Professional Documents
Culture Documents
ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کے تنظیمی فرائض اور فرق
ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کے تنظیمی فرائض اور فرق
"بیشک حضرت محمد صل ہللا علیہ والہ وسلم سے اچھا ایڈمنسٹریٹر اور مینیجر کوئی نہیں ہوسکتا۔”
اسٹیبلشمنٹ:
ایڈمنسٹریشن اور مینجمنٹ کے مجموعہ کو اسٹیبلشمنٹ کہا جاتا ہے۔
ایڈمنسٹریشن کی تعریف:
ایسا شخص یا گروہ جو حاالت و واقعات کو جانچے اور انکے مطابق تنظیم یا ادارے کے لیئے الئحہ عمل کو تیار کرے
اور اسکو منشور کے ساتھ تنظیم کی مینجمنٹ سے عامی و خاصی پر اپالئی کروائے۔
مشکل گھڑی میں درست فیصلہ کرکے تنظیم میں نئی روح پھونکنا۔
مجلس مشاورت کا گاہے بگاہے انتظام کرنا اور معامالت کو مینجمنٹ سے کھل کر ڈسکس کرنا۔
مشوروں اور تجاویز پر غور و حوض کرنا اور اپنے فیصلوں میں شامل کرنا۔
مینجمنٹ کی تعریف:
ایسا شخص یا گروہ جو ایڈمنسٹریشن کے دیئے گئے الئحہ عمل پر عمل کرے اور اسکے نتائج کو معینہ مدت میں حاصل
کرے اور ایڈمنسٹریشن کو مزید نوک پلک سنوارنے کے لیئے سابقہ تجربات اور مشاہدات کے ساتھ پیش کرے۔
وسائل اور افرادی قوت کا ایڈمنسٹریشن کے دیئے گئے الئحہ عمل کے مطابق استعمال کرنا۔
مشکالت و مصائب کا مردانہ وارمقابلہ کرنا اور بوقت ضرورت ایڈمنسٹریشن کو شامل کرنا اور مشورہ کرنا۔
جبکہ میدان میں لگا ہوا آرام پرستوں کا درخت ایسی کوئی سوچ مہیا نہیں کرے گا بلکہ میدان میں کھڑا اکلوتا درخت اکیال
ہی رہے گا اور اس کی چھاؤں اور اس کا پھل یا تو ضائع ہونگے یا پھر نکموں اور آرام پرستوں کے کام آئیں گے۔نہ
اسکی کوئی دیکھ بھال ہوگی اور نہ پرسان حال اور ایک دن یا تو لکڑ ہارا اس کوکاٹ گرائے گا یا وقت کے ساتھ ساتھ وہ
بوڑھا ہوکر خود گرجائے گا یا آندھیوں کی نذر ہو جائے گا۔اس لیئے تنظیموں کو راستے کا درخت بنائیں تاکہ وہ اپنے
پھل اور چھاؤں سےاوروں کو بھی مستفید کریں ,ورنہ ان کا حال بھی میدان میں لگے اکیلے درخت جیسا ہوگا۔تنظیم
چاہے کسی بھی مقصد کے لیے بنائی جائے مگر اس کی بنیادوں میں جب تک ہللا اور اس کے رسول محمد صلی ہللا علیہ
وسلم کے احکامات اور محبت شامل نہ ہوں گے تک وہ ایک کھوکھلی عمارت کی طرح ہوگی۔
تنظیمیں یا ادارے ہمیشہ ذاتی تعلقات کی بنیادوں پر نہیں بلکہ تعلق باہلل کی بنیادوں پر استوار ہوتی ہیں۔اگر ہم ہر کسی سے
اور ہر کوئی ہم سے کوئی نہ کوئی غرض تنظیمی یا ذاتی طور پر رکھ کر ملیں گے تو غرض پوری ہونے پر دونوں
فریقین منتشر ہو جائیں گے اور تنظیم ہللا کو پیاری ہو جائے گی۔ محبت اور خلوص کا پہال اسالمی اصول بھائی چارہ ہے۔
سالم دعا کو عام کرنے سے تنظیمیں یا جماعتیں بنا سوچے ڈویلپ ہو جاتی ہیں۔
انقالب:
انقالب ہمیشہ سوچوں کی بہترین پرورش کے نتیجے میں آتا ہے۔ کیونکہ درست اور مثبت سوچ ہمیشہ کسی نہ کسی
تحریک کو جنم دیتی ہے جو بعد میں مقصدیت کیا اوج پر پہنچ کر انقالب بن جاتی ہے یا پھر انقالب کا باعث بن جاتی
ہے۔انقالب زمانے کے رد و بدل ،آتشگیر سوچوں اور باعمل تحریکوں کاشیریں ثمر ہے جو صبر اور شکر سے ملزوم
ہے۔
اگر کوئی آپ پر ایک بار احسان کرے تو آپ ہمیشہ اس کے ہمیشہ احسان مند رہیں گے ،ہمیشہ اس کی عزت کریں گے
اور کوشش کریں گے کہ آپ بھی کسی نہ کسی طرح اس کے کام آسکیں تو وہ دوبارہ آپ کے اخالق اور محبت میں غرق
نادانستہ پھر آپ پر کوئی احسان کر بھی دے گا تو وہ نہ اسکو آپ پر اپنا احسان لگے گا اور نہ آپ کو خود پر اس کا
کوئی احسان محسوس ہوگا۔ ایک ایسا تعلق بن جائے گا کہ دونوں ایک دوسرے کے لیے الزم و ملزوم ہو جائیں گے
تنظیمیں ایسے لوگوں کے سر پر بہت اچھی چلتی ہیں جو ذاتی زندگی میں صلہ رحم اور احسان مند اور ایمان دار ہوں۔
عبادت مسلمانوں کو ہللا نے بالکل پانی کی نعمت کی طرح نوازی ہے۔ جیسے ایک درخت پانی کے بغیر سوکھ جاتا ہے
ایسے ہی کوئی جماعت یا تنظیم ہللا کی عبادت اور رسول محمد صلی ہللا کی محبت کے بغیر سکڑ جاتی ہے اور اس کے
کارکن منتشر ہوجاتے ہیں۔
جب تنظیم یا جماعت میں کوئی تنظیمیں یا عمومی جھگڑا یا فتنہ سر اٹھائے تو اسٹبلشمنٹ کو مجلس مشاورت بالنی
چاہیے جو سب سے پہلے فریقین کا مدعا سنیں پھر اس کا حل قرآن وحدیث سے تالش کریں ،یعنی مذہبی رہنمائی لیں۔ اگر
وہاں سے کوئی حل نہ ملے تو فریقین اور حاضرین مجلس کی متفقہ رائے سے جیوری ٹیم جو کہ 2یا 4ممبران پر
مشتمل ہوکا انتخاب کریں جو انصاف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے جھگڑوں اور فتنوں کا تنظیم میں سے خاتمہ
کریں اور تنظیم کو منتشر ہونے اور نا اتفاقی سے ایک ہی نشست میں بچالیں گے۔نئے ساتھیوں کو تنظیم یا جماعت کا
منہج اور منشور اچھی طرح سے بتایا اور سمجھایا جائے اور ان میں قربانی اور ایثار کا جذبہ پیدا کیا جائے۔
وقتی جوش اور جذبہ بلکل پریشر کوکر میں رکھے پانی کی طرح ہوتا ہے جو آتا ہے جو ایک بار وبال آنے پر کوکر کا
ڈکھن بھک سے اڑا دیتا ہے اور اردگرد موجود انسانوں کے لیے نقصان کا باعث بنتا ہے ککر بھی خالی ہو جاتا ہے اسی
طرح سوچ فکر اورنظریہ کو سمجھے بغیر صرف وقتی جوش اور جذبے کے ساتھ شامل ہونے والے افراد بھاگ کھڑے
ہوتے ہیں اور ان کا جوش اور جذبہ بالکل ٹھنڈا پڑ جاتا ہے اور وہ کسی کام کے نہیں رہتے ناخود کے اور نہ ہی کسی
تنظیم یا ادارے کے۔ پرانے ساتھیوں کو ریا کاری تکبر اور غرور سے بچانا اور ان کی تربیت کرنا ایڈمنسٹریشن کے
فرائض میں شامل ہے مگر مینجمنٹ کا بھی فرض ہے دنیا کے وہ پرانے ساتھیوں پر گہری نظر رکھے۔
انقالب سوچوں کی تبدیلی سے رونما ہوتے ہیں لوگوں کی تبدیلی سے نہیں ،لوگ آتے جاتے رہتے ہیں مگر مثبت سوچ
ہمیشہ ایک ہی رہنی چاہیے یا وقت کے ساتھ حاالت و واقعات کو نظر میں رکھ کر مثبت رخ پر بدلنا چاہیے۔ لوگوں کی
تبدیلی سے صرف تھوڑی دیر کا میلہ لگتا ہے انقالب نہیں آتا۔ جب تک دماغوں میں موجود نظریات اور سوچیں تبدیل نہ
ہونگی انقالب کی منزل بہت دور ہے۔غیر ملکی مبصرین اور مفکرین کی معاشرے کے متعلق تعریفات سے میں انکاری
ہو ں۔ ان کے بقول مختلف مزاج اور مختلف نظریات کے حامل لوگوں کا کوئی خاص گروہ معاشرہ کہالتا ہے ،جبکہ ایسا
نہیں ہے۔اسے وقتی طور پر اگر معاشرہ مان بھی لیا جائے تب بھی یہ تاریخ اسالمی سوچ اور نظریہ پر پوری نہیں
اترتی۔
معاشرہ وہ تھا جو ہمارے نبی حضرت محمد صللہ وسلم نے ہللا کے احکامات عرب میں پھیال کر تشکیل دیا تھا۔ان سے
پہلے سب مندرجہ باال فرنگی تاریخ کے مطابق نام نہاد معاشرے کے فرد تھے مگر جب ہمارے نبی حضرت محمد صلی
ہللا علیہ وسلم نے نبوت کا اعالن کیا تو جوق در جوق الگ الگ مزاج اور نظریے کے مالک صحابہ نے ایک مزاج ایک
نظریہ اپنا کر نئے معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی۔ اسالم سے پہلے ہر کوئی منتشر سوچ اور مزاج کا حامل تھا اسالم نے
سب کو ایک جیسا مزاج اور سوچ دیکرباقاعدہ معاشرے کی زنجیر میں باندھا تھا۔لہذا میری نظر میں معاشرہ ایک جیسے
مزاج اور نظریہ رکھنے والے لوگوں کے گروہ کا نام ہے۔
اس لیے ہمیں تنظیم سازی بھی ایسے طریقے سے کرنی چاہیے کہ اس میں معاشرے کا اہم پہلو اپنی پوری شان سے نظر
آئےاور معاشرے میں تنظیم اور تنظیم کے کارکنان اور اسٹیبلشمنٹ الگ جگہ پر کھڑے نہ نظر آئیں بلکہ اسالمی تعریف
کے مطابق موجود معاشرے کا حصہ لگے۔ذمہ داری اور عہدہ اس انسان کو دیا جانا چاہیے جس کا تقوی بلند ہو ،خطابت
کا جوہر رکھتا ہو اور وہ اپنی ذات میں پورا سائیکاٹرسٹ ہو جو لوگوں کی اور تنظیمی ساتھیوں کی نفسیات پر گہری نظر
رکھتا ہو اور ان کی نفسیات کے مطابق ان سے کام لینا جانتا ہو۔
جس منزل کا کوئی راستہ نہیں وہ منزل بیکار ہے ،یہ سفر کی کوئی منزل نہیں وہ سفر بیکار ہے اور منزل بھی ہے،
راستہ بھی ہے مگر سفر کرنے کا طریقہ نہیں معلوم تو وقت کا زیاں ہے۔ لہذا تنظیمی افراد کو ان تینوں باتوں کا مطلب
اور مقصد بتانا اسٹیبلشمنٹ کا فرض ہے تاکہ دورانے سفر (تحریک اور جدوجہد) کوئی کسی کے لیے تکلیف کا باعث نہ
بنے۔آخر میں بس اتنا ہی کہ ہمیں آج عہدہ جاتی جنگ نہیں بلکہ عہد جاتی جنگ لڑنی ہے۔بحیثیت مسلمان جو عہد ہم نے
اپنے ہللا اور اس کے رسول صلی ہللا وسلم سے باندھا ہے کے ان کا نام پوری دنیا پر پھیالئیں گے۔ہم اگر آج عہدوں اور
تعریفوں کی جنگ میں الجھ گئے تو شاید ہمارا بھی نام سے دوسری قوموں اور جماعتوں کی طرح مٹ جائے۔