیا لیکن جہاد
کرنے سے پہلے اس پر بحث و مباحثہ بھی ہوا کہ منکرین زکوۃ کے خالف جہاد کیا جائے
یا جہاد نہ کیا جائے۔ جب صحابہ کرام ؓ متفق ہوگئے تو پھر منکرین زکوۃ کے خالف جہاد
ہوا۔
لیکن جب مسیلمہ کذاب کے خالف حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے جہاد کا حکم دیا تو کسی
ایک صحابی نے یہ نہیں کہا کہ وہ کلمہ گو ہے اس کے خالف جہاد نہیں ہونا چاہئے ۔ بلکہ
تمام صحابہ کرام ؓ نے مسیلمہ کذاب اور اس کے پیروکاروں کو کفار سمجھ کر کفار کی
طرح ان سے جہاد کیا۔ اور مسیلمہ کذاب کو قتل کرنے کی وجہ صرف اس کا دعوی نبوت
تھا کیونکہ ابن خلدون کے مطابق صحابہ کرام ؓ کو اس کی دوسری گھناونی حرکات کا علم
اس کے مرنے کے بعد ہوا۔
اور یہی صحابہ کرام ؓ کا عقیدہ ختم نبوت پر اجماع ہے۔
ہمارے نبیﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کرنے واال امت کے اجماع سے کافر ہے۔
االقتصاد فی االعتقاد صفحہ ٬ 178الباب الرابع ٬بیان من یجب تکفیرہ من الفرق ٬طبع (
)بیروت 2003ء
وکونهﷺ خاتم النبیین مما نطقت بہ الکتاب وصدعت بہ السنتہ واجمعت علیہ االمتہ فیکفر "
"مدعی خالفہ ویقتل ان اصر
قاضی عیاض رح نے خلیفہ عبدالملک بن مروان کے دور کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ اس
کے دور میں ایک شخص نے نبوت کا دعوی کیا ۔ تو خلیفہ نے وقت کے علماء جو تابعین
میں سے تھے ان کے فتوی سے اس کو قتل کروادیا ۔ قاضی صاحب اس واقعہ کو نقل
کرنے کے بعد لکھتے ہیں کہ
وفعل ذالک غیر واحد من الخلفاء والملوک باشباھھم واجمع علماء وقتھم علی صواب فعلھم "
" والمخالف فی ذالک من کفرھم کافر
اور بہت سے خلفاء سالطین نے ان جیسے مدعیان نبوت کے ساتھ یہی معاملہ کیا ہے ۔ "
اور اس زمانے کے علماء نے ان سے اس فعل کے درست ہونے پر اجماع کیا ہے۔ اور جو
"شخص ایسے مدعیان نبوت کو کافر نہ کہے وہ خود کافر ہے
عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں قرآن ،حدیث اور اجماع امت کی بحث کا خالصہ درج ذیل
ہے۔
"عقیدہ ختم نبوت پر قادیانی دھوکہ اور ظلی بروزی نبوت کی بحث"
"نبی"
نبی اس کو کہتے ہیں جو پرانے نبی کی کتاب اور شریعت پر عمل کرے۔
"رسول"
رسول اس نبی کو کہتے ہیں جو نئی کتاب اور نئی شریعت لے کر آئے ۔
ختم نبوت پر ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ نبیوں اور رسولوں کی تعداد حضور صلی ہللا علیہ وسلم
پر مکمل ہوچکی ہے ۔ اب تاقیامت کوئی نیا نبی یا رسول نہیں آئے گا ۔
قادیانی کہتے ہیں کہ بغیر شریعت کے ساتھ جو نبوت ملتی ہے اس کو غیر تشریعی نبی
کہتے ہیں۔
قادیانی کہتے ہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع سے جو نبوت ملتی ہے اس کو
ظلی نبوت کہتے ہیں۔
قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ تشریعی اور غیر تشریعی نبیوں کی تعداد تو حضور صلی ہللا
علیہ وسلم کے آنے سے مکمل ہوچکی ہے جبکہ ظلی نبوت کا دروازہ تاقیامت کھال ہے۔
لیکن اس کے ساتھ ہی وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ظلی نبوت صرف مرزاقادیانی کو ملی ہے ۔
دعوی جب خاص ہوتو دلیل بھی خاص ہوتی ہے۔ آپ قادیانیوں نے نبوت کی تیسری قسم
یعنی ظلی نبوت کو ایک مستقل نبوت قرار دیا ہے۔
اور سب سے آخر میں ہمیں قرآن اور حدیث سے وہ دالئل بتایئں جہاں لکھا ہوکہ شریعت
اور بغیر شریعت کے نبوت کا دروازہ تو بند ہے لیکن ظلی نبوت کا دروازہ کھال ہوا ہے۔
قیامت تو آسکتی ہے لیکن قادیانی قیامت کی صبح تک کوئی قرآن کی آیت یا کوئی ایک
حدیث بھی ایسی پیش نہیں کر سکتے جہاں یہ لکھا ہوکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے
آنے سے شریعت والے اور بغیر شریعت والے نبیوں کی تعداد تو مکمل ہوچکی ہے لیکن
ظلی نبی تاقیامت آسکتے ہیں۔
آیئے قارئین مرزاقادیانی کی کی ایک تحریر کا جائزہ لیتے ہیں جہاں مرزاقادیانی ظل اور
اصل کی وضاحت کر رہا ہے۔
"خدا ایک اور محمد صلی ہللا علیہ وسلم اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم االنبیاء ہے۔ اور سب
سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے
محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔
جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ
بظاہر دو نظر آتے ہیں ۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے"
معزز قارئین مرزاقادیانی کا کفر یہاں ننگا ناچ رہا ہے مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں ظلی
طور پر محمد ہوں اس کا مطلب ہے کہ نعوذباہلل اگر آیئنے میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم
کو دیکھا جائے تو وہ مرزاقادیانی نظر آئیں گے ۔ اور جو مرزاقادیانی آیئنے میں نظر آرہا
ہے وہ مرزاقادیانی نہیں ہے بلکہ نعوذ باہلل حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔
اگر دونوں ایک ہی ہیں تو پھر ظل اور بروز کی ڈھکوسلہ بازی کیوں کرتے ہو؟؟؟ یہ تو
صرف لوگوں کو دھوکا دیتے ہیں اور کچھ نہیں ۔
1۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
2۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"حضرت عمر رضی ہللا عنہ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجناب صلی ہللا علیہ وسلم کا ہی
وجود تھا"
3۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
مرزاقادیانی کے اگر ظل اور بروز کے فلسفے کو تسلیم کرلیں تو پھر حضور صلی ہللا
علیہ وسلم کو بھی خدا تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اور حضرت عمر رضی ہللا عنہ اور تمام
خلفائے راشدین کو رسول تسلیم کرنا پڑے گا ۔
کیا کوئی قادیانی ایسا ایمان رکھتا ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم خدا ہیں اور حضرت
عمر رضی ہللا عنہ اور تمام خلفائے راشدین رسول ہیں؟؟
اگر مرزاقادیانی کے فلسفے کے مطابق حضور صلی ہللا علیہ وسلم خدا کے ظل ہوکر بھی
خدا نہیں ہوسکتے اور حضرت عمر رضی ہللا عنہ اور دیگر خلفاء رسول ہللا کے ظل ہوکر
بھی رسول نہیں ہوسکتے تو مرزاقادیانی کیسے نبی اور رسول ہوسکتا ہے؟؟
ساری بات کا خالصہ یہ ہے کہ ظلی اور بروزی نبوت کی اصطالح صرف لوگوں کو
دھوکا دینے کے لئے ہے۔ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔
حضرت ابو سفیان رضی ہللا عنہ زمانہ جاہلیت میں تجارتی سفر پرروم گئے۔اور قیصر روم
نے انہیں اپنے دربار میں بالکر سوال پوچھے جن میں سے ایک سوال یہ بھی تھا کہ
جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا ہے ان کا خاندان کیسا ہے؟؟
حضرت ابوسفیان رضی ہللا عنہ نے جواب دیا تھا کہ وہ عالی نسب خاندان سے تعلق
رکھتے ہیں۔
قیصر روم نے اس پر یوں تبصرہ کیا تھا کہ انبیاء عالی نسب قوموں سے ہی مبعوث کئے
جاتے ہیں۔
نبی کا عالی نسب خاندان سے مبعوث ہونا ایسی بات ہےجس پر کافروں کو بھی اتفاق ہے
لیکن مرزاقادیانی جیسے بدترین کافر کے نزدیک چور ،زانی ،بدکار ،ذلیل و کمینے بھی
نبی ہوسکتا ہے۔
"قرآن مجید کی 2آیات پر اجرائے نبوت کے موضوع پر قادیانی شبہات اور ان کے علمی
تحقیقی جوابات"
آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدالل کا علمی
رد کرتے ہیں۔
آیت=
علَیۡ ُکمۡ ٰا ٰیتِیۡ ۡ فَ َم ِن ات َّ ٰقی َو سل ِمنۡ ُکمۡ یَقُ ُّ
صوۡنَ َ ٰی َبنِیۡۡ ٰادَ َم اِ َّما یَاۡ ِتیَنَّ ُ
کمۡ ُر ُ
علَیۡہِمۡ َو َال ہ ُمۡ َیحۡزَ نُوۡنَ ۔ اَصۡلَ َح فَ َال خَوۡف َ
ترجمہ =
اے آدم علیہ السالم کے بیٹے اور بیٹیو! اگر تمہارے پاس تم میں سے ہی کچھ پیغمبر آیئں
جو تمہیں میری آیات پڑھ کر سنائیں ،تو جو لوگ تقوی اختیار کر لیں گے اور اپنی اصالح
کر لیں گے ،ان پر نہ کوئی خوف طاری ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے ۔
قرآن مجید کے اسلوب سے یہ بات ثابت ہے کہ پورے قرآن میں جہاں بھی امت محمدیہ
علیہ السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے خطاب کیا ہے تو وہاں 2طریقوں سے خطاب کیا ہے۔
1۔ امت محمدیہ علیہ السالم کو اجابت کے لئے "یاایھاالذین آمنو" کے الفاظ سے خطاب کیا
گیا ہے۔
2۔ امت محمدیہ علیہ السالم کو دعوت کے لئے "یاایھاالناس" کے الفاظ سے خطاب کیا گیا
ہے۔
پورے قرآن میں امت محمدیہ علیہ السالم کو "یبنی آدم " کے الفاظ سے خطاب نہیں کیا گیا
۔
پس ثابت ہوا کہ اس آیت میں امت محمدیہ علیہ السالم کو خطاب نہیں کیا گیا ۔ بلکہ امت
محمدیہ سے پہلے تمام اوالد آدم کو جو خطاب کیا گیا تھا اس آیت میں اس کا ذکر ہے ۔
یبنی آدم کے الفاظ سے جہاں بھی اوالد آدم علیہ السالم کو خطاب کیا گیا ہے وہاں اگر کوئی
احکام نازل کئے جانے کا ذکر ہوتو اگر وہ احکام امت محمدیہ علیہ السالم میں منسوخ نہ
کئے گئے ہوں یا کوئی ایسا حکم ہو جو شریعت محمدیہ علیہ السالم کو اس حکم کے پورا
کرنے سے مانع نہ ہوتو امت محمدیہ علیہ السالم بھی اس حکم میں شامل ہوتی ہے۔
جبکہ اس آیت میں جس بات کو ذکر کیا گیا ہے وہ سابقہ امتوں کے لئے اس لئے ہے
کیونکہ قرآن و سنت کے مطابق آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو آخری نبی قرار دیا گیا ہے۔ اور
آخری نبی کے آنے کے بعد نبوت جاری نہیں رہتی۔
قادیانی " ٰی َب ِنیۡۡ ٰادَ َم" کے لفظ پر اعتراض کرتے ہوئے ایک اور آیت بھی پیش کرتے ہیں
" ٰی َب ِنیۡۡ ٰادَ َم ُخذُوۡا ِزیۡنَتَ ُ
کمۡ ِعنۡدَ ُک ِل َمسۡ ِجد "کہ اس آیت میں "یبنی آدم"کے لفظ
سے خطاب کیا گیا ہے اور اس میں مسجد کا ذکر ہے اور مسجدیں امت محمدیہ علیہ السالم
کے ساتھ خاص ہیں۔
حاالنکہ قادیانی علمی یتیموں کو یہ پتا نہیں کہ مسجد کا ذکر پہلی امتوں کے لئے بھی قرآن
میں کیا گیا ہے۔
جیسا کہ اس آیت میں ذکر ہے ۔
اوالد بنی آدم میں ہندو ،سکھ،عیسائی اور یہودی تمام شامل ہیں۔ کیا ہندوں ،سکھوں
،عیسائیوں اور یہودیوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟
اگر ان میں سے رسول نہیں آسکتا تو ان کو اس آیت کے عموم سے کس دلیل کے ساتھ
قادیانی خارج کرتے ہیں؟؟؟
اس کے عالوہ اوالد بنی آدم میں عورتیں اور ہیجڑے بھی شامل ہیں ۔
کیا عورتوں اور ہیجڑوں میں سے بھی رسول آسکتا ہے؟؟؟؟؟
اگر قادیانی اس کے جواب میں کہیں کہ عورتیں پہلے نبی نہیں بنی تو اب بھی نہیں بن
سکتیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جس طرح کوئی عورت نبی نہیں بنی اسی طرح پہلے کسی نبی کی
اطاعت کرنے سے کوئی مرد بھی نبی نہیں بنا۔
اگر نبوت جاری ہے اور اطاعت سے کوئی انسان نبی بن سکتا ہے تو اطاعت سے عورت
بھی نبی بن سکتی ہے۔
پس ثابت ہوا کہ اس آیت کی رو سے جس طرح عورت نبی نہیں بن سکتی اسی طرح کوئی
مرد بھی نبی نہیں بن سکتا۔
سل ِمنۡ ُکمۡ َ" سے رسولوں کے آنے کا وعدہ "ی َب ِنیۡۡ ٰادَ َم اِ َّما َیاۡ ِت َینَّ ُ
کمۡ ُر ُ اگر اس آیت ٰ
ہے تو اس آیت "اما یاتینکم منی ھدی " سے صاحب شریعت رسولوں کے آنے کا وعدہ بھی
سل ِمنۡ ُکمۡ " "ی َبنِیۡۡ ٰادَ َم اِ َّما یَاۡتِ َینَّ ُ
کمۡ ُر ُ ہے۔کیونکہ اس آیت میں وہی یاتینکم ہے جو ٰ
والی آیت میں ہے۔
لیکن قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے منکر ہیں پس جس طرح آیت " ٰی َبنِیۡۡ
سل ِمنۡ ُکمۡ " سے آپ قادیانی صاحب شریعت رسولوں کے آنے کے ٰادَ َم اِ َّما یَاۡ ِتیَ َّن ُ
کمۡ ُر ُ
منکر ہیں اسی طرح اس آیت سے غیر تشریعی رسول بھی نہیں آسکتے۔
جواب نمبر 4
سل ِمنۡ ُکمۡ" میں لفظ "اما"ہے ۔ اور "اما " حرف "یبَ ِنیۡۡ ٰادَ َم ِا َّما یَاۡتِ َینَّ ُ
کمۡ ُر ُ اس آیت ٰ
شرط ہے۔ جس کا تحقق ضروری نہیں جس طرح مضارع کے لئے استمرار ضروری نہیں
۔
اس آیت کا اگر قادیانی اصول کے مطابق ترجمہ کریں تو یوں بنے گا کہ مریم علیہ السالم
قیامت تک آدمی کو دیکھتی رہیں گی۔
پس جس طرح اس آیت کی رو سے مریم علیہ السالم قیامت تک کسی آدمی کو نہیں دیکھ
سکتیں۔
سل ِمنۡ ُکمۡ " سے بھی حضور صلی ہللا "ی َب ِنیۡۡ ٰادَ َم اِ َّما َیاۡ ِت َینَّ ُ
کمۡ ُر ُ اسی طرح اس آیت ٰ
علیہ وسلم کے بعد قیامت تک کوئی نیا نبی نہیں آسکتا ۔
"ابی یسار سلمی سے روایت ہے کہ ہللا رب العزت نے سیدنا آدم علیہ السالم اور ان کی
کمۡ"یبَنِیۡۡ ٰادَ َم اِ َّما یَاۡتِیَنَّ ُ
اوالد کو (اپنی قدرت و رحمت کی )مٹھی میں لیا اور فرمایا ٰ
سل ِمنۡ ُکمۡ۔۔۔" پھر رسولوں پر نظر رحمت ڈالی تو فرمایا یایھاالرسل ۔۔۔۔۔ ُر ُ
پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کے تسلیم کر دہ مجدد کے نزدیک یہ آیت عالم ارواح کے واقعہ
کی حکایت ہے۔
اس لئے اس آیت سے نبوت کا جاری رہنا کسی صورت بھی ثابت نہیں ہوتا۔
خالصہ کالم=
تمام گفتگو کا خالصہ یہ ہے کہ اس آیت سے بلکہ قرآن مجید کی کسی آیت سے بھی نبوت
کا جاری ہونا ثابت نہیں ہوتا ۔ بلکہ اس آیت میں اولین اوالد آدم علیہ السالم سے ہللا ٰ
تعالی
کے خطاب کو بیان کیا گیا ہے۔
"دوسری آیت"
قادیانی قرآن مجید کی درج ذیل آیت سے باطل استدالل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے آقا
صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد بھی نبوت جاری ہے اور قیامت تک نئے نبی اور رسول
آسکتے ہیں۔
آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں ۔ پھر قادیانیوں کے باطل استدالل کا علمی
رد کرتے ہیں۔
آیت =
آیت کا ترجمہ =
اور جو لوگ ہللا اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے ۔جن پر ہللا
نے انعام فرمایا ہے ،یعنی انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے
ساتھی ہیں ۔
قادیانی اس آیت سے باطل استدالل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہللا اور اس کے رسول کی
اطاعت کرنے سے کوئی بھی انسان نبی ،صدیق ،شہید اور صالح بن سکتا ہے۔ یعنی یہ 4
درجے ایسے ہیں جو ہللا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے سے مل سکتے ہیں۔
قادیانیوں کے اس آیت سے کئے گئے باطل استدالل کے بہت سے جوابات ہیں ۔ مالحظہ
فرمائیں ۔
بلکہ یہ آیت ہللا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والوں کو یہ خوشخبری سنا رہی ہے
کہ آپ قیامت کے بعد نبیوں ،صدیقوں ،شہدا اور صالحین کے ساتھ ہوں گے۔
جیسا کہ اس آیت کے آخری الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ وہ یعنی نبی ،صدیقین ،شھدا اور
صالحین بہترین ساتھی ہیں ۔
"بعض صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین نے عرض کیا یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ
وسلم آپ جنت کے بلند و باال مقامات پر ہوں گے اور ہم جنت کے نچلے درجات میں ہوں
گے تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی زیارت کیسے ہوگی؟؟؟
سوۡ َل۔۔۔۔۔۔۔
الر ُ
ّللا َو َّ
َمنۡ ی ُِّط ِع ّٰ َ
یہاں رفاقت سے مراد جنت کی رفاقت ہے کہ انبیاء کرام علیہم السالم اگرچہ جنت کے
باالخانوں میں ہوں گے لیکن پھر بھی صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین اور دوسرے
نیک لوگ انبیاء کرام علیہم السالم کی زیارت سے فیض یاب ہوں گے۔
اس کے عالوہ مرزا قادیانی سے پہلے تقریبا تمام تفاسیر میں اس آیت کا یہی شان نزول
لکھا ہے۔
لیجئے میرے آقا صلی ہللا علیہ وسلم کی بیان کردہ تفسیر نے بھی بتا دیا کہ اس آیت میں
معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔
اماں جان رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ اس سے میں سمجھ گئی کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم
کو دنیا اور آخرت میں سے ایک کا اختیار دیا جارہا ہے۔
اس روایت سے بھی ثابت ہوگیا کہ معیت سے مراد جنت کی رفاقت ہے۔
"قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم من قرء الف آیتہ فی سبیل ہللا کتب یوم القیامۃ مع النبیین
والصدیقین والشھداء والصلحین "
قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم التاجر الصدوق االمین مع النبیین والصدیقین والشھداء ۔
میرے آقا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا سچا امانت دار تاجر نبیوں ،صدیقوں اور شھداء
کے ساتھ ہوگا۔
اب قادیانی یہ بتایئں کہ کیا کوئی سچا تاجر یا 1000آیات روزانہ پڑھنے واال نبی بن سکتا
ہے؟؟؟؟
یقینا قادیانی یہی کہیں گے کہ سچا تاجر اور 10000آیات روزانہ پڑھنے واال قیامت کے
دن نبیوں ،صدیقوں ،شھداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
جس طرح سچا تاجر اور 1000آیات روزانہ پڑھنے واال نبی نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے
دن نبیوں ،صدیقوں ،شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا ۔ اسی طرح ہللا اور اس کے رسول
کی اطاعت کرنے واال بھی نبی یا رسول نہیں بن سکتا بلکہ قیامت کے دن وہ نبیوں،
صدیقوں ،شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
مندرجہ باال آیت میں قیامت کے دن معیت کا ذکر ہے ۔ جن آیات میں دنیا میں درجات ملنے
کا ذکر ہے ان میں سے کسی ایک آیت میں بھی نبوت ملنے کا ذکر نہیں ہے ۔
(وہ لوگ جو ایمان الئے اور اچھے اعمال کئے وہ نیک لوگوں میں داخل ہوں گے)
(جو لوگ ہللا اور اس کے رسول پر ایمان الئے ہیں وہ ہللا کے نزدیک صدیق اور شھید
ہیں)
ان آیات میں جو لوگ مخاطب ہیں اور ان کو جو درجات ملنے کا ذکر ہے ان میں نبوت
ملنے کا دور دور تک بھی ذکر نہیں ہے۔ اور صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین سے
زیادہ کامل ایمان واال امت میں کون ہوسکتا ہے؟؟؟
اگر صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین جیسے کامل ایمان والے لوگوں کو نبوت نہیں
مل سکتی تو پھر امت میں کسی کو کیسے نبوت مل سکتی ہے جبکہ ہللا نے نبوت کا
دروازہ بھی بند کردیا ہوا ہے۔
خالصہ=
پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کا مندرجہ باال آیت پر استدالل باطل ہے کیونکہ اس آیت میں
قیامت کے بعد نیک لوگوں کو جو معیت ملے گی اس کا ذکر ہے۔ کہ نیک لوگ انبیاء،
صدیقین ،شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوں گے ۔
"ختم نبوت کورس"
مسئلہ اجرائے نبوت پر چند آیات پر قادیانیوں کے باطل شبہات اور ان کے علمی تحقیقی "
"جوابات
قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے باطل استدالل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ امت
محمدیہ علیہ السالم میں قرب قیامت ایک اور نیا رسول قادیان میں پیدا ہوگا۔ اور وہ لوگوں
کی اصالح کرے گا ۔
آیئے پہلے آیات اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدالل کا علمی رد
کرتے ہیں۔
= آیات
= آیت کا ترجمہ
وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس
کی آیتوں کی تالوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنایئں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں۔
اور ان میں سے کچھ اور بھی ہیں جو ابھی آکر ان سے نہیں ملے ۔ وہ بڑے اقتدار واال بڑی
حکمت واال ہے۔
اگر اس آیت کی تفسیر "تفسیر القرآن بالقرآن " دیکھیں تو ہمیں پتہ چلتا ہے کہ
یہ آیت کریمہ دراصل اس دعا کا جواب ہے جو حضرت ابراھیم علیہ السالم نے اپنی اوالد
کے لئے مانگی تھی ۔
وہ دعا یہ ہے ۔
ب" علَیۡہِمۡ ٰا ٰی ِت َ
ک َو یُعَ ِل ُم ُہ ُم الۡ ِک ٰت َ سوۡ ًال ِمنۡہ ُمۡ َیتۡلُوۡا َ
عثۡ ِفیۡہِمۡ َر ُ َربَّنَا َو ابۡ َ
" َو الۡ ِحکۡ َم َۃ َو یُزَ ِکیۡہِمۡ ۡ
ہمارے پروردگار! ان میں سے ایک ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو ۔ جو ان (
کے سامنے تیری آیتوں کی تالوت کرے انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور انہیں
)پاکیزہ بنائے
ہللا ٰ
تعالی نے ابراہیم علیہ السالم کی اس دعا کو قبول کرتے ہوئے میرے آقا صلی ہللا علیہ
وسلم کو مبعوث فرمایا جیسا کہ زیر بحث آیت میں ذکر ہے ۔
وہی ہے جس امی لوگوں میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے اس کی (
)آیتوں کی تالوت کریں اور ان کو پاکیزہ بنایئں اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیں
)سورۃ الجمعہ آیت نمبر (2
مبعوث تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم عرب کے لوگوں میں ہوئے لیکن آپ صلی ہللا علیہ وسلم
ہادی و برحق اور نبی و رسول قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہیں۔ جیسا کہ
قرآن پاک کی اور آیات سے بھی ظاہر ہے۔
پس چونکہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم قیامت تک آنے والے لوگوں کے لئے رسول ہیں لہذا آپ
کے زمانہ نبوت میں کسی نئے رسول یا نبی کی کوئی گنجائش نہیں ۔
علَ ْی ِه
ت َ سلَّ َم ،فَأ ُ ْن ِزلَ ْ صلَّى َّ
ّللاُ َعلَ ْی ِه َو َ سا ِع ْندَ النَّبِي ِ َ ّللاُ َع ْنهُ ،قَا َلُ "" :كنَّا ُجلُو ً ي َّ ض َ ع ْن أَبِي ُھ َری َْرۃ َ َر ِ َ
اج ْعهُ َحتَّى ّللا ،فَلَ ْم ی َُر ِ
سو َل َّ ِ ورۃ ُ ْال ُج ُمعَ ِة َوآخ َِرینَ ِم ْن ُھ ْم لَ َّما یَ ْل َحقُوا ِب ِھ ْم ،قَا َل :قُ ْلتُ َ :م ْن ُھ ْم یَا َر ُس َ ُ
س ْل َمانَ ،ث ُ َّم قَا َل: علَى َ سلَّ َم َیدَہُ َعلَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ سو ُل َّ ِ
ّللا َ ض َع َر ُ
يَ ،و َ ار ِس ُّ ان ْالفَ ِ س ْل َم ُ
سأ َ َل ث َ َالثًاَ ،و ِفینَا َ َ
ان ِع ْندَ الث ُّ َریَّا لَنَالَهُ ِر َجال أ َ ْو َر ُجل ِم ْن َھؤ َُال ِء """".لَ ْو َكانَ ْ ِ
اْلی َم ُ
حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی "
خدمت میں حاضر تھے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم پر سورہ جمعہ نازل ہوئ ۔ "وآخرین
منھم لما یلحقو بھم " تو میں نے عرض کی کہ یارسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم وہ کون ہیں؟
تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی۔ حتی کہ تیسری بار سوال عرض
کرنے پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ہم میں بیٹھے ہوئے سلمان فارسی رضی ہللا عنہ پر
ہاتھ رکھ دیا اور فرمایا کہ اگر ایمان ثریا پر بھی چال گیا تو یہ لوگ (اہل فارس) اس کو
پالیں گے "۔
بخاری حدیث نمبر ،4897کتاب التفسیر ٬باب یأتی من بعدی اسمه احمد ٬مسلم حدیث نمبر (
) ،6498ترمذی حدیث نمبر 3310
اس روایت کا خالصہ یہ ہے کہ اہل فارس کی ایک جماعت ہوگی جو اسالم کی تقویت کا
باعث بنے گی ۔
چنانچہ اس حدیث کے مصداق عجم و فارس میں بڑے بڑے محدثین ،فقھاء ،
مفسرین،مجدین ،صوفیاء اور اولیاء کرام پیدا ہوئے ہیں۔ جو اسالم کی تقویت کا باعث بنے
ہیں۔
اس حدیث نے ہمیں یہ بھی بتایا کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم ہر حاضر اور غائب کے نبی ہیں
اور قیامت تک جتنے بھی لوگ آیئں گے آپ صلی ہللا علیہ وسلم ان سب کے نبی ہوں گے ۔
مزید کسی نئے نبی کی گنجائش نہیں ۔
امام رازی رح جو مرزا قادیانی سے پہلے کے مفسر ہیں اور مرزا صاحب نے ان کو عسل
مصفی میں چھٹی صدی کا مجدد بھی تسلیم کیا ہوا ہے وہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں
کہ
ابن عباس رضی ہللا عنہ اور مفسرین کی جماعت کہتی ہے کہ آخرین سے مراد عجمی ہیں(
یعنی آپ صلی ہللا علیہ وسلم عرب و عجم کے لئے معلم و نبی ہیں )مقاتل رح کہتے ہیں کہ
اس سے تابعین مراد ہیں،
سب اقوال کا حاصل یہ ہے کہ امیین سے عرب مراد ہیں اور آخرین سے مراد وہ تمام اقوام
ہیں جو قیامت تک اسالم میں داخل ہوں گی۔
لیجئے مرزا صاحب کے تسلیم کئے گئے مفسرین کے مطابق اس آیت سے مراد وہ تمام
لوگ ہیں جو قیامت تک اسالم میں داخل ہوں گے آپ صلی ہللا علیہ وسلم ان تمام لوگوں کے
نبی ہیں۔
اس آیت کے بارے میں جو کچھ مرزاقادیانی نے لکھا ہے مرزاقادیانی اس کے مطابق بھی
نبی ثابت نہیں ہوتا بلکہ "کذاب " ثابت ہوتا ہے۔
آیئے مرزاقادیانی کی اس تحریر کا جائزہ لیتے ہیں جو مرزاقادیانی نے زیر بحث آیت کے
متعلق لکھی ہے۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
خدا وہ ہے جس نے امیوں میں سے انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی "
آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے۔ اور انہیں کتاب اور حکمت سکھالتا ہے اگرچہ
پہلے وہ صریح گمراہ تھے۔
اور ایسا ہی وہ رسول جو ان کی تربیت کررہا ہے ایک دوسرے کی بھی تربیت کرے گا
جو انہی میں سے ہوجایئں گے ۔
گویا تمام آیت معہ اپنے الفاظ مقدرہ یوں ہے ۔
علَیۡہِمۡ ٰا ٰیتِ ّٖہ َو یُزَ ِکیۡہِمۡ َو "
سوۡ ًال ِمنۡہ ُمۡ َیتۡلُوۡا َث ِفی الۡا ُ ِم ّٖینَ َر ُ ہ َُو الَّذِیۡ َبعَ َ
ض ٰلل ُّمبِیۡن ۡ
ب َو الۡ ِحکۡ َم َۃ ٭ َو اِنۡ کَانُوۡا ِمنۡ قَبۡ ُل لَ ِفیۡ َ " یُعَ ِل ُم ُہ ُم الۡ ِک ٰت َ
یعنی ہمارے خالص اور کامل بندے بجز صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین کے اور
بھی ہیں۔ جن کا گروہ کثیر آخری زمانہ میں پیدا ہوگا ۔ اور جیسے نبی کریم صلی ہللا علیہ
وسلم نے صحابہ کرام کی تربیت فرمائی۔ اسی طرح آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم اس گروہ
کی بھی باطنی طور پر تربیت فرمائیں گے۔
)آیئنہ کماالت اسالم صفحہ 208٬209مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ (208،209
لیجئے مرزاقادیانی کی تحریر کے مطابق بھی آخرین کی تربیت خود حضور صلی ہللا علیہ
وسلم فرمائیں گے ۔
نہ کہ کوئی ایسا شخص جو قادیان میں پیدا ہو اور خود کو نبی اور رسول کہتا ہو۔
= خالصہ
پس ثابت ہوا کہ اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم قیامت تک آنے
والے تمام انسانوں کے لئے نبی ہیں۔ اب نہ کسی نئے نبی کی ضرورت ہے اور نہ گنجائش
۔
قادیانی قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات سے باطل استدالل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ہللا
تعالی نے تمام انبیاء کرام علیہم السالم سے اور خود رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے یہٰ
عہد لیا تھا کہ سب انبیاء اور رسولوں کے بعد ایک رسول آئے گا ۔ اور تمام انبیاء کرام
علیہم السالم کی زندگی میں اگر وہ رسول آگیا تو تمام انبیاء کرام علیہم السالم کو اس کی
تصدیق اور مدد کرنی پڑے گی ۔ قادیانی کہتے ہیں کہ جس رسول کے آنے کی بات اس آیت
میں ہورہی ہے اس سے مراد نعوذ باہلل مرزاقادیانی ہے۔
آیئے پہلے آیات اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدالل کا علمی رد
کرتے ہیں۔
سوۡل کمۡ ِمنۡ ِک ٰتب َّو ِحکۡ َمۃ ث ُ َّم َجا ٰٓ َء ُکمۡ َر ُ ّللاُ ِمیۡثَاقَ النَّبِ ّٖینَ لَ َما ٰاتَیۡت ُ ُ
َو اِذۡ ا َ َخذَ ّٰ
ع ٰلی ٰذ ِل ُ
کمۡ ص ُرنَّہ ۡ قَا َل َءاَقۡ َررۡتُمۡ َو اَخَذۡتُمۡ َ کمۡ لَتُؤۡ ِمنُ َّن بِ ّٖہ َو لَتَنۡ ُ صدِق ِل َما َم َع ُ
ُّم َ
کمۡ ِمنَ ال ّٰ
ش ِہدِیۡنَ ۔ اِصۡ ِریۡ ۡ قَالُوۡۡا اَقۡ َررۡنَا ۡ قَا َل فَاشۡہَد ُوۡا َو اَنَا َمعَ ُ
اور جب ہللا نے پیغمبروں سے عہد لیا تھا کہ :اگر میں تم کو کتاب اور حکمت عطا کروں
،پھر تمہارے پاس کوئی رسول آئے جو اس ( کتاب ) کی تصدیق کرے جو تمہارے پاس
ہے ،تو تم اس پر ضرور ایمان الؤ گے ،اور ضرور اس کی مدد کرو گے ۔ ہللا نے ( ان
پیغمبروں سے ) کہا تھا کہ :کیا تم اس بات کا اقرار کرتے ہو اور میری طرف سے دی
ہوئی یہ ذمہ داری اٹھاتے ہو؟ انہوں نے کہا تھا :ہم اقرار کرتے ہیں ۔ ہللا نے کہا :تو پھر (
ایک دوسرے کے اقرار کے ) گواہ بن جاؤ ،اور میں بھی تمہارے ساتھ گواہی میں شامل
ہوں ۔
اس آیت کی تفسیر خود مرزاقادیانی نے لکھی ہے اور اس تفسیر میں مرزاقادیانی نے آنے
والے رسول سے مراد حضور صلی ہللا علیہ وسلم کو لیا ہے۔
اور یاد کرجب خدا نے تمام رسولوں سے عہد لیا کہ جب میں تمہیں کتاب اور حکمت دوں "
گا ۔ اور پھر تمہارے پاس آخری زمانے میں میرا رسول آئے گا جو تمہاری کتابوں کی
تصدیق کرے گا ۔ تمہیں اس پر ایمان النا ہوگا۔ اور اس کی مدد کرنی ہوگی۔۔۔
اب ظاہر ہے کہ انبیاء تو اپنے اپنے وقت پر فوت ہوگئے تھے۔ یہ حکم ہر نبی کی امت کے
لئے ہے۔ کہ جب وہ رسول ظاہر ہوتو اس پر ایمان الو۔ اب بتایئں میاں عبد الحکیم خان نیم
تعالی
ٰ مال خطرہ ایمان! کہ اگر صرف توحید خشک سے نجات ہوسکتی ہے تو پھر خدا
ایسے لوگوں سے کیوں مؤاخذہ کرے گا جو گو آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم پر ایمان نہیں
تعالی کے قائل ہیں۔
ٰ التے مگر توحید باری
جب خود مرزاقادیانی نے اس آیت کی تفسیر میں آنے والے نبی سے مراد "محمد صلی ہللا
علیہ وسلم" کو لیا ہے۔ تو پھر قادیانیوں کی تاویل تو خود ہی باطل ہوجاتی ہے۔
مابعث ہللا نبیا من االنبیاء اال اخذ علیہ المیثاق لئن بعث ہللا محمدا وھو حئ لیئومنن بہ "
ولینصرنہ وآصرہ ان یاخذ المیثاق علی امتہ لئن بعث محمد وھم احیاء لیئومنن بہ ولینصرنہ
"
تعالی نے جس نبی کو بھی مبعوث فرمایا اس سے یہ عہد لیا کہ اگر تمہاری زندگی میںہللا ٰ
ہللا ٰ
تعالی نے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کو مبعوث کیا تو ان پر ضرور ایمان الیئں اور
ان کی مدد کریں ۔ اس طرح ہللا نے ہر اس نبی کو حکم دیا کہ آپ اپنی امت سے پختہ عہد
لیں۔ کہ اگر اس امت کے ہوتے ہوئے وہ نبی (آخرالزماں) تشریف لے آئیں تو وہ امت
ضرور ان پر ایمان الئے اور ان کی مدد کرے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت میں رسول کا لفظ نکرہ ہے۔ تو اس سے کیسے معرفہ مراد
ہوسکتی ہے؟؟اسکا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین نے خود نکرہ
کو معرفہ بناکر اس کی تخصیص کردی ہے۔
اس کے عالوہ درج ذیل آیات میں بھی رسول کا لفظ نکرہ ہے ۔
سوۡ ًال(الجمعہ آیت نمبر 14 ث فِی الۡا ُ ِم ّٖینَ َر ُ )۔ ہ َُو الَّذِیۡ َب َع َ
سوۡ ًال (البقرۃ آیت نمبر 2129عثۡ فِیۡہِمۡ َر ُ )۔ َربَّنَا َو ابۡ َ
کمۡ(التوبہ آیت 3128 سوۡل ِمنۡ اَنۡفُ ِس ُ )۔ لَقَدۡ َجا ٰٓ َء ُکمۡ َر ُ
اگر ان آیات میں نکرہ میں تخصیص کرکے رسول کو معرفہ بنایا جاسکتا ہے تو ہماری
زیر بحث آیت میں رسول کو معرفہ کیوں نہیں بنایا جاسکتا؟ ؟
"خالصہ کالم"
خالصہ کالم یہ ہے کہ ہماری زیر بحث آیت میں جس نبی کے آنے کے بارے میں تمام
انبیاء کرام علیہم السالم سے وعدہ لیا جارہا ہے۔ وہ نبی حضرت محمد مصطفی صلی ہللا
علیہ وسلم ہیں۔
اس بات کو 14صدیوں کے تمام مفسرین کرام نے بیان کیا ہے۔ اور خود مرزاقادیانی نے
بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ قادیانیوں کی تاویل باطل ہے۔
قادیانی اجرائے نبوت کے موضوع پر قرآن مجید کی ایک اور آیت پیش کرتے ہیں ۔ اور
کہتے ہیں کہ اس آیت میں ذکر ہے کہ ایمان والوں کی ایک نشانی بیان ہوئ ہے کہ وہ
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد آنے والے نبی پر ایمان رکھتے ہیں۔ پس پتہ چال کہ
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد بھی نبی آسکتے ہیں۔
آیئے پہلے آیت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر قادیانیوں کے باطل استدالل کا علمی
رد کرتے ہیں۔
"آیت"
" ترجمہ"
اس آیت میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کسی نئے نبی پر ایمان النے کا بیان نہیں
ہورہا بلکہ قیامت کے دن پر ایمان النے کا بیان ہورہا ہے۔
اس کی دلیل یہ ہے کی اگر اس آیت کی تفسیر القرآن بالقرآن کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ
قیامت کے دن پر ایمان کو اس آیت میں بیان کیا جارہا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل آیت ہماری
زیر بحث آیت کی تفسیر القرآن بالقرآن ہے۔
اس آیت سے صاف پتہ چل رہا ہے کہ آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی
زندگی ہے۔
قرآن پاک میں 50سے زائد مرتبہ آخرت کا لفظ استعمال ہوا ہے اور ہرجگہ آخرت کے لفظ
سے قیامت اور قیامت کے بعد کی زندگی مراد ہے۔ لہذا قرآن کے اسلوب کے مطابق ہماری
زیر بحث آیت میں بھی قیامت اور قیامت کے بعد یعنی آخرت کی زندگی مراد ہے۔
طالب نجات وہ ہے جو خاتم النبیین پیغمبر آخرالزمان صلی ہللا علیہ وسلم پر جو کچھ اتارا "
گیا اس پر ایمان الئے۔ َو ِبالۡ ٰا ِخ َر ِۃ ہ ُمۡ یُوۡ ِقنُوۡنَ ۔ اور طالب نجات وہ ہے جو پچھلی آنے
"والی گھڑی یعنی قیامت پر یقین رکھے اور جزا اور سزا کو مانتا ہو
مندرجہ باال حوالے میں مرزاقادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ آخرت سے مراد قیامت اور
قیامت کے بعد کی زندگی ہے۔ لہذا قادیانیوں کا باطل استدالل ان کے گرو مرزاقادیانی کے
نزدیک بھی باطل ہے۔
خالصہ کالم یہ ہے کہ قادیانیوں کا اس آیت سے کیا گیا استدالل خود مرزاقادیانی اور حکیم
نورالدین کے نزدیک بھی باطل ہے اور آخرت سے مراد قیامت اور قیامت کے بعد کی
زندگی ہے۔
"یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ ہللا کا دستور یہ ہے کہ اس نے جو نعمت کسی قوم کو دی ہو"
قادیانی اس آیت سے باطل استدالل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت ہللا ٰ
تعالی کی نعمت ہے ۔
اور امت محمدیہ صلی ہللا علیہ وسلم اس نبوت والی نعمت سے کیوں محروم ہوسکتی ہے۔
یاد رہےقادیانی کہتے ہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد شریعت واال نبی نہیں (
) آسکتا
اگر نبوت کو قادیانی نعمت سمجھتے ہیں تو پھر اس نعمت کو مرزاقادیانی کے بعد بھی
جاری رہنا چاہیے تھا حاالنکہ قادیانی مرزاقادیانی کے بعد نبوت کو بند سمجھتے ہیں۔ اگر
قادیانیوں کے نزدیک نبوت نعمت ہے تو مرزاقادیانی کے بعد کیوں بند ہے؟
ہم تو اس بات کے قائل ہیں کہ نبوت کی تکمیل ہوچکی ہے ۔ جس طرح سورج کے نکلنے
کے بعد کسی چراغ کی ضرورت نہیں رہتی اسی طرح حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی
تشریف آوری کے بعد کسی بھی قسم کی نئی نبوت کی ضرورت نہیں ہے۔
یعنی شجرہ اسالم قیامت تک سرسبز و شاداب اور فیضان رساں رہے گا۔ اسالم کا فیضان
قیامت تک منقطع نہیں ہوگا۔
پس ہللا ٰ
تعالی نے خود بتادیا کہ اسالم کا فیضان قیامت تک منقطع نہیں ہوگا تو اس اس سے
نئے نبی کی گنجائش خودبخود ہی ختم ہوجاتی ہے۔
نبوت ایک نعمت ہے لیکن حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے آنے سے اس نعمت کی تکمیل
ہوچکی ہے۔ اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت ایسی کامل نبوت ہے کہ اب تاقیامت
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت ہی چلے گی۔
"ختم نبوت کورس"
اجرائے نبوت پر 6احادیث کے بارے میں قادیانی شبہات اور ان کے علمی تحقیقی جوابات"
"
قادیانی ابن ماجہ کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ نبوت جاری
ہے اور حضورﷺ کے بعد قیامت تک نئے نبی آسکتے ہیں۔
آیئے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر قادیانیوں کے باطل استدالل کا تحقیقی
جائزہ لیتے ہیں۔
سو ُل َّ
ّللاِ صلَّى َ
علَ ْی ِه َر ُ سلَّ َمَ ،علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ سو ِل َّ
ّللاِ َ ع ِن اب ِْن َعبَّاس ،قَا َل :لَ َّما َم َ
ات ِإب َْرا ِھی ُم اب ُْن َر ُ َ
اش
ع َ َ ً
صدِیقا نَ ِبیًّاَ ،ول ْو َ اش ل َكانَ َِ ع َ َ ْ
ضعًا فِي ال َجنَّ ِةَ ،ول ْو َ َ َّ
سل َم َوقَا َلِ :إ َّن لهُ ُم ْر ِ َ
عل ْی ِه َو َ صلى َّ
ّللاُ َ َّ َ
ي َّ ُ ْ ُ ْ َ
.لَعَتقت أخ َوالهُ ال ِق ْبطَ ،و َما ا ْست ِرق قِب ِْط ٌّ
ُ ْ َ َ
ترجمہ
حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ جب رسول ہللاﷺ کے بیٹے ابراہیم ؓ کا انتقال ہو گیا،
تو آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ،اور فرمایا :جنت میں ان کے لیے ایک دایہ ہے ،اور
اگر وہ زندہ رہتے تو صدیق اور نبی ہوتے ،اور ان کے ننہال کے قبطی آٰزاد ہو جاتے ،اور
کوئی بھی قبطی غالم نہ بنایا جاتا ۔
)سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ٬ 1511باب ماجاء فی الصالۃ علی ابن رسول ہللاﷺ(
قادیانی اس روایت سے باطل استدالل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر نبوت جاری نہ ہوتی
ختم ہوچکی ہوتی تو حضورﷺ یہ کیوں فرماتے کہ اگر ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو نبی ہوتے۔
آپﷺ کا اس طرح فرمانا ہمیں بتاتا ہے کہ نبوت جاری ہے اور نئے نبی آسکتے ہیں۔
ابن ماجہ میں ہی ایک اور روایت موجود ہے جو اس روایت کی واضح تشریح کرتی ہے۔
وہ روایت درج ذیل ہے۔
ّللا ب ِْن نُ َمیْرَ ،حدَّثَنَا ُم َح َّمد ُ ب ُْن ِب ْشرَ ،حدَّثَنَا ِإ ْس َما ِعیل ب ُْن أ َ ِبي َخا ِلد ،قَا َل :قُ ْلتُ َحدَّثَنَا ُم َح َّمدُ ب ُْن َ
ع ْب ِد َّ ِ
ص ِغیر، ات َو ُھ َو َ سلَّ َم قَا َلَ :م َ علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاِ َ سو ِل َّ یم ابْنَ َر ُ ّللاِ ب ِْن أ َ ِبي أ َ ْوفَىَ :رأَی َ
ْت إِب َْرا ِھ َ ِلعَ ْب ِد َّ
ي َب ْعدَہُاش ا ْبنُهَُ ،ولَ ِك ْن َال َن ِب َّ سلَّ َم َن ِب ٌّ
ي لَ َع َ ع َل ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ي أ َ ْن َی ُكونَ َب ْعدَ ُم َح َّمد َ ض َ َ .ولَ ْو قُ ِ
ترجمہ
روایت کرنے والے راوی اسماعیل کہتے ہیں کہ)میں نے عبدہللا بن ابی اوفی ؓ سے پوچھا( :
آپ نے رسول ہللاﷺ کے صاحب زادے ابراہیم ؓ کو دیکھا ہے؟ انہوں نے کہا :ابراہیم بچپن
ہی میں انتقال کر گئے ،اور اگر نبی اکرمﷺ کے بعد کسی کا نبی ہونا مقدر ہوتا تو آپ کے
بیٹے زندہ رہتے ،لیکن آپ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔
)سنن ابن ماجہ حدیث نمبر ٬ 1510باب ماجاء فی الصالۃ علی ابن رسول ہللاﷺ(
اس روایت سے پتہ چال کہ حضورﷺ کے صاحبزادے اس لئے فوت ہوگئے کیونکہ نبوت
جاری نہیں ہے ختم ہوگئی ہے۔
کیونکہ اگر وہ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صالحیت موجود تھی ۔
اس روایت پر محدثین نے کالم کیا ہے اور اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ اس لئے
قرآن کی نص اور صحیح روایات کے ہوتے ہوئے ایک ضعیف اور کمزور روایت کو
کیسے قبول کیا جاسکتا ہے۔
چند حوالہ جات مالحظہ فرمائیں جہاں محدثین نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔
۔ شیخ ابن عبدالبر کہتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم کہ اس قول کے کیا معنی ہیں کیوں کہ 1
یہ کہاں ہے کہ ہر نبی کا بیٹا نبی ہو۔ اس لئے کہ حضرت نوح علیہ السالم کے بیٹے نبی
نہیں تھے۔
۔ عالمہ ابن حجر رح نے فرمایا ہے کہ اس روایت کا راوی "ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان" 2
متروک الحدیث ہے۔
۔ امام نووی رح نے تہذیب االسماء میں لکھا ہے کہ یہ حدیث باطل ہے۔ غیب کی باتوں پر 3
جسارت ہے ۔ بڑی بےتکی بات ہے۔
۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رح فرماتے ہیں کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے ۔ اس کا کوئی 4
اعتبار نہیں۔اس کی سند میں ابوشیبہ ابراھیم بن عثمان ہے جو ضعیف ہے۔
اگر یہ روایت صحیح بھی ہوتی اور اس کے راوی پر بھی جرح نہ ہوتی پھر بھی زیادہ
سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ اگر حضورﷺ کے بعد نبوت جاری ہوتی اور حضرت
ابراہیم ؓ زندہ رہتے تو ان میں نبی بننے کی صالحیت موجود تھی۔ جس طرح حضرت عمر ؓ
میں نبی بننے کی صالحیت موجود تھی لیکن وہ نبی نہیں تھے کیونکہ نبوت کا دروازہ بند
ہے۔
اس روایت میں ایک حرف "لو" استعمال ہوا ہے۔ اور حرف "لو" وہاں استعمال ہوتا ہے
جہاں یہ معنی ہوکہ یہ کام نہیں ہوسکتا لیکن بطور مثال کے بیان کیا گیا ہو۔ جیسے قرآن
پاک میں ارشاد ہے۔
صفُوۡنَ ۔
ع َّما َی ِ
عرۡ ِش َ
ب الۡ َ سدَتَا ۡ فَ ُ
سبۡحٰ نَ ّٰ
ّللاِ َر ِ لَوۡ کَانَ ِفیۡہِ َما ٰا ِل َہۃ ا َِّال ّٰ
ّللاُ لَفَ َ
اگر آسمان اور زمین میں ہللا کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔ لہذا
عرش کا مالک ہللا ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں ۔
اس آیت میں حرف "لو" استعمال کرکے یہ بیان کیا گیا ہے اگر ہللا کے عالوہ کوئی اور الہ
زمین و آسمان میں ہوتا تو زمین و آسمان کا نظام درہم برہم ہوجاتا۔ اب یہ تو یقینی بات ہے
کہ ہللا کے عالوہ کوئی اور الہ نہیں لیکن حرف "لو" استعمال کر کے اس کو بطور مثال
ذکر کیا گیا ہے۔
اسی طرح اس روایت میں بھی بطور مثال ذکر ہے کہ ویسے تو نبوت کا دروازہ بند ہے
لیکن بالفرض اگر نبوت کا دروازہ کھال ہوتا تو حضرت ابراہیم ؓ رضی ہللا عنہ میں نبی
بننے کی صالحیت موجود تھی ۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اس سے ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ رضی ہللا عنہا کے نزدیک نبوت
جاری تھی۔
قول اماں عائشہ صدیقہ ؓ اور قول حضرت مغیرہ ؓ کی دونوں مکمل عبارتیں بمع ترجمہ
وتشریح مالحظہ فرمائیں ۔
عیسی انہ تقتل الخنزیر ویکسر الصلیب ویزید فے الحالل اے یزید فی حالل ’’ ٰ وفے حدیث
نفسہ بان یتزوج ویولد لہ وکان لم یتزوج قبل رفعہ الی السماء فزاد بعد الہبوط فی الحالل فہینذ
یومن کل احد من اھل الکتب یتیقن بانہ بشروعن عائشہ قولوا انہ خاتم االنبیاء وال تقولو االنبی
عیسی وھذا ایضاال ینافی حدیث النبی بعدہ النہ اراد النبی ینسخ
ٰ بعدہ وھذا ناظر الی نزول
شرعہ ۰
عیسی علیہ السالم نزول کے ( ٰ عیسی علیہ السالم کے قصہ میں ہے کہ حضرت
ٰ حضرت
بعد خنزیر کو قتل کریں گے۔ اور صلیب کو توڑیں گے اور اپنے نفس کی حالل چیزوں میں
عیسی علیہ
ٰ اضافہ کریں گے یعنی نکاح کریں گے اور آپ کی اوالد ہوگی ۔ کیونکہ حضرت
السالم نے آسمان پر اٹھائے جانے سے پہلے نکاح نہیں فرمایا تھا۔ آسمان سے اترنے کے
بعد نکاح فرمائیں گے۔ (جو لوازم بشریت سے ہے) پس اس حال کو دیکھ کر ہر شخص اہل
عیسی
ٰ کتاب میں سے ان کی نبوت پر ایمان لے آئے گا اور اس بات کا یقین کرے گا کہ
نصاری اب تک سمجھتے رہے۔ اور ٰ علیہ السالم بالشبہ ایک بشر ہیں۔ خدا نہیں جیسا کہ
عائشہ صدیقہ ؓ سے جو یہ منقول ہے کہ وہ فرماتی تھیں کہ آپ ﷺ کو خاتم النبیین کہو اور
عیسی علیہ
ٰ یہ نہ کہو کہ آپ ﷺ کے بعد کوئی نبی آنے واال نہیں۔ ان کا یہ ارشاد حضرت
عیسی علیہ السالم کا دوبارہ دنیا
ٰ السالم کے نزول کو پیش نظر رکھ کر تھا۔ اور حضرت
عیسی علیہ السالم نزول کے بعد ٰ میں آنا حدیث النبی بعدی کے منافی نہیں کیونکہ حضرت
حضور ﷺ ہی کی شریعت کے متبع ہوں گے۔ اور النبی بعدی کی مراد یہ ہے کہ کوئی ایسا
)نبی نہ آئے گا جو آپ کی شریعت کا ناسخ ہو۔
:اور اسی قسم کا قول حضرت مغیرہ ابن شعبہ ؓسے منقول ہے
عن الشعبی قال قال رجل عند المغیرۃ بن شعبۃ صلی اہللا علی محمد خاتم االنبیاء النبی ’’
عیسی علیہ السالم
ٰ بعدہ فقال المغیرہ بن شعبۃ حسبک اذا قلت خاتم االنبیاء فانا کنا نحدث ان
خارج ھو خرج فقد کان قبلہ وبعدہ۰
تعالی (
ٰ شعبی ؒ سے منقول ہے کہ ایک شخص نے حضرت مغیرہ ؓ کے سامنے یہ کہا کہ ہللا
رحمت نازل کرے محمد ﷺ پر جو خاتم االنبیاء ہیں اور ان کے بعد کوئی نبی نہیں۔ حضرت
مغیرہ ؓ نے فرمایا خاتم االنبیاء کہہ دنیا کافی ہے۔ یعنی النبی بعدہ کہنے کی ضرورت نہیں۔
عیسی علیہ السالم پھر تشریف الئیں گے۔ پس جب وہ
ٰ کیونکہ ہم کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ
)آئیں گے تو ایک ان کا آنا محمد ﷺ سے پہلے ہوا اور ایک آنامحمد ﷺ کے بعد ہوگا۔
رحمت دو عالم ﷺ فرماتے ہیں ’’:انا خاتم النبیین النبی بعدی‘‘۰اور حضرت عائشہ صدیقہ ؓ
کا قول ’’:وال تقولوا النبی بعدہ ‘‘۰یہ صریحا ً اس فرمان نبوی ﷺ کے مخالف ہے۔
قول صحابہ ؓ وقول نبوی ﷺ میں تعارض ہوجائے تو حدیث وفرمان نبویﷺ کو ترجیح ہوگی۔
پھر النبی بعدی حدیث شریف متعدد صحیح اسناد سے مذکور ہے۔ اور قول عائشہ صدیقہ ؓ
ایک موضوع اور بے سند قول ہے۔ صحیح حدیث کے مقابلہ میں یہ کیسے قابل حجت
ہوسکتا ہے؟
قادیانی دجل مالحظہ ہو کہ وہ اس قول کو جو مجمع البحار میں بغیر مرفوع متصل سند کے
نقل کیا گیا ہے استدالل کرتے وقت بھی آدھا قول نقل کرتے ہیں۔ اس میں ہے ۔
یعنی اماں عائشہ صدیقہ ؓ سیدنا عیسی علیہ السالم کے نزول کو ذہن میں رکھ کر یہ
فرمارہی ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم نے بھی تشریف النا ہے۔
سیدنا عیسی علیہ السالم کا مقام نبوت باقی ہے۔ اور دور نبوت ختم ہوچکا ہے۔ اب وہ (
)امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے آیئں گے
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے اس قول کے محدثین نے بہت سے مطلب بیان کئے ہیں جو کہ
درج ذیل ہیں۔
"پہال معنی"
اس قول میں بعدہ خبر کے مقام پرآیا ہے۔ اور خبر افعال عامہ یا افعال خاصہ سے مخدوف
ہے۔ اس لئے اس کا پہال معنی یہ ہوگا ’’:النبی مبعوث بعدہ۔‘‘ حضور ﷺ کے بعد کسی کو
مشکوۃ پر یہی ترجمہ مراد لیا گیا ہے جو صحیح ہے۔
ٰ نبوت نہیں ملے گی۔ مرقات حاشیہ
" دوسرا معنی"
النبی خارج بعدہ۔‘‘حضور ﷺ کے بعد کسی نبی کا ظہور نہیں ہوگا۔ یہ غلط ہے اس لئے ’’
عیسی علیہ السالم نزول فرمائیں گے۔ حضرت مغیرہ ؓ نے ان معنوں سے ’’:
ٰ کہ حضرت
التقولوا ال نبی بعدہ‘‘۰کی ممانعت فرمائی ہے۔ جو سوفیصد ہمارے عقیدہ کے مطابق ہے۔
النبی حیی بعدہ۔‘‘حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی زندہ نہیں۔ ان معنوں کوسامنے رکھ ’’
کرحضرت عائشہ ؓنے ’’ :التقولوا النبی بعدہ‘‘۰فرمایا۔ اس لئے کہ خود ان سے حضرت
عیسی علیہ السالم کے نزول کی روایات منقول ہیں۔
ٰ
دوسری کتب حدیث (بخاری ومسلم کے عالوہ)صرف اس صورت میں قبول کے الئق ’’
‘‘ہوں گے کہ قرآن اور بخاری اور مسلم کی متفق علیہ حدیث سے مخالف نہ ہوں۔
جب صحیحین کے مخالف مرزا کے نزدیک کوئی حدیث کی کتاب قابل قبول نہیں تو
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف منسوب بے سند قول صحیحین کے مخالف قابل قبول
ہوگا؟
‘‘حدیث النبی بعدی ایسی مشہور تھی کہ کسی کو اس کی صحت میں کالم نہ تھا۔ ’’
کیا یہ ممکن ہے کہ حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے ایسی مشہور وصحیح حدیث کے مخالف یہ
قول ارشاد فرمایا ہو؟
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول ہللاﷺ سے پوچھا کہ کیا حطیم بھی
بیت ہللا میں داخل ہے؟ آپﷺ نے فرمایا کہ ہاں ،پھر میں نے پوچھا کہ پھر لوگوں نے اسے
کعبے میں کیوں نہیں شامل کیا؟ آپﷺ نے جواب دیا کہ تمہاری قوم کے پاس خرچ کی کمی
پڑ گئی تھی۔ پھر میں نے پوچھا کہ یہ دروازہ کیوں اونچا بنایا؟ آپﷺ نے فرمایا کہ یہ بھی
تمہاری قوم ہی نے کیا تاکہ جسے چاہیں اندر آنے دیں اور جسے چاہیں روک دیں۔ اگر
تمہاری قوم کی جاہلیت کا زمانہ تازہ تازہ نہ ہوتا اور مجھے اس کا خوف نہ ہوتا کہ ان کے
دل بگڑ جائیں گے تو اس حطیم کو بھی میں کعبہ میں شامل کر دیتا اور کعبہ کا دروازہ
زمین کے برابر کر دیتا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ قوم تازہ تازہ ایمان الئی ہے ورنہ میں بیت اہللا شریف کو توڑ کر اس
کے دو دروازے کردیتا۔ ایک سے لوگ داخل ہوتے دوسرے سے نکل جاتے۔
یہ روایت حضرت عائشہ صدیقہ ؓ سے بخاری میں موجود ہے۔ کوئی شخص النبی بعدی کی
عیسی علیہ السالم کی آمد کا انکار نہ کردے۔
ٰ روایت سے قادیانی دجالوں کی طرح حضرت
اس لئے فرمایا کہ یہ نہ کہو کہ حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا ۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی طرف اس قول کی نسبت صریحا ً بے اصل وبے سند ہے۔ دنیا
کی کسی کتاب میں اس کی متصل مرفوع سندمذکور نہیں۔ ایک بے سند قول سے نصوص
قطعیہ اور احادیث متواترہ کے خالف استدالل کرنا صرف قادیانی دجل وفریب ہے۔
جواب نمبر 9
معزز قارئین! ہللا کے آخری نبی محمدﷺ کی مرفوع ،متصل اور صحیح احادیث مختلف
کتب احادیث میں ماجود ہیں جنکے اندر آپﷺ نے فرمایا کہ " النبی بعدی " میرے بعد
کوئی نبی نہیں ،
یہ الفاظ آنحضرتﷺ سے حضرت ابو ھریرہ ؓ نے صحیح بخاری حدیث نمبر ( ، 3455
صحیح مسلم حدیث نمبر 1842میں ،حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ہللا عنہ نے صحیح
مسلم حدیث نمبر 2404میں اور حضرت ثوبان بن بجداد رضی ہللا عنہ نے سنن ترمذی
حدیث نمبر ، 2219سنن ابی داؤد حدیث نمبر 4252اور مستدرک حاکم میں حدیث نمبر
) 8390میں صحیح اسناد کے ساتھہ بیان کی
جب خود نبی کریمﷺ نے یہ الفاظ فرمائے تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ اپ کے بعد کوئی
کہے کہ " النبی بعدی " نہ کہو ؟ اور کیا آنحضرتﷺ کے واضح اور صریح الفاظ کے بعد
کسی صحابی کی طرف منسوب علم اصول احادیث کی رو قابل قبول رہ جاتی ہے ؟؟ جس
میں کسی صحابی کا اپنا قول فرمان رسول ہللاﷺ سے ٹکراتا ہو ؟؟ ہرگز نہیں
بلکہ اصول حدیث ہے کہ آنحضرتﷺ کی مرفوع متصل صحیح حدیث کے مقابلے میں اگر
کسی صحابی کا اپنا قول چاہے بظاہر متصل اور صحیح سند کے ساتھہ بھی ملے تو حدیث
رسول ہللاﷺ کے آگے اسے قبول نہیں کیا جائے گا۔چہ جائیکہ وہ قول غیر مستند ہو ۔
مرزائی دھوکے باز اور شعبدہ باز ہمیشہ دجل وفریب دیتے رہتے ہیں ،انہیں وہ احادیث
نبویہ نظر نہیں آتی یا وہ دیکھنا نہیں چاہتے جنکے اندر خود خاتم االنبیاء نے فرمایا " النبی
بعدی " انہیں اگر کسی کتاب سے غیر مستند بات نظر آجائے جو کسی صحابی کی طرف
منسوب ہو تو وہ اس کو اچھال اچھال کر دھوکے دیں گے ۔
ایسا ہی ایک دھوکہ یہ دیا جاتا ہے کہ امام جالل الدین سیوطی رحمتہ ہللا علیہ نے تفسیر
درمنشور میں ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ رضی ہللا عنہا کا یہ قول ذکر کیا ہے کہ اپ نے
فرمایا صرف یہ کہا کرو کہ آنحضرتﷺ خاتم النبیین ہیں اور یہ مت کہا کرو کے "النبی
بعدی" یعنی اپ کے بعد کوئی نبی نہیں۔
اگرچہ امام سیوطی نے اسی جگہ اس سے پہلے متعدد مستند اور صحیح روایات لکھی ہیں
جو مرزائی عقیدہ کا پاش پاش کرتی ہیں ،نیز حضرت عائشہ ؓ رضی ہللا عنہا کی طرف
منسوب اس قول کے بعد وہیں امام سیوطی نے حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ رضی ہللا عنہ کا
قول بھی ذکر کیا ہے جسکے اندر اس بات کی وضاحت ہے کہ النبی بعدی کیوں نہ کہا کرو
عیسی علیہ اسالم نے دوبارہ نہیں
ٰ وہ اس وجہ سے تھا کہ کوئی یہ نہ سمجھ لے کہ حضرت
آنا ،لیکن مرزائی اس روایت کا ذکر نہیں کریں گے ۔
آئیے جائزہ لیتے ہیں کہ حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب یہ قول سند اور علم اصول
حدیث کے مطابق صحیح ہے ؟
تفسیر درمنشور میں امام سیوطی نے خود تو اس روایت کی کوئی سند نہیں بیان کی ،وہاں
مصنف ابن ابی شیبہ کا حوالہ دیا ہے ،جب ہم نے مصنف ابن ابی شیبہ کی طرف رجوع
کیا تو وہاں اس کتاب کے مختلف نسخوں اور اڈیشنوں میں اس روایت کی سند مختلف ہے ،
پرانے زمانے کے نسخوں میں اس روایت کی سند میں حضرت عائشہ ؓ رضی ہللا عنہا سے
روایت کرنے والے راوی کا نام " جریر بن حازم " ہے یعنی جریر بن حازم اور حضرت
عائشہ ؓ رضی ہللا عنہا کے درمیان کوئی اور راوی نہیں ہے ،
بعد میں کچھ نسخوں میں اس روایت کی سند میں"جریر بن حازم" اور حضرت عائشہ ؓ کے
درمیان مزید راوی " محمد " کا اضافہ ہے ( جس سے مراد مشہور تابعی محمد بن سیرین
) رحمتہ ہللا علیہ ہے
مصنف ابن ابی شیبہ کے جن ایڈیشنوں میں راوی جریر بن حازم اور حضرت عائشہ ؓ کے
عالوہ کوئی اور راوی نہیں ہے وہاں یہ روایت منقطع ٹھہرتی ہے .کیونکہ"یہ جریر بن
"حازم تقریبا ً 90ہجری میں پیدا ہوۓ۔
" اور "حضرت عائشہ ؓ کی وفات تقریبا ً 58ہجری میں ہو چکی تھی
اس طرح جریر بن حازم تو پیدا ہی حضرت عائشہ ؓ کی وفات کے تقریبا ً 30سال بعد ہوۓ
،
لہذا ایسا ممکن ہی نہیں کہ انہوں نے یہ روایت حضرت عائشہ ؓ سے سنی ہو .اسی وجہ
.سے یہ روایت نہ قابل اعتبار ہے
مصنف ابن ابی شیبہ کے دوسرے نسخوں میں جن میں جریر بن حازم کے بعد ایک راوی "
محمد " کا ذکر ہے اس سے مراد تابعی محمد بن سرین رحمتہ ہللا علیہ ہیں ،
اور دلچسپ بات یہ ہے کہ محمد بن سیرین کی بھی مالقات بھی حضرت عائشہ ؓ سے ثابت
نہیں اور نہ ہی انہوں نے کوئی حدیث حضرت عائشہ ؓ سے سنی ہے ،مشہور امام جرح
وتعدیل ابن ابی حاتم لکھتے ہیں " ابن سرین لم یسمع من عائشة شیئا َ َۡ " ابن سرین نے
حضرت عائشہ ؓ سے کچھ نہیں سنا
یہی بات حافظ ابن حجر عسقالنی رحمتہ ہللا علیہ نے بھی نقل کی ہے۔
اس طرح ثابت ہوا کہ حضرت عائشہ ؓ کی طرف منسوب یہ روایت منقطع یا مرسل ہے اور
اصول احادیث کی رو سے قابل اعتبار نہیں ،بلکہ مرفوع اور متصل احادیث کے ہوتے
.ہوۓ مردود اور ناقابل اعتماد ہے
پھر مزے کی بات ہے کہ ام المؤمنین حضرت عائشہ ؓ خود آنحضرتﷺ سے روایت فرماتی
:ہیں کہ اپ نے فرمایا
الیبقی بعدی من النبوۃ اال المبشرات ،قالو یا رسول ہللا وما المبشرات ؟ قال :الرؤیا "
" الصالحة یراھا الرجل أو تری له
میرے بعد مبشرات کے عالوہ نبوت میں سے کچھ باقی نہیں ،صحابہ نے عرض کی یا
رسول ہللاﷺ مبشرات کیا ہیں ؟ تو اپ نے فرمایا :نیک آدمی جو خواب دیکھتا ہے یا اسے
دکھایا جاتا ہے
اور دوسری بات یہ کہ بالفرض محال اگر اس قول کو صحیح بھی تسلیم کر لیں تو اماں
عائشہ صدیقہ ؓ نے یہ بات اس لئے فرمائ ہے کیونکہ سیدنا عیسی علیہ السالم نے تشریف
النا ہے۔ اور ان کے آنے سے نبیوں کی تعداد میں اضافہ نہیں ہوگا۔
حدیث نمبر 3
میں نے حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے سنا وہ کہہ رہے تھے :رسول ہللاﷺ نے فر ما یا:بال شبہ
انبیاءمیں سے آخری نبی ہوں ۔ اور میری مسجد آخری مسجد ہے۔( جسے کسی نبی ؑ میں تمام
)نے تعمیر کیا
اس کا پہال جواب تو یہ ہے کہ سارے انبیاء کرام علیہم السالم کی سنت مبارکہ تھی کہ وہ
مسجد بناتے تھے ۔ اور جب حضورﷺ نے مسجد نبوی بنوائی تو ظاہر ہے کہ حضورﷺ
کے بعد کسی نئے نبی نے نہیں آنا تھا اور انبیاء کرام علیہم السالم کی جو مسجد بنانے کی
سنت تھی اس پر عمل نہیں ہونا تھا اس لئے حضورﷺ نے فرمایا کہ مسجد نبوی انبیاء کرام
علیہم السالم کی آخری مسجد ہے۔
یہ حدیث تو ختم نبوت کی دلیل بنتی ہے نہ کہ اجرائے نبوت کی دلیل ہے۔
اس حدیث میں جہاں مسجدی آخر المساجد کے الفاظ آئے ہیں وہاں احادیث میں آخر مساجد
االنبیاء کے الفاظ بھی آئے ہیں۔
حضرت عائشہ صدیقہ ؓ فرماتی ہیں کہ
"قال رسول ہللاﷺ انا خاتم االنبیاء ومسجدی خاتم مساجد االنبیاء"
رسول ہللاﷺ نے فرمایا کہ میں انبیاء کو ختم کرنے واال ہوں اور میری مسجد انبیاء کی "
"مساجد کو ختم کرنے والی ہے
االقصی من االکمال(
ٰ )کنزالعمال حدیث نمبر ٬ 34999فضل الحرمین و مسجد
لیجئے اماں عائشہ صدیقہ ؓ کی اس روایت سے بات بالکل واضح ہوگئی کہ اس روایت سے
مراد یہی ہے کہ مسجد نبوی انبیاء کی آخری مسجد ہے۔
خالصہ کالم یہ ہے کہ اس روایت سے یہ بالکل ثابت نہیں ہوتا کہ نبوت جاری ہے اور نئے
نبی آسکتے ہیں۔ بلکہ اس روایت میں تو حضورﷺ نے اپنی ختم نبوت کو بیان فرمایا ہے کہ
جس طرح میں نبیوں کو ختم کرنے واال ہوں۔ اور میرے بعد نبیوں کی تعداد میں کسی ایک
نبی کا بھی اضافہ نہیں ہوگا۔
اسی طرح میری مسجد بھی انبیاء کرام علیہم السالم کی مساجد کو ختم کرنے والی ہے۔ اب
انبیاء کرام علیہم السالم کی بنوائی گئی مساجد میں بھی کسی ایک مسجد کا اضافہ نہیں
ہوگا۔
قادیانی ایک اور حدیث پر اعتراض کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس روایت میں حضورﷺ
نے حضرت عباس ؓ کو خاتم المہاجرین فرمایا ہے۔
اور ہجرت تو تاقیامت جاری رہے گی ۔ اسی طرح حضورﷺ نے اپنے آپ کو خاتم النبیین
فرمایا ہے۔ اور نبوت بھی تاقیامت جاری رہے گی۔
"اطمئن یا عم فانک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ"
حضورﷺ نے فرمایا اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے (
)ہیں۔ جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے واال ہوں
"اطمئن یا عم فانک خاتم المہاجرین فی الہجرۃ کما انا خاتم النبیین فی النبوۃ"
حضورﷺ نے فرمایا اے چچا آپ اطمینان رکھیں کیونکہ آپ مہاجرین کو ختم کرنے والے (
)ہیں۔ جس طرح میں نبوت میں نبیوں کو ختم کرنے واال ہوں
حضرت عباس ؓ کو خاتم المھاجرین اس لئے کہا گیا تھا کیونکہ مکہ فتح ہونے سے پہلے وہ
آخری مھاجر تھے جو مکہ مکرمہ سے ہجرت کر رہے تھے لیکن جب دیکھا کہ آپﷺ اپنی
فوج کے ہمراہ مکہ فتح کرنے کے لئے تشریف ال رہے ہیں تو حضرت عباس ؓ نے افسوس
ظاہر کیا کے میں ہجرت کی فضیلت سے محروم رہا۔
حضورﷺ نے حضرت عباس ؓ کو تسلی اور حصول ثواب کی بشارت دیتے ہوۓ فرمایا کہ
آپ خاتم المھاجرین ہیں ۔
اس لئے کے مکہ مکرمہ سے واقعی ہجرت کرنے والے آخری مھاجر حضرت عباس ؓ
تھے ،مکہ مکرمہ حضورﷺ کے ہاتھوں ایسا فتح ہوا جو قیامت کی صبح تک دارالسالم
رہے گا تو مکہ مکرمہ سے آخری مہاجر حضرت عباس ؓ ہی ہوئے ۔
ہجرت دارالکفر سے داراالسالم کی طرف کی جاتی ہے۔ اور مکہ مکرمہ قیامت تک
دارالسالم رہے گا ۔مکہ مکرمہ سے قیامت تک ہجرت نہیں ہوگی۔
اس لئے حضرت عباس ؓ مکہ مکرمہ سے ہجرت کرنے والے آخری مہاجر تھے۔ کیونکہ
ان کے بعد قیامت تک مکہ مکرمہ سے کوئی ہجرت نہیں کرے گا ۔ کیونکہ مکہ مکرمہ
قیامت تک داراالسالم رہے گا۔
قادیانی ترمذی شریف کی درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس
روایت میں خواب کو نبوت کا چھیالیسواں حصہ قرار دیا گیا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ نبوت
جاری ہے۔ اور نئے نبی بھی آسکتے ہیں۔
سلَّ َم قَا َلُ :رؤْ یَا ْال ُمؤْ ِم ِن ُج ْزء ِم ْن ِستَّة َوأ َ ْر َبعِینَ
علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ امتِ ،أَ َّن النَّبِ َّ
ي َ ص ِعبَادَۃ َ ب ِْن ال َّ ع ْن ُ َ
ُج ْز ًءا ِمنَ النُّب َُّو ِۃ ۔
حضرت عبادہ بن صامت ؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا” :مومن کا خواب نبوت
کا چھیالیسواں حصہ ہے۔
قادیانی مندرجہ ذیل حدیث پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس حدیث میں رسول
ہللاﷺ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد 30جھوٹے دجال نبوت کا دعوی کریں گے ۔ اور اب 30
جھوٹے مدعیان نبوت کی تعداد پوری ہوچکی ہے۔ لہذا اب سچے انبیاء آیئں گے ۔
" آنخضرتﷺ فرماتے ہیں کہ دنیا کے آخر تک قریب 30کے دجال پیدا ہوں گے"
یہاں مرزاقادیانی نے خود تسلیم کیا ہے کہ دنیا کے آخر تک ایسے جھوٹے دجال آیئں گے ۔
یعنی زمانے کی قید نہیں ہے کہ اس زمانے تک ایسے دجال آیئں گے اور اس زمانے کے
بعد ایسے دجال نہیں آسکتے۔
مرزاقادیانی کی اس تحریر سے پتہ چال کہ دجالوں کی تعداد پوری نہیں ہوئ بلکہ ابھی
مزید ایسے جھوٹے دجالوں نے آنا ہے جو نبوت کا دعوی کریں گے۔
اس حدیث میں جن دجالوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ بڑے بڑے دجال ہیں جو نبوت کا دعوی
کریں گے ۔ اور ان کا فتنہ کچھ دیر باقی رہے گا ۔
جن کا فتنہ باقی نہیں رہا اور ان کا فتنہ تھوڑی دیر چال ۔ ان کا ذکر نہیں ہے۔
آنخضرتﷺ نے جو اس امت میں تیس دجالوں کی آمد کی خبر دی تھی ۔ وہ پوری ہوکر "
" 27کی تعداد مکمل ہوچکی ہے
) حجج الکرامتہ(
اب مرزاقادیانی کو بھی ان دجالوں میں شامل کر کے ایسے جھوٹے دجالوں کی تعداد 28
ہوچکی ہے۔
خالصہ کالم یہ ہے کہ اس روایت سے نبوت کا جاری رہنا ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ ثابت ہوتا
ہے کہ حضورﷺ کے بعد بھی بہت سے لوگ جو جھوٹے ہوں گے وہ نبوت کا دعوی کریں
تعالی نے مجھ پر رسالت اور نبوت کو منقطع گے ۔ حاالنکہ حضورﷺ نے فرمایا ہے کہ ہللا ٰ
کر دیا ہے اب میرے بعد نہ کوئی نبی آئے گا اور نہ کوئی رسول آئے گا ۔
مرزاقادیانی نے نئے عقیدہ ظل اور بروز کی بنیاد رکھی۔ دراصل مرزاقادیانی نے عقیدہ
ظل اور بروز ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ سے چوری کیا۔ قادیانیوں کے عقیدہ ظل
اور بروز کو سمجھنے سے پہلے ہندوؤں کا عقیدہ حلول اور تناسخ سمجھنا ضروری ہے۔
ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ اور حلول کا خالصہ یہ ہے کہ جب بندہ ایک دفعہ مرجاتا ہے تو اس
کی روح دوسری دفعہ کسی میں حلول کر جاتی ہے اور اسی انسان کا دوسرا جنم ہوجاتا
ہے۔ جو پہلے مرچکا
ہوتا ہے۔
لیکن ہندوؤں کے اس عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب کوئی انسان دوسری دفعہ
جنم لے لیتا ہے تو وہ دوسری دفعہ جنم لے لینے کے بعد پہلے جنم کے والدین کو اپنا
والدین نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کی بیوی کو اپنی بیوی نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کے
بچوں کو اپنا بچہ نہیں کہ سکتا۔ اسی طرح جس زمین و جائیداد کا پہلے جنم میں وارث اور
مالک ہوتا ہے دوسرے جنم میں اس زمین و جائیداد کا وارث اور مالک نہیں کہالسکتا۔
"اگر کوئی شخص اسی خاتم النبیین میں ایسا گم ہو کہ بباعث نہایت اتحاد اور نفی غیریت
کے اسی کا نام پالیا ہو اور صاف آیئنہ کی طرح محمدی چہرہ کا اس میں انعکاس ہوگیا ہو
تو وہ بغیر مہر توڑنے کے نبی کہالئے گا۔ کیونکہ وہ محمد ہے گو ظلی طور پر ۔
پس باوجود اس شخص کے دعوی نبوت کے جس کا نام ظلی طور پر محمد اور احمد رکھا
گیا ۔ پھر بھی سیدنا محمد صلی ہللا علیہ وسلم خاتم النبیین ہی رہا۔ کیونکہ یہ محمد ثانی اسی
محمد صلی ہللا علیہ وسلم کی تصویر اور اسی کا نام ہے"
"خدا ایک اور محمد صلی ہللا علیہ وسلم اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم االنبیاء ہے۔ اور سب
سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے
محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔
جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ
بظاہر دو نظر آتے ہیں ۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے"
مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے پتہ چال کہ جو شخص حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی
کامل اتباع کرے گا اسے نبوت مل جائے گی ۔
مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت یہ کہتی ہے کہ اگر حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی کامل
اتباع کی جائے تو نبوت ملتی ہے۔ تو ان کا یہ کہنا ہی کفر ہے۔
کیونکہ نبوت کسبی چیز نہیں ہے بلکہ وہبی چیز ہے۔ یعنی نبوت اپنی محنت کرنے اور
ارادہ کرنے سے نہیں ملتی بلکہ ہللا ٰ
تعالی جس کو عطا کریں اس کو ملتی ہے۔ جیسا کہ
مندرجہ ذیل آیت میں ہللا ٰ
تعالی نے فرمایا ہے۔
ّللاِ ۡ ۡ َ ّٰ
ّللاُ س ُل ّٰ "و اِذَا َجا ٰٓ َءتۡہ ُمۡ ٰایَۃ قَالُوۡا لَنۡ نُّؤۡ ِمنَ َحتّٰی نُؤۡ ٰتی ِمثۡ َل َما اُوۡ ِت َ
ی ُر ُ َ
عذَاب ّللاِ َو َ
صغَار ِعنۡدَ ّٰ ب الَّذِیۡنَ اَجۡ َر ُموۡا َ ُصیۡ ُ سی ِسالَتَہ ۡ َ
ث یَجۡ َع ُل ِر َاَعۡلَ ُم َحیۡ ُ
شدِیۡدۡ ِب َما کَانُوۡا یَمۡ ُک ُروۡنَ " َ
"اور جب ان ( اہل مکہ ) کے پاس ( قرآٰن کی ) کوئی آیت آتی ہے تو یہ کہتے ہیں کہ :ہم
اس وقت تک ہرگز ایمان نہیں الئیں گے جب تک کہ اس جیسی چیز خود ہمیں نہ دے دی
جائے جیسی ہللا کے پیغمبروں کو دی گئی تھی ۔( حاالنکہ ) ہللا ہی بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی
پیغمبری کس کو سپرد کرے ۔ جن لوگوں نے ( اس قسم کی ) مجرمانہ باتیں کی ہیں ان کو
اپنی مکاریوں کے بدلے میں ہللا کے پاس جاکر ذلت اور سخت عذاب کا سامنا ہوگا"
قادیانی کہتے ہیں کہ ظل سائے کو کہتے ہیں اور مرزاقادیانی نے حضور صلی ہللا علیہ
وسلم کی اتنی کامل اتباع کی کہ مرزاقادیانی نعوذ باہلل حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا ظل بن
گیا۔ اور ظلی نبی بن گیا۔ لیکن یہ قادیانیوں کا دھوکہ ہے۔ قادیانی دراصل مرزاقادیانی کو
نعوذباہلل حضور صلی ہللا علیہ وسلم جیسا بلکہ نعوذباہلل حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے
بڑھ کر درجہ دیتے ہیں۔
سب سے پہلے دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے کیا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی اتنی
کامل اتباع کی ہے یا ویسے ہی ڈھنڈورا پیٹا ہے کہ میں عاشق رسول صلی ہللا علیہ وسلم
ہوں۔
3۔ مرزاقادیانی نے جہاد بالسیف نہیں کیا۔ بلکہ الٹا اس کو حرام کہا۔
6۔ مرزاقادیانی نے کسی زانی کو سنگسار نہیں کروایا۔ حاالنکہ ہندوستان کے قحبہ خانوں
میں زنا ہوتا رہا۔ بلکہ الٹا مرزاقادیانی کے پیروکاروں نے مرزاقادیانی اور اس کے خاندان
پر زنا کے الزام لگائے۔
اگر مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت نبوت ملنے کے لئے اطاعت کو ہی معیار بناتے ہیں تو
مرزاقادیانی تو اس معیار پر بھی پورا نہیں اترتا ۔
"خدا ایک اور محمد صلی ہللا علیہ وسلم اس کا نبی ہے۔ اور وہ خاتم االنبیاء ہے۔ اور سب
سے بڑھ کر ہے۔ اب بعد اس کے کوئی نبی نہیں ۔ مگر وہی جس پر بروزی طور سے
محمدیت کی چادر پہنائی گئی۔
جیسا کہ تم آیئنہ میں اپنی شکل دیکھو تو تم دو نہیں ہوسکتے بلکہ ایک ہی ہو۔ اگرچہ
بظاہر دو نظر آتے ہیں ۔ صرف ظل اور اصل کا فرق ہے"
معزز قارئین مرزاقادیانی کا کفر یہاں ننگا ناچ رہا ہے مرزاقادیانی کا یہ کہنا کہ میں ظلی
طور پر محمد ہوں اس کا مطلب ہے کہ نعوذباہلل اگر آیئنے میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم
کو دیکھا جائے تو وہ مرزاقادیانی نظر آئیں گے ۔ اور جو مرزاقادیانی آیئنے میں نظر آرہا
ہے وہ مرزاقادیانی نہیں ہے بلکہ نعوذ باہلل حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔
اگر دونوں ایک ہی ہیں تو پھر ظل اور بروز کی ڈھکوسلہ بازی کیوں کرتے ہو؟؟؟
اور یہی کہنا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی توہین ہے اور کفر ہے۔
"حضرت عمر رضی ہللا عنہ کا وجود ظلی طور پر گویا آنجناب صلی ہللا علیہ وسلم کا ہی
وجود تھا"
(روحانی خزائن جلد 14صفحہ )265
"صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین آنخضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی عکسی تصویریں
تھے"
مرزاقادیانی کے اگر ظل اور بروز کے فلسفے کو تسلیم کرلیں تو پھر حضور صلی ہللا
علیہ وسلم کو بھی خدا تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اور حضرت عمر رضی ہللا عنہ اور تمام
خلفائے راشدین کو رسول تسلیم کرنا پڑے گا ۔ اس کے عالوہ تمام صحابہ کرام رضوان ہللا
علہیم اجمعین کو بھی رسول تسلیم کرنا پڑے گا ۔
کیا کوئی قادیانی ایسا ایمان رکھتا ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم خدا ہیں اور حضرت
عمر رضی ہللا عنہ اور تمام خلفائے راشدین رسول ہیں اور تمام صحابہ کرام رضوان ہللا
علہیم اجمعین رسول ہیں؟؟
اگر مرزاقادیانی کے فلسفے کے مطابق حضور صلی ہللا علیہ وسلم خدا کے ظل ہوکر بھی
خدا نہیں ہوسکتے اور حضرت عمر رضی ہللا عنہ اور دیگر خلفاء رسول ہللا کے ظل ہوکر
بھی رسول نہیں ہوسکتے اور تمام صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین حضور صلی ہللا
علیہ وسلم کا عکس ہوکر بھی رسول نہیں ہوسکتے تو مرزاقادیانی کیسے نبی اور رسول
ہوسکتا ہے؟؟
ساری بات کا خالصہ یہ ہے کہ ظلی اور بروزی نبوت کی اصطالح صرف لوگوں کو
دھوکا دینے کے لئے ہے۔ حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔
قادیانی قرآن پاک کی اس آیت سے استدالل کرکے کہتے ہیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم
کی کامل اتباع کرنے سے ظلی نبوت ملتی ہے۔
اور جو لوگ ہللا اور رسول کی اطاعت کریں گے تو وہ ان کے ساتھ ہوں گے جن پر ہللا
نے انعام فرمایا ہے ،یعنی انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور صالحین ۔ اور وہ کتنے اچھے
ساتھی ہیں ۔
اس آیت میں دراصل ہللا اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے والے کو یہ خوشخبری ہے
کہ وہ جنت میں نبیوں ،صدیقوں ،شہداء اور صالحین کے ساتھ ہوگا۔
ہمارا سوال یہ ہے کہ اگر قادیانی فلسفے کو تسلیم کرلیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی
کامل اتباع کرنے سے ظلی نبوت مل جاتی ہے تو کیا دوسرے انعام جن کا اس آیت میں ذکر
ہے یعنی صدیق،شھید اور صالح ہونا ،کیا یہ درجے بھی ظلی طور پر ملتے ہیں یا حقیقی
طور پر ملتے ہیں؟؟
کیونکہ اگر قادیانی فلسفے کو تسلیم کیا جائے تو یہ درجے بھی ظلی طور پر ملنے چاہیئں۔
اور اگر یہ درجے حقیقی طور پر ملتے ہیں ظلی طور پر نہیں ملتے تو پھر نبوت کو بھی
حقیقی طور پر ملنا چاہیے ۔
حاالنکہ شریعت کے ساتھ نبوت کا ملنا اور مستقل نبوت کا ملنا یہ تو قادیانی بھی تسلیم نہیں
کرتے۔ تو پتہ چال کہ قادیانیوں کا ظل اور بروز کا فلسفہ محض ایک ڈھکوسالہے۔ حقیقت
کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔
"صدہا لوگ ایسے گزرے ہیں جن میں حقیقت محمدیہ متحقق تھی اور عندہللا ظلی طور پر
ان کا نام محمد یا احمد تھا"
"نبی کا نام پانے کے لئے میں ہی مخصوص کیا گیا ہوں۔اور دوسرے تمام لوگ اس نام کے
مستحق نہیں"
مرزا قادیانی نے ظل اور بروز کا عقیدہ ہندوؤں کے عقیدہ تناسخ و حلول سے چوری
کرکے لیا۔
ہندوؤں کا عقیدہ تناسخ اور حلول کا خالصہ یہ ہے کہ جب بندہ ایک دفعہ مرجاتا ہے تو اس
کی روح دوسری دفعہ کسی میں حلول کر جاتی ہے اور اسی انسان کا دوسرا جنم ہوجاتا
ہے۔ جو پہلے مرچکا
ہوتا ہے۔
لیکن ہندوؤں کے اس عقیدے میں یہ بات بھی شامل ہے کہ جب کوئی انسان دوسری دفعہ
جنم لے لیتا ہے تو وہ دوسری دفعہ جنم لے لینے کے بعد پہلے جنم کے والدین کو اپنا
والدین نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کی بیوی کو اپنی بیوی نہیں کہ سکتا۔ اور پہلے جنم کے
بچوں کو اپنا بچہ نہیں کہ سکتا۔ اسی طرح جس زمین و جائیداد کا پہلے جنم میں وارث اور
مالک ہوتا ہے دوسرے جنم میں اس زمین و جائیداد کا وارث اور مالک نہیں کہالسکتا۔
لیکن مرزاقادیانی نے ہندوؤں کے اس عقیدہ تناسخ اور حلول کا بھی بیڑہ غرق کر کے رکھ
دیا ۔ مرزاقادیانی نے جس شخص کو دوسرے کا ظل بنایا اس کو پہلے شخص کا وارث بھی
بنادیا۔
مرزاقادیانی اپنے آپ کو حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا ظل کہتا ہے۔ اور حضور صلی ہللا
علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو ام المومنین کہا جاتا ہے۔ جبکہ مرزاقادیانی کے پیروکار
بھی مرزاقادیانی کی بیوی کو ام المومنین کہتے ہیں۔
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے صحابہ رضی ہللا عنہ کی طرح مرزاقادیانی اپنے مریدوں
کو صحابی کہتا ہے۔
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی طرح مرزاقادیانی بھی اپنے آپ کو نبی اور رسول کہتا ہے
اور نہ ماننے والوں کو کافر اور دائرہ اسالم سے خارج سمجھتا ہے۔
مرزاقادیانی اور اور قادیانی جماعت کی تحریرات مالحظہ فرمائیں اور خود فیصلہ کریں
کہ کیا ظل اور بروز کا فلسفہ انسانی عقل اور فہم میں آتا ہے؟؟
"پس مسیح موعود (مرزاقادیانی ) خود محمد رسول ہللا ہے۔ جو اشاعت اسالم کے لئے
دوبارہ دنیا میں تشریف الئے"
"مسیح موعود(مرزاقادیانی) کا آنا بعینیہ محمد رسول ہللا کا دوبارہ آنا ہے۔ یہ بات قرآن سے
صراحتہ ثابت ہے کہ محمد رسول ہللا دوبارہ مسیح موعود(مرزاقادیانی) کی بروزی
صورت اختیار کر کے آئیں گے"
"پھر مثیل اور بروز میں بھی فرق ہے۔ بروز میں وجود بروزی اپنے اصل کی پوری
تصویر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ نام بھی ایک ہوجاتا ہے۔۔۔ بروز اور اوتار ہم معنی ہیں"
مرزا قادیانی اور دوسرے قادیانیوں کی ان تحریرات سے پتہ چلتا ہے کہ نعوذ باہلل محمد
صلی ہللا علیہ وسلم اور مرزاقادیانی ایک ہی ہیں۔
1۔ پہلی صورت یہ ہے کہ کیا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا جسم مبارک اور روح مبارک
نعوذ باہلل مرزاقادیانی کی شکل میں دوبارہ دنیا میں تشریف الئے ؟
یہ صورت تو غلط ہے کیونکہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا جسم مبارک تو مدینہ شریف
میں روضہ مبارک میں مدفون ہے۔
2۔ دوسری صورت یہ ہے کہ کیا نعوذباہلل حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی روح مبارک
مرزاقادیانی کے جسم میں حلول کر گئی ؟
یہ صورت بھی غلط ہے کیونکہ یہ عقیدہ تو ہندوؤں کا ہے کہ ایک فوت شدہ انسان
دوسرے جنم میں آتا ہے۔
یہ ہندوؤں کا عقیدہ تو ہوسکتا ہے لیکن اسالم میں اس عقیدے کی کوئی گنجائش نہیں ۔
کیونکہ یہ عقیدہ قرآن و حدیث کے صراحتہ خالف ہے۔
3۔ اس کی تیسری صورت یہ ہے کہ نعوذ باہلل مرزاقادیانی میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم
کے اوصاف و کماالت ہوں۔
یہ صورت بھی غلط ہے کیونکہ
1۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم امی تھے اور مرزاقادیانی کئی کتابوں کا مصنف تھا۔
2۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم عربی تھے اور مرزاقادیانی عجمی تھا۔
3۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم قریشی تھے اور مرزاقادیانی مغل قوم سے تعلق رکھتا تھا ۔
4۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم دنیاوی لحاظ سے بےبرگ و بےنوا تھے جبکہ مرزاقادیانی
کو رئیس قادیان کہالنے کا شوق تھا۔
5۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے مدنی زندگی کے 10سالوں میں سارا عرب زیرنگیں
کرلیا تھا۔ جبکہ مرزاقادیانی غالمی کی زندگی کو پسند کرتا تھا ۔ اور جہاد اور فتوحات کا
قائل نہیں تھا۔
6۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے ہاں اسالم کو آزادی کا مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اور
مرزاقادیانی کے ہاں اسالم غالمی کا مترادف ہے۔
7۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی صداقت کی گواہی غیروں نے بھی دی تھی ۔ جبکہ
مرزاقادیانی کو آج تک قادیانی سچا ثابت نہیں کر سکے۔
8۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا کردار ایسا پاکیزہ اور صاف ستھرا تھا کہ غیر بھی اس پر
انگلی نہیں اٹھا سکے۔ اور مرزاقادیانی کا کردار ایسا ہے کہ خود مرزاقادیانی کے ماننے
والے مرزا قادیانی پر زنا کے الزام لگاتے رہے ۔
9۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے مالی معامالت اور حقوق العباد کی ادائیگی میں بےمثال
زندگی دنیا بھر کے لئے نمونہ ہے۔ جبکہ مرزاقادیانی کی خیانت اور لوگوں کے حقوق ادا
نہ کرنا آج بھی قادیانیوں کے لئے پریشانی کا باعث ہے۔
خالصہ کالم یہ ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم اور مرزاقادیانی میں نہ وحدت جسم ہے
اور نہ وحدت روح ہے۔ اور نہ ہی وحدت کماالت ہے اور نہ ہی وحدت اوصاف ہے۔
پھر یہ کیسے تسلیم کر لیا جائے کہ نعوذباہلل مرزاقادیانی حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہی
ہے ۔ اور نعوذ باہلل حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہی دوبارہ مرزاقادیانی کی شکل میں آ گئے
ہیں۔
مرزاقادیانی نے جو ظل اور بروز کا عقیدہ گھڑا ہے یہ عقیدہ نہ قرآن کی کسی آیت سے
ثابت ہے اور نہ کسی حدیث سے ثابت ہے۔ بلکہ یہ عقیدہ ہندوؤں کے عقیدہ حلول اور تناسخ
سے چوری شدہ ہے۔ اس لئے ایسا عقیدہ جو اسالم کے بنیادی عقیدے کے ہی خالف ہو وہ
کیسے صحیح ہوسکتا ہے۔
"ختم نبوت کے موضوع پر اکابرین امت کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی
جائزہ"
جب قادیانی قرآن و احادیث سے اجرائے نبوت پر کوئی دلیل پیش نہیں کر سکتے اور
الجواب ہوجاتے ہیں تو پھر چند بزرگان دین کی عبارات کو ادھورا پیش کرکے اس سے
لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
جب بھی قادیانی کسی بزرگ کی عبارت پیش کریں تو چند اصولی باتیں ذہن نشین کر لیں ۔
قادیانیوں کا دجل خود ہی پارہ پارہ ہوجائے گا ۔
لیجئے خود مرزا محمود نے تسلیم کر لیا کہ مرزاقادیانی کے آنے تک مسلمان نبی اسی کو
سمجھتے تھے جو نئی شریعت النے واال ہو۔ جب خود قادیانی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں
کہ مسلمانوں میں ایک ہی تعریف پائی جاتی تھی تو وہ پھر بزرگوں کی عبارات کو کیوں
پیش کرتے ہیں؟؟
2۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ بزرگان دین میں سے کوئی ایک بزرگ بھی ایسا نہیں تھا جس کا
یہ عقیدہ ہو کہ حضورﷺ کے بعد بھی کوئی نبی بن سکتا ہے اور فالں شخص حضورﷺ
کے بعد نبی ہے۔
قادیانی تاقیامت ایسی عبارت کسی بزرگ سے ثابت نہیں کر سکتے ۔
3۔ قادیانی جتنی بھی بزرگوں کی عبارات پیش کرتے ہیں ان میں اگر ،مگر ،چونکہ،
چنانچہ کی قیدیں لگی ہوتی ہیں۔ اور ایسی عبارات جن میں اتنی قیدیں لگی ہوں ان عبارات
سے عقائد کے معاملے میں کوئی بددیانت ہی استدالل کرسکتا ہے۔
یاد رکھیں عقائد کے معاملے میں صرف نص صریح ہی قابل قبول ہوتی ہے۔
پھر جن بزرگوں کی عبارات قادیانی تحریف و تاویل کرکے پیش کرتے ہیں ان بزرگوں کا
درج ذیل عقیدہ ان کی ہی کتابوں میں موجود ہے۔
1۔ آپﷺ پر نبوت ختم ہے۔
2۔ آپﷺکےبعد کسی بھی قسم کاکوئی نبی نہیں بن سکتا ۔
3۔ آپﷺکے بعد آج تک کوئی شخص نبی نہیں بنا۔
44۔ جس شخص نے حضورﷺ کے بعد نبوت کا دعوی کیا۔ اس کو انہوں نے کافر ہی
سمجھا۔
4۔ لے دے کے چند عبارات ہیں جن میں تاویل و تحریف کر کے قادیانی کہتے ہیں کہ
حضورﷺ کے بعد بھی نئے نبی آسکتے ہیں۔
حاالنکہ آج تک قادیانی کوئی ایک عبارت بھی ایسی پیش نہیں کر سکے جس میں یہ 4
باتیں پائی جاتی ہوں۔
1۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں حضرت عیسی علیہ السالم کی آمد کا ذکر نہ
ہو۔
2۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں آنخضرت ﷺکی ختم نبوت زمانی کے بعد
کسی غیر تشریعی نبی کے اس امت میں پیدا ہونے کی صراحت موجود ہو۔
3۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں محض اجزائے نبوت یعنی سچے خواب
وغیرہ یا بعض کماالت نبوت ملنے کا ذکر نہ ہو بلکہ امت کے بعض افراد کے لئے نبوت
ملنے کا ذکر ہو۔
4۔ جو عبارات قادیانی پیش کرتے ہیں ان میں ایسا نہ ہو کہ اس کے سیاق و سباق میں تو
ختم نبوت مرتبی کا بیان ہو اور قادیانی اس عبارت کو ختم زمانی کے ذیل میں بیان کررہے
ہوں۔
(ختم نبوت زمانی اور ختم نبوت مرتبی کی تفصیل آگے آرہی ہے انشاء ہللا)
ہمارا دعوی یہ ہے کہ ان 4شرطوں کے ساتھ آج تک کوئی قادیانی کسی بھی بزرگ کی
کوئی ایک عبارت بھی پیش نہیں کر سکے۔
اور یہ اصول بھی یاد رکھیں کہ جب تک دعوی کرنے والے کے پاس اپنے دعوی پر دلیل
موجود نہ ہو تو جس پر دعوی کیا جارہا ہے اس کے ذمے جواب دینا ضروری نہیں ہے۔
"شیخ محی الدین ابن عربی رح کی عبارات پر قادیانی اعتراضات کا علمی تحقیقی جائزہ"
قادیانی شیخ محی الدین ابن عربی رح کی عبارات سے بھی دھوکہ دینے کی کوشش کرتے
ہیں کہ وہ بھی حضور ﷺ کے بعد نئے نبیوں کے آنے کے قائل ہیں۔
آیئے پہلے شیخ ابن عربی رح کی اس عبارت کا جائزہ لیتے ہیں جو قادیانی بطور اعتراض
کے پیش کرتے ہیں۔
"تشریعی نبوت کا دروازہ بند ہے۔ اور نبی کریم ﷺ نے جو یہ فرمایا ہے کہ میرے بعد
کوئی نبی اور رسول نہیں اس کا مطلب ہے کہ کوئی ایسا نبی نہیں جو میری شریعت کے
مخالف ہو۔ اگر کوئی ہوگا تو وہ میری شریعت کے تابع ہوگا"
ہم قادیانیوں کی طرف سے شیخ ابن عربی رح پر لگائے گئے الزامات کا جواب تو بعد میں
دیتے ہیں لیکن پہلے قادیانیوں کو بتاتے چلیں کہ آپ کو ابن عربی رح پر اعتراض کرنے
کا کوئی حق نہیں کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے یہ وجودی (شیخ ابن عربی رح وغیرہ )
سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں"
جب مرزاقادیانی کے نزدیک شیخ ابن عربی رح وجودی ،قابل نفرت اور دہریے ہیں تو
قادیانی کس منہ سے شیخ ابن عربی رح کی عبارات پیش کرتے ہیں اور دھوکہ دیتے
ہیں؟؟؟
"جو وحی نبی اور رسول کے ساتھ خاص تھی کہ فرشتہ ان کے کان یا دل پر (وحی لے
کر) نازل ہوتا تھا ۔ وہ وحی بند ہوچکی۔ اور اب کسی کو نبی یا رسول کا نام دینا ممنوع
ہوچکا۔
اس عبارت سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ابن عربی رح کے نزدیک حضور ﷺ کے بعد وحی
رسالت تاقیامت منقطع ہے۔ اب کسی کو نبی یا رسول نہیں کہ سکتے۔
"وحی کا سلسلہ حضور ﷺ کی وفات کے ساتھ ہی ختم ہوگیا۔۔۔۔ سیدنا عیسی علیہ السالم جب
اس امت کی قیادت کریں گے تو ہماری شریعت کے مطابق عمل کریں گے ۔ آپ جب نازل
ہوں گے تو آپ کے لئے مرتبہ کشف بھی ہوگا اور الہام بھی۔ جیسا کہ یہ مقام (اولیاء) امت
کے لئے ہے"
اس عبارت میں تو شیخ ابن عربی رح سیدنا عیسی علیہ السالم کے لئے بھی انبیاء والی
وحی کا بند ہونا بیان کررہے ہیں۔ بلکہ ابن عربی رح کے مطابق سیدنا عیسی علیہ السالم
کو اولیاء کی طرح کشف اور الہام ہوں گے ۔
شیخ ابن عربی رح کے نزدیک نبوت کا لفظ لغوی طور پر اولیاء کے مبشرات یا الہام
وغیرہ پر بوال جاتا ہے۔ بلکہ ان مبشرات اور الہامات کے جن کو شیخ ابن عربی رح کے
نزدیک نبوت سے تعبیر کیا گیا ہے۔ شیخ ابن عربی رح حیوانوں میں بھی لغوی طور پر
نبوت کا لفظ بولتے تھے ۔
لیجئے شیخ ابن عربی رح تو حیوانات کی وحی کو بھی نبوت کا نام دے رہے ہیں ۔ جیسا کہ
قرآن میں ذکر ہے۔ کیا اب قادیانیوں کی بات مان کر حیوانات کو بھی نبی مان لیں؟ ؟
"خالصہ کالم"
خالصہ کالم یہ ہے کہ شیخ ابن عربی رح کا عقیدہ یہی تھا کہ حضور ﷺ آخری نبی ہیں
اور حضور ﷺ کے بعد کسی بھی انسان کو نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا ۔
اور جن مقامات پر ابن عربی رح نے نبوت کا لفظ استعمال کیا ہے وہاں حقیقتا نبوت مراد
نہیں ہے بلکہ مجازی طور پر اولیاء کرام کے مبشرات یا الہامات کو نبوت کے لفظ سے
بیان کیا ہے۔ جیسا کہ حدیث میں بھی آتا ہے کہ
"نبوت میں مبشرات کے سواء کچھ باقی نہیں "
موالنا قاسم نانوتوی رح کی عبارات پر جائزہ لینے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ
ختم نبوت کی کتنی اقسام کو موالنا قاسم نانوتوی رح نے اپنی کتاب میں بیان فرمایا ہے۔
موالنا قاسم نانوتوی رح نے اپنی کتاب "تحذیر الناس" میں ختم نبوت کی دو اقسام بیان
فرمائی ہیں۔
ختم نبوت زمانی کا مطلب ہے کہ جس زمانے میں حضورﷺ تشریف الئے اور آپﷺ کو
نبوت ملی۔ اس وقت سے لے کر قیامت تک اب کسی ایک انسان کو بھی نبی یا رسول نہیں
بنایا جائے گا۔
اس لحاظ سے آپ ﷺخاتم النبیین ہیں۔
(ختم نبوت مرتبی کے بعد کم و بیش ایک الکھ اور چوبیس ہزار نبی آئے لیکن اس سے
حضور اکرم ﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر کوئی فرق نہیں پڑا کیونکہ انبیاء کرام علیہم السالم
کو نبوت بھی ملنی تھیں اور انہوں نے تبلیغ بھی کرنی تھیں۔ لیکن تمام انبیاء کرام علیہم
السالم کا رتبہ حضور ﷺسے کم ہی ہونا تھا۔ اس لئے حضورﷺ کی ختم نبوت مرتبی پر
فرق نہیں پڑا )
ایک اور تمہیدی بات بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ قرآن پاک کی 99آیات اور 210سے
زائد احادیث مبارکہ حضورﷺ کی ختم نبوت زمانی پر دلیل ہیں۔ یعنی جب حضور ﷺ کا
زمانہ نبوت شروع ہوگیا اس کے بعد اگر کوئی شخص یہ عقیدہ رکھے کہ مسیلمہ کذاب یا
مرزاقادیانی نبی یا رسول ہیں۔ یا ان کے عالوہ بھی کسی کو نبوت مل سکتی ہے تو یہ عقیدہ
قرآن و حدیث کے خالف ہے اور کفر ہے۔
ختم نبوت کی ان دو اقسام کو ذہن میں رکھیں تو قادیانی موالنا قاسم نانوتوی رح کی جو
عبارت پیش کرتے ہیں اس عبارت کے بارے میں قادیانی دجل وفریب خود ہی واضح
ہوجاتا ہے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ موالنا محمد قاسم نانوتوی صاحب نے لکھا ہے کہ
"عوام کے خیال میں تو رسول ہللا ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء
سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم
یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں ۔۔۔ میں جانتا ہوں کہ اہل اسالم سے کسی کو یہ
بات گوارا نہ ہوگی ۔۔۔ اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی
خاتمیت محمدیہ میں کچھ فرق نہ آئے گا "
(تحذیر الناس صفحہ )28 ،3
آپ اس تحریر کو غور سے پڑھیں ،بار بار پڑھیں لیکن آپ یہی سمجھیں گے کہ واقعی
موالنا قاسم نانوتوی رح سے غلطی ہوئی ہے۔ قادیانیوں کے اس اعتراض کے بہت سے
جوابات ہیں۔ مالحظہ فرمائیں ۔
اصل بات یہ ہے کہ یہ ایک تحریر نہیں ہے بلکہ 3مختلف صفحات سے تین باتیں لےکر ان
کو جوڑ کر ایک تحریر بنایا گیا ہے۔
پہلی عبارت یہ ہے۔
"عوام کے خیال میں تو رسول ہللا ﷺ کا خاتم ہونا بایں معنی ہے کہ آپ ﷺ کا زمانہ انبیاء
سابق کے زمانے کے بعد اور آپ سب میں آخر نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہوگا کہ تقدم
یا تاخر زمانے میں بالذات کچھ فضیلت نہیں"
اس کا مطلب یہ ہے کہ اصل فضیلت یہ ہے کہ حضور ﷺ کا مقام و مرتبہ اصل چیز ہے۔
یعنی اصل چیز ختم نبوت مرتبی ہے۔
اس عبارت کے سیاق و سباق کو بالکل ہٹ کر پیش کیا گیاہے۔ کیونکہ اس عبارت سے کچھ
بھی پتہ نہیں چلتا کہ کیا بات ہورہی ہے۔ قادیانیوں نے صرف اپنے دجل کو بیان کرنے کے
لئے اتنی سی عبارت کو ساتھ جوڑا ہے۔
"اگر بالفرض بعد زمانہ نبوی صلعم بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدیہ ﷺ
میں کچھ فرق نہ آئے گا "
یہ اصل بات ہے جس کو لے کر قادیانی شور ڈالتے ہیں کہ دیکھو کہ موالنا قاسم نانوتوی
رح خود فرما رہے ہیں کہ اگر بالفرض زمانہ نبوی کے بعد بھی کوئی نبی پیدا ہوجائے۔
یعنی موالنا قاسم نانوتوی رح کے نزدیک کسی نئے نبی کا حضور ﷺ کے بعد پیدا ہونا
کوئی کفریہ عقیدہ نہیں ہے۔
آیئے قارئین قادیانیوں کے اس دجل کا پردہ بھی چاک کرتے ہیں۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ موالنا قاسم نانوتوی رح نے ساری بات فرضیہ طور پر کی
ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک میں بھی ہللا ٰ
تعالی فرماتے ہیں کہ
صفُوۡنَ "
ع َّما َی ِ
عرۡ ِش َ
ب الۡ َ سدَتَا ۡ فَ ُ
سبۡحٰ نَ ّٰ ِ
ّللا َر ِ "لَوۡ کَانَ فِیۡہ ِ َما ٰا ِل َہۃ ا َِّال ّٰ
ّللاُ لَفَ َ
"اگر آسمان اور زمین میں ہللا کے سوا دوسرے خدا ہوتے تو دونوں درہم برہم ہوجاتے ۔
لہذا عرش کا مالک ہللا ان باتوں سے بالکل پاک ہے جو یہ لوگ بنایا کرتے ہیں "
اسی طرح موالنا قاسم نانوتوی رح نے بھی یہاں بطور مثال بیان کیا ہے کہ بالفرض اگر
کوئی نیا نبی پیدا ہوبھی جائے تو حضور ﷺ کو جو مقام و مرتبہ یعنی ختم نبوت مرتبی
حاصل ہے۔ اس میں ذرہ برابر بھی فرق نہیں آئے گا بلکہ جس مقام و مرتبے پر آپ ﷺ فائز
ہیں۔ وہی حاصل رہے گا۔
اب آپ فیصلہ کریں کہ کیا موالنا قاسم نانوتوی رح ختم نبوت زمانی کے منکر بن رہے ہیں
یا ختم نبوت مرتبی کو بیان فرما رہے ہیں؟؟
اصل بات یہ ہے کہ اس جگہ موالنا قاسم نانوتوی رح نے حضور ﷺ کی ختم نبوت مرتبی
کو بیان کیا ہے اور قادیانی دجل وفریب کرتے ہوئے اس مثال کو ختم نبوت زمانی پر فٹ
کرتے ہیں۔ حاالنکہ اوپر آپ پڑھ چکے ہیں کہ موالنا قاسم نانوتوی رح فرماتے ہیں کہ اگر
کوئی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے یعنی کوئی یہ کہتا ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم
کے زمانے کے بعد کسی نئے انسان کو نبی یا رسول بنایا گیا ہے تو وہ کافر ہے۔
"“سو اگر اطالق اور عموم ہے تب تو خاتمیت زمانی ظاہر ہے ،ورنہ تسلیم لزوم خاتمیت
زمانی بداللت التزامی ضرور ثابت ہے ،ادھر تصریحات نبوی مثل:
جو بظاہر بطرز مذکورہ اسی لفظ خاتم النبیین سے ماخوذ ہے ،اس باب میں کافی ،کیونکہ یہ
مضمون درجہ تواتر کو پہنچ گیا ہے ،پھر اس پر اجماع بھی منعقد ہوگیا۔ گو الفاظ مذکور بہ
سند تواتر منقول نہ ہوں ،سو یہ عدم تواتر الفاظ ،باوجود تواتر معنوی یہاں ایسا ہی ہوگا
جیسا تواتر اعداد رکعات فرائض و وتر وغیرہ۔ باجودیکہ الفاظ حدیث مشعر تعداد رکعات
متواتر نہیں ،جیسا اس کا منکر کافر ہے ،ایسا ہی اس کا منکر بھی کافر ہوگا۔”
1۔خاتمیت زمانی یعنی آنحضرت ﷺ کا آخری نبی ہونا ،آیت خاتم النبیین سے ثابت ہے۔
4۔اس کا منکر اسی طرح کافر ہے ،جس طرح ظہر کی چار رکعت فرض کا منکر۔
اتنی وضاحت کے بعد بھی موالنا قاسم نانوتوی رح پر ختم نبوت کا منکر ہونے کا الزام
عقل و فہم سے باالتر ہے۔
“ہاں اگر بطور اطالق یا عموم مجاز اس خاتمیت کو زمانی اور مرتبی سے عام لے لیجئے
تو پھر دونوں طرح کا ختم مراد ہوگا۔ پر ایک مراد ہو تو شایان شان محمدیﷺ خاتمیت
مرتبی ہے نہ زمانی ،اور مجھ سے پوچھئے تو میرے خیال ناقص میں تو وہ بات ہے کہ
سامع منصف انشاء ہللا انکار ہی نہ کرسکے۔ سو وہ یہ ہے کہ․․․․․”
“موالنا! حضرت خاتم المرسلینﷺ کی خاتمیت زمانی تو سب کے نزدیک مسلم ہے اور یہ
بات بھی سب کے نزدیک مسلم ہے کہ آپ اول المخلوقات ہیں ․․․․․․ “
اس عبارت میں بھی عقیدہ ختم نبوت کا واضح اظہار موجود ہے۔
“اپنا دین و ایمان ہے کہ رسول ہللا ﷺ کے بعد کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں ،جو
اس میں تامل کرے اس کو کافر سمجھتا ہوں۔”
(ص)144:
خالصہ کالم یہ ہے کہ موالنا قاسم نانوتوی رح عقیدہ ختم نبوت کے قائل بھی ہیں اور
منکرین ختم نبوت کو کافر سمجھتے ہیں۔ البتہ "تحذیر الناس " میں موالنا قاسم نانوتوی رح
نے یہ بیان فرمایا ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کو ختم نبوت زمانی حاصل ہے یعنی
حضور ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوسکتا۔ اسی طرح حضور ﷺ کو ختم نبوت مرتبی
بھی حاصل ہے۔ یعنی حضور ﷺ جیسا مقام و مرتبہ بھی کسی کو حاصل نہیں ہوسکتا۔
"مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم پر چند ابتدائی گزارشات"
"مسلمانوں کا عقیدہ"
مسلمانوں کا اجماعی عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو یہود نہ قتل کر سکے اور
نہ صلیب دے سکے ۔ بلکہ ہللا ٰ
تعالی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ قرب قیامت
واپس زمین پر تشریف الئیں گے ۔ ہمارا عقیدہ قرآن ،حدیث اجماع اور تواتر سے ثابت ہے۔
"قادیانیوں کا عقیدہ"
قادیانیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ یہود نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو صلیب پر چڑھایا اور تین
گھنٹے تک وہ صلیب صلیب پر رہے۔ لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں
ہوسکے۔ بلکہ زخمی ہوگئے ۔
تین گھنٹے کے بعد آپ کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا پھر آپ کو ایک غار میں
لے جایا گیا وہاں آپ کی مرہم پٹی کی گئی ۔ پھر آپ صحت یاب ہوگئے ۔
اس کےبعد سیدنا عیسی علیہ السالم اپنی والدہ حضرت مریم علیہ السالم کو ساتھ لے کر
فلسطین سے افغانستان کے راستے سے کشمیر چلے گئے ۔ کشمیر میں 87برس زندہ ریے
۔ پھر سیدنا عیسی علیہ السالم کی وفات ہوئی ۔ اور کشمیر کے محلہ خان یار میں ان کی قبر
ہے۔ قادیانیوں کا عقیدہ نہ قرآن سے ثابت ہے اور نہ احادیث سے ثابت ہے بلکہ مرزاقادیانی
نے اس عقیدے کو فرضی کہانیوں سے ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ حیات عیسی علیہ السالم کا عقیدہ رکھنا (یعنی یہ عقیدہ رکھنا
کہ سیدنا عیسی علیہ السالم آسمان پر زندہ موجود ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر
تشریف الئیں گے ) شرکیہ عقیدہ ہے۔
"قادیانیوں سے مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے مسئلے پر گفتگو کرنے کے
لئے چند اصول"
سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کرنی چاہیے کہ گفتگو کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ بات
آسانی سے سمجھ آجائے۔ اور اگر اپنی غلطی دوران گفتگو معلوم ہوجائے تو اس سے
رجوع کر لینا چاہیئے ۔
جب کسی مسئلے پر 2مختلف رائے رکھنے والے گفتگو کررہے ہوں۔ تو اس گفتگو کو
کسی منطقی انجام تک پہنچانے کا ایک واحد طریقہ یہ ہوتا ہے۔ کہ وہ دونوں کسی ایک
ایسی بات پر اتفاق کرلیں جو دونوں کے درمیان مشترک ہو۔
مثال جب رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے مسئلے پر مسلمانوں اور قادیانیوں کی
گفتگو ہوتو فریقین قرآن کی آیات پڑھ کر خود اس کا ترجمہ و تشریح کرتے ہیں۔ اور اس
طرح بحث برائے بحث بڑھتی جاتی ہے۔ اور گفتگو کسی نتیجے کے بغیر ختم ہوجاتی
ہے۔
اتنی ساری تمہید اس لئے باندھنی پڑی ہے کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
"ایسے آئمہ اور اکابر کے ذریعے سے جن کو ہر صدی میں فہم قرآن عطا ہوا ہے۔ جنہوں
نے قرآن کے اجمالی مقامات کی احادیث نبویہ کی مدد سے تفسیر کرکے قرآن کی پاک
تعلیم کو ہر ایک زمانے میں تحریف معنوی سے محفوظ رکھا"
"مگر وہ باتیں جو مدار ایمان ہیں۔ اور جن کے قبول کرنے اور جاننے سے ایک شخص
مسلمان کہال سکتا ہے۔ وہ ہر زمانے میں برابر طور پر شائع ہوتی رہیں"
(روحانی خزائن جلد 7صفحہ )62
"برخالف ان متبادر مسلسل معنوں کے جو قرآن شریف میں ۔۔۔۔ اول سے آخر تک سمجھے
جاتے ہیں۔ ایک نئے معنی اپنی طرف سے گھڑنا یہی تو الحاد اور تحریف ہے"
"یہ یاد رہے کہ مجدد لوگ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کرتےگمشدہ دین کو پھر دلوں
میں قائم کرتے ہیں۔ اور یہ کہنا کہ مجددوں پر ایمان النا کچھ فرض نہیں ہے۔ خدا ٰ
تعالی
کے حکم سے انحراف ہے۔ وہ فرماتا ہے۔ من کفر بعد ذالک فاولئک ھم الفسقون"
جب اتنی ساری باتیں مرزاقادیانی نے مجددین کے بارے میں لکھی ہیں تو پھر قادیانی کیوں
کسی ایک مفسر جو کہ مجدد بھی ہو اس پر اتفاق نہیں کرتے؟ ؟؟
اس بات سے بھی ہم پردہ اٹھا ہی دیتے ہیں۔ کہ قادیانی کیوں کسی ایک مجدد جو کہ مفسر
بھی ہو اس پر اتفاق کیوں نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم
کے دور سے لے کر آج تک کوئی ایک مسلمان مجدد جو کہ مفسر بھی ہو اس نے یہ کہیں
نہیں لکھا کہ سیدنا عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر
تشریف نہیں الئیں گے ۔
بلکہ تمام مجددین جو مفسرین بھی تھے انہوں نے ہر جگہ یہی لکھا ہے کہ سیدنا عیسی
علیہ السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا ہے اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف
الئیں گے ۔
اب قارئین ہم آپ کے سامنے 13صدیوں کے ان مجددین کی لسٹ پیش کرتے ہیں جن کو
مرزاقادیانی نے مجدد تسلیم کیا ہے۔ اور ہمارا چیلنج یہ ہے کہ قرآن کی کوئ بھی آیت
قادیانی پیش کریں اور ان مجددین میں سے کسی ایک نام پر اتفاق کرلیں تو ہم یہ لکھ کر
دیتے ہیں کہ اگر اس مجدد نے قرآن کی اس آیت کی تفسیر یا ترجمے میں یہ لکھا ہو کہ
سیدنا عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں الئیں
گے تو ہم اس بارے میں قادیانی موقف کو تسلیم کرلیں گے۔
اور قادیانی بھی یہ لکھ کر دیں کہ جس نام پر اتفاق ہوا ہے اس نے اگر قرآن پاک کے
ترجمے یا تفسیر میں یہ لکھا ہوکہ سیدنا عیسی علیہ السالم فوت نہیں ہوئے بلکہ ان کو ہللا
تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف الئیں گے ۔ تو ٰ
قادیانی اس موقف کو تسلیم کرلیں گے ۔
قارئین! قیامت تو آسکتی ہے لیکن قادیانی کسی ایک مجدد پر اتفاق نہیں کریں گے ۔
"پہلی صدی"
پہلی صدی میں اصحاب ذیل مجدد تسلیم کیے گیے ہیں۔
"دوسری صدی"
( )1امام محمد ادریس ابو عبد ہللا شافعی ( )2احمد بن محمد حنبل شیبانی ()3یحیی بن معین
بن عون عطفانی ( )4شہب بن عبد العزیز بن داود قیس ( )5ابو عمر مالکی مصری
()6خلیفہ مامون رشید بن ہارون ()7قاضی حسن بن زیاد حنفی ( )8جنید بن محمد بغدادی
صوگی ()9سہل بن ابی سہل بن رنحلہ شافعی ()10بقول امام شعرانی حارث بن اسعد
محاسبی ابو عبد ہللا صوفی بغدادی ( )11اور بقول قاضی القضنات عالمہ عینی .احمد بن
خالد الخالل ,ابو جعفر حنبلی بغدادی
(دیکھو نجم الثاقب جلد 2ص 14قرۃ العیون و مجالس االبرار تعریف الحیاء لفضایل االحیاء
ص )32
"تیسری صدی"
()1قاضی احمد بن شریح بغدادی شافعی ( )2ابو الحسن اشعری متکلم شافعی ( )3ابو جعفر
طحاوی ازدی حنفی ( )4احمد بن شعیب ()5ابو عبد الرحمن نسای ()6خلیفہ مقتدر باہلل
عباسی ( )7حضرت شبلی صوفی ()8عبید ہللا بن حسنین ()9ابو الحسن کرخی صوفی
حنفی()10امام بقی بن مخلد قرطبی مجدد اندلس
( تعریف االحیاء لفضایل احیاء ص 33نجم الثاقب و قرۃ و العیون و مجالس االبرار )
"چوتھی صدی"
()1امام ابو بکر باقالنی ( )2خلیفہ قادر باہلل عباسی ()3ابو حامد اسفرانی ()4حافظ ابو نعیم
()5ابو بکر خوارزمی حنفی ()6بقول شاہ ولی ہللا ابو عبد ہللا محمد بن عبد ہللا المعروف
بالحاکم نیشاپوری ()7امام بیہقی ()8حضرت ابو طالب ولی ہللا صاحب قوت القلوب جو طبقہ
صوفیاء سے ہے ( )9حافظ احمد بن علی بن ثابت بن خطیب بغدادی ()10ابو اسحق شیرازی
()11ابراہیم بن علی بن یوسف فقیہ و محدث
"پانچویں صدی"
پانچویں صدی کے مجدد اصحاب درج ذیل ہیں ۔
()1محمد بن ابو حامد امام غزالی ( )2بقول عینی و کرمانی حضرت راعونی حنفی ()3
خلیفہ مستظہر بالدین مقتدی باہلل عباسی ()4عبد ہللا بن محمد انصاری ابو اسماعیل ہروی ()5
ابو طاہر سلفی ()6محمد بن احمد ابو بکر شمس الدین سرخسی فقیہ حنفی
"چھٹی صدی"
()1محمد بن عمر ابو عبدہللا فخر الدین رازی ( )2علی بن محمد ()3عزالدین ابن کثیر
()4امام رافعی شافعی صاحب زیدہ شرح شفا ()5یحیی بن حبش بن میرک حضرت شہاب
الدین سہروردی شہید امام طریقت ()6یحیی بن اشرف بن حسن محی الدین لوذی ()7حافظ
عبد الرحمن بن جوزی ()8حضرت عبد القادر جیالنی رحمتہ ہللا علیہ سرتاج طریقہ قادری
"ساتویں صدی"
( )1احمد بن عبد الحلیم تقی الدین ابن تیمیہ حنبلی ()2تقی الدین ابن دقیق السعید ()3شاہ
شرف الدین مخدوم بھای سندی ( )4حضرت معین الدین چشتی ()5حافظ ابن القیم جوزی
شمس الدین محمد بن ابی بکر بن ایوب بن سعد بن القیم الجوزی درعی و مشقی حنبلی
()6عبد ہللا بن اسعد بن علی بن عثمان بن خالج ابو محمدعفیف الدین یافعی شافعی ()7قاضی
بدر الدین محمد بن عبد ہللا شبلی حنفی و دمشقی
"آٹھویں صدی"
()1حافظ علی بن الحجر عسقالنی شافعی ()2حافظ زین الدین عراقی و شافعی ()3صالح بن
عمر ارسالن قاضی بلقینی ()4عالمہ ناصر الدین شاذلی ابن سنت میلی
"نویں صدی"
()1عبد الرحمن بن کمال الدین شافعی معروف باامام جالل الدین سیوطی ()2محمد بن عبد
الرحمن سخاوی شافعی ()3سید محمد بن جون پوری اور بعض دسویں صدی کے مجددین
حضرت امیر تیمور صاحب قرآن فاتح عظیم الشان
()1مال علی قاری ()2محمد طاہر گجراتی ()3محی الدین محی السنتہ ()3حضرت علی بن
حسام الدین معروف بعلی متقی ہندی مکی
"گیارھویں صدی"
"بارھویں صدی"
()1محمد بن عبد الوہاب بن سلیمان نجدی ()2مرزا مظہر جاناں دہلوی ()3سید عبد القادر بن
احمد بن عبد القادر حسنی کو کیانی ()4حضرت احمد شاہ ولی ہللا صاحب محدث دہلوی
()5امام شوکانی ()6عالمہ سید محمد بن اسماعیل امیر یمن ()7محمد حیات بن مال مال زیہ
سندھی مدنی
"تیرھویں صدی"
()1سید احمد بریلوی ()2شاہ عبد العزیز محدث دہلوی ( )3مولوی محمد اسماعیل شہید
دہلوی ( )4بعض کہ نزدیک شاہ رفیع الدین صاحب بھی مجدد ہیں ()5بعض کہ نذدیک شاہ
عبد القادر کو مجدد تسلیم کیا گیا ہے .ہم اس کا انکار نہی کر سکتے کہ بعض ممالک میں
بعض بزرگ ایسے بھی ہونگے جن کو مجدد مانا گیا ہو اور ہمیں اطالع نا ملی ہو ۔
ٰ
مصفی ص 126تا _, 165خدا بخش مرزای تصدیق شدہ از مرزا غالم احمد قادیانی (عسل
)
اب قارئین آخر میں ان 14صدیوں کے مسلمان علماء ،مجتہدین ،مجددین کے نام بھی پڑھ
لیں جن کا رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کا ذکر کتابوں میں موجود ہے۔
پہلی صدی
دوسری صدی
1۔ سعید بن مسیب 2۔ طاوس بن کیسان 3۔ حسن بصری 4۔ محمد بن سیرین 5۔ محمد بن
الحنفیہ 6۔ ابوالعالیہ
7۔ ابو رافع 8۔ امام زین العابدین 9۔ امام باقر
10۔ امام جعفر صادق
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
تیسری صدی
1۔ امام ابو عبید قاسم بن سالم 2۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ 3۔ امام بخاری 4۔ امام مسلم 5۔ امام
ابو داؤد
6۔امام نسائی 7۔ امام ترمذی 8۔ امام ابن ماجہ
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
چوتھی صدی
1۔ امام ابن درید 2۔ امام ابو الحسن اشعری 3۔ امام ابن ابی حاتم رازی 4۔ امام ابوبکر آجری
5۔ امام ابو اللیث سمرقندی 6۔ امام ابن ابی زید القیروانی 7۔ امام ابن خزیمہ 8۔ امام ابوعوانہ
9۔ امام ابن حبان 10۔ امام ابوبکر جصاص رازی
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
پانچویں صدی
1۔ امام عبدالقاہر بغدادی 2۔ امام ثعلبی 3۔ امام ابونعیم اصفہانی 4۔ امام ابن حزم ظاہری 5۔
امام بیہقی 6۔ امام ہجویری المعروف بہ داتا گنج بخش 7۔ امام سرخسی
8۔ امام قاضی ابوالولید الباجی 9۔ امام ابو محمد عراقی 10۔ امام حاکم
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
چھٹی صدی
1۔ امام غزالی 2۔ قاضی ابو یعلی 3۔ عالمہ زمحشری
4۔ امام نجم الدین نسفی 5۔ امام ابن االنباری 6۔ ابن العربی 7۔ امام ابن عطیہ 8۔ قاضی عیاض
9۔ پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیالنی 10۔ امام سہیلی
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
ساتویں صدی
1۔ امام قرطبی 2۔ امام ابوالبقاء 3۔ محی الدین ابن عربی 4۔ شیخ یاقوت حموی 5۔ امام
عزالدین بن عبدالسالم
6۔ حافظ زین الدین رازی 7۔ امام ابن النجار 88۔ امام ابن االثیر الجزری 9۔ امام تورپشتی
10۔ خواجہ معین الدین چشتی
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
آٹھویں صدی
نویں صدی
1۔ عالمہ عینی 2۔ شیخ ابن ہمام 3۔ شیخ جالل الدین محلی 4۔ امام ابی 5۔ امام مجدالدین
فیروزآبادی
6۔ شیخ عبدالکریم صوفی 7۔ امام ابن امیر الحاج
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
دسویں صدی
1۔ عالمہ خفاجی 2۔ مجدد الف ثانی 3۔ شیخ علی ددہ صوفی 4۔ شیخ ابو المنتہی 5۔ شاہ
عبدالحق محدث دہلوی 6۔ شاہ نورالحق محدث دہلوی 7۔ مال علی قاری
8۔ عالمہ خلخالی 9۔ عالمہ عبدالحکیم سیالکوٹی
10۔ عالمہ ابوالبقا
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
بارہویں صدی
تیرھویں صدی
چودھویں صدی
1۔ حسنین محمد مخلوف 2۔ عالمہ انور شاہ کشمیری
3۔ شیخ زاہد الکوثری 4۔ پیر مہر علی شاہ 55۔ موالنا احمد رضا خان بریلوی 6۔موالنا
اشرف علی تھانوی
7۔ موالنا ثناء ہللا امرتسری 8۔ موالنا محمد حسین بٹالوی 9۔ سید عطاء ہللا شاہ بخاری 10۔
موالنا بدر عالم میرٹھی
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
" رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم پر چند ابتدائی گزارشات"
"رفع نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کا عقیدہ اور حضرت محمد ﷺ کا فرض منصبی"
حضور سرور کائناتﷺ کی بعثت کے وقت سر زمین عرب میں تین طبقے خصوصیت سے
.موجود تھے
اب ہمیں دیکھنا ہے کہ قرآن مجید کی رو سے آپﷺ کی رسالت کے کیا فرائض تھے؟
۔ آپ ﷺ کی بعثت سے قبل کے جو طریق منہاج ابراہیمی کے موافق تھے ان میں تغیر و 1
تبدل نہ ہوا تھا ان کو آپﷺ نے اور زیادہ استحکام کے ساتھ قائم فرمایا اور جن امور میں
تحریف فساد یا شعائر شرک و کفر مل گئے تھے انکا آپﷺ نے بڑی شدت سے علی اال
.عالن رد فرمایا
جن امور کا تعلق عبادات و اعمال سے تھا انکے آداب و رسومات اور مکروہات کو واضح
کیا .رسومات فاسدہ کی بیخ کنی فرمائی اور طریقے صالحہ کا عمل فرمایا اور جس مسئلہ
شریعت کو پہلی امتوں نے چھوڑ رکھا تھا یا انبیاء سابقہ نے اسے مکمل نہ کیا تھا انکو
آپﷺ نے تروتازگی دے کر رائج فرمایا اور کامل و مکمل کر دیا۔
۔آپ ﷺ سے قبل مختلف مذاہب کے پیروکاروں میں جن امور پر اختالف تھا آپﷺ ان کے 2
لیے فیصل (فیصلہ کرنے والے) اور حکم بن کر تشریف الئے آپ ﷺ پر نازل ہوئی کتاب
قرآن مجید اور اسکی تفسیر (حدیث) کے ذریعے مختلف فیہ امور میں جو فیصلہ صادر ہو
جائے وہ حتمی اور اٹل ہے (اس سے روگردانی و انحراف موجب ہالکت و خسران اور
)اسے دل سے تسلیم کرنا سعادت مندی اور اقبال بختی کی دلیل ہے
تعالی ہے
ٰ چنانچہ ارشاد باری
ب ا َِّال ِلت ُ َب ِینَ لَ ُہ ُم الَّذِی اخۡتَلَفُوۡا ِفیۡ ِہ ۡ َو ہُدًی َّو َرحۡ َم ًۃ
ک الۡ ِک ٰت َ
علَیۡ َ
َو َما اَنۡزَ لۡنَا َ
ِلقَوۡم یُّؤۡ ِمنُوۡنَ ۔
اور ہم نے تم پر یہ کتاب اسی لیے اتاری ہے تاکہ تم ان کے سامنے وہ باتیں کھول کھول "
کر بیان کردو جن میں انہوں نے مختلف راستے اپنائے ہوئے ہیں ،اور تاکہ یہ ایمان النے
" والوں کے لیے ہدایت اور رحمت کا سامان ہو
اب ہم دیکھتے ہیں کہ تینوں طبقات کے کون کون سے عقائد و اعمال صحیح یا غلط تھے
اور انکا آپﷺ نے کیا فیصلہ فرمایا۔
"مشرکین مکہ"
۔مشرکین مکہ شرک میں مبتال تھے .بتوں کی پوجا کرتے تھے چنانچہ قرآن مجید نے 1
تعالی پہ جتنا زور دیا ہے اور جس طرح شرک کو بیخ و ٰ تردید شرک اور اثبات توحید باری
بن سے اکھاڑا ہے .بتوں کی عبادت کی تردید اورابطال کا قرآن مجید نے جو انداز اختیار
کیا ہے .کیا کسی آسمانی مذہب یا آسمانی کتاب میں اس کی نظیر پیش کی جا سکتی ہے؟
نہیں اور ہر گز نہیں .آپﷺ نے جس طرح معبودان باطلہ کو للکارا وہ صرف اور صرف
آپﷺ ہی کا حصہ تھا۔
۔ مشرکین مکہ بیت ہللا کا طواف کرتے تھے .یہ عمل انکا صحیح تھا .اسالم نے اسکو نہ 2
صرف قائم رکھا بلکہ زمانہ نبوت سے تا آ بدال آباد اسکواسالمی عبادت کا بہترین حصہ
قرار دیا۔
ق (الحج 29
ت الۡ َع ِتیۡ ِ )و لۡ َی َّ
ط َّوفُوۡا ِبالۡ َبیۡ ِ َ
)اور اس بیت عتیق کا طواف کریں(
طواف امر الہی اور حکم ربی ہے ہاں مشرکین نے طواف میں جو غلط رسومات شامل کر
.لی تھیں مثالً ننگے طواف کرتے تھے یہ بیہودہ امر تھا اسکو محو کر دیا
۔مشرکین مکہ حجاج کو ستو پالیا کرتے تھے حجاج کی عزت و تکریم کرتے تھے3 .
حجاج کو بیت ہللا کے زائرین کو ،ضیوف میں ہللا سمجھتے تھے یہ امر صحیح تھا .اس
لیے اسکی توثیق فرمائی۔
تعالی ہے۔
ٰ جیسے ارشاد باری
اس سے قبل بیت ہللا الحرام کی تعمیر اور اس میں حاجیوں کا پانی پالنا ذکر فرماکر ان
.امور کو خیر توثیق فرمائی
مشرکین عرب اپنی بچیوں کو زندہ درگور کر دیا کرتے تھے .انکا فعل قبیح اور حرام 4.
تھا .اس سے پیغمبر اسالم نے نہ صرف روکا بلکہ بچیوں کی تربیت کرنے والوں کو جنت
کی خوشخبری سے نوازا بچیوں کے قتل پر قرآن مجید میں ارشاد ہے۔
اور جس بچی کو زندہ قبر میں گاڑ دیا گیا تھا ،اس سے پوچھا جائے گا۔کہ اسے کس جرم
میں قتل کیا گیا؟
غرض قرآن مجید نے مشرکین کے غلط عقائد و رسومات کو مٹایا اور صحیح کاموں کی
توثیق کی اور انکو اور زیادہ مستحکم کیا۔
"یہود کے عقائد"
۔ یہود بے بہود حضرت عزیر علیہ السالم کو ابن ہللا قرار دیتے تھے۔1
کچھ بعید نہیں کہ اس کی وجہ سے آسمان پھٹ پڑیں ،زمین شق ہوجائے اور پہاڑ ٹوٹ کر
گر پڑیں ۔ کہ ان لوگوں نے خدائے رحمن کے لیے ا والد ہونے کا دعوی کیا ہے ۔ حاالنکہ
خدائے رحمن کی یہ شان نہیں ہے کہ اس کی کوئی اوالد ہو۔
۔یہود حضرت عیسی بن مریم علیہ السالم کے قتل کا اعتقاد رکھنے اوراِنَّا قَتَلۡنَا 2
ّللاِ ۔
سوۡ َل ّٰ
سی ابۡنَ َمرۡ َی َم َر ُ
الۡ َمسِیۡ َح ِعیۡ َ
)النساء (157
دعوی کرتے تھے اس سے زیادہ زور دار بیان سے قرآن مجید نے
ٰ جتنی پختگی سے وہ
وماقتلوہ (اور انہوں نے نہ اسکو مارا)کہہ کر قتل مسیح کی مطلق نفی کرکے اس غلط
.دعوی کی تردید فرمائی
ٰ
اور ( اب اس وقت کا تذکرہ سنو ) جب فرشتوں نے کہا تھا کہ :اے مریم ! یشک ہللا نے (
تمہیں چن لیا ہے ،تمہیں پاکیزگی عطا کی ہے اور دنیا جہان کی ساری عورتوں میں تمہیں
) منتخب کرکے فضیلت بخشی ہے
)و ا ُ ُّمہ ِ
صدِیۡقَۃ(المائدہ آیت نمبر 75 َ
یہودیوں کا حضرت عیسی علیہ السالم کی نسبت یہ خیال تھا کہ وہ قتل بھی کیے گئے "
اور صلیب بھی دیے گئے بعض یہود کہتے ہیں پہلے قتل کر کے پھر صلیب پر لٹکائے
"گے اور بعض کہتے ہیں پہلے صلیب دے کر پھر انکو قتل کیا گیا
غرض یہود کے ان غلط دعووں کو وماقتلوہ وما صلبوہ وما قتلوہ یقینا ً کے زور دار الفاظ
سے ڈنکے کی چوٹ پر قرآن مجید نے نہ صرف رد کیا بلکہ قتل مطلق اور صلب مطلق
کی نفی کی تلوار سے ان دعووں کو بیخ و بن سے اکھیڑ دیا وما قتلوہ یقینا ً تو ایسا قرآنی
.ہے جس نے یہود کے دعوی کو ملیا میٹ اور زمین بوس کر دیا
"نصاری کے عقائد"
۔نصاری الوہیت مسیح کے قائل تھے انکا یہ عقیدہ بھی بداہتہ باطل تھا چنانچہ صراحتہ 2
.قرآن مجید نے اسکی تردید فرمائی
)وہ لوگ یقینا کافر ہوچکے ہیں جنہوں نے یہ کہا ہے کہ ہللا مسیح ابن مریم ہی ہے(
نصاری عیسی بن مریم کو ابن مریم قرار دیتے تھےَ .و قَالَ ِ
ت النَّصٰ َری الۡ َمسِیۡ ُح 3.
ابۡ ُن ّٰ
ّللا
)توبہ (30
)اور نصاری نے کہا مسیح ہللا کا بیٹا ہے(
.انکا یہ عقیدہ بھی بداہتہ باطل تھا .قرآن مجید نے صراحتا ً اسکی بھی تردید فرمائی
تو کہہ دو وہ ہللا ایک ہے ہللا بےنیاز ہے نہ کسی کو جنا نہ کسی سے جنا اور نہیں اسکے (
)جوڑ کا کوئی
نصاری کے اس (اہنیت
ٰ نیز سورہ مریم کی آیات 90تا 92پہلے گزر چکی ہیں غرض
.مسیح) عقیدہ باطل کی بھی قرآن مجید نے تردید کی
۔نصاری کا عقیدہ تھا کہ مسیح علیہ السالم پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ ہو 4
گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد مسیح علیہ السالم کا صلیب پر چڑھنا تھا .قرآن مجید نے
اسکی تردید کی وماصبلوہ
)النساء (157
کہ وہ قطعا ً پھانسی پر نہیں چڑھائے گئے تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی
کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ
.ہی سرے سے بےنیاز ہوا
چونکہ یہ عقیدہ اصوالً غلط تھا .چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ اکتفاء نہیں کیا
.بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بھی کی
)اور کوئی بوجھ اٹھانے واال کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا(
نیز فرمایا
فَ َمنۡ یَّعۡ َملۡ ِمثۡقَا َل ذَ َّرۃ خَیۡ ًرا ی ََّرہ ۔ َو َمنۡ یَّعۡ َملۡ ِمثۡقَا َل ذَ َّرۃ ش ًَّرا ی ََّرہ۔ (زلزال
)8-7
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ
برابر کوئی برائی کی ہوگی ،وہ اسے دیکھے گا۔
عیسائیوں کا ایک عقیدہ یہ بھی تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے آسمان پر
اٹھا لیا ہے اور اب وہ دوبارہ واپس زمین پر تشریف الئیں گے۔
اس خیال پر تمام فرقے نصاری کے متفق ہیں کہ (سیدنا عیسی علیہ السالم) آسمان پر "
"اٹھائے گئے
)روحانی خزائن جلد 3صفحہ (225
لیکن قرآن پاک نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا۔ بلکہ اس عقیدے کو بیان کیا۔
تاکہ قیامت تک کے لوگوں کو پتہ چل سکے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے
اپنی طرف اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف الئیں گے ۔
جیسا کہ مندرجہ ذیل آیات میں سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان پر اٹھائے جانے اور
قرب قیامت واپس تشریف النے کا ذکر ہے۔ ان آیات کے بارے میں تفصیلی گفتگو آنے
والے اسباق میں ہوگی۔جب رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم پر دالئل آیئں گے ۔
فی الحال آیات اور ان کا ترجمہ مالحظہ فرمائیں۔
اور (یہودیوں نے)یہ کہا کہ :ہم نے ہللا کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا ،
عیسی ( علیہ السالم ) کو قتل کیا تھا ،نہ انہیں سولی دے پائے تھے ،
ٰ حاالنکہ نہ انہوں نے
بلکہ انہیں اشتباہ ہوگیا تھا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختالف کیا
ہے وہ اس سلسلے میں شک کا شکار ہیں ،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات
عیسی ( علیہ السالم ) کو
ٰ کا کوئی علم حاصل نہیں ہے ،اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ
قتل نہیں کر پائے ۔ بلکہ ہللا نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا ،اور ہللا بڑا صاحب اقتدار ،بڑا
حکمت واال ہے۔
اور سیدنا عیسی علیہ السالم قرب قیامت کی نشانیوں میں سے ہیں یعنی ان کا دوبارہ زمین
پر تشریف النا اس بات کی نشانی ہے کہ قیامت قریب آگئی ہے۔ اس کا ذکر درج ذیل آیت
میں ہے۔
اب آتے ہیں اصل سوال کی طرف جس کے لئے اتنی تمہید باندھنی پڑی ۔
قادیانیوں کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کے رفع و نزول کا عقیدہ عیسائیوں کا تھا
اور مسلمانوں نے اسے قبول کیا۔
ہم کہتے ہیں بالکل یہ عقیدہ عیسائیوں کا تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو ہللا تعالی نے
آسمانوں پر اٹھالیا تھا اور وہ دوبارہ زمین پر تشریف الیئں گے۔ جیسا کہ عیسائیوں کی کتب
میں موجود ہے۔
۔ خداوند یسوع سے کالم کرنے کے بعد (سیدنا عیسی علیہ السالم ) کو آسمان پر اٹھایا گیا 1
۔
۔ اس وقت لوگ ابن آدم (سیدنا عیسی علیہ السالم) کو بڑی قدرت اور جالل کے ساتھ 3
بادلوں میں آتے دیکھیں گے ۔
رسول ہللاﷺ نے فرمایا ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،وہ زمانہ آنے (
عیسی علیہ السالم ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیتٰ واال ہے جب ابن مریم (
سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ،سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم
)کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے واال نہ رہے گا
قرآن مجید نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ بلکہ اس
عقیدے کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے۔ اور اس عقیدے کے بارے میں آپ ﷺکی قریبا
112احادیث بھی موجود ہیں۔
اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن کو اس عقیدے کا رد کرنا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن
نے اس عقیدے کو بیان کیا اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ سے اس کی وضاحت ہوتی
ہے۔ پتہ چال کہ یہ عقیدہ حق ہے۔ اور اس عقیدے کا انکار کرنا قرآن اور احادیث کا انکار
کرنا ہے۔ جو کہ کفر ہے۔
اب دیکھتے ہیں کہ مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے متعلق کیا
لکھا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ
السالم کا عقیدہ تواتر سے ثابت ہے۔ جیسا کہ مرزاقادیانی کی درج ذیل تحریرات سے ثابت
ہوتا ہے۔
ہمیں اس بات کو اول درجے کی دلیل قرار دینا چاہیے کہ ایک قوم باوجود ہزاروں اور "
"الکھوں اپنے افراد کے پھر ایک بات پر متفق ہو
سیدنا عیسی علیہ السالم کے نزول کے بارے میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
پس کمال درجہ کی بدنصیبی اور بھاری غلطی ہے کہ یک لخت تمام حدیثوں کو ساقط "
االعتبار سمجھ لیں ۔ اور ایسی متواتر پیشگوئیوں کو جو خیر القرون میں ہی تمام ممالک
اسالم میں پھیل گئی تھیں۔ اور مسلمات میں سے سمجھی گئی تھیں بمد موضوعات داخل
کردیں۔ یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیشگوئی ایک اول درجے کی
پیشگوئی ہے۔ جس کو سب نے باالتفاق قبول کر لیا ہے۔ اور جس قدر صحاح میں
پیشگوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی پیشگوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر
کا اول درجہ اس کو حاصل ہے۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔ اب اس قدر ثبوت پر پانی
پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے۔ جن کو
تعالی نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی حصہ اور بخرہ نہیں دیا۔ اور خدائے ٰ
بباعث اس کے کہ ان لوگوں کے دلوں میں قال ہللا اور قال الرسول کی عظمت باقی نہیں
رہی۔ اس لئے جو بات ان کی اپنی سمجھ سے باالتر ہو۔ اس کو محاالت اور ممتنعات میں
"داخل کر لیتے ہیں
اس کے عالوہ مرزا قادیانی نے تواتر کے انکار کے بارے میں لکھا ہے کہ
مرزاقادیانی کا سیدنا عیسی علیہ السالم کے رفع و نزول کے بارے میں پہلے یہی عقیدہ رہا
کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ قرب قیامت
واپس زمین پر تشریف الئیں گے ۔
" میرا بھی یہی اعتقاد تھا کہ حضرت عیسی علیہ السالم آسمان سے نازل ہوں گے"
)روحانی خزائن جلد 22صفحہ (152
بعد میں مرزاقادیانی نے اپنے عقیدے کو تبدیل کیا ۔ اور پہلے جس عقیدے کے انکار کو
اسالم کا انکار کہا بعد میں خود ہی اس عقیدے کا انکار کردیا۔
بلکہ حیات سیدنا عیسی علیہ السالم کا عقیدہ رکھنے والے کو مشرک قرار دے دیا ۔
پھر حیات سیدنا عیسی علیہ السالم کے عقیدے کے متعلق لکھا کہ
اول تو یہ جاننا چاہیئے کہ مسیح علیہ السالم کے نزول کا عقیدہ کوئی ایسا عقیدہ نہیں ہے۔ "
جو ہمارے ایمانیات کی جزو ہو یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے کوئی رکن ہو۔ بلکہ
صدہا پیشگوئیوں میں سے یہ ایک پیشگوئی ہے جس کا حقیقت اسالم سے کوئی تعلق نہیں
"
مرزاقادیانی کے مطابق رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کا مسمسئلہ 13صدیوں تک
چھپا رہا اور تمام مسلمان 13صدیوں تک مشرکانہ عقیدے پر قائم رہے۔
تعالی اراد اخفاءہ۔ فغلب قضاءہ ومکرہ وابتالءہ علی "ولکن ما فھم المسلمون حقیقتہ۔ الن ہللا ٰ
االفھام فصرف وجوھھم عن الحقیقتہ الروحانیہ الی الخیاالت الجسمانیہ فکانو بھا من القانعین
"و بقی ھذا الخبر مکتوبا مستورا کالحب فی السنبلتہ قرنا بعد قرن حتی جاء زماننا
مرزاقادیانی سے پہلے 1300سال کے مسلمانوں کا عقیدہ یعنی حضور صلی ہللا علیہ وسلم
کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک کے تمام مسلمانوں کا عقیدہ سیدنا عیسی علیہ السالم
کے جسمانی رفع و نزول کا تھا۔
ایک دفعہ ہم دلی گئے۔ ہم نے وہاں کے لوگوں کوکہا کہ تم نے 1300برس سے یہ نسخہ "
استعمال کیا ہے کہ آنخضرت صلی ہللا علیہ وسلم کو مدفون اور حضرت عیسی علیہ السالم
کو آسمان پر زندہ بٹھایا۔۔۔۔ اب دوسرا نسخہ ہم بتاتے ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السالم کو
"فوت شدہ مان لو
اسی بات کی تائید قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین
محمود نے بھی کی ہے ۔
پچھلی صدیوں میں قریبا سب دنیا کے مسلمانوں میں مسیح علیہ السالم کے زندہ ہونے پر "
ایمان رکھا جاتا تھا ۔ اور بڑے بڑے بزرگ اسی عقیدہ پر فوت ہوئے۔ اور نہیں کہ سکتے
کہ وہ مشرک فوت ہوئے۔ گو اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ مشرکانہ عقیدہ ہے۔ حتی کہ
حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی ) باوجود مسیح موعود کا خطاب پانے کے دس سال
"تک یہی خیال کرتے رہے کہ مسیح آسمان پر زندہ ہے
براہین احمدیہ میں میں نے یہ لکھا تھا کہ مسیح ابن مریم آسمان سے نازل ہوگا۔ مگر بعد "
"میں یہ لکھا کہ آنے واال مسیح میں ہی ہوں
اس سے پتہ چال کہ مرزاقادیانی نے جب نعوذ باہلل "محمد الرسول ہللا" ہونے کا دعوی کیا
تو اس وقت بھی مرزاقادیانی حیات عیسی علیہ السالم اور ان کے جسمانی نزول کا قائل تھا۔
حاالنکہ بعد میں اسی عقیدے کو شرک لکھا۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ کیا ایک مشرک
نبی بن سکتا ہے؟؟
قارئین اصل میں ہمارا اور قادیانیوں کا اختالف حیات عیسی علیہ السالم کے مسئلے پر یہ
ہے کہ ہم کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم جو بنی اسرائیل کے رسول تھے ان کو ہللا
نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور وہ اس امت میں دوبارہ نازل ہوں گے ۔ جبکہ مرزاقادیانی اور
قادیانی جماعت کا موقف یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں اور ان کی
روحانی صفات والے کسی مسیح نے آنا تھا اور وہ مرزاقادیانی ہے۔
میں نے صرف مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اور میرا یہ ایمان بھی نہیں کہ صرف "
مثیل مسیح ہونا میرے پر ہی ختم ہوگیا ہے۔ بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے کہ آیئندہ زمانوں
میں میرے جیسے اور بھی دس ہزار مثیل مسیح آجایئں۔۔۔ کسی زمانے میں ایسا مسیح بھی
"آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری الفاظ صادق آجایئں
اس عاجز نے جو مثیل موعود ہونے کا دعوی کیا ہے جس کو بعض کم فہم مسیح موعود "
"خیال کر بیٹھے ہیں
"خالصہ کالم"
قرآن مجید نے عیسائیوں کے اس عقیدے کا رد نہیں کیا کہ یہ عقیدہ غلط ہے۔ بلکہ اس
عقیدے کو قرآن مجید نے بھی بیان کیا ہے۔ اور اس عقیدے کے بارے میں آپﷺ کی قریبا
112احادیث بھی موجود ہیں۔
اگر عیسائیوں کا یہ عقیدہ غلط تھا تو قرآن کو اس عقیدے کا رد کرنا چاہیے تھا۔ لیکن قرآن
نے اس عقیدے کو بیان کیا اور حضورﷺ کی احادیث مبارکہ سے اس کی وضاحت ہوتی
ہے۔ پتہ چال کہ یہ عقیدہ حق ہے۔ اور اس عقیدے کا انکار کرنا قرآن اور احادیث کا انکار
کرنا ہے۔ جو کہ کفر ہے۔
مرزاقادیانی نے حیات و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے عقیدے کو پہلے تواتر کہا اور
تواتر سے انکار کرنے والے کو اسالم کا انکار کرنے واال کہا پھر خود ہی تواتر کا انکار
کر دیا ۔
مرزاقادیانی نے حیات و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے۔
حاالنکہ خود مرزاقادیانی نے تسلیم کیا ہے کہ حضور ﷺ کے دور سے لے کر مرزاقادیانی
تک سارے مسلمان سیدنا عیسی علیہ السالم کے جسمانی رفع و نزول کے قائل تھے ۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے
خود اپنی زندگی کے 52سال اسی عقیدے پر قائم رہا۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے
خود اس کو اس کتاب میں نقل کیا جس کتاب کو بقول مرزاقادیانی رسول ہللاﷺ سے تائید
حاصل تھی۔
مرزاقادیانی نے رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے عقیدے کو شرک قرار دیا ہے
خود "محمد الرسول ہللا" کا لقب پانے کے بعد بھی اسی شرکیہ عقیدے میں مبتال رہا۔
مرزاقادیانی نے عقیدہ اور الفاظ وہی لئے ہیں جو 1300سال سے مسلمانوں میں رائج تھے۔
لیکن ان کا مفہوم مرزاقادیانی نے 1300سال سے مسلمانوں سے ہٹ کر لیا ہے ۔ اور یہ
ہٹ کر مفہوم لینا ہمارے نزدیک تو کفر ہے ہی لیکن یہ مرزاقادیانی کے نزدیک بھی کفر
ہے۔
رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے بارے میں قرآن مجید سے دالئل اور احادیث (
) مبارکہ آنے والے اسباق میں بتائی جائیں گی
قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں اور قرب قیامت واپس زمین
پر تشریف نہیں الئیں گے ۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ
جس طرح حضور ﷺ کا واقعہ معراج میں آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا حق ہے اس
طرح سیدنا عیسی علیہ السالم کا بھی آسمان پر جانا اور پھر واپس آنا حق ہے۔
جس طرح سیدنا آدم علیہ السالم آسمان سے زمین پر تشریف ال سکتے ہیں اسی طرح سیدنا
عیسی علیہ السالم بھی آسمان سے زمین پر تشریف الئیں گے ۔
جس طرح سیدنا ہارون علیہ السالم کا جنازہ آسمان پر جا اور پھر سیدنا موسی علیہ السالم
کی دعا سے واپس آسکتا ہے۔ اسی طرح سیدنا عیسی علیہ السالم زمین سے آسمان پر جاکر
جب ہللا چاہیں تو واپس آسکتے ہیں۔
پس جس طرح بابا گرونانک کا چوغا آسمان سے آسکتا ہے اسی طرح سیدنا عیسی علیہ
السالم بھی آسمان سے تشریف لے آئیں گے ۔
جواب نمبر 6
پس جس طرح عیسی علیہ السالم آسمان پر جا سکتے ہیں اسی طرح واپس زمین پر بھی
آسکتے ہیں۔
" مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم پر چند ابتدائی گزارشات"
سیدنا عیسی علیہ السالم کے رفع و نزول کے عقیدے کے بارے میں 4گروہ ہیں ۔
۔ مسلمان 2۔ عیسائی 3۔ یہودی 4۔ قادیانی 1
ان چاروں گروہوں کے عقائد سیدنا عیسی علیہ السالم کے بارے میں درج ذیل ہیں۔
"مسلمانوں کا عقیدہ"
مسلمان کہتے ہیں کہ یہودی سیدنا عیسی علیہ السالم کو نہ ہی قتل کرسکے اور نہ ہی
صلیب دے سکے بلکہ ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور وہ
قرب قیامت واپس زمین پر تشریف الئیں گے ۔
رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے قرآنی دالئل و احادیث مبارکہ انشاء ہللا اگلے (
) اسباق میں آیئں گے
"یہودیوں کا عقیدہ"
یہودیوں کا عقیدہ یہ ہے کہ انہوں نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو صلیب دے کر قتل کر دیا
تھا۔
یہود حضرت عیسی بن مریم علیہ السالم کے قتل کا اعتقاد رکھتے تھے جیسا کہ قرآن مجید
میں ذکر ہے۔
ّللاِ ۔
سوۡ َل ّٰ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡ َمسِیۡ َح ِعیۡ َ
سی ابۡنَ َمرۡیَ َم َر ُ
دعوی کرتے تھے اس سے زیادہ زور دار بیان سے قتل مسیح کیٰ جتنی پختگی سے وہ
دعوی کی تردید فرمائی
ٰ .مطلق نفی کرکے اس غلط
اور یہ کہا کہ :ہم نے ہللا کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا ،حاالنکہ نہ انہوں
عیسی ( علیہ السالم ) کو قتل کیا تھا ،نہ انہیں سولی دے پائے تھے ،بلکہ انہیں اشتباہ
ٰ نے
ہوگیا تھا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختالف کیا ہے وہ اس
سلسلے میں شک کا شکار ہیں ،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی علم
عیسی ( علیہ السالم ) کو قتل نہیں کر
ٰ حاصل نہیں ہے ،اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ
پائے ۔ بلکہ ہللا نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا ،اور ہللا بڑا صاحب اقتدار ،بڑا حکمت واال
ہے
عیسائی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو صلیب پر چڑھایا گیا وہ صلیب پر چڑھنے
کی وجہ سے قتل ہوگئے۔ اس کے بعد زندہ ہوئے اور ہللا ٰ
تعالی نے ان کو آسمان پر اٹھا لیا ۔
اور اب وہ واپس زمین پر تشریف الئیں گے۔
عیسائیوں کا عقیدہ یہ بھی تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السالم پھانسی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں
کا کفارہ ہو گئے انکے عقیدہ کفارہ کی بنیاد سیدنا عیسی علیہ السالم کا صلیب پر چڑھنا تھا.
قرآن مجید نے اسکی تردید کی ۔
وماصبلوہ
تو عقیدہ کفارہ کی بنیاد ہی قرآن مجید نے گرا دی کہ جب وہ سرے سے ہی صلیب پر نہیں
.چڑھائے گئے تو تمہارے گناہوں کا کفارہ کا عقیدہ ہی سرے سے بےنیاز ہوا
چونکہ یہ عقیدہ اصوال غلط تھا .چنانچہ قرآن مجید نے صرف نفی صلیب پہ اکتفاء نہیں
.کیا بلکہ واقعاتی تردید کے ساتھ ساتھ اصولی اور معقولی تردید بھی کی
چنانچہ قرآن مجید میں ہللا ٰ
تعالی نے فرمایا
)اور کوئی بوجھ اٹھانے واال کسی دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا(
فَ َمنۡ یَّعۡ َملۡ ِمثۡقَا َل ذَ َّرۃ خَیۡ ًرا ی ََّرہ ۔ َو َمنۡ یَّعۡ َملۡ ِمثۡقَا َل ذَ َّرۃ ش ًَّرا ی ََّرہ۔
چنانچہ جس نے ذرہ برابر کوئی اچھائی کی ہوگی وہ اسے دیکھے گا۔ اور جس نے ذرہ
برابر کوئی برائی کی ہوگی ،وہ اسے دیکھے گا۔
اس عقیدے کو مرزا صاحب نے بھی تسلیم کیا ہے کہ عیسائیوں کا عقیدہ تھا کہ
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 373مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (292
قادیانی کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو یہودیوں نے صلیب پر چڑھایا اور وہ تین
دن تک صلیب پر رہے لیکن وہ صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے قتل نہیں ہوئے بلکہ زخمی
ہوگئے اور زخمی حالت میں آپ کو ایک غار میں لے جایا گیا اور وہاں آپ کا عالج ہوتا
رہا۔ تین دن کے بعد آپ صحت یاب ہوئے اور پھر اپنی والدہ کے ساتھ فلسطین سے
افغانستان کے راستے سے ہوتے ہوئے کشمیر چلے گئے ۔ کشمیر میں 87سال رہے ۔ پھر
آپ کی وفات ہوئی۔ اور آپ کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔
مرزا غالم قادیانی ( )1908 – 1839اپنی عمر کے تقریبا ً 52سال (سنہ 1891تک) نہ
صرف خود بھی مسلمانوں واال عقیدہ رکھتے تھے بلکہ اپنی اولین کتاب "براھین احمدیه"
میں قرآنى آیات سے اصلى حضرت عیسى علیہ السالم ہی کا دوبارہ دنیا میں آنا ثابت بھی
کیا ۔
)اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ (113
لیکن آخر عمر میں مرزا صاحب نے ایک اور انوکھا اور نیا عقیدہ اور نظریہ پیش کیا ۔
حضرت مریم علیھما السالم کے بیٹے حضرت عیسى علیه السالم کی عمر 33سال " 6
مہینے تھی کہ آپ کو دشمنوں نے پکڑ کر بروز جمعه بوقت عصر دو چوروں کے ساتھ
صلیب پر ڈال دیا ،جسم میں کیلیں لگائیں ،زخمی کیا یہاں تک کہ آپ شدت تکلیف سے بے
ہوش ہو گئے اور دشمن آپ کو مردہ سمجھ کر چلے گئے جب کہ در حقیقت آپ ابھی زندہ
" .تھے
ہللا نے یہ بیان فرمایا ہے کہ اگرچہ یہ سچ ہے کہ بظاہر مسیح صلیب پر کھینچا گیا اور "
"اسکے مارنے کا ارادہ کیا گیا
)مسیح ہندوستان میں صفحہ 49مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ (51
آپ کو کسی طرح صلیب سے اتارا گیا،حواریوں نے آپ کے زخموں پر "مرہم عیسى" "
لگا کر عالج کیا،اور پھر آپ اور آپ کی والدہ ملک شام سے نکلے اور افغانستان وغیرہ
"مختلف ممالک سے ہوتے ہوے کشمیر جا پہنچے۔
آپ علیہ السالم کشمیر میں ہی مرزا صاحب کی ایک تحریر کے مطابق 120سال اور اسی
كتاب میں لکھی ہوئی دوسری تحریر کے مطابق 125سال کی مجموعی عمر پا کر انتقال
.کرگئے
)مسیح ہندوستان میں صفحہ 12مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ (14
)مسیح ہندوستان میں صفحہ 53مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ (55
مرزا صاحب نے سیدنا عیسی علیہ السالم کی قبر کے متعلق لکھا ہے کہ
کشمیر کے شہر سری نگر کے محلہ خان یار میں جو قبر "یوز آسف" کے نام سے "
مشہور ہے وہ در حقیقت حضرت عیسى علیه السالم کی قبر ہے"۔
مرزا صاحب نے سیدنا عیسی علیہ السالم کے بارے میں ایک اور بات یہ بھی لکھی ہے
کہ
جن احادیث میں "مریم کے بیٹے عیسي علیھما السالم" کے نزول کی خبر دی گئی ہے " ،
ان سے مراد اصلی عیسى علیه السالم نہیں بلکہ ان کا ایک مثیل ہے ،نیز" قرآن كریم اور
"احادیث صحیحه نے بشارت دی ہے کہ مثیل مسیح اور دوسرے مثیل بھی آئیں گے
وہ مثیل میں یعنی مرزا غالم احمد قادیانی بن چراغ "
بی بی ہوں اور اسی کی خبر احادیث میں دی گئی ہے،نیز "قرآن نے میرا نام ابن مریم
رکھا ہے۔"اور میرے خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ "مسیح محمدی ،مسیح موسوی سے
" .افضل ہے
احادیث میں "عیسى علیه السالم " کے ہاتھوں جس دجال کے قتل ہونے کا ذکر ہے اس "
دجال سے مراد یا تو عیسائی پادری ہیں ،یا دجال شیطان کا اسم اعظم ہے ،یا دجال مفسدین
کے گروہ کا نام ہے ،یا دجال عیسائیت کا بھوت ہے ،یا دجال سے مراد خناس ہے ،یا دجال
".سے مراد با اقبال قومیں ہیں
) ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 495مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (366
)ایام الصلح صفحہ 168٬1699مندرجہ روحانی خزائن جلد 14صفحہ(417-416
) 45حقیقة الوحی صفحہ 43مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (
)صفحہ 3 174ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 146مندرجہ روحانی خزائن جلد (
)صفحہ 3 362ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 488مندرجہروحانی خزائن جلد (
)ایام الصلح صفحہ 61مندرجہ روحانی خزائن جلد 14صفحہ(296
)انجام آتھم٬رسالہ دعوت قوم صفحہ 477مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (47
مرزا صاحب نے سیدنا عیسی علیہ السالم کے بہن اور بھائیوں کے متعلق یوں لکھا ہے کہ
".حضرت مسیح علیه السالم کے چار حقیقی بھائی اور دو حقیقی بہنیں بھی تھیں"
مرزا صاحب کی مندرجہ باال عبارات سے مندرجہ ذیل مرزا صاحب کے عقائد ہمیں پتہ
چلے۔
۔ سیدنا عیسی علیہ السالم کو 2چوروں کے ساتھ صلیب پر لٹکایا گیا ۔ 1
۔ سیدنا عیسی علیہ السالم صلیب پر چڑھنے کی وجہ سے زخمی ہوگئے۔ 22
۔ ہللا نے یہ فرمایا کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو صلیب پر کھینچا گیا ۔ 33
۔ سیدنا عیسی علیہ السالم کو صلیب سے زخمی حالت میں اتارا گیا۔ پھر ان کے مرہموں 44
پر "مرہم عیسی" لگائ گئ۔
۔ اس کے بعد سیدنا عیسی علیہ السالم کشمیر چلے گئے ۔5
۔ سیدنا عیسی علیہ السالم کی وفات کشمیر میں 120یا 1255سال کی عمر میں ہوئ ۔ 6
۔ سیدنا عیسی علیہ السالم کی قبر کشمیر کے محلہ خان یار میں ہے۔ 77
۔ جن احادیث میں مریم علیہ السالم کے بیٹے سیدنا عیسی علیہ السالم کے آنے کی خبر 88
دی گئی ہے اس سے مراد مریم علیہ السالم کے بیٹے سیدنا عیسی علیہ السالم نہیں ہیں بلکہ
یہ مراد ہے کہ ان کا کوئی مثیل آئے گا۔
۔ وہ مثیل مسیح جس کے آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے وہ مثیل مسیح "مرزا 99
غالم احمد قادیانی" ہے۔
۔ مرزا صاحب کا نام قرآن نے ابن مریم رکھا ہے۔ 10
۔ جس دجال کا سیدنا عیسی علیہ السالم کے ہاتھوں قتل ہونے کا ذکر احادیث میں آیا 111
ہے اس دجال سے مراد یا تو شیطان ہے یا عیسائی پادری وغیرہ ہیں۔
۔ سیدنا عیسی علیہ السالم کے 4حقیقی بھائی اور 22حقیقی بہنیں تھیں۔ 12
اور اگر قادیانی یہ ثابت نہ کرسکیں اور یقینا قیامت تک بھی ثابت نہیں کرسکیں گے تو
مرزا صاحب پر چار حرف بھیج کر اسالم کے وسیع دامن میں آجایئں۔
معزز قارئین آج ہم سیدنا عیسی علیہ السالم کے رفع کے بارے میں چند قرآنی دالئل پیش
کریں گے ۔
سب سے پہلے تو یہ سمجھنا ضروری ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو یہود قتل کرنا
چاہتے تھے۔ اور آج تک یہودی یہی کہتے ہیں کہ ہم نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو قتل کیا
ہے۔
اور ہللا ٰ
تعالی یہود سے سیدنا عیسی علیہ السالم کو بچانا چاہتے تھے۔ یہود سیدنا عیسی علیہ
السالم کو مارنے کی تدبیر کررہے تھے ۔ اور ہللا ٰ
تعالی سیدنا عیسی علیہ السالم کو بچانا
چاہتے تھے ۔ اور یہ بات تو کسی کافر سے بھی پوچھ لیں کہ اگر کسی انسان کو ساری دنیا
مارنے پر تل جائے اور اس انسان کو ہللا ٰ
تعالی بچانا چاہتے ہوں تو کون کامیاب ہوگا۔ تو
یقینا وہ کافر بھی یہی جواب دے گا کہ ہللا ٰ
تعالی کے مقابلے میں ساری دنیا ناکام ہوجائے
گی ۔ اور جس انسان کو ہللا تعا ٰلی بچانا چاہتے ہیں اس کو ساری دنیا کے انسان بھی مل کر
مارنا تو دور کی بات ہے ہاتھ بھی نہیں لگاسکیں گے۔
اس آیت میں ذکر ہے کہ یہودی سیدنا عیسی علیہ السالم کے خالف ان کو قتل کرنے کی
تدبیر کررہے تھے اور ہللا ٰ
تعالی یہود کے خالف سیدنا عیسی علیہ السالم کو بچانے کی
تدبیر کررہے تھے ۔
جس وقت یہود سیدنا عیسی علیہ السالم کو مارنے کی تدبیر کررہے تھے اس وقت ہللا ٰ
تعالی
نے سیدنا عیسی علیہ السالم سے 4وعدے فرمائے جو کہ قرآن مجید میں موجود ہیں۔
1۔ اے سیدنا عیسی علیہ السالم میں آپ کو صحیح سالم واپس لے لوں گا ۔
22۔ اے سیدنا عیسی علیہ السالم میں آپ کو صحیح سالم واپس لے کر اپنی طرف اٹھا لوں
گا ۔
33۔ اے سیدنا عیسی علیہ السالم میں آپ کو یہود کی صحبت سے پاک کروں گا ۔
44۔ اے سیدنا عیسی علیہ السالم میں آپ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غالب
رکھوں گا۔
اور یہ کہا کہ :ہم نے ہللا کے رسول مسیح ابن مریم کو قتل کردیا تھا ،حاالنکہ نہ انہوں
عیسی ( علیہ السالم ) کو قتل کیا تھا ،نہ انہیں سولی دے پائے تھے ،بلکہ انہیں اشتباہ
ٰ نے
ہوگیا تھا ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں نے اس بارے میں اختالف کیا ہے وہ اس
سلسلے میں شک کا شکار ہیں ،انہیں گمان کے پیچھے چلنے کے سوا اس بات کا کوئی
عیسی ( علیہ السالم ) کو قتل نہیں
ٰ علم حاصل نہیں ہے ،اور یہ بالکل یقینی بات ہے کہ وہ
کر پائے ۔ بلکہ ہللا نے انہیں اپنے پاس اٹھا لیا تھا ،اور ہللا بڑا صاحب اقتدار ،بڑا حکمت
واال ہے۔
ان آیات سے پتہ چال کہ یہود جب سیدنا عیسی علیہ السالم کو قتل کرنا چاہتے تھے اس وقت
ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو آسمان پر اٹھالیا تھا اور اس طرح سیدنا عیسی علیہ
السالم سے کئے گئے وعدے پورے ہوگئے۔ کہ میں آپ کو صحیح سالم اپنی طرف لے لوں
گا اور یہود کی صحبت سے پاک کروں گا اور آپ کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر
غالب رکھوں گا ۔
کیونکہ جب ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو آسمان پر اٹھا لیا تو اس سے یہ وعدے
پورے ہوگئے ۔ اور سیدنا عیسی علیہ السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے جب آسمان پر اٹھا لیا تو اس
کے کچھ عرصے بعد عیسائیوں کو یہودیوں پر غلبہ حاصل ہوگیا۔ جوکہ ابھی تک حاصل
ہے۔ آج بھی یہود دنیا میں دربدر ہیں۔
مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم پر یہ بات ہمیشہ یاد رکھنے کے قابل ہے کہ
سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان پر اٹھائے جانے اور پھر دوبارہ زمین پر نازل ہونے
کے بارے میں مرزا قادیانی سے پہلے کے کسی ایک مسلمان مفسر میں اختالف نہیں۔اور
یہ بات خود مرزا قادیانی نے بھی تسلیم کی ہے۔
تمام مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو آسمان پر
اٹھالیا تھا اور وہ قرب قیامت واپس زمین پر تشریف الئیں گے ۔
البتہ مفسرین میں سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان پر اٹھائے جانے کی کیفیت میں
اختالف پایا جاتا ہے۔
کچھ مفسرین کا خیال ہے کہ پہلے سیدنا عیسی علیہ السالم کو نیند دی گئی پھر ان کو نیند
کی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا ۔
"دوسرا قول"
دوسرا قول یہ ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو اسی حالت میں آسمان پر اٹھایا گیا۔
"تیسرا قول"
ایک تیسرا قول یہ بھی ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو کچھ وقت کے لئے موت دی گئی
پھر آسمان پر اٹھایا گیا۔
لیکن جن کا یہ قول ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو کچھ دیر کے لئے موت دی گئی پھر
آسمان پر اٹھایا گیا وہ سیدنا عیسی علیہ السالم کے دوبارہ نزول کے بھی قائل ہیں۔ اور
دوبارہ نزول کے لئے سیدنا عیسی علیہ السالم کا زندہ ہونا الزم و ملزوم ہے۔ اس لئے وہ
مفسرین جو یہ کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم پر کچھ دیر کے لئے موت طاری کی
گئی وہ بھی سیدنا عیسی علیہ السالم کی حیات اور نزول کے قائل ہیں۔
اور قادیانی ان مفسرین کے اقوال پیش کرکے سیدنا عیسی علیہ السالم کی وفات اور دوبارہ
نازل نہ ہونا ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ دیکھیں کہ فالں مفسر نے
لکھا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم پر موت طاری کی گئی۔
حاالنکہ یہ قادیانیوں کا دجل اور فراڈ ہوتا ہے کیونکہ اگر کسی مفسر نے سیدنا عیسی علیہ
السالم کے لئے چند گھڑی موت کا لکھا بھی ہے تو اسی مفسر نے اسی تفسیر کے اندر
سیدنا عیسی علیہ السالم کے دوبارہ نازل ہونے کا بھی لکھا ہے۔ اور دوبارہ نازل ہونے کے
لئے زندہ ہونا الزم و ملزوم ہے۔
یہاں تک تو ہم نے سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے دالئل قرآن
مجید سے دے دیئے۔ لیکن ممکن ہے کوئی قادیانی کہ دے کہ یہ ساری باتیں ہم نے اپنی
طرف سے لکھی ہیں۔ اب آیئے ان آیات کی تفسیر چند ان مفسرین سے دیکھتے ہیں جن
مفسرین کی مرزاقادیانی نے تعریف کی ہے یا ان کو مجدد بھی تسلیم کیا ہے۔
مرزاقادیانی نے امام جالل الدین سیوطی رحمہ ہللا کو نویں صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے ۔
اور مرزا قادیانی نے امام جالل الدین سیوطی رحمہ ہللا کی تعریف میں یوں لکھا ہے
"امام سیوطی کا مرتبہ اس قدر بلند تھا کہ انہیں جب ضرورت پیش آتی وہ حضور صلی ہللا
علیہ وسلم کی بالمشافہ زیارت کرکے ان سے حدیث دریافت کرلیا کرتے تھے "
امام سیوطی رحمہ ہللا اپنی تفسیر درمنثور میں اس آیت کی تفسیر میں ابن جریر اور سدی
کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
( بنی اسرائیل نے حضرت عیسی علیہ السالم اور آپ کے انیس حواریوں کا ایک گھر میں
محاصرہ کرلیا۔ حضرت عیسی علیہ السالم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں سے وہ
کون ہے جو میری صورت قبول کرے پھر اسے قتل کر دیا جائے تو اس کے لئے جنت
ہے۔ ایک آدمی نے اس چیز کو قبول کرلیا۔ حضرت عیسی علیہ السالم کو آسمانوں پر اٹھالیا
گیا۔
تعالی کے فرمان سے انہوں (یہود) نے مکر کیا ہللا ٰ
تعالی نے بھی خفیہ تدبیر کی ۔ اور ہللا ٰ
ہللا ٰ
تعالی بہترین خفیہ تدبیر کرنے واال ہے)
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام سیوطی رحمہ ہللا نے ابن جریر ،امام
عبدالرزاق اور ابن ابی حاتم کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے حضرت حسن بصری
رحمہ ہللا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
( میں تمہیں (عیسی علیہ السالم) کو زمین سے اٹھانے واال ہوں)
(امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے ایک اور سند سے حضرت حسن بصری رحمہ ہللا
سے ان الفاظ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آپ (عیسی علیہ السالم) کو نیند عطا کرنے واال
تعالی نے نیند کی حالت میں آپ کو آسمانوں پر اٹھالیا۔ حضرت حسن رضی ہللا عنہہوں۔ ہللا ٰ
نے کہا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ
السالم مرے نہیں۔ وہ قیامت سے قبل آپ کی طرف لوٹیں گے ۔)
اس سے آگے امام سیوطی ،ابن جریر اور ابن ابی حاتم کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں
کہ
(اس کا معنی یہ ہے کہ میں تجھے دنیا سے اٹھانے واال ہوں۔ تجھے موت عطا کرنے واال
نہیں)
(امام ابن منذر نے حضرت حسن بصری رحمہ ہللا سے ان آیات کی یہ تفسیر نقل کی ہے کہ
حضرت عیسی علیہ السالم ہللا ٰ
تعالی کے ہاں اٹھا لئے گئے ہیں۔ قیامت کے روز سے پہلے
انہیں دوبارہ زمین پر اتارا جائے گا ۔
جنہوں نے حضرت عیسی علیہ السالم اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی تصدیق کی اور
جو ان کے دین پر ہے۔ وہ ہمیشہ قیامت تک ان لوگوں پر غالب رہیں گے ۔ جو ان سے الگ
راہ اختیار کریں گے ۔ )
(تفسیر درمنثور تفسیر سورۃ آل عمران آیت نمبر )55
ہماری پیش کردہ تیسری آیت کی تفسیر میں امام جالل الدین سیوطی رحمہ ہللا ،امام عبد بن
حمید ،ابن جریر اور ابن منذر کے حوالے سے لکھتے ہیں۔ کہ انہوں نے حضرت قتادہ
رضی ہللا عنہا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
اسی آیت کی تفسیر میں امام جالل الدین سیوطی رحمہ ہللا ،ابن جریر ،امام عبد بن حمید اور
ابن منذر کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مجاہد رحمہ ہللا سے "شبہ لھم"
کی یہ تفسیر نقل کی
ہے کہ
(یہودیوں نے ایسے آدمی کو قتل کیا جو حضرت عیسی علیہ السالم تو نہ تھے مگر وہ
حضرت عیسی علیہ السالم کے مشابہ تھے۔ یہودی یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت عیسی
علیہ السالم یہی ہیں ۔ ہللا ٰ
تعالی نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھالیا )
1۔ یہود سیدنا عیسی علیہ السالم کو مارنا چاہتے تھے اور ہللا ٰ
تعالی یہود سے سیدنا عیسی
علیہ السالم کو بچانا چاہتے تھے ۔
2۔ ہللا ٰ
تعالی نے یہود سے سیدنا عیسی علیہ السالم کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا ۔ اور سیدنا
عیسی علیہ السالم کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔
مرزاقادیانی نے حافظ ابن کثیر رحمہ ہللا کو چھٹی صدی کا مجدد تسلیم کیا ہے۔
اس کے عالوہ مرزاقادیانی نے حافظ ابن کثیر کو ان اکابر ومحققین میں سے تسلیم کیا ہے۔
خداتعالی نے نور معرفت عطا کیا تھا۔
ٰ جن کی آنکھوں کو
ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ ہللا اپنی مشہور تفسیر ابن
کثیر میں لکھتے ہیں کہ
یہاں تک کہ بادشاہ بھی دشمن جان بن گیا اور اپنی فوج کو بھیجا تاکہ اسے گرفتار کر کے
سخت سزا کے ساتھ پھانسی دے دو ،چنانچہ یہاں سے فوج جاتی ہے اور جس گھر میں آپ
تھے اسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہے ناکہ بندی کر کے گھر میں گھستی ہے ،لیکن
عالی آپ کو ان مکاروں کے ہاتھ سے صاف بچا لیتا ہے اس گھر کے روزن ( روشن
ہللا ت ٰ
دان ) سے آپ کو آسمان کی طرف اٹھا لیتا ہے۔
اور آپ کی شباہت ایک اور شخص پر ڈال دی جاتی ہے جو اسی گھر میں تھا ،یہ لوگ
عیسی سمجھ لیتے ہیں گرفتار کر کے لے جاتے ہیں ۰سخت
ٰ رات کے اندھیرے میں اس کو
توہین کرتے ہیں اور سر پر کانٹوں کو تاج رکھ کر اسے صلیب پر چڑھا دیتے ہیں ،یہی ان
کے ساتھ ہللا کا مکر تھا کہ وہ تو اپنے نزدیک یہ سمجھتے رہے کہ ہم نے ہللا کے نبی کو
تعالی نے اپنے نبی کو تو نجات دے دی تھی ،اس بدبختی
ٰ پھانسی پر لٹکا دیا حاالنکہ ہللا
اور بدنیتی کا ثمرہ انہیں یہ مال کہ ان کے دل ہمیشہ کے لئے سخت ہوگئے باطل پر اڑ گئے
اور دنیا میں ذلیل و خوار ہوگئے اور آخر دنیا تک اس ذلت میں ہی ڈوبے رہے ۔ اس کا بیان
اس آیت میں ہے کہ اگر انہیں خفیہ تدبیریں کرنی آتی ہیں تو کیا ہم خفیہ تدبیر کرنا نہیں
جانتے بلکہ ہم تو ان سے بہتر خفیہ تدبیریں کرنے والے ہیں )
(تفسیرابن کثیر تفسیردرآیت نمبر54سورۃ آل عمران)
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام ابن کثیر حضرت حسن کے حوالے سے
لکھتے ہیں کہ
1۔ یہود سیدنا عیسی علیہ السالم کو مارنا چاہتے تھے اور ہللا ٰ
تعالی یہود سے سیدنا عیسی
علیہ السالم کو بچانا چاہتے تھے ۔
2۔ ہللا ٰ
تعالی نے یہود سے سیدنا عیسی علیہ السالم کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا ۔ اور سیدنا
عیسی علیہ السالم کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔
3۔ امام ابن جریر
اس کے عالوہ ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے امام ابن جریر کے بارے میں لکھا ہے کہ
ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر لکھتے ہیں کہ
( بنی اسرائیل نے حضرت عیسی علیہ السالم اور آپ کے انیس حواریوں کا ایک گھر میں
محاصرہ کرلیا۔ حضرت عیسی علیہ السالم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا تم میں سے وہ
کون ہے جو میری صورت قبول کرے پھر اسے قتل کر دیا جائے تو اس کے لئے جنت
ہے۔ ایک آدمی نے اس چیز کو قبول کرلیا۔ حضرت عیسی علیہ السالم کو آسمانوں پر اٹھالیا
گیا۔
تعالی کے فرمان سے انہوں (یہود) نے مکر کیا ہللا ٰ
تعالی نے بھی خفیہ تدبیر کی ۔ اور ہللا ٰ
ہللا ٰ
تعالی بہترین خفیہ تدبیر کرنے واال ہے)
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر نے حضرت حسن بصری رحمہ
ہللا کا یہ قول نقل کیا ہے کہ
آگے حضرت حسن بصری رحمہ ہللا کے حوالے سے مزید لکھتے ہیں۔
( حضرت حسن بصری رحمہ ہللا سے ان الفاظ کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ آپ (عیسی
علیہ السالم) کو نیند عطا کرنے واال ہوں۔ ہللا ت ٰ
عالی نے نیند کی حالت میں آپ کو آسمانوں
پر اٹھالیا۔ حضرت حسن رضی ہللا عنہ نے کہا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
یہودیوں سے فرمایا کہ حضرت عیسی علیہ السالم مرے نہیں۔ وہ قیامت سے قبل آپ کی
طرف لوٹیں گے ۔)
اس سے آگے ابن جریر مزید لکھتے ہیں کہ
(اس کا معنی یہ ہے کہ میں تجھے دنیا سے اٹھانے واال ہوں۔ تجھے موت عطا کرنے واال
نہیں)
ہماری پیش کردہ تیسری آیت کی تفسیر میں ابن جریر رحمہ ہللا حضرت قتادہ رضی ہللا
عنہ کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
اسی آیت کی تفسیر میں امام ابن جریر نے حضرت مجاہد رحمہ ہللا سے "شبہ لھم" کی یہ
تفسیر نقل کی
ہے کہ
(یہودیوں نے ایسے آدمی کو قتل کیا جو حضرت عیسی علیہ السالم تو نہ تھے مگر وہ
حضرت عیسی علیہ السالم کے مشابہ تھے۔ یہودی یہ گمان کرتے تھے کہ حضرت عیسی
علیہ السالم یہی ہیں ۔ ہللا ٰ
تعالی نے انہیں زندہ آسمانوں پر اٹھالیا )
1۔ یہود سیدنا عیسی علیہ السالم کو مارنا چاہتے تھے اور ہللا ٰ
تعالی یہود سے سیدنا عیسی
علیہ السالم کو بچانا چاہتے تھے ۔
2۔ ہللا ٰ
تعالی نے یہود سے سیدنا عیسی علیہ السالم کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا ۔ اور سیدنا
عیسی علیہ السالم کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔
"زبان عرب کا وہ بے مثل امام جس کے مقابلے میں کسی کو چون چرا کی گنجائش نہیں"
ہماری پیش کردہ پہلی آیت کی تفسیر میں امام زمحشری رحمہ ہللا لکھتے ہیں کہ
(واو بنی اسرائیل کے کفار کے لیے ہے جن سے کفر کو محسوس کیا گیا اور ان کا مکر یہ
تھا کہ انہوں نے لوگوں کو مقرر کیا تھا کہ ان (عیسی) کو دھوکے سے قتل کریں ۔ جس
وقت ہللا نے عیسی علیہ السالم کو اٹھا لیا اور ان عیسی علیہ السالم کی شبیہ کو ڈال دیا
جنہوں نے دھوکے کا ارادہ کیا تھا حتی کہ اس شبہیہ کو قتل کردیا۔ یعنی ہللا تدبیر کرنے
می ں ان سے قوی ہے اور نقصان پہنچانے پر ذیادہ قادر ہے وہاں سے جہاں ان کو پتا بھی
نہ چلے).
ہماری پیش کردہ دوسری آیت کی تفسیر میں امام زمحشری لکھتے ہیں کہ
(أنی متوفیک) یعنی عنقریب میں موت دوں گا تیرے مقررہ وقت پر.اور اسکا معنی ہےکہ
میں تجھے کافروں کے قتل سےبچا لوں گا اور تیری موت کو اس وقت تک موخر کروں گا
جو میں نے لکھ رکھی ہے .اور تجھے تیری طبعی موت دوں گا.نا کہ ان کافروں کے
ہاتھوں.
(ورافعک الی) یعنی آسمان کی طرف جو کہ فرشتوں کا ٹھکانہ ہے
(ومطھرک من الذین کفروا) یعنی ان کی بری صحبت سے بچا لوں گا اور کہا گیا کہ میں
تجھ کو زمین سے اٹھا لوں گا .فالں سے مال کے لینے کی طرح جب تو اس سے پورا
وصول کر لے .اور یہ بھی کہا گیا کہ میں تجھے موت دوں گا تیرے وقت پر آسمان سے
نازل ہونے کے بعد اور ابھی اوپر اٹھاتا ہوں .اور اٹھاوں گا تجھے نیند میں.
(جیسا کہ یہ قول ہے اور وہ جو تمہیں تمہاری نیند میں موت نہیں دیتا) (القرآن )
اور تجھے اس وقت اٹھائے گا جبکہ تو نیند میں ہوگا تاکہ تجھے کوئی خوف نہ ہو .اور
جب تو تب بیدار ہوگا اس وقت آسمان میں امن کے ساتھ اور مقرب ہوگا.
(فوق الذین کفروا الی یوم القیامہ) یعنی وہ دلیل کے زریعے غالب ہوں گے اور اکثر احوال
میں تلوار کے زریعے سے .اور اس کےپیروکار ہی مسلمان ہیں اس لئےکہ انہوں نے اصل
اسالم میں اس کی اتباع کی)
امام زمحشری ہماری پیش کردہ تیسری آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ
"یہود ان (سیدنا عیسی علیہ السالم ) کو قتل کرنے کے لئے جمع ہوگئے۔ پس ہللا ٰ
تعالی نے
ان کی خبر اس طرح لی کہ ان کو آسمان پر اٹھا لیا۔ اور ان (عیسی علیہ السالم) کو یہود کی
صحبت سے پاک کردیا۔"
1۔ یہود سیدنا عیسی علیہ السالم کو مارنا چاہتے تھے اور ہللا ٰ
تعالی یہود سے سیدنا عیسی
علیہ السالم کو بچانا چاہتے تھے ۔
2۔ ہللا ٰ
تعالی نے یہود سے سیدنا عیسی علیہ السالم کو بچاکر آسمان پر اٹھالیا ۔ اور سیدنا
عیسی علیہ السالم کے پیروکاروں کو قیامت تک یہود پر غلبہ عطا فرمادیا۔
ساری گفتگو کا خالصہ یہ ہے کہ قرآن مجید کی آیات سے اور مرزا قادیانی کے تسلیم
کردہ مجددین اور تعریف کئے گئے مفسرین کی تفسیر سے ثابت ہوا کہ ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا
عیسی علیہ السالم کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا تھا۔
(سیدنا عیسی علیہ السالم کے قرب قیامت دوبارہ زمین پر نزول کے قرآنی دالئل اگلے سبق
میں بیان کئے جائیں گے انشاء ہللا)
سیدنا عیسی علیہ السالم کا آسمان کی طرف اٹھایا جانا اور پھر ان کا قرب قیامت آسمان
سے زمین کی طرف نازل ہونا قرآن مجید اور 100سے زائد احادیث مبارکہ سے ثابت
ہے۔
اس سبق میں ہم نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کے متعلق چند احادیث مبارکہ کا جائزہ لیتے
ہیں۔
اريِ،ص ِ ع ْن نَافِع َم ْولَى أ َ ِبي قَتَادَۃ َ ْاْل َ ْن َ ع ْن اب ِْن ِش َھابَ ، سَ ، ع ْن یُونُ َ َحدَّثَنَا اب ُْن بُ َكیْرَ ،حدَّثَنَا اللَّی ُ
ْثَ ،
ْف أ َ ْنت ُ ْم ِإذَا نَزَ َل اب ُْن َم ْریَ َم ِفی ُك ْم
سلَّ َمَ "" :كی َ
علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ سو ُل َّ
ّللاِ َ أ َ َّن أَبَا ُھ َری َْرۃ َ ،قَا َل :قَا َل َر ُ
َوإِ َما ُم ُك ْم ِم ْن ُك ْم،
س ِعیدَ بْنَ ع ْن اب ِْن ِش َھاب ،أ َ َّن َ صا ِلحَ ، یمَ ،حدَّثَنَا أ َ ِبيَ ،ع ْن َ وب ب ُْن ِإب َْرا ِھ َ اق ،أ َ ْخبَ َرنَا یَ ْعقُ َُحدَّثَنَا ِإ ْس َح ُ
""والَّذِي سلَّ َمَ : علَ ْی ِه َو َ ّللاُ َصلَّى َّ ّللا َ سو ُل َّ ِ ّللاُ َع ْنهُ ،قَا َل :قَا َل َر ُ ي َّ ض َس ِم َع أَبَا ُھ َری َْرۃ َ َر ِب َ سیِ ِ ْال ُم َ
ض َعیر َو َی َ یب َو َی ْقت ُ َل ْال ِخ ْن ِز َ ص ِل َ عد ًْال فَ َی ْكس َِر ال َّ نَ ْفسِي ِب َی ِد ِہ لَیُو ِش َك َّن أ َ ْن َی ْن ِز َل فِی ُك ْم اب ُْن َم ْر َی َم َح َك ًما َ
احدَۃ ُ َخی ًْرا ِمنَ الدُّ ْنیَا َو َما ِفی َھا ث ُ َّم، س ْجدَۃ ُ ْال َو ِ
یض ْال َما ُل َحتَّى َال یَ ْقبَلَهُ أ َ َحد َحتَّى ت َ ُكونَ ال َّ ْال ِج ْزیَةَ َویَ ِف َ
ب ِإال لَیُؤْ ِمن ََّن ِب ِه َق ْب َل َم ْو ِت ِه َو َی ْو َم ْال ِق َیا َم ِة َی ُك ُ
ون َیقُو ُل أَبُو ُھ َری َْرۃ َ َوا ْق َر ُءوا ِإ ْن ِشئْت ُ ْم َو ِإ ْن ِم ْن أ َ ْھ ِل ْال ِكتَا ِ
ش ِھیدًا سورۃ النساء آیة 159 علَ ْی ِھ ْم َ َ "".
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان "
عیسی )ابن مریم علیہما السالم تمہارے درمیان ایک عادل حاکم
ٰ ہے ،وہ زمانہ قریب ہے کہ(
کی حیثیت سے نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے ،سور کو مار ڈالیں گے اور جزیہ
موقوف کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی اسے لینے واال
نہیں ملے گا۔ اس وقت کا ایک سجدہ «دنیا وما فیھا» سے بڑھ کر ہو گا۔ پھر ابوہریرہ رضی
ہللا عنہ نے کہا کہ اگر تمہارا جی چاہے تو یہ آیت پڑھ لو «وإن من أھل الكتاب إال لیؤمنن به
عیسی کی
ٰ قبل موته ویوم القیامة یكون علیھم شھیدا» ”اور کوئی اہل کتاب ایسا نہیں ہو گا جو
‘‘موت سے پہلے اس پر ایمان نہ الئے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوں گے۔
س ِم َع أَبَابَ ،سیِ ِس ِعیدُ ب ُْن ْال ُم َي ،قَا َل :أ َ ْخبَ َرنِي َ الز ْھ ِر ُّ انَ ،حدَّثَنَا ُّس ْفیَ ُ
ّللاَِ ،حدَّثَنَا ُي ب ُْن َع ْب ِد َّ َحدَّثَنَا َ
ع ِل ُّ
عةُ َحتَّى َی ْن ِز َلسا َ""ال تَقُو ُم ال َّسلَّ َم ،قَا َلَ : ّللاُ َعلَ ْی ِه َو َ صلَّى َّّللاِ َ سو ِل َّ ع ْنهَُ ،ع ْن َر ُ ي َّ
ّللاُ َ ض َ ُھ َری َْرۃ َ َر ِ
یض ْال َما ُل
ض َع ْال ِج ْزیَةََ ،ویَ ِف َ یرَ ،ویَ َ یبَ ،ویَ ْقت ُ َل ْال ِخ ْن ِز َ ص ِل َ طا ،فَ َی ْكس َِر ال َّفِی ُك ْم اب ُْن َم ْریَ َم َح َك ًما ُم ْق ِس ً
َ "".حتَّى َال َی ْق َبلَهُ أ َ َحد
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ،قیامت اس وقت تک قائم نہ ہو گی جب تک
(عیسی)ابن مریم کا نزول ایک عادل حکمران کی حیثیت سے تم میں نہ ہو جائے۔ وہ صلیب
کو توڑ دیں گے ،سوروں کو قتل کر دیں گے اور جزیہ قبول نہیں کریں گے۔ ( اس دور میں
) مال و دولت کی اتنی کثرت ہو جائے گی کہ کوئی قبول نہیں کرے گا۔
ع ْن أ َ ِبی ِه َع ْن س َھیْل َ ان ب ُْن ِب َالل َحدَّثَنَا ُ سلَ ْی َم ُصور َحدَّثَنَا ُ َحدَّثَنِي ُز َھی ُْر ب ُْن َح ْرب َحدَّثَنَا ُم َعلَّى ب ُْن َم ْن ُ
ق أ َ ْو الرو ُم بِ ْاْل َ ْع َما ِ عةُ َحتَّى َی ْن ِز َل ُّ سا َ سلَّ َم قَا َل َال تَقُو ُم ال َّ علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللا َ سو َل َّ ِ أَبِي ُھ َری َْرۃ َ أ َ َّن َر ُ
الرو ُم خَلُّوا ت ُّ صافُّوا قَالَ ْ ض َی ْو َمئِذ فَإِذَا ت َ َ ار أ َ ْھ ِل ْاْل َ ْر ِِبدَا ِبق فَ َی ْخ ُر ُج ِإلَ ْی ِھ ْم َجیْش ِم ْن ْال َمدِینَ ِة ِم ْن ِخ َی ِ
ّللا َال نُخ َِلي بَ ْینَ ُك ْم َوبَیْنَ إِ ْخ َوا ِننَا فَیُقَاتِلُو َن ُھ ْم س َب ْوا ِمنَّا نُقَاتِ ْل ُھ ْم فَیَقُو ُل ْال ُم ْس ِل ُمونَ َال َو َّ ِ بَ ْینَنَا َو َبیْنَ الَّذِینَ َ
ث َال یُ ْفتَنُونَ أ َ َبدًا ّللاِ َو َی ْفت َ ِت ُح الثُّلُ ُ
اء ِع ْندَ َّ ش َھدَ ِض ُل ال ُّ علَ ْی ِھ ْم أ َ َبدًا َویُ ْقتَ ُل ثُلُث ُ ُھ ْم أ َ ْف َ فَ َی ْن َھ ِز ُم ثُلُث َال َیت ُ ُ
وب َّ
ّللاُ َ
ط ُ
ان ش ْی َصا َح فِی ِھ ْم ال َّ ون ِإ ْذ َ الز ْیت ُ ِ سیُوفَ ُھ ْم ِب َّ علَّقُوا ُ ط ْن ِطی ِنیَّةَ فَ َب ْی َن َما ُھ ْم یَ ْقت َ ِس ُمونَ ْال َغنَائِ َم قَ ْد َ
فَیَ ْفت َ ِت ُحونَ قُ ْس َ
شأ ْ َم خ ََر َج فَبَ ْینَ َما ُھ ْم یُ ِعدُّونَ اطل فَإِذَا َجا ُءوا ال َّ إِ َّن ْال َمسِی َح قَ ْد َخلَفَ ُك ْم فِي أَ ْھ ِلی ُك ْم فَ َی ْخ ُر ُجونَ َوذَ ِل َك بَ ِ
سلَّ َم فَأ َ َّم ُھ ْم فَإِذَا علَ ْی ِه َو َ
ّللاُ َ صلَّى َّ سى اب ُْن َم ْر َی َم َ ص َالۃ ُ فَ َی ْن ِز ُل ِعی َ ت ال َّ وف ِإ ْذ أُقِی َم ْ صف ُ َ
س ُّوونَ ال ُّ ِل ْل ِقتَا ِل یُ َ
اب َحتَّى یَ ْھ ِل َك َولَ ِك ْن یَ ْقتُلُهُ َّ
ّللاُ ِبیَ ِد ِہ اء فَلَ ْو ت َ َر َكهُ َال ْنذَ َ وب ْال ِم ْل ُح فِي ْال َم ِ اب َك َما یَذ ُ ُ ّللاِ ذَ َعد ُُّو َّ َرآہُ َ
فَی ُِری ِھ ْم دَ َمهُ فِي َح ْربَتِ ِه۔
تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم " ٰ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا
نے فرمایا " :قیامت قائم نہیں ہو گی ،یہاں تک کہ رومی ( عیسائی ) اعماق ( شام میں
حلب اور انطاکیہ کے درمیان ایک پر فضا عالقہ جو دابق شہر سے متصل واقع ہے ) یا
دابق میں اتریں گے ۔ ان کے ساتھ مقابلے کے لیے ( دمشق ) شہر سے ( یامدینہ سے ) اس
وقت روئے زمین کے بہترین لوگوں کا ایک لشکر روانہ ہو گا جب وہ ( دشمن کے سامنے
) صف آراءہوں گے تو رومی ( عیسائی ) کہیں گے تم ہمارے اور ان لوگوں کے درمیان
سے ہٹ جاؤ جنھوں نے ہمارے لوگوں کو قیدی بنایا ہوا ہے ہم ان سے لڑیں گے تو مسلمان
کہیں گے ۔ ہللا کی قسم!نہیں ہم تمھارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گے ۔
چنانچہ وہ ان ( عیسائیوں ) سے جنگ کریں گے ۔ ان ( مسلمانوں ) میں سے ایک تہائی
شکست تسلیم کر لیں گے ہللا ان کی توبہ کبھی قبول نہیں فرمائے گا اور ایک تہائی قتل کر
دیے جائیں گے ۔ وہ ہللا کے نزدیک افضل ترین شہداء ہوں گے اور ایک تہائی فتح حاصل
کریں گے ۔ وہ کبھی فتنے میں مبتال نہیں ہوں گے ۔ ( ہمیشہ ثابت قدم رہیں گے ) اور
قسطنطنیہ کو ( دوبارہ ) فتح کریں گے ۔ ( پھر ) جب وہ غنیمتیں تقسیم کر رہے ہوں گے
اور اپنے ہتھیار انھوں نے زیتون کے درختوں سے لٹکائے ہوئے ہوں گے تو شیطان ان
کے درمیان چیخ کر اعالن کرے گا ۔ مسیح ( دجال ) تمھارےپیچھے تمھارے گھر والوں
تک پہنچ چکا ہے وہ نکل پڑیں گے مگر یہ جھوٹ ہو گا ۔ جب وہ شام ( دمشق ) پہنچیں
گے ۔ تووہ نمودار ہو جا ئے گا ۔ اس دوران میں جب وہ جنگ کے لیے تیاری کررہے ہوں
گے ۔ صفیں سیدھی کر رہے ہوں گے تو نماز کے لیے اقامت کہی جائے گی اس وقت
عیسی بن مریم علیہ السالم اتریں گے تو ان کا رخ کریں گے پھر جب ہللا کا دشمنٰ حضرت
( دجال ) ان کو دیکھے گاتو اس طرح پگھلےگا جس طرح نمک پانی میں پگھلتا ہے اگر وہ
عیسی علیہ السالم ) اسے چھوڑ بھی دیں تو وہ پگھل کر ہالک ہوجائے گا لیکن ٰ ( حضرت
عیسی علیہ السالم ) کے ہاتھ سے قتل کرائے گااور لوگوں کوٰ تعالی اسے ان ( حضرتٰ ہللا
"ان کے ہتھیارپر اس کا خون دکھائےگا ۔
َحدَّثَنَا أَبُو َخ ْیث َ َمةَ ُز َھی ُْر ب ُْن َح ْرب َحدَّثَنَا ْال َو ِلیدُ ب ُْن ُم ْس ِلم َحدَّث َ ِني َع ْبد ُ َّ
الر ْح َم ِن ب ُْن َی ِزیدَ ب ِْن َجا ِبر
ع ْن أ َ ِبی ِه ُج َبی ِْر ب ِْن نُفَیْر
الر ْح َم ِن ب ُْن ُجبَیْر َ ص َحدَّثَنِي َع ْبد ُ َّ اضي ِح ْم َ ي قَ ِ َحدَّثَنِي َی ْح َیى ب ُْن َجابِر َّ
الطائِ ُّ
ظ لَهُ ي َواللَّ ْف ُ ي ح و َحدَّثَ ِني ُم َح َّمد ُ ب ُْن ِم ْھ َرانَ َّ
الر ِاز ُّ س ْم َعانَ ْال ِك َال ِب َّ اس بْنَ َ ْال َحض َْر ِمي ِ أَنَّهُ َ
س ِم َع النَّ َّو َ
ع ْن َع ْب ِد الطائِي ِ َع ْن َی ْح َیى ب ِْن َجا ِبر َّ الر ْح َم ِن ب ُْن یَ ِزیدَ ب ِْن َجا ِبر َ ع ْبد ُ َّ َحدَّثَنَا ْال َو ِلید ُ ب ُْن ُم ْس ِلم َحدَّثَنَا َ
سو ُل َّ
ّللاِ س ْمعَانَ قَا َل ذَ َك َر َر ُ
اس ب ِْن َ ع ْن أ َ ِبی ِه ُج َبی ِْر ب ِْن نُفَیْر َع ْن النَّ َّو ِ الر ْح َم ِن ب ِْن ُج َبی ِْر ب ِْن نُفَیْر َ َّ
طائِفَ ِة النَّ ْخ ِل فَلَ َّما ُر ْحنَا ظنَنَّاہُ فِي َ ض فِی ِه َو َرفَّ َع َحتَّى َ غدَاۃ فَ َخفَّ َ ات َ سلَّ َم الدَّ َّجا َل ذَ َ علَ ْی ِه َو َ ّللاُ َ صلَّى َّ َ
ت َّ
ْت فِی ِه َو َرف ْع َ غدَاۃ ف َخفض ََّ َ ً ت الدَّ َّجا َل َ َ
ّللاِ ذ َك ْر َ سو َل َّ ْ ُ ُ ُ ْ
ف ذ ِل َك فِینَا فقا َل َما شَأنك ْم قلنَا یَا َر ُ َ َ َ ع َر َ إِلَ ْی ِه َ
علَ ْی ُك ْم ِإ ْن َی ْخ ُرجْ َوأَنَا ِفی ُك ْم فَأَنَا َح ِجی ُجهُ غی ُْر الدَّ َّجا ِل أ َ ْخ َوفُ ِني َ طا ِئفَ ِة النَّ ْخ ِل فَقَا َل َ ظ َننَّاہُ ِفي َ َحتَّى َ
طط َع ْینُهُ علَى ُك ِل ُم ْس ِلم ِإنَّهُ شَابٌّ قَ َ ّللاُ َخ ِلیفَ ِتي َ ام ُرؤ َح ِجی ُج نَ ْف ِس ِه َو َّ د ُو َن ُك ْم َو ِإ ْن َی ْخ ُرجْ َولَ ْستُ فِی ُك ْم فَ ْ
ف إِنَّهُ ورۃِ ْال َك ْھ ِ س َ ع َل ْی ِه فَ َوا ِت َح ُ طن فَ َم ْن أَد َْر َكهُ ِم ْن ُك ْم فَ ْلیَ ْق َرأْ َ طافِئَة َكأ َ ِني أُش َِب ُھهُ بِ َع ْب ِد ْالعُ َّزى ب ِْن قَ َ َ
ّللا َو َما سو َل َّ ِ ّللاِ فَاثْبُتُوا قُ ْلنَا َیا َر ُ اث ِش َم ًاال َیا ِع َبادَ َّ ع َ اث َی ِمینًا َو َ ق فَ َع َ شأ ْ ِم َو ْال ِع َرا ِ َارج خَلَّةً َبیْنَ ال َّ خ ِ
َّام ُك ْم قُ ْلنَا یَا َّام ِه َكأَی ِ سا ِئ ُر أَی ِ ش ْھر َویَ ْوم َك ُج ُمعَة َو َ سنَة َویَ ْوم َك َ ض قَا َل أ َ ْر َبعُونَ یَ ْو ًما َی ْوم َك َ لَ ْبثُهُ فِي ْاْل َ ْر ِ
سو َل َّ
ّللاِ ص َالۃ ُ َی ْوم قَا َل َال ا ْقد ُُروا لَهُ قَد َْرہُ قُ ْلنَا َیا َر ُ سنَة أَت َ ْك ِفینَا ِفی ِه َ ّللاِ فَذَ ِل َك ْال َی ْو ُم الَّذِي َك َ سو َل َّ َر ُ
عو ُھ ْم فَیُؤْ ِمنُونَ ِب ِه علَى ْالقَ ْو ِم فَیَ ْد ُ الری ُح فَیَأ ْ ِتي َ ث ا ْست َ ْدبَ َرتْهُ ِ ض قَا َل َك ْالغَ ْی ِ عهُ فِي ْاْل َ ْر ِ َو َما ِإس َْرا ُ
َت ذ ُ ًرا ط َو َل َما َكان ْ ار َحت ُ ُھ ْم أ َ ْ س ِ علَ ْی ِھ ْم َ ض فَت ُ ْن ِبتُ فَت َ ُرو ُح َ س َما َء فَت ُ ْم ِط ُر َو ْاْل َ ْر َ ْ
َویَ ْست َ ِجیبُونَ لَهُ َفیَأ ُم ُر ال َّ
ع ْن ُھ ْم ف َ ص ِر ُ علَ ْی ِه َق ْولَهُ فَیَ ْن َ عو ُھ ْم فَ َی ُردُّونَ َ اص َر ث ُ َّم یَأ ْ ِتي ْالقَ ْو َم َفیَ ْد ُ عا َوأ َ َمدَّہُ خ ََو ِ ض ُرو ً َوأ َ ْسبَغَهُ ُ
ش ْيء ِم ْن أ َ ْم َوا ِل ِھ ْم َو َی ُم ُّر بِ ْالخ َِربَ ِة فَیَقُو ُل َل َھا أ َ ْخ ِر ِجي ُكنُوزَ ِك ْس ِبأ َ ْیدِی ِھ ْم َ صبِ ُحونَ ُم ْم ِحلِینَ لَی َ فَیُ ْ
طعُهُ َج ْزلَتَی ِْن َر ْم َیةَ ْف فَ َی ْق َ سی ِ ش َبابًا فَ َیض ِْربُهُ ِبال َّ عو َر ُج ًال ُم ْمت َ ِلئًا َ ب النَّ ْح ِل ث ُ َّم َی ْد ُ وزھَا َك َی َعا ِسی ِ فَتَتْ َبعُهُ ُكنُ ُ
ّللاُ ْال َمسِی َح ابْنَ َم ْریَ َم ث َّ ض َحكُ َفبَ ْینَ َما ُھ َو َكذَ ِل َك ِإ ْذ َب َع َ عوہُ فَیُ ْق ِب ُل َو َیت َ َھلَّ ُل َو ْج ُھهُ یَ ْ ض ث ُ َّم یَ ْد ُ ْالغ ََر ِ
علَى أ َ ْجنِ َح ِة َملَ َكی ِْن إِذَا اضعًا َكفَّ ْی ِه َ ي ِد َم ْشقَ بَیْنَ َم ْھ ُرودَتَی ِْن َو ِ اء ش َْرقِ َّ ض َِارۃِ ْالبَ ْی َ فَیَ ْن ِز ُل ِع ْندَ ْال َمن َ
اتط َر َو ِإذَا َرفَ َعهُ تَ َحد ََّر ِم ْنهُ ُج َمان َكاللُّؤْ لُ ِؤ فَ َال َی ِح ُّل ِل َكافِر َی ِجد ُ ِری َح نَفَ ِس ِه ِإ َّال َم َ سهُ قَ َ طأ َ َرأْ َ طأ ْ َ َ
سى ابْنَ َم ْریَ َم قَ ْوم ب لُد فَیَ ْقتُلُهُ ث ُ َّم یَأْتِي ِعی َ طلُبُهُ َحتَّى یُ ْد ِر َكهُ بِبَا ِ ط ْرفُهُ فَ َی ْ ْث یَ ْنت َ ِھي َ سهُ یَ ْنتَ ِھي َحی ُ َونَفَ ُ
ْ
ع ْن ُو ُجو ِھ ِھ ْم َویُ َح ِدث ُ ُھ ْم ِبدَ َر َجا ِت ِھ ْم ِفي ال َجنَّ ِة فَ َب ْی َن َما ُھ َو َكذَ ِل َك ِإ ْذ أ َ ْو َحى س ُح َ ّللاُ ِم ْنهُ فَ َی ْم َ ص َم ُھ ْم َّ ع َ قَ ْد َ
ث َّ
ّللاُ ور َویَ ْب َع ُ الط ِ ان ِْل َ َحد ِب ِقتَا ِل ِھ ْم فَ َح ِر ْز ِعبَادِي ِإلَى ُّ سى ِإ ِني قَ ْد أَ ْخ َر ْجتُ ِعبَادًا ِلي َال یَدَ ِ ّللاُ ِإلَى ِعی َ َّ
طبَ ِریَّةَ فَیَ ْش َربُونَ َما فِی َھا ع َلى بُ َحی َْرۃِ َ یَأ ْ ُجو َج َو َمأ ُجو َج َو ُھ ْم ِم ْن ُك ِل َحدَب َی ْن ِسلُونَ َفیَ ُم ُّر أ َ َوائِلُ ُھ ْم َ ْ
س ص َحابُهُ َحتَّى یَ ُكونَ َرأْ ُ سى َوأ َ ْ ّللاِ ِعی َ ي َّ ص ُر نَ ِب ُّ آخ ُر ُھ ْم فَیَقُولُونَ لَقَ ْد َكانَ ِب َھ ِذ ِہ َم َّرۃ ً َماء َوی ُْح َ َو َی ُم ُّر ِ
ص َحابُهُ فَی ُْر ِس ُل َّ
ّللاُ سى َوأ َ ْ ّللا ِعی َ ي َّ ِ َب َنبِ ُّ الث َّ ْو ِر ِْل َ َح ِد ِھ ْم َخی ًْرا ِم ْن ِمائ َ ِة دِینَار ِْل َ َح ِد ُك ْم ْالیَ ْو َم فَ َی ْرغ ُ
ص َحابُهُ سى َوأ َ ْ ّللاِ ِعی َ ي َّ ط نَ ِب ُّ احدَۃ ث ُ َّم َی ْھ ِب ُ ت َن ْفس َو ِ سى َك َم ْو ِ ص ِب ُحونَ فَ ْر َ َف ِفي ِرقَا ِب ِھ ْم َفیُ ْ علَ ْی ِھ ْم النَّغ َ َ
سى ّللا ِعی َ ي َّ ِ َب َن ِب ُّ ْ
ض َع ِشبْر ِإال َم ََلہُ زَ َھ ُم ُھ ْم َو َنتنُ ُھ ْم َف َی ْرغ ُ َ َّ ض َم ْو ِ َ ْ
ض فَ َال یَ ِجدُونَ ِفي اْل ْر ِ َ
ِإلَى اْل ْر ِ ْ
ّللاُ ث ُ َّم ی ُْر ِس ُل َّ
ّللاُ ْث شَا َء َّ ط َر ُح ُھ ْم َحی ُ ت فَت َ ْح ِملُ ُھ ْم فَتَ ْ ق ْالب ُْخ ِ طی ًْرا َكأ َ ْعنَا ِ ّللاُ َ ّللاِ َفی ُْر ِس ُل َّ ص َحابُهُ إِلَى َّ َوأ َ ْ
ض أ َ ْن ِبتِي الزلَفَ ِة ث ُ َّم یُقَا ُل ِل َْل َ ْر ِ ض َحتَّى َیتْ ُر َك َھا َك َّ ط ًرا َال یَ ُك ُّن ِم ْنهُ بَیْتُ َمدَر َو َال َوبَر فَیَ ْغ ِس ُل ْاْل َ ْر َ َم َ
الر ْس ِل اركُ ِفي ِ الر َّمانَ ِة َویَ ْست َ ِظلُّونَ بِ ِق ْح ِف َھا َویُبَ َ صابَةُ ِم ْن ُّ ث َ َم َرت َ ِك َو ُردِي بَ َر َكتَ ِك فَ َی ْو َمئِذ تَأ ْ ُك ُل ْال ِع َ
الل ْق َحةَ اس َو ِ الل ْق َحةَ ِم ْن ْال َبقَ ِر لَتَ ْك ِفي ْالقَ ِبیلَةَ ِم ْن النَّ ِ اس َو ِ ام ِم ْن النَّ ِ اْل ِب ِل لَت َ ْك ِفي ْال ِفئ َ َ الل ْق َحةَ ِم ْن ْ ِ َحتَّى أ َ َّن ِ
اط ِھ ْم ت آبَ ِ ط ِیبَةً َفتَأ ْ ُخذ ُ ُھ ْم تَ ْح َ ّللاُ ِری ًحا َ ث َّ اس فَبَ ْینَ َما ُھ ْم َكذَ ِل َك ِإ ْذ بَ َع َ ِم ْن ْالغَن َِم لَت َ ْك ِفي ْالفَ ِخذَ ِم ْن النَّ ِ
ار َج ْال ُح ُم ِر َفعَلَ ْی ِھ ْم تَقُو ُم ار ُجونَ فِی َھا تَ َھ ُ اس َیت َ َھ َ ار النَّ ِ ض ُرو َح ُك ِل ُمؤْ ِمن َو ُك ِل ُم ْس ِلم َویَ ْب َقى ِش َر ُ فَت َ ْقبِ ُ
عةُ۔ سا َ ال َّ
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا ۔ آپ نے اس ( کے ذکر "
کے دوران ) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی ۔ یہاں تک کہ ہمیں ایسے لگا
جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈمیں موجود ہے ۔ جب شام کو ہم آپ کے پاس ( دوبارہ ) آئے
تو آپ نے ہم میں اس ( شدید تاثر ) کو بھانپ لیا ۔ آپ نے ہم سے پوچھا " تم لوگوں کو کیا
ہواہے؟ " ہم نے عرض کی ہللا کے کے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم !صبح کے وقت آپ
نے دجال کا ذکر فرمایاتو آپ کی آوازمیں ( ایسا ) اتارچڑھاؤتھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ
کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے ۔ اس پر آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " :
مجھے تم لوگوں ( حاضرین ) پر دجال کے عالوہ دیگر ( جہنم کی طرف بالنے والوں ) کا
زیادہ خوف ہےاگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے
اس کے خالف ( اس کی تکذیب کے لیے ) دالئل دینے واال میں ہوں گااور اگر وہ نکال اور
میں موجودنہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے واالخود ہو گا اور ہللا ہر
مسلمان پر میرا خلیفہ ( خود نگہبان ) ہوگا ۔ وہ گچھے دار بالوں واالایک جوان شخص ہے
العزی بن قطن سے تشبیہ ٰ اس کی ایک آنکھ بے نور ہے ۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد
دیتا ہوں تم میں سے جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے
وہ عراق اور شام کے درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔ وہ دائیں طرف بھی تباہی
مچانے واال ہو گا اور بائیں طرف بھی ۔ اے ہللا کے بندو!تم ثابت قدم رہنا ۔ " ہم نے عرض ۔
ہللا کے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم !زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپ نے
فرمایا " :بادل کی طرح جس کے پیچھے ہوا ہو ۔ وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت
دے گا وہ اس پر ایمان الئیں گے اور اس کی باتیں مانیں گے ۔ تو وہ آسمان ( کے بادل ) کو
حکم دے گا ۔ وہ بارش برسائے گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی ۔ شام
کے اوقات میں ان کے جانور ( چراگاہوں سے ) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے
زیادہ اونچےاور تھن انتہائی زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی ۔ پھر ایک
( اور ) قوم کے پاس آئے گا اور انھیں ( بھی ) دعوت دے گا ۔ وہ اس کی بات ٹھکرادیں
گے ۔ وہ انھیں چھوڑ کر چال جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے ۔ ان کے مال
مویشی میں سے کوئی چیز ان کےہاتھ میں نہیں ہوگی ۔ وہ ( دجال ) بنجر زمین میں سے
گزرے گا تو اس سے کہےگا اپنے خزانے نکال تو اس ( بنجر زمین ) کے خزانے اس
طرح ( نکل کر ) اس کے پیچھےلگ جائیں گے ۔ جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں
ہیں پھر وہ ایک بھر پور جوان کو بالئے گا اور اسے تلوار ۔ مار کر ( یکبارگی )
دوحصوں میں تقسیم کردے گا جیسے نشانہ بنایا جانے واال ہدف ( یکدم ٹکڑے ہوگیا ) ہو ۔
پھر وہ اسے بالئے گا تو وہ ( زندہ ہوکر دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا ۔
تعالی مسیح بن مریم علیہ السالم کو معبوث فرمادے ٰ وہ ( دجال ) اسی عالم میں ہو گا جب ہللا
گا ۔ وہ دمشق کے حصے میں ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں
کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے اتریں گے ۔ جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں
گے ۔ اور سر اٹھائیں گے تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی ۔
کسی کافر کے لیے جو آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں
ہو گا ۔ اس کی سانس ( کی خوشبو ) وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی ۔
کےدروازے پر پائیں گے اور ) ( Lyudiaآپ علیہ السالم اسے ڈھونڈیں گے تو اسے لُد
عیسی بن مریم علیہ السالم کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں ہللا ٰ اسے قتل کر دیں گے ۔ پھر
نے اس ( دجال کےدام میں آنے ) سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر
پھیریں گے ۔ اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے ۔ وہ اسی عالم میں ہوں
عیسی علیہ السالم کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے ( پیدا کیے ٰ تعالی
ٰ گے کہ ہللا
ہوئے ) بندوں کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں ۔ آپ
میری بندگی کرنے والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور ہللا یاجوج ماجوج
کو بھیج دے گا ،وہ ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے ۔ ان کے پہلے لوگ (
میٹھے پانی کی بہت بڑی جھیل ) بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو ( پانی )
ہوگا اسے پی جائیں گے پھر آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے ۔ " کبھی اس ( بحیرہ )
عیسی علیہ السالم اور ان کے ساتھی
ٰ میں ( بھی ) پانی ہوگا ۔ ہللا کے نبی حضرت
حتی کہ ان میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے محصورہوکر رہ جائیں گے ۔ ٰ
عیسی علیہ السالم اور
ٰ بہتر ( قیمتی ) ہوگا جتنےآج تمھارے لیے سودینارہیں ۔ ہللا کے نبی
تعالی ان ( یاجوج ماجوج ) پر ان کی
ٰ ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے تو ہللا
گردنوں میں کپڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح (
عیسی علیہ السالم اور ان کے ساتھی
ٰ یکبارگی ) اس کا شکار ہوجائیں گے ۔ پھر ہللا کے نبی
اترکر ( میدانی ) زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی ۔
عیسی علیہ السالم اور ان
ٰ جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو ۔ اس پرحضرت
تعالی بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں ٰ کے ساتھی ہللا کے سامنے گڑگڑائیں گے تو ہللا
کی طرح ( کی گردنوں والے ) پرندے بھیجے گا جو انھیں اٹھائیں گے اور جہاں ہللا چاہے
تعالی ایسی بارش بھیجے گا جس سے کو ئی گھر اینٹوں کا ہو یا ٰ گا جاپھینکیں گے ۔ پھر ہللا
اون کا ( خیمہ ) اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا ۔ وہ زمین کو دھوکر شیشےکی طرح ( صاف )
کر چھوڑےگی ۔ پھر زمین سے کہاجائے گا ۔ اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹاالؤ تو اس
وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی
اور دودھ میں ( اتنی ) برکت ڈالی جائے گی کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک
بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا
اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے کی ایک شاخ کو کافی ہوگا ۔ وہ اسی عالم میں رہ
تعالی ایک عمدہ ہوا بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے ٰ رہے ہوں گے ۔ کہ ہللا
سے پکڑے گی ۔ اور ہر مومن اور ہر مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور بد ترین لوگ
باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی طرح ( برسرعام ) آپس میں اختالط کریں گےتو انھی
" پر قیامت قائم ہوگی ۔
وعن ابن عباس رضی ہللا عنہ فی حدیث طویل قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فعند "
" ذلک ینزل اخی عیسی بن مریم من السماء
ابن عباس رضی ہللا عنہ ایک طویل حدیث میں فرماتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ "
وسلم نے فرمایا پس اس وقت میرے بھائی عیسی بن مریم علیہ السالم آسمان سے نازل ہوں
" گے
اس روایت میں سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان سے نازل ہونے کی کس قدر صراحت
موجود ہے۔
اس حدیث کو مرزا صاحب کے تسلیم کردہ دسویں صدی کے مجدد علی بن حسام المتقی
ہندی نے اپنی کتاب کنزالعمال میں نقل کیا ہے۔
اس کے عالوہ خود مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
عن عبدہللا بن عمر قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ینزل عیسی بن مریم الی االرض "
فیتزوج و یولد لہ و یمکث خمسا و اربعین سنتہ ثم یموت فیدفن معی فی قبری فاقوم انا و
"عیسی بن مریم فی قبر واحد بین ابی بکر و عمر
عبدہللا بن عمرو رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے (
فرمایا کہ آیئندہ زمانہ میں عیسی علیہ السالم زمین پر اتریں گے۔ وہ نکاح کریں گے اور ان
کی اوالد ہوگی اور وہ 45سال زمین پر رہیں گے ۔ پھر ان کو موت آئے گی اور میرے
قریب دفن ہوں گے ۔ قیامت کے دن میں عیسی بن مریم علیہ السالم ابوبکر رضی ہللا عنہ
)اور عمر رضی ہللا عنہ کے درمیان قبر سے اٹھوں گا
اس حدیث کو مرقات میں مال علی قاری رح نے نقل کیا ہے ۔ اور مال علی قاری رح کو
مرزا صاحب نے "عسل مصفی" میں مجدد تسلیم کیا ہے۔
اس کے عالوہ خود مرزا صاحب نے اس حدیث کے مفہوم کو صحیح تسلیم کیا ہے۔
اس حدیث کے معنی ظاہر پر ہی عمل کریں تو ممکن ہے کوئی مثیل مسیح ایسا بھی "
"آجائے جو آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے روضہ کے پاس مدفون ہو
)ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 470مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (352
عن ابن عباس رضی ہللا عنہ قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم لن تھلک امتہ انا فی "
"اولھا وعیسی بن مریم فی آخرھا والمھدی فی وسطھا
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ امت کبھی ہالک نہیں ہوگی جس کے اول (
میں میں ہوں اور آخر میں عیسی بن مریم علیہ السالم اور درمیان میں مہدی علیہ الرضوان
) ہوں گے
اس حدیث کو امام جالل الدین سیوطی رح نے اور عالمہ عالءالدین بن حسام الدین نے
روایت کیا ہے۔ اور ان دونوں کو مرزاقادیانی نے "عسل مصفی" میں مجدد تسلیم کیا ہے۔
مشکوۃ شریف میں ابن صیاد کا قصہ مذکور ہے کہ صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین
کو شبہ تھا کہ یہ دجال ہے۔ چنانچہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم صحابہ کرام رضوان ہللا
علہیم اجمعین کے ساتھ اس کو دیکھنے کے لئے تشریف لے گئے ۔ اس وقت حضرت عمر
رضی ہللا عنہ نے عرض کیا یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم مجھے اجازت عطا فرمایئں
کہ میں اس کو قتل کردوں۔ تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ۔
اگر یہ ابن صیاد وہی دجال ہے تو پھر تم اسے قتل نہیں کر سکو گے ۔ کیونکہ اس کا قتل (
)عیسی بن مریم علیہ السالم کے ہاتھوں ہوگا
)مشکوۃ حدیث نمبر ٬ 5267باب قصہ ابن صیاد(
عیسی (
ٰ موسی اور
ٰ اسراء ( معراج ) کی رات رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ابراہیم،
علیہم السالم سے مالقات کی ،تو سب نے آٰپس میں قیامت کا ذکر کیا ،پھر سب نے پہلے
ابراہیم علیہ السالم سے قیامت کے متعلق پوچھا ،لیکن انہیں قیامت کے متعلق کچھ علم نہ
موسی علیہ السالم سے پوچھا ،تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ ٰ تھا ،پھر سب نے
عیسی بن مریم علیہما السالم سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا :قیامت کے آٰ ٰ تھا ،پھر سب نے
دھمکنے سے کچھ پہلے ( دنیا میں جانے کا ) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے ،لیکن قیامت کے
عیسی علیہ السالم
ٰ آٰنے کا صحیح علم صرف ہللا ہی کو ہے ( کہ وہ کب قائم ہو گی ) ،پھر
نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا ،اور فرمایا :میں ( زمین پر ) اتر کر اسے قتل کروں گا،
پھر لوگ اپنے اپنے شہروں ( ملکوں ) کو لوٹ جائیں گے ،اتنے میں یاجوج و ماجوج ان
کے سامنے آٰئیں گے ،اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے ،وہ جس پانی سے گزریں گے
اسے پی جائیں گے ،اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے ،اسے تباہ و برباد کر دیں
گے ،پھر لوگ ہللا سے دعا کرنے کی درخواست کریں گے ،میں ہللا سے دعا کروں گا کہ
انہیں مار ڈالے ( چنانچہ وہ سب مر جائیں گے ) ان کی الشوں کی بو سے تمام زمین
بدبودار ہو جائے گی ،لوگ پھر مجھ سے دعا کے لیے کہیں گے تو میں پھر ہللا سے دعا
تعالی آٰسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو ان کی الشیں اٹھا کر سمندر ٰ کروں گا ،تو ہللا
میں بہا لے جائے گی ،اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے ،اور زمین چمڑے
کی طرح کھینچ کر دراز کر دی جائے گی ،پھر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر
ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہو گی جس طرح حاملہ عورت کے حمل کا زمانہ
پورا ہو گیا ہو ،اور وہ اس انتظار میں ہو کہ کب والدت کا وقت آٰئے گا ،اور اس کا صحیح
وقت کسی کو معلوم نہ ہو۔ عوام ( عوام بن حوشب ) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تصدیق ہللا
کی کتاب میں موجود ہے« :حتى إذا فتحت یأجوج ومأجوج وھم من كل حدب ینسلون»( سورۃ
اْلنبیاء ) 96 :یہاں تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے ،تو پھر وہ ہر ایک
)ٹیلے پر سے چڑھ دوڑیں گے
ابن ماجہ حدیث نمبر ٬ 4081ابواب الفتن ٬باب فتنة الدجال و خروج عیسی ابن مریم و (
)خروج یاجوج و ماجوج
معزز قارئین سیدنا عیسی علیہ السالم کے نزول پر یوں تو 100سے زائد احادیث مبارکہ
موجود ہیں لیکن ہم نے 10احادیث مبارکہ کو پیش کیا ہے۔ ان احادیث مبارکہ سے سیدنا
عیسی علیہ السالم کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اور نزول کے لئے حیات
یعنی سیدنا عیسی علیہ السالم کا زندہ ہونا الزم و ملزوم ہے۔
اگر سیدنا عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں تو وہ نازل کیسے ہوسکتے ہیں؟؟
سیدنا عیسی علیہ السالم کا آسمان سے زمین پر نازل ہونا ہی سیدنا عیسی علیہ السالم کے
زندہ ہونے کی دلیل ہے۔
ان 10احادیث مبارکہ میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے وضاحت کے ساتھ سیدنا عیسی
علیہ السالم کے آسمان سے زمین پر نزول کے بارے میں بتایا ہے۔
مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم پر چند بزرگان امت کی عبارات پر قادیانی "
"اعتراضات اور ان کا تحقیقی جائزہ
)حصہ دوم(
"۔"امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ6
امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا پر مرزاقادیانی نے الزام لگایا ہے کہ وہ سیدنا عیسی علیہ السالم کی
وفات کے قائل تھے ۔
اس حوالے سے پتہ چال کہ امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان پر
اٹھائے جانے کے قائل تھے ۔ اور نہ صرف خود قائل تھے بلکہ اس بات پر انہوں نے امت
کا اجماع بھی بیان کیا ہے۔ اب جو بندہ امت کا اجماع بھی بیان کرے تو وہ خود کیسے اس
عقیدے کا مخالف ہوسکتا ہے؟؟
) عیسی علیہ السالم روح اور جسم کے ساتھ آسمان کی طرف چڑھ گئے(
اس سے پتہ چال کہ امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان پر اٹھائے
جانے کے بھی قائل ہیں۔
امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا نے ایک اور جگہ لکھا ہے کہ
وعیسی علیہ السالم اذا نزل من السماء إنما یحکم فیھم بکتاب ربھم وسنة نبیھم۔۔۔والنبی ﷺقد "
"أخبرھم بنزول عیسی من السماء
لیجئے امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا کا عقیدہ تو اظہر من الشمس ہوگیا کہ سیدنا عیسی علیہ السالم
آسمان سے نازل ہوں گے اور شریعت محمدیہﷺ کے مطابق فیصلے فرمائیں گے ۔
خالصہ کالم
خالصہ کالم یہ ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ ہللا سیدنا عیسی علیہ السالم کی وفات کے قائل
نہیں تھے بلکہ سیدنا عیسی علیہ السالم کی حیات اور رفع و نزول کے قائل تھے جیسا کہ
ان کی عبارات سے ثابت ہے۔
"۔ "شیخ ابن عربی رحمہ ہللا پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ7
قادیانی شیخ ابن عربی رحمہ ہللا پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ بھی سیدنا عیسی علیہ السالم
کی وفات کے قائل تھے ۔
سب سے پہلے تو ہم قادیانیوں کو بتاتے چلیں کہ آپ کو شیخ ابن عربی رحمہ ہللا پر
اعتراض کا کوئی حق نہیں ہے کیونکہ مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
وجودیوں اور دہریوں میں انیس بیس کا فرق ہے یہ وجودی (شیخ ابن عربی رحمہ ہللا "
"وغیرہ ) سخت قابل نفرت اور قابل کراہت ہیں
جب مرزاقادیانی کے نزدیک شیخ ابن عربی رح وجودی ،قابل نفرت اور دہریے ہیں تو
قادیانی کس منہ سے شیخ ابن عربی رح کی عبارات پیش کرتے ہیں اور دھوکہ دیتے
ہیں؟؟؟
جواب نمبر 2
"أنه لم یمت الی اآلن بل رفعه ہللا الی ھذہ السماء واسکنه فیھا"
بیشک وہ (سیدنا عیسی علیہ السالم ) ابھی فوت نہیں ہوئے بلکہ ہللا ٰ
تعالی نے انہیں آسمان (
)پر اٹھا لیا تھا اور وہ آسمان پر ہیں
ایک اور جگہ شیخ ابن عربی رحمہ ہللا نے لکھا ہے کہ
"ان عیسی علیہ السالم ینزل فی ھذہ اْلمة فی آخرالزمان ویحکم بشریعة محمد ﷺ"
بیشک سیدنا عیسی علیہ السالم اس امت میں آخری زمانے میں نازل ہوں گے اور شریعت (
) محمدیہ ﷺ کے مطابق فیصلے کریں گے
ان عبارات سے شیخ ابن عربی رحمہ ہللا کا عقیدہ کس قدر واضح ہے کہ سیدنا عیسی علیہ
السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا اور اب وہ آسمان پر موجود ہیں اور اس امت
میں آخری زمانے میں نازل ہوں گے ۔
خالصہ کالم
کوئی بددیانت ہی ہوگا جو اتنی واضح تحریرات دیکھ کر بھی شیخ ابن عربی رحمہ ہللا پر یہ
الزام لگائے کہ ان کا عقیدہ تھا کہ سیدنا عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں۔ حاالنکہ ان کی
تحریرات سے ان کا عقیدہ واضح ہے کہ وہ سیدنا عیسی علیہ السالم کے رفع و نزول کے
قائل تھے ۔
"۔ "موالنا عبیدہللا سندھی رحمہ ہللا پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ8
قادیانی موالنا عبیدہللا سندھی رحمہ ہللا پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ سیدنا عیسی علیہ السالم
کی وفات کے قائل تھے کیونکہ انہوں نے اپنی تفسیر "الہام الرحمن " میں لکھا ہے کہ سیدنا
عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں۔
قادیانی جس تفسیر "الہام الرحمن" کا حوالہ دیتے ہیں وہ تفسیر موالنا عبیدہللا سندھی رحمہ
ہللا نے نہیں لکھی۔ بلکہ "موسی جارہللا" نامی کسی آدمی نے وہ تفسیر لکھ کر موالنا
عبیدہللا سندھی رحمہ ہللا کی طرف منسوب کردی ہے۔ جیسا کہ اس تفسیر کے ٹائٹل صفحے
پر بھی "موسی جارہللا" کا نام لکھا ہے۔
لہذا جو تفسیر موالنا عبیدہللا سندھی رحمہ ہللا نے لکھی ہی نہیں اس سے ان کا عقیدہ کیسے
ثابت ہوسکتا ہے؟؟؟
موالنا عبید ہللا سندھی رحمہ ہللا نے شاہ ولی ہللا رحمہ ہللا کے افکار پر مشتمل "رسالہ
محمودیہ" کا ترجمہ کیا ہے ۔ جس کا نام "ترجمہ عبیدیہ" ہے۔ اس میں موالنا عبیدہللا سندھی
رحمہ ہللا نے لکھا ہے کہ
فعسی ان تکون سارا الفق االکمال غاشیا ال قلیم االقرب فلن یوجد بعدک إال ولک دخل فی "
" تربیته ظاہرا و باطنا حتی ینزل عیسی علیہ السالم
تو عنقریب کمال کے افق کا سردار بن جائے گا۔ اور قرب الہی کے اقلیم پر حاوی (
ہوجائے گا ۔ تیرے بعد کوئی مقرب الہی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی ظاہری و باطنی تربیت
)میں تیرا ہاتھ نہ ہو۔ یہاں تک کہ حضرت عیسی علیہ السالم نازل ہوں
لیجئے موالنا عبیدہللا سندھی رحمہ کا عقیدہ سیدنا عیسی علیہ السالم کے نزول کا ثابت
ہوگیا۔
"۔ "حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ پر قادیانی اعتراض اور اس کا تحقیقی جائزہ9
قادیانی حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ وہ بھی سیدنا عیسی
علیہ السالم کی وفات کے قائل تھے کیونکہ انہوں نے بخاری شریف کی ایک روایت میں
"متوفیک" کا معنی "ممیتک" کیا ہے۔
کون ہے جو یہ کہتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو موت نہیں آئے گی؟ سیدنا عیسی
علیہ السالم کو بھی موت آئے گی لیکن ان کی موت کا وقت وہ ہے جب وہ دوبارہ واپس
زمین پر تشریف الئیں گے ۔ اس کے بعد 45سال زمین پر رہیں گے پھر ان کو موت آئے
گی ۔
حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ بھی اسی موت کے قائل ہیں۔
قادیانی اگر سچے ہیں تو حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ سے منسوب کوئی ایک روایت
ایسی دکھا دیں جہاں انہوں نے فرمایا ہوکہ سیدنا عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں اور
قرب قیامت واپس زمین پر تشریف نہیں الئیں گے ۔ قادیانی قیامت تک بھی ایسی روایت
پیش نہیں کر سکتے ۔
تفسیر ابن ابی حاتم میں حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ سے ایک طویل روایت منقول ہے
جس میں سیدنا عیسی علیہ السالم کے آسمان پر اٹھائے جانے کے واقعے کا یوں ذکر ہے۔
" فألقى علیہ شبہ عیسی ورفع عیسی من روزنتہ بیتہ الی السماء"
اس جوان پر سیدنا عیسی علیہ السالم کی شکل ڈال دی گئی اور آپ کو آپ کے گھر کی (
) کھڑکی سے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا
یہی روایت حافظ ابن کثیر دمشقی نے اپنی تفسیر میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ
" وھذا اسناد صحیح الی ابن عباس"
)اس کی سند حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ تک صحیح ہے(
امام سیوطی رحمہ ہللا جو مرزاقادیانی کے نزدیک مجدد بھی ہیں انہوں نے اپنی تفسیر میں
حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ کا ایک قول نقل کیا ہے جس سے ان کا عقیدہ واضح ہوتا
ہے۔
" عن ابن عباس رضی ہللا عنہ فی قوله انی متوفیک اآلیۃ رافعک ثم یمیتک فی آخرالزمان"
حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ سے منقول ہے کہ اے عیسی علیہ السالم میں تجھے (
)آسمان پر اٹھانے واال ہوں اور آخری زمانے میں وفات دوں گا
) تفسیر درمنثور(
ان حوالہ جات سے پتہ چال کہ حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ بھی سیدنا عیسی علیہ
السالم کے رفع و نزول کے قائل تھے اور بخاری شریف میں جو روایت ان سے منقول ہے
اس کا مطلب یہ ہے کہ جب سیدنا عیسی علیہ السالم دوبارہ زمین پر تشریف الئیں گے تو
45سال بعد ان کو موت آئے گی ۔
خالصہ کالم
خالصہ کالم یہ ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے دور سے لے کر مرزاقادیانی تک
بزرگان امت میں سے کوئی ایک بزرگ بھی سیدنا عیسی علیہ السالم کی وفات کے قائل
نہیں تھے ۔ جیسا کہ مرزاقادیانی نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے۔
قادیانی بزرگان امت کی عبارات کو توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں۔ حاالنکہ جن بزرگوں کی
عبارات قادیانی توڑ مروڑ کر پیش کرتے ہیں ان کی واضح عبارات میں ان کا عقیدہ رفع و
نزول سیدنا عیسی علیہ السالم کا لکھا ہوا ہے۔
بہرحال اصولی بات تو یہ ہے کہ قادیانیوں کو بزرگان امت کی عبارات پیش کرنے کا کوئی
حق نہیں کیونکہ خود مرزاقادیانی نے اور اس کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود نے تسلیم
کیا ہے کہ مرزاقادیانی سے پہلے تمام مسلمان سیدنا عیسی علیہ السالم کی حیات اور رفع و
نزول کے قائل تھے ۔
مسئلہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی "
"تحقیقی جوابات
سیدنا عیسی علیہ السالم جب دوبارہ تشریف الئیں گے تو وہ نبی ہوں گے یا نہیں؟ ؟ اگر وہ
نبی ہوں گے تو یہ بات آپ کے عقیدے کے خالف ہے کیونکہ آپ کہتے ہیں کہ نبوت کا
دروازہ بند ہے اب حضورﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا۔
اور اگر سیدنا عیسی علیہ السالم نبی نہیں ہوں گے تو یہ بات اصول کے خالف ہے کیونکہ
تعالی جب کسی کو ایک دفعہ نبوت کی نعمت عطا فرمادیتے ہیں تو پھر اس سے نبوت ہللا ٰ
والی نعمت واپس نہیں لیتے۔
آپ قادیانیوں نے ہمارے "عقیدہ ختم نبوت " کو پڑھا ہی نہیں ہے۔ یا اگر پڑھا بھی ہے تو
جان بوجھ کر دجل سے کام لے رہے ہیں کیونکہ" عقیدہ ختم نبوت " یہ ہے کہ
نبیوں کی تعداد حضورﷺ کے آنے سے مکمل ہوچکی ہے اب تاقیامت کسی بھی انسان کو "
" نبی یا رسول نہیں بنایا جائے گا
حضرت عیسی علیہ السالم کے آنے سے عقیدہ ختم نبوت پر کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ بلکہ ہم
تو یہاں تک کہتے ہیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم نہیں بلکہ بالفرض محال اگر تمام پہلے
نبی بھی دوبارہ آجایئں تو بھی عقیدہ ختم نبوت پر ذرہ برابر فرق نہیں پڑے گا کیونکہ
حضورﷺ کے بعد تاقیامت کسی بھی انسان کو نبی نہیں بنایا جائے گا ۔
""والَّذِي نَ ْفسِي ِبیَ ِد ِہ لَیُو ِش َك َّن أ َ ْن یَ ْن ِز َل فِی ُك ُم اب ُْن َم ْریَ َم َح َك ًما "
سلَّ َمَ : علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاِ َسو ُل َّ قَا َل َر ُ
یض ْال َما ُل َحتَّى َال یَ ْقبَلَهُ أ َ َحد ض َع ْال ِج ْزیَةََ ،ویَ ِف َ یرَ ،ویَ َ یبَ ،ویَ ْقت ُ َل ْال ِخ ْن ِز َ
ص ِل َطاَ ،فیَ ْكس َِر ال َّ" ُم ْق ِس ً
رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،وہ زمانہ آنے (
عیسی علیہ السالم ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کی حیثیت
ٰ واال ہے جب ابن مریم (
سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ،سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو ختم
)کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے واال نہ رہے گا
سیدنا عیسی علیہ السالم جب تشریف الئیں گے تو وہ اپنی شریعت پر عمل کریں گے یا
حضور ﷺ کی شریعت پر عمل کریں گے؟ ؟ اگر وہ حضورﷺ کی شریعت پر عمل کریں
گے تو کیا وہ شریعت محمدیہﷺ کسی استاد سے آکر پڑھیں گے؟؟؟
سیدنا عیسی علیہ السالم جب تشریف الئیں گے تو شریعت محمدیہ ﷺ پر عمل کریں گے
کیونکہ وہ حضورﷺ کے امتی اور خلیفہ کی حیثیت سے تشریف الئیں گے۔
تو اس کے بارے میں قادیانیوں کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ ہللا ٰ
تعالی قرآن
مجید میں فرماتے ہیں کہ
" َو یُعَ ِل ُمہُ الۡ ِک ٰت َ
ب َو الۡ ِحکۡ َم َۃ َوالتَّوۡ ٰرۃ َ َو الۡاِنۡ ِجیۡ َل "
)اور جب میں نے تمہیں کتاب و حکمت اور تورات و انجیل کی تعلیم دی تھی(
کیا سیدنا عیسی علیہ السالم نزول کے بعد خنزیروں کو قتل کریں گے؟ ؟ اگر وہ خنزیروں
کو قتل کریں گے تو کیا یہ ان کی توہین نہیں ہوگی؟
سیدنا عیسی علیہ السالم کے نزول کے بعد جو قوم (عیسائی ) خنزیر کھاتے ہیں وہ اس
وقت خود مسلمان ہوجایئں گے اور اپنے ہاتھوں سے خنزیروں کا خاتمہ کریں گے ۔
ویسے قادیانیوں کو اتنا پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اگر خنزیروں کو قتل کرنا
توہین کا باعث ہے تو مرزاقادیانی نے خود اپنے آپ کو
سور مار" کیوں کہا ہے۔ "
قادیانی کہتے ہیں کہ بخاری شریف کی ایک روایت ہے کہ حضور ﷺ قیامت کے دن سیدنا
عیسی علیہ السالم کی طرح فرمائیں گے کہ یاہللا جب تک میں اپنی قوم میں موجود رہا اس
وقت تک میں نگہبان تھا۔ اور جب آپ نے میری "توفی" کرلی تو پھر آپ ہی نگہبان تھے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اگر "توفی" کا لفظ حضور ﷺ کے لئے بوال جائے تو آپ اس کا معنی
موت کرتے ہیں اور اگر "توفی" کا لفظ سیدنا عیسی علیہ السالم کے لئے استعمال کیا جائے
تو آپ اس کا معنی کرتے ہیں کہ ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو آسمان پر اٹھالیا۔
اتنا تضاد کیوں؟؟ جو "توفی" کا مطلب حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے لئے ہے "توفی" کا
وہی مطلب سیدنا عیسی علیہ السالم کے لئے کیوں نہیں؟ ؟
اگر "توفی" کا معنی موت ہے تو مرزاقادیانی نے اور پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نورالدین
نے "توفی" کا معنی موت کیوں نہیں کیا؟ ؟ مرزا قادیانی نے ایک جگہ لکھا ہے کہ
ک اِلَ َّ
ی اِنِیۡ ُمتَ َوفِیۡ َ
ک َو َرافِعُ َ
)میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا(
ایک اور جگہ مرزاقادیانی نے اپنے بارے میں لکھا ہے کہ مجھے ہللا کی طرف سے الہام
ہوا ہے کہ
مرزاقادیانی نےجب "توفی" کا معنی اپنے لئے کیا ہے تو اس کا معنی قتل اور صلیب سے
بچانا کیا ہے اور جب سیدنا عیسی علیہ السالم کے لئے "توفی" کا معنی کرتا ہے تو موت
کرتا ہے۔ اتنا تضاد کیوں؟ ؟؟
پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نورالدین نے ایک جگہ "توفی" کا معنی "میں لینے واال ہوں تجھ
کو" کیوں کیا ہے؟؟
جب ہللا نے فرمایا اے عیسی میں لینے واال ہوں تجھ کو اور بلند کرنے واال ہوں اپنی (
طرف اور پاک کرنے واال تجھے کافروں سے اور کرنے واال ہوں تیرے اتباع کو کافروں
)کے اوپر قیامت تک
اگر "توفی" کا معنی موت ہی ہے تو مرزاقادیانی اور پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نورالدین نے
کیوں ان جگہوں پر "توفی" کا معنی موت نہیں کیا؟؟
رسول ہللا ﷺ نے خطبہ دیا اور فرمایا کہ اے لوگو! تم ہللا کے پاس جمع کئے جاؤ گے( ،
ننگے پاؤں ننگے جسم اور بغیر ختنہ کے ،پھر آپﷺ نے یہ آیت پڑھی «كما بدأنا أول خلق
نعیدہ وعدا علینا إنا كنا فاعلین» ”جس طرح ہم نے اول بار پیدا کرنے کے وقت ابتداء کی
تھی ،اسی طرح اسے دوبارہ زندہ کر دیں گے ،ہمارے ذمہ وعدہ ہے ،ہم ضرور اسے کر
کے ہی رہیں گے۔“ آخر آیت تک۔ پھر فرمایا قیامت کے دن تمام مخلوق میں سب سے پہلے
ابراہیم علیہ السالم کو کپڑا پہنایا جائے گا۔ ہاں اور میری امت کے کچھ لوگوں کو الیا جائے
گا اور انہیں جہنم کی بائیں طرف لے جایا جائے گا۔ میں عرض کروں گا ،میرے رب! یہ
تو میرے امتی ہیں؟ مجھ سے کہا جائے گا ،آپ کو نہیں معلوم ہے کہ انہوں نے آپ کے بعد
عیسی
ٰ نئی نئی باتیں شریعت میں نکالی تھیں۔ اس وقت میں بھی وہی کہوں گا جو عبد صالح
علیہ السالم نے کہا ہو گا «وكنت علیھم شھیدا ما دمت فیھم فلما توفیتني كنت أنت الرقیب
علیھم» کہ ”میں ان کا حال دیکھتا رہا جب تک میں ان کے درمیان رہا ،پھر جب تو نے
مجھے اٹھا لیا ( جب سے ) تو ہی ان پر نگراں ہے۔“ مجھے بتایا جائے گا کہ آپ کی جدائی
)کے بعد یہ لوگ دین سے پھر گئے تھے
یہ قیامت کے دن کا بیان ہورہا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم سے جب ان کی قوم کی
بداعمالیوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو سیدنا عیسی علیہ السالم جواب دیں گے کہ
اے ہللا جب تک میں اپنی قوم کے درمیان موجود رہا اس وقت تک تو میں نگہبان تھا اور
جب آپ نے مجھے اٹھالیا اس کے بعد پھر آپ ہی نگہبان تھے ۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں بھی سیدنا عیسی علیہ السالم کی طرح یہی جواب دوں گا ۔ کہ
جب تک میں اپنی قوم میں موجود رہا تو میں نگہبان تھا جب آپ نے مجھے وفات دی تو
پھر آپ ہی نگہبان تھے ۔
یہاں اصل سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ "توفی" کا لفظ جب سیدنا عیسی علیہ السالم کے لئے
استعمال ہوا ہے تو اس کا مطلب "پورا پورااٹھالینا" ہے اور "توفی" کا لفظ جب حضور ﷺ
کے لئے استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی موت کیوں بنتا ہے۔
اس سوال کے جواب کے لئے پہلے "توفی" کے لفظ کا حقیقی معنی دیکھنا پڑے گا ۔ اور
پھر "توفی" کا مجازی معنی دیکھنا پڑے گا ۔ اور پھر یہ دیکھنا پڑے گا کہ حضورﷺ کی
"توفی" کون سی ہے اور سیدنا عیسی علیہ السالم کی "توفی" کون سی ہے۔
اگر نیند کا قرینہ ہو اور "توفی" لفظ بوال جائے تو اس کا مطلب بنے گا "ہوش و حواس کو
"پورا پورا لے لینا
اگر موت کا قرینہ ہو اور "توفی" کا لفظ بوال جائے تو اس کا مطلب بنے گا ۔ "روح کو پورا
"پورا لے لینا
اور اگر بچانے اور اٹھانے کا قرینہ ہو اور "توفی" لفظ بوال جائے تو اس کا مطلب بنے گا
" "روح اور جسم کو پورا پورا لے لینا
یعنی "توفی " کا لفظ چاہے نیند کے لئے بوال جائے" ،توفی " کا لفظ چاہے موت کے لئے
بوال جائے اور "توفی" کا لفظ چاہے اصعاد الی السماء (یعنی آسمان پر اٹھائے جانے)کے
لئے بوال جائے اس کا حقیقی معنی "پورا پورا لینا" ضرور ساتھ ہوگا۔
اتنی تمہید کے بعد اب جب ہمیں پتہ چل گیا کہ "توفی" کا حقیقی معنی "پورا پورا لینا" ہوتا
ہے۔ اور توفی کی تین اقسام ہیں۔
۔ توفی بالنوم 2۔ توفی بالموت 3۔ توفی اصعاد الی السماء (یعنی روح اور جسم سمیت پورا 1
)پورا آسمان پر اٹھایا جانا
تو اب ہمارے لئے آسان ہوگیا کہ ہم دیکھ لیں کہ حضور ﷺ کی "توفی" کون سی ہے اور
سیدنا عیسی علیہ السالم کی "توفی " کون سی ہے۔
اس بات پر تو پوری امت کا اجماع ہے کہ حضورﷺ کی وفات ہوچکی ہے ۔ اور حضور
ﷺکی "توفی" سے مراد
توفی بالموت" ہے۔ جیسا کہ بخاری شریف کی درج ذیل روایت سے پتہ چلتا ہے۔"
ابوبکر رضی ہللا عنہ آئے تو عمر رضی ہللا عنہ لوگوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ ابوبکر (
رضی ہللا عنہ نے کہا :عمر! بیٹھ جاؤ ،لیکن عمر رضی ہللا عنہ نے بیٹھنے سے انکار کیا۔
اتنے میں لوگ عمر رضی ہللا عنہ کو چھوڑ کر ابوبکر رضی ہللا عنہ کے پاس آ گئے اور
آپ نے خطبہ مسنونہ کے بعد فرمایا :امابعد! تم میں جو بھی محمدﷺ کی عبادت کرتا تھا تو
تعالی کی عبادت کرتا تھا
ٰ اسے معلوم ہونا چاہیے کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے اور جو ہللا
تو ( اس کا معبود ) ہللا ہمیشہ زندہ رہنے واال ہے اور اس کو کبھی موت نہیں آئے گی۔ ہللا
تعالی نے خود فرمایا ہے «وما محمد إال رسول قد خلت من قبله الرسل» کہ ”محمد صرف ٰ
رسول ہیں ،ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں۔“ ارشاد «الشاكرین» تک۔ ابن عباس
رضی ہللا عنہما نے بیان کیا :ہللا کی قسم! ایسا محسوس ہوا کہ جیسے پہلے سے لوگوں کو
تعالی نے یہ آیت نازل کی ہے اور جب ابوبکر رضی ہللا عنہ نے ٰ معلوم ہی نہیں تھا کہ ہللا
اس کی تالوت کی تو سب نے ان سے یہ آیت سیکھی۔ اب یہ حال تھا کہ جو بھی سنتا تھا
وہی اس کی تالوت کرنے لگ جاتا تھا۔ ( زہری نے بیان کیا کہ ) پھر مجھے سعید بن
مسیب نے خبر دی کہ عمر رضی ہللا عنہ نے کہا :ہللا کی قسم! مجھے اس وقت ہوش آیا،
جب میں نے ابوبکر رضی ہللا عنہ کو اس آیت کی تالوت کرتے سنا ،جس وقت میں نے
انہیں تالوت کرتے سنا کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی وفات ہو گئی ہے تو میں سکتے
میں آ گیا اور ایسا محسوس ہوا کہ میرے پاؤں میرا بوجھ نہیں اٹھا پائیں گے اور میں زمین
)پر گر جاؤں گا
جبکہ سیدنا عیسی علیہ السالم کی توفی بالموت کا وقت ابھی نہیں آیا بلکہ حضورﷺ نے
سیدنا عیسی علیہ السالم کی " توفی بالموت " کا وقت ہمیں بتایا ہوا ہے۔ اور وہ وقت سیدنا
عیسی علیہ السالم کے نزول کے 40سال بعد ہے۔ جیسا کہ درج ذیل روایت سے ثابت ہے۔
سىَ ،وإِنَّهُ " ي َی ْع ِني ِعی َ ْس َب ْینِي َوبَ ْینَهُ نَ ِب ٌّ سلَّ َم قَا َل :لَی َ
علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ي َ عن أ َ ِبي ُھ َری َْرۃ َ ،أَن النَّ ِب َّ
ط ُر، سهُ َی ْق ُص َرتَی ِْن َكأ َ َّن َرأْ َ
اض َبیْنَ ُم َم َّ َازل فَإِذَا َرأ َ ْیت ُ ُموہُ فَاع ِْرفُوہُ َر ُجل َم ْربُوع ِإلَى ْال ُح ْم َر ِۃ َو ْال َب َی ِ ن ِ
ض ُع ْال ِج ْزیَةَ َویُ ْھ ِلكُ یر َویَ َ یب َویَ ْقت ُ ُل ْال ِخ ْن ِز َص ِل َ علَى ْ ِ
اْلس َْال ِم َفیَد ُُّق ال َّ اس َُص ْبهُ بَلَلَ ،فیُقَاتِ ُل النَّ َ َو ِإ ْن لَ ْم ی ِ
ض أ َ ْر َبعِینَ َ
سنَةً ث ُ َّم ث فِي ْاْل َ ْر ِ اْلس َْال َم َویُ ْھ ِلكُ ْال َمسِی َح الدَّ َّجا َل ،فَ َی ْم ُك ُ
ّللاُ فِي زَ َمانِ ِه ْال ِملَ َل ُكلَّ َھا إِ َّال ْ َِّ
علَ ْی ِه ْال ُم ْس ِل ُمونَ
ص ِلي َ "یُتَ َوفَّى فَیُ َ
عیسی کے درمیان کوئی نبی نہیں ،یقینا ً وہ (
ٰ نبی اکرم ﷺنے فرمایا :میرے اور ان یعنی
اتریں گے ،جب تم انہیں دیکھنا تو پہچان لینا ،وہ ایک درمیانی قد و قامت کے شخص ہوں
گے ،ان کا رنگ سرخ و سفید ہو گا ،ہلکے زرد رنگ کے دو کپڑے پہنے ہوں گے ،ایسا
لگے گا کہ ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہے گو وہ تر نہ ہوں گے ،تو وہ لوگوں سے
اسالم کے لیے جہاد کریں گے ،صلیب توڑیں گے ،سور کو قتل کریں گے اور جزیہ معاف
تعالی ان کے زمانہ میں سوائے اسالم کے سارے مذاہب کو ختم کر دے ٰ کر دیں گے ،ہللا
گا ،وہ مسیح دجال کو ہالک کریں گے ،پھر اس کے بعد دنیا میں چالیس سال تک زندہ رہیں
) گے ،پھر ان کی وفات ہو گی تو مسلمان ان کی نماز جنازہ پڑھیں گے
اتنی ساری گفتگو کے بعد ہمیں پتہ چال کہ حضورﷺ کی "توفی بالموت" ہوچکی ہے۔
کیونکہ اس پر امت کا اجماع ہے۔ جبکہ سیدنا عیسی علیہ السالم کی" توفی بالموت " کا
وقت ان کے نزول کے 40سال بعد ہے۔ جیسا کہ حضور ﷺ نے ہمیں بتایا ہے۔
اور جو حدیث قادیانی پیش کرتے ہیں اس حدیث میں حضور ﷺ کی "توفی " سے مراد
"توفی بالموت" ہے اور سیدنا عیسی علیہ السالم کی "توفی" سے مراد "توفی اصعاد الی
السماء(یعنی آسمان پر اٹھایا جانا)" ہے۔ جیسا کہ ہم نے دالئل سے ثابت کیا۔
اگر پھر بھی کوئی بضد ہے کہ "توفی" کا مطلب حضورﷺ اور عیسی علیہ السالم کے لئے
ایک ہونا چاہئے تو وہ ہمیں بتادے کہ ایسا کیوں ہے کہ اسی آیت سے قبل ہللا ٰ
تعالی اور
عیسی علیہ السالم کے لئے ایک ہی لفظ "نفس" استعمال ہوا ہے۔ لیکن اس میں "نفس" کا
ٰ
لفظ جب عیسی علیہ السالم کے لئے بوال جائے تو معنی اور ہوگا اور یہی لفظ جب ہللا تعالی
کے لئے بوال جائے تو معنی اور ہوگا۔ کیا عیسی علیہ السالم کا "نفس" اور ہللا ٰ
تعالی کا
"نفس" ایک جیسا ہے؟؟؟
آپ وہ باتیں جانتے ہیں جو میرے دل میں پوشیدہ ہیں اور میں اورآٰپ کی پوشیدہ باتوں کو (
)نہیں جانتا ۔ یقینا آپ کو تمام چھپی ہوئی باتوں کا پورا پورا علم ہے
اگر کوئی قادیانی کہے کہ جب دو افراد کے لئے ایک لفظ استعمال ہوا ہے تو اس کا معنی
بھی ایک ہی ہونا چاہئے تو وہ قادیانی ہمیں بتادے کہ درج ذیل آیت میں لفظ ایک ہی
استعمال ہوا ہے لیکن اس کے معنی کی کیفیت علیحدہ کیوں ہے؟؟
جس طرح ہم نے پہلے بار تخلیق کی ابتدا کی تھی ،اسی طرح ہم اسے دوبارہ پیدا کردیں (
)گے
پس جس طرح اس آیت میں ایک ہی "خلق" کا لفظ پہلی اور دوسری تخلیق کے لئے
استعمال ہوا ہے لیکن دونوں کی کیفیت علیحدہ ہے۔ اسی طرح "توفی" کا لفظ حضورﷺ اور
سیدنا عیسی علیہ السالم کے لئے استعمال ہوا ہے لیکن حضورﷺ کے لئے اس کا معنی
موت ہے اور سیدنا عیسی علیہ السالم کے لئے اس کا معنی "اصعاد الی السماء " ہے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ قرآن مجید میں سیدنا عیسی علیہ السالم کا ایک فرمان لکھا ہے کہ
ّللا اِلَیۡ ُکمۡ " سی ابۡ ُن َمرۡ َی َم ٰی َب ِنیۡۡ اِسۡ َرآٰ ِءیۡ َل ا ِِنیۡ َر ُ
سوۡ ُل ّٰ ِ َو اِذۡ قَا َل ِعیۡ َ
سوۡل یَّاۡتِیۡ ِمنۡۡ بَعۡدِی اسۡ ُمہ ی ِمنَ التَّوۡ ٰرى ِۃ َو ُمبَش ًِرۡا ِب َر ُص ِدقًا ِل َما بَیۡنَ یَدَ َّ ُّم َ
ت قَالُوۡا ٰہذَا ِسحۡر ُّمبِیۡن " اَحۡ َمد ُ ۡ فَلَ َّما َجا ٰٓ َءہ ُمۡ بِالۡ َبیِ ٰن ِ
عیسی بن مریم نے کہا تھا کہ :اے بنو اسرائیل میں تمہارے (
ٰ اور وہ وقت یاد کرو جب
پاس ہللا کا ایسا پیغمبر بن کر آیا ہوں کہ مجھ سے پہلے جو تورات ( نازل ہوئی ) تھی ،میں
اس کی تصدیق کرنے واال ہوں ،اور اس رسول کی خوشخبری دینے واال ہوں جو میرے
بعد آئے گا ،جس کا نام احمد ہے ۔ پھر جب وہ ان کے پاس کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے
) تو وہ کہنے لگے کہ :یہ تو کھال ہوا جادو ہے
قادیانی کہتے ہیں کہ اس آیت میں سیدنا عیسی علیہ السالم نے فرمایا تھا کہ حضور ﷺ
میرے بعد آیئں گے اور بعد کا مطلب ہے کہ میری وفات کے بعد آیئں گے ۔ اس لئے سیدنا
عیسی علیہ السالم فوت ہوگئے ہیں۔
اس کا جواب یہ ہے کہ ہر جگہ "بعد" کے لفظ سے موت مراد نہیں ہوتی۔ جیسا کہ درج ذیل
آیت میں بھی "بعد" کا لفظ ہے لیکن وہاں "بعد" کے لفظ سے موت مراد نہیں ۔
عدۡنَا ُموۡسٰ ی اَرۡبَ ِعیۡنَ لَیۡلَ ًۃ ث ُ َّم اتَّخَذۡت ُ ُم الۡ ِعجۡ َل ِمنۡۡ بَعۡد ِّٖہ َو اَنۡتُمۡ "َو اِذۡ ٰو َ
" ٰظ ِل ُموۡنَ
اس آیت میں بھی "بعد" سے مراد موت نہیں ہے بلکہ "بعد" سے مراد یہ ہے کہ سیدنا
موسی علیہ السالم کے کوہ طور پر جانے کے بعد انہوں نے بچھڑے کو معبود بنا لیا ۔
اسی طرح ہماری زیر بحث آیت میں بھی "بعد" سے مراد سیدنا عیسی علیہ السالم کی موت
نہیں ہے۔ بلکہ "بعد" سے مراد یہ ہے کہ میرا زمانہ نبوت ختم ہونے کے بعد وہ نبی آخر
الزماں ﷺ آیئں گے ۔
معراج کی رات حضورﷺ کی موسی علیہ السالم سے مالقات بھی ہوئی اور مرزاقادیانی
نے لکھا ہے کہ
موسی علیہ السالم آسمانوں پر زندہ موجود ہیں اور ان کے زندہ ہونے پر ایمان النا فرض "
"ہے
پس جب معراج میں مالقات کے بعد موسی علیہ السالم زندہ ہوسکتے ہیں تو معراج میں
مالقات کے بعد عیسی علیہ السالم کیوں زندہ نہیں ہوسکتے؟؟
معراج کی رات تمام فوت شدگان کی مالقات نہیں تھی۔ بلکہ معراج کی رات حضور ﷺ زندہ
تھے۔ سیدنا عیسی علیہ السالم زندہ تھے۔ اور جبرائیل علیہ السالم زندہ تھے۔ اور باقی تمام
انبیاء کرام علیہم السالم فوت شدہ تھے۔
) جیسے حضورﷺ کی مالقات سیدنا عیسی علیہ السالم اور جبرائیل علیہ السالم سے ہوئی(
ي ِب ِه ِب َقدَ َحی ِْن ِم ْن خ َْمرَ ،و َلبَن سلَّ َم لَ ْیلَةَ أُس ِْر َ صلَّى َّ
ّللاُ َعلَ ْی ِه َو َ سو ُل َّ
ّللاِ َ ي َر ُ ُ
ع ْن أ َ ِبي ُھ َری َْرۃ َ ،قَا َل :أ ِت َ " َ
ت اك ِل ْل ِف ْ
ط َرۃِ ،لَ ْو أَ َخ ْذ َ س َالمْ :ال َح ْمد ُ ِ َّّٰللِ الَّذِي َھدَ َ ظ َر إِلَ ْی ِھ َما ،فَأ َ َخذَ اللَّبَنَ ،فَقَا َل لَهُ ِجب ِْری ُل َ
علَ ْی ِه ال َّ فَنَ َ
ت أ ُ َّمت ُ َك ْ
"الخ َْم َر غ ََو ْ
معراج کی رات رسول ہللاﷺ کے پاس شراب اور دودھ کے دو پیالے الئے گئے ،آپ نے (
انہیں دیکھا تو دودھ لے لیا ،جبرائیل علیہ السالم نے کہا :ہللا کا شکر ہے جس نے آپ کو
)فطری چیز کی ہدایت دی ،اگر آپ شراب لے لیتے تو آپ کی امت گمراہ ہو جاتی
سلَّ َم َحدَّث َ ُھ ْم َ
ع ْن علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاِ َ ي َّ ص َعةَ ،أ َ َّن َن ِب َّ
ص ْع َ ع ْن َما ِل ِك ب ِْن َ ع ْن أَن َِس ب ِْن َما ِلكَ ، " َ
س َما َء الثَّانِیَةَ فَا ْست َ ْفت َ َح ،قِی َلَ :م ْن َھذَا ،قَا َل ِجب ِْریلُ :قِی َل َو َم ْن ص ِعدَ َحتَّى أَتَى ال َّ لَ ْیلَةَ""أُس ِْر َ
ي بِ ِه ث ُ َّم َ
سى َو ُھ َما ا ْبنَا خَالَة، صتُ فَإِذَا َی ْح َیى َو ِعی َ َم َع َك ،قَا َلُ :م َح َّمد ِقی َل َو َق ْد أ ُ ْر ِس َل ِإلَ ْی ِه ،قَا َلَ :ن َع ْم فَلَ َّما َخلَ ْ
صا ِلحِصا ِلحِ َوالنَّ ِبي ِ ال َّ خ ال َّ سلَّ ْمتُ فَ َردَّا ث ُ َّم ،قَ َاالَ :م ْر َحبًا ِب ْاْل َ ِ علَ ْی ِھ َما فَ َ سى فَ َ
س ِل ْم َ "قَا َلَ :ھذَا یَ ْحیَى َو ِعی َ
نبی کریمﷺ نے شب معراج کے متعلق بیان فرمایا کہ پھر آپ اوپر چڑھے اور دوسرے (
آسمان پر تشریف لے گئے۔ پھر دروازہ کھولنے کے لیے کہا۔ پوچھا گیا :کون ہیں؟ کہا کہ
جبرائیل علیہ السالم۔ پوچھا گیا :آپ کے ساتھ کون ہیں؟ کہا کہ محمد ﷺ ۔ پوچھا گیا :کیا
یحیی
ٰ عیسی اور
ٰ انہیں النے کے لیے بھیجا ،کہا کہ جی ہاں۔ پھر جب میں وہاں پہنچا تو
علیہما السالم وہاں موجود تھے۔ یہ دونوں نبی آپس میں خالہ زاد بھائی ہیں۔ جبرائیل علیہ
عیسی علیہما السالم ہیں۔ انہیں سالم کیجئے۔ میں نے سالم
ٰ یحیی اور
ٰ السالم نے بتایا کہ یہ
)کیا ،دونوں نے جواب دیا اور کہا خوش آمدید نیک بھائی اور نیک نبی
)جیسے سیدنا موسی علیہ السالم اور سیدنا ابراہیم علیہ السالم کی مالقات(
عیسی (
ٰ موسی اور
ٰ اسراء ( معراج ) کی رات رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ابراہیم،
علیہم السالم سے مالقات کی ،تو سب نے آٰپس میں قیامت کا ذکر کیا ،پھر سب نے پہلے
ابراہیم علیہ السالم سے قیامت کے متعلق پوچھا ،لیکن انہیں قیامت کے متعلق کچھ علم نہ
موسی علیہ السالم سے پوچھا ،تو انہیں بھی قیامت کے متعلق کچھ علم نہ ٰ تھا ،پھر سب نے
عیسی بن مریم علیہما السالم سے پوچھا تو انہوں نے فرمایا :قیامت کے آٰ ٰ تھا ،پھر سب نے
دھمکنے سے کچھ پہلے ( دنیا میں جانے کا ) مجھ سے وعدہ لیا گیا ہے ،لیکن قیامت کے
عیسی علیہ السالم
ٰ آٰنے کا صحیح علم صرف ہللا ہی کو ہے ( کہ وہ کب قائم ہو گی ) ،پھر
نے دجال کے ظہور کا تذکرہ کیا ،اور فرمایا :میں ( زمین پر ) اتر کر اسے قتل کروں گا،
پھر لوگ اپنے اپنے شہروں ( ملکوں ) کو لوٹ جائیں گے ،اتنے میں یاجوج و ماجوج ان
کے سامنے آٰئیں گے ،اور ہر بلندی سے وہ چڑھ دوڑیں گے ،وہ جس پانی سے گزریں گے
اسے پی جائیں گے ،اور جس چیز کے پاس سے گزریں گے ،اسے تباہ و برباد کر دیں
گے ،پھر لوگ ہللا سے دعا کرنے کی درخواست کریں گے ،میں ہللا سے دعا کروں گا کہ
انہیں مار ڈالے ( چنانچہ وہ سب مر جائیں گے ) ان کی الشوں کی بو سے تمام زمین
بدبودار ہو جائے گی ،لوگ پھر مجھ سے دعا کے لیے کہیں گے تو میں پھر ہللا سے دعا
تعالی آٰسمان سے بارش نازل فرمائے گا جو ان کی الشیں اٹھا کر سمندر ٰ کروں گا ،تو ہللا
میں بہا لے جائے گی ،اس کے بعد پہاڑ ریزہ ریزہ کر دئیے جائیں گے ،اور زمین چمڑے
کی طرح کھینچ کر دراز کر دی جائے گی ،پھر مجھے بتایا گیا ہے کہ جب یہ باتیں ظاہر
ہوں تو قیامت لوگوں سے ایسی قریب ہو گی جس طرح حاملہ عورت کے حمل کا زمانہ
پورا ہو گیا ہو ،اور وہ اس انتظار میں ہو کہ کب والدت کا وقت آٰئے گا ،اور اس کا صحیح
وقت کسی کو معلوم نہ ہو۔ عوام ( عوام بن حوشب ) کہتے ہیں کہ اس واقعہ کی تصدیق ہللا
کی کتاب میں موجود ہے« :حتى إذا فتحت یأجوج ومأجوج وھم من كل حدب ینسلون» یہاں
تک کہ جب یاجوج و ماجوج کھول دئیے جائیں گے ،تو پھر وہ ہر ایک ٹیلے پر سے چڑھ
) دوڑیں گے ( سورۃ اْلنبیاء96 :
اس تفصیل کے بعد قادیانی اعتراض خود ہی باطل ثابت ہوگیا۔ کیونکہ ان سب مالقاتوں کی
تفصیل احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔
ض ِه الَّذِي َم َ
ات فِی ِه" : سلَّ َم قَا َل فِي َم َر ِ
علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاُ َع ْن َھاَ ،
ع ِن النَّ ِبي ِ َ ي َّ شةَ َر ِ
ض َ ع ْن َ
عائِ َ َ
ُور أ َ ْنبِیَا ِئ ِھ ْم َمس ِْجدًا
ارى ات َّ َخذُوا قُب َ ّللاُ ْالیَ ُھودََ ،والنَّ َ
ص َ """لَعَنَ َّ
نصاری پر ہللا (
ٰ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے مرض وفات میں فرمایا کہ یہود اور
)کی لعنت ہو کہ انہوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو مساجد بنا لیا
قادیانی کہتے ہیں کہ اس حدیث میں حضورﷺ نے فرمایا کہ یہودیوں اور عیسائیوں نے
اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا تھا۔ یہودیوں کا تو ٹھیک ہے کہ انہوں نے اپنے
انبیاء کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیا تھا لیکن عیسائیوں کے نبی تو سیدنا عیسی علیہ السالم
ہیں ۔ اگر سیدنا عیسی علیہ السالم فوت نہیں ہوئے تو عیسائیوں نے کیسے ان کی قبر کو
سجدہ گاہ بنا لیا؟ ؟
یہ حدیث سیدنا عیسی علیہ السالم کی وفات کی نہیں بلکہ حیات کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگر
سیدنا عیسی علیہ السالم کی وفات ہوچکی ہوتی تو ان کی قبر کسی جگہ موجود ہوتی اور وہ
سجدہ گاہ ہوتی۔ لیکن پوری دنیا میں کہیں بھی سیدنا عیسی علیہ السالم کی قبر کے موجود
ہونے کا ذکر قرآن اور حدیث میں نہیں۔ لہذا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ
السالم کی وفات نہیں ہوئی۔
یہودی اور عیسائی اس بات پر متفق ہیں کہ سیدنا آدم علیہ السالم سے لے کر سیدنا موسی
علیہ السالم تک تقریبا سارے نبی برحق ہیں۔
یہودیوں اور عیسائیوں میں اختالف صرف اس بات میں ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم
برحق نبی ہیں یا نہیں ہیں۔ عیسائی سیدنا عیسی علیہ السالم کو برحق نبی مانتے ہیں جبکہ
یہودی سیدنا عیسی علیہ السالم کا انکار کرتے ہیں۔
لہذا سیدنا آدم علیہ السالم سے لے کر سیدنا موسی علیہ السالم تک جتنے انبیاء کرام علیہم
السالم کی قبروں کو یہود و نصاری نے سجدہ گاہ بنا لیا تھا وہ اس حدیث کے مصداق ہیں۔
مندرجہ ذیل دو روایتیں مالحظہ فرمائیں ان روایتوں میں ذکر ہے کہ یہود و نصاری نیک
لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیتے تھے ۔
ان حدیثوں سے پتہ چلتا ہے کہ یہود و نصاری کے ملعون ہونے کا سبب صرف یہ نہیں کہ
وہ انبیاء کرام علیہم السالم کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیتے تھے بلکہ ان کے ملعون ہونے
کا سبب یہ بھی تھا کہ وہ انبیاء کرام علیہم السالم کے عالوہ نیک لوگوں کی قبروں کو بھی
سجدہ گاہیں بنالیا کرتے تھے۔
لہذا صرف یہ کہنا کہ عیسائی صرف اپنے پیغمبر یعنی عیسی علیہ السالم کی قبر کو سجدہ
گاہ بنا کر ملعون ہوئے کسی طور پر درست نہیں۔ کیونکہ سیدنا عیسی علیہ السالم کی تو
وفات نہیں ہوئی ۔
وہ تو اپنے بزرگوں اور سابقہ انبیاء کرام علیہم السالم کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنالیتے
تھے اور یہی ان کے ملعون ہونے کا سبب ہے۔
۔ حضرت جندب رضی ہللا عنہ نے کہا :میں نے نبیﷺ کو آپ کی وفات سے پانچ دن (
تعالی کے حضور اس چیز سے براءت کا اظہار کرتا ٰ پہلے یہ کہتے ہوئے سنا ’’ :میں ہللا
تعالی نے مجھے اپنا خلیل بنا لیا ہے ،
ٰ ہوں کہ تم میں سے کوئی میرا خلیل ہو کیونکہ ہللا
جس طرح اس نے ابراہیم رضی ہللا عنہ کو اپنا خلیل بنایا تھا ،اگر میں اپنی امت میں سے
کسی کو اپنا خلیل بناتا تو ابو بکر کو خلیل بناتا ،خبردار! تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء اور
نیک لوگوں کی قبروں کو سجدہ گاہیں بنا لیا کرتے تھے ،خبردار! تم قبروں کو سجدہ گاہیں
) نہ بنانا ،میں تم کو اس سے روکتا ہوں
سو ُل َّ
ّللاِ " یر ،فَقَا َل َر ُ ش ِة فِی َھا ت َ َ
صا ِو ُ سةً َرأَتَاھَا بِ ْال َحبَ َ شةَ ،أ َ َّن أ ُ َّم َح ِبیبَةََ ،وأ ُ َّم َ
سلَ َمةَ ذَ َك َرتَا َك ِنی َ ع ْن َ
عائِ َ َ
ع َلى قَب ِْر ِہ َمس ِْجدًا،
اتَ ،بن َْوا َصا ِل ُح فَ َم َ الر ُج ُل ال َّ ُ
سلَّ َمِ :إ َّن أولَ ِئ َك ِإذَا َكانَ ِفی ِھ ُم َّ ع َل ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ َ
ْ ق ِع ْندَ َّ
ّللاِ یَ ْو َم ال ِقیَا َم ِة ْ ْ
ار الخَل ِ ُ
ص َو َر ،أولَئِ َك ِش َر ُ یك ال ُّ ص َّو ُروا ِت ِ "و َ َ
ام المؤمنین ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی ہللا عنہم دونوں نے ایک کنیسہ ( گرجا گھر ) کا (
ذکر کیا جسے ان دونوں نے حبشہ میں دیکھا تھا ،اس میں تصویریں تھیں ،رسول ہللاﷺ نے
فرمایا :یہ لوگ ایسے تھے کہ جب ان میں کا کوئی صالح آدمی مرتا تو یہ اس کی قبر کو
تعالی
ٰ سجدہ گاہ بنا لیتے ،اور اس کی مورتیاں بنا کر رکھ لیتے ،یہ لوگ قیامت کے دن ہللا
) کے نزدیک بدترین مخلوق ہوں گے
قادیانی کہتے ہیں اس وقت مسلمانوں میں کتنے فرقے موجود ہیں۔ حنفی ،شافعی ،مالکی،
حنبلی،دیوبندی ،بریلوی ،اہل حدیث وغیرہ
جب سیدنا عیسی علیہ السالم اور امام مہدی علیہ الرضوان تشریف الئیں گے تو وہ کس
فرقے سے تعلق رکھیں گے؟ ؟
قادیانی اعتراض کے جوابات
سیدنا عیسی علیہ السالم اور امام مہدی علیہ الرضوان امت میں تفرقہ ڈالنے نہیں بلکہ امت
میں اتحاد و اتفاق پیدا کرنے تشریف الئیں گے ۔ لہذا جب وہ تشریف الئیں گے تو امت تفرقہ
بازی کو چھوڑ کر متحد ہوجائے گی ۔
سیدنا امام مہدی علیہ الرضوان کی بیعت بیت ہللا میں ہوگی اور آج بھی عموما بیت ہللا میں
ایک امام کے پیچھے تمام مسالک کے لوگ نماز پڑھتے ہیں۔
جب سیدنا عیسی علیہ السالم اور امام مہدی علیہ الرضوان تشریف الئیں گے تو امت کی
ایسی صف بندی ہوگی کہ کوئی دراڑ نظر نہیں آئے گی ۔
سیدنا عیسی علیہ السالم اور امام مہدی علیہ الرضوان کے وقت امت میں اتحاد ہوگا۔
لیکن مرزاقادیانی کے کذاب ہونے کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مرزاقادیانی اپنے دور میں
تمام مسلمانوں میں تو اتحاد پیدا کرنا دور کی بات ہے خود اپنی قادیانی جماعت میں اتحاد
پیدا نہیں کر سکا۔
آج بھی قادیانی جماعت کے 10سے زائد فرقے موجود ہیں۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اگر آپ کی بات ہم مان لیں اور یہ تسلیم کرلیں کہ سیدنا عیسی علیہ
السالم کو ہللا ٰ
تعالی نے آسمان پر اٹھا لیا تھا ۔
تو پھر سوال پیدا ہوتا ہے کہ قرآن میں تو ذکر ہے کہ ہللا ٰ
تعالی جب سیدنا عیسی علیہ السالم
سے ان کی قوم کے بارے میں سوال کریں گے تو سیدنا عیسی علیہ السالم جواب دیں گے
کہ جب تک میں اپنی قوم میں موجود رہا اس وقت تک میں نگہبان تھا اور جب آپ نے
مجھے اٹھالیا تو اس کے بعد پھر آپ ہی نگہبان تھے۔
قادیانی کہتے ہیں کہ اگر ہم مان لیں کہ سیدنا عیسی علیہ السالم دوبارہ زمین پر تشریف
الئیں گے تو کیا وہ اپنی قوم یعنی عیسائیوں کی حالت دیکھ نہیں لیں گے کہ عیسائی کیا
کررہے ہیں؟اگر وہ اپنی قوم کی حالت دیکھ لیں گے تو قیامت کے دن یہ کیوں کہیں گے کہ
جب تک میں اپنی قوم میں موجود رہا تو میں نگہبان تھا؟
یا تو قرآن کی آیات نعوذ باہلل غلط ہیں اور یا آپ کا عقیدہ غلط ہے کہ سیدنا عیسی علیہ
السالم دوبارہ واپس زمین پر تشریف الئیں گے ؟
تو حضرت عیسی علیہ السالم کی امت حضورﷺ کے آنے تک ہے۔ جب حضورﷺ تشریف
لے آئے تو آپﷺ کا زمانہ نبوت شروع ہوگیا۔ اور قیامت تک حضورﷺ کا ہی زمانہ نبوت
ہے۔
اور جب سیدنا عیسی علیہ السالم دوبارہ تشریف الئیں گے تو وہ زمانہ حضورﷺ کا ہوگا
اور جو عیسائی اس وقت موجود ہوں گے وہ حضور ﷺ کے زمانہ نبوت میں ہوں گے اور
سیدنا عیسی علیہ السالم سے جو سوال ہوگا وہ ان کی قوم بنی اسرائیل کے بارے میں ہوگا
جو حضور ﷺ کے زمانہ نبوت شروع ہونے سے پہلے تھے۔
وہ امت محمدیہﷺ کے رسول نہیں ہوں گے ۔ اور ان سے امت محمدیہ صلی ہللا علیہ وسلم
کی پوچھ نہیں ہوگی۔
لہذا قرآن مجید کی آیات بھی صحیح ہیں اور سیدنا عیسی علیہ السالم بھی قرب قیامت واپس
زمین پر تشریف الئیں گے ۔
علم نحو میں صریح یہ قاعدہ مانا گیا ہے کہ توفی کے لفظ میں جہاں خدا فاعل اور انسان "
"مفعول به ہو ہمیشہ اس جگہ توفی کے معنی مارنے اور روح قبض کرنے کے آتے ہیں
مرزاقادیانی جیسے جاہل مطلق کو یہ بھی علم نہیں کہ لفظ کے معنی کی بحث علم نحو میں
نہیں کی جاتی بلکہ علم لغت میں کی جاتی ہے۔ کسی امام لغت نے یہ قاعدہ نہیں لکھا۔
ک اِلَ َّ
ی اِنِیۡ ُمتَ َوفِیۡ َ
ک َو َرافِعُ َ
)میں تجھ کو پوری نعمت دوں گا اور اپنی طرف اٹھاؤں گا(
اگر بقول مرزاقادیانی نحو کا یہ قاعدہ اتنا ہی درست تھا تو مرزاقادیانی نے خود کیوں اس
قاعدے پر عمل نہیں کیا؟؟
اگر "توفی" کا معنی موت ہے تو پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نورالدین نے "توفی" کا معنی
موت کیوں نہیں کیا؟ ؟
پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نورالدین نے ایک جگہ "توفی" کا معنی کیا ہے "میں لینے واال
"ہوں تجھ کو
جب ہللا نے فرمایا اے عیسی میں لینے واال ہوں تجھ کو اور بلند کرنے واال ہوں اپنی (
طرف اور پاک کرنے واال تجھے کافروں سے اور کرنے واال ہوں تیرے اتباع کو کافروں
)کے اوپر قیامت تک
اگر "توفی" کا معنی موت ہی ہے تو پہلے قادیانی خلیفہ حکیم نورالدین نے کیوں اس جگہ
پر "توفی" کا معنی موت نہیں کیا؟؟
جواب نمبر 3
قرآن مجید کی درج ذیل آیات میں مرزاقادیانی کے بنائےگئے قاعدے کی تمام شرائط پائی
جاتی ہیں لیکن ان کا معنی موت نہیں ہے۔
یعنی ان آیات میں ہللا فاعل اور انسان مفعول ہے لیکن معنی موت نہیں ہے۔
ان دونوں آیات میں فاعل ہللا ہے اور مفعول انسان ہے لیکن "توفی" کا معنی موت نہیں بن
رہا۔
لیجئے مرزاقادیانی کا بنایا ہوا قاعدہ قرآن مجید کی آیات سے اور خود مرزاقادیانی کی
تحریرات سے ہی باطل ثابت ہوگیا۔
پوری امت محمدیہ علیہ السالم کا اس بات پر اجماع موجود ہے یعنی پوری امت 1400سال
سے اس بات پر متفق ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو یہود نہ قتل کر سکے اور نہ
صلیب چڑھا سکے۔ بلکہ ہللا نے ان کو زندہ آسمان پر اٹھا لیا اب سیدنا عیسی علیہ السالم
قرب قیامت واپس زمین پر تشریف الئیں گے اور دجال کا خاتمہ کریں گے ۔
ذیل میں 10حوالے پیش خدمت ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ پوری امت مسلمہ رفع و
نزول عیسی علیہ السالم کے مسئلے پر متفق ہے اور اس پر امت کا اجماع ہے۔
1۔عالمہ ابو حیان اندلسی اپنی تفسیر بحر المحیط میں لکھتے ہیں کہ
"واجمعت االمتہ علی ما تضمنہ الحدیث المتواتر من ان عیسی فی السماء حی وانہ ینزل فی
آخر الزمان"۔
ترجمہ =
تمام امت کا اس بات پر اجماع ہو چکا ہے کہ حضرت عیسی علیہ السالم آسمان پر زندہ
موجود ہیں اور اخیر زمانہ میں ان کا نزول ہوگا ۔ جیسا کہ احادیث متواترہ سے ثابت ہوچکا
ہے۔
(تفسیر بحر المحیط جلد 2صفحہ 497تفسیر در آیت نمبر 55سورۃ آل عمران طبع بیروت
1993ء)
2۔ تفسیر النہر الماد میں ہے کہ
ترجمہ=
اس پر امت کا اجماع ہے کہ عیسی علیہ السالم آسمانوں پر زندہ ہیں اور زمین پر دوبارہ
نازل ہوں گے ۔
"واالجماع علی انہ عیسی حی فی السماء و ینزل و یقتل الدجال و یوید الدین" ۔
ترجمہ=
اس پر اجماع ہے کہ عیسی علیہ السالم آسمانوں پر زندہ ہیں نازل ہوکر دجال کو قتل کریں
گے اور اسالم کی تائید کریں گے ۔
4۔ امام ابو الحسن اشعری کتاب االبانتہ عن اصول الدیانتہ میں لکھتے ہیں کہ
"قال ہللا عزوجل یعیسی انی متوفیک و رافعک الی و قال ہللا تعالی وماقتلوہ یقینا بل رفعہ ہللا
الیہ ۔ واجمعت االمتہ علی ان ہللا عزوجل رفع عیسی الی السماء" ۔
ترجمہ =
تعالی فرماتے ہیں کہ اے عیسی علیہ السالم میں آپ کو پورا پورا لوں گا اور آپ کو ہللا ٰ
اٹھاوں گا۔ اور ہللا ٰ
تعالی فرماتے ہیں کہ عیسی علیہ السالم کو یہود نے یقینا قتل نہیں کیا
بلکہ ان کو ہللا ٰ
تعالی نے اپنی طرف اٹھا لیا ۔ اور امت کا اس پر اجماع ہے کہ عیسی علیہ
السالم کو آسمانوں پر اٹھایا گیا ۔
ترجمہ =
اس میں کوئی اختالف نہیں کہ عیسی علیہ السالم آخری زمانہ میں نازل ہوں گے ۔
"لتواتراالخبار عن رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم انہ قال ینزل عیسی بن مریم فیقتل الدجال"۔
ترجمہ=
آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی تواتر کے ساتھ احادیث ہیں کہ عیسی بن مریم علیہ السالم
نازل ہوکر دجال کو قتل کریں گے ۔
"واجتمعت االمتہ علیہ واشتھرت فیہ االخبار ولعلھا بلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق بہ
الکتاب الھی قول و وجب البیان بہ واکفر منکرہ کالفالسفتہ من نزول عیسی علیہ السالم" ۔
ترجمہ =
نزول عیسی علیہ السالم پر امت کا اجماع ہے ۔ اس کی احادیث حد شہرت کو پہنچ گئی ہیں۔
شاید تواتر معنوی کا درجہ ان کو حاصل ہے۔ اس قول پر کتاب ہللا گواہ ہے ۔ اس پر ایمان
النا واجب ہے اور اس کا انکار کفر ہے۔ جیسے فالسفہ (یا آج کل قادیانی ،پرویزی اور
غامدی وغیرہ)
8۔عالمہ صدیق حسن خان القنوجی نے اپنی تفسیر فتح البیان میں لکھا ہے کہ
"وقد توارت االحادیث بنزول عیسی علیہ السالم جسما اوضح ذالک الشوکانی فی مولف
مستقل یتضمن ذکر او رد فی المھدی المنتظر والدجال والمسیح و عزہ فی غیرہ و صحیحہ
الطبری ھذالقول وارا بذلک االحادیث المتواترہ "۔
ترجمہ =
عیسی علیہ السالم کے جسما نازل ہونے کے بارے میں احادیث متواترہ وارد ہیں۔ عالمہ
شوکانی نے ایک مستقل رسالہ میں واضح کیا ہے جو مہدی موعود اور دجال اور مسیح
کے بارے میں ہے اور اس کے غیر کو بھی اس میں بیان کیا ہے۔ اور اس قول کی طبری
نے تصحیح کی اور اس کے بارے میں احادیث متواترہ وارد ہیں۔
(فتح البیان جلد 3صفحہ 293تفسیر سورۃ النساء آیت نمبر ٬ 159طبع بیروت 1992ء)
"اما رفع عیسی علیہ السالم فاتفق اصحاب االخبار والتفسیر علی انہ رفعہ ببدنہ حیا"۔
ترجمہ =
تمام محدثین و مفسرین اس پر متفق ہیں کہ حضرت عیسی علیہ السالم اسی بدن کے ساتھ
زندہ اٹھائے گئے ہیں۔
10۔ عالمہ زمحشری امام المعتزلین تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں کہ
"فان قلت کیف کان آخر االنبیاء و عیسی علیہ السالم ینزل فی آخر الزمان قلت معنی کونہ
آخراالنبیاء انہ ال ینبا احد بعدہ و عیسی ممن نبی قبلہ" ۔
ترجمہ =
اگر تو کہے کہ حضور علیہ السالم آخر االنبیاء کیسے ہوئے حاالنکہ عیسی علیہ السالم
آخر زمانہ میں نازل ہوں گے ۔
میں کہوں گا کہ آخر االنبیاء ہونے کے معنی یہ ہیں۔ کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے
بعد کوئی نبی نہیں بنایا جائے گا ۔ اور عیسی علیہ السالم ان نبیوں میں سے ہیں جن کو
نبوت پہلے مل چکی ہے۔
(تفسیر کشاف صفحہ 858تفسیر در آیت نمبر 40سورۃ االحزاب طبع بیروت 2009ء)
(مندرجہ باال حوالے سے پتہ چال کہ حیات عیسی علیہ السالم کا عقیدہ اتنا ضروری عقیدہ
ہے کہ معتزلی بھی اس کا انکار نہیں کر سکے)
" 14صدیوں کے ان بزرگان امت کے نام جن کا عقیدہ رفع و نزول سیدنا عیسی علیہ السالم
کتابوں میں موجود ہے"
ہر صدی کے بزرگوں کے ناموں کے بعد ان بزرگوں کا عقیدہ جن کتب میں ذکر ہے اس
کے حوالے بھی دیئے گئے ہیں۔
پہلی صدی
"حوالہ جات"
دوسری صدی
1۔ سعید بن مسیب 2۔ طاوس بن کیسان 3۔ حسن بصری 4۔ محمد بن سیرین 5۔ محمد بن
الحنفیہ 6۔ ابوالعالیہ
7۔ ابو رافع 8۔ امام زین العابدین 9۔ امام باقر
10۔ امام جعفر صادق
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
"حوالہ جات"
تیسری صدی
1۔ امام ابو عبید قاسم بن سالم 2۔ امام ابوبکر بن ابی شیبہ 3۔ امام بخاری 4۔ امام مسلم 5۔ امام
ابو داؤد
6۔امام نسائی 7۔ امام ترمذی 8۔ امام ابن ماجہ
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
"حوالہ جات"
چوتھی صدی
1۔ امام ابن درید 2۔ امام ابو الحسن اشعری 3۔ امام ابن ابی حاتم رازی 4۔ امام ابوبکر آجری
5۔ امام ابو اللیث سمرقندی 6۔ امام ابن ابی زید القیروانی 7۔ امام ابن خزیمہ 8۔ امام ابوعوانہ
9۔ امام ابن حبان 10۔ امام ابوبکر جصاص رازی
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
پانچویں صدی
"حوالہ جات"
(1۔ اصول الدین صفحہ )162،163
(2۔ قصص االنبیاء صفحہ )251،253
(3۔ دالئل النبوۃ صفحہ )266،268
(4۔کتاب الفصل فی الملل واالھواء والنحل
جلد 4صفحہ )180
(5۔ االعتقاد علی مذھب السلف اھل السنة والجماعة صفحہ )105
(6۔ کشف المحجوب صفحہ )42
(7۔ اصول سرخسی جلد 1صفحہ )286
(8۔ کتاب المنتقی شرح موطأ جلد 7صفحہ )231
(9۔ الفرق الفترقة بین اھل الزیغ والزندقة صفحہ )34
(10۔ مستدرک حاکم جلد 4صفحہ 493تا )598
چھٹی صدی
1۔ امام غزالی 2۔ قاضی ابو یعلی 3۔ عالمہ زمحشری
4۔ امام نجم الدین نسفی 5۔ امام ابن االنباری
6۔ ابن العربی مالکی 7۔ امام ابن عطیہ
8۔ قاضی عیاض
9۔ پیران پیر حضرت شیخ عبدالقادر جیالنی
10۔ امام سہیلی
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
ساتویں صدی
1۔ امام قرطبی 2۔ امام ابوالبقاء 3۔ محی الدین ابن عربی 4۔ شیخ یاقوت حموی 5۔ امام
عزالدین بن عبدالسالم
6۔ حافظ زین الدین رازی 7۔ امام ابن النجار
8۔ امام ابن االثیر الجزری 9۔ امام تورپشتی
10۔ خواجہ معین الدین چشتی
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
آٹھویں صدی
"حوالہ جات"
1۔ عالمہ عینی 2۔ شیخ ابن ہمام 3۔ شیخ جالل الدین محلی 4۔ امام ابی 5۔ امام مجدالدین
فیروزآبادی
6۔ شیخ عبدالکریم صوفی 7۔ امام ابن امیر الحاج
رحمہم ہللا علہیم اجمعین
"حوالہ جات"
دسویں صدی
"حوالہ جات"
گیارہویں صدی
1۔ عالمہ خفاجی 2۔ مجدد الف ثانی 3۔ شیخ علی ددہ صوفی 4۔ شیخ ابو المنتہی 5۔ شاہ
عبدالحق محدث دہلوی 6۔ شاہ نورالحق محدث دہلوی 7۔ مال علی قاری
8۔ عالمہ خلخالی 9۔ عالمہ عبدالحکیم سیالکوٹی
10۔ عالمہ ابوالبقا
رحمہم ہللا علیہم اجمعین
"حوالہ جات"
(1۔حاشیہ تفسیر بیضاوی عنایة القاضی وکفایة الراضی جلد 2صفحہ ، 30جلد 3صفحہ
)306
(2۔ مکتوبات دفتر دوم مکتوب )55
(3۔ جواھر البحار للنبھانی صفحہ )1464
(4۔ شرح فقہ االکبر
(5۔ أشعة اللمعات شرح مشکوۃ جلد 4صفحہ )351
(6۔ تیسیر القاری شرح البخاری جلد 3صفحہ )345
(7۔ شرح فقہ االکبر صفحہ )136
(8۔ شرح عقائد جاللی حاشیہ صفحہ )9
(9۔ مجموعہ حواشی البھیة جلد 3صفحہ )340
(10۔ کلیات ابی البقاء صفحہ )265
بارہویں صدی
تیرھویں صدی
"حوالہ جات"
چودھویں صدی
"حوالہ جات"
میں ایک ایسے خاندان سے ہوں کہ جو اس گورنمنٹ (برطانیہ) کا پکا خیر خواہ ہے" .
مرتضی گورنمنٹ کی نظر میں ایک وفادار اور خیر خواہ آدمی تھا
ٰ میرا والد میرزا غالم
جنکو دربار گورنری میں کرسی ملتی تھی اور جن کا عرذ مسٹر گریفن صاحب کی تاریخ
رئیسان پنجاب میں ہے اور 1857ء میں انہوں نے اپنی طاقت سے بڑہ کر سرکار انگریزی
کو مدد دی تھی.یعنی پچاس سوار اور گھوڑے بہم پہنچا کر عین زمانہ غدر کے وقت
سرکار انگریزی کی امداد میں دیئے تھے ان خدمات کی وجہ سے جو چٹھیات خوشنودی
حکام انکو ملی تھیں مجھے افسوس ہے کہ بہت سی ان میں سے گم ہو گئیں مگر تین
چٹھیات جو مدت سے چھپ چکی ہیں انکی نقلیں حاشیہ میں درج کی گئی ہیں .پھر میرے
والد صاحب کی وفات کے بعد میرا بڑا بھائی میرزا غالم قادر خدمات سرکاری میں
مصروف رہا اور جب تموں کے گزر پر مفسدوں کا سرکار انگریزی کی فوج سے مقابلہ
ہوا تو وہ سرکار انگریزی کی طرف سے لڑائی میں شریک تھا .پھر میں اپنے والد اور
بھائی کی وفات کے بعد ایک گوشہ نشین آدمی تھا .تاہم سترہ برس سے سرکار انگریزی
"کی امداد اور تائید میں اپنے قلم سے کام لیتا ہوں
)کتاب البریہ صفحہ 3تا 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 4تا (6
"نام و نسب"
مرتضی "
ٰ اب میرے سوانح اس طرح پہ ہیں کہ میرا نام غالم احمد میرے والد کا نام غالم
اور دادا صاحب کا نام عطاء محمد میرے پردادا صاحب کا نام گل محمد تھا اور جیسا کہ
بیان کیا گیا ہے ہماری قوم مغل برالس ہے۔
اور میرے بزرگوں کے پرانے کاغذات سے جواب تک محفوظ ہیں معلوم ہوتا ہے کہ وہ
"اس ملک میں سمرقند سے آئے تھے۔
مرزاقادیانی کے نسب و خاندان کے بارے میں تضاد ہے ۔کیونکہ مرزا صاحب نے اپنا
نسب و خاندان ایک نہیں بتایا۔
"۔"چینی االصل4
)حقیقة الوحی صفحہ 201مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 22صفحہ (209
مرزا غالم احمد قادیانی بھارت کے مشرقی پنجاب ضلع گورداسپور تحصیل بٹالہ قصبہ
.قادیان میں پیدا ہوا
اپنی تاریخ پیدائش کے بارے میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
اب میرے ذاتی سوانح یہ ہے کہ میری پیدائش 1839ء یا 1840ء میں سکھوں کے آخری "
"وقت میں ہوئی ہے اور میں 1857ء میں سولہ برس کا یا سترہویں برس میں تھا
"کیفیت پیدائش"
میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جسکا نام جنت تھا اور پہلے وہ لڑکی پیٹ میں سے "
نکلی تھی اور بعد اسکے میں نکال تھا .اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں اور لڑکی
"یا لڑکا نہیں ہوا اور میں انکے لیے خاتم االوالد تھا۔
مرزا قادیانی نے قادیان ہی میں رہ کر متعدد اساتذہ سےتعلیم حاصل کی جسکی تفصیل خود
مرزاقادیانی کی زبانی حسب ذیل ہے۔
بچپن کے زمانے میں میری تعلیم اس طرح پہ ہوئی کہ جب میں چھ سات سال کا تھا .تو "
ایک فارسی خواں معلم میرے لیے نوکر رکھا گیا .جنہوں نے قرآن مجید اور چند فارسی
.کتابیں مجھے پڑھائیں اور اس بزرگ کا نام فضل الہی تھا
اور جب میری عمر تقریبا ً دس برس کے ہوئی تو ایک عربی خواں مولوی صاحب میری
تربیت کے لیے مقرر کیے گئے جنکا نام فضل احمد تھا میں خیال کرتا ہوں کہ چونکہ
تعالی کے فضل کی ایک ابتدائی تخم ریزی تھی اس لیے ان استادوں کے نام
ٰ میری تعلیم خدا
.کا پہال لفظ بھی " فضل " ہی تھا
مولوی صاحب موصوف جو ایک دیندار اور بزرگوار آدمی تھے وہ بہت توجہ اور محنت
سے پڑھائے رہے اور میں نے صرف کی بعض کتابیں اور کچھ قواعد نحو ان سے پڑھے۔
اور بعد اسکے جب میں سترہ یا اٹھارہ سال کا ہوا تو ایک اور مولوی صاحب سے چند سال
پڑھنے کا اتفاق ہوا .انکا نام گل علی شاہ تھا انکو بھی میرے والد صاحب نے نوکر رکھ کر
قادیان میں پڑھا نے کےلیے مقرر کیا تھا .اور ان آخر الذکر مولوی صاحب سے میں نے
تعالی نے چاہا حاصل کیا۔
ٰ نحو اور منطق اور حکمت وغیرہ علوم مروجہ کو جہاں تک خدا
اور بعض طبابت کی کتابیں میں نے اپنے والد صاحب سے پڑھیں اور وہ دن طبابت میں
"بڑے حاذق طبیب تھے۔
)کتاب البریہ صفحہ 148تا 150مندرجہ روحانی خزائن جلد 13صفحہ 179تا (181
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ انبیاء کرام علیہم السالم کا دینی تعلیم میں کوئی استاد نہیں
تعالی سے علوم حاصل کرتے ہیں جیسا کہ ٰ ہوتا۔انبیاء کرام علیہم السالم بذریعہ وحی ہللا
مرزا غالم احمد قادیانی نےخود لکھا ہے کہ
تمام نفوس قدسیہ انبیاء کو بغیر کسی استاد اور اتالیق کے آپ ہی تعلیم اور تادیب فرما کر "
"اپنے فیوض قدیمہ کا نشان ظاہر فرمایا
)براہین احمدیہ حصہ اول صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ (16
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ اپنی جوانی کے زمانے میں "
حضرت مسیح موعود علیہ السالم تمہارے دادا کی پینش وصول کرنے گئے تو پیچھے
پیچھے مرزا امام الدین بھی چال گیا جب آپ نے پینشن وصول کر لی تو وہ آپ کو پھسال کر
اور دھوکہ دے کر بجائے قادیان النے کے باہر لے گیا اور ادھر ادھر پھراتا رہا .پھر جب
اس نے سارا روپیہ اڑا کر ختم کر دیا تو اپکو چھوڑ کر کہیں اور چال گیا .حضرت مسیح
موعود اس شرم سے واپس گھر نہیں آئے اور چونکہ تمہارے دادا کا منشاء رہتا تھا کہ
کہیں مالزم ہو جائے اس لیے سیالکوٹ شہر میں ڈپٹی کمشنر کی کچہری میں قلیل تنخواہ
"پر مالزم ہو گئے۔
"مدت مالزمت"
مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ
"واضح رہے کہ مرزا قادیانی نے سیالکوٹ میں 1864ء سے 1868ء تک مالزمت کی۔"
یہ بھی واضح رہے کہ مرزا نظام الدین اور امام الدین صاحبان کا چلن ٹھیک نہیں تھا" .
نماز روزہ کی طرف راغب نہ تھے .تمام خاندان میں صرف مرزا غالم احمد صاحب کو
"مسجد میں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
مرزاقادیانی نے مختاری کا امتحان بھی دیا تھا لیکن اس میں کامیاب نہیں ہوسکے بلکہ فیل
ہوگئے جیسا کہ خود مرزاقادیانی کے بیٹے مرزا بشیر احمد نے لکھا ہے کہ
چونکہ مرزا صاحب مالزمت کو پسند نہیں کرتے تھے اس واسطے آپ نے مختاری کے "
امتحان کی تیاری شروع کر دی اور قانونی کتابوں کا مطالعہ شروع کیا پر امتحان میں
"کامیاب نہ ہوئے۔
)سیرت المہدی جلد 1صفحہ 156روایت 150طبع جدید 2008ء صفحہ (142
"ازار بند"
مرزاقادیانی ریشمی ازار بند استعمال کرتے تھے۔ کیونکہ سوتی ازار بند کی گرہیں مرزا
صاحب سے نہیں کھلتی تھیں۔
)سیرت المہدی جلد 1صفحہ 49روایت نمبر 65جدید ایڈیشن 2008ء(
"گرگابی"
مرزاقادیانی نے ایک ہی جیب میں کھانے کے لئے گڑ اور استنجا کرنے کے لئے مٹی کے
ڈھیلے رکھے ہوتے تھے۔
'کتا"
مرزاقادیانی نے ایک کتا بھی رکھا ہوا تھا جس کا نام "شیرو" تھا۔
"ڈاکٹرنی"
۔ مرزا قادیانی کی خاص خدمت گزار عورت کا نام "ڈاکٹرنی" تھا جو کہ ڈاکٹر نور محمد 1
صاحب الہوری کی بیوی تھی۔ وہ مدتوں قادیان میں مرزا قادیانی کے مکان میں رہی۔ مرزا
قادیانی کو اس سے اتنا پیار تھا کہ جب وہ فوت ہو گئی تو مرزا قادیانی نے اس ڈاکٹرنی کا
دوپٹہ اپنی کھڑکی کے ساتھ بندھوایا۔
)سیرت المہدی جلد 1صفحہ 631روایت نمبر 688طبع جدید 2008ء(
"بھانو"
مرزا قادیانی کے کمرے کا پہرہ دینے والی عورت کا نام مائی رسول بی بی اور اہلیہ بابو
شاہ دین تھا۔
"زینب بیگم"
مرزا قادیانی کی 3ماہ خدمت کرنے والی لڑکی کا نام زینب بیگم تھا جو کہ ڈاکٹر سید
عبدالستار شاہ صاحب کی بیٹی تھی۔
مرزاقادیانی کے سامنے ایک عورت ننگی نہاتی تھی۔ اس کا نام معلوم نہیں ہو سکا۔
اس بات کا خالصہ یہ ہے کہ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کی دعوی نبوت سے پہلے
کی زندگی نبوت کے معیار پر پورا اترتی ہے لہذا مرزا قادیانی نبی ہے۔
ایک بات یاد رکھیں کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا کیونکہ
قرآن کی نص سے اور احادیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہے کہ نبوت آپ صلی ہللا علیہ
وسلم پر ختم ہوگئ ہے اب کوئی نیا نبی نہیں آسکتا ۔
لہذا یہ جائزہ لینے سے یا نہ لینے سے مرزاقادیانی نے نبی تو ثابت نہیں ہوجانا۔کیونکہ
نبوت ختم ہوگئی ہے۔
لیکن قادیانیوں کی ہدایت کی دعا کرتے ہوئے یہ جائزہ قادیانیوں کے لیے پیش خدمت ہے۔
"۔"مرزاقادیانی چور1
۔مرزاقادیانی کے بچپن کے حاالت میں لکھا ہے کہ مرزاقادیانی چور تھا اور گھر سے
چوریاں کرتا تھا۔
۔جوانی میں اپنے دادا کی پنشن وصول کر کے ساری پنشن اڑا دی یعنی سارا پیسہ ختم 1
کر دیا ۔ اور گھر والوں کو کچھ نہیں دیا۔ اس شرم کی وجہ سے مرزاقادیانی گھر نہیں گیا۔
یعنی مرزاقادیانی نے اپنے دادا کی پینشن کے 44الکھ 80ہزار روپے آج کے حساب سے
اڑا کر ختم کردیئے اور پھر اسی شرم سے گھر واپس نہیں آیا۔
۔لوگوں سے براہین احمدیہ کی 50جلدیں لکھنے کا وعدہ کیا اور لوگوں سے 50جلدوں 2
کی قیمت بھی لے لی۔ لیکن صرف 5جلدیں لکھیں ۔
اس طرح مرزاقادیانی 45جلدوں کے پیسے کھا گیا۔
پہلے پچاس حصے لکھنے کا ارادہ تھا۔ مگر پچاس سے پانچ پر اکتفا کیا گیا ۔اور چونکہ "
پچاس اور پانچ کے عدد میں صرف ایک نقطہ کا فرق ہے .اس لئے پانچ حصوں سے وہ
عدد پورا ہوگیا .دوسرا سبب التواء کا جو تئیس برس تک حصہ پنجم لکھا نہ گیا .یہ تھا کہ
تعالی کو منظور تھا کہ انکے دلی خیاالت ظاہر کرے .جنکے دل مرض بد گمانی میں ٰ خدا
مبتال تھے اور ایسا ہی ظہور میں آیا .کیونکہ اس قدر دیر کے بعد خام طبع لوگ بد گمانی
میں بڑھ گئے .یہاں تک کہ بعض ناپاک فطرت گالیوں پر اتر آئے اور دو چار حصے اس
کتاب کے جو طبع ہو چکے تھے.کچھ تو مختلف مختلف قیمتوں پر فروخت کئے گئے تھے
اور کچھ مفت تقسیم کئے گئے تھے .پس جن لوگوں نے قیمتیں دی تھیں .اکثر نے گالیاں ہی
.دی اور اپنی قیمت بھی واپس لی
)دیباچہ براہین احمدیہ صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (9
مرزاقادیانی حکیم نور الدین کے ساتھ مل کر فراڈ کرتا تھا ۔مرزاقادیانی نے حکیم نور الدین
کے ساتھ مل کر ایک ایسا فراڈ کیا ہے جو شاید ہی کسی نے کیا ہو۔
مرزاقادیانی حکیم نور الدین سے پیسے منگواتا رہتا تھا۔
ایک دفعہ مرزا قادیانی نے حکیم نور الدین سے 500روپیہ منگوایا۔ اور 500روپے کی
رقم اس زمانے کے لحاظ سے اچھی خاصی رقم تھی۔ جس کا اندازہ اس بات سے لگایا
جاسکتا ہے کہ اس زمانے میں خام گوشت ایک آنے کا ایک سیر(کلو) ملتا تھا۔
مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 41،42مکتوب نمبر 26،25،جدید ایڈیشن 2008ء مکتوب (
)بنام حکیم نورالدین
مرزاقادیانی نے اپنی دعوی نبوت سے پہلے کی زندگی میں انگریز کی عدالت میں مقدمہ
لڑکر مالی وراثت حاصل کی۔
ث َما تَ َر ْكنَا َ
صدَقَة سلَّ َم ،قَا َلَ :ال نُ َ
ور ُ علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ِإ َّن َر ُ
سو َل َّ ِ
ّللا َ
آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ ہمارا ( گروہ انبیاء علیہم السالم کا ) ورثہ تقسیم
نہیں ہوتا ‘ ہمارا ترکہ صدقہ ہے۔
َارا َو َال د ِْر َھ ًماِ ،إنَّ َما َو َّرثُوا ْال ِع ْل َم فَ َم ْن " ِإ َّن ْالعُلَ َما َء ُھ ْم َو َرثَةُ ْاْل َ ْن ِبیَ ِ
اءِ ،إ َّن ْاْل َ ْن ِبیَا َء لَ ْم ی َُو ِرثُوا دِین ً
" أ َ َخذَہُ أ َ َخذَ ِب َحظ َوافِر
بیشک علماء ہی انبیاء کے وارث ہیں ،اور انبیاء نے کسی کو دینار و درہم کا وارث نہیں
بنایا بلکہ انہوں نے علم کا وارث بنایا ہےٰ ،لہذا جس نے اس علم کو حاصل کیا ،اس نے (
علم نبوی اور وراثت نبوی سے ) پورا پورا حصہ لیا ۔
= خالصہ
اس ساری گفتگو کا خالصہ یہ ہے کہ اگر قادیانیوں کی بات مان کر مرزاقادیانی کی دعوی
نبوت سے پہلے کی زندگی کو نبوت کے معیار پر پرکھا جائے تو بھی مرزا قادیانی چور،
حرام کھانے واال ،فراڈیا اور وراثت لینے واال ثابت ہوتا ہے ۔
اور کوئی نبی نعوذ باہلل چور ،حرام کھانے واال ،فراڈیا اور وراثت لینے واال نہیں ہوتا۔
لیجئے قادیانیوں کے اصول کے مطابق مرزاقادیانی اپنے دعوی نبوت میں جھوٹا ثابت
ہوگیا۔
"مرزاقادیانی کی بیویاں"
"پھجے دی ماں"
پہلی بیوی جسکو'پھجے دی ماں' کہا جاتا ہے اسکا نام حرمت بی بی تھا۔اس سے 1852ء "
".یا 1853ء میں شادی ہوئی
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) کو "
اوائل سے ہی مرزا فضل احمد کی والدہ سے جنکو لوگ عام طور پر "پجھے دی ماں" کہا
کرتے تھے .بے تعلقی سی تھی .جسکی وجہ یہ تھی کہ حضرت صاحب کے رشتے داروں
کو دین سے سخت بے رغبتی تھی .اور انکا انکی طرف میالن تھا اور وہ اسی رنگ میں
رنگین تھیں اس لیے حضرت مسیح موعود (مرزا قادیانی) نے ان سے مباشرت ترک کر
.دی تھی
قادیانی ذہنیت کی پستی مالحظہ فرمائیں کہ مرزا بشیر احمد ایم اے جو مرزا قادیانی کی
دوسری بیوی نصرت جہاں بیگم کی اوالد میں سے ہے جب اپنی والدہ کا ذکر کرتا ہے تو
اسے ام المومنین کے لقب سے یاد کرتا ہے اور جب مرزا قادیانی کی پہلی بیوی کا ذکر
کرتا ہے تو اسے "پھجے کی ماں" کہتا ہے .پھجے سے مراد مرزا فضل احمد ہے جس نے
مرزا قادیانی کو نبی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا مرزا قادیانی نے محمدی بیگم کی
.وجہ سے حرمت بی بی کو طالق دے دی تھی
ان دونوں بیٹوں نے مرزا قادیانی کو دعوی نبوت میں کذاب سمجھا تھا۔
مرزا فضل احمد ،مرزا قادیانی (اپنے باپ) کی زندگی میں مر گیا لیکن مرزا نے اسکا
جنازہ نہ پڑھا ۔
)سیرت المہدی جلد 1صفحہ 750،751روایت نمبر 834، 835طبع جدید 2008ء(
.دوسری بیوی جسکا نام نصرت جہاں بیگم ہے اس سے نکاح 1884ء میں ہوا
نصرت جہاں بیگم کے متعلق مرزا قادیانی نے خود اعتراف کیا ہے کہ لوگ میری بیوی "
".پر الزام لگاتے ہیں کہ اسکی میرے بعض مریدوں سے آشنائی ہے
)کشف الغلطاء صفحہ 20 ٬ 16مندرجہ روحانی خزائن جلد 14صفحہ (203 ، 197
کیا وجہ ہے کہ حکیم نور الدین اور عبدالکریم سیالکوٹی باقی قادیانی جماعت کے "
برعکس نصرت جہاں بیگم کو " ام المومنین " کی بجائے
بیوی صاحبہ" کہتے تھے؟"
مرزا قادیانی کی دوسری بیوی نصرت جہاں سے درج ذیل اوالد ہوئی۔
" لڑکے"
"لڑکیاں"
ان میں سے فضل احمد ( جو پہلی بیوی سے تھا) بشیر اول ،شوکت احمد ،مبارک احمد،
عصمت اور امتہ النصیر کا مرزا کی زندگی میں میں ہی انتقال ہو گیا تھا۔
)جبکہ باقی اوالد سلطان احمد (پہلی بیوی سے
بشیر الدین محمود احمد ،بشیر احمد ،شریف احمد مبارکہ بیگم ،امتہ الحفیظ بیگم ) مرزا
قادیانی کی موت کے بعد بھی زندہ رہی۔
مرزا قادیانی نے اپنی لڑکی مبارکہ بیگم کا نکاح نواب محمد علی خان سے کیا اور اسکا
.حق مہر چھپن ہزار روپے مقرر کیا تھا
اور اپنی لڑکی امتہ الحفیظ کا نکاح نواب عبدہللا خان سے کیا اور اسکا حق مہر پندرہ ہزار
روپے مقرر کیا۔
"محمدی بیگم"
مرزا قادیانی کی ان دو بیویوں کے عالوہ ایک اور بیوی بھی تھی جسکے ساتھ بقول مرزا
.قادیانی کے اسکا نکاح آسمانوں پہ ہوا تھا
جسکا نام "محمدی بیگم" تھا مگر اسکے ساتھ کی شادی ساری زندگی نہ ہو سکی اسکا
.مفصل تذکرہ آیندہ پیش گوئیوں کے ذیل میں آئے گا
جھوٹے مدعی نبوت مرزا غالم احمد قادیانی کو درج ذیل بیماریاں لگی تھیں۔حاالنکہ مرزا
قادیانی نے لکھا تھا کہ اسے ہللا کی طرف سے الہام ہے کہ
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود کو پہلی دفعہ "
دوران سر اور ہسٹریا کا دورہ بشیر اول ہمارا ایک بڑا بھائی ہوتا تھا (جو 1888ء میں فوت
ہوگیا تھا) کی وفات کے چند دن بعد ہوا تھا۔رات کو سوتے ہوئے آپ کو اتھو آیا اور پھر اس
کے بعد طبیعت خراب ہوگئی۔ مگر یہ دورہ خفیف تھا۔ پھر اس کے کچھ عرصہ بعد آپ
ایک دفعہ نماز کے لئے باہر گئے اور جاتے ہوئے فرما گئے کہ آج کچھ طبیعت خراب
ہے۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ تھوڑی دیر بعد شیخ حامد علی (حضرت مسیح موعود کا
پرانا خادم تھا۔ اب فوت ہوچکا ہے) نے دروازہ کھٹکھٹایا کہ جلدی پانی کی ایک گاگر گرم
کردو۔ والدہ صاحبہ نے فرمایا کہ میں سمجھ گئی کہ حضرت صاحب کی طبیعت ہوگئی
ہوگی۔ چنانچہ میں نے کسی مالزم عورت کو کہا کہ اس سے پوچھو کہ میاں کی طبیعت کا
کیا حال ہے۔ شیخ حامد علی نے کہا کچھ خراب ہوگئی ہے۔ میں پردہ کرا کر مسجد میں چلی
گئی تو آپ لیٹے ہوئے تھے ۔ میں جب پاس گئی تو فرمایا میری طبیعت بہت خراب ہوگئی
تھی۔ لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھا رہا تھا کہ میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز
میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی گئی ہے۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر
گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔
والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ اس کے بعد آپ کو باقاعدہ دورے پڑنے شروع ہوگئے۔ خاکسار "
نے پوچھا کہ دوروں میں کیا ہوتا تھا۔ والدہ صاحبہ نے کہا کہ ہاتھ پاؤں ٹھنڈے ہوجاتے
تھے۔ اور بدن کے پٹھے کھنچ جاتے تھے۔ خصوصا گردن کے پٹھے اور سر میں چکر
"ہوتا تھا۔
پھر یک لخت بولتے بولتے آپ کو ابکائی آئی اور ساتھ ہی قے ہوئی جو خالص خون کی "
تھی۔ جس میں کچھ خون جما ہوا تھا۔ اور کچھ بہنے واال تھا۔ حضرت نے تکیے سے سر
اٹھا کر رومال سے اپنا منہ پونچھا۔ اور آنکھیں بھی پونچھیں۔ جو قے کی وجہ سے پانی لے
"آئی تھیں۔
" ۔ "مراق4
سیٹھ غالم نبی نے بذریعہ تحریر بیان کیا کہ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضرت خلیفتہ "
المسیح االول نے حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی) سے فرمایا کہ حضور غالم نبی کو
مراق ہے۔ تو حضور نے فرمایا ایک رنگ میں سب نبیوں کو مراق ہوتا ہے۔ اور مجھ کو
"بھی ہے۔
" ۔ "ہسٹریا5
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ میں نے کئی دفعہ حضرت "
"مسیح موعود (مرزا قادیانی ) سے سنا کہ مجھے ہسٹریا ہے۔
"۔ "سل6
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ ایک دفعہ تمارے دادا (مرزا غالم "
مرتضی ) کی زندگی میں حضرت صاحب کو سل ہوگئی ۔
)سیرت المہدی جلد 1صفحہ 49روایت نمبر 66طبع جدید 2008ء(
"۔ "نامردی7
"جب میں نے نئی شادی کی تھی۔ تو اس وقت تک مجھے یقین رہا کہ میں نامرد ہوں۔"
)مکتوبات احمد جلد 2صفحہ 27مکتوب نمبر 15مکتوب بنام حکیم نورالدین(
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی ) نے
فرمایا میری طبیعت بہت خراب ہوگئی تھی۔ لیکن اب افاقہ ہے۔ میں نماز پڑھا رہا تھا کہ
میں نے دیکھا کہ کوئی کالی کالی چیز میرے سامنے سے اٹھی ہے اور آسمان تک چلی
گئی ہے۔ پھر میں چیخ مار کر زمین پر گر گیا اور غشی کی سی حالت ہوگئی۔
دو مرض میرے الحق حال ہیں۔ ایک بدن کے اوپر کے حصہ میں اور دوسرا بدن کے "
نیچے کے حصے میں۔ اوپر کے حصے میں دوران سر ہے اور نیچے کے حصے میں
کثرت پیشاب ہے۔ اور دونوں مرضیں اس زمانہ سے ہیں جس زمانے میں میں نے اپنا
"دعوی مامور من ہللا ہونے کا شائع کیا ہے۔
مجھے دو مرض دامن گیر ہیں۔ ایک جسم کے اوپر کے حصہ میں۔ یعنی سردرد اور دوران
خون کم ہوکر ہاتھ پاؤں سردہوجانا۔ نبض کم ہوجانا۔ اور دوسرے جسم کے نیچے کے حصہ
"میں کہ کثرت پیشاب اور اکثر دست رہنا۔ اور یہ بیماریاں قریبا 30برس سے ہیں۔
بیان کیا مجھ سے حضرت والدہ صاحبہ نے کہ اوائل میں ایک دفعہ حضرت مسیح "
موعود(مرزاقادیانی) کو سخت دورہ پڑا۔ کسی نے مرزا سلطان احمد اور مرزا فضل احمد
کو بھی اطالع دے دی اور وہ دونوں آگئے۔ پھر ان کے سامنے بھی حضرت(مرزاقادیانی)
صاحب کو دورہ پڑا۔ والدہ صاحبہ فرماتی ہیں۔ اس وقت میں نے دیکھا کہ مرزا سلطان
احمد تو آپ کی چارپائی کے پس خاموشی کے ساتھ بیٹھے رہے۔ مگر مرزا فضل احمد کے
چہرہ پر ایک رنگ آتا تھا۔ اور ایک جاتا تھا۔ اور کبھی ادھر بھاگتا تھا۔ اور کبھی ادھر۔
کبھی اپنی پگڑی اتار کر حضرت صاحب (مرزاقادیانی) کی ٹانگوں کو باندھتا تھا۔ اور
"کبھی پاؤں دبانے لگ جاتا تھا اور گھبراہٹ میں اس کے ہاتھ کانپتے تھے۔
"مقعد سے خون"12.
ایک مرتبہ میں قولنج زحیری سے سخت بیمار ہوا اور سولہ دن تک پاخانہ کی راہ سے "
"خون آتا رہا۔ اور سخت درد تھا۔ جو بیان سے باہر ہے۔
ایک دفعہ والد صاحب(مرزا قادیانی) سخت بیمار ہوگئے۔ اور حالت نازک ہوگئی اور
حکیموں نے ناامیدی کا اظہار کردیا۔ اور نبض بھی بند ہوگئی مگر زبان جاری تھی۔ والد
صاحب(مرزا قادیانی) نے کہا کہ میرے اوپر اور نیچے کیچڑ کا کر رکھ دو۔ چنانچہ ایسا
"کیا گیا اور اس سے حالت روبا اصالح ہوگئی۔
آپ کی آنکھیں ہمیشہ نیم بند رہتی تھیں۔ اور ادھر ادھر آنکھیں اٹھاکر دیکھنے کی آپ کو "
عادت نہیں تھی۔ بسا اوقات ایسا ہوتا تھا کہ سیر میں جاتے ہوئے آپ کسی خادم کا ذکر
غائب کے صیغے میں فرماتے تھے۔ حاالنکہ وہ آپ کے ساتھ ساتھ جارہا ہوتا تھا۔ پھر کسی
"کے بتالنے پر آپ کو پتہ چلتا تھا کہ وہ شخص آپ کے ساتھ ہے۔
حضرت صاحب (مرزا قادیانی) کی آنکھوں میں مائی اوپیا تھا۔ اسی وجہ سے پہلی رات "
"کا چاند نہیں دیکھ سکتے تھے۔
)سیرت المہدی جلد 1صفحہ نمبر 624روایت نمبر 673جدید ایڈیشن 2008ء(
"۔"دائم المرض17
اس عاجز کی عمر اس وقت پچاس برس سے کچھ زیادہ ہے اور ضعیف اور دائم "
المرض اور طرح طرح کے عوارض میں مبتالہے ۔
یہ تو ہم نے مرزاقادیانی کی چند بیماریوں کا ذکر کیا ہے۔ ورنہ مرزا قادیانی کو 50سے
زائد بیماریاں لگی ہوئی تھیں۔
مرزاقادیانی کی وفات 26مئی 1908ء کو الہور میں ہیضہ کی بیماری سے وقتی بیت
الخالء میں ہوئی۔ اور پھر مرزا قادیانی کو قادیان میں دفن کیا گیا۔
:مرزا کے جانشین
"حکیم نورالدین"
مرزا غالم احمد قادیانی کی وفات 26مئی 1908ء بروز منگل الہور میں ہوئی اسکا پہال
خلیفہ حکیم نور الدین ہوا جو بھیرہ کا تھا یہ بڑا اجل طبیب تھا اور عالم تھا یہ کشمیر کے
راجہ کے پاس رہتا تھا .راجہ کشمیر نے اسے انگریز کی جاسوسی کے الزام میں نکال دیا
تھا اسکا چونکہ مرزا قادیانی سے پہلے سے رابطہ اور تعلق تھا اس لئے دونوں اکٹھے ہو
گئے پھر دونوں نے ملکر اس دھندے کو چالیا یہ اسکا دست راست تھا اور عالم میں اس
سے بہت اونچا تھا حکیم نور الدین کی خالفت 1914ء تک رہی ۔
مولوی محمد علی الہوری ،مرزا کا بڑا قریبی مرید تھا اور بہت پڑھا لکھا آدمی تھا قابلیت
کے لحاظ سے واقعی وہ خالفت کا حقدار تھا مگر مقابلہ میں چونکہ خود مرزا کا بیٹا تھا.
اس لیے اسکو کامیابی نہ ہوئی اور چونکہ مرزا بشیر الدین محمود احمد کے حق میں اسکی
والدہ کا ووٹ بھی تھا جسکو مرزائی"ام المومنین" کہتے ہیں اس لیے مرزا بشیر الدین
محمود احمد خلیفہ بن گیا .بوقت خالفت مرزا بشیر الدین محمود احمد کی عمر 24سال تھی۔
اس کی شہزادوں کی سی زندگی تھی اور خوب عیاش تھا1965 .ء تک یہ خلیفہ رہا اس نے
اپنے والد مرزا غالم احمد قادیانی کی سیرت پر کتاب بھی لکھی جسکا نام "سیرت مسیح
موعود" ہے اسکے عالوہ بھی اس نے متعدد کتب لکھیں۔
مرزا بشیرالدین محمود جس جماعت کا سربراہ بنا اس کو قادیانی جماعت کہتے ہیں۔ اور
محمد علی الہوری جس جماعت کا سربراہ بنا اس کو الہوری جماعت کہتے ہیں۔
"قادیانی جماعت"
مرزا بشیر الدین محمود کی وفات کے بعد اس کا بیٹا مرزا ناصر احمد قادیانی جماعت کا
تیسرا خلیفہ بنا ۔ یہ 1982ء تک خلیفہ رہا۔ 8اور 9جون 1982ء کی درمیانی شب ہارٹ
اٹیک سے فوت ہوا۔
قادیانی جماعت کے تیسرے خلیفہ مرزا ناصر احمد کی وفات کے بعد خالفت کے بارے
میں جھگڑا ہوا۔ بعض بیٹوں کی رائے تھی کہ مرزا بشیر الدین محمود کے بیٹے مرزا رفیع
احمد کو خلیفہ بنایا جائے جبکہ بعض دوسرے بیٹے مرزا طاہر احمد کو خلیفہ بنانے کے
حق میں تھے۔
بہرحال اسی کشمکش میں مرزا رفیع احمد کو اغواء کر لیا گیا اور یوں مرزا طاہر احمد جو
تیسرے قادیانی خلیفہ مرزا ناصر احمد کا بھائی بھی تھا وہ قادیانی جماعت کا چوتھا خلیفہ
بن گیا۔
مرزا طاہر احمد 18اپریل 2003ء تک اپنی وفات تک قادیانی جماعت کا چوتھا خلیفہ رہا۔
مرزا طاہر احمد کی وفات کے بعد ایک ہفتہ قادیانی خالفت کا جھگڑا چلتا رہا۔ آخر کار
مرزا مسرور احمد قادیانی جماعت کا پانچواں خلیفہ بن گیا ۔ جو ابھی تک قادیانی جماعت کا
پانچواں خلیفہ ہے۔
مرزا مسرور احمد ،مرزا بشیر الدین محمود کا نواسہ اور مرزا بشیر الدین محمود کے
بھائی مرزا شریف احمد کا پوتا ہے۔
"الہوری جماعت"
مولوی محمد علی الہوری نے 1914ء میں باقاعدہ علیحدہ دکان بنانا چاہی چنانچہ اس نے
بعد میں الہور آکر ایک تنظیم بنائی جسکا نام "انجمن اشاعت االسالم احمدیہ" رکھا اور خود
اس جماعت کا پہال امیر بنا .چونکہ مرکز انکے پاس نہ تھا اس لئے اسکا کام زیادہ نہ چال
لیکن بڑا سمجھدار تھا اپنی تنظیم کو خوب مضبوط کیا اور غیر ممالک میں پھیالیا اور غیر
ممالک میں اسکی جماعت کو بڑی کامیابی ہوئی .یہ مرزا کو نبی نہیں مانتے بلکہ محض
مصلح یا مجدد مانتے ہیں اور نبوت کو ختم مانتے ہیں (مولوی محمد علی الہوری کچھ
عرصہ تک قادیان میں ہی رہا) پھر اس نے الہور میں ڈیرا لگایا اور علیحدہ جماعت (انجمن
اشاعت االسالم احمدیہ) کہ بنیاد رکھی ۔ اسکو اور اسکے ساتھیوں کو غیر مبایعین کے نام
.سے پکارا جاتا تھا .یہ لوگ 1920ء تک قادیان میں رہے اور پھر مستقل الہور آ گے
گو ظاہر طور پر کوئی اختالف جماعت میں نہیں ہوا لیکن دو قسم کے اختالفی امور ان "
ایام میں پیدا ہو گئے تھے جنکے زیادہ قوت پکڑنے می صرف مولوی نور الدین صاحب
کی زبردست شخصیت مانع رہی ان میں سے ایک امر خلیفہ اور انجمن کے تعلقات تھے
اور دوسرا امر مسلمانوں کی تکفیر کا مسئلہ تھا.........مسئلہ نبوت مسیح موعود جو آج کل
فریقین کے درمیان اختالف کا اہم مسئلہ سمجھا جاتا ہے در حقیقت اس مسئلہ تکفیر سے پیدا
ہوا ہے .کیونکہ تکفیر بغیر اسکے صحیح نہ ہو سکتی تھی کہ حضرت مرزا صاحب کو
منصب نبوت پر کھڑا کیا جائے چنانچہ اسی بنا پر مارچ 1914ء میں جماعت احمدیہ کے
دو گروہ ہو گئے فریق اول یعنی اس فریق کا جو مسلمانوں کی تکفیر کرتا ہے اور
آنحضرت صل ہللا علیہ و سلم کے بعد دروازہ نبوت کو کھال مانتا ہے ہیڈ کوارٹر قادیان رہا
".اور دوسرے فریق نے اپنا ہیڈ کوارٹر الہور میں قائم کیا
ہم کہتے ہیں یہ محض انکی منافقت ہے اگر انکا اختالف حقیقی ہے تو الہوری جماعت
والوں کوچایئے کہ وہ قادیانیوں کو کافر کہیں کیونکہ وہ ایک غیر نبی کو نبی مانتے ہیں
اور سلسلہ نبوت جاری مانتے اسی طرح قادیانیوں کوبھی چاہیے کہ وہ الہوریوں کو کافر
.کہیں کیونکہ وہ ایک سچے نبی کی نبوت کے منکر ہیں
مولوی محمد علی الہوری کا دور امارت 1914ء سے 1951ء تک رہا .اس نے پڑھے
لکھے جدید طبقہ اور بیرون ملک کام کیا اور جماعت کو منظم کیا .قرآن کریم کی تفسیر
انگریزی اور اردو زبان میں لکھی اور ارتدادی سر گرمیوں میں سرگرم رہا اسکی تفسیر
کو دیکھ کر کئی مسلمان رہنما بھی اس سے متاثر ہوئے .جامعة اال زہر مصر میں بھی اس
نے اپنا اثر و رسوخ پیدا کیا اور حیات مسیح کے مسئلہ میں انکے بعض حضرات آج بھی
.اس سے متاثر ہیں
)خالصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2013ء شمارہ نمبر (24، 23
مولوی صدر الدین کا دور امارت 1951ء تا 1981ء ہے .مولوی صدر الدین جنوری "
1881ء میں پیدا ہوا .تعلیم کے بعد قادیان میں تعلیم االسالم ہائی سکول میں بطور ہیڈ ماسٹر
کام کرتا رہا .خواجہ کمال الدین کے ساتھ ملکر تبلیغی پروگرام'رسالہ اسالمک ریویو'
انگریزی ترجمہ قرآن' برلن میں الہوری جماعت کی عبادت گاہ ( بقول انکے مسجد) وغیرہ
سلسلوں میں کام کرتا رہا .الہور میں احمدیہ مارکیٹ اور دار السالم کالونی تعمیر کروائی.
1961ء اور 1962ء میں نائجیریا' لیگوس اور گھانا میں مشن قائم کئے1953 .ء اور
1974ء کی تحریک میں الہوری گروپ کی طرف سے مسلمانوں کے خالف برسر پیکار
".رہا
)خالصہ تحریر پندرہ روزہ "پیغام صلح "یکم تا 31دسمبر 2013ء شمارہ نمبر (24 ،23
ڈاکٹر سعید احمد خان کا دور امارت 1981ء تا 1996ء ہے تعلیم کی ابتدا تا نامی گاؤں "
کے سکول سے کی .چوتھی جماعت میں مانسہرہ کے سکول میں داخل ہوا .پھر قادیان میں
زیر تعلیم رہا .فراغت کے بعد ڈاکٹری کے شعبہ سے وابستہ ہوا1981 .ء میں مولوی صدر
الدین کے مرنے کے بعد جماعت کا سربراہ بنا .ایبٹ آباد میں ثمر سکول کے نام سے
"ساالنہ تربیتی کورس" کا آغاز کیا جو اب تک ہر سال منعقد ہوتا چال آ رہا ہے .اسکے دور
امارت میں دار السالم میں گرلز ہاسٹل میں تعمیر ہوئی .افریقہ کورٹس کیس اور 1984ء
".کی تحریک میں مسلمانوں کے مقابلے میں کام کرتا رہا .آخر کار 1996ء میں آنجہانی ہوا
)خالصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2013ء شمارہ نمبر (24 23
ڈاکٹر اصغر حمید کا دور امارت 1996ء تا 2003ء ہے امیر مقرر ہونے سے پہلے "
انجینئرنگ یونیورسٹی کے شعبہ ریاضی کے ڈین رہ چکا تھا .اس نے اپنے دور امارت
میں قرآن مجید کی روسی زبان میں ترجمہ و تفسیر کروا کر تقسیم کی .مرزا قادیانی کی
کتاب "کتاب البریہ" کا خود انگریزی میں ترجمہ کیا اور لندن جماعت کے ذریعے شائع
کروایا .مرزا قادیانی کے خود ساختہ "نظریہ سفر مسیح" (فلسطین سے کشمیر تک) پر
انگریزی میں کتاب لکھی .دار السالم کی جامع (مسجد) میں توسیع کی .ہر روز درس قرآن
) (AAIILکا سلسلہ شروع کر کے تفسیر کی تکمیل کی .انجمن احمدیہ اشاعت اسالم الہور
".ویب سائٹ کا آغاز کیا2003 .ء میں آنجہانی ہوا
)خالصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2013ء شمارہ نمبر (24 23
پروفیسر ڈاکٹر عبدالکریم سعید 2003ء میں امیر بنا .اس وقت یہ ایوب میڈیکل کالج میں
پروفیسر تھا .امارت کے بعد مالزمت کو خیر باد کہہ دیا .یہ صاحب تا حال بڑی محنت کے
ساتھ ارتدادی سر گرمیوں میں پوری دنیا میں برسر پیکار ہے.اور جدید تعلیم یافتہ اور
"سیکولر طبقہ کو زندیق اور مرتد بنانے میں لگا ہوا ہے۔
)خالصہ تحریر پندرہ روزہ پیغام صلح یکم تا 31دسمبر 2013ء شمارہ نمبر (24، 23
ان دو پارٹیوں کے عالوہ مرزائیوں کی چند اور پارٹیاں بھی ہیں مگر یہ دونوں پارٹیاں
.زیادہ مشہور ہیں
.ان دو پارٹیوں کا مباحثہ چار نکات پر راولپنڈی میں ہوا تھا.جو کہ درج ذیل ہے
۔مرزا غالم احمد قادیانی کی پیش گوئی متعلقہ مصلح موعود کا مصداق کون ہے؟ 1
۔ مرزا قادیانی کی جانشین انجمن ہے یا خلیفہ؟ 2
۔ مرزا نبی ہے یا مجدد؟ 3
۔ مرزا کا منکر کافر ہے یا نہیں؟ 4
یہ مباحثہ بصورت رسالہ " مباحثہ راولپنڈی" کے نام سے شائع ہوا .یہ ایک نہایت اہم رسالہ
.ہے .اس میں دونوں پارٹیوں کے دالئل خود مرزا کی تحریرات سے موجود ہیں
جھوٹے مدعی نبوت مرزا غالم احمد قادیانی نے صرف نبوت اور رسالت کا دعوی نہیں کیا
بلکہ اس کے عالوہ اور بھی بہت سے دعوے کئے ہیں۔
مرزا قادیانی کے چند باطل اور کفریہ دعوے مالحظہ فرمائیں ۔ اور خود فیصلہ کریں کہ
کیا ایسے کفریہ اور باطل دعوے کرنے واال مسلمان تو درکنار ایک عقلمند انسان کہالنے
کا مستحق بھی ہے؟؟؟؟
ان عقائد کو ایک بار نہیں بار بار پڑھیں اور خود مرزاقادیانی کے بارے میں فیصلہ کریں۔
کہ کیا مرزاقادیانی ایک عقلمند انسان کہالنے کے الئق بھی ہے یا نہیں؟
آیئے مرزاقادیانی کے دعوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔
دعوی"
ٰ 1۔"1881ءحجر اسود ہونے کا
ایک شخص نے میرے پاؤں کو چوما اور میں نے اسے کہا کہ حجر اسود میں ہوں۔
"جب تیرھویں صدی کا اخیر ہوا اور چودھویں صدی کا ظہور ہونے لگا تو خدا ٰ
تعالی نے
الہام کے ذریعے سے مجھے خبر دی کہ تو اس صدی کا مجدد ہے۔"
دعوی"
ٰ 3۔"1882ء مامور ہونے کا
اس کے عالوہ مرزا قادیانی نے 1884ء میں اشارتا اور 1891ء میں صراحتا مامور من ہللا
ہونے کا دعوی بھی کیا ہے۔
دعوی "
ٰ "1884ء مامور من ہللا ہونے کا اشارتا
"خداوند کریم نے جو اسباب اور وسائل اشاعت دین کے اور دالئل اور براہین اتمام حجت
کے محض اپنے فضل اور کرم سے اس عاجز کو عطا فرمائے ہیں۔ وہ امم سابقہ میں سے
آج تک کسی کو عطا نہیں فرمائے ۔ اور جو کچھ اس بارے میں توفیقات غیبیہ اس عاجز کو
دی گئی ہیں۔ وہ ان میں سے کسی کو نہیں دی گئیں۔ وذلک فضل ہللا یوتیه من یشاء۔ سو
چونکہ خداوند کریم نے اسباب خاصہ سے اس عاجز کو مخصوص کیا ہے۔"
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 502مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ )597
دعوی "
ٰ "1891ء مامور من ہللا ہونے کا صراحتا
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 767مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ )514
دعوی"
ٰ 4۔ "1882ء ملہم ہونے کا
"اس قسم کے الہام بھی یعنی جو سخت اور گراں صورت کے الفاظ خدا کی طرف سے
زبان پر جاری ہوتے ہیں۔"
(براہین احمدیہ حصہ سوم صفحہ 225مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ )249
دعوی"
ٰ 5۔"1882ء نذیر ہونے کا
علَّ َم الۡقُرۡ ٰانَ ۔ ِلتُنۡذ َِر قَوۡ ًما َّما اُنۡذ َِر ٰابَآٰؤُ ہ ُمۡ۔ خدا نے تجھے قرآن سکھالیا "ا َ َّ
لرحۡمٰ ُن َ
تاکہ تو ان لوگوں کو ڈرائے۔ جن کے باپ دادے ڈرائے نہیں گئے"
دعوی"
ٰ 6۔"1883ءسلطان القلم ہونے کا
مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ مجھے الہام ہوا ہے
ک الۡ َجنَّ َۃ۔یا ک الۡ َجنَّ َۃ۔یا مریم اسۡ ُکنۡ اَنۡ َ
ت َو زَ وۡ ُج َ "ی ٰادَ ُم اسۡ ُکنۡ اَنۡ َ
ت َو زَ وۡ ُج َ ٰ
ک الۡ َجنَّ َۃ۔ نفخت فیك من لدنی روح الصدق" ت َو زَ وۡ ُج َ احمد اسۡ ُکنۡ اَنۡ َ
اے آدم ،اے مریم ،اے احمد! تو اور جو شخص تیرا تابع اور رفیق ہے۔ جنت میں یعنی
نجات حقیقی کے وسائل میں داخل ہوجاؤ۔ میں نے اپنی طرف سے سچائی کی روح تجھ میں
پھونک دی ہے۔"
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 497مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ )590
"مریم سے مریم ام عیسی مراد نہیں۔ اور نہ آدم سے آدم ابوالبشر مراد ہے اور نہ احمد سے
اس جگہ حضرت خاتم االنبیاء صلی ہللا علیہ وسلم مراد ہیں۔ اور ایسا ہی ان الہامات کے
تمام مقامات میں کہ جو موسی اور عیسی اور داؤد وغیرہ نام بیان کئے گئے ہیں۔ ان ناموں
سے بھی وہ انبیاء مراد نہیں بلکہ ہر ایک جگہ یہی عاجز مراد ہے۔"
(مکتوبات احمد جلد 1صفحہ 82پرانا ایڈیشن ٬مکتوب بنام میر عباس علی)
(مکتوبات احمد جلد 1صفحہ 599جدید ایڈیشن ٬٬مکتوب بنام میر عباس علی)
دعوی "
8۔"1883ء محدث ہونے کا ٰ
دعوی"
ٰ 9۔"1884ء تمام جہانوں پر فضیلت کا
الہام " :انی فضلتک علی العالمین قل ارسلت الیکم جمیعا"
میں نے تجھ کو تمام جہانوں پر فضیلت دی کہ میں تم سب کی طرف بھیجا گیا ہوں۔
دعوی"
10۔ "1884ءیوسف ہونے کا ٰ
"وکذلک مننا على یوسف لنصرف عنه السوء والفحشاء ولتنذر قوما ما انذر أباءھم فھم
غفلون۔
اور اسی طرح ہم نے یوسف پر احسان کیا تاکہ ہم اس سے بدی اور فحش کو روک دیں۔
اور تا تو ان لوگوں کو ڈراوے جن کے باپ دادوں کو کسی نے نہیں ڈرایا ۔ سو وہ غفلت
میں پڑے ہوئے ہیں۔
اس جگہ یوسف کے لفظ سے یہی عاجز (مرزا قادیانی) مراد ہے۔"
(براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 555مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ )661،662
"ہللا جل شانہ کی وحی اور الہام سے میں نے مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے۔ اور یہ
بھی میرے پر ظاہر کیا گیا ہے کہ میرے بارے میں پہلے سے قرآن شریف اور احادیث
نبویہ میں خبر دی گئی ہے اور وعدہ دیا گیا ہے۔"
(ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 634مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ )442
(تذکرہ صفحہ 150طبع چہارم )
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 95مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ )124
(تذکرہ صفحہ 164طبع چہارم)
"بشرنی وقال إن المسیح الموعود الذی یرقبونه والمھدی المسعود الذی ینتظرونه ھو انت"
"خدا نے مجھے بشارت دی اور کہا کہ وہ مسیح موعود اور مہدی مسعود جس کا انتظار
کرتے ہیں وہ تو ہے۔"
ٰ
خداتعالی کے فضل اور عنایت سے وہ امام زماں "سو میں اس وقت بے دھڑک کہتا ہوں کہ
میں ہوں۔"
دعوی"
ٰ 18۔"1900ءزندگی اور موت کے مالک ہونے کا
دعوی "
ٰ 19۔"1900ءمدینة العلم ہونے کا
"خدا نے اپنے الہام میں میرا نام "بیت ہللا" بھی رکھا ہے۔
"بعض نبیوں کی کتابوں میں میری نسبت بطور استعارہ فرشتہ کا لفظ آگیا ہے۔ اور دانی ایل
نبی نے اپنی کتاب میں میرا نام میکائیل رکھا ہے۔"
"اور میں خاتم االولیاء ہوں میرے بعد کوئی ولی نہیں۔"
(خطبہ الہامیہ صفحہ 35مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ )70
"میں مستقل طور پر شریعت النے واال نہیں ہوں اور نہ ہی مستقل طور پر نبی ہوں۔"
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )210
دعوی "
ٰ 24۔"1901ءخاتم االنبیاء ہونے کا
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5مندرجہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )212
دعوی"
ٰ 25۔"1902ء حاملہ ہونے کا
"میرا نام مریم رکھا پھر دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی۔ اور پردہ
میں نشوونما پاتا رہا۔ اور پھر جب اس پر دو برس گزر گئے تو مریم کی طرح عیسی کی
روح مجھ میں نفخ کی گئی۔ اور استعارہ کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا۔ آخر کئی
ماہ کے (حمل کے) بعد جو 10مہینے سے زیادہ نہیں مجھے مریم سے عیسی بنایا گیا۔ پس
اس طور سے میں ابن مریم ٹھرا۔"
"میں اپنے خاندان کی نسبت کئی دفعہ لکھ چکا ہوں کہ وہ ایک شاہی خاندان ہے۔ اور بنی
فارس اور بنی فاطمہ کے خون سے معجون مرکب ہے۔"
"خدا ،رسول تمام نبیوں نے آخری زمانہ کے مسیح موعود کو (یعنی مرزا قادیانی کو)
مسیح ابن مریم (یعنی عیسی علیہ السالم ) سے افضل قرار دیا ہے ۔
یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا جائے کہ تم (یعنی مرزا قادیانی ) مسیح ابن مریم (یعنی
عیسی علیہ السالم)
سے اپنے آپ کو افضل قرار دیتے ہو"۔
"خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی
کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا۔ یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا۔
پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا۔ درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ
میں داخل ہوا۔"
(اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 71مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ
)183
دعوی"
ٰ 30۔"1904ءعرش خدا ہونے کا
پس چونکہ ان ایام میں خدا کی صفات اپنی پوری تجلی سے کام کررہی ہیں۔ اس مناسبت
کے لحاظ سے عرش کہا گیا۔"
"ایسا ہی راجہ کرشن کے رنگ میں بھی ہوں۔ جو ہندو مذہب کے تمام اوتاروں میں سے
بڑا اوتار تھا۔"
(لیکچر سیالکوٹ صفحہ 33مندرجہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ )228
(تتمہ حقیقة الوحی صفحہ 85مندرجہ روحانی خزائن جلد 222صفحہ )521،522
(تذکرہ صفحہ 311طبع چہارم 2004ء)
"جبکہ میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں۔ اور بروزی رنگ میں تمام کماالت محمدی
مع نبوت محمدیہ کے میرے آیئنہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کون سا الگ انسان ہوا جس
دعوی کیا۔"
نے علیحدہ طور پر نبوت کا ٰ
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )212
"میں رسول بھی ہوں اور نبی بھی ہوں۔ یعنی بھیجا گیا بھی اور خدا سے غیب کی خبریں
پانے واال بھی۔"
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )211
"خدا وہ خدا ہے جس نے اپنے رسول کو یعنی اس عاجز کو ہدایت اور دین حق اور تہذیب
اخالق کے ساتھ بھیجا۔"
"وہ قادر خدا قادیان کو طاعون کی تباہی سے محفوظ رکھے گا۔ تاتم سمجھو کہ قادیان اسی
لئے محفوظ رکھی گئی کہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان میں تھا۔"
"اب ظاہر ہے کہ ان الہامات میں میری نسبت بار بار بیان کیا گیا ہے کہ یہ خدا کا فرستادہ،
خدا کا مامور ،خدا کا امین اور خدا کی طرف سے آیا ہے۔ جو کچھ کہتا ہے۔ اس پر ایمان
الؤ۔ اور اس کا دشمن جہنمی ہے۔"
(رسالہ دعوت قوم صفحہ 62مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )62
34۔"1900ء تا 1908ء مستقل صاحب شریعت نبی اور رسول ہونے کا دعوی"
"جس نے اپنی وحی کے ذریعےسے چند امر اور نہی بیان کئے اور اپنی امت کے لئے
ایک قانون مقرر کیا وہی صاحب شریعت ہوگیا۔
پس اس تعریف کی رو سے بھی ہمارے مخالف ملزم ہیں۔ کیونکہ میری وحی میں امر بھی
ہیں اور نہی بھی۔
مثال یہ الہام :قل للمؤمنین یغضوا من ابصارھم و یحفظوا فروجھم ذلك ازكى لھم
یہ براہین احمدیہ میں درج ہے اور اس میں امر بھی ہے اور نہی بھی۔
" انا أرسلنا الیکم رسوال شاھدا علیکم کما أرسلنا الی فرعون رسوال"
ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے اسی رسول کی مانند جو فرعون کی طرف
بھیجا گیا تھا۔
دعوی"
35۔1900ء تا 1908ءآخری نبی ہونے کا ٰ
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )215
"خدا نے اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کہ میں اس کی طرف سے ہوں اس قدر نشان
دکھالئے ہیں کہ اگر وہ 1ہزار نبیوں پر تقسیم کئے جائیں تو ان کی ان سے نبوت ثابت
ہوجائے۔ "
"خدا ٰ
تعالی نے مجھے تمام انبیاء کا مظہر ٹہرایا ہے اور تمامال نبیوں کے نام میری طرف
منسوب کیے ہیں۔ میں آدم ہوں۔ میں شیث ہوں۔ میں نوح یوں۔ میں ابراہیم ہوں۔ میں اسحاق
ہوں۔ میں اسماعیل ہوں۔ میں یعقوب ہوں۔ میں یوسف ہوں۔ میں موسی ہوں۔ میں داؤد ہوں۔
میں عیسی ہوں۔ اور آنحضرت ﷺکے نام کا میں مظہراتم ہوں۔ یعنی ظلی طور پرمحمد ﷺ
اور احمدﷺ ہوں۔"
"خدا نے مجھ پر اس رسول کریم کا فیض نازل فرمایا اور اس کو کامل بنایا اور اس نبی
کریم کے لطف اور جود کو میری طرف کھینچا۔ یہاں تک کہ میرا وجود اس کا وجود ہوگیا۔
پس وہ جو میری جماعت میں داخل ہوا۔ درحقیقت میرے سردار خیر المرسلین کے صحابہ
میں داخل ہوا۔"
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 97مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ )127
"سو میں سچ مچ کہتا ہوں کہ قرآن شریف کی آئیندہ پیشگوئی کے مطابق وہ ذوالقرنین میں
ہوں۔ جس نے ہر ایک قوم کی صدی کو پایا۔"
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 146روحانی خزائن جلد 21صفحہ )314
دعوی"
43۔"سور مار ہونے کا ٰ
مرزاقادیانی کے مرید مفتی صادق نے لکھا ہے کہ
"ایک دفعہ قادیان میں آوارہ کتے بہت ہوگئے ان کی وجہ سے شوروغل رہتا تھا۔ پیر سراج
الحق صاحب نے بہت سے کتوں کو زہر دے کر مار ڈاال۔ اس پر بعض لڑکوں نے پیر
صاحب کو چڑانے کے واسطے ان کا نام
"پیر کتے مار" رکھ دیا۔ پیر صاحب حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی ) کی خدمت میں
شاکی ہوئے۔کہ لوگ مجھے کتے مار کہتے ہیں۔ حضرت صاحب(مرزاقادیانی ) نے تبسم
کے ساتھ فرمایا۔ کہ اس میں کیا حرج ہے۔ دیکھئے حدیث شریف میں مجھے سور مار لکھا
ہے۔ کیونکہ مسیح کی تعریف میں آیا ہےکہ ویقتل الخنزیر ۔ پیر صاحب اس پر بہت خوش
ہوکر چلے آئے"
عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو نبوت کے معیار پر پرکھیں اگر تو
مرزاقادیانی نبوت کے معیار پر پورا اترے تو اس کو سچا مان لیں اور اگر مرزاقادیانی
نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو پھر مرزاقادیانی "کذاب" ہے۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ مرزاقادیانی کو نبوت کے معیار پر تو
تب پرکھیں گے جب نبوت کا دروازہ کھال ہو اور نبیوں کے آنے کا سلسلہ جاری ہو ۔
چونکہ اب نبوت کا دروازہ میرے آقا ﷺ پر بند ہوچکا ہے اور کسی بھی انسان کو نبوت
نہیں مل سکتی اس لئے کوئی کتنا ہی پارسا ہو اگر وہ نبوت کا دعوی کرے تو وہ "کذاب"
ہے۔ اور اس کو کسی معیار پر پرکھنا غلط ہے۔
لیکن قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزاقادیانی کو نبوت کے معیار پر پرکھتے
ہیں۔
نبی کی ایک صفت یہ بھی ہوتی ہے کہ نبی کی باتیں متضاد نہیں ہوتیں ۔ اور ایک مسلمہ
اصول ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹ بولنے واال نبی نہیں ہو سکتا ۔
ویسے تو مرزا قادیانی کی تحریرات میں بےشمار تضادات ہیں۔ لیکن ہم مرزاقادیانی کی
چند متضاد تحریرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
تعالی نے جب ہمارے نبی اور سردار دو "اور خدا کی پناہ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ ہللا ٰ
"جہاں محمد مصطفی ﷺ کو خاتم النبیین بنادیا۔ میں نبوت کا مدعی بنتا۔
میرے نزدیک ممکن ہے کہ آئیندہ زمانوں میں میرے جیسے اور دس ہزار مثیل مسیح بھی
"آجایئں۔
میرا مذہب یہی ہے کہ میرے دعوے کے انکار سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا"۔"
اب جو شخص خدا اور رسول کے بیان کو نہیں مانتا اور قرآن کی تکذیب کرتا ہے۔ اور "
تعالی کے نشانوں کو رد کرتا ہے۔ اور مجھ کو باوجود صدہا نشانوں کے مفتری
ٰ عمدا خدا
"ٹھہراتا ہے وہ مومن کیونکر ہوسکتا ہے۔
وہ آتھم جو ہمارے آخری اشتہار سے جو اتمام حجت کی طرح تھا سات ماہ کے اندر فوت "
ہو جائے گا"۔
تضاد نمبر6
آپ (حضرت یسوع مسیح )کو گالیاں دینے اور بدزبانی کی عادت تھی۔"
)ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (289
ایک شریر مکار نے جس میں سراسر یسوع کی روح تھی لوگوں میں مشہور کر دیا"۔"
)ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (289
مجھے یسوع مسیح کے رنگ میں کیا گیا اور توارد طبع کے لحاظ سے یسوع کی روح "
میرے اندر رکھی۔ اس لئے ضرور تھا کہ گم گشتہ ریاست میں بھی مجھے یسوع مسیح کے
"ساتھ مشابہت ہوتی۔
یسوع اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہہ سکا کہ لوگ جانتے تھے کہ یہ شخص شرابی "
کبابی اور خراب چال چلن ناخدائی کے بعد بلکہ ابتدا ہی سے ایسا معلوم ہوتا ہے چنانچہ
"خدائی کا دعوی شراب خوری کا ایک بدنتیجہ ہے۔
)ست بچن صفحہ 172مندرجہ روحانی خزائن جلد 10صفحہ (296
جس کو عیسائیوں نے خدا بنا رکھا ہے اس نے کہا کہ اے نیک استاد تو اس نے جواب "1.
دیا کہ تو مجھے کیوں نیک کہتا ہے۔ نیک کوئی نہیں سوائے خدا کے یہی تمام اولیاء کا
"شعار رہا۔سب نے استغفار کو اپنا شعار بنایا۔
حضرت مسیح تو ایسے خدا کے متواضع اور حلیم اور صابر اور بے نفس بندے تھے "2.
کہ انہوں نے کہ بھی روانہ رکھا کہ کوئی انکو نیک آدمی کہے"۔
)براہین احمدیہ حصہ دوم صفحہ 104مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ (94
حضرت مسیح کی چڑیاں باوجود یہ کہ معجزہ کے طور پر انکا پرواز کرنا قرآن کریم "
"سے ثابت ہوتا ہے۔مگر پھر بھی مٹی کا مٹی ہی رہتا ہے۔
)آیئنہ کماالت اسالم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ (5
اور یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ان پرندوں کا پرواز کرنا قرآن مجید سے ہر گز ثابت نہیں "
"ہوتا۔
آپ نے ایک جوان کنجری کو موقع دیا کہ وہ آپکے سر پر ناپاک ہاتھ الئے اور زنا کاری "
کا پلید عطر اسکے سر پر ملے"۔
)ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ ( 291
اگر کوئی حضرت مسیح کی نسبت یہ زبان پر الئے کہ وہ طوائف کے گندے مال کو کام "
میں الیا تو ایسے خبیث کی نسبت اور کیا کر سکتے ہیں کہ اس کی فطرت ان ناپاک لوگوں
کی فطرت سے مفائر پڑی اور شیطان کی فطرت کا موافق اس پلید کا مادہ اور خمیر ہے"۔
)آیئنہ کماالت اسالم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ (5
آپ نہیں جانتے کہ ہمارے نزدیک وہ جوان ہر ایک زنا کار سے بدتر ہے جو انسان کے "
"پیٹ میں سے نکل کر خدا ہونے کا دعوی کرے۔
)نور القرآن نمبر 2صفحہ 12مندرجہ روحانی خزائن جلد 9صفحہ (394
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 146مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (174
)ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 722مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (488
میں حضرت مسیح یسوع مسیح کی طرف سے ایک سچے سفیر کی حثیت میں کھڑا ہوں"۔"
)تحفہ قیصریہ صفحہ 22مندرجہ روحانی خزائن جلد 12صفحہ (274
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 158مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (180
بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں ہوئے جن سے مجھے کچھ واقفیت نہیں تھی۔جیسے "
انگریزی ،سنسکرت یا عبرانی وغیرہ"۔
)مسیح ہندوستان میں صفحہ 20مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ (22
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 381مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (296
قادیان طاعون سے اس لئے محفوظ رکھی گئی کہ وہ خدا کا رسول اور فرستادہ قادیان "
میں تھا"۔
معزز قارئین اوپر پیش کئے گئے مرزاقادیانی کے تضادات کو بار بار پڑھیں آپ کو خود
اندازہ ہوجائے گا کہ مرزاقادیانی کی ان تحریرات میں کھال تضاد ہے۔ اور دونوں تحریرات
میں سے ایک ہی سچی ہوسکتی ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی کی تحریرات میں کھال
تضاد تھا یعنی واضح جھوٹ تھا۔
اور ضابطہ یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔
عام طور پر قادیانی کہتے ہیں کہ مرزاقادیانی کو نبوت کے قرآنی معیار پر پرکھتے ہیں
اگر مرزاقادیانی نبوت کے معیار پر پورا اترے تو اس کو سچا تسلیم کر لیں۔ اور اگر
مرزاقادیانی نبوت کے معیار پر پورا نہیں اترتا تو مرزاقادیانی کذاب ہے۔
قادیانیوں کی یہ بات اصولی طور پر غلط ہے کیونکہ جب نبوت کا دروازہ میرے آقا ﷺ پر
ہللا ٰ
تعالی نے بند کر دیا ہے تو کسی نئے نبی کی گنجائش دین اسالم میں نہیں ہے۔ اور جو
کوئی بھی نئی نبوت کا دعوی کرے تو وہ کذاب ہے۔
لیکن آیئے قادیانیوں پر حجت تام کرنے کے لئے مرزاقادیانی کو نبوت کے قرآنی معیار پر
پرکھتے ہیں۔لیکن اس معیار پر پرکھنے سے پہلے مرزاقادیانی کی اس بارے میں تحریرات
پر نظر ڈالتے ہیں۔
یہ سلسلہ بالکل منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے۔ اس کا پتہ اس طرز پر لگ سکتا ہے۔ جس "
"طرح انبیاء علیہم السالم کی حقانیت معلوم ہوئی۔
)ملفوظات جلد 1صفحہ 412ملفوظ 26دسمبر 1900ء پرانا ایڈیشن 5جلدوں واال(
میں اپنے دعوی کو منہاج نبوت پر پیش کرتا ہوں۔ منہاج نبوت پر جو طریق ثبوت کا "
رکھا ہوا ہے۔ وہ مجھ سے جس کا جی چاہے لے لے"۔
میرا سلسلہ منہاج نبوت پر قائم ہوا ہے ۔ اس منہاج کو چھوڑ کر جو اس کوآزمانا چاہے وہ "
غلطی پر ہے"۔
ترجمہ
یہ رسول اس چیز پر ایمان الئے ہیں جو ان کی طرف ان کے رب کی طرف سے نازل "
کی گئی ہے ۔ اور تمام مسلمان بھی۔ یہ سب ہللا پر ،اس کے فرشتوں پر ،اس کی کتابوں پر
اور اس کے رسولوں پر ایمان الئے ہیں"۔
مندرجہ باال آیت سے پتہ چال کہ رسول سب سے پہلے اپنے اوپر نازل ہونے والی وحی پر
ایمان التا ہے کہ وہ ہللا کی طرف سے ہے۔ یہ بات اس لئے بھی ہے کیونکہ جب تک کسی
بندے کو خود پتہ نہ ہو کہ اس کی حیثیت کیا ہے تو وہ اپنے اختیارات کو کیا استعمال کر
سکتا ہے؟
نبی کے لئے اس کے دعوی اور تعلیم کی مثال ایسی ہے جیسا کہ قریب سے آنکھ چیزوں "
کو دیکھتی ہے اور ان میں غلطی نہیں کرتی۔ اور بعض اجتہادی امور میں غلطی ایسی ہے
جیسے دور کی چیزوں کو دیکھتی ہے"۔
اعجاز احمدی ضمیمہ نزول مسیح صفحہ 25مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ (
)134
اصل بات یہ ہے کہ جس یقین کو نبی کے دل میں اس کی نبوت کے بارے میں بٹھایا جاتا "
ہے ۔ وہ دالئل تو آفتاب کی طرح چمک اٹھتے ہیں۔ اور اس قدر تواتر سے جمع ہوئے ہیں
کہ وہ امر بدیہی ہوجاتا ہے۔ پھر بعض دوسری جزئیات میں اگر اجتہادی غلطی ہو بھی تو
وہ اس یقین کو مضر نہیں ہوتی۔ نبیوں اور رسولوں کو ان کے دعوی سے متعلق بہت
نزدیک سے دیکھایا جاتا ہے۔ اور اس میں اس قدر تواتر ہوتا ہے جس میں کچھ شک باقی
نہیں رہتا"۔
اعجاز احمدی ضمیمہ نزول مسیح صفحہ 26مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ (
)135
مرزاقادیانی کی اس عبارت سے پتہ چال کہ انبیاء کرام علیہم السالم کو اپنی نبوت کے
بارے میں کسی بھی قسم کا کوئی شبہ نہیں رہتا۔
براہین احمدیہ میں بھی یہ الفاظ کچھ تھوڑے نہیں۔ چنانچہ صفحہ 498میں صاف طور پر "
اس عاجز کو رسول کر کے پکارا گیا ہے۔ پھر اسی کتاب میں یہ وحی ہللا ہے کہ خدا کا
رسول نبیوں کے حلوں میں۔
پھر اسی کتاب میں یہ وحی ہللا ہے کہ محمد الرسول ہللا۔۔۔۔ الخ۔ اس وحی الہی میں میرا نام
محمد رکھا گیا ہے اور رسول بھی ۔ اس طرح کئی جگہ رسول کے لفظ سے اس عاجز کو
یاد کیا گیا"۔
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 1مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (207
مرزاقادیانی کی اس تحریر سے پتہ چال کہ مرزاقادیانی کو 1884ء میں پتہ چال کہ
مرزاقادیانی رسول ہے۔ کیونکہ جس کتاب کا ذکر مرزا قادیانی نے کیا ہے وہ براہین احمدیہ
کی چوتھی جلدہے وہ 1884ء میں چھپی تھی ۔
لیکن 1884ء میں پتہ چلنے کے بعد بھی مرزا قادیانی اپنی نبوت کا انکار کرتے رہے اور
نبوت کا دعوی کرنے والے کو کافر سمجھتے رہے ۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل تحریرات سے
ثابت ہے۔
ء میں مرزاقادیانی نے پادری آتھم کی وفات کے بعد انجام آتھم نامی کتاب لکھی ۔ 1896
جس میں مرزاقادیانی نے لکھا کہ
ہم مدعی نبوت پر لعنت بھیجتے ہیں۔ وحی نبوت نہیں بلکہ وحی والیت کے ہم قائل ہیں"۔ "
مرزا قادیانی کی ایک اور تحریر جس کا نام آسمانی فیصلہ ہے جو کہ جنوری 1892ء کی
ہے اس میں مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
میں نبوت کا مدعی نہیں بلکہ ایسے مدعی کو دائرہ اسالم سے خارج سمجھتا ہوں"۔ "
تمام مسلمانوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ اس عاجز کے رسالہ فتح االسالم،توضیح "
المرام،ازالہ اوہام میں جس قدر ایسے الفاظ موجود ہیں کہ محدث ایک معنی سے نبی ہوتا
ہے۔ یا محدثیت جزوی نبوت یا ناقصہ نبوت ہے ۔ یہ تمام الفاظ حقیقی معنوں پر محمول نہیں
بلکہ صرف سادگی سے ان کے لغوی معنوں کی رو سے بیان کئے گئے ہیں۔
ورنہ حاشا و کال مجھے نبوت حقیقی کا ہرگز دعوی نہیں۔ بلکہ میرا ایمان ہے کہ ہمارے
سید و موال محمد مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم خاتم االنبیاء ہیں۔ سو تمام مسلمان اگر ان
لفظوں سے ناراض ہیں۔
)جن میں جزوی نبوت وغیرہ کا دعوی ہے(
تو ان الفاظ کو ترمیم شدہ تصور فرماکر بجائے اس کے محدث کا لفظ میری طرف سے
سمجھ لیں۔
ہللا خوب جانتا ہے کہ لفظ نبی سے مراد صرف محدث ہے۔ جس کے آنحضرتﷺ نے
صرف متکلم مراد لئے ہیں۔
قال النبیﷺ قدکان فیمن قبلکم من نبی اسرائیل رجال یکلمون من غیر ان یکون انبیاء۔
اور لفظ نبی کو کاٹا ہوا تصور فرمالیں۔
اس کے عالوہ مرزا قادیانی کے بیٹے مرزا بشیر الدین محمود احمد اپنی کتاب حقیقہ النبوتہ
میں لکھتے ہیں کہ
آپ کو براہین احمدیہ (1884ء) کے زمانے سے جو وحی ہورہی تھی اس میں آپ کو "
ایک دفعہ بھی مسیح سے کم نہیں کہا گیا۔ بلکہ افضل ہی بتایا گیا تھا۔ لیکن آپ چونکہ اپنے
آپ کو غیرنبی سمجھتے تھے اس کے معنی اور کرتے رہے ۔
بعد کی وحیوں نے آپ کی توجہ اس طرف پھیری کہ ان (پہلی) وحیوں کا مطلب یہی تھا کہ
آپ مسیح سے افضل اور نبی ہیں۔
نبوت کا مسئلہ آپ پر 1900ء یا 1901ء میں کھال ہے۔
ء میں آپ نے اپنے عقیدے میں تبدیلی کی ہے۔ 1901
ء سے پہلے کے وہ تمام حوالے جن میں آپ نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے 1901
اب منسوخ ہیں۔
۔ مرزاقادیانی کے بقول 1884ء میں مرزاقادیانی کو وحی ہوئی کہ وہ رسول ہے۔ 1
۔ مرزاقادیانی نے 1884ء کے بعد کئی جگہ یہ لکھا کہ میں نبوت کا مدعی نہیں ہوں اور 2
حضورﷺ کے بعد نبوت کے مدعی کو کافر سمجھتا ہوں۔
۔ 1901ء میں مرزاقادیانی نے لکھا کہ میں نبی اور رسول ہوں۔ 3
۔ مرزاقادیانی کے بیٹے کے مطابق مرزا قادیانی کو 1901ء سے پہلے اپنے نبی ہونے 4
کے بارے میں علم نہیں تھا ۔
۔ مرزاقادیانی کے بیٹے کے مطابق 1901ء سے پہلے جتنی تحریرات میں مرزاقادیانی 5
نے اپنے نبی ہونے سے انکار کیا ہے وہ اب منسوخ ہیں۔
=خالصہ
جو قرآن کریم کی آیت اوپر پیش کی گئی تھی اس کے مطابق اور خود مرزا قادیانی کی
تحریرات کے مطابق نبی کو جب نبوت والی وحی ہوتی ہے تو اس وقت نبی کو اپنی نبوت
کے متعلق علم ہوتا ہے۔ اور اپنی نبوت پر ایمان ہوتا ہے۔
جبکہ مرزاقادیانی اس قرآنی معیار پر پورا نہیں اترتا کیونکہ ایک طرف تو مرزاقادیانی نے
لکھا ہے کہ 1884ء میں مجھے وحی میں رسول کہا گیا تھا اور دوسری طرف مرزاقادیانی
کی 1901ء تک کی تحریرات میں مرزاقادیانی نےاپنے دعوی نبوت سے انکار بھی کیا ہے
اور نبوت کے مدعی کو کافر بھی لکھا ہے۔
)جبکہ 1901ء میں دعوی نبوت کرکے خود دائرہ اسالم سے خارج بھی ہوگیا ہے(
دوسرے الفاظ میں مرزاقادیانی کو 16سال تک اپنی الہامی وحی ہونے کا پتہ ہی نہیں چال۔
حاالنکہ قرآنی معیار کے مطابق نبی کو جب ہللا نبوت والی وحی کرتے ہیں تو نبی اس کو
سمجھ بھی لیتا ہے اور اس وحی پر ایمان بھی رکھتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی چونکہ نبوت کے قرآنی معیار پر پورا نہیں اترتا لہذا مرزا
قادیانی اپنے دعوی نبوت میں "کذاب" ہے۔
ترجمہ = ہم نے جب بھی کوئی رسول بھیجا،خود اس کی قوم کی زبان میں بھیجا۔ تاکہ وہ
ان کے سامنے حق کو اچھی طرح واضح کرسکے۔
ترجمہ = اگر ہم اس (قرآن)کو عجمی قرآن بناتے تو یہ لوگ کہتے کہ "اس کی آیتیں کھول
کھول کر کیوں نہیں بیان کی گئیں؟"یہ کیابات ہے کہ قرآن عجمی ہے اور پیغمبر عربی؟
قرآن پاک کی ان آیات سے پتہ چال کہ ہللا جس رسول کو بھی چنتے ہیں اس رسول کو
انسانوں کی ہدایت کے لئے ہونے والی وحی اس کی مادری زبان میں ہوتی ہے۔ ایسا کبھی
نہیں ہوا کہ نبی کی مادری زبان تو کوئی اور ہو اور اس نبی یا رسول کو انسانوں کی ہدایت
کے لئے ہونے والی وحی کسی اور زبان میں ہو۔
یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی اور ہو اور اس "
کو الہام کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف
ماال یطاق ہے۔ اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا ۔ جو انسان کی زبان سے باالتر ہو"۔
لیکن مرزا قادیانی کو عربی،سنسکرت،عبرانی اور انگلش وغیرہ میں بھی الہامات ہوتے
رہے جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی اپنے دعوی نبوت میں "کذاب" ہے۔
مرزاقادیانی کو دوسری زبانوں میں ہونے والے چند الہامات مالحظہ فرمائیں ۔
۔1
ایلی ایلی لما سبقتنی ۔ ایلی اوس۔
اے میرے خدا! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ۔ آخری فقرہ اس الہام کا
یعنی ایلی اوس بباعث سرعت ورود مشتبہ رہا۔ اور نہ اس کے کچھ معنی کھلے ہیں۔
۔2
پھر اس کے بعد خدا نے فرمایا "ھو شعنا نعسا" یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں ۔ اور ان
کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ (664
)تذکرہ صفحہ 91طبع چہارم 2004ء(
۔3
پریشن ،عمربراطوس یا پالطوس (نوٹ) آخری لفظ پڑطوس ہے یا پالطوس ۔ بباعث سرعت
الہام دریافت نہیں ہوا۔ اور عمر عربی لفظ ہے۔ اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی
دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔
صرف یہی نہیں کہ دوسری زبانوں کے الہامات مرزاقادیانی کی سمجھ سے باالتر تھے
بلکہ مرزاقادیانی کو اپنی زبان کے بھی بعض الہام سمجھ نہیں آتے تھے ۔ چند مثالیں
مالحظہ فرمائیں ۔
مرزاقادیانی نے لکھا ہے کہ
۔1
ربنا عاج ہمارا رب عاجی ہے۔ عاجی کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔
۔2
پیٹ پھٹ گیا "۔ دن کے وقت کا الہام ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس کے متعلق ہے۔ "
۔3
ایک دانہ کس کس نے کھانا۔
خود مرزاقادیانی نے بھی تسلیم کیا ہے کہ مرزاقادیانی کو ایسی زبانوں میں الہام ہوتے ہیں
جن کو مرزاقادیانی نہیں جانتا۔
بعض الہامات مجھے ان زبانوں میں ہوتے ہیں جن سے مجھے کچھ واقفیت نہیں ۔ جیسے "
انگریزی یا سنسکرت یا عبرانی وغیرہ"۔
قادیانی اس پر ایک کمزور سا اعتراض کرتے ہیں کہ سلیمان علیہ السالم کے بارے میں (
ہللا ٰ
تعالی نے فرمایا کہ "علمنا منطق الطیر"یعنی سلیمان علیہ السالم کو ہم نے پرندوں کی
بولی سکھائی ۔ گویا سلیمان علیہ السالم کو کووں ،چیلوں،بٹیروں کی زبان میں الہام ہوا۔ اگر
سلیمان علیہ السالم کو جانوروں کی بولی میں الہام ہوسکتا ہے تو مرزاقادیانی کو بھی
دوسری زبانوں میں الہام ہوسکتا ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی قرآن پاک کے معیار نبوت پر پورا نہیں اترتا بلکہ قرآن پاک
کے معیار نبوت کے مطابق "کذاب" ہے۔ کیونکہ قرآن کریم کا معیار نبوت تو یہ ہے کہ نبی
کو الہام اس کی مادری زبان میں ہوتا ہے۔ جبکہ مرزاقادیانی کو الہام کئی زبانوں میں ہوتے
تھے جن کی مرزاقادیانی کو سمجھ بھی نہیں تھی۔
عہ َو قُرۡ ٰانَہ۔ فَ ِاذَا قَ َراۡ ٰنہُ فَاتَّبِعۡ " علَیۡنَا َجمۡ َ ک ِلتَعۡ َج َل بِہ۔ا َِّن َ سانَ َ َال ت ُ َح ِرکۡ بِ ّٖہ ِل َ
قُرۡ ٰانَہ۔فَ ِاذَا قَ َراۡ ٰنہُ فَات َّ ِبعۡ قُرۡ ٰانَہ۔ث ُ َّم ا َِّن َ
علَیۡنَا بَیَانَہ ۔
= ترجمہ
اے پیغمبر )آپ اس قرآن کو جلدی جلدی یاد کرنے کے لئے اپنی زبان کو ہالیا نہ کریں ۔ (
یقین رکھیں کہ اس کو یاد کروانا اور پڑھوانا ہماری ذمہ داری ہے۔ پھر جب ہم اسے
(جبرائیل علیہ السالم کے واسطے سے ) پڑھ رہے ہوں تو آپ اس کے پڑھنے کی پیروی
کریں۔ پھر اس کی وضاحت بھی ہماری ذمہ داری ہے۔
قرآن پاک کی ان آیات سے پتہ چال کہ ہللا جب اپنے رسول کو انسانوں کی ہدایت کے لئے
وحی کرتے ہیں اس کو سمجھاتے بھی ہیں۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ نبی کو ہللا تعالی نے
انسانوں کی ہدایت کے لئے کوئی وحی کی ہو اور اس نبی کو وہ وحی سمجھائی نہ ہو۔
مرزاقادیانی نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے۔کہ میری وحی بھی باقی نبیوں کی طرح ہے۔
مرزاقادیانی نےاپنے الہام کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ
وہ اسی رنگ کا مکالمہ ہے جس رنگ کا مکالمہ آدم علیہ السالم سے ہوا۔ شیث علیہ "
السالم پھر نوح علیہ السالم پھر ابراہیم علیہ السالم پھر اسحاق علیہ السالم پھر اسمعیل علیہ
السالم پھر یعقوب علیہ السالم پھر یوسف علیہ السالم پھر موسی علیہ السالم پھر داود علیہ
السالم پھر سلیمان علیہ السالم پھر عیسی بن مریم علیہ السالم اور محمدﷺ سے ہوا۔
"ماانااالکالقرآن"
ترجمہ = میں تو بس قرآن کی طرح ہوں۔
اس کے عالوہ مرزا قادیانی نے ایسے الہام جو کسی اور زبان میں ہوں اور سمجھ سے
باالتر ہوں ان کے بارے میں یوں لکھا ہے کہ
یہ بالکل غیر معقول اور بیہودہ امر ہے کہ انسان کی اصلی زبان تو کوئی اور ہو اور اس "
کو الہام کسی اور زبان میں ہو۔ جس کو وہ سمجھ بھی نہیں سکتا۔ کیونکہ اس میں تکلیف
ماال یطاق ہے۔ اور ایسے الہام سے فائدہ کیا ہوا ۔ جو انسان کی زبان سے باالتر ہو"۔
آیئے مرزاقادیانی کے چند ایسے الہامات کا جائزہ لیتے ہیں جو مرزا قادیانی کی سمجھ سے
باہر ہیں اور یہ ثابت کرتے ہیں کہ مرزاقادیانی اپنے دعوی نبوت میں "کذاب" ہے۔
۔1
ایلی ایلی لما سبقتنی ۔ ایلی اوس۔
اے میرے خدا! اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا ۔ آخری فقرہ اس الہام کا
یعنی ایلی اوس بباعث سرعت ورود مشتبہ رہا۔ اور نہ اس کے کچھ معنی کھلے ہیں۔
)البشری جلد اول صفحہ (63
)تذکرہ صفحہ 71طبع چہارم 2004ء(
۔2
پھر اس کے بعد خدا نے فرمایا "ھو شعنا نعسا" یہ دونوں فقرے شاید عبرانی ہیں ۔ اور ان
کے معنی ابھی تک اس عاجز پر نہیں کھلے۔
)براہین احمدیہ حصہ چہارم صفحہ 557مندرجہ روحانی خزائن جلد 1صفحہ (664
)تذکرہ صفحہ 91طبع چہارم 2004ء(
۔3
پریشن ،عمربراطوس یا پالطوس (نوٹ) آخری لفظ پڑطوس ہے یا پالطوس ۔ بباعث سرعت
الہام دریافت نہیں ہوا۔ اور عمر عربی لفظ ہے۔ اس جگہ براطوس اور پریشن کے معنی
دریافت کرنے ہیں کہ کیا ہیں اور کس زبان کے یہ لفظ ہیں۔
۔4
ربنا عاج ہمارا رب عاجی ہے۔ عاجی کے معنی ابھی تک معلوم نہیں ہوئے۔
۔5
پیٹ پھٹ گیا "۔ دن کے وقت کا الہام ہے۔ معلوم نہیں کہ یہ کس کے متعلق ہے۔ "
۔6
ایک دانہ کس کس نے کھانا۔
۔8
الیموت احد من رجالکم
تمہارے مردوں میں سے کوئی نہیں مرے گا۔ اس کے حقیقی معنی تو نہیں ہوسکتے۔ مگر
مفہوم کا پتہ نہیں ۔ شاید کوئی اور معنی ہوں۔
۔9
میں ان کو سزادوں گا۔ میں اس عورت کو سزا دوں گا۔
معلوم نہیں یہ کس کے متعلق ہے۔
۔ 10
بعد 11انشاء ہللا۔
اس کی تفہیم نہیں ہوئ کہ اس سے کیا مراد ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی کو چونکہ اپنے بہت سے الہاموں کی سمجھ نہیں آتی تھی اور
مرتے دم تک ان الہاموں کی سمجھ نہیں آئی لہذا مرزاقادیانی قرآن پاک کے معیار نبوت پر
پورا نہیں اترتا بلکہ قرآن پاک کے معیار نبوت کے مطابق "کذاب" ہے۔ کیونکہ قرآن کریم
کا معیار نبوت تو یہ ہے کہ نبی کو جو الہام ہوتا ہے اس الہام کو سمجھانا ہللا کے ذمے ہوتا
ہے۔جبکہ مرزاقادیانی کو کئی الہام ایسے ہوئے ہیں جن کی مرزاقادیانی کو سمجھ بھی نہیں
تھی۔
رسولوں کی تعلیم اور اعالم کے لئے یہی سنت ہللا قدیم سے جاری ہے جو بواسطہ "
"جبرائیل علیہ السالم کے بذریعہ نزول آیت ربانی اور کالم رحمانی سکھالئے جاتے ہیں
)ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 584مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (415
ممکن نہیں کہ دنیا میں ایک رسول اصالح خلق ہللا آوے اور اس کے ساتھ وحی الہی اور "
جبرائیل علیہ السالم نہ ہوں"۔
) ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 578مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (412
لیکن مرزا قادیانی کو پوری زندگی میں ایک دفعہ بھی جبرائیل علیہ السالم کے واسطے
سے وحی نہیں ہوئ۔ بلکہ مرزاقادیانی کو ٹیچی ٹیچی ،مٹھن الل ،خیراتی کے واسطے سے
وحی ہوتی تھی جن کے ناموں سے ہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ شیطان کی طرف سے وحی
التے تھے ۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنے دعوی نبوت میں "کذاب" ہے کیونکہ مرزاقادیانی کے
بیان کردہ معیار نبوت کے مطابق رسولوں کو وحی جبرائیل علیہ السالم کے واسطے سے
ہی ہوتی تھی جبکہ مرزاقادیانی کو ایک دفعہ بھی جبرائیل علیہ السالم کے واسطے سے
وحی نہیں ہوئ۔
مرزاقادیانی نے ایک معیار نبوت خود سے لکھا ہے آیئے مرزاقادیانی کو اسی معیار پر
پرکھتے ہیں۔
انبیاء کرام علیہم السالم کی نسبت یہ بھی ایک سنت ہللا ہے کہ وہ اپنے ملک سے ہجرت "
"کرتے ہیں۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 180مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (
)350
مرزاقادیانی کی ان تحریرات سے ثابت ہوا کہ کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے ہجرت نہ
کی ہو۔ دوسرے الفاظ میں مرزاقادیانی نے نبوت کا یہ معیار بیان کیا ہے کہ نبی ہجرت
ضرور کرتا ہے اور کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں گزرا جس نے ہجرت نہ کی ہو۔ اور
نبیوں کا ہجرت کرنا سنت ہللا ہے۔
لیکن مرزاجی اپنے ہی بیان کئے گئے اس معیار نبوت پر بھی پورا نہیں اترے بلکہ
"کذاب"ثابت ہوئے کیونکہ مرزاقادیانی نے ساری زندگی ہجرت نہیں کی۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنے دعوی نبوت میں "کذاب" ہے کیونکہ مرزاقادیانی کے
بیان کردہ معیار نبوت کے مطابق کوئی نبی ایسا نہیں گزرا جس نے ہجرت نہ کی ہو۔اور یہ
نبیوں کی ہجرت کرنا سنت ہللا میں سے ہے۔جبکہ مرزاقادیانی کا ساری زندگی ہجرت نہ
کرنا خود مرزاقادیانی کو اپنے ہی اصول کے مطابق "کذاب" ثابت کر گیا۔
مرزاقادیانی نے ایک معیار نبوت خود سے لکھا ہے آیئے مرزاقادیانی کو اسی معیار پر
پرکھتے ہیں۔
انہ لم یکن نبی اال عاش نصف الذی قبلہ و اخبرنی ان عیسی ابن مریم عاش عشرین و مئاتہ "
سنتہ فال ارانی اال ذاھب علی راس الستین واعلمو ایھا االخوان ان ھذا الحدیث صحیح ورجالہ
"ثقات ولہ طرق۔
آنحضرتﷺ نے فرمایا مجھے جبرائیل علیہ السالم نے خبردی ہے) کہ ہر نبی اپنے سے (
پہلے نبی سے نصف عمر پاتا رہا ہے اور اس نے مجھے بتایا کہ عیسی علیہ السالم ایک
سو بیس سال زندہ رہے۔ پس میں خیال کرتا ہوں کہ ساٹھ سال کا میں اس جہان سے رحلت
کرجاوں گا۔
مرزا جی آگے لکھتے ہیں ) کہ یہ حدیث بالکل صحیح ہے اور اس کے سب راوی بالکل (
ثقہ ہیں۔ اور معتبر ہیں ۔ اور اس کی بہت سی سندیں ہیں"۔
معزز قارئین مرزاقادیانی کے بیان کردہ اس معیار کے مطابق اگر مرزاقادیانی کا دعوی
نبوت سچا ہوتا تو مرزا جی کی عمر 30سال ہونی تھی جبکہ مرزاقادیانی کی عمر تقریبا
69سال تھی۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا قادیانی اپنے دعوی نبوت میں "کذاب" ہے کیونکہ مرزاقادیانی کے
بیان کردہ معیار نبوت کے مطابق مرزاقادیانی کی عمر 30سال ہونی چاہیئے تھی جبکہ
مرزا قادیانی کہ عمر 69سال تھی۔ اس طرح مرزاقادیانی کی عمر کا 69سال ہونا مرزا
قادیانی کو اپنے ہی اصول کے مطابق "کذاب" ثابت کر گیا۔
اس روایت سے پتہ چال کہ بکریاں چرانا سارے انبیاء کرام علیہم السالم کی سنت ہے اور
کوئی بھی نبی ایسا نہیں ہے جس نے بکریاں نہ چرائی ہوں۔
اب اس معیار نبوت پر اگر مرزا قادیانی کو پرکھیں تو مرزا جی پھر بھی کذاب ثابت ہوتے
ہیں کیونکہ مرزا قادیانی نے ساری زندگی اجرت پر بکریاں نہیں چرایئں۔ پس مرزا قادیانی
"اس معیار نبوت پر بھی پورے نہیں اترے اور "کذاب" ثابت ہوئے۔
حضور ﷺ نے ایک معیار نبوت بتایا ہے کہ ہر نبی وہاں فوت ہوتا ہے جہاں وہ دفن ہونا
پسند کرے۔ چنانچہ حضورﷺ کو اسی مقام پر دفن کیا گیا جہاں آپ ﷺ کی وفات ہوئی۔
جب رسول ہللا ﷺ کی وفات ہوئی تو آپ کی تدفین کے سلسلے میں لوگوں میں اختالف ہوا۔ "
ابوبکر رضی ہللا عنہ نے کہا :میں نے رسول ہللاﷺ سے ایک ایسی بات سنی ہے جو میں
بھوال نہیں ہوں ،آپﷺ نے فرمایا” :جتنے بھی نبی ہوئے ہیں ہللا نے ان کی روح وہیں قبض
کی ہے جہاں وہ دفن کیا جانا پسند کرتے تھے ( اس لیے ) تم لوگ انہیں ان کے بستر ہی
"کے مقام پر دفن کرو۔
مرزا قادیانی اس معیار پر بھی پورا نہیں اترتے۔ کیونکہ مرزا قادیانی کی وفات الہور میں
وقتی بیت الخالء میں دست کرتے ہوئے ہوئی۔ اور مرزا قادیانی کو قادیان میں دفن کیا گیا۔
اگر مرزا قادیانی سچے نبی ہوتے تو ان کی وفات وقتی بیت الخالء میں نہ ہوتی۔اور تدفین
الہور میں وقتی بیت الخالء میں ہوتی۔ جہاں ان کی وفات ہوئی۔
صحابہ کرام رضوان ہللا علہیم اجمعین بڑے فخر سے بتاتے تھے کہ
صلَّىّللا َ سو ِل َّ ِ
ق َر ُ شةَ َع ْن ُخلُ ِ سأ َ ْلتُ َ
عائِ َ ّللا ْال َجدَ ِل َّ
ي ،یَقُولَُ : س ِم ْعتُ أَبَا َ
ع ْب ِد َّ ِ ع ْن أَبِي إِ ْس َحاق ،قَالَ : َ
س ِیئ َ ِة ص َّخابًا ِفي ْاْلَس َْوا ِ
قَ ،و َال َی ْج ِزي ِبال َّ شاَ ،و َال َ شا َو َال ُمت َ َف ِح ً ت :لَ ْم َی ُك ْن فَ ِ
اح ً سلَّ َم ،فَقَالَ ْ
علَ ْی ِه َو َ َّ
ّللاُ َ
ص َف ُح۔س ِیئَةََ ،ولَ ِك ْن یَ ْعفُو َویَ ْال َّ
میں نے ام المؤمنین عائشہ رضی ہللا عنہا سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے اخالق "
کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا :آپ صلی ہللا علیہ وسلم فحش گو ،بدکالمی کرنے
والے اور بازار میں چیخنے والے نہیں تھے ،آپ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں دیتے تھے،
"بلکہ عفو و درگزر فرما دیتے تھے۔
سا َی ْو َمي َوأ َ ْق َربِ ُك ْم ِم ِني َم ْج ِل ً سلَّ َم قَا َل :إِ َّن ِم ْن أَ َح ِب ُك ْم إِلَ َّع َل ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاِ َ سو َل َّ ع ْن َجا ِبر ،أَن َر ُ َ
ْ
ارونَ َوال ُمتَش َِدقُونَ َّ ْ
سا َی ْو َم ال ِقیَا َم ِة الث ْرث َ ُ َ
ي َوأ ْب َعدَ ُك ْم ِم ِني َم ْج ِل ً ض ُك ْم ِإلَ َّْال ِقیَا َم ِة أ َحا ِسنَ ُك ْم أ ْخ َالقًاَ ،و ِإ َّن أ ْبغَ َ
َ َ َ
ارونَ َ ،و ْال ُمتَش َِدقُونَ ،فَ َما ْال ُمتَفَ ْی ِھقُونَ ؟ َقا َلْ :ال ُمت َ َكبِ ُرونَ ۔ ع ِل ْمنَا الث َّ ْرث َ ُ
ّللاِ قَ ْد َ
سو َل َّ ،قَالُوا :یَا َر ُ
رسول ہللا ﷺ نے فرمایا” :میرے نزدیک تم میں سے ( دنیا میں ) سب سے زیادہ محبوب
اور قیامت کے دن مجھ سے سب سے زیادہ قریب بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو تم میں
بہترین اخالق والے ہیں ،اور میرے نزدیک تم میں ( دنیا میں ) سب سے زیادہ قابل نفرت
اور قیامت کے دن مجھ سے دور بیٹھنے والے وہ لوگ ہیں جو باتونی ،بالاحتیاط بولنے
والے ،زبان دراز اور تکبر کرنے والے «متفیھقون» ہیں“ ،صحابہ نے عرض کیا :ہللا کے
رسول! ہم نے «ثرثارون» ( باتونی ) اور «متشدقون» ( بالاحتیاط بولنے والے ) کو تو جان
“لیا لیکن کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا” :تکبر کرنے والے
"لعنت بازی کرنا صدیقوں کا کام نہیں۔ مومن لعان نہیں ہوتا۔"
بالکل صحیح بات ہے کہ جب انسان دالئل سے شکست کھاتا اور ہار جاتا ہے تو گالیاں "
دینی شروع کر دیتا ہے۔ اور جس قدر کوئی زیادہ گالیاں دیتا ہے ۔ اسی قدر اپنی شکست کو
"ثابت کرتا ہے۔
حضورﷺ کی احادیث اور مرزا قادیانی اور اس کے بیٹے کی تحریرات سے درج ذیل باتیں
ثابت ہویئں۔
۔ حضور ﷺ فحش گو ،بدکالمی کرنے والے اور بدی کا بدلہ بدی سے نہیں دیتے تھے۔ 1
۔ جو لوگ باتونی ،تکبر کرنے والے اور بداخالق ہیں وہ قیامت کے دن حضورﷺ سے 2
دور ہوں گے۔
۔ گالی دینا اور لعنت بازی کرنا صدیقوں کا کام نہیں۔ 4
۔جب کوئی دالئل سے شکست کھا جاتا ہے تو وہ گالیاں دینا شروع کردیتا ہے۔ 7
۔ جو جتنی زیادہ گالیاں دے گا۔ وہ اتنا ہی زیادہ شکست خوردہ ہوتا ہے۔ 8
مرزا قادیانی کا دعوی تھا کہ وہ نعوذ باہلل حضورﷺ کا سایہ ہے۔ یعنی حضور ﷺ کے
سارے کماالت مرزا قادیانی میں ہیں۔
اب آئیے دیکھتے ہیں کہ کیا مرزا قادیانی اچھے اخالق واال تھا یا بدزبانی کرنے واال اور
گالیاں دینے واال تھا؟
کیونکہ اگر مرزا قادیانی سچا نبی اور حضور ﷺکا ظل تھا تو مرزا قادیانی کو اچھے اخالق
واال اور برائی کا بدلہ برائی سے نہ دینے واال ہونا چاہیے تھا ۔
خالصہ کالم یہ ہے کہ نبوت کا ایک وصف اچھا اخالق،گالیاں نہ دینا اور برائی کا بدلہ
برائی سے نہ دینا بھی ہے۔ آئیے مرزا قادیانی کو اسی معیار پر پرکھتے ہیں۔
ایک بات قارئین ذہن میں رکھیں کہ میں مرزا قادیانی کی گالیوں کا محاسبہ نہیں کر رہا
بلکہ صرف اس کی فحش زبان کو پیش کر رہا ہوں۔
یہ زبان ایک ہللا والے کی نہیں ہوسکتی۔
اس تحریر میں مرزا صاحب کی الف سے لے کر ی تک گالیاں جمع ہیں۔مرزا صاحب نے
حروف تہجی میں سے کسی حرف کی گالی کو نہیں چھوڑا۔ تمام نقل کی ہیں۔ ویسے
تومرزا صاحب کی گالیوں کی تعداد ہزاروں میں ہے لیکن میں بطور نمونہ مرزا صاحب
کی گالیوں کے چند نمونے آپکے سامنے پیش کرتا ہوں۔
الف
ب ،پ
ت
ث
ج ،چ
ح
خ
د ،ذ
ر،ز
س ،ش
ص،ض
ط،ظ
)۔’’طوائف۔‘‘ (خزائن ج 11ص1307
)۔’’ظالم طبع۔‘‘ (خزائن ج 17ص2238
)۔’’ظالم۔‘‘ (خزائن ج 11ص3332
)۔’’ظالم معترض۔‘‘ (خزائن ج 21ص4182
ع،غ
ٰ
)۔’’عبدالشیطن۔‘‘ (خزائن ج 11ص1342
)۔’’عجب نادان۔‘‘ (خزائن ج 22ص2551
)۔’’عجیب بے حیائ۔‘‘ (خزائن ج 22ص3587
)۔’’غالون۔‘‘ (خزائن ج 11ص4224
)۔’’غبی۔‘‘ (خزائن ج 11ص5317
ف،ق،
‘‘۔’’فقیری اور مولویت کے شترمرغ۔1
)خزائن ج 11ص(302
)۔’’فاسق آدمی۔‘‘ (خزائن ج 22ص2445
)۔’’فریبی۔‘‘ (خزائن ج 19ص3160
)۔’’فرومایہ۔‘‘ (خزائن ج 19ص4188
)۔’’قوم کے خناسوں۔‘‘ (خزائن ج 11ص517
ک،گ
)۔’’کوتاہ اندیش علمائ۔‘‘ (خزائن ج 14ص1316
)۔’’کیڑو۔‘‘ (خزائن ج 11ص2305
)۔’’کتے۔‘‘ (خزائن ج 12ص3128
)۔’’گدھے۔‘‘ (خزائن ج 11ص4331
)۔’’گندی روحو۔‘‘ (خزائن ج 11ص5305
ل ،م
و،ہ
ی،یے
تعالی تو ایسی چیزوں سے پاک ہے لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال ہللا رب العزت کو ( ہللا ٰ
انسانوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔ کیونکہ روزہ وغیرہ رکھنا تو انسانوں کا کام ہے نہ اس کا
)جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے
"خدا خطا(گناہ) بھی کرتا ہے اور صواب (نیکی) بھی کرتا ہے۔"
ہللا رب العزت کی ذات تو" ال یضل ربی وال ینسی " ہے۔یعنی ہللا ٰ
تعالی نہ بھکتا ہے اور (
نہ بھولتا ہے لیکن مرزاقادیانی جیسے دجال نے ہللا ٰ
تعالی کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ ہللا رب
العزت جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ہر چیز کا خالق ہے اس کے بارے میں بھی
مرزاقادیانی جیسا دجال لکھتا ہے کہ وہ نیکی بھی کرتا ہے اور گناہ بھی۔ آپ خود سوچیں
)کہ مرزاقادیانی سے بڑا کوئی ہللا ٰ
تعالی کا گستاخ ہوگا؟؟؟
ہللا رب العزت تو فرماتے ہیں" لم یلد ولم یولد " نہ اس نے کسی کو جنا نہ وہ کسی سے (
جنا گیا۔ لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال یہاں بھی ہللا ٰ
تعالی کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے
)لکھتا ہے میں ہللا ٰ
تعالی سے ہوں (نعوذ باہلل
ہللا رب العزت تو فرماتے ہیں" لم یتخذ صاحبتہ وال ولدا " نہ اس کی بیوی ہے اور نہ (
تعالی کی شان میں گستاخی کرتے ہوئےاوالد۔ لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال یہاں بھی ہللا ٰ
)اپنے آپ کو خدا کا بیٹا لکھتا ہے
تعالی کے سامنے بہت سے کاغذات رکھے "ایک دفعہ میں نے کشف کی حالت میں خدا ٰ
تاکہ وہ ان کی تصدیق کر دے اور ان پر دستخط ثبت کر دے۔ سو خدا ٰ
تعالی نے سرخ سیاہی
سے دستخط کردیئے اور قلم کی نوک پر جو سرخی تھی اس کو جھاڑا اور معا جھاڑنے
سے اس سرخی کے قطرے میرے کپڑوں اور عبدہللا کے کپڑوں پر پڑے۔ جب حالت کشف
ختم ہوئ تو میں نے اپنے اور عبدہللا کے کپڑوں کو سرخی کے قطروں سے تر بہ تر
"دیکھا یہ وہی سرخی تھی جو خداتعالی نے اپنے قلم سے جھاڑی تھی۔
ہللا ٰ
تعالی تو ایسی چیزوں سے پاک ہیں لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال یہاں بھی ہللا رب (
)العزت کو عام چیزوں سے تشبیہ دینے سے باز نہیں آیا
خدا ٰ
تعالی نے مجھے تمام انبیاء کرام علیہم السالم کا مظہر ٹہرایا ہے۔ اور تمام نبیوں کے "
"نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔۔۔۔۔ اور آنحضرت ﷺ کے نام کا بھی مظہر ہوں۔
"دنیا میں کئی تخت اترے ہیں پر میرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ہے ۔"
مسلمان محمدﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں اور قادیانی جماعت مرزا قادیانی کو آخری نبی (
) مانتی ہے ۔اس عبارت سے صاف ظاہر ہے
مگر تم خوب توجہ کرکے سن لو کہ اب اسم محمدﷺ کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ "
یعنی اب جاللی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جالل ظاہر
ہوچکا۔سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے۔
"اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔
حضور ﷺ دین کی اشاعت ممکمل طور پر نہ کرسکے۔ میں نے دین کی اشاعت مکمل "
"کی ہے۔
"مرزا قادیانی کی انبیاء کرام علیہم السالم کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
یہودیوں ،عیسائیوں اور مسلمانوں پر بباعث ان کے کسی پوشیدہ گناہ کے یہ ابتالء آیا کہ "
جن راہوں سے وہ اپنے موعود نبیوں کا انتظار کرتے رہے۔ ان راہوں سے وہ نبی نہیں
"آئے۔ بلکہ چور کی طرح کسی اور راہ سے آگئے۔
میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں آیا۔ جس نے کبھی "
"اجتہادی غلطی نہیں کی۔
)تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 135مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (573
گستاخی نمبر 3
= ترجمہ
ہر نبی میری آمد سے زندہ ہوا
تمام رسول میرے کرتے میں چھپے ہیں
اور خدا ٰ
تعالی میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھال رہا ہے کہ اگر نوح علیہ السالم کے "
"زمانہ میں وہ نشان دکھالئے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔
)تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 137مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (575
پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز (مرزا قادیانی) اسرائیلی یوسف علیہ السالم سے بڑھ "
کر ہے۔ کیونکہ یہ عاجز (مرزا قادیانی) قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچایا گیا۔ مگر
"یوسف بن یعقوب علیہ السالم قید میں ڈاال گیا۔
)براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 76مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (99
"مرزا قادیانی کی سیدنا عیسی علیہ السالم کی شان میں کی گئی گستاخیاں
گستاخی نمبر 1
وہ (مسیح بن مریم) ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور "
ناپاکی کا مبرز ہے۔ تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا
"رہا۔
آپ (سیدنا عیسی علیہ السالم) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور "
نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے وجود سے آپ کا وجود ظہور پزیر
"ہوا۔
)ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (291
یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا "
کہ عیسٰ ی علیہ شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی پرانی عادت
"کی وجہ سے۔
یہ بھی یاد رہے کہ آپ (سیدنا عیسی علیہ السالم) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی عادت "
"تھی۔
)ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (289
)ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (290
"مرزا قادیانی کی صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
"جیسا کہ ابوہریرہ(رضی ہللا عنہ) جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔"
بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہ تھی۔ جیسے ابوہریرہ(رضی "
)ہللا عنہ
"اس کو چاہیئے کہ ابوہریرہ (رضی ہللا عنہ) کے قول کو ردی متاع کی طرح پھینک دے۔"
)براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 235مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (410
"خالصہ کالم"
خالصہ کالم یہ ہے کہ مرزا قادیانی گالیاں دینے واال اور بداخالق تھا حاالنکہ نبی گالیاں
دینے واال اور بداخالق نہیں ہوتا۔ اور خود مرزا قادیانی نے لکھا ہے کہ ناحق گالیاں دینا
سفلوں اور کمینوں کا کام ہے۔ اب قارئین خود انصاف سے فیصلہ کریں کہ کیا مرزا قادیانی
اپنے فتوی کی رو سے کمینہ بن گیا یا نہیں؟ پس مرزا قادیانی اس معیار نبوت پر پورا نہیں
اترتا اس لئے وہ اپنے دعوی نبوت میں کذاب ہے۔
ہللا ٰ
تعالی قرآن مجید میں سچے انبیاء کرام علیہم السالم کی ایک اور نشانی بتاتے ہیں کہ
ّللاِ َو یَخۡشَوۡنَہ َو َال یَخۡشَوۡنَ ا َ َحدًا ا َِّال ّٰ
ّللاَ ۡ" ت ّٰ"الَّذِیۡنَ یُبَ ِلغُوۡنَ ِرسٰ ٰل ِ
پیغمبر وہ لوگ ہیں جو ہللا کے بھیجے ہوئے احکام کو لوگوں تک پہنچاتے ہیں ،اور اسی "
"سے ڈرتے ہیں اور ہللا کے سوا کسی سے نہیں ڈرتے ۔
اس آیت سے پتہ چال کہ سچے انبیاء حق بات پہنچانے میں ہللا ٰ
تعالی کے سوا کسی سے
نہیں ڈرتے۔کوئی بھی نبی یا رسول اظہار حق کے لئے کسی بھی انسانی طاقت سے کبھی
بھی نہیں ڈرا۔
ہر ایک ایسی پیشگوئی سے اجتناب ہوگا۔ جو امن عامہ اور اغراض گورنمنٹ کے مخالف "
"ہو۔
لیجئے مرزا قادیانی اس قرآنی معیار نبوت پر بھی پورا نہیں اترے اور کذاب ثابت
ہوئے۔کیونکہ اگر مرزا قادیانی سچے نبی ہوتے تو مرزا قادیانی کو گورنمنٹ سے یا لوگوں
سے ڈر کر الہام یا پیشگوئی کو چھپانے کی کیا ضرورت تھی؟
پس ثابت ہوا کہ چونکہ مرزا قادیانی اس قرآنی معیار نبوت پر پورا نہیں اترے لہذا وہ
اپنے دعوی نبوت میں کذاب ہیں۔
"ختم نبوت کورس"
ویسے تو مرزا صاحب کو معیار مسیح موعود پر پرکھنے کی ضرورت تو نہیں ہے
کیونکہ مرزا صاحب کا دعوی نبوت میں کذاب ہونا اظہر من الشمس ہے۔ لیکن قادیانیوں کی
ہدایت کی دعا کرتے ہوئے مرزا صاحب کو مسیح موعود کے معیار پر پرکھتے ہیں۔
"مسیح موعود کی عالمت نمبر "1
بخاری شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں "مسیح موعود " کی ایک عالمت بتائی
گئی ہے ۔
رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،وہ زمانہ "
عیسی علیہ السالم ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کیٰ آنے واال ہے جب ابن مریم (
حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ،سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو
"ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے واال نہ رہے گا۔
اس روایت کو مرزا صاحب نے بھی نقل کیا ہے ۔ مالحظہ فرمائیں ۔۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں ۔
والذی نفس بیدہ لیوشکن ان ینزل فیکم ابن مریم حکما عدال۔۔۔ الی آخرہ ۔۔یعنی قسم ہے اس "
ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں ابن مریم نازل ہوگا۔ تمہارے ہر ایک
مختلف فیہ مسئلے کا عدالت کے ساتھ فیصلہ کرے گا "۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 201مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (198
اس روایت سے معلوم ہوا کہ جس "مسیح موعود " نے نازل ہونا ہے اس کی ماں کا نام
مریم ہے ۔
اور یہ بات حضور ﷺ قسم کھا کر ارشاد فرما رہے ہیں۔
اور مرزا صاحب نے اصول لکھا ہے کہ جو بات قسم کھا کر کی جاتی ہے وہ ظاہر پر
محمول ہوتی ہے اس میں تاویل نہیں کی جاتی۔
مرزا صاحب کی والدہ کا نام چونکہ "مریم " نہیں بلکہ "چراغ بی بی" ہے لہذا مرزا
صاحب وہ "مسیح موعود " نہیں جن کے آنے کا حضور ﷺ نے فرمایا ہے۔
ہوسکتا ہے کوئی قادیانی مسلمانوں کو دھوکہ دینے کے لئے کہ دے کا مرزا صاحب ہی ابن
مریم ہیں ۔ اس لئے مرزا صاحب کا حوالہ پڑھ لیں جس میں مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
اس عاجز نے جو مثیل مسیح ہونے کا دعوی کیا ہے جس کو کم فہم لوگ مسیح موعود "
خیال کر بیٹھے ہیں ۔
میں نے ہرگز دعوی نہیں کیا کہ میں "مسیح ابن مریم" ہوں۔ جو شخص مجھ پر یہ الزام
لگادے وہ مفتری اور کذاب ہے ۔ میں مثیل مسیح ہوں۔
) ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 190مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (192
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی ماں کا نام چونکہ مریم نہیں ہے اس لئے مرزا صاحب
"کذاب " ہیں۔
بخاری شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں "مسیح موعود " کی ایک عالمت بتائی
گئی ہے ۔
رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ،اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ،وہ زمانہ "
عیسی علیہ السالم ) تم میں ایک عادل اور منصف حاکم کیٰ آنے واال ہے جب ابن مریم (
حیثیت سے اتریں گے۔ وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے ،سوروں کو مار ڈالیں گے اور جزیہ کو
"ختم کر دیں گے۔ اس وقت مال کی اتنی زیادتی ہو گی کہ کوئی لینے واال نہ رہے گا۔
اس روایت سے پتہ چال کہ مسیح موعود عادل حاکم کی حیثیت سے اتریں گے ۔ یعنی مسیح
موعود ظاہری حکومت کے ساتھ آئیں گے ۔
اگر اس معیار پر بھی مرزا صاحب کو پرکھا جائے تو مرزا صاحب "کذاب" ثابت ہوتے
ہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
ممکن ہے کسی زمانے میں کوئی ایسا مسیح آجائے جس پر حدیثوں کے بعض ظاہری "
الفاظ صادق آسکیں۔کیونکہ یہ عاجز اس دنیا کی حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں
"آیا۔درویشی اور غربت کے لباس میں آیا ہے۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 200مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (197
لیجئے خود مرزا صاحب نے اعتراف کرلیا کہ وہ حکومت اور بادشاہت کے ساتھ نہیں آئے
بلکہ درویشی اور غربت کے ساتھ آئے ہیں حاالنکہ سچے مسیح موعود نے عادل حاکم کی
حیثیت سے تشریف النا ہے۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دعوی مسیح موعود میں کذاب
ہیں۔
مشکوۃ شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں "مسیح موعود " کی ایک عالمت بتائی
گئی ہے ۔
ینزل عیسی ابن مریم الی االرض فیتزوج و یولد لہ و یمکث فی االرض خمسا و اربعین "
سنتہ ثم یموت فیدفن معی فی قبری" ۔
ترجمہ
میرے آقاﷺ نے فرمایا
عیسی بن مریم زمین کی طرف نازل ہونگے۔ "نکاح" کریں گے اوالد ہوگی۔ زمین میں "
45سال رہیں گے پھر فوت ہو کر میرے مقبرے میں دفن ہونگے"۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی بن مریم علیہ السالم زمین پر اتر کر نکاح
کریں گے ۔اور ان کی اوالد بھی ہوگی۔
مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کا مطلب یہ ظاہر کیا کہ میری محمدی بیگم کے ساتھ
"مسیح موعود "ہونے کی حالت میں شادی ہوگی ۔
اس روایت کے نکاح والے اور اوالد والے حصے کو مرزا صاحب نے بھی نقل کیا ہے ۔
مالحظہ فرمائیں ۔۔
مرزا صاحب لکھتے ہیں ۔۔۔
اس (محمدی بیگم کے نکاح والی )پیشگوئی کی تصدیق کے لئے جناب رسول ہللاﷺ نے
بھی پہلے سے ایک پیشگوئی فرمائی ہے کہ یتزوج و یولد لہ یعنی وہ مسیح موعود بیوی
کرے گا نیز صاحب اوالد بھی ہوگا۔اب ظاہر ہے تزوج اور اوالد کا ذکر کرنا عام طور پر
مقصود نہیں ۔
عام طور پر ہر ایک شادی کرتا ہے اور اوالد بھی ہوتی ہے اس میں کچھ خوبی نہیں ۔ بلکہ
تزوج سے مراد خاص تزوج ہے جو بطور نشان ہوگا اور اوالد سے مراد وہ خاص اوالد
ہے۔ جس کی نسبت اس عاجز کی پیشگوئی ہے۔
اس جگہ رسول ہللا ﷺ اس سیاہ دل منکروں کو اس کے شبہات کا جواب دے رہے ہیں۔ اور
فرما رہے ہیں کہ یہ باتیں ضرور پوری ہوں گی ۔
مسیح موعود " کی یہ عالمت حضورﷺ نے بتائی ہے کہ وہ شادی بھی کرے گا اور اس "
کی اوالد بھی ہوگی۔
مرزا صاحب نے بھی اس سے یہی مراد لیا ہے کہ وہ مسیح موعود شادی کرے گا اور
اوالد بھی ہوگی۔
مرزا صاحب نے 1891ء میں "مسیح موعود " ہونے کا دعوی کیا۔ لیکن مرزا صاحب کی
مسیح موعود کے دعوی کے بعد کسی عورت سے نکاح نہیں ہوا۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا
صاحب دعوی "مسیح موعود " میں کذاب تھے۔
مشکوۃ شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں "مسیح موعود " کی بہت سی عالمات
بتائی گئی ہیں ۔
ینزل عیسی ابن مریم الی االرض فیتزوج و یولد لہ و یمکث فی االرض خمسا و اربعین "
سنتہ ثم یموت فیدفن معی فی قبری" ۔
ترجمہ
میرے آقاﷺ نے فرمایا
عیسی بن مریم زمین کی طرف نازل ہونگے۔ "نکاح" کریں گے اوالد ہوگی۔ زمین میں "
45سال رہیں گے پھر فوت ہو کر میرے مقبرے میں دفن ہونگے"۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی بن مریم علیہ السالم زمین پر اتر کر نکاح
کریں گے ۔اور ان کی اوالد بھی ہوگی۔ اور وہ 45سال زمین پر رہیں گے ۔
مرزا صاحب کے کذاب ہونے کی چوتھی عالمت یعنی عیسی علیہ السالم نزول کے بعد 45
سال زمین پر رہیں گے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
اگر ہم مرزا صاحب کی تحریرات کا مطالعہ کریں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب نزول
سے پیدائش بھی مراد لیتے ہیں اور دعوی مسیح موعود کا سال بھی مراد لیتے ہیں۔ آیئے
دونوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
میرا یہ دعوی تو نہیں کہ کوئی مثیل مسیح پیدا نہیں ہو گا ۔ بلکہ میرے نزدیک ممکن ہے "
کہ کسی آیئندہ زمانے میں دمشق میں کوئی مثیل مسیح پیدا ہو جائے ۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 73مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 3صفحہ نمبر (138
ہاں اس بات سے انکار نہیں کہ شاید پیشگوئی کے ظاہری معنوں کے لحاظ سے کوئی "
اور مسیح موعود بھی آیئندہ وقت میں پیدا ہوجائے"۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 78مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 3صفحہ نمبر (138
مسیح موعود " کی یہ عالمت حضورﷺ نے بتائی ہے کہ وہ دمشق میں نازل ہوگا اور اس "
کی عمر 45سال ہوگی۔
مرزا صاحب نے بھی اس نزول سے مراد مسیح موعود کی پیدائش لیا ہے۔
پس اس حساب سے مرزا صاحب اگر سچے "مسیح موعود " ہوتے تو ان کی عمر 45سال
ہونی چاہیے تھی۔ لیکن مرزا صاحب کی عمر 78سال تھی۔
ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی عمر چونکہ مرزا صاحب کے مطابق 45سال ہونی چاہیے
تھی جو کہ 78سال ہوئ لہذا مرزا صاحب اس دعوی میں " کذاب " تھے۔
اگر نزول سے مراد سن دعوی "مسیح موعود " کیا جائے تو پھر بھی مرزا صاحب کذاب
ثابت ہوتے ہیں۔ آیئے مزید جائزہ لیتے ہیں۔
صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح علیہ السالم جب آسمان
سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔ اس کی یہ معقول تعبیر ہو گی کہ حضرت
مسیح علیہ السالم اپنے ظہور کے وقت یعنی اس وقت جب وہ "مسیح موعود " ہونے کا
دعوی کریں گے ۔بیمار ہوں گے ۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 81مندرجہ روحانی خزائن جلد نمبر 3صفحہ (142
اس عبارت میں نزول مسیح سے مراد دعوی مسیح موعود کا سال لیا ہے ۔
مرزا صاحب نے 1891ء میں "مسیح موعود " ہونے کا دعوی کیا۔ اس لحاظ سے مرزا
صاحب کو دعوی مسیح موعود کے بعد 1936 = 45 +1891تک زندہ رہنا چاہیے تھا
لیکن مرزا صاحب 1908ء میں فوت ہوگئے۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب دعوی "مسیح
موعود " میں کذاب تھے ۔
مشکوۃ شریف میں ایک روایت موجود ہے جس میں "مسیح موعود " کی بہت سی عالمات
بتائی گئی ہیں ۔
ینزل عیسی ابن مریم الی االرض فیتزوج و یولد لہ و یمکث فی االرض خمسا و اربعین "
سنتہ ثم یموت فیدفن معی فی قبری" ۔
ترجمہ
میرے آقاﷺ نے فرمایا
عیسی بن مریم زمین کی طرف نازل ہونگے۔ "نکاح" کریں گے اوالد ہوگی۔ زمین میں "
45سال رہیں گے پھر فوت ہو کر میرے مقبرے میں دفن ہونگے"۔
اس حدیث سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ عیسی بن مریم علیہ السالم زمین پر اتر کر نکاح
کریں گے ۔اور ان کی اوالد بھی ہوگی۔ اور وہ 45سال زمین پر رہیں گے ۔ اور آپ ﷺ کے
مقبرے میں دفن ہوں گے ۔
مرزا صاحب کے کذاب "مسیح موعود" ہونے کی پانچویں عالمت یعنی عیسی علیہ السالم
وفات کے بعد آپﷺ کے مقبرے میں دفن ہوں گے۔ اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
مرزا صاحب بھی اس کو تسلیم کرتے ہیں کہ میں ہی وہ مسیح موعود ہوں جو آپﷺ کے
مقبرے میں دفن ہوں گا۔
آنحضرتﷺ فرماتے ہیں کہ مسیح موعود میری قبر میں دفن ہوگا۔ یعنی وہ میں (مرزا "
قادیانی) ہی ہوں"۔
مرزا صاحب 1908ء میں الہور میں فوت ہوئے اور قادیان میں دفن ہوئے۔
اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو مرزا صاحب مدینہ منورہ میں میرے آقا ﷺ
کے مقبرے میں دفن ہوتے ۔ لیکن مرزا جی کو وہاں دفن ہونا تو درکنار وہاں جانا بھی
ساری زندگی نصیب نہیں ہوا۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی "مسیح موعود "میں کذاب تھے۔
مرزا صاحب کا دعوی بھی مسیح موعود ہونے کا تھا ۔ اور مرزا صاحب بھی یہ تسلیم
کرتے تھے کہ میری موجودگی میں ہی اسالم تمام ادیان پر غالب آجائے گا ۔ آیئے جائزہ
لیتے ہیں۔
مرزا صاحب نے ایک دفعہ اخبار "قلقل" بجنور کے ایڈیٹر قاضی نذر حسین کو ایک خط
لکھا جس میں مرزا صاحب نے لکھا کہ
جو لوگ خدا تعالی کی طرف سے آتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنے مبعوث ہونے کی علت کو "
پالیتے ہیں۔اور نہیں مڑتے جب تک ان کی بعثت کی غرض ظہور میں نہ آجائے۔
میرا کام جس کے لئے میں اس میدان میں کھڑا ہوں وہ یہ ہے کہ عیسی پرستی کے ستون
کو توڑدوں۔اور بجائے تثلیث کے توحید پھیالدوں۔ اور آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی
جاللت اور شان دنیا پر ظاہر کر دوں۔
پس اگر مجھ سے کروڑ نشان بھی ظاہر ہوں اور یہ علت ظہور میں نہ آوے تو میں جھوٹا
ہوں۔
پس دنیا مجھ سے کیوں دشمنی کرتی ہے اور وہ میرے انجام کو کیوں نہیں دیکھتی۔
اگر میں نے اسالم کی حمایت میں وہ کام کر دکھایا جو مسیح موعود اور مہدی موعود کو
کرنا چاہیے تو پھر میں سچا ہوں اور اگر کچھ نہ ہوااور میں مرگیا تو سب گواہ رہیں میں
"جھوٹا" ہوں ۔
) اخبار بدر قادیان نمبر 29جلد نمبر 2۔۔۔ 19جوالئی 1906ء صفحہ (4
اگر 7سال کے عرصے میں میرے ہاتھ سے خدا کی تائید سے اسالم کی خدمت میں "
نمایاں اثر ظاہر نہ ہوں اور جیسا کہ مسیح کے ہاتھ سے ادیان باطلہ کا مرنا ضروری ہے یہ
موت جھوٹے دینوں پر میرے ظہور سے نہ آوے یعنی خدا ٰ
تعالی میرے ہاتھ سے وہ نشان
ظاہر نہ کرے جس سے اسالم کا بول باال ہواور جس سے ہر ایک طرف سے اسالم میں
داخل ہونا شروع کر دیں اور عیسائیت کا باطل معبود فنا ہو جائے اور دنیا اور رنگ نہ
پکڑجائے تو میں خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ میں اپنے تئیں کاذب خیال کرتا ہوں"۔
جب وہ (مسیح موعود ) آئے گا تو وہی زمانہ صلیبی مذہب کے تنزل کا ہوگا۔
میرے آنے کے 2مقصد ہیں مسلمانوں کے لیے یہ کہ وہ سچے مسلمان ہوں اور عیسائیوں
کے لئے کسر صلیب ہو۔اور ان کا مصنوعی خدا دنیا میں نظر نہ آئے ۔
)رسالہ دعوت قوم صفحہ 47مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (47
اب جائزہ لیتے ہیں کہ مرزا صاحب اپنے مشن میں کس قدر کامیاب ہوئے۔۔۔۔۔۔
مرزا صاحب کی کامیابی کی داستان قادیانیوں کے سرکاری اخبار "الفضل " نے یوں بیان
کی ہے۔
کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت ہندوستان میں عیسائیوں کے 137مشن کام کر رہے "
ہیں۔ یعنی ہیڈ مشن ۔ ان کی برانچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ہیڈ مشن میں 1800سے زائد
پادری کام کر رہے ہیں۔
ہسپتال ہیں جن میں 500ڈاکٹر کام کر رہے ہیں ۔ 43پریس ہیں جن میں 403 100
اخبارات مختلف زبانوں میں چھپتے ہیں۔
کالج 617 ،ہائی اسکول اور 61ٹرینگ کالج ہیں۔ جن میں 60000طالب علم پڑھتے 51
ہیں۔
مکتی فوج میں 308یورپین اور 2886ہندوستانی مناد کام کرتے ہیں۔
اس کے ماتحت 507پرائمری اسکول ہیں جن میں 18675طالب علم پڑھتے ہیں۔
بستیاں اور 11اخبارات ان کے اپنے ہیں۔ اس فوج کے مختلف اداروں کے ضمن میں 18
3290آدمیوں کی پرورش ہورہی ہے۔
اور ان سب کی کوششوں اور قربانیوں کا نتیجہ یہ ہے کہ کہاجاتا ہے کہ روزانہ 224
مختلف مذاہب کے افراد عیسائی ہورہے ہیں ۔
اس کے مقابلے میں مسلمان کیا کر رہے ہیں ۔وہ تو اس کام کو شاید قابل توجہ بھی نہیں
سمجھتے۔
احمدی جماعت کو سوچنا چاہئے کہ عیسائی مشنریوں کے اس قدر وسیع جال کے مقابلہ
میں اس کی مساعی حیثیت کیا ہے۔
ہندوستان بھر میں ہمارے 24مبلغ ہیں وہ بھی جن حاالت میں کام کر رہے ہیں ان کو ہم
خوب جانتے ہیں"۔
قادیانیوں کے سرکاری اخبار الفضل کی یہ شہادت مرزا صاحب کی وفات کے تقریبا 38
سال بعد کی ہے۔
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کے "دعوی مہدویت" یا "دعوی مسیحیت " سے
عیسائیت کا کچھ نہ بگڑا ۔ اور نہ ہی اسالم کی شان ظاہر ہوئی ۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب اپنے دعوی مہدویت اور دعوی مسیحیت میں "کذاب" ہیں۔
یہ عالمت کسی حدیث میں نہیں آئی کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں
گی۔ لیکن مرزا صاحب نے اس کو مسیح موعود کی عالمات میں سے لکھا ہے۔ اس لئے
اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
حدیث میں ) لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں گی۔ (
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 116مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (
)281
لیجئے مرزا صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ یہ مسیح موعود کی عالمات میں سے ہے کہ
مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں گی۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو ان کے وقت میں ہی
اونٹنیاں بیکار ہوجاتیں لیکن آج مرزا صاحب کو فوت ہوئے 100سال سے زائد عرصہ
ہوچکا ہے۔ لیکن اونٹنیاں آج بھی بیکار نہیں ہویئں۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ مسیح موعود کی یہ عالمت بھی جھوٹی نکلی
اور مرزا صاحب دعوی مسیح موعود میں "کذاب" ثابت ہوگئے۔
یہ عالمت کسی حدیث میں نہیں آئی کہ مسیح موعود کے وقت میں مدینہ سے مکے کی
طرف ریل کا سفر شروع ہوجائے گا۔ لیکن مرزا صاحب نے اس کو مسیح موعود کی
عالمات میں سے لکھا ہے۔ اس لئے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
حدیث میں ) لکھا تھا کہ مسیح موعود کے وقت میں اونٹنیاں بیکار ہوجایئں گی اور اس (
میں یہ بھی اشارہ تھا کہ اس زمانے میں مدینے کی طرف سے مکہ تک ریل کی سواری
ہوجائے گی ۔
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 116مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (
)281
لیجئے مرزا صاحب نے خود تسلیم کر لیا کہ یہ مسیح موعود کی عالمات میں سے ہے کہ
مدینہ سے مکہ کی طرف ریل کا سفر شروع ہوجائے گا۔
ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو ان کے وقت میں ہی
مدینہ سے مکہ کی طرف ریل شروع ہوجاتی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ مسیح موعود کی یہ عالمت بھی جھوٹی نکلی
اور مرزا صاحب دعوی مسیح موعود میں "کذاب" ثابت ہوگئے۔
مسلم شریف میں ایک طویل روایت موجود ہے جس میں "مسیح موعود" کی بہت سی
عالمات بتائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک عالمت یہ ہے کہ مسیح موعود دمشق کے مشرقی
طرف سفید منارے پر نازل ہوگا۔
تعالی مسیح بن مریم علیہ السالم کو معبوث فرمادے گا ۔ وہ دمشق کے حصے میں
ٰ جب ہللا
ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے
ہوئے اتریں گے ۔
خود مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
"ہاں دمشق میں عندالمنارہ اترنے کی حدیث مسلم میں موجود ہے۔"
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 142مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (172
اس حدیث کے مطابق مسیح موعود کو دمشق کی مسجد کے سفید مینارے پر نازل ہونا تھا۔
اگر مرزا صاحب سچے مسیح موعود ہوتے تو دمشق کی مسجد کے سفید مینارے پر نازل
ہوتے۔ لیکن مرزا صاحب چراغ بی بی کے گھر قادیان میں ہوئے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب سچے "مسیح موعود" نہیں تھے بلکہ "کذاب" تھے۔
مسلم شریف میں ایک طویل روایت موجود ہے جس میں "مسیح موعود" کی بہت سی
عالمات بتائی گئی ہیں۔ ان میں سے ایک عالمت یہ ہے کہ مسیح موعود دمشق کے مشرقی
طرف سفید منارے پر نازل ہوگا۔
تعالی مسیح بن مریم علیہ السالم کو معبوث فرمادے گا ۔ وہ دمشق کے حصے میں
ٰ جب ہللا
ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے
ہوئے اتریں گے ۔
خود مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ
"ہاں دمشق میں عندالمنارہ اترنے کی حدیث مسلم میں موجود ہے۔"
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 142مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (172
صحیح مسلم کی حدیث میں جو یہ لفظ موجود ہے کہ حضرت مسیح علیہ السالم جب "
"آسمان سے اتریں گے تو ان کا لباس زرد رنگ کا ہوگا۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 81مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (142
اس حدیث اور مرزا صاحب کی تشریح سے پتہ چال کہ مسیح موعود نے آسمان سے دو
فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر اترنا ہے۔
اگر کوئی قادیانی کہے کہ اس حدیث میں تو آسمان کا لفظ نہیں لکھا تو اس کا جواب یہ ہے
کہ اس حدیث میں آسمان کا لفظ مرزا صاحب کو کہاں سے نظر آگیا؟؟ جہاں سے مرزا جی
کو آسمان کا لفظ نظر آیا ہے۔ ہم بھی اسی کو مانتے ہیں۔
مرزا صاحب کو اسی معیار پر پرکھیں تو مرزا صاحب پھر بھی "کذاب" ثابت ہوتے ہیں۔
کیونکہ مرزا صاحب آسمان سے دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر نہیں اترے بلکہ
"قادیان" میں چراغ بی بی کے گھر پیدا ہوئے۔ پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب "کذاب" ہیں۔
"ختم نبوت کورس"
( ہللا کے بارے میں ہرگز بھی یہ خیال دل میں نہ النا کہ اس نے جو اپنے پیغمبروں سے
جو وعدہ کررکھا ہے اس کی خالف ورزی کرے گا ۔ یقین رکھو ہللا اپنے اقتدار میں سب پر
غالب ہے اور انتقام لینے واال ہے)
جو شخص آیئندہ کی کسی بات کی خبر دے اس کے متعلق دو ہی باتیں ہوسکتی ہیں ۔
1۔ آیئندہ کی خبر دیکھنے والے نے فطرتی حاالت کو دیکھتے ہوئے محض قیاس آرائی کی
ہے ۔
2۔ آیئندہ کی خبر دینے والے نے براہ راست یا بلواسطہ ہللا سے اطالع پاکر خبر دی ہے۔
محض قیاس آرائی کر کے آیئندہ کے حاالت کی خبر دینے والے کی پیشگوئی غلط بھی
ہوسکتی ہے اور کبھی کبھار صحیح بھی ہوسکتی ہے۔
لیکن جو ہللا سے الہام پاکر آیئندہ کی خبر دیتا ہے اس کی ایک بھی خبر یا پیشگوئی غلط
ثابت نہیں ہوسکتی۔
اوپر دیئے گئے حوالہ جات سے یہ ثابت ہوا کہ یہ تو ممکن ہے کہ کوئی ایسا شخص جو
درحقیقت ہللا سے الہام یا وحی پاکر خبر نہ دے اور اس کی پیشگوئی کبھی صحیح بھی
ثابت ہوجائے لیکن یہ نہیں ہوسکتا کہ ہللا کے کسی نبی ،رسول یا ہللا سے براہ راست الہام
پانے والے کی ایک بھی خبر یا پیشگوئی غلط ثابت ہوجائے۔
"کسی انسان کا اپنی پیشگوئی میں جھوٹا نکلنا خود تمام رسوائیوں سے بڑھ کر ہے۔"
(مسیح ہندوستان میں صفحہ 82مندرجہ روحانی خزائن جلد 15صفحہ )84
ان سب باتوں سے قطع نظر مرزا جی اپنے بارے میں یوں لکھتے ہیں کہ
"ہمارا صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیشگویئوں سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان
نہیں "
(آیئنہ کماالت اسالم صفحہ 288مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ )288
مرزا جی کی ان تحریرات سے ثابت ہوا کہ مرزا جی کو سچا یا جھوٹا ثابت کرنے کے لئے
ان کی پیشگوئیوں سے بڑی کوئی دلیل نہیں ۔ اگر مرزا جی کی پیشگوئیاں غلط ثابت
ہوجاتی ہیں تو مرزا جی اپنے ہی بنائے ہوئے اصول کے مطابق "کذاب" ثابت ہوجاتے
ہیں۔
مرزاقادیانی کو پیشگوئیاں کرنے کا بہت شوق تھا اور مرزا جی پیشگوئیاں کرنے کا کوئی
موقع ہاتھ سے خالی نہیں جانے دیتے تھے ۔
مرزاقادیانی کی بیوی نصرت جہاں 1886ء میں حاملہ تھی۔ چنانچہ مرزا جی نے یہ موقع
بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیا بلکہ اس موقع پر بھی ایک پیشگوئی 20فروری 1886ءکو کی
جو کہ درج ذیل ہے۔
"خدائے رحیم و کریم نے جو ہر چیز پر قادر ہے مجھ کو اپنے الہام سے فرمایا ہے کہ میں
تجھے ایک رحمت کا نشان دیتا ہوں۔ خدا نے کہا کہ تاکہ دین اسالم کا شرف کالم ،ہللا کا
مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہوتاکہ لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں ۔ جو چاہتا ہوں کرتا ہوں تاکہ
وہ یقین دالئیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں ۔ اور تاکہ انہیں جو خدا ،خدا کے دین ،اس کی
کتاب ،اس کے رسول کو انکار کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ،ایک کھلی نشانی ملے ،ایک
وجیہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ،وہ تیرے ہی تخم تیری ہی ذریت سے ہوگا۔
خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے ،اس کا نام بشیر بھی ہے ،مبارک وہ ہے جو
آسمان سے آتا ہے اس کے ساتھ فضل ہے وہ بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا ،علوم
ظاہری اور باطنی سے پرکیا جائے گا ،وہ تین کو چار کرنے واال ہوگا ،وہ شنبہ ہے مبارک
دو شنبہ گرامی ارجمند۔ مظہراالول واآلخر مظہر الحق والعالء کان ہللا نزل من السماء ۔ وہ
جلد جلد بڑھے گا ۔ اسیروں کی رستگاری کا باعث ہوگا قومیں اس سے برکت پائیں گی "
اس اشتہار میں مرزا قادیانی نے جس زور و شور سے اس حمل سے بیٹے کی پیدائش کی
پیشگوئی کی اور اس الہام کو ہللا ٰ
تعالی کے قادر و توانا ہونے کی زبردست دلیل مانا گیا۔
اگر مرزا جی کا یہ الہام سچا ہوتا اور ہللا کی طرف سے ہوتا تو ضرور بالضرور اس حمل
سے مرزا جی کے ہاں بیٹا پیدا ہوتا جو مصلح موعود ہوتا لیکن قادیانیوں کے لئے ہائے
افسوس کہ مرزاقادیانی کی بیوی کے ہاں اس حمل سے بیٹا پیدا نہیں ہوا بلکہ بیٹی پیدا ہوئی
۔
اس پر مزید افسوس اس بات کا ہے کہ اس بیٹی کی پیدائش کے بعد مرزا قادیانی کے ہاں
کوئی اور ایسی اوالد پیدا نہیں ہوئی جسے مرزاقادیانی نے اس پیشگوئی کا مصداق ٹہرایا
ہو اور وہ زندہ رہا ہو۔ یا خود مرزاقادیانی نے اس کے مصلح موعود نہ ہونے کا عمال یا
قوال اقرار نہ کیا ہو۔
پھر جب مرزاقادیانی پر اعتراض شروع ہوئے کہ مرزاجی تو کذاب ہیں اور مرزا جی کی
پیشگوئی جھوٹی ثابت ہوئ ہے۔ تو مرزاقادیانی نے ان اعتراضات کے جوابات دیئے جو کہ
درج ذیل ہیں۔
"کوئی اس معترض سے پوچھے کہ وہ فقرہ یا لفظ کہاں ہے جو کسی اشتہار میں اس عاجز
کے قلم سے نکال ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا اسی حمل سے ہوگا "۔
"خدا کا کوئی الہام نہیں تھا کہ عمر پانے واال لڑکا پہلے حمل سے ہی پیدا ہوگا اور کوئی
اجتہادی خیال اگر ہو تو اس پر اعتراض کرنا ان لوگوں کا کام ہے جو نبی کے الہام کو
واجب الوقوع سمجھتے ہیں ۔
میری طرف سے کبھی کوئی پیشگوئی شائع نہیں ہوئ کہ لڑکا اسی حمل سے پیدا ہوگا۔
رہا اجتہاد تو میں خود قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی نبی نہیں آیا جس نے اجتہادی غلطی نہیں
کی"
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 135مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )573
اس تحریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ الہاما تو نہیں لیکن اجتہادا ضرور کہا گیا تھا کہ
مصلح موعود اسی حمل سے پیدا ہوگا۔
لیکن مرزا جی کا اجتہاد بھی جھوٹا ثابت ہوا۔
"اپنی طرف سے نہیں بولتا بلکہ جو کچھ تم سنتے ہو یہ خدا کی وحی ہے۔"
(اربعین نمبر 3صفحہ 37مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ )426
پس ثابت ہوا کہ مرزا جی کو الہام کرنے واال شیطان تھا جس کے الہام جھوٹے ثابت
ہورہے تھے۔ مرزا جی نے یکے بعد دیگرے کئی اشتہارات اپنے آپ کو سچا ثابت کرنے
کے لئے شائع کروائے لیکن ان میں بھی مرزا جی کذاب ثابت ہوئے۔
8اپریل 1886ء میں مرزاقادیانی نے ایک اور اشتہار شائع کروایا جس میں واضح لکھا تھا
کہ
" آج 8اپریل 1886ء میں ہللا جل شانہ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ
ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے واال ہے جو مدت ایک حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا۔
اس الہام سے ظاہر ہے کہ ایک لڑکا بھی ہونے واال یا بالضرور اس کے قریب حمل سے
"
"اے ناظرین میں آپ کو بشارت دیتا ہوں کہ وہ لڑکا جس کے تولد کے لئے میں نے 8
اپریل 1886ء میں پیشگوئی کی تھی کہ اگر وہ موجودہ حمل سے پیدا نہ ہوا تو دوسرے
حمل میں جو اس کے قریب ہے ضرور پیدا ہوجائے گا "۔
ہمارے قارئین تو حیران ہوں گے کہ مرزا جی کیسے انسان تھے جو پہلے تو کہتے ہیں کہ
مصلح موعود اسی حمل سے ہوگا ،پھر کہتے ہیں کہ اس حمل سے یا اس کے قریب حمل
سے مصلح موعود پیدا ہوگا ،لیکن وہ مصلح موعود پہلے حمل سے پیدا نہ ہوا بلکہ لڑکی
پیدا ہوئ اس طرح مرزا جی کذاب تو ثابت ہوگئے۔
لیکن مرزا جی چونکہ کہتے ہیں کہ اس حمل کی مدت اڑھائی سال یا 9سال ہے۔
لیکن 99سال کے بعد بھی وہ "مصلح موعود " پیدا نہ ہوسکا بلکہ 13سال بعد پیدا ہونے
والے لڑکے مبارک احمد کو مرزا قادیانی نے اپنی 1886ء میں کی گئی "مصلح موعود"
کی پیشگوئی کا مصداق قرار دیا۔
اب آیئے دیکھتے ہیں کہ" مصلح موعود " کا کیا بنا۔
مبارک احمد جس کو مرزاقادیانی نے "مصلح موعود " قرار دیا تھا وہ زیادہ عرصہ زندہ نہ
رہ سکا بلکہ 9سال سے بھی کم عمر میں مرزاقادیانی کی زندگی میں ہی فوت ہوگیا۔اور
مرزا جی اس کے غم کی سینہ کوبی کرتے رہے ۔
( مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 716اشتہار 5نومبر 1907ء جدیدایڈیشن 2جلدوں واال)
لیجئے واضح ہوگیا کہ مرزا جی کے الہامات ہللا کی طرف سے نہیں بلکہ شیطان کی طرف
سے ہوتے ہیں۔
نتیجہ =
معزز قارئین مرزاقادیانی کے ماننے والوں کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ 1886ء
کے بعد مرزاقادیانی کی تیسری شادی نہیں ہوسکی۔
اس طرح مرزاقادیانی کی یہ پیشگوئی بھی جھوٹی نکلی اور قانون یہ ہے کہ جھوٹا انسان
نبی نہیں ہوتا۔اس کے ساتھ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرزاقادیانی کو الہام شیطان کی طرف سے
ہوتے تھے جو جھوٹے ثابت ہوئے کیونکہ اگر یہ الہام خدا کی طرف سے ہوتا تو ضرور
بالضرور سچا ثابت ہوتا ۔
نوٹ = مرزا قادیانی کی تیسری شادی یا 1886ء کے بعد شادی ثابت کرنے والے کو منہ
مانگا انعام دیا جائے گا ۔
معزز قارئین 1903ء کو مرزاقادیانی کی بیوی "نصرت جہاں" حاملہ تھی۔ اس وقت
مرزاقادیانی کے 4بیٹے پیدا ہوچکے تھے۔
مرزاقادیانی نے اس دوران ایک پیشگوئی کی ہللا ٰ
تعالی نے مجھے پانچویں بیٹے کی
بشارت دی ہے۔
پیشگوئی کے الفاظ درج ذیل ہیں۔
" الحمد ہلل الذی وھب لی علی الکبر اربعتہ من البنین و بشرنی من الخامس "
ترجمہ =
سب تعریف خدا کو ہے جس نے مجھے بڑھاپے میں 44لڑکے دیئے اور پانچویں کی
بشارت دی "۔
" قریبا 3ماہ کا عرصہ گزرا کہ میرے لڑکے محمود احمد کے گھر لڑکا پیدا ہوا ۔ جس کا
نام نصیر الدین احمد رکھا گیا ۔ سو یہ پیشگوئی ساڑھے 4سال بعد پوری ہوئ"۔
نوٹ=
مرزاقادیانی کے 44ہی لڑکے تھے پانچواں لڑکا مرزاقادیانی کی موت تک پیدا نہیں
ہوسکا۔ مرزاقادیانی کا پانچواں لڑکا ثابت کرنے والے مرزائی کو منہ مانگا انعام دیا جائے
گا ۔
"احتساب قادیانیت"
"مرزاقادیانی کی جھوٹی پیشگوئی نمبر "4
مرزاقادیانی کی عادت تھی کہ جب کبھی آپ کی بیوی حاملہ ہوتی تو قبل از وقت اوالد کی
پیشگوئی کردیتے۔ اگر بہو حاملہ ہوتی تو پوتا ہونے کی خوش خبری گھڑ لیتے۔ اگر کسی
مرید کی بیوی حاملہ ہوتی تو اس کے حق میں لڑکا یا لڑکی ہونے کی پیشگوئی گھڑ لیتے۔
اور ساتھ ہی دور اندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے "ممکن ہے" جیسے الفاظ بھی استعمال
کرلیتے تاکہ اگر پیشگوئی کے الٹ معاملہ ہوجائے تو پھر بھی ذلت و رسوائی سے بچنے
کا بہانہ موجود رہے۔
یہ پیشگوئی جس کا ذکر درج ذیل ہوگا یہ پیشگوئی بھی مرزاقادیانی کے ایک مرید کی
بیوی کے بارے میں ہے۔
فروری 1906ء میں مرزاقادیانی کے ایک مرید میاں منظور محمد کی بیوی حاملہ تھی اس
وقت مرزاقادیانی نے درج ذیل پیشگوئی کی۔
"د یکھا کہ منظور محمد کے ہاں لڑکا پیدا ہوا ہے۔دریافت کرتے ہیں کہ اس لڑکے کا کیانام
رکھا جائے ۔ تب خواب سے حالت الہام کی طرف چلی گئی ۔ اور یہ معلوم ہوا کہ "بشیر
الدولہ" ۔ فرمایا کئی آدمیوں کے واسطے دعا کی جاتی ہے معلوم نہیں کہ منظور محمد کے
لڑکے سے کس طرف اشارہ ہے "
اس گول مول الہام میں مرزاقادیانی نے دجل و فریب سے کام لیا مرزاقادیانی کا مطلب یہ
تھا کہ اگر تو بیٹا پیدا ہوگیا تو چاندی کھری ہے۔ میں کہ دوں گا کہ الہام کا یہی مطلب تھا
اور اگر بیٹا پیدا نہ ہوا تو پھر کہ دوں گا کہ یہ الہام کسی اور کے بارے میں ہے ۔ مگر
میرے ہللا بھی مرزاقادیانی کو ذلیل کروانا چاہتے تھے ۔ چنانچہ اس پیشگوئی کے ساڑھے
4ماہ بعد مرزا جی کے قلم سے ایک اور پیشگوئی لکھی گئی ۔ وہ درج ذیل ہے۔
" 17جون 1906ء بذریعہ الہام الہی معلوم ہوا کہ میاں منظور محمد صاحب کے گھر یعنی
محمدی بیگم زوجہ منظور محمد کا ایک لڑکا پیدا ہوگا ۔ جس کے 2نام ہوں گے ۔
1۔ بشیر الدولہ
2۔ عالم کباب
یہ 2نام بذریعہ الہام الہی معلوم ہوئے ۔
بشیر الدولہ سے مراد ہماری دولت اور اقبال کے لئے بشارت دینے واال ۔
عالم کباب سے یہ مراد ہے کہ اس کے پیدا ہونے کے چند ماہ تک یا جب تک وہ اپنی برائ
بھالئی شناخت کرے دنیا پر ایک سخت تباہی آئے گی ۔ گویا دنیا کا خاتمہ ہوجائے گا ۔
خدا کے الہام سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے سرکش لوگوں کے لئے کچھ اور مہلت
منظور ہے تب بالفعل لڑکا نہیں بلکہ لڑکی پیدا ہوگی اور لڑکا بعد میں پیدا ہوگا مگر
ضرورہوگا کیونکہ وہ خدا کا نشان ہے"۔
اگرچہ مرزاقادیانی کی یہ عبارت بھی پرفریب ہے مگر اس عبارت سے درج ذیل باتیں
ثابت ہویئں۔
معزز قارئین قادیانیوں کے لئے ہائے افسوس کہ منظور محمد کی بیوی کے ہاں اس حمل
سے لڑکی پیدا ہوئ ۔ اور اس کے کچھ عرصہ بعد منظور محمد کی وہ بیوی یعنی محمدی
بیگم فوت ہوگئ اور "بشیرالدولہ عالم کباب"لڑکا پیدا نہ ہوسکا جس کو مرزاقادیانی نے خدا
کا نشان کہا تھا ۔
"ہللا ٰ
تعالی بہتر جانتا ہے کہ یہ پیشگوئی کب اور کس رنگ میں پوری ہوگی ۔ گوحضرت
اقدس نے اس کا وقوع محمدی بیگم سے ہی فرمایا تھا ۔ مگر چونکہ وہ فوت ہوچکی ہے
لہذا اب نام کی تخصیص نہ رہی۔ بہرصورت یہ پیشگوئی متشابہات میں سے ہے"۔
"عرصہ بیس یا اکیس برس کا گزر گیا ہے کہ میں نے ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں
لکھا تھا کہ خدا نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ میں 4لڑکے دوں گا جو عمر پاویں گے۔
چنانچہ وہ 4لڑکے یہ ہیں ۔
1۔ محمود احمد
2۔ بشیر احمد
3۔ شریف احمد
4۔ مبارک احمد
مرزاقادیانی نے ان چند سطروں میں کئی جھوٹ بولے ہیں ۔ مثال میں نے 20یا 21برس
پہلے 4بیٹوں کی خدا کی طرف سے عمر پانے کی پیشگوئی کی تھی۔ ایسا کوئی اشتہار
مرزاقادیانی نے شائع نہیں کیا تھا۔
البتہ مرزا جی نے 20فروری 1886ء کو ایک اشتہار شائع کیا تھا جس میں لکھا تھا کہ
"وہ تین کو چار کرے گا اس کے معنی سمجھ میں نہیں آئے"
البتہ مصلح موعود لڑکا "مبارک احمد " کے متعلق بعض تحریرات میں مرزا جی نے لکھا
ہے کہ جس کا خالصہ یہ ہے کہ
"وہ عمر پانے واال لڑکا ہے۔"
ساری بحث کا خالصہ یہ ہے کہ مرزا جی نے لکھا تھا کہ مرزا جی کے خدا نے مرزا جی
سے وعدہ کیا تھا کہ میں تجھے 4لڑکے دوں گا جو عمر پائیں گے ۔
لیکن قادیانیوں کے لئے ہائے افسوس کہ مرزا جی کا چوتھا لڑکا مبارک احمد 9سال کی
عمر میں وفات پاکر مرزا قادیانی کو دنیا میں ذلیل کر گیا۔ یوں عمر پانے والے لڑکے کی
پیشگوئی پوری نہ ہوسکی۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا جی کو الہام کرنے واال شیطان تھا جس کی وجہ سے مرزا جی کو
ذلیل ہونا پڑا۔
"محمدی بیگم"
محمدی بیگم کی عمر تقریبا 9سال تھی اور مرزاصاحب کی عمر 49سال تھی ۔ جب مرزا
صاحب کی غلیظ نظریں محمدی بیگم پر پڑ گیئں۔ اور مرزا صاحب حیلوں بہانوں سے
محمدی بیگم کو پانے کی کوششوں میں لگے رہے ۔
محمدی بیگم کے والد جن کا نام "احمد بیگ
ہوشیار پوری" تھا اور وہ مرزا صاحب کے رشتے داروں میں سے تھے۔ ان کو ایک
زمین کے کام کے لئے مرزا صاحب کی ضرورت پڑگئ۔
مرزا صاحب نے کہا کہ ہماری عادت استخارے کے بغیر کوئی بھی کام کرنے کی نہیں
ہے ۔ لہذا چند دن بعد بتایا جائے گا کہ آیا یہ کام میں کرسکتا ہوں یا نہیں ۔ کچھ دنوں بعد
حسب توقع اپنے اس سلوک و مروت کی قیمت کے طور پر یا محمدی بیگم کو پانے کے
لئے اس کام کے بدلے محمدی بیگم کا رشتہ اس کے باپ سے مانگا ۔
اور ساتھ ہی یہ کہ دیا کہ اگر محمدی بیگم کا رشتہ میرے ساتھ طے کردیں تو میں آپ کی
زمین کی گواہی دوں گا اور اس کے ساتھ مزید زمین بھی آپ کو تحفتا دوں گا ۔
اور یہ بھی کہ دیا کہ اگر محمدی بیگم کے والد نے محمدی بیگم کا رشتہ مرزا صاحب سے
طے نہ کیا تو مرزا صاحب زمین کے معاملے میں گواہی نہیں دے گا۔
مرزا صاحب نے یہ باتیں جن کا خالصہ اوپر بیان کیا گیا ہے ایک خط کی صورت میں
محمدی بیگم کے والد کو لکھی تھیں۔
محمدی بیگم کا والد ایک عزت دار آدمی تھا ۔ اس لئے اس نے مرزا صاحب کا بلیک میلنگ
پر مبنی خط اخبارات میں شائع کروادیا۔ اگر محمدی بیگم کا والد ایسا نہ کرتا اور اپنی بیٹی
محمدی بیگم کا رشتہ زمین کے بدلے میں یا اللچ کے طور پر مرزا صاحب کو دے دیتا تو
قیامت تک کے لئے لوگ محمدی بیگم کے والد کو ذلیل اور حقیر سمجھتے ۔ مرزا صاحب
نے محمدی بیگم کے والد کو جو خط لکھا اس میں پیشگوئی بھی تھی۔
مالحظہ فرمائیں ۔
(آیئنہ کماالت اسالم صفحہ 280مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ )280
(اخبار نور افشاں 10مئی 1888ء)
جب محمدی بیگم کے والد نے مرزا صاحب کا یہ خط اخبار نور افشاں میں شائع کروایا تو
مرزا صاحب کو بھی غصہ آگیا۔ کیونکہ مرزا صاحب کے دل میں چونکہ چور تھا اس لئے
مرزا صاحب نے ان کو کہا تھا کہ اس خط کو لوگوں کے سامنے ظاہر نہ کریں۔
"اخبار نور افشاں 10مئی 1888ء میں جو خط اس راقم کا چھاپا گیا ہے وہ ربانی اشارہ
سے لکھا گیا تھا۔ ایک مدت سے قریبی رشتہ اور مکتوب الیہ کے نشان آسمانی کے طالب
تھے اور طریقہ اسالم سے انحراف رکھتے تھے۔
(طریقہ اسالم واال مرزا صاحب کا جھوٹ ہے کیونکہ وہ طریقہ اسالم سے انحراف نہیں
رکھتے تھے صرف مرزا صاحب کو اپنے دعاوی میں کذاب سمجھتے تھے)
یہ لوگ مجھ کو میرے دعوی الہام میں مکار اور دروغ گو جانتے تھے اور مجھ سے
کوئی نشان آسمانی مانگتے تھے ۔ کئی دفعہ ان کے لئے دعا کی گئی ۔
دعا قبول ہوکر خدا نے یہ تقریب پیدا کی کہ والد اس دختر کا ایک ضروری کام کے لئے
ہماری طرف متوجہ ہوا۔
قریب تھا کہ ہم دستخط کر دیتے۔ لیکن خیال آیا کہ استخارہ کرلینا چاہیئے ۔ سو یہی جواب
مکتوب الیہ کو دیاگیا۔ پھر استخارہ کیاگیا۔
وہ استخارہ کیا تھا گویا نشان آسمانی کی درخواست کا وقت آپہنچا۔ اس قادر حکیم نے مجھ
سے فرمایا کہ اس کی دخترکالں کے لئے سلسلہ جنبانی کرو۔ اور ان سے کہ دو کہ تمام
سلوک و مروت تم سے اس شرط پر کیا جائے گا ۔
اگر نکاح سے انحراف کیا تو اس لڑکی کا انجام نہایت برا ہوگا۔ جس دوسرے شخص سے
یہ بیاہی جائے گی ۔ وہ روز نکاح سے اڑھائی سال اور ایسا ہی والد اس دختر کا تین سال
تک فوت ہوجائے گا ۔
خدائے ٰ
تعالی نے یہ مقرر کر رکھا ہے کہ وہ مکتوب الیہ کی دختر کو ہرایک مانع دور
کرنے کے بعد انجام کار اس عاجز کے نکاح میں الئے گا۔ عربی الہام اس بارے میں یہ ہے
کہ
"کذبو بایتنا وکانو بھا یستہزعون ۔ فسیکفیھم ہللا و یردھا الیک ۔ ال تبدیل لکلمات ہللا ۔ ان
ربک فعال لما یرید۔
یعنی انہوں نے ہمارے نشانوں کو جھٹالیا اور وہ پہلے ہنسی کررہے تھے ۔ سو خدائے
ٰ
تعالی ان کے تدارک کے لئے جو اس کام کو روک رہے ہیں۔ تمہارا مددگار ہوگا ۔ اور انجام
کار اس لڑکی کو تمہاری طرف واپس الئے گا ۔ اور کوئی نہیں جو خدا کی باتوں کو ٹال
سکے۔
تیرا رب وہ قادر ہے کہ جو کچھ چاہے وہی ہو جاتا ہے۔ بدخیال لوگوں کو واضح ہوکہ ہمارا
صدق یا کذب جانچنے کو ہماری پیشگوئی سے بڑھ کر اور کوئی محک امتحان نہیں"۔
(آیئنہ کماالت اسالم صفحہ 280مندرجہ روحانی خزائن جلد 5صفحہ 281تا )288
اس عبارت میں جو کچھ مرزا صاحب نے لکھا ہے وہ تشریح کا محتاج نہیں ۔
مرزا صاحب نے محمدی بیگم سے نکاح اور محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کی موت
کی پیشگوئی کو "تقدیر مبرم" قرار دیا ہے۔ جیسا کہ درج ذیل تحریر میں مرزا صاحب نے
لکھا ہے کہ
"نفس پیشگوئی یعنی اس عورت (محمدی بیگم) کا اس عاجز (مرزا قادیانی) کے نکاح میں
آنا یہ تقدیر مبرم ہے جو کسی طرح ٹل نہیں سکتی۔کیونکہ اس کے لئے الہام الہی میں یہ
فقرہ موجود ہے "ال تبدیل لکلمات ہللا" یعنی میری یہ بات ہرگز نہیں ٹلے گی۔ پس اگر ٹل
جائے تو خدا کا کالم باطل ہوتا ہے۔"
(اشتہار 6ستمبر 1894ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 43تین جلدوں واال پرانا
ایڈیشن)
اس کے عالوہ مرزا صاحب نے محمدی بیگم کے خاوند کے متعلق لکھا ہے کہ
"میں بار بار کہتا ہوں کہ نفس پیشگوئی داماد احمد بیگ کی (موت) تقدیر مبرم ہے ۔ اس کی
انتظار کرو اگر میں جھوٹا ہوں تو یہ پیشگوئی پوری نہیں ہوگی۔اور میری موت آجائے
گی۔"
"صاف ظاہر ہے کہ آتھم کی پیشگوئی اور اس(محمدی بیگم والی) پیشگوئی میں 3شخص
کی موت کی خبر دی گئی تھی ۔ سو ان میں سے 2تو فوت ہوچکےصرف ایک باقی ہے۔
سو اس ایک کا انتظار کرو۔"
(انجام آتھم صفحہ 32مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )32
مرزا صاحب کی تحریرات سے پتہ چال کہ مرزا صاحب کا محمدی بیگم سے نکاح ہونا
اور محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کا فوت ہوجانا یہ مرزا صاحب کی ایسی
پیشگوئیاں تھیں جو "تقدیر مبرم" تھیں۔ اب دیکھتے ہیں کہ مرزا صاحب "تقدیر مبرم" کے
بارے میں کیا لکھتے ہیں۔
"گو بظاہر کوئی وعید شروط سے خالی ہو۔مگر اس کے ساتھ پوشیدہ طور پر ارادہ الہی
میں شروط ہوتی ہیں۔ بجز ایسے الہام کے جس میں ظاہر کیا جائے کہ اس کے ساتھ شروط
نہیں ہیں۔پس ایسی صورت میں قطعی فیصلہ ہوجاتا ہے۔ اور تقدیر مبرم قرار پاتا ہے۔"
1۔ سب سے بہتر یہ ہے کہ محمدی بیگم کا نکاح مرزا صاحب کے ساتھ کردیا جائے ۔
22۔ اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کیا گیا تو خدا کاعذاب نازل ہوگا۔
33۔ اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کیا گیا تو جس کے ساتھ نکاح ہوگا وہ
اڑھائی سال کے اندر اندر مر جائے گا ۔
44۔ اگر محمدی بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کیا گیا تو محمدی بیگم کا والد تین سال
کے اندر اندر مر جائے گا۔
55۔ جو شخص محمدی بیگم کے مرزا صاحب کے ساتھ نکاح کرنے میں رکاوٹ ڈالے گا ۔
وہ بھی ساتھ ہی پس جائے گا ۔
66۔ ان سب کاموں کے بعد مرزا صاحب کا نکاح محمدی بیگم کے ساتھ ہوگا۔
تعالی کی طرف سے77۔ اور یہ سارے کام خدا کا نشان ہوں گے ۔ اور مرزا صاحب کو ہللا ٰ
الہام ہوتے ہیں اس بات کی سچائی کی دلیل ہوں گے ۔
8۔محمدی بیگم سے مرزا صاحب کا نکاح اور محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کی
موت کی پیشگوئی "تقدیر مبرم" ہے جو کسی صورت ٹل نہیں سکتی۔
99۔اگر یہ تمام باتیں اس طرح نہ ہوسکیں تو مرزا صاحب کذاب ثابت ہوجائے گا ۔
ہللا ٰ
تعالی نے مرزا صاحب کو ذلیل کروانا تھا اس لئے نہ ہی مرزا صاحب کا محمدی بیگم
سے ساری زندگی نکاح ہوسکا۔اور نہ ہی محمدی بیگم کا خاوند مرزا صاحب کی زندگی
میں مرسکا۔ جس کے مرنے کی پیشگوئی مرزا صاحب نے کی تھی اور مرزا صاحب نے
کہا تھا کہ وہ نکاح کے دن سے اڑھائی سال کے اندر مر جائے گا لیکن وہ نہ مرا۔
یاد رہے ان دونوں پیشگویئوں کو مرزا صاحب نے تقدیر مبرم قرار دیا تھا۔ جو کسی
صورت نہیں ٹل سکتیں۔
قادیانی یہاں دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہیں کہ محمدی بیگم کا والد 6ماہ بعد مرگیا تھا۔
اور محمدی بیگم اور اس کے خاوند اور خاندان نے توبہ کر لی تھی لہذا وہ مرنے سے بچ
گئے۔
اس کا پہال جواب تو یہ ہے کہ مرزا صاحب نے محمدی بیگم سے نکاح اور محمدی بیگم
کے خاوند سلطان محمد کی موت کی پیشگوئی کو "تقدیر مبرم" قرار دیا تھا جو کسی
صورت ٹل نہیں سکتی۔بالفرض اگر انہوں نے توبہ کر بھی لی تھی تو پھر بھی تقدیر مبرم
کو ضرور پورا ہونا چاہئے تھا۔ جو کہ پوری نہیں ہوئی۔
"دوسرا جواب"
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ محمدی بیگم کے والد کی وفات کے بعد مرزا صاحب نے
درج ذیل تحریر لکھی تھی جس میں لکھا ہے کہ
"مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری کے داماد کی موت کی نسبت پیشگوئی جو پٹی ضلع الہور
کا باشندہ ہے۔ جس کی معیاد آج کی تاریخ سے جو 21ستمبر 1893ء ہے۔ قریبا 11مہینے
باقی رہ گئی ہے۔ یہ تمام امور جو انسانی طاقتوں سے بالکل باالتر ہیں۔ ایک صادق یا کاذب
کی شناخت کے لئے کافی ہیں۔ کیونکہ احیاء(زندگی) اور اماتت (موت) دونوں خدا ٰ
تعالی
کے اختیار میں ہیں۔ اور جب تک کوئی شخص نہایت درجہ کا مقبول نہ ہو۔ خدا ٰ
تعالی اس
کی خاطر سے کسی اس کے دشمن کو اس کی دعا سے ہالک نہیں کر سکتا۔ خصوصا
ایسے موقع پر کہ وہ شخص اپنے تئیں منجانب ہللا قرار دیوے اور اپنی اس کرامت کو اپنے
صادق ہونے کی دلیل ٹھراوے۔ سو پیشگوئیاں کوئی معمولی بات نہیں کوئی ایسی بات نہیں
جو انسان کے اختیار میں ہو۔ بلکہ محض ہللا جل شانہ کے اختیار میں ہیں۔ سو اگر کوئی
طالب حق ہے تو ان پیشگویئوں کے وقتوں کا انتظار کرے۔
(آگے مرزا قادیانی نے اس پیشگوئی کے اجزا یوں لکھے ہیں)
11۔ مرزا احمد بیگ ہوشیار پوری (محمدی بیگم کا والد) تین سال کی معیاد کے اندر فوت
ہو۔
22۔ پھر داماد اس کا جو اس کی دختر کالں (محمدی بیگم)کا شوہر ہے،اڑھائی سال کے
اندر فوت ہو۔
33۔ پھر یہ کہ احمد بیگ تاروز شادی دختر کالں(محمدی بیگم) فوت نہ ہو۔
44۔ پھر یہ کہ وہ دختر(محمدی بیگم) بھی تانکاح اور تاایام بیوہ ہونے اور نکاح ثانی فوت
نہ ہو۔
55۔ اور پھر یہ کہ یہ عاجز (مرزاقادیانی) بھی ان تمام واقعات کے پورے ہونے تک فوت
نہ ہو۔
6۔ پھر یہ کہ اس عاجز (مرزا قادیانی) سے نکاح ہوجاوے۔
(شہادۃ القرآن صفحہ 80،81مندرجہ روحانی خزائن جلد 6صفحہ )374،375
باوجودیکہ اس تحریر میں مرزا صاحب نے بہت سے جھوٹ لکھے ہیں مثال مرزا صاحب
نے لکھا ہے کہ پیشگوئی کے مطابق پہلے محمدی بیگم کے خاوند کو مرنا چاہیئے تھا یہ
مرزا صاحب کا جھوٹ ہے کیونکہ اصل پیشگوئی کے مطابق پہلے محمدی بیگم کے خاوند
کو مرنا تھا۔ پھر بھی مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چال کہ بالفرض اگر سلطان محمد
یا محمدی بیگم کے خاندان نے توبہ کر بھی لی تھی پھر بھی مرزا صاحب کو سلطان محمد
کی موت کی پیشگوئی کے پورا ہونے کا انتظار تھا۔ اور اگر انہوں نے توبہ کر لی تھی اور
یہ پیشگوئی ٹل گئی تھی تو اس کے باوجود مرزا صاحب پھر سلطان محمد کی موت کا
انتظار کیوں کرتے رہے؟ ؟
"تیسرا جواب"
"اگر کافر ہے تو سچا مسلمان ہوجائے اور اگر ایک جرم کا مرتکب ہے تو سچ مچ اس جرم
سے دستبردار ہوجائے۔"
(اشتہار 6ستمبر 1894ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 46،47تین جلدوں واال
پرانا ایڈیشن)
اب دیکھتے ہیں کہ محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد کا جرم کیا تھا جس کی اس نے
توبہ کرنی تھی۔
(اشتہار 27اکتوبر 1894ء مندرجہ مجموعہ اشتہارات جلد 2صفحہ 95تین جلدوں واال
پرانا ایڈیشن)
مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چال کہ محمدی بیگم کے خاوند کا قصور محمدی بیگم
سے نکاح کرنا تھا۔ پس اگر محمدی بیگم کے خاوند نے توبہ کر لی تھی تو اس کو محمدی
بیگم کو طالق دے دینی چاہیے تھی تاکہ مرزا صاحب اس سے نکاح کر سکیں لیکن
محمدی بیگم کے خاوند سلطان محمد نے مرزا صاحب کی زندگی میں بھی اور مرزا
صاحب کی موت کے بعد بھی محمدی بیگم کو طالق نہیں دی۔ پس ثابت ہوا کہ محمدی بیگم
کے خاوند یا خاندان نے کوئی توبہ نہیں کی تھی۔
ساری گفتگو کا خالصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب نے پیشگوئی کی تھی کہ محمدی بیگم کا
نکاح ہللا ٰ
تعالی نے میرے ساتھ آسمانوں پر کردیا ہے۔ اگر محمدی بیگم کے والد نے محمدی
بیگم کا نکاح کسی اور کے ساتھ کردیا تو نکاح کے بعد اڑھائی سال کے اندر جس کے
ساتھ نکاح کیا گیا وہ فوت ہوجائے گا اور نکاح کے بعد تین سال کے اندر محمدی بیگم کا
والد فوت ہوجائے گا۔ اور اس کے بعد محمدی بیگم مرزا صاحب کے نکاح میں واپس
آجائے گی۔ لیکن نہ ہی محمدی بیگم کا خاوند مرزا صاحب کی زندگی میں فوت ہوا اور نہ
ہی محمدی بیگم مرزا صاحب کے نکاح میں آئی۔محمدی بیگم کا خاوند 1948ء کو اسالم کی
حالت میں فوت ہوا۔
مرزاقادیانی نے جون 1892ء میں اپنی عمر کے بارے میں ایک فارسی شعر میں اپنی عمر
کی پیشگوئی کی ۔ آیئے فارسی شعر اور مرزاقادیانی کی زبانی اس شعر کی تشریح کا
جائزہ لیتے ہیں۔
لیکن مرزا جی اپنی اس پیشگوئی میں بھی "کذاب" ثابت ہوئے۔ آیئے مرزا صاحب کی اس
پیشگوئی کی تفصیل دیکھتے ہیں۔
مرزا صاحب نے 8اپریل 1905ء کو ایک اشتہار شائع کروایا جس میں لکھا تھا کہ
"آج رات کے تین بجے خدا کی پاک وحی مجھ پر نازل ہوئ۔ تازہ نشان کا دھکہ ۔ زلزلتہ
الساعتہ ۔ خدا ایک تازہ نشان دکھائے گا ۔ مخلوق کو ایک نشان کا دھکہ لگے گا ۔وہ قیامت
کا زلزلہ ہوگا۔ مجھے علم نہیں دیا گیا کہ وہ زلزلے سے مراد زلزلہ ہے یا کوئی اور شدید
آفت ہے جو دنیا پر آئے گی جس کو قیامت کہ سکیں۔ اور مجھے علم نہیں دیا گیا کہ ایسا
حادثہ کب آئے گا ۔ اور مجھے علم نہیں کہ وہ چند دن تک ظاہر ہوگا یا چند ہفتوں تک ظاہر
ہوگا۔ یا خدا ٰ
تعالی اس کو چند مہینوں یا چند سال کے بعد ظاہر فرمائے گا ۔ یا کچھ اور
قریب یا بعید۔
اس کے عالوہ 14اپریل 1905ء کو بھی مرزا جی نے اپنا ایک کشف سنایا۔
"میں قادیان کے بازار میں گاڑی پر سوار ہوں۔ اس وقت زلزلہ آیا ۔ مگر ہم کو کوئی نقصان
اس زلزلہ سے نہیں ہوا"۔
اس کے بعد 15اپریل 1905ء کو مرزا جی نے آنے والے زلزلے کے بارے میں ایک
پوری نظم لکھی جس کے چند اشعار درج ذیل ہیں۔
ایک نشان ہے آنے واال آج سے کچھ دن کے بعد
جس سے گردش کھائینگے دیہات شہر و مرغزار
کچھ دنوں کے بعد یعنی 29اپریل 1905ء کو مرزا جی نے ایک اور اشتہار شائع کروایا
جس میں ذکر تھا کہ زلزلہ کے خوف سے مرزا جی نے اپنا گھر بھی چھوڑ دیا کیونکہ
مرزا جی کے مطابق زلزلہ بس آنے ہی واال تھا ۔ اشتہار کے الفاظ مالحظہ فرمائیں ۔
اب ایک اور حوالہ پڑھیں جس میں مرزا جی نے اس زلزلے کا اپنی زندگی میں ہی آنا
یقینی بتایا۔
"خدا ٰ
تعالی کا ایک الہام یہ بھی ہے کہ "پھر بہار آئی خدا کی بات پھر پوری ہوئ" اس
سے معلوم ہوتا ہے کہ زلزلہ موعودہ کے وقت بہار کے دن ہوں گے۔ اور جیسا کہ بعض
الہامات سے سمجھا جاتا غالبا صبح کا وقت ہوگا یا اس کے قریب۔ اور غالبا وہ وقت نزدیک
ہے۔ جبکہ وہ پیشگوئی ظہور میں آجائے۔ اور ممکن ہے کہ خدا اس میں کچھ تاخیر ڈال
دے۔
(اس تاخیر کی تعیین بھی اسی صفحے میں کی گئی ہے)
بار بار وحی الہی نے مجھے اطالع دی ہے کہ وہ پیشگوئی میری زندگی میں اور میرے
ہی ملک اور میرے ہی فائدے کے لئے ظہور میں آئے گی۔ اگر خدا ٰ
تعالی نے بہت ہی
تاخیر ڈال دی تو زیادہ سے زیادہ 16سال میں۔ضرور ہے کہ یہ میری زندگی میں ظہور
میں آجائے۔
ایک اور جگہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ یہ پیشگوئی اگر میری زندگی میں پوری نہ
ہوئی تو میں خدا کی طرف سے نہیں ہوں۔ اصل الفاظ مالحظہ فرمائیں ۔
"ایسا ہی آئندہ زلزلہ کی نسبت جو پیشگوئی ہے وہ کوئی معمولی پیش گوئی نہیں .اگر وہ
تعالی کی
ٰ آخر کو معمولی بات نکلی یا میری زندگی میں اس کا ظہور نہ ہوا تو میں خدا
طرف سے نہیں".
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 92مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ )253
کچھ قادیانی کہتے ہیں کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی اس زلزلے کی صورت میں پوری
ہوئی جو 1906ء میں آیا تھا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ خود مرزا صاحب نے 1907ء میں
لکھا ہے کہ
یعنی مرزا قادیانی کو 1907ء میں بھی اس زلزلے کا انتظار تھا جس کے متعلق مرزا
صاحب نے پیشگوئی کی تھی۔
اور پھر یہ انتظار انتظار ہی رہا اور پیشگوئی پوری نہ ہوپائ۔ اس طرح مرزا جی اپنی اس
پیشگوئی میں بھی "کذاب"ہوئے۔
مرزا صاحب نے ایک پیشگوئی 20فروری 1886ء کو شائع کی ۔ جس میں مرزا صاحب
نے لکھا کہ
"خواتین مبارکہ میں سے جن کو تو بعض کو اس کے بعد پائے گا ،تیری نسل بہت ہوگی۔
اور ہر ایک شاخ تیرے جدی بھائیوں کی کاٹی جائے گی ۔ اور وہ جلد الولد رہ کر ختم
ہوجائے گی اور ایک اجڑا ہوا گھر تجھ سے آباد کرے گا "۔
1۔ نصرت بیگم کے نکاح کے بعد کئی عورتیں مرزا صاحب کے نکاح میں آئیں گی۔ اور
ان سے اوالد بھی بہت ہوگی۔اور نسل بھی خوب پھیلے گی ۔
(مرزا صاحب کی تیسری شادی نہیں ہوئی لہذا یہ پیشگوئی بھی جھوٹی نکلی۔ اس کی
تفصیل پیشگوئی نمبر 2میں گزر چکی ہے )
2۔ مرزا صاحب کےچچازاد بھائی مرزا امام دین ،مرزا نظام الدین اور مرزا کمال الدین دنیا
سے الولد ہی جایئں گے ۔ (یعنی ان کی کوئی اوالد نہیں ہوگی)
اور ان تینوں کی نسل منقطع ہوجائے گی ۔
(یہ پیشگوئی مرزا صاحب نے اس لئے کی کیونکہ مرزا صاحب کو پتہ تھا کہ ان کے چچا
زاد بھائی الولد ہیں اور ان کی اوالد ہونے کا امکان نہیں ہے لہذا مرزا صاحب نے یہ
پیشگوئی شائع کر دی کہ ان کی اوالد نہیں ہوسکتی۔
آیئے مزید جائزہ لیتے ہیں ۔
ایک کا نام امام دین تھا مرزا صاحب کے الہام کے وقت اس کی عمر 55سال تھی اور اس
کی اوالد نہیں تھی ۔
دوسرے بیٹے کا نام نظام الدین تھا اور مرزا صاحب کے الہام کے وقت اس کی عمر 50
سال تھی اور اس کی بھی کوئی اوالد نہیں تھی ۔
تیسرے بیٹے کا نام کمال الدین تھا اور وہ جوانی میں ہی اپنا عضو تناسل کٹوا چکا تھا ۔ لہذا
اس کی اوالد ہونے کی کوئی امید نہیں تھی ۔
چنانچہ مرزا صاحب کو قرائن سے یقین تھا کہ ان کے چچا زاد بھائیوں کی اوالد نہیں
ہوسکتی اور لگ بھی یہی رہا تھا کہ ان کی اوالد نہیں ہوگی لہذا مرزا صاحب نے کہا کہ
مجھے الہام ہوا ہے کہ ان کی کوئی اوالد نہیں ہوگی۔
چنانچہ مرزا صاحب کے چچازاد بھائی نظام الدین کے ہاں اوالد ہوئی ۔ اور بیٹا پیدا ہوا
جس کا نام "گل محمد" رکھا گیا۔
اور گل محمد ناصرف زندہ رہا بلکہ جوان بھی ہوگیا لیکن مرزا صاحب کے بیٹے مرزا
بشیر احمد ایم اے کی ڈھٹائی دیکھیں وہ لکھتے ہیں کہ
اس وقت نظام الدین کا لڑکا "گل محمد " زندہ ہے اور بیعت میں داخل ہوچکا ہے ۔ باقی سب
کی اوالد نہیں رہی اور مرزا صاحب کا الہام پورا ہوا ۔
(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 38روایت نمبر 48جدید ایڈیشن 2008ء)
خالصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کی یہ پیشگوئی بھی جھوٹی نکلی اور ان کے چچا زاد
بھائیوں کی نسل ختم نہیں ہوئ ۔ حاالنکہ مرزا صاحب کے بقول ان کے چچا زاد بھائیوں
کے ہاں مزید اوالد نہیں ہوگی۔ اوالد ہوئ اور اس کا نام "گل محمد" رکھا گیا۔
3۔ خدا ایک اجڑا ہوا گھر مرزا صاحب کی ذات سے آباد کرے گا ۔
(مرزا صاحب کی تیسری پیشنگوئ "محمدی بیگم " کے متعلق تھی جو جھوٹی نکلی۔ اور
محمدی بیگم کی شادی مرزا صاحب سے نہیں ہوسکی۔ اس کی تفصیل بھی پیشگوئی نمبر 6
میں گزر چکی ہے)
(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ 133،134،135طبع جدید)
مرزا صاحب کی یہ تینوں پیشگویئاں بھی جھوٹی نکلیں۔
مرزا صاحب کو اپنی سستی شہرت حاصل کرنے کا بہت شوق تھا ۔ مرزا صاحب نے ایسا
کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جس سے ہلکی سی بھی شہرت مل سکے۔ لیکن میرے
ہللا نے ہر جگہ مرزا صاحب کو ذلیل کیا حتی کہ عیسائیوں کے مقابلے میں بھی ذلت مرزا
صاحب کا مقدر بنی۔
آیئے مرزا صاحب کی عیسائی پادری آتھم کے ہاتھوں جو درگت بنی اس کا جائزہ لیتے
ہیں۔
بالفرض اگر کوئی پادری تیرے مقابلے پر آگیا تو وہ ذلیل و خوار ہوگا۔
مرزا صاحب اور پادری آتھم کے درمیان نوک جھونک ہوتی رہی اور اس نوک جھونک کا
خالصہ یہ ہے ۔
مرزا صاحب نے آتھم کو کہا کہ میرے ساتھ اگر آپ نے مناظرہ یا مباہلہ کیا تو میری طرف
سے ایک سال کی مدت کے اندر معجزہ ظاہر ہوگا تو آپ کو حق کو قبول کرنا ہوگا۔
اس کے جواب میں آتھم نے کہا کہ اگر واقعی آپ کی طرف سے کوئی معجزہ رونما ہوتا
ہے تو ہم حق کو ضرور قبول کر لیں گے ۔
لیکن اگر آپ کی طرف سے ایک سال تک کوئی نشان یا معجزہ رونما نہ ہوا تو آپ کو
عیسائی ہونا پڑے گا ۔
اس کے جواب میں مرزا صاحب نے لکھا کہ اگر میرا نشان سچا نہ نکال تو میں دین
"اسالم" چھوڑ دوں گا ۔ یا اپنی جائیداد کا نصف عیسائی مذہب کی اشاعت کے لئے دوں گا
۔
لیجئے مرزا صاحب اور آتھم نے اتفاق کرلیا کہ اگر مرزاقادیانی نے کوئی معجزہ ،نشان
وغیرہ ظاہر کردیا تو پادری آتھم حق کو قبول کر لےگا۔
اور اگر مرزا صاحب کوئی معجزہ ،نشان وغیرہ نہ دکھا سکا تو مرزا صاحب عیسائی
مذہب قبول کر لیں گے یا اپنی جائیداد کا نصف عیسائی مذہب کی اشاعت کے لئے وقف
کریں گے ۔
مرزا صاحب کیونکہ "جاہل" بھی تھے اس لئے مرزا صاحب کو نہیں پتہ تھا کہ اس اقرار
نامے کے ساتھ ہی آدمی دائرہ اسالم سے خارج ہوجاتا ہے۔
ترجمہ
"جو شخص مستقبل میں کافر ہونے کا ارادہ کرے وہ فی الفور کافر ہوجاتا ہے"
اگر مرزا صاحب پہلے سے کافر اور دائرہ اسالم سے خارج نہ ہوتے تو اس اقرار نامے
کے ساتھ مرزا صاحب ضرور دائرہ اسالم سے خارج ہوجاتے ۔
اس کے بعد مرزا صاحب اور پادریوں کے درمیان مناظرے کی درج ذیل شرائط طے
ہوئیں ۔
یہ اجتماع ڈاکٹر ہنری مارٹن کالرک کی کوٹھی میں امرتسر میں منعقد ہوا۔
اس مباحثے میں مرزا صاحب کی طرف سے منشی غالم قادر اور عیسائیوں کی طرف
سے ڈاکٹر ہنری کالرک میر مجلس قرار پائے۔
دوران مباحثہ ایک دن پادری آتھم مباحثے میں شامل نہیں ہوسکا کیونکہ پادری آتھم کو تپ
دق کا عارضہ الحق تھا۔ اس دن آتھم کی جگہ عیسائیوں کے میر مجلس ڈاکٹر مارٹن
کالرک نے مرزا صاحب کے سواالت کے جوابات لکھوائے۔
مرزا صاحب کا عیسائیوں کے ساتھ یہ مناظرہ 15دن تک چلتا رہا ۔ اس مناظرے کی
روئیداد قادیانیوں نے "جنگ مقدس" کے نام سے چھپوائی ہوئی ہے ۔ جس کو پڑھ کر اندازہ
ہوتا ہے کہ عیسائی مینڈھے کی ٹکریں مرزا صاحب کے مقابلے میں زیادہ زورآور ہیں۔
اور مرزا صاحب جنہوں نے اسالم کی نمائندگی کا پرفریب جامہ پہن رکھا ہے وہ علم اور
دالئل کے میدان میں کس قدر نحیف اور الغر ہیں۔
دوران مناظرہ ایک دن مرزا صاحب نے کہ دیا کہ میں ہی وہ مسیح ہوں جس کا انتظار کیا
جا رہا ہے تو دوسرے دن عیسائیوں نے اسی جلسہ گاہ میں ایک اندھے،ایک بہرے اور
ایک لنگڑے کو بٹھا دیا اور پادری آتھم نے مرزا صاحب کو کہا کہ آپ کو مسیح ہونے کا
دعوی ہے تو سچے مسیح کی طرح ان کو ہاتھ لگا کر ٹھیک کردیں۔ مرزا صاحب نے
حیلے بہانے کر کے بڑی مشکل سے اپنی جان چھڑائی ۔
(ازالتہ المرزا قادیانی مولفہ پادری ٹھاکر داس طبع 19033ء صفحہ )31
مرزا صاحب نے جب دیکھا کہ 15دن کے مباحثے میں باوجود آسمانی تحائف ،علوی
عجائبات ،روحانی معارف و دقائق کے اپنے مدمقابل پادری آتھم پر دالئل کے میدان میں
فتح حاصل نہیں ہوسکی۔
تو مرزا صاحب نے اپنی شرمندگی اتارنے کے لئے مباحثے کے آخری دن یہ پیشگوئی
کی۔
"آج رات جو مجھ پر کھال ہے وہ یہ ہے کہ جب میں نے بہت تضرع اور ابتہال سے جناب
الہی میں دعا کی کہ تو اس امر میں فیصلہ کر اور ہم عاجز بندے تیرے ہیں۔
تو اس نے مجھے یہ نشان دیا کہ اس بحث میں دونوں فریقوں میں سے جو فریق عمدا
جھوٹ کو اختیار کر رہا ہے اور سچے خدا کو چھوڑ رہا ہے اور عاجز انسان کو خدا بنا
رہا ہے وہ انہیں دنوں مباحثہ کے لحاظ سے یعنی فی دن ایک مہینہ لے کر یعنی 15ماہ
تک ہاویہ میں گرایا جائے گا ۔ اس کو سخت ذلت پہنچے گی بشرطیکہ حق کی طرف
رجوع نہ کرے اور جو شخص سچ پر ہے اور سچے خدا کو مانتا ہے اس کی عزت ظاہر
ہوگی"۔
(جنگ مقدس صفحہ 188٬189مندرجہ روحانی خزائن جلد 6صفحہ )291٬292
اسی پیشگوئی کی مزید تشریح مرزا صاحب نے اسی کتاب کے اگلے صفحے پر یوں لکھی
ہے ۔
"میں اقرار کرتا ہوں کہ اگر یہ پیشگوئی جھوٹی نکلی یعنی وہ فریق جو خدا کے نزدیک
جھوٹ پر ہے 15ماہ کے عرصے میں آج کی تاریخ سے 5جون 1893ء سے بسزائے
موت ہاویہ میں نہ پڑے تو میں ہر سزا کے اٹھانے کے لئے تیار ہوں۔ مجھ کو ذلیل کیا
جاوے ،روسیاہ کیا جاوے ،میرے گلے میں رسا ڈاال جاوے،مجھ کو پھانسی دی جاوے ،
ہرایک بات کے لئے تیار ہوں۔ ہللا جل شانہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ضرور وہ ایسا ہی
کرے گا ۔ضرور کرے گا ،ضرور کرے گا ،زمین و آسمان ٹل جایئں پر اس کی باتیں نہ
ٹلیں گی۔
اب میں ڈپٹی صاحب سے پوچھتا ہوں کہ اگر یہ نشان پورا ہوگیا تو کیا یہ سب آپ کی
منشاء کے موافق خدا کی پیشگوئی ٹھرے گی یا نہیں ۔ اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم
کے سچا نبی ہونے کے بارے میں جس کو اندرونہ بائیبل میں دجال کے لفظ سے آپ نامزد
کرتے ہیں محکم دلیل ہوجائے گی یا نہیں ۔
اگر میں جھوٹا ہوں تو میرے لئے سولی تیار رکھو۔ اور تمام شیطانوں اور بدکاریوں اور
لعنتیوں سے زیادہ مجھے لعنتی قرار دو"۔
(جنگ مقدس صفحہ 189مندرجہ روحانی خزائن جلد 66صفحہ )293
ان دو تحریرات سے واضح ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی کے مطابق اگر پادری
آتھم 5جون 1893ء سے لے کر 5ستمبر 1894ء تک سچے خدا کو نہ مانتے تو وہ فوت
ہوجاتا ۔
جوں جوں پیشگوئی کی مقررہ تاریخ کے دن قریب آرہے تھے توں توں مرزا صاحب کی
پریشانی کیسے بڑھ رہی تھی ۔
"مجھ سے عبدہللا سنوری نے بیان کیا کہ جب آتھم کی معیاد میں ایک دن باقی رہ گیا تو
مرزا صاحب نے مجھ سے اور میاں حامد علی سے فرمایا کہ اتنے چنے (مجھے تعداد یاد
نہیں رہی کہ کتنے چنے آپ نے بتائے تھے) لے لو اور ان پر فالں سورت کا وظیفہ اتنی
تعداد میں پڑھو(مجھے وظیفہ کی تعداد بھی یاد نہیں رہی)میاں عبدہللا صاحب بیان کرتے
ہیں کہ مجھے سورت یاد نہیں رہی لیکن اتنا یاد ہے کہ وہ کوئی چھوٹی سورت تھی جیسے
"الم ترکیف " اور ہم نے یہ وظیفہ قریبا ساری رات صرف کرکے ختم کیا۔"
مرزا صاحب کے بیٹے اور قادیانیوں کے دوسرے خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود پر جب
اعتراض ہوا کہ آپ کی دعایئں کیوں قبول نہیں ہوتیں تو مرزا بشیر الدین محمود نے اپنی
صفائی میں ایک بیان دیا جو قادیانیوں کے اخبار الفضل میں لکھا ہے کہ
"آتھم کی پیش گوئی کے متعلق جماعت کی جو حالت تھی وہ ہم سے مخفی نہیں میں اس
وقت ایک چھوٹا سا بچہ تھا اور میری عمر ساڑھے 5سال کی تھی مگر وہ نظارہ مجھے
خوب یاد ہے کہ جب آتھم کی پیش گوئی کا آخری دن آیا تو کتنے کرب و اضطراب کے
ساتھ دعائیں کی گئیں میں نے محرم کا ماتم بھی اتنا سخت کبھی نہیں دیکھا حضرت مسیح
موعود ایک طرف دعا میں مشغول تھے"۔
مرزا محمود کے کہنے کا مطلب تھا کہ جب مرزا صاحب کی دعائیں آتھم کے بارے میں
قبول نہیں ہویئں تو میری کیا حیثیت ہے اگر میری دعائیں قبول نہ ہوں ۔
پادری آتھم نے اپنی بات سے رجوع نہیں کیا تھا ،کیونکہ اگر پادری آتھم نے رجوع کیا ہوتا
تو مرزا صاحب کو اتنے وظائف پڑھوانے کی اور اتنی دعایئں مانگنے کی کیا ضرورت
تھی؟؟؟
دوسری بات یہ ثابت ہوئی کہ دوسرے قادیانی خلیفہ کو بھی یہ بات پتہ تھی کہ آتھم کی پیش
گوئی کے وقت مرزا صاحب کی دعائیں قبول نہیں ہویئں تھیں۔
پیشگوئی کے آخری دن مرزا صاحب کے سینکڑوں مرید" قادیان" پہنچے ہوئے تھے تاکہ
آتھم کی موت پر مرزا صاحب کی پیشگوئی پوری ہونے کی خوشی میں جشن منایا جائے۔
مرزا صاحب نے اپنے مریدین کے لئے بکرے منگوائے ہوئے تھے ۔ تاکہ اس خوشی کے
موقع پر پرتکلف دعوت کی جاسکے۔
ویران کنویں میں چنوں کے دانوں پر وظیفہ پڑھ کر مقررہ دن سے ایک دن پہلے ہی آتھم
کی موت کا سامان کرلیا گیا تھا اور اب قادیان کے "الہامی" صاحب آتھم کی موت کا انتظار
کر رہے تھے ۔
قادیان کے الہامی صاحب نے امرتسر ،بٹالہ ،گورداسپور اور فیروز پور میں اپنے مریدین
بھیجے ہوئے تھے تاکہ جونہی آتھم کی موت کی خبر ملے تو وہ خبر فوری طور پر مرزا
صاحب تک پہنچ سکے۔
5ستمبر کی شام سے پہلے سینکڑوں مرزائی "قادیان" میں موجود تھے اور اسی انتظار
میں تھے کہ کب آتھم کی موت کی خبر ملتی ہے۔ اور ہمارے لئے عید ہوتی ہے کیونکہ
مرزا صاحب نے اپنے مریدوں کو صاف کہا ہوا تھا کہ 5ستمبر 1894ءکی شام نہیں ہوگی
جب تک آتھم مر نہ جائے۔
لیجئے شام بھی ہوگئی اور مرزا صاحب کو خبر مل گئی کہ آتھم نہیں مرا۔
جوں جوں مرزا صاحب کے مریدوں کو یہ خبر ملتی گئی توں توں انہوں نے اپنے گریبان
چاک اور کپڑے پھاڑنے شروع کر دیئے اور ان کی متوقع عید غم میں بدل گئی ۔
عیسائیوں نے اس موقع پر جب مرزا صاحب صاف طور پر کذاب ثابت ہوگئے اور مرزا
صاحب کی پیشگوئی جھوٹی نکلی تو عیسائیوں نے مرزا صاحب کی طرف سے دی گئی
آتھم کی موت کی تاریخ سے اگلے دن 6ستمبر 1894ء کو ایک بہت بڑا جلوس فیروز پور
سے امرتسر تک نکاال اور عیسائیوں نے اس جلوس میں پادری آتھم کو بھی گاڑی میں بٹھا
کر اور آتھم کے گلے میں ہار ڈال کر آتھم کو پورے امرتسر شہر میں گھمایا ۔ مرزا صاحب
کے بیٹے نے لکھا ہے کہ اس دن لوگوں میں یہی شور تھا کہ مرزا صاحب کی پیشگوئی
جھوٹی نکلی ۔
الغرض ہرطرف مرزا صاحب کے کذاب ہونے کا شور مچا ہوا تھا اور مرزا صاحب کے
مریدین بھی منہ چھپاتے پھر رہے تھے ۔
"ہللا ٰ
تعالی کی شان اقدس میں کی گئی گستاخیاں"
تعالی تو ایسی چیزوں سے پاک ہے لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال ہللا رب العزت کو ( ہللا ٰ
انسانوں سے تشبیہ دے رہا ہے۔ کیونکہ روزہ وغیرہ رکھنا تو انسانوں کا کام ہے نہ اس کا
)جس نے انسانوں کو پیدا فرمایا ہے
"خدا خطا(گناہ) بھی کرتا ہے اور صواب (نیکی) بھی کرتا ہے۔"
)حقیقةالوحی صفحہ 103مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (106
ہللا رب العزت کی ذات تو" ال یضل ربی وال ینسی " ہے۔یعنی ہللا ٰ
تعالی نہ بھکتا ہے اور (
نہ بھولتا ہے لیکن مرزاقادیانی جیسے دجال نے ہللا ٰ
تعالی کو بھی نہیں چھوڑا بلکہ ہللا رب
العزت جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ہر چیز کا خالق ہے اس کے بارے میں بھی
مرزاقادیانی جیسا دجال لکھتا ہے کہ وہ نیکی بھی کرتا ہے اور گناہ بھی۔ آپ خود سوچیں
)کہ مرزاقادیانی سے بڑا کوئی ہللا ٰ
تعالی کا گستاخ ہوگا؟؟؟
ہللا رب العزت تو فرماتے ہیں" لم یلد ولم یولد " نہ اس نے کسی کو جنا نہ وہ کسی سے (
جنا گیا۔ لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال یہاں بھی ہللا ٰ
تعالی کی شان میں گستاخی کرتے ہوئے
)لکھتا ہے میں ہللا ٰ
تعالی سے ہوں (نعوذ باہلل
"خدا نے مجھے اپنا بیٹا کہا ہے۔ (اسمع یا ولدی) اے میرے بیٹے میری بات سن۔"
ہللا رب العزت تو فرماتے ہیں" لم یتخذ صاحبتہ وال ولدا " نہ اس کی بیوی ہے اور نہ (
تعالی کی شان میں گستاخی کرتے ہوئےاوالد۔ لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال یہاں بھی ہللا ٰ
)اپنے آپ کو خدا کا بیٹا لکھتا ہے
گستاخی نمبر 5
تعالی کے سامنے بہت سے کاغذات رکھے "ایک دفعہ میں نے کشف کی حالت میں خدا ٰ
تاکہ وہ ان کی تصدیق کر دے اور ان پر دستخط ثبت کر دے۔ سو خدا ٰ
تعالی نے سرخ سیاہی
سے دستخط کردیئے اور قلم کی نوک پر جو سرخی تھی اس کو جھاڑا اور معا جھاڑنے
سے اس سرخی کے قطرے میرے کپڑوں اور عبدہللا کے کپڑوں پر پڑے۔ جب حالت کشف
ختم ہوئ تو میں نے اپنے اور عبدہللا کے کپڑوں کو سرخی کے قطروں سے تر بہ تر
"دیکھا یہ وہی سرخی تھی جو خداتعالی نے اپنے قلم سے جھاڑی تھی۔
ہللا ٰ
تعالی تو ایسی چیزوں سے پاک ہیں لیکن مرزاقادیانی جیسا دجال یہاں بھی ہللا رب (
)العزت کو عام چیزوں سے تشبیہ دینے سے باز نہیں آیا
"میں نے اپنے کشف میں دیکھا کہ میں خود خدا ہوں اور میں نے یقین کر لیا ۔"
وہ خدا جس کے قبضے میں ذرہ ذرہ ہے۔ اس سے انسان کہاں بھاگ سکتا ہے۔ وہ فرماتا "
"ہے کہ میں چوروں کی طرح پوشیدہ آؤں گا۔
قیوم العالمین ایک ایسا وجود اعظم ہے جس کے بیشمار ہاتھ،بیشمار پیر ہیں اور ہر ایک "
عضو اس کثرت سے ہے کہ تعداد سے خارج اور ال انتہا عرض اور طول رکھتا ہے۔اور
تیندوے کی طرح اس وجود اعظم کی تاریں بھی ہیں۔جو صفحہ ہستی کے تمام کناروں تک
"پھیل رہی ہیں۔
"ہللا نے مجھے کہا کہ) تو مجھ سے ایسا ہے جیسے میری توحید اور تفرید۔(
مرزاقادیانی نے ایک موقع پر اپنی یہ حالت ظاہر کی کہ کشف کی حالت میں مرزا قادیانی
عورت ہے اور (نعوذباہلل) ہللا ٰ
تعالی نے مرزاقادیانی سے رجولیت کا اظہار کیا ہے۔
محترم قارئین! یہ مرزا قادیانی کی تحریرات میں سے چند اقتباسات ہیں۔ جن سے واضح
تعالی کی ذات کے بارے میں مرزا قادیانی کے کیسے نظریات تھے۔ہوتا ہے کہ ہللا ٰ
قرآن و حدیث کے لحاظ سے یہ تمام عقائد ہللا رب العزت کی شان میں گستاخی ہیں اور
خالف اسالم ہیں۔ اور ہللا رب العزت کی ذات ایسی تمام چیزوں سے پاک ہے۔
پوری دنیا کے مسلمانوں کا 1400سال سے متفقہ عقیدہ ہے کہ جو بھی ہمارے آقا ﷺ کی
شان میں گستاخی کرے تو وہ بدبخت مسلمان نہیں اور دائرہ اسالم سے خارج ہے ۔ اور
واجب القتل ہے۔
میں تو اپنے ذوق کے مطابق یہ کہوں گا کہ ایسا کرنے واال تو انسان کہالنے کے بھی
قابل نہیں ہے۔
مرزاقادیانی کے صرف کفر کو واضح کرنے کے لیے مرزا قادیانی کی اور قادیانی
جماعت کی ہمارے آقاﷺ کی شان اقدس کے بارے میں کی گئی چند گستاخیوں پر نظر
ڈالتے ہیں۔
خدا ٰ
تعالی نے مجھے تمام انبیاء کرام علیہم السالم کا مظہر ٹہرایا ہے۔ اور تمام نبیوں کے "
"نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔۔۔۔۔ اور آنحضرت ﷺ کے نام کا بھی مظہر ہوں۔
اس عبارت میں مرزاقادیانی نے آپ ﷺ سمیت تمام انبیاء کرام علیہم السالم کی گستاخی (
)کرتے ہوئے اپنے آپ کو تمام انبیاء کرام علیہم السالم کا مظہر قرار دیا ہے
"دنیا میں کئی تخت اترے ہیں پر میرا تخت سب سے اوپر بچھایا گیا ہے ۔"
مسلمان محمدﷺ کو آخری نبی مانتے ہیں اور قادیانی جماعت مرزا قادیانی کو آخری نبی (
) مانتی ہے ۔اس عبارت سے صاف ظاہر ہے
مگر تم خوب توجہ کرکے سن لو کہ اب اسم محمدﷺ کی تجلی ظاہر کرنے کا وقت نہیں۔ "
یعنی اب جاللی رنگ کی کوئی خدمت باقی نہیں۔ کیونکہ مناسب حد تک وہ جالل ظاہر
ہوچکا۔سورج کی کرنوں کی اب برداشت نہیں۔اب چاند کی ٹھنڈی روشنی کی ضرورت ہے۔
"اور وہ احمد کے رنگ میں ہوکر میں ہوں۔
حضور ﷺ دین کی اشاعت ممکمل طور پر نہ کرسکے۔ میں نے دین کی اشاعت مکمل "
"کی ہے۔
سوال نمبر = 5ایسے موقع پر مسلمان معراج پیش کر دیتے ہیں۔ حضرت اقدس (مرزا
قادیانی) نے فرمایا کہ معراج جس وجود سے ہوا تھا وہ یہ ہگنے موتنے واال وجود تو نہ
"تھا۔
)براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 56مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (72
براہین احمدیہ حصہ پنجم ،نصرۃ الحق صفحہ 50مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (
)63
گستاخی نمبر 9
ٰ
مصطفی میں تفریق کرتا ہے۔ اس نے مجھے دیکھا نہیں اور " جو شخص مجھ میں اور
"پہچانا نہیں۔
جب میں بروزی طور پر آنحضرت ﷺ ہوں اور بروزی رنگ میں تمام کماالت محمدی مع "
ثبوت محمدیہ کے میرے آیئنہ ظلیت میں منعکس ہیں۔ تو پھر کون سا الگ انسان ہوا۔ جس
"نے علیحدہ طور پر نبوت کا دعوی کیا۔؟
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (212
بروزی طور پر میں وہی نبی خاتم االنبیاءﷺ ہوں۔ اور خدا نے آج سے بیس برس پہلے "
"براہین احمدیہ" میں میرا نام محمد اور احمد رکھا ہے اور مجھے آنحضرت ﷺ کا ہی وجود
"قرار دیا ہے۔
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 8مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (212
ظاہر ہے کہ فتح مبین کا وقت ہمارے نبی کریم ﷺ کے زمانے میں گزر گیا۔ اور دوسری "
فتح باقی رہی جو پہلی فتح سے بہت بڑی اور زیادہ ظاہر ہے۔ اور مقدر تھا کہ اس کا وقت
"مسیح موعود (مرزاقادیانی) کا وقت ہو۔
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (207
اگر حقیقت پر غور کرو ۔ محمدﷺ بھی موجود تھے مگر محمدﷺ کی روح موجود نہیں تھی
دنیا میں قرآن تھا مگر قرآن کی روح نہیں تھی۔
حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی ) کا ذہنی ارتقاء آنحضرت ﷺ سے زیادہ تھا۔ (نعوذ باہلل)
اس زمانہ میں تمدنی ترقی زیادہ ہوئ ہے اور یہ جزوی فضیلت ہے جو مسیح موعود
(مرزاقادیانی ) کو آنحضرتﷺ پر حاصل ہے۔
یہ بالکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کرسکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا
)ہے حتی کہ محمد الرسول ہللاﷺ سے بھی بڑھ سکتا ہے۔(نعوذ باہلل
ان تمام عبارتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ مرزاقادیانی بھی اور قادیانی جماعت بھی ہمارے
آقاﷺ کی گستاخ ہے ۔
لہذا بھولے بسرے قادیانیوں کو چاہیے کہ مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت کی یہ
تحریرات پڑھیں اور فیصلہ کریں کہ آپ کو محمد عربیﷺ کے ساتھ رہنا ہے یا مرزاقادیانی
"کذاب" کے ساتھ۔
"مرزا قادیانی کی انبیاء کرام علیہم السالم اور صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی
شان میں کی گئی گستاخیاں"
"مرزا قادیانی کی انبیاء کرام علیہم السالم کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
انبیاء کرام علیہم السالم کی ذات مقام و مرتبے کے لحاظ سے تمام انسانوں میں سب سے
بلند ہے۔ انبیاء کرام علیہم السالم کو ہللا ٰ
تعالی امانت دار بناتے ہیں کیونکہ وہ نبوت جیسی
امانت کو سنبھالتے ییں۔ اور انبیاء کرام علیہم السالم کے گروہ میں سے کسی ایک نبی نے
بھی ہللا ٰ
تعالی کی دی گئی اس امانت میں خیانت نہیں کی۔ انبیاء کرام علیہم السالم کا گروہ
گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔ کسی بھی نبی سے کبھی بھی کوئی خطا یا گناہ سرزد نہیں
ہوتا۔
لیکن جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت نے جہاں ہللا ٰ
تعالی اور حضور
اکرم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی ہیں وہاں انبیاء کرام علیہم السالم کے مقدس گروہ کو
بھی نہیں بخشا۔ آیئے مرزا قادیانی کی انبیاء کرام علیہم السالم کی شان میں کی گئی
گستاخیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
"یہودیوں ،عیسائیوں اور مسلمانوں پر بباعث ان کے کسی پوشیدہ گناہ کے یہ ابتالء آیا کہ
جن راہوں سے وہ اپنے موعود نبیوں کا انتظار کرتے رہے۔ ان راہوں سے وہ نبی نہیں
آئے۔ بلکہ چور کی طرح کسی اور راہ سے آگئے۔"
"میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں آیا۔ جس نے کبھی
اجتہادی غلطی نہیں کی۔"
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 135مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )573
ترجمہ =
ہر نبی میری آمد سے زندہ ہوا
تمام رسول میرے کرتے میں چھپے ہیں
"اور خدا ٰ
تعالی میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھال رہا ہے کہ اگر نوح علیہ السالم کے
زمانہ میں وہ نشان دکھالئے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔"
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 137مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )575
"پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز (مرزا قادیانی) اسرائیلی یوسف علیہ السالم سے بڑھ
کر ہے۔ کیونکہ یہ عاجز (مرزا قادیانی) قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچایا گیا۔ مگر
یوسف بن یعقوب علیہ السالم قید میں ڈاال گیا۔"
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 76مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ )99
"خدا ٰ
تعالی نے مجھے تمام انبیاء کرام علیہم السالم کا مظہر ٹہرایا ہے۔ اور تمام نبیوں کے
نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں۔ میں شیث ہوں۔ میں نوح ہوں۔ میں ابراہیم
ہوں۔ میں اسحاق ہوں۔ میں اسماعیل ہوں۔ میں یعقوب ہوں۔ میں یوسف ہوں۔ میں موسی ہوں۔
میں داؤد ہوں۔ میں عیسٰ ی ہوں۔ اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر ہوں۔ یعنی ظلی طور
پر محمد اور احمد ہوں۔"
ترجمہ =
"آپ (مرزا قادیانی) کا درجہ رسول کریمﷺ کے عالوہ تمام نبیوں سے بلند تھا۔"
"حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی) کو جو بلحاظ مدارج کئی نبیوں سے بھی افضل ہیں۔
ایسے مقام پر پہنچے کہ نبیوں کو اس مقام پر رشک ہے۔"
"جس (مرزا قادیانی ) کے وجود میں ایک الکھ چوبیس ہزار انبیاء کی شان جلوہ گر تھی۔"
مرزا قادیانی کی سیدنا عیسی علیہ السالم کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
یوں تو سارے انبیاء کرام علیہم السالم کی شان نرالی ہے لیکن بعض نبیوں کو ہللا ٰ
تعالی نے
خاص مقام و مراتب سے نوازا ہے۔ انہی میں سے ایک سیدنا عیسی علیہ السالم ہیں۔
تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو چند ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جن ہللا ٰ
خصوصیات سے ہللا ٰ
تعالی نے کسی اور نبی کو نہیں نوازا۔
جیسے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو بن باپ کے پیدا کیا۔ انہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا۔ اور
وہ قرب قیامت دوبارہ زمین پر حاکم اور خلیفہ کی حیثیت سے تشریف الئیں گے۔
یہ ایسی خصوصیات ہیں جو ہللا ٰ
تعالی نے کسی اور نبی کو نہیں نوازا۔
یہود نے سیدنا عیسی علیہ السالم کے دور میں ان پر اور ان کی والدہ پر طرح طرح کے
الزامات لگائے۔ اور انہیں ہر طرح سے تنگ کیا۔ حتی کہ ان کے قتل کے منصوبے بھی
بنائے یہاں تک کہ ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم کو زندہ آسمان پر اٹھالیا۔
لیکن مرزا قادیانی نے سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم پر اس طرح کے الزامات اور بہتان لگائے
کہ یہود بھی شرما گئے۔ مرزا قادیانی نے سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم کے بارے میں ایسی
بدزبانی کی ہے جس کو پڑھ کر مرزا قادیانی کو ایک شریف انسان کہنا بھی مشکل ہے۔
آیئے مرزا قادیانی کی سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم کے بارے میں کی گئی چند گستاخیوں کا
جائزہ لیتے ہیں۔
"وہ (مسیح بن مریم) ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور
ناپاکی کا مبرز ہے۔ تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا
رہا۔"
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )291
"یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ
عیسٰ ی علیہ شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی پرانی عادت کی
وجہ سے۔"
"یہ بھی یاد رہے کہ آپ (سیدنا عیسی علیہ السالم) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی عادت
تھی۔"
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )289
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )290
"خدا نے اس امت میں مسیح موعود (مرزا قادیانی)بھیجا جو اس پہلے مسیح (سیدنا عیسی
علیہ السالم) سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔اور اس دوسرے مسیح کا نام غالم
احمد ہے۔"
(نور القرآن حصہ دوم صفحہ 17مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )233
"مردمی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہیں۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت
نہیں۔ جیسے بہرہ اور گونگا ہونا کسی خوبی میں داخل نہیں۔ ہاں یہ اعتراض بہت بڑا ہے
کہ حضرت مسیح علیہ السالم مردانہ صفات کی اعلی ترین صفت سے بے نصیب محض
ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے
سکے۔"
"پھر جب خدا نے اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانے کے مسیح کو اس
کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے۔ تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا
جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔"
"خدا نے اس امت میں مسیح موعود (مرزا قادیانی)بھیجا جو اس پہلے مسیح (سیدنا عیسی
علیہ السالم) سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے
ہاتھ میں میری جان ہے۔ کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانے میں ہوتا تو وہ کام جو میں
کرسکتا ہوں۔ وہ ہرگز نہ کرسکتا۔ اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں۔ وہ ہرگز نہ
دکھال سکتا۔"
"مسیح کے معجزات اور پیشگوئیوں پر جس قدر اعتراض اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ میں
نہیں سمجھتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں ایسے شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
کیا تاالب کا قصہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا؟"
لیکن مسیح کی راست بازی اپنے زمانے میں دوسرے راست بازوں سے بڑھ کر ثابت نہیں
ہوتی۔ بلکہ یحیی نبی کو اس پر فضیلت ہے۔ کیونکہ وہ شراب نہیں پیتا تھا اور کبھی نہیں
سنا گیا کہ کسی فاحشہ عورت نے آکر اپنی کمائی کے مال سے اس کے سر پر عطر مال یا
ہاتھوں اور سر کے بالوں سے اس کے بدن کو چھوا تھا۔ یا کوئی بے تعلق جوان عورت اس
کی خدمت کرتی تھی۔ اسی وجہ سے خدا نے قرآن میں یحیی کا نام حصور رکھا۔مگر مسیح
کا یہ نام نہ رکھا کیونکہ ایسے قصے اس نام کے رکھنے سے مانع تھے۔"
(مقدمہ دافع البالء صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )220
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )291
"یسوع (سیدنا عیسی علیہ السالم) اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہ سکا۔ کہ لوگ جانتے
تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے۔ اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتدا
سے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ خدائی کا دعوی شراب خوری کا ایک بدنتیجہ ہے۔"
"ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صالح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے۔
پس عالج کے لئے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کردی جائے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ آپ
نے بڑی مہربانی کہ ہمدردی فرمائی۔ لیکن اگر میں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی
عادت کرلوں۔ تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں پہال مسیح تو شرابی تھا
اور دوسرا افیونی۔"
ممکن ہے کہ آپ (سیدنا عیسی علیہ السالم) نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور
وغیرہ کو اچھا کیا ہو۔ یا کسی اور بیماری کا عالج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی کہ اسی
زمانہ میں ایک تاالب بھی موجود تھا۔ جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال
ہوسکتا ہے کہ اسی تاالب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اسی تاالب سے آپ
کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے۔ اور اسی تاالب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ
اگر آپ سے کوئی معجزہ ظاہر ہوا ہو تو وہ آپ کا نہیں بلکہ اس تاالب کا معجزہ ہے۔ اور
آپ کے ہاتھ میں سوا مکر اور فریب کے اور کچھ نہ تھا۔"
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )291
"مرزا قادیانی کی صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
آیئے مرزا قادیانی کی صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی شان میں کی گئی
گستاخیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
"جیسا کہ ابوہریرہ(رضی ہللا عنہ) جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔"
"بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہ تھی۔ جیسے ابوہریرہ(رضی
ہللا عنہ)
"اکثر باتوں میں ابوہریرہ(رضی ہللا عنہ) بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے
دھوکہ میں پڑجایا کرتا تھا۔۔۔۔۔ ایسے الٹے معنی کرتا تھا جس سے سننے والوں کو ہنسی
آتی تھی۔"
"اس کو چاہیئے کہ ابوہریرہ (رضی ہللا عنہ) کے قول کو ردی متاع کی طرح پھینک دے۔"
(براہین احمدیہ احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 235مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ
)410
"اور انہوں نے کہا کہ اس شخص(مرزا قادیانی) نے امام حسن اور امام حسین (رضی ہللا
عنہم) سے اپنے آپ تئیں اچھا سمجھا۔ میں نے کہا ہاں (سمجھا ہے)۔"
"میں (مرزا قادیانی) خدا کا کشتہ ہوں۔ اور تمہارا حسین (رضی ہللا عنہ) دشمنوں کا کشتہ
ہے۔"
"تم نے خدا کے جالل اور مجد کو بھال دیا۔ اور تمہارا ورد صرف حسین (رضی ہللا عنہ)
ہے۔ پس یہ اسالم پر ایک مصیبت ہے۔ کستوری (مرزا قادیانی)کے پاس گوہ (ذکر حسین
رضی ہللا عنہ) کا ڈھیر ہے۔"
"اے قوم شیعہ تو اس پر اصرار مت کر کہ حسین(رضی ہللا عنہ) تمہارا منجی ہے۔ کیونکہ
میں سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک (مرزا قادیانی) ہے جو اس (حسین رضی ہللا عنہ ) سے
بڑھا ہوا ہے۔"
"حضرت فاطمہ رضی ہللا عنہا نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے
دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔"
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 9مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )213
"جو میری جماعت میں داخل ہوا۔ وہ دراصل صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی
جماعت میں داخل ہوگیا۔"
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ )259 ،258
"میں وہی مہدی ہوں۔ جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر
رضی ہللا عنہ کے درجہ پر ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی ہللا عنہ کیا وہ تو
بعض انبیاء سے بہتر ہے۔"
پرانی خالفت کا جھگڑا چھوڑ دو۔ اب نئی خالفت لو۔ ایک زندہ علی (مرزا قادیانی) تم میں
موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو۔ اور مردہ علی (رضی ہللا عنہ) کو تالش کرتے ہو۔"
(ملفوظات جلد اول صفحہ 400ملفوظ 15نومبر 1900ء پرانا ایڈیشن 5جلدوں واال)
( ملفوظات جلد 2صفحہ 26ملفوظ 15نومبر 1900ء جدید ایڈیشن 2016ء)
"ہاں وہ محمد ﷺ کا اکلوتا بیٹا (مرزا قادیانی ) جس کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا ہے۔"
"مرزا قادیانی کی انبیاء کرام علیہم السالم اور صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی
شان میں کی گئی گستاخیاں"
"مرزا قادیانی کی انبیاء کرام علیہم السالم کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
انبیاء کرام علیہم السالم کی ذات مقام و مرتبے کے لحاظ سے تمام انسانوں میں سب سے
بلند ہے۔ انبیاء کرام علیہم السالم کو ہللا ٰ
تعالی امانت دار بناتے ہیں کیونکہ وہ نبوت جیسی
امانت کو سنبھالتے ییں۔ اور انبیاء کرام علیہم السالم کے گروہ میں سے کسی ایک نبی نے
بھی ہللا ٰ
تعالی کی دی گئی اس امانت میں خیانت نہیں کی۔ انبیاء کرام علیہم السالم کا گروہ
گناہوں سے معصوم ہوتا ہے۔ کسی بھی نبی سے کبھی بھی کوئی خطا یا گناہ سرزد نہیں
ہوتا۔
لیکن جھوٹے مدعی نبوت مرزا قادیانی اور قادیانی جماعت نے جہاں ہللا ٰ
تعالی اور حضور
اکرم ﷺ کی شان میں گستاخیاں کی ہیں وہاں انبیاء کرام علیہم السالم کے مقدس گروہ کو
بھی نہیں بخشا۔ آیئے مرزا قادیانی کی انبیاء کرام علیہم السالم کی شان میں کی گئی
گستاخیوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
"یہودیوں ،عیسائیوں اور مسلمانوں پر بباعث ان کے کسی پوشیدہ گناہ کے یہ ابتالء آیا کہ
جن راہوں سے وہ اپنے موعود نبیوں کا انتظار کرتے رہے۔ ان راہوں سے وہ نبی نہیں
آئے۔ بلکہ چور کی طرح کسی اور راہ سے آگئے۔"
"میں خود اس بات کا قائل ہوں کہ دنیا میں کوئی ایک نبی بھی ایسا نہیں آیا۔ جس نے کبھی
اجتہادی غلطی نہیں کی۔"
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 135مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )573
ترجمہ =
ہر نبی میری آمد سے زندہ ہوا
تمام رسول میرے کرتے میں چھپے ہیں
"اور خدا ٰ
تعالی میرے لئے اس کثرت سے نشان دکھال رہا ہے کہ اگر نوح علیہ السالم کے
زمانہ میں وہ نشان دکھالئے جاتے تو وہ لوگ غرق نہ ہوتے۔"
(تتمہ حقیقت الوحی صفحہ 137مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )575
"پس اس امت کا یوسف یعنی یہ عاجز (مرزا قادیانی) اسرائیلی یوسف علیہ السالم سے بڑھ
کر ہے۔ کیونکہ یہ عاجز (مرزا قادیانی) قید کی دعا کر کے بھی قید سے بچایا گیا۔ مگر
یوسف بن یعقوب علیہ السالم قید میں ڈاال گیا۔"
(براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 76مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ )99
"خدا ٰ
تعالی نے مجھے تمام انبیاء کرام علیہم السالم کا مظہر ٹہرایا ہے۔ اور تمام نبیوں کے
نام میری طرف منسوب کئے ہیں۔ میں آدم ہوں۔ میں شیث ہوں۔ میں نوح ہوں۔ میں ابراہیم
ہوں۔ میں اسحاق ہوں۔ میں اسماعیل ہوں۔ میں یعقوب ہوں۔ میں یوسف ہوں۔ میں موسی ہوں۔
میں داؤد ہوں۔ میں عیسٰ ی ہوں۔ اور آنحضرت ﷺ کے نام کا میں مظہر ہوں۔ یعنی ظلی طور
پر محمد اور احمد ہوں۔"
ترجمہ =
اگرچہ دنیا میں بہت سے نبی ہوئے ہیں
لیکن میں علم و عرفان میں کسی سے کم نہیں ہوں
"آپ (مرزا قادیانی) کا درجہ رسول کریمﷺ کے عالوہ تمام نبیوں سے بلند تھا۔"
"حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی) کو جو بلحاظ مدارج کئی نبیوں سے بھی افضل ہیں۔
ایسے مقام پر پہنچے کہ نبیوں کو اس مقام پر رشک ہے۔"
مرزا قادیانی کی سیدنا عیسی علیہ السالم کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
یوں تو سارے انبیاء کرام علیہم السالم کی شان نرالی ہے لیکن بعض نبیوں کو ہللا ٰ
تعالی نے
خاص مقام و مراتب سے نوازا ہے۔ انہی میں سے ایک سیدنا عیسی علیہ السالم ہیں۔
تعالی نے سیدنا عیسی علیہ السالم کو چند ایسی خصوصیات سے نوازا ہے جن ہللا ٰ
خصوصیات سے ہللا ٰ
تعالی نے کسی اور نبی کو نہیں نوازا۔
جیسے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کو بن باپ کے پیدا کیا۔ انہیں زندہ آسمان پر اٹھالیا۔ اور
وہ قرب قیامت دوبارہ زمین پر حاکم اور خلیفہ کی حیثیت سے تشریف الئیں گے۔
یہ ایسی خصوصیات ہیں جو ہللا ٰ
تعالی نے کسی اور نبی کو نہیں نوازا۔
یہود نے سیدنا عیسی علیہ السالم کے دور میں ان پر اور ان کی والدہ پر طرح طرح کے
الزامات لگائے۔ اور انہیں ہر طرح سے تنگ کیا۔ حتی کہ ان کے قتل کے منصوبے بھی
بنائے یہاں تک کہ ہللا ٰ
تعالی نے سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم کو زندہ آسمان پر اٹھالیا۔
لیکن مرزا قادیانی نے سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم پر اس طرح کے الزامات اور بہتان لگائے
کہ یہود بھی شرما گئے۔ مرزا قادیانی نے سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم کے بارے میں ایسی
بدزبانی کی ہے جس کو پڑھ کر مرزا قادیانی کو ایک شریف انسان کہنا بھی مشکل ہے۔
آیئے مرزا قادیانی کی سیدنا عیسٰ ی علیہ السالم کے بارے میں کی گئی چند گستاخیوں کا
جائزہ لیتے ہیں۔
"وہ (مسیح بن مریم) ہر طرح عاجز ہی عاجز تھا۔ مخرج معلوم کی راہ سے جو پلیدی اور
ناپاکی کا مبرز ہے۔ تولد پاکر مدت تک بھوک اور پیاس اور درد اور بیماری کا دکھ اٹھاتا
رہا۔"
"آپ (سیدنا عیسی علیہ السالم) کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔ تین دادیاں اور
نانیاں آپ کی زناکار اور کسبی عورتیں تھیں۔ جن کے وجود سے آپ کا وجود ظہور پزیر
ہوا۔"
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )291
"یورپ کے لوگوں کو جس قدر شراب نے نقصان پہنچایا ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ تھا کہ
عیسٰ ی علیہ شراب پیا کرتے تھے۔ شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا کسی پرانی عادت کی
وجہ سے۔"
(کشتی نوح صفحہ 66مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ )71
"یہ بھی یاد رہے کہ آپ (سیدنا عیسی علیہ السالم) کو کسی قدر جھوٹ بولنے کی عادت
تھی۔"
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )289
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )290
"خدا نے اس امت میں مسیح موعود (مرزا قادیانی)بھیجا جو اس پہلے مسیح (سیدنا عیسی
علیہ السالم) سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔اور اس دوسرے مسیح کا نام غالم
احمد ہے۔"
(نور القرآن حصہ دوم صفحہ 17مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )233
"مردمی اور رجولیت انسان کی صفات محمودہ میں سے ہیں۔ ہیجڑا ہونا کوئی اچھی صفت
نہیں۔ جیسے بہرہ اور گونگا ہونا کسی خوبی میں داخل نہیں۔ ہاں یہ اعتراض بہت بڑا ہے
کہ حضرت مسیح علیہ السالم مردانہ صفات کی اعلی ترین صفت سے بے نصیب محض
ہونے کے باعث ازواج سے سچی اور کامل حسن معاشرت کا کوئی عملی نمونہ نہ دے
سکے۔"
"پھر جب خدا نے اس کے رسول نے اور تمام نبیوں نے آخری زمانے کے مسیح کو اس
کے کارناموں کی وجہ سے افضل قرار دیا ہے۔ تو پھر یہ شیطانی وسوسہ ہے کہ یہ کہا
جائے کہ کیوں تم مسیح ابن مریم سے اپنے تئیں افضل قرار دیتے ہو۔"
"خدا نے اس امت میں مسیح موعود (مرزا قادیانی)بھیجا جو اس پہلے مسیح (سیدنا عیسی
علیہ السالم) سے اپنی تمام شان میں بہت بڑھ کر ہے۔مجھے قسم ہے اس ذات کی جس کے
ہاتھ میں میری جان ہے۔ کہ اگر مسیح ابن مریم میرے زمانے میں ہوتا تو وہ کام جو میں
کرسکتا ہوں۔ وہ ہرگز نہ کرسکتا۔ اور وہ نشان جو مجھ سے ظاہر ہورہے ہیں۔ وہ ہرگز نہ
دکھال سکتا۔"
"مسیح کے معجزات اور پیشگوئیوں پر جس قدر اعتراض اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔ میں
نہیں سمجھتا کہ کسی اور نبی کے خوارق یا پیش خبریوں میں ایسے شبہات پیدا ہوئے ہیں۔
کیا تاالب کا قصہ مسیحی معجزات کی رونق دور نہیں کرتا؟"
(مقدمہ دافع البالء صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )220
"آپ( سیدنا عیسی علیہ السالم) کا کنجریوں سے میالن اور صحبت بھی شاید اس وجہ سے
ہو کہ جدی مناسبت درمیان ہے۔ ورنہ کوئی پرہیزگار انسان ایک جوان کنجری کو یہ موقع
نہیں دے سکتا۔ کہ وہ اس کے سر پر اپنے ناپاک ہاتھ لگادے۔ اور زناکاری کی کمائی کا پلید
عطر اس کے سر پر ملے۔ اور اپنے بالوں کو اس کے پیروں پر ملے۔ سمجھنے والے
سمجھ لیں کہ ایسا انسان کس چلن کا آدمی ہوسکتا ہے۔"
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )291
"یسوع (سیدنا عیسی علیہ السالم) اس لئے اپنے تئیں نیک نہیں کہ سکا۔ کہ لوگ جانتے
تھے کہ یہ شخص شرابی کبابی ہے۔ اور یہ خراب چال چلن نہ خدائی کے بعد بلکہ ابتدا
سے ہی ایسا معلوم ہوتا ہے۔ چنانچہ خدائی کا دعوی شراب خوری کا ایک بدنتیجہ ہے۔"
"ایک دفعہ مجھے ایک دوست نے یہ صالح دی کہ ذیابیطس کے لئے افیون مفید ہوتی ہے۔
پس عالج کے لئے مضائقہ نہیں کہ افیون شروع کردی جائے۔ میں نے جواب دیا کہ یہ آپ
نے بڑی مہربانی کہ ہمدردی فرمائی۔ لیکن اگر میں ذیابیطس کے لئے افیون کھانے کی
عادت کرلوں۔ تو میں ڈرتا ہوں کہ لوگ ٹھٹھا کر کے یہ نہ کہیں پہال مسیح تو شرابی تھا
اور دوسرا افیونی۔"
ممکن ہے کہ آپ (سیدنا عیسی علیہ السالم) نے معمولی تدبیر کے ساتھ کسی شب کور
وغیرہ کو اچھا کیا ہو۔ یا کسی اور بیماری کا عالج کیا ہو۔ مگر آپ کی بدقسمتی کہ اسی
زمانہ میں ایک تاالب بھی موجود تھا۔ جس سے بڑے بڑے نشان ظاہر ہوتے تھے۔ خیال
ہوسکتا ہے کہ اسی تاالب کی مٹی آپ بھی استعمال کرتے ہوں گے۔ اسی تاالب سے آپ
کے معجزات کی پوری پوری حقیقت کھلتی ہے۔ اور اسی تاالب نے فیصلہ کر دیا ہے کہ
اگر آپ سے کوئی معجزہ ظاہر ہوا ہو تو وہ آپ کا نہیں بلکہ اس تاالب کا معجزہ ہے۔ اور
آپ کے ہاتھ میں سوا مکر اور فریب کے اور کچھ نہ تھا۔"
(ضمیمہ انجام آتھم صفحہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )291
"مرزا قادیانی کی صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی شان میں کی گئی گستاخیاں"
آیئے مرزا قادیانی کی صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی شان میں کی گئی
گستاخیوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
"جیسا کہ ابوہریرہ(رضی ہللا عنہ) جو غبی تھا اور درایت اچھی نہیں رکھتا تھا۔"
(اعجاز احمدی صفحہ 18مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ )15
"بعض کم تدبر کرنے والے صحابی جن کی درایت اچھی نہ تھی۔ جیسے ابوہریرہ(رضی
ہللا عنہ)
"اکثر باتوں میں ابوہریرہ(رضی ہللا عنہ) بوجہ اپنی سادگی اور کمی درایت کے ایسے
دھوکہ میں پڑجایا کرتا تھا۔۔۔۔۔ ایسے الٹے معنی کرتا تھا جس سے سننے والوں کو ہنسی
آتی تھی۔"
"اس کو چاہیئے کہ ابوہریرہ (رضی ہللا عنہ) کے قول کو ردی متاع کی طرح پھینک دے۔"
(براہین احمدیہ احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 235مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ
)410
"اور انہوں نے کہا کہ اس شخص(مرزا قادیانی) نے امام حسن اور امام حسین (رضی ہللا
عنہم) سے اپنے آپ تئیں اچھا سمجھا۔ میں نے کہا ہاں (سمجھا ہے)۔"
"میں (مرزا قادیانی) خدا کا کشتہ ہوں۔ اور تمہارا حسین (رضی ہللا عنہ) دشمنوں کا کشتہ
ہے۔"
ترجمہ = میں ہر وقت کربال کی سیر کرتا رہتا ہوں۔ اور 100حسین (رضی ہللا عنہ)میرے
گریبان میں ہیں۔
"اے قوم شیعہ تو اس پر اصرار مت کر کہ حسین(رضی ہللا عنہ) تمہارا منجی ہے۔ کیونکہ
میں سچ کہتا ہوں کہ آج تم میں ایک (مرزا قادیانی) ہے جو اس (حسین رضی ہللا عنہ ) سے
بڑھا ہوا ہے۔"
(دافع البالء صفحہ 13مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )233
"حضرت فاطمہ رضی ہللا عنہا نے کشفی حالت میں اپنی ران پر میرا سر رکھا اور مجھے
دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔"
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 9مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )213
"جو میری جماعت میں داخل ہوا۔ وہ دراصل صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین کی
جماعت میں داخل ہوگیا۔"
(خطبہ الہامیہ صفحہ 171مندرجہ روحانی خزائن جلد 16صفحہ )259 ،258
"میں وہی مہدی ہوں۔ جس کی نسبت ابن سیرین سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ حضرت ابوبکر
رضی ہللا عنہ کے درجہ پر ہے۔ تو انہوں نے جواب دیا کہ ابوبکر رضی ہللا عنہ کیا وہ تو
بعض انبیاء سے بہتر ہے۔"
پرانی خالفت کا جھگڑا چھوڑ دو۔ اب نئی خالفت لو۔ ایک زندہ علی (مرزا قادیانی) تم میں
موجود ہے۔ اس کو چھوڑتے ہو۔ اور مردہ علی (رضی ہللا عنہ) کو تالش کرتے ہو۔"
(ملفوظات جلد اول صفحہ 400ملفوظ 15نومبر 1900ء پرانا ایڈیشن 5جلدوں واال)
"ہاں وہ محمد ﷺ کا اکلوتا بیٹا (مرزا قادیانی ) جس کے زمانہ پر رسولوں نے ناز کیا ہے۔"
"مرزا صاحب کے قرآن،حدیث اور سیدنا عیسی علیہ السالم پر بولے گئے جھوٹ"
یوں تو مرزا صاحب کی اکثر تحریرات جھوٹوں کا پلندہ ہیں .لیکن مرزا صاحب ایسے
کذاب انسان ہیں جنکی کذاب بیانی سے نہ انبیاء محفوظ رہے نہ ہی قرآن نہ صاحب قرآن
محفوظ رہے اور نہ ہی ہللا کی ذات
آئیے مرزا صاحب کے قرآن حدیث اور سیدنا عیسی علیہ السالم پر بولے گئے جھوٹوں کا
.جائزہ لیتے ہیں
)ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 13مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ (56
"جھوٹ بولنے والے سے بدتر اور دنیا میں کوئی کام نہیں۔"
)تتمہ حقیقة الوحی صفحہ 26مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (459
)ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 866مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (572
)تتمہ حقیقة الوحی صفحہ 143مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (581
جب ایک بات میں کوئی جھوٹا ثابت ہو جائے تو دوسری باتوں میں بھی اس پہ اعتبار "
"نہیں رہتا۔
"خدا کی جھوٹوں پہ نہ ایک دم لعنت ہے .بلکہ قیامت تک کے لیے لعنت ہے۔"
)ضمیمہ تحفہ گولڑویہ صفحہ 8مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ (48
"ہمارا ایمان ہے کہ خدا پر افتراء کرنا پلید طبع لوگوں کا کام ہے۔"
افسوس ہے کہ یہ لوگ خدا سے نہیں ڈرتے انبار در انبار انکے دامن میں جھوٹ کی "
"نجاست ہے۔
اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 11مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ (
)118
"اگر قرآن نے میرا نام "ابن مریم" نہیں رکھا تو میں جھوٹا ہوں۔"
)تحفتہ الندوہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ (98
یہ مرزا قادیانی کا واضح جھوٹ ہے کیونکہ قرآن میں کہیں بھی ذکر نہیں ہے کہ مرزا (
)قادیانی کا نام ابن مریم ہے
قرآن مجید اور احادیث اور پہلی کتابوں میں لکھا تھا کہ اس زمانے میں ایک نئی سواری "
"پیدا ہو گی جو کہ آگ سے چلے گی۔
)تذکرۃ الشھادتین صفحہ 23مندرجہ روحانی خزائن جلد 20صفحہ (25
یہ بھی مرزا قادیانی کا قرآن پر جھوٹ ہے کیونکہ پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں لکھا (
)کہ مسیح موعود کے وقت میں ایک سواری پیدا ہو گی جو آگ سے چلے گی
قرآن مجید میں بلکہ تورات کے بعض صحیفوں میں بھی یہ خبر موجود ہے کہ مسیح "
"موعود کے وقت میں طاعون پڑے گا۔
)کشتی نوح صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ (5
یہ بھی مرزا صاحب کا قرآن پہ جھوٹ ہے کیونکہ پورے قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ (
)مسیح موعود کے وقت طاعون پڑے گا
پس قرآن شریف میں جسکا نام خاتم الخلفاء رکھا گیا ہے اسی کا نام احادیث میں مسیح "
موعود رکھا گیا ہے اور اسی طرح سے دونوں ناموں کے بارے میں جتنی پیشگوئیاں ہیں
"وہ ہمارے ہی متعلق ہیں۔
ضرور تھا کہ قرآن اور احادیث کی وہ پیشگویئاں پوری ہوتیں جس میں لکھا تھا کہ مسیح "
موعود جب ظاہر ہوگا تو۔۔۔
۔ اسالمی علماء کے ہاتھ سے دکھ اٹھائے گا ۔1
۔ وہ اس کو کافر قرار دیں گے ۔2
۔ وہ اس کے قتل کے فتوی جاری کریں گے ۔3
۔ اس کی سخت توہین ہوگی۔4
"۔ اور اس کو دائرہ اسالم سے خارج اور دین کو تباہ کرنے واال خیال کیا جائے گا۔5
)مرزا صاحب نے یہ بھی قرآن پر جھوٹ بوال ہے ایسی باتیں قرآن میں کہیں نہیں لکھی(
قرآن شریف اور احادیث صحیحه یه امید اور بشارت اور بصر حت دے رھى ھیں که "
"مثیل ابن مریم اور دوسرے مثیل مسیح بھى آئیں گے۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 412مندرجہ روحانى خزائن جلد 3صفحہ (314
یه بھى مرزا صاحب کا قرآن پر جھوٹ ھے کیونکہ پورے قرآن میں کھیں بھی نھیں لکھا (
)کہ مثیل ابن مریم آئیں گے
جھوٹ نمبر7
قرآن بضرب دہل فرما رہا ہے که عیسى ابن مریم رسول ہللا زمین میں دفن کیا گیا ھے "
"آسمان پر اس کے جسم كا نام و نشان نھیں ہے۔
یہ بھى مرزا صاحب كا قرآن پر جھوٹ ہے کیونكه قرآن میں کہیں نہیں لکھا کہ عیسى (
علیه السالم فوت ہو كر زمین میں دفن ہیں .بلکہ قرآن میں تو حضرت عیسى علیه السالم
)كے زندہ اٹھائے جانے کا ذكر ہے
"قرآن اور توریت سے ثابت ہے كہ آدم بطور توام پیدا ہوا تھا۔"
اور میرے فضائل كا ذكر قرآن میں موجود ھے اور میرے ظہور كا ذكر بھی پر آشوب "
"زمانے میں لکھا ہے۔
اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 58مندرجہ روحانى خزائن جلد 19صفحہ (
)170
یہ بھی مرزا صاحب کا جھوٹ ہے کیوں کہ پورے قرآن میں مرزا صاحب کے فضائل تو (
)کیا نام تک بھی نہیں لکھا
قرآن کی نصوص قطعیہ سے یہ ثابت ہے کہ ایسا مفتری اس دنیا میں دست بدست سزا پا "
لیتا ہے اور خدائے قادر وغیور کبھی اسکو امن میں نہیں چھوڑتا اور اسکی غیرت اسکو
"کچل ڈالتی ہے اور جلد ہالک کرتی ہے۔
)رسالہ دعوت قوم صفحہ 49مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (49
یہ مرزا صاحب کا قرآن پر جھوٹ ہے کیونکہ قرآن میں کہیں بھی نہیں لکھا کہ جو ہللا پہ (
جھوٹ باندھے ہللا اسکو فوری پکڑ لیتے ہیں۔
بلکہ قرآن مجید میں یہ لکھا ہے۔
ِب َال یُفۡ ِل ُحوۡنَ ۔ َمتَاع ِفی الدُّنۡیَا۔
ّللاِ الۡ َکذ َ قُلۡ ا َِّن الَّذِیۡنَ َیفۡتَ ُروۡنَ َ
علَی ّٰ
ترجمہ"جو لوگ ہللا پہ جھوٹا بہتان باندھتے ہیں وہ نجات نہیں پائیں گے ہاں دنیا میں نفع ہو
)"تو ماسوا۔
"تین شہروں کا نام اعزاز کے ساتھ قرآن مجید میں آیا ہے۔ مکہ ،مدینہ اور قادیان"
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 77مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (140
)قادیان کا نام پورے قرآن میں کہیں بھی نہیں آیا(
سورۃ تحریم میں صریح طور پر بیان کیا گیا ہے کہ اس امت کے بعض افراد کا نام مریم "
"رکھا گیا ہے۔
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 189مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (
)361
یہ بھی مرزا صاحب کا صریح جھوٹ ہے کیونکہ صریح طور پر سورہ مریم میں کسی (
) فرد کا نام مریم نہیں رکھا گیا
= ترجمہ
روایت میں یہ چیز آگئی تھی کہ تمہارا امام تم میں سے ہوگا اور قرآن میں یہ خبر 2دفعہ
دی گئی ہے۔
)اعجاز احمدی ضمیمہ نزول مسیح 75مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ(188
یہ بھی مرزا صاحب نے قرآن پر جھوٹ باندھا ہے قرآن میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ تمہارا (
)امام تم میں سے ہوگا
ترجمہ
جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تالش کرے۔
)صحیح بخاری حدیث نمبر (110
آخ ِر أ ُ َّم ِتي أُنَاس سلَّ َم ،أَنَّهُ قَا َلَ « :
س َی ُك ُ
ون ِفي ِ علَ ْی ِه َو َ صلَّى ہللاُ َ سو ِل ہللاِ َ ع ْن َر ُ ع ْن أ َ ِبي ُھ َری َْرۃََ ، َ
»یُ َح ِدثُونَ ُك ْم َما لَ ْم ت َ ْس َمعُوا أ َ ْنت ُ ْمَ ،و َال آبَاؤُ ُك ْم ،فَإِیَّا ُك ْم َوإِیَّا ُھ ْم
اب آیئے مرزا صاحب کے چند ایسے جھوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں جو مرزا صاحب نے
میرے آقا ﷺپر باندھے ہیں ۔
ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 188مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (
)359
جھوٹ نمبر 2
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم وبا کے متعلق سنو کہ وہ کسی جگہ ہے
تو وہاں نہ جاؤ اور جب کسی ایسی جگہ وبا پھوٹ پڑے جہاں تم موجود ہو تو وہاں سے
بھی مت بھاگو ۔
احادیث نبویہ میں لکھا ہے کہ مسیح موعود کے ظہور کے وقت یہ انتشار نورانیت اس "
حد تک ہوگا کہ عورتوں کو بھی الہام شروع ہوجائے گا اور نابالغ بچے نبوت کریں گے
اور عوام الناس روح القدس سے بولیں گے اور یہ سب کچھ مسیح موعود کی روحانیت کا
پرتو ہوگا"۔
حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ اس مسیح موعود کی تیرھویں صدی میں پیدائش ہوگی اور "
"چودھویں صدی میں اس کا ظہور ہوگا۔
اور بعض احادیث میں بھی آچکا ہے کہ آنے والے مسیح کی ایک یہ بھی عالمت ہے کہ "
"وہ ذوالقرنین ہوگا۔
)براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 91روحانی خزائن جلد 21صفحہ (118
)ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 38مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (322
)نور الحق الحصة الثانیة صفحہ 19مندرجہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ (209
مرزاقادیانی کے یہ 10جھوٹ جو اوپر ذکر کئے گئے ہیں یہ حدیث کی کسی کتاب میں
موجود نہیں ہیں ۔
" مرزا صاحب کے سیدنا عیسی علیہ السالم پر بولے گئے 10جھوٹ"
مرزا صاحب کے سیدنا عیسی علیہ السالم پر بولے گئے 10جھوٹوں کا جائزہ لیتے ہیں۔
مرزاقادیانی نے جو 6باتیں اس عبارت میں سیدنا عیسی علیہ السالم کی طرف منسوب (
کی ہیں وہ صاف جھوٹ ہیں ان میں سے کوئی ایک بات بھی عیسی علیہ السالم میں نہیں
) پائی جاتی تھی
ان تینوں حوالوں میں مرزاقادیانی نے جو عیسی علیہ السالم کی طرف شراب نوشی اور (
دوسری گندگیوں کی نسبت کی ہے یہ صریح اور صاف جھوٹ ہے اور صرف مرزاقادیانی
)ہی اس حد تک کمینے پن پر اتر سکتا ہے
)اعجاز احمدی ضمیمہ نزول المسیح صفحہ 14مندرجہ روحانی جلد 19صفحہ (121
)سیدنا عیسی علیہ السالم کی پیشگوئیوں کو جھوٹا کہنا ہی صاف جھوٹ اور کفر ہے(
)ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 6مندرجہ روحانی جلد 11صفحہ (290
سیدنا عیسی علیہ السالم کے معجزات کی نفی کرنا دراصل قرآن کی نفی ہے جو کہ کفر (
)ہے
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 308مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (257
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 303مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (255٬254
بہرحال مسیح کی یہ تربی کاروائیاں زمانہ کے مناسب حال بطور خاص مصلحت کے "
تھیں ،مگر یاد رکھنا چاہئے کہ یہ عمل اس قدر کے الئق نہیں ،جیسا کہ عوام الناس اس
کو خیال کرتے ہیں ۔ اگر یہ عاجز اس عمل کو مکروہ اور قابل نفرت نہ سمجھتا تو خدا کے
فضل و توفیق سے امید رکھتا تھا کہ ان عجوبہ نمایئوں میں حضرت ابن مریم سے کم نہ
رہتا"۔
)ازالہ اوہام حصہ اول صفحہ 109مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (257٬258
حضرت عیسی علیہ السالم کے معجزات کو تربی کاروائی کہنا اور انہیں مکروہ اور قابل (
نفرت کہنا صریح بہتان اور تکذیب قرآن ہے اور عیسی علیہ السالم سے برتری کی امید
)رکھنا اور اس کو فضل خداوندی کہنا صریح کفر اور ہللا پر جھوٹ ہے
)ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ (290
ان دو عبارتوں میں مرزاقادیانی نے پہال جھوٹ عیسی علیہ السالم کے دماغ میں خلل کا (
بوال ہے ،دوسرا جھوٹ عیسی علیہ السالم کو مرگی کی بیماری تھی اور تیسرا جھوٹ
)عیسی علیہ السالم کو دیوانہ کہا ہے
آخر میں ایک بار یاد دہانی کروادوں کہ مرزاقادیانی نے جھوٹ بولنے والے کے بارے میں
لکھا ہے کہ
جب کوئی ایک بات میں جھوٹا ثابت ہوجائے تو پھر دوسری باتوں میں بھی اس پر "
"اعتبار نہیں رہتا
اب قارئین خود فیصلہ کریں کہ کیا ایسا انسان جو قرآن ،حدیث اور انبیاء کرام علیہم السالم
پر بھی جھوٹ بولنے سے باز نہیں آتا کیا ایسا انسان ایک انسان کہالنے کا بھی مستحق
ہے؟؟؟؟؟
"ختم نبوت کورس"
"مرزاقادیانی اور قادیانی جماعت کا مسلمانوں کو کافر قرار دینا اور قادیانیوں کی پہچان "
ویسے تو عام طور پر قادیانی یہ شور ڈالتے ہیں کہ جو کلمہ گو ہو وہ چاہے قرآن پاک کا
ہی انکار کیوں نہ کرے اس کو کافر نہیں کہ سکتے ۔
قادیانیوں کا کہنا ہے کہ ہم تمام دینی امور نماز ،روزہ وغیرہ مسلمانوں کے طریقے کے
مطابق ادا کرتے ہیں ،اور سو سال میں ہماری اچھی خاصی تعداد ہو گئی ہے پھر ہمیں کافر
کیوں کہا جاتا ہے؟ جب قادیانیوں سے یہ سوال کیا جاتاہے کہ دنیا کے ایک ارب بیس کروڑ
مسلمان جو دین اسالم پر چل رہے ہیں آپ (قادیانی) ان کو کافر اور حرامی ،رنڈیوں کی
اوالد جہنمی ،پکا کافر کیوں کہتے ہیں؟ اور ان کے خالف بدترین زبان کیوں استعمال
کرتے ہیں تو اس کا جواب نہیں دیا جاتااور الٹا
"Love for All, Hatred for "None
یعنی" محبت سب سے اور نفرت کسی سے نہیں "
کا نعرہ بلند کیا جاتا ہے ۔قادیانیوں کے عقائد اور تحریرات میں مسلمانوں کے ساتھ شادی
بیاہ سے لیکر جنازہ اور تدفین تک جملہ معامالت میں بائیکاٹ کا حکم ہے اور بھرپور زور
دیا گیا ہے کہ مسلمانوں سے کسی قسم کا رشتہ نہ رکھیں۔ مرزا قادیانی اور اس کی ذریت
کی کتب سے ذیل میں چند تحریرات کا جائزہ لیتے ہیں۔
حوالہ نمبر 1
"ہر ایک وہ شخص جس کو میری دعوت پہنچی یے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ
مسلمان نہیں ۔"
تعالی نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے
ٰ خدا
اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا۔ وہ مسلمان نہیں ہے۔"
"جو شخص میرا مخالف ہے اس کا نام عیسائی ،یہودی اور مشرک رکھا گیا ہے۔"
(نزول المسیح (حاشیہ) صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ) 382
حوالہ نمبر 4
"جو شخص تیری پیروی نہیں کرے گا اور تیری بیعت میں داخل نہیں ہوگا اور تیرا مخالف
رہے گا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے واال جہنمی ہے۔"
"دشمن ہمارے بیابانوں کے خنزیر ہوگئے۔ اور ان کی عورتیں کتیوں سے بڑھ گئی ہیں۔"
"اور ہماری فتح کا قائل نہیں ہوگا تو صاف سمجھا جاوے گا کہ اس کو ولد الحرام بننے کا
شوق ہے اور حالل زادہ نہیں۔"
(انوار اسالم صفحہ 30مندرجہ روحانی خزائن جلد 9صفحہ ) 31
ِ
ترجمہ " :میری ان کتابوں کو ہر مسلمان محبت کی نظر سے دیکھتا ہے اور اس کے
معارف سے فائدہ اٹھاتا ہے اور میری دعوت کی تصدیق کرتا ہے اور اسے قبول کرتا ہے۔
مگر رنڈیوں (بدکار عورتوں) کی اوالد نے میری تصدیق نہیں کی۔"
"اور مجھے بشارت دی ہے کہ جس نے تجھے شناخت کرنے کے بعد تیری دشمنی اور
تیری مخالفت اختیار کی ،وہ جہنمی ہے۔"
(ملفوظات احمدیہ جلد اول صفحہ 525ملفوظ 26جوالئی 1901ء پانچ جلدوں واال ایڈیشن)
(ملفوظات احمدیہ جلد 2صفحہ 215ملفوظ 26جوالئی 1901ء جدید ایڈیشن 2016ء)
مرزاقادیانی کے بیٹےاور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ
"کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود(مرزاقادیانی ) کی بیعت میں شامل نہیں ہوئے خواہ
انہوں نے حضرت مسیح موعود (مرزاقادیانی ) کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسالم
سے خارج ہیں۔"
مرزاقادیانی کے بیٹےاور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ
"اور ہمارا یہ فرض ہے کہ ہم غیر احمدیوں (مسلمانوں ) کو مسلمان نہ سمجھیں اور ان کے
پیچھے نماز نہ پڑھیں۔"
عیسی ؑ کو
ٰ عیسی ؑ کو نہیں مانتا یا
ٰ موسی ؑ کو تو مانتا ہے مگر
ٰ "ہر ایک ایسا شخص جو
محمد کو مانتا ہے پر مسیح موعود (مرزا غالم
ؐ مانتا ہے مگر محمد ؐکو نہیں مانتا اور
قادیانی) کو نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسالم سے خارج ہے۔"
مرزاقادیانی کے بیٹے اور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ
غیر احمدی کا بچہ بھی غیر احمدی ہی ہوا۔ اس لیے اس کا جنازہ بھی نہیں پڑھنا چاہیے۔‘‘
مرزاقادیانی کے بیٹے اور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے لکھا ہے کہ
"آپ (مرزا قادیانی ) کا ایک بیٹا فوت ہوگیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق بھی کرتا ہے،
جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے ،آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اس نے کبھی شرارت نہ کی
تھی ...........لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔ حاالنکہ وہ اتنا فرمانبردار تھا کہ بعض
احمدی بھی اتنے نہ ہوں گے۔ آپ کی جس طرح مرضی ہے ،اسی طرح کریں۔ لیکن باوجود
اس کے جب وہ مرا تو آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔"
مرزاقادیانی کے بیٹے اور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیرالدین محمود نے لکھا ہے کہ
ایک اور بھی سوال ہے کہ غیر احمدیوں کو لڑکی دینا جائز ہے یا نہیں۔ حضرت مسیح
موعود (مرزا غالم احمد قادیانی) نے اس احمدی پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے جو
اپنی لڑکی غیر احمدی کو دے۔ آپ سے ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی
مجبوریاں کو پیش کیا۔ لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی کو بٹھائے رکھو لیکن غیر
احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اس نے غیر احمدیوں کو لڑکی دے دی تو
حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر
دیا۔ اور اپنی خالفت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی۔ باوجود یکہ وہ بار بار
توبہ کرتا رہا۔"
"ہم تو دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعود ؑ(مرزا) نے غیر احمدیوں کے ساتھ صرف
وہی سلوک جائز رکھا ہے۔ جو نبی کریم ؐ نے عیسائیوں کے ساتھ کیا۔ غیر احمدیوں سے
ہماری نمازیں الگ کی گئیں۔ ان کو لڑکیاں دینا حرام قرار دیا گیا۔ان کے جنازے پڑھنے
سے روکا گیا۔ اب باقی کیا رہ گیا ہے جو ہم انکے ساتھ ملکر کر سکتے ہیں دو قسم کے
تعلقات ہوتے ہیں ایک دینی دوسرا دنیوی ۔دینی تعلق کا سب سے بڑا ذریعہ عبادت کا اکٹھا
ہونا ہے اور دنیوی تعلق کا بھاری ذریعہ رشتہ و ناطہ ہے۔ سو یہ دونوں ہمارے لئے حرام
قرار دئیے گئے۔ اگر کہوکہ ہم کو ان کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے تو میں کہتا ہوں
نصاری کی لڑکیاں لینے کی بھی اجازت ہے اور اگر یہ کہوں کہ غیر احمدیوں کو سالم
ٰ کہ
کریم
ؐ کیوں کہا جاتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ حدیث سے ثابت ہے کہ بعض اوقات نبی
نے یہود تک کو سالم کا جواب دیا ہے۔"
لیجئے قارئین آپ نے مرزا قادیانی اور مرزا قادیانی کے بیٹے کی تحریرات مالحظہ
فرمائیں ۔ اب انصاف سے بتایئں کہ کیا قادیانی منافقت سے کام لے کر دل میں اور اور
ظاہر میں اور عقیدہ نہیں رکھتے؟؟؟
کاش کہ کسی قادیانی کو سمجھ آجائے اور وہ "قادیانیت" پر چار حرف بھیج کر اسالم کے
وسیع دامن میں آجائے۔
#چیلنج
ہمارا چیلنج ہے کہ قادیانی جماعت کے پاس ان حوالہ جات کا کوئی مثبت جواب نہیں۔
قادیانیوں کو قادیانی جماعت اصل حقائق سے دور رکھتی ہے اس لئے ہم نے اس موضوع
پر تحریر کردہ چند حوالہ جات قادیانی جماعت کی اپنی کتابوں سے ہی دئیے ہیں تمام حوالہ
جات درست ہیں اور کوئی بڑے سے بڑا مربی بھی ان حوالہ جات کو غلط ثابت نہیں کر
سکتا ۔
اس کے عالوہ عام قادیانی بھی ان حوالہ جات کی تصدیق کے بعد دوسروں کو بیوقوف بنانا
بند کر دیں۔ اور خود بھی اپنے مربیوں کے ہاتھوں بیوقوف نہ بنیں اور اپنے اندر حق کو
قبول کرنے کا حوصلہ پیدا کریں۔
ہللا تمام قادیانیوں کو ہدایت عطا فرمائے اور اسالم کے وسیع دامن میں آنے کی توفیق عطا
فرمائے آمین
"قادیانیوں کی پہچان"
مسلمان کے بھیس میں چھپے ہوئے قادیانی کافر کی پہچان کیسے کریں ؟
مسلمانوں کے بیچ دھوکے سے چھپ کر رہنے والے کافر زندیق احمدی قادیانیوں کو
پہچاننے کا آسان طریقہ
یاد رکھیں 1974کی آئینی ترمیم اور بعد ازاں 1980اور 1984کے امتناع قادیانیت قانونی
ایکٹ کی شق 298اے 298 ،بی اور 298سی کے تحت قادیانی نہ صرف کافر ہیں بلکہ
دھوکہ دے کر خود کو مسلمان ثابت کرنے کے لیے اگر شعائر اسالم کا استعمال کریں تو 3
سال کی قید کی سزا قانون میں موجود ہے!
یہاں کچھ ایسی نشانیاں بیان کی جا رہی ہیں جو مسلمان کے بھیس میں چھپ کر رہنے واال
قادیانی اکثر و بیشتر اختیار کرتا ہے !
( )1مسلمانوں سے گپ شپ لگانے کے بہانے قادیانی مذہبی امور پر بات لے جاتا ہے اپنی
قادیانی شناخت کروائے بغیر اور یہ باور کروانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے کہ حضرت
عیسٰ ی علیہ السالم کے متعلق یہ عقیدہ رکھنا کفر اور خالف اسالم و قرآن ہے کہ ہللا نے ان
کو آسمان پر زندہ اٹھا لیا ہے اور کافر ان کو صلیب نہی دے سکے اور وہ قرب قیامت سے
قبل دنیا میں واپس آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔
بلکہ ان کو صلیب پر چڑھایا گیا لیکن وہ زخمی حالت میں فلسطین سے کشمیر ھجرت کر
گئے وھاں 120سال کی عمر میں ان کو موت آئی اور صحیح احادیث میں جو مزکور ھے
کہ قیامت سے قبل حضرت عیسٰ ی ابن مریم نے نازل ہونا ہے اس سے مراد یہ کے کہ اس
امت میں سے ہی کسی مثیل عیسٰ ی نے پیدا ہو کر مسیح ابن مریم اور امام مہدی ھونے کا
دعوی کرنا ہے اور قرآن میں جہاں ّٖتوفی کا لفظ موجود ہے حضرت عیسٰ ی ابن مریم کے
ٰ
متعلق اس سے مراد ان کی موت ہے ،
حاالنکہ عربی بولنے اور جاننے والے یہ سمجھتے ہیں کہ توفی کا مطلب کسی چیز کو
پورا پورا قبض کرنا یا پورا پورا لے لینا ھوتا ہے ،اور چونکہ ہللا نے آپ علیہ السالم کی
مکمل توفی کرلی یعنی جسم ،شعور اور روح سمیت آسمان پر اٹھا لیا اس لئے قرآن میں ان
کی توفی کا بیان ہے اور احادیث میں ان کے قیامت سے قبل نزول کا بیان اس توفی کی
تصدیق کرتا ہے !
( )2علمائے دین سے شدید متنفر کرنے کی کوشش کرنا اور ان کو تمام برائیوں کی جڑ
بتاتے ہوئے مالں یا مولوی کے نام سے پکارتا ہے ،فرقہ واریت اور کفر کے فتوؤں پر
بات کرنے کے بہانے موضوع کو اقلیتوں کے خالف ہونے والی کاروائیوں بشمول قادیانی
جماعت جس کو یہ جماعت احمدیہ کہ کر مخاطب کرتے ہیں ان کی طرف لے جاتا ھے اور
یہ جتانے کی کوشش کرتا ھے کہ کیوں کہ مسلمانوں کے تمام فرقے ایک دوسرے کو کافر
قرار دیتے ہیں ویسے ہی انہوں نے جماعت احمدیہ کو اپنے آپس کے اختالف کے تحت
کافر قرار دے دیا ۔ حاالنکہ امت مسلمہ کے تمام مسالک باالجماع ایک دوسرے کو کافر
قرار نہی دیتے اور فقہہ کے چاروں امام جو گزرے ہیں ،امام احمد بن حنبل ،امام شافعی ،
امام مالک اور امام ابو حنیفہ ان میں سے کسی نے دوسرے فقہ کے ماننے والے کو کافر یا
اسالم سے خارج قرار نہیں دیا بلکہ اس معاملے میں تمام امت مسلمہ کا اجماع موجود ہے
ہمیشہ سے کہ آپ ﷺ کے بعد پیدا ہونے واال ہر مدعی نبوت اور اس کے پیروکار کافر اور
فتوی ھے کہ جس کسی نے آپ ﷺ کے اسالم سے خارج ہیں ح ٰتی کہ امام ابو حنیفہ رح کا ٰ
بعد کسی مدعی نبوت سے اس کی صداقت کا ثبوت طلب کیا کسی تردد کے ساتھ تو وہ خود
بھی اسالم ہے خارج ہوجائے گا !
( )3قادیانی چاندی کی خاص قسم کی انگوٹھی پہنتے ہیں اکثر العلم مسلمانوں کے سامنے
یا وہاں جہاں ان کو اس بات کا یقین ہو کہ کوئی ان کو پہچان نہی پائے گا جس پر قرآن کی
ّللاُ ِب َكاف َ
ع ْبدَہُ " جس کا ترجمہ ہے کیا ہللا اپنے بندے کے یہ آیت لکھی ہوتی ہے " أ َ َلی َ
ْس َّ
لئے کافی نہیں ؟
یہ انگوٹھی قادیانی مرزا قادیانی کی سنت کے طور پر پہنتے ہیں کیوں کہ مرزا قادیانی بھی
ایسی انگوٹھی پہنا کرتا تھا ۔
( )4قادیانیوں میں ان کے خلیفہ کی مکمل داڑھی ہوتی ہے یہ دھوکہ دینے کے لئے کہ وہ
شعائر اسالمی کی مکمل پابندی کرتا ہے ورنہ قادیانی کیوں کہ مسلمانوں سے نفرت کرتے
ھیں اس لئے ان کی کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس ظاھری وضع قطع کے شعار اور نقل سے
بچا جائے جو کے ہمارے علمائے دین یا متقی مسلمان اپناتے ہیں جیسے مکمل داڑھی ایک
مٹھی بھر ،لیکن قادیانی آپ کو ٪99فرنچ کٹ داڑھی میں ملے گا یا پھر کلین شیو بنا
داڑھی کے اور ان کے ہاں غیر اعالنیہ حکم کے طور پر کوئی قادیانی جماعتی عھدے دار
موجودہ خلیفہ سے لمبی اور گھنی داڑھی نہیں رکھ سکتا اس لئے کبھی ساالنہ قادیانی
جلسے کے موقع پر بھی ہزاروں قادیانیوں کے بیچ کوئی قادیانی اپنے خلیفہ جیسی اس کے
برابر یا اس سے لمبی داڑھی رکھے نظر نہیں آئے گا اور یہ بات آپ گوگل ہر رومن اردو
میں جلسہ ساالنہ جماعت احمدیہ لکھ کر سرچ کر سکتے ھیں تصدیق ہوجائے گی ۔
( )5قادیانی کبھی مسلمانوں کی طرح گول ٹوپی نہیں پہنے گا مخصوص نماز والی وہ یا تو
پٹھانوں کی مخصوص ٹوپی پہنے نظر آئیں گے یا سندھی ٹوپی اور یا پھر جناح کیپ ،اس
حوالے سے ایک ایسی بات جو کوئی قادیانی آپ کو نہیں بتائے گا وہ یہ ہے کہ قادیانی
جماعت میں ان کے مرتبے یا رتبے کے لحاظ سے سر ڈھانپنے کا رواج ہے مردوں میں ،
ان کا خلیفہ پگڑی پہنتا ہے شملے والی اور اس کے عالوہ کسی قادیانی کو اس کی
موجودگی میں پگڑی پہنے کی اجازت نہیں ہوتی ،خلیفہ کے بعد جو اس سے نچلے درجے
کے عہدے دار ہیں وہ جناح کیپ کا استعمال کرتے ہیں پینٹ کوٹ یا شلوار قمیض و
شیروانی کے ساتھ اور پھر ان سے نچلے عام قادیانی یا تو ہشتو یا پٹھانوں کی مخصوص
ٹوپی پہنتے ہیں یا پھر سندھی ٹوپی میں نظر آتے ہیں۔
( )6قادیانی عورتوں کو پہچاننا تو اور بھی آسان ہے ،یہ بھی اپنے قادیانی مردوں کی
طرح مسلمان عورتوں کی ضد میں ڈھیلے ڈھالے برقع کے بجائے عمومی طور پر ٹائٹ
برقع پہنتی ہیں جس کی کمر پر اکثر بیلٹ بھی لگا ہوتا ہے برقع سے منسلک تاکہ برقع کی
فٹنگ اچھی آئے ( ویسے وہ بیلٹ کھولتے ہوئے کافی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے) اس کے
عالوہ ان کے نقاب کا طریقہ بھی نراال ہوتا ہے جس میں نقاب ناک کے نیچے رکھا ہوتا ہے
ہونٹوں کے اوپر ڈھلکا ہوا جس سے سوائے لب و رخسار کے سب نظر آتا ہے جو کہ " نہ
سامنے آتے ہیں اور نہ چھپاتے ہیں " کے مصداق مسلمان مردوں کو لبھانے کے لئے ایک
حربے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔
( )7قادیانیوں کا ٹی وی چینل ایم ٹی اے (مسلم ٹی وی احمدیہ ) کے نام سے سیٹیالئٹ سے
24گھنٹے نشر ہوتا ہے جس پر یہ اپنے مذموم کفریہ عقیدے کی کھلم کھال تبلیغ کرتے ہیں
اور دجل پر مبنی تعلیم کو اسالم احمدیت یعنی احمدیت ھی اصل اسالم ہے کے نعرے کے
ساتھ پیش کرتے ہیں ،قادیانیوں کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ آج کے اس دور میں جب
کیبل ٹی وی عام ہے اور ڈش اینٹینا کا استعمال متروک و معدوم ھوچال ہے پاکستان میں عام
گھریلو صارفین کے لئے لیکن اس کے باوجود قادیانی ایم ٹی اے چینل دیکھنے کی غرض
سے اپنے گھروں پر ڈش اینٹینا لگاتے ہیں اور جن مسلمانوں پر یہ اپنے دجل و فریب کی
طبع آزمائی کرتے ہیں ان کو اکثر تبلیغ کی نیت سے اپنا یہ ٹی وی چینل دکھانے کی کوشش
کرتے ہیں اپنے گھر یا عالقے کے قادیانی مرکز بال کر ،اس ٹی وی چینل اور قادیانیوں کا
مشہور مینارۃ المسیح جو کہ قادیان انڈیا میں ہے جس مینارہ کو یہ اپنے ٹی وی چینل پر
مسلمانوں کے مقابلے میں خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کی جگہ دکھا کر اس کو مشتھر
کرتے ہیں ان دونوں کے سلوگن مضمون کے ساتھ لگی معلوماتی تصویر میں دیکھے
جاسکتے ہیں آخر میں !
( )8سب سے اہم نشانی یہ کہ قادیانی ناموں کے آغاز میں آپ کو محمد لگا نظر نہیں آئے گا
اور نا ہی کوئی پیدائشی قادیانی آپ کو اس طرح کا خالص اسالمی نام رکھے نظر آئے گا
ٰ
مصطفی ،عبدالرشید ،عبدالقیوم ،جب کے ان کے ناموں کے اختتام جیسے کہ عبدہللا ،
میں احمد لگا ہوا پایا جاتا ہے جو یہ مرزا قادیانی کی نام کا بھی حصہ تھا اور قادیانی قرآن
میں بیان ہونے والے آقا ﷺ کے مخصوص نام احمد سے مراد مرزا قادیانی کی ذات ہی
لیتے ہیں معاذ ہللا !
ساتھ ساتھ یہ بھی دھیان رہے کہ پاکستان اور دنیا بھر میں پائے جانے والے زیادہ تر
قادیانی پنجابی زبان بولنے والے گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں کیوں کہ مرزا قادیانی کا
تعلق بھی تقسیم ھندوستان سے قبل قادیان ضلع گورداسپور پنجاب سے تھا اس لئے ان کی
تبلیغ کا زیادہ اور مرکزی دائرہ اثر بھی تقسیم سے قبل اور بعد میں بھی پنجاب ہی رہا جہاں
موجود سادہ لوح دیہاتی ملنسار ماحول میں ان کے فتنے کی آبیاری ہو سکی اور آج بھی یہ
سلسلہ جاری ہے نسل در نسل !
یہ کچھ نشانیاں قادیانیوں کی لکھ دی ہیں امید ہے پڑھنے والے اس کو ضرور یاد رکھیں
گے اور آگے بھی لوگوں کو آگاہ ضرورکریں گے تاکہ مسلمان اس قادیانی فتنے سے
محفوظ رہیں اور اپنا ایمان سالمت رکھیں ،آٰمین
ختم نبوت کورس
اہل سنت والجماعت کے مطابق "مہدی" نبی کریمﷺ کے متبع ہوں گے اور خلفاء راشدین
میں سے ایک خلیفہ راشد ہوں گے .آپ نہ ہی نبوت کے مدعی ہوں گے اور نہ ہی انبیاء کی
طرح معصوم ٬احادیث میں انکے اوصاف بیان ہوئے ہیں نیز ہماری معلومات کے مطابق
کسی صحیح حدیث میں آپکے لیے امام مہدی کے الفاظ نہیں ملتے بلکہ صرف "المہدی"
کہا گیا ہے انہیں "امام مہدی" صرف اس وجہ سے کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے وقت کے
مسلمانوں کے امام بمعنی پیشوا 'امیر اور حاکم ہوں گے۔
نیز کسی حدیث میں یہ نہیں ملتا کہ وہ شخصیت لوگوں کو اپنی 'مہدیت" پر ایمان النے کی
دعوت دے گی اور نہ ہی کہیں یہ آیا ہے کہ لوگوں کے لیے کسی خاص معین شخصیت کی
مہدیت پر ایمان النا واجب ہے جیسے انبیاء کی نبوت پہ ایمان النا الزم ہے اسکی مثال
تعالی ہر سو سال کے سر پر ایسے لوگٰ ایسے ہے جیسے حدیث شریف میں ہے کہ ہللا
ظاہر فرماتے رہیں گے جو تجدید دین کا فریضہ انجام دیتے رہیں گے یعنی دین میں جو
غلط باتیں داخل ہو گئی ہوں انہیں دین سے الگ کرتے رہیں گے جنہیں عام اصطالح میں
"مجددین" کہا جاتا ہے لیکن ہمارے علم کے مطابق کسی محدث یا عالم نے یہ نہیں کیا کہ
ہر زمانے میں کسی خاص فرد یا افراد کی مجددیت پر ایمان النا ضروری ہے بلکہ یہ
ہستیاں اپنا کام کرتی ہیں اور چلی جاتی ہیں لوگوں سے یہ نہیں کہتے کہ ہماری مجددیت پہ
ایمان الؤ۔
ان روایات کے بارے میں جنکے اندر اس شخصیت کے بارے میں خبر دی گئی ہو جنہیں
مہدی کہا جاتا ہے مختلف لوگوں نے اظہار خیال کیا ہے ایک گروہ نے تو صاف طور پہ
ان روایات و احادیث کو ناقابل اعتبار اور ضعیف کہہ دیا اور یہ لکھا کہ کسی ایسی
شخصیت نے نہ آنا ہے اور نہ ہی اسکی ضرورت ہے کبھی کہا جاتا ہے کہ چونکہ
صحیحین بخاری و مسلم میں مہدی کے ذکر والی روایات نہیں اس لیے یہ ساری روایات
عیسی علیہ السالم اور ظہور مہدی کی
ٰ دعوی کیا جاتا ہے کہ یہ نزول
ٰ ضعیف ہیں کبھی یہ
ساری روایات اسرائیلیات ہیں جو کعب احبار اور وہب بن منبہ نے پھیالئی ہیں کبھی یہ دلیل
دی جاتی ہیں کہ ان روایات میں جن کے اندر ظہور مہدی کا ذکر ہے شدید تعارض ہے لہذا
ظہور مہدی کو
ِ یہ قابل قبول نہیں۔اسکے مقابل ایک دوسری جماعت ایسی ہیں جس نے
ثابت کرنے کے لیے ضعیف اور موضوع روایات کو بھی عوام الناس میں بیان کرنا شروع
کر دیا جس سے یہ غلط فہمی پیدا ہوئی کہ اس بارے میں صحیح حدیث شاید موجود ہی
نہیں۔
یہ دونوں گروہ غلطی پہ ہیں نہ تو ظہور مہدی صرف افسانہ ہے اور نہ ہی وہ تمام احادیث
ضعیف ہیں جنکے اندر نبی کریم ﷺ نے قرب قیامت کے ظہور کی خبر دی ہے بلکہ اس
بارے میں حدیث کی ایک کثیر تعداد صحیح اور حسن درجے کی بھی ہیں جن میں سے چند
احادیث ہم آگے بیان کریں گے اور نہ ہی یہ اسرائیلیات ہیں ۔
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ صحیح روایات کے عالؤہ ایک کثیر تعداد ضعیف من
گھڑت اور موضوع روایات وآثار کی بھی ہیں جن سے ظہور مہدی پہ استدالل کرنے کی
ہمیں کوئی ضرورت نہیں کیونکہ صحیح و حسن احادیث کی ایک کثیر تعداد کا ہونا یہ ثابت
کرنے کے لیے کافی ہے ۔
امام مہدی کے بارے میں امت مسلمہ کے عقیدے کا خالصہ یہ ہے کہ قرب قیامت سیدنا
عیسی علیہ السالم کے نزول سے کچھ سال پہلے امام مہدی پیدا ہوں گے ۔ اور وہ مدینہ
سے مکہ کی طرف تشریف لے کر جائیں گے ۔ وہ بیت ہللا کا طواف کررہے ہوں گے کہ
وقت کے علماء ان کو پہچان لیں گے اور جب ان کا طواف مکمل ہوگا تو سب سے پہلے
کچھ علماء ان کے ہاتھ پر بیعت کریں گے ۔ اس کے بعد عمومی بیعت ہوگی۔ بیعت اس بات
پر ہوگی کہ اسالم کے بول بالے کے لئے ہم کوشش کریں گے چاہے اس کام میں ہماری
جان کیوں نہ چلی جائے ۔ اس کے بعد امام مہدی کی سربراہی میں نفاذ اسالم کی کوششوں
کا آغاز ہوگا۔ اور مسلمانوں کا کفار کے ساتھ جہاد شروع ہوجائے گا۔ اس کے کچھ عرصے
بعد سیدنا عیسی علیہ السالم کا آسمان سے نزول ہوجائے گا۔ سیدنا عیسی علیہ السالم کا جس
وقت نزول ہوگا اس وقت نماز کے لئے مسلمان صفیں سیدھی کررہے ہوں گے ۔ سیدنا
عیسی علیہ السالم کو دیکھ کر مسلمان کہیں گے کہ اے ہللا کے نبی عیسی علیہ السالم آپ
نماز کی امامت کروایئں تو سیدنا عیسی علیہ السالم جواب دیں گے کہ یہ اعزاز ہللا ٰ
تعالی
نے اس امت کو دیا ہے۔چنانچہ امام مہدی اس وقت نماز پڑھائیں گے ۔ اس کے بعد سیدنا
عیسی علیہ السالم ہی نمازوں کی امامت فرمائیں گے ۔ سیدنا عیسی علیہ السالم کے نزول
کے کچھ عرصے بعد امام مہدی کا انتقال ہوجائے گا ۔
امام مہدی کے بارے میں بہت سی صحیح ،ضعیف یا جھوٹی روایات ہیں۔ جن میں بہت
اختالف پایا جاتا ہے۔ ہم صرف ان احادیث کو ذکر کریں گے جو صحت کے لحاظ سے قابل
اعتبار ہیں۔ یا ان میں اختالف نہیں پایا جاتا ۔یا ان میں اختالف بہت کم پایا جاتا ہے۔
حضرت ام سلمہ رضی ہللا عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول ہللا ﷺ کو فرماتے ہوئے
سنا :مہدی میری نسل سے فاطمہ کی اوالد میں سے ہوں گے ۔
حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا” :دنیا
اس وقت تک ختم نہیں ہو گی جب تک کہ میرے گھرانے کا ایک آٰدمی(مہدی) جو میرا ہم
نام ہو گا عرب کا بادشاہ نہ بن جائے گا“۔
حضرت علی رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :اگر زمانہ سے
تعالی میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کھڑا ٰ ایک ہی دن باقی رہ جائے گا تو بھی ہللا
بھیجے گا وہ اسے عدل و انصاف سے اس طرح بھر دے گا جیسے یہ ظلم و جور سے بھر
دی گئی ہے ۔
)ابوداؤد حدیث نمبر ٬ 4283باب فی ذکر المھدی(
ّللاُ ذَ ِل َك
ط َّو َل َّع ِن النَّ ِبي ِ ﷺ ،قَا َل:لَ ْو لَ ْم َیبْقَ ِمنَ الدُّ ْنیَا إِ َّال َی ْوم ،قَا َل :زَ ائِدَۃ ُ ِفي َحدِیثِ ِه لَ َ ع ْن َ
ع ْب ِد َّ ِ
ّللاَ ، َ
َ
ئ ا ْس ُمهُ اس ِْمي َوا ْس ُم أ ِبی ِه اس َْم اط ُ َ َ
ث فِی ِه َر ُج ًال ِم ِني أ ْو ِم ْن أ ْھ ِل َب ْی ِتي ی َُو ِ ْال َی ْو َم ،ث َّم اتَّفَقُواَ :حتَّى َی ْب َع َ
ُ
ثظ ْل ًما َو َج ْو ًراَ ،وقَا َل فِي َحدِی ِ ت ُ عد ًْال َك َما ُم ِلئ َ ْ
طا َو َ طر َی ْم ََل ُ ْاْل َ ْر َ
ض قِ ْس ً ث فِ ْأَبِي زَ ادَ فِي َحدِی ِ
ئ ا ْس ُمهُ اس ِْمي۔ اط ُ ب َر ُجل ِم ْن أ َ ْھ ِل َب ْی ِتي ی َُو ِ ضي الدُّ ْن َیا َحتَّى َی ْم ِل َك ْال َع َر َ َب أَ ْو َال تَ ْن َق ِ
س ْف َیانَ َ :ال ت َ ْذھ ُُ
حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا :اگر
تعالی اس دن کو لمبا کر دے گا ،یہاں تک کہ اس میںٰ دنیا کا ایک دن بھی رہ جائے گا تو ہللا
ایک شخص کو مجھ سے یا میرے اہل بیت میں سے اس طرح کا برپا کرے گا کہ اس کا نام
میرے نام پر ،اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا ،وہ عدل و انصاف سے
زمین کو بھر دے گا ،جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ۔ سفیان کی روایت میں
ہے :دنیا نہیں جائے گی یا ختم نہیں ہو گی تاآنکہ عربوں کا مالک ایک ایسا شخص ہو
جائے جو میرے اہل بیت میں سے ہو گا اس کا نام میرے نام کے موافق ہو گا ۔
ف یَ ْم ََل ُ
ي ِم ِني أ َ ْجلَى ْال َج ْب َھ ِة أ َ ْقنَى ْاْل َ ْن ِّللاِ ﷺ ْ :ال َم ْھ ِد ُّسو ُل َّ س ِعید ْال ُخد ِْريِ ،قَا َل :قَا َل َر ُ ع ْن أَبِي َ َ
ْ
ظل ًما َی ْم ِلكُ َ
س ْب َع ِسنِینَ ت َج ْو ًرا َو ُعد ًْال َك َما ُم ِلئ َ ْ ض ِق ْس ً
ط َاو َ ْ .اْل َ ْر َ
حضرت ابوسعید خدری رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا :مہدی
میری اوالد میں سے کشادہ پیشانی ،اونچی ناک والے ہوں گے ،وہ روئے زمین کو عدل و
انصاف سے بھر دیں گے ،جیسے کہ وہ ظلم و جور سے بھر دی گئی ہے ،ان کی حکومت
سات سال تک رہے گی ۔
حضرت ام سلمہ رضی ہللا عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے فرمایا :ایک خلیفہ کی
موت کے وقت اختالف ہو گا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص مکہ کی طرف بھاگتے
ہوئے نکلے گا ،اہل مکہ میں سے کچھ لوگ اس کے پاس آئیں گے اور اس کو امامت کے
لیے پیش کریں گے ،اسے یہ پسند نہ ہو گا ،پھر حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان
لوگ اس سے بیعت کریں گے ،اور شام کی جانب سے ایک لشکر اس کی طرف بھیجا
جائے گا تو مکہ اور مدینہ کے درمیان مقام بیداء میں وہ سب کے سب دھنسا دئیے جائیں
گے ،جب لوگ اس صورت حال کو دیکھیں گے تو شام کے ابدال اور اہل عراق کی
جماعتیں اس کے پاس آئیں گی ،حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اس سے بیعت کریں
گی ،اس کے بعد ایک شخص قریش میں سے اٹھے گا جس کا ننہال بنی کلب میں ہو گا جو
ایک لشکر ان کی طرف بھیجے گا ،وہ اس پر غالب آئیں گے ،یہی کلب کا لشکر ہو گا ،اور
نامراد رہے گا وہ شخص جو کلب کے مال غنیمت میں حاضر نہ رہے ،وہ مال غنیمت
تقسیم کرے گا اور لوگوں میں ان کے نبی کی سنت کو جاری کرے گا ،اور اسالم اپنی
گردن زمین میں ڈال دے گا ،وہ سات سال تک حکمرانی کرے گا ،پھر وفات پا جائے گا،
اور مسلمان اس کی نماز جنازہ پڑھیں گے ۔
عن ام سلمة رضی ہللا عنہا قالت :قال رسول ہللاﷺ :یبایع رجل من امتی بین الرکن والمقام
کعدۃ أھل بدر فیاتیہ عصب العراق وابدأل الشام فیاتیھم جیش من الشام حتی اذا کانو بالبیداء
خسف بہم ثم یسیر الیہ رجل من قریش اخواله کلب فیھزمھم ہللا قال و کان یقال أن الخائب
یومئذ من خاب من غنیمة کلب۔
حضرت ام سلمہ رضی ہللا عنہا سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا :میری امت کے
ایک شخص ( مہدی) سے رکن حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اہل بدر کی تعداد
کے مثل افراد بیعت خالفت کریں گے ۔ بعد ازاں اس خلیفہ کے پاس عراق کے اولیاء
اورشام کے ابدال آئیں گے ۔ اس خلیفہ سے جنگ کے لئے ایک لشکر شام سے روانہ ہو گا
۔ یہاں تک کہ یہ لشکر جب بیداء کے مقام پر پہنچے گا۔ زمین کے اندر دھنسا دیا جائے گا
۔پھر ایک قریشی آدمی ان کی طرف آئے گا ۔ اس کے ننھیال قبیلہ کلب سے ہوں گے۔ ہللا
اس کے ہاتھ پر ان کو شکست دے گا۔ اور کہا جائے گا۔ اس موقع پر وہ شخص خسارہ
اٹھانے واال ہوگا۔ جو قبیلہ کلب کے مال غنیمت سے محروم رہا۔
عن ابی سعید خدری قال :قال رسول ہللاﷺ یخرج فی آخر امتی المہدی یسقیہ ہللا الغیث و "
تخرج اْلرض نباتھا و یعطی المال صحاحا و تکثر الماشیة و تعظم اْلمة یعیش سبعا او ثمانیا
"یعنی حجیجا۔
حضرت ابوسعید خدری رضی ہللا عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا :میری "
امت کے آخر میں مہدی نکلے گا۔ ہللا اس کے لئے بارش برسائیں گے اور زمین اپنی نباتات
نکا لے گی۔ وہ مال صحیح لوگوں کو دے گا ،چوپاوں کی کثرت ہوگی اور امت بہت زیادہ
"ہوگی۔ وہ سات یا آٹھ سال رہے گا۔
حضرت ابوسعید خدری اور جابر بن عبدہللا رضی ہللا عنھما روایت کرتے ہیں کہ رسول
ہللاﷺ نے فرمایا " :تمھارے خلفاءمیں سے ایک خلیفہ(مہدی) ہو گا جولپیں بھر بھرکر مال
دے گا اور اس کو شمارنہیں کرےگا ۔
علَى ْال َح ِ
ق طا ِئ َفة ِم ْن أ ُ َّم ِتي یُ َقا ِتلُونَ َي ﷺ َیقُولَُ « :ال تَزَ ا ُل َ س ِم ْعتُ ال َّن ِب َّ ہللاَ ،یقُولَُ :َجا ِب َر بْنَ َع ْب ِد ِ
سلَّ َم ،فَیَقُو ُل أ َ ِم ُ
یر ُھ ْم: علَ ْی ِه َو َ صلَّى ہللاُ َ سى اب ُْن َم ْریَ َم َ ظا ِھ ِرینَ ِإلَى َی ْو ِم ْال ِقیَا َم ِة» ،قَا َل :فَ َی ْن ِز ُل ِعی َ
َ
علَى َب ْعض أ ُ َم َرا ُء تَ ْك ِر َمةَ ہللاِ َھ ِذ ِہ ْاْل ُ َّمةَ۔ ض ُك ْم َ ص ِل لَنَا ،فَیَقُو ُلَ :ال ،إِ َّن بَ ْع َ تَعَا َل َ
حضرت جابر بن عبد ہللا رضی ہللا عنہ بیان کرتے ہیں ،میں نے رسول ہللا ﷺ کو فرماتے
ہوئے سنا ’’ :میری امت کا ایک گروہ مسلسل حق پر ( قائم رہتے ہوئے ) لڑتا رہے گا ،
وہ قیامت کے دن تک ( جس بھی معرکے میں ہو ں گے ) غالب رہیں گے ،کہا :پھر
عیسی ابن مریم رضی ہللا عنہ اتریں گے تو اس طائفہ ( گروہ ) کا امیر (مہدی)کہے گا :
ٰ
عیسی علیہ السالم جواب دیں گے :نہیں ،ہللا کی طرف
ٰ آئیں ہمیں نماز پڑھائیں ،اس پر
‘ ‘ سے اس امت کو بخشی گئی عزت و شرف کی بنا پر تم ہی ایک دوسرے پر امیر ہو ۔
)مسلم حدیث نمبر ٬ 395باب نزول عیسی بن مریم حاکما بشریعة نبییناﷺ۔۔۔(
مندرجہ باال احادیث سے امام مہدی کے بارے میں درج ذیل باتیں ہمیں معلوم ہویئں۔
اگلے سبق میں ہم امام مہدی اور مرزا صاحب کا تقابلی جائزہ لیں گے کہ کیا مرزا (
)صاحب ہی امام مہدی ہیں۔ یا ان کا مہدی ہونے کا دعوی جھوٹا ہے
امام مہدی کے بارے میں درج ذیل باتیں ہمیں احادیث سے معلوم ہویئں۔ اب اسی کے اوپر
مرزا صاحب کو پرکھ لیتے ہیں۔
1۔ امام مہدی کا نام محمد ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کا نام غالم احمد تھا۔
22۔ امام مہدی کے والد کا نام عبدہللا ہوگا۔ جبکہ مرزا صاحب کے والد کا نام غالم مرتضی
تھا۔
33۔ امام مہدی سادات میں سے ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب کا خاندان "مغل" تھا۔
44۔ امام مہدی بیت ہللا کا طواف کر رہے ہوں گے جب ان کو پہچان کر ان کی بیعت کی
جائے گی ۔ جبکہ مرزا صاحب ساری زندگی مکہ مکرمہ نہیں جاسکے۔
55۔ امام مہدی حاکم(بادشاہ) ہوں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب غالم تھے۔
66۔ امام مہدی زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے ۔ جبکہ مرزا صاحب کو تو
حکومت ہی نصیب نہیں ہوئی۔
.7امام مہدی کی حکومت 7یا 99سال ہوگی۔جبکہ مرزا صاحب کو تو حکومت ہی نصیب
نہیں ہوئی۔
88۔امام مہدی کے وقت میں سیدنا عیسی علیہ السالم کا آسمان سے نزول ہوگا۔ جبکہ مرزا
صاحب کے دور میں عیسی علیہ السالم آسمان سے نازل نہیں ہوئے۔
جب مرزا صاحب سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ آپ تو کہتے ہیں کہ آپ امام مہدی
ہیں،حاالنکہ جس مہدی کے آنے کا حدیث میں ذکر ملتا ہے۔ ان کا نام محمد ہوگا ،ان کے
والد کا نام عبدہللا ہوگا ،وہ سادات میں سے ہوں گے جبکہ آپ کے اندر تو اس بارے میں
کوئی نشانی نہیں پائی جاتی۔ تو مرزا صاحب نے جو جواب دیا وہ پڑھیں۔
"میرا یہ دعوی نہیں کہ میں وہ مہدی ہوں جو مصداق من ولد فاطمة ومن عترتی وغیرہ ہے۔
بلکہ میرا دعوی تو مسیح موعود ہونے کا ہے۔ اور مسیح موعود کے لئے کسی محدث کا
قول نہیں کہ وہ بنی فاطمہ وغیرہ سے ہوگا۔ ہاں ساتھ اس کے جیسا کہ تمام محدثین کہتے
ہیں میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور
مخدوش ہیں۔ اور ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں۔ اور جس قدر افترا ان حدیثوں میں ہوا
ہے کسی اور حدیث میں ایسا افترا نہیں ہوا۔"
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم روحانی خزائن جلد 21صفحہ )356
لیجیے اس جائزے اور مرزا صاحب کی تشریح سے پتہ چال کہ جس امام مہدی کے قرب
قیامت آنے کی خبر احادیث میں دی گئی ہے۔ مرزا صاحب کا دعوی اس مہدی ہونے کا
نہیں ہے۔ پتہ چال کہ مرزا صاحب اپنے دعوی مہدویت میں احادیث کی روشنی سے کذاب
ہیں۔
مرزا صاحب ایک اور جگہ قالبازی کھاتے ہوئے لکھتے ہیں کہ
"اگر مجھے قبول نہیں کرتے تو یوں سمجھ لو کہ تمہاری حدیثوں میں لکھا ہے کہ مہدی
موعود خلق اور خلق میں ہمرنگ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم ہوگا۔ اور اس کا اسم آنجناب
کے اسم سے مطابق ہوگا۔ یعنی اس کا نام بھی محمد اور احمد ہوگا۔اور اس کے اہل بیت
میں سے ہوگا۔"
اس کے حاشیے میں مرزا جی لکھتے ہیں کہ
یہ بات میرے اجداد کی تاریخ سے ثابت ہے کہ ایک دادی ہماری شریف خاندان سادات
سے اور بنی فاطمہ میں سے تھیں۔ اس کی تصدیق آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے بھی
کی اور خواب میں مجھے فرمایا کہ "سلمان منااھل البیت علی مشرب الحسن" میرا نام
سلمان رکھا یعنی دو سلم۔ اور سلم عربی میں صلح کو کہتے ہیں۔ یعنی مقدر ہے کہ دو صلح
میرے ہاتھ پر ہوں گی۔ ایک اندرونی کہ جو اندرونی بغض اور شحنا کو دور کرے
گی۔دوسری بیرونی کہ جو بیرونی عداوت کے وجوہ کو پامال کر کے اور اسالم کی عظمت
دکھا کر غیر مذہب والوں کو اسالم کی طرف جھکادے گی۔ معلوم ہوتا ہے کہ حدیث میں
جو سلمان آیا ہے۔ اس سے بھی میں مراد ہوں۔ ورنہ اس سلمان پر دو صلح کی پیشگوئی
صادق نہیں آتی۔اور میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں۔ اور
بموجب اس حدیث کے جو کنزالعمال میں درج ہے۔ بنی فارس بھی بنی اسرایئل اور اہل بیت
میں سے ہیں۔ اور حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پرمیرا سر رکھا۔اور
مجھے دکھایا کہ میں اس میں سے ہوں۔چنانچہ یہ کشف براہین احمدیہ میں موجود ہے۔
(ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ )212،213
مرزا صاحب اس جگہ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ تمہاری بات مان کر اگر یہ کہا جائے کہ امام
مہدی کا نام محمد ہوگا اور وہ سادات میں سے ہوگا۔ تو پھر بھی میں مہدی ہوں کیونکہ
میری ایک دادی سادات میں سے تھیں۔ اور حضرت فاطمہ رضی ہللا عنہا نے مجھے خواب
میں اپنا بیٹا کہا ہے۔
ماشاء ہللا کیا کہنے کہ جب صاف پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب مہدی کی بتائی گئی کسی
ایک نشانی پر پورے نہیں اترتے تو کس طرح کھینچ تان کر اپنے آپ کو سید ثابت کر دیا
حاالنکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ نسب ماں سے نہیں بلکہ باپ سے چلتا ہے۔
اگر یوں کہا جائے کہ سادات بھی تو حضرت فاطمہ رضی ہللا عنہا کی اوالد کو کہا جاتا
ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صرف حضرت فاطمہ رضی ہللا عنہا کی اوالد کو سادات
نہیں کہا جاتا بلکہ بنی ہاشم تمام سادات میں داخل ہیں۔ جن میں حضرت علی ،حضرت
عباس ،حضرت عقیل اور حضرت جعفر رضی ہللا عنہم کی اوالد شامل ہیں۔
اب اگر مرزا جی کو بالفرض سادات میں سے تسلیم کر بھی لیا جائے تو مرزا صاحب پھر
بھی مہدی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ مرزا صاحب کا نام غالم احمد تھا اور مہدی کا نام محمد
ہوگا۔ جیسا کہ خود بھی مرزا صاحب نے تسلیم کیا ہے۔
پہلے جائزے کے مطابق مرزا صاحب اس امام مہدی ہونے سے انکاری تھے جن کا ذکر
احادیث میں آیا ہے۔ اور دوسرے جائزے کے مطابق مرزا صاحب اسی امام مہدی ہونے
کے دعوے دار ہیں جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مرزا صاحب کی کون سی بات سچ تسلیم کی جائے ؟؟؟
اور قانون یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔
مرزا صاحب کی کچھ تحریرات کے مطابق امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی احادیث ہیں
وہ سب جھوٹی ،ضعیف ہیں۔چند حوالہ جات مالحظہ فرمائیں۔
حوالہ نمبر 1
"میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح و
مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔ اور جسقدر افتراء اُن حدیثوں میں ہوا
ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا"
"مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح
حدیث نہیں کہہ سکتے"
"اہل سنت کا مذہب ہے کہ امام مہدی فوت ہو گئے ہیں اور آخری زمانہ میں انہیں کے نام
پر ایک اور امام پیدا ہوگا ،لیکن محققین کے نزدیک مہدی کا آنا کوئی یقینی امر نہیں ہے۔"
(روحانی خزائین جلد 3صفحہ ) 344
"اور سچ یہ ہے کہ بنی فاطمہ سے کوئی مہدی آنے واال نہیں۔ اور ایسی تمام حدیثین
موضوع اور بے اصل اور بناوٹی ہیں۔"
"مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک ایسے مہدی کا انتظار ہے جو فاطمہ مادر حسین کی
مخالفان
ِ اوالد میں سے ہوگا اور نیز ایسے مسیح کا بھی انتظار ہے جو اس مہدی سے ِملکر
اسالم سے لڑائیاں کرے گا مگر میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ سب خیاالت لغو اور
باطل اور جھوٹ ہیں۔"
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے پتہ چال کہ امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی روایات
ہیں وہ ضعیف ہیں اور باطل ہیں۔
اب مرزا صاحب کی چند مزید تحریرات مالحظہ فرمائیں جن میں مرزا صاحب انہی
روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ اور خود کو امام مہدی انہیں روایات کی وجہ سے کہتے
ہیں۔
"وہ آخری مہدی جو تنزل اسالم کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست
خدا سے ہدایت پانے واال اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے واال
تقدیر ٰالہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ
نے دی تھی وہ میں ہی ہوں"
"اور بموجب حدیث لو کان االیمان عند الثریا لنا لہ رجال او رجل من ٰھوالء )ای من فارس)
دیکھو بخاری صفحہ 727۔ رجل فارسی کا جائے ظہور بھی یہ مشرق ہے۔ اور ہم ثابت کر
چکے ہیں کہ وہی رجل فارسی مہدی ہے اس لیے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور
دجال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے اور وہ ملک ہند ہے۔
"دوسری گواہی اس حدیث (ان لمھدینا آیتین) کی صحیح اور مرفوع متصل ہونے پر آیت
"فال یظھر علی غیبہ احد ا اال من ارتضی من رسول" میں ہے کیونکہ یہ آیت علم غیب
صحیح اور صاف کا رسولوں پر حصر کرتی ہے جس سے بالضرورت متعین ہوتا ہے کہ
"ان لمھدینا" کی حدیث بالشبہ رسول ہللا ﷺ کی حدیث ہے"
"اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور
وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔ مثال صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن
میں آخری زمانوں میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کر وہ خلیفہ جس
کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی "ھذا خلیفتہ ہللا
المھدی" اب سوچو یہ حدیث کس پائے اور مرتبے کی ہے۔ جو ایسی کتاب میں درج ہے جو
اصح الکتب بعد کتاب ہللا ہے۔"
معزز قارئین دونوں قسم کے حوالہ جات آپ نے مالحظہ کئے جن میں مرزا صاحب پہلے
کہتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں حدیثیں ضعیف ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی
لکھتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں بخاری اور مسلم میں کوئی روایت نہیں لہذا امام
مہدی کے بارے میں احادیث ضعیف ہیں۔
اسی کے برعکس پھر مرزا صاحب انہیں احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بخاری
کی ایک روایت کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ جو درحقیقت بخاری میں موجود نہیں بلکہ مرزا
صاحب نے بخاری پر جھوٹ لکھا ہے۔
"اگرچہ اس میں کچھ شک نہیں کہ احادیث میں جہاں جہاں مہدی کے نام سے کسی آنے
والے کی پیشگوئی رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی درج ہے۔ اس کے سمجھنے میں لوگوں
نے بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔ اور غلط فہمی کی وجہ سے عام طور پر یہی سمجھا گیا
ہے کہ ہر ایک مہدی کے لفظ سے مراد محمد بن عبدہللا ہے۔ جس کی نسبت بعض احادیث
پائی جاتی ہیں۔ لیکن نظر غور سے معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کئی
مہدیوں کی خبر دیتے ہیں۔ منجملہ ان کے وہ مہدی بھی ہے جس کا نام حدیث میں سلطان
مشرق رکھا گیا ہے۔ جس کا ظہور ممالک مشرقیہ ہندوستان وغیرہ سے اور اصل وطن
فارس سے ہونا ضرور ہے۔ درحقیقت اسی کی تعریف میں یہ حدیث ہے کہ اگر ایمان ثریا
سے معلق یا ثریا پر ہوتا تب بھی وہ مرد وہیں سے اس کو لے لیتا۔ اور اس کی یہ نشانی
بھی لکھی ہے کہ وہ کھیتی کرنے واال ہوگا ۔ غرض یہ بات بالکل ثابت شدہ اور یقینی ہے
کہ صحاح ستہ میں کئی مہدیوں کا ذکر ہے۔ اور ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کا
ممالک مشرقیہ سے ظہور لکھا ہے۔ مگر بعض لوگوں نے روایات کے اختالط کی وجہ
سے دھوکا کھایا ہے۔ لیکن بڑی توجہ دالنے والی یہ بات ہے کہ خود آنحضرت صلی ہللا
علیہ وسلم نے ایک مہدی کے ظہور کا زمانہ وہی زمانہ قرار دیا ہے جس میں ہم ہیں۔ اور
چودھویں صدی کا اس کو مجدد قرار دیا ہے۔ "
اب مرزا صاحب کی 2اور تحریرات دیکھتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہی
آخری مہدی ہیں اور ان کے بعد کسی مہدی نے نہیں آنا۔
"وہ آخری مہدی جو تنزل اسالم کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست
خدا سے ہدایت پانے واال اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے واال
تقدیر ٰالہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ
نے دی تھی وہ میں ہی ہوں"
"میرے ساتھ ایک لڑکی پیدا ہوئی تھی جس کا نام جنت تھا پہلے وہ لڑکی پیٹ سے نکلی
تھی اور بعد اس کے میں نکال تھا۔ اور میرے بعد میرے والدین کے گھر میں کوئی اور
لڑکا یا لڑکی نہیں ہوئی اور میں ان کے لئے خاتم االوالد تھا۔ اور یہ میری پیدائش کا وہ
طرز ہے جس کو بعض اہل کشف نے مہدی خاتم الوالیت کی عالمتوں میں سے لکھا ہے۔
اور بیان کیا ہے کہ وہ آخری مہدی جس کی وفات کے بعد کوئی اور مہدی پیدا نہیں ہوگا۔"
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ اگر ایک مہدی کی بجائے بہت سے مہدیوں نے آنا ہے تو
ہمیں بتایا جائے کہ مرزا صاحب سے پہلے کون سچا مہدی تھا؟؟؟
اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ وہ مہدی جس کے بارے میں ذکر ہے کہ اس کا نام محمد،
والد کا نام عبدہللا اور وہ سادات میں سے ہوگا وہ کون تھا اس کی نشاندہی کی جائے ؟؟؟
کیونکہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ میں آخری مہدی ہوں۔
معزز قارئین ان چاروں جائزوں کا خالصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کا مہدی ہونے کا دعوی
سچا نہیں تھا کیونکہ کبھی مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں وہی مہدی ہوں جس کا حدیث
میں ذکر ہے۔ کبھی کہتے ہیں وہ مہدی میں نہیں ہوں ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ایک نہیں،بہت
سے مہدیوں نے ظاہر ہونا ہے،کبھی کہتے ہیں میں ہی آخری مہدی ہوں۔
مرزا صاحب نے اتنے پلٹے کھائے ہیں کہ اگر خود قادیانی بھی ٹھنڈے دماغ سے مرزا
صاحب کی کتابوں کو پڑھیں تو چکرا جایئں۔ اتنے پلٹے کھانے واال سچا مہدی نہیں
ہوسکتا۔ جبکہ ایک بھی نشانی مہدی کی مرزا صاحب میں پوری بھی نہ ہوئی ہو۔
"میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح و
مخدوش ہیں اور ایک بھی اُن میں سے صحیح نہیں۔ اور جسقدر افتراء اُن حدیثوں میں ہوا
ہے کسی اور میں ایسا نہیں ہوا"
"مہدی کی حدیثوں کا یہ حال ہے کہ کوئی بھی جرح سے خالی نہیں اور کسی کو صحیح
حدیث نہیں کہہ سکتے"
"اور سچ یہ ہے کہ بنی فاطمہ سے کوئی مہدی آنے واال نہیں۔ اور ایسی تمام حدیثین
موضوع اور بے اصل اور بناوٹی ہیں۔"
"مسلمانوں کے قدیم فرقوں کو ایک ایسے مہدی کا انتظار ہے جو فاطمہ مادر حسین کی
مخالفان
ِ اوالد میں سے ہوگا اور نیز ایسے مسیح کا بھی انتظار ہے جو اس مہدی سے ِملکر
اسالم سے لڑائیاں کرے گا مگر میں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ یہ سب خیاالت لغو اور
باطل اور جھوٹ ہیں۔"
"میں کہتا ہوں کہ مہدی کی خبریں ضعف سے خالی نہیں ہیں کیونکہ امامین(بخاری و
مسلم) نے ان کو نہیں لیا۔"
مرزا صاحب کی ان تحریرات سے پتہ چال کہ امام مہدی کے بارے میں جتنی بھی روایات
ہیں وہ ضعیف ہیں اور باطل ہیں۔
اب مرزا صاحب کی چند مزید تحریرات مالحظہ فرمائیں جن میں مرزا صاحب انہی
روایات کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ اور خود کو امام مہدی انہیں روایات کی وجہ سے کہتے
ہیں۔
"وہ آخری مہدی جو تنزل اسالم کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست
خدا سے ہدایت پانے واال اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے واال
تقدیر ٰالہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ
نے دی تھی وہ میں ہی ہوں"
"میں خدا سے وحی پا کر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سےہوں اور بموجب اس حدیث
کےجو کنزالعمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں اور
حضرت فاطمہ نے کشفی حالت میں اپنی ران پرمیرا سر رکھا۔اور مجھے دکھایا کہ میں اس
میں سے ہوں"
"اور بموجب حدیث لو کان االیمان عند الثریا لنا لہ رجال او رجل من ٰھوالء )ای من فارس)
دیکھو بخاری صفحہ 727۔ رجل فارسی کا جائے ظہور بھی یہ مشرق ہے۔ اور ہم ثابت کر
چکے ہیں کہ وہی رجل فارسی مہدی ہے اس لیے ماننا پڑا کہ مسیح موعود اور مہدی اور
دجال تینوں مشرق میں ہی ظاہر ہوں گے اور وہ ملک ہند ہے۔
"اگر حدیث کے بیان پر اعتبار ہے تو پہلے ان حدیثوں پر عمل کرنا چاہیے جو صحت اور
وثوق میں اس حدیث پر کئی درجہ بڑھی ہوئی ہیں۔ مثال صحیح بخاری کی وہ حدیثیں جن
میں آخری زمانوں میں بعض خلیفوں کی نسبت خبر دی گئی ہے۔ خاص کر وہ خلیفہ جس
کی نسبت بخاری میں لکھا ہے کہ آسمان سے اس کے لئے آواز آئے گی "ھذا خلیفتہ ہللا
المھدی" اب سوچو یہ حدیث کس پائے اور مرتبے کی ہے۔ جو ایسی کتاب میں درج ہے جو
اصح الکتب بعد کتاب ہللا ہے۔"
معزز قارئین دونوں قسم کے حوالہ جات آپ نے مالحظہ کئے جن میں مرزا صاحب پہلے
کہتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں حدیثیں ضعیف ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ بھی
لکھتے ہیں کہ امام مہدی کے بارے میں بخاری اور مسلم میں کوئی روایت نہیں لہذا امام
مہدی کے بارے میں احادیث ضعیف ہیں۔
اسی کے برعکس پھر مرزا صاحب انہیں احادیث کو صحیح قرار دیتے ہیں اور بخاری
کی ایک روایت کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ جو درحقیقت بخاری میں موجود نہیں بلکہ مرزا
صاحب نے بخاری پر جھوٹ لکھا ہے۔
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ مرزا صاحب کی کون سی بات سچ تسلیم کی جائے ۔ ایک
طرف تو مرزا جی امام مہدی کے بارے میں تمام حدیثوں کو ضعیف اور جھوٹا لکھتے ہیں
اور دوسری طرف انہی احادیث کو صحیح کہتے ہیں۔ اب دونوں میں سے ایک ہی بات
سچی ہوسکتی ہے۔ اور ایک بات یقینا جھوٹ ہوگی۔
اور قانون یہ ہے کہ نبی جھوٹ نہیں بولتا اور جھوٹا شخص نبی نہیں ہوسکتا۔
"اگرچہ اس میں کچھ شک نہیں کہ احادیث میں جہاں جہاں مہدی کے نام سے کسی آنے
والے کی پیشگوئی رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی درج ہے۔ اس کے سمجھنے میں لوگوں
نے بڑے بڑے دھوکے کھائے ہیں۔ اور غلط فہمی کی وجہ سے عام طور پر یہی سمجھا گیا
ہے کہ ہر ایک مہدی کے لفظ سے مراد محمد بن عبدہللا ہے۔ جس کی نسبت بعض احادیث
پائی جاتی ہیں۔ لیکن نظر غور سے معلوم ہوگا کہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کئی
مہدیوں کی خبر دیتے ہیں۔ منجملہ ان کے وہ مہدی بھی ہے جس کا نام حدیث میں سلطان
مشرق رکھا گیا ہے۔ جس کا ظہور ممالک مشرقیہ ہندوستان وغیرہ سے اور اصل وطن
فارس سے ہونا ضرور ہے۔ درحقیقت اسی کی تعریف میں یہ حدیث ہے کہ اگر ایمان ثریا
سے معلق یا ثریا پر ہوتا تب بھی وہ مرد وہیں سے اس کو لے لیتا۔ اور اس کی یہ نشانی
بھی لکھی ہے کہ وہ کھیتی کرنے واال ہوگا ۔ غرض یہ بات بالکل ثابت شدہ اور یقینی ہے
کہ صحاح ستہ میں کئی مہدیوں کا ذکر ہے۔ اور ان میں سے ایک وہ بھی ہے جس کا
ممالک مشرقیہ سے ظہور لکھا ہے۔ مگر بعض لوگوں نے روایات کے اختالط کی وجہ
سے دھوکا کھایا ہے۔ لیکن بڑی توجہ دالنے والی یہ بات ہے کہ خود آنحضرت صلی ہللا
علیہ وسلم نے ایک مہدی کے ظہور کا زمانہ وہی زمانہ قرار دیا ہے جس میں ہم ہیں۔ اور
چودھویں صدی کا اس کو مجدد قرار دیا ہے۔ "
مرزا صاحب کی اس تحریر سے پتہ چال کہ صرف ایک مہدی نے نہیں آنا بلکہ احادیث
میں بہت سے مہدیوں کے آنے کی خبر دی گئی ہے۔
اب مرزا صاحب کی 2اور تحریرات دیکھتے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہی
آخری مہدی ہیں اور ان کے بعد کسی مہدی نے نہیں آنا۔
"وہ آخری مہدی جو تنزل اسالم کے وقت اور گمراہی پھیلنے کے زمانہ میں براہ راست
خدا سے ہدایت پانے واال اُس آسمانی مائدہ کو نئے سرے انسانوں کے آگے پیش کرنے واال
تقدیر ٰالہی میں مقرر کیا گیا تھا جس کی بشارت آج سے تیرہ سو برس پہلے رسول کریمﷺ
نے دی تھی وہ میں ہی ہوں"
ہمارا قادیانیوں سے سوال ہے کہ اگر ایک مہدی کی بجائے بہت سے مہدیوں نے آنا ہے تو
ہمیں بتایا جائے کہ مرزا صاحب سے پہلے کون سچا مہدی تھا؟؟؟
اور ساتھ یہ بھی بتایا جائے کہ وہ مہدی جس کے بارے میں ذکر ہے کہ اس کا نام محمد،
والد کا نام عبدہللا اور وہ سادات میں سے ہوگا وہ کون تھا اس کی نشاندہی کی جائے ؟؟؟
کیونکہ مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ میں آخری مہدی ہوں۔
معزز قارئین ان چاروں جائزوں کا خالصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کا مہدی ہونے کا دعوی
سچا نہیں تھا کیونکہ کبھی مرزا صاحب کہتے ہیں کہ میں وہی مہدی ہوں جس کا حدیث
میں ذکر ہے۔ کبھی کہتے ہیں وہ مہدی میں نہیں ہوں ۔ کبھی کہتے ہیں کہ ایک نہیں،بہت
سے مہدیوں نے ظاہر ہونا ہے،کبھی کہتے ہیں میں ہی آخری مہدی ہوں۔
مرزا صاحب نے اتنے پلٹے کھائے ہیں کہ اگر خود قادیانی بھی ٹھنڈے دماغ سے مرزا
صاحب کی کتابوں کو پڑھیں تو چکرا جایئں۔ اتنے پلٹے کھانے واال سچا مہدی نہیں
ہوسکتا۔ جبکہ ایک بھی نشانی مہدی کی مرزا صاحب میں پوری بھی نہ ہوئی ہو۔
35
امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی "
"جوابات
)حصہ دوم(
روایت نمبر 2
قادیانی ابن ماجہ میں موجود درج ذیل روایت پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جس
امام مہدی کا ذکر احادیث میں آیا ہے کہ ان کا نام محمد ہوگا ،ان کے والد کا نام عبدہللا ہوگا،
وہ سادات میں سے ہوں گے،اور ان سے مکہ مکرمہ میں بیت ہللا میں بیعت کی جائے گی
انہوں نے نہیں آنا بلکہ حضرت عیسی علیہ السالم ہی امام مہدی ہوں گے۔
آیئے پہلے حدیث اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور پھر اس کا علمی ،تحقیقی جائزہ لیتے
ہیں۔
سلَّ َم ،قَا َلَ :ال یَ ْزدَاد ُ ْاْل َ ْم ُر ِإ َّال ِشدَّۃًَ ،و َال الدُّ ْنیَا ِإ َّال
علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاِ َ ع ْن أَن َِس ب ِْن َما ِلك ،أ َ َّن َر ُ
سو َل َّ َ
سى اب ُْن َّ
ي إِال ِعی َ ْ َ
اسَ ،وال ال َم ْھ ِد ُّ َّ
على ِش َر ِار الن ِ َ َّ
عة إِال َ ُ سا َ ُ َ َّ
اس إِال ُ
ش ًّحاَ ،وال تَقو ُم ال َّ َّ َ
اراَ ،وال الن ُ إِ ْدبَ ً
َ .م ْر َی َم
حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
فرمایا :دن بہ دن معاملہ سخت ہوتا چال جائے گا ،اور دنیا تباہی کی طرف بڑھتی جائے
گی ،اور لوگ بخیل ہوتے جائیں گے ،اور قیامت بدترین لوگوں پر ہی قائم ہو گی ،اور مہدی
عیسی بن مریم علیہ السالم کے عالوہ کوئی نہیں ہے ۔
ٰ
ي ِإ َّال "
ابن ماجہ اور اس کے عالوہ دوسری کتب میں ایک حدیث آئی ہے کہ " َال َم ْھ ِد ُّ
سى اب ُْن َم ْریَ َم" یعنی عیسی ابن مریم ہی مہدی ہوگا۔ پس کس طرح ان جیسی احادیث پر ِعی َ
اعتماد کیا جاسکتا ہے جن میں شدت سے باہم اختالفات ،تناقض اور ضعف پایا جاتا ہے اور
ان کے راویوں پر بہت جرح ہوئی ہے جیسا کہ محدثین پر یہ بات مخفی نہیں حاصل کالم
"یہ کہ یہ ساری احادیث اختالفات اور تناقضات سے خالی نہیں۔
اس بارے میں اب آئمہ حدیث کی رائے دیکھتے ہیں کہ وہ اس بارے میں کیا کہتے ہیں۔
ي إِ َّال ِعی َ
سى اب ُْن َم ْریَ َم ضعیف باتفاق المحدثین۔ ثم اعلم ان حدیث َال َم ْھ ِد ُّ
ي إِ َّال ِعی َ
سى اب ُْن َم ْریَ َم والی حدیث کے ضعیف ہونے پر تمام محدثین کا " جان لو کہ َال َم ْھ ِد ُّ
"اتفاق ہے۔
ي ِإ َّال ِعی َ
سى اب ُْن َم ْریَ َم وھو خبر منکر اخرجه ابن ماجة َ.ال َم ْھ ِد ُّ
ي ِإ َّال ِعی َ
سى اب ُْن َم ْریَ َم والی روایت منکر ہے جسے ابن ماجہ نے ذکر کیا ہے۔ َال َم ْھ ِد ُّ
ي إِ َّال ِعی َ
سى اب ُْن َم ْریَ َم رواہ ابن ماجة وھو حدیث ضعیف۔ والحدیث الذی فیہ َال َم ْھ ِد ُّ
وہ حدیث جس میں ہے کہ نہیں کوئی مہدی مگر عیسی ابن مریم ،جو ابن ماجہ نے روایت
کی ہے۔ وہ ضعیف ہے۔
یہ تو چند آئمہ حدیث کے نام اور حوالہ جات لکھے ہیں جو اس کو ضعیف کہتے ہیں ورنہ
تقریبا تمام آئمہ حدیث اس روایت کو ضعیف قرار دیتے ہیں۔
جواب نمبر 3
اس روایت میں ایک راوی "محمد بن خالد الجندى الصنعانی" ہے۔ اس کے بارے میں امام
ذہبی نے لکھا ہے۔
ؒ
قال أبو الفتح االزدی :منکر الحدیث ،وقال الحاکم:مجہول ،قلت:ھو صاحب الحدیث
“المنکر:المہدی اال عیسی بن مریم
وقال الحافظ البیھقی:ھذا حدیث تفردبہ محمد ابن خالد الجندی،قال ابو عبدہللا الحافظ:محمد ”
“بن خالد رجل مجھول،واختلفو فی اسنادہ۔۔۔۔
بہیقی نے فرمایا کہ یہ حدیث(یعنی ال مھدی اال عیسی)صرف محمدبن خالد جندی نے
ؒ امام
روایت کی ہے،
ابو عبدہللا الحافظ(یعنی امام حاکم)نے فرمایا ہے کہ:محمد بن خالد ایک مجھول شخص
ہے،نیز اس روایت کی سند میں اختالف بھی ہے۔
جس راوی سے محمد بن خالد نے اس حدیث کو روایت کیا ہے اس کا نام ابان بن صالح (
)ہے اور کہیں ابان بن ابھی ایاش ہے۔ناقل
)تھذیب الکمال،جلد ،25صفحہ 149طبع مٶسسة الرسالة(
قال البیھقی:فرجع الحدیث الی روایة محمد الجندی،وھو مجھول،عن ابان بن ابی عیاش وھو ”
متروک۔۔۔۔۔۔والحدیث فی التنصیص علی خروج المھدی اصح اسنادا وفیھا بیان کونہ من عترۃ
"النبی صلی ہللا علیہ وسلم
بیہقی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث محمد بن خالد جندی کی طرف لوٹتی ہے اور وہ “
ؒ امام
مجھول راوی ہے،اور (ایک روایت میں)وہ ابان بن ابی عیاش سے روایت کرتا ہے جو کہ
متروک راوی ہے(آگے لکھتے ہیں)وہ حدیث جس کے اندر خروج مہدی کا ذکر ہے ان کی
سندیں زیادہ صحیح ہیں اور ان (صحیح روایات میں)میں یہ بیان ہوا ہے کہ مہدی آنحضرت
"صلی ہللا علیہ وسلم کی عترت سے ہوں گے۔
قال ابوالحسین محمد بن الحسین اآلبری فی کتاب مناقب الشافعی:محمد بن خالد ھذا غیر ”
معروف عند اھل الصناعة من اھل العلم والنقل۔وقد تواترت اآلخبار واستفاضت عن رسول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم بذکر المھدی،وانہ من من اھل بیتہ،وانہ یملک سبع سنین،وانہ یمآل
االرض عدال،وان عیسی یخرج فیساعدہ علی قتل الدجال،وانہ یوم ھذہ اآلمة،ویصلی عیسی
“خلقہ،وقال البیھقی:تفرد بہ محمد بن خالد ھذا،وقد قال الحاکم ابو عبدہللا:ھو مجھول
آپ کے اہل بیت میں سے ہوں گے،وہ سات سال تک جن میں یہ بیان ہوا ہے کہ مہدی ؐ
حکومت بھی کریں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور یہ بھی بیان ہے
کہ عیسی علیہ السالم کے خروج کے بعد دجال کو قتل کرنے میں وہ ان کی مدد کریں
گے،اور وہ (مہدی علیہ الرضوان) اس امت کی امامت بھی فرمائیں گے اور عیسی علیہ
بیہقی نے فرمایا ہے کہ یہ روایت
ؒ السالم بھی آپ کے پیچھے نماز پڑھیں گے،اور امام
حاکم نے فرمایا ہے کہ وہ مجہول ہے۔
ؒ صرف محمد بن خالد نے روایت کی ہے اور امام
)المنار المنیف فی الصحیح والضعیف ،صفحہ (142
اس کے بعد حافظ ابن قی ؒم نے وہ احادیث ذکر فرمائی ہیں جن کے اندر”حضرت مہدی علیہ
الرضوان“ کا ذکر ہے اور پھر ان لوگوں کا رد کرتے ہوۓ جو”ال مھدی اال عیسی“والی
روایت سے استدالل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ حضرت عیسٰ ی علیہ السالم ہی مہدی ہیں ۔
لکھتے ہیں۔
واحتج اصحاب ھذا بحدیث محمد بن خالد الجندي المتقدم ،و قد بینا حاله ،و انه ال یصح و "
لو صح لم یكن فیه حجة ،الن عیسى أعظم مھدي بین یدي رسول ہللا صلى ہللا علیه وسلم و بین
الساعة ،و قد دلت السنة الصحیحة عن نبي صلى ہللا علیه وسلم على نزوله على المنارۃ
البیضاء شرقي دمشق و حكمه بكتاب ہللا ،و قتله الیھود والنصارى ،ووضع الجزیة ،واھالك
" اھل الملل فى زمانه...... .الخ
یہ نکتہ نظر رکھنے والے خالد بن محمد الجندی کی اس حدیث سے دلیل پکڑتے ہیں جو
پہلے گزری (یعنی ال مہدی اال عیسی) اور (خالد بن محمد الجندی ) کا حال ہم پہلے بیان کر
چکے ،اور یہ حدیث بھی صحیح نہیں ہے اور اگر (بالفرض ) صحیح بھی ہو تو اس میں
اس بات کی کوئی دلیل نہیں (کہ حضرت عیسی علیہ السالم ہی مہدی ہیں بلکہ اس کا مطلب
یہ ہوگا کہ ) آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم اور قیامت کے درمیان سب سے بڑے مہدی
حضرت عیسی علیہ السالم ہی تشریف الئیں گے۔
یہ توجیہ اس لیے ضروری ہے کہ )نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی صحیح احادیث میں (
بتایا گیا ہے کہ (حضرت عیسی علیہ السالم ) دمشق کے مشرقی حصہ میں سفید منارہ پر
نازل ہونگے ،اور آپ نازل ہو کر ہللا کی کتاب (قرآن ) کے مطابق فیصلے فرمایں گے ،
نصاری کو قتل کریں گے (اگر وہ ایمان نہ الئیں گے) اور جزیہ قبول نہیں کریں
ٰ اور یہود و
گے ۔ اور ان کے زمانے میں تمام( باطل) ملتوں والے ہالک کر دیئے جائینگے ۔
محمد بن خالد جیم اور نون پر زبر کے ساتھ جنہیں مؤذن کہا جاتا ہے ،یہ مجہول ہیں ۔
) تقریب التہذیب صفحہ ،840طبع دار العاصمة(
قال ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب النسائي :ھذا حدیث منكر ،وقال البیھقي :تفرد بھذا
.الحدیث محمد بن خالد الجندي قال ابو عبد ہللا الحاكم :محمد بن خالد رجل مجھول
امام نسائ نے فرمایا کہ یہ حدیث منکر ہے ،امام بیہقی نے فرمایا کہ یہ حدیث صرف محمد
بن خالد جندی نے بیان کی ہے اور امام حاکم نے فرمایا کہ محمد بن خالد ایک مجہول
شخص ہے ۔
قادیانی اس کے جواب میں ایک کمزور سا اعتراض کرتے ہوئے ابن کثیر اور امام ذہبی کی
درج ذیل روایات پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کہتے ہیں کہ ابن کثیر اور امام ذہبی نے
محمد بن خالد الجندى کو ثقہ کہا ہے۔آیئے پہلے دونوں روایات کا جائزہ لیتے ہیں اور پھر
اس کا علمی رد کرتے ہیں۔
"ولیس ھو بمجھول كما زعمه بالحاكم قد روى عن ابن معین انه وثقه"
محمد بن خالد الجندي) مجہول نہیں ہے جیسا کہ امام حاکم نے گمان کیا ہے بلکہ امام (
(یحیی) بن معین سے روایت کیا گیا ہے کہ انہوں نے اسے ثقہ کہا ہے ۔
ذكرہ ابن الصالح في امالیه ثم قال محمد بن خالد شیخ مجھول قلت و قد وثقه یحیى بن معین "
" . ..وہللا أعلم
ابن صالح نے اپنی امالی میں کہا ہے کہ محمد بن خالد مجہول ہے میں (یعنی امام ذہبی)
کہتا ہوں کہ یحیی بن معین نے اسکی توثیق کی ہے اور ہللا ہی بہتر جانتا ہے ۔
) میزان االعتدال جلد 4صفحہ 107طبع دار الرسالة العالمیة(
حافظ ابن کثیر نے فرمایا کہ ابن معین سے یہ بات بیان کی جاتی ہے کہ انہوں نے محمد بن
خالد جندی کی توثیق کی ہے اور امام ذہبی بھی فرماتے ہیں کہ یحیی بن معین نے اسکی
توثیق کی ہے اب ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ امام یحیی بن معین کی طرف سے یہ توثیق کہاں
بیان ہوئی ہے۔؟
اصل میں حافظ جمال الدین مزی نے اپنی کتاب تہذیب الکمال میں امام آبری کی مناقب
شافعی کے حوالے سے ایک روایت ذکر کی ہے جس سے یہ نتیجہ نکاال جاتا ہے کہ امام
یحیی بن معین نے محمد بن خالد جندی کو ثقہ کہا ہے آیئے پہلے وہ روایت پوری پڑھتے
ہیں اور پھر دیکھتے ہیں کہ آیا اس کے بل بوتے پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ امام یحیی بن
معین نے اس راوی کو ثقہ کہا ہے؟
قال ابو الحسن محمد بن الحسن االبري الحافظ في المناقب الشافعي اخبر نى محمد بن عبد "
الرحمن المھمذانى ببغداد قال حدثنا محمد ین مخلد و ھو العطار قال حدثنا احمد بن محمد بن
مؤمل العدوى قال لي یونس بن عبد االعلي جاءني رجل و قد و خطه الشیب سنة ثالثة عشر
یعني ما ءتین علیه مبتنة ازیر یسألني عن ھذا الحدیث فقال لي من محمد بن خالد الجندي فقلت
" ال أدري فقال لي ھذا مؤذن الجند و ھو ثقه فقلت له انت یحیي بن معین؟ فقال نعم .... .الخ
یونس بن عبد االعلی کا بیان ہے کہ میرے پاس ایک آدمی آیا جس پر بڑھاپے کے آثار
نمایاں ہو چکے تھے اور اس نے کمبل اوڑھا ہوا تھا یہ سنہ 213ہجری کی بات ہے اس
آدمی نے مجھ سے اس حدیث (یعنی ال مہدی اال عیسی) کے بارے میں پوچھا اور کہا یہ
محمد بن خالد جندی کون ہے؟
میں نے کہا میں نہیں جانتا ،تو اس آنے والے نے کہا یہ جند کا مؤذن ہے اور ثقہ ہے میں
نے پوچھا کیا آپ یحیی بن معین ہیں ؟ تو اس نے جواب دیا ،ہاں۔
تو یہ ہے وہ حکایت جس کی بناء پر یہ کہا جاتا ہے کہ امام یحیی بن معین نے محمد بن
:خالد جندی کو ثقہ کہا ہے لیکن یہ استدالل دو وجوہ سے غلط ہے
پہلی وجہ
پہلی وجہ یہ ہے کہ اس حکایت کی سند میں ایک صاحب ہیں احمد بن محمد بن مؤمل
العدوی یہ مجہول الحال ہیں۔
اور ہمیں اسماء الرجال کی کسی کتاب میں ان کے بارے میں نہیں مال کہ ثقہ تھے یا نہیں ،
خطیب بغدادی نے ان کا ذکر کیا ہے لیکن ان کے بارے میں نہ کوئ تعدیل ذکر کی نہ
جرح۔
حافظ ابن عساكر نے بھی انکا ذکر کیا ہے اور وہاں بھی یہ بیان نہیں کیا کہ یہ صاحب ثقہ
تھے یا نہیں۔
تاریخ دمشق المعروف با تاریخ ابن عساکر جلد ت صفحات 457،458طبع دار الفکر (
) بیروت
دوسری وجہ
دوسری وجہ کہ اس عبارت کے اندر یونس بن عبد االعلی کا بیان ہے جو اجنبی میرے پاس
“آۓ تھے انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ”کیا تم محمد بن خالد الجندی کو جانتے ہو؟
یاد رہے کہ ال مھدی اال عیسی والی روایت کے ایک راوی خود یہی یونس بن عبداالعلی (
)بھی ہیں اور وہ کہہ رہے ہیں کہ میں محمد بن خالد جندی کو نہیں جانتا
پھر اس اجنبی نے مجھ سے کہا کہ”وہ جند کے مٶذن ہیں اور ثقہ ہیں“ تو میں نے اس
اجنبی سے پوچھا کہ”کیا آپ یحیی بن معین ہیں؟“اور اجنبی نے جواب دیا کہ”ہاں میں یحیی
“بن معین ہوں
یعنی اس حکایت سے ثابت ہوتا ہے کہ یونس بن عبداالعلی اس سے پہلے یحیی بن معین کو
نہیں جانتے تھے اور نہ انہیں کبھی دیکھا تھا بلکہ اس آنے والے اجنبی نے انہیں بتایا
“کہ”میں یحیی بن معین ہوں
لہذا اس حکایت کی بناء پر ہم ہر گز یہ نہیں کہہ سکتے کہ وہ شخص واقعی امام یحیی بن
ؒ
معین تھے یا کوئی اور تھا۔
ومحمد بن خالد الجندی وان کان یذکر عن یحیی بن معین ما ذکرتہ فاتہ غیر معروف عند ”
اھل الصناعة من اھل العلم والعقل“اگرچہ محمد بن خالد الجندی کے بارے میں امام یحیی بن
معین کے حوالے سے یہ بات ذکر کی جاتی ہے مگر اس کے باجود یہ حقیقت ہے کہ یہ ؒ
"راوی علم ونقل والے اہل فن(علماء حدیث واسماءالرجال)کے ہاں غیر معروف ہے۔
ؒ
معین کی امام ابو سعید عبدالکریم بن منصور السمعانی ؒ (وفات 562:ھ) نے بھی یحیی بن
اس بات کا ذکر یوں کیا ہے کہ
ؒ
معین نے کہا ہے کہ محمد بن خالد اہل جند کا امام اور ثقہ ہے،لیکن امام یعنی یحیی بن
سمعانی نےاس کے بعد اپنا تبصرہ یوں فرمایا ہے کہ”قلت وقدتکلموا فیہ“میں(یعنی امام
ؒ
سمعانی)کہتا ہوں کہ اس راوی میں کالم کیا گیا ہے۔
ؒ
معین سے اس کا ثقہ ہونا نقل کیا ہے۔اس پر کتاب کے سمعانی نے جو یحیی بن
ؒ نیز امام
الیمانی نے لکھا ہے کہ”لم یثبت ھذا عن ابن
ؒ محقق شیخ عالمہ عبدالرحمن بن یحیی المعلی
ؒ
معین سے ثابت ہی نہیں۔ معین“یہ بات یحیی بن
یہ ہے کہ اس روایت کا حال جسے مرزا قادیانی نے حضرت مہدی علیہ الرضوان سے
متعلقہ احادیث میں سے”سب سے زیادہ صحیح“ یا ”بہت صحیح “ لکھا ہے،جب کہ یہ
روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ان دوسری صحیح اور(بعض کے نزدیک)متواتر احادیث
کے بظاہر مخالف بھی ہے جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان اور
حضرت عیسی علیہ السالم دونوں الگ الگ شخصیات ہیں۔
اگر اس روایت کو صحیح بھی فرض کر لیا جاۓ تو اس سے صرف یہ ثابت ہوتا ہے کہ
قیامت سے پہلے صرف”شرار“یعنی برے لوگ باقی رہ جائیں گے جن پر قیامت قائم ہو گی
اور اس وقت مہدی علیہ الرضوان یعنی ہدایت یافتہ صرف حضرت عیسی بن مریم علیھما
السالم ہی ہوں گے کیونکہ حضرت امام مہدی علیہ الرضوان تو فوت ہو چکے ہوں گے ،یہ
بات اسی حدیث میں”الالمھدی االعیسی بن مریم“سے پہلے کے الفاظ”التقوم الساعة اال علی
شرار الناس“سے سمجھ آتی ہے،لہذا اس سے یہ ہر گز ثابت نہیں ہو سکتا کہ چراغ بی بی
کا بیٹا غالم احمد قادیانی مہدی ہے۔
خالصہ کالم یہ ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے اس سے دلیل پکڑنا کہ امام مہدی تشریف نہیں
الئیں گے بلکہ سیدنا عیسی علیہ السالم ہی امام مہدی ہیں یہ بات بہت سی صحیح اور
متواتر ان احادیث کے خالف ہے جن میں امام مہدی کو علیحدہ شخصیت بتایا گیا ہے۔
اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ اس روایت کو تقریبا تمام آئمہ احادیث نے ضعیف لکھا
ہے۔ اور خود مرزا صاحب نے بھی اس کو ضعیف لکھا ہے۔
لہذا یہ جھوٹی روایت قادیانیوں کے لئے ذرہ برابر بھی فائدہ مند نہیں ہے۔
"امام مہدی کے بارے میں چند روایات پر قادیانی اعتراضات اور ان کے علمی تحقیقی
جوابات "
(حصہ سوم)
قادیانی دارقطنی کی درج ذیل روایت پیش کرتے ہیں اور کہتے ہیں اس روایت میں حضور
صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جب امام مہدی آئے گا تو اس کے وقت میں چاند کی
13کو چاند گرہن اور 27تاریخ کو سورج گرہن لگے گا پس جب مرزا صاحب نے امام
مہدی ہونے کا دعوی کیا تو اسی سال چاند اور سورج کو گرہن لگا تھا۔ لہذا یہ اس بات کی
نشانی ہے کہ مرزا صاحب ہی سچے امام مہدی ہیں۔
آیئے پہلے روایت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں پھر اس کا علمی رد کرتے ہیں۔
س ب ُْنیش ,ثنا یُونُ ُ ع َب ْید ُ ب ُْن َی ِع َ ّللاِ ب ِْن ن َْوفَل ,ثنا ُ ي ,ثنا ُم َح َّمد ُ ب ُْن َع ْب ِد َّط ْخ ِر ُّص َاْل ْس ِعید ْ ِ " َحدَّث َنَا أَبُو َ
ع ِلي ,قَا َلِ « :إ َّن لَ َم ْھد ِِینَا آ َیتَی ِْن لَ ْم ت َ ُكونَا ُم ْنذ ُ ع ْن ُم َح َّم ِد ب ِْن َ ع ْن َجا ِبر َ , ع ْم ِرو ب ِْن ِش ْمر َ , ع ْن َ
بُ َكیْر َ ,
س ِفي ش ْم ُِف ال َّ ضانَ َ ,وتَ ْن َكس ُ ِف ْالقَ َم ُر َْل َ َّو ِل َل ْی َلة ِم ْن َر َم َ
ض َ ,ی ْن َخس ُ ت َو ْاْل َ ْر َس َم َاوا ِ َخ َلقَ َّ
ّللاُ ال َّ
ض» " ت َو ْاْل َ ْر َ س َم َاوا ِّللاُ ال َّ ف ِم ْنهُ َ ,ولَ ْم تَ ُكونَا ُم ْنذ ُ َخلَقَ َّ ص ِ الن ْ ِ
ترجمہ :۔
عمرو بن شمر ( جعفی کوفی ) نے جابر ( بن یزدی جعفی ) سے اور اس نے " محمد بن
علی " سے روایت کیا ہے ،انہوں نے کہا کہ :ہمارے مہدی کی دو ایسی نشانیاں ہیں کہ
جب سے زمین و آسمان بنے ہیں یہ دونوں کبھی واقع نہیں ہوئیں ( پہلی نشانی ) رمضان
کی پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا اور ( دوسری نشانی ) رمضان کے نصف میں سورج
گرہن ہوگا ،اور یہ دونوں ( گرہن ) جب سے زمین و آسمان بنے ہیں کبھی نہیں لگے ۔
" فاخبر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم خیر االنام ان الشمس تنکسف عند ظھور المھدی فی
النصف من ھذہ االیام یعنی الثامن والعشرین قبل نصف النھار "
پس رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے خبر دی کہ سورج گرہن مہدی کے ظہور کے وقت
ایام کسوف کے نصف میں ہوگا یعنی اٹھائیسویں تاریخ میں دوپہر کے وقت "
(نور الحق الحصة الثانیة صفحہ 19مندرجہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ ) 209
"فاعلموا ایھا الجھالء والسفھاء ان ھذا حدیث من خاتم النبیین وخیر المرسلین وقد کتب فی
الدارقطنی الذی مر علی تالیفہ ازید من الف سنۃ "
اے جاہلو اور بےوقوفو ! جان لو کہ یہ خاتم النبیین اور خیرالمرسلین( صلی ہللا علیہ
وسلم)کی حدیث ہے جو دارقطنی نے لکھی ہے جس کی تالیف پر ہزار سال سے زیادہ کا
عرضہ گزر چکا ہے"
(نور الحق الحصة الثانیة صفحہ 56مندرجہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ )253
" اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے
بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع
نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اسی پر داللت کر رہے ہیں ،اگر کسی کا یہ
دعوی ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی
ٰ
زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔"
مرزا صاحب کی تحریرات سے اس روایت کے بارے میں درج ذیل باتیں ثابت ہویئں۔
11۔ دارقطنی میں موجود روایت حدیث رسول صلی ہللا علیہ وسلم ہے۔
22۔ اگر کسی مدعی مہدویت کے دور میں یہ گرہن لگ جائے تو وہ سچا ثابت ہوگا۔
33۔ مرزا صاحب سے پہلے کسی مدعی مہدویت یا نبوت کے دور میں یہ گرہن نہیں لگا۔
4۔چاند گرہن لگنے کی تاریخ چاند کی 133اور سورج گرہن لگنے کی تاریخ چاند کی 28
ہے۔
مرزا صاحب نے اس بات کو " نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان " لکھا ،جبکہ دنیا
کی کسی کتاب میں یہ ذکر نہیں کہ یہ بات نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمائی ہے ،
آج بھی جماعت مرزائیہ انتہائی ڈھٹائی کے ساتھ اسی ضد پر اڑی ہے کہ نبی کریم صلی
ہللا علیہ وسلم کا فرمان ہے جبکہ وہ خود جس کتاب کے حوالے سے یہ ( جھوٹی ) روایت
پیش کرتے ہیں اس میں بھی یہ نہیں لکھا کہ یہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ یہ حدیث رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ہرگز نہیں بلکہ کسی " محمد
بن علی " نامی بزرگ کی طرف منسوب قول ہے ( جماعت مرزائیہ کی طرف سے یہ
دعوی کیا جاتا ہے کہ حضرت زین العابدین رحمتہ ہللا علیہ کے بیٹے امام باقر رحمتہ ہللا
ٰ
دعوی کو صحیح بھی فرض کر لیا جائے تو بھی یہ بات حدیث رسول ہللا
ٰ علیہ ہیں ،اگر اس
صلی ہللا علیہ وسلم ہرگز نہیں بن سکتی بلکہ امام باقر تو صحابی بھی نہیں کہ یہ فرض کیا
جائے کہ انہوں نے یہ بات آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم سے سنی ہوگی) ۔ لہذا اس قول کو
حدیث رسول صلی ہللا علیہ وسلم کہ کر اس سے استدالل کرنا جہالت ہے۔
"جو روایت امام بخاری( رحمتہ ہللا علیہ) کی شرط کے مخالف ہو وہ قابل قبول نہیں۔"
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 20مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 119تا )120
"میں بھی کہتا ہوں کہ مہدی موعود کے بارے میں جس قدر حدیثیں ہیں تمام مجروح اور
مخدوش ہیں اور ایک بھی ان میں سے صحیح نہیں۔"
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 185مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ
)356
جب یہ روایت بخاری و مسلم میں بھی نہیں اور مہدی کے بارے میں تمام روایات مرزا
صاحب کے نزدیک جھوٹی ہیں تو پھران ساری جھوٹی روایات میں یہ سچی روایت کیسے
نکل آئی؟
جواب نمبر 3
جو تاریخیں قادیانی حضرات بتاتے ہیں ان دو تاریخوں پر چاند اور سورج گرہن گزشتہ
1300سال میں 60دفعہ واقع ہو چکا ہے۔
مطلب اس کو مرزا صاحب کے لئے خاص کرنا انتہائی بڑا دھوکہ ہے۔
(اسٹرونومی مؤلفہ مسٹر نارمن لو کیٹر صفحہ ،102ویوز آٰف دی گلوبز صفحہ 263تا
، 276حدائق النجوم صفحہ 702تا )707
اب اگر اسی نشانی کے مطابق کسی کو امام مہدی ماننا ہے تو مرزا محمد علی باب امام
مہدی کیوں نہیں ہے؟
اس روایت کے عربی الفاظ میں صاف طور پر یہ بیان ہے کہ " چاند گرہن رمضان کی
پہلی رات کو " َْل َ َّو ِل َل ْی َلة ِم ْن َر َم َ
ضانَ " اور سورج گرہن ماہ رمضان کے نصف " َوتَ ْن َكس ُ
ِف
ف ِم ْنهُ " میں لگے گا ،اور واقعی رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور
ص ِ
الن ْ
س ِفي ِ ال َّ
ش ْم ُ
ماہ رمضان کے نصف میں سورج گرہن آج تک نہیں لگا۔
اگر یہ چاند اور سورج کو گرہن لگنا مرزا صاحب کی سچائی کا نشان ہوتا تو اس گرہن کو
رمضان کی یکم اور 13تاریخ کو لگنا چاہیے تھا جبکہ مرزا صاحب کے وقت رمضان کی
13اور 28تاریخ کو گرہن لگا تھا۔
مزید غور کریں تو سمجھ آٰئے گی کہ تین دنوں کے درمیان کو نصف نہیں کہتے بلکہ اسے
وسط کہتے ہیں حدیث شریف میں نصف کا لفظ ہے اس سے مراد مہینے کا نصف ہے۔
النصف ِمنہُ کی ضمیر کا مرجع رمضان ہے جو پہلے کالم میں مذکور ہے مگر قادیانی اس
ضمیر کو نامعلوم اور غیر مذکور چیز کی طرف لوٹاتے ہیں۔
یہاں قادیانی کہتے ہیں کہ پہلی تاریخ کے چاند کو ہالل کہا جاتا ہے نہ کہ قمر۔ اگر پہلی
رمضان کا چاند مراد ہوتا تو حدیث میں لفظ ہالل ہوتا۔
تعالی ہے
ٰ قرآن کریم میں ارشاد باری
( سورہ ٰی ٰٓ
س آیت ) 39
اب "
س َالسنِینَ َو ْال ِح َ َاز َل ِلتَ ْعلَ ُموا َ
عدَدَ ِ ض َیا ًء َو ْالقَ َم َر نُ ً
ورا َوقَد ََّرہُ َمن ِ س ِ " ُھ َو الَّذِي َج َع َل ال َّ
ش ْم َ
اور ہللا وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور ،اور اس
کے ( سفر ) کے لئے منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور ( مہینوں کا )
حساب معلوم کر سکو ۔
ان دونوں آیات میں پورے مہینے کے چاند پر قمر کا لفظ بوال گیا ہے خواہ وہ پہلی رات کا
چاند ہو یا کسی دوسری تاریخ کا ،یہی بات آئمہ لغت نے بھی لکھی ہے۔
چنانچہ مشہور لغت کی کتاب " تاج العروس من جواھر القاموس " میں لکھا ہے ۔
آپ نے دیکھا کہ صاف طور پر لکھا ہے کہ ہالل " قمر " کا ہی نام ہے ،اگر مرزا صاحب
کی یہ جاہالنہ منطق ایک منٹ کے لئے تسلیم بھی کر لی جائے کہ " قمر " کا اطالق مہینے
کی شروع کی تین راتوں یا سات راتوں کے بعد والے چاند پر ہوتا ہے تو پھر بھی اس سے
یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات کو ہوگا کیونکہ اس جھوٹی
ِف ْال َق َم ُر َْل َ َّو ِل َل ْی َلة ِم ْن َر َم َ
ضانَ " جس کا ترجمہ ہے کہ روایت میں الفاظ ہیں " َی ْن َخس ُ
تو مرزا صاحب کی منطق کے مطابق بھی "قمر " کی پہلی رات چوتھی یا آٹھویں شب ہے
تو کیا مرزا صاحب کی زندگی میں رمضان کی چوتھی یا آٹھویں شب کو چاند گرہن ہوا ؟
خالصہ یہ ہے کہ قرآٰن پاک نے واضح فرما دیا کہ چاند کی ہر منزل پر اس کا نام قمر ہے
ح ٰتی کہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح باریک ہو جائے یعنی پہلی رات کا چاند ہو پھر
بھی اس کا نام قمر ہے۔
پس ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کی پیش کردہ روایت کے مطابق بھی مرزا صاحب کے وقت
میں گرہن نہیں لگا تھا لہذا مرزا صاحب دعوی مہدویت میں اپنے اصول کے مطابق کذاب
ہیں۔
" ترجمہ تمام حدیث کا یہ ہے کہ ہمارے مہدی کے لئے دو نشان ہیں جب سے زمین و
آسمان کی بنیاد ڈالی گئی وہ نشان کسی مامور اور مرسل اور نبی کے لئے ظہور میں نہیں
آئے۔"
"اس حدیث کا مطلب یہ نہیں کہ رمضان کے مہینہ میں کبھی دونوں گرہن جمع نہیں ہوئے
بلکہ یہ مطلب ہے کہ کسی مدعی رسالت یا نبوت کے وقت میں کبھی یہ دونوں گرہن جمع
نہیں ہوئے جیسا کہ حدیث کے ظاہر الفاظ اسی پر داللت کر رہے ہیں ،اگر کسی کا یہ
دعوی ہے کہ کسی مدعی نبوت یا رسالت کے وقت میں دونوں گرہن رمضان میں کبھی
ٰ
زمانہ میں جمع ہوئے ہیں تو اس کا فرض ہے کہ اس کا ثبوت دے۔"
مرزا صاحب کے حوالہ جات سے پتہ چال کہ یہ چاند اور سورج کو گرہن لگنے کا نشان
کسی بھی ایسے وقت میں نہیں ہوا کہ جب کوئی مامور ،مرسل یا نبی کا دعوی کرنے واال
موجود ہو۔
اصل بات یہ ہے کہ اس روایت میں دو بار یہ ذکر ہے کہ " ایسا گرہن جب سے زمین و
آسمان بنے ہیں کبھی نہیں لگا "
"کسی مدعی مہدیت کے زمانے میں ایسا چاند یا سورج گرہن نہیں لگا "
بلکہ مطلقا َ َۡ ایسا گرہن نہ لگنے کا ذکر ہے ،اور جیسا گرہن مرزا صاحب کی زندگی میں
بتایا جاتا ہے ویسا گرہن مرزا صاحب سے پہلے کئی بار لگ چکا ہے اور مرزا صاحب
کے بعد بھی جب تک یہ نظام فلکی موجود ہے لگتا رہے گا۔
اور مزے کی بات سنہ 1851ء بمطابق 1267ھ میں جب مرزا صاحب کی عمر ابھی گیارہ
یا بارہ سال تھی رمضان المبارک کی انہی تاریخوں میں یعنی 13رمضان کو چاند گرہن
اور 28رمضان کو سورج گرہن لگا تھا اور اس وقت " محمد احمد سوڈانی " موجود تھا
دعوی کیا تھا۔
ٰ جس نے بھی مہدی ہونے کا
اگر اس روایت سے مرزا صاحب کے مفہوم کے مطابق یہ تسلیم کیا جائے کہ یہ گرہن
کسی بھی امام مہدی کا دعوی کرنے والے کے دور میں نہیں لگا تو مرزا صاحب پھر بھی
کذاب ثابت ہوتے ہیں کیونکہ مرزا صاحب سے پہلے امام مہدی ہونے کے دعویدار "محمد
احمد سوڈانی" کے دور میں بھی یہ گرہن لگ چکا ہے۔
لہذا ثابت ہوا کہ مرزا صاحب کا بنایا گیا مفہوم بھی غلط ہے اور ان کا امام مہدی ہونے کا
دعوی بھی جھوٹا ہے۔
اس جھوٹی روایت میں کوئی ایسا لفظ نہیں جس کا ترجمہ ہو کہ
"جب سے زمین و آسمان بنے ہیں یہ نشان کسی مامور ،مرسل اور نبی یا کسی مدعی
نبوت و رسالت کے لئے ظہور میں نہیں آئے"
"جب سے زمین و آسمان کی پیدائش ہوئی ہے ایسا چاند گرہن اور سورج گرہن کبھی نہیں
ہوا"
اس میں نہ مامور کا کوئی ذکر اور نہ مدعی نبوت و رسالت کا لیکن یہاں ایک سوال پیدا
ہوتا ہے کہ کیا مرزا صاحب کا دعوائے مہدیت دراصل مرزا صاحب کا دعوائے نبوت و
رسالت بھی تھا ؟
ہرگز نہیں کیونکہ مرزا صاحب نے اس کے تین سال بعد جنوری 1897ء میں مولوی غالم
دستگیر صاحب کے جواب میں ایک اشتہار شائع کیا اور اس میں لکھا کہ
" ان پر واضح رہے کہ ہم بھی مدعی نبوت پر لعنت بیجھتے ہیں اور ال الہ اال ہللا محمد
رسول ہللا کے قائل ہیں اور آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کے ختم نبوت پر ایمان رکھتے
ہیں اور وحی نبوت نہیں بلکہ وحی والیت جو زیر سایہ نبوت محمدیہ اور باتباع آنجناب
صلی ہللا علیہ وسلم اولیاء ہللا کو ملتی ہے اس کے ہم قائل ہیں"
دعوی
ٰ دعوی اس طرف سے بھی نہیں صرف والیت اور مجددیت کا
ٰ "غرض جبکہ نبوت کا
ہے"
خالصہ یہ ہے کہ مرزا صاحب کی تشریح کے مطابق بھی مرزا صاحب کذاب ثابت ہوتے
ہیں۔ کیونکہ مرزا صاحب کے مطابق یہ چاند اور سورج کو گرہن اس وقت لگنا تھا جب
نبوت و رسالت کا دعویدار موجود ہو۔ جبکہ یہ گرہن 1894ء میں لگا تھا اور 1897ء تک
مرزا صاحب نبوت کا دعوی کرنے والے پر لعنت بھی بھیجتے ہیں اور ساتھ یہ بھی کہتے
ہیں کہ میرا نبوت کا دعوی نہیں ہے بلکہ مجدد اور والیت کا دعوی ہے۔
ان کا تعارف حافظ ابن حجر عسقالنی رحمتہ ہللا علیہ نے کچھ یوں کروایا ہے ۔
14۔امام عقیلی رحمتہ ہللا علیہ ،امام ابن جارود رحمتہ ہللا علیہ ،امام دوالبی رحمتہ ہللا علیہ
اور امام ابن شاہین رحمتہ ہللا نے اسے ضعیف روایوں میں شمار کیا ہے۔
اس روایت کے ایک راوی یہ صاحب ہیں اگرچہ بعض ائمہ سے ان کی توثیق منقول ہے
لیکن اکثریت انہیں ثقہ نہیں سمجھتی ،مالحظہ فرمائیں۔
11۔امام عقیلی رحمتہ ہللا علیہ امام زائدہ رحمتہ ہللا علیہ سے نقل کرتے ہیں
"واہ روافضی تھا اور صحابہ رضی ہللا عنھم کو گالیاں دیتا تھا۔"
18۔میمونی رحمتہ ہللا علیہ کہتے ہیں کہ میں نے امام احمد بن حنبل رحمتہ ہللا علیہ سے
پوچھا کیا جابر جفعی جھوٹ بولتا تھا ؟ تو آپ نے فرمایا ہاں ہللا کی قسم ۔
قارئین محترم ! ہمارے خیال میں یہ روایت جس میں چاند اور سورج گرہن کو مہدی کی
نشانی بتایا گیا کہ عمرو بن شمر نے گھڑی ہے اور " محمد بن علی " کے نام سے تھوپ
دی ہے ،اور تمام علماء حدیث کا اس پر اتفاق ہے کہ " عمرو بن شمر " کا کام ہی جھوٹی
روایتیں بنانا تھا ۔
اپنی اسی کتاب میں مرزا صاحب نے دوبارہ یہ جھوٹ اس طرح لکھا کہ :۔
"فاعلموا ایھا الجھالء والسفھاء ان ھذا حدیث من خاتم النبیین وخیر المرسلین وقد کتب فی
الدارقطنی الذی مر علی تالیفہ ازید من الف سنۃ"
"اے جاہلو اور بےوقوفو ! جان لو کہ یہ خاتم النبیین اور خیرالمرسلین ( صلی ہللا علیہ
وسلم ) کی حدیث ہے جو دارقطنی نے لکھی ہے جس کی تالیف پر ہزار سال سے زیادہ کا
عرصہ گزر چکا ہے۔"
(نور الحق الحصة الثانیة صفحہ 56مندرجہ روحانی خزائن جلد 8صفحہ )253
کیا مرزا صاحب کا کوئی ماننے واال یہ بات ثابت کر سکتا ہے کہ امام دارقطنی رحمتہ ہللا
علیہ نے یہ کتاب صرف تین یا چار سال کی عمر میں تالیف کی تھی ؟
تاکہ مرزا صاحب کی یہ بات سچ ثابت ہوجائے کہ سنہ 1311ہجری تک اس کتاب کی
تالیف پر " ہزار سال کا عرصہ " گزر چکا تھا ؟؟
مرزا صاحب کی یہ کتاب "نورالحق حصہ دوم" پہلی بار سنہ 1311ہجری میں شائع ہوئی۔
( جیسا کہ کتاب کے بار اول کے ٹائٹل پر لکھا ہے )
"سنن دارقطنی کی تالیف پر ہزار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے "
اب اگر 1311ہجری میں سے ایک ہزار سال نکالیں جائیں تو جواب آتا ہے 311ہجری ،
اور اس وقت امام دارقطنی رحمتہ ہللا علیہ کی عمر صرف پانچ سال تھی کیونکہ ان کی
پیدائش سنہ 306ہجری میں ہوئی تھی۔
مرزا صاحب کی تحریر کے مطابق تو یہ کتاب بھی امام دارقطنی کی ثابت نہیں ہورہی تو
پھر اس روایت کو اس قدر صحیح قرار دے کر اس سے استدالل کرنا کیسے درست ہے؟؟؟
اب آخر میں اس روایت کے بارے میں قادیانیوں کے چند سواالت کے جوابات مالحظہ
فرمائیں۔
اگر یہ روایت جھوٹی تھی تو امام دارقطنی رحمتہ ہللا علیہ نے اپنی کتاب میں ذکر کیوں کی
؟
" اگر در حقیقت بعض روای مرتبہء اعتبار سے گرے ہوئے تھے تو یہ اعتراض دارقطنی
پر ہوگا کہ اس نے ایسی حدیث کو لکھ کر مسلمانوں کو کیوں دھوکہ دیا ؟ یعنی یہ حدیث
اگر قابل اعتبار نہیں تھی تو دارقطنی نے اپنی صحیح میں کیوں اس کو درج کیا ؟ "
جواب
اس کا جواب یہ ہے کہ محدثین کا کام روایات کو ان کی سندوں کے ساتھ جمع کرنا اور اس
کا ذکر کرنا ہوتا ہے ،اب یہ علماء اصول حدیث اور محققین کا کام ہے کہ وہ ہر روایت
کے متن اور سند کی جانچ پرکھ کریں ،محض کسی روایت کا کسی حدیث کی کتاب میں
مذکور ہونا ہرگز اس روایت کے صحیح ہونے کی دلیل نہیں اور نہ اصول حدیث کا کوئی
ایسا قاعدہ ہے ،پھر ہماری زیر بحث روایت ( بفرض محال اگر صحیح بھی ہو ) تو نہ
کسی صحابی کا قول اور نہ ہی آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان بلکہ سنن دارقطنی
میں بھی صرف کسی " محمد بن علی " نام شخص کی طرف منسوب قول ہے جو حجت
نہیں اور نہ ہی امام دارقطنی رحمتہ ہللا علیہ نے کہیں لکھا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔
رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور رمضان کے نصف میں سورج گرہن ہو ہی نہیں
سکتا۔؟
جواب
اگر رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور نصف رمضان کو سورج گرہن ہو ہی نہیں
سکتا تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایت جھوٹی ہے کیونکہ اس میں تو یہی ذکر ہے
کہ رمضان کی پہلی رات کو چاند گرہن اور رمضان کے نصف میں سورج گرہن ہوگا ،نیز
اس روایت میں دو بار یہ بیان ہوا ہے کہ ایسا گرہن جب سے زمین و آسمان بنے ہیں کبھی
نہیں لگا جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس روایت میں ایسے گرہن کی بات ہو رہی ہے جو
خالف عادت ہوگا ،اور جیسا گرہن مرزا قادیانی کی زندگی میں لگا ( یعنی رمضان کی
تیرھویں رات کو چاند گرہن اور اٹھائیس رمضان کو سورج گرہن ) ایسا گرہن تو مرزا سے
پہلے بھی ہزاروں بار لگ چکا ہے اور جب تک زمین و آسمان ہیں لگتا رہے گا بلکہ جیسا
بیان ہوا تھا کہ " سوڈانی مہدی " کی زندگی میں بھی لگ چکا ہے ۔
مہینے کی پہلی رات کے چاند کو " ہالل " کہتے ہیں جبکہ روایت میں " قمر " کا لفظ ہے ۔
ِف ْالقَ َم ُر َْل َ َّو ِل
مرزا صاحب نے بھی یہ مغالطہ دیا ہے کہ اس روایت میں ہے کہ " َی ْنخکس ُ
ضانَ " جس کا ترجمہ ہے کہ "رمضان کی پہلی رات کو قمر یعنی چاند گرہن لَ ْیلَة ِم ْن َر َم َ
ہوگا " یہاں مہینے کی سب سے پہلی رات ہو ہی نہیں سکتی کیونکہ پہلی رات کے چاند کو
عربی میں " ھالل " کہتے ہیں نہ کہ " قمر " لہذا اس کا مطلب یہی ہے کہ چاند گرہن والی
تین راتوں یعنی 14 ، 13اور 15میں سے پہلی رات کو چاند گرہن ہوگا۔
"مولویت کو بدنام کرنے والو ! ذرا سوچو ! حدیث میں چاند گرہن میں قمر کا لفظ آیا ہے
پس اگر یہ مقصور ہوتا کہ پہلی رات میں چاند گرہن ہوگا تو حدیث میں قمر کا لفظ نہ آتا
بلکہ ہالل کا لفظ آتا کیونکہ کوئی شخص اہل لغت اور اہل ذبان میں سے پہلی رات کے چاند
پر قمر کا اطالق نہیں کرتا بلکہ وہ تین رات تک ہالل کے نام سے موسوم ہوتا ہے۔"
(ضمیمہ رسالہ انجام آتھم صفحہ 46٬47مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )331٬330
(تحفہ گولڑویہ صفحہ 31مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ 138تا )139
جواب
مہینہ کی پہلی شب سے لیکر آخری شب تک کے چاند کو عربی میں قمر کہتے ہیں صرف
چاند کے مختلف اوقات مختلف حالتوں اور مختلف صفات کے لحاظ سے کبھی اسی قمر کو
ہالل اور کبھی بدر کہا جاتا ہے لیکن ہوتا وہ بھی قمر ہی ہے ،،آسان لفظوں میں ایسے
سمجھیں کہ قمر کا اردو ترجمہ ہے " چاند " اور جس طرح اردو میں پہلی رات سے آخری
رات تک کے چاند کو چاند ہی کہتے ہیں اسی طرح عربی میں پورے مہینے کے چاند کا
اصلی نام " قمر " ہی ہے ،
تعالی ہے
ٰ قرآن کریم میں ارشاد باری
ون ْالقَد ِ
ِیم" عادَ َك ْالعُ ْر ُج ِ "و ْالقَ َم َر قَد َّْرنَاہُ َمن ِ
َاز َل َحت َّ ٰى َ َ
( سورہ ٰی ٰٓ
س آیت ) 39
اور ہللا وہی ہے جس نے سورج کو سراپا روشنی بنایا اور چاند کو سراپا نور ،اور اس
کے ( سفر ) کے لئے منزلیں مقرر کر دیں تاکہ تم برسوں کی گنتی اور ( مہینوں کا )
حساب معلوم کر سکو ۔
ان دونوں آیات میں پورے مہینے کے چاند پر قمر کا لفظ بوال گیا ہے خواہ وہ پہلی رات کا
چاند ہو یا کسی دوسری تاریخ کا ،یہی بات آئمہ لغت نے بھی لکھی ہے۔
چنانچہ مشہور لغت کی کتاب " تاج العروس من جواھر القاموس " میں لکھا ہے ۔
آپ نے دیکھا کہ صاف طور پر لکھا ہے کہ ہالل " قمر " کا ہی نام ہے ،اگر مرزا صاحب
کی یہ جاہالنہ منطق ایک منٹ کے لئے تسلیم بھی کر لی جائے کہ " قمر " کا اطالق مہینے
کی شروع کی تین راتوں یا سات راتوں کے بعد والے چاند پر ہوتا ہے تو پھر بھی اس سے
یہ نتیجہ نہیں نکلتا کہ چاند گرہن رمضان کی تیرھویں رات کو ہوگا کیونکہ اس جھوٹی
ضانَ " جس کا ترجمہ ہے کہِف ْال َق َم ُر َْل َ َّو ِل لَ ْیلَة ِم ْن َر َم َ
روایت میں الفاظ ہیں " َی ْن َخس ُ
تو مرزا صاحب کی منطق کے مطابق بھی "قمر " کی پہلی رات چوتھی یا آٹھویں شب ہے
تو کیا مرزا صاحب کی زندگی میں رمضان کی چوتھی یا آٹھویں شب کو چاند گرہن ہوا ؟
خالصہ یہ ہے کہ قرآٰن پاک نے واضح فرما دیا کہ چاند کی ہر منزل پر اس کا نام قمر ہے
ح ٰتی کہ کھجور کی پرانی ٹہنی کی طرح باریک ہو جائے یعنی پہلی رات کا چاند ہو پھر
بھی اس کا نام قمر ہے۔
اس روایت میں بیان کی گئی بات کا پورا ہو جانا ثابت کرتا ہے کہ یہ روایت سچی ہے؟
جواب
دعوی ہی غلط ہے اس روایت میں بیان کی گئی بات پوری ہوئی ،کیا مرزا صاحب
ٰ مرزائی
کا کوئی پیروکار بتا سکتا ہے کہ اس روایت کے الفاظ کے مطابق رمضان کی پہلی رات کو
چاند گرہن اور رمضان کے نصف میں سورج گرہن کب لگا ؟
نیز یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ یہ آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی حدیث نہیں بلکہ
عمروبن شمر جیسے رافضی اور جھوٹے روای کی گھڑی ہوئی روایت ہے جو اس نے "
محمد بن علی " کی طرف منسوب کر دی ۔
قادیانی ایک اور روایت بھی پیش کرتے ہیں اور اس سے باطل استدالل کرتے ہوئے کہتے
ہیں کہ اس روایت میں سیدنا عیسی علیہ السالم کو امام مہدی کہا گیا ہے۔ لہذا سیدنا عیسی
علیہ السالم ہی امام مہدی ہیں۔ آیئے پہلے پوری روایت اور اس کا ترجمہ دیکھتے ہیں اور
پھر قادیانیوں کے باطل استدالل کا علمی رد کرتے ہیں۔
"عن ابی ھریرۃ رضی ہللا عنہ ،عن النبی صلی ہللا علیہ وسلم ،قال یوشک من عاش منکم
أن یلقی عیسی بن مریم اماما مھدیا و حکما عدال ،فیکسر الصلیب و یقتل الخنزیر و توضع
الجزیة ،و تضع الحرب اوزارھا۔"
حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے (اپنی امت سے خطاب کرتے ہوئے) فرمایا کہ قریب ہے کہ
تم میں سے جو زندہ رہے وہ مریم کے بیٹے عیسی (علیہ السالم) سے ملے جو ایک ہدایت
یافتہ امام اور انصاف کرنے والے حاکم ہوں گے۔ پس آپ صلیب کو توڑیں گے ،خنزیر کو
قتل کریں گے ۔ اور جزیہ رکھ دیا جائے گا۔ اور جنگ اپنے ہتھیار پھینک کر ختم ہوجائے
گی۔
(مسند احمد حدیث نمبر ٬ 9323مسند ابی ہریرۃ رضی ہللا عنہ)
اگر ان الفاظ کی وجہ سے سیدنا عیسی علیہ السالم امام مہدی ثابت ہوتے ہیں تو انہی الفاظ
کی وجہ سے حضرت امیر معاویہ ،حضرت جریر بن عبدہللا اور خلفائے راشدین رضی ہللا
عنہم کیوں امام مہدی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ احادیث میں ان کے لئے بھی "مھدیا" کا لفظ
آیا ہے۔
اے ہللا! گھوڑے کی پشت پر اسے ثبات عطا فرما ‘ اور اسے دوسروں کو ہدایت کی راہ
دکھانے واال اور خود ہدایت یافتہ بنا۔
(ترمذی حدیث نمبر ٬ 3842باب مناقب معاویة بن ابی سفیان رضی ہللا عنہ)
3۔ خلفائے راشدین رضی ہللا عنہم
اس روایت میں بلکہ کسی بھی صحیح روایت میں تو دور دور تک ذکر نہیں کہ جس امام
مہدی کے آنے کی خبر حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے دی ہے وہ سیدنا عیسی علیہ السالم
ہیں۔
اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ بالفرض اگر تمہاری بات مان کر عیسی علیہ السالم کو ہی
امام مہدی مان لیا جائے تو مرزا صاحب تو پھر بھی امام مہدی ثابت نہیں ہوتے کیونکہ
مرزا صاحب کی ماں کا نام مریم نہیں بلکہ چراغ بی بی ہے اور اس روایت میں ان عیسی
علیہ السالم کے بارے میں بتایا گیا ہے جو بنی اسرائیل کے رسول تھے اور امت محمدیہ
میں دوبارہ حاکم اور خلیفہ کی حیثیت سے تشریف الئیں گے۔
"ختم نبوت کورس"
دجال کا فتنہ اتنا سخت اور خطرناک فتنہ ہے کہ ہر نبی علیہ السالم نے اپنی امتوں کو دجال
کے فتنے سے ڈرایا ہے۔ حضور ﷺ نے بھی اپنی امت کو اس فتنے سے ڈرایا ہے۔ بلکہ
امت کو اپنی دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین فرمائی ہے۔
حضور ﷺ کی احادیث کے مطابق مطابق دجال انسانوں کی طرح ایک مستقل وجود رکھتا
ہے۔ اور وہ قرب قیامت سیدنا عیسی علیہ السالم کے زمین پر نزول سے کچھ عرصہ پہلے
ظاہر ہوگا۔دجال سیدنا عیسی علیہ السالم کے ہاتھوں قتل ہوگا۔
درج ذیل روایات مالحظہ فرمائیں جن سے دجال کے انسانوں کی طرح مستقل وجود اور
قرب قیامت سیدنا عیسی علیہ السالم کے زمین پر نزول سے کچھ عرصہ پہلے ظہور کا پتہ
چلتا ہے۔
حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ میں نے رسول ہللا ﷺ کو اپنی نماز میں ،دجال کے فتنے سے
پناہ مانگتے سنا۔
)مسلم حدیث نمبر ٬ 1323باب استحباب التعوذ من عذاب القبر و عذاب جہنم(
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ":جب تم میں سے کوئی
تعالی کی پناہ طلب کرے :جہنم
ٰ آخر ی تشہد سے فارغ ہو جائے تو چار چیزوں سے ہللا
کے عذاب سے ،قبر کے عذاب سے زندگی اور موت کی آزمائش سے اور مسیح دجال
"کے شر سے ۔
)مسلم حدیث نمبر ٬ 1324٬باب استحباب التعوذ من عذاب القبر و عذاب جہنم(
سا ِإی َمانُ َھا لَ ْم سلَّ َم:ث َ َالث ِإذَا خ ََر ْجنَ َال َی ْنفَ ُع نَ ْف ً صلَّى ہللاُ َ
ع َل ْی ِه َو َ ع ْن أ َ ِبي ُھ َری َْرۃََ ،قا َلَ :قا َل َر ُ
سو ُل ِ
ہللا َ َ
ش ْم ِس ِم ْن َم ْغ ِر ِب َھاَ ،والدَّ َّجالَُ ،ودَابَّةُ ُ ُ
ت فِي ِإی َما ِن َھا َخی ًْرا :طلوعُ ال َّ َ
َت ِم ْن قَ ْبلُ ،أ ْو َك َ
سبَ ْ ت َ ُك ْن آ َمن ْ
ض.اْل َ ْر ِ
ْ
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت کی کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ’’ :تین چیزیں ہیں جب ان کا
ظہور ہو جائے گا تو اس وقت کسی شخص کو ،جو اس سے پہلے ایمان نہیں الیا تھا یا
اپنے ایمان کے دوران میں کوئی نیکی نہ کی تھی ،اس کا ایمان النافائدہ نہ دے گا :سورج
کا مغرب سے طلوع ہونا ،دجال اور دابۃ االرض ( زمین سے ایک عجیب الخلقت جانور کا
) نکلنا ۔
)مسلم حدیث نمبر ٬ 398باب بیان الزمن الذی ال یضل فیه االیمان(
سلَّ َم قَا َل :أ َ َرانِي لَ ْیلَةً ِع ْندَ ْال َك ْعبَ ِة ،فَ َرأَیْتُ صلَّى ہللاُ َ
علَ ْی ِه َو َ سو َل ہللاِ َ ع َم َر ،أ َ َّن َر ُ ع ْن َ
ع ْب ِد ہللاِ ب ِْن ُ َ
الل َم ِم ،قَ ْد َر َّجلَ َھا
ت َراء ِمنَ ِ س ِن َما أ َ ْن َ
الر َجا ِل ،لَهُ ِل َّمة َكأ َ ْح َ ُ
ت َراء ِم ْن أد ِْم ِ س ِن َما أ َ ْن َ َر ُج ًال آدَ َم َكأ َ ْح َ
سأ َ ْلتُ َم ْن َھذَا؟ وف ِب ْالبَ ْیتِ ،فَ َ ط ُ ق َر ُجلَی ِْن -یَ ُ علَى َع َوا ِت ِ ع َلى َر ُجلَی ِْن -أ َ ْو َ ط ُر َما ًءُ ،مت َّ ِكئًا َ ي ت َ ْق ُ
فَ ِھ َ
طافِیَة، طط ،أَع َْو ِر ْال َعی ِْن ْالی ُْمنَى َكأَنَّ َھا ِع َنبَة َ فَ ِقی َلَ :ھذَا ْال َمسِی ُح اب ُْن َم ْریَ َم ،ث ُ َّم إِذَا أَنَا بِ َر ُجل َج ْعد قَ َ
سأ َ ْلتُ َم ْن َھذَا؟ فَ ِقی َلَ :ھذَا ْال َمسِی ُح الدَّ َّجالُ۔ فَ َ
)مسلم حدیث نمبر ٬ 425باب االسراء برسول ہللاﷺ الی السماوات و فرض الصلوات(
سلَّ َمَ "" :ب ْینَا أَنَا نَا ِئمع َل ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاِ َ سو ُل َّّللاُ َع ْنهُ،قَا َل َر ُ ي َّ ض َ ع َم َر َر ِّللاِ بْنَ ُع ْبدَ َّ
عن َ ۡ َۡ َ
سهُ َما ًء ،فَقُ ْلتُ َ :م ْن َھذَا؟، ف َرأْ ُ ش َع ِر بَیْنَ َر ُج َلی ِْن یَ ْن ُ
ط ُ ط ال َّ وف ِب ْال َك ْعبَ ِة ،فَإِذَا َر ُجل آدَ ُم َ
س ْب ُ ط ُ َرأ َ ْیت ُ ِني أ َ ُ
الرأْ ِس أَع َْو ُر ْالعَی ِْن ْالی ُْمنَى َكأ َ َّن َ
ع ْینَهُ قَالُوا :اب ُْن َم ْریَ َم ،فَذَ َھبْتُ أَ ْلت َ ِفتُ فَإِذَا َر ُجل أ َ ْح َم ُر َجسِیم َج ْعد ُ َّ
طن َر ُجل طنَ ،واب ُْن قَ َ شبَ ًھا اب ُْن قَ َ اس ِب ِه َ ب النَّ ِطافِیَة ،قُ ْلتُ َ :م ْن َھذَا؟ ،قَالُواَ :ھذَا الدَّ َّجا ُل أ َ ْق َر ُ ِعنَبَة َ
عة َ
ق ِم ْن ُخزَ ا َ ط ِل ِ "".م ْن بَ ِني ْال ُم ْ
ص َ ِ
حضرت عبدہللا بن عمر ؓسے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے فرمایا ”میں سویا ہوا تھا کہ
میں نے اپنے آپ کو کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔ اچانک ایک صاحب نظر آئے ،گندم گوں
بال لٹکے ہوئے تھے اور دو آدمیوں کے درمیان ( سہارا لیے ہوئے تھے ) ان کے سر سے
عیسی ابن مریم علیہ السالم ،پھر میں
ٰ پانی ٹپک رہا تھا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا کہ
مڑا تو ایک دوسرا شخص سرخ ،بھاری جسم واال ،گھنگریالے بال واال اور ایک آنکھ سے
کانا جیسے اس کی آنکھ پر خشک انگور ہو نظر آیا۔ میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ کہا کہ یہ
عبدالعزی بن قطن
ٰ عبدالعزی بن قطن سے بہت ملتی تھی۔“ یہ
ٰ دجال ہے۔ اس کی صورت
مطلق میں تھا جو قبیلہ خزاعہ کی ایک شاخ ہے۔
ص َالۃ َسلَّ َم یُنَادِي ال َّ علَ ْی ِه َو َّللاُ َصلَّى َّ ّللاِ َ سو ِل َّ س ِم ْعتُ نِدَا َء ْال ُمنَادِي ُمنَادِي َر ُ ت قَیْس َ اط َمةَ بِ ْن َ
عن فَ ِ َ
اءس ِ الن َ
ف ِ ص ِ سلَّ َم فَ ُك ْنتُ ِفي َ علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللاِ َ سو ِل َّ صلَّیْتُ َم َع َر ُ ام َعةً فَخ ََر ْجتُ ِإلَى ْال َمس ِْج ِد فَ َ َج ِ
علَى ْال ِم ْنبَ ِر َو ُھ َو س َ ص َالتَهُ َجلَ َ سلَّ َم َ علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ ّللا َ سو ُل َّ ِ ضى َر ُ ور ْالقَ ْو ِم فَلَ َّما قَ َ ظ ُھ َ الَّتِي ت َ ِلي ُ
سولُهُ أ َ ْعلَ ُم قَا َل إِنِي ّللاُ َو َر ُص َّالہُ ث ُ َّم قَا َل أَتَد ُْرونَ ِل َم َج َم ْعت ُ ُك ْم قَالُوا َّ سان ُم َ ض َحكُ فَقَا َل ِلیَ ْلزَ ْم ُك ُّل ِإ ْن َ یَ ْ
ص َرانِیًّا َف َجا َء فَ َبا َی َع ي َكانَ َر ُج ًال نَ ْ َ
ّللا َما َج َم ْعت ُ ُك ْم ِل َر ْغ َبة َو َال ِل َر ْھ َبة َولَ ِك ْن َج َم ْعت ُ ُك ْم ِْل َّن ت َ ِمی ًما الد َِّار َّ
َو َّ ِ
س ِفینَة َب ْح ِریَّة ب فِي َ ع ْن َمسِیحِ الدَّ َّجا ِل َحدَّث َ ِني أَنَّهُ َر ِك َ َوأ َ ْسلَ َم َو َحدَّث َ ِني َحدِیثًا َوا َفقَ الَّذِي ُك ْنتُ أ ُ َح ِدث ُ ُك ْم َ
یرۃ ِفي ْال َب ْح ِر ش ْھ ًرا ِفي ْال َب ْح ِر ث ُ َّم أ َ ْرفَئُوا ِإلَى َج ِز َ ب ِب ِھ ْم ْال َم ْو ُج َ َم َع ثَ َالثِینَ َر ُج ًال ِم ْن َل ْخم َو ُجذَ َ
ام فَلَ ِع َ
ش َع ِر َال یر ال َّ ب َك ِث ُ س ِفینَ ِة فَدَ َخلُوا ْال َج ِز َ
یرۃ َ فَلَ ِقیَتْ ُھ ْم دَابَّة أ َ ْھلَ ُ سوا فِي أ َ ْق ُربْ ال َّ ش ْم ِس فَ َج َل ُ ب ال َّ َحت َّى َم ْغ ِر ِ
سةُ قَالُوا َو َما سا َت أَنَا ْال َج َّ ت فَقَالَ ْشعَ ِر فَقَالُوا َو ْی َل ِك َما أ َ ْن ِ یَد ُْرونَ َما قُبُلُهُ ِم ْن دُب ُِر ِہ ِم ْن َكثْ َرۃِ ال َّ
ق قَا َل لَ َّما الر ُج ِل فِي الدَّی ِْر فَإِنَّهُ ِإلَى َخبَ ِر ُك ْم ِب ْاْل َ ْش َوا ِ ط ِلقُوا ِإلَى َھذَا َّ ت أَیُّ َھا ْالقَ ْو ُم ا ْن َ سةُ قَالَ ْ سا َ ْال َج َّ
ظ ُم عا َحتَّى دَخ َْلنَا الدَّی َْر فَإِذَا فِی ِه أ َ ْع َ طلَ ْقنَا ِس َرا ً طانَةً قَا َل فَا ْن َ ش ْی َ ت لَنَا َر ُج ًال فَ ِر ْقنَا ِم ْن َھا أ َ ْن ت َ ُكونَ َ س َّم ْ َ
عنُ ِق ِه َما َبیْنَ ُر ْك َبتَ ْی ِه ِإلَى َك ْع َب ْی ِه ِب ْال َحدِی ِد قُ ْلنَا عة َیدَاہُ ِإلَى ُ شدُّہُ ِوثَاقًا َم ْج ُمو َ ط خ َْلقًا َوأ َ َ سان َرأ َ ْینَاہُ قَ ُّ ِإ ْن َ
ب َر ِك ْبنَا فِي علَى َخبَ ِري فَأ َ ْخ ِب ُرونِي َما أ َ ْنت ُ ْم قَالُوا ن َْح ُن أُنَاس ِم ْن ْال َع َر ِ ت قَا َل قَ ْد قَدَ ْرت ُ ْم َ َو ْیلَ َك َما أ َ ْن َ
یر ِت َك َھ ِذ ِہ فَ َجلَ ْسنَا ش ْھ ًرا ث ُ َّم أ َ ْرفَأْنَا إِلَى َج ِز َ ب بِنَا ْال َم ْو ُج َ صادَ ْفنَا ْالبَ ْح َر ِحینَ ا ْغتَلَ َم فَلَ ِع َ س ِفینَة بَ ْح ِریَّة فَ َ َ
ش َع ِر ْ ُ
ش َع ِر َال یُد َْرى َما قُبُلهُ ِم ْن دُب ُِر ِہ ِم ْن َكث َرۃِ ال َّ یر ال َّ ب َك ِث ُ َ
یرۃ َ فَلَ ِق َیتْنَا دَابَّة أ ْھلَ ُ ْ ْ
فِي أ ْق ُر ِب َھا فَدَخَلنَا ال َج ِز َ َ
الر ُج ِل فِي الدَّی ِْر فَإِنَّهُ ت اع ِْمد ُوا إِلَى َھذَا َّ سةُ قَالَ ْ سا َ سةُ قُ ْلنَا َو َما ْال َج َّ سا َت أَنَا ْال َج َّ ت فَقَالَ ْ فَقُ ْلنَا َو ْیلَ ِك َما أ َ ْن ِ
طانَةً فَقَا َل أ َ ْخ ِب ُرو ِني ش ْی َ عا َوفَ ِز ْعنَا ِم ْن َھا َولَ ْم نَأ ْ َم ْن أ َ ْن تَ ُكونَ َ ق فَأ َ ْق َب ْلنَا ِإلَی َْك ِس َرا ً ِإلَى َخ َب ِر ُك ْم ِب ْاْل َ ْش َوا ِ
ع ْن ن َْخ ِل َھا ھ َْل یُثْ ِم ُر قُ ْلنَا لَهُ َن َع ْم قَا َل أ َ َما ِإنَّهُ ع ْن أَي ِ شَأْنِ َھا ت َ ْست َ ْخ ِب ُر قَا َل أَسْأَلُ ُك ْم َ سانَ قُ ْلنَا َ ع ْن ن َْخ ِل َب ْی َ َ
ع ْن أَي ِ شَأنِ َھا ت َ ْستَ ْخبِ ُر قَا َل َھ ْل فِی َھا َماء ْ الط َب ِریَّ ِة قُ ْلنَا َ ع ْن بُ َحی َْرۃِ َّ یُو ِشكُ أ َ ْن َال تُثْ ِم َر قَا َل أ َ ْخبِ ُرونِي َ
ع ْن عی ِْن ُزغ ََر قَالُوا َ ع ْن َ َب قَا َل أ َ ْخ ِب ُرونِي َ اء قَا َل أ َ َما ِإ َّن َما َءھَا یُو ِشكُ أ َ ْن َی ْذھ َ یرۃ ُ ْال َم ِ ي َك ِث َ قَالُوا ِھ َ
اءیرۃ ُ ْال َم ِ ي َك ِث َاء ْالعَی ِْن قُ ْلنَا لَهُ نَعَ ْم ِھ َ أَي ِ شَأْنِ َھا ت َ ْستَ ْخبِ ُر قَا َل ھ َْل فِي ْال َعی ِْن َماء َوھ َْل یَ ْز َرعُ أ َ ْھلُ َھا ِب َم ِ
ع ْن َن ِبي ِ ْاْل ُ ِم ِیینَ َما فَ َع َل قَالُوا قَ ْد خ ََر َج ِم ْن َم َّكةَ َونَزَ َل َوأ َ ْھلُ َھا َی ْز َرعُونَ ِم ْن َما ِئ َھا قَا َل أ َ ْخ ِب ُرو ِني َ
ظ َھ َر َعلَى َم ْن یَ ِلی ِه ِم ْن صنَ َع ِب ِھ ْم فَأ َ ْخبَ ْرنَاہُ أَنَّهُ قَ ْد َ ْف َ ب قُ ْلنَا نَ َع ْم قَا َل َكی َ ب قَا َل أَقَاتَلَهُ ْال َع َر ُ یَثْ ِر َ
اك َخیْر لَ ُھ ْم أ َ ْن ی ُِطیعُوہُ َوإِنِي ُم ْخبِ ُر ُك ْم عوہُ قَا َل لَ ُھ ْم قَ ْد َكانَ ذَ ِل َك قُ ْلنَا َنعَ ْم قَا َل أَ َما إِ َّن ذَ َ طا ُ ب َوأ َ َ ْالعَ َر ِ
ض فَ َال أَدَ َ
ع یر ِفي ْاْل َ ْر ِ عنِي ِإنِي أَنَا ْال َمسِی ُح َو ِإنِي أُو ِشكُ أ َ ْن یُؤْ ذَنَ ِلي فِي ْال ُخ ُروجِ فَأ َ ْخ ُر َج فَأ َ ِس َ َ
ي ِك ْلتَا ُھ َما ُكلَّ َما أ َ َردْتُ أَنْ َ
عل َّ ان َ َ َ َ َّ ً َ َ
قَ ْریَة إِال َھبَطت َھا ِفي أ ْر َبعِینَ ل ْیلة َغی َْر َمكة َوط ْیبَة ف ُھ َما ُم َح َّر َمت َ ِ
َ َ ُ ْ َّ ً
علَى ُك ِل َن ْقب ِم ْن َھا ع ْن َھا َو ِإ َّن َصدُّ ِني َ ص ْلتًا َی ُ ْف َ سی ُ احدًا ِم ْن ُھ َما ا ْست َ ْق َبلَ ِني َملَك ِب َی ِد ِہ ال َّ احدَۃ ً أ َ ْو َو ِ أ َ ْد ُخ َل َو ِ
ص َرتِ ِه فِي ْال ِم ْن َب ِر َھ ِذ ِہ ط َعنَ ِب ِم ْخ َ سلَّ َم َو َ علَ ْی ِه َو َ ّللاُ َ صلَّى َّ ّللاِ َ سو ُل َّ ت قَا َل َر ُ سو َن َھا قَالَ ْ َم َال ِئ َكةً یَ ْح ُر ُ
اس َنعَ ْم فَإِنَّهُ أ َ ْع َج َبنِي ط ْیبَةُ یَ ْعنِي ْال َمدِینَةَ أ َ َال ھ َْل ُك ْنتُ َحدَّثْت ُ ُك ْم ذَ ِل َك فَقَا َل النَّ ُ ط ْیبَةُ َھ ِذ ِہ َ ط ْیبَةُ َھ ِذ ِہ َ َ
شأ ْ ِم أ َ ْو بَ ْح ِرع ْنهُ َو َع ْن ْال َمدِینَ ِة َو َم َّكةَ أ َ َال ِإنَّهُ فِي بَ ْح ِر ال َّ ِیث تَ ِمیم أَنَّهُ َوافَقَ الَّذِي ُك ْنتُ أ ُ َح ِدث ُ ُك ْم َ َحد ُ
ق َما ُھ َو َوأ َ ْو َمأ َ ِبیَ ِد ِہ إِلَى ق َما ُھ َو ِم ْن ِقبَ ِل ْال َم ْش ِر ِ ق َما ُھ َو ِم ْن قِبَ ِل ْال َم ْش ِر ِ ْالیَ َم ِن َال َب ْل ِم ْن قِ َب ِل ْال َم ْش ِر ِ
سلَّ َم۔
علَ ْی ِه َو َ
ّللاُ َ صلَّى َّ ّللاِ َ سو ِل َّ ظتُ َھذَا ِم ْن َر ُ ت فَ َح ِف ْ ق قَالَ ْ ْال َم ْش ِر ِ
حضرت فاطمہ بنت قیس ؓسے روایت ہے کہ میں نے پکارنے والے کی آواز سنی اور وہ
پکارنے واال رسول ہللا ﷺ کا منادی تھا ،وہ پکار رہا تھا کہ نماز کے لئے جمع ہو جاؤ ۔
میں بھی مسجد کی طرف نکلی اور میں نے رسول ہللا ﷺ کے ساتھ نماز پڑھی ۔ میں اس
صف میں تھی جس میں عورتیں لوگوں کے پیچھے تھیں ۔ جب آپﷺ نے نماز پڑھ لی تو
منبر پر بیٹھے اور آپ ﷺ ہنس رہے تھے ۔ آپﷺ نے فرمایا کہ ہر ایک آدمی اپنی نماز کی
جگہ پر رہے ۔ پھر فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ میں نے تمہیں کیوں اکٹھا کیا ہے؟ صحابہ
بولے کہ ہللا اور اس کا رسولﷺ خوب جانتے ہیں ۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہللا کی قسم میں نے
تمہیں رغبت دالنے یا ڈرانے کے لئے جمع نہیں کیا ،بلکہ اس لئے جمع کیا کہ تمیم داری
ایک نصرانی تھا ،وہ آیا اور اس نے بیعت کی اور مسلمان ہوا اور مجھ سے ایک حدیث
بیان کی جو اس حدیث کے موافق ہے جو میں تم سے دجال کے بارے میں بیان کیا کرتا تھا
۔ اس نے بیان کیا کہ وہ یعنی تمیم سمندر کے جہاز میں تیس آدمیوں کے ساتھ سوار ہوا جو
لخم اور جذام کی قوم میں سے تھے ،پس ان سے ایک مہینہ بھر سمندر کی لہریں کھیلتی
رہیں ۔ پھر وہ لوگ سمندر میں ڈوبتے سورج کی طرف ایک جزیرے کے کنارے جا لگے ۔
پس وہ جہاز سے پلوار ( یعنی چھوٹی کشتی ) میں بیٹھے اور جزیرے میں داخل ہو گئے
وہاں ان کو ایک جانور مال جو کہ بھاری دم ،بہت بالوں واال کہ اس کا اگال پچھال حصہ
بالوں کے ہجوم سے معلوم نہ ہوتا تھا ۔ لوگوں نے اس سے کہا کہ اے کمبخت تو کیا چیز
ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں ۔ لوگوں نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس
مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے ،کہ وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے ۔ تمیم ؓنے کہا کہ
جب اس نے مرد کا نام لیا تو ہم اس جانور سے ڈرے کہ کہیں شیطان نہ ہو ۔ تمیم نے کہا
کہ پھر ہم دوڑتے ہوئے ( یعنی جلدی ) دیر میں داخل ہوئے ۔ دیکھا تو وہاں ایک بڑے قد کا
آدمی ہے کہ ہم نے اتنا بڑا آدمی اور ویسا سخت جکڑا ہوا کبھی نہیں دیکھا ۔ اس کے دونوں
ہاتھ گردن کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور دونوں زانوں سے ٹخنوں تک لوہے سے جکڑا
ہوا تھا ۔ ہم نے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا چیز ہے؟ اس نے کہا تم میری خبر پر قابو پا گئے
ہو ( یعنی میرا حال تو تم کو اب معلوم ہو جائے گا ) ،تم اپنا حال بتاؤ کہ تم کون ہو؟ لوگوں
نے کہا کہ ہم عرب لوگ ہیں ،سمندر میں جہاز میں سوار ہوئے تھے ،لیکن جب ہم سوار
ہوئے تو سمندر کو جوش میں پایا پھر ایک مہینے کی مدت تک لہر ہم سے کھیلتی رہی ،
پھر ہم اس جزیرے میں آ لگے تو چھوٹی کشتی میں بیٹھ کر جزیرے میں داخل ہوئے ،پس
ہمیں ایک بھاری دم کا اور بہت بالوں واال جانور مال ،ہم اس کے بالوں کی کثرت کی وجہ
سے اس کا اگال پچھال حصہ نہ پہچانتے تھے ۔ ہم نے اس سے کہا کہ اے کمبخت! تو کیا
چیز ہے؟ اس نے کہا کہ میں جاسوس ہوں ۔ ہم نے کہا کہ جاسوس کیا؟ اس نے کہا کہ اس
مرد کے پاس چلو جو دیر میں ہے اور وہ تمہاری خبر کا بہت مشتاق ہے ۔ پس ہم تیری
طرف دوڑتے ہوئے آئے اور ہم اس سے ڈرے کہ کہیں بھوت پریت نہ ہو ۔ پھر اس مرد
نے کہا کہ مجھے بیسان کے نخلستان کی خبر دو ۔ ہم نے کہا کہ تو اس کا کون سا حال
پوچھتا ہے؟ اس نے کہا کہ میں اس کے نخلستان کے بارے میں پوچھتا ہوں کہ پھلتا ہے؟ ہم
نے اس سے کہا کہ ہاں پھلتا ہے ۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو عنقریب وہ نہ پھلے گا ۔ اس
نے کہا کہ مجھے طبرستان کے دریا کے بارے میں بتالؤ ۔ ہم نے کہا کہ تو اس دریا کا
کون سا حال پوچھتا ہے؟ وہ بوال کہ اس میں پانی ہے؟ لوگوں نے کہا کہ اس میں بہت پانی
ہے ۔ اس نے کہا کہ البتہ اس کا پانی عنقریب ختم ہو جائے گا ۔ پھر اس نے کہا کہ مجھے
زغر کے چشمے کے بارے میں خبر دو ۔ لوگوں نے کہا کہ اس کا کیا حال پوچھتا ہے؟ اس
نے کہا کہ اس چشمہ میں پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس پانی سے کھیتی کرتے ہیں؟ ہم
نے اس سے کہا کہ ہاں! اس میں بہت پانی ہے اور وہاں کے لوگ اس کے پانی سے کھیتی
کرتے ہیں ۔ اس نے کہا کہ مجھے امیین کے پیغمبر کے بارے میں خبر دو کہ وہ کیا رہے؟
لوگوں نے کہا کہ وہ مکہ سے نکلے ہیں اور مدینہ میں گئے ہیں ۔ اس نے کہا کہ کیا عرب
کے لوگ ان سے لڑے؟ ہم نے کہا کہ ہاں ۔ اس نے کہا کہ انہوں نے عربوں کے ساتھ کیا
کیا؟ ہم نے کہا کہ وہ اپنے گرد و پیش کے عربوں پر غالب ہوئے اور انہوں نے ان کی
اطاعت کی ۔ اس نے کہا کہ یہ بات ہو چکی؟ ہم نے کہا کہ ہاں ۔ اس نے کہا کہ خبردار رہو
یہ بات ان کے حق میں بہتر ہے کہ پیغمبر کے تابعدار ہوں ۔ اور البتہ میں تم سے اپنا حال
کہتا ہوں کہ میں مسیح ( دجال ) ہوں ۔ اور البتہ وہ زمانہ قریب ہے کہ جب مجھے نکلنے
کی اجازت ہو گی ۔ پس میں نکلوں گا اور سیر کروں گا اور کسی بستی کو نہ چھوڑوں گا
جہاں چالیس رات کے اندر نہ جاؤں ،سوائے مکہ اور طیبہ کے ،کہ وہاں جانا مجھ پر
حرام ہے یعنی منع ہے ۔ جب میں ان دونوں بستیوں میں سے کسی کے اندر جانا چاہوں گا
تو میرے آگے ایک فرشتہ بڑھ آئے گا اور اس کے ہاتھ میں ننگی تلوار ہو گی ،وہ مجھے
وہاں جانے سے روک دے گا اور البتہ اس کے ہر ایک ناکہ پر فرشتے ہوں گے جو اس
کی چوکیداری کریں گے ۔ سیدہ فاطمہ ؓنے کہا کہ پھر نبی کریمﷺ نے اپنی چھڑی منبر پر
مار کر فرمایا کہ طیبہ یہی ہے ،طیبہ یہی ہے ،طیبہ یہی ہے ۔ یعنی طیبہ سے مراد مدینہ
منورہ ہے ۔ خبردار رہو! بھال میں تم کو اس حال کی خبر دے نہیں چکا ہوں؟ تو اصحاب
نے کہا کہ ہاں ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ مجھے تمیم ؓکی بات اچھی لگی جو اس چیز کے
موافق ہوئی جو میں نے تم لوگوں سے دجال اور مدینہ اور مکہ کے حال سے فرما دیا تھا ۔
خبردار ہو کہ وہ شام یا یمن کے سمندر میں ہے؟ نہیں بلکہ وہ مشرق کی طرف ہے ،وہ
مشرق کی طرف ہے ،وہ مشرق کی طرف ہے ( مشرق کی طرف بحر ہند ہے شاید دجال
بحر ہند کے کسی جزیرہ میں ہو ) اور آپﷺ نے مشرق کی طرف اشارہ کیا ۔ سیدہ فاطمہ
بنت قیس ؓ کہا کہ یہ حدیث میں نے رسول ہللا ﷺ سے یاد رکھی ہے ۔
ض ِفی ِه غدَاۃ فَ َخفَّ َ ات َ سلَّ َم الدَّ َّجا َل ذَ َ علَ ْی ِه َو َ ّللاُ َ صلَّى َّ ّللاِ َ سو ُل َّ س ْمعَانَ قَا َل ذَ َك َر َر ُ اس ب ِْن َ ع ْن النَّ َّو ِ َ
سو َل َّ
ّللاِ ْ ْ
ف ذَ ِل َك ِفینَا فَقَا َل َما شَأنُ ُك ْم قُلنَا َیا َر ُ ع َر َ طا ِئفَ ِة النَّ ْخ ِل فَلَ َّما ُر ْحنَا ِإلَ ْی ِه َ ظنَنَّاہُ ِفي َ َو َرفَّ َع َحتَّى َ
طائِفَ ِة النَّ ْخ ِل فَقَا َل َغی ُْر الدَّ َّجا ِل أَ ْخ َوفُ ِني ظ َننَّاہُ فِي َ ت َحتَّى َ ْت فِی ِه َو َرفَّ ْع َ غدَاۃ ً فَ َخفَّض َ ت الدَّ َّجا َل َ ذَ َك ْر َ
ام ُرؤ َح ِجی ُج نَ ْف ِس ِه َو َّ
ّللاُ علَ ْی ُك ْم إِ ْن یَ ْخ ُرجْ َوأَنَا فِی ُك ْم فَأَنَا َح ِجی ُجهُ دُو َن ُك ْم َوإِ ْن َی ْخ ُرجْ َولَ ْستُ فِی ُك ْم فَ ْ َ
َ
طن فَ َم ْن أد َْر َكهُ ْ ُ
طافِئَة َكأنِي أش َِب ُھهُ ِب َع ْب ِد العُ َّزى ب ِْن قَ َ َ طط َع ْینُهُ َ علَى ُك ِل ُم ْس ِلم ِإنَّهُ شَابٌّ قَ َ َخ ِلیفَ ِتي َ
اث ِش َم ًاال ع َ اث َی ِمینًا َو َ ق فَعَ َ شأ ْ ِم َو ْال ِع َرا ِ
َارج خَلَّةً بَیْنَ ال َّ ف إِنَّهُ خ ِ ورۃِ ْال َك ْھ ِ س َعلَ ْی ِه فَ َواتِ َح ُ ِم ْن ُك ْم فَ ْلیَ ْق َرأْ َ
ش ْھر سنَة َو َی ْوم َك َ ض قَا َل أ َ ْر َبعُونَ َی ْو ًما َی ْوم َك َ ّللاِ َو َما لَ ْبثُهُ ِفي ْاْل َ ْر ِ سو َل َّ ّللاِ فَاثْبُتُوا قُ ْلنَا َیا َر ُ َیا ِع َبادَ َّ
ص َالۃ ُ یَ ْوم سنَة أَتَ ْك ِفینَا فِی ِه َ ّللا فَذَ ِل َك ْالیَ ْو ُم الَّذِي َك َ سو َل َّ ِ َّام ُك ْم قُ ْلنَا یَا َر ُ
َّام ِه َكأَی ِ
سا ِئ ُر أَی ِ َو َی ْوم َك ُج ُم َعة َو َ
الری ُح ث ا ْست َ ْدبَ َرتْهُ ِ ض قَا َل َك ْالغَ ْی ِ عهُ فِي ْاْل َ ْر ِ ّللاِ َو َما إِس َْرا ُ سو َل َّ قَا َل َال ا ْقد ُُروا لَهُ قَد َْرہُ قُ ْلنَا یَا َر ُ
ض فَت ُ ْن ِبتُس َما َء فَت ُ ْم ِط ُر َو ْاْل َ ْر َ عو ُھ ْم فَیُؤْ ِمنُونَ ِب ِه َو َی ْست َ ِجیبُونَ لَهُ فَ َیأ ْ ُم ُر ال َّ علَى ْالقَ ْو ِم فَ َی ْد ُ فَ َیأْتِي َ
عو ُھ ْم اص َر ث ُ َّم یَأ ْ ِتي ْالقَ ْو َم فَیَ ْد ُ عا َوأ َ َمدَّہُ خ ََو ِ ض ُرو ً َت ذ ُ ًرا َوأ َ ْس َب َغهُ ُ ط َو َل َما َكان ْ ار َحت ُ ُھ ْم أَ ْ علَ ْی ِھ ْم َ
س ِ فَت َ ُرو ُح َ
ش ْيء ِم ْن أ َ ْم َوا ِل ِھ ْم َو َی ُم ُّر ْس ِبأ َ ْیدِی ِھ ْم َ ص ِب ُحونَ ُم ْم ِحلِینَ لَی َ ع ْن ُھ ْم َفیُ ْ ف َ ص ِر ُ علَ ْی ِه قَ ْولَهُ َف َی ْن َفَ َی ُردُّونَ َ
شبَابًا عو َر ُج ًال ُم ْمت َ ِلئًا َ ب النَّ ْح ِل ث ُ َّم یَ ْد ُ وزھَا َك َی َعا ِسی ِ ِب ْالخ َِربَ ِة َفیَقُو ُل لَ َھا أَ ْخ ِر ِجي ُكنُوزَ ِك فَتَتْبَعُهُ ُكنُ ُ
ض َحكُ َفبَ ْینَ َما ُھ َو عوہُ فَیُ ْق ِب ُل َو َیتَ َھلَّ ُل َو ْج ُھهُ یَ ْ ض ث ُ َّم یَ ْد ُ طعُهُ َج ْزلَتَی ِْن َر ْمیَةَ ْالغ ََر ِ ْف فَیَ ْق َ سی ِ فَیَض ِْربُهُ بِال َّ
ي ِد َم ْشقَ بَیْنَ َم ْھ ُرودَتَی ِْن اء ش َْرقِ َّض ِ َارۃِ ْالبَ ْی َ
ّللاُ ْال َمسِی َح ابْنَ َم ْریَ َم َفیَ ْن ِز ُل ِع ْندَ ْال َمن َ ث َّ َكذَ ِل َك ِإ ْذ بَ َع َ
ط َر َوإِذَا َرفَعَهُ تَ َحد ََّر ِم ْنهُ ُج َمان َكاللُّؤْ لُ ِؤ فَ َال یَ ِح ُّل سهُ قَ َ طأ َ َرأْ َ طأ ْ َعلَى أ َ ْج ِن َح ِة َملَ َكی ِْن إِذَا َ اضعًا َكفَّ ْی ِه َ َو ِ
ب لُد فَ َی ْقتُلُهُ طلُبُهُ َحتَّى یُد ِْر َكهُ ِب َبا ِ ط ْرفُهُ فَ َی ْ ْث َی ْنتَ ِھي َ سهُ َی ْنت َ ِھي َحی ُ ات َونَفَ ُ ِل َكا ِفر َی ِجد ُ ِری َح نَفَ ِس ِه ِإ َّال َم َ
س ُح َع ْن ُو ُجو ِھ ِھ ْم َویُ َح ِدث ُ ُھ ْم ِبدَ َر َجا ِت ِھ ْم فِي ّللاُ ِم ْنهُ فَیَ ْم َ ص َم ُھ ْم َّع َ سى ابْنَ َم ْریَ َم قَ ْوم قَ ْد َ ث ُ َّم یَأْتِي ِعی َ
ان ِْل َ َحد بِ ِقتَا ِل ِھ ْم سى ِإنِي قَ ْد أ َ ْخ َر ْجتُ ِعبَادًا ِلي َال َیدَ ِ ّللاُ إِلَى ِعی َ ْال َجنَّ ِة فَ َب ْی َن َما ُھ َو َكذَ ِل َك إِ ْذ أَ ْو َحى َّ
ّللاُ َیأ ْ ُجو َج َو َمأ ْ ُجو َج َو ُھ ْم ِم ْن ُك ِل َحدَب َی ْن ِسلُونَ فَ َی ُم ُّر أَ َوائِلُ ُھ ْم ث َّ ور َو َی ْب َع ُ الط ِ فَ َح ِر ْز ِع َبادِي ِإلَى ُّ
ي
ص ُر َنبِ ُّ آخ ُر ُھ ْم فَیَقُولُونَ لَقَ ْد َكانَ بِ َھ ِذ ِہ َم َّرۃ ً َماء َوی ُْح َ طبَ ِریَّةَ فَیَ ْش َربُونَ َما فِی َھا َو َی ُم ُّر ِ علَى بُ َحی َْرۃِ َ َ
َب ْ
س الث َّ ْو ِر ِْل َ َح ِد ِھ ْم َخی ًْرا ِم ْن ِمائ َ ِة دِینَار ِْل َ َح ِد ُك ْم ال َی ْو َم َف َی ْرغ ُ ْ
ص َحابُهُ َحتَّى َی ُكونَ َرأ ُ سى َوأ َ ْ ّللاِ ِعی َ َّ
ت نَ ْفس سى َك َم ْو ِ ص ِب ُحونَ فَ ْر َ َف ِفي ِرقَا ِب ِھ ْم فَیُ ْ علَ ْی ِھ ْم النَّغ َ ّللاُ َ ص َحابُهُ فَی ُْر ِس ُل َّ سى َوأ َ ْ ّللاِ ِعی َ ي َّ نَ ِب ُّ
ض َع ِشبْر إِ َّال ض َم ْو ِ ض فَ َال َی ِجدُونَ فِي ْاْل َ ْر ِ ص َحابُهُ إِلَى ْاْل َ ْر ِ سى َوأ َ ْ ّللاِ ِعی َ ي َّ ط نَ ِب ُّ احدَۃ ث ُ َّم َی ْھ ِب ُ َو ِ
تق الب ُْخ ِ ْ َ
طی ًْرا َكأ ْعنَا ِ ّللاُ َ ص َحابُهُ ِإلَى َّ ِ
ّللا فَی ُْر ِس ُل َّ َ
سى َوأ ْ ّللاِ ِعی َ ي َّ َم ََلہُ زَ َھ ُم ُھ ْم َو َنتْنُ ُھ ْم َفیَ ْرغ ُ
َب َن ِب ُّ َ
ط ًرا َال یَ ُك ُّن ِم ْنهُ بَیْتُ َمدَر َو َال َوبَر فَ َی ْغ ِس ُل ّللاُ َم َ ّللاُ ث ُ َّم ی ُْر ِس ُل َّ ْث شَا َء َّ ط َر ُح ُھ ْم َحی ُ فَت َ ْح ِملُ ُھ ْم فَتَ ْ
صا َبةُ ض أ َ ْن ِب ِتي ثَ َم َرت َ ِك َو ُردِي َب َر َكت َ ِك فَ َی ْو َم ِئذ تَأ ْ ُك ُل ْال ِع َ الزلَفَ ِة ث ُ َّم یُقَا ُل ِل َْل َ ْر ِ ض َحتَّى َیتْ ُر َك َھا َك َّ ْاْل َ ْر َ
اس ام ِم ْن النَّ ِ اْل ِب ِل لَت َ ْك ِفي ْال ِفئ َ َ
الل ْق َحةَ ِم ْن ْ ِالر ْس ِل َحتَّى أ َ َّن ِ اركُ فِي ِ الر َّمانَ ِة َویَ ْست َ ِظلُّونَ ِب ِق ْح ِف َھا َویُبَ َ ِم ْن ُّ
اس فَبَ ْینَ َما ُھ ْم َكذَ ِل َك الل ْق َحةَ ِم ْن ْالغَن َِم لَتَ ْك ِفي ْالفَ ِخذَ ِم ْن النَّ ِ اس َو ِ الل ْق َحةَ ِم ْن ْالبَقَ ِر لَت َ ْك ِفي ْالقَبِیلَةَ ِم ْن النَّ ِ َو ِ
ارض ُرو َح ُك ِل ُمؤْ ِمن َو ُك ِل ُم ْس ِلم َو َی ْب َقى ِش َر ُ اط ِھ ْم فَت َ ْق ِب ُ ت آ َب ِ ْ
ط ِی َبة فَتَأ ُخذ ُ ُھ ْم ت َ ْح َ ً ّللاُ ِری ًحا َ ث َّ ِإ ْذ َب َع َ
عةُ۔ سا َار َج ْال ُح ُم ِر َفعَلَ ْی ِھ ْم تَقُو ُم ال َّ ار ُجونَ ِفی َھا ت َ َھ ُ اس یَتَ َھ َ النَّ ِ
حضرت نواس بن سمعان ؓ سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے ایک صبح دجال کا ذکر کیا ۔
آپ ﷺ نے اس ( کے ذکر کے دوران ) میں کبھی آواز دھیمی کی کبھی اونچی کی ۔ یہاں
تک کہ ہمیں ایسے لگا جیسے وہ کھجوروں کے جھنڈمیں موجود ہے ۔ جب شام کو ہم آپ
کے پاس ( دوبارہ ) آئے تو آپ نے ہم میں اس ( شدید تاثر ) کو بھانپ لیا ۔ آپ نے ہم سے
پوچھا " تم لوگوں کو کیا ہواہے؟ " ہم نے عرض کی ہللا کےرسول ہللا ﷺ!صبح کے وقت
آپ نے دجال کا ذکر فرمایاتو آپ کی آوازمیں ( ایسا ) اتارچڑھاؤتھا کہ ہم نے سمجھاکہ وہ
کھجوروں کے جھنڈ میں موجود ہے ۔ اس پر آپﷺنے ارشاد فرمایا " :مجھے تم لوگوں (
حاضرین ) پر دجال کے عالوہ دیگر ( جہنم کی طرف بالنے والوں ) کا زیادہ خوف ہےاگر
وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خالف (
اس کی تکذیب کے لیے ) دالئل دینے واال میں ہوں گااور اگر وہ نکال اور میں موجودنہ ہوا
تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے واالخود ہو گا اور ہللا ہر مسلمان پر میرا خلیفہ
( خود نگہبان ) ہوگا ۔ وہ گچھے دار بالوں واالایک جوان شخص ہے اس کی ایک آنکھ بے
العزی بن قطن سے تشبیہ دیتا ہوں تم میں سےٰ نور ہے ۔ میں ایک طرح سے اس کو عبد
جو اسے پائے تو اس کے سامنے سورہ کہف کی ابتدائی آیات پڑھے وہ عراق اور شام کے
درمیان ایک رستے سے نکل کر آئے گا ۔ وہ دائیں طرف بھی تباہی مچانے واال ہو گا اور
بائیں طرف بھی ۔ اے ہللا کے بندو!تم ثابت قدم رہنا ۔ " ہم نے عرض ۔ ہللا کے رسول
ہللاﷺ!زمین میں اس کی سرعت رفتار کیا ہو گی؟آپ نے فرمایا " :بادل کی طرح جس کے
پیچھے ہوا ہو ۔ وہ ایک قوم کے پاس آئے گا انھیں دعوت دے گا وہ اس پر ایمان الئیں گے
اور اس کی باتیں مانیں گے ۔ تو وہ آسمان ( کے بادل ) کو حکم دے گا ۔ وہ بارش برسائے
گا اور وہ زمین کو حکم دے گا تو وہ فصلیں اگائےگی ۔ شام کے اوقات میں ان کے جانور (
چراگاہوں سے ) واپس آئیں گے تو ان کے کوہان سب سے زیادہ اونچےاور تھن انتہائی
زیادہ بھرے ہوئے اور کوکھیں پھیلی ہوئی ہوں گی ۔ پھر ایک ( اور ) قوم کے پاس آئے گا
اور انھیں ( بھی ) دعوت دے گا ۔ وہ اس کی بات ٹھکرادیں گے ۔ وہ انھیں چھوڑ کر چال
جائے گا تووہ قحط کا شکار ہو جائیں گے ۔ ان کے مال مویشی میں سے کوئی چیز ان
کےہاتھ میں نہیں ہوگی ۔ وہ ( دجال ) بنجر زمین میں سے گزرے گا تو اس سے کہےگا
اپنے خزانے نکال تو اس ( بنجر زمین ) کے خزانے اس طرح ( نکل کر ) اس کے
پیچھےلگ جائیں گے ۔ جس طرح شہد کی مکھیوں کی رانیاں ہیں پھر وہ ایک بھر پور
جوان کو بالئے گا اور اسے تلوار ۔ مار کر ( یکبارگی ) دوحصوں میں تقسیم کردے گا
جیسے نشانہ بنایا جانے واال ہدف ( یکدم ٹکڑے ہوگیا ) ہو ۔ پھر وہ اسے بالئے گا تو وہ (
زندہ ہوکر دیکھتےہوئے چہرے کے ساتھ ہنستا ہوا آئے گا ۔ وہ ( دجال ) اسی عالم میں ہو گا
تعالی مسیح بن مریم علیہ السالم کو معبوث فرمادے گا ۔ وہ دمشق کے حصے میں ٰ جب ہللا
ایک سفید مینار کے قریب دوکیسری کپڑوں میں دوفرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے
ہوئے اتریں گے ۔ جب وہ اپنا سر جھکا ئیں گے تو قطرے گریں گے ۔ اور سر اٹھائیں گے
تو اس سے چمکتے موتیوں کی طرح پانی کی بوندیں گریں گی ۔ کسی کافر کے لیے جو
آپ کی سانس کی خوشبو پائے گا مرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہو گا ۔ اس کی سانس (
کی خوشبو ) وہاں تک پہنچے گی جہاں تک ان کی نظر جائے گی ۔ آپ علیہ السالم اسے
کےدروازے پر پائیں گے اور اسے قتل کر دیں گے ) ( Lyudiaڈھونڈیں گے تو اسے لُد
عیسی بن مریم علیہ السالم کے پاس وہ لوگ آئیں گے جنھیں ہللا نے اس ( دجالٰ ۔ پھر
کےدام میں آنے ) سے محفوظ رکھا ہو گاتووہ اپنے ہاتھ ان کے چہروں پر پھیریں گے ۔
اور انھیں جنت میں ان کے درجات کی خبردیں گے ۔ وہ اسی عالم میں ہوں گے کہ ہللا
عیسی علیہ السالم کی طرف وحی فرمائےگا میں نے اپنے ( پیدا کیے ہوئے ) بندوں ٰ تعالی
ٰ
کو باہر نکال دیا ہے ان سے جنگ کرنے کی طاقت کسی میں نہیں ۔ آپ میری بندگی کرنے
والوں کو اکٹھا کر کے طور کی طرف لے جائیں اور ہللا یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا ،وہ
ہر اونچی جگہ سے امڈتے ہوئے آئیں گے ۔ ان کے پہلے لوگ ( میٹھے پانی کی بہت بڑی
جھیل ) بحیرہ طبریہ سے گزریں گے اور اس میں جو ( پانی ) ہوگا اسے پی جائیں گے پھر
آخری لوگ گزریں گے تو کہیں گے ۔ " کبھی اس ( بحیرہ ) میں ( بھی ) پانی ہوگا ۔ ہللا کے
حتی کہ ان عیسی علیہ السالم اور ان کے ساتھی محصورہوکر رہ جائیں گے ۔ ٰٰ نبی حضرت
میں سے کسی ایک کے لیے بیل کا سراس سے بہتر ( قیمتی ) ہوگا جتنےآج تمھارے لیے
عیسی علیہ السالم اور ان کے ساتھی گڑ گڑاکر دعائیں کریں گے ٰ سودینارہیں ۔ ہللا کے نبی
تعالی ان ( یاجوج ماجوج ) پر ان کی گردنوں میں کپڑوں کا عذاب نازل کر دے گا تو ٰ تو ہللا
وہ ایک انسان کے مرنے کی طرح ( یکبارگی ) اس کا شکار ہوجائیں گے ۔ پھر ہللا کے نبی
عیسی علیہ السالم اور ان کے ساتھی اترکر ( میدانی ) زمین پر آئیں گے تو انھیں زمین میں ٰ
بالشت بھر بھی جگہ نہیں ملے گی ۔ جوان کی گندگی اور بد بو سے بھری ہوئی نہ ہو ۔ اس
تعالی
ٰ عیسی علیہ السالم اور ان کے ساتھی ہللا کے سامنے گڑگڑائیں گے تو ہللا ٰ پرحضرت
بختی اونٹوں کے جیسی لمبی گردنوں کی طرح ( کی گردنوں والے ) پرندے بھیجے گا جو
تعالی ایسی بارش بھیجے ٰ انھیں اٹھائیں گے اور جہاں ہللا چاہے گا جاپھینکیں گے ۔ پھر ہللا
گا جس سے کو ئی گھر اینٹوں کا ہو یا اون کا ( خیمہ ) اوٹ مہیا نہیں کر سکے گا ۔ وہ
زمین کو دھوکر شیشےکی طرح ( صاف ) کر چھوڑےگی ۔ پھر زمین سے کہاجائے گا ۔
اپنے پھل اگاؤاوراپنی برکت لوٹاالؤ تو اس وقت ایک انار کو پوری جماعت کھائےگی اور
اس کے چھلکے سے سایہ حاصل کرے گی اور دودھ میں ( اتنی ) برکت ڈالی جائے گی
کہ اونٹنی کا ایک دفعہ کا دودھ لوگوں کی ایک بڑی جماعت کو کافی ہو گا اور گائے
کاایک دفعہ کا دودھ لوگوں کے قبیلےکو کافی ہو گا اور بکری کا ایک دفعہ کا دودھ قبیلے
تعالی ایک عمدہ ہواٰ کی ایک شاخ کو کافی ہوگا ۔ وہ اسی عالم میں رہ رہے ہوں گے ۔ کہ ہللا
بھیجے گا وہ لوگوں کو ان کی بغلوں کے نیچے سے پکڑے گی ۔ اور ہر مومن اور ہر
مسلمان کی روح قبض کر لے گی اور بد ترین لوگ باقی رہ جائیں گے وہ وہ گدھوں کی
"طرح ( برسرعام ) آپس میں اختالط کریں گےتو انھی پر قیامت قائم ہوگی۔
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہےکہ رسول ہللاﷺ نے ہمارے ساتھ دجال کے بارے
میں لمبی گفتگو فرمائی ۔ اس میں آپ نے ہمارے سامنے جو بیان کیا اس میں ( یہ بھی ) تھا
کہ آپ نے فرمایا ":وہ آئے گا اس پرمدینہ کے راستے حرام کردیےگئے ہوں گے ۔ وہ مدینہ
سے متصل ایک نرم شوریلی زمین تک پہنچے گا اس کے پاس ایک آدمی ( مدینہ سے )
نکل کر جائے گا ۔ جولوگوں میں سے بہترین یا بہترین لوگوں میں سے ایک ہو گا اور اس
سے کہے گا ۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں رسول ہللاﷺ نے
اپنی گفتگو میں ہمیں بتایا تھا ۔ تو دجال ( اپنے ساتھ موجود لوگوں سے ) کہے ) گا تم
لوگوں کا کیا خیال ہے کہ اگر میں اس شخص کو قتل کردوں اور پھر اسے زندہ کردوں تو
کیا اس معاملے میں تمھیں کوئی شک ( باقی ) رہے گا؟وہ کہیں گے نہیں ۔ وہ اس شخص
کو قتل کرے گا اور دوبارہ زندہ کردے گا ۔ جب وہ اس شخص کو زندہ کرے گاتو وہ اس
سے کہے گا ۔ ہللا کی قسم!تمھارے بارے میں مجھے اب سے پہلے اس سے زیادہ بصیرت
کبھی حاصل نہیں تھی ۔ فرمایا :دجال اسے قتل کرنا چاہے گا لیکن اسے اس شخص پر
تسلط حاصل نہیں ہو سکے گا ۔
)مسلم حدیث نمبر ٬ 3351باب صیانة المدینة من دخول الطاعون والدجال الیھا۔۔۔۔۔(
"دجال کا حلیہ"
ہمیں احادیث مبارکہ سے دجال کا جو حلیہ اور چند دوسری معلومات معلوم ہوتی ہیں ان پر
ایک نظر ڈالتے ہیں۔
"خالصہ کالم"
ساری گفتگو کا خالصہ یہ ہے احادیث مبارکہ سے ثابت ہوا کہ دجال کا وجود انسانوں کی
طرح ہوگا۔ جتنے بھی انبیاء کرام علیہم السالم دنیا میں تشریف الئے انہوں نے اپنی امتوں
کو دجال کے فتنے سے ڈرایا اسی طرح حضورﷺ نے بھی اپنی امت کو دجال کے فتنے
سے ڈرایا ہے۔ اور اپنی امت کو اپنہ دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین
بھی فرمائی ہے۔
دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔
دجال کی موت سیدنا عیسی علیہ السالم کے ہاتھوں ہوگی۔
)اگلے سبق میں ہم مرزا قادیانی کا دجال کے بارے میں نظریئے کا جائزہ لیں گے(
جس طرح مرزا صاحب کے اکثر عقائد میں خطرناک حد تک تضاد پایا جاتا ہے۔ اسی طرح
دجال کے بارے میں مرزا صاحب کی تحریرات میں بھی اختالف ہے۔آیئے ایک دفعہ دجال
کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ دیکھتے ہیں اور پھر مرزا صاحب کے نظریئے کا
تحقیقی جائزہ لیتے ہیں۔
احادیث مبارکہ سے ثابت ہوتا ہے کہ دجال کا وجود انسانوں کی طرح ہوگا۔ جتنے بھی
انبیاء کرام علیہم السالم دنیا میں تشریف الئے انہوں نے اپنی امتوں کو دجال کے فتنے سے
ڈرایا اسی طرح حضورﷺ نے بھی اپنی امت کو دجال کے فتنے سے ڈرایا ہے۔ اور اپنی
امت کو اپنی دعاؤں میں دجال کے فتنے سے پناہ مانگنے کی تلقین بھی فرمائی ہے۔
دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔
دجال کی موت سیدنا عیسی علیہ السالم کے ہاتھوں ہوگی۔
"دجال کا حلیہ"
ہمیں احادیث مبارکہ سے دجال کا جو حلیہ اور چند دوسری معلومات معلوم ہوتی ہیں ان پر
ایک نظر ڈالتے ہیں۔
مرزا صاحب کی بعض تحریرات سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال انسان کی طرح کسی وجود
کا نام نہیں ہے بلکہ عیسائی پادریوں کا گروہ "دجال" ہے۔
دجال معہود یہی پادریوں اور عیسائی متکلموں کا گروہ ہے جس نے زمین کو اپنے "
"ساحرانہ کاموں سے تہہ باال کر دیا ہے۔
میرا مذہب یہ ہے کہ اس زمانہ کے پادریوں کی مانند کوئی اب تک دجال پیدا نہیں ہوا "
"اور نہ قیامت تک پیدا ہوگا
بپایہ ثبوت پہنچ گیا کہ مسیح دجال جس کے آنے کی انتظار تھی یہی پادریوں کا گروہ ہے "
"جو ٹڈی کی طرح دنیا میں پھیل گیا ہے۔
دجال کے معنی بجز اس کے اور کچھ نہیں کہ جو شخص دھوکہ دینے واال اور گمراہ "
کرنے واال اور خدا کے کالم کی تحریف کرنے واال ہو اس کو دجال کہتے ہیں۔ سو ظاہر
ہےکہ پادری لوگ اس کا کام میں سب سے بڑھ کر ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پس اسی وجہ سے وہ دجال
تعالی کی پیشگوئی کے مطابق دوسرے کسی دجال کو قدم رکھنے کی
ٰ اکبر ہیں اور خدا
جگہ نہیں کیونکہ لکھا ہے کہ دجال گرجا سے نکلے گا اور جس قوم میں سے ہوگا وہ قوم
"تمام دنیا میں سلطنت کرےگی۔
مرزا صاحب کا یہ نظریہ اس لحاظ سے باطل ہے کہ حدیث مبارکہ میں جس دجال کے آنے
کی خبر دی گئی ہے اور تمام انبیاء کرام علیہم السالم نے ان سے ڈرایا ہے وہ دجال
انسانوں کی طرح ایک وجود رکھتا ہے۔ وہ پہلے نبوت کا دعوی کرے گا پھر خدائی کا
دعوی کرے گا۔ جیسا کہ مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
دجال کا بھی حدیثوں میں ذکر پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں ظاہر ہوگا اور پہلے دعوی "
"نبوت کرے گا اور پھر خدائی کا دعویدار بن جائے گا۔
اب ہمارا قادیانیوں سوال ہے کہ اگر عیسائی پادریوں کا گروہ ہی دجال تھے تو ان کا پہلے
دعوی نبوت اور پھر دعوی خدائی دکھائیں کہ انہوں نے مرزا صاحب کے دور میں کب
دعوی نبوت اور دعوی خدائی کیا؟؟؟
دوسری بات یہ ہے کہ یہ پادریوں کے گروہ تو حضورﷺ کے دور میں بھی موجود تھے
اگر یہی دجال تھے تو حضورﷺ نے ان کی خبر کیوں نہیں دی؟
مرزا صاحب دجال کے بارے میں اپنا نظریہ بتاتے ہوئے یوں لکھتے ہیں کہ دجال سے
مراد بااقبال قومیں ہیں۔ مرزا صاحب کی تحریر مالحظہ فرمائیں۔
لیجئے مرزا صاحب نے بااقبال قوموں کو بھی بالدلیل ہی دجال تسلیم کر لیا۔ ہمارا قادیانیوں
سے سوال ہے کہ وہ کون سی حدیث ہے جہاں بااقبال قوموں کو دجال کہا گیا ہے؟؟؟
ایسی کوئی حدیث قیامت تک بھی نہیں ملے گی۔
مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں تیسرا نظریہ یہ تھا کہ جھوٹوں کے گروہ کو دجال
کہتے ہیں۔جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
لغت میں دجال جھوٹوں کے گروہ کو کہتے ہیں جو باطل کو حق کے ساتھ مخلوط کر "
"دیتے ہیں اور خلق ہللا کے گمراہ کرنے کے لیے مکر اور تلبیس کو کام میں التے ہیں۔
مرزا صاحب یہ جھوٹوں کے گروہ تو حضور ﷺ کے دور میں بھی موجود تھے لیکن
حضور ﷺ نے تو نہیں بتایا کہ جھوٹوں کا گروہ ہی دجال ہے۔تو مرزا صاحب کو کیسے پتہ
چل گیا؟ ؟؟
مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ شیطان کا نام ہی دجال ہے۔
واضح ہو کہ دجال کےلفظ کی دو تعبیریں کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ دجال اُس گروہ کو "
کہتے ہیں جو جھوٹ کا حامی ہو اور مکر اور فریب سے کام چالوے۔ دوسرے یہ کہ دجال
شیطان کا نام ہے جو ہر ایک جھوٹ اور فساد کا باپ ہے۔
)حقیقتہ الوحی صفحہ 313مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (326
شیطان بھی حضور ﷺ کے دور میں موجود تھا لیکن حضور ﷺ نے کبھی نہیں فرمایا کہ
شیطان ہی دجال ہے۔ ثابت ہوا مرزا صاحب کا یہ نظریہ بھی جھوٹا ہے۔
مرزا صاحب کا دجال کے بارے میں ایک نظریہ یہ بھی تھا کہ عیسائیت کے بھوت کا نام
دجال ہے۔
اس شیطان (دجال) کا نام دوسرے لفظوں میں عیسائیت کا بھوت ہے۔ یہ بھوت آنحضرت "
ﷺ کے زمانہ میں عیسائی گرجا میں قید تھا اور صرف جساسہ کے ذریعہ سے اسالمی
اخبار معلوم کرتا تھا۔ پھر قرون ثالثہ کے بعد بموجب خبر انبیاء علیہم السالم کے اس بھوت
نے رہائی پائی اور ہر روز اس کی طاقت بڑھتی گئی۔ یہاں تک کہ تیرھویں صدی ہجری
میں بڑے زور سے اس نے خروج کیا۔ اسی بھوت کا نام دجال ہے۔ جس نے سمجھنا ہو
تعالی نے سورتہ فاتحہ کے اخیر میں وال الضالین کی
ٰ سمجھ لے اور اسی بھوت سے خدا
"دعا میں ڈرایا ہے۔
ایک طرف تو مرزا صاحب عیسائیت کے بھوت کو دجال کہتے ہیں اور دوسری طرف
لکھتے ہیں کہ
یہ تحقیق شدہ امر ہے اور یہی ہمارا مذہب ہے کہ دراصل دجال شیطان کا اسم اعظم ہے۔ "
جو مقابل خدا کے اسم اعظم کے ہے۔جو ہللا الحی القیوم ہے۔اس تحقیق سے ظاہر ہے کہ نہ
حقیقی طور پر یہود کو دجال کہ سکتے ہیں۔نہ نصاری کے پادریوں کو اور نہ کسی اور
قوم کو۔کیونکہ یہ سب خدا کے عاجز بندے ہیں۔ خدا نے اپنے مقابل پر ان کو کچھ اختیار
"نہیں دیا۔ پس کسی طرح ان کا نام دجال نہیں ہوسکتا۔
)تحفہ گولڑویہ صفحہ 104مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ (269
اب مرزا صاحب کی کون سی بات سچی ہے؟ پہلی بات سچی ہے یا دوسری سچی ہے؟؟
عیسائیت کا بھوت بھی حضورﷺ کے دور میں موجود تھا لیکن اس کو بھی حضور ﷺ نے
دجال نہیں فرمایا۔ لگتا ہے مرزا صاحب کو شیطان نے یہ جھوٹی وحیاں کی ہیں۔ جن کا
کوئی ثبوت کسی مرزائی کے پاس نہیں ہے۔
دجال سے مراد صرف وہ فرقہ ہے جو کالم الہی میں تحریف کرتے ہیں۔ یا دہریہ کے "
"رنگ میں خدا سے الپرواہ ہیں۔
مرزا صاحب دہریوں کو بھی دجال کہ رہے ہیں۔ حاالنکہ دہریوں کے دجال ہونے کا ذکر
بھی کسی حدیث میں نہیں ہے۔
"دجال کی سواری"
ایک بڑی بھاری عالمت دجال کی اس کا گدھا ہے جس کے بین االذنین کا اندازہ ستر باع "
کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طوالنی ہوتا ہے اور اس میں
بھی شک نہیں کہ وہ دخان کے زور پر چلتی ہیں ہیں جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز
حرکت کرتا ہے۔ اس جگہ ہمارے نبی ﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف
اشارہ فرمایا ہے۔ چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام و مقتدا یہی دجالی گروہ
"ہے۔ اس لیے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا
ہمارا قادیانیوں کو تاقیامت چیلنج ہے کہ وہ کوئی ایسی حدیث دکھائیں جس میں حضور ﷺ
نے عیسائی پادریوں کے گروہ یا جھوٹوں کے گروہ کو دجال قرار دیا ہو یاشیطان اور
بااقبال قوموں کو دجال قرار دیا گیا ہو۔ اور ساتھ ہی ریل گاڑی کو شیطان کی سواری بھی
قرار دیا گیا ہو۔ ہمارا دعوی یہ ہے کہ قادیانی تاقیامت ایسی کوئی حدیث پیش نہیں
کرسکتے۔
اگر ہم مرزا صاحب کی تحریرات کا بغور مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ مرزا صاحب ہی
اپنی تحریرات کے مطابق دجال ہیں۔
مسلم کی حدیث نمبر 7349سے پتہ چلتا ہے کہ دجال یہودی یعنی اسرائیلی نسل سے ہوگا۔
مرزا صاحب بھی اپنے آپ کو اسرائیلی لکھتے ہیں۔ جیسا کہ مرزا صاحب نے لکھا ہے کہ
میں خدا سے وحی پاکر کہتا ہوں کہ میں بنی فارس میں سے ہوں اور بموجب اُس حدیث "
"کے جو کنز العمال میں درج ہے بنی فارس بھی بنی اسرائیل اور اہل بیت میں سے ہیں۔
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 5مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (213
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (216
یعنی مرزا صاحب حضرت اسحٰ ق علیہ السالم کی نسل سے بھی ہیں اور انکے بھائی
حضرت اسمٰ عیل علیہ السالم کی نسل سے بھی۔
لیجئے مرزا صاحب اور دجال میں ایک قدر مشترک یہ ثابت ہوئی کہ دونوں یہودی النسل
یعنی اسرائیلی ہیں۔
ابن ماجہ کی حدیث نمبر 4077میں ذکر ہے کہ دجال پہلے نبوت اور پھر خدائی کے
دعوے کرے گا۔مرزا صاحب نے بھی اس حدیث کو ذکر کیا ہے۔
دجال کا بھی حدیثوں میں ذکر پایا جاتا ہے کہ وہ دنیا میں ظاہر ہوگا اور پہلے دعوی "
"نبوت کرے گا اور پھر خدائی کا دعویدار بن جائے گا۔
مرزا صاحب نے بھی دجال کی طرح پہلے نبوت اور پھر خدائی کا دعوی کیا۔
"دعوی نبوت"
مرزا صاحب 23اپریل 1902ء کو لکھتے ہیں کہ
تعالی جب تک کہ 1
ٰ ۔"تیسری بات جو اس وحی سے ثابت ہوئی ہے ،وہ یہ ہے کہ خدا
طاعون دنیا میں رہے گا گو ستر برس تک رہے ،قادیان کو اس کی خوفناک تباہی سے
محفوظ رکھے گا کیونکہ یہ اس کے رسول کا تخت گاہ ہے اور یہ تمام امتوں کےلیے نشان
"ہے۔
"دعوی خدائی"
تو جس بات کا ارادہ کرتا ہے ،وہ تیرےحکم سےفی الفور ہو جاتی ہے۔
)حقیقت الوحی ،صفحہ 105مندرجہ روحانی خزائن جلد ،222صفحہ (108
مرزا صاحب اور دجال میں دوسری قدر مشترک یہ ہے کہ مرزا صاحب نے بھی دجال کی
طرح پہلے نبوت کا دعوی کیا اور پھر اس کے بعد خدائی کا دعوی کیا۔
مسلم کی روایت نمبر 7392سے پتہ چلتا ہے کہ دجال کے پیروکار 70ہزار یہودی ہوں
گے۔ مرزا صاحب نے بھی اس کو تسلیم کیا ہے۔
پس اس پیشگوئی کا ظہور ہے کہ جو حدیثوں میں آیا ہے کہ ستر ہزار مسلمان کہالنے "
والے دجال کے ساتھ مل جائیں گے۔اب علمائے مفکرین بتال دیں کہ یہ باتیں پوری ہوگئیں یا
"نہیں۔
اب مرزا صاحب کی لکھی گئی دجال کی انہی 3باتوں پر مرزا صاحب کو پرکھتے ہیں۔
متعدد جگہ مرزا صاحب اپنے پیروکاروں کی تعداد 70ہزار بتاتے ہیں۔مالحظہ فرمائیں۔
خداتعالی کے فضل سے ستر ہزار کے قریب بیعت کرنے والوں کا شمار پہنچ "
ٰ اس وقت
"گیا ہے۔
)نزول المسیح صفحہ 4مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ 382تا (383
جو جماعت پہلے دنوں میں چالیس آدمیوں سے بھی کم تھی آج ستر ہزار کے قریب پہنچ
"گئی
)نزول المسیح صفحہ 30مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (408
"چالیس آدمی میرے دوست تھے اور آج ستر ہزار کے قریب اُن کی تعداد ہے۔"
لیجئے مرزا صاحب کی دجال کے بارے لکھی گئی تینوں نشانیاں مرزا صاحب میں ثابت
ہوگیئں۔
۔دجال کے پیروکاروں کی تعداد بھی 70ہزار اور مرزا صاحب کے مرید بھی 70ہزار 1
ہی نکلے۔
۔مرزاصاحب نے خود اقرار کیا کہ دجال کا ساتھ دینے والے مسلمان کہالنے والے ہوں 2
گے جب کےمرزا کو ماننے والے پہلے مسلمان ہی تھے مگر مرزا (دجال ) کو مان کر
یہودی صفت ہو گئے۔
۔یہ تمام باتیں اس وقت ظہور پذیر ہوں گی جو مرزا صاحب کا وقت ہے یعنی مرزا کے 3
دور میں یہ تمام باتیں پوری ہوگیئں۔
بخاری کی حدیث نمبر 1881سے پتہ چلتا ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں
ہوسکے گا۔ جبکہ یہ نشانی مرزا صاحب میں بھی پوری ہوئی۔مرزا صاحب نے بھی اس
حدیث کو تسلیم کیا ہے۔
)ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 842مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (557
مرزا صاحب بھی ساری زندگی مکہ اور مدینہ نہ جاسکے۔ جیسا کہ مندرجہ ذیل تحریر
سے ثابت ہے۔
ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحب نے مجھ سے بیان کیا کہ مسیح موعود(مرزا قادیانی) "
"نے حج نہیں کیا۔اعتکاف نہیں کیا۔ زکوۃ نہیں دی۔ تسبیح نہیں رکھی۔
مسند احمد کی حدیث نمبر 15017میں لکھا ہے کہ دجال ایک گدھے پر سواری کرے گا
جس کے دونوں کانوں کے درمیان 40ہاتھ کا فاصلہ ہوگا۔ مرزا صاحب نے بھی اس حدیث
کو تسلیم کیا ہے۔
)ازالہ اوہام حصہ دوم صفحہ 841مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (556
ایک بڑی بھاری عالمت دجال کی اس کا گدھا ہے جس کے بین االذنین کا اندازہ ستر باع "
کیا گیا ہے اور ریل کی گاڑیوں کا اکثر اسی کے موافق سلسلہ طوالنی ہوتا ہے اور اس میں
بھی شک نہیں کہ وہ دخان کے زور پر چلتی ہیں ہیں جیسے بادل ہوا کے زور سے تیز
حرکت کرتا ہے۔ اس جگہ ہمارے نبیﷺ نے کھلے کھلے طور پر ریل گاڑی کی طرف
اشارہ فرمایا ہے۔ چونکہ یہ عیسائی قوم کا ایجاد ہے جن کا امام و مقتدا یہی دجالی گروہ
"ہے۔ اس لیے ان گاڑیوں کو دجال کا گدھا قرار دیا گیا
"ایک دفعہ ہم ریل گاڑی پر سوار تھے اور لدھیانہ کی طرف جارہے تھے کہ الہام ہوا۔"
مرزا صاحب کے بیٹے اور دوسرے قادیانی خلیفہ مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا
صاحب کے جنوری 1903ء کے جہلم کے سفر کی رویئداد یوں لکھی ہے۔
ء کے آخر میں حضرت مسیح موعود علیہ السالم پر ایک شخص کرم دین نے ازالہ "1902
عرفی کا مقدمہ کیا اور جہلم کے مقام پر عدالت میں حاضر ہونے کے لیے آپ کے نام سمن
جاری ہوا۔ چنانچہ آپ جنوری 1903ء میں وہاں تشریف لے گئے۔ یہ سفر آپ کی کامیابی
کے شروع ہونے کا پہال نشان تھا کہ گو آپ ایک فوجداری مقدمہ کی جواب دہی کے لیے
جا رہے تھے لیکن پھر بھی لوگوں کے ہجوم کا یہ حال تھا کہ اس کا کوئی اندازہ نہیں ہو
سکتا۔ جس وقت آپ جہلم کے سٹیشن پر اُترے ہیں اُس وقت وہاں اس قدر انبو ِہ کثیر تھا کہ
"پلیٹ فارم پر کھڑا ہونے کی جگہ نہ رہی تھی ۔
مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کے 2نومبر 1904ء کے سیالکوٹ کے سفر کی
رویئداد یوں لکھی ہے۔
جب لیکچر ختم ہو کر گھر کو واپس آنے لگے تو پھر بعض لوگوں نے پتھر مارنے کا "
ارادہ کیا۔لیکن پولیس نے اس مفسدہ کو بھی روکا۔لیکچر کے بعد دوسرے دن آپ واپس
تشریف لے آئے۔اور اس موقع پر بھی پولیس کے انتظام کی وجہ سے کوئی شرارت نہ
ہوسکی۔جب لوگوں نے دیکھا کہ ہمیں دکھ دینے کا کوئی موقع نہیں مال تو بعض لوگ شہر
سے کچھ دور
باہر جاکر ریل کی سڑک کے پاس کھڑے ہوگئے۔ اور چلتی ٹرین پر پتھر پھینکے۔لیکن
"اس کا نتیجہ سوائے کچھ شیشے ٹوٹ جانے کے اور کیا ہوسکتا تھا۔
مرزا بشیر الدین محمود نے مرزا صاحب کی 1908ء میں وفات کے بارے میں یوں لکھا
ہے کہ
ساڑھے دس بجے آپ فوت ہوئے۔ اُسی وقت آپ کے جسم مبارک کو قادیان میں پہنچانے "
کا انتظام کیا گیا اور شام کی گاڑی میں ایک نہایت بھاری دل کے ساتھ آپ کی جماعت نعش
"لے کرروانہ ہوئی۔
یعنی مرزا صاحب جس سواری کو دجال کی سواری کہتے تھے زندگی بھر اسی پر سفر
کرتے رہے اور موت کے بعد الش بھی دجال کی سواری پر لے جانی پڑی۔
مسلم کی حدیث نمبر 7373سے معلوم ہوتا ہے کہ دجال سیدنا عیسی علیہ السالم کا اتنا بڑا
مخالف ہوگا کہ ان کے ساتھ لڑائی کرے گا۔ اگر ہم مرزا صاحب کو دیکھیں تو انہوں نے
بھی سیدنا عیسی علیہ السالم کی مخالفت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ چند حوالہ جات
مالحظہ فرمائیں۔
اب آخر میں مختصرا مرزا صاحب اور دجال کا تقابلی جائزہ لیتے ہیں۔
۔ دجال بھی یہودی النسل ہوگا۔ مرزا صاحب بھی یہودی النسل تھے۔ 1
۔دجال پہلے نبوت کا دعوی کرے گا اور اس کے بعد خدائی کا دعوی کرے گا۔ مرزا 2
صاحب نے بھی پہلے نبوت کا دعوی کیا اور اس کے بعد خدائی کا دعوی کیا۔
۔ دجال کے ساتھیوں کی تعداد بھی 700ہزار ہوگی۔ مرزا صاحب کے مرید بھی 70ہزار 3
تھے۔
۔ دجال مکہ اور مدینہ نہیں جاسکے گا۔ مرزا صاحب بھی ساری زندگی مکہ اور مدینہ 44
نہیں جاسکے۔
۔ دجال گدھے پر سواری کرے گا۔ مرزا صاحب جس سواری کو دجال کا گدھا کہتے 55
رہے اسی پر سواری بھی کرتے رہے۔
۔ دجال سیدنا عیسی علیہ السالم کا مخالف ہوگا۔مرزا صاحب بھی سیدنا عیسی علیہ 66
السالم کی مخالفت کرتے رہے۔
لیجئے مرزا صاحب کی تحریرات کے مطابق مرزا صاحب خود ہی "دجال" ثابت ہوگئے۔
معزز قارئین اب ہم جھوٹے مدعی نبوت مرزا غالم احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں
کے کافر یعنی دائرہ اسالم سے خارج ہونے کی کچھ وجوہات بیان کرتے ہیں۔
مرزا غالم احمد قادیانی اور اس کے متبعین کافر کیوں ہیں؟اس کی وجوہات تالش کی جائیں
تو دس سے بھی زیادہ ہیں۔
تاہم اہم اور نمایاں وجوہ تکفیر درج ذیل ہیں۔
1۔"دعوی نبوت"
نبیوں کی تعداد چونکہ حضورﷺ کے تشریف النے سے مکمل ہوچکی ہے۔ لہذا نبوت کا
دروازہ حضورﷺ کے بعد بند ہے۔ اب کسی بھی انسان کو نبوت نہیں ملے گی۔
عقیدہ ختم نبوت قرآن مجید کی 99آیات اور 2100سے زائد احادیث سے ثابت ہے۔ عقیدہ
ختم نبوت کا انکار قرآن مجید اور احادیث متواترہ کا انکار ہے۔جو کہ کفر ہے۔لہذااب جو
کوئی بھی نبوت کا دعوی کرتا ہے وہ بھی کذاب اور دائرہ اسالم سے خارج ہے۔اور اسے
کے ماننے والے بھی دائرہ اسالم سے خارج ہیں۔
ذیل میں چند حوالے مالحظہ فرمائیں جن میں مرزا صاحب نے نبوت کا دعوی کیا ہے۔
”محمد رسول ہللا والذین معہ“۔۔۔۔اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول بھی۔“
"اور میں اس خدا کی قسم کھا کر کہتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اسی نے
مجھے بھیجا ہے اور اسی نے میرا نبی رکھا ہے اور اسی نے مجھے مسیح موعود کے نام
سے پکارا۔"
(تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ 68مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )503
حوالہ نمبر 3
”خدا تعالی نے آج سے چھبیس برس پہلے میرا نام براہین احمدیہ میں محمد اور احمد رکھا
ہے اور آنحضرتﷺ کا بروز مجھے قرار دیا ہے۔“
(تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ 67مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )502
”جب سن ھجری کی تیرھویں صدی ختم ہو چکی تو خدا نے چودھویں صدی کے سر پر
مجھے اپنی طرف سے مامور کر کے بھیجا اور آدم سے لے کر اخیر تک جتنے نبی گزر
چکے ہیں سب کے نام میرے نام پر رکھ دیے اور سب سے آخری نام میرا عیسی موعود
احمد اور محمد مہود رکھا اور دونوں ناموں کے ساتھ ساتھ بار بار مجھے مخاطب کیا ان
دو ناموں کو دوسرے لفظوں میں مسیح اور مہدی کر کے بیان کیا گیا۔“
”خدا تعالی نے اس بات کے ثابت کرنے کے لیے کہ میں ان کی طرف سے ہوں اس قدر
نشان دکھالۓ ہیں کہ اگر وہ ہزار نبی پر بھی تقسیم کیے جائیں تو ان کی بھی ان سے نبوت
ثابت ہو سکتی ہے۔“
سی ک ِب َک ِل َمۃ ِمنۡہُ ٭ۡ اسۡ ُمہُ الۡ َم ِسیۡ ُح ِعیۡ َ ت الۡ َم ٰلٰٓئِ َک ُۃ ٰی َمرۡیَ ُم ا َِّن ّٰ
ّللاَ یُبَش ُِر ِ اِذۡ قَالَ ِ
ابۡ ُن َمرۡیَ َم َو ِجیۡہ ًا فِی الدُّنۡیَا َو الۡ ٰا ِخ َرۃِ َو ِمنَ الۡ ُم َق َّر ِبیۡنَ ۔
ص ِل ِحیۡنَ ۔ اس فِی الۡ َمہۡ ِد َو کَہۡ ًال َّو ِمنَ ال ّٰ َو یُک َِل ُم النَّ َ
ّللاُ یَخۡلُ ُق َما یَ َ
شا ٰٓ ُء ک ّٰسسۡنِیۡ بَشَر ۡ قَا َل ک َٰذ ِل ِ کوۡ ُن ِلیۡ َولَد َّو لَمۡ یَمۡ َ قَالَتۡ َر ِ
ب اَنّٰی یَ ُ
ضی اَمۡ ًرا فَ ِانَّ َما یَقُوۡ ُل لَہ ُکنۡ فَ َی ُکوۡ ُن۔ ۡ اِذَا قَ ٰ
ان آیات سے ثابت ہوتا ہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔ اب اگر
کوئی کہے کہ سیدنا عیسی علیہ السالم کا باپ تھا تو یہ قرآن مجید کا انکار ہے جو کہ کفر
ہے۔
مرزا صاحب نے کئی جگہ اس بات کا انکار کیا ہے۔چند حوالے مالحظہ فرمائیں۔
”مفسد اور مفتری ہے وہ شخص جو مجھے کہتا ہے کہ میں عیسی ابن مریم کی عزت نہیں
کرتا بلکہ مسیح تو مسیح'میں تو اس کے چاروں بھائیوں کی عزت کرتا ہوں کیونکہ پانچوں
ایک ہی ماں کے بیٹے ہیں نہ صرف اسی قدر بلکہ میں تو مسیح کی دونوں حقیقی ہمشیروں
کو بھی مقدسہ سمجھتا ہوں کیونکہ یہ سب بزرگ مریم بتول کے پیٹ سے ہیں۔اور مریم کی
وہ شان ہے جس نے ایک مدت تک اپنے تیئں نکاح سے روکا پھر بزرگان قوم کے نہایت
اصرار سے بوجہ حمل کے نکاح کر لیا۔“
”حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیسبرس کی مدت تک نجاری کا کام
بھی کرتے رہے ہیں۔“
”یسوع مسیح کے چار بھائی اور دو بہنیں تھیں۔یہ سب یسوع کے حقیقی بھائی اور حقیقی
بہنیں تھیں یعنی سب یوسف اور مریم کی اوالد تھیں۔“
”آپ کی انہیں حرکات سے آپ کے حقیقی بھائی آپ سے ناراض تھے اور ان کو یقین تھا
کہ آپ کے دماغ میں ضرور کچھ خلل ہے اور وہ ہمیشہ چاہتے رپے کہ کسی شفا خانہ میں
آپ کا باقاعدہ عالج ہو شاید خدا تعالے شفا بخشے۔“
عیسی فوت نہیں ہوۓ شرک عظیم ہےجو نیکیوں کو کھا جانے والی چیز ہے
ؑ ”یہ کہنا کہ
اور عقل کے خالف ہے۔“
(ضمیمہ حقیقتہ الوحی صفحہ 39مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ )660
”بعد اس کے مسیح اس زمین سےپوشیدہ طور پر بھاگ کر کشمیر کی طرف آگیا اور وہیں
فوت ہوا اور تم ن چکے ہو کہ سری نگر محلہ خان یار میں اس کی قبر ہے۔“
”جب تک مجھے خدا نے اس طرف توجہ نہ دی اور بار بار نہ سمجھایا کہ تو مسیح موعود
ہے اور عیسی فوت ہو گیا ہےتب تک میں اسی عقیدہ پر قائم تھا جو تم لوگوں کا عقیدہ
ہے۔اسی وجہ سے کمال سادگی سے حضرت مسیح کے دوبارہ آنے کی نسبت براہین میں
لکھا ہے جب خدا نے مجھ پر اصل حقیقت کھول دی تو میں اس عقیدہ سے باز آگیا۔“
(ضمیمہ براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 230مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ )406
4۔*حضرت عیسی ؑ اور حضرت مریم ؑ کی شان میں ناقابل بیان گستاخیاں*
ص ٰلوۃِ َو َّ
الز ٰکوۃِ َما د ُمۡتُ َحیًّا۔ و َجعَلَنِیۡ ُم ٰب َر ًکا اَیۡنَ َما ُکنۡتُ ۡ َو اَوۡصٰ نِیۡ بِال َّ
اور جہاں بھی میں رہوں ،مجھے بابرکت بنایا ہے ،اور جب تک زندہ رہوں ،مجھے نماز
زکوۃ کا حکم دیا ہے ۔
اور ٰ
اور ( ہللا کی طرف سے ) سالمتی ہے مجھ پر اس دن بھی جب میں پیدا ہوا ،اور اس دن
بھی جس دن میں مروں گا ،اور اس دن بھی جب مجھے دوبارہ زندہ کر کے اٹھایا جائے گا
۔
مسیح ابن مریم تو ایک رسول تھے ،اس سے زیاد کچھ نہیں ،ان سے پہلے ( بھی ) بہت
سے رسول گذر چکے ہیں ،اور ان کی ماں صدیقہ تھیں ۔ یہ دونوں کھانا کھاتے تھے۔
مرزا صاحب نے سیدنا عیسی ؑ اور حضرت مریم ؑ کی شان مبارکہ میں بھی گستاخی کی
ہے۔ جو کہ کفر ہے۔مرزا صاحب کی سیدنا عیسی ؑ اور حضرت مریم ؑ کی شان مبارکہ میں
کی گئی گستاخیوں کے چند حوالے مالحظہ فرمائیں۔
”پھر تعجب ہے کہ حضرت عیسی نے خود اخالقی تعلیم پر عمل نہیں کیا۔۔۔مگر خود اس
قدر بدزبانی بڑھ گئے کہ یہودی بزرگوں کو والدالحرام تک کہہ دیا اور ہر ایک وعظ میں
یہودی علماء کو سخت گالیاں دیں اور برے برے ان کے نام رکھے۔“
”وہ صرف ایک عاجز انسان تھا اور تمام انسانی ضعفوں سے پورا حصہ رکھتا تھا اور وہ
اپنے چار بھائی حقیقی اور رکھتا تھا جو بعض اس کے مخالف تھے اور اس کی حقیقی
ہمشیرہ دو تھیں۔کمزور سا آدمی تھا جس کو صلیب پر محض دو میخوں کے ٹھوکنے سے
غش آگیا۔“
”ان میں کوئی بھی ایک ایسی خاص طاقت ثابت نہیں ہوئی جو دوسرے نبیوں میں پائی نہ
جاۓ بلکہ بعض دوسرے نبی معجزہ نمائی میں ان سے بڑھ کر تھے اور ان کی کمزوریاں
گواہی دے رہی ہیں کہ وہ محض انسان تھے۔“
” اور میں عیسی مسیح کو ہر گز ان امور میں اپنے پر کوئی زیادت نہیں دیکھتا یعنی جیسے
اس پر خدا کا کالم نازل ہوا ایسا ہی مجھ پر بھی ہوا اور جیسے اس کی نسبت معجزات
منسوب کیے جاتے ہیں میں یقینی طور پر ان معجزات کا مصداق اپنے نفس کو دیکھتا ہوں
بلکہ ان سے زیادہ۔“
”دیکھو یہ کس قدر اعتراض ہے کہ مریم کو ہیکل کی نظر کر دیا گیا تاکہ وہ ہمیشہ بیت
المقدس کی خادمہ اور تمام عمر خاوند نہ کرے لیکن جب چھ سات مہینے کا حمل نمایاں ہو
گیا تب حمل کی حالت میں ہی قوم کے بزرگوں نے مریم کا یوسف نام ایک نجار سے نکاح
کر دیا اور اس کے گھر جاتے ہی ایک دو ماہ کے بعد مریم کو بیٹا پیدا ہوا وہی عیسی یا
یسوع کے نام سے موسوم ہوا۔“
” اور جس حالت میں برسات کے دنوں میں ہزار ہا کیڑے مکوڑے خود بخود پیدا ہو جاتے
عیسی کی
ؑ ہیں اور حضرت آدم علیہ السالم بھی بغیر ماں باپ کے پیدا ہوۓ تو پھر حضرت
اس پیدائش سے کوئی بزرگی ثابت نہیں ہوتی بلکہ بغیر باپ کے پیدا ہونا بعض قوی سے
محروم ہونے پر داللت کرتا ہے۔“
عیسی شراب پیا کرتے تھے شاید کسی بیماری کی وجہ سے یا پرانی عادت کی
ؑ ”حضرت
وجہ سے۔“
(کشتی نوح صفحہ 65درحاشیہ مندرجہ روحانی خزائن جلد 19صفحہ )71
”آپ کا خاندان بھی نہایت پاک اور مطہر ہے۔تین دادیاں اور نانیاں آپ کی زنا کار اور
کسبی عورتیں تھیں جن کے خون سے آپ کا وجود ظہور پذیر ہوا۔“
(ضمیمہ انجام آتھم حاشیہ 7مندرجہ روحانی خزائن جلد 11صفحہ )291
حضور اکرم ﷺ کی ادنی سی توہین نعوذ باہلل قرآن مجید کی بھی توہین ہے۔ اور کفر ہے۔
جو شخص آنحضرت ﷺ کی شان میں کوئی ایسا کلمہ زبان پر الئے گا جس سے آپ ﷺ کی
ہتک ہو وہ حرامی نہیں تو اور کیا ہے۔
مرزا غالم احمد قادیانی نے جہاں اور انبیاء کرام علیہم السالم کی شان میں گستاخیاں کی
ہیں وہاں حضور اکرم ﷺ کی شان میں بھی بدترین گستاخیاں کی ہیں۔ چند حوالے مالحظہ
فرمائیں۔
خدا تعالی نے آنحضرتﷺ کے چھپانے کے لیے ایک ایسی ذلیل جگہ تجویز کی جو ”
“نہایت متعفن تنگ اور تاریک اور حشرات االرض کی نجاست کی جگہ تھی۔
)تحفہ گولڑیہ صفحہ 70مندرجہ روحانی خزائن جلد19صفحہ (295
پھر اسی کتاب میں اس مکالمہ کے قریب ہی یہ وحی ہے *”محمد رسول ہللا والذین معہ
اشدآء علی الکفار رحمآء بینھم“* اس وحی الہی میں میرا نام محمد رکھا گیا اور رسول
“بھی۔
)ایک غلطی کا ازالہ صفحہ 3مندرجہ روحانی خزائن جلد 18صفحہ (207
میں آدم ہوں،میں نوح ہوں،میں ابراھیم ہوں،میں اسحاق ہوں،میں یعقوب ہوں،میں اسماعیل ”
“ہوں،میں موسی ہوں،میں داٶد ہوں،میں عیسی ابن مریم ہوں،میں محمدﷺ ہوں۔
کریم)کے لیے چاند کا خسوف ظاہر ہوا اور میرے لیے چاند اور سورج دونوں ”
ؐ اس(نبی
“کا۔اب کیا تو انکار کرے گا۔
)تتمہ حقیقتہ الوحی صفحہ 137مندرجہ روحانی خزائن جلد 22صفحہ (575
)براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 99مندرجہ روحانی خزائن جلد 21صفحہ (99
یہ بلکل صحیح بات ہے کہ ہر شخص ترقی کر سکتا ہے اور بڑے سے بڑا درجہ پاسکتا ”
“ہے حتی کہ محمد رسول ہللاﷺ سے آگے بھی بڑھ سکتا ہے۔
مرزا محمود کی ڈائری مندرجہ اخبار الفضل قادیان نمبر 5جلد 10مورخہ17جوالئی (
)1922ء
مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد (ایم اے) نے لکھا ہے کہ
ہر ایک نبی کو اپنی استعداد اور تعداد کے مطابق کماالت عطا ہوتے تھے۔کسی کو بہت ”
محمدیہ
ؐ کسی کو کم۔مگر مسیح موعود(مرزا قادیانی)کو تب نبوت ملی جب اس نے نبوت
کے تمام کماالت کو حاصل کر لیا اور اس قابل ہو گیا کہ ظلی نبی کہالۓپس ظلی نبی نے
مسیح موعود کے قدم کو پیچھے نہیں ہٹایا بلکہ آگے بڑھایا اور اس قدر آگے بڑھایا کہ نبی
“کریم کے پہلو بہ پہلو ال کر کھڑا کر دیا۔
ؐ
مرزا صاحب کے بیٹے مرزا بشیر احمد (ایم اے) نے لکھا ہے کہ
پس اب کیا یہ پرلے درجے کی بے غیرتی نہیں کہ جہاں ہم *”ال نفرق بین احد من ”
رسلہ“* میں داٶد اور سیلمان،زکریا اور یحیی علیھم السالم کو شامل کرتے ہیں وہاں مسیح
“موعود جیسے عظیم الشان نبی کو چھوڑ دیا جاۓ۔
) کلمتہ الفصل(117
ہللا ٰ
تعالی نے اپنے انبیاء کرام علیہم السالم کو بہت سے معجزات دیئے ہیں جن کا انکار ان
انبیاء کرام علیہم السالم کے مخالفین ہر دور میں کرتے رہے ہیں۔سیدنا عیسی علیہ السالم
تعالی نے بہت سے معجزات عطا فرمائے تھے جن کا ذکر قرآن مجید کی درج کو بھی ہللا ٰ
ذیل آیات میں بھی ہے۔ مرزا صاحب نے ان معجزات کا بھی انکار ہے جو دراصل قرآن کا
انکار ہے اور کفر ہے۔
کمۡ ۡ کمۡ بِ ٰایَۃ ِمنۡ َّر ِب ُ سوۡ ًال ا ِٰلی َبنِیۡۡ اِسۡ َرآٰ ِءیۡ َل ۡ ۡ ا َ ِنیۡ قَدۡ ِجئۡت ُ ُ َو َر ُ
طیۡ ًرۡا الطیۡ ِر فَاَنۡفُ ُخ ِفیۡ ِہ َف َی ُکوۡ ُن َ الطیۡ ِن َک َہیۡئ َ ِۃ َّ
کمۡ ِمنَ ِ ا َ ِنیۡۡ اَخۡلُ ُق لَ ُ
ی الۡ َموۡ ٰتی ِباِذۡ ِن ّٰ
ّللاِ ۡ َو ص َو اُحۡ ِ ئ الۡاَکۡ َم َہ َو الۡاَبۡ َر َ ّللاِ ۡ َو اُبۡ ِر ُ ِباِذۡ ِن ّٰ
کمۡ اِنۡ کمۡ ۡ ا َِّن فِیۡ ٰذ ِل َ
ک َ ٰالیَ ًۃ لَّ ُ کمۡ ِب َما تَاۡ ُکلُوۡنَ َو َما تَد َِّخ ُروۡنَ ۡ فِیۡ بُیُوۡ ِت ُ اُنَبِئ ُ ُ
ُکنۡتُمۡ ُّم ٔوۡ ِمنِیۡنَ ۔
اور (عیسی علیہ السالم کو)بنی اسرائیل کے پاس رسول بنا کربھیجے گا ( جو لوگوں سے
یہ کہے گا ) کہ :میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لے کر آیا ہوں
( ،اور وہ نشانی یہ ہے ) کہ میں تمہارے سامنے گارے سے پرندے جیسی ایک شکل بناتا
ہوں ،پھر اس میں پھونک مارتا ہوں ،تو وہ ہللا کے حکم سے پرندہ بن جاتا ہے ،اور میں
ہللا کے حکم سے مادر زاد اندھے اور کوڑھی کو تندرست کردیتا ہوں ،اور مردوں کو
زندہ کردیتا ہوں ،اور تم لوگ جو کچھ اپنے گھروں میں کھاتے یا ذخیرہ کر کے رکھتے ہو
میں ہو سب بتا دیتا ہوں ۔اگر تم ایمان النے والے ہو تو ان تمام باتوں میں تمہارے لیے (
کافی ) نشانی ہے ۔
)ضمیمہ انجام آتھم در حاشیہ صفحہ 6مندرجہ روحانی خزائن جلد 1 1صفحہ (290
)ازالہ اوہام حصہ اول در حاشیہ صفحہ 221مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (263
حوالہ نمبر 3
غرض یہ اعتقاد بلکل غلط فاسد اور مشرکانہ خیال ہے کہ مسیح مٹی کے پرندے بنا کر ”
ان میں پھونک مار کر انہیں سچ مچ کے جانور بنا دیتا تھا نہیں صرف عمل الترب تھا جو
“روح کی قوت سے ترقی پذیر ہو گیا تھا۔
)ازالہ اوہام حصہ اول در حاشیہ صفحہ 221مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (263
اور چونکہ قرآن مجید اکثر استعارات سے بھرا ہوا ہےاس لیے ان آیات کے روحانی ”
طور پر معنی بھی کر سکتے ہیں کہ مٹی کی چڑیوں سے مراد وہ امی اور نادان لوگ ہیں
جن کو حضرت عیسی نے اپنا رفیق بنایا گویا اپنی صحبت میں لے کر پرندوں کی صورت
“کا خاکہ کھنیچا پھر ہدایت کی روح ان میں پھونک دی جس سے وہ پرواز کرنے لگے۔
)ازالہ اوہام حاشیہ صفحہ 155مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (255
سو کچھ تعجب کی جگہ نہیں کہ خدا تعالی نے حضرت مسیح کو عقلی طور سے ایسے ”
طریق پر اطالع دے دی ہو جو ایک مٹی کا کھلونا کسی کل کے دبانے یا کسی پھونک
مارنے کے طور پر ایسا پرواز کرتا ہو جیسے پرندہ پرواز کرتا ہے یا اگر پرواز نہیں تو
پیروں سے چلتا ہو کیونکہ حضرت مسیح ابن مریم اپنے باپ یوسف کے ساتھ بائیس برس
کی مدت تک نجکاری کا کام بھی کرتے رہے ہیں اور ظاہر بات ہے کہ بڑھی کا کام
درحقیقت ایک ایسا کام ہے جس میں کلوں کے ایجاد کرنے اور طرح طرح کی صنعتوں
“کے بنانے میں عقل تیز ہو جاتی ہے۔
)ازالہ اوہام حاشیہ صفحہ 154مندرجہ روحانی خزائن جلد 3صفحہ (254
حوالہ نمبر 6
یہ بھی ممکن ہے مسیح ایسے کام کے لیےاس تاالب کی مٹی التا تھا جس میں روح ”
القدس کی تاثیر رکھی گئی تھی۔بہرحال یہ معجزہ(پرندے بنا کر اڑانے کا)صرف ایک کھیل
“کی قسم میں سے تھااور وہ مٹی در حقیقت ایک مٹی ہی رہتی تھی۔
کمۡ ۡ َو َعسٰ ی اَنۡ تَکۡ َرہ ُوۡا شَیۡئًا َّو ہ َُو خَیۡر علَیۡ ُک ُم الۡ ِقتَا ُل َو ہ َُو ُکرۡہ لَّ ُ ُکتِ َ
ب َ
ّللاُ َیعۡلَ ُم َو اَنۡتُمۡ َال تَعۡلَ ُموۡن۔ عسٰ ی اَنۡ ت ُ ِحبُّوۡا شَیۡئًا َّو ہ َُو ش ٌَّر لَّ ُ
کمۡ ۡ َو ّٰ کمۡ ۡ َو َ لَّ ُ
تم پر ( دشمنوں سے ) جنگ کرنا فرض کیا گیا ہے ،اور وہ تم پر گراں ہے ،اور یہ عین
ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو برا سمجھو حاالنکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو ،اور یہ بھی
ممکن ہے کہ تم ایک چیز کو پسند کرو ،حاالنکہ وہ تمہارے حق میں بری ہو ،اور ( اصل
حقیقت تو ) ہللا جانتا ہے ،اور تم نہیں جانتے ۔
حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا جہاد
جاری رہے گا جس دن سے ہللا نے مجھے نبی بنا کر بھیجا ہے یہاں تک کہ میری امت کا
آخری شخص دجال سے لڑے گا ،کسی بھی ظالم کا ظلم ،یا عادل کا عدل اسے باطل نہیں
کر سکتا۔
)ابوداؤد حدیث نمبر (2532
قرآن مجید کی آیت اور حدیث مبارکہ سے معلوم ہوا کہ جہاد یوم القیامت تک جاری رہے گا
یعنی جس وقت تک دنیا میں طاغوتی طاقتیں موجود ہیں اس وقت تک جہاد جاری رہے
عیسی کے نزول جب باطل اور طاغوتی طاقتیں ختم ہو جائیں گی۔پھر جہادؑ گا۔جب حضرت
بھی ختم ہو جاۓ گا کیونکہ جہاد ہوتا ہے اہل باطل سےجب کہ اس وقت کفار کا خاتمہ ہو
جاۓ گا۔
انگریز کے اشارے پر مرزا صاحب نے مسلمانوں سے جذبہ جہاد کو ختم کرنے کے لئے
جہاد کے حرام ہونے کا اعالن کیا،یہ کفر ہے۔
آج سے دین کے لیے لڑنا حرام کیا گیا اب اس کے بعد جو دین کے لیے تلوار اٹھاتا ہے ”
“اور غازی نام رکھ کر کافروں کو قتل کرتا ہے وہ خدا اور اس کے رسول کا نافرمان ہے۔
میں یقین رکھتا ہوں کہ جیسے جیسے میرے مریض بڑھیں گے ویسے ویسے مسئلہ جہاد ”
کے معتقد کم ہوتے جائیں گے کیونکہ مجھے مسیح اور مہدی مان لینا ہی مسئلہ جہاد کا
“انکار کرنا ہے۔
)مجموعہ اشتہارات جلد سوم صفحہ 19طبع قدیم،طبع جدید جلد ،2صفحہ (196
)ضمیمہ تحفہ گولڑیہ صفحہ 42مندرجہ روحانی خزائن جلد 17صفحہ (77،78
حضورﷺ نے فرمایا
سلَّ َم :أَیُّ َما َر ُجل ُم ْس ِلم أ َ ْكفَ َر َر ُج ًال ُم ْس ِل ًما ،فَإ ِ ْن
علَ ْی ِه َو َ صلَّى َّ
ّللاُ َ سو ُل َّ
ّللاِ َ ع َم َر ،قَا َل :قَا َل َر ُ ع ْن اب ِْن َُ
ْ
َ .كانَ َكافِ ًرا َو ِإ َّال َكانَ ُھ َو ال َكافِ ُر
حضرت ابن عمر رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا :جو مسلمان
کسی مسلمان کو کافر قرار دے تو اگر وہ کافر ہے ( تو کوئی بات نہیں ) ورنہ وہ ( قائل )
خود کافر ہو جائے گا ۔
)ابوداؤد حدیث نمبر (4687
حضور ﷺ نے ایک قانون بیان فرمایا کہ جو شخص کسی مسلمان کو کافر کہتا ہے تو اگر
تو وہ کافر ہے تو کوئی بات نہیں لیکن اگر وہ کافر نہیں تو کہنے واال خود کافر ہوجاتا ہے۔
چاہے وہ کہنے واال مسلمان ہی کیوں نہ ہو۔ مرزا صاحب اور قادیانی جماعت مسلمانوں کو
کافر قرار دیتی ہے۔ ذیل میں چند حوالے مالحظہ فرمائیں۔
“جو میرے مخالف تھے ان کا نام عیسائی اور یہودی اور مشرک رکھا گیا ہے۔”
خدا تعالی نے میرے پر ظاہر کیا ہے کہ ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی اور ”
“اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے۔
کل مسلمان جو حضرت مسیح موعود(مرزا قادیانی)کی بیعت میں شامل نہیں ہوۓ خواہ ”
انہوں نے مسیح موعود (مرزا قادیانی) کا نام بھی نہیں سنا وہ کافر اور دائرہ اسالم سے
“خارج ہیں۔
عیسی کو مانتا ”
ؑ عیسی کو نہیں مانتا یا
ؑ موسی کو تو مانتا ہے مگر
ؑ ہر ایک ایسا شخص جو
ہے مگر محمدﷺ کو نہیں مانتا اور یا محمدﷺ کو مانتا ہے پر مسیح موعود(مرزا قادیانی)کو
“نہیں مانتا وہ نہ صرف کافر بلکہ پکا کافر اور دائرہ اسالم سے خارج ہے۔