Professional Documents
Culture Documents
Q & Ans
Q & Ans
India
174304 # سوال
حضرت مفتی صاحب امید ہے کہ آپ خیریت سے ہوں گے حضرت دراصل
مسئلہ اس طرح ہے کہ میں اپنے حافظے کی کمزوری کو محسوس کررہا
ہوں ۔اور اپنی صحت کو دن بدن کمزور ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ آپ دعا فرمائیں
نسخہ
ٴ کہ ہللا رب العالمین مجھے تندرستی عطا فرمائے اور مزید کوئی طبی
یہ پھر کوئی وظیفہ عنایت فرمائیں۔ خیرا
Published on: Nov 10, 2019
174304 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 258-185/B=03/1441
گناہوں سے بچنے کی کوشش کریں ،ہر فرض نماز کے بعد داہنا ہاتھ سر پر
رکھ کر ” َیا قَ ِوی“ /11مرتبہ پڑھ لیا کریں۔ اور خمیرہ گاوزباں عنبری جواہر
واال خاص ہمدرد کمپنی لے لیں اور خمیرہ ابریشم حکیم ارشد واال لے لیں۔
دونوں برابر مقدار میں مالکر صبح کو /۵گرام پانی سے کھا لیا کریں ،دماغ
میں جسم میں طاقت رہے گی۔ ہم آپ کی صحت و تندرستی اور طاقت و
توانائی کے لئے دل سے دعا کرتے ہیں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
تفرقات -تصوف
Pakistan
172426 # سوال
میں بہت ہی پریشان ہوں ،بہت ہی غلط عادت میں مبتال ہوں ،ہاتھ سے اپنی
زندگی تباہ کررہا ہوں ،توبہ بھی کررہاہوں ،لیکن پھر توبہ ٹوٹ جاتی ہے ،
آپ میرے لیے دعا کریں کہ ہللا مجھ سے یہ غلط عادت چھڑائے ،میں بہت
زیادہ بیمار ہوں ،لیکن پھر بھی مجھ سے یہ نہیں چھوٹ رہی ہے ،آپ میرے
لیے خصوصی دعا کریں ۔ ہللا اآپ کے ایمان اور اخالص کو اور بھی
مضبوط فرمائے ،آمین۔
Published on: Sep 5, 2019
172426 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa:1426-1230/l=1/1441
مشت زنی کرنا حرام ہے اور کسی بھی گناہ کو ترک کرنے کے لیے سب
سے پہلے ہمت کرنی پڑتی ہے ؛اس لیے آپ ہمت سے کام لیں گو یہ نفس پر
شاق گزرے اور اگر اس طرح کا خیال آئے تو ہللا کے وعیدوں کا استحضار
کریں اور فارغ اوقات کو ذکر وتالوت وغیرہ میں مشغول رکھا کریں
؛کیونکہ آدمی جب ذکر وغیرہ سے غافل ہوتا ہے اسی وقت شیطان اس پر
مسلط ہوجاتا ہے ،اگر آپ ان چیزوں پر عمل کرلیتے ہیں تو ان شاء ہللا مشت
زنی اور دیگر گناہوں سے بچنا آسان ہوجائے گا ۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
متفرقات -تصوف
Saudi Arabia
171694 # سوال
جناب سوال یہ ہے کہ مجھے ہر وقت ایسا لگتا ہے کہ میں کافر ہوا ہوں اور
تعالی اور
ٰ پھر فورا ً بعد میں کلمہ طیبہ کی ورد کرتا ہوں اس کے عالوہ ہللا
محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے بارے میں بھی بہت غلط وساوس آتے ہیں جو
میں زبان سے بیان نہیں کر سکتا حاالنکہ میں نماز اور روزانہ تالوت قرآن
پاک بھی کرتا ہوں علماء کے بیانات بھی سنتا ہوں لیکن پھر بھی وساوس
آتے ہیں ،اب میں کیا کروں کیا یہ عالمات ایمان کی کمزوری ہے تفصیل
سے بیان کیا جائے ۔
Published on: Jul 25, 2019
171694 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 1108-969/D=11/1440
وفی حدیث آخر :إنا نجد فی أنفسنا ما یتعاظم أحدنا أن یتکلم بہ ،قال :أو قد
وجدتموہ؟ قالوا نعم! قال :ذاک صریح االیمان ۔ ترجمہ :ہمارے دل میں ایسے
خیاالت آتے ہیں جس کا زبان پر النا ہم بہت بڑی بات سمجھتے ہیں ،
آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا :یہ بات تو صاف ایمان کی دلیل ہے
(مشکاة ،ص)1۸ :
اس طرح وساوس اگر حدیث النفس کے طور پر ہیں تو وہ معاف ہیں۔
لقولہ علیہ السالم :إن ہللا تجاوز عن أمتی ما وسوست بہ صدورہا مالم تعمل
بہ أو تتکلم ۔ ترجمہ :آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا :بالشبہ
ہللا تعالی نے ان باتوں کو میری امت سے معاف فرما دیا جو وسوسے کے
طور پر ان کے دلوں میں آتی ہیں جب تک ان پر عمل نہ ہو یا زبان سے نہ
کہے۔ متفق علیہ۔ (مشکاة ،ص)1۸ :
وساوس کا آنا خود ایمان کی دلیل ہے :الن اللص الیدخل البیت الخالی قال فی
الہندیة :من خطر بقلبہ مایوجب الکفر ،إن تکلم بہ ،وہو کارہ لذالک ،فذالک
محض االیمان ۔ (ص)2/2۸3 :
ترجمہ :جس کے دل میں ایسے خیاالت آئیں کہ ان کا زبان پر النا کفر ہے ،
مگر یہ شخص ان بُرے خیاالت کو ناپسند کرتا ہو تو یہ صاف ایمان کی
عالمت ہے۔ ٰلہذا آپ مطمئن رہیں ان وساوس کی طرف دھیان نہ دیں اعمال
صالحہ میں کوشش کریں برائیوں سے بچیں خالی اوقات کو مباح اور نیکی
کے کاموں میں مصروف رکھیں ،الیعنی سے پرہیز کریں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
متفرقات -تصوف
United States
174759 # سوال
میری عمر 30سے زیادہ ہے جب میں 16سال کا تھا تب سے ایسا ہو رہا
ہے اور اس پہ میرا کوئی اختیار بھی نہیں ہے میں چاہتا ہوں آپ کوئی میری
رہنمائی کریں میرے ذہن میں اکثر اپنی بہن سے زنا کرنے کا خیال آتے ہیں
کئی بار وہ مجھ سے بال بال بچی میں سونے کے دوران اس کو چھیڑتا تھا
جب وہ نیند میں ہوتی تھی ایک بار تو میں زنا کرنے ہی لگا تھا لیکن اس کی
آنکھ کھل گئی اور بچ بچا ہو گیا اب ہم دونوں شادی شدہ ہیں لیکن میرے ذہنی
خیال اپنی جگہ موجود ہیں اس کا کوئی حل بتائیں مسلک ک لحاظ سے میں
سنی ہو امام ابو حنیفہ کو مانتا ہوں۔
Published on: Nov 2, 2019
174759 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 205-141/B=02/1441
آپ کا یہ خیال شیطانی خیال ہے۔ اپنی سگی بہن سے چھیڑ خوانی نہ کرنے
کا عزم مصمم کرلیں ،اور بہن سے بہت دور کسی جگہ رہیں۔ اور کثرت
ع ْوذُ ِب َ
ک َربّ ِ اطی ِْن َوا َ ُ ت ال َّ
ش َی ِ ع ْوذُ ِب َ
ک ِم ْن ہ َ َمزَ ا ِ سے یہ دعا پڑھتے رہیں۔ َربّ ِ ا َ ُ
ض ُر ْون ۔ ہللا تعالی آپ کو ناپاک خیاالت اور وسوسوں سے دور رکھے۔ ْ
أن ی َّْح ُ
آمین ۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
متفرقات -دعاء و استغفار
Pakistan
174202 # سوال
میری زندگی میں ہر وقت مشکالت اور اہم کاموں کے پورا ہونے میں
رکاوٹیں رہتی ہیں ،اس لیے میں سخت پریشان ہوں ۔براہ کرم ،میرے لیے
وظیفہ بتا دیں ۔
Published on: Nov 13, 2019
174202 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa:203-177/L=3/1441
آپ نمازوں کی پابندی کریں ،تالوت کا اہتمام کریں ،فجر بعد سورہ یس
،مغرب بعد سورہ واقعہ اور عشا بعد سورہ ملک کی تالوت کرلیا کریں ان
شاء ہللا اس سے بے حد فائدہ ہوگا ۔واضح رہے کہ مومن کو اگر کوئی تکلیف
وغیرہ پہونچے تو اس پر اسے صبر کرنا چاہیے ،اس طرح کی پریشانیاں
اور اس پر صبر ترقی درجات کا باعث ہیں ؛لہذا اس پر نہ توناامیدہونا چاہیے
اور نہ ہی گھبرانا چاہیے ۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
متفرقات -دعاء و استغفار
India
173592 # سوال
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم پر سالم کس طرح پڑنا چاہیے ؟ قرآن مے ہللا
نے نبی پر درود و سالم پڑھنے کا حکم دیا ہے ؟ کیا اجتماعی سالم پڑھنے
کو بدت حسنہ کہا جا سکتا ہے ؟ کیااذان کے وقت قرآن پڑھا جا سکتا ہے اگر
پہلے پڑھا جا رہا ہوتو؟ ایک حنفی صاحب کبھی کبار وقتیا طور پررفع یدین
کرتے ہیں نماز کے اندر۔ کیا ایسا کرنا ٹھیک ہے ؟
Published on: Oct 15, 2019
173592 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 126-104/H=02/1441
( )1صالة و سالم کے وہ صیغے جو آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے ثابت ہیں
ان کو پڑھنے کا اہتمام کرنا چاہئے۔ وہ فضائل درود شریف میں موجود ہیں۔
( )2جی ہاں ہللا نے قرآن میں نبی صلی ہللا علیہ وسلم پر درود و سالم
پڑھنے کا حکم دیا ہے۔
( )۵حنفی صاحب رفع یدین کن مواقع میں کرتے ہیں اور کیوں کرتے ہیں
خود ان ہی کے قلم سے لکھواکر بھیجیں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
Saudi Arabia
173525 # سوال
قاب ِل احترام علماء کرام۔ عبد ہللا کہتا ہے کہ دعوت کی اصال دو قسمیں ہیں۔
اول بال واسطہ دعوت ،دوم بواسطہ دعوت۔ پھر بال واسطہ دعوت کی دو
قسمیں نظر ہیں ،ایک قولی ،دوسری عملی۔ اور بواسطہ دعوت کی بھی دو
قسمیں نظر ہیں ،ایک بذریعہ مکلف ،دوسری بذریعہ غیر مکلف۔ اس اعتبار
قرآن
ِ سے دعوت کی چار قسمیں بنتی ہیں۔ پہلی قسم بالواسطہ قولی دعوت۔
کریم میں دعوت دینے کا اصل طریقہ یہی ملتا ہے ۔ چنانچہ انبیاء علیہم
السالم اپنی اقوام کو بالواسطہ خطاب فرماتے تھے ،جیسے سورة االعراف،
سورة ھود ،سورة الشعراء ،وغیرہ میں حضرات نوح ،ھود ،صالح ،لوط،
شعیب علیہم السالم کا تذکرہ ہے ۔ اذ قال لقومہ ،یا قوم ،وغیرہ کے الفاظ،
بالواسطہ خطاب پر دال ہیں۔ ایسے ہی حضرت ابراہیم علیہ السالم کا اپنے
والد کو خطاب سورة مریم میں ،حضرت یوسف علیہ السالم کا جیل میں دو
قیدیوں کو خطاب سورة یوسف میں ،اور حضرت موسٰ ی علیہ السالم کا
فرعون و بنی اسرائیل کو خطاب ،سورة طہ ،سورة القصص ،سورة ابراہیم،
وغیرہ میں مذکور ہیں۔ ایسے ہی ٰال فرعون کے مر ِد ٴ
مومن کا اپنی قوم کو
المومن میں ،حبیب نجار کا اپنی قوم کو خطاب سورة یس میں، خطاب سورة ٴ
اصحاب الجنتین کے ساتھی کا خطاب سورة الکہف میں ،اور جنوں کی
جماعت کا خطاب سورة االحقاف اور سورة الجن میں مذکور ہے ۔ دوسری
قسم بالواسطہ عملی دعوت۔ عبد ہللا اس آیت سے استدالل کرتا ہے ۔ ومن
احسن قوال ممن دعا الی ہللا و عمل صالحا۔ اس سے بظاہر ایسے معلوم ہوتا
ہے کہ عم ِل صالح ،قولی دعوت میں معین ہے ،جبکہ اصل قولی دعوت ہی
تعالی احسن قوال ممن دعا الی ہللا۔ تیسری قسم دعوت بواسطہ ہے ،لقولہ ٰ
مکلف۔ مکلف میں انسان بھی شامل ہیں اور جن بھی۔ اصل میں نبی صلی ہللا
علیہ و سلم انذار بالقرآن پر مامور تھے ،جیسے کہ سورة االنعام کی آیت 19
سے معلوم ہوتا ہے ۔ لیکن منذر ہونے کے لئے نبی ہونا ضروری نہیں ،بلکہ
قرآن کا علم ضروری ہے ،جو نبی صلی ہللا علیہ و سلم کو وحی کے
ذریعے سے ہوا ،اور امت کو استماع کے ذریعے سے ۔ چنانچہ سورة
االحقاف میں جنات کی جماعت کے ذکر میں یہی بات ملتی ہے کہ استماعِ
قرآن کے بعد منذر بن کر لوٹے ۔ اور نبی صلی ہللا علیہ و سلم کا صحابہ
رضی ہللا عنہم کو مختلف عالقوں میں بھیجنا بھی اسی قسم میں داخل ہے ۔
اور یہ قسم دراصل بال واسطہ دعوت کے بہت مشابہ ہے ،کہ نبی صلی ہللا
علیہ و سلم کے نمائندوں نے آپ صلی ہللا علیہ و سلم کی نیابت میں بالواسطہ
دعوت دی۔ چوتھی قسم دعوت بواسطہ غیر مکلف۔ عبد ہللا کہتا ہے کہ اس
سے اس کی مراد پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے دعوت دینا ہے ۔ اس
قسم کی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السالم نے ہدہد کے
قوم سبا کی ملکہ کو خط بھیجا۔ لیکن اس واقعہ میں تین باتیںذریعے سے ِ
غور طلب معلوم ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ ایک مسلم ملک کے سربراہ نے خط
بھیجا۔ دوم یہ کہ ایک غیر مسلم ریاست کے سربراہ کے پاس بھیجا۔ سوم یہ
کہ دین کا درد رکھنے والے کے ذریعے بھیجا۔ بظاہر یہی نظر آتا ہے کہ یہ
تینوں شرائط پرنٹ و الیکٹرونک میڈیا میں نہیں پائی جاتی ہیں۔ اس لئے میڈیا
کے ذریعے دعوت اگرچہ نافع ہے ،لیکن ذمہ داری پوری کرنے کے لئے
کافی نہیں۔ بندہ کا سوال یہ ہے کہ عبد ہللا نے جو یہ دعوت کی اقسام بیان کی
ہیں ،اور قولی دعوت کو باقی اقسام پر ترجیح دی ہے ،کیا درست ہے ،یا
قاب ِل اصالح؟
Published on: Oct 21, 2019
173525 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa:61-13T/sn=2/1441
سوال میں جو تفصیالت لکھی گئی ہیں یہ غیر ضروری موشگافیاں ہیں،
اسالم میں دعوت کا کوئی خاص طریقہ متعین نہیں ہے اور نہ ہی بعض
طریقوں کو بعض پر من حیث الطریقہ علی االطالق فوقیت حاصل ہے،
ہمارے نبی محمد صلی ہللا علیہ وسلم نے قوال بھی دعوت دی اور عمال
بھی،نیز دعوت کے لیے حسب ضرورت خطوط وغیرہ کا بھی سہارا لیا۔ آیت
کریمہ لقد کان لکم فی رسول ہللا أسوة حسنة ،اسی طرح حدیث نبوی :من
رأی منکرا فاستطاع أن یغیرہ بیدہ فلیغیرہ بیدہ ،فإن لم یستطع فبلسانہ ،فإن لم
یستطع فبقلبہ ،وذلک أضعف اإلیمان(سنن أبی داود ،رقم )1140 :اسی طرح
حدیث نبوی :صلوا کما رأیتمونی أصلی وغیرہ میں اچھی طرح غور کرنے
سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی خاص طریقہ مثال قولی دعوت کو علی االطالق
فوقیت دینا درست نہیں ہے ؛ بلکہ حسب موقع جو طریقہ زیادہ مفید ہو وہی
دوسرے پر فائق رہے گا۔
رہا پرنٹ اور الکٹرانک میڈیا تو انھیں بھی حسب ضرورت دعوت کے لیے
استعمال کیا جا سکتا ہے ،بس شرط یہ ہے کہ طریقہ مباح ہو ،جاندار کی
تصاویر سازی وغیرہ کا ارتکاب نہ کیا جائے ۔ دعوت سے متعلق نصوص
کے عموم میں آج کے میڈیا بھی شامل ہوسکتے ہیں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
173355 # سوال
میں ایک ضروری مسئلہ دریافت کرنا چاھتا ہوں۔میں نے کئی مرتبہ تبلیغی
حضرات کو یہ کہتے ہوے سنا کہ "حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص اس دنیا
سے رائے کے دانے کے برابر بھی ایمان بچا کر لیجای?گا ہللا تعالی اسے
اس دنیا سے دس گنا بڑی جنت عطا فرمائیں گے " ایک مرتبہ میں بھی
جماعت میں تھا تو ہمارے ایک ساتھی نے بھی یہ حدیث بیان کردی۔جس
ایک صاحب کہنے لگے کہ یہ حدیث نہیں ہے ۔ یہ تو تبلیغ والے ایک
دوسرے کی سنا سنی بیان کرنے لگے ۔ اب برائے کرم مسئلہ حل فرما ئیں
کہ کیا واقعی یہ حدیث نہیں ہے .؟ یا حدیث تو ہے پر "دس گنا" کی قید نہیں؟
یا یہ کسی صحابی وغیرہ کی تحقیق(قول) ہے .؟ یا واقعی حدیث ہے .؟اگر
حدیث ہے تو برایکرم کتاب کا حوالہ دیں۔ اور ساتھ ہی راوی کا نام بھی بتا
دیں ۔
Published on: Oct 27, 2019
173355 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
1441/02T/SN=12-32 Fatwa :
عن عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ قال قال رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم:
إني ألعلم أہل النار خروجا منہا ،وآخر أہل الجنة دخوالً الجنة ․․․․․ وفیہ فیقول
ہللا تعالی لہ :إذہب ،فادخل الجنة ،فإن لک مثل الدنیا وعشرة أمثالہا ،أو إن
لک عشرة أمثال الدنیا ۔ (صحیح مسلم ،کتاب اإلیمان ،باب آخر أہل النار
خروجا ً ،رقم الحدیث)1۸۶ :
یہی روایت بخاری میں بھی عبد ہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ ہی سے الفاظ
کے تھوڑے فرق کے ساتھ ذکر کی گئی ہے۔ (صحیح البخاری ،کتاب الرقاق،
باب صفة الجنة والنار ،رقم الحدیث)۶۵71 :
بخاری شریف کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ”جس کے دل میں رائی کے
دانے کے برابر بھی ایمان ہوگا ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سفارش
کی وجہ سے ہللا تعالی اس کو قیامت کے دن جنت میں داخل فرمائیں گے۔
عن أنس رضی ہللا عنہ قال :سمعت النبي صلی ہللا علیہ وسلم یقول” :إذا کان
یوم القیامة شفعت فقلت :یاربّ ،أدخل الجنة من کان في قلبہ خردلة ،فیدخلون ۔
(صحیح البخاری ،کتاب التوحید ،باب کالم الرب عزوج ّل یوم القیامة مع
األنبیاء وغیرہم رقم الحدیث)7۵09 :
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
india
173125 # سوال
دعوت و تبلیع کے ایک احباب فرماتے ہیں کہ ہللا کی مدد صرف دعوت کے
کام کے ساتھ ہے جبکہ عبادت کے ساتھ نہی اور جھاد کی فضیلت بیان
کرتے ہیں ساتھی کو چار ماہ کے لیئے تیار کرنے کے لیئے احقر کو واضح
جواب عنایت فرما کر شکریہ کا موقع فراہم کریں۔
Published on: Oct 7, 2019
173125 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 31-10/B=01/1441
ہللا کی مدد ہر نیک عمل کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ خواہ عبادت کرنے واال
ہو ،یا اچھے اخالق کے ساتھ پیش آنے واال ہو ،یا اچھے معامالت کرنے واال
ہو ،بلکہ ہللا کی مدد ایسی عام ہے کہ تمام مخلوق کے ساتھ ہے ہللا کی مدد کو
صرف جماعت تبلیغ کے ساتھ خاص کر وابستہ ماننا ہللا کی مدد کی کوتاہی
کو ثابت کرنے کے مرادف ہے۔ ہللا کو اپنے بندوں کی مدد کرنے کے سلسلہ
میں بخیل ماننا یہ بداعتقادی کی بات ہے اسے آئندہ کے لئے توبہ و استغفار
کرنا چاہئے۔ ہللا کی شان میں ایسی بات نہ کہی جائے۔ دعوت کے کام کی
فضیلت میں جہاد کی فضیلت کو بیان کرنا نامناسب ،دعوت کے کام کے
بیشمار فضائل ہیں ان ہی کو بیان کرنا چاہئے۔ جس کے پاس چار مہینے کا
سفر خرچ ہو اس کے پیچھے خرچ گھر والوں کا بھی نظم ہو وہ جاسکتا ہے،
لیکن 4ماہ کے لئے جانا کوئی فرض و واجب نہیں ہے۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
172616 # سوال
کیا کہتے ہیں علمائے دین قرآن اور سنّت کی روشنی میں کہ میں یہ جاننا
چاہتا ہوں کہ ہمارے تبلیغی بھائی جماعت میں 3دن 10دن 40دن یا ایک
سال لگانا نبی صلی ہللا علیہ وسلم کی سنّت بتاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ
کشتی نوح ہے ۔جو اس میں سوار ہوگا وہ پار ہوگا ۔کیا یہ دونو باتیں صحیح
ہیں ۔کیا یہ عمل نبی صلی ہللا علیہ وسلم کی سنّت ہے اور کیا یہ کشتی نوح
ہے ۔اس کی وضاحت کرنے کی مہربانی کریں ۔اس سے متعلق صحیح حدیث
بھی بتائیں ۔ آپ کی بہت مہربانی ہوگی ۔
Published on: Sep 7, 2019
172616 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 1258-1088/B=01/1441
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے زمانہ میں 10دن 40 ،دن یا تین چلہ یا
ایک سال کے لئے جماعت میں نکلنے کا کوئی وجود نہیں ملتا۔ یہ سلسلہ تو
حضرت موالنا الیاس سے چال ہے جن کو 75-70سال ہوئے ہیں پھر یہ
حضور کی سنت کیونکر ہو سکتی ہے۔ جو لوگ ایسی بات کہتے ہیں ان ہی
سے حوالہ معلوم کریں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
1725۸2 # سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ذیل کے بارے میں ہمارے یہاں پر
دعوت و تبلیغ کے ساتھی اجتماع کے لیے یا کبھی کسی اور مصرف کے
لیے یا اپنے کچھ ساتھیوں سے یا اس سے الگ بھی جو مسجد سے تعلق نہیں
رکھتے وہ چندہ کرتے ہیں ،کیا یہ چندہ کرنا شریعت کی روشنی میں جائز
ہے؟
Published on: Aug 7, 2019
1725۸2 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 1149-1020/M=12/1440
جائز مقاصد کے لئے جائز طریقے پر چندہ کیا اور لیا جاسکتا ہے جائز
ب خاطر جتنی رقمطریقہ یہ ہے کہ چندہ دہندہ کو مجبور نہ کیا جائے ،بطی ِ
دے خوشی سے لے لی جائے ناجائز کام کے لئے اور ناجائز طریقے پر
چندہ کرنا جائز نہیں ،اگر منشاء سوال کچھ اور ہے تو وضاحت کرکے سوال
کرسکتے ہیں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
Pakistan
172501 # سوال
میں نے یہ سوال چھ دن پہلے بھی پوچھا تھا مگر جواب نہیں آیا۔اب دوبارہ
کر رہا ہوں۔مہربانی فرما کر اس کا جواب عنایت فرمائیں ۔میرا سوال یہ ہے
کہ س) میں گھر والوں،رشتہ داروں اور ساتھیوں کو جتنا مجھے علم ہے کم
از کم اس علم کی تبلیغ کرنا چاھتا ہوں مثال نماز،روزہ وغیرہ ۔مجھے یہ
پریشانی ہے کہ آیا میں دوسروں کو تبلیغ کروں یا پہلے علم حاصل کرکے
خود کی موالنا مظہر بن اختر (د۔ب) سے اپنی اصالح کرواؤں؟ مجھے کیا
کرنا چاھیے؟ رہنمائی فرمائیں ۔ابھی میں موالنا (د۔ب ) سے بیعت نہیں ہوا
بلکہ ابھی ہونا ہے۔
Published on: Aug 25, 2019
172501 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 1220-1064/D=12/1440
خود عمل پیرا ہونے کے ساتھ اپنے اصالح کی کوشش کرتے رہنا (خواہ
بیعت کے ذریعہ ہو یا اصالحی تعلق کے ذریعہ) اور اس کے ساتھ گھر کے
افراد کو دین کی ضروری باتوں کی تعلیم و تبلیغ کرتے رہنا سب ایک ساتھ
بھی جاری رکھا جاسکتا ہے۔ کیونکہ گھر والوں کی تعلیم و تبلیغ رشتہ کے
قرب کے اعتبار سے اہم فاالہم ہے۔ ہاں دوسرے رشتہ داروں اور ساتھیوں
کی تعلیم و تبلیغ پر اپنے اصالح کی تکمیل کو مقدم کیا جاسکتا ہے۔ لیکن
ضروری اور بنیادی باتوں کی طرف انہیں بھی متوجہ کرنے میں حرج نہیں
بلکہ بہتر ہے۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
Pakistan
172344 # سوال
میرا سوال یہ ہے کہ س) میں گھر والوں،رشتہ داروں اور ساتھیوں کو جتنا
مجھے علم ہے کم از کم اس علم کی تبلیغ کرنا چاھتا ہوں مثال نماز،روزہ
وغیرہ ۔مجھے یہ پریشانی ہے کہ آیا میں دوسروں کو تبلیغ کروں یا پہلے علم
حاصل کرکے خود کی موالنا مظہر بن اختر (د۔ب) سے اپنی اصالح
کرواوں؟ مجھے کیا کرنا چاھیے؟ رہنمائی فرمائیں ۔ابھی میں موالنا (د۔ب )
سے بیعت نہیں ہوا بلکہ ابھی ہونا ہے۔
Published on: Aug 1, 2019
172344 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 1107-987/M=11/1440
اس میں پریشان ہونے کی کوئی بات نہیں ،تعلیم و تزکیہ کے ساتھ حسب
موقع و استطاعت تبلیغ کا کام بھی کر سکتے ہیں ،آپ جن موالنا صاحب سے
بیعت ہونا چاہتے ہیں اگر وہ متبع سنت اور صاحب نسبت بزرگ ہیں تو ان
سے اصالحی تعلق کے بعد ان کی ہدایت ومشورے کے مطابق عمل کریں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
1722۸۸ # سوال
مجھے یہ جاننا ہے کہ ایک بات ہم لوگ ہللا کے راستے میں نکلتے وقت جب
بھی کوئی جماعت نکلتی ہے تو یوں کہتے ہیں کہ امیر کی اطاعت کرنا اور
اس کے ہر فیصلہ پر راضی رہنا اس لیے کہ امیر کے سر پر ہللا کا ہاتھ ہوتا
ہے ،اور ایک بات یہ بھی کہی جاتی ہے کہ جس نے امیر کی مانی اسنے ہللا
کے رسول کی مانی اور جس نے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ و سلم کی
مانی اسنے ہللا کی مانی۔ اس لیے امیر کی اطاعت ہر حال میں کی جائے۔ ان
ت مطہرہ کے دو باتوں سے متعلق وضاحت فرمائیں کہ کیا یہ جملے شریع ِ
دائرے میں مروجہ دعوت و تبلیغ کی محنت کے اعتبار سے درست ہیں؟ کیا
ان باتوں کو ہم آئندہ بھی جاری رکھیں؟ یا اگر یہ جملے قاب ِل اصالح ہوں تو
برائے کرم ہماری اصالح فرما کر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔ جزاکم ہللا
Published on: Aug 25, 2019
1722۸۸ # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 1182-981/B=12/1440
ایک امیر وہ ہوتا ہے جو امیر المومنین ہوتا ہے ،یعنی اسالمی بادشاہ ہوتا
ہے۔ امیر کی اطاعت کے بارے میں جو باتیں احادیث آپ نے پیش کی ہیں وہ
سب امیر المومنین کے بارے میں ہے ،کیونکہ وہ پوری مسلم کا دینی سربراہ
ہوتا ہے ،اس کی اطاعت جائز امور میں واجب ہوتی ہے۔
ان ہی احادیث کے پیش نظر علماء نے سفر کے قافلہ میں بھی ایک کو امیر
بنا لینا بہتر لکھا ہے تاکہ قافلہ میں اتحاد و اتفاق اور سکون ،پیار و الفت قائم
رہے اور ہر قسم کی بدنظمی سے قافلہ محفوظ رہے۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
17149۸ # سوال
ہمارے یہاں مسجد میں فضائل اعمال کی تعلیم میں لوگوں کو سمجھانے میں
دقت ہوتی ہے ،منتخب احادیث سمجھانے میں آسانی ہوتی ہے ،تو کیا منتخب
کی تعلیم کرسکتے ہیں؟
Published on: Jul 22, 2019
17149۸ # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa:958-785/sn=11/1440
فضائل اعمال میں تو مؤلف نے خود تشریح کردی ہے تو مزید تشریح کی کیا
ضرورت پیش آئی؟ نیز اگر اسے سمجھنا لوگوں کے لئے مشکل ہوتا ہے تو
منتخب احادیث کا سمجھنا تو اور بھی مشکل ہوسکتا ہے؛ کیونکہ اس میں تو
تشریح ہے ہی نہیں ،عام طور پر محض ترجمہ پر اکتفا کیا گیا ہے۔ الغرض
کتاب بدلنا صورت مسئولہ میں اچھا حل نہیں ہے؛ بلکہ تعلیم کی ذمے داری
کسی ایسے عالم(خواہ امام صاحب ہوں یا کوئی اور فرد) کو دی جائے جو
اچھی طرح کتاب پڑھ سکیں نیز ضرورت پر کسی قدر تشریح بھی کر
سکیں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
170164 # سوال
ہمارے شہر کی ایک مسجد میں شہر کی شور'ی کے ساتھی نے جمعہ کے
بیان میں کہا کہ گھر اور مسجد کی تعلیم ہللا کے لئے شہید ہونے سے بڑا
عمل ہے ۔اور دلیل میں انہوں نے اس حدیث کو پیش کیا جس میں فرمایا گیا
ہے کہ قیامت کے دن علماء کی قلم کی سیاہی شہیدوں کے خون سے زیادہ
وزنی ہوگی۔ دریافت طلب امر یہ ہے کہ کیا گھر اور مسجد کی تعلیم کی جو
اہمیت ان صاحب نے بتائی ہے وہ درست ہے یا غلو فی الدین ہے ؟اوردلیل
کے طور پر جو حدیث پیش کی ہے اس کی یہ تشریح صحیح ہے ؟ برائے
مہربانی رہنمائی فرمائیں۔
Published on: May 13, 2019
170164 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa:860-703/sn=9/1440
گھر میں اسی طرح مسجد میں کوئی معتبر دینی کتاب پڑھنے کا معمول بہت
اچھا اور مفید ہے؛ لیکن اسے ہللا کے لئے شہید ہونے سے بڑا عمل قرار دینا
غلو اور حد سے تجاوز ہے ،اس پر جو دلیل پیش کی گئی ہے وہ بے جوڑ
ّعی پرکسی بھی طرح منطبق نہیں ہے ،بہرحال اس طرح کی بے ہے ،وہ مد ٰ
حوالہ باتوں کے بیان سے احتراز ضروری ہے ؛ بلکہ ضرورت اس بات کی
ہے کہ بیان کا اختیار تو صرف ایسے عالم دین ہی کو دیا جائے جو قرآن
کریم ،احادیث نبویہ اور شراحِ حدیث کی تشریحات کی روشنی میں بیان کی
استطاعت رکھتے ہوں یا پھر بیان کرنے والے کے لئے دائرہ متعین ہو کہ
انھیں فالں فالں کتاب (مثال فضائل اعمال ،حیاة الصحابہ وغیرہ)کی روشنی
میں اور ان ہی کے حوالے سے بات کرنی ہے ،نیز انھیں پابند کیا جائے کہ
وہ بیان سے پہلے ان کتابوں کا اچھی طرح مطالعہ کرکے جائیں ،یا وہ کتاب
پڑھ کر سنائیں۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
Saudi Arabia
169۸55 # سوال
قاب ِل احترام علماء کرام۔ بندہ کو ایک بات میں اشکال ہے اور وہ یہ کہ کہا
جاتا ہے کہ دعوت الی ہللا کا کوئی خاص طریقہ شریعت میں متعین نہیں ہے
قرآن کریم میں بندہ کو یہ مال ہے کہ ہللا ٰ
تعالی ،انبیاء علیہم السالم کو ِ ۔ جبکہ
اُن کی قوموں میں بھیجتے تھے (جس میں سفر کرنا ضروری نہیں ،لیکن
ممکن ہے جیسے موسٰ ی علیہ السالم نے کیا) اور وہ اپنی اقوام کو بالواسطہ
تعالی کی طرف سے نازل کردہ وحی کے مخاطبت کے ذریعے سے ہللا ٰ
ذریعے انذار و تذکیر کا فریضہ انجام دیتے تھے ۔ ہاں بعض مرتبہ ایسے بھی
ہوا کہ انبیاء علیہم السالم نے کسی اور کو خط دے کر اپنا پیغام پہنچایا ہو
جیسے سلیمان علیہ السالم نے ہدہد کے ذریعے اور نبی صلی ہللا علیہ و سلم
نے صحابہ رضی ہللا عنہم کے ذریعے بادشاہوں کو خط بھیجے ۔ اس لئے
بندہ کو تو یہ طریقہ متعین معلوم ہوتا ہے ۔ اگر تعین سے علماء کرام کی
مراد کچھ اور ہے تو اس ناالئق کی رہنمائی فرمائیں۔ جزاکم ہللا خیرا۔
Published on: May 2, 2019
169۸55 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa:707-73T/sd=8/1440
عا متعین نہیں کیا گیا ہے ”دین کی دعوت واشاعت کا کوئی خاص طریقہ شر ً
؛ بل کہ ضرورت ،تقاضہ اور زمانے کے اعتبار سے اُس کی صورتیں
مثال وعظ وخطابت ،درس وتدریس ،تصوف واحسان مختلف ہوسکتی ہیںً ،
اور افتا وتصنیف وغیرہ ،ان سب پر جزوی یا کلی طور پر دعوت کا مفہوم
صادق آتا ہے ،حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے بھی دعوت کے لیے مختلف
طریقے اختیار فرمائے ،کبھی خود بنفس نفیس تشریف لے گئے ،کبھی
صحابہ کرام کو بھیجا اور کبھی دعوتی خطوط روانہ فرمائے ،کبھی اکھٹا
کرکے خطاب فرمایا اور کبھی انفرادا دعوت دی ۔شیخ الحدیث حضرت موالنا
زکریا رحمة ہللا علیہ فضائل اعمال میں آیت قرآنی ومن احسن قوال ممن دعا
الی ہللا کے تحت لکھتے ہیں :مفسرین نے لکھا ہے کہ جو شخص بھی ہللا
کی طرف کسی کو بالئے ،وہ اس بشارت اور تعریف کا مستحق ہے ،خواہ
کسی طریق سے بالئے ،مثال :انبیاء علیہم الصالة والسالم معجزہ وغیرہ سے
موذنین اذان سے ،غرض جو بالتے ہیں اور علماء دالئل سے بالتے ہیں اور ٴ
بھی کسی شخص کو دعوت الی الخیر کرے ،وہ اس میں داخل ہے ،خواہ
اعمال ظاہرہ کی طرف بالئے یا اعمال باطنہ کی طرف ،جیساکہ مشائخ
صوفیہ معرفت ہللا کی طرف بالتے ہیں ۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
169494 # سوال
چار سال یا چھ مہینے ،یہ سوال کی جماعت روانہ کرنا ہے دعوت و تبلیغ
کے لیے ،مسئلہ یہ ہے کہ علماء اگر کسی جماعت میں شامل ہونا چاہتے ہیں
تو کیا امیر علماء کو بنایا جائے؟ یا چار ماہ لگائے ہوئے ساتھی کو بنایا
جائے؟ چار ماہ کی جماعت چل رہی ہے ،جس میں جو علماء علم دین حاصل
کرنے کے بعد دعوت وتبلیغ میں پہلی مرتبہ وقت لگواتے ہیں کیا اس وقت
چار ماہ کے ساتھی کو امیر بنایا جائے چالیس دن کے لیے اور چالیس دن
کے بعد جس عالم کا چالیس دن ہوگئے اس کو امیر بنایا جائے باقی کے اسی
دن کے لیے کیا ایسا کرسکتے ہیں؟ کیوں کہ چار ماہ کے ساتھیوں کا کہنا
ہے کہ مدارس سے آنے والے علماء واقف نہیں ہیں دعوت و تبلیغ سے ،اس
لیے چالیس دن ان کو دعوت و تبلیغ کے ساتھی کو امیر تسلیم کرکے کام کو
سیکھنا پڑے گا ،اس کے بعد اس کو امیر بنایا جائے گا۔
میرا سوال اس لیے ہے کہ کہ میرے رشتہ دار عالم ہیں اور ان کے ساتھ جو
روانہ ہوئے دعوت و تبلیغ کے ساتھیوں میں سے ،آپ کا جواب فیصلہ کرے
گا۔ اور میں نے بہت سارے علماء کو دعوت و تبلیغ (جماعت میں) سے
درمیان میں آتے ہوئے دیکھا ہے۔
Published on: Mar 26, 2019
169494 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 747-621/B=07/1440
علماء کا مقام بہت اونچا ہے نبی پاک صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے فضل
العالم علی العامل کفضلی علی أدناکم :متقی و پرہیزگار پر عالم کا درجہ اتنا
ادنی کے اوپر ہے۔ عالم دعوت و تبلیغاونچا ہے جیسا کہ میرا درجہ تمہارے ٰ
کے کام سے زیادہ واقف ہوتا ہے اس لئے ہر حال میں اسی کو امیر بنانا
چاہئے۔ چالیس دن جماعت میں لگانے والے کو عالم پر فضیلت دینا بے ادبی
کی بات ہے۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند
عقائد و ایمانيات -دعوت و تبليغ
India
1694۸9 # سوال
دعوت وتبلیغ میں نکلنا جمعہ کے دن جمعہ کی نمازوں سے بھی زیادہ افضل
سمجھ کر سفر پر مرکز چھوڑ کر دیہاتوں کی طرف جانا کیسا ہے؟ جب کہ
اس بارے میں جہاد کی ایک حدیث بھی پیش کرتے ہیں۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر شہر میں جماعت مقیم ہے تو اس کو جمعہ کے
دن دیہات کو جانا چاہئے یا دیہات سے شہر کو آنا چاہئے جمعہ کی نمازوں
کے لیے ؟ ایک تو مسافر کو رخصتی ہے جمعہ کی ،لیکن جماعت میں
نمازوں کی پابندی کے لیے نکاال جاتاہے اس صورت میں کیا کرنا چاہئے؟
تیسرا سوال یہ ہے کہ جمعہ کی شب میں اجتماعی جاگنا مرکز میں کیسا ہے؟
جب کہ نبی کی حدیث کا مفہوم ہے کہ جمعہ یا کوئی اور دن عبادت کے لیے
خاص کرنا نہیں چاہئے ،جمعہ کی شب رات مرکز میں جاگتے ہیں ،صبح
سویرے گھر لوٹتے ہیں جب کہ جمعہ کی سویرے جانے کی ترغیب آئی
ہے ،یہ عمل کیسا ہے؟
Published on: Aug 8, 2019
1694۸9 # جواب
بسم هللا الرحمن الرحيم
Fatwa : 1024-962/B=12/1440
موجودہ دعوت و تبلیغ کا طریقہ کار قرآن و حدیث سے منصوص نہیں ہے
کام کرنے والے اپنے اپنے تجربہ کے مطابق جو طریقہ چاہیں اختیار کر
سکتے ہیں بشرطیکہ قرآن و حدیث سے وہ طریقہ نہ ٹکرائے۔ جمعہ سے
پہلے سفر کرنا بہتر نہیں ہے اس میں جمعہ چھوٹ جانے کا اندیشہ رہتا ہے
اس لئے جمعہ کے دن اطمینان سے مسواک ،وضو ،غسل کرکے کپڑے بدل
سورہ کہف پڑھے پھرٴ کر فارغ ہو جائے ،کثرت سے درود شریف پڑھے،
اطمینان کے ساتھ جمعہ کا فریضہ ادا کرکے سفر میں جائے۔
( )2اگر کوئی مجبوری نہیں ہے تو شہر میں جمعہ کا فریضہ ادا کرکے
دیہات میں آئے۔
( )3عبادت میں کسی خاص دن یا رات کو کرنا مناسب نہیں ،بال تخصیص و
تعیین کے اگر جمعہ کی شب میں مشورہ وغیرہ کے لئے قیام کرلیں تو کوئی
مضائقہ نہیں ،جمعہ کے دن جامع مسجد میں جمعہ کا وقت ہونے سے پہلے
اگر پہونچ گئے جب بھی سویرے پہونچنے والوں میں شمار ہوگا۔
تعالی اعلم
ٰ وهللا
داراالفتاء،
دارالعلوم دیوبند