Professional Documents
Culture Documents
Jam Us Salateen
Jam Us Salateen
فقیر حقیر غفرلہ المولی القدیر کو اپنی تمام تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر اُن کے
ماورا میں بھی جن کا عدد بعونہ تعالٰی اس عـــہ ۲وقت تک ایک سوچالیس سے
متجاوز ہے ہمیشہ التزام رہا ہے کہ محل خاص نقل واستناد Zکے سوا محض جمع
وتلفیق کلمات سابقین سے کم کام لیا جائے ،حتی الوسع بحول وقوت ربانی اپنے
ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا جائے:
کہ حلوا چویکبار خورند وبس ع
ٰ ُ
عـــہ :۲یہ اس وقت تھا اب کہ ۱۳۱۹ھ ہے بحمداہلل تعالی عدد تصانیف ایک سونوے ۱۹۰سے متجاوز 5ہے ۱۲اور اب تو
ٰ
بحمدہ تعالی اگر احصا کیا جائے تو پانسوسے متجاوز ہوگا ( ۱۲م)
اگر اقامت دالئل یا ازاحت اقوال مخالف میں وہ امور مذکور بھی ہوتے ہیں کہ اور
متکلمین فی المسئلہ ذکر کرگئے تو غالبا ً وہ وہی واضحات متبادرہ الی الفہم ہیں
کہ ذہن بے اعانت دیگرے اُن کی طرف سبقت کرے۔ انصافا ً ان میں سابق والحق
دونوں کا استحقاق یکساں مگر ازانجا کہ کلمات متقدمہ میں اُن کا ذکر نظر سے
گزرا اپنی طرف نسبت نہیں کیا جاتا پھر ان میں بھی بعونہ تعالٰی تلخیص وتہذیب
وترصیب وتقریب وحذف زوائد وزیادت فوائد سے جدّت جگہ پائے گی اور کُچھ نہ
ہو تو اِن شاء اللہ تعالٰی طرزِ بیان ہی احلی ووقع فی القلب نظر آئے گی اس
وقت تو یہ اپنا بیان ہے جس سے بحمداللہ تعالٰی تحدیث بنعمۃ اللہ ع ّزوجل مقصود
ارباب
ِ ل حسد جس معنے پر چاہ یں محمول کریں مگر والحمداللہ الغفور الودود ،اہ ِ
انصاف اگر تصانیف فقیر کو مواز نہ فرمائیں گے بعون ٖہ تعالٰی عیان موافق بیان
پائیں گے باینہمہ اس اعتراف سے چارہ نہیں کہ الفضل للمتقدم (پہل کرنے والے
کو فضیلت حاصل ہوتی ہے) خصوصا ً علمائے سلف رضی اللہ تعالٰی عنا باکرامہم
وحشرنا فی زمرۃ خدامہم کہ جو کچھ ہے اُنہیں کی خدمت کلمات برکت آیات کا
نتیجہ اور اُنہیں کی بارگاہ دولت کا حصہ رسد بٹتا ہوا صدقہ:
باد صبا! اینہمہ آوردہ تست
اے ِ ع
ٰ
ہاں ہاں یہ کفش برادری خدام درگاہ فضائل پناہ اعلحضرت عظیم البرکت اعلم العلماء الربانین
افضل الفضالء الحقانیین حامی السنن السنیہ ماحی الفتن الدنیہ بقیہ السلف المصلحین حجۃ
ٰ ٰ
الخلف المفلحین آیۃ من آیات رب العلمین معجزۃ من معجزات سیدالمرسلین صلی اہلل تعالی
علیہ وسلم وبارک وسلم اجمعین ذی التصنیفات الرائقہ والتحقیقات الفائقہ والتدقیقات الشائقہ
تاج المحققین سراج المدققین اکمل الفقہاء المحدثین حضرت سیدنا الواجد امجد االماجد اطیب
ّ
االطائب موالنا مولوی محمد نقی علی خان صاحب محمدی سنی حنفی قادری برکاتی بریلوی قدس
ّ
اہلل سرہ ،وعم بر ہ وثم نورہ واعظم اجرہ واکرم نزلہ وانعم منزلہ والحرمنا سعدہ ولم یفتنا بعدہ والحمداہلل
ٰ
دہرالداہرین ہاں ہاں یہ ادنی خاکبوسی آستان رفیع غلمان منیع بندگان 5بارگاہ عرفان پناہ اقدس
حضرت آقائے نعمت دریائے رحمت اعرف العرفاء الکرام مرجع االولیاء العظام السحاب الہا مربفیض
القادر والعباب الزاخر بالفضل الباھر ذوالقرب الزاہر والعلو الظاہر والنسب الطاہر ملحق االصاغر بالجلۃ
االکابر معدن البرکات مخزن الحسنات من آل محمد سید الکائنات علیہ وعلیہم افضل الصلوات
وارث النجدات من حمزۃ الحمزات القمر المستبین بالنور المبین من شمس الدین ابی الفضل العظیم
ٰ ٰ
والشرف الکریم سیدنا ومولنا وملجانا وماوانا شیخی ومرشدی کنزی وذخری لیومی وغدمی اعلحضرت
سیدنا السید الشاہ آل رسول االحمدی فاطمی حسینی قادری برکاتی واسطی بلجرامی مارہری رضی
ٰ
اہلل تعالی عنہ واجرل واعظم قربہ منہ واشرق علینا من نورہ التام وافاض علینا من بحرہ الطام وجعلنا
ٰ
من خدمہ فی دارالسالم بفضل رحمۃ علیہ وعلی آبائہ الکرام والحمداہلل ابداآلبدین۔
عہد مابالب شیریں دہنان بست خداے
ماہمہ بندہ وایں قوم خداوند ا نند
(خدا نے شیریں دہنوں کے لبوں سے ہمارا عہد باندھ دیا ہے ،ہم سب بندے ہیں
اور یہ لوگ ہمارے آقا ہیں۔ ت)
خیر کہنا یہ تھا کہ یہاں بھی اِن شاء اللہ تعالٰی یہی طریقہ رعایت عــہ پائے گا
ولہذا ایک آدھ بحث کہ بقدر کافی طے کردی گئی اس سے تعرض اطناب سمجھا
جائے گا کہ مقصود اظہار احقاق ہے نہ اکثار اوراق۔
عــہ :السیما 5اذاکان فيئی الترتضیہ لوھن اوضعف نعلم فیہ ۱۲۔ (م)
ً ٰ
(حاشیہ 5کی اس عبارت سے غالبا اعلحضرت کی اپنی عبارت گزشتہ صفحہ ۱۶۴کی طرف اشارہ ہے :فقیر حقیر غفرلہ
المولی القدیر کو اپنی تصانیف مناظرہ بلکہ اکثر ان کے ماورا میں بھی حتی الوسع اپنے ہی فائضات قلب کو جلوہ دیا
ً
جائے ،ملخصا (نذیر احمد سعیدی)
ان چار فصل میں ماّل جی کے ادعائی بول یکسر برعکس ہیں سایہ بخت سے
سب قابل نکس ہ یں جابجا ثابت کو ناثابت ناثابت کو ثابت ساکت کو ناطق ناطق
کو ساکت ضعیف کو صحیح صحیح کو ضعیف تحریف کو توجیہ توجیہ کو تحریف
مؤول کو مفسر مفسر کو مؤول محتمل کو صریح صریح کو محتمل کہا اول تا
آخر کوئی دقیقہ تحکم ومکابرہ وتعصب مدابرہ کا نامرعی نہ رہا یہاں بعون ٖہ تعالٰی
عز مجدہ ہر فصل میں قول فصل وحق اصل بدالئل قاہرہ وبیانات باہرہ ظاہر
مصر کو بھی کیجئے کہ اگر زبان انصاف سالم وصاف ہوتو مکالف منکر مدعی ُ
معترف ومقر لیجئے ۔
وماذلک علی الل ّٰہ بعزیز ،ان ذلک علی الل ّٰہ یسیر ،ان الل ّٰہ علٰی کل شیئ
قدیر۔
اور یہ اللہ کیلئے مشکل نہیں ہے ،یہ اللہ پر آسان ہے ،اللہ ہر شیئ پر قادر ہے۔
(ت)
پیش نظر ہے
ِ یہ معارک جلیلہ تو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں رسالہ آپ کے
مالحظہ کیجئے داد انصاف دیجئے
ع فی طلعۃ الشمس مایغنیک عن خبر
سورج طلوع ہوجائے تو اس کی اطالع Zدینے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ ت) ( ُ
اس کے سوا نفس مسئلہ میں ماّل جی نے اپنے موافق Zکہیں چودہ ۱۴کہیں پندرہ۱۵
صحابیوں سے روایات آنا بیان کیا اور خود ہی اُسے بگاڑ کر کمی کی طرف پلٹے
اور چار سے زیادہ ظاہر نہ کرسکے اُن میں بھی عنداالنصاف اگر کُچھ لگتی ہوئی
بات ہے تو صرف ایک سے۔ میں بعون ٖہ تعالٰی اپنے موافق روایات تئیس ۲۳صحابہ
کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم Zسے الؤں گا ،ماّل جی صرف چار حدیثیں پیش خویش
اپنے مفید دکھاسکے جن میں حقیق ًۃ کوئی بھی ان کے مفید نہیں اور آیت کا تو اُن
کی طرف نام بھی نہیں ،میں بحول اللہ تعالٰی اُن سے دُونی آیتیں اور دس گنی
حدیثیں اپنی طرف دکھاؤں گا ،میں یہ بھی روشن کردوں گا کہ حنفیہ کرام پر غیر
مقلدوں کی طعنہ زنی ایسی پوچ ولچر بے بنیاد ہوتی ہے ،میں یہ بھی بتادُوں گا
کہ ان صاحبوں کے عمل بالحدیث کی حقیقت اتنی ہے ،میں یہ بھی دکھادوں گا کہ
ماّل جی صاحب جو آج کل مجتہد العصر اور تمام طائفہ کے استاد مانے گئے ہیں
اُن کی حدیث دانی ایک متوسط طالب علم سے بھی گرے درجہ کی ہے
ّ ّ ہّٰلل
کل ذلک بعون الملک العزیز القریب المجیب وماتوفیقی اال با علیہ توکلت والیہ انیب وھذا اوان
ٰ ّ ہّٰلل
الشروع فی المقصود متوکال علی واھب الفیض والجود والحمد العلی الودود والصالۃ والسالم علی
ٰ
احمد محمود محمد والہ الکرام السعود امین۔
فصل اول طلوع فجر نوری بہ اثبات جمع صوری:
حضور پُرنور سید یوم النشور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے جمع صوری کا
ثبوت اصال ً محل کالم نہیں اور وہی مذہب مہذب ائمہ حنفیہ ہے اس میں صاف
صریح جلیل وصحیح احادیث مروی مگر ماّل جی تو انکارِ آفتاب کے عادی ،بکمال
سنادی کہ کوئی حدیث صحیح ایسی نہیں جس سے ثابت شوخ چشمی بے نقط ُ
ہوکہ آنحضرت عــہ جمع صوری سفر میں کیا کرتے تھے ، ؎۱بہت اچھا ذرانگاہ
وبرو۔
ُر ُ
ص)۴۰۱ مکتبہ نذیریہ الہور ( ؎۱معیار الحق مسئلہ پنجم جمع بین الصلٰوۃ
ٰ
آلہ وصحبہ وبارک وکرم ۱۲منہ (م)
عــہ صلی اہلل علیہ وسلم وعلی ٖ
حدیث :۱جلیل وعظیم Zحدیث سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کہ
اُس جناب سے مشہور ومستفیض ہے جسے امام بخاری وابوداؤد ونسائی نے
سی بن ابان نے کتاب الجج علٰی اہ ِ
ل مدینہ اور امام اپنی صحاح اور امام عی ٰ
معیل نے مستخرج طحاوی نے شرح معانی اآلثار اور ذہلی نے زہریات اور اس ٰ
صحیح بخاری میں بطرق عدیدہ کثیرہ روایت کیا:
فالبخاری واالسمعیلی والذھلی من طریق اللیث بن سعد عن یونس عن الزھری ،والنسائی من طریقی
یزید بن زریع والنضربن 5شمیل عن کثیر بن قاروندا کالھما عن سالم۔ والنسائی عن قتیبۃ والطحاوی
عن ابی عامر العقدی والفقیہ فی الحجج ثلثتھم عن العطاف ،وابوداؤد عن فضیل بن غزوان ،وعن
ٰ ہّٰلل
عبدا بن العالء ،وایضا ھوعیسی والنسائی عن الولید والطحاوی عن بشر بن بکر ،ھؤالء الثلثۃ عن
ابن جابر ،والطحاوی عن اسامۃ بن زید ،خمستھم اعنی العطاف وفضیال وابن العالء وجابر واسامۃ عن
ہّٰلل ٰ ٰ ہّٰلل
نافع۔ وابوداؤد عن عبدا بن واقد۔ والطحاوی عن اسمعیل بن عبدالرحمن اربعتھم عن عبدا بن
ہّٰلل
عمر رضی ا عنھما۔
معیل اور ذہلی نے لیث ابن سعد کے طریقے سے یونس سے ،اس نے بخاری ،اس ٰ
زہری سے روایت کی ہے۔ اور نسائی نے یزید ابن زریع اور نضر ابن شمیل کے دو
۲طریقوں سے کثیر ابن قاروندا سے روایت کی ہے۔ دونوں (زہری اور کثیر)
سالم سے راوی ہیں۔ نسائی نے قتیبہ سے ،طحاوی نے ابوعامر عقدی سے اور
فقیہ نے حجج میں یہ تینوں عطاف سے روایت کرتے ہیں۔ اور ابوداؤد نے فضیل
ابن غزوان سے اور عبداللہ ابن عالء سے روایت کی ہے۔ اور ابوداؤد نے ہی
سی سے ،نسائی نے ولید سے ،طحاوی نے بشر ابن بکر سے ،یہ تینوں عی ٰ
س ی ،ولید ،بشر) جابر سے روایت کرتے ہیں۔ اور طحاوی نے اسامہ ابن زید (عی ٰ
سے روایت کی ہے۔ یہ پانچوں یعنی عطاف ،فضیل ،عبداللہ ،جابر اور اسامہ نافع
معیلسے راوی ہیں ،نیز ابوداؤد عبداللہ ابن واقد سے راوی ہیں اور طحاوی اس ٰ
معیل) ابن عبدالرحمن سے راوی Zہیں۔ چاروں (سالم ،نافع ،عبداللہ ابن واقد ،اس ٰ
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے (ناقل ہیں) (ت)
فقیر غفراللہ تعالٰی نے جس طرح یہاں جمع وتلخیص طرق کی اکمال المحجہ
وایضاح الحجہ کیلئے اُن کے اکثر نصوص والفاظ بھی وارد کرے وباللہ التوفیق،
سنن ابوداؤد Zمیں بسند صحیح ہے :حدثنا محمد بن عبید المحاربی نامحمد بن فضیل عن
ہّٰلل
ابیہ عن نافع وعبدا بن واقد ان مؤذن ابن عمرقال :الصالۃ ،قال :سر ،حتی اذاکان قبل غیوب الشفق
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
نزل۔ فصلی المغرب ،ثم انتظر حتی غاب الشفق فصلی العشاء ،ثم قال :ان رسول ا صلی ا تعالی
ٰ
علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امرصنع مثل الذی صنعت فسار فی ذلک الیوم واللیلۃ مسیرۃ ثلث ؎۱۔
یعنی نافع وعبداللہ بن واقد دونوں تالمذہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما
فرماتے ہیں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے مؤذن نے نماز کا تقاضا کیا،
فرمایا چلویہاں تک کہ شفق ڈوبنے سے پہلے اُتر کر مغرب پڑھی پھر انتظار
فرمایا یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشا پڑھی پھر فرمایا :حضور سید
عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کوئی جلدی ہوتی تو ایسا ہی کرتے جیسا میں
نے کیا۔ ابن عمر نے اس دن رات میں تین رات دن کی راہ قطع کی (م)
)۱/۱۷۱ مطبوعہ اصح المطابع کراچی باب الجمع بین الصالتین ( ؎۱سنن ابی داؤد
ٰ ٰ
ابوداود نے فرمایا :رواہ ابن جابر عن نافع نحو ھذا باسنادہ حدثنا ابراھیم بن موسی الرازی انا عیسی ابن
ہّٰلل
جابر بھذا المعنی ورواہ عبدا بن العالء عن نافع ،قال :حتی اذاکان عندذھاب الشفق نزل فجمع
بینھما ؎۲۔
اس کو ابن جابر نے نافع سے اسی طرح روایت کیا ہے مع اسناد کے حدیث بیان
سی ابنسی رازی نے ،اس نے کہا کہ خبر دی ہمیں عی ٰ کی ہم سے ابراہیم Zابن مو ٰ
جابر نے اس مفہوم کے ساتھ اور روایت کیا ہے اسکو عبداللہ بن عالء نے نافع
سے کہ انہوں نے کہا :جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہُوئی اتر کر دونوں نمازیں جمع
کیں۔ (ت)
مطبوعہ اصح المطابع کراچی )۱۷۱/ ۱ باب الجمع بین الصالتین ( ؎۲سنن ابی داؤد
نسائی کی روایت بسند صحیح یوں ہے :اخبرنا محمود بن خالدثنا الولید ثنا ابن جابرثنی نافع قال:
ہّٰلل
فاتاہآت فقال :ان صفیۃ بنت ابی عبید لمابھا،ٍ ارضالہ، یرید سفر، فی عمر بن خرجت مع عبدا
فانظران تدرکھا۔ فخرج مسرعا ،ومعہ رجل من قریش یسایرہ ،وغابت الشمس فلم یصل الصالۃ ،وکان
ہّٰلل
عھدی بہ وھو یحافظ علی الصالۃ ،فلما ابطاء قلت :الصالۃ ،یرحمک ا ،فالتفت ای ومضی ،حتی
ٰ
اذاکان فی اخر الشفق نزل فصلی المغرب ،ثم اقام العشاء وقد تواری الشفق فصلی بنا ،ثم اقبل علینا،
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
فقال :ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم کان اذاعجل بہ السیر صنع ھکذا ؎۱۔
یعنی نافع فرماتے ہیں عبداللہ بن عمر اپنی ایک زمین کو تشریف لیے جاتے تھے
کسی نے آکر کہا آپ کی زوجہ صفیہ عــہ بنت ابی عبید اپنے حال میں مشغول
سرعت چلے اور اُن کے ساتھ ایک سن کر بہ ُ
ہیں شاید ہی آپ انہیں زندہ پائیں۔ یہ ُ
سورج ڈوب گیا اور نماز نہ پڑھی اور میں نے ہمیشہ اُن کی مرد قریشی تھا ُ
عادت یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے تھے جب دیر لگائی میں نے
کہ ا نماز خدا آپ پررحم فرمائے میری طرف پھر کر دیکھا اور آگے روانہ ہُوئے
صہ رہا اُتر کر مغرب پڑھی پھر عشا کی تکبیر اس حال میں جب شفق کا اخیر ح ّ
کہی کہ شفق ڈوب چکی اُس وقت عشا پڑھی پھر ہماری طرف منہ کرکے کہا
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی
کرتے۔ (م)
مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ ( ؎۱سنن نسائی
کتب کراچی)۱/۹۹
ہّٰلل ٰ
عــہ :ھی اخت مختار 5الکذاب المشہور 5،وابوھا ابوعبید رضی ا تعالی عنہ من الصحابۃ ،استشھد فی خالفۃ
ہّٰلل ٰ
امیرالمؤمنین ،اماھی ،ففی عمدۃ القاری ،ادرکت النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم وسمعت منہ۔ اھ وفی ارشاد الساری،
الصحابیۃ الثقفیۃ اخت المختار ،وکانت من العابدات۔ اھ لکن قال الحافظ فی التقریب 5:قیل لھا ادراک ،وانکرہ الدارقطنی5،
وقال العجلی 5:ثقہ فھی من الثانیۃ۔ اھ وحقق فی االصابۃ نفی السماع واثبات االدراک ظنا ،فراجعہ۔ وقدحدث عن ازواج
ہّٰلل ٰ
النبی صلی ا تعالی علیہ وعلیھن وسلم ۱۲منہ (م)
ٰ
صفیہ ،مشہور مختار 5کذاب کی بہن تھیں۔ ان کے والد ابوعبیدہ رضی اہلل تعالی عنہ صحابہ میں سے تھے،
امیرالمومنین 5کی خالفت کے دوران شہید ہوگئے تھے۔صفیہ کے بارے میں عمدۃ القاری میں لکھا ہے کہ انہوں نے
ٰ
رسول اہلل صلی اہلل تعالی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا۔ اور ارشاد الساری میں ہے کہ یہ بنی ثقیف سے تعلق رکھنے والی
صحابیہ تھیں اور مختار 5کی بہن تھیں 5،عبادت گزار خواتین میں سے تھیں۔ لیکن حافظ نے تقریب میں لکھا ہے کہ بعض
ٰ
نے کہا ہے کہ صفیہ نے رسول اہلل صلی اہلل تعالی علیہ وسلم کا زمانہ پایا تھا لیکن دارقطنی نے اس کا انکار کیا ہے اور
عجلی نے کہا ہے کہ ثقہ تھیں۔ اس لحاظ سے یہ طبقہ ثانیہ میں ہوں گی (یعنی تابعیات سے) اصابہ میں ثابت کیا
ہے کہ صفیہ نے رسول اہلل صلی اہلل علیہ وسلم کا کالم تو نہیں 5سنا البتہ ہوسکتا ہے کہ آپ کا زمانہ پایا ہو۔ اس
ازواج مطہرات سے احادیث بیان کی ہیں۔(ت) سلسلے میں اصابہ کی طرف رجوع کرو۔ صفیہ نے ِ
اسی طرح امام طحاوی نے روایت کی فقال حدثنا ربیع المؤذن ثنا بشربن بکرثنی
ابن جابر ثنی نافع ؎۱فذکرہ۔ نیز نسائی نے بسند حسن بطریق اخبرنا قتیبۃ بن
سعید حدثنا العطاف ؎۲اور ابوجعفر نے بطریق حدثنا یزید بن سنان ثنا ابوعامر
العقدی ثنا العطاف بن خالد المخزومی ؎۳اور امام فقیہ نے حجج میں بالواسطہ
روایت کی کہ اخبرنا عطاف بن خالد المخزومی المدینی قال اخبرنا نافع قال
اقبلنا مع ابن عمر من مکۃ ،حتی اذاکان ببعض الطریق استصرخ علی زوجتہ،
فقیل لہ انھا فی الموت ،فاسرع Zالسیر ،وکان اذانودی بالمغرب نزل مکانہ فصلی،
فلما کان تلک اللیلۃ نودی بالمغرب فسار حتی امسینا فظننا انہ نسی ،فقلنا:
الصالۃ ،فسار حتی اذاکان الشفق قرب ان یغیب نزل فصلی المغرب ،وغاب
الشفق فصلی العشاء ثم اقبل علینا فقال :ھکذا کنا نصنع مع رسول الل ّٰہ صلی الل ّٰہ
تعالٰی علیہ وسلم اذاجدبنا السیر۔
( ؎۱شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصلٰوتین ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )۱/۱۱۲
مجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشائ مکتبہ سلفیہ ( ؎۲سنن النسائی الوقت الذی
( ؎۳شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصالتین الخ الہور )۱/۷۰
ایچ ایم سعید کمپنی کراچی )۱/۱۱۳
(یعنی امام نافع فرماتے ہیں را ِہ مک ّہ میں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے جب
شفق ڈوبنے کے قریب ہُوئی اُتر کر مغرب پڑھی اور شفق ڈوب گئی اب عشاء
منہ کرکے کہا ہم رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پڑھی پھر ہماری طرف ُ
سیکے ساتھ ایسا ہی کیا کرتے تھے جب چلنے میں کوشش ہوتی تھی) امام عی ٰ
بن ابان نے اسے روایت کرکے فرمایا:
ٰ
وھکذا قال ابوحنیفۃ فی الجمع بین الصالتین ان یصلی االول منھما فی اخر وقتھا ،واالخری فی اول
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ ہّٰلل
وقتھا ،کما فعل عبدا بن عمر رضی ا تعالی عنھا ،ورواہ عن النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم
؎۴
( ؎۴کتاب الحجۃ باب الجمع الصلٰوۃ فی السفردار المعارف نعمانیہ الہور )۱۷۵ ،۱/۱۷۴
(یعنی دو ۲نمازیں جمع کرنے میں یہی طریقہ امام ابوحنیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ
کا مذہب ہے کہ پہلی کو اس کے آخر وقت اور پچھلی کو اُس کے اوّل وقت میں
پڑھے جیسا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے خود کیا اور حضور سید
عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت فرمایا) نیز امام طحاوی نے اور
طریق سے یوں روایت کی:
ہّٰلل
حدثنا فحدثنا الحمانی ثنا عبدا بن المبارک عن اسامہ بن زید اخبرنی نافع ،وفیہ حتی اذاکان عند
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
غیبوبۃ الشفق فجمع بینھما وقال رأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم یصنع ھکذا اذاجدبہ
السیر ؎۵
(یعنی جب شفق ڈوبنے کے نزدیک ہوئی اُتر کر دونوں نمازیں جمع کیں اور
فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو یوں ہی کرتے دیکھا جب
حضور کو سفر میں جلدی ہوتی)
ایچ ایم سعید کمپنی باب الجمع بین الصلٰوتین الخ ( ؎۵شرح معانی اآلثار
کراچی )۱/۱۱۲
ٰ
یہ طرق حدیث نافع عن عبداہلل عن النبی صلی اہلل تعالی علیہ وسلم کے تھے ،اور صحیح بخاری
ابواب التقصیر باب ھل یؤذن اویقیم اذاجمع بین المغرب والعشاء میں یوں ہے :حدثنا ابو الیمان قال
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
اخبرنا شعیب عن الزھری قال اخبرنی سالم عن عبدا ابن عمر رضی ا تعالی عنھما قال :رأیت
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاعجلہ السیر فی السفر یؤخر صالۃ المغرب حتی یجمع بینھا
ہّٰلل
وبین العشاء۔ قال سالم ،وکان عبدا یفعلہ اذااعجلہ السیر ،ویقیم المغرب فیصلیھا ثلثا ثم یسلم ،ثم
قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ؎۱۔ الحدیث۔
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱/۱ ( ؎۱جامع صحیح البخاری باب ھل یؤذ ّن اویقیم الخ
)۴۹
ا ُسی کے باب یصلی المغرب ثلثا فی السفر میں بطریق مذکور وکان عبدالل ّٰہ
یفعلہ اذاعجلہ السیر تک روایت کرکے فرمایا ؎۲
)۱/۱۴۸ ( ؎۲جامع صحیح البخاری باب یصلی المغرب ثلثانی السفر
ہّٰلل ٰ
وزاد اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شھاب قال سالم کان ابن عمر رضی ا تعالی عنھما یجمع بین
ٰ
المغرب والعشاء بالمزدلفۃ۔ قال سالم :واخر ابن عمرالمغرب ،وکان استصرخ علی امرأتہ صفیۃ بنت
ّ ٰ
ابی عبید ،فقلت لہ :الصالۃ ،فقال :سر ،فقلت لہ :الصالۃ ،فقال :سر ،حتی سارمیلین اوثلثۃ ،ثم نزل
ہّٰلل ٰ
فصلی ،ثم قال :ھکذا رأیت النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم اذااعجلہ السیر یؤخر المغرب فیصلیھا
ثلثا ثم یسلم ،ثم قلما یلبث حتی یقیم العشاء فیصلیھا رکعتین ؎۳الحدیث۔
(ان دونوں روایتوں کا حاصل یہ کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما ایام ِ حج میں
ذی الحجہ کی دسویں رات مزدلفہ میں مغرب وعشاء جمع کرکے پڑھتے اور جب
اپنی بی بی کی خبر گیری کو تشریف لے گئے تھے تو یوں کیا کہ مغرب کو آخر
کیا ،میں نے کہ ا نماز ،فرمایا چلو ،میں نے پھر کہا نماز۔ فرمایا چلو ،دو ۲تین ۳میل
چل کر ا ُترے اور نماز پڑھی ،پھر فرمایا میں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
کو دیکھا کہ جب سفر میں جلدی ہوتی ایسا ہی کرتے ،مغرب اخیر کرکے تین۳
رکعت پڑھتے پھر سالم پھیر کر تھوڑی دیر انتظار فرماتے پھر عشا کی اقامت
فرماکر دو ۲رکعت پڑھتے)
ََْ ہّٰلل
نسائی کے یہاں یوں ہے :اخبرنی محمد بن عبدا بن بزیع حدثنا یزید بن ذریع حدثنا کثیر بن قاروندا
ہّٰلل
قال :سألت سالم بن عبدا عن صالۃ ابیہ فی السفر وسألناہ ھل کان یجمع بین شیئ من صالتہ فی
ٰ
سفرہ؟ فذکر ان صفیۃ بنت ابی عبید کانت تحتہ فکتبت الیہ ،وھو فی زراعۃ لہ ،انی فی اخر یوم من ایام
الدنیا واول یوم من االخرۃ ،فرکب فاسرع السیر الیھا ،حتی اذاحانت صالۃ الظھر قال لہ المؤذن :الصالۃ
ٰ
یاابا عبدالرحمن! فلم یلتفت ،حتی اذاکان بین الصالتین نزل ،فقال :اقم ،فاذا سلمت فاقم ،فصلی ثم
رکب حتی اذاغابت الشمس ،قال لہ المؤذن :الصالۃ ،فقال :کفعلک فی صالۃ الظھر والعصر ،ثم سار
حتی اذا اشتبکت النجوم نزل ،ثم قال المؤذن :اقم فاذاسلمت فاقم ،فصلی ثم انصرف فالتفت الینا
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
فقال ،قال رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاحضر احدکم االمر الذی یخاف فوتہ فلیصل ھذہ
الصالۃ ؎۱۔
مطبوعہ نور محمد کارخانہ الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ ( ؎۱سنن النسائی
)۱/۹۸ تجارت کتب کراچی
ابن عمر رضی ِ (خالصہ یہ کہ جب صفیہ کا خط پہنچا کہ اب میرا دم ِ واپسیں ہے
اللہ تعالٰی عنہما شتاباں چلے ،نماز کیلئے ایسے وقت اُترے کہ ظ ہر کا وقت جانے
ُ
کو تھا اور عصر کا وقت آنے کو ،اُس وقت ظہر پڑھ کر عصر پڑھی اور مغرب
کے لئے اُس وقت اُترے جب تارے خُوب کھِل آئے تھے (جس وقت تک بالعذر
مغرب میں دیر لگانی مکروہ ہے ،اُسے پڑھ کر عشاء پڑھی اور کہا رسول اللہ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :جب تم میں کسی کو ایسی ضرورت پیش
آئے جس کے فوت کا اندیشہ ہوتو اس طرح نماز پڑھے) نیز اسی حدیث میں
دوسرے طریق سے یوں زائد کیا :اخبرنا عبدۃ بن عبدالرحیم ثنا ابن شمیل ثنا کثیر بن
ہّٰلل ہّٰلل ََ
قاروندا قال سألنا سالم بن عبدا عن الصالۃ فی السفر ،فقلنا اکان عبدا یجمع بین شیئ من
الصالۃ فی السفر؟ فقال ال اال یجمع ؎۲
مطبوعہ نور محمد کارخانہ الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ ( ؎۲سنن النسائی
)۱/۹۹ تجارت کتب کراچی
یعنی ہم نے سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم Zسے سوال کیا کہ
حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سفر میں کسی نماز کو دُوسری
کے ساتھ جمع فرماتے تھے کہا نہ سوا مزدلفہ کے) (جہاں کا مالنا سب کے نزدیک
باالتفاق ہے) پھر وہی حدیث بیان کی کہ اُس سفر میں اُس طریق سے نمازیں
پڑھی تھیں۔ اس حدیث جلیل کے اتنے طُرق کثیرہ ہیں جن سے آفتاب کی طرح
روشن کہ حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم وصحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی
عنہم نے سفر میں بحال شتاب وضرورت جمع صوری فرمائی ہے اور یہی ہمارے
ائمہ کرام کا مذہب ہے۔
حدیث :۲امام اجل احمد بن حنبل مسند اور ابوبکر بن ابی شیبہ استاذ بخاری
ومسلم مصنف میں بسند حسن بطریق اپنے شیخ وکیل بن الجراح کے اور امام
طحاوی معانی اآلثار میں بطریق حدثنا فھدثنا الحسن بن البشیر ثنا المعافی بن عمران کالھما
ٰ
عن مغیرہ بن زیاد الموصلی عن عطاء بن ابی رباح ام المومنین صدیقہ رضی اہلل تعالی عنہا سے
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
راوی قالت کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم فی السفر یؤخر الظھر ویقدم العصر ،ویؤخر
المغرب ویقدم العشاء ؎۱
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب الجمع بین صالتین الخ ( ؎۱شرح معانی اآلثار
)۱/۱۱۳
(حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں ظہر کو دیر فرماتے عصر
کو اول وقت پڑھتے مغرب کی تاخیر فرماتے عشاء کو اوّل وقت پڑھتے)
حدیث :۳ابوداؤد اپنی سنن باب متی یتم المسافر اور ابوبکر بن ابی شیبہ نے اپنی
مصن ّف میں بسند حسن جید متصل حضرت عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی بن
ابی طالب وہ اپنے والد ماجد محمد بن عمر بن علی وہ اپنے والد ماجد عمر بن
ضی کرم اللہ تعالٰی وجہہ ،سے روایت کرتے ہیں:علی مرت ٰ
ً
ان علیا کان اذاسافر سار بعد ما تغرب الشمس حتی تکاد ان تظلم 5،ثم ینزل فیصلی المغرب ،ثم یدعو
ٰ ہّٰلل
بعشائہ فیتعشی ،ثم یصلی العشاء ،ثم یرتحل۔ ویقول :ھکذا کان رسول ا صلی اﷲ تعالی علیہ وسلم
یصنع ؎۲۔
)۱/۱۷۳ مطبوعہ مجتبائی الہور پاکستان باب متی تیم المسافر ( ؎۲سنن ابی داؤد
ضی کرم اللہ تعالٰی وبہہ االسنیZ
(یعنی امیرالمومنین مولی المسلمین علی مرت ٰ
جب سفر فرماتے سورج ڈوبے پر چلتے رہتے یہاں تک کہ قریب ہوتا کہ تاریکی
ہوجائے پھر ا ُتر کر مغرب پڑھتے پھر کھانا منگا کر تناول فرماتے پھر عشا پڑھ کر
کُوچ کرتے اور کہتے اسی طرح حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کیا
کرتے تھے)۔
امام عینی نے عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں اس حدیث کی سند کو
فرمایا :الباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں)۔
ٰ
حدیث :۴طحاوی بطریق ابی خثیمہ عن عاصم االحول عن ابی عثمن راوی قال وفدت انا وسعد بن
مالک ونحن بنادر للحج ،فکنا نجمع بین الظھر والعصر ،نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ ،ونجمع بین
المغرب والعشاء ،نقدم من ھذہ ونؤخر من ھذہ ،حتی قدمنا مکۃ ؎۳
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب الجمع بین صالتین الخ ( ؎۳شرح معانی اآلثار
)۱/۱۱۴
(یعنی میں اور حضرت سعد بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ حج کی جلدی میں
مکہ معظمہ تک ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو یوں جمع کرتے گئے کہ ظہر
ومغرب دیر کرکے پڑھتے اور عصر وعشا جلد)
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
حدیث :۵نیز امام ممدوح عبدالرحمن بن یزید سے راوی صحبت عبدا بن مسعود رضی ا تعالی
عنہ فی حجہ فکان یؤخر الظھر ویعجل العصر ،ویؤخذ المغرب ویعجل العشاء ،ویسفر بصالۃ الغداۃ ؎۴۔
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی باب الجمع بین صالتین الخ ( ؎۴شرح معانی اآلثار
)۱/۱۱۴ کراچی
(میں حج میں حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ہمراہ رکاب تھا
ظہر میں دیر فرماتے اور عصر میں تعجیل مغرب میں تاخیر کرتے عشاء میں
جلدی اور صبح روشن کرکے پڑھتے) امام مدوح ان احادیث کو روایت کرکے
فرماتے ہیں:
ہّٰلل
وجمیع ماذھبنا الیہ من کیفیۃ الجمع بین الصالتین قول ابی حنیفۃ وابی یوسف ومحمدرحمھم ا
ٰ
تعالی ؎۱۔
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی باب الجمع بین صالتین الخ ( ؎۱شرح معافی اآلثار
)۱/۱۱۴ کراچی
نمازیں جمع کرنے کا یہ طریقہ جو ہم نے اس باب میں اختیار فرمایا یہ سب امام
اعظم وامام ابویوسف وامام محمد کا مذہب ہے رضی اللہ تعالٰی عنہم (م)
ٰ ُ
الحمداہلل جمع صوری کا طریقہ حضور پرنور سید عالم صلی اہلل تعالی علیہ وسلم وحضرت مولی
ٰ
علی وعبداہلل بن مسعود وسعد بن مالک وعبداہلل بن عمرو غیرہم صحابہ کرام رضی اہلل تعالی
عنہم سے روشن وجہ پر ثابت ہوا اور امام المذہبان کا وہ جبروتی ادعاکہ اس میں کوئی حدیث صحیح
نہیں ،اور اس سے بڑھ کر یہ بانگ بے معنی کہ یہ روایات جن سےجمع صوری کرنی ابن عمر کی
واضح ہوتا ہے سب واہیات اور مردود اور شاذ اور مناکیر ہیں اور بشدت حیایہ خاص جحود وافترا کہ
ابن عمر نے اس کیفیت سے ہرگز نمازیں جمع نہیں کیں جیسا کہ ان روایتوں سے معلوم ہوتا ہے ؎۲
اپنی سزائے کردار کو پہنچا اب ایضاح مرام وازاحت اوہام کو چند افادات کا استماع کیجئے۔
ص)۳۹۶ مکتبہ نذیریہ الہور جمع بین الصلٰوتین ( ؎۲معیارالحق مسئلہ پنجم
افادہ اولٰی:المذہب ماّل کو جب کہ انکار جمع صوری میں چاند پر خاک اُڑانی تھی
اور احادیث مذکورہ صحاح مشہورہ میں موجود ومتداول تو بے َرد صحاح چارہ کار
کیا تھا لہذا بایں پیرانہ سالی حضرت کے رقص جملی مالحظہ ہوں:
لطیفہ :۱ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کی حدیث جلیل وعظیم کے پہلے طریق
صحیح مروی سنن ابی داود کو محمد بن فضیل کے سبب ضعیف کیا۔
اقول اوّال ً :یہ بھی شرم نہ آئی کہ یہ محمد بن فضیل صحیح بخاری وصحیح مسلم
کے رجال سے ہے۔
ثانیاً :امام ابن معین جیسے شخص نے ابن فضیل کو ثقہ امام احمد نے حسن
الحدیث ،امام نسائی نے الباس بہ (اس میں کوئی نقص نہیں۔ ت) کہا ،امام احمد
نے اُس سے روایت کی اور وہ جسے ثقہ نہیں جانتے اُس سے روایت نہیں فرماتے
سر اُس کے حق میں ذکر نہ کی۔میزان میں اصال ً کوئی جرح مف ّ
ثالثا ً :یہ بکف چراغی قابل تماشا کہ ابن فضیل کے منسوب برفض ہونے کا
دعوٰی کیا اور ثبوت میں عبارت تقریب رمی بالتشیع ماّل جی کو بایں سالخوردی
محاورات سلف واصطالح Zمحدثین میں
ِ ودعوٰی محدثی آج تک اتنی خبر نہیں کہ
تشیع ورفض میں کتنا عـــہ فرق ہے ۔
ہّٰلل
عـــہ :کماصرحوا بہ وتدل علیہ محاوراتھم ،منھا مافی المیزان فی ترجمۃ الحاکم بعد ماحکی القول برفضہ ،ا یحب
االنصاف ،ماالرجل برافضی بل شیعی 5فقط اھ ۱۲منہ (م)
ً
جیسا کہ علماء نے تصریح کی ہے اور ان کے محاورات سے بھی واضح ہے۔ مثال میزان میں حاکم کے حاالت میں کسی
کا یہ قول نقل کیا ہے کہ وہ رافضی تھا۔ اس کے بعد کہا ہے ''اہلل انصاف کو پسند کرتا ہے ،یہ آدمی رافضی نہیں ہے،
صرف شیعہ ہے''۔ (ت)
زبان متاخرین میں شیعہ روافض کو کہتے ہیں خذلہم اللہ تعالٰی جمیعا بلکہ آج کل
خالف تہذیب جانتے اور انہیں شیعہ ہی ِ کے بیہودہ مہذبین روافض کو رافضی کہنا
ماّل ئی
ماّل جی کے خیال میں اپنی ُ
کے لقب سے یاد کرنا ضروری مانتے ہیں خود ُ
کے باعث یہی تازہ محاورہ تھا یا عوام کو دھوکا دینے کیلئے متشیع کو رافضی بنایا
سن
ِ ححاالنکہ سلف میں جو تمام خلفائے کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کے ساتھ ُ
عقیدت رکھتا اور حضرت امیرالمومنین مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم
عثمان غنیِ کو ا ُن میں افضل جانتا شیعی کہا جاتا بلکہ جو صرف امیرالمومنین
رضی اللہ تعالٰی عنہ پر تفضیل دیتا اُسے بھی شیعی کہتے ہیں حاالنکہ یہ مسلک
بعض علمائے اہلسنّت کا تھا اسی بناء پر متعدد ائمہ کوفہ کو شیعہ کہاگیا بلکہ
کبھی محض غلبہ محبت اہل بیت کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم Zکو شیعیت سے
تعبیر کرتے حاالنکہ یہ محض سنیت ہے امام ذہبی نے تذکرۃ الحفّاظ میں خود انہیں
محمد بن فضیل کی نسبت تصریح کی کہ ان کا تشیع صرف مواالت تھا وبس۔
ٰ
حیث قال :محمد بن فضیل بن غزوان ،المحدث الحافظ ،کان من علماء ھذا الشان ،وثقہ یحيی بن
َ
معین ،وقال احمد :حسن الحدیث ،شیعی۔ قلت :کان متوالیا فقط ؎۱۔
۱ مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباددکن فی ترجمۃ محمد بن فضیل ( ؎۱تذکرۃ الحفاظ
)/۲۹۰
چنانچہ ذہبی نے کہا ہے کہ محمد ابن غزوان ،جوکہ محدّث اور حافظ ہے ،حدیث
کے علماء میں سے تھا یحیٰی ابن معین نے اس کو ثقہ قرار دیا ہے اور احمد نے
ل بیتکہا ہے کہ اچھی حدیثیں بیان کرتا ہے مگر شیعہ ہے۔ میں نے کہا ''صرف اہ ِ
سے محبت رکھتا تھا''۔ (ت)
رابعاً:ذرا رواۃ صحیحین دیکھ کر شیعی کو رافضی بناکر تضعیف کی ہوتی ،کیا
بخاری ومسلم سے بھی ہاتھ دھونا ہے ان کے رواۃ عــہ میں تیس ۳۰سے زیادہ
اصطالح قدماء پر بلفظ تشیع ذکر کیا جاتا یہاں تک کہ
ِ ایسے لوگ ہیں جنہیں
تدریب میں حاکم سے نقل کیا کتاب مسلم مالٰن من الشیعۃ ؎۱
مطبوعہ دارنشر الکتب روایۃ المبتدع ( ؎۱تدریب الرادی شرح تقریب النواوی
االسالمیہ الہور )۱/۳۲۵
(مسلم کی کتاب شیعوں سے بھری ہوئی ہے۔ ت) دُور کیوں جائیے خود یہی ابن
فضیل کہ واقع Zکے شیعی صرف بمعنی محب اہل بیت کرام اور آپ کے زعم میں
معاذاللہ رافضی صحیحین کے راوی ہیں۔
ٰ ُ ٰ ٰ ّ ٰ ً
عــہ :مثال ابان بن تغلب ،اسمعیل بن ابان وراق ،اسمعیل بن زکریا ،اسمعیل بن عبدالرحمن سدی صدوق یھم ،بکیر بن
ٰ ہّٰلل
عبدا ،جریر بن عبدالحمید ،جعفر بن سلیمن 5،حسن بن صالح ،خالد بن مخلد قطوانی ،ربیئع بن انس صدوق لہ اوھام،
ہّٰلل
زاذان کندی ،سعید 5بن فیروز 5،سعید 5بن عمرو ھمدانی ،عباد بن یعقوب رواجنی ،عبادبن عوام کالبی ،عبدا بن عمر
ٰ ہّٰلل ّ ٰ ہّٰلل
صاحب مصنف ،عبدالملک بن اعین ،عبیدا بن موسی ،عدی بن ِ عبدالرزاق، کوفی، ی عیس بن مشکدانہ ،عبدا
ُ
ثابت ،علی بن الجعد ،علی بن ھاشم بن البرید ،فضل بن دکین ابونعیم ،فضیل بن مرزوق ،فطربن خلیفۃ ،مالک بن
ٰ ٰ
صاحب مغازی ،محمد بن جحادہ اور یہی محمد بن فضیل ،ھشام بن سعد 5،یحیی بن
ِ ق اسح بن محمد نھدی، عیل اسم
ہّٰلل ٰ
الجزار وغیرہم ۱۲منہ رضی ا تعالی عنہ (م)
اُس کے ساتھ ہی حدیث کی متابعتین دو ۲ثقات عدول ابن جابر خامساً:
وعبداللہ بن العال سے ابوداود نے ذکر کردیں اور سنن نسائی وغیرہ میں بھی
موجود تھیں پھر ابن فضیل پر مدار کب رہا ولکن الجھلۃ الیعلمون (لیکن جاہل جانتے
نہیں ہیں۔ ت) اور یہ تو ادنٰی نزاکت ہے کہ تقریب میں ابن فضیل کی نسبت
صدوق عارف لکھا تھا ماّل جی نے نقل میں عارف اُڑادیا کہ جو کلمہ مدح کم ہو
وہی سہی۔
طرفہ تماشا کہ متابعت ابن جابر جو امام داؤد Zنے ذکر کی آپ اسے لطیفہ :۲
یوں کہہ کر ٹال گئے کہ وہ تعلیق ہے اور تعلیق حجت نہیں اب کون کہے کہ کسی
سے آنکھیں قرض ہی لے کر دیکھیے کہ ابوداؤد نے رواہ ابن جابر عن نافع کہہ کر
سی الرازی Zاناعیسی عناُسے یوں ہی معلق چھوڑدیا یا وہیں حدثنا ابرھیم Zبن مو ٰ
ابن جابر ؎۲فرماکر موصول کردیا ہے ولکن النجدیۃ الیبصرون
۱/۱۷ مطبوعہ آفتاب عالم پریس الہور باب المجمع بین الصلٰوتین ( ؎۲سنن ابوداؤد
)۱
لطیفہ :۳امام طحاوی کی حدیث بطریق ابن جابر عن نافع پر بشر بن بکر
سے طعن کیا کہ وہ ف غریب الحدیث ہے ایسی روایتیں التا ہے کہ سب کے خالف
قالہ الحافظ فی التقریب۔
ص)۳۹۶ (ف۔ معیارالحق
اقول اوّالً:ذرا شرم کی ہوتی کہ یہ بشر بن بکر رجال صحیح بخاری سے ہیں
صحیح حدیثیں َرد کرنے بیٹھے تو اب بخاری بھی باالئے طاق ہے۔
ثانیاً:اس صریح خیانت کو دیکھئے کہ تقریب میں صاف صاف بشر کو ثقہ فرمایا
؎۱تھا وہ ہضم کرگئے۔
مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ ( ؎۱تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی
گوجرانوالہ ص)۴۴
ثالثاً:محدث جی! تقریب میں ثقۃ یغرب ؎۲ہے ،کسی ذی علم سے سیکھوکہ فالں
یغرب اور فالں غریب الحدیث میں کتنا فرق ہے۔
مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ ( ؎۲تقریب التہذیب ترجمہ بشربن بکر التنیسی
گوجرانوالہ ص) ۴۴
رابعا :اغراب کی یہ تفسیر کہ ایسی روایتیں التا ہے کہ سب کے خالف محدث
جی! غریب ومنکر کا فرق کسی طالب علم سے پڑھو۔
خامسا :باوصف ثقہ ہونے کے مجرد اغراب باعث رد ہوتو صحیحین سے ہاتھ
دھولیجئے ،یہ اپنی مبلغ علم تقریب ہی دیکھی کہ بخاری ومسلم کے رجال میں
کتنوں عــہ کی نسبت یہی لفظ کہا ہے اور وہاں یہ بشر خود ہی جو رجال بخاری
سے ہیں۔
ً
عـــہ :مثال ابرھیم بن طھمان ،بشربن خالد ،ابرھیم بن سوید بن حبان 5،بشیربن سلمان 5،حسن بن احمد بن ابی شبیب5،
ٰ
محمد بن عبدالرحمن 5بن حکیم وغیرہم کہ سب ثقہ یغرب ہیں۔ احمد بن صباح حکام بن مسلم وغیرھما ثقۃ لہ غرائب
ٰ
خصوصا ازھر بن جمیل ،خالدبن قیس ،ابراھیم بن اسحق وغیرھم کہ صدوق یغرب یہ تینوں بشربن بکر سے بھی گئے
ٰ
درجے کے ہوئے کہ ثقہ سے اترکر طرف صدوق ہیں ۱۲منہ رضی اہلل تعالی عنہ (م)
سادسا :ذرا میزان تو دیکھئے کہ اما بشربن بکر التنیسی فصدوق ثقۃ الطعن فیہ ( ۳یعنی
بشربن بکر تنیسی خُوب راست گوثقہ ہیں جن میں اصال ً کسی وجہ سے طعن
نہیں)
۱/۳ مطبوعہ دارالمعرفت بیروت لبنان ( ؎۳میزان االعتدال فی ترجمۃ بشربن بکر ۱۱۸۶
)۱۴
کیوں شرمائے تو نہ ہوگے ایسی ہی اندھیری ڈال کر جاہلوں کو بہکادیا کرتے ہوکہ
حنفیہ کی حدثیں ضعیف ہیں ع
شرم بادت ازخدا وازرسول
لطیفہ :۴طریق ابن جابر سے سنن نسائی کی حدیث کو ولید بن قاسم سے
َرد کیا کہ روایت میں اُس سے خطا ہوتی تھی کہا تقریب میں صدوق یخطی۔
تحریف شدید کو دیکھنا اسناد ِ نسائی میں یہاں نام ِ اقول اوال :مسلمانو! اس
ولید غیر منسوب واقع تھا کہ اخبرنا محمود بن خالد ثنا الولید ثنا ابن جابر ثنا نافع الحدیث ؎۱۔
مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت الوقت الذی یجمع فیہ المسافر ( ؎۱سنن النسائی
کتب کراچی )۱/۹۹
ماّل جی کو چاالکی کا موقع مال کہ تقریب میں اسی طبقہ کا ایک شخص رواۃ
نسائی سے کہ نام کا ولید اور قدرے متکلم فیہ ہے چھانٹ کر اپنے دل سے ولید
بن قاسم تراش لیا حاالنکہ یہ ولید بن قاسم نہیں ولید بن مسلم ہیں رجال صحیح
مسلم وائمہ ثقات وحفاظ اعالم Zسے اسی تقریب میں ان کے ثقہ ہونے کی
شہادت موجود ،ہاں تدلیس کرتے ہیں مگر بحمداللہ اُس کا احتمال یہاں مفقود کہ
وہ صراح ًۃ حدثنا ابن جابر قال حدثنی نافع فرمارہے ہیں۔ میزان میں ہے:
الولیدبن مسلم ابوالعباس الدمشقی ،احداالعالم وعالم اھل الشام۔ لہ مصنفات حسنۃ ،قال احمد:
مارأیت فی الشامیين اعقل منہ۔ وقال ابن المدینی :عندہ علم کثیر۔ قال ابومسھر :الولید مدلس،
قلت :اذاقال الولید :عن ابن جریج اوعن االوزاعی ،فلیس بمعتمد النہ یدلس عن کذابین ،فاذاقال:
ً
حدثنا فھو حجۃ ؎۲اھ ملخصا۔ ولید ابن مسلم ابوالعباس دمشقی۔ بلند مرتبہ لوگوں
میں سے ایک ،شام کا عالم ،اس کی تصنیفات عمدہ ہیں احمد نے کہا ہے کہ میں
نے شامیوں میں اس سے زیادہ عقل مند آدمی نہیں دیکھا۔ ابن مدینی نے کہا کہ
اس کے پاس بہت علم ہے۔ ابومسہر نے کہا ہے کہ ولید مدلّس ہے۔ میں نے کہا:
قابل اعتماد نہیں ہے لیکن جب
ِ جب ولید عن ابن جریج یا عن االوزاعی Zکہے تو
حدثنا کہے تو مستند ہے اھ ملخصا ً۔ (ت)
دارالمعرفت بیروت ۴/۳۴۷ ،۔)۳۴۸ ( ؎۲میزان االعتدال فی ترجمۃ ولیدبن مسلم ۹۴۰۵
ُ اّل
م جی!
دربساط نکتہ داناں خود فروشی شرط نیست
یا سخن دانستہ گو اے مرد غافل یاخموش
(نکتہ دانوں کی مجلس میں اپنے آپ کو بیچ دینا ضروری نہیں ہے اے مرد ِ غافل!
یا تو سوچ سمجھ کر بات کریاخاموش رہ ) تم نے جاناکہ آپ کے کید پر کوئی
آگاہ نہ ہ وگا ذرا بتائیے تاکہ آپ نے ولید کا ولید بن قاسم کس دلیل سے متعین
کرلیا ،کیا اس طبقہ میں اس نام کا رواۃ نسائی میں کوئی اور نہ تھا اگر اب عاجز
آکر ہم سے پوچھنا ہوکہ تم نے ولیدبن مسلم کیسے جانا اوّل تو بقانون مناظرہ
جب آپ غاصب منصب ہیں ہم سے سوال کا محل نہیں اور استفاد ًۃ پُوچھو تو پہلے
اپنی جزاف کا صاف صاف اعتراف کرو پھر شاگردی کیجئے تو ایک یہی کیا بعون ٖہ
تعالٰی بہت کچھ سکھادیں وہ قواعد بتادیں جس سے اسمائے مشترکہ میں اکثر
جگہ تعین نکال سکو۔ ثانیا :بفرض غلط ابن قاسم ہی سہی پھر وہ بھی کب
مستحق َرد ہیں امام احمد نے اُن کی توثیق فرمائی ،اُن سے روایت کی ،محدثین ِ
ابن عدی نے کہا :اذاروی عن ثقۃ فالباس بہ ( ؎۱وہ ۔لکھو حدیث ےس نکو حکم دیا کہ ا ُ
ِ
جب کسی ثقہ سے روایت کریں تو اُن میں کوئی عیب نہیں) اور ابن جابر کا ثقہ
ہونا خود ظاہر۔
مطبوعہ المکتبۃ االثریۃ سانگلہ ہل فی ترجمۃ ولیدا بن قاسم ( ؎۱الکامل البن عدی
)۲۵ ،۷/۴۵
ثالثا :ذرا رواۃ صحیح بخاری ومسلم پر نظر ڈالے ہُوئے کہ اُن میں کتنوں عــہ
کی نسبت تقریب میں یہی صدوق یخطئ بلکہ اس سے زائد کہا ہے کیا قسم
کھائے بیٹھے ہوکہ صحیحین کا َرد ہی کردوگے!
ً ٰ
عــہ مثال اسمعیل بن مجالد ،اشھل بن حاتم ،بشربن عبیس ،حارت بن عبید 5،حبیب بن ابی حبیب ،حجاج بن ابی زینب5،
ہّٰلل
حسان بن ابرھیم ،حسان بن حسان بصری ،حسان بن عبدا کندی ،حسن بن بشربن سلم ،حسن بن ذکوان ورمی بالقدر،
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
خالد بن خداش ،خالد بن عبدالرحمن السلمی 5،شریک بن عبدا بن ابی بر ،عبدالرحمن 5بن عبدا بن دینار5،
ہّٰلل
عبدالمجیدبن عبدالعزیز ،مسکین بن بکیر ،معقل بن عبیدا وغیرھم ان سب پر وہی حکم صدوق یخطئ لگایا ہے
ٰ ہّٰلل
خلیفۃ بن خیاط 5،عبداہلل بن عمر نمیری،عبدالرحمن 5بن حرملہ اسلمی ،عبدالرحمن 5بن عبدا بن عبید ،یحيی بن ابی
ٰ
اسح ق حضرمی وغیرھم صدوق ربما اخطأ ہیں ،اب زیادہ کی بعض مثالیں لیجئے حجاج بن ارطاۃ صدوق کثیر الخطاء
ہّٰلل ہّٰلل
والتدلیس 5،شریک بن عبدا نخعی صدوق یخطئ کثیرا تغیر حفظہ ،صالح بن رستم المزنی صدوق کثیرالخطاء ،عبدا
بن صالح صدوق کثیرالغلط ثبت فی کتابہ وکانت فیہ غفلۃ ،فلیح بن سلیمان 5صدوق کثیرالخطاء ،مطرالوراق صدوق
ہّٰلل ٰ
کثیرالخطاء وحدیثہ عن عطاء ضعیف ،نعیم بن حماد صدوق یخطئ کثیرا ۱۲منہ رضی ا تعالی عنہ (م)
ً
رابعا :صحیح بخاری میں حسان بن حسان بصری سے روایت کی تقریب میں انہیں صدوق یخطئ ؎۱
مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ ( ؎۱تقریب التہذیب فی ترجمہ ابن حسان الواسطی
گوجرانوالہ ص)۶۸
پھر حسان بن حسان واسطی کی نسبت لکھا خلطہ ابن مندۃ بالذی قبل فوھم ،وھذا ضعیف ؎۲
مطبوعہ دارنشر الکتب Zاالسالمیہ ( ؎۲تقریب التہذیب فی ترجمہ ابن حسان الواسطی
گوجرانوالہ ص)۶۸
(ابن مندہ نے اسے پہلے کے ساتھ مالدیا ہے یہ اس کی غلطی ہے کیونکہ یہ
ضعیف ہے۔ ت) دیکھو صاف بتادیا کہ جسے صدوق یخطی کہا وہ ضعیف نہیں،
ماّل جی اپنی جہالت سے مردود واہیات گارہے ہیں۔
ُ
سی بن ابان بطریق عطاف عن لطیفہ :۵حدیث صحیح نسائی وطحاوی Zوعی ٰ
نافع کو عطاف سے معلول کیا ف کہ وہ وہمی ہے کہا تقریب میں صدوق یھم۔
ص )۳۹۶ ( ف ،معیار الحق
اقول اوّال:عطاف کو امام احمد وامام ابن معین نے ثقہ کہا وکفی بھما قدوۃ میزان
سر منقول نہیں۔میں ان کی نسبت کوئی جرح مف ّ
ثانیاً:کسی سے پڑھو کہ وہمی اور صدوق یھم میں کتنا فرق ہے۔
ثالثاً :صحیحین سے عداوت کہاں تک بڑھے گی تقریب مالحظہ ہوکہ آپ کے وہم
کے ایسے وہمی عـــہ اُن میں کس قدر ہیں۔
ٰ ٰ
عــہ :مثل ابرھیم بن یوسف بن اسحاق ،اسامہ بن زید اللیثی 5،اسمعیل 5بن عبدالرحمن السدی ،ایمن بن نابل ،جابربن
ٰ
عمرو ،جبربن 5نوف ،حاتم بن اسمعیل 5،حرب بن ابی العالیہ ،حرمی بن عمارہ ،حزم بن ابی حزم ،حسن بن الصباح ،حسن بن
ہّٰلل ہّٰلل
فرات ،حمیدبن زیاد ،ربیعہ بن کلثوم ،عبدا بن عبدا بن اویس وغیرھم سب صدوق یھم ہیں احوص بن جواب ،حمزہ
بن جیب زیات امام قراء ت ،معاذ بن ھشام ،عاصم بن علی بن عاصم وغیرھم سب صدوق ربما وھم بلکہ عطاء بن ابی
ہّٰلل ٰ
مسلم صدوق یھم کثیرا ۱۲منہ رضی ا تعالی عنہ (م)
رابعاً :بالفرض یہ سب رواۃ مطعون ہی سہی مگر جب بالیقین اُن میں کوئی
بھی درجہ سقوط میں نہیں تو تعدّد طرق سے پھر حدیث حجت تامہ ہے ولکن
الوھابیۃ قوم یجھلون (لیکن وہابی جاہل لوگ ہیں۔ ت)
لطیفہ :۶آپ کے امتحان علم کو پُوچھا جاتا ہے کہ روایت طحاوی حدثنا فھد ثنا
الحمانی ثنا ابن المبارک عن اسامۃ بن زید اخبرنی نافع میں آپ نے کہاں سے
معین کرلیا کہ یہ اُسامہ بن زید عدوی مدنی ضعیف الحافظ ہے ،اسی طبقہ سے
سنن اربعہ وتعلیقات
اسامہ بن زید لیثی مدنی بھی توہے کہ رجال صحیح مسلم و ُ
بخاری سے ہے جسے یحیٰی بن معین نے کہا :ثقہ ؎۱ہے۔
۱/۱۷ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ترجمہ اسامہ بن زید اللیثی ۷۰۵ ( ؎۱میزان االعتدال
)۴
ثقہ صالح ہے ثقہ حجت ہے دونوں ایک طبقہ ایک شہر ایک نام کے ہیں اور دونوں
نافع کے شاگرد ،پھر منشاء تعیين کیا ہے اور آپ کی تو شاید اس سوال میں بھی
وقت پڑے کہ کہاں سے مان لیا کہ یہ حمانی حافظ کبیر یحیٰی بن عبدالحمید
صاحب مسند ہے جس کی جرح آپ نے نقل کی اور امام یحیٰی بن معین وغیرہ کا
ثقہ اور ابن عدی کا ارجو انہ الباس ؎۲بہ (مجھے امید ہے اس میں کوئی حرج
نہیں۔ ت)
مطبوعہ دارالمعرفۃ ترجمہ یحیٰی بن عبدالحمید الحمانی ۹۵۶۷ ( ؎۲میزان االعتدال
بیروت )۴/۳۹۲
اور ابن نمیر کا ھواکبر من ھؤالء کلھم ،فاکتب عنہ (وہ ان سب سے بڑا ہے ،اس لئے
میں اس سے حدیث لکھتا ہوں۔ ت) کہنا چھوڑ دیا اسی طبقہ تاسعہ سے اُس کا
والد عبدالحمید بن عبدالرحمن بھی توہے کہ رجال صحیحین سے ہے اور دونوں
حمانی کہالئے جاتے ہیں کمافی التقریب۔
لطیفہ :۷روایات نسائی بطریق کثیر بن قار وَندا عن سالم عن ابیہ میں جھُوٹ
کو بھی کچھ گنجائش نہ ملی تو اُسے یوں کہہ کر ٹاالکہ وہ شاذ ہے ف اس لئے
کہ مخالف ہے روایات شیخین وغیرہما کے وہ ارجح ہیں سب سے باالتفاق اور
مقدم ہوتی ہیں سب پر جب کہ موافقت اور نسخ نہ بن سکے۔
ص)۳۹۷ (ف معیار الحق
منہ سے لیتے اور اُن کی احادیث کو ارجح کہتے اقول اوّال :شیخین کا نام کس ُ
ہ و یہ وہی شیخین تو ہیں جو محمد بن فضیل سے حدیثیں التے ہیں جسے تمہارے
نزدیک رافضی Zکہاگیا اور حدیثوں کا پلٹ دینے واال اور موقوف کو مرفوع کردینے
کا عادی تھا۔
ثانیا ثالثا رابعا :یہ وہی شیخین توہیں جن کے یہاں سب کے خالف حدیثیں النے
والے حدیثوں میں خطا کرنے والے وہمی کئی درجن بھرے ہُوئے ہیں۔
خامساً:مخالف شیخین کا دعوٰی محض باطل ہے جیسا کہ بعون ٖہ تعالٰی عنقریب
ظاہر ہوتا ہے۔
ماّل جی نے جوجو چاالکیاں بیباکیاں لطیفہ :۸اس حدیث جلیل صحیح کے َرد میں ُ
برتیں ا ُن کا پردہ تو فاش ہوچکا ،جابجا ثقات کو مجروح فرمایا ،رواۃ بخاری
ومسلم کو مردود ٹھہرایا ،حدیث موصول کو معلق بنایا ،متابعات سے آنکھیں بند
نقل عبارت میں خیانتیں کیں ،معانی میں تحریف کی راہیں لیں ،راوی کو ِ کرلیں،
مخالفت
ِ ً
کچھ سے کچھ بنالیا ،مشترک کو جزافا معین کردیا جہاں کچھ نہ بن پڑا
شیخین کا اعادہ کیا ،اب خود حدیث صحیح بخاری شریف کو کیا کریں رجال
بخاری کو َرد کردینا اور بات تھی کہ عوام کو ان کی کیا خبر ،مگر خود حدیث
بخاری کا نام لیکر َرد کرنے میں سخت مشکل پیش نظر ،لہذا یہ چال چلے کہ الؤ
اسے بزورِ زبان وزورِ بہتان اپنے موافق بنالیجئے اس لئے حدیث مذکور باب ھَل
یوذن او یقیم کا ایک ٹکڑا جس میں وہ تین میل چل کر مغرب پڑھنے کا ذکر تھا
اپنے ثبوت کی احادیث میں نقل کرکے فرمایا ف
ص )۳۷۵ (ف۔ معیار الحق
یہ بات ادنٰی عاقل بھی جانتا ہے کہ بعد دخول وقت مغرب کے دوتین کوس
مسافت چلیں تو اتنے میں شفق غائب ہوجاتی ہے اور وقت عشا کا داخل ہوجاتا
ہے۔
اوّالً:میل کا کوس بنایا کہ کچھ دیر بڑے دو ۲میل کا تو سواہی کوس ہوا ،اور تین
ہی لیجئے جب بھی دو ۲کوس پُورے نہیں پڑتے۔
اقول:فریب عوام کو چاالکی یہ کی کہ حدیث کا ترجمہ نہ کیا دوتین کوس
ِ ثانیا ً
مسافت چلیں لکھ دیا کہ جاہل سمجھیں غروب کے بعد پیادہ تین کوس چلے ہوں
ترجمہ کرتے تو کھُلتا کہ سوار تھے اور کیسی سخت جلدی کی حالت میں تھے ہم
نے حدیث ابوداؤد سے نقل کیا کہ اُنہوں نے اُس دن سہ ۳منزلہ فرمایا تو صرف
میل بھر یا اُس سے بھی کم چلنے کی دیر رہ گئی اگر پیادہ ہی چلئے تو اتنی دیر
وقت عشاء نہیں آتا تو حدیث سے مغرب کا وقت مغرب ہی میں پڑھنا ِ میں ہرگز
پیدا تھا جسے صاف کایا پلٹ کردیا مکہ معظمہ اور اُس کے حوالی میں جن کا
غروب شمس سے انحطاط حہ (کچھ لکھنا ہے) ِ عرض مابین کا حہ اـلت حہ ہے
تک ہر موسم میں ایک ساعت فلکیہ سے زیادہ وقت رہتا ہے اور پھر مدینہ طیبہ
کی طرف جنتے بڑھیے وقت بڑھتا جائے گا کماالیخفی علی العارف بالھیأۃ (جیسا کہ
علم ِ ہیئت جاننے والے پر ظاہر ہے۔ ت) تو غروب سے گھنٹے بھر بعد بھی نمازِ
مغرب وقت میں ممکن ،آپ کے نزدیک جبکہ دو ۲میل چلنے میں عشاء آجاتی ہے
تو الزم کہ اتنی مسافت میں ایک گھنٹے سے زیادہ صرف ہونا واجب ہو ،اور امام
من غنی رضی مالک مؤطا میں روایت فرماتے ہیں کہ حضرت امیرالمؤمنین عث ٰ
اللہ تعالٰی عنہ مدینہ طیبہ میں نمازِ جمعہ سے فارغ ہوکر سوار ہوئے اور موضع
ملَل میں عصر کیلئے اُترے ۔
ٰ ٰ
مالک عن عمروبن یحيی المازنی عن ابن ابی سلیط ان عثمن بن عفان صلی الجمعۃ بالمدینۃ
وصلی العصر بملل ؎۱۔
( ؎۱مؤطا امام مالک وقوت الصلواۃ ،وقت الجمعۃ مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی ص
)۶
مالک ،عمروبن یحیٰی المازنی سے ،وہ ابن سلیط سے راوی کہ عثمان ابن عفان
ملَل میں۔ (ت)
نے جمعہ مدینہ میں پڑھا اور عصر َ
ل مدینہ طیبہ سے سترہ ۱۷میل ہے کمافی النھایۃ ( ؎۲جیسا کہ نہایۃ میں ہے۔مل َ َ
ت)
)۴/۳۶۲ ملَل مطبوعہ المکتبۃ االسالمیہ ریاض
( ؎۲النہایۃ البن اثیر المیم مع الالم لفظ َ
بعض نے کہا اٹھارہ ۱۸میل کماحکاہ الزرقانی (جیسا کہ زرقانی نے بیان کیا ہے۔ ت)
ابن وضاح نے کہا بائیس ۲۲میل کمانقلہ ابن رشیق عن ابن وضاح ( ؎۱جیسا کہ ابن
رشیق نے ابن وضاح سے نقل کیا ہے۔ ت)
مطبوعہ المکتبۃ زیرِ حدیث مذکور ( ؎۱شرح الزرقانی علی المؤطا المام مالک
)۱/۲۶ الکبری مصر
ٰ التجاریۃ
نسخ مؤطا میں خود امام مالک سے اسی کی تصریح ہے ِ بلکہ بعض
قال مالک وبینھما اثنان وعشرون میال (مالک نے کہا ہے کہ دونوں کے درمیان بائیس۲۲
میل کا فاصلہ ہے۔ ت) وہ سترہ ۱۷ہی میل سہی آپ کے طور پر کوئی رات کے
نودس بجے تک عصرکا وقت رہا ہوگا کہ جمعہ پڑھنے سے آٹھ نو گھنٹے بعد
امیرالمومنین نے عصر اداکی Zکہ مدینہ طیبہ اور اس کے حوالی میں جن کا عرض
الہ حہ سے زائد نہیں مقدار نہار روز تحویل سرطان بھی صرف ح ت لح وّ ہے
کماالیخفی علی من یعلم استخراج طول النھار من عرض البالد (جیسا کہ اس شخص پر
مخفی نہیں ہے جو عرض بالد سے دن کی لمبائی کا استخراج کرسکتا ہو۔ ت)
ثالثا اقول:اسی لئے خود آخر حدیث بخاری میں مذکور تھا کہ مغرب کے بعد کچھ
دیر انتظار کرکے عشاء پڑھی اگر خود عشاءہی کے وقت میں مغرب پڑھتے تو
ایسی جلدی واضطراب شدید کی حالت میں اب عشاء کیلئے انتظار کس بات کا
تھا یہ ٹکڑا حدیث کا ہضم کرگیا کہ بھرم کھُلتا۔
رابعا اقول:آپ تو اسی بحث میں فرماچکے کہ تعلیقات حجت نہیں صحیح بخاری
میں یہ ٹکڑا جو آپ اپنی سند بناکر نقل کررہے ہیں تعلیقا ً ہی مذکور تھا اصل
حدیث بطریق حدثنا ابوالیمان قال اخبرنا شعیب عن الزھری ذکر کی جس میں
آپ کے اس مطلب کا کُچھ پتانہ تھا اس کے بعد یہ ٹکڑا تعلیقا ً بڑھایا کہ وزاد
اللیث قال حدثنی یونس عن ابن شہاب ،اب تعلیق کیوں حجت ہوگئی ،وہاں تو
آخر حدیث کو ہضم کیا تھا یہاں اول کالم تناول فرمایا کہ اپنا عیب نہ ظاہر ہو۔
خامسا اقول :آپ تو رادی کو اس کے وہم وخطا بلکہ صرف اغراب پر َرد فرماتے
ہیں اگرچہ رجال بخاری ومسلم سے ہو ،اب یہ تعلیق کیونکر مقبول ہوگئی اس
میں زہری سے راوی یونس بن یزید ہیں جنہیں اسی تقریب میں فرمایا :ثقۃ اال ان
فی روایتہ عن الزھری وھما قلیال وفی غیرالزھری خطا ؎۲۔ ہیں تو ثقہ مگر زہری سے ان کی
روایت میں کچھ وہم ہے اور غیر زہری سے روایت میں خطا۔
ص)۲۸۷ مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی حرف الیاء ( ؎۲تقریب التہذیب
اثرم نے کہ ا :ضعف احمد امریونس (امام احمد نے یونس کا کام ضعیف بتایا)
امام ابن سعدنے کہا :لیس بحجۃ (یونس قابل احتجاج نہیں) امام وکیع بن الجراحZ
نے کہا :سیئ الحفظ (یونس کا حافظہ بُرا ہے) یوں ہی امام احمد نے ان کی کئی
حدیثوں کو منکر بتایا کل ذلک فی المیزان ؎( ۱یہ سب میزان میں ہے۔ ت)
)۴/۴۸۴ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ( ؎۱میزان االعتدال حرف الیاء ۹۹۲۴
تنبیہ :یہ ہم نے آپ کا ظلم وتعصب ثابت کرنے کو آپ کی طرح کالم کیا ورنہ
ہمارے نزدیک نہ تعلیق مطلقا ً مردود نہ یونس ساقط نہ وہم وخطا جب تک فاحش
نہ ہوں موجب رد نہ یہ حدیث بخاری اصال ً تمہارے موافق بلکہ صراح ًۃ ہمارے مؤید
وبالل ّٰہ التوفیق چند اوہام یا کُچھ خطائیں محدّث سے صادر ہونا نہ اُسے ضعیف
کردیتا ہے نہ اُس کی حدیث کو مردود نہ وہ کہتے ہیں جو بالکل پاک صاف گزر
گئے ہیں ،یہ ہیں تمام محدثین کے امام االئمہ سفیٰن بن عینیہ جنہوں نے زہری سے
روایت میں بیس ۲۰سے زیادہ حدیثوں میں خطا کی امام احمد رضی اللہ تعالٰی
عنہ فرماتے ہیں مجھ میں اور علی بن مدینی میں مذاکرہ ہوا کہ زہری سے روایت
میں ثابت ترکون ہے ،علی نے کہا سفیٰن بن عینیہ ،میں نے کہا امام مالک کہ ان
کی خطا سفیٰن کی خطاؤں سے کم ہے قریب بیس ۲۰حدیثوں کے ہیں جن میں
سفیٰن نے خطا کی پھر میں نے اٹھارہ گِنا دیں اور اُن سے کہا آپ مالک کی
خطائیں بتائیں وہ دوتین حدیثیں الئے پھر جو میں نے خیال کیا تو سفیٰن نے بیس
۲۰سے زیادہ حدیثوں میں خطاکی ہے ؎۲ذکرہ فی المیزان (اسے میزان میں
ذکر کیاگیا ہے۔ ت)
ترجمہ سفیان بن عینیہ ۳۳۲۷مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت )۲/۱۷۰ ( ؎۲میزان االعتدال
بااینہمہ امام سفیٰن کے ثقہ ثبت حجت ہونے پر علمائے اُمت کا اجماع ہے۔
ماّل جی کی یہ ساری کارگزاریاں حیاداریاں حدیث صحیح عبداللہ بن
ُ لطیفہ :۹
ٰ
عمر رضی اللہ تعالی عنہما کے متعلق تھیں حدیث ام المؤمنین صدّیقہ رضی اللہ
تعالٰی عنہ ا مروی امام طحاوی ونیز امام احمد وابن ابی شیبہ استاذان بخاری
ومسلم کے َرد کو پھر وہی معمولی شگوفہ چھوڑا ف کہ ایک راوی اس کا مغیرہ
بن زیادہ موصلی ہے اور یہ مجروح ہے کہ وہمی تھا قالہ الحافظ التقریب۔
ص )۴۰۱ (ف معیار الحق
اقول اوّال :تقریب میں صدوق کہاتھا وہ صندوق میں رہا۔
ثانیا :وہی اپنی وہمی نزاکت کہ لہ اوھام کو وہمی کہنا سمجھ لیا۔
ثالثا :وہی صحیحین سے پُرانی عداوت تقریب دُور نہیں دیکھئے تو کتنے رجال
چا ہے ،اس کے اوہام ہیں ت) کہاعـــہ بخاری ومسلم کو یہی صدوق لہ اوھام (س ّ
ہے۔
ُ
عـــہ :صدوق یھم وصدوق ربماوھم 5کی بکثرت مثالیں اوپر گزرچکیں مگر باتباع لفظ خاص امثلہ سنیے احمد بن بشیر،
ٰ
حسن بن خلف ،خالد بن یزید بن زیاد،رباح بن ابی معروف 5،ربیع بن انس ورمی بالتشیع ،ربیع بن یحيی ،ربیعہ بن عثمان ،زکریا
ٰ ٰ
بن یحيی بن عمر ،سعید بن زید بن درھم ،سعید بن عبدالرحمن 5جمحی ،شجاع بن الولید ،مسلمہ بن علقمہ ،مصعب بن
المقدام 5،معاویہ بن صالح ،معاویہ بن ھشام ،ھشام بن حجیر ،ھشام بن سعد ورمی بالتشیع اور ان کے سوا اور کہ سب
ہّٰلل ٰ
صدوق لہ اوھام ہیں احمد بن ابی الطیب وغیرہ صدوق لہ اغالط ۱۲منہ رضی ا تعالی عنہ (م)
رابعا :مغیرہ رجال سنن اربعہ سے ہے امام ابن معین وامام نسائی دونوں
صاحبوں نے بآں تشدد شدید فرمایا :لیس بہ باس (اس میں کوئی بُرائی نہیں) زاد
یحيٰی لہ حدیث واحد منکر (اُس کی صرف ایک حدیث منکر ہے) الجرم وکیع نے
ثقہ ،ابوداؤد نے صالح ،ابن عدی نے عندی الباس بہ ( ؎۱میرے نزدیک اس میں
کوئی نقص نہیں ہے۔ ت) کہا تو اس کی حدیث حسن ہونے میں کالم نہیں اگرچہ
درجہ صحاح پر بالغ نہ ہو جس کے سبب نسائی نے لیس بالقوی (اُس درجے کا
قوی نہیں ہے۔ ت) ابو احمد حاکم نے لیس بمتین عندھم ( ؎۲اس درجے کا متین
نہیں ہے ان کے نزدیک۔ ت) کہا ال انہ لیس بقوی لیس بمتین وشتان مابین العبارتین (نہ یہ
کہ سرے سے قوی اور متین نہیں ہے ،ان دو عبارتوں میں بہت فرق ہے۔ ت)
حافظ نے ثقہ سے درجہ صدوق میں رکھا اس قسم کے رجال اسانید صحیحین
میں صدہا ہیں۔
۴ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ترجمہ مغیرہ بن زیاد موصلی ۸۷۰۹ ( ؎۱میزان االعتدال
)/۱۶۰
۴ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ترجمہ مغیرہ بن زیاد موصلی ۸۷۰۹ ( ؎۲میزان االعتدال
)/۱۶۰
لطیفہ :۱۰حدیث موال علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم مروی سنن ابی داؤد
کے رد کو طرفہ تماشا کیا مسند ابی داؤد میں یوں تھا:
ہّٰلل
قال اخبرنی عبدا بن محمد بن عمر بن علی بن ابی طالب عن ابیہ عن جدہ ان علیا کان اذاسافر
الحدیث ؎۳۔
)۱/۱۷۳ مطبوعہ آفتاب عالم پریس۔ الہور ( ؎۳سنن ابی داؤدباب یتم المسافر
جس کا صاف صریح حاصل یہ تھا کہ عبداللہ بن محمد بن عمر بن علی اپنے والد
محمد سے راوی ہیں اور وہ ان کے دادا یعنی اپنے والد عمر سے کہ ان کے والد
ماجد مولٰی علی نے جمع صوری خود بھی کی اور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم سے بھی روایت فرمائی۔
ابیہ اور جد ّہ دونوں ضمیریں عبداللہ کی طرف تھیں حضرت نے بزور زبان ایک
ضمیر عبداللہ دوسری محمد کی طرف قرار دے کر یہ معنی ٹھہرائے ف ۱کہ
عبداللہ روایت کرتے ہیں اپنے باپ محمد سے اور وہ محمد اپنے دادا Zعلی سے۔
اور اب اس پر اعتراض Zجڑ دیا کہ محمد کو اپنے دادا علی سے مالقات نہیں تو
مرسل ہُوئی اور مرسل حجت نہیں۔ قطع نظر اس سے کہ مرسل ہمارے اور
جمہور ائمہ کے نزدیک حجت ہے ایمان سے کہنا کہ ان ڈھٹائیوں سے صحیح وثابت
حدیثوں کو َرد کرنا کون سی دیانت ہے،
ص)۴۰۱ ،۴۰۰ (ف ۱معیار الحق
میں کہتا ہوں آپ نے ناحق اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف
مرسل بنایا حدیثوں کو َرد کرنا کون سی دیانت ہے ،میں کہتا ہوں آپ نے ناحق
اتنی محنت بھی کی اور حدیث متصل کو صرف مرسل بنایا حیا ودیانت کی ایک
ادنٰی جھلک میں بھی باطل وموضوع ہوئی جاتی تھی اور بات بھی مدلل ہوتی کہ
ضمیر اقرب کی طرف پھرتی ہے اور ابیہ سے اقرب ابوطالب اور جد ّہ سے اقرب
ابیہ تو معنی یوں کہے ہوتے کہ عبداللہ نے روایت کی ابوطالب کے باپ حضرت
عبدالمطلب سے اور عبدالمطلب نے اپنے دادا عبد مناف سے کہ موال علی نے
جمع صوری کی ،اب ارسال بھی دیکھئے کتنا بڑھ گیا کہ موال علی کے پرپوتے
موال علی کے دادا سے روایت کریں اور حدیث صراح ًۃ موضوع بھی ہوگئی کہ
کہاں عبدالمطلب وعبد مناف اور کہاں مولٰی علی سے روایت حدیث مفید احناف
والحول والقوۃ ااّل باللہ العلی العظیم۔
مسلمانو! دیکھا یہ عمل بالحدیث کا جھُوٹا دعوٰی کرنے والے جب صحیح حدیثوں
کے رد کرنے پر آتے ہیں تو ایسی ایسی بددیانتیوں بے غیرتیوں بیباکیوں چاالکیوں
پس پشت ڈال کر ایک ہانک بولتے ہیں کہ سب واہیات ِ سے صحیح بخاری کو بھی
اور مردود ف ۲ہیں انّالل ّٰہ وانّا الیہ راجعون۔
(ف ۲معیارالحق ص )۳۹۶
افادہ ثانیہ :احادیث وطرق پر نظرِ انصاف فرمائیے تو ارادہ جمع صوری پر
متعدد قرائن پائیے مثال:
( )۱یہ کہ احادیث جمع بین الصالتین کے راویوں سے حضرت عبداللہ بن مسعود
رضی اللہ تعالٰی عنہ ہیں کما سیأتی فی الحدیث التاسع من االفادۃ الرابعۃ (جیسا کہ افادہ
رابعہ کی نویں حدیث میں آرہا ہے۔ ت) حاالنکہ یہی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ
فرماتے ہیں کہ انہوں نے عرفات ومزدلفہ کے سوا کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید
عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو نمازیں جمع فرمائی ہوں کماسیأتی تحقیقہ
ہّٰلل ٰ
فی الفصل الرابع ان شاء ا تعالی (اس کی تحقیق اِن شاء اللہ تعالٰی چوتھی فصل میں
آئے گی۔ ت) تو ضرور ہے کہ روایت جمع سے جمع صوری مراد ہو۔
( )۲اقول :خود حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بھی جمع کرنا مروی ہوا
حاالنکہ ان کا مذہب معلوم کہ جمع حقیقی کو منسک حج کے سوا ناجائز جانتے۔
ماّل جی نے اُن پندرہ ۱۵صحابیوں میں جن کی نسبت دعوٰی کیا کہ ( )۳اقولُ :
انہوں نے جمع بین الصالتینحضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت
کی سعد بن ابی وقاس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو بھی گِنا حاالنکہ اُن کا بھی مذہب
وہ ی منع جمع ہے ان دونوں صحابی جلیل الشان کا یہ مذہب ہونا خود امام
شافعی المذہب امام ابوالعزیز یوسف بن رافع اسدی حلبی شہیر بابن شداد
متوفی ۶۳۱ھ نے کتاب دالئل االحکام میں ذکر فرمایا:
کمافی عمدۃ القاری لالمام البدر العینی عن التلویح شرح الجماع الصحیح لالمام عالء الدین
المغلطائی عن دالئل االحکام البن شداد۔
جیسے کہ امام بدرالدین عینی Zنے تلویح سے نقل کیا جوکہ امام عالء الدین
المغلطائی کی کتاب الجامع الصحیح کی شرح ہے اور انہوں نے ابن شداد کی
(کتاب) دالئل االحکام سے نقل کیا ہے۔ (ت)
تو مراد وہی جمع صوری ہوگی جیسا کہ خود اُن کے فعل سے مروی ہوا کماتقدم
فی الحدیث الرابع (جیسا کہ حدیث ۴میں گزرا۔ ت)
( )۴اقول :بہت زور شور سے جمع کے راوی Zحضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ
تعالٰی عنہما گنے جاتے ہیں وسیأتی بعض روایاتہ فی الحدیث االول والباقی فی الفصل الثالث ِان
ٰ ہّٰلل
شاء ا تعالی (عنقریب حدیث اول کے تحت ان سے بعض مرویات کا ذکر آئےگا
اور بقیہ کا ذکر فصل ثالث میں آئے گا اِن شاء اللہ تعالٰی۔ ت) حاالنکہ وہ خود
ٰ
ے مغرب وعشا کو ہّٰلل فرماتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ن ٰ
سفر میں ایک بار کے سوا کبھی جمع نہ فرمایا کماسیأتی فی اخر الفصل الرابع ِان شاء ا
ٰ
ٰ
تعالی (جیسا کہ چوتھی فصل کے آخر میں آرہا ہے اِن شاء اللہ تعالی۔ ت) ظاہر ہے
کہ وہ بار حجۃ الوداع کی شب مزدلفہ تھی تو ضرور وہی جمع صوری منظور
روایات صحیحہ نے واضح کردیا جس کا بسط حدیث اوّل میں ِ جیسا کہ اُن کی
گزرا۔
()۵اقول :لُطف یہ کہ ان عبداللہ بن عمر سے قصہ صفیہ بنت ابی عبید میں
عشائین کا جمع جو مروی ہوا اُس کے جمع حقیقی ہونے پر بہت زور دیاجاتا ہے
حاالنکہ خود اُن کے صاحبزادے سالم کو اُس شب بھی اُن کے ہمراہ تھے صراح ًۃ
فرماچکے کہ حضرت عبداللہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ کی جیسا کہ
حدیث نسائی سے گزرا اور سالم کا اُس رات ساتھ ہونا وہیں حدیث بخاری سے
ظاہر ہوچکا قلت لہ :الصالۃ ،قال :سر ؎۱۔ الحدیث (میں نے ان سے نماز کے متعلق
عرض کیا تو انہوں نے فرمایا :سفر جاری رکھو۔ الحدیث۔ ت) تو قطعاًیقینا جمع
صوری ہی مراد ہے الجرم روایات مفسرہ نے تصریح فرمادی یہ نکتہ یاد رکھنے کا
ہے کہ بعون ٖہ تعالٰی بہت سے خیاالت مخالفین کا عالج کافی ہوگا۔
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب یصلی المغرب ثلثافی السفر ( ؎۱صحیح البخاری
)۱/۱۴۸
ٰ
( )۶رواۃ جمع میں حضرت عبداہلل بن عباس رضی اہلل تعالی عنہما بھی ہیں کمایأتی فی الحدیث
الثانی (جیسا کہ دوسری حدیث میں آرہا ہے۔ ت) اور ان کی حدیث اِن شاء اللہ
آخر رسالہ میں آئے گی کہ دوسری Zنماز کا وقت آنے سے پہلی فوت ہوجاتی ہے۔
( )۷یوں ہی حضرت ابُو ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ راوی Zجمع ہیں کمایجیئ فی
الحدیث الخامس (جیسا کہ پانچویں حدیث میں آئے گا۔ ت) اور ان کی حدیث بھی
بمشیۃ اللہ تعالٰی آنے والی ہے کہ نماز میں تفریط یہ ہے کہ ٰدوسری کا وقت آنے
تک پہلی کی تاخیر کرے افاد ھذین االمام الطحاوی فی شرح معانی االثار (یہ دونوں فائدے
امام طحاوی نے شرح معانی اآلثار میں بیان کئے۔ ت)
افادہ ثالثہ:اب کہ ماّل جی نے پیٹ بھر کر َرد ِ احادیث سے فراغت پائی عقل پر
عنایت کی باری آئی فرماتے ہیں :ف جمع صوری سفر میں ازراہ عقل کے بھی
واہی ہے کہ جمع رخصت ہے اور جمع صوری مصیبت کہ آخر جز اور اوّل جز نماز
کا پہچاننا اکثر خواص کو نہیں ممکن چہ جائے عوام۔
(ف معیار الحق ص)۴۰۱
شامت ایام سے مقابلہ شیران حنفیہ میں آپھنسے وہِ اقول :ماّل جی بیچارے جو
چوکڑی بھُولے ہیں کہ اپنی اجتہادی آزادی بھی یاد نہیں یاتو وہ جوش تھے کہ
ابوحنیفہ وشافعی کی تقلید حرام بدعت شرک یا اب جابجا ایک ایک مقلد مالکی
شافعی کے ٹھیٹ مقلد بنے ہیں رطب یا بس جہاں جو کچھ کالم کسی مقلد
کامل جاتا ہے اگرچہ کیسا ہی پوچ اور ضعیف ہو اللہ بسم اللہ کہہ کر اُسے آنکھوں
سے لگاتے سرپر رکھتے بے سمجھے بُوجھے ایمان لے آتے ہیں یہ اعتراض بھی
حضرت نے بعض مالکیہ وشافعیہ کی تقلید جامد کے صدقہ میں پایا ہے مگر شوخ
چشمی یہ کہ علمائے حنفیہ جو طرح طرح اس کی دھجیاں اُڑاچکے اُن سے ایک
کان گونگا ایک بہرا کرلیا اور پھر اسی َرد شدہ بات باطل وبے ثبات کو پیش کردیا
بہادری تو جب تھی کہ ا ُن قاہر جوابوں کے جواب دیتے پھر واہی تباہی جو چاہتے
فرمالیتے خیراب بعض جوابات مع تازہ افاضات لیجئے وباللہ التوفیق۔
اوّال :اللہ عزوجل نے نماز خواص وعوام سب پر یکساں فرض کی اور اُس کے
لئے اوقات مقرر فرمائے اور اُن کے لئے اول وآخر بتائے اور ان پر واضح وعام
فہم نشان بنائے کہ اُن کا ادراک Zہر خاص وعام کو آسان ہوجائے ہمارے دین میں
کوئی تنگی نہ رکھی اور ہم پر کسی طرح دشواری نہ چاہی ماجعل علیکم فی
الدین من حرج۔ یریدالل ّٰہ بکم الیسر والیریدبکم Zالعسر ( ؎۱اس نے دین
کے معاملہ میں تم پر تنگی نہیں فرمائی ،اللہ تعالٰی تم پر آسانی چاہتا ہے تنگی
نہیں چاہتا۔ ت)
( ؎۱القرآن)۲/۱۸۵
تو ہر وقت کے اول وآخر شرعی کا پہچاننا خواص وعوام سب کو آسان خصوصا ً
سفر میں جہاں اُفق سامنے اور صاف میدان جو نہ سیکھے یا توجہ نہ کرے الزام
آن واحد وجزء الیتجزیاُس پر ہے نہ شرع مطہر پر ،ہاں فصل مشترک حقیقی کہ ِ
ہے اُس کا علم بے طرق مخصوصہ انبیاء واولیاء عامہ بشر کی طاقت سے وراءZ
ہے مگر نہ اس کے ادراک کی تکلیف نہ اس پر جمع صوری کی توقیف۔
ثانیا ً اقول :اول وآخر کا پہچاننا تو شاید تم بھی فرض جانتے ہوکہ تقدیم وتاخیر بے
عذر باالجماع مبطل وحرام ہے کیا اللہ عزوجل نے امر محال کی تکلیف دی
الیکلّف الل ّٰہ نفسا ً ااّل وسعھا ( ؎۱اللہ تعالٰی کسی کو اس بات کا حکم نہیں
دیتا جو اس کی طاقت میں نہ ہو۔ ت) فافہم۔
)۲/۲۸۶ ( ؎۱القرآن
ثالثا اقول :تحقیق تام یہ ہے کہ اوقات متصلہ میں عامہ کے لئے پانچ حالتیں ہیں:
وقت اوّل پر یقین ،اُس پر ظن ،دونوں میں شک ،آخر کا ظن ،اُس کا یقین، ِ
فقہیات میں ظن ملتحق بیقین ہے اور یقین شک سے زائل نہیں ہوتا تو بین
الوقتین حکما ً بھی اصال ً فاصل نہیں مسئلہ تسحر ومسئلہ صالۃ الفجر فی آخر
تصریحات علما دیکھیے۔
ِ الوقت وغیرہما میں
رابعا اقول :کس نے کہا کہ جمع صوری میں وصل حقیقی بے فصل آنی الزم ہے
حدیث مذکور ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ بروایت صحیح بخاری وحدیث
امیرالمؤمنین مولٰی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم بروایت ابی داؤد دیکھیے
مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی رحمت پر نثار حضور نے عوام ہی کے
ارشاد کو یہ طرز ملحوظ رکھی کہ مغرب آخر شفق میں پڑھ کر قدرے انتظار
فرمایا پھر عشا پڑھی یا بین الصالتین کھانا مالحظہ فرمایا اور لطف ال ٰہی یہ کہ
تمام احادیث جمع میں اگر منقول ہے تو حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
کا فعل۔ اُس کے ساتھ اُمت کو بھی ارشاد کہ جسے ضرورت ہو ایسا ہی کرلے
ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما میں ہے جس میں بروایت صحیح ِ اسی حدیث
بخاری ثابت کہ دو ۲نمازوں کے بیچ میں قدر انتظار فرمایا تو آپ کے جہل کا
خود رخصت عطا فرمانے والے رؤف رحیم خبیر علیم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
نے لحاظ کرلیا تھا مگر افسوس کہ اب بھی آپ شکایت اور رحمت کا نام
معاذاللہ مصیبت ہے ہر عاقل جانتا ہے کہ مسافر کو باربار اُترنے چڑھنے وضو نماز
جدا سامان کرنے سے یہ بہت آسان ہے کہ ایک بار اُترکر دفع ًۃ دونوں جدا ُ کا ُ
نمازوں سے فارغ ہولے اول قریب آخر پڑھے اور ایک لطیف انتظار کے بعد آکر
اپنے اول میں اس کا انکار صریح مکابرہ ہے ہاں یہ کہئے کہ وقت گزار کر پڑھنے
کی اجازت ملے تو اور آسانی ہے۔
اقول :دن ٹال کر گھر پہنچ کر اکٹھی پڑھ لینے کی رخصت ہو تو اور آسانی ہے
اور بالکل معاف ہوجائے تو پُوری چھٹی رخصت میں آسانی درکار ہے پُوری آسانی
کس نے مانی!
خامسا ً :احمد بخاری مسلم ابوداؤد ونسائی طحاوی وغیرہم بطریق عمروبن دینار
عن جابر بن زید حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:وھذاZ
لفظ مسلم ،قال :صلیت مع النبی صلی الل ّٰہ تعالٰی علیہ وسلم ثمانیا جمیعا وسبعا
جمیعا ،قلت :یاابا الشعثاء! اظنہ اخر الظھر وعجل العصر ،واخر المغرب وعجبل
العشاء ،قال :وانا اظن ذلک ؎۱۔
اور یہ الفاظ مسلم کے ہیں ،کہا ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کہ میں نے
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی پڑھی ہیں اور
اکٹھی سات رکعتیں بھی۔ اس حدیث کا راوی کہتا ہے کہ میں نے کہا ''اے
ابوالشعثاء ! میرا خیال ہے کہ انہوں نے ظہر وعصر کو اور مغرب وعشاء کو اکٹھا
پڑھا ہوگا''۔ ابو الشعثاء نے کہا کہ میرا بھی یہی خیال ہے''۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر ( ؎۱الصحیح Zلمسلم
کراچی)۱/۲۴۶
مالک احمد ،مسلم ،ابوداؤد ترمذی نسائی طحاوی وغیرہم اُسی جناب سے بطرق
شتی والفاظ عدیدہ راوی:
وھذا حدیث مسلم بطریق زھیرنا ابوالزبیر عن سعید بن جبیر عن ابن عباس قال صلی ال ٰلّہ ٰ
تعالی علیہ وسلم الظھر والعصر جمیعا بالمدینۃ فی غیر خوف والسفر ،قال ابوالزبیر :فسألت سعیدا
لم فعل ذلک؟ فقال :سألت ابن عباس کماسألتنی ،فقال :اراد ان الیحرج احد من ُامتہ ؎۲۔
اور یہ حدیث مسلم کی بواسطہ ابو الزبیر ہے کہ ہم سے بیان کیا سعید ابن جبیر
نے کہ ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور سفر کے مدینہ میں ظہر اور عصر اکٹھی
پڑھیں ،ابوالزبیر نے کہا کہ میں نے سعید سے پُوچھا کہ آپ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے اس طرح کیوں کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ جس طرح تم نے مجھ سے
پوچھا ہے اسی طرح میں نے ابن عباس سے پُوچھا تھا تو انہوں نے جواب دیا کہ
رسول اللہ چاہتے تھے کہ آپ کی اُمت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر ( ؎۲الصحیح لمسلم
)۱/۲۴۶ کراچی
وفی اخری لہ وللترمذی بطریق جیب ابن ابی ثابت عن سعید بن جبیر عن ابن عباس ،قال :جمع رسول
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
ا صلی ا تعالی علیہ وسلم بین الظھر والعصر ،وبین المغرب والعشاء بالمدینۃ فی غیر خوف
والمطر ؎۱۔
مسلم نے ایک اور روایت میں اور ترمذی نے بواسطہ جیب ابن ابی ثابت ،سعید
ابن جبیر سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے فرمایا :رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم نے بغیر کسی خوف اور بارش کے مدینہ میں ظہر وعصر اور مغرب
وعشاء کو جمع کیا۔ (ت)
مطبوعہ امین کمپنی اردوبازار ماجاء فی الجمع بین الصلٰوتین ( ؎۱جامع الترمذی
دہلی )۱/۲۶
وللطحاوی عن صالح مولی التوأمہ عن ابن عباس ،فی غیر سفر والمطر ؎۲۔ اور طحاوی نے صالح
مول ٰی التوأمہ کے واسطے سے ابن عباس کے یہ الفاط نقل کئے ہیں ''بغیر سفر
اور بارش کے''۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی باب الجمع بین الصلٰوتین کیف سو ( ؎۲شرح معانی اآلثار
کراچی )۱/۱۱۱
ہّٰلل ٰ ٰ
وفی لفظ للنسائی اخبرنا قتیبۃ ثنا سفین عن عمر وعن جابر بن زید عن ابن عباس رضی ا تعالی
ہّٰلل ٰ
عنھما قال :صلیت مع النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم بالمدینۃ ،ثمانیا جمیعا وسبعا جمیعا ،اخر
الظھر وعجل العصر ،واخر المغرب وعجل العشاء ؎۳۔
اور نسائی کے الفاظ یوں ہیں :خبر دی ہمیں قتیبہ نے کہ حدیث بیان کی ہم سے
سفی ٰن نے عمرو سے ،اس نے جابر سے کہ ابن عباس نے فرمایا ہے کہ میں نے
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں اکٹھی آٹھ رکعتیں بھی
پڑھی ہیں اور سات رکعتیں بھی ،آپ نے ظہر کو مؤخر کیا تھا اور عصر میں
جلدی کی تھی ،اسی طرح مغرب کو مؤخر کیا تھا اور عشاء میں جلدی کی تھی۔
(ت)
)۱/۶۹ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور کتاب المواقیت ( ؎۳سنن النسائی
ٰ
وفی لفظ لہ عن عمروبن ھرم عن جابر بن زید عن ابن عباس انہ صلی بالبصرۃ 5،االولی والعصر ،لیس
بینھما شیئ ،والمغرب والعشاء ،لیس بینھما شیئ ،فعل ذلک من شغل۔ نسائی کی اور روایت
کے الفاظ یہ ہیں کہ عمروابن ہرم ،جابر ابن زید سے راوی ہیں کہ ابن عباس نے
بصرہ میں ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا ،ان کے درمیان کوئی شَے حائل نہ تھی ،اور
مغرب وعشاء کو اکٹھا پڑھا ان کے درمیان کوئی شیئ حائل نہ تھی۔ اس طرح
انہوں نے ایک مصروفیت کی وجہ سے کیا تھا۔
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
و زعم ابن عباس انہ صلی مع رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم بالمدینۃ االولی والعصر ،ثمان
سجدات لیس بینھما شیئ ؎۱۔ ابن عباس نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم کے ساتھ بھی ظہر وعصر اکٹھی پڑھی تھیں یہ آٹھ رکعتیں تھیں اور
ان دو کے درمیان اور کوئی شے نہ تھی۔
)۱/۶۹ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور کتاب المواقیت ( ؎۱سنن النسائی
ہّٰلل ّ
ولمسلم بطریق الزبیر بن الخریت عن عبدا بن شقیق ان التاخیر کان الجل خطبۃ خطبھا ؎۲۔
خریت کے واسطہ سے عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی کہ
مسلم نے زبیر ابن ّ
یہ تاخیر ایک خطبہ دینے کی وجہ سے ہوئی تھی۔
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر ( ؎۲صحیح لمسلم
کراچی )۱/۲۴۶
ہّٰلل ُ
ولہ بطریق عمران بن حدیر عن عبدا المذکور عن ابن عباس ،فی القصۃ ،قال :کنا نجمع بین
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
الصالتین علی عھد رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ؎۳۔ اور مسلم نے بطریقہ عمران
ابن حدیر ،عبداللہ ابن شقیق سے روایت کی ہے کہ ابن عباس نے مذکورہ واقعے
میں کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانے میں ہم دو ۲نمازوں
کو جمع کیا کرتے تھے۔
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ جواز الجمع بین الصلٰوتین فی السفر ( ؎۳صحیح لمسلم
کراچی )۱/۲۴۶
ہّٰلل ٰ
وللطحاوی من ھذا الوجہ ،قدکان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم ربما جمع بینھما بالمدینۃ ؎۴۔
اور طحاوی اسی سند سے ناقل ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے
بارہا دو نمازوں کو مدینہ میں اکٹھا پڑھا۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ( ؎۴شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصلٰوتین الخ
)۱/۱۱۱
روایات صحاح سے واضح کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ِ ان
ایسی حالت میں کہ نہ خوف تھا نہ سفر نہ مرض نہ مطر محض بالعذر خاص
مدینہ طیبہ میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا بجماعت جمع فرمائیں سفر وخطر
ومطر کی نفی تو خود احادیث میں مذکور اور مرض بلکہ ہر عذر ملحی کی نفی
سوق بیان سے صاف مستفاد معہذا جب نمازیں جماعت سے تھیں تو سب کا
مریض ومعذور ہونا مستبعد پھر راوی حدیث عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی
عنہما کا اسی بناء پر صرف طول خطبہ کے سبب تاخیر مغرب واستناد بجمع
مذکور انتفائے اعذار پر صریح دلیل حاالنکہ مقیم کیلئیبے عذر جمع وقتی ماّل جی
حدیث مسلم انما التفریط علی من لم یصل الصالۃ حتی یجیئ وقت
ِ بھی حرام جانتے ہیں،
الصالۃ االخری ؎۱
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب قضاء الصلٰوۃ الفائتۃ الخ ( ؎۱الصحیح لمسلم
)۱/۲۳۹
گناہ اس پر ہے جو نماز نہ پڑھے یہاں تک کہ دوسری نماز کا وقت ہوجائے۔ ت) کے
جواب میں کیا ف فرمائیں گے
ص)۴۱۷ (ف ۱معیار الحق
یہ حدیث اُسی شخص کے حق میں ہے کہ بالعذر نماز میں تاخیر کرے۔
ٰ
حدیث امیرالمؤمنین فاروق اعظم رضی اہلل تعالی عنہ ان الجمع بین الصالتین 5فی وقت واحد کبیرۃ
من الکبائر ؎۲
( ؎۲موطا امام محمد باب الجمع بین الصلٰوتین فی السفر والمطرمطبوعہ آفتاب عالم
پریس الہور)۱/۱۷۹
(ایک وقت میں دو ۲نمازوں کو جمع کرنا کبائر میں سے ایک کبیرہ گناہ ہے۔ ت)
کے جواب میں کہہ چکے ہیں ف۲
ص)۴۰۰ (ف۲معیار الحق
کرناحالت اقامت میں
ِ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا جمع بین الصالتین سے منع
بالعذر تھا جیسا کہ شاہد ہے اس تاویل پر اتفاق جمہور صحابہ ومن بعدہم کا اوپر
عدم جواز بالعذر کے ،تو اس حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما میں جمع
ابن حجر شافعی اور اُنِ فعلی مراد لینے سے چارہ نہیں اور خود ماّل جی نے امام
کے توسط سے امام قرطبی Zوامام الحرمین وابن المامون وابن سید الناس
وغیرہم سے یہاں ارادہ جمع فعلی کی تقویت وترجیح نقل کی معہذا قطع نظر
وراویان حدیث
ِ اس سے کہ روایت صحیحین میں حضرت ابن عباس کے تالمذہ
جابر بن زید وعمروبن دینار نے ظنا ً حدیث کا یہی محمل مانا
قال ابن سیدالناس :وراوی الحدیث ادری بالمراد من غیرہ (ابن سیدالناس نے کہا ہے کہ
حدیث کا راوی ،دوسرے شخص کی نسبت حدیث کی مراد سے زیادہ آگاہ ہوتا ہے۔
ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما نے اس جمع کے ِ ت) روایت نسائی میں خود
جمع فعلی ہونے کی تصریح فرمادی کہ ظہر ومغرب میں دیر کی اور عصر
وعشاء میں جلدی یہ خاص جمع صوری ہے اب کسی کو محل سخن نہ رہا تھا
تمہارے امام شوکانی غیر مقلد نے نیل االوطار Zمیں کہا:
ممایدل علی تعین حمل حدیث الباب علی الجمع الصوری ،مااخرجہ النسائی عن ابن عباس (وذکر
لفظہ قال) فھذا ابن عباس ،راوی حدیث الباب ،قدصرح بان مارواہ من الجمع المذکور ھو الجمع
الصوری ؎۳۔
( ؎۳نیل االوطار شرح منتقی االخبار باب جمع المقیم لمطر اوغیرہ مطبوعہ مصطفی البابی
مصرص )۱۳۲
جو چیزیں اس پر داللت کرتی ہیں کہ اس باب سے متعلق حدیث کا جمع صوری
پر حمل کرنا متعین ہے ،ان میں سے ایک وہ روایت ہے جو نسائی نے ابن عباس
سے نقل کی ہے (اس کے بعد شوکانی نے مذکورہ روایت بیان کی ہے اور کہا ہے)
یہ ابن عباس ،جو اس موضوع سے متعلق حدیث کے (اولین) راوی ہیں خود
تصریح کررہے ہیں کہ انہوں نے جمع بین الصالتین کی جو روایت بیان کی ہے اس
سے مراد جمع صوری ہے۔ ت)
شوکانی نے اس ارادہ کے اور چند مؤیدات بھی بیان کیے اور انکار جمع صوری
اور آپ کے زعم Zباطل مصیبت کی اپنی بساط بھر خوب خوب خبریں لی ہیں جی
میں آئے تو مالحظہ کرلیجئے بالجملہ شک نہیں کہ حدیث میں مراد صوری ہے اب
اسی حدیث میں حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما کی تصریح
موجود ہے کہ جمع حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بنظرِ رحمت وآسانی
ماّل جی! اب اپنی مصیبت کی خبریں کہئے۔ مت کی تھیُ ، اُ ّ
باعث مشقت ِ سادساً :عجب تر یہ کہ یہی صاحب جنہوں نے جمع صوری کو
حدیث ابن عباس کو جمع صوری سے تاویل کرگئے ِ ومنافی رخصت ماناخود اسی
کما افاد االمام الزیلعی وغیرہ (جیسا کہ امام زیلعی وغیرہ نے اس کا افادہ کیا ہے۔
ت) یہ صریح منافقت ہے۔
ماّل جی تو تقلید جامد کا جامہ پہنے بیٹھے ہیں اس تناقض میں بھی تقلیداقولُ :
کرگئے حدیث طبرانی مفید جمع صوری کہ عنقریب آتی ہے حضرت اس کے
جواب میں اَن کہی بولتے ف ۱ہیں
ص) ۴۰۰ (ف ۱معیار الحق
حالت قیام میں بالعذر آنحضرت صلی
ِ کہ اس میں کیفیت اُس جمع کی ہے جو
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جمع کی تھی جیسا کہ روایت میں ابن عباس کی ہے کہ
آنحضرت صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حالت قیام میں مدینہ میں جمع صوری
کی تھی۔ ماّل جی! ذرا آنکھ مالکر بات کیجئے اب وہ مصیبت رحمت ورافت Zکیونکر
ہوگئی۔
سابعاً :حدیث حمنہ بنت حجش رضی اللہ تعالٰی عنہا مروی احمد وابوداؤد
وترمذی جس میں حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے زنان مستحاضہ
کے لئے جمع صوری پسند فرمائی ہے ماّل جی کو وہاں بھی یہی عذر معمولی پیش
آیا ف ۲کہ وہ مقیم تھی پس مقیم پر مسافر کی نماز کو قیاس مع الفارق ہے۔
( ف ۲معیارالحق ص)۴۱۸
ماّل جی جمع صوری تو عوام کیا اکثر خواص کو بھی نہ صرف دشوار بلکہ اقول ُ :
ناممکن تھی وہ بھی سفر کے کھُلے میدانوں میں ،اب کیا دُنیا پلٹی کہ پردہ نشین
زنان ؎ ۳ناقصات العقل کے لئے گھر کی چار دیواریوں میں ممکن ہوگئی۔(؎۳
یعنی یہ حکم اب بھی ہر مستحاضہ کیلئے ہے تو ثابت ہوا کہ پردہ نشین زنان
ناقصات العقل کو جمع صوری میسر ہے ۱۲منہ رضی اللہ تعالٰی عنہ۔ (م)
ہّٰلل ہّٰلل ّ ً
ثامنا :عبدالرزاق مصنف میں بطریق عمروبن شعیب راوی :قال ،قال عبدا :جمع لنا رسول ا
ہّٰلل ٰ
صلی ا تعالی علیہ وسلم ،مقیما غیر مسافر ،بین الظھر والعصر ،والمغرب ،والعشائ ،فقال رجل
ہّٰلل ٰ
البن عمر :لم تری النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم فعل ذلک؟
اس نے کہا عبداللہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے
ہمارے لئے دو ۲نمازوں کو جمع کیا جبکہ آپ مقیم تھے ،مسافر نہ تھے۔ یعنی ظہر
وعصر کو اور مغرب وعشاء کو۔ ایک آدمی نے ابن عمر سے پُوچھا کہ آپ کے
خیال میں رسول اللہ صلی اللہ عليہ وسلم نے اس طرح کيوں کيا تھا؟ تو انہوں
نے جواب ديا تاکہ امت پر تنگی نہ ہو ،اگر کوئی شخص جمع کرلے۔ (ت)
)۲/۵۵۶ ( ؎۱مصنّف ابی بکر عبدالرزاق حديث ۴۴۳۷مطبوعہ المکتب االسالمی بيروت
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
ابن جرير اس جناب سے بايں لفظ راوی :خرج علينا رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم ،فکان يؤخر
الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما ،ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما ؎۲۔ رسول اللہ
صلی اللہ عليہ وسلم ہم پر جلوہ فرما ہُوئے تو آپ ظہر ميں تاخير کرکے اور عصر
ميں تعجيل کرکے دونوں کو جمع کرليتے تھے ،اسی طرح مغرب ميں تاخير اور
عشاء ميں تعجيل کرکے دونوں کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)
مطبوعہ موسۃ الرسالہ حديث ۲۲۷۸۶ االکمال من صلٰوۃ المسافر ( ؎۲کنزالعمال
)۸/۲۵۰ بيروت
ُ ُ
نيز ابن جرير کی دوسری روايت ميں اسی جناب سے يوں ہے :اذابادر احدکم الحاجۃ فشاء ان يؤخر
المغرب ويعجل العشاء ثم يصليھما جميعا فعل ؎۳۔ اگر تم ميں سے کسی کو کسی
ضرورت کی بنا پر جلدی ہو اور وہ چاہے کہ مغرب کو مؤخر کرکے اور عشاء ميں
جلدی کرکے دونوں کو يکجا پڑھ لے ،تو ايسا کرلے۔ (ت)
مطبوعہ موسۃ الرسالہ بيروت االکمال من صلٰوۃ المسافر ۲۰۱۹۰ ( ؎۳کنزالعمال
)۷/۵۴۷
ان حديثوں سے بھی ظاہر کہ جمع صوری ميں بےشک آسانی ورحمت اور وقت
حاجت عام لوگوں کو اس کی اجازت۔ تاسعا :عبدالرزاق صفوان بن سليم سے راوی قال
جمع عمربن الخطاب بين الظھر والعصر في يوم مطیر ؎۴۔ يعنی امیرالمؤ منين فاروق اعظمZ
نے مينہ کے سبب ظہر وعصر جمع کی۔
( ؎۴المصنّف لعبدالرزاق ،باب جمع بين الصلٰوتين فی الحضر حديث ،۴۴۴۰مطبوعہ المکتب
االسالمی بيروت) ۲/۵۵۶،
اقول :ظاہر ہے کہ اميرالمؤمنين کے نزديک جمع وقتی حرام وگنا ِہ کبيرہ ہے جس
کا بيان ا ِن شاء اللہ المنان فصل چہارم ميں آتا ہے الجرم جمع صوری فرمائی۔
ہّٰلل ٰ ٰ ً
عاشرا :طبرانی حضرت عبداہلل بن مسعود رضی اہلل تعالی عنہ سے راوی :ان النبی صلی ا تعالی
ّ ٰ
علےہ وسلم کان يجمع بين المغرب والعشاء يؤخر ھذہ فی اخر وقتھا ويعجل ھذہ فی اول وقتھا ؎۱
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مغرب وعشاء کو جمع فرماتے ،مغرب
کو اس کے آخر وقت ميں پڑھتے اور عشاء کو اس کے اوّل وقت میں(م)۔
مطبوعہ المکتبۃ عن عبداللہ ابن مسعود حديث ۹۸۸۰ ( ؎۱المعجم الکبير للطبرانی
الفيصليۃ بيروت )۱۰/۴۷
يہ وہی حديث طبرانی ہے جس ميں جمع صوری ماّل جی ابھی ابھی مان چکے ہيں
اس کی نسبت باقی کالم کا َرد اِن شاء اللہ العزيز آئندہ آتا ہے غرض شاباش ہے
تمہارے جگرے کو کہ صحيح حديثوں کے َرد وابطال ميں کوئی دقيقہ مغالطہ
جاہلين ومکابرہ عالمين وتقليد مقلدين کا اُٹھا نہ رکھو اور پھر عمل بالحديث کی
شيشی کو ٹھيس تک نہ لگے ع
چوں وضو ئےمحکم بی بی تميز
افادہ رابعہ:الحمداللہ جب کہ احاديث جمع صوری کی صحت مہر نيمروزماہ نيم ماہ
کی طرح روشن ہوگئی تو اب جس قدر حديثوں ميں مطلق جمع بين الصالتين
وارد ہے کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے ظہر وعصر يا مغرب
وعشاء کو جمع فرمايا يا عصر وعشا سے مالنے کو ظہر ومغرب ميں تاخير
فرمائی وامثال ذلک کسی ميں مخالف کےلئے اصال ً حجت نہ رہی سب اسی جمع
احتمال موافق سے مطرود
ِ صوری پر محمول ہوں گی اور استدالل مخالف
ومخذول مثل
حديث( :)۱بخاری ومسلم ودارمی ونسائی وطحاوی وبيہقی بطريق سالم بن عبداہلل بن عمر رضی اہلل
ٰ
تعالی عنہم ومسلم ومالک ونسائی وطحاوی بطريق نافع۔
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
عن ابن عمر رضی ا تعالی عنھما ،کان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم يجمع بين المغرب
والعشاء اذاجدبہ السيير ؎۲۔
ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
ِ
عليہ وسلم کو جب چلنے ميں تيزی ہوتی تھی تو آپ مغرب وعشاء کو جمع کرتے
تھے۔
مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی باب الجمع بين الصالتين الخ ( ؎۲شرح معانی اآلثار
کراچی )۱/۱۱۱
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
وفی لفظ مسلم والنسائی من طريق سالم ،رأيت رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم اذااعجلہ السير
فی السفر يؤخر صالۃ المغرب حتی يجمع بينھا وبين صالۃ العشاء ؎۳۔
اور مسلم کی ايک اور روايت اور نسائی کی بطريقہ سالم روايت کے الفاظ يوں
ہں کہ ميں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کو ديکھا کہ جب آپ کو
سفر کے دوران چلنے ميں جلدی ہوتی تو مغرب کی نماز کو اتنا مؤخر کرديتے
تھے کہ عشا کے ساتھ مالليتے تھے۔ (ت)
مطبوعہ قديمی کتب خانہ ( ؎۳الصحیح لمسلم۔ باب جواز الجمع يين الصالتين فی السفر
کراچی )۱/۲۴۵
يہ معنی مجمل بروايات سالم ونافع مستفيض ہيں۔
ٰ
فرواہ البخاری عن ابی اليمان( ،)۱والنسائی عن بقيۃ( )۲وعثمن( ،)۳کلھم عن شعيب بن ابی حمزہ۔
ٰ
ومسلم عن ابن وھب عن يونس()۴۔ والبخاری عن( )۵علی بن المدينی ،ومسلم عن يحيی( )۶بن
ٰ
يحيی وقتيبۃ( )۷بن سعيد وابی( )۸بکر بن ابی شيبۃ وعمر( )۹والناقد ،والدارمی عن محمد( )۱۰بن
ٰ
يوسف ،والنسائی عن محمد( )۱۱بن منصور ،والطحاوی عن الحمانی( ،)۱۲ثمانيتھم عن سفين بن
ٰ ٰ ٰ
عيینۃ ،ثلثتھم اعنی شعيبا ويونس وسفين عن الزھری عن سالم ،ومسلم عن( )۱۳يحيی بن يحيی،
والنسائی عن قتيبۃ( ،)۱۴والطحاوی عن ابن( )۱۵وھب ،کلھم عن مالک ،والنسائی بطريق عبدالرزاق
ثنا معمر عن موسی( )۱۶بن عقبۃ ،والطحاوی( )۱۷عن ليث ،والبھيقی فی الخالفيات من طريق يزيد بن
ہّٰلل ٰ ٰ
ھارون عن يحيی( )۱۸بن سعيد ،اربعتھم عن نافع ،کالھما عن ابن عمر رضی ا تعالی عنھما۔
چنانچہ بخاری ابواليمان سے ،نسائی بقيہ اورعثمان سے ،يہ سب (ابواليمان ،بقيہ،
عثمان) شعيب ابن ابی حمزہ سے روايت کرتے ہيں۔ اور مسلم ،ابن وہب سے ،وہ
يونس سے روايت کرتے ہيں۔ اور بخاری ،علی ابن مدينی سے۔ اور مسلم ،يحيٰی
ابن يحيٰی ،قتيبہ ابن سعيد ،ابوبکر ابن ابی شيبہ اور عمرو الناقد سے۔ اور دارمی،
محمد ابن يوسف سے۔ اور نسائی ،محمد ابن منصور سے۔ اور طحاوی ،حمانی
سے۔ يہ آٹھويں (يعنی علی( ،)۱يحيی( ،)۲قتيبہ( ،)۳ابوبکر( ،)۴عمرو( ،)۵ابن
يوسف( ،)۶ابن منصور( ،)۷حمانی( )۸سفيان ابن عيينہ سے روايت کرتے ہيں۔ پھر
تينوں (سلسلوں کے تين آخری راوی) Zيعنی شعيب ،يونس اور سفيان ،زہری کے
واسطے سے ،سالم سے راوی ہيں۔ اور مسلم ،يحيٰی ابن يحيٰی سے۔ اور نسائی،
قتيبہ سے۔ اور طحاوی ،ابن وہب سے۔ تينوں مالک سے روايت کرتے ہیں۔ اور
سی ابن عقبہ سے روايت کرتے نسائی ،بطريقہ عبدالرزاق ،وہ معمر سے ،وہ مو ٰ
ہیں اور طحاوی ليث سے روايت کرتے ہیں۔ اور بيہقی خالفيت میں بطريقہ يزيد
ابن ہارون ،يحیٰی ابن سعيد سے روايت کرتے ہیں۔ چاروں (آخری راوی يعني
سی( ،)۲ليث( ،)۳يحيٰی( )۴نافع سے راوی ہیں سالم اور نافع) دونوں مالک( ،)۱مو ٰ
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے حديث بيان کرتے ہیں۔ (ت)
َّ
حديث( )۲معلق بخاری :
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ
ووصلہ البيھقی عن ابن عباس رضی ا تعالی عنھما ،کان رسول ا صلی ا تعالی علي وسلم
يجمع بين صالۃ الظھر والعصر اذاکان علی ظھر سير ،ويجمع بين المغرب والعشاء ؎۱۔ وھو عند مسلم
ٰ
واخرين بذکر غزوۃ تبوک،
بيہقی نے اس کو ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما سے موصوال ً ذکر کيا ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب چلنے والے ہوتے تھے تو ظہر اور
عصر کی نماز یں جمع كر ليتے تھے۔ اسی طرح مغرب وعشاء بھی جمع کرليتے
تھے يہ روايت مسلم اور ديگر محدثين کے نزديک غزوہ تبوک کے تذکرے سے
متعلق ہے۔
مطبوعہ قديمی کتب باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء ( ؎۱صحيح البخاری
خانہ کراچی )۱/۱۴۹
ٰ ٰ
والبن ماجۃ من طريق ابرھيم بن اسمعيل عن عبدالکريم عن مجاھد وسعيد بن جبير وعطاء بن ابی
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ
رباح وطاؤس،اخبروہ عن ابن عباس رضی ا تعالی عنھما انہ اخبرھم ان رسول ا صلی ا تعالی
عليہ وسلم کان يجمع بين المغرب والعشاء فی السفر من غيران يعجلہ شیئ واليطلبہ عدو واليخاف
شيئا ؎۲۔
معيل راوی Zہیں۔ کہ عبدالکريم کو مجاہد ،سعيد
اور ابن ماجہ بطريقہ ابراہيم Zبن اس ٰ
ابن جبير ،عطاء ابن ابی رباح اور طاؤس نے خبر دی ہے کہ ابن عباس رضی اللہ
تعالٰی عنہا نے ان کو بتايا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں
مغرب عشاء جمع کرليتے تھے حاالنکہ نہ آپ کو جلدی ہوتی تھی نہ دشمن تعاقب
ميں ہوتا تھا اور نہ کسی اور چيز کا خوف ہوتا تھا۔
مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی باب الجمع بين الصلٰوتين الخ ( ؎۲سنن ابن ماجہ
کراچی )۱/۷۶
ٰ ٰ
قلت :ابرھيم ھذا ،ھو ابن اسمعيل ابن مجمع االنصاری ،ضعيف۔ وعبدالکريم ،ان لم يکن ابن مالک
الجزری ،فابن ابی المخارق ،وھو اضعف واضعف۔ والمعروف حديثہ فی الجمع بالمدينۃ۔ رواہ الشيخان
وجماعۃ ،کماقدمناہ بطرقھا والفاظھا عماقريب۔
معيل ابن مجمع انصاری ہے جو ضعيف ہے۔ اور قلت (ميں نے کہا) :يہ وہی ابن اس ٰ
عبدالکريم اگر ابن مالک جزری نہيں ہے تو ابن ابی المحارق ہوگا اور وہ بہت
ضعيف اور بہت ہی ضعيف ہے۔ ابن عباس کی جو حديث معروف ہے وہ مدينہ ميں
جمع کرنے کی ہے (نہ کہ سفر ميں) اس کو بخاری ،مسلم اور محدثين کی ايک
جماعت نے روايت کيا ہے۔ جيسا کہ تھوڑا ہی پہلے ہم اس کے تمام طريقے اور
الفاظ بيان کرآئے ہيں۔ (ت)
ً ً
وحديث( )۳بخاری تعليقا ووصال وطحاوی وصال:
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ
عن انس رضی ا تعالی عنہ ان رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم کان يجمع بين ھاتين
الصالتين فی السفر ،يعنی المغرب والعشاء ؎۳۔
انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ
وسلم اِن دو ۲نمازوں کو سفر ميں جمع کرتے تھے ،يعنی مغرب اور عشاء کو۔
(ت)
( ؎۳شرح معانی اآلثار باب الجمع بين الصلٰوتين الخ ،مطبوعہ ايچ ايم سعيد کمپنی
کراچی )۱/۱۱۱
ً
وحديث( )۴مالک وشافعی ودارمی ومسلم وابوداؤد وترمذی ونسائی وابن ماجہ وطحاوی مطوال
ہّٰلل ہّٰلل ٰ ً
ومختصرا عن عامر بن واثلۃ ابی الطفيل عن معاذ بن جبل رضی ا تعالی عنہم قال :جمع رسول ا
ہّٰلل ٰ
صلی ا تعالی عليہ وسلم فی غزوۃ تبوک بين الظھر والعصر وبين المغرب والعشاء ،قال :فقلت،
ماحملہ علی ذلک؟ قال ،فقال :ارادان اليحرج امتہ ؎۱۔ عامر ابن واثلہ ابوالطفيل ،معاذ ابن
جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
عليہ وسلم نے غزوہ تبوک ميں ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو جمع کيا تھا۔ واثلہ
نے کہا کہ ميں نے پُوچھا'' :اس کی وجہ کيا تھی؟'' تو معاذ رضی اللہ تعالٰی عنہ
نے جواب ديا کہ آپ يہ چاہتے تھے کہ آپ کی اُمت کو کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)
مطبوعہ قديمی ( ؎۱الصحيح لمسلم باب جواز الجمع بين الصلٰوتين فی السفر
کتب خانہ کراچی )۱/۲۴۶
ھذا لفظ مسلم فی الصالۃ ،ومثلہ للطحاوی ،وعند الترمذی صدرہ فقط ،وھو احد لفظی الطحاوی
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
ولمالک ومن طريقہ عند مسلم فی الفضائل ،خرجنا مع رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم عام
غزوۃ تبوک ،فکان يجمع الصالۃ ،فصلی الظھر والعصر جميعا ،والمغرب والعشاء جميعا حتی اذاکان
يوما اخر الصالۃ ،ثم خرج فصلی الظھر والعصر جميعا ،ثم دخل ،ثم خرج بعد ذلک ،فصلی المغرب
والعشاء جميعا ،؎۲الحديث بطولہ ،وھو بھذا القدر من دون زيادۃ عبدالباقين۔
يہ مسلم کے الفاظ ہيں کتاب الصلٰوۃ ميں ،اور طحاوی نے بھی يونہی روايت کی
صہ ہے اور طحاوی کی ايک روايت بھی ہے۔ ترمذی ميں صرف اس کا ابتدائی ح ّ
صے پر مشتمل ہے۔ مالک کے ہاں ،اور انہی کے طريقے سے صرف ابتدائی ح ّ
مسلم کے ہاں روايت ہے کہ غزوہ تبوک کے سال ہم رسول اللہ صلی اللہ عليہ
وسلم کے ساتھ نکلے تو آپ نمازوں کو جمع کياکرتے تھے ،چنانچہ آپ نے ظہر
وعصر کو مالکر پڑھا اور مغرب وعشا کو مالکر پڑھا حتّٰی کہ ايک روز آپ نے
نماز کو مؤخر کيا ،پھر تشريف الئے تو ظہر وعصر کو مالکر پڑھا۔ پھر اندر
تشريف لے گئے پھر باہر جلوہ افروز Zہوئے اور مغرب وعشاء کو مالکر پڑھا۔ مالک
اور مسلم نے اس حديث کو آخر تک پوری طوالت سے ذکر کيا ہے۔ مگر ديگر
محدثين کے ہاں اسی قدر ہے۔ اس سے زائد نہيں ہے۔ (ت)
من کتاب ( ؎۲الصحيح لمسلم باب فی معجزات النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم
الفضائل مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی )۲/۲۴۶
ً ً
وحديث( )۵مالک مرسال ومسندا:
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ
من طريق داؤد بن الحصين عن االعرج عن ابی ھريرۃ رضی ا تعالی عنہ ان رسول ا صلی ا تعالی
عليہ وسلم کان يجمع بين الظھر والعصر فی سفرہ الی تبوک ؎۱۔ بطريقہ داؤد ابن حصين ،اعرج
سے ،وہ ابوھريرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوک کے دوران ظہر وعصر کو جمع کيا کرتے تھے۔ (ت)
مطبوعہ مير محمد کتب خانہ کراچی الجمع بين الصلٰوتين الخ ( ؎۱مؤطا امام مالک
ص۲۵۔)۱۲۴
ٰ ٰ
ھکذا روی عن يحيی مسندا ،وھو عند محمد وجمھور رواۃ المؤطا عن عبدالرحمن بن ھرمز مرسال۔
ٰ
وعبدالرحمن ،ھواالعرج۔ يہ حديث يحيٰی سے بھی اسی طرح مسندا ً مروی ہے ،مگر
محمد اور مؤطا کے اکثر راوی اس کو عبدالرحمن ابن ہرمز سے مرسال ً روايت
کرتے ہيں ،اور عبدالرحمن ،وہی اعرج Zہے۔
ہّٰلل ٰ
وھو عندالبزار عن عطاء بن يسار عن ابی ھريرۃ عن النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم کان يجمع بين
الصالتين فی السفر ؎۲۔ اور بزار کے ہاں عطاء ابن يسار ابوہريرہ سے روايت کرتے
ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں دو ۲نمازوں کو جمع کرتے تھے۔
(ت)
مطبوعہ مؤسۃ الرسالۃ باب الجمع بين الصلٰوتين ( ؎۲کشف االستار عن زوائد البزار
بيروت )۱/۳۳۰
وحديث(: )۶
احمد وابن شبۃ بطريق حجاج ابن ارطاۃ ،مختلف فيہ ،عن عمروبن شعيب عن ابيہ عن جدہ وھو
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ ہّٰلل
عبدا بن عمروبن العاص رضی ا تعالی عنھما قال :جمع رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم
بين الصالتين فی غزوہ بنی المصطلق ؎۳۔ احمد اور ابن ابی شيبہ بطريقہ حجاج ابن
ارطاۃ ،جو مختلف فيہ ہے ،عمرو ابن شعيب سے ،وہ اپنے باپ سے ،وہ اس کے
دادا سے ،يعنی عبداللہ ابن عمرو ابن عاص رضی اللہ تعالٰی عنہما سے روايت
کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ بنی مصطلق ميں دو
۲نمازوں کو جمع کيا۔ (ت)
مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم باب الجمع بين الصلٰوتين ( ؎۳المصنّف البن ابی شيبہ
االسالميہ کراچی )۲/۴۵۸
وحديث( )۷ترمذی فی کتاب العلل:
ہّٰلل ٰ ٰ
حدثنا ابوالسائب عن الجريری عن ابی عثمن عن اسامۃ بن زيد رضی ا تعالی عنھما قال :کان رسول
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
ا صلی ا تعالی عليہ وسلم اذاجدبہ السير جمع بين الظھر والعصر ،والمغرب والعشاء ،قال
الترمذی :سألت محمدا ،يعنی البخاری عن ھذا الحديث ،فقال :الصحيح ،ھو موقوف عن اسامۃ بن زيد
؎۱۔
حديث بيان کی ہم سے ابوالسائب نے جريری سے ،اس نے ابوعثمان سے ،اس
نے اسامہ ابن زيد رضی اللہ تعالٰی عنہما سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ
وسلم کو جب چلنے ميں جلدی ہوتی تھی تو ظہر وعصر اور مغرب وعشا کو
جمع کرتے تھے۔ ترمذی نے کہا کہ ميں نے محمد ،يعنی بخاری سے اس حديث کے
بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا کہ صحيح يہ ہے کہ اسامہ ابن زيد پر موقوف ہے۔
(ت)
مطبوعہ( ؎۱عمدۃ القاری شرح بخاری باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء
ادارۃ الطباعۃ المنيريہ بيروت )۷/۱۴۹
نوٹ :يہ حوالہ مجھے ترمذی کی کتاب العلل ميں نہيں مل سکا اور بڑی کوشش سے عمدۃ
مال ہے۔ نذير احمد سعيدی
القاری سے ِ
وحديث(: )۸
ہّٰلل ہّٰلل ٰ
احمد بطريق ابن لھيعۃ عن ابن الزبير قال :سألت جابرا رضی ا تعالی عنہ ،ھل جمع رسول ا صلی
ہّٰلل ٰ
ا تعالی عليہ وسلم بين المغرب والعشاء ؟قال :نعم ،عام غزونا بنی المصطلق ؎۲۔
احمد بطريقہ ابن لہيعہ ،ابوالزبیر سے راوی ہيں کہ ميں نے جابر رضی اللہ تعالٰی
عنہ سے پُوچھا'' :کيا رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسم نے کبھی مغرب
وعشاء کو جمع کيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا :ہاں ،جس سال ہم غزوہ بنی
مصطلق کے لئے گئے تھے''۔ (ت)
مطبوعہ دارالفکر بيروت لبنان از مسند جابر بن عبداللہ ( ؎۲مسند احمد بن حنبل
)۳/۳۴۸
وحديث( )۹ابن ابی شيبہ وابوجعفر طحاوی :
ٰ ٰ
اما االول فبطريق ابن ابی ليلی عن ھذيل ،واما االخر فعن ابی قيس االودی عن ھذيل بن شرجيل عن
ٰ ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ ہّٰلل
عبدا بن مسعود رضی ا تعالی عنہ ان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم جمع ،ولفظ االخر کان
يجمع ،بين الصالتين فی السفر ؎۳۔
پہ لے (يعنی ابن ابی شيبہ) بطريقہ ابن ابی ليلی ،ہذ یل سے ،اور دوسرے (يعنی
طحاوی) ابوقيس اودی ہے وہ ہذيل ابن شرجيل سے ،وہ عبداللہ بن مسعود رضی
اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے سفر
کے دوران جمع کيا طحاوی کے الفاظ يوں ہيں'' :جمع کيا کرتے تھے دو نمازوں
کو سفر کے دوران ـ(''.ت)
مطبوعہ ادارۃ القرآن من قال يجمع المسافر بين الصلٰوتين ( ؎۳مصنّف ابن ابی شيبہ
)۲/۴۵۸ کراچی
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ
وللطبرانی فی معجميہ الکبير واالوسط عنہ رضی ا تعالی عنہ قال :جمع رسول ا صلی ا تعالی
ّ
عليہ وسلم بين الظھر والعصر ،والمغرب والعشاء ،فقيل لہ فی ذلک ،فقال :صنعت ذلک لئال تحرج
امتی ؎۱۔ اور طبرانی نے اپنی دونوں معجموں ،يعنی کبير اور اوسط ميں عبداللہ
ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
عليہ وسلم نے ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کیا ۹تو آپ سے اس بارے
ميں پ ُوچھا گيا ،آپ نے جواب ديا کہ ميں نے اس طرح اس لئے کيا ہے تاکہ ميری
اُ ّ
مت پر کوئی تنگی نہ ہو۔ (ت)
۱۰/۲۶ مطبوعہ المکتبۃ الفيصليہ بيروت حديث ۱۰۵۲۵ ( ؎۱المعمجم الکبير للطبرانی
)۹
وحديث()۱۰
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
طبرانی فی المعجم االوسط عن عطاعن ابن عباس رضی ا تعالی عنہ ان النبی صلی ا تعالی
عليہ وسلم کان يجمع بين الصالتين فی السفر ؎۲۔
(قدیم میں یہ روایت ابی سعید الخدری رضی اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے
اورترجمہ قدیم ہی کے مطابق کیا گیا ہے)
طبرانی معجم اوسط ميں ابونضرہ سے ،وہ ابو سعيد خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ
سے روايت کرتے ہيں کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر ميں دو ۲نمازوں
کو جمع کيا کرتے تھے۔ (ت)
)۶/۲۶۲ مکتب المعارف رياض حديث نمبر ۵۵۵۸ ( ؎۲معجم اوسط
وحديث( )۱۱مرسل وبالغ مالک:
ہّٰلل ہّٰلل ہّٰلل ٰ
انہ بلغہ عن علی بن حسين ،ھو ابن علی رضی ا تعالی عنھم انہ کان يقول :کان رسول ا صلی ا
ٰ
تعالی عليہ وسلم اذااراد ان يسير يومہ ،جمع بين الظھر والعصر ،واذا ارادان يسيرليلہ ،جمع بين
المغرب والعشاء ؎۳۔
مالک کو علی ابن حسين ابن علی رضی اللہ تعالٰی عنہم Zسے يہ بات پہنچی ہے کہ
وہ کہا کرتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب دن کو سفر کرنا
چاہتے تھے تو ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے اور جب رات کو سفر کرنا چاہتے
تھے تو مغرب وعشاء کو جمع کرليتے تھے۔ (ت)
ص )۱۲۶ مير محمد کتب خانہ کراچی جمع بين الصالتين ( ؎۳مؤطا امام مالک
ٰ
ولہذا سيدنا امام محمد رضی اہلل تعالی عنہ مؤطا شريف ميں حديث پنجم روايت کرکے فرماتے ہيں:
ٰ ٰ
بھذا ناخذ ،والجمع بين الصالتين ان تؤخر االولی منھما فتصلی فی اخر وقتھا ،وتعجل الثانيۃ فتصلی
فی اول وقتھا ،وتعجل الثانيۃ فتصلی فی اول وقتھا ؎۴۔
ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع بين الصالتين کا طريقہ يہ ہے کہ پہلی کو
مؤخر کرکے آخر وقت ميں پڑھا جائے اور دوسری کو جلدی کرکے اول وقت
ميں۔ (ت)
مطبوعہ آفتاب عالم باب الجمع بين الصالتين فی السفر والمطر ( ؎۴مؤطا امام محمد
پريس الہور ص)۱۳۱
تبوک
ِ يعنی جو اس حديث ميں آياکہ سےيد عالم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر
ميں ظہر وعصر جمع فرماتے ہم اسی کو اختيار کرتے ہيں اور جمع کے معنی
جمع صوری ہيں۔ ماّل جی تو ايک ہوشيار ان احاديث اور ان کے امثال کو محتمل
س ود سمجھ کر خود بھی زبان پر نہ الئے اور اغوائے عوام کےلئے يوں گولوبے ُ
اور پردہ کہہ گئے ف کہ جمع بين الصالتين فی سفر صحح اور ثابت ہے رسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سے بروايت جماعت عظيمہ کے صحابہ کبار سے۔
ص )۳۶۶ ( ف معيارالحق
پھر پندرہ ۱۵صحابہ کرام کے اسمائے طيبہ گناکر خود ہی کہا الکن مجموعہ
روايات ميں بعض ايسی ہيں کہ اُن ميں فقط جمع کرنا رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی عليہ وسلم کا دو نمازوں کو بےان کيا ہے کيفيت جمع کی بيان نہيں کی
پس حنفی لوگ اُن حديثوں ميں يہ تاويل کرتے ہيں کہ مراد اس سے جمع صوری
ہے اسی لئے وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں ذکر کرتے ہيں تو
مصنفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر
محمول سمجھیں اھ ملخصا ً۔
اقول :بالفرض اگر جمع صوری ثابت نہ ہوتی تاہم محتمل تھی اور احتمال قاطع
احاديث
ِ استدالل نہ کہ جب آفتاب کی طرح روشن دلیلوں سے جمع صوری کا
صحيحہ سے ثبوت ظاہر تو اب برا ِہ تلبيس پندرہ ۱۵صحابہ کی روايت سے اپنے
مطلب کا ثبوت صحيح بتانا اور جابجا عوام کو دہشت دالنے کےلئے کہيں چودہ
ماّل جی کی تحرير خود اُن پرماّل ئيت ہے اب تو ُ
سنانا کيا مقتضائے ُ
کہيں پندرہ ُ
بازگشتی تير ہوئی کہ جب احاديث صحيحہ صريحہ سے جمع صوری ثابت تو
منصفين بافہم اُن حديثوں مجمل الکيفيۃ کو بھی انہيں احاديث مبينۃ الکيفيۃ پر
محمول سمجھيں ،رہے وہ صحابہ جن کی روايات اپنے زعم ميں صريح سمجھ کر
الئے اور نص مفسر ناقابل تاويل کہتے ناظرين نقاد کا خوف نہ الئے وہ صرف چار
ہيں دو جمع تقديم دو جمع تاخير ميں ،اُن روايات کا حال بھی عنقريب اِن شاء
اللہ القريب المجيب کھالجاتا ہے اُس وقت ظاہر ہوگا کہ دعوٰی کردينا آسان ہے
مگر ثبوت ديتي تين ہاتھ پيراتا ہے وللہ الحجۃ الساميہ۔
فصل دوم ابطال دالئل جمع تقديم:
واضح ہوکہ جمع تقديم غايت درجہ ضعف وسقوط ميں ہے حتی کہ بہت علمائے
شافعيہ ومالکيہ تک معترف ہيں کہ اُس کے باب ميں کوئی حديث صحيح نہ ہوئی
ماّل ئیت کے بھروسے بيڑا اٹھا کر چلے ہيں کہ اُسے احاديث
ماّل جی اپنی ُ
مگر ُ
صحيحہ صريحہ مفسرہ قاطعہ سے ثابت کر دکھائيں گے ؎
چالتو ہے وہ بت سيمتن شب وعدہ
اگر حجاب نہ روکے حيانہ ياد آئے
سن چکے جمع تقديم وتاخير دونوں کی نسبت حضرت کے يہی دعوے ہيں ،ابھی ُ
کہ وہ حديثيں جن ميں تاويل کو مخالف کی دخل نہيں پھر بعد ذکرِ احاديث ف۱
فرمايا يہ ہيں دالئل ہمارے جواز جمع پر جن ميں کسی طرح عذر اور تاويل اور
جرح اور قدح کو دخل نہيں۔
ص ) ۳۸۳ (ف ۱معيارالحق
آخر کتاب ميں فرمايا ف :۲نصوص قاطعہ تاويل۔ اس سے اوپر لکھا :احاديث ف۳
صحاح جو جمع بين الصالتين پر قطعا ً اور يقينا داللت کرتی ہيں۔
ص)۴۰۳ (ف ۲معيارالحق ص ( ) ۴۱۸ف ۳معيارالحق
بہت اچھا ہم بھی مشتاق ہيں مگر بے حاصل ؎
سنتے تھے پہلو ميں دل کابہت شور ُ
جو چپراتو اِک قطرہ خُوں نہ نکال
حضرت بکمال عرقريزی Zدو ۲حديثيں تالش کرکے الئے وہ بھی ثمرہ نظر شريف
نہيں بلکہ مقلدين شافعيہ کی تقليد جامد سے۔
طرق حديث سيدنا معاذ ابن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ اُسِ حديث اوّل :بعض
جناب سے روايت صحيحہ معروفہ مشہورہ مرويہ کبار ائمہ تو وہ تھی جو ان
احاديث مجملہ سے حديث چہارم ميں گزری جس ميں سوا جمع کے کوئی کيفيت
مخصوصہ مذکور نہ تھی جماہےر ائمہ وحفّاظ نے اسے يوں ہی روايت کيا۔
ٰ
رواہ عن ابی الزبير عن ابی الطفيل عن معاذ جماعۃ من الحفاظ ،منھم سفين الثوری وقرۃ بن خالد
ٰ ٰ
ومالک بن انس واخرون ،اماسفين فعند ابن ماجۃ ،واماقرۃ فعنہ خالد بن الحارث عند مسلم،
ٰ
وعبدالرحمن بن مھدی عندالطحاوی ،وامامالک فعنہ الشافعی فی مسندہ ،وابن وھب
عندالطحاوی ،وابوالقاسم عندالنسائی 5،وابوعلی الحنفی عندالدارمی ،وعن الدارمی ،مسلم فی
صحيحہ۔
اس حديث کو ابوالزبير سے ،اس نے ابوالطفيل سے ،اس نے معاذ رضی اللہ
تعال ٰی عنہ سے ،حفّاظ کی ايک جماعت نے روايت کيا ہے ،جن ميں سفيان ثوری،
قرۃ ابن خالد ،مالک بن انس اور ديگر محدثين شامل ہيں۔ سفيان ثوری کی روايت
ابن ماجہ کے ہاں ہے۔ قرۃ ابن خالد سے خالد ابن حارث نے جو روايت لی ہے وہ
مسلم ميں ہے ،اور جو عبدالرحمان ابن مہدی نے لی ہے وہ طحاوی ميں ہے۔
ابن وہب نے
ِ مالک سے جو روايت شافعی نے لی ہے وہ ان کے مسند ميں ہے۔ جو
لی ہے وہ طحاوی کے ہاں ہے۔ جو ابوالقاسم نے لی ہے وہ نسائی کے پاس ہے۔ جو
ابوعلی حنفی نے لی ہے وہ دارمی کے ہاں ہے اور دارمی سے مسلم نے اپنی
صحيح ميں ذکر کی ہے۔ (ت)
اہل علم کے نزديک معروف ہے مگر ايک روايت غريبہ شاذہ بطريق ليث بن سعد عن يزيد بن ابی يہی ِ
ہّٰلل ٰ
جيب عن ابی الطفيل يوں آئی :ان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم کان فی غزوۃ تبوک ،اذا ارتحل
قبل ان تزيغ الشمس اخر الظھر حتی يجمعھا الی العصر فيصليھما جميعا ،واذا ارتحل بعدزيغ
الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم صار ،وکان اذاارتحل بعد المغرب عجل العشاء فصالھا مع
المغرب ؎۱۔ رواہ احمد وابو داؤد والترمذی وابن حبان والحاکم والدارقطنی والبیھقی۔ زاد الترمذی بعد
قولہ :اذا ارتحل بعدزيغ الشمس ،عجل العصر الی الظھر وصلی الظھر والعصر جميعا۔ الحديث ؎۲
يعنی حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم غزوہ تبوک ميں جب سورج ڈھلنے
سے پہلے کُوچ فرماتے تو ظہر ميں دير کرتے يہاں تک کہ اُسے عصر سے مالتے
تو دونوں کو ساتھ پڑھتے اور جب دوپہر کے بعد کُوچ فرماتے تو عصر ميں تعجيل
کرتے اور ظہر وعصر ساتھ پڑھتے پھر چلتے اور جب مغرب سے پہلے کُوچ کرتے
مغرب ميں تاخير فرماتے يہاں تک کہ عشا کے ساتھ پڑھتے اور مغرب کے بعد
کُوچ فرماتے تو عشا ميں تعجيل کرتے اُسے مغرب کے ساتھ پڑھتے۔
( ؎۲جامع الترمذی باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين مطبوعہ مجتبائی الہور )۱/۷۲
( ؎۳جامع الترمذی باب ماجاء فی الجمع بين الصلٰوتين مطبوعہ مجتبائی الہور )۱/۷۲
امام ترمذی فرماتے ہيں يہ غريب ہے معروف روايت ابی ھريرہ ہے :حيث قال:
حديث الليث عن يزيد بن ابی حبيب عن ابی الطفيل عن معاذ ،حدیث حديث
غریب والمعروف عند اھل العلم حدیث معاذ من حديث ابی الزبير عن ابی
الطفيل عن معاذ ان النبی صلی الل ّٰہ تعالٰی عليہ وسلم جمع فی غزوۃ تبوک بين
الظھر والعصر ،وبين المغرب والعشاء۔ رواۃ قرۃ بن خالد وسفيٰن الثوری ومالک
وغير واحد عن ابی الزبير المکی ؎۳۔
چنانچہ ترمذی نے کہا کہ وہ حديث جو ليث نے يزيد ابن ابی حبيب سے ،اس نے
ل علم کےابوالطفيل سے ،اس نے معاذ سے روايت کی ہے ،وہ غريب ہے اور اہ ِ
نزديک معروف معاذ کی وہ حديث ہے جو ابوالزبير نے بواسطہ ابوالطفيل معاذ
سے روايت کی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم نے غزوہ تبوک ميں ظہر
وعصر اور مغرب وعشاء کو جمع کيا۔ اس کو قرۃ ابن خالد ،سفيان ثوری ،مالک
اور دوسروں نے ابوالزبير مکّی سے روايت کيا ہے۔ (ت)
مطبوعہ مجتبائی الہور )۱/۱۷۲ ( ؎۱سنن ابی داؤد باب الجمع بين الصلٰوتين
( ؎۴نيل االوطار شرح منتقی االخبار ابواب الجمع بين الصلٰوتين مطبوعہ مصطفی البابی
مصر )۳/۲۴۳
پھر ائمہ شان مثل ابوداؤد وترمذی وابوسعيد بن يونس فرماتے ہيں اسے سوا
قتيبہ بن سعيد کے کسی نے روايت نہ کيا يہاں تک کہ بعض ائمہ نے اُس پر غلط
ہونے کا حکم فرمايا ؎۴کمانقلہ االمام البدر في العمدۃ والشوکانی الظاھری فی شرح المنتقی
عن الحافظ ابن سعيد بن يونس (جيسا کہ امام بدر نے عمدۃ ميں اور شوکانی الظاہری
نے شرح منتقی ميں حافظ ابن سعيد بن يونس سے نقل کيا۔ ت) امام ابوداؤدZ
نےمنکر کہا ؎۱کمافی البدر المنير وعنہ فی النيل (جيسا کہ بدر منير ميں ہے اور اس
سے نيل االوطار Zنے نقل کيا ہے)
مطبوعہ مصطفی ابواب الجمع بين الصلٰوتين ( ؎۱نيل االوطار شرح منتقی االخبار
البابی مصر )۳/۲۴۳
بلکہ رئيس الناقدين امام بخاری نے اشارہ فرمايا کہ يہ حديث نہ ليث نے روايت
کی نہ قتيبہ نے ليث سے سنی بلکہ خالد بن قاسم مدائنی متروک باالجماع
مطعون بالکذب نے قتيبہ کو دھوکا دے کر اُن سے روايت کرادی اُس کی عادت
تھی کہ برا ِہ مکر وحيلہ شيوخ پر اُن کی ناشنيدہ روايتيں داخل کرديتا الجرم حاکم
نے علوم الحديث ميں اُس کے موضوع ہونے کی تصريح کی يہ سب باتيں علمائے
حنفيہ مثل امام زيلعی شارح کنز وامام بدر عينی شارح صحيح بخاری وعاّل مہ
ابراہيم حلبی شارح منيہ کے سوا شافعيہ ومالکيہ وظاہريہ قائالن جمع بين
الصالتين مثلي امام قسطالنی شافعی شارح بخاری وعاّل مہ زرقانی مالکی شارح
مؤطا ومواہب وشوکانی ظاہری شارح منتقی وغيرہم Zنے امام ابن يونس وامام
ابوداؤد Zوابوعبداللہ حاکم وامام المحدثين بخاری سے نقل کيں بلکہ انہيں نے اور
ان کے غير مثل صاحب بدرمنير وغيرہ نے امام ابوداؤد سے حکم مطلق نقل کيا
قابل استناد نہيں
ِ کہ جو مضمون اس روايت کا ہے اس باب ميں اصال ً کوئی حديث
کماسيأتی اِن شاء الل ّٰہ تعالٰی ( جيسا کہ اِن شاء اللہ تعالٰی آگے آئےگا۔ ت) تو
باوصف تصريحات ائمہ شان خصوصا ً بخاری کے پھر ماّل جی کا اس روايت کی
تصحيح ميں عرق ريزی بے حاصل اور توثيق ليث وقتيبہ وغيرہما رواۃ وقبول تفرد
الت فاحشہ ہے کس نے کہا تھا کہ ثقہ کے اثبات ميں تطويل الطائل کرنا کيسی جہ ِ
قتيبہ يا ليث يا يزيدبن ابی حبيب يا معاذاللہ حضرت ابوالطفيل رضی اللہ تعالٰی
عنہ ضعيف ہيں ،ماّل جی بايں پيرانہ سالی ودعوے محدثی ابھی حديث معلول ہی
ضعف راوی ضرور نہيں بلکہ باوصف وثاقت ِ کو نہيں جانتے کہ اُس کےلئے کچھ
وعدالت رواۃ حديث ميں علت قارحہ ہوتی ہے کہ اُس کا َرد واجب کرتی ہے جسے
بخاری وابوداؤد Zوغيرہما سے ناقدين پہچانتے ہيں بخاری وابوسعيد وحاکم نے بھی
تو قتيبہ پر جرح نہ کی تھی بلکہ يہ کہا تھا کہ اُنہيں دھوکا دياگيا غلط ميں پڑگئے
وثاقت قتيبہ سے حديث کو کيا نفع
ِ عدالت قتيبہ کو کيا نقصان پہنچا،
ِ پھر اس سے
مال ،ہاں يہ دفتر توثيق اپنے پےشوا ابن حزم غير مقلد المذہب کو سنائيے جس
خبيث اللسان نے آپ کو اس روايت کے َرد ميں سيدنا ابوالطفيل صحابی رضی
اللہ تعالٰی عنہ کو عياذاً Zباللہ مقدوح و مجروح بتايا جسے دوسرے غير مقلّد
شوکانی نے نقل کيا ،غير مقلدوں کی عادت ہے کہ جب حديث کے َرد پر آتے ہيں
خوف خدا وشرم ِ دُنيا سب باالئے طاق رکھ جاتے ہيں۔ اسی ابن حزم نے باجے ِ
حالل کرنے کےلئے صحيح بخاری شريف کی صحيح ومتصل حديث کو بزعم ِ تعليق
َرد کيا جس کا بيان امام نووی رحمۃ اللہ تعالٰی عليہ نے شرح صحيح مسلم
شريف ميں فرمايا وہی ڈھنگ Zموصول کو معلق مسند کو مرسل بناکر احاديث
صحيحہ جيدہ کو َرد کرنے کےلئے آپ نے سيکھے ہيں،
ٰ ّ
کماتقدم ،ومن يشبہ اباء ہ فماظلم ثم اقول :وتحسين الترمذی يرجع الی حديث معاذ ،لقولہ :حديث
معاذ حديث حسن غريب۔ واذا اتی علی ھذہ الروايۃ لم يحسنہ ،انما قال :وحديث الليث عن يزيد
غريب۔ وافاد انہ خالف المعروف ،فقال :والمعروف عند اھل العلم حديث معاذ ؎۱۔ الخ جيسا کہ
گزرا اور جو شخص اپنے آباؤ سے مشابہت رکھے اس کا کوئی قصور نہيں۔ ثم
اقول پھر ميں کہتا ہوں) کہ ترمذی کا حسن قرار دينا حديث معاذ سے متعلق ہے
کيونکہ ترمذی نے کہا ہے کہ معاذ کی حديث حسن غريب ہے اور جب اس روايت
کا ذکر کيا اسے حسن نہيں کہا صرف يہ کہا کہ ليث کی يزيد سے مروی حديث
غريب ہے۔ ترمذی نے يہ افادہ بھی کيا کہ يہ معروف حديث کے خالف ہے۔ چنانچہ
ل علم کے نزديک معروف ،معاذ کی وہ حديث ہے الخ۔ ترمذی نے کہا ہے کہ اہ ِ
)۱/۷۲ مطبوعہ مجتبائی الہور باب ماجاء فی الجمع بين الصالتين ( ؎۱جامع الترمذی
واما ابن حبان فالنعلم لہ فضال علی ابی سعيد بن يونس ،فانہ ايضا ثقۃ ،ثبت ،حافظ ،امام من ائمۃ
ٰ
الشان ،کالھما من االقران ،من تالمذۃ االمام النسائی ابی عبدالرحمن۔ وابن يونس ،لنزاھتہ من نفس
فلسفی ،احب الی الناس من ابن حبان۔ وقد قال االمام ابوعمرو بن الصالح فی طبقات الشافعيۃ :ربما
ّ
غلط الغلط الفاحش فی تصرفاتہ ،؎۲کمانقلہ الذھبی فی تذکرۃ الحفاظ۔ فانی يدانی اباداؤد ،فضال
ان يواذيہ ،فضال ان يباريہ ،فضال عن ذاک الجبل الجليل محمد بن اسمعيل يوقد عرف بالتساھل فی
باب التصحيح؛ بل والتحسين ،ھو والترمذی :کمانص عليہ االئمۃ وحققناہ فی رسالتنا مدارج طبقات
۱۳۱۳ھ الحديث علی ان الجرح مقدم فی مثل المقام ،فان من اثبت فانما نظر الی ثقۃ الرواۃ ،ولم يطلع
ہّٰلل
علی مااطلع عليہ غيرہ من العلۃ ،ومن يعلم قاض علی من اليعلم۔ وا اعلم ،من کل اعلم۔ رہا
ابن حبان تو اسکی سعيد ابن يونس پر کوئی برتری ہمارے علم ميں نہيں ہے
کيونکہ سعيد بھی ثقہ ہے ثبت ہے ،حافظ ہے اور حديث کے اماموں ميں سے ايک
امام ہے دونوں ہم زمان ہيں اور امام ابوعبدالرحمن نسائی کے شاگردوں ميں
سے ہيں۔ تاہم ابن يونس فلسفی روح سے پاک ہونے کی وجہ سے لوگوں کے ہاں
ابن حبان سے زيادہ پسنديدہ ہے۔ امام ابوعمر ابن صالح نے طبقات الشافعيہ ميں
کہ ا ہے کہ ابن حبان کو تصرفات حديث کے دوران بسا اوقات شديد غلطی لگ
جاتی تھی ،جيسا کہ ذہبی نے تذکرۃ الحفاظ ميں بےان کيا ہے۔ تو پھر ابن حبان
ابوداؤد Zکے قريب بھی کہاں پہنچ سکتا ہے ،چہ جائےکہ اس کا ہمسر ہو ،چہ
معيل (بخاری) کا جائےکہ اس کے مقابل ہو۔ اور علم کے عظيم Zپہاڑ محمد بن اس ٰ
مقام تو پھر بہت ہی اونچا ہے ،جبکہ ابن حبان احاديث کو صحيح قرار دينے ميں
متساہل ہے۔ بلکہ حسن قرار Zدينے ميں بھی يہ اور ترمذی متساہل ہيں ،جيسا کہ
ائمہ نے تصريح کی ہے اور ہم نے اپنے رسالے ''مدارج طبقات الحديث'' ميں
تحقيق کی ہے۔ عالوہ ازيں ايسے مقام پر جرح ،تعديل سے مقدم ہوتی ہے کيونکہ
جو علماء ،حديث کو ثابت قرار Zديتے ہيں وہ صرف راويوں کا ثقہ ہونا مدّنظر
رکھتے ہيں اور اس خامی سے آگاہ نہيں ہوتے ہيں جس سے دوسرے واقف ہوتے
ہيں اور آگاہی رکھنے والے ،آگاہی نہ رکھنے والوں کی بنسبت فيصلہ کن ہوتے ہيں۔
واللہ تعالٰیاعلم من کل اعلم۔ (ت)
)۳/۱۲۶ مطبوعہ حيدرآباد دکن ( ؎۲تذکرۃ الحفاظ فی ترجمۃ ابن حبان
م اقول :اس روايت ميں اسی طرح مقال واقع Zہوئی اور ہنوز کالم طويل ہے ث ّ
ٰ
مگر فقير غفراللہ تعالی لہ کہتا ہے نظر تحقيق کو رخصت تدقيق Zديجئے تو اس
روايت کا کون سا حرف جمع حقيقی ميں نص ہے اُس کا حاصل تو صرف اس
قدر کہ حضور واال صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سفر تبوک ميں ظہر وعصر کو
جمع فرماتے اگر دوپہر سے پہلے کُوچ ہوتا تو راہ ميں اُتر کر ورنہ منزل ہی پر
پہلی صورت ميں جمع بعد سير ہوتی ہے اور دوسری ميں سير بعد جمع پھر اس
ميں جمع صوری کا خالف کيا ہوا حديث کا کون سا لفظ حقيقی کا تعيین کررہا
ہے اذا ارتحل بعدزيغ الشمس ميں خواہی نخواہی بعديت متصلہ پر کيا دليل ہے
بلکہ اس کے عدم پر دليل قائم کہ جزا صلی ثم سار ہے بلکہ الفاظ اخر الظھر
وعجل العصر سے جمع صوری ظاہر ہے ظہر دير کرکے پڑھی عصر جلد پڑھی
اس سے يہی معنی مفہوم ومتبادر ہوتے ہيں کہ ظہر اپنے آخر وقت ميں عصر
اپنے شروع وقت ميں نہ يہ کہ ظہر عصر ميں پڑھی جائے يا عصر ظہر ميں ،ولہذا
علمائے کرام مثل امام اجل طحاوی وابوالفتح ابن سيد الناس وغيرہما بلکہ ان
کے عالوہ آپ کے امام شوکانی نے بھی ان الفاظ تاخير وتعجيل کو جمع صوری
کی صريح دليل مانا ،شرح منتقی ميں کہا:
ممايدل علی تعين حمل حديث الباب علی الجمع الصوری ،مااخرجہ النسائی عن ابن عباس،
ہّٰلل ٰ
بلفظ :صليت مع النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم الظھر والعصر جميعا ،والمغرب والعشاء جميعا،
اخر الظھر وعجل العصر ،واخر المغرب وعجل العشاء۔ فھذا ابن عباس،راوی حديث الباب ،قدصرح
بان ماوراہ من الجمع المذکور ھو الجمع الصوری ؎۱۔ جن وجوہات کی بنا پر اس باب کی
حديث کو جمع صوری پر حمل کرنا متعين ہوجاتا ہے ان ميں سے ايک وجہ وہ
روايت ہے جس کی نسائی نے ابن عباس سے ان الفاظ ميں تخريج کی ہے کہ
ميں نے نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے ساتھ ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھا اور
مغرب وعشا کو بھی اکٹھا پڑھا۔ آپ نے ظہر ميں تاخير اور عصر ميں تعجيل
فرمائی ،اسی طرح مغرب ميں تاخير اور عشا ميں تعجيل فرمائی تو يہ ابن
عباس جو حديث کے راوی ہيں خود ہی واضح کررہے ہيں کہ انہوں نے جمع کی
جو روايت بےان کی ہے اس سے مراد جمع صوری ہے۔ (ت)
مطبوعہ مصطفی باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ ( ؎۱نيل االوطار شرح منتفی االخبار
البابی مصر )۳/۲۴۶
ُ
اسی ميں ہے :ومن المؤيدات للحمل علی الجمع الصوری ايضا ،مااخرجہ ابن جرير عن ابن عمر ،قال:
ّ ہّٰلل ٰ ہّٰلل
خرج علينا رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم ،فکان يؤخر الظھر ويعجل العصر فيجمع بينھما،
ويؤخر المغرب ويعجل العشاء فيجمع بينھما۔ وھذا ھو الجمع الصوری ؎۲۔ جمع صوری پر حمل
کرنے کی مؤيدات ميں سے وہ روايت بھی ہے جو ابن جرير نے عبداللہ ابن عمر
رضی اللہ تعالٰی عنہ سے بےان کی ہے وہ فرماتے ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعال ٰی عليہ وسلم ہمارے پاس باہر تشريف الئے تو ظہر کو مؤخر کرتے تھے اور
عصر کو جلدی ،اس طرح دونوں کو يکجا پڑھ ليتے تھے۔ اسی کو جمع صوری
کہتے ہيں۔ (ت)
مطبوعہ مصطفی باب الجمع المقيم لمطرا وغيرہ ( ؎۲نيل االوطار شرح منتفی االخبار
البابی مصر )۳/۲۴۶
معہ ذا ظہر ومغرب کا جب وقت کھودنا ٹہرا تو عصر وعشاء ميں جلدی کا ہے کی،
اطمينان سے منزل پر پہنچ کر دونوں پڑھ لی جاتيں ،ہاں جمع صوری اُن کی
تعجيل ہی سے ممکن ،تو حديث اُسی طرف ناظر ،بالجملہ شک نہيں کہ يہ روايت
ماّل جی نے خواہی نخواہی جمعبھی اُنہيں احاديث مجملۃ الکيفيۃ سے ہے جسے ُ
حقيقی ميں نص مفسر ناقابل تاويل مان ليا ،الحمداللہ اس تحرير کے بعد مرقاۃ
شرح مشک ٰوۃ کے مطالعہ نے ظاہر کيا کہ موالنا علی قاری عليہ رحمۃ الباری نے
حديث کی يہی تفسير کی جو فقير نے تقرير کی ،فرماتے ہيں:
ٰ ٰ
(جمع بين الظھر والعصر) ای فی المنزل ،بان اخر الظھر الی اخر وقتہ وعجل العصر فی اول وقتہ۔
(ظہر وعصر کو جمع کيا) يعنی قيام گاہ ميں ،ظہر کو آخر وقت تک مؤخر کيا اور
عصر کو تعجيل کرکے اول وقت ميں پڑھا۔ (ت)
پھر فرمايا(:جمع بين المغرب والعشاء) ای فی المنزل ،کماسبق ؎۳۔ (مغرب وعشاء کو جمع
کيا)يعنی جائے قيام ميں ،جيسا کہ پہلے گزرا۔ (ت)
)۳/۲۲۵ مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان باب صلٰوۃ السفر ( ؎۳مرقاۃ شرح مشکٰوۃ
حديث دوم :اور تم نے کيا جانا کيا حديث دوم وہ حديث جسے جمع صالتين سے
اصال ً عالقہ نہ يں جس ميں اثبات جمع کا نام نہيں نشان نہيں ،بو نہيں ،گمان نہيں۔
قائلين جمع نے بھی اُسے مناظرہ ميں پيش نہ کيا ،ہاں بعض علمائے شافعيہ
ِ خود
نے شرح حديث ميں استطراداً Zجس طرح شراح بعض فوائد زوائد حديث سے
استنباط کرجاتے ہيں لکھ ديا کہ اس ميں جمع سفر پر دليل ہے ماّل جی چار طرف
ٹٹول ميں تھے ہی تقليد جامد شافعيہ کی الٹھی پکڑے انہيں بند کيے پہنچے فيہ
دليل پر ہاتھ پڑا بحکم لکل ساقطۃ القطۃ (ہرگری ہوئی چيز کو کوئی اٹھانے واال
ہوتا ہے۔ ت) جھٹ خوش خوش اٹھاالئے اور معرکہ مناظرہ ميں جمادی وہ کيا يعنی
حديث صحيحين
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
عن ابی جحيفۃ رضی ا تعالی عنہ ،خرج علينا النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم بالھاجرۃ الی
البطحاء ،فتوضأ فصلی لنا الظھر والعصر ؎۱۔ ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے روايت ہے کہ
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت مقام ِ بطحاء ميں ہمارے
پاس باہر تشريف الئے تو وضو کيا اور ہميں ظہر وعصر کی نماز پڑھائی۔
)۱/۱۹۶ مطبوعہ قديمی کتب خانہ کراچی ( ؎۱صحيح مسلم :باب سترۃ المصلّی
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
ولفظ البخاری ،خرج علينا رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم بالھاجرۃ ،فصلی بالبطحاء الظھر
رکعتين والعصر رکعتين ؎۲۔ اور بخاری کے الفاظ يوں ہيں کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی عليہ وسلم دوپہر کے وقت ہمارے پاس باہر تشريف الئے اور مقام ِ بطحاء
ميں ظہر کی دو ۲رکعتيں اور عصر کی بھی دو ۲رکعتيں اور فرمائيں۔ (ت)
( ؎۲صحيح بخاری کتاب المناقب ،باب صفت النبی صلی اللہ عليہ وسلم ،مطبوعہ قديمی
کتب خانہ کراچی )۱/۵۰۲،
ماّل جی کی داد نہ فرياد ،اب کون کہہ سکتا ہے کہ حضرت اسے جمعسچ تو ہے ُ
حقيقی کی دليل نہ صرف دليل بلکہ صاف صريح نہ صالح تاويل بتانا کن کھلی
آنکھوں کا کام ہے سبحان اللہ! حديث کا مفاد صرف اتنا کہ حضور واال صلی اللہ
تعالٰی عليہ وسلم نے دوپہر کو يا ظہر کے اول وقت يا عصر سے پہلے خيمہ
اقدس سے برآمد ہوکر وضو کيا اور ظہر وعصر دونوں اُسی موضع بطحاء ميں
ادا فرمائيں اس ميں تو مطلق جمع بھی نہ نکلی نہ کہ جمع حقيقی ميں نص ہو،
ماّل جی تو آپ جانيں ايک ہوشيار ہيں خود سمجھے کہ حديث مطلب سے محض
بے عالقہ ہے لہذا يہ نامندمل زخم بھرنے کو بشرم عوام کچھ عربی بولے اور يوں
اپنی نحودانی کے پردے کھولے کہ ف ۱ہاجرہ خروج ووضو وصالۃ سب کی ظرف
ہے اور فاترتيب بے مہلت کےلئے تو بمقتضائے فامعنی يہ ہُوئے کہ يہ سب کام
ہاجرہ ميں ہوليے،
ص ۳۶۷۔)۳۶۹ (ف ۱معيارالحق
ظاہر يہی ہے تو اس سے عدول بے مانع قطعی ناروا ،عالوہ بريں عصر ظہر پر
جدا کرلينا
معطوف معمول کو ُ ِ معطوف اور صلّٰی توضأ سے بے مہلت مربوط تو
کيونکر جائز اھ ملخصا مھذبامترجما اس پر بہت وجوہ سے َرد ہيں ،مثال ً
ٰ
اول :فاکوترتيب ذکری کافی ،مسلم الثبوت ميں ہے :الفاء للترتيب علی سبيل
التعقيب ولوفی الذکر ؎۱۔ فاء ترتيب کے لئے بطور تعقيب ہے خواہ يہ ترتيب ذکر ميں
ہو۔ (ت)
مطبوعہ مطبع انصاری دہلی ص)۶۱ مسئلہ الفاء للترتيب ( ؎۱مسلم الثبوت
ثانی :عدم مہلت ہر جگہ اُس کے الئق ہوتی ہے کمافی فواتح الرحموت ( ؎۲جيسا کہ
فواتح الرحموت ميں ہے۔ ت) تزوج فولدلہ ميں کون کہے گا کہ نکاح کرتے ہی
چہ پيدا ہوتو جيسے وہاں تقريبا ً ايک سال کا فاصلہ منافی مقتضائے
اُسی آن ميں ب ّ
فانہیں ،ظہر وعصر ميں دو ۲ساعت کا فاصلہ کيوں منافی ہوگا۔
( ؎۲فواتح الرحموت شرح مسلم الثبوت مع المستصفی ،بحث الفاء للتعقيب ،مطبوعہ
منشورات الشريف الرضی قم ايران)۱/۲۳۴
ثالث :ہاجرہ ظرف خروج ہے ممکن کہ خروج آخر ہاجرہ ميں ہوکہ وضو ونماز ظہر
تک تمام ہوجائے اور نمازِ عصر بالمہلت اُس کے بعد ہو ،ہاجرہ کچھ دوپہر ہی کو
وقت ظہر کو بھی شامل ہے کمافی ِ نہيں کہتے زوال سے عصر تک سارے
القاموس۔ تو مخالفت ظاہر کا ادعا بھی محض باطل۔
رابع :حديث مروی بالمعنٰی ہے اور شاہ ولی اللہ صاحب نے تصريح کی کہ ايسی
حديث کے فا و واو وغيرہما سے استدالل صحيح نہيں کما فی الحجۃ البالغۃ۔ يہ
تلخيص وتہذيب اجوبہ ہے وقد ترکنا مثلھا فی العدد (اور ہم نے اتنے ہی جوابات ترک
کردئے ہيں۔ ت) وانا اقول وبحول الل ّٰہ اصول۔
خامس :ہاجرہ کو ظرف افعال ثلثہ کہنا محض ادعائے بے دليل ہے ''و '' تعقيب
چاہنی ہے۔ اتحاد زمانہ نہيں چاہتی بلکہ تعدد واجب کرتی ہے کہ تعقيب بے تعدد
معقول نہيں۔
سادس :ظرفيت ثلٰثہ فاسے ثابت يا خارج سے اول بدا ہ ًۃ باطل کماعلمت برتقدير
ثانی حديث فالغومحض ہے کہ عصر فی الہاجرہ اُسی قدر سے ثابت ،پھر باوصف
لغويت اُسی کی طرف اسناد کہ بمقتضائے فا يہ معنی ہوئے اور عجيب تر۔
سابع :ذرا صفت حجۃ الوداع ميں حديث طويل سيدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ
تعالٰی عنہما صحيح مسلم وغيرہ ميں مالحظہ ہو ،فرماتے ہيں:
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
فلما کان يوم الترويۃ توجھوا الی منی فاھلوا بالحج ورکب رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم فصلی
بھا الظھر والعصر والمغرب والعشاء والفجر ؎۳۔
جب آٹھويں ذی الحجہ کی ہُوئی صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم Zحج کا احرام
باندھ کر منٰی کو چلے اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم سوار ہوئے تو
منٰی ميں ظہر وعصر ومغرب وعشا وفجر پانچوں نمازيں پڑھيں۔ (م)
مطبوعہ قديمی کتب باب حجۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم ( ؎۳الصحيح لمسلم
)۱/۳۹۶ خانہ کراچی
ماّل جی وہی فا ہے وہی ترتيب وہی عطف وہی ترکيب۔ اَب يہاں کہہ دينا کہ سوار
ہوتے ہی معا ً بے مہلت پانچوں نمازيں ايک وقت ميں پڑھ ليں جو معنی صلی
الظھر والعصر الخ کے يہاں ہيں وہی وہاں اور يہ قطعا ً محاورہ عامہ شائعہ سائغہ
ہے کہ اصال ً مفيد وصل صلوات نہيں ہوتا ومن ادعی Zفعليہ البيان (جو شخص دعوٰی
مے دليل ہے۔ ت)کرتا ہے اس کے ذ ّ
ثامن :کالم متناقض ہے کہ اوّل کالم ميں حکم وصل سے عصر کا فعل خالف
ظاہر مانا يہ دليل صحت ہے آخر ميں کيونکر جائز کہا يہ دليل فساد۔
قطعيت مانع ضروری جاننا عجب جہل ہے کيا اگر کسی ِ تاسع :تاويل کے لئے
حديث کے ظاہر سے ايک معنی متبادر ہوں اور دوسری حديث صحيح اُس کے
خالف ميں صريح تو حديث اول کو اس کے خالف ہی پر حمل واجب ہے کہ بے
مانع قطعی ظاہر سے عدول کيونکر ہو نقل کر النا سہل ہے محل ومقام ومقصد
کالم کا سمجھنا نصيب اعدا۔
تاويالت رکيکہ
ِ عاشر :آپ جو اپنی نصرت خياالت کو احاديث صحيحہ ميں جابجا
باردہ کرتے ہيں اُن کے جواز کا فتوٰی کہاں سے پايا ،مجتہدات ميں قاطع کہاں،
وقت ظہر يک مثل بنانے کو جو حديث صحيح صريح بخاری حتی ساوی الظل ِ مثال ً
التلول کے معنی بگاڑے جن کا ذکر اِن شاء اللہ تعالٰی عنقريب آتا ہے اُس کا عذر
احاديث صحيحہ جن سے يہ
ِ کيا معقول ارشاد ہوتا ہے :منشاء تاويالت کا يہی ہے کہ
معلوم ہوتا ہے کہ بعد ايک مثل کے وقت ظہرکا نہيں رہتا ثابت ہيں پس جمعا ً بين
االولہ يہ تاويليں حقہ کی گئيں ؎۱اب خدا جانے بے قطعيت Zمانع يہ تاويليں حقہ
مخالفت ظاہر کے باعث سلفہ کيوں نہ ہوگئيں۔
ِ کيونکر ہوئيں
ص )۳۵۴ ( ؎۱معيارالحق ،مسئلہ چہارم ،بحث آخر وقت ظہر الخ مکتبہ نذيريہ الہور
حادی عشر :طرفہ نزاکت صدر کالم ميں يہ بيڑا ا ٹھا کر چلے کہ وہ حديثيں جن
ميں تاويل مخالف کو دخل نہيں ذکر کرتے ہيں اور يہاں ايسے گرے کہ صرف
ظاہر سے سند الئے تاويل خود ہی مان گئے۔
ثانی عشر :آپ کی فضوليات کی گنتی کہاں تک اصل مقصود کی دھجياں ليجئے
صحيحين ميں حديث مذکور کے يہ لفظ تو ديکھيے جن ميں فاء سے يہ فی نکالی،
مگر يہی حديث انہيں صحيحين ميں متعدد طرق سے بلفظ ثم آئی جو آپ کی
تعقيب بے مہلت کو تعاقب سے دم لينے کی مہلت نہيں ديتی۔ صحيح بخاری
شريف باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم۔
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
بطريق شعبۃ عن الحکم ،قال :سمعت اباجحيفۃ ،قال :خرج رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم
بالھاجرۃ الی البطحاء فتوضأ ،ثم صلی الظھررکعتين والعصر رکعتين ؎۱۔ بطريقہ شعبہ ،وہ حکم
سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
سے راوی ہے کہ ميں نے ابوجحيفہ کو کہتے ُ
عليہ وسلم دوپہر کے وقت بطحاء کی طرف نکلے تو وضو کيا ،پھر ظہر کی دو۲
رکعتيں پڑھيں اورعصر کی دو ۲رکعتيں۔ (ت)
( ؎۱صحيح بخاری کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم مطبوعہ قديمی
کتب خانہ کراچی)۱/۵۰۲،
نيز باب مذکوربطريق مالک بن مغول عن عون عن ابیہ ،وفيہ ،خرج بالل فنادی بالصالۃ ،ثم دخل
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
فاخرج فضل وضوء رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم ،فوقع الناس عليہ ياخذون منہ ،ثم دخل
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
فاخرج العنزۃ ،وخرج رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم ،کانی انظر الی وبيض ساقيہ ،فرکز العنزۃ ،ثم
صلی الظھر رکعتين والعصر رکعتين ؎۲۔ بطريقہ مالک ابن مغول ،وہ عون سے ،وہ اپنے
والد سے۔ اس روايت ميں ہے کہ بالل (خيمے سے) نکلے اور نماز کے لئے پکارا،
پھر اندر گئے اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی
لے آئے تو اس کو حاصل کرنے کےلئے لوگ اس پر ٹوٹ پڑے ،بالل پھر اندر گئے
اور عصا نکال الئے ،اسی وقت رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم بھی باہر
تشريف لے آئے گويا کہ ميں اب بھی آپ کی ساقين کی چمک ديکھ رہا ہوں بالل
سترہ) زمين پر گاڑ ديا۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم
نے عصا (بطور ُ
نے ظہر اور عصر کی دو ۲دو ۲رکعتيں پڑھيں۔ (ت)
( ؎۲صحيح بخاری،کتاب المناقب،باب صفۃ النبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم ،مطبوعہ
قديمی کتب خانہ کراچی)۱/۵۰۳،
لے کہاں کو ،ان دو ۲نے تو آپ کی تعقيب ہی بگاڑی ہے ،تيسرا اور نہ لیے جاؤ جو
خود ظہر وعصر مويں فاصلہ کر دکھائے،
ہّٰلل ٰ ٰ
صحيح مسلم شريف بطريق سفين ناعون بن ابی جحيفۃ عن ابيہ ،وفيہ ،فخرج النبی صلی ا تعالی
ّ
عليہ وسلم فتوضأ ،واذن بالل ،ثم رکزت العنزۃ ،فتقدم فصلی الظھر رکعتين،ثم صلی العصر رکعتين،
ثم لم يزل يصلی رکعتين حتی رجع الی المدينۃ؎۳۔
بطريقہ سفيان ،وہ عون سے ،وہ اپنے والد ابوجحيفہ رضی اللہ عنہ سے۔ اس
روايت ميں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم باہر تشريف الئے تو
وضو کيا اور بالل نے اذان دی ،پھر عصاگاڑا گيا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
عليہ وسلم کھڑے ہوگئے ،تو ظہر کی دو ۲رکعتيں پڑھيں ،پھر عصر کی دو۲
رکعتيں پڑھيں ،اس کے بعد مدينہ کو واپسی تک دوہی رکعتيں پڑھتے رہے۔ (ت)
مطبوعہ قديمی کتب خانہ باب سترۃ المصلی الخ کتاب الصلوۃ ( ؎۳صحيح مسلم
کراچی )۱/۱۹۶
ماّل جی! اب مزاج کا حال بتائیے ع
حفظت شیئا وغابت عنک اشياء
(تُونے ايک چيز ياد رکھی اور بہت سی چيزيں تُجھ سے اوجھل رہ گئيں۔ ت)
الحمداللہ اس فصل کے بھی اصل کالم نے وصل ختام بروجہ احسن پايا۔ اب
حسب فصل اول چند افاضات ليجئے: ِ
اّل ّ ٰ
افاضہ اولی :ہمارے اجل ہ ائمہ حنفيہ مالکيہ شافعيہ اور م جی کے امام ظاہر يہ
سنن نےصاحب ُ
ِ سب باالتفاق اپنی کتب ميں نقل کررہے ہيں کہ امام اجل ابوداؤد
فرمايا :ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ؎۱۔ جمع تقديم ميں کوئی حديث ثابت نہيں۔
(ت)
مطبوعہ مطبعۃ االستقامۃ قاہرہ الجمع بين الصالتين ( ؎۱شرح الزرقانی علی المؤطا
مصر )۱/۲۹۲
امام زيلعی فرماتے ہيں:قال ابوداؤد :وليس فی تقديم الوقت حديث قائم ؎۲۔ ابوداؤد نے فرمايا:
تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)
)۱/۸۹ الکبری االميريہ بوالق مصر
ٰ مطبوعہ المطبعۃ اوقات الصلٰوۃ ( ؎۲تبيين الحقائق
امام بدرمحمود عينی حنفی عمدۃ القاری شرح صحيح بخار ی میں فرماتے ہيں :قلت :حکی عن ابی
داؤد انہ انکر ھذا الحديث ،وحکی عنہ ايضا ،انہ قال :ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ؎۳۔ ميں نے
کہا :ابوداؤد سے منقول ہے کہ انہوں نے اس حديث کو منکر کہا ہے۔ ان سے يہ
بھی منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے۔ (ت)
مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنيريہ باب الجمع فی السفر الخ ( ؎۳عمدۃ القاری شرح بخاری
دمشق )۷/۱۵۱
اسی طرح عالمہ سيد ميرک شاہ حنفی نے نفل فرمايا موالنا علی قاری مکّی
مرقاۃ شرح مشکٰوۃ میں فرماتے ہيں :حکی عن ابی داؤد انہ قال :ليس فی تقديم الوقت
حديث قائم۔ نقلہ ميرک۔ فھذا شھادۃ بضعف الحديث وعدم قيام الحجۃ للشافعيۃ ؎۴۔ ابوداؤدZ
سے منقول ہے کہ تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت نہيں ہے ،يہ بات ميرک نے
نقل کی ہے۔ يہ حديث کے ضعيف ہونے اور شافعيوں کی دليل قائم نہ ہونے پر
شہادت ہے۔ (ت)
)۳/۲۲۵ مطبوعہ مکتبہ امداديہ ملتان باب صلٰوۃ السفر ( ؎۴مرقاۃ شرح مشکٰوۃ
امام احمد قسطالنی ارشاد الساری شرع صحيح البخاری ميں فرماتے ہيں :قدقال ابوداؤد :وليس فی
تقديم الوقت حديث قائم ؎۱۔ (ابو داؤد Zنے فرمايا :تقديم وقت ميں کوئی حديث ثابت
نہيں ہے۔ ت)
مطبوعہ باب يؤخر الظہر الی العصر الخ ( ؎۱ارشاد الساری شرح صحيح بخاری
دارالکتاب العربيہ بيروت )۲/۳۰۲
بعين ٖہ اسی طرح عاّل مہ زرقانی مالکی نے شرح مؤطائے امام مالک و نيز شرح
مواہ ب لدنيہ ومنح محمديہ ميں فرمايا شوکانی غير مقلد کی نيل االوطار ميں ہے:
قال ابوداؤد :ھذا حديث منکر وليس فی جمع التقديم حديث قائم ؎۲۔
مطبوعہ مصطفی ابواب الجمع بين الصلويتين ( ؎۲نيل االوطار شرح منتقی االخبار
البابی مصر )۳/۲۴۳
بھال ابوداؤد سا امام جليل الشان يہ تصريح فرماگيا جسے علمائے مابعد حتی کہ
قائالن جمع بھی بالنکير وانکار نقل فرماتے آئے ،نہ آج تک کوئی اس کا پتادے
ِ
م جی چاہيں کہ ميں حديث صحيحين سے ثابت کردوں يہ کيونکر بنی اّل سکا ،اب ُ
مگر قيامت لطيفہ دلربا کھسيانی ادا يہ ہے کہ جھنجھالئی نظروں سے جل کر
فرمايا ف :کُچھ غيرت آوے تو نشان دہی کريں کہ ابُوداؤد نے کون سی کتاب ميں
يہ قول کہ ا ہے ،يعنی نقول ثقات عدول محض مردود ونامقبول جب تک قائل خود
اپنی کتاب ميں تصريح نہ کرے اُس سے کوئی نقل معتبر نہ ہوگی۔
ص )۳۷۴ (ف معيارالحق
ماّل جی! ان جھنجھال ہٹوں ميں حق بجانب تمہارے ہے تم دلی کی ٹھنڈی اقول ُ
سڑک پر ہوا کھالنے کے قابل نہ تھے يہ حنفی لوگ عبث تمہيں چھوڑ کر بوکھالئے
ديتے ہيں بھال اوّال اتنا تو ارشاد ہوکہ بہت ائمہ جرح وتعديل وتصحيح وتضعيف
وغيرہم ايسے گزرے جن کی کوئی کتاب تصنيف نہيں بيان سے نقل معتبر ہونے کا
کيا ذريعہ ہوگا۔
ثانياً :آپ جو اپنی مبلغ علم تقريب کے بھروسے رواۃ ميں کسی کو ثقہ کسی کو
ضعيف کسی کو چنيں کسی کو چناں کہہ رہے ہيں ظاہر ہے کہ مصنف تقريب نے
ا ُن ميں کسی کا زمانہ تک نہ پايا صدہا سال بعد پيدا ہوئے انہيں ديکھنا اور اپنی
نگاہ سے پرکھنا تو قطعا ً نہيں اسی طرح ہر غير ناظر ميں يہی کالم ہوگا ،اب رہی
ديکھنے والوں سے نقل سوا مواضع عديدہ کے ثبوت تو ديجئے کہ ناظرين
مبصرين نے اپنی کس کتاب ميں اُن کی نسبت يہ تصريحيں کی ہيں۔
ثالثا :آپ کی اسی کتاب ميں اور بيسيوں نقول سلف سے ايسی نکليں گی کہ
آپ حکايات متاخرين کے اعتقاد پر نقل کر الئے اور اُن سے احتجاج کيا کچھ
غيرت رکھاتے ہو تو نشان دہی کروکہ وہ باتيں منقول عنہم Zنے کس کتاب ميں
لکھی ہيں مگر يہ کہيے کہ يجوز للوھابی مااليجوز لغيرہ (وہابی کےلئے وہ کچھ
جائز ہے جو دوسروں کےلئے جائز نہيں۔ ت)
ٰ
حديث ابن عباس رضی اہلل تعالی عنہما مروی احمد وشافعی ِ افاضہ ثانيہ:رہی اس باب ميں
وعبدالرزاق وبيہقی:وھذا حديث احمد اذيقول حدثنا عبدالرزاق اخبرنا ابن جريج اخبرنی حسين بن
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
عبداہلل بن عبيدا بن عباس عن عکرمۃ وکريب عن ابن عباس رضی ا تعالی عنہما قال :اال
ٰ ہّٰلل ٰ ہّٰلل
اخبرکم عن صالۃ رسول ا صلی ا تعالی عليہ وسلم فی السفر؟ قلنا :بلی۔ قال :کان اذا زاغت
الشمس فی منزلہ جمع بين الظھر والعصر ،قبل ان يرکب ،واذا لم تزغ لہ فی منزلۃ سار ،حتی اذاکانت
العصر ،نزل فجمع بين الظھر والعصر۔ واشار اليہ ابوداؤد تعليقا ،؎۱فقال :رواہ ھشام بن عروۃ عن حسين
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
بن عبدا عن کريب عن ابن عباس عن النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم ،ولم يذکر لفظہ ؎۲۔
اور يہ احمد کی حديث ہے ،حديث بےان کی ہم سے عبدالرزاق Zنے ،اس کو خبر
دی ابن جريج نے ،اس کو خبر دی حسين بن عبداللہ بن عبيداللہ بن عباس نے کہ
عکرمہ اورکريب ،ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کرتے ہيں کہ ابن
عباس نے ہم سے پُوچھا'' :کيا ميں تمہيں سفر کے دوران رسول اللہ صلی اللہ
تعال ٰی عليہ وسلم کی نماز کے بارے ميں نہ بتاؤں؟ ہم نے کہا'' :کيوں نہيں (ضرور
بتائيں) انہ وں نے کہا کہ اگر جائے قيام پر زوال ہوجاتا تھا تو سوار ہونے سے پہلے
ظہ ر اور عصر کو اکٹھا پڑھ ليتے تھے اور اگر جائے قيام پر زوال نہيں ہوتا تھا تو
چل پڑتے تھے اور جب عصر ہوتی تھی تو اتر کر ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے
تھے۔ اس روايت کی طرف ابوداؤد نے تعليقا ً اشارہ کيا ہے اور کہا ہے کہ اس کو
ہشام ابن عروہ نے حسين ابن عبداللہ سے ،اس نے کريب سے ،اس نے ابن
عباس سے ،انہوں نے نبی صلی اللہ عليہ وسلم سے۔ مگر ابوداؤد نے اس کے
الفاظ ذکر نہیں کئے ہيں۔ (ت)
مطبوعہ دارالفکر بيروت از مسند عبداللہ بن عباس( ؎۱مسند امام احمد بن حنبل
)۱/۳۲۷
)۱/۱۷۱ ( ؎۲سنن ابی داؤد باب الجمع بين الصالتين مطبوعہ مطبع مجتبائی الہور
(مصنف ،ابی بکر عبدالرزاق بن ہمام جمع بين الصالتين مطبوعہ المکتب االسالمی
بيروت )۲/۵۴۸
قائالن جمع اس کا ضعف تسليم کرگئے شايد اسی لئے کچھ سوچ سمجھ کر ِ خود
ماّل جی بھی اُس کا ذکر زبان پر نہ الئے لہذا اس ميں زيادہ کالم کی ہميں حاجت
نہيں تاہم اتنا معلوم رہے کہ اُس کے راوی حسين مذکور ائمہ شان کے نزديک
ضعيف ہيں۔ يحيٰی نے فرمايا :ضعيف۔ ابوحاتم رازی نے فرمايا:
ضعيف ،يکتب حديثہ واليحتج بہ ( ؎۳ضعيف ہے ،اس کی حديث لکھی جائے مگر اس
سے استدالل نہ کيا جائے۔ ت) ابوزرعہ وغيرہ نے کہا :ليس بقوی (قوی نہيں ہے۔
ت)
مطبوعہ دارالکتاب العربيہ بيروت باب يؤخر الظہر الی العصر الخ ( ؎۳ارشاد الساری
)۲/۵۴۸
جوزجانی نے کہا :اليشتغل بہ ( ؎۴اس کے ساتھ مشغول نہيں ہونا چاہئے۔ ت)
۱/ مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت ترجمہ حسين بن عبداللہ ۲۰۱۲ ( ؎۴ميزان االعتدال
)۵۳۷
ابن حبان نے کہا :يقلب االسانيد ويرفع المراسيل ( ؎۵اسنادوں کو پلٹ ديتا تھا اور مراسيل
ِ
کو مرفوع بناديتاتھا۔ ت)
مطبوعہ مصطفی البابی ابواب الجمع بين الصالتين ( ؎۵نيل االوطار شرح منتقی االخبار
مصر )۳/۲۴۴
محمد بن سعد نے کہا :کان کثير الحديث ،ولم ارھم يحتجون بحديثہ (حديثيں بہت بيان کرتاتھا،
علماء اس کی احاديث سے استدالل نہيں کرتے تھے۔ ت) يہاں تک کہ نسائی نے
فرمايا :متروک الحديث امام بخاری نے فرمايا علی بن مدينی نے کہا :ترکت حديثہ
( ؎۱ميں نے اسکی حديث کو ترک کرديا ہے۔ ت)
مطبوعہ مصطفی البابی ابواب الجمع بين الصالتين ( ؎۱نيل االوطار شرح منتقی االخبار
مصر )۳/۲۴۴
الجرم حافظ نے تقريب ميں کہا :ضعيف۔ اس حديث کی تضعيف شرح بخاری
قسطالنی شافعی وشرح مؤطا زرقانی مالکی وشرح منتقی شوکانی ظاہری ميں
ديکھيے ،ارشاد ميں فتح الباری سے ہے:
لکن لہ شاھد من طريق جماد عن ايوب عن ابی قالبۃ عن ابن عباس ،الاعلمہ اال مرفوعا ،انہ کان اذا
انزل منزال فی السفر فاعجبہ اقام فيہ ،حتی يجمع بين الظھر والعصر ،ثم يرتحل ،فاذا لم يتھيألہ المنزل
مدفی السير فسار حتی ينزل ،فيجمع بين الظھر والعصر۔ خرجہ البيھقی ،ورجالہ ثقات ،اال انہ مشکوک
ٰ
فی رفعہ ،والمحفوظ انہ موقوف۔ وقداخرجہ من وجہ اخر ،مجزوما بوقفہ علی ابن عباس ،ولفظہ:
اذاکنتم سائرين ،فذکر نحوہ ؎۲۔
ليکن اس کا ايک شاہد ہے جو بطريقہ حماد مروی ہے حماد ايوب سے ،وہ ابوقالبہ
سے ،وہ ابن عباس سے روايت کرتے ہيں (اور کہتے ہيں کہ) ميرے خيال ميں يہ
روايت مرفوع ہی ہے کہ جب سفر کے دوران کسی منزل پر اُترتے تھے اور وہ
جگہ پسند آجاتی تھی تو وہاں ٹہر جاتے تھے يہاں تک ظہر وعصر کو يکجا پڑھتے
تھے پھر سفر شروع کرتے تھے اور اگر کوئی ايسی منزل مہيا نہيں ہوتی تھی تو
چلتے رہتے تھے يہاں تک کہ کسی جگہ اُتر کر ظہر وعصر کو جمع کرليتے تھے۔
اس کو بيہقی نے روايت کيا ہے اور اس کے راوی ثقہ ہيں ليکن اس کا مرفوع ہونا
مشکوک ہے ،محفوظ بات يہ ہے کہ يہ روايت موقوف ہے۔ بيہقی نے ايک اور سند
سے بھی اس کو روايت کيا ہے جس کے مطابق اس کا ابن عباس پر موقوف ہونا
يقينی ہے ،اس کے الفاظ اس طرح ہيں جب تم چلنے والے ہو (تو يوں کيا
کروکہ۔۔۔۔۔۔) اس کے بعد درج باال طريقہ مذکور ہے۔ (ت)
باب يوخر الظہر الی العصر اذاارتحل الخ مطبوعہ ( ؎۲ارشاد الساری شرح بخاری
دارالکتاب العربی بيروت )۲/۲۰۳
شرح مؤطا ميں اسے ذکر کرکے فرمايا :وقدقال ابوداؤد ليس فی تقديم الوقت حديث قائم ( ؎۳ابوداؤد
نے فرمايا ،تقديم وقت پر کوئی حديث ثابت نہيں۔ ت)
( ؎۳شرح الزرقانی علی المؤطا امام مالک ،الجمع بين الصالتين والحضروالسفر ،مطبوعہ
الکبری مصر )۱/۲۹۲
ٰ المکتبۃ التجاريۃ
اقول :وہ ضعيف اور اُس کا يہ شاہد موقوف اگر بالفرض ومرفوع بھی ہوتے تو کيا
کام ديتے کہ اُن کا حاصل تو يہ کہ جو منزل حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی عليہ
وسلم کو پسند آتی اور دوپہر وہيں ہوجاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ ہوکر
سوار ہوتے اس ميں عصر کا پيش از وقت پڑھ لينا کہاں نکال بعين ٖہ اسی بيان سے
شاہ د کا سار حتی ينزل فيجمع جمع حقيقی پر اصال شاہد نہيں اور کانت العصر کا
جواب بعونہ تعالٰی بيانات آئندہ سے ليجئے وباللہ التوفيق اگر کہيے روايت شافعی
يوں ہے:
ہّٰلل ہّٰلل ہّٰلل ٰ
اخبرنی ابن ابی يحيی عن حسين بن عبدا بن عبيدا بن عباس بن کريب عن ابن عباس رضی ا
ٰ
تعالی عنھما ،فذکر الحديث ،وفيہ جمع بين الظھر والعصر فی الزوال ؎۱۔
خبر دی مجھے ابن ابی يحيٰی نے حسين ابن عبداللہ سے کہ کريب نے ابن عباس
سے روايت کی ہے ،اس کے بعد مندرجہ باال روايت مذکور ہے اور اس ميں ہے کہ
زوال کے وقت ظہر وعصر کو جمع کرتے تھے۔ (ت)
( ؎۱مسند الشافعی)
اقول :اس کی سند ميں ابن ابی يحيٰیرافضی قدوری معتزلی جہمی بھی متروک
واقع ہے امام اجل يحيٰی بن سعيد بن قطعان وامام اجل يحيٰی بن معين وامام
اجل علی بن مدينی وامام يزيد بن ہارون وامام ابوداؤد وغيرہم اکابر نے فرمايا:
کذاب تھا۔ امام احمد نے فرمايا :ساری بالئيں اُس ميں تھيں۔ امام مالک نے
فرمايا :نہ وہ حديث ميں ثقہ ہے نہ دين ميں۔ امام بخاری نے فرمايا :ائمہ محدثين
کے نزديک متروک ہے۔ ميزان االعتدال Zميں ہے:
ابرھيم بن ابی يحيی ،احدالعلماء الضعفاء ،قال يحيی بن سعيد :سألت مالکاعنہ ،اکان ثقۃ فی
الحديث؟ قال :ال ،والفی دينہ۔ وقال يحيی بن معين :سمعت القطان يقول :ابرھيم بن ابی يحيی کذاب۔
وروی ابوطالب عن احمد بن حنبل ،قال :ترکوا حديثہ ،قدری ،معتزلی ،يروی احاديث ليس لھا اصل
ہّٰلل
وقال البخاری :ترکہ ابن المبارک والناس۔ وروی عبدا بن احمد عن ابيہ ،قال :قدری ،جھمی،کل
ّ
بالء فيہ ،ترک الناس حديثہ ،وروی عباس عن ابن معين ،کذاب ،رافضی۔ وقال محمد بن عثمان بن
ٰ
ابی شييۃ :سمعت عليا يقول :ابرھيم بن ابی يحيی کذاب۔ وقال النسائی والدارقطنی وغيرھما ،متروک
؎۱۔
ابراہيم بن ابی يحيٰی ضعيف علماء ميں سے ايک ہے۔ يحيٰی ابن سعيد نے کہا کہ
قابل اعتماد تھا؟
ِ ميں نے اس کے بارے ميں مالک سے پُوچھا کہ کيا وہ حديث ميں
قابل اعتماد تھا ،نہ دين ميں۔ اور يحيٰی ابن
ِ انہوں نے جواب ديا :نہ وہ حديث ميں
سنا ہے کہ ابرہيم ابن يحيٰی کذاب ہے۔ معين نے کہا :ميں نے قطان کو کہتے ُ
ابوطالب نے احمد ابن حنبل سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :علماء نے اس کی
حديث کو ترک کرديا ہے ،قدری ہے ،معتزلی ہے ،بے اصل حديثيں روايت کرتا ہے۔
بخاری نے کہا :ابن مبارک نے اور لوگوں نے اس کی حديث کو ترک کرديا ہے۔
عبداللہ ابن احمد اپنے والد سے نقل کرتے ہيں کہ انہوں نے کہا :قدری ہے ،جہمی
ہے ،ہر بال اس ميں پائی جاتی ہے ،لوگوں نے اس کی حديث چھوڑدی ہے۔ عباس،
ابن معين سے ناقل ہے کہ وہ کذاب ہے ،رافضی Zہے۔ محمد ابن عثمان ابن ابی ِ
سنا ہے کہ ابراہيم Zابن ابی يحيٰی کذاب ہے۔ ُ ے تہ ک کو علی ےن ميں : ہے ا ہک ےن ہشيب
نسائی ،دارقطنی اور دُوسروں نے کہا کہ متروک ہے۔ (ت)
۱/۵ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹ ( ؎۱ميزان االعتدال
۷۔)۵۸
ُ
اسی ميں ہے:قال ابن حبان :کان يکذب فی الحديث ؎۲۔ ابن حبان نے کہا کہ حديث ميں
جھُوٹ بولتا تھا۔ (ت)
۱/۶ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹ ( ؎۲ميزان االعتدال
)۰
ٰ ٰ ُ
اسی ميں ہے :قال ابومحمد الدارمی :سمعت يزيد بن ھارون ،يکذب ابرھيم بن ابی يحيی ؎۳۔
ابومحمد دارمی نے کہا کہ ميں نے يزيد ابن ہارون سے سنا کہ وہ ابراہيم ابن ابی
يحيٰی کو جھُوٹا قرار ديتے تھے۔ (ت)
۱/۶ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی۱۸۹ ( ؎۳ميزان االعتدال
)۰
ہّٰلل ٰ
تذہيب التہذيب ميں ہے :عن الزھری وصالح مولی التوأمۃ وعنہ الشافعی واخرون ،قال عبدا بن
احمد عن ابيہ :کان قدريا ،معتزليا ،جھميا ،کل بالء فيہ۔ قال ابوطالب عن احمد بن حنبل :ترک
الناس حديثہ ،وکان يأخذ احاديث الناس فيضعفھا فی کتبہ۔ وقال يحيی القطان :کذاب۔ وقال احمد
ٰ
بن سعيد بن ابی مريم :قلت ليحيی بن معين ،فابن ابی يحيی؟ قال :کذاب ؎۱۔
زہری اور صالح مولی التوأمہ سے اور اس سے شافعی اور ديگر علماء نقل کرتے
ہيں کہ عبداللہ بن احمد اپنے والد سے بيان کرتے ہيں کہ (ابراہيم Zمذکور) قدری
تھا ،معتزلی تھا ،جہمی تھا ،ہر بال اس ميں موجود تھی۔ ابوطالب نے احمد بن
حنبل سے نقل کيا کہ لوگوں نے اس کیج حديث چھوڑدی تھی ،وہ لوگوں کی
حديثيں لے کر اپنی کتابوں ميں لکھ ليتا تھا۔ يحيٰی قطان نے کہا :جھُوٹا ہے۔ احمد
ابن سعيد ابن ابی مريم نے کہا :ميں نےيحيٰی ابن معين سے ابن ابی يحيٰی کے
بارے ميں پُوچھا تو انہوں نے کہا :کذ ّاب ہے۔ (ت)
( ؎۱خالصہ تذھيب تہذيب الکمال الخ ،ترجمہ ابراہيم ابن ابی يحيٰی ، ۲۷۴مطبوعہ مکتبہ
اثريہ سانگلہ ہل (شیخوپورہ) )۱/۵۵
تذکرۃ الحفاظ ميں ہے :قال ابن معين وابوداؤد :رافضی کذاب ( ؎۲ابن معين اور ابوداؤد نے
کہا :رافضی ہے ،کذاب ہے۔ ت)
مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد دکن ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی ( ؎۲تذکرۃ الحفاظ
)۱/۲۲۷
الجرم تقريب ميں ہے :متروک ؎۳اھ الکل باختصار۔
( ؎۳تقريب التہذيب ،ترجمۃ ابراہيم بن محمد المدنی مطبوعہ الکتب االسالميہ گوجرانوالہ،
ص)۲۳ پاکستان
يہاں تک کہ ابوعمر بن عبدالبر نے کہا اُس کے ضعف پر اجماع ہے کمانقلہ فی
ہّٰلل ٰ
الميزان ؎۴فی ترجمۃ عبدالکريم بن ابی المخارق وا تعالی اعلم۔
مطبوعہ دارالمعرفت ترجمہ عبدالکريم ابن ابی المخارق ۱۵۷۲ ( ؎۴ميزان االعتدال
بيروت لبنان )۲/۶۴۶
افاضہ ثالثہ :يوں ہی حديث دارقطنی :حدثنا احمد بن محمد بن سعيد ثنا المنذر بن محمدثنا ابی ثنا
ہّٰلل ٰ
ابی ثنا محمد بن الحسين بن علی بن الحسين ثنی ابن عن ابيہ عن جدہ عن علی رضی ا تعالی قال
كان صلی اہلل عليہ وسلم اذا ارتحل حين تزول الشمس جمع بين الظھر وعجل العصر ،ثم جمع بينھما
؎۵۔
حديث بيان کی ہم سے احمد ابن محمد ابن سعيد نے منذر ابن محمد سے ،اس
نے اپنے باپ سے ،اس نے اپنے باپ سے ،اس نے محمد سے ،اس نے اپنے والد
حسين سے ،اس نے اپنے والد علٰی ابن امام حسين رضی اللہ تعالٰی عنہ سے،
انہوں نے اپنے دادا علی رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
عليہ وسلم اگر زوال کے وقت روانگی اختيار فرماتے تھے تو ظہر وعصر کو اکٹھا
پڑھ ليتے تھے اور اگر روانگی ميں جلدی ہوتی تھی تو ظہر کو مؤخر کرکے اور
عصر کو مقدم کرکے دونوں کو يکجا پڑھ ليتے تھے۔ (ت)
مطبوعہ نشہ السن ّۃ ملتان ۱ ( ؎۵سنن الدارقطنی ،باب الجمع بين الصلٰوتين فی السفر
)/۲۹۱
اس ميں سو اعترت طاہرہ کے کوئی راوی ثقہ معروف نہيں۔
عمدۃ القاری ميں فرمايا:اليصح اسنادہ ،شيخ الدارقطنی ھو ابوالعباس بن عقدۃ ،احدالحفاظ،لکنہ
شيعی اس کا اسناد صحيح نہيں ہے کيونکہ دارقطنی Zکا استاد (احمد) ابوالعباس
ظ حديث ميں سے ہے ليکن شيعہ ہے۔
ابن عقدہ ہے ،جو اگرچہ حفّا ِ
(قلت :بل نص فی موضع اخر من الميزان ،فيہ وفی ابن خراش ،ان فيھما رفضا وبدعۃ۔اھ ) وقد تکلم
فيہ الدارقطنی وحمزۃ السھمی وغيرھما۔ وشيخہ المنذر بن محمد بن المنذر ،ليس بالقوی ايضا قالہ
ٰ
الدارقطنی ايضا۔ وابوہ وجدہ يحتاج الی معرفتھما ؎۱۔
ميں نے کہا :بلکہ ميزان کے ايک اور مقام ميں اس کے اور ابن خراش کے متعلق
لکھا ہے کہ ان ميں رفض اور بدعت پائی جاتی ہے۔ خود دارقطنی Zاور حمزہ
سہمی وغيرہ نے بھی اس پر جرح کی ہے ،اور اس کا استاد منذر ابن محمد بن
منذر بھی زيادہ قوی نہيں ہے۔ يہ بات بھی دارقطنی Zنے کہی ہے۔ اور منذر کا باپ
اور دادا دونوں غير معروف ہيں۔ (ت)
مطبوعہ الطباعۃ الخيريۃ باب الجمع فی السفر بين المغرب والعشاء ( ؎۱عمدۃ القاری
دمشق )۷/۱۴۹
اقول :وہ صحيح ہی سہی تو انصافا ً صاف صاف ہمارے مفيد وموافق Zہے اُس کا
سورج ڈھلتے ہی کُوچ ہوتا توظہرين جمع فرماتے پُرظاہر کہ صريح مفاد يہ کہ ُ
زوال ہوتے ہی کوچ اور جمع تقديم کا جمع محال۔ کيا پيش از زوال ظہر وعصر
پڑھ ليتے الجرم وہی جمع مرادجس کاصاف بيان خود آگےموجود کہ ظہر بدير اور
عصرجلد پڑھتے ،يہی جمع صوری ہےکماالیخفی۔
افاضہ رابعہ :حديث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کہ اِن شاء اللہ العزيز جمع تاخير
ميں آتی ہے اُس ميں معروف ومحفوظ ومروی جماہير ائمہ ثقات وعدول مذکور
سنن ابی داؤد وسنن نسائی ومصنّف طحاوی صحيح بخاری وصحيح مسلم و ُ
وغيرہا عامہ دوا دين اسالم صرف اس قدر ہے کہ حضور پُرنور صلوات اللہ
تعالٰیوسالمہ عليہ اگر دوپہر ڈھلنے سے پہلے کُوچ فرماتے ظہر ميں عصر تک تاخير
کرکے ساتھ ساتھ پڑھتے اور اگر منزل ہی پر وقت ظہر آجاتا صلی الظھر ثم
رکب ؎۲ظہر پڑھ کر سوار ہوجاتے جس سے بحکم مقابلہ وسکوت فی معرض
البيان صاف ظاہر کہ تنہا ظہر پڑھتے عصر اس کے ساتھ نہ مالتے ۔
۱/۱۵۰ قديمی کتب خانہ کراچی ( ؎۲صحيح بخاری باب اذا ارتحل بعد مازاغت الشمس
)
ولہذا نافيان جمع تقديم نے اُس سے تمسک کيا کمافی عمدۃ القاری وارشاد
الساری وغيرھما مگر بعض روايات غريبہ ميں آيا کہ ظہر وعصر دونوں پڑھ کر
سوار ہوتے۔ حاکم نے اربعين ميں
ہّٰلل ٰ
بطريق ابی العباس محمد بن يعقوب عن محمد بن اسحق الصاغانی عن حسان بن عبدا عن
ہّٰلل ٰ
المفضل بن فضالۃ عن عقيل عن ابن شھاب عن انس رضی ا تعالی عنہ روايت کیفان زاغت
الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر ثم رکب ؎۱۔
حق صاغانی سے ،اس نے حسان ابوالعباس محمد ابن يعقوب نے محمد بن اس ٰ
ابن عبداللہ سے ،اس نے مفضل ابن فضالہ سے ،اس نے عقيل سے ،اس نے ابن
شہاب سے ،اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کی کہ اگر روانگی سے
پہلے زوال ہوجاتا تو ظہر وعصر پڑھ کر سوار ہُواکرتے تھے۔ (ت)
( ؎۱اربعين للحاکم)
ٰ
جعفر فريابی نے بتفرد خود اسحق بن راہويہ سے روايت کی :عن شبابۃ بن سوار عن الليث عن عقيل
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
عن الزھری عن انس رضی ا تعالی عنہ ،قال :کان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاکان فی سفر
فزالت الشمس صلی الظھر والعصر جميعا ثم ارتحل ؎۲۔
شبابہ ابن سواد سے ،اس نے ليث سے ،اس نے عقيل سے ،اس نے زہری سے،
اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی اکرم صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم
جب سفر ميں ہوتے تھے اور زوال ہوجاتا تھا ،تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ ليتے
تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ (ت)
)۱/۸۳ ( ؎۲ميزان االعتدال بحوالہ جعفر فريابی ترجمہ ( ۷۳۳دارالمعرفۃ بيروت
اوسط طبرانی ميں ہے :حدثنا محمد بن ابرھيم بن نصر بن شبيب االصبھانی قال ثناھارون بن
ہّٰلل ہّٰلل
عبدا الحمال ثنا يعقوب بن محمد الزھری ثنا محمد بن سعد ان ثنا ابن عجالن عن عبدا بن
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
الفضل عن انس بن مالک رضی ا تعالی عنہ ،ان النبی صلی ا تعالی عليہ وسلم کان اذاکان فی
سفر فزاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر والعصر جميعا ؎۳۔
حديث بيان کی ہم سے محمد ابن ابراہيم Zابن نصر بن سندر اصبہانی نے ہارون
ابن عبداللہ حمال سے ،اس نے يعقوب ابن محمد زہری سے ،اس نے محمد ابن
سوان سے ،اس نے ابن عجالن سے ،اس نے عبداللہ بن فضل سے ،اس نے انس
رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ نبی صلی اللہ تعالٰی عليہ وسلم جب سفر ميں ہوتے
تھے تو اگر روانگی Zسے پہلے سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر کو اکٹھا پڑھ
ليتے تھے۔ (ت)
۸/۲۷۱۔)۲۷۲ حديث ۷۵۴۸مکتب المعارف رياض ( ؎۳معجم االوسط
حق پر امام ابوداؤد نے انکار کيا اس ٰمعيل نے اُسے معلول بتايا کمافی روايت اس ٰ
العمدۃ وغيرھا۔
ہّٰلل ٰ ٰ
اقول :االمام اسحق رضی ا تعالی عنہ ،الکالم فی جاللۃ قدرہ وعظمۃ فخرہ ،لکن نص االمام ابوداؤد
انہ کان تغير قبل موتہ باشھر ،قال :وسمعت منہ فی تلک االيام فرميت بہ ؎۱۔ کمافی التذھيب ۔
حق Zرضی اللہ تعالٰی عنہ کی قدر اور عظمت افتخار ميں ميں کہتا ہوں :امام اس ٰ
کوئی شک نہيں ہے ليکن امام ابوداؤد نے تصريح کی ہے کہ وفات سےچند ماہ
ميں نےپہلے اس کے حافظے ميں تغيير آگيا تھا۔ ابوداؤد نے کہا کہ انہی دنوں ميں َ
اُس سے کچھ سنا تھا اور اس کی وجہ سے مجھے مطعون کياگيا۔ جيسا کہ تذہيب
ميں ہے۔
مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت ( ؎۱ميزان االعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ
) ۱/۱۸۳
ٰ ٰ ٰ
وذکر الحافظ المزی حديثہ الذی زاد فيہ علی اصحاب سفين ،فقال :اسحق اختلط فی اخر عمرہ ؎۲۔
کمافی الميزان۔ اور حافط مزی نے اس کی وہ حديث ذکر کرنے کے بعد ،جس ميں
حق کے بارے ميںاس نے اصحاب سفيٰن کے الفاظ پر اضافہ کيا ہے ،کہا ہے کہ اس ٰ
کہا گيا ہے کہ آخر عمر ميں اس کو اختالط ہوگيا تھا ،جيسا کہ ميزان ميں ہے۔
مطبوعہ دارالمعرفۃ بيروت ( ؎۲ميزان االعتدال بحوالہ ابوداؤد (ترجمہ اسحق بن راہويہ
) ۱/۱۸۳
ہّٰلل ٰ
والشک انہ رحمہ ا تعالی کان کثير التحديث عن ظھر قلبہ ،املی المسند کلہ من حفظہ ؎۳۔
ٰ
کمافی التذھيب ،قال :قال احمد بن اسحق الضبعی :سمعت ابرھيم بن ابی طالب ،يقول :فذکرہ۔
فالغروان يعتريہ خطؤ فی حديث او حديثين ،ومن المعصوم عن مثل ذلک فی سعۃ ماروی وکثرتہ؟
تعالی) بےشتر حديثيں محض ياد
ٰ حق (رحمہ اللہاس ميں تو کوئی شک نہيں کہ اس ٰ
کے سہارے بيان کيا کرتے تھے۔ ايک مرتبہ انہوں نے پُورا مسند اپنی ياد سے امال
حق ضبعی نے کہا ہے کہ ميں کراديا تھا ،جيسا کہ تذہيب ميں ہے کہ احمد بن اس ٰ
نے ابراہيم بن ابی طالب کو يہ بات کہتے سنا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے وہی
حق سے ايک (مسند کے امالء والی بات) ذکر کی ہے۔ تو اس صورت ميں اگر اس ٰ
يا دو حديثوں ميں خطا واقع Zہوجائے تو کوئی تعجب کی بات نہيں ہے۔ اس قدر
وسےع اور کثير روايات ميں اتنی تھوڑی سی خطا سے اور کون معصوم ہے؟
(ت)
مطبوعہ المکتبۃ االثریہ سانگلہ حق بن راہویہ
ترجمہ اس ٰ ( ؎۳خالصہ تذہیب تذہیب المکمال
ہل )۱/۶۹
حق کی لغزش الجرم امام ذہبی شافعی نے اس حدیث کو منکر کہا ،اور امام ٰ اس ٰ
حفظ واشتباہ سے گنا۔ حيث قال :وکذا حديث رواہ جعفر الفريابی ثنا اسحق بن راھويہ ثنا شبابۃ
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ
عن الليث عن عقيل عن ابی شھاب عن انس رضی ا تعالی عنہ کان رسول ا صلی ا تعالی
عليہ وسلم اذاکان فی سفر فزالت الشمس صلی الظھر والعصر ثم ارتحل۔ فھذا علی نبل رواتہ منکر،
فقد رواہ مسلم عن الناقد عن شبابۃ (وذکر لفظہ) تابعہ الزعفرانی عن شبابۃ ،واخرجہ خ م من حديث
ٰ
عقيل عن ابن شھاب عن انس (وذکر لفظہ ،ای وليس فی شیئ منھا :والعصر۔ قال ):والريب ان اسحق
کان يحدث الناس من حفظہ ،فلعلہ اشتبہ عليہ ؎۱۔
چنانچہ اس نے کہا ہے کہ اسی طرح وہ حديث جسے روايت کيا ہے فريابی نے
حق ابن راہويہ سے ،اس نے شبابہ سے ،اس نے ليث سے ،اس نے عقيل سے، اس ٰ
اس نے ابن شہاب سے ،اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب سفر ميں ہوتے تھے اور سورج ڈھل جاتا تھا تو
ظہر وعصر پڑھتے تھے پھر روانہ ہوتے تھے۔ تو يہ حديث راويوں کی عمدگی کے
باوجود منکر ہے کيونکہ اس کو مسلم نے ناقد سے ،اس نے شبابہ سے روايت کيا
ہے (يہاں ذہبی نے اس کے الفاظ ذکر کيے ہيں) اسی طرح زعفرانی Zنے بھی اس
کو شبابہ سے روايت کيا ہے اور مسلم نے بھی اس کو عقيل سے ،اس نے ابن
شہاب سے ،اس نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت کيا ہے (يہاں ذہبی نے
مسلم کے الفاظ ذکر کيے ہيں ،مقصد يہ ہے کہ بخاری ومسلم کی کسی روايت
ميں عصر کا ذکر نہيں ہے (صرف ظہر کا ذکر ہے۔ ذہبی نے کہا) اس ميں کوئی
حق لوگوں کے سامنے اپنی ياد سے حديثيں بيان کيا کرتا تھا، شک نہيں کہ اس ٰ
ہوسکتا ہے کہ اس کو اشتباہ واقع ہُوا ہو۔ (ت)
)۱/۱۸۳ مطبوعہ دارالمعرفت بيروت حق بن راہويہ ۷۳۳
ترجمہ اس ٰ ( ؎۱ميزان االعتدال
اس کے بعد ہميں شبابہ بن سوار ميں کالم کی حاجت نہيں کہ وہ اگرچہ رجال
جماعہ وموثقين ابنائے معين وسعد وابی شيبہ سے ہے مگر مبتدع مکلّب تھا امام
احمد نے ا ُسے ترک کيا ،امام ابوحاتم رازی نے درجہ حجيت سے ساقط بتايا۔
ابن حجر عسقالنی ميں ہے: ِ تہذيب التہذيب امام
ہّٰلل
شبابۃ بن سوار الفزاری ،قال احمد بن حنبل :ترکتہ ،لم اکتب عنہ لالرجا۔ قيل لہ :يا اباعبدا !
وابومعويۃ ،قال :شبابۃ کان داعيۃ۔ وقال زکريا الساجی :صدوق ،يدعو الی االرجا ،کان احمد يحمل
عليہ ؎۲۔
شبابہ ابن سوار فزاری Zاحمد بن حنبل نے کہا کہ ميں نے اس کو چھوڑديا اور اس
سے حديثيں نہيں لکھيں کيونکہ وہ ارجاء کا عقيدہ رکھتا تھا۔ کسی نے کہا کہ
(ارجاء کا عقيدہ تو) ابومعاويہ بھی رکھتا ہے۔ احمد نے کہا (ہاں ،مگر) شبابہ ارجاء
چا ہے ،ارجاء کا داعی Zہے۔ احمد اس پرکا داعی تھا۔ زکريا ساجی نے کہا کہ س ّ
تنقيد کيا کرتے تھے۔ ت)
مطبوعہ دائرۃ المعارف ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری ( ؎۲تہ ذيب التہذيب عسقالنی
)۴/۳۰۱ حيدرآباد دکن
ُ
اسی ميں ہے :قال ابوحاتم :صدوق ،يکتب حديث واليحتج بہ ( ؎۳ابوحاتم نے کہا ہےکہ س ّ
چا
ہے ،اس کی حديث لکھی جائے مگر اس کو حجت نہ بنايا جائے۔ ت)
مطبوعہ دائرۃ المعارف ترجمہ شبابہ بن سوار الفزاری ( ؎۳تہذيب التہذيب عسقالنی
حيدرآباد دکن )۴/۳۰۱
ُ
اسی ميں ہے :قال ابوبکر االثرم عن احمد بن حنبل :کان يدعو الی االرجاء ،وحکی عنہ قول اخبث من
ھذہ االقاويل ،قال :اذا قال فقد عمل بجارحتہ۔ وھذا قول خبيث ،ماسمعت احدا يقولہ ؎۱۔
حق عقيدہ ارجاء کی دعوت ابوبکر اثرم نے احمد بن حنبل سے نقل کيا ہے کہ اس ٰ
ديتا تھا اور اس سے ايک ايسا قول بھی منقول ہے جو ان تمام باتوں سے زيادہ
خبيث ہے۔ اس نے کہا کہ جب (اللہ تعالٰی) کوئی بات کہتا ہے تو يقينا اپنے ايک
عضو (زبان) کو کام ميں التا ہے۔ يہ ايک خبيث قول ہے ،ميں نے کسی کو يہ بات
سنا۔ (ت)
کہتے نہيں ُ
ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد ( ؎۱تہذيب التہذيب عسقالنی
دکن )۴/۳۰۲
ا ُسی ميں ہے :قال ابوبکر محمد بن ابی الثلج ،حدثنی ابوعلی بن سختی المدائنی،
حدثنی رجل معروف من اھل المدائن ،قال :رأيت فی المنام رجال نظيف الثوب
حسن الھيأۃ ،فقال لی :من اين انت؟ قلت :من اھل المدائن ،قال :من اھل
الجانب الذی فيہ شبابۃ؟ قلت :نعم! قال فانی ادعو الل ّٰہ ،فامن علی دعائی :اللھم!
ان کان شبابۃ يبغض اھل نبيک فاضربہ الساعۃ بفالج قال :فانتبھت ،وجئت الی
المدائن وقت الظھر ،واذا Zالناس فی ھرج ،فقلت ،ماللناس؟ قالوا :فلج شبابۃ
فی السحر ،ومات الساعۃ ؎۲۔
ابوبکر محمد بن ابی الثلج نے کہا کہ مجھے ابوعلی ابن سختی مدائنی نے بتایا کہ
مجھ سے مدائن کے ايک مشہور آدمی نے بيان کيا کہ ميں نے خواب ميں ايک
خوش لباس اور خوش شکل شخص کو ديکھا اس نے مجھ سے پُوچھا کہ تم کہاں
ل مدائن ميں سے ہوں۔ اس نے پوچھا کے رہنے والے ہو؟ ميں نے کہا ميں ا ہ ِ
مدائن کے اُس حصے ميں رہتے ہو جس ميں ابوشبابہ رہتا ہے؟ ميں نے کہا ہاں،
اس نے کہا کہ پھر ميں ايک دعا کرتا ہوں اور تم آمين کہو۔ (اس نے يوں دُعاکی):
اے اللہ! اگر شبابہ تيرے نبی کے اہل سے بغض رکھتا ہے تو اس کو اسی وقت
فالج ميں مبتال کردے۔ اس آدمی نے کہا کہ يہ ديکھ کر ميں جاگ گيا اور ظہر کے
صے ميں جہاں شبابہ رہتا تھا) گيا تو ديکھا کہ لوگوں ميں وقت مدائن (کے اس ح ّ
اضطراب پايا جاتا ہے ،ميں نے پوچھا کہ لوگ کيوں پريشان ہيں؟ انہوں نے جواب
ديا کہ آج سحر کے وقت شبابہ پر فالج گرا اور ابھی ابھی مرگيا ہے۔ (ت)
ترجمہ شبابہ سوار الفزاری مطبوعہ دائرۃ المعارف حيدرآباد ( ؎۲تہ ذيب التہذيب عسقالنی
دکن )۴/۳۰۲
ماّل جی بھی ضعيف مان چکے ،فرماتے ہيں ف :۱ روايت حاکم وطبرانی Zکو خود ُ
مؤلف نے دالئل ميں وہ حديثيں بيان کی ہيں جن کی طرف ہم کو کچھ التفات
نہيں يعنی ايک روايت ابوداؤد Zجس کے راوی ميں ضعف تھا ايک روايت معجم
اوسط طبرانی ايک روايت اربعين حاکم نقل کرکے اُن پر طعن کرديا اور جو
روايتيں صحيحہ متداول تھيں نقل کرکے اُن کا جواب نہيں ديا يہ کيا دينداری Zہے
اور کيا مردانگی کہ بخاری ومسلم کو چھوڑ کر اربعين حاکم اور اوسط طبرانی
کو جاپکڑا اور اُن سے دو ۲روايتيں ضعيف نقل کرکے اُن کا جواب ديا۔
) ص ۳۶۶ ،۳۶۵ (ف ۱معيار الحق
لہذا ہ ميں ان کے باب ميں تفصيل کالم کی حاجت نہ رہی ع :مدعی الکھ پہ بھاری
ہے گواہی تيری
خير يہ تو ماّل جی سے خدا جانے کس مجبوری نے کہلوا چھوڑ مگر ستم۔
لطيفہ :اس مافات کی تالفی يہ ہے کہ جب يہ روايتيں ناقابل احتجاج نکل گئيں
خود روايت صحيحين ميں لفظ والعصر بڑھاديا ،فرماتے ف ۲ہيں روايت کی
بخاری اور مسلم نے انس سے (الی قولہ) فان زاغت الشمس قبل ان يرتحل صلی الظھر
والعصر ثم رکب۔
ص )۳۷۹ (ف ۲معيارالحق
اقول :ماّل جی حنفیہ کی مروی تو بحمداللہ آپ نے دیکھ لی اب بعون ٖہ تعالٰی اور
دیکھئے گا یہاں تک کہ آپ کی سب ہوسوں کی تسکین ہوجائے مگر دینداری و
مردانگی اس کا نام ہوگا کہ مشہور و متداول کتب میں تحریف کےلئے مردانہ پن
کا دعوٰی ہے تو صحیحین میں اس عبارت کا نشان دیجئے ایک زمانہ میں آپ کو
طبقات زیریں میں حضور پُرنور منزہ عن المثل
ِ خبط کفری جاگا تھا کہ زمین کے
والنظیر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے معاذاللہ چھ مثل موجود ہیں یہ بخاری
مسلم شاید اُنہیں طبقات کی ہوں گی۔
ثم اقول :وباللہ التوفیق Zیہ سب کالم باالئی تھی فرض کرلیجئے کہ یہ روایت
ُ
صحیحہ بلکہ خود صحیحین موجود سہی پھر تمھیں کیا نفع اور ہمیں کیا ضرر اس
کا تو اتنا حاصل کہ سورج منزل ہی میں ڈھل جاتا تو ظہر وعصر دونوں سے فارغ
ہوکر سوار ہوتے اس سے عصر کا پیش از وقت پڑھ لینا کہاں سے نکال۔
اوّال :واو مطلق جمع کےلئے ہے نہ معیت وتعقیب کے واسطے ،جمیعا بھی اُسی
مطلق جمع کی تاکید کرتا ہے جو مفاد واو ہے اُس کا منطوق صریح اجتماع فی
الحکم ہے عـہ نہ خواہی نخواہی اجتماع فی الوقت آیہ کریمہ وتوبوا الی الل ّٰہ
جمیعا ایھا المؤمنون لعلکم تفلحون ( ۲اور Zتوبہ کرو اللہ تعالٰی کی طرف
ل ایمان! تاکہ تم فالح پاؤ۔ ت)
تم سب اے اہ ِ
) ۲/۳۱ ۴ (؎۱القرآن
نے یہ ارشاد فرمایا کہ سب مسلمان توبہ کریں حکم ِ توبہ سب کو شامل ہو یا یہ
فرض کیا کہ تمام دنیا کے مسلمان ایک وقت ایک ساتھ مل کر معا ً توبہ کریں۔
عـہ :بیضاوی شریف میں زیر آیہ کریمہ قلنا اھبطوا منھا جمیعا ہے :جمیعا،حال فی اللفظ ،تاکید فی المعنی ،کانہ قیل:
اھبطوا انتم اجمعون؛ ولذلک الیستدعی اجتماعھم علی الھبوط فی زمان واحد کقولک جاؤا جمیعا۔ ؎۱اھ ۱۲منہ رضی
ہّٰلل ٰ
جا تعالی عنہ (م)۔
ً ً
''جمیعا'' لفظا حال ہے ،معنی تاکید ہے ،گویا کہ کہا گیا ،تم سب اترو۔ اسی لئے اس کا یہ تقاضا نہیں ہے کہ سب ایک
ٰ
ہی وقت میں اتریں ،جیسا کہ تم کہتے ہو کہ سب آئے اھ ۱۲منہ رضی اہلل تعالی عنہ (ت)
ص )۱۸ مصطفی البابی مصر ( ؎۲انوار التنزیل علی ہ امش القرآن الکریم
فردیت اجتماع فی الحکم مفاد ہویا خود اس ِ ثانیا ً :اجتماع فی الوقت کہ بذریعہ
وقت نماز مراد نہیں ہوسکتا کہ وضع الفاظ ِ کے لئے بھی وضع مانو اُس وقت سے
تعیین اوقات نماز سے مقدم ہے لفظ جمیعا اپنے معنی لغوی پر اہل جاہلیت بھی
بولتے تھے جنہیں نماز سے خبر تھی نہ اُس کے وقت سے ،تو الجرم اس تقدیر پر
اس کا مفاد اتحاد زمانہ وقوع ومقارنت فی الصدور ہوگا وہ دو ۲نماز فرض Zمیں
ناممکن اور اتصال بروجہ تعقیب اس معنی جمیعا کا فرد نہیں بلکہ صریح مباین،
الجرم پھر اُسی معنی واضح وروشن واقل Zمتیقن یعنی اجتماع فی الحکم Zکی
طرف رجوع الزم کہ تاصحت حقیقت مجاز کی طرف مصیر نامجاز خصوصا ً
مستدل کو۔
ثالثا ً :تعقیب ہی سہی پھر جمع صوری کی نفی کہاں سے ہوئی صلّی جمیعا یوں
بھی صادق اور ادعائے تقدیم باطل وزاہق ھکذا ینبغی التحقیق والل ّٰہ ولی
التوفیق بحمداللہ آفتاب کی طرح روشن ہُوا کہ جمع تقدیم پر اصال ً کوئی دلیل
نہیں کسی حدیث صحیح میں اس کی بُو بھی نہیں ،ماّل جی کا قطعی ومفسر کہہ
حن اللہ! کیا ایسی ہی ہوسوں پر دینا خدا جانے کس نشہ کی ترنگ تھی ،سب ٰ
ُ
اجماع امت توقیت منصوص قرآن ونصوص اور پیش ازوقت Zنماز کے بطالن پر
ِ
ترک کردئی جائیں گے اور خدا ورسول جل جاللہ ،وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
کے باندھے ہُوئے اوقات اُلٹ پُلٹ ہوسکیں گے ،یہ اچھا عمل بالحدیث ہے کہ اپنی
خیال بندیوں پر رگ دعوٰی بلند اور قرآن عظیم وحدیث واجماع سب سے
آنکھیں بند والحول والقوۃ االبالل ّٰہ العلی العظیم وصلی الل ّٰہ تعالٰی علی سید
المرسلین سیدنا وموالنا محمد واٰل ٖہ وصحب ٖہ اجمعین۔
فصل سوم تضعیف دالئل جمع تاخیر
فراغ تام مال ،اب جمع تاخیر کی طرف
ِ الحمداللہ جمع تقدیم کے جواب سے
چلیے۔ ماّل جی بہزار کاوش وکاہش یہاں بھی دو ۲ہی حدیثیں چھانٹ پائے جن کے
الفاظ متعددہ کے ذکر سے شاید عوام کو یہ وہم دالنا ہوکہ اتنی حدیثیں ہیں ،یہ دو
۲حدیثیں وہی احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہم مذکورہ صدر فصل
اول وافاضہ ثالثہ ہیں جن کے بعض طرق والفاظ حدیث اول جمع صوری وحدیث
ظ بعض طرق کوماّل جی جمع اول ودوم حدیث مجملہ میں گزرے ان کے بعض الفا ِ
حقیقی میں نص صریح سمجھ کر الئے اور بزعم ِ خود بہت چمک چمک کر دعوے
فرمائے ادھر Zکے متکلمین نے اکثر افادات علمائے سابقین اور بعض اپنے سوانح
جدیدہ سے ا ُن کے جوابوں میں کالم طویل کیے ،فقیر غفرلہ المولی القدیر کا یہ
مختصر جواب نقل اقاویل وجمع ماقال وقیل کےلئے نہیں لہذا بعون ٖہ تعالٰی وہ
ل نظرسنیے کہ فیض موالئے اجل سے قلب عبد ِ اذل پر فائض ہُوئے اہ ِ افادات تازہ ُ
اگر مقابلہ کریں جلیل وعظیم Zفرق پر خود ہی مطلع ہوں گے والل ّٰہ یختص
برحمتہ من یشاء والل ّٰہ ذوالفضل العظیم (اللہ تعالٰی اپنی رحمت کے ساتھ
جسے چاہے مخصوص فرمادے اور اللہ تعالٰی علم وفضل واال ہے۔ ت)
اقول وبحول الل ّٰہ اصول حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے چالیس سے
پیش نظر فقیر ہیں اُن میں نصف سے زائد تو محض مجمل ِ زیادہ طرق اس وقت
جن میں اٹھارہ کی طرف ہم نے احادیث مجملہ میں اشارہ کیا ر ہے نصف سے کم
ا ُن میں اکثر صاف صاف جمع صوری کی تصریح کررہے ہیں جن میں سے چودہ
۱۴روایات بخاری وابوداؤد ونسائی وغیرہم سے اُوپر مذکور ہُوئے ،ہاں بعض میں
ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا بعد غروب شفق جمع کرنا مذکور ،ان میں بھی
بعض محض موقوف مثل روایت( )۱موطائے امام محمد:
ہّٰلل
اخبرنا مالک عن نافع ان ابن عمر رضی ا تعالی عنھما حین جمع بین المغرب والعشاء ،سارحتی
غاب الشفق ؎۱۔ مالک ،نافع سے روایت کرتے ہیں کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما
نے جب مغرب وعشاء کو جمع کیا تھا تو چلتے رہے تھے یہاں تک شفق غائب
ہوگئی تھی۔ (ت)
مطبوعہ مجتبائی باب الجمع بین الصالتین فی السفر والمطر ( ؎۱مؤطا امام محمد
الہور ص)۱۳۱
اور بعض میں رفع ہے تو بالفاظ اجمال یعنی حضور واال صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم سے تصریحا ً اسی قدر منقول کہ جمع فرمائی قدر مرفوع میں غیبت شفق
پر تنصیص نہیں مثل روایت( )۲بخاری:
حدثنا سعید بن ابی مریم اخبرنا محمد بن جعفر قال اخبرنی زید ،ھو ابن اسلم ،عن ابیہ ،قال :کنت مع
ّ ہّٰلل ٰ ہّٰلل
عبدا بن عمر رضی ا تعالی عنھما بطریق مکۃ ،فبلغہ عن صفیۃ بنت ابی عبید شدۃ وجع،
فاسرع السیر ،حتی اذاکان بعد غروب الشفق ،ثم نزل فصلی المغرب والعتمۃ ،یجمع بینھما ،فقال :انی
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
رأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر اخر المغرب وجمع بینھما ؎۱۔
حدیث بیان کی ہم سے سعید ابن ابی مریم نے ،اس کو خبر دی محمد ابن جعفر
نے ،اس کو زید بن اسلم نے اپنے والدی سے کہ میں مک ّہ کے راستے میں عبداللہ
ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے ساتھ تھا تو ان کو صفیہ بنت ابی عبید کے
بارے میں اطالع ملی کہ وہ سخت درد میں ہیں۔ چنانچہ انہوں نے اپنی رفتار تیز
کردی یہاں تک کہ شفق غروب ہوگئی۔ اس کے بعد وہ اترے اورمغرب وعشاء کی
نماز پڑھی ،دونوں کو جمع کیا ،پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی
علیہ وسلم کو دیکھا ہے کہ جب انہیں سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب کو
مؤخر کرکے دونوں کو جمع کرلیتے تھے۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی کتب باب المسافر اذاجدبہ السیر وتعجل الٰی اہلہ ( ؎۱صحیح للبخاری
خانہ کراچی )۱/۲۴۳
ہّٰلل
وروایت( )۳مسلم:حدثنا محمد بن مثنی نایحیی عن عبیدا عن نافع ان ابن عمر کان اذاجدبہ
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
السیر جمع بین المغرب والعشاء ،بعد ان یغیب الشمس ،ویقول :ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ
وسلم کان اذاجدبہ السیر جمع بین المغرب والعشاء ؎۲۔ ورواہ الطحاوی فقال :حدثنا ابن ابی داؤد ثنا
ً
مسدد ثنا یحییی ؎۳بہ ،سندا ومتنا۔
حیی سے ،اس نے عبیداللہ سے ،اس حدیث بیان کی ہم سے محمد ابن مثنٰی نے ی ٰ
نے نافع سے کہ ابن عمر کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو شفق غائب ہونے
کے بعد مغرب وعشا کو جمع کرلیتے تھے اور کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم کو بھی جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو مغرب وعشاء کو
جمع کرلیتے تھے۔ طحاوی نے بھی ابن ابی داؤد سے ،اس نے مسدد سے ،اس نے
یحیٰی سے یہی روایت کی ہے ،ایک ہی سند اور متن کے ساتھ۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ باب جواز الجمع بین الصالتین فی السفر ( ؎۲صحیح لمسلم
کراچی )۱/۲۴۵
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی باب الجمع بین الصالتین کیف ھو ( ؎۳شرح معانی اآلثار
کراچی )۱/۱۱۲
ٰ
وروایت( )۴ابی داؤد:حدثنا سلیمن بن داود العتکی نا عماد نا ایوب عن نافع ان ابن عمر ،استصرخ
ہّٰلل ٰ
علی صفیۃ ،وھو بمکۃ ،فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم ،فقال :ان النبی صلی ا تعالی
علیہ وسلم کان اذا عجل بہ امر فی سفربین ھاتین الصالتین،فسار 5حتی غاب الشفق ،فنزل فجمع
بینھما ؎۱۔
حدیث بیان کی ہم سے سلیمان ابن داؤد عتکی نے عماد سے ،اس نے ایوب سے،
اس نے نافع سے کہ ابن عمر جب مک ّہ میں تھے تو ان کو صفیہ کی شدید بیماری
کی اطالع Zملی اور وہ چل پڑے ،یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا اور ستارے ظاہر
ہوگئے ،تو کہا کہ نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں کسی کام کی
جلدی ہوتی تھی تو ان دو ۲نمازوں کو جمع کرلیتے تھے۔ پھر چلتے رہے ،یہاں تک
کہ شفق غائب ہوگئی تو اُترے اور دونوں کو اکٹھا پڑھا۔ (ت)
)۱/۱۷۰ مطبوعہ مجتبائی الہور باب الجمع بین الصالتین س نن ابی داؤد
(ُ ؎۱
ٰ
ضمیر سار ابن عمر رضی اہلل تعالی عنہما کی طرف ہے بدلیل روایت طحاوی:حدثنا ابن مرزوق ثنا
ہّٰلل ٰ
عازم بن الفضل ثنا حماد بن زید عن ایوب عن نافع ان ابن عمر رضی ا تعالی عنہما ،استصرخ علی
صفیۃ بنت عبید ،وھو بمکۃ ،فاقبل الی المدینۃ ،فسار حتی غربت الشمس وبدت النجوم ،وکان رجل
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
ءیصحبہ ،یقول :الصالۃ 'الصالۃ ،وقال لہ سالم :الصالۃ ،فقال :ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ
وسلم ،کان اذاعجل بہ السیر فی سفر جمع بین ھاتین الصالتین 5،وانی ارید ان اجمع بینھما ،فسار حتی
غاب الشفق ،ثم نزل فجمع بینھما ؎۲۔
حدیث بیان کی ہم سے ابن مرزوق نے عازم ابن فضل سے ،اس نے حماد ابن
زید سے ،اس نے ایوب سے ،اس نے نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما جب
مک ّہ میں تھے تو آپ کو صفیہ بنت ابی عبید کی شدید عاللت کی خبر ملی۔ چنانچہ
آپ مدینہ کی جانب روانہ ہوگئے اور مسلسل چلتے رہے یہاں تک کہ سورج غروب
ہوگیا اور ستارے چمکنے لگے۔ ابن عمر کے ساتھ ایک شخص تھا جو کہہ رہا تھا
''نماز ،نماز''۔ سالم نے بھی کہا ''نماز'' (یعنی نماز کا وقت جارہا ہے) تو ابن عمر
نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی
تھی تو ان دو ۲نمازوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے اور میں بھی چاہتا ہوں کہ اکٹھّا پڑھ
لُوں۔ پھر چلتے رہے ،یہاں تک کہ شفق غائب ہوگئی ،اس وقت اتر کر دونوں کو
اکٹھا پڑھا۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب الجمع بین الصالتین ( ؎۲شرح معانی اآلثار
)۱/۱۱۲
امام اجل ابوجعفر اس حدیث کو روایت کرکے فرماتے ہیں:انما اخبر بذلک من فعل ابن عمر ولہذا
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ِ ٰ
رضی ا تعالی عنھما ،وذکر عن النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم الجمع ،ولم یذکر کیف جمع ؎۳۔0
ابن عمر کا عمل مذکور ہے اور انہوں نے اگرچہ یہ تو بتایا ہے
ِ اس میں تو صرف
کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جمع کیا کرتے تھے مگر یہ ذکر نہیں کیا
کہ کیسے جمع کیا کرتے تھے۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب الجمع بین الصالتین ( ؎۳شرح معانی اآلثار
)۱/۱۱۲
البتہ غیر صحیحین کی بعض روایات میں فعل یکتف کی طرف اشارہ کرکے رفع ہے وہ یہ ہیں،
روایت( )۵ابی داؤد:
حدثنا عبدالملک ابن شعیب ناابن وھب عن اللیث ،قال :قال ربیعۃ ،یعنی کتب الیہ ،حدثنی
ہّٰلل ہّٰلل
عبدا بن دینار ،قال :غابت الشمس ،وانا عند عبدا بن عمر ،فسرنا ،فلما رأیناہ قدامسی ،قلنا:
ّ
الصالۃ ،فسار حتی غاب الشفق وتصوبت النجوم ،ثم انہ نزل فصلی صالتین جمیعا ،ثم قال :رأیت
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذاجدبہ السیر صلی صالتی ھذہ ،یقول یجمع بینھما بعد لیل
؎۱۔
حدیث بیان کی ہم سے عبدالملک ابن شعیب نے ،اس نے ابن وہب سے ،اس نے
لیث سے ،اس نے کہا کہ ربیعہ ،نے میری طرف لکھا کہ عبداللہ ابن دینار نے
سورج ڈوب گیا تو ہم مجھے بتایا ہے کہ میں عبداللہ ابن عمر کے ساتھ تھا کہ ُ
چلتے رہے یہاں تک کہ جب شام ہوگئی تو ہم نے کہا ''نماز''۔ مگر وہ چلتے رہے
یہاں تک کہ شفق غائب ہوئی اور تارے نمایاں ہوگئے ،اس وقت آپ اُترے اور
دونوں نمازیں اکٹھی پڑھیں ،پھر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم کو دیکھا کہ جب آپ کو سفر میں جلدی ہوتی تھی تو جس طرح میں نے
نماز پڑھی ہے اسی طرح آپ بھی پڑھا کرتے تھے ،یعنی رات ہونے کے بعد اکٹھا
پڑھتے تھے۔ (ت)
)۱/۷۲ مطبوعہ مجتبائی دہلی باب الجمع بین الصالتین س نن ابی داؤد
(ُ ؎۱
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
روایت( )۶ترمذی:حدثنا ھناد نا عبدۃ عبیدا بن عمر عن نافع عن ابن عمر رضی ا تعالی
ٰ
عنھما،انہ استغیث علی بعض اھلہ فجدبہ السیر ،واخر المغرب حتی غاب الشفق ،ثم نزل فجمع
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
بینھما ،ثم اخبرھم :ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم کان یفعل ذلک اذاجدبہ السیر۔ قال
ابوعیسی :ھذا حدیث حسن صحیح ؎۲۔
حدیث بیان کی ہم سے ہناد نے عبدۃ سے ،اس نے عبیداللہ بن عمر سے ،اس نے
نافع سے کہ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کو اپنے اہل خانہ میں سے کسی کی
سخت بیماری کی اطالع ملی تو تیزی سے روانہ ہُوئے اور مغرب کو اتنا مؤخر کیا
کہ شفق ڈوب گئی ،پھر دونوں کو مالکر پڑھا ،بعد میں ساتھیوں کو بتایا کہ رسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو جب سفر میں جلدی ہوتی تھی تو اسی طرح
سی نے کہا :یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ (ت) کرتے تھے۔ ابوعی ٰ
۱/۷ مطبوعہ امین کمپنی دہلی باب ماجاء فی الجمع بین الصالتین ( ؎۲جامع الترمذی
)۲
روایت ( )۷نسائی:
ٰ ٰ ٰ ٰ
اخبرنا اسحق بن ابرھیم ثنا سفین عن ابن ابی نجیح عن اسمعیل بن عبدالرحمن عن شیخ من قریش،
قال :صحبت ابن عمر الی الحمی ،فلما غربت الشمس ،ھبت ان اقول لہ :الصالۃ ،فسار حتی ذھب
بیاض االفق وفحمۃ العشاء ،ثم نزل فصلی المغرب ثلث رکعات ،ثم صلی رکعتین علی اثرھما ،قال:
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
ھکذا ارأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم یفعل ؎۱۔
حق ابن ابراہیم Zنے سفیان سے ،اس نے ابونجیح سے ،اس نے خبر دی ہمیں اس ٰ
معیل ابن عبدالرحمان سے جو کہ ایک قریشی شیخ ہے کہ میں ابن عمر کے اس ٰ
ساتھ تھا جب وہ چراگاہ کو گئے اور سورج ڈوب گیا تو ان کی ہیبت کی وجہ سے
میں ان کو نماز کے بارے میں نہ کہہ سکا چنانچہ وہ چلتے رہے یہاں تک کہ اُفق
کی سفیدی ختم ہوگئی اور عشاء کی سیاہی ماند پڑگئی ،اس وقت اترے اور
مغرب کی تین رکعتیں پڑھیں ،پھر متصال ً (عشاء کی) دو رکعتیں پڑھیں کہ کہا کہ
میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی طرح پڑھتے دیکھا ہے۔
(ت)
( ؎۱سنن النسائی کتاب المواقیت ،الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء
مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور )۱/۶۹
مستحق جواب یہی تین روایتیں تھیں مگر فقیر بعون الملک القدیر
ِ بظاہر زیادہ
عزوجل وہ جوابات شافیہ وکافیہ وتقریرات صافیہ ووافیہ بیان کرے کہ یہ ساتوں
طرق اور ان کے سوا اور بھی کچھ ہو تو سب کو بحول اللہ تعالٰی کفایت کریں۔
فاقول وباللہ التوفیق Zوبہ العروج علی اوج التحقیق۔
جواب اوّل اسی حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کے طرق کثیرہ جلیلہ
صحیحہ کہ سابقا ً ہم نے ذکر کیے صاف دواشگاف بآواز بلند تصریحات قاہرہ
غروب شفق سے ِ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما نے نمازِ مغربِ فرمارہے ہیں کہ
غروب شفق کے بعد ،اور اسی کو حضور اقدس سید عالم ِ پہلے پڑھی اور عشاء
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کیا اُن روایات صحاح وحسان وجلیلۃ
ابن عمر رضی اللہ ِ الشان پر پھر نگا ِہ تازہ کیجئے۔ امام سالم صاحبزادہ حضرت
معیلی سنن نسائی وصحیح اس ٰ تعالٰی عنہم Zاپنی روایات مرویہ صحیح بخاری و ُ
وغیرہا میں فرمارہے ہیں کہ دو تین میل چل کر جب تارے کھل آئے اُتر کر مغرب
پڑھی پھر ٹہر کر عشاء۔ عبداللہ واقد شاگرد حضرت ابن عمر اپنی روایات مرویہ
غروب شفق سے پہلے اُتر کر مغرب ِ سنن ابی داؤد میں روشن تر فرماتے ہیں کہ
پڑھی پھر منتظر رہے یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی اُس وقت عشاء پڑھی ،طرفہ
یہ کہ وہی امام نافع تلمیذ خاص ورفیق Zسفر وحضر ابن عمر کہ ان غروب شفق
والی سات روایتوں میں چار اُنہیں سے ہیں وہی وہاں اپنی روایات کثیرہ مرویہ
سنن ابی داؤد وسنن نسائی وغیرہا میں یوں ہی واضح وجلی تر فرمارہے ہیں کہ ُ
جب تک مغرب پڑھی ہے شفق ہرگز نہ ڈوبی تھی بلکہ بعد کو بھی انتظار فرمانا
پڑا جب ڈوب گئی اُس وقت عشا کی تکبیر کہی اور اوّل تا آخر ان سب روایات
میں تصریح صریح ہے کہ حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم بھی ایسا ہی
کرتے بلکہ حدیث امام سالم میں یوں ہے کہ حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے حکم دیا کہ جسے جلدی ہو وہ اس طرح پڑھا کرے ،للہ انصاف! ان
گنجائش تاویل وتبدیل ہے اور شک
ِ صاف الفاظ مفسر نصوص میں کہیں بھی
صہ صفیہ زوجہ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم Zجو وہاں اور یہاں نہیں کہ ق ّ
دونوں طرف کی روایات میں مذکور ایک ہی بار تھا بلکہ انہیں امام نافع سے
مروی کہ ابن عمر سے عمر بھر میں صرف اسی بار جمع معلوم ہے اس کے
سنن ابی داؤد میں بطریق امام سوا کسی سفر میں انہیں جمع کرتے نہیں دیکھاُ ،
ایوب سختیانی مذکور:
انہ لم یرابن عمر جمع بینھما قط ،االتلک اللیلہ ،یعنی لیلۃ استصرخ علی صفیۃ ؎۱اھ اماما قال:
وروی من حدیث مکحول عن نافع :انہ رأی ابن عمر فعل ذلک مرۃ اومرتین ؎۲۔ اھ فاقول :فیہ شک
والشک الیعارض الجزم۔
کہ اس نے ابن عمر کو کبھی دو ۲نمازیں جمع کرتے نہیں دیکھا مگر اس رات۔
یعنی صفیہ کی بیماری کی اطالع والی رات۔
اور وہ جو اس نے کہا ہے کہ مکحول کی حدیث میں نافع سے مروی ہے کہ اس
نے ابن عمر کو ایک بار جمع کرتے دیکھا تھا یا دوبار ،تو میں کہتا ہوں کہ اس میں
شک ہے اور شک سے یقین کا معارضہ نہیں کیا جاسکتا۔ (ت)
)۱/۱۷۱ مطبوعہ مجتبائی الہور باب الجمع بین الصالتین ( ؎۱سنن ابی داؤد
)۱۷۱ /۱ مطبوعہ مجتبائی الہور باب الجمع بین الصالتین ( ؎ ۲سنن ابی داؤد
حدیث نسائی وطحاوی میں انہیں امام نافع سے گزرا کہ میں نے اُن کی عادت
یہی پائی تھی کہ نماز کی محافظت فرماتے۔
حدیث کتاب الحجج میں انہیں نافع سے تھا کہ ابن عمر اذان ہوتے ہی مغرب کے
لئے اُترے اس بار دیر لگائی ،روایت نسائی وطحاوی وحجج میں تھا ہمیں گمان
ہوا کہ اس وقت نماز اُنہیں یاد نہ رہی یہ سب اُسی قول نافع کے مؤید ہیں معہذا
شک نہیں کہ اصل عدم تعدد ہے تو جب تک صراح ًۃ تعدد ثابت نہ ہوتا اُس کے ادعا
کی طرف راہ نہ تھی خصوصا ً مستدل کو جسے احتمال کافی نہیں دفع تعارض
کےلئے اس کا اختیار اس وقت کام دیتا کہ خود قصہ صفیہ میں دونوں روایات
صحیحہ قبل غروب وبعد غروب موجود نہ ہوتیں۔
فسقط ماالتجأ الیہ بعض المتأخرین ،من العلماء المخالفین فی المسألۃ ،ظنا منہ انہ یدرؤبہ
التعارض ،وماکان لیندرئ بہ۔
وہ توجیہ ساقط ہوگئی جس کو اس مسئلے کے مخالف علماء متاخرین نے اس
خیال سے اختیار کیا ہے کہ اس طرح تعارض رفع ہوجائیگا ،حاالنکہ اس توجیہ سے
تعارض رفع نہیں ہوتا۔ (ت)
ناچار خود ماّل جی کو بھی ماننا پڑا کہ یہ سب طرق وروایات ایک ہی واقعے کی
حکایات ہیں۔ قصہ صفیہ میں حدیث سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہم بطریق کثیر بن قارؤندا مروی سنن نسائی پر برا ِہ عیاری بھی جب کوئی
طعن نہ گھڑ سکے تو اُسے مخالف حدیث شیخین ٹہرا کر َرد کردیا کہ اس میں
مغرب کا بین الوقتین پڑھنا ہے اور ان میں بعد غروب شفق ،لہذا یہ شاذو مردود
ہے جس کی نقل لطیفہ ہفتم افادہ یکم میں گزری حاالنکہ حدیث مسلم کے لفظ
سن چکے اُس میں قصہ صفیہ کا ذکر نہیں ،تو جب تک روایت مطلقہ بھی ابھی ُ
اسی قصہ صفیہ پر محمول نہ ہو حدیث قصہ صفیہ کو مخالف روایت شیخین کہنا
چہ معنی بالجملہ اس حدیث کی اتنی روایات کثیرہ میں یہ تصریح صریح ہے کہ
غروب شفق سے پہلے پڑھی اور اسی کی اُن روایات میں یہ کہ شفق ِ مغرب
ڈوبے پر پڑھی اور دونوں جانب طرق صحاح وحسان ہیں جن کے َرد کی طرف
ناقابل
ِ کوئی سبیل نہیں ،تو اب یہ دیکھنا واجب ہوا کہ ان میں کون سا نص مفسر
تاویل ہے جسے چارو ناچار معتمد رکھیں اور کون سا محتمل کہ اُسے مفسر کی
طرف پھیر کر رفع تعارض کریں ہر عاقل جانتا ہے کہ ہماری طرف کے نصوص
اصال ً احتمال معنی خالف نہیں رکھتے شفق ڈوبنے سے پہلے پڑھی اتنے ہی لفظ
کے یہ معنی کسی طرح نہ ہوسکتے کہ جب شفق ڈوب گئی اُس وقت پڑھی نہ یہ
کہ جب ا ُس کے ساتھ یہ تصریحات جلیہ ہوں کہ پھر مغرب پڑھ کر انتظار کیا یہاں
تک کہ شفق ڈوب گئی اس کے بعد عشا پڑھی ان لفظوں کو کوئی نیم مجنون
بھی مغرب بعد ِ شفق پڑھنے پر عمل نہ کرسکے گا ،ہاں پُورے پاگل میں کالم نہیں
مگر ا ُدھر کے نصوص کہ چلے یہاں تک کہ شفق ڈوب گئی پھر مغرب پڑھی یا
جمع کی یا بعد غروب شفق اُتر کر جمع کی یہ اچھے خاصے محتمل وصالح تاویل
ہیں جن کا ا ُن نصوص صریح مفسرہ سے موافق ومطابق ہوجانا بہت آسان۔ عربی
قرب وقت کو اس ِ فارسی اردو سب کا محاورہ عامہ شائعہ مشہورہ واضحہ ہے کہ
وقت سے تعبیر کرتے ہیں۔ عصر کے اخیر وقت کہتے ہیں شام ہوگئی حاالنکہ ہنوز
سورج باقی ہے۔ کسی سے اوّل وقت آنے کا وعدہ تھا وہ اس وقت آئے تو کہتے
سورج چھپے آئے۔ قریب طلوع تک کوئی سوتا ہوتو اُسے اُٹھانے میں کہیں ہیں اب ُ
سورج نکل آیا۔ شروع چاشت کے وقت کسی کام کو کہا تھا مامور نے قریب گے ُ
نصف النہار آغاز کیا تو کہیے گا اَب دوپہر ڈھلے لے کر بیٹھے۔ ان کی صدہا مثالیں
ہیں کہ خود ماّل جی اور اُن کے موافقین بھی اپنے کالموں میں رات دن اُن کا
استعمال کرتے ہوں گے۔ بعین ٖہ اسی طرح یہ محاورے زبان مبارک عرب خود قرآن
عظیم واحادیث میں شائع وذائع ہیں ،قال اللہ تعالٰی:
واذا طلقتم النساء فبلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوسرحوھن
بمعروف ؎۱۔
جب تم عورتوں کو طالق دو اور وہ اپنی میعاد کو پہنچ جائیں تو اب انہیں اچھی
طرح اپنے نکاح میں روک لو یعنی رجعت کر لو یا اچھی طرح چھوڑدو۔
)۲/۲۳۱ ( ؎۱القرآن
کہ بے قصد مراجعت عدّت بڑھانے کے لئے رجعت نہ کرو،
وقال تعالٰی :فاذا بلغن اجلھن فامسکوھن بمعروف اوفارقوھن بمعروف
؎۱۔ جب طالق والیاں اپنی عدت کو پہنچیں تو انہیں بھالئی کے ساتھ روک لو یا
جدا کردو۔ (ت)
بھالئی کے ساتھ ُ
)۶۵/۲ ( ؎۱القرآن
ظاہر ہے کہ عورت جب عدّت کو پہنچ گئی نکاح سے نکل گئی اب رجعت کا کیا
قرب وقت کو وقت سے ِ محل ،اور اُسے روکنے چھوڑنے کا کیا اختیار ،تو بالیقین
تعبیر فرمایا ہے یعنی جب عدت کے قریب پہنچے اُس وقت تک تمہیں رجعت
آیات قرآنیہ سے ہوئیں جنہیں امام طحاوی ِ وترک دونوں کا اختیار ہے ،یہ مثالیں تو
وقت ظہر اور نیز اس مسئلہ میں افادہ فرماچکے۔ فقیر غفرلہ ِ وغیرہ علماء مسئلہ
المولی القدیر احادیث سے بھی مثالیں اور علمائے قائلین بالجمع سے بھی اس
معنی ومحاورہ کی تصریحیں ذکر کرے۔ فاقول وباللہ التوفیقZ:
حدیث :۱جبریل امین علیہ الصلٰوۃ والتسلیم نے صبح اسرا بعد فرضیت نماز
اوقات نماز معین کرنے اور اُن کا اوّل آخر بتانے کےلئے دو ۲روز حضور اقدس ِ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی امامت کی ،پہلے دن ظہر سے فجر تک پانچوں
نمازیں اوّل وقت پڑھیں اور دوسری دن ہر نماز آخر وقت ،اس کے بعد گزارشZ
کی :الوقت مابین ھذین الوقتین ؎ ۲۔ وقت ان دونوں وقتوں کے بیچ میں ہے۔ (ت)
)۱/۵۶ مطبوعہ مجتبائی الہور صلٰوۃ
کتاب ال ّ سنن ابی داؤد
(ُ ۲
اس حدیث میں ابوداؤد وترمذی وشافعی وطحاوی وابن حبان وحاکم کے یہاں حضرت عبداہلل بن
ٰ ٰ
عباس رضی اہلل تعالی عنہما سے ہے حضور اقدس صلی اہلل تعالی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
صلی بی العصر حین کان ظلہ مثلہ فلما کان الغد صلی بی الظھر حین کان ظلہ مثلہ ؎۳۔ میرے
ساتھ عصر کی نماز پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا ،جب دُوسرا دن
ہُوا تو ظہر کی نماز اس وقت پڑھی جبکہ سایہ ہر چیز کا اس کے برابر تھا۔ (ت)
)۱/۵۶ مطبوعہ مجتبائی الہور صلٰوۃ
کتاب ال ّ سنن ابی داؤد
(ُ ؎۳
ترمذی کے الفاظ یوں ہیں :صلی المرۃ الثانیۃ ،الظھر ،حین کان ظل کل شیئ مثلہ ،لوقت
العصر باالمس ؎۴۔ دوسری مرتبہ ظہر کی نماز تب پڑھی جبکہ ہر چیز کا سایہ اس
کے برابر تھا یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)
)۱/۲۱ امین کمپنی دہلی باب ماجاء فی مواقیت الصلٰوۃ ( ؎۴جامع الترمذی
شافعی کے لفظ یہ ہیں :ثم صلی المرۃ االخری ،الظھر ،حین کان کل شیئ قدرظلہ ،قدر العصر
باالمس ؎۱۔ پھر دوسری مرتبہ نماز پڑھی ظہر کی ،جب ہر چیز اپنے سائے کے
ساتھ برابر تھی یعنی گزشتہ کل جس وقت عصر پڑھی تھی۔ (ت)
)۱/۷۱ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت جماع مواقیت الصلٰوۃ ( ؎۱اال ُ ّ
م للشافعی
حدیث :۲نسائی وطحاوی وحاکم وبزار نے ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
روایت کی حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :ھذا جبریل ،جاء کم
یعلمکم دینکم۔ وفیہ ،ثم صلی العصر حین رأی الظل مثلہ ،ثم جاء ہ الغد ،ثم صلی بہ الظھر حین کان
الظل مثلہ ؎۲۔ یہ جبریل ہیں ،تمہیں تمہارا دین سکھانے آئے ہیں۔ اس روایت میں ہے
کہ پھر عصر کی نماز پڑھی ،جب دیکھا کہ سایہ ان کے برابر ہے۔ پھر دوسرے دن
رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور ظہر کی نماز پڑھی،
جبکہ سایہ ان کے برابر تھا۔ (ت)
)۱/۵۹ مطبوعہ المکتبۃ السلفیۃ ،الہور آخر وقت الظہر ( ؎۲سنن النسائی
بزار کے لفظ یوں ہیں :
جاء نی ،فصلی بی العصر حین کان فیئی مثلی ،ثم جاء نی من الغد ،فصلی بی الظھر حین کان فیئی
مثلی ؎۳۔ جبریل میرے پاس آئے اور مجھے عصر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ
میرے برابر تھا ،پھر دوسرے دن آئے اور ظہر کی نماز پڑھائی جبکہ میرا سایہ
میرے برابر تھا۔ (ت)
مطبوعہ موسسۃ الرسالۃ بیروت ( ؎۳کشف االستار عن زوائد الب ّزار باب ای حین یصلی
لبنان )۱/۱۸۷
وحاکم ٰجابر بن
حق Zبن راہویہ وابن حبان ہّٰلل
حدیث :۳نیز نسائی وامام احمد واس ٰ
عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی :ان جبریل اتی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم،
حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی العصر ،ثم اتاہ فی الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل
شخصہ فصلی الظھر ؎۱۔
جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جبکہ ہر شخص کا سایہ اس
کے قد جتنا ہوتا ہے اور عصر کی نماز نہ پڑھی ،پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر
شخص کا سایہ اس کے قد جتنا ہوتا ہے اور ظہرکی نماز پڑھی۔ (ت)
)۱/۶۰ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور آخر وقت العصر ( ؎۱سنن النسائی
حق بن راہویہ اپنی مسند میں حضرت ابومسعود انصاری رضی حدیث :۴امام اس ٰ
اللہ تعال ٰی عنہ سے بطریق حدثنا بشر بن عمرو النھرانی ثنی مسلمۃ بن بالل ثنا
یحیٰی بن سعید ثنی ابوبکر بن عمرو بن حزم عن ابی مسعود االنصاری ؎۲او ر
بیہ قی کتاب المعرفۃ میں بطریق ایوب بن عتبۃ ثنا ابوبکر بن عمروبن حزم عن
حق عروہ بن الزبیر عن ابن ابی مسعود عن ابیہ ؎۳راوی اور یہ لفظ حدیث اس ٰ
ہیں:
ہّٰلل ٰ
قال :جاء جبریل الی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم ،فقال :قم ،فصل! وذلک لدلوک الشمس حین
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
مالت ،فقام رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم فصلی الظھر اربعا ،ثم اتاہ حین کان ظلہ مثلہ،
فقال :قم ،فصل! فقام فصلی العصر اربعا ،ثم اتاہ من الغد حین کان ظلہ مثلہ ،فقال لہ :قم فصل! فقام
فصلی الظھر اربعا ؎۴۔
کہا :جبریل نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز
سورج ڈھلنے کا وقت تھا ،جب وہ ایک طرف جھُک گیا تھا تو رسول پڑھئے! اور یہ ُ
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوبارہ
آئے جب اُن کا سایہ ان کے برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے! تو آپ نے
اٹھ کر عصر کی چار رکعتیں پڑھیں۔ پھر دوسرے دن آئے ،جب ان کا سایہ ان کے
برابر تھا اور کہا کہ اُٹھئے اور نماز پڑھئے ،تو آپ نے اُٹھ کر ظہر کی چار رکعتیں
پڑھیں۔ (ت)
) ؎۲مسند ابن اسحاق)
( ؎۳کتاب المعرفۃ)
( ؎۴مسند ابن اسحاق)
حدیث :۵ابن راہویہ مسند میں عبدالرزاق سے اور عبدالرزاق مصنف میں بطریق اخبرنا معمر عن
ٰ ّ ہّٰلل
عبدا بن ابی بکر بن محمد بن عمروبن حزم عن ابیہ عن جدہ ؎۵عمروبن حزم رضی اہلل تعالی عنہ
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
سے راوی :قال :جاء جبریل ،فصلی بالنبی صلی ا تعالی علیہ وسلم ،وصلی النبی صلی ا تعالی
علیہ وسلم بالناس ،حین زالت الشمس ،الظھر ،ثم صلی العصر حین کان ظلہ مثلہ ،قال :ثم جاء
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ
جبریل من الغد ،فصلی الظھر بالنبی صلی ا تعالی علیہ وسلم ،وصلی النبی صلی ا تعالی علیہ
وسلم بالناس ،الظھر ،حین کان ظلہ مثلہ ؎۱۔
کہا :جبریل آئے اور نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ظہر کی نماز پڑھائی اور
نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے لوگوں کو نمازپڑھائی جب سورج کا زوال
ہ وگیا تھا ،پھر عصر پڑھی جب ان کا سایہ ان کے برابر تھا۔ راوی نے کہا :پھر
دوسرے دن جبریل آئے اور انہوں نے نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ،اور نبی
صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی جب ان کا سایہ ان کے
برابر ہوگیا تھا۔ (ت)
)۱/۵۳۴ ( ؎۵المصنف لعبد الرزاق باب المواقیت مطبوعہ المکتب االسالمی بیروت
)۱/۴۳۵ ( ؎۱المصنف لعبدالرزاق باب المویقیت مطبوعہ المکتب اسالمی بیروت
حدیث :۶دارقطنی سنن اور طبرانی معجم کبیر اور ابن عبدالبر Zتمہید میں بطریق
ایوب بن عتبۃ عن ابی بکر بن حزن عن عروۃ بن الزبیر حضرت ابو مسعود
انصاری وبشیر بن ابی مسعود دونوں صحابی رضی اللہ تعالٰی عنہما سے راوی:
ہّٰلل ٰ
ان جبریل جاء الی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم حین دلکت الشمس ،فقال :یامحمد! صل
الظھر ،فصلی؛ ثم جاء حین کان ظل کل شیئ مثلہ ،فقال :یامحمد! صل العصر ،فصلی ،ثم جاء ہ الغد
حین کان ظل کل شیئ مثلہ ،فقال :صلی الظھر۔ الحدیث ؎۲۔
جبریل ،نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس آئے جب سورج ڈھل چکا تھا اور
کہا :یامحمد! ظہر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے ظہر پڑھی۔ پھر دوبارہ آئے جبکہ ہر
چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا :یا محمد! عصر کی نماز پڑھئے! تو آپ نے
عصر پڑھی۔ پھر دوسرے دن آئے جبکہ ہر چیز کا سایہ اس کے برابر تھا اور کہا:
ظہر پڑھئے! الحدیث۔ (ت)
مطبوعہ المکتبۃ حدیث ۷۱۸ مسند ابومسعود انصاری ( ؎۲المعجم الکبیر للطبرانی
الفیصلیۃ بیروت (۱۸/۲۶۰
والکل مختصر ان سب حدیثوں میں کل کی عصر کی نسبت یہ ہے کہ جب سایہ
ایک مثل ہوا نماز پڑھائی اور بعین ٖہ یہی لفظ آج کی ظہر میں ہیں کہ جب سایہ ایک
مثل ہُوا پڑھائی اور روایت ترمذی تو صاف صاف ہے کہ آج کی ظہر اُس وقت
پڑھی جس وقت کل عصر پڑھی تھی حاالنکہ مقصود اوقات کی تمیز اور ہر نماز
کا اول وآخر وقت میں جداجدا بنانا ہے الجرم امام ابوجعفر وغیرہ نے ظہر امروزہ
میں ان لفظوں کے یہی معنی لیے کہ جب سایہ ایک مثل کے قریب آیا پڑھائی،
معانی اآلثار میں فرمایا :احتمل ان یکون ذلک علی قرب ان یصیر ظل کل شیئ مثلہ ،وھذا جائز فی
اللغۃ ،قال عزوجل ،فذکر االیۃ ،وشرح المراد ،وافاد واجاد ؎۱۔
احتمال ہے کہ ظہر کی نماز اس وقت پڑھی ہو جب ہر چیزکا سایہ اس کے برابر
ہونے کے قریب ہو۔ اور یہ لغت کے اعتبار Zسے جائز ہے۔ اللہ تعالٰی فرماتا ہے۔ یہاں
طحاوی نے آیت ذکر کی (یعنی فاذا بلغن اجلھن) اور مراد کی تشریح کی اور
مفید وعمدہ گفتگو کی۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل باب مواقیت الصلٰوۃ ( ؎۱شرح معانی االثار
کراچی (۱/۱۰۳
حدیث :۷سائل نے جو خدمت اقدس حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ
اوقات نماز پُوچھے اور حضورِ واال نے ارشاد فرمایا ہے کہ
ِ وسلم میں حاضر ہوکر
دو ۲دن حاضر رہ کر ہمارے پیچھے نماز پڑھ۔ پہلے دن ہر نماز اپنے اول وقت میں
اور دوسرے دن ہر نماز آخر وقت پڑھا کر ارشاد ہوا ہے :الوقت بین ھذین (وقت ان
دونوں وقتوں کے درمیان ہے)
اس حدیث میں نسائی وطحاوی نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت کی:
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
سأل رجل رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم عن مواقیت الصالۃ ،فقال :صل معی ،فصلی الظھر
حین زاغت الشمس،
والعصر حین کان فی کل شیئ مثلہ ،قال :ثم صلی الظھر حین کان فیئ االنسان مثلہ ؎۲۔
ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے نماز کے اوقات کے
بارے میں پُوچھا تو آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ نماز پڑھ! تو آپ نے ظہر کی
سورج ڈھل گیا اور عصر کی اس وقت جب ہر چیز کا نماز اس وقت پڑھی جب ُ
سایہ اس کے برابر ہوگیا۔ راوی نے کہا کہ پھر (اگلے دن) ظہر اس وقت پڑھی
جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ادب منزل باب مواقیت الصلٰوۃ ( ؎۲شرح معانی االثار
کراچی (۱/۱۰۲
اس حدیث میں بھی عصر دیروز وظہر امروز کا وہی حال اور علماء کے وہی
مقال۔
سی اشعری رضی اللہ تعالٰیسنن ابی داؤد میں بسند صحیح عــہ ابومو ٰ
حدیث ُ :۸
عنہ سے حدیث سائل یوں ہے:
ہّٰلل ٰ
ان سائال سأل النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم ،فلم یرد علیہ شیا ،حتی امر بالال ،فاقام الفجر حین
انشق الفجر ،وفیہ فلما کان من الغد ،اقام الظھر فی وقت العصر الذی کان قبلہ ،وصلی العصر
وقداصفرت الشمس ،اوقال :امسی ؎۱۔
ایک پُوچھنے والے نے رسول اللہ سے (اوقات نماز) پُوچھے تو آپ نے کوئی جواب
نہ دیا ،یہاں تک کہ آپ نے بالل کو حکم دیا تو انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت
کہی جب ابھی پَو پُھٹی ہی تھی۔ اس روایت (کے آخر) میں ہے کہ اگلے دن ظہر
کی اقامت کہی جس وقت پچھلے دن عصر کی کہی تھی ،اور عصر کی نماز اس
سورج زرد ہوچکا تھا ،یا یوں کہا کہ شام ہوچکی تھی۔ (ت)
وقت پڑھی جبکہ ُ
ہّٰلل
عــہ حیث قال( :حدثنا مسدد) ثقۃ ،حافظ ،من رجال البخاری۔ (ناعبدا بن داؤد) ھو ابن عامر الھمدانی ،ثقۃ ،عابد من
ٰ
رجال البخاری واالربعۃ۔ دون الواسطی الذی لیس االمن رجال الترمذی (نابدربن عثمن) ثقۃ ،من رجال مسلم۔ (ناابوکر بن
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ ٰ ٰ
ابی موسی ف )۱ثقۃ ،من رجال الستۃ۔ (عن ابی موسی) االشعری رضی ا تعالی عنہ ۱۲منہ رضی ا تعالی عنہ (م)
ہّٰلل
چنانچہ (ابوداؤد نے) کہا (حدثنا مسدد) ثقہ ہے ،حافظ ہے ،بخاری کے راویوں میں سے ہے (ناعبدا ابن داؤد) اس سے
مراد ابن عامر ہمدانی ہے ،جو ثقہ ہے عابد ہے اور بخاری کے عالوہ صحاح کی چار کتابوں کے راویوں میں سے ہے۔
ٰ
واسطی مراد نہیں ہے جوکہ صرف ترمذی کے راویوں میں سے ہے (نا ،بدر ابن عثمن) ثقہ ہے ،مسلم کے راویوں میں
ٰ ٰ ّ ٰ
سے ہے۔ (نا ،ابوبکر ابن موسی) ثقہ ہے ،صحاح ستہ کا راوی ہے (عن ابی موسی) شعری رضی اہلل تعالی عنہ ۱۲منہ رضی
ٰ
اہلل تعالی عنہ (ت)
)۱/۵۷ مطبوعہ مجتبائی الہور ،پاکستان کتاب الصلٰوۃ ( ؎۱سنن ابی داؤد
)۱/۵۷ (ف ۱سنن ابی داؤد
اس حدیث سے دو ۲فائدہ زائدہ حاصل ہُوئے:
اوّال ً اس میں صاف تصریح ہے کہ آج کی ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی
سی من ناابوبکر بن ابی مو ٰ
سی اسی طریق بدر بن عث ٰ حاالنکہ یہی حدیث ابی مو ٰ
بن ابیہ سے مسلم ونسائی وابن ابان وطحاوی کے یہاں ان لفظوں سے ہے :ثم اخر
الظھر حتی کان قریبا من وقت العصر باالمس ؎۲ولفظ النسائی الی قریب۔ پھر ظہر کی تاخیر
فرمائی یہاں تک کہ وقت عصر دیروزہ سے قریب ہوگئی۔
۱/۱۰ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب مواقیت الصلٰوۃ ) ؎۲شرح معانی اآلثار
)۳
ثابت ہُوا کہ وہاں بھی قُرب ہی مراد ہے اور قرب وقت کو نام ِ وقت سے تعبیر
درکنار صراح ًۃ ان لفظوں سے بھی تعبیر کرلیتے ہیں کہ دوسری نماز کے وقت
میں نماز پڑھی ،یہ فائدہ یاد رکھنے کا ہے۔
ثانیا اس میں یہ بھی تصریح ہے کہ عصر اس حال میں پڑھی کہ سورج زرد ہوگیا
تھا یا کہا شام ہوگئی ،یہ بھی قطعا ً قرب شام پر محمول۔
حدیث : ۹صحیح مسلم شریف میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالٰی
عنہما سے ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
وقت الظھر اذازالت الشمس وکان ظل الرجل کطولہ مالم یحضر العصر ؎۱۔ ظہر کا وقت اُس
وقت ہے جب سورج ڈھلے اور سایہ آدمی کا اس کے قد کے برابر ہوجائے جب
تک عصر کا وقت نہ آئے۔
۱/ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب الصلوات الخمس ( ؎۱صحیح لمسلم
)۲۲۱
حدیث : ۱۰امام طحاوی حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ تعالٰی عنہ سے حدیث
امامت جبریل میں راوی حضورِ واال صلوات اللہ تعالٰی علیہ وسالمہ نے فرمایا:
ِ
صلی الظھر وفیئ کل شیئ مثلہ ؎۲۔ اس وقت (نماز) پڑھی کہ سایہ ہر چیز کا اس کے
برابر ہوگیا۔
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی صلٰوۃ
باب مواقیت ال ّ ( ؎۲شرح معانی اآلثار
)۱/۱۰۲
وقت ظہر نہیں رہتا ان حدیثوں میں ایک مثل
ِ جن کے نزدیک ایک مثل کے بعد
ہونے کو ایک مثل کے قریب پہنچنے پر عمل کرتے ہیں۔
ٰ
حدیث :۱۱امیرالمؤمنین عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک روز نمازِ
امامت جبریل سنانا کہ
ِ عصر کو بہت اخیر کرنا اور عروہ بن زبیر کا آکر حدیث
صحیحین وغیرہما میں مروی اس میں طبرانی کی روایت یوں ہے :دعا المؤذن
لصالۃ العصر فامسی عمر بن عبدالعزیز قبل ان یصلیھا ؎۳۔ مؤذن نے نمازِ عصر کےلئے بالیا
تو حضرت عمر بن عبدالعزیز Zنے شام کردی اور ابھی نمازِ عصر نہ پڑھی۔ (ت)
مطبوعہ المکتبۃ مسند ابومسعود انصاری حدیث ۷۱۶ ) ؎۳المعجم الکبیر للطبرانی
الفیصلیۃ بیروت )۲۵ ۱۸/۹
یعنی عمر نے شام کردی اور ہنوز نمازِ عصر نہ پڑھی۔ امام قسطالنی شافعی
ارشاد الساری شرح صحیح بخاری اور عاّل مہ عبدالباقی زرقانی مالکی شرح
مؤطا میں فرماتے ہیں :محمول علی انہ قارب المساء الانہ دخل فیہ ؎۱۔ حدیث کی مراد
یہ ہے کہ شام قریب آئی نہ یہ کہ شام ہوہی گئی۔
مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت صلٰوۃ
مواقیت ال ّ ( ؎۱ارشاد الساری شرح البخاری
)۱/۴۷۷
خود صحیح بخاری کتاب بدء الخلق میں ہے :اخر العصر شیا ( ؎۲عصر میں کچھ تاخیر
کی) افادہ الحافظ فی فتح الباری۔
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ باب ذکر المالئکۃ کتاب بدئ الخلق ( ؎۲صحیح البخاری
کراچی )۱/۴۵۷
حدیث : ۱۲حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے جو ارشاد فرمایا کہ
م مکتوم اذانابن ا ُ ِّ
ِ ''سحری کھاؤ پیو یہاں تک کہ
دے''۔ اس پر صحیح بخاری شریف میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما
سے ہے :
قال کان رجال الینادی حتی یقال لہ اصبحت اصبحت ؎۳۔ وہ اذان نہ دیا کرتے تھے یہاں تک
کہ اُن سے کہاجاتا تمہیں صبح ہوگئی صبح گئی۔
۱/۸ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی م ی الخ
باب اذان االع ٰ ( ؎۳صحیح البخاری
)۶
اگر ا ُن کی اذان سے پہلے صبح ہوچکتی تھی تو اس ارشاد کے کیا معنی کہ ''جب
تک وہ اذان نہ دیں کھاتے پیتے رہو''۔ لہذا قسطالنی شافعی ارشاد اور امام عینی
عمدہ میں فرماتی:
ٰ
واللفظ لالرشاد المعنی قاربت الصبح علی حد قولہ تعالی فاذا بلغن اجلھن ؎۴یعنی
لوگوں کے اس قول کے کہ ''صبح ہوگئی صبح ہوگئی'' یہ معنی ہیں کہ صبح قریب
آئی قریب آئی ،جیسے آیت میں فرمایا کہ عورتیں میعاد کو پہنچیں یعنی قریب
میعاد۔
مطبوعہ دارالکتاب العربیہ می الخ
باب اذان االع ٰ ( ؎۴ارشاد الساری شرح بخاری
بیروت )۲/۱۱
ٰ
ارشاد اقدس سید عالم صلی اہلل تعالی علیہ وسلم ہے :فانہ الیؤذن حتی یطلع
ِ نیز اسی حدیث میں
الفجر ؎۵۔
ابن ا ُ ّ
م أ مکتوم اذان نہیں دیتے یہاں تک کہ فجر طلوع کرے۔ ِ
( ؎۵صحیح البخاری باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیمنعکم من سحورکم اذان بالل
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ
کراچی )۱/۲۵۷
طلوع
ِ ارشاد شافعی کتاب الصیام میں ہے :ای حتی یقارب طلوع الفجر ( ؎۶یعنی یہاں تک کہ
فجر قریب آئے)۔
باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم الیمنعکم من سحورکم اذان بالل ( ؎۶ارشاد الساری
)۳/۳۶۳ مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ بیروت
بالجملہ اس محاورہ کے شیوع تمام سے کسی کو انکار نہیں ہوسکتا اگر بالفرض
وہ روایات صحیحہ جلیلہ صریحہ صالۃ مغرب پیش از غروب شفق میں نہ بھی آتیں
جدا وقت کی تعیین اور پیش ازوقت یا وقت فوتتاہم جبکہ ہر نماز کے لئے ُ
کرکے نماز پڑھنے کی تحریم یقینی قطعی Zاجماعی تھی ان روایات میں یہ مطلب
بنظر محاورہ عمدہ محتمل اور استدالل Zمستدل بتطرق احتمال باطل ومختل اور
آیات واحادیث تعیین اوقات کا ان سے معارضہ غلط ومہمل ہوتا نہ کہ خود اسی
حدیث میں بالخصوص وہ صاف صریح مفسر نصوص اور اُنہیں بزورِ زبان بخاری
ومسلم سب باالئے طاق رکھ کر مردود واہیات بتائے یا الٹا ان محتمالت کے
معارض بتاکر شاذو مردود ٹہرائیے یہ کیا مقتضائے انصاف ودیانت ہے یہ کیا
محدثی کی شان نزاکت ہے۔ اب تو بحمداللہ سب جعل کھُل گیا ،حق وباطل
میزان نظر میں تُل گیا ،اور واضح ہوا کہ یہ ساتوں روایتیں بھی اُنہیں محاورات ِ
سے ہیں جن میں دو ۲آیتیں اور بارہ ۱۲حدیثیں ہم نے نقل کیں ان سات سے مل
کر اکیس ۲۱مثالیں ہُوئیں وباللہ التوفیق۔
جواب دوم :جانے دو اُن میں قبل ان میں بعد یونہی سمجھو پھر ہمیں کیا مضر
اور تمہیں کیا مفید۔ شفقین دو ۲ہیں :احمر وابیض۔ اُن روایات قبل میں سپید مراد
سرخ۔ یوں بھی تعارض مندفع اور سب طرق مجتمع ہے اُن روایات بعد میں ُ
ہوگئے۔ حاصل یہ نکال کہ شفق احمر ڈوبنے کے بعد شفق ابیض میں نماز مغرب
پڑھی اور انتظار فرمایا جب سپیدی ڈُوبی عشا پڑھی۔ یہ بعین ٖہ ہمارا مذہب مہذب
اور ہمارے امام اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کے طور پر جمع صوری ہے حقیقی تو
جب ہوتی کہ مغرب بعد غروب سپیدی پڑھی جاتی اس کا ثبوت تم ہرگز نہ دے
ن فقیر میں آیا تھا پھر دیکھا کہ امام ابن الہمام سکے۔ یہ جواب بنگا ِہ اوّلین ذہ ِ
قدس سرہ ،نے یہی افادہ فرمایا۔
رہی روایت ہفتم سار حتی ذھب بیاض االفق وفحمۃ العشاء ؎۱
(چلتے رہے یہاں تک کہ افق کی سفیدی اور عشا کی سیاہی ختم ہوگئی۔ ت) جس
میں افق Zکی سپیدی جانے کے بعد نزول ہے۔
الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء ( ؎۱سنن النسائی
مطبوعہ کارخانہ تجارت کتب نور محمد کراچی )۱/۹۹
اقول وباللہ استعین اوّال ً یہ بھی کب رہی اس میں بھی وہی تقریر جاری جیسے
غاب الشفق بمعنی کادان یغیب یوں ہی ذھب البیاض بمعنی کادان یذھب۔
ثانیا حدیث میں بیاض افق ہے نہ بیاض شفق ،کنارہ شرقی Zبھی افق ہے ،بعد
غروب شمس مشرق سے سیاہی اُٹھتی اور اُس کے اوپر سپیدی ہوتی ہے جس
طلوع فجر میں اس کا عکس ،جسے قرآن عظیم میں حتی یتبین لکم ِ طرح
الخیط االبیض من الخیط االسود من الفجر ( ؎۲یہاں تک کہ فجر کے سیاہ
دھاگے سے سفید دھاگا تمہارے لیے واضح ہوجائے۔ ت)
( ؎۲القرآن )۲/۱۸۷
ط اسود جاتا رہتا ہے ،یونہی جب مشرق سے فرمایا ،جب فجر بلند ہوتی ہے وہ خی ِ
سیاہی بلند ہوتی ہے سپیدی شرقی جاتی رہتی ہے اور ہنوز وقت مغرب میں
وسعت ہوتی ہے اور اس پر عمدہ قرینہ یہ کہ بیاض کے بعد فحمہ عشاء سر شام
کا دھند لگا ہے کہ موسم گرما میں تیزی نور شمس کے سبب بعد غروب نظر کو
ظاہر ہوتا ہے جب تارے کھل کر روشنی دیتے ہیں زائل ہوجاتا ہے جیسے چراغ کے
سامنے سے تاریکی میں آکر کچھ دیر سخت ظلمت معلوم ہوتی ہے پھر نگاہ ٹہر
جاتی ہے ،زہرالربٰی میں ہے :فحمۃ العشاء ،ھی اقبال اللیل واول سوادہ ( ؎۱فحمۃ العشاء
رات کے آنے کو اور اس کی ابتدائی سیاہی کو کہتے ہیں۔ ت)
مطبوعہ کارخانہ تجارت ( ؎۱زہرالرب ٰی مع سنن النسائی بین السطور زیر حدیث مذکور
کتب نور محمد کراچی )۱/۹۹
ّ
شرح جامع االصول للمصنف میں ہے :ھی شدۃ سواد اللیل فی اولہ ،حتی اذاسکن فورہ ،قلت بظھور
النجوم وبسط نورھا۔ والن العین اذانظرت الی الظلمۃ ابتداء التکاد تری شیا ؎۲۔
صے میں بہت سیاہ ہونا ہے۔ پھر جب اس کا جوش ٹھر جاتا ہے
وہ رات کا ابتدائی ح ّ
تو تاروں کے نکلنے اور ان کی روشنیاں پھیلنے سے سیاہی کم ہوجاتی ہے ،اور
اس لئے بھی کہ آنکھ جب ابتداء میں تاریکی کی طرف نظر کرتی ہے تو کچھ
نہیں دیکھ پاتی۔ (ت)
( ؎۲جامع االصول للمصنف)
بیاض
ِ بیاض شفق کے جانے سے بہت پہلے ہوتا ہے تو
ِ ظاہر ہے کہ اس کا جانا
شفق جانا بیان کرکے پھر اس کے ذکر کی کیا حاجت ہوتی ،ہاں بیاض شرقی اس
سے پہلے جاتی ہے تو اس معنی صحیح پر فحمہ عشاء کا ذکر عبث ولغو نہ ہوگا۔
ثالثا ً یہی حدیث اسی طریق مذکور سفیان سے امام طحاوی نے یوں روایت
فرمائی:
ٰ
حدثنا فھد ثنا الحمانی ثنا ابن عیینۃ عن ابن ابی نجیح عن اسمعیل بن ابی ذویب قال :کنت مع ابن
ہّٰلل ٰ
عمر رضی ا تعالی عنھما ،فلما غربت الشمس ،ھبنا ان نقول :الصالۃ ،فسار حتی ذھب فحمۃ
ہّٰلل
العشاء ورأینا بیاض االفق ،فنزل فصلی ثلثا المغرب ،واثنتین العشاء ،وقال :ھکذا رأیت رسول ا
ہّٰلل ٰ
صلی ا تعالی علیہ وسلم یفعل ؎۳۔
حدیث بیان کی ہم سے فہد نے حمانی سے ،اس نے ابن عینیہ سے ،اس نے ابن
ابن عمر رضی اللہ عنہِ معیل بن ابی ذویب سے کہ میں ابی نجیح سے ،اس نے اس ٰ
کے ساتھ تھا جب سورج ڈوب گیا تو ان کی ہیبت کی وجہ سے ہم انہیں نماز کا نہ
کہہ سکے وہ چلتے رہے یہاں تک کہ عشاء کی سیاہی ختم ہوگئی اور ہم نے افق
کی سفیدی دیکھ لی۔ اس وقت اُتر کر مغرب کی تین رکعتیں اور عشا کی دو۲
رکعتیں پڑھیں اور کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو اسی
طرح کرتے دیکھا ہے۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی باب الجمع بین الصالتین الخ ( ؎۳شرح معانی اآلثار
کراچی )۱/۱۱۱
یہ بقائے شفق ابیض میں نص صریح ہے کہ سرشام کا دھند لکاجاتا رہا اور ہمیں
افق کی سپیدی نظر آئی اُس وقت نماز پڑھی اور کہا اسی طرح حضور اقدس
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کیا۔
رابعاً :ماّل جی! آپ تو بہت محدثی میں دم بھرتے ہیں صحیح حدیثیں بے وجہ محض
تو َر د کرتے آئے بخاری ومسلم کے رجال ناحق مردود الروایہ بنائے اب اپنے لیے
اصول محدثین پر ہرگز کسی طرح حجت ِ جت بنالی جو آپ کے مقبولہ یہ روایت ح ّ
نہیں ہ وسکتی اس کا مدار ابن ابی نجیح پر ہے وہ مدلس تھا اور یہاں روایت میں
عنعنہ کیا اور عنعنہ مدلس جمہور محدثین کے مذہب مختار ومعتمد میں مردود
ونامستند ہے اسی آپ کی مبلغ علم تقریب میں ہے:
ہّٰلل
عبدا بن ابن نجیح یسار المکی ابویسار الثقفی ،موالھم ،ثقۃ ،رمی بالقدر ،وربما دلس ؎۱۔ عبداللہ
ابن ابی نجیح یسار مکی ابویسار ثقفی ،بنی ثقیف کا آزاد Zکردہ ،ثقہ ہے ،قدری
ہونے سے مہتم ہے ،بسا اوقات تدلیس کرتا ہے۔ (ت)
ص مطبوعہ مطبع فاروقی دہلی ترجمہ عبداللہ ابن نجیح ( ؎۱تقریب التہ ذیب
)۱۴۴
وہ قسم مرسل سے ہے تقریب وتدریب میں ہے :الصحیح التفصیل ،فمارواہ بلفظ
محتمل لم یبین فیہ السماع ،فمرسل الیقبل ،ومابین فیہ ،کسمعت ،وحدثنا 5،واخبرنا ،وشبھھا،
فمقبول یحتج بہ ؎۲۔
صحیح یہ ہے کہ اس میں تفصیل ہے ،یعنی مدلس کی وہ روایت جو ایسے لفظ
سے ہو جو سماع کا احتمال تو رکھتا ہو مگر سماع کی تصریح نہ ہو ،تو وہ مرسل
ہے اور غیر مقبول ہے ،اور جس میں سماع کی صراحت ہو ،جیسے سمعت،
حدثنا ،اخبرنا اور ان جیسے الفاظ ،تو وہ مقبول ہے اور قابل استدالل Zہے۔ (ت)
دار نشر ( ؎۲تدریب الراوی شرح تقریب النوا و ی القسم الثانی من النوع الثانی عشر
الکتب االسالمیہ الہور )۱/۲۲۹
اور مرسل کی نسبت آپ خود فرماچکے ف ۱روایت مرسل حجت نہیں ہوتی
نزدیک جماعت فقہا وجمہور محدثین کے۔ یہ آپ نے اُس حدیث صحیح متصل کو
مردود و مرسل بناکر فرما یا تھا جس کا ذکر لطیفہ دہم میں گزرا جھوٹے ادعائے
چے ارسال میں یوں گنگ وخاموش ،یہ کیا ارسال پر تو یہ جوش وخروش اور س ّ
مقتضائے حیا ودیانت ہے۔
ص )۴۰۱ (ف :۱معیارالحق
جواب سوم :حدیث مذکور کے اصال ً کسی طریق میں نہیں کہ حضور پُرنور
سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے بعد غروب شفق ابیض نماز مغرب
پڑھی نہ ہرگز ہرگز کسی روایت میں آیا کہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے بعدازسفر وقت حقیق ًۃ قضا کرکے دوسری نماز کے وقت میں پڑھنے
کو فرمایا۔ ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا مذہب یہ ہے کہ وقت مغرب شفق
احمر تک ہے
الدارقطنی عن ابن عمر ،رفعہ ،والصحیح وقفہ ،افادہ البیھقی والنووی ،انہ قال:الشفق الحمرۃ۔
دارقطنی نے ابن عمر سے مرفوعا ً روایت کی ہے ،لیکن صحیح یہ ہے کہ یہ
موقوف ہے ،جیسا کہ بہیقی اور نووی نے افادہ کیا ہے کہ ابن عمر نے کہا ہے کہ
سرخی کو کہتے ہیں۔ (ت) شفق ُ
اور ہمارے نزدیک شفق ابیض تک ہے ھو الصحیح روایۃ والرجیح درایۃ وقضیۃ
الدلیل فعلیہ التعویل
(یہی روای ًۃ صحیح ہے ،اسی کو درای ًۃ ترجیح ہے اور دلیل کا تقاضا بھی یہی ہے
اس لئے اسی پر اعتماد ہے۔ ت) ہمارا مذہب اجاّل ئے صحابہ مثل افضل الخلق
م المومنین صدّیقہ وامام العلماء معاذبن جبل وسید القرأ بعدالرسل صدیق اکبر وا ُ ّ
اُبی بّن کعب وسید الحفّاظ ابوہریرہ وعبداللہ بن زبیر وغیرہم Zرضی اللہ تعالٰی
عنہ م واکابر تابعین مثل امام اجل محمد باقر وامیرالمومنین عمر بن عبدالعزیزZ
واجاّل ئے تبع تابعین مثل امام الشام اوزاعی وامام الفقہاء والمحدثین والصالحین
عبداللہ بن مبارک وزفر بن الہذیل وائمہ لغت مثل مبرد وثعلب وفرأ Zوبعض کبرائے
شافعیہ مثل ابوسلیمان خطابی وامام مزنی تلمیذ خاص امام شافعی وغیرہم
رحمۃ اللہ تعال ٰی علیہم سے منقول کمافی عمدۃ القاری وغنیۃ المستملی وغیرھما۔
اب اگر ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے صراح ًۃ ثابت بھی ہوکہ انہوں نے بعد
غروب ابیض مغرب پڑھی تو صاف محتمل کہ انہوں نے کسی سفر میں
شفق احمر شفق ابیض میں ِ سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو بعد
مغرب اور اُس کے بعد عشاء پڑھتے دیکھا اور اپنے اجتہاد کی بنا پر یہی سمجھا
ہوکہ حضور واال صلوات اللہ تعالٰی وسالمہ علیہ نے وقت قضا کرکے جمع فرمائی
ابن عمر سے ثابت ہوجائے کہ انہوں نے پہر رات گئے بلکہ آدھی Zرات ِ اب چاہے
ُ
ڈھلے مغرب پڑھی یہ ا ن کے اپنے مذہب پر مبنی ہوگا کہ جب وقت قضا ہوگیا تو
گھڑی اور پہر سب یکساں مگر ہم پر حجت نہ ہوسکے گا کہ ہمارے مذہب پر وہ
جمع صوری ہی تھی جسے جمع حقیقی سے اصال ً عالقہ نہ تھا یہ تقریر بحمداللہ
تعالٰی وافی Zوکافی اور مخالف کے تمام دالئل وشبہات کی دافع ونافی ہے اگر
مت ہے تو کوئی حدیث صحیح صریح ایسی الؤ جس سے صاف صاف ثابت ہوکہ ہ ّ
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے حقیق ًۃ شفق ابیض گزار کر وقت
اجتماعی عشاء میں مغرب پڑھی یا اس طور پڑھنے کا حکم فرمایا مگر بحول
اللہ تعالٰی قیامت تک کوئی حدیث ایسی نہ دکھاسکوگے بلکہ احادیث صحیحہ
صریحہ جن میں حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کا جمع فرمانا اور اس
کا حکم دینا آیا وہ صراح ًۃ ہمارے موافق اور جمع صوری میں ناطق ہیں جن کا
بیان واضح ہ وچکا پھر ہم پر کیا جبر ہے کہ ایسی احتمالی باتوں مذبذب خیالوں پر
عمل کریں اور اُن کے سبب نمازوں کی تعیین وتخصیص اوقات کہ نصوص قاطعہ
واجماع امت سے ثابت ہے چھوڑ دیں۔ ھکذا Zینبغی التحقیق والل ّٰہ
ِ قرآن وحدیث
تعالٰی اعلم۔
حدیث انس رضی اللہ تعالٰی عنہ مروی بطریق ع ُقیل بن خالد عن ابن شھاب عن
وقت عصر تک تاخیر فرماتے، ِ انس جس کے ایک لفظ میں ہے کہ ظہر کو
الشیخان وابوداود والنسائی ،حدثنا قتیبۃ ،زاد ابوداؤد وابن موھب المعنی ،قاالنا المفضل ح والبخاری
وحدہ ،حدثنا حسان الواسطی ،وھذا لفظہ ،ثنا المفضل بن فضالۃ عن عقیل عن ابن شھاب عن انس
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
بن مالک ،قال :کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ،اذا ارتحل قبل ان تزیغ الشمس ،اخر الظھر
الی وقت العصر ،ثم یجمع بینھما ،واذا زاغت الشمس قبل ان یرتحل،صلی الظھر ثم رکب ؎۱۔
بخاری ،مسلم ،ابوداؤد اور نسائی کہتے ہیں کہ حدیث بیان کی ہم سے قتیبہ نے
ابوداؤد Zنے اضافہ کیا ہے ''اور ابن موہب المعنی نے'' دونوں مفضل سے روایت
کرتے ہیں۔ یہی روایت بخاری نے بواسطہ حسان واسطی Zتنہا بھی کی ہے ،اور
آئندہ الفاظ اسی کے ہیں۔ حدیث بیان کی ہم سے مفضل نے عقیل سے ،اس نے
ابن شہاب سے ،اس نے انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول اللہ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اگر زوال سے پہلے روانہ ہوجاتے تھے تو ظہر کو عصر
تک مؤخر کردیتے تھے ،پھر دونوں کو اکٹھا پڑھ لیتے تھے قتیبہ کے الفاظ یوں
ہیں'' :پھر ا ُترتے تھے اور دونوں کو اکٹھا پڑھتے تھے'' او ر اگر زوال ہوجاتا تھا
قتیبہ کے الفاظ یوں ہیں'' :اور اگر روانگی سے پہلے زوال ہوجاتا تھا'' تو ظہر پڑھ
کے سوار ہوتے تھے۔ (ت)
۱/ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب یؤخر الظہر الی العصر ( ؎۱صحیح البخاری
)۱۵۰
دُوسرے لفظ میں ہے ظہر کو مؤخر فرماتے یہاں تک کہ عصر کا اوّل وقت داخل
ہوتا پھر جمع کرتے۔
صحیح مسلم میں ہے ،حدثنی عمروالناقد نا شبابۃ بن سوار المدائنی نالیث بن سعد عن عقیل،
فذکرہ ،وفیہ :اخر الظھر حتی یدخل اول وقت العصر ،ثم یجمع بینھما ؎۲۔
حدیث بیان کی ہم سے عمرو الناقد نے شبابہ سے ،اس نے لیث سے ،اس نے
سعد سے ،اس نے عقیل سے ،اس کے بعد روایت ذکر کی ،اس میں ہے کہ ظہر
کو مؤخر کرتے یہاں تک کہ عصر کا ابتدائی وقت داخل ہوجاتا ،پھر دونوں کو جمع
کرلیتے۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب جواز الجمع بین الصالتین ( ؎۲صحیح لمسلم
)۱/۲۴۵
تیسرے لفظ میں یہ لفظ زائد ہے کہ مغرب کو تاخیر کرتے یہاں تک کہ شفق
ڈوبنے کے وقت اُسے اور عشا کو مالتے یا اُنہیں جمع فرماتے کہ شفق ڈوب
جاتی۔
صحیح مسلم میں ہے ،حدثنی ابوالطاھر 5وعمروبن السواد قاالنا ابن وھب ثنی جابر بن اسماعیل عن
عقیل ،وفیہ :یؤخر المغرب حتی یجمع بینھا وبین العشاء حین یغیب الشفق ؎۱۔ ورواہ النسائی ،قال:
ٰ ّ
اخبرنی عمروبن سواد بن االسود بن عمرو ،وابوداود مختصرا ،قال :حدثنا سلیمن بن داود المھری
کالھما عن ابن وھب ،بہ ،ورواہ الطحاوی حدثنا یونس ،قال:انا ابن وھب ،وفیہ ،حتی یغیب الشفق ؎۲۔
حدیث بیان کی مجھ سے ابوالطاہر اور عمروبن سواد نے ابن وہب سے ،اس نے
جابر سے ،اس نے عقیل سے۔ اس میں ہے کہ مغرب کو مؤخر کرتے تھے یہاں تک
کہ اس کو اور عشاء کو جمع کرلیتے جب شفق غائب ہوتی تھی۔ اس روایت کو
نسائی نے بھی بواسطہ عمرو ابن سواد ابن اسود ابن عمر ،اور ابوداود نے بھی
مختصرا ً بواسطہ سلیمان ابن داود Zالمہری بیان کیا ہے (عمرو اور سلیمان) دونوں
نے یہ روایت ابن وہب سے لی ہے۔ اور طحاوی نے اس کو بواسطہ یونس ،ابن
وہب سے لیا ہے۔ اس میں ہے ''یہاں تک کہ شفق غائب ہوجاتی تھی''۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب جواز الجمع بین الصالتین( ؎۱الصحیح لمسلم
۱/۲۴۵
)۱/۱۱۳ شرح معانی اآلثار سنن ابی داؤد ۱/۱۷۲
مطبوعہ نور ( ؎۲سنن النسائی الوقت الذی یجمع فیہ المسافر بین المغرب والعشاء
محمد کارخانہ تجارت کتب
کراچی )۱/۹۹
غیبت شفق کے جوابات شافعیہ تو بحمداللہ اوپر گزرے ماّل جی کو بڑا ناز یہاں ان
ِ
ُ
لفظوں پر ہے کہ ظہر کو وقت عصر تک مؤخر فرماکر جمع کرتے اس پر حتی
کے معنی میں الطائل س نحو یت بگھار کر فرما تے ہیں ف ۱پس مطلب یہ ہواکہ
تاخیر ظہر کی اس حد تک کرتے کہ منتہ تاخیر کا اول وقت عصر کا ہوتا یعنی
ابھی تک ظہر نہ پڑھتے کہ عصر کا وقت آجاتا ان معنی سے کسی کو انکار نہیں
مگر محرفین للنصوص کو اوّل وقت عصر کا منتہی تاخیر کا ہے نہ نماز ظہر کا
اگر ظہر کا ہوتو ثم یجمع بینہما کے کچھ معنی نہیں بنتے کہ بعد ہوچکنے ظہر کے
اول وقت عصر تک پھر جمع کرنا ساتھ عصر کے کس طرح ہو اھ ملخصا مہذبا۔
ا ِن لن ترانیوں کا جواب تو بہت واضح ہے عصر یا وقت عصر یا اول وقت عصر یا
دخول وقت عصر تک ظہر کو مؤخر کرنے کے جس طرح یہ معنے ممکن کہ ظہر
نہ پڑھی یہاں تک کہ وقت عصر داخل ہوا یونہی یہ بھی متصور کہ ظہر میں اس
وقت عصر آگیا خود علمائے شافعیہ ِ قدر تاخیر فرمائی کہ اس کے ختم ہوتے ہی
ان معنی کو تسلیم کرتے ہیں صحیح بخاری شریف میں فرمایا :باب تاخیر الظھر
الی العصر ؎۳امام عسقالنی شافعی نے فتح الباری پھر قسطالنی شافعی نے
ارشاد الساری میں اس کی شرح فرمائی:
ٰ
باب تاخیر الظھر ال ی اول وقت العصر ،بحیث انہ اذافرغ منھا یدخل وقت تالیھا ،الانہ یجمع بینھما فی
وقت واحد ؎۴۔ باب ،ظہر کی تاخیر عصر کے ابتدائی وقت تک کہ جب ظہر سے
فارغ ہو ،عصر کا وقت داخل ہوجائے ،نہ یہ کہ ایک ہی وقت میں دونوں کو جمع
کرے۔ (ت)
۱/ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب تاخیر الظھر الی العصر( ؎۳صحیح البخاری
)۷۷
)۱/۴۹۱ باب تاخیر الظھر الی العصر دارالکتاب العربیۃ بیروت ( ؎۴ارشاد الساری
(ف ۱معیارالحق ص)۳۷۸ ،۳۷۷
حافظ الشان کے لفظ یہ ہیں :المراد انہ عند فراغہ منھا دخل وقت العصر ،کماسیاتی عن ابی
الشعثاء ؎۱الخ۔ مراد یہ ہے کہ ظہر سے فارغ ہوتے ہی عصر کا وقت داخل ہوگیا،
جیسا کہ عنقریب ابوالشعثاء سے آرہا ہے۔ (ت)
مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت باب تاخیر الظہر الی العصر ( ؎۱فتح الباری شرح البخاری
)۲/۱۹
اور اُس سے فارغ ہوتے ہی جو عصر اپنے شروع وقت میں پڑھی جائے بدا ہ ًۃ
دونوں نمازیں مجتمع ہوجائیں گی تو اس معنے کو تحریف یا جمع بینہما کے
مخالف کہنا صریح جہالت ہے۔
اقول وباللہ التوفیق تحقیق مقام یہ ہے کہ یؤخر الظھر میں ظہر سے صال ِۃ ظہر
مراد ہ ونا تو بدیہی نماز ہی قابل تاخیر وتعجیل ہے نہ وقت جس کی تاخیر وتعجیل
مقدورات عباد میں نہیں اور صالۃ ظہر حقیق ًۃ تکبیر تحریمہ سے سالم تک مجموع
افعا ل کا نام ہے نہ ہر فعل یا آغاز نماز کا کہ جزء نماز ہے اور ایسے حقائق میں
جز شے شے نہیں جو اسم کسی مرکب مجموع اجزائے متعاقبہ فی الوجود کے
مقابل موضوع ہو بنظرِ حقیقت اُس کا صدق جزء آخر کے ساتھ ہوگا نہ اُس سے
پہلے مثال ً مکان اس مجموع جدران وسقف وغیرہا کا نام ہے تو جب نیو بھری گئی
یا پہلی اینٹ چنائی کی رکھی گئی مکان نہ کہیں گے پس قبل فراغ حقیقت صالۃ
جسی شرع مطہر نماز گنے اور معتبر رکھے متحقق نہیں تو بحکم حقیقت انتہائے
تاخیر نماز عین وقت فراغ Zپر ہے نہ وقت تکبیر کہ ہنوز زمانہ عدم صدق اسم
وقت عصر پر ِ باقی ہے اب حدیث کے الفاظ دیکھیے تاخیر نماز کی انتہا ابتدائے
بتائی گئی ہے اور اُس کی انتہا فراغ Zپر تھی تو ثابت ہوا کہ ظہر سے فراغ وقت
ظہر کے جزء اخیر میں ہوا یہی بعین ٖہ ہمارا مقصود ہے اگر معنے وہ لیے جائیں جو
ماّل جی بتاتے ہیں کہ اول وقت عصر میں نماز ظہر شروع کی تو تاخیر ظہر اول
وقت عصر پر منتہی نہ ہوئی بلکہ اوسط وقت عصر تک رہی یہ خالف ارشاد
حدیث ہے تو بلحاظ حقیقت شرعیہ معنی حدیث وہی ہیں جنہیں ماّل جی تحریہ
نصوص بتارہے ہیں ہاں مجازا ً آغاز نماز پر بھی اسم نماز اطالق Zکرتے ہیں تو
ہمارے اورر ماّل جی کے معنی میں وہی فرق ہے جو حقیقت ومجاز میں۔ بحمداللہ
اس بیان جلی البرہان سے واضح ہوگیا کہ ماّل جی کا منتہائے تاخیر ومنتہائے نماز
ظہر میں تفرقہ پر حکم کرنا جہالت تھا ماّل جی نے اتنا سچ کہا کہ منتہے تاخیر کا
اول وقت عصر کا ہوتا آگے جو یہ حاشیہ چڑھایا کہ یعنی ابھی تک ظہر نہ پڑھتے
کہ وقت عصر آجاتا نرا ادعائے بے دلیل ہے طرفہ یہ کہ خود بھی حضرت نے اُنہیں
لفظوں سے تعبیر کی جن میں دونوں معنی محتمل مگر عقل ووہابیت تو باہم
اقصی طرفین نقیض پر ہیں وللہ الحمد۔
ثم اقول وبحول الل ّٰہ اصول (پھر میں کہتا ہوں اور اللہ تعالٰی ہی کی طاقت سے
وقت عصر تک تاخیر درکنار اگر صاف یہ لفظ آتے کہ ِ جرح کرتا ہوں) ظہر کی
ظہر اول وقت عصر میں پڑھی مدعائے مخالف میں نص نہ تھی ظہرین وعشائین
وقت اول واول وقت آخر آن واحد فصل مشترک بین الزمانین ہے اور ِ میں آخر
صالۃ بمعنے ابتدائے صالۃ اور فراغ Zعن الصلٰوۃ دونوں مستعمل تو بحکم مقدمہ
اولٰی جس نماز کے فراغ Zپر اُس کا وقت ختم ہوجائے اُسے جس طرح یوں کہہ
سکتے ہیں کہ اپنے وقت کے جز اءخیر میں تمام ہوئی یونہی یہ بھی کہ وقت آئندہ
کے جز ء اول میں اُس سے فراغ ہوا اور بحکم مقدمہ ثانیہ تعبیر ثانی کو ان
لفظوں سے بھی ادا کرسکتے ہیں کہ نماز وقت آئندہ میں پڑھی کہ نماز پڑھنا
فراغ عن الصالۃ تھا اور فراغ عن الصالۃ آخر وقت میں ہوا اور آخر وقت ماضی
اول وقت آتی ہے ولہذا ساتوں احادیث مذکورہ امامت جبریل وسوال سائل میں ِ
جب کہ بظاہر عصر ماضی وظہر حال دونوں ایک وقت پڑھنا نکلتا تھا بلکہ حدیث
امامت عندالترمذی Zوحدیث سائل عندابی داؤد میں صاف تصریح تھی کہ آج کی
ظہر کل کی عصر کے وقت پڑھی خود امام شافعی وجمہور علمائے کرام رحمہم
اللہ تعالٰی نے ان میں صالۃ عصر دیروزہ کو ابتدائے نماز اور صالۃ ظہر امروزہ کو
فراغ نماز پر حمل کیا یعنی ایک مثل سایہ پر کل کی عصر شروع فرمائی تھی
اور آج کی ظہر ختم ،اسی کو یوں تعبیر فرمایاگیا کہ ظہر امروزہ عصر دیروزہ
کے وقت میں پڑھی امام اجل ابوزکریا نووی شافعی رحمہ اللہ تعالٰی شرح
صحیح مسلم شریف میں زیرحدیث
اذاصلیتم الظھر فانہ وقت الی ان یحضر العصر (جب تم ظہر کی نماز پڑھنا ہوتو عصر تک
سارا وقت ظہر ہی کا ہے۔ ت) فرماتے ہیں :احتج الشافعی واالکثرون بظاھر الحدیث الذی
نحن فیہ ،واجابوا عن حدیث جبریل علیہ السالم ،بان معناہ فرغ من الظھر حین صارظل کل شیئ
مثلہ ،وشرع فی العصر فی الیوم االول حین صار ظل کل شیئ مثلہ فال اشتراک بینھما ؎۱۔
امام شافعی اور اکثر علمانے اسی حدیث کے ظاہر سے استدالل کیا ہے جس
میں ہم گفتگو کررہے ہیں اور جبریل علیہ السالم کی حدیث سے یہ جواب دیا ہے
کہ پہلے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا تو اس وقت ظہر کی نماز
سے فارغ ہوگئے تھے اور دوسرے دن جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہُوا تھا تو
اس وقت عصر کی نماز شروع کی تھی۔ اس طرح دونوں کا (ایک ہی وقت میں)
اشتراک نہیں پایا جاتا۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی کتب باب اوقات صلوات الخمس ( ؎۱شرح الصحیح Zلمسلم مع مسلم
خانہ کراچی )۱/۲۲۲
ٰ
مرقات شرح مشکوۃ میں ہے :فی روایۃ ،حین کان ظل کل شیئ مثلہ ،کوقت العصر باالمس۔ ای فرغ
حینئذ قال الشافعی :وبہ نندفع اشتراکھا فی وقت
ٍ من الظھر ح ،کماشرع فی العصر فی الیوم االول ح
واحد ؎۱۔
ایک روایت میں ہے کہ جب ہر چیز کا سایہ اس کے برابر ہوگیا تھا ،جیسا کہ
گزشتہ کل اسی وقت عصر کے وقت تھا۔ یعنی آج اُسی وقت ظہر سے فارغ ہوئے
تھے جیسا کہ گزشتہ کل اسی وقت عصر میں شروع ہوئے تھے امام شافعی نے
کہا کہ اسی سے ایک وقت میں ان کے اشتراک Zکا احتمال ختم ہوجاتا ہے۔ (ت)۔
)۲/۱۲۴ مکتبہ امدادیہ ملتان الفصل الثانی من باب المواقیت ( ؎۱مرقات المفاتیح
ثم اقول ہاں میں علما سے کیوں نقل کروں خود ماّل جی اپنے ہی لکھے کو نہ
روئیں
اقرء کتابک کفی بنفسک الیوم علیک شھیدا ؎۲
عــہ۔ (پڑھو اپنی کتاب کو ،آج تم خود ہی اپنے آپ پر شہید کافی ہو۔ ت
)۱۷/۱۴ ( ؎۲القرآن
عــہ اقتباس ومناسب المقام ھھنا الشھادۃ ال الحساب ۱۲منہ (م)
ً ً
قرآن کریم سے اقتباس ہے اور مقام کے مناسب یہاں پر شہادت ہے نہ کہ حساب (اس لئے حسیبا کی جگہ شھیدا
الیاگیا ہے) (ت)
پیش نظر تھا پاؤں تلے کی سوجھی ِ وقت ظہر میں جو ایک مثل کا اثبات
ِ مسئلہ
آگا پیچھا بے سوچے سمجھے صاف صاف انہیں معنی کا اقرار Zکرگئے یہ کیا خبر
تھی کہ دو ۲قدم چل کر یہ اقرار جان کا آزار ہوجائے گا حدیث سائل بروایت
نسائی عن جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ نقل کرکے فرماتے ہیں ف( :)۱معنی اس
کے یہ ہیں کہ پہلے دن عصر جب پڑھی کہ سایہ ایک مثل آگیا اور دوسرے دن ظہر
سے ایک مثل پر فارغ ہوئے یہ معنی نہیں کہ ظہر پڑھنی شروع کی دُوسرے دن
اُسی وقت میں جس میں پہلے دن عصر پڑھی تھی اھ ملخصا۔
ص)۳۱۶ مکتبہ نذیریہ الہور (ف ۱معیارالحق مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ
ماّل جی ! جب صالۃ بمعنی فراغ Zعن الصالۃ آپ خود لے رہے ہیں تو آخر
کیوں ُ
الظہر کے معنی آخر الفراغ عن الظہر لینا کیوں تحریف نصوص ہوگیا ،ہاں اس کا
عالج نہیں کہ شریعت تمہارے گھر کی ہے اپنے لئے تحریف تبدیل انکار تکذیب جو
چاہو حالل کرلو۔ مزہ یہ ہے کہ فقط اسی پر قناعت نہ کی الج کا بھال ہو حدیث
امامت جبریل عن ابن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہما بھی نقل کی اور ابو داؤد کے
لفظ چھوڑ کر خاص ترمذی ہی کی روایت لی جس میں صاف نقل کیا کہ ظہر
امروزہ عصر دیروزہ کے وقت میں پڑھی اور بکمال خوش طالعی اسے بھی لکھ
ف( )۲دیا کہ معنے اس کے بھی وہی ہیں جو حدیث نسائی کے بیان کیے گئے
یعنی پہلے دن عصر شروع کی ایک مثل پر اور دوسرے دن فارغ ہوئے ظہر سے
ایک مثل پر۔
ص )۳۲۱ (ف ۲معیارالحق
ماّل جی! جب ایک نماز دوسری کے وقت میں پڑھنا ان صریح لفظوں کے بھی خود ُ
یہ معنی لے رہے ہو کہ نماز پڑھی تو اپنے وقت میں مگر اس سے فراغ دوسری
منہ سے یہ حدیثیں اثبات جمع میں پیش کرتےکے ابتدائے وقت پر ہوا تو اَب کس ُ
اور انہ یں نص صریح ناقابل تاویل بتاتے ہو ان میں تصریح دکھا بھی نہ سکے جو
صاف صاف اس حدیث ترمذی میں تھی جب اس کے یہ معنی بنارہے ہو ان کے
بدرجہ اولٰی بنیں گے اور اول تا آخر تمہارے سب دعویقل موتوا بغیظکم ُ
سنیں
گے ا نصاف ہو تو ایک یہی حرف تمہاری ساری محنت کو پہلی منزل پہنچانے کے
لئے بس ہے وللہ الحمد یہ کالم تو ماّل جی کی جہالتوں سے متعلق تھا اب مثل
حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما اس حدیث کے بھی جواب بعون الوہاب
اُسی طرز صواب پر لیجئے وباللہ التوفیق۔
جواب اول :دخول عصر سے قرب عصر مراد ہے جس کی اکیس مثالیں آیات
واحادیث سے گزریں خصوصا حدیث ہشتم میں ہم نے روایت صحیحہ صحیح
مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی سے روشن ثبوت دیا کہ دوسرے وقت تک
تاخیر درکنار ایک نماز اپنے آخر وقت میں دوسرے وقت کے قریب پڑھنے کو کہا
یہاں تک کہا جاتا ہے کہ دوسری نماز کے وقت میں پڑھی
ہّٰلل ٰ
الی ھذا الجواب اشار االمام الطحاوی رحمہ ا تعالی ،حیث قال :قدیحتمل ان یکون قولہ :الی اول
وقت العصر ،الی قرب اول وقت العصر ؎۱۔
اسی جواب کی طرف امام طحاوی نے اشارہ کیا ہے انہوں نے کہا ہے کہ اول
وقت عصر سے مراد اول وقت عصر کا قریب ہونا ہے۔ (ت)
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی باب الجمع بین الصالتین الخ ( ؎۱شرح معانی اآلثار
کراچی )۱/۱۱۳
جواب ثانی ،اقول وقت ظہر دو مثل سمجھو خواہ ایک اُس کی حقیقت واقعیہ کا
ادراک طاقت بشری سے خارج ہے آسمان بھی صاف ہو زمین بھی ہموار تاہم
پیمائش اقدام Zیا کوئی چیز زمین میں کھڑی کرکے ناپنا تو ہرگز غایت تخمین
مقدور تک بھی بالغ نہیں نہایت تصحیح عمل امثال دائرہ ہندیہ ہے وہ بھی حقیقت
امر ہرگز نہیں بتاسکتا۔
سطح دائرۃ االفق سے اُس کی پوری ِ صحت سطح کا اسطوا
ِ اوال دائرے کی
سطح دائرہ نصف النہار سے ذرہ بھر مائل نہ ہونا مدخل ِ موازات مقیاس کا
ومخرج کے نقاط نامتجزیہ کی صحیح تعیین قوس محصورہ کی ٹھیک تنصیف پھر
ظل کا خط نامتجزی پر واقعی Zانطباق پھر اُس کی حقیقی مقدار پھر اس پر مثل
یا مثلین کی بے کمی بیشی زیادت ان میں سے کسی پر جزم متیسر نہیں۔
ثانیا بفرض محال عادی یہ سب حق حقیقت پر صحیح بھی ہوجائیں تاہم خط
نصف النہار کا سطح عظیمہ نصف النہار میں ہونا معلوم نہیں بلکہ نہ ہونا ثابت
تقاطع معدّل ومنطقہ اپنی سیر خاص سے لمحہ بھر ِ ومعلوم ہے کہ شمس بوجہ
بھی ایک مدار پر نہیں رہتا تو منتصف مابین المدخل والمخرج ہمیشہ خط نصف
النہار سے شرقی یا غربی ہے مگر جبکہ دائرۃ الزوال Zپر مرکز نیّر کا انطباق اور
آن واحد میں ہو اور وہ نہایت نادر ہے۔
احد االنقالبین میں حلول ِ
ثالثا اس نادر کو بھی فرض کرلیجئے تاہم علم کی طرف اصال سبیل نہیں کہ
حلول انقالب یا وصول دائرہ جاننے کے طرق جوزیجات میں موضوع ہیں سب ِ
ظنی وتخمینی ہیں کسی کو کب کی تقویم حقیقی معلوم کرنا نہ حساب کا کام
ہے نہ ارصاد کا ،جداول جیوب وظالل ومیول واوساط وتعاویل مراکز ومواضع
اوجات وتفاوت ایام حقیقیہ ووسطیہ وفصل مابین المرکزین وعروض Zواطوال بالد
درج واجزائے استوائیہ وطوالع ومطالع بلدیہ وغیرہا امور کہ اس ادراک کے ذرائع
اثبات زیجات برفع واسقاطِ ہیں سب فی انفسہا محض تخمین ہیں اور اس پر
حصص کسرات تخمین باالئے تخمین ،پاکی ہے اسے جس نے بہر نقیر وقطمیر ِ
میں عجز وجہل بشرکو طاہر کیا اور ذرہ ذرہ عالم سے اپنے کمال علم وقدرت کو
جلوہ دیا،
حنک العلم لنا االماعلّمتنا انک انت العلیم الحکیم ؎۱۔
سب ٰ
تُو پاک ہے ہمیں علم نہیں مگر جتنے کی تُونے تعلیم دی ہے تُو ہی علیم حکیم ہے۔
(ت)
)۲/۳۲ ( ؎۱القرآن
ولہذا ملتقی وقتین سے کچھ پہلے اور کچھ بعد تک عامہ خلق کے نزدیک وقت
حالت
ِ مشکوک ہے اسی کو وقت بین الوقتین کہتے ہ یں اس میں نظرِ ناظر کبھی
دخول وقت آخر گمان کرتی ہے
ِ وقت اول کبھی
ِ شک میں رہتی ہے کبھی بقائے
صاحب وحی خصوصا ً
ِ اور واقع وہ ہے جو رب العزۃ جل وعال کے علم میں ہے
ٰ
عالم علوم االولین واآلخرین صلی اہلل تعالی علیہ وسلم جب بحکم نبأنی العلیم الخبیر (آگاہ کیا ہے
مجھے علم والے اور خبر والے نے۔ ت) عین وقت حقیقی پر مطلع ہوکر نمازِ ظہر
ایسے اخیر وقت میں ادا فرمائے اور سالم پھیرتے ہی معا ً وقت عصر کی ابتدائے
حقیقی جو خاص علم ِ ال ٰہی میں تھی شروع ہوجائے اور دیگر ناظرین کو وحی
سے بہرہ نہیں رکھتے برا ِہ اشتباہ اسے وقت آخر میں گمان کریں اصال محل تعجب
نہیں نہ معاذاللہ اس میں بعض صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی کسرِ شان
کہ علوم ِ خاصہ محمد رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حضور کا شریک
نہ ہونا کچھ منافِی صحابیت نہیں بلکہ واجب والزم ہے فقیر غفرلہ المولی القدیر
احادیث کثیرہ سے خاص اس جزئیہ کی نظیریں پیش کرسکتا ہے کہ حضورِ اقدس
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ایسے وقت نمازیں پڑھیں یا سحری تناول فرمائی
حذاق
ِ خروج وقت کا گمان گزرتا بلکہ اجلہ
ِ کہ ناظرین کو بقائے وقت میں شک یا
صحابہ کی تمیز ومعرفت میں دیگر ناظرین شریک نہ ہُوئے علم محمدی تو علم
محمدی ہے صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ،مثالً:
سنن ابی داؤد وسنن نسائی ومسندحدیث : ۱حدیث سائل کہ صحیح مسلم و ُ
سی اشعری
امام احمد وحجج امام ابن ابان ومصنّف طحاوی میں سیدنا ابومو ٰ
رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروی اُس میں ظہر روزِ اوّل کی نسبت مسلم ونسائی
کی روایت یوں ہے:
اقام بالظھر حین زالت الشمس ،والقائل یقول :قدانتصف النھار ،وھوکاناعلم منہم ؎۱۔ سورج
ڈھلتے ہی ظہر کی اقامت کہی اس حال میں کہ کہنے واال کہے ٹھیک دوپہر ہے اور
حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُن سے زیادہ جانتے تھے۔
۱/ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب اوقات صلوات الخمس ( ؎۱الصحیح لمسلم
)۲۲۳
ابوداؤد کے یہ لفظ ہیں :حتی قال القائل :انتصف النھار ،وھو اعلم ؎۲۔ یہاں تک کہ کہنے والے
نے کہا دوپہر ہوا اور حضور کو حقیقت امر کی خُوب خبر تھی۔
)۱/۵۷ مطبوعہ مجتبائی الہور ،پاکستان باب المواقیت ( ؎۲سنن ابی داؤد
سی Zوطحاوی کے لفظ یوں ہیں :والقائل یقول :انتصف النھار اولم ،وکان اعلم
احمد وعے ٰ
منھم ؎۳۔ کہنے واال کہتا دوپہر ہے یا ابھی دوپہر بھی نہ ہوا اور حضور کے علم سے
اُن کے علموں کو کیا نسبت تھی۔
۱/ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب مواقیت الصلوات ( ؎۳شرح معانی اآلثار
)۱۰۳
حدیث ۲صحیح بخاری وصحیح مسلم وسنن ابی داؤد وسنن نسائی وکتاب طحاوی
میں پارہئ حدیث سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ دربارہئ انکار
جمع بین الصالتین کہ عنقریب اِن شاء اللہ القریب المجیب مذکور ہوگی یہ ہے:
صلی الفجر یومئذ قبل میقاتھا ؎۴۔ صبح کی نماز اس کے وقت سے پہلے پڑھی (ت)
۱/ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب متی یصلی الفجر بجمع ( ؎۴صحیح البخاری
)۲۲۸
ابوداؤد Zکے لفظ یوں ہیں :صلی صالۃ الصبح من الغد قبل وقتھا ؎۵۔ دسویں ذوالحجہ کو
مزدلفہ میں فجر کی نماز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وقت سے پہلے پڑھی۔
(ت)
)۱/۲۶۷ مطبوعہ مجتبائی الہور باب الصلٰوۃ بجمع ( ؎۵سنن ابی داؤد
طحاوی کی روایت یوں ہے :صلی الفجر یومئذ لغیر میقاتھا ؎۶یعنی حضور اقدس صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے ذی الحجہ کی دسویں تارےخ مزدلفہ میں صبح کی نماز
اُس کے وقت سے پہلے پڑھی بے وقت پڑھی۔
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب الجمع بین الصالتین ( ؎۶شرح معانی اآلثار
)۱/۱۱۳
امام بدر عینی عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں :قولہ قبل میقاتھا،
ّ ہّٰلل ٰ
بان قدم علی وقت ظھورطلوع الصبح للعامۃ ،وقد ظھر لہ صلی ا تعالی علیہ وسلم طلوعہِ ،اما
بالوحی اوبغیرہ ؎۱۔ یعنی قبل وقت پڑھنے کے یہ معنی ہیں کہ اور لوگوں پر صبح
کاطلوع کرنا ظاہر نہ ہوا تھا حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو وحی
وغیرہ سے معلوم ہوگیا۔
مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریۃ باب صالۃ الفجر بالمزدلفۃ ( ؎۱عمدۃ القاری شرح بخاری
بیروت )۱۰/۲۰
حدیث ۳صحیح بخاری شریف میں عبدالرحمن بن زید نخعی سے خود حضرت
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی نسبت ہے :ثم صلی الفجر حین طلع الفجر،
ہّٰلل
قائل یقول :طلع الفجر ،وقائل یقول :لم یطلع الفجر ،واولہ ،قال :خرجنا مع عبدا الی مکۃ ،ثم قدمنا
جمعا الحدیث ؎۲۔ یعنی ہم حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کے ساتھ حج کو
چلے مزدلفہ پہنچے وہاں حضرت عبداللہ نے نمازِ فجرطلوع فجر ہوتے ہی پڑھی
کوئی کہتا فجر ہوگئی ہے کوئی کہتا ابھی نہیں۔
۱ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب متی یصلی الفجر بجمع ( ؎۲صحیح البخاری
)/۲۲۸
ہّٰلل
حدیث ۴امام ابوجعفر طحاوی انہیں عبدالرحمن نخعی سے راوی :قال صلی عبدا
باصحابہ صالۃ المغرب ،فقام اصحابہ یتراء ون الشمس ،فقال :ماتنظرون؟ 5قالوا :ننظر اغابت
ٰ اّل ہّٰلل ہّٰلل
الشمس! فقال عبدا :ھذا ،وا الذی الالہ ا ھو ،وقت ھذہ الصالۃ الحدیث ؎۳۔
یعنی عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے اصحاب کو نمازِ مغرب پڑھائی اُن کے
اصحاب اُٹھ کر سورج دیکھنے لگے ،فرمایا :کیا دیکھتے ہو؟ عرض کی :یہ دیکھتے
چا معبود
س ورج ڈوبا یا نہیں! فرمایا :قسم اللہ کی جس کے سوا کوئی س ّ ہیں کہ ُ
نہیں کہ یہ عین وقت اس نماز کا ہے۔
نماز سے فارغ ہوکر ًبھی اُن کے اصحاب کو شبہہ تھا کہ سورج اب بھی غروب ہوا
یا نہیں فان صلی حقیقۃ فی الفعل دون االرادۃ والفاء للتعقیب (کیونکہ صلّٰی کا حقیقی
معنی نماز پڑھنا ہے نہ کہ ارادہ کرنا اور فاء تعقیب کےلئے ہے۔ ت)
۱/۱ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی باب مواقیت الصلٰوۃ ( ؎۳شرح معانی اآلثار
)۰۷
حدیث :۵بخاری مسلم ترمذی نسائی ابن ماجہ طحاوی بطریق انس رضی اللہ
تعالٰی عنہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ سے راوی :قال :تسحرنا مع رسول
ٰ ّ ہّٰلل ٰ ہّٰلل
صلی ا تعالی علیہ وسلم ،ثم قمنا الی الصالۃ ،قلت :کم کان قدرما بینھما؟ قال :خمسین ایۃ
؎۱۔ ہم نے حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی پھر
نمازِ فجر کے لئے کھڑے ہوگئے میں نے پُوچھا بیچ میں کتنا فاصلہ دیا ،کہا پچاس
آیتیں پڑھنے کا۔
)۱/۸۱ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب وقت الفجر ( ؎۱صحیح البخاری
بطریق قتادہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالٰی عنہ ونسائی ہّٰلل ٰ
حدیث :۶بخاری ہّٰلل
سے راوی :ان نبی ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ،وزید بن ثابت تسحرا ،فلما فرغا من سحورھما
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
قام نبی ا صلی ا تعالی علیہ وسلم الی الصالۃ فصلی 5،قلت النس :کم کان بین فراغھما من
ٰ
سحورھما ودخولھما فی الصالۃ؟ قال :قدر مایقرء الرجل خمسین ایۃ ؎۲۔ یعنی نبی صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم وزید بن ثابت رضی اللہ تعالٰی عنہ نے سحری تناول فرمائی
جب کھانے سے فارغ ہوئے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نمازِ صبح
کے لئے کھڑے ہوگئے نماز پڑھ لی میں نے انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے پُوچھا
سحری سے فارغ اور نماز میں داخل ہونے میں کتنا فصل ہوا ،کہا اس قدر کہ
آدمی پچاس آیتیں پڑھ لے۔
)۱/۸۲ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی باب وقت الفجر ( ؎۲صحیح البخاری
امام طور پشتی حنفی پھر عالمہ طیبی Zشافعی پھر عالمہ علی قاری شرح
مشکوٰۃ میں اس حدیث کے نیچے فرماتے ہیں :ھذا تقدیر الیجوز لعموم المؤمنین االخذ بہ،
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ ہّٰلل ٰ ہّٰلل
وانما اخذہ رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم الطالع ا تعالی ایاہ ،وکان صلی ا تعالی علیہ
وسلم معصوما عن الخطأ فی الدین ؎۳۔
مت کو اسے اختیار کرنا جائز نہیں سیدالمرسلین صلی اللہ یہ اندازہ ہے کہ عام ا ُ ّ
تعالٰی علیہ وسلم نے اُسے اس لئے اختیار فرمایا کہ رب العزۃ جل وعال نے حضور
کو وقت حقیقی پر اطالع Zفرمائی تھی اور حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم دین میں خطا سے معصوم تھے۔
الفصل االول من باب تعجیل الصلوات ( ؎۳مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح
)۲/۱۳۳ مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان
ہّٰلل ّ
حدیث ۷نسائی وطحاوی ِزر بن حبیش سے راوی:قال :قلنا لحذیفۃ ،ای ساعۃ تسحرت مع رسول ا
ہّٰلل ٰ
صلی ا تعالی علیہ وسلم؟ قال :ھو النھار ،اال ان الشمس لم تطلع ؎۱۔ ہم نے حذیفہ رضی اللہ
تعالٰی عنہ سے پُوچھا آپ نےحضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ
کس وقت سحری کھائی تھی؟ کہا دن ہی تھا مگر یہ کہ سورج نہ چمکا تھا۔
مطبوعہ نور محمد کتب خانہ الحدث علی السحو رذکر االختالف الخ ( ؎۱سنن النسائی
کراچی )۱/۳۰۳
امام طحاوی کی روایت میں یوں صاف تر ہے :قلت :بعد الصبح؟ قال :بعد الصبح ،غیران الشمس لم
تطلع ؎۲۔ میں نے کہا بعد صبح کے ،کہا ہاں بعد صبح کے مگر آفتاب نہ نکال تھا۔
)۱/۳۷۸ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی کتاب الصیام ( ؎۲شرح معانی اآلثار
رائے فقیر میں ان روایات کا عمدہ محل یہی ہے کہ سید المرسلین صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے علم نبوت کے مطابق حقیقی منتہائے لیل پر سحری
تناول فرمائی کہ فراغ کے ساتھ ہی صبح چمک آئی حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کو
گمان ہُوا کہ سحری دن میں کھائی بعد صبح اور واقعی Zجو شخص سحری کا
پچھال نوالہ کھاکر آسمان پر نظر اُٹھائے تو صبح طالع پائے وہ سوا اس کے کیا
گمان کرسکتا ہے۔
ُ
حدیث :۸ابوداؤد نے اپنی سنن میں باب وضع کیا :باب المسافر وھو یشک فی الوقت ؎۳۔
اور اس میں انہیں انس رضی اللہ تعالٰی عنہ سے جن کی حدیث میں ہم یہاں
کالم کررہے ہیں روایت کی:
)۱/۱۷۰ مطبوعہ مجتبائی الہور باب المسافر یصلی الخ ( ؎۳سنن ابی داؤد
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
قال :کنا اذاکنا مع رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم فی السفر ،فقلنا :زالت الشمس اولم تزل،
صلی الظھر ثم ارتحل ؎۴۔ جب ہم حضور اقدس Zسید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
کے ہمراہ رکاب سفر میں ہوتے تھے ہم کہتے سورج ڈھال یا ابھی ڈھال بھی نہیں
حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم اُس وقت نمازِ ظہر پڑھ کر کُوچ
فرمادیتے۔
)۱/۱۷۰ مطبوعہ مجتبائی الہور باب المسافر یصلی الخ ( ؎۴سنن ابی داؤد
نسائی وطحاوی انہیں انس رضی اللہ حدیث :۹ابوداؤد اسی باب میںہّٰللاور نیز ہّٰلل ٰ
تعالٰی عنہ سے راوی :کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم اذانزل منزال لم یرتحل حتی
یصلی الظھر ،فقال لہ رجل :وان کان نصف النھار؟ قال :وان کان نصف النھار ؎۵۔ یعنی رسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم جب کسی منزل میں اُترتے بے ظہر پڑھے کُوچ نہ
فرماتے۔ کسی نے کہا اگرچہ دوپہر کو ،فرمایا :اگرچہ دوپہر کو
)۱/۱۷۰ مطبوعہ مجتبائی الہور باب المسافر یصلی الخ ( ؎۵سنن ابی داؤد
نسائی کے لفظ یوں ہیں :فقال رجل وان کانت بنصف النھار قال وان کانت بنصف النھار ؎۱۔ یعنی
کسی نے پوچھا اگرچہ وہ نماز دوپہر میں ہوتی فرمایا اگرچہ دوپہر میں ہوتی۔
)۱/۵۸ مطبوعہ المکتبہ سلفیہ الہور حدیث ۴۹۹ اول وقت ظہر ( ؎۱سنن النسائی
لطیفہ :۱اقول ماّل جی کو تو یہ منظور ہے کہ جہاں جےسے بنے اپنا مطلب بنائیں
یہاں تو قول انس رضی اللہ تعالٰی عنہ کو کہ وقت عصر کا آغاز ہوجاتا ایسی
تحقیق یقینی پر عمل کیا جس میں اصال ً گنجائش تاویل نہیں اور مسئلہ وقت ظہر
میں جب علمائے حنفیہ نے حدیث صحیح جلیل صحیح بخاری شریف سے استدالل
کیا کہ ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :ایک سفر میں ہم حاضر رکاب
سعادت سلطان رسالت علیہ افضل الصالۃ والتحیۃ تھے مؤذن نے ظہر کی اذان
دینی چاہ ی فرمایا وقت ٹھنڈا کر ،دیر کے بعد انہوں نے پھر اذان کا قصد کیا ،پھر
فرمایا وقت ٹھنڈا کر ،ایک دیر کے بعد انہوں نے پھر ارادہ کیا ،فرمایا ٹھنڈا کر،
حتی ساوی الظل التلول (یہاں تک کہ ٹےلوں کا سایہ ان کے برابر آگیا) سید عالم
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا :ان شدۃ الحرمن فیح جھنم ( ؎۲گرمی کی شدت
جہنم کے جوش سے ہے) تو اس میں نماز ظہر ٹھنڈے وقت میں پڑھو ،ظاہر ہے
کہ ٹھیک دوپہر خصوصا ً موسم گرما میں کہ وہی زمانہ ابراد ہے ٹےلوں کا سایہ
اصال نہیں ہ وتا بہت دیر کے بعد ظاہر ہوتا ہے ،امام اجل ابوزکریا نووی شافعی
شرح مسلم شریف میں فرماتے ہیں:
التلول منبطحۃ غیر منتصبۃ ،والیصیرلھا فیئ فی العادۃ ،االبعد زوال الشمس بکثیر ؎۳۔ ٹیلے
زمین پر پھیلے ہوتے ہیں نہ بلند عاد ًۃ ان کا سایہ نہیں پڑتا مگر سورج ڈھلنے سے
بہت دیر کے بعد۔
مطبوعہ قدیمی کتب خانہ باب االبراد بالظہر فی السفر دارالمعرفۃ ( ؎۲صحیح البخاری
کراچی )۱/۷۷
مطبوعہ قدیمی باب استحباب االبراد بالظہر الخ ( ؎۳شرح الصحیح لمسلم مع مسلم
کتب خانہ کراچی )۱/۲۲۴
امام ابن اثیر جزری شافعی نہایہ میں فرماتے ہیں :ھی منبطحۃ الیظھر لھا ظل ،اال اذا
ذھب اکثر وقت الظھر ؎۴۔ ٹیلے پست ہوتے ہیں ان کے لئے سایہ ظاہر ہی نہیں ہوتا
مگر جب ظہر کا اکثر وقت جاتا رہے۔
)۲/۱۷ ( ؎۴فتح الباری شرح البخاری باب االبراد بالظہر فی السفر بیروت
ی بسیار کے باوجود نہایہ سے نہیں مل سکا اس لئے فتح الباری سے
نوٹ :یہ حوالہ سع ِ
نقل کیا ہے۔ نذیر احمد سعیدی۲
جب خود ائمہ شافعیہ کی شہادت سے ثابت اور نیز مشاہدہ وعقل وقواعد Zعلم
ظل شاہد کہ ٹیلوں کے سائے کی ابتدا زوال Zسے بہت دیر کے بعد ہوتی ہے تو
ظاہر ہے کہ سایہ ٹیلوں کے برابر اُس وقت پہنچے گا جب بلند چیزوں کا سایہ ایک
تعالی علیہ
ٰ مثل سے بہت گزر جائے گا اُس وقت تک حضور اقدس صلی اللہ
وسلم نے گرمیوں میں ظہر ٹھنڈی کرنے کاحکم فرمایا اور اس کے بعد مؤذن کو
وقت ظہر باقی رہنا ثابت ہوا ِ اجازت اذان عطا ہوئی ،تو بالشُ بہہ دوسرے مثل میں
ِ
ٰ
جیسا کہ ہمارے امام رضی اللہ تعالی عنہ کا مذہب ہے یہ دلیل ساطع بحمداللہ
حالت اضطراب میں فرماگئے کہ مساوی کہنا راوی یعنی ِ الجواب تھی یہاں ماّل جی
سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سایہ ٹیلوں کو ظاہر ہے کہ تخمینا ً اور تقریبا ً
ہے نہ باینطور کہ گزرکھ کر ناپ لیا تھا۔ کیوں حضرت سیدنا ابوذر رضی اللہ تعالٰی
عنہ نے تو گزرکھ کر نہ ناپا تھا یونہی تخمینا ً مساوات بتادی مگر انس رضی اللہ
تعال ٰی عنہ کا گز رکھ کر ناپ لینا آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا آخر دخول وقت عصر
یونہی تو معلوم ہوگا کہ سایہ اس مقدار کو پہنچ جائے اُس کا علم بے ناپے کیوں
کر ہوا بلکہ یہاں تو غالبا ً دو ناپوں کی ضرورت ہے ایک وقت نصف النہار کہ سایہ
اصلی کی مقدار ناپیں دوسری اس وقت کہ سایہ بعد ظل اصلی مقدار مطلوب
کو پہنچایا نہیں ،جب انہوں نے ایک ناپ نہ کی یونہی تخمینا ً فرمادیا انہوں نے دو۲
ناپیں کا ہے کوکی ہوں گی ،یونہی تخمینا ً فرمادیا ہوگا کہ عصر اوّل وقت داخل
ہ وگیا جیسے آپ وہاں احتمال نکاال چاہتے ہیں کہ واقع میں مساوی نہ ہوا ہوگا اور
ظہر ایک مثل کے اندر ہُوئی یہاں بھی وہی احتمال پیدا رہے گا کہ واقع میں وقت
عصر نہ آیا تھا ظہر اپنے ہی وقت پر ہُوئی یہ کیا حیا داری Zومکابرہ ہے کہ جابجا جو
باتیں خود اختیار کرتے جاؤ دُوسرا کرے تو آنکھیں دکھاؤ تحریف نصوص بتاؤ اس
تحکم کی کوئی حد ہے۔
لطیفہ :۲اقول خدا انصاف دے تو یہاں تخمینہ بھی اتنی ہی غلطی ہوگی جتنی
دیر میں ظہر کی دو ۲رکعتیں پڑھی جائیں اور حدیث ابوذر رضی اللہ تعالٰی عنہ
میں سخت فاحش غلطی ماننی پڑے گی جسے ان کی طرف بے دلیل نسبت
سوءِ ادب ہے ،خود امام شافعی کی تصریح سے واضح ہُوا کہ سایہ کردینا صراح ًۃ ُ
تلول کی ابتداء اس وقت ہوتی ہے جب بلند چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا
نصف مثل سے اکثر گزرجاتا ہے تو ظاہر ہے کہ ٹیلوں کا سایہ ابھی نصف مثل تک
بھی نہ پہنچے گا کہ اور چیزوں کا سایہ سایہ اصلی کے سوا ایک مثل سے
گزرجائے گا کہ اول تو جس طرح ظہور ظل میں تفاوت شدید ہے کہ اتنی دیر کے
بعد ان کا سایہ پیدا ہوتا ہے یونہی زیادت ظل میں فرق رہے گا بلند چیزوں کا
سایہ اپنی نسبت پر جتنی دیر میں جتنا بڑھے گا ٹیلوں کا سایہ اپنی نسبت میں
اُس سے کم بڑھے گا کماالیخفی علی العارف بقواعد الفن (جیسا کہ قواعد ِ فن کے
جاننے والے پر مخفی نہیں۔ ت)
ص )۳۵۳ مکتبہ نذیریہ الہور مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر الخ (ف معیارالحق
تو الجرم جس وقت ٹیلوں کاسایہ پیدا ہوا اور بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے
سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ سایہ اصلی کے
سوا نصف مثل سے زائد تھا اب کچھ دیر کے بعد بلندیوں کا سایہ نصف مثل سے
کم بڑھ کر ایک مثل ظل اصلی سے گزرگیا اُس وقت ٹیلوں کا سایہ اُس کم
ازنصف سے بھی کم ہوگا اور اس تحفّظ نسبت تفاوت کو نہ بھی مانئے تو خیر
کم ازنصف ہی جانئے پھر بہرحال اس سے اتنی دیر اور مجرا کیجئے جس میں
اذان کا حکم ہوا اور اُس کے بعد جماعت فرمائی گئی تو حساب سے آپ کے
طور پر اُس وقت ٹیلوں کا سایہ کوئی چہارم ہی کی قدر رہتا ہے اُسے ابوذر رضی
اللہ تعال ٰی عنہ کا فرمادینا کہ سایہ برابر ہوگیا تھا کس قدر بعید وناقابل قبول ہے،
کیا اچھا انصاف ہے کہ یا تو تخمین میں اُتنی غلطی نامسموع کہ جس میں دو۲
رکعتیں پڑھ لیجائیں یا اپنے داؤں کو یہ بھاری غلطی مقبول کہ سیر میں پسیری
کا دھوکا۔ بحمداللہ تعالٰی اس تقریر سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ وہاں تخمین سے
جواب دینا محض مہمل وباطل تھا۔
لطیفہ :۳اقول وہاں ایک ستم خوش ادائی یہ کی ہے ف ۱کہ وہ تخمینا ً برابر ہونا
بھی مع سایہ اصلی کے ہے نہ سایہ اصلی الگ کرکے
وھذا الیخفی من لہ ادنی عقل
(اور یہ ادنٰی سی عقل رکھنے والے پر بھی مخفی نہیں۔ ت) تو دراصل سایہ
ٹیلوں کا بعد نکالنے سایہ اصلی کے تخمینا ً آدھی مثل ہوگا یا کچھ زیادہ اور مثل
کے ختم ہونے میں اتنی دیر ہوگی کہ بخوبی فارغ ہُوئے ہوں گے۔
) ص ۳۵۴ (ف ۱معیارالحق مسئلہ چہارم
ماّل جی! ذرا کچھ دنوں جنگل کی ہوا کھاؤ ٹیلوں کی ہری ہری ڈوب ٹھنڈے وقت
کی سنہری دھوپ دیکھو کہ آنکھوں کے تیور ٹھکانے آئیں علماء تو فرمارہے ہیں
کہ ٹیلوں کا سایہ پڑتا ہی نہیں جب تک آدھے سے زیادہ وقت ظہر نہ نکل جائے
ماّل جی ان کے لئے ٹھیک دوپہر کا سایہ بتارہے ہیں اور وہ بھی تھوڑا نہ بہت آدھی
مثل جبھی تو کہتے ہیں کہ وہابی ہوکر آدمی کی عقل ٹیلوں کا سایہ زوال ہوجاتی
ہے۔
لطیفہ :۴اقول اور بڑھ کر نزاکت فرمائی ہے ف ۲کہ مساوات سایہ کے ٹیلوں
سے مقدار میں مراد نہ ہو بلکہ ظہور میں یعنی پہلے سایہ جانب شرقی معدوم
تھا اور مساوات نہ تھی ٹیلوں سے کیونکہ وہ موجود نہیں اور وقت اذان کے سایہ
جانب شرقی بھی ظاہر ہوگیا پس برابر ہوگیا ٹیلوں کے ظاہر ہونے میں اور موجود
ہونے میں نہ مقدار میں اس جواب کی قدر۔
) ص ۳۵۴ (ف۲معیارالحق مسئلہ چہارم
ماّل جی اپنے ہی ایمان سے بتادیں وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ ٹیلوں کا سایہ ان
کے برابر آیا اس کے یہ معنی کہ ٹیلے بھی موجود تھے سایہ بھی موجود ہوگیا
حن اللہ اسے کیوں تحریف نصوص اگرچہ وہ دس ۱۰گز ہوں یہ جو برابر اے سب ٰ
کہے گا کہ یہ تو مطلب کی گھڑت ہے۔ ایسا لقب تو خاص بےچارے حنفیہ کا خلعت
ماّل جی کے پاس رہا یہاں تک کہ اُن کی داڑھیZہے۔ ماّل جی! اگر کوئی کہے میں ُ
بانس برابر ہوگئی تو اس کے معنی یہی ہوں گے نہ کہ ماّل جی کا سبزہ آغاز ہوا کہ
پہلے بانس موجود تھا اور ماّل جی کی داڑھی Zمعدوم ،جب ُرواں کچھ کچھ چمکا
چمکتے ہی بانس برابر ہوگیا کہ اب بانس بھی موجود بال بھی موجود ،ع
مرغک ازبےضہ بروں آید ودانہ طلبد
(مرغ جب انڈے سے باہر آتا ہے تو دانہ طلب کرتا ہے)
لطیفہ :۵اقول یہ بکف چراغی وتحریف صریح قابل مالحظہ کہ خود ہی حنفیہ
وشافعیہ کے مسئلہ مختلف فیہا میں شافعیہ سے حجت النے کو فتح الباری امام
قسطالنی سے یہ عبارت نقل کی کہ:
یحتمل ان یراد بھذہ المساواۃ ظھور الظل بجنب التل بعد ان لم یکن ظاھرا ؎۱۔ ہوسکتا ہے اس
مساوات سے مراد یہ ہوکہ ٹیلے کے پہلو میں سایہ ظاہر ہوگیا جبکہ پہلے ظاہر
نہیں تھا۔ (ت)
مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت باب االبراد بالظہر فی السفر ( ؎۱فتح الباری شرح البخاری
)۲/۱۷
جس میں ٹیلوں کے لئے سایہ اصلی ہونے کے صاف نفی تھی حضرت تو وہ د
عوی کرچکے تھے کہ ان کا سایہ اصلی آدھے مثل کے قریب ہوتا ہے الجرم معدوم
ہونے میں جانب شرق کی قید بڑھائی کہ مشرق کی طرف معدوم تھا اور اسے
فتح الباری کی طرف نسبت کردیا کہ جیسا کہ فتح الباری میں ویحتمل ان یراد
الخ ماّل جی! دھرم سے کہنا یہ تحریف تو نہیں۔
لطیفہ :۶اقول فتح الباری کے طور پر تو مشارکت فی الوجود غایت بن سکتی
ہے کہ دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ اصال ً نہ تھا دیر فرمائی یہاں تک کہ موجود ہوا اگرچہ
ٹیلوں سے سایہ متساوی ہونے کے ہرگز یہ معنی نہیں مگر آپ اپنی خبر لیجئے
آپ کے نزدیک تو ٹھیک دوپہر کو ٹیلوں کا سایہ آدھا مثل تھا تو ظہور ووجود میں
برابری صبح سے شام تک دن بھر رہی اس غایت مقرر کرنے کے کیا معنی کہ
وقت ٹھنڈا فرمایا یہاں تک کہ سایہ وجود میں ٹیلوں کے برابر ہوگیا اور جانب
شرقی کی قید حدیث میں کہاں ،یہ آپ کی نری من گھڑت ہے ،تاویل گھڑی
مساوات فی الظہور ،تفریع کی مساوات فی الوجود ،اور مفرع علیہ وجود
شرقی ،کیا جب تک وجود غربی شمالی تھا مساوات فی الوجود نہ تھی ،اب کہ
وجود شرقی مال مساوات ہُوئی کچھ بھی ٹھکانے کی کہتے ہو۔
لطیفہ :۷اقول ماّل جی! جب آپ کے دھرم میں سایہ وقت نصف النہار بھی موجود
تھا تو زوال ہوتے ہی قطعا ً معا ً شرقی ہوا تو یہ مساوات خاص آغاز وقت ظہر پر
پیدا ہوئی اور حدیث میں یہ ارشاد ہے کہ مؤذن نے تین بار ارادہ اذان کیا ہر بار
حکم ِ ابراد وتاخیر مال یہاں تک کہ سایہ مساوی ہواکیا یہ ارادہ ہائے اذان وحکم ہائے
ابراد سب پیش اززوال Zہولیے تھے شاید پہردن چڑھے ظہر کا وقت ہوجانا ہوگا،
ماّل جی! تحریف نصوص اسے کہتے ہیں ،ع
چھائی جاتی ہے یہ دیکھو تو سراپا کس پر
لطیفہ :۸اقول جب کچھ نہ بنی تو ہارے درجے یہ تیسری نزاکت اس حدیث کے
جواب میں ف فرمائی کہ یہ تاخیر آنحضرت عــہ ۱سے سفر میں ہوئی شاید
آنحضرت عــہ ۲نے اس ارادہ سے کی ہوکہ ظہر کو عصر سے جمع کریں گے پس
سفر پر حضر کو قیاس مع الفارق ہے۔ ماّل جی! ایمان سے کہنا یہ حدیث ابراد ظہر
کی ہے یعنی وقت ٹھنڈا کرکے پڑھنا یا تفویت ظہر کی کہ وقت کھوکر پڑھنا،
جوش جہنم سے ہے تو
ِ شدت گرمی
ِ ت حکم یہ ارشاد ہوئی ہے کہ حدیث میں عل ّ ِ
گرمی میں ظہر ٹھنڈا کردیا یہ کہ ابھی اذان نہ کہو ہم عصر سے مالکر پڑھیں گے۔
ص )۳۵۴ (ف معیارالحق
ٰ ٰ
آلہ وبارک وسلم ۱۲منہ
ٖ یوعل علیہ ی تعال عــہ۱وعــہ ۲صلی اہلل
سنو کہ معنی ابراد ماّل جی! اس حدیث کی شرح میں خود علمائے شافعیہ کا کالم ُ
میں آپ کی یہ گھڑت بھی ٹوٹے اور سفر وحضر سے فرق کی بھی قسمت
پھُوٹے ارشاد الساری امام قسطالنی شافعی شرح صحیح بخاری باب االبراد
بالظہر فی السفر میں اسی حدیث ابوذررضی اللہ تعالٰی عنہ کے نیچے ہے:
ہّٰلل ٰ
(قال :کنا مع النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم فی سفر) قیدہ ھنا بالسفر ،واطلقہ فی السابقۃ ،مشیرا
بذلک الی ان تلک الروایۃ المطلقۃ محمولۃ علی ھذہ المقیدۃ ،الن المراد من االبراد التسھیل ودفع
المشقۃ ،فالتفاوت بین السفر والحضر ؎۱۔
(کہا :ہم نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کے ساتھ تھے سفر میں) یہاں سفر کے
ساتھ مقید کیا ہے اور سابقہ روایت میں مطلق رکھا ہے یہ بتانے کے لئے کہ سابقہ
مطلق روایت اسی مقید پر محمول ہے کیونکہ ٹھنڈا کرنے کا مقصد آسانی پیدا
کرنا اور مشقت دُور کرنا ہے اور اس میں سفر حضر کا کوئی فرق نہیں۔ (ت)
مطبوعہ دارالکتب باب االبراد بالظہر فی السفر ( ؎۱ارشاد الساری شرح البخاری
العربیہ بیروت )۱/۴۸۸
اسی میں ہے(:فقال لہ :ابرد ،حتی رأینا فیئ التلول) وغایۃ االبراد حتی یصیر الظل ذراعا بعد ظل
الزوال ،اوربع قامۃ اوثلثھا اونصفھا ،وقیل غیر ذلک۔ ویختلف باختالف االوقات :لکن یشترط ان
ٰ
الیمتد الی اخر الوقت ؎۲۔ (اس کو کہا ٹھنڈا کر ،یہاں تک کہ ہم نے ٹیلوں کا سایہ دیکھ
لیا) ابراد کی انتہا یہ ہے کہ سایہ ایک گز ہوجائے زوال کے سائے کے بغیر ،یا قد کا
چوتھائی یا تہائی یا نصف ہوجائے ،اس کے عالوہ بھی اقوال ہیں۔ اور اختالف
اوقات کے ساتھ ابراد میں بھی اختالف واقع ہوتا رہتا ہے لیکن شرط یہ ہے کہ
ابراد اتنا زیادہ نہ ہوکہ وقت آکر ہوجائے۔ (ت)
مطبوعہ دارالکتب باب االبراد بالظہر فی السفر ( ؎۲ارشاد الساری شرح البخاری
العربیہ بیروت )۱/۴۸۸
سنئے آپ اپنے ہی لکھے کو نہ دیکھئے ہاں خوب یاد آیا علمائے شافعیہ کی کیوں ُ
مسئلہ وقت مستحب ظہر میں ف فرمائے گئے اگر ابراد اختیار کرے تو الزم ہے
کہ ایسا ابراد نہ کرے کہ وقت ظہر کا خارج ہوجائے یا قریب آجائے حد میں ابراد
کی علماء میں اختالف ہے لیکن یہ سب کے نزدیک شرط ہے کہ ابراد اس مرتبہ کا
نہ کرے کہ ظہر کے آخر وقت کو پہنچ جاوے کہا فتح ًالباری میں اختلف العلماء
فی غایۃ االبراد؛ لکن یشترط ان الیمتدالی اخر الوقت ملخصا (ابراد کی انتہاء میں علماء
کا اختالف ہے لیکن یہ شرط ہے کہ آخر وقت تک نہ پہنچے۔ ت)
ص )۳۱۲ ،۳۱۱ (ف معیارالحق مسئلہ سوم وقت مستحب ظہر
ط ابراد ہے تو حکم ابراد کو خارج
جب آخر وقت کے قریب تک نہ آنا الزم وشر ِ
وقت پر حمل کرنا کیساعذر بارد ہے ،ماّل جی!
ایمان سے کہنا یہ حدیث سے جواب ہے یا اپنی سخن پروری کے لئے صراح ًۃ نص
شرع کی تحریف حدیث صحیح کارد۔ شافعیہ حنفیہ کے مکالمات محض تفنن طبع
کے لئے ہیں ورنہ مذاہب متقرر ہوچکے۔
عاّل مہ زرقانی مالکی شرح مواہب آخر جلد ہفتم میں فرماتے ہیں:
قداجاب الحافظ ابن حجر ،عن ذلک وعن غیرہ من ادلۃ المانعین ،وھی عشرۃ ،بمایطول ذکرہ ،مع انہ
الکبیر فائدۃ فیہ ،اذالمذاھب تقررت ،انما ھو تشحیذ اذھان ؎۱۔
ابن حجر نے اس دلیل کا بھی اور مانعین کی دیگر دس ۱۰دلیلوں کا بھی جواب
دیا ہے مگر ان کے ذکر سے طوالت ہوتی ہے اور کوئی نمایاں فائدہ بھی نہیں ہے
کیونکہ مذاہب تو مقرر ہوچکے ہیں (اور Zایسے سوال جواب) محض ذہن کو تیز
کرنے کا کام دیتے ہیں۔ (ت)
ذکر تہجد النبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ ( ؎۱شرح الزرقانی علی المواہب
مطبعۃ عامرہ مصر )۷/۴۵۰
آپ اپنی خبر لیجئے آپ تو محقق مجتہد ہیں سب ارباب مذاہب کی ضد ہیں آپ
کیوں صحیح بخاری کی حدیث جلیل میں یوں کھلی تحریفیں کررہے ہیں دعوے
باطلہ عمل بالحدیث کے چھلکے اُتررہے ہیں۔ ع
شرم بادت ازخدا وازرسول
(تم خدا اور رسول سے شرم کھاؤ)
لطیفہ :۹اقول ماّل جی خود جانتے تھے یہ تاویلیں نہیں محض مہمل پوچ
تقریروں سے جیسے بنے حدیث کو َرد کرنا ہے لہذا عذر بدتر ازگناہ کیلئے ارشاد
ہوتا ہے ف منشا تاویالت کا یہی ہے کہ احادیث صحیحہ جن سے معلوم ہوتا ہے کہ
وقت ظہر نہیں رہتا ثابت ہیں پس جمیعا بین االدلہ یہ تاویلیں حقہ
ِ بعد ایک مثل کے
کی گئیں۔ ان تاویلوں کو حقہ کہنا تو دل میں خوب جانتے ہوگے کہ جھُوٹ کہہ رہے
سلفہ ہوگئیں مگر اس ڈھٹائی کا کہاں ٹھکانا کہ ہو خاک حقہ تھیں کہ ایک دم میں ُ
صحیح حدیث بخاری شریف کو بحیلہ جمع بین االدلہ یوں دانستہ بگاڑلے حاالنکہ نہ
قصد واحد نہ لفظ مساعد اور حدیث ابن عمر دربارہ غیبت شفق میں باوصف
اتحاد قصہ جمع بین اال دلہ حرام اور رد احادیث صحاح واجب االلتزام۔
ص )۳۵۴ (ف معیارالحق مسئلہ چہارم
لطیفہ :۱۰اقول جمع تقدیم کی نامندمل جراحت بھرنے کو حدیث ابوجحیفہ رضی
اللہ تعالٰی عنہ میں وہ لَن ترانیاں تھیں کہ ظاہر پر حمل واجب ہے جب تک مانع
قطعی نہ ہو اَب اپنے داؤں کو ظاہر نص صریح کے یوں ہاتھ دھوکر پیچھے پڑے
خیر بحمداللہ آپ ہی کی گواہی سے ثابت ہولیا کہ جمع بین االدلہ کے لئے ایسی
رکیک وپوچ ولچر تاویالت تک روا ہیں تو یہ صاف ونظیف وشائع ولطیف معانی
ومحامل کہ ہم نے جمعا بین االدلہ احادیث ابن عمرو انس رضی اللہ تعالٰی عنہمZ
چون وچرا کی گلی آپ نے خود بند کرلی ،واللہمیں اختیار کیے ان میں اپنی ُ
الحمد ،ع:
عدد شود سبب خیر گر خدا خواہد
طرفہ یہ کہ آپ مستدل ہیں اور ہم خصم جب آپ کو ایسے لچریات نفع دیں گے
ہمیں یہ واضحات بدرجہ اولٰی نافع اور آپ کے تمام ہوا حس و وساوس کے قاطع
ہوں گے۔
سنن میں ایک حدیث اور ہے جس سے ناواقف کو جمع تاخیر کا وہم فائدہ عائدہُ :
ہوسکے فقیر نے کالم ِ فرےقین Zمیں اُس سے استناداً Zجوابا ً اصال ً تعرض نہ دیکھا،
ماّل جی بہت دُور دُور کے چکّر لگاآئے ،جہاں کچھ بھی لگتی پائی بلکہ نری بے لگاؤ
سنن کچھ دُور نہ تھیں اُس کے آس پاس گھُوما کئے مگر اُس بھی جمع کرالئے ُ
سے دہنے بائیں کترائے اسی سے اس کا نہایت نامفیدی میں ہونا ظاہر مگر شاید
ا َب کسی نئے متوہم یا خود حضرت ہی کو تازہ وہم جاگے لہذا اس سے تعرض
کردینا مناسب،
ففی سنن ابی داود ،حدثنا احمد بن صالح نایحیی بن محمد الجاری ،؎۱وفی سنن النسائی ،اخبرنا
المؤمل بن اھاب ،قال :حدثنی یحیی بن محمدن الجاری ،؎۲وفی مصنف الطحاوی ،حدثنا علی بن
ٰ
عبدالرحمن ثنا نعیم بن حماد ؎۳قاال عــہ نا عبدالعزیز بن محمد (زاد نعیم) الدراوردی ،عن مالک
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
عن ابن الزبیر عن جابر ،ان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم غربت لہ الشمس بمکۃ ،فجمع
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
بینھما بسرف ( ؎۱زاد نعیم) یعنی الصالۃ۔ ولفظ المؤمل :غابت الشمس ورسول ا صلی ا تعالی
علیہ وسلم بمکۃ ،فجمع بین الصالتین بسرف ؎۲۔ قال ابوداود :حدثنا محمد بن ھشام جار احمد بن
حنبل ناجعفر بن عون عن ھشام بن سعد ،قال :بینھما عشرۃ امیال ،یعنی بین مکۃ وسرف ؎۳۔
سنن ابی داؤد میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے احمد ابن صالح نے ،اس نے کہا
کہ خبر دی ہمیں یحیٰی ابن محمد جاری نے۔ اور سنن نسائی میں ہے کہ خبر دی
مجھ سے یحیٰی ابن محمد ہمیں مؤمل ابن الوہاب نے ،اس نے کہا حدیث بیان کی ُ
جاری نے۔ اور مصنّف طحاوی میں ہے کہ حدیث بیان کی ہم سے علی ابن
عبدالرحمن نے ،اس نے کہا حدیث بیان کی ہم سے نعیم ابن حماد نے۔ دونوں نے
کہا کہ خبر دی ہم کو عبدالعزیز Zابن محمد نے (نعیم نے ''دراوردی'' کا اضافہ کیا
ہے) مالک بن ابی الزبیر سے ،اس نے جابر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول
سورج غائب ہوگیا چنانچہ جمع کیا اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مک ّہ میں تھے تو ُ
سرِف میں (نعیم نے اضافہ کیا) یعنی نماز کو۔ اور مؤمل کے آپ نے دونوں کو َ
سورج غائب ہوگیا اور رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم مکہ الفاظ یوں ہیں ُ
رف میں جمع کیا۔ ابوداؤد نے کہا کہ مجھس ِمیں تھے تو آپ نے دونوں نمازوں کو َ
کو احمد ابن حنبل کے ہمسائے محمد بن ہشام نے بتایا کہ جعفر ابن عون نے
ہشام ابن سعد سے روایت کی ہے کہ دونوں کے درمیان دس ۱۰میل کا فاصلہ ہے
سرِف کے درمیان۔ (ت) یعنی مک ّہ اور َ
عــہ ای یحیی عنداالولین ونعیم عندالطحاوی ۱۲منہ (م)
ٰ
یعنی یحیی سے پہلے دو( ۲ابوداؤد اور نسائی) کے ہاں اور نعیم طحاوی کے ہاں ۱۲منہ (ت)
)۱/۱۷۱ مطبوعہ مجتبائی الہور ( ؎۱سنن ابی داؤد باب الجمع بین الصالتین
۱ ( ؎۲سنن النسائی الوقت الذی یجمع فیہ المسافر الخ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور
)/۶۹
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی ( ؎۳شرح معانی اآلثار باب الجمع بین الصالتین الخ
کراچی )۱/۱۱۱
( ؎۱شرح معانی االثار باب الجمع بین الصالتین الخ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۱۱
)۱
مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور )۱/۶۹ ( ؎۲سنن النسائی الوقت الذی یجمع المقیم الخ
مطبوعہ مجتبائی الہور )۱/۱۷۱ ( ؎۳سنن ابی داؤد باب الجمع بین الصالتین الخ
یعنی حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو مک ّہ معظمہ میں آفتاب
سرِف میں جمع فرمائیں ابوداؤد نے ہشام بن سعد ڈوباپس مغرب وعشا موضع َ
سے (کہ ماّل جی کے حسابوں رافضی مجروح مردود الروایہ متروک الحدیث ہے
سرِف میں تقریب میں کہا صدوق ،لہ اوھام ،ورمی بالتشیع) نقل کی کہ مک ّہ و َ
دس ۱۰میل کا فاصلہ ہے۔
اقول وباللہ التوفیق اصول حدیث ونیز اصول محدثہ مالجی پر یہ حدیث ہرگز قابل
ماّل ئیہ پر ضعف
اصول ُ
ِ اصول حدیث پر اُس کی سند ضعیف اورِ حجت نہیں
درضعف درضعف کیا جانیے کتنے ضعفوں کی طومار اور نری مردود متروک ہے۔
اوال ً دو طریق پیشین میں یحیٰی بن محمد جاری ہے تقریب میں کہا :صدوق
چا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) امام بخاری نے فرمایا :یتکلمون فیہ ویخطیئ (س ّ
(ائمہ محدثین اُس پر طعن کرتے ہیں۔ ت) میزان میں یہی حدیث اس کے ترجمہ
میں داخل کی اور کتب ضعفا میں زیر ترجمہ ضعفا اُن کی منکر حدیثیں ذکر
کرتے ہیں اور اس کے ساتھ طریق دوم میں مؤمل بن اہاب ہے تقریب میں کہا:
چا ہے ،اس کو اوہام ہیں۔ ت) طریق ثالث میں نعیم بن حماد صدوق لہ اوھام (س ّ
ہے یہ اگرچہ فقیہ وفرائض وان تھا مگر حدیثی حالت میں یحیٰی سے بھی بدتر ہے
چا ہے مگر خطا بہت کرتا ہے۔ ت) یہاں تک تقریب میں کہا صدوق یخطئ کثیرا (س ّ
کہ ابوالفتح ازدی نے کہا :حدیثیں اپنے جی سے گھڑتا اور امام ابوحنیفہ کے
مطاعن میں جھوٹی حکایتیں وضع کرتا تھا یہ اگرچہ مجازفات ازدی سے ہو مگر
ذہبی نے طبقات الحفاظ ومیزان االعتدال Zدونوں میں اُس کے حق میں قول
اخیریہ قرار دیا کہ وہ باوصف امامت منکر الحدیث ہے قابل احتجاج نہیں جامع
صحیح میں اس کی روایت مقرونہ ہےہّٰلل نہ بطور حجیت ،امام جالل الدین سیوطی
ذیل الاللی میں اُس کی حدیث اذا ارادا ان ینزل الی السماء الدنیا نزل عن عرشہ بذاتہ
آسمان دنیا پر اُترنا چاہتا ہے تو بذات ٖہ عرش سے اُترآتا ہے۔ ت)
ِ (جبب اللہ تعالٰی
ذکر کرکے فرماتے ہیں :اتعبنا نعیم بن حماد ،من کثرۃ مایاتی بھذہ الطامات ،وکم
ندرؤ عنہ وعن الطرطوسی الراوی عنہ؟ فالادری ،البالء فی الحدیث منہ ،اومن
ماتشیخہ نعیم !؎۱اھ ملخصا یعنی نعیم بن حماد اس کی کثرت سے یہ طا ّ
روایتیں التا ہے کہ ہم تھک گئے کہاں تک اُس کا اور اس کے شاگرد طرطوسی کا
بچاؤ کریں مجھے نہیں معلوم کہ اس حدیث میں بَال اُس کی طرف سے اُٹھی یا
اُس کے اُستاد نعیم سے۔
ص ۲و )۳ مکتبہ اثریہ سانگلہ ہل کتاب التوحید ( ؎۱ذیل الاللی
ثانیا پھر ان سب طرق میں عبدالعزیز بن محمد دراوردی Zہے تقریب میں کہاـ
چا ہے ،مگر دوسروں کی کتابوں سے صدوق ،کان یحدث من کتب غیرہ فیخطیئ ( ؎۲س ّ
حدیثیں بیان کرتا ہے اس لئے خطا کرتا ہے۔ ت) تو ہر طریق میں دو ۲راوی
چا ہے مگر خطا کرتا ہے۔ ت) ہوئے خصوصا ً ثالث میں تو ایکصدوق یخطیئ (س ّ
چا ہے ،اس کو اوہام ہیں۔ ت)
کثیر الخطاء اور ثانی میں تیسرا صدوق لہ اوھام (س ّ
اور ماّل جی کے اصول پر ایسے رواۃ کی حدیثیں مردود ومتروک وواہیات ہیں۔
مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ ترجمہ عبدالعزیز بن محمد ( ؎۲تقریب التہذیب
گوجرانوالہ ص )۲۱۶
ثالثا مدار حدیث ابوالزبیر عن جابر پر ہے ابوالزبیر کی نسبت خود ماّل جی کہہ گئے
کہ وہ فقط صدوق ہے اور اس کے ساتھ مدلس قال فی التقریب صدوق اال انہ یدلس ؎۳
چا ہے مگر مدلس ہے۔ ت)
(تقریب میں کہا کہ س ّ
ص مطبوعہ دارنشر الکتب االسالمیہ گوجرانوالہ محمد بن مسلم ( ؎۳تقریب التہذیب
)۳۱۸
اور یہاں اُن عــہ سے راوی لیث بن سعد نہیں اور روایت میں عنعنہ کیا اور عنعنہ
اصول محدثین پر نامقبول۔
ِ مدلس
عــہ قید بھذا ،الن الرادی عنہ اذاکان اللیث ،زال مایخشی من تدلیسہ ،کماافادہ فی فتح المغیث وغیرہ ،فلیحفظ فانھا
ہّٰلل ٰ
فائدۃ نفیسۃ۔ وقد بین السبب فی ذلک فی المیزان فراجعہ ۱۲منہ رضی ا تعالی عنہ (م)
یہ قید اس لئے لگائی ہے کہ اگر اس سے روایت کرنے واال لیث ہوتو پھر اس کی تدلیس کا خطرہ باقی نہیں رہتا ،جیسا کہ
فتح المغیث اور دوسری کتابوں میں افادہ کیا گیا ہے۔ اس کو یاد رکھو ،کیونکہ یہ ایک نفیس فائدہ ہے۔ تدلیس کا
خطرہ نہ ہونے کا سبب میزان میں مذکور ہے اس کا مطالعہ کرو۔ (ت)
رابعا میلوں کی گنتی حدیث میں نہیں نہ زید وعمرو کی ایسی حکایات پر وہ
اعتماد ضرور جس کے سبب توقیت صالۃ کا حکم معروف ومشہور ثابت بالقرآن
العظیم واالحادیث الصحاح چھوڑ دیا جائے خصوصا ً ماّل جی کے نزدیک تو یہ دس
میل بتانے واال رافی Zمتروک ہے زمینوں کا ناپنا میلوں کا گننا ان حملہ ورواۃ کا کام
نہ تھا بلکہ سرے سے ان اعصار وامصار میں اس طریقہ کا اصال ً نام نہ تھا یونہی
سنی سنائی بتادیتا ولہذا شمار میں ہر شخص اپنے تخمینہ سے یا کسی اور کی ُ
اس قدر شدت سے اختالف پڑتا ہے کہ ان گنتیوں سے امان اٹھائے دیتا ہے۔
ذوالحلیفہ کہ مکہ معظمہ کے راستے پر مدینہ طیبہ کے قریب ایک مشہور
ومعروف مقام ہے اُس کے اختالف دیکھئے امام اجل رافعی Zاحد شیخین مذہب
معیل بن احمد شافعی اور اُن سے پہلے امام ابوالمحاسن عبدالواحد بن اس ٰ
شافعی معاصر امام غزالی اور اُن سے بھی پہلے امام ابونصر عبدالسید بن
محمد شافعی نے فرمایا :مدینہ سے ایک میل ہے۔ امام قسطالنی شافعی نے
فرمایا :یہ وہم ہے بشہادت مشاہدہ مردود۔ بعض نے کہا دو ۲ایک میل۔ امام عینیZ
نے فرمایا :چار ۴میل۔ امام حجۃ االسالم شافعی نے فرمایا :چھ ۶میل ہے۔ اسی
طرح امام مجد شافعی نے قاموس میں کہا۔ امام اجل ابوزکریا نووی شافعی نے
فرمایا :یہی صحیح ہے۔ بعض علما نے کہا :سات میل۔ امام جمال اسنوی شافعی
نے فرمایا :حق یہ کہ تین میل ہے یا کچھ قدرے قلیل زیادہ ہو مشاہد اس پر گواہ
ہے۔ ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں ہے:
ّ ٰ
بعدہ من المدینۃ میل ،کماعندالرافعی ،لکن فی البسیط انھا علی ستۃ امیال ،وصححہ فی
المجموع ،وھو الذی قالہ فی القاموس۔ وقیل :سبعۃ۔ وفی المھمات :الصواب ،المعروف بالمشاھدۃ
انھا علی ثلثۃ امیال اوتزید قلیال ؎۱۔
باب فرض مواقیت الحج والعمرۃ کتاب المواقیت ( ؎۱ارشاد الساری شرح البخاری
مطبوعہ دارالکتاب العربیۃ
بیروت)۳/۹۸
ُ
اسی میں ہے :وقول من قال ،کابن الصباغ فی الشامل ،والرویانی فی البحر ،انہ علی میل من المدینۃ
وھم ،یردہ الحس ؎۲۔
مطبوعہ دارالکتاب باب مہل اہل مکہ للحج والعمرۃ ( ؎۲ارشاد الساری شرح البخاری
العربیۃ بیروت )۳/۹۹
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری میں ہے :من المدینۃ علی اربعۃ امیال ومن مکۃ علی مائتی میل،
غیر میلین وقیل :بینھما وبین المدینۃ میل اومیالن ؎۳دیکھئے ایسے معروف مقام میں
کہ شارع نے اُسے اہ ِ
ل مدینہ کے لئے میقات احرام مقرر فرمایا ایسے اجلہ ائمہ
میں ایسے شدید اختالف ہیں جنہیں ترازوئے تخمینہ کی جھونک کسی طرح نہیں
سہار سکتی ایک ۱دو ۲تین ۳چار ۴چھ ۶سات ۷میل تک اقوال مختلف ،پھر
تصحیحوں میں بھی دونا دون کا تفاوت ،ایک فرمائے چھ ۶میل صحیح ہے دوسری
فرمائے تین میل حق ہے۔
باب قول اللہ تعالٰی یاتوک رجاال الخ مطبوعہ ادارۃ ( ؎۳عمدۃ القاری شرح البخاری
الطباعۃ المنیریہ بیروت )۹/۱۳۰
ٰ
موطائے امام مالک میں بسند صحیح علی شرط الشیخین ہے :عن یحیی بن سعید انہ قال لسالم بن
ہّٰلل
عبدا مااشد مارأیت اباک اخر المغرب فی السفر فقال سالم غربت الشمس ونحن بذات الجیش
فصلی المغرب المغرب بالعقیق ( ؎۱یعنی یحیٰی بن سعید انصاری نے امام سالم بن
عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہم Zسے پُوچھا آپ نے اپنے والد ماجد کو سفر
میں مغرب کی تاخیر زیادہ سے زیادہ کس قدر کرتے دیکھا فرمایا ذات الجیش
میں ہمیں سورج ڈُوبا اور مغرب عقیق میں پڑھی)
مطبوعہ میر محمد کتب خانہ کراچی قصر الصلٰوۃ فی السفر ( ؎۱مؤطا امام مالک
ص )۱۲۹
اب رواۃ مؤطا تالمذہ امام مالک میں ان دونوں مقاموں کے فاصلہ میں اختالف
پڑا۔ یحیٰی کی روایت میں ہے دو میل یا کچھ زائد ،عبداللہ بن وہب نے کہا چھ۶
میل ،محمد بن وضاح اندلسی تلمیذ التلمیذ امام مالک نے کہا سات میل،
عبدالرحمن بن قاسم نے کہا دس ۱۰میل ،عالمہ زرقانی نے جزم کیا کہ بارہ۱۲
میل شرح مؤطا میں فرمایا :بینھما اثنا عشرمیال ،وقال ابن وضاح :سبعۃ امیال ،وقال ابن
ٰ
وھب :ستۃ ،وقال القعنبی :ذات الجیش علی بریدین من المدینۃ ،وقال البونی فی روایۃ یحیی :وبینھما
میالن اواکثر قلیال ،وفی روایۃ ابن القاسم :عشرۃ امیال ؎۲۔ ان اختالفات کو خیال کیجئے کہاں
دو ۲میل کہاں بارہ ۱۲میل۔
مطبوعہ المکتبۃ التجاریۃ قصر الصلٰوۃ فی السفر ( ؎۲شرح الزرقانی علی المؤطا
)۱/۲۹۷ الکبری مصر
ٰ
خامساًیہ واقعہ عین ہے اور وقائع عین مساغ ہرگونہ احتماالت سرعت سیر کے
لئے کوئی حد محدود نہیں کہ اس سے زائد نامتصور ہو ابن عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہما کا سہ منزلہ کرنا اُوپر گزراہّٰلل ام ٰالمومنین صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا کی
حدیث میں ہے :اصبح النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم بملل ثم راح وتعشی بسرف ۔
سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کو ملل میں صبح ہوئی پھر تشریف لے
چلے اور شام کا کھانا سرف میں تناول فرمایا۔
ملل مدینہ طیبہ سے سترہ ۱۷میل ہے اور یہیں کالم فصل اول میں گزرچکا کہ َ
امام بدر محمود عینی Zسے منقول ہوا کہ مدینہ طیبہ مکہ معظمہ سے دو کم دو
سومیل ہے اب سترہ وہ اور دس میل سرف کے نکال لیجئے تو ایک دن میں ایک
سو اکہتر Zمیل راہ طے ہوئی پھر غروب شمس سے اتنے قرب عشا تک کہ ہنوز
بقدر تین رکعت پڑھ لینے کے مغرب کا وقت باقی ہو دس میل قطع ہوجانا کیا
جائے عجب ہے خصوصا ً اواخر جوزا و ا و ا ئل سرطان میں کہ ان دنوں حوال ِ
ی
مک ّہ معظمہ میں وقت مغرب عــہ کم وبیش ڈےڑھ گھنٹا ہوتا ہے اعتبار نہ آئے تو
آزما دیکھئے کہ عمدہ گھوڑے تیز ناقے ڈےڑھ چھوڑ ایک ہی گھنٹے میں دس۱۰
میل بلکہ زائد قطع کرلیں گے
عــہ اقول لتکن الشمس عنددخول العشاء فی اول السرطان میلہ الح الرتمام
عرض المکۃ المکرمۃ سح ک غایۃ االنحطاط بالتفریق مدفح جیبہ ک الدظل عرض مکۃ الح ماح لح
* ظل المیل الوالہ الہ المنحطا= ی حہ ک الح جیب تعدیل النھار قوسہ ط حہ نہ الح -صہ حہ = ف
حہ ء لر نصف قوس اللیل سہمہ مط حہ لط لر* جیب انحطاط الوقت ح حہ الح= ع ک مہ الدح سو÷
ک الد= کا حہ مدمح -مط لطالر= الرحہ ندمط سھم فضل الدائر قوسہ نرحہ م ف حہ ء لر= حہ الدک
ہّٰلل ٰ
دائر* ع قہ= ا ت الط لرھذا تقریب ووجوہ التدقیق تعلم ان شاء ا تعالی من کتابنا زیج االوقات للصوم
ہّٰلل ٰ ٰ ہّٰلل ٰ ٰ
والصلوۃ وفقنا ا تعالی الکمالہ ونفعنا والمسلمین باعمالہ امین ۱۲منہ رضی ا تعالی عنہ۔ (م)
حدیث مؤطا میں کہ ابھی مذکور ہوئی جزم عاّل مہ زرقانی اور نیز روایت ابن
القاسم تلمیذ امام مالک پر اس کی نظیر یہیں پیش نظر اوپر ثابت ہوچکا کہ
سالم قائل جمع نہیں وہ تصریحا ً فرماچکے کہ اُن کے والد ماجد رضی اللہ تعالٰی
عنہ نے مزدلفہ کے سوا کبھی جمع نہ فرمائی تو الجرم غروب آفتاب کے بعد دس
بارہ میل چلے اور مغرب وقت میں پڑھی ولہذا ابوالولید باجی مالکی نے اس
حدیث کی شرح میں کہا :ارادان یعرف اخر وقتھا المختار ؎۱یحیٰی بن سعید
انصاری کا اس سوال سے یہ ارادہ تھا کہ مغرب کا آخر وقت مختار معلوم کریں۔
مطبوعہ المکتبۃ (؎۱بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر
الکبری مصر )۱/۲۹۷
ٰ التجاریۃ
نتقی میں کہا :وحمل ذلک علی المعروف من سیر من جد ؎۲خروج وقت پر پڑھنا ہوتا تو
کوشش سیر پر حمل کی کیا حاجت تھی بالجملہ حدیث برتقدیر صحت بھی اصال
جمع حقیقی کی مفید نہ جمع صوری سے جدا وبعید والحمداللہ العلی المجید۔
مطبوعہ المکتبۃ ( ؎۲بحوالہ المنتقی شرح الزرقانی علی المؤطا قصر الصلٰوۃ فی السفر
الکبری مصر )۱/۲۹۷
ٰ التجاریۃ
الحمد للہ کالم اپنے ذروہ اقصے کو پہنچا اور جمع تقدیم وتاخیر دونوں میں ماّل جی
کا ہاتھ بالکل خالی رہ گیا ،ایک حدیث سے بھی جمع حقیقی اصال ً ثابت نہ ہوسکی
وللہ الحجۃ السامیہ امید کرتا ہوں کہ اس فصل بلکہ تمام رسالہ میں ایسا کالم
شافی ومتین وکافی ومبین برکات قدسیہ روح زکیہ طیبہ علیہ امام االئمہ مالک
االزمہ کاشف الغمہ سراج االمہ سیدنا امام اعظم واقدم رضی اللہ تعالٰی عنہ سے
صہ خاصہ فقیر مہین ہو والحمدلل ّٰہ رب العٰلمین۔
ح ّ
فصل چہارم ۴نصوص نفی جمع وہدایت التزام اوقات میں۔
یہ نصوص دو ۲قسم ہیں اوّل عامہ جن میں تعیین اوقات کا بیان یا اُن کی
محافظت کی ترغیب یا اُن کی محافظت سے ترہیب ہے جس سے ثابت ہوکہ ہر
جدا وقت مقرر فرمایا ہے کہ اُس سے پہلے ہوسکے نماز کے لئے شرع مطہر نے ُ
نہ اُسے کھوکر دوسرے وقت پر اٹھارکھی جائے بلکہ ہر نماز اپنے ہی وقت پر
ہونی چاہے۔ دوم خاصہ جن میں بالخصوص جمع بین الصالتین کی نفی ہے۔
ٰ
قسم اول نصوص عامہ (االٰیات) رب العزۃ تبارک وتعالی نے محافظت والتزام ِ
اوقات کا حکم سات ۷سورتوں میں نازل فرمایا:
( )۳انعام ( )۴مریم ( )۵مومنون ( )۶معارج ( )۷ماعون ( )۲نساء ( )۱بقرہ
قال بنا عزمن قائل :ان الصلٰوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا ً موقوتا آیت ۱
۱
بیشک نماز مسلمانوں پر فرض ہے وقت باندھا ہوا۔
( ؎۱القرآن )۱۰۳ /۴
کہ نہ وقت سے پہلے عــہ صحیح نہ وقت کے بعد تاخیر روا ،بلکہ فرض ہے کہ نماز
اپنے وقت پر ادا ہو۔ میں یہاں معنی آیت میں کالم ِ علمائے کرام الؤں اس سے
بہتر یہی ہے کہ خود ماّل جی کی شہادت دالؤں،
ٰ
عــہ :ھذا ،الخالف فیہ بین العلمائ ،االشیئ روی عن ابی موسی االشعری وعن بعض التابعین 5اجمع العلماء علی
ٰ
خالفہ ،والوجہ لذکرہ ھھنا النہ الیصح عنھم ،وصح عن ابی موسی خالفہ مماوافق الجماعۃ ،فصار اتفاقا صحیحا اھ
عمدۃ القاری ۱۲منہ (م)
سی اشعری اور بعض تابعین سے اس میں علماء کا کوئی اختالف نہیں ہے۔ ابومو ٰ
جو کچھ مروی ہے اس کے خالف علماء کا اجماع ہے اور اس کو یہاں ذکر کرنے
سی سے بصحت منقول نہیں نہیں ہے کی کوئی ضرورت بھی نہیں کیونکہ وہ ابومو ٰ
سی سے ،اس کے خالف اور جمہور کے موافق قول صحیح طور پر بلکہ ابومو ٰ
ثابت ہے ،اس لئے سب کا متفق ہونا ہی درست قرار پایا اھ عمدۃ القاری ۱۲منہ
(ت)
وقت ظہر میں ایک مثل تک تمامی وقت بتانے کیلئے فرماتے ہیں کہا اللہ
ِ مسئلہ
تعالٰی نے ان الصلوۃ کانت علی المؤمنین کتٰبا موقوتا
ٰ ً
حدہ ہے تفسیر مظہری میں ہے قولہ تعالٰی :کتبا یعنی ہر نماز کا وقت علیحد ٰہ علی ٰ
ٰ
موقوتا ،یقتضی کون الوقت لکل صلوۃ وقتا علیحدہ تو مقتضا آیت کا یہی ہے کہ ایک نماز
کے وقت میں دوسری نماز ادا نہیں ہوسکتی ؎۲۔ ع
مدعی الکھ پہ بھاری ہے گواہی تیری
ص )۳۱۷ مسئلہ چہارم بحث آخر وقت ظہر مکتبہ نذیریہ الہور ( ؎۲معیارالحق
حفظونo آیت ۳قال العلی االعلی تبارک وتعالٰی :والذین ھم علی صالتھم ی ٰ
اولٰئک ھم الوارثون oالذین یرثون الفردوس ھم فیھا خالدون o؎۵اور وہ
لوگ جو اپنی نماز کی نگہداشت کرتے ہیں کہ اُسے وقت سے بے وقت نہیں ہونے
چے وارث ہیں کہ جنّت کی وراثت پائیں گے وہ اس میں ہمیشہ رہنے
دیتے وہ ی س ّ
والے ہیں۔
۲۳/۹و ۲۳/۱۰و )۲۳/۱۱ ( ؎۵القرآن
معالم شریف امام بغوی شافعی میں ہے :یحافظون ،ای یداومون علی حفظھا ویراعون اوقاتھا ،کررذکر
الصالۃ لیتبین المحافظۃ علیھا واجبۃ ؎۱۔
محافظت کرتے ہیں یعنی ہمیشہ نگہبانی کرتے ہیں اور ان کے اوقات کا خیال
رکھتے ہیں۔ نماز کا ذکر مکرر کیا ہے تاکہ واضح ہوجائے کہ اس کی محافظت
واجب ہے۔ (ت)
مطبوعہ تحت آیۃ مذکورہ ( ؎۱تفسیر البغوی المعروف معالم التنزیل مع الخازن
مصطفی البابی مصر )۵/۳۳
آیت ۵قال المولی تقدس وتعالٰی :والذین یؤمنون باالٰخرۃ یؤمنون بہ
وھم علی صالتھم یحافظون o؎۵اور جنہیں آخرت پر یقین ہے وہ قرآن پر
ایمان التے ہیں اور وہ اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں۔
ہ وقت سے باہر نہ ہوجائیں۔
)۶/۹۲ ( ؎۵القرآن
تفسیر کبیر عــہ میں ہے :المراد بالمحافظۃ التعھد لشروطھا من وقت وطھارۃ وغیرھما والقیام
علی ارکانھا واتمامھا حتی یکون ذلک دابہ فی کل وقت ؎۶۔
محافظت سے مراد یہ ہے کہ وقت اور طہارت وغیرہ تمام شروط کو ملحوظ رکھا
جائے ،اس کے ارکان کو قائم کیا جائے اور اسے مکمل کیا جائے یہاں تک کہ جب
نماز کا وقت آئے تو آدمی ان کاموں کو بطور عادت کرنے لگے۔ (ت)
عــہ :ذکرہ تحت ایۃ المؤمنون ۱۲منہ (م) یہ انہوں نے سورۃ مومنون ۲۳کی آیۃ ۹کے تحت ذکر کیا ہے ۱۲منہ (ت)
مطبوعہ المطبعۃ البہیۃ ( ؎۶التفسیر الکبیر والذین ہم علٰی صلوٰتہم یحافظون کے تحت
المصریۃ مصر )۲۳/۸۱
محافظت وقت کے یہ معنی جو ہم نے علمائے حنفیہ کے سوا ہر آیت میں علمائے
ِ
شافعیہ سے نقل کئے کہ ہر نماز اپنے ہی وقت پر ہو خود احادیث میں ارشاد ہوئے
جن کا ذکر عنقریب آتا ہے اِن شاء اللہ تعالٰی۔ آیت ۶قال رب العلی ع ّزوعال
:ثم خلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلٰوۃ ؎۱۔ پھر آئے ان کے بعد وہ برے
پسماندہ جنہوں نے نمازیں ضائع کیں۔
)۱۹/۵۹ ( ؎۱القرآن
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے
ہیں :اخروھا عن مواقیتھا وصلوھا لغیر وقتھا ؎۲۔
مت اس آیہ کریمہ میں فرمائی گئی وہ ہیں جو نمازوں کو اُن(یہ لوگ جن کی مذ ّ
کے وقت سے ہٹاتے اور غیر وقت پر پڑھتے ہیں)
ذکرہ االمام البدر فی عمدۃ القاری باب تضییع الصلوات عن وقتھا واالمام البغوی فی المعالم۔
مطبوعۃ الطباعۃ المنیریۃ حدیث ۸ باب تضییع الصلواۃ ( ؎۲عمدۃ القاری شرح البخاری
بیروت )۵/۱۷
ٰ
افضل التابعین سیدنا سعید بن المسیب رضی اہلل تعالی عنہما فرماتے ہیں :ھو ان الیصلی الظھر
حتی اتی العصر ؎۳
(نماز کا ضائع کرنا یہ ہے کہ ظہر نہ پڑھی یہاں تک کہ عصر کا وقت آگیا) اثرہ
محی السنۃ۔
مطبوعۃ تحت آیۃ مذکورہ ( ؎۳تفسیر البغوی المعروف بمالم التنزیل مع الخازن
مصطفی البابی مصر )۴/۲۵۲
ٰ
تفسیر انوار التنزیل میں ہے :اضاعوا الصلوۃ ترکوھا اواخروھا عن وقتھا ؎۴۔
نصف مطبوعۃ مجتبائی دہلی تحت آیۃ مذکورہ ( ؎۴انوار التنزیل المعروف بالبیضاوی
ثانی ص)۹
حنہ امام اعظم شانہ :،فویل للمصلّین oالذین ھم عن آیت ۷قال سب ٰ
صالتھم ساھون o؎۵خرابی ہے ان نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں سے غافل
ہیں (کہ وقت نکال کر پڑھتے ہیں)
)۱۰۷/۴ ( ؎۵القرآن
الحمداللہ یہ تو آیہ کریمہ اور ہماری حدیثوں سے حدیث ۲۶و ۲۸کی نسبت
ماّل جی کی شہادت ہے کہ مقتضی احادیث وآیات کا یہی ہے کہ ایک نماز کے وقت
میں دوسری ادا نہیں ہوسکتی مگر مجھے یہاں ماّل جی کا ظلم ظاہر کرنا ہے
فاقول وباللہ التوفیق Zاوّال ً ؎۲
( ؎۲واضح رہے کہ ''اوّالً'' کے ذیل میں مذکور تمام روایات کا ترجمہ پہلے
گزرچکا ہے۔ اگر ضرورت ہوتو صفحہ ۲۷۸کی طرف رجوع کریں۔ دائم )
حدیث جبریل وحدیث سائل میں یہ معنے کہ ماّل جی نے شافعیہ کی تقلید جامد
سے سیکھ کر جمائے ہرگز نہیں جمتے حدیث جبریل بروایت جابر رضی اللہ تعالٰی
عنہ میں نسائی کے یہاں یوں ہے:
ہّٰلل ٰ
ان جبریل اتی النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم حین کان الظل مثل شخصہ فصلی العصر ثم اتاہ فی
الیوم الثانی حین کان ظل الرجل مثل شخصہ فصلی الظھر ؎۳۔
)۱/۶۰ مطبوعہ سلفیہ الہور کتاب المواقیت آخر وقت العصر ( ؎۳النسائی
دوسری روایت میں ہے :ثم مکث حتی اذاکان فیئ الرجل مثلہ جاء ہ للعصر فقال قم یامحمد فصلی
ٰ
العصر ثم جاء ہ من الغدحین کان فیئ الرجل مثلہ فقال قم یامحمد فصل فصلی الظھر ؎۴۔
)۱/۶۲ اوّل وقت العشاء ،مطبوعہ سلفیہ الہور ( ؎۴النسائی کتاب المواقیت
ٰ ٰ
مسند اسحق میں ابی مسعود بدری رضی اہلل تعالی عنہ یوں ہے :اتاہ حین کان ظلہ مثلہ فقال قم
فصل فقام فصلی العصر اربعا ثم اتاہ من الغدحین کان ظلہ مثلہ فقال لہ قم فصل فقام فصلی الظھر
اربعا ؎۱۔
۱/ حق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسالمیہ ریاض الشیخ
( ؎۱نصب الرایۃ بحوالہ سند اس ٰ
)۲۲۳
دارقطنی وطبرانی وابوعمر کے یہاں بروایت عقبہ بن عمرو وبشیر بن عقبہ رضی
اللہ تعال ٰی عنہ ما یوں ہے :جاء ہ حین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال یامحمد صلی
العصر فصلی ثم جاء ہ الغدحین کان ظل کل شیئ مثلہ فقال صلی الظھر فصلی
؎۲
حق بن راہویہ باب المواقیت مکتبہ اسالمیہ ریاض الشیخ
بحوالہ سند اس ٰ ( ؎۲دارقطنی
)۱/۲۵۶
روح امیں علیہ الصالۃ والتسلیم ظہر کے لئے
ِ یہ سب حدیثیں تصریح صریح ہیں کہ
حاضر اس وقت ہُوئے جب سایہ ایک مثل کو پہنچ چکا تھا اس وقت نماز پڑھنے
کے لئے عرض Zکی اور حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے پڑھی اس
کے یہ معنی کیونکر ممکن کہ ختم ِ مثل تک نماز سے فارغ ہولےے تھے۔ حدیث
سائل بروایت عبداللہ بن قیس رضی اللہ تعالٰی عنہ میں ابوداؤد کے یہاں یوں ہے:
امربالالفاقام الفجر حین انشق (الی قولہ) فاقام الظھر فی وقت العصر الذی کان قبلہ ؎۳۔
)۱/۲۵ مطبوعہ رشیدیہ دہلی باب المواقیت ( ؎۳ترمذی
اس میں تصریح ہے کہ ایک مثل ہونے پر بالل رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ظہر کی
تکبیر کہی تو مثل تک فراغ Zکیسا۔
ثانیا آیہ کریمہ تو آپ کے نزدیک عام ہے اور احادیث جبریل وسائل خاص اور آپ
کے اصول میں عام وخاص متعارض نہیں بلکہ عام اُس خاص سے مخصص
ہ وجائے گا ولہ ذا خود بھی یہاں معارضہ صرف احادیث میں مانا نہ آیت وحدیث
میں پھر ا ُن حدیثوں کے مقابل آیت کا پیش کرنا کیا معنی ،کیا آپ کے داؤں کو
آیت عام نہیں رہتی تخصیص حرام ہوجاتی ہے۔
ثالثا ً احادیث میں دفع معارضہ یوں بھی ممکن کہ حدیث تفریط میں وقت الصالۃ
االخری ؎۴سے اُس کا وقت خاص مراد لیجئے یعنی نماز قضا جب ہوتی ہے کہ ٰ
وقت مشترک باقی ہے قضا نہ ہُوئی
ِ وقت خاص آجائے جب تک ِ دوسری نماز کا
اور حدیث عبداللہ بن عمرو میں ظہر خواہ عصر دونوں سے جس میں چاہے وقت
خاص لے لیجئے اور دوسری میں وقت مطلق یعنی ظہر کا وقت خاص وقت
عصر آنے تک ہے جب عصر کا وقت آیا ظہر کا خاص وقت نہ رہا اگرچہ مشترک
باقی ہو یا ظہر کا وقت عصر کے وقت خاص آنے تک ہے کہ اس کے بعد ظہر کا
وقت خاص خواہ مشترک اصال ً نہیں رہتا تو صورت موافقت اسی میں منحصر نہ
احتمال اشتراک عــہ کو دفع کرسکیں ،ماّل جی مدعی بننا آسان
ِ تھی جس سے آپ
ہے مگر اقامت دلیل کے گر انبار عہدوں سے سالمت نکل جانا مشکل۔
ُ ً
عــہ اقول ظاہر ہے کہ احتمال اشتراک مسئلہ مجمع میں قائل جمع کو اصال نافع نہیں جمع تقدیم سے تو اسے مس
ہی نہیں اور جمع تاخیر بھی اس کے قائل کے نزدیک صرف آغاز وابتدائے وقت آخر بقدر چار رکعت سے مخصوص نہیں
ُ ُ
معہذا جب وقت مشترک ٹھہرا پہلی نماز بھی اپنے وقت پر ہوئی اور اس کے بعد دوسری بھی اپنے وقت میں ،یہ جمع
ُ
صوری ہے نہ حقیقی کہ ایک نماز اپنے وقت سے خارج ہوکر دوسری کے وقت میں پڑھی جائے کماالیخفی ۱۲منہ رضی
ٰ
اہلل تعالی عنہ (م)
وقت ظہر میں آیت واحادیث توقیت کے عموم وظواہر پر وہ ایمان
اب اس صریح ظلم وناانصافی کو دیکھےے کہ مسئلہ ِ
کہ نہ آیت صالح تخصیص نہ یہ حدیثیں 5الئق تاویل نہ ان کے مقابل صحاح حدیث قابل قبول بلکہ واجب کہ وہ حدیثیں
ُ
تاویلوں کی گھڑت سے موافق کرلی جائیں اگرچہ وہ اس تاویل سے صاف ابا کرتی ہوں اور ان میں ہرگز تاویل نہ کی جائے
ً ّ ُ
اگرچہ بے دقت اسے جگہ دیتی ہوں۔ اور جب مسئلہ جمع کی باری آئے فورا نگاہ پلٹ جائے اب آیت واحادیث واجب
ُ
التخصیص ،اور ان کے مقابل نری احتمالی چند روایات واجب االعتماد وقطعی التنصیص ،اور ان کے لئے آیات واحادیث
کے مطابق صاف ونظیف محامل مردود وباطل ،غرض شریعت اپنے گھر کی ہے ،اجتہاد کی کوٹھری دوہرے درکی ہے۔
ّ
دیانت کا ٹٹو دونوں باگوں کستا ہے ،پورب کی سڑک میں پچھم کا رستہ ہے
یعنی جن کے متعلق یہ خدمتیں تھیں کہ حضور اقدس Zصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم
جس مجلس میں تشریف فرما ہوں نعلین اُٹھا کر رکھیں اُٹھتے وقت سامنے
اوقات نماز پر پانی حاضر الئیں ظاہر ہے
ِ حاضر کریں سوتے وقت بچھونا بچھائیں
کہ انہیں خلوت وجلوت ہر حالت میں کیسی مالزمت دائمی کی دولت عطا
فرمائی پھر ان کے علم کے بعد کسی کی کیا حاجت ہے قالہ القاضی کمانقلہ فی
المرقاۃ ۱۲منہ رضی الل ّٰہ تعالٰی عنہ (م)
)۱/۵۳۱ قدیمی کتب خانہ کراچی ( ؎۲صحیح بخاری مناقب عبداللہ بن مسعود
ہّٰلل
حدیث :۳۴سنن ابی داؤد میں ہے :حدثنا قتیبۃ ناعبدا بن نافع عن ابی مودود عن سلیمن بن ابی
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ ٰ
یحییعن ابن عمر رضی ا تعالی عنھا قال ما جمع رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم بین المغرب
والعشاء قط فی السفر اال مرۃ ؎۱
(یعنی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ
صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی کسی سفر میں مغرب وعشاء مالکر نہ
پڑھی سوا ایک بار کے) ظاہر ہے کہ وہ بار وہی سفر حجۃ الوداع ہے کہ شب نہم
ذی الحجہ مزدلفہ میں جمع فرمائی جس پر سب کا اتفاق ہے۔
۱/۱ آفتاب عالم پریس الہور کتاب الصل ٰوۃ باب الجمع بین الصالتین ( ؎۱سنن ابی داؤد
)۷۱
اقول :اس حدیث کی سند حسن جید ہے ،قتیبہ توقتیبہ ہیں ثقہ ثبت رجال ست ّہ
منسے ،اور عبداللہ بن نافع ثقہ صحیح الکتاب رجال صحیح مسلم سے اور سلی ٰ
بن ابی یحیٰی الباس بہ (اس میں کوئی نقصان نہیں ہے۔ ت) ابن حبان نے اُنہیں
ثقات تابعین میں ذکر کیا ،رہے ابومودود وہ عبدالعزیز بن ابی سلیمن مدنی ہذلی
مقبول ہیں کمافی التقریب۔ حافظ الشان نے تہذیب التہذیب میں فرمایا:
ٰ ٰ
سلیمن بن ابی یحی ی حجازی روی عن ابی ھریرۃ وابن عمر ،وعنہ ابن عجالن وداؤد بن قیس وابومودود
ٰ
عبدالعزیز بن ابی سلیمن ،قال ابوحاتم ،مابحدیثہ باس ،وذکرہ ابن حبان فی الثقات ،روی لہ ابوداود
حدیثا واحدا فی الجمع بین المغرب والعشاء ؎۱۔
)۴/۲۲۸ مطبوعہ دائرۃ المعارف حیدرآباد را وی ۳۷۹ ( ؎۱تہذیب التہذیب
ّ
ثم اقول :بعد نظافت سند مثل حدیث کا بروایت ایوب عن نافع عن ابن عمر بلفظ لم یرابن عمر جمع
بینھما قط االتلک اللیلۃ
(ابن عمر کو نہیں دیکھا کہ دو ۲نمازوں کو جمع کیا ہو سوائے اس رات کے۔ ت)
مروی ہونا کچھ مضر نہیں اگر یہاں نافع فعل ابن عمر اور وہاں ابن عمر فعل
سیدالبشر صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم روایت کریں کیا منافات ہے خصوصا ً یروی
عن ایوب معضل ہے اور معضل ماّل جی کے نزدیک محض مردود ومہل اور وہ بھی
بصےغہ مجہول کو غالبا ً مشیر ضعف ہے تو ایسی تعلیق حدیث سند متصل کے
کب معارض ہوسکتی ہے۔
ہّٰلل ٰ
حدیث :۳۵مؤطائے امام محمد میں ہے :قال محمد بلغنا عن عمر بن الخطاب رضی ا تعالی عنہ
ٰ
انہ کتب فی االفاق یناھھم ان یجمعوا بین الصالۃ واخبرھم ان الجمع بین الصالتین فی وقت واحد
کبیرۃ من الکبائر اخبرنا بذلک الثقات عن العالء بن الحارث عن مکحول ؎۲۔
(یعنی امیرالمؤمنین امام العادلین ناطق بالحق والصواب عمرفاروق اعظم رضی
اللہ تعالٰی عنہ نے تمام آفاق میں فرمان واجب االذعان نافذ فرمائے کہ کوئی
شخص دو ۲نمازیں جمع نہ کرنے پائے اور اُن میں ارشاد فرمادیا کہ ایک وقت
میں دو ۲نمازیں مالنا گنا ِہ کبیرہ ہے)
مطبوعہ آفتاب عالم باب الجمع بین اصالتین فی السفر والمطر ( ؎۲مؤطا امام احمد
پریس الہور ص )۱۳۲
الحمد للہ امام عادل فاروق الحق والباطل نے حق واضح فرمادیا اور اُن کے
فرمانوں پر کہیں سے انکار نہ آنے نے گویا مسئلے کو درجہ اجماع تک مترقی کیا۔
جت ہے عالء بن الحارث تابعیاقول :یہ حدیث بھی ہمارے اصول پر حسن جید ح ّ
صدوق حقیہ رجال صحیح مسلم وسنن اربعہ سے ہیں۔
واختالطہ الیضر عندنا مالم یثبت االخذ بعدہ فقد ذکر المحقق علی االطالق فی فتح القدیر کتاب
الصالۃ باب الشھید حدیث احمد ثنا عفان بن مسلم ثنا حماد بن سلمۃ ثنا عطاء بن السائب ومعلوم
ان عطاء بن السائب ممن اختلط فقال ارجوان حماد بن سلمۃ ممن اخذ منہ قبل التغیر ثم ذکر
ً
الدلیل علیہ ثم قال وعلی االبھام الینزل علی الحسن ؎۱۔ (ملخصا)
عالء کا مختلط ہونا ہمارے نزدیک مضر نہیں ہے جب تک یہ ثابت نہ ہوکہ یہ روایت
اس سے اختالط سے بعد لی گئی ہے۔ کیونکہ شیخ ابن ہمام نے فتح القدیر کی
کتاب الصلٰوۃ باب الشہید میں احمد کی روایت ذکر کی ہے جس کا ایک راوی
عطاء ابن سائب ہے۔ اور عطاء ابن سائب کا مختلط ہونا سب کو معلوم ہے ،مگر
ابن ہمام نے کہا کہ مجھے امید ہے کہ حماد بن سلمہ نے یہ روایت عطاء کے
اختالط میں مبتال ہونے سے پہلے اس سے اخذ کی ہوگی۔ پھر اس کی دلیل بیان
کی اور کہا کہ اگر ابہام پایا بھی جائے تو حسن کے درجے سے کم نہیں ہے۔ (ت)
)۲/۱۰۴ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھر کتاب الصلٰوۃ باب الشہید ( ؎۱فتح القدیر
اور امام مکحول ثقہ فقیہ حافظ جلیل القدر بھی رجال مسلم واربعہ سے ہیں۔
والمرسل حجۃ عندنا وعند الجمھور اما ابھام شیوخ محمد فتوثیق المبھم مقبول عندنا کمافی
المسلم وغیرہ السیما من مثل االمام محمد ومع قطع النظر عنہ فلقائل ان یقول قدانجبر بالتعدد فی
فتح المغیث فی ذکر الملقوب رونیاھا 5فی مشایخ البخاری البی احمد بن عدی قال سمعت عدۃ
مشایخ یحکون وذکرھا ومن طریق ابن عدی رواھا الخطیب فی تاریخہ وغیرہ والیضر جھالۃ شیوخ ابن
عدی فیھا فانھم عدد ینجبر بہ جھالتھم ؎۲۔
مرسل ہمارے اور جمہور کے نزدیک حجت ہے۔ رہا محمد کے اساتذہ کا مبہم ہونا،
تو مبہم کی توثیق ہمارے نزدیک نزدیک مقبول ہے ،جیسا کہ مسلم وغیرہ میں ہے،
خصوصا ً جب توثیق کرنے والی امام محمد جیسی ہستی ہو ،اور اس سے قطع
نظر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ متعدد اسنادوں سے مروی ہونے کی وجہ سے اس
کی یہ خامی دور ہوگئی ہے۔ فتح المغیث میں مقلوب کا ذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ
''مشائخ البخاری'' میں احمد ابن عدی سے مروی ہے کہ میں نے متعدد مشائخ کو
یہ حدیث بیان کرتے سنا ہے۔ ابن عدی ہی کے واسطے سے یہ بات خطیب نے بھی
اپنی تاریخ میں ذکر کی ہے اور دےگر علماء نے بھی۔ اور ابن عدی کے اساتذہ کا
مبہم ہونا مضر نہیں ہے کیونکہ ان کی تعداد اتنی ہے کہ اس کی وجہ سے وہ
مجہول نہیں رہتے۔ (ت)
)۱/۳۲۱ مطبوعہ بیروت داراالمام الطبری ( ؎۲فتح المغیث المقلوب
ٰ ٰ
حدیث :۳۶امام محمد رضی اہلل تعالی عنہ آثار ماثورہ کتاب الحجج عیسی بن ابان میں روایت
ٰ
فرماتے ہیں :اخبرنا اسمعیل بن ابرھیم البصری عن خالد الحذاء عن حمید بن ھالل عن ابی قتادۃ
ہّٰلل ٰ
العدوی قال سمعت قراء ۃ کتاب عمر بن الخطاب رضی ا تعالی عنہ ثلث من الکبائر الجمع بین
الصالتین والفرار من الزجف والنھبۃ ؎۱
(یعنی حضرت ابوقتادہ عدوی کہ اجلہ اکابر وثقات تابعین سے ہیں بلکہ بعض نے
ا ُنہیں صحابہ میں گنا ،فرماتے ہیں میں نے امیرالمومنین فاروق اعظم Zرضی اللہ
تعالٰی عنہ کا شقّہ وفرمان سنا کہ تین ۳باتیں کبیرہ گناہوں سے ہیں :دو ۲نمازیں
جمع کرنا اور جہاد میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا اور کسی کا مال لُوٹ لینا)
)۱/۱۶۵ دارالمعارف النعمانیہ الہور ( ؎۱کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصالتین
معیل بن ابراہیماقول :یہ حدیث اعلٰی درجہ کی صحیح ہے اس کے سب رجال اس ٰ
ابن علیہ سے آخر تک ائمہ ثقات عدول رجال صحیح مسلم سے ہیں وللہ الحمد۔
لطیفہ :حدیث مؤطا کے جواب میں تو ماّل جی کو وہی اُن کا عذر معمولی عارض
ہواکہ منع کرنا عمر کا حالت اقامت میں بالعذر تھا۔
اقول :اگر ہرجگہ ایسی ہی تخصیص تراش لینے کا دروازہ کھُلے تو تمام احکام
شرعیہ سے بے قیدوں کو سہل چھٹی ملے جہاں چاہیں کہہ دیں یہ حکم خاص
فالں لوگوں کے لئے ہے ،حدیث صحیحین کو تین طرح رد کرنا چاہا:
اوّل :انکار جمع اس سے بطور مفہوم نکلتا ہے اور حنفیہ قائل مفہوم نہیں ،اس
جواب کی حکایت خود اُس کے َرد میں کفایت ہے اُس سے اگر بطور مفہوم
نکلتی ہے تو مزدلفہ کی جمع کہ مابعد اال ہمارے نزدیک مسکوت عنہ ہے انکار
جمع تو اس کا صریح منطوق ومدلول مطابقی ومنصوص عبارۃ النص ہے۔
اقول :اوال اُس کی نسبت اگر بعض اجلہ شافعیہ کے قلم سے براہ بشریت لفظ
حرمت تقلید ابوحنیفہ وشافعی کو کیا الئق ماّل جی مدعی اجتہاد و ُ
مفہوم نکل گیا ُ
تھا کہ حدیث صحیح بخاری وصحیح مسلم َرد کرنے کیلئے ایسی بدیہی غلطی میں
ایک متأخر مقلد کی تقلید جامد کرتے شاید رد ِ احادیث صحیحہ میں یہ شرک
صریح جائز وصحیح ہوگا اب نہ اُس میں شائبہ نصرانیت ہے نہ
اتخذوا احبارھم ورھبانھم اربابا ً من دون الل ّٰہ ( ؎۲انہوں نے اپنے عالموں
اور راہبوں کو اللہ کے عالوہ اپنا رب بنالیا۔ ت) کی آفت کبر مقتا عندالل ّٰہ ان
جرم ہے کہ تم اس کام کا کہو جو تقولوا ماالتفعلون ( ؎۳اللہ کے نزدیک بڑا ُ
خود نہیں کرتے۔ ت)
)۶۱/۳ ؎۳القرآن ۹/۳۱ ( ؎۲القرآن
ثانیا :بفرض غلط مفہوم ہی سہی اب یہ نامسلّم کہ حنفیہ اس کے قائل نہیں
صرف عبارات شارع غیر متعلقہ بعقوبات میں اس کی نفی کرتے ہیں کالم صحابہ
ومن بعدہم من العلماء میں مفہوم مخالف بے خالف مرعی ومعتبر کمانص علیہ
فی تحریر االصول والنھر الفائق والدرالمختار وغیرھا من االسفار قد ذکرنا نصوصھا فی رسالتنا القطوف
اّل
الدانیۃ لمن احسن الجماعۃ الثانیۃ ۱۳۔ دوم :ایک رام پوری م سے نقلہّٰلل کیا کہ ہّٰلل ِ
ابن
مسعود سے مسند ابی یعلی میں یہ روایت بھی ہے کہ کان رسول ا صلی ا علیہ
وسلم یجمع بین الصالتین فی السفر ( ؎۱رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سفر میں
دو نمازیں جمع کرتے تھے۔ ت)
۵/ مطبوعہ علوم القرآن بیروت حدیث ۵۳۹۱ مسند ابن مسعود ( ؎۱مسند ابویعلی
)۱۸۱
تو موجہ ہے کہ حدیث صحیحین کو حالت نزول منزل اور روایت ابی یعلی کو
حالت سیر پر حمل کریں یہ مذہب امام مالک کی طرف عود کرجائے گا۔
اوّال ً ماّل جی خود ہی اسی بحث میں کہہ چکے ف ۱ہوکہ شاہ صاحب نے مسند ابی
یعلی کو طبقہ ثالثہ میں جس میں سب اقسام کی حدیثیں صحیح حسن غریب
معروف شاذ منکر مقلوب موجود ہیں ٹھہرایا ہے ،پھر خود ہی اس طبقے کی
کتاب کو کہا ف ۲اس کتاب کی حدیث بدون تصحیح کسی محدّث کے یا پیش
کرنے سند کے کیونکر تسلیم کی جاوے یہ کتاب اُس طبقے کی ہے جس میں
سب اقسام کی حدیثیں صحیح اور سقیم مختلط ہیں یہ کیا دھرم ہے کہ اوروں پر
منہ آؤ اور اپنے لیے ایک رام پوری ماّل کی تقلید سے حالل بتاؤ اتخذوا احبارھم
ورھبانھم ؎۲۔
( ؎۲القرآن )۹/۳۱
) ص ۴۰۰ ف ۲معیارالحق (ف ۱معیارالحق ص ۳۹۷
ماّل جی! کسی ذی علم سے التجا کرو تو وہ تمہیں صریح ومجمل ثانیا :اقولُ :
ومتعین ومحتمل کا فرق سکھائے حدیث صحیحین انکار جمع حقیقی میں نص
صریح ہے اور روایت ابویعلٰی حقیقی جمع کا اصال ً پتا نہیں دیتی بلکہ احادیث جمع
صوری میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ کی حدیثیں صاف صاف جمع
صوری بتارہی ہیں تمہاری ذی ہوشی کہ نص ومحتمل کو لڑاکر اختالف محامل
سے را ِہ توفیق ڈھونڈتے ہو۔
ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی
ِ قابل تماشا ہے کہِ ماّل جی کا اضطرابلطیفہ :اقول ُ
عنہ کو کہیں راوی Zجمع ٹھہرا کر عدد رواۃ پندرہ بتاتے ہیں کہیں نافی سمجھ کر
چودہ صدر کالم میں جہاں راویان جمع گنائے صاف صاف کہا ابن مسعود فی
ابن
ِ احدی الروایتین اب رامپوری ماّل کی تقلید سے وہ احدی الروایتین بھی گئی
مسعود خاصے مبثتان جمع میں ٹھہرگئے۔
ماّل جی بہت ہی علق نفیس سمجھے ہُوئے ہیں اُن دو کو عربی میں سوم :جسے ُ
بولے تھے یہاں چمک چمک کر اردو Zمیں چہک رہے ف ۳ہیں کہ اگر کہو جس جمع
کو ابن مسعود نے نہیں دیکھا وہ درست نہیں تو تم پر یہ پہاڑ مصیبت کا ٹوٹے گاکہ
جمع بین الظہر اور عصر کو عرفات میں کیوں درست کہتے ہو باوجودیکہ اس
قول ابن مسعود کے سے تو نفی جمع فی العرفات کی بھی مفہوم ہوتی ہے پس
جو تم جواب رکھتے ہو اُسی کو ہماری طرف سے سمجھو یعنی اگر کہو نہ ذکر
ابن مسعود کا جمع فی العرفات کو بنا بر شہرت عرفات کے تھا تو ہم کہیں ِ کرنا
گے کہ جمع فی السفر بھی قرن صحابہ میں مشہور تھی کیونکہ چودہ صحابی
ابن مسعود نے اس کا
ِ سوا ابن مسعود کے اُس کے ناقل ہیں تو اسی واسطے
استشنا نہ کیا اور اب محمل نفی کا جمع بالعذر ہوگی اور اگر کہو کہ جمع فی
العرفات بالمقائسہ معلوم ہوتی ہے تو ہم کو کون مانع ہے مقائسہ سے وعلٰی ہذا
القیاس جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا ہے۔
ص ) ۴۱۶ (ف ۳معیارالحق
سبد بناکر سب سے اوّل ذکر کیا اُن دو کی تو ل سر َماّل جی نے گ ُ ِ
اس جواب کو ُ
امام نووی وسالم اللہ رامپوری کی طرف نسبت کی مگر اسے بہت پسند کرکے
بالنقل ونسبت اپنے نامہ اعمال میں ثبت رکھا حاالنکہ یہ بھی کالم امام نووی میں
مذکور اور فتح الباری وغیرہ میں ماثور تھا شہرت جمع عرفات سے جو جواب
امام محقق علی االطالق Zمحمد بن الہمام وغیرہ علمائے اعالم Zحنفیہ کرام نے
افادہ فرمایا اُس کا نفیس وجلیل مطلب ماّل جی کی فہم تنگ میں اصال ً نہ دھنسا
اجتہاد کے نشہ میں ادعائے باطل شہرت جمع سفر کا آوازہ کسا ،اب فقیر غفرلہ
سنےے فاقو ل وبحو ل ربی اصول اوّال ً ماّل جی المولی القدیر سے تحقیق حق ُ
ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ نے ِ جواب علماء کا یہ مطلب سمجھے کہ سیدنا
دیکھیں تو تین نمازیں غیر وقت میں مگر دو ۲ذکر کیں مغرب وصبح مزدلفہ ا ور
تیسری یعنی عصر عرفہ کو بوجہ شہرت ذکر نہ فرمایا جس پر آپ نے یہ کہنے
کی گنجائش سمجھی کہ یونہی جمع سفر بھی بوجہ شہرت ترک کی اس ادعائے
باطل کا لفافہ تو بحمداللہ تعالٰی اوپر کھل چکا کہ شہرت درکنار نفس ثبوت کے
اللے پڑے ہیں حضرت نے چودہ ۱۴صحابہ کرام کا نام لیا پھر آپ ہی دس ۱۰سے
دست بردار ہوئے چار ۴باقی ماندہ میں دو ۲کی روایتیں نِری بے عالقہ اُتر گئیں،
رہے دو ،۲وہاں بعون ٖہ تعالٰی وہ قاہر باہر جواب پائے کہ جی ہی جانتا ہوگا ،اگر
قرن صحابہ میں ِ بالفرض دو ۲سے ثبوت ہوبھی جاتا تو کیا صرف دوکی روایت
شہرت ہے ،مگر یہاں تو کالم ِ علماء کا وہ مطلب ہی نہیں بلکہ مراد یہ ہے کہ
حضور پُرنور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے صرف انہیں دو ۲نمازوں
عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کا غیر وقت میں پڑھنا ثابت ،انہیں دو ۲کو ابن مسعود
رضی اللہ تعالٰی عنہ نے دیکھا انہیں دونوں کو صالتین کہہ کر یہاں شمار فرمایا
اگرچہ تفصیل میں بوجہ شہرت عامہ تامہ ایک کا نام لیا صرف ذکر مغرب پر
اقتصار فرمایا ایسا اکتفا کالم صحیح میں شائع ،قال عزوجل:وجعل لکم
سرابیل تقیکم الحر ( ؎۱اور تمہارے لےے لباس بنائے جو تمہیں گرمی سے
بچاتے ہیں۔ ت)
)۱۶/۸۱ ( ؎۱القرآن
خود انہیں نمازوں کے بارے میں امام سالم بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی
عنہم کا ارشاد دیکھئے کہ پوچھا گیا کیا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سفر میں
کوئی نماز جمع کرتے تھے؟ فرمایا :ال االبجمع (نہ مگر مزدلفہ میں) کماقدمنا عن
سنن النسائی۔ ماّل جی! یہاں بھی کہہ دیجیو کہ جمع سفر کو شہر ًۃ چھوڑ دیا ہے،
سنےے امام ترمذی اپنی صحیح میں فرماتے ہیں: اور ُ
العمل علی ھذا عند اھل العلم ان الیجمع بین الصالتین اال فی السفر اوبعرفۃ ؎۱۔ اہل علم کے
ہاں عمل اسی پر ہے کہ بغیر سفر کے اور یوم ِ عرفہ کے دو ۲نمازیں جمع نہ کرے۔
(ت)
مطبوعہ رشیدیہ دہلی ابواب الصلوٰہ باب ماجاء فی الجمع بین اصالتین ( ؎۱جامع ترمذی
)۱/۲۶
ترمذی نے صرف نماز عرفہ کا استشناء کیا نماز مزدلفہ کو چھوڑ دیا تو ہے یہ کہ
دونوں جمعیں متالزم ہیں اور ایک کا ذکر دُوسری کا یقینا مذِکّر خصوصا ً نمازِ
عرفہ کہ اظہر واشہر تو مزدلفہ کا ذکر دونوں کا ذکر ہے غرض ان صالتین کی
جداگانہ کا افادہ ہے کہ دو۲
دوسری نمازِ ظہر عرفہ ہے نہ فجر نحر وہ مسئلہ ُ
نمازیں تو غیر وقت میں پڑھیں اور فجر وقت معمول سے پیشتر تاریکی میں اور
مت ہے کہ فجر حقیق ًۃ وقت سے پہلے نہ تھی نہ ہرگز کہیں کبھی اجماع ا ُ ّ
ِ بالشُ بہہ
اس کا جواز ،اور خود اسی حدیث ابومسعود کے لفظ مسلم کے یہاں
بروایت جریر عن االعمش قال قبل وقتھا بغلس ؎۲اُس پر شاہد ،اگر رات میں پڑھی جاتی
ذکر غلس کے کیا معنی تھے
۱ مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی استحباب زیادۃ التغلیس الخ ( ؎۲صحیح مسلم
)/۴۱۷
صحیح بخاری میں تو تصریح صریح ہے کہ فجر بعد طلوع فجر پڑھی۔
ٰ ٰ ہّٰلل
اذقال حدثنا عبدا بن رجاء ثنا اسرائیل عن ابی اسحق عن عبدالرحمن بن یزید قال خرجنا مع
ہّٰلل
عبدا الی مکۃ ثم قدمنا جمعا (وفیہ) ثم صلی الفجر حین طلع الفجر الحدیث ؎۳
حقکہ ا ،حدیث بیان کی ہم سے عبداللہ ابن رجاء نے اسرائیل سے ،اس نے ابواس ٰ
سے ،اس نے عبدالرحمن سے کہ ہم عبداللہ کے ساتھ مک ّہ آئے ،پھر مزدلفہ آئے۔
اس روایت میں ہے کہ پھر فجر پڑھی جب فجر طلوع ہُوئی ،الحدیث۔
مطبوعہ قدیمی اصح ( ؎۳بخاری شریف کتاب المناسک باب متی یصلی الفجر بجمع
المطابع کراچی )۱/۲۲۸
ہّٰلل ہّٰلل ٰ ٰ
وقال حدثنا عمروبن خالد ثنا زھیر ثنا ابواسحق سمعت عبدالرحمن بن یزید یقول حج عبدا رضی ا
ہّٰلل ٰ ٰ
تعالی عنہ فاتینا المزدلفۃ (وفیہ) فلما طلع الفجر قال ان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم کان
الیصلی ھذہ الساعۃ االھذہ الصالۃ فی ھذا المکان من ھذا الیوم الحدیث ؎۴۔
اور کہا ،حدیث بیان کی عمر بن خالد نے زہیر سے ،اس نے ابواسحاق سے کہ
سنا ہے کہ عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے حج
میں نے عبدالرحمن ابن یزید سے ُ
کیا تو ہم مزدلفہ کو آئے۔ اس میں ہے جب فجر طلوع ہُوئی تو کہا کہ نبی صلی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم اس وقت میں کوئی نماز نہیں پڑھتے تھے مگر یہ نماز،
اِسی جگہ ،اِسی دن ،الحدیث۔ (ت)
مطبوعہ قدیمی اصح المطابع باب من اذن واقام لکل واحدۃ منہما ( ؎۴بخاری شریف
کراچی )۱/۲۲۷
اور یہ بھی اجماع موافق ومخالف ہے کہ عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ حقیق ًۃ غیر
وقت میں پڑھیں تو فجر نحر ومغرب مزدلفہ کا حکم یقینا مختلف ہے ہاں عصر
عرفہ ومغرب مزدلفہ متحد الحکم Zاور غیر وقت میں پڑھنے کے حقیقی معنی
انہیں کے ساتھ خاص اور جب تک حقیقت بنتی ہو مجاز کی طرف عدول جائز
نہیں نہ جمع بین الحقیقۃ والمجاز ممکن خصوصا ً ماّل جی کے نزدیک تو جب تک
مانع قطعی موجود نہ ہو ظاہر پر حمل واجب اور شک نہیں کہ بے وقت پڑھنے
سے ظاہر ومتبادر وہی معنی ہیں جو اُن عصر ومغرب میں حاصل نہ وہ کہ فجر
میں واقع Zتو واجب ہوا کہ جملہ صلّی الفجر اُن صالتین کا بیان نہ ہو بلکہ یہ جملہ
مستقلہ ہے اور صالتَین سے وہی عصر ومغرب مراد تو اُن میں اصال ً کسی کا ذکر
ہرگز متروک نہیں ،ہاں تفصیل میں پتے کیلئے ایک ہی کا نام لیا بوجہ کمال اشتہار
دوسری کا ذکر مطوی کیا بحمداللہ یہ معنی ہیں جواب علماء کے جس سے
مالّجی! اب اُسماّل جی کی فہم Zبمیس اور ناحق آنچہ انسان میکند کی ہوسُ ،
برابری کے بڑے بول کی خبریں کہے کہ جو جواب تمہارا ہے وہی ہمارا سمجھئے
خدا کی شان ؎
اوگمان بردہ کہ من کردم چواو
فرق راکے بیند آں استیزہ جو
قلب فقیر پر القاء ہوئے پھر
ِ فائدہ :یہ معنی نفیس فیض فتاح علیم جل مجدہ سے
سرہ مطالعہ میں آئی دیکھا تو بعین ٖہ یہی
ّ ارکان اربعہ ملک العلماء بحرالعلوم قدس
ِ
ّ ٰ
معنی افادہ فرمائے ہیں والحمدلل ہ علی حسن التفھیم ارشاد فرماتے ہیں رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ:
وایضا،خبرالجمع انما نقلوا فی غزوۃ تبوک،وکان 5فی تلک الغزوۃ االف من الرجال ،و کان کل صلوا
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
خلف رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ،ولم یخبر منھم االواحد اواثنان ،ولم یشتھر ،ولم یروغیرہ،
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
بل بعض الحاضرین انکروا ذلک ،حتی قال ابن مسعود :مارأیت رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم
ٰ
صلی صالۃ لغیر میقاتھا؛ االصلی صلوتین جمع بین المغرب والعشاء بجمع ،وصلی الفجر یومئذ قبل
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
میقاتھا ،رواہ الشیخان وابوداود والنسائی ،فنفی ابن مسعود ،الذی قال فیہ رسول ا صلی ا تعالی
ُّ
علیہ وسلم :تمسکوا بعھد ابن ام عبد ،تقدیم صالۃ عن الوقت وتاخیرھا ،واخبر بانہ لم یقع االفی
ٰ
صالتین ،بین احدھما ،وھو المغرب بجمع اخرھا الی وقت العشاء ،ولم یبین االخر ،وھو العصر یوم عرفۃ،
ٰ
بتقدیمہ فی وقت الظھر ،لشھرتہ ،ولیعلم بالمقایسۃ ،واخبر خبرا اخر ،وھو تقدیم الفجر عن الوقت
ہّٰلل ٰ
المسنون المعتاد عندہ صلی ا تعالی علیہ وسلم۔ واذا کان حال خبر الجمع ماذکرنا وجب ردہ
اوتاویلہ ؎۱۔
نیز دو نمازوں کو جمع کرنے کی خبر صرف غزوہ تبوک میں منقول ہے اور اس
غزوے میں ہزاروں لوگ شامل تھے اور سب نے رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں تھیں ،مگر ایک یا دو کے عالوہ کسی نے جمع
کرنے کا ذکر نہیں کیا ،نہ یہ بات مشہور ہُوئی ،اس روایت کے عالوہ جمع کی
کوئی روایت نہیں آئی ہے ،بلکہ بعض حاضرین تبوک نے اس جمع سے صاف انکار
ابن مسعود رضی اللہ عنہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ ِ کیا ہے ،حتی کہ
تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا کہ ابن ام عبد (یعنی ابن مسعود) کی باتوں سے
تمسک کیا کرو نے فرمایا ہے کہ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالٰی علیہ وسلم نے کوئی نماز بغیر وقت کے پڑھی ہو مگر دو ۲نمازیں ،مزدلفہ
میں مغرب وعشاء کو جمع کیا اور اس دن فجر کی نماز اپنے وقت سے پہلے
پڑھی۔ بحوالہ بخاری ،مسلم ،ابوداؤد ،نسائی اس طرح ابن مسعود نے نماز کی
اپنے وقت سے تقدیم وتاخیر کی نفی کردی ہے اور بتادیا ہے کہ ایسا صرف دو۲
نمازوں میں ہُ وا تھا ،جن میں سے ایک نماز کا تو انہوں نے ذکر کردیا ،یعنی
مزدلفہ کی مغرب ،کہ اس کو عشاء تک مؤخر کیا تھا ،مگر دوسری نماز کا ذکر
نہیں کیا ،یعنی عرفہ کی عصر کا ،کہ اس کے ظہر کے وقت میں مقدم کرکے
پڑھاتھا ،عدم ِ ذکر کی وجہ ،اس کا مشہور ہونا ہے ،نیز یہ بات قیاس سے بھی
معلوم ہوسکتی ہے۔ چنانچہ اس کی بجائے انہوں نے دوسرا Zواقعہ بیان کردیا کہ
فجر کو ،رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مسنون اور اپنے معتاد وقت
سے پہلے پڑھا ،تو جب جمع کی روایت کا حال یہ ہے جو ہم نے ذکر کیا،
توضروری ہے کہ یاتو اس کو َرد کردیا جائے یا کوئی تاویل کی جائے۔ (ت)
مطبوعہ مطبع علوی انڈیا تتمہ فی الجمع بین اصالتین لبحر العلوم ( ؎۱ارکان اربعہ
ص )۱۴۶
اور اس کے مطالعہ سے بحمداللہ تعالٰی ایک اور توارد حسن معلوم ہوا فقیر
غفرلہ نے حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما سے پہلے جواب میں غروب
شفق کو قرب غروب پر حمل اور اس محتمل کو اُن نصوص صریحہ مفسرہ کی
طرف رد کیا اور قصہ مرویہ ابن عمر کو واحد بتایا تھا بعین ٖہ یہی مسلک ملک
العلماء نے اختیار فرمایا ،فرماتے ہیں:
بل المراد بغروب الشفق ،قرب غروبہ ،الن القصۃ واحدۃ ،وماذکرنا من قبل مفسرال یقبل التاویل،
ّ
فیاو ل بقرب غروب الشفق ،اویقال :ھذا من وھم بعض الرواۃ ،واماما ذکرنا اوال ،فھو مطابقلالمر 5المتقرر
فی الشرع من تعیین االوقات ؎۱۔
صہ ایک ہی ہے اور ہمغروب شفق سے مراد غروب کے قریب ہونا ہے کیونکہ ق ّ ِ
سر ہے ،تاویل کا احتمال نہیں رکھتی ،اس نے پہلے جو روایت بیان کی ہے وہ مف ّ
قرب غروب سے تاویل کرنی پڑے گی ،یا یہ کہا جائے ِ لئے یا تو غروب شفق کی،
گا کہ یہ کسی راوی کا وہم ہے اور پہلی جو ہم نے روایت ذکر کی ہے ،وہ شرع
میں جو کچھ مقرر ہوچکا ہے یعنی تعیین اوقات ،اس کے مطابق ہے۔ (ت)
ص ۱۴۷و )۱۴۸ ( ؎۱رسائل االرکان تتمہ فی الجمع بین اصالتین مطبوعہ مطبع علوی
بحمداللہ تعالٰی تیسرا توارد اور واضح ہوا حدیث معاذ بن جبل رضی اللہ تعالٰی عنہ
میں کالم ِ فقیر یاد کیجئے کہ اس روایت میں اسی طرح مقال واقع ہوئی مگر
فقیر کہتا ہے اس کا کون سا حرف جمع حقیقی میں نص ہے الخ بعین ٖہ یہی طریقہ
مع شی زائد موالنا بحر قدس سرہ ،چلے بعد عبارت مذکور فرماتے ہیں:
اما جمع التقدیم فلم یرو االفی الروایات الشاذۃ ال اعتداد بھا عند سطوع شمس القاطع ثم لیس فی
روایۃ ابی داود عن معاذ مایدل علی تقدیم العصر عن وقتھا؛ وانما فیہ ،اذازاغت الشمس قبل ان
ٰ ٰ
یرتحل جمع بین الظھر والعصر ،ویجوز انیکون الجمع بان یؤخر الظھر الی اخر وقتھا ویعجل العصر اول
وقتھا۔ او ان المراد بالجمع ،الجمع فی نزول واحد؛ وانکانتا ادیتا فی وقتیھا فافھم۔ ھکذا ینبغی ان یفھم
المقام ؎۲۔
رہی جمع تقدیم ،تو اس کا ذکر صرف شاذ روایات میں ہے اور قطعی دلیل کا
سورج طلوع ہونے کے بعد ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ پھر ابوداود Zکی روایت میں
ایسا لفظ ہے بھی نہیں جو عصر کی اپنے وقت سے تقدیم پر داللت کرتا ہو۔ اس
سورج ڈھل جاتا تھا تو ظہر وعصر میں تو صرف اتنا ہے کہ اگر روانگی سے پہلے ُ
کو جمع کرلیتے تھے۔ ہوسکتا ہے کہ جمع اسی طرح کرتے ہوں کہ ظہر کو آخر
وقت تک مؤخر کردیتے ہوں اور عصر اوّل وقت میں پڑھ لیتے ہوں۔ یہ بھی کہا
جاسکتا ہے کہ جمع سے مراد یہ ہے کہ دونوں کو پڑھنے کیلئے ایک ہی مرتبہ اُترتے
تھے ،اگرچہ ادا اپنے اپنے وقت میں کرتے تھے۔ اس کو سمجھو۔ اسی طرح اس
مقام کو سمجھنا چاہے۔ (ت)
صـــ )۱۴۸ ( ؎۲رسائل االرکان تتمہ فی الجمع بین اصالتین مطبوعہ مطبع علوی
اور واقعی بحمداللہ تعالٰی یہ تینوں مطالب عالیہ وہ جواہر غالیہ ہیں جن کی قدر
ل انصاف ہی جانیں گے عالمہ بحر قدس سرہ ،سا فاضل جامع اجل واغر دقیقZ اہ ِ
النظر اگر ایک بیان مسلسل مجمل مختصر میں اُنہیں افادہ فرماجائے ان کی
شان تدقیق Zسے کیا مستبعد پھر بھی ایک رنگ افتخار اُن کے کالم سے مترشح کہ
فرماتے ہ یں ھکذا ینبغی ان یفھم المقام مگر فقیر حقیر قاصر فاتر پر ان جالئل
قدسیہ زاہرہ اور اُن کے ساتھ اور دقائق وحقائق باہرہ مذکورہ کثیرہ وافرہ کا افادہ
محض عطیہ علیہ حضرت وہاب جواد بے سبقت استحقاق وتقدم استعداد ہے
ہّٰلل
ذلک فضل ا علینا وعلی الناس ولکن اکثر الناس الیشکرون oربی لک الحمد کماینبغی لجالل
ٰ
وجھک وکمال االئک ودفور نعمائک صل وسلم وبارک علی اکرم انبیائک محمد والہ
ٰ
وسائراصفیائک امین۔ موالنا قدس سرہ ،ان نفائس عزیزہ کو بیان کرکے فرماتے ہیں :انظر ماادق نظر
ائمتنا حیث التفوت عنھم دقیقۃ ؎۱۔ دیکھ تو ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی
نظر کیسی دقیق ہے کہ کوئی دقیقہ ان سے فروگزاشت Zنہیں ہوتا۔ (ت)
مطبوعہ مطبع علوی انڈیا تتمہ فی الجمع بین اصالتین لبحر العلوم ( ؎۱ارکان اربعہ
ص )۱۴۸
وکاشفان
ِ فقیر کہتا ہے ہاں واللہ آپ کے ائمہ اور کیا جانا کیسے ائمہ مالکان ازمہ
وشیران معارک ہیں کہ
ِ غُمہ ایسے ہی دقیق Zالنظر وعالی مدارک وشاہان بزم
منازل دقیق اجتہاد میں اوروں کے مساعی جمیلہ اُن کے توسن برق رفتار کی
گرد کونہ پہنچے اور کیوں نہ ہو کہ آخر وہ وہی ہیں کہ اگر ایمان وعلم ثریا پر معلق
ران بے بصر اُن کے معارج علیہ سے بے خبر ،اگر آئینہ ِ ہوتا لے آتے آج کل کے کو
عالمتاب میں اپنا منہ دیکھ کر طعن وتشنیع سے پیش آئیں کیا کیجئے ؎
مہ فشاند نوروسگ عوعو کند
کر کسے برخلقت خودمے تند
(چاند روشنی پھیالتا ہے اور کتّا بھونکتا ہے ہر کوئی اپنی فطرت کے مطابق چلتا
ہے)
ان حضرات کی طویل وعریض بدزبانیوں کا نمونہ یہیں دیکھ لیجئے مسئلہ جمع
ماّل جی کے دعوے تھے کہ وہ دالئل قطعیہ سے ثابت ہے اور اُس کا خالف میں ُ
کسی حدیث سے ثابت نہیں نہ جمع صوری پر اصال ً کوئی دلیل حنفیہ کے پاس ہے
ل انصاف نے دیکھ لیا کہ کس ہستی پر یہ لن اب بحول وقوت رب قدیر سب اہ ِ
ترانی کس بِرتے پر تتّا پانی والحول والقوۃ ااّل باللہ العلی العظیم۔
ثانیا اقول وباللہ التوفیق اگر نظر تتبّع کو رخصت جوالں دیجئے تو بعون ٖہ تعالٰی
واضح ہوکہ یہ جواب علما محض تن ّزلی تھا ورنہ اسی حدیث میں حضرت عبداللہ
بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ جمع عرفات بھی ذکر فرماچکے ،یہی حدیث ُ
سنن
نسائی کتاب المناسک باب الجمع بین الظہر والعصر بعرفہ میں یوں ہے:
ٰ ٰ ٰ
اخبرنا اسمعیل بن مسعود عن خالد عن شعبۃ عن سلیمن عن عمارۃ بن عمیر عن عبدالرحمن بن
ہّٰلل ٰ ہّٰلل ہّٰلل ٰ ہّٰلل
یزید عن عبدا رضی ا تعالی عنہ قال :کان رسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم یصلی الصالۃ
معیل بن مسعود نے خالد سے لوقتھا اال بجمع فی مزدلفۃ وعرفات ؎۲۔ ہمیں خبر دی اس ٰ
شعبہ سے عمارہ بن عمیر سے عبدالرحمن بن یزید سے کہ عبداللہ بن مسعود
رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا :نبی صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم ہر نماز اس کے
وقت ہی میں پڑھتے تھے مگر مزدلفہ وعرفات میں۔
)۲/۳۹ مکتبہ سلفیہ الہور کتاب الجمع بین الظہر والعصر بعرفۃ ( ؎۲النسائی
ماّل جی! ابھی آپ کی نازک چھاتی ماّل جی! اب کہے مصیبت کا پہاڑ کس پر ٹوٹا! ُ ُ
پر دلی کی پہاڑی آئی ہے سخت جانی کے آسرے پر سانس باقی ہوتو سر ّ
بچائےے کہ عنقریب مک ّہ کا پہاڑ ابوقبیس آتا ہے۔ ماّل جی! دعوٰی اجتہاد پر ادھار
کھائے پھرتے ہو اور علم ِ حدیث کی ہوا نہ لگی احادیث مرویہ بالمعنی صحیحین
وغیرہ ما صحاح وسنن مسانید ومعاجیم وجوامع واجزا وغیرہما میں دیکھےے صدہا
مثالیں اس کے پائےے گا کہ ایک ہی حدیث کو رواۃ بالمعنی کس کس متنوع طور
سے روایت کرتے ہیں کوئی پُوری کوئی ایک ٹکڑا کوئی دُوسرا کوئی کسی طرح
کوئی کسی طرح جمع طرق سے پُوری بات کا پتا چلتا ہے ولہذا امام الشان
ابوحاتم رازی معاصر امام بخاری فرماتے ہیں ہم جب تک حدیث کو ساٹھ ۶۰وجہ
سے نہ لکھتے اُس کی حقیقت نہ پہچانتے۔ یہاں بھی مخرج حدیث اعمش بن
من عن عبدالل ّٰہ ہے اعمش کے بعد حدیث منتشر ہُوئی اُن سے عمارۃ عن عبدالرح ٰ
حفص بن غیاث وابومعٰویہ وابوعوانہ وعبدالواحد بن زیاد وجریر وسفیان وداؤد
وشعبہ وغیرہم اجل ّہ نے روایت کی یہ روایتیں الفاظ واطوار وبسط واختصار وذکر
واقتصار میں طرق شتی پر آئیں کسی میں مغرب وفجر کا ذکر ہے ظہر عرفہ
صححین کسی میں ظہر عرفہ ومغرب کا بیان ہے فجر مذکور نہیں کروایۃ ال ّ
مزدلفہ ماثور نہیں کروایۃ النسائی کسی میں صرف مغرب کا تذکرہ ہے ظہر
وفجر وصےغہ مارأیت وغیرہ کچھ مسطور نہیں کحدیث النسائی ایضا فی المناسک ،باب
جمع الصالتین 5بالمزدلفۃ ،اخبرنا القاسم بن زکریا ثنا مصعب بن المقدام عن داود عن االعمش عن
ہّٰلل ٰ ٰ
عمارۃ عن عبدالرحمن بن یزید عن ابن مسعود ان النبی صلی ا تعالی علیہ وسلم جمع بین
المغرب والعشاء بجمع ؎۱۔ جیسا کہ نسائی کی حدیث جو کتاب المناسک ،باب جمع
الصالتین بمزدلفہ میں ہے حدیث بیان کی ہم سے قاسم ابن زکریا نے مصعب ابن
مقدام سے ،اس نے داؤد سے ،اس نے اعمش سے ،اس نے عمارہ سے ،اس نے
عبدالرحمن ابن یزید سے ،اس نے ابن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہ سے کہ رسول
اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے مغرب وعشاء کو مزدلفہ میں جمع کیا۔ (ت)
)۲/۴۰ مطبوعہ مکتبہ سلفیہ الہور الجمع بین الصلواۃ بالمزدلفۃ ( ؎۱سنن النسائی
اکثر میں نمازِ فجر پیش ازوقت مذکور ہے وھو بطریق کل ماذکرنا من رواۃ االعمش ماخال
جریرا (سوائے جریر کے ،اعمش کے جتنے راوی ہم نے ذکر کےے ہیں وہ اسی
طریقے سے بیان کرتے ہیں۔ ت) کسی میں لفظ بغلس مفید واقع Zومصرح مرام
کی تصریح ہے کمامر لمسلم من حدیث الضبی (جیسا کہ مسلم کے حوالے سے ضبی
کی حدیث گزری ہے۔ ت) ان تنوعات سے نہ وہ حدیثیں متعدد ہوجائیں گی نہ ایک
طریق دوسرے کا نافی ومنافی ہوگا بلکہ ان کے اجتماع سے جو حاصل ہو وہ
حدیث تام قرار Zپائے گا۔ اب خواہ یہ اختالف رواۃ اعمش کی روایت بالمعنی سے
ناشَے ہُوا خواہ خود اعمش نے مختلف اوقات میں مختلف طور پر روایت بالمعنی
کی اور ہر راوی نے اپنی مسموع پہنچائی چاہے یہ تنویع اعمش نے خود کی چاہے
سنی یا اعمش کو پہنچی عمارہ یا عبدالرحمن سے ہوئی اور وہ سب اعمش نے ُ
خواہ اصل منتہائے سند سیدنا عبداللہ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اوقات عدیدہ میں
شب مزدلفہ را ِہ مزدلفہ میں
ِ حسب حاجت مختلف طوروں پر ارشاد فرمائی مثال ً
ِ
ُ
یا وہاں پہنچ کر آج کی مغرب وفجر کا مسئلہ ارشاد کرنے کیلئے صرف انہیں دو۲
کا ذکر فرمایا عصر تو سب کے سامنے ابھی جمع کرچکے تھے اُس کے بیان کی
حاجت کیا تھی دوسرے وقت جمع بین الصالتین کا مسئلہ پیش ہو وہاں ذکرِ فجر
کی حاجت نہ تھی عصر عرفہ ومغرب مزدلفہ کے ذکر پر قناعت کی کہ سوا ان
دو ۲نمازوں کے حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے کبھی جمع نہ
فرمائی اور کسی وقت مغرب وعشائے مزدلفہ کا ذکر ہوکہ ان میں سنّت کیا ہے
اس وقت یہ پچھلی حدیث مختصر افادہ کی۔
ٰ
ثم اقول لطف یہ کہ یہی حدیث ابن مسعود رضی اہلل تعالی عنہ دوسرے مخرج مروی صحیح بخاری
بسند جلیل وصحیح جس کے ِ وسنن نسائی سے سیدنا امام محمد نے آثار مرویہ کتاب الحجج میں
ّ ّ
سب رواۃ اجلہ ثقات وائمہ اثبات ورجال صحیحین بلکہ صحاح ستہ سے ہیں یوں روایت فرمائی:
ٰ ٰ
اخبرنا سالم بن سلیم الحنفی عن ابی اسحق السبیعی عن عبدالرحمن بن االسود عن علقمۃ بن قیس
ہّٰلل ٰ ہّٰلل
واالسود بن یزید قاال کان عبدا بن مسعود رضی ا تعالی عنہ یقول الجمع بین الصالتین 5االبعرفۃ
الظھر والعصر ؎۱۔
)۱/۱۶۵ دارالمعارف النعمانیہ الہور ( ؎۱کتاب الحجۃ باب الجمع بین الصالتین
من الحنفی ابواسحاق سبیعی سے وہ عبدالرحمن بن اسود سے وہ سالم بن سلی ٰ
علقمہ بن قیس اور اسود بن یزید سے راوی Zہیں کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ
تعالٰی عنہ فرماتے تھے جمع بین الصالتین جائز نہیں مگر عرفہ میں ظہر وعصر۔
ماّل جی! اب یہاں کہہ دینا کہ ابن مسعود نے فقط جمع عرفات دیکھی جمع کیوں ُ
مزدلفہ خارج رہی حاالنکہ ہرگز نہ اس سے اعراض Zنہ اس پر اعتراض بلکہ ہر
محل وموقع کالم میں وہاں کی قدر حاجت پر اقتصار ہے یہاں مسافر کے جمع
بین الظہر والعصر کا ذکر ہوگا اُس پر فرمایا کہ ان میں جمع صرف روز عرفہ
عرفات میں ہے اس کے سوا ناجائز ،ولہذا الصالتین معرف بالم فرمایا جس میں
ماّل جی! ک ُ ِ
تب حدیث آنکھ کھول کر دیکھو روایات بالمعنٰی کے یہی اصل عہد ہے۔ ُ
بذات خود اپنی جامع صحیح میں اس کےِ ً
انداز آتے ہیں خصوصا امام بخاری تو
عادی ہیں حدیث کو ابواب مختلفہ میں بقدر حاجت پارہ پارہ کرکے التے ہیں اس
سے ایک پارہ دوسرے کو َرد نہیں کرتا بلکہ وہ مجموع حدیث کامل ٹھہرتی ہے۔
اس سے بحمداللہ تعالٰی واضح وآشکار ہوا کہ یہ حدیث بھی تمام وکمال یوں ہے
کہ میں نے کبھی نہ دیکھا کہ حضور سید عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے دو۲
نمازیں جمع فرمائی ہوں کبھی کوئی نماز اپنے وقت سے پہلے یا وقت کے بعد
پڑھی ہو مگر صرف دو ۲عصر عرفہ وقت ظہر اور مغرب مزدلفہ وقت عشائ،
طلوع فجر کے بعد ہی ِ اور اُس دن فجر کو بھی وقت مسنون ومعمول سے پہلے
آفتاب
ِ تاریکی میں پڑھ لیا تھا اُس دن کے سوا کبھی ایسا بھی نہ کیا۔ الحمدللہ کہ
حق وصواب بے پردہ وحجاب رابعۃ النہار پر پہنچا ،اب اس حدیث نسائی جامع ذکر
ماّل جی نے بکمال مکابرہ جو چوٹیں کی ہیں اُن کی خدمت عرفہ ومزدلفہ پر ُ
گزاری کیجئے اور ماہ ضیا پناہ رسالہ کو باذن ٖہ تعالٰی شب تمام کامثر د ہ دیجئے
واللہ المعین وبہ نستعین۔
تورد ِ احادیث وجرح ثقات وقدح َ م جیاّل لطیفہ :یارب جہل جاہلین سے تیری پناہُ ،
صحاح کے دھنی ہیں۔ عمل بالحدیث کے ادعائی راج میں انہیں مکابروں کی
چنی ہیں۔ حدیث صحیح نسائی شریف کو دیکھا کہ انہیں مصیبت کا پہاڑ دیواریں ُ
ل سرسبد کو گِل تہ گلخن بنا چھوڑے گی لہذا نیام ِ حیا ُ
توڑے گی۔ حضرت نے گ ِ
سے تے ِغ ادا نکالی اور احادیث صحاح میں تکمیل مضمون فریقا تکذبون وفریقا
تقتلون کی یوں بناڈالی ف ۱حدیث نسائی کی نامقبول اور مجروح اور متروک ہے
من بن ارقم کہ اُس کی توثیق کسی نے دو ۲راوی اس کے مجروح ہیں ایک سلی ٰ
من بن ارقم ضعیف اور ایک خالد نہیں کی بلکہ ضعیف کہا اس کو تقریب میں سلی ٰ
صاحب احادیث افراد Zکا کہا تقریب میں
ِ بن مخلد کہ یہ شخص رافضی تھا اور
خالد بن مخلد صدوق متشیع ولہ افراد۔
ص )۳۸۴ (ف ۱معیارالحق
ماّل جی کی قدیمی سفاہت تشیع ورفض کے فرق سے جہالت۔ اقول :اوّال ً وہی ُ
ثانیا :صحیحین سے وہی پُرانی عداوت خالد بن مخلد نہ صرف نسائی بلکہ بخاری
ومسلم وغیرہما جملہ صحاح ستہ کے رجال سے ہے امام بخاری کا خاص اُستاذ
اور مسلم وغیرہ کا اُستاذ االستاذ۔
ماّل جی! تم نے تو علمِ حدیث کی الف بے بھی نہ پڑھی اور ادعائے اجتہاد ثالثا ً ُ :
وصاحب
ِ کی یوں بے وقت چڑھی ذرا کسی پڑھے لکھے سے ضعیف ومتشیع
وصاحب افراد Zہونا تو اصال ً
ِ افراد Zاور متروک الحدیث میں فرق سیکھو ،متشیع
موجب ضعف نہیں ،صحیحین دیکھئے ان کے رواۃ میں کتنے متشیع عــہ ۱موجود ِ
ہیں اور لہ عــہ ۲افراد Zوالوں کی کیا گنتی جبکہ ہم حواشی فصل اول میں بکثرت
لہ اوھام یھم ،ربما وھم ،یخطیئ ،یخطیئ کثیرا ،کثیرالخطائ ،کثیرالغلط وغیرہا
والے ذکرکر آئے،
ٰ
عــہ ۱مثل ابان خ بن یزید العطار ،یزیدع بن ابی انیسۃ ،عبدالرحمن 5خ بن غزوان وغیرہم ۱۲منہ (م)
عــہ ۲جن میں تیس ۳۰سے زیادہ حواشی فصل اول پر مذکور ہوئے ۱۲منہ (م)
رہا ضعیف اُس میں اور متروک میں بھی زمین وآسمان کابل ہے ضعیف کی
حدیث معتبر ومکتوب اور متابعات وشواہد میں مقبول ومطلوب ہے بخالف
تحقیقات جلیلہ فقیر غفرلہ القدیر کے
ِ متروک اس معنی اور اس کے متعلقات کی
رسالہ الھاد الکاف فی حکم الضعاف میں مطالعہ کیجئے اور سردست اپنی مبلغ
علم تقریب ہی دیکھے کہ ضعیف درجہ ثامنہ اور متروک اُس کے دو ۲پایہ نیچے
درجہ عاشرہ میں ہے خود عــہ بعض ضعفا رجال شیخین میں اگرچہ متابع ًۃ یا یوں
بھی واقع Zجس سے اُن کا نامتروک ہونا واضح۔
عــہ مثل اسید بن زید ،اسباط ابوالیسع ،عبدالکریم بن ابی المخار ،واالشعث بن سوار ،زمعۃ بن صالح ،محمد 5بن یزید
ٰ
الرفاعی ،محمد بن عبدالرحمن 5مولی بنی زھرۃ ،احمد بن یزید الحرانی ،ابی بن عباس وغیرھم ،قال فی التقریب فی الخمسۃ
االول :ضعیف ،والسادس لیس بالقوی ،والسابع مجھول ،والثامن ضعفہ ابوحاتم ،والتاسع فیہ ضعف۔ وعبدالکریم ،علم لہ
المزی فی التھذیب خت ،وتبعہ فی المیزان ،فقال :اخرج لہ خ تعلیقا ،وم متابعۃ۔ وکذا تابعہ الحافظ فی رموز التقریب ،ثم نبہ
ان الصواب خ ،حیث ذکر مالہ فی الجامع الصحیح ،ثم قال :ھذا موصول ولیس معلقا۔ وقال فی الرفاعی :ذکرہ ابن عدی فی
ٰ
شیوخ البخاری ،وجزم الخطیب بان البخاری روی عنہ؛ لکن قدقال البخاری 5:رأیتھم مجمعین 5علی ضعفہ ؎۱۔ اھ قلت:
المثبت 5اثبت ،فلذاعلمنا علیہ خ ،واخرناھا عن لمکان تردد الحافظ۔ واالنصاف ان فلیحا وعبادا وامثالھا ایضا ضعفائ،
ہّٰلل ٰ
والعذر ماافادہ االمام ابن الصالح وتبعہ النووی وغیرہ فارجع واعرف۔ وا تعالی اعلم (م)
مثال ً (ا) اسید ( )۲اسباط ( )۳عبدالکریم ( )۴اشعت ( )۵زمعہ ( )۶محمد ابن یزید
ی اور دوسرے۔ ُ
رفاعی ( )۷محمد بن عبدالرحمن ( )۸احمد ( )۹اب َ ّ
تقریب میں کہا کہ پہلے پانچ ضعیف ہیں ،چھٹا بھی خاص قوی نہیں ہے ،ساتواں
مجہول ہے ،آٹھویں کو ابوحاتم نے ضعیف کہا ہے ،نویں میں بھی ضعف ہے۔
عبدالکریم کے لئے مزی نے تہذیب میں ''خت'' کی عالمت لگائی ہے (واضح رہے
کہ ''خ'' سے مراد بخاری ہے اور ''ت'' سے تعلیق ،یعنی بخاری نے بھی اس کی
روایت تعلیقا ً لی ہے) میزان میں بھی تہذیب کی پیروی کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس
سے بخاری نے تعلیقا ً اور مسلم نے متابع ًۃ روایت کی ہے۔ اسی طرح حافظ نے
بھی تقریب کی عالمات میں اس کی پیروی کی ہے لیکن پھر متنبہ کیا ہے کہ
صحیح ''خ'' ہے (''خت'' نہیں) چنانچہ حافظ نے پہلے تو عبدالکریم کی وہ روایت
ذکر کی ہے جو بخاری میں ہے ،پھر کہا ہے کہ یہ روایت وصل کے ساتھ ہے نہ کہ
تعلیق کے طور پر۔ (اس لئے ''خ'' کے ساتھ ''ت'' نہیں ہونی چاہے کیونکہ ''ت''
تعلیق کی عالمت ہے)(محمد ابن یزید) رفاعی کے بارے میں کہا ہیکہ اس کو ابن
عدی نے بخاری کے اساتذہ میں ذکر کیا ہے اور خطیب نے یقین ظاہر کیا ہے کہ
بخاری نے اس سے روایت کی ہے ،لیکن بخاری ہی نے کہا ہے کہ میں نے محدثین
کو اس کے ضعف پر متفق پایا ہے اھ میں نے کہا ثابت کرنے والے کی بات زیادہ
پختہ ہوتی ہے (اور ابن عدی نے اس کا شیخ بخاری ہونا ثابت کیا ہے) اس لئے ہم
نے بھی اس کے نام پر ''خ'' کی عالمت لگائی ہے۔ لیکن حافظ کو چونکہ اس کے
شیخ بخاری ہونے میں تردّد ہے اس لئے ''خ'' کو ہم نے ''م'' کے بعد لگایا ہے
(''م'' سے مراد مسلم ہے) اور انصاف کی بات یہ ہے کہ فلیح ،عباد اور ان جیسے
اور کوئی راوی بھی ضعیف ہیں (اس کے باوجود ان کی روایات صحاح میں پائی
جاتی ہیں) امام ابن الصالح نے اس کی معذرت خواہانہ وجہ بیان کی ہے اور نووی
وغیرہ نے بھی ان کا اتباع کیا ہے ،اس لئے ان کی طرف مراجعت کرو اور
سمجھو! واللہ تعالٰی اعلم۔ (ت)
۱۴۸/۱۴ /۲ ترجمہ نمبر ۶۴۲۱محمد بن یزید دارالکتب العمیۃ بیروت ( ؎۱تقریب التہذیب
)۷
رابعا :یہ سب کالم ماّل جی کی غیبی بول عیبی احکام مان کرتھا حضرت کی
حسب عادت جو روا ِۃ حدیث بے نسب ونسبت پائے ِ اندرونی حالت دیکھےے تو پھر
ان میں جہاں تحریف وتصرف کا موقع مال وہی تبدیل کا رنگ الئے سند میں تھا
من۔ اب ماّل جی اپنی مبلغ علم تقریب کھول کر بیٹھے رواۃ عن شعبۃ عن سلی ٰ
نسائی میں شعبہ نام کا کوئی نہ مال جس پر تقریب میں کچھ بھی جرح کی ہو
من بن ارقم من کو دیکھیں تو پہلی بسم اللہ یہی سلی ٰلہذا وہاں بس نہ چال سلی ٰ
اّل
ضعیف نظر پڑا حکم جڑ دیا کہ سند میں وہی مراد اور حدیث مردود ،م جی!
اپنے دھرم کی قسم سچ بتانا یہ جبروتی حکم آپ نے کس دلیل سے جمایا ،کیا
چے ہوتو برہان الؤ ورنہ اپنے کذب وعیب رحم بالغیب اسی کا نام محدّثی ہے ،س ّ
صدقین حق طلبان وحق نیوش کو اوپر پر ایمان قل ھاتوا برھانکم ان کنتم ٰ
من عن عبدالل ّٰہ معلوم ہوچکا ہے کہ مخرج حدیث اعمش عن عمارۃ عن عبدالرح ٰ
بخاری مسلم ابوداؤد نسائی وغیرہم سب کے یہاں حدیث عمارہ بطریق امام
اعمش ہی مذکور ،صحیحین کی تین سندیں بطرق حفص بن غیاث وابی معٰویۃ
وجریر کلھم عن االعمش عن عمارۃ صدر کالم میں ،اور ایک سند نسائی بطریق
سن چکے۔ پنجم نسائی کتاب الصالۃ میں داود عن االعمش عن عمارۃ اس کے بعد ُ
ہے:
اخبرنا قتیبۃ ثنا سفیان نا االعمش عن عمارۃ ؎۱الخ۔
مطبوعہ نور محمد کتب خانہ الجمع بین المغرب والعشاء الخ ( ؎۱نسائی النسائی
کراچی )۱/۱۰۰
ششم :نسائی مناسک باب الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفۃ اخبرنا محمد بن العالء ثنا
ٰ
ابومعویۃ عن االعمش عن عمارۃ ؎۱الخ
مطبوعہ نور محمد کتب خانہ الوقت الذی یصلی فیہ الصبح بالمزدلفہ س نن النسائی
(ُ ؎۱
کراچی )۲/۴۶
ٰ
ہفتم :سنن ابی داؤد حدثنا مسدد وان عبدالواحد بن زیاد وابا عوانۃ وابا معویۃ حدثوھم عن االعمش
عن عمارۃ ؎۲۔
)۱/۲۶۷ آفتاب عالم پریس الہور باب الصلٰوۃ بجمع ( ؎۲سنن ابی داؤد
ٰ
ہشتم :امام طحاوی حدثنا حسین بن نصرثنا قبیصۃ بن عقبۃ والفریابی قاال ثنا سفین عن االعمش
عن عمارۃ بن عمیر ؎۳الخ۔
مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی الجمع بین اصالتین ( ؎۳شرح معانی االثار
)۱/۱۱۳
یہ امام اعمش اجل ثقہ ثبت حجت حافظ ضابط کبیر القدر جلیل الفخر اجلہ ائمہ
تابعین ورجال صحاح ست ّہ سے ہیں جن کی وثاقت عدالت جاللت آفتاب نیمروز
من ہے وہی یہاں مراد ،کاش تضعیف ابن ارقمZ سے روشن تر ان کا اہم مبارک سلی ٰ
دیکھ پانے کی خوشی ماّل جی کی آنکھیں بند نہ کردیتی تو آگے ُ
سوجھتا ٰکہ دنیا
میں ایک یہی سلی ٰمن نہیں دو ۲ورق لوٹتے تو اسی تقریب میں تھا :سلیمن بن مھران
االعمش ثقۃ حافظ عارف بالقراء ات ورع ( ؎۴سلی ٰ
من ابن مہران اعمش ،ثقہ ہے ،حافظ
ہے ،قرأۃ کو جاننے واال ہے ،متقی ہے۔ ت)
دارالکتب العلمیہ بیروت )۱/۳۹۲ ( ؎۴تقریب التہذیب ترجمہ نمبر ۲۶۲۳
جوش تمیز اس حد تک پہنچا ہو اُن سے کیا کہا جائے کہ ان ِ جن حضرات کا
من سے راوی بھی آپ نے دیکھے کون ہیں امیرالمومنین فی الحدیث امام سلی ٰ
شعبہ بن الحجاج جنہیں التزام تھا کہ ضعیف لوگوں سے حدیث روایت نہ کریں گے
جس کی تفصیل فقیر کے رسالہ منیر العین فی حکم تقبیل االبھامین میں مذکور
وہ اور ابن ارقم سے روایت مگر ناواقفوں سے ان باتوں کی کیا شکایت!
خامسا ً حضرت کو اپنی پرانی مشق صاف کرنے کو اُسی طرح کا ایک اور نام
معیل بن مسعود عن خالد ہ اتھ لگایعنی خالد امام نسائی نے فرمایا تھا :اخبرنا اس ٰ
عن شعبۃ بیدھڑک حکم لگادیا کہ اس سے مراد خالد بن مخلد رافضی Zہے ماّل جی!
پانچ پیسے کی شیرینی تو ہم بھی چڑھائیں گے اگر ثبوت دوکہ یہاں خالد سے یہ
ماّل جی! تم کیا جانو کہ ائمہ محدثین کس حالت میں اپنے شیخ شخص مراد ہےُ ،
کے مجرد نام بے ذکر ممیز پر اکتفا کرتے ہیں ،ماّل جی صحابہ کرام میں عبداللہ
کتنے بکثرت ہیں خصوصا ً عبادلہ خمسہ رضی اللہ تعالٰی عنہم ،پھر کیا وجہ ہے کہ
جب بصری عن عبدالل ّٰہ کہے تو عبداللہ بن عمرو بن عاص مفہوم ہوں گے ،اور
کوئی کہے تو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالٰی عنہم ،پھر رواۃ مابعد میں تو
عبداللہ صدہا ہیں مگر جب سوید کہیں حدثنا عبدالل ّٰہ تو خواہ مخواہ ابن المبارک
ہیں ،محمدین کا شمار کون کرسکتا ہے مگر جب بندار کہیں عن محمد عن شعبۃ
تو غندر کے سوا کسی طرف ذہن نہ جائے گا وعلٰی ہذا القیاس صدہا مثالیں ہیں
ماّل جی! یہخالد امام جنہیں ادنٰی ادنٰی خدام ِ حدیث جانتے سمجھتے پہچانتے ہیں۔ ُ
اجل ثقہ ثبت حافظ جلیل الشان خالد بن حارث بصری ہیں کہ امام شعبہ بن
معیل بن مسعود بصری کے اجل الحجاج بصری کے خُلّص تالمذۃ اور امام اس ٰ
معیل بن مسعود کو اُن سے اور اُنہیں اساتذہ اور رجال صحاح ست ّہ سے ہیں اس ٰ
معیل کی شعبہ سے اکثار روایت بدرجہ غایت ہے ،اسی سنن نسائی میں اس ٰ
بیسیوں روایات اُن سے موجود ،ان میں بہت خاص اسی طریق سے ہیں کہ
م عیل خالد بن حارث سے اور خالد شعبہ بن الحجاج سے ان میں بہت جگہ خود اس ٰ
حسب عادت ِ نسب خالد مصرحا ً بیان کیا ہے۔ بہت جگہ اُنہوں نے
ِ معیل نے اس ٰ
مطلق چھوڑا۔ امام نسائی نے واضح فرمادیا ہے بہت جگہ سابق والحق بیانوں کے
اعتماد پر یوں ہی مطلق باقی رکھا ہے میں آپ کا حجاب ناواقفی Zتوڑنے کو ہر
قسم کی مصرح روایات سے بہ نشان کتاب وباب کچھ حاضر کروں۔
ٰ
طریق شعبۃ )۱( :کتاب االفتتاح باب التطبیق اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن
ٰ
شعبۃ عن سلیمن ؎۱الخ۔
)۱/۱۲۳ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور باب التطبیق ( ؎۱النسائی
ٰ
( )۲کتاب الطہارۃ باب النضح اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ؎۲الخ۔
)۱/۱۹ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور باب النضح ( ؎۲النسائی
ٰ
( )۳کتاب المواقیت الرخصہ فی الصالۃ بعد العصر اخبرنا اسمعیل بن مسعود عن خالد بن الحارث
عن شعبۃ ؎۳الخ۔
)۱/۶۷ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور الرخصۃ فی الصلٰوۃ بعد العصر ( ؎۳النسائی
( )۴کتاب االمامۃ ،الجماعۃ اذاکانوا اثنین اخبرنا اسمعیل بن مسعود ثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ
؎۴الخ۔
)۱/۹۷ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور الجماعۃ اذاکانوا اثنین ( ؎۴النسائی
ٰ
( )۵کتاب السہو باب التحری اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث عن شعبۃ ؎۵الخ۔
)۱/۱۴۶ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور باب التحری ( ؎۵النسائی
(تصریح اسمعیل سوی مامر)
( )۶کتاب االمامۃ الرخصۃ لالمام فی التطویل اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد بن الحارث ؎۶الخ۔
)۱/۹۴ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور الرخصۃ لالمام فی التطویل ( ؎۶النسائی
( ) ۷کتاب قیام اللیل ،باب وقت رکعتی الفجر اخبرنا اسمعیل بن مسعود قال ثنا خالد بن الحارث ؎۱
الخ۔
)۱/۲۰۶ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور باب وقت رکعتی الفجر ( ؎۱سنن النسائی
ٰ
( )۸کتاب الزکوۃ ،عطیۃ المرأۃ بغیر اذن زوجھا اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد بن حارث ؎ ۲الخ۔
)۱/۲۸۹ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور عطیۃ المرأۃ الخ ( ؎۲سنن النسائی
()۹المزارعۃ احادیث النہی عن کری االرض بالثلث والربع اخبرنا اسمعیل بن مسعود قال ثنا خالد بن
الحارث ؎۳الخ۔
( ؎۳سنن النسائی الثالث من الشروط فیہ المزارعۃ والوثائق مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور ۲/۱۴
)۴
( )۱۰القسامۃ والقود ،باب عقل االصابع اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد بن الحارث ؎۴الخ۔
)۲/۲۴۷ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور باب عقل االصابع ( ؎۴سنن النسائی
(التصریح Zالنسائی)
( )۱۱کتاب الحیض مضاجعۃ الحیض فی ثیاب حیضتہا اخبرنا اسمعیل بن مسعود حدثنا خالد ھو
ابن الحارث ؎۵الخ۔
)۱/۴۳ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور مضاجعۃ الحیض الخ ( ؎۵سنن النسائی
( )۱۲قبیل کتاب الجمعۃ با ب اذاقیل للرجل ھل صلیت اخبرنا اسمعیل بن مسعود ومحمد بن
عبداالعلی قاال حدثنا خالد ھو ابن الحارث ؎۶الخ۔
)۱/۱۶۰ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور باب اذاقیل للرجل الخ ( ؎۶سنن النسائی
( )۱۳کتاب الصیام التقدم قبل شھر رمضان اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد وھو ابن الحارث ؎۷۔
)۱/۲۴۹ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور التقدم قبل شھر رمضان ( ؎۷سنن النسائی
( )۱۴المزارعۃ من االحادیث المذکورۃ اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد وھو ابن الحارث؎۸۔
۲/۱۴ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور المزارعۃ من االحادیث مذکورۃ ( ؎۸سنن النسائی
)۶
( )۱۵کتاب االشربۃ الترخیص فی انتباذ البسر اخبرنا اسمعیل بن مسعودثنا خالد یعنی ابن الحارث
؎۹الخ۔
۲/ مطبوعہ مطبع سلفیہ الہور الترخیص فی انتباذ البسر الخ ( ؎۹سنن النسائی
)۳۲۱
ماّل جی! یہ کیا دین ودیانت ہے کہ حدیثیں َرد کرنے کو ایسے جھُوٹے فقرے کیوں ُ
بناؤ اور بے تکان جزم کرتے ہوئے پلک تک نہ جھپکاؤ ،وہ تو خدا نے خیر کرلی کہ
ماّل جی کوامام نسائی نے اسمعیل بن مسعود کہہ دیا تھا کہیں نرا اسمعیل ہوتا تو ُ
کہتے کیا لگتا کہ یہ حدیث تم اہل سنّت کے نزدیک سخت مردود کہ اس کی سند
میں اسمعیل دہلوی موجود،
ماّل جی! صرف ایک مسئلے میں اول تا آخر اتنی خرافات ،علم ِ حدیث کی کھُلی ُ
کھُ لی باتوں سے یہ جاہالنہ مخالفات ،اگر دیدہ ودانستہ ہیں تو شکایت کیا ہے کہ
اخفائے حق وتلمیح باطل وتلبیس عامی واغوائے جاہل ،طوائف ضالہ کا ہمیشہ
داب رہا ہے ،اور اگر خود حضرت کی حدیث دانی اتنی ہے تو خدارا خدا ورسول
منہ اور اجتہاد کی لپک ،یہ لیاقت سے حیا کیجئے ،اپنے دین دھرم پر دیا کیجئے یہ ُ
اور مجتہدین پر ہمک ،عمر وفا کرے تو آٹھ دس ۱۰برس کسی ذی علم مقلد کی
کفش برداری Zکیجئے ،حدیث کے متون وشروح واصول ورجال کی کتابیں سمجھ
کر پڑھ لیجئے اور یہ نہ شرمائیے کہ بوڑھے طوطوں کے پڑھنے پر لوگ ہنستے
ہیں ،ہنسنے دو ہنستے ہی گھر بستے ہیں ،اگر علم مل گیا تو عین سعادت یا طلب
ط صحت ایمان وحسن نیت والل ّٰہ الھادی لقلب میں مرگئے جب بھی شہادت ،بشر ِ
اخبت۔
آفتاب صواب متجلی ،جن جن احادیث سے جمع ِ الحمدللہ مہرِ حق متجلی ہوا اور
بین الصالتین کا ثبوت نہ سہل ثبوت بلکہ قطعی ثبوت زعم کیا گیا تھا واضح ہُوا کہ
ا ُن میں ایک حرف مثبت مقال نہیں مذہب حنفی اثبات صوری ونفی حقیقی
دونوں میں بے دلیل بتادیا تھا ،روشن ہُوا کہ قرآن وحدیث اُسی کے موافق دالئل
ساطعہ اُسی پر ناطق جن میں َرد وانکار کی اصال ً مجال نہیں ،اور بعون ٖہ تعالٰی
بطفیل مسئلہ وہ تازہ مجہلہ کہنہ مشغلہ ادعائے عمل بالحدیث کا اُشغال اُس کا
اتباع حدیث کا نام
ِ بھرم بھی من مانتا کھالکہ ہواسے غرض ہوس سے کام اور
بدنام ،پُرانے پُرانے حد کے سیانے جب اپنی سخن پروری پر آئیں صحیح حدیثوں
پس پشت ڈالیں ،اُن ِ کو مردود بتائیں ثقہ ائمہ کو مطعون بتائیں ،بخاری ومسلم
کے رواۃ واسانید میں شاخسانے نکالیں ،ہزار چھل کریں سو ہزار پیچ جیسے بنے
صحیح حدیثیں ہیچ ،امام مالک وامام شافعی کی تقلید حرام نہ فقط حرام کہ
شرک کا پےغام ،مگر جب حنفیہ کے مقابل دم پر بنے مجتہد چھوڑ مقلدوں کی
تقلید سے گاڑھی چھنے ،اب ایک ایک شافعی مالکی کو جھک جھک کر سالم اُس
کے پاؤں پکڑ اُس کا دامن تھام ،یہ بڑا پیشوا وہ بھاری امام ،اُن میں جس کا کالم
کہیں ہاتھ لگ گیا اگرچہ کیسا ہی ضعیف کتنا ہی خطا ،بس خضر مل گئے غنچے
کھُل گئے ،اندر کے جی کے کواڑ کھُل گئے سب کوفت سوخت کے غبار دُھل
گئے ،وحی مل گئی ایمان لے آئے اُسی سے حنفیہ پر حجت الئے ،اب خبردارZ
کوئی پیچھے نہ پڑو احبار ورہبان کی آیت نہ پڑھو ،چھٹکارے کی گھڑی بچاؤ کا
وقت ہے ،شرک بال سے ہو اب تو مکت ہے۔ مسلمانو! حضرات کے یہ انداز
دیکھے بھالے اپنا ایمان بچائے سنبھالے ،فریب میں نہ آنا یہ زہر درجام ہیں دھوکا
نہ کھانا ،سبزہ بردام ہیں بے سہاروں کی چال ہر حال بُری ہے تقلید سے بری ائمہ
اتباع ائمہ
ِ سے بری ہے ،بے راہ روی کا دھیان نہ النا چادر سے زیادہ پاؤں نہ پھیالنا،
را ِہ ہُدٰی ہے را ِہ ہُدٰی کا والی خدا ہے ،لل ّٰہ الحمد ولی الھدایۃ منہ البدایۃ والیہ النھایۃ۔
صی کو پہنچا اب ملخص خالصۃ الکالم وحسن الختام الحمدللہ سخن اپنے ذروہ اق ٰ
کالم وحاصل مرام چند باتیں یاد رکھئے:
اوّال جمع صوری بدالئل صحیحہ روشن ثبوت سے بے پردہ وحجاب اور اُس کا انکار
انکارِ آفتاب۔
ثانیا کسی حدیث صحیح میں جمع تقدیم کا نام کو بھی اصال ً پتا نہیں اُس کی
نسبت ادعا ی قطعی ثبوت محض نسج العنکبوت۔
ثالثا ً جمع تاخیر میں بھی کوئی حدیث صحیح صریح جیسا کہ ادعا کیا جاتا ہے ہرگز
موجود نہیں یا ضعاف ومناکیر ہیں یا محض بے عالقہ یا صاف محتمل اور
وس اثبات مہمل ومختل۔ ِ محتمالت سے ہ
رابعا ً جب جمع صوری پر ثبوت مفسر متعین ناقابل تاویل قائم تو محتمالت
خصوصا ً حدیث ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما کا اُسی کی طرف رجوع الزم کہ
قاعدہ ارجاع محتمل بہ متعین ہے نہ عکس کہ سراسر نکس۔
خامسا ً نماز بعد شہادتین اہم فرائض واعظم Zارکان اسالم ہے اور اُس میں رعایت
چہ
ضروریات دین سے جسے مسلمانوں کا ایک ایک ب ّ ِ وقت کی فرضیت اور اظہرZ
اوقات خمسہ غایت شہرت واستفاضہ پر بالغ حد تو اتر ہیں اگر ِ جانتا ہے یونہیں
حالت سفر میں جس ِ ٰ
حضور پُرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے
کی ضرورت ہمیشہ ہر زمانہ میں ہر شخص کو رہی اور رہتی ہے چار نمازوں کے
اوقات مشہورہ معلومہ معروفہ کے سوا قوال ً یا فعالً Zکوئی اور حکم عطا ِ لئے
اوقات خمسہ منقول ہوئے ِ فرمایا ہوتا تو واجب تھا کہ جس شہرت جلیلہ کے ساتھ
ا ُسی طرح یہ نیا وقت بھی نقل کیا جاتا آخر حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے یہ فعل کسی خلوت میں نہ کیا غزوہ تبوک میں ہزارہا صحابہ کرام رضی
اللہ تعالٰی عنہم Zہمرا ِہ رکاب سعادت مآب تھے اگر حضور جمع فرماتے بالشبہہ وہ
سب کے سب دیکھتے اور کثرت رواۃ سے اسے بھی مشہور کر چھوڑتے یہ کیا کہ
ایسی عظیم بات ایسے جلیل فرض کے ایسے ضروری الزم میں ایسی صریح
تبدیل ایسے مجمع کثیر کے سامنے واقع ہو اور اُسے یہی دو ایک راوی روایت
فرمائیں تو بالشبہہ یہی جمع صوری فرمائی جس میں نہ وقت بدال نہ کسی حکم
میں تغیر نے راہ پائی کہ اُس کے اشتہار پر دواعی Zمتوفر ہوتے نظرِ انصاف صاف
ہو تو صرف ایک یہی کالم تمام دالئل خالف کے جواب کو بس ہے کہ جب باوصف
توفر دواعی نقل آحاد ہے تو الجرم ِ جمع صوری پر محمول کہ توفر مہجور اور
بالفرض کوئی روایت مفسرہ ناقابل تاویل ملے تو متروک العمل کہ ایسی جگہ
آحاد رہنا عقل سے دُور۔
سادسا ً نمازوں کے لئے تعیین وتخصیص اوقات وآیات قرآن عظیم واحادیث
حضور سیدالمرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم سے قطعی الثبوت ہے اگر کہیں
اُس کا خالف مانیے تو وہ بھی ویسا ہی قطعی چاہے جیسے عصر عرفہ ومغرب
مزدلفہ کا اجماعی مسئلہ ورنہ یقینی کے مقابل ظنی مضمحل۔
سابعا ً بالفرغ اگر مثل منع دالئل جمع بھی قابل سمع تسلیم کیجئے تاہم ترجیح
منع کوہے کہ جب حاظر ومبیح مجتمع ہوں تو حاظر مقدم ہے۔
ثامنا ً جانب جمع صرف نقل فعل ہے قول اگر ہے تو جمع صوری میں اور جانب
منع دالئل قولیہ وفعلیہ دونوں موجود اور قول فعل پر مرجح تو مجموع قول
وفعل محض نقل فعل پر بدرجہ اولٰی۔
تاسعا ً افقہیت راوی اور مرجح منع ہے کہ ابن عمر وانس میں کسی کو فقاہت
جلیلہ عبداللہ بن مسعود تک رسائی نہیں رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین ،یہ وہی
ابن مسعود ہیں جن کی نسبت حدیث میں ہے ،حضور پُرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم نے فرمایا :تمسکوا بعھد ابن ام عبد ؎۱۔ (ابن اُم عبد کی باتوں سے تمسک کیا
کرو) رواہ الترمذی عنہ رضی الل ّٰہ تعالٰی عنہ۔
( ؎۱جامع الترمذی مناقب عبداللہ بن مسعود مطبوعہ کتب خانہ رشیدیہ دہلی )۲/۲۲۱
(نوٹ :اصل متن ترمذی میں الفاظ یوں ہیں تمسکوا بعھد ابن مسعود رضی الل ّٰہ عنہ۔ نذیر
احمد)
مرقاۃ میں ہے اسی لئے ہمارے امام اعظم Zرضی اللہ تعالٰی عنہ اُن کی روایت
وقول کو خلفائے اربعہ کے بعد سب صحابہ کے قول پر ترجیح دیتے ہیں ؎۲۔
۱۱/۴۰ مطبوعہ مکتبہ امدایہ ملتان جامع المناقب ،الفصل االول ( ؎۲مرقات المفاتیح
)۹
رسول ٰ صلی
سر ہّٰلل
ِّ صاحب
ِہّٰلل ابن مسعود ہیں جنہیں حذیفہ رضی اللہ تعالٰی عنہ
ِ یہ وہی
اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے :ان اشبہ الناس دالوسمتا وھدیا برسول ا صلی ا تعالی
علیہ وسلم البن ام عبد ؎۳۔ رواہ البخاری ف والترمذی والنسائی۔
ص )۵۷۴ ( ؎۳مشکوٰۃ المصابیح بحوالہ بخاری باب جامع المناقب مطبع مجتبائی دہلی
۲/۲۲ (جامع الترمذی ،مناقب عبداللہ بن مسعود امین کمپنی کتب خانہ رشیدیہ دہلی
)۲
ٰ
بعینہ یہی الفاظ ہیں جبکہ ترمذی میں الفاظ یوں ہیں۔ کان اقرب الناس ھدیا ودال میں ۃ مشکو ف۔
ً ٖ ہّٰلل ہّٰلل
وسمتا برسول ا صلی ا تعالی علیہ وسلم ابن مسعود اور بخاری میں الفاظ یوں ہیں مااعلم احدا
ہّٰلل ٰ
اقرب سمتا وھدیا ودال بالنبی صلی ا تعالی علیہ وسلم عن ابن ام عبد۔
بیشک چال ڈھال روش میں سب سے زیادہ حضور اقدس صلی اللہ تعالٰی علیہ
وسلم سے مشابہ عبداللہ بن مسعود ہیں رضی اللہ تعالٰی عنہ۔
ابن مسعود ہیں جنہیں امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ
ِ یہ وہی
فرماتے :کیف ملئ علما ( ؎۴ایک گٹھری ہیں علم سے بھری ہُوئی)
( ؎۴اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ ترجمہ عبدالل ّٰہ بن مسعودا مکتبہ اسالمیہ ریاض الشیخ
)۳/۲۵۹
ٰ
نہایت یہ کہ حضور اقدس سیدالمرسلین صلی اہلل تعالی علیہ وسلم نے فرمایا :رضیت المتی
مارضی لھا ابن ام ؎۱عبد۔ (میں نے اپنی اُمت کے لئے پسند فرمالیا جو کچھ عبداللہ
بن مسعود اس کے لئے پسند کرے رواہ الحاکم بسند صحیح۔
)۳/۳۱۷ ( ؎۱المستدرک کتاب معرفۃ الصحابۃ دارالفکر بیروت
الجرم ہمارے ائمہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم Zکے نزدیک خلفائے اربعہ رضوان اللہ
تعالٰی علیہم Zکے بعد وہ جناب تمام صحابہ کرام علیہم Zالرضوان سے علم وفقاہت
میں زائد ہیں ،مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں ہے :ھو عند ائمتنا افقہ الصحابۃ بعد الخلفاء
االربعۃ ؎۲۔
باب جامع المناقب الفصل االول عن عبداللہ بن ( ؎۲مرقاۃ شرح مشکوٰۃ المصابیح
عمر،مطبوعہ امدادیہ ملتان)۱۱/۴۰۹
ابن مسعود خلفاءِ اربعہ کے بعد سب سے زیادہ فقیہ ہیں۔ِ ہمارے ائمہ کے نزدیک
(ت)
عاشراًعــہ اگر بالفرض براہین منع وا د ل ّہ جمع کانٹے کی تول برابر ہی سہی تاہم
منع ہی کو ترجیح رہے گی کہ اس میں احتیاط زائد ہے اگر عنداللہ جمع درست
بھی ہ وئی تو ایک جائز بات ہے جس کے ترک میں باالجماع گناہ نہیں بلکہ اتفاق
اُس کا ترک ہی افضل ہے اور اگر عنداللہ نادرست ہے تو جمع تاخیر میں نماز
دانستہ قضا کرنی ہوگی اور جمع تقدیم میں سرے سے ادا ہی نہ ہوگی فرض
گردن پر رہے گا تو ایسی بات جس کا ایک پہلو خالف اولٰی اور دوسری جانب
حرام وگناہ کبیرہ ہو عاقل کا کام یہی ہے کہ اُس سے احتراز کرے ،یہاں جو ماّل جی
ایمان کی آنکھ پر ٹھیکری رکھ کر لکھ گئے ہیں کہ ف ۱تشکیک مذکور اُس
صورت میں جاری ہوتی ہے جس میں طرفین کا مذہب مدلّل بدالئل ہو اور
صورت اختالف کی ہو حاالنکہ مسئلہ جمع میں مانعین کا دعوٰی بے دلیل ہے اور
ناجائز کہنا اُن کا خالف ہے اختالف نہیں پس اگر صحت میں عمل مدلل بدالئل
سیکڑوں اعمال باطل ہوجائیں اور حق کے قول بے دلیل شک ڈال دیا کرے تو َ
وباطل میں کچھ تمیز نہ رہے،
عــہ یعنی نصوص منقول وقواعد اصول سے قطع نظر کرکے بہ مقتضائے عقول ہے۔ (م)
ص )۴۱۵ (ف ۱معیارالحق
چا چٹھّا بعونہ تعالٰی سبان جھُوٹی باال خوانیوں سینہ زوری کی لَن ترانیوں کا ک ّ
چ کا مگر حیا کا بھال ہو جس کے آسرے جیتے ہیں یونہیں تو آفتاب پر خاک کُھل ُ
سجھادیا کرتے ہیں کہ حنفیہ کا مذہب بے دلیل وخالف حدیث ہے، اُڑاکر اندھوں کو ُ
خدا کی شان قرآن عظیم واحادیث رسول کریم علیہ وعلٰی آل ٖہ افضل الصالۃ
سن کر جگر تک دھمک پہنچی ہوگی بے والتسلیم کی اُن قاہر دلیلوں کو جنہیں ُ
دلیل ٹھہراؤ اور اپنے ضعیف وبے ثبوت قول کو قطعی یقینی مدلل بتاؤ اور عمل
بالحدیث ودین ودیانت کا نام لیتے نہ شرماؤ انّا لل ّٰہ وانّا الیہ راجعون۔
ع :آدمیاں کم شدند ملک گرفت اجتہاد
فقیر غفرلہ المولی القدیر نے یہ چند اوراق Zکہ بنظرِ احقاق حق لکھے۔ مولٰی
وشامت ذنوب سے
ِ ساد تعالٰی ع ّزوجل اپنے کرم سے قبول فرمائے شرِ ُ
ح ّ
محفوظ رکھے۔ وجہ ثبات واستقامت مقلدین کرام بنائے ،یہ امید تو ان شاء اللہ
دشمنان حنفیت کو ہدایت ملنے عناد
ِ تعالٰی القریب المجیب نقد وقت ہے مگر
حنفیہ کی راہ نہ چلنے کی طرف سے یاس سخت ہے کہ کھلے مکابروں میں جن
صاحبوں کی یہ ہمتیں بڑھی ہیں یہ مشقیں چڑھی ہیں اُنہیں آئندہ ایسی اور ان
سے بڑھ کر اور ہزار ہٹ دھرمیاں کرتے کیا لگتا ہے ،تحریف تعصب مکابری تحکم
کا کیا عالج ہے سوا اس کے کہ شرِ شریران سے اپنے رب عزوجل Zکی پناہ لُوں
اور بتوسل روح اکرم امام اعظم Zرضی اللہ تعالٰی عنہ اُس سے عرض کروں رب
ہّٰلل ٰ ٰ ّ
انی اعوذبک من ھمزات الشیطین واعوذبک رب ان یحضرون oوصلی ا تعالی علی الھادی االمین
ٰ
االمان المامون محمد والہ وصحبہ الکرام والذین ھم بھدیھم یھتدون الحمد ہلل کہ یہ مبارک رسالہ
ٰ
نفیس عجالہ پانزدہم ماہ رجب مرجب ۱۳۱۳ ہجریہ علی صاحبہا افضل الصالۃ والتحیۃ کو
ّ ّ
تمام اور بلحاظ تاریخ حاجز البحرین ۱۳الواقی ھ عن ۱۳جمع الصالتین نام ہوا ربنا تقبل منا انک انت
ٰ ٰ ہّٰلل ٰ
السمیع العلیم وصلی ا تعالی علی سید المرسلین محمد والہ وصحبہ اجمعین امین سبحانک
ٰ ہّٰلل ٰ
اللھم وبحمدک اشھد ان الالہ اال انت استغفرک واتوب الیک وا سبحنہ وتعالی اعلم وعلمہ جل
مجدہ اتم واحکم۔