Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 14

‫تربیت افراد کا قرآنی منہج‬

‫ڈاکٹر محمد ارشد‪،‬ایسوسی ایٹ پروفیسر‪،‬ادارہ عر بی و علوم اسالمیہ ‪،‬جی سی ویمن یونیورسٹی ‪ ،‬سیالکوٹ‬
‫سدرہ فردوس ‪ ،‬ایم ایس اسکالر ‪ ،‬ادارہ عر بی و علوم اسالمیہ ‪ ،‬جی سی ویمن یونیورسٹی ‪ ،‬سیالکوٹ‬
‫قرآن حکیم کے وجوہ اعجاز میں اس کا جامع ہوناہے ۔ حیات انسانی کا کو ئی بھی پہلو اور گوشہ ایسا‬
‫نہیں ہے جس کے متعلق قرآن پاک میں راہنمائی موجود نہ ہو۔ قرآن پاک"ھدی اللناس " یعنی‬
‫لوگوں کے لیے ہدایت ہے ۔ قرآن حکیم کا مقصد انسانیت کی ہدایت اور فالح ہے ۔ معاشرے کی اولین‬
‫اکائی فرد ہے اور افراد کی تربیت سے ہی کوئی معاشرہ ایک بہتر ین معاشرہ بن سکتا ہے۔ قرآن حکیم‬
‫وہ نسخہ کیمیا ہے جس نے ایک آن میں عرب کے بادیہ نشینوں کی زندگی میں انقالب برپا کر دیا اور‬
‫ایک صالحہ اور مثالی معاشرے کی بنیاد رکھی ۔ آج بھی تربیت افراد اور صالحہ معاشرے کے قیام کے‬
‫لیے قرآن حکیم کا تربیتی منہج قابل تقلید ہے۔‬
‫معنی و مفہوم‬
‫ٰ‬ ‫تر بیت کا‬
‫تربیت کا مادہ رب سے ہے۔ لفط رب کئی معنوں کا حامل ہے ۔ جیسے بڑھنا ‪ ،‬پھلنا پھولنا‪،‬پرورش کرنا‬
‫غذا دینا‪ ،‬مہذب بنانا‪ ،‬مالک بنانا‪،‬اچھا انتظام کرنا ‪ ،‬نظم و نسق چالنا درست کرنا‪،‬عمدگی پیدا کرنا خراب‬
‫ہونے سے بچانا‪،‬ملنا‪ ،‬الزم ہونا وغیرہ اہم ہیں ۔ امام راغب اصفہانی تربیت کی تعریف کر تے ہوئے‬
‫لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪1‬‬ ‫''التربیۃ ‪،‬ھوانشاء الشی ء حاال فحاالالی حد التمام''‬
‫''کسی چیز کو یکے بعد دیگر ےاس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو ونما‬
‫دینا کہ اپنی حد کمال کوپہنچ جائے۔"‬
‫مفتی محمد شفیع کے مطابق‪:‬‬
‫" تربیت اس کو کہتے ہیں کہ کسی چیز کو اس کے تمام مصالح کی رعایت‬
‫کرتے ہوئے درجہ بدرجہ آگے بڑھایا جائے یہاں تک کہ وہ حد کمال کو پہنچ‬
‫‪2‬‬
‫جائے۔"‬
‫چنانچہ اصطالحی لحاظ سے تربیت سے مراد انسانی شخصیت کے تمام پہلوؤوں کی نشوونما کو‬
‫حد کمال تک پہنچانا ہے ۔‬

‫تزکیہ نفس اور فرائض نبوت کا تعلق‬


‫وتعالی نے حضرت آدم ؑ سے دنیا میں‬‫ٰ‬ ‫قرآن حکیم اس وعدہ خداوندی کی آخری کڑی ہے جو ہللا تبار ک‬
‫دى" پس تمہارے پاس میری ہدایت آئے‬ ‫‪3‬‬ ‫ھً‬
‫ِي ُ‬ ‫ِن‬‫ُم م‬‫َّك‬
‫َن‬ ‫ْت‬
‫ِی‬ ‫ما َ‬
‫يأ‬ ‫َِ‬
‫إَّ‬ ‫اتارتے وقت فرمایا تھا " ف‬
‫گی ۔قرآن حکیم اسی ہدایت و راہنمائی کا ایک سلسلہ ہے۔ جیسا کہ خود قرآن حکیم کا بیان ہے ‪:‬‬
‫ِي‬‫َا ف‬ ‫لم‬‫ء ِ‬ ‫َاٌ‬ ‫َش‬
‫ِف‬ ‫ْ و‬‫ُم‬‫ِك‬ ‫ْ ر‬
‫َب‬ ‫ِن‬‫ٌ م‬
‫َة‬ ‫ِظ‬ ‫ْع‬ ‫ْ َ‬
‫مو‬ ‫ُم‬
‫تك‬ ‫ءْ‬
‫َاَ‬‫د ج‬‫َْ‬
‫َّاسُ ق‬
‫ها الن‬ ‫َُّ‬
‫يَ‬ ‫ياأ‬‫َ‬
‫َ۔" ‪4‬‬‫ِین‬ ‫ُؤم‬
‫ِن‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬‫َة ل‬
‫ِلم‬ ‫ٌ‬ ‫َح‬
‫ْم‬ ‫َر‬
‫دى و‬ ‫ھً‬
‫َُ‬‫ِ و‬‫دور‬‫ُُّ‬
‫الص‬
‫لوگو ! تمہارے پاس تمہارے پروردگار کی طرف سے نصیحت آچکی۔ یہ دلوں کے امراض کی شفا اور‬
‫مومنوں کے لئے ہدایت اور رحمت ہے۔‬
‫اس آیت میں قرآن حکیم کو تربیت نفس کے لیے موعظت و ہدایت اور تزکیہ نفس کے لیے شفا و‬
‫ِ سے مراد یہ ہے کہ نفس کو عقائد‬ ‫دور‬‫ُُّ‬
‫ِي الص‬ ‫َا ف‬ ‫لم‬‫ء ِ‬‫َاٌ‬
‫ِف‬‫َش‬‫رحمت قرار دیا گیا ہے۔ و‬
‫فاسدہ‪ ،‬اعمال خبیثہ اور اخالق مذمومہ جیسے امراض سے پاک کرنا۔ جب یہ چیزیں زائل ہوجاتی ہیں‬
‫تو قلب کو شفاء حاصل ہوجاتی ہے۔"‪ 5‬اور اسی کو تزکیہ نفس کہا جاتا ہے ۔‬
‫مندرجہ باال آیت میں قرآن حکیم کی چار صفات موعظت ' شفا ' ہدایت اور رحمت بیان کی گئی ہیں ۔ ان‬
‫تعالی ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫چاروں صفات کا نبی ﷺ کے منصب نبوت کے ساتھ قوی ربط ہے۔ارشاد باری‬
‫َا‬‫ِن‬‫يت‬ ‫ٰ‬
‫ْ اٰ‬ ‫ُم‬
‫ْک‬ ‫لی‬ ‫ََ‬
‫ْا ع‬ ‫لو‬‫ُْ‬ ‫ْ َ‬
‫يت‬ ‫ُم‬‫ْک‬ ‫ًْال م‬
‫ِن‬ ‫َسُو‬
‫ْ ر‬ ‫ُم‬ ‫ْک‬ ‫َا ف‬
‫ِی‬ ‫لن‬ ‫َر‬
‫ْسَْ‬ ‫َآ ا‬ ‫َم‬‫ک‬
‫ما‬ ‫ُم‬
‫ْ َّ‬ ‫ُک‬‫ِم‬‫َل‬
‫يع‬ ‫َ ُ‬ ‫ۃ و‬ ‫ََ‬‫ْم‬ ‫َ ْ‬
‫الحِک‬ ‫َ و‬‫ٰب‬‫ِت‬
‫الک‬‫ُ ْ‬ ‫ُم‬‫ُک‬ ‫ِم‬‫َل‬
‫يع‬‫َُ‬
‫ْ و‬ ‫ُم‬‫ْک‬
‫ِی‬‫َک‬
‫يز‬ ‫َ ُ‬‫و‬
‫‪6‬‬
‫ن ۔"‬ ‫َْ‬‫ُو‬ ‫لم‬‫َْ‬
‫تع‬‫ْا َ‬ ‫نو‬‫ُْ‬
‫ُو‬ ‫ْ َ‬
‫تک‬ ‫َلم‬
‫میں نے تمھارے درمیان خود تم میں سے ایک رسول بھیجا جو تمھیں میری آیات سناتا ہے۔ تمھاری‬
‫زندگیوں کو پاکیزہ بناتا ہے‪ ،‬تمھیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اور تمھیں وہ باتیں سکھاتا ہے جو‬
‫تم نہ جانتے تھے۔‬
‫تزکیہ نفس کا لفظ قرآن مجید میں تربیت ہی کے ضمن میں آیا ہے۔ ڈاکٹر محمد امین لکھتے ہیں کہ جس‬
‫چیز کو ہم تربیت کہتے ہیں شرعی اصطالح میں اسے تزکیہ کہا جاتا ہے۔‪7‬تزکیہ کے معنی نفس کو تمام‬
‫تقوی جیسی خوبیوں سے آراستہ‬ ‫ٰ‬ ‫ناپسندیدہ‪ ،‬مکروہ اور قبیح عناصر سے پاک کرکے خداخوفی‪ ،‬نیکی اور‬
‫ق کائنات کو درجۂ کمال تک‬ ‫بندگی خال ِ‬
‫ِ‬ ‫کرنا ہے۔ رذائ ِل اَخالق سے بچنا اور فضائ ِل اخالق سے منور ہوکر‬
‫َْ‬
‫د‬ ‫تعالی نے قرآن حکیم میں فالح سے موسوم کیا ہے ‪":‬ق‬ ‫ٰ‬ ‫پہنچانا ہے۔ اسی لیے تزکیہ نفس کو ہللا‬
‫ها۔" ‪8‬وہ کامیاب ہو گیا جس نے تزکیہ نفس کیا۔‬ ‫َك‬
‫ََّ‬ ‫ْ ز‬ ‫من‬‫َ َ‬ ‫َْ‬
‫لح‬ ‫َف‬‫أ‬
‫انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کو ترجیح‪:‬‬
‫دین اسالم کا بنیادی فلسفہ اجتماعیت ہے اسی لیے قرآن حکیم افراد کی تربیت اس نہج پر کرتا ہے‬
‫کہ ان کے افکار و خیاالت پر آفاقیت اور اجتماعیت کا رنگ غالب رہے ۔ یہ افراد کو انسان دوست بناتا‬
‫ہے اور اپنی ذات کی حد بندیوں سے نکال کر دوسروں کو خود پر ترجیح دینے کا درس دیتا ہے ۔صحابہ‬
‫کرام جو ہللا کی برگزیدہ ہستیاں اور براہ راست محمد ؐکی تربیت یافتہ تھیں وہ اس صفت سے بدرجہ اتم‬
‫متصف تھیں ۔ ان کے جذبہ ایثار کی قرآن حکیم نے بھی مدح فرمائی ہے ۔‬
‫ٌ ۔‪9‬‬ ‫َة‬‫َاص‬ ‫َص‬‫ْ خ‬ ‫ِـم‬‫ِـه‬ ‫ن ب‬‫َاَ‬‫ْ ك‬ ‫ََلو‬
‫ْ و‬‫ِـم‬‫ِه‬‫ُس‬‫نف‬‫َْ‬
‫ٰى ا‬ ‫َٰٓ‬
‫ل‬ ‫ن ع‬ ‫َْ‬
‫ُو‬‫ِر‬‫ْث‬
‫يؤ‬‫َُ‬
‫و‬
‫اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ ان پر فاقہ ہو‪،‬‬
‫فرد کے شخصی اوصاف و خصائص جب تک اجتماعیت سے انضمام پذیر نہ ہوں ‪،‬نہ وہ پایہ تکمیل‬
‫کو پہنچتے ہیں اور نہ ہی فردان سے مستفید اور متمتع ہونے کے قابل ہوتا ہے فرد کے تمام تر اوصاف‬
‫و خصائص اور کماالت کی قدرو قیمت اجتماعیت کے ساتھ وابستگی میں ہی مضمر ہے ۔ قرآن حکیم‬
‫نے بھی انسانیت کے لیے نفع رسانی والے امور کے دیر پا رہنے کا تذکرہ کیا ہے ۔‬
‫ْض ۔"‪10‬‬ ‫ِى ْ‬
‫االَرِ‬ ‫ُ ف‬
‫ُث‬‫ْك‬‫َم‬‫َی‬
‫َّاسَ ف‬‫ُ الن‬ ‫ْف‬
‫َع‬ ‫ين‬‫ما َ‬ ‫ما َ‬ ‫ََّ‬‫َا‬
‫و‬
‫اور جو چیز لوگوں کو فائدہ دے وہ زمین میں ٹھہر جاتی ہے ۔‬
‫تربیت کے اصول‬
‫قرآن حکیم کا موضوع انسان ہے ۔ اس لیے قرآن حکیم میں نفسیات انسانی کو مدنطر رکھا گیا ہے‬
‫۔افراد کی کردار سازی اور تربیت کے لیے بھی نفسیاتی اصولوں کو اپنایا گیا ہے۔ قرآن حکیم کے‬
‫مطالعہ سے تربیت افرادکے چند اصول سامنے آتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ۔‬
‫‪ .i‬عدم حرج‬
‫عدم حرج سے مرادانسانوں پر سے تنگی اور سختی کو دور کرناہے۔قرآن مجید نے کہا کہ" الاکراہ‬
‫فی الدين "‪11‬کہ دین میں کچھ تنگی نہیں۔ اس لیے احکامات کو آسان انداز میں پیش کیا گیا ہے تا‬
‫کہ ان پر عمل کرتے ہوئے کسی قسم کی تنگی‪ ،‬سختی یا عار محسوس نہ ہو۔ اور نہ ہی انسان پر ایسا‬
‫کوئی بھی بوجھ ڈاال گیا ہے جو اس کی ہمت اور طاقت سے باہر ہو۔ کیونکہ قرآن حکیم کا اصول ہے‬
‫ها۔"‪ 12‬ہللا کسی کو اس کی طاقت کے سوا تکلیف نہیں دیتا۔بلکہ‬ ‫ََ‬ ‫ُسْع‬‫َِّال و‬
‫ْسًا إ‬ ‫اَّللُ َ‬
‫نف‬ ‫ُ َّ‬ ‫َل‬
‫ِف‬ ‫يك‬‫کہ َال ُ‬
‫نا‬‫َْ‬‫يسَّر‬‫د َ‬ ‫َْ‬ ‫ََلق‬
‫اس کے بدلے آسانی اور سہولت کو مدنظر رکھا گیا ہے ۔اسی لیے کہا گیا "و‬
‫ِر"‪13‬‬‫دك‬ ‫مَّ‬ ‫ْ ُّ‬‫ِن‬‫ْ م‬ ‫هل‬‫ََ‬
‫ِ ف‬ ‫ْر‬
‫ِك‬‫ِلـذ‬ ‫َٰ‬
‫ن ل‬ ‫ُر‬
‫ْا‬ ‫الق‬‫ْ‬
‫اور البتہ ہم نے تو سمجھنے کے لیے قرآن کو آسان کر دیا پھر کوئی ہے کہ سمجھے۔‬
‫ت‬
‫چنانچہ اسی فلسفے کے تحت دین کے تمام معامالت میں آسانی کے پہلو کو مدنظر رکھا گیا۔ شریع ِ‬
‫ت محمدی میں‬ ‫ضروری تھاجبکہ شریع ِ‬‫صے کو کاٹنا َ‬ ‫موسو ی میں کپڑا پاک کرنے کے لئے نجس ح ّ‬
‫ت موسو ی میں قتل کی سزا صرف قتل تھی ِد َیت کی کوئی صورت‬ ‫دھونے سے کپڑا پاک ہوجاتا ہے۔ شریع ِ‬
‫ت محمدی میں ِدیَت کی بھی صورت موجود ہے۔یوں ہی مختلف شریعتوں میں اس طرح‬ ‫نہ تھی جبکہ شریع ِ‬
‫ً‬
‫کے مسائل بھی تھے مثال رات میں کیا گیا گناہ صبح دروازے پر لکھا ہوتا تھا‪ ،‬عبادت خانوں کے عالوہ‬
‫سرنہیں تھی‪،‬‬ ‫کہیں عبادت کرنے کی اِجازت نہیں تھی‪ ،‬ت َ َی ُّمم کے ذَریعے پاکی حاصل کرنے کی نعمت م َی َّ‬
‫زکوة کو آسمان سے اترنے والی آگ جالدیتی تھی‪،‬‬ ‫صہ دینا فرض تھا ‪ ،‬ما ِل ٰ‬ ‫زکوةمیں مال کا چوتھا ح ّ‬ ‫ٰ‬
‫ایک نیک کام پردس نیکیوں کے بجائے ایک ہی نیکی ملتی تھی۔ لیکن دین اسالم میں ایسی کوئی سختی‬
‫‪14‬‬

‫نہیں ہے۔‬
‫‪ .ii‬قلت تکلیف‬
‫قلت تکلیف عدم حرج کا الزمی نتیجہ ہے ۔ احکامات قرآنی میں کم سے کم تکلیف کے اصول کو مدنظر‬
‫تعالی ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫رکھاگیاہے۔ ارشاد باری‬
‫َج ۔"‪15‬‬ ‫َر‬‫ِن ح‬‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ِينِ م‬
‫ِی الد‬ ‫ْ‬‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫َعل علیکم ف‬‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫" وما ج‬ ‫َ‬
‫"ہللا نے تمہارے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی ۔"‬
‫اسی اصول کے تحت دین میں سہولت اور قلت تکلیف کے پہلو کو مد نظر رکھا گیا۔ وضو الزم قرار‬
‫دیالیکن پانی کی عدم دستیابی پرتیمم کی رخصت عنایت کر دی۔ نماز فرض کی لیکن سفر میں کم کر دی‪،‬‬
‫کھڑے ہو کر نماز پڑھنے کی طاقت نہ ہوتو بیٹھ کر ورنہ لیٹ کر اِشارے سے پڑھنے کی اِجازت دیدی‪،‬‬
‫روزہ فرض کیالیکن بیمار و مسافرپراسکی فرضیت مؤخرکردی‪ ،‬ایک مہینا روزہ کا حکم فرمایا تو گیارہ‬
‫مہینے دن میں کھانے کی اِجازت دیدی اور َرمضان میں بھی راتوں کو کھانے کی اِجازت دی بلکہ سحری‬
‫و افطاری کے کھانے پر ثواب کا وعدہ فرمایا۔استطاعت نہ ہونے کی صورت میں حج فرض نہیں ہے ۔‬
‫صاحب نصاب نہیں تو زکوة فرض نہیں ہے ۔ اشیائے خوردونوش میں اگر کوئی کوئی چیز حرام قرار‬
‫دی تو اس کے متبادل کے طور پر متعدد اشیاء کو حالل قرار دے دیا۔ تجارت میں سود حرام قرار دیا تو‬
‫منافع حالل کر دیا۔عبادات کے ساتھ معاشرتی معامالت میں بھی جہیز‪،‬بارات اورغمی خوشی کے‬
‫دیگرمواقع کو آسان تر کر دیا۔‬
‫‪ .iii‬تد ریج‬
‫ت موسوی میں تمام‬ ‫قرآن حکیم نے تربیت افراد میں تدریج کو خاص طور پرپیش نظر رکھاہے‪ ،‬شریع ِ‬
‫احکام ٰالہیہ ایک ساتھ نازل ہوئے جبکہ شریع ِ‬
‫ت محمدی میں نفوذ احکامات اور تربیت افراد میں خاص‬ ‫ِ‬
‫طور ہر تدریجی اسلوب اپنایا گیا۔ پہلے اذہان سازی کی گئی قلوب کو تعمیل حق کے لیے تیار کیا گیا‬
‫اور پھر احکامات کا نفاذ کیا گیا ۔مکی زندگی میں احکامات کی بجائے عقائد اور ایمانیات کی تربیت‬
‫ہوئی اور پھر مدنی زندگی میں اعمال کی باری آئی ۔استاذ احمد حسن زیات لکھتے ہیں ‪:‬‬
‫" مکی سورتیں جو دو تہائی قرآن ہیں ‪ ،‬اصول دین پر اور مدنی سورتیں اصول‬
‫احکام پر مشتمل ہیں ۔ اصول دین کا تمام تر انحصار خدا اس کے رسول اور‬
‫آخرت کے دن پر ایمان النے ‪ ،‬نیک کام کرنے اور برے کاموں سے بچے رہنے‬
‫‪16‬‬
‫پر ہے۔"‬
‫ابتداء میں دو نمازیں ہی فرض تھیں لیکن پانچ نمازوں کی ادائیگی مدنی زندگی میں شروع ہوئی ۔‬
‫اسی طرح شراب کوتدریجاحرام کیا گیا‪،‬پردے کے احکامات آہستہ آہستہ نازل ہوئے ‪،‬پوری مکی زندگی‬
‫جہاد کے حکم سے خالی رہی بآلخرمدنی زندگی میں جہاد کے احکامات نازل ہوئے ۔اسی طرح رباآخری‬
‫ایام میں حرام کیاگیاجب کہ مومنین کے اذہان ان پابندیوں کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو چکے تھے۔‬
‫تربیت کے درجات‬
‫قرآن حکیم کا مطالعہ کرنے سے تربیت کے تین درجات سامنے آتے ہیں ۔‬
‫‪ .i‬عامتہ الناس کی تربیت‬
‫قرآن حکیم نے تربیت افراد کے لیے یاایھاا لناس کہہ کر عامۃ الناس کو مخاطب کیا اور ان کو‬
‫توحید کی دعوت دی جو کہ تربیت انسان کی بنیادی ضرورت ہے ۔‬
‫ْ‬‫ُ‬
‫ِكم‬ ‫ْل‬ ‫َ‬
‫ِن قب‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫ين م‬‫ِْ‬ ‫َّ‬ ‫َ‬
‫ْ والذ‬ ‫ُم‬‫َك‬
‫لق‬‫ََ‬
‫ِىْ خ‬ ‫ُ َّ‬
‫الذ‬ ‫ُم‬ ‫ََّ‬
‫بك‬ ‫ْا ر‬ ‫ُُ‬
‫دو‬ ‫ْب‬‫َّاسُ اع‬‫ها الن‬ ‫يَ‬‫َُّ‬
‫يا‬‫ٰٓ‬
‫ٰ‬
‫‪17‬‬ ‫َْ‬
‫ن ۔"‬ ‫ُو‬
‫َّق‬
‫تت‬‫ْ َ‬‫ُم‬
‫لك‬‫ََّ‬
‫َلع‬
‫اے لوگوں اپنے اس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا یہی تمہارا‬
‫بچاؤ ہے ۔‬
‫با طل عقائد و نظریات کے حامل افراد کی تربیت‬ ‫‪.ii‬‬
‫اس کے بعد مختلف باطل عقائد کے حامل افراد کو يا يهاالکافرون اور يا‬
‫يهاالمنافقون کہہ ان کو ان کے غلط نظریات اورافعال پر جھنجھوڑا ہے ۔‬
‫‪ .iii‬مومنین کی تربیت‬
‫امنو ا کہہ کر صاحبان ایمان کی تربیت کے لیے جامع‬ ‫اس کے بعد يا يها الذين‬
‫انداز میں رہنمائی فرمائی ۔‬
‫ٰتِ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ْا خطو‬ ‫ُو‬ ‫َّ‬ ‫َ‬
‫َال تتب‬
‫ِع‬ ‫َ‬ ‫ً‬‫َّ‬
‫ِ كافة ۠ و‬‫ۗ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫ِلم‬‫ِي الس‬ ‫ْا ف‬ ‫ُ‬‫ُ‬ ‫ْ‬
‫منوا ادخلو‬ ‫ُ‬ ‫َٰ‬
‫َ ا‬ ‫ين‬‫ِْ‬ ‫ها َّ‬
‫الذ‬ ‫يَ‬‫َُّ‬
‫يا‬‫ٰٓ‬
‫ٰ‬
‫‪18‬‬
‫ٌ ۔"‬
‫ْن‬‫ِی‬‫مب‬‫ٌّ ُّ‬
‫دو‬ ‫َُ‬ ‫ُم‬
‫ْ ع‬ ‫ه َلك‬ ‫نِ اَّ‬
‫ِنٗ‬ ‫ٰۭ‬ ‫الشَّی‬
‫ْط‬
‫ایمان والو !اسالم میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے قدموں کی تابعداری نہ کرو وہ تمہارا‬
‫کھال دشمن ہے ۔‬

‫تربیت افراد کے مراحل‬


‫اسالم کا مقصود صالح معاشرے کا قیام ہے ۔ تزکیہ و تربیت افراد ہی وہ واحد راستہ ہے جس کے‬
‫ذریعے سے صالح معاشرے کا قیام وجود میں الیا جا سکتا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے قرآن‬
‫حکیم نے انسانیت کی ہمہ گیر تربیت کا آغاز کیا اور درجہ بدرجہ تربیت کے مختلف مرا حل ذکر‬
‫کیے جن میں فرد کی اپنی تربیت کے ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ ‪ ،‬قرابت دار اور دیگر افراد معاشرہ کی‬
‫تربیت کی ذمہ داری بھی ڈال دی ۔یہ مرا حل ذیل میں بیان کیے جاتے ہیں۔‬
‫‪ .i‬اپنی ذات کی تربیت‬
‫قرآن حکیم افراد کی تربیت کے لیے بہت سے ایسے ایجابی اور سلبی اوصاف کا تذکرہ بھی کرتا ہے‬
‫جن کے ذریعے سے فرد خود کا تزکیہ کر سکے اور ایک مثالی فرد بن سکے ۔ ایجابی اوصاف میں‬
‫صبر و شکر ‪،‬صدق ‪،‬ذکر اخالص‪،‬ایفاء ‪،‬انکساری‪،‬میانہ روی‪،‬عفت‪ ،‬یقین ‪،‬استقامت‪،‬ایثار‪،‬نفع‬
‫رسانی‪،‬عفودرگزر‪،‬عبادت وریاضت‪،‬خدمت خلق کو اپنا کر اپنی تربیت کی جا سکتی ہے ۔ قرآن حکیم‬
‫کی متعدد آیات میں ان ا وصاف کا تذکر ہ ملتا ہے۔ جیسا کہ سورة الفرقان میں ایسے بہت سے ایجابی‬
‫اوصاف کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کو اپنا کر فرد ایک صالح فرد بن سکتا ہے۔‬
‫ُ‬
‫هـم‬ ‫َُ‬‫َب‬‫َاط‬ ‫َا خ‬ ‫ِذ‬‫َا‬‫نا و‬ ‫ًْ‬
‫ھو‬‫ض َ‬ ‫ِْ‬ ‫لى ْ‬
‫االَر‬ ‫ََ‬‫ن ع‬‫َْ‬
‫ْشُو‬
‫يم‬‫َ َ‬ ‫ين‬ ‫ِْ‬
‫الـذ‬ ‫ٰنِ َّ‬ ‫ْـم‬‫َّح‬
‫د الر‬ ‫َاُ‬ ‫َع‬
‫ِب‬ ‫و‬
‫ََلم‬
‫ْ‬ ‫ْا و‬ ‫ُو‬‫ِف‬‫يسْر‬‫ْ ُ‬ ‫ْا َلم‬ ‫ُو‬‫َق‬‫نف‬‫َآ ا‬
‫َْ‬ ‫ِذ‬‫َ ا‬ ‫ِْ‬
‫ين‬ ‫َ َّ‬
‫الـذ‬ ‫ما ۔و‬ ‫ْا سَََلً‬ ‫الو‬‫َ ُ‬
‫ن ق‬ ‫َْ‬ ‫َاھُ‬
‫ِلو‬ ‫ْ‬
‫الج‬
‫ٰه‬
‫ِ‬ ‫َ اللـ‬ ‫مع‬‫ن َ‬ ‫َْ‬‫ُو‬
‫دع‬‫يْ‬‫َ َال َ‬ ‫ِْ‬
‫ين‬ ‫َ َّ‬
‫الـذ‬ ‫ما ۔ و‬ ‫َاً‬‫َو‬‫ِكَ ق‬ ‫ٰل‬‫َ ذ‬ ‫ْن‬‫بی‬‫ن َ‬‫َاَ‬‫َك‬ ‫ْا و‬ ‫ُو‬ ‫ُـر‬‫ْت‬
‫يق‬‫َ‬
‫ََال‬
‫ِ و‬ ‫َق‬ ‫ِال ب ْ‬
‫ِالح‬ ‫ه اَّ‬‫ُٰ‬‫َ اللـ‬ ‫َّم‬
‫َر‬‫ِىْ ح‬ ‫ْسَ َّ‬
‫الت‬ ‫َّف‬
‫ن الن‬ ‫َْ‬ ‫ُ‬
‫ُلو‬ ‫ْت‬‫يق‬‫ََال َ‬
‫َ و‬ ‫َر‬ ‫ٰخ‬
‫ها ا‬ ‫اٰ‬
‫ِلـً‬
‫۔ "‪19‬‬ ‫َْ‬
‫ۚ‬
‫ن‬ ‫نـو‬‫ُْ‬
‫يز‬‫َ‬
‫رحمن کے بندے وہ ہیں جو زمین پردبے پاؤں چلتے ہیں اورجب ان سے بے سمجھ لوگ بات کریں‬ ‫ٰ‬ ‫اور‬
‫تو کہتے ہیں سالم ہے ۔اور وہ لوگ جب خرچ کرتے ہیں تو فضول خرچی نہیں کرتے اور نہ تنگی کرتے‬
‫ہیں اور ان کا خرچ ان دونوں کے درمیان اعتدال پر ہوتا ہے۔اور وہ جو ہللا کے سوا کسی اور معبود کو‬
‫نہیں پکارتے اور اس شخص کو ناحق قتل نہیں کرتے جسے ہللا نے حرام کر دیا ہے اور زنا نہیں کرتے‬
‫۔‬
‫اسی طرح قرآن حکیم میں کچھ ایسے اوصاف کا بھی ذکر ہے جن سے اجتناب تربیت افراد کی تکمیل‬
‫کے لئے ناگزیر ہے۔ قرآن حکیم نے ان رذائل کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے ۔‬
‫‪20‬‬
‫ما۔"‬‫َاً‬ ‫ِـر‬ ‫ْا ك‬ ‫ُّو‬
‫مر‬‫ِ َ‬‫ْو‬ ‫ْا ب َّ‬
‫ِاللغ‬ ‫ُّو‬
‫مر‬ ‫َا َ‬ ‫َا‬
‫ِذ‬ ‫َ‬
‫ْر‬
‫َۙ و‬ ‫ُّو‬
‫ن الز‬ ‫َْ‬‫دو‬ ‫يشَْ‬
‫هُ‬ ‫َ َال َ‬‫ين‬ ‫ِْ‬
‫الـذ‬‫َ َّ‬
‫"و‬
‫اور جو بیہودہ باتوں میں شامل نہیں ہوتے‪ ،‬اور جب بیہودہ باتوں کے پاس سے گزریں تو شریفانہ طور‬
‫سے گزرتے ہیں۔‬
‫آیت مبارکہ میں بیہودہ باتوں سے مراد اخالق رذیلہ ہیں ۔ ان میں جھوٹ ‪،‬غفلت ‪،‬ریا کاری ‪ ،‬عہد شکنی‬
‫‪،‬تکبر ‪،‬اسراف‪،‬بخل‪ ،‬منافقت‪،‬بے حیائی ‪،‬زیادتی‪،‬نا شکری اور تفرقہ جیسے اوصاف رذیلہ ہیں ۔‬
‫‪ .ii‬اہل خانہ کی تربیت‬
‫قرآ ن حکیم جہاں فرد کو خود کی تربیت اور تزکیہ پر ابھارتا ہے وہیں" يا يهاالذ ين‬
‫ً "‪ 21‬کہہ کر اپنے اہل خانہ کی تربیت اور‬ ‫امنوا قوا انفسکم واھلیکم نارا‬
‫اصالح کی ذمہ داری بھی اس پر ڈال دی گئی ہے۔کیونکہ از روئے اسالم ہر فرد ذمہ دار ہے جیسا کہ‬
‫حدیث مبارکہ میں بھی ہے " اال کلکم راع و کلکم مسؤل عن رعیتہ۔" ‪22‬۔ ہر‬
‫فرد نگہبان ہے اور اس سے اس کی رعایا کے بارے میں پوچھا جائے گا۔ لہٰ ذا فرد پر الزم ہوا کہ وہ‬
‫اپنے ساتھ ساتھ اپنے اہل خانہ کی تربیت کا خصوصی اہتما م کرے ۔ انہیں نیکیوں کی طرف مائل کرے‬
‫اور گناہوں باز رکھے تا کہ نہ صرف وہ معا شرے کے مفید ارکان ثابت ہوں بلکہ ا خروی فالح کا‬
‫حصو ل بھی ممکن ہو سکے ۔ جیسا کہ ابن عباس بھی اس آیت کا مفہوم بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں‬
‫کہ ‪:‬‬
‫اے لوگو جو محمد ﷺ اور قرآن پر ایمان الئے ہو اپنی جانوں اپنی قوم نیز‬
‫اپنی اوالد اور عورتوں کو آگ سے بچاؤ یعنی ان کو ایسا ادب اور خیر سکھاؤ‬
‫‪23‬‬
‫جس کی وجہ سے وہ آگ سے بچ جائیں۔‬
‫‪ .iii‬قرابت داروں کی تربیت‬
‫اپنی ذات ‪ ،‬اہل و عیال کی تربیت کے بعد قرابت داروں کی تربیت کا ذکر ملتا ہے ۔ جیسا کہ آپ ﷺ کو‬
‫بھی حکم ہوا تھا کہ ‪:‬‬
‫وانذر عشیرتک اال قربین ۔ " اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے"‬
‫‪24‬‬

‫اس آیت میں قریبی رشتہ داروں کے لیے عشیرة کا لفظ ہے اور عشیرہ کا لفظ عشرہ سے بنا ہے‬
‫اور عشرہ (دس کا عدد) عددکامل ہے۔ اس لئے یہ لفظ کسی شخص کے ان رشتہ داروں کی جماعت‬
‫‪25‬‬
‫کا نام بن گیا جو کثیر تعداد میں ہوں۔ خواہ وہ اس کے قریب ہوں یا اس کے معاون ہوں۔‬
‫جس طرح صلہ رحمی میں االقرب فاال قرب کی ترجیح ہے اسی طرح اصال ح و تربیت میں بھی‬
‫ترجیح ہے۔ صلہ رحمی کا ایک تقاضا قرابت داروں کی تربیت کرنا بھی ہے تا کہ وہ اخروی فالح پا‬
‫سکیں۔‬
‫‪ .iv‬معاشرے کی تربیت‬
‫قرآن حکیم میں امت مسلمہ کو خیر امت اور امت وسط کہہ کر پکارا گیا ہے ۔‬
‫َنِ‬ ‫َْ‬
‫ن ع‬‫هو‬‫َْ‬
‫تن‬‫ََ‬
‫ُوفِ و‬ ‫َع‬
‫ْر‬ ‫ن ب ْ‬
‫ِالم‬ ‫ُوَ‬‫مر‬‫ُْ‬
‫تأ‬‫َّاسِ َ‬
‫ِلن‬‫ْ ل‬‫َت‬ ‫ْر‬
‫ِج‬ ‫ُخ‬
‫مة أ‬ ‫َُّ‬
‫َ أ‬‫ْر‬‫َی‬
‫ْ خ‬ ‫ُنت‬
‫ُم‬ ‫ك‬
‫ن ب َّ‬
‫ِاَّللِ۔"‪26‬‬ ‫ُوَ‬‫ِن‬‫ْم‬‫تؤ‬‫َُ‬
‫ِ و‬‫َر‬‫ُنك‬ ‫ْ‬
‫الم‬
‫اس آیت میں امت مسلمہ کے خیر االمم ہونے کی وجہ یہ بیان فرمائی ہے کہ یہ خلق ہللا کو نفع‬
‫پہنچانے ہی کے لئے وجود میں آئی ہے ‪ ،‬اور اس کا سب سے بڑا نفع یہ ہے کہ خلق ہللا کی روحانی‬
‫اور اخالقی اصالح کی فکر کرنا‪،‬معاشرے میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرنا اور قوائے‬
‫انسانی کی ساری شاخوں کی پرورش کرنا اور سب کا یکساں تزکیہ کرنا ۔‬
‫معروف وہ کام ہیں جن کو فطرت انسانی پہچانتی ہے یعنی سارے نیک کام اور منکر وہ ہے جس سے‬
‫فطرت انسانی انکار کرتی ہے یعنی سارے برے کام۔ بدترین حالت کسی قوم کی وہ ہوتی ہے جب وہ‬
‫اپنے لوگوں کو برا کرتے دیکھیں اور اس سے ان کو نہ روکیں چنانچہ یہودیوں کی بدترین حالت کا‬
‫نقشہ کھینچتے ہوئے خود قرآن کریم میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ‪ :‬ک‬
‫َ‬
‫ْن‬‫َلو‬‫ُ‬‫ْع‬‫يف‬‫ْا َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ما کانو‬ ‫ْ‬
‫ِئسَ َ‬‫ہ َلب‬ ‫ُْ‬‫لو‬ ‫َُ‬
‫َع‬‫َر ف‬ ‫ْك‬‫من‬‫ْ ُّ‬
‫َن‬‫ن ع‬‫َْ‬‫ہو‬‫َاَ‬‫َن‬ ‫ْا َال َ‬
‫يت‬ ‫"ک ُ‬
‫انو‬
‫۔"‪27‬‬

‫كه وہ برائیوں میں پڑجاتے ہیں تو پھر اس سے باز نہیں آتے البتہ یہ بڑی ہی برائی تھی جو وہ کیا‬
‫کرتے تھے۔ “۔‬
‫آپﷺ نے بھی امت مسلمہ کو امر بالمعروف کی تاکید فرمائی ہے اور غفلت کی صورت میں عذاب‬
‫ٰالہی سے ڈرایا ہے۔‬
‫آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے تم ضرور‬
‫تعالی تم پر اپنا‬
‫ٰ‬ ‫بالضرور اچھائی کا حکم کرتے رہو اور برائی سے روکتے رہو ورنہ عنقریب ہللا‬
‫‪28‬‬
‫عذاب بھیج دے گا ۔ پھر تم اس کے دور ہونے کی دعا کرو گے مگر تمہاری دعا قبول نہیں ہوگی‬
‫قرآن حکیم کاتربیتی منہج‬
‫قرآن حکیم نے انسانی نفسیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے تربیت کے لیے مختلف اسلوب اپنائے ۔ کہیں‬
‫قصص کا اسلوب اختیار کیا گیا ہے تو کہیں تمثیلی انداز اپنایا گیا۔ کہیں مکالماتی انداز اپنایا گیا ہے‬
‫تو کہیں قسمیہ انداز۔ کہیں تکرار سے کام لیا گیا ہے تو کہیں ترغیب و ترہیب کا طریقہ اپنایا گیا۔ غرض‬
‫بیسیوں اسلوب ہیں جو قرآن حکیم نے تربیت افراد کے لیے اپنائے ہیں۔ جوامع الکلمات کا استعمال‪،‬‬
‫تشبیہ‪ ،‬استعارہ ‪ ،‬کنایہ ‪ ،‬حقیقت و مجاز کےبر محل اور بھر پور استعمال نے کالم کی تاثیر آفرینی‬
‫کو کئی گنا تک بڑھا دیا ہے۔ بار بار تکرار کے انداز نے اس کے حسن کو دوباال کر دیا ہے۔ اس کا‬
‫اسلوب آسان اور سادہ بھی ہے لیکن حکمت اور دانش سے بھرپور بھی۔ اسی لیے اس کالم کی تاثیر‬
‫ایسی ہے جو دلوں پر سحر طاری کر دیتی ہے۔ ہر ذہنی سطح کے افراد کی بھرپور تشفی کا سامان‬
‫لیے ہوئے یہ کتاب آج بھی ایک زندہ معجزہ ہے جس کی نظیر نہ ڈیڑھ ہزار سال پہلے کے فصیح و‬
‫بلیغ عرب پیش کر سکے اور نہ ہی آج کے جدید علم و تحقیق کے حامل زمانے میں کسی سے اس‬
‫کا جواب بن سکا۔‬
‫‪ .i‬اصالح عقائد و ایمانیات‬
‫قرآن حکیم نے تربیت افراد میں سب سے پہلے اصال ح عقائد پر توجہ دی اور عقائد و ایمانیات کو افراد‬
‫کے اذہان و قلوب میں راسخ کر دیا۔ کیونکہ عقائد بنیادکی سی حیثیت رکھتے ہیں جن پر اعمال کی‬
‫مضبوط عمارت استوار ہوتی ہے۔ اگر عقائد ہی میں بگاڑ ہو تو پھر ایک صالح معاشرے کا قیام ممکن‬
‫نہیں ہوتا۔اسی لیے قرآن حکیم نے عقائد و ایمانیات کو دین کی اصل قرار دیا ہے ۔ قرآن حکیم میں ہے ‪:‬‬

‫ِق‬
‫ِ‬ ‫َشْر‬ ‫ْ‬
‫الم‬ ‫َ‬
‫َل‬ ‫ْ ق‬
‫ِب‬ ‫ُم‬
‫ھك‬ ‫َْ‬ ‫ُج‬
‫ُو‬ ‫ْا و‬ ‫َُّلو‬
‫تـو‬ ‫ن ُ‬ ‫َْ‬
‫َّ ا‬ ‫ِـر‬‫الب‬‫ْ‬ ‫ْسَ‬‫َّلی‬
‫ِ‬ ‫ِ ْ‬
‫االٰخِر‬ ‫ْم‬‫َو‬ ‫َ ْ‬
‫الی‬ ‫ِ و‬‫ٰه‬‫ِاللـ‬ ‫َ ب‬‫من‬‫َٰ‬‫ْ ا‬ ‫من‬‫َّ َ‬
‫ِـر‬ ‫الب‬‫َّ ْ‬‫ِن‬‫َٰلك‬
‫ِبِ و‬ ‫ْر‬‫َغ‬‫الم‬ ‫َ ْ‬ ‫و‬
‫‪29‬‬
‫َ ۔"‬
‫ۚ‬
‫ْن‬‫ِیِی‬‫َّب‬
‫َالن‬ ‫َابِ و‬ ‫ِت‬ ‫َ ْ‬
‫الك‬ ‫ِ و‬‫َـة‬‫ِك‬ ‫َََلئ‬
‫الم‬ ‫َ ْ‬ ‫و‬
‫نیکی یہ نہیں کہ تم اپنے منہ مشرق اور مغرب کی طرف پھیرو بلکہ نیکی تو یہ ہے جو ہللا اور قیامت‬
‫کے دن پر ایمان الئے اور فرشتوں اور کتابوں اور نبیوں پر۔‬
‫یہ قرآن ہی کا اعجاز تربیت تھا کہ دین کی محبت نے صحابہ کرام کی روح کو اس طرح سے‬
‫مشک بار کر دیاکہ ہللا اور اس کا رسول انہیں سب سے بڑھ کر محبوب ہو گئے ۔ سورة الحجرات میں‬
‫اسے احسان ٰالہی قرار دیا گیاہے‪:‬‬
‫ُم‬
‫ُ‬ ‫َِلیك‬ ‫ہ إ‬ ‫َر‬
‫ََّ‬ ‫َك‬‫ُم و‬‫ِك‬‫ُلوب‬ ‫ه فى ق‬ ‫َُ‬‫ين‬‫ََّ‬
‫َز‬‫َ و‬‫ٰن‬‫ُ اإليمـ‬ ‫ُم‬‫َِلیك‬‫َ إ‬ ‫َّب‬
‫َب‬ ‫َّ َّ‬
‫اَّللَ ح‬ ‫ِن‬‫ٰك‬‫َلـ‬ ‫"و‬
‫ن ۔"‪30‬‬ ‫ِدوَ‬ ‫الرش‬ ‫ُ ٰ‬ ‫ھم‬‫ِكَ ُ‬ ‫ٰئ‬ ‫ُ‬
‫ن أولـ‬ ‫ِصیاَ‬ ‫َالع‬ ‫َ و‬ ‫ُسوق‬ ‫َالف‬ ‫َ و‬ ‫ُفر‬ ‫الك‬
‫تعالی نے ایمان کو تمہارے لئے محبوب بنا دیا اور اس کو تمہارے دلوں میں سجا دیا اور‬ ‫ٰ‬ ‫''اور لیکن ہللا‬
‫کفر‪ ،‬فسق اور نافرمانی کو تمہارے لئے ناپسندیدہ بنا دیا۔یہی لوگ بھالئی پانے والے ہیں۔''‬
‫یہ اسی تربیت کا اعجاز تھا کہ جو ایک بار دائرہ ایمان میں داخل ہو گیا توپھر دین اسالم کی محبت‬
‫اس کے لیے دنیا و ما فیہا سے بڑھ کر ہو گئی۔ کوئی رشتہ کوئی ظلم و ستم کوئی مادی غرض ان‬
‫جانثاران حق کے قدموں میں لغزش نہ پیدا کر سکی۔ انہی لوگو ں کے لیے قرآن پاک کہا گیا ہے‬
‫ًّا۔"‪31‬‬ ‫َق‬‫ن ح‬ ‫َْ‬
‫ُـو‬ ‫ِن‬‫ْم‬
‫ُؤ‬‫الم‬‫ُ ْ‬ ‫ھـم‬ ‫ِكَ ُ‬ ‫ُ ٰٓ‬
‫ٰ‬
‫ولئ‬ ‫"ا‬
‫‪ .ii‬مادری زبان کا استعمال‬
‫الہامی ہدایت اور تربیت کی ایک خاصیت یہ رہی ہے کہ تمام انبیاء نے اپنی قوم کی زبان ہی کو وعظ‬
‫و نصیحت کے لیے استعمال کیا۔ اس اصول فطرت کو سورہ ابراہیم میں نہایت بلیغ انداز میں بیان کر‬
‫دیا گیا ہے ۔‬
‫َُ َ َ ُ ْ ‪32‬‬
‫ِـیبیِن لـهـم ۔"‬ ‫ِه ل‬ ‫ْم‬‫َو‬‫ِسَانِ ق‬‫ِل‬ ‫ْل اَّ‬
‫ِال ب‬ ‫َّسُو‬‫ْ ر‬‫ِن‬‫َا م‬ ‫لن‬ ‫َر‬
‫ْسَْ‬ ‫مآ ا‬ ‫ََ‬
‫و‬ ‫"‬
‫اور ہم نے ہر پیغمبر کو اس کی قوم کی زبان میں پیغمبر بنا کر بھیجا ہے تاکہ انہیں سمجھا سکے۔‬
‫قرآن حکیم بھی اپنے مخاطبین کی زبان یعنی عربی میں نازل ہوا۔ اگر اہل عرب میں کسی اور زبان‬
‫میں ہدایت کا پیغام بھیج دیا جاتا تو ان کا براہ راست نا قابل تردید الزام یہ ہوتا کہ وہ اسے کیسے‬
‫سمجھ سکتے ہیں ۔ کیونکہ یہ ان کی فطری زبان میں نہیں ہے ۔ جیسا کہ سورہ فصلت میں ہے ‪:‬‬
‫‪33‬‬
‫ته۔"‬ ‫ياُ‬ ‫َٰ‬‫ْ ا‬ ‫ُصَ‬
‫ِلت‬ ‫َْال ف‬ ‫ْا َلو‬ ‫َ ُ‬
‫الو‬ ‫ًّا َّلق‬‫ِی‬‫َـم‬‫ْج‬‫َع‬‫نا ا‬ ‫ًٰ‬
‫ْا‬‫ُر‬
‫ہ ق‬ ‫َاُ‬‫لن‬ ‫َْ‬
‫َع‬‫ْ ج‬ ‫ََلو‬‫و‬
‫اور اگر ہم اسے عجمی زبان کا قرآن بنا دیتے تو کہتے کہ اس کی آیتیں صاف صاف بیان کیوں نہیں کی‬
‫گئیں ۔‬
‫قرآن حکیم کو عربی میں نازل کرنے کی حکمت بیان کرتے ہوئے سورہ الزخرف میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ن۔"‪34‬‬ ‫َْ‬ ‫ْقُ‬
‫ِلو‬ ‫تع‬ ‫ُم‬
‫ْ َ‬ ‫ََّ‬
‫لك‬ ‫ًّا َّلع‬
‫ِی‬‫َب‬‫َر‬‫نا ع‬ ‫ًٰ‬
‫ْا‬‫ُر‬
‫ہ ق‬ ‫َاُ‬‫لن‬ ‫َْ‬
‫َع‬‫ِنا ج‬ ‫اَّ‬
‫ہم نے اسے عربی زبان میں قرآن بنایا ہے تاکہ تم سمجھو۔‬
‫ٰ‬
‫قرآن حکیم کے عربی زبان میں ہونے کا یہ فائدہ ہوا کہ وہ منشا ء الہی کو بآسانی سمجھنے کے قابل ہو‬
‫گئے۔ یوں وہ عجمیوں کو بتانے اور سمجھانے کے قابل ہو گئے۔ اگر قرآن خود ان ہی کی سمجھ میں نہ‬
‫آتا تو وہ عجمیوں کو کیسے سمجھا پاتے ۔‬
‫‪ .iii‬امثال کا استعمال‬
‫تر بیت اور تدریس میں تمثیلی انداز نہایت مؤثر ثابت ہوتا ہے ۔ کیونکہ انسانی فطرت ہے کہ وہ محسوس‬
‫اور مرئی اشیاء کی جانب جلد متوجہ ہوتا ہے اور ان کے متعلق قصص اور امثال کو دلچسپی اور دلجمعی‬
‫سے سنتا ہے اور جلد اثر قبول کرتا ہے ۔ اسی لیے قرآن حکیم میں بکثرت تمثیلی اسلوب اختیار کیا گیا‬
‫ہے۔ تاکہ لوگ انہیں شوق سے پڑھیں ‪ ،‬غور سے سنیں اور شعوری اور ال شعوری طور پر ان سے‬
‫عبرت حاصل کریں ۔ قرآن حکیم میں بھی تمثیلی اسلوب کی یہی حکمت بیان کی گئی ہے ‪:‬‬
‫‪35‬‬ ‫َْ‬
‫ن ۔"‬ ‫َّـر‬
‫ُو‬ ‫َك‬‫َف‬‫يت‬ ‫ْ َ‬
‫هـم‬‫لُ‬‫ََّ‬
‫َّاسِ َلع‬
‫ِلن‬ ‫ها ل‬ ‫بـَ‬ ‫ُِ‬‫ْر‬‫نض‬‫ل َ‬‫َاُ‬‫مث‬ ‫ِلكَ ْ‬
‫االَْ‬ ‫َتْ‬‫"و‬
‫اور ہم یہ مثالیں لوگوں کے لیے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور کریں۔‬
‫قرآن مجید میں مختلف مقامات پر مختلف باتیں سمجھانے کے لیے کئی ایک مثالیں بیان فرمائی ہیں۔جیسا‬
‫کہ سورة البقرہ میں منافقین اور کفار کے لیے تمثیلی اسلوب اختیار کیا گیا ہے ۔اس کے عالوہ غیبت کی‬
‫کراہیت ‪ ،‬نمودو نمائش کے لیے خرچ کرنے والوں کے عمل کے ضیاع اور اخالص اور للہیت کے‬
‫ساتھ انفاق فی سبیل ہللا کرنے کا اجر نہایت بھی خوبصورت تمثیلی انداز میں بیان کیا گیاہے۔ اسی طرح‬
‫بندہ مومن کے لیے بھی تمثیلی اسلوب اپنایا گیا ہے۔‬
‫ها‬‫لـَ‬‫ُْ‬‫َص‬‫َة ا‬ ‫َیِب‬
‫َة ط‬ ‫َر‬‫َشَج‬
‫ة ك‬‫ًَ‬‫َیِب‬‫ة ط‬‫ًَ‬ ‫َل‬
‫ِم‬ ‫ًََل ك‬‫مث‬‫ه َ‬ ‫ُٰ‬‫َ اللـ‬ ‫َب‬‫َر‬‫َ ض‬ ‫ْف‬‫َی‬
‫َ ك‬‫تـر‬‫ْ َ‬ ‫ََلم‬
‫"ا‬
‫ها‬
‫ۗ‬ ‫ِـَ‬‫َب‬‫ْنِ ر‬ ‫ِذ‬ ‫ْن ب‬
‫ِا‬ ‫ُل‬
‫َّ حِی‬ ‫ها ك‬ ‫لـَ‬‫َُ‬
‫ُك‬‫ٰٓ ا‬‫ِـى‬‫ْت‬‫تؤ‬‫ء ۔ُ‬ ‫َآِ‬
‫ِى السَّم‬ ‫ها ف‬ ‫َُ‬ ‫َر‬
‫ْع‬ ‫ٌ و‬
‫َّف‬ ‫ِت‬‫ثاب‬‫َ‬
‫۔"‪36‬‬ ‫َْ‬
‫ن‬‫ُو‬‫َّر‬
‫ذك‬ ‫ََ‬
‫يت‬‫ْ َ‬‫هـم‬‫لُ‬‫ََّ‬
‫َّاسِ َلع‬ ‫ِلن‬ ‫ل ل‬ ‫َاَ‬‫مث‬ ‫ه ْ‬
‫االَْ‬ ‫ُٰ‬
‫ُ اللـ‬ ‫ْر‬
‫ِب‬ ‫ََ‬
‫يض‬ ‫و‬
‫تعالی نے ایمان کو کھجور کے درخت کے ساتھ تشبیہ دی ہے کیونکہ جس طرح کھجور کے درخت‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫کی جڑیں زمین میں ثابت ہوتی ہیں اسی طرح مومن کے دل میں ثابت ہوتا ہے اور جس طرح کھجور‬
‫کے پتے آسمان کی جانب ہوتے ہیں اسی طرح مومن کی نیک اعمال کو فرشتے آسمان کی طرف لے‬
‫جاتے ہیں اور جس طرح کھجور کا پھل ہر وقت دستیاب ہوتا ہے‪ ،‬کبھی تازہ اور کبھی خشک چھواروں‬
‫کی صورت میں‪ ،‬اسی طرح کامل مومن کا ہر عمل موجب ثواب ہوتا ہے اس کا بولنا اس کا خاموش‬
‫رہنا اس کا چلنا پھرنا اس کا کھانا پینا اور اس کی خالص عبادات میں تقویت تازگی حاصل کرنے کے‬
‫لیے اس کا سونا غرض یہ کہ ہر وقت ہر عمل موجب ثواب ہوتا ہے پھر جس طرح کھجور کے تنے‬
‫کےستون بن جاتے ہیں اس کا پھل تازہ اور خشک ہرحال میں کھا یا جاتا ہے اس کے پتوں کی چٹائیاں‪،‬‬
‫پنکھے‪ ،‬ٹوپیاں بن جاتی ہیں اسی طرح مومن کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوتا اور اس کا ہرحال موجب‬
‫ثواب ہے اس کو اگر کوئی نعمت ملے تو وہ اس پر شکر کرتا ہے اور اگر اس پر کوئی مصیبت آئے‬
‫تو وہ اس پر صبر کرتا ہے کھجور کے درخت میں ایک ایسا وصف بھی ہے جو اور کسی درخت میں‬
‫نہیں ہے اور وہ رسول ﷺ سے بہت زیادہ محبت کرنا حتی کہ رسول ہللا ﷺ کے فراق سے کھجور کا‬
‫درخت چیخیں مار کر رونے لگا تھا۔ حدیث میں ہے کہ ‪:‬‬
‫حضرت جابر بن عبدہللا بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کی چھت کھجور کے شہتیر سے بنی ہوئی‬
‫تھی‪ ،‬نبی ﷺ جب خطبہ دیتے تو کھجور کے تنے سے ٹیک لگاکر خطبہ دیتے تھے جب آپ کے لیے‬
‫منبربنادیا گیا تو آپ اس منبر پر بیٹھ گئے اس وقت ہم نے اس کھجور کے ستون کی اس طرح رونے‬
‫کی آواز سنی جس طرح بچہ والی اونٹنی بچے کے فراق میں روتی ہے‪ ،‬نبی ﷺ نے اس کھجور کے‬
‫ستون پر ہاتھ رکھا تو وہ پر سکون ہوگیا۔ ‪ 37‬اسی طرح مومن کا حال یہ ہے کہ وہ سب لوگوں سے‬
‫زیادہ رسول ہللاﷺسے محبت کرتا ہے۔‬
‫‪ .iv‬مکالماتی اسلوب‬
‫قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر عقائد باطلہ کا رد کر کے راہ حق کا تعین کرنے کے لیے‬
‫مکالماتی انداز بھی اپنایا گیا ہے۔ جیسے حضرت ابراہیم اور نمرود کے درمیان ہونے والے مکالمہ کو‬
‫قرآن حکیم نے پیش کیا ہے ۔‬
‫ُٰ‬
‫ه‬ ‫ہ اللـ‬ ‫تاُ‬ ‫َٰ‬
‫ن ا‬‫َْ‬‫ِه ا‬ ‫َبٰٓ‬
‫ٖ‬ ‫ِىْ ر‬ ‫َ ف‬ ‫ْم‬‫ِی‬‫َاھ‬‫بـر‬ ‫ِْ‬ ‫َآج‬
‫َّ ا‬ ‫ِىْ ح‬‫الـذ‬‫ِلى َّ‬ ‫َ اَ‬ ‫تـر‬‫ْ َ‬ ‫ََلم‬
‫ا‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ْت قال انا‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ِی‬
‫يم‬‫َُ‬
‫ْیِىْ و‬ ‫يح‬ ‫ِىْ ُ‬ ‫َّ‬
‫ِىَ الـذ‬ ‫َب‬‫ُ ر‬ ‫ْـم‬‫ِی‬‫َاھ‬‫بـر‬ ‫ِْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِذ قال ا‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫ُلكۚ ا‬ ‫ْ‬
‫الم‬
‫َ‬
‫ِن‬‫ْسِ م‬‫ِالشَّم‬‫ِىْ ب‬ ‫ْ‬
‫يات‬ ‫ه َ‬‫َٰ‬‫ِن اللـ‬ ‫َ‬
‫ُ فاَّ‬ ‫ْم‬‫ِـی‬ ‫َاھ‬‫بـر‬‫ِْ‬‫ل ا‬ ‫َ‬
‫ُ قاَ‬ ‫ْت‬
‫ۖ‬ ‫ِی‬ ‫ُ‬
‫َام‬ ‫ُح‬
‫ْیِىْ و‬ ‫ا‬
‫۔"‪38‬‬ ‫َۗ‬
‫َ‬
‫ر‬ ‫َف‬
‫ِىْ ك‬ ‫الـذ‬ ‫َ َّ‬ ‫ِت‬‫ُه‬‫َـب‬‫ِبِ ف‬ ‫ْر‬‫َغ‬ ‫َ ْ‬
‫الم‬ ‫ِن‬‫ها م‬ ‫ِـَ‬ ‫ْتِ ب‬‫َا‬
‫ِ ف‬ ‫َشْر‬
‫ِق‬ ‫ْ‬
‫الم‬
‫کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراھیم سے اس کے رب کی بابت جھگڑا کیا اس لیے کہ‬
‫ہللا نے اسے سلطنت دی تھی‪ ،‬جب ابراھیم نے کہا کہ میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے اس‬
‫نے کہا میں بھی زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں‪ ،‬کہا ابراھیم نے بے شک ہللا سورج مشرق سے التا ہے تو‬
‫اسے مغرب سے لے آ تب وہ کافر حیران رہ گیا۔‬
‫حضرت ابراہیم ؑ نمرود کو دعوت حق دیتے ہوئے ایک کے بعد ایک دلیل پیش کرتے ہیں کہ اس‬
‫کے ذہن میں موجود ابہام اور باطل خیاالت کو دالئل کے ساتھ رد کیا جاسکے ۔ تا کہ اس کا ذہن حق‬
‫کو قبول کرنے کے لیے تیار ہو سکے۔ یہ انداز قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر ملتا ہے ۔ ایسے‬
‫مکالمات کے ذریعے افراد کے اذہان میں موجود سواالت اور ابہام کا دالئل کے ساتھ رد کیا گیا ہے اور‬
‫اس کے مقابلے میں حق کو بھی مدلل انداز سے پیش کا گیا ہے۔‬
‫‪ .v‬قصص کا بیان کرنا‬
‫اعلی اخالقی اقدار و اوصاف کی ترغیب اور برائیوں‬‫ٰ‬ ‫انسانی شخصیت کی تعمیرو تشکیل ‪ ،‬کردار سازی‪،‬‬
‫سے نفرت دالنے کا ایک اہم اور مؤثر ذریعہ واقعات اور قصص ہیں ۔ جن سے انسان غیر شعوری طور‬
‫پر متاثر ہوتا ہے اور کسی بیرونی دباؤ اور سرزنش کے بغیراندرونی تحریک کی بنا پر اپنی اصالح پر‬
‫متوجہ ہوتا ہے۔ اسی لیے قرآن بھی تربیت افراد کے ضمن میں واقعات اور قصص کا سہارا لیتا ہے۔ ان‬
‫اعلی اوصاف و فضائل مثالً عبدیت ‪ ،‬شکر گزاری ‪ ،‬صبر و‬ ‫ٰ‬ ‫قصص کے ذریعے انبیاء و صالحین کے‬
‫استقامت‪ ،‬اقامت دین کے لیے سخت جدو جہد‪ ،‬زہدو ورع اور اخالص اور للہیت کو نمایاں کرتا ہے تاکہ‬
‫افراد کی تربیت اس نہج پر ہو کہ انبیاء ؑ جیسی برگزیدہ ہستیاں بھی مختلف آزمائشوں وآالم کا شکار ہوتی‬
‫رہیں لیکن کسی بھی لمحہ انہوں نے ناشکری و بے صبری کا اظہار نہیں کیا۔ اسی طرح نافرمان اقوام‬
‫پر عذاب ٰالہی کا تذکرہ بھی کیا ہے تاکہ ان سے عبرت حاصل کرتے ہوئے ان اقوام میں پائے جانے‬
‫والے رذائل مثالً تکبر ‪ ،‬انانیت ‪ ،‬ضد و تعصب ‪ ،‬خود غرضی‪ ،‬ظلم و سرکشی ‪ ،‬ہوس پرستی سے بچنے‬
‫کی تحریک پیدا کی جا سکے ۔ اسی لیے قرآن نے ان قصص کو موجب عبرت ونصیحت قرار دیا ہے ۔‬
‫"‪39‬‬
‫َابِ۔‬‫االَْلب‬
‫ِى ْ‬ ‫ٌ ِالُول‬
‫َة‬
‫ْـر‬ ‫ْ ع‬
‫ِب‬ ‫ِـم‬ ‫َص‬
‫ِه‬ ‫َص‬
‫ِىْ ق‬ ‫ن ف‬‫َاَ‬ ‫د ك‬ ‫َْ‬ ‫َ‬
‫"لق‬
‫البتہ ان لوگوں کے حاالت میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔‬
‫پھر ہم دیکھتے ہیں کہ ان واقعات میں تکرار پائی جاتی ہے ۔ اس تکرار میں بھی ایک بڑی حکمت‬
‫پوشیدہ ہے ۔ کیونکہ داعیان حق کو عموما ً امتحانات اور آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے قصص کے بار‬
‫بار اعادہ سے تسلی دینا مقصود ہے کہ وہ دل شکستہ نہ ہوں ہمت اور استقالل سے کام لیں کیونکہ‬
‫جیت باآلخر حق کی ہی ہوتی ہے۔ قرآن حکیم میں ہے ‪:‬‬
‫‪40‬‬
‫َ۔"‬
‫دك‬‫َاَ‬ ‫ُـؤ‬‫ٖ ف‬‫ِه‬‫ُ ب‬ ‫َب‬
‫ِت‬ ‫ما ُ‬
‫نـث‬ ‫ِ َ‬
‫ُّسُل‬‫ء الر‬ ‫َآِ‬
‫نب‬‫َْ‬
‫ْ ا‬ ‫ِن‬‫ْكَ م‬ ‫ََ‬
‫لی‬ ‫ُصُّ ع‬
‫نق‬‫ًَُّل َّ‬
‫َك‬‫و‬
‫اور ہم رسولوں کے حاالت تیرے پاس اس لیے بیان کرتے ہیں کہ ان سے تیرے دل کو مضبوط کر دیں۔‬
‫‪ .vi‬ترغیب و ترہیب کا استعمال‬
‫ترغیب کا مطلب ہے رغبت دالنا‪ ،‬شوق پیدا کرنا اور ترہیب کا لفظ "رھب "سے ہے ‪،‬جس کا معنی ہے‬
‫ڈرانا اور خوف زدہ ہونا۔ اس طرح ترغیب و ترہیب کا مطلب ہوا ہللا کی اطاعت اور اسکی بخشش کی‬
‫رغبت دالنا اور اس کی نافرمانی اور گناہوں کے انجام بد سے ڈرانا۔تعلیم و تربیت میں تر غیب و تر ہیب‬
‫زبردست محرک کا کام دیتے ہیں ۔ داد و تحسین افراد کی کارکردگی پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے اور‬
‫افراد کے کام کرنے کی صال حیت کئی گنا تک بڑھ جاتی ہے۔ اسی لیے قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر‬
‫اس اسلوب کو اپنایا گیا ہے جیسا کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر صحابہ کرام ؓ نے آپ ﷺ کے ہاتھ پر موت‬
‫کی بیعت کی تو قرآن کریم نے صحابہ کرام کی صدق نیت ‪ ،‬وفاداری اور صبر و استقامت کو دیکھ‬
‫کر نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی کی بلکہ ان کو داد بھی دی ۔‬
‫نكَ‬‫َْ‬
‫ُو‬‫ِع‬‫َاي‬ ‫يب‬‫ْ ُ‬‫ِذ‬‫َ ا‬ ‫ْن‬
‫ِی‬‫ِن‬‫ْم‬‫ُؤ‬ ‫َنِ ْ‬
‫الم‬ ‫ه ع‬‫ُٰ‬‫ِىَ اللـ‬ ‫َض‬
‫د ر‬ ‫َْ‬
‫"َّلـق‬
‫ََ‬
‫ل‬ ‫نز‬ ‫َْ‬
‫َا‬‫ْ ف‬‫ِـم‬ ‫ِـه‬ ‫ْب‬
‫لو‬‫ُُ‬‫ِىْ ق‬ ‫ما ف‬ ‫َ َ‬ ‫َل‬
‫ِم‬ ‫َـع‬
‫ِ ف‬ ‫َة‬
‫َر‬‫َ الشَّج‬‫ْت‬ ‫َ‬
‫تح‬
‫ًا ۔"‪41‬‬ ‫يب‬ ‫َر‬
‫ِْ‬ ‫ًا ق‬ ‫ْح‬‫َت‬‫ْ ف‬‫هـم‬ ‫بـُ‬ ‫ثاَ‬‫ََ‬‫َا‬ ‫ْ و‬‫ِـم‬‫ْـه‬
‫لی‬‫ََ‬‫ة ع‬‫ََ‬
‫ْن‬ ‫السَّك‬
‫ِـی‬
‫بے شک ہللا مسلمانوں سے راضی ہوا جب وہ آپ سے درخت کے نیچے بیعت کر رہے تھے پھر اس‬
‫نے جان لیا جو کچھ ان کے دلوں میں تھا پس اس نے ان پر اطمینان نازل کر دیا اور انہیں جلد ہی فتح‬
‫دے دی۔‬
‫یہ اسلوب ہمیں متعدد مقامات پر نظر آتا ہے جیسا کہ مومنین کو جہاد کی ترغیب دینا مقصود ہے ۔ اس‬
‫مقصد کے لیے بھی قرآ ن حکیم نے ترغیبی انداز اپنایا ہے‬
‫ْ‬
‫ِن‬‫ْ م‬‫ُم‬ ‫ْجِی‬
‫ْك‬ ‫تن‬‫َة ُ‬‫َار‬ ‫ِج‬‫ٰى ت‬ ‫َل‬
‫ْ ع‬ ‫ُم‬ ‫َُ‬
‫دُّلك‬‫ْ ا‬ ‫ْا َ‬
‫ھل‬ ‫ُـو‬ ‫َٰ‬
‫من‬‫َ ا‬‫ين‬‫ِْ‬‫الـذ‬‫ها َّ‬ ‫يـَ‬ ‫َُّ‬‫يآ ا‬ ‫"َ‬
‫‪42‬‬
‫ْم۔"‬ ‫َل‬
‫ِـی‬ ‫ذاب ا‬ ‫ََ‬
‫ع‬
‫اے ایمان والو! کیا میں تمہیں ایسی تجارت بتاؤں جو تمہیں دردناک عذاب سے نجات دے۔‬
‫اسی طرح مختلف مقامات پر ترہیبی انداز بھی اپنایا گیا ہے ۔روز آخرت کی تیاری کے لیے اکساتے‬
‫ہوئے ترہیبی انداز اپنایا گیا ہے ‪:‬‬
‫ٌ‬
‫َة‬‫َاع‬‫ها شَف‬ ‫َْ‬ ‫ُ م‬
‫ِن‬ ‫َل‬‫ْب‬‫يق‬ ‫ًا و‬
‫ََال ُ‬ ‫ْئ‬‫ْس شَی‬ ‫َن َّ‬
‫نف‬ ‫ْسٌ ع‬‫نف‬‫ِي َ‬
‫ْز‬‫تج‬‫ما َّال َ‬ ‫ًْ‬‫يو‬‫ُوا َ‬ ‫َ َّ‬
‫اتق‬ ‫و‬
‫َْ ٌ ََ ُ ْ ُ َُ َ ‪43‬‬
‫ها عدل وال ھم ينصرون۔"‬ ‫َْ‬
‫ِن‬ ‫َُ‬
‫ذ م‬ ‫ْخ‬
‫يؤ‬‫ََال ُ‬‫و‬
‫اوراس دن سے ڈرو جس دن کوئی شخص کسی کے کچھ بھی کام نہ آئے گا اور نہ ان کے لیے کوئی‬
‫سفارش قبول ہو گی اورنہ اس کی طرف سے بدلہ لیا جائے گا اور نہ ان کی مدد کی جائے گی۔‬
‫ٔتی يوم ال‬ ‫ٰکم من قبل ان يا‬ ‫ٰمنوانفقومما رزقن‬ ‫ياايهاالذ ين ا‬
‫‪44‬‬
‫بیع فیہ وال خلۃ وال شفاعۃ۔"‬
‫ایمان والوجوہم نےتمہیں دے رکھا ہے اس میں سے خرچ کرتے رہواس سے پہلے کہ وہ دن آجائےجس‬
‫میں نہ تجارت ہے نہ دوستی اور نہ شفاعت۔‬
‫خوبصورت انداز سے خوف ِآخرت کی ترہیب کے ذریعے اپنے بندوں کو انفاق فی سبیل ہللا کی ترغیب‬
‫دی جا رہی ہے ۔‬
‫‪ .vii‬تجرباتی اور مشاہداتی اندا ز کا استعمال‬
‫قرآن حکیم تربیت افراد کے لیے تجرباتی اور مشاہداتی اسلوب بھی اپناتا ہے ۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ‬
‫کے بارے میں ارشاد ہوا‪:‬‬
‫ََلم‬
‫ْ‬ ‫َو‬
‫ل ا‬‫َاَ‬
‫ۖ ق‬ ‫ْٰ‬
‫تى‬‫َو‬ ‫ْیِى ْ‬
‫الم‬ ‫تح‬‫َ ُ‬‫ْف‬‫َی‬‫ِىْ ك‬ ‫َر‬
‫ِن‬ ‫َبِ ا‬ ‫ُ ر‬‫ْم‬
‫ِـی‬ ‫َاھ‬ ‫بـر‬ ‫ِْ‬
‫ل ا‬ ‫َاَ‬‫ْ ق‬‫ِذ‬‫َا‬‫و‬
‫ْـر‬
‫ِ‬ ‫َّی‬
‫َ الط‬ ‫ِن‬ ‫ًَ‬
‫ة م‬‫بع‬ ‫َر‬
‫َْ‬ ‫ذ ا‬‫َخُْ‬
‫ل ف‬ ‫َاَ‬‫ىْ ق‬ ‫ِۖ‬‫لب‬‫َْ‬‫َّ ق‬
‫ِن‬ ‫ْم‬
‫َئ‬ ‫َط‬‫لی‬ ‫ْ ِ‬
‫ِن‬ ‫ٰى و‬
‫َٰلك‬ ‫بل‬ ‫َاَ‬
‫ل َ‬ ‫ْ ق‬ ‫ْم‬
‫ِۖ‬
‫ن‬ ‫تؤ‬‫ُ‬
‫َّ‬
‫هن‬‫ُُ‬
‫دع‬‫َّ اْ‬
‫ثـم‬ ‫ءا ُ‬‫ًْ‬ ‫َّ ج‬
‫ُز‬ ‫هن‬‫ُْ‬
‫ِن‬‫َل م‬ ‫َب‬‫ِ ج‬ ‫ٰى ك‬
‫ُل‬ ‫َل‬‫ْ ع‬ ‫َل‬
‫ْع‬‫َّ اج‬‫ثـم‬ ‫ْكَ ُ‬‫ِلی‬‫َّ اَ‬
‫ھن‬‫ُْ‬
‫ُر‬‫َص‬‫ف‬
‫ٌ ۔"‪45‬‬ ‫ْم‬
‫ِـی‬ ‫َك‬ ‫ٌ‬
‫يز ح‬ ‫َز‬
‫ِْ‬ ‫ه ع‬ ‫َٰ‬ ‫َّ‬
‫ْ ان اللـ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ْلم‬‫َاع‬ ‫ۚ و‬ ‫ًا‬‫ْی‬ ‫َ‬
‫ْنكَ سَع‬ ‫ِی‬ ‫ْ‬
‫يات‬‫َ‬
‫اور یاد کر جب ابراھیم نے کہا اے میرے پروردگار! مجھ کو دکھا کہ تو مردے کو کس طرح زندہ کرے‬
‫گا‪ ،‬فرمایا کہ کیا تم یقین نہیں التے؟ کہا کیوں نہیں لیکن اس واسطے چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تسکین ہو‬
‫جائے‪ ،‬فرمایا تو چار جانور اڑنے والے پکڑ پھر انہیں اپنے ساتھ مانوس کرلے پھر (انہیں ذبح کرکے)‬
‫ہر پہاڑ پر ان کے بدن کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دے پھر ان کو بال تیرے پاس جلدی سے آئیں گے‪ ،‬اور جان‬
‫لے کہ بے شک ہللا زبردست حکمت واال ہے۔‬
‫عزیر کا قصہ ہے کہ جب ان کے دل میں سوال پیدا ہوا کہ ہللا اس تباہ شدہ بستی کو‬ ‫ؑ‬ ‫اسی طرح حضرت‬
‫دوبارہ کیسے زندہ کرے گا تو ہللا تعالی نے انہیں بھی بعث بعد الموت کا مشاہدہ کروایا۔‬
‫ٰى‬ ‫َنـ‬‫ل ا‬‫َاَ‬‫ۚ ق‬ ‫ها‬‫َِ‬‫ْش‬
‫ُو‬‫ُر‬ ‫ٰى ع‬ ‫َل‬‫ٌ ع‬ ‫ية‬ ‫َاو‬
‫َِ‬ ‫ِىَ خ‬‫َّّھ‬
‫ية و‬ ‫َْ‬‫َر‬
‫ٰى ق‬ ‫َل‬‫َّ ع‬ ‫مر‬‫ِىْ َ‬ ‫َ َّ‬
‫الـذ‬ ‫ْ ك‬‫َو‬‫"ا‬
‫ُ‬
‫َام ثـم‬
‫َّ‬ ‫َ‬
‫ِائة ع‬ ‫َ‬ ‫ه م‬ ‫ُٰ‬‫ه اللـ‬ ‫َ‬
‫ماتُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ۖ فاَ‬ ‫ها‬‫ِـَ‬‫ْت‬
‫مو‬‫د َ‬ ‫َْ‬
‫بع‬ ‫ه َ‬ ‫ُٰ‬‫ِ اللـ‬ ‫ٰذ‬
‫ِہ‬ ‫ْیِىْ ھ‬‫يح‬‫ُ‬
‫ْت‬
‫َ‬ ‫ْ َّلب‬
‫ِث‬ ‫بل‬ ‫َاَ‬
‫ل َ‬ ‫ۖ ق‬ ‫ْم‬ ‫يو‬‫ْضَ َ‬ ‫بع‬‫ْ َ‬ ‫َو‬
‫ما ا‬ ‫ًْ‬‫يو‬ ‫ْت‬
‫ُ َ‬ ‫ِث‬ ‫َاَ‬
‫ل َلب‬ ‫َ ق‬ ‫ْت‬
‫ۖ‬ ‫ْ َلب‬
‫ِث‬ ‫َم‬
‫ل ك‬‫َاَ‬‫َهۖ۔ ق‬‫َث‬‫بع‬‫َ‬
‫َ‬
‫ِك‬ ‫َار‬ ‫ْ اٰ‬
‫ِلى حِم‬ ‫ُر‬ ‫َ ْ‬
‫انظ‬ ‫ه و‬ ‫ۖ‬ ‫َسَن‬
‫َّْ‬ ‫يت‬‫ْ َ‬‫ِكَ َلم‬
‫َاب‬‫َشَر‬
‫ِكَ و‬‫َام‬‫َع‬
‫ِلى ط‬ ‫ْ اٰ‬ ‫ُر‬ ‫َ ْ‬
‫انظ‬ ‫َام ف‬ ‫ة ع‬‫ِائَ‬
‫م َ‬
‫َّ‬
‫ثـم‬ ‫ھا ُ‬ ‫َُ‬
‫ِز‬‫ْش‬
‫نـن‬ ‫َ ُ‬ ‫ْف‬‫َی‬‫ِ ك‬ ‫َام‬ ‫ِظ‬ ‫ِلى ْ‬
‫الع‬ ‫ْ اَ‬ ‫ُر‬ ‫َ ْ‬
‫انظ‬ ‫اسِ و‬‫َّ ۖ‬ ‫ِلن‬ ‫ة ل‬ ‫يً‬
‫َٰ‬
‫لكَ ا‬ ‫ََ‬
‫ْع‬‫َج‬
‫لن‬‫َِ‬
‫و‬
‫ِ شَىْء‬
‫ُل‬‫ٰى ك‬
‫َل‬ ‫َٰ‬
‫ه ع‬ ‫ََّ‬
‫ن اللـ‬ ‫ُ ا‬
‫لم‬‫َْ‬
‫َع‬ ‫َاَ‬
‫ل ا‬ ‫َ َلـه۔ ق‬ ‫َی‬
‫َّن‬ ‫َّا َ‬
‫تب‬ ‫لم‬ ‫ََ‬
‫ف‬ ‫ًۚ‬
‫ا‬‫ْم‬‫ھا َلح‬‫َْ‬‫ْسُو‬
‫نك‬‫َ‬
‫َ ْ ٌ ‪46‬‬
‫ِير ۔"‬‫قد‬
‫یا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جو ایک شہر پر گزرا اور وہ (شہر) اپنی چھتوں پر گرا ہوا تھا‪ ،‬کہا‬
‫اسے ہللا مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ پھر ہللا نے اسے سو برس تک مار ڈاال پھر اسے اٹھایا‪ ،‬کہا‬
‫تو یہاں کتنی دیر رہا‪ ،‬کہا ایک دن یا اس سے کچھ کم رہا‪ ،‬فرمایا بلکہ تو سو برس رہا ہے اب تو اپنا کھانا‬
‫اور پینا دیکھ وہ تو سڑا نہیں‪ ،‬اور اپنے گدھے کو دیکھ اور ہم نے تجھے لوگوں کے واسطے نمونہ چاہا‬
‫ہے‪ ،‬اور ہڈیوں کی طرف دیکھ کہ ہم انہیں کس طرح ابھار کر جوڑ دیتے ہیں پھر ان پر گوشت پہناتے‬
‫ہیں‪ ،‬پھر اس پر یہ حال ظاہر ہوا تو کہا میں یقین کرتا ہو ں کہ بے شک ہللا ہر چیز پر قادر ہے۔‬
‫تجرباتی اور مشاہداتی انداز تربیت عین الیقین کا فائدہ دیتا ہے۔ اپنی نظر سے مشاہدہ کرنے کے بعد‬
‫انسان کو عقلی اور قلبی یقین حاصل ہوتا ہے۔ اور شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہتی ۔‬
‫نتائج بحث‬
‫قرآن حکیم ہدایت انسانی کے وعدہ خداوندی کی تکمیل کے سلسلے میں نازل شدہ تمام صحف اور‬
‫کتب کا خالصہ ‪ ،‬تتمہ اور مکمل کتاب ہے ۔یہ تا قیامت انسانیت کے لیے نور ہدایت ہے ۔ یہ مسائل‬
‫حیات کا جامع احاطہ کرتے ہوئے اصولی مگر واضح راہنمائی فرماتا ہے ۔ یہ مفہوم اور معنی کی‬
‫ایسی ایسی وسعت کو سمیٹے ہوئے ہے کہ ہر دور کے انسانوں نے اپنی جدت طبع اور فکری صال‬
‫حیتوں کے مطابق غواصی کی ہے اور ہر دور کے مسائل کے حل اور وضاحتوں کی نئی تعبیریں‬
‫ڈھونڈ یں ہیں اور دور اور اس کے تقاضوں کے ساتھ مطابقت پذیری کو قائم رکھا ہے ۔ اور ہر دور کے‬
‫انسانی معاشرے کی تمام حاجات اور وسعتوں پر محیط ہے ۔ دنیاوی صال ح اور فال ح اور اخروی‬
‫نجات اور کامرانی پر مبنی جامع اور کامل ہدایت کا خزینہ ہے ۔ بیمار انسانیت کے لیے روحانی نسخہ‬
‫شفاء ہے جو نفس انسانی کی اصال ح کرتے ہوئے انسانی اخالق‪ ،‬صال حیتوں ‪ ،‬قابلیتوں اور استعدادوں‬
‫میں نکھار پیدا کر کے اس کی بھرپور نشو ونما کرتی ہے۔اس مقصد کے لیے قرآن حکیم کا اسلوب اور‬
‫منہج بے نظیر ہے ۔ذیل کے نکات قرآن حکیم کے تربیتی منہج کا اجمالی جائزہ پیش کرتے ہیں ۔‬
‫‪۱‬۔قرآن حکیم نے بنی نوع انسانی کا تزکیہ نفس کیا اور دنیا کی بے ثباتی کا تصور اذہان میں راسخ‬
‫کرتے ہوئے اسے دار العمل قرار دیا۔نیزافرا دکے قلوب میں دنیا سے بے رغبتی کا احساس جاگزیں‬
‫تقوی اور زہد کی طرف راغب کیا۔ حصول آخرت کو مقصد حیات قرار دیا۔‬ ‫کرتے ہوئے انہیں ٰ‬
‫‪۲‬۔ قرآن حکیم نے اعمال سے پہلے اصالح عقائد کو ترجیح دی اور احکامات کے نزول میں عدم‬
‫حرج‪ ،‬قلت تکلیف اور تدریج کے اصول کو مد نظر رکھا۔‬
‫‪۳‬۔قرآن حکیم نے وحدت انسانیت کا تصور پیش کرتے ہوئے یا ایھا الناس کے طرز تخاطب سے‬
‫تربیت افراد کا دائرہ عامۃ الناس تک وسیع کرتے ہوئے بنی نوع انسان کے لیے جامع ہدایات بیان کیں‬
‫۔ دوسرے مرحلے میں مخصوص گروہ انسانی کے عقائد باطلہ ‪ ،‬کی تردید کرتے ہوئے درست عقائد‬
‫کی ترویج کی اور تیسرے مرحلے میں گروہ مومنین کی ہدایت اور راہنمائی کا اہتمام کیا۔‬
‫‪۴‬۔ قرآن حکیم نے انفرادیت پر اجتماعیت کو ترجیح دی اور انفرادی مفاد پر اجتماعی مفاد کو مقدم‬
‫رکھا۔‬
‫‪۵‬۔قرآن حکیم نے تربیت افراد کے لیے نفسیات انسانی کو مدنظر رکھا اور تربیت کے لیے فطری‬
‫مظاہر سے مثالیں پیش کرتے ہوئے تمثیلی‪،‬مکالماتی ‪۶ ،‬۔ترغیب و ترہیب‪ ،‬تجرباتی مشاہداتی ‪،‬‬
‫استقرائی‪ ،‬قیاسی‪ ،‬قسمیہ اور تکرار کے بیسیوں اسلوب اختیار کیے۔‬
‫‪۷‬۔ افراد معاشرہ پر اپنی اصالح کے ساتھ ساتھ باہم ایک دوسرے کی اصالح کی ذمہ داری کو مسؤلیت‬
‫کے تصور سے مستحکم کر دیا۔‬
‫حوالہ جات‬
‫‪ 1‬راغب اصفہانی‪ ،‬المفردات فی غریب القرآن‪،‬دارالقلم‪ ،‬الدار الشامیہ‪ ،‬دمشق بیروت‪۳۳۶ : ۱،‬‬
‫‪ 2‬محمد شفیع‪ ،‬مفتی‪ ،‬معارف القرآن ‪ ،‬ادارہ معارف کراچی ‪۱۹۸۳ ،‬ء‪۱۶۸ : ۱ ،‬‬
‫‪ 3‬البقرہ‪۳۸ : ۲،‬‬
‫‪ 4‬یونس‪۵۷ :۱۰ ،‬‬
‫‪ 5‬سعیدی‪،‬غالم رسول‪،‬تبیان القرآن‪،‬فرید بک سٹال اردو بازار ال ہور ‪۳۸۵ : ۵ ،‬‬
‫‪ 6‬البقرہ‪۱۵۱:۲‬‬
‫‪ 7‬محمد امین ‪ ،‬ڈاکٹر‪ ،‬ہمارا دینی نظام تعلیم‪ ،‬داراالخالص الہور‪ ،‬جوالئی ‪۲۰۰۴‬ء‪۱۶۵ ،‬‬
‫‪ 8‬الشمس‪۹ : ۹۱ ،‬‬
‫‪ 9‬الحشر‪۹ : ۵۹،‬‬
‫‪ 10‬الرعد‪۱۷ :۱۳،‬‬
‫‪ 11‬البقرہ‪۲۵۶ : ۲ ،‬‬
‫‪ 12‬ایضاً‪۲۸۶ ،‬‬
‫‪ 13‬القمر ‪۱۷ : ۵۴ ،‬‬
‫‪ 14‬نور االنوار‪۱۷۵ ،‬‬
‫‪ 15‬الحج‪۷۸ :۲۲،‬‬
‫‪ 16‬احمد حسن زیات استاذ‪ ،‬تاریخ ادب عربی ‪(،‬مترجم‪ ،‬عبد الرحمٰ ن طاہر سورتی ) شیخ غالم علی اینڈ سنز ال ہور ‪ ،‬جون ‪ ۱۹۶۱‬ء ‪۱۵۹ ،‬‬
‫‪ 17‬البقرہ‪۲۱ : ۲،‬‬
‫‪ 18‬ایضا‪۱۶۸ :‬‬
‫‪ 19‬الفرقان‪۶۳ : ۲۵،‬۔‪۷۲‬‬
‫‪ 20‬ایضا ً‪۷۳،‬‬
‫‪ 21‬التحریم ‪۶۶ :۶‬‬
‫تعالی اطیعوہللا واطیعوالرسول واولی االمر منکم‪ ،‬رقم الحدیث ‪۷۱۳۸ :‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫قول‬ ‫باب‬ ‫الحکام‪،‬‬ ‫ا‬ ‫‪،‬کتاب‬ ‫الصحیح‬ ‫‪22‬بخاری ‪،‬الجامع‬
‫‪ 23‬فیروز آبادی‪ ،‬تنویر المقباس من تفسیر ابن عباس‪ ،‬مطبع ازہریہ مصر‪ ۱۳۴۴ ،‬ء ‪۵۶۰ ،‬‬
‫‪ 24‬الشعراء‪۲۱۴ : ۲۶ ،‬‬
‫‪ 25‬راغب اصفہانی ‪،‬ابو القاسم الحسین بن محمد‪ ۵۰۲(،‬ھ)‪،‬المفردات فی غریب القرآن‪،‬دارالقلم‪،‬الدار الشامیہ‪،‬دمشق بیروت‪۱۴۱۲،‬ھ ‪،‬‬
‫‪٤۳۶ : ۲‬‬
‫‪ 26‬آل عمران ‪۱۱۰ :‬‬
‫‪ 27‬المائدہ‪۷۹ : ٥ ،‬‬
‫‪ 28‬ترمذی ‪ ،‬کتاب الفتن‪ ،‬باب ما جاء فی االمر بالمعروف والنھی عن المنکر‪ ،‬رقم الحدیث‪۲۱۶۹:‬‬
‫‪ 29‬البقرہ ‪۱۷۷ : ۲ ،‬‬
‫‪ 30‬الحجرات‪۷: ۴۹،‬‬
‫‪ 31‬االنفال‪۴ : ۸،‬‬
‫‪ 32‬ابراہیم ‪۴ : ۱۴ ،‬‬
‫‪ 33‬فصلت‪۴۴ : ۴۱ ،‬‬
‫‪ 34‬الزخرف‪۳ : ۴۳ ،‬‬
‫‪ 35‬الحشر‪۲۱ : ۵۹ ،‬‬
‫‪ 36‬ابراہیم‪۲۷ ، ۲۴ : ۱۴،‬‬
‫‪ 37‬بخاری ‪ ،‬الجامع الصحیح‪ ،‬کتاب المناقب ‪ ،‬باب عالما النبوة فی االسالم‪ ،‬رقم الحدیث ‪۳۵۸۴:‬‬
‫‪ 38‬البقرہ ‪۲۵۸ : ۲،‬‬
‫‪ 39‬یوسف ‪۱۱۱ ، ۱۲ ،‬‬
‫‪ 40‬ھود‪۱۲۰ : ۱۱،‬‬
‫‪ 41‬الفتح‪۱۸ : ۴۸ ،‬‬
‫‪ 42‬الصف‪۱۰ : ۶۱،‬‬
‫‪ 43‬البقرہ‪۴۸ : ۲ ،‬‬
‫‪ 44‬ایضا ً ‪۲۵۴:‬‬
‫‪45‬ایضا ً ‪۲۶۰ :‬‬
‫‪ 46‬ایضا ً‪۲۵۹ :‬‬

You might also like