Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 139

‫رسالہ‬

‫حاجز البحرین الواقی عن جمع الصالتین(‪ ۱۳۱۳‬ھ)‬


‫دو دریاؤں کو ملنے سے روکنے واال‪ ،‬دو‪ ۲‬نمازوں کو جمع کرنے‬
‫سے بچانے واال‬
‫مسئلہ (‪ )۲۸۶‬از بریلی محلہ قراوالن یکم رجب ‪۱۳۱۳‬ھ‬
‫کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سفر کے عذر سے جس میں‬
‫توجروا۔‬
‫ّ‬ ‫قصر الزم آتا ہے دو‪ ۲‬نمازوں کا جمع کرنا جائز ہے یا نہیں؟ بینّوا‬
‫الجواب‬
‫بسم الل ّٰہ الرح ٰ‬
‫من الرحیم‬
‫ہّٰلل‬
‫الحمد الذی جعل الصالۃ علی المؤمنین کتابا موقوتا‪ ،‬وامرھم ان یحافظوا علیھا فیحفظوھا ارکانا‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫وشروطا ووقوتا‪ ،‬مرج البحرین یلتقين‪ 5،‬بینھما برزخ الیبغين‪ ،‬وافضل الصلوات‪ ،‬واکمل التحیات‪ ،‬علی‬
‫ٰ‬
‫من عین االوقات وبین العالمات‪ ،‬وحرم علی امتہ اضاعۃ الصلوات‪ ،‬وعلی الہ الکرام‪ ،‬وصحبہ العظام‪،‬‬
‫ومجتھدی شرعہ الغر الفخام‪ ،‬السیما االمام االقدم‪ ،‬والھمام االعظم‪ ،‬امام االئمۃ‪ ،‬مالک االزمۃ‪،‬‬
‫کاشف الغمۃ‪ ،‬سراج االمۃ‪ ،‬نائل علم الشرع الحنفی من اوج الثریا‪ ،‬ناشر علم الدین الحنیفی نشرا جلیا‪،‬‬
‫ہّٰلل‬
‫نصرا اتباعہ ورضی اتباعہ متبوعا تابعیا‪ ،‬وعلینا معھم‪ ،‬یاارحم الراحمین‪ ،‬الی یوم الدین۔‬
‫اللہ عزوجل نے اپنے نبی کریم علیہ افضل الصالۃ والتسلیم کے ارشادات سے نماز‬
‫فرض کا ایک خاص وقت جداگانہ مقرر فرمایا ہے کہ نہ اُس سے پہلے نماز کی‬
‫صحت نہ اس کے بعد تاخیر کی اجازت‪ ،‬ظہرین عرفہ وعشائین مزدلفہ کے سوادو‬
‫‪ ۲‬نمازوں کا قصدا ً ایک وقت میں جمع کرنا سفرا ً حضرا ً ہرگز کسی طرح جائز‬
‫نہیں۔ قرآن عظیم‪ Z‬واحادیث صحاح سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُس‬
‫کی ممانعت پر شاہد عدل ہیں۔ یہی مذہب ہے حضرت ناطق بالحق والصواب‬
‫موافق الرائے بالوحی والکتاب امیرالمومنین عمرفاروق اعظم‪ Z‬وحضرت سیدنا‬
‫سعد بن ابی وقاص احد العشرۃ المبشرۃ وحضرت سیدنا عبداللہ بن مسعود من‬
‫اجل فقہ اء الصحابۃ البررۃ وحضرت سیدنا وابن سیدنا عبداللہ بن عمر فاروق‬
‫م المؤمنین صدیقہ بنت الصدیق اعاظم‪ Z‬صحابہ کرام وخلیفہ‬ ‫وحضرت سیدتنا ا ّ‬
‫راشد امیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز وامام سالم بن عبداللہ بن عمرو امام‬
‫علقمہ بن قیس وامام اسود بن یزید نخعی وامام حسن بصری وامام ابن سیرین‬
‫وامام ابراہ یم نخعی وامام مکحول شامی وامام جابر بن زید وامام عمروبن دینار‬
‫وامام حماد بن ابی سلیمان وامام اجل ابوحنیفہ اجلہ ائمہ تابعین وامام سفٰین‬
‫ثوری وامام لیث بن سعد وامام قاضی الشرق والغرب ابویوسف وامام ابوعبداللہ‬
‫محمد الشیبانی وامام زفر بن الہذیل وامام حسن بن زیاد وامام دارالہجرۃ عالم‬
‫المدینۃ مالک بن انس فی روایۃ ابن قاسم اکابر تبع تابعین وامام عبدالرحمن بن‬
‫سی بن ابان وامام ابوجعفر احمد بن‬ ‫قاسم عتقی تلمیذ امام مالک وامام عی ٰ‬
‫سالمہ مصری وغیرہم ائمہ دین کا‪ ،‬رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم‪ Z‬اجمعین۔‬
‫تحقیق مقام یہ ہے کہ جمع بین الصالتین یعنی دو‪ ۲‬نمازیں مالکر پڑھنا دو‪ ۲‬قسم‬
‫ہے‪ :‬جمع فعلی جسے جمع صوری بھی کہتے ہیں کہ واقع‪ Z‬میں ہر نماز اپنے وقت‬
‫میں واقع‪ Z‬مگرر ادا میں مل جائیں جیسے ظہر اپنے آخر وقت میں پڑھی کہ اس‬
‫وقت عصر آگیا اب فورا ً عصر اوّل وقت پڑھ لی‪ ،‬ہوئیں تو دونوں اپنے‬ ‫ِ‬ ‫کے ختم پر‬
‫اپنے وقت اور فعال ً وصور ًۃ مل گئیں۔ اسی طرح مغرب میں دیر کی یہاں تک کہ‬
‫شفق ڈوبنے پر آئی اُس وقت پڑھی ادھر‪ Z‬فارغ ہُوئے کہ شفق ڈُوب گئی عشاء کا‬
‫وقت ہوگیا وہ پڑھ لی‪ ،‬ایسا مالنا بعذر مرض وضرورت سفر بالشبہہ جائز ہے۔‬
‫ہمارے علمائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬بھی اس کی رخصت دیتے ہ ًیں۔‬
‫ردالمحتار میں ہے‪ :‬للمسافر والمریض تاخیر المغرب للجمع بینھا وبین العشاء فعال‪ ،‬کمافی‬
‫ٰ‬
‫الحلیۃ وغیرھا‪ ،‬ای ان تصلی فی اخر وقتھاوالعشاء فی اول وقتھا ‪؎۱‬۔ مسافر اور مریض مغرب‬
‫میں تاخیر کرسکتے ہیں تاکہ اس کو اور عشاء کو فعال ً اکٹھا کرلیں‪ ،‬جیسا کہ حلیہ‬
‫وغیرہ میں ہے‪ ،‬یعنی مغرب آخری وقت میں پڑھی جائے اور عشاء اوّل وقت ہیں۔‬
‫(ت)‬
‫‪)۱/۲۷۱‬‬ ‫مطبوعہ المصطفٰی البابی مصر‬ ‫کتاب الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۱‬ردالمحتار‬
‫اقول‪ :‬تاخیر مغرب کا تو یہ خاص جزئیہ ہے اور اسی طرح تاخیر ظہر کہ عصر‬
‫سے مل جائے بلکہ یہ بدرجہ اولٰی کہ ظہر میں تو کوئی وقت کراہت نہیں ‪؎۲‬‬
‫کماصرح بہ فی البحرالرائق وحققناہ فیما علقناہ علی ردالمحتار۔ (جیسا کہ بحرالرائق میں‬
‫تصریح ہے اور ردالمحتار کے حاشیے پر ہم نے اس کی تحقیق کی ہے۔ ت) بخالف‬
‫مغرب کہ اُس کی اتنی تاخیر بے عذر مکروہ شدید ہے ‪ ؎۳‬کمافی البحر والدر وغیرھما‪،‬‬
‫ونطقت بکراھۃ ذلک احادیث۔ (جیسا کہ بحر اور در وغیرہ میں ہے‪ ،‬اور اس کی کراہت‬
‫پر کوئی احادیث ناطق ہیں۔ ت)‬
‫‪)۱/۲۴۹‬‬ ‫(‪ ؎۲‬البحرالرائق کتاب الصلٰوۃ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬
‫مجتبائی دہلی ‪)۱/۶۱‬‬ ‫(‪ ؎۳‬الدرالمختار کتاب الصلٰوۃ‬
‫پھر جزئیہ ظہرین بھی کتاب الجج میں نظر فقیر سے گزرا‪ Z‬اس کتاب جلی‬
‫الصواب حلی الخطاب رفیع النصاب میں کالم کالم امام ہمام محرر المذہب‬
‫سیدنا محمد بن الحسن تلمیذ سید االئمہ امام اعظم‪ Z‬ابوحنیفہ اور تالیف رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہم‪ Z‬اجمعین فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫قال ابوحنیفۃ رضی ا تعالی عنہ‪ :‬الجمع بین الصالتین‪ 5‬فی السفر فی الظھر والعصر‪ ،‬والمغرب‬
‫ٰ ٰ‬
‫والعشاء سواءٌ یؤخر الظھر الی اخر وقتھا ثم یصلی ویعجل العصر فی اول وقتھا فیصلی فی اول وقتھا‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ ٰ‬
‫وکذلک المغرب والعشاء یؤخر المغرب الی اخر وقتھا فیصلی قبل ان یغیب الشفق وذلک اخر وقتھا‪،‬‬
‫ویصلی العشاء فی اول وقتھا حین یغیب الشفق‪ ،‬فھذا الجمع بینھما ‪؎۴‬۔‬
‫سی بن ابان تلمیذ امام محمد ہے امام ابوحنیفہ نے فرمایا ہے‬
‫امام فقیہ محدث عی ٰ‬
‫کہ سفر میں دو‪ ۲‬نمازوں کا جمع کرنا‪ ،‬خواہ ظہر اور عصر ہوں یا مغرب اور‬
‫عشاء ہوں‪ ،‬یکساں ہے۔ یعنی ظہر کو آخر وقت مؤخر کرکے پڑھے اور عصر میں‬
‫تعجیل کرکے اس کو اول وقت میں پڑھ لے۔ اسی طرح مغرب اور عشاء میں‬
‫مغرب کو اتنا مؤخر کرے کہ اس کے آخری وقت میں‪ ،‬یعنی شفق غائب ہونے‬
‫سے تھوڑا پہلے پڑھے اور عشاء میں جلدی کرکے اس کو اول میں پڑھ لے‪ ،‬یعنی‬
‫شفق غائب ہونے کے ساتھ ہی‪ ،‬یہ طریقہ ہے ان کو جمع کرنے کا۔ (ت)‬
‫باب جمع الصالۃ فی السفرمطبوعہ دارالمعارف النعمانیہ الہور ‪)۱/۱۷۴‬‬ ‫(‪ ؎۴‬کتاب الحجۃ‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ُ‬
‫اسی میں ہے‪ :‬قال ابوحنیفۃ رحمہ ا تعالی‪ :‬من اراد ان یجمع بین الصالتین‪ 5‬بمطر اوسفر اوغیرہ‪،‬‬
‫ٰ‬
‫فلیؤخر االولی منھما حتی تکون فی اخر وقتھا‪ ،‬ویعجل الثانیۃ حتی یصلیھا فی اول وقتھا فیجمع‬
‫بینھما‪ ،‬فتکون کل واحدۃ منھما فی وقتھا ‪ ؎۱‬الخ۔‬
‫ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جو شخص بارش‪،‬سفر یا کسی اور وجہ‬
‫سے دو‪ ۲‬نمازوں کو جمع کرنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ پہلی کو آخر وقت تک‬
‫مؤخر کردے اور دوسری میں جلدی کرکے اول وقت میں اداکرے‪ ،‬اس طرح‬
‫دونوں کو جمع کرلے‪ ،‬تاہم ہوگی ہر نماز اپنے وقت میں الخ (ت)‬
‫‪۱/۱۵‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعارف النعمانیہ الہور‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۱‬کتاب الحجۃ‬
‫‪)۹‬‬
‫اس کالم برکت نظام امام کرام رضی اللہ تعالٰی عنہ وعنہم‪ Z‬سے ظاہر ہواکہ جواز‬
‫جمع صوری صرف مرض وسفر پر متصور نہیں بضرورت شدت بارش بھی‬
‫اجازت ہے مثال ً ظہر کے وقت مینہ برستا ہوتو انتظار کرکے آخر وقت حاضر‬
‫مسجد ہوں جماعت ظہر اداکریں اور وقت عصر پر تیقن ہوتے ہی جماعت عصر‬
‫شدت مطر بڑھ جائے اور حضور مسجد سے مانع آئے‪ ،‬مطر‬ ‫ِ‬ ‫کرلیں کہ شاید‬
‫ُ‬
‫شدید میں تنہا گھر پڑھ لینے کی بھی اجازت ہے تو اس صورت میں تو دونوں‬
‫نمازوں کے لئے جماعت ومسجد کی محافظت ہے واللہ تعالٰی اعلم۔‬
‫دوسری قسم جمع وقتی ہے جسے جمع حقیقی بھی کہتے ہیں۔ اقول یعنی بمعنی‬
‫مصطلح قائالن جمع کہ جو معنی جمع اُن کا مذہب ہے وہ حقیق ًۃ اسی صورت میں‬
‫ہے ورنہ جمع اپنے اصل معنی پر دونوں جگہ حقیقی ہے کماالیخفی‪ ،‬اور اسی‬
‫لحاظ سے جمع فعلی کو صوری کہتے ہیں ورنہ حقیق ًۃ فرائض میں یہ جمع بھی‬
‫جمع صوری ہی ہے اُن میں تداخل محال تو جب ملیں گے صور ًۃ ملیں گے اور‬ ‫ً‬
‫معنی جدا فافھم فانہ نفیس جدا (اس کو سمجھو کیونکہ یہ بہت نفیس ہے۔ ت) اس‬
‫جمع کے یہ معنی ہیں کہ ایک نماز دوسری‪ Z‬کے وقت میں پڑھی جائے جس کی دو‬
‫‪ ۲‬صورتیں ہیں‪:‬‬
‫جمع تقدیم کہ وقت کی نماز مثال ً ظہر یا مغرب پڑھ کر اُس کے ساتھ ہی متصال‬
‫بالفصل پچھلے وقت کی نماز مثال ً عصر یا عشاء پیشگی پڑھ لیں‪ ،‬اور جمع تاخیر‬
‫کہ پہلی نماز مثال ً ظہر یا مغرب کو باوصف قدرت واختیار قصدا ً اٹھار رکھیں کہ‬
‫جب اس کا وقت نکل جائے گا پچھلی نماز مثال ً عصر یا عشاء کے وقت میں پڑھ‬
‫کر اس کے بعد متصال ً خواہ منفصال ً اُس وقت کی نماز اداکریں گے‪ ،‬یہ دونوں‬
‫بحالت اختیار صرف حجاج کو صرف حج میں صرف عصرعرفہ ومغرب‬ ‫ِ‬ ‫صورتیں‬
‫مزدلفہ میں جائز ہیں اول میں جمع تقدیم اور دوم میں جمع تاخیر عام ازیں کہ وہ‬
‫کنان مک ّہ ومنٰی وغیرہما مواضع قریبہ کی وہ بوجہ نسک‬
‫ِ‬ ‫مسافر ہوں یا خاص سا‬
‫ہے نہ بوجہ سفر اور بحالت اضطرار وعدم ِ قدرت سفر حضر یا ظہر عصر وغیرہا‬
‫ت مرض یا‬ ‫کسی شے کی تخصیص نہیں جتنی نمازوں تک مشغولی جہاد یا شد ّ ِ‬
‫غشی وغیرہا کے سبب قدرت نہ ملے ناچار سب موخر رہیں گی اور وقت قدرت‬
‫بحالت عدم سقوط ادا کی جائیں گی جس طرح حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬نے غزوہ خندق میں ظہر‬
‫وعصر ومغرب وعشا کے وقت پڑھیں ان کے سوا کبھی کسی شخص کو کسی‬
‫حالت میں کسی صورت جمع وقتی‪ Z‬کی اصال ً اجازت نہیں اگر جمع تقدیم کرے گا‬
‫نماز اخیرمحض باطل وناکارہ جائے گی جب اُس کا وقت آئیگا فرض ہوگی نہ‬
‫پڑھے گی ذمے پر رہے گی اور جمع تاخیر کرے گا تو گنہ گار ہوگا عمدا ً نماز قضا‬
‫کردینے واال ٹھہرے گا اگرچہ دوسرے وقت میں پڑھنے سے فرض‪ Z‬سرسے‬
‫ا ُترجائے گا۔ یہ تفصیل مذہب مہذب ہے اور اسی پر دالئل قرآن وحدیث ناطق بلکہ‬
‫توقیت صالۃ کا مسئلہ متفق علیہا ہے‪ ،‬ہر مسلمان جانتا ہے کہ نماز کو دانستہ قضا‬
‫کردینا بالشبہ حرام تو جس طرح صبح یا عشا قصدا ً نہ پڑھنی کہ ظہر یا فجر کے‬
‫وقت پڑھ لیں گے حرام قطعی ہے یوں ہی ظہر یا مغرب عمدا ً نہ پڑھنی کہ عصر‬
‫یا عشا کے وقت اداکرلیں‪ Z‬گے حرام ہونا الزم اور وقت سے پہلے تو حرمت درکنار‬
‫نماز ہی بیکار جیسے کوئی آدھی رات سے صبح کی نماز یا پہر دن چڑھے سے‬
‫ظہر پڑھ رکھے قطعا ً نہ ہوگی‪ ،‬یونہی جو ظ ُہر کے وقت عصر یا مغرب کے وقت‬
‫عشاء نبٹا لے اس کا بھی نہ ہونا واجب‪ ،‬احادیث میں کہ حضور پُرنور صلوات اللہ‬
‫تعالٰی وسالمہ علیہ سے جمع منقول اُس میں صراح ًۃ وہی جمع صوری مذکور یا‬
‫مجمل ومحتمل اُسی صریح مفصل پر محمول‪ ،‬جمع حقیقی کے باب میں اصال ً‬
‫کوئی حدیث صحیح صریح مفسر وارد نہیں جمع تقدیم تو اس قابل بھی نہیں کہ‬
‫اُس پر کسی حدیث صحیح کا نام لیا جائے جمع تاخیر میں احادیث کثیرہ کے‬
‫خالف دو حدیثیں ایسی آئی ہیں جن سے بادی النظر میں دھوکا ہو مگر‬
‫عندالتحقیق‪ Z‬جب احادیث متنوعہ کو جمع کرکے نظرِ انصاف کی جائے فورا ً حق‬
‫ظاہر ہوجاتا ہے کہ یہ بھی وجوبا ً یا امکانا ً اُسی جمع صوری کی خبر دے رہی ہیں‬
‫غرض جمع وقتی‪ Z‬پر شرع مطہر سے کوئی دلیل واجب القبول اصال ً قائم نہیں‬
‫بلکہ بکثرت صحیح حدیثیں اور قرآن عظیم کی متعدد آیتیں اور اصول شرع کی‬
‫واضح دلیلیں اُس کی نفی پر حجت مبین‪ ،‬یہ اجمال کالم ودالئل مذہب ہے۔ لہذا یہ‬
‫مختصر کلم چار‪ ۴‬فصل پر منقسم‪:‬‬
‫فصل ‪ ۱‬میں جمع صوری کا اثبات جمیل‪،‬‬
‫فصل ‪ ۲‬میں شبہات جمع تقدیم کا ابطال جلیل‪،‬‬
‫فصل ‪ ۳‬میں جمع تاخیر کی تضعیف واضح البینات‪،‬‬
‫فصل ‪ ۴‬میں دالئل نفی جمع وہدایت التزام اوقات۔‬
‫اس مسئلے میں ہمارے زمانے کے امام ِ المذہباں مجتہد نامقلداں مخترع طرز‬
‫نوی مبتدع آزادروی‪ Z‬میاں نذیر حسین صاحب دہلوی ہداہ اللہ الی الصراط السوی‬
‫نے کتاب عجب العجاب معیار الحق کے آخر میں اپنی چلتی حد بھر کا کالم مشبع‬
‫کیا مباحث مسئلہ میں اگلے پچھلے مالکیوں شافعیوں وغیرہم کا اُلٹا پُلٹا اُلجھا‬
‫سلجھا جیسا کالم حنفیہ کے خالف جہاں کہیں مال سب جمع کرلیا اور کھلے‬ ‫ُ‬
‫احادیث صحاح کو َرد فرمانے رواۃ صحیین کو مردود بتانے بخاری ومسلم‬ ‫ِ‬ ‫خزانے‬
‫کی صدہا حدیثوں کو واہیات بتانے محدثی کا بھرم عمل بالحدیث کا دھرم دن‬
‫دہاڑے دھڑی دھڑی کرکے لٹانے میں رنگ رنگ سے اپنی نئی ابکار افکار‪ Z‬کو جلوہ‬
‫دیا تو بعون قدیر اُس تحریر عدیم التحریر حائز ہر غث ویابس ونقیر وقطمیر کے‬
‫ماّل جی کے ادعاے باطل عمل‬ ‫رد میں تمام مساعی نووکہن کا جواب اور ُ‬
‫بالحدیث ولیاقت اجتہاد وعلم حدیث کے روئے نہانی سے کشف حجاب بعض‬
‫علمائے عصر عــہ‪ ۱‬وعظمائے وقت غفراللہ تعالٰی لناولہ وشکر فی انتصارنا‬
‫للحق سعینا وسعیہ نے مالجی پر تعقبات کثیرہ بسیط کیے مگر اِن شاء اللہ العزیز‬
‫الکریم والحول والقوۃ اِاّل باللہ العلی العظیم‪ ،‬یہ افاضات تازہ چیزے دیگر ہوں گے‬
‫جنہیں دیکھ کر ہر منصف حق پسند بے ساختہ پکار اُٹھے کہ ‪:‬‬
‫ٰ‬
‫ع کم ترک االول لالخر‬
‫(بہت سی چیزیں پہلوں نے پچھلوں کیلئے چھوڑ دی ہیں۔ ت)‬
‫ٰ‬
‫عــہ‪ :۱‬یعنی جناب مستطاب حامی السنن ماحی الفتن مولنا مولوی حافظ الحاج محمد ارشاد حسین صاحب رامپوری‬
‫ٰ‬
‫رحمۃ اہلل تعالی علیہ‬

‫فقیر حقیر غفرلہ المولی القدیر کو اپنی تمام تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر اُن کے‬
‫ماورا میں بھی جن کا عدد بعونہ تعالٰی اس عـــہ‪ ۲‬وقت تک ایک سوچالیس سے‬
‫متجاوز ہے ہمیشہ التزام رہا ہے کہ محل خاص نقل واستناد‪ Z‬کے سوا محض جمع‬
‫وتلفیق کلمات سابقین سے کم کام لیا جائے‪ ،‬حتی الوسع بحول وقوت ربانی اپنے‬
‫ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا جائے‪:‬‬
‫کہ حلوا چویکبار خورند وبس‬ ‫ع‬
‫ٰ‬ ‫ُ‬
‫عـــہ‪ :۲‬یہ اس وقت تھا اب کہ ‪۱۳۱۹‬ھ ہے بحمداہلل تعالی عدد تصانیف ایک سونوے‪ ۱۹۰‬سے متجاوز‪ 5‬ہے ‪ ۱۲‬اور اب تو‬
‫ٰ‬
‫بحمدہ تعالی اگر احصا کیا جائے تو پانسوسے متجاوز ہوگا ‪( ۱۲‬م)‬

‫اگر اقامت دالئل یا ازاحت اقوال مخالف میں وہ امور مذکور بھی ہوتے ہیں کہ اور‬
‫متکلمین فی المسئلہ ذکر کرگئے تو غالبا ً وہ وہی واضحات متبادرہ الی الفہم ہیں‬
‫کہ ذہن بے اعانت دیگرے اُن کی طرف سبقت کرے۔ انصافا ً ان میں سابق والحق‬
‫دونوں کا استحقاق یکساں مگر ازانجا کہ کلمات متقدمہ میں اُن کا ذکر نظر سے‬
‫گزرا اپنی طرف نسبت نہیں کیا جاتا پھر ان میں بھی بعونہ تعالٰی تلخیص وتہذیب‬
‫وترصیب وتقریب وحذف زوائد وزیادت فوائد سے جدّت جگہ پائے گی اور کُچھ نہ‬
‫ہو تو اِن شاء اللہ تعالٰی طرزِ بیان ہی احلی ووقع فی القلب نظر آئے گی اس‬
‫وقت تو یہ اپنا بیان ہے جس سے بحمداللہ تعالٰی تحدیث بنعمۃ اللہ ع ّزوجل مقصود‬
‫ارباب‬
‫ِ‬ ‫ل حسد جس معنے پر چاہ یں محمول کریں مگر‬ ‫والحمداللہ الغفور الودود‪ ،‬اہ ِ‬
‫انصاف اگر تصانیف فقیر کو مواز نہ فرمائیں گے بعون ٖہ تعالٰی عیان موافق بیان‬
‫پائیں گے باینہمہ اس اعتراف سے چارہ نہیں کہ الفضل للمتقدم (پہل کرنے والے‬
‫کو فضیلت حاصل ہوتی ہے) خصوصا ً علمائے سلف رضی اللہ تعالٰی عنا باکرامہم‬
‫وحشرنا فی زمرۃ خدامہم کہ جو کچھ ہے اُنہیں کی خدمت کلمات برکت آیات کا‬
‫نتیجہ اور اُنہیں کی بارگاہ دولت کا حصہ رسد بٹتا ہوا صدقہ‪:‬‬
‫باد صبا! اینہمہ آوردہ تست‬
‫اے ِ‬ ‫ع‬
‫ٰ‬
‫ہاں ہاں یہ کفش برادری خدام درگاہ فضائل پناہ اعلحضرت عظیم البرکت اعلم العلماء الربانین‬
‫افضل الفضالء الحقانیین حامی السنن السنیہ ماحی الفتن الدنیہ بقیہ السلف المصلحین حجۃ‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫الخلف المفلحین آیۃ من آیات رب العلمین معجزۃ من معجزات سیدالمرسلین صلی اہلل تعالی‬
‫علیہ وسلم وبارک وسلم اجمعین ذی التصنیفات الرائقہ والتحقیقات الفائقہ والتدقیقات الشائقہ‬
‫تاج المحققین سراج المدققین اکمل الفقہاء المحدثین حضرت سیدنا الواجد امجد االماجد اطیب‬
‫ّ‬
‫االطائب موالنا مولوی محمد نقی علی خان صاحب محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی قدس‬
‫ّ‬
‫اہلل سرہ‪ ،‬وعم بر ہ وثم نورہ واعظم اجرہ واکرم نزلہ وانعم منزلہ والحرمنا سعدہ ولم یفتنا بعدہ والحمداہلل‬
‫ٰ‬
‫دہرالداہرین ہاں ہاں یہ ادنی خاکبوسی آستان رفیع غلمان منیع بندگان‪ 5‬بارگاہ عرفان پناہ اقدس‬
‫حضرت آقائے نعمت دریائے رحمت اعرف العرفاء الکرام مرجع االولیاء العظام السحاب الہا مربفیض‬
‫القادر والعباب الزاخر بالفضل الباھر ذوالقرب الزاہر والعلو الظاہر والنسب الطاہر ملحق االصاغر بالجلۃ‬
‫االکابر معدن البرکات مخزن الحسنات من آل محمد سید الکائنات علیہ وعلیہم افضل الصلوات‬
‫وارث النجدات من حمزۃ الحمزات القمر المستبین بالنور المبین من شمس الدین ابی الفضل العظیم‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫والشرف الکریم سیدنا ومولنا وملجانا وماوانا شیخی ومرشدی کنزی وذخری لیومی وغدمی اعلحضرت‬
‫سیدنا السید الشاہ آل رسول االحمدی فاطمی حسینی قادری برکاتی واسطی بلجرامی مارہری رضی‬
‫ٰ‬
‫اہلل تعالی عنہ واجرل واعظم قربہ منہ واشرق علینا من نورہ التام وافاض علینا من بحرہ الطام وجعلنا‬
‫ٰ‬
‫من خدمہ فی دارالسالم بفضل رحمۃ علیہ وعلی آبائہ الکرام والحمداہلل ابداآلبدین۔ ؂‬
‫عہد مابالب شیریں دہنان بست خداے‬
‫ماہمہ بندہ وایں قوم خداوند ا نند‬
‫(خدا نے شیریں دہنوں کے لبوں سے ہمارا عہد باندھ دیا ہے‪ ،‬ہم سب بندے ہیں‬
‫اور یہ لوگ ہمارے آقا ہیں۔ ت)‬
‫خیر کہنا یہ تھا کہ یہاں بھی اِن شاء اللہ تعالٰی یہی طریقہ رعایت عــہ پائے گا‬
‫ولہذا ایک آدھ بحث کہ بقدر کافی طے کردی گئی اس سے تعرض اطناب سمجھا‬
‫جائے گا کہ مقصود اظہار احقاق ہے نہ اکثار اوراق۔‬
‫عــہ‪ :‬السیما‪ 5‬اذاکان فيئی الترتضیہ لوھن اوضعف نعلم فیہ ‪۱۲‬۔ (م)‬
‫ً ٰ‬
‫(حاشیہ‪ 5‬کی اس عبارت سے غالبا اعلحضرت کی اپنی عبارت گزشتہ صفحہ ‪ ۱۶۴‬کی طرف اشارہ ہے‪ :‬فقیر حقیر غفرلہ‬
‫المولی القدیر کو اپنی تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر ان کے ماورا میں بھی حتی الوسع اپنے ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا‬
‫ً‬
‫جائے‪ ،‬ملخصا (نذیر احمد سعیدی)‬

‫ان چار فصل میں ماّل جی کے ادعائی بول یکسر برعکس ہیں سایہ بخت سے‬
‫سب قابل نکس ہ یں جابجا ثابت کو ناثابت ناثابت کو ثابت ساکت کو ناطق ناطق‬
‫کو ساکت ضعیف کو صحیح صحیح کو ضعیف تحریف کو توجیہ توجیہ کو تحریف‬
‫مؤول کو مفسر مفسر کو مؤول محتمل کو صریح صریح کو محتمل کہا اول تا‬
‫آخر کوئی دقیقہ تحکم ومکابرہ وتعصب مدابرہ کا نامرعی نہ رہا یہاں بعون ٖہ تعالٰی‬
‫عز مجدہ ہر فصل میں قول فصل وحق اصل بدالئل قاہرہ وبیانات باہرہ ظاہر‬
‫مصر کو بھی‬ ‫کیجئے کہ اگر زبان انصاف سالم وصاف ہوتو مکالف منکر مدعی ُ‬
‫معترف ومقر لیجئے ۔‬
‫وماذلک علی الل ّٰہ بعزیز‪ ،‬ان ذلک علی الل ّٰہ یسیر‪ ،‬ان الل ّٰہ علٰی کل شیئ‬
‫قدیر۔‬
‫اور یہ اللہ کیلئے مشکل نہیں ہے‪ ،‬یہ اللہ پر آسان ہے‪ ،‬اللہ ہر شیئ پر قادر ہے۔‬
‫(ت)‬
‫پیش نظر ہے‬
‫ِ‬ ‫یہ معارک جلیلہ تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں رسالہ آپ کے‬
‫مالحظہ کیجئے داد انصاف دیجئے‬
‫ع فی طلعۃ الشمس مایغنیک عن خبر‬
‫سورج طلوع ہوجائے تو اس کی اطالع‪ Z‬دینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ت)‬ ‫( ُ‬
‫اس کے سوا نفس مسئلہ میں ماّل جی نے اپنے موافق‪ Z‬کہیں چودہ‪ ۱۴‬کہیں پندرہ‪۱۵‬‬
‫صحابیوں سے روایات آنا بیان کیا اور خود ہی اُسے بگاڑ کر کمی کی طرف پلٹے‬
‫اور چار سے زیادہ ظاہر نہ کرسکے اُن میں بھی عنداالنصاف اگر کُچھ لگتی ہوئی‬
‫بات ہے تو صرف ایک سے۔ میں بعون ٖہ تعالٰی اپنے موافق روایات تئیس‪ ۲۳‬صحابہ‬
‫کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬سے الؤں گا‪ ،‬ماّل جی صرف چار حدیثیں پیش خویش‬
‫اپنے مفید دکھاسکے جن میں حقیق ًۃ کوئی بھی ان کے مفید نہیں اور آیت کا تو اُن‬
‫کی طرف نام بھی نہیں‪ ،‬میں بحول اللہ تعالٰی اُن سے دُونی آیتیں اور دس گنی‬
‫حدیثیں اپنی طرف دکھاؤں گا‪ ،‬میں یہ بھی روشن کردوں گا کہ حنفیہ کرام پر غیر‬
‫مقلدوں کی طعنہ زنی ایسی پوچ ولچر بے بنیاد ہوتی ہے‪ ،‬میں یہ بھی بتادُوں گا‬
‫کہ ان صاحبوں کے عمل بالحدیث کی حقیقت اتنی ہے‪ ،‬میں یہ بھی دکھادوں گا کہ‬
‫ماّل جی صاحب جو آج کل مجتہد العصر اور تمام طائفہ کے استاد مانے گئے ہیں‬
‫اُن کی حدیث دانی ایک متوسط طالب علم سے بھی گرے درجہ کی ہے‬
‫ّ‬ ‫ّ ہّٰلل‬
‫کل ذلک بعون الملک العزیز القریب المجیب وماتوفیقی اال با علیہ توکلت والیہ انیب وھذا اوان‬
‫ٰ‬ ‫ّ‬ ‫ہّٰلل‬
‫الشروع فی المقصود متوکال علی واھب الفیض والجود والحمد العلی الودود والصالۃ والسالم علی‬
‫ٰ‬
‫احمد محمود محمد والہ الکرام السعود امین۔‬
‫فصل اول طلوع فجر نوری بہ اثبات جمع صوری‪:‬‬
‫حضور پُرنور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جمع صوری کا‬
‫ثبوت اصال ً محل کالم نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمہ حنفیہ ہے اس میں صاف‬
‫صریح جلیل وصحیح احادیث مروی مگر ماّل جی تو انکارِ آفتاب کے عادی‪ ،‬بکمال‬
‫سنادی کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت‬ ‫شوخ چشمی بے نقط ُ‬
‫ہوکہ آنحضرت عــہ جمع صوری سفر میں کیا کرتے تھے ‪ ، ؎۱‬بہت اچھا ذرانگاہ‬
‫وبرو۔‬
‫ُر ُ‬
‫ص‪)۴۰۱‬‬ ‫مکتبہ نذیریہ الہور‬ ‫(‪ ؎۱‬معیار الحق مسئلہ پنجم جمع بین الصلٰوۃ‬
‫ٰ‬
‫آلہ وصحبہ وبارک وکرم ‪ ۱۲‬منہ (م)‬
‫عــہ صلی اہلل علیہ وسلم وعلی ٖ‬
‫حدیث ‪ :۱‬جلیل وعظیم‪ Z‬حدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ‬
‫اُس جناب سے مشہور ومستفیض ہے جسے امام بخاری وابوداؤد ونسائی نے‬
‫سی بن ابان نے کتاب الجج علٰی اہ ِ‬
‫ل مدینہ اور امام‬ ‫اپنی صحاح اور امام عی ٰ‬
‫معیل نے مستخرج‬ ‫طحاوی نے شرح معانی اآلثار اور ذہلی نے زہریات اور اس ٰ‬
‫صحیح بخاری میں بطرق عدیدہ کثیرہ روایت کیا‪:‬‬
‫فالبخاری واالسمعیلی والذھلی من طریق اللیث بن سعد عن یونس عن الزھری‪ ،‬والنسائی من طریقی‬
‫یزید بن زریع والنضربن‪ 5‬شمیل عن کثیر بن قاروندا کالھما عن سالم۔ والنسائی عن قتیبۃ والطحاوی‬
‫عن ابی عامر العقدی والفقیہ فی الحجج ثلثتھم عن العطاف‪ ،‬وابوداؤد عن فضیل بن غزوان‪ ،‬وعن‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا بن العالء‪ ،‬وایضا ھوعیسی والنسائی عن الولید والطحاوی عن بشر بن بکر‪ ،‬ھؤالء الثلثۃ عن‬
‫ابن جابر‪ ،‬والطحاوی عن اسامۃ بن زید‪ ،‬خمستھم اعنی العطاف وفضیال وابن العالء وجابر واسامۃ عن‬
‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫نافع۔ وابوداؤد عن عبدا بن واقد۔ والطحاوی عن اسمعیل بن عبدالرحمن اربعتھم عن عبدا بن‬
‫ہّٰلل‬
‫عمر رضی ا عنھما۔‬
‫معیل اور ذہلی نے لیث ابن سعد کے طریقے سے یونس سے‪ ،‬اس نے‬ ‫بخاری‪ ،‬اس ٰ‬
‫زہری سے روایت کی ہے۔ اور نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو‬
‫‪ ۲‬طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے۔ دونوں (زہری اور کثیر)‬
‫سالم سے راوی ہیں۔ نسائی نے قتیبہ سے‪ ،‬طحاوی نے ابوعامر عقدی سے اور‬
‫فقیہ نے حجج میں یہ تینوں عطاف سے روایت کرتے ہیں۔ اور ابوداؤد نے فضیل‬
‫ابن غزوان سے اور عبداللہ ابن عالء سے روایت کی ہے۔ اور ابوداؤد نے ہی‬
‫سی سے‪ ،‬نسائی نے ولید سے‪ ،‬طحاوی نے بشر ابن بکر سے‪ ،‬یہ تینوں‬ ‫عی ٰ‬
‫س ی‪ ،‬ولید‪ ،‬بشر) جابر سے روایت کرتے ہیں۔ اور طحاوی نے اسامہ ابن زید‬ ‫(عی ٰ‬
‫سے روایت کی ہے۔ یہ پانچوں یعنی عطاف‪ ،‬فضیل‪ ،‬عبداللہ‪ ،‬جابر اور اسامہ نافع‬
‫معیل‬‫سے راوی ہیں‪ ،‬نیز ابوداؤد عبداللہ ابن واقد سے راوی ہیں اور طحاوی اس ٰ‬
‫معیل)‬ ‫ابن عبدالرحمن سے راوی‪ Z‬ہیں۔ چاروں (سالم‪ ،‬نافع‪ ،‬عبداللہ ابن واقد‪ ،‬اس ٰ‬
‫عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے (ناقل ہیں) (ت)‬
‫فقیر غفراللہ تعالٰی نے جس طرح یہاں جمع وتلخیص طرق کی اکمال المحجہ‬
‫وایضاح الحجہ کیلئے اُن کے اکثر نصوص والفاظ بھی وارد کرے وباللہ التوفیق‪،‬‬
‫سنن ابوداؤد‪ Z‬میں بسند صحیح ہے‪ :‬حدثنا محمد بن عبید المحاربی نامحمد بن فضیل عن‬
‫ہّٰلل‬
‫ابیہ عن نافع وعبدا بن واقد ان مؤذن ابن عمرقال‪ :‬الصالۃ‪ ،‬قال‪ :‬سر‪ ،‬حتی اذاکان قبل غیوب الشفق‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫نزل۔ فصلی المغرب‪ ،‬ثم انتظر حتی غاب الشفق فصلی العشاء‪ ،‬ثم قال‪ :‬ان رسول ا صلی ا تعالی‬
‫ٰ‬
‫علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امرصنع مثل الذی صنعت فسار فی ذلک الیوم واللیلۃ مسیرۃ ثلث ‪؎۱‬۔‬
‫یعنی نافع وعبداللہ بن واقد دونوں تالمذہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما‬
‫فرماتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مؤذن نے نماز کا تقاضا کیا‪،‬‬
‫فرمایا چلویہاں تک کہ شفق ڈوبنے سے پہلے اُتر کر مغرب پڑھی پھر انتظار‬
‫فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشا پڑھی پھر فرمایا‪ :‬حضور سید‬
‫عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسا میں‬
‫نے کیا۔ ابن عمر نے اس دن رات میں تین رات دن کی راہ قطع کی (م)‬
‫‪)۱/۱۷۱‬‬ ‫مطبوعہ اصح المطابع کراچی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ابوداود نے فرمایا‪ :‬رواہ ابن جابر عن نافع نحو ھذا باسنادہ حدثنا ابراھیم بن موسی الرازی انا عیسی ابن‬
‫ہّٰلل‬
‫جابر بھذا المعنی ورواہ عبدا بن العالء عن نافع‪ ،‬قال‪ :‬حتی اذاکان عندذھاب الشفق نزل فجمع‬
‫بینھما ‪؎۲‬۔‬
‫اس کو ابن جابر نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے مع اسناد کے حدیث بیان‬
‫سی ابن‬‫سی رازی نے‪ ،‬اس نے کہا کہ خبر دی ہمیں عی ٰ‬ ‫کی ہم سے ابراہیم‪ Z‬ابن مو ٰ‬
‫جابر نے اس مفہوم کے ساتھ اور روایت کیا ہے اسکو عبداللہ بن عالء نے نافع‬
‫سے کہ انہوں نے کہا‪ :‬جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہُوئی اتر کر دونوں نمازیں جمع‬
‫کیں۔ (ت)‬
‫مطبوعہ اصح المطابع کراچی ‪)۱۷۱/ ۱‬‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابی داؤد‬
‫نسائی کی روایت بسند صحیح یوں ہے‪ :‬اخبرنا محمود بن خالدثنا الولید ثنا ابن جابرثنی نافع قال‪:‬‬
‫ہّٰلل‬
‫فاتاہآت فقال‪ :‬ان صفیۃ بنت ابی عبید لمابھا‪،‬‬‫ٍ‬ ‫ارضالہ‪،‬‬ ‫یرید‬ ‫سفر‪،‬‬ ‫فی‬ ‫عمر‬ ‫بن‬ ‫خرجت مع عبدا‬
‫فانظران تدرکھا۔ فخرج مسرعا‪ ،‬ومعہ رجل من قریش یسایرہ‪ ،‬وغابت الشمس فلم یصل الصالۃ‪ ،‬وکان‬
‫ہّٰلل‬
‫عھدی بہ وھو یحافظ علی الصالۃ‪ ،‬فلما ابطاء قلت‪ :‬الصالۃ‪ ،‬یرحمک ا ‪ ،‬فالتفت ای ومضی‪ ،‬حتی‬
‫ٰ‬
‫اذاکان فی اخر الشفق نزل فصلی المغرب‪ ،‬ثم اقام العشاء وقد تواری الشفق فصلی بنا‪ ،‬ثم اقبل علینا‪،‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫فقال‪ :‬ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم کان اذاعجل بہ السیر صنع ھکذا ‪؎۱‬۔‬
‫یعنی نافع فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر اپنی ایک زمین کو تشریف لیے جاتے تھے‬
‫کسی نے آکر کہا آپ کی زوجہ صفیہ عــہ بنت ابی عبید اپنے حال میں مشغول‬
‫سرعت چلے اور اُن کے ساتھ ایک‬ ‫سن کر بہ ُ‬
‫ہیں شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں۔ یہ ُ‬
‫سورج ڈوب گیا اور نماز نہ پڑھی اور میں نے ہمیشہ اُن کی‬ ‫مرد قریشی تھا ُ‬
‫عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے تھے جب دیر لگائی میں نے‬
‫کہ ا نماز خدا آپ پررحم فرمائے میری طرف پھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہُوئے‬
‫صہ رہا اُتر کر مغرب پڑھی پھر عشا کی تکبیر اس حال میں‬ ‫جب شفق کا اخیر ح ّ‬
‫کہی کہ شفق ڈوب چکی اُس وقت عشا پڑھی پھر ہماری طرف منہ کرکے کہا‬
‫رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی‬
‫کرتے۔ (م)‬
‫مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت‬ ‫الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن نسائی‬
‫کتب کراچی‪)۱/۹۹‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫عــہ‪ :‬ھی اخت مختار‪ 5‬الکذاب المشہور‪ 5،‬وابوھا ابوعبید رضی ا تعالی عنہ من الصحابۃ‪ ،‬استشھد فی خالفۃ‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫امیرالمؤمنین‪ ،‬اماھی‪ ،‬ففی عمدۃ القاری‪ ،‬ادرکت النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم وسمعت منہ۔ اھ وفی ارشاد الساری‪،‬‬
‫الصحابیۃ الثقفیۃ اخت المختار‪ ،‬وکانت من العابدات۔ اھ لکن قال الحافظ فی التقریب‪ 5:‬قیل لھا ادراک‪ ،‬وانکرہ الدارقطنی‪5،‬‬
‫وقال العجلی‪ 5:‬ثقہ فھی من الثانیۃ۔ اھ وحقق فی االصابۃ نفی السماع واثبات االدراک ظنا‪ ،‬فراجعہ۔ وقدحدث عن ازواج‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫النبی صلی ا تعالی علیہ وعلیھن وسلم ‪ ۱۲‬منہ (م)‬
‫ٰ‬
‫صفیہ‪ ،‬مشہور مختار‪ 5‬کذاب کی بہن تھیں۔ ان کے والد ابوعبیدہ رضی اہلل تعالی عنہ صحابہ میں سے تھے‪،‬‬
‫امیرالمومنین‪ 5‬کی خالفت کے دوران شہید ہوگئے تھے۔صفیہ کے بارے میں عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ انہوں نے‬
‫ٰ‬
‫رسول اہلل صلی اہلل تعالی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا۔ اور ارشاد الساری میں ہے کہ یہ بنی ثقیف سے تعلق رکھنے والی‬
‫صحابیہ تھیں اور مختار‪ 5‬کی بہن تھیں‪ 5،‬عبادت گزار خواتین میں سے تھیں۔ لیکن حافظ نے تقریب میں لکھا ہے کہ بعض‬
‫ٰ‬
‫نے کہا ہے کہ صفیہ نے رسول اہلل صلی اہلل تعالی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا لیکن دارقطنی نے اس کا انکار کیا ہے اور‬
‫عجلی نے کہا ہے کہ ثقہ تھیں۔ اس لحاظ سے یہ طبقہ ثانیہ میں ہوں گی (یعنی تابعیات سے) اصابہ میں ثابت کیا‬
‫ہے کہ صفیہ نے رسول اہلل صلی اہلل علیہ وسلم کا کالم تو نہیں‪ 5‬سنا البتہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا زمانہ پایا ہو۔ اس‬
‫ازواج مطہرات سے احادیث بیان کی ہیں۔(ت)‬ ‫سلسلے میں اصابہ کی طرف رجوع کرو۔ صفیہ نے ِ‬
‫اسی طرح امام طحاوی نے روایت کی فقال حدثنا ربیع المؤذن ثنا بشربن بکرثنی‬
‫ابن جابر ثنی نافع ‪ ؎۱‬فذکرہ۔ نیز نسائی نے بسند حسن بطریق اخبرنا قتیبۃ بن‬
‫سعید حدثنا العطاف ‪ ؎۲‬اور ابوجعفر نے بطریق حدثنا یزید بن سنان ثنا ابوعامر‬
‫العقدی ثنا العطاف بن خالد المخزومی ‪ ؎۳‬اور امام فقیہ نے حجج میں بالواسطہ‬
‫روایت کی کہ اخبرنا عطاف بن خالد المخزومی المدینی قال اخبرنا نافع قال‬
‫اقبلنا مع ابن عمر من مکۃ‪ ،‬حتی اذاکان ببعض الطریق استصرخ علی زوجتہ‪،‬‬
‫فقیل لہ انھا فی الموت‪ ،‬فاسرع‪ Z‬السیر‪ ،‬وکان اذانودی بالمغرب نزل مکانہ فصلی‪،‬‬
‫فلما کان تلک اللیلۃ نودی بالمغرب فسار حتی امسینا فظننا انہ نسی‪ ،‬فقلنا‪:‬‬
‫الصالۃ ‪ ،‬فسار حتی اذاکان الشفق قرب ان یغیب نزل فصلی المغرب‪ ،‬وغاب‬
‫الشفق فصلی العشاء ثم اقبل علینا فقال‪ :‬ھکذا کنا نصنع مع رسول الل ّٰہ صلی الل ّٰہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبنا السیر۔‬
‫(‪ ؎۱‬شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصلٰوتین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ‪)۱/۱۱۲‬‬
‫مجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشائ مکتبہ سلفیہ‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن النسائی الوقت الذی‬
‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصالتین الخ‬ ‫الہور ‪)۱/۷۰‬‬
‫ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ‪)۱/۱۱۳‬‬
‫(یعنی امام نافع فرماتے ہیں را ِہ مک ّہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جب‬
‫شفق ڈوبنے کے قریب ہُوئی اُتر کر مغرب پڑھی اور شفق ڈوب گئی اب عشاء‬
‫منہ کرکے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬ ‫پڑھی پھر ہماری طرف ُ‬
‫سی‬‫کے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے تھے جب چلنے میں کوشش ہوتی تھی) امام عی ٰ‬
‫بن ابان نے اسے روایت کرکے فرمایا‪:‬‬
‫ٰ‬
‫وھکذا قال ابوحنیفۃ فی الجمع بین الصالتین ان یصلی االول منھما فی اخر وقتھا‪ ،‬واالخری فی اول‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫وقتھا‪ ،‬کما فعل عبدا بن عمر رضی ا تعالی عنھا‪ ،‬ورواہ عن النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم‬
‫‪؎۴‬‬
‫(‪ ؎۴‬کتاب الحجۃ باب الجمع الصلٰوۃ فی السفردار المعارف نعمانیہ الہور ‪)۱۷۵ ،۱/۱۷۴‬‬
‫(یعنی دو‪ ۲‬نمازیں جمع کرنے میں یہی طریقہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫کا مذہب ہے کہ پہلی کو اس کے آخر وقت اور پچھلی کو اُس کے اوّل وقت میں‬
‫پڑھے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے خود کیا اور حضور سید‬
‫عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمایا) نیز امام طحاوی نے اور‬
‫طریق سے یوں روایت کی‪:‬‬
‫ہّٰلل‬
‫حدثنا فحدثنا الحمانی ثنا عبدا بن المبارک عن اسامہ بن زید اخبرنی نافع‪ ،‬وفیہ حتی اذاکان عند‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫غیبوبۃ الشفق فجمع بینھما وقال رأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم یصنع ھکذا اذاجدبہ‬
‫السیر ‪؎۵‬‬
‫(یعنی جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہوئی اُتر کر دونوں نمازیں جمع کیں اور‬
‫فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یوں ہی کرتے دیکھا جب‬
‫حضور کو سفر میں جلدی ہوتی)‬
‫ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫باب الجمع بین الصلٰوتین الخ‬ ‫(‪ ؎۵‬شرح معانی اآلثار‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۲‬‬
‫ٰ‬
‫یہ طرق حدیث نافع عن عبداہلل عن النبی صلی اہلل تعالی علیہ وسلم کے تھے‪ ،‬اور صحیح بخاری‬
‫ابواب التقصیر باب ھل یؤذن اویقیم اذاجمع بین المغرب والعشاء میں یوں ہے‪ :‬حدثنا ابو الیمان قال‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫اخبرنا شعیب عن الزھری قال اخبرنی سالم عن عبدا ابن عمر رضی ا تعالی عنھما قال‪ :‬رأیت‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاعجلہ السیر فی السفر یؤخر صالۃ المغرب حتی یجمع بینھا‬
‫ہّٰلل‬
‫وبین العشاء۔ قال سالم‪ ،‬وکان عبدا یفعلہ اذااعجلہ السیر‪ ،‬ویقیم المغرب فیصلیھا ثلثا ثم یسلم‪ ،‬ثم‬
‫قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ‪؎۱‬۔ الحدیث۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ‪۱/۱‬‬ ‫( ‪ ؎۱‬جامع صحیح البخاری باب ھل یؤذ ّن اویقیم الخ‬
‫‪)۴۹‬‬
‫ا ُسی کے باب یصلی المغرب ثلثا فی السفر میں بطریق مذکور وکان عبدالل ّٰہ‬
‫یفعلہ اذاعجلہ السیر تک روایت کرکے فرمایا ‪؎۲‬‬
‫‪)۱/۱۴۸‬‬ ‫(‪ ؎۲‬جامع صحیح البخاری باب یصلی المغرب ثلثانی السفر‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫وزاد اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شھاب قال سالم کان ابن عمر رضی ا تعالی عنھما یجمع بین‬
‫ٰ‬
‫المغرب والعشاء بالمزدلفۃ۔ قال سالم‪ :‬واخر ابن عمرالمغرب‪ ،‬وکان استصرخ علی امرأتہ صفیۃ بنت‬
‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫ابی عبید‪ ،‬فقلت لہ‪ :‬الصالۃ‪ ،‬فقال‪ :‬سر‪ ،‬فقلت لہ‪ :‬الصالۃ‪ ،‬فقال‪ :‬سر‪ ،‬حتی سارمیلین اوثلثۃ‪ ،‬ثم نزل‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫فصلی‪ ،‬ثم قال‪ :‬ھکذا رأیت النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم اذااعجلہ السیر یؤخر المغرب فیصلیھا‬
‫ثلثا ثم یسلم‪ ،‬ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ‪ ؎۳‬الحدیث۔‬
‫(ان دونوں روایتوں کا حاصل یہ کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ایام ِ حج میں‬
‫ذی الحجہ کی دسویں رات مزدلفہ میں مغرب وعشاء جمع کرکے پڑھتے اور جب‬
‫اپنی بی بی کی خبر گیری کو تشریف لے گئے تھے تو یوں کیا کہ مغرب کو آخر‬
‫کیا‪ ،‬میں نے کہ ا نماز‪ ،‬فرمایا چلو‪ ،‬میں نے پھر کہا نماز۔ فرمایا چلو‪ ،‬دو‪ ۲‬تین‪ ۳‬میل‬
‫چل کر ا ُترے اور نماز پڑھی‪ ،‬پھر فرمایا میں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬
‫کو دیکھا کہ جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی کرتے‪ ،‬مغرب اخیر کرکے تین‪۳‬‬
‫رکعت پڑھتے پھر سالم پھیر کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے پھر عشا کی اقامت‬
‫فرماکر دو‪ ۲‬رکعت پڑھتے)‬
‫ََْ‬ ‫ہّٰلل‬
‫نسائی کے یہاں یوں ہے‪ :‬اخبرنی محمد بن عبدا بن بزیع حدثنا یزید بن ذریع حدثنا کثیر بن قاروندا‬
‫ہّٰلل‬
‫قال‪ :‬سألت سالم بن عبدا عن صالۃ ابیہ فی السفر وسألناہ ھل کان یجمع بین شیئ من صالتہ فی‬
‫ٰ‬
‫سفرہ؟ فذکر ان صفیۃ بنت ابی عبید کانت تحتہ فکتبت الیہ‪ ،‬وھو فی زراعۃ لہ‪ ،‬انی فی اخر یوم من ایام‬
‫الدنیا واول یوم من االخرۃ‪ ،‬فرکب فاسرع السیر الیھا‪ ،‬حتی اذاحانت صالۃ الظھر قال لہ المؤذن‪ :‬الصالۃ‬
‫ٰ‬
‫یاابا عبدالرحمن! فلم یلتفت‪ ،‬حتی اذاکان بین الصالتین نزل‪ ،‬فقال‪ :‬اقم‪ ،‬فاذا سلمت فاقم‪ ،‬فصلی ثم‬
‫رکب حتی اذاغابت الشمس ‪ ،‬قال لہ المؤذن‪ :‬الصالۃ‪ ،‬فقال‪ :‬کفعلک فی صالۃ الظھر والعصر‪ ،‬ثم سار‬
‫حتی اذا اشتبکت النجوم نزل‪ ،‬ثم قال المؤذن‪ :‬اقم فاذاسلمت فاقم‪ ،‬فصلی ثم انصرف فالتفت الینا‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫فقال‪ ،‬قال رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاحضر احدکم االمر الذی یخاف فوتہ فلیصل ھذہ‬
‫الصالۃ ‪؎۱‬۔‬
‫مطبوعہ نور محمد کارخانہ‬ ‫الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫‪)۱/۹۸‬‬ ‫تجارت کتب کراچی‬
‫ابن عمر رضی‬ ‫ِ‬ ‫(خالصہ یہ کہ جب صفیہ کا خط پہنچا کہ اب میرا دم ِ واپسیں ہے‬
‫اللہ تعالٰی عنہما شتاباں چلے ‪،‬نماز کیلئے ایسے وقت اُترے کہ ظ ہر کا وقت جانے‬
‫ُ‬
‫کو تھا اور عصر کا وقت آنے کو‪ ،‬اُس وقت ظہر پڑھ کر عصر پڑھی اور مغرب‬
‫کے لئے اُس وقت اُترے جب تارے خُوب کھِل آئے تھے (جس وقت تک بالعذر‬
‫مغرب میں دیر لگانی مکروہ ہے‪ ،‬اُسے پڑھ کر عشاء پڑھی اور کہا رسول اللہ‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬جب تم میں کسی کو ایسی ضرورت پیش‬
‫آئے جس کے فوت کا اندیشہ ہوتو اس طرح نماز پڑھے) نیز اسی حدیث میں‬
‫دوسرے طریق سے یوں زائد کیا‪ :‬اخبرنا عبدۃ بن عبدالرحیم ثنا ابن شمیل ثنا کثیر بن‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ََ‬
‫قاروندا قال سألنا سالم بن عبدا عن الصالۃ فی السفر‪ ،‬فقلنا اکان عبدا یجمع بین شیئ من‬
‫الصالۃ فی السفر؟ فقال ال اال یجمع ‪؎۲‬‬
‫مطبوعہ نور محمد کارخانہ‬ ‫الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن النسائی‬
‫‪)۱/۹۹‬‬ ‫تجارت کتب کراچی‬
‫یعنی ہم نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬سے سوال کیا کہ‬
‫حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سفر میں کسی نماز کو دُوسری‬
‫کے ساتھ جمع فرماتے تھے کہا نہ سوا مزدلفہ کے) (جہاں کا مالنا سب کے نزدیک‬
‫باالتفاق ہے) پھر وہی حدیث بیان کی کہ اُس سفر میں اُس طریق سے نمازیں‬
‫پڑھی تھیں۔ اس حدیث جلیل کے اتنے طُرق کثیرہ ہیں جن سے آفتاب کی طرح‬
‫روشن کہ حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہم نے سفر میں بحال شتاب وضرورت جمع صوری فرمائی ہے اور یہی ہمارے‬
‫ائمہ کرام کا مذہب ہے۔‬
‫حدیث ‪:۲‬امام اجل احمد بن حنبل مسند اور ابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری‬
‫ومسلم مصنف میں بسند حسن بطریق اپنے شیخ وکیل بن الجراح کے اور امام‬
‫طحاوی معانی اآلثار میں بطریق حدثنا فھدثنا الحسن بن البشیر ثنا المعافی بن عمران کالھما‬
‫ٰ‬
‫عن مغیرہ بن زیاد الموصلی عن عطاء بن ابی رباح ام المومنین صدیقہ رضی اہلل تعالی عنہا سے‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫راوی قالت کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم فی السفر یؤخر الظھر ویقدم العصر‪ ،‬ویؤخر‬
‫المغرب ویقدم العشاء ‪؎۱‬‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب الجمع بین صالتین الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۱۳‬‬
‫(حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں ظہر کو دیر فرماتے عصر‬
‫کو اول وقت پڑھتے مغرب کی تاخیر فرماتے عشاء کو اوّل وقت پڑھتے)‬
‫حدیث ‪:۳‬ابوداؤد اپنی سنن باب متی یتم المسافر اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی‬
‫مصن ّف میں بسند حسن جید متصل حضرت عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن‬
‫ابی طالب وہ اپنے والد ماجد محمد بن عمر بن علی وہ اپنے والد ماجد عمر بن‬
‫ضی کرم اللہ تعالٰی وجہہ‪ ،‬سے روایت کرتے ہیں‪:‬‬‫علی مرت ٰ‬
‫ً‬
‫ان علیا کان اذاسافر سار بعد ما تغرب الشمس حتی تکاد ان تظلم‪ 5،‬ثم ینزل فیصلی المغرب‪ ،‬ثم یدعو‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫بعشائہ فیتعشی‪ ،‬ثم یصلی العشاء‪ ،‬ثم یرتحل۔ ویقول‪ :‬ھکذا کان رسول ا صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم‬
‫یصنع ‪؎۲‬۔‬
‫‪)۱/۱۷۳‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور پاکستان‬ ‫باب متی تیم المسافر‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابی داؤد‬
‫ضی کرم اللہ تعالٰی وبہہ االسنی‪Z‬‬
‫(یعنی امیرالمومنین مولی المسلمین علی مرت ٰ‬
‫جب سفر فرماتے سورج ڈوبے پر چلتے رہتے یہاں تک کہ قریب ہوتا کہ تاریکی‬
‫ہوجائے پھر ا ُتر کر مغرب پڑھتے پھر کھانا منگا کر تناول فرماتے پھر عشا پڑھ کر‬
‫کُوچ کرتے اور کہتے اسی طرح حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا‬
‫کرتے تھے)۔‬
‫امام عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کی سند کو‬
‫فرمایا‪ :‬الباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں)۔‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪:۴‬طحاوی بطریق ابی خثیمہ عن عاصم االحول عن ابی عثمن راوی قال وفدت انا وسعد بن‬
‫مالک ونحن بنادر للحج‪ ،‬فکنا نجمع بین الظھر والعصر‪ ،‬نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ‪ ،‬ونجمع بین‬
‫المغرب والعشاء‪ ،‬نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ‪ ،‬حتی قدمنا مکۃ ‪؎۳‬‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب الجمع بین صالتین الخ‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۱۴‬‬
‫(یعنی میں اور حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ حج کی جلدی میں‬
‫مکہ معظمہ تک ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو یوں جمع کرتے گئے کہ ظہر‬
‫ومغرب دیر کرکے پڑھتے اور عصر وعشا جلد)‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫حدیث ‪:۵‬نیز امام ممدوح عبدالرحمن بن یزید سے راوی صحبت عبدا بن مسعود رضی ا تعالی‬
‫عنہ فی حجہ فکان یؤخر الظھر ویعجل العصر‪ ،‬ویؤخذ المغرب ویعجل العشاء‪ ،‬ویسفر بصالۃ الغداۃ ‪؎۴‬۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫باب الجمع بین صالتین الخ‬ ‫(‪ ؎۴‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۱۴‬‬ ‫کراچی‬
‫(میں حج میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہمراہ رکاب تھا‬
‫ظہر میں دیر فرماتے اور عصر میں تعجیل مغرب میں تاخیر کرتے عشاء میں‬
‫جلدی اور صبح روشن کرکے پڑھتے) امام مدوح ان احادیث کو روایت کرکے‬
‫فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ہّٰلل‬
‫وجمیع ماذھبنا الیہ من کیفیۃ الجمع بین الصالتین قول ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمدرحمھم ا‬
‫ٰ‬
‫تعالی ‪؎۱‬۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫باب الجمع بین صالتین الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح معافی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۱۴‬‬ ‫کراچی‬
‫نمازیں جمع کرنے کا یہ طریقہ جو ہم نے اس باب میں اختیار فرمایا یہ سب امام‬
‫اعظم وامام ابویوسف وامام محمد کا مذہب ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم (م)‬
‫ٰ‬ ‫ُ‬
‫الحمداہلل جمع صوری کا طریقہ حضور پرنور سید عالم صلی اہلل تعالی علیہ وسلم وحضرت مولی‬
‫ٰ‬
‫علی وعبداہلل بن مسعود وسعد بن مالک وعبداہلل بن عمرو غیرہم صحابہ کرام رضی اہلل تعالی‬
‫عنہم سے روشن وجہ پر ثابت ہوا اور امام المذہبان کا وہ جبروتی ادعاکہ اس میں کوئی حدیث صحیح‬
‫نہیں‪ ،‬اور اس سے بڑھ کر یہ بانگ بے معنی کہ یہ روایات جن سےجمع صوری کرنی ابن عمر کی‬
‫واضح ہوتا ہے سب واہیات اور مردود اور شاذ اور مناکیر ہیں اور بشدت حیایہ خاص جحود وافترا کہ‬
‫ابن عمر نے اس کیفیت سے ہرگز نمازیں جمع نہیں کیں جیسا کہ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے ‪؎۲‬‬
‫اپنی سزائے کردار کو پہنچا اب ایضاح مرام وازاحت اوہام کو چند افادات کا استماع کیجئے۔‬
‫ص‪)۳۹۶‬‬ ‫مکتبہ نذیریہ الہور‬ ‫جمع بین الصلٰوتین‬ ‫(‪ ؎۲‬معیارالحق مسئلہ پنجم‬
‫افادہ اولٰی‪:‬المذہب ماّل کو جب کہ انکار جمع صوری میں چاند پر خاک اُڑانی تھی‬
‫اور احادیث مذکورہ صحاح مشہورہ میں موجود ومتداول تو بے َرد صحاح چارہ کار‬
‫کیا تھا لہذا بایں پیرانہ سالی حضرت کے رقص جملی مالحظہ ہوں‪:‬‬
‫لطیفہ ‪ :۱‬ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث جلیل وعظیم کے پہلے طریق‬
‫صحیح مروی سنن ابی داود کو محمد بن فضیل کے سبب ضعیف کیا۔‬
‫اقول اوّال ً‪ :‬یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری وصحیح مسلم‬
‫کے رجال سے ہے۔‬
‫ثانیاً‪ :‬امام ابن معین جیسے شخص نے ابن فضیل کو ثقہ امام احمد نے حسن‬
‫الحدیث‪ ،‬امام نسائی نے الباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں۔ ت) کہا‪ ،‬امام احمد‬
‫نے اُس سے روایت کی اور وہ جسے ثقہ نہیں جانتے اُس سے روایت نہیں فرماتے‬
‫سر اُس کے حق میں ذکر نہ کی۔‬‫میزان میں اصال ً کوئی جرح مف ّ‬
‫ثالثا ً‪ :‬یہ بکف چراغی قابل تماشا کہ ابن فضیل کے منسوب برفض ہونے کا‬
‫دعوٰی کیا اور ثبوت میں عبارت تقریب رمی بالتشیع ماّل جی کو بایں سالخوردی‬
‫محاورات سلف واصطالح‪ Z‬محدثین میں‬
‫ِ‬ ‫ودعوٰی محدثی آج تک اتنی خبر نہیں کہ‬
‫تشیع ورفض میں کتنا عـــہ فرق ہے ۔‬
‫ہّٰلل‬
‫عـــہ‪ :‬کماصرحوا بہ وتدل علیہ محاوراتھم‪ ،‬منھا مافی المیزان فی ترجمۃ الحاکم بعد ماحکی القول برفضہ‪ ،‬ا یحب‬
‫االنصاف‪ ،‬ماالرجل برافضی بل شیعی‪ 5‬فقط اھ ‪ ۱۲‬منہ (م)‬
‫ً‬
‫جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے اور ان کے محاورات سے بھی واضح ہے۔ مثال میزان میں حاکم کے حاالت میں کسی‬
‫کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ رافضی تھا۔ اس کے بعد کہا ہے ''اہلل انصاف کو پسند کرتا ہے‪ ،‬یہ آدمی رافضی نہیں ہے‪،‬‬
‫صرف شیعہ ہے''۔ (ت)‬

‫زبان متاخرین میں شیعہ روافض کو کہتے ہیں خذلہم اللہ تعالٰی جمیعا بلکہ آج کل‬
‫خالف تہذیب جانتے اور انہیں شیعہ ہی‬ ‫ِ‬ ‫کے بیہودہ مہذبین روافض کو رافضی کہنا‬
‫ماّل ئی‬
‫ماّل جی کے خیال میں اپنی ُ‬
‫کے لقب سے یاد کرنا ضروری مانتے ہیں خود ُ‬
‫کے باعث یہی تازہ محاورہ تھا یا عوام کو دھوکا دینے کیلئے متشیع کو رافضی بنایا‬
‫سن‬
‫ِ‬ ‫ح‬‫حاالنکہ سلف میں جو تمام خلفائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ساتھ ُ‬
‫عقیدت رکھتا اور حضرت امیرالمومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم‬
‫عثمان غنی‬‫ِ‬ ‫کو ا ُن میں افضل جانتا شیعی کہا جاتا بلکہ جو صرف امیرالمومنین‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تفضیل دیتا اُسے بھی شیعی کہتے ہیں حاالنکہ یہ مسلک‬
‫بعض علمائے اہلسنّت کا تھا اسی بناء پر متعدد ائمہ کوفہ کو شیعہ کہاگیا بلکہ‬
‫کبھی محض غلبہ محبت اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬کو شیعیت سے‬
‫تعبیر کرتے حاالنکہ یہ محض سنیت ہے امام ذہبی نے تذکرۃ الحفّاظ میں خود انہیں‬
‫محمد بن فضیل کی نسبت تصریح کی کہ ان کا تشیع صرف مواالت تھا وبس۔‬
‫ٰ‬
‫حیث قال‪ :‬محمد بن فضیل بن غزوان‪ ،‬المحدث الحافظ‪ ،‬کان من علماء ھذا الشان‪ ،‬وثقہ یحيی بن‬
‫َ‬
‫معین‪ ،‬وقال احمد‪ :‬حسن الحدیث‪ ،‬شیعی۔ قلت‪ :‬کان متوالیا فقط ‪؎۱‬۔‬
‫‪۱‬‬ ‫مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباددکن‬ ‫فی ترجمۃ محمد بن فضیل‬ ‫(‪ ؎۱‬تذکرۃ الحفاظ‬
‫‪)/۲۹۰‬‬
‫چنانچہ ذہبی نے کہا ہے کہ محمد ابن غزوان‪ ،‬جوکہ محدّث اور حافظ ہے‪ ،‬حدیث‬
‫کے علماء میں سے تھا یحیٰی ابن معین نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور احمد نے‬
‫ل بیت‬‫کہا ہے کہ اچھی حدیثیں بیان کرتا ہے مگر شیعہ ہے۔ میں نے کہا ''صرف اہ ِ‬
‫سے محبت رکھتا تھا''۔ (ت)‬
‫رابعاً‪:‬ذرا رواۃ صحیحین دیکھ کر شیعی کو رافضی بناکر تضعیف کی ہوتی‪ ،‬کیا‬
‫بخاری ومسلم سے بھی ہاتھ دھونا ہے ان کے رواۃ عــہ میں تیس‪ ۳۰‬سے زیادہ‬
‫اصطالح قدماء پر بلفظ تشیع ذکر کیا جاتا یہاں تک کہ‬
‫ِ‬ ‫ایسے لوگ ہیں جنہیں‬
‫تدریب میں حاکم سے نقل کیا کتاب مسلم مالٰن من الشیعۃ ‪؎۱‬‬
‫مطبوعہ دارنشر الکتب‬ ‫روایۃ المبتدع‬ ‫(‪ ؎۱‬تدریب الرادی شرح تقریب النواوی‬
‫االسالمیہ الہور ‪)۱/۳۲۵‬‬
‫(مسلم کی کتاب شیعوں سے بھری ہوئی ہے۔ ت) دُور کیوں جائیے خود یہی ابن‬
‫فضیل کہ واقع‪ Z‬کے شیعی صرف بمعنی محب اہل بیت کرام اور آپ کے زعم میں‬
‫معاذاللہ رافضی صحیحین کے راوی ہیں۔‬
‫ٰ ُ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ّ‬ ‫ٰ‬ ‫ً‬
‫عــہ‪ :‬مثال ابان بن تغلب‪ ،‬اسمعیل بن ابان وراق‪ ،‬اسمعیل بن زکریا‪ ،‬اسمعیل بن عبدالرحمن سدی صدوق یھم‪ ،‬بکیر بن‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا ‪ ،‬جریر بن عبدالحمید‪ ،‬جعفر بن سلیمن‪ 5،‬حسن بن صالح‪ ،‬خالد بن مخلد قطوانی‪ ،‬ربیئع بن انس صدوق لہ اوھام‪،‬‬
‫ہّٰلل‬
‫زاذان کندی‪ ،‬سعید‪ 5‬بن فیروز‪ 5،‬سعید‪ 5‬بن عمرو ھمدانی‪ ،‬عباد بن یعقوب رواجنی‪ ،‬عبادبن عوام کالبی‪ ،‬عبدا بن عمر‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ّ‬ ‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫صاحب مصنف‪ ،‬عبدالملک بن اعین‪ ،‬عبیدا بن موسی‪ ،‬عدی بن‬ ‫ِ‬ ‫عبدالرزاق‪،‬‬ ‫کوفی‪،‬‬ ‫ی‬ ‫عیس‬ ‫بن‬ ‫مشکدانہ‪ ،‬عبدا‬
‫ُ‬
‫ثابت‪ ،‬علی بن الجعد‪ ،‬علی بن ھاشم بن البرید‪ ،‬فضل بن دکین ابونعیم‪ ،‬فضیل بن مرزوق‪ ،‬فطربن خلیفۃ‪ ،‬مالک بن‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫صاحب مغازی‪ ،‬محمد بن جحادہ اور یہی محمد بن فضیل‪ ،‬ھشام بن سعد‪ 5،‬یحیی بن‬
‫ِ‬ ‫ق‬ ‫اسح‬ ‫بن‬ ‫محمد‬ ‫نھدی‪،‬‬ ‫عیل‬ ‫اسم‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫الجزار وغیرہم ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م)‬

‫اُس کے ساتھ ہی حدیث کی متابعتین دو‪ ۲‬ثقات عدول ابن جابر‬ ‫خامساً‪:‬‬
‫وعبداللہ بن العال سے ابوداود نے ذکر کردیں اور سنن نسائی وغیرہ میں بھی‬
‫موجود تھیں پھر ابن فضیل پر مدار کب رہا ولکن الجھلۃ الیعلمون (لیکن جاہل جانتے‬
‫نہیں ہیں۔ ت) اور یہ تو ادنٰی نزاکت ہے کہ تقریب میں ابن فضیل کی نسبت‬
‫صدوق عارف لکھا تھا ماّل جی نے نقل میں عارف اُڑادیا کہ جو کلمہ مدح کم ہو‬
‫وہی سہی۔‬
‫طرفہ تماشا کہ متابعت ابن جابر جو امام داؤد‪ Z‬نے ذکر کی آپ اسے‬ ‫لطیفہ ‪:۲‬‬
‫یوں کہہ کر ٹال گئے کہ وہ تعلیق ہے اور تعلیق حجت نہیں اب کون کہے کہ کسی‬
‫سے آنکھیں قرض ہی لے کر دیکھیے کہ ابوداؤد نے رواہ ابن جابر عن نافع کہہ کر‬
‫سی الرازی‪ Z‬اناعیسی عن‬‫اُسے یوں ہی معلق چھوڑدیا یا وہیں حدثنا ابرھیم‪ Z‬بن مو ٰ‬
‫ابن جابر ‪ ؎۲‬فرماکر موصول کردیا ہے ولکن النجدیۃ الیبصرون‬
‫‪۱/۱۷‬‬ ‫مطبوعہ آفتاب عالم پریس الہور‬ ‫باب المجمع بین الصلٰوتین‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابوداؤد‬
‫‪)۱‬‬
‫لطیفہ ‪ :۳‬امام طحاوی کی حدیث بطریق ابن جابر عن نافع پر بشر بن بکر‬
‫سے طعن کیا کہ وہ ف غریب الحدیث ہے ایسی روایتیں التا ہے کہ سب کے خالف‬
‫قالہ الحافظ فی التقریب۔‬
‫ص‪)۳۹۶‬‬ ‫(ف۔ معیارالحق‬
‫اقول اوّالً‪:‬ذرا شرم کی ہوتی کہ یہ بشر بن بکر رجال صحیح بخاری سے ہیں‬
‫صحیح حدیثیں َرد کرنے بیٹھے تو اب بخاری بھی باالئے طاق ہے۔‬
‫ثانیاً‪:‬اس صریح خیانت کو دیکھئے کہ تقریب میں صاف صاف بشر کو ثقہ فرمایا‬
‫‪ ؎۱‬تھا وہ ہضم کرگئے۔‬
‫مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ‬ ‫(‪ ؎۱‬تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی‬
‫گوجرانوالہ ص‪)۴۴‬‬
‫ثالثاً‪:‬محدث جی! تقریب میں ثقۃ یغرب ‪ ؎۲‬ہے‪ ،‬کسی ذی علم سے سیکھوکہ فالں‬
‫یغرب اور فالں غریب الحدیث میں کتنا فرق ہے۔‬
‫مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ‬ ‫(‪ ؎۲‬تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی‬
‫گوجرانوالہ ص‪) ۴۴‬‬
‫رابعا‪ :‬اغراب کی یہ تفسیر کہ ایسی روایتیں التا ہے کہ سب کے خالف محدث‬
‫جی! غریب ومنکر کا فرق کسی طالب علم سے پڑھو۔‬
‫خامسا‪ :‬باوصف ثقہ ہونے کے مجرد اغراب باعث رد ہوتو صحیحین سے ہاتھ‬
‫دھولیجئے‪ ،‬یہ اپنی مبلغ علم تقریب ہی دیکھی کہ بخاری ومسلم کے رجال میں‬
‫کتنوں عــہ کی نسبت یہی لفظ کہا ہے اور وہاں یہ بشر خود ہی جو رجال بخاری‬
‫سے ہیں۔‬
‫ً‬
‫عـــہ‪ :‬مثال ابرھیم بن طھمان‪ ،‬بشربن خالد‪ ،‬ابرھیم بن سوید بن حبان‪ 5،‬بشیربن سلمان‪ 5،‬حسن بن احمد بن ابی شبیب‪5،‬‬
‫ٰ‬
‫محمد بن عبدالرحمن‪ 5‬بن حکیم وغیرہم کہ سب ثقہ یغرب ہیں۔ احمد بن صباح حکام بن مسلم وغیرھما ثقۃ لہ غرائب‬
‫ٰ‬
‫خصوصا ازھر بن جمیل‪ ،‬خالدبن قیس‪ ،‬ابراھیم بن اسحق وغیرھم کہ صدوق یغرب یہ تینوں بشربن بکر سے بھی گئے‬
‫ٰ‬
‫درجے کے ہوئے کہ ثقہ سے اترکر طرف صدوق ہیں ‪ ۱۲‬منہ رضی اہلل تعالی عنہ (م)‬

‫سادسا‪ :‬ذرا میزان تو دیکھئے کہ اما بشربن بکر التنیسی فصدوق ثقۃ الطعن فیہ ‪( ۳‬یعنی‬
‫بشربن بکر تنیسی خُوب راست گوثقہ ہیں جن میں اصال ً کسی وجہ سے طعن‬
‫نہیں)‬
‫‪۱/۳‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفت بیروت لبنان‬ ‫(‪ ؎۳‬میزان االعتدال فی ترجمۃ بشربن بکر ‪۱۱۸۶‬‬
‫‪)۱۴‬‬
‫کیوں شرمائے تو نہ ہوگے ایسی ہی اندھیری ڈال کر جاہلوں کو بہکادیا کرتے ہوکہ‬
‫حنفیہ کی حدثیں ضعیف ہیں ع‬
‫شرم بادت ازخدا وازرسول‬
‫لطیفہ ‪ :۴‬طریق ابن جابر سے سنن نسائی کی حدیث کو ولید بن قاسم سے‬
‫َرد کیا کہ روایت میں اُس سے خطا ہوتی تھی کہا تقریب میں صدوق یخطی۔‬
‫تحریف شدید کو دیکھنا اسناد ِ نسائی میں یہاں نام‬ ‫ِ‬ ‫اقول اوال‪ :‬مسلمانو! اس‬
‫ولید غیر منسوب واقع تھا کہ اخبرنا محمود بن خالد ثنا الولید ثنا ابن جابر ثنا نافع الحدیث ‪؎۱‬۔‬
‫مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت‬ ‫الوقت الذی یجمع فیہ المسافر‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫کتب کراچی ‪)۱/۹۹‬‬
‫ماّل جی کو چاالکی کا موقع مال کہ تقریب میں اسی طبقہ کا ایک شخص رواۃ‬
‫نسائی سے کہ نام کا ولید اور قدرے متکلم فیہ ہے چھانٹ کر اپنے دل سے ولید‬
‫بن قاسم تراش لیا حاالنکہ یہ ولید بن قاسم نہیں ولید بن مسلم ہیں رجال صحیح‬
‫مسلم وائمہ ثقات وحفاظ اعالم‪ Z‬سے اسی تقریب میں ان کے ثقہ ہونے کی‬
‫شہادت موجود‪ ،‬ہاں تدلیس کرتے ہیں مگر بحمداللہ اُس کا احتمال یہاں مفقود کہ‬
‫وہ صراح ًۃ حدثنا ابن جابر قال حدثنی نافع فرمارہے ہیں۔ میزان میں ہے‪:‬‬
‫الولیدبن مسلم ابوالعباس الدمشقی‪ ،‬احداالعالم وعالم اھل الشام۔ لہ مصنفات حسنۃ‪ ،‬قال احمد‪:‬‬
‫مارأیت فی الشامیين اعقل منہ۔ وقال ابن المدینی ‪ :‬عندہ علم کثیر۔ قال ابومسھر ‪ :‬الولید مدلس‪،‬‬
‫قلت ‪ :‬اذاقال الولید ‪ :‬عن ابن جریج اوعن االوزاعی ‪ ،‬فلیس بمعتمد النہ یدلس عن کذابین‪ ،‬فاذاقال‪:‬‬
‫ً‬
‫حدثنا فھو حجۃ ‪ ؎۲‬اھ ملخصا۔ ولید ابن مسلم ابوالعباس دمشقی۔ بلند مرتبہ لوگوں‬
‫میں سے ایک‪ ،‬شام کا عالم‪ ،‬اس کی تصنیفات عمدہ ہیں احمد نے کہا ہے کہ میں‬
‫نے شامیوں میں اس سے زیادہ عقل مند آدمی نہیں دیکھا۔ ابن مدینی نے کہا کہ‬
‫اس کے پاس بہت علم ہے۔ ابومسہر نے کہا ہے کہ ولید مدلّس ہے۔ میں نے کہا‪:‬‬
‫قابل اعتماد نہیں ہے لیکن جب‬
‫ِ‬ ‫جب ولید عن ابن جریج یا عن االوزاعی‪ Z‬کہے تو‬
‫حدثنا کہے تو مستند ہے اھ ملخصا ً۔ (ت)‬
‫دارالمعرفت بیروت ‪۴/۳۴۷ ،‬۔‪)۳۴۸‬‬ ‫(‪ ؎۲‬میزان االعتدال فی ترجمۃ ولیدبن مسلم ‪۹۴۰۵‬‬
‫ُ اّل‬
‫م جی! ؃‬
‫دربساط نکتہ داناں خود فروشی شرط نیست‬
‫یا سخن دانستہ گو اے مرد غافل یاخموش‬
‫(نکتہ دانوں کی مجلس میں اپنے آپ کو بیچ دینا ضروری نہیں ہے اے مرد ِ غافل!‬
‫یا تو سوچ سمجھ کر بات کریاخاموش رہ ) تم نے جاناکہ آپ کے کید پر کوئی‬
‫آگاہ نہ ہ وگا ذرا بتائیے تاکہ آپ نے ولید کا ولید بن قاسم کس دلیل سے متعین‬
‫کرلیا‪ ،‬کیا اس طبقہ میں اس نام کا رواۃ نسائی میں کوئی اور نہ تھا اگر اب عاجز‬
‫آکر ہم سے پوچھنا ہوکہ تم نے ولیدبن مسلم کیسے جانا اوّل تو بقانون مناظرہ‬
‫جب آپ غاصب منصب ہیں ہم سے سوال کا محل نہیں اور استفاد ًۃ پُوچھو تو پہلے‬
‫اپنی جزاف کا صاف صاف اعتراف کرو پھر شاگردی کیجئے تو ایک یہی کیا بعون ٖہ‬
‫تعالٰی بہت کچھ سکھادیں وہ قواعد بتادیں جس سے اسمائے مشترکہ میں اکثر‬
‫جگہ تعین نکال سکو۔ ثانیا‪ :‬بفرض غلط ابن قاسم ہی سہی پھر وہ بھی کب‬
‫مستحق َرد ہیں امام احمد نے اُن کی توثیق فرمائی‪ ،‬اُن سے روایت کی‪ ،‬محدثین‬ ‫ِ‬
‫ابن عدی نے کہا‪ :‬اذاروی عن ثقۃ فالباس بہ ‪( ؎۱‬وہ‬ ‫۔‬‫لکھو‬ ‫حدیث‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ن‬‫کو حکم دیا کہ ا ُ‬
‫ِ‬
‫جب کسی ثقہ سے روایت کریں تو اُن میں کوئی عیب نہیں) اور ابن جابر کا ثقہ‬
‫ہونا خود ظاہر۔‬
‫مطبوعہ المکتبۃ االثریۃ سانگلہ ہل‬ ‫فی ترجمۃ ولیدا بن قاسم‬ ‫(‪ ؎۱‬الکامل البن عدی‬
‫‪)۲۵ ،۷/۴۵‬‬
‫ثالثا‪ :‬ذرا رواۃ صحیح بخاری ومسلم پر نظر ڈالے ہُوئے کہ اُن میں کتنوں عــہ‬
‫کی نسبت تقریب میں یہی صدوق یخطئ بلکہ اس سے زائد کہا ہے کیا قسم‬
‫کھائے بیٹھے ہوکہ صحیحین کا َرد ہی کردوگے!‬
‫ً ٰ‬
‫عــہ مثال اسمعیل بن مجالد‪ ،‬اشھل بن حاتم‪ ،‬بشربن عبیس‪ ،‬حارت بن عبید‪ 5،‬حبیب بن ابی حبیب‪ ،‬حجاج بن ابی زینب‪5،‬‬
‫ہّٰلل‬
‫حسان بن ابرھیم‪ ،‬حسان بن حسان بصری‪ ،‬حسان بن عبدا کندی‪ ،‬حسن بن بشربن سلم‪ ،‬حسن بن ذکوان ورمی بالقدر‪،‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫خالد بن خداش‪ ،‬خالد بن عبدالرحمن السلمی‪ 5،‬شریک بن عبدا بن ابی بر‪ ،‬عبدالرحمن‪ 5‬بن عبدا بن دینار‪5،‬‬
‫ہّٰلل‬
‫عبدالمجیدبن عبدالعزیز‪ ،‬مسکین بن بکیر‪ ،‬معقل بن عبیدا وغیرھم ان سب پر وہی حکم صدوق یخطئ لگایا ہے‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫خلیفۃ بن خیاط‪ 5،‬عبداہلل بن عمر نمیری‪،‬عبدالرحمن‪ 5‬بن حرملہ اسلمی‪ ،‬عبدالرحمن‪ 5‬بن عبدا بن عبید‪ ،‬یحيی بن ابی‬
‫ٰ‬
‫اسح ق حضرمی وغیرھم صدوق ربما اخطأ ہیں‪ ،‬اب زیادہ کی بعض مثالیں لیجئے حجاج بن ارطاۃ صدوق کثیر الخطاء‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫والتدلیس‪ 5،‬شریک بن عبدا نخعی صدوق یخطئ کثیرا تغیر حفظہ‪ ،‬صالح بن رستم المزنی صدوق کثیرالخطاء‪ ،‬عبدا‬
‫بن صالح صدوق کثیرالغلط ثبت فی کتابہ وکانت فیہ غفلۃ‪ ،‬فلیح بن سلیمان‪ 5‬صدوق کثیرالخطاء‪ ،‬مطرالوراق صدوق‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫کثیرالخطاء وحدیثہ عن عطاء ضعیف‪ ،‬نعیم بن حماد صدوق یخطئ کثیرا ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م)‬
‫ً‬
‫رابعا‪ :‬صحیح بخاری میں حسان بن حسان بصری سے روایت کی تقریب میں انہیں صدوق یخطئ ‪؎۱‬‬
‫مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ‬ ‫(‪ ؎۱‬تقریب التہذیب فی ترجمہ ابن حسان الواسطی‬
‫گوجرانوالہ ص‪)۶۸‬‬
‫پھر حسان بن حسان واسطی کی نسبت لکھا خلطہ ابن مندۃ بالذی قبل فوھم‪ ،‬وھذا ضعیف ‪؎۲‬‬
‫مطبوعہ دارنشر الکتب‪ Z‬االسالمیہ‬ ‫(‪ ؎۲‬تقریب التہذیب فی ترجمہ ابن حسان الواسطی‬
‫گوجرانوالہ ص‪)۶۸‬‬
‫(ابن مندہ نے اسے پہلے کے ساتھ مالدیا ہے یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ یہ‬
‫ضعیف ہے۔ ت) دیکھو صاف بتادیا کہ جسے صدوق یخطی کہا وہ ضعیف نہیں‪،‬‬
‫ماّل جی اپنی جہالت سے مردود واہیات گارہے ہیں۔‬
‫ُ‬
‫سی بن ابان بطریق عطاف عن‬ ‫لطیفہ ‪ :۵‬حدیث صحیح نسائی وطحاوی‪ Z‬وعی ٰ‬
‫نافع کو عطاف سے معلول کیا ف کہ وہ وہمی ہے کہا تقریب میں صدوق یھم۔‬
‫ص ‪)۳۹۶‬‬ ‫( ف‪ ،‬معیار الحق‬
‫اقول اوّال‪:‬عطاف کو امام احمد وامام ابن معین نے ثقہ کہا وکفی بھما قدوۃ میزان‬
‫سر منقول نہیں۔‬‫میں ان کی نسبت کوئی جرح مف ّ‬
‫ثانیاً‪:‬کسی سے پڑھو کہ وہمی اور صدوق یھم میں کتنا فرق ہے۔‬
‫ثالثاً‪ :‬صحیحین سے عداوت کہاں تک بڑھے گی تقریب مالحظہ ہوکہ آپ کے وہم‬
‫کے ایسے وہمی عـــہ اُن میں کس قدر ہیں۔‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫عــہ‪ :‬مثل ابرھیم بن یوسف بن اسحاق‪ ،‬اسامہ بن زید اللیثی‪ 5،‬اسمعیل‪ 5‬بن عبدالرحمن السدی‪ ،‬ایمن بن نابل‪ ،‬جابربن‬
‫ٰ‬
‫عمرو‪ ،‬جبربن‪ 5‬نوف‪ ،‬حاتم بن اسمعیل‪ 5،‬حرب بن ابی العالیہ‪ ،‬حرمی بن عمارہ‪ ،‬حزم بن ابی حزم‪ ،‬حسن بن الصباح‪ ،‬حسن بن‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫فرات‪ ،‬حمیدبن زیاد‪ ،‬ربیعہ بن کلثوم‪ ،‬عبدا بن عبدا بن اویس وغیرھم سب صدوق یھم ہیں احوص بن جواب‪ ،‬حمزہ‬
‫بن جیب زیات امام قراء ت‪ ،‬معاذ بن ھشام‪ ،‬عاصم بن علی بن عاصم وغیرھم سب صدوق ربما وھم بلکہ عطاء بن ابی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫مسلم صدوق یھم کثیرا ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م)‬

‫رابعاً‪ :‬بالفرض یہ سب رواۃ مطعون ہی سہی مگر جب بالیقین اُن میں کوئی‬
‫بھی درجہ سقوط میں نہیں تو تعدّد طرق سے پھر حدیث حجت تامہ ہے ولکن‬
‫الوھابیۃ قوم یجھلون (لیکن وہابی جاہل لوگ ہیں۔ ت)‬
‫لطیفہ ‪ :۶‬آپ کے امتحان علم کو پُوچھا جاتا ہے کہ روایت طحاوی حدثنا فھد ثنا‬
‫الحمانی ثنا ابن المبارک عن اسامۃ بن زید اخبرنی نافع میں آپ نے کہاں سے‬
‫معین کرلیا کہ یہ اُسامہ بن زید عدوی مدنی ضعیف الحافظ ہے‪ ،‬اسی طبقہ سے‬
‫سنن اربعہ وتعلیقات‬
‫اسامہ بن زید لیثی مدنی بھی توہے کہ رجال صحیح مسلم و ُ‬
‫بخاری سے ہے جسے یحیٰی بن معین نے کہا‪ :‬ثقہ ‪ ؎۱‬ہے۔‬
‫‪۱/۱۷‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت‬ ‫ترجمہ اسامہ بن زید اللیثی ‪۷۰۵‬‬ ‫(‪ ؎۱‬میزان االعتدال‬
‫‪)۴‬‬
‫ثقہ صالح ہے ثقہ حجت ہے دونوں ایک طبقہ ایک شہر ایک نام کے ہیں اور دونوں‬
‫نافع کے شاگرد‪ ،‬پھر منشاء تعیين کیا ہے اور آپ کی تو شاید اس سوال میں بھی‬
‫وقت پڑے کہ کہاں سے مان لیا کہ یہ حمانی حافظ کبیر یحیٰی بن عبدالحمید‬
‫صاحب مسند ہے جس کی جرح آپ نے نقل کی اور امام یحیٰی بن معین وغیرہ کا‬
‫ثقہ اور ابن عدی کا ارجو انہ الباس ‪ ؎۲‬بہ (مجھے امید ہے اس میں کوئی حرج‬
‫نہیں۔ ت)‬
‫مطبوعہ دارالمعرفۃ‬ ‫ترجمہ یحیٰی بن عبدالحمید الحمانی ‪۹۵۶۷‬‬ ‫(‪ ؎۲‬میزان االعتدال‬
‫بیروت ‪)۴/۳۹۲‬‬
‫اور ابن نمیر کا ھواکبر من ھؤالء کلھم‪ ،‬فاکتب عنہ (وہ ان سب سے بڑا ہے‪ ،‬اس لئے‬
‫میں اس سے حدیث لکھتا ہوں۔ ت) کہنا چھوڑ دیا اسی طبقہ تاسعہ سے اُس کا‬
‫والد عبدالحمید بن عبدالرحمن بھی توہے کہ رجال صحیحین سے ہے اور دونوں‬
‫حمانی کہالئے جاتے ہیں کمافی التقریب۔‬
‫لطیفہ ‪ :۷‬روایات نسائی بطریق کثیر بن قار وَندا عن سالم عن ابیہ میں جھُوٹ‬
‫کو بھی کچھ گنجائش نہ ملی تو اُسے یوں کہہ کر ٹاالکہ وہ شاذ ہے ف اس لئے‬
‫کہ مخالف ہے روایات شیخین وغیرہما کے وہ ارجح ہیں سب سے باالتفاق اور‬
‫مقدم ہوتی ہیں سب پر جب کہ موافقت اور نسخ نہ بن سکے۔‬
‫ص‪)۳۹۷‬‬ ‫(ف معیار الحق‬
‫منہ سے لیتے اور اُن کی احادیث کو ارجح کہتے‬ ‫اقول اوّال‪ :‬شیخین کا نام کس ُ‬
‫ہ و یہ وہی شیخین تو ہیں جو محمد بن فضیل سے حدیثیں التے ہیں جسے تمہارے‬
‫نزدیک رافضی‪ Z‬کہاگیا اور حدیثوں کا پلٹ دینے واال اور موقوف کو مرفوع کردینے‬
‫کا عادی تھا۔‬
‫ثانیا ثالثا رابعا‪ :‬یہ وہی شیخین توہیں جن کے یہاں سب کے خالف حدیثیں النے‬
‫والے حدیثوں میں خطا کرنے والے وہمی کئی درجن بھرے ہُوئے ہیں۔‬
‫خامساً‪:‬مخالف شیخین کا دعوٰی محض باطل ہے جیسا کہ بعون ٖہ تعالٰی عنقریب‬
‫ظاہر ہوتا ہے۔‬
‫ماّل جی نے جوجو چاالکیاں بیباکیاں‬ ‫لطیفہ ‪ :۸‬اس حدیث جلیل صحیح کے َرد میں ُ‬
‫برتیں ا ُن کا پردہ تو فاش ہوچکا‪ ،‬جابجا ثقات کو مجروح فرمایا‪ ،‬رواۃ بخاری‬
‫ومسلم کو مردود ٹھہرایا‪ ،‬حدیث موصول کو معلق بنایا‪ ،‬متابعات سے آنکھیں بند‬
‫نقل عبارت میں خیانتیں کیں‪ ،‬معانی میں تحریف کی راہیں لیں‪ ،‬راوی کو‬ ‫ِ‬ ‫کرلیں‪،‬‬
‫مخالفت‬
‫ِ‬ ‫ً‬
‫کچھ سے کچھ بنالیا‪ ،‬مشترک کو جزافا معین کردیا جہاں کچھ نہ بن پڑا‬
‫شیخین کا اعادہ کیا‪ ،‬اب خود حدیث صحیح بخاری شریف کو کیا کریں رجال‬
‫بخاری کو َرد کردینا اور بات تھی کہ عوام کو ان کی کیا خبر‪ ،‬مگر خود حدیث‬
‫بخاری کا نام لیکر َرد کرنے میں سخت مشکل پیش نظر‪ ،‬لہذا یہ چال چلے کہ الؤ‬
‫اسے بزورِ زبان وزورِ بہتان اپنے موافق بنالیجئے اس لئے حدیث مذکور باب ھَل‬
‫یوذن او یقیم کا ایک ٹکڑا جس میں وہ تین میل چل کر مغرب پڑھنے کا ذکر تھا‬
‫اپنے ثبوت کی احادیث میں نقل کرکے فرمایا ف‬
‫ص ‪)۳۷۵‬‬ ‫(ف۔ معیار الحق‬
‫یہ بات ادنٰی عاقل بھی جانتا ہے کہ بعد دخول وقت مغرب کے دوتین کوس‬
‫مسافت چلیں تو اتنے میں شفق غائب ہوجاتی ہے اور وقت عشا کا داخل ہوجاتا‬
‫ہے۔‬
‫اوّالً‪:‬میل کا کوس بنایا کہ کچھ دیر بڑے دو‪ ۲‬میل کا تو سواہی کوس ہوا‪ ،‬اور تین‬
‫ہی لیجئے جب بھی دو‪ ۲‬کوس پُورے نہیں پڑتے۔‬
‫اقول‪:‬فریب عوام کو چاالکی یہ کی کہ حدیث کا ترجمہ نہ کیا دوتین کوس‬
‫ِ‬ ‫ثانیا ً‬
‫مسافت چلیں لکھ دیا کہ جاہل سمجھیں غروب کے بعد پیادہ تین کوس چلے ہوں‬
‫ترجمہ کرتے تو کھُلتا کہ سوار تھے اور کیسی سخت جلدی کی حالت میں تھے ہم‬
‫نے حدیث ابوداؤد سے نقل کیا کہ اُنہوں نے اُس دن سہ‪ ۳‬منزلہ فرمایا تو صرف‬
‫میل بھر یا اُس سے بھی کم چلنے کی دیر رہ گئی اگر پیادہ ہی چلئے تو اتنی دیر‬
‫وقت عشاء نہیں آتا تو حدیث سے مغرب کا وقت مغرب ہی میں پڑھنا‬ ‫ِ‬ ‫میں ہرگز‬
‫پیدا تھا جسے صاف کایا پلٹ کردیا مکہ معظمہ اور اُس کے حوالی میں جن کا‬
‫غروب شمس سے انحطاط حہ (کچھ لکھنا ہے)‬ ‫ِ‬ ‫عرض مابین کا حہ اـلت حہ ہے‬
‫تک ہر موسم میں ایک ساعت فلکیہ سے زیادہ وقت رہتا ہے اور پھر مدینہ طیبہ‬
‫کی طرف جنتے بڑھیے وقت بڑھتا جائے گا کماالیخفی علی العارف بالھیأۃ (جیسا کہ‬
‫علم ِ ہیئت جاننے والے پر ظاہر ہے۔ ت) تو غروب سے گھنٹے بھر بعد بھی نمازِ‬
‫مغرب وقت میں ممکن‪ ،‬آپ کے نزدیک جبکہ دو‪ ۲‬میل چلنے میں عشاء آجاتی ہے‬
‫تو الزم کہ اتنی مسافت میں ایک گھنٹے سے زیادہ صرف ہونا واجب ہو‪ ،‬اور امام‬
‫من غنی رضی‬ ‫مالک مؤطا میں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت امیرالمؤمنین عث ٰ‬
‫اللہ تعالٰی عنہ مدینہ طیبہ میں نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر سوار ہوئے اور موضع‬
‫ملَل میں عصر کیلئے اُترے ۔‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫مالک عن عمروبن یحيی المازنی عن ابن ابی سلیط ان عثمن بن عفان صلی الجمعۃ بالمدینۃ‬
‫وصلی العصر بملل ‪؎۱‬۔‬
‫(‪ ؎۱‬مؤطا امام مالک وقوت الصلواۃ‪ ،‬وقت الجمعۃ مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص‬
‫‪)۶‬‬
‫مالک‪ ،‬عمروبن یحیٰی المازنی سے‪ ،‬وہ ابن سلیط سے راوی کہ عثمان ابن عفان‬
‫ملَل میں۔ (ت)‬
‫نے جمعہ مدینہ میں پڑھا اور عصر َ‬
‫ل مدینہ طیبہ سے سترہ‪ ۱۷‬میل ہے کمافی النھایۃ ‪( ؎۲‬جیسا کہ نہایۃ میں ہے۔‬‫مل َ َ‬
‫ت)‬
‫‪)۴/۳۶۲‬‬ ‫ملَل مطبوعہ المکتبۃ االسالمیہ ریاض‬
‫(‪ ؎۲‬النہایۃ البن اثیر المیم مع الالم لفظ َ‬
‫بعض نے کہا اٹھارہ‪ ۱۸‬میل کماحکاہ الزرقانی (جیسا کہ زرقانی نے بیان کیا ہے۔ ت)‬
‫ابن وضاح نے کہا بائیس‪ ۲۲‬میل کمانقلہ ابن رشیق عن ابن وضاح ‪( ؎۱‬جیسا کہ ابن‬
‫رشیق نے ابن وضاح سے نقل کیا ہے۔ ت)‬
‫مطبوعہ المکتبۃ‬ ‫زیرِ حدیث مذکور‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح الزرقانی علی المؤطا المام مالک‬
‫‪)۱/۲۶‬‬ ‫الکبری مصر‬
‫ٰ‬ ‫التجاریۃ‬
‫نسخ مؤطا میں خود امام مالک سے اسی کی تصریح ہے‬ ‫ِ‬ ‫بلکہ بعض‬
‫قال مالک وبینھما اثنان وعشرون میال (مالک نے کہا ہے کہ دونوں کے درمیان بائیس‪۲۲‬‬
‫میل کا فاصلہ ہے۔ ت) وہ سترہ‪ ۱۷‬ہی میل سہی آپ کے طور پر کوئی رات کے‬
‫نودس بجے تک عصرکا وقت رہا ہوگا کہ جمعہ پڑھنے سے آٹھ نو گھنٹے بعد‬
‫امیرالمومنین نے عصر اداکی‪ Z‬کہ مدینہ طیبہ اور اس کے حوالی میں جن کا عرض‬
‫الہ حہ سے زائد نہیں مقدار نہار روز تحویل سرطان بھی صرف ح ت لح وّ ہے‬
‫کماالیخفی علی من یعلم استخراج طول النھار من عرض البالد (جیسا کہ اس شخص پر‬
‫مخفی نہیں ہے جو عرض بالد سے دن کی لمبائی کا استخراج کرسکتا ہو۔ ت)‬
‫ثالثا اقول‪:‬اسی لئے خود آخر حدیث بخاری میں مذکور تھا کہ مغرب کے بعد کچھ‬
‫دیر انتظار کرکے عشاء پڑھی اگر خود عشاءہی کے وقت میں مغرب پڑھتے تو‬
‫ایسی جلدی واضطراب شدید کی حالت میں اب عشاء کیلئے انتظار کس بات کا‬
‫تھا یہ ٹکڑا حدیث کا ہضم کرگیا کہ بھرم کھُلتا۔‬
‫رابعا اقول‪:‬آپ تو اسی بحث میں فرماچکے کہ تعلیقات حجت نہیں صحیح بخاری‬
‫میں یہ ٹکڑا جو آپ اپنی سند بناکر نقل کررہے ہیں تعلیقا ً ہی مذکور تھا اصل‬
‫حدیث بطریق حدثنا ابوالیمان قال اخبرنا شعیب عن الزھری ذکر کی جس میں‬
‫آپ کے اس مطلب کا کُچھ پتانہ تھا اس کے بعد یہ ٹکڑا تعلیقا ً بڑھایا کہ وزاد‬
‫اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شہاب‪ ،‬اب تعلیق کیوں حجت ہوگئی‪ ،‬وہاں تو‬
‫آخر حدیث کو ہضم کیا تھا یہاں اول کالم تناول فرمایا کہ اپنا عیب نہ ظاہر ہو۔‬
‫خامسا اقول‪ :‬آپ تو رادی کو اس کے وہم وخطا بلکہ صرف اغراب پر َرد فرماتے‬
‫ہیں اگرچہ رجال بخاری ومسلم سے ہو‪ ،‬اب یہ تعلیق کیونکر مقبول ہوگئی اس‬
‫میں زہری سے راوی یونس بن یزید ہیں جنہیں اسی تقریب میں فرمایا‪ :‬ثقۃ اال ان‬
‫فی روایتہ عن الزھری وھما قلیال وفی غیرالزھری خطا ‪؎۲‬۔ ہیں تو ثقہ مگر زہری سے ان کی‬
‫روایت میں کچھ وہم ہے اور غیر زہری سے روایت میں خطا۔‬
‫ص‪)۲۸۷‬‬ ‫مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی‬ ‫حرف الیاء‬ ‫(‪ ؎۲‬تقریب التہذیب‬
‫اثرم نے کہ ا‪ :‬ضعف احمد امریونس (امام احمد نے یونس کا کام ضعیف بتایا)‬
‫امام ابن سعدنے کہا‪ :‬لیس بحجۃ (یونس قابل احتجاج نہیں) امام وکیع بن الجراح‪Z‬‬
‫نے کہا‪ :‬سیئ الحفظ (یونس کا حافظہ بُرا ہے) یوں ہی امام احمد نے ان کی کئی‬
‫حدیثوں کو منکر بتایا کل ذلک فی المیزان ؎‪( ۱‬یہ سب میزان میں ہے۔ ت)‬
‫‪)۴/۴۸۴‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت‬ ‫(‪ ؎۱‬میزان االعتدال حرف الیاء ‪۹۹۲۴‬‬
‫تنبیہ‪ :‬یہ ہم نے آپ کا ظلم وتعصب ثابت کرنے کو آپ کی طرح کالم کیا ورنہ‬
‫ہمارے نزدیک نہ تعلیق مطلقا ً مردود نہ یونس ساقط نہ وہم وخطا جب تک فاحش‬
‫نہ ہوں موجب رد نہ یہ حدیث بخاری اصال ً تمہارے موافق بلکہ صراح ًۃ ہمارے مؤید‬
‫وبالل ّٰہ التوفیق چند اوہام یا کُچھ خطائیں محدّث سے صادر ہونا نہ اُسے ضعیف‬
‫کردیتا ہے نہ اُس کی حدیث کو مردود نہ وہ کہتے ہیں جو بالکل پاک صاف گزر‬
‫گئے ہیں‪ ،‬یہ ہیں تمام محدثین کے امام االئمہ سفیٰن بن عینیہ جنہوں نے زہری سے‬
‫روایت میں بیس‪ ۲۰‬سے زیادہ حدیثوں میں خطا کی امام احمد رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہ فرماتے ہیں مجھ میں اور علی بن مدینی میں مذاکرہ ہوا کہ زہری سے روایت‬
‫میں ثابت ترکون ہے‪ ،‬علی نے کہا سفیٰن بن عینیہ‪ ،‬میں نے کہا امام مالک کہ ان‬
‫کی خطا سفیٰن کی خطاؤں سے کم ہے قریب بیس‪ ۲۰‬حدیثوں کے ہیں جن میں‬
‫سفیٰن نے خطا کی پھر میں نے اٹھارہ گِنا دیں اور اُن سے کہا آپ مالک کی‬
‫خطائیں بتائیں وہ دوتین حدیثیں الئے پھر جو میں نے خیال کیا تو سفیٰن نے بیس‬
‫‪ ۲۰‬سے زیادہ حدیثوں میں خطاکی ہے ‪ ؎۲‬ذکرہ فی المیزان (اسے میزان میں‬
‫ذکر کیاگیا ہے۔ ت)‬
‫ترجمہ سفیان بن عینیہ ‪ ۳۳۲۷‬مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ‪)۲/۱۷۰‬‬ ‫(‪ ؎۲‬میزان االعتدال‬
‫بااینہمہ امام سفیٰن کے ثقہ ثبت حجت ہونے پر علمائے اُمت کا اجماع ہے۔‬
‫ماّل جی کی یہ ساری کارگزاریاں حیاداریاں حدیث صحیح عبداللہ بن‬
‫ُ‬ ‫لطیفہ ‪:۹‬‬
‫ٰ‬
‫عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے متعلق تھیں حدیث ام المؤمنین صدّیقہ رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہ ا مروی امام طحاوی ونیز امام احمد وابن ابی شیبہ استاذان بخاری‬
‫ومسلم کے َرد کو پھر وہی معمولی شگوفہ چھوڑا ف کہ ایک راوی اس کا مغیرہ‬
‫بن زیادہ موصلی ہے اور یہ مجروح ہے کہ وہمی تھا قالہ الحافظ التقریب۔‬
‫ص ‪)۴۰۱‬‬ ‫(ف معیار الحق‬
‫اقول اوّال‪ :‬تقریب میں صدوق کہاتھا وہ صندوق میں رہا۔‬
‫ثانیا‪ :‬وہی اپنی وہمی نزاکت کہ لہ اوھام کو وہمی کہنا سمجھ لیا۔‬
‫ثالثا‪ :‬وہی صحیحین سے پُرانی عداوت تقریب دُور نہیں دیکھئے تو کتنے رجال‬
‫چا ہے‪ ،‬اس کے اوہام ہیں ت) کہا‬‫عـــہ بخاری ومسلم کو یہی صدوق لہ اوھام (س ّ‬
‫ہے۔‬
‫ُ‬
‫عـــہ‪ :‬صدوق یھم وصدوق ربماوھم‪ 5‬کی بکثرت مثالیں اوپر گزرچکیں مگر باتباع لفظ خاص امثلہ سنیے احمد بن بشیر‪،‬‬
‫ٰ‬
‫حسن بن خلف‪ ،‬خالد بن یزید بن زیاد‪،‬رباح بن ابی معروف‪ 5،‬ربیع بن انس ورمی بالتشیع‪ ،‬ربیع بن یحيی‪ ،‬ربیعہ بن عثمان‪ ،‬زکریا‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫بن یحيی بن عمر‪ ،‬سعید بن زید بن درھم‪ ،‬سعید بن عبدالرحمن‪ 5‬جمحی‪ ،‬شجاع بن الولید‪ ،‬مسلمہ بن علقمہ‪ ،‬مصعب بن‬
‫المقدام‪ 5،‬معاویہ بن صالح‪ ،‬معاویہ بن ھشام‪ ،‬ھشام بن حجیر‪ ،‬ھشام بن سعد ورمی بالتشیع اور ان کے سوا اور کہ سب‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫صدوق لہ اوھام ہیں احمد بن ابی الطیب وغیرہ صدوق لہ اغالط ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م)‬

‫رابعا‪ :‬مغیرہ رجال سنن اربعہ سے ہے امام ابن معین وامام نسائی دونوں‬
‫صاحبوں نے بآں تشدد شدید فرمایا‪ :‬لیس بہ باس (اس میں کوئی بُرائی نہیں) زاد‬
‫یحيٰی لہ حدیث واحد منکر (اُس کی صرف ایک حدیث منکر ہے) الجرم وکیع نے‬
‫ثقہ‪ ،‬ابوداؤد نے صالح‪ ،‬ابن عدی نے عندی الباس بہ ‪( ؎۱‬میرے نزدیک اس میں‬
‫کوئی نقص نہیں ہے۔ ت) کہا تو اس کی حدیث حسن ہونے میں کالم نہیں اگرچہ‬
‫درجہ صحاح پر بالغ نہ ہو جس کے سبب نسائی نے لیس بالقوی (اُس درجے کا‬
‫قوی نہیں ہے۔ ت) ابو احمد حاکم نے لیس بمتین عندھم ‪( ؎۲‬اس درجے کا متین‬
‫نہیں ہے ان کے نزدیک۔ ت) کہا ال انہ لیس بقوی لیس بمتین وشتان مابین العبارتین (نہ یہ‬
‫کہ سرے سے قوی اور متین نہیں ہے‪ ،‬ان دو عبارتوں میں بہت فرق ہے۔ ت)‬
‫حافظ نے ثقہ سے درجہ صدوق میں رکھا اس قسم کے رجال اسانید صحیحین‬
‫میں صدہا ہیں۔‬
‫‪۴‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت‬ ‫ترجمہ مغیرہ بن زیاد موصلی ‪۸۷۰۹‬‬ ‫(‪ ؎۱‬میزان االعتدال‬
‫‪)/۱۶۰‬‬
‫‪۴‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت‬ ‫ترجمہ مغیرہ بن زیاد موصلی ‪۸۷۰۹‬‬ ‫(‪ ؎۲‬میزان االعتدال‬
‫‪)/۱۶۰‬‬
‫لطیفہ ‪ :۱۰‬حدیث موال علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم مروی سنن ابی داؤد‬
‫کے رد کو طرفہ تماشا کیا مسند ابی داؤد میں یوں تھا‪:‬‬
‫ہّٰلل‬
‫قال اخبرنی عبدا بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب عن ابیہ عن جدہ ان علیا کان اذاسافر‬
‫الحدیث ‪؎۳‬۔‬
‫‪)۱/۱۷۳‬‬ ‫مطبوعہ آفتاب عالم پریس۔ الہور‬ ‫(‪ ؎۳‬سنن ابی داؤدباب یتم المسافر‬
‫جس کا صاف صریح حاصل یہ تھا کہ عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی اپنے والد‬
‫محمد سے راوی ہیں اور وہ ان کے دادا یعنی اپنے والد عمر سے کہ ان کے والد‬
‫ماجد مولٰی علی نے جمع صوری خود بھی کی اور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم سے بھی روایت فرمائی۔‬
‫ابیہ اور جد ّہ دونوں ضمیریں عبداللہ کی طرف تھیں حضرت نے بزور زبان ایک‬
‫ضمیر عبداللہ دوسری محمد کی طرف قرار دے کر یہ معنی ٹھہرائے ف ‪ ۱‬کہ‬
‫عبداللہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ محمد سے اور وہ محمد اپنے دادا‪ Z‬علی سے۔‬
‫اور اب اس پر اعتراض‪ Z‬جڑ دیا کہ محمد کو اپنے دادا علی سے مالقات نہیں تو‬
‫مرسل ہُوئی اور مرسل حجت نہیں۔ قطع نظر اس سے کہ مرسل ہمارے اور‬
‫جمہور ائمہ کے نزدیک حجت ہے ایمان سے کہنا کہ ان ڈھٹائیوں سے صحیح وثابت‬
‫حدیثوں کو َرد کرنا کون سی دیانت ہے‪،‬‬
‫ص‪)۴۰۱ ،۴۰۰‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معیار الحق‬
‫میں کہتا ہوں آپ نے ناحق اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف‬
‫مرسل بنایا حدیثوں کو َرد کرنا کون سی دیانت ہے‪ ،‬میں کہتا ہوں آپ نے ناحق‬
‫اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف مرسل بنایا حیا ودیانت کی ایک‬
‫ادنٰی جھلک میں بھی باطل وموضوع ہوئی جاتی تھی اور بات بھی مدلل ہوتی کہ‬
‫ضمیر اقرب کی طرف پھرتی ہے اور ابیہ سے اقرب ابوطالب اور جد ّہ سے اقرب‬
‫ابیہ تو معنی یوں کہے ہوتے کہ عبداللہ نے روایت کی ابوطالب کے باپ حضرت‬
‫عبدالمطلب سے اور عبدالمطلب نے اپنے دادا عبد مناف سے کہ موال علی نے‬
‫جمع صوری کی‪ ،‬اب ارسال بھی دیکھئے کتنا بڑھ گیا کہ موال علی کے پرپوتے‬
‫موال علی کے دادا سے روایت کریں اور حدیث صراح ًۃ موضوع بھی ہوگئی کہ‬
‫کہاں عبدالمطلب وعبد مناف اور کہاں مولٰی علی سے روایت حدیث مفید احناف‬
‫والحول والقوۃ ااّل باللہ العلی العظیم۔‬
‫مسلمانو! دیکھا یہ عمل بالحدیث کا جھُوٹا دعوٰی کرنے والے جب صحیح حدیثوں‬
‫کے رد کرنے پر آتے ہیں تو ایسی ایسی بددیانتیوں بے غیرتیوں بیباکیوں چاالکیوں‬
‫پس پشت ڈال کر ایک ہانک بولتے ہیں کہ سب واہیات‬ ‫ِ‬ ‫سے صحیح بخاری کو بھی‬
‫اور مردود ف‪ ۲‬ہیں انّالل ّٰہ وانّا الیہ راجعون۔‬
‫(ف ‪ ۲‬معیارالحق ص ‪)۳۹۶‬‬
‫افادہ ثانیہ‪ :‬احادیث وطرق پر نظرِ انصاف فرمائیے تو ارادہ جمع صوری پر‬
‫متعدد قرائن پائیے مثال‪:‬‬
‫(‪ )۱‬یہ کہ احادیث جمع بین الصالتین کے راویوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں کما سیأتی فی الحدیث التاسع من االفادۃ الرابعۃ (جیسا کہ افادہ‬
‫رابعہ کی نویں حدیث میں آرہا ہے۔ ت) حاالنکہ یہی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫فرماتے ہیں کہ انہوں نے عرفات ومزدلفہ کے سوا کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید‬
‫عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو نمازیں جمع فرمائی ہوں کماسیأتی تحقیقہ‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫فی الفصل الرابع ان شاء ا تعالی (اس کی تحقیق اِن شاء اللہ تعالٰی چوتھی فصل میں‬
‫آئے گی۔ ت) تو ضرور ہے کہ روایت جمع سے جمع صوری مراد ہو۔‬
‫(‪ )۲‬اقول‪ :‬خود حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی جمع کرنا مروی ہوا‬
‫حاالنکہ ان کا مذہب معلوم کہ جمع حقیقی کو منسک حج کے سوا ناجائز جانتے۔‬
‫ماّل جی نے اُن پندرہ‪ ۱۵‬صحابیوں میں جن کی نسبت دعوٰی کیا کہ‬ ‫(‪ )۳‬اقول‪ُ :‬‬
‫انہوں نے جمع بین الصالتینحضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت‬
‫کی سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی گِنا حاالنکہ اُن کا بھی مذہب‬
‫وہ ی منع جمع ہے ان دونوں صحابی جلیل الشان کا یہ مذہب ہونا خود امام‬
‫شافعی المذہب امام ابوالعزیز یوسف بن رافع اسدی حلبی شہیر بابن شداد‬
‫متوفی ‪۶۳۱‬ھ نے کتاب دالئل االحکام میں ذکر فرمایا‪:‬‬
‫کمافی عمدۃ القاری لالمام البدر العینی عن التلویح شرح الجماع الصحیح لالمام عالء الدین‬
‫المغلطائی عن دالئل االحکام البن شداد۔‬
‫جیسے کہ امام بدرالدین عینی‪ Z‬نے تلویح سے نقل کیا جوکہ امام عالء الدین‬
‫المغلطائی کی کتاب الجامع الصحیح کی شرح ہے اور انہوں نے ابن شداد کی‬
‫(کتاب) دالئل االحکام سے نقل کیا ہے۔ (ت)‬
‫تو مراد وہی جمع صوری ہوگی جیسا کہ خود اُن کے فعل سے مروی ہوا کماتقدم‬
‫فی الحدیث الرابع (جیسا کہ حدیث ‪ ۴‬میں گزرا۔ ت)‬
‫(‪ )۴‬اقول‪ :‬بہت زور شور سے جمع کے راوی‪ Z‬حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہما گنے جاتے ہیں وسیأتی بعض روایاتہ فی الحدیث االول والباقی فی الفصل الثالث ِان‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫شاء ا تعالی (عنقریب حدیث اول کے تحت ان سے بعض مرویات کا ذکر آئےگا‬
‫اور بقیہ کا ذکر فصل ثالث میں آئے گا اِن شاء اللہ تعالٰی۔ ت) حاالنکہ وہ خود‬
‫ٰ‬
‫ے مغرب وعشا کو ہّٰلل‬ ‫فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ن ٰ‬
‫سفر میں ایک بار کے سوا کبھی جمع نہ فرمایا کماسیأتی فی اخر الفصل الرابع ِان شاء ا‬
‫ٰ‬
‫ٰ‬
‫تعالی (جیسا کہ چوتھی فصل کے آخر میں آرہا ہے اِن شاء اللہ تعالی۔ ت) ظاہر ہے‬
‫کہ وہ بار حجۃ الوداع کی شب مزدلفہ تھی تو ضرور وہی جمع صوری منظور‬
‫روایات صحیحہ نے واضح کردیا جس کا بسط حدیث اوّل میں‬ ‫ِ‬ ‫جیسا کہ اُن کی‬
‫گزرا۔‬
‫(‪)۵‬اقول‪ :‬لُطف یہ کہ ان عبداللہ بن عمر سے قصہ صفیہ بنت ابی عبید میں‬
‫عشائین کا جمع جو مروی ہوا اُس کے جمع حقیقی ہونے پر بہت زور دیاجاتا ہے‬
‫حاالنکہ خود اُن کے صاحبزادے سالم کو اُس شب بھی اُن کے ہمراہ تھے صراح ًۃ‬
‫فرماچکے کہ حضرت عبداللہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ کی جیسا کہ‬
‫حدیث نسائی سے گزرا اور سالم کا اُس رات ساتھ ہونا وہیں حدیث بخاری سے‬
‫ظاہر ہوچکا قلت لہ‪ :‬الصالۃ‪ ،‬قال‪ :‬سر ‪؎۱‬۔ الحدیث (میں نے ان سے نماز کے متعلق‬
‫عرض کیا تو انہوں نے فرمایا‪ :‬سفر جاری رکھو۔ الحدیث۔ ت) تو قطعاًیقینا جمع‬
‫صوری ہی مراد ہے الجرم روایات مفسرہ نے تصریح فرمادی یہ نکتہ یاد رکھنے کا‬
‫ہے کہ بعون ٖہ تعالٰی بہت سے خیاالت مخالفین کا عالج کافی ہوگا۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب یصلی المغرب ثلثافی السفر‬ ‫(‪ ؎۱‬صحیح البخاری‬
‫‪)۱/۱۴۸‬‬
‫ٰ‬
‫(‪ )۶‬رواۃ جمع میں حضرت عبداہلل بن عباس رضی اہلل تعالی عنہما بھی ہیں کمایأتی فی الحدیث‬
‫الثانی (جیسا کہ دوسری حدیث میں آرہا ہے۔ ت) اور ان کی حدیث اِن شاء اللہ‬
‫آخر رسالہ میں آئے گی کہ دوسری‪ Z‬نماز کا وقت آنے سے پہلی فوت ہوجاتی ہے۔‬
‫(‪ )۷‬یوں ہی حضرت ابُو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی‪ Z‬جمع ہیں کمایجیئ فی‬
‫الحدیث الخامس (جیسا کہ پانچویں حدیث میں آئے گا۔ ت) اور ان کی حدیث بھی‬
‫بمشیۃ اللہ تعالٰی آنے والی ہے کہ نماز میں تفریط یہ ہے کہ ٰدوسری کا وقت آنے‬
‫تک پہلی کی تاخیر کرے افاد ھذین االمام الطحاوی فی شرح معانی االثار (یہ دونوں فائدے‬
‫امام طحاوی نے شرح معانی اآلثار میں بیان کئے۔ ت)‬
‫افادہ ثالثہ‪:‬اب کہ ماّل جی نے پیٹ بھر کر َرد ِ احادیث سے فراغت پائی عقل پر‬
‫عنایت کی باری آئی فرماتے ہیں‪ :‬ف جمع صوری سفر میں ازراہ عقل کے بھی‬
‫واہی ہے کہ جمع رخصت ہے اور جمع صوری مصیبت کہ آخر جز اور اوّل جز نماز‬
‫کا پہچاننا اکثر خواص کو نہیں ممکن چہ جائے عوام۔‬
‫(ف معیار الحق ص‪)۴۰۱‬‬
‫شامت ایام سے مقابلہ شیران حنفیہ میں آپھنسے وہ‬‫ِ‬ ‫اقول‪ :‬ماّل جی بیچارے جو‬
‫چوکڑی بھُولے ہیں کہ اپنی اجتہادی آزادی بھی یاد نہیں یاتو وہ جوش تھے کہ‬
‫ابوحنیفہ وشافعی کی تقلید حرام بدعت شرک یا اب جابجا ایک ایک مقلد مالکی‬
‫شافعی کے ٹھیٹ مقلد بنے ہیں رطب یا بس جہاں جو کچھ کالم کسی مقلد‬
‫کامل جاتا ہے اگرچہ کیسا ہی پوچ اور ضعیف ہو اللہ بسم اللہ کہہ کر اُسے آنکھوں‬
‫سے لگاتے سرپر رکھتے بے سمجھے بُوجھے ایمان لے آتے ہیں یہ اعتراض بھی‬
‫حضرت نے بعض مالکیہ وشافعیہ کی تقلید جامد کے صدقہ میں پایا ہے مگر شوخ‬
‫چشمی یہ کہ علمائے حنفیہ جو طرح طرح اس کی دھجیاں اُڑاچکے اُن سے ایک‬
‫کان گونگا ایک بہرا کرلیا اور پھر اسی َرد شدہ بات باطل وبے ثبات کو پیش کردیا‬
‫بہادری تو جب تھی کہ ا ُن قاہر جوابوں کے جواب دیتے پھر واہی تباہی جو چاہتے‬
‫فرمالیتے خیراب بعض جوابات مع تازہ افاضات لیجئے وباللہ التوفیق۔‬
‫اوّال ‪:‬اللہ عزوجل نے نماز خواص وعوام سب پر یکساں فرض کی اور اُس کے‬
‫لئے اوقات مقرر فرمائے اور اُن کے لئے اول وآخر بتائے اور ان پر واضح وعام‬
‫فہم نشان بنائے کہ اُن کا ادراک‪ Z‬ہر خاص وعام کو آسان ہوجائے ہمارے دین میں‬
‫کوئی تنگی نہ رکھی اور ہم پر کسی طرح دشواری نہ چاہی ماجعل علیکم فی‬
‫الدین من حرج۔ یریدالل ّٰہ بکم الیسر والیریدبکم‪ Z‬العسر ‪( ؎۱‬اس نے دین‬
‫کے معاملہ میں تم پر تنگی نہیں فرمائی‪ ،‬اللہ تعالٰی تم پر آسانی چاہتا ہے تنگی‬
‫نہیں چاہتا۔ ت)‬
‫(‪ ؎۱‬القرآن‪)۲/۱۸۵‬‬
‫تو ہر وقت کے اول وآخر شرعی کا پہچاننا خواص وعوام سب کو آسان خصوصا ً‬
‫سفر میں جہاں اُفق سامنے اور صاف میدان جو نہ سیکھے یا توجہ نہ کرے الزام‬
‫آن واحد وجزء الیتجزی‬‫اُس پر ہے نہ شرع مطہر پر‪ ،‬ہاں فصل مشترک حقیقی کہ ِ‬
‫ہے اُس کا علم بے طرق مخصوصہ انبیاء واولیاء عامہ بشر کی طاقت سے وراء‪Z‬‬
‫ہے مگر نہ اس کے ادراک کی تکلیف نہ اس پر جمع صوری کی توقیف۔‬
‫ثانیا ً اقول‪ :‬اول وآخر کا پہچاننا تو شاید تم بھی فرض جانتے ہوکہ تقدیم وتاخیر بے‬
‫عذر باالجماع مبطل وحرام ہے کیا اللہ عزوجل نے امر محال کی تکلیف دی‬
‫الیکلّف الل ّٰہ نفسا ً ااّل وسعھا ‪( ؎۱‬اللہ تعالٰی کسی کو اس بات کا حکم نہیں‬
‫دیتا جو اس کی طاقت میں نہ ہو۔ ت) فافہم۔‬
‫‪)۲/۲۸۶‬‬ ‫(‪ ؎۱‬القرآن‬
‫ثالثا اقول‪ :‬تحقیق تام یہ ہے کہ اوقات متصلہ میں عامہ کے لئے پانچ حالتیں ہیں‪:‬‬
‫وقت اوّل پر یقین‪ ،‬اُس پر ظن‪ ،‬دونوں میں شک‪ ،‬آخر کا ظن‪ ،‬اُس کا یقین‪،‬‬ ‫ِ‬
‫فقہیات میں ظن ملتحق بیقین ہے اور یقین شک سے زائل نہیں ہوتا تو بین‬
‫الوقتین حکما ً بھی اصال ً فاصل نہیں مسئلہ تسحر ومسئلہ صالۃ الفجر فی آخر‬
‫تصریحات علما دیکھیے۔‬
‫ِ‬ ‫الوقت وغیرہما میں‬
‫رابعا اقول‪ :‬کس نے کہا کہ جمع صوری میں وصل حقیقی بے فصل آنی الزم ہے‬
‫حدیث مذکور ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بروایت صحیح بخاری وحدیث‬
‫امیرالمؤمنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم بروایت ابی داؤد دیکھیے‬
‫مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رحمت پر نثار حضور نے عوام ہی کے‬
‫ارشاد کو یہ طرز ملحوظ رکھی کہ مغرب آخر شفق میں پڑھ کر قدرے انتظار‬
‫فرمایا پھر عشا پڑھی یا بین الصالتین کھانا مالحظہ فرمایا اور لطف ال ٰہی یہ کہ‬
‫تمام احادیث جمع میں اگر منقول ہے تو حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬
‫کا فعل۔ اُس کے ساتھ اُمت کو بھی ارشاد کہ جسے ضرورت ہو ایسا ہی کرلے‬
‫ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما میں ہے جس میں بروایت صحیح‬ ‫ِ‬ ‫اسی حدیث‬
‫بخاری ثابت کہ دو‪ ۲‬نمازوں کے بیچ میں قدر انتظار فرمایا تو آپ کے جہل کا‬
‫خود رخصت عطا فرمانے والے رؤف رحیم خبیر علیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬
‫نے لحاظ کرلیا تھا مگر افسوس کہ اب بھی آپ شکایت اور رحمت کا نام‬
‫معاذاللہ مصیبت ہے ہر عاقل جانتا ہے کہ مسافر کو باربار اُترنے چڑھنے وضو نماز‬
‫جدا سامان کرنے سے یہ بہت آسان ہے کہ ایک بار اُترکر دفع ًۃ دونوں‬ ‫جدا ُ‬ ‫کا ُ‬
‫نمازوں سے فارغ ہولے اول قریب آخر پڑھے اور ایک لطیف انتظار کے بعد آکر‬
‫اپنے اول میں اس کا انکار صریح مکابرہ ہے ہاں یہ کہئے کہ وقت گزار کر پڑھنے‬
‫کی اجازت ملے تو اور آسانی ہے۔‬
‫اقول‪ :‬دن ٹال کر گھر پہنچ کر اکٹھی پڑھ لینے کی رخصت ہو تو اور آسانی ہے‬
‫اور بالکل معاف ہوجائے تو پُوری چھٹی رخصت میں آسانی درکار ہے پُوری آسانی‬
‫کس نے مانی!‬
‫خامسا ً ‪:‬احمد بخاری مسلم ابوداؤد ونسائی طحاوی وغیرہم بطریق عمروبن دینار‬
‫عن جابر بن زید حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی‪:‬وھذا‪Z‬‬
‫لفظ مسلم‪ ،‬قال‪ :‬صلیت مع النبی صلی الل ّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ثمانیا جمیعا وسبعا‬
‫جمیعا‪ ،‬قلت‪ :‬یاابا الشعثاء! اظنہ اخر الظھر وعجل العصر‪ ،‬واخر المغرب وعجبل‬
‫العشاء‪ ،‬قال‪ :‬وانا اظن ذلک ‪؎۱‬۔‬
‫اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں‪ ،‬کہا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہ میں نے‬
‫نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور‬
‫اکٹھی سات رکعتیں بھی۔ اس حدیث کا راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا ''اے‬
‫ابوالشعثاء ! میرا خیال ہے کہ انہوں نے ظہر وعصر کو اور مغرب وعشاء کو اکٹھا‬
‫پڑھا ہوگا''۔ ابو الشعثاء نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے''۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬ ‫جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر‬ ‫(‪ ؎۱‬الصحیح‪ Z‬لمسلم‬
‫کراچی‪)۱/۲۴۶‬‬
‫مالک احمد‪ ،‬مسلم‪ ،‬ابوداؤد ترمذی نسائی طحاوی وغیرہم اُسی جناب سے بطرق‬
‫شتی والفاظ عدیدہ راوی‪:‬‬
‫وھذا حدیث مسلم بطریق زھیرنا ابوالزبیر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال صلی ال ٰلّہ ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم الظھر والعصر جمیعا بالمدینۃ فی غیر خوف والسفر‪ ،‬قال ابوالزبیر‪ :‬فسألت سعیدا‬
‫لم فعل ذلک؟ فقال‪ :‬سألت ابن عباس کماسألتنی‪ ،‬فقال‪ :‬اراد ان الیحرج احد من ُامتہ ‪؎۲‬۔‬

‫اور یہ حدیث مسلم کی بواسطہ ابو الزبیر ہے کہ ہم سے بیان کیا سعید ابن جبیر‬
‫نے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور سفر کے مدینہ میں ظہر اور عصر اکٹھی‬
‫پڑھیں‪ ،‬ابوالزبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے پُوچھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم نے اس طرح کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ جس طرح تم نے مجھ سے‬
‫پوچھا ہے اسی طرح میں نے ابن عباس سے پُوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ‬
‫رسول اللہ چاہتے تھے کہ آپ کی اُمت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬ ‫جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر‬ ‫(‪ ؎۲‬الصحیح لمسلم‬
‫‪)۱/۲۴۶‬‬ ‫کراچی‬
‫وفی اخری لہ وللترمذی بطریق جیب ابن ابی ثابت عن سعید بن جبیر عن ابن عباس‪ ،‬قال‪ :‬جمع رسول‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ا صلی ا تعالی علیہ وسلم بین الظھر والعصر‪ ،‬وبین المغرب والعشاء بالمدینۃ فی غیر خوف‬
‫والمطر ‪؎۱‬۔‬
‫مسلم نے ایک اور روایت میں اور ترمذی نے بواسطہ جیب ابن ابی ثابت‪ ،‬سعید‬
‫ابن جبیر سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے فرمایا‪ :‬رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ میں ظہر وعصر اور مغرب‬
‫وعشاء کو جمع کیا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ امین کمپنی اردوبازار‬ ‫ماجاء فی الجمع بین الصلٰوتین‬ ‫(‪ ؎۱‬جامع الترمذی‬
‫دہلی ‪)۱/۲۶‬‬
‫وللطحاوی عن صالح مولی التوأمہ عن ابن عباس‪ ،‬فی غیر سفر والمطر ‪؎۲‬۔ اور طحاوی نے صالح‬
‫مول ٰی التوأمہ کے واسطے سے ابن عباس کے یہ الفاط نقل کئے ہیں ''بغیر سفر‬
‫اور بارش کے''۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫باب الجمع بین الصلٰوتین کیف سو‬ ‫(‪ ؎۲‬شرح معانی اآلثار‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۱‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫وفی لفظ للنسائی اخبرنا قتیبۃ ثنا سفین عن عمر وعن جابر بن زید عن ابن عباس رضی ا تعالی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫عنھما قال‪ :‬صلیت مع النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم بالمدینۃ‪ ،‬ثمانیا جمیعا وسبعا جمیعا‪ ،‬اخر‬
‫الظھر وعجل العصر‪ ،‬واخر المغرب وعجل العشاء ‪؎۳‬۔‬
‫اور نسائی کے الفاظ یوں ہیں‪ :‬خبر دی ہمیں قتیبہ نے کہ حدیث بیان کی ہم سے‬
‫سفی ٰن نے عمرو سے‪ ،‬اس نے جابر سے کہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ میں نے‬
‫رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی‬
‫پڑھی ہیں اور سات رکعتیں بھی‪ ،‬آپ نے ظہر کو مؤخر کیا تھا اور عصر میں‬
‫جلدی کی تھی‪ ،‬اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا تھا اور عشاء میں جلدی کی تھی۔‬
‫(ت)‬
‫‪)۱/۶۹‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫کتاب المواقیت‬ ‫(‪ ؎۳‬سنن النسائی‬
‫ٰ‬
‫وفی لفظ لہ عن عمروبن ھرم عن جابر بن زید عن ابن عباس انہ صلی بالبصرۃ‪ 5،‬االولی والعصر‪ ،‬لیس‬
‫بینھما شیئ‪ ،‬والمغرب والعشاء‪ ،‬لیس بینھما شیئ‪ ،‬فعل ذلک من شغل۔ نسائی کی اور روایت‬
‫کے الفاظ یہ ہیں کہ عمروابن ہرم‪ ،‬جابر ابن زید سے راوی ہیں کہ ابن عباس نے‬
‫بصرہ میں ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا‪ ،‬ان کے درمیان کوئی شَے حائل نہ تھی‪ ،‬اور‬
‫مغرب وعشاء کو اکٹھا پڑھا ان کے درمیان کوئی شیئ حائل نہ تھی۔ اس طرح‬
‫انہوں نے ایک مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫و زعم ابن عباس انہ صلی مع رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم بالمدینۃ االولی والعصر‪ ،‬ثمان‬
‫سجدات لیس بینھما شیئ ‪؎۱‬۔ ابن عباس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫علیہ وسلم کے ساتھ بھی ظہر وعصر اکٹھی پڑھی تھیں یہ آٹھ رکعتیں تھیں اور‬
‫ان دو کے درمیان اور کوئی شے نہ تھی۔‬
‫‪)۱/۶۹‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫کتاب المواقیت‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫ہّٰلل‬ ‫ّ‬
‫ولمسلم بطریق الزبیر بن الخریت عن عبدا بن شقیق ان التاخیر کان الجل خطبۃ خطبھا ‪؎۲‬۔‬
‫خریت کے واسطہ سے عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی کہ‬
‫مسلم نے زبیر ابن ّ‬
‫یہ تاخیر ایک خطبہ دینے کی وجہ سے ہوئی تھی۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬ ‫جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح لمسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۲۴۶‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ُ‬
‫ولہ بطریق عمران بن حدیر عن عبدا المذکور عن ابن عباس‪ ،‬فی القصۃ‪ ،‬قال‪ :‬کنا نجمع بین‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫الصالتین علی عھد رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ‪؎۳‬۔ اور مسلم نے بطریقہ عمران‬
‫ابن حدیر‪ ،‬عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے مذکورہ واقعے‬
‫میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں ہم دو‪ ۲‬نمازوں‬
‫کو جمع کیا کرتے تھے۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬ ‫جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر‬ ‫(‪ ؎۳‬صحیح لمسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۲۴۶‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫وللطحاوی من ھذا الوجہ‪ ،‬قدکان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم ربما جمع بینھما بالمدینۃ ‪؎۴‬۔‬
‫اور طحاوی اسی سند سے ناقل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے‬
‫بارہا دو نمازوں کو مدینہ میں اکٹھا پڑھا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫(‪ ؎۴‬شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصلٰوتین الخ‬
‫‪)۱/۱۱۱‬‬
‫روایات صحاح سے واضح کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے‬ ‫ِ‬ ‫ان‬
‫ایسی حالت میں کہ نہ خوف تھا نہ سفر نہ مرض نہ مطر محض بالعذر خاص‬
‫مدینہ طیبہ میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا بجماعت جمع فرمائیں سفر وخطر‬
‫ومطر کی نفی تو خود احادیث میں مذکور اور مرض بلکہ ہر عذر ملحی کی نفی‬
‫سوق بیان سے صاف مستفاد معہذا جب نمازیں جماعت سے تھیں تو سب کا‬
‫مریض ومعذور ہونا مستبعد پھر راوی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہما کا اسی بناء پر صرف طول خطبہ کے سبب تاخیر مغرب واستناد بجمع‬
‫مذکور انتفائے اعذار پر صریح دلیل حاالنکہ مقیم کیلئیبے عذر جمع وقتی ماّل جی‬
‫حدیث مسلم انما التفریط علی من لم یصل الصالۃ حتی یجیئ وقت‬
‫ِ‬ ‫بھی حرام جانتے ہیں‪،‬‬
‫الصالۃ االخری ‪؎۱‬‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب قضاء الصلٰوۃ الفائتۃ الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬الصحیح لمسلم‬
‫‪)۱/۲۳۹‬‬
‫گناہ اس پر ہے جو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہوجائے۔ ت) کے‬
‫جواب میں کیا ف فرمائیں گے‬
‫ص‪)۴۱۷‬‬ ‫(ف ‪ ۱‬معیار الحق‬
‫یہ حدیث اُسی شخص کے حق میں ہے کہ بالعذر نماز میں تاخیر کرے۔‬
‫ٰ‬
‫حدیث امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اہلل تعالی عنہ ان الجمع بین الصالتین‪ 5‬فی وقت واحد کبیرۃ‬
‫من الکبائر ‪؎۲‬‬
‫(‪ ؎۲‬موطا امام محمد باب الجمع بین الصلٰوتین فی السفر والمطرمطبوعہ آفتاب عالم‬
‫پریس الہور‪)۱/۱۷۹‬‬
‫(ایک وقت میں دو‪ ۲‬نمازوں کو جمع کرنا کبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ت)‬
‫کے جواب میں کہہ چکے ہیں ف‪۲‬‬
‫ص‪)۴۰۰‬‬ ‫(ف‪۲‬معیار الحق‬
‫کرناحالت اقامت میں‬
‫ِ‬ ‫حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جمع بین الصالتین سے منع‬
‫بالعذر تھا جیسا کہ شاہد ہے اس تاویل پر اتفاق جمہور صحابہ ومن بعدہم کا اوپر‬
‫عدم جواز بالعذر کے‪ ،‬تو اس حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما میں جمع‬
‫ابن حجر شافعی اور اُن‬‫ِ‬ ‫فعلی مراد لینے سے چارہ نہیں اور خود ماّل جی نے امام‬
‫کے توسط سے امام قرطبی‪ Z‬وامام الحرمین وابن المامون وابن سید الناس‬
‫وغیرہم سے یہاں ارادہ جمع فعلی کی تقویت وترجیح نقل کی معہذا قطع نظر‬
‫وراویان حدیث‬
‫ِ‬ ‫اس سے کہ روایت صحیحین میں حضرت ابن عباس کے تالمذہ‬
‫جابر بن زید وعمروبن دینار نے ظنا ً حدیث کا یہی محمل مانا‬
‫قال ابن سیدالناس‪ :‬وراوی الحدیث ادری بالمراد من غیرہ (ابن سیدالناس نے کہا ہے کہ‬
‫حدیث کا راوی‪ ،‬دوسرے شخص کی نسبت حدیث کی مراد سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے۔‬
‫ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس جمع کے‬ ‫ِ‬ ‫ت) روایت نسائی میں خود‬
‫جمع فعلی ہونے کی تصریح فرمادی کہ ظہر ومغرب میں دیر کی اور عصر‬
‫وعشاء میں جلدی یہ خاص جمع صوری ہے اب کسی کو محل سخن نہ رہا تھا‬
‫تمہارے امام شوکانی غیر مقلد نے نیل االوطار‪ Z‬میں کہا‪:‬‬
‫ممایدل علی تعین حمل حدیث الباب علی الجمع الصوری‪ ،‬مااخرجہ النسائی عن ابن عباس (وذکر‬
‫لفظہ قال) فھذا ابن عباس‪ ،‬راوی حدیث الباب‪ ،‬قدصرح بان مارواہ من الجمع المذکور ھو الجمع‬
‫الصوری ‪؎۳‬۔‬
‫(‪ ؎۳‬نیل االوطار شرح منتقی االخبار باب جمع المقیم لمطر اوغیرہ مطبوعہ مصطفی البابی‬
‫مصرص ‪)۱۳۲‬‬
‫جو چیزیں اس پر داللت کرتی ہیں کہ اس باب سے متعلق حدیث کا جمع صوری‬
‫پر حمل کرنا متعین ہے‪ ،‬ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو نسائی نے ابن عباس‬
‫سے نقل کی ہے (اس کے بعد شوکانی نے مذکورہ روایت بیان کی ہے اور کہا ہے)‬
‫یہ ابن عباس‪ ،‬جو اس موضوع سے متعلق حدیث کے (اولین) راوی ہیں خود‬
‫تصریح کررہے ہیں کہ انہوں نے جمع بین الصالتین کی جو روایت بیان کی ہے اس‬
‫سے مراد جمع صوری ہے۔ ت)‬
‫شوکانی نے اس ارادہ کے اور چند مؤیدات بھی بیان کیے اور انکار جمع صوری‬
‫اور آپ کے زعم‪ Z‬باطل مصیبت کی اپنی بساط بھر خوب خوب خبریں لی ہیں جی‬
‫میں آئے تو مالحظہ کرلیجئے بالجملہ شک نہیں کہ حدیث میں مراد صوری ہے اب‬
‫اسی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی تصریح‬
‫موجود ہے کہ جمع حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بنظرِ رحمت وآسانی‬
‫ماّل جی! اب اپنی مصیبت کی خبریں کہئے۔‬ ‫مت کی تھی‪ُ ،‬‬ ‫اُ ّ‬
‫باعث مشقت‬ ‫ِ‬ ‫سادساً‪ :‬عجب تر یہ کہ یہی صاحب جنہوں نے جمع صوری کو‬
‫حدیث ابن عباس کو جمع صوری سے تاویل کرگئے‬ ‫ِ‬ ‫ومنافی رخصت ماناخود اسی‬
‫کما افاد االمام الزیلعی وغیرہ (جیسا کہ امام زیلعی وغیرہ نے اس کا افادہ کیا ہے۔‬
‫ت) یہ صریح منافقت ہے۔‬
‫ماّل جی تو تقلید جامد کا جامہ پہنے بیٹھے ہیں اس تناقض میں بھی تقلید‬‫اقول‪ُ :‬‬
‫کرگئے حدیث طبرانی مفید جمع صوری کہ عنقریب آتی ہے حضرت اس کے‬
‫جواب میں اَن کہی بولتے ف‪ ۱‬ہیں‬
‫ص‪) ۴۰۰‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معیار الحق‬
‫حالت قیام میں بالعذر آنحضرت صلی‬
‫ِ‬ ‫کہ اس میں کیفیت اُس جمع کی ہے جو‬
‫اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جمع کی تھی جیسا کہ روایت میں ابن عباس کی ہے کہ‬
‫آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حالت قیام میں مدینہ میں جمع صوری‬
‫کی تھی۔ ماّل جی! ذرا آنکھ مالکر بات کیجئے اب وہ مصیبت رحمت ورافت‪ Z‬کیونکر‬
‫ہوگئی۔‬
‫سابعاً‪ :‬حدیث حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنہا مروی احمد وابوداؤد‬
‫وترمذی جس میں حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے زنان مستحاضہ‬
‫کے لئے جمع صوری پسند فرمائی ہے ماّل جی کو وہاں بھی یہی عذر معمولی پیش‬
‫آیا ف‪ ۲‬کہ وہ مقیم تھی پس مقیم پر مسافر کی نماز کو قیاس مع الفارق ہے۔‬
‫( ف‪ ۲‬معیارالحق ص‪)۴۱۸‬‬
‫ماّل جی جمع صوری تو عوام کیا اکثر خواص کو بھی نہ صرف دشوار بلکہ‬ ‫اقول ‪ُ :‬‬
‫ناممکن تھی وہ بھی سفر کے کھُلے میدانوں میں‪ ،‬اب کیا دُنیا پلٹی کہ پردہ نشین‬
‫زنان ؎‪ ۳‬ناقصات العقل کے لئے گھر کی چار دیواریوں میں ممکن ہوگئی۔(؎‪۳‬‬
‫یعنی یہ حکم اب بھی ہر مستحاضہ کیلئے ہے تو ثابت ہوا کہ پردہ نشین زنان‬
‫ناقصات العقل کو جمع صوری میسر ہے ‪ ۱۲‬منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ّ‬ ‫ً‬
‫ثامنا‪ :‬عبدالرزاق مصنف میں بطریق عمروبن شعیب راوی‪ :‬قال‪ ،‬قال عبدا ‪ :‬جمع لنا رسول ا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬مقیما غیر مسافر‪ ،‬بین الظھر والعصر‪ ،‬والمغرب‪ ،‬والعشائ‪ ،‬فقال رجل‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫البن عمر‪ :‬لم تری النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم فعل ذلک؟‬
‫اس نے کہا عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے‬
‫ہمارے لئے دو‪ ۲‬نمازوں کو جمع کیا جبکہ آپ مقیم تھے‪ ،‬مسافر نہ تھے۔ یعنی ظہر‬
‫وعصر کو اور مغرب وعشاء کو۔ ایک آدمی نے ابن عمر سے پُوچھا کہ آپ کے‬
‫خیال میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس طرح کيوں کيا تھا؟ تو انہوں‬
‫نے جواب ديا تاکہ امت پر تنگی نہ ہو‪ ،‬اگر کوئی شخص جمع کرلے۔ (ت)‬
‫‪)۲/۵۵۶‬‬ ‫(‪ ؎۱‬مصنّف ابی بکر عبدالرزاق حديث ‪ ۴۴۳۷‬مطبوعہ المکتب االسالمی بيروت‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ابن جرير اس جناب سے بايں لفظ راوی‪ :‬خرج علينا رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم‪ ،‬فکان يؤخر‬
‫الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما‪ ،‬ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما ‪؎۲‬۔ رسول اللہ‬
‫صلی اللہ عليہ وسلم ہم پر جلوہ فرما ہُوئے تو آپ ظہر ميں تاخير کرکے اور عصر‬
‫ميں تعجيل کرکے دونوں کو جمع کرليتے تھے‪ ،‬اسی طرح مغرب ميں تاخير اور‬
‫عشاء ميں تعجيل کرکے دونوں کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ موسۃ الرسالہ‬ ‫حديث ‪۲۲۷۸۶‬‬ ‫االکمال من صلٰوۃ المسافر‬ ‫(‪ ؎۲‬کنزالعمال‬
‫‪)۸/۲۵۰‬‬ ‫بيروت‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫نيز ابن جرير کی دوسری روايت ميں اسی جناب سے يوں ہے‪ :‬اذابادر احدکم الحاجۃ فشاء ان يؤخر‬
‫المغرب ويعجل العشاء ثم يصليھما جميعا فعل ‪؎۳‬۔ اگر تم ميں سے کسی کو کسی‬
‫ضرورت کی بنا پر جلدی ہو اور وہ چاہے کہ مغرب کو مؤخر کرکے اور عشاء ميں‬
‫جلدی کرکے دونوں کو يکجا پڑھ لے‪ ،‬تو ايسا کرلے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ موسۃ الرسالہ بيروت‬ ‫االکمال من صلٰوۃ المسافر ‪۲۰۱۹۰‬‬ ‫(‪ ؎۳‬کنزالعمال‬
‫‪)۷/۵۴۷‬‬
‫ان حديثوں سے بھی ظاہر کہ جمع صوری ميں بےشک آسانی ورحمت اور وقت‬
‫حاجت عام لوگوں کو اس کی اجازت۔ تاسعا‪ :‬عبدالرزاق صفوان بن سليم سے راوی قال‬
‫جمع عمربن الخطاب بين الظھر والعصر في يوم مطیر ‪ ؎۴‬۔ يعنی امیرالمؤ منين فاروق اعظم‪Z‬‬
‫نے مينہ کے سبب ظہر وعصر جمع کی۔‬
‫(‪ ؎۴‬المصنّف لعبدالرزاق ‪،‬باب جمع بين الصلٰوتين فی الحضر حديث ‪،۴۴۴۰‬مطبوعہ المکتب‬
‫االسالمی بيروت‪) ۲/۵۵۶،‬‬
‫اقول‪ :‬ظاہر ہے کہ اميرالمؤمنين کے نزديک جمع وقتی حرام وگنا ِہ کبيرہ ہے جس‬
‫کا بيان ا ِن شاء اللہ المنان فصل چہارم ميں آتا ہے الجرم جمع صوری فرمائی۔‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ً‬
‫عاشرا‪ :‬طبرانی حضرت عبداہلل بن مسعود رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی‪ :‬ان النبی صلی ا تعالی‬
‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫علےہ وسلم کان يجمع بين المغرب والعشاء يؤخر ھذہ فی اخر وقتھا ويعجل ھذہ فی اول وقتھا ؎‪۱‬‬
‫حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مغرب وعشاء کو جمع فرماتے‪ ،‬مغرب‬
‫کو اس کے آخر وقت ميں پڑھتے اور عشاء کو اس کے اوّل وقت میں(م)۔‬
‫مطبوعہ المکتبۃ‬ ‫عن عبداللہ ابن مسعود حديث ‪۹۸۸۰‬‬ ‫(‪ ؎۱‬المعجم الکبير للطبرانی‬
‫الفيصليۃ بيروت ‪)۱۰/۴۷‬‬
‫يہ وہی حديث طبرانی ہے جس ميں جمع صوری ماّل جی ابھی ابھی مان چکے ہيں‬
‫اس کی نسبت باقی کالم کا َرد اِن شاء اللہ العزيز آئندہ آتا ہے غرض شاباش ہے‬
‫تمہارے جگرے کو کہ صحيح حديثوں کے َرد وابطال ميں کوئی دقيقہ مغالطہ‬
‫جاہلين ومکابرہ عالمين وتقليد مقلدين کا اُٹھا نہ رکھو اور پھر عمل بالحديث کی‬
‫شيشی کو ٹھيس تک نہ لگے ع‬
‫چوں وضو ئےمحکم بی بی تميز‬
‫افادہ رابعہ‪:‬الحمداللہ جب کہ احاديث جمع صوری کی صحت مہر نيمروزماہ نيم ماہ‬
‫کی طرح روشن ہوگئی تو اب جس قدر حديثوں ميں مطلق جمع بين الصالتين‬
‫وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے ظہر وعصر يا مغرب‬
‫وعشاء کو جمع فرمايا يا عصر وعشا سے مالنے کو ظہر ومغرب ميں تاخير‬
‫فرمائی وامثال ذلک کسی ميں مخالف کےلئے اصال ً حجت نہ رہی سب اسی جمع‬
‫احتمال موافق سے مطرود‬
‫ِ‬ ‫صوری پر محمول ہوں گی اور استدالل مخالف‬
‫ومخذول مثل‬
‫حديث(‪ :)۱‬بخاری ومسلم ودارمی ونسائی وطحاوی وبيہقی بطريق سالم بن عبداہلل بن عمر رضی اہلل‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہم ومسلم ومالک ونسائی وطحاوی بطريق نافع۔‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫عن ابن عمر رضی ا تعالی عنھما‪ ،‬کان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم يجمع بين المغرب‬
‫والعشاء اذاجدبہ السيير ‪؎۲‬۔‬
‫ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫ِ‬
‫عليہ وسلم کو جب چلنے ميں تيزی ہوتی تھی تو آپ مغرب وعشاء کو جمع کرتے‬
‫تھے۔‬
‫مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی‬ ‫باب الجمع بين الصالتين الخ‬ ‫(‪ ؎۲‬شرح معانی اآلثار‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۱‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫وفی لفظ مسلم والنسائی من طريق سالم‪ ،‬رأيت رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم اذااعجلہ السير‬
‫فی السفر يؤخر صالۃ المغرب حتی يجمع بينھا وبين صالۃ العشاء ‪؎۳‬۔‬
‫اور مسلم کی ايک اور روايت اور نسائی کی بطريقہ سالم روايت کے الفاظ يوں‬
‫ہں کہ ميں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو ديکھا کہ جب آپ کو‬
‫سفر کے دوران چلنے ميں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز کو اتنا مؤخر کرديتے‬
‫تھے کہ عشا کے ساتھ مالليتے تھے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قديمی کتب خانہ‬ ‫(‪ ؎۳‬الصحیح لمسلم۔ باب جواز الجمع يين الصالتين فی السفر‬
‫کراچی ‪)۱/۲۴۵‬‬
‫يہ معنی مجمل بروايات سالم ونافع مستفيض ہيں۔‬
‫ٰ‬
‫فرواہ البخاری عن ابی اليمان(‪ ،)۱‬والنسائی عن بقيۃ(‪ )۲‬وعثمن(‪ ،)۳‬کلھم عن شعيب بن ابی حمزہ۔‬
‫ٰ‬
‫ومسلم عن ابن وھب عن يونس(‪)۴‬۔ والبخاری عن(‪ )۵‬علی بن المدينی‪ ،‬ومسلم عن يحيی(‪ )۶‬بن‬
‫ٰ‬
‫يحيی وقتيبۃ(‪ )۷‬بن سعيد وابی(‪ )۸‬بکر بن ابی شيبۃ وعمر(‪ )۹‬والناقد‪ ،‬والدارمی عن محمد(‪ )۱۰‬بن‬
‫ٰ‬
‫يوسف‪ ،‬والنسائی عن محمد(‪ )۱۱‬بن منصور‪ ،‬والطحاوی عن الحمانی(‪ ،)۱۲‬ثمانيتھم عن سفين بن‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫عيینۃ‪ ،‬ثلثتھم اعنی شعيبا ويونس وسفين عن الزھری عن سالم‪ ،‬ومسلم عن(‪ )۱۳‬يحيی بن يحيی‪،‬‬
‫والنسائی عن قتيبۃ(‪ ،)۱۴‬والطحاوی عن ابن(‪ )۱۵‬وھب‪ ،‬کلھم عن مالک‪ ،‬والنسائی بطريق عبدالرزاق‬
‫ثنا معمر عن موسی(‪ )۱۶‬بن عقبۃ‪ ،‬والطحاوی(‪ )۱۷‬عن ليث‪ ،‬والبھيقی فی الخالفيات من طريق يزيد بن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ھارون عن يحيی(‪ )۱۸‬بن سعيد ‪ ،‬اربعتھم عن نافع‪ ،‬کالھما عن ابن عمر رضی ا تعالی عنھما۔‬
‫چنانچہ بخاری ابواليمان سے‪ ،‬نسائی بقيہ اورعثمان سے‪ ،‬يہ سب (ابواليمان‪ ،‬بقيہ‪،‬‬
‫عثمان) شعيب ابن ابی حمزہ سے روايت کرتے ہيں۔ اور مسلم‪ ،‬ابن وہب سے‪ ،‬وہ‬
‫يونس سے روايت کرتے ہيں۔ اور بخاری‪ ،‬علی ابن مدينی سے۔ اور مسلم‪ ،‬يحيٰی‬
‫ابن يحيٰی‪ ،‬قتيبہ ابن سعيد‪ ،‬ابوبکر ابن ابی شيبہ اور عمرو الناقد سے۔ اور دارمی‪،‬‬
‫محمد ابن يوسف سے۔ اور نسائی‪ ،‬محمد ابن منصور سے۔ اور طحاوی‪ ،‬حمانی‬
‫سے۔ يہ آٹھويں (يعنی علی(‪ ،)۱‬يحيی(‪ ،)۲‬قتيبہ(‪ ،)۳‬ابوبکر(‪ ،)۴‬عمرو(‪ ،)۵‬ابن‬
‫يوسف(‪ ،)۶‬ابن منصور(‪ ،)۷‬حمانی(‪ )۸‬سفيان ابن عيينہ سے روايت کرتے ہيں۔ پھر‬
‫تينوں (سلسلوں کے تين آخری راوی)‪ Z‬يعنی شعيب‪ ،‬يونس اور سفيان‪ ،‬زہری کے‬
‫واسطے سے‪ ،‬سالم سے راوی ہيں۔ اور مسلم‪ ،‬يحيٰی ابن يحيٰی سے۔ اور نسائی‪،‬‬
‫قتيبہ سے۔ اور طحاوی‪ ،‬ابن وہب سے۔ تينوں مالک سے روايت کرتے ہیں۔ اور‬
‫سی ابن عقبہ سے روايت کرتے‬ ‫نسائی‪ ،‬بطريقہ عبدالرزاق‪ ،‬وہ معمر سے‪ ،‬وہ مو ٰ‬
‫ہیں اور طحاوی ليث سے روايت کرتے ہیں۔ اور بيہقی خالفيت میں بطريقہ يزيد‬
‫ابن ہارون‪ ،‬يحیٰی ابن سعيد سے روايت کرتے ہیں۔ چاروں (آخری راوی يعني‬
‫سی(‪ ،)۲‬ليث(‪ ،)۳‬يحيٰی(‪ )۴‬نافع سے راوی ہیں سالم اور نافع) دونوں‬ ‫مالک(‪ ،)۱‬مو ٰ‬
‫عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے حديث بيان کرتے ہیں۔ (ت)‬
‫َّ‬
‫حديث(‪ )۲‬معلق بخاری ‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫ووصلہ البيھقی عن ابن عباس رضی ا تعالی عنھما‪ ،‬کان رسول ا صلی ا تعالی علي وسلم‬
‫يجمع بين صالۃ الظھر والعصر اذاکان علی ظھر سير‪ ،‬ويجمع بين المغرب والعشاء ‪؎۱‬۔ وھو عند مسلم‬
‫ٰ‬
‫واخرين بذکر غزوۃ تبوک‪،‬‬
‫بيہقی نے اس کو ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے موصوال ً ذکر کيا ہے کہ‬
‫رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب چلنے والے ہوتے تھے تو ظہر اور‬
‫عصر کی نماز یں جمع كر ليتے تھے۔ اسی طرح مغرب وعشاء بھی جمع کرليتے‬
‫تھے يہ روايت مسلم اور ديگر محدثين کے نزديک غزوہ تبوک کے تذکرے سے‬
‫متعلق ہے۔‬
‫مطبوعہ قديمی کتب‬ ‫باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء‬ ‫(‪ ؎۱‬صحيح البخاری‬
‫خانہ کراچی ‪)۱/۱۴۹‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫والبن ماجۃ من طريق ابرھيم بن اسمعيل عن عبدالکريم عن مجاھد وسعيد بن جبير وعطاء بن ابی‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫رباح وطاؤس‪،‬اخبروہ عن ابن عباس رضی ا تعالی عنھما انہ اخبرھم ان رسول ا صلی ا تعالی‬
‫عليہ وسلم کان يجمع بين المغرب والعشاء فی السفر من غيران يعجلہ شیئ واليطلبہ عدو واليخاف‬
‫شيئا ‪؎۲‬۔‬
‫معيل راوی‪ Z‬ہیں۔ کہ عبدالکريم کو مجاہد‪ ،‬سعيد‬
‫اور ابن ماجہ بطريقہ ابراہيم‪ Z‬بن اس ٰ‬
‫ابن جبير‪ ،‬عطاء ابن ابی رباح اور طاؤس نے خبر دی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہا نے ان کو بتايا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں‬
‫مغرب عشاء جمع کرليتے تھے حاالنکہ نہ آپ کو جلدی ہوتی تھی نہ دشمن تعاقب‬
‫ميں ہوتا تھا اور نہ کسی اور چيز کا خوف ہوتا تھا۔‬
‫مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی‬ ‫باب الجمع بين الصلٰوتين الخ‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابن ماجہ‬
‫کراچی ‪)۱/۷۶‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫قلت‪ :‬ابرھيم ھذا‪ ،‬ھو ابن اسمعيل ابن مجمع االنصاری‪ ،‬ضعيف۔ وعبدالکريم‪ ،‬ان لم يکن ابن مالک‬
‫الجزری‪ ،‬فابن ابی المخارق‪ ،‬وھو اضعف واضعف۔ والمعروف حديثہ فی الجمع بالمدينۃ۔ رواہ الشيخان‬
‫وجماعۃ‪ ،‬کماقدمناہ بطرقھا والفاظھا عماقريب۔‬
‫معيل ابن مجمع انصاری ہے جو ضعيف ہے۔ اور‬ ‫قلت (ميں نے کہا)‪ :‬يہ وہی ابن اس ٰ‬
‫عبدالکريم اگر ابن مالک جزری نہيں ہے تو ابن ابی المحارق ہوگا اور وہ بہت‬
‫ضعيف اور بہت ہی ضعيف ہے۔ ابن عباس کی جو حديث معروف ہے وہ مدينہ ميں‬
‫جمع کرنے کی ہے (نہ کہ سفر ميں) اس کو بخاری‪ ،‬مسلم اور محدثين کی ايک‬
‫جماعت نے روايت کيا ہے۔ جيسا کہ تھوڑا ہی پہلے ہم اس کے تمام طريقے اور‬
‫الفاظ بيان کرآئے ہيں۔ (ت)‬
‫ً‬ ‫ً‬
‫وحديث(‪ )۳‬بخاری تعليقا ووصال وطحاوی وصال‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫عن انس رضی ا تعالی عنہ ان رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم کان يجمع بين ھاتين‬
‫الصالتين فی السفر‪ ،‬يعنی المغرب والعشاء ‪؎۳‬۔‬
‫انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ‬
‫وسلم اِن دو‪ ۲‬نمازوں کو سفر ميں جمع کرتے تھے‪ ،‬يعنی مغرب اور عشاء کو۔‬
‫(ت)‬
‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار باب الجمع بين الصلٰوتين الخ ‪ ،‬مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۱‬‬
‫ً‬
‫وحديث(‪ )۴‬مالک وشافعی ودارمی ومسلم وابوداؤد وترمذی ونسائی وابن ماجہ وطحاوی مطوال‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ً‬
‫ومختصرا عن عامر بن واثلۃ ابی الطفيل عن معاذ بن جبل رضی ا تعالی عنہم قال‪ :‬جمع رسول ا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫صلی ا تعالی عليہ وسلم فی غزوۃ تبوک بين الظھر والعصر وبين المغرب والعشاء‪ ،‬قال‪ :‬فقلت‪،‬‬
‫ماحملہ علی ذلک؟ قال‪ ،‬فقال‪ :‬ارادان اليحرج امتہ ‪؎۱‬۔ عامر ابن واثلہ ابوالطفيل‪ ،‬معاذ ابن‬
‫جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫عليہ وسلم نے غزوہ تبوک ميں ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو جمع کيا تھا۔ واثلہ‬
‫نے کہا کہ ميں نے پُوچھا‪'' :‬اس کی وجہ کيا تھی؟'' تو معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫نے جواب ديا کہ آپ يہ چاہتے تھے کہ آپ کی اُمت کو کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قديمی‬ ‫(‪ ؎۱‬الصحيح لمسلم باب جواز الجمع بين الصلٰوتين فی السفر‬
‫کتب خانہ کراچی ‪)۱/۲۴۶‬‬
‫ھذا لفظ مسلم فی الصالۃ‪ ،‬ومثلہ للطحاوی‪ ،‬وعند الترمذی صدرہ فقط‪ ،‬وھو احد لفظی الطحاوی‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ولمالک ومن طريقہ عند مسلم فی الفضائل‪ ،‬خرجنا مع رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم عام‬
‫غزوۃ تبوک‪ ،‬فکان يجمع الصالۃ‪ ،‬فصلی الظھر والعصر جميعا‪ ،‬والمغرب والعشاء جميعا حتی اذاکان‬
‫يوما اخر الصالۃ‪ ،‬ثم خرج فصلی الظھر والعصر جميعا‪ ،‬ثم دخل‪ ،‬ثم خرج بعد ذلک‪ ،‬فصلی المغرب‬
‫والعشاء جميعا ‪ ،؎۲‬الحديث بطولہ‪ ،‬وھو بھذا القدر من دون زيادۃ عبدالباقين۔‬
‫يہ مسلم کے الفاظ ہيں کتاب الصلٰوۃ ميں‪ ،‬اور طحاوی نے بھی يونہی روايت کی‬
‫صہ ہے اور طحاوی کی ايک روايت بھی‬ ‫ہے۔ ترمذی ميں صرف اس کا ابتدائی ح ّ‬
‫صے پر مشتمل ہے۔ مالک کے ہاں‪ ،‬اور انہی کے طريقے سے‬ ‫صرف ابتدائی ح ّ‬
‫مسلم کے ہاں روايت ہے کہ غزوہ تبوک کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ عليہ‬
‫وسلم کے ساتھ نکلے تو آپ نمازوں کو جمع کياکرتے تھے‪ ،‬چنانچہ آپ نے ظہر‬
‫وعصر کو مالکر پڑھا اور مغرب وعشا کو مالکر پڑھا حتّٰی کہ ايک روز آپ نے‬
‫نماز کو مؤخر کيا‪ ،‬پھر تشريف الئے تو ظہر وعصر کو مالکر پڑھا۔ پھر اندر‬
‫تشريف لے گئے پھر باہر جلوہ افروز‪ Z‬ہوئے اور مغرب وعشاء کو مالکر پڑھا۔ مالک‬
‫اور مسلم نے اس حديث کو آخر تک پوری طوالت سے ذکر کيا ہے۔ مگر ديگر‬
‫محدثين کے ہاں اسی قدر ہے۔ اس سے زائد نہيں ہے۔ (ت)‬
‫من کتاب‬ ‫(‪ ؎۲‬الصحيح لمسلم باب فی معجزات النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم‬
‫الفضائل مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی ‪)۲/۲۴۶‬‬
‫ً‬ ‫ً‬
‫وحديث(‪ )۵‬مالک مرسال ومسندا‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫من طريق داؤد بن الحصين عن االعرج عن ابی ھريرۃ رضی ا تعالی عنہ ان رسول ا صلی ا تعالی‬
‫عليہ وسلم کان يجمع بين الظھر والعصر فی سفرہ الی تبوک ‪؎۱‬۔ بطريقہ داؤد ابن حصين‪ ،‬اعرج‬
‫سے‪ ،‬وہ ابوھريرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ‬
‫تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوک کے دوران ظہر وعصر کو جمع کيا کرتے تھے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مير محمد کتب خانہ کراچی‬ ‫الجمع بين الصلٰوتين الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬مؤطا امام مالک‬
‫ص‪۲۵‬۔‪)۱۲۴‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ھکذا روی عن يحيی مسندا‪ ،‬وھو عند محمد وجمھور رواۃ المؤطا عن عبدالرحمن بن ھرمز مرسال۔‬
‫ٰ‬
‫وعبدالرحمن‪ ،‬ھواالعرج۔ يہ حديث يحيٰی سے بھی اسی طرح مسندا ً مروی ہے‪ ،‬مگر‬
‫محمد اور مؤطا کے اکثر راوی اس کو عبدالرحمن ابن ہرمز سے مرسال ً روايت‬
‫کرتے ہيں‪ ،‬اور عبدالرحمن‪ ،‬وہی اعرج‪ Z‬ہے۔‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫وھو عندالبزار عن عطاء بن يسار عن ابی ھريرۃ عن النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم کان يجمع بين‬
‫الصالتين فی السفر ‪؎۲‬۔ اور بزار کے ہاں عطاء ابن يسار ابوہريرہ سے روايت کرتے‬
‫ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں دو‪ ۲‬نمازوں کو جمع کرتے تھے۔‬
‫(ت)‬
‫مطبوعہ مؤسۃ الرسالۃ‬ ‫باب الجمع بين الصلٰوتين‬ ‫(‪ ؎۲‬کشف االستار عن زوائد البزار‬
‫بيروت ‪)۱/۳۳۰‬‬
‫وحديث(‪: )۶‬‬
‫احمد وابن شبۃ بطريق حجاج ابن ارطاۃ‪ ،‬مختلف فيہ‪ ،‬عن عمروبن شعيب عن ابيہ عن جدہ وھو‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا بن عمروبن العاص رضی ا تعالی عنھما قال‪ :‬جمع رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم‬
‫بين الصالتين فی غزوہ بنی المصطلق ‪؎۳‬۔ احمد اور ابن ابی شيبہ بطريقہ حجاج ابن‬
‫ارطاۃ‪ ،‬جو مختلف فيہ ہے‪ ،‬عمرو ابن شعيب سے‪ ،‬وہ اپنے باپ سے‪ ،‬وہ اس کے‬
‫دادا سے‪ ،‬يعنی عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روايت‬
‫کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ بنی مصطلق ميں دو‬
‫‪ ۲‬نمازوں کو جمع کيا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم‬ ‫باب الجمع بين الصلٰوتين‬ ‫(‪ ؎۳‬المصنّف البن ابی شيبہ‬
‫االسالميہ کراچی ‪)۲/۴۵۸‬‬
‫وحديث(‪ )۷‬ترمذی فی کتاب العلل‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫حدثنا ابوالسائب عن الجريری عن ابی عثمن عن اسامۃ بن زيد رضی ا تعالی عنھما قال‪ :‬کان رسول‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ا صلی ا تعالی عليہ وسلم اذاجدبہ السير جمع بين الظھر والعصر‪ ،‬والمغرب والعشاء‪ ،‬قال‬
‫الترمذی‪ :‬سألت محمدا‪ ،‬يعنی البخاری عن ھذا الحديث‪ ،‬فقال‪ :‬الصحيح‪ ،‬ھو موقوف عن اسامۃ بن زيد‬
‫‪؎۱‬۔‬
‫حديث بيان کی ہم سے ابوالسائب نے جريری سے‪ ،‬اس نے ابوعثمان سے‪ ،‬اس‬
‫نے اسامہ ابن زيد رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ‬
‫وسلم کو جب چلنے ميں جلدی ہوتی تھی تو ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو‬
‫جمع کرتے تھے۔ ترمذی نے کہا کہ ميں نے محمد‪ ،‬يعنی بخاری سے اس حديث کے‬
‫بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا کہ صحيح يہ ہے کہ اسامہ ابن زيد پر موقوف ہے۔‬
‫(ت)‬
‫مطبوعہ‬‫(‪ ؎۱‬عمدۃ القاری شرح بخاری باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء‬
‫ادارۃ الطباعۃ المنيريہ بيروت ‪)۷/۱۴۹‬‬
‫نوٹ‪ :‬يہ حوالہ مجھے ترمذی کی کتاب العلل ميں نہيں مل سکا اور بڑی کوشش سے عمدۃ‬
‫مال ہے۔ نذير احمد سعيدی‬
‫القاری سے ِ‬
‫وحديث(‪: )۸‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫احمد بطريق ابن لھيعۃ عن ابن الزبير قال‪ :‬سألت جابرا رضی ا تعالی عنہ‪ ،‬ھل جمع رسول ا صلی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫ا تعالی عليہ وسلم بين المغرب والعشاء ؟قال‪ :‬نعم‪ ،‬عام غزونا بنی المصطلق ‪؎۲‬۔‬
‫احمد بطريقہ ابن لہيعہ‪ ،‬ابوالزبیر سے راوی ہيں کہ ميں نے جابر رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہ سے پُوچھا‪'' :‬کيا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسم نے کبھی مغرب‬
‫وعشاء کو جمع کيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا‪ :‬ہاں‪ ،‬جس سال ہم غزوہ بنی‬
‫مصطلق کے لئے گئے تھے''۔ (ت)‬
‫مطبوعہ دارالفکر بيروت لبنان‬ ‫از مسند جابر بن عبداللہ‬ ‫(‪ ؎۲‬مسند احمد بن حنبل‬
‫‪)۳/۳۴۸‬‬
‫وحديث(‪ )۹‬ابن ابی شيبہ وابوجعفر طحاوی ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫اما االول فبطريق ابن ابی ليلی عن ھذيل‪ ،‬واما االخر فعن ابی قيس االودی عن ھذيل بن شرجيل عن‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا بن مسعود رضی ا تعالی عنہ ان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم جمع‪ ،‬ولفظ االخر کان‬
‫يجمع‪ ،‬بين الصالتين فی السفر ‪؎۳‬۔‬
‫پہ لے (يعنی ابن ابی شيبہ) بطريقہ ابن ابی ليلی‪ ،‬ہذ یل سے‪ ،‬اور دوسرے (يعنی‬
‫طحاوی) ابوقيس اودی ہے وہ ہذيل ابن شرجيل سے‪ ،‬وہ عبداللہ بن مسعود رضی‬
‫اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے سفر‬
‫کے دوران جمع کيا طحاوی کے الفاظ يوں ہيں‪'' :‬جمع کيا کرتے تھے دو نمازوں‬
‫کو سفر کے دوران ـ‪(''.‬ت)‬
‫مطبوعہ ادارۃ القرآن‬ ‫من قال يجمع المسافر بين الصلٰوتين‬ ‫(‪ ؎۳‬مصنّف ابن ابی شيبہ‬
‫‪)۲/۴۵۸‬‬ ‫کراچی‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫وللطبرانی فی معجميہ الکبير واالوسط عنہ رضی ا تعالی عنہ قال‪ :‬جمع رسول ا صلی ا تعالی‬
‫ّ‬
‫عليہ وسلم بين الظھر والعصر‪ ،‬والمغرب والعشاء‪ ،‬فقيل لہ فی ذلک‪ ،‬فقال‪ :‬صنعت ذلک لئال تحرج‬
‫امتی ‪؎۱‬۔ اور طبرانی نے اپنی دونوں معجموں‪ ،‬يعنی کبير اور اوسط ميں عبداللہ‬
‫ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫عليہ وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا ‪ ۹‬تو آپ سے اس بارے‬
‫ميں پ ُوچھا گيا‪ ،‬آپ نے جواب ديا کہ ميں نے اس طرح اس لئے کيا ہے تاکہ ميری‬
‫اُ ّ‬
‫مت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)‬
‫‪۱۰/۲۶‬‬ ‫مطبوعہ المکتبۃ الفيصليہ بيروت‬ ‫حديث ‪۱۰۵۲۵‬‬ ‫(‪ ؎۱‬المعمجم الکبير للطبرانی‬
‫‪)۹‬‬
‫وحديث(‪)۱۰‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫طبرانی فی المعجم االوسط عن عطاعن ابن عباس رضی ا تعالی عنہ ان النبی صلی ا تعالی‬
‫عليہ وسلم کان يجمع بين الصالتين فی السفر ‪؎۲‬۔‬
‫(قدیم میں یہ روایت ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے‬
‫اورترجمہ قدیم ہی کے مطابق کیا گیا ہے)‬
‫طبرانی معجم اوسط ميں ابونضرہ سے‪ ،‬وہ ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں دو‪ ۲‬نمازوں‬
‫کو جمع کيا کرتے تھے۔ (ت)‬
‫‪)۶/۲۶۲‬‬ ‫مکتب المعارف رياض‬ ‫حديث نمبر ‪۵۵۵۸‬‬ ‫(‪ ؎۲‬معجم اوسط‬
‫وحديث(‪ )۱۱‬مرسل وبالغ مالک‪:‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫انہ بلغہ عن علی بن حسين‪ ،‬ھو ابن علی رضی ا تعالی عنھم انہ کان يقول‪ :‬کان رسول ا صلی ا‬
‫ٰ‬
‫تعالی عليہ وسلم اذااراد ان يسير يومہ‪ ،‬جمع بين الظھر والعصر‪ ،‬واذا ارادان يسيرليلہ‪ ،‬جمع بين‬
‫المغرب والعشاء ‪؎۳‬۔‬
‫مالک کو علی ابن حسين ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬سے يہ بات پہنچی ہے کہ‬
‫وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب دن کو سفر کرنا‬
‫چاہتے تھے تو ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے اور جب رات کو سفر کرنا چاہتے‬
‫تھے تو مغرب وعشاء کو جمع کرليتے تھے۔ (ت)‬
‫ص ‪)۱۲۶‬‬ ‫مير محمد کتب خانہ کراچی‬ ‫جمع بين الصالتين‬ ‫(‪ ؎۳‬مؤطا امام مالک‬
‫ٰ‬
‫ولہذا سيدنا امام محمد رضی اہلل تعالی عنہ مؤطا شريف ميں حديث پنجم روايت کرکے فرماتے ہيں‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫بھذا ناخذ‪ ،‬والجمع بين الصالتين ان تؤخر االولی منھما فتصلی فی اخر وقتھا‪ ،‬وتعجل الثانيۃ فتصلی‬
‫فی اول وقتھا‪ ،‬وتعجل الثانيۃ فتصلی فی اول وقتھا ‪؎۴‬۔‬
‫ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع بين الصالتين کا طريقہ يہ ہے کہ پہلی کو‬
‫مؤخر کرکے آخر وقت ميں پڑھا جائے اور دوسری کو جلدی کرکے اول وقت‬
‫ميں۔ (ت)‬
‫مطبوعہ آفتاب عالم‬ ‫باب الجمع بين الصالتين فی السفر والمطر‬ ‫(‪ ؎۴‬مؤطا امام محمد‬
‫پريس الہور ص‪)۱۳۱‬‬
‫تبوک‬
‫ِ‬ ‫يعنی جو اس حديث ميں آياکہ سےيد عالم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر‬
‫ميں ظہر وعصر جمع فرماتے ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع کے معنی‬
‫جمع صوری ہيں۔ ماّل جی تو ايک ہوشيار ان احاديث اور ان کے امثال کو محتمل‬
‫س ود سمجھ کر خود بھی زبان پر نہ الئے اور اغوائے عوام کےلئے يوں گول‬‫وبے ُ‬
‫اور پردہ کہہ گئے ف کہ جمع بين الصالتين فی سفر صحح اور ثابت ہے رسول‬
‫اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سے بروايت جماعت عظيمہ کے صحابہ کبار سے۔‬
‫ص ‪)۳۶۶‬‬ ‫( ف معيارالحق‬
‫پھر پندرہ ‪ ۱۵‬صحابہ کرام کے اسمائے طيبہ گناکر خود ہی کہا الکن مجموعہ‬
‫روايات ميں بعض ايسی ہيں کہ اُن ميں فقط جمع کرنا رسول اللہ صلی اللہ‬
‫تعالٰی عليہ وسلم کا دو نمازوں کو بےان کيا ہے کيفيت جمع کی بيان نہيں کی‬
‫پس حنفی لوگ اُن حديثوں ميں يہ تاويل کرتے ہيں کہ مراد اس سے جمع صوری‬
‫ہے اسی لئے وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں ذکر کرتے ہيں تو‬
‫مصنفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر‬
‫محمول سمجھیں اھ ملخصا ً۔‬
‫اقول‪ :‬بالفرض اگر جمع صوری ثابت نہ ہوتی تاہم محتمل تھی اور احتمال قاطع‬
‫احاديث‬
‫ِ‬ ‫استدالل نہ کہ جب آفتاب کی طرح روشن دلیلوں سے جمع صوری کا‬
‫صحيحہ سے ثبوت ظاہر تو اب برا ِہ تلبيس پندرہ‪ ۱۵‬صحابہ کی روايت سے اپنے‬
‫مطلب کا ثبوت صحيح بتانا اور جابجا عوام کو دہشت دالنے کےلئے کہيں چودہ‬
‫ماّل جی کی تحرير خود اُن پر‬‫ماّل ئيت ہے اب تو ُ‬
‫سنانا کيا مقتضائے ُ‬
‫کہيں پندرہ ُ‬
‫بازگشتی تير ہوئی کہ جب احاديث صحيحہ صريحہ سے جمع صوری ثابت تو‬
‫منصفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر‬
‫محمول سمجھيں‪ ،‬رہے وہ صحابہ جن کی روايات اپنے زعم ميں صريح سمجھ کر‬
‫الئے اور نص مفسر ناقابل تاويل کہتے ناظرين نقاد کا خوف نہ الئے وہ صرف چار‬
‫ہيں دو جمع تقديم دو جمع تاخير ميں‪ ،‬اُن روايات کا حال بھی عنقريب اِن شاء‬
‫اللہ القريب المجيب کھالجاتا ہے اُس وقت ظاہر ہوگا کہ دعوٰی کردينا آسان ہے‬
‫مگر ثبوت ديتي تين ہاتھ پيراتا ہے وللہ الحجۃ الساميہ۔‬
‫فصل دوم ابطال دالئل جمع تقديم‪:‬‬
‫واضح ہوکہ جمع تقديم غايت درجہ ضعف وسقوط ميں ہے حتی کہ بہت علمائے‬
‫شافعيہ ومالکيہ تک معترف ہيں کہ اُس کے باب ميں کوئی حديث صحيح نہ ہوئی‬
‫ماّل ئیت کے بھروسے بيڑا اٹھا کر چلے ہيں کہ اُسے احاديث‬
‫ماّل جی اپنی ُ‬
‫مگر ُ‬
‫صحيحہ صريحہ مفسرہ قاطعہ سے ثابت کر دکھائيں گے ؎‬
‫چالتو ہے وہ بت سيمتن شب وعدہ‬
‫اگر حجاب نہ روکے حيانہ ياد آئے‬
‫سن چکے‬ ‫جمع تقديم وتاخير دونوں کی نسبت حضرت کے يہی دعوے ہيں‪ ،‬ابھی ُ‬
‫کہ وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں پھر بعد ذکرِ احاديث ف‪۱‬‬
‫فرمايا يہ ہيں دالئل ہمارے جواز جمع پر جن ميں کسی طرح عذر اور تاويل اور‬
‫جرح اور قدح کو دخل نہيں۔‬
‫ص ‪) ۳۸۳‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معيارالحق‬
‫آخر کتاب ميں فرمايا ف‪ :۲‬نصوص قاطعہ تاويل۔ اس سے اوپر لکھا‪ :‬احاديث ف‪۳‬‬
‫صحاح جو جمع بين الصالتين پر قطعا ً اور يقينا داللت کرتی ہيں۔‬
‫ص‪)۴۰۳‬‬ ‫(ف‪ ۲‬معيارالحق ص ‪ ( ) ۴۱۸‬ف‪ ۳‬معيارالحق‬
‫بہت اچھا ہم بھی مشتاق ہيں مگر بے حاصل ؎‬
‫سنتے تھے پہلو ميں دل کا‬‫بہت شور ُ‬
‫جو چپراتو اِک قطرہ خُوں نہ نکال‬
‫حضرت بکمال عرقريزی‪ Z‬دو‪ ۲‬حديثيں تالش کرکے الئے وہ بھی ثمرہ نظر شريف‬
‫نہيں بلکہ مقلدين شافعيہ کی تقليد جامد سے۔‬
‫طرق حديث سيدنا معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس‬‫ِ‬ ‫حديث اوّل‪ :‬بعض‬
‫جناب سے روايت صحيحہ معروفہ مشہورہ مرويہ کبار ائمہ تو وہ تھی جو ان‬
‫احاديث مجملہ سے حديث چہارم ميں گزری جس ميں سوا جمع کے کوئی کيفيت‬
‫مخصوصہ مذکور نہ تھی جماہےر ائمہ وحفّاظ نے اسے يوں ہی روايت کيا۔‬
‫ٰ‬
‫رواہ عن ابی الزبير عن ابی الطفيل عن معاذ جماعۃ من الحفاظ‪ ،‬منھم سفين الثوری وقرۃ بن خالد‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ومالک بن انس واخرون‪ ،‬اماسفين فعند ابن ماجۃ‪ ،‬واماقرۃ فعنہ خالد بن الحارث عند مسلم‪،‬‬
‫ٰ‬
‫وعبدالرحمن بن مھدی عندالطحاوی‪ ،‬وامامالک فعنہ الشافعی فی مسندہ‪ ،‬وابن وھب‬
‫عندالطحاوی‪ ،‬وابوالقاسم عندالنسائی‪ 5،‬وابوعلی الحنفی عندالدارمی‪ ،‬وعن الدارمی‪ ،‬مسلم فی‬
‫صحيحہ۔‬
‫اس حديث کو ابوالزبير سے‪ ،‬اس نے ابوالطفيل سے‪ ،‬اس نے معاذ رضی اللہ‬
‫تعال ٰی عنہ سے‪ ،‬حفّاظ کی ايک جماعت نے روايت کيا ہے‪ ،‬جن ميں سفيان ثوری‪،‬‬
‫قرۃ ابن خالد‪ ،‬مالک بن انس اور ديگر محدثين شامل ہيں۔ سفيان ثوری کی روايت‬
‫ابن ماجہ کے ہاں ہے۔ قرۃ ابن خالد سے خالد ابن حارث نے جو روايت لی ہے وہ‬
‫مسلم ميں ہے‪ ،‬اور جو عبدالرحمان ابن مہدی نے لی ہے وہ طحاوی ميں ہے۔‬
‫ابن وہب نے‬
‫ِ‬ ‫مالک سے جو روايت شافعی نے لی ہے وہ ان کے مسند ميں ہے۔ جو‬
‫لی ہے وہ طحاوی کے ہاں ہے۔ جو ابوالقاسم نے لی ہے وہ نسائی کے پاس ہے۔ جو‬
‫ابوعلی حنفی نے لی ہے وہ دارمی کے ہاں ہے اور دارمی سے مسلم نے اپنی‬
‫صحيح ميں ذکر کی ہے۔ (ت)‬
‫اہل علم کے نزديک معروف ہے مگر ايک روايت غريبہ شاذہ بطريق ليث بن سعد عن يزيد بن ابی‬ ‫يہی ِ‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫جيب عن ابی الطفيل يوں آئی‪ :‬ان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم کان فی غزوۃ تبوک‪ ،‬اذا ارتحل‬
‫قبل ان تزيغ الشمس اخر الظھر حتی يجمعھا الی العصر فيصليھما جميعا‪ ،‬واذا ارتحل بعدزيغ‬
‫الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم صار‪ ،‬وکان اذاارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصالھا مع‬
‫المغرب ‪؎۱‬۔ رواہ احمد وابو داؤد والترمذی وابن حبان والحاکم والدارقطنی والبیھقی۔ زاد الترمذی بعد‬
‫قولہ‪ :‬اذا ارتحل بعدزيغ الشمس‪ ،‬عجل العصر الی الظھر وصلی الظھر والعصر جميعا۔ الحديث ‪؎۲‬‬
‫يعنی حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم غزوہ تبوک ميں جب سورج ڈھلنے‬
‫سے پہلے کُوچ فرماتے تو ظہر ميں دير کرتے يہاں تک کہ اُسے عصر سے مالتے‬
‫تو دونوں کو ساتھ پڑھتے اور جب دوپہر کے بعد کُوچ فرماتے تو عصر ميں تعجيل‬
‫کرتے اور ظہر وعصر ساتھ پڑھتے پھر چلتے اور جب مغرب سے پہلے کُوچ کرتے‬
‫مغرب ميں تاخير فرماتے يہاں تک کہ عشا کے ساتھ پڑھتے اور مغرب کے بعد‬
‫کُوچ فرماتے تو عشا ميں تعجيل کرتے اُسے مغرب کے ساتھ پڑھتے۔‬
‫(‪ ؎۲‬جامع الترمذی باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين مطبوعہ مجتبائی الہور ‪)۱/۷۲‬‬
‫(‪ ؎۳‬جامع الترمذی باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين مطبوعہ مجتبائی الہور ‪)۱/۷۲‬‬
‫امام ترمذی فرماتے ہيں يہ غريب ہے معروف روايت ابی ھريرہ ہے ‪ :‬حيث قال‪:‬‬
‫حديث الليث عن يزيد بن ابی حبيب عن ابی الطفيل عن معاذ ‪،‬حدیث حديث‬
‫غریب والمعروف عند اھل العلم حدیث معاذ من حديث ابی الزبير عن ابی‬
‫الطفيل عن معاذ ان النبی صلی الل ّٰہ تعالٰی عليہ وسلم جمع فی غزوۃ تبوک بين‬
‫الظھر والعصر‪ ،‬وبين المغرب والعشاء۔ رواۃ قرۃ بن خالد وسفيٰن الثوری ومالک‬
‫وغير واحد عن ابی الزبير المکی ‪؎۳‬۔‬
‫چنانچہ ترمذی نے کہا کہ وہ حديث جو ليث نے يزيد ابن ابی حبيب سے‪ ،‬اس نے‬
‫ل علم کے‬‫ابوالطفيل سے‪ ،‬اس نے معاذ سے روايت کی ہے‪ ،‬وہ غريب ہے اور اہ ِ‬
‫نزديک معروف معاذ کی وہ حديث ہے جو ابوالزبير نے بواسطہ ابوالطفيل معاذ‬
‫سے روايت کی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ تبوک ميں ظہر‬
‫وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کيا۔ اس کو قرۃ ابن خالد‪ ،‬سفيان ثوری‪ ،‬مالک‬
‫اور دوسروں نے ابوالزبير مکّی سے روايت کيا ہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مجتبائی الہور ‪)۱/۱۷۲‬‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد باب الجمع بين الصلٰوتين‬
‫(‪ ؎۴‬نيل االوطار شرح منتقی االخبار ابواب الجمع بين الصلٰوتين مطبوعہ مصطفی البابی‬
‫مصر ‪)۳/۲۴۳‬‬
‫پھر ائمہ شان مثل ابوداؤد وترمذی وابوسعيد بن يونس فرماتے ہيں اسے سوا‬
‫قتيبہ بن سعيد کے کسی نے روايت نہ کيا يہاں تک کہ بعض ائمہ نے اُس پر غلط‬
‫ہونے کا حکم فرمايا ‪ ؎۴‬کمانقلہ االمام البدر في العمدۃ والشوکانی الظاھری فی شرح المنتقی‬
‫عن الحافظ ابن سعيد بن يونس (جيسا کہ امام بدر نے عمدۃ ميں اور شوکانی الظاہری‬
‫نے شرح منتقی ميں حافظ ابن سعيد بن يونس سے نقل کيا۔ ت) امام ابوداؤد‪Z‬‬
‫نےمنکر کہا ‪ ؎۱‬کمافی البدر المنير وعنہ فی النيل (جيسا کہ بدر منير ميں ہے اور اس‬
‫سے نيل االوطار‪ Z‬نے نقل کيا ہے)‬
‫مطبوعہ مصطفی‬ ‫ابواب الجمع بين الصلٰوتين‬ ‫(‪ ؎۱‬نيل االوطار شرح منتقی االخبار‬
‫البابی مصر ‪)۳/۲۴۳‬‬
‫بلکہ رئيس الناقدين امام بخاری نے اشارہ فرمايا کہ يہ حديث نہ ليث نے روايت‬
‫کی نہ قتيبہ نے ليث سے سنی بلکہ خالد بن قاسم مدائنی متروک باالجماع‬
‫مطعون بالکذب نے قتيبہ کو دھوکا دے کر اُن سے روايت کرادی اُس کی عادت‬
‫تھی کہ برا ِہ مکر وحيلہ شيوخ پر اُن کی ناشنيدہ روايتيں داخل کرديتا الجرم حاکم‬
‫نے علوم الحديث ميں اُس کے موضوع ہونے کی تصريح کی يہ سب باتيں علمائے‬
‫حنفيہ مثل امام زيلعی شارح کنز وامام بدر عينی شارح صحيح بخاری وعاّل مہ‬
‫ابراہيم حلبی شارح منيہ کے سوا شافعيہ ومالکيہ وظاہريہ قائالن جمع بين‬
‫الصالتين مثلي امام قسطالنی شافعی شارح بخاری وعاّل مہ زرقانی مالکی شارح‬
‫مؤطا ومواہب وشوکانی ظاہری شارح منتقی وغيرہم‪ Z‬نے امام ابن يونس وامام‬
‫ابوداؤد‪ Z‬وابوعبداللہ حاکم وامام المحدثين بخاری سے نقل کيں بلکہ انہيں نے اور‬
‫ان کے غير مثل صاحب بدرمنير وغيرہ نے امام ابوداؤد سے حکم مطلق نقل کيا‬
‫قابل استناد نہيں‬
‫ِ‬ ‫کہ جو مضمون اس روايت کا ہے اس باب ميں اصال ً کوئی حديث‬
‫کماسيأتی اِن شاء الل ّٰہ تعالٰی ( جيسا کہ اِن شاء اللہ تعالٰی آگے آئےگا۔ ت) تو‬
‫باوصف تصريحات ائمہ شان خصوصا ً بخاری کے پھر ماّل جی کا اس روايت کی‬
‫تصحيح ميں عرق ريزی بے حاصل اور توثيق ليث وقتيبہ وغيرہما رواۃ وقبول تفرد‬
‫الت فاحشہ ہے کس نے کہا تھا کہ‬ ‫ثقہ کے اثبات ميں تطويل الطائل کرنا کيسی جہ ِ‬
‫قتيبہ يا ليث يا يزيدبن ابی حبيب يا معاذاللہ حضرت ابوالطفيل رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہ ضعيف ہيں‪ ،‬ماّل جی بايں پيرانہ سالی ودعوے محدثی ابھی حديث معلول ہی‬
‫ضعف راوی ضرور نہيں بلکہ باوصف وثاقت‬ ‫ِ‬ ‫کو نہيں جانتے کہ اُس کےلئے کچھ‬
‫وعدالت رواۃ حديث ميں علت قارحہ ہوتی ہے کہ اُس کا َرد واجب کرتی ہے جسے‬
‫بخاری وابوداؤد‪ Z‬وغيرہما سے ناقدين پہچانتے ہيں بخاری وابوسعيد وحاکم نے بھی‬
‫تو قتيبہ پر جرح نہ کی تھی بلکہ يہ کہا تھا کہ اُنہيں دھوکا دياگيا غلط ميں پڑگئے‬
‫وثاقت قتيبہ سے حديث کو کيا نفع‬
‫ِ‬ ‫عدالت قتيبہ کو کيا نقصان پہنچا‪،‬‬
‫ِ‬ ‫پھر اس سے‬
‫مال‪ ،‬ہاں يہ دفتر توثيق اپنے پےشوا ابن حزم غير مقلد المذہب کو سنائيے جس‬
‫خبيث اللسان نے آپ کو اس روايت کے َرد ميں سيدنا ابوالطفيل صحابی رضی‬
‫اللہ تعالٰی عنہ کو عياذاً‪ Z‬باللہ مقدوح و مجروح بتايا جسے دوسرے غير مقلّد‬
‫شوکانی نے نقل کيا‪ ،‬غير مقلدوں کی عادت ہے کہ جب حديث کے َرد پر آتے ہيں‬
‫خوف خدا وشرم ِ دُنيا سب باالئے طاق رکھ جاتے ہيں۔ اسی ابن حزم نے باجے‬ ‫ِ‬
‫حالل کرنے کےلئے صحيح بخاری شريف کی صحيح ومتصل حديث کو بزعم ِ تعليق‬
‫َرد کيا جس کا بيان امام نووی رحمۃ اللہ تعالٰی عليہ نے شرح صحيح مسلم‬
‫شريف ميں فرمايا وہی ڈھنگ‪ Z‬موصول کو معلق مسند کو مرسل بناکر احاديث‬
‫صحيحہ جيدہ کو َرد کرنے کےلئے آپ نے سيکھے ہيں‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫ّ‬
‫کماتقدم‪ ،‬ومن يشبہ اباء ہ فماظلم ثم اقول‪ :‬وتحسين الترمذی يرجع الی حديث معاذ‪ ،‬لقولہ‪ :‬حديث‬
‫معاذ حديث حسن غريب۔ واذا اتی علی ھذہ الروايۃ لم يحسنہ‪ ،‬انما قال‪ :‬وحديث الليث عن يزيد‬
‫غريب۔ وافاد انہ خالف المعروف‪ ،‬فقال‪ :‬والمعروف عند اھل العلم حديث معاذ ‪؎۱‬۔ الخ جيسا کہ‬
‫گزرا اور جو شخص اپنے آباؤ سے مشابہت رکھے اس کا کوئی قصور نہيں۔ ثم‬
‫اقول پھر ميں کہتا ہوں) کہ ترمذی کا حسن قرار دينا حديث معاذ سے متعلق ہے‬
‫کيونکہ ترمذی نے کہا ہے کہ معاذ کی حديث حسن غريب ہے اور جب اس روايت‬
‫کا ذکر کيا اسے حسن نہيں کہا صرف يہ کہا کہ ليث کی يزيد سے مروی حديث‬
‫غريب ہے۔ ترمذی نے يہ افادہ بھی کيا کہ يہ معروف حديث کے خالف ہے۔ چنانچہ‬
‫ل علم کے نزديک معروف‪ ،‬معاذ کی وہ حديث ہے الخ۔‬ ‫ترمذی نے کہا ہے کہ اہ ِ‬
‫‪)۱/۷۲‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب ماجاء فی الجمع بين الصالتين‬ ‫(‪ ؎۱‬جامع الترمذی‬
‫واما ابن حبان فالنعلم لہ فضال علی ابی سعيد بن يونس‪ ،‬فانہ ايضا ثقۃ‪ ،‬ثبت‪ ،‬حافظ‪ ،‬امام من ائمۃ‬
‫ٰ‬
‫الشان‪ ،‬کالھما من االقران‪ ،‬من تالمذۃ االمام النسائی ابی عبدالرحمن۔ وابن يونس‪ ،‬لنزاھتہ من نفس‬
‫فلسفی‪ ،‬احب الی الناس من ابن حبان۔ وقد قال االمام ابوعمرو بن الصالح فی طبقات الشافعيۃ‪ :‬ربما‬
‫ّ‬
‫غلط الغلط الفاحش فی تصرفاتہ ‪ ،؎۲‬کمانقلہ الذھبی فی تذکرۃ الحفاظ۔ فانی يدانی اباداؤد‪ ،‬فضال‬
‫ان يواذيہ‪ ،‬فضال ان يباريہ‪ ،‬فضال عن ذاک الجبل الجليل محمد بن اسمعيل يوقد عرف بالتساھل فی‬
‫باب التصحيح؛ بل والتحسين‪ ،‬ھو والترمذی‪ :‬کمانص عليہ االئمۃ وحققناہ فی رسالتنا مدارج طبقات‬
‫‪۱۳۱۳‬ھ الحديث علی ان الجرح مقدم فی مثل المقام‪ ،‬فان من اثبت فانما نظر الی ثقۃ الرواۃ‪ ،‬ولم يطلع‬
‫ہّٰلل‬
‫علی مااطلع عليہ غيرہ من العلۃ‪ ،‬ومن يعلم قاض علی من اليعلم۔ وا اعلم‪ ،‬من کل اعلم۔ رہا‬
‫ابن حبان تو اسکی سعيد ابن يونس پر کوئی برتری ہمارے علم ميں نہيں ہے‬
‫کيونکہ سعيد بھی ثقہ ہے ثبت ہے‪ ،‬حافظ ہے اور حديث کے اماموں ميں سے ايک‬
‫امام ہے دونوں ہم زمان ہيں اور امام ابوعبدالرحمن نسائی کے شاگردوں ميں‬
‫سے ہيں۔ تاہم ابن يونس فلسفی روح سے پاک ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ہاں‬
‫ابن حبان سے زيادہ پسنديدہ ہے۔ امام ابوعمر ابن صالح نے طبقات الشافعيہ ميں‬
‫کہ ا ہے کہ ابن حبان کو تصرفات حديث کے دوران بسا اوقات شديد غلطی لگ‬
‫جاتی تھی‪ ،‬جيسا کہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ ميں بےان کيا ہے۔ تو پھر ابن حبان‬
‫ابوداؤد‪ Z‬کے قريب بھی کہاں پہنچ سکتا ہے‪ ،‬چہ جائےکہ اس کا ہمسر ہو‪ ،‬چہ‬
‫معيل (بخاری) کا‬ ‫جائےکہ اس کے مقابل ہو۔ اور علم کے عظيم‪ Z‬پہاڑ محمد بن اس ٰ‬
‫مقام تو پھر بہت ہی اونچا ہے‪ ،‬جبکہ ابن حبان احاديث کو صحيح قرار دينے ميں‬
‫متساہل ہے۔ بلکہ حسن قرار‪ Z‬دينے ميں بھی يہ اور ترمذی متساہل ہيں‪ ،‬جيسا کہ‬
‫ائمہ نے تصريح کی ہے اور ہم نے اپنے رسالے ''مدارج طبقات الحديث'' ميں‬
‫تحقيق کی ہے۔ عالوہ ازيں ايسے مقام پر جرح‪ ،‬تعديل سے مقدم ہوتی ہے کيونکہ‬
‫جو علماء‪ ،‬حديث کو ثابت قرار‪ Z‬ديتے ہيں وہ صرف راويوں کا ثقہ ہونا مدّنظر‬
‫رکھتے ہيں اور اس خامی سے آگاہ نہيں ہوتے ہيں جس سے دوسرے واقف ہوتے‬
‫ہيں اور آگاہی رکھنے والے‪ ،‬آگاہی نہ رکھنے والوں کی بنسبت فيصلہ کن ہوتے ہيں۔‬
‫واللہ تعالٰیاعلم من کل اعلم۔ (ت)‬
‫‪)۳/۱۲۶‬‬ ‫مطبوعہ حيدرآباد دکن‬ ‫(‪ ؎۲‬تذکرۃ الحفاظ فی ترجمۃ ابن حبان‬
‫م اقول‪ :‬اس روايت ميں اسی طرح مقال واقع‪ Z‬ہوئی اور ہنوز کالم طويل ہے‬ ‫ث ّ‬
‫ٰ‬
‫مگر فقير غفراللہ تعالی لہ کہتا ہے نظر تحقيق کو رخصت تدقيق‪ Z‬ديجئے تو اس‬
‫روايت کا کون سا حرف جمع حقيقی ميں نص ہے اُس کا حاصل تو صرف اس‬
‫قدر کہ حضور واال صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوک ميں ظہر وعصر کو‬
‫جمع فرماتے اگر دوپہر سے پہلے کُوچ ہوتا تو راہ ميں اُتر کر ورنہ منزل ہی پر‬
‫پہلی صورت ميں جمع بعد سير ہوتی ہے اور دوسری ميں سير بعد جمع پھر اس‬
‫ميں جمع صوری کا خالف کيا ہوا حديث کا کون سا لفظ حقيقی کا تعيین کررہا‬
‫ہے اذا ارتحل بعدزيغ الشمس ميں خواہی نخواہی بعديت متصلہ پر کيا دليل ہے‬
‫بلکہ اس کے عدم پر دليل قائم کہ جزا صلی ثم سار ہے بلکہ الفاظ اخر الظھر‬
‫وعجل العصر سے جمع صوری ظاہر ہے ظہر دير کرکے پڑھی عصر جلد پڑھی‬
‫اس سے يہی معنی مفہوم ومتبادر ہوتے ہيں کہ ظہر اپنے آخر وقت ميں عصر‬
‫اپنے شروع وقت ميں نہ يہ کہ ظہر عصر ميں پڑھی جائے يا عصر ظہر ميں‪ ،‬ولہذا‬
‫علمائے کرام مثل امام اجل طحاوی وابوالفتح ابن سيد الناس وغيرہما بلکہ ان‬
‫کے عالوہ آپ کے امام شوکانی نے بھی ان الفاظ تاخير وتعجيل کو جمع صوری‬
‫کی صريح دليل مانا‪ ،‬شرح منتقی ميں کہا‪:‬‬
‫ممايدل علی تعين حمل حديث الباب علی الجمع الصوری‪ ،‬مااخرجہ النسائی عن ابن عباس‪،‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫بلفظ‪ :‬صليت مع النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم الظھر والعصر جميعا‪ ،‬والمغرب والعشاء جميعا‪،‬‬
‫اخر الظھر وعجل العصر‪ ،‬واخر المغرب وعجل العشاء۔ فھذا ابن عباس‪،‬راوی حديث الباب‪ ،‬قدصرح‬
‫بان ماوراہ من الجمع المذکور ھو الجمع الصوری ‪؎۱‬۔ جن وجوہات کی بنا پر اس باب کی‬
‫حديث کو جمع صوری پر حمل کرنا متعين ہوجاتا ہے ان ميں سے ايک وجہ وہ‬
‫روايت ہے جس کی نسائی نے ابن عباس سے ان الفاظ ميں تخريج کی ہے کہ‬
‫ميں نے نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے ساتھ ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا اور‬
‫مغرب وعشا کو بھی اکٹھا پڑھا۔ آپ نے ظہر ميں تاخير اور عصر ميں تعجيل‬
‫فرمائی‪ ،‬اسی طرح مغرب ميں تاخير اور عشا ميں تعجيل فرمائی تو يہ ابن‬
‫عباس جو حديث کے راوی ہيں خود ہی واضح کررہے ہيں کہ انہوں نے جمع کی‬
‫جو روايت بےان کی ہے اس سے مراد جمع صوری ہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مصطفی‬ ‫باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ‬ ‫(‪ ؎۱‬نيل االوطار شرح منتفی االخبار‬
‫البابی مصر ‪)۳/۲۴۶‬‬
‫ُ‬
‫اسی ميں ہے‪ :‬ومن المؤيدات للحمل علی الجمع الصوری ايضا‪ ،‬مااخرجہ ابن جرير عن ابن عمر‪ ،‬قال‪:‬‬
‫ّ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫خرج علينا رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم‪ ،‬فکان يؤخر الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما‪،‬‬
‫ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما۔ وھذا ھو الجمع الصوری ‪؎۲‬۔ جمع صوری پر حمل‬
‫کرنے کی مؤيدات ميں سے وہ روايت بھی ہے جو ابن جرير نے عبداللہ ابن عمر‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بےان کی ہے وہ فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ‬
‫تعال ٰی عليہ وسلم ہمارے پاس باہر تشريف الئے تو ظہر کو مؤخر کرتے تھے اور‬
‫عصر کو جلدی‪ ،‬اس طرح دونوں کو يکجا پڑھ ليتے تھے۔ اسی کو جمع صوری‬
‫کہتے ہيں۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مصطفی‬ ‫باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ‬ ‫(‪ ؎۲‬نيل االوطار شرح منتفی االخبار‬
‫البابی مصر ‪)۳/۲۴۶‬‬
‫معہ ذا ظہر ومغرب کا جب وقت کھودنا ٹہرا تو عصر وعشاء ميں جلدی کا ہے کی‪،‬‬
‫اطمينان سے منزل پر پہنچ کر دونوں پڑھ لی جاتيں‪ ،‬ہاں جمع صوری اُن کی‬
‫تعجيل ہی سے ممکن‪ ،‬تو حديث اُسی طرف ناظر‪ ،‬بالجملہ شک نہيں کہ يہ روايت‬
‫ماّل جی نے خواہی نخواہی جمع‬‫بھی اُنہيں احاديث مجملۃ الکيفيۃ سے ہے جسے ُ‬
‫حقيقی ميں نص مفسر ناقابل تاويل مان ليا‪ ،‬الحمداللہ اس تحرير کے بعد مرقاۃ‬
‫شرح مشک ٰوۃ کے مطالعہ نے ظاہر کيا کہ موالنا علی قاری عليہ رحمۃ الباری نے‬
‫حديث کی يہی تفسير کی جو فقير نے تقرير کی‪ ،‬فرماتے ہيں‪:‬‬
‫ٰ ٰ‬
‫(جمع بين الظھر والعصر) ای فی المنزل‪ ،‬بان اخر الظھر الی اخر وقتہ وعجل العصر فی اول وقتہ۔‬
‫(ظہر وعصر کو جمع کيا) يعنی قيام گاہ ميں‪ ،‬ظہر کو آخر وقت تک مؤخر کيا اور‬
‫عصر کو تعجيل کرکے اول وقت ميں پڑھا۔ (ت)‬
‫پھر فرمايا‪(:‬جمع بين المغرب والعشاء) ای فی المنزل‪ ،‬کماسبق ‪؎۳‬۔ (مغرب وعشاء کو جمع‬
‫کيا)يعنی جائے قيام ميں‪ ،‬جيسا کہ پہلے گزرا۔ (ت)‬
‫‪)۳/۲۲۵‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان‬ ‫باب صلٰوۃ السفر‬ ‫(‪ ؎۳‬مرقاۃ شرح مشکٰوۃ‬
‫حديث دوم ‪:‬اور تم نے کيا جانا کيا حديث دوم وہ حديث جسے جمع صالتين سے‬
‫اصال ً عالقہ نہ يں جس ميں اثبات جمع کا نام نہيں نشان نہيں‪ ،‬بو نہيں‪ ،‬گمان نہيں۔‬
‫قائلين جمع نے بھی اُسے مناظرہ ميں پيش نہ کيا‪ ،‬ہاں بعض علمائے شافعيہ‬
‫ِ‬ ‫خود‬
‫نے شرح حديث ميں استطراداً‪ Z‬جس طرح شراح بعض فوائد زوائد حديث سے‬
‫استنباط کرجاتے ہيں لکھ ديا کہ اس ميں جمع سفر پر دليل ہے ماّل جی چار طرف‬
‫ٹٹول ميں تھے ہی تقليد جامد شافعيہ کی الٹھی پکڑے انہيں بند کيے پہنچے فيہ‬
‫دليل پر ہاتھ پڑا بحکم لکل ساقطۃ القطۃ (ہرگری ہوئی چيز کو کوئی اٹھانے واال‬
‫ہوتا ہے۔ ت) جھٹ خوش خوش اٹھاالئے اور معرکہ مناظرہ ميں جمادی وہ کيا يعنی‬
‫حديث صحيحين‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫عن ابی جحيفۃ رضی ا تعالی عنہ‪ ،‬خرج علينا النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم بالھاجرۃ الی‬
‫البطحاء‪ ،‬فتوضأ فصلی لنا الظھر والعصر ‪؎۱‬۔ ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ‬
‫رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت مقام ِ بطحاء ميں ہمارے‬
‫پاس باہر تشريف الئے تو وضو کيا اور ہميں ظہر وعصر کی نماز پڑھائی۔‬
‫‪)۱/۱۹۶‬‬ ‫مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی‬ ‫(‪ ؎۱‬صحيح مسلم‪ :‬باب سترۃ المصلّی‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ولفظ البخاری‪ ،‬خرج علينا رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم بالھاجرۃ‪ ،‬فصلی بالبطحاء الظھر‬
‫رکعتين والعصر رکعتين ‪؎۲‬۔ اور بخاری کے الفاظ يوں ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ‬
‫تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس باہر تشريف الئے اور مقام ِ بطحاء‬
‫ميں ظہر کی دو‪ ۲‬رکعتيں اور عصر کی بھی دو‪ ۲‬رکعتيں اور فرمائيں۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۲‬صحيح بخاری کتاب المناقب‪ ،‬باب صفت النبی صلی اللہ عليہ وسلم ‪،‬مطبوعہ قديمی‬
‫کتب خانہ کراچی ‪)۱/۵۰۲،‬‬
‫ماّل جی کی داد نہ فرياد‪ ،‬اب کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت اسے جمع‬‫سچ تو ہے ُ‬
‫حقيقی کی دليل نہ صرف دليل بلکہ صاف صريح نہ صالح تاويل بتانا کن کھلی‬
‫آنکھوں کا کام ہے سبحان اللہ! حديث کا مفاد صرف اتنا کہ حضور واال صلی اللہ‬
‫تعالٰی عليہ وسلم نے دوپہر کو يا ظہر کے اول وقت يا عصر سے پہلے خيمہ‬
‫اقدس سے برآمد ہوکر وضو کيا اور ظہر وعصر دونوں اُسی موضع بطحاء ميں‬
‫ادا فرمائيں اس ميں تو مطلق جمع بھی نہ نکلی نہ کہ جمع حقيقی ميں نص ہو‪،‬‬
‫ماّل جی تو آپ جانيں ايک ہوشيار ہيں خود سمجھے کہ حديث مطلب سے محض‬
‫بے عالقہ ہے لہذا يہ نامندمل زخم بھرنے کو بشرم عوام کچھ عربی بولے اور يوں‬
‫اپنی نحودانی کے پردے کھولے کہ ف‪ ۱‬ہاجرہ خروج ووضو وصالۃ سب کی ظرف‬
‫ہے اور فاترتيب بے مہلت کےلئے تو بمقتضائے فامعنی يہ ہُوئے کہ يہ سب کام‬
‫ہاجرہ ميں ہوليے‪،‬‬
‫ص ‪۳۶۷‬۔‪)۳۶۹‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معيارالحق‬
‫ظاہر يہی ہے تو اس سے عدول بے مانع قطعی ناروا‪ ،‬عالوہ بريں عصر ظہر پر‬
‫جدا کرلينا‬
‫معطوف معمول کو ُ‬ ‫ِ‬ ‫معطوف اور صلّٰی توضأ سے بے مہلت مربوط تو‬
‫کيونکر جائز اھ ملخصا مھذبامترجما اس پر بہت وجوہ سے َرد ہيں‪ ،‬مثال ً‬
‫ٰ‬
‫اول‪ :‬فاکوترتيب ذکری کافی‪ ،‬مسلم الثبوت ميں ہے‪ :‬الفاء للترتيب علی سبيل‬
‫التعقيب ولوفی الذکر ‪؎۱‬۔ فاء ترتيب کے لئے بطور تعقيب ہے خواہ يہ ترتيب ذکر ميں‬
‫ہو۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مطبع انصاری دہلی ص‪)۶۱‬‬ ‫مسئلہ الفاء للترتيب‬ ‫(‪ ؎۱‬مسلم الثبوت‬
‫ثانی‪ :‬عدم مہلت ہر جگہ اُس کے الئق ہوتی ہے کمافی فواتح الرحموت ‪( ؎۲‬جيسا کہ‬
‫فواتح الرحموت ميں ہے۔ ت) تزوج فولدلہ ميں کون کہے گا کہ نکاح کرتے ہی‬
‫چہ پيدا ہوتو جيسے وہاں تقريبا ً ايک سال کا فاصلہ منافی مقتضائے‬
‫اُسی آن ميں ب ّ‬
‫فانہیں‪ ،‬ظہر وعصر ميں دو‪ ۲‬ساعت کا فاصلہ کيوں منافی ہوگا۔‬
‫(‪ ؎۲‬فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مع المستصفی ‪ ،‬بحث الفاء للتعقيب ‪ ،‬مطبوعہ‬
‫منشورات الشريف الرضی قم ايران‪)۱/۲۳۴‬‬
‫ثالث‪ :‬ہاجرہ ظرف خروج ہے ممکن کہ خروج آخر ہاجرہ ميں ہوکہ وضو ونماز ظہر‬
‫تک تمام ہوجائے اور نمازِ عصر بالمہلت اُس کے بعد ہو‪ ،‬ہاجرہ کچھ دوپہر ہی کو‬
‫وقت ظہر کو بھی شامل ہے کمافی‬ ‫ِ‬ ‫نہيں کہتے زوال سے عصر تک سارے‬
‫القاموس۔ تو مخالفت ظاہر کا ادعا بھی محض باطل۔‬
‫رابع‪ :‬حديث مروی بالمعنٰی ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے تصريح کی کہ ايسی‬
‫حديث کے فا و واو وغيرہما سے استدالل صحيح نہيں کما فی الحجۃ البالغۃ۔ يہ‬
‫تلخيص وتہذيب اجوبہ ہے وقد ترکنا مثلھا فی العدد (اور ہم نے اتنے ہی جوابات ترک‬
‫کردئے ہيں۔ ت) وانا اقول وبحول الل ّٰہ اصول۔‬
‫خامس ‪:‬ہاجرہ کو ظرف افعال ثلثہ کہنا محض ادعائے بے دليل ہے ''و '' تعقيب‬
‫چاہنی ہے۔ اتحاد زمانہ نہيں چاہتی بلکہ تعدد واجب کرتی ہے کہ تعقيب بے تعدد‬
‫معقول نہيں۔‬
‫سادس ‪:‬ظرفيت ثلٰثہ فاسے ثابت يا خارج سے اول بدا ہ ًۃ باطل کماعلمت برتقدير‬
‫ثانی حديث فالغومحض ہے کہ عصر فی الہاجرہ اُسی قدر سے ثابت‪ ،‬پھر باوصف‬
‫لغويت اُسی کی طرف اسناد کہ بمقتضائے فا يہ معنی ہوئے اور عجيب تر۔‬
‫سابع‪ :‬ذرا صفت حجۃ الوداع ميں حديث طويل سيدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہما صحيح مسلم وغيرہ ميں مالحظہ ہو‪ ،‬فرماتے ہيں‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫فلما کان يوم الترويۃ توجھوا الی منی فاھلوا بالحج ورکب رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم فصلی‬
‫بھا الظھر والعصر والمغرب والعشاء والفجر ‪؎۳‬۔‬
‫جب آٹھويں ذی الحجہ کی ہُوئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬حج کا احرام‬
‫باندھ کر منٰی کو چلے اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سوار ہوئے تو‬
‫منٰی ميں ظہر وعصر ومغرب وعشا وفجر پانچوں نمازيں پڑھيں۔ (م)‬
‫مطبوعہ قديمی کتب‬ ‫باب حجۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم‬ ‫(‪ ؎۳‬الصحيح لمسلم‬
‫‪)۱/۳۹۶‬‬ ‫خانہ کراچی‬
‫ماّل جی وہی فا ہے وہی ترتيب وہی عطف وہی ترکيب۔ اَب يہاں کہہ دينا کہ سوار‬
‫ہوتے ہی معا ً بے مہلت پانچوں نمازيں ايک وقت ميں پڑھ ليں جو معنی صلی‬
‫الظھر والعصر الخ کے يہاں ہيں وہی وہاں اور يہ قطعا ً محاورہ عامہ شائعہ سائغہ‬
‫ہے کہ اصال ً مفيد وصل صلوات نہيں ہوتا ومن ادعی‪ Z‬فعليہ البيان (جو شخص دعوٰی‬
‫مے دليل ہے۔ ت)‬‫کرتا ہے اس کے ذ ّ‬
‫ثامن‪ :‬کالم متناقض ہے کہ اوّل کالم ميں حکم وصل سے عصر کا فعل خالف‬
‫ظاہر مانا يہ دليل صحت ہے آخر ميں کيونکر جائز کہا يہ دليل فساد۔‬
‫قطعيت مانع ضروری جاننا عجب جہل ہے کيا اگر کسی‬ ‫ِ‬ ‫تاسع‪ :‬تاويل کے لئے‬
‫حديث کے ظاہر سے ايک معنی متبادر ہوں اور دوسری حديث صحيح اُس کے‬
‫خالف ميں صريح تو حديث اول کو اس کے خالف ہی پر حمل واجب ہے کہ بے‬
‫مانع قطعی ظاہر سے عدول کيونکر ہو نقل کر النا سہل ہے محل ومقام ومقصد‬
‫کالم کا سمجھنا نصيب اعدا۔‬
‫تاويالت رکيکہ‬
‫ِ‬ ‫عاشر ‪:‬آپ جو اپنی نصرت خياالت کو احاديث صحيحہ ميں جابجا‬
‫باردہ کرتے ہيں اُن کے جواز کا فتوٰی کہاں سے پايا‪ ،‬مجتہدات ميں قاطع کہاں‪،‬‬
‫وقت ظہر يک مثل بنانے کو جو حديث صحيح صريح بخاری حتی ساوی الظل‬ ‫ِ‬ ‫مثال ً‬
‫التلول کے معنی بگاڑے جن کا ذکر اِن شاء اللہ تعالٰی عنقريب آتا ہے اُس کا عذر‬
‫احاديث صحيحہ جن سے يہ‬
‫ِ‬ ‫کيا معقول ارشاد ہوتا ہے‪ :‬منشاء تاويالت کا يہی ہے کہ‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ بعد ايک مثل کے وقت ظہرکا نہيں رہتا ثابت ہيں پس جمعا ً بين‬
‫االولہ يہ تاويليں حقہ کی گئيں‪ ؎۱‬اب خدا جانے بے قطعيت‪ Z‬مانع يہ تاويليں حقہ‬
‫مخالفت ظاہر کے باعث سلفہ کيوں نہ ہوگئيں۔‬
‫ِ‬ ‫کيونکر ہوئيں‬
‫ص ‪)۳۵۴‬‬ ‫(‪ ؎۱‬معيارالحق ‪ ،‬مسئلہ چہارم ‪ ،‬بحث آخر وقت ظہر الخ مکتبہ نذيريہ الہور‬
‫حادی عشر ‪:‬طرفہ نزاکت صدر کالم ميں يہ بيڑا ا ٹھا کر چلے کہ وہ حديثيں جن‬
‫ميں تاويل مخالف کو دخل نہيں ذکر کرتے ہيں اور يہاں ايسے گرے کہ صرف‬
‫ظاہر سے سند الئے تاويل خود ہی مان گئے۔‬
‫ثانی عشر ‪:‬آپ کی فضوليات کی گنتی کہاں تک اصل مقصود کی دھجياں ليجئے‬
‫صحيحين ميں حديث مذکور کے يہ لفظ تو ديکھيے جن ميں فاء سے يہ فی نکالی‪،‬‬
‫مگر يہی حديث انہيں صحيحين ميں متعدد طرق سے بلفظ ثم آئی جو آپ کی‬
‫تعقيب بے مہلت کو تعاقب سے دم لينے کی مہلت نہيں ديتی۔ صحيح بخاری‬
‫شريف باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم۔‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫بطريق شعبۃ عن الحکم‪ ،‬قال‪ :‬سمعت اباجحيفۃ‪ ،‬قال‪ :‬خرج رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم‬
‫بالھاجرۃ الی البطحاء فتوضأ‪ ،‬ثم صلی الظھررکعتين والعصر رکعتين ‪؎۱‬۔ بطريقہ شعبہ‪ ،‬وہ حکم‬
‫سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫سے راوی ہے کہ ميں نے ابوجحيفہ کو کہتے ُ‬
‫عليہ وسلم دوپہر کے وقت بطحاء کی طرف نکلے تو وضو کيا‪ ،‬پھر ظہر کی دو‪۲‬‬
‫رکعتيں پڑھيں اورعصر کی دو‪ ۲‬رکعتيں۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۱‬صحيح بخاری کتاب المناقب‪،‬باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مطبوعہ قديمی‬
‫کتب خانہ کراچی‪)۱/۵۰۲،‬‬
‫نيز باب مذکوربطريق مالک بن مغول عن عون عن ابیہ‪ ،‬وفيہ‪ ،‬خرج بالل فنادی بالصالۃ‪ ،‬ثم دخل‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫فاخرج فضل وضوء رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم‪ ،‬فوقع الناس عليہ ياخذون منہ‪ ،‬ثم دخل‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫فاخرج العنزۃ‪ ،‬وخرج رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم‪ ،‬کانی انظر الی وبيض ساقيہ‪ ،‬فرکز العنزۃ‪ ،‬ثم‬
‫صلی الظھر رکعتين والعصر رکعتين ‪؎۲‬۔ بطريقہ مالک ابن مغول‪ ،‬وہ عون سے‪ ،‬وہ اپنے‬
‫والد سے۔ اس روايت ميں ہے کہ بالل (خيمے سے) نکلے اور نماز کے لئے پکارا‪،‬‬
‫پھر اندر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی‬
‫لے آئے تو اس کو حاصل کرنے کےلئے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے‪ ،‬بالل پھر اندر گئے‬
‫اور عصا نکال الئے‪ ،‬اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم بھی باہر‬
‫تشريف لے آئے گويا کہ ميں اب بھی آپ کی ساقين کی چمک ديکھ رہا ہوں بالل‬
‫سترہ) زمين پر گاڑ ديا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم‬
‫نے عصا (بطور ُ‬
‫نے ظہر اور عصر کی دو‪ ۲‬دو‪ ۲‬رکعتيں پڑھيں۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۲‬صحيح بخاری‪،‬کتاب المناقب‪،‬باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم ‪،‬مطبوعہ‬
‫قديمی کتب خانہ کراچی‪)۱/۵۰۳،‬‬
‫لے کہاں کو‪ ،‬ان دو‪ ۲‬نے تو آپ کی تعقيب ہی بگاڑی ہے‪ ،‬تيسرا اور نہ لیے جاؤ جو‬
‫خود ظہر وعصر مويں فاصلہ کر دکھائے‪،‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫صحيح مسلم شريف بطريق سفين ناعون بن ابی جحيفۃ عن ابيہ‪ ،‬وفيہ‪ ،‬فخرج النبی صلی ا تعالی‬
‫ّ‬
‫عليہ وسلم فتوضأ‪ ،‬واذن بالل‪ ،‬ثم رکزت العنزۃ‪ ،‬فتقدم فصلی الظھر رکعتين‪،‬ثم صلی العصر رکعتين‪،‬‬
‫ثم لم يزل يصلی رکعتين حتی رجع الی المدينۃ‪؎۳‬۔‬
‫بطريقہ سفيان‪ ،‬وہ عون سے‪ ،‬وہ اپنے والد ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے۔ اس‬
‫روايت ميں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم باہر تشريف الئے تو‬
‫وضو کيا اور بالل نے اذان دی‪ ،‬پھر عصاگاڑا گيا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫عليہ وسلم کھڑے ہوگئے‪ ،‬تو ظہر کی دو‪ ۲‬رکعتيں پڑھيں‪ ،‬پھر عصر کی دو‪۲‬‬
‫رکعتيں پڑھيں‪ ،‬اس کے بعد مدينہ کو واپسی تک دوہی رکعتيں پڑھتے رہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قديمی کتب خانہ‬ ‫باب سترۃ المصلی الخ‬ ‫کتاب الصلوۃ‬ ‫(‪ ؎۳‬صحيح مسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۱۹۶‬‬
‫ماّل جی! اب مزاج کا حال بتائیے ع‬
‫حفظت شیئا وغابت عنک اشياء‬
‫(تُونے ايک چيز ياد رکھی اور بہت سی چيزيں تُجھ سے اوجھل رہ گئيں۔ ت)‬
‫الحمداللہ اس فصل کے بھی اصل کالم نے وصل ختام بروجہ احسن پايا۔ اب‬
‫حسب فصل اول چند افاضات ليجئے‪:‬‬ ‫ِ‬
‫اّل‬ ‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫افاضہ اولی‪ :‬ہمارے اجل ہ ائمہ حنفيہ مالکيہ شافعيہ اور م جی کے امام ظاہر يہ‬
‫سنن نے‬‫صاحب ُ‬
‫ِ‬ ‫سب باالتفاق اپنی کتب ميں نقل کررہے ہيں کہ امام اجل ابوداؤد‬
‫فرمايا‪ :‬ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ‪؎۱‬۔ جمع تقديم ميں کوئی حديث ثابت نہيں۔‬
‫(ت)‬
‫مطبوعہ مطبعۃ االستقامۃ قاہرہ‬ ‫الجمع بين الصالتين‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح الزرقانی علی المؤطا‬
‫مصر ‪)۱/۲۹۲‬‬
‫امام زيلعی فرماتے ہيں‪:‬قال ابوداؤد‪ :‬وليس فی تقديم الوقت حديث قائم ‪؎۲‬۔ ابوداؤد نے فرمايا‪:‬‬
‫تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)‬
‫‪)۱/۸۹‬‬ ‫الکبری االميريہ بوالق مصر‬
‫ٰ‬ ‫مطبوعہ المطبعۃ‬ ‫اوقات الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬تبيين الحقائق‬
‫امام بدرمحمود عينی حنفی عمدۃ القاری شرح صحيح بخار ی میں فرماتے ہيں‪ :‬قلت‪ :‬حکی عن ابی‬
‫داؤد انہ انکر ھذا الحديث‪ ،‬وحکی عنہ ايضا‪ ،‬انہ قال‪ :‬ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ‪؎۳‬۔ ميں نے‬
‫کہا‪ :‬ابوداؤد سے منقول ہے کہ انہوں نے اس حديث کو منکر کہا ہے۔ ان سے يہ‬
‫بھی منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنيريہ‬ ‫باب الجمع فی السفر الخ‬ ‫(‪ ؎۳‬عمدۃ القاری شرح بخاری‬
‫دمشق ‪)۷/۱۵۱‬‬
‫اسی طرح عالمہ سيد ميرک شاہ حنفی نے نفل فرمايا موالنا علی قاری مکّی‬
‫مرقاۃ شرح مشکٰوۃ میں فرماتے ہيں‪ :‬حکی عن ابی داؤد انہ قال‪ :‬ليس فی تقديم الوقت‬
‫حديث قائم۔ نقلہ ميرک۔ فھذا شھادۃ بضعف الحديث وعدم قيام الحجۃ للشافعيۃ ‪؎۴‬۔ ابوداؤد‪Z‬‬
‫سے منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے‪ ،‬يہ بات ميرک نے‬
‫نقل کی ہے۔ يہ حديث کے ضعيف ہونے اور شافعيوں کی دليل قائم نہ ہونے پر‬
‫شہادت ہے۔ (ت)‬
‫‪)۳/۲۲۵‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان‬ ‫باب صلٰوۃ السفر‬ ‫(‪ ؎۴‬مرقاۃ شرح مشکٰوۃ‬
‫امام احمد قسطالنی ارشاد الساری شرع صحيح البخاری ميں فرماتے ہيں‪ :‬قدقال ابوداؤد‪ :‬وليس فی‬
‫تقديم الوقت حديث قائم ‪؎۱‬۔ (ابو داؤد‪ Z‬نے فرمايا‪ :‬تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت‬
‫نہيں ہے۔ ت)‬
‫مطبوعہ‬ ‫باب يؤخر الظہر الی العصر الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬ارشاد الساری شرح صحيح بخاری‬
‫دارالکتاب العربيہ بيروت ‪)۲/۳۰۲‬‬
‫بعين ٖہ اسی طرح عاّل مہ زرقانی مالکی نے شرح مؤطائے امام مالک و نيز شرح‬
‫مواہ ب لدنيہ ومنح محمديہ ميں فرمايا شوکانی غير مقلد کی نيل االوطار ميں ہے‪:‬‬
‫قال ابوداؤد‪ :‬ھذا حديث منکر وليس فی جمع التقديم حديث قائم ‪؎۲‬۔‬
‫مطبوعہ مصطفی‬ ‫ابواب الجمع بين الصلويتين‬ ‫(‪ ؎۲‬نيل االوطار شرح منتقی االخبار‬
‫البابی مصر ‪)۳/۲۴۳‬‬
‫بھال ابوداؤد سا امام جليل الشان يہ تصريح فرماگيا جسے علمائے مابعد حتی کہ‬
‫قائالن جمع بھی بالنکير وانکار نقل فرماتے آئے‪ ،‬نہ آج تک کوئی اس کا پتادے‬
‫ِ‬
‫م جی چاہيں کہ ميں حديث صحيحين سے ثابت کردوں يہ کيونکر بنی‬ ‫اّل‬ ‫سکا‪ ،‬اب ُ‬
‫مگر قيامت لطيفہ دلربا کھسيانی ادا يہ ہے کہ جھنجھالئی نظروں سے جل کر‬
‫فرمايا ف‪ :‬کُچھ غيرت آوے تو نشان دہی کريں کہ ابُوداؤد نے کون سی کتاب ميں‬
‫يہ قول کہ ا ہے ‪ ،‬يعنی نقول ثقات عدول محض مردود ونامقبول جب تک قائل خود‬
‫اپنی کتاب ميں تصريح نہ کرے اُس سے کوئی نقل معتبر نہ ہوگی۔‬
‫ص ‪)۳۷۴‬‬ ‫(ف معيارالحق‬
‫ماّل جی! ان جھنجھال ہٹوں ميں حق بجانب تمہارے ہے تم دلی کی ٹھنڈی‬ ‫اقول ُ‬
‫سڑک پر ہوا کھالنے کے قابل نہ تھے يہ حنفی لوگ عبث تمہيں چھوڑ کر بوکھالئے‬
‫ديتے ہيں بھال اوّال اتنا تو ارشاد ہوکہ بہت ائمہ جرح وتعديل وتصحيح وتضعيف‬
‫وغيرہم ايسے گزرے جن کی کوئی کتاب تصنيف نہيں بيان سے نقل معتبر ہونے کا‬
‫کيا ذريعہ ہوگا۔‬
‫ثانياً‪ :‬آپ جو اپنی مبلغ علم تقريب کے بھروسے رواۃ ميں کسی کو ثقہ کسی کو‬
‫ضعيف کسی کو چنيں کسی کو چناں کہہ رہے ہيں ظاہر ہے کہ مصنف تقريب نے‬
‫ا ُن ميں کسی کا زمانہ تک نہ پايا صدہا سال بعد پيدا ہوئے انہيں ديکھنا اور اپنی‬
‫نگاہ سے پرکھنا تو قطعا ً نہيں اسی طرح ہر غير ناظر ميں يہی کالم ہوگا‪ ،‬اب رہی‬
‫ديکھنے والوں سے نقل سوا مواضع عديدہ کے ثبوت تو ديجئے کہ ناظرين‬
‫مبصرين نے اپنی کس کتاب ميں اُن کی نسبت يہ تصريحيں کی ہيں۔‬
‫ثالثا‪ :‬آپ کی اسی کتاب ميں اور بيسيوں نقول سلف سے ايسی نکليں گی کہ‬
‫آپ حکايات متاخرين کے اعتقاد پر نقل کر الئے اور اُن سے احتجاج کيا کچھ‬
‫غيرت رکھاتے ہو تو نشان دہی کروکہ وہ باتيں منقول عنہم‪ Z‬نے کس کتاب ميں‬
‫لکھی ہيں مگر يہ کہيے کہ يجوز للوھابی مااليجوز لغيرہ (وہابی کےلئے وہ کچھ‬
‫جائز ہے جو دوسروں کےلئے جائز نہيں۔ ت)‬
‫ٰ‬
‫حديث ابن عباس رضی اہلل تعالی عنہما مروی احمد وشافعی‬ ‫ِ‬ ‫افاضہ ثانيہ‪:‬رہی اس باب ميں‬
‫وعبدالرزاق وبيہقی‪:‬وھذا حديث احمد اذيقول حدثنا عبدالرزاق اخبرنا ابن جريج اخبرنی حسين بن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبداہلل بن عبيدا بن عباس عن عکرمۃ وکريب عن ابن عباس رضی ا تعالی عنہما قال‪ :‬اال‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫اخبرکم عن صالۃ رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم فی السفر؟ قلنا‪ :‬بلی۔ قال‪ :‬کان اذا زاغت‬
‫الشمس فی منزلہ جمع بين الظھر والعصر‪ ،‬قبل ان يرکب‪ ،‬واذا لم تزغ لہ فی منزلۃ سار‪ ،‬حتی اذاکانت‬
‫العصر‪ ،‬نزل فجمع بين الظھر والعصر۔ واشار اليہ ابوداؤد تعليقا ‪ ،؎۱‬فقال‪ :‬رواہ ھشام بن عروۃ عن حسين‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫بن عبدا عن کريب عن ابن عباس عن النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم‪ ،‬ولم يذکر لفظہ ‪؎۲‬۔‬
‫اور يہ احمد کی حديث ہے‪ ،‬حديث بےان کی ہم سے عبدالرزاق‪ Z‬نے‪ ،‬اس کو خبر‬
‫دی ابن جريج نے‪ ،‬اس کو خبر دی حسين بن عبداللہ بن عبيداللہ بن عباس نے کہ‬
‫عکرمہ اورکريب‪ ،‬ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ابن‬
‫عباس نے ہم سے پُوچھا‪'' :‬کيا ميں تمہيں سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ‬
‫تعال ٰی عليہ وسلم کی نماز کے بارے ميں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا‪'' :‬کيوں نہيں (ضرور‬
‫بتائيں) انہ وں نے کہا کہ اگر جائے قيام پر زوال ہوجاتا تھا تو سوار ہونے سے پہلے‬
‫ظہ ر اور عصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے اور اگر جائے قيام پر زوال نہيں ہوتا تھا تو‬
‫چل پڑتے تھے اور جب عصر ہوتی تھی تو اتر کر ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے‬
‫تھے۔ اس روايت کی طرف ابوداؤد نے تعليقا ً اشارہ کيا ہے اور کہا ہے کہ اس کو‬
‫ہشام ابن عروہ نے حسين ابن عبداللہ سے‪ ،‬اس نے کريب سے‪ ،‬اس نے ابن‬
‫عباس سے‪ ،‬انہوں نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے۔ مگر ابوداؤد نے اس کے‬
‫الفاظ ذکر نہیں کئے ہيں۔ (ت)‬
‫مطبوعہ دارالفکر بيروت‬ ‫از مسند عبداللہ بن عباس‬‫(‪ ؎۱‬مسند امام احمد بن حنبل‬
‫‪)۱/۳۲۷‬‬
‫‪)۱/۱۷۱‬‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابی داؤد باب الجمع بين الصالتين مطبوعہ مطبع مجتبائی الہور‬
‫(مصنف‪ ،‬ابی بکر عبدالرزاق بن ہمام جمع بين الصالتين مطبوعہ المکتب االسالمی‬
‫بيروت ‪)۲/۵۴۸‬‬
‫قائالن جمع اس کا ضعف تسليم کرگئے شايد اسی لئے کچھ سوچ سمجھ کر‬ ‫ِ‬ ‫خود‬
‫ماّل جی بھی اُس کا ذکر زبان پر نہ الئے لہذا اس ميں زيادہ کالم کی ہميں حاجت‬
‫نہيں تاہم اتنا معلوم رہے کہ اُس کے راوی حسين مذکور ائمہ شان کے نزديک‬
‫ضعيف ہيں۔ يحيٰی نے فرمايا‪ :‬ضعيف۔ ابوحاتم رازی نے فرمايا‪:‬‬
‫ضعيف‪ ،‬يکتب حديثہ واليحتج بہ ‪( ؎۳‬ضعيف ہے‪ ،‬اس کی حديث لکھی جائے مگر اس‬
‫سے استدالل نہ کيا جائے۔ ت) ابوزرعہ وغيرہ نے کہا‪ :‬ليس بقوی (قوی نہيں ہے۔‬
‫ت)‬
‫مطبوعہ دارالکتاب العربيہ بيروت‬ ‫باب يؤخر الظہر الی العصر الخ‬ ‫(‪ ؎۳‬ارشاد الساری‬
‫‪)۲/۵۴۸‬‬
‫جوزجانی نے کہا‪ :‬اليشتغل بہ ‪( ؎۴‬اس کے ساتھ مشغول نہيں ہونا چاہئے۔ ت)‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت‬ ‫ترجمہ حسين بن عبداللہ ‪۲۰۱۲‬‬ ‫(‪ ؎۴‬ميزان االعتدال‬
‫‪)۵۳۷‬‬
‫ابن حبان نے کہا‪ :‬يقلب االسانيد ويرفع المراسيل ‪( ؎۵‬اسنادوں کو پلٹ ديتا تھا اور مراسيل‬
‫ِ‬
‫کو مرفوع بناديتاتھا۔ ت)‬
‫مطبوعہ مصطفی البابی‬ ‫ابواب الجمع بين الصالتين‬ ‫(‪ ؎۵‬نيل االوطار شرح منتقی االخبار‬
‫مصر ‪)۳/۲۴۴‬‬
‫محمد بن سعد نے کہا‪ :‬کان کثير الحديث‪ ،‬ولم ارھم يحتجون بحديثہ (حديثيں بہت بيان کرتاتھا‪،‬‬
‫علماء اس کی احاديث سے استدالل نہيں کرتے تھے۔ ت) يہاں تک کہ نسائی نے‬
‫فرمايا‪ :‬متروک الحديث امام بخاری نے فرمايا علی بن مدينی نے کہا‪ :‬ترکت حديثہ‬
‫‪( ؎۱‬ميں نے اسکی حديث کو ترک کرديا ہے۔ ت)‬
‫مطبوعہ مصطفی البابی‬ ‫ابواب الجمع بين الصالتين‬ ‫(‪ ؎۱‬نيل االوطار شرح منتقی االخبار‬
‫مصر ‪)۳/۲۴۴‬‬
‫الجرم حافظ نے تقريب ميں کہا‪ :‬ضعيف۔ اس حديث کی تضعيف شرح بخاری‬
‫قسطالنی شافعی وشرح مؤطا زرقانی مالکی وشرح منتقی شوکانی ظاہری ميں‬
‫ديکھيے‪ ،‬ارشاد ميں فتح الباری سے ہے‪:‬‬
‫لکن لہ شاھد من طريق جماد عن ايوب عن ابی قالبۃ عن ابن عباس‪ ،‬الاعلمہ اال مرفوعا‪ ،‬انہ کان اذا‬
‫انزل منزال فی السفر فاعجبہ اقام فيہ‪ ،‬حتی يجمع بين الظھر والعصر‪ ،‬ثم يرتحل‪ ،‬فاذا لم يتھيألہ المنزل‬
‫مدفی السير فسار حتی ينزل‪ ،‬فيجمع بين الظھر والعصر۔ خرجہ البيھقی‪ ،‬ورجالہ ثقات‪ ،‬اال انہ مشکوک‬
‫ٰ‬
‫فی رفعہ‪ ،‬والمحفوظ انہ موقوف۔ وقداخرجہ من وجہ اخر‪ ،‬مجزوما بوقفہ علی ابن عباس‪ ،‬ولفظہ‪:‬‬
‫اذاکنتم سائرين‪ ،‬فذکر نحوہ ‪؎۲‬۔‬
‫ليکن اس کا ايک شاہد ہے جو بطريقہ حماد مروی ہے حماد ايوب سے‪ ،‬وہ ابوقالبہ‬
‫سے‪ ،‬وہ ابن عباس سے روايت کرتے ہيں (اور کہتے ہيں کہ) ميرے خيال ميں يہ‬
‫روايت مرفوع ہی ہے کہ جب سفر کے دوران کسی منزل پر اُترتے تھے اور وہ‬
‫جگہ پسند آجاتی تھی تو وہاں ٹہر جاتے تھے يہاں تک ظہر وعصر کو يکجا پڑھتے‬
‫تھے پھر سفر شروع کرتے تھے اور اگر کوئی ايسی منزل مہيا نہيں ہوتی تھی تو‬
‫چلتے رہتے تھے يہاں تک کہ کسی جگہ اُتر کر ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے۔‬
‫اس کو بيہقی نے روايت کيا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہيں ليکن اس کا مرفوع ہونا‬
‫مشکوک ہے‪ ،‬محفوظ بات يہ ہے کہ يہ روايت موقوف ہے۔ بيہقی نے ايک اور سند‬
‫سے بھی اس کو روايت کيا ہے جس کے مطابق اس کا ابن عباس پر موقوف ہونا‬
‫يقينی ہے‪ ،‬اس کے الفاظ اس طرح ہيں جب تم چلنے والے ہو (تو يوں کيا‬
‫کروکہ۔۔۔۔۔۔) اس کے بعد درج باال طريقہ مذکور ہے۔ (ت)‬
‫باب يوخر الظہر الی العصر اذاارتحل الخ مطبوعہ‬ ‫(‪ ؎۲‬ارشاد الساری شرح بخاری‬
‫دارالکتاب العربی بيروت ‪)۲/۲۰۳‬‬
‫شرح مؤطا ميں اسے ذکر کرکے فرمايا‪ :‬وقدقال ابوداؤد ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ‪( ؎۳‬ابوداؤد‬
‫نے فرمايا‪ ،‬تقديم وقت پر کوئی حديث ثابت نہيں۔ ت)‬
‫(‪ ؎۳‬شرح الزرقانی علی المؤطا امام مالک ‪ ،‬الجمع بين الصالتين والحضروالسفر ‪ ،‬مطبوعہ‬
‫الکبری مصر ‪)۱/۲۹۲‬‬
‫ٰ‬ ‫المکتبۃ التجاريۃ‬
‫اقول‪ :‬وہ ضعيف اور اُس کا يہ شاہد موقوف اگر بالفرض ومرفوع بھی ہوتے تو کيا‬
‫کام ديتے کہ اُن کا حاصل تو يہ کہ جو منزل حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ‬
‫وسلم کو پسند آتی اور دوپہر وہيں ہوجاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ ہوکر‬
‫سوار ہوتے اس ميں عصر کا پيش از وقت پڑھ لينا کہاں نکال بعين ٖہ اسی بيان سے‬
‫شاہ د کا سار حتی ينزل فيجمع جمع حقيقی پر اصال شاہد نہيں اور کانت العصر کا‬
‫جواب بعونہ تعالٰی بيانات آئندہ سے ليجئے وباللہ التوفيق اگر کہيے روايت شافعی‬
‫يوں ہے‪:‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫اخبرنی ابن ابی يحيی عن حسين بن عبدا بن عبيدا بن عباس بن کريب عن ابن عباس رضی ا‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنھما‪ ،‬فذکر الحديث‪ ،‬وفيہ جمع بين الظھر والعصر فی الزوال ‪؎۱‬۔‬
‫خبر دی مجھے ابن ابی يحيٰی نے حسين ابن عبداللہ سے کہ کريب نے ابن عباس‬
‫سے روايت کی ہے‪ ،‬اس کے بعد مندرجہ باال روايت مذکور ہے اور اس ميں ہے کہ‬
‫زوال کے وقت ظہر وعصر کو جمع کرتے تھے۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۱‬مسند الشافعی)‬
‫اقول‪ :‬اس کی سند ميں ابن ابی يحيٰیرافضی قدوری معتزلی جہمی بھی متروک‬
‫واقع ہے امام اجل يحيٰی بن سعيد بن قطعان وامام اجل يحيٰی بن معين وامام‬
‫اجل علی بن مدينی وامام يزيد بن ہارون وامام ابوداؤد وغيرہم اکابر نے فرمايا‪:‬‬
‫کذاب تھا۔ امام احمد نے فرمايا‪ :‬ساری بالئيں اُس ميں تھيں۔ امام مالک نے‬
‫فرمايا‪ :‬نہ وہ حديث ميں ثقہ ہے نہ دين ميں۔ امام بخاری نے فرمايا‪ :‬ائمہ محدثين‬
‫کے نزديک متروک ہے۔ ميزان االعتدال‪ Z‬ميں ہے‪:‬‬
‫ابرھيم بن ابی يحيی‪ ،‬احدالعلماء الضعفاء‪ ،‬قال يحيی بن سعيد‪ :‬سألت مالکاعنہ‪ ،‬اکان ثقۃ فی‬
‫الحديث؟ قال‪ :‬ال‪ ،‬والفی دينہ۔ وقال يحيی بن معين‪ :‬سمعت القطان يقول‪ :‬ابرھيم بن ابی يحيی کذاب۔‬
‫وروی ابوطالب عن احمد بن حنبل‪ ،‬قال‪ :‬ترکوا حديثہ‪ ،‬قدری‪ ،‬معتزلی‪ ،‬يروی احاديث ليس لھا اصل‬
‫ہّٰلل‬
‫وقال البخاری‪ :‬ترکہ ابن المبارک والناس۔ وروی عبدا بن احمد عن ابيہ‪ ،‬قال‪ :‬قدری‪ ،‬جھمی‪،‬کل‬
‫ّ‬
‫بالء فيہ‪ ،‬ترک الناس حديثہ‪ ،‬وروی عباس عن ابن معين‪ ،‬کذاب‪ ،‬رافضی۔ وقال محمد بن عثمان بن‬
‫ٰ‬
‫ابی شييۃ‪ :‬سمعت عليا يقول‪ :‬ابرھيم بن ابی يحيی کذاب۔ وقال النسائی والدارقطنی وغيرھما‪ ،‬متروک‬
‫‪؎۱‬۔‬
‫ابراہيم بن ابی يحيٰی ضعيف علماء ميں سے ايک ہے۔ يحيٰی ابن سعيد نے کہا کہ‬
‫قابل اعتماد تھا؟‬
‫ِ‬ ‫ميں نے اس کے بارے ميں مالک سے پُوچھا کہ کيا وہ حديث ميں‬
‫قابل اعتماد تھا‪ ،‬نہ دين ميں۔ اور يحيٰی ابن‬
‫ِ‬ ‫انہوں نے جواب ديا‪ :‬نہ وہ حديث ميں‬
‫سنا ہے کہ ابرہيم ابن يحيٰی کذاب ہے۔‬ ‫معين نے کہا‪ :‬ميں نے قطان کو کہتے ُ‬
‫ابوطالب نے احمد ابن حنبل سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا‪ :‬علماء نے اس کی‬
‫حديث کو ترک کرديا ہے‪ ،‬قدری ہے‪ ،‬معتزلی ہے‪ ،‬بے اصل حديثيں روايت کرتا ہے۔‬
‫بخاری نے کہا‪ :‬ابن مبارک نے اور لوگوں نے اس کی حديث کو ترک کرديا ہے۔‬
‫عبداللہ ابن احمد اپنے والد سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا‪ :‬قدری ہے‪ ،‬جہمی‬
‫ہے‪ ،‬ہر بال اس ميں پائی جاتی ہے‪ ،‬لوگوں نے اس کی حديث چھوڑدی ہے۔ عباس‪،‬‬
‫ابن معين سے ناقل ہے کہ وہ کذاب ہے‪ ،‬رافضی‪ Z‬ہے۔ محمد ابن عثمان ابن ابی‬ ‫ِ‬
‫سنا ہے کہ ابراہيم‪ Z‬ابن ابی يحيٰی کذاب ہے۔‬ ‫ُ‬ ‫ے‬ ‫ت‬‫ہ‬ ‫ک‬ ‫کو‬ ‫علی‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫ميں‬ ‫‪:‬‬ ‫ہے‬ ‫ا‬ ‫ہ‬‫ک‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫ہ‬‫شيب‬
‫نسائی‪ ،‬دارقطنی اور دُوسروں نے کہا کہ متروک ہے۔ (ت)‬
‫‪۱/۵‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفت بيروت‬ ‫ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی‪۱۸۹‬‬ ‫(‪ ؎۱‬ميزان االعتدال‬
‫‪۷‬۔‪)۵۸‬‬
‫ُ‬
‫اسی ميں ہے‪:‬قال ابن حبان‪ :‬کان يکذب فی الحديث ‪؎۲‬۔ ابن حبان نے کہا کہ حديث ميں‬
‫جھُوٹ بولتا تھا۔ (ت)‬
‫‪۱/۶‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفت بيروت‬ ‫ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی‪۱۸۹‬‬ ‫(‪ ؎۲‬ميزان االعتدال‬
‫‪)۰‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ُ‬
‫اسی ميں ہے ‪ :‬قال ابومحمد الدارمی‪ :‬سمعت يزيد بن ھارون‪ ،‬يکذب ابرھيم بن ابی يحيی ‪؎۳‬۔‬
‫ابومحمد دارمی نے کہا کہ ميں نے يزيد ابن ہارون سے سنا کہ وہ ابراہيم ابن ابی‬
‫يحيٰی کو جھُوٹا قرار ديتے تھے۔ (ت)‬
‫‪۱/۶‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفت بيروت‬ ‫ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی‪۱۸۹‬‬ ‫(‪ ؎۳‬ميزان االعتدال‬
‫‪)۰‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫تذہيب التہذيب ميں ہے‪ :‬عن الزھری وصالح مولی التوأمۃ وعنہ الشافعی واخرون‪ ،‬قال عبدا بن‬
‫احمد عن ابيہ‪ :‬کان قدريا‪ ،‬معتزليا‪ ،‬جھميا‪ ،‬کل بالء فيہ۔ قال ابوطالب عن احمد بن حنبل‪ :‬ترک‬
‫الناس حديثہ‪ ،‬وکان يأخذ احاديث الناس فيضعفھا فی کتبہ۔ وقال يحيی القطان‪ :‬کذاب۔ وقال احمد‬
‫ٰ‬
‫بن سعيد بن ابی مريم‪ :‬قلت ليحيی بن معين‪ ،‬فابن ابی يحيی؟ قال‪ :‬کذاب ‪؎۱‬۔‬
‫زہری اور صالح مولی التوأمہ سے اور اس سے شافعی اور ديگر علماء نقل کرتے‬
‫ہيں کہ عبداللہ بن احمد اپنے والد سے بيان کرتے ہيں کہ (ابراہيم‪ Z‬مذکور) قدری‬
‫تھا‪ ،‬معتزلی تھا‪ ،‬جہمی تھا‪ ،‬ہر بال اس ميں موجود تھی۔ ابوطالب نے احمد بن‬
‫حنبل سے نقل کيا کہ لوگوں نے اس کیج حديث چھوڑدی تھی‪ ،‬وہ لوگوں کی‬
‫حديثيں لے کر اپنی کتابوں ميں لکھ ليتا تھا۔ يحيٰی قطان نے کہا‪ :‬جھُوٹا ہے۔ احمد‬
‫ابن سعيد ابن ابی مريم نے کہا‪ :‬ميں نےيحيٰی ابن معين سے ابن ابی يحيٰی کے‬
‫بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا‪ :‬کذ ّاب ہے۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۱‬خالصہ تذھيب تہذيب الکمال الخ ‪ ،‬ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی‪ ، ۲۷۴‬مطبوعہ مکتبہ‬
‫اثريہ سانگلہ ہل (شیخوپورہ) ‪)۱/۵۵‬‬
‫تذکرۃ الحفاظ ميں ہے‪ :‬قال ابن معين وابوداؤد‪ :‬رافضی کذاب ‪( ؎۲‬ابن معين اور ابوداؤد نے‬
‫کہا‪ :‬رافضی ہے‪ ،‬کذاب ہے۔ ت)‬
‫مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن‬ ‫ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی‬ ‫(‪ ؎۲‬تذکرۃ الحفاظ‬
‫‪)۱/۲۲۷‬‬
‫الجرم تقريب ميں ہے‪ :‬متروک ‪ ؎۳‬اھ الکل باختصار۔‬
‫(‪ ؎۳‬تقريب التہذيب ‪ ،‬ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی مطبوعہ الکتب االسالميہ گوجرانوالہ‪،‬‬
‫ص‪)۲۳‬‬ ‫پاکستان‬
‫يہاں تک کہ ابوعمر بن عبدالبر نے کہا اُس کے ضعف پر اجماع ہے کمانقلہ فی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫الميزان ‪ ؎۴‬فی ترجمۃ عبدالکريم بن ابی المخارق وا تعالی اعلم۔‬
‫مطبوعہ دارالمعرفت‬ ‫ترجمہ عبدالکريم ابن ابی المخارق ‪۱۵۷۲‬‬ ‫(‪ ؎۴‬ميزان االعتدال‬
‫بيروت لبنان ‪)۲/۶۴۶‬‬
‫افاضہ ثالثہ‪ :‬يوں ہی حديث دارقطنی‪ :‬حدثنا احمد بن محمد بن سعيد ثنا المنذر بن محمدثنا ابی ثنا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫ابی ثنا محمد بن الحسين بن علی بن الحسين ثنی ابن عن ابيہ عن جدہ عن علی رضی ا تعالی قال‬
‫كان صلی اہلل عليہ وسلم اذا ارتحل حين تزول الشمس جمع بين الظھر وعجل العصر‪ ،‬ثم جمع بينھما‬
‫‪؎۵‬۔‬
‫حديث بيان کی ہم سے احمد ابن محمد ابن سعيد نے منذر ابن محمد سے‪ ،‬اس‬
‫نے اپنے باپ سے‪ ،‬اس نے اپنے باپ سے‪ ،‬اس نے محمد سے‪ ،‬اس نے اپنے والد‬
‫حسين سے‪ ،‬اس نے اپنے والد علٰی ابن امام حسين رضی اللہ تعالٰی عنہ سے‪،‬‬
‫انہوں نے اپنے دادا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫عليہ وسلم اگر زوال کے وقت روانگی اختيار فرماتے تھے تو ظہر وعصر کو اکٹھا‬
‫پڑھ ليتے تھے اور اگر روانگی ميں جلدی ہوتی تھی تو ظہر کو مؤخر کرکے اور‬
‫عصر کو مقدم کرکے دونوں کو يکجا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ نشہ السن ّۃ ملتان ‪۱‬‬ ‫(‪ ؎۵‬سنن الدارقطنی ‪ ،‬باب الجمع بين الصلٰوتين فی السفر‬
‫‪)/۲۹۱‬‬
‫اس ميں سو اعترت طاہرہ کے کوئی راوی ثقہ معروف نہيں۔‬
‫عمدۃ القاری ميں فرمايا‪:‬اليصح اسنادہ‪ ،‬شيخ الدارقطنی ھو ابوالعباس بن عقدۃ‪ ،‬احدالحفاظ‪،‬لکنہ‬
‫شيعی اس کا اسناد صحيح نہيں ہے کيونکہ دارقطنی‪ Z‬کا استاد (احمد) ابوالعباس‬
‫ظ حديث ميں سے ہے ليکن شيعہ ہے۔‬
‫ابن عقدہ ہے‪ ،‬جو اگرچہ حفّا ِ‬
‫(قلت‪ :‬بل نص فی موضع اخر من الميزان‪ ،‬فيہ وفی ابن خراش‪ ،‬ان فيھما رفضا وبدعۃ۔اھ ) وقد تکلم‬
‫فيہ الدارقطنی وحمزۃ السھمی وغيرھما۔ وشيخہ المنذر بن محمد بن المنذر‪ ،‬ليس بالقوی ايضا قالہ‬
‫ٰ‬
‫الدارقطنی ايضا۔ وابوہ وجدہ يحتاج الی معرفتھما ‪؎۱‬۔‬
‫ميں نے کہا‪ :‬بلکہ ميزان کے ايک اور مقام ميں اس کے اور ابن خراش کے متعلق‬
‫لکھا ہے کہ ان ميں رفض اور بدعت پائی جاتی ہے۔ خود دارقطنی‪ Z‬اور حمزہ‬
‫سہمی وغيرہ نے بھی اس پر جرح کی ہے‪ ،‬اور اس کا استاد منذر ابن محمد بن‬
‫منذر بھی زيادہ قوی نہيں ہے۔ يہ بات بھی دارقطنی‪ Z‬نے کہی ہے۔ اور منذر کا باپ‬
‫اور دادا دونوں غير معروف ہيں۔ (ت)‬
‫مطبوعہ الطباعۃ الخيريۃ‬ ‫باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء‬ ‫(‪ ؎۱‬عمدۃ القاری‬
‫دمشق ‪)۷/۱۴۹‬‬
‫اقول‪ :‬وہ صحيح ہی سہی تو انصافا ً صاف صاف ہمارے مفيد وموافق‪ Z‬ہے اُس کا‬
‫سورج ڈھلتے ہی کُوچ ہوتا توظہرين جمع فرماتے پُرظاہر کہ‬ ‫صريح مفاد يہ کہ ُ‬
‫زوال ہوتے ہی کوچ اور جمع تقديم کا جمع محال۔ کيا پيش از زوال ظہر وعصر‬
‫پڑھ ليتے الجرم وہی جمع مرادجس کاصاف بيان خود آگےموجود کہ ظہر بدير اور‬
‫عصرجلد پڑھتے‪ ،‬يہی جمع صوری ہےکماالیخفی۔‬
‫افاضہ رابعہ‪ :‬حديث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ اِن شاء اللہ العزيز جمع تاخير‬
‫ميں آتی ہے اُس ميں معروف ومحفوظ ومروی جماہير ائمہ ثقات وعدول مذکور‬
‫سنن ابی داؤد وسنن نسائی ومصنّف طحاوی‬ ‫صحيح بخاری وصحيح مسلم و ُ‬
‫وغيرہا عامہ دوا دين اسالم صرف اس قدر ہے کہ حضور پُرنور صلوات اللہ‬
‫تعالٰیوسالمہ عليہ اگر دوپہر ڈھلنے سے پہلے کُوچ فرماتے ظہر ميں عصر تک تاخير‬
‫کرکے ساتھ ساتھ پڑھتے اور اگر منزل ہی پر وقت ظہر آجاتا صلی الظھر ثم‬
‫رکب ‪ ؎۲‬ظہر پڑھ کر سوار ہوجاتے جس سے بحکم مقابلہ وسکوت فی معرض‬
‫البيان صاف ظاہر کہ تنہا ظہر پڑھتے عصر اس کے ساتھ نہ مالتے ۔‬
‫‪۱/۱۵۰‬‬ ‫قديمی کتب خانہ کراچی‬ ‫(‪ ؎۲‬صحيح بخاری باب اذا ارتحل بعد مازاغت الشمس‬
‫)‬
‫ولہذا نافيان جمع تقديم نے اُس سے تمسک کيا کمافی عمدۃ القاری وارشاد‬
‫الساری وغيرھما مگر بعض روايات غريبہ ميں آيا کہ ظہر وعصر دونوں پڑھ کر‬
‫سوار ہوتے۔ حاکم نے اربعين ميں‬
‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫بطريق ابی العباس محمد بن يعقوب عن محمد بن اسحق الصاغانی عن حسان بن عبدا عن‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫المفضل بن فضالۃ عن عقيل عن ابن شھاب عن انس رضی ا تعالی عنہ روايت کیفان زاغت‬
‫الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر ثم رکب ‪؎۱‬۔‬
‫حق صاغانی سے‪ ،‬اس نے حسان‬ ‫ابوالعباس محمد ابن يعقوب نے محمد بن اس ٰ‬
‫ابن عبداللہ سے‪ ،‬اس نے مفضل ابن فضالہ سے‪ ،‬اس نے عقيل سے‪ ،‬اس نے ابن‬
‫شہاب سے‪ ،‬اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کی کہ اگر روانگی سے‬
‫پہلے زوال ہوجاتا تو ظہر وعصر پڑھ کر سوار ہُواکرتے تھے۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۱‬اربعين للحاکم)‬
‫ٰ‬
‫جعفر فريابی نے بتفرد خود اسحق بن راہويہ سے روايت کی‪ :‬عن شبابۃ بن سوار عن الليث عن عقيل‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫عن الزھری عن انس رضی ا تعالی عنہ‪ ،‬قال‪ :‬کان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاکان فی سفر‬
‫فزالت الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم ارتحل ‪؎۲‬۔‬
‫شبابہ ابن سواد سے‪ ،‬اس نے ليث سے‪ ،‬اس نے عقيل سے‪ ،‬اس نے زہری سے‪،‬‬
‫اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم‬
‫جب سفر ميں ہوتے تھے اور زوال ہوجاتا تھا‪ ،‬تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے‬
‫تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ (ت)‬
‫‪)۱/۸۳‬‬ ‫(‪ ؎۲‬ميزان االعتدال بحوالہ جعفر فريابی ترجمہ (‪ ۷۳۳‬دارالمعرفۃ بيروت‬
‫اوسط طبرانی ميں ہے‪ :‬حدثنا محمد بن ابرھيم بن نصر بن شبيب االصبھانی قال ثناھارون بن‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا الحمال ثنا يعقوب بن محمد الزھری ثنا محمد بن سعد ان ثنا ابن عجالن عن عبدا بن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫الفضل عن انس بن مالک رضی ا تعالی عنہ‪ ،‬ان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم کان اذاکان فی‬
‫سفر فزاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر جميعا ‪؎۳‬۔‬
‫حديث بيان کی ہم سے محمد ابن ابراہيم‪ Z‬ابن نصر بن سندر اصبہانی نے ہارون‬
‫ابن عبداللہ حمال سے‪ ،‬اس نے يعقوب ابن محمد زہری سے‪ ،‬اس نے محمد ابن‬
‫سوان سے‪ ،‬اس نے ابن عجالن سے‪ ،‬اس نے عبداللہ بن فضل سے‪ ،‬اس نے انس‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب سفر ميں ہوتے‬
‫تھے تو اگر روانگی‪ Z‬سے پہلے سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ‬
‫ليتے تھے۔ (ت)‬
‫‪۸/۲۷۱‬۔‪)۲۷۲‬‬ ‫حديث ‪ ۷۵۴۸‬مکتب المعارف رياض‬ ‫(‪ ؎۳‬معجم االوسط‬
‫حق پر امام ابوداؤد نے انکار کيا اس ٰمعيل نے اُسے معلول بتايا کمافی‬ ‫روايت اس ٰ‬
‫العمدۃ وغيرھا۔‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫اقول‪ :‬االمام اسحق رضی ا تعالی عنہ‪ ،‬الکالم فی جاللۃ قدرہ وعظمۃ فخرہ‪ ،‬لکن نص االمام ابوداؤد‬
‫انہ کان تغير قبل موتہ باشھر‪ ،‬قال‪ :‬وسمعت منہ فی تلک االيام فرميت بہ‪ ؎۱‬۔ کمافی التذھيب ۔‬
‫حق‪ Z‬رضی اللہ تعالٰی عنہ کی قدر اور عظمت افتخار ميں‬ ‫ميں کہتا ہوں‪ :‬امام اس ٰ‬
‫کوئی شک نہيں ہے ليکن امام ابوداؤد نے تصريح کی ہے کہ وفات سےچند ماہ‬
‫ميں نے‬‫پہلے اس کے حافظے ميں تغيير آگيا تھا۔ ابوداؤد نے کہا کہ انہی دنوں ميں َ‬
‫اُس سے کچھ سنا تھا اور اس کی وجہ سے مجھے مطعون کياگيا۔ جيسا کہ تذہيب‬
‫ميں ہے۔‬
‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت‬ ‫(‪ ؎۱‬ميزان االعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ‬
‫‪) ۱/۱۸۳‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫وذکر الحافظ المزی حديثہ الذی زاد فيہ علی اصحاب سفين‪ ،‬فقال‪ :‬اسحق اختلط فی اخر عمرہ ‪؎۲‬۔‬
‫کمافی الميزان۔ اور حافط مزی نے اس کی وہ حديث ذکر کرنے کے بعد‪ ،‬جس ميں‬
‫حق کے بارے ميں‬‫اس نے اصحاب سفيٰن کے الفاظ پر اضافہ کيا ہے‪ ،‬کہا ہے کہ اس ٰ‬
‫کہا گيا ہے کہ آخر عمر ميں اس کو اختالط ہوگيا تھا‪ ،‬جيسا کہ ميزان ميں ہے۔‬
‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت‬ ‫(‪ ؎۲‬ميزان االعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ‬
‫‪) ۱/۱۸۳‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫والشک انہ رحمہ ا تعالی کان کثير التحديث عن ظھر قلبہ‪ ،‬املی المسند کلہ من حفظہ ‪؎۳‬۔‬
‫ٰ‬
‫کمافی التذھيب‪ ،‬قال‪ :‬قال احمد بن اسحق الضبعی‪ :‬سمعت ابرھيم بن ابی طالب‪ ،‬يقول‪ :‬فذکرہ۔‬
‫فالغروان يعتريہ خطؤ فی حديث او حديثين‪ ،‬ومن المعصوم عن مثل ذلک فی سعۃ ماروی وکثرتہ؟‬
‫تعالی) بےشتر حديثيں محض ياد‬
‫ٰ‬ ‫حق (رحمہ اللہ‬‫اس ميں تو کوئی شک نہيں کہ اس ٰ‬
‫کے سہارے بيان کيا کرتے تھے۔ ايک مرتبہ انہوں نے پُورا مسند اپنی ياد سے امال‬
‫حق ضبعی نے کہا ہے کہ ميں‬ ‫کراديا تھا‪ ،‬جيسا کہ تذہيب ميں ہے کہ احمد بن اس ٰ‬
‫نے ابراہيم بن ابی طالب کو يہ بات کہتے سنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے وہی‬
‫حق سے ايک‬ ‫(مسند کے امالء والی بات) ذکر کی ہے۔ تو اس صورت ميں اگر اس ٰ‬
‫يا دو حديثوں ميں خطا واقع‪ Z‬ہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہيں ہے۔ اس قدر‬
‫وسےع اور کثير روايات ميں اتنی تھوڑی سی خطا سے اور کون معصوم ہے؟‬
‫(ت)‬
‫مطبوعہ المکتبۃ االثریہ سانگلہ‬ ‫حق بن راہویہ‬
‫ترجمہ اس ٰ‬ ‫(‪ ؎۳‬خالصہ تذہیب تذہیب المکمال‬
‫ہل ‪)۱/۶۹‬‬
‫حق کی لغزش‬ ‫الجرم امام ذہبی شافعی نے اس حدیث کو منکر کہا‪ ،‬اور امام ٰ اس ٰ‬
‫حفظ واشتباہ سے گنا۔ حيث قال‪ :‬وکذا حديث رواہ جعفر الفريابی ثنا اسحق بن راھويہ ثنا شبابۃ‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫عن الليث عن عقيل عن ابی شھاب عن انس رضی ا تعالی عنہ کان رسول ا صلی ا تعالی‬
‫عليہ وسلم اذاکان فی سفر فزالت الشمس صلی الظھر والعصر ثم ارتحل۔ فھذا علی نبل رواتہ منکر‪،‬‬
‫فقد رواہ مسلم عن الناقد عن شبابۃ (وذکر لفظہ) تابعہ الزعفرانی عن شبابۃ‪ ،‬واخرجہ خ م من حديث‬
‫ٰ‬
‫عقيل عن ابن شھاب عن انس (وذکر لفظہ‪ ،‬ای وليس فی شیئ منھا‪ :‬والعصر۔ قال‪ ):‬والريب ان اسحق‬
‫کان يحدث الناس من حفظہ‪ ،‬فلعلہ اشتبہ عليہ ‪؎۱‬۔‬
‫چنانچہ اس نے کہا ہے کہ اسی طرح وہ حديث جسے روايت کيا ہے فريابی نے‬
‫حق ابن راہويہ سے‪ ،‬اس نے شبابہ سے‪ ،‬اس نے ليث سے‪ ،‬اس نے عقيل سے‪،‬‬ ‫اس ٰ‬
‫اس نے ابن شہاب سے‪ ،‬اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے اور سورج ڈھل جاتا تھا تو‬
‫ظہر وعصر پڑھتے تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ تو يہ حديث راويوں کی عمدگی کے‬
‫باوجود منکر ہے کيونکہ اس کو مسلم نے ناقد سے‪ ،‬اس نے شبابہ سے روايت کيا‬
‫ہے (يہاں ذہبی نے اس کے الفاظ ذکر کيے ہيں) اسی طرح زعفرانی‪ Z‬نے بھی اس‬
‫کو شبابہ سے روايت کيا ہے اور مسلم نے بھی اس کو عقيل سے‪ ،‬اس نے ابن‬
‫شہاب سے‪ ،‬اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کيا ہے (يہاں ذہبی نے‬
‫مسلم کے الفاظ ذکر کيے ہيں‪ ،‬مقصد يہ ہے کہ بخاری ومسلم کی کسی روايت‬
‫ميں عصر کا ذکر نہيں ہے (صرف ظہر کا ذکر ہے۔ ذہبی نے کہا) اس ميں کوئی‬
‫حق لوگوں کے سامنے اپنی ياد سے حديثيں بيان کيا کرتا تھا‪،‬‬ ‫شک نہيں کہ اس ٰ‬
‫ہوسکتا ہے کہ اس کو اشتباہ واقع ہُوا ہو۔ (ت)‬
‫‪)۱/۱۸۳‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفت بيروت‬ ‫حق بن راہويہ ‪۷۳۳‬‬
‫ترجمہ اس ٰ‬ ‫(‪ ؎۱‬ميزان االعتدال‬
‫اس کے بعد ہميں شبابہ بن سوار ميں کالم کی حاجت نہيں کہ وہ اگرچہ رجال‬
‫جماعہ وموثقين ابنائے معين وسعد وابی شيبہ سے ہے مگر مبتدع مکلّب تھا امام‬
‫احمد نے ا ُسے ترک کيا‪ ،‬امام ابوحاتم رازی نے درجہ حجيت سے ساقط بتايا۔‬
‫ابن حجر عسقالنی ميں ہے‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫تہذيب التہذيب امام‬
‫ہّٰلل‬
‫شبابۃ بن سوار الفزاری‪ ،‬قال احمد بن حنبل‪ :‬ترکتہ‪ ،‬لم اکتب عنہ لالرجا۔ قيل لہ‪ :‬يا اباعبدا !‬
‫وابومعويۃ‪ ،‬قال‪ :‬شبابۃ کان داعيۃ۔ وقال زکريا الساجی‪ :‬صدوق‪ ،‬يدعو الی االرجا‪ ،‬کان احمد يحمل‬
‫عليہ ‪؎۲‬۔‬
‫شبابہ ابن سوار فزاری‪ Z‬احمد بن حنبل نے کہا کہ ميں نے اس کو چھوڑديا اور اس‬
‫سے حديثيں نہيں لکھيں کيونکہ وہ ارجاء کا عقيدہ رکھتا تھا۔ کسی نے کہا کہ‬
‫(ارجاء کا عقيدہ تو) ابومعاويہ بھی رکھتا ہے۔ احمد نے کہا (ہاں‪ ،‬مگر) شبابہ ارجاء‬
‫چا ہے‪ ،‬ارجاء کا داعی‪ Z‬ہے۔ احمد اس پر‬‫کا داعی تھا۔ زکريا ساجی نے کہا کہ س ّ‬
‫تنقيد کيا کرتے تھے۔ ت)‬
‫مطبوعہ دائرۃ المعارف‬ ‫ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری‬ ‫(‪ ؎۲‬تہ ذيب التہذيب عسقالنی‬
‫‪)۴/۳۰۱‬‬ ‫حيدرآباد دکن‬
‫ُ‬
‫اسی ميں ہے‪ :‬قال ابوحاتم‪ :‬صدوق‪ ،‬يکتب حديث واليحتج بہ ‪( ؎۳‬ابوحاتم نے کہا ہےکہ س ّ‬
‫چا‬
‫ہے‪ ،‬اس کی حديث لکھی جائے مگر اس کو حجت نہ بنايا جائے۔ ت)‬
‫مطبوعہ دائرۃ المعارف‬ ‫ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری‬ ‫(‪ ؎۳‬تہذيب التہذيب عسقالنی‬
‫حيدرآباد دکن ‪)۴/۳۰۱‬‬
‫ُ‬
‫اسی ميں ہے‪ :‬قال ابوبکر االثرم عن احمد بن حنبل‪ :‬کان يدعو الی االرجاء‪ ،‬وحکی عنہ قول اخبث من‬
‫ھذہ االقاويل‪ ،‬قال‪ :‬اذا قال فقد عمل بجارحتہ۔ وھذا قول خبيث‪ ،‬ماسمعت احدا يقولہ ‪؎۱‬۔‬
‫حق عقيدہ ارجاء کی دعوت‬ ‫ابوبکر اثرم نے احمد بن حنبل سے نقل کيا ہے کہ اس ٰ‬
‫ديتا تھا اور اس سے ايک ايسا قول بھی منقول ہے جو ان تمام باتوں سے زيادہ‬
‫خبيث ہے۔ اس نے کہا کہ جب (اللہ تعالٰی) کوئی بات کہتا ہے تو يقينا اپنے ايک‬
‫عضو (زبان) کو کام ميں التا ہے۔ يہ ايک خبيث قول ہے‪ ،‬ميں نے کسی کو يہ بات‬
‫سنا۔ (ت)‬
‫کہتے نہيں ُ‬
‫ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد‬ ‫(‪ ؎۱‬تہذيب التہذيب عسقالنی‬
‫دکن ‪)۴/۳۰۲‬‬
‫ا ُسی ميں ہے ‪:‬قال ابوبکر محمد بن ابی الثلج‪ ،‬حدثنی ابوعلی بن سختی المدائنی‪،‬‬
‫حدثنی رجل معروف من اھل المدائن‪ ،‬قال‪ :‬رأيت فی المنام رجال نظيف الثوب‬
‫حسن الھيأۃ ‪ ،‬فقال لی‪ :‬من اين انت؟ قلت‪ :‬من اھل المدائن‪ ،‬قال‪ :‬من اھل‬
‫الجانب الذی فيہ شبابۃ؟ قلت‪ :‬نعم! قال فانی ادعو الل ّٰہ‪ ،‬فامن علی دعائی‪ :‬اللھم!‬
‫ان کان شبابۃ يبغض اھل نبيک فاضربہ الساعۃ بفالج قال‪ :‬فانتبھت‪ ،‬وجئت الی‬
‫المدائن وقت الظھر‪ ،‬واذا‪ Z‬الناس فی ھرج‪ ،‬فقلت‪ ،‬ماللناس؟ قالوا‪ :‬فلج شبابۃ‬
‫فی السحر‪ ،‬ومات الساعۃ ‪؎۲‬۔‬
‫ابوبکر محمد بن ابی الثلج نے کہا کہ مجھے ابوعلی ابن سختی مدائنی نے بتایا کہ‬
‫مجھ سے مدائن کے ايک مشہور آدمی نے بيان کيا کہ ميں نے خواب ميں ايک‬
‫خوش لباس اور خوش شکل شخص کو ديکھا اس نے مجھ سے پُوچھا کہ تم کہاں‬
‫ل مدائن ميں سے ہوں۔ اس نے پوچھا‬ ‫کے رہنے والے ہو؟ ميں نے کہا ميں ا ہ ِ‬
‫مدائن کے اُس حصے ميں رہتے ہو جس ميں ابوشبابہ رہتا ہے؟ ميں نے کہا ہاں‪،‬‬
‫اس نے کہا کہ پھر ميں ايک دعا کرتا ہوں اور تم آمين کہو۔ (اس نے يوں دُعاکی‪):‬‬
‫اے اللہ! اگر شبابہ تيرے نبی کے اہل سے بغض رکھتا ہے تو اس کو اسی وقت‬
‫فالج ميں مبتال کردے۔ اس آدمی نے کہا کہ يہ ديکھ کر ميں جاگ گيا اور ظہر کے‬
‫صے ميں جہاں شبابہ رہتا تھا) گيا تو ديکھا کہ لوگوں ميں‬ ‫وقت مدائن (کے اس ح ّ‬
‫اضطراب پايا جاتا ہے‪ ،‬ميں نے پوچھا کہ لوگ کيوں پريشان ہيں؟ انہوں نے جواب‬
‫ديا کہ آج سحر کے وقت شبابہ پر فالج گرا اور ابھی ابھی مرگيا ہے۔ (ت)‬
‫ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد‬ ‫(‪ ؎۲‬تہ ذيب التہذيب عسقالنی‬
‫دکن ‪)۴/۳۰۲‬‬
‫ماّل جی بھی ضعيف مان چکے‪ ،‬فرماتے ہيں ف ‪:۱‬‬ ‫روايت حاکم وطبرانی‪ Z‬کو خود ُ‬
‫مؤلف نے دالئل ميں وہ حديثيں بيان کی ہيں جن کی طرف ہم کو کچھ التفات‬
‫نہيں يعنی ايک روايت ابوداؤد‪ Z‬جس کے راوی ميں ضعف تھا ايک روايت معجم‬
‫اوسط طبرانی ايک روايت اربعين حاکم نقل کرکے اُن پر طعن کرديا اور جو‬
‫روايتيں صحيحہ متداول تھيں نقل کرکے اُن کا جواب نہيں ديا يہ کيا دينداری‪ Z‬ہے‬
‫اور کيا مردانگی کہ بخاری ومسلم کو چھوڑ کر اربعين حاکم اور اوسط طبرانی‬
‫کو جاپکڑا اور اُن سے دو‪ ۲‬روايتيں ضعيف نقل کرکے اُن کا جواب ديا۔‬
‫)‬ ‫ص ‪۳۶۶ ،۳۶۵‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معيار الحق‬
‫لہذا ہ ميں ان کے باب ميں تفصيل کالم کی حاجت نہ رہی ع ‪ :‬مدعی الکھ پہ بھاری‬
‫ہے گواہی تيری‬
‫خير يہ تو ماّل جی سے خدا جانے کس مجبوری نے کہلوا چھوڑ مگر ستم۔‬
‫لطيفہ‪ :‬اس مافات کی تالفی يہ ہے کہ جب يہ روايتيں ناقابل احتجاج نکل گئيں‬
‫خود روايت صحيحين ميں لفظ والعصر بڑھاديا‪ ،‬فرماتے ف‪ ۲‬ہيں روايت کی‬
‫بخاری اور مسلم نے انس سے (الی قولہ) فان زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر‬
‫والعصر ثم رکب۔‬
‫ص ‪)۳۷۹‬‬ ‫(ف‪ ۲‬معيارالحق‬
‫اقول‪ :‬ماّل جی حنفیہ کی مروی تو بحمداللہ آپ نے دیکھ لی اب بعون ٖہ تعالٰی اور‬
‫دیکھئے گا یہاں تک کہ آپ کی سب ہوسوں کی تسکین ہوجائے مگر دینداری و‬
‫مردانگی اس کا نام ہوگا کہ مشہور و متداول کتب میں تحریف کےلئے مردانہ پن‬
‫کا دعوٰی ہے تو صحیحین میں اس عبارت کا نشان دیجئے ایک زمانہ میں آپ کو‬
‫طبقات زیریں میں حضور پُرنور منزہ عن المثل‬
‫ِ‬ ‫خبط کفری جاگا تھا کہ زمین کے‬
‫والنظیر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معاذاللہ چھ مثل موجود ہیں یہ بخاری‬
‫مسلم شاید اُنہیں طبقات کی ہوں گی۔‬

‫ثم اقول‪ :‬وباللہ التوفیق‪ Z‬یہ سب کالم باالئی تھی فرض کرلیجئے کہ یہ روایت‬
‫ُ‬
‫صحیحہ بلکہ خود صحیحین موجود سہی پھر تمھیں کیا نفع اور ہمیں کیا ضرر اس‬
‫کا تو اتنا حاصل کہ سورج منزل ہی میں ڈھل جاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ‬
‫ہوکر سوار ہوتے اس سے عصر کا پیش از وقت پڑھ لینا کہاں سے نکال۔‬
‫اوّال ‪:‬واو مطلق جمع کےلئے ہے نہ معیت وتعقیب کے واسطے‪ ،‬جمیعا بھی اُسی‬
‫مطلق جمع کی تاکید کرتا ہے جو مفاد واو ہے اُس کا منطوق صریح اجتماع فی‬
‫الحکم ہے عـہ نہ خواہی نخواہی اجتماع فی الوقت آیہ کریمہ وتوبوا الی الل ّٰہ‬
‫جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون ؂‪( ۲‬اور‪ Z‬توبہ کرو اللہ تعالٰی کی طرف‬
‫ل ایمان! تاکہ تم فالح پاؤ۔ ت)‬
‫تم سب اے اہ ِ‬
‫‪) ۲/۳۱ ۴‬‬ ‫(‪؎۱‬القرآن‬
‫نے یہ ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان توبہ کریں حکم ِ توبہ سب کو شامل ہو یا یہ‬
‫فرض کیا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک وقت ایک ساتھ مل کر معا ً توبہ کریں۔‬
‫عـہ‪ :‬بیضاوی شریف میں زیر آیہ کریمہ قلنا اھبطوا منھا جمیعا ہے‪ :‬جمیعا‪،‬حال فی اللفظ‪ ،‬تاکید فی المعنی‪ ،‬کانہ قیل‪:‬‬
‫اھبطوا انتم اجمعون؛ ولذلک الیستدعی اجتماعھم علی الھبوط فی زمان واحد کقولک جاؤا جمیعا۔‪ ؎۱‬اھ ‪ ۱۲‬منہ رضی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫جا تعالی عنہ (م)۔‬
‫ً‬ ‫ً‬
‫''جمیعا'' لفظا حال ہے‪ ،‬معنی تاکید ہے‪ ،‬گویا کہ کہا گیا‪ ،‬تم سب اترو۔ اسی لئے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ سب ایک‬
‫ٰ‬
‫ہی وقت میں اتریں‪ ،‬جیسا کہ تم کہتے ہو کہ سب آئے اھ ‪ ۱۲‬منہ رضی اہلل تعالی عنہ (ت)‬
‫ص ‪)۱۸‬‬ ‫مصطفی البابی مصر‬ ‫(‪ ؎۲‬انوار التنزیل علی ہ امش القرآن الکریم‬
‫فردیت اجتماع فی الحکم مفاد ہویا خود اس‬ ‫ِ‬ ‫ثانیا ً ‪:‬اجتماع فی الوقت کہ بذریعہ‬
‫وقت نماز مراد نہیں ہوسکتا کہ وضع الفاظ‬ ‫ِ‬ ‫کے لئے بھی وضع مانو اُس وقت سے‬
‫تعیین اوقات نماز سے مقدم ہے لفظ جمیعا اپنے معنی لغوی پر اہل جاہلیت بھی‬
‫بولتے تھے جنہیں نماز سے خبر تھی نہ اُس کے وقت سے‪ ،‬تو الجرم اس تقدیر پر‬
‫اس کا مفاد اتحاد زمانہ وقوع ومقارنت فی الصدور ہوگا وہ دو‪ ۲‬نماز فرض‪ Z‬میں‬
‫ناممکن اور اتصال بروجہ تعقیب اس معنی جمیعا کا فرد نہیں بلکہ صریح مباین‪،‬‬
‫الجرم پھر اُسی معنی واضح وروشن واقل‪ Z‬متیقن یعنی اجتماع فی الحکم‪ Z‬کی‬
‫طرف رجوع الزم کہ تاصحت حقیقت مجاز کی طرف مصیر نامجاز خصوصا ً‬
‫مستدل کو۔‬
‫ثالثا ً ‪:‬تعقیب ہی سہی پھر جمع صوری کی نفی کہاں سے ہوئی صلّی جمیعا یوں‬
‫بھی صادق اور ادعائے تقدیم باطل وزاہق ھکذا ینبغی التحقیق والل ّٰہ ولی‬
‫التوفیق بحمداللہ آفتاب کی طرح روشن ہُوا کہ جمع تقدیم پر اصال ً کوئی دلیل‬
‫نہیں کسی حدیث صحیح میں اس کی بُو بھی نہیں‪ ،‬ماّل جی کا قطعی ومفسر کہہ‬
‫حن اللہ! کیا ایسی ہی ہوسوں پر‬ ‫دینا خدا جانے کس نشہ کی ترنگ تھی‪ ،‬سب ٰ‬
‫ُ‬
‫اجماع امت‬ ‫توقیت منصوص قرآن ونصوص اور پیش ازوقت‪ Z‬نماز کے بطالن پر‬
‫ِ‬
‫ترک کردئی جائیں گے اور خدا ورسول جل جاللہ‪ ،‬وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬
‫کے باندھے ہُوئے اوقات اُلٹ پُلٹ ہوسکیں گے‪ ،‬یہ اچھا عمل بالحدیث ہے کہ اپنی‬
‫خیال بندیوں پر رگ دعوٰی بلند اور قرآن عظیم وحدیث واجماع سب سے‬
‫آنکھیں بند والحول والقوۃ االبالل ّٰہ العلی العظیم وصلی الل ّٰہ تعالٰی علی سید‬
‫المرسلین سیدنا وموالنا محمد واٰل ٖہ وصحب ٖہ اجمعین۔‬
‫فصل سوم تضعیف دالئل جمع تاخیر‬
‫فراغ تام مال‪ ،‬اب جمع تاخیر کی طرف‬
‫ِ‬ ‫الحمداللہ جمع تقدیم کے جواب سے‬
‫چلیے۔ ماّل جی بہزار کاوش وکاہش یہاں بھی دو‪ ۲‬ہی حدیثیں چھانٹ پائے جن کے‬
‫الفاظ متعددہ کے ذکر سے شاید عوام کو یہ وہم دالنا ہوکہ اتنی حدیثیں ہیں‪ ،‬یہ دو‬
‫‪ ۲‬حدیثیں وہی احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہم مذکورہ صدر فصل‬
‫اول وافاضہ ثالثہ ہیں جن کے بعض طرق والفاظ حدیث اول جمع صوری وحدیث‬
‫ظ بعض طرق کوماّل جی جمع‬ ‫اول ودوم حدیث مجملہ میں گزرے ان کے بعض الفا ِ‬
‫حقیقی میں نص صریح سمجھ کر الئے اور بزعم ِ خود بہت چمک چمک کر دعوے‬
‫فرمائے ادھر‪ Z‬کے متکلمین نے اکثر افادات علمائے سابقین اور بعض اپنے سوانح‬
‫جدیدہ سے ا ُن کے جوابوں میں کالم طویل کیے‪ ،‬فقیر غفرلہ المولی القدیر کا یہ‬
‫مختصر جواب نقل اقاویل وجمع ماقال وقیل کےلئے نہیں لہذا بعون ٖہ تعالٰی وہ‬
‫ل نظر‬‫سنیے کہ فیض موالئے اجل سے قلب عبد ِ اذل پر فائض ہُوئے اہ ِ‬ ‫افادات تازہ ُ‬
‫اگر مقابلہ کریں جلیل وعظیم‪ Z‬فرق پر خود ہی مطلع ہوں گے والل ّٰہ یختص‬
‫برحمتہ من یشاء والل ّٰہ ذوالفضل العظیم (اللہ تعالٰی اپنی رحمت کے ساتھ‬
‫جسے چاہے مخصوص فرمادے اور اللہ تعالٰی علم وفضل واال ہے۔ ت)‬
‫اقول وبحول الل ّٰہ اصول حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے چالیس سے‬
‫پیش نظر فقیر ہیں اُن میں نصف سے زائد تو محض مجمل‬ ‫ِ‬ ‫زیادہ طرق اس وقت‬
‫جن میں اٹھارہ کی طرف ہم نے احادیث مجملہ میں اشارہ کیا ر ہے نصف سے کم‬
‫ا ُن میں اکثر صاف صاف جمع صوری کی تصریح کررہے ہیں جن میں سے چودہ‬
‫‪ ۱۴‬روایات بخاری وابوداؤد ونسائی وغیرہم سے اُوپر مذکور ہُوئے‪ ،‬ہاں بعض میں‬
‫ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا بعد غروب شفق جمع کرنا مذکور‪ ،‬ان میں بھی‬
‫بعض محض موقوف مثل روایت(‪ )۱‬موطائے امام محمد‪:‬‬
‫ہّٰلل‬
‫اخبرنا مالک عن نافع ان ابن عمر رضی ا تعالی عنھما حین جمع بین المغرب والعشاء‪ ،‬سارحتی‬
‫غاب الشفق ‪؎۱‬۔ مالک‪ ،‬نافع سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما‬
‫نے جب مغرب وعشاء کو جمع کیا تھا تو چلتے رہے تھے یہاں تک شفق غائب‬
‫ہوگئی تھی۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مجتبائی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین فی السفر والمطر‬ ‫(‪ ؎۱‬مؤطا امام محمد‬
‫الہور ص‪)۱۳۱‬‬
‫اور بعض میں رفع ہے تو بالفاظ اجمال یعنی حضور واال صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم سے تصریحا ً اسی قدر منقول کہ جمع فرمائی قدر مرفوع میں غیبت شفق‬
‫پر تنصیص نہیں مثل روایت(‪ )۲‬بخاری‪:‬‬
‫حدثنا سعید بن ابی مریم اخبرنا محمد بن جعفر قال اخبرنی زید‪ ،‬ھو ابن اسلم‪ ،‬عن ابیہ‪ ،‬قال‪ :‬کنت مع‬
‫ّ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا بن عمر رضی ا تعالی عنھما بطریق مکۃ‪ ،‬فبلغہ عن صفیۃ بنت ابی عبید شدۃ وجع‪،‬‬
‫فاسرع السیر‪ ،‬حتی اذاکان بعد غروب الشفق‪ ،‬ثم نزل فصلی المغرب والعتمۃ‪ ،‬یجمع بینھما‪ ،‬فقال‪ :‬انی‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫رأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر اخر المغرب وجمع بینھما ‪؎۱‬۔‬
‫حدیث بیان کی ہم سے سعید ابن ابی مریم نے‪ ،‬اس کو خبر دی محمد ابن جعفر‬
‫نے‪ ،‬اس کو زید بن اسلم نے اپنے والدی سے کہ میں مک ّہ کے راستے میں عبداللہ‬
‫ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ساتھ تھا تو ان کو صفیہ بنت ابی عبید کے‬
‫بارے میں اطالع ملی کہ وہ سخت درد میں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رفتار تیز‬
‫کردی یہاں تک کہ شفق غروب ہوگئی۔ اس کے بعد وہ اترے اورمغرب وعشاء کی‬
‫نماز پڑھی‪ ،‬دونوں کو جمع کیا‪ ،‬پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی‬
‫علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب انہیں سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب کو‬
‫مؤخر کرکے دونوں کو جمع کرلیتے تھے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب‬ ‫باب المسافر اذاجدبہ السیر وتعجل الٰی اہلہ‬ ‫(‪ ؎۱‬صحیح للبخاری‬
‫خانہ کراچی ‪)۱/۲۴۳‬‬
‫ہّٰلل‬
‫وروایت(‪ )۳‬مسلم‪:‬حدثنا محمد بن مثنی نایحیی عن عبیدا عن نافع ان ابن عمر کان اذاجدبہ‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫السیر جمع بین المغرب والعشاء‪ ،‬بعد ان یغیب الشمس‪ ،‬ویقول‪ :‬ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ‬
‫وسلم کان اذاجدبہ السیر جمع بین المغرب والعشاء ‪؎۲‬۔ ورواہ الطحاوی فقال‪ :‬حدثنا ابن ابی داؤد ثنا‬
‫ً‬
‫مسدد ثنا یحییی ‪ ؎۳‬بہ‪ ،‬سندا ومتنا۔‬
‫حیی سے‪ ،‬اس نے عبیداللہ سے‪ ،‬اس‬ ‫حدیث بیان کی ہم سے محمد ابن مثنٰی نے ی ٰ‬
‫نے نافع سے کہ ابن عمر کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو شفق غائب ہونے‬
‫کے بعد مغرب وعشا کو جمع کرلیتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب وعشاء کو‬
‫جمع کرلیتے تھے۔ طحاوی نے بھی ابن ابی داؤد سے‪ ،‬اس نے مسدد سے‪ ،‬اس نے‬
‫یحیٰی سے یہی روایت کی ہے‪ ،‬ایک ہی سند اور متن کے ساتھ۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬ ‫باب جواز الجمع بین الصالتین فی السفر‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح لمسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۲۴۵‬‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین کیف ھو‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۲‬‬
‫ٰ‬
‫وروایت(‪ )۴‬ابی داؤد‪:‬حدثنا سلیمن بن داود العتکی نا عماد نا ایوب عن نافع ان ابن عمر‪ ،‬استصرخ‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫علی صفیۃ‪ ،‬وھو بمکۃ‪ ،‬فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم‪ ،‬فقال‪ :‬ان النبی صلی ا تعالی‬
‫علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امر فی سفربین ھاتین الصالتین‪،‬فسار‪ 5‬حتی غاب الشفق‪ ،‬فنزل فجمع‬
‫بینھما ‪؎۱‬۔‬
‫حدیث بیان کی ہم سے سلیمان ابن داؤد عتکی نے عماد سے‪ ،‬اس نے ایوب سے‪،‬‬
‫اس نے نافع سے کہ ابن عمر جب مک ّہ میں تھے تو ان کو صفیہ کی شدید بیماری‬
‫کی اطالع‪ Z‬ملی اور وہ چل پڑے‪ ،‬یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر‬
‫ہوگئے‪ ،‬تو کہا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں کسی کام کی‬
‫جلدی ہوتی تھی تو ان دو‪ ۲‬نمازوں کو جمع کرلیتے تھے۔ پھر چلتے رہے‪ ،‬یہاں تک‬
‫کہ شفق غائب ہوگئی تو اُترے اور دونوں کو اکٹھا پڑھا۔ (ت)‬
‫‪)۱/۱۷۰‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫س نن ابی داؤد‬
‫(‪ُ ؎۱‬‬
‫ٰ‬
‫ضمیر سار ابن عمر رضی اہلل تعالی عنہما کی طرف ہے بدلیل روایت طحاوی‪:‬حدثنا ابن مرزوق ثنا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫عازم بن الفضل ثنا حماد بن زید عن ایوب عن نافع ان ابن عمر رضی ا تعالی عنہما‪ ،‬استصرخ علی‬
‫صفیۃ بنت عبید‪ ،‬وھو بمکۃ‪ ،‬فاقبل الی المدینۃ‪ ،‬فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم‪ ،‬وکان رجل‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ءیصحبہ‪ ،‬یقول‪ :‬الصالۃ 'الصالۃ‪ ،‬وقال لہ سالم‪ :‬الصالۃ‪ ،‬فقال‪ :‬ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ‬
‫وسلم‪ ،‬کان اذاعجل بہ السیر فی سفر جمع بین ھاتین الصالتین‪ 5،‬وانی ارید ان اجمع بینھما‪ ،‬فسار حتی‬
‫غاب الشفق‪ ،‬ثم نزل فجمع بینھما ‪؎۲‬۔‬
‫حدیث بیان کی ہم سے ابن مرزوق نے عازم ابن فضل سے‪ ،‬اس نے حماد ابن‬
‫زید سے‪ ،‬اس نے ایوب سے‪ ،‬اس نے نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب‬
‫مک ّہ میں تھے تو آپ کو صفیہ بنت ابی عبید کی شدید عاللت کی خبر ملی۔ چنانچہ‬
‫آپ مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے اور مسلسل چلتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب‬
‫ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ابن عمر کے ساتھ ایک شخص تھا جو کہہ رہا تھا‬
‫''نماز‪ ،‬نماز''۔ سالم نے بھی کہا ''نماز'' (یعنی نماز کا وقت جارہا ہے) تو ابن عمر‬
‫نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی‬
‫تھی تو ان دو‪ ۲‬نمازوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے اور میں بھی چاہتا ہوں کہ اکٹھّا پڑھ‬
‫لُوں۔ پھر چلتے رہے‪ ،‬یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی‪ ،‬اس وقت اتر کر دونوں کو‬
‫اکٹھا پڑھا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۲‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۱۲‬‬
‫امام اجل ابوجعفر اس حدیث کو روایت کرکے فرماتے ہیں‪:‬انما اخبر بذلک من فعل ابن عمر‬ ‫ولہذا‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ِ ٰ‬
‫رضی ا تعالی عنھما‪ ،‬وذکر عن النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم الجمع‪ ،‬ولم یذکر کیف جمع ‪؎۳‬۔‪0‬‬
‫ابن عمر کا عمل مذکور ہے اور انہوں نے اگرچہ یہ تو بتایا ہے‬
‫ِ‬ ‫اس میں تو صرف‬
‫کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جمع کیا کرتے تھے مگر یہ ذکر نہیں کیا‬
‫کہ کیسے جمع کیا کرتے تھے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۱۲‬‬
‫البتہ غیر صحیحین کی بعض روایات میں فعل یکتف کی طرف اشارہ کرکے رفع ہے وہ یہ ہیں‪،‬‬
‫روایت(‪ )۵‬ابی داؤد‪:‬‬
‫حدثنا عبدالملک ابن شعیب ناابن وھب عن اللیث‪ ،‬قال‪ :‬قال ربیعۃ‪ ،‬یعنی کتب الیہ‪ ،‬حدثنی‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا بن دینار‪ ،‬قال‪ :‬غابت الشمس‪ ،‬وانا عند عبدا بن عمر‪ ،‬فسرنا‪ ،‬فلما رأیناہ قدامسی‪ ،‬قلنا‪:‬‬
‫ّ‬
‫الصالۃ‪ ،‬فسار حتی غاب الشفق وتصوبت النجوم‪ ،‬ثم انہ نزل فصلی صالتین جمیعا‪ ،‬ثم قال‪ :‬رأیت‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر صلی صالتی ھذہ‪ ،‬یقول یجمع بینھما بعد لیل‬
‫‪؎۱‬۔‬
‫حدیث بیان کی ہم سے عبدالملک ابن شعیب نے‪ ،‬اس نے ابن وہب سے‪ ،‬اس نے‬
‫لیث سے‪ ،‬اس نے کہا کہ ربیعہ‪ ،‬نے میری طرف لکھا کہ عبداللہ ابن دینار نے‬
‫سورج ڈوب گیا تو ہم‬ ‫مجھے بتایا ہے کہ میں عبداللہ ابن عمر کے ساتھ تھا کہ ُ‬
‫چلتے رہے یہاں تک کہ جب شام ہوگئی تو ہم نے کہا ''نماز''۔ مگر وہ چلتے رہے‬
‫یہاں تک کہ شفق غائب ہوئی اور تارے نمایاں ہوگئے‪ ،‬اس وقت آپ اُترے اور‬
‫دونوں نمازیں اکٹھی پڑھیں‪ ،‬پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تھی تو جس طرح میں نے‬
‫نماز پڑھی ہے اسی طرح آپ بھی پڑھا کرتے تھے‪ ،‬یعنی رات ہونے کے بعد اکٹھا‬
‫پڑھتے تھے۔ (ت)‬
‫‪)۱/۷۲‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی دہلی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫س نن ابی داؤد‬
‫(‪ُ ؎۱‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫روایت(‪ )۶‬ترمذی‪:‬حدثنا ھناد نا عبدۃ عبیدا بن عمر عن نافع عن ابن عمر رضی ا تعالی‬
‫ٰ‬
‫عنھما‪،‬انہ استغیث علی بعض اھلہ فجدبہ السیر ‪،‬واخر المغرب حتی غاب الشفق‪ ،‬ثم نزل فجمع‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫بینھما‪ ،‬ثم اخبرھم‪ :‬ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم کان یفعل ذلک اذاجدبہ السیر۔ قال‬
‫ابوعیسی‪ :‬ھذا حدیث حسن صحیح ‪؎۲‬۔‬
‫حدیث بیان کی ہم سے ہناد نے عبدۃ سے‪ ،‬اس نے عبیداللہ بن عمر سے‪ ،‬اس نے‬
‫نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اپنے اہل خانہ میں سے کسی کی‬
‫سخت بیماری کی اطالع ملی تو تیزی سے روانہ ہُوئے اور مغرب کو اتنا مؤخر کیا‬
‫کہ شفق ڈوب گئی‪ ،‬پھر دونوں کو مالکر پڑھا‪ ،‬بعد میں ساتھیوں کو بتایا کہ رسول‬
‫اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو اسی طرح‬
‫سی نے کہا‪ :‬یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ت)‬ ‫کرتے تھے۔ ابوعی ٰ‬
‫‪۱/۷‬‬ ‫مطبوعہ امین کمپنی دہلی‬ ‫باب ماجاء فی الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۲‬جامع الترمذی‬
‫‪)۲‬‬
‫روایت (‪ )۷‬نسائی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫اخبرنا اسحق بن ابرھیم ثنا سفین عن ابن ابی نجیح عن اسمعیل بن عبدالرحمن عن شیخ من قریش‪،‬‬
‫قال‪ :‬صحبت ابن عمر الی الحمی‪ ،‬فلما غربت الشمس‪ ،‬ھبت ان اقول لہ‪ :‬الصالۃ‪ ،‬فسار حتی ذھب‬
‫بیاض االفق وفحمۃ العشاء‪ ،‬ثم نزل فصلی المغرب ثلث رکعات‪ ،‬ثم صلی رکعتین علی اثرھما‪ ،‬قال‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ھکذا ارأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم یفعل ‪؎۱‬۔‬
‫حق ابن ابراہیم‪ Z‬نے سفیان سے‪ ،‬اس نے ابونجیح سے‪ ،‬اس نے‬ ‫خبر دی ہمیں اس ٰ‬
‫معیل ابن عبدالرحمان سے جو کہ ایک قریشی شیخ ہے کہ میں ابن عمر کے‬ ‫اس ٰ‬
‫ساتھ تھا جب وہ چراگاہ کو گئے اور سورج ڈوب گیا تو ان کی ہیبت کی وجہ سے‬
‫میں ان کو نماز کے بارے میں نہ کہہ سکا چنانچہ وہ چلتے رہے یہاں تک کہ اُفق‬
‫کی سفیدی ختم ہوگئی اور عشاء کی سیاہی ماند پڑگئی‪ ،‬اس وقت اترے اور‬
‫مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں‪ ،‬پھر متصال ً (عشاء کی) دو رکعتیں پڑھیں کہ کہا کہ‬
‫میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح پڑھتے دیکھا ہے۔‬
‫(ت)‬
‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی کتاب المواقیت‪ ،‬الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء‬
‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور ‪)۱/۶۹‬‬
‫مستحق جواب یہی تین روایتیں تھیں مگر فقیر بعون الملک القدیر‬
‫ِ‬ ‫بظاہر زیادہ‬
‫عزوجل وہ جوابات شافیہ وکافیہ وتقریرات صافیہ ووافیہ بیان کرے کہ یہ ساتوں‬
‫طرق اور ان کے سوا اور بھی کچھ ہو تو سب کو بحول اللہ تعالٰی کفایت کریں۔‬
‫فاقول وباللہ التوفیق‪ Z‬وبہ العروج علی اوج التحقیق۔‬
‫جواب اوّل اسی حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے طرق کثیرہ جلیلہ‬
‫صحیحہ کہ سابقا ً ہم نے ذکر کیے صاف دواشگاف بآواز بلند تصریحات قاہرہ‬
‫غروب شفق سے‬ ‫ِ‬ ‫ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے نمازِ مغرب‬‫ِ‬ ‫فرمارہے ہیں کہ‬
‫غروب شفق کے بعد‪ ،‬اور اسی کو حضور اقدس سید عالم‬ ‫ِ‬ ‫پہلے پڑھی اور عشاء‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا اُن روایات صحاح وحسان وجلیلۃ‬
‫ابن عمر رضی اللہ‬ ‫ِ‬ ‫الشان پر پھر نگا ِہ تازہ کیجئے۔ امام سالم صاحبزادہ حضرت‬
‫معیلی‬ ‫سنن نسائی وصحیح اس ٰ‬ ‫تعالٰی عنہم‪ Z‬اپنی روایات مرویہ صحیح بخاری و ُ‬
‫وغیرہا میں فرمارہے ہیں کہ دو تین میل چل کر جب تارے کھل آئے اُتر کر مغرب‬
‫پڑھی پھر ٹہر کر عشاء۔ عبداللہ واقد شاگرد حضرت ابن عمر اپنی روایات مرویہ‬
‫غروب شفق سے پہلے اُتر کر مغرب‬ ‫ِ‬ ‫سنن ابی داؤد میں روشن تر فرماتے ہیں کہ‬
‫پڑھی پھر منتظر رہے یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشاء پڑھی‪ ،‬طرفہ‬
‫یہ کہ وہی امام نافع تلمیذ خاص ورفیق‪ Z‬سفر وحضر ابن عمر کہ ان غروب شفق‬
‫والی سات روایتوں میں چار اُنہیں سے ہیں وہی وہاں اپنی روایات کثیرہ مرویہ‬
‫سنن ابی داؤد وسنن نسائی وغیرہا میں یوں ہی واضح وجلی تر فرمارہے ہیں کہ‬ ‫ُ‬
‫جب تک مغرب پڑھی ہے شفق ہرگز نہ ڈوبی تھی بلکہ بعد کو بھی انتظار فرمانا‬
‫پڑا جب ڈوب گئی اُس وقت عشا کی تکبیر کہی اور اوّل تا آخر ان سب روایات‬
‫میں تصریح صریح ہے کہ حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی ایسا ہی‬
‫کرتے بلکہ حدیث امام سالم میں یوں ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم نے حکم دیا کہ جسے جلدی ہو وہ اس طرح پڑھا کرے‪ ،‬للہ انصاف! ان‬
‫گنجائش تاویل وتبدیل ہے اور شک‬
‫ِ‬ ‫صاف الفاظ مفسر نصوص میں کہیں بھی‬
‫صہ صفیہ زوجہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬جو وہاں اور یہاں‬ ‫نہیں کہ ق ّ‬
‫دونوں طرف کی روایات میں مذکور ایک ہی بار تھا بلکہ انہیں امام نافع سے‬
‫مروی کہ ابن عمر سے عمر بھر میں صرف اسی بار جمع معلوم ہے اس کے‬
‫سنن ابی داؤد میں بطریق امام‬ ‫سوا کسی سفر میں انہیں جمع کرتے نہیں دیکھا‪ُ ،‬‬
‫ایوب سختیانی مذکور‪:‬‬
‫انہ لم یرابن عمر جمع بینھما قط‪ ،‬االتلک اللیلہ‪ ،‬یعنی لیلۃ استصرخ علی صفیۃ ‪ ؎۱‬اھ اماما قال‪:‬‬
‫وروی من حدیث مکحول عن نافع‪ :‬انہ رأی ابن عمر فعل ذلک مرۃ اومرتین ‪؎۲‬۔ اھ فاقول‪ :‬فیہ شک‬
‫والشک الیعارض الجزم۔‬
‫کہ اس نے ابن عمر کو کبھی دو‪ ۲‬نمازیں جمع کرتے نہیں دیکھا مگر اس رات۔‬
‫یعنی صفیہ کی بیماری کی اطالع والی رات۔‬
‫اور وہ جو اس نے کہا ہے کہ مکحول کی حدیث میں نافع سے مروی ہے کہ اس‬
‫نے ابن عمر کو ایک بار جمع کرتے دیکھا تھا یا دوبار‪ ،‬تو میں کہتا ہوں کہ اس میں‬
‫شک ہے اور شک سے یقین کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا۔ (ت)‬
‫‪)۱/۱۷۱‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد‬
‫‪)۱۷۱ /۱‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎ ۲‬سنن ابی داؤد‬
‫حدیث نسائی وطحاوی میں انہیں امام نافع سے گزرا کہ میں نے اُن کی عادت‬
‫یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے۔‬
‫حدیث کتاب الحجج میں انہیں نافع سے تھا کہ ابن عمر اذان ہوتے ہی مغرب کے‬
‫لئے اُترے اس بار دیر لگائی‪ ،‬روایت نسائی وطحاوی وحجج میں تھا ہمیں گمان‬
‫ہوا کہ اس وقت نماز اُنہیں یاد نہ رہی یہ سب اُسی قول نافع کے مؤید ہیں معہذا‬
‫شک نہیں کہ اصل عدم تعدد ہے تو جب تک صراح ًۃ تعدد ثابت نہ ہوتا اُس کے ادعا‬
‫کی طرف راہ نہ تھی خصوصا ً مستدل کو جسے احتمال کافی نہیں دفع تعارض‬
‫کےلئے اس کا اختیار اس وقت کام دیتا کہ خود قصہ صفیہ میں دونوں روایات‬
‫صحیحہ قبل غروب وبعد غروب موجود نہ ہوتیں۔‬
‫فسقط ماالتجأ الیہ بعض المتأخرین‪ ،‬من العلماء المخالفین فی المسألۃ‪ ،‬ظنا منہ انہ یدرؤبہ‬
‫التعارض‪ ،‬وماکان لیندرئ بہ۔‬
‫وہ توجیہ ساقط ہوگئی جس کو اس مسئلے کے مخالف علماء متاخرین نے اس‬
‫خیال سے اختیار کیا ہے کہ اس طرح تعارض رفع ہوجائیگا‪ ،‬حاالنکہ اس توجیہ سے‬
‫تعارض رفع نہیں ہوتا۔ (ت)‬
‫ناچار خود ماّل جی کو بھی ماننا پڑا کہ یہ سب طرق وروایات ایک ہی واقعے کی‬
‫حکایات ہیں۔ قصہ صفیہ میں حدیث سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہم بطریق کثیر بن قارؤندا مروی سنن نسائی پر برا ِہ عیاری بھی جب کوئی‬
‫طعن نہ گھڑ سکے تو اُسے مخالف حدیث شیخین ٹہرا کر َرد کردیا کہ اس میں‬
‫مغرب کا بین الوقتین پڑھنا ہے اور ان میں بعد غروب شفق‪ ،‬لہذا یہ شاذو مردود‬
‫ہے جس کی نقل لطیفہ ہفتم افادہ یکم میں گزری حاالنکہ حدیث مسلم کے لفظ‬
‫سن چکے اُس میں قصہ صفیہ کا ذکر نہیں‪ ،‬تو جب تک روایت مطلقہ بھی‬ ‫ابھی ُ‬
‫اسی قصہ صفیہ پر محمول نہ ہو حدیث قصہ صفیہ کو مخالف روایت شیخین کہنا‬
‫چہ معنی بالجملہ اس حدیث کی اتنی روایات کثیرہ میں یہ تصریح صریح ہے کہ‬
‫غروب شفق سے پہلے پڑھی اور اسی کی اُن روایات میں یہ کہ شفق‬ ‫ِ‬ ‫مغرب‬
‫ڈوبے پر پڑھی اور دونوں جانب طرق صحاح وحسان ہیں جن کے َرد کی طرف‬
‫ناقابل‬
‫ِ‬ ‫کوئی سبیل نہیں‪ ،‬تو اب یہ دیکھنا واجب ہوا کہ ان میں کون سا نص مفسر‬
‫تاویل ہے جسے چارو ناچار معتمد رکھیں اور کون سا محتمل کہ اُسے مفسر کی‬
‫طرف پھیر کر رفع تعارض کریں ہر عاقل جانتا ہے کہ ہماری طرف کے نصوص‬
‫اصال ً احتمال معنی خالف نہیں رکھتے شفق ڈوبنے سے پہلے پڑھی اتنے ہی لفظ‬
‫کے یہ معنی کسی طرح نہ ہوسکتے کہ جب شفق ڈوب گئی اُس وقت پڑھی نہ یہ‬
‫کہ جب ا ُس کے ساتھ یہ تصریحات جلیہ ہوں کہ پھر مغرب پڑھ کر انتظار کیا یہاں‬
‫تک کہ شفق ڈوب گئی اس کے بعد عشا پڑھی ان لفظوں کو کوئی نیم مجنون‬
‫بھی مغرب بعد ِ شفق پڑھنے پر عمل نہ کرسکے گا‪ ،‬ہاں پُورے پاگل میں کالم نہیں‬
‫مگر ا ُدھر کے نصوص کہ چلے یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی پھر مغرب پڑھی یا‬
‫جمع کی یا بعد غروب شفق اُتر کر جمع کی یہ اچھے خاصے محتمل وصالح تاویل‬
‫ہیں جن کا ا ُن نصوص صریح مفسرہ سے موافق ومطابق ہوجانا بہت آسان۔ عربی‬
‫قرب وقت کو اس‬ ‫ِ‬ ‫فارسی اردو سب کا محاورہ عامہ شائعہ مشہورہ واضحہ ہے کہ‬
‫وقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ عصر کے اخیر وقت کہتے ہیں شام ہوگئی حاالنکہ ہنوز‬
‫سورج باقی ہے۔ کسی سے اوّل وقت آنے کا وعدہ تھا وہ اس وقت آئے تو کہتے‬
‫سورج چھپے آئے۔ قریب طلوع تک کوئی سوتا ہوتو اُسے اُٹھانے میں کہیں‬ ‫ہیں اب ُ‬
‫سورج نکل آیا۔ شروع چاشت کے وقت کسی کام کو کہا تھا مامور نے قریب‬ ‫گے ُ‬
‫نصف النہار آغاز کیا تو کہیے گا اَب دوپہر ڈھلے لے کر بیٹھے۔ ان کی صدہا مثالیں‬
‫ہیں کہ خود ماّل جی اور اُن کے موافقین بھی اپنے کالموں میں رات دن اُن کا‬
‫استعمال کرتے ہوں گے۔ بعین ٖہ اسی طرح یہ محاورے زبان مبارک عرب خود قرآن‬
‫عظیم واحادیث میں شائع وذائع ہیں‪ ،‬قال اللہ تعالٰی‪:‬‬
‫واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن‬
‫بمعروف ‪؎۱‬۔‬
‫جب تم عورتوں کو طالق دو اور وہ اپنی میعاد کو پہنچ جائیں تو اب انہیں اچھی‬
‫طرح اپنے نکاح میں روک لو یعنی رجعت کر لو یا اچھی طرح چھوڑدو۔‬
‫‪)۲/۲۳۱‬‬ ‫(‪ ؎۱‬القرآن‬
‫کہ بے قصد مراجعت عدّت بڑھانے کے لئے رجعت نہ کرو‪،‬‬
‫وقال تعالٰی ‪ :‬فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفارقوھن بمعروف‬
‫‪؎۱‬۔ جب طالق والیاں اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں بھالئی کے ساتھ روک لو یا‬
‫جدا کردو۔ (ت)‬
‫بھالئی کے ساتھ ُ‬
‫‪)۶۵/۲‬‬ ‫(‪ ؎۱‬القرآن‬
‫ظاہر ہے کہ عورت جب عدّت کو پہنچ گئی نکاح سے نکل گئی اب رجعت کا کیا‬
‫قرب وقت کو وقت سے‬ ‫ِ‬ ‫محل‪ ،‬اور اُسے روکنے چھوڑنے کا کیا اختیار‪ ،‬تو بالیقین‬
‫تعبیر فرمایا ہے یعنی جب عدت کے قریب پہنچے اُس وقت تک تمہیں رجعت‬
‫آیات قرآنیہ سے ہوئیں جنہیں امام طحاوی‬ ‫ِ‬ ‫وترک دونوں کا اختیار ہے‪ ،‬یہ مثالیں تو‬
‫وقت ظہر اور نیز اس مسئلہ میں افادہ فرماچکے۔ فقیر غفرلہ‬ ‫ِ‬ ‫وغیرہ علماء مسئلہ‬
‫المولی القدیر احادیث سے بھی مثالیں اور علمائے قائلین بالجمع سے بھی اس‬
‫معنی ومحاورہ کی تصریحیں ذکر کرے۔ فاقول وباللہ التوفیق‪Z:‬‬
‫حدیث ‪ :۱‬جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے صبح اسرا بعد فرضیت نماز‬
‫اوقات نماز معین کرنے اور اُن کا اوّل آخر بتانے کےلئے دو‪ ۲‬روز حضور اقدس‬ ‫ِ‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امامت کی‪ ،‬پہلے دن ظہر سے فجر تک پانچوں‬
‫نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسری دن ہر نماز آخر وقت‪ ،‬اس کے بعد گزارش‪Z‬‬
‫کی‪ :‬الوقت مابین ھذین الوقتین ‪ ؎ ۲‬۔ وقت ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہے۔ (ت)‬
‫‪)۱/۵۶‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫صلٰوۃ‬
‫کتاب ال ّ‬ ‫سنن ابی داؤد‬
‫(؂‪ُ ۲‬‬
‫اس حدیث میں ابوداؤد وترمذی وشافعی وطحاوی وابن حبان وحاکم کے یہاں حضرت عبداہلل بن‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫عباس رضی اہلل تعالی عنہما سے ہے حضور اقدس صلی اہلل تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں‪:‬‬
‫صلی بی العصر حین کان ظلہ مثلہ فلما کان الغد صلی بی الظھر حین کان ظلہ مثلہ ‪؎۳‬۔ میرے‬
‫ساتھ عصر کی نماز پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا‪ ،‬جب دُوسرا دن‬
‫ہُوا تو ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ سایہ ہر چیز کا اس کے برابر تھا۔ (ت)‬
‫‪)۱/۵۶‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫صلٰوۃ‬
‫کتاب ال ّ‬ ‫سنن ابی داؤد‬
‫(‪ُ ؎۳‬‬
‫ترمذی کے الفاظ یوں ہیں‪ :‬صلی المرۃ الثانیۃ‪ ،‬الظھر‪ ،‬حین کان ظل کل شیئ مثلہ‪ ،‬لوقت‬
‫العصر باالمس ‪؎۴‬۔ دوسری مرتبہ ظہر کی نماز تب پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس‬
‫کے برابر تھا یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)‬
‫‪)۱/۲۱‬‬ ‫امین کمپنی دہلی‬ ‫باب ماجاء فی مواقیت الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۴‬جامع الترمذی‬
‫شافعی کے لفظ یہ ہیں ‪ :‬ثم صلی المرۃ االخری‪ ،‬الظھر‪ ،‬حین کان کل شیئ قدرظلہ‪ ،‬قدر العصر‬
‫باالمس ‪؎۱‬۔ پھر دوسری مرتبہ نماز پڑھی ظہر کی‪ ،‬جب ہر چیز اپنے سائے کے‬
‫ساتھ برابر تھی یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)‬
‫‪)۱/۷۱‬‬ ‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت‬ ‫جماع مواقیت الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۱‬اال ُ ّ‬
‫م للشافعی‬
‫حدیث ‪:۲‬نسائی وطحاوی وحاکم وبزار نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے‬
‫روایت کی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬ھذا جبریل‪ ،‬جاء کم‬
‫یعلمکم دینکم۔ وفیہ‪ ،‬ثم صلی العصر حین رأی الظل مثلہ‪ ،‬ثم جاء ہ الغد‪ ،‬ثم صلی بہ الظھر حین کان‬
‫الظل مثلہ ‪؎۲‬۔ یہ جبریل ہیں‪ ،‬تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں۔ اس روایت میں ہے‬
‫کہ پھر عصر کی نماز پڑھی‪ ،‬جب دیکھا کہ سایہ ان کے برابر ہے۔ پھر دوسرے دن‬
‫رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور ظہر کی نماز پڑھی‪،‬‬
‫جبکہ سایہ ان کے برابر تھا۔ (ت)‬
‫‪)۱/۵۹‬‬ ‫مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ‪ ،‬الہور‬ ‫آخر وقت الظہر‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن النسائی‬
‫بزار کے لفظ یوں ہیں ‪:‬‬
‫جاء نی‪ ،‬فصلی بی العصر حین کان فیئی مثلی‪ ،‬ثم جاء نی من الغد‪ ،‬فصلی بی الظھر حین کان فیئی‬
‫مثلی ‪؎۳‬۔ جبریل میرے پاس آئے اور مجھے عصر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ‬
‫میرے برابر تھا‪ ،‬پھر دوسرے دن آئے اور ظہر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ‬
‫میرے برابر تھا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت‬ ‫(‪ ؎۳‬کشف االستار عن زوائد الب ّزار باب ای حین یصلی‬
‫لبنان ‪)۱/۱۸۷‬‬
‫وحاکم ٰجابر بن‬
‫حق‪ Z‬بن راہویہ وابن حبان ہّٰلل‬
‫حدیث ‪:۳‬نیز نسائی وامام احمد واس ٰ‬
‫عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی‪ :‬ان جبریل اتی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم‪،‬‬
‫حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی العصر‪ ،‬ثم اتاہ فی الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل‬
‫شخصہ فصلی الظھر ‪؎۱‬۔‬
‫جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ ہر شخص کا سایہ اس‬
‫کے قد جتنا ہوتا ہے اور عصر کی نماز نہ پڑھی‪ ،‬پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر‬
‫شخص کا سایہ اس کے قد جتنا ہوتا ہے اور ظہرکی نماز پڑھی۔ (ت)‬
‫‪)۱/۶۰‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫آخر وقت العصر‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫حق بن راہویہ اپنی مسند میں حضرت ابومسعود انصاری رضی‬ ‫حدیث ‪:۴‬امام اس ٰ‬
‫اللہ تعال ٰی عنہ سے بطریق حدثنا بشر بن عمرو النھرانی ثنی مسلمۃ بن بالل ثنا‬
‫یحیٰی بن سعید ثنی ابوبکر بن عمرو بن حزم عن ابی مسعود االنصاری ‪ ؎۲‬او ر‬
‫بیہ قی کتاب المعرفۃ میں بطریق ایوب بن عتبۃ ثنا ابوبکر بن عمروبن حزم عن‬
‫حق‬ ‫عروہ بن الزبیر عن ابن ابی مسعود عن ابیہ ‪ ؎۳‬راوی اور یہ لفظ حدیث اس ٰ‬
‫ہیں‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫قال‪ :‬جاء جبریل الی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬فقال‪ :‬قم‪ ،‬فصل! وذلک لدلوک الشمس حین‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫مالت‪ ،‬فقام رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم فصلی الظھر اربعا‪ ،‬ثم اتاہ حین کان ظلہ مثلہ‪،‬‬
‫فقال‪ :‬قم‪ ،‬فصل! فقام فصلی العصر اربعا‪ ،‬ثم اتاہ من الغد حین کان ظلہ مثلہ‪ ،‬فقال لہ‪ :‬قم فصل! فقام‬
‫فصلی الظھر اربعا ‪؎۴‬۔‬
‫کہا‪ :‬جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز‬
‫سورج ڈھلنے کا وقت تھا‪ ،‬جب وہ ایک طرف جھُک گیا تھا تو رسول‬ ‫پڑھئے! اور یہ ُ‬
‫اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوبارہ‬
‫آئے جب اُن کا سایہ ان کے برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے! تو آپ نے‬
‫اٹھ کر عصر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوسرے دن آئے‪ ،‬جب ان کا سایہ ان کے‬
‫برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے‪ ،‬تو آپ نے اُٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں‬
‫پڑھیں۔ (ت)‬
‫)‪ ؎۲‬مسند ابن اسحاق)‬
‫(‪ ؎۳‬کتاب المعرفۃ)‬
‫(‪ ؎۴‬مسند ابن اسحاق)‬
‫حدیث ‪:۵‬ابن راہویہ مسند میں عبدالرزاق سے اور عبدالرزاق مصنف میں بطریق اخبرنا معمر عن‬
‫ٰ‬ ‫ّ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عبدا بن ابی بکر بن محمد بن عمروبن حزم عن ابیہ عن جدہ ‪ ؎۵‬عمروبن حزم رضی اہلل تعالی عنہ‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫سے راوی‪ :‬قال‪ :‬جاء جبریل‪ ،‬فصلی بالنبی صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬وصلی النبی صلی ا تعالی‬
‫علیہ وسلم بالناس‪ ،‬حین زالت الشمس‪ ،‬الظھر‪ ،‬ثم صلی العصر حین کان ظلہ مثلہ‪ ،‬قال‪ :‬ثم جاء‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫جبریل من الغد‪ ،‬فصلی الظھر بالنبی صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬وصلی النبی صلی ا تعالی علیہ‬
‫وسلم بالناس‪ ،‬الظھر‪ ،‬حین کان ظلہ مثلہ ‪؎۱‬۔‬
‫کہا‪ :‬جبریل آئے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ظہر کی نماز پڑھائی اور‬
‫نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو نمازپڑھائی جب سورج کا زوال‬
‫ہ وگیا تھا‪ ،‬پھر عصر پڑھی جب ان کا سایہ ان کے برابر تھا۔ راوی نے کہا‪ :‬پھر‬
‫دوسرے دن جبریل آئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو‪ ،‬اور نبی‬
‫صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی جب ان کا سایہ ان کے‬
‫برابر ہوگیا تھا۔ (ت)‬
‫‪)۱/۵۳۴‬‬ ‫(‪ ؎۵‬المصنف لعبد الرزاق باب المواقیت مطبوعہ المکتب االسالمی بیروت‬
‫‪)۱/۴۳۵‬‬ ‫(‪ ؎۱‬المصنف لعبدالرزاق باب المویقیت مطبوعہ المکتب اسالمی بیروت‬
‫حدیث ‪:۶‬دارقطنی سنن اور طبرانی معجم کبیر اور ابن عبدالبر‪ Z‬تمہید میں بطریق‬
‫ایوب بن عتبۃ عن ابی بکر بن حزن عن عروۃ بن الزبیر حضرت ابو مسعود‬
‫انصاری وبشیر بن ابی مسعود دونوں صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫ان جبریل جاء الی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم حین دلکت الشمس‪ ،‬فقال‪ :‬یامحمد! صل‬
‫الظھر‪ ،‬فصلی؛ ثم جاء حین کان ظل کل شیئ مثلہ‪ ،‬فقال‪ :‬یامحمد! صل العصر‪ ،‬فصلی‪ ،‬ثم جاء ہ الغد‬
‫حین کان ظل کل شیئ مثلہ‪ ،‬فقال‪ :‬صلی الظھر۔ الحدیث ‪؎۲‬۔‬
‫جبریل‪ ،‬نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جب سورج ڈھل چکا تھا اور‬
‫کہا‪ :‬یامحمد! ظہر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے ظہر پڑھی۔ پھر دوبارہ آئے جبکہ ہر‬
‫چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا‪ :‬یا محمد! عصر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے‬
‫عصر پڑھی۔ پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا‪:‬‬
‫ظہر پڑھئے! الحدیث۔ (ت)‬
‫مطبوعہ المکتبۃ‬ ‫حدیث ‪۷۱۸‬‬ ‫مسند ابومسعود انصاری‬ ‫(‪ ؎۲‬المعجم الکبیر للطبرانی‬
‫الفیصلیۃ بیروت ‪(۱۸/۲۶۰‬‬
‫والکل مختصر ان سب حدیثوں میں کل کی عصر کی نسبت یہ ہے کہ جب سایہ‬
‫ایک مثل ہوا نماز پڑھائی اور بعین ٖہ یہی لفظ آج کی ظہر میں ہیں کہ جب سایہ ایک‬
‫مثل ہُوا پڑھائی اور روایت ترمذی تو صاف صاف ہے کہ آج کی ظہر اُس وقت‬
‫پڑھی جس وقت کل عصر پڑھی تھی حاالنکہ مقصود اوقات کی تمیز اور ہر نماز‬
‫کا اول وآخر وقت میں جداجدا بنانا ہے الجرم امام ابوجعفر وغیرہ نے ظہر امروزہ‬
‫میں ان لفظوں کے یہی معنی لیے کہ جب سایہ ایک مثل کے قریب آیا پڑھائی‪،‬‬
‫معانی اآلثار میں فرمایا‪ :‬احتمل ان یکون ذلک علی قرب ان یصیر ظل کل شیئ مثلہ‪ ،‬وھذا جائز فی‬
‫اللغۃ‪ ،‬قال عزوجل‪ ،‬فذکر االیۃ‪ ،‬وشرح المراد‪ ،‬وافاد واجاد ‪؎۱‬۔‬
‫احتمال ہے کہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی ہو جب ہر چیزکا سایہ اس کے برابر‬
‫ہونے کے قریب ہو۔ اور یہ لغت کے اعتبار‪ Z‬سے جائز ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ یہاں‬
‫طحاوی نے آیت ذکر کی (یعنی فاذا بلغن اجلھن) اور مراد کی تشریح کی اور‬
‫مفید وعمدہ گفتگو کی۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل‬ ‫باب مواقیت الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح معانی االثار‬
‫کراچی ‪(۱/۱۰۳‬‬
‫حدیث ‪:۷‬سائل نے جو خدمت اقدس حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫اوقات نماز پُوچھے اور حضورِ واال نے ارشاد فرمایا ہے کہ‬
‫ِ‬ ‫وسلم میں حاضر ہوکر‬
‫دو‪ ۲‬دن حاضر رہ کر ہمارے پیچھے نماز پڑھ۔ پہلے دن ہر نماز اپنے اول وقت میں‬
‫اور دوسرے دن ہر نماز آخر وقت پڑھا کر ارشاد ہوا ہے‪ :‬الوقت بین ھذین (وقت ان‬
‫دونوں وقتوں کے درمیان ہے)‬
‫اس حدیث میں نسائی وطحاوی نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫سأل رجل رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم عن مواقیت الصالۃ‪ ،‬فقال‪ :‬صل معی‪ ،‬فصلی الظھر‬
‫حین زاغت الشمس‪،‬‬
‫والعصر حین کان فی کل شیئ مثلہ‪ ،‬قال‪ :‬ثم صلی الظھر حین کان فیئ االنسان مثلہ ‪؎۲‬۔‬
‫ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے‬
‫بارے میں پُوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ نماز پڑھ! تو آپ نے ظہر کی‬
‫سورج ڈھل گیا اور عصر کی اس وقت جب ہر چیز کا‬ ‫نماز اس وقت پڑھی جب ُ‬
‫سایہ اس کے برابر ہوگیا۔ راوی نے کہا کہ پھر (اگلے دن) ظہر اس وقت پڑھی‬
‫جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل‬ ‫باب مواقیت الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬شرح معانی االثار‬
‫کراچی ‪(۱/۱۰۲‬‬
‫اس حدیث میں بھی عصر دیروز وظہر امروز کا وہی حال اور علماء کے وہی‬
‫مقال۔‬
‫سی اشعری رضی اللہ تعالٰی‬‫سنن ابی داؤد میں بسند صحیح عــہ ابومو ٰ‬
‫حدیث ‪ُ :۸‬‬
‫عنہ سے حدیث سائل یوں ہے‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫ان سائال سأل النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬فلم یرد علیہ شیا‪ ،‬حتی امر بالال‪ ،‬فاقام الفجر حین‬
‫انشق الفجر‪ ،‬وفیہ فلما کان من الغد‪ ،‬اقام الظھر فی وقت العصر الذی کان قبلہ‪ ،‬وصلی العصر‬
‫وقداصفرت الشمس‪ ،‬اوقال‪ :‬امسی ‪؎۱‬۔‬
‫ایک پُوچھنے والے نے رسول اللہ سے (اوقات نماز) پُوچھے تو آپ نے کوئی جواب‬
‫نہ دیا‪ ،‬یہاں تک کہ آپ نے بالل کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت‬
‫کہی جب ابھی پَو پُھٹی ہی تھی۔ اس روایت (کے آخر) میں ہے کہ اگلے دن ظہر‬
‫کی اقامت کہی جس وقت پچھلے دن عصر کی کہی تھی‪ ،‬اور عصر کی نماز اس‬
‫سورج زرد ہوچکا تھا‪ ،‬یا یوں کہا کہ شام ہوچکی تھی۔ (ت)‬
‫وقت پڑھی جبکہ ُ‬
‫ہّٰلل‬
‫عــہ حیث قال‪( :‬حدثنا مسدد) ثقۃ‪ ،‬حافظ‪ ،‬من رجال البخاری۔ (ناعبدا بن داؤد) ھو ابن عامر الھمدانی‪ ،‬ثقۃ‪ ،‬عابد من‬
‫ٰ‬
‫رجال البخاری واالربعۃ۔ دون الواسطی الذی لیس االمن رجال الترمذی (نابدربن عثمن) ثقۃ‪ ،‬من رجال مسلم۔ (ناابوکر بن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ابی موسی ف‪ )۱‬ثقۃ‪ ،‬من رجال الستۃ۔ (عن ابی موسی) االشعری رضی ا تعالی عنہ ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م)‬
‫ہّٰلل‬
‫چنانچہ (ابوداؤد نے) کہا (حدثنا مسدد) ثقہ ہے‪ ،‬حافظ ہے‪ ،‬بخاری کے راویوں میں سے ہے (ناعبدا ابن داؤد) اس سے‬
‫مراد ابن عامر ہمدانی ہے‪ ،‬جو ثقہ ہے عابد ہے اور بخاری کے عالوہ صحاح کی چار کتابوں کے راویوں میں سے ہے۔‬
‫ٰ‬
‫واسطی مراد نہیں ہے جوکہ صرف ترمذی کے راویوں میں سے ہے (نا‪ ،‬بدر ابن عثمن) ثقہ ہے‪ ،‬مسلم کے راویوں میں‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫سے ہے۔ (نا‪ ،‬ابوبکر ابن موسی) ثقہ ہے‪ ،‬صحاح ستہ کا راوی ہے (عن ابی موسی) شعری رضی اہلل تعالی عنہ ‪ ۱۲‬منہ رضی‬
‫ٰ‬
‫اہلل تعالی عنہ (ت)‬
‫‪)۱/۵۷‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‪ ،‬پاکستان‬ ‫کتاب الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد‬
‫‪)۱/۵۷‬‬ ‫(ف‪ ۱‬سنن ابی داؤد‬
‫اس حدیث سے دو‪ ۲‬فائدہ زائدہ حاصل ہُوئے‪:‬‬
‫اوّال ً اس میں صاف تصریح ہے کہ آج کی ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی‬
‫سی‬ ‫من ناابوبکر بن ابی مو ٰ‬
‫سی اسی طریق بدر بن عث ٰ‬ ‫حاالنکہ یہی حدیث ابی مو ٰ‬
‫بن ابیہ سے مسلم ونسائی وابن ابان وطحاوی کے یہاں ان لفظوں سے ہے‪ :‬ثم اخر‬
‫الظھر حتی کان قریبا من وقت العصر باالمس ‪ ؎۲‬ولفظ النسائی الی قریب۔ پھر ظہر کی تاخیر‬
‫فرمائی یہاں تک کہ وقت عصر دیروزہ سے قریب ہوگئی۔‬
‫‪۱/۱۰‬‬ ‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب مواقیت الصلٰوۃ‬ ‫)‪ ؎۲‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۳‬‬
‫ثابت ہُوا کہ وہاں بھی قُرب ہی مراد ہے اور قرب وقت کو نام ِ وقت سے تعبیر‬
‫درکنار صراح ًۃ ان لفظوں سے بھی تعبیر کرلیتے ہیں کہ دوسری نماز کے وقت‬
‫میں نماز پڑھی‪ ،‬یہ فائدہ یاد رکھنے کا ہے۔‬
‫ثانیا اس میں یہ بھی تصریح ہے کہ عصر اس حال میں پڑھی کہ سورج زرد ہوگیا‬
‫تھا یا کہا شام ہوگئی‪ ،‬یہ بھی قطعا ً قرب شام پر محمول۔‬
‫حدیث ‪: ۹‬صحیح مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہما سے ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫وقت الظھر اذازالت الشمس وکان ظل الرجل کطولہ مالم یحضر العصر ‪؎۱‬۔ ظہر کا وقت اُس‬
‫وقت ہے جب سورج ڈھلے اور سایہ آدمی کا اس کے قد کے برابر ہوجائے جب‬
‫تک عصر کا وقت نہ آئے۔‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب الصلوات الخمس‬ ‫(‪ ؎۱‬صحیح لمسلم‬
‫‪)۲۲۱‬‬
‫حدیث ‪: ۱۰‬امام طحاوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث‬
‫امامت جبریل میں راوی حضورِ واال صلوات اللہ تعالٰی علیہ وسالمہ نے فرمایا‪:‬‬
‫ِ‬
‫صلی الظھر وفیئ کل شیئ مثلہ ‪؎۲‬۔ اس وقت (نماز) پڑھی کہ سایہ ہر چیز کا اس کے‬
‫برابر ہوگیا۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫صلٰوۃ‬
‫باب مواقیت ال ّ‬ ‫(‪ ؎۲‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۰۲‬‬
‫وقت ظہر نہیں رہتا ان حدیثوں میں ایک مثل‬
‫ِ‬ ‫جن کے نزدیک ایک مثل کے بعد‬
‫ہونے کو ایک مثل کے قریب پہنچنے پر عمل کرتے ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۱۱‬امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک روز نمازِ‬
‫امامت جبریل سنانا کہ‬
‫ِ‬ ‫عصر کو بہت اخیر کرنا اور عروہ بن زبیر کا آکر حدیث‬
‫صحیحین وغیرہما میں مروی اس میں طبرانی کی روایت یوں ہے‪ :‬دعا المؤذن‬
‫لصالۃ العصر فامسی عمر بن عبدالعزیز قبل ان یصلیھا ‪؎۳‬۔ مؤذن نے نمازِ عصر کےلئے بالیا‬
‫تو حضرت عمر بن عبدالعزیز‪ Z‬نے شام کردی اور ابھی نمازِ عصر نہ پڑھی۔ (ت)‬
‫مطبوعہ المکتبۃ‬ ‫مسند ابومسعود انصاری حدیث ‪۷۱۶‬‬ ‫)‪ ؎۳‬المعجم الکبیر للطبرانی‬
‫الفیصلیۃ بیروت ‪)۲۵ ۱۸/۹‬‬
‫یعنی عمر نے شام کردی اور ہنوز نمازِ عصر نہ پڑھی۔ امام قسطالنی شافعی‬
‫ارشاد الساری شرح صحیح بخاری اور عاّل مہ عبدالباقی زرقانی مالکی شرح‬
‫مؤطا میں فرماتے ہیں ‪ :‬محمول علی انہ قارب المساء الانہ دخل فیہ ‪؎۱‬۔ حدیث کی مراد‬
‫یہ ہے کہ شام قریب آئی نہ یہ کہ شام ہوہی گئی۔‬
‫مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت‬ ‫صلٰوۃ‬
‫مواقیت ال ّ‬ ‫(‪ ؎۱‬ارشاد الساری شرح البخاری‬
‫‪)۱/۴۷۷‬‬
‫خود صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں ہے‪ :‬اخر العصر شیا ‪( ؎۲‬عصر میں کچھ تاخیر‬
‫کی) افادہ الحافظ فی فتح الباری۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬ ‫باب ذکر المالئکۃ‬ ‫کتاب بدئ الخلق‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح البخاری‬
‫کراچی ‪)۱/۴۵۷‬‬
‫حدیث ‪: ۱۲‬حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا کہ‬
‫م مکتوم اذان‬‫ابن ا ُ ِّ‬
‫ِ‬ ‫''سحری کھاؤ پیو یہاں تک کہ‬
‫دے''۔ اس پر صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما‬
‫سے ہے ‪:‬‬
‫قال کان رجال الینادی حتی یقال لہ اصبحت اصبحت ‪؎۳‬۔ وہ اذان نہ دیا کرتے تھے یہاں تک‬
‫کہ اُن سے کہاجاتا تمہیں صبح ہوگئی صبح گئی۔‬
‫‪۱/۸‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫م ی الخ‬
‫باب اذان االع ٰ‬ ‫(‪ ؎۳‬صحیح البخاری‬
‫‪)۶‬‬
‫اگر ا ُن کی اذان سے پہلے صبح ہوچکتی تھی تو اس ارشاد کے کیا معنی کہ ''جب‬
‫تک وہ اذان نہ دیں کھاتے پیتے رہو''۔ لہذا قسطالنی شافعی ارشاد اور امام عینی‬
‫عمدہ میں فرماتی‪:‬‬
‫ٰ‬
‫واللفظ لالرشاد المعنی قاربت الصبح علی حد قولہ تعالی فاذا بلغن اجلھن ‪ ؎۴‬یعنی‬
‫لوگوں کے اس قول کے کہ ''صبح ہوگئی صبح ہوگئی'' یہ معنی ہیں کہ صبح قریب‬
‫آئی قریب آئی‪ ،‬جیسے آیت میں فرمایا کہ عورتیں میعاد کو پہنچیں یعنی قریب‬
‫میعاد۔‬
‫مطبوعہ دارالکتاب العربیہ‬ ‫می الخ‬
‫باب اذان االع ٰ‬ ‫(‪ ؎۴‬ارشاد الساری شرح بخاری‬
‫بیروت ‪)۲/۱۱‬‬
‫ٰ‬
‫ارشاد اقدس سید عالم صلی اہلل تعالی علیہ وسلم ہے ‪ :‬فانہ الیؤذن حتی یطلع‬
‫ِ‬ ‫نیز اسی حدیث میں‬
‫الفجر ‪؎۵‬۔‬
‫ابن ا ُ ّ‬
‫م أ مکتوم اذان نہیں دیتے یہاں تک کہ فجر طلوع کرے۔‬ ‫ِ‬
‫(‪ ؎۵‬صحیح البخاری باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیمنعکم من سحورکم اذان بالل‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬
‫کراچی ‪)۱/۲۵۷‬‬
‫طلوع‬
‫ِ‬ ‫ارشاد شافعی کتاب الصیام میں ہے‪ :‬ای حتی یقارب طلوع الفجر ‪( ؎۶‬یعنی یہاں تک کہ‬
‫فجر قریب آئے)۔‬
‫باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیمنعکم من سحورکم اذان بالل‬ ‫(‪ ؎۶‬ارشاد الساری‬
‫‪)۳/۳۶۳‬‬ ‫مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت‬
‫بالجملہ اس محاورہ کے شیوع تمام سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا اگر بالفرض‬
‫وہ روایات صحیحہ جلیلہ صریحہ صالۃ مغرب پیش از غروب شفق میں نہ بھی آتیں‬
‫جدا وقت کی تعیین اور پیش ازوقت یا وقت فوت‬‫تاہم جبکہ ہر نماز کے لئے ُ‬
‫کرکے نماز پڑھنے کی تحریم یقینی قطعی‪ Z‬اجماعی تھی ان روایات میں یہ مطلب‬
‫بنظر محاورہ عمدہ محتمل اور استدالل‪ Z‬مستدل بتطرق احتمال باطل ومختل اور‬
‫آیات واحادیث تعیین اوقات کا ان سے معارضہ غلط ومہمل ہوتا نہ کہ خود اسی‬
‫حدیث میں بالخصوص وہ صاف صریح مفسر نصوص اور اُنہیں بزورِ زبان بخاری‬
‫ومسلم سب باالئے طاق رکھ کر مردود واہیات بتائے یا الٹا ان محتمالت کے‬
‫معارض بتاکر شاذو مردود ٹہرائیے یہ کیا مقتضائے انصاف ودیانت ہے یہ کیا‬
‫محدثی کی شان نزاکت ہے۔ اب تو بحمداللہ سب جعل کھُل گیا‪ ،‬حق وباطل‬
‫میزان نظر میں تُل گیا‪ ،‬اور واضح ہوا کہ یہ ساتوں روایتیں بھی اُنہیں محاورات‬ ‫ِ‬
‫سے ہیں جن میں دو‪ ۲‬آیتیں اور بارہ‪ ۱۲‬حدیثیں ہم نے نقل کیں ان سات سے مل‬
‫کر اکیس‪ ۲۱‬مثالیں ہُوئیں وباللہ التوفیق۔‬
‫جواب دوم ‪:‬جانے دو اُن میں قبل ان میں بعد یونہی سمجھو پھر ہمیں کیا مضر‬
‫اور تمہیں کیا مفید۔ شفقین دو‪ ۲‬ہیں‪ :‬احمر وابیض۔ اُن روایات قبل میں سپید مراد‬
‫سرخ۔ یوں بھی تعارض مندفع اور سب طرق مجتمع‬ ‫ہے اُن روایات بعد میں ُ‬
‫ہوگئے۔ حاصل یہ نکال کہ شفق احمر ڈوبنے کے بعد شفق ابیض میں نماز مغرب‬
‫پڑھی اور انتظار فرمایا جب سپیدی ڈُوبی عشا پڑھی۔ یہ بعین ٖہ ہمارا مذہب مہذب‬
‫اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طور پر جمع صوری ہے حقیقی تو‬
‫جب ہوتی کہ مغرب بعد غروب سپیدی پڑھی جاتی اس کا ثبوت تم ہرگز نہ دے‬
‫ن فقیر میں آیا تھا پھر دیکھا کہ امام ابن الہمام‬ ‫سکے۔ یہ جواب بنگا ِہ اوّلین ذہ ِ‬
‫قدس سرہ‪ ،‬نے یہی افادہ فرمایا۔‬
‫رہی روایت ہفتم سار حتی ذھب بیاض االفق وفحمۃ العشاء ‪؎۱‬‬
‫(چلتے رہے یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور عشا کی سیاہی ختم ہوگئی۔ ت) جس‬
‫میں افق‪ Z‬کی سپیدی جانے کے بعد نزول ہے۔‬
‫الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب نور محمد کراچی ‪)۱/۹۹‬‬
‫اقول وباللہ استعین اوّال ً یہ بھی کب رہی اس میں بھی وہی تقریر جاری جیسے‬
‫غاب الشفق بمعنی کادان یغیب یوں ہی ذھب البیاض بمعنی کادان یذھب۔‬
‫ثانیا حدیث میں بیاض افق ہے نہ بیاض شفق‪ ،‬کنارہ شرقی‪ Z‬بھی افق ہے‪ ،‬بعد‬
‫غروب شمس مشرق سے سیاہی اُٹھتی اور اُس کے اوپر سپیدی ہوتی ہے جس‬
‫طلوع فجر میں اس کا عکس‪ ،‬جسے قرآن عظیم میں حتی یتبین لکم‬ ‫ِ‬ ‫طرح‬
‫الخیط االبیض من الخیط االسود من الفجر ‪( ؎۲‬یہاں تک کہ فجر کے سیاہ‬
‫دھاگے سے سفید دھاگا تمہارے لیے واضح ہوجائے۔ ت)‬
‫(‪ ؎۲‬القرآن ‪)۲/۱۸۷‬‬
‫ط اسود جاتا رہتا ہے‪ ،‬یونہی جب مشرق سے‬ ‫فرمایا‪ ،‬جب فجر بلند ہوتی ہے وہ خی ِ‬
‫سیاہی بلند ہوتی ہے سپیدی شرقی جاتی رہتی ہے اور ہنوز وقت مغرب میں‬
‫وسعت ہوتی ہے اور اس پر عمدہ قرینہ یہ کہ بیاض کے بعد فحمہ عشاء سر شام‬
‫کا دھند لگا ہے کہ موسم گرما میں تیزی نور شمس کے سبب بعد غروب نظر کو‬
‫ظاہر ہوتا ہے جب تارے کھل کر روشنی دیتے ہیں زائل ہوجاتا ہے جیسے چراغ کے‬
‫سامنے سے تاریکی میں آکر کچھ دیر سخت ظلمت معلوم ہوتی ہے پھر نگاہ ٹہر‬
‫جاتی ہے‪ ،‬زہرالربٰی میں ہے‪ :‬فحمۃ العشاء‪ ،‬ھی اقبال اللیل واول سوادہ ‪( ؎۱‬فحمۃ العشاء‬
‫رات کے آنے کو اور اس کی ابتدائی سیاہی کو کہتے ہیں۔ ت)‬
‫مطبوعہ کارخانہ تجارت‬ ‫(‪ ؎۱‬زہرالرب ٰی مع سنن النسائی بین السطور زیر حدیث مذکور‬
‫کتب نور محمد کراچی ‪)۱/۹۹‬‬
‫ّ‬
‫شرح جامع االصول للمصنف میں ہے ‪ :‬ھی شدۃ سواد اللیل فی اولہ‪ ،‬حتی اذاسکن فورہ‪ ،‬قلت بظھور‬
‫النجوم وبسط نورھا۔ والن العین اذانظرت الی الظلمۃ ابتداء التکاد تری شیا ‪؎۲‬۔‬
‫صے میں بہت سیاہ ہونا ہے۔ پھر جب اس کا جوش ٹھر جاتا ہے‬
‫وہ رات کا ابتدائی ح ّ‬
‫تو تاروں کے نکلنے اور ان کی روشنیاں پھیلنے سے سیاہی کم ہوجاتی ہے‪ ،‬اور‬
‫اس لئے بھی کہ آنکھ جب ابتداء میں تاریکی کی طرف نظر کرتی ہے تو کچھ‬
‫نہیں دیکھ پاتی۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۲‬جامع االصول للمصنف)‬
‫بیاض‬
‫ِ‬ ‫بیاض شفق کے جانے سے بہت پہلے ہوتا ہے تو‬
‫ِ‬ ‫ظاہر ہے کہ اس کا جانا‬
‫شفق جانا بیان کرکے پھر اس کے ذکر کی کیا حاجت ہوتی‪ ،‬ہاں بیاض شرقی اس‬
‫سے پہلے جاتی ہے تو اس معنی صحیح پر فحمہ عشاء کا ذکر عبث ولغو نہ ہوگا۔‬
‫ثالثا ً یہی حدیث اسی طریق مذکور سفیان سے امام طحاوی نے یوں روایت‬
‫فرمائی‪:‬‬
‫ٰ‬
‫حدثنا فھد ثنا الحمانی ثنا ابن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن اسمعیل بن ابی ذویب قال‪ :‬کنت مع ابن‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫عمر رضی ا تعالی عنھما‪ ،‬فلما غربت الشمس‪ ،‬ھبنا ان نقول‪ :‬الصالۃ‪ ،‬فسار حتی ذھب فحمۃ‬
‫ہّٰلل‬
‫العشاء ورأینا بیاض االفق‪ ،‬فنزل فصلی ثلثا المغرب‪ ،‬واثنتین العشاء‪ ،‬وقال‪ :‬ھکذا رأیت رسول ا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫صلی ا تعالی علیہ وسلم یفعل ‪؎۳‬۔‬
‫حدیث بیان کی ہم سے فہد نے حمانی سے‪ ،‬اس نے ابن عینیہ سے‪ ،‬اس نے ابن‬
‫ابن عمر رضی اللہ عنہ‬‫ِ‬ ‫معیل بن ابی ذویب سے کہ میں‬ ‫ابی نجیح سے‪ ،‬اس نے اس ٰ‬
‫کے ساتھ تھا جب سورج ڈوب گیا تو ان کی ہیبت کی وجہ سے ہم انہیں نماز کا نہ‬
‫کہہ سکے وہ چلتے رہے یہاں تک کہ عشاء کی سیاہی ختم ہوگئی اور ہم نے افق‬
‫کی سفیدی دیکھ لی۔ اس وقت اُتر کر مغرب کی تین رکعتیں اور عشا کی دو‪۲‬‬
‫رکعتیں پڑھیں اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی‬
‫طرح کرتے دیکھا ہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین الخ‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۱‬‬
‫یہ بقائے شفق ابیض میں نص صریح ہے کہ سرشام کا دھند لکاجاتا رہا اور ہمیں‬
‫افق کی سپیدی نظر آئی اُس وقت نماز پڑھی اور کہا اسی طرح حضور اقدس‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کیا۔‬
‫رابعاً‪ :‬ماّل جی! آپ تو بہت محدثی میں دم بھرتے ہیں صحیح حدیثیں بے وجہ محض‬
‫تو َر د کرتے آئے بخاری ومسلم کے رجال ناحق مردود الروایہ بنائے اب اپنے لیے‬
‫اصول محدثین پر ہرگز کسی طرح حجت‬ ‫ِ‬ ‫جت بنالی جو آپ کے مقبولہ‬ ‫یہ روایت ح ّ‬
‫نہیں ہ وسکتی اس کا مدار ابن ابی نجیح پر ہے وہ مدلس تھا اور یہاں روایت میں‬
‫عنعنہ کیا اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار ومعتمد میں مردود‬
‫ونامستند ہے اسی آپ کی مبلغ علم تقریب میں ہے‪:‬‬
‫ہّٰلل‬
‫عبدا بن ابن نجیح یسار المکی ابویسار الثقفی‪ ،‬موالھم‪ ،‬ثقۃ‪ ،‬رمی بالقدر‪ ،‬وربما دلس ‪؎۱‬۔ عبداللہ‬
‫ابن ابی نجیح یسار مکی ابویسار ثقفی‪ ،‬بنی ثقیف کا آزاد‪ Z‬کردہ‪ ،‬ثقہ ہے‪ ،‬قدری‬
‫ہونے سے مہتم ہے‪ ،‬بسا اوقات تدلیس کرتا ہے۔ (ت)‬
‫ص‬ ‫مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی‬ ‫ترجمہ عبداللہ ابن نجیح‬ ‫(‪ ؎۱‬تقریب التہ ذیب‬
‫‪)۱۴۴‬‬
‫وہ قسم مرسل سے ہے تقریب وتدریب میں ہے ‪ :‬الصحیح التفصیل‪ ،‬فمارواہ بلفظ‬
‫محتمل لم یبین فیہ السماع‪ ،‬فمرسل الیقبل‪ ،‬ومابین فیہ‪ ،‬کسمعت‪ ،‬وحدثنا‪ 5،‬واخبرنا‪ ،‬وشبھھا‪،‬‬
‫فمقبول یحتج بہ ‪؎۲‬۔‬
‫صحیح یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے‪ ،‬یعنی مدلس کی وہ روایت جو ایسے لفظ‬
‫سے ہو جو سماع کا احتمال تو رکھتا ہو مگر سماع کی تصریح نہ ہو‪ ،‬تو وہ مرسل‬
‫ہے اور غیر مقبول ہے‪ ،‬اور جس میں سماع کی صراحت ہو‪ ،‬جیسے سمعت‪،‬‬
‫حدثنا‪ ،‬اخبرنا اور ان جیسے الفاظ‪ ،‬تو وہ مقبول ہے اور قابل استدالل‪ Z‬ہے۔ (ت)‬
‫دار نشر‬ ‫(‪ ؎۲‬تدریب الراوی شرح تقریب النوا و ی القسم الثانی من النوع الثانی عشر‬
‫الکتب االسالمیہ الہور ‪)۱/۲۲۹‬‬
‫اور مرسل کی نسبت آپ خود فرماچکے ف‪ ۱‬روایت مرسل حجت نہیں ہوتی‬
‫نزدیک جماعت فقہا وجمہور محدثین کے۔ یہ آپ نے اُس حدیث صحیح متصل کو‬
‫مردود و مرسل بناکر فرما یا تھا جس کا ذکر لطیفہ دہم میں گزرا جھوٹے ادعائے‬
‫چے ارسال میں یوں گنگ وخاموش‪ ،‬یہ کیا‬ ‫ارسال پر تو یہ جوش وخروش اور س ّ‬
‫مقتضائے حیا ودیانت ہے۔‬
‫ص ‪)۴۰۱‬‬ ‫(ف‪ :۱‬معیارالحق‬
‫جواب سوم ‪ :‬حدیث مذکور کے اصال ً کسی طریق میں نہیں کہ حضور پُرنور‬
‫سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعد غروب شفق ابیض نماز مغرب‬
‫پڑھی نہ ہرگز ہرگز کسی روایت میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم نے بعدازسفر وقت حقیق ًۃ قضا کرکے دوسری نماز کے وقت میں پڑھنے‬
‫کو فرمایا۔ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا مذہب یہ ہے کہ وقت مغرب شفق‬
‫احمر تک ہے‬
‫الدارقطنی عن ابن عمر‪ ،‬رفعہ‪ ،‬والصحیح وقفہ‪ ،‬افادہ البیھقی والنووی‪ ،‬انہ قال‪:‬الشفق الحمرۃ۔‬
‫دارقطنی نے ابن عمر سے مرفوعا ً روایت کی ہے‪ ،‬لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ‬
‫موقوف ہے‪ ،‬جیسا کہ بہیقی اور نووی نے افادہ کیا ہے کہ ابن عمر نے کہا ہے کہ‬
‫سرخی کو کہتے ہیں۔ (ت)‬ ‫شفق ُ‬
‫اور ہمارے نزدیک شفق ابیض تک ہے ھو الصحیح روایۃ والرجیح درایۃ وقضیۃ‬
‫الدلیل فعلیہ التعویل‬
‫(یہی روای ًۃ صحیح ہے‪ ،‬اسی کو درای ًۃ ترجیح ہے اور دلیل کا تقاضا بھی یہی ہے‬
‫اس لئے اسی پر اعتماد ہے۔ ت) ہمارا مذہب اجاّل ئے صحابہ مثل افضل الخلق‬
‫م المومنین صدّیقہ وامام العلماء معاذبن جبل وسید القرأ‬ ‫بعدالرسل صدیق اکبر وا ُ ّ‬
‫اُبی بّن کعب وسید الحفّاظ ابوہریرہ وعبداللہ بن زبیر وغیرہم‪ Z‬رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہ م واکابر تابعین مثل امام اجل محمد باقر وامیرالمومنین عمر بن عبدالعزیز‪Z‬‬
‫واجاّل ئے تبع تابعین مثل امام الشام اوزاعی وامام الفقہاء والمحدثین والصالحین‬
‫عبداللہ بن مبارک وزفر بن الہذیل وائمہ لغت مثل مبرد وثعلب وفرأ‪ Z‬وبعض کبرائے‬
‫شافعیہ مثل ابوسلیمان خطابی وامام مزنی تلمیذ خاص امام شافعی وغیرہم‬
‫رحمۃ اللہ تعال ٰی علیہم سے منقول کمافی عمدۃ القاری وغنیۃ المستملی وغیرھما۔‬
‫اب اگر ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے صراح ًۃ ثابت بھی ہوکہ انہوں نے بعد‬
‫غروب ابیض مغرب پڑھی تو صاف محتمل کہ انہوں نے کسی سفر میں‬
‫شفق احمر شفق ابیض میں‬ ‫ِ‬ ‫سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بعد‬
‫مغرب اور اُس کے بعد عشاء پڑھتے دیکھا اور اپنے اجتہاد کی بنا پر یہی سمجھا‬
‫ہوکہ حضور واال صلوات اللہ تعالٰی وسالمہ علیہ نے وقت قضا کرکے جمع فرمائی‬
‫ابن عمر سے ثابت ہوجائے کہ انہوں نے پہر رات گئے بلکہ آدھی‪ Z‬رات‬ ‫ِ‬ ‫اب چاہے‬
‫ُ‬
‫ڈھلے مغرب پڑھی یہ ا ن کے اپنے مذہب پر مبنی ہوگا کہ جب وقت قضا ہوگیا تو‬
‫گھڑی اور پہر سب یکساں مگر ہم پر حجت نہ ہوسکے گا کہ ہمارے مذہب پر وہ‬
‫جمع صوری ہی تھی جسے جمع حقیقی سے اصال ً عالقہ نہ تھا یہ تقریر بحمداللہ‬
‫تعالٰی وافی‪ Z‬وکافی اور مخالف کے تمام دالئل وشبہات کی دافع ونافی ہے اگر‬
‫مت ہے تو کوئی حدیث صحیح صریح ایسی الؤ جس سے صاف صاف ثابت ہوکہ‬ ‫ہ ّ‬
‫حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حقیق ًۃ شفق ابیض گزار کر وقت‬
‫اجتماعی عشاء میں مغرب پڑھی یا اس طور پڑھنے کا حکم فرمایا مگر بحول‬
‫اللہ تعالٰی قیامت تک کوئی حدیث ایسی نہ دکھاسکوگے بلکہ احادیث صحیحہ‬
‫صریحہ جن میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جمع فرمانا اور اس‬
‫کا حکم دینا آیا وہ صراح ًۃ ہمارے موافق اور جمع صوری میں ناطق ہیں جن کا‬
‫بیان واضح ہ وچکا پھر ہم پر کیا جبر ہے کہ ایسی احتمالی باتوں مذبذب خیالوں پر‬
‫عمل کریں اور اُن کے سبب نمازوں کی تعیین وتخصیص اوقات کہ نصوص قاطعہ‬
‫واجماع امت سے ثابت ہے چھوڑ دیں۔ ھکذا‪ Z‬ینبغی التحقیق والل ّٰہ‬
‫ِ‬ ‫قرآن وحدیث‬
‫تعالٰی اعلم۔‬
‫حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مروی بطریق ع ُقیل بن خالد عن ابن شھاب عن‬
‫وقت عصر تک تاخیر فرماتے‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫انس جس کے ایک لفظ میں ہے کہ ظہر کو‬
‫الشیخان وابوداود والنسائی‪ ،‬حدثنا قتیبۃ‪ ،‬زاد ابوداؤد وابن موھب المعنی‪ ،‬قاالنا المفضل ح والبخاری‬
‫وحدہ‪ ،‬حدثنا حسان الواسطی‪ ،‬وھذا لفظہ‪ ،‬ثنا المفضل بن فضالۃ عن عقیل عن ابن شھاب عن انس‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫بن مالک‪ ،‬قال‪ :‬کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس‪ ،‬اخر الظھر‬
‫الی وقت العصر‪ ،‬ثم یجمع بینھما‪ ،‬واذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل‪،‬صلی الظھر ثم رکب ‪؎۱‬۔‬
‫بخاری‪ ،‬مسلم‪ ،‬ابوداؤد اور نسائی کہتے ہیں کہ حدیث بیان کی ہم سے قتیبہ نے‬
‫ابوداؤد‪ Z‬نے اضافہ کیا ہے ''اور ابن موہب المعنی نے'' دونوں مفضل سے روایت‬
‫کرتے ہیں۔ یہی روایت بخاری نے بواسطہ حسان واسطی‪ Z‬تنہا بھی کی ہے‪ ،‬اور‬
‫آئندہ الفاظ اسی کے ہیں۔ حدیث بیان کی ہم سے مفضل نے عقیل سے‪ ،‬اس نے‬
‫ابن شہاب سے‪ ،‬اس نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر زوال سے پہلے روانہ ہوجاتے تھے تو ظہر کو عصر‬
‫تک مؤخر کردیتے تھے‪ ،‬پھر دونوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے قتیبہ کے الفاظ یوں‬
‫ہیں‪'' :‬پھر ا ُترتے تھے اور دونوں کو اکٹھا پڑھتے تھے'' او ر اگر زوال ہوجاتا تھا‬
‫قتیبہ کے الفاظ یوں ہیں‪'' :‬اور اگر روانگی سے پہلے زوال ہوجاتا تھا'' تو ظہر پڑھ‬
‫کے سوار ہوتے تھے۔ (ت)‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب یؤخر الظہر الی العصر‬ ‫(‪ ؎۱‬صحیح البخاری‬
‫‪)۱۵۰‬‬
‫دُوسرے لفظ میں ہے ظہر کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ عصر کا اوّل وقت داخل‬
‫ہوتا پھر جمع کرتے۔‬
‫صحیح مسلم میں ہے‪ ،‬حدثنی عمروالناقد نا شبابۃ بن سوار المدائنی نالیث بن سعد عن عقیل‪،‬‬
‫فذکرہ‪ ،‬وفیہ‪ :‬اخر الظھر حتی یدخل اول وقت العصر‪ ،‬ثم یجمع بینھما ‪؎۲‬۔‬
‫حدیث بیان کی ہم سے عمرو الناقد نے شبابہ سے‪ ،‬اس نے لیث سے‪ ،‬اس نے‬
‫سعد سے‪ ،‬اس نے عقیل سے‪ ،‬اس کے بعد روایت ذکر کی‪ ،‬اس میں ہے کہ ظہر‬
‫کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ عصر کا ابتدائی وقت داخل ہوجاتا‪ ،‬پھر دونوں کو جمع‬
‫کرلیتے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب جواز الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح لمسلم‬
‫‪)۱/۲۴۵‬‬
‫تیسرے لفظ میں یہ لفظ زائد ہے کہ مغرب کو تاخیر کرتے یہاں تک کہ شفق‬
‫ڈوبنے کے وقت اُسے اور عشا کو مالتے یا اُنہیں جمع فرماتے کہ شفق ڈوب‬
‫جاتی۔‬
‫صحیح مسلم میں ہے‪ ،‬حدثنی ابوالطاھر‪ 5‬وعمروبن السواد قاالنا ابن وھب ثنی جابر بن اسماعیل عن‬
‫عقیل‪ ،‬وفیہ‪ :‬یؤخر المغرب حتی یجمع بینھا وبین العشاء حین یغیب الشفق ‪؎۱‬۔ ورواہ النسائی‪ ،‬قال‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ّ‬
‫اخبرنی عمروبن سواد بن االسود بن عمرو‪ ،‬وابوداود مختصرا‪ ،‬قال‪ :‬حدثنا سلیمن بن داود المھری‬
‫کالھما عن ابن وھب‪ ،‬بہ‪ ،‬ورواہ الطحاوی حدثنا یونس‪ ،‬قال‪:‬انا ابن وھب‪ ،‬وفیہ‪ ،‬حتی یغیب الشفق ‪؎۲‬۔‬
‫حدیث بیان کی مجھ سے ابوالطاہر اور عمروبن سواد نے ابن وہب سے‪ ،‬اس نے‬
‫جابر سے‪ ،‬اس نے عقیل سے۔ اس میں ہے کہ مغرب کو مؤخر کرتے تھے یہاں تک‬
‫کہ اس کو اور عشاء کو جمع کرلیتے جب شفق غائب ہوتی تھی۔ اس روایت کو‬
‫نسائی نے بھی بواسطہ عمرو ابن سواد ابن اسود ابن عمر‪ ،‬اور ابوداود نے بھی‬
‫مختصرا ً بواسطہ سلیمان ابن داود‪ Z‬المہری بیان کیا ہے (عمرو اور سلیمان) دونوں‬
‫نے یہ روایت ابن وہب سے لی ہے۔ اور طحاوی نے اس کو بواسطہ یونس‪ ،‬ابن‬
‫وہب سے لیا ہے۔ اس میں ہے ''یہاں تک کہ شفق غائب ہوجاتی تھی''۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب جواز الجمع بین الصالتین‬‫(‪ ؎۱‬الصحیح لمسلم‬
‫‪۱/۲۴۵‬‬
‫‪)۱/۱۱۳‬‬ ‫شرح معانی اآلثار‬ ‫سنن ابی داؤد ‪۱/۱۷۲‬‬
‫مطبوعہ نور‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن النسائی الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء‬
‫محمد کارخانہ تجارت کتب‬
‫کراچی ‪)۱/۹۹‬‬
‫غیبت شفق کے جوابات شافعیہ تو بحمداللہ اوپر گزرے ماّل جی کو بڑا ناز یہاں ان‬
‫ِ‬
‫ُ‬
‫لفظوں پر ہے کہ ظہر کو وقت عصر تک مؤخر فرماکر جمع کرتے اس پر حتی‬
‫کے معنی میں الطائل س نحو یت بگھار کر فرما تے ہیں ف‪ ۱‬پس مطلب یہ ہواکہ‬
‫تاخیر ظہر کی اس حد تک کرتے کہ منتہ تاخیر کا اول وقت عصر کا ہوتا یعنی‬
‫ابھی تک ظہر نہ پڑھتے کہ عصر کا وقت آجاتا ان معنی سے کسی کو انکار نہیں‬
‫مگر محرفین للنصوص کو اوّل وقت عصر کا منتہی تاخیر کا ہے نہ نماز ظہر کا‬
‫اگر ظہر کا ہوتو ثم یجمع بینہما کے کچھ معنی نہیں بنتے کہ بعد ہوچکنے ظہر کے‬
‫اول وقت عصر تک پھر جمع کرنا ساتھ عصر کے کس طرح ہو اھ ملخصا مہذبا۔‬
‫ا ِن لن ترانیوں کا جواب تو بہت واضح ہے عصر یا وقت عصر یا اول وقت عصر یا‬
‫دخول وقت عصر تک ظہر کو مؤخر کرنے کے جس طرح یہ معنے ممکن کہ ظہر‬
‫نہ پڑھی یہاں تک کہ وقت عصر داخل ہوا یونہی یہ بھی متصور کہ ظہر میں اس‬
‫وقت عصر آگیا خود علمائے شافعیہ‬ ‫ِ‬ ‫قدر تاخیر فرمائی کہ اس کے ختم ہوتے ہی‬
‫ان معنی کو تسلیم کرتے ہیں صحیح بخاری شریف میں فرمایا‪ :‬باب تاخیر الظھر‬
‫الی العصر ‪ ؎۳‬امام عسقالنی شافعی نے فتح الباری پھر قسطالنی شافعی نے‬
‫ارشاد الساری میں اس کی شرح فرمائی‪:‬‬
‫ٰ‬
‫باب تاخیر الظھر ال ی اول وقت العصر‪ ،‬بحیث انہ اذافرغ منھا یدخل وقت تالیھا‪ ،‬الانہ یجمع بینھما فی‬
‫وقت واحد ‪؎۴‬۔ باب‪ ،‬ظہر کی تاخیر عصر کے ابتدائی وقت تک کہ جب ظہر سے‬
‫فارغ ہو‪ ،‬عصر کا وقت داخل ہوجائے‪ ،‬نہ یہ کہ ایک ہی وقت میں دونوں کو جمع‬
‫کرے۔ (ت)‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب تاخیر الظھر الی العصر‬‫(‪ ؎۳‬صحیح البخاری‬
‫‪)۷۷‬‬
‫‪)۱/۴۹۱‬‬ ‫باب تاخیر الظھر الی العصر دارالکتاب العربیۃ بیروت‬ ‫(‪ ؎۴‬ارشاد الساری‬
‫(ف‪ ۱‬معیارالحق ص‪)۳۷۸ ،۳۷۷‬‬
‫حافظ الشان کے لفظ یہ ہیں‪ :‬المراد انہ عند فراغہ منھا دخل وقت العصر‪ ،‬کماسیاتی عن ابی‬
‫الشعثاء ‪ ؎۱‬الخ۔ مراد یہ ہے کہ ظہر سے فارغ ہوتے ہی عصر کا وقت داخل ہوگیا‪،‬‬
‫جیسا کہ عنقریب ابوالشعثاء سے آرہا ہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت‬ ‫باب تاخیر الظہر الی العصر‬ ‫(‪ ؎۱‬فتح الباری شرح البخاری‬
‫‪)۲/۱۹‬‬
‫اور اُس سے فارغ ہوتے ہی جو عصر اپنے شروع وقت میں پڑھی جائے بدا ہ ًۃ‬
‫دونوں نمازیں مجتمع ہوجائیں گی تو اس معنے کو تحریف یا جمع بینہما کے‬
‫مخالف کہنا صریح جہالت ہے۔‬
‫اقول وباللہ التوفیق تحقیق مقام یہ ہے کہ یؤخر الظھر میں ظہر سے صال ِۃ ظہر‬
‫مراد ہ ونا تو بدیہی نماز ہی قابل تاخیر وتعجیل ہے نہ وقت جس کی تاخیر وتعجیل‬
‫مقدورات عباد میں نہیں اور صالۃ ظہر حقیق ًۃ تکبیر تحریمہ سے سالم تک مجموع‬
‫افعا ل کا نام ہے نہ ہر فعل یا آغاز نماز کا کہ جزء نماز ہے اور ایسے حقائق میں‬
‫جز شے شے نہیں جو اسم کسی مرکب مجموع اجزائے متعاقبہ فی الوجود کے‬
‫مقابل موضوع ہو بنظرِ حقیقت اُس کا صدق جزء آخر کے ساتھ ہوگا نہ اُس سے‬
‫پہلے مثال ً مکان اس مجموع جدران وسقف وغیرہا کا نام ہے تو جب نیو بھری گئی‬
‫یا پہلی اینٹ چنائی کی رکھی گئی مکان نہ کہیں گے پس قبل فراغ حقیقت صالۃ‬
‫جسی شرع مطہر نماز گنے اور معتبر رکھے متحقق نہیں تو بحکم حقیقت انتہائے‬
‫تاخیر نماز عین وقت فراغ‪ Z‬پر ہے نہ وقت تکبیر کہ ہنوز زمانہ عدم صدق اسم‬
‫وقت عصر پر‬ ‫ِ‬ ‫باقی ہے اب حدیث کے الفاظ دیکھیے تاخیر نماز کی انتہا ابتدائے‬
‫بتائی گئی ہے اور اُس کی انتہا فراغ‪ Z‬پر تھی تو ثابت ہوا کہ ظہر سے فراغ وقت‬
‫ظہر کے جزء اخیر میں ہوا یہی بعین ٖہ ہمارا مقصود ہے اگر معنے وہ لیے جائیں جو‬
‫ماّل جی بتاتے ہیں کہ اول وقت عصر میں نماز ظہر شروع کی تو تاخیر ظہر اول‬
‫وقت عصر پر منتہی نہ ہوئی بلکہ اوسط وقت عصر تک رہی یہ خالف ارشاد‬
‫حدیث ہے تو بلحاظ حقیقت شرعیہ معنی حدیث وہی ہیں جنہیں ماّل جی تحریہ‬
‫نصوص بتارہے ہیں ہاں مجازا ً آغاز نماز پر بھی اسم نماز اطالق‪ Z‬کرتے ہیں تو‬
‫ہمارے اورر ماّل جی کے معنی میں وہی فرق ہے جو حقیقت ومجاز میں۔ بحمداللہ‬
‫اس بیان جلی البرہان سے واضح ہوگیا کہ ماّل جی کا منتہائے تاخیر ومنتہائے نماز‬
‫ظہر میں تفرقہ پر حکم کرنا جہالت تھا ماّل جی نے اتنا سچ کہا کہ منتہے تاخیر کا‬
‫اول وقت عصر کا ہوتا آگے جو یہ حاشیہ چڑھایا کہ یعنی ابھی تک ظہر نہ پڑھتے‬
‫کہ وقت عصر آجاتا نرا ادعائے بے دلیل ہے طرفہ یہ کہ خود بھی حضرت نے اُنہیں‬
‫لفظوں سے تعبیر کی جن میں دونوں معنی محتمل مگر عقل ووہابیت تو باہم‬
‫اقصی طرفین نقیض پر ہیں وللہ الحمد۔‬
‫ثم اقول وبحول الل ّٰہ اصول (پھر میں کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی ہی کی طاقت سے‬
‫وقت عصر تک تاخیر درکنار اگر صاف یہ لفظ آتے کہ‬ ‫ِ‬ ‫جرح کرتا ہوں) ظہر کی‬
‫ظہر اول وقت عصر میں پڑھی مدعائے مخالف میں نص نہ تھی ظہرین وعشائین‬
‫وقت اول واول وقت آخر آن واحد فصل مشترک بین الزمانین ہے اور‬ ‫ِ‬ ‫میں آخر‬
‫صالۃ بمعنے ابتدائے صالۃ اور فراغ‪ Z‬عن الصلٰوۃ دونوں مستعمل تو بحکم مقدمہ‬
‫اولٰی جس نماز کے فراغ‪ Z‬پر اُس کا وقت ختم ہوجائے اُسے جس طرح یوں کہہ‬
‫سکتے ہیں کہ اپنے وقت کے جز اءخیر میں تمام ہوئی یونہی یہ بھی کہ وقت آئندہ‬
‫کے جز ء اول میں اُس سے فراغ ہوا اور بحکم مقدمہ ثانیہ تعبیر ثانی کو ان‬
‫لفظوں سے بھی ادا کرسکتے ہیں کہ نماز وقت آئندہ میں پڑھی کہ نماز پڑھنا‬
‫فراغ عن الصالۃ تھا اور فراغ عن الصالۃ آخر وقت میں ہوا اور آخر وقت ماضی‬
‫اول وقت آتی ہے ولہذا ساتوں احادیث مذکورہ امامت جبریل وسوال سائل میں‬ ‫ِ‬
‫جب کہ بظاہر عصر ماضی وظہر حال دونوں ایک وقت پڑھنا نکلتا تھا بلکہ حدیث‬
‫امامت عندالترمذی‪ Z‬وحدیث سائل عندابی داؤد میں صاف تصریح تھی کہ آج کی‬
‫ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی خود امام شافعی وجمہور علمائے کرام رحمہم‬
‫اللہ تعالٰی نے ان میں صالۃ عصر دیروزہ کو ابتدائے نماز اور صالۃ ظہر امروزہ کو‬
‫فراغ نماز پر حمل کیا یعنی ایک مثل سایہ پر کل کی عصر شروع فرمائی تھی‬
‫اور آج کی ظہر ختم‪ ،‬اسی کو یوں تعبیر فرمایاگیا کہ ظہر امروزہ عصر دیروزہ‬
‫کے وقت میں پڑھی امام اجل ابوزکریا نووی شافعی رحمہ اللہ تعالٰی شرح‬
‫صحیح مسلم شریف میں زیرحدیث‬
‫اذاصلیتم الظھر فانہ وقت الی ان یحضر العصر (جب تم ظہر کی نماز پڑھنا ہوتو عصر تک‬
‫سارا وقت ظہر ہی کا ہے۔ ت) فرماتے ہیں‪ :‬احتج الشافعی واالکثرون بظاھر الحدیث الذی‬
‫نحن فیہ‪ ،‬واجابوا عن حدیث جبریل علیہ السالم‪ ،‬بان معناہ فرغ من الظھر حین صارظل کل شیئ‬
‫مثلہ‪ ،‬وشرع فی العصر فی الیوم االول حین صار ظل کل شیئ مثلہ فال اشتراک بینھما ‪؎۱‬۔‬
‫امام شافعی اور اکثر علمانے اسی حدیث کے ظاہر سے استدالل کیا ہے جس‬
‫میں ہم گفتگو کررہے ہیں اور جبریل علیہ السالم کی حدیث سے یہ جواب دیا ہے‬
‫کہ پہلے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا تو اس وقت ظہر کی نماز‬
‫سے فارغ ہوگئے تھے اور دوسرے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہُوا تھا تو‬
‫اس وقت عصر کی نماز شروع کی تھی۔ اس طرح دونوں کا (ایک ہی وقت میں)‬
‫اشتراک نہیں پایا جاتا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب‬ ‫باب اوقات صلوات الخمس‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح الصحیح‪ Z‬لمسلم مع مسلم‬
‫خانہ کراچی ‪)۱/۲۲۲‬‬
‫ٰ‬
‫مرقات شرح مشکوۃ میں ہے ‪ :‬فی روایۃ‪ ،‬حین کان ظل کل شیئ مثلہ‪ ،‬کوقت العصر باالمس۔ ای فرغ‬
‫حینئذ قال الشافعی‪ :‬وبہ نندفع اشتراکھا فی وقت‬
‫ٍ‬ ‫من الظھر ح‪ ،‬کماشرع فی العصر فی الیوم االول ح‬
‫واحد ‪؎۱‬۔‬
‫ایک روایت میں ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا‪ ،‬جیسا کہ‬
‫گزشتہ کل اسی وقت عصر کے وقت تھا۔ یعنی آج اُسی وقت ظہر سے فارغ ہوئے‬
‫تھے جیسا کہ گزشتہ کل اسی وقت عصر میں شروع ہوئے تھے امام شافعی نے‬
‫کہا کہ اسی سے ایک وقت میں ان کے اشتراک‪ Z‬کا احتمال ختم ہوجاتا ہے۔ (ت)۔‬
‫‪)۲/۱۲۴‬‬ ‫مکتبہ امدادیہ ملتان‬ ‫الفصل الثانی من باب المواقیت‬ ‫(‪ ؎۱‬مرقات المفاتیح‬
‫ثم اقول ہاں میں علما سے کیوں نقل کروں خود ماّل جی اپنے ہی لکھے کو نہ‬
‫روئیں‬
‫اقرء کتابک کفی بنفسک الیوم علیک شھیدا ‪؎۲‬‬
‫عــہ۔ (پڑھو اپنی کتاب کو‪ ،‬آج تم خود ہی اپنے آپ پر شہید کافی ہو۔ ت‬
‫‪)۱۷/۱۴‬‬ ‫(‪ ؎۲‬القرآن‬
‫عــہ اقتباس ومناسب المقام ھھنا الشھادۃ ال الحساب ‪ ۱۲‬منہ (م)‬
‫ً‬ ‫ً‬
‫قرآن کریم سے اقتباس ہے اور مقام کے مناسب یہاں پر شہادت ہے نہ کہ حساب (اس لئے حسیبا کی جگہ شھیدا‬
‫الیاگیا ہے) (ت)‬

‫پیش نظر تھا پاؤں تلے کی سوجھی‬ ‫ِ‬ ‫وقت ظہر میں جو ایک مثل کا اثبات‬
‫ِ‬ ‫مسئلہ‬
‫آگا پیچھا بے سوچے سمجھے صاف صاف انہیں معنی کا اقرار‪ Z‬کرگئے یہ کیا خبر‬
‫تھی کہ دو‪ ۲‬قدم چل کر یہ اقرار جان کا آزار ہوجائے گا حدیث سائل بروایت‬
‫نسائی عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نقل کرکے فرماتے ہیں ف(‪ :)۱‬معنی اس‬
‫کے یہ ہیں کہ پہلے دن عصر جب پڑھی کہ سایہ ایک مثل آگیا اور دوسرے دن ظہر‬
‫سے ایک مثل پر فارغ ہوئے یہ معنی نہیں کہ ظہر پڑھنی شروع کی دُوسرے دن‬
‫اُسی وقت میں جس میں پہلے دن عصر پڑھی تھی اھ ملخصا۔‬
‫ص‪)۳۱۶‬‬ ‫مکتبہ نذیریہ الہور‬ ‫(ف‪ ۱‬معیارالحق مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ‬
‫ماّل جی ! جب صالۃ بمعنی فراغ‪ Z‬عن الصالۃ آپ خود لے رہے ہیں تو آخر‬
‫کیوں ُ‬
‫الظہر کے معنی آخر الفراغ عن الظہر لینا کیوں تحریف نصوص ہوگیا‪ ،‬ہاں اس کا‬
‫عالج نہیں کہ شریعت تمہارے گھر کی ہے اپنے لئے تحریف تبدیل انکار تکذیب جو‬
‫چاہو حالل کرلو۔ مزہ یہ ہے کہ فقط اسی پر قناعت نہ کی الج کا بھال ہو حدیث‬
‫امامت جبریل عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی نقل کی اور ابو داؤد کے‬
‫لفظ چھوڑ کر خاص ترمذی ہی کی روایت لی جس میں صاف نقل کیا کہ ظہر‬
‫امروزہ عصر دیروزہ کے وقت میں پڑھی اور بکمال خوش طالعی اسے بھی لکھ‬
‫ف(‪ )۲‬دیا کہ معنے اس کے بھی وہی ہیں جو حدیث نسائی کے بیان کیے گئے‬
‫یعنی پہلے دن عصر شروع کی ایک مثل پر اور دوسرے دن فارغ ہوئے ظہر سے‬
‫ایک مثل پر۔‬
‫ص ‪)۳۲۱‬‬ ‫(ف‪ ۲‬معیارالحق‬
‫ماّل جی! جب ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھنا ان صریح لفظوں کے بھی خود‬ ‫ُ‬
‫یہ معنی لے رہے ہو کہ نماز پڑھی تو اپنے وقت میں مگر اس سے فراغ دوسری‬
‫منہ سے یہ حدیثیں اثبات جمع میں پیش کرتے‬‫کے ابتدائے وقت پر ہوا تو اَب کس ُ‬
‫اور انہ یں نص صریح ناقابل تاویل بتاتے ہو ان میں تصریح دکھا بھی نہ سکے جو‬
‫صاف صاف اس حدیث ترمذی میں تھی جب اس کے یہ معنی بنارہے ہو ان کے‬
‫بدرجہ اولٰی بنیں گے اور اول تا آخر تمہارے سب دعویقل موتوا بغیظکم ُ‬
‫سنیں‬
‫گے ا نصاف ہو تو ایک یہی حرف تمہاری ساری محنت کو پہلی منزل پہنچانے کے‬
‫لئے بس ہے وللہ الحمد یہ کالم تو ماّل جی کی جہالتوں سے متعلق تھا اب مثل‬
‫حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما اس حدیث کے بھی جواب بعون الوہاب‬
‫اُسی طرز صواب پر لیجئے وباللہ التوفیق۔‬
‫جواب اول‪ :‬دخول عصر سے قرب عصر مراد ہے جس کی اکیس مثالیں آیات‬
‫واحادیث سے گزریں خصوصا حدیث ہشتم میں ہم نے روایت صحیحہ صحیح‬
‫مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی سے روشن ثبوت دیا کہ دوسرے وقت تک‬
‫تاخیر درکنار ایک نماز اپنے آخر وقت میں دوسرے وقت کے قریب پڑھنے کو کہا‬
‫یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دوسری نماز کے وقت میں پڑھی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫الی ھذا الجواب اشار االمام الطحاوی رحمہ ا تعالی‪ ،‬حیث قال‪ :‬قدیحتمل ان یکون قولہ‪ :‬الی اول‬
‫وقت العصر‪ ،‬الی قرب اول وقت العصر ‪؎۱‬۔‬
‫اسی جواب کی طرف امام طحاوی نے اشارہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اول‬
‫وقت عصر سے مراد اول وقت عصر کا قریب ہونا ہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح معانی اآلثار‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۳‬‬
‫جواب ثانی‪ ،‬اقول وقت ظہر دو مثل سمجھو خواہ ایک اُس کی حقیقت واقعیہ کا‬
‫ادراک طاقت بشری سے خارج ہے آسمان بھی صاف ہو زمین بھی ہموار تاہم‬
‫پیمائش اقدام‪ Z‬یا کوئی چیز زمین میں کھڑی کرکے ناپنا تو ہرگز غایت تخمین‬
‫مقدور تک بھی بالغ نہیں نہایت تصحیح عمل امثال دائرہ ہندیہ ہے وہ بھی حقیقت‬
‫امر ہرگز نہیں بتاسکتا۔‬
‫سطح دائرۃ االفق سے اُس کی پوری‬ ‫ِ‬ ‫صحت سطح کا اسطوا‬
‫ِ‬ ‫اوال دائرے کی‬
‫سطح دائرہ نصف النہار سے ذرہ بھر مائل نہ ہونا مدخل‬ ‫ِ‬ ‫موازات مقیاس کا‬
‫ومخرج کے نقاط نامتجزیہ کی صحیح تعیین قوس محصورہ کی ٹھیک تنصیف پھر‬
‫ظل کا خط نامتجزی پر واقعی‪ Z‬انطباق پھر اُس کی حقیقی مقدار پھر اس پر مثل‬
‫یا مثلین کی بے کمی بیشی زیادت ان میں سے کسی پر جزم متیسر نہیں۔‬
‫ثانیا بفرض محال عادی یہ سب حق حقیقت پر صحیح بھی ہوجائیں تاہم خط‬
‫نصف النہار کا سطح عظیمہ نصف النہار میں ہونا معلوم نہیں بلکہ نہ ہونا ثابت‬
‫تقاطع معدّل ومنطقہ اپنی سیر خاص سے لمحہ بھر‬ ‫ِ‬ ‫ومعلوم ہے کہ شمس بوجہ‬
‫بھی ایک مدار پر نہیں رہتا تو منتصف مابین المدخل والمخرج ہمیشہ خط نصف‬
‫النہار سے شرقی یا غربی ہے مگر جبکہ دائرۃ الزوال‪ Z‬پر مرکز نیّر کا انطباق اور‬
‫آن واحد میں ہو اور وہ نہایت نادر ہے۔‬
‫احد االنقالبین میں حلول ِ‬
‫ثالثا اس نادر کو بھی فرض کرلیجئے تاہم علم کی طرف اصال سبیل نہیں کہ‬
‫حلول انقالب یا وصول دائرہ جاننے کے طرق جوزیجات میں موضوع ہیں سب‬ ‫ِ‬
‫ظنی وتخمینی ہیں کسی کو کب کی تقویم حقیقی معلوم کرنا نہ حساب کا کام‬
‫ہے نہ ارصاد کا‪ ،‬جداول جیوب وظالل ومیول واوساط وتعاویل مراکز ومواضع‬
‫اوجات وتفاوت ایام حقیقیہ ووسطیہ وفصل مابین المرکزین وعروض‪ Z‬واطوال بالد‬
‫درج واجزائے استوائیہ وطوالع ومطالع بلدیہ وغیرہا امور کہ اس ادراک کے ذرائع‬
‫اثبات زیجات برفع واسقاط‬‫ِ‬ ‫ہیں سب فی انفسہا محض تخمین ہیں اور اس پر‬
‫حصص کسرات تخمین باالئے تخمین‪ ،‬پاکی ہے اسے جس نے بہر نقیر وقطمیر‬ ‫ِ‬
‫میں عجز وجہل بشرکو طاہر کیا اور ذرہ ذرہ عالم سے اپنے کمال علم وقدرت کو‬
‫جلوہ دیا‪،‬‬
‫حنک العلم لنا االماعلّمتنا انک انت العلیم الحکیم ‪؎۱‬۔‬
‫سب ٰ‬
‫تُو پاک ہے ہمیں علم نہیں مگر جتنے کی تُونے تعلیم دی ہے تُو ہی علیم حکیم ہے۔‬
‫(ت)‬
‫‪)۲/۳۲‬‬ ‫(‪ ؎۱‬القرآن‬
‫ولہذا ملتقی وقتین سے کچھ پہلے اور کچھ بعد تک عامہ خلق کے نزدیک وقت‬
‫حالت‬
‫ِ‬ ‫مشکوک ہے اسی کو وقت بین الوقتین کہتے ہ یں اس میں نظرِ ناظر کبھی‬
‫دخول وقت آخر گمان کرتی ہے‬
‫ِ‬ ‫وقت اول کبھی‬
‫ِ‬ ‫شک میں رہتی ہے کبھی بقائے‬
‫صاحب وحی خصوصا ً‬
‫ِ‬ ‫اور واقع وہ ہے جو رب العزۃ جل وعال کے علم میں ہے‬
‫ٰ‬
‫عالم علوم االولین واآلخرین صلی اہلل تعالی علیہ وسلم جب بحکم نبأنی العلیم الخبیر (آگاہ کیا ہے‬
‫مجھے علم والے اور خبر والے نے۔ ت) عین وقت حقیقی پر مطلع ہوکر نمازِ ظہر‬
‫ایسے اخیر وقت میں ادا فرمائے اور سالم پھیرتے ہی معا ً وقت عصر کی ابتدائے‬
‫حقیقی جو خاص علم ِ ال ٰہی میں تھی شروع ہوجائے اور دیگر ناظرین کو وحی‬
‫سے بہرہ نہیں رکھتے برا ِہ اشتباہ اسے وقت آخر میں گمان کریں اصال محل تعجب‬
‫نہیں نہ معاذاللہ اس میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی کسرِ شان‬
‫کہ علوم ِ خاصہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حضور کا شریک‬
‫نہ ہونا کچھ منافِی صحابیت نہیں بلکہ واجب والزم ہے فقیر غفرلہ المولی القدیر‬
‫احادیث کثیرہ سے خاص اس جزئیہ کی نظیریں پیش کرسکتا ہے کہ حضورِ اقدس‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسے وقت نمازیں پڑھیں یا سحری تناول فرمائی‬
‫حذاق‬
‫ِ‬ ‫خروج وقت کا گمان گزرتا بلکہ اجلہ‬
‫ِ‬ ‫کہ ناظرین کو بقائے وقت میں شک یا‬
‫صحابہ کی تمیز ومعرفت میں دیگر ناظرین شریک نہ ہُوئے علم محمدی تو علم‬
‫محمدی ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‪ ،‬مثالً‪:‬‬
‫سنن ابی داؤد وسنن نسائی ومسند‬‫حدیث ‪ : ۱‬حدیث سائل کہ صحیح مسلم و ُ‬
‫سی اشعری‬
‫امام احمد وحجج امام ابن ابان ومصنّف طحاوی میں سیدنا ابومو ٰ‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی اُس میں ظہر روزِ اوّل کی نسبت مسلم ونسائی‬
‫کی روایت یوں ہے‪:‬‬
‫اقام بالظھر حین زالت الشمس‪ ،‬والقائل یقول‪ :‬قدانتصف النھار‪ ،‬وھوکاناعلم منہم ‪؎۱‬۔ سورج‬
‫ڈھلتے ہی ظہر کی اقامت کہی اس حال میں کہ کہنے واال کہے ٹھیک دوپہر ہے اور‬
‫حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُن سے زیادہ جانتے تھے۔‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب اوقات صلوات الخمس‬ ‫(‪ ؎۱‬الصحیح لمسلم‬
‫‪)۲۲۳‬‬
‫ابوداؤد کے یہ لفظ ہیں ‪ :‬حتی قال القائل‪ :‬انتصف النھار‪ ،‬وھو اعلم ‪؎۲‬۔ یہاں تک کہ کہنے والے‬
‫نے کہا دوپہر ہوا اور حضور کو حقیقت امر کی خُوب خبر تھی۔‬
‫‪)۱/۵۷‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‪ ،‬پاکستان‬ ‫باب المواقیت‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابی داؤد‬
‫سی‪ Z‬وطحاوی کے لفظ یوں ہیں‪ :‬والقائل یقول‪ :‬انتصف النھار اولم‪ ،‬وکان اعلم‬
‫احمد وعے ٰ‬
‫منھم ‪؎۳‬۔ کہنے واال کہتا دوپہر ہے یا ابھی دوپہر بھی نہ ہوا اور حضور کے علم سے‬
‫اُن کے علموں کو کیا نسبت تھی۔‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب مواقیت الصلوات‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱۰۳‬‬
‫حدیث ‪۲‬صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وکتاب طحاوی‬
‫میں پارہئ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ دربارہئ انکار‬
‫جمع بین الصالتین کہ عنقریب اِن شاء اللہ القریب المجیب مذکور ہوگی یہ ہے‪:‬‬
‫صلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا ‪؎۴‬۔ صبح کی نماز اس کے وقت سے پہلے پڑھی (ت)‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب متی یصلی الفجر بجمع‬ ‫(‪ ؎۴‬صحیح البخاری‬
‫‪)۲۲۸‬‬
‫ابوداؤد‪ Z‬کے لفظ یوں ہیں‪ :‬صلی صالۃ الصبح من الغد قبل وقتھا ‪؎۵‬۔ دسویں ذوالحجہ کو‬
‫مزدلفہ میں فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت سے پہلے پڑھی۔‬
‫(ت)‬
‫‪)۱/۲۶۷‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب الصلٰوۃ بجمع‬ ‫(‪ ؎۵‬سنن ابی داؤد‬
‫طحاوی کی روایت یوں ہے‪ :‬صلی الفجر یومئذ لغیر میقاتھا ‪ ؎۶‬یعنی حضور اقدس صلی‬
‫اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ذی الحجہ کی دسویں تارےخ مزدلفہ میں صبح کی نماز‬
‫اُس کے وقت سے پہلے پڑھی بے وقت پڑھی۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۶‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۱/۱۱۳‬‬
‫امام بدر عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں‪ :‬قولہ قبل میقاتھا‪،‬‬
‫ّ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫بان قدم علی وقت ظھورطلوع الصبح للعامۃ‪ ،‬وقد ظھر لہ صلی ا تعالی علیہ وسلم طلوعہ‪ِ ،‬اما‬
‫بالوحی اوبغیرہ ‪؎۱‬۔ یعنی قبل وقت پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ اور لوگوں پر صبح‬
‫کاطلوع کرنا ظاہر نہ ہوا تھا حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو وحی‬
‫وغیرہ سے معلوم ہوگیا۔‬
‫مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ‬ ‫باب صالۃ الفجر بالمزدلفۃ‬ ‫(‪ ؎۱‬عمدۃ القاری شرح بخاری‬
‫بیروت ‪)۱۰/۲۰‬‬
‫حدیث ‪۳‬صحیح بخاری شریف میں عبدالرحمن بن زید نخعی سے خود حضرت‬
‫عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت ہے ‪ :‬ثم صلی الفجر حین طلع الفجر‪،‬‬
‫ہّٰلل‬
‫قائل یقول‪ :‬طلع الفجر‪ ،‬وقائل یقول‪ :‬لم یطلع الفجر‪ ،‬واولہ‪ ،‬قال‪ :‬خرجنا مع عبدا الی مکۃ‪ ،‬ثم قدمنا‬
‫جمعا الحدیث ‪؎۲‬۔ یعنی ہم حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ حج کو‬
‫چلے مزدلفہ پہنچے وہاں حضرت عبداللہ نے نمازِ فجرطلوع فجر ہوتے ہی پڑھی‬
‫کوئی کہتا فجر ہوگئی ہے کوئی کہتا ابھی نہیں۔‬
‫‪۱‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب متی یصلی الفجر بجمع‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح البخاری‬
‫‪)/۲۲۸‬‬
‫ہّٰلل‬
‫حدیث ‪۴‬امام ابوجعفر طحاوی انہیں عبدالرحمن نخعی سے راوی‪ :‬قال صلی عبدا‬
‫باصحابہ صالۃ المغرب‪ ،‬فقام اصحابہ یتراء ون الشمس‪ ،‬فقال‪ :‬ماتنظرون؟‪ 5‬قالوا‪ :‬ننظر اغابت‬
‫ٰ اّل‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫الشمس! فقال عبدا ‪ :‬ھذا‪ ،‬وا الذی الالہ ا ھو‪ ،‬وقت ھذہ الصالۃ الحدیث ‪؎۳‬۔‬
‫یعنی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اصحاب کو نمازِ مغرب پڑھائی اُن کے‬
‫اصحاب اُٹھ کر سورج دیکھنے لگے‪ ،‬فرمایا‪ :‬کیا دیکھتے ہو؟ عرض کی‪ :‬یہ دیکھتے‬
‫چا معبود‬
‫س ورج ڈوبا یا نہیں! فرمایا‪ :‬قسم اللہ کی جس کے سوا کوئی س ّ‬ ‫ہیں کہ ُ‬
‫نہیں کہ یہ عین وقت اس نماز کا ہے۔‬
‫نماز سے فارغ ہوکر ًبھی اُن کے اصحاب کو شبہہ تھا کہ سورج اب بھی غروب ہوا‬
‫یا نہیں فان صلی حقیقۃ فی الفعل دون االرادۃ والفاء للتعقیب (کیونکہ صلّٰی کا حقیقی‬
‫معنی نماز پڑھنا ہے نہ کہ ارادہ کرنا اور فاء تعقیب کےلئے ہے۔ ت)‬
‫‪۱/۱‬‬ ‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب مواقیت الصلٰوۃ‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار‬
‫‪)۰۷‬‬
‫حدیث ‪ :۵‬بخاری مسلم ترمذی نسائی ابن ماجہ طحاوی بطریق انس رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی‪ :‬قال‪ :‬تسحرنا مع رسول‬
‫ٰ‬ ‫ّ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬ثم قمنا الی الصالۃ‪ ،‬قلت‪ :‬کم کان قدرما بینھما؟ قال‪ :‬خمسین ایۃ‬
‫‪؎۱‬۔ ہم نے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر‬
‫نمازِ فجر کے لئے کھڑے ہوگئے میں نے پُوچھا بیچ میں کتنا فاصلہ دیا‪ ،‬کہا پچاس‬
‫آیتیں پڑھنے کا۔‬
‫‪)۱/۸۱‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب وقت الفجر‬ ‫(‪ ؎۱‬صحیح البخاری‬
‫بطریق قتادہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ‬ ‫ونسائی ہّٰلل ٰ‬
‫حدیث ‪:۶‬بخاری ہّٰلل‬
‫سے راوی‪ :‬ان نبی ا صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬وزید بن ثابت تسحرا‪ ،‬فلما فرغا من سحورھما‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫قام نبی ا صلی ا تعالی علیہ وسلم الی الصالۃ فصلی‪ 5،‬قلت النس‪ :‬کم کان بین فراغھما من‬
‫ٰ‬
‫سحورھما ودخولھما فی الصالۃ؟ قال‪ :‬قدر مایقرء الرجل خمسین ایۃ ‪؎۲‬۔ یعنی نبی صلی اللہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم وزید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سحری تناول فرمائی‬
‫جب کھانے سے فارغ ہوئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نمازِ صبح‬
‫کے لئے کھڑے ہوگئے نماز پڑھ لی میں نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پُوچھا‬
‫سحری سے فارغ اور نماز میں داخل ہونے میں کتنا فصل ہوا‪ ،‬کہا اس قدر کہ‬
‫آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔‬
‫‪)۱/۸۲‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب وقت الفجر‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح البخاری‬
‫امام طور پشتی حنفی پھر عالمہ طیبی‪ Z‬شافعی پھر عالمہ علی قاری شرح‬
‫مشکوٰۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں‪ :‬ھذا تقدیر الیجوز لعموم المؤمنین االخذ بہ‪،‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫وانما اخذہ رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم الطالع ا تعالی ایاہ‪ ،‬وکان صلی ا تعالی علیہ‬
‫وسلم معصوما عن الخطأ فی الدین ‪؎۳‬۔‬
‫مت کو اسے اختیار کرنا جائز نہیں سیدالمرسلین صلی اللہ‬ ‫یہ اندازہ ہے کہ عام ا ُ ّ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم نے اُسے اس لئے اختیار فرمایا کہ رب العزۃ جل وعال نے حضور‬
‫کو وقت حقیقی پر اطالع‪ Z‬فرمائی تھی اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم دین میں خطا سے معصوم تھے۔‬
‫الفصل االول من باب تعجیل الصلوات‬ ‫(‪ ؎۳‬مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح‬
‫‪)۲/۱۳۳‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان‬
‫ہّٰلل‬ ‫ّ‬
‫حدیث ‪۷‬نسائی وطحاوی ِزر بن حبیش سے راوی‪:‬قال‪ :‬قلنا لحذیفۃ‪ ،‬ای ساعۃ تسحرت مع رسول ا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫صلی ا تعالی علیہ وسلم؟ قال‪ :‬ھو النھار‪ ،‬اال ان الشمس لم تطلع ‪؎۱‬۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہ سے پُوچھا آپ نےحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ‬
‫کس وقت سحری کھائی تھی؟ کہا دن ہی تھا مگر یہ کہ سورج نہ چمکا تھا۔‬
‫مطبوعہ نور محمد کتب خانہ‬ ‫الحدث علی السحو رذکر االختالف الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫کراچی ‪)۱/۳۰۳‬‬
‫امام طحاوی کی روایت میں یوں صاف تر ہے ‪ :‬قلت‪ :‬بعد الصبح؟ قال‪ :‬بعد الصبح‪ ،‬غیران الشمس لم‬
‫تطلع ‪؎۲‬۔ میں نے کہا بعد صبح کے‪ ،‬کہا ہاں بعد صبح کے مگر آفتاب نہ نکال تھا۔‬
‫‪)۱/۳۷۸‬‬ ‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫کتاب الصیام‬ ‫(‪ ؎۲‬شرح معانی اآلثار‬
‫رائے فقیر میں ان روایات کا عمدہ محل یہی ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے علم نبوت کے مطابق حقیقی منتہائے لیل پر سحری‬
‫تناول فرمائی کہ فراغ کے ساتھ ہی صبح چمک آئی حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو‬
‫گمان ہُوا کہ سحری دن میں کھائی بعد صبح اور واقعی‪ Z‬جو شخص سحری کا‬
‫پچھال نوالہ کھاکر آسمان پر نظر اُٹھائے تو صبح طالع پائے وہ سوا اس کے کیا‬
‫گمان کرسکتا ہے۔‬
‫ُ‬
‫حدیث ‪:۸‬ابوداؤد نے اپنی سنن میں باب وضع کیا‪ :‬باب المسافر وھو یشک فی الوقت ‪؎۳‬۔‬
‫اور اس میں انہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جن کی حدیث میں ہم یہاں‬
‫کالم کررہے ہیں روایت کی‪:‬‬
‫‪)۱/۱۷۰‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب المسافر یصلی الخ‬ ‫(‪ ؎۳‬سنن ابی داؤد‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫قال‪ :‬کنا اذاکنا مع رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم فی السفر‪ ،‬فقلنا‪ :‬زالت الشمس اولم تزل‪،‬‬
‫صلی الظھر ثم ارتحل ‪؎۴‬۔ جب ہم حضور اقدس‪ Z‬سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬
‫کے ہمراہ رکاب سفر میں ہوتے تھے ہم کہتے سورج ڈھال یا ابھی ڈھال بھی نہیں‬
‫حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُس وقت نمازِ ظہر پڑھ کر کُوچ‬
‫فرمادیتے۔‬
‫‪)۱/۱۷۰‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب المسافر یصلی الخ‬ ‫(‪ ؎۴‬سنن ابی داؤد‬
‫نسائی وطحاوی انہیں انس رضی اللہ‬ ‫حدیث ‪:۹‬ابوداؤد اسی باب میںہّٰللاور نیز ہّٰلل ٰ‬
‫تعالٰی عنہ سے راوی‪ :‬کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذانزل منزال لم یرتحل حتی‬
‫یصلی الظھر‪ ،‬فقال لہ رجل‪ :‬وان کان نصف النھار؟ قال‪ :‬وان کان نصف النھار ‪؎۵‬۔ یعنی رسول‬
‫اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب کسی منزل میں اُترتے بے ظہر پڑھے کُوچ نہ‬
‫فرماتے۔ کسی نے کہا اگرچہ دوپہر کو‪ ،‬فرمایا‪ :‬اگرچہ دوپہر کو‬
‫‪)۱/۱۷۰‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫باب المسافر یصلی الخ‬ ‫(‪ ؎۵‬سنن ابی داؤد‬
‫نسائی کے لفظ یوں ہیں‪ :‬فقال رجل وان کانت بنصف النھار قال وان کانت بنصف النھار ‪؎۱‬۔ یعنی‬
‫کسی نے پوچھا اگرچہ وہ نماز دوپہر میں ہوتی فرمایا اگرچہ دوپہر میں ہوتی۔‬
‫‪)۱/۵۸‬‬ ‫مطبوعہ المکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫حدیث ‪۴۹۹‬‬ ‫اول وقت ظہر‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫لطیفہ‪ :۱‬اقول ماّل جی کو تو یہ منظور ہے کہ جہاں جےسے بنے اپنا مطلب بنائیں‬
‫یہاں تو قول انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہ وقت عصر کا آغاز ہوجاتا ایسی‬
‫تحقیق یقینی پر عمل کیا جس میں اصال ً گنجائش تاویل نہیں اور مسئلہ وقت ظہر‬
‫میں جب علمائے حنفیہ نے حدیث صحیح جلیل صحیح بخاری شریف سے استدالل‬
‫کیا کہ ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا‪ :‬ایک سفر میں ہم حاضر رکاب‬
‫سعادت سلطان رسالت علیہ افضل الصالۃ والتحیۃ تھے مؤذن نے ظہر کی اذان‬
‫دینی چاہ ی فرمایا وقت ٹھنڈا کر‪ ،‬دیر کے بعد انہوں نے پھر اذان کا قصد کیا‪ ،‬پھر‬
‫فرمایا وقت ٹھنڈا کر‪ ،‬ایک دیر کے بعد انہوں نے پھر ارادہ کیا‪ ،‬فرمایا ٹھنڈا کر‪،‬‬
‫حتی ساوی الظل التلول (یہاں تک کہ ٹےلوں کا سایہ ان کے برابر آگیا) سید عالم‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬ان شدۃ الحرمن فیح جھنم ‪( ؎۲‬گرمی کی شدت‬
‫جہنم کے جوش سے ہے) تو اس میں نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو‪ ،‬ظاہر ہے‬
‫کہ ٹھیک دوپہر خصوصا ً موسم گرما میں کہ وہی زمانہ ابراد ہے ٹےلوں کا سایہ‬
‫اصال نہیں ہ وتا بہت دیر کے بعد ظاہر ہوتا ہے‪ ،‬امام اجل ابوزکریا نووی شافعی‬
‫شرح مسلم شریف میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫التلول منبطحۃ غیر منتصبۃ‪ ،‬والیصیرلھا فیئ فی العادۃ‪ ،‬االبعد زوال الشمس بکثیر ‪؎۳‬۔ ٹیلے‬
‫زمین پر پھیلے ہوتے ہیں نہ بلند عاد ًۃ ان کا سایہ نہیں پڑتا مگر سورج ڈھلنے سے‬
‫بہت دیر کے بعد۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ‬ ‫باب االبراد بالظہر فی السفر دارالمعرفۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح البخاری‬
‫کراچی ‪)۱/۷۷‬‬
‫مطبوعہ قدیمی‬ ‫باب استحباب االبراد بالظہر الخ‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح الصحیح لمسلم مع مسلم‬
‫کتب خانہ کراچی ‪)۱/۲۲۴‬‬
‫امام ابن اثیر جزری شافعی نہایہ میں فرماتے ہیں ‪ :‬ھی منبطحۃ الیظھر لھا ظل‪ ،‬اال اذا‬
‫ذھب اکثر وقت الظھر ‪؎۴‬۔ ٹیلے پست ہوتے ہیں ان کے لئے سایہ ظاہر ہی نہیں ہوتا‬
‫مگر جب ظہر کا اکثر وقت جاتا رہے۔‬
‫‪)۲/۱۷‬‬ ‫(‪ ؎۴‬فتح الباری شرح البخاری باب االبراد بالظہر فی السفر بیروت‬
‫ی بسیار کے باوجود نہایہ سے نہیں مل سکا اس لئے فتح الباری سے‬
‫نوٹ‪ :‬یہ حوالہ سع ِ‬
‫نقل کیا ہے۔ نذیر احمد سعیدی‪۲‬‬
‫جب خود ائمہ شافعیہ کی شہادت سے ثابت اور نیز مشاہدہ وعقل وقواعد‪ Z‬علم‬
‫ظل شاہد کہ ٹیلوں کے سائے کی ابتدا زوال‪ Z‬سے بہت دیر کے بعد ہوتی ہے تو‬
‫ظاہر ہے کہ سایہ ٹیلوں کے برابر اُس وقت پہنچے گا جب بلند چیزوں کا سایہ ایک‬
‫تعالی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫مثل سے بہت گزر جائے گا اُس وقت تک حضور اقدس صلی اللہ‬
‫وسلم نے گرمیوں میں ظہر ٹھنڈی کرنے کاحکم فرمایا اور اس کے بعد مؤذن کو‬
‫وقت ظہر باقی رہنا ثابت ہوا‬ ‫ِ‬ ‫اجازت اذان عطا ہوئی‪ ،‬تو بالشُ بہہ دوسرے مثل میں‬
‫ِ‬
‫ٰ‬
‫جیسا کہ ہمارے امام رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب ہے یہ دلیل ساطع بحمداللہ‬
‫حالت اضطراب میں فرماگئے کہ مساوی کہنا راوی یعنی‬ ‫ِ‬ ‫الجواب تھی یہاں ماّل جی‬
‫سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سایہ ٹیلوں کو ظاہر ہے کہ تخمینا ً اور تقریبا ً‬
‫ہے نہ باینطور کہ گزرکھ کر ناپ لیا تھا۔ کیوں حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہ نے تو گزرکھ کر نہ ناپا تھا یونہی تخمینا ً مساوات بتادی مگر انس رضی اللہ‬
‫تعال ٰی عنہ کا گز رکھ کر ناپ لینا آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا آخر دخول وقت عصر‬
‫یونہی تو معلوم ہوگا کہ سایہ اس مقدار کو پہنچ جائے اُس کا علم بے ناپے کیوں‬
‫کر ہوا بلکہ یہاں تو غالبا ً دو ناپوں کی ضرورت ہے ایک وقت نصف النہار کہ سایہ‬
‫اصلی کی مقدار ناپیں دوسری اس وقت کہ سایہ بعد ظل اصلی مقدار مطلوب‬
‫کو پہنچایا نہیں‪ ،‬جب انہوں نے ایک ناپ نہ کی یونہی تخمینا ً فرمادیا انہوں نے دو‪۲‬‬
‫ناپیں کا ہے کوکی ہوں گی‪ ،‬یونہی تخمینا ً فرمادیا ہوگا کہ عصر اوّل وقت داخل‬
‫ہ وگیا جیسے آپ وہاں احتمال نکاال چاہتے ہیں کہ واقع میں مساوی نہ ہوا ہوگا اور‬
‫ظہر ایک مثل کے اندر ہُوئی یہاں بھی وہی احتمال پیدا رہے گا کہ واقع میں وقت‬
‫عصر نہ آیا تھا ظہر اپنے ہی وقت پر ہُوئی یہ کیا حیا داری‪ Z‬ومکابرہ ہے کہ جابجا جو‬
‫باتیں خود اختیار کرتے جاؤ دُوسرا کرے تو آنکھیں دکھاؤ تحریف نصوص بتاؤ اس‬
‫تحکم کی کوئی حد ہے۔‬
‫لطیفہ ‪ :۲‬اقول خدا انصاف دے تو یہاں تخمینہ بھی اتنی ہی غلطی ہوگی جتنی‬
‫دیر میں ظہر کی دو‪ ۲‬رکعتیں پڑھی جائیں اور حدیث ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫میں سخت فاحش غلطی ماننی پڑے گی جسے ان کی طرف بے دلیل نسبت‬
‫سوءِ ادب ہے‪ ،‬خود امام شافعی کی تصریح سے واضح ہُوا کہ سایہ‬ ‫کردینا صراح ًۃ ُ‬
‫تلول کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب بلند چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا‬
‫نصف مثل سے اکثر گزرجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ٹیلوں کا سایہ ابھی نصف مثل تک‬
‫بھی نہ پہنچے گا کہ اور چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا ایک مثل سے‬
‫گزرجائے گا کہ اول تو جس طرح ظہور ظل میں تفاوت شدید ہے کہ اتنی دیر کے‬
‫بعد ان کا سایہ پیدا ہوتا ہے یونہی زیادت ظل میں فرق رہے گا بلند چیزوں کا‬
‫سایہ اپنی نسبت پر جتنی دیر میں جتنا بڑھے گا ٹیلوں کا سایہ اپنی نسبت میں‬
‫اُس سے کم بڑھے گا کماالیخفی علی العارف بقواعد الفن (جیسا کہ قواعد ِ فن کے‬
‫جاننے والے پر مخفی نہیں۔ ت)‬
‫ص ‪)۳۵۳‬‬ ‫مکتبہ نذیریہ الہور‬ ‫مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ‬ ‫(ف معیارالحق‬
‫تو الجرم جس وقت ٹیلوں کاسایہ پیدا ہوا اور بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے‬
‫سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے‬
‫سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ نصف مثل سے‬
‫کم بڑھ کر ایک مثل ظل اصلی سے گزرگیا اُس وقت ٹیلوں کا سایہ اُس کم‬
‫ازنصف سے بھی کم ہوگا اور اس تحفّظ نسبت تفاوت کو نہ بھی مانئے تو خیر‬
‫کم ازنصف ہی جانئے پھر بہرحال اس سے اتنی دیر اور مجرا کیجئے جس میں‬
‫اذان کا حکم ہوا اور اُس کے بعد جماعت فرمائی گئی تو حساب سے آپ کے‬
‫طور پر اُس وقت ٹیلوں کا سایہ کوئی چہارم ہی کی قدر رہتا ہے اُسے ابوذر رضی‬
‫اللہ تعال ٰی عنہ کا فرمادینا کہ سایہ برابر ہوگیا تھا کس قدر بعید وناقابل قبول ہے‪،‬‬
‫کیا اچھا انصاف ہے کہ یا تو تخمین میں اُتنی غلطی نامسموع کہ جس میں دو‪۲‬‬
‫رکعتیں پڑھ لیجائیں یا اپنے داؤں کو یہ بھاری غلطی مقبول کہ سیر میں پسیری‬
‫کا دھوکا۔ بحمداللہ تعالٰی اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہاں تخمین سے‬
‫جواب دینا محض مہمل وباطل تھا۔‬
‫لطیفہ ‪ :۳‬اقول وہاں ایک ستم خوش ادائی یہ کی ہے ف‪ ۱‬کہ وہ تخمینا ً برابر ہونا‬
‫بھی مع سایہ اصلی کے ہے نہ سایہ اصلی الگ کرکے‬
‫وھذا الیخفی من لہ ادنی عقل‬
‫(اور یہ ادنٰی سی عقل رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں۔ ت) تو دراصل سایہ‬
‫ٹیلوں کا بعد نکالنے سایہ اصلی کے تخمینا ً آدھی مثل ہوگا یا کچھ زیادہ اور مثل‬
‫کے ختم ہونے میں اتنی دیر ہوگی کہ بخوبی فارغ ہُوئے ہوں گے۔‬
‫)‬ ‫ص ‪۳۵۴‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معیارالحق مسئلہ چہارم‬
‫ماّل جی! ذرا کچھ دنوں جنگل کی ہوا کھاؤ ٹیلوں کی ہری ہری ڈوب ٹھنڈے وقت‬
‫کی سنہری دھوپ دیکھو کہ آنکھوں کے تیور ٹھکانے آئیں علماء تو فرمارہے ہیں‬
‫کہ ٹیلوں کا سایہ پڑتا ہی نہیں جب تک آدھے سے زیادہ وقت ظہر نہ نکل جائے‬
‫ماّل جی ان کے لئے ٹھیک دوپہر کا سایہ بتارہے ہیں اور وہ بھی تھوڑا نہ بہت آدھی‬
‫مثل جبھی تو کہتے ہیں کہ وہابی ہوکر آدمی کی عقل ٹیلوں کا سایہ زوال ہوجاتی‬
‫ہے۔‬
‫لطیفہ ‪ :۴‬اقول اور بڑھ کر نزاکت فرمائی ہے ف‪ ۲‬کہ مساوات سایہ کے ٹیلوں‬
‫سے مقدار میں مراد نہ ہو بلکہ ظہور میں یعنی پہلے سایہ جانب شرقی معدوم‬
‫تھا اور مساوات نہ تھی ٹیلوں سے کیونکہ وہ موجود نہیں اور وقت اذان کے سایہ‬
‫جانب شرقی بھی ظاہر ہوگیا پس برابر ہوگیا ٹیلوں کے ظاہر ہونے میں اور موجود‬
‫ہونے میں نہ مقدار میں اس جواب کی قدر۔‬
‫)‬ ‫ص ‪۳۵۴‬‬ ‫(ف‪۲‬معیارالحق مسئلہ چہارم‬
‫ماّل جی اپنے ہی ایمان سے بتادیں وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ ٹیلوں کا سایہ ان‬
‫کے برابر آیا اس کے یہ معنی کہ ٹیلے بھی موجود تھے سایہ بھی موجود ہوگیا‬
‫حن اللہ اسے کیوں تحریف نصوص‬ ‫اگرچہ وہ دس‪ ۱۰‬گز ہوں یہ جو برابر اے سب ٰ‬
‫کہے گا کہ یہ تو مطلب کی گھڑت ہے۔ ایسا لقب تو خاص بےچارے حنفیہ کا خلعت‬
‫ماّل جی کے پاس رہا یہاں تک کہ اُن کی داڑھی‪Z‬‬‫ہے۔ ماّل جی! اگر کوئی کہے میں ُ‬
‫بانس برابر ہوگئی تو اس کے معنی یہی ہوں گے نہ کہ ماّل جی کا سبزہ آغاز ہوا کہ‬
‫پہلے بانس موجود تھا اور ماّل جی کی داڑھی‪ Z‬معدوم‪ ،‬جب ُرواں کچھ کچھ چمکا‬
‫چمکتے ہی بانس برابر ہوگیا کہ اب بانس بھی موجود بال بھی موجود‪ ،‬ع‬
‫مرغک ازبےضہ بروں آید ودانہ طلبد‬
‫(مرغ جب انڈے سے باہر آتا ہے تو دانہ طلب کرتا ہے)‬
‫لطیفہ ‪ :۵‬اقول یہ بکف چراغی وتحریف صریح قابل مالحظہ کہ خود ہی حنفیہ‬
‫وشافعیہ کے مسئلہ مختلف فیہا میں شافعیہ سے حجت النے کو فتح الباری امام‬
‫قسطالنی سے یہ عبارت نقل کی کہ‪:‬‬
‫یحتمل ان یراد بھذہ المساواۃ ظھور الظل بجنب التل بعد ان لم یکن ظاھرا ‪؎۱‬۔ ہوسکتا ہے اس‬
‫مساوات سے مراد یہ ہوکہ ٹیلے کے پہلو میں سایہ ظاہر ہوگیا جبکہ پہلے ظاہر‬
‫نہیں تھا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت‬ ‫باب االبراد بالظہر فی السفر‬ ‫(‪ ؎۱‬فتح الباری شرح البخاری‬
‫‪)۲/۱۷‬‬
‫جس میں ٹیلوں کے لئے سایہ اصلی ہونے کے صاف نفی تھی حضرت تو وہ د‬
‫عوی کرچکے تھے کہ ان کا سایہ اصلی آدھے مثل کے قریب ہوتا ہے الجرم معدوم‬
‫ہونے میں جانب شرق کی قید بڑھائی کہ مشرق کی طرف معدوم تھا اور اسے‬
‫فتح الباری کی طرف نسبت کردیا کہ جیسا کہ فتح الباری میں ویحتمل ان یراد‬
‫الخ ماّل جی! دھرم سے کہنا یہ تحریف تو نہیں۔‬
‫لطیفہ ‪ :۶‬اقول فتح الباری کے طور پر تو مشارکت فی الوجود غایت بن سکتی‬
‫ہے کہ دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ اصال ً نہ تھا دیر فرمائی یہاں تک کہ موجود ہوا اگرچہ‬
‫ٹیلوں سے سایہ متساوی ہونے کے ہرگز یہ معنی نہیں مگر آپ اپنی خبر لیجئے‬
‫آپ کے نزدیک تو ٹھیک دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ آدھا مثل تھا تو ظہور ووجود میں‬
‫برابری صبح سے شام تک دن بھر رہی اس غایت مقرر کرنے کے کیا معنی کہ‬
‫وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ سایہ وجود میں ٹیلوں کے برابر ہوگیا اور جانب‬
‫شرقی کی قید حدیث میں کہاں‪ ،‬یہ آپ کی نری من گھڑت ہے‪ ،‬تاویل گھڑی‬
‫مساوات فی الظہور‪ ،‬تفریع کی مساوات فی الوجود‪ ،‬اور مفرع علیہ وجود‬
‫شرقی‪ ،‬کیا جب تک وجود غربی شمالی تھا مساوات فی الوجود نہ تھی‪ ،‬اب کہ‬
‫وجود شرقی مال مساوات ہُوئی کچھ بھی ٹھکانے کی کہتے ہو۔‬
‫لطیفہ ‪:۷‬اقول ماّل جی! جب آپ کے دھرم میں سایہ وقت نصف النہار بھی موجود‬
‫تھا تو زوال ہوتے ہی قطعا ً معا ً شرقی ہوا تو یہ مساوات خاص آغاز وقت ظہر پر‬
‫پیدا ہوئی اور حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ مؤذن نے تین بار ارادہ اذان کیا ہر بار‬
‫حکم ِ ابراد وتاخیر مال یہاں تک کہ سایہ مساوی ہواکیا یہ ارادہ ہائے اذان وحکم ہائے‬
‫ابراد سب پیش اززوال‪ Z‬ہولیے تھے شاید پہردن چڑھے ظہر کا وقت ہوجانا ہوگا‪،‬‬
‫ماّل جی! تحریف نصوص اسے کہتے ہیں‪ ،‬ع‬
‫چھائی جاتی ہے یہ دیکھو تو سراپا کس پر‬
‫لطیفہ ‪ :۸‬اقول جب کچھ نہ بنی تو ہارے درجے یہ تیسری نزاکت اس حدیث کے‬
‫جواب میں ف فرمائی کہ یہ تاخیر آنحضرت عــہ‪ ۱‬سے سفر میں ہوئی شاید‬
‫آنحضرت عــہ‪ ۲‬نے اس ارادہ سے کی ہوکہ ظہر کو عصر سے جمع کریں گے پس‬
‫سفر پر حضر کو قیاس مع الفارق ہے۔ ماّل جی! ایمان سے کہنا یہ حدیث ابراد ظہر‬
‫کی ہے یعنی وقت ٹھنڈا کرکے پڑھنا یا تفویت ظہر کی کہ وقت کھوکر پڑھنا‪،‬‬
‫جوش جہنم سے ہے تو‬
‫ِ‬ ‫شدت گرمی‬
‫ِ‬ ‫ت حکم یہ ارشاد ہوئی ہے کہ‬ ‫حدیث میں عل ّ ِ‬
‫گرمی میں ظہر ٹھنڈا کردیا یہ کہ ابھی اذان نہ کہو ہم عصر سے مالکر پڑھیں گے۔‬
‫ص ‪)۳۵۴‬‬ ‫(ف معیارالحق‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫آلہ وبارک وسلم ‪ ۱۲‬منہ‬
‫ٖ‬ ‫ی‬‫وعل‬ ‫علیہ‬ ‫ی‬ ‫تعال‬ ‫عــہ‪۱‬وعــہ ‪ ۲‬صلی اہلل‬

‫سنو کہ معنی ابراد‬ ‫ماّل جی! اس حدیث کی شرح میں خود علمائے شافعیہ کا کالم ُ‬
‫میں آپ کی یہ گھڑت بھی ٹوٹے اور سفر وحضر سے فرق کی بھی قسمت‬
‫پھُوٹے ارشاد الساری امام قسطالنی شافعی شرح صحیح بخاری باب االبراد‬
‫بالظہر فی السفر میں اسی حدیث ابوذررضی اللہ تعالٰی عنہ کے نیچے ہے‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫(قال‪ :‬کنا مع النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم فی سفر) قیدہ ھنا بالسفر‪ ،‬واطلقہ فی السابقۃ‪ ،‬مشیرا‬
‫بذلک الی ان تلک الروایۃ المطلقۃ محمولۃ علی ھذہ المقیدۃ‪ ،‬الن المراد من االبراد التسھیل ودفع‬
‫المشقۃ‪ ،‬فالتفاوت بین السفر والحضر ‪؎۱‬۔‬
‫(کہا‪ :‬ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ تھے سفر میں) یہاں سفر کے‬
‫ساتھ مقید کیا ہے اور سابقہ روایت میں مطلق رکھا ہے یہ بتانے کے لئے کہ سابقہ‬
‫مطلق روایت اسی مقید پر محمول ہے کیونکہ ٹھنڈا کرنے کا مقصد آسانی پیدا‬
‫کرنا اور مشقت دُور کرنا ہے اور اس میں سفر حضر کا کوئی فرق نہیں۔ (ت)‬
‫مطبوعہ دارالکتب‬ ‫باب االبراد بالظہر فی السفر‬ ‫(‪ ؎۱‬ارشاد الساری شرح البخاری‬
‫العربیہ بیروت ‪)۱/۴۸۸‬‬
‫اسی میں ہے‪(:‬فقال لہ‪ :‬ابرد‪ ،‬حتی رأینا فیئ التلول) وغایۃ االبراد حتی یصیر الظل ذراعا بعد ظل‬
‫الزوال‪ ،‬اوربع قامۃ اوثلثھا اونصفھا‪ ،‬وقیل غیر ذلک۔ ویختلف باختالف االوقات‪ :‬لکن یشترط ان‬
‫ٰ‬
‫الیمتد الی اخر الوقت ‪؎۲‬۔ (اس کو کہا ٹھنڈا کر‪ ،‬یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ‬
‫لیا) ابراد کی انتہا یہ ہے کہ سایہ ایک گز ہوجائے زوال کے سائے کے بغیر‪ ،‬یا قد کا‬
‫چوتھائی یا تہائی یا نصف ہوجائے‪ ،‬اس کے عالوہ بھی اقوال ہیں۔ اور اختالف‬
‫اوقات کے ساتھ ابراد میں بھی اختالف واقع ہوتا رہتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ‬
‫ابراد اتنا زیادہ نہ ہوکہ وقت آکر ہوجائے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ دارالکتب‬ ‫باب االبراد بالظہر فی السفر‬ ‫(‪ ؎۲‬ارشاد الساری شرح البخاری‬
‫العربیہ بیروت ‪)۱/۴۸۸‬‬
‫سنئے آپ اپنے ہی لکھے کو نہ دیکھئے‬ ‫ہاں خوب یاد آیا علمائے شافعیہ کی کیوں ُ‬
‫مسئلہ وقت مستحب ظہر میں ف فرمائے گئے اگر ابراد اختیار کرے تو الزم ہے‬
‫کہ ایسا ابراد نہ کرے کہ وقت ظہر کا خارج ہوجائے یا قریب آجائے حد میں ابراد‬
‫کی علماء میں اختالف ہے لیکن یہ سب کے نزدیک شرط ہے کہ ابراد اس مرتبہ کا‬
‫نہ کرے کہ ظہر کے آخر وقت کو پہنچ جاوے کہا فتح ًالباری میں اختلف العلماء‬
‫فی غایۃ االبراد؛ لکن یشترط ان الیمتدالی اخر الوقت ملخصا (ابراد کی انتہاء میں علماء‬
‫کا اختالف ہے لیکن یہ شرط ہے کہ آخر وقت تک نہ پہنچے۔ ت)‬
‫ص ‪)۳۱۲ ،۳۱۱‬‬ ‫(ف معیارالحق مسئلہ سوم وقت مستحب ظہر‬
‫ط ابراد ہے تو حکم ابراد کو خارج‬
‫جب آخر وقت کے قریب تک نہ آنا الزم وشر ِ‬
‫وقت پر حمل کرنا کیساعذر بارد ہے‪ ،‬ماّل جی!‬
‫ایمان سے کہنا یہ حدیث سے جواب ہے یا اپنی سخن پروری کے لئے صراح ًۃ نص‬
‫شرع کی تحریف حدیث صحیح کارد۔ شافعیہ حنفیہ کے مکالمات محض تفنن طبع‬
‫کے لئے ہیں ورنہ مذاہب متقرر ہوچکے۔‬
‫عاّل مہ زرقانی مالکی شرح مواہب آخر جلد ہفتم میں فرماتے ہیں‪:‬‬
‫قداجاب الحافظ ابن حجر‪ ،‬عن ذلک وعن غیرہ من ادلۃ المانعین‪ ،‬وھی عشرۃ‪ ،‬بمایطول ذکرہ‪ ،‬مع انہ‬
‫الکبیر فائدۃ فیہ‪ ،‬اذالمذاھب تقررت‪ ،‬انما ھو تشحیذ اذھان ‪؎۱‬۔‬
‫ابن حجر نے اس دلیل کا بھی اور مانعین کی دیگر دس‪ ۱۰‬دلیلوں کا بھی جواب‬
‫دیا ہے مگر ان کے ذکر سے طوالت ہوتی ہے اور کوئی نمایاں فائدہ بھی نہیں ہے‬
‫کیونکہ مذاہب تو مقرر ہوچکے ہیں (اور‪ Z‬ایسے سوال جواب) محض ذہن کو تیز‬
‫کرنے کا کام دیتے ہیں۔ (ت)‬
‫ذکر تہجد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح الزرقانی علی المواہب‬
‫مطبعۃ عامرہ مصر ‪)۷/۴۵۰‬‬
‫آپ اپنی خبر لیجئے آپ تو محقق مجتہد ہیں سب ارباب مذاہب کی ضد ہیں آپ‬
‫کیوں صحیح بخاری کی حدیث جلیل میں یوں کھلی تحریفیں کررہے ہیں دعوے‬
‫باطلہ عمل بالحدیث کے چھلکے اُتررہے ہیں۔ ع‬
‫شرم بادت ازخدا وازرسول‬
‫(تم خدا اور رسول سے شرم کھاؤ)‬
‫لطیفہ ‪ :۹‬اقول ماّل جی خود جانتے تھے یہ تاویلیں نہیں محض مہمل پوچ‬
‫تقریروں سے جیسے بنے حدیث کو َرد کرنا ہے لہذا عذر بدتر ازگناہ کیلئے ارشاد‬
‫ہوتا ہے ف منشا تاویالت کا یہی ہے کہ احادیث صحیحہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ‬
‫وقت ظہر نہیں رہتا ثابت ہیں پس جمیعا بین االدلہ یہ تاویلیں حقہ‬
‫ِ‬ ‫بعد ایک مثل کے‬
‫کی گئیں۔ ان تاویلوں کو حقہ کہنا تو دل میں خوب جانتے ہوگے کہ جھُوٹ کہہ رہے‬
‫سلفہ ہوگئیں مگر اس ڈھٹائی کا کہاں ٹھکانا کہ‬ ‫ہو خاک حقہ تھیں کہ ایک دم میں ُ‬
‫صحیح حدیث بخاری شریف کو بحیلہ جمع بین االدلہ یوں دانستہ بگاڑلے حاالنکہ نہ‬
‫قصد واحد نہ لفظ مساعد اور حدیث ابن عمر دربارہ غیبت شفق میں باوصف‬
‫اتحاد قصہ جمع بین اال دلہ حرام اور رد احادیث صحاح واجب االلتزام۔‬
‫ص ‪)۳۵۴‬‬ ‫(ف معیارالحق مسئلہ چہارم‬
‫لطیفہ ‪ :۱۰‬اقول جمع تقدیم کی نامندمل جراحت بھرنے کو حدیث ابوجحیفہ رضی‬
‫اللہ تعالٰی عنہ میں وہ لَن ترانیاں تھیں کہ ظاہر پر حمل واجب ہے جب تک مانع‬
‫قطعی نہ ہو اَب اپنے داؤں کو ظاہر نص صریح کے یوں ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے‬
‫خیر بحمداللہ آپ ہی کی گواہی سے ثابت ہولیا کہ جمع بین االدلہ کے لئے ایسی‬
‫رکیک وپوچ ولچر تاویالت تک روا ہیں تو یہ صاف ونظیف وشائع ولطیف معانی‬
‫ومحامل کہ ہم نے جمعا بین االدلہ احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہم‪Z‬‬
‫چون وچرا کی گلی آپ نے خود بند کرلی‪ ،‬واللہ‬‫میں اختیار کیے ان میں اپنی ُ‬
‫الحمد‪ ،‬ع‪:‬‬
‫عدد شود سبب خیر گر خدا خواہد‬
‫طرفہ یہ کہ آپ مستدل ہیں اور ہم خصم جب آپ کو ایسے لچریات نفع دیں گے‬
‫ہمیں یہ واضحات بدرجہ اولٰی نافع اور آپ کے تمام ہوا حس و وساوس کے قاطع‬
‫ہوں گے۔‬
‫سنن میں ایک حدیث اور ہے جس سے ناواقف کو جمع تاخیر کا وہم‬ ‫فائدہ عائدہ‪ُ :‬‬
‫ہوسکے فقیر نے کالم ِ فرےقین‪ Z‬میں اُس سے استناداً‪ Z‬جوابا ً اصال ً تعرض نہ دیکھا‪،‬‬
‫ماّل جی بہت دُور دُور کے چکّر لگاآئے‪ ،‬جہاں کچھ بھی لگتی پائی بلکہ نری بے لگاؤ‬
‫سنن کچھ دُور نہ تھیں اُس کے آس پاس گھُوما کئے مگر اُس‬ ‫بھی جمع کرالئے ُ‬
‫سے دہنے بائیں کترائے اسی سے اس کا نہایت نامفیدی میں ہونا ظاہر مگر شاید‬
‫ا َب کسی نئے متوہم یا خود حضرت ہی کو تازہ وہم جاگے لہذا اس سے تعرض‬
‫کردینا مناسب‪،‬‬
‫ففی سنن ابی داود‪ ،‬حدثنا احمد بن صالح نایحیی بن محمد الجاری ‪ ،؎۱‬وفی سنن النسائی‪ ،‬اخبرنا‬
‫المؤمل بن اھاب‪ ،‬قال‪ :‬حدثنی یحیی بن محمدن الجاری ‪ ،؎۲‬وفی مصنف الطحاوی‪ ،‬حدثنا علی بن‬
‫ٰ‬
‫عبدالرحمن ثنا نعیم بن حماد ‪ ؎۳‬قاال عــہ نا عبدالعزیز بن محمد (زاد نعیم) الدراوردی‪ ،‬عن مالک‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫عن ابن الزبیر عن جابر‪ ،‬ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم غربت لہ الشمس بمکۃ‪ ،‬فجمع‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫بینھما بسرف ‪( ؎۱‬زاد نعیم) یعنی الصالۃ۔ ولفظ المؤمل‪ :‬غابت الشمس ورسول ا صلی ا تعالی‬
‫علیہ وسلم بمکۃ‪ ،‬فجمع بین الصالتین بسرف ‪؎۲‬۔ قال ابوداود‪ :‬حدثنا محمد بن ھشام جار احمد بن‬
‫حنبل ناجعفر بن عون عن ھشام بن سعد‪ ،‬قال‪ :‬بینھما عشرۃ امیال‪ ،‬یعنی بین مکۃ وسرف ‪؎۳‬۔‬
‫سنن ابی داؤد میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے احمد ابن صالح نے‪ ،‬اس نے کہا‬
‫کہ خبر دی ہمیں یحیٰی ابن محمد جاری نے۔ اور سنن نسائی میں ہے کہ خبر دی‬
‫مجھ سے یحیٰی ابن محمد‬ ‫ہمیں مؤمل ابن الوہاب نے‪ ،‬اس نے کہا حدیث بیان کی ُ‬
‫جاری نے۔ اور مصنّف طحاوی میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے علی ابن‬
‫عبدالرحمن نے‪ ،‬اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے نعیم ابن حماد نے۔ دونوں نے‬
‫کہا کہ خبر دی ہم کو عبدالعزیز‪ Z‬ابن محمد نے (نعیم نے ''دراوردی'' کا اضافہ کیا‬
‫ہے) مالک بن ابی الزبیر سے‪ ،‬اس نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول‬
‫سورج غائب ہوگیا چنانچہ جمع کیا‬ ‫اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مک ّہ میں تھے تو ُ‬
‫سرِف میں (نعیم نے اضافہ کیا) یعنی نماز کو۔ اور مؤمل کے‬ ‫آپ نے دونوں کو َ‬
‫سورج غائب ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکہ‬ ‫الفاظ یوں ہیں ُ‬
‫رف میں جمع کیا۔ ابوداؤد نے کہا کہ مجھ‬‫س ِ‬‫میں تھے تو آپ نے دونوں نمازوں کو َ‬
‫کو احمد ابن حنبل کے ہمسائے محمد بن ہشام نے بتایا کہ جعفر ابن عون نے‬
‫ہشام ابن سعد سے روایت کی ہے کہ دونوں کے درمیان دس‪ ۱۰‬میل کا فاصلہ ہے‬
‫سرِف کے درمیان۔ (ت)‬ ‫یعنی مک ّہ اور َ‬
‫عــہ ای یحیی عنداالولین ونعیم عندالطحاوی ‪ ۱۲‬منہ (م)‬
‫ٰ‬
‫یعنی یحیی سے پہلے دو‪( ۲‬ابوداؤد اور نسائی) کے ہاں اور نعیم طحاوی کے ہاں ‪ ۱۲‬منہ (ت)‬
‫‪)۱/۱۷۱‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی الہور‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد باب الجمع بین الصالتین‬
‫‪۱‬‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن النسائی الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬
‫‪)/۶۹‬‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصالتین الخ‬
‫کراچی ‪)۱/۱۱۱‬‬
‫(‪ ؎۱‬شرح معانی االثار باب الجمع بین الصالتین الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ‪۱/۱۱‬‬
‫‪)۱‬‬
‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور ‪)۱/۶۹‬‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن النسائی الوقت الذی یجمع المقیم الخ‬
‫مطبوعہ مجتبائی الہور ‪)۱/۱۷۱‬‬ ‫(‪ ؎۳‬سنن ابی داؤد باب الجمع بین الصالتین الخ‬
‫یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو مک ّہ معظمہ میں آفتاب‬
‫سرِف میں جمع فرمائیں ابوداؤد نے ہشام بن سعد‬ ‫ڈوباپس مغرب وعشا موضع َ‬
‫سے (کہ ماّل جی کے حسابوں رافضی مجروح مردود الروایہ متروک الحدیث ہے‬
‫سرِف میں‬ ‫تقریب میں کہا صدوق‪ ،‬لہ اوھام‪ ،‬ورمی بالتشیع) نقل کی کہ مک ّہ و َ‬
‫دس‪ ۱۰‬میل کا فاصلہ ہے۔‬
‫اقول وباللہ التوفیق اصول حدیث ونیز اصول محدثہ مالجی پر یہ حدیث ہرگز قابل‬
‫ماّل ئیہ پر ضعف‬
‫اصول ُ‬
‫ِ‬ ‫اصول حدیث پر اُس کی سند ضعیف اور‬‫ِ‬ ‫حجت نہیں‬
‫درضعف درضعف کیا جانیے کتنے ضعفوں کی طومار اور نری مردود متروک ہے۔‬
‫اوال ً دو طریق پیشین میں یحیٰی بن محمد جاری ہے تقریب میں کہا‪ :‬صدوق‬
‫چا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) امام بخاری نے فرمایا‪ :‬یتکلمون فیہ‬ ‫ویخطیئ (س ّ‬
‫(ائمہ محدثین اُس پر طعن کرتے ہیں۔ ت) میزان میں یہی حدیث اس کے ترجمہ‬
‫میں داخل کی اور کتب ضعفا میں زیر ترجمہ ضعفا اُن کی منکر حدیثیں ذکر‬
‫کرتے ہیں اور اس کے ساتھ طریق دوم میں مؤمل بن اہاب ہے تقریب میں کہا‪:‬‬
‫چا ہے‪ ،‬اس کو اوہام ہیں۔ ت) طریق ثالث میں نعیم بن حماد‬ ‫صدوق لہ اوھام (س ّ‬
‫ہے یہ اگرچہ فقیہ وفرائض وان تھا مگر حدیثی حالت میں یحیٰی سے بھی بدتر ہے‬
‫چا ہے مگر خطا بہت کرتا ہے۔ ت) یہاں تک‬ ‫تقریب میں کہا صدوق یخطئ کثیرا (س ّ‬
‫کہ ابوالفتح ازدی نے کہا‪ :‬حدیثیں اپنے جی سے گھڑتا اور امام ابوحنیفہ کے‬
‫مطاعن میں جھوٹی حکایتیں وضع کرتا تھا یہ اگرچہ مجازفات ازدی سے ہو مگر‬
‫ذہبی نے طبقات الحفاظ ومیزان االعتدال‪ Z‬دونوں میں اُس کے حق میں قول‬
‫اخیریہ قرار دیا کہ وہ باوصف امامت منکر الحدیث ہے قابل احتجاج نہیں جامع‬
‫صحیح میں اس کی روایت مقرونہ ہےہّٰلل نہ بطور حجیت‪ ،‬امام جالل الدین سیوطی‬
‫ذیل الاللی میں اُس کی حدیث اذا ارادا ان ینزل الی السماء الدنیا نزل عن عرشہ بذاتہ‬
‫آسمان دنیا پر اُترنا چاہتا ہے تو بذات ٖہ عرش سے اُترآتا ہے۔ ت)‬
‫ِ‬ ‫(جبب اللہ تعالٰی‬
‫ذکر کرکے فرماتے ہیں‪ :‬اتعبنا نعیم بن حماد‪ ،‬من کثرۃ مایاتی بھذہ الطامات‪ ،‬وکم‬
‫ندرؤ عنہ وعن الطرطوسی الراوی عنہ؟ فالادری‪ ،‬البالء فی الحدیث منہ‪ ،‬اومن‬
‫مات‬‫شیخہ نعیم ‪ !؎۱‬اھ ملخصا یعنی نعیم بن حماد اس کی کثرت سے یہ طا ّ‬
‫روایتیں التا ہے کہ ہم تھک گئے کہاں تک اُس کا اور اس کے شاگرد طرطوسی کا‬
‫بچاؤ کریں مجھے نہیں معلوم کہ اس حدیث میں بَال اُس کی طرف سے اُٹھی یا‬
‫اُس کے اُستاد نعیم سے۔‬
‫ص ‪ ۲‬و ‪)۳‬‬ ‫مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل‬ ‫کتاب التوحید‬ ‫(‪ ؎۱‬ذیل الاللی‬
‫ثانیا پھر ان سب طرق میں عبدالعزیز بن محمد دراوردی‪ Z‬ہے تقریب میں کہاـ‬
‫چا ہے‪ ،‬مگر دوسروں کی کتابوں سے‬ ‫صدوق‪ ،‬کان یحدث من کتب غیرہ فیخطیئ ‪( ؎۲‬س ّ‬
‫حدیثیں بیان کرتا ہے اس لئے خطا کرتا ہے۔ ت) تو ہر طریق میں دو‪ ۲‬راوی‬
‫چا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) ہوئے خصوصا ً ثالث میں تو ایک‬‫صدوق یخطیئ (س ّ‬
‫چا ہے‪ ،‬اس کو اوہام ہیں۔ ت)‬
‫کثیر الخطاء اور ثانی میں تیسرا صدوق لہ اوھام (س ّ‬
‫اور ماّل جی کے اصول پر ایسے رواۃ کی حدیثیں مردود ومتروک وواہیات ہیں۔‬
‫مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ‬ ‫ترجمہ عبدالعزیز بن محمد‬ ‫(‪ ؎۲‬تقریب التہذیب‬
‫گوجرانوالہ ص ‪)۲۱۶‬‬
‫ثالثا مدار حدیث ابوالزبیر عن جابر پر ہے ابوالزبیر کی نسبت خود ماّل جی کہہ گئے‬
‫کہ وہ فقط صدوق ہے اور اس کے ساتھ مدلس قال فی التقریب صدوق اال انہ یدلس ‪؎۳‬‬
‫چا ہے مگر مدلس ہے۔ ت)‬
‫(تقریب میں کہا کہ س ّ‬
‫ص‬ ‫مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ گوجرانوالہ‬ ‫محمد بن مسلم‬ ‫(‪ ؎۳‬تقریب التہذیب‬
‫‪)۳۱۸‬‬
‫اور یہاں اُن عــہ سے راوی لیث بن سعد نہیں اور روایت میں عنعنہ کیا اور عنعنہ‬
‫اصول محدثین پر نامقبول۔‬
‫ِ‬ ‫مدلس‬
‫عــہ قید بھذا‪ ،‬الن الرادی عنہ اذاکان اللیث‪ ،‬زال مایخشی من تدلیسہ‪ ،‬کماافادہ فی فتح المغیث وغیرہ‪ ،‬فلیحفظ فانھا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫فائدۃ نفیسۃ۔ وقد بین السبب فی ذلک فی المیزان فراجعہ ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م)‬
‫یہ قید اس لئے لگائی ہے کہ اگر اس سے روایت کرنے واال لیث ہوتو پھر اس کی تدلیس کا خطرہ باقی نہیں رہتا‪ ،‬جیسا کہ‬
‫فتح المغیث اور دوسری کتابوں میں افادہ کیا گیا ہے۔ اس کو یاد رکھو‪ ،‬کیونکہ یہ ایک نفیس فائدہ ہے۔ تدلیس کا‬
‫خطرہ نہ ہونے کا سبب میزان میں مذکور ہے اس کا مطالعہ کرو۔ (ت)‬

‫رابعا میلوں کی گنتی حدیث میں نہیں نہ زید وعمرو کی ایسی حکایات پر وہ‬
‫اعتماد ضرور جس کے سبب توقیت صالۃ کا حکم معروف ومشہور ثابت بالقرآن‬
‫العظیم واالحادیث الصحاح چھوڑ دیا جائے خصوصا ً ماّل جی کے نزدیک تو یہ دس‬
‫میل بتانے واال رافی‪ Z‬متروک ہے زمینوں کا ناپنا میلوں کا گننا ان حملہ ورواۃ کا کام‬
‫نہ تھا بلکہ سرے سے ان اعصار وامصار میں اس طریقہ کا اصال ً نام نہ تھا یونہی‬
‫سنی سنائی بتادیتا ولہذا شمار میں‬ ‫ہر شخص اپنے تخمینہ سے یا کسی اور کی ُ‬
‫اس قدر شدت سے اختالف پڑتا ہے کہ ان گنتیوں سے امان اٹھائے دیتا ہے۔‬
‫ذوالحلیفہ کہ مکہ معظمہ کے راستے پر مدینہ طیبہ کے قریب ایک مشہور‬
‫ومعروف مقام ہے اُس کے اختالف دیکھئے امام اجل رافعی‪ Z‬احد شیخین مذہب‬
‫معیل بن احمد‬ ‫شافعی اور اُن سے پہلے امام ابوالمحاسن عبدالواحد بن اس ٰ‬
‫شافعی معاصر امام غزالی اور اُن سے بھی پہلے امام ابونصر عبدالسید بن‬
‫محمد شافعی نے فرمایا‪ :‬مدینہ سے ایک میل ہے۔ امام قسطالنی شافعی نے‬
‫فرمایا‪ :‬یہ وہم ہے بشہادت مشاہدہ مردود۔ بعض نے کہا دو‪ ۲‬ایک میل۔ امام عینی‪Z‬‬
‫نے فرمایا‪ :‬چار‪ ۴‬میل۔ امام حجۃ االسالم شافعی نے فرمایا‪ :‬چھ‪ ۶‬میل ہے۔ اسی‬
‫طرح امام مجد شافعی نے قاموس میں کہا۔ امام اجل ابوزکریا نووی شافعی نے‬
‫فرمایا‪ :‬یہی صحیح ہے۔ بعض علما نے کہا‪ :‬سات میل۔ امام جمال اسنوی شافعی‬
‫نے فرمایا‪ :‬حق یہ کہ تین میل ہے یا کچھ قدرے قلیل زیادہ ہو مشاہد اس پر گواہ‬
‫ہے۔ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ہے‪:‬‬
‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫بعدہ من المدینۃ میل‪ ،‬کماعندالرافعی‪ ،‬لکن فی البسیط انھا علی ستۃ امیال‪ ،‬وصححہ فی‬
‫المجموع‪ ،‬وھو الذی قالہ فی القاموس۔ وقیل‪ :‬سبعۃ۔ وفی المھمات‪ :‬الصواب‪ ،‬المعروف بالمشاھدۃ‬
‫انھا علی ثلثۃ امیال اوتزید قلیال ‪؎۱‬۔‬
‫باب فرض مواقیت الحج والعمرۃ‬ ‫کتاب المواقیت‬ ‫(‪ ؎۱‬ارشاد الساری شرح البخاری‬
‫مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ‬
‫بیروت‪)۳/۹۸‬‬
‫ُ‬
‫اسی میں ہے‪ :‬وقول من قال‪ ،‬کابن الصباغ فی الشامل‪ ،‬والرویانی فی البحر‪ ،‬انہ علی میل من المدینۃ‬
‫وھم‪ ،‬یردہ الحس ‪؎۲‬۔‬
‫مطبوعہ دارالکتاب‬ ‫باب مہل اہل مکہ للحج والعمرۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬ارشاد الساری شرح البخاری‬
‫العربیۃ بیروت ‪)۳/۹۹‬‬
‫عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے‪ :‬من المدینۃ علی اربعۃ امیال ومن مکۃ علی مائتی میل‪،‬‬
‫غیر میلین وقیل‪ :‬بینھما وبین المدینۃ میل اومیالن ‪ ؎۳‬دیکھئے ایسے معروف مقام میں‬
‫کہ شارع نے اُسے اہ ِ‬
‫ل مدینہ کے لئے میقات احرام مقرر فرمایا ایسے اجلہ ائمہ‬
‫میں ایسے شدید اختالف ہیں جنہیں ترازوئے تخمینہ کی جھونک کسی طرح نہیں‬
‫سہار سکتی ایک‪ ۱‬دو‪ ۲‬تین‪ ۳‬چار‪ ۴‬چھ‪ ۶‬سات‪ ۷‬میل تک اقوال مختلف‪ ،‬پھر‬
‫تصحیحوں میں بھی دونا دون کا تفاوت‪ ،‬ایک فرمائے چھ‪ ۶‬میل صحیح ہے دوسری‬
‫فرمائے تین میل حق ہے۔‬
‫باب قول اللہ تعالٰی یاتوک رجاال الخ مطبوعہ ادارۃ‬ ‫(‪ ؎۳‬عمدۃ القاری شرح البخاری‬
‫الطباعۃ المنیریہ بیروت ‪)۹/۱۳۰‬‬
‫ٰ‬
‫موطائے امام مالک میں بسند صحیح علی شرط الشیخین ہے‪ :‬عن یحیی بن سعید انہ قال لسالم بن‬
‫ہّٰلل‬
‫عبدا مااشد مارأیت اباک اخر المغرب فی السفر فقال سالم غربت الشمس ونحن بذات الجیش‬
‫فصلی المغرب المغرب بالعقیق ‪( ؎۱‬یعنی یحیٰی بن سعید انصاری نے امام سالم بن‬
‫عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬سے پُوچھا آپ نے اپنے والد ماجد کو سفر‬
‫میں مغرب کی تاخیر زیادہ سے زیادہ کس قدر کرتے دیکھا فرمایا ذات الجیش‬
‫میں ہمیں سورج ڈُوبا اور مغرب عقیق میں پڑھی)‬
‫مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی‬ ‫قصر الصلٰوۃ فی السفر‬ ‫(‪ ؎۱‬مؤطا امام مالک‬
‫ص ‪)۱۲۹‬‬
‫اب رواۃ مؤطا تالمذہ امام مالک میں ان دونوں مقاموں کے فاصلہ میں اختالف‬
‫پڑا۔ یحیٰی کی روایت میں ہے دو میل یا کچھ زائد‪ ،‬عبداللہ بن وہب نے کہا چھ‪۶‬‬
‫میل‪ ،‬محمد بن وضاح اندلسی تلمیذ التلمیذ امام مالک نے کہا سات میل‪،‬‬
‫عبدالرحمن بن قاسم نے کہا دس‪ ۱۰‬میل‪ ،‬عالمہ زرقانی نے جزم کیا کہ بارہ‪۱۲‬‬
‫میل شرح مؤطا میں فرمایا‪ :‬بینھما اثنا عشرمیال‪ ،‬وقال ابن وضاح‪ :‬سبعۃ امیال‪ ،‬وقال ابن‬
‫ٰ‬
‫وھب‪ :‬ستۃ‪ ،‬وقال القعنبی‪ :‬ذات الجیش علی بریدین من المدینۃ‪ ،‬وقال البونی فی روایۃ یحیی‪ :‬وبینھما‬
‫میالن اواکثر قلیال‪ ،‬وفی روایۃ ابن القاسم‪ :‬عشرۃ امیال ‪؎۲‬۔ ان اختالفات کو خیال کیجئے کہاں‬
‫دو‪ ۲‬میل کہاں بارہ‪ ۱۲‬میل۔‬
‫مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ‬ ‫قصر الصلٰوۃ فی السفر‬ ‫(‪ ؎۲‬شرح الزرقانی علی المؤطا‬
‫‪)۱/۲۹۷‬‬ ‫الکبری مصر‬
‫ٰ‬
‫خامساًیہ واقعہ عین ہے اور وقائع عین مساغ ہرگونہ احتماالت سرعت سیر کے‬
‫لئے کوئی حد محدود نہیں کہ اس سے زائد نامتصور ہو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہما کا سہ منزلہ کرنا اُوپر گزراہّٰلل ام ٰالمومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی‬
‫حدیث میں ہے ‪ :‬اصبح النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم بملل ثم راح وتعشی بسرف ۔‬
‫سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ملل میں صبح ہوئی پھر تشریف لے‬
‫چلے اور شام کا کھانا سرف میں تناول فرمایا۔‬
‫ملل مدینہ طیبہ سے سترہ‪ ۱۷‬میل ہے اور یہیں کالم‬ ‫فصل اول میں گزرچکا کہ َ‬
‫امام بدر محمود عینی‪ Z‬سے منقول ہوا کہ مدینہ طیبہ مکہ معظمہ سے دو کم دو‬
‫سومیل ہے اب سترہ وہ اور دس میل سرف کے نکال لیجئے تو ایک دن میں ایک‬
‫سو اکہتر‪ Z‬میل راہ طے ہوئی پھر غروب شمس سے اتنے قرب عشا تک کہ ہنوز‬
‫بقدر تین رکعت پڑھ لینے کے مغرب کا وقت باقی ہو دس میل قطع ہوجانا کیا‬
‫جائے عجب ہے خصوصا ً اواخر جوزا و ا و ا ئل سرطان میں کہ ان دنوں حوال ِ‬
‫ی‬
‫مک ّہ معظمہ میں وقت مغرب عــہ کم وبیش ڈےڑھ گھنٹا ہوتا ہے اعتبار نہ آئے تو‬
‫آزما دیکھئے کہ عمدہ گھوڑے تیز ناقے ڈےڑھ چھوڑ ایک ہی گھنٹے میں دس‪۱۰‬‬
‫میل بلکہ زائد قطع کرلیں گے‬
‫عــہ اقول لتکن الشمس عنددخول العشاء فی اول السرطان میلہ الح الرتمام‬

‫عرض المکۃ المکرمۃ سح ک غایۃ االنحطاط بالتفریق مدفح جیبہ ک الدظل عرض مکۃ الح ماح لح‬
‫* ظل المیل الوالہ الہ المنحطا= ی حہ ک الح جیب تعدیل النھار قوسہ ط حہ نہ الح ‪ -‬صہ حہ = ف‬
‫حہ ء لر نصف قوس اللیل سہمہ مط حہ لط لر* جیب انحطاط الوقت ح حہ الح= ع ک مہ الدح سو÷‬
‫ک الد= کا حہ مدمح‪ -‬مط لطالر= الرحہ ندمط سھم فضل الدائر قوسہ نرحہ م ف حہ ء لر= حہ الدک‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫دائر* ع قہ= ا ت الط لرھذا تقریب ووجوہ التدقیق تعلم ان شاء ا تعالی من کتابنا زیج االوقات للصوم‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫والصلوۃ وفقنا ا تعالی الکمالہ ونفعنا والمسلمین باعمالہ امین ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ۔ (م)‬
‫حدیث مؤطا میں کہ ابھی مذکور ہوئی جزم عاّل مہ زرقانی اور نیز روایت ابن‬
‫القاسم تلمیذ امام مالک پر اس کی نظیر یہیں پیش نظر اوپر ثابت ہوچکا کہ‬
‫سالم قائل جمع نہیں وہ تصریحا ً فرماچکے کہ اُن کے والد ماجد رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ فرمائی تو الجرم غروب آفتاب کے بعد دس‬
‫بارہ میل چلے اور مغرب وقت میں پڑھی ولہذا ابوالولید باجی مالکی نے اس‬
‫حدیث کی شرح میں کہا‪ :‬ارادان یعرف اخر وقتھا المختار ‪ ؎۱‬یحیٰی بن سعید‬
‫انصاری کا اس سوال سے یہ ارادہ تھا کہ مغرب کا آخر وقت مختار معلوم کریں۔‬
‫مطبوعہ المکتبۃ‬ ‫(‪؎۱‬بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر‬
‫الکبری مصر ‪)۱/۲۹۷‬‬
‫ٰ‬ ‫التجاریۃ‬
‫نتقی میں کہا‪ :‬وحمل ذلک علی المعروف من سیر من جد ‪ ؎۲‬خروج وقت پر پڑھنا ہوتا تو‬
‫کوشش سیر پر حمل کی کیا حاجت تھی بالجملہ حدیث برتقدیر صحت بھی اصال‬
‫جمع حقیقی کی مفید نہ جمع صوری سے جدا وبعید والحمداللہ العلی المجید۔‬
‫مطبوعہ المکتبۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر‬
‫الکبری مصر ‪)۱/۲۹۷‬‬
‫ٰ‬ ‫التجاریۃ‬
‫الحمد للہ کالم اپنے ذروہ اقصے کو پہنچا اور جمع تقدیم وتاخیر دونوں میں ماّل جی‬
‫کا ہاتھ بالکل خالی رہ گیا‪ ،‬ایک حدیث سے بھی جمع حقیقی اصال ً ثابت نہ ہوسکی‬
‫وللہ الحجۃ السامیہ امید کرتا ہوں کہ اس فصل بلکہ تمام رسالہ میں ایسا کالم‬
‫شافی ومتین وکافی ومبین برکات قدسیہ روح زکیہ طیبہ علیہ امام االئمہ مالک‬
‫االزمہ کاشف الغمہ سراج االمہ سیدنا امام اعظم واقدم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے‬
‫صہ خاصہ فقیر مہین ہو والحمدلل ّٰہ رب العٰلمین۔‬
‫ح ّ‬
‫فصل چہارم‪ ۴‬نصوص نفی جمع وہدایت التزام اوقات میں۔‬
‫یہ نصوص دو‪ ۲‬قسم ہیں اوّل عامہ جن میں تعیین اوقات کا بیان یا اُن کی‬
‫محافظت کی ترغیب یا اُن کی محافظت سے ترہیب ہے جس سے ثابت ہوکہ ہر‬
‫جدا وقت مقرر فرمایا ہے کہ اُس سے پہلے ہوسکے‬ ‫نماز کے لئے شرع مطہر نے ُ‬
‫نہ اُسے کھوکر دوسرے وقت پر اٹھارکھی جائے بلکہ ہر نماز اپنے ہی وقت پر‬
‫ہونی چاہے۔ دوم خاصہ جن میں بالخصوص جمع بین الصالتین کی نفی ہے۔‬
‫ٰ‬
‫قسم اول نصوص عامہ (االٰیات) رب العزۃ تبارک وتعالی نے محافظت والتزام ِ‬
‫اوقات کا حکم سات‪ ۷‬سورتوں میں نازل فرمایا‪:‬‬
‫(‪ )۳‬انعام (‪ )۴‬مریم (‪ )۵‬مومنون (‪ )۶‬معارج (‪ )۷‬ماعون‬ ‫(‪ )۲‬نساء‬ ‫(‪ )۱‬بقرہ‬
‫قال بنا عزمن قائل‪ :‬ان الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا ً موقوتا‬ ‫آیت ‪۱‬‬
‫؂‪۱‬‬
‫بیشک نماز مسلمانوں پر فرض ہے وقت باندھا ہوا۔‬
‫(‪ ؎۱‬القرآن ‪)۱۰۳ /۴‬‬
‫کہ نہ وقت سے پہلے عــہ صحیح نہ وقت کے بعد تاخیر روا‪ ،‬بلکہ فرض ہے کہ نماز‬
‫اپنے وقت پر ادا ہو۔ میں یہاں معنی آیت میں کالم ِ علمائے کرام الؤں اس سے‬
‫بہتر یہی ہے کہ خود ماّل جی کی شہادت دالؤں‪،‬‬
‫ٰ‬
‫عــہ‪ :‬ھذا‪ ،‬الخالف فیہ بین العلمائ‪ ،‬االشیئ روی عن ابی موسی االشعری وعن بعض التابعین‪ 5‬اجمع العلماء علی‬
‫ٰ‬
‫خالفہ‪ ،‬والوجہ لذکرہ ھھنا النہ الیصح عنھم‪ ،‬وصح عن ابی موسی خالفہ مماوافق الجماعۃ‪ ،‬فصار اتفاقا صحیحا اھ‬
‫عمدۃ القاری ‪ ۱۲‬منہ (م)‬

‫سی اشعری اور بعض تابعین سے‬ ‫اس میں علماء کا کوئی اختالف نہیں ہے۔ ابومو ٰ‬
‫جو کچھ مروی ہے اس کے خالف علماء کا اجماع ہے اور اس کو یہاں ذکر کرنے‬
‫سی سے بصحت منقول نہیں نہیں ہے‬ ‫کی کوئی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ ابومو ٰ‬
‫سی سے‪ ،‬اس کے خالف اور جمہور کے موافق قول صحیح طور پر‬ ‫بلکہ ابومو ٰ‬
‫ثابت ہے ‪ ،‬اس لئے سب کا متفق ہونا ہی درست قرار پایا اھ عمدۃ القاری ‪ ۱۲‬منہ‬
‫(ت)‬
‫وقت ظہر میں ایک مثل تک تمامی وقت بتانے کیلئے فرماتے ہیں کہا اللہ‬
‫ِ‬ ‫مسئلہ‬
‫تعالٰی نے ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا موقوتا‬
‫ٰ ً‬
‫حدہ ہے تفسیر مظہری میں ہے قولہ تعالٰی‪ :‬کتبا‬ ‫یعنی ہر نماز کا وقت علیحد ٰہ علی ٰ‬
‫ٰ‬
‫موقوتا‪ ،‬یقتضی کون الوقت لکل صلوۃ وقتا علیحدہ تو مقتضا آیت کا یہی ہے کہ ایک نماز‬
‫کے وقت میں دوسری نماز ادا نہیں ہوسکتی ‪؎۲‬۔ ع‬
‫مدعی الکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری‬
‫ص ‪)۳۱۷‬‬ ‫مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر مکتبہ نذیریہ الہور‬ ‫(‪ ؎۲‬معیارالحق‬

‫آیت ‪ ۲‬قال مولٰنا جل وعال‪ :‬حافظوا علی الصلوات والصلٰوۃ الوسطٰی‬


‫وقوموالل ّٰہ قانتین ‪ o؎۱‬محافظت کرو سب نمازوں اور خاص بیچ والی نماز کی‬
‫اور کھڑے ہو اللہ کے حضور ادب سے۔‬
‫‪)۲/۲۳۸‬‬ ‫(‪ ؎۱‬القرآن الحکیم‬
‫محافطت کرو کہ کوئی نماز اپنے وقت سے اِدھر‪ Z‬اُدھر نہ ہونے پائے‪ ،‬بیچ والی‬
‫نماز نمازِ عصر ہے اُس وقت لوگ بازار وغیرہ کے کاموں میں زیادہ مصروف ہوتے‬
‫ہیں اور وقت بھی تھوڑا ہے اس لئے اُس کی خاص تاکید فرمائی۔ بیضاوی شریف‬
‫عاّل مہ ناصرالدین شافعی میں ہے‪ :‬حافظوا علی الصلوات‪ ،‬باالداء لوقتھا والمداومۃ علیھا‬
‫‪؎۲‬۔ نمازوں کی محافظت کرو‪ ،‬یعنی وقت پر اداکرو اور ہمیشہ کرو۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۲‬انوار التنزیل المعروف تفسیر البیضاوی تحت آیۃ حافظوا علی الصلوات الخ مطبوعہ‬
‫مصطفی البابی مصر ‪)۱/۱‬‬
‫مدارک شریف میں ہے‪ :‬حافظوا علی الصلوات‪ ،‬داوموا علیھا لمواقیتھا ‪؎۳‬۔ نمازوں پر‬
‫محافظت کرو‪ ،‬یعنی ہمیشہ بروقت پڑھو۔ (ت)‬
‫(‪ ؎۳‬تفسیر النسفی المعروف تفسیر مدارک ‪،‬تحت آیۃ حافظوا علی الصلوات الخ مطبوعہ‬
‫دارالکتاب العربی بیروت ‪)۱/۱۲۱‬‬
‫ٰ‬
‫ارشاد العقل السلیم میں ہے ‪ :‬حافظوا علی الصلوات ای داوموا علی ادائھا الوقاتھا من غیر‬
‫اخالل بشیئ منھا ‪؎۴‬۔‬
‫نمازوں پر محافظت کرو‪ ،‬یعنی ہمیشہ بروقت پڑھو اور ان میں کسی قسم کا‬
‫خلل نہ واقع ہونے دو۔ (ت)‬
‫تحت آیۃ حافظوا علی الصلوات الخ مطبوعہ احیاء التراث‬ ‫(‪ ؎۴‬ارشاد العقل السلیم‬
‫العربی ‪)۱/۲۳۵‬‬

‫حفظون‪o‬‬ ‫آیت ‪ ۳‬قال العلی االعلی تبارک وتعالٰی‪ :‬والذین ھم علی صالتھم ی ٰ‬
‫اولٰئک ھم الوارثون‪ o‬الذین یرثون الفردوس ھم فیھا خالدون ‪ o؎۵‬اور وہ‬
‫لوگ جو اپنی نماز کی نگہداشت کرتے ہیں کہ اُسے وقت سے بے وقت نہیں ہونے‬
‫چے وارث ہیں کہ جنّت کی وراثت پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہنے‬
‫دیتے وہ ی س ّ‬
‫والے ہیں۔‬
‫‪ ۲۳/۹‬و ‪ ۲۳/۱۰‬و ‪)۲۳/۱۱‬‬ ‫(‪ ؎۵‬القرآن‬
‫معالم شریف امام بغوی شافعی میں ہے‪ :‬یحافظون‪ ،‬ای یداومون علی حفظھا ویراعون اوقاتھا‪ ،‬کررذکر‬
‫الصالۃ لیتبین المحافظۃ علیھا واجبۃ ‪؎۱‬۔‬
‫محافظت کرتے ہیں یعنی ہمیشہ نگہبانی کرتے ہیں اور ان کے اوقات کا خیال‬
‫رکھتے ہیں۔ نماز کا ذکر مکرر کیا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ اس کی محافظت‬
‫واجب ہے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ‬ ‫تحت آیۃ مذکورہ‬ ‫(‪ ؎۱‬تفسیر البغوی المعروف معالم التنزیل مع الخازن‬
‫مصطفی البابی مصر ‪)۵/۳۳‬‬

‫آیت ‪ ۴‬قال المولی االجل ع ّزوجل‪ :‬والذین ھم علٰی صالتھم یحافظون‪o‬‬


‫اولئک فی جنّٰت مکرمون‪؎۲ Z‬۔ اور وہ لوگ کہ اپنی نماز کی محافظت کرتے ہیں‬
‫ہر نماز اس کے وقت میں ادا کرتے ہیں وہ جنّتوں میں عزت کئے جائیں گے۔‬
‫‪ ۷۰/۳۴‬و ‪)۷۰/۳۵‬‬ ‫(‪ ؎۲‬القرآن‬
‫جاللین شریف امام جالل المل ّۃ والدّین شافعی میں ہے‪ :‬یحافظون‪ 5،‬بادائھا فی اوقاتھا ‪؎۳‬‬
‫(محافظت کرتے ہیں یعنی وقت پر ادا کرتے ہیں۔ ت)‬
‫‪)۲/۴۷۲‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی دہلی‬ ‫آیہ مذکورہ کے تحت‬ ‫(‪ ؎۳‬تفسیر جاللین‬
‫نسفی شریف میں ہے ‪:‬المحافظۃ علیھا ان التضیع عن مواقیتھا ‪؎۴‬۔ نماز کی محافظت یہ ہے‬
‫کہ اپنے اوقات سے ضائع نہ ہو۔ (ت)‬
‫‪)۴/۲۹۲‬‬ ‫مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت‬ ‫آیہ مذکورہ کے تحت‬ ‫(‪ ؎۴‬تفسیر النسفی‬

‫آیت ‪ ۵‬قال المولی تقدس وتعالٰی‪ :‬والذین یؤمنون باالٰخرۃ یؤمنون بہ‬
‫وھم علی صالتھم یحافظون ‪ o؎۵‬اور جنہیں آخرت پر یقین ہے وہ قرآن پر‬
‫ایمان التے ہیں اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔‬
‫ہ وقت سے باہر نہ ہوجائیں۔‬
‫‪)۶/۹۲‬‬ ‫(‪ ؎۵‬القرآن‬
‫تفسیر کبیر عــہ میں ہے ‪ :‬المراد بالمحافظۃ التعھد لشروطھا من وقت وطھارۃ وغیرھما والقیام‬
‫علی ارکانھا واتمامھا حتی یکون ذلک دابہ فی کل وقت ‪؎۶‬۔‬
‫محافظت سے مراد یہ ہے کہ وقت اور طہارت وغیرہ تمام شروط کو ملحوظ رکھا‬
‫جائے ‪ ،‬اس کے ارکان کو قائم کیا جائے اور اسے مکمل کیا جائے یہاں تک کہ جب‬
‫نماز کا وقت آئے تو آدمی ان کاموں کو بطور عادت کرنے لگے۔ (ت)‬
‫عــہ‪ :‬ذکرہ تحت ایۃ المؤمنون ‪ ۱۲‬منہ (م) یہ انہوں نے سورۃ مومنون ‪ ۲۳‬کی آیۃ ‪ ۹‬کے تحت ذکر کیا ہے ‪ ۱۲‬منہ (ت)‬
‫مطبوعہ المطبعۃ البہیۃ‬ ‫(‪ ؎۶‬التفسیر الکبیر والذین ہم علٰی صلوٰتہم یحافظون کے تحت‬
‫المصریۃ مصر ‪)۲۳/۸۱‬‬
‫محافظت وقت کے یہ معنی جو ہم نے علمائے حنفیہ کے سوا ہر آیت میں علمائے‬
‫ِ‬
‫شافعیہ سے نقل کئے کہ ہر نماز اپنے ہی وقت پر ہو خود احادیث میں ارشاد ہوئے‬
‫جن کا ذکر عنقریب آتا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔ آیت ‪ ۶‬قال رب العلی ع ّزوعال‬
‫‪ :‬ثم خلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلٰوۃ ‪؎۱‬۔ پھر آئے ان کے بعد وہ برے‬
‫پسماندہ جنہوں نے نمازیں ضائع کیں۔‬
‫‪)۱۹/۵۹‬‬ ‫(‪ ؎۱‬القرآن‬
‫سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے‬
‫ہیں‪ :‬اخروھا عن مواقیتھا وصلوھا لغیر وقتھا ‪؎۲‬۔‬
‫مت اس آیہ کریمہ میں فرمائی گئی وہ ہیں جو نمازوں کو اُن‬‫(یہ لوگ جن کی مذ ّ‬
‫کے وقت سے ہٹاتے اور غیر وقت پر پڑھتے ہیں)‬
‫ذکرہ االمام البدر فی عمدۃ القاری باب تضییع الصلوات عن وقتھا واالمام البغوی فی المعالم۔‬
‫مطبوعۃ الطباعۃ المنیریۃ‬ ‫حدیث ‪۸‬‬ ‫باب تضییع الصلواۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬عمدۃ القاری شرح البخاری‬
‫بیروت ‪)۵/۱۷‬‬
‫ٰ‬
‫افضل التابعین سیدنا سعید بن المسیب رضی اہلل تعالی عنہما فرماتے ہیں‪ :‬ھو ان الیصلی الظھر‬
‫حتی اتی العصر ‪؎۳‬‬
‫(نماز کا ضائع کرنا یہ ہے کہ ظہر نہ پڑھی یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا) اثرہ‬
‫محی السنۃ۔‬
‫مطبوعۃ‬ ‫تحت آیۃ مذکورہ‬ ‫(‪ ؎۳‬تفسیر البغوی المعروف بمالم التنزیل مع الخازن‬
‫مصطفی البابی مصر ‪)۴/۲۵۲‬‬
‫ٰ‬
‫تفسیر انوار التنزیل میں ہے‪ :‬اضاعوا الصلوۃ ترکوھا اواخروھا عن وقتھا ‪؎۴‬۔‬
‫نصف‬ ‫مطبوعۃ مجتبائی دہلی‬ ‫تحت آیۃ مذکورہ‬ ‫(‪ ؎۴‬انوار التنزیل المعروف بالبیضاوی‬
‫ثانی ص‪)۹‬‬
‫حنہ امام اعظم شانہ‪ :،‬فویل للمصلّین‪ o‬الذین ھم عن‬ ‫آیت ‪ ۷‬قال سب ٰ‬
‫صالتھم ساھون ‪ o؎۵‬خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل‬
‫ہیں (کہ وقت نکال کر پڑھتے ہیں)‬
‫‪)۱۰۷/۴‬‬ ‫(‪ ؎۵‬القرآن‬

‫تفسیر جاللین میں ہے‪ :‬ساھون غافلون یؤخرونھا عن وقتھا ‪؎۶‬۔‬


‫)‬ ‫مطبوعہ مجتبائی دہلی نصف ثانی ص ‪۵۰۵‬‬ ‫تحت آیت مذکورہ‬ ‫(‪ ؎۶‬تفسیر جاللین‬
‫تفسیر مفاتیح الغیب میں ہے‪ :‬ساھون یفید امرین اخراجھا عن الوقت وکون االنسان غافال فیھا ‪؎۷‬‬
‫‪)۳۲/۱۱۵‬‬ ‫تفسیر کبیر ‪ ،‬میدان جامع ازہر۔ مصر‬ ‫(‪ ؎۷‬مفاتیح الغیب‬
‫اس آیہ کریمہ کی یہ تفسیر خودحدیث میں وارد ہُوئی کماسیاتی ان شاء الل ّٰہ‬
‫تعالٰی۔‬
‫(االحادیث) اقول وباللہ التوفیق‪ Z‬ماّل جی نے تو جھُوٹ ہی کہہ دیا تھا کہ احادیث جمع‬
‫چودہ‪ ۱۴‬صحابیوں سے مروی ہیں جنہیں خود بھی نہ گِنا سکے بلکہ صراح ًۃ تسلیم‬
‫کرگئے کہ ان میں اکثر کی روایات اُن کیلئے مفید نہیں صرف چار مفید سمجھیں‬
‫جن کا حال بتوفیقہ تعالٰی واضح ہوگیا کہ اصال ً انہیں مفید نہ تھیں اب فقیر اللہ‬
‫تعالٰی کہتا ہے کہ اس مبحث میں ہمارے مفید حدیثیں جو اس وقت نظر میں جلوہ‬
‫فرماہیں چالیس‪ ۴۰‬سے زائد ہیں کہ تئیس‪ ۲۳‬صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم‬
‫ضی (‪ )۳‬سعد ابن وقاص (‪)۴‬‬ ‫سے مروی ہوئیں‪ )۱( ،‬عمر فاروق (‪ )۲‬علی مرت ٰ‬
‫عبداللہ بن مسعود (‪ )۵‬عبداللہ بن عباس (‪ )۶‬عبداللہ بن عمر (‪ )۷‬عبداللہ بن عمرو‬
‫(‪ )۸‬جابر بن عبداللہ (‪ )۹‬ابوذرغفاری (‪ )۱۰‬ابوقتادہ انصاری (‪ )۱۱‬ابودردأ (‪)۱۲‬‬
‫ابوسعید خدری (‪ )۱۳‬ابومسعود بدری (‪ )۱۴‬بشیر بن عقبہ بن عمرو مدنی (‪)۱۵‬‬
‫سی اشعری (‪ )۱۶‬بریدہ اسلمی (‪ )۱۷‬عبادہ بن صامت (‪ )۱۸‬کعب بن عجرہ (‬ ‫ابومو ٰ‬
‫‪ )۱۹‬فضالہ زہرانی (‪ )۲۰‬حنظلہ بن الربیع (‪ )۲۱‬انس بن مالک (‪ )۲۲‬ابوہریرہ (‪)۲۳‬‬
‫ام المومنین صدیقہ بنت الصدیق صلی اللہ تعالٰی علی بعلہا وابیہا وعلیہا وعلیہم‬
‫اجمعین وبارک وسلم۔ ان میں سات‪ ۷‬حدیثیں اور مولی المسلمین ومحبوبہ سید‬
‫المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی روایتیں تو جمع صوری میں گزریں‬
‫ماّل جی‬ ‫سنےے‪ُ ،‬‬‫باقی اکیس‪ ۲۱‬صحابہ سے چھتیس‪ ۳۶‬حدیثیں بتوفیق ٖہ تعالٰی یہاں ُ‬
‫کی طرح اگر مجمالت کو بھی شامل کرلیجئے اور واقعی‪ Z‬ہمیں اس کا استحقاق‬
‫بروجہ حق وصحیح حاصل تو معاذ(‪ )۲۴‬بن جبل واسامہ(‪ )۲۵‬بن زید رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہم‪ Z‬کو مالکر عدد صحابہ پچیس‪ ۲۵‬اور احادیث مجملہ شامل کرکے شمارِ‬
‫احادیث پچاس‪ ۵۰‬سے زائد ہوگا‪ ،‬خیر یہاں جو حدیثیں ہمیں لکھنی ہیں وہ چند نوع‬
‫ہیں‪:‬‬
‫محافظت وقت اور اس کی ترغیب اور اس کے ترک سے‬
‫ِ‬ ‫احادیث‬ ‫نوع اوّل‪:‬‬
‫ترہیب۔‬
‫حضرت حنظلہ کاتب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے‬ ‫حدیث ‪:۱‬امام احمد بسندہّٰلل صحیح ہّٰلل ٰ‬
‫راوی‪ :‬قال‪ :‬سمعت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم یقول‪ :‬من حافظ علی الصلوات الخمس‬
‫ہّٰلل‬
‫رکوعھن وسجودھن ومواقیتھن‪ ،‬وعلم انھن حق من عندا ‪ ،‬دخل الجنۃ‪ ،‬اوقال‪ :‬وجبت لہ الجنۃ‪،‬‬
‫اوقال‪ :‬حرم علی النار ‪؎۱‬۔‬
‫(یعنی میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو فرماتے ُ‬
‫سنا کہ جو‬
‫شخص ان پانچوں نمازوں کی ان کے رکوع وسجود واوقات پر محافظت کرے‬
‫اور یقین جانے کہ وہ اللہ جل وعال کی طرف سے ہیں جنت میں جائے یا فرمایا‬
‫جنّت اس کے لئے واجب ہوجائے یا فرمایا دوزخ پر حرام ہوجائے)‬
‫مطبوعہ دارالفکر بیروت‬ ‫حدیث حنظلہ کاتب االسدی‬ ‫(‪ ؎۱‬مسند امام احمد بن حنبل‬
‫‪)۴/۲۶۷‬‬
‫سنن اور طبرانی معجم میں بسند جید ابودردأ رضی اللہ تعالٰی‬ ‫حدیث ‪:۲‬ابوداؤد و ُ‬
‫سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ّ‬ ‫عنہ سے راوی حضور پُرنور‬
‫خمس من جاء بھن مع ایمان دخل الجنۃ‪ ،‬من حافظ علی الصلوات الخمس‪،‬علی وضوئھن‬
‫ورکوعھن وسجودھن ومواقیتھن ‪؎۱‬۔ عــہ‪ ۱‬الحدیث۔ پانچ چیزیں ہیں کہ جو اُنہیں ایمان کے‬
‫ساتھ الئےگا جنّت میں جائے گا جو پنجگانہ نمازوں کی ان کے وضو اُن کے رکوع‬
‫وغسل‬
‫ِ‬ ‫اُن کے سجود اُن کے اوقات پر محافظت کرے (اور روزہ وحج وزکوٰۃ‬
‫جنابت بجاالئے)‬
‫ٰ‬
‫عــہ‪ ۱‬تمامہ‪ ،‬وصام رمضان‪ 5‬وحج البیت ان استطاع الیہ سبیال واعطی الزکوۃ‪ ،‬طیبۃ بھانفسہ‪ ،‬وادی االمانۃ‪ ،‬قالوا‪ :‬یا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫اباالدرداء مااداء االمانۃ؟ قال‪ :‬الغسل من الجنابۃ ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م) (اس کا ترجمہ متن میں موجود ہے)‬
‫‪ ۱/۱۱۶‬و ‪)۱۱۷‬‬ ‫دار احیاء السنۃ مصر‬ ‫حدیث نمبر ‪۴۲۹‬‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد‬
‫حدیث ‪ :۳‬امام مالک وابوداؤد ونسائی وابن حبان اپنی صحاح میں عبادہ بن‬
‫حضور ٰسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ‬ ‫ٰ‬
‫صامت رضی اللہ تعالی عنہ سے راوی ہّٰلل‬
‫وسلم فرماتے ہیں‪ :‬خمس صلوات افترضھن ا تعالی‪ ،‬من احسن وضوء ھن وصالھن لوقتھن‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫واتم رکوعھن وخشوعھن‪ ،‬کان لہ علی ا عھدان غفرلہ‪ ،‬ومن لم یفعل فلیس لہ علی ا عھد‪ ،‬ان‬
‫شاء غفرلہ‪ ،‬وان شاء عذبہ ‪؎۲‬۔ ھذا لفظ ابی داود عــہ‪۲‬‬
‫پانچ نمازیں اللہ تعالٰی نے فرض‪ Z‬کی ہیں جو اُن کا وضو اچھی طرح کرے اور اُنہیں‬
‫اُن کے وقت پر پڑھے اور اُن کا رکوع وخشوع پُورا کرے اُس کے لئے اللہ ع ّزوجل‬
‫پر عہد ہے کہ اُسے بخش دے‪ ،‬اور جو ایسا نہ کرے تو اس کے لئے اللہ تعالٰی پر‬
‫کچھ عہد نہیں چاہے بخشے چاہے عذاب کرے۔ یہ الفاظ ابوداؤد کے ہیں۔ (ت)‬
‫عــہ‪ ۲‬واوردہ المنذری عن فزاد‪ :‬وسجودھن‪ ،؎۳ 5‬بعد قولہ‪ :‬رکوعھن‪ ،‬ولیس فی شیئ من نسخ السنن التی عندی‪ ،‬وقدقال‬
‫العالمۃ ابرھیم الحلبی فی غنیۃ المستملی‪ 5‬شرح منیۃ المصلی مانصہ‪ :‬اما لفظ ''وسجودھن'' بعد ''رکوعھن'' فغیر ثابت‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫‪ ؎۴‬الخ ‪ ۱۲‬منہ رضی ا تعالی عنہ (م)‬
‫منذری نے بھی ابوداؤد سے اس روایت کو لیا ہے مگر اس نے رکوعھن کے بعد سجودھن کے لفظ بڑھادئے ہیں‪ ،‬حاالنکہ‬
‫ابوداود کے میرے پاس موجود نسخوں میں سجودھن نہیں ہے‪ ،‬اور ابراہیم حلبی نے غنیۃ المستملی میں تصریح کی ہے‬
‫کہ رکوعھن کے بعد سجودھن کا لفظ ثابت نہیں ہے۔ (ت)‬
‫‪)۱/۱۱۵‬‬ ‫داراحیاء السنۃ مصر‬ ‫حدیث نمبر ‪۴۲۵‬‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابی داؤد‬
‫‪۱/‬‬ ‫مصطفی البابی مصر‬ ‫(‪ ؎۳‬الترغیب‪ Z‬والترہیب‪ Z‬فی الصلوٰت الخمس الخ حدیث نمبر ‪۲۶‬‬
‫‪)۱۴۲‬‬
‫سہیل اکیڈمی الہور ص ‪)۱۲‬‬ ‫(‪ ؎۴‬غنیۃ المستملی مقدمہ کتاب‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۴‬ابوداود طریق ابن االعرابی میں حضرت قتادہ بن ربعی انصاری رضی اہلل تعالی عنہ سے‬
‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫راوی حضور سید عالم صلی اہلل تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں اہلل عزوجل فرماتا ہے‪ :‬انی فرضت‬
‫علی امتک خمس صلوات‪ ،‬وعھدت عندی عہد انہ من جاء یحافظ علیھن لوقتھن ادخلتہ الجنۃ‪،‬‬
‫ومن لم یحافظ علیھن فالعھد لہ عندی ‪؎۱‬۔‬
‫میں نے تیری ا ُمت پر پانچ نمازیں فرض کیں اور اپنے پاس عہد مقرر کرلیا جو اُن‬
‫کے وقتوں پر اُن کی محافظت کرتا آئے گا اُسے جنّت میں داخل کروں گا اور جو‬
‫محافظت نہ کرے گا اس کے لئے میرے پاس کچھ عہد نہیں۔‬
‫‪)۱/۱۱۷‬‬ ‫داراحیاء السنۃ النبویۃ مصر‬ ‫حدیث نمبر ‪۴۳۰‬‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫حدیث ‪:۵‬دارمی حضرت کعب ابن عجرہ رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی رسول اہلل صلی اہلل تعالی‬
‫علیہ وسلم اپنے رب جل وعال سے روایت فرماتے ہیں وہ ارشاد کرتا ہے‪:‬من صلی الصالۃ لوقتھا‬
‫فاقام حدھا کان لہ علی عھد ا دخلہ الجنۃ ومن لم یصل الصالۃ لوقتھا ولم یقم حدھا لم یکن لہ‬
‫ّ‬
‫عندی عھدان شئت ادخلتہ النار وان شئت ادخلتہ الجنۃ ‪؎۲‬۔‬
‫جو نماز اُس کے وقت میں ٹھیک ٹھیک ادا کرے اُس کے لئے مجھ پر عہد ہے کہ‬
‫اُسے جنّت میں داخل فرماؤں‪ ،‬اور جو وقت میں نہ پڑھے اور ٹھیک ادا نہ کرے‬
‫اُس کے لئے میرے پاس کوئی عہد نہیں چاہوں اسے دوزخ میں لے جاؤں اور‬
‫چاہوں تو جنّت میں۔‬
‫مطبوعہ نشر‬ ‫حدیث ‪۱۲۲۸‬‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن الدارمی ‪ ،‬باب استحبا ب الصلٰوۃ فی اول الوقت‬
‫السنۃ ملتان ‪)۱/۲۲۳‬‬
‫حدیث ‪ :۶‬طبرانی بسند صالح عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی‬
‫ایک دن حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہم سے فرمایا‪ :‬جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟ عرض کی‪ :‬خدا ورسول‬
‫خُوب دانا ہیں۔ فرمایا‪ :‬جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟ عرض کی‪ :‬خدا ورسول‬
‫خوب دانا ہیں۔ فرمایا‪ :‬جانتے ہو تمہارا رب کیا فرماتا ہے؟ عرض کی‪ :‬خدا ورسول‬
‫خوب دانا ہیں۔ فرمایا‪ :‬تمہارا رب جل وعال فرماتا ہے‪ :‬وعزتی وجاللی الیصلیھا عبد‬
‫ّ‬
‫لوقتھا االادخلتہ الجنۃ ومن صالھا لغیر وقتھا ان شئت رحمتہ وان شئت عذبتہ ‪؎۳‬۔ مجھے اپنے‬
‫ع ّزت وجالل کی قسم جو شخص نماز وقت پر پڑھے گا اُسے جنّت میں داخل‬
‫فرماؤں گا اور جو اس کے غیر وقت میں پڑھے گا چاہوں اس پر رحم کروں‬
‫چاہوں عذاب۔‬
‫‪۱۰/۲‬‬ ‫مطبوعۃ المکتبۃ الفیصلیۃ بیروت‬ ‫حدیث ‪۱۰۵۵۵‬‬ ‫(‪ ؎۳‬المعجم الکبیر للطبرانی‬
‫‪)۸۱‬‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۷‬نیز طبرانی اوسط میں انس بن مالک رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی رسول اہلل صلی اہلل‬
‫ٰ‬
‫تعال ی علیہ وسلم فرماتے ہیں‪:‬من صلی الصلواۃ لوقتھا واسبغ لھا وضؤھا واتم لھا قیامھا وخشوعھا‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫ورکوعھا وسجودھا خرجت وھی بیضا مسفرۃ تقول حفظک ا کماحفظتنی‪ ،‬ومن صال الصلوۃ لغیر‬
‫وقتھا فلم یسبغ لھا وضؤھا ولم یتم لھا خشوعھا والرکوعھا والسجودھا خرجت وھی سوداء مظلمۃ‬
‫ّ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ّٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫حتی اذاکانت حیث شاء ا لفت کمایلف الثوب الخلق ثم ضرب بھا‬ ‫تقول ضیعک ا کما ضیعتنی‬
‫وجھہ ‪ ؎۱‬جو پانچوں نمازیں اپنے اپنے وقتوں پر پڑھے اُن کا وضو وقیام وخشوع‬
‫ورکوع وسجود پُورا کرے وہ نمازسفید روشن ہوکر یہ کہتی نکلے کہ اللہ تیری‬
‫نگہبانی فرمائے جس طرح تُونے میری حفاظت کی اور جو غیر وقت پر پڑھے اور‬
‫وضو وخشوع ورکوع وسجود پُورا نہ کرے وہ نماز سیاہ تاریک ہوکر یہ کہتی نکلے‬
‫کہ اللہ تجھے ضائع کرے جس طرح تُونے مجھے ضائع کیا یہاں تک کہ جب اُس‬
‫مقام پر پہنچے جہاں تک اللہ ع ّزوجل چاہے پُرانے چیتھڑے کی طرح لپیٹ کر اُس‬
‫منہ پر ماری جائے (والعیاذ باللہ رب العالمین)‬
‫کے ُ‬
‫‪)۴/۸۶‬‬ ‫ریاض‬ ‫مکتبہ المعارف‬ ‫حدیث نمبر ‪۳۱۱۹‬‬ ‫(‪ ؎۱‬معجم اوسط‬
‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬ ‫ُ‬
‫حدیث ‪ :۸‬ابو داؤد حضرت فضالہ زہرانی رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی‪ :‬قال علمنی رسول ا صلی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫ا تعالی علیہ وسلم فکان فیما علمنی وحافظ علی الصلوات الخمس ‪؎۲‬۔‬
‫مسائل دین تعلیم فرمائے اُن‬
‫ِ‬ ‫مجھے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے‬
‫میں یہ بھی تعلیم فرمایا کہ نماز پنجگانہ کی محافظت کر۔‬
‫‪۱/۶‬‬ ‫مطبوعہ مجتبائی پاکستان‬ ‫باب المحافظہ علے الصلوات‬ ‫(‪ ؎۲‬سن ابی داؤد‬
‫‪)۱‬‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪:۹‬بخاری‪ ،‬مسلم‪ ،‬ترمذی‪ ،‬نسائی‪ ،‬دارمی عبداہلل بن مسعود رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی‪ :‬قال‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫سألت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ای العمل احب الی ا قال الصالۃ علی وقتھا ‪؎۳‬۔‬
‫میں نے سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے پُوچھا سب میں زیادہ کیا‬
‫عمل اللہ ع ّزوجل کو پیارا ہے‪ ،‬فرمایا نماز اس کے وقت پر ادا کرنا۔‬
‫‪۱/۷‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب فضل الصلٰوۃ لوقتہا‬ ‫(‪ ؎۳‬بخاری شریف‬
‫‪)۶‬‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۱۰‬بیہقی شعب االیمان میں بطریق عکرمہ امیر المؤمنین عمرفاروق اعظم رضی اہلل تعالی‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫عنہ سے راوی ‪ :‬قال جاء رجل فقال یارسول ا ای شیئ احب الی ا فی االسالم قال الصالۃ لوقتھا‬
‫ّ‬
‫ومن ترک الصالۃ فالدین لہ والصالۃ عماد الدین ‪؎۴‬۔‬
‫خدمت اقدس حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں‬‫ِ‬ ‫ایک شخص نے‬
‫حاضر ہوکر عرض‪ Z‬کی یارسول اللہ! اسالم میں سب سے زیادہ کیا چیز اللہ تعالٰی‬
‫کو پیاری ہے ‪ ،‬فرمایا‪ :‬نماز وقت پر پڑھنی‪ ،‬جس نے نماز چھوڑی اس کیلئے دین نہ‬
‫رہا نماز دین کا ستون ہے۔‬
‫حدیث ‪ ۲۸۰۷‬مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت‬ ‫باب فی الصلوات‬ ‫(‪ ؎۴‬شعب االیمان‬
‫لبنان ‪)۳/۳۹‬‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪:۱۱‬طبرانی معجم اوسط میں انس رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی حضور سید عالم صلی اہلل‬
‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں‪:‬ثلث من حفظھن فھو ولی حقا‪ ،‬ومن ضیعھن فھو عدوی حقا‪ ،‬الصالۃ‬
‫والصیام والجنابۃ ‪؎۱‬۔‬
‫چا ولی ہے اور جو انہیں ضائع‬
‫تین‪ ۳‬چیزیں ہیں کہ جو ان کی حفاظت کرے وہ س ّ‬
‫غسل جنابت۔‬
‫ِ‬ ‫کرے وہ پکّا دشمن‪ ،‬نماز اور روزے اور‬
‫‪)۹/۴۴۵‬‬ ‫ریاض‬ ‫مکتب المعارف‬ ‫حدیث ‪۸۹۵۶‬‬ ‫(‪ ؎۱‬معجم اوسط‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫حدیث ‪ :۱۲‬امام مالک مؤطا میں نافع سے راوی‪ :‬ان عمر بن الخطاب رضی ا تعالی عنہ کتب الی‬
‫ُ ّ‬
‫عمالہ ان اھم امرکم عندی الصالۃ فمن حفظھا وحافظ علیھا حفظ دینہ ومن ضیعھا فھو لماسواھا‬
‫اضیع الحدیث ‪؎۲‬۔‬
‫امیرالمومنین عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے عاملوں کو فرمان‬
‫بھیجے کہ تمہارے کاموں میں مجھے زیادہ فکر نماز کی ہے جو اسے حفظ اور‬
‫اس پر محافظت کرے اس نے اپنے دین کی حفاظت کرلی اور جس نے اسے‬
‫ضائع کیا وہ اور کاموں کو زیادہ تر ضائع کرے گا۔‬
‫ص ‪)۵‬‬ ‫مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی‬ ‫وقوت الصلواۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬مؤطا امام مالک‬

‫(نوع آخر) حدیث امامت جبریل علیہ الصلٰوۃ وال ّ‬


‫سالم جس میں انہوں نے ہر نماز‬ ‫ِ‬
‫جدا وقت معین کیا۔‬
‫ُ‬ ‫ے‬‫لئ‬ ‫کے‬
‫حدیث ‪ :۱۳‬بخاری ومسلم صحاح اور امام مالک وامام ابن ابی ذئب مؤطا اور‬
‫ابومحمد عبداللہ دارمی مسند میں حضرت ابومسعود نصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫سے راوی جبریل نے بعد تعیین اوقات عرض کی‪ :‬بھذا امرت ‪( ؎۳‬اسی کا حضور‬
‫کو حکم دیا گیا ہے) ۔‬
‫‪)۱/۷۵‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫کتاب مواقیت الصلوات‬ ‫(‪ ؎۳‬بخاری شریف‬
‫ابن ابی ذئب کے لفظ یوں ہیں‪ :‬عن ابن شھاب انہ سمع عروۃ بن الزبیر یحدث عمر بن عبدالعزیز عن‬
‫ابی مسعود االنصاری ان المغیرۃ بن شعبۃ اخر الصالۃ فدخل علیہ ابومسعود فقال ان جبریل نزل‬
‫ّ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫علی محمد صلی ا تعالی علیہ وسلم فصلی وصلی وصلی وصلی وصلی ثم صلی ثم صلی ثم‬
‫صلی ثم صلی ثم صلی ثم قال ھکذا امرت ‪( ؎۴‬یعنی جبریل امین نے دونوں روز امامت‬
‫سے تعیین اوقات کرکے عرض کی‪ :‬ایسا ہی حضور کو حکم ہے)۔ (‪ ؎۴‬شرح‬
‫الکبری مصر ‪)۱/۱۵‬‬
‫ٰ‬ ‫الزرقانی علی المؤطا باب وقوت الصلٰوۃ مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ‬
‫مسند امام ابن راہویہ میں مطول ومفصل ہے فی اخرہ ثم قال جبریل مابین ھذین وقت صالۃ ‪؎۵‬‬
‫(پھر جبریل نے عرض کی ان دونوں کے درمیان وقت نماز ہے)۔‬
‫‪۱/۲‬‬ ‫مکتبہ اسالمیہ ریاض الشیخ‬ ‫باب المواقیت‬ ‫(‪ ؎۵‬نصب الرایۃ بحوالہ سند ابن راہویۃ‬
‫‪)۲۳‬‬
‫حدیث ‪ :۱۴‬دارقطنی‪ Z‬وطبرانی وابوعمر بن عبدالبر ابومسعود وبشیر بن ابی‬
‫مسعود دونوں صحابیوں رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی جبریل نے عرض‪ Z‬کی‪:‬‬
‫مابین ھذین وقت ‪ ؎۱‬یعنی امس والیوم ۔ (کل اور آج کے وقتوں کے درمیان ہر نماز کا‬
‫وقت ہے )‬
‫‪۱/۳‬‬ ‫دارالکتاب بیروت‬ ‫باب بیان الوقت‬ ‫(‪ ؎۱‬مجمع الزوائد بحوالہ الطبرانی الکبیر‬
‫‪)۰۵‬‬
‫حدیث ‪ :۱۵‬ابوداؤد‪ ،‬ترمذی‪ ،‬شافعی‪ ،‬طحاوی‪ ،‬ابن حبان‪ ،‬حاکم حضرت عبداہلل بن عباس رضی اہلل‬
‫ٰ‬
‫تعالی عنہما سے راوی جبریل نے گزارش کی‪ :‬الوقت مابین ھذین الوقتین ‪( ؎۲‬وقت وہ ہے جو ان‬
‫دو وقتوں کے درمیان ہے)۔‬
‫مطبوعہ رشیدیہ امین کمپنی‬ ‫باب ماجاء فی مواقیت الصلوات‬ ‫(‪ ؎۲‬جامع الترمذی‬
‫‪)۱/۲۱‬‬ ‫دہلی‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۱۶‬نسائی وطحاوی وحاکم وبزار ابوہریرہ رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اہلل‬
‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم نے فرمایا جبریل نے عرض کی‪ :‬الصالۃ مابین صالتک امس وصالتک الیوم ‪؎۳‬‬
‫(نماز دیر وزہ و امروزہ کے بیچ میں نماز ہے)‬
‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫کتاب المواقیت آخر وقت الظہر‬ ‫س نن النسائی‬
‫(‪ُ ؎۳‬‬
‫‪)۱/۵۹‬‬
‫بزار کے یہاں ہے‪ :‬ثم قال مابین ھذین وقت ‪( ؎۴‬ان دو کے اندر وقت ہے)‬
‫مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ‬ ‫باب ای حین یصلی‬ ‫(‪ ؎۴‬کشف االستار عن زوائد البزار‬
‫بیروت ‪)۱/۱۸۷‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۱۷‬نسائی واحمد واسحق وابن حبان وحاکم جابر بن عبداہلل رضی اہلل تعالی عنہما سے راوی‬
‫جبریل نے گزارش کی‪ :‬مابین ھاتین‪ 5‬الصالتین وقت ‪( ؎۵‬ان دو نمازوں کے اندر وقت ہے)‬
‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫کتاب المواقیت ا خر وقت العصر‬ ‫س نن النسائی‬
‫(‪ُ ؎۵‬‬
‫‪)۱/۶۱‬‬
‫حدیث ‪ :۱۸‬طحاوی ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی‪ Z‬حضور‬
‫اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جبریل نے گزارش‪ Z‬کی‪ :‬الصالۃ فیما‬
‫بین ھذین الوقتین ‪( ؎۶‬نماز ان دو‪ ۲‬وقتوں کے درمیان ہے)۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب مواقیت الصلوات‬ ‫(‪ ؎۶‬شرح معانی االثار‬
‫‪)۱/۱۰۲‬‬
‫(نوع آخر) حدیث سائل جسے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے‬
‫امامتیں فرماکر ہر نماز کا اول وآخر وقت بتایا۔‬
‫حدیث ‪ :۱۹‬مسلم ترمذی نسائی ابن ماجہ طحاوی حضرت بریدہ رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہ سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬وقت‬
‫صالتکم بین مارأیتم ‪( ؎۷‬تمہاری نماز کا وقت اس کے درمیان ہے جو تم نے دیکھا) ۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب اوقات الصلوات الخمس‬ ‫(‪ ؎۷‬صحیح مسلم‬
‫‪)۱/۲۲۳‬‬
‫مسلم کے دوسرے طریق میں ہے‪ :‬مابین مارأیت وقت ‪( ؎۸‬اے سائل جو تُونے دیکھا‬
‫اس کے اندر وقت ہے)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫باب اوقات الصلوات الخمس‬ ‫(‪ ؎۸‬صحیح مسلم‬
‫‪)۱/۲۲۳‬‬
‫ترمذی کے یہاں یوں ہے‪ :‬مواقیت الصالۃ کمابین ھذین ‪( ؎۱‬نمازوں کے وقت ایسے ہیں‬
‫جیسے ان دو‪ ۲‬کے درمیان)۔‬
‫مطبوعہ رشیدیہ امین کمپنی دہلی‬ ‫باب ماجاء فی مواقیت الصلوات‬ ‫(‪ ؎۱‬جامع ترمذی‬
‫‪)۱/۲۲‬‬
‫سی اشعری‬
‫حدیث ‪ :۲۰‬مسلم ابی داود‪ Z‬نسائی ابن ابان طحاوی حضرت ابومو ٰ‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا‪ :‬الوقت بین ھذین ‪( ؎۲‬وقت‪ Z‬ان دو‪ ۲‬کے درمیان ہے)‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ اصح المطابع‬ ‫باب اوقات الصلوات الخمس‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح مسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۲۲۳‬‬
‫حدیث ‪ :۲۱‬طحاوی بطریق عطاء بن ابی رباح بعض صحابہ یعنی جابر بن‬
‫سی بن ابان بلفظ عن عطاء بن‬ ‫عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے اور امام عی ٰ‬
‫ابی رباح قال بلغنی ان رجال اتی النبی صلی الل ّٰہ تعالٰی علیہ وسلم راوی‪ Z‬حضور‬
‫پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬بین صالتی فی ھذین الوقتین کلہ ‪( ؎۳‬جن‬
‫دو‪ ۲‬وقتوں پر میں نے نمازیں پڑھیں ان کے اندر اندر سب وقت ہے) ولفظ الحجج ثم‬
‫قال مابینھما وقت ‪( ؎۴‬اور کتاب الحجج کے الفاظ یہ ہیں‪ :‬پھر فرمایا ان دونوں کے‬
‫درمیان وقت ہے)۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب مواقیت الصلوات‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی االثار‬
‫‪)۱/۱۰۲‬‬
‫دارالمعارف نعمانیہ الہور‬ ‫(‪ ؎۴‬کتاب الحجۃ اختالف اہل الکوفتہ والمدینۃ فی الصلواۃ‬
‫ص ‪)۱۲‬‬
‫حدیث ‪ :۲۲‬مالک ونسائی وبزار حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے‬
‫راوی حضور انور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬مابین ھذین وقت ‪( ؎۵‬ان دو‬
‫‪ ۲‬کے درمیان وقت ہے)۔‬
‫‪)۱/۶۲‬‬ ‫(‪ ؎۵‬النسائی ‪،‬کتاب المواقیت ‪ ،‬مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬
‫وفیہ االقتصار علی ذکر الفجر فکانہ مختصر قلت فقد رواہ الدار قطنی فی سننہ من حدیث قتادۃ عن‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫انس مطوال وا تعالی اعلم (اس روایت میں صرف فجر کا ذکر ہے‪ ،‬شاید اس میں‬
‫اختصار ہے میں نے کہا دارقطنی‪ Z‬نے اپنے سنن میں سے انس سے بروایت قتادہ‬
‫مفصل ذکر کیا ہے واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)‬
‫(نوع آخر) حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی پیشگوئی کہ کچھ لوگ‬ ‫ِ‬
‫ُ‬
‫وقت گزار‪ Z‬کر نماز پڑھیں گے تم ان کا اتباع نہ کرنا اسے مطلق فرمایا کچھ سفر‬
‫وحضر کی تخصیص ارشاد نہ ہوئی۔‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۲۳‬مسلم ابوداؤد ترمذی نسائی احمد دارمی حضرت ابوذر رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی‪ :‬قال‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫قال رسول ا تعالی علیہ وسلم وضرب فخذی کیف انت اذابقیت فی قوم یؤخرون الصالۃ عن وقتھا‬
‫قال قلت ماتامرنی قال صل الصالۃ لوقتھا الحدیث ‪؎۱‬۔‬
‫حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے میری ران پر ہاتھ مار کر‬
‫فرمایا تیرا کیا حال ہوگا جب تُو ایسے لوگوں میں رہ جائے گا جو نماز کو اس کے‬
‫وقت سے تاخیرکریں گے‪ ،‬میں نے عرض کی حضور مجھے کیا حکم دیتے ہیں‪،‬‬
‫فرمایا تُو وقت پر پڑھ لینا۔‬
‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ اصح المطالع‬ ‫باب کراھۃ تاخیر الصلوات‬ ‫(‪ ؎۱‬صحیح مسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۲۳۱‬‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۲۴‬احمد ابوداود ابن ماجہ بسند صحیح عبادہ بن صامت رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی‬
‫ٰ‬
‫حضور اقدس صلی اہلل تعالی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬ستکون علیکم بعدی امراء تشغلھم اشیاء عن‬
‫الصالۃ لوقتھا حتی یذھب وقتھا فصلوا الصالۃ لوقتھا ‪ ؎۲‬الحدیث۔‬
‫میرے بعد تم پر کُچھ حاکم ہوں گے کہ اُن کے کام وقت پر انہیں نماز سے روکیں‬
‫گے یہاں تک کہ وقت نکل جائے گا تم وقت پر نماز پڑھنا۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید‬ ‫باب ماجاء فی اذااخر والصلواۃ عن وقتہا‬ ‫ابن ماجہ‬
‫ِ‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن‬
‫کمپنی کراچی ‪)۱/۹۰‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۲۵‬ابوداؤد حضرت عبداہلل بن مسعود رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی‪ :‬قال قال لی رسول ا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫صلی ا تعالی علیہ وسلم کیف بکم اذااتت علیکم امراء یصلون الصالۃ لغیر میقاتھا قلت‬
‫ہّٰلل‬
‫فماتامرنی اذاادرکنی ذلک یارسول ا قال صلی الصالۃ لمیقاتھا واجعل صالتک معھم سبحۃ ‪؎۳‬۔‬
‫(‪ ؎۳‬سنن ابی داؤد ‪ ،‬اذا اخر االمام الصلواۃ عن الوقت ‪ ،‬مطبوعہ مجتبائی دہلی‪)۱/۶۲ ،‬‬
‫فرمایا مجھ سے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگوں کا‬
‫کیا حال ہوگا جب تم پر وہ حکام آئینگے کہ غیر وقت پر نماز پڑھیں گے۔ میں نے‬
‫عرض کی یارسول اللہ! جب میں ایسا وقت پاؤں تو حضور مجھے کیا حکم دیتے‬
‫ہیں۔ فرمایا نماز وقت پر پڑھ اور اُن کے ساتھ نفل کی نیت سے شریک ہوجا۔‬
‫(نوع آخر) ارشاد ِ صریح کہ جب ایک نماز کا وقت آیا دوسری کا وقت جاتا رہا قضا‬
‫مت۔‬
‫ہوگئی اور اس کی ممانعت ومذ ّ‬
‫سی بن ابان حضرت عبداللہ بن عمرو بن‬ ‫حدیث ‪ :۲۶‬مسلم وابوداؤد ونسائی وعی ٰ‬
‫عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬
‫نے فرمایا‪ :‬وقت الظھر مالم یحضر العصر ووقت المغرب مالم یسقط ثور الشفق ‪؎۴‬۔ ھذا‬
‫مختصرظہر کا وقت جب تک ہے کہ عصر کا وقت نہ آئے اور مغرب کا وقت جب‬
‫تک ہے کہ شفق نہ ڈوبے۔‬
‫‪)۱/۲۲۳‬‬ ‫قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫(‪ ؎۴‬صحیح المسلم باب اوقات الصلوات الخمس‬
‫حدیث ‪ :۲۷‬ترمذی وطحاوی بسند صحیح بطریق محمد بن فضیل عن االعمش عن ابی صالح ابوہریرہ‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی حضور سرور عالم صلی اہلل تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں‪ :‬ان للصالۃ‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫اوال واخرا وان اول وقت صالۃ الظھر حین تزول الشمس واخر وقتھا حین یدخل وقت العصر وفیہ ان اول‬
‫ٰ‬
‫وقت المغرب حین تغرب الشمس وان اخر وقتھا حین ےغیب الشفق ‪؎۱‬۔‬
‫بیشک نماز کے لئے اوّل وآخر ہے اور بیشک آغاز وقت ظہر کا سورج ڈھلے سے‬
‫وقت عصر آنے پر ہے اور بیشک ابتدا وقت مغرب کی‬
‫ِ‬ ‫اور ختم وقت ظہر کا‬
‫ُ‬
‫سورج چھُپے ہے اور بیشک انتہا اس کے وقت کی شفق ڈوبے۔‬
‫وابن حبان حضرت‬ ‫ِ‬ ‫حدیث ‪ :۲۸‬مسلم واحمد وابوداود وابن ماجہ وطحاوی‬
‫ابوقتادہ انصاری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں‪ :‬لیس فی النوم تفریط‪ 5‬انما التفریط فی الیقظۃ ان تؤخر صالۃ‬
‫حتی یدخل وقت صالۃ اخری ‪؎۱‬۔ سوتے میں کچھ تقصیر نہیں تقصیر تو جاگتے میں ہے‬
‫کہ تُو ایک نماز کو اتنا پیچھے ہٹائے کہ دوسری نماز کا وقت آجائے۔‬
‫امین کمپنی‬ ‫مطبوعہ مطبع رشیدیہ‬ ‫باب ماجاء فی مواقیت الصلواۃ‬ ‫(‪ ؎۱‬جامع ترمذی‬
‫‪)۱/۲۲‬‬ ‫دہلی‬
‫حالت سفر میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ارشاد‬ ‫ِ‬ ‫یہ حدیث خود‬
‫فرمائی تھی حین فاتتھم صالۃ الصبح لیلۃ التعریس وھو عند ابی داود و ابن ماجۃ من دون قولہ ان‬
‫توخر (جب ''لیلۃ التعریس'' کی صبح کو ان سے فجر کی نماز قضا ہوگئی تھی۔ یہ‬
‫روایت ابوداؤد اور ابن ماجہ میں بھی ہے مگر اس میں '' ان تؤخر'' کا لفظ نہیں۔‬
‫ت)یہ حدیث نص صریح ہے کہ ایک نماز کی یہاں تک تاخیر کرنی کہ دوسری کا‬
‫وقت آ جائے تقصیرہ گناہ ہے۔‬
‫‪۱/‬‬ ‫مطبوعہ آفتاب عالم پریس الہور‬ ‫باب فی من نام الخ‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابی داؤد‬
‫‪)۶۴‬‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۲۹‬بزار ومحی السنۃ بغوی حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی ‪:‬قال‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل ّ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫سألت النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم عن قول ا عزوجل الذین ھم عن صلوتھم ساھون‪ o‬قال ھم‬
‫الذین یؤخرون الصالۃ عن وقتھا ‪؎۳‬۔ فرمایا میں نے حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم سے پُوچھا وہ کون لوگ ہیں جنہیں اللہ عزوجل قرآن مجید میں فرماتا ہے‬
‫خرابی ہے ا ُن نمازیوں کے لئے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں‪ ،‬ارشاد فرمایا وہ‬
‫لوگ جو نماز کو اس کے وقت سے ہٹا کر پڑھیں۔‬
‫‪،‬باب فی الذین یؤخرون الصلٰوۃ عن وقتہا‪ ،‬مطبوعہ‬ ‫(‪ ؎۳‬کشف االستار عن زوائد البزار‬
‫مؤسسۃ الرسالۃ بیروت ‪)۱/۱۹۸‬‬
‫ہّٰلل‬
‫بغوی کی روایت یوں ہے ‪ :‬اخبرنا احمد بن عبدا الصالحی (فساق بسندہ) عن مصعب بن سعد عن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫ابیہ رضی ا تعالی عنھما انہ قال سئل رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم عن الذین ھم فی‬
‫ٰ‬
‫صلوتھم ساھون قال اضاعۃ الوقت ‪؎۱‬۔‬
‫ہمیں احمد بن عبداللہ الصالحی نے خبر دی (پُوری سند کو ذکر کیا) مصعب بن‬
‫سعد سے وہ اپنے باپ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ حضور اقدس صلی اللہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم سے اس آیت کے بارے میں سوال ہوا‪ ،‬فرمایا اس سے مراد‬
‫وقت کھونا ہے۔‬
‫مطبوعہ المکتب االسالمی بیروت‬ ‫باب مراعاۃ الوقت‬ ‫(‪ ؎۱‬شرح السنۃ لالمام البغوی‬
‫‪)۱/۲۳۶‬‬
‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۳۰‬امام ابن ابان حضرت عبداہلل بن عباس رضی اہلل تعالی عنہما سے راوی‪ :‬قال وقت‬
‫الظھر الی وقت العصر ووقت العصر الی المغرب وقت المغرب الی العشاء و العشاء الی الفجر ‪؎۲‬۔‬
‫فرمایا ظہر کا وقت عصر تک ہے اور عصر کا وقت مغرب تک اور مغرب کا عشاء‬
‫اور عشاء کا فجر تک۔‬
‫‪۱‬‬ ‫(‪ ؎۲‬کتاب الحجۃ اختالف اہ ل الکوفۃ والمدینۃ فی الصلوات الخ دارالمعارف النعمانیۃ الہور‬
‫‪)/۱۰،۱۱‬‬
‫حدیث ‪ :۳۱‬امام طحاوی شرح معانی االثار میں راوی حضرت ابوہریرہ رضی‬
‫اللہ تعالٰی عنہ سے سوال ہُوا ‪ :‬ماالتفریط فی الصالۃ (نماز میں تفریط کیا ہے؟)‬
‫فرمایا‪ :‬ان تؤخر حتی یجیئ وقت االخری ‪( ؎۳‬یہ کہ تُو ایک نماز کی تاخیر کرے یہاں تک‬
‫کہ دوسری کا وقت آجائے)‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب جمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی االثار‬
‫‪)۱/۱۱۴‬‬
‫نیز اُسی میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے‬ ‫حدیث ‪:۳۲‬‬
‫راوی‪ :‬قال تفوت صالۃ حتی یجیئ وقت االخری ‪( ؎۴‬فرمایا نماز فوت نہیں ہوتی جب تک‬
‫د ُوسری کا وقت نہ آجائے) یعنی جب دوسری کا وقت آیا پہلے قضا ہوگئی۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫باب جمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۴‬شرح معانی االثار‬
‫‪)۱/۱۱۴‬‬
‫تنبیہ‪ :‬ان آیات واحادیث سے جواب میں قائلین جمع کی غایت سعی ادعائے‬
‫تخصیص ہے جسے ماّل جی نے کئی ورق کی طوالنی تقریر میں بہت ہی چمک کر‬
‫جدا‬
‫بیان کیا جس کا مآل یہ کہ اگرچہ متکاثرہ واحادیث متواترہ ہر نماز کے لے ُ‬
‫وقت بتارہی ہیں محافظت وقت کی نہایت تاکید شدید فرمارہی ہیں وقت ضائع‬
‫عذاب الیم ٹھہرا رہی ہیں مگر ہمیں سفر وغیرہ‬
‫ِ‬ ‫وموجب‬
‫ِ‬ ‫کرنے کو گنا ِہ عظیم‪Z‬‬
‫ی وقت کچھ ضرور‬ ‫حاالت میں ظہر وعصر ومغرب وعشاء چا ر نمازوں کی پابند ِ‬
‫نہیں چاہے وقت سے پہلے پڑھ لیں چاہیں وقت کھوکر پڑھیں اصال ً محذور نہیں کہ‬
‫دو چار روایتیں ہمارے خیال کے مطابق قرآن عظیم واحادیث متواترہ کے مخالف‬
‫ابحاث اصول کو‬
‫ِ‬ ‫آگئیں وہ ہمیں بے قیدی بناگئی ہیں یہاں ماّل جی نے بہت کچھ‬
‫خرچ کیا ہے جس کا جواب ایسا ہی عریض وطویل دیا گیا ہے وانا اقول (اور میں‬
‫ارشادات صریحہ قرآن عظیم واحادیث‬
‫ِ‬ ‫کہتا ہوں۔ ت) ثبّت العرش ثم انقش‬
‫متواترہ کے مقابل ایسا ہی سامان جمع کرلیا ہوتا تو ان کے مقابلہ کا نام لینا تھا‬
‫سبحـ ٰن اللہ چند محتمل روایات جن میں روایۃ درایۃ سو‪ ۱۰۰‬احتماالت‪ ،‬نہ حضور‬
‫اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے اُن کے ثبوت ہی پر یقین نہ بعد تسلیم‬
‫ثبوت خواہی نخواہی معنی جمع حقیقی کی تعیین‪ ،‬احتمالی باتوں پر خدا ورسول‬
‫کے صریح احکام کیونکر اُٹھادےے جائیں ایسے حکموں کے مقابلہ کو اُنہیں کے‬
‫پایہ کاجلی واضح ثبوت درکار تھا نہ یہ کہ بزورِ زبان ابتداء میں کہہ دیجئے وہ‬
‫حدیثیں جن میں تاویل کو مخالف کی دخل نہیں انتہا میں لکھ دیجئے احادیث‬
‫صحاح جو جمع پر قطعا ً ویقینا داللت کرتی ہیں اور بس آپ کے فرمائے سے وہ‬
‫نصوص قاطعہ یقینیہ مفسرہ ہوگئیں ماّل جی بس اسی ایک نکتہ پر بحث کا فیصلہ‬
‫ہے ان روایات کا اثبات جمع حقیقی تقدیم وتاخیر میں نص قطعی یقینی مفسر‬
‫ناقابل تاویل ہونا ثابت کردیجئے یا قرآن عظیم‪ Z‬واحادیث متواترہ کے مقابل نری‬ ‫ِ‬
‫زباں زوریوں سے کام نکالنے کا اقرار کیجئے میں صرف نصوص قرآن وحدیث کا‬
‫نام لیتا ہوں اے حضرت نمازوں کی توقیت اُن کے لئے اوقات کی تعیین تو‬
‫مت مرحومہ کا اجماع قائم کہ وقت‬ ‫ضروریات دین سے ہے اور ہمارا آپ کا تمام ا ُ ِ‬‫ِ‬
‫سے پہلے نماز باطل اور عمدا ً قضا کردینا وقت کھودینا حرام تو اب ظنیت‬
‫وقطعیت عمومات کی بحث سے کچھ عالقہ نہ رہا۔ اس فعل جمع کا جو حاصل‬
‫ہے یعنی نماز پیش ازوقت‪ Z‬یا تفویت وقت اُس کی حرمت پر تو ہم اور آپ سب‬
‫متفق ہولئے اب آپ مدعی ہیں کہ اس حرام قطعی کی یہ صورت خاص حالل ہے‬
‫جیسا وہ حرام قطعی ہے ویسا ہی قطعی‪ Z‬ثبوت اس کی حلّت کا دیجئے ورنہ‬
‫یقینی کے حضور ظنی محتمل کا نام نہ لیجئے خدا کی شان اور تو اور جمع‬
‫تقدیم میں بھی یہی جرأت کے ادعاکہ تاویل کو دخل نہیں احادیث صحاح قطعا ً‬
‫داللت کرتی ہیں حاالنکہ مفسر ویقینی ہونا درکنار ابوداؤد سا امام جلیل الشان‬
‫تصریح فرماگیا کہ اس کے بارے میں اصال ً کوئی حدیث صحیح بھی نہ ہوئی مگر‬
‫ہاں یہ کہے کہ اپنی زبان اپنا دعوٰی ہے ثبوت مانگنے والے کا کچھ دینا دہرایا ہے‬
‫والحول والقوۃ ااّل باللہ العلی العظیم۔‬
‫ص ‪)۴۰۳‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معیارالحق‬
‫ماّل جی نے ایک مثل پر انتہائے ظہر کے اثبات میں حدیث سائل بروایت‬ ‫لطیفہ‪ُ :‬‬
‫نسائی عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ وحدیث امامت جبریل علیہ الصلٰوۃ والسالم‬
‫سے استدالل کیا جن میں تھا کہ پہلے دن کی ظہر حضور اعلی صلی اللہ تعالٰی‬
‫سورج ڈھلتے ہی پڑھی اور دُوسرے دن کی اُس وقت کہ سایہ ایک‬ ‫علیہ وسلم نے ُ‬
‫مثل کو پہنچ گیا اس تمسک پر اعتراض‪ Z‬ہوتا تھا کہ ان حدیثوں میں کل کی عصر‬
‫وقت ظہر ختم ہوجانا نہ نکال بلکہ‬
‫ِ‬ ‫بھی تو اسی وقت پڑھنی آئی ہے تو ایک مثل پر‬
‫ُ‬ ‫اّل‬
‫بعد مثل ظہر وعصر دونوں نمازوں میں وقت مشترک ہونا مستفاد ہوا م جی اس‬
‫کے دفع میں فرماتے ہیں روایت نسائی کے معنی یہ ہیں کہ آنحضرت عــہ نے پہلے‬
‫دن عصر جب پڑھی کہ ایک مثل سایہ آگیا اور دوسرے دن ظہر سے ایک مثل پر‬
‫فارغ ہو لئے یہ معنے نہیں کہ کچھ وقت بطور چار رکعت دونوں نمازوں میں‬
‫مشترک ہے دلیل مرجح باعث اختیار کرنے معنی اوّل کی یہ ہے کہ روایت کی ہے‬
‫مسلم نے عبداللہ بن عمرو سے ان النبی صلی الل ّٰہ تعالٰی علیہ وسلم قال وقت‬
‫الظھر الی ان یحضر العصر اور کہا اللہ تعالٰی نے ان الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین‬
‫حدہ ہے اسی واسطے فرمایا‬ ‫کتٰبا موقوتا یعنی ہر نماز کا وقت علیحد ٰہ علی ٰ‬
‫آنحضرت عــہ نے انما التفریط علی من لم یصل حتی یجیئ وقت الصالۃ االخری‬
‫رواہ مسلم وغیرہ تو مقتضا احادیث اور اس آیت کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت‬
‫میں دوسری نماز ادا نہیں ہوسکتی پھر اگر حدیث جابر میں معنی وہ نہ کریں جو‬
‫ہم نے کئے ہیں کہ پڑھ چکے ایک مثل میں بلکہ یہ کریں کہ پڑھنی شروع کی جب‬
‫کہ ایک مثل ہوئی تو تعارض ہوگا درمیان ان احادیث کے جن سے امتیاز اوقات ہر‬
‫نماز کی معلوم ہوتی ہے اور اس حدیث جابر میں جس سے اشتراک نکالتے ہیں‬
‫اور وقت تعارض موافقت کرنی چاہے اور صورت موافقت کی یہ ہے جو ہم نے‬
‫بیان کی اور شاہد اس کی حدیث جبریل ہے معنی اس کے بھی وہی ہیں بعین ٖہ‬
‫اُسی دلیل سے جو گزری حدیث نسائی میں ‪ ؎۱‬اھ ملخصا۔‬
‫ص ‪ ۳۱۶‬تا ‪)۳۲۱‬‬ ‫مکتبہ نذیریہ الہور‬ ‫مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر‬ ‫(‪ ؎۱‬معیارالحق‬
‫ٰ‬
‫عــہ صلی اہلل تعالی علیہ وسلم ‪ ۱۲‬منہ‬
‫ٰ‬
‫عــہ صلی اہلل تعالی علیہ وسلم ‪ ۱۲‬منہ‬

‫الحمداللہ یہ تو آیہ کریمہ اور ہماری حدیثوں سے حدیث ‪ ۲۶‬و ‪ ۲۸‬کی نسبت‬
‫ماّل جی کی شہادت ہے کہ مقتضی احادیث وآیات کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت‬
‫میں دوسری ادا نہیں ہوسکتی مگر مجھے یہاں ماّل جی کا ظلم ظاہر کرنا ہے‬
‫فاقول وباللہ التوفیق‪ Z‬اوّال ً ‪؎۲‬‬
‫(‪ ؎۲‬واضح رہے کہ ''اوّالً'' کے ذیل میں مذکور تمام روایات کا ترجمہ پہلے‬
‫گزرچکا ہے۔ اگر ضرورت ہوتو صفحہ ‪ ۲۷۸‬کی طرف رجوع کریں۔ دائم )‬
‫حدیث جبریل وحدیث سائل میں یہ معنے کہ ماّل جی نے شافعیہ کی تقلید جامد‬
‫سے سیکھ کر جمائے ہرگز نہیں جمتے حدیث جبریل بروایت جابر رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہ میں نسائی کے یہاں یوں ہے‪:‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫ان جبریل اتی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم حین کان الظل مثل شخصہ فصلی العصر ثم اتاہ فی‬
‫الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی الظھر ‪؎۳‬۔‬
‫‪)۱/۶۰‬‬ ‫مطبوعہ سلفیہ الہور‬ ‫کتاب المواقیت آخر وقت العصر‬ ‫(‪ ؎۳‬النسائی‬
‫دوسری روایت میں ہے‪ :‬ثم مکث حتی اذاکان فیئ الرجل مثلہ جاء ہ للعصر فقال قم یامحمد فصلی‬
‫ٰ‬
‫العصر ثم جاء ہ من الغدحین کان فیئ الرجل مثلہ فقال قم یامحمد فصل فصلی الظھر ‪؎۴‬۔‬
‫‪)۱/۶۲‬‬ ‫اوّل وقت العشاء‪ ،‬مطبوعہ سلفیہ الہور‬ ‫(‪ ؎۴‬النسائی کتاب المواقیت‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫مسند اسحق میں ابی مسعود بدری رضی اہلل تعالی عنہ یوں ہے‪ :‬اتاہ حین کان ظلہ مثلہ فقال قم‬
‫فصل فقام فصلی العصر اربعا ثم اتاہ من الغدحین کان ظلہ مثلہ فقال لہ قم فصل فقام فصلی الظھر‬
‫اربعا ‪؎۱‬۔‬
‫‪۱/‬‬ ‫حق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسالمیہ ریاض الشیخ‬
‫(‪ ؎۱‬نصب الرایۃ بحوالہ سند اس ٰ‬
‫‪)۲۲۳‬‬
‫دارقطنی وطبرانی وابوعمر کے یہاں بروایت عقبہ بن عمرو وبشیر بن عقبہ رضی‬
‫اللہ تعال ٰی عنہ ما یوں ہے ‪ :‬جاء ہ حین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال یامحمد صلی‬
‫العصر فصلی ثم جاء ہ الغدحین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال صلی الظھر فصلی‬
‫‪؎۲‬‬
‫حق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسالمیہ ریاض الشیخ‬
‫بحوالہ سند اس ٰ‬ ‫(‪ ؎۲‬دارقطنی‬
‫‪)۱/۲۵۶‬‬
‫روح امیں علیہ الصالۃ والتسلیم ظہر کے لئے‬
‫ِ‬ ‫یہ سب حدیثیں تصریح صریح ہیں کہ‬
‫حاضر اس وقت ہُوئے جب سایہ ایک مثل کو پہنچ چکا تھا اس وقت نماز پڑھنے‬
‫کے لئے عرض‪ Z‬کی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پڑھی اس‬
‫کے یہ معنی کیونکر ممکن کہ ختم ِ مثل تک نماز سے فارغ ہولےے تھے۔ حدیث‬
‫سائل بروایت عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ابوداؤد کے یہاں یوں ہے‪:‬‬
‫امربالالفاقام الفجر حین انشق (الی قولہ) فاقام الظھر فی وقت العصر الذی کان قبلہ ‪؎۳‬۔‬
‫‪)۱/۲۵‬‬ ‫مطبوعہ رشیدیہ دہلی‬ ‫باب المواقیت‬ ‫(‪ ؎۳‬ترمذی‬
‫اس میں تصریح ہے کہ ایک مثل ہونے پر بالل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ظہر کی‬
‫تکبیر کہی تو مثل تک فراغ‪ Z‬کیسا۔‬
‫ثانیا آیہ کریمہ تو آپ کے نزدیک عام ہے اور احادیث جبریل وسائل خاص اور آپ‬
‫کے اصول میں عام وخاص متعارض نہیں بلکہ عام اُس خاص سے مخصص‬
‫ہ وجائے گا ولہ ذا خود بھی یہاں معارضہ صرف احادیث میں مانا نہ آیت وحدیث‬
‫میں پھر ا ُن حدیثوں کے مقابل آیت کا پیش کرنا کیا معنی‪ ،‬کیا آپ کے داؤں کو‬
‫آیت عام نہیں رہتی تخصیص حرام ہوجاتی ہے۔‬
‫ثالثا ً احادیث میں دفع معارضہ یوں بھی ممکن کہ حدیث تفریط میں وقت الصالۃ‬
‫االخری ‪ ؎۴‬سے اُس کا وقت خاص مراد لیجئے یعنی نماز قضا جب ہوتی ہے کہ‬ ‫ٰ‬
‫وقت مشترک باقی ہے قضا نہ ہُوئی‬
‫ِ‬ ‫وقت خاص آجائے جب تک‬ ‫ِ‬ ‫دوسری نماز کا‬
‫اور حدیث عبداللہ بن عمرو میں ظہر خواہ عصر دونوں سے جس میں چاہے وقت‬
‫خاص لے لیجئے اور دوسری میں وقت مطلق یعنی ظہر کا وقت خاص وقت‬
‫عصر آنے تک ہے جب عصر کا وقت آیا ظہر کا خاص وقت نہ رہا اگرچہ مشترک‬
‫باقی ہو یا ظہر کا وقت عصر کے وقت خاص آنے تک ہے کہ اس کے بعد ظہر کا‬
‫وقت خاص خواہ مشترک اصال ً نہیں رہتا تو صورت موافقت اسی میں منحصر نہ‬
‫احتمال اشتراک عــہ کو دفع کرسکیں‪ ،‬ماّل جی مدعی بننا آسان‬
‫ِ‬ ‫تھی جس سے آپ‬
‫ہے مگر اقامت دلیل کے گر انبار عہدوں سے سالمت نکل جانا مشکل۔‬
‫ُ‬ ‫ً‬
‫عــہ اقول ظاہر ہے کہ احتمال اشتراک مسئلہ مجمع میں قائل جمع کو اصال نافع نہیں جمع تقدیم سے تو اسے مس‬
‫ہی نہیں اور جمع تاخیر بھی اس کے قائل کے نزدیک صرف آغاز وابتدائے وقت آخر بقدر چار رکعت سے مخصوص نہیں‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫معہذا جب وقت مشترک ٹھہرا پہلی نماز بھی اپنے وقت پر ہوئی اور اس کے بعد دوسری بھی اپنے وقت میں‪ ،‬یہ جمع‬
‫ُ‬
‫صوری ہے نہ حقیقی کہ ایک نماز اپنے وقت سے خارج ہوکر دوسری کے وقت میں پڑھی جائے کماالیخفی ‪ ۱۲‬منہ رضی‬
‫ٰ‬
‫اہلل تعالی عنہ (م)‬
‫وقت ظہر میں آیت واحادیث توقیت کے عموم وظواہر پر وہ ایمان‬
‫اب اس صریح ظلم وناانصافی کو دیکھےے کہ مسئلہ ِ‬
‫کہ نہ آیت صالح تخصیص نہ یہ حدیثیں‪ 5‬الئق تاویل نہ ان کے مقابل صحاح حدیث قابل قبول بلکہ واجب کہ وہ حدیثیں‬
‫ُ‬
‫تاویلوں کی گھڑت سے موافق کرلی جائیں اگرچہ وہ اس تاویل سے صاف ابا کرتی ہوں اور ان میں ہرگز تاویل نہ کی جائے‬
‫ً‬ ‫ّ ُ‬
‫اگرچہ بے دقت اسے جگہ دیتی ہوں۔ اور جب مسئلہ جمع کی باری آئے فورا نگاہ پلٹ جائے اب آیت واحادیث واجب‬
‫ُ‬
‫التخصیص‪ ،‬اور ان کے مقابل نری احتمالی چند روایات واجب االعتماد وقطعی التنصیص‪ ،‬اور ان کے لئے آیات واحادیث‬
‫کے مطابق صاف ونظیف محامل مردود وباطل‪ ،‬غرض شریعت اپنے گھر کی ہے‪ ،‬اجتہاد کی کوٹھری دوہرے درکی ہے۔‬
‫ّ‬
‫دیانت کا ٹٹو دونوں باگوں کستا ہے‪ ،‬پورب کی سڑک میں پچھم کا رستہ ہے‬

‫ع ‪:‬گر میں گیا اِدھر سے اُدھر سے نکل گیا‬


‫لطیفہ حدیث بست وہشتم مروی صحیح مسلم شریف کے جواب میں ماّل جی کی‬
‫قابل تماشا۔‬
‫ِ‬ ‫نزاکتیں‬
‫اوّال ً ‪ :‬ف‪ ۱‬یہ حدیث اُسی شخص کے حق میں ہے کہ بالعذر تاخیر کرے نہ اُس کے‬
‫حق میں جو مسافر ہو‪ ،‬یہ وہی دعوٰی باطلہ تخصیص بے مخصص ہے۔‬
‫)‬ ‫ص ‪۴۱۷‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معیارالحق مسئلہ پنجم جمع بین الصالتین‬
‫ص ‪)۴۱۷‬‬ ‫(ف‪ ۲‬معیارالحق‬
‫اقول‪ :‬ماّل جی! کسی پڑھے لکھے سے ظرف وسبب کا فرق سیکھو یہ نہیں کہا‬
‫جاتا کہ حدیث سفر میں فرمائی تھی بلکہ مطلب یہ ہے کہ نمازِ سفر کا قضا ہونا‬
‫جدا رہے گا کیا ظلم ہے‬‫سبب نص حکم نص سے کیونکر ُ‬ ‫ِ‬ ‫سبب ارشاد ہوا تو خود‬
‫ِ‬
‫کہ نص کا خاص جس مورد میں ورود وہی خارج ونامقصود‪ ،‬اور نص اس کے‬
‫مباین پر مقصور ومحدود۔‬
‫رابعا ً ‪ :‬قیامت دلربا نزاکت تو یہ کی کہ فرماتے ف‪ ۱‬ہیں اگر ظرف کو دخل ہوتو‬
‫کہا جائے گا کہ یہ قول آنحضرت عــہ نے وقت نماز فجر کے اور فوت ہوجانے نماز‬
‫فجر کے نیند میں فرمایا تھا پس حکم سفر فجر ہی کا بیان کیا جس کا جمع کرنا‬
‫کسی نماز سے ممکن نہ تھا نہ ظہر وعصر مغرب عشا سفر کی کا۔‬
‫ٰ‬
‫عــہ صلی اہلل تعالی علیہ وسلم ‪ ۱۲‬منہ (م)‬
‫ص ‪)۴۱۷‬‬ ‫ص ‪ ( )۴۱۷‬ف‪ ۲‬معیارالحق‬ ‫(ف‪ ۱‬معیارالحق‬
‫ماّل جی! حدیث میں کا ہے کا ارشاد ہورہا ہے‬ ‫اقول‪ :‬بھئی یہ تو خوب ہی کِیکا‪ ،‬ہاں ُ‬
‫ُ‬
‫فجر سفر کی کا نہ اور نمازوں سفر کی کایعنی صبح کی نماز میں تقصیر اس‬
‫وقت ہوگی کہ تُو اُسے نہ پڑھے یہاں تک کہ ظہر کا وقت آجائے بہت معقول سورج‬
‫نکلے پہر دن چڑھے ٹھیک دوپہر ہو جب تک نمازِ فجر اُٹھا رکھئے کچھ تقصیر نہیں‬
‫ماّل جی!‬
‫جب ظہر کا وقت آئے اس وقت تقصیر ہوگی انّا الل ّٰہ وانّا الیہ راجعون‪ُ o‬‬
‫سنے گئے ہیں‪ ،‬لکھنے چلے تھے تو پہلے دماغ کی‬ ‫دِلّی میں تو اچھّے اچھے حکیم ُ‬
‫جدا‬‫نبض دکھالی ہوتی‪ ،‬نمازیں پانچ ہیں اُن میں چار متوالی االوقات اور فجر ُ‬
‫سب کا حکم بیان کیجئے تو بطور تغلیب یہ کلمہ صحیح جیسا کہ حدیث ‪ ۳۱‬و ‪۳۲‬‬
‫وابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہم سے گزرا کہ خاص‬ ‫ِ‬ ‫اقوال حضرت ابوہریرہ‬
‫ِ‪Z‬‬ ‫میں‬
‫فجر کا حکم ان لفظوں سے ارشاد ہوکہ جب تک ظہر نہ آئے فجر نہ پڑھنے میں‬
‫تقصیر نہیں۔‬
‫خامسا‪ :‬اقول ماّل جی! اعتبار‪ Z‬عموم لفظ کا ہے نہ خصوص سبب کا تو اخراج ظہر‬
‫وعصر ومغرب وعشا کے کیا معنے‪ ،‬یہ کیا ستم جہالت ہے کہ آپ کا خصم اطالق‬
‫نص وشمول مورد سے تمسک کرے آپ جواب میں اقتصار علی المورد پیش‬
‫کردیں یا وہ بے نمکی کہ دخول موردے سے راسا ً انکار یا یہ شورا شوری کہ اُسی‬
‫پر انقطاع اُسی میں انحصار غرض سیدھا چلنا ہر طرح ناگوار۔‬
‫سادساً‪ :‬اب اور آنکھیں کھُلیں تو عالوہ کی پوٹ باندھی ف‪ ۲‬کہ مسافر جمع‬
‫کرنے والے کو ضرور ہے کہ ارادہ جمع کا پہلی نماز کے وقت کے اندراندر کررکھے‬
‫جس نے ارادہ نہ کیا اُس کی جمع درست نہ ہوگی پس اگر مسافر کو بھی شامل‬
‫کرو تو ایسا مسافر مورد ومحمل حدیث کا ہوگا۔‬
‫(ف‪ ۲‬معیار الحق صــ ‪)۴۱۷‬‬
‫اقول‪ :‬یہ ایسا ویسا تم کہہ رہے ہو یا حدیث ارشاد فرمارہی ہے حدیث میں تو‬
‫ایسے ویسے کی کہیں بُو بھی نہیں کہا اپنی ہوائے نفس پر احادیث کا ڈھال النا‬
‫ہی عمل بالحدیث ہے۔‬
‫سابعاً‪ :‬اقول خود مسافر کو شامل کہہ رہے ہو نہ مسافر سے خاص تو الجرم‬
‫حدیث وہ حکم فرمارہی ہے جو مسافر ومقیم سب کو شامل کیا بھال چنگا مقیم‬
‫بھی اگر وقت کے اندر اندر نیت رکھے کہ یہ نماز وقت گزر جانے کے بعد پڑھ‬
‫لوں گا تو تقصیر نہیں کھُال کھُال رافضیوں کا مذہب کیوں نہیں لکھ دیتے اور بعد‬
‫خرابی بصرہ نہیں بلکہ تباہی کوفہ اگر حاصل ٹھہرے گا تو وہی کہ حدیث احادیث‬
‫جمع سے مخصوص یہ شامت امام سے وہی آپ کا عذر معمولی جابجا ہے پھر‬
‫کرے سے پاال نہ پڑا ہوگا‬ ‫ماّل جی! کبھی کسی ّ‬ ‫اُسے عالوہ کس منہ سے کہہ رہے ہ و‪ُ ،‬‬
‫حن اللہ تحریف احادیث اور اُس کا نام‬ ‫کہ عمل بالحدیث کا دعوٰی بھُال دیتا‪ ،‬سب ٰ‬
‫ل خبیث‪ ،‬والحول والقوۃ ااّل بالل ّٰہ العلی العظیم۔‬ ‫م طیب وعم ٌ‬ ‫عمل بالحدیث اس ٌ‬
‫قسم دوم نصوص خصوص‪،‬‬
‫ّ‬
‫حدیث ‪ :۳۳‬صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی ومصنف طحاوی میں بطرق‬
‫عدیدہ والفاظ مجملہ ومفصلہ مختصرہ ومطولہ مروی وھذا لفظ البخاری حدثنا عمر بن حفص بن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫غیاث ثنا ابی ثنا االعمش ثنی عمارۃ عن عبدالرحمن عن عبدا رضی ا تعالی عنہ قال مارأیت‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم صلی صالۃ لغیر میقاتھا االصالتین جمع بین المغرب والعشاء‬
‫وصلی الفجر قبل میقاتھا ‪؎۱‬‬
‫‪)۱/۲۲۸‬‬ ‫مطبوعہ مطبع ہاشمی میرٹھ‬ ‫باب متی یصلی الفجر بجمع‬ ‫(‪ ؎۱‬صحیح بخاری‬
‫ٰ‬
‫ولمسلم حدثنا یحیی بن یحیی وابوبکر بن ابی شیبۃ وابوکریب جمیعا عن ابی معویۃ قال یحیی اخبرنا‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫ابومعویۃ عن االعمش عن عمارۃ عن عبدالرحمن بن یزید عن عبدا رضی ا تعالی عنہ قال‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫مارأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم صلی صالۃ االلمیقاتھا االصالتین صالۃ المغرب‬
‫والعشاء بجمع وصلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا ‪؎۲‬‬
‫مطبوعہ اصح المطابع‬ ‫باب استحباب زیادۃ التغلیس‪ Z‬بصلٰوۃ الصبح‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح مسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۴۱۷‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫وحدثناہ عثمن بن ابی شیبۃ واسحق بن ابرھیم جمیعا عن جریر عن االعمش بھذا االسناد قال قبل‬
‫وقتھا بغلس ‪؎۳‬‬
‫مطبوعہ اصح المطابع‬ ‫باب استحباب زیادۃ التغلیس‪ Z‬بصلٰوۃ الصبح‬ ‫(‪ ؎۳‬صحیح مسلم‬
‫کراچی ‪)۱/۴۱۷‬‬
‫وخلوت سید البشر‬
‫ِ‬ ‫حضرت حاضر سفر وحضر ومصاحب ومالزم جلوت‬ ‫ِ‬ ‫(یعنی‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ‬
‫سابقین اوّلین فی االسالم ومالزمین خاص حضور سید االنام علیہ افضل الصالۃ‬
‫والسالم سے تھے بوجہ کمال قرب بارگاہ اہلبیت عــہ ‪ ۱‬رسالت سے سمجھے‬
‫جاتے اور سفر وحضرمیں خدمت عــہ‪ ۲‬واال منزلت منزلت بسترگستری ومسواک‬
‫ومطہرہ داری‪ Z‬وکفش برداری‪ Z‬محبوب باری صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے معزز‬
‫وممتاز رہتے‪ ،‬ارشاد فرماتے ہیں میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور پُرنور سید عالم‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کوئی نماز اُس کے غیر وقت میں پڑھی ہو‬
‫مگر دو‪ ۲‬نمازیں کہ ایک اُن میں سے نماز مغرب ہے جسے مزدلفہ میں عشاء کے‬
‫وقت پڑھا تھا اور وہاں فجر بھی روز کے معمولی وقت سے پیشتر تاریکی میں‬
‫پڑھی)‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫عــہ‪ ۱‬بخاری مسلم ترمذی نسائی ابوموسی اشعری رضی اہلل تعالی عنہ سے‪ :‬قال قدمت اناواخی من الیمن فمکثنا حینا‬
‫ّ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫مانری اال ان عبدا بن مسعود رجل من اھلبیت النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم لما نری من دخولہ ودخول امہ علی‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم ‪؎۴‬۔ (م)‬
‫فرمایا‪ :‬میں اور میرے بھائی یمن سے آئے تو مدت تک ہم سمجھا کئے کہ عبداہلل بن مسعود حضور اقدس صلی اہلل‬
‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم کے اہلبیت سے ہیں انہیں اور ان کی ماں کو جو بکثرت کا شانہ رسالت‪ 5‬میں آتے جاتے دیکھتے تھے۔ ‪۱۲‬‬
‫منہ‬
‫‪)۱/۵۳۱‬‬ ‫قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫(‪ ؎۴‬صحیح بخاری مناقب عبداللہ بن مسعود‬
‫ٰ‬ ‫َ‬
‫عــہ‪ ۲‬صحیح بخاری وغیرہ میں حضرت علقمہ سے مروی میں ملک شام میں گیا دو‪ ۲‬رکعت پڑھ کر دعا مانگی‪ :‬الہی!‬
‫ُ‬
‫مجھے کوئی نیک ہم نشین میسر فرما۔ پھر ایک قوم کی طرف گیا ان کے پاس بیٹھا تو ایک شیخ تشریف الئے میرے‬
‫ٰ‬ ‫ُ‬
‫برابر آکر بیٹھ گئے میں نے پوچھا یہ کون ہیں؟ لوگوں نے کہا ابودردأ رضی اہلل تعالی عنہ۔ میں نے کہا میں نے اہلل عزوجل‬
‫ٰ‬ ‫ُ‬
‫سے دعا کی تھی کہ کوئی نیک ہم نشین مجھے میسر کرے‪ ،‬اہلل تعالی نے آپ مالدئیے۔ فرمایا‪ :‬تم کون ہو؟ میں نے کہا‬
‫اہل کوفہ سے۔ فرمایا‪:‬اولیس عندکم ابن ام عبد صاحب النعلین والوسادۃ والمطھرۃ ‪؎۲‬۔ کیا تمہارے پاس عبداہلل بن‬ ‫ِ‬
‫مسعود نہیں‪ 5‬وہ نعلین ومسند خواب وظروف وضو وطہارت والے۔‬

‫یعنی جن کے متعلق یہ خدمتیں تھیں کہ حضور اقدس‪ Z‬صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم‬
‫جس مجلس میں تشریف فرما ہوں نعلین اُٹھا کر رکھیں اُٹھتے وقت سامنے‬
‫اوقات نماز پر پانی حاضر الئیں ظاہر ہے‬
‫ِ‬ ‫حاضر کریں سوتے وقت بچھونا بچھائیں‬
‫کہ انہیں خلوت وجلوت ہر حالت میں کیسی مالزمت دائمی کی دولت عطا‬
‫فرمائی پھر ان کے علم کے بعد کسی کی کیا حاجت ہے قالہ القاضی کمانقلہ فی‬
‫المرقاۃ ‪ ۱۲‬منہ رضی الل ّٰہ تعالٰی عنہ (م)‬
‫‪)۱/۵۳۱‬‬ ‫قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح بخاری مناقب عبداللہ بن مسعود‬
‫ہّٰلل‬
‫حدیث ‪ :۳۴‬سنن ابی داؤد میں ہے‪ :‬حدثنا قتیبۃ ناعبدا بن نافع عن ابی مودود عن سلیمن بن ابی‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫یحییعن ابن عمر رضی ا تعالی عنھا قال ما جمع رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم بین المغرب‬
‫والعشاء قط فی السفر اال مرۃ ‪؎۱‬‬
‫(یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ‬
‫صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کسی سفر میں مغرب وعشاء مالکر نہ‬
‫پڑھی سوا ایک بار کے) ظاہر ہے کہ وہ بار وہی سفر حجۃ الوداع ہے کہ شب نہم‬
‫ذی الحجہ مزدلفہ میں جمع فرمائی جس پر سب کا اتفاق ہے۔‬
‫‪۱/۱‬‬ ‫آفتاب عالم پریس الہور‬ ‫کتاب الصل ٰوۃ باب الجمع بین الصالتین‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن ابی داؤد‬
‫‪)۷۱‬‬
‫اقول‪ :‬اس حدیث کی سند حسن جید ہے‪ ،‬قتیبہ توقتیبہ ہیں ثقہ ثبت رجال ست ّہ‬
‫من‬‫سے‪ ،‬اور عبداللہ بن نافع ثقہ صحیح الکتاب رجال صحیح مسلم سے اور سلی ٰ‬
‫بن ابی یحیٰی الباس بہ (اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ت) ابن حبان نے اُنہیں‬
‫ثقات تابعین میں ذکر کیا‪ ،‬رہے ابومودود وہ عبدالعزیز بن ابی سلیمن مدنی ہذلی‬
‫مقبول ہیں کمافی التقریب۔ حافظ الشان نے تہذیب التہذیب میں فرمایا‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫سلیمن بن ابی یحی ی حجازی روی عن ابی ھریرۃ وابن عمر‪ ،‬وعنہ ابن عجالن وداؤد بن قیس وابومودود‬
‫ٰ‬
‫عبدالعزیز بن ابی سلیمن‪ ،‬قال ابوحاتم‪ ،‬مابحدیثہ باس‪ ،‬وذکرہ ابن حبان فی الثقات‪ ،‬روی لہ ابوداود‬
‫حدیثا واحدا فی الجمع بین المغرب والعشاء ‪؎۱‬۔‬
‫‪)۴/۲۲۸‬‬ ‫مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد‬ ‫را وی ‪۳۷۹‬‬ ‫(‪ ؎۱‬تہذیب التہذیب‬
‫ّ‬
‫ثم اقول‪ :‬بعد نظافت سند مثل حدیث کا بروایت ایوب عن نافع عن ابن عمر بلفظ لم یرابن عمر جمع‬
‫بینھما قط االتلک اللیلۃ‬
‫(ابن عمر کو نہیں دیکھا کہ دو‪ ۲‬نمازوں کو جمع کیا ہو سوائے اس رات کے۔ ت)‬
‫مروی ہونا کچھ مضر نہیں اگر یہاں نافع فعل ابن عمر اور وہاں ابن عمر فعل‬
‫سیدالبشر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روایت کریں کیا منافات ہے خصوصا ً یروی‬
‫عن ایوب معضل ہے اور معضل ماّل جی کے نزدیک محض مردود ومہل اور وہ بھی‬
‫بصےغہ مجہول کو غالبا ً مشیر ضعف ہے تو ایسی تعلیق حدیث سند متصل کے‬
‫کب معارض ہوسکتی ہے۔‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫حدیث ‪ :۳۵‬مؤطائے امام محمد میں ہے‪ :‬قال محمد بلغنا عن عمر بن الخطاب رضی ا تعالی عنہ‬
‫ٰ‬
‫انہ کتب فی االفاق یناھھم ان یجمعوا بین الصالۃ واخبرھم ان الجمع بین الصالتین فی وقت واحد‬
‫کبیرۃ من الکبائر اخبرنا بذلک الثقات عن العالء بن الحارث عن مکحول ‪؎۲‬۔‬
‫(یعنی امیرالمؤمنین امام العادلین ناطق بالحق والصواب عمرفاروق اعظم رضی‬
‫اللہ تعالٰی عنہ نے تمام آفاق میں فرمان واجب االذعان نافذ فرمائے کہ کوئی‬
‫شخص دو‪ ۲‬نمازیں جمع نہ کرنے پائے اور اُن میں ارشاد فرمادیا کہ ایک وقت‬
‫میں دو‪ ۲‬نمازیں مالنا گنا ِہ کبیرہ ہے)‬
‫مطبوعہ آفتاب عالم‬ ‫باب الجمع بین اصالتین فی السفر والمطر‬ ‫(‪ ؎۲‬مؤطا امام احمد‬
‫پریس الہور ص ‪)۱۳۲‬‬
‫الحمد للہ امام عادل فاروق الحق والباطل نے حق واضح فرمادیا اور اُن کے‬
‫فرمانوں پر کہیں سے انکار نہ آنے نے گویا مسئلے کو درجہ اجماع تک مترقی کیا۔‬
‫جت ہے عالء بن الحارث تابعی‬‫اقول‪ :‬یہ حدیث بھی ہمارے اصول پر حسن جید ح ّ‬
‫صدوق حقیہ رجال صحیح مسلم وسنن اربعہ سے ہیں۔‬
‫واختالطہ الیضر عندنا مالم یثبت االخذ بعدہ فقد ذکر المحقق علی االطالق فی فتح القدیر کتاب‬
‫الصالۃ باب الشھید حدیث احمد ثنا عفان بن مسلم ثنا حماد بن سلمۃ ثنا عطاء بن السائب ومعلوم‬
‫ان عطاء بن السائب ممن اختلط فقال ارجوان حماد بن سلمۃ ممن اخذ منہ قبل التغیر ثم ذکر‬
‫ً‬
‫الدلیل علیہ ثم قال وعلی االبھام الینزل علی الحسن ‪؎۱‬۔ (ملخصا)‬
‫عالء کا مختلط ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ یہ روایت‬
‫اس سے اختالط سے بعد لی گئی ہے۔ کیونکہ شیخ ابن ہمام نے فتح القدیر کی‬
‫کتاب الصلٰوۃ باب الشہید میں احمد کی روایت ذکر کی ہے جس کا ایک راوی‬
‫عطاء ابن سائب ہے۔ اور عطاء ابن سائب کا مختلط ہونا سب کو معلوم ہے‪ ،‬مگر‬
‫ابن ہمام نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت عطاء کے‬
‫اختالط میں مبتال ہونے سے پہلے اس سے اخذ کی ہوگی۔ پھر اس کی دلیل بیان‬
‫کی اور کہا کہ اگر ابہام پایا بھی جائے تو حسن کے درجے سے کم نہیں ہے۔ (ت)‬
‫‪)۲/۱۰۴‬‬ ‫مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر‬ ‫کتاب الصلٰوۃ باب الشہید‬ ‫(‪ ؎۱‬فتح القدیر‬
‫اور امام مکحول ثقہ فقیہ حافظ جلیل القدر بھی رجال مسلم واربعہ سے ہیں۔‬
‫والمرسل حجۃ عندنا وعند الجمھور اما ابھام شیوخ محمد فتوثیق المبھم مقبول عندنا کمافی‬
‫المسلم وغیرہ السیما من مثل االمام محمد ومع قطع النظر عنہ فلقائل ان یقول قدانجبر بالتعدد فی‬
‫فتح المغیث فی ذکر الملقوب رونیاھا‪ 5‬فی مشایخ البخاری البی احمد بن عدی قال سمعت عدۃ‬
‫مشایخ یحکون وذکرھا ومن طریق ابن عدی رواھا الخطیب فی تاریخہ وغیرہ والیضر جھالۃ شیوخ ابن‬
‫عدی فیھا فانھم عدد ینجبر بہ جھالتھم ‪؎۲‬۔‬
‫مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ رہا محمد کے اساتذہ کا مبہم ہونا‪،‬‬
‫تو مبہم کی توثیق ہمارے نزدیک نزدیک مقبول ہے‪ ،‬جیسا کہ مسلم وغیرہ میں ہے‪،‬‬
‫خصوصا ً جب توثیق کرنے والی امام محمد جیسی ہستی ہو‪ ،‬اور اس سے قطع‬
‫نظر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ متعدد اسنادوں سے مروی ہونے کی وجہ سے اس‬
‫کی یہ خامی دور ہوگئی ہے۔ فتح المغیث میں مقلوب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ‬
‫''مشائخ البخاری'' میں احمد ابن عدی سے مروی ہے کہ میں نے متعدد مشائخ کو‬
‫یہ حدیث بیان کرتے سنا ہے۔ ابن عدی ہی کے واسطے سے یہ بات خطیب نے بھی‬
‫اپنی تاریخ میں ذکر کی ہے اور دےگر علماء نے بھی۔ اور ابن عدی کے اساتذہ کا‬
‫مبہم ہونا مضر نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ‬
‫مجہول نہیں رہتے۔ (ت)‬
‫‪)۱/۳۲۱‬‬ ‫مطبوعہ بیروت‬ ‫داراالمام الطبری‬ ‫(‪ ؎۲‬فتح المغیث المقلوب‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫حدیث ‪ :۳۶‬امام محمد رضی اہلل تعالی عنہ آثار ماثورہ کتاب الحجج عیسی بن ابان میں روایت‬
‫ٰ‬
‫فرماتے ہیں‪ :‬اخبرنا اسمعیل بن ابرھیم البصری عن خالد الحذاء عن حمید بن ھالل عن ابی قتادۃ‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫العدوی قال سمعت قراء ۃ کتاب عمر بن الخطاب رضی ا تعالی عنہ ثلث من الکبائر الجمع بین‬
‫الصالتین والفرار من الزجف والنھبۃ ‪؎۱‬‬
‫(یعنی حضرت ابوقتادہ عدوی کہ اجلہ اکابر وثقات تابعین سے ہیں بلکہ بعض نے‬
‫ا ُنہیں صحابہ میں گنا‪ ،‬فرماتے ہیں میں نے امیرالمومنین فاروق اعظم‪ Z‬رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہ کا شقّہ وفرمان سنا کہ تین‪ ۳‬باتیں کبیرہ گناہوں سے ہیں‪ :‬دو‪ ۲‬نمازیں‬
‫جمع کرنا اور جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا اور کسی کا مال لُوٹ لینا)‬
‫‪)۱/۱۶۵‬‬ ‫دارالمعارف النعمانیہ الہور‬ ‫(‪ ؎۱‬کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصالتین‬
‫معیل بن ابراہیم‬‫اقول‪ :‬یہ حدیث اعلٰی درجہ کی صحیح ہے اس کے سب رجال اس ٰ‬
‫ابن علیہ سے آخر تک ائمہ ثقات عدول رجال صحیح مسلم سے ہیں وللہ الحمد۔‬
‫لطیفہ‪ :‬حدیث مؤطا کے جواب میں تو ماّل جی کو وہی اُن کا عذر معمولی عارض‬
‫ہواکہ منع کرنا عمر کا حالت اقامت میں بالعذر تھا۔‬
‫اقول‪ :‬اگر ہرجگہ ایسی ہی تخصیص تراش لینے کا دروازہ کھُلے تو تمام احکام‬
‫شرعیہ سے بے قیدوں کو سہل چھٹی ملے جہاں چاہیں کہہ دیں یہ حکم خاص‬
‫فالں لوگوں کے لئے ہے‪ ،‬حدیث صحیحین کو تین طرح رد کرنا چاہا‪:‬‬
‫اوّل ‪ :‬انکار جمع اس سے بطور مفہوم نکلتا ہے اور حنفیہ قائل مفہوم نہیں‪ ،‬اس‬
‫جواب کی حکایت خود اُس کے َرد میں کفایت ہے اُس سے اگر بطور مفہوم‬
‫نکلتی ہے تو مزدلفہ کی جمع کہ مابعد اال ہمارے نزدیک مسکوت عنہ ہے انکار‬
‫جمع تو اس کا صریح منطوق ومدلول مطابقی ومنصوص عبارۃ النص ہے۔‬
‫اقول‪ :‬اوال اُس کی نسبت اگر بعض اجلہ شافعیہ کے قلم سے براہ بشریت لفظ‬
‫حرمت تقلید ابوحنیفہ وشافعی کو کیا الئق‬ ‫ماّل جی مدعی اجتہاد و ُ‬
‫مفہوم نکل گیا ُ‬
‫تھا کہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم َرد کرنے کیلئے ایسی بدیہی غلطی میں‬
‫ایک متأخر مقلد کی تقلید جامد کرتے شاید رد ِ احادیث صحیحہ میں یہ شرک‬
‫صریح جائز وصحیح ہوگا اب نہ اُس میں شائبہ نصرانیت ہے نہ‬
‫اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا ً من دون الل ّٰہ ‪( ؎۲‬انہوں نے اپنے عالموں‬
‫اور راہبوں کو اللہ کے عالوہ اپنا رب بنالیا۔ ت) کی آفت کبر مقتا عندالل ّٰہ ان‬
‫جرم ہے کہ تم اس کام کا کہو جو‬ ‫تقولوا ماالتفعلون ‪( ؎۳‬اللہ کے نزدیک بڑا ُ‬
‫خود نہیں کرتے۔ ت)‬
‫‪)۶۱/۳‬‬ ‫‪ ؎۳‬القرآن‬ ‫‪۹/۳۱‬‬ ‫(‪ ؎۲‬القرآن‬
‫ثانیا‪ :‬بفرض غلط مفہوم ہی سہی اب یہ نامسلّم کہ حنفیہ اس کے قائل نہیں‬
‫صرف عبارات شارع غیر متعلقہ بعقوبات میں اس کی نفی کرتے ہیں کالم صحابہ‬
‫ومن بعدہم من العلماء میں مفہوم مخالف بے خالف مرعی ومعتبر کمانص علیہ‬
‫فی تحریر االصول والنھر الفائق والدرالمختار وغیرھا من االسفار قد ذکرنا نصوصھا فی رسالتنا القطوف‬
‫اّل‬
‫الدانیۃ لمن احسن الجماعۃ الثانیۃ ‪۱۳‬۔ دوم‪ :‬ایک رام پوری م سے نقلہّٰلل کیا کہ ہّٰلل ِ‬
‫ابن‬
‫مسعود سے مسند ابی یعلی میں یہ روایت بھی ہے کہ کان رسول ا صلی ا علیہ‬
‫وسلم یجمع بین الصالتین فی السفر ‪( ؎۱‬رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں‬
‫دو نمازیں جمع کرتے تھے۔ ت)‬
‫‪۵/‬‬ ‫مطبوعہ علوم القرآن بیروت‬ ‫حدیث ‪۵۳۹۱‬‬ ‫مسند ابن مسعود‬ ‫(‪ ؎۱‬مسند ابویعلی‬
‫‪)۱۸۱‬‬
‫تو موجہ ہے کہ حدیث صحیحین کو حالت نزول منزل اور روایت ابی یعلی کو‬
‫حالت سیر پر حمل کریں یہ مذہب امام مالک کی طرف عود کرجائے گا۔‬
‫اوّال ً ماّل جی خود ہی اسی بحث میں کہہ چکے ف‪ ۱‬ہوکہ شاہ صاحب نے مسند ابی‬
‫یعلی کو طبقہ ثالثہ میں جس میں سب اقسام کی حدیثیں صحیح حسن غریب‬
‫معروف شاذ منکر مقلوب موجود ہیں ٹھہرایا ہے‪ ،‬پھر خود ہی اس طبقے کی‬
‫کتاب کو کہا ف‪ ۲‬اس کتاب کی حدیث بدون تصحیح کسی محدّث کے یا پیش‬
‫کرنے سند کے کیونکر تسلیم کی جاوے یہ کتاب اُس طبقے کی ہے جس میں‬
‫سب اقسام کی حدیثیں صحیح اور سقیم مختلط ہیں یہ کیا دھرم ہے کہ اوروں پر‬
‫منہ آؤ اور اپنے لیے ایک رام پوری ماّل کی تقلید سے حالل بتاؤ اتخذوا احبارھم‬
‫ورھبانھم ‪؎۲‬۔‬
‫(‪ ؎۲‬القرآن ‪)۹/۳۱‬‬
‫)‬ ‫ص ‪۴۰۰‬‬ ‫ف‪ ۲‬معیارالحق‬ ‫(ف‪ ۱‬معیارالحق ص ‪۳۹۷‬‬
‫ماّل جی! کسی ذی علم سے التجا کرو تو وہ تمہیں صریح ومجمل‬ ‫ثانیا‪ :‬اقول‪ُ :‬‬
‫ومتعین ومحتمل کا فرق سکھائے حدیث صحیحین انکار جمع حقیقی میں نص‬
‫صریح ہے اور روایت ابویعلٰی حقیقی جمع کا اصال ً پتا نہیں دیتی بلکہ احادیث جمع‬
‫صوری میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیثیں صاف صاف جمع‬
‫صوری بتارہی ہیں تمہاری ذی ہوشی کہ نص ومحتمل کو لڑاکر اختالف محامل‬
‫سے را ِہ توفیق ڈھونڈتے ہو۔‬
‫ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی‬
‫ِ‬ ‫قابل تماشا ہے کہ‬‫ِ‬ ‫ماّل جی کا اضطراب‬‫لطیفہ‪ :‬اقول ُ‬
‫عنہ کو کہیں راوی‪ Z‬جمع ٹھہرا کر عدد رواۃ پندرہ بتاتے ہیں کہیں نافی سمجھ کر‬
‫چودہ صدر کالم میں جہاں راویان جمع گنائے صاف صاف کہا ابن مسعود فی‬
‫ابن‬
‫ِ‬ ‫احدی الروایتین اب رامپوری ماّل کی تقلید سے وہ احدی الروایتین بھی گئی‬
‫مسعود خاصے مبثتان جمع میں ٹھہرگئے۔‬
‫ماّل جی بہت ہی علق نفیس سمجھے ہُوئے ہیں اُن دو کو عربی میں‬ ‫سوم‪ :‬جسے ُ‬
‫بولے تھے یہاں چمک چمک کر اردو‪ Z‬میں چہک رہے ف‪ ۳‬ہیں کہ اگر کہو جس جمع‬
‫کو ابن مسعود نے نہیں دیکھا وہ درست نہیں تو تم پر یہ پہاڑ مصیبت کا ٹوٹے گاکہ‬
‫جمع بین الظہر اور عصر کو عرفات میں کیوں درست کہتے ہو باوجودیکہ اس‬
‫قول ابن مسعود کے سے تو نفی جمع فی العرفات کی بھی مفہوم ہوتی ہے پس‬
‫جو تم جواب رکھتے ہو اُسی کو ہماری طرف سے سمجھو یعنی اگر کہو نہ ذکر‬
‫ابن مسعود کا جمع فی العرفات کو بنا بر شہرت عرفات کے تھا تو ہم کہیں‬ ‫ِ‬ ‫کرنا‬
‫گے کہ جمع فی السفر بھی قرن صحابہ میں مشہور تھی کیونکہ چودہ صحابی‬
‫ابن مسعود نے اس کا‬
‫ِ‬ ‫سوا ابن مسعود کے اُس کے ناقل ہیں تو اسی واسطے‬
‫استشنا نہ کیا اور اب محمل نفی کا جمع بالعذر ہوگی اور اگر کہو کہ جمع فی‬
‫العرفات بالمقائسہ معلوم ہوتی ہے تو ہم کو کون مانع ہے مقائسہ سے وعلٰی ہذا‬
‫القیاس جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا ہے۔‬
‫ص ‪) ۴۱۶‬‬ ‫(ف‪ ۳‬معیارالحق‬
‫سبد بناکر سب سے اوّل ذکر کیا اُن دو کی تو‬ ‫ل سر َ‬‫ماّل جی نے گ ُ ِ‬
‫اس جواب کو ُ‬
‫امام نووی وسالم اللہ رامپوری کی طرف نسبت کی مگر اسے بہت پسند کرکے‬
‫بالنقل ونسبت اپنے نامہ اعمال میں ثبت رکھا حاالنکہ یہ بھی کالم امام نووی میں‬
‫مذکور اور فتح الباری وغیرہ میں ماثور تھا شہرت جمع عرفات سے جو جواب‬
‫امام محقق علی االطالق‪ Z‬محمد بن الہمام وغیرہ علمائے اعالم‪ Z‬حنفیہ کرام نے‬
‫افادہ فرمایا اُس کا نفیس وجلیل مطلب ماّل جی کی فہم تنگ میں اصال ً نہ دھنسا‬
‫اجتہاد کے نشہ میں ادعائے باطل شہرت جمع سفر کا آوازہ کسا‪ ،‬اب فقیر غفرلہ‬
‫سنےے فاقو ل وبحو ل ربی اصول اوّال ً ماّل جی‬ ‫المولی القدیر سے تحقیق حق ُ‬
‫ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے‬ ‫ِ‬ ‫جواب علماء کا یہ مطلب سمجھے کہ سیدنا‬
‫دیکھیں تو تین نمازیں غیر وقت میں مگر دو‪ ۲‬ذکر کیں مغرب وصبح مزدلفہ ا ور‬
‫تیسری یعنی عصر عرفہ کو بوجہ شہرت ذکر نہ فرمایا جس پر آپ نے یہ کہنے‬
‫کی گنجائش سمجھی کہ یونہی جمع سفر بھی بوجہ شہرت ترک کی اس ادعائے‬
‫باطل کا لفافہ تو بحمداللہ تعالٰی اوپر کھل چکا کہ شہرت درکنار نفس ثبوت کے‬
‫اللے پڑے ہیں حضرت نے چودہ‪ ۱۴‬صحابہ کرام کا نام لیا پھر آپ ہی دس‪ ۱۰‬سے‬
‫دست بردار ہوئے چار‪ ۴‬باقی ماندہ میں دو‪ ۲‬کی روایتیں نِری بے عالقہ اُتر گئیں‪،‬‬
‫رہے دو‪ ،۲‬وہاں بعون ٖہ تعالٰی وہ قاہر باہر جواب پائے کہ جی ہی جانتا ہوگا‪ ،‬اگر‬
‫قرن صحابہ میں‬ ‫ِ‬ ‫بالفرض دو‪ ۲‬سے ثبوت ہوبھی جاتا تو کیا صرف دوکی روایت‬
‫شہرت ہے‪ ،‬مگر یہاں تو کالم ِ علماء کا وہ مطلب ہی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ‬
‫حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے صرف انہیں دو‪ ۲‬نمازوں‬
‫عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کا غیر وقت میں پڑھنا ثابت‪ ،‬انہیں دو‪ ۲‬کو ابن مسعود‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھا انہیں دونوں کو صالتین کہہ کر یہاں شمار فرمایا‬
‫اگرچہ تفصیل میں بوجہ شہرت عامہ تامہ ایک کا نام لیا صرف ذکر مغرب پر‬
‫اقتصار فرمایا ایسا اکتفا کالم صحیح میں شائع‪ ،‬قال عزوجل‪:‬وجعل لکم‬
‫سرابیل تقیکم الحر ‪( ؎۱‬اور تمہارے لےے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے‬
‫بچاتے ہیں۔ ت)‬
‫‪)۱۶/۸۱‬‬ ‫(‪ ؎۱‬القرآن‬
‫خود انہیں نمازوں کے بارے میں امام سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی‬
‫عنہم کا ارشاد دیکھئے کہ پوچھا گیا کیا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سفر میں‬
‫کوئی نماز جمع کرتے تھے؟ فرمایا‪ :‬ال االبجمع (نہ مگر مزدلفہ میں) کماقدمنا عن‬
‫سنن النسائی۔ ماّل جی! یہاں بھی کہہ دیجیو کہ جمع سفر کو شہر ًۃ چھوڑ دیا ہے‪،‬‬
‫سنےے امام ترمذی اپنی صحیح میں فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫اور ُ‬
‫العمل علی ھذا عند اھل العلم ان الیجمع بین الصالتین اال فی السفر اوبعرفۃ ‪؎۱‬۔ اہل علم کے‬
‫ہاں عمل اسی پر ہے کہ بغیر سفر کے اور یوم ِ عرفہ کے دو‪ ۲‬نمازیں جمع نہ کرے۔‬
‫(ت)‬
‫مطبوعہ رشیدیہ دہلی‬ ‫ابواب الصلوٰہ باب ماجاء فی الجمع بین اصالتین‬ ‫(‪ ؎۱‬جامع ترمذی‬
‫‪)۱/۲۶‬‬
‫ترمذی نے صرف نماز عرفہ کا استشناء کیا نماز مزدلفہ کو چھوڑ دیا تو ہے یہ کہ‬
‫دونوں جمعیں متالزم ہیں اور ایک کا ذکر دُوسری کا یقینا مذِکّر خصوصا ً نمازِ‬
‫عرفہ کہ اظہر واشہر تو مزدلفہ کا ذکر دونوں کا ذکر ہے غرض ان صالتین کی‬
‫جداگانہ کا افادہ ہے کہ دو‪۲‬‬
‫دوسری نمازِ ظہر عرفہ ہے نہ فجر نحر وہ مسئلہ ُ‬
‫نمازیں تو غیر وقت میں پڑھیں اور فجر وقت معمول سے پیشتر تاریکی میں اور‬
‫مت ہے کہ فجر حقیق ًۃ وقت سے پہلے نہ تھی نہ ہرگز کہیں کبھی‬ ‫اجماع ا ُ ّ‬
‫ِ‬ ‫بالشُ بہہ‬
‫اس کا جواز‪ ،‬اور خود اسی حدیث ابومسعود کے لفظ مسلم کے یہاں‬
‫بروایت جریر عن االعمش قال قبل وقتھا بغلس ‪ ؎۲‬اُس پر شاہد‪ ،‬اگر رات میں پڑھی جاتی‬
‫ذکر غلس کے کیا معنی تھے‬
‫‪۱‬‬ ‫مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی‬ ‫استحباب زیادۃ التغلیس الخ‬ ‫(‪ ؎۲‬صحیح مسلم‬
‫‪)/۴۱۷‬‬
‫صحیح بخاری میں تو تصریح صریح ہے کہ فجر بعد طلوع فجر پڑھی۔‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫اذقال حدثنا عبدا بن رجاء ثنا اسرائیل عن ابی اسحق عن عبدالرحمن بن یزید قال خرجنا مع‬
‫ہّٰلل‬
‫عبدا الی مکۃ ثم قدمنا جمعا (وفیہ) ثم صلی الفجر حین طلع الفجر الحدیث ‪؎۳‬‬
‫حق‬‫کہ ا‪ ،‬حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ ابن رجاء نے اسرائیل سے‪ ،‬اس نے ابواس ٰ‬
‫سے‪ ،‬اس نے عبدالرحمن سے کہ ہم عبداللہ کے ساتھ مک ّہ آئے‪ ،‬پھر مزدلفہ آئے۔‬
‫اس روایت میں ہے کہ پھر فجر پڑھی جب فجر طلوع ہُوئی‪ ،‬الحدیث۔‬
‫مطبوعہ قدیمی اصح‬ ‫(‪ ؎۳‬بخاری شریف کتاب المناسک باب متی یصلی الفجر بجمع‬
‫المطابع کراچی ‪)۱/۲۲۸‬‬
‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫وقال حدثنا عمروبن خالد ثنا زھیر ثنا ابواسحق سمعت عبدالرحمن بن یزید یقول حج عبدا رضی ا‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ فاتینا المزدلفۃ (وفیہ) فلما طلع الفجر قال ان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم کان‬
‫الیصلی ھذہ الساعۃ االھذہ الصالۃ فی ھذا المکان من ھذا الیوم الحدیث ‪؎۴‬۔‬
‫اور کہا‪ ،‬حدیث بیان کی عمر بن خالد نے زہیر سے‪ ،‬اس نے ابواسحاق سے کہ‬
‫سنا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حج‬
‫میں نے عبدالرحمن ابن یزید سے ُ‬
‫کیا تو ہم مزدلفہ کو آئے۔ اس میں ہے جب فجر طلوع ہُوئی تو کہا کہ نبی صلی‬
‫اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس وقت میں کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے مگر یہ نماز‪،‬‬
‫اِسی جگہ‪ ،‬اِسی دن‪ ،‬الحدیث۔ (ت)‬
‫مطبوعہ قدیمی اصح المطابع‬ ‫باب من اذن واقام لکل واحدۃ منہما‬ ‫(‪ ؎۴‬بخاری شریف‬
‫کراچی ‪)۱/۲۲۷‬‬
‫اور یہ بھی اجماع موافق ومخالف ہے کہ عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ حقیق ًۃ غیر‬
‫وقت میں پڑھیں تو فجر نحر ومغرب مزدلفہ کا حکم یقینا مختلف ہے ہاں عصر‬
‫عرفہ ومغرب مزدلفہ متحد الحکم‪ Z‬اور غیر وقت میں پڑھنے کے حقیقی معنی‬
‫انہیں کے ساتھ خاص اور جب تک حقیقت بنتی ہو مجاز کی طرف عدول جائز‬
‫نہیں نہ جمع بین الحقیقۃ والمجاز ممکن خصوصا ً ماّل جی کے نزدیک تو جب تک‬
‫مانع قطعی موجود نہ ہو ظاہر پر حمل واجب اور شک نہیں کہ بے وقت پڑھنے‬
‫سے ظاہر ومتبادر وہی معنی ہیں جو اُن عصر ومغرب میں حاصل نہ وہ کہ فجر‬
‫میں واقع‪ Z‬تو واجب ہوا کہ جملہ صلّی الفجر اُن صالتین کا بیان نہ ہو بلکہ یہ جملہ‬
‫مستقلہ ہے اور صالتَین سے وہی عصر ومغرب مراد تو اُن میں اصال ً کسی کا ذکر‬
‫ہرگز متروک نہیں‪ ،‬ہاں تفصیل میں پتے کیلئے ایک ہی کا نام لیا بوجہ کمال اشتہار‬
‫دوسری کا ذکر مطوی کیا بحمداللہ یہ معنی ہیں جواب علماء کے جس سے‬
‫مالّجی! اب اُس‬‫ماّل جی کی فہم‪ Z‬بمیس اور ناحق آنچہ انسان میکند کی ہوس‪ُ ،‬‬
‫برابری کے بڑے بول کی خبریں کہے کہ جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا سمجھئے‬
‫خدا کی شان ؎‬
‫اوگمان بردہ کہ من کردم چواو‬
‫فرق راکے بیند آں استیزہ جو‬
‫قلب فقیر پر القاء ہوئے پھر‬
‫ِ‬ ‫فائدہ‪ :‬یہ معنی نفیس فیض فتاح علیم جل مجدہ سے‬
‫سرہ مطالعہ میں آئی دیکھا تو بعین ٖہ یہی‬
‫ّ‬ ‫ارکان اربعہ ملک العلماء بحرالعلوم قدس‬
‫ِ‬
‫ّ‬ ‫ٰ‬
‫معنی افادہ فرمائے ہیں والحمدلل ہ علی حسن التفھیم ارشاد فرماتے ہیں رحمۃ اللہ‬
‫تعالٰی علیہ‪:‬‬
‫وایضا‪،‬خبرالجمع انما نقلوا فی غزوۃ تبوک‪،‬وکان‪ 5‬فی تلک الغزوۃ االف من الرجال‪ ،‬و کان کل صلوا‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫خلف رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم‪ ،‬ولم یخبر منھم االواحد اواثنان‪ ،‬ولم یشتھر‪ ،‬ولم یروغیرہ‪،‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫بل بعض الحاضرین انکروا ذلک‪ ،‬حتی قال ابن مسعود‪ :‬مارأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم‬
‫ٰ‬
‫صلی صالۃ لغیر میقاتھا؛ االصلی صلوتین جمع بین المغرب والعشاء بجمع‪ ،‬وصلی الفجر یومئذ قبل‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫میقاتھا‪ ،‬رواہ الشیخان وابوداود والنسائی‪ ،‬فنفی ابن مسعود‪ ،‬الذی قال فیہ رسول ا صلی ا تعالی‬
‫ُّ‬
‫علیہ وسلم‪ :‬تمسکوا بعھد ابن ام عبد‪ ،‬تقدیم صالۃ عن الوقت وتاخیرھا‪ ،‬واخبر بانہ لم یقع االفی‬
‫ٰ‬
‫صالتین‪ ،‬بین احدھما‪ ،‬وھو المغرب بجمع اخرھا الی وقت العشاء ‪ ،‬ولم یبین االخر‪ ،‬وھو العصر یوم عرفۃ‪،‬‬
‫ٰ‬
‫بتقدیمہ فی وقت الظھر‪ ،‬لشھرتہ‪ ،‬ولیعلم بالمقایسۃ‪ ،‬واخبر خبرا اخر‪ ،‬وھو تقدیم الفجر عن الوقت‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫المسنون المعتاد عندہ صلی ا تعالی علیہ وسلم۔ واذا کان حال خبر الجمع ماذکرنا وجب ردہ‬
‫اوتاویلہ ‪؎۱‬۔‬
‫نیز دو نمازوں کو جمع کرنے کی خبر صرف غزوہ تبوک میں منقول ہے اور اس‬
‫غزوے میں ہزاروں لوگ شامل تھے اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں تھیں‪ ،‬مگر ایک یا دو کے عالوہ کسی نے جمع‬
‫کرنے کا ذکر نہیں کیا‪ ،‬نہ یہ بات مشہور ہُوئی‪ ،‬اس روایت کے عالوہ جمع کی‬
‫کوئی روایت نہیں آئی ہے‪ ،‬بلکہ بعض حاضرین تبوک نے اس جمع سے صاف انکار‬
‫ابن مسعود رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ‬ ‫ِ‬ ‫کیا ہے‪ ،‬حتی کہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن ام عبد (یعنی ابن مسعود) کی باتوں سے‬
‫تمسک کیا کرو نے فرمایا ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ‬
‫تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی نماز بغیر وقت کے پڑھی ہو مگر دو‪ ۲‬نمازیں‪ ،‬مزدلفہ‬
‫میں مغرب وعشاء کو جمع کیا اور اس دن فجر کی نماز اپنے وقت سے پہلے‬
‫پڑھی۔ بحوالہ بخاری‪ ،‬مسلم‪ ،‬ابوداؤد‪ ،‬نسائی اس طرح ابن مسعود نے نماز کی‬
‫اپنے وقت سے تقدیم وتاخیر کی نفی کردی ہے اور بتادیا ہے کہ ایسا صرف دو‪۲‬‬
‫نمازوں میں ہُ وا تھا‪ ،‬جن میں سے ایک نماز کا تو انہوں نے ذکر کردیا‪ ،‬یعنی‬
‫مزدلفہ کی مغرب‪ ،‬کہ اس کو عشاء تک مؤخر کیا تھا‪ ،‬مگر دوسری نماز کا ذکر‬
‫نہیں کیا‪ ،‬یعنی عرفہ کی عصر کا‪ ،‬کہ اس کے ظہر کے وقت میں مقدم کرکے‬
‫پڑھاتھا‪ ،‬عدم ِ ذکر کی وجہ‪ ،‬اس کا مشہور ہونا ہے‪ ،‬نیز یہ بات قیاس سے بھی‬
‫معلوم ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس کی بجائے انہوں نے دوسرا‪ Z‬واقعہ بیان کردیا کہ‬
‫فجر کو‪ ،‬رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسنون اور اپنے معتاد وقت‬
‫سے پہلے پڑھا‪ ،‬تو جب جمع کی روایت کا حال یہ ہے جو ہم نے ذکر کیا‪،‬‬
‫توضروری ہے کہ یاتو اس کو َرد کردیا جائے یا کوئی تاویل کی جائے۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مطبع علوی انڈیا‬ ‫تتمہ فی الجمع بین اصالتین‬ ‫لبحر العلوم‬ ‫(‪ ؎۱‬ارکان اربعہ‬
‫ص ‪)۱۴۶‬‬
‫اور اس کے مطالعہ سے بحمداللہ تعالٰی ایک اور توارد حسن معلوم ہوا فقیر‬
‫غفرلہ نے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے پہلے جواب میں غروب‬
‫شفق کو قرب غروب پر حمل اور اس محتمل کو اُن نصوص صریحہ مفسرہ کی‬
‫طرف رد کیا اور قصہ مرویہ ابن عمر کو واحد بتایا تھا بعین ٖہ یہی مسلک ملک‬
‫العلماء نے اختیار فرمایا‪ ،‬فرماتے ہیں‪:‬‬
‫بل المراد بغروب الشفق‪ ،‬قرب غروبہ‪ ،‬الن القصۃ واحدۃ‪ ،‬وماذکرنا من قبل مفسرال یقبل التاویل‪،‬‬
‫ّ‬
‫فیاو ل بقرب غروب الشفق‪ ،‬اویقال‪ :‬ھذا من وھم بعض الرواۃ‪ ،‬واماما ذکرنا اوال‪ ،‬فھو مطابقلالمر‪ 5‬المتقرر‬
‫فی الشرع من تعیین االوقات ‪؎۱‬۔‬
‫صہ ایک ہی ہے اور ہم‬‫غروب شفق سے مراد غروب کے قریب ہونا ہے کیونکہ ق ّ‬ ‫ِ‬
‫سر ہے‪ ،‬تاویل کا احتمال نہیں رکھتی‪ ،‬اس‬ ‫نے پہلے جو روایت بیان کی ہے وہ مف ّ‬
‫قرب غروب سے تاویل کرنی پڑے گی‪ ،‬یا یہ کہا جائے‬ ‫ِ‬ ‫لئے یا تو غروب شفق کی‪،‬‬
‫گا کہ یہ کسی راوی کا وہم ہے اور پہلی جو ہم نے روایت ذکر کی ہے‪ ،‬وہ شرع‬
‫میں جو کچھ مقرر ہوچکا ہے یعنی تعیین اوقات‪ ،‬اس کے مطابق ہے۔ (ت)‬
‫ص ‪ ۱۴۷‬و ‪)۱۴۸‬‬ ‫(‪ ؎۱‬رسائل االرکان تتمہ فی الجمع بین اصالتین مطبوعہ مطبع علوی‬
‫بحمداللہ تعالٰی تیسرا توارد اور واضح ہوا حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫میں کالم ِ فقیر یاد کیجئے کہ اس روایت میں اسی طرح مقال واقع ہوئی مگر‬
‫فقیر کہتا ہے اس کا کون سا حرف جمع حقیقی میں نص ہے الخ بعین ٖہ یہی طریقہ‬
‫مع شی زائد موالنا بحر قدس سرہ‪ ،‬چلے بعد عبارت مذکور فرماتے ہیں‪:‬‬
‫اما جمع التقدیم فلم یرو االفی الروایات الشاذۃ ال اعتداد بھا عند سطوع شمس القاطع ثم لیس فی‬
‫روایۃ ابی داود عن معاذ مایدل علی تقدیم العصر عن وقتھا؛ وانما فیہ‪ ،‬اذازاغت الشمس قبل ان‬
‫ٰ ٰ‬
‫یرتحل جمع بین الظھر والعصر‪ ،‬ویجوز انیکون الجمع بان یؤخر الظھر الی اخر وقتھا ویعجل العصر اول‬
‫وقتھا۔ او ان المراد بالجمع‪ ،‬الجمع فی نزول واحد؛ وانکانتا ادیتا فی وقتیھا فافھم۔ ھکذا ینبغی ان یفھم‬
‫المقام ‪؎۲‬۔‬
‫رہی جمع تقدیم‪ ،‬تو اس کا ذکر صرف شاذ روایات میں ہے اور قطعی دلیل کا‬
‫سورج طلوع ہونے کے بعد ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ پھر ابوداود‪ Z‬کی روایت میں‬
‫ایسا لفظ ہے بھی نہیں جو عصر کی اپنے وقت سے تقدیم پر داللت کرتا ہو۔ اس‬
‫سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر‬ ‫میں تو صرف اتنا ہے کہ اگر روانگی سے پہلے ُ‬
‫کو جمع کرلیتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ جمع اسی طرح کرتے ہوں کہ ظہر کو آخر‬
‫وقت تک مؤخر کردیتے ہوں اور عصر اوّل وقت میں پڑھ لیتے ہوں۔ یہ بھی کہا‬
‫جاسکتا ہے کہ جمع سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو پڑھنے کیلئے ایک ہی مرتبہ اُترتے‬
‫تھے‪ ،‬اگرچہ ادا اپنے اپنے وقت میں کرتے تھے۔ اس کو سمجھو۔ اسی طرح اس‬
‫مقام کو سمجھنا چاہے۔ (ت)‬
‫صـــ ‪)۱۴۸‬‬ ‫(‪ ؎۲‬رسائل االرکان تتمہ فی الجمع بین اصالتین مطبوعہ مطبع علوی‬
‫اور واقعی بحمداللہ تعالٰی یہ تینوں مطالب عالیہ وہ جواہر غالیہ ہیں جن کی قدر‬
‫ل انصاف ہی جانیں گے عالمہ بحر قدس سرہ‪ ،‬سا فاضل جامع اجل واغر دقیق‪Z‬‬ ‫اہ ِ‬
‫النظر اگر ایک بیان مسلسل مجمل مختصر میں اُنہیں افادہ فرماجائے ان کی‬
‫شان تدقیق‪ Z‬سے کیا مستبعد پھر بھی ایک رنگ افتخار اُن کے کالم سے مترشح کہ‬
‫فرماتے ہ یں ھکذا ینبغی ان یفھم المقام مگر فقیر حقیر قاصر فاتر پر ان جالئل‬
‫قدسیہ زاہرہ اور اُن کے ساتھ اور دقائق وحقائق باہرہ مذکورہ کثیرہ وافرہ کا افادہ‬
‫محض عطیہ علیہ حضرت وہاب جواد بے سبقت استحقاق وتقدم استعداد ہے‬
‫ہّٰلل‬
‫ذلک فضل ا علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس الیشکرون‪ o‬ربی لک الحمد کماینبغی لجالل‬
‫ٰ‬
‫وجھک وکمال االئک ودفور نعمائک صل وسلم وبارک علی اکرم انبیائک محمد والہ‬
‫ٰ‬
‫وسائراصفیائک امین۔ موالنا قدس سرہ‪ ،‬ان نفائس عزیزہ کو بیان کرکے فرماتے ہیں‪ :‬انظر ماادق نظر‬
‫ائمتنا حیث التفوت عنھم دقیقۃ ‪؎۱‬۔ دیکھ تو ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی‬
‫نظر کیسی دقیق ہے کہ کوئی دقیقہ ان سے فروگزاشت‪ Z‬نہیں ہوتا۔ (ت)‬
‫مطبوعہ مطبع علوی انڈیا‬ ‫تتمہ فی الجمع بین اصالتین‬ ‫لبحر العلوم‬ ‫(‪ ؎۱‬ارکان اربعہ‬
‫ص ‪)۱۴۸‬‬
‫وکاشفان‬
‫ِ‬ ‫فقیر کہتا ہے ہاں واللہ آپ کے ائمہ اور کیا جانا کیسے ائمہ مالکان ازمہ‬
‫وشیران معارک ہیں کہ‬
‫ِ‬ ‫غُمہ ایسے ہی دقیق‪ Z‬النظر وعالی مدارک وشاہان بزم‬
‫منازل دقیق اجتہاد میں اوروں کے مساعی جمیلہ اُن کے توسن برق رفتار کی‬
‫گرد کونہ پہنچے اور کیوں نہ ہو کہ آخر وہ وہی ہیں کہ اگر ایمان وعلم ثریا پر معلق‬
‫ران بے بصر اُن کے معارج علیہ سے بے خبر‪ ،‬اگر آئینہ‬ ‫ِ‬ ‫ہوتا لے آتے آج کل کے کو‬
‫عالمتاب میں اپنا منہ دیکھ کر طعن وتشنیع سے پیش آئیں کیا کیجئے ؎‬
‫مہ فشاند نوروسگ عوعو کند‬
‫کر کسے برخلقت خودمے تند‬
‫(چاند روشنی پھیالتا ہے اور کتّا بھونکتا ہے ہر کوئی اپنی فطرت کے مطابق چلتا‬
‫ہے)‬
‫ان حضرات کی طویل وعریض بدزبانیوں کا نمونہ یہیں دیکھ لیجئے مسئلہ جمع‬
‫ماّل جی کے دعوے تھے کہ وہ دالئل قطعیہ سے ثابت ہے اور اُس کا خالف‬ ‫میں ُ‬
‫کسی حدیث سے ثابت نہیں نہ جمع صوری پر اصال ً کوئی دلیل حنفیہ کے پاس ہے‬
‫ل انصاف نے دیکھ لیا کہ کس ہستی پر یہ لن‬ ‫اب بحول وقوت رب قدیر سب اہ ِ‬
‫ترانی کس بِرتے پر تتّا پانی والحول والقوۃ ااّل باللہ العلی العظیم۔‬
‫ثانیا اقول وباللہ التوفیق اگر نظر تتبّع کو رخصت جوالں دیجئے تو بعون ٖہ تعالٰی‬
‫واضح ہوکہ یہ جواب علما محض تن ّزلی تھا ورنہ اسی حدیث میں حضرت عبداللہ‬
‫بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ جمع عرفات بھی ذکر فرماچکے‪ ،‬یہی حدیث ُ‬
‫سنن‬
‫نسائی کتاب المناسک باب الجمع بین الظہر والعصر بعرفہ میں یوں ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫اخبرنا اسمعیل بن مسعود عن خالد عن شعبۃ عن سلیمن عن عمارۃ بن عمیر عن عبدالرحمن بن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫یزید عن عبدا رضی ا تعالی عنہ قال‪ :‬کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم یصلی الصالۃ‬
‫معیل بن مسعود نے خالد سے‬ ‫لوقتھا اال بجمع فی مزدلفۃ وعرفات ‪؎۲‬۔ ہمیں خبر دی اس ٰ‬
‫شعبہ سے عمارہ بن عمیر سے عبدالرحمن بن یزید سے کہ عبداللہ بن مسعود‬
‫رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا‪ :‬نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر نماز اس کے‬
‫وقت ہی میں پڑھتے تھے مگر مزدلفہ وعرفات میں۔‬
‫‪)۲/۳۹‬‬ ‫مکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫کتاب الجمع بین الظہر والعصر بعرفۃ‬ ‫(‪ ؎۲‬النسائی‬
‫ماّل جی! ابھی آپ کی نازک چھاتی‬ ‫ماّل جی! اب کہے مصیبت کا پہاڑ کس پر ٹوٹا! ُ‬ ‫ُ‬
‫پر دلی کی پہاڑی آئی ہے سخت جانی کے آسرے پر سانس باقی ہوتو سر‬ ‫ّ‬
‫بچائےے کہ عنقریب مک ّہ کا پہاڑ ابوقبیس آتا ہے۔ ماّل جی! دعوٰی اجتہاد پر ادھار‬
‫کھائے پھرتے ہو اور علم ِ حدیث کی ہوا نہ لگی احادیث مرویہ بالمعنی صحیحین‬
‫وغیرہ ما صحاح وسنن مسانید ومعاجیم وجوامع واجزا وغیرہما میں دیکھےے صدہا‬
‫مثالیں اس کے پائےے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور‬
‫سے روایت کرتے ہیں کوئی پُوری کوئی ایک ٹکڑا کوئی دُوسرا کوئی کسی طرح‬
‫کوئی کسی طرح جمع طرق سے پُوری بات کا پتا چلتا ہے ولہذا امام الشان‬
‫ابوحاتم رازی معاصر امام بخاری فرماتے ہیں ہم جب تک حدیث کو ساٹھ‪ ۶۰‬وجہ‬
‫سے نہ لکھتے اُس کی حقیقت نہ پہچانتے۔ یہاں بھی مخرج حدیث اعمش بن‬
‫من عن عبدالل ّٰہ ہے اعمش کے بعد حدیث منتشر ہُوئی اُن سے‬ ‫عمارۃ عن عبدالرح ٰ‬
‫حفص بن غیاث وابومعٰویہ وابوعوانہ وعبدالواحد بن زیاد وجریر وسفیان وداؤد‬
‫وشعبہ وغیرہم اجل ّہ نے روایت کی یہ روایتیں الفاظ واطوار وبسط واختصار وذکر‬
‫واقتصار میں طرق شتی پر آئیں کسی میں مغرب وفجر کا ذکر ہے ظہر عرفہ‬
‫صححین کسی میں ظہر عرفہ ومغرب کا بیان ہے فجر‬ ‫مذکور نہیں کروایۃ ال ّ‬
‫مزدلفہ ماثور نہیں کروایۃ النسائی کسی میں صرف مغرب کا تذکرہ ہے ظہر‬
‫وفجر وصےغہ مارأیت وغیرہ کچھ مسطور نہیں کحدیث النسائی ایضا فی المناسک‪ ،‬باب‬
‫جمع الصالتین‪ 5‬بالمزدلفۃ‪ ،‬اخبرنا القاسم بن زکریا ثنا مصعب بن المقدام عن داود عن االعمش عن‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬
‫عمارۃ عن عبدالرحمن بن یزید عن ابن مسعود ان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم جمع بین‬
‫المغرب والعشاء بجمع ‪؎۱‬۔ جیسا کہ نسائی کی حدیث جو کتاب المناسک‪ ،‬باب جمع‬
‫الصالتین بمزدلفہ میں ہے حدیث بیان کی ہم سے قاسم ابن زکریا نے مصعب ابن‬
‫مقدام سے‪ ،‬اس نے داؤد سے‪ ،‬اس نے اعمش سے‪ ،‬اس نے عمارہ سے‪ ،‬اس نے‬
‫عبدالرحمن ابن یزید سے‪ ،‬اس نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول‬
‫اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا۔ (ت)‬
‫‪)۲/۴۰‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور‬ ‫الجمع بین الصلواۃ بالمزدلفۃ‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫اکثر میں نمازِ فجر پیش ازوقت مذکور ہے وھو بطریق کل ماذکرنا من رواۃ االعمش ماخال‬
‫جریرا (سوائے جریر کے‪ ،‬اعمش کے جتنے راوی ہم نے ذکر کےے ہیں وہ اسی‬
‫طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ ت) کسی میں لفظ بغلس مفید واقع‪ Z‬ومصرح مرام‬
‫کی تصریح ہے کمامر لمسلم من حدیث الضبی (جیسا کہ مسلم کے حوالے سے ضبی‬
‫کی حدیث گزری ہے۔ ت) ان تنوعات سے نہ وہ حدیثیں متعدد ہوجائیں گی نہ ایک‬
‫طریق دوسرے کا نافی ومنافی ہوگا بلکہ ان کے اجتماع سے جو حاصل ہو وہ‬
‫حدیث تام قرار‪ Z‬پائے گا۔ اب خواہ یہ اختالف رواۃ اعمش کی روایت بالمعنی سے‬
‫ناشَے ہُوا خواہ خود اعمش نے مختلف اوقات میں مختلف طور پر روایت بالمعنی‬
‫کی اور ہر راوی نے اپنی مسموع پہنچائی چاہے یہ تنویع اعمش نے خود کی چاہے‬
‫سنی یا اعمش کو پہنچی‬ ‫عمارہ یا عبدالرحمن سے ہوئی اور وہ سب اعمش نے ُ‬
‫خواہ اصل منتہائے سند سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اوقات عدیدہ میں‬
‫شب مزدلفہ را ِہ مزدلفہ میں‬
‫ِ‬ ‫حسب حاجت مختلف طوروں پر ارشاد فرمائی مثال ً‬
‫ِ‬
‫ُ‬
‫یا وہاں پہنچ کر آج کی مغرب وفجر کا مسئلہ ارشاد کرنے کیلئے صرف انہیں دو‪۲‬‬
‫کا ذکر فرمایا عصر تو سب کے سامنے ابھی جمع کرچکے تھے اُس کے بیان کی‬
‫حاجت کیا تھی دوسرے وقت جمع بین الصالتین کا مسئلہ پیش ہو وہاں ذکرِ فجر‬
‫کی حاجت نہ تھی عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کے ذکر پر قناعت کی کہ سوا ان‬
‫دو‪ ۲‬نمازوں کے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی جمع نہ‬
‫فرمائی اور کسی وقت مغرب وعشائے مزدلفہ کا ذکر ہوکہ ان میں سنّت کیا ہے‬
‫اس وقت یہ پچھلی حدیث مختصر افادہ کی۔‬
‫ٰ‬
‫ثم اقول لطف یہ کہ یہی حدیث ابن مسعود رضی اہلل تعالی عنہ دوسرے مخرج مروی صحیح بخاری‬
‫بسند جلیل وصحیح جس کے‬ ‫ِ‬ ‫وسنن نسائی سے سیدنا امام محمد نے آثار مرویہ کتاب الحجج میں‬
‫ّ‬ ‫ّ‬
‫سب رواۃ اجلہ ثقات وائمہ اثبات ورجال صحیحین بلکہ صحاح ستہ سے ہیں یوں روایت فرمائی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫اخبرنا سالم بن سلیم الحنفی عن ابی اسحق السبیعی عن عبدالرحمن بن االسود عن علقمۃ بن قیس‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ہّٰلل‬
‫واالسود بن یزید قاال کان عبدا بن مسعود رضی ا تعالی عنہ یقول الجمع بین الصالتین‪ 5‬االبعرفۃ‬
‫الظھر والعصر ‪؎۱‬۔‬
‫‪)۱/۱۶۵‬‬ ‫دارالمعارف النعمانیہ الہور‬ ‫(‪ ؎۱‬کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصالتین‬
‫من الحنفی ابواسحاق سبیعی سے وہ عبدالرحمن بن اسود سے وہ‬ ‫سالم بن سلی ٰ‬
‫علقمہ بن قیس اور اسود بن یزید سے راوی‪ Z‬ہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ‬
‫تعالٰی عنہ فرماتے تھے جمع بین الصالتین جائز نہیں مگر عرفہ میں ظہر وعصر۔‬
‫ماّل جی! اب یہاں کہہ دینا کہ ابن مسعود نے فقط جمع عرفات دیکھی جمع‬ ‫کیوں ُ‬
‫مزدلفہ خارج رہی حاالنکہ ہرگز نہ اس سے اعراض‪ Z‬نہ اس پر اعتراض بلکہ ہر‬
‫محل وموقع کالم میں وہاں کی قدر حاجت پر اقتصار ہے یہاں مسافر کے جمع‬
‫بین الظہر والعصر کا ذکر ہوگا اُس پر فرمایا کہ ان میں جمع صرف روز عرفہ‬
‫عرفات میں ہے اس کے سوا ناجائز‪ ،‬ولہذا الصالتین معرف بالم فرمایا جس میں‬
‫ماّل جی! ک ُ ِ‬
‫تب حدیث آنکھ کھول کر دیکھو روایات بالمعنٰی کے یہی‬ ‫اصل عہد ہے۔ ُ‬
‫بذات خود اپنی جامع صحیح میں اس کے‬‫ِ‬ ‫ً‬
‫انداز آتے ہیں خصوصا امام بخاری تو‬
‫عادی ہیں حدیث کو ابواب مختلفہ میں بقدر حاجت پارہ پارہ کرکے التے ہیں اس‬
‫سے ایک پارہ دوسرے کو َرد نہیں کرتا بلکہ وہ مجموع حدیث کامل ٹھہرتی ہے۔‬
‫اس سے بحمداللہ تعالٰی واضح وآشکار ہوا کہ یہ حدیث بھی تمام وکمال یوں ہے‬
‫کہ میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو‪۲‬‬
‫نمازیں جمع فرمائی ہوں کبھی کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے یا وقت کے بعد‬
‫پڑھی ہو مگر صرف دو‪ ۲‬عصر عرفہ وقت ظہر اور مغرب مزدلفہ وقت عشائ‪،‬‬
‫طلوع فجر کے بعد ہی‬ ‫ِ‬ ‫اور اُس دن فجر کو بھی وقت مسنون ومعمول سے پہلے‬
‫آفتاب‬
‫ِ‬ ‫تاریکی میں پڑھ لیا تھا اُس دن کے سوا کبھی ایسا بھی نہ کیا۔ الحمدللہ کہ‬
‫حق وصواب بے پردہ وحجاب رابعۃ النہار پر پہنچا‪ ،‬اب اس حدیث نسائی جامع ذکر‬
‫ماّل جی نے بکمال مکابرہ جو چوٹیں کی ہیں اُن کی خدمت‬ ‫عرفہ ومزدلفہ پر ُ‬
‫گزاری کیجئے اور ماہ ضیا پناہ رسالہ کو باذن ٖہ تعالٰی شب تمام کامثر د ہ دیجئے‬
‫واللہ المعین وبہ نستعین۔‬
‫تورد ِ احادیث وجرح ثقات وقدح‬ ‫َ‬ ‫م جی‬‫اّل‬ ‫لطیفہ‪ :‬یارب جہل جاہلین سے تیری پناہ‪ُ ،‬‬
‫صحاح کے دھنی ہیں۔ عمل بالحدیث کے ادعائی راج میں انہیں مکابروں کی‬
‫چنی ہیں۔ حدیث صحیح نسائی شریف کو دیکھا کہ انہیں مصیبت کا پہاڑ‬ ‫دیواریں ُ‬
‫ل سرسبد کو گِل تہ گلخن بنا چھوڑے گی لہذا نیام ِ حیا‬ ‫ُ‬
‫توڑے گی۔ حضرت نے گ ِ‬
‫سے تے ِغ ادا نکالی اور احادیث صحاح میں تکمیل مضمون فریقا تکذبون وفریقا‬
‫تقتلون کی یوں بناڈالی ف‪ ۱‬حدیث نسائی کی نامقبول اور مجروح اور متروک ہے‬
‫من بن ارقم کہ اُس کی توثیق کسی نے‬ ‫دو‪ ۲‬راوی اس کے مجروح ہیں ایک سلی ٰ‬
‫من بن ارقم ضعیف اور ایک خالد‬ ‫نہیں کی بلکہ ضعیف کہا اس کو تقریب میں سلی ٰ‬
‫صاحب احادیث افراد‪ Z‬کا کہا تقریب میں‬
‫ِ‬ ‫بن مخلد کہ یہ شخص رافضی تھا اور‬
‫خالد بن مخلد صدوق متشیع ولہ افراد۔‬
‫ص ‪)۳۸۴‬‬ ‫(ف ‪ ۱‬معیارالحق‬
‫ماّل جی کی قدیمی سفاہت تشیع ورفض کے فرق سے جہالت۔‬ ‫اقول‪ :‬اوّال ً وہی ُ‬
‫ثانیا‪ :‬صحیحین سے وہی پُرانی عداوت خالد بن مخلد نہ صرف نسائی بلکہ بخاری‬
‫ومسلم وغیرہما جملہ صحاح ستہ کے رجال سے ہے امام بخاری کا خاص اُستاذ‬
‫اور مسلم وغیرہ کا اُستاذ االستاذ۔‬
‫ماّل جی! تم نے تو علمِ حدیث کی الف بے بھی نہ پڑھی اور ادعائے اجتہاد‬ ‫ثالثا ً ‪ُ :‬‬
‫وصاحب‬
‫ِ‬ ‫کی یوں بے وقت چڑھی ذرا کسی پڑھے لکھے سے ضعیف ومتشیع‬
‫وصاحب افراد‪ Z‬ہونا تو اصال ً‬
‫ِ‬ ‫افراد‪ Z‬اور متروک الحدیث میں فرق سیکھو‪ ،‬متشیع‬
‫موجب ضعف نہیں‪ ،‬صحیحین دیکھئے ان کے رواۃ میں کتنے متشیع عــہ‪ ۱‬موجود‬ ‫ِ‬
‫ہیں اور لہ عــہ‪ ۲‬افراد‪ Z‬والوں کی کیا گنتی جبکہ ہم حواشی فصل اول میں بکثرت‬
‫لہ اوھام یھم‪ ،‬ربما وھم‪ ،‬یخطیئ‪ ،‬یخطیئ کثیرا‪ ،‬کثیرالخطائ‪ ،‬کثیرالغلط وغیرہا‬
‫والے ذکرکر آئے‪،‬‬
‫ٰ‬
‫عــہ‪ ۱‬مثل ابان خ بن یزید العطار‪ ،‬یزیدع بن ابی انیسۃ‪ ،‬عبدالرحمن‪ 5‬خ بن غزوان وغیرہم ‪ ۱۲‬منہ (م)‬
‫عــہ‪ ۲‬جن میں تیس‪ ۳۰‬سے زیادہ حواشی فصل اول پر مذکور ہوئے ‪ ۱۲‬منہ (م)‬

‫رہا ضعیف اُس میں اور متروک میں بھی زمین وآسمان کابل ہے ضعیف کی‬
‫حدیث معتبر ومکتوب اور متابعات وشواہد میں مقبول ومطلوب ہے بخالف‬
‫تحقیقات جلیلہ فقیر غفرلہ القدیر کے‬
‫ِ‬ ‫متروک اس معنی اور اس کے متعلقات کی‬
‫رسالہ الھاد الکاف فی حکم الضعاف میں مطالعہ کیجئے اور سردست اپنی مبلغ‬
‫علم تقریب ہی دیکھے کہ ضعیف درجہ ثامنہ اور متروک اُس کے دو‪ ۲‬پایہ نیچے‬
‫درجہ عاشرہ میں ہے خود عــہ بعض ضعفا رجال شیخین میں اگرچہ متابع ًۃ یا یوں‬
‫بھی واقع‪ Z‬جس سے اُن کا نامتروک ہونا واضح۔‬
‫عــہ مثل اسید بن زید‪ ،‬اسباط ابوالیسع‪ ،‬عبدالکریم بن ابی المخار‪ ،‬واالشعث بن سوار‪ ،‬زمعۃ بن صالح‪ ،‬محمد‪ 5‬بن یزید‬
‫ٰ‬
‫الرفاعی‪ ،‬محمد بن عبدالرحمن‪ 5‬مولی بنی زھرۃ‪ ،‬احمد بن یزید الحرانی‪ ،‬ابی بن عباس وغیرھم‪ ،‬قال فی التقریب فی الخمسۃ‬
‫االول‪ :‬ضعیف‪ ،‬والسادس لیس بالقوی‪ ،‬والسابع مجھول‪ ،‬والثامن ضعفہ ابوحاتم‪ ،‬والتاسع فیہ ضعف۔ وعبدالکریم‪ ،‬علم لہ‬
‫المزی فی التھذیب خت‪ ،‬وتبعہ فی المیزان‪ ،‬فقال‪ :‬اخرج لہ خ تعلیقا‪ ،‬وم متابعۃ۔ وکذا تابعہ الحافظ فی رموز التقریب‪ ،‬ثم نبہ‬
‫ان الصواب خ‪ ،‬حیث ذکر مالہ فی الجامع الصحیح‪ ،‬ثم قال‪ :‬ھذا موصول ولیس معلقا۔ وقال فی الرفاعی‪ :‬ذکرہ ابن عدی فی‬
‫ٰ‬
‫شیوخ البخاری‪ ،‬وجزم الخطیب بان البخاری روی عنہ؛ لکن قدقال البخاری‪ 5:‬رأیتھم مجمعین‪ 5‬علی ضعفہ ‪؎۱‬۔ اھ قلت‪:‬‬
‫المثبت‪ 5‬اثبت‪ ،‬فلذاعلمنا علیہ خ‪ ،‬واخرناھا عن لمکان تردد الحافظ۔ واالنصاف ان فلیحا وعبادا وامثالھا ایضا ضعفائ‪،‬‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫والعذر ماافادہ االمام ابن الصالح وتبعہ النووی وغیرہ فارجع واعرف۔ وا تعالی اعلم (م)‬

‫مثال ً (ا) اسید (‪ )۲‬اسباط (‪ )۳‬عبدالکریم (‪ )۴‬اشعت (‪ )۵‬زمعہ (‪ )۶‬محمد ابن یزید‬
‫ی اور دوسرے۔‬ ‫ُ‬
‫رفاعی (‪ )۷‬محمد بن عبدالرحمن (‪ )۸‬احمد (‪ )۹‬اب َ ّ‬
‫تقریب میں کہا کہ پہلے پانچ ضعیف ہیں‪ ،‬چھٹا بھی خاص قوی نہیں ہے‪ ،‬ساتواں‬
‫مجہول ہے‪ ،‬آٹھویں کو ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے‪ ،‬نویں میں بھی ضعف ہے۔‬
‫عبدالکریم کے لئے مزی نے تہذیب میں ''خت'' کی عالمت لگائی ہے (واضح رہے‬
‫کہ ''خ'' سے مراد بخاری ہے اور ''ت'' سے تعلیق‪ ،‬یعنی بخاری نے بھی اس کی‬
‫روایت تعلیقا ً لی ہے) میزان میں بھی تہذیب کی پیروی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس‬
‫سے بخاری نے تعلیقا ً اور مسلم نے متابع ًۃ روایت کی ہے۔ اسی طرح حافظ نے‬
‫بھی تقریب کی عالمات میں اس کی پیروی کی ہے لیکن پھر متنبہ کیا ہے کہ‬
‫صحیح ''خ'' ہے (''خت'' نہیں) چنانچہ حافظ نے پہلے تو عبدالکریم کی وہ روایت‬
‫ذکر کی ہے جو بخاری میں ہے‪ ،‬پھر کہا ہے کہ یہ روایت وصل کے ساتھ ہے نہ کہ‬
‫تعلیق کے طور پر۔ (اس لئے ''خ'' کے ساتھ ''ت'' نہیں ہونی چاہے کیونکہ ''ت''‬
‫تعلیق کی عالمت ہے)(محمد ابن یزید) رفاعی کے بارے میں کہا ہیکہ اس کو ابن‬
‫عدی نے بخاری کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے اور خطیب نے یقین ظاہر کیا ہے کہ‬
‫بخاری نے اس سے روایت کی ہے‪ ،‬لیکن بخاری ہی نے کہا ہے کہ میں نے محدثین‬
‫کو اس کے ضعف پر متفق پایا ہے اھ میں نے کہا ثابت کرنے والے کی بات زیادہ‬
‫پختہ ہوتی ہے (اور ابن عدی نے اس کا شیخ بخاری ہونا ثابت کیا ہے) اس لئے ہم‬
‫نے بھی اس کے نام پر ''خ'' کی عالمت لگائی ہے۔ لیکن حافظ کو چونکہ اس کے‬
‫شیخ بخاری ہونے میں تردّد ہے اس لئے ''خ'' کو ہم نے ''م'' کے بعد لگایا ہے‬
‫(''م'' سے مراد مسلم ہے) اور انصاف کی بات یہ ہے کہ فلیح‪ ،‬عباد اور ان جیسے‬
‫اور کوئی راوی بھی ضعیف ہیں (اس کے باوجود ان کی روایات صحاح میں پائی‬
‫جاتی ہیں) امام ابن الصالح نے اس کی معذرت خواہانہ وجہ بیان کی ہے اور نووی‬
‫وغیرہ نے بھی ان کا اتباع کیا ہے‪ ،‬اس لئے ان کی طرف مراجعت کرو اور‬
‫سمجھو! واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)‬
‫‪۱۴۸/۱۴ /۲‬‬ ‫ترجمہ نمبر ‪ ۶۴۲۱‬محمد بن یزید دارالکتب العمیۃ بیروت‬ ‫(‪ ؎۱‬تقریب التہذیب‬
‫‪)۷‬‬
‫رابعا‪ :‬یہ سب کالم ماّل جی کی غیبی بول عیبی احکام مان کرتھا حضرت کی‬
‫حسب عادت جو روا ِۃ حدیث بے نسب ونسبت پائے‬ ‫ِ‬ ‫اندرونی حالت دیکھےے تو پھر‬
‫ان میں جہاں تحریف وتصرف کا موقع مال وہی تبدیل کا رنگ الئے سند میں تھا‬
‫من۔ اب ماّل جی اپنی مبلغ علم تقریب کھول کر بیٹھے رواۃ‬ ‫عن شعبۃ عن سلی ٰ‬
‫نسائی میں شعبہ نام کا کوئی نہ مال جس پر تقریب میں کچھ بھی جرح کی ہو‬
‫من بن ارقم‬ ‫من کو دیکھیں تو پہلی بسم اللہ یہی سلی ٰ‬‫لہذا وہاں بس نہ چال سلی ٰ‬
‫اّل‬
‫ضعیف نظر پڑا حکم جڑ دیا کہ سند میں وہی مراد اور حدیث مردود‪ ،‬م جی!‬
‫اپنے دھرم کی قسم سچ بتانا یہ جبروتی حکم آپ نے کس دلیل سے جمایا‪ ،‬کیا‬
‫چے ہوتو برہان الؤ ورنہ اپنے کذب وعیب رحم بالغیب‬ ‫اسی کا نام محدّثی ہے ‪ ،‬س ّ‬
‫صدقین حق طلبان وحق نیوش کو اوپر‬ ‫پر ایمان قل ھاتوا برھانکم ان کنتم ٰ‬
‫من عن عبدالل ّٰہ‬ ‫معلوم ہوچکا ہے کہ مخرج حدیث اعمش عن عمارۃ عن عبدالرح ٰ‬
‫بخاری مسلم ابوداؤد نسائی وغیرہم سب کے یہاں حدیث عمارہ بطریق امام‬
‫اعمش ہی مذکور‪ ،‬صحیحین کی تین سندیں بطرق حفص بن غیاث وابی معٰویۃ‬
‫وجریر کلھم عن االعمش عن عمارۃ صدر کالم میں‪ ،‬اور ایک سند نسائی بطریق‬
‫سن چکے۔ پنجم نسائی کتاب الصالۃ میں‬ ‫داود عن االعمش عن عمارۃ اس کے بعد ُ‬
‫ہے‪:‬‬
‫اخبرنا قتیبۃ ثنا سفیان نا االعمش عن عمارۃ ‪ ؎۱‬الخ۔‬
‫مطبوعہ نور محمد کتب خانہ‬ ‫الجمع بین المغرب والعشاء الخ‬ ‫(‪ ؎۱‬نسائی النسائی‬
‫کراچی ‪)۱/۱۰۰‬‬
‫ششم‪ :‬نسائی مناسک باب الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفۃ اخبرنا محمد بن العالء ثنا‬
‫ٰ‬
‫ابومعویۃ عن االعمش عن عمارۃ ‪ ؎۱‬الخ‬
‫مطبوعہ نور محمد کتب خانہ‬ ‫الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفہ‬ ‫س نن النسائی‬
‫(‪ُ ؎۱‬‬
‫کراچی ‪)۲/۴۶‬‬
‫ٰ‬
‫ہفتم‪ :‬سنن ابی داؤد حدثنا مسدد وان عبدالواحد بن زیاد وابا عوانۃ وابا معویۃ حدثوھم عن االعمش‬
‫عن عمارۃ ‪؎۲‬۔‬
‫‪)۱/۲۶۷‬‬ ‫آفتاب عالم پریس الہور‬ ‫باب الصلٰوۃ بجمع‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن ابی داؤد‬
‫ٰ‬
‫ہشتم‪ :‬امام طحاوی حدثنا حسین بن نصرثنا قبیصۃ بن عقبۃ والفریابی قاال ثنا سفین عن االعمش‬
‫عن عمارۃ بن عمیر ‪ ؎۳‬الخ۔‬
‫مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی‬ ‫الجمع بین اصالتین‬ ‫(‪ ؎۳‬شرح معانی االثار‬
‫‪)۱/۱۱۳‬‬
‫یہ امام اعمش اجل ثقہ ثبت حجت حافظ ضابط کبیر القدر جلیل الفخر اجلہ ائمہ‬
‫تابعین ورجال صحاح ست ّہ سے ہیں جن کی وثاقت عدالت جاللت آفتاب نیمروز‬
‫من ہے وہی یہاں مراد‪ ،‬کاش تضعیف ابن ارقم‪Z‬‬ ‫سے روشن تر ان کا اہم مبارک سلی ٰ‬
‫دیکھ پانے کی خوشی ماّل جی کی آنکھیں بند نہ کردیتی تو آگے ُ‬
‫سوجھتا ٰکہ دنیا‬
‫میں ایک یہی سلی ٰمن نہیں دو‪ ۲‬ورق لوٹتے تو اسی تقریب میں تھا‪ :‬سلیمن بن مھران‬
‫االعمش ثقۃ حافظ عارف بالقراء ات ورع ‪( ؎۴‬سلی ٰ‬
‫من ابن مہران اعمش‪ ،‬ثقہ ہے‪ ،‬حافظ‬
‫ہے‪ ،‬قرأۃ کو جاننے واال ہے‪ ،‬متقی ہے۔ ت)‬
‫دارالکتب العلمیہ بیروت ‪)۱/۳۹۲‬‬ ‫(‪ ؎۴‬تقریب التہذیب ترجمہ نمبر ‪۲۶۲۳‬‬
‫جوش تمیز اس حد تک پہنچا ہو اُن سے کیا کہا جائے کہ ان‬ ‫ِ‬ ‫جن حضرات کا‬
‫من سے راوی بھی آپ نے دیکھے کون ہیں امیرالمومنین فی الحدیث امام‬ ‫سلی ٰ‬
‫شعبہ بن الحجاج جنہیں التزام تھا کہ ضعیف لوگوں سے حدیث روایت نہ کریں گے‬
‫جس کی تفصیل فقیر کے رسالہ منیر العین فی حکم تقبیل االبھامین میں مذکور‬
‫وہ اور ابن ارقم سے روایت مگر ناواقفوں سے ان باتوں کی کیا شکایت!‬
‫خامسا ً حضرت کو اپنی پرانی مشق صاف کرنے کو اُسی طرح کا ایک اور نام‬
‫معیل بن مسعود عن خالد‬ ‫ہ اتھ لگایعنی خالد امام نسائی نے فرمایا تھا‪ :‬اخبرنا اس ٰ‬
‫عن شعبۃ بیدھڑک حکم لگادیا کہ اس سے مراد خالد بن مخلد رافضی‪ Z‬ہے ماّل جی!‬
‫پانچ پیسے کی شیرینی تو ہم بھی چڑھائیں گے اگر ثبوت دوکہ یہاں خالد سے یہ‬
‫ماّل جی! تم کیا جانو کہ ائمہ محدثین کس حالت میں اپنے شیخ‬ ‫شخص مراد ہے‪ُ ،‬‬
‫کے مجرد نام بے ذکر ممیز پر اکتفا کرتے ہیں‪ ،‬ماّل جی صحابہ کرام میں عبداللہ‬
‫کتنے بکثرت ہیں خصوصا ً عبادلہ خمسہ رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ ،‬پھر کیا وجہ ہے کہ‬
‫جب بصری عن عبدالل ّٰہ کہے تو عبداللہ بن عمرو بن عاص مفہوم ہوں گے‪ ،‬اور‬
‫کوئی کہے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ ،‬پھر رواۃ مابعد میں تو‬
‫عبداللہ صدہا ہیں مگر جب سوید کہیں حدثنا عبدالل ّٰہ تو خواہ مخواہ ابن المبارک‬
‫ہیں‪ ،‬محمدین کا شمار کون کرسکتا ہے مگر جب بندار کہیں عن محمد عن شعبۃ‬
‫تو غندر کے سوا کسی طرف ذہن نہ جائے گا وعلٰی ہذا القیاس صدہا مثالیں ہیں‬
‫ماّل جی! یہخالد امام‬ ‫جنہیں ادنٰی ادنٰی خدام ِ حدیث جانتے سمجھتے پہچانتے ہیں۔ ُ‬
‫اجل ثقہ ثبت حافظ جلیل الشان خالد بن حارث بصری ہیں کہ امام شعبہ بن‬
‫معیل بن مسعود بصری کے اجل‬ ‫الحجاج بصری کے خُلّص تالمذۃ اور امام اس ٰ‬
‫معیل بن مسعود کو اُن سے اور اُنہیں‬ ‫اساتذہ اور رجال صحاح ست ّہ سے ہیں اس ٰ‬
‫معیل کی‬ ‫شعبہ سے اکثار روایت بدرجہ غایت ہے‪ ،‬اسی سنن نسائی میں اس ٰ‬
‫بیسیوں روایات اُن سے موجود‪ ،‬ان میں بہت خاص اسی طریق سے ہیں کہ‬
‫م عیل خالد بن حارث سے اور خالد شعبہ بن الحجاج سے ان میں بہت جگہ خود‬ ‫اس ٰ‬
‫حسب عادت‬ ‫ِ‬ ‫نسب خالد مصرحا ً بیان کیا ہے۔ بہت جگہ اُنہوں نے‬
‫ِ‬ ‫معیل نے‬ ‫اس ٰ‬
‫مطلق چھوڑا۔ امام نسائی نے واضح فرمادیا ہے بہت جگہ سابق والحق بیانوں کے‬
‫اعتماد پر یوں ہی مطلق باقی رکھا ہے میں آپ کا حجاب ناواقفی‪ Z‬توڑنے کو ہر‬
‫قسم کی مصرح روایات سے بہ نشان کتاب وباب کچھ حاضر کروں۔‬
‫ٰ‬
‫طریق شعبۃ‪ )۱( :‬کتاب االفتتاح باب التطبیق اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن‬
‫ٰ‬
‫شعبۃ عن سلیمن ‪ ؎۱‬الخ۔‬
‫‪)۱/۱۲۳‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫باب التطبیق‬ ‫(‪ ؎۱‬النسائی‬
‫ٰ‬
‫(‪ )۲‬کتاب الطہارۃ باب النضح اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ‪ ؎۲‬الخ۔‬
‫‪)۱/۱۹‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫باب النضح‬ ‫(‪ ؎۲‬النسائی‬
‫ٰ‬
‫(‪ )۳‬کتاب المواقیت الرخصہ فی الصالۃ بعد العصر اخبرنا اسمعیل بن مسعود عن خالد بن الحارث‬
‫عن شعبۃ ‪ ؎۳‬الخ۔‬
‫‪)۱/۶۷‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫الرخصۃ فی الصلٰوۃ بعد العصر‬ ‫(‪ ؎۳‬النسائی‬
‫(‪ )۴‬کتاب االمامۃ‪ ،‬الجماعۃ اذاکانوا اثنین اخبرنا اسمعیل بن مسعود ثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ‬
‫‪ ؎۴‬الخ۔‬
‫‪)۱/۹۷‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫الجماعۃ اذاکانوا اثنین‬ ‫(‪ ؎۴‬النسائی‬
‫ٰ‬
‫(‪ )۵‬کتاب السہو باب التحری اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ‪ ؎۵‬الخ۔‬
‫‪)۱/۱۴۶‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫باب التحری‬ ‫( ‪ ؎۵‬النسائی‬
‫(تصریح اسمعیل سوی مامر)‬
‫(‪ )۶‬کتاب االمامۃ الرخصۃ لالمام فی التطویل اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد بن الحارث ‪ ؎۶‬الخ۔‬
‫‪)۱/۹۴‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫الرخصۃ لالمام فی التطویل‬ ‫(‪ ؎۶‬النسائی‬
‫(‪ ) ۷‬کتاب قیام اللیل‪ ،‬باب وقت رکعتی الفجر اخبرنا اسمعیل بن مسعود قال ثنا خالد بن الحارث ‪؎۱‬‬
‫الخ۔‬
‫‪)۱/۲۰۶‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫باب وقت رکعتی الفجر‬ ‫(‪ ؎۱‬سنن النسائی‬
‫ٰ‬
‫(‪ )۸‬کتاب الزکوۃ‪ ،‬عطیۃ المرأۃ بغیر اذن زوجھا اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد بن حارث ‪ ؎ ۲‬الخ۔‬
‫‪)۱/۲۸۹‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫عطیۃ المرأۃ الخ‬ ‫(‪ ؎۲‬سنن النسائی‬
‫(‪)۹‬المزارعۃ احادیث النہی عن کری االرض بالثلث والربع اخبرنا اسمعیل بن مسعود قال ثنا خالد بن‬
‫الحارث ‪ ؎۳‬الخ۔‬
‫(‪ ؎۳‬سنن النسائی الثالث من الشروط فیہ المزارعۃ والوثائق مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور ‪۲/۱۴‬‬
‫‪)۴‬‬
‫( ‪)۱۰‬القسامۃ والقود‪ ،‬باب عقل االصابع اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث ‪ ؎۴‬الخ۔‬

‫‪)۲/۲۴۷‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫باب عقل االصابع‬ ‫(‪ ؎۴‬سنن النسائی‬
‫(التصریح‪ Z‬النسائی)‬
‫(‪ )۱۱‬کتاب الحیض مضاجعۃ الحیض فی ثیاب حیضتہا اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد ھو‬
‫ابن الحارث ‪ ؎۵‬الخ۔‬
‫‪)۱/۴۳‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫مضاجعۃ الحیض الخ‬ ‫(‪ ؎۵‬سنن النسائی‬
‫(‪ )۱۲‬قبیل کتاب الجمعۃ با ب اذاقیل للرجل ھل صلیت اخبرنا اسمعیل بن مسعود ومحمد بن‬
‫عبداالعلی قاال حدثنا خالد ھو ابن الحارث ‪ ؎۶‬الخ۔‬
‫‪)۱/۱۶۰‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫باب اذاقیل للرجل الخ‬ ‫(‪ ؎۶‬سنن النسائی‬
‫(‪ )۱۳‬کتاب الصیام التقدم قبل شھر رمضان اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد وھو ابن الحارث ‪؎۷‬۔‬
‫‪)۱/۲۴۹‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫التقدم قبل شھر رمضان‬ ‫(‪ ؎۷‬سنن النسائی‬
‫(‪ )۱۴‬المزارعۃ من االحادیث المذکورۃ اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد وھو ابن الحارث‪؎۸‬۔‬
‫‪۲/۱۴‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫المزارعۃ من االحادیث مذکورۃ‬ ‫(‪ ؎۸‬سنن النسائی‬
‫‪)۶‬‬
‫(‪ )۱۵‬کتاب االشربۃ الترخیص فی انتباذ البسر اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد یعنی ابن الحارث‬
‫‪ ؎۹‬الخ۔‬
‫‪۲/‬‬ ‫مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور‬ ‫الترخیص فی انتباذ البسر الخ‬ ‫(‪ ؎۹‬سنن النسائی‬
‫‪)۳۲۱‬‬
‫ماّل جی! یہ کیا دین ودیانت ہے کہ حدیثیں َرد کرنے کو ایسے جھُوٹے فقرے‬ ‫کیوں ُ‬
‫بناؤ اور بے تکان جزم کرتے ہوئے پلک تک نہ جھپکاؤ‪ ،‬وہ تو خدا نے خیر کرلی کہ‬
‫ماّل جی کو‬‫امام نسائی نے اسمعیل بن مسعود کہہ دیا تھا کہیں نرا اسمعیل ہوتا تو ُ‬
‫کہتے کیا لگتا کہ یہ حدیث تم اہل سنّت کے نزدیک سخت مردود کہ اس کی سند‬
‫میں اسمعیل دہلوی موجود‪،‬‬
‫ماّل جی! صرف ایک مسئلے میں اول تا آخر اتنی خرافات‪ ،‬علم ِ حدیث کی کھُلی‬ ‫ُ‬
‫کھُ لی باتوں سے یہ جاہالنہ مخالفات‪ ،‬اگر دیدہ ودانستہ ہیں تو شکایت کیا ہے کہ‬
‫اخفائے حق وتلمیح باطل وتلبیس عامی واغوائے جاہل‪ ،‬طوائف ضالہ کا ہمیشہ‬
‫داب رہا ہے‪ ،‬اور اگر خود حضرت کی حدیث دانی اتنی ہے تو خدارا خدا ورسول‬
‫منہ اور اجتہاد کی لپک‪ ،‬یہ لیاقت‬ ‫سے حیا کیجئے‪ ،‬اپنے دین دھرم پر دیا کیجئے یہ ُ‬
‫اور مجتہدین پر ہمک‪ ،‬عمر وفا کرے تو آٹھ دس‪ ۱۰‬برس کسی ذی علم مقلد کی‬
‫کفش برداری‪ Z‬کیجئے‪ ،‬حدیث کے متون وشروح واصول ورجال کی کتابیں سمجھ‬
‫کر پڑھ لیجئے اور یہ نہ شرمائیے کہ بوڑھے طوطوں کے پڑھنے پر لوگ ہنستے‬
‫ہیں‪ ،‬ہنسنے دو ہنستے ہی گھر بستے ہیں‪ ،‬اگر علم مل گیا تو عین سعادت یا طلب‬
‫ط صحت ایمان وحسن نیت والل ّٰہ الھادی لقلب‬ ‫میں مرگئے جب بھی شہادت‪ ،‬بشر ِ‬
‫اخبت۔‬
‫آفتاب صواب متجلی‪ ،‬جن جن احادیث سے جمع‬ ‫ِ‬ ‫الحمدللہ مہرِ حق متجلی ہوا اور‬
‫بین الصالتین کا ثبوت نہ سہل ثبوت بلکہ قطعی ثبوت زعم کیا گیا تھا واضح ہُوا کہ‬
‫ا ُن میں ایک حرف مثبت مقال نہیں مذہب حنفی اثبات صوری ونفی حقیقی‬
‫دونوں میں بے دلیل بتادیا تھا‪ ،‬روشن ہُوا کہ قرآن وحدیث اُسی کے موافق دالئل‬
‫ساطعہ اُسی پر ناطق جن میں َرد وانکار کی اصال ً مجال نہیں‪ ،‬اور بعون ٖہ تعالٰی‬
‫بطفیل مسئلہ وہ تازہ مجہلہ کہنہ مشغلہ ادعائے عمل بالحدیث کا اُشغال اُس کا‬
‫اتباع حدیث کا نام‬
‫ِ‬ ‫بھرم بھی من مانتا کھالکہ ہواسے غرض ہوس سے کام اور‬
‫بدنام‪ ،‬پُرانے پُرانے حد کے سیانے جب اپنی سخن پروری پر آئیں صحیح حدیثوں‬
‫پس پشت ڈالیں‪ ،‬اُن‬ ‫ِ‬ ‫کو مردود بتائیں ثقہ ائمہ کو مطعون بتائیں‪ ،‬بخاری ومسلم‬
‫کے رواۃ واسانید میں شاخسانے نکالیں‪ ،‬ہزار چھل کریں سو ہزار پیچ جیسے بنے‬
‫صحیح حدیثیں ہیچ‪ ،‬امام مالک وامام شافعی کی تقلید حرام نہ فقط حرام کہ‬
‫شرک کا پےغام‪ ،‬مگر جب حنفیہ کے مقابل دم پر بنے مجتہد چھوڑ مقلدوں کی‬
‫تقلید سے گاڑھی چھنے‪ ،‬اب ایک ایک شافعی مالکی کو جھک جھک کر سالم اُس‬
‫کے پاؤں پکڑ اُس کا دامن تھام‪ ،‬یہ بڑا پیشوا وہ بھاری امام‪ ،‬اُن میں جس کا کالم‬
‫کہیں ہاتھ لگ گیا اگرچہ کیسا ہی ضعیف کتنا ہی خطا‪ ،‬بس خضر مل گئے غنچے‬
‫کھُل گئے‪ ،‬اندر کے جی کے کواڑ کھُل گئے سب کوفت سوخت کے غبار دُھل‬
‫گئے‪ ،‬وحی مل گئی ایمان لے آئے اُسی سے حنفیہ پر حجت الئے‪ ،‬اب خبردار‪Z‬‬
‫کوئی پیچھے نہ پڑو احبار ورہبان کی آیت نہ پڑھو‪ ،‬چھٹکارے کی گھڑی بچاؤ کا‬
‫وقت ہے ‪ ،‬شرک بال سے ہو اب تو مکت ہے۔ مسلمانو! حضرات کے یہ انداز‬
‫دیکھے بھالے اپنا ایمان بچائے سنبھالے‪ ،‬فریب میں نہ آنا یہ زہر درجام ہیں دھوکا‬
‫نہ کھانا‪ ،‬سبزہ بردام ہیں بے سہاروں کی چال ہر حال بُری ہے تقلید سے بری ائمہ‬
‫اتباع ائمہ‬
‫ِ‬ ‫سے بری ہے‪ ،‬بے راہ روی کا دھیان نہ النا چادر سے زیادہ پاؤں نہ پھیالنا‪،‬‬
‫را ِہ ہُدٰی ہے را ِہ ہُدٰی کا والی خدا ہے‪ ،‬لل ّٰہ الحمد ولی الھدایۃ منہ البدایۃ والیہ النھایۃ۔‬
‫صی کو پہنچا اب ملخص‬ ‫خالصۃ الکالم وحسن الختام الحمدللہ سخن اپنے ذروہ اق ٰ‬
‫کالم وحاصل مرام چند باتیں یاد رکھئے‪:‬‬
‫اوّال جمع صوری بدالئل صحیحہ روشن ثبوت سے بے پردہ وحجاب اور اُس کا انکار‬
‫انکارِ آفتاب۔‬
‫ثانیا کسی حدیث صحیح میں جمع تقدیم کا نام کو بھی اصال ً پتا نہیں اُس کی‬
‫نسبت ادعا ی قطعی ثبوت محض نسج العنکبوت۔‬
‫ثالثا ً جمع تاخیر میں بھی کوئی حدیث صحیح صریح جیسا کہ ادعا کیا جاتا ہے ہرگز‬
‫موجود نہیں یا ضعاف ومناکیر ہیں یا محض بے عالقہ یا صاف محتمل اور‬
‫وس اثبات مہمل ومختل۔‬ ‫ِ‬ ‫محتمالت سے ہ‬
‫رابعا ً جب جمع صوری پر ثبوت مفسر متعین ناقابل تاویل قائم تو محتمالت‬
‫خصوصا ً حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اُسی کی طرف رجوع الزم کہ‬
‫قاعدہ ارجاع محتمل بہ متعین ہے نہ عکس کہ سراسر نکس۔‬
‫خامسا ً نماز بعد شہادتین اہم فرائض واعظم‪ Z‬ارکان اسالم ہے اور اُس میں رعایت‬
‫چہ‬
‫ضروریات دین سے جسے مسلمانوں کا ایک ایک ب ّ‬ ‫ِ‬ ‫وقت کی فرضیت اور اظہر‪Z‬‬
‫اوقات خمسہ غایت شہرت واستفاضہ پر بالغ حد تو اتر ہیں اگر‬ ‫ِ‬ ‫جانتا ہے یونہیں‬
‫حالت سفر میں جس‬ ‫ِ‬ ‫ٰ‬
‫حضور پُرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے‬
‫کی ضرورت ہمیشہ ہر زمانہ میں ہر شخص کو رہی اور رہتی ہے چار نمازوں کے‬
‫اوقات مشہورہ معلومہ معروفہ کے سوا قوال ً یا فعالً‪ Z‬کوئی اور حکم عطا‬ ‫ِ‬ ‫لئے‬
‫اوقات خمسہ منقول ہوئے‬ ‫ِ‬ ‫فرمایا ہوتا تو واجب تھا کہ جس شہرت جلیلہ کے ساتھ‬
‫ا ُسی طرح یہ نیا وقت بھی نقل کیا جاتا آخر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم نے یہ فعل کسی خلوت میں نہ کیا غزوہ تبوک میں ہزارہا صحابہ کرام رضی‬
‫اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬ہمرا ِہ رکاب سعادت مآب تھے اگر حضور جمع فرماتے بالشبہہ وہ‬
‫سب کے سب دیکھتے اور کثرت رواۃ سے اسے بھی مشہور کر چھوڑتے یہ کیا کہ‬
‫ایسی عظیم بات ایسے جلیل فرض کے ایسے ضروری الزم میں ایسی صریح‬
‫تبدیل ایسے مجمع کثیر کے سامنے واقع ہو اور اُسے یہی دو ایک راوی روایت‬
‫فرمائیں تو بالشبہہ یہی جمع صوری فرمائی جس میں نہ وقت بدال نہ کسی حکم‬
‫میں تغیر نے راہ پائی کہ اُس کے اشتہار پر دواعی‪ Z‬متوفر ہوتے نظرِ انصاف صاف‬
‫ہو تو صرف ایک یہی کالم تمام دالئل خالف کے جواب کو بس ہے کہ جب باوصف‬
‫توفر دواعی نقل آحاد ہے تو الجرم ِ جمع صوری پر محمول کہ توفر مہجور اور‬
‫بالفرض کوئی روایت مفسرہ ناقابل تاویل ملے تو متروک العمل کہ ایسی جگہ‬
‫آحاد رہنا عقل سے دُور۔‬
‫سادسا ً نمازوں کے لئے تعیین وتخصیص اوقات وآیات قرآن عظیم واحادیث‬
‫حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے قطعی الثبوت ہے اگر کہیں‬
‫اُس کا خالف مانیے تو وہ بھی ویسا ہی قطعی چاہے جیسے عصر عرفہ ومغرب‬
‫مزدلفہ کا اجماعی مسئلہ ورنہ یقینی کے مقابل ظنی مضمحل۔‬
‫سابعا ً بالفرغ اگر مثل منع دالئل جمع بھی قابل سمع تسلیم کیجئے تاہم ترجیح‬
‫منع کوہے کہ جب حاظر ومبیح مجتمع ہوں تو حاظر مقدم ہے۔‬
‫ثامنا ً جانب جمع صرف نقل فعل ہے قول اگر ہے تو جمع صوری میں اور جانب‬
‫منع دالئل قولیہ وفعلیہ دونوں موجود اور قول فعل پر مرجح تو مجموع قول‬
‫وفعل محض نقل فعل پر بدرجہ اولٰی۔‬
‫تاسعا ً افقہیت راوی اور مرجح منع ہے کہ ابن عمر وانس میں کسی کو فقاہت‬
‫جلیلہ عبداللہ بن مسعود تک رسائی نہیں رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین‪ ،‬یہ وہی‬
‫ابن مسعود ہیں جن کی نسبت حدیث میں ہے‪ ،‬حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم نے فرمایا‪ :‬تمسکوا بعھد ابن ام عبد ‪؎۱‬۔ (ابن اُم عبد کی باتوں سے تمسک کیا‬
‫کرو) رواہ الترمذی عنہ رضی الل ّٰہ تعالٰی عنہ۔‬
‫(‪ ؎۱‬جامع الترمذی مناقب عبداللہ بن مسعود مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی ‪)۲/۲۲۱‬‬
‫(نوٹ‪ :‬اصل متن ترمذی میں الفاظ یوں ہیں تمسکوا بعھد ابن مسعود رضی الل ّٰہ عنہ۔ نذیر‬
‫احمد)‬
‫مرقاۃ میں ہے اسی لئے ہمارے امام اعظم‪ Z‬رضی اللہ تعالٰی عنہ اُن کی روایت‬
‫وقول کو خلفائے اربعہ کے بعد سب صحابہ کے قول پر ترجیح دیتے ہیں ‪؎۲‬۔‬
‫‪۱۱/۴۰‬‬ ‫مطبوعہ مکتبہ امدایہ ملتان‬ ‫جامع المناقب‪ ،‬الفصل االول‬ ‫(‪ ؎۲‬مرقات المفاتیح‬
‫‪)۹‬‬
‫رسول ٰ صلی‬
‫سر ہّٰلل‬
‫ِّ‬ ‫صاحب‬
‫ِہّٰلل‬ ‫ابن مسعود ہیں جنہیں حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫ِ‬ ‫یہ وہی‬
‫اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے‪ :‬ان اشبہ الناس دالوسمتا وھدیا برسول ا صلی ا تعالی‬
‫علیہ وسلم البن ام عبد ‪؎۳‬۔ رواہ البخاری ف والترمذی والنسائی۔‬
‫ص ‪)۵۷۴‬‬ ‫(‪ ؎۳‬مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ بخاری باب جامع المناقب مطبع مجتبائی دہلی‬
‫‪۲/۲۲‬‬ ‫(جامع الترمذی‪ ،‬مناقب عبداللہ بن مسعود امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی‬
‫‪)۲‬‬
‫ٰ‬
‫بعینہ یہی الفاظ ہیں جبکہ ترمذی میں الفاظ یوں ہیں۔ کان اقرب الناس ھدیا ودال‬ ‫میں‬ ‫ۃ‬ ‫مشکو‬ ‫ف۔‬
‫ً‬ ‫ٖ ہّٰلل‬ ‫ہّٰلل‬
‫وسمتا برسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ابن مسعود اور بخاری میں الفاظ یوں ہیں مااعلم احدا‬
‫ہّٰلل ٰ‬
‫اقرب سمتا وھدیا ودال بالنبی صلی ا تعالی علیہ وسلم عن ابن ام عبد۔‬
‫بیشک چال ڈھال روش میں سب سے زیادہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ‬
‫وسلم سے مشابہ عبداللہ بن مسعود ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ۔‬
‫ابن مسعود ہیں جنہیں امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ‬
‫ِ‬ ‫یہ وہی‬
‫فرماتے‪ :‬کیف ملئ علما ‪( ؎۴‬ایک گٹھری ہیں علم سے بھری ہُوئی)‬
‫(‪ ؎۴‬اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ترجمہ عبدالل ّٰہ بن مسعودا مکتبہ اسالمیہ ریاض الشیخ‬
‫‪)۳/۲۵۹‬‬
‫ٰ‬
‫نہایت یہ کہ حضور اقدس سیدالمرسلین صلی اہلل تعالی علیہ وسلم نے فرمایا‪ :‬رضیت المتی‬
‫مارضی لھا ابن ام ‪ ؎۱‬عبد۔ (میں نے اپنی اُمت کے لئے پسند فرمالیا جو کچھ عبداللہ‬
‫بن مسعود اس کے لئے پسند کرے رواہ الحاکم بسند صحیح۔‬
‫‪)۳/۳۱۷‬‬ ‫(‪ ؎۱‬المستدرک کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت‬
‫الجرم ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم‪ Z‬کے نزدیک خلفائے اربعہ رضوان اللہ‬
‫تعالٰی علیہم‪ Z‬کے بعد وہ جناب تمام صحابہ کرام علیہم‪ Z‬الرضوان سے علم وفقاہت‬
‫میں زائد ہیں‪ ،‬مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے‪ :‬ھو عند ائمتنا افقہ الصحابۃ بعد الخلفاء‬
‫االربعۃ ‪؎۲‬۔‬
‫باب جامع المناقب الفصل االول عن عبداللہ بن‬ ‫(‪ ؎۲‬مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح‬
‫عمر‪،‬مطبوعہ امدادیہ ملتان‪)۱۱/۴۰۹‬‬
‫ابن مسعود خلفاءِ اربعہ کے بعد سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔‬‫ِ‬ ‫ہمارے ائمہ کے نزدیک‬
‫(ت)‬
‫عاشراًعــہ اگر بالفرض براہین منع وا د ل ّہ جمع کانٹے کی تول برابر ہی سہی تاہم‬
‫منع ہی کو ترجیح رہے گی کہ اس میں احتیاط زائد ہے اگر عنداللہ جمع درست‬
‫بھی ہ وئی تو ایک جائز بات ہے جس کے ترک میں باالجماع گناہ نہیں بلکہ اتفاق‬
‫اُس کا ترک ہی افضل ہے اور اگر عنداللہ نادرست ہے تو جمع تاخیر میں نماز‬
‫دانستہ قضا کرنی ہوگی اور جمع تقدیم میں سرے سے ادا ہی نہ ہوگی فرض‬
‫گردن پر رہے گا تو ایسی بات جس کا ایک پہلو خالف اولٰی اور دوسری جانب‬
‫حرام وگناہ کبیرہ ہو عاقل کا کام یہی ہے کہ اُس سے احتراز کرے‪ ،‬یہاں جو ماّل جی‬
‫ایمان کی آنکھ پر ٹھیکری رکھ کر لکھ گئے ہیں کہ ف‪ ۱‬تشکیک مذکور اُس‬
‫صورت میں جاری ہوتی ہے جس میں طرفین کا مذہب مدلّل بدالئل ہو اور‬
‫صورت اختالف کی ہو حاالنکہ مسئلہ جمع میں مانعین کا دعوٰی بے دلیل ہے اور‬
‫ناجائز کہنا اُن کا خالف ہے اختالف نہیں پس اگر صحت میں عمل مدلل بدالئل‬
‫سیکڑوں اعمال باطل ہوجائیں اور حق‬ ‫کے قول بے دلیل شک ڈال دیا کرے تو َ‬
‫وباطل میں کچھ تمیز نہ رہے‪،‬‬
‫عــہ یعنی نصوص منقول وقواعد اصول سے قطع نظر کرکے بہ مقتضائے عقول ہے۔ (م)‬
‫ص ‪)۴۱۵‬‬ ‫(ف‪ ۱‬معیارالحق‬
‫چا چٹھّا بعونہ تعالٰی سب‬‫ان جھُوٹی باال خوانیوں سینہ زوری کی لَن ترانیوں کا ک ّ‬
‫چ کا مگر حیا کا بھال ہو جس کے آسرے جیتے ہیں یونہیں تو آفتاب پر خاک‬ ‫کُھل ُ‬
‫سجھادیا کرتے ہیں کہ حنفیہ کا مذہب بے دلیل وخالف حدیث ہے‪،‬‬ ‫اُڑاکر اندھوں کو ُ‬
‫خدا کی شان قرآن عظیم واحادیث رسول کریم علیہ وعلٰی آل ٖہ افضل الصالۃ‬
‫سن کر جگر تک دھمک پہنچی ہوگی بے‬ ‫والتسلیم کی اُن قاہر دلیلوں کو جنہیں ُ‬
‫دلیل ٹھہراؤ اور اپنے ضعیف وبے ثبوت قول کو قطعی یقینی مدلل بتاؤ اور عمل‬
‫بالحدیث ودین ودیانت کا نام لیتے نہ شرماؤ انّا لل ّٰہ وانّا الیہ راجعون۔‬
‫ع ‪ :‬آدمیاں کم شدند ملک گرفت اجتہاد‬
‫فقیر غفرلہ المولی القدیر نے یہ چند اوراق‪ Z‬کہ بنظرِ احقاق حق لکھے۔ مولٰی‬
‫وشامت ذنوب سے‬
‫ِ‬ ‫ساد‬ ‫تعالٰی ع ّزوجل اپنے کرم سے قبول فرمائے شرِ ُ‬
‫ح ّ‬
‫محفوظ رکھے۔ وجہ ثبات واستقامت مقلدین کرام بنائے‪ ،‬یہ امید تو ان شاء اللہ‬
‫دشمنان حنفیت کو ہدایت ملنے عناد‬
‫ِ‬ ‫تعالٰی القریب المجیب نقد وقت ہے مگر‬
‫حنفیہ کی راہ نہ چلنے کی طرف سے یاس سخت ہے کہ کھلے مکابروں میں جن‬
‫صاحبوں کی یہ ہمتیں بڑھی ہیں یہ مشقیں چڑھی ہیں اُنہیں آئندہ ایسی اور ان‬
‫سے بڑھ کر اور ہزار ہٹ دھرمیاں کرتے کیا لگتا ہے‪ ،‬تحریف تعصب مکابری تحکم‬
‫کا کیا عالج ہے سوا اس کے کہ شرِ شریران سے اپنے رب عزوجل‪ Z‬کی پناہ لُوں‬
‫اور بتوسل روح اکرم امام اعظم‪ Z‬رضی اللہ تعالٰی عنہ اُس سے عرض کروں رب‬
‫ہّٰلل ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ّ‬
‫انی اعوذبک من ھمزات الشیطین واعوذبک رب ان یحضرون‪ o‬وصلی ا تعالی علی الھادی االمین‬
‫ٰ‬
‫االمان المامون محمد والہ وصحبہ الکرام والذین ھم بھدیھم یھتدون الحمد ہلل کہ یہ مبارک رسالہ‬
‫ٰ‬
‫نفیس عجالہ پانزدہم ماہ رجب مرجب ‪ ۱۳۱۳‬؁ ہجریہ علی صاحبہا افضل الصالۃ والتحیۃ کو‬
‫ّ‬ ‫ّ‬
‫تمام اور بلحاظ تاریخ حاجز البحرین ‪ ۱۳‬الواقی ھ عن ‪۱۳‬جمع الصالتین نام ہوا ربنا تقبل منا انک انت‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ہّٰلل ٰ‬
‫السمیع العلیم وصلی ا تعالی علی سید المرسلین محمد والہ وصحبہ اجمعین امین سبحانک‬
‫ٰ‬ ‫ہّٰلل‬ ‫ٰ‬
‫اللھم وبحمدک اشھد ان الالہ اال انت استغفرک واتوب الیک وا سبحنہ وتعالی اعلم وعلمہ جل‬
‫مجدہ اتم واحکم۔‬

You might also like