Professional Documents
Culture Documents
مرج البحرین فی مناقب الحسنین علیہما السلام طاہر القادری
مرج البحرین فی مناقب الحسنین علیہما السلام طاہر القادری
تحقیق و تدوین :محمد ممتاز الحسن باروی ،حافظ فرحان قادری (منہاجینز)
تفصیلی فہرست
تسمیة النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم الحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اپنے شہزادوں کا نام حسن و حسین علیہما السالم
رکهنا)
الحسن والحسین من أسماء الجنة حجبهما اﷲ
تعالی نے حجاب
ٰ (حسن اورحسین جنت کے ناموں میں سے دو نام ہیں جن کو اﷲ
میں رکها)
قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :الحسن والحسین هما أبناي
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :حسنین کریمین علیہما السالم میرے
بیٹے ہیں)
الحسن و الحسین علیهما السالم أهل البیت
(حسنین کریمین علیہما السالم اہل بیت ہیں)
النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم هو عصبتهما و ولیهما و أبوهما
(حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی حسنین کریمین علیہما السالم کا نسب،
ولی اور باپ ہیں)
إن الحسن و الحسین علیهما السالم خیر الناس نسبا ً
(حسنین کریمین علیہما السالم لوگوں میں سے سب سے بہتر نسب والے ہیں)
الحسن و الحسین علیهما السالم هما ریحانتاي من الدنیا
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم کے کانوں میں اَذان
کہنا)
عقیقة النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم عن الحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم کی طرف سے
عقیقہ کرنا)
الحسن والحسین علیهما السالم کانا أشبه بالنبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جو مجه سے محبت کرتا ہے اس پر
ان دونوں سے محبت کرنا واجب ہے)
من أحب الحسن والحسین علیهما السالم فقد أحبني
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس نے ان دونوں سے محبت کی وہ
قیامت کے دن میرے ساته ہو گا)
قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :اللهم إني أحبهما فأحبهما
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے اﷲ میں ان دونوں سے محبت کرتا
ہوں تو بهی ان سے محبت کر)
من أبغض الحسن و الحسین علیهما السالم فقد أبغضني
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے ماں باپ آپ پر قربان)
فزع النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم ببکاء الحسن والحسین علیهما السالم
(حسنین کریمین علیہما السالم کے رونے سے حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
پریشان ہو گئے)
نزل النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم من المنبر للحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کی خاطر اپنے منبر
شریف سے نیچے اتر آئے)
صان لسان النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
الحسن والحسین علیهما السالم کانا یم ّ
(حسنین کریمین علیہما السالم حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زبان مبارک
چوستے تهے)
الحسن والحسین علیهما السالم کانا یلعبان علي بطن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
(حسنین کریمین علیہما السالم حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر
کهیلتے تهے)
رکب الحسن والحسین علیهما السالم علي ظهر النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم خالل
الصلوة
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم سے فرمانا :یہ
دونوں کیسے اچهے سوار ہیں)
کان یُطیل النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم السجود للحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کی خاطر
سجدوں کو لمبا کر لیتے تهے)
کان النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم یض ّم الحسن والحسین علیهما السالم إلیه تحت ثوبه
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دونوں شہزادوں کو چادر کے اندر اپنے جسم اطہر
سے چمٹا لیتے تهے)
ّأول من یدخل الجنة مع النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم هو الحسن والحسین علیهما
السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساته جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں
گے وہ حسنین کریمین علیہما السالم ہیں)
تزیین اﷲ عزوجل الجنة بالحسن و الحسین علیهما السالم
(حسنین کریمین علیہما السالم قیامت کے دن عرش ٰالہی کے گنبد کے نیچے ہوں
گے)
یکون الحسن و الحسین علیهما السالم مع رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم یوم
القیامة
(حسنین کریمین علیہما السالم قیامت کے دن حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے ساته رہیں گے)
إستعاذة النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم للحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم کے لئے خصوصی
دم فرمانا)
ضوء الطریق للحسن و الحسین علیهما السالم ببرقة
(آسمانی بجلی کا حسنین کریمین علیہما السالم کے لئے راستہ روشن کرنا)
تشجیع النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم و جبریل علیه السالم للحسنین علیهما السالم علي
المصارعة
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیل علیہ السالم کا حسنین کریمین علیہما
السالم کو داد دینا)
کان النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم یق ِّب ُل الحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کا بوسہ لیتے تهے)
ذهب النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم للمباهلة و معه الحسن والحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مباهلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السالم کو
اپنے ساته لے گئے)
مآخذ و مراجع
حصہ اول
فصل 1 :
تسمیة النبي صلي هللا علیه وآله وسلم الحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی هللا علیہ وآلہ وسلم کا اپنے شہزادوں کا نام حسن و حسین علیہما
السالم رکهنا)
.1عن علی رضی ﷲ عنه قال :لما ولد حسن سماہ حمزة ،فلما ولد حسین سماہ بإسم
عمه جعفر .قال :فدعاني رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم و قال :إني اُمرت أن
أغیر إسم ٰهذین .فقلت :أﷲ و رسوله أعلم ،فسماهما حسنا و حسیناً.
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب حسن پیدا ہوا تو اس کا نام
حمزہ رکها اور جب حسین پیدا ہوا تو اس کا نام اس کے چچا کے نام پر جعفر رکها.
(حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں) مجهے نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے بال کر فرمایا :مجهے ان کے یہ نام تبدیل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ (حضرت
علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں) میں نے عرض کیا :اﷲ اور اس کا رسول بہتر
جانتے ہیں۔ پس آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے نام حسن و حسین رکهے۔‘‘
.2عن سلمان رضي ﷲ عنه قال :قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :سمیتهما یعني
الحسن والحسین باسم ابني هارون شبرا و شبیرا.
’’حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میں نے ان دونوں یعنی حسن اور حسین کے
نام ہارون (علیہ السالم) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکهے ہیں۔‘‘
.3عن سالم رضي ﷲ عنه قال :قال رسول اﷲ صلی ﷲ علیه وآله وسلم :اني سمیت
ابني هذین حسن و حسین بأسماء ابني هارون شبر و شبیر.
’’حضرت سالم رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میں نے اپنے ان دونوں بیٹوں حسن اور حسین کے نام
ہارون (علیہ السالم) کے بیٹوں شبر اور شبیر کے نام پر رکهے ہیں۔‘‘
.4عن عکرمة قال :لما ولدت فاطمة الحسن بن علی جاء ت به الی رسول اﷲ صلی
ﷲ علیه وآله وسلم فسماہ حسنا ،فلما ولدت حسینا جاء ت به الي رسول اﷲ صلي ﷲ
علیه وآله وسلم فقالت :یا رسول اﷲ صلي اﷲ علیک وسلم! هذا أحسن من هذا تعني
حسینا فشق له من اسمه فسماہ حسینا.
العقبی119 : 1 ،
ٰ .1محب طبري ،ذخائر
.2دوالبی ،الذریة الطاهرہ ،85 : 1 ،رقم 146 :
’’حضرت جعفر بن محمد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسین کا نام حسن سے اخذ کیا اور آپ صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے دونوں کے نام حسن اور حسین علیہما السالم ان کی پیدائش کے
ساتویں دن رکهے۔
.6عن علی بن ابی طالب رضی ﷲ عنه قال :لما ولدت فاطمة الحسن جاء النبی صلی
ﷲ علیه وآله وسلم فقال :أروني ابني ما سمیتموہ؟ قال :قلت :سمیته حربا فقال :بل
هو حسن فلما ولدت الحسین جاء رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم فقال :أروني ابني
ما سمیتموہ؟ قال :قلت :سمیته حربا قال :بل هو حسین ثم لما ولدت الثالث جاء رسول
اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال :أروني ابني ما سمیتموہ؟ قلت :سمیته حربا .قال :
بل هو محسن .ثم قال :إنما سمیتهم بإسم ولد هارون شبر و شبیر و مشبر.
میں رکها)
.7عن المفضل قال :إن اﷲ حجب اسم الحسن والحسین حتي سمي بهما النبي صلي ﷲ
علیه وآله وسلم ابنیه الحسن والحسین.
.1نبهاني ،الشرف المؤبد 424 :
.2نووي ،تهذیب األسماء ،162 : 1 ،رقم 118 :
.3ابن اثیر ،اسد الغابه في معرفة الصحابه13 : 2 ،
’’عمران بن سلیمان سے روایت ہے کہ حسن اور حسین اہل جنت کے ناموں میں
دور جاہلیت میں پہلے کبهی نہیں رکهے گئے تهے۔‘‘
سے دو نام ہیں جو کہ ِ
فصل 3 :
قال النبی صلی ﷲ علیه وآله وسلم :الحسن والحسین هما أبناي
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :حسنین کریمین علیہما السالم میرے
بیٹے ہیں)
.9عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال :رأیت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم أخذ بید الحسن والحسین و یقول :هذان أبناي.
.1ذهبي ،سیر أعالم النبالء284 : 3 ،
.2دیلمي ،الفردوس ،336 : 4 ،رقم 6973 :
.3ابن جوزي ،صفوة الصفوہ763 : 1 ،
القربی124 : 1 ،
ٰ .4محب طبري ،ذخائر العقبي في مناقب ذوي
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :میں
نے حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکها کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے حسن و حسین علیہما السالم کا ہاته پکڑ کر فرمایا :یہ میرے بیٹے ہیں۔‘‘
.10عن فاطمة سالم اﷲ علیها قالت :أن رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم أتاها
یوما .فقال :أین ابناي؟ فقالت :ذهب بهما علي ،فتوجه رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
ی! أال تقلب
وسلم فوجدهما یلعبان في مشربة و بین أیدهما فضل من تمر .فقال :یا عل ّ
ابني قبل الحر.
’’سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا فرماتی ہیں کہ ایک روز حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم میرے ہاں تشریف الئے اور فرمایا :میرے بیٹے کہاں ہیں؟ میں نے
عرض کیا :علی رضی ﷲ عنہ ان کو ساته لے گئے ہیں۔ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم ان کی تالش میں متوجہ ہوئے تو انہیں پانی پینے کی جگہ پر کهیلتے
ہوئے پایا اور ان کے سامنے کچه کهجوریں بچی ہوئی تهیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا :اے علی! خیال رکهنا میرے بیٹوں کو گرمی شروع ہونے سے
پہلے واپس لے آنا۔‘‘
ی بن أبي طالب :قال النبي صلي ﷲ علیه وآله .11عن المسیب بن نجبة قال :قال عل ّ
وسلم :إن کل نبي اعطي سبعة نجباء أو نقباء ،و أعطیت أنا أربعة عشر .قلنا :من هم؟
قال :أنا و أبناي و جعفر و حمزة و أبوبکر و عمر و مصعب بن عمیر و بالل و سلمان
والمقداد و حذیفة و عمار و عبد اﷲ بن مسعود.
.1ترمذي ،الجامع الصحیح ،123 : 6 ،کتاب المناقب ،رقم 3785 :
.2احمد بن حنبل ،المسند ،142 : 1 ،رقم 1205 :
.3شیباني ،اآلحاد والمثاني ،189 : 1 ،رقم 244 :
.4طبراني ،المعجم الکبیر ،215 : 6 ،رقم 6047 :
.5ابن موسي ،معتصر المختصر314 : 2 ،
.6طبري ،الریاض النضرہ في مناقب العشرہ ،225 : 1 ،رقم 8 ،7 :
.7ابن عبدالبر ،االستیعاب في معرفة االصحاب1140 : 3 ،
.8حلبي ،السیرة الحلبیه390 : 3 ،
.9ابن احمد خطیب ،وسیلة االسالم77 : 1 ،
’’مسیب بن نجبہ حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی
اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہر نبی کو سات نجیب یا نقیب عطا کئے
گئے جبکہ مجهے چودہ عطا کئے گئے۔ راوی کہتے ہیں کہ ہم نے حضرت علی
رضی ﷲ عنہ سے پوچها کہ وہ کون ہیں تو حضرت علی رضی ﷲ عنہ نے بتایا :
میں ،میرے دونوں بیٹے ،جعفر ،حمزہ ،ابوبکر ،عمر ،مصعب بن عمیر ،بالل،
سلمان ،مقداد ،حذیفہ ،عمار اور عبداﷲ بن مسعود رضی ﷲ عنهم۔‘‘
.12عن علی رضی ﷲ عنه قال :ان اﷲ جعل لکل نبی سبعة نجباء و جعل لنبینا أربعة
ی و الحسن والحسین و حمزة و جعفر و أبوذر و عشر ،منهم :أبوبکر و عمر و عل ّ
عبداﷲ بن مسعود و المقداد و عمار و سلمان و حذیفة و بالل.
تعالی نے ہر
ٰ ’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہوئے فرماتے ہیں :اﷲ
نبی کے سات نجباء بنائے جبکہ ہمارے نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو چودہ
نجیب عطا کئے۔ ان میں ابوبکر ،عمر ،علی ،حسن ،حسین ،حمزہ ،جعفر ،ابوذر،
عبداﷲ بن مسعود ،مقداد ،عمار ،سلمان ،حذیفہ اور بالل رضی ﷲ عنهم شامل ہیں۔‘‘
فصل 4 :
.13عن أم سلمة رضی اﷲ عنها أن رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم جمع فاطمة و
حسنا و حسینا ثم أدخلهم تحت ثوبه ثم قال :اللهم هؤالء أهل بیتي.
’’ام المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ سالم اﷲ علیہا اور حسن و حسین علیہما السالم
کو جمع فرما کر ان کو اپنی چادر میں لے لیا اور فرمایا :اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت
ہیں۔‘‘
.14عن سعد بن ابي وقاص رضی اﷲ عنه قال :لما نزلت هذہ االیة (فَقُ ْل تَ َعالَ ْوا نَ ْد ُ
ع
أ َ ْبنَا َء نَا َو أ َ ْبنَا َء ُک ْم) دعا رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم :علیا و فاطمة و حسنا و
حسینا فقال :اللهم هؤالء اهلي.
ت مباہلہ ’’آپ
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب آی ِ
فرما دیں آؤ ہم اپنے بیٹوں کو بالتے ہیں اور تم اپنے بیٹوں کو بالؤ‘‘ نازل ہوئی تو
حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم
السالم کو بالیا ،پهر فرمایا :یا اﷲ! یہ میرے اہل (بیت) ہیں۔‘‘
س
الر ْج َ ع ْن ُ
ک ُم ِ ّ .15عن ابي سعید الخدري رضی اﷲ عنه في قوله (اِنَّ َما ی ُِر ْیدُ اﷲُ ِلیُ ْذ ِه َ
ب َ
أ َ ْه َل ْالبَ ْیتِ) قال :نزلت في خمسة في رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم و علي و
فاطمة والحسن والحسین.
.16عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنه قال :سمعت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم یقول :کل بني انثي فان عصبتهم ألبیهم ما خال ولد فاطمة ،فإني أنا عصبتهم و أنا
أبوهم.
اس روایت میں بشر بن مہران کو ابن حبان نے ’(الثقات ‘)140 : 8 ،میں ثقہ شمار
کیا ہے۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :میں نے حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :ہر عورت کے بیٹوں کی نسبت ان
کے باپ کی طرف ہوتی ہے ماسوائے فاطمہ کی اوالد کے ،کہ میں ہی ان کا نسب
ہوں اور میں ہی ان کا باپ ہوں۔‘‘
.17عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ عنه قال :سمعت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم یقول :کل سبب و نسب منقطع یوم القیامة ما خال سببي و نسبي کل ولد أب فان
عصبتهم ألبیهم ما خال ولد فاطمه فإني أنا ابوهم و عصبتهم.
’’حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں :میں نے حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :قیامت کے دن میرے حسب و نسب
کے سواء ہر سلسلہ نسب منقطع ہو جائے گا .ہر بیٹے کی باپ کی طرف نسبت ہوتی
ہے ماسوائے اوال ِد فاطمہ کے کہ ان کا باپ بهی میں ہی ہوں اور ان کا نسب بهی
میں ہی ہوں۔‘‘
.18عن جابر رضی اﷲ عنه قال :قال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم لکل بني أم
عصبة ینتمون الیهم إال إبني فاطمة فأنا و لیهما و عصبتهما.
’’سیدہ فاطمہ الزہراء سالم اﷲ علیہا سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ہر عورت کے بیٹوں کا خاندان ہوتا ہے جس کی طرف
وہ منسوب ہوتے ہیں ماسوائے فاطمہ کی اوالد کے ،پس میں ہی ان کا ولی ہوں اور
میں ہی ان کا نسب ہوں۔‘‘
فصل 6 :
.20عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال :قال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم :
أیها الناس! أال أخبرکم بخیر الناس جدا و جدة؟ أال أخبرکم بخیر الناس عما و عمة؟ أال
أخبرکم بخیر الناس خاال و خالة؟ أال أخبرکم بخیر الناس أبا ً و أماً؟ هما الحسن و
الحسین ،جدهما رسول اﷲ ،و جدتهما خدیجة بنت خویلد ،و أمهما فاطمة بنت رسول
اﷲ ،و أبوهما علي بن أبي طالب ،و عمهما جعفر بن أبي طالب ،و عمتهما أم هاني بنت
أبي طالب ،و خالهما القاسم بن رسول اﷲ ،و خاالتهما زینب و رقیة و أم کلثوم بنات
رسول اﷲ ،جدهما في الجنة و أبوهما في الجنة و أمهما في الجنة ،و عمهما في الجنة و
عمتهما في الجنة ،و خاالتهما في الجنة ،و هما في الجنة.
.21عن ابن ابي نعم :سمعت عبداﷲ ابن عمر رضي اﷲ عنهما و سأله عن المحرم،
قال شعبة :أحسبه بقتل الذباب ،فقال :أهل العراق یسألون عن الذباب و قد قتلوا ابن ابنة
رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم ،و قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :هما ریحا
نتاي من الدنیا.
’’ابن ابونعم فرماتے ہیں کہ کسی نے حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے
حالت احرام کے متعلق دریافت کیا۔ شعبہ فرماتے ہیں کہ میرے خیال میں (محرم
کے) مکهی مارنے کے بارے میں پوچها تها۔ حضرت ابن عمر رضی اﷲ عنہما نے
فرمایا :اہل عراق مکهی مارنے کا حکم پوچهتے ہیں حاالنکہ انہوں نے حضور نبی
اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے (حسین) کو شہید کر دیا تها اور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ہے :وہ دونوں (حسن و حسین علیہما السالم) ہی
تو میرے گلشن د ُنیا کے دو پهول ہیں۔‘‘
.22عن عبدالرحمن بن ابی نعم :أن رجال من أهل العراق سأل ابن عمر رضي اﷲ
عنهما عن دم البعوض یصیب الثوب؟ فقال ابن عمر رضي اﷲ عنهما :انظروا إلي هذا
یسأل عن دم البعوض و قد قتلوا ابن رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم ،و سمعت
رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم یقول :ان الحسن و الحسین هما ریحانتي من الدنیا.
’’حضرت ایوب انصاری رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوا تو (دیکها کہ) حسن و حسین
علیہما السالم آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یا گود میں کهیل رہے تهے۔
میں نے عرض کیا :یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم :کیا آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم ان سے محبت کرتے ہیں؟ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میں
ان سے محبت کیوں نہ کروں حاالنکہ میرے گلشن د ُنیا کے یہی تو دو پهول ہیں جن
کی مہک کو سونگهتا رہتا ہوں (اُنہی پهولوں کی خوشبو سے کیف و سرور پاتا
ہوں)۔‘‘
فصل 8 :
تأذین النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم في أُذن الحسن والحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم کے کانوں میں اَذان
کہنا)
.24عن أبي رافع رضي ﷲ عنه :أن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم أذن في أذن
الحسن والحسین علیهما السالم حین ولدا.
.1رویاني ،المسند ،429 : 1 ،رقم 708 :
.2طبراني ،المعجم الکبیر ،313 : 1 ،رقم 926 :
.3طبراني ،المعجم الکبیر ،31 : 3 ،رقم 2579 :
.4هیثمي ،مجمع الزوائد60 : 4 ،
.5ابن ملقن انصاري ،خالصة البدر المنیر ،392 : 2 ،رقم 2713 :
.6شوکاني ،نیل االوطار230 : 5 ،
.7صنعاني ،سبل السالم100 : 4 ،
’’حضرت ابو رافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ جب حسن اور حسین پیدا ہوئے
تو حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے خود ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘
.25عن ابي رافع رضي ﷲ عنه قال :رایت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم اذن
في اذن الحسن بن علي حین ولدته فاطمة بالصالة.
’’حضرت ابو رافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم کو دیکها کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ کے ہاں
حسن بن علی کی والدت ہونے پر ان کے کانوں میں نماز والی اذان دی۔‘‘
.26عن ابي رافع رضي ﷲ عنه قال :رایت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم اذن
في اذن الحسین حین ولدته فاطمة .هذا حدیث صحیح االسناد ولم یخرجاہ.
’’حضرت ابو رافع رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو دیکها کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فاطمہ کے ہاں
حسین کی والدت پر ان کے کانوں میں اذان دی۔‘‘
فصل 9 :
عقیقة النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم عن الحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم کی طرف سے
عقیقہ کرنا)
.27عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما :أن رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم عق عن
الحسن و الحسین کبشا ً کبشاً.
’’حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے دو دنبے عقیقہ کے لئے ذبح
کئے۔‘‘
’’حضرت عبداﷲ بن عباس رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقے میں دو دو دنبے ذبح
کئے۔‘‘
’’حضرت عمرو بن شعیب رضی ﷲ عنہ اپنے والد سے ،وہ اپنے دادا سے روایت
کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین میں
سے ہر ایک کی طرف سے ایک ہی جیسے دو دو دنبے عقیقہ میں ذبح کئے۔‘‘
’’ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ بیان کرتی ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے دو
دو بکریاں عقیقہ میں ذبح کیں۔‘‘
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے حسنین کریمین کی طرف سے عقیقہ کیا۔‘‘
.1طبراني ،المعجم الکبیر ،29 : 3 ،رقم 2572 :
.2هیثمي ،مجمع الزوائد58 : 4 ،
فصل 10 :
الحسن والحسین علیهما السالم کانا أشبه بالنبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
مصطفی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
ٰ (حسنین کریمین علیہما السالم . . .سراپا شبیہ
تهے)
.33عن علي رضي ﷲ عنه قال :الحسن أشبه برسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم ما
بین الصدر إلي الراس ،والحسین أشبه بالنبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم ما کان أسفل من
ذلک.
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حسن سینہ سے سر تک رسول
اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تهے اور حسین سینہ سے نیچے تک
حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کامل شبیہ تهے۔‘‘
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں :جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ
وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکهے جو گردن سے چہرے تک حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسن بن علی کو دیکه لے
اور جس شخص کی یہ خواہش ہو کہ وہ لوگوں میں ایسی ہستی کو دیکهے جو گردن
سے ٹخنے تک رنگت اور صورت دونوں میں حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی سب سے کامل شبیہ ہو تو وہ حسین بن علی کو دیکه لے۔‘‘
’’محمد بن ضحاک حزامی روایت کرتے ہیں کہ حسن بن علی علیہما السالم کا چہرہ
مبارک حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے چہرۂ اقدس کی شبیہ تها اور
حسین کا جسم مبارک حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے جسم اقدس کی
شبیہ تها۔‘‘
یرث الحسن والحسین علیهما السالم أوصاف النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
مصطفی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
ٰ اوصاف
ِ (حسنین کریمین علیہما السالم . . .وارثان
)
.37عن فاطمة بنت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم :أنها أتت بالحسن والحسین
أباها رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم في شکوة التي مات فیها ،فقالت :تورثهما یا
رسول اﷲ شیئاً .فقال :أما الحسن فله هیبتي و سؤددي و أما الحسین فله جراتي و
جودي.
’’سیدہ فاطمہ صلوات اﷲ علیها سے روایت ہے کہ وہ اپنے بابا حضور رسول اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال کے دوران حسن اور حسین کو آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس الئیں اور عرض کیا :یا رسول اﷲ! انہیں اپنی
وراثت میں سے کچه عطا فرمائیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
حسن میری ہیبت و سرداری کا وارث ہے اور حسین میری جرات و سخاوت کا۔‘‘
’’حضرت ام ایمن رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا حسنین
کریمین علیہما السالم کو ساته لے کر نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت
میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا :یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ان دونوں
بیٹوں حسن و حسین کو کچه عطا فرمائیں۔ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا :میں نے اس بڑے بیٹے (حسن) کو ہیبت و بردباری عطا کی اور
چهوٹے بیٹے (حسین) کو محبت اور رضا عطا کی۔‘‘
’’حضرت زینب بنت ابی رافع سے روایت ہے کہ سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا حضور
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال کے دوران اپنے دونوں بیٹوں کو آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں الئیں اور عرض کیا :یہ آپ کے بیٹے
ہیں ،انہیں اپنی وراثت میں سے کچه عطا فرمائیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا :حسن کے لئے میری ہیبت و سرداری کی وراثت ہے اور حسین کے لئے
میری جرات و سخاوت کی وراثت۔‘‘
.1عسقالني ،تهذیب التهذیب ،299 : 2 ،رقم 615 :
.2عسقالني ،االصابه في تمییز الصحابه ،674 : 7 ،رقم 11232 :
.3مزي ،تهذیب الکمال400 : 6 ،
.40عن أبي رافع رضي ﷲ عنه قال :جاء ت فاطمة بنت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه
وآله وسلم بحسن و حسین إلي رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم في مرضه الذي
قبض فیه ،فقالت :هذان ابناک فورثهما شیئا .فقال لها :أما حسن فان له ثباتي و
سؤددي ،و أما حسین فان له حزامتي و جودي.
’’حضرت ابو رافع رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا
حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مرض الوصال میں اپنے دونوں بیٹوں
کو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں الئیں اور عرض پرداز ہوئیں :
یہ آپ کے بیٹے ہیں انہیں کچه وراثت میں عطا فرمائیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے فرمایا :حسن کے لئے میری ثابت قدمی اور سرداری کی وراثت ہے اور حسین
کے لئے میری طاقت و سخاوت کی وراثت۔‘‘
.41عن أبي سعید الخدري رضي ﷲ عنه قال :قال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم :الحسن و الحسین سیدا شباب أهل الجنة.
’’حضرت ابوسعید خدری رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :حسن اور حسین جنتی جوانوں کے سردار
ہیں۔‘‘
.10ہیثمی نے ’مجمع الزوائد ( ‘)201 : 9میں اس کے رواة کو صحیح قرار دیا ہے۔
’’حضرت حذیفہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری والدہ نے مجه سے پوچها
کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضری کا میرا معمول
کیا ہے۔ میں نے کہا کہ اتنے دنوں سے میں حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم کی خدمت میں حاضر نہیں ہو سکا۔ وہ مجه سے ناراض ہوئیں۔ میں نے کہا کہ
مجهے اجازت دیجئے کہ میں ابهی حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
خدمت میں حاضر ہوں ،ان کے ساته مغرب کی نماز پڑهوں گا اور ان سے عرض
کروں گا کہ میرے اور آپ کے لئے مغفرت کی دعا فرمائیں۔ پس میں حضور نبی
اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ان کے ساته
مغرب کی نماز پڑهی۔ پهر حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نوافل ادا
فرماتے رہے یہاں تک کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے عشاء کی نماز ادا فرمائی
پهر حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم گهر کی طرف روانہ ہوئے تو میں آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیچهے چلنے لگا۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
میری آواز سنی تو فرمایا یہ کون ہے؟ حذیفہ! میں نے عرض کیا :جی ہاں۔ حضور
تعالی تمہیں
ٰ نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچها تمہاری کیا حاجت ہے؟ اﷲ
اور تمہاری ماں کو بخش دے پهر فرمایا :یہ ایک فرشتہ ہے جو اس سے پہلے دنیا
میں کبهی نہیں اترا۔ اس نے اپنے رب سے اجازت چاہی کہ مجه پر سالم عرض
کرے اور مجهے بشارت دے کہ فاطمہ جنتی عورتوں کی سردار ہے اور حسن اور
حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں۔‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ ہم عبدالمطلب کی اوالد اہل جنت
کے سردار ہیں جن میں میں ،حمزہ ،علی ،جعفر ،حسن ،حسین اور مہدی شامل
ہیں۔‘‘
’’حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :حسن اور حسین تمام جوانان جنت کے سردار ہیں۔‘‘
طبرانی نے ’المعجم االوسط ( ،243 : 5رقم ‘)5208 :میں حضرت اُسامہ بن زید
سے مروی حدیث بهی بیان کی ہے۔
.1ابن ماجه ،السنن ،44 : 1 ،باب فضائل اصحاب رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم ،رقم 118 :
.2حاکم ،المستدرک ،182 : 3 ،رقم 4780 :
.3ابن عساکر ،تاریخِ دمشق الکبیر133 : 14 ،
.4کناني ،مصباح الزجاجه ،20 : 1 ،رقم 48 :
.5ذهبي ،میزان االعتدال474 : 6 ،
.47عن الحسین بن علي رضي اﷲ عنهما قال سمعت جدي رسول اﷲ صلي ﷲ علیه
وآله وسلم یقول :ال تسبوا الحسن والحسین ،فانهما سیدا شباب أهل الجنة من األولین
واألخرین.
’’حضرت حسین بن علی رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے اپنے نانا
حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :حسن اور حسین کو
گالی مت دینا کیونکہ وہ پہلی اور پچهلی تمام امتوں کے جنتی جوانوں کے سردار
ہیں۔‘‘
.2ہیثمی نے ’مجمع الزوائد ( ‘)184 : 9میں اِسے مختصرا ً روایت کیا ہے۔
دیا)
.51عن صفیة بنت شیبة قالت :قالت عائشة رضي اﷲ عنها :خرج النبي صلي ﷲ
علیه وآله وسلم غداة و علیه مرط مرحل من شعر أسود .فجاء الحسن بن علي فأدخله،
ثم جاء الحسین فدخل معه ثم جاء ت فاطمة فأدخلها ،ثم جاء علي فأدخله ،ثم قال ( :إنما
یرید اﷲ لیذهب عنکم الرجس أهل البیت و یطهرکم تطهیرا).
’’حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پروردہ عمر بن ابی سلمہ فرماتے
ہیں کہ جب ام سلمہ کے گهر حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پر یہ آیت
’’اے اہل بیت! اﷲ تو یہی چاہتا ہے کہ تم سے (ہر طرح) کی آلودگی دور کر دے
اور تم کو خوب پاک و صاف کر دے‘‘ نازل ہوئی تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے سیدہ فاطمہ اور حسنین کریمین سالم اﷲ علیہم کو بالیا اور انہیں ایک کملی میں
ڈهانپ لیا۔ علی رضی ﷲ عنہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پیچهے تهے ،آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں بهی کملی میں ڈهانپ لیا ،پهر فرمایا :اے اﷲ! یہ
میرے اہل بیت ہیں ،پس ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور انہیں خوب پاک و
صاف کر دے۔‘‘
.1ترمذي ،الجامع الصحیح ،351 : 5 ،کتاب تفسیر القرآن ،رقم 3205 :
.2طبري ،جامع البیان في تفسیر القرآن8 : 22 ،
.3ابن اثیر ،اسد الغابه في معرفة الصحابه17 : 2 ،
القربی21 : 1 ،
ٰ .4محب طبري ،ذخائر العقبي في مناقب ذوي
.54عن ام سلمة رضي اﷲ عنها ان النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم ! جلل علي الحسن
و الحسین و علي و فاطمة کساء ثم قال :اللهم هؤالء اهل بیتي و خاصتي اذهب عنهم
الرجس و طهرهم تطهیرا.
’’حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے حسن ،حسین ،علی اور فاطمہ سالم اﷲ علیہم پر چادر پهیالئی اور فرمایا :
اے اﷲ! یہ میرے اہل بیت اور مقرب ہیں ،ان سے ہر قسم کی آلودگی دور فرما اور
انہیں اچهی طرح پاکیزگی و طہارت سے نواز دے۔‘‘
قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :من أحبني فلیحب هذین
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جو مجه سے محبت کرتا ہے اس پر
.55عن عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال :قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
:من أحبني فلیحب هذین.
’’حضرت عبدﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس نے مجه سے محبت کی ،اس پر الزم ہے
کہ وہ ان دونوں سے بهی محبت کرے۔‘‘
’’حضرت عبدﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ جب آیت مبارکہ ’’فرما
دیں میں تم سے اس (تبلیغ حق اور خیرخواہی) کا کچه صلہ نہیں چاہتا بجز اہل
قرابت سے محبت کے‘‘ نازل ہوئی تو صحابہ کرام رضی ﷲ عنهم نے عرض کیا :
یا رسول ﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ کے وہ کون سے قرابت دار ہیں جن کی
محبت ہم پر واجب ہے؟ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :علی ،فاطمہ اور ان
کے دونوں بیٹے (حسن و حسین)۔‘‘
’’حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حسن اور حسین علیہما السالم کے متعلق فرماتے ہوئے سنا :
جو مجه سے محبت کرتا ہے اس پر ان دونوں سے محبت کرنا واجب ہے۔‘‘
.59عن أبي هریرة رضي ﷲ عنه قال :قال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم :من
أحب الحسن والحسین فقد أحبني.
’’حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :جس نے حسن اور حسین علیہما السالم سے محبت کی ،اس
نے درحقیقت مجه ہی سے محبت کی۔‘‘
.1ابن ماجه ،السنن ،باب في فضائل اصحاب رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم: 1 ،
،51رقم 143 :
الکبری : 49 : 5 ،رقم 8168 :
ٰ .2نسائي ،السنن
.3احمد بن حنبل ،المسند ،288 : 2 ،رقم 7863 :
.4طبراني ،المعجم االوسط ،102 : 5 ،رقم 4795 :
.5طبراني ،المعجم الکبیر ،47 : 3 ،رقم 2645 :
.6ابو یعلي ،المسند ،78 : 11 ،رقم 2615 :
.7ابویعلي ،المسند : 78 : 11 ،رقم 6215 :
.8ابن راهویه ،المسند ،248 : 1 ،رقم 211 :
.8نسائي ،فضائل الصحابه ،20 : 1 ،رقم 65 :
.9کناني ،مصباح الزجاجه ،21 : 1 ،رقم 52 :
.10خطیب بغدادي ،تاریخ بغداد141 : 1 ،
.60عن عبد اﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما أن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال
للحسن والحسین :من أحبهما فقد أحبني.
’’ ابوحازم بیان کرتے ہیں :میں حسن کی شہادت کے وقت حسین کے پاس حاضر
تها وہ سعید بن العاص رضی ﷲ عنہ کو گردن سے پکڑ کر آگے کرتے ہوئے کہہ
مصطفی صلی ﷲ
ٰ رہے تهے ( :نماز جنازہ پڑهانے کے لئے) آگے بڑهو ،اگر سنت
علیہ وآلہ وسلم نہ ہوتی تو میں آپ کو آگے نہ کرتا ،اور سعید ان دنوں مدینہ کے
نماز جنازہ ادا کر لی تو حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ
امیر تهے۔ جب سب نے ِ
کهڑے ہوئے ،اُنہوں نے فرمایا :تم کس دل سے اپنے نبی کے صاحبزادے کو زمین
میں دفنا کر ان پر مٹی ڈالو گے اور ساته انہوں نے (غم میں ڈوب کر) یہ بهی کہا کہ
میں نے حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے :جس
نے ان سے محبت کی اس نے درحقیقت مجه ہی سے محبت کی۔‘‘
.62عن سلمان رضي ﷲ عنه قال :سمعت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم یقول :
من أحبهما أحبني ،ومن أحبني أحبه اﷲ ،ومن أحبه اﷲ أدخله الجنة.
’’سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضورنبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :جس نے حسن اور حسین علیہما السالم سے
محبت کی ،اُس نے مجه سے محبت کی ،اور جس نے مجه سے محبت کی اس سے
ﷲ نے محبت کی ،اور جس سے ﷲ نے محبت کی اس نے اسے جنت میں داخل
کردیا۔‘‘
’’سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السالم کے لئے فرمایا :جس نے ان سے محبت
کی اس سے میں نے محبت کی ،اور جس سے میں محبت کروں اس سے ﷲ محبت
کرتا ہے ،اور جس کو ﷲ محبوب رکهتا ہے اسے نعمتوں والی جنتوں میں داخل کرتا
ہے۔‘‘
قال النبی صلی ﷲ علیه وآله وسلم :من أحب هذین کان معي یوم القیامة
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس نے ان دونوں سے محبت کی وہ
.64عن علي بن أبي طالب رضي ﷲ عنه :أن رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم
أخذ بید حسن و حسین ،فقال :من أحبني و أحب هذین و أباهما و أمهما کان معي في
درجتي یوم القیامة.
’’حضرت علی بن ابی طالب رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن اور حسین علیہما السالم کا ہاته پکڑا اور فرمایا :
جس نے مجه سے اور ان دونوں سے محبت کی اور ان کے والد سے اور ان کی
والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساته میرے ہی ٹهکانہ پر ہو گا۔‘‘
.1ترمذي ،الجامع الصحیح ،641 : 5 ،ابواب المناقب ،رقم 3733 :
.2احمد بن حنبل ،المسند ،77 : 1 ،رقم 576 :
.3احمد بن حنبل ،فضائل الصحابه ،693 : 2 ،رقم 1185 :
.4طبراني ،المعجم الکبیر ،50 : 3 ،رقم 2654 :
.5مقدسي ،االحادیث المختارہ ،45 : 2 ،رقم 421 :
.6خطیب بغدادي ،تاریخ بغداد ،287 : 13 ،رقم 7255 :
.7دوالبي ،الذریة الطاهرہ ،120 : 1 ،رقم 234 :
.8مزي ،تهذیب الکمال228 : 6 ،
.9عسقالني ،تهذیب التهذیب ،258 : 2 ،رقم 528 :
ی رضي ﷲ عنه عن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال :أنا و فاطمة و .65عن عل ّ
حسن و حسین مجتمعون ،و من أحبنا یوم القیامة نأکل و نشرب حتي یفرق بین العباد.
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :میں ،فاطمہ ،حسن ،حسین اور جو ہم سے محبت کرتے ہیں
قیامت کے دن ایک ہی مقام پر جمع ہوں گے ،ہمارا کهانا پینا بهی اکٹها ہو گا تاآنکہ
لوگ (حساب و کتاب کے بعد) جدا جدا کر دیئے جائیں گے۔‘‘
قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :اللهم إني أحبهما فأحبهما
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے اﷲ میں ان دونوں سے محبت کرتا
.67عن البراء رضي ﷲ عنه قال :أن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم أبصر حسنا و
حسینا ،فقال :اللهم! إني أحبهما فأحبهما.
’’حضرت براء بن عازب رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسنین کریمین علیہما السالم کی طرف دیکه کر فرمایا :اے
اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بهی ان سے محبت کر۔‘‘
.2بزار نے ’المسند ( ،253 : 8رقم ‘)3317 :میں اسے ابن قرہ سے بهی روایت کیا
ہے۔
.3ہیثمی نے ’مجمع الزوائد ( ‘)180 : 9میں بزار کی بیان کردہ دونوں روایات نقل
کی ہیں۔
.4شوکانی نے بهی ’درالسحابہ فی مناقب القرابۃ والصحابہ (ص ‘)306 ،305 :میں
بزار کی بیان کردہ دونوں روایات نقل کی ہیں۔
.70عن أسامة بن زید رضي اﷲ عنهما قال ،قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :
اللهم! إني أحبهما فأحبهما و أحب من یحبهما.
’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دعا فرمائی :اے اﷲ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بهی ان
سے محبت کر اور ان سے محبت کرنے والے سے بهی محبت کر۔‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا :آپ کو اہل بیت میں سے سب سے زیادہ کون
محبوب ہے؟ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :حسن اور حسین۔‘‘
.1ترمذي ،الجامع الصحیح ،657 : 5 ،ابواب المناقب ،رقم 3772 :
ابویعلی ،المسند ،274 : 7 ،رقم 4294 :
ٰ .2
.3شوکاني ،درالسحابه في مناقب القرابه و الصحابه 301 :
فصل 19 :
رکها)
.74عن أبي هریرة رضي ﷲ عنه قال :قال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم :من
أبغضهما فقد أبغضني.
’’ حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :جس نے حسن اور حسین سے بغض رکها اس نے مجه
ہی سے بغض رکها۔‘‘
.1ابن ماجه ،السنن ،باب في فضائل اصحاب رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم: 1 ،
،51رقم 143 :
.2نسائي ،السنن الکبري : 49 : 5 ،رقم 8168 :
.3احمد بن حنبل ،المسند ،288 : 2 ،رقم 7863 :
.4طبراني ،المعجم االوسط ،102 : 5 ،رقم 4795 :
.5طبراني ،المعجم الکبیر ،47 : 3 ،رقم 2645 :
.6ابویعلي ،المسند ،78 : 11 ،رقم 6215 :
.7ابن راهویه ،المسند ،248 : 1 ،رقم 211 :
.8نسائي ،فضائل الصحابه ،20 : 1 ،رقم 65 :
.9کناني ،مصباح الزجاجه ،21 : 1 ،رقم 52 :
.10خطیب بغدادي ،تاریخ بغداد141 : 1 ،
.75عن عبداﷲ بن مسعود رضي اﷲ عنهما قال :قال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم :من أبغضهما فقد أبغضني.
.77عن سلمان رضي ﷲ عنه قال :سمعت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم یقول :
من أبغضهما أبغضني ،و من أبغضني أبغضه اﷲ ،ومن أبغضه اﷲ أدخله النار.
’’سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا :جس نے حسن و حسین علیہما السالم سے
بغض رکها اس نے مجه سے بغض رکها ،اور جس نے مجه سے بغض رکها وہ ﷲ
کے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں مبغوض ہوا ،اُسے ﷲ نے آگ میں داخل
کر دیا۔‘‘
’’سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السالم کے بارے میں فرمایا :جس نے ان سے
بغض رکها یا ان سے بغاوت کی وہ میرے ہاں مبغوض ہو گیا اور جو میرے ہاں
مبغوض ہو گیا وہ اﷲ کے غضب کا شکار ہو گیا اور جو اﷲ کے ہاں غضب یافتہ ہو
تعالی اسے جہنم کے عذاب میں داخل کرے گا (جہاں) اس کے لئے ہمیشہ
ٰ گیا تو اﷲ
کا ٹهکانہ ہو گا۔‘‘
قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم :اللهم عاد من عاداهم و وال من واالهم
(حضور صلي ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے اﷲ! جو ان سے عداوت رکهے تو
.79عن أم سلمة رضي اﷲ عنها قالت :جاء ت فاطمة بنت النبي صلي ﷲ علیه وآله
وسلم إلي رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم متورکة الحسن و الحسین ،في یدها برمة
للحسن فیها سخین حتي أتت بها النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم فلما وضعتها قدامه ،قال
لها :أین أبو الحسن؟ قالت :في البیت .فدعاہ ،فجلس النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم و
علي و فاطمة و الحسن و الحسین یأکلون ،قالت أم سلمة رضي اﷲ عنها :وما سامني
النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم وما أکل طعاما قط إال و أنا عندہ إال سامنیه قبل ذلک
الیوم ،تعني سامني دعاني إلیه ،فلما فرغ التف علیهم بثوبه ثم قال :اللهم عاد من عاداهم
و وال من واالهم.
’’اُم المومنین حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا بیان کرتی ہیں کہ سیدہ فاطمہ سالم اﷲ
علیہا بنت رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کو پہلو
میں اٹهائے ہوئے حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور آپ
کے ہاته میں پتهر کی ہانڈی تهی جس میں حسن کے لئے گرم سالن تها۔ سیدہ فاطمہ
سالم اﷲ علیہا نے جب اسے حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے ال کے
رکها تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پوچها :ابوالحسن (علی) کہاں ہے تو سیدہ
فاطمہ سالم اﷲ علیہا نے جواب دیا :گهر میں ہیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
انہیں بالیا نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ،حضرت علی ،حضرت فاطمہ اور
حسنین کریمین سالم اﷲ علیہم بیٹه کر کهانا تناول فرمانے لگے۔ ام سلمہ رضی اﷲ
عنہا کہتی ہیں :نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجهے نہ بالیا۔ اس سے پہلے
کبهی ایسا نہ ہوا تها کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے میری موجودگی میں کهانا
کهایا ہو اور مجهے نہ بالیا ہو۔ پهر جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کهانے سے
فارغ ہوئے تو ان سب کو اپنے کپڑے میں لے لیا اور فرمایا :اے اﷲ! جو ان سے
عداوت رکهے تو اس سے عداوت رکه اور جو ان کو دوست رکهے تو اسے دوست
رکه۔‘‘
النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم حرب لمن حارب الحسن والحسین علیهما السالم
(جس نے حسن و حسین علیہما السالم سے جنگ کی اس سے حضور صلی ﷲ علیہ
.80عن زید بن أرقم رضي اﷲ عنه ،أن رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال لعلي
و فاطمة و الحسن و الحسین رضي اﷲ عنهم :أنا حرب لمن حاربتم ،و سلم لمن
سالمتم.
’’حضرت زید بن ارقم رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے حضرت علی ،حضرت فاطمہ ،حضرت حسن اور حضرت حسین
سالم اﷲ علیہم سے فرمایا :جس سے تم لڑو گے میری بهی اس سے لڑائی ہو گی،
اور جس سے تم صلح کرو گے میری بهی اس سے صلح ہو گی۔‘‘
’’حضرت زید بن ارقم رضی ﷲ عنہ سے یہ بهی روایت ہے کہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت فاطمہ ،حضرت حسن اور حضرت حسین سالم
اﷲ علیہم (تینوں) سے فرمایا :جو تم سے لڑے گا میں اس سے لڑوں گا اور جو تم
سے صلح کرے گا میں اس سے صلح کروں گا۔‘‘
.3حاکم نے ’المستدرک ( ،161 : 3رقم ‘)4713 :میں اس حدیث کو حسن قرار دیا
ہے جبکہ ذہبی نے اس میں کوئی جرح نہیں کی۔
.8ہیثمی نے ’مجمع الزوائد ( ‘)169 : 9میں کہا ہے کہ اسے احمد اور طبرانی نے
روایت کیا ہے اور اس کے راوی تلیدبن سلیمان میں اختالف ہے جبکہ اس کے بقیہ
رجال حدیث صحیح کے رجال ہیں۔
.83عن أبی بکر الصدیق رضي ﷲ عنه قال :رأیت رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم خیم خیمة و هو متکئ علي قوس عربیة و في الخیمة علي و فاطمة والحسن
والحسین فقال :معشر المسلمین أنا سلم لمن سالم أهل الخیمة حرب لمن حاربهم ولي
لمن واالهم ال یحبهم إال سعید الجد طیب المولد وال یبغضهم إال شقي الجد ردئ الوالدة.
’’حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکها کہ رسول
اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ایک خیمہ میں قیام فرمایا اور آپ صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم ایک عربی کمان پر ٹیک لگائے ہوئے تهے اور خیمہ میں علی ،فاطمہ،
حسن اور حسین بهی موجود تهے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :اے
مسلمانوں کی جماعت جو اہل خیمہ سے صلح کرے گا میری بهی اس سے صلح ہو
گی جو ان سے لڑے گا میری بهی اس سے لڑائی ہو گی۔ جو ان کو دوست رکهے گا
میری بهی اس سے دوستی ہو گی ،ان سے صرف خوش نصیب اور برکت واال ہی
دوستی رکهتا ہے اور ان سے صرف بدنصیب اور بدبخت ہی بغض رکهتا ہے۔‘‘
.84عن سلمان رضي ﷲ عنه قال :کنا حول النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم فجاء ت ام
ایمن فقالت :یا رسول اﷲ صلي اﷲ علیک وسلم! لقد ضل الحسن و الحسین ،قال :و
ذلک راد النهار یقول ارتفاع النهار .فقال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم ’’ :قوموا
فاطلبوا ابني ‘‘.قال :و اخذ کل رجل تجاہ وجهه و اخذت نحو النبي صلي ﷲ علیه وآله
وسلم فلم یزل حتي اتي سفح جبل و إذا الحسن و الحسین ملتزق کل واحد منهما صاحبه،
و إذا شجاع قائم علي ذنبه یخرج من فیه شه النار ،فاسرع الیه رسول اﷲ صلي ﷲ علیه
وآله وسلم ،فالتفت مخاطبا لرسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم ،ثم انساب فدخل بعض
األحجرة ،ثم اتاهما فافرق بینهما و مسح وجههما و قال :بأبي و أمي أنتما ما أکرمکما
علي اﷲ.
’’سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں :ہم حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے پاس تهے۔ ام ایمن آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئیں اور عرض
کیا :حسن و حسین علیہما السالم گم ہو گئے ہیں۔ راوی کہتے ہیں دن خوب نکال ہوا
تها۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :چلو میرے بیٹوں کو تالش کرو ،راوی
کہتا ہے ہر ایک نے اپنا اپنا راستہ لیا اور میں حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے ساته چل پڑا ،آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے حتی کہ پہاڑ
کے دامن تک پہنچ گئے (دیکها کہ) حسن و حسین علیہما السالم ایک دوسرے کے
ساته چمٹے ہوئے ہیں اور ایک اژدها اپنی دم پر کهڑا ہے اور اس کے منہ سے آگ
کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف تیزی سے
بڑهے تو وہ اژدها حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو کر
سکڑ گیا پهر کهسک کر پتهروں میں چهپ گیا پهر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
حسنین کریمین علیہما السالم کے پاس تشریف الئے اور دونوں کو الگ الگ کیا اور
ان کے چہروں کو پونچها اور فرمایا :میرے ماں باپ تم پر قربان ،تم اﷲ کے ہاں
کتنی عزت والے ہو۔‘‘
فزع النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم ببکاء الحسن والحسین علیهما السالم
(حسنین کریمین علیہما السالم کے رونے سے حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
پریشان ہو گئے)
.86عن یحیي بن أبي کثیر :أن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم سمع بکاء الحسن و
الحسین ،فقام فزعا ،فقال :إن الولد لفتنة لقد قمت إلیهما و ما أعقل.
یحیی بن ابی کثیر روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
’’ ٰ
نے حضرت حسن و حسین علیہما السالم کے رونے کی آواز سنی تو پریشان ہو کر
کهڑے ہو گئے اور فرمایا :بے شک اوالد آزمائش ہے ،میں ان کے لئے بغیر غور
کئے کهڑا ہو گیا ہوں۔‘‘
’’یزید بن ابو زیاد سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کے گهر سے باہر تشریف الئے اور سیدہ فاطمہ
سالم اﷲ علیہا کے گهر کے پاس سے گزرے تو حسینں کو روتے ہوئے سنا ،آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ :کیا تجهے معلوم نہیں کہ اس کا رونا مجهے
تکلیف دیتا ہے۔‘‘
.1طبراني ،المعجم الکبیر ،116 : 3 ،رقم 2847 :
.2هیثمي ،مجمع الزوائد201 : 9 ،
.3ذهبي ،سیر أعالم النبالء284 : 3 ،
فصل 25 :
نزل النبی صلی ﷲ علیه وآله وسلم من المنبر للحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کی خاطر اپنے منبر
.88عن أبي بریدة رضي ﷲ عنه یقول :کان رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم
یخطبنا إذ جاء الحسن و الحسین علیهما السالم ،علیهما قمیصان أحمران یمشیان و
یعثران ،فنزل رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم من المنبر فحملهما و وضعهما بین
ک ْم َو أَ ْو َالدُ ُک ْم فِتْنةٌ) فنظرت إلي هذین الصبیین
یدیه ،ثم قال :صدق اﷲ ( :إِنَّ َما أَ ْم َوالُ ُ
یمشیان و یعثران ،فلم أصبر حتي قطعت حدیثي و رفعتهما۔
’’حضرت ابوبریدہ رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم ہمیں خطبہ ارشاد فرما رہے تهے ،اتنے میں حسنین کریمین علیہما السالم
تشریف الئے ،انہوں نے سرخ رنگ کی قمیصیں پہنی ہوئی تهیں اور وہ (صغرسنی
کی وجہ سے) لڑکهڑا کر چل رہے تهے۔ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
(انہیں دیکه کر) منبر سے نیچے تشریف لے آئے ،دونوں (شہزادوں) کو اٹهایا اور
تعالی کا ارشاد سچ ہے ( :بیشک تمہارے
ٰ اپنے سامنے بٹها لیا ،پهر فرمایا :اﷲ
اموال اور تمہاری اوالد آزمائش ہی ہیں۔ ) میں نے ان بچوں کو لڑکهڑا کر چلتے
دیکها تو مجه سے رہا نہ گیا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹها لیا۔‘‘
.1ترمذي ،الجامع الصحیح ،658 : 5 ،ابواب المناقب ،رقم 3774 :
.2نسائي ،السنن ،192 : 3 ،کتاب صالة العیدین ،رقم 1885 :
.3احمد بن حنبل ،المسند345 : 5 ،
.4احمد بن حنبل ،فضائل الصحابه ،770 : 2 ،رقم 1358 :
.5ابن حبان ،الصحیح ،403 : 13 ،رقم 6039 :
.6بیهقي ،السنن الکبري ،218 : 3 ،رقم 5610 :
.7هیثمي ،مواردالظمآن ،552 : 1 ،رقم 2230 :
.8قرطبي ،الجامع الحکام القرآن143 : 18 ،
.9ابن کثیر ،تفسیر القرآن العظیم377 : 4 ،
.10مزي ،تهذیب الکمال403 : 6 ،
.11ابن جوزي ،التحقیق ،505 : 1 ،رقم 805 :
فصل 26 :
چوستے تهے)
.89عن أبي هریرة رضي ﷲ عنه فقال :أشهد لخرجنا مع رسول اﷲ صلي ﷲ علیه
وآله وسلم حتي إذا کنا ببعض الطریق سمع رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم صوت
الحسن و الحسین ،و هما یبکیان و هما مع أمهما ،فأسرع السیر حتي أتاهما ،فسمعته
یقول لها :ما شأن ابني؟ فقالت :العطش قال :فاخلف رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم الي شنة یبتغي فیها ماء ،و کان الماء یومئذ أغدارا ،و الناس یریدون الماء ،فنادي
:هل أحد منکم معه مائ؟ فلم یبق أحد اال أخلف بیدہ الي کالبه یبتغي الماء في شنة ،فلم
یجد أحد منهم قطرة ،فقال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم :ناولیني أحدهما ،فناولته
ایاہ من تحت الخدر ،فأخذہ فضمه الي صدرہ و هو یطغو ما یکست ،فأدلع له لسانه
فجعل یمصه حتي هدأ أو سکن ،فلم أسمع له بکاء ،و اآلخر یبکي کما هو ما یسکت فقال
:ناولیني اآلخر ،فناولته ایاہ ففعل به کذلک ،فسکتا فما أسمع لهما صوتا۔
’’حضرت ابو ہریرہ رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں میں گواہی دیتا ہوں کہ ہم حضور نبی
اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساته (سفر میں) نکلے ،ابهی ہم راستے میں ہی
تهے کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے حسن و حسین علیہما السالم کی آواز سنی
دونوں رو رہے تهے اور دونوں اپنی والدہ ماجدہ (سیدہ فاطمہ) کے پاس ہی تهے۔
پس آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اُن کے پاس تیزی سے پہنچے۔ (ابوہریرہ رضی ﷲ
عنہ کہتے ہیں کہ) میں نے آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو سیدہ فاطمہ سالم اﷲ
علیہا سے یہ فرماتے ہوئے سنا :میرے بیٹوں کو کیا ہوا؟ سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا
نے بتایا انہیں سخت پیاس لگی ہے۔ حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم پانی لینے
کے لئے مشکیزے کی طرف بڑهے۔ ان دنوں پانی کی سخت قلت تهی اور لوگوں کو
پانی کی شدید ضرورت تهی۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو آواز دی :
کیا کسی کے پاس پانی ہے؟ ہر ایک نے کجاؤوں سے لٹکتے ہوئے مشکیزوں میں
پانی دیکها مگر ان کو قطرہ تک نہ مال۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سیدہ فاطمہ
سالم اﷲ علیہا سے فرمایا :ایک بچہ مجهے دیں اُنہوں نے ایک کو پردے کے
نیچے سے دے دیا۔ پس آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس کو پکڑ کر اپنے سینے
سے لگا لیا مگر وہ سخت پیاس کی وجہ سے مسلسل رو رہا تها اور خاموش نہیں ہو
رہا تها۔ پس آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اُس کے منہ میں اپنی زبان مبارک ڈال
دی وہ اُسے چوسنے لگا حتی کہ سیرابی کی وجہ سے سکون میں آ گیا میں نے
دوبارہ اُس کے رونے کی آواز نہ سنی ،جب کہ دوسرا بهی اُسی طرح (مسلسل رو
رہا تها) پس حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :دوسرا بهی مجهے دے دیں
تو سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا نے دوسرے کو بهی حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے حوالے کر دیا حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے بهی وہی معاملہ کیا
(یعنی زبان مبارک اس کے منہ میں ڈالی) سو وہ دونوں ایسے خاموش ہوئے کہ میں
نے دوبارہ اُن کے رونے کی آواز نہ سنی۔‘‘
.1طبراني ،المعجم الکبیر ،50 : 3 ،رقم 2656 :
.2هیثمي ،مجمع الزوائد181 : 9 ،
الحسن والحسین علیهما السالم کانا یلعبان علي بطن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
(حسنین کریمین علیہما السالم حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر
کهیلتے تهے)
.90عن سعد بن أبي وقاص رضي ﷲ عنه قال :دخلت علي رسول اﷲ صلي ﷲ علیه
وآله وسلم والحسن والحسین یلعبان علي بطنه ،فقلت :یا رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم ! أتحبهما؟ فقال :و مالي ال أحبهما و هما ریحانتاي.
’’حضرت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوا تو (دیکها کہ) حسن اور حسین
علیہما السالم آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شکم مبارک پر کهیل رہے تهے ،تو
میں نے عرض کی :یا رسول اﷲ! کیا آپ ان سے محبت کرتے ہیں؟ تو نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میں ان سے محبت کیوں نہ کروں حاالنکہ وہ
دونوں میرے پهول ہیں۔‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوتا یا (فرمایا) اکثر اوقات حاضر ہوتا
(اور دیکهتا کہ) حسن و حسین علیہما السالم آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے شکم
مبارک پر لوٹ پوٹ ہو رہے ہوتے اور حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
فرما رہے ہوتے :یہ دونوں ہی تو میری امت کے پهول ہیں۔‘‘
رکب الحسن والحسین علیهما السالم علي ظهر النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم خالل
الصلوة
دوران نماز حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پشت
ِ (حسنین کریمین علیہما السالم
.92عن أبي هریرة رضي ﷲ عنه قال :کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم العشاء ،فإذا سجد وثب الحسن و الحسین علي ظهرہ ،فإذا رفع رأسه أخذهما بیدہ
من خلفه اخذا ً رفیقا و یضعهما علي األرض ،فإذا عاد ،عادا حتي قضي صالته ،أقعدهما
علي فخذیه.
’’حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ نماز عشاء ادا کر رہے تهے ،جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السالم آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے ،جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے
سر اٹهایا تو ان دونوں کو اپنے پیچهے سے نرمی کے ساته پکڑ کر زمین پر بٹها
دیا۔ جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو شہزادگان نے
دوبارہ ایسے ہی کیا (یہ سلسلہ چلتا رہا) یہاں تک کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
نماز مکمل کر لی اس کے بعد دونوں کو اپنی مبارک رانوں پر بٹها لیا۔‘‘
’’زر بن جیش رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم لوگوں کو نماز پڑها رہے تهے کہ حسنین کریمین علیہما السالم جو اس
وقت بچے تهے آئے۔ جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں گئے تو وہ آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہونے لگے ،لوگ انہیں روکنے
کے لئے آگے بڑهے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے ماں باپ ان
پر قربان ہوں! انہیں چهوڑ دو۔ ۔ ۔ یعنی سوار ہونے دو۔‘‘
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما رہے تهے ،جب سجدے میں گئے تو حسنین
کریمین علیہما السالم آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو گئے،
جب لوگوں نے انہیں روکنا چاہا تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو اشارہ
فرمایا کہ انہیں چهوڑ دو .یعنی سوار ہونے دو ،پهر جب نماز ادا فرما چکے تو آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دونوں کو اپنی گود میں لے لیا۔‘‘
’’حضرت براء بن عازب رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز پڑهاتے تو حسن و حسین علیہما السالم دونوں میں سے کوئی
ایک آکر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتا جب آپ صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے ،سجدے سے سر اٹهاتے ہوئے اگر ایک ہوتا تو
اس کو یا دونوں ہوتے تو بهی آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کو تهام لیتے ،پهر آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے :تم دو سواروں کے لئے کتنی اچهی سواری ہے۔‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کسی شخص کو عہدنامہ لکه کر دیا تو اس شخص نے حاضر
ہو کر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کو حالت نماز میں سالم عرض کیا ،پهر اس نے
دیکها کہ حسن اور حسین علیہما السالم کبهی آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی گردن
مبارک اور کبهی پشت مبارک پر سوار ہوتے ہیں اور حالت نماز میں آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے آگے پیچهے سے گزر رہے ہیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
کے نماز سے فارغ ہونے کے بعد اس شخص نے کہا :کیا وہ دونوں آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم کی نماز نہیں توڑتے؟ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
جالل میں آ کر فرمایا :مجهے اپنا عہد نامہ دو۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
اسے لے کر پهاڑ دیا اور فرمایا :جو ہمارے چهوٹوں پر رحم اور بڑوں کا ادب نہیں
کرتا وہ ہم میں سے نہیں اور نہ ہی میں اس سے ہوں۔‘‘
العقبی132 : 1 ،
ٰ محب طبري ،ذخائر
.97عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال :صلي رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم
صالة العصر ،فلما کان في الرابعة أقبل الحسن والحسین حتي رکبا علي ظهر رسول
اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم ،فلما سلم وضعهما بین یدیه و أقبل الحسن فحمل رسول
اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم الحسن علي عاتقه األیمن والحسین علي عاتقه األیسر.
’’حضرت عبدﷲ بن عباس رضي اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی
نماز عصر ادا کی جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم چوتهی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ِ
رکعت میں تهے تو حسن و حسین علیہما السالم آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پشت
مبارک پر سوار ہوگئے۔ جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سالم پهیرا تو ان
دونوں کو اپنے سامنے بٹها لیا حسن رضی ﷲ عنہ کے آگے آنے پر آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے اسے اپنے دائیں کندهے پر اور حسین رضی ﷲ عنہ کو بائیں
کندهے پر اُٹها لیا۔‘‘
قال النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم للحسنین :نعم الراکبان هما
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم سے فرمانا :یہ
.98عن أبي هریرة رضي ﷲ عنه قال :خرج علینا رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم و معه حسن و حسین هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه.
’’حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں :حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف الئے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ایک کندهے
پر حسنں اور دوسرے کندهے پر حسینں سوار تهے۔‘‘
حاکم اس کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں کہ اس روایت کی اسناد صحیح ہیں۔
’’حضرت عمر بن خطاب رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حسن و حسین
علیہما السالم کو حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے کندهوں پر (سوار)
دیکها تو حسرت بهرے لہجے میں کہا کہ آپ کے نیچے کتنی اچهی سواری ہے! آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جوابا ً ارشاد فرمایا :ذرا یہ بهی تو دیکهو کہ سوار
کتنے اچهے ہیں۔‘‘
’’حضرت سلمان فارسی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم حضور اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم کے پاس تهے۔ ام ایمن آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر
ہوئیں اور عرض کیا حسن و حسین علیہما السالم گم ہو گئے ہیں راوی کہتے ہیں،
دن خوب نکال ہوا تها آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :چلو میرے بیٹوں کو
تالش کرو ،راوی کہتا ہے ہر ایک نے اپنا راستہ لیا اور میں حضور صلی ﷲ علیہ
حتی کہ
وآلہ وسلم کے ساته چل پڑا آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم مسلسل چلتے رہے ٰ
پہاڑ کے دامن تک پہنچ گئے۔ (دیکها کہ) حسن و حسین علیہما السالم ایک دوسرے
کے ساته چمٹے ہوئے کهڑے ہیں اور ایک اژدها اپنی دم پر کهڑا ہے اور اُس کے
منہ سے آگ کے شعلے نکل رہے ہیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اُس کی طرف
تیزی سے بڑهے تو وہ اژدها حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف متوجہ ہو
کر سکڑ گیا پهر کهسک کر پتهروں میں چهپ گیا۔ پهر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
ان (حسنین کریمین علیہما السالم) کے پاس تشریف الئے اور دونوں کو الگ الگ کیا
اور اُن کے چہروں کو پونچها اور فرمایا :میرے ماں باپ تم پر قربان ،تم ﷲ کے
ہاں کتنی عزت والے ہو پهر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان میں سے ایک کو
اپنے دائیں کندهے پر اور دوسرے کو بائیں کندهے پر اُٹها لیا۔ میں نے عرض کیا :
تمہاری سواری کتنی خوب ہے؟ حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
یہ بهی تو دیکهو کہ دونوں سوار کتنے خوب ہیں۔‘‘
’’حضرت ابو جعفر رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کو اٹهائے ہوئے انصار کی
ایک مجلس سے گزرے تو انہوں نے کہا :یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! کیا
خوب سواری ہے! آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :سوار بهی کیا خوب
ہیں۔‘‘
کان یُطیل النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم السجود للحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کی خاطر
.104عن أنس رضي ﷲ عنه قال :کان رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم یسجد
فیجئ الحسن أو الحسین فیرکب علي ظهرہ فیطیل السجود .فیقال :یا نبي اﷲ! أطلت
السجود ،فیقول :ارتحلني ابني فکرهت أن أعجله.
’’حضرت انس بن مالک رضي ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم سجدے میں ہوتے تو حسن یا حسین علیہما السالم آتے اور آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی کمر مبارک پر سوار ہو جاتے جس کے باعث آپ صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم سجدوں کو لمبا کر لیتے۔ ایک موقع پر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم سے عرض کیا گیا :اے اﷲ کے نبی صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ! کیا آپ نے
سجدوں کو لمبا کر دیا ہے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :مجه پر میرا
بیٹا سوار تها اس لئے (سجدے سے اُٹهنے میں) جلدی کرنا اچها نہ لگا۔‘‘
عبداﷲ بن شداد اپنے والد حضرت شداد بن هاد رضی ﷲ عنہ سے روایت کرتے ہیں
کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم عشاء کی نماز ادا کرنے کے لئے
ہمارے پاس تشریف الئے اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسن یا حسین علیہما
السالم (میں سے کسی ایک شہزادے) کو اُٹهائے ہوئے تهے۔ حضور صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے تشریف ال کر اُنہیں زمین پر بٹها دیا پهر نماز کے لئے تکبیر فرمائی
اور نماز پڑهنا شروع کر دی ،نماز کے دوران حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
طویل سجدہ کیا۔ شداد نے کہا :میں نے سر اُٹها کر دیکها کہ شہزادے سجدے کی
حالت میں آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک پر سوار ہیں۔ میں پهر سجدہ
میں چال گیا۔ جب حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نماز ادا فرما چکے تو لوگوں نے
عرض کیا کہ یارسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ نے نماز میں اتنا سجدہ طویل
امر ا ِٰلہی واقع ہو گیا ہے یا آپ صلی ﷲ علیہ
کیا۔ یہانتک کہ ہم نے گمان کیا کہ کوئی ِ
وآلہ وسلم پر وحی نازل ہونے لگی ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا
:ایسی کوئی بات نہ تهی مگر یہ کہ مجه پر میرا بیٹا سوار تها اس لئے (سجدے سے
اُٹهنے میں) جلدی کرنا اچها نہ لگا جب تک کہ اس کی خواہش پوری نہ ہو۔
.1نسائي ،السنن ،229 : 2 ،کتاب التطبیق ،رقم 1141 :
.2احمد بن حنبل ،المسند493 : 3 ،
.3ابن ابي شیبه ،المصنف ،380 : 6 ،رقم 32191 :
.4طبراني ،المعجم الکبیر ،270 : 7 ،رقم 7107 :
.5شیباني ،اآلحاد والمثاني ،188 : 2 ،رقم 934 :
.6بیهقي ،السنن الکبري ،263 : 2 ،رقم 3236 :
.7حاکم ،المستدرک ،181 : 3 ،رقم 4775 :
.8ابن موسي ،معتصر المختصر102 : 1 ،
.9ابن حزم ،المحلي90 : 3 ،
.10عسقالني ،تهذیب التهذیب299 : 2 ،
فصل 31 :
کان النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم یض ّم الحسن والحسین علیهما السالم إلیه تحت ثوبه
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دونوں شہزادوں کو چادر کے اندر اپنے جسم اطہر
.106عن أسامة بن زید رضي اﷲ عنهما قال :طرقت النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
ذات لیلة في بعض الحاجة فخرج النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم وهو مشتمل علي شئ
ال أدري ما هو فلما فرغت ما حاجتي قلت :ما هذا الذي أنت مشتمل علیه؟ فکشفه فإذا
حسن و حسین علي و رکیه فقال :هذان أبناي.
’’حضرت اسامہ بن زید رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے ،انہوں نے فرمایا :میں
ایک رات کسی کام کے لئے حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت
میں حاضر ہوا ،آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم باہر تشریف الئے اور آپ صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم کسی شے کو اپنے جسم سے چمٹائے ہوئے تهے جسے میں نہ جان سکا
جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو عرض کیا یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
آپ نے کیا چیز اپنے جسم سے چمٹا رکهی ہے؟ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
کپڑا ہٹایا تو دیکها کہ حسن و حسین علیہما السالم دونوں رانوں تک آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے چمٹے ہوئے تهے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ
میرے دونوں بیٹے ہیں۔‘‘
’’حضرت انس بن مالک رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا سے فرمایا کرتے :میرے دونوں بیٹوں کو
بالؤ پهر آپ ان دونوں (پهولوں) کو سونگهتے اور اپنے سینۂ اقدس کے ساته چپکا
لیتے۔‘‘
ّأول من یدخل الجنة مع النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم هو الحسن والحسین علیهما
السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساته جو جنت میں سب سے پہلے داخل ہوں
.108عن علي رضي ﷲ عنه قال :أخبرني رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم :ان
أول من یدخل الجنة أنا و فاطمة و الحسن و الحسین .قلت :یا رسول اﷲ صلي اﷲ
علیک وسلم! فمحبونا؟ قال :من ورائکم.
’’حضرت علي رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
نے مجهے بتایا کہ سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والوں میں ،میں (یعنی
حضرت علی رضی ﷲ عنہ خود) ،فاطمہ ،حسن اور حسین ہیں۔ میں نے عرض کیا :
یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! ہم سے محبت کرنے والے کہاں ہوں گے؟ آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :تمہارے پیچهے۔‘‘
.4ابن حجر مکی نے ’الصواعق المحرقہ ( ‘)448 : 2میں کہا ہے کہ اسے ابن سعد
نے بهی روایت کیا ہے۔
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم سے شکایت کی کہ لوگ مجه سے حسد کرتے ہیں ،تو آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :کیا تم اس بات پر راضی نہیں ہو کہ جنت میں سب سے
پہلے داخل ہونے والے چار مردوں میں چوتهے تم ہو (وہ چار) میں ،تم ،حسن اور
حسین ہیں۔‘‘
کرنا)
.110عن عقبة بن عامررضي ﷲ عنه ،أن رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال :
الحسن و الحسین شنفا العرش و لیسا بمعلقین ،و إن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال :
إذا استقر أهل الجنة في الجنة ،قالت الجنة :یا رب! وعدتني أن تزینني برکنین من
أرکانک! قال :أولم أزینک بالحسن و الحسین؟
’’عقبہ بن عامر رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :حسن اور حسین عرش کے دو ستون ہیں لیکن وہ لٹکے ہوئے
نہیں اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :جب اہل جنت ،جنت میں
مقیم ہو جائیں گے تو جنت عرض کرے گی :اے پروردگار! تو نے مجهے اپنے
تعالی فرمائے
ٰ ستونوں میں سے دو ستونوں سے مزین کرنے کا وعدہ فرمایا تها۔ اﷲ
گا :کیا میں نے تجهے حسن اور حسین کی موجودگی کے ذریعے مزین نہیں کر
دیا؟ (یہی تو میرے دو ستون ہیں)۔‘‘
اس حدیث کے ایک راوی ’’عباد بن صہیب‘‘ پر بعض محدثین نے کالم کیا ہے مگر
یحیی بن
ٰ امام احمد بن حنبل ،ابوداؤد ،عبدان اهوازی نے اس کو صادق قرار دیا اور
معین نے ابو عاصم النبیل سے اس کی روایت ثابت کی ہے۔
’’حضرت عباس بن زریع ازدی اپنے والد سے مرفوعا ً روایت کرتے ہیں کہ جنت
تعالی کی بارگاہ میں) عرض کیا :اے میرے پروردگار! تو نے مجهے
ٰ نے (اﷲ
تعالی نے فرمایا :
ٰ حسین و جمیل بنایا ہے تو میرے ستونوں کو بهی حسین بنا۔ اﷲ
میں نے تیرے ستونوں کوحسن اور حسین علیہما السالم کے ذریعے حسین و جمیل
بنا دیا ہے۔‘‘
یکون الحسن و الحسین علیهما السالم في قبة تحت العرش یوم القیامة
الہی کے گنبد کے نیچے ہوں
(حسنین کریمین علیہما السالم قیامت کے دن عرش ٰ
گے)
.113عن أبي موسي األشعري رضي ﷲ عنه قال :قال رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
ی و فاطمة و الحسن و الحسین یوم القیامة في قبة تحت العرش.
وسلم :أنا و عل ّ
ابوموسی اشعری رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم
ٰ ’’حضرت
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میں ،علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین قیامت کے
دن عرش کے گنبد کے نیچے ہوں گے۔‘‘
’’حضرت عمر بن خطاب رضي ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :بیشک فاطمہ ،علی ،حسن اور حسین جنت
الفردوس میں سفید گنبد میں مقیم ہوں گے جس کی چهت عرش خداوندی ہو گا۔‘‘
.1ابن عساکر ،تاریخ دمشق الکبیر61 : 14 ،
.2هندي ،کنز العمال ،98 : 12 ،رقم 34167 :
ی رضي ﷲ عنه عن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال :في الجنة درجة .115عن عل ّ
تدعي الوسلیة؟ فإذا سألتم اﷲ فسلوا لي الوسیلة؟ قالوا :یا رسول اﷲ! من یسکن معک؟
قال :علي و فاطمة و الحسن و الحسین.
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے فرمایا :جنت میں ایک مقام ہے جسے وسیلہ کہتے ہیں ،پس جب تم
اﷲ سے سوال کرو تو میرے لئے وسیلہ کا سوال کیا کرو۔ صحابہ کرام رضی ﷲ
عنہم نے عرض کیا :یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! (وہاں) آپ کے
ساته کون رہے گا؟ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :علی ،فاطمہ اور حسین
و حسین (وہاں پر میرے ساته رہیں گے)۔‘‘
یکون الحسن و الحسین علیهما السالم مع رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم یوم
القیامة
(حسنین کریمین علیہما السالم قیامت کے دن حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
.116عن علي رضي ﷲ عنه قال :دخل علي رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم و
انا نائم علي المنامة فاستسقي الحسن او الحسین قال فقام النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم
الي شاة لنا بکي فحلبها فدرت فجاء ہ الحسن فنحاہ النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم فقالت
فاطمة :یا رسول اﷲ صلي اﷲ علیک وسلم! کانه احبهما الیک قال :ال ولکنه استسقي
قبله ،ثم قال :إني و ایاک و هذین و هذا الراقد في مکان واحد یوم القیامة.
’’حضرت علی رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ میں اپنے بستر پر سویا ہوا تها
کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ہمارے گهر تشریف الئے حسن یا
حسین علیہما السالم (میں سے کسی ایک) نے پانی مانگا۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم ہماری بکری کے پاس آئے جو بہت کم دوده والی تهی۔ پس آپ صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے اس کا دوده نکاال تو اس نے بہت زیادہ دوده دیا ،پس حسنں آپ صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے تو آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اس کی طرف متوجہ
ہوئے۔ سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا نے فرمایا :یا رسول اﷲ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
لگتا ہے یہ آپ کو ان دونوں میں زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
فرمایا نہیں بلکہ اس نے پہلے پانی مانگا تها پهر فرمایا :میں ،آپ ،یہ دونوں اور یہ
سونے واال (حضرت علی رضی ﷲ عنہ کیونکہ وہ ابهی سو کر اٹهے ہی تهے)
قیامت کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘
’’حضرت ابوسعید خدری رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا کے گهر تشریف الئے اور فرمایا :
میں ،تم اور یہ سونے واال (یعنی علی وہ ابهی سو کر اٹهے ہی تهے) اور یہ دونوں
یعنی حسن اور حسین علیہما السالم قیامت کے دن ایک ہی جگہ ہوں گے۔‘‘
’’حضرت ابو فاختہ (سعید بن عالقہ) رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی
اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم ،علی ،فاطمہ ،اور حسن و حسین رضی ﷲ عنہم گهر
پر تهے کہ حسن نے پانی مانگا۔ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آدهی
رات کو اُٹه کر اسے پانی پالیا۔ (اسی دوران جبکہ حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم
حضرت حسنں کو پانی پالنے ہی والے تهے) کہ حضرت حسین نے وہی پانی طلب
کیا ،جسے حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے دینے سے انکار فرمایا
(کیونکہ حسین ان سے قبل پانی مانگ چکے تهے اور حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم اسی ترتیب سے دینا چاہتے تهے یہ بغرض تعلیم و تربیت تها)۔ عرض کیا گیا :
یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! لگتا ہے کہ آپ کو حسین سے زیادہ حسن
محبوب ہے؟ تو نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :یہ وجہ نہیں بلکہ
حسن نے حسین سے پہلے مانگا تها۔ پهر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
اے فاطمہ! میں ،تم ،یہ دونوں (حسن و حسین) اور یہ سونے واال (یعنی علی) قیامت
کے دن ایک ہی جگہ پر ہوں گے۔‘‘
ابن عساکر ،تاریخ دمشق ،227 : 13 ،رقم 3204 :
فصل 36 :
إستعاذة النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم للحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا حسنین کریمین علیہما السالم کے لئے خصوصی
دم فرمانا )
.119عن ابن عباس رضي اﷲ عنهما قال :کان النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم یعوذ
الحسن و الحسین ،و یقول :إن أباکما کان یعوذ بها إسماعیل و إسحاق :أعوذ بکلمات
اﷲ التامة من کل شیطان وهامة و من کل عین المة.
’’حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہما بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹهے ہوئے تهے کہ حسن و حسین علیہما
السالم جو کہ ابهی بچے تهے ،آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے پاس سے گزرے آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :میرے دونوں بیٹوں کو الؤ ،میں انہیں دم کر
دوں جس طرح ابراہیم (علیہ السالم) اپنے دونوں بیٹوں اسماعیل و اسحاق (علیہم
السالم) کو دم کیا کرتے تهے۔ پهر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ’’ :میں
تعالی کے کلمات تامہ کے ذریعے ہر نظر بد سے ،ہر وسوسہ انداز شیطان
ٰ تمہیں اﷲ
و بال سے اﷲ کی پناہ میں دیتا ہوں۔‘‘
.124عن أبي هریرة رضي ﷲ عنه قال :کنا نصلي مع رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم العشاء ،فإذا سجد وثب الحسن و الحسین علي ظهرہ ،فإذا رفع رأسه أخذهما بیدہ
من خلفه اخذا ً رفیقا ً و یضعهما علي األرض ،فإذا عاد ،عادا حتي قضي صال ته،
أقعدهما علي فخذیه ،قال :فقمت إلیه ،فقلت :یا رسول اﷲ ! أردهما فبرقت برقة ،فقال
:لهما :الحقا بأمکما ،قال :فمکث ضوئها حتي دخال.
’’حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم حضور نبی اکرم صلی ﷲ
نماز عشاء ادا کر رہے تهے ،جب آپ سجدے میں گئے تو
علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ِ
حضرت حسن اور حسین علیہما السالم آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی پشت مبارک
پر سوار ہو گئے ،جب آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے سجدے سے سر اٹهایا تو ان
دونوں کو اپنے پیچهے سے نرمی سے پکڑ کر زمین پر بٹها دیا۔ جب آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم دوبارہ سجدے میں گئے تو حسن اور حسین علیہما السالم نے دوبارہ
ایسے ہی کیا حتی کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے نماز مکمل کرنے کے بعد
دونوں کو اپنی (مبارک) رانوں پر بٹها لیا۔ میں نے کهڑے ہو کر عرض کیا :یا
رسول اﷲ صلی اﷲ علیک و آلک وسلم! میں انہیں واپس چهوڑ آتا ہوں۔ پس اچانک
آسمانی بجلی چمکی اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے (حسنین کریمین علیہما
السالم) کو فرمایا کہ اپنی والدہ کے پاس چلے جاؤ۔ حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ
بیان کرتے ہیں کہ ان کے گهر میں داخل ہونے تک وہ روشنی برقرار رہی۔‘‘
تشجیع النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم و جبریل علیه السالم للحسنین علیهما السالم علي
المصارعة
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اور جبرئیلں کا حسنین کریمین علیہما السالم کو داد
دینا)
.125عن أبي هریرة رضي ﷲ عنه ،عن النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم قال :کان
الحسن و الحسین علیهما السالم یصطرعان بین یدي رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم ،فکان رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم یقول :هي حسن .فقالت فاطمة سالم
اﷲ علیها :یا رسول اﷲ صلي اﷲ علیک وسلم! لم تقول هي حسن؟ فقال :إن جبریل
یقول :هي حسین.
’’حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما
السالم کشتی لڑ رہے تهے اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تهے :حسن
جلدی کرو .سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا نے کہا :یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم!
آپ صرف حسن کو ہی ایسا کیوں فرما رہے ہیں؟ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
جواب دیا :کیونکہ جبرئیل امین حسین کو جلدی کرنے کا کہہ کر داد دے رہے
تهے۔‘‘
’’محمد بن علی رضی اﷲ عنہما فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم کے سامنے حسنین کریمین علیہما السالم کشتی لڑ رہے تهے اور آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم فرما رہے تهے :حسن جلدی کرو۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے
سیدہ فاطمہ نے عرض کیا :یا رسول اﷲ صلی اﷲ علیک وسلم! آپ حسن کی مدد
فرما رہے ہیں لگتا ہے وہ آپ کو حسین سے زیادہ پیارا ہے؟ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے فرمایا ( :نہیں) جبرئیل حسین کی مدد کر رہے تهے اسلئے میں نے چاہا کہ
حسن کی مدد کروں۔‘‘
.1هیثمي ،مسند الحارث ،910 : 2 ،رقم 992
.2سیوطي ،الخصائص الکبري465 : 2 ،
.3محب طبري ،ذخائر العقبي في مناقب ذوي القربي134 : 1 ،
.127عن بن عباس رضي اﷲ عنهما قال :اتخذ الحسن والحسین عند رسول اﷲ صلي
ﷲ علیه وآله وسلم ،فجعل یقول :هي یا حسن! خذ یا حسن! فقالت عائشة :تعین الکبیر
علي الصغیر .فقال :إن جبریل یقول :خذ یا حسین.
کان النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم یقبل الحسن و الحسین علیهما السالم
(حضور صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم حسنین کریمین علیہما السالم کا بوسہ لیتے تهے)
.128عن ابی هریرہ رضي ﷲ عنه قال :خرج علینا رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله
وسلم و معه حسن و حسین ،هذا علي عاتقه و هذا علي عاتقه ،وهو یلثم هذا مرة و یلثم
هذا مرة.
’’حضرت ابوہریرہ رضی ﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم ہمارے پاس تشریف الئے اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساته
حسنین کریمین علیہما السالم تهے ایک (شہزادہ) ایک کندهے پر سوار تها اور
دوسرا دوسرے کندهے پرآپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم دونوں کو باری باری چوم
رہے تهے۔‘‘
’’عتبہ بن غزوان رضی ﷲ عنہ بیان کرتے ہیں آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم تشریف
فرما تهے کہ حسن و حسین علیہما السالم آئے اور آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کی
پشت مبارک پر سوار ہو گئے ،آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے ان دونوں کو اپنی
گود میں بٹها لیا اور باری باری دونوں کو چومنے لگے۔‘‘
ذهب النبي صلي ﷲ علیه وآله وسلم للمباهلة و معه الحسن والحسین علیهما السالم
(حضور صلي ﷲ علیہ وآلہ وسلم مباهلہ کے وقت حسنین کریمین علیہما السالم کو
.132عن الشعبي رضي ﷲ عنه قال :لما أراد رسول اﷲ صلي ﷲ علیه وآله وسلم أن
یال عن أهل نجران ،أخذ بید الحسن والحسین و کانت فاطمة تمشي خلفه.
’’حضرت شعبی رضی ﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ جب حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ
وآلہ وسلم نے اہل نجران کے ساته مباهلہ کا ارادہ فرمایا تو حسنین کریمین علیہما
السالم کا ہاته پکڑ کر اپنے ساته لے لیا اور سیدہ فاطمہ سالم اﷲ علیہا آپ صلی ﷲ
علیہ وآلہ وسلم کے پیچهے پیچهے چل رہی تهیں۔‘‘
’’ابن زید سے روایت ہے حضور نبی اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پوچها گیا
کہ اگر آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کا عیسائی قوم کے ساته مباهلہ ہو جاتا تو آپ
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم اپنے قول ’ہمارے بیٹے اور تمہارے بیٹے‘ کے مصداق کن
کو اپنے ساته التے۔ آپ صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :حسن اور حسین کو۔‘‘
مآخذ و مراجع
1۔ القرآن الحکیم
2۔ ابن ابی شیبہ ،ابو بکر عبداﷲ بن محمد بن ابراہیم بن عثمانی کوفی (159۔ 235ه /
776۔ 849ء)۔ المصنف۔ ریاض ،سعودی عرب :مکتبۃ الرشد1409 ،ه۔
3۔ ابن اثیر ،ابو الحسن علی بن محمد بن عبدالکریم بن عبدالواحد شیبانی جزری
(555۔ 630ه 1160 /۔ 1233ه)۔ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ۔ بیروت ،لبنان :
دارالکتب العلمیہ۔
4۔ ابن احمد خطیب ،ابوالعباس احمد بن احمد (م۔ 810ه)۔ وسیلۃ االسالم بالنبی صلی
ﷲ علیہ وآلہ وسلم۔ بیروت ،لبنان :دارالغرب االسالمی1984 ،ء
المنتقی۔ بیروت،
ٰ 5۔ ابن جارود ،ابو محمد عبداﷲ بن علی النیشاپوری (م 307 :ه)۔
لبنان :موسسۃ الکتاب الثقافیہ1408 ،ه 1988 /ء۔
6۔ ابن جوزی ،ابو الفرج عبدالرحمٰ ن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔
579ه 1116 /۔ 1201ء)۔ صفوة الصفوہ۔ بیروت ،لبنان :دارالکتب العلمیہ1409 ،ه /
1989ء۔
7۔ ابن جوزی ،ابو الفرج عبدالرحمٰ ن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔
579ه 1116 /۔ 1201ء)۔ العلل المتناهیہ۔ بیروت ،لبنان :دارالکتب العلمیہ1403 ،ه۔
8۔ ابن جوزی ،ابو الفرج عبدالرحمٰ ن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔
579ه 1116 /۔ 1201ء)۔ التحقیق فی احادیث الخالف۔ بیروت ،لبنان :دارالکتب
العلمیہ1415 ،ه۔
9۔ ابن جوزی ،ابو الفرج عبدالرحمٰ ن بن علی بن محمد بن علی بن عبید اﷲ (510۔
579ه 1116 /۔ 1201ء)۔ تلبیس ابلیس۔ بیروت ،لبنان :دارالکتاب العربی1405 ،ه /
1985ء
10۔ ابن حبان ،ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔ 354ه 884 /۔
965ء)۔ الصحیح۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ الرسالہ1414 ،ه 1993 /ء۔
11۔ ابن حبان ،ابو حاتم محمد بن حبان بن احمد بن حبان (270۔ 354ه 884 /۔
965ء)۔ الثقات۔ بیروت ،لبنان :دار الفکر1395 ،ه 1975 /ء۔
12۔ ابن حجر مکی ،ابو العباس احمد بن محمد بن محمد بن علی ہیتمی (م 973ه)۔
الصواعق المحرقۃ علی اهل الرفض والضالل والنزندقۃ۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ
الرسالۃ1997 ،ء۔
13۔ ابن حزم ،علی بن احمد بن سعید بن حزم اندلسی (384۔ 456ه 994 /۔ 1064ء)۔
المحلی۔ بیروت ،لبنان :دار اآلفاق الجدیدہ۔
14۔ ابن حیان ،ابو محمد عبداﷲ بن محمد بن جعفر االنصاری (274۔ 369ه)۔ طبقات
المحدثین باصبهان۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ الرسالہ1412 ،ه 1992 /ء۔
15۔ ابن خزیمہ ،ابو بکر محمد بن اسحاق (223۔ 311ه 838 /۔ 924ء)۔ الصحیح۔
بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1390 ،ه 1970 /ء۔
16۔ ابن راہویہ ،ابو یعقوب اسحاق بن ابراہیم بن مخلد بن ابراہیم بن عبداﷲ (161۔
237ه 778 /۔ 851ء)۔ المسند۔ مدینہ منورہ ،سعودی عرب :مکتبۃ االیمان1412 ،ه /
1991ء۔
17۔ ابن راشد ،معمر ازدی (م۔ 151ه)۔ الجامع۔ بیروت ،لبنان :مکتبۃ االیمان،
1995ء۔
18۔ ابن رشد ،ابو الولید محمد بن احمد بن محمد (م۔ 559ه)۔ بدایۃ المجتهد۔ بیروت،
لبنان :دارالفکر۔
19۔ ابن شاہین ،ابو حفص عمر بن احمد الواعظ (297۔ 385ه)۔ تاریخ اسماء الثقات۔
کویت :الدارالسلفیہ1404 ،ه۔
20۔ ابن عبدالبر ،ابو عمر یوسف بن عبداﷲ بن محمد (368۔ 473ه 979 /۔ 1071ء)۔
االستیعاب فی معرفۃ االصحاب۔ بیروت ،لبنان :دارالجیل1412 ،ه۔
21۔ ابن عبد البر ،ابو عمر یوسف بن عبد ﷲ بن محمد (368۔ 463ه 979 /۔
1071ء)۔ التمہید۔ مغرب (مراکش) :وزات عموم االوقاف و الشؤون االسالمیہ،
1387ه۔
22۔ ابن عدی ،ابو احمد عبداﷲ جرجانی (277۔ 365ه)۔ الکامل فی ضعفاء الرجال۔
بیروت ،لبنان :دارالفکر1409 ،ه 1988 /ء۔
23۔ ابن عساکر ،ابو قاسم علی بن حسن بن ہبۃ اﷲ بن عبداﷲ بن حسین دمشقی (499۔
571ه 1105 /۔ 1176ء)۔ تاریخ دمشق الکبیر (تاریخ ابن عساکر)۔ بیروت ،لبنان :
دار احیاء التراث العربی1421 ،ه 2001 /ء۔
24۔ ابن قانع ،ابو الحسین عبدالباقی بن قانع (265۔ 351ه)۔ معجم الصحابۃ۔ المدینہ
المنورہ ،سعودی عرب :مکتبۃ الغرباء االثریہ1418 ،ه۔
25۔ ابن کثیر ،ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔ 774ه 1301 /۔ 1373ء)۔ البدایہ
والنہایہ۔ بیروت ،لبنان :دارالفکر1419 ،ه 1998 /ء۔
26۔ ابن کثیر ،ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔ 774ه 1301 /۔ 1373ء)۔ تفسیر
القرآن العظیم۔ بیروت ،لبنان :دارالمعرفہ1400 ،ه 1980 /ء۔
27۔ ابن کثیر ،ابو الفداء اسماعیل بن عمر (701۔ 774ه 1301 /۔ 1373ء)۔ فصول
من السیرة۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ علوم القرآن ،دار القلم1399 ،ه۔
28۔ ابن ماجہ ،ابو عبداﷲ محمد بن یزید قزوینی (209۔ 273ه 824 /۔ 887ء)۔ السنن۔
بیروت ،لبنان :دارالکتب العلمیہ1419 ،ه 1998 /ء۔
29۔ ابن ملقن انصاری ،عمر بن علی (773۔ 804ه)۔ خالصۃ البدر المنیر۔ ریاض،
سعودی عرب :مکتبہ الرشد1410 ،ه۔
35۔ احمد بن حنبل ،ابو عبداﷲ بن محمد (164۔ 241ه 780 /۔ 855ء)۔ فضائل
الصحابہ۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ الرسالہ۔
36۔ احمد بن حنبل ،ابو عبداﷲ بن محمد (164۔ 241ه 780 /۔ 855ء)۔ المسند۔
بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1398 ،ه 1978 /ء۔
37۔ بخاری ،ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ه 810 /۔
870ء)۔ االدب المفرد۔ بیروت ،لبنان :دارالبشائر االسالمیہ1409 ،ه 1989 /ء۔
38۔ بخاری ،ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ه 810 /۔
870ء)۔ الصحیح۔ بیروت ،لبنان +دمشق ،شام :دارالقلم1401 ،ه 1981 /ء۔
39۔ بخاری ،ابو عبداﷲ محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بن مغیرہ (194۔ 256ه 810 /۔
870ء)۔ خلق افعال العباد۔ ریاض ،سعودی عرب :دارالمعارف السعودیہ1398 ،ه /
1978ء۔
40۔ بزار ،ابو بکر احمد بن عمرو بن عبدالخالق بصری (210۔ 292ه 825 /۔
905ء)۔ المسند۔ بیروت ،لبنان 1409 :ه۔
41۔ بغوی ،ابو محمد حسین بن مسعود بن محمد (436۔ 516ه 1044 /۔ 1122ء)۔
معالم التنزیل۔ بیروت ،لبنان :دارالمعرفہ1407 ،ه 1987 /ء۔
45۔ حاکم ،ابو عبداﷲ محمد بن عبداﷲ بن محمد (321۔ 405ه 933 /۔ 1014ء)۔
المستدرک علی الصحیحین۔ بیروت۔ لبنان :دارالکتب العلمیہ1411 ،ه 1990 /ء۔
46۔ حسینی ،ابراہیم بن محمد (1054۔ 1120ه)۔ البیان والتعریف۔ بیروت ،لبنان :
دارالکتاب العربی1401 ،ه۔
47۔ حکمی ،حافظ بن احمد (1342۔ 1377ه)۔ معارج القبول بشرح سلم الوصول الی
علم االصول۔ دمام :دار ابن قیم1410 ،ه 1990 /ء۔
48۔ حلبی ،علی بن برہان الدین (1404ه)۔ السیرة الحلبیۃ /انسان العیون۔ بیروت،
لبنان ،دارالمعرفہ1400 ،ه۔
49۔ خطیب بغدادی ،ابو بکر احمد بن علی بن ثابت بن احمد بن مہدی بن ثابت (392۔
463ه 1002 /۔ 1071ء)۔ تاریخ بغداد۔ بیروت ،لبنان :دارالکتب العلمیہ۔
50۔ دارقطنی ،ابو الحسن علی بن عمر بن احمد بن مہدی بن مسعود بن نعمان (306۔
918 / 385۔ 995ء)۔ علل۔ ریاض ،سعودی عرب :دار طیبہ1405 ،ه 1985 /ء
51۔ دورقی ،ابوعبداﷲ احمد بن ابراہیم بن کثیر (168۔ 246ه)۔ مسند سعد بن ابی
وقاص۔ بیروت ،لبنان :دارالبشائر االسالمیہ1407 ،ه۔
52۔ دوالبی ،االمام الحافظ ابو بشر محمد بن احمد بن محمد بن حماد (224۔ 310ه)۔
الذریۃ الطاہرہ النبویہ۔ کویت :الدارالسلفیہ1407 ،ه۔
53۔ دیلمی ،ابو شجاع شیرویہ بن شہردار بن شیرویہ بن فناخسرو ہمذانی (445۔
509ه 1053 /۔ 1115ء)۔ الفردوس بماثور الخطاب۔ بیروت ،لبنان :دارالکتب
العلمیہ1986 ،ء۔
54۔ ذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد (673۔ 748ه)۔ سیر اعالم النبالء۔ بیروت ،لبنان
:مؤسسۃ الرسالۃ1413 ،ه۔
55۔ ذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد (673۔ 748ه)۔ میزان االعتدال فی نقد الرجال۔
بیروت۔ لبنان :دارالکتب العلمیہ1995 ،ء۔
56۔ ذہبی ،شمس الدین محمد بن احمد (673۔ 748ه)۔ المغنی فی الضعفاء۔
57۔ رامہرمزی ،ابوالحسن بن عبدالرحمٰ ن بن خالد (م۔ 576ه)۔ امثال الحدیث۔ بیروت،
لبنان :مؤسسۃ الکتب الثقافیہ1409 ،ه۔
58۔ رویانی ،ابوبکر محمد بن ہارون (م 307ه)۔ المسند۔ قاہرہ ،مصر :مؤسسۃ
قرطبہ1416 ،ه۔
59۔ زرقانی ،ابو عبداﷲ محمد بن عبدالباقی بن یوسف بن احمد بن علوان مصری
ازہری مالکی (1055۔ 1122ه 1645 /۔ 1710ء)۔ شرح الموطا۔ بیروت ،لبنان :
دارالکتب العلمیہ1411 ،ه۔
60۔ سخاوی ،شمس الدین محمد بن عبدالرحمٰ ن (831ه 902 /ء)۔ اِستجالب اِرتقاء
الغرف بحب اَقرباء الرسول صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم وذَ ِوی الشرف۔ بیروت ،لبنان :
دارالمدینہ1421 ،ه 2001 /ء۔
61۔ سیوطی ،جالل الدین ابو الفضل عبدالرحمٰ ن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن
الکبری۔ فیصل آباد ،پاکستان :
ٰ عثمان (849۔ 911ه 1445 /۔ 1505ء)۔ الخصائص
مکتبہ نوریہ رضویہ۔
62۔ سیوطی ،جالل الدین ابوالفضل عبدالرحمٰ ن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن
عثمان (849۔ 911ه 1445 /۔ 1505ء)۔ الدرالمنثور فی التفسیر بالماثور۔ بیروت،
لبنان :دار المعرفہ۔
63۔ سیوطی ،جالل الدین ابو الفضل عبدالرحمٰ ن بن ابی بکر بن محمد بن ابی بکر بن
عثمان (849۔ 911ه 1445 /۔ 1505ء)۔ تنویر الحوالک شرح موطا مالک۔ مصر :
الکبری1389 ،ه 1969 /ء۔
ٰ مکتبہ التجاریہ
64۔ شاشی ،ابو سعید ہیثم بن کلیب بن شریح (م 335ه 946 /ء)۔ المسند۔ مدینہ منورہ،
سعودی عرب :مکتبۃ العلوم و الحکم1410 ،ه۔
65۔ شوکانی ،محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ه 1760 /۔ 1834ء)۔ نیل
االوطار شرح منتقی االخبار۔ بیروت ،لبنان :دارالفکر1402 ،ه 1982 /ء۔
66۔ شوکانی ،محمد بن علی بن محمد (1173۔ 1250ه 1760 /۔ 1834ء)۔ درالسحابہ
فی مناقب القرابہ والصحابہ۔ دمشق ،شام :دارالفکر1494 ،ه 1984 /ء۔
67۔ شیبانی ،ابوبکر احمد بن عمرو بن ضحاک بن مخلد (206۔ 287ه 822 /۔
900ء)۔ اآلحاد و المثانی۔ ریاض ،سعودی عرب :دار الرایہ1411 ،ه 1991 /ء۔
68۔ شیبانی ،ابوبکر بن عمرو بن ضحاک بن مخلد شیبانی (206۔ 287ه 822 /۔
900ء)۔ السنہ۔ بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1400 ،ه۔
69۔ صنعانی ،محمد بن اسماعیل (773۔ 852ه)۔ سبل السالم شرح بلوغ المرام۔
بیروت ،لبنان :داراحیاء التراث العربی1379 ،ه۔
70۔ صیداوی ،محمد بن احمد بن جمیع ،ابوالحسین (305۔ 402ه)۔ معجم الشیوخ۔
بیروت ،لبنان :مؤسسۃ الرسالۃ1405 ،ه۔
71۔ طبرانی ،سلیمان بن احمد (260۔ 360ه 873 /۔ 971ء)۔ المعجم االوسط۔ ریاض،
سعودی عرب :مکتبۃ المعارف1405 ،ه 1985 /ء۔
72۔ طبرانی ،سلیمان بن احمد (260۔ 360ه 873 /۔ 971ء)۔ المعجم الصغیر۔ بیروت،
لبنان :دارالکتب العلمیہ1403 ،ه 1983 /ء۔
73۔ طبرانی ،سلیمان بن احمد (260۔ 360ه 873 /۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ موصل،
عراق :مطبعۃ الزہراء الحدیثہ۔
74۔ طبرانی ،سلیمان بن احمد (260۔ 360ه 873 /۔ 971ء)۔ المعجم الکبیر۔ قاہرہ،
مصر :مکتبہ ابن تیمیہ۔
75۔ طبری ،ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید (224۔ 310ه 839 /۔ 923ء)۔ جامع
البیان فی تفسیر القرآن۔ بیروت ،لبنان :دارالمعرفہ1400 ،ه 1980 /ء۔
76۔ طیالسی ،ابو داؤد سلیمان بن داؤد جارود (133۔ 204ه 751 /۔ 819ء)۔ المسند۔
بیروت ،لبنان :دارالمعرفہ۔
77۔ عبدالرزاق ،ابو بکر بن ہمام بن نافع صنعانی (126۔ 211ه 744 /۔ 826ء)۔
المصنف۔ بیروت ،لبنان :المکتب االسالمی1403 ،ه۔
78۔ عجلونی ،ابو الفداء اسماعیل بن محمد بن عبدالہادی بن عبدالغنی جراحی (1087۔
1162ه 1676 /۔ 1749ء)۔ کشف الخفاء و مزیل االلباس۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ
الرسالہ1405 ،ه۔
79۔ عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ه /
1372۔ 1449ء)۔ االصابہ فی تمییز الصحابہ۔ بیروت ،لبنان :دارالجیل1412 ،ه /
1992ء۔
80۔ عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ه /
1372۔ 1449ء)۔ تلخیص الحبیر۔ مدینہ منورہ ،سعودی عرب 1484 :ه 1964 /ء۔
81۔ عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ه /
1372۔ 1449ء)۔ تہذیب التہذیب۔ بیروت ،لبنان ،دارالفکر1404 ،ه 1984 /ء۔
82۔ عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ه /
1372۔ 1449ء)۔ لسان المیزان۔ بیروت ،لبنان ،مؤسسۃ االعلمی للمطبوعات1406 ،ه
1986 /ء۔
83۔ عسقالنی ،احمد بن علی بن محمد بن محمد بن علی بن احمد کنانی (773۔ 852ه /
1372۔ 1449ء)۔ فتح الباری۔ الہور ،پاکستان :دارنشر الکتب االسالمیہ1401 ،ه /
1981ء۔
85۔ قزوینی ،عبدالکریم بن محمد الرافعی۔ التدوین فی اَخبار قزوین۔ بیروت ،لبنان :
دارالکتب العلمیہ1987 ،ء۔
86۔ قضاعی ،ابو عبد ﷲ محمد بن سالمہ بن جعفر بن علی بن حکمون بن ابراہیم بن
محمد بن مسلم قضاعی (م 454ه 1062 /ء)۔ مسند الشہاب۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ
الرسالہ1407 ،ه 1986 /ء۔
87۔ کنانی ،احمد بن ابی بکر بن اسماعیل (762۔ 840ه)۔ مصباح الزجاجۃ فی زوائد
ابن ماجہ۔ بیروت ،لبنان :دارالعربیۃ1403 ،ه۔
88۔ مبارک پوری ،ابو عال محمد عبدالرحمٰ ن بن عبد الرحیم (1283۔ 1353ه)۔ تحفۃ
االحوذی۔ بیروت ،لبنان :دار الکتب العلمیہ۔
89۔ محاملی ،ابو عبداﷲ حسین بن اسماعیل بن محمد بن اسماعیل بن سعید بن ابان
ضبی (235۔ 330ه 849 /۔ 941ء)۔ االمالی۔ عمان +اُردن +الدمام :المکتبۃ
االسالمیہ +دار ابن القیم1412 ،ه۔
90۔ محب طبری ،ابو جعفر احمد بن عبداﷲ بن محمد بن ابی بکر بن محمد بن ابراہیم
القربی۔ جدہ ،سعودی
ٰ العقبی فی مناقب ذَ ِوی
ٰ (615۔ 694ه 1218 /۔ 1295ء)۔ ذخائر
عرب :مکتبۃ الصحابہ1415 ،ه 1995 /ء۔
91۔ محب طبری ،ابو جعفر احمد بن عبد ﷲ بن محمد بن ابی بکر بن محمد بن ابراہیم
(615۔ 694ه 1218 /۔ 1295ء)۔ الریاض النضرہ فی مناقب العشرہ۔ بیروت ،لبنان :
دار الغرب االسالمی1996 ،ء۔
92۔ مزی ،ابو الحجاج یوسف بن زکی عبدالرحمٰ ن بن یوسف بن عبدالملک بن یوسف
بن علی (654۔ 742ه 1256 /۔ 1341ء)۔ تہذیب الکمال۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ
الرسالہ1400 ،ه 1980 /ء۔
93۔ مسلم ،ابن الحجاج قشیری (206۔ 261ه 821 /۔ 875ء)۔ الصحیح۔ بیروت ،لبنان
:دار احیاء التراث العربی۔
94۔ مقدسی ،محمد بن عبد الواحد حنبلی (م 643ه)۔ االحادیث المختارہ۔ مکہ مکرمہ،
سعودی عرب :مکتبۃ النہضۃ الحدیثیہ1410 ،ه 1990 /ء۔
95۔ مناوی ،عبدالرؤف بن تاج العارفین بن علی بن زین العابدین (952۔ 1031ه /
کبری،
ٰ 1545۔ 1621ء)۔ فیض القدیر شرح الجامع الصغیر۔ مصر :مکتبہ تجاریہ
1356ه۔
96۔ نبہانی ،یوسف بن اسماعیل بن یوسف (1265۔ 1350ه)۔ الشرف المؤبد آلل محمد
صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم۔ فیصل آباد ،پاکستان :چشتی کتب خانہ1986 ،ء۔
97۔ نسائی ،احمد بن شعیب (215۔ 303ه 830 /۔ 915ء)۔ السنن۔ حلب ،شام :مکتب
المطبوعات االسالمیہ1406 ،ه 1986 /ء۔
الکبری۔ بیروت،
ٰ 98۔ نسائی ،احمد بن شعیب (215۔ 303ه 830 /۔ 915ء)۔ السنن
لبنان :دارالکتب العلمیہ1411 ،ه 1991 /ء۔
99۔ نسائی ،احمد بن شعیب (215۔ 303ه 830 /۔ 915ء)۔ فضائل الصحابہ۔ بیروت،
لبنان :دارالکتب العلمیہ1405 ،ه۔
100۔ نسائی ،احمد بن شعیب (215۔ 303ه 830 /۔ 915ء)۔ خصائص علی۔ کویت :
مکتبہ المعال1406 ،ه۔
الی ادلۃ
102۔ وادیاشی ،عمر بن علی بن احمد اندلسی (723۔ 804ه)۔ تحفۃ المحتاج ٰ
المحتاج۔ مکہ مکرمہ ،سعودی عرب :دار حراء1406 ،ه۔
103۔ ہندی ،عالؤ الدین علی المتقی بن حسام الدین (م۔ 975ه)۔ کنز العمال فی سنن
االفعال واالقوال۔ بیروت ،لبنان :مؤسسۃ الرسالہ1399 ،ه 1979 /ء۔
104۔ ہیثمی ،نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ه 1335 /۔
1405ء)۔ مجمع الزوائد۔ قاہرہ ،مصر :دارالریان للتراث +بیروت ،لبنان :دارالکتاب
العربی1407 ،ه 1987 /ء۔
105۔ ہیثمی ،نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ه 1335 /۔
1405ء)۔ موارد الظمآن اِلی زوائد ابن حبان۔ بیروت ،لبنان :دارالکتب العلمیہ۔
106۔ ہیثمی ،نور الدین ابو الحسن علی بن ابی بکر بن سلیمان (735۔ 807ه 1335 /۔
1405ء)۔ مسند الحارث (زوائد الہیثمی)۔ المدینہ المنورة ،سعودی عرب :مرکز خدمۃ
السنۃ و السیرة النبویۃ1413 ،ه 1992 /ء۔