Professional Documents
Culture Documents
5تربیت افراد کا قرآنی منہج
5تربیت افراد کا قرآنی منہج
ڈاکٹر محمد ارشد،ایسوسی ایٹ پروفیسر،ادارہ عر بی و علوم اسالمیہ ،جی سی ویمن یونیورسٹی ،سیالکوٹ
سدرہ فردوس ،ایم ایس اسکالر ،ادارہ عر بی و علوم اسالمیہ ،جی سی ویمن یونیورسٹی ،سیالکوٹ
قرآن حکیم کے وجوہ اعجاز میں اس کا جامع ہوناہے ۔ حیات انسانی کا کو ئی بھی پہلو اور گوشہ ایسا
نہیں ہے جس کے متعلق قرآن پاک میں راہنمائی موجود نہ ہو۔ قرآن پاک"ھدی اللناس " یعنی
لوگوں کے لیے ہدایت ہے ۔ قرآن حکیم کا مقصد انسانیت کی ہدایت اور فالح ہے ۔ معاشرے کی اولین
اکائی فرد ہے اور افراد کی تربیت سے ہی کوئی معاشرہ ایک بہتر ین معاشرہ بن سکتا ہے۔ قرآن حکیم
وہ نسخہ کیمیا ہے جس نے ایک آن میں عرب کے بادیہ نشینوں کی زندگی میں انقالب برپا کر دیا اور
ایک صالحہ اور مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی ۔ آج بھی تربیت افراد اور صالحہ معاشرے کے قیام کے
لیے قرآن حکیم کا تربیتی منہج قابل تقلید ہے۔
معنی و مفہوم
ٰ تر بیت کا
تربیت کا مادہ رب سے ہے۔ لفط رب کئی معنوں کا حامل ہے ۔ جیسے بڑھنا ،پھلنا پھولنا،پرورش کرنا
غذا دینا ،مہذب بنانا ،مالک بنانا،اچھا انتظام کرنا ،نظم و نسق چالنا درست کرنا،عمدگی پیدا کرنا خراب
ہونے سے بچانا،ملنا ،الزم ہونا وغیرہ اہم ہیں ۔ امام راغب اصفہانی تربیت کی تعریف کر تے ہوئے
لکھتے ہیں:
1 ''التربیۃ ،ھوانشاء الشی ء حاال فحاالالی حد التمام''
''کسی چیز کو یکے بعد دیگر ےاس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو ونما
دینا کہ اپنی حد کمال کوپہنچ جائے۔"
مفتی محمد شفیع کے مطابق:
" تربیت اس کو کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اس کے تمام مصالح کی رعایت
کرتے ہوئے درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جائے یہاں تک کہ وہ حد کمال کو پہنچ
2
جائے۔"
چنانچہ اصطالحی لحاظ سے تربیت سے مراد انسانی شخصیت کے تمام پہلوؤوں کی نشوونما کو
حد کمال تک پہنچانا ہے ۔
نہیں ہے۔
.iiقلت تکلیف
قلت تکلیف عدم حرج کا الزمی نتیجہ ہے ۔ احکامات قرآنی میں کم سے کم تکلیف کے اصول کو مدنظر
تعالی ہے :
ٰ رکھاگیاہے۔ ارشاد باری
َج ۔"15 َرِن حْ ْ
ِينِ م
ِی الد ُْ ْ َ
َعل علیکم فَ َ َ َ
" وما ج َ
"ہللا نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔"
اسی اصول کے تحت دین میں سہولت اور قلت تکلیف کے پہلو کو مد نظر رکھا گیا۔ وضو الزم قرار
دیالیکن پانی کی عدم دستیابی پرتیمم کی رخصت عنایت کر دی۔ نماز فرض کی لیکن سفر میں کم کر دی،
کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اِشارے سے پڑھنے کی اِجازت دیدی،
روزہ فرض کیالیکن بیمار و مسافرپراسکی فرضیت مؤخرکردی ،ایک مہینا روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ
مہینے دن میں کھانے کی اِجازت دیدی اور َرمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اِجازت دی بلکہ سحری
و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا۔استطاعت نہ ہونے کی صورت میں حج فرض نہیں ہے ۔
صاحب نصاب نہیں تو زکوة فرض نہیں ہے ۔ اشیائے خوردونوش میں اگر کوئی کوئی چیز حرام قرار
دی تو اس کے متبادل کے طور پر متعدد اشیاء کو حالل قرار دے دیا۔ تجارت میں سود حرام قرار دیا تو
منافع حالل کر دیا۔عبادات کے ساتھ معاشرتی معامالت میں بھی جہیز،بارات اورغمی خوشی کے
دیگرمواقع کو آسان تر کر دیا۔
.iiiتد ریج
ت موسوی میں تمام قرآن حکیم نے تربیت افراد میں تدریج کو خاص طور پرپیش نظر رکھاہے ،شریع ِ
احکام ٰالہیہ ایک ساتھ نازل ہوئے جبکہ شریع ِ
ت محمدی میں نفوذ احکامات اور تربیت افراد میں خاص ِ
طور ہر تدریجی اسلوب اپنایا گیا۔ پہلے اذہان سازی کی گئی قلوب کو تعمیل حق کے لیے تیار کیا گیا
اور پھر احکامات کا نفاذ کیا گیا ۔مکی زندگی میں احکامات کی بجائے عقائد اور ایمانیات کی تربیت
ہوئی اور پھر مدنی زندگی میں اعمال کی باری آئی ۔استاذ احمد حسن زیات لکھتے ہیں :
" مکی سورتیں جو دو تہائی قرآن ہیں ،اصول دین پر اور مدنی سورتیں اصول
احکام پر مشتمل ہیں ۔ اصول دین کا تمام تر انحصار خدا اس کے رسول اور
آخرت کے دن پر ایمان النے ،نیک کام کرنے اور برے کاموں سے بچے رہنے
16
پر ہے۔"
ابتداء میں دو نمازیں ہی فرض تھیں لیکن پانچ نمازوں کی ادائیگی مدنی زندگی میں شروع ہوئی ۔
اسی طرح شراب کوتدریجاحرام کیا گیا،پردے کے احکامات آہستہ آہستہ نازل ہوئے ،پوری مکی زندگی
جہاد کے حکم سے خالی رہی بآلخرمدنی زندگی میں جہاد کے احکامات نازل ہوئے ۔اسی طرح رباآخری
ایام میں حرام کیاگیاجب کہ مومنین کے اذہان ان پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔
تربیت کے درجات
قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے سے تربیت کے تین درجات سامنے آتے ہیں ۔
.iعامتہ الناس کی تربیت
قرآن حکیم نے تربیت افراد کے لیے یاایھاا لناس کہہ کر عامۃ الناس کو مخاطب کیا اور ان کو
توحید کی دعوت دی جو کہ تربیت انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔
ُْ
ِكم ْل َ
ِن قب ْ َ
ين مِْ َّ َ
ْ والذ ُمَك
لقََ
ِىْ خ ُ َّ
الذ ُم ََّ
بك ْا ر ُُ
دو ْبَّاسُ اعها الن يََُّ
يآٰ
ٰ
17 َْ
ن ۔" ُو
َّق
تتْ َُم
لكََّ
َلع
اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمہارا
بچاؤ ہے ۔
با طل عقائد و نظریات کے حامل افراد کی تربیت .ii
اس کے بعد مختلف باطل عقائد کے حامل افراد کو يا يهاالکافرون اور يا
يهاالمنافقون کہہ ان کو ان کے غلط نظریات اورافعال پر جھنجھوڑا ہے ۔
.iiiمومنین کی تربیت
امنو ا کہہ کر صاحبان ایمان کی تربیت کے لیے جامع اس کے بعد يا يها الذين
انداز میں رہنمائی فرمائی ۔
ٰتِ ُ ُ
ْا خطو ُو َّ َ
َال تتب
ِع َ ًَّ
ِ كافة ۠ وۗ َ ْ
ِلمِي الس ْا ف ُُ ْ
منوا ادخلو ُ َٰ
َ ا ينِْ ها َّ
الذ يََُّ
يآٰ
ٰ
18
ٌ ۔"
ْنِیمبٌّ ُّ
دو َُ ُم
ْ ع ه َلك نِ اَّ
ِنٗ ٰۭ الشَّی
ْط
ایمان والو !اسالم میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا
کھال دشمن ہے ۔
اس آیت میں قریبی رشتہ داروں کے لیے عشیرة کا لفظ ہے اور عشیرہ کا لفظ عشرہ سے بنا ہے
اور عشرہ (دس کا عدد) عددکامل ہے۔ اس لئے یہ لفظ کسی شخص کے ان رشتہ داروں کی جماعت
25
کا نام بن گیا جو کثیر تعداد میں ہوں۔ خواہ وہ اس کے قریب ہوں یا اس کے معاون ہوں۔
جس طرح صلہ رحمی میں االقرب فاال قرب کی ترجیح ہے اسی طرح اصال ح و تربیت میں بھی
ترجیح ہے۔ صلہ رحمی کا ایک تقاضا قرابت داروں کی تربیت کرنا بھی ہے تا کہ وہ اخروی فالح پا
سکیں۔
.ivمعاشرے کی تربیت
قرآن حکیم میں امت مسلمہ کو خیر امت اور امت وسط کہہ کر پکارا گیا ہے ۔
َنِ َْ
ن عهوَْ
تنََ
ُوفِ و َع
ْر ن ب ْ
ِالم ُوَمرُْ
تأَّاسِ َ
ِلنْ لَت ْر
ِج ُخ
مة أ َُّ
َ أْرَی
ْ خ ُنت
ُم ك
ن ب َّ
ِاَّللِ۔"26 ُوَِنْمتؤَُ
ِ وَرُنك ْ
الم
اس آیت میں امت مسلمہ کے خیر االمم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ خلق ہللا کو نفع
پہنچانے ہی کے لئے وجود میں آئی ہے ،اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ خلق ہللا کی روحانی
اور اخالقی اصالح کی فکر کرنا،معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور قوائے
انسانی کی ساری شاخوں کی پرورش کرنا اور سب کا یکساں تزکیہ کرنا ۔
معروف وہ کام ہیں جن کو فطرت انسانی پہچانتی ہے یعنی سارے نیک کام اور منکر وہ ہے جس سے
فطرت انسانی انکار کرتی ہے یعنی سارے برے کام۔ بدترین حالت کسی قوم کی وہ ہوتی ہے جب وہ
اپنے لوگوں کو برا کرتے دیکھیں اور اس سے ان کو نہ روکیں چنانچہ یہودیوں کی بدترین حالت کا
نقشہ کھینچتے ہوئے خود قرآن کریم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ :ک
َ
ْنَلوُْعيفْا َ ُ َ
ما کانو ْ
ِئسَ َہ َلب ُْلو َُ
َعَر ف ْكمنْ ُّ
َنن عَْہوَاََن ْا َال َ
يت "ک ُ
انو
۔"27
كه وہ برائیوں میں پڑجاتے ہیں تو پھر اس سے باز نہیں آتے البتہ یہ بڑی ہی برائی تھی جو وہ کیا
کرتے تھے۔ “۔
آپﷺ نے بھی امت مسلمہ کو امر بالمعروف کی تاکید فرمائی ہے اور غفلت کی صورت میں عذاب
ٰالہی سے ڈرایا ہے۔
آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور
تعالی تم پر اپنا
ٰ بالضرور اچھائی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ عنقریب ہللا
28
عذاب بھیج دے گا ۔ پھر تم اس کے دور ہونے کی دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی
قرآن حکیم کاتربیتی منہج
قرآن حکیم نے انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے تربیت کے لیے مختلف اسلوب اپنائے ۔ کہیں
قصص کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے تو کہیں تمثیلی انداز اپنایا گیا۔ کہیں مکالماتی انداز اپنایا گیا ہے
تو کہیں قسمیہ انداز۔ کہیں تکرار سے کام لیا گیا ہے تو کہیں ترغیب و ترہیب کا طریقہ اپنایا گیا۔ غرض
بیسیوں اسلوب ہیں جو قرآن حکیم نے تربیت افراد کے لیے اپنائے ہیں۔ جوامع الکلمات کا استعمال،
تشبیہ ،استعارہ ،کنایہ ،حقیقت و مجاز کےبر محل اور بھر پور استعمال نے کالم کی تاثیر آفرینی
کو کئی گنا تک بڑھا دیا ہے۔ بار بار تکرار کے انداز نے اس کے حسن کو دوباال کر دیا ہے۔ اس کا
اسلوب آسان اور سادہ بھی ہے لیکن حکمت اور دانش سے بھرپور بھی۔ اسی لیے اس کالم کی تاثیر
ایسی ہے جو دلوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ ہر ذہنی سطح کے افراد کی بھرپور تشفی کا سامان
لیے ہوئے یہ کتاب آج بھی ایک زندہ معجزہ ہے جس کی نظیر نہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے فصیح و
بلیغ عرب پیش کر سکے اور نہ ہی آج کے جدید علم و تحقیق کے حامل زمانے میں کسی سے اس
کا جواب بن سکا۔
.iاصالح عقائد و ایمانیات
قرآن حکیم نے تربیت افراد میں سب سے پہلے اصال ح عقائد پر توجہ دی اور عقائد و ایمانیات کو افراد
کے اذہان و قلوب میں راسخ کر دیا۔ کیونکہ عقائد بنیادکی سی حیثیت رکھتے ہیں جن پر اعمال کی
مضبوط عمارت استوار ہوتی ہے۔ اگر عقائد ہی میں بگاڑ ہو تو پھر ایک صالح معاشرے کا قیام ممکن
نہیں ہوتا۔اسی لیے قرآن حکیم نے عقائد و ایمانیات کو دین کی اصل قرار دیا ہے ۔ قرآن حکیم میں ہے :
ِق
ِ َشْر ْ
الم َ
َل ْ ق
ِب ُم
ھك َْ ُج
ُو ْا و َُّلو
تـو ن ُ َْ
َّ ا ِـرالبْ ْسََّلی
ِ ِ ْ
االٰخِر ْمَو َ ْ
الی ِ وٰهِاللـ َ بمنَْٰ ا منَّ َ
ِـر البَّ ِْنَٰلك
ِبِ و ْرَغالم َ ْ و
29
َ ۔"
ۚ
ْنِیِیَّب
َالن َابِ و ِت َ ْ
الك ِ وَـةِك َََلئ
الم َ ْ و
نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو ہللا اور قیامت
کے دن پر ایمان الئے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر۔
یہ قرآن ہی کا اعجاز تربیت تھا کہ دین کی محبت نے صحابہ کرام کی روح کو اس طرح سے
مشک بار کر دیاکہ ہللا اور اس کا رسول انہیں سب سے بڑھ کر محبوب ہو گئے ۔ سورة الحجرات میں
اسے احسان ٰالہی قرار دیا گیاہے:
ُم
ُ َِلیك ہ إ َر
ََّ َكُم وِكُلوب ه فى ق َُينََّ
َزَ وٰنُ اإليمـ ُمَِلیكَ إ َّب
َب َّ َّ
اَّللَ ح ِنٰكَلـ "و
ن ۔"30 ِدوَ الرش ُ ٰ ھمِكَ ُ ٰئ ُ
ن أولـ ِصیاَ َالع َ و ُسوق َالف َ و ُفر الك
تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور ٰ ''اور لیکن ہللا
کفر ،فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھالئی پانے والے ہیں۔''
یہ اسی تربیت کا اعجاز تھا کہ جو ایک بار دائرہ ایمان میں داخل ہو گیا توپھر دین اسالم کی محبت
اس کے لیے دنیا و ما فیہا سے بڑھ کر ہو گئی۔ کوئی رشتہ کوئی ظلم و ستم کوئی مادی غرض ان
جانثاران حق کے قدموں میں لغزش نہ پیدا کر سکی۔ انہی لوگو ں کے لیے قرآن پاک کہا گیا ہے
ًّا۔"31 َقن ح َْ
ُـو ِنْم
ُؤالمُ ْ ھـم ِكَ ُ ُ ٰٓ
ٰ
ولئ "ا
.iiمادری زبان کا استعمال
الہامی ہدایت اور تربیت کی ایک خاصیت یہ رہی ہے کہ تمام انبیاء نے اپنی قوم کی زبان ہی کو وعظ
و نصیحت کے لیے استعمال کیا۔ اس اصول فطرت کو سورہ ابراہیم میں نہایت بلیغ انداز میں بیان کر
دیا گیا ہے ۔
َُ َ َ ُ ْ 32
ِـیبیِن لـهـم ۔" ِه ل ْمَوِسَانِ قِل ْل اَّ
ِال ب َّسُوْ رِنَا م لن َر
ْسَْ مآ ا ََ
و "
اور ہم نے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ انہیں سمجھا سکے۔
قرآن حکیم بھی اپنے مخاطبین کی زبان یعنی عربی میں نازل ہوا۔ اگر اہل عرب میں کسی اور زبان
میں ہدایت کا پیغام بھیج دیا جاتا تو ان کا براہ راست نا قابل تردید الزام یہ ہوتا کہ وہ اسے کیسے
سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ ان کی فطری زبان میں نہیں ہے ۔ جیسا کہ سورہ فصلت میں ہے :
33
ته۔" ياُ َْٰ ا ُصَ
ِلت َْال ف ْا َلو َ ُ
الو ًّا َّلقِیَـمْجَعنا ا ًٰ
ْاُر
ہ ق َاُلن َْ
َعْ ج ََلوو
اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے تو کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی
گئیں ۔
قرآن حکیم کو عربی میں نازل کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے سورہ الزخرف میں ارشاد فرمایا:
ن۔"34 َْ ْقُ
ِلو تع ُم
ْ َ ََّ
لك ًّا َّلع
ِیَبَرنا ع ًٰ
ْاُر
ہ ق َاُلن َْ
َعِنا ج اَّ
ہم نے اسے عربی زبان میں قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھو۔
ٰ
قرآن حکیم کے عربی زبان میں ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ وہ منشا ء الہی کو بآسانی سمجھنے کے قابل ہو
گئے۔ یوں وہ عجمیوں کو بتانے اور سمجھانے کے قابل ہو گئے۔ اگر قرآن خود ان ہی کی سمجھ میں نہ
آتا تو وہ عجمیوں کو کیسے سمجھا پاتے ۔
.iiiامثال کا استعمال
تر بیت اور تدریس میں تمثیلی انداز نہایت مؤثر ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ وہ محسوس
اور مرئی اشیاء کی جانب جلد متوجہ ہوتا ہے اور ان کے متعلق قصص اور امثال کو دلچسپی اور دلجمعی
سے سنتا ہے اور جلد اثر قبول کرتا ہے ۔ اسی لیے قرآن حکیم میں بکثرت تمثیلی اسلوب اختیار کیا گیا
ہے۔ تاکہ لوگ انہیں شوق سے پڑھیں ،غور سے سنیں اور شعوری اور ال شعوری طور پر ان سے
عبرت حاصل کریں ۔ قرآن حکیم میں بھی تمثیلی اسلوب کی یہی حکمت بیان کی گئی ہے :
35 َْ
ن ۔" َّـر
ُو َكَفيت ْ َ
هـملََُّ
َّاسِ َلع
ِلن ها ل بـَ ُِْرنضل ََاُمث ِلكَ ْ
االَْ َتْ"و
اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف باتیں سمجھانے کے لیے کئی ایک مثالیں بیان فرمائی ہیں۔جیسا
کہ سورة البقرہ میں منافقین اور کفار کے لیے تمثیلی اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔اس کے عالوہ غیبت کی
کراہیت ،نمودو نمائش کے لیے خرچ کرنے والوں کے عمل کے ضیاع اور اخالص اور للہیت کے
ساتھ انفاق فی سبیل ہللا کرنے کا اجر نہایت بھی خوبصورت تمثیلی انداز میں بیان کیا گیاہے۔ اسی طرح
بندہ مومن کے لیے بھی تمثیلی اسلوب اپنایا گیا ہے۔
هالـََُْصَة ا َیِب
َة ط َرَشَج
ة كًََیِبة طًَ َل
ِم ًََل كمثه َ َُٰ اللـ َبَرَ ض ْفَی
َ كتـرْ َ ََلم
"ا
ها
ۗ ِـََبْنِ ر ِذ ْن ب
ِا ُل
َّ حِی ها ك لـََُ
ُكٰٓ اِـىْتتؤء ۔ُ َآِ
ِى السَّم ها ف َُ َر
ْع ٌ و
َّف ِتثابَ
۔"36 َْ
نُوَّر
ذك ََ
يتْ َهـملََُّ
َّاسِ َلع ِلن ل ل َاَمث ه ْ
االَْ ُٰ
ُ اللـ ْر
ِب ََ
يض و
تعالی نے ایمان کو کھجور کے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے کیونکہ جس طرح کھجور کے درخت
ٰ ہللا
کی جڑیں زمین میں ثابت ہوتی ہیں اسی طرح مومن کے دل میں ثابت ہوتا ہے اور جس طرح کھجور
کے پتے آسمان کی جانب ہوتے ہیں اسی طرح مومن کی نیک اعمال کو فرشتے آسمان کی طرف لے
جاتے ہیں اور جس طرح کھجور کا پھل ہر وقت دستیاب ہوتا ہے ،کبھی تازہ اور کبھی خشک چھواروں
کی صورت میں ،اسی طرح کامل مومن کا ہر عمل موجب ثواب ہوتا ہے اس کا بولنا اس کا خاموش
رہنا اس کا چلنا پھرنا اس کا کھانا پینا اور اس کی خالص عبادات میں تقویت تازگی حاصل کرنے کے
لیے اس کا سونا غرض یہ کہ ہر وقت ہر عمل موجب ثواب ہوتا ہے پھر جس طرح کھجور کے تنے
کےستون بن جاتے ہیں اس کا پھل تازہ اور خشک ہرحال میں کھا یا جاتا ہے اس کے پتوں کی چٹائیاں،
پنکھے ،ٹوپیاں بن جاتی ہیں اسی طرح مومن کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا اور اس کا ہرحال موجب
ثواب ہے اس کو اگر کوئی نعمت ملے تو وہ اس پر شکر کرتا ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت آئے
تو وہ اس پر صبر کرتا ہے کھجور کے درخت میں ایک ایسا وصف بھی ہے جو اور کسی درخت میں
نہیں ہے اور وہ رسول ﷺ سے بہت زیادہ محبت کرنا حتی کہ رسول ہللا ﷺ کے فراق سے کھجور کا
درخت چیخیں مار کر رونے لگا تھا۔ حدیث میں ہے کہ :
حضرت جابر بن عبدہللا بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے شہتیر سے بنی ہوئی
تھی ،نبی ﷺ جب خطبہ دیتے تو کھجور کے تنے سے ٹیک لگاکر خطبہ دیتے تھے جب آپ کے لیے
منبربنادیا گیا تو آپ اس منبر پر بیٹھ گئے اس وقت ہم نے اس کھجور کے ستون کی اس طرح رونے
کی آواز سنی جس طرح بچہ والی اونٹنی بچے کے فراق میں روتی ہے ،نبی ﷺ نے اس کھجور کے
ستون پر ہاتھ رکھا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ 37اسی طرح مومن کا حال یہ ہے کہ وہ سب لوگوں سے
زیادہ رسول ہللاﷺسے محبت کرتا ہے۔
.ivمکالماتی اسلوب
قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر عقائد باطلہ کا رد کر کے راہ حق کا تعین کرنے کے لیے
مکالماتی انداز بھی اپنایا گیا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم اور نمرود کے درمیان ہونے والے مکالمہ کو
قرآن حکیم نے پیش کیا ہے ۔
ُٰ
ه ہ اللـ تاُ َٰ
ن اَِْه ا َبٰٓ
ٖ ِىْ ر َ ف ْمِیَاھبـر ِْ َآج
َّ ا ِىْ حالـذِلى َّ َ اَ تـرْ َ ََلم
ا
َ َ َ
ْت قال انا َ ُ ِی
يمَُ
ْیِىْ و يح ِىْ ُ َّ
ِىَ الـذ َبُ ر ْـمِیَاھبـر ِْ َ َ
ِذ قال ا ْ َ ْ
ُلكۚ ا ْ
الم
َ
ِنْسِ مِالشَّمِىْ ب ْ
يات ه ََِٰن اللـ َ
ُ فاَّ ْمِـی َاھبـرِْل ا َ
ُ قاَ ْت
ۖ ِی ُ
َام ُح
ْیِىْ و ا
۔"38 َۗ
َ
ر َف
ِىْ ك الـذ َ َّ ِتُهَـبِبِ ف ْرَغ َ ْ
الم ِنها م ِـَ ْتِ بَا
ِ ف َشْر
ِق ْ
الم
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ
ہللا نے اسے سلطنت دی تھی ،جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس
نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ،کہا ابراھیم نے بے شک ہللا سورج مشرق سے التا ہے تو
اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا۔
حضرت ابراہیم ؑ نمرود کو دعوت حق دیتے ہوئے ایک کے بعد ایک دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس
کے ذہن میں موجود ابہام اور باطل خیاالت کو دالئل کے ساتھ رد کیا جاسکے ۔ تا کہ اس کا ذہن حق
کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکے۔ یہ انداز قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ملتا ہے ۔ ایسے
مکالمات کے ذریعے افراد کے اذہان میں موجود سواالت اور ابہام کا دالئل کے ساتھ رد کیا گیا ہے اور
اس کے مقابلے میں حق کو بھی مدلل انداز سے پیش کا گیا ہے۔
.vقصص کا بیان کرنا
اعلی اخالقی اقدار و اوصاف کی ترغیب اور برائیوںٰ انسانی شخصیت کی تعمیرو تشکیل ،کردار سازی،
سے نفرت دالنے کا ایک اہم اور مؤثر ذریعہ واقعات اور قصص ہیں ۔ جن سے انسان غیر شعوری طور
پر متاثر ہوتا ہے اور کسی بیرونی دباؤ اور سرزنش کے بغیراندرونی تحریک کی بنا پر اپنی اصالح پر
متوجہ ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن بھی تربیت افراد کے ضمن میں واقعات اور قصص کا سہارا لیتا ہے۔ ان
اعلی اوصاف و فضائل مثالً عبدیت ،شکر گزاری ،صبر و ٰ قصص کے ذریعے انبیاء و صالحین کے
استقامت ،اقامت دین کے لیے سخت جدو جہد ،زہدو ورع اور اخالص اور للہیت کو نمایاں کرتا ہے تاکہ
افراد کی تربیت اس نہج پر ہو کہ انبیاء ؑ جیسی برگزیدہ ہستیاں بھی مختلف آزمائشوں وآالم کا شکار ہوتی
رہیں لیکن کسی بھی لمحہ انہوں نے ناشکری و بے صبری کا اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح نافرمان اقوام
پر عذاب ٰالہی کا تذکرہ بھی کیا ہے تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ان اقوام میں پائے جانے
والے رذائل مثالً تکبر ،انانیت ،ضد و تعصب ،خود غرضی ،ظلم و سرکشی ،ہوس پرستی سے بچنے
کی تحریک پیدا کی جا سکے ۔ اسی لیے قرآن نے ان قصص کو موجب عبرت ونصیحت قرار دیا ہے ۔
"39
َابِ۔االَْلب
ِى ْ ٌ ِالُول
َة
ْـر ْ ع
ِب ِـم َص
ِه َص
ِىْ ق ن فَاَ د ك َْ َ
"لق
البتہ ان لوگوں کے حاالت میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔
پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ان واقعات میں تکرار پائی جاتی ہے ۔ اس تکرار میں بھی ایک بڑی حکمت
پوشیدہ ہے ۔ کیونکہ داعیان حق کو عموما ً امتحانات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے قصص کے بار
بار اعادہ سے تسلی دینا مقصود ہے کہ وہ دل شکستہ نہ ہوں ہمت اور استقالل سے کام لیں کیونکہ
جیت باآلخر حق کی ہی ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے :
40
َ۔"
دكَاَ ُـؤٖ فِهُ ب َب
ِت ما ُ
نـث ِ َ
ُّسُلء الر َآِ
نبَْ
ْ ا ِنْكَ م ََ
لی ُصُّ ع
نقًَُّل َّ
َكو
اور ہم رسولوں کے حاالت تیرے پاس اس لیے بیان کرتے ہیں کہ ان سے تیرے دل کو مضبوط کر دیں۔
.viترغیب و ترہیب کا استعمال
ترغیب کا مطلب ہے رغبت دالنا ،شوق پیدا کرنا اور ترہیب کا لفظ "رھب "سے ہے ،جس کا معنی ہے
ڈرانا اور خوف زدہ ہونا۔ اس طرح ترغیب و ترہیب کا مطلب ہوا ہللا کی اطاعت اور اسکی بخشش کی
رغبت دالنا اور اس کی نافرمانی اور گناہوں کے انجام بد سے ڈرانا۔تعلیم و تربیت میں تر غیب و تر ہیب
زبردست محرک کا کام دیتے ہیں ۔ داد و تحسین افراد کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے اور
افراد کے کام کرنے کی صال حیت کئی گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر
اس اسلوب کو اپنایا گیا ہے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر موت
کی بیعت کی تو قرآن کریم نے صحابہ کرام کی صدق نیت ،وفاداری اور صبر و استقامت کو دیکھ
کر نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کو داد بھی دی ۔
نكََْ
ُوِعَاي يبْ ُِذَ ا ْن
ِیِنْمُؤ َنِ ْ
الم ه عُِٰىَ اللـ َض
د ر َْ
"َّلـق
ََ
ل نز َْ
َاْ فِـم ِـه ْب
لوُُِىْ ق ما ف َ َ َل
ِم َـع
ِ ف َة
َرَ الشَّجْت َ
تح
ًا ۔"41 يب َر
ِْ ًا ق ْحَتْ فهـم بـُ ثاََََا ْ وِـمْـه
لیََة عََ
ْن السَّك
ِـی
بے شک ہللا مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس
نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح
دے دی۔
یہ اسلوب ہمیں متعدد مقامات پر نظر آتا ہے جیسا کہ مومنین کو جہاد کی ترغیب دینا مقصود ہے ۔ اس
مقصد کے لیے بھی قرآ ن حکیم نے ترغیبی انداز اپنایا ہے
ْ
ِنْ مُم ْجِی
ْك تنَة َُار ِجٰى ت َل
ْ ع ُم َُ
دُّلكْ ا ْا َ
ھل ُـو َٰ
منَ اينِْالـذها َّ يـَ َُّيآ ا "َ
42
ْم۔" َل
ِـی ذاب ا ََ
ع
اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے۔
اسی طرح مختلف مقامات پر ترہیبی انداز بھی اپنایا گیا ہے ۔روز آخرت کی تیاری کے لیے اکساتے
ہوئے ترہیبی انداز اپنایا گیا ہے :
ٌ
َةَاعها شَف َْ ُ م
ِن َلْبيق ًا و
ََال ُ ْئْس شَی َن َّ
نف ْسٌ عنفِي َ
ْزتجما َّال َ ًْيوُوا َ َ َّ
اتق و
َْ ٌ ََ ُ ْ ُ َُ َ 43
ها عدل وال ھم ينصرون۔" َْ
ِن َُ
ذ م ْخ
يؤََال ُو
اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ ان کے لیے کوئی
سفارش قبول ہو گی اورنہ اس کی طرف سے بدلہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔
ٔتی يوم ال ٰکم من قبل ان يا ٰمنوانفقومما رزقن ياايهاالذ ين ا
44
بیع فیہ وال خلۃ وال شفاعۃ۔"
ایمان والوجوہم نےتمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہواس سے پہلے کہ وہ دن آجائےجس
میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت۔
خوبصورت انداز سے خوف ِآخرت کی ترہیب کے ذریعے اپنے بندوں کو انفاق فی سبیل ہللا کی ترغیب
دی جا رہی ہے ۔
.viiتجرباتی اور مشاہداتی اندا ز کا استعمال
قرآن حکیم تربیت افراد کے لیے تجرباتی اور مشاہداتی اسلوب بھی اپناتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ
کے بارے میں ارشاد ہوا:
ََلم
ْ َو
ل اَاَ
ۖ ق ْٰ
تىَو ْیِى ْ
الم تحَ ُْفَیِىْ ك َر
ِن َبِ ا ُ رْم
ِـی َاھ بـر ِْ
ل ا َاَْ قِذَاو
ْـر
ِ َّی
َ الط ِن ًَ
ة مبع َر
َْ ذ اَخُْ
ل ف َاَىْ ق ِۖلبََّْ ق
ِن ْم
َئ َطلی ْ ِ
ِن ٰى و
َٰلك بل َاَ
ل َ ْ ق ْم
ِۖ
ن تؤُ
َّ
هنُُ
دعَّ اْ
ثـم ءا ًُْ َّ ج
ُز هنُْ
ِنَل م َبِ ج ٰى ك
ُل َلْ ع َل
ْعَّ اجثـم ْكَ ُِلیَّ اَ
ھنُْ
ُرَصف
ٌ ۔"45 ْم
ِـی َك ٌ
يز ح َز
ِْ ه ع َٰ َّ
ْ ان اللـ َ َ
ْلمَاع ۚ و ًاْی َ
ْنكَ سَع ِی ْ
ياتَ
اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے
گا ،فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں التے؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو
جائے ،فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر (انہیں ذبح کرکے)
ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بال تیرے پاس جلدی سے آئیں گے ،اور جان
لے کہ بے شک ہللا زبردست حکمت واال ہے۔
عزیر کا قصہ ہے کہ جب ان کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ہللا اس تباہ شدہ بستی کو ؑ اسی طرح حضرت
دوبارہ کیسے زندہ کرے گا تو ہللا تعالی نے انہیں بھی بعث بعد الموت کا مشاہدہ کروایا۔
ٰى َنـل اَاَۚ ق هاَِْش
ُوُر ٰى ع َلٌ ع ية َاو
َِ ِىَ خَّّھ
ية و ََْر
ٰى ق َلَّ ع مرِىْ َ َ َّ
الـذ ْ كَو"ا
ُ
َام ثـم
َّ َ
ِائة ع َ ه م ُٰه اللـ َ
ماتُ َ َ
ۖ فاَ هاِـَْت
مود َ َْ
بع ه َ ُِٰ اللـ ٰذ
ِہ ْیِىْ ھيحُ
ْت
َ ْ َّلب
ِث بل َاَ
ل َ ۖ ق ْم يوْضَ َ بعْ َ َو
ما ا ًْيو ْت
ُ َ ِث َاَ
ل َلب َ ق ْت
ۖ ْ َلب
ِث َم
ل كَاََهۖ۔ قَثبعَ
َ
ِك َار ْ اٰ
ِلى حِم ُر َ ْ
انظ ه و ۖ َسَن
َّْ يتْ َِكَ َلم
َابَشَر
ِكَ وَامَع
ِلى ط ْ اٰ ُر َ ْ
انظ َام ف ة عِائَ
م َ
َّ
ثـم ھا ُ َُ
ِزْش
نـن َ ُ ْفَیِ ك َام ِظ ِلى ْ
الع ْ اَ ُر َ ْ
انظ اسِ وَّ ۖ ِلن ة ل يً
َٰ
لكَ ا ََ
ْعَج
لنَِ
و
ِ شَىْء
ُلٰى ك
َل َٰ
ه ع ََّ
ن اللـ ُ ا
لمَْ
َع َاَ
ل ا َ َلـه۔ ق َی
َّن َّا َ
تب لم ََ
ف ًۚ
اْمھا َلحَْْسُو
نكَ
َ ْ ٌ 46
ِير ۔"قد
یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ (شہر) اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا ،کہا
اسے ہللا مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر ہللا نے اسے سو برس تک مار ڈاال پھر اسے اٹھایا ،کہا
تو یہاں کتنی دیر رہا ،کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا ،فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا
اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں ،اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا
ہے ،اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے
ہیں ،پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک ہللا ہر چیز پر قادر ہے۔
تجرباتی اور مشاہداتی انداز تربیت عین الیقین کا فائدہ دیتا ہے۔ اپنی نظر سے مشاہدہ کرنے کے بعد
انسان کو عقلی اور قلبی یقین حاصل ہوتا ہے۔ اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔
نتائج بحث
قرآن حکیم ہدایت انسانی کے وعدہ خداوندی کی تکمیل کے سلسلے میں نازل شدہ تمام صحف اور
کتب کا خالصہ ،تتمہ اور مکمل کتاب ہے ۔یہ تا قیامت انسانیت کے لیے نور ہدایت ہے ۔ یہ مسائل
حیات کا جامع احاطہ کرتے ہوئے اصولی مگر واضح راہنمائی فرماتا ہے ۔ یہ مفہوم اور معنی کی
ایسی ایسی وسعت کو سمیٹے ہوئے ہے کہ ہر دور کے انسانوں نے اپنی جدت طبع اور فکری صال
حیتوں کے مطابق غواصی کی ہے اور ہر دور کے مسائل کے حل اور وضاحتوں کی نئی تعبیریں
ڈھونڈ یں ہیں اور دور اور اس کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت پذیری کو قائم رکھا ہے ۔ اور ہر دور کے
انسانی معاشرے کی تمام حاجات اور وسعتوں پر محیط ہے ۔ دنیاوی صال ح اور فال ح اور اخروی
نجات اور کامرانی پر مبنی جامع اور کامل ہدایت کا خزینہ ہے ۔ بیمار انسانیت کے لیے روحانی نسخہ
شفاء ہے جو نفس انسانی کی اصال ح کرتے ہوئے انسانی اخالق ،صال حیتوں ،قابلیتوں اور استعدادوں
میں نکھار پیدا کر کے اس کی بھرپور نشو ونما کرتی ہے۔اس مقصد کے لیے قرآن حکیم کا اسلوب اور
منہج بے نظیر ہے ۔ذیل کے نکات قرآن حکیم کے تربیتی منہج کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں ۔
۱۔قرآن حکیم نے بنی نوع انسانی کا تزکیہ نفس کیا اور دنیا کی بے ثباتی کا تصور اذہان میں راسخ
کرتے ہوئے اسے دار العمل قرار دیا۔نیزافرا دکے قلوب میں دنیا سے بے رغبتی کا احساس جاگزیں
تقوی اور زہد کی طرف راغب کیا۔ حصول آخرت کو مقصد حیات قرار دیا۔ کرتے ہوئے انہیں ٰ
۲۔ قرآن حکیم نے اعمال سے پہلے اصالح عقائد کو ترجیح دی اور احکامات کے نزول میں عدم
حرج ،قلت تکلیف اور تدریج کے اصول کو مد نظر رکھا۔
۳۔قرآن حکیم نے وحدت انسانیت کا تصور پیش کرتے ہوئے یا ایھا الناس کے طرز تخاطب سے
تربیت افراد کا دائرہ عامۃ الناس تک وسیع کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے لیے جامع ہدایات بیان کیں
۔ دوسرے مرحلے میں مخصوص گروہ انسانی کے عقائد باطلہ ،کی تردید کرتے ہوئے درست عقائد
کی ترویج کی اور تیسرے مرحلے میں گروہ مومنین کی ہدایت اور راہنمائی کا اہتمام کیا۔
۴۔ قرآن حکیم نے انفرادیت پر اجتماعیت کو ترجیح دی اور انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو مقدم
رکھا۔
۵۔قرآن حکیم نے تربیت افراد کے لیے نفسیات انسانی کو مدنظر رکھا اور تربیت کے لیے فطری
مظاہر سے مثالیں پیش کرتے ہوئے تمثیلی،مکالماتی ۶ ،۔ترغیب و ترہیب ،تجرباتی مشاہداتی ،
استقرائی ،قیاسی ،قسمیہ اور تکرار کے بیسیوں اسلوب اختیار کیے۔
۷۔ افراد معاشرہ پر اپنی اصالح کے ساتھ ساتھ باہم ایک دوسرے کی اصالح کی ذمہ داری کو مسؤلیت
کے تصور سے مستحکم کر دیا۔
حوالہ جات
1راغب اصفہانی ،المفردات فی غریب القرآن،دارالقلم ،الدار الشامیہ ،دمشق بیروت۳۳۶ : ۱،
2محمد شفیع ،مفتی ،معارف القرآن ،ادارہ معارف کراچی ۱۹۸۳ ،ء۱۶۸ : ۱ ،
3البقرہ۳۸ : ۲،
4یونس۵۷ :۱۰ ،
5سعیدی،غالم رسول،تبیان القرآن،فرید بک سٹال اردو بازار ال ہور ۳۸۵ : ۵ ،
6البقرہ۱۵۱:۲
7محمد امین ،ڈاکٹر ،ہمارا دینی نظام تعلیم ،داراالخالص الہور ،جوالئی ۲۰۰۴ء۱۶۵ ،
8الشمس۹ : ۹۱ ،
9الحشر۹ : ۵۹،
10الرعد۱۷ :۱۳،
11البقرہ۲۵۶ : ۲ ،
12ایضاً۲۸۶ ،
13القمر ۱۷ : ۵۴ ،
14نور االنوار۱۷۵ ،
15الحج۷۸ :۲۲،
16احمد حسن زیات استاذ ،تاریخ ادب عربی (،مترجم ،عبد الرحمٰ ن طاہر سورتی ) شیخ غالم علی اینڈ سنز ال ہور ،جون ۱۹۶۱ء ۱۵۹ ،
17البقرہ۲۱ : ۲،
18ایضا۱۶۸ :
19الفرقان۶۳ : ۲۵،۔۷۲
20ایضا ً۷۳،
21التحریم ۶۶ :۶
تعالی اطیعوہللا واطیعوالرسول واولی االمر منکم ،رقم الحدیث ۷۱۳۸ :
ٰ ہللا قول باب الحکام، ا ،کتاب الصحیح 22بخاری ،الجامع
23فیروز آبادی ،تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس ،مطبع ازہریہ مصر ۱۳۴۴ ،ء ۵۶۰ ،
24الشعراء۲۱۴ : ۲۶ ،
25راغب اصفہانی ،ابو القاسم الحسین بن محمد ۵۰۲(،ھ)،المفردات فی غریب القرآن،دارالقلم،الدار الشامیہ،دمشق بیروت۱۴۱۲،ھ ،
٤۳۶ : ۲
26آل عمران ۱۱۰ :
27المائدہ۷۹ : ٥ ،
28ترمذی ،کتاب الفتن ،باب ما جاء فی االمر بالمعروف والنھی عن المنکر ،رقم الحدیث۲۱۶۹:
29البقرہ ۱۷۷ : ۲ ،
30الحجرات۷: ۴۹،
31االنفال۴ : ۸،
32ابراہیم ۴ : ۱۴ ،
33فصلت۴۴ : ۴۱ ،
34الزخرف۳ : ۴۳ ،
35الحشر۲۱ : ۵۹ ،
36ابراہیم۲۷ ، ۲۴ : ۱۴،
37بخاری ،الجامع الصحیح ،کتاب المناقب ،باب عالما النبوة فی االسالم ،رقم الحدیث ۳۵۸۴:
38البقرہ ۲۵۸ : ۲،
39یوسف ۱۱۱ ، ۱۲ ،
40ھود۱۲۰ : ۱۱،
41الفتح۱۸ : ۴۸ ،
42الصف۱۰ : ۶۱،
43البقرہ۴۸ : ۲ ،
44ایضا ً ۲۵۴:
45ایضا ً ۲۶۰ :
46ایضا ً۲۵۹ :