Professional Documents
Culture Documents
101 دلچسپ مناضرے PDF
101 دلچسپ مناضرے PDF
١٠١دلچسپ مناظرے
مقدمہ
ميں جبکہ فکری اور علمی ترقی اپنے عروج پر ہے ثقافتی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترين اور مستحکم
ترين راستہ ہے ،اور اگر فرض کريں کہ تعصب ،ہٹ دھرمی اور سرکشی کی بنا پر مناظره کسی نتيجہ پر نہ پہنچے تو
کم سے کم اتمام حجت تو ہوہی جاتی ہے۔
کيونکہ يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ طاقت کے بل بوتہ پر اپنے عقيده اور آئيڈيل کو کسی پر نہيں
تھونپاجاسکتا،اور اگر بالفرض کوئی زبردستی قبول بھی کرلے تو چونکہ بے بنياد ہے جلد ہی ختم ہوجائے گا۔
خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں اس موضوع کو بہت زياده اہميت دی ہے ،اور اس کو ايک ”عام قانون“ کے طور پر بيان
کيا ہے ،چنانچہ خداوندعالم نے چار مقامات پر پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے اس طرح فرمايا ہے:
صا ِدقِينَ “][1 ” قُلْ ہَاتُوا بُرْ ہَانَ ُک ْم ِٕا ْن ُکنتُ ْم َ
آو“۔
”ان سے کہہ ديجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دليل لے ٔ
جس وقت اسالم دوسروں کو دليل ،برہان اور منطق کی دعوت ديتا ہے تو خود بھی اس کے لئے دليل اور برہان ہونا
چاہئے۔
چنانچہ خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمايا:
ک بِ ْال ِح ْک َم ِة َو ْال َموْ ِعظَ ِة ْال َح َسنَ ِة َو َجا ِد ْلہُ ْم بِالﱠتِی ِہ َی أَحْ َسنُ ۔۔۔“][2
يل َربﱢ َع ِٕالَی َسبِ ِ ” اُ ْد ُ
”آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصيحت کے ذريعہ دعوت ديناور ان سے اس طريقہ سے بحث
کريں جو بہترين طريقہ ہے“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”حکمت“ سے مراد وه مستحکم طريقے ہيں جو عقل وعلم کی بنياد پر استوار ہوں ،اور ”موعظہ حسنہ“ سے مراد
معنوی و روحانی نصيحتيں ہيں جن ميں عطوفت اور محبت کا پہلو پايا جاتا ہو ،اور سننے والے کے پاک احساسات کو
حق و حقيقت کی طرف اُبھارے ،نيز ”مجادلہ“ سے مراد ايک دوسرے کے سامنے بيٹھ کر بحث ميں تنقيدی گفتگو کرنا،
اور يہ طريقہ کار اگر انصاف اور حق کی رعايت کرتے ہوئے ہو تو ہٹ دھرم مخالف کو خاموش کرنے کے لئے الزم
اور ضروری ہے۔
وضاحت :بعض انسانوں ميں حقائق سمجھنے کی فکری صالحيت اور قوی استعداد پائی جاتی ہے ،ايسے لوگوں کو
جذب کرنے کے لئے عقلی براہين و دالئل بہترين راستہ ہے ،ليکن اگر بعض افراد ميں کمتر درجہ صالحيت پائی جاتی
ہے ان ميں تعصب ،عادت اور احساس بہت زياده پايا جاتا ہے ،ايسے افراد کو موعظہ اور اچھی نصيحت سے دين کی
دعوت دی جاتی ہے۔
اور بعض لوگ ہٹ دھرم ،اور غلط فکر رکھتے ہيں ،ہر راستہ سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہيں
تاکہ اپنے باطل خياالت کوصحيح طريقہ سے پيش کرسکيں ،ان کے نزديک دليل اور نصيحت کی کوئی اہميت نہيں
ہوتی تو ايسے لوگوں سے ”مجادلہ“ کرنا چاہئے ،ليکن شائستہ انداز ميں مجادلہ کرنا چاہئے يعنی اخالق حسنہ اور
انصاف کے ساتھ ان سے بحث و گفتگو کی جائے۔
اس بنا پر فن مناظره ميں پہلے مناظره کرنے والوں کے حاالت اور احساسات کو پرکھنا چاہئے اور انھيں کے پيش نظر
مناظره کرنا چاہئے۔
جيسا کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم بھی مختلف مواقع پر انھيں تينوں طريقوں کو بروئے کار التے تھے اور
انھيں کے ذريعہ مختلف لوگوں کو اسالم کی دعوت ديتے تھے۔
حضرت امام صادق عليہ السالم کہ جنھوں نے تقريبا ً چار ہزار شاگردوں کی تربيت کی ہے ان ميں سے ايک گروه
علمی ميدان ميں مناظره کے فن کا ماہر تھا ،جس وقت مخالف علمی بحث و گفتگو کرنے کے لئے آپ کی خدمت ميں
حاضر ہوتا تھا تو اگر آپ کے پاس وقت نہيں ہوتا تھا تو اپنے شاگردوں کو حکم ديتے تھے کہ ان لوگوں سے بحث و
مناظره کريں۔
ّ
ماده پرست اور منکرين خدا جيسے ابن ابی ال َعوجاء ،ديصانی اور ابن مقفع وغيره نے بارہا حضرت امام صادق عليہ
السالم اور آپ کے شاگردوں سے بحث و گفتگو کی ہے ،امام عليہ السالم ان کی باتوں کو سنتے تھے اور پھر ايک ايک
کرکے ان کا جواب ديتے تھے جيسا کہ ابن ابی ال َعوجاء کہتا ہے:
” حضرت امام صادق) عليہ السالم( ہم سے فرمايا کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو بھی دليل ہے اس کو بيان کرو ،ہم
آزادانہ طور پر اپنے دالئل پيش کرتے تھے اور امام مکمل طور پر سنتے تھے ،اس طرح کہ ہم يہ خيال کربيٹھتے تھے
کہ ہم نے امام پر غلبہ کرليا ہے ،ليکن جب امام کی باری آتی تھی تو بہت ہی متين انداز ميں ہمارے ايک ايک استدالل
کی تحقيق اور چھان بين کرتے تھے اور ان کو ر ّد کرتے تھے اس طرح کہ بحث و گفتگو کے لئے کسی طرح کا کوئی
بہانہ باقی نہيں بچتا تھا“۔][3
قرآن مجيد ميں جناب ابراہيم عليہ السالم کے مناظرے
قرآن مجيد ميں خدا کے عظيم الشان پيغمبر جناب ابراہيم عليہ السالم کے بہت سے مناظرے بيان ہوئے ہيں ،قرآن مجيد
ميں ان کا ذکر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کی راه پر چلنے والے اعتقادی ،اجتماعی اور سياسی مسائل ميں
غافل نہيں ہيں ،بلکہ مختلف مورچوں پر منجملہ دينی اور ثقافتی مورچہ پر حق اور دين کے دفاع کے لئے استدالل اور
منطقی گفتگو کرتے ہيں۔
جناب ابراہيم عليہ السالم کے بت شکنی سے متعلق واقعہ ميں قرآن مجيد ميں ارشاد ہے کہ انھوں نے سب بتوں کو توڑ
ڈاال ليکن بﮍے بت کو صحيح و سالم چھوڑ ديا ،اور جب نمرود کے سامنے معاملہ رکھا گيا تو آپ سے سوال کيا گيا:
”تم نے ہمارے بتوں کو کيوں توڑا؟“
جناب ابراہيم عليہ السالم نے ا ن کے جواب ميں کہا:
” قَا َل بَلْ فَ َعلَہُ َکبِي ُرہُ ْم ہَ َذا فَا ْسأَلُوہُ ْم ِٕا ْن َکانُوا يَ ِ
نطقُونَ “ ][4
”ابراہيم نے کہا کہ يہ ان کے بﮍے نے کيا ہے تم ان سے دريافت کر کے ديکھو اگر يہ بول سکيں“۔
جناب ابراہيم عليہ السالم نے در حقيقت اس استدالل ميں بت پرستوں کے عقيده کو استدالل کا وسيلہ قرار ديا ،اور ايک
ايسا مستحکم حربہ استعمال کيا:
بت پرستوں نے کہا” :اے ابراہيم! تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ يہ بت بولتے نہيں ہيں؟!“
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
جناب ابراہيم عليہ السالم نے اس موقع سے فائده اٹھاتے ہوئے کہا:
”پس تم ان گونگے بتوں کو کيوں پوجتے ہو ،جو نہ کوئی فائده پہنچاسکتے ہيں اور نہ کوئی کام کرنے کی قدرت
رکھتے ہيں؟! اُف ہو تم پر اور تمہارے پست و ذليل معبودوں پر ،کيا تم لوگ غور و فکر نہيں کرتے؟][5
قرآن مجيد ميں ايک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :نمرود )جناب ابراہيم عليہ السالم کا ہمعصر طاغوت( نے جناب
ابراہيم عليہ السالم سے کہا” :تمہارا خدا کون ہے؟“
قبضہ قدرت ميں موت و حيات ہے ،ميں ايسے ہی خدا کے ٔ جناب ابراہيم عليہ السالم نے کہا” :ميرا خداوه ہے جس کے
سامنے سجده کرتا ہوں“۔
نمرود نے سفسطہ )يعنی دھوکہ بازی( شروع کی جس کا ساده لوح انسانوں پر بہت زياده اثر ہوتا ہے ،اور چالنا شروع
کيا” :اے بے خبر! يہ کام تو ميرے ہاتھ مينبھی ہے ،ميں زنده بھی کرتا ہوں اور مارتا بھی ہوں ،کيا تم نہيں ديکھتے کہ
سزائے موت ملنے والے کو رہا کرديتا ہوں اور عام قيدی کو سزائے موت ديديتا ہوں“!!۔
اور پھر اس نے اپنے کارندوں سے کہا :سزائے موت پانے والے مجرم کو آزاد کردو ،اور ايک عام قيدی جس کے لئے
سزائے موت کا حکم نہيں ہے اس کو سولی پر لٹکادو۔
اس موقع پر جناب ابراہيم عليہ السالم نے نمرود کے مغالطہ اور دھوکہ بازی کے مقابلہ ميں اپنا استدالل شروع کرتے
ہوئے يوں کہا:
بضہ قدرت ميں نہيں ہے بلکہ تمام عالم ہستی اسی کے فرمان کے تحت ہے ،اسی ”صرف موت وحيات ہی خدا کے ق ٔ
بنياد پر ميرا خدا صبح سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور غروب کے وقت مغرب ميں غروب کرتا ہے ،اگر تو سچ
کہتا ہے کہ ميں لوگوں کا خدا ہے
تو تو مغرب سے سورج نکال کر مشرق ميں غروب کرکے دکھا“۔
قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:
ﱠ ْ
”فَب ُِہتَ الﱠ ِذی َکفَ َر َوﷲُ الَيَ ْہ ِدی القَوْ َم الظالِ ِمينَ “][6
”تو کافر حيران ره گيا اور ﷲ ظالم قوم کی ہدايت نہيں کرتا“۔
يہ تھے جناب ابراہيم عليہ السالم کے قرآن مجيد ميں بيان ہونے والے بہت سے نمونوں ميں سے دو نمونے:
يہ نمونے اس بات کی عکاسی کرتے ہيں کہ مناظره کے صحيح طريقوں کو سيکھنا چاہئے ،اور دينی و ثقافتی سازشوں
کے مقابلہ ميں استدالل اور مناظروں سے مسلح ہونا چاہئے تاکہ موقع پﮍنے پر حق و حقيقت کا دفاع ہوسکے۔
قرآن مجيد کے سوره نساء آيت ٧١ميں ارشاد ہوتا ہے:
”يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا ُخ ُذوا ِح ْذ َر ُک ْم ۔۔۔“ ][7
” اے ايمان النے والو! اپنے تحفظ کا سامان سنبھال لو“۔
آيہ شريفہ اس بات کی طرف اشاره کرتی ہے کہ مسلمانوں کو دشمن کے تمام مورچوں پر اور سازشوں کے مقابلہ يہ ٔ
کے لئے تيار رہنا چاہئے ،جن ميں سے ايک مورچہ ثقافتی اور فکری مورچہ ہے ،جس کا فائده دوسرے راستوں سے
زياده اور عميق تر ہے ،اور يہ بات واضح ہے کہ ان ميں سے ايک مسئلہ فکری اور ثقافتی پہلو کی شناخت اور علمی و
استداللی بحث و گفتگو ميں مناظره اور جدل ہے جس کی شناخت کے بعد مناسب موقعوں پر حق کا دفاع کرنے کے
لئے فائده اٹھانا ضروری ہے۔
حضرت امام صادق عليہ السالم مخالفوں سے مناظره کی ضرورت کے پيش نظر فرماتے ہيں:
”خَاص ُموہُم َو بَيﱠنُوا لَہُ ُم ْالہُدَی الﱠ ِذی اَ ْنتُ ْم َعلَ ْي ِہَ ،و بَيﱠنُوا لَہُ ْم َ
ضاللَتَہُ ْم َو بَ ِاہلُوہُ ْم فِی ع ﱟ
َلی َعلَ ْي ِہ السﱠالم“۔][8
”مخالفين سے بحث و گفتگو کرو ،اور راه ہدايت جس پر تم ہو ان لوگوں پر واضح کرو اور ان کی گمراہی کو روشن
کرو ،اور حقانيت علی عليہ السالم کے بارے ميں ان سے ”مباہلہ“ )ايک دوسرے پر لعنت اور باطل کے طرفداروں
کے لئے خدا کی طرف سے بال نازل ہونے کی درخواست( کرو“۔
اس بنياد کی بنا پر خود پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليہم السالم اور اسی طرح شيعوں
کے عظيم الشان علماء ہميشہ مناسب موقعوں پر بحث و گفتگو ،جدل اور مناظرے کيا کرتے تھے ،اور اس طريقہ سے
بہت سے ا فراد کو راه ہدايت کی راہنمائی فرماتے اور گمراہی سے نجات ديتے تھے۔][9
حضرت امام باقر عليہ السالم کا ارشاد ہے:
”علماء شيعتنا مرابطون فی الثغر الذی يلی ابليس و عفاريتہ ،يمنعونہم عن الخروج علی ضعفاء شيعتنا ،و عن ان يتسلط
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
عليہم ابليس و شيعتہ النواصبُ ،اال فمن انتصب کان افضل ممن جاہد الروم وا لترک والخزر ،الف الف مرة ،النہ يدفع عن
ا ديان محبينا ،و ذلک يدفع عن ابدانہم“۔][10
”ہمارے شيعہ علماء ان سرحدوں کے محافظوں کی فر ع ہيں جو شيطان اور اس کے لشکر والوں کے مقابلہ ميں صف
آراء ہيں ،وه ہمارے ضعيف شيعوں پر حملہ کرنے سے دشمن کو روکتے ہيں ،نيز شيطان اور اس کے ناصبی
پيروکاروں کے مسلط ہونے ميں مانع ہوتے ہيں ،آگاه ہوجاؤ کہ اس طرح کا دفاع کرنے والے شيعوں کی قدر و قيمت
ہزار ہزار درجہ زياده ہے ان سپاہيوں سے جو دشمنان اسالم ؛ روم ،ترک اور خزر کے کفار سے جنگ ميں شريک
ہوئے ہيں ،کيونکہ يہ )شيعہ علماء( اسالمی عقائد اور اسالمی ثقافت کے محافظ اور دينداروں کا دفاع کرنے والے
ہيں،جبکہ مجاہدين صرف جغرافيائی اعتبار سے اسالمی سرحدوں کا دفاع کرنے والے ہيں“۔
االزہر يونيورسٹی کے ايک بزرگ استاد جناب شلتوت کا قول
”االزہر “ )مصر( يونيورسٹی کے استاد کبير اور مفتی جناب شيخ محمود شلتوت جو اہل سنت کے ممتاز اور جيّد عالم
دين تھے ،اپنے ايک انٹريو ميں اس طرح کہتے ہيں:
”والباحث المستوعب المنصف ،سيجد کثيراً فی مذہب الشيعة ما يقوی دليلہ و يلتئم مع اہداف الشريعة من صالح االٔسرة
والمجتمع ،و يدفعہ الی االخذ و االرشاد اليہ“۔
پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب اسالم کے بارے ميں تحقيق کرتا ہے تو ”وه محقق جو انصاف کی بنياد پر تمام ٔ
بہت سے مقامات پر مذہب تشيع کے بارے ميں تحقيق کرتا ہے تو اس کو ايسا لگتا ہے کہ ان کی دليليں بہت مستحکم،
شريعت اسالم کے اہداف و مقاصد کے ہمراه ،نسل و معاشره کی اصالح سے اس طرح ہم آہنگ ہيں ،جس کی بنا پر
انسان مذہب شيعہ اور ان کے اصول کی طرف مائل ہوجاتا ہے“۔
اور اس کے بعد نمونہ کے طور پر چند معاشرتی اور گھريلو ][11مسائل کو بيان کرتے ہوئے کہتے ہيں” :جس وقت ان
مسائل ميں مجھ سے سوال ہوتا ہے تو ميں شيعہ فتووں کی بنياد پر جواب ديتا ہوں“۔][12
ايک عظيم الشان استاد جو قاہره االزہر يونيورسٹی کا مقبول استاد ہو اس کی زبان سے يہ اعتراف واقعا ً بہت مفيد اور
اميد بخش ہے ،کيونکہ موصوف مذہب تشيع کو برہان و استدالل کی بنياد پر اسالم ناب محمدی کے اہداف سے ہم آہنگ
فتوی اور مذہب تشيع کی پيروی کی صحت اور قاہره کے بﮍے بﮍے دانشوروں کی ٰ قرار ديتے ہيں ،اور ان کا تاريخی
تائيد کے بارے ميں مناظره نمبر ۵٨ميں بيان ہوگا۔ )انشاء ﷲ(
کتاب ٰھذا کے بارے ميں:
اس کتاب ميں اسالم کے عظيم الشان رہبروں ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ،ائمہ معصومين عليہم السالم اور
گزشتہ اور دور حاضر کے دينی عظيم الشان علمائے کرام کے مختلف مناظرے ذکر کے گئے ہيں ،جو اس چيز کو بيان
کرتے ہيں کہ يہ حضرات منکرين خدا اور جاہل لوگوں سے کس طرح کا طريقہ کار اپناتے تھے نيز ان کی منطق اور
استدالل کے مقابلہ ميں انسانوں پر کس طرح تاثير ہوتی تھی ،جو ہمارے لئے ايک درس ہے کہ کس طرح حق و حقيقت
کا دفاع کريں؟ اور فن استدالل اور صحيح مناظره کا کردار لوگوں کے جذب کرنے اور ان کو قانع کرنے ميں بہت
زياده موثر ہے ،اسی وجہ سے مناسب ہے کہ ہم ان طريقوں کو سيکھيں اور انھيں کے ذريعہ مختلف موقع و محل پر
جاہل اور گمراه لوگوں کی ہدايت کا سامان فراہم کريں۔
يہ کتاب ،دو حصوں پر مشتمل ہے:
پہال حصہ :جس ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ،ائمہ معصومين عليہم السالم اور ان حضرات کے شاگردوں
کے ذريعہ مختلف افراد سے مختلف موضوعات پر کئے جانے والے مناظروں کے نمونے بيان ہوئے ہيں۔
دوسرا حصہ :ممتاز علماء اور اسالمی محققين کے مختلف گروہوں سے کئے جانے والے مناظرے۔
اميد ہے کہ ”ايک سو ايک مناظروں کا يہ مجموعہ “ مناظره کی روش اور طريقہ کی پہچان کے لئے بہترين ناصر و
مونس قرار پائے ،جس کے پيش نظر ”اسالمی اہداف و مقاصد“ کی تکميل کے لئے ثمر بخش نتائج برآمد ہوں ،تاکہ
مستحکم علمی مناظروں کے ذريعہ ”حقيقی اسالم “ کے مخالفوں کی ”دينی اور ثقافتی سازشوں“ کا س ّد باب کرسکيں۔
والسالم عليکم و رحمة ﷲ وبرکاتہ
محمد محمدی اشتہاردی
حوزه علميہ ،قم المقدسہ
موسم سرما١٣٧١ ،ھ ش
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پہال حصہ:
١۔ پانچ گروہوں کا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے مناظره][13
/ ٢۵افراد پر مشتمل اسالم مخالفوں کے پانچ گروه نے آپس ميں يہ طے کيا کہ پيغمبر کے پاس جاکر مناظره کريں۔
ان گروہوں کے نام اس طرح تھے :يہودی ،عيسائی ،ما ّدی ،مانُوی اور بت پرست۔
يہ لوگ مدينہ ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور آکر آنحضرت صلی ﷲ عليہ و
آلہ و سلم کے چاروں طرف بيٹھ گئے ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے بہت ہی کشاده دلی کا مظاہره کرتے
ہوئے ان کو بحث کا آغاز کرنے کی اجازت دی۔
يہودی گروه نے کہا:
”ہم اس بات پر عقيده رکھتے ہيں کہ ”عزير“ نبی] [14خدا کے بيٹے ہيں ،ہم آپ سے بحث و گفتگو کرنا چاہتے ہيناور
اگر اس مناظره ميں ہم حق پر ہوں تو آپ بھی ہمارے ہم عقيده ہوجائيں کيونکہ ہم آپ سے مقدم ہيں ،اور اگر آپ نے
ہماری موافقت نہ کی تو پھر ہم آپ کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوجائيں گے“۔
عيسائی گروه نے کہا:
عيسی عليہ السالم خدا کے بيٹے ہيں ،اور خدا ان کے ساتھ متحد ہوگيا ہے، ٰ ”ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ حضرت
ہم آپ کے پاس بحث و گفتگو کرنے کے لئے آئے ہيں ،اگر آپ ہماری پيروی کريں اور ہمارے ہم عقيده ہوجائيں )تو
بہتر ہے( کيونکہ ہم اس عقيده ميں آپ سے مقدم ہيں ،اور اگر آپ نے ہمارے اس عقيده ميں مخالفت کی تو ہم )بھی( آپ
کی مخالفت کريں گے“۔
ما ّده پرست )منکر خدا( گروه نے کہا:
َ َ
”ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ ”موجوات عالم“ کا کوئی آغاز اور انجام نہيں ہے ،اور يہ ”عالم“ قديم اور ہميشہ
سے ہے ،ہم يہاں آپ سے بحث و گفتگو کے لئے آئے ہيں ،اگر آپ ہماری موافقت کريں گے تو واضح ہے کہ برتری
ہماری ہوگی ،ورنہ ہم آپ کی مخالفت کريں گے“۔
دو گانہ پرست آگے بﮍھے اور کہا:
ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ اس دنيا کے دو مربی ،دو تدبير کرنے والے اور دو مبدأ ہيں ،جن ميں سے ايک نور
اور روشنی کا خلق کرنے واال ہے اور دوسرا ظلمت اور تاريکی کا خالق ہے ،ہم يہاں پر آپ سے مناظره کرنے کے
لئے آئے ہيں ،اگر آپ اس بحث ميں ہمارے ہم عقيده ہوگئے تو بہتر ہے اور اس ميں ہماری سبقت اور برتری ہے ،اور
اگر آپ نے ہماری مخالفت کی تو ہم بھی آپ کی مخالفت کريں گے“۔
بت پرستوں نے کہا:
ہم اس بات پر عقيده رکھتے ہيں کہ يہ ہمارے بت ہمارے خدا ہيں ،ہم آپ سے اس سلسلہ ميں بحث و گفتگو کرنے آئے
ہيں ،اگر آپ اس عقيده ميں ہمارے موافق ہوگئے تو معلوم ہے کہ سبقت اور تقدم ہمارا ہے ،ورنہ تو ہم آپ سے دشمنی
کريں گے“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے جواب ميں ارشاد فرمايا:
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے پہلے کلی طور پر جواب ميں بيان فرمايا:
)تم نے اپنا عقيده بيان کرديا ،اب ميری باری ہے کہ ميں اپنا عقيده بيان کروں( ”ميرا عقيده ہے کہ خداوندعالم وحده
الشريک ہے ،ميں اس کے عالوه ہر دوسرے معبود کا منکر ہوں ،اور ميں ايسا پيغمبر ہوں جس کو خداوندعالم نے تمام
دنيا کے لئے مبعوث کيا ہے ،ميں خداوندعالم کی رحمت کی بشارت اور اس کے عذاب سے ڈرانے واال ہوں ،نيز ميں
دنيا بھر کے تمام لوگوں پر حجت ہوں ،اور خداوندعالم مجھے دشمنوں اور مخالفوں کے خطره سے محفوظ رکھے گا“۔
اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان گروہوں کو باری باری مخاطب کيا تاکہ ہر ايک سے الگ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
الگ مناظره کريں ،چونکہ يہوديوں کے گروه نے چيلنج کيا تھا اس وجہ سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے
يہوديوں کے گروه کو مخاطب کيا:
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :اس بات پر تمہارے پاس کيا دليل ہے کہ ”عزير“ خدا کے بيٹے ہيں؟
يہودی گروه :کتاب ”توريت “مکمل طور پر نيست و نابود ہوچکی تھی اور کوئی اس کو زنده نہيں کرسکتا تھا ،جناب
عزير نے اس کو زنده کيا ،اس وجہ سے ہم کہتے ہيں کہ وه خدا کے بيٹے ہيں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :اگر تمہارے پاس جناب عزير کے خدا کے بيٹے ہونے پر يہی دليل ہے تو
موسی )عليہ السالم( جو توريت النے والے اور جن کے پاس بہت سے معجزات تھے جن کا تم لوگ خود ٰ حضرت
اعتراف کرتے ہو ،وه تو اس بات کے زياده مستحق ہيں کہ وه خدا کے بيٹے يا اس سے بھی باالتر ہوں ! پس تم لوگ
موسی )عليہ السالم( کے لئے يہ عقيده کيوں نہيں رکھتے جن کا درجہ جناب عزير سے بھی بلند و باال ہے؟ ٰ جناب
اس کے عالوه اگر خدا کا بيٹا ہونے سے تمہارا مقصود يہ ہے کہ عزير بھی دوسرے باپ اور اوالد کی طرح شادی اور
ہمبستری کے ذريعہ خدا سے پيدا ہوئے ہيں تو اس صورت ميں تم نے خدا کو ايک ما ّدی ،جسمانی اور محدود
موجودقرار ديديا ہے ،جس کا الزمہ يہ ہے کہ خدا کے لئے کوئی خلق کرنے واال ہو ،اور اس کو دوسرے خالق کا
محتاج تصور کريں۔
يہودی گروه :جناب عزير کا خدا کا بيٹا ہونے سے ہماری مراد يہ نہيں ہے کہ ان کی اس طرح والدت ہوئی ،کيونکہ يہ
معنی مراد لينا جيسا کہ آپ نے فرمايا کفر و جہل کے مترادف ہے ،بلکہ ہماری مراد ان کی شرافت اور ان کا احترام
ہے،جيسا کہ ہمارے بعض علماء اپنے کسی ايک ممتاز شاگرد کو دوسروں پر ترجيح ديتے ہيں اور اس کے لئے کہتے
ہيں” :اے ميرے بيٹے!“ يا ”وه ميرا بيٹا ہے“ ،يہ بات تو معلوم ہے کہ والدت کے لحاظ سے بيٹا نہيں ہے کيونکہ شاگرد
،استاد کی اوالد نہيں ہوتی اور نہ ہی اس سے کوئی رشتہ داری ہوتی ہے ،اسی طرح خداوندعالم نے جناب عزير کی
شرافت اور احترام کی وجہ سے ان کو اپنا بيٹا کہا ہے ،اور ہم بھی اسی لحاظ سے ان کو ”خدا کا بيٹا“ کہتے ہيں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :تمہارا جواب وہی ہے جو ميں دے چکا ہوں ،اگر يہ منطق اور دليل اس بات کا
موسی )عليہ السالم( جناب عزير سے ٰ سبب ہے کہ جناب عزير خدا کے بيٹے بن جائيں تو پھر جو شخص مثل حضرت
بھی بلند و باال ہوں اس بات کا زياده مستحق ہيں۔
خداوندعالم کبھی بعض لوگوں کو دالئل اور اپنے اقرار کی وجہ سے عذاب کرے گا ،تمہاری دليل اور تمہارا اقرار اس
موسی عليہ السالم کے بارے ميں اس سے بﮍھ کر کہو جو جناب عزير کے ٰ بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تم لوگ جناب
بارے ميں کہتے ہو ،تم لوگوں نے مثال دی اور کہا :کوئی بزرگ اور استاد اپنے شاگرد سے کوئی رشتہ داری نہيں
رکھتا بلکہ اس سے محبت اور احترام کی وجہ سے کہتا ہے:
”اے ميرے بيٹے!“ يا ”وه ميرا بيٹا ہے“ ،اس بناء پر تم لوگ يہ بھی جائز سمجھو کہ وه اپنے دوسرے محبوب شاگرد
سے کہے” :يہ ميرا بھائی ہے“ ،اور کسی دوسرے سے کہے” :يہ ميرا استاد ہے“ ،يا ”يہ ميرا باپ اور ميرا آقا ہے“۔
يہ تمام الفاظ شرافت اور احترام کی وجہ سے ہيں ،جس کا بھی زياده احترام ہواس کو بہتر اور با عظمت الفاظ سے
موسی )عليہ السالم( خدا کے بھائی ہيں ،يا خدا کے ٰ پکارا جائے ،اس صورت ميں تم اس بات کو بھی جائز مانو کہ جناب
موسی )عليہ السالم( کا مرتبہ جناب عزير سے بلند و باال ہے۔
ٰ استاد يا باپ ہيں ،کيونکہ جناب
موسی )عليہ السالم( خدا کے
ٰ اب ميں تم سے ايک سوال کرتا ہوں کہ کيا تم لوگ اس بات کو جائز مانتے ہو کہ جناب
بھائی ،يا خدا کے باپ يا خدا کے چچا ،يا خدا کے استاد ،آقا اور ان کے سردار ہوں ،اور خداوندعالم احترام کی وجہ
موسی )عليہ السالم( سے کہے :اے ميرے باپ! ،اے ميرے استاد ،اے ميرے چچا اور اے ميرے سردار۔۔۔؟ ٰ سے جناب
يہ سن کريہودی گروه ال جواب ہوگيا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پايا ،اور وه حيران و پريشان ره گئے تھے،چنانچہ
انھوں نے کہا” :آپ ہميں غور و فکر اور تحقيق کرنے کی اجازت ديں!“
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :بے شک تم لوگ اگر پاک و صاف دل اور انصاف کے ساتھ اس سلسلہ ميں
غور و فکر کرو تو خداوندعالم تم لوگوں کو حقيقت کی طرف راہنمائی فرمادے گا۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٢۔ عيسائيوں سے مناظره
عيسائيوں کی باری آئی تو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمايا:
عيسی مسيح کے ساتھ متحد ہے ،اس عقيده سے تمہاری مراد کيا ٰ تم لوگ کہتے ہو کہ خداوندقديم اپنے بيٹے حضرت
ہے؟
کيا تم لوگوں کی مراد يہ ہے کہ خدانے اپنے قديم ہونے سے تنزل کرليا ہے ،اور ايک حادث )جديد خلقت( موجود ميں
عيسی( کے ساتھ متحد ہوگيا ہے يا اس کے برعکس ،يعنی حضرت ٰ تبديل ہوگيا ہے ،اور ايک حادث موجود )جناب
عيسی جو ايک حادث اور محدود موجود ہيں انھوں نے ترقی کی اوروه خداوندقديم کے ساتھ متحد ہوگئے ہيں ،يا اتحاد ٰ
عيسی کا احترام اور شرافت ہے؟!
ٰ سے تمہارا مقصد صرف حضرت
اگر تم لوگ پہلی بات کو قبول کرتے ہو يعنی قديم وجود حادث وجود ميں تبديل ہوگيا تو يہ چيز عقلی لحاظ سے محال
ہے کہ ايک ازلی و المحدود چيز ،حادث اور محدود ہوجائے۔
اور اگر دوسری بات کو قبول کرتے ہو تو وه بھی محال ہے ،کيونکہ عقلی لحاظ سے يہ چيز بھی محال ہے کہ ايک
محدود اور حادث چيز المحدود اور ازلی ہوجائے۔
عيسی )عليہ السالم( دوسرے بندوں کی طرح حادث ٰ اور اگر تيسری بات کے قائل ہو تو اس کے معنی يہ ہيں کہ جناب
عيسی )عليہ
ٰ ہيں ليکن وه خدا کے ممتاز اور الئق احترام بنده ہيں ،تو اس صورت ميں بھی خداوندکا )جو قديم ہے( جناب
السالم( سے متحد اور برابر ہونا قابل قبول نہيں ہے۔
عيسی مسيح )عليہ السالم( کو خاص امتيازات سے نوازا ہے ،عجيب و ٰ عيسائی گروه :چونکہ خداوندعالم نے حضرت
غريب معجزات اور دوسری چيزيں انھيں دی ہيں ،اسی وجہ سے ان کو اپنا بيٹا قرار ديا ہے ،اور يہ خدا کا بيٹا ہونا
شرافت اور احترام کی وجہ سے ہے!
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :بعينہ يہی مطلب يہوديوں سے گفتگو کے درميان بيان ہوا ہے اور تم لوگوں نے
سنا کہ اگر يہ طے ہو کہ خداوندعالم نے ان کو امتياز اور )معجزات( کی بنا پر اپنا بيٹا قرار ديا ہو تو پھر جو شخص
عيسی )عليہ السالم( سے بلند تر يا ان کے برابر ہو تو پھر اس کو اپنا باپ ،يا استاد يا اپنا چچا قرار دے۔۔۔“۔ٰ جناب
عيسائی گروه يہ اعتراض سن کر الجواب ہوگيا ،نزديک تھا کہ ان سے بحث و گفتگو ختم ہوجائے ،ليکن ان ميں سے
ايک شخص نے کہا:
کيا آپ جناب ابراہيم) عليہ السالم( کو ”خليل خدا“ )يعنی دوست خدا( نہيں مانتے؟“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :جی ہاں ،مانتے ہيں۔
عيسی )عليہ السالم( کو ”خدا کا بيٹا“ مانتے ہيں ،پھر کيوں آپ ہم کو اس عقيده سے ٰ عيسائی :اسی بنياد پر ہم جناب
روکتے ہيں؟
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :يہ دونوں لقب آپس ميں بہت فرق رکھتے ہيں،لفظ ”خليل“ دراصل لغت ميں
”خَلّہ“ )بروزن ذرّة( سے ہے جس کے معنی فقر و نياز اور ضرورت کے ہيں ،کيونکہ جناب ابراہيم) عليہ السالم( بی
نہايت خدا کی طرف متوجہ تھے ،اور عفت نفس کے ساتھ ،غير سے بے نياز ہوکر صرف خداوندعالم کی بارگاه کا فقير
اور نياز مند سمجھتے تھے ،اسی وجہ سے خداوندعالم نے جناب ابراہيم )عليہ السالم( کو اپنا ”خليل“ قرار ديا ،تم لوگ
جناب ابراہيم) عليہ السالم( کو آگ ميں ڈالنے کا واقعہ ياد کرو:
جس وقت )نمرود کے حکم سے( ان کو منجنيق ميں رکھا تاکہ ان کو آسمان سے باتيں کرتی ہوئی آگ کے اندر ڈاال
جائے ،اس وقت جناب جبرئيل خدا کی طرف سے آئے اور فضا ميں ان سے مالقات کی اور ان سے عرض کی کہ ميں
خدا کی طرف سے آپ کی مدد کرنے کے لئے آيا ہوں ،جناب ابراہيم) عليہ السالم( نے ان سے کہا :مجھے غير خدا کی
کوئی ضرورت نہيں ہے ،مجھے اس کی مدد کافی ہے ،وه بہترين محافظ اور مددگار ہے ،اسی وجہ سے خداوندعالم نے
جناب ابراہيم) عليہ السالم( کو اپنا ”خليل“ قرار ديا ،خليل يعنی خداوندعالم کا محتاج اور ضرورت مند ،اور خلق خدا
سے بے نياز۔
اور اگر لفظ خليل کو ” ِخلّہ“ )بروزن ِپلّہ( سے مانيں جس کے معنی ”معانی کی تحقيق اور خلقت وحقائق کے اسرار و
رموز پر توجہ کرنا ہے“ ،اس صورت ميں بھی جناب ابراہيم) عليہ السالم( خليل ہيں يعنی وه خلقت اور حقائق کے
اسرار اور لطائف سے آگاه تھے ،اور يہ معنی خالق و مخلوق ميں شباہت کی باعث نہيں ہوتی ،اس بنا پر اگر جناب
ابراہيم) عليہ السالم( صرف خدا کے محتاج نہ ہوتے ،اور اسرار و رموز سے آگاه نہ ہوتے تو خليل بھی نہ ہوتے ،ليکن
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
باپ بيٹے کے درميان پيدائشی حوالہ سے ذاتی رابطہ ہوتا ہے ،يہاں تک کہ اگر باپ اپنے بيٹے سے قطع تعلق کرلے تو
بھی وه اس کا بيٹا ہے اور باپ بيٹے کا رشتہ باقی رہتا ہے۔
اس کے عالوه اگر تمہاری دليل يہی ہے کہ چونکہ جناب ابراہيم) عليہ السالم( خليل خدا ہيں ل ٰہذا وه خدا کے بيٹے ہيں،
موسی )عليہ السالم( بھی خدا کے بيٹے ہيں ،بلکہ جس طرح ميں نے ٰ تو اس بنياد پر تمہيں يہ بھی کہنا چاہئے کہ جناب
يہودی گروه سے کہا ،اگر يہ طے ہو کہ لوگوں کے مقام و عظمت کی وجہ سے يہ نسبتيں صحيح ہوں تو کہنا چاہئے کہ
موسی )عليہ السالم( خدا کے باپ ،استاد ،چچا يا آقا ہيں۔۔۔ جبکہ تم لوگ کبھی بھی ايسا نہيں کہتے۔ ٰ جناب
عيسی )عليہ السالم( پر نازل ہونے والی کتاب انجيل کے حوالہ سے ٰ عيسائيوں ميں سے ايک شخص نے کہا :حضرت
عيسی )عليہ السالم( نے فرمايا” :ميں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“ ،ل ٰہذا اس ٰ بيان ہوا ہے کہ حضرت
عيسی )عليہ السالم( نے خود کو خدا کا بيٹا قرار ديا ہے! ٰ جملہ کی بنا پر حضرت
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :اگر تم لوگ کتاب انجيل کو قبول کرتے ہو تو پھر اس جملہ کی بنا پر تم لوگ
عيسی کہتے ہيں” :ميں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“ ،اس جملہ کا ٰ بھی خدا کے بيٹے ہو ،کيونکہ جناب
مفہوم يہ ہے کہ ميں بھی خدا کا بيٹا ہوناور تم بھی۔
عيسی )عليہ السالم( خاص امتيازات،ٰ دوسری طرف يہ عبارت تمہاری گزشتہ کہی ہوئی بات )يعنی چونکہ حضرت
شرافت اور احترام رکھتے تھے اسی وجہ سے خداوندعالم نے ان کو اپنا بيٹا قرار ديا ہے( کو باطل اور مردود قرار
عيسی )عليہ السالم( اس جملہ ميں صرف خود ہی کو خدا کا بيٹا قرار نہيں ديتے بلکہ سبھی ٰ ديتی ہے ،کيونکہ حضرت
کو خدا کا بيٹا قرار ديتے ہيں۔
عيسی )عليہ السالم( کے خاص امتيازات )اور معجزات ميں سے( نہيں ہے، ٰ اس بنا پر بيٹا ہونے کا معيار حضرت
عيسی )عليہ السالم( کی زبان سے نکلے ٰ کيونکہ دوسرے لوگوں ميں اگرچہ يہ امتيازات نہيں ہيں ليکن خود حضرت
ہوئے جملہ کی بنا پر خدا کے بيٹے ہيں ،ل ٰہذا ہر مومن اور خدا پرست انسان کے لئے کہا جاسکتا ہے :وه خدا کا بيٹا ہے،
عيسی )عليہ السالم( کے قول کو نقل کرتے ہو ليکن اس کے برخالف گفتگو کرتے ہو۔ ٰ تم لوگ حضرت
عيسی )عليہ السالم( کی گفتگو ميں بيان ہونے والے ”باپ بيٹے“ کے لفظ کو اس کے غير معنی ٰ کيوں تم لوگ حضرت
عيسی )عليہ السالم( کی مراد اس جملہ ”ميں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ٰ ميں استعمال کرتے ہو ،شايد جناب
ہوں“ ،سے مراد اس کے حقيقی معنی ہوں يعنی ميں حضرت آدم و نوح )عليہما السالم( کی طرف جارہا ہوں جو ہمارے
سب کے باپ ہيں ،اور خداوندعالم مجھے ان کے پاس لے جارہا ہے ،جناب آدم و نوح ہمارے سب کے باپ ہيں ،اس بنا
پر تم کيوں اس جملہ کے ظاہری اور حقيقی معنی سے دوری کرتے ہو اور اس سے دوسرے معنی مرادليتے ہو؟!
عيسائی گروه ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی مستدل گفتگو سے اس قدر مرعوب ہواکہ کہنے لگے :ہم نے
آج تک کسی کو ايسا نہيں ديکھا کہ اس ماہرانہ انداز ميں اس طرح بحث و گفتگو کرے جيسا کہ آپ نے کی ہے ،ہميں
اس بارے ميں غور و فکر کی فرصت ديں۔
کی بقاء کو ،پس تم کس طرح ايک طرفہ فيصلہ کرسکتے ہو،اور تم يہ کيسے کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ہم نے موجودات
کے حدوث اور فنا کو نہيں ديکھا ل ٰہذا موجودات قديمی اور ابدی ہيں؟
)اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان سے ايک سوال کيا جس ميں ان کے عقيده کو مردود کرتے
ہوئے ثابت کيا کہ تمام موجودات حادث ہيں( چنانچہ آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
کيا تم نے دن اور رات کو ديکھا ہے جو ايک دوسرے کے بعد آتے ہيں اور ہميشہ آمد و رفت کرتے ہيں۔
منکرين خدا :جی ہاں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :کيا تم لوگ دن و رات کو اس طرح ديکھتے ہو کہ ہميشہ سے تھے اور ہميشہ
رہےں گے۔
منکرين خدا :جی ہاں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :کيا تمہاری نظر ميں يہ ممکن ہے کہ يہ دن رات ايک جگہ جمع ہوجائيں اور ان
کی ترتيب ختم ہوجائے؟
منکرين خدا :نہيں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :پس اس صورت ميں ايک دوسرے سے جدا ہيں ،جب ايک کی مدت پوری
ہوجاتی ہے تب دوسرے کی باری آتی ہے۔
منکرين خدا :جی ہاں ،اسی طرح ہے۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :تم لوگوں نے اپنے اس اقرار ميں شب و روز ميں مقدم ہونے والے کے حدوث
کا اقرار کرليا ہے بغير اس کے کہ تم لوگوں نے اس کا مشاہده کيا ہو ،ل ٰہذا تمہيں خدا کا بھی منکر نہيں ہونا چاہئے][15
اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”کيا تمہاری نظر ميں دن رات کا کوئی آغاز ہے ياان کا کوئی آغاز نہيں ہے اور ازلی ہے؟ اگر تم يہ کہتے ہو کہ آغاز
ہے تو ہمارا مقصد ”حدوث“ ثابت ہوجائے گا اور اگر تم لوگ يہ کہتے ہو کہ اس کا کوئی آغاز نہيں ہے تو تمہاری اس
بات کا الزمہ يہ ہے کہ جس کا انجام ہو اس کا کوئی آغاز نہ ہو۔
)جب دن رات انجام کے لحاظ سے محدود ہيں تو يہاں پر عقل کہتی ہے کہ آغاز کے لحاظ سے بھی محدود ہے ،شب و
روز کے محدود ہونے کی دليل يہ ہے کہ ايک دوسرے سے جدا ہيں اور يکے بعد ديگرے گزرتے رہتے ہيں اور پھر
ايک کے بعد دوسرے کی باری آتی ہے(
اس کے بعد فرمايا:
تم لوگ کہتے ہو کہ يہ عالم قديم ہے ،کيا تم نے اپنے اس عقيده کو خوب سمجھ بھی ليا ہے يا نہيں؟
منکرين خدا :جی ہاں ،ہم جانتے ہيں کہ کيا کہہ رہے ہيں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :کيا تم لوگ ديکھتے ہو کہ اس دنيا کی تمام موجودات ايک دوسرے سے تعلق
اور پيوند رکھتے ہيں اور اپنی بقا ء ميں ايک دوسرے کے محتاج ہيں ،جيسا کہ ہم ايک عمارت ميں ديکھتے ہيں کہ اس
کے اجزاء )اينٹ ،پتھر ،سيمنٹ وغيره( ايک دوسرے سے پيوند رکھتے ہيں اور اپنی بقاء ميں ايک دوسرے کے محتاج
ہيں۔
جب اس دنيا کے تمام اجزاء اسی طرح ہيں تو پھر کس طرح ان کو قديم اور ثابت ][16تصور کرسکتے ہو ،اگر حقيقت
ميں يہ تمام اجزاء ايک دوسرے کے ساتھ پيوند رکھتے ہوں اور ضرورت رکھتے ہوں ،قديم ہيں اگر حادث ہوتے تو
کيسے ہوتے؟
منکرين خدا الجواب ہوگئے ،اور حدوث کے معنی کو بيان نہيں کرسکے ،کيونکہ جو کچھ بھی حدوث کے معنی ميں
کہہ سکتے تھے ،اورجن چيزوں کو قديم مانتے تھے ان پر يہ معنی صادق آتے تھے ،ل ٰہذا بہت زياده حيران اور پريشان
ہوگئے ،اور انھوں نے کہا :ہميں غور و فکر کرنے کا موقع ديں۔][17
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
يا ش ّر اور برائی ،جبکہ يہ بات معلوم ہے کہ يہ دونوں چيزيں ايک دوسرے کی ضد ہيں ،اسی وجہ سے ہمارا عقيده ہے
کہ ان ميں سے ہر ايک کا خالق بھی الگ الگ ہے ،کيونکہ ايک خالق دو متضاد چيزيں خلق نہيں کرتا ،مثال کے طور
پر :برف سے گرمی پيدا ہونا محال ہے ،جيسا کہ آگ سے سردی پيدا ہونا بھی محال ہے ،ل ٰہذا يہ بات ثابت ہوجاتی ہے
کہ اس دنيا ميں دو قديم خالق ہيں ايک نور کا خالق )جو نيکيوں کا خالق ہے( اور دوسرا ظلمت کا خالق )جو برائيوں کا
خالق ہے(۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :کيا تم لوگ اس بات کی تصديق کرتے ہو کہ اس دنيا ميں مختلف رنگ موجود
ہيں جيسے کاال ،سفيد ،سرخ ،زرد ،سبز اور مائل بہ سياہی جبکہ يہ رنگ ايک دوسرے کی ضد ہيں کيونکہ ان ميں دو
رنگ ايک جگہ جمع نہيں ہوسکتے ،جيسا کہ گرمی اور سردی ايک دوسرے کی ضد ہيں اور ايک جگہ جمع نہيں
ہوسکتے۔
دوگانہ پرستوں نے جواب ديا :جی ہاں ہم تصديق کرتے ہيں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :تو پھر تم لوگ ہر رنگ کے عدد کے مطابق اتنے ہی خدا کے معتقد کيوننہيں
ہو؟ کيا تمہارے عقيده کے مطابق ہر ضد کا ايک مستقل خالق نہيں ہے؟ اس پر تم ہر ضد کی تعداد کے مطابق خالق کا
کيوں عقيده نہيں رکھتے۔؟!
دوگانہ پرست اس دندان شکن سوال کے جواب دينے سے حيران و پريشان ہوگئے ،اور غور و فکر ميں غرق ہوگئے۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنی باتوں کو آگے بﮍھاتے ہوئے فرمايا :تمہارے عقيده کے مطابق نور اور
ظلمت دونوں کس طرح ايک دوسرے کے ساتھ مل کر اس دنيا کو چال رہے ہيں ،جبکہ نور کی فطرت ميں ترقی ہے
اور ظلمت کی فطرت ميں تنزلی ہوتی ہے ،کيا دو شخص جن ميں سے ايک مشرق کی طرف جارہا ہو اور دوسرا
مغرب کی طرف جارہا ہو ،کيا يہ دونوں اسی طرح چلتے چلتے ايک جگہ جمع ہوسکتے ہيں؟!
دوگانہ پرستوں نے جواب ديا :نہيں ،ايسا ممکن نہيں ہے۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :اس بنا پر کس طرح نور اور ظلمت جو ايک دوسرے کے مخالف اور متضاد
ہيں آپس ميں متحد ہوکر اس دنيا کی تدبير کا کام انجام دے رہے ہيں؟ آيا اس طرح کی چيز ممکن ہے کہ يہ دنيا جو دو
متضاد اور مخالف اسباب کی وجہ سے پيدا ہو؟ مسلّم طور پر ايسا ممکن نہيں ہے ،پس معلوم يہ ہوا کہ يہ دونوں چيزيں
مخلوق اور حادث ہيں اور خداوندقادر و قديم کی تدبير کے ماتحت ہيں۔
دوگانہ پرست مجبوراً پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے سامنے الجواب ہوگئے ،اور انھوں نے اپنا سر
جھکاليا ،اور کہنے لگے :ہميں غور و فکر کرنے کی فرصت عنايت فرمائيں!
کی پرستش اور ان پر توجہ اس وجہ سے کرتے ہيں تاکہ ان شکلوں کا احترام کرسکيں۔
ان ميں سے بعض لوگوں نے کہا :ہم نے ان بتوں کو پرہيزگار اور خدا کے مطيع بندوں کی شبيہ بنايا ہے ،ہم خدا کی
تعظيم اور اس کے احترام کی وجہ سے ان کی عبادت کرتے ہيں!
تيسرے گروپ نے کہا :جس وقت خداوندعالم نے جناب آدم کو خلق کيا ،اور اپنے فرشتوں کو جناب آدم کے سامنے
سجده کرنے کا حکم ديا ،ل ٰہذاہم )تمام انسان( اس بات کے سزاوار ہيں کہ جناب آدم کو سجده کريں اور چونکہ ہم اس
زمانہ ميں نہيں تھے ،اس وجہ سے ان کو سجده کرنے سے محروم رہيں ،آج ہم نے جناب آدم کی شبيہ بنائی ،اور خدا
کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اس کے سامنے سجده کرتے ہيں تاکہ گزشتہ محروميت کی تالفی کرسکيں ،اور جس
طرح آپ نے اپنے ہاتھوں سے )مسجدوں ميں( محرابيں بنائی اور کعبہ کی طرف منھ کرکے سجده کرتے ہيں ،کعبہ
کے مقابل خدا کی تعظيم اور اس کے احترام کی وجہ سے سجده اور عبادت کرتے ہيں اسی طرح ہم بھی ان بتوں کے
سامنے در حقيقت خدا کا احترام کرتے ہيں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے تينوں گروہوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمايا :تم سبھی لوگ حقيقت سے
دور غلط اور منحرف راستہ پر ہو ،اور پھر ايک ايک کا الگ الگ جواب دينے لگے:
پہلے گروه کی طرف رخ کرکے فرمايا:
تم جو کہتے ہو کہ خدا نے ان بتوں کی شکلوں کے لوگوں ميں حلول کررکھا ہے اس وجہ سے ہم نے ان بتوں کو انھيں
مردوں کی شکل ميں بنايا ہے اور ان کی پوجا کرتے ہيں ،تم لوگوں نے اپنے اس بيان سے خدا کو مخلوقات کی طرح
قرار ديا ہے اور اس کو محدود اور حادث مان ليا ،کيا خداوندعالم کسی چيز ميں حلول کرسکتاہے اور وه چيز )جو کہ
محدود ہے( خدا کو اپنے اندر سما ليتی ہے؟ ل ٰہذا کيا فرق ہے خدا اور دوسری چيزوں ميں جو جسموں ميں حلول کرتی
ہيں جيسے رنگ ،ذائقہ ،بو ،نرمی ،سختی ،سنگينی اور سبکی ،اس بنياد پر تم لوگ کس طرح کہتے ہو کہ جس جسم
ميں حلول ہوا ہو وه تو حادث اور محدود ہے ليکن جو خدا اس ميں واقع ہوا ہو وه قديم اور نامحدود ہے ،جبکہ اس کے
برعکس ہونا چاہئے يعنی احاطہ کرنے واال قديم ہونا چاہئے اور احاطہ ہونے واال حادث ہونا چاہئے۔
اس کے عالوه کس طرح ممکن ہے جو خداوندعالم ہميشہ سے اور تمام موجودات سے پہلے مستقل اور غنی ہو ،نيز
محل سے پہلے موجود ہو ،اس کو محل کی کيا ضرورت ہے کہ خود کو اس محل ميں قرار دے!۔
اور تمہارے اس عقيده کے پيش نظر کہ خدا نے موجودات ميں حلول کر رکھا ہے ،تم نے خدا کو موجودات کی صفات
کے مثل حادث اور محدود فرض کرليا ہے ،جس کا الزمہ يہ ہے کہ خدا کا وجود قابل تغيير و زوال ہے ،کيونکہ ہر
حادث اور محدود چيز قابل تغيير اور زوال ہوتی ہے۔
اور اگر تم لوگ يہ کہو کہ کسی موجود ميں حلول کرنا تغيير اور زوال کا سبب نہيں ہے ،تو پھر بہت سے امور جيسے
حرکت ،سکون ،مختلف رنگ ،سياه و سفيداور سرخ وغيره کو بھی ناقابل تغيير اورناقابل زوال کے سمجھو ،اس
صورت ميں تمہارے لئے يہ کہنا صحيح ہے کہ خدا کے وجود پر ہر طرح کے عوارض اور حاالت پيدا ہوتے ہيں ،جس
کے نتيجہ ميں خدا کو دوسرے صفات کی طرح محدود اور حادث سے توصيف کرو اور خدا کو مخلوقات کی شبيہ مانو۔
جب شکلوں ميں خدا کے حلول کا عقيده بے بنياد اور کھوکھال ہوگيا ،تو چونکہ بت پرستی کی بنياد بھی اسی عقيده پر
ہے تو پھر وه بھی بے بنياد اور باطل ہوجائے گی۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ان دالئل اور انداز بيان کے سامنے بت پرستوں کا پہال گروه الجواب ہوگيا،
اور سرجھکاکر غور و فکر کرنے لگا اور کہا :ہميں مزيد غور و فکر کی فرصت ديں۔
اس کے بعدپيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم دوسرے گروه کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا :مجھے بتاؤ کہ جب
تم نيک اور پرہيزگار بندوں کی شکل و صورت کو پوجتے ہو اور ان شکلوں کے سامنے نماز پﮍھتے ہو اور سجده
کرتے ہو ،اور ان شکلوں کے سامنے سجده کے عنوان سے اپنے سربلند چہروں کو زمين پر رکھتے ہو ،اور مکمل
خضوع کے ساتھ پيش آتے ہو ،تو پھر خدا کے لئے کيا خضوع باقی رہا) ،واضح الفاظ ميں سب سے زياده خضوع
سجده ہے ،اور تم ان شکلوں کے سامنے سجده کرتے ہو تو پھر تمہارے پاس اور کيا خضوع باقی ہے جس کو خدا کے
سامنے پيش کرو؟( اگر تم لوگ کہتے ہو کہ خدا کے لئے بھی سجده کرتے ہيں تو پھر ان شکلوں اور خدا کے لئے برابر
کا خضوع ہوجائے گا ،تو کيا حقيقت ميں ان بتوں کا احترام خدا کے احترام کے برابر ہے؟
دينا عظيم انسان کی بے احترامی نہيں ہے؟
بت پرستوں کا دوسرا گروه :کيوں نہيں ،بالکل اسی طرح ہے۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :اس بنا پر تم لوگ ان بتوں )کہ تمہارے عقيده کی بنا پر خدا کے نيک اور
پرہيزگار بندوں کی صورت پر ہيں( کی پوجا سے در حقيقت خدا کی عظمت اور اس کے مقام و مرتبہ کی توہين کرتے
ہو۔
بت پرست ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے منطقی دالئل کے سامنے الجواب ہوگئے ،اور کہا ہميں اس
سلسلہ ميں غور و فکر کی فرصت عنايت کريں۔
اس کے بعد بت پرستوں کے تيسرے گروه کی باری آئی ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ
کرکے فرمايا:
تم نے مثال کے ذريعہ خود کو مسلمانوں کے شبيہ قرار ديا ہے ،اس بنياد پر بتوں کے سامنے سجده کرناحضرت آدم
)عليہ السالم( يا خانہ کعبہ کے سامنے سجده کی طرح ہے ،ليکن يہ دو چيزيں مکمل طور پر فرق رکھتی ہيں اور قابل
موازنہ نہيں ہيں۔
مزيد وضاحت:
ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ ايک خدا ہے ،ہم پر فرض ہے کہ اس کی اس طرح اطاعت کريں جس طرح وه چاہتا
ہے،اس نے جس طرح حکم ديا ہے اسی طرح عمل کريں ،اور اس کی حدود سے آگے نہ بﮍھيں ،ہميں اس بات کا حق
نہيں ہے کہ اس کے حکم اور اس کی مرضی کے بغير اس کے حکم کے آگے بﮍھ کر اپنی طرف سے )قياس اور تشبيہ
پہلووں سے آگاه نہيں ہيں ،شايد خدا اس چيز کو
کے ذريعہ( اپنے لئے فرائض اور تکاليف معين کريں ،کيونکہ ہم تمام ٔ
چاہتا ہے اور اس چيز نہيں چاہتا ،اس نے ہميں آگے بﮍھنے سے منع کيا ہے۔
اور چونکہ اس نے ہميں حکم ديا ہے کہ خانہ کعبہ کے سامنے عبادت کريں ،ہم بھی اس کی اطاعت کرتے ہيں ،اور اس
کے حکم سے تجاوز نہيں کرتے ،اسی طرح اس نے ہميں حکم ديا ہے کہ دنيا کے کسی بھی حصہ ميں خانہ کعبہ کی
سمت عبادت کريں،چنانچہ ہم اسی کے حکم کی تعميل کرتے ہيں ،اور جناب آدم )عليہ السالم( کے بارے ميں اس نے
اپنے مالئکہ کو حکم ديا کہ حضرت آدم )عليہ السالم( کے سامنے سجده کريں نہ کہ آدم کی شکل و صورت پر بنے
کسی دوسرے کے سامنے ،ل ٰہذا تمہارے لئے جائز نہيں ہے کہ ان کی شکل و صورت کو اپنے سے مقائسہ کرو،
کيونکہ تم نہيں جانتے کہ جو کام تم انجام ديتے ہو شايد وه اس سے راضی نہ ہو ،کيونکہ ممکن ہے اس نے تمہيں اس
کام کا حکم نہ ديا ہو۔
مثال کے طور پر :اگر کوئی شخص تمہيں کسی خاص دن ميں کسی خاص اور معين مکان ميں جانے کی اجازت ديدے،
تو کيا تمہارے لئے کسی دوسرے دن بھی اس مکان ميں جانے کی اجازت ہے ،يا اس معين دن ميں کسی دوسرے مکان
ميں چلے جاؤ؟ يا کوئی شخص تمہيں لباس ،غالموں ،يا حيوانوں ميں سے کوئی لباس ،غالم يا حيوان تمہيں بخش دے۔
تو کيا تمہيں اس بات کا حق ہے کہ دوسرے لباس ،يا دوسرے غالم يا دوسرے حيوان ميں جوکہ اس کے مثل ہيں
تصرف کر وجن ميناس کی اجازت نہيں ہے۔؟
بت پرستوں کا تيسرا گروه :نہيں ،ايسا ہمارے لئے جائز نہيں ہے ،کيونکہ صرف ہميں مخصوص کام ميں اجازت دی
گئی ہے کسی دوسرے ميں نہيں۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :مجھے بتاؤ کہ کيا خداوندعالم سزاوار تر ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ،اور
اس کی اجازت کے بغير اس کی ملکيت ميں تصرف کريں يا دوسرے لوگ؟
بت پرستوں کا تيسرا گروه :يقينی طور پر خدا اس بات کا زياده حقدار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے ،اور اس کی
اجازت کے بغير اس کی ملکيت ميں تصرف نہ کيا جائے۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :پس تم نے خدا کے حکم کے بغير ہی ان بتوں کی پوجا کيوں شروع کردی ،اور
اس کی مرضی کے بغير ہی ان بتوں کے سامنے سجده کرنے لگے؟
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بہترين دالئل کے سامنے بت پرستوں کا تيسرا گروه الجواب ہوگيا اور وه
خاموش ہوگئے ،اور انھوں نے بھی عرض کی :ہميں اس سلسلہ ميں غور و فکر کی اجازت ديں۔
حضرت امام صادق عليہ السالم نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ان پانچ گروہوں سے مناظره کو نقل
کرنے کے بعد فرمايا :قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو مبعوث برسالت کيا ،کہ
ابھی تين دن نہيں گزرے تھے کہ يہ پانچوں گروه کے تمام /٢۵افراد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ميں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے اور انھوں نے واضح طور پر اعالن کيا:
ک يَا ُم َح ﱠمد! نَ ْشہَ ُد أَنﱠ َ
ک َرسُوْ ُل ﷲِ“][18 ” َما َرأَ ْينَا ِم ْث َل ُح ﱠجتِ َ
”اے محمد!ہم نے آپ جيسی مستدل گفتگو نہيں ديکھی ہے ،ہم گواہی ديتے ہيں کہ آپ خدا کے بھيجے ہوئے برحق
پيغمبر ہيں“۔
٢۔ قريش کے سرداروں سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا مناظره
عجيب و غريب واقعات ميں ايک واقعہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور قريش کے سرداروں کے درميان
ہونے واال درج ذيل مناظره] [19ہے:
ايک روز پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم چند اصحاب کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بيٹھے ہوئے تھے ،اور
قرآنی آيات اور اسالمی احکام کی تعليم ميں مشغول تھے ،اس موقع پر قريش کے چند مشرک اور بت پرست سردار
جيسے :وليد بن مغيره ،ابو البختری ،ابو جہل ،عاص بن وائل ،عبد ﷲ بن حذيفہ ،عبد ﷲ مخزومی ،ابوسفيان ،عتبہ اور
شيبہ وغيره ،تمام لوگ جمع ہوکرکہنے لگے کہ روز بروز محمد )ص( کا کام ترقی پر ہے ل ٰہذا ضروری ہے کہ ان کے
پاس جاکر پہلے ان کی سرزنش اور مالمت کريں اور پھر ان سے بحث و جدل کريں اور ان کی باتوں کو ر ّد کرتے
ہوئے ان کے کھوکھلے پن اور بے بنياد ہونے کو ان کے اصحاب اور دوستوں کے سامنے واضح کريں ،اگر انھوں نے
ہماری باتيں سمجھ ليں اور اس انحراف اور کج روی سے باز آگئے تو ہم اپنے ہدف ميں کامياب ہوگئے ،ورنہ تلوار کے
ذريعہ ان کا کام تمام کرديں گے۔
ابوجہل نے کہا :ہم ميں سے کون ايسا شخص ہے جو ہماری طرف سے ان کے ساتھ جدل اور بحث و مناظره کرے؟
عبد ﷲ مخزومی نے کہا :ميں ان سے بحث کرنے کے لئے تيار ہوں ،اگر مجھے کافی سمجھتے ہو تو مجھے کوئی
اعتراض نہيں ہے۔
ابو جہل نے بھی اس کو پسند کيا ،اور سب لوگ وہاں سے اٹھے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پاس
گئے۔
عبد ﷲ مخزومی نے گفتگو کا آغار کيا اور اپنی گفتگو ميں اعتراض بيان کرنے شروع کئے ،ہر دفعہ ميں آنحضرت
صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم فرماتے جاتے تھے” :کيا ابھی تمہاری گفتگو باقی ہے؟“ ،اور وه کہتا تھا :ہاں ،اور اپنی باتيں
بيان کرتا جاتا تھا ،يہاں تک کہ اس نے کہا :ہاں بس اتنا کافی ہے ،اگر آپ کے پاس کوئی جواب ہے تو ہم سننے کے
لئے تيار ہيں۔
اس کی گفتگو ميں دس عدد اعتراض درج ذيل ترتيب سے تھے:
١۔ تم دوسرے لوگوں کی طرح کھانا کھاتے ہو ،پيغمبر کو دوسرے لوگوں کی طرح کوئی چيز نہيں کھانا چاہئے۔
٢۔ تمہارے پاس کيونمال و دولت نہيں ہے ،حاالنکہ تمہيں خدا کے نمائندے اور ايک طاقتور بادشاه کی طرح صاحب جاه
و ثروت ہونا چاہئے۔
٣۔ تمہارے ساتھ ايک فرشتہ ہونا چاہئے جو تمہاری تصديق کرے ،اور وه فرشتہ ہميں بھی دکھائی دے بلکہ مناسب ہے
کہ پيغمبر کو بھی مالئکہ کی جنس سے ہو۔
۴۔ تم پر جادو کا اثر ہے ،اور تم جادو ہوئے افراد کی طرح ہو۔
عروه طائفی“پرکيوں نازل نہيں ہوا۔
ٔ ّ
۵۔ قرآن کريم کسی مشہور و معروف شخص جيسے ”وليد بن مغيره مکی“ يا ”
۶۔ ہم اس وقت تک آپ پر ايمان نہيں الئيں گے جب تک آپ سخت اور پتھريلی زمين سے پانی کا چشمہ جاری نہ
کرديں! اور خرما اور انگور کا باغ تيار نہ کرديں تاکہ ہم لوگ اس چشمہ سے پانی پئےں اور اس باغ کے پھل کھائيں۔
٧۔ يا آسمان کو سياه بادلوں کی طرح ہمارے سروں پر نيچے لے آئيں۔
٨۔ يا خدا اور فرشتوں کو ہميں اپنی آنکھوں سے دکھائيں۔
٩۔ يا سونے سے بھرا ہوا گھر آپ کے پاس ہو!
١٠۔ يا آپ آسمان پر جائيں اور خدا کی طرف سے کوئی خط لے کرآئيں تاکہ ہم اس کو پﮍھيں )يعنی خدا مشرکين کے
لئے خط لکھے کہ محمد)ص( ميرے پيغمبر ہيں لہٰذاان کی اطاعت کرو(
ان دس چيزوں کو انجام دينے کے بعد بھی ہم وعده نہيں کرتے کہ ہمارے دل کو اطمينان حاصل ہوجائے کہ آپ پيغمبر
ہيں ،کيونکہ ممکن ہے کہ يہ تمام کام آپ جادو اور چشم بندی کے ذريعہ انجام ديں۔
مشرکين کے اعتراضات اور خواہشوں کے مقابل پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا جواب
آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عبد ﷲ مخزومی کی طرف رخ کرکے فرمايا:
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
١۔ کھانا کھانے کے سلسلہ ميں تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ صالح اور اختيار خدا کے ہاتھوں ميں ہے ،وه جس
طرح چاہے حکومت کرے ،اس پرکسی کو اعتراض کرنے کا حق نہيں ہے ،وه بعض کو فقير ،بعض کو غنی ،بعض
کوعزيز اور محترم ،بعض کو ذليل و خوار ،بعض و صحيح و سالم اور بعض کو بيمار کرتا ہے)،البتہ يہ تمام چيزيں
انسان کی صالحيت کی بنا پر ہيں( اس صورت ميں ان ميں سے کوئی شخص خدا پر اعتراض کا حق نہيں رکھتا۔
اور اگر کوئی شخص خدا پر اعتراض کرے تو وه کافر ہے ،کيونکہ خداوندعالم ہی تمام عالم کا صاحب اختيار ہے ،وہی
تمام چيزوں کی صالح اور بھالئی کو بہتر جانتا ہے ،جو انسان کے لئے خير ہوتا ہے اس کو عطا کرتا ہے ،اور سبھی
کو اس کے حکم کے سامنے تسليم رہنا چاہئے ،جس شخص نے خدا کے حکم کی اطاعت کی وه مومن ہے اور جس
نے اس کے حکم کی مخالفت کی وه گناہگار ہے اور اس کے لئے سخت سزائيں معين ہيں۔
اس کے بعد آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے قرآن مجيد کی درج ذيل آيت کی تالوت فرمائی:
ی اِنﱠ َما اِ ٰلہُ ُک ْم اِ ٰلہٌ َو ِ
اح ٌد“][20 ”قُلْ اِنﱠ َما أَنَا بَ َش ٌر ِم ْثلُ ُک ْم يُو َحی اِلَ ﱠ
”)اے رسول( آپ کہہ ديجئے کہ ميں تمہارا ہی جيسا ايک بشر ہوں مگر ميری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ايک
اکيال ہے“۔
جيسا کہ ہر انسان کو ايک خاص چيز سے مخصوص کيا ہے ،جس طرح تمہيں فقير ،غنی ،صحت مند ،خوبصورت اور
شريف وغيره کے بارے ميں اعتراض کا حق نہيں ہے اور اس کا فرمانبردار رہنا ضروری ہے ،اسی طرح نبوت اور
رسالت کے سلسلہ ميں بھی خدا کے فرمان کے سامنے سر تسليم جھکانا چاہئے۔
٢۔ ليکن تم لوگوں کی يہ بات کہ ”کيوں تمہارے پاس مال و دولت نہيں ہے جبکہ تم خدا کے نمائنده ہو ،اور خدا کے
نمائنده کو بادشاه روم و ايران کی طرح صاحب زر و سيم ہونا چاہئے اور سلطان روم اور سلطان ايران کی طرح
صاحب جاه و مقام اور مال و دولت ہوناچاہئے ،بلکہ خدا کو اس سلسلہ ميں سالطين سے بھی زياده توجہ دينا چاہئے“،
تو تمہيں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا يہ اعتراض خدا پر ہے ،اور يہ اعتراض بے جا اور غلط ہے ،کيونکہ خداوندعالم
عالِم اور خبير ہے ،وه اپنی تدبير اور اپنے کاموں کی اچھائی کو جانتا ہے ،اس ميں دوسروں کی دخالت کی ضرورت
نہيں ہے ،خدا کا لوگوں کے ساتھ موازنہ نہيں کرنا چاہئے۔
اس کے عالوه انبياء کی بعثت کا مقصد لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دينا ہے ،پيغمبر کو چاہئے کہ شب و روز
لوگوں کی ہدايت کے لئے کوشاں رہے ،اگر کوئی پيغمبر لوگوں کی طرح صاحب جاه و مقام ہو )دوسرے مستکبروں
اور صاحبان جاه کی طرح( تو پھر عام انسان اور غريب عوام ان کے پاس نہيں آسکتے ،کيونکہ مالدار افراد ہميشہ
اونچے محلوں ميں رہتے ہيں اور اونچے اونچے محل غريب عوام کے درميان فاصلہ کرديتے ہيں ،اور ساده انسان ان
سے مالقات بھی نہيں کرسکتے۔
اس صورت ميں بعثت انبياء کا ہدف پورا نہيں ہوسکتا ،اور انبياء کی تعليم و تربيت رک جائے گی ،اور نبوت کا معنی
مقام ظاہری جاه و مقام سے آلوده ہوکر بے اثر ہوجائے گا ،جی ہاں جس وقت بادشاه اور رئيس عوام الناس سے دور
ہوجائيں تو پھر ملکی نظام درہم و برہم ہوجائے گا ،نيز معاشره ميں جاہل اور ناچار لوگوں کے لئے پريشانياں کھﮍی
ہوجائيں گی۔
دوسری بات يہ ہے کہ خداوندعالم نے مجھے جاه و مقام اور مال و دولت نہيں دی ہے تاکہ ميں تمہارے سامنے اپنی
قدرت و طاقت کا مظاہره کرو ،جبکہ خداوندعالم نے اپنے رسول کی نصرت و مدد کی ہے ،اور اس کو دشمنوں اور
مخالفوں پر فتح دی ہے ،يہ بات خود نبی کی نبوت کے صادق ہونے پر دليل ہے ،اور قدرت خدا اور تمہارے عاجزی
کی حکايت کر رہی ہے) ،کہ اس نے اپنے پيغمبر کو بغير مال و دولت اور فوج و سلطنت کے تم پر غلبہ عطا کيا(اور
خداوندعالم بہت جلد ہی مجھے تم پر غلبہ عنايت کرے گا ،تم لوگ ميری ترقی کو نہيں روک سکتے ،اور نہ ہی مجھے
قتل کرسکتے ہو ،ميں بہت جلد ہی تم پر غلبہ کرلوں گا،تمہارے شہر ميرے اختيار مينہوں گے اور سبھی مخالف اور د
شمن مومنين کے سامنے تسليم اور شرمسار ہوں گے۔ )انشاء ﷲ(
٣۔ اب رہی تمہاری يہ بات کہ ”ميرے ساتھ کوئی فرشتہ ہو اور تم اس فرشتہ کو ديکھ کر ميری تصديق کرو بلکہ پيغمبر
فرشتہ کے جنس سے ہو“تو تمہيں معلوم ہونا چاہئے کہ فرشتہ کا جسم ہوا کی مانند لطيف ہوتا ہے جو ديد کے قابل نہيں
ہوتا ،اور اگر فرض کريں کہ تمہاری آنکھوں کی روشنی بﮍھادی جائے تاکہ تم لوگ فرشتہ کو ديکھ سکو تو بھی تم
لوگ کہو گے کہ يہ تو انسان ہی ہے نہ کہ فرشتہ) ،يعنی وه بھی انسان کی شکل ميں ہوگا( تاکہ تم سے رابطہ برقرار
رکھ سکے ،تم سے گفتگو کرسکے ،تاکہ اس کی باتوں اور اس کے ہدف کو سمجھ سکو ،ورنہ تو تم کس طرح سمجھ
سکتے ہو کہ وه فرشتہ ہے نہ کہ انسان ،اور جو کچھ بھی کہہ رہا ہے وه حق ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس کے عالوه خداوندعالم اپنے پيغمبر کو معجزه دے کر بھيجتا ہے اور کوئی اس معجزه کی مثل نہيں السکتا ،اور يہی
پيغمبر کے صادق ہونے کی نشانی ہے ،ليکن اگر فرشتہ بھی معجزه دکھائے تو پھر اس کو تم کيسے سمجھ سکتے ہو
کہ اس فرشتہ نے جو اعجاز دکھايا ہے دوسرے فرشتے انجام دينے پر قادر نہيں ہيں؟! اس بنا پر فرشتہ کا نبوت کا
دعوی کی سچائی پر دليل نہيں بن سکتا ،کيونکہ فرشتوں کا معجزه ٰ دعوی کرنا خود اس کے معجزات کے ساتھ اس کے ٰ
پرندوں کی پرواز کی مانند طرح پرواز کرنا ہے کہ جسے انسان انجام نہيں دے سکتا ،ليکن يہی کام فرشتوں کے
درميان معجزه نہيں ہے ،اور اگر انسان بھی پرندوں کی طرح پرواز کرے تو يہ اس کے لئے معجزه ہے۔
اور يہ بات بھی م ّد نظر رہے کہ خداوندعالم نے انسان کو نبی بنا نے ميں تم لوگوں کی سہولت کو پيش نظر رکھا ہے
کيونکہ انسان سے بغير کسی زحمت کے رابطہ برقرار کرسکتے ہو تاکہ وه تم پر اپنے دالئل اور برہان واضح
کرسکے ،جبکہ تم لوگ اس طرح کے اعتراضات سے اپنی مشکل ميں اضافہ کررہے ہو ،لوگ اس صورت ميں حجت
اور برہان تک نہيں پہنچ سکتے۔
۴۔ اب رہا تمہارا يہ کہنا کہ ”مجھ پر سحر و جادو کا اثر ہوگيا ہے“ ،تو يہ بات کيسے صحيح ہوسکتی ہے جبکہ ميں
صحت عقل اور تشخيص کے لحاظ سے تم لوگوں پر برتری رکھتا ہوں ،ميں نے تمہارے درميان اپنی عمر گزاری ہے
شروع سے اب تک چاليس سال تمہارے درميان زندگی بسر کی ہے ،تم نے اس مدت ميں چھوٹی سے چھوٹی غلطی،
لغزش ،جھوٹ ،خيانت اور گفتگو و نظريہ ميں ضعف نہيں ديکھا ،کيا جو شخص تمہارے درميان چاليس سال تک اپنے
طاقت و قوت يا خدا کی طاقت و قوت سے صدق و صداقت اور صحيح راستہ پر قدم بﮍھائے ہوں کيا اس کے لئے ايسی
تہمت لگانا صحيح ہے؟! اسی وجہ سے خداوندعالم تمہارے جواب ميں ارشاد فرماتا ہے:
يال“ ][21ضلﱡوا فَالَيَ ْست َِطيعُونَ َسبِ ً ک ْ َٔ
اال ْمثَا َل فَ َ ” انظُرْ َک ْيفَ َ
ض َربُوا لَ َ
”ذرا ديکھو کہ انھوں نے تمہارے لئے کيسی مثالينبيان کی ہيں اور اس طرح ايسے گمراه ہوگئے ہيں کہ کوئی راستہ
نہيں مل رہا ہے“۔
عروه طائفی“ پرٔ ّ
۵۔ اور تمہارا يہ کہنا کہ ” قرآن کريم کسی مشہور و معروف شخص جيسے ”وليد بن مغيره مکی“ يا ”
کيوننازل نہيں ہوا“ ،تو تمہيں معلوم ہونا چاہئے کہ خداوندعالم کے نزديک جاه و مقام کی کوئی قيمت اور اعتبار نہينہے
،اور اگر دنياوی لذتيں اور نعمتيں ايک مکھی کے پر کے برابر ارزش رکھتی ہوتيں تو پھر خداوندعالم ذره برابر بھی
کافروں اور مخالفوں کو عطا نہ کرتا۔
اس کے عالوه يہ تمام تقسيمات خداوندعالم کے قبضہ قدرت ميں ہے ،اس سلسلہ ميں کسی کو کوئی اختيار ،اعتراض
اور شکوه اورشکايت کا حق نہيں ہے ،خداوندعالم اپنی نعمتوں کو اپنے لحاظ سے اور اپنی مرضی سے تقسيم کرتا ہے
جس کو وه چاہے بغير کسی خوف کے عطا کرتا ہے ،يہ تم لوگ ہو جو اپنے کاموں ميں مختلف چيزوں کو م ّد نظر
رکھتے ہو اور تمہارے کام ہواو ہوس اور لوگوں کے خوف سے ہوتے ہيں ،نيز تمہارے کام حقيقت و عدالت کے بر
خالف ہوتے ہيں تم لوگ بال وجہ دوسروں کا احترام کرتے ہو اور غلط راستہ پر چلتے ہو ،ليکن خداوندعالم کے تمام
کام حقيقت اور عدالت کے تحت ہوتے ہيں دنياوی جاه و مقام اس کے اراده ميں ذره برابر بھی تاثير نہيں رکھتے۔ يہ تم
لوگ ہو کہ ظاہری لحاظ سے مشہور و معروف اور صاحبان حيثيت افراد کو پيغمبری کے لئے دوسروں سے زياده
مستحق سمجھتے ہو ،ليکن خداوندعالم نبوت و رسالت کو اخالقی کماالت اور معنوی و روحی عظمت ،حقيقت ،
فرمانبرداری اور خدمت گزاری کی بنياد پر قرار ديتا ہے۔
ان کے عالوه جيسا کہ ميں نے کہا کہ خداوندعالم اپنے کاموں ميں خود مختار ہے ،ايسا نہيں ہے کہ اگر اس نے کسی
کو دنياوی نعمت يا ظاہری منزلت عطا کی ہے تو مقام نبوت بھی اسی کو عطا کرے ،جيسا کہ ہم ديکھتے ہيں کہ جس
کو خداوندعالم نے مال و دولت عطا کی ہے ليکن اس کو جمال اور خوبصورتی نہيں دی ہے اور اس کے برعکس اگر
کسی کو جمال اور خوبصورتی دی ہے اس کو مال و دولت نہيں دی ہے۔۔۔ کيا ان ميں سے کوئی خداوندعالم پر اعتراض
کرنے کا حق رکھتا ہے؟!][22
۶۔اور تمہارا يہ کہنا ” :ہم اس وقت تک آپ پر ايمان نہيں الئيں گے جب تک سخت اور پتھريلی زمين سے پانی کا چشمہ
جاری نہ کرديں! اور کھجوروں اور انگوروں کا باغ تيار نہ کرديں تاکہ اس چشمہ سے پانی پئےں اور اس باغ کے پھل
کھائيں“ ،تو تمہارا يہ تقاضا جہل و نادانی کی بنا پر ہے ،کيونکہ سر زمين مکہ ميں پانی کا چشمہ جاری کرنے اور باغ
ٰ
دعوی اگانے کا تعلق پيغمبری سے نہيں ہے ،جيسا کہ تم لوگ شہر طايف ميں زمين اور باغ کے مالک ہو ليکن نبوت کا
نہيں کرتے ہو اور ايسے بہت سے لوگوں کو تم جانتے بھی ہو جنھوں نے زحمت اٹھاکر باغات لگائے اور چشمے بھی
دعوی نہيں کيا اور اس طرح کے تمام کام معمولی کا موں ميں شمار ہوتے ہيں اور ٰ جاری کئے ليکن انھوں نے نبوت کا
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اگر ميں ايسا کروں بھی تب بھی يہ کام ميری نبوت کے لئے دليل نہيں بن سکتے۔
تمہارا يہ تقاضا اس طرح کا ہے کہ تم کہتے ہو ہم تم پر ايمان نہيں الئيں گے کيونکہ تم لوگوں کی طرح کھانا کھاتے ہو
اور لوگوں کے ساتھ راستہ چلتے ہو اور اگر ميں اپنی نبوت کے اثبات کے لئے اس طرح کے معمولی کام انجام دوں
اور اس پر تکيہ کر لوں تو گويا ميں نے لوگوں کو دھوکا ديا اور ان کی جہل ونادانی سے غلط فائده اٹھايا اور مقام نبوت
کو ہيچ اور معمولی کام سمجھا جب کہ مقام نبوت فريب ،حيلہ اور دھوکہ دھﮍی سے بالکل پاک و پاکيزه ہے۔
آوں“تو تمہيں يہ٧۔اور تمہارا يہ کہناکہ ”آسمان کو بادل کی صورت ميں ٹکﮍے ٹکﮍے کر کے ہمارے سروں پر لے ٔ
جان لينا چاہئے کہ آسمان کا نيچے گرنا تمہارے لئے ہالکت کا سبب بنے گا جب کہ بعثت اور پيغمبری کا ہدف لوگوں
کی راہنمائی ،سعادت ،خوشبختی اور خدا کی نشانيوں کی عظمت لوگوں واضح کرنا ہے اور يہ بات روز روشن کی
طرح واضح ہے کہ حجت اور برہان کو خدا کے معين کرتاہے کيونکہ ممکن ہے کہ لوگ اپنی سطحی اور ظاہری فکر
کی بنا پر ايسے تقاضے کريں جو نظام و مصلحت کے خالف ہوں اس لئے کہ ہر شخص اپنی ہوا ھوس اور خواہش کی
بنياد پر تقاضے کرتا ہے اور يہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہر انسان کے تقاضے ايک دوسرے کے برخالف ہوتے ہيں۔
کيا تم نے کسی ڈاکٹر کو ديکھا ہے کہ وه مريض کا عالج کرتے وقت مريض کی خواہش کے مطابق نسخہ لکھے؟ يا
دعوی کرے ليکن دليل اس کے منکر کی خواہش کے مطابق الئے ٰ کسی ايسے شخص کو ديکھا ہے کہ وه کسی بات کا
؟يہ بات مسلم ہے کہ اگر عالج ميں ڈاکٹر مريض کا پيرو ہو تو مريض کی بيماری کبھی ختم ہی نہيں ہو سکتی اور اسی
طرح اگر مدعی اس بات پر مجبور ہو کہ اپنے مخالفوں کی خواہش کے مطابق اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے
دليل الئے تو اس صورت ميں کسی ايک کی بھی بات ثابت نہيں ہو گی،اور مظلوم وناچار اور سچے افراد کی بات کبھی
ظالم اور جھوٹے انسان کے سامنے ثابت نہيں ہو سکے گی۔
٨۔اور تمہارا يہ کہنا کہ ”خدا اور فرشتوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ ہم انھيں ديکھ سکيں “تو
تمہاری يہ بات بے بنياد اور غير منطقی ہے يہ چيز بالکل محال ہے کيونکہ خدا وندمتعال اس صفت سے پاک ہے جس
کے ذريعہ اسے ديکھا جا سکتا ہے بلکہ وه مخلوقات کی تمام صفات سے پاک وپاکيزه ہے۔
تم خدا وند متعال کو ان بتوں سے تشبيہ ديتے ہو جن کی تم پرستش کرتے ہو اور ان سے اسی طرح کا تقاضا کرتے ہو
ان بتوں ميں بے حد نقص و ضعف پائے جاتے ہيں اور يہ)بت( تمہارے ان تقاضوں کے لئے مناسب ہيں نہ کہ خداوند
پاک۔
اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کے لئے ايک ايسی مثال پيش کی جو بہت ہی واضح اور
اچھی طرح مفہوم کو سمجھانے والی تھی کہ اگر فرض کرليا جائے کہ خدا کو دکھانا محال نہيں ہے تو بھی ان کی يہ
بات معقول نہيں ہے ،وه مثال يہ ہے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عبد ﷲ مخزومی سے کہا” :کيا مکہ ميں
تمہارے پاس زمين وجائداد اور باغ وغيره ہے؟اور اس کی ديکھ بھال کے لئے اپنی طرف سے کوئی نمائنده بنايا ہے يا
نہيں؟“
عبد ﷲ” :ہاں ميرے پاس باغ وزمين اور نمائنده ہے“۔
رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ” :کيا تم خود باغ وزمين کی ديکھ بھال کرتے ہو يا نمائندے کے ذريعہ کراتے
ہو“۔
عبد ﷲ :نمائنده کے ذريعہ“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :اگر ايک نمائنده کو زمين اجاره دو يا بيچ دو تو کيا دوسروں کايہ اعتراض کرنا
اور يہ کہنا بجاہے کہ ہم خود مالک سے رابطہ کريں گے اور ہم تمہاری نمائندگی اس وقت قبول کريں گے جب تمہارا
مالک خو د نہ آجائے اور تمہاری باتوں کی تصديق نہ ک
رے ؟ “
عبد ﷲ” :دوسرے لوگ اس طرح کا اعتراض نہيں کر سکتے“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ’ :ہاں يہ ضروری ہے کہ تمہارے نمائنده کے پاس کوئی ايسی دليل ہونا چاہئے
بتاو کہ اس کے پاس کيا ہونا چاہئے جس سے اس کی کہ جس سے پتہ چلے کہ وه واقعی تمہارا نمائنده ہے ،اب تم يہ ٔ
نمائندگی ثابت ہو کيونکہ يہ بھی مسلم ہے کہ بغير کسی دليل کے اس کی نمائندگی کی لوگ تصديق نہيں کريں گے“۔
عبد ﷲ” :بےشک اس کے پاس کوئی نہ کوئی دليل ضرورہونا چاہئے“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :اگر لوگ اس کی سچی دليل کو قبول نہ کريں تو کيا وه اس بات پر حق رکھتا
ہے کہ اپنے مالک کو لوگوں کے سامنے حاضر کرے اور اس پر يہ فريضہ عائد کرے کہ تم ان کے سامنے حاضر ہو
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
بتاو کيا کوئی عقلمند نمائنده اس طرح اپنے مالک کے لئے کر سکتا ہے؟“ ؟سچ ٔ
عبد ﷲ” :نہيں اسے چاہئے کہ وه اپنے فرائض پر عمل کرے اور اسے يہ حق نہيں کہ وه موال پر کوئی حکم لگائے“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :جب تم ان تمام باتوں کا اعتراف کر رہے ہو تو کس طرح خدا کے نمائندے اور
رسول کے لئے انھيں باتوں پر اصرار پر کرتے ہو کہ رسول کو چاہئے کہ اپنے موال کو ہم لوگوں کے سامنے پيش
کرے ،ميں بھی خدا وند متعال کے نمائنده اور رسول سے زياده کچھ نہيں ہوں ،ميں کس طرح اپنے موال )خدا(پر کوئی
حکم لگا سکتا ہوں اور اس کے لئے کوئی فريضہ معين کر سکتا ہوں کيونکہ خداوند متعال پر کسی طرح کا کوئی حکم
لگانا رسالت کی ذمہ داری کے خالف ہے“۔
اور اس طرح تمہارے تمام سوالوں کے جوابات جيسے فرشتوں کو حاضر کرنا وغيره واضح ہو جاتے ہيں۔
٩۔اور تم نے جو يہ کہا کہ ميرے پاس سونے سے بھرا ہوا گھر ہونا چاہئے تو يہ بھی بالکل بے بنياد بات ہے کيونکہ
دولت و ثروت ،سونا اور چاندی سے مقام رسالت کو کوئی تعلق نہيں ہے مثال کے طور پر بادشاه مصر کے پاس سونے
ٰ
دعوی کر سکتا ہے؟“ سے بھرا ہوا گھر ہے تو کيا وه اسی دليل سے نبوت کا
◌َ ◌َ ◌َ عبد ﷲ” :نہيں وه ايسا نہيں کر سکتا ہے“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم :ميرے پاس بھی سونا چاندی ہونا ميری پيغمبری کے سچائی پر کوئی دليل نہيں
بن سکتا ہے ميں خدا کی حجتوں اور نشانيوں کو چھوڑ کر ايسی بے بنياد دليل کے ذريعہ کم علم اور نادان لوگوں پر
اپنی رسالت ثابت نہيں کر سکتا“۔
الوں“ تو اس طرح کی باتوں جاوں اور خدا کی طرف سے تمہارے لئے ايک خط ٔ ١٠۔اور تمہارا کہنا کہ ”ميں آسمان پر ٔ
سے واضح ہوتا ہے کہ تم لوگوں ميں کوئی بھی ايسانہيں جو حق قبول کرے کيونکہ تم لوگ صرف آسمان پر جانے
سے اکتفا نہيں کر رہے ہو بلکہ ساتھ ساتھ يہ بھی کہہ رہے ہو کہ ہمارے لئے آسمان سے خط بھی الياجائے۔
يہ بات مسلم ہے کہ اگر ميں خط بھی الدوں تو بھی تم اسے قبول نہيں کروگے اور يہ بھی سچ ہے کہ اگر ميں ان تمام
الو،ليکن يہ جان لو کہ اس بغض وعناد کا نتيجہکاموں کو انجام دے بھی دوں تب بھی يہ ممکن ہے کہ تم لوگ ايمان نہ ٔ
صرف عذاب ہے اور تم لوگ اپنے ان کا موں کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہو کہ خداوند متعال تمہيں عذاب ميں
مبتال کرے۔
تمہارے تمام سوالوں کے جواب خدا وند متعال کے صرف اس جملہ ميں خالصہ کے طور پر بيان ہوجاتے ہيں”ميں
پہنچاوں
ٔ بھی تمہاری طرح بشر ہوں اور خدا کی طرف سے اس بات کے لئے معين کيا گيا ہوں کہ تم تک اس کے احکام
[23]،اور ميرے پاس يہی قرآن معجزه اور ميری نبوت کی دليل ہے اور ميں تمہارے بے جا تقاضوں کی وجہ سے خدا
پر نہ کوئی حکم لگا سکتا ہوں اور نہ کسی بھی طرح کی اس پر تکليف عائد کر سکتاہوں“۔
عذاب انھيں گھيرليتا ہے اور ان دوصورتوں کے عالوه جتنے بﮍے عذاب کا تم تصور کر سکتے ہو اسے ميں نے ان
کے لئے مہيا کر رکھا ہے“۔
اے ابو جہل !اسی وجہ سے خداوند عالم نے تجھے مہلت دی ہے کہ تيری نسل ميں ايک مومن پيدا ہوگا جس کانام
عکرمہ ہوگا۔][24
قارئين کرام! جيسا کہ آپ نے مالحظہ کيا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے مناظره کرنے والے اسالم کے
سخت ترين دشمن تھے ،ليکن اس کے باوجود پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مکمل صبر و حوصلہ سے ان
کی تمام باتيں سنيں اور نہايت سنجيدگی اور متانت کے ساتھ ان کا جواب ديا اور ايک تفصيلی اور استداللی بحث کے
ساتھ اپنی حجت تمام کر کے اسالم کی منطقی اور اخالقی روش کا ثبوت ديا۔
پہال نمونہ
جب عبد ﷲ بن سالم ايمان لے آيا:
قبيلہ بنی
يہوديوں کے بزرگ علماء ميں سے ايک مشہور و معروف عالم دين جس کا نام ”عبد ﷲ بن سالم“ اور يہودی ٔ
قينقاع سے تعلق رکھتا تھا ،پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے پہلے سال ايک روز عبد ﷲ بن سالم][28
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
آپ کی نشست ميں حاضر ہوا اور ديکھا کہ آپ اپنے موعظہ ميں اس طرح کی چيزيں بيان کر رہے ہيں۔
پہنچاو،اپنے رشتہ داروں سے مل جل کر رہو،آدھی ٔ ”اے لوگو! آپس ميں ايک دوسرے کو سالم کرو اوران تک کھانا
رات کو جب ساری دنيا سو جايا کرے تو اٹھ کر نماز شب پﮍھو اور خداوند متعال سے راز ونياز کرو تاکہ سالمتی کے
ساتھ خدا وند متعال کی بہشت ميں داخل ہو سکو“۔
عبد ﷲ نے ديکھا کہ آپ کی باتيں اچھی ہيں جس کہ وجہ سے وه اس نشست کا گرويده ہو گيااور اس نے اس ميں شرکت
کا اراده کر ليا ][29ايک روز عبد ﷲ نے مذہب يہود کے چاليس بزرگ علماء کے ساتھ مل کر يہ طے کيا کہ ہم پيغمبر
کے پاس جا کر ان کی نبوت کے بارے ميں بحث کريں اور انھيں زير کريں۔
اس ارادے سے جب وه لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے عبد ﷲ بن سالم کی طرف متوجہ ہو کر فرمايا” :ميں بحث
کے لئے تيار ہوں“۔
يہوديوں نے موافقت کی اور بحث ومناظره شروع ہوا ،تمام يہودی پيغمبر پر پيچيده سوالوں کی بوچھار کررہے تھے
،آپ ايک ايک کرکے ان جواب کا ديتے،يہاں تک کہ ايک روز عبد ﷲ بن سالم پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی
خدمت ميں تنہا حاضر ہوا اور کہنے لگا“۔ميرے پاس تين سوال ہيں جن کا جواب پيغمبر کے عالوه کوئی دوسرا نہيں
جانتا ،کيا اجازت ہے کہ ميں انھيں بيان کروں؟ “
عبد ﷲ نے سوال کيا” :مجھے بتايئے کہ قيامت کی پہلی عالمت کيا ہے؟جنت کی خاص غذا کيا ہے؟اس کی کيا وجہ ہے
کہ بيٹا کبھی باپ کے اور کبھی ماں کے مشابہ ہوتا ہے؟“
رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا” :ابھی جبرئيل تمہارے جوابات خدا کی طرف سے الرہے ہيں اور ميں
بتاوں گا“۔
تمہيں ٔ
جيسے ہی جبرئيل کا نام درميان ميں آيا عبد ﷲ نے کہا” :جبرئيل تو يہوديوں کا دشمن ہے کيونکہ اس نے متعدد مقامات
پر ہم سے دشمنی کی ہے بخت نصر جبرئيل کی فوج کی وجہ سے ہم پر غالب ہوا اور شہر بيت المقدس ميں آگ لگا دی
۔۔۔۔وغيره“۔
سوره بقره کی ٩٧ويں آيت کی تالوت فرمائی جس کا مطلب يہ ٔ ميں جواب کے اس نے سلم و آلہ و عليہ ﷲ صلی پيغمبر
ہے:
”جبرئيل جنھيں تم اپنا دشمن سمجھتے ہو وه اپنی طرف سے کچھ نہيں کرتے اور انھوں نے قرآن کو خدا کے اذن سے
قلب پيغمبر پر نازل کيا ہے وه قرآن جو ان کتابوں سے مطابقت رکھتا ہے جن ميں رسول خدا کی نشانيوں کا تذکره ہے
،وه ان کی تصديق کرنے واال ہے ،فرشتوں کے درميان کوئی فرق نہيں اگر کوئی ان ميں سے کسی ايک سے دشمنی
رکھتا ہے تو گويا وه تمام فرشتوں ،پيغمبروں اور خدا کا دشمن ہے کيونکہ فرشتے اور پيغمبر سب کے سب خدا کے
فرمانبردارہوتے ہيں۔][30
اس کے بعد رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عبد ﷲ کے جواب ميں فرمايا:
”قيامت کی پہلی عالمت دھوئيں سے بھری ہوئی آگ ہے جو لوگوں کو مشرق ومغرب کی طرف لے جائے گی اور
جنت کی خاص غذامچھلی کا جگر اور اس کا اضافی ٹکﮍا ہے جو نہايت ہی اچھی اور لذيذ ترين غذا ہے،اور تيسرے
سوال کے جواب ميں آپ نے فرمايا” :انعقاد نطفہ کے وقت عورت يا مرد کے نطفہ ميں جس کا نطفہ غلبہ پاجاتا ہے
بچہ اسی کی شبيہ ہوتا ہے ،اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آگيا تو بچہ ماں کی طرح ہوگا اور اگر مرد کا
نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آگيا تو بچہ باپ کی طرح ہوگا“۔
عبد ﷲ نے پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ان جوابوں کی تطبيق جب توريت اور انبياء سابق کی خبروں سے کی
تو يہ تمام جوابات صحيح ثابت ہوئے ،جس کے نتيجہ ميں اس نے فوراً اسالم قبول کر ليا اور اپنی زبان پر کلمہ شہادتين
جاری کيا۔
اس وقت عبد ﷲ بن سالم نے پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے عرض کيا” :ميں يہوديوں ميں سب سے زياده پﮍھا
لکھا ہوں اور بہت ہی پﮍھے لکھے شخص کا بيٹا ہوں اگر انھيں ميرے اسالم قبول کرنے کی خبر ہوگئی تو وه مجھ کو
جھٹالئيں گے ،ل ٰہذا ابھی آپ ميرے ايمان کو پنہاں رکھئے تاکہ آپ يہ معلوم کر سکيں کہ يہودی ميرے بارے ميں کيا
خيال رکھتے ہيں“۔
پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اس فرصت کو غنيمت جان کر کہ عبد ﷲ کا اسالم النا مجادلہ اور آزاد بحث کے
لئے خود ايک طرح کی دليل بن سکتا ہے ،چنانچہ عبد ﷲ بن سالم کو وہيں قريب ميں پردے کی آڑ ميں بٹھا ديا يہوديوں
سے گفتگو کے دوران پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا” :ميں پيغمبر ہوں خدا کو حاضر ناظر جانو اور
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہواوہوس کو ترک کرکے اسالم قبول کر لو“۔
جواب ميں کہا گيا” :دين اسالم کے صحيح ہونے کے بارے ميں ہم بالکل بے اطالع ہيں“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :تمہارے درميان عبد ﷲ بن سالم کيسا شخص ہے ؟“
گروه يہود” :وه ہمارا رہبر اور ہمارے رہبر کا بيٹا ہے وه ہمارے درميان ايک بہت ہی پﮍھا لکھا شخص ہے“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :وه اگر مسلمان ہو جائے تو کيا تم لوگ اس بات پر تيار ہو کہ اس کا اتباع
کرو؟“
گروه يہود” :وه ہر گز مسلمان نہيں ہوگا“۔
رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے عبد ﷲ کو آواز دی ،عبد ﷲ بن سالم پردے سے باہر لوگوں کے سامنے حاضر
ہو کر کہنے لگا” :اشھد ان ال الہ االﷲ وان محمد رسول ﷲ“۔
الوجب تم جانتے ہو کہ وه پيغمبر خدا ہے تو تم کيوں ايمان اے گروه يہود! خدا سے ڈرو اور اس کے پيغمبر پر ايمان ٔ
نہيں التے ؟“
يہوديوں نے ابھی کچھ ہی دير پہلے اس کی تعريف کی تھی مگر اب وه اسے بد ترين شخص اور ذليل آدمی کا بيٹا بتانے
لگے۔
آپ کا يہ طرز استدالل نہايت عمده تھا جس کی وجہ سے وه اپنا منہ چھپانے لگے ليکن در حقيقت وه شکست کھا چکے
تھے ،عبد ﷲ کے لئے اگر چہ اسالم اس زمانہ ميں بہت دشوار ثابت ہوا ليکن وه حقيقتا ً اسالم اليا تھا،اسی لئے آنحضرت
موثرنے اس کا نام عبد ﷲ رکھا تھا] [31اس کا ايمان قبول کرنا بعد ميں اور دوسرے ايمان النے والوں کے لئے ہی ٔ
َيرق“ تھا وه بھی اپنے چند ساتھيوں کے ثابت ہوا ،ابھی کچھ ہی دير گزری تھی کہ ايک يہودی دانشور جس کانام ”مخ ِ
ساتھ ايمان لے آيا۔][32
دوسرا نمونہ
۴۔ قبلہ کے سلسلہ ميں پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کايہوديوں سے مناظره
جيسا کہ ہم جانتے ہيں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم مکہ ميں بيت المقدس )يہوديوں کے قبلہ( کی طرف منہ
کر کے نماز پﮍھا کرتے تھے اور ہجرت کے بعد مدينہ ميں بھی آپ ١۶مہينے تک بيت المقدس ہی کی طرف رخ کر
کے نماز پﮍھتے رہے۔
اسالم دشمن ،يہوديوں نے اسالم کو بُرا بھال کہنے اور اسے بے اہميت کر نے کے لئے ايک اچھا بہانہ تالش کر ليا اور
دعوی کرتے ہيں کہ وه مستقل شريعت الئے ہيں جبکہ ان کا ٰ کہنے لگے” :محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماس بات کو
وہی قبلہ ہے جو يہوديوں کا قبلہ ہے“۔
اس طرح کے اعتراضات سے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم رنجيده خاطر ہوئے آنحضرت راتوں کو گھر سے
سوره بقره کی ١۴۴ويں آيت نازل ٔ باہر آتے اور آسمان کی طرف نگاه کرکے وحی کے منتظر رہتے تھے يہاں تک کہ
ہوئی جس ميں قبلہ کی جہت بيت المقدس سے بدل کر خانہ کعبہ کی طرف کردی گئی۔
نيمہ رجب ميں پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے چند صحابيوں کے ساتھ مسجد بنی سلمہ ہجرت کے ١۶ماه بعد ٔ
)جو مسجد احزاب سے ايک کلو ميٹر شمال کی طرف واقع ہے(ميں ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے ،دو رکعت نماز تمام
سوره بقره کی ١۴۴ويں آيت لے کر نازل ہوئے: ٔ ہونے کے بعد جبرئيل
ﱡ ُ ْ
ْج ِد ال َح َر ِام َو َحيْث َما ُکنتُ ْم فَ َولوا ُوجُوہَ ُک ْم ْ ْ
ک شَط َر ال َمس ِ ً ﱢ
ک فِی ال ﱠس َما ِء فَلَنُ َوليَنﱠ َ
ک قِ ْبلَة تَرْ َ
ضاہَا فَ َو ﱢل َوجْ ہَ َ ” قَ ْد نَ َری تَقَلﱡ َ
ب َوجْ ِہ َ
َط َره“][33 ش ْ
”اے رسول ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف ديکھ رہے ہيں تو ہم عنقريب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ ديں گے
جسے آپ پسند کرتے ہيں ل ٰہذا آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑ ديجئے اور جہاں بھی رہئے اس طرف
رخ کيجئے“۔
تو آپ حالت نماز ہی ميں کعبہ کی طرف پلٹے اور دو رکعت نماز کعبہ کی طرف رخ کر کے پﮍھی ،اسی طرح آپ کی
اقتداء کرنے والوں نے بھی کيا ،اور اسی نماز کی وجہ سے مسجد بنی سلمہ کو مسجد ”ذو قبلتين“ کہا جانے لگا“۔
اس واقعہ کے بعد يہودی ہر جگہ قبلہ بدلنے کے سلسلہ ميں اعتراض اور اسالم کے خالف پروپيگنڈه کيا کرتے تھے
،پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور يہوديوں کے درميان طے پايا کہ وه ايک جلسے ميں اس موضوع پر آزاد
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
انہ طور پر بحث کريں ،اس جلسہ ميں چند يہوديوں نے شرکت کی اور جلسہ کی شروعات يہوديوں نے کی اور سوال
کی صورت ميں انھوں نے اس طرح کہا”:آپ کو مدينہ آئے اور بيت المقدس کی طرف نماز پﮍھتے ہوئے ايک سال
سے زياده ہو گيا ليکن اب آپ بيت المقدس سے رخ موڑ کر کعبہ کی طرف نماز پﮍ ھ رہے ہيں آپ ہميں اس کا جواب
ديں کہ آپ نے بيت المقدس کی طرف رخ کر کے جو نمازيں پﮍھی ہيں وه درست تھيں يا باطل؟ اگر وه درست تھيں تو
ال محالہ آپ کا دوسرا عمل باطل ہے اور اگر باطل تھيں تو ہم کس طرح آپ کے دوسرے اعمال )جو بدلنے کی صورت
ميں ہيں(پر مطمئن ہوں کہ اس طرح آپ کا يہ قبلہ بھی باطل نہ ہو؟“
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ” :دونوں قبلے اپنے موقع کے لحاظ سے درست اور حق ہيں ان چند مہينوں ميں
بيت المقدس کی طرف نماز پﮍھنا حق تھا اور اب ہم خدا کی طرف سے اس بات پر مامور کئے گئے ہيں کہ خانہ کعبہ
کو اپنا قبلہ قرار ديں“ ،اور خدا کے لئے مشرق ومغرب ہيں تم جس طرف بھی رخ کرو وہاں خدا ہے اور بيشک خدا
بے نياز اور دانا ہے“۔][34
گروه يہود” :اے محمد ! کيا خدا کے لئے بداء واقع ہوا؟)يعنی ايک کام گذشتہ زمانہ ميں اس پر مخفی تھا اور اب ظاہر
ہوگيا اور اس نے اپنے پہلے حکم سے پشيمان ہو کر ددوسرا حکم ديا ہے(اور اس بنا پر اس نے تمہارے لئے نيا قبلہ
معين کيا؟اگر اس طرح کی بات کرتے ہو تو گويا تم نے خدا وند متعال کو عام انسانوں کی طرح نادان تصور کر ليا“۔
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم :خدا کے يہاں بداء اس معنی ميں نہيں پايا جاتا ہے ،خدا ہر چيز سے آگاه اور قادر
مطلق ہے اس سے کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی غلطی سرزد نہيں ہو سکتی جسکی وجہ سے وه پشيمان ہو اور تجديد
نظر کرے نيز اس کے راستہ ميں کوئی چيز رکاوٹ نہيں بن سکتی جس کی وجہ سے وه اوقات ميں تبديلی کرے،ميں تم
سے سوال کرتا ہوں کہ ”کيا مريض صحت ياب نہيں ہوتا يا تندرست آدمی غمگين اور مريض نہيں ہوتا؟ يا زنده مرتا
نہيں اور موسم گرما موسم سرما ميں تبديل نہيں ہوتا؟ کيا خداوندمتعال اس
طرح کے تمام امور ميں تبديلی التا رہتا ہے تو اس کے يہاں بداء واقع ہوتا ہے؟ “
پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم :قبلہ کی تبديل بھی انھيں چيزوں ميں سے ہے خدا وند متعال ہميشہ اور ہر زمانہ ميں
اپنے بندوں کی فالح وبہبود کے لئے خاص حکم رکھتا ہے جو شخص بھی اطاعت کرے گا جزاکا مستحق ہوگا ورنہ
اسے عذاب ميں مبتال کيا جائے گا،اس کی تدبير اور مصلحت ميں کسی کو مخالفت کرنے کا حق نہيں۔][35
اور تم سے ميرا دوسرا سوال يہ ہے کہ کيا تم سنيچر کے دن اپنے تمام کا موں کی چھٹی نہيں کرتے ہو اور پھر اتوار
سے اپنے کاموں مينمشغول ہوجاتے ہواس ميں سے تمہارا کون ساعمل صحيح ہے کيا پہال درست ہے اور دوسرا باطل
ہے يا دوسرا صحيح ہے اور پہال باطل يا دونوں صحيح يا دونوں باطل ؟
گروه يہود” :دونوں صحيح ہيں“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :ميں بھی اسی طرح کہتا ہوں کہ دونوں حق ہيں چند ماه اور چند سال پہلے بيت
المقدس کی طرف قبلہ قرار دينا صحيح تھا ليکن آج کعبہ کو قبلہ سمجھنا صحيح ہے۔
تم لوگ بيماروں کی طرح ہو اور تمہارا طبيب حاذق خدا ہے اور بيماروں کی صحت اور عافيت اس ميں ہے کہ وه
طبيب حاذق کی پيروی کرےں اور اس کے حکم کو اپنے ہواو ھوس پر مقدم کريں“۔
اس مناظره کے ناقل امام حسن عسکری عليہ السالم سے ايک شخص نے سوال کيا کہ روز اول سے ہی کعبہ مسلمانوں
کا قبلہ کيوں نہيں ہوا؟“
سوره بقره کی ١۴٣ويں آيت ميں اس کأ امام عليہ السالم نے اس کے جواب ميں فرمايا” :خداوند متعال نے قرآن ميں
جواب ديا ہے اس کے بعد آپ نے يہ آيت پﮍھی:
”اور تحويل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درميانی امت قرار ديا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواه رہو اور پيغمبر
تمہارے اعمال کے گواه رہيں اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنا يا تھا کہ ديکھيں کہ کون رسول کا اتباع
پاوں پلٹ جاتا ہے اگر چہ قبلہ ان لوگوں کے عالوه سب پر گراں ہے جن کی ﷲ نے ہدايت کرتا ہے اور کون پچھلے ٔ
کردی ہے اور خدا تمہارے ايمان کو ضائع نہيں کرنا چاہتا ،وه بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے واال ہے“۔
اس آيت ميں مومنين کے لئے يہ حکم آيا ہے کہ ہم مشرکين سے مومنين کو جدا کرنا چاہتے ہيں تاکہ پہچانے جائيں اور
ان کی صفيں جدا اور الگ ہوں ،خداوندمتعال نے بيت المقدس کو مسلمانوں کا قبلہ اس لئے قرار ديا تھا کيونکہ اس
زمانہ ميں خانہ کعبہ مشرکين کے بتوں کا مرکز تھا اور مشرکين جاکران کے سامنے سجده کرتے تھے ليکن پيغمبر
اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے جب مدينہ ہجرت فرمائی اور وہاں ايک مستقل حکومت کی تشکيل دی تو مسلمانوں
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کی صفيں خود بخود مشرکوں سے الگ تھلگ ہوگئيں۔] [36اور اب اس چيز کی ضرورت نہيں رہی کہ مسلمان بيت
المقدس کی طرف سر جھکائيں ،ل ٰہذا مسلمانوں نے کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پﮍھنا شروع کرديا ،يہ بات بھی
واضح ہے کہ بيت المقدس کی طرف خداوندعالم نے سجده کرنے کا حکم اس لئے ديا تھا کہ نئے نئے مشرک جو
مسلمان ہوئے تھے ان کے لئے اپنی عادتيں چھوڑنا ايک بہت ہی مشکل کام تھا کيونکہ ابھی ان ميں پرانے رسوم باقی
تھے اور جب تک انسان ميں يہ قوت وصالحيت نہ پيدا ہو کہ وه اپنی عادت اور خرافات کو باآسانی ترک کرسکے وه
حق کی طرف مائل نہيں ہو سکتا لہٰذا جب انھيں پوری طرح آزماليا گيا تو انھيں بيت المقدس کی طرف سے ہٹا کر کعبہ
کی طرف نماز پﮍھنے کا حکم ديا گيا ،اور در حقيقت شروع شروع ميں بيت المقدس کو قبلہ قرار دينا اسالم کی ايک
فکری اور معنوی تحريک تھی جس کے ذريعہ اسالم نے مشرکين کی پرانی عادتوں کو ختم کر ديا ،ليکن مدينہ ميں اس
طرح کی مصلحتيں نہيں پائی جاتی تھيں يا کعبہ کی طرف رخ کرنے ميں زياده مصلحتيں تھيں۔][37
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ل ٰہذا کچھ لوگ علی عليہ السالم کے قتل کے لئے مدينہ ميں رک جائيں اور کچھ لوگ جنگ تبوک ميں شرکت کريں اور
مناسب موقع پر ديکھ کر وہاں پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو قتل کرديں۔
پيغمبر کی قيادت ميں ١٠ہزار سواروں اور ٢٠ہزار پياده افرا د پر مشتمل لشکر اسالم تھا جنگ تبوک کے لئے روانہ
ہو گيا،کچھ لوگ اپنی سازش کو پايہ تکميل تک پہچانے کے لئے مدينہ ہی رک گئے اور بقيہ منافقين مسلمانوں کے ساتھ
جنگ کرنے روانہ ہوگئے يہ خبر پيغمبر تک پہنچ چکی تھی کہ رومی فوج پياده اور سوارمالکر چاليس ہزار افراد پر
مشتمل ہے شام کی سرحد پر پہنچ چکی ہے اور اس فکر ميں ہے کہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کر ديا جائے اگر چہ يہ
جنگ مختلف جہات سے جيسے گرمی کی شدت ،طويل مسافت دشمنوں کی کثرت ،پانی اور غذاکی قلت کی وجہ سے
بہت ہی دشوار تھی اسی وجہ سے اس کو جيش العسرة کہا گيا ہے ،ليکن مسلمان استقامت اور وه ايمان توکل اور بلند
ہمتی کے ساتھ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی سپہ ساالر ی ميں آگے بﮍھے اور مدينہ وتبوک کے درميانی
طويل راستہ طے کيا اور نويں ہجری کے ماه شعبان کے اوائل ميں سر زمين تبوک پہنچ گئے يہ ديکھ کر روم کی فوج
خوف کی وجہ سے پيچھے ہٹ گئی اور جنگ نہ ہو سکی ايسے موقع پر حکومت واقتدارکے اللچی منافقين علی عليہ
السالم اورپيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے کی فکر ميں لگے ہوئے تھے ،پيغمبر صلی ﷲ عليہ و
آلہ و سلم نے تمام حاالت کا جائزه لينے کے بعد علی عليہ السالم کو اس جنگ ميں اپنے ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا
اور انھيں مدينہ ميں چھوڑ گئے تھے ،تاکہ وه پيغمبر کی غير موجودگی ميں مدينہ کی حفاظت کريں۔
حضرت علی عليہ السالم کی موجودگی کی وجہ سے جب منافقوں کی سازش تيس ہزار مسلمانوں کی غير حاضری کے
باجود کامياب نہ ہوسکی تو انھوں نے افواہوں کی مدد سے فتنہ کھﮍ ا کرنا چاہا وه کہنے لگے کہ علی عليہ السالم اور
پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے درميان اختالف ہوگيا اور پيغمبر ان کی ہم نشينی سے بيزار ہوگئے ہيں جس کی
وجہ سے انھيں اپنے ساتھ جنگ ميں نہيں لے گئے وغيره۔۔۔
منافق اپنی اس بزدالنہ تہمت کے ذريعہ علی عليہ السالم کی قيادت و رہبری کی مجروح کرنا چاہتے تھے علی عليہ
السالم اس غلط پروپيگنڈه سے سخت ناراض ہوئے اور مدينہ چھوڑ کر پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں
پہنچے اور آپ کو مدينہ کے حاالت سے مطلع کيا ،پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
موسی اال انہ النبی بعدی “۔
ٰ ”اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من
موسی سے تھی صرف ٰ ”کيا آپ اس بات پر راضی نہيں کہ تمہاری منزلت ميرے نزديک وہی ہے جونسبت ہارون کو
اتنا ہے کہ ميرے بعدنبی نہيں ہے“۔
يہ سن کر علی عليہ السالم کے دل کو ٹھنڈک پہنچی اور وه لوٹ آئے منافقين جو يہ چاہتے تھے کہ علی عليہ السالم کی
قيادت اور رہبری کو مجروح کرديں نہ يہ کہ ان کی تمام تر کوششيں نقش بر آب ہوگئيں بلکہ ساتھ ساتھ علی عليہ السالم
کی جانشينی اور نيابت ،مذکوره حديث کے ذريعہ واضح طور پر ثابت ہوگئی۔
منافقوں نے اپنی ايک خفيہ ميٹنگ ميں علی عليہ السالم کے قتل کا منصوبہ بنا يا اور راستے ميں ايک گﮍھا کھودديا
اور اسے گھاس پھوس سے ڈھک ديا تاکہ علی عليہ السالم واپسی کے موقع پر اس گﮍھے ميں اپنے جان کھوبيٹھيں۔
خداوند متعال نے علی عليہ السالم کو اس گﮍھے کے خطرے سے محفوظ رکھا اور وه صحيح وسالم مدينہ واپس آگئے
نتيجہ ميں اس دن منافق اپنے مقصد ميں کامياب نہ ہوسکے۔
اور وہاں منافقوں کا ١۴آدميوں پر مشتمل دوسرا گروه ][39جو اسالمی لشکر کے ساتھ تھا ان کے درميان خفيہ طور پر
يہ طے ہواکہ تبوک سے لوٹتے وقت مدينہ اور شام کے درميان پہاڑ کی چوٹی پر پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و
سلم کے اونٹ کو چھپ کر پتھروں کے ذريعہ بھﮍکا ديا جائے تاکہ اونٹ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو درّه کے
اندر گرادے اور آپ کو اس بات کی اطالع بھی نہ ہونے پائے کہ اونٹ کو بھﮍکانے واال کون تھا۔
جب رسول صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماپنے ساتھيوں کے ہمراه پہاڑ کی اس چوٹی کے قريب پہنچے جہاں دره تھا ،تو
جبرئيل نے آکر آپ کو منافقوں کی سازش سے مطلع کر ديا۔
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو منافقوں کی ،بالخصوص حضرت علی عليہ السالم کے سلسلہ
ميں کی گئی سازش سے مطلع کيا اور حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں چند باتيں کہيں۔
چوده افراد پر مشتمل منافقوں کا گروه جو يہ سمجھ رہا تھا کہ کسی کو کچھ خبر نہيں ہے ،ل ٰہذا يہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و
آلہ و سلم کے سامنے دوستی اور محبت کا دم بھرنے لگے اور پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں حاضر
ہو کر علی عليہ السالم کی رہبری اور قيادت کے سلسلہ ميں سواالت کرنے لگے وه اپنے سوال کرنے سے يہ ظاہر
کرنا چاہے تھے کہ ہم تفاہم اور معلومات کے لئے بحث کر رہے ہيں اور اطمينان بخش جواب ملنے کی صورت ميں
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
قانع ومطمئن ہوجائيں گے۔
پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اتمام حجت کے لئے ان کی گزارش کو قبول کيا اور ان کے سواال ت کے جواب
ديئے۔
منافقوں کے سواالت
منافقوں نے اپنی بحث کا آغاز اس طرح کيا:
ہميں بتايئے کہ علی عليہ السالم بہتر ہيں يافرشتے؟
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :فرشتوں کا مقام اس وجہ سے افضل ہے کہ وه محمد ،علی عليہ السالم اور خدا
کے انبياء عليہم السالم سے محبت کرتے ہيں اور ان کی رہبری وقيادت کو قبول کرتے ہيں اور جو بھی انسان ان
حضرات کی رہبری کو قبول کرے اور ان سے محبت کرے اس کا مقام فرشتوں سے افضل و برتر ہوگا ،کيا تم يہ نہيں
جانتے کہ فرشتے اپنے آپ کو ہر جہت سے آدم عليہ السالم سے افضل سمجھتے تھے ،ليکن جب خداوندعالم نے انھيں
حضرت آدم کا علمی مرتبہ ظاہر کيا تو وه اپنے کو پست سمجھ کر ان کے سامنے سجده کے لئے جھک گئے ،اور
سجده والے دن ہی کچھ عظيم اور نيک شخصيتيں )جيسے پيغمبر ،علی عليہ السالم اور ان کے بعد آنے والے تمام ائمہ
عليہم السالم (آد م کے صلب ميں موجود تھيں يعنی تمام مقدس شخصيتيں آدم کے پيچھے صف بنا ئے کھﮍی رہيں
،فرشتوں نے آدم کے ساتھ ساتھ ان کی تمام ذريت کا سجده کيا۔
بے شک سجده بظاہر آدم کے لئے ہو اليکن حقيقت ميں وه سجده خدا وند عالم کا سجده تھا ،جناب آدم عليہ السالم صرف
قبلہ )خانہ کعبہ( کی حيثيت رکھتے تھے ،ليکن ابليس نے گھمنڈ اورتکبر ميں چور ہونے کی وجہ سے جناب آدم عليہ
السالم کا سجده نہيں کيا جس کی وجہ سے وه بارگاه خدا وندی سے نکال ديا گيا“ ،اس بات کا امکان پايا جاتاتھا کہ منافق
اولی کا الزام لگا کر ان کی شخصيت کو مجروح کرتے ليکن پيغمبر جناب آدم عليہ السالم جيسے نبی پر گناه اور ترک ٰ
اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے پہلے ان کے اس اعتراض کا دروازه بند کرديا۔
اور آپ نے ان سے فرمايا” :اگر آدم عليہ السالم نے بہشت کے اس درخت سے چند دانے کھائے جس کے لئے
ولی تکبر اور غرور کی وجہ سے نہيں اولی کيا ليکن ان کا ترک ا ٰ خداوندعالم نے نہی کی تھی تو بيشک انھوں نے ترک ٰ
تھا اسی لئے انھوں نے توبہ کی اور خداوند عالم نے ان کی توبہ کو قبول بھی کر ليا“۔][40
ليکن تمام پتھر درے کی طرف لﮍھک گئے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے ساتھيوں کے ہمراه بغير
جاو اور اپنے ڈنڈے سے مار کر ان کی نقصان کے نيچے اتر آئے پيغمبر اسالم نے عمار سے فرمايا” :پہاڑ کے اوپر ٔ
سواريوں کو دور بھگا دو“۔
عمار،پيغمبر کے حکم کی تعميل کے لئے منافقوں کی تالش ميں نکلے اور پہاڑ پر پہنچ کر انھيں تتر بتر کر ديا اور ان
کی سواريوں کو اپنے ڈنڈے سے مارا جس کے نتيجے ميں چند منافق اپنی سواری کے ساتھ ساتھ خود بھی نيچے گرے
اور ان کے ہاتھ پير ٹوٹ گئے۔][41
تاريخ اسالم کے يہ دقيق اور ظريف سبق آموز واقعات اور نصيحتيں ہيں جن کے ذريعہ ہم منافقوں کے حاالت سے آگاه
ہو سکتے ہيں ہميں چاہئے کہ ان کی رنگ برنگی اور نئی نئی سازشوں کے نقاب،ان کے چہرے سے نوچ کر ان کی
تمام تر سازشوں کو نقش بر آب کرديں،خاص بات يہ تھی کہ منافقوں نے اپنی سازش کو رات کی تاريکی ميں انجام ديا
اور يہ خود اس بات کی دليل ہے کہ وه ہميشہ اس بات کی کوشش ميں تھے کہ ان کا ہر کام پس پرده رہے ،ليکن ہوشيار
اور بيدار مسلمانوں نے ان کے پردے چاک کر کے ان کی سازش اور خفيہ ارادوں کو ناکام بنا ديا۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم اور حذيفہ کی تعريف چند جملوں ميں اس طرح کی:
”علی عليہ السالم اور حذيفہ منافقوں کی سازشوں سے تمام لوگوں سے زياده واقف ہيں“۔
نتيجہ يہ کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھ رہنے والے منافقوں کی سازش آشکار ہونے سے
پہلے ان سے مناظره کيا اور اس بات کو ملحوظ نظر رکھا کہ شايد وه انھيں سمجھا بجھا کر راه راست پر لے آئيں ليکن
جب ان کی بزدلی اور سازش کا بھانڈا پھوٹ گيا تو پيغمبر اسالم نے ان سے کناره کشی اختيار کر لی۔
جيسا پاگل اور ديوانہ آج تک نہيں ديکھا تم لوگوں نے اپنی قوم وملت کے ساتھ خيانت کی اور اپنے مذہب کو چھوڑ کر
اسالم کے گرويده ہو گئے ان لوگوں نے بﮍے ہی نرم لہجہ ميں جواب ديتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد ہم سے تمہارا
کوئی تعلق نہيں ہے ہم نے جو بھی کيا ہميں اپنے حال پر چھوڑ دو۔][43
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
نتيجہ ميں تين روز گزر جانے پر نماز جماعت کے بعد مسجد ہی ميں ايک جلسہ کا انعقاد کيا گيا۔
علمائے نجران کے /۶٠افراد پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے سامنے بيٹھ گئے اور بحث ومناظره کو سننے
کے لئے تھوڑے فاصلہ پر مسلمان بھی بيٹھ گئے ،قابل توجہ بات يہ تھی کہ چند يہوديوں نے بھی مسيحيوں اور
مسلمانوں سے بحث کرنے کے لئے اس جلسہ ميں شرکت کی تھی۔
پيغمبراسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے محبت اور خلوص سے ان کو خوش آمديد کہتے ہوئے اپنی بات شروع کی
آوہم سب مل کر وحده ٘ ال شريک کی عبادت اور آئے ہوئے علمائے نجران کو توحيد واسالم کی دعوت دی اور فرمايأ ” :
کريں تاکہ ہم سب کے سب ايک زمره ميں آجائيں اور خدا کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاريں اس کے بعد آپ نے قرآن
کريم کی چند آيات تالوت فرمائيں۔
پوپ” :اگر اسالم کا مطلب خدا پر ايمان رکھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے تو ہم تم سے پہلے ہی مسلمان ہيں“۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ” :حقيقی اسالم کی چند عالمتيں ہيں اور تين چيزيں ہمارے درميان ايسی ہيں جن
سے پتہ چلتا ہے کہ تم لوگ اہل اسالم نہيں ہو،پہلی يہ کہ تم صليب کی پوجا کرتے ہو،دوسری يہ کہ تم سور کے گوشت
کو حالل جانتے ہو ،تيسری يہ کہ تم اس بات کے معتقد ہو کہ خدا صاحب اوالد ہے۔
علمائے نجران” :ہمارے عقيده کے مطابق حضرت مسيح خدا ہيں کيونکہ انھوں نے مردوں کو زنده کيا ہے اور ال عالج
بيماروں کو شفا بخشی ہے حضرت مسيح نے مٹی سے پرنده بنايا اس مينروح پھونکی اور وه اڑ گيا وغيره وغيره اس
طرح کے ان کے تمام کام ان کی خدائی پر داللت کرتے ہيں“۔
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ” :نہيں ايسانہيں ہے کوئی بھی ايسا کام خدائی پر داللت نہيں کرتا ہے بلکہ وه خدا
کے ايک بنده ہی ہيں ،جنھيں خداوندمتعال نے جناب مريم عليہ السالم کے رحم ميں رکھا اور اس طرح کے تمام
معجزات ا نہيں عنايت فرمائے۔وه کھانا کھاتے تھے پانی پيتے تھے ان کے گوشت ،ہڈی اور کھال تھی اور اس طرح جو
بھی ہوگا وه خدا نہيں ہو سکتا ہے“۔
ايک نمائنده” :حضرت مسيح خدا کے بيٹے ہيں کيونکہ ان کی ماں جناب مريم عليہ السالم نے بغير کسی سے شادی
کئے انھيں جنم ديا ،يہی ہماری دليل ہے کہ وه خدا کے بيٹے ہيں اور خدا ان کا باپ ہے“۔
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے وحی ٰالہی سور ٔه آل عمران آيت ۶١کا سہارا ليتے ہوئے فرمايا” :حضرت
عيسی عليہ السالم کی مثال آدم جيسی ہے جس طرح خداوند متعال نے جناب آدم عليہ السالم کو بغير ماں باپ کے خاک ٰ
عيسی کو بغير باپ کے پيدا کيا اور اگر باپ کا نہ ہونا خدا کے بيٹے ہونے پر دليل بنٰ سے پيدا کيا اسی طرح جناب
سکتا ہے تو جناب آدم کے لئے يہ زياده مناسب ہے کہ کيونکہ ان کے باپ اور ماں دونوں نہيں تھے“۔
علمائے نجران نے جب يہ ديکھا کہ جو بھی بات کہی جاتی ہے اس کا دندان شکن جواب ملتا ہے تو وه حضرات جو
رياست دنيا کے چکر ميں اسالم النا نہيں چاہتے تھے انھوں نے مناظره کو ختم کر ديا اور کہنے گلے اس طرح کے
جوابات ہميں مطمئن نہيں کر رہے ہيں ل ٰہذا ہم آپ سے مباہلہ کرنے پر تيار ہيں يعنی دونوں طرف کے لوگ ايک جگہ
جمع ہو کر خداوند عالم سے دعا اور راز ونياز کريں اور جھوٹوں پر لعنت کريں تاکہ خدا جھوٹوں کو ہالک کردے۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے سوره آل عمران کی ۶١آيت کے نازل ہونے پر انکی اس بات کو قبول کر ليا۔
تمام مسلمانوں کو اس بات کی اطالع ہو گئی اور جہاں ديکھئے وہيں لوگ بيٹھ کر چہ می گوئياں کرنے لگے کہ
ديکھئے مباہلہ ميں کيا ہوتا ہے؟ لوگ بﮍی بے صبری سے مباہلہ کا انتظار کررہے تھے کہ بﮍے انتظار کے بعد ٢۴
ذی الحجة کا دن آہی گيا ،علمائے نجران اپنے خاص جلسہ ميں نفسياتی طور پر يہ طے کر چکے تھے کہ اگر پيغمبر
اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ کثير تعداد ميں لوگ آئيں تو بغير کسی خوف اور جھجھک کے ان کے ساتھ
مباہلہ کے لئے تيار ہو جانا ،کيونکہ اس صورت ميں کوئی حقيقت نہيں ہے اس لئے کہ وه لوگوں کو جمع کرکے
دنياوی فائده اٹھانا چاہتے ہيں ،ليکن اگر يہ ديکھو کہ پيغمبر اپنے چند خاص افراد کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے ہوئے
ہيں تو ہر گز مباہلہ نہ کرنا کيونکہ نتيجہ بہت ہی خطرناک نکلے گا۔
علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجيل و توريت پﮍھ کر خدا کی بارگاه ميں راز ونياز کرکے
مباہلہ کے لئے تيار ہو گئے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا انتظار کرنے لگے۔
اچانک لوگوں نے ديکھا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم چار افراد يعنی اپنی بيٹی جناب فاطمہ زہراسالم ﷲ
عليہا اور اپنے داماد علی عليہ السالم اور اپنے دونوں بيٹوں امام حسن اور امام حسين عليہما السالم کے ساتھ تشريف
الرہے ہيں ،شرحبيل )عيسائيوں کا ايک عظيم اور بﮍا عالم (نے اپنے دوستوں سے کہا کہ خدا کی قسم !ميں وه صورتيں
ديکھ رہا ہوں کہ اگر يہ خدا سے چاہيں کہ پہاڑ اپنی جگہ ہٹ جائے تو يقينا وه اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ان سے ڈرو
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اور مباہلہ نہ کرو،اگر آج محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمسے مباہلہ کروگے تو نجران کا ايک بھی عيسائی اس روئے
زمين پر باقی نہيں رہے گا خدا کے لئے ميری بات ضرور مان لو چاہے بعد مينکچھ ماننا يا نہ ماننا۔
شرحبيل کے اصرار نے نجران کے علماء کے دلوں ميں عجيب اضطرابی کيفيت پيدا کر دی اور انھوں نے اپنے ايک
آدمی کو پيغمبر کی خدمت ميں بھيج کر ترک مباہلہ کی در خواست کی اور صلح کی التماس کی۔
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے کرم اور رحمت خداوند سے ان کی اس گزارش کو قبول کيا اور صلح
نامہ لکھا گيا جو چار نکات پر مشتمل تھا:
١۔اہل نجران کی يہ ذمہ داری ہے)تمام اسالمی ممالک کی امنيت کے سلسلہ ميں(کہ وه ہر سال دو ہزار جوڑے کپﮍے
دو قسط ميں مسلمانوں کو ديں۔
٢۔ حضرت محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے نمائنده نجران ميں ايک ماه يا ايک ماه سے زياده مہمان کی حيثيت سے
ره سکتے ہيں۔
٣۔جب بھی کبھی يمن ميں اسالم کے خالف کوئی سازش بلند ہو تو اہل نجران کے لئے واجب ہے کہ وه ٣٠ڈھال ٣٠
گھوڑے اور ١٣٠اونٹ عاريہ کے طور پر حکومت اسالمی کی حفاظت کے لئے ديں۔
۴۔اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے۔
علماء نجران کی اس کميٹی نے صلح نامہ کے تمام شرائط کو قبول کر ليا اور وه لوگ شکست خورده حالت ميں مدينہ
سے نجران کی طرف روانہ ہوئے]، [46ضمنا ً يہ بھی بتاتے چليں کہ اہل بيت عصمت وطہارت عليہم السالم کی عظمت
ومنزلت کے لئے آيہ مباہلہ زنده ثبوت ہے۔
نتيجہ يہ ہے:
جيسا کہ پہلے بھی ہم نے ذکر کيا ہے کہ نجران کے پہلے اور تيسرے گروہوں نے اسالم کے بارے ميں اچھی طرح
تحقيق کی اور اس کے بعداسالم کو قبول کر ليا ليکن دوسرا گروه وه تھا جس کی مباہلہ کی نوبت پہنچ گئی اور آخر کار
انھوں نے مباہلہ ترک کرنے کی خواہش کی انھوں نے بھی اسالم کے قوانين کے سلسلہ ميں تحقيق کی اور اس کی
حقانيت کو سمجھ گئے ليکن انھوننے اپنے پہلے گروه کی روش اختيار نہ کی اور مندرجہ ذيل وجوہات کی بنا پر
ظاہر ًاسالم قبول نہيں کيا۔
١۔پوپ نے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا خط پھاڑ ڈاال يہ اس کی رياست طلبی اور تعصب کی دليل تھی جو
حق قبول کرنے ميں مانع ہوا۔
٢۔وه مباہلہ کے لئے تيار نہيں ہوئے کيونکہ اگر وه اسالم اور محمد کی حقانيت کے سلسلے ميں تحقيق نہ کی ہوتی تو
مباہلہ کے ترک کرنے کی درخواست ہرگز نہ کرتے۔يہ خود اس بات کی عالمت ہے کہ وه اسالم اور محمد کے مکتب
کے بارے ميں اچھی خاصی تحقيق رکھتے تھے اور اس کی حقانيت کو سمجھ چکے تھے۔
٣۔تاريخ ميں يہ ملتا ہے کہ نجران کے نمائندے جب مدينہ سے واپس جارہے تھے تو ايک نمائنده نے راستہ ميں رسول
خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو برا بھال کہا تو ابو حارثہ )پوپ(نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ پيغمبر کو کہيں بُرا بھال
کہتے ہيں؟يہی بات اس کا باعث ہوئی کہ اس شخص نے مدينہ واپس آکر اسالم قبول کر ليا۔
تاريخ کا يہ رخ بھی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ علمائے نجران پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی
صداقت کو سمجھ گئے تھے۔
۴۔نجران کے علماء جب واپس پہنچے تو لوگوں کو اپنی روداد سنائی،ان کی روداد سن کر نجران کا ايک راہب اس قدر
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
آو اور مجھے نيچے لے چلو ورنہ ميں ابھی اپنے متاثر ہوا کہ اس نے عبادت خانہ سے چيخ کر کہا” :اے لوگو!جلدی ٔ
آپ کو نيچے گرا کر اپنی زندگی تمام کر لوں گا“۔
لوگ اسے سہار ا دے کر عبادت خانہ سے نيچے لے آئے وه دوڑا ہوا مدينہ کی طرف آيا اور پيغمبر اسالم صلی ﷲ
عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں ره کر اس نے کچھ مدت تک علمی استفاده کيا اور قرآنی آيتيں سنيں ،کچھ دنوں بعد وه
نجران واپس گيا،واپس جاتے وقت وه پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے يہ وعده کر کے گيا تھا کہ جب مدينہ
دوباره آئے گا تو اسالم قبول کر لے گا ليکن وه کامياب نہيں ہوا۔][48
غرض تمام چيزيں اس بات کی نشاندہی کرتی ہيں کہ ان کے نزديک حقيقت اسالم ثابت ہو چکی تھی اور وه اچھی
خاصی تحقيق بھی کر چکے تھے ليکن چند چيزيں جيسے رياست طلبی ،دنيا داری اور اہل نجران سے خوف وغيره ان
کے اسالم قبول کرنے ميں رکاوٹ بن رہيں تھيں۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
تقوی کے بارے ميں باتيں کرتے ہوئے کہتے تھے کہ قريش تمام دوسرے لوگوں پر فضيلت رکھتے ٰ بعض لوگ علم و
ہيں کيونکہ ان کی فضيلت کے سلسلہ ميں رسول اعظم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا تھا:
”االئمة من قريش ،ائمہ قريش سے ہيں“۔
يا دوسری جگہ فرمايا:
”الناس تبع لقريش وقريش ائمة العرب“
”لوگ قريش کے پيروہيں اور قريش عرب کے امام ہيں“۔
اس طرح ہر گروه اپنی اپنی صاحب افتخار شخصيتوں کو شمار کرنے لگا ،مہاجرين ميں علی عليہ السالم سعد وقاص
عبد الرحمن عوف ،طلحہ وزبير ،مقداد ،ہاشم بن عتبہ ،عبد ﷲ بن عمر،حسن وحسين عليہم السالم اور عمر بن ابوبکر
عبد ﷲ بن جعفر جيسے لوگ تھے۔
اور انصار ميں ابی بن کعب ،زيد بن ثابت ،ابو ايوب انصاری ،قيس بن سعد،جابر بن عبد ﷲ انصاری انس بن مالک
جيسے لوگ تھے يہ گفتگو اور مناظره صبح سے لے کر دو پہر تک اسی حالت ميں ہوتا رہا ،عثمان اپنے گھر ميں
تھے جب کہ علی عليہ السالم اور ان کے متعلقين سب کے سب خاموش بيٹھے تھے۔
اسی دوران کچھ لوگ امام علی عليہ السالم کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کيا” :آپ کيوں نہيں کچھ بول رہے ہيں؟“
حضرت علی عليہ السالم نے فرمايا” :تم دونوں گروہوں نے اپنی اپنی عظمت بيان کی )اور رہبری کے لئے اپنی
شائستگی کے متعلق باتيں کی(ليکن ميں دونوں گروه سے يہ پوچھتاہوں کہ تم لوگوں کو خدا وند متعال نے يہ فضيلت
اور برتری کس کی وجہ سے عطا کی ہے؟“مہاجرين اور انصار نے کہا” :يہ تمام امتيازات و فضيلتيں محمد صلی ﷲ
عليہ و آلہ و سلماور ان کے خاندان کی وجہ سے ہميں حاصل ہوئی ہيں“ ،امام علی عليہ السالم نے فرمايا” :سچ کہا،آيا
تم يہ نہيں جانتے کہ اس دنيا اور آخر ت کی تمام سعادتيں تمہيں ہمارے خاندان نبوت کی بدولت ملی ہيں اور ميرے
چچازاد بھائی محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا” :ميں اور ميرا خاندان جناب آدم عليہ السالم کی خلقت سے
چوده ہزار سال پہلے نور کی شکل ميں خداوند عالم کی بار گاه ميں موجود تھا پھر خداوندمتعال اس نور کو ايک نسل
کے بعد دوسری آنے والی نسل کے صلب اور پاک رحم ميں منتقل ہوتا رہا جس ميں ذره برابر بھی نجاست نہيں پائی
جاتی ہے۔
اس کے بعد موالئے کائنات علی عليہ السالم نے اپنے فضائل کا ايک ٹکﮍا بيان کيا اور لوگوں سے قسم دے کر پوچھا
کہ کيا ايسا نہيں ہے؟تمام لوگوں نے اس بات کا اعتراف بھی کيا کہ رسول اسالم نے آپ کے بارے ميں يہ چيزيں بيان
فرمائيں ہيں۔
منجملہ يہ بھی فرمايا” :تم لوگوں کو خدا کی قسم ديتا ہوں کہ جس شخص نے بھی پيغمبر کی زبان سے ميری خالفت
کے بارے ميں سنا ہے وه اٹھ کر گواہی دے“۔
اسی وقت سلمان ،ابوذر،مقداد ،عمار ،زيد بن ارقم ،براء بن عازب جيسے لوگوں نے اٹھ کر کہا:
”ہم لوگ گواہی ديتے ہيں ہميں پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی اس روزکی بات آج بھی ياد ہے کہ جب رسول
اعظم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمتشريف رکھتے تھے اور آپ منبر کے کنارے بيٹھے ہوئے تھے کہ آنحضرت نے
فرمايا” :خدا وند متعال نے مجھے يہ حکم ديا ہے کہ علی ميرے ،وصی ،جانشين اور ميرے بعد ميرے تمام کاموں کے
ذمہ دار ہيں اور خداوند متعال نے ان کی اطاعت تمام مومنوں پر واجب قرار دی ہے ،اے لوگو! يہ ميرا بھائی علی
ميرے بعد تمہارا امام موال اور راہنما ہے:
”وھو فيکم بمنزلتي فيکم فقلدوه دينکم واطيعوه فی جميع امورکم“۔][51
”تمہارے درميان جو مقام ومنزلت ميرا ہے وہی علی کا بھی ہے تم دين خدا ميں ان کی پيروی کرو اور اپنے تمام امور
ميں انھيں کی اطاعت کرو“۔
اس طرح موالئے کائنات علی ابن ابی طالب عليہ السالم نے لوگوں کے درميان اپنی امامت کو ثابت کيا اور اتمام حجت
کر ديا۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عمار ياسر سے فرمايا تھا” :تقتلک الفئة الباغية“تمہيں باغی گروه قتل کرے
گا“۔
يہ بات تمام مسلمانوں کے درميان مشہور ہو گئی کہ عمار کے سلسلے ميں پيغمبر نے اس طرح فرمايا ہے۔ابھی چند
سال گزرے تھے کہ امام علی عليہ السالم کی خالفت کے زمانہ ميں آپ کے اور معاويہ کے سپاہيوں کے درميان جنگ
کا بازار گرم ہوا جسے تاريخ مينجنگ صفين کے نام سے ياد کياجاتا ہے۔ اس جنگ ميں عمار ياسر اما م علی عليہ
السالم کے لشکر کے سپاہی تھے اس جنگ ميں آپ نہايت بہادری سے لﮍتے ہوئے آخر کار معاويہ کے سپاہيوں کے
ہاتھ شہيد ہو گئے۔
وه لوگ جو جنگ صفين ميں شک و شبہ ميں تھے کہ آيا معاويہ حق پر ہے يا علی عليہ السالم ؟ان کے نزديک پيغمبر
اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اس قول سے اس کے لشکر کے حوصلے پست پﮍ رہے ہيں کيونکہ پيغمبر اسالم
نے يہ فرمايا تھا کہ عمار ايک ظالم وباغی گروه کے ذريعہ قتل کئے جائيں گے اور عمار کو قتل کرنے واال گروه
معاويہ کا تھا ل ٰہذا معاويہ باطل پر ہے۔
معاويہ نے جب يہ ديکھا کہ پيغمبر کے اس قول سے اس کے لشکر کے حوصلے پست پﮍ رہے ہيں تو اس نے ايک
ڈھونگ رچا اورکہنے لگا کہ عمار ياسر کو ميں نے قتل نہيں،بلکہ علی نے قتل کيا ہے کيونکہ اگر وه ہمارے مقابلہ
ميں انھيں نہ بھيجتے تو وه ہر گز قتل نہ کئے جاتے۔معاويہ کی اسی توجيہ نے بعض لوگوں کو بيوقوف بنا ديا۔
امام علی عليہ السالم نے اس ڈھونگ کا بہت کھل کر جواب ديتے ہوئے فرمايا” :اگر معاويہ کی يہ بات صحيح ہے تو يہ
بھی کہنا صحيح ہوگا کہ جنگ احد ميں جناب حمزه عليہ السالم کو پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے قتل کيا ہے نہ
کہ مشرکوں نے ،کيونکہ جناب حمزه عليہ السالم کو پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے بھيجا تھا“۔
علی عليہ السالم کے اس جواب کو عبد ﷲ بن عمر عاص نے معاويہ تک پہنچاديا جواب سن کر معاويہ اس قدر بوکھال
گيا کہ اس نے اپنے نہايت مکار و سازشی مشاور خاص کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔”اے احمق کے بيٹے جلدی يہاں سے
بھاگ جا“۔
غرض کہ يہ بذات خود ايک ايسا مناظره تھا جس نے دشمن کی سازشوں کو خاک ميں مال کر ان کے سارے منصوبوں
کی مٹی پليد کردی۔][52
١١۔ امام سجاد عليہ السالم کا ايک بوڑھے شخص سے مناظره اور اس کی نجات
امام سجاد عليہ السالم جب اپنے قافلے والوں کے ساتھ اسير ہو کر وارد دمشق ہوئے تو شام کا رہنے واال ايک بوڑھا
شخص امام سجاد عليہ السالم اور ان کے قافلے والوں کے پاس آکر کہنے لگا۔
”خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمہيں قتل کيا،تمہارے شہروں کو تمہارے مردوں کی وجہ سے آسوده کيا اور امير
المومنين يزيد کو تم پر مسلط کيا“۔ ٔ
امام سجاد عليہ السالم نے اس بوڑھے سے ،جو مسلمانوں سے بالکل بے بہره تھا اس طرح مناظره کيا۔
امام عليہ السالم” :کيا تم نے قرآن پﮍھا ہے ؟“
بوڑھا” :ہاں“
امام عليہ السالم” :کيا تم نے اس آيت کا معنی خوب اچھی طرح سمجھا ہے جس ميں خداوندمتعال فرماتاہے:
”قُلْ الَأَ ْسأَلُ ُک ْم َعلَ ْي ِہ أَجْ رًا ِٕاالﱠ ْال َم َو ﱠدةَ فِی ْالقُرْ بَی“][53
”اے پيغمبر ان سے کہو کہ ميں تم سے اجر رسالت کچھ نہيں چاہتا مگر يہ کہ تم ميرے قرابت داروں سے محبت کرو“۔
بوڑھامرد” :ہاں ميں نے اس آيت کو پﮍھا ہے“۔
امام عليہ السالم” :اس آيت ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے قرابتداروں سے مراد ہم لوگ ہيں ،اے
شخص! کيا تونے سوره انفال کی ۴١ويں آيت پﮍھی ہے:
َی ٍء فَأَ ﱠن ِ ﱠ ِ ُخ ُم َسہُ َو ِلل ﱠرس ِ
ُول َو ِل ِذی ْالقُرْ بَی۔۔۔“ ” َوا ْعلَ ُموا أَنﱠ َما َغ ِن ْمتُ ْم ِم ْن ش ْ
”اور جان لو کہ جو کچھ بھی تم نے مال غنيمت حاصل کيا ہے بالشبہ اس کا خمس ﷲ،اس کے رسول اور ذی القربی
کے لئے ہے ۔۔۔“۔
بوڑھا مرد” :ہاں ميں نے پﮍھا ہے“۔
امام عليہ السالم” :اس آيت ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے قرابت دار اس آيت ميں ہم لوگ ہيں اے
شخص ! کيا تونے اس آيت کو پﮍھا ہے“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ت َويُطَہﱢ َر ُک ْم ت ْ
َط ِہيرًا“][54 س أ ْہ َل ْالبَ ْي ِ ” ِٕانﱠ َما ي ُِري ُد ﷲُ ِلي ُْذ ِہ َ
ب َع ْن ُک ْم الرﱢجْ َ
”بس ﷲ کا اراده يہ ہے اے اہل بيت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکيزه رکھے جو پاک و
پاکيزه رکھنے کا حق ہے“۔
بوڑھا مرد” :ہاں پﮍھا ہے“۔
آيہ تطہير نازل کی ہے“۔
ٔ نے عالم خداوند لئے کے جن کہ لوگ امام عليہ السالم” :ہم ہيں وه
يہ سن کر بوڑھا خاموش ہو گيا اور اس کے نزديک حقيقت واضح ہو گئی جس کی وجہ سے اپنے کہے ہوئے جملہ پر
اس کے چہره سے پشيمانی ظاہر ہو رہی تھے۔
کھاو کہ تم وہی جو تم نے کہا ہے“۔
چند لمحوں بعد اس نے امام عليہ السالم سے کہا” :خدا کی قسم ٔ
امام عليہ السالم” :خدا کی قسم اور اپنے جد رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے حق کا واسطہ دے کر کہا کہ ميں
انھيں کے خاندان سے ہوں“۔
يہ جملہ سنتے ہی بوڑھے مرد کی حالت غير ہو گئی اور روتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا” :بار
الہٰا ہم آل محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے تمام دشمنوں )جن وانس(سے برائت کا اظہار کرتے ہيں“ ،اسی وقت اس
نے امام کی بارگاه ميں توبہ کی۔
ً
اس واقعہ کی خبر يزيد کے کانوں تک پہنچی۔يزيد نے فورا اس کے لئے پھانسی کا حکم صادر کيا اور اس ہدايت يافتہ
بوڑھے کو شہيد کر ديا۔][55
١٢۔ ايک منکر خدا کاامام صاد ق عليہ السالم سے مناظره کے بعد مسلمان ہونا
سر زمين مصر ميں عبد الملک نام کا ايک شخص رہتا تھا جس کے بيٹے کا نام عبد ﷲ تھا ،اس بنا پر لوگ اسے ابو
عبد ﷲ کہتے تھے۔عبد الملک منکر خدا تھا اور اس کا يہ عقيده تھا کہ يہ دنيا خود بخود وجود ميں آگئی ہے اس نے يہ
سن رکھا تھا کہ شيعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق عليہ السالم مدينہ ميں رہتے ہيں جس کی وجہ سے اس
نے مدينہ کا قصد کيا تاکہ ان سے خداوند متعال کے بارے ميں مناظره کرے۔
جب يہ شخص مدينہ پہنچ کر امام کا پتہ معلوم کرنے لگا تو اسے لوگوں نے بتايا کہ وه حج کی ادائيگی کے لئے مکہ
تشريف لے گئے ہيں۔
وه مکہ کے طرف روانہ ہوا ،مکہ معظمہ پہنچ کر اس نے ديکھا کہ امام جعفر صادق عليہ السالم طواف ميں مشغول ہيں
عبد الملک طواف کرنے والوں کی صف ميں داخل ہوا اور عناد کی وجہ سے اس نے امام جعفر صادق عليہ السالم کو
دھکا ديا ليکن امام عليہ السالم نے بﮍی محبت سے فرمايا” :تمہارا نام کيا ہے ؟“
اس نے کہا” :عبد الملک“۔
امام عليہ السالم” :تمہاری کنيت کيا ہے ؟“
عبد الملک” :ابو عبد ﷲ“۔
امام عليہ السالم” :وه مالک کہ جس کے تم بنده ہو)جيسا کہ تمہارے نام سے ظاہر ہوتا ہے(وه زمين کا حاکم ہے يا آسمان
بتاو وه زمين کے خدا کا بنده ہے يا آسمان کے ؟تم جو
کا؟جب )تمہاری کنيت کے مطابق(تمہارا بيٹا بنده خدا ہے ؟ذرا ٔ
کھاوگے“۔
بھی جواب دوگے شکست ٔ
عبد الملک ال جواب ہو گيا۔ہشام برمکی امام کے شاگرد وہاں موجود تھے انھوں نے عبد الملک سے کہا” :کيوں نہيں
امام کا جواب ديتے ؟“
عبد الملک کو ہشام کی بات بہت بری لگی اور اس کا چہره بگﮍ گيا۔
امام جعفر صادق عليہ السالم نے بﮍی نرمی سے عبد الملک سے کہا” :طواف ختم ہونے تک صبر کرو اور طواف کے
آو تاکہ دونوں مل کر کچھ گفتگو کريں“۔بعد تم ميرے پاس ٔ
جب امام جعفر صادق عليہ السالم طواف سے فارغ ہوئے تو وه ان کے پاس آکر برابر ميں بيٹھ گيا۔اس وقت امام کے
چند شاگرد بھی وہاں تشريف رکھتے تھے۔
اس وقت امام عليہ السالم اور اس کے درميان اس طرح مناظره شروع ہوا۔
امام عليہ السالم” :کيا تمہيں معلوم ہے کہ يہ زمين تہ وباال ہو تی ہے ،اورظاہر و باطن رکھتی ہے؟“
منکر خدا” :ہاں“۔
امام عليہ السالم” :آيا زمين کے نيچے گئے ہو؟“
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
منکر خدا ” :نہيں“۔
امام عليہ السالم” :بس تمہيں کيا معلوم کہ زمين کے نيچے کيا ہے ؟“
منکر خدا” :زمين کے نيچے کے بارے ميں کچھ نہيں جانتا ليکن يہ گمان کرتا ہوں کہ زمين کے نيچے کسی چيز کا
وجود نہيں ہے“۔
امام عليہ السالم ” :گمان اور شک ايک طرح کی الچاری ہے جہاں تم يقين پيدا نہيں کر سکتے۔کيا تم آسمان کے اوپر
گئے ہو ؟“
منکر خدا ” :نہيں“۔
امام عليہ السالم ” :کيا تمہيں کچھ معلوم ہے کہ آسمان ميں کيا ہے اور وہاں کون کون سی چيزيں پائی جاتی ہيں ؟“
منکر خدا” :نہيں“۔
امام عليہ السالم” :عجيب !نہ تم نے مشرق ديکھا نہ مغرب ديکھا ہے نہ زمين کے نيچے گئے ہو اور نہ آسمان کے اوپر
گئے تاکہ يہ معلوم کر سکو کہ وہاں کيا کيا ہے اور اس جہل ونادانی کے بعد بھی تم ان تمام چيزوں کے منکر ہو) تم
اوپر اور نيچے کی موجوده اشياء اور اس کے نظم و ترتيب جو خداوند متعال کے وجود کی حکايت کرتی ہيں اس سے
بالکل نا آشنا ہو پھر کيوں منکرخد اہو؟(کيا کوئی عاقل شخص جس موضوع ميں جاہل ہوتاہے اس کا انکار کرتا ہے ؟!“
منکر خدا” :آج تک مجھ سے کسی نے اس طرح کی باتنہيں کی“۔
امام عليہ السالم” :غرض تم اس حقيقت پر شک کرتے ہو کہ آسمان کے اوپر اور زمين کے نيچے کچھ چيز موجود ہے
ہی نہيں ؟“
منکر خدا” :ہاں شايد اسی طرح ہو“۔)اس طرح منکر خدا آہستہ آہستہ مرحلہ انکار سے شک وترديد کے مرحلہ تک
پہنچا(
امام عليہ السالم” :جو شخص جاہل ہے وه عالم کے لئے دليل نہيں ہو سکتا ،اے مصری برادر ! ميری بات سنو اور
سمجھو ہم خدا کے وجود کے بارے ميں ہر گز شک نہيں کرتے کيا تم سورج ،چاند اور دن ورات کو نہيں ديکھتے کہ
وه صفحہ افق پر آشکار ہوتے ہيں اور وه مجبورا ً اپنے معين راستہ پر گردش کرکے واپس پلٹتے ہيں اور وه اپنی معين
مسير ميں مجبور وناچار ہيں؟
اب ميں تم سے پوچھتا ہوناگر چاند سورج کے پاس گردش کرنے کی ذاتی قوت ہے تو وه کيوں پلٹتے ہيں اور اگر اپنے
آپ کو مجبورنہيں سمجھتے ہيں تو کيوں رات دن نہيں ہو جاتی اور دن رات نہينہو جاتا ہے ؟اے مصری برادر !خدا کی
قسم يہ چاند وسورج اپنی گردش پر مجبور ہيں اور جس نے ان کو ان کی گردش پر مجبور کيا ہے وه ان سے زياده
حکومت کا اہل اور بہترين حاکم ہے۔
منکر خدا” :سچ کہا“۔
بتاو کہ تمہارے عقيده کے مطابق اگر زمانہ کے ہاتھوں ميں موجودات کی امام عليہ السالم اے مصری برادر! تم يہ ٔ
زمام ہے اور وہی لوگوں کو لے جاتا ہے تو انھيں دوباره کيوں لوٹا تا اور اگر لوٹا ديتا ہے تو پھر انھيں کيوں نہيں لے
جاتا؟
اے مصری برادر ! دنيا کی ہر چيز مجبور ہے کيوں آسمان اوپر اور زمين نيچے واقع ہے ؟آسمان زمين پرکيوں نہيں
گر پﮍتا يا زمين اپنی سطح سے بلند ہو کر آسمان سے کيونچپک نہيں جاتی ؟اور زمين کی تمام موجوده اشياء آسمان سے
کيوں نہيں چپک جاتی ہيں“۔
)امام عليہ السالم کا مضبوط استدالل يہاں تک پہنچا تو عبد الملک کا شک ختم کرکے ايمان کی منزل ميں آپہنچا (وه امام
عليہ السالم کی خدمت ميں ايمان لے آيا اور اس نے وحده الشريک کی گواہی دی اور اس نے اسالم کی حقانيت کی
گواہی ديتے ہوئے بﮍے ہی پر جوش انداز ميں کہا” :وه خدا ہے جو زمين وا ٓسمان کا حاکم ہے اور جس نے انھيں روک
رکھا ہے“۔
حمران” :امام عليہ السالم کا ايک شاگرد بھی وہاں موجود تھا ،اس نے امام عليہ السالم کی طرف ديکھ کر کہا” :ميری
جان آ پ پر فدا ہو اگر منکرين خدا آپ کی وجہ سے ايمان الئے اور مسلمان ہو جائيں تو آپ کے جد کی وجہ سے
کافروں نے بھی اسالم وايمان قبول کيا ہے“۔
عبد الملک نے جو ابھی ابھی مسلمان ہواتھا امام سے عرض کيا” :آپ مجھے شاگرد کے طور پر قبول کر ليجئے“۔
جاو اور
امام جعفر صادق عليہ السالم نے اپنے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے فرمايا” :عبد الملک کو اپنے ساتھ لے ٔ
اسے احکام اسالم کی تعليم دو“۔ہشام بن حکم جو شام اور مصر کے عوام کے لئے بہترين معلم تھے ،عبد الملک کو
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اپنے ساتھ لے گئے اور عقائد اور احکام اسالم کی تعليم دی تاکہ وه سچے اور مضبوط عقيده والے ہوجائيں ،اسی طرح
امام جعفر صادق عليہ السالم نے اس مومن کے ايمان اور ہشام بن حکم کی تعليمی روش کو بہت پسند کيا۔][56
تيسرے دن بھی ابن ابی العوجاء امام جعفرصادق عليہ السالم کی خدمت ميں مناظره کی غرض سے يہ سوچ کر آيا کہ
آج وه پہل کرے گا۔ ل ٰہذا وه آتے ہی کہنے لگا کہ آج ميں مناظره کی ابتداء چند سوال سے کرتا ہوں:
امام عليہ السالم” :جو چاہو پوچھو“۔
ابن ابی العوجاء” :کس دليل کی وجہ سے يہ دنيا حادث ہے )يعنی پہلے نہيں تھی اور بعد ميں وجود ميں آئی ؟(
امام عليہ السالم” :تم جب بھی کسی چھوٹی چيز کا تصور کرتے ہو اگر چھوٹی چيز کو اسی جيسی کسی دوسری چيز
سے مال دو تو وه مذکوره شئے بﮍی ہو جائے گی اسی کو انتقال کہتے ہيں يعنی پہلی حالت بدل کر دوسری حالت اختيار
کرنا ،اور حادث کے معنی بھی يہی ہيں ،اب اگر وه چيز قديم تھی )اول سے تھی( تو دوسری حالت اختيار نہيں کرسکتی
کيونکہ جو بھی چيز نابود اور متغير ہوتی ہے وه نابودی اور تبديلی کو قبول کرتی ہے اور اس بنا پر کسی ہستی کا نابود
ہونا اس کے حادث ہونے کی دليل ہواکرتی ہے۔ اور اگر بالفرض وه قديم تھی بھی تو اب بﮍی ہوجانے کی وجہ سے و ه
تغير پذير ہو گئی اور اس طرح وه حادث ہو گئی ) يہی اشياء کے قديم نہ ہونے کی دليل ہے ( اور يہ بھی صحيح نہيں
ہے کہ ايک چيز حادث بھی ہو اور قديم بھی ،ازلی بھی ہو اور عدمی بھی“۔
ابن ابی العوجاء” :جی ہاں! اگر يہ فرض کر ليں کہ چھوٹی چيز بﮍی ہو جاتی ہے تو آپ کی بات درست ہے اور اس
طرح انھيں حادث ماننا پﮍے گا ليکن اگر کوئی چيز اپنے اصلی حالت پر يعنی چھوٹی ہی باقی رہے تو ان کے حادث
ہونے پر آپ کی دوسری کيادليل ہے ؟“
امام عليہ السالم ” :ہماری بحث کا محور يہی موجوده کائنات ہے )جو تغير و تبديل کی حالت ميں ہے ( اب اگر اس دنيا
کو چھوڑ کر دوسری دنيا کو تصور کريں اور اسے موضوع بحث بنائيں تو بھی ايک دنيا کا نابودہونا اور اس کی جگہ
ايک دوسری دنيا کا وجود ثابت ہوگا اور يہی حادث ہونے کے معنی ہيں ،اور تمہارے کہنے کے مطابق اگر ہر چھوٹی
چيز اپنی حالت پرباقی رہتی تو کس طرح حادث ہو گی اس کا بھی جواب ديتا ہوں۔
اگر يہ فرض کر ليں کہ ہر چھوٹی چيز اپنی حالت پر باقی رہے تب بھی يہ فرض کرنا تو بہر حال صحيح ہوگا کہ اگر
دو ہم مثل چھوٹی چيزوں کو آپس ميں مالديا جائے تو وه چھوٹی چيز بﮍی چيز ہو جائے گی ،اس طرح کے فرض کا
صحيح ہونا ہی ان کے حادث ہونے کی دليل ہے کيونکہ اس طرح کے فرض کی صحت سے يہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وه
مفروض شئے تغير و تبديل کرتی ہے اور يہی تبديلی اس کے حادث ہونے پر داللت کرتی ہے اے عبد الکريم اس کے
بعد تمہارے پاس کہنے کو کچھ نہيں بچتا۔][58
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
--------------------------------------------------------------------------------
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [19قرآن مجيد ميں سوره فرقان ،آيت ،٧سوره اسراء ،آيت ٩٠تا ٩۵ميں اور سوره زخرف ،آيت ٣١ميں اس واقعہ
کی طرف اشاره ہوا ہے۔
سوره کہف ،آيت ١١٠۔ ٔ ][20
] [21سوره اسراء ،آيت ۴٨۔
] [22يہاں پر حضرت امام حسن عسکری عليہ السالم نے اضافہ فرمايا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے
اپنی اس گفتگو ميں سوره زخرف آيت ٣٢کی طرف اشاره فرمايا۔
سوره فصلت ،آيت ۶۔ ٔ سوره کہف ،آيت ،١١٠ ٔ ][23
] [24احتجاج طبرسی ج ،١ص ٢۶سے ٣۶تک کا خالصہ ،عکرمہ ابن ابو جہل شروع ميں پيغمبر اسالم کا بہت سخت
دشمن تھا،فتح مکہ کے وقت وه بھاگ گيا تھاليکن آخر کارمدينہ ميں وه آپ کے ہاتھوں ايمان اليا اور اس نے اتنا بﮍا مقام
حاصل کر ليا تھا کہ آپ نے اسے قبيلہ ہوازن کے صدقات وزکات حاصل کرنے کے لئے اپنا نمائنده مقرر کر ديا تھا،وه
ابوبکر کی خالفت کے زمانے ميں جنگ ”اجنادين“ يا ”يرموک“ميں شہيد ہوا) ،سفينة البحار ج ٢ص(٢١۶
] [25مدينے کے دوبﮍے قبيلے جو اسالم کے بعد متحد ہوئے اور جنھيں انصار کے نام سے ياد کيا جاتا ہے ۔
] [26آزاد بحث اگر چہ ايک اسالمی موضوع ہے جس کے ذريعہ حق آشکار ہوتا ہے ليکن يہوديوں نے چاہا کہ اس
بحث کی آڑ ميں اسالم اور پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی شخصيت کو مجروح کريں ليکن وه اپنے اس مقصد ميں
کامياب نہ ہوسکے۔
] [27سوره بقره آيت .88
] [28عبد ﷲ کانام ”حُصين “تھا ،يہودی ا س کا بﮍا احترام کرتے تھے ،اسالم النے کے بعد آنحضرت صلی ﷲ عليه و
آله وسلم نے اس کا نام عبد ﷲ رکھا ديا تھا۔
] [29اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبد ﷲ ضدی ،سرکش،خود خواه اور نفسانی خواہشات کا اسير نہيں تھا بلکہ حق پسند
وحق طلب تھا اسی وجہ سے وه يقينی سعادت حاصل کرنے ميں کامياب ہوا،حق طلبی کی پہلی شرط يہ ہے کہ انسان
آزاد فکر اور ہر طرح کے تعصب سے دور ہو۔
] [30بعض مفسروں نے ان آيتوں کی شان نزول کے بارے ميں کہا ہے کہ يہ عبد ﷲ بن صوريا کے بارے ميں نازل
ہوئی ہےں ليکن اس سے اس بات کی نفی نہيں ہوتی کہ عبد ﷲ بن سالم نے اس طرح کی بحث نہ کی ہوگی ۔
] [31جيسا کہ ہم نے عرض کيا اس کا نام حُصين تھا ۔
] [32نا سخ التواريخ ج،١ص ،٣٩سيرة ابن ہشام ج ،١ص۵١۶اور احتجاج طبرسی ج١۔
سوره بقره ،آيت ١٣٩۔ ٔ ][33
اس ٌع َع ِلي ٌم“ )سوره بقره ،آيت (١١۵ و ﷲ ﱠ
ن ا ﷲ ہ جْ و مَ ثَ ف واﱡ ل وُ ت ا مَ ن ْ
ي َ ٔ
ا َ ف ر ْ ْ ُ ْ ْ ﱠ
َ َ ِ ﱠ َ ُ ِ ِٕ َ َ بُ غ م ال و ق رش مال
]ِ َ َ ِ َ ِ ِ َ [34 و ”
] [35قبلہ کی تبديلی ميں چند مصلحتيں تھيں منجملہ:
١۔عرب کے قبيلےکعبہ کو پسند کرتے تھے ل ٰہذا وه اس کی وجہ سے اسالم کی طرف راغب ہوئے۔
٢۔کعبہ کو حضرت ابراہيم عليہ السالم نے خدا کے حکم سے بناياتھا حضرت ابراہيم عليہ السالم تقريبا ًتمام مذاہب ميں
محترم تھے ل ٰہذا تمام مذاہب اسالم کی طرف مائل ہوئے ۔
٣۔يہوديوں کا اعتراض کہ مسلمانوں کا الگ قبلہ نہيں ہے بلکہ وه ہمارے قبلہ ہی کی طرف رخ کر کے نماز پﮍھتے ہيں
اس تبديلی سے بر طرف ہوگيا۔
۴۔مکہ مسلمانوں کے لئے نزديک تھا اس کو قبلہ بنانا اس بات کا سبب بنا کہ مسلمان کعبہ اور مکہ کو بت پرستوں سے
پاک کريں اور اپنے قبلہ کو اسالم کے پرچم تلے لے آئيں۔
۵۔اس تبديلی سے پيغمبر کا احترام بھی مقصود تھا کيونکہ مکہ آپ کی جائے پيدائش تھا۔
۶۔ايک مقصد مومن اور غير مومن کی شناخت تھا جيسا کہ آپ اس مناظره کے آخر ميں مالحظہ فرمائيں گے ۔
] [36يہ حکم يہوديوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا تھا جيسا کہ منصف مزاج يہودی مائل ہوئے ۔
] [37بحار اال انوار ،نيا ايڈيشن،ج، ٩،٣٠٣تفسير نمونہ ،ج،١ص ،٢۵۶ناسخ التواريخ ہجرت ،ج ،١ص،٩٢احتجاج
طبرسی ج ، ١ص ۴۴وغيره سے اقتباس ۔يہاں پر يہ بات بھی يادرہے کہ سمت قبلہ کی تبديلی ايک طرح کی آزمائش
تھی تاکہ يہ پتہ چل سکے کہ تمام مسلمان اسالمی قوانين کے پوری طرح پابند ہيں يا نہيں؟ اوريہ بات بھی واضح ہے کہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
خصوصا ً ايسے مقامات پر منافقين غير محسوس طريقہ اور نادانستگی کے عالم ميں اپنے آپ کو پہچنوا ديتے ہيں
،ايسے ہی مواقع پر مومنين اور کمزور ايمان والے اشخاص کے درميان ممتاز ہو جاتے ہيں اور ان کی شناخت نہايت
آسان ہو جاتی ہے۔
] [38بحار االنوار ،نيا ايڈيشن،ج،٩ص٢٨٢۔
] [39بعض مورخين نے ان منافقوں کی تعداد ١٢بتائی ہے جن ميں سے ٨قريش کے اور ۴مدينہ کے تھے۔
] [40پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اس مناظره ميں بھی اس وجہ سے کہ قدرت طلب منافقين رہبری کے
مسئلہ پر اعتراض کر رہے تھے اور ان کا سارا ہم و غم رہبری اور امامت کو نقصان پہنچا نا تھا ل ٰہذا آنحضرت نے
تفصيل کے ساتھ گفتگو کی يہاں تک کہ فرشتوں کے سجده کو جو رہبری اور شائستہ انسانوں کو خداکی جانشينی کے
بارے ميں تھا آنحضرت نے ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھا ديا تاکہ واليت واسالمی رہبری کے مسئلے کو اپنی ہوا
ہوس کا بازار قرار نہيں نہ دے سکيں۔
] [41احتجاج طبرسی ج١ص ٩۵سيره ابن ہشام ج ٣ص ۵٢٧سے اقتباس۔
سوره مائده کی ٨٣ويں آيت ۔
ٔ ][42
] [43سيره حلبی ج،١ص٣٨٣۔
] [44يہ مفصل گفتگو بحار االنوار ج٢١ص٢٧۶پر ذکر ہوئی ہے۔
] [45حاالنکہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کی اس حرکت کا توڑ کر ليا تھا ليکن پھر بھی بعض ضعيف
االعتقاد لوگ متاثر ہو ئے بغير نہ ره سکے ،يہ لوگ حسرت سے کہتے تھے کہ اے کاش! ہم لوگ بھی ان عيسائيوں کی
طرح مالدار ہوتے،يہاں تک کہ اس بارے ميں سوره آل عمران کی ١۵ويں آيت نازل ہوئی جس ميں ارشاد ہوتا ہے:
بتاوں جو اس مادی سرمايہ سے بہتر ہوان لوگوں کے لئے جو ”)اے پيغمبر !(کہہ دو کہ کيا ميں تم کو ايسی چيز کا پتہ ٔ
تقوی اختيار کرتے ہيں ان کے پروردگار کے نزديک دوسرے جہان ميں ايسے باغ ہيں جن کے درختوں کے نيچے ٰ
نہريں رواں ہيں وه اس ميں ہميشہ اپنی پاکيزه بيويوں کے ساتھ رہيں گے۔
طاووس
ٔ ] [46] [46بحار االنوار ج،٢١ص٣١٩۔سيره ابن ہشام ج،٢ص ،١٧۵فتوح البدان ص ١٧۶اور اقبال ابن
ص۴٩۶۔
] [47البدايہ ،ج،۵ص٩٨۔
] [48البدايہ ،ج،۵ص۵۵۔
] [49کتاب الصفين ،مولفہ ابن مزاحم ،ص ۴۶٨تا ۴٧١سے اقتباس۔
] [50نہج البالغہ ،مکتوب نمبر ١٧سے اقتباس۔
] [51الغدير ،ج،١ص ١۶٣سے ١۶۶تک کا خالصہ ،فرائد السمطين ،باب ،٧٨سمط اول۔
] [52اعيان الشيعہ ،ج ،۴٢ص ٢١۵۔
ٰ
شوری آيت ٢٣۔ سوره
ٔ ][53
] [54سوره احزاب ،آيت ٣٣۔
] [55لہوف ،سيد بن طاووس ،ص ١٧٧و ١٧٨۔
] [56اصول کافی ،ج ،١ص٧٢۔٧٣۔
] [57اصول کافی ،ج ، ١ص ٧۶و ٧٧۔
] [58اصول کافی ،ج ١ص ٧٧۔
] [59اصول کافی ج ١ص ٧٨۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پھال حصه ودوسرا حصہ :
عبد ﷲ کے دوستوں نے کہا:
جاواور ان سے يہ کہو آپ مجھے ميرے معبود کا پتہ بتائيں اور ميرا نام نہ پوچھيں“۔ ”امام عليہ السالم کے پاس واپس ٔ
عبد ﷲ واپس گيا اور جا کر امام عليہ السالم سے عرض کيا:
”آپ مجھے خدا کی طرف ہدايت کريں مگر ميرا نام نہ پوچھيں“۔
امام عليہ السالم نے ايک طرف اشاره کرتے ہوئے اس سے فرمايا:
جاو“۔
”وہاں بيٹھ ٔ
عبد ﷲ بيٹھ گيا۔اسی وقت ايک بچہ ہاتھ ميں ايک انڈا لئے کھيلتا ہوا وہاں پہنچ گيا ،امام عليہ السالم نے بچہ سے فرمايا:
الو انڈه مجھے دے دو“۔
ٔ
امام عليہ السالم نے انڈه کو ہاتھ ميں لے کر عبد ﷲ کی طرف ديکھا اور فرمايا” :اے ديصانی !اس انڈه کی طرف ديکھ جو
ايک چھلکے سے ڈھکا ہوا ہے اور چند جھليوں ميں مقيد ہے۔
١۔موٹی جھلی۔
٢۔موٹی جھلی کے نيچے نازک اور پتلی جھلی پائی جاتی ہے۔
٣۔اور نازک اور پتلی جھلی کے نيچے پگھلی ہوئی چاند ی)انڈه کی سفيدی ( ہے۔
۴۔اس کے بعد پگھال ہوا سونا )انڈے کی زردی(ہے مگر نہ يہ اس پگھلی ہوئی چاندی سے ملتا ہے اور نہ وه پگھلی ہوئی
چاندی اس سونے ميں ملی ہوتی ہے بلکہ يہ اپنی اسی حالت پر باقی ہے نہ کوئی اس انڈے سے باہر آيا ہے جو يہ کہے کہ
دعوی کر سکے کہ ميں نے اسے تباه کيا ہے ،نہ يہ ٰ ميں نے اسے بنايا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر ہی گيا ہے جو يہ
معلوم کہ يہ نر کے لئے ہے ياماده کے لئے اچانک کچھ مدت کے بعد يہ شگافتہ ہوتا ہے اور اس ميں سے ايک پرنده مور
کی طرح رنگ برنگ پروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے کيا تيری نظر ميں اس طرح کی ظريف وباريک تخليقات کے لئے کوئی
مدبر و خالق موجود نہيں ہے ؟ “
عبد ﷲ ديصانی نے يہ سوال سن کر تھوڑی دير تک سر جھکائے رکھا)اس کے قلب ميں ايمان روشن ہو چکا تھا (اور پھر
اس نے بلند آواز ميں کہا ” :ميں اس بات کی گواہی ديتا ہوں کہ خدا کے عالوه کوئی دوسرا معبود نہيں ہے وه وحده الشريک
ہے اور محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماس کے رسول ہيں اور آپ خدا کی طرف سے لوگوں کے امام معين کئے گئے ہيں،
ميں اپنے باطل عقيده سے توبہ کرتا ہوں اور پشيمان ہوں۔][2
ہشام کہتے ہيں :اس ثنوی نے دوگانہ پر ستی سے ہٹ کر اصل وجود خدا کی بحث شروع کردی اس کے سواالت ميں سے
ايک سوال يہ بھی تھا کہ اس نے امام جعفرصادق عليہ السالم سے پوچھا” :خدا کے وجود پر آپ کی کيا دليل ہے ؟“
امام جعفرصادق عليہ السالم” :دنيا کی يہ تمام چيزيں اس بات کی حکايت کرتی ہيں کہ ان کا کوئی بنانے واال ہے جيسے تم
جب کسی اونچی اور مضبوط عمارت کو ديکھتے ہو تو تمہيں يقين ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے واال ہے بھلے ہی تم نے
اس کے معمار کو نہ ديکھا ہو“۔
ثنويہ” :خدا کيا ہے ؟ “
امام عليہ السالم” :خدا ،تمام چيزوں سے ہٹ کر ايک چيز ہے اور دوسرے الفاظ ميں اس طرح کہ وه تمام چيزوں کے معنی
ومفہوم کو ثابت کرتا ہے اوروه تمام کی حقيقت ہے ليکن جسم اور شکل نہيں رکھتا اور وه کسی حس سے نہيں سمجھا جا
سکتا ،وه خيالوں ميں نہيں ہے اور زمانہ کے گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہيں ہوتااور نہ ہی وه اسے بدل سکتا ہے۔][4
١٨۔ منصور کے حضور ميں امام جعفر صادق عليہ السالم اور ابو حنيفہ کا مناظره
ابن شہر آشوب ،مسند ابو حنيفہ سے روايت کرتے ہيں کہ حسن بن زياد نے کہا :ابو حنيفہ )حنفی مذہب کے رہبر ( سے سوال
کيا گيا کہ تم نے ابھی تک جن لوگوں کو ديکھا ہے ان ميں سب سے زياده عظيم فقيہ کون ہے ؟
ابو حنيفہ نے جواب ميں کہا” :لوگوں ميں سے سب سے زياده عظيم فقيہ جعفر بن محمد )امام جعفر صادق عليہ السالم (ہيں،
منصور دوانقی )عباسی حکومت کا دوسر ا خليفہ ( جب امام کو اپنے پاس لے گيا تھا تو اس نے ميرے پاس اس طرح پيغام
بھيجا:
اے ابو حنيفہ !جعفر بن محمد )امام جعفر صاد ق عليہ السالم ( کو لوگ بہت زياده چاہنے لگے ہيں تم کچھ سخت و پيچيده
سواالت آماده کرو ،اور ان سے مناظره کرو“۔ )تاکہ وه ان کے جواب نہ دے پائيں اور اس طرح ان کی مبقوليت ميں کمی ہو
جائے ( ميں نے چاليس سواالت تيار کئے جس کے بعد منصور نے شہر ”حيره“)بصره اور مکہ کے درميان (ميں مجھے
حاضر ہونے کے لئے کہا ،ميں ان کے پاس گيا تو ديکھا امام جعفر صادق عليہ السالم اس کے داہنے جانب بيٹھےے ہوئے
ہيں ،جيسے ہی ميری نظر امام جعفر صادق عليہ السالم پر پﮍی ميں ان کی عظمت وجاللت سے اتنا مرعوب ہوا کہ اتنا آج
تک منصور سے نہيں ہوا تھا۔ميں نے منصور کو سالم کيا ،اس نے مجھے بيٹھنے کا اشا ره کيا ،ميں بيٹھ گيا پھر منصور
نے امام جعفر صادق عليہ السالم کی طرف رخ کر کے کہا” :اے ابا عبد ﷲ !يہ ابو حنيفہ ہے“۔
امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا” :ہاں ميں اسے پہچانتا ہوں“۔
اس کے بعد منصور نے ميری طرف رخ کر کے کہا” :اے ابو حنيفہ تو اپنے سواالت پيش کر“۔
ميں نے امام جعفر صادق عليہ السالم سے اپنا ايک ايک سوال پوچھ ڈاال انھوں نے ان سب کا جواب ديا اور آپ جواب کے
دوران فرماتے تھے“۔اس مسئلہ ميں تم اس طرح کہتے ہو ،اہل مدينہ اس طرح کہتے ہيں ،ان کے بعض جوابات ميرے
نظريئے کے مطابق تھے اور بعض اہل مدينہ کے اور بعض دونوں کے مخالف تھے۔
يہا ں تک کہ ميں نے اپنے چاليس سواالت کر ڈالے اور امام جعفر صادق عليہ السالم نے ہر سوال کا جواب بطور احسن
واکمل ديا ،اس کے بعد ابو حنيفہ کہتا ہے:
”اليس اعلم الناس ،اعلمھم باختالف الناس ۔“
”کيا سب سے زياده آگاه اور دانشور شخص وه نہيں ہے جو لوگوں کے مختلف نظريوں کو سب سے زياده جانتا ہو“۔][5
سارا منصوبہ خاک ميں مل گيا اور اس کی ساری اميدوں پر پانی پھر گيا۔][6
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
يونس” :افسوس کہ ميں علم کالم سے آگاہی نہيں رکھتا ميں آپ پر فدا ہوں آپ نے علم کالم سے منع فرمايا اور کہا ہے” :قابل
افسوس ہيں وه لوگ جو علم کالم سے سروکار رکھتے ہيں اور کہتے ہيں “يہ صحيح ہے ،يہ غلط ہے۔يہ بات نتيجہ تک
پہنچتی ہے ،يہ بات سمجھ ميں آتی ہے اور يہ چيز سمجھ ميں نہيں آتی“۔
امام عليہ السالم” :ميں نے جو منع کيا تھا وه اس صورت ميں تھا کہ اسے اختيار کرنے والے ہماری باتوں کو چھوڑديں اور
جاو اور ديکھو اگر علم کالم جاننے واال ميرا کو ئی شاگرد ہو تو
جو خود جانتے ہيں اسی پر تکيہ کريں۔ اے يونس ! باہر ٔ
آو“۔
اسے يہاں لے ٔ
يونس” :ميں باہر گيا اور تين افراد )حمران بن اعين ،مومن الطاق احول اور ہشام بن حکم (جو علم کالم ميں کافی مہارت
رکھتے تھے انھيں لے کر امام عليہ السالم کی خدمت ميں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ ساتھ ميں نے قيس بن ماصر کو
بھی لے ليا جو ميری نظر ميں علم کالم ميں ان تمام لوگوں سے زياده ماہر تھے اور انھوں نے امام سجاد عليہ السالم سے يہ
علم حاصل کيا تھا۔جب سب لوگ ايک دوسرے کے ساتھ بيٹھ گئے تو امام جعفر صادق عليہ السالم خيمے سے باہر آئے يہ
وہی خيمہ تھا جو کہ مکہ ميں حرم کے بغل ميں آپ کے لئے لگاياگيا تھا اور آپ حج شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی سے
وہاں رہنے لگے تھے تبھی امام کی نظر ايک ايسے اونٹ پر پﮍی جو دوڑتے ہوئے آرہا تھا امام نے فرمايا” :خدا کی قسم
اس اونٹ پر ہشام سوار ہو کر آرہے ہيں“۔
لوگوں نے سوچا کہ امام کی مراد عقيل کے بيٹے ہيں کيونکہ امام انھيں بہت چاہتے تھے اچانک لوگوں نے ديکھا کہ اونٹ
نزديک ہوا اور اس پر” ہشام بن حکم“سوار تھے )امام کے ايک بہترين شاگرد( وه اس وقت نوجوان تھے اور ابھی جلدی ہی
ان کی ڈارھی نکلی تھی موجوده لوگوں ميں ان کی عمر سب سے کم تھی تقريبا ً سبھی ان سے بﮍے تھے۔امام نے ہشام کو
جيسے ہی ديکھا بﮍے پر جوش انداز ميں ان کا استقبال کرتے ہوئے جگہ دی اور ان کی شان ميں يہ حديث فرمائی:
”ناصرنا بقلبہ ولسانہ ويده“۔
ہشام قلب و زبان اور اپنے تمام اعضاء سے ہمارا ناصر ومددگار ہے“۔
اسی وقت امام جعفرصادق عليہ السالم نے اپنے تمام موجود شاگردوں ميں سے ايک ايک سے فرمايا” :اس شامی دانشور
سے تم لوگ بحث ومناظره کرو“۔ آپ نے خصوصی طور پر حمران سے فرمايا” :شامی مرد سے مناظره کرو“۔انھوں نے
اس سے مناظره کيا ابھی چند لمحے نہيں گزرے تھے کہ شامی ،حمران کے سامنے بے بس ہو گيا اس کے بعد امام عليہ
السال م نے مومن الطاق ] [10سے فرمايا” :طاق مرد شامی سے مناظره کرو“۔انھوں نے مرد شامی سے مناظره شروع کيا
ابھی تھوڑی ہی دير گزری تھی کہ طاق مرد شامی پر کامياب و کامران ہوگئے۔
اس کے بعد امام عليہ السالم نے ہشام بن سالم سے فرمايا” :تم بھی شامی مرد سے باتيں کرو“ ،وه بھی گئے اور اس سے
باتيں کی ليکن ہشان بن سالم مرد شامی پر غالب نہيں آئے بلکہ دونوں برابر رہے“۔
اب امام عليہ السالم نے قيس بن ماصر سے فرمايا” :تم جا کر اس سے مناظره کرو“۔قيس نے شامی سے مناظره شروع کيا
امام عليہ السالم اس مناظره کو سن رہے تھے اور مسکرارہے تھے کيونکہ شامی مرد قيس کے مقابل بے بس ہو گيا تھا اور
اس کی بے بسی کے آثار اس کے چہرے پر نماياں تھے جسے اچھی طرح ديکھا جا سکتا تھا۔][11
اس طرح خداوند متعال اپنے بندوں کو قانون ٰالہی سے آگاه کرتا ہے“۔
ہشام” :وه حجت کون ہے ؟ “
شامی دانشور” :وه رسول خدا ہيں“۔
ہشام” :رسول خدا کے بعد کون ہے ؟ “
شامی دانشور” :پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد قرآن وسنت حجت خدا ہيں“۔
ہشام” :کيا قرآن وسنت آج ہمارے اختالف کو ختم کرنے ميں سود مند ثابت ہو سکتے ہيں؟ “
شامی دانشور” :ہاں“۔
ہشام” :پھر ہمارے تمہارے درميان کيوں اختالف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے يہاں مکہ آئے ہو ؟ “
شامی دانشوراس سوال کے جواب ميں خاموش ہو گيا امام جعفرصادق عليہ السالم نے اس سے فرمايا” :کيوں نہيں کچھ
بولتے ؟ “
شامی دانشور” :اگر ہشام کے سوال کا جواب ميں اس طرح دوں کہ قرآن وسنت ہمارے اختالف کو ختم کرتے ہيں تو يہ بے
ہوده بات ہوگی کيونکہ الفاظ قرآن سے طرح طرح کے معنی مراد لئے جاتے ہيں۔اور اگر کہوں کہ ہمارا اختالف قرآن و
ٰ
دعوی کريں کہ ہم سنت کے سمجھنے ميں ہے تو اس طرح ميرے عقيده کو ضرر پہنچتا ہے اور اگر ہم دونوں کے دونوں
حق پر ہيں تو اس صورت ميں بھی قرآن و سنت ہم دونوں کے اختالف ميں کسی طرح سود مند ثابت نہيں ہو سکتے ہيں ليکن
يہی )مذکوره دليل( ميرے عقيده کے لئے نفع بخش ہو سکتی ہے مگر ہشام کے عقيده کے لئے نہيں“۔
امام عليہ السالم” :اس مسئلہ کو ہشام )جو علم وکمال سے سر شار ہے (سے پوچھو وه تمہيں قانع کننده جواب ديں گے“۔
شامی دانشور” :آيا خدا وند متعال نے کسی کو عالم بشريت کے لئے بھيجا ہے تاکہ لوگ آپس ميں متحد و ہم آہنگ رہيں ؟اور
وه ان کے اختالف کو ختم کرے اور انھيں حق وباطل کے بارے ميں توضيح دے ؟
ہشام ” :رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانے ميں يا آج ؟ “
شامی دانشور” :رسو ل خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں تو وه خو دتھے ليکن آج وه شخص کون ہے ؟ “
ہشام نے ،امام عليہ السالم کی طرف اشاره کرتے ہوئے کہا” :يہ شخص جو مسند پر بيٹھے ہوئے ہيں اور ہر جگہ سے لوگ
ان کے پاس آتے ہيں اور يہی حجت خدا اور ہمارے تمہارے اختالف کو ختم کرنے والے ہيں کيونکہ يہ وارث علم نبوت ہيں
جو ان کے باپ دادا سے انھيں مال ہے اور يہی ہيں جو زمين وآسمان کی باتوں کو ہميں بتاتے ہيں“۔
شامی دانشور” :ميں کس طرح سمجھوں کہ يہ شخص )امام جعفر صادق عليہ السالم (وہی حجت حق ہے“۔
ہشام” :جو بھی چاہو پوچھ لوتاکہ ان کے حجت خدا ہونے پر تمہيں دليل مل جائے“۔
شامی دانشور” :اے ہشام ! تم نے يہ کہہ کر ميرے لئے کسی طرح کا کوئی عذر نہيں چھوڑا ہے ،اب مجھ پر واجب ہے کہ
ميں سوال کروں اور حقيقت تک پہنچوں“۔
امام جعفر صادق عليہ السالم” :کيا تم يہی جاننا چاہتے ہو کہ شام سے يہاں تک کہ سفر کے دوران تمہيں کيا کيا چيزيں پيش
آئيں ؟ اور امام عليہ السالم نے اس کے سفر کی کيفيت کے بارے ميں سب کچھ بيان کر ديا۔
امام جعفر صادق عليہ السالم کے بيانات سے شامی دانشور حيرت زده ہو گيا تھا اور اب اس نے حقيقت کو پاليا تھا جس کی
وجہ سے اسی وقت اس کے قلب ميں ايمان کا چراغ روشن ہوگيا اور بﮍی خوشی کے ساتھ اس نے کہا” :آپ نے سچ کہا،
خدا کی قسم ميں اب )حقيقی( اسالم اليا ہوں“۔
امام عليہ السالم” :بلکہ ابھی ابھی تو خدا پر ايمان لے آيااور اسالم ،ايمان سے پہلے ہے۔اسالم کے ذريعہ لوگ ايک دوسرے
کے وارث بنتے ہيں اور آپس ميں شادياں کرتے ہيں ليکن ايمان کے ذريعہ لوگ خدا کے يہاں اجر وثواب کے مستحق ہوتے
ہيں کيونکہ اجر وثواب ايمان پر ہی ہے تو بھی مسلمان تھا ليکن ہماری امامت کو قبول نہيں کرتا تھا اور اب ہماری امامت کو
قبول کرنے کی وجہ سے اپنے تمام نيک اعمال کے ثواب کے الئق ہو گيا ہے۔
شامی دانشور” :آپ نے صحيح فرمايا” :ميں گواہی ديتا ہوں کہ خدا کے عالوه کوئی معبود نہيں اور محمد اس کے رسول ہيں
اور آپ ان کے جانشين ہيں“۔
اس کے بعد امام جعفر صادق عليہ السالم نے اپنے شاگردوں سے ان کے مناظره کی کيفيت اس طرح بيان کی:
آپ نے حمران سے فرمايا” :تم اپنی بات کو احاديث سے ہم آہنگ کرتے ہو اور اس طرح حق تک پہنچ جاتے ہو“۔اور ہشام
بن سالم سے فرمايا” :تم احاديث کو حاصل کرنے ميں کافی جستجو اور سعی کرتے ہو ليکن اس کے حاصل کر نے اور
اسے سمجھنے کی صحيح صالحيت نہيں رکھتے“۔اسی طرح آپ نے مومن الطاق سے فرمايا” :تم قياس اور تشبيہ کے ذريعہ
بحث شروع کرتے ہو اور موضوع بحث سے ہٹ جاتے ہو تم باطل کو باطل ہی کے ذريعہ ر ّد کرتے ہو اور تمہارا باطلی
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
استدالل بہت ہی زربردست ہوتا ہے۔اور آپ نے قيس بن ماصر سے فرمايا” :تم اس طرح بات کرتے ہو کہ اپنی بات کو حديث
کے قريب کرنا چاہتے ہو ليکن دور ہو جاتے ہو ،حق کو باطل کے ساتھ اس طرح مخلوط کرديتے ہو کہ تھوڑا سا حق بہت
سی باطل چيزوں سے انسان کو بے نياز کر ديتا ہے ،تم اور مومن طاق بحث کے دوران ايک طرف سے دوسری طرف بھا
گتے ہو اور تم دونوں اس ميں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہو“۔
يونس کہتے ہيں کہ ميں نے سوچا کہ امام عليہ السالم نے جو قيس اور مومن کے سلسلہ ميں کہا ہے وہی ہشام کے بارے ميں
بھی کہيں گے ليکن آپ نے ہشام کی بﮍی تعريف کی اور ان کی شان ميں فرمايا:
”يا ہشام ال تکاد تقع تلوی رجليک ٕاذا ھممت باالرض طرت“۔
”اے ہشام ! تمہارے دونوں پير کبھی زمين پر ٹکنے نہيں پاتے جيسے ہی تم شکست کے قريب پہنچتے ہو فورا ً اڑجاتے
ہو“۔
)يعنی جيسے ہی تم اپنے اندر ال چاری اور شکست کے آثار محسوس کرتے ہو بﮍی مہارت سے خود کو بچاليتے ہو۔(
اس کے بعد آپ نے ہشام سے فرمايا” :تم جيسے لوگوں کو مقرروں سے مناظره کرنا چاہئے اور يہ دھيان رکھنا چاہئے کہ
بحث کے دوران لغزش نہ ہونے پائے کيونکہ خداوند متعال اس طرح کے مناظره اور بحث ميں ہماری مدد کو پہنچتا ہے تاکہ
ہم اس کے مسائل کو واضح کر سکيں۔][12
اس کے بعد امام جعفر صادق عليہ السالم نے ہشام بن حکم کے بارے ميں فرمايا:
”ہشام ہمارے حق کا دفاع کرنے والے ،ہمارے نظريات کو لوگوں تک پہنچانے والے ،ہماری حقانيت کو ثابت کرنے والے
اور بيہوده باتيناور لغو کالم کرنے والے دشمنوں کا دندان شکن جواب دينے والے ہيں ،جس نے ہشام بن حکم کی پيروی کی
اور ان کے افکار ميں غور خوض کيا اس نے گويا ہماری پيروی کی اور جس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت
کی“۔][13
موسی کاظم عليہ السالم کے حضور ايک جاثليق کا مسلمان ہونا ٰ ٢٣۔امام
امام جعفر صادق عليہ السالم کے خاص شاگرد ہشام بن حکم وغيره سے شيخ صدوق عليہ الرحمةنے روايت کی ہے کہ ايک
بہت ہی پﮍھا لکھا عيسائی تھا جس کا نام ”بريھہ“تھا ليکن اسے لوگ ”جاثليق“] [14کہا کرتے تھے۔وه ستر سال سے مذہب
عيسائيت پر باقی تھا اور وه برابر اسالم اور حق کی تالش ميں جستجو اور کوشش کرتا رہتا تھا۔اس کے ساتھ ايک عورت
رہتی تھی جو سالہا سال سے اس کی خدمت کرتی چلی آرہی تھی۔
بريھہ نے مذہب عيسائيت کے ہيچ اور گھٹيا استدالل کو اس عورت سے اس لئے چھپا رکھا تھا کہ وه اس کے اس راز سے
آگاه نہ ہو سکے۔بريھہ برابر اسالم کے بارے ميں سواالت کيا کرتا تھا اور اسالم کے راہبر علمائے صالح کی تالش ميں رہتا
تھا اور اسالمی مفکروں کے حصول ميں اس نے کافی جستجو اور تحقيق کی تھی ہر فرقہ اور ہر گروه ميں جا کر ان کے
عقائد کے سلسلہ ميں تحقيق کرتا رہتا ليکن حق اس کے ہاتھ نہ آتا تھا۔
جاثليق ان لوگوں سے کہتاہے :اگر تمہارے راہنما حق پر ہوتے تو تم ميں بھی تھوڑا بہت حق ضرور پايا جاتا۔
يہاں تک کہ اس نے اپنی جستجواور تحقيق کے درميان شيعوں کے بارے ميں اور ہشام بن حکم کا نام سنا۔
يونس بن عبد الرحمن )امام جعفر صادق عليہ السالم کے ايک شاگرد (کہتے ہيں کہ ہشام نے کہا” :ايک روز ميں اپنی دکان
)جو باب الکرخ ميں واقع تھی( پر بيٹھا ہوا تھا اور کچھ لوگ مجھ سے قرآن پﮍھ رہے تھے کہ نا آگاه ديکھا کہ عيسائيوں کا
ايک گروه بريھہ کے ساتھ چال آرہا ہے جس ميں بعض پادری تھے اور بعض دوسرے مختلف مذہبی منصب دار تھے وه
تقريبا ً سو افراد تھے ،کالے کپﮍے پہنے ہوئے تھے اور سروں پر عيسائيت کی مخصوص لمبی ٹوپياں لگائے تھے۔بريھہ
جاثليق اکبر بھی ان لوگوں کے درميان موجود تھا وه سب ميری دوکان کے پاس اکٹھا ہو گئے اور بريھہ کے لئے ايک
عصاو ں پر ٹيک لگا کر کھﮍے ہوگئے۔ٔ مخصوص کرسی لگائی گئی وه اس پر بيٹھ گيا۔اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے
بريھہ نے کہا” :مسلمانوں ميں کوئی ايسا علم کالم کامشہور عالم نہيں ہے جس سے ميں نے عيسائيت مذہب کی حقانيت کے
جاوں ،اب ميں تيرے پاس اس بارے ميں بحث نہ کی ہو مگر ميں نے ان ميں ايسی چيز نہيں پايا جس سے ميں شکست کھا ٔ
لئے آيا ہوں تاکہ اسالم کی حقانيت کے بارے ميں تجھ سے مناظره کروں“۔
يونس نے ہشام اور جاثليق کے درميان ہونے والے پورے مناظره کی تفصيل بيان کرنے کے بعد کہا” :تمام نصرانی ادھر
ادھر بکھر گئے۔وه آپس ميں کہہ رہے تھے ”اے کاش !ہم ہشام کے سامنے نہ آئے ہوتے “بريھہ بھی واقعہ کے بعد بہت غم
زده ہوا وه اپنے گھر واپس آيا اور جو عورت اسکی خدمت کرتی تھی اس نے اس سے کہا” :کيا وجہ ہے کہ ميں تجھے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
غمگين و پريشان ديکھ رہی ہوں ؟ “
بريھہ نے ہشام کے ساتھ ہوئے مناظره کی تفصيل اسے بتادی اور کہا کہ ميرے غم زده ہونے کی وجہ يہی ہے۔
اس عورت نے بريھہ سے کہا” :وائے ہو تم پر!!تم حق پر رہنا چاہتے ہو يا باطل پر ؟ “
بريھہ نے جواب ديا” :ميں حق پر رہنا چاہتا ہوں“۔
جاو اور ہٹ دھرمی سے دور رہو کيونکہ يہ ايک طرح کا اس عورت نے کہا” :تمہيں جہاں بھی حق نظر آئے وہيں چلے ٔ
شک ہے اور شک بہت ہی بری چيز ہے اور شک کرنے والے جہنمی ہوتے ہيں“۔
بريھہ نے اس عورت کی بات کو قبول کر ليا اور يہ اراده کرليا کہ صبح ہوتے ہی ہشام کے پاس جائے گا۔ صبح ہوتے ہی وه
ہشام کے پاس پہنچ گيا اس نے ديکھا کہ ہشام کا کوئی ساتھی موجود نہيں ہے اس نے کہا” :اے ہشام ! کيا تمہاری نظر ميں
کوئی ايسا شخص ہے جس کی رائے کو تم بہتر جانتے ہو اور جس کی تم پيروی کرسکو؟“
ہشام نے کہا” :ہاں اے بريھہ!“۔
بريھہ نے اس شخص کے اوصاف کے متعلق پوچھا اور ہشام نے امام جعفرصادق عليہ السالم کے اوصاف بتا ديئے ،بريھہ
امام جعفر صادق عليہ السال م سے مالقات کا مشتاق ہو گيا ل ٰہذا ہشام کے ساتھ اس نے عراق سے مدينہ کا سفر اختيار کيا ،وه
خادمہ بھی ان کے ساتھ تھی ان کا اراده تو يہ تھا کہ امام جعفرصادق عليہ السالم سے مالقات کرينمگر آپ کے گھر کے
موسی کاظم عليہ السالم سے مال قات ہو گئی۔
ٰ داالن ہی ميں امام
”ثاقب المناقب “کی روايت کے مطابق ہشام نے ان کو سالم کيا بريھہ نے بھی ان کی تقليد ميں آپ کو سالم کيا اس کے بعد
موسی کاظم عليہ السالم اس وقت بہت کم عمر ٰ امام جعفرصاد ق عليہ السالم کی خدمت ميں حاضر ہونے کی علت بتائی امام
موسی کاظم عليہ السالم کو سناديا (
ٰ تھے)شيخ صدوق کی روايت کے مطابق ہشام نے بريھہ کی پورا واقعہ امام
عيسی عليہ السالم کے حواريوں ميں سے ايک تھا جو اپنے اوپر ﷲ کے حق کو پہنچانتا تھا“۔
ٰ ”يہ جناب
امام جعفر صادق عليہ السالم کے اکثر اصحاب يہ آرزو کرتے تھے کہ اس کی طرح بلند مقام کے حامل ہو جائيں۔][16
کا نواسہ ہوں (ليکن تيری پيدائش ميں وه سبب نہيں بنے ہيں“۔
ہارون” :واه ! بہت اچھا جواب ہے ،اب ميرا يہ سوال ہے کہ آپ لوگ کيوں خود کو پيغمبر اکرم کی ذريت سے کہتے ہو جب
کہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی کوئی نسل ہی نہيں تھی کيونکہ نسل لﮍکے سے چلتی ہے نہ کہ لﮍکی سے اور
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے کوئی لﮍکا نہيں تھا اور آپ ان کی لﮍکی حضرت زہرا سالم ﷲ عليہا سے ہيں اور
حضرت زہرا سالم ﷲ عليہا کی نسل پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی نہيں ہوگی ؟!
موسی کاظم عليہ السالم” :کيا ميں جوا ب دوں ؟“ ٰ امام
ہارون” :ہاں“۔
سوره انعام کی ٨۴ويں آيت ميں ارشادفرماتا ہے: ٔ موسی کاظم عليہ السالم” :خدا وند متعال قرآن مجيد ميں ٰ امام
اس ُکلﱞ ِمنْ ْ حْ َ َ
ک ن ِزی ال ُم ِسنِينَ َ .وزک ِريﱠا َويَ يَی َو ِعي َسی َو ِٕاليَ َ حْ ْ َجْ َ َ
ﱡوب َويُوسُفَ َو ُمو َسی َوہَارُونَ َوکذلِ َ َ ٔ ْ َ
” َو ِمن ذ ﱢريتِ ِہ دَا ُوو َد َو ُسلي َمانَ َواي َ ﱠ ُ ْ
الصﱠالِ ِحينَ ۔۔۔“][18
،سليمان،ايوب،يوسف،موسی اورہارون ہيں اور ہم اسی طرح نيکوکاروں کو جزاديا کرتے ہيں ٰ ”اور اس کی ذريت سے ٔ
دادو
عيسی والياس يہ سب صالحين ميں سے تھے“۔ ٰ ويحی و
ٰ اور اسی طرح زکريا
عيسی عليہ السالم کا کون باپ تھا ؟ ٰ اب ميں تم سے يہ پوچھتا ہوں کہ جناب
عيسی عليہ السالم کا کوئی باپ نہيں تھا“۔ ٰ ہارون” :جناب
عيسی عليہ السالم کو ماں کی طرف سے ٰ موسی کاظم عليہ السالم” :جس طرح خداوند متعال نے مذکوره آيت ميں جناب ٰ امام
پيغمبروں کی ذريت ميں قرار ديا ہے اسی طرح ہم بھی اپنی ماں جناب فاطمہ زہرا سالم عليہا کی طرف سے پيغمبر صلی
ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی ذريت ميں شامل ہيں“۔
بﮍھاوں؟“ ٔ آگے اور دليل اپنی ميں اس کے بعد آپ عليہ السالم نے فرمايا” :آيا
ہارون نے کہا” :ہاں بﮍھايئے“۔
موسی کاظم عليہ السالم” :خداوند متعال )مباہلہ کے متعلق (فرماتا ہے: ٰ امام
ع أَ ْبنَائَنَا َوأَ ْبنَائَ ُک ْم َو ِن َسائَنَا َو ِن َسائَ ُک ْم َوأَ ْنفُ َسنَا َوأَ ْنفُ َس ُک ْم ثُ ﱠم نَ ْبت َِہلْ فَنَجْ َعلْ لَ ْعنَةَ
ک ِم ْن ْال ِع ْل ِم فَقُلْ تَ َعالَوْ ا نَ ْد ُ َ ئ ا ج ا م
َ ِ ِ ِ َ ِ َ َ َ د ْ
ع ب ن ْ م ہ ي ف ک جﱠ ا ” فَ َ َ
ح ْ
ن م
ﷲِ َعلَی ْال َکا ِذ ِبينَ “][19
)نصاری(کٹ حجتی کرے تو ا ن سے کہہ دوکہ آئيں ہم اپنے بيٹوں کو ٰ ”اب تمہارے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر کوئی
لے آئيں تم اپنے بيٹوں کو ،ہم اپنی عورتوں کو لے آئيں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو لے آئيں اور تم اپنے
نفسوں کو ،پھرمباہلہ کرکے جھوٹوں پر لعنت کريں“۔
دعوی نہيں کيا کہ آنحضرت نے مباہلہ کے وقت حضرت علی ٰ اس کے بعد امام عليہ السالم نے فرمايا” :آج تک کسی نے يہ
،اور فاطمہ زہرا،امام حسن اور امام حسين )سالم ﷲ عليہم(کے عالوه انصار يامہاجرين ميں سے بھی کسی کو ساتھ ليا ہو،
اس واقعہ سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ ”انفسنا“ سے مراد حضرت علی عليہ السالم ہيں اور ”ابنائنا“سے مراد امام حسن اور امام
حسين عليہما السالم ہيں۔خداوند متعال نے حسنين عليہما السالم کو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بيٹے کہہ کر ياد
کيا ہے۔
موسی۔][20 ٰ موسی کاظم عليہ السالم کی واضح دليل قبول کر لی اور کہا :بہت خوب اے ٰ ہارون نے امام
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکو عطا فرمايا” :اس بنا پر خدا ايک ايسا وجود رکھتا ہے جسے ديکھا جا سکتا ہے“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :اگر اس طرح ہوتو جس پيغمبر نے جن وانس کو يہ بتا يا ہے کہ آنکھيں خدا کو ديکھ نہيں سکتی
ہيں اور اپنی مخلوقات کے سلسلے ميں جو اسے آگاہی ہے اس کا احاطہ کرنا اور اس کی ذات کو سمجھنا کسی کے بس ميں
نہيں ہے وه اپنا شبيہ اور مثل نہيں رکھتا ہے وه کون پيغمبر تھا؟ کيا محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی نے اس
طرح نہيں فرماياہے؟
ابو قرة” :ہاں انھوں نے ايسا ہی فرمايا“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :اب يہ کس طرح ممکن ہے کہ جولوگوں کے لئے خدا کی طرف سے آيا ہواور لوگوں کو دعوت
حق دے اور لوگوں سے کہے کہ يہ آنکھيں اس بات پر قادر نہيں ہيں کہ خداکو ديکھ سکيں ،اس کا کوئی شبيہ نہيں اور اس
کے بعد خود ہی پيغمبر يہ کہے کہ ميں نے اپنی دونوں آنکھوں سے خدا کو ديکھا ہے اور اس کے احاطہ علمی کو درک کيا
ہے کياوه انسان کی طرح ديکھا جا سکتا ہے کيا تجھے شرم محسوس نہيں ہوتی ؟ “
بے دين اور ٹيﮍھے دل والے افراد بھی اس طرح کی کوئی نسبت رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو نہيں دے سکے کہ
پہلے انھوں نے اس طرح فرمايا اور اس کے اس بر عکس کہنے لگے۔
سوره نجم )آيت ( ١٣ميں فرماتا ہے:
ٔ ابو قرة” :خدا وند متعال خود قرآن مجيد کے
” َولَقَ ْد َرآهُ ن َْزلَةً أُ ْخ َری“
”اور سول خدا نے خدا کو دوباره ديکھا“۔
سوره نجم کی ١١ويں آيت بھی ہے جس ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ٔ امام علی رضا عليہ السالم” :اسی جگہ
نے جو ديکھا ہے اسے بيان کيا ہے۔
ب ْالفُؤَا ُد َما َرأَی“ ” َما َک َذ َ
”ان کے دل نے جو کچھ ديکھا اسے کبھی نہيں جھٹاليا“۔
اور اسی سوره ميں آيت نمبر ١٨ميں خدا وند متعال نے اس چيز کا بھی پتہ بتا ديا جسے پيغمبر اکرم نے ديکھا ہے:
ت َربﱢ ِہ ْال ُک ْب َری “][21 ”لَقَ ْد َرأَی ِم ْن آيَا ِ
”اس نے اپنے پروردگار کی بﮍی نشانياں ديکھی ہيں“۔
پس وه نشانياں جنھيں رسول نے ديکھی وه ذات خدا کے عالوه کوئی اور چيز ہے۔
)سوره طہ کی ١١٠ويں آيت ميں (ارشاد فرماتا ہے:
ٔ اس طرح خدا وند عالم
” َوالَي ُِحيطُونَ بِ ِہ ِع ْل ًما“
”وه خدا وند عالم سے آگاہی نہيں رکھتے“۔
اس بنا پر اگر آنکھيں خدا کو ديکھ سکتی ہيں اور سمجھ سکتی ہيں تو اس کے آگاہی اور علم کا احاطہ بھی کر سکتی ہيں
)جب کہ مذکوره آيت ميں يہ کہا جارہا ہے کہ اس کے علم وآگاہی کا احاطہ نا ممکن ہے (
ابو قرة” :توتم ان روايتوں کی تکذيب کر رہے ہو جن ميں يہ کہا گيا ہے کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے خدا کو ديکھا
ہے ؟ “
امام علی رضا عليہ السالم” :اگر روايتيں قرآن کے مخالف ہوں گی تو ميں ان کی تکذيب کروں گا اور تمام مسلمان جس
رائے پر متفق ہيں وه يہ ہے کہ نہ اس کے علم وآگاہی کا کوئی احاطہ کر سکتا ہے اور نہ ہی آنکھيں اسے ديکھ سکتی ہے
وه کسی بھی چيز سے شباہت نہيں رکھتا“۔][22
نيز صفوان کہتے ہيں :امام علی رضا عليہ السالم سے ملنے کی اجازت کے لئے ابو قرة نے مجھے واسطہ قرار ديا اور
اجازت ملنے کے بعدوه وہاں پہنچ کر اول چند سوال حرام اور حالل کے سلسلے ميں دريافت کئے يہاں تک کہ ابو قرة نے
پوچھا :آيا آپ اس بات کو قبول کرتے ہيں کہ خدا محمول ہے؟“
امام علی رضا عليہ السالم” :محمول اس کو کہتے ہيں کہ جس پر کوئی فعل حمل ہو ا ہواور اس حمل کی نسبت کسی
دوسرے کی طرف دی گئی ہو اور محمول ايک ايسا لفظ ہے جس کے معنی نقص اور دوسرے کے سہارے کے ہوتے ہيں
جسے نسبت کہا جاتا ہے مثالًتم کہتے ہو زير ،زبر،اوپر نيچے جس ميں زبر اور اوپر کا لفظ قابل تعريف اور اچھا سمجھا
جاتا ہے اور زير اور نچے کا لفظ ناقص سمجھا جاتا ہے اور يہ مناسب نہيں ہے کہ خداوند متعال قابل تغير ہو۔خدا خود حامل
يعنی تمام چيزوں کی نگہداشت کرنے واالہے اور لفظ محمول بغير کسی کے سہارے کے کوئی معنی ومفہوم نہيں رکھتا )اس
بنا پر اس کے لئے لفظ محمول مناسب نہيں ہے( اور جو شخص خدا پر ايمان رکھتا ہے اور اس کی عظمت کاقائل ہے ،اس
لئے تم نے کبھی يہ نہ سنا ہوگا کہ ﷲ سے دعاکرتے وقت اسے ”اے محمول“کہہ کر پکارا جائے! “
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
)سوره حاقہ ،آيت (١٧ميں ارشاد فرماتا ہے:
ٔ ابو قرة” :خدا وند متعال قرآن کريم
ک فَوْ قَہُ ْم يَوْ َمئِ ٍذ ثَ َمانِيَةٌ“ ش َربﱢ َ ” َويَحْ ِم ُل َعرْ َ
”اور اس دن آٹھ لوگ تمہارے پروردگار کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے“۔
)سوره غافر کی ساتويں آيت ميں(فرماتا ہے: ٔ اور اسی طرح
ش“ ْ
”الﱠ ِذينَ يَحْ ِملُونَ ال َعرْ َ
”جوعرش اٹھاتے ہيں“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :عرش ،خدا کانام نہيں ہے بلکہ عرش علم اور قدرت کا نام ہے اور ايک ايسا عرش ہے کہ جس
کے درميان تمام چيزيں پائی جاتی ہيں اس کے بعد خدا وند متعال نے حمل اور عرش کی نسبت اپنے فرشتوں کی طرف دی
ہے۔
ابو قرة” :ايک روايت ميں آيا ہے کہ جب بھی خداوند متعال غضبناک ہوتا ہے تو فرشتے اس کے غصہ کے وزن کو اپنے
کاندھوں پر محسوس کرتے ہيں اور سجده ميں گرجاتے ہيں جب خداکا غصہ ختم ہوجاتا ہے تو ان کے کاندھے ہلکے ہو
جاتے ہيں اور اپنی عام حالت ميں واپس آجاتے ہيں۔کيا آپ اس روايت کی بھی تکذيب کريں گے؟ “
امام علی رضا عليہ السالم نے اس روايت کی ترديد کرتے ہوئے فرمايا” :اے ابو قرة! تو يہ بتا کہ جب خدا وند عالم نے
شيطان پر لعنت کی اور اپنے دربار سے نکاال تب سے لے کر آج تک کيا خدا شيطان سے خوش ہوا ہے ؟)ہرگز اس سے
خوش نہيں ہوا(بلکہ ہميشہ شيطان اور اس کے چاہنے والے اور اس کی پيروی کرنے والوں پر غضبناک ہی رہا ہے )اس
طرح تيرے قول کے مطابق اس وقت سے لے کر آج تک تمام فرشتوں کو سجده کی حالت ميں رہنا چاہئے جب کہ ايسا نہيں
ہے اس سے ثابت ہوگيا کہ عرش خدا کانام نہيں ہے (
پس تو اس وقت کس طرح يہ جرائت کرتا ہے کہ اپنے پروردگار کو تغير و تبدل جيسے صفتوں سے ياد کرے اور اسے
مخلوق کی طرح مختلف حاالت سے متصف کرے۔وه ان تمام چيزوں سے پاک و پاکيزه ہے اس کی ذات غير قابل تغيرو تبدل
ہے ،دنيا کی تمام چيزيں اس کے قبضے ميں ہيں اور وه کسی کا محتاج نہيں۔][23
٢٧۔ ايک منکر خدا سے امام علی رضا عليہ السالم کا مناظره
امام علی رضا عليہ السالم کی خدمت ميں کچھ لوگ بيٹھے ہوئے تھے کہ ايک منکرخداآيا،آپ نے اس سے فرمايا:
”اگر تو حق پر ہے )جب کہ ايسا نہيں ہے(تو اس صوت ميں ہم اور تم دونوں برابر ہيں اور نماز ،روزه،حج،زکات اور ہمارا
ايمان ہميں کسی طرح کا کوئی نقصان نہيں پہنچائے گا اور اگر ہم حق پر ہيں)جب کہ ايسا ہی ہے ( تو اس صورت ميں ہم
کامياب ہيں اور تو گھاٹے ميں ہے اور اس طرح تو ہالکت ميں ہوگا“۔
منکر خدا” :مجھے يہ سمجھائيں کہ خدا کيا ہے ؟کہاں ہے ؟ “
امام علی رضا عليہ السالم ” :وائے ہو تجھ پرکہ تو جس راستے پر چل رہا ہے وه غلط ہے ،خدا کو کيفيتوں )وه کيسا ہے اور
کيسا نہيں ہے( سے متصف نہيں کيا جا سکتا کيونکہ اسی نے اشياء ميں کيف و کيفيت کو پيدا کيا ہے اور نہ ہی اسے مکان
سے نسبت دی جا سکتی ہے کيونکہ اسی نے حقيقت مکان کو وجود بخشا ہے۔اسی بنا پر خدا وند متعال کو کيفيت اور مکان
سے نہيں پہچاناجاسکتا اور نہ ہی وه حواس سے محسوس کياجا سکتا ہے اور نہ ہی وه کسی چيز کی شبيہ ہو سکتا ہے۔
منکر خدا” :اگر خدا وند متعال کسی بھی حسی قوت سے در ک نہيں کيا جا سکتا ہے تو وه کوئی وجود نہيں ہے“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :وائے ہو تجھ پر تيری حسی قوتيں اسے درک کرنے سے عاجز ہوں تو اس کا انکار کر دے گا
ليکن ميں جب کہ ميری بھی حسی قوتيں اسے درک کرنے سے عاجز ہيں ،اس پر ايمان رکھتا ہوں اور يقين رکھتا ہوں کہ وه
ہمارا پروردگار ہے اور وه کسی کی شبيہ نہيں ہے“۔
منکر خدا” :مجھے يہ بتائيں کہ خدا کب سے ہے ؟ “
بتاوں کے کہ خدا کب سے ہے ؟ “
امام علی رضا عليہ السالم” :تو يہ بتا کہ خدا کب نہيں تھا تاکہ ميں تجھے يہ ٔ
منکر خدا” :خدا کے وجود پرکيا دليل ہے ؟ “
امام علی رضا عليہ السالم” :ميں جب اپنے پيکر کی طرف نگاه اٹھاتا ہوں تو ديکھتا ہوں کہ اس کے طول وعرض ميں کسی
طرح کی کوئی کمی و بيشی نہيں کر سکتا اس سے اس کا نقصان دور نہيں کر سکتا اور نہ ہی اس کے فوائد اس تک پہنچا
سکتا ہوں ،اسی بات سے مجھے يقين ہو گيا کہ اس پيکر کا کوئی بنانے واال ہے اور اسی وجہ سے ميں نے وجود صانع کا
ہواوں کا چالنا ،آفتاب اور ماہتاب کو حرکت دينا ،اس بات کی نشانی ہے کہ ان کا کوئی نہاقرار کيا۔اس کے عالوه بادل بنانأ ،
کوئی بنانے واال ضرور ہے۔][24
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٢٨۔مشيت اور اراده کے معنی کے سلسلہ ميں ايک مناظره
يونس بن عبدالرحمن ،امام علی رضا عليہ السالم کے شاگرد تھے ،ان کے زمانہ ميں ”قضا وقدر‘کی بﮍی گرما گرم بحثيں ہو
اکرتی تھيں ل ٰہذ يونس نے سوچا اس کے متعلق خود امام علی رضا عليہ السالم کی زبانی کچھ سننا چاہئے ،يہ اسی مقصد کی
تکميل کے لئے امام علی رضا عليہ السالم کی خدمت ميں آئے اور قضاو قدر کی بحث کے متعلق گفتگو کرنے لگے امام
علی رضاعليہ السالم نے فرمايا:
اے يونس ! قدر يہ کا عقيده قبول نہ کرو کيونکہ ان کا عقيده نہ تو دوزخيوں سے ملتا ہے اور نہ ہی شيطان سے اورنہ
۔۔۔۔][25
يونس” :خدا کی قسم مجھے اس سلسلے ميں قدريہ کا عقيده قبول نہيں ہے ،بلکہ ميرا عقيده يہ ہے کہ خدا کے حکم اور ارداه
کے بغير کوئی چيز وجود ميں آتی ہی نہيں“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :اے يونس ! ايسانہيں ہے ،بلکہ خدا کی مشيت يہ ہے کہ انسان بھی اپنے امور ميں مختار رہے،
کيا تم مشيت خدا کا مطلب جانتے ہو؟ “
يونس” :نہيں“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :مشيت خدا،لوح محفوظ ہے۔کيا تم اراده کے مطلب جانتے ہو؟ “
يونس” :نہيں“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :اراده يعنی وه جو چاہے وه ہو جائے۔کيا تم قدر کے معنی جانتے ہو؟ “
يونس” :نہيں“۔
امام علی رضا عليہ السالم” :قدر يعنی اندازه،تخمينہ اور احاطہ ہے جيسے مدت حيات اورموت کا علم ،اس کے بعد آپ نے
فرمايا” :قضا کا مطلب ہے مضبوط بنانا اور عينی وواقعی قراردينا“۔
يونس ،امام علی رضا عليہ السالم کی اس توضيح سے مطمئن اور خوش حال ہو کر چلنے کو تيار ہوگئے ،انھوں نے امام
کے سر اقدس کو بوسہ ليتے ہوئے آپ سے چلنے کی اجازت چاہی اور کہا” :آپ نے ميری وه مشکل حل کر دی جن کے
متعلق ميں غفلت ميں تھا۔ ][26
٢٩۔ امام علی نقی )ع( کی فضيلت ميں مامون کا بنی عباس سے مناظره
شيخ مفيد عليہ الرحمة کتاب ”ارشاد“ ميں تحرير فرماتے ہيں کہ عباسی دور کا ساتواں خليفہ مامون رشيد ،امام علی نقی عليہ
السالم پر فريفتہ ہو گيا تھا کيونکہ اس نے امام کے علم و فضل اور کمال کا مشاہده ان کےبچپن ميں ہی کر ليا تھا۔اس نے
ديکھا کہ جو علم وکمال امام کی ذات ميں پائے جاتے ہيں وه اس دور کے بﮍے بﮍے علماء اور دانشوروں ميں دکھائی نہيں
پﮍتے۔
انھيں کماالت کی بنا پر مامون نے اپنی لﮍکی )ام فضل(کی شادی آپ سے کر دی اور مامون نے امام کو بﮍی شان وشوکت
سے مدينہ کی طرف روانہ کيا۔حسن بن محمد سليمانی ،ريان بن شبيب سے روايت کرتے ہيں کہ جب مامون نے چاہا کہ اپنی
بيٹی ام فضل کی شادی امام علی نقی عليہ السالم سے کرے اور يہ بات بنی عباس کے کانوں تک پہنچی تو انھيں يہ بات بہت
گراں محسوس ہوئی اور وه مامون کے اس اراده سے بہت ناراض ہوئے انھيں اس بات کا خوف الحق ہوگيا کہ وليعہدی کا
منصب کہيں بنی ہاشم کے ہاتھوں ميں نہ چال جائے۔
المومنين! ہم لوگ تجھے خدا کیاسی وجہ سے بنی عباس کے تمام افراد نے ايک جگہ جمع ہوکر مامون سے کہا” :اے امير ٔ
قسم ديتے ہيں کہ تونے جو ام الفضل کی شادی امام علی نقی عليہ السالم سے کرنے کا اراده کيا ہے اسے ترک کردے ورنہ
اس چيز کا امکان پايا جاتا ہے کہ خداوند متعال نے جو ہميں منصب و تخت و تاج عنايت فرمايا ہے،وه ہمارے ہاتھ سے چال
جائے اور جو مقام ومنزلت اور عزت و حشمت کا لباس ہمارے تن پر ہے وه اتر جائے کيونکہ خاندان بنی ہاشم سے ہمارے
آباء اجداد کی دشمنی سے تو اچھی طرح واقف ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تجھے يہ بھی معلوم ہے کہ گزشتہ تمام خلفاء
نے انھيں شہر بدر کيا اور انھيں ہميشہ جھوٹا سمجھتے رہے اس کے عالوه تونے جو حرکت امام علی رضا عليہ السالم کے
ساتھ کی تھی اس سے ہميں بہت تشويش ہوئی تھی ليکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہميں اس سے بچالياتجھے خدا کی قسم
ہے کہ تو اپنے اس عمل ميں ذرا غور وفکر کر جس نے ہمارے دلوں ميں تکليف پيدا کر دی ہے ،تو اس اراده سے باز آجا
اور ام فضل کا رشتہ خاندان بنی عباس کے کسی مناسب فرد سے کردے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
مامون نے بنی عباس کے اعتراض کے جواب ميں کيا” :تمہارے اور ابو طالب کے بيٹوں کے درميان کينہ پروری اور
دشمنی کی وجہ خود تم لوگ ہو !!اگر انھيں انصاف سے ان کا حق دے دو تو اس منصب خالفت کے وہی حقدار ہوتے ہيں
ليکن جيسا تم نے بيان کيا کہ ہمارے گزشتہ خلفاء نے ان کے ساتھ کيا سلوک کياميں ايسے کاموں سے خدا کی پناه چاہتا ہوں
خدا کی قسم جو بھی ميں نے امام علی رضا عليہ السالم کی وليعہدی کے لئے کيا تھا اس پر ميں ذرا بھی پشيمان نہيں
ہوں۔ميں نے تو يہی چاہاتھا کہ وه خالفت کے امور کو سنبھال ليں مگر خود انھوں نے ہی اسے قبول نہيں کيا اس کے بعد خدا
نے کيا کيا يہ تم لوگوں نے خود يکھا۔ليکن جس کی وجہ سے ميں نے امام جواد کو اپنا داماد بنانا چاہا ہے وه ان کا بچپن کا
علم وفضل ہے وه تمام لوگوں سے افضل وبرتر ہيں اور ان کی عقل کی بلندی اس عمر ميں بھی تعجب خيز ہے ،ميں تو يہ
سوچتا ہوں کہ ميری نظروں نے جو ديکھا ہے اس کا تم لوگوں نے بھی مشاہده کيا ہے اور بہت جلد ہی تمہيں بھی معلوم ہو
جائے گا کہ ميں نے جس راستہ کا انتخاب کيا ہے وہی درست ہے“۔
ان لوگوں نے مامون کے جواب ميں کہا” :بيشک اس کم عمر نوجوان کی رفتار و کردار نے تجھے تعجب ميں ڈال ديا ہے
اور اس طرح اس نے تجھے اپنا گرويده بنا ليا ہے ليکن جو بھی ہو وه ابھی بچہ ہے اس کا علم و ادراک ابھی کم ہے اسے
کچھ دن چھوڑ دے تاکہ وه با عقل اور علم دين ميں فقيہہو جائے اس کے بعد جو تيرا دل چاہے کرنا“۔
مامون نے کہا” :تم لوگوں پر وائے ہو ،ميں اس جوان کو تم سے زياده جانتاہوں اور اسے بہت اچھی طرح سے پہچانتا
ہوں،يہ جوان اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جوخدا کی طرف سے علم لے کر آتا ہے اور اس کا علم المحدود ہے کيونکہ
آباواجداد علم دين ميں تمام لوگوں سے بے نياز تھے اور دوسرے لوگ ان اس کے علم کا تعلق امام سے ہوتا ہے اس کے تمام ٔ
کے کمال کے سامنے بے حيثيت تھے اور ان کی ڈيوڑھی پر علم وکمال کے حصول کے لئے ہاتھ پھيالئے کھﮍے رہتے
تھے اگر تم ميری باتوں کی تصديق کرنا چاہتے ہو تو ان کا امتحان لے لو تاکہ تمہارے نزديک بھی ان کا فضل وکمال واضح
ہو جائے“۔
ان لوگوں نے کہا” :يہ اچھا مشوره ہے اور اس بات پر ہم خوش بھی ہيں کہ اس بچہ کی آزمائش ہوجائے اب تو ہميں اس بات
کی اجازت دے کہ ہم کسی ايسے شخص کو لے آئيں جو اس نوجوان سے مسائل شرعيہ کے بارے ميں بحث ومناظره کر
سکے وه چند سواالت کرے گا اگر انھوں نے اس کے سواالت کے صحيح جواب ديئے تو ہم تجھے اس کا م سے ہر گز نہيں
روکيں گے اور اس طرح تجھ پر اپنے پرائے کا فرق بھی واضح ہو جائے گا اور اگر يہ نوجوان جواب دينے سے قاصر رہا
تو تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہمارا يہ مشوره مستقبل کے لئے کتنا مفيد ہے“۔
مامون نے کہا” :جہاں بھی تم چاہوان کا امتحان لے سکتے ہو ميری طرف سے يہ اجازت ہے“۔
وه لوگ مامون کے پاس سے چلے گئے اور بعد ميں سب نے مل کر يہ پيش کش کر دی کہ مشہور زمانہ عالم اور قاضی
يحيی بن اکثم کو امام کے مقابل الياجائے۔
ٰ
يحيی ان سواالت کے سامنے حيرت زده ہو گيا اور اس کی بے بسی اور الچاری کی کيفيت چہره سے ظاہرہونے لگی،اس ٰ
کی زبان لکنت کرنے لگی۔اس کی يہ حالت ديکھ کر تمام لوگوں نے امام محمد تقی عليہ السالم کے سامنے اسے بے بس اور
الچار سمجھ ليا۔
مامون نے کہا” :خدا وند عالم کی اس نعمت پر شکر ادا کرتا ہوں کہ جو ميں نے سوچ رکھا تھا وہی ہوا ،اس کے بعد اس نے
تمام خاندان کے افراد کی طرف رخ کر کے کہا” :تم لوگوں نے ديکھا“۔اس کے بعد امام محمد تقی عليہ السالم کا نکاح مامون
کی بيٹی سے ہو گيا۔][27
دوسرا حصہ:
تفقدونی“کہا کرتے تھے۔اس طرح کی باتيں آپ اور دوسرے معصوم ائمہ عليہم السالم سے مخصوص ہيں ان کے عالوه جس
ٰ
دعوی کيا وه ذليل ہوا،اب آپ ايک باہمت عورت کا سبط ابن جوزی کے ساتھ مناظره مالحظہ فرمائيں: نے بھی اس کا
سبط ابن جوزی نے بھی ايک دن منبر پر جانے کے بعد دعوائے سلونی کرتے ہوئے اعالن کرديا کہ اے لوگو! تمہيں جو
کچھ بھی پوچھنا ہے پوچھ قبل اس کے ميں تمہارے درميان نہ رہوں ،منبر کے نيچے بہت سے شيعہ سنی مرد اور عورت
بيٹھے ہوئے تھے۔يہ سنتے ہی ان ميں سے ايک عورت کھﮍی ہوئی اور اس نے سبط ابن جوزی سے اس طرح سوال کيا۔
بتاوکہ کيا يہ خبر صحيح ہے کہ جب عثمان کو قتل کر ديا گيا تو ان کا جنازه تين دن تک پﮍا رہا اور کوئی بھی
تم مجھے يہ ٔ
انھيں دفن کرنے نہ آيا؟
سبط” :ہاں ايسا ہی ہے ۔“
عورت” :کيا يہ بھی صحيح ہے کہ جب جناب سلمان عليہ الرحمة نے مدائن ميں وفات پائی تو حضرت علی عليہ السالم مدينہ
)يا کوفہ( سے مدائن گئے اور آپ نے ان کی تجہيز وتکفين ميں شرکت کی اور ان کی نماز جناز ه پﮍھائی ؟“
سبط” :ہاں صحيح ہے“۔
”ليکن علی عليہ السالم عثمان کی وفات کے بعد ان کے جنازے پر کيوں نہيں گئے جب کہ وه خود مدينہ ميں موجود تھے اس
طرح دوہی صورت ره جاتی ہے يا توحضرت علی عليہ السالم نے غلطی کی کہ ايک مومن کی الش تين دن تک پﮍی رہی
اور آپ گھر ہی ميں بيٹھے رہے يا پھر عثمان غير مومن تھے جس کی وجہ سے حضرت علی عليہ السالم نے ان کی تجہيز
وتکفين ميں کسی طرح کا کوئی حصہ نہيں ليا اور اپنے عمل کو اپنے لئے درست سمجھا۔”يہاں تک کہ انھيں تين روز بعد
مخفی طور پر قبرستان بقيع کے پيچھے يہوديوں کے قبرستان ميں دفن کياگيا جيسا کہ طبری نے اپنی تاريخ ميں يہ ذکر کيا
ہے )ج،٩ص١۴٣۔(
ابن جوزی اس عورت کے اس سوال کے آگے بے بس ہو گيا کيونکہ اس نے ديکھا کہ اگر دونوں ميں سے کسی ايک کو
بھی خطا کار ٹھہرا ئے گا تو يہ بات خالف عقيده ہوجائے گی کيونکہ اس کے نزديک دونوں خليفہ حق پر تھے ل ٰہذا اس نے
اس عورت کو مخاطب کر تے ہوئے کہا:
اے عورت !وائے ہوتجھ پر،اگر تو اپنے شوہر کی اجازت سے گھر کے باہر آئی کہ نامحرموں کے درميان مناظره کررہی
ہے ،تو خدا تيرے شوہر پر لعنت کرے اور اگر بغير اجاز ت آئی ہے تو خدا تجھ پر لعنت کرے“۔
ايک دن ابوحنيفہ بہلول کو نظر آگئے انھوں نے زمين سے ايک ڈھيالاٹھايا اور ان کی پيشانی پر مار ديا ابو حنيفہ نے ہارون
سے بہلول کی شکايت کی اور ہارون نے بہلول کو بلواليا اور ان کی سرزنش کرنے لگا تو آپ نے ابو حنيفہ کی طرف
مخاطب ہو کر کہا:
دکھاو ورنہ اس عقيده کو غلط کہو جو تم يہ کہتے ہو کہ ہر موجود چيز کا دکھائی دينا ضروری ٔ ہے رہا ہو ١۔ تمہيں جو درد
ہے۔
٢۔ اسی طرح تمہارا يہ بھی کہنا ہے کہ کوئی چيز اپنی ہم جنس شئے کو نقصان نہيں پہنچاتی تو پھر تمہيں کيوں درد ہو رہا
ہے جب کہ تم خود مٹی سے بنے ہوئے ہو)اور ڈھيال بھی مٹی کا تھا(؟
٣۔ تم تو يہ کہتے ہو کہ بندوں کے سارے کام خدا کی طرف منسوب ہوتے ہيں تو پھر مجھ سے کيوں شکوه کرتے ہو کيونکہ
يہ ڈھيال تو خدا نے مارا ہے۔
يہ سن کر ابو حنيفہ خاموشی سے اس بزم سے نکل گئے وه سمجھ گئے کہ بہلول نے يہ ڈھيال ميرے اس عقيده کی وجہ سے
مارا تھا۔][31
ضرار” :ميں اس حديث کو قبول کرتا ہوں ۔“)اس بات کی طرف توجہ رہے کہ ضرار نے کہا تھا کہ کسی کا باطن صرف
وحی کے ذريعہ پہچانا جا سکتا ہے اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی تمام باتيں وحی ٰالہی سے ہوا کرتی تھيں(۔
ہشام” :کيا يہ صحيح ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی اس طرح کی تعريف اس بات کی دليل ہے کہ حضرت
علی عليہ السالم باطنی طور پر بھی ايسی ہی صالحيتيوں کے مالک تھے؟ ورنہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی
تعريف غلط ہو جائے گی۔“
ضرار” :ہاں يہ اس بات کی دليل ہے۔يقينا ً حضرت علی عليہ السالم باطنی طور پر بھی ويسی ہی صالحيتوں کے مالک رہے
ہوں گے تب ہی تو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ان کی تعريف کی ۔“
ہشام” :بس اب اس طرح خود تمہارے قول سے حضرت علی عليہ السالم کی امامت ثابت ہو گئی کيونکہ تم نے خود ہی کہا
ہے کہ باطن کی اطالع وحی کے ذريعہ ممکن ہے اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے آپ کی تعريف کی ہے اور وه
بغير وحی کے کسی کی تعريف نہيں کرسکتے ل ٰہذا حضرت علی عليہ السالم دوسرے تمام لوگوں کے مقابل زياده خالفت کے
حقدار ہوئے۔][33
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کوئی اجازت دی۔“
ابو حنيفہ” :اپنی بھائی سے کہو کہ عائشہ اور حفصہ دونوں کا مہر رسول پر باقی تھا ،ان دونوں نے اس کی جگہ رسو ل
خدا کے گھر کا وه حصہ اپنے باپ کو بخش ديا۔
فضال” :اتفاق سے يہ دليل بھی ميں نے اپنے بھائی سے بيان کی تھی تو اس نے جواب ميں کہا کہ خداوند عالم قرآن ميں
ارشاد فرما تا ہے۔
ُ ٔ ﱠ
ک الالتِی آتَيْتَ اجُو َرہ ُّن“][37
اج َ ْ َ
ک از َو َٔ ” يَاأَيﱡہَا النﱠبِ ﱡی ِٕانﱠا أَحْ للنَا ل َ
َ ْ َ
”اے نبی!ہم نے تمہارے لئے تمہاری ان ازواج کو حالل کيا ہے جن کی اجرتيں )مہر(تم نے ادا کر دی“۔
اس سے تو يہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اپنی زندگی ميں ہی ان کا مہر ادا کر ديا تھا“۔
ابو حنيفہ” :اپنے بھائی سے کہو کہ عائشہ حفصہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بيوياں تھيں انھوں نے ارث کے
طور پر ملنے والی جگہ اپنے باپ کو بخش دی لہٰذا وه وہاں دفن ہوئے“۔
فضال” :اتفاق سے ميں نے بھی يہ دليل بيان کی تھی مگر ميرے بھائی نے کہا کہ تم اہل سنت تو اس بات کا عقيده رکھتے ہو
کہ پيغمبر وفات کے بعد کوئی چيز بطور وراثت نہيں چھوڑتا اور اسی بنا پر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بيٹی
جناب فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا کو تم لوگوں نے فدک سے بھی محروم کرديا اور اس کے عالوه اگر ہم يہ تسليم بھی کر ليں
کہ خداکے نبی وفات کے وقت ارث چھوڑتے ہيں تب يہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب رسول صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا
انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی نو بيوياں تھيں۔] [38اور وه بھی ارث کی حقدار تھيں اب وراثت کے قانون کے لحاظ سے
گھرکا آٹھواں کاحصہ ان تمام بيويوں کا حق بنتا تھا اب اگر اس حصہ کو نو بيويو ں کے درميان تقسيم کيا جائے تو ہر بيوی
کے حصے ميں ايک بالشت زمين سے زياده نہيں کچھ نہيں آئے گا ايک آدمی کی قد وقامت کی بات ہی نہيں“۔
ابو حنيفہ يہ بات سن کر حيران ہو گئے اور غصہ ميں آکر اپنے شاگردوں سے کہنے لگے:
”اسے باہر نکالو يہ خود رافضی ہے اس کا کوئی بھائی نہيں ہے“۔][39
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
” َو َکانَ َس ْعيُ ُک ْم َم ْش ُکورًا“][41
”اور تمہاری سعی و کوشش مشکور ہے“۔
حجاج” :شاباش ليکن يہ بتا کہ تونے حضرت علی عليہ السالم کو نوح و لوط عليہما السالم پر کس دليل کے ذريعہ فضيلت دی
“۔
حره” :خداوند متعال انھيں ان لوگوں سے افضل و بر تر جانتا ہے جيسا کہ فرماتا ہے:
صالِ َحي ِْن فَخَانَتَاہُ َما فَلَ ْم يُ ْغنِيَا َع ْنہُ َما ِم ْن ﷲِ َش ْيئًا وط َکانَتَا تَحْ تَ َع ْب َدي ِْن ِم ْن ِعبَا ِدنَا َ وح َواِ ْم َرأَةَ لُ ٍ َ
ب ﷲُ َمثَالً ِللﱠ ِذينَ َکفَرُوا اِ ْم َرأةَ نُ ٍ ض َر َ
” َ
اخلِينَ “][42 ﱠ ﱠ َ ُ
َوقِي َل ادخالالنا َر َم َع الد ِْ
”خدانے کافر ہونے والے لوگوں کو نوح و لوط کی بيويوں کی مثاليں دی ہيں۔يہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے تحت تھيں
مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خيانت کی ل ٰہذا ان کا ان دونوں سے تعلق انھيں کوئی فائده نہ پہنچا سکا اور ان سے کہا گيا کہ
جاو“۔
جہنم ميں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی ٔ
ليکن علی عليہ السالم کی زوجہ ،پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بيٹی جناب فاطمہ سالم ﷲ عليہا ہيں جن کی
خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔
حجاج :شاباش حره! ليکن يہ بتا تو کس دليل کی بنا پر ابو االنبياء حضرت ابراہيم عليہ السالم پر حضرت علی عليہ السالم کو
فضيلت ديتی ہے؟
حره” :خدا وند متعال قرآن مجيد ميں فرماتا ہے کہ جناب ابراہيم عليہ السالم نے عرض کيا:
ط َم ِئن قَ ْل ِبي“][43 ” َربﱢ أَ ِر ِنی َک ْيفَ تُحْ ِی ْال َموْ تَی قَا َل أَ َولَ ْم تُ ْؤ ِم ْن قَا َل بَلَی َولَ ِک ْن ِليَ ْ
”ابراہيم نے کہا پالنے والے! تو مجھے يہ دکھا دے کہ تو کيسے مردوں کو زنده کرتا ہے تو خدا نے کہا کيا تمہارا اس پر
ايمان نہيں ہے تو انھوں نے کہا کيوں نہيں مگر ميں اطمينان قلب چاہتا ہوں“۔
ليکن ميرے موال علی عليہ السالم ا س حد تک يقين کے درجہ پر فائز تھے کہ آپ نے فرمايا:
”لوکشف الغطا ء ماازددت يقينا“۔
”اگر تمام پردے ميرے سامنے سے ہٹا دئے جائيں تو بھی ميرے يقين ميں کوئی اضافہ نہيں ہوگا۔“
اور اس طرح نہ پہلے کسی نے کہا تھا اور نہ اب کوئی ايسا کہہ سکتا ہے ۔“
موسی کليم ﷲ پر فضيلت ديتے ہے؟“۔ ٰ حجاج” :شاباش ليکن تو کس دليل سے حضرت علی کو جناب
حره” :خداوند عالم قرآن ميں ارشاد فرماتا ہے:
”فَ َخ َر َج ِم ْنہَا خَا ِئفًا يَتَ َرقﱠبُ “ ][44
”وه وہاں سے ڈرتے ہوئے )کسی بھی حادثہ کی(تو قع ميں )مصر(سے باہر نکلے“۔
ليکن حضرت علی عليہ السالم کسی سے نہيں ڈرے ،شب ہجرت رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بستر پر آرام سے
سوئے اور خدا نے ان کی شان ميں يہ آيت نازل فرمائی:
ضا ِة ﷲِ “][45 اس َم ْن يَ ْش ِری نَ ْف َسہُ ا ْبتِغَا َء َمرْ َ ” َو ِم ْن النﱠ ِ
”اور لوگوں ميں سے کچھ ايسے ہيں جو اپنے نفس کو ﷲ کی رضا کے لئے بيچ ديتے ہيں“۔
داود عليہ السالم پر علی کو کس دليل سے فضيلت حاصل ہے ؟“ حجاج” :شاباش ليکن اب يہ بتا کہ ٔ
دادو عليہ السالم کے سلسلہ ميں فرماتا ہے: حره” :خداوند متعال جناب ٔ
ک ع َْن َس ِب ِ ﱠ ْ
ق َوالَتَتﱠ ِب ْع الہَ َوی فَي ِ ْ
اس ِبال َح ﱢ ض فَاحْ ُک ْم بَ ْينَ النﱠ ِ َ ک َخلِيفَةً فِی ْ ٔ ” يَادَا ُوو ُد ِٕانﱠا َج َع ْلنَا َ
يل ﷲِ “][46 ُضل َ االرْ ِ
دادو! ہم نے تمہيں زمين پر خليفہ بنا يا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درميان حق سے فيصلے کرو اور اپنی خواہشات کو ”اے ٔ
جاو گے“۔ ٔ بھٹک سے خدا راه تم طرح اس کہ کرو نہ پيروی
داود کی قضاوت کس سلسلے ميں تھی؟” حجاج” :جناب ٔ
حره” :دو آدميوں کے بارے ميں کہ ان ميں سے ايک بھيﮍ وں کا مالک تھا اور دوسرا کسان ،اس بھيﮍ کے مالک کی بھيﮍوں
نے اس کے کھيت ميں جاکر اس ميں کھيتی چرلی ،اور اس کی زراعت کو تباه و برباد کرديا ،يہ دونوں آدمی فيصلہ کے لئے
حضرت داؤد عليہ السالم کے پاس آئے اور اپنی شکايت سنائی ،حضرت داؤد نے فرمايا :بھيﮍکے مالک کو اپنی تمام بھيﮍوں
کو بيچ کر اس کا پيسہ کسان کو دے دينا چاہئے تاکہ وه ان پيسوں سے کھيتی کرے اور اس کا کھيت پہلے کی طرح ہو جائے
ليکن جناب سليمان نے اپنے والد سے کہا۔”آپ کو يہ فيصلہ کرنا چاہئے کہ بھيﮍوں کا مالک کسان کو دودھ اور اون دےدے
تاکہ اس کے ذريعہ اس کے نقصان کی تالفی ہوجائے“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس سلسلہ ميں خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا ہے” :ففہمنا سليمان“ ][47
” ہم نے حکم )حقيقی( سليمان کو سمجھا ديا“۔
ليکن حضرت علی عليہ السالم فرماتے ہيں:
”سلونی قبل ان تفقدونی“۔
”مجھ سے سوال کرلو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو“۔
جنگ خيبر کی فتح کے دن جب حضرت رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی خد مت ميں تشريف لے آئے تو آنحضرت
نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمايا:
”أفضلکم و أعلمکم و أقضاکم علي“۔
”تم ميں سے افضل اور سب اچھا فيصلہ کرنے والے علی ہيں“۔
بتاو کہ کس دليل سے علی جناب سليمان عليہ السالم سے افضل ہيں‘۔ حجاج” :شاباش ليکن اب يہ ٔ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
عالقہ سے تعلق رکھتے ہو؟“۔
ابو الہذيل” :بصره سے“۔
گمنام شخص” :بس علم وعمل سے آشنا ہو ،تمہار نام کيا ہے ؟“
ابو الہذيل” :مجھے ابو الہذيل عالف کہتے ہيں“۔
گمنام شخص” :وہی جو بہت ہی مشہور کالمی ہے ؟“
ابو الہذيل” :ہاں“۔
يہ سن کر اس نے ايک فرش کی طرف اشاره کيا اور تھوڑی دير بات چيت کرنے کے بعد اس نے مجھ سے سوال کيا:
”امامت کے بارے ميں تيرا کيا نظريہ ہے؟“
ابو الہذيل” :تيری مراد کون سی امامت ہے؟“
گمنام شخص” :ميری مرا د يہ ہے کہ تونے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ان کے جانشين کے طور
پر کسے دوسرے لوگوں پر ترجيح ديتے ہوئے خليفہ تسليم کيا ہے ؟“
ابو الہذيل” :اسی کو جسے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ترجيح دی“۔
گمنام شخص” :وه کون ہے ؟“
ابو الہذيل” :وه ابو بکر ہيں“۔
گمنام شخص” :تم نے انھيں کيوں مقدم جانا؟“
ابو الہذيل” :کيونکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرماياہے ” :لوگوں ميں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو
اور اسے اپنا رہبر سمجھو“۔تمام لوگ ابو بکر کو مقدم سمجھنے کے لئے راضی ہوئے ہيں“۔
گمنام شخص” :اے ابو الہذيل ! يہاں تونے خطا کی ہے۔کيونکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرماياہے” :اپنے
ميں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو اور اسی کو اپنا رہبر جانو“ ،ميرا اعتراض يہ ہے کہ خود ابو بکر نے منبر سے
کہا” :وليتکم و لست بخيرکم،ميں تم ميں سب سے بہتر نہيں ہوں“۔اگر لوگ ابو بکر کے جھوٹ کو بہتر سمجھتے ہيں اور
انھيں اپنا رہبر بناتے ہيں تو گويا سب کے سب رسول اسالم کے قول کے مخالفت کر رہے ہيں اور اگر خود ابو بکر جھوٹ
کہتے ہيں کہ ”ميں تم ميں سب سے بہتر نہيں ہوں“ ،تو جھوٹ بولنے والے کے لئے مناسب نہيں کہ وه منبر رسول پر جائے
اور تم نے جو يہ کہا تھا کہ ابو بکر کی رہبری پر سب راضی تھے تو يہ اس وقت درست ہوگا جب انصار ومہاجرين نے
ايک دوسرے سے يہ نہ کہا ہوتا کہ “ايک امير ہمارے قبيلے سے ايک تمہارے قبيلے سے“ ليکن مہاجرين کے درميان زبير
نے کہا کہ ميں علی عليہ السالم کے عالوه کسی اور کے ہا تھ پر بيعت نہيں کروں گا ان کی تلوار کو توڑ ديا گيا اور ابو
سفيان نے حضرت علی عليہ السالم کے پا س آکر کہا ”اگر آپ عليہ السالم چاہيں تو مدينے کی گليوں کو پياده اور سوار
فوجيوں سے بھر دوں“۔جناب سلمان نے بھی باہر آکر کہا ”انھوں نے کيا اور نہيں بھی کيا انھيں معلوم ہی نہيں کہ کيا کيا“۔
ابوبکر کی بيعت کے سلسلہ ميں خالف اصول کام ہوا ،اسی طرح جناب مقداد اور ابوذر نے بھی اعتراض کيا ان سب سے يہ
تو ثابت ہوتا ہے کہ سب لوگ ابو بکر کی خالفت سے راضی نہيں تھے۔
اے ابو الہذيل! ميں تجھ سے چند سواالت کرنا چاہتاہوں تو مجھے اس کا جواب دے“۔
١۔مجھے بتا کيا يہ درست نہيں ہے کہ ابو بکر نے باالئے منبر يہ اعالن کيا:
”ان لي شيطانا ً يعترينی ،فاذا رائيتمونی مغبضا ً فاحذرونی“۔
”ميرے لئے ايک شيطان ہے جو مجھے بہکاديا کرتا ہے ل ٰہذا ميں غصہ ميں رہا کروں تو مجھ سے دور ہو جايا کرو“۔
وه در اصل يہ کہنا چاہتے تھے کہ” ميں پاگل ہوں“۔ل ٰہذا تم لوگوننے آخر کيوں ايسے شخص کو اپنا رہبر معين کر ليا؟“
٢۔تويہ بتا کہ جو شخص اس بات کا معتقد ہو کہ رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے کسی کواپنا جانشين نہيں بنا يا مگر
ابو بکر نے عمر کو اپنا جانشين معين کيا جب کہ اس کے بعد عمر نے اپنا جانشين کسی کو نہيں بنايا کيا اس کے اعتقاد ميں
ايک طرح کا تناقض نہيں پايا جاتا۔تيرے پاس اس کا کيا جواب ہے؟
شوری تشکيل دی تو يہ کيوں کہا کہ يہ چھ کے چھ جنتی ہيں اور اگر ٰ ٣۔مجھے يہ بتا جب عمر نے اپنی خالفت کے بعد ايک
ان ميں سے دوافراد چار کی مخالفت کريں تو انھيں قتل کر دو اور اگر تين تين افراد آپس ميں ايک دوسرے کی مخالفت کريں
تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف رہے اس گروه کو قتل کردينا۔ ذرا يہ بتا کہ يہ کس طرح صحيح ہوگا اور کہاں کی ديانت
داری ہوگی کہ اہل بہشت کو قتل کرنے کا حکم صادر کيا جائے ؟
۴۔تو يہ بھی بتا دے کہ ابن عباس اور عمر کی مالقات اور ان کے درميان ہونے والی گفتگو کو تو کس کے عقيده کے مطابق
سمجھتا ہے ؟
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
جب عمر بن خطاب زخمی ہونے کی وجہ سے بستر پر تھے اور عبد ﷲ ابن عباس ان کے گھر گئے تو ديکھا کہ وه بستر پر
تﮍپ رہے ہيں ،ابن عباس نے پوچھا:کيوں تﮍپ رہے ہو؟تو عمر نے کہا“۔ميں اپنی تکليف کی وجہ سے نہيں تﮍپ رہا ہوں
بلکہ اس لئے تﮍپ رہا ہوں کہ ميرے بعد رہبری نہ جانے کس کے ہاتھوں ميں ہوگی۔ اس کے بعد ابن عباس اور عمر کے
درميان اس طرح گفتگو ہوئی۔
ابن عباس” :طلحہ بن عبيد ﷲ کو لوگوں کا رہبر بنا دو“۔
عمر” :وه سخت مزاج ہے ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اس کے بارے ميں ايسا ہی فرمايا کرتے تھے ،ميں اس
طرح کے تند خو شخص کے ہاتھ ميں رہبری کی مہار نہيں دينا چاہتا“۔
ابن عباس :زبير بن عوام کو رہبر بنا دو“۔
ُ
عمر :وه کنجوس آدمی ہے ميں نے خود اسے ديکھا ہے وه اپنی بيوی کی مزدوری جو اس کے اون بننے کی تھی اس کے
بارے ميں بﮍی سختی سے پيش آتا تھا ،ميں کنجوس کے ہاتھ ميں رہبری نہيں دے سکتا“۔
ابن عباس” :سعد وقاص کو رہبر بنادو“۔
عمر” :وه تير و تلوار اور گھوڑوں سے کام رکھتا ہے ،ايسے افراد رہبری کے لئے مناسب نہيں ہوتے“۔
ابن عباس” :عبد الرحمن بن عوف کو کيوں نہيں رہبر بنا ديتے ؟“
عمر” :وه اپنے گھر کو تو چال نہيں سکتا“۔
ابن عباس” :اپنے بيٹے عبد ﷲ کو بنا دو“۔
عمر” :نہيں خدا کی قسم نہيں۔جو شخص اپنی بيوی کو طالق نہيں دے سکتا اس کے حوالہ ميں يہ رہبری نہيں کر سکتا“۔
ابن عباس” :عثما ن کو رہبر بنا دو“۔
عمر” :خدا کی قسم )تين بار کہا(اگر ميں عثمان کو رہبر بنا دوں گا تو اس کا مطلب يہ ہوگا کہ ميں نے ”طائفہ معيط“)بنی
اميہ کی ايک شق (کو مسلمانوں کی گردن پر سوار کر ديا جس سے مجھے يہ بھی خطره ہے کہ لوگ کہيں عثمان کو قتل کر
ڈاليں“۔
ابن عباس کہتے ہيں” :اس کے بعد ميں خاموش ہو گيا اور چونکہ حضرت علی عليہ السالم اور عمر کے درميان عداوت تھی
اس لئے ميں نے ان کا نام نہيں ليا ليکن عمر نے خود مجھ سے کہا” :اے ابن عباس ! اپنے دوست کانام لو“۔
ميں نے کہا” :تو علی کو خليفہ بنادو“۔
عمر :نے کہا :خدا کی قسم! ميں صرف اس وجہ سے پريشان ہوں کہ ميں نے حق کو حقدار سے چھين ليا ہے۔
می ،و ان يطيعوا يدخلہم الجنة“۔”و ﷲ لئن وليتہ ليحملنہم علی المحجة العظ ٰ
خدا کی قسم! اگر ميں علی عليہ السالم کو لوگوں کا رہبر بنا دوں تو وه يقينا لوگوں کو شاہراه حق وہدايت تک پہنچا ديں گے ،
اور اگر لوگ ان کی پيروی کريں گے تو وه انھيں جنت ميں داخل کرديں گے“۔
ٰ
عمر نے يہ سب کچھ کہا ،مگر پھر بھی اپنے بعد خالفت کے مسئلہ کو چھ نفری شوری کے حوالہ کر ديا۔
ابو الہذيل کہتا ہے” :جب وه گمنام شخص يہاں تک پہنچا تو اس کی حالت غير ہونے لگی اور وه ہوش و حواس سے بيگانہ
نظر آنے لگا) ،تقيہ کی وجہ سے خود کو ديوانہ بناليا( ،اس کا پورا واقعہ ميں نے ساتويں اموی خليفہ مامون سے بيان کيا ،
اس نے اس شخص کو بلوا کر اس کا عالج کر ايا اور اسے اپنا نديم خاص قرار ديا ،اور وه اس کی منطقی بات کی وجہ سے
شيعہ ہو گيا۔][53
فرماتا ہے:
” ِٕانﱠا أَن َش ْأنَاہ ﱠُن ِٕانشَا ًء فَ َج َع ْلنَاہ ﱠُن أ ْب َکارًا ُع ُربًا أ ْت َرابًا“][54
َ َ
”بے شک ہم نے انھيں بہترين طريقہ سے خلق کيا اور ان سب کو باکره قرا رديا وه ايسی بيوياں ہوں گی جو اپنے شوہروں
سے محبت کرتی ہوں گی خوش گفتار اور ان کی ہم سن سال ہوں گی“۔
اگر تمہارے مطابق ابوبکر و عمر جوان ہوں گے تو جنت ميں جائيں گے۔تو کس طرح تم کہتے ہوکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ
عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”ان الحسن والحسين سيدا شباب اہل الجنة من االولين واالخرين وابوھما خير منھما“۔][55
”حسن اور حسين عليہما السالم جنت کے اول وآخر کے جوانوں کے سردار ہيں اور ان کے والد علی بن ابی طالب عليہما
السالم کا مقام ان سے باالو بر تر ہے“۔
٣٩۔ حديث رسول کے سلسلہ ميں بيٹے کے اعتراض پر ابو دُلف کا جواب
عيسی عجلی جو”ابو دلف“کے نام سے مشہور تھا يہ نہايت باہمت ،سخی ،کشاده قلب،عظيم شاعر،اپنے خاندان کا ٰ قاسم بن
سربراه اور محب علی ابن ابی طالب عليہما السالم تھا۔اس کی وفات ٢٢٠ھ ق کوہوئی۔
ابو دلف کا ايک بيٹا تھا جس کانام ”دلف“تھا يہ بيٹا بالکل اپنے باپ کے بر عکس بہت ہی بد بخت اور بد زبان تھا۔
ايک روز اس کے بيٹے دلف نے اپنے دوستوں کے درميان علی عليہ السالم کی محبت و عداوت کے سلسلہ ميں بحث چھيﮍ
دی يہ بحث يہاں تک پہنچی کہ اس کے ايک دوست نے کہا کہ پيغمبر اسالم سے روايت ہے:
مومن تقی وال يبغضک االول ُد زنيﱠ ٍة أوحيضة“”يا علی ال يحبک اال ٔ
”اے علی عليہ السالم ! تم سے صرف متقی مومن محبت کرتا ہے اور تم سے وہی دشمنی و عداوت رکھتا ہے جو زنا زاده ہو
يا جس کا نطفہ حالت حيض ميں منعقد ہوا ہو“۔
دلف،جو ان تما چيزوں کا منکر تھا اس نے دوست سے کہا ميرے باپ ابو دلف کے بارے ميں تمہارا کيا نظريہ ہے ؟آيا کوئی
شخص اس بات کی جرائت کر سکتا ہے کہ ان کی بيوی سے زنا کرے“۔
اس کے دوستوں نے کہا” :نہيں ہر گز نہيں۔ابو دلف کے بارے ميں ايسا سوچنا بھی غلط ہے“۔
دلف نے کہا” :خدا کی قسم ميں علی عليہ السالم سے شديد دشمنی رکھتا ہوں )جب کہ ميں نہ ولد الزنا ہوں اور نہ ولد حيض(
اسی وقت ابو دلف گھر سے باہر نکل رہا تھا ان کی نظر اپنے بيٹے پر پﮍی اور ديکھا کہ وه چند لوگوں سے گفتگو ميں
مصروف ہے جب ابو دلف موضوع بحث سے آگا ه ہو ا تو اس نے کہا۔”خدا کی قسم !دلف زنا زاده بھی ہے اور ولد حيض
بھی۔کيونکہ ميں ايک روز بخار ميں مبتال تھا اور اپنے بھائی کے گھر جا کر سو گيا تھا ديکھا کہ ايک کنيز گھر ميں وارد
ہوئی نفس اماره مجھے اس کی طرف کھينچ کر لے گيا تو اس نے کہا:
”ميں اس وقت حالت حيض ميں ہوں“۔
ميں نے جماع کے لئے اس کو مجبور کيا نتيجہ ميں وه حاملہ ہو گئی جس سے دلف پيدا ہوا ،اس طرح يہ ولد الزنابھی ہے
اور ولد حيض بھی۔][56
تمام دوستوں نے يہ سمجھ ليا کہ علی عليہ السالم کی دشمنی دلف کے نطفہ کے وقت سے شروع ہوئی جو آج جﮍ پکﮍ گئی،
جب بنيا د ہی غلط تھی تو عمارت کيوں نہ غلط ہوتی۔
۴٠۔ ايک غيرت مند جوان کا ابو ہريره سے دندان شکن مناظره
معاويہ نے پيسہ کے ذريعہ کچھ جھوٹے صحابہ اور تابعين کو خريد رکھا تھا تاکہ وه علی عليہ السالم کے خالف حديث
گﮍھيں ان اصحاب ميں سے ابو ہريره ،عمر وعاص،مغيره بن شعبہ ،اور تابعين سے عروه بن زبير وغيره شامل تھے۔
ابو ہريره حضرت علی عليہ السالم کی شہادت کے بعد کوفہ آيا اور عجيب مکرو فريب سے اس نے علی عليہ السالم کے
بارے ميں نامناسب باتيں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے منسوب کرديں۔
راتوں ميں وه” با ب الکنده “مسجد کوفہ کے پاس آکر بيٹھ جا تا تھااور لوگوں کو اپنے مکر و فريب سے منحرف کرتا رہتا
تھا۔
ايک روز ايک غيور اور دانشور جوان نے اس کے اس حيلہ ميں شرکت کی ،تھوڑی دير تک وه ابو ہريره کی بيہوده باتيں
سنتا رہا اس کے بعد اس نے اس سے مخاطب ہو کر کہا“:تجھے خدا کی قسم ،کيا تونے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
وسلم کوحضرت علی عليہ السالم کے بارے ميں يہ دعا کرتے ہوئے نہيں سنا ہے:
”اللھم وال من وااله وعاد من عاداه“۔
خدا يا !”تو اسے دوست رکھ جو علی عليہ السالم کو دوست رکھتا ہو اور اسے دشمن رکھ جو علی عليہ السالم کو دشمن
رکھتا ہو“۔
ابو ہريره نے جب يہ ديکھا کہ وه اس واضح حديث کی ترديد نہيں کر سکتا ،تو کہا” :اللھم نعم“ خدا يا!ميں تجھے شاہد
وناظر جانتا ہوں ،ميں نے يہ سنا ہے۔ غيور نوجوان نے کہا” :ميں خدا کو گواه بناتا ہوں کہ تو دشمن علی کو دوست رکھتا
ہے اور دوست علی کو دشمن رکھتا ہے ،اور رسول خد ا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی لعنت کا مستحق ہے“ ،اس کے بعد يہ
نواجوا ن بﮍی متانت سے وہاں سے اٹھ کر چال گيا۔][57
پتھر اور کھﮍکی کا بوسہ ديتا ہے اور شرک کا مرتکب ہو تا ہے ،يہ ديوار پتھر کی اور کھﮍکی لوہے کی ہے ،کيوں بے
شعور پتھر اور کھﮍکی کا بوسہ ليتا ہے؟“][59
اس وہابی اما م جماعت کی چيخ سن کر ايرانی شيعہ کے لئے ميرے دل ميں محبت پيدا ہوئی ميں نے امام جماعت کے
سامنے جاکر اس سے کہا” :درو ديوار کا بوسہ دينا اس بات کی عالمت ہے کہ ہم رسول اکرم سے محبت کرتے ہيں جس
طرح ايک باپ اپنے چھوٹے بچہ کو محبت کی وجہ سے اس کا بوسہ ديتا ہے )اس کا م ميں کسی بھی طرح کا کوئی شرک
نہيں ہے(
اس نے کہا” :نہ يہ شرک ہے“۔
ميں نے اس سے کہا” :آيا قرآن ميں سوره يوسف کی ٩۶ويں آيت پﮍھی ہے جس ميں خداوند عالم فرماتا ہے:
صيرًا“” فَلَ ﱠما أَ ْن َجا َء ْالبَ ِشي ُر أَ ْلقَاهُ َعلَی َوجْ ِہ ِہ فَارْ تَ ﱠد بَ ِ
”پس جب بشير )يوسف کی زندگی کی بشارت لے کر يعقوب کے پاس(آيا اور اس )قميص(کوان کے چہرے پر ڈال ديا گيا تو
ان کی آنکھوں کی بينائی لوٹ آئی“۔
تم سے ميرا سوال يہ ہے کہ يہ پيرا ہن تو ايک کپﮍا تھا اس کپﮍے نے کس طرح جنا ب يعقوب عليہ السالم کی بينائی عطا
کی ،آيا اس کے عالوه کوئی اوربات ہے کہ يہ کپﮍا جنا ب يوسف عليہ السالم کے پاس رہنے سے ان خصوصيتوں کا مالک
ہو گيا تھا؟
وہابی امام جماعت ميرے اس سوال کے جواب ميں بے بس ہو گيا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔
سوره يوسف کی ٩۴ويں آيت ميں بھی آيا ہے۔
جس وقت قافلہ سر زمين مصر سے جدا ہوا )اور کنعان کی طرف روانہ ہوا(تو يعقوب عليہ السالم )کنعان مصر سے
تقريبا ً ٨٠فرسخ پر واقع ہے (نے کہا” :انی الجد ريح يوسف“ ميں بوئے يوسف سونگھ رہا ہوں“۔
پتہ چال اوليا عليہم السالم معنوی طاقت کے مالک ہوتے ہيں اور ان کی اس نامرئی طاقت سے بہره مند ہونا نہ صرف يہ کہ
شرک نہيں بلکہ عين توحيد ہے کيونکہ ايسے آثار ان کے پاک اور منزه عقيده توحيد سے ہی وجود ميں آئے ہيں۔
وضاحت :قبور اولياعليہم السالم پر ہم دل کی گہرائی سے ان سے اپنا رشتہ جوڑتے ہيں اور انھيں ہم خانہ خدا کے دروازے
قرار ديتے ہيں کيونکہ ہماری زبان اس چيز کی صالحيت نہيں رکھتی کہ بغير کسی وسيلہ کے خدا سے رابطہ پيدا کر سکيں۔
اس لئے ہم انھيں اپنے اورخدا کے درميان واسطہ قرا رديتے ہيں۔
جيسا کہ سوره يوسف کی آيت ٩٧ميں آيا ہے:
” قَالُوا يَاأَبَانَا ا ْستَ ْغفِرْ لَنَا ُذنُوبَنَا ِٕانﱠا ُکنﱠا خ ِ
َاطئِينَ “
” انھوں نے )يعنی برادران يوسف نے(کہا اے بابا! آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کريں بے شک ہم گنہگار تھے“۔
اس طرح اولياء عليہم السالم سے توسل کرنا جائز ہے اور جو لوگ اسے توحيد کے خالف جانتے ہيں وه يا تو قرآن کی
تعليمات سے آگاه نہيں ہيں يا انھوں نے اپنے آنکھوں پر تعصب کی عينک چﮍھا رکھی ہے۔
ہم سوره مائده کی ٢۵ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں:
” يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا اتﱠقُوا ﷲَ َوا ْبتَ ُغوا ِٕالَ ْي ِہ ْال َو ِسيلَةَ “
”اے ايمان النے والو! ﷲ سے ڈروا اور اس کے لئے وسيلہ تالش کرو“۔
اس آيت ميں وسيلہ سے مراد صرف انجام واجبات اور ترک محرمات نہيں ہے بلکہ مستحبات منجملہ اولياء خداعليہم السالم
سے توسل کرنا بھی وسيلہ شمار ہوگا۔
روايتوں ميں بيان ہوا ہے کہ منصور دوانقی )عباسی سلسلہ کا دوسرا خليفہ (نے مفتی اعظم)مالک بن انس مذہب مالکی کے
بانی (سے پوچھا ”حرم پيغمبر ميں آيا روبہ قبلہ کھﮍے ہوکر دعا مانگو ں يا روبہ پيغمبر ؟
مالک نے جواب ميں کہا:
ٔ
”لم تصرف وجھک عنہ وھو وسيلتک و وسيلة ابيک آدم عليہ السالم يوم القيامة بل استقبلہ واستشفع بہ فيشفعک ﷲ ،قال ﷲ
تعالی ،ولوانھم اذ ظلموا انفسھم۔۔۔ “ ٰ
”تو کيوں اپنا چہره ادھر سے گھمانا چاہتا ہے جب کہ وه تيرے وسيلہ ہينقيامت تک کے لئے تيرے باپ آدم عليہ السالم کے
وسيلہ ہيں بلکہ ان کی طرف رخ کر کے دعا مانگ اور ان سے شفاعت طلب کر تو ﷲ تيری شفاعت کرے گا“۔
خدا وند عالم نے ارشاد فرمايا ہے:
ْ ْ
ک فَا ْستَغفَرُوا ﷲَ َوا ْستَغفَ َر لَہُ ْم ال ﱠرسُو ُل لَ َو َجدُوا ﷲَ تَوﱠابًا َر ِحي ًما“][60 ” َولَوْ أَنﱠہُ ْم ِٕا ْذ ظَلَ ُموا أَنفُ َسہُ ْم َجائُو َ
”اور اگر وه ظلم کرنے کے بعد تمہارے پاس آتے اور ﷲ سے مغفرت کرتے اور رسول اکرم بھی ان کے لئے مغفرت
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کرتے تو وه يقينا خدا کو تواب ورحيم پاتے“۔][61
شيعہ اور سنی روايتوں ميں نقل ہوا ہے کہ تو بہ کے وقت حضرت آدم عليہ السالم نے خانہ خدا ميں پيغمبر اسالم صلی ﷲ
عليه و آله وسلم کو واسطہ قرار ديتے ہوئے کہا تھا:
”اللھم اسئلک بحق محمد االغفرت لی“۔][62
”خدا يا ! تجھے محمد کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں کہ تو مجھے بخش دے“۔
اس بات کی تائيد ميں کہ اوليائے خدا عليہم السالم کی قبروں کا بوسہ دينا شرک نہيں ہے ،مندرجہ ذيل اہل سنت کی تين
احاديث پر توجہ فرمائيں:
١۔ايک شخص نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس ميں آکر پوچھا” :اے رسول خدا ميں نے قسم کھا
رکھی ہے کہ جنت کے دروازے اور حورالعين کی پيشانی کا بوسہ دوں ،اب ميں کيا کروں ؟
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا” :ماں کا پير اور باپ کی پيشانی کا بوسہ دو)يعنی اگر ايسا کروگے تو اپنی
آرزو حورعين کی پيشانی کا بوسہ دينا اور جنت کے دروازے کا بوسہ دينے تک پہنچ سکتے ہو(
اس نے پوچھا” :اگر ماں باپ مر گئے ہوں تو کيا کروں ؟“
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا”‘ :ان کی قبروں کا بوسہ دو“۔][63
٢۔جس وقت جنا ب ابراہيم عليہ السالم ،اپنے بيٹے اسماعيل عليہ السالم کے ديدار کے لئے شام سے مکہ آئے تو ديکھا
اسماعيل عليہ السالم گھر پر نہيں ہيں ابراہيم عليہ السالم واپس چلے گئے جب اسماعيل عليہ السالم اپنے سفر سے واپس آئے
تو ان کی زوجہ نے جناب ابراہيم عليہ السالم کی آمد کی اطالع دی اسماعيل عليہ السالم نے اپنے والد ابراہيم عليہ السالم کے
قدم کی جگہ کو معلوم کر کے احترام کے طور پر قدم کے نشان کا بوسہ ديا۔][64
٣۔سفيان ثوری ) اہل سنت کا صوفی(نے امام جعفرصادق عليہ السالم کے پاس آکر عرض کيا” :کيوں لوگ کعبہ کے پردے
کا دامن پکﮍتے ہيں جب کہ وه پرده بالکل پرانا ہو چکا ہے جو کسی طرح کوئی فائده نہيں پہنچا سکتا ہے ؟“
امام جعفر صادق عليہ السالم نے جواب ميں فرمايا” :يہ اس کام کے مانند ہے کہ ايک شخص دوسرے شخص کے بارے ميں
گناه کا مرتکب ہوا ہو)مثالً اس کا حق ضائع کر ديا ہو ( اور اس کے دامن سے چپکے ،لپٹے اور اس کے اطراف اس اميد
سے گھومے کہ اس کا گناه معاف کردے گا“۔][65
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس نے کہا” :ہاں“۔
ميں نے کہا” :جب بہشت اور اجزاء بہشت ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے وجود کی وجہ سے مقدس اور محترم
ہو جاتے ہيں اور ان کا بوسہ دينا ”تيمنا ً و تبرکا ً“جائز ہوجاتا ہے تو يہ لوہا)جو قبر پيغمبر اکرم کے اطراف ميں لگا ہوا
ہے(اگر چہ استامبول سے آيا ہے ليکن قبر پيغمبر ميں لگنے کی وجہ سے مقدس اور محترم ہو گيا ہے اس وجہ سے ان کا
بھی چومنا جائز ہے“۔
بﮍھاوں۔ قرآن کی جلدچمﮍے سے بنائی جاتی ہے۔کيا يہ چمﮍا صحرا اور دريا کی گھاس کھانے ٔ توضيح کے لئے بات آگے
والے حيوانوں سے نہيں لياجاتا ہے جس کا نہ پہلے احترام کر ناضروری تھا اور نہ نجس کرنا حرام تھا ليکن اسی چمﮍے
سے جلد قرآن بننے سے وه محترم ہو جاتا ہے اور اس کی توہين کرنا حرام ہے اور ہم اسے بوسہ ديتے ہيں جس طرح صدر
اسالم سے اب تک مسلمانوں کا يہ شيوه رہا ہے کہ وه جلد قرآن کا چومناجيسے ايک باپ اپنے بيٹے کا بوسہ ليتا ہے،آج تک
کسی نہيں کہا کہ يہ شر ک اور حرام ہے ،اسی طرح ضريح پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم اور تمام ائمہ عليہم السالم کی
ضريحوں کا بوسہ دينا نہ شرک ہے نہ بت پرستی۔
ليلی کے محلہ کا ايک کتا مجنوں کے محلہ تک پہنچ ليلی ومجنوں کی تاريخ حيات ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ ٰ مولف کا قولٰ : ٔ
گيا مجنوں نے جب اسے ديکھا تو اسے اپنی آغوش ميں لے کر بوسہ دينے لگا ،ايک شخص نے اس سے کہا” :ليس علی
المجنون حرج“مجنوں کے لئے يہ کوئی حرج نہيں ہے يعنی تم ديوانہ ہو اس لئے کتے کا بوسہ دينے پر ميں کوئی اعتراض
نہيں کروں گا۔
االعمی حرج“اندھے کے لئے کوئی بات نہيں ہے ،يعنی تم اندھے ہو اور تم ہمارے ٰ مجنوں نے جواب ميں کہا” :ليس علی
اس بوسہ لينے کو درک نہيں کر سکتے ہو“۔
يہ قطعہ بھی مجنوں کے لئے منسوب ہے:
أمر علی الديار ديار ليلی اُقبل ذالجدارو ذالجدار
وما حب الديار شغفن قلبي ولکن حب من سکن الديار
ليلی کے گھر کی طرف سے گزرتا ہوں تو اس کے دروديوار کو چومتا ہوں۔ اس گھر کی محبت نے مجھے پاگل نہيں ”ميں ٰ
کيا بلکہ اس کی محبت نے مجھے ديوانہ بنا ديا جو اس گھر ميں رہتا ہے“۔][66
عيسائی” :ہاں“۔
عيسی عليہ السالم چاہتے تھے کہ باقی رہے اور جس چيز کو
ٰ علی بن ميثم” :تم نے اس چيز کو تر ک کر ديا جسے حضرت
وه پسند نہيں کرتے تھے تم لوگوں نے اسے باقی رکھا ہے اور اسے اپنی گردن ميں لٹکا رکھا ہے جب کہ تمہارے نظريہ
عيسی عليہ
ٰ کے مطابق تو تمہارے لئے بہتر يہ تھا کہ گدھے کی شکل کی کوئی چيز گردن ميں لٹکاتے کيونکہ حضرت
السالم اسے باقی رکھنا چاہتے تھے ،تم صليب کو دور پھينکو ورنہ اس سے تمہاری جہل و نادانی ثابت ہوگی“۔][67
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
حضرت ابو بکر سے افضل ہونے پر کيا دليل ہے؟
علی بن ميثم” :رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد تمام مسلمانوں کی يہ متفقہ رائے تھی کہ علی عليہ
السالم ايک کامل مومن اور عالم ہيں جب کہ اس وقت ابو بکر کے سلسلہ ميں اس طرح کا اجماع نہيں تھا“۔
ابو الہذيل” :استغفر ﷲ ،خدا معاف کرے کس شخص نے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر کے
علم وايمان پر اجما ع نہيں کيا تھا؟!“
علی بن ميثم” :ميں اور مجھ سے پہلے والے اور حاليہ زمانے ميں ميرے ساتھی“۔
ابو الہذيل” :اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اورتمہارے ہمنواگمراہی کی زندگی گزار رہے ہيں“!۔
علی بن ميثم” :اس طرح کا جواب گالی گلوچ اور لﮍائی جھگﮍے کے عالوه کچھ نہيں يعنی تو منطقی جواب نہ دے کر برا
بھال کہہ رہا ہے اور مجھے گمراه جانتا ہے ،تيرا بھی جواب گالی گلوچ ہی ہے“][70
)کيونکہ اينٹ کا جواب پتھر سے ديا جائے تو بہتر ہے(۔
۴٧۔ عمر بن عبد العزيز کا مناظره کے بعد حضرت علی عليہ السالم کی برتری کا اعالن
عمر بن عبد العزيز )اموی سلسلہ کا آٹھواں خليفہ (کے دور خالفت ميں ايک سنی نے اس طرح قسم کھائی :
”ان عليا ًخير ھذه االمة واالامراتی طالق ثالثا“۔
يقينا علی عليہ السالم اس امت کی بہترين فرد ہيں اور اگر ايسا نہيں ہے تو ميری بيوی کوتين طالق ہو۔
وه شخص اس بات کا معتقد تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد سب سے بہترين شخص علی ابن
ابی طالب عليہماالسالم ہيں بس اس وجہ سے اس کی طالق باطل ہے۔
اہل سنت حضرات کا يہ عقيده ہے کہ اگر ايک نشست ميں تين مرتبہ طالق طالق کہہ ديا جائے تو طالق صحيح ہے اس
شخص کی بيوی کا باپ اس طالق کو صحيح جانتا تھا کيونکہ اس کے عقيده کے مطابق رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم
کی رحلت کے بعد علی عليہ السالم تمام مسلمانوں سے افضل وبرتر نہيں تھے۔
اس عورت کے شوہر اور اس کے باپ ميں بحث ہو گئی۔
شوہر کہتا تھا” :يہ عورت ميری بيوی ہے اور طالق باطل ہے کيونکہ شرط طالق علی عليہ السالم کا تمام امت ميں برتر نہ
ہونا ہے جب کہ يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ علی عليہ السالم تمام لوگوں سے افضل و برتر ہيں تو طالق کہاں
واقع ہوئی ؟“
باپ کہتا تھا” :طالق واقع ہوگئی کيونکہ علی عليہ السالم تما م لوگوں سے افضل و برتر نہيں ہيں نتيجہ ميں يہ عورت اپنے
شوہر پر حرام ہے“۔
يہ بحث آگے بﮍھ گئی اور کچھ لوگ باپ کے طرفدار ہوگئے اور کچھ شوہر کے اور يہ مسئلہ ايک مشکل بن گيا۔
ميمون بن مہران نے اس واقعہ کو عمر بن عبد العزيز کے پاس لکھ بھيجا تاکہ وه اسے حل کرے۔يہ مسئلہ ايک مشکل بن گيا۔
عمر بن عبد العزيزنے ايک نشست بلوائی جس ميں بنی ہاشم ،بنی اميہ اور قريش کے چند بزرگوں کو شرکت کی دعوت دی
اور ان سے کہا کہ اس مسئلہ کا حل پيش کريں۔
اس جلسہ ميں بات چيت تو بہت زياده ہوئی ،بنی اميہ اس کا جوا ب دينے سے بے بس تھے ،اس لئے انھوں نے سکوت
اختيار کيا۔
آخر ميں بنی ہاشم کے ايک شخص نے کہا:
”طالق صحيح نہيں ہے کيونکہ علی عليہ السالم تمام امت ميں سب سے افضل و برتر ہيں۔اور طالق کی شرط عدم برتری
ہے ل ٰہذ ا طالق واقع نہيں ہوئی“۔
دعوی کے ثبوت کے لئے عمر بن عبد العزيزی سے کہا:تجھے خدا کی قسم ہے کيا يہ صحيح نہيں ہے ٰ اس شخص نے اپنے
کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم جناب فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا کے بيمار پﮍنے پر ان کی عيادت کے لئے گئے
تھے اور اس وقت علی عليہ السالم کی زوجيت ميں تھيں۔
آپ نے فرمايا” :بيٹی کيا کھانا چاہتی ہو؟“
جنا ب فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا نے عرض کيا” :بابا انگور کھا نے کو دل چاہتا ہے“۔
حاالنکہ يہ انگور کا موسم نہيں تھا اور حضرت علی عليہ السالم بھی سفر پر تھے مگر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم
نے يوں دعا کی:
”اللھم آتنا بہ مع أفضل أمتی عندک منزلة“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”پالنے والے ! انگو ر کو ميرے پاس اس شخص کے ذريعہ پہنچا جس کی منزلت تيرے نزديک سب سے زياده ہو“۔
ناگاه علی عليہ السالم نے دق الباب کيا اوراپنے ہاتھوں ميں عبا سے ڈھکی ٹوکری کے ساتھ گھر ميں داخل ہوئے۔
پيغمبر خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا” :علی عليہ السالم يہ کيا ہے ؟“
علی عليہ السالم نے کہا” :يہ انگور ہے جس کی فاطمہ الزہرا سال م ﷲ عليہا نے خواہش کی ہے“۔
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا” :ﷲ اکبر ،ﷲ اکبر،خدايا تو نے جس طرح علی کو اس امت کا بہترين
شخص قرا دے کر مجھے خوش کيا اسی طرح ان انگور کو ميری بيٹی فاطمہ کے شفا قرار دے“۔
کھاو“۔
ٔ کر کہہ ﷲ اس کے بعد آپ نے انگور کو فاطمہ سالم ﷲ عليہا کے پاس رکھ دئے اور فرمايا” :بيٹی اسے بسم
ابھی رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم جناب فاطمہ سالم ﷲ عليہا کے گھر سے باہر نہيں نکلے تھے کہ آپ صحت ياب
ہوگئيں۔
عمر بن عبد العزيز نے ہاشم مرد سے کہا” :سچ کہا اور اچھی طرح بيان کيا ،ميں گواہی ديتا ہوں کہ اس حديث کو ميں نے
سنا ہے اور کئی جگہ ديکھا ہے اور ميں اس کو ماتنا ہوں“۔
اس کے بعد عبد العزيز نے اس عورت کے شوہر سے کہا” :عورت کا ہاتھ پکﮍ اور اپنے گھر لے جا،يہ تيری بيوی ہے اگر
اس کا باپ روکے تو مار مار کر اس کا چہره بگاڑدے“۔][71
اس طرح اس اہم جلسہ ميں عمر بن عبد العزيز )اموی دور کے آٹھويں خليفہ ( نے قانونی طور پر تمام امت پر امام علی عليہ
السالم کی برتری کا اعالن کر اديا جس کی وجہ سے يہ بھی واضح ہوگيا کہ وه عورت اس اہل سنت شخص کی زوجيت ميں
باقی ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”دوسرے دن جب ميں نے اس شافعی کو ديکھا تو ميں نے اس سے کہا” :تمہاری تحقيق کہا ں تک پہنچی ؟“
اس نے کہا” :وہی ہو جو ميں کہتا تھا کہ شيعہ جھوٹ بولتے ہيں کيونکہ ميں نے ان دونوں روايتوں کو صحيح بخاری ميں
ديکھاليکن شيعہ کہتے ہيں کہ ان دونوں کے درميان چار ورق کا فاصلہ ہے ليکن ميں نے جب گنا تو پانچ ورق کا فاصلہ
پايا“!!][74
کتنا بہترين جواب ہے ؟! کتنی بﮍی حماقت ہے ! صحيح بخاری ميں ان دونوں روايتونکا موجود ہونا مقصود ہے خواه وه پانچ
ورق کے فاصلہ پر ہو يا پچاس ورق کے فاصلہ پر ؟!
--------------------------------------------------------------------------------
] [1اس بات پر توجہ رہنا چاہئے کہ خدا کی قدرت محال چيزوں سے تعلق نہيں رکھتی۔اس جواب ميں امام کا مقصد در اصل
عوام کو قانع کرنا تھا جيسے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کيا انسان اڑسکتا ہے ؟اور وه اس کے جواب ميں کہے” :ہاں اڑ
سکتا ہے وه ايک ہوائی جہاز بنائے اور اس ميں بيٹھ کر فضا ميں پرواز کر سکتا ہے“۔امام ،آنکھ کے ڈھيلے کی مثال سے يہ
بتانا چاہتے تھے کہ اگر تم قدرت خدا سمجھنا چاہتے ہو تو اس طرح سمجھو نہ کہ غير معقول مثال کے ذريعہ کہ کيا خدا انڈه
ميں پوری دنيا سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنيا چھوٹی ہو اور نہ انڈه بﮍاہو يا يہ بھی کوئی محال کام نہيں ہے اور خدا اس بات
پر قادر ہے اس کے عالوه کوئی دوسری صورت محال ہے اور خدا محاالت عقليہ پر قدرت نہيں رکھتا يہ توايسا ہی ہوگا کہ
ہم سوال کريں کہ کيا خدا اس بات پر قادر ہے کہ وه دو اور دو چار کے بجائے پانچ کر دے۔اس طرح کا سوال سراسر غلط
ہے ،اس مسئلہ کی مکمل تحقيق اور يہ کہ خدا کی قدرت محال چيزوں سے متعلق ہوتی ہے يا نہيں اس سلسلہ ميں مختلف
کالمی اور فلسفی بحثوں پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کيا جا سکتا ہے ۔
] [2اصول کافی ،ص ٧٩و٨٠۔
] [3کيونکہ ان دونوں ميں ہر جہت سے اختالف کا فرض غلط ہے کيونکہ دو چيزيں بھلے )ايک ہی جہت سے (مانند و مثل
ضرور رکھتی ہيں جيسے جہت وجود وہستی ميں ہر موجود شئے ايک دوسرے کی مثل ومانند ہے ۔
مولف کی طرف سے نقل معنی کے ساتھ ۔ ] [4اصول کافی ،حديث ،۵ص٨٠و ٨١ج ، ١تلخيص و توضيح اور ٔ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [5انوار البہيہ ،ص ١۵٢۔
] [6سفينة البحار ،ج ،١ص ١۵٧۔
] [7اصول کافی ،ج ،١ص١٢٨۔
] [8شامی دانشور ايک سنّی عالم دين تھا ۔
] [9علم کالم ايک ايسا علم ہے جو اصول عقائد ميں عقلی ونقلی دليلوں کے ذريعہ بحث کرتا ہے ۔
] [10اس سے مراد ابو جعفر محمد بن علی بن نعمان کوفی ہيں جن کا لقب ”احول “تھا کوفہ کے محلہ طاق المحامل ميں ان
کی دکان تھی اسی لئے ان کو ”مومن طاق “کہتے تھے مگر ان کے مخالفين ان کو ”شيطان الطاق “کہا کرتے تھے )سفينة
البحار ج ،٢ص (١٠٠
] [11اصو ل کافی ج ،١ص١٧١۔
] [12اصول کافی ،ص ١٧٢و ١٧٣۔
] [13الشافی سيد مرتضی ،ص ١٢۔تنقيح المقال ،ج ٣ص٢٩۵۔
] [14جاثليق ،عيسائيت کی ايک بﮍی شخصيت ہوتی ہے اس کے بعد ”مطران“کا درجہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ”اسقف
“اور اسقف کے بعد” قيس“کا درجہ ہوتا ہے۔
] [15سوره آل عمران ،آيت ٣۴۔
] [16انوار البھيہ ،ص ١٨٩تا ١٩٢۔
] [17عيون اخبار الرضا ج ،١ص ٧٨سے اقتباس ۔
] [18سوره انعام ،آيت ٨۴و ٨۵۔
] [19سورہآل عمران ،آيت ۶١۔
] [20احتجاج طبرسی ج،١ص ١۶٣سے ١۶۵سے اقتباس ،اسی بنا پر بعض لوگوں کا يہ نظريہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا
سالم ﷲ عليہا کی تمام اوالدجو قيامت تک ان کی نسل سے وجود ميں آئے گی سيد ہوگی اور رسول اسالم کی ذريت ميں
شمار ہوگی ،ل ٰہذا اگر کسی کا باپ سيد نہ ہو ليکن اس کی ماں جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی نسل سے ہو تو وه سيد
مولف۔
ہوگا۔)غور کريں(ٔ ،
] [21سوره نجم ،آيت ١٨۔
الروية ،حديث ،١ص٩۵و ،٩۶ج ١۔ ] [22اصول کافی ،باب ابطال ٔ
] [23اصول کافی ،جلد ،١باب ابطال الروية ،ص١٣٠و ١٣١۔
] [24اصول کافی ،ج،١ص٧٨۔
] [25قدريہ سے مراد وه لوگ ہيں جن کا يہ کہنا ہے کہ خدانے تمام امور بندوں پر چھوڑ ديئے ہيں۔
] [26اصول کافی ج،١ص١۵٧و١۵٨۔
] [27ترجمہ ارشاد شيخ مفيد ،ج،٢ص ٢۶٩سے لے کر ٢٧٣تک۔
] [28انو ار البھيہ ،ص٣۴٩۔ ٣۵٠۔
] [29سفينة البحار ،ج ١ص١٩٣۔
] [30الصراط الستقيم ،بحار کی نقل کے مطابق ،ج ،٨پرانا ايڈيشن ،ص١٨٣۔
المومنين ،ج، ٢ص،۴١٩بہجة اآلمال،ج ،٢ص۴٣۶۔ ] [31مجالس ٔ
] [32بہجة اآلمال،ج،٢ص۴٣٧۔
] [33فصول المختار ،سيد مرتض ٰی ج،١ص٩۔قاموس الرجال ،ج٩ص ٣۴٢سے اقتباس ،تھوڑی وضاحت کے ساتھ ،۔
] [34اگرچہ فضال شيعہ تھے اور ان کا کوئی بھائی نہيں تھا ،ليکن وه اس طريقہ سے مناظره کرنا چاہتے تھے۔
سوره نساء ،آيت ٩٧۔
ٔ ][35
سوره احزاب ،آيت ۵٣۔
ٔ ][36
سوره احزاب۔آيت ۴٩۔
ٔ ][37
] [38جن کے نام يہ ہيں عائشہ ،حفصہ،ام سلمہ،ام حبيبہ ،زينب،ميمونہ،صفيہ،جويريہ اور سوده۔
] [39خزائن نراقی،ص١٠٩۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سوره طہ ،آيت ١٢١۔ ٔ ][40
] [41سور انسان ،آيت ٢٢۔
سوره تحريم آيت ١٠۔ٔ ][42
سوره بقر آيت ٢۶٠۔
ٔ ][43
سوره قصص ،آيت ٢١۔ ٔ [44
سوره بقره آيت ٢٠٧۔ٔ ][45
سوره ص۔آيت ٢۶۔
ٔ ][46
] [47سوره انبياء ،آيت ٧٩۔
سوره ص آيت ٣۵۔ٔ ][48
سوره قصص ،آيت ٨٣۔ ٔ ][49
سوره مائده آيت ١١٧۔١١۶۔ ٔ ][50
] [51فضائل ابن شاذان ص١٢٢۔بحارج،۴ص ١٣۴سے ١٣۶تک۔
] [52وه درحقيقت ايک ہوشمند دانشور تھا ليکن تقيہ کے طور پر ديوانوں کی طرح زندگی بسر کررہا تھا۔
] [53احتجاج طبرسی ،ج،٢ص ١۵١سے ١۵۴تک۔
سوره واقعہ آيت٣۵۔٣٧۔ ٔ ][54
] [55بحار،ج، ۴٩ص١٩٣۔
] [56کشف اليقين عالمہ حلی ،ص١۶۶۔بحار ،ج، ٣٩ص٢٨٧۔
] [57شرح نہج البالغہ ،ابن ابی الحديد ،ج ۴ص ١۶٣اور ۶٨۔
]” [58خان االمين “والی تہمت بعض سنی فرقوں ميں بہت زياده مشہور ہے جب بھی شيعوں پر اعتراض کرنا چاہتے ہيں تو
يہ جملہ ان کی زبانوں پر ہوتاہے۔ل ٰہذا ڈاکٹر تيجانی سماوی نے اپنی کتاب ”پھر ميں ہدايت پاگيا “ميں دو جگہ اس تہمت کا
ذکر کيا ہے ۔
] [59اس طرح کا اعتراض حضرت امام صادق عليہ السالم کی زندگی ميں منکر خدا ابی العوجاء نے بھی کيا تھا کہ کيوں
حجر اسود کو بوسہ ليتے ہو ،يہ پتھر ہے اور فہم و شعور نہيں رکھتا ،جس کے جواب ميں ابی العوجاء مسلمان ہوگيا تھا۔
] [60سوره نساء آيت ۶۴۔
] [61وفاء الوفاء ،ج ،٢ص ،١٣٧۶الدرر السنيہ ،ذينی دحالن ،ص١٠۔
] [62الدر المنثور ،ج١ص ۵٩۔مستدرک حاکم ،ج، ٢ص ۶١۵۔مجمع البيان ج،١ص٨٩۔
] [63االعالم ،قطب الدين حنفی ،ص٢۴۔
] [64االعالم قطب الدين حنفی ،ص٢۴۔
] [65انوا ر البہيہ ،امام جعفر صادق عليہ السالم کی سوانحيات کے بيان ميں۔
] [66کشکول شيخ بہائی ،ج ١ص٩١۔
مرتضی ،ج ١ص٣١۔ ٰ ] [67الفصول المختار ،سيد
مرتضی ،ص۴۴۔
ٰ ،سيد ] [68الفصول المختار
مرتضی ،ج ١ص۵۔بحار ج ،١٠ص٣٧٠۔ ٰ ] [69الفصول امختار سيد
] [70مذکوره حوالہ ،ج ،١ص۴۴۔
] [71شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ،احقاق الحق کی نقل کے مطابق ،ج،۴ص ٢٩٢سے لے کر ٢٩۵تک ۔
] [72صحيح بخار ی ،طبع دارالجبل بيروت ج ٧ص۴٧۔
] [73مذکوره حوالہ ،ج ٩ص ، ١٨۵اور دوسرے مصادر ،کتاب”فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ“ ،ج ، ٣ص ١٩٠ميں
ديکھئے ۔
] [74روضات الجنات )شيخ بہاء الدين عاملی کی سوانح حيات کے بيان ميں(
سوره بقره آيت ١۵۵سے ١۵٧۔ ٔ ][75
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [76بہجة االمال ،ج ٣ص ، ٢٣۴شرح من اليحضره الفقيہ سے نقل ،مزيد وضاحت کے لئے مناظره ٧٠سے رجوع کريں۔
” َولَوْ أنﱠہُ ْم ِٕا ْذ ظَلَ ُموا أنفُ َسہُ ْم َجائُو َ
ک فَا ْستَ ْغفَرُوا“
” اور جب انھوں نے اپنے اوپر ظلم کيا تھا تو اگر تمہارے پاس آکر ﷲ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے
استغفار کرتے تو وه ﷲ کو تو اب ورحيم پاتے“۔
اس سنی شخص نے تھوڑی دير خاموش رہنے کے بعد کہا” :دين ايک ہے نماز بھی ايک ہے“۔
ميں نے کہا” :ہاں دين ايک ہے نماز ايک ہے تو اہل سنت بھی نماز ميں قيام کے وقت مختلف طريقوں سے نماز کيوں ادا
کرتے ہيں تمہارے مذہب ميں کچھ لوگ ہاتھ کھول کر نماز پﮍھتے ہيں اور کچھ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے ہيں دين ايک ہے
اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک ہی طريقہ سے نماز ادا کی تھی پھر يہ اختالف کيوں؟تم کہوگے کہ ابو
حنيفہ يا شافعی يا مالک يا احمد بن حنبل نے اس طرح کہا ہے ۔)ہاتھ کے اشارے سے بتايا (
اس نے کہا” :ہاں ان لوگوں نے اسی طرح کہا ہے“۔
ميں نے کہا” :جعفر بن محمد امام جعفر صادق عليہ السالم ہمارے مذہب کے پيشوا ہيں جن کے لئے تم نے اعتراف کيا ہے
کہ وه خاندان رسالت سے تعلق رکھتے ہيں انھوں نے اسی طرح نماز پﮍھنے کا حکم ديا ہے۔
اس بات پر بھی توجہ رہے کہ ”اہل البيت ادری بما فی البيت“ گھر والے گھر کی باتيں دوسروں سے زياده جانتے ہيں۔”ل ٰہذا
رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے اہل بيت احکام ٰالہی سے دوسروں کے مقابل زياده آگاه ہيں امام جعفر صادق عليہ
السالم کا علم بہر حال ابو حنيفہ سے کئی گنا زياده ہے ان کا قول ہے کہ ”زمين کے اجزاء پر سجده کرنا چاہئے ل ٰہذا اون اور
روئی پر سجده کرنا درست نہيں ہے ہمارے اور تمہارے درميان اختالف کی نوعيت بالکل وہی ہے جو خود تمہارے مذہب
ميں پائے جانے والے مختلف مسالک ميں ہاتھ باندھنے اور کھولنے کے سلسلے ميں اختالف ہے اور يہ اختالف فروع دين
کا اختالف ہے نہ کہ اصول دين کا اور فروع دين کا اختالف کسی بھی طرح سے شرک سے تعلق نہيں رکھتا۔
جب ميری بات يہاں تک پہنچ گئی تو وہاں بيٹھے ہوئے تمام اہل سنت حضرات نے ميری بات کی تصديق کی اور تب ميں نے
غصہ ميں اس سے )جو شيعہ کی سجده گاه چھيننے کے لئے دوڑا تھا(کہا:
کيا تجھے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے شرم نہيں آتی کہ ايک شخص ان کی قبر کے سامنے نماز پﮍھتا ہے اور
تو اس کی نماز باطل کررہا ہے جب کہ وه خود اپنے مذہب کے مطابق نماز پﮍھ رہا ہے اور يہ شخص اس مذہب سے تعلق
رکھتا ہے جو مذہب يہ صاحب قبر لے کر آيا ہے ؟
َط ِہيرًا“ س أَ ْہ َل ْالبَ ْي ِ
ت َويُطَہﱢ َر ُک ْم ت ْ ”الذين ْاذ ِہ َ
ب َع ْن ُک ْم الرﱢجْ َ
وه )اہل بيت(جن سے )خدا نے( ہر برائی کو دور رکھا اور اس طرح پاک و پاکيزه رکھا جو پاک و پاکيزه رکھنے کا حق
ہے“۔
تمام حاضرين نے اس کی لعنت و مالمت کی اور اس سے کہا” :جب وه اپنے مذہب کے مطابق نماز پﮍھ رہا ہے تو اس سے
کيوں لﮍائی جھگﮍا کرتا ہے “ ،اور اس نے اس کے بعد سب لوگوں نے مجھ سے معافی مانگی۔][2
مختصر وضاحت
واقعی وہابيوں اور سنيوں کے علماء کا کام کتنا حير ت انگيز ہے کہ وه عوام کو فريب ديتے ہيں اور انھيں يہ بات ذہن نشين
کراتے ہيں کہ خاک شفاء پتھر يا لکﮍی پر سجده کرنا حرام اور شرک ہے ميں ان سے پوچھتا ہوں سجده خاک شفا،لکﮍی
پتھر يا فرش اور ٹاٹ پر کرنے ميں کيا فرق پايا جاتا ہے ؟تم ٹاٹ اور چٹائی پر سجده کرتے ہو اسے شرک نہيں قرارديتے ہو
ليکن شيعہ حضرات اگرپتھر اور خاک شفا پر سجده کريں تو يہ شرک ہے ؟
کيا جو شخص فرش اور چٹائی پر سجده کرتا ہے تو گويا اس کی عبادت کرتا ہے ؟تم لوگ شيعہ حضرات کو شرک کی نسبت
ديتے ہو کيا انھيں سجده کرتے وقت نہيں ديکھتے کہ سجده ميں وه تين بار ”سبحان ﷲ“ کہتے ہيں يا ايک بار ”سبحان ربی
االعلی“ )پاک وپاکيزه ہے وه ذات(اور اس کی حمد وستائش پر غور نہيں کرتے ؟تم لوگوں کی زبان بھی عربی ہے تمہيں ٰ
عربی الفاظ سے زياده وا قف ہونا چاہئے تمہيں يہ اچھی طرح جان لينا چاہئے کہ جس پر سجده کيا جاتا ہے اور جس کے
لئے سجده کيا جاتا ہے ان دونوں ميں کيا فرق ہے ؟
اگر ہم کسی چيز پر سجده کرتے ہيں تو اس کے معنی يہ نہيں ہے کہ ہم اس کی عبادت کرنے لگے ہيں بلکہ سجده کی حالت
ميں ہم نہايت ہی خضوع اور خشوع کے ساتھ اپنے خدا وند متعال کے سامنے سر نيازخم کرتے ہيں ،کيا تم نے يہ ديکھا ہے
کہ بت پرست اپنے سر کے نيچے بتوں کو رکھ کر ان کا سجده کرتے ہوں؟ نہيں بلکہ وه اپنے بتوں کو اپنے سامنے رکھتے
ہيں پھر ان کے سامنے اپنی پيشانی زمين پر ٹيکتے ہيں ،يہاں پر يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وه بتوں کی پوجا
کرتے ہيں نہ کہ ان چيزوں کی جس پر وه اپنی پيشانيوں کورکھتے ہيں۔
نتيجہ يہ ہوا کہ پتھر پر سجده يا فرش پر سجده کرنے ميں کوئی فرق نہيں ہے اور اس سے يہ بھی ثابت نہيں ہے کہ ہم ان کا
سجده کرتے ہيں بلکہ يہ تمام صرف خداوند عالم کے لئے ہوتے ہيں ،ہاں فرق يہ ہے کہ ہمارے مذہب کے پيشوا اور رہبر
امام جعفر صادق عليہ السالم فرماتے ہيں کہ زمين کی اجزاء )پتھر يا ايسی سجده گاه جو مٹی يا پتھر سے بنی ہو (پر سجده
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کرو ليکن اہل سنت کے مذہب کے رہبر اور پيشوا )مثالً ابوحنيفہ ،امام شافعی وغير ه(کہتے ہی کہ اگر فرش پر نماز پﮍھ
رہے ہو تو اسی پر سجده کرو۔
يہاں پر اہل سنت حضرات يہ سوال کرتے ہيں کہ تم لوگ فرش پر سجده کيوں نہيں کرتے بلکہ خاک يا خاک کی انواع ميں
سے کسی ايک پر سجده کرتے ہو ؟
اس کا جواب يہی ہے” :رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم فرش پر سجده نہيں کرتے تھے بلکہ وه ريت اور خاک پر سجده
کيا کرتے تھے اور اس زمانہ کے تمام مسلمان بھی ريت اور مٹی پر سجده کرتے تھے آج ہم انھيں کی پيروی ميں ريت اور
مٹی پر سجده کرتے ہيں۔][3
ہاں بعض روايات کے مطابق شديد گرمی کی وجہ سے لباس پر سجده کرنے کی اجازت دی گئی ہے جيسا کہ انس بن مالک
سے ايک روايت نقل ہوئی ہے۔
”کنا نصلي مع النبی صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم فيضع احدنا طرف الثوب من شدة الحر فی مکان السجود“۔][4
”ہم لوگ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ نماز پﮍھتے تھے تو بعض لوگ شديد گرمی کی وجہ سے سجده کے وقت
مقام سجده پر اپنے لباس کا دامن رکھ ديا کرتے تھے“۔
اس روايت سے يہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ضرورت کے وقت فرش پر سجده کرنے ميں کوئی قباحت نہينہے ليکن آيا رسول
خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے بھی وقت ضرورت گرمی کی شدت کی وجہ سے فرش پر سجده کيا تھايا نہيں۔؟اس طرح
کی کوئی روايت اس موضوع پر آپ کے سلسلے ميں نہيں پائی جاتی۔
دوسری بات يہ ہے کہ اگر زمين کے اجزاء پر سجده کرنا شرک ہے تو ہميں يہ بھی کہنا چاہئے کہ خدا کے حکم سے
فرشتوں کا سجده جوان لوگوں نے آدم کے سامنے کيا تھا وه بھی شر ک ہی تھا يا کعبہ کی جانب منہ کر کے نماز پﮍھنا بھی
شرک ہے ،بلکہ ان دونوں موارد پر تو شرک ميں خاصی شدت پائی جاتی ہے کيونکہ فرشتوں نے تو جناب آدم عليہ السالم
کے سامنے سجده کيا تھا نہ کہ حضرت آدم پر اور اس طرح تمام مسلمان بھی کعبہ پر سجده نہيں کرتے بلکہ کعبہ کے
سامنے سجده کرتے ہيں۔
اس کے باوجود کسی مسلمان نے يہ نہيں کہا کہ جناب آدم عليہ السالم کے سامنے يا کعبہ کی سمت سجده کرنا شرک ہے
کيونکہ حقيقت سجده يعنی نہايت خضوع وخشوع کے ساتھ خداوند متعال کے حکم کے سامنے سر نياز خم کرنا ہے اسی وجہ
سے کعبہ کی سمت سجده کرنا خدا کے حکم سے خدا کا سجده کرنا ہے اور جناب آدم عليہ السالم کے سامنے بھی جناب آدم
کا سجده اوال ً توحکم خدا تھا جس کی اطاعت کے لئے فرشتوں نے اپنی پيشانياں خم کی تھيں دوسرے يہ کہ يہ سجده شکر
ٰالہی کے طور پر تھا اور اس بنياد پر ہم سجده گاه خاک شفايا لکﮍی پر سجده تو کرتے ہيں ليکن يہ سجده خدا کے حکم کی
بجاآوری کے لئے ہے اور ہمارا يہ سجده اس چيز پر ہے جو زمين کے اجزاء ميں سے ہے جيسا کہ ہمارے مذہب کے راہنما
وپيشوا نے فرمايا ہے کہ خدا کے سجده کے وقت اپنی پيشانی کو زمين کے اجزاء مينسے کسی چيز پررکھو۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس کميٹی کے ايک شخص نے کہا” :پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے قبروں کے پاس نماز پﮍھنے سے نہی فرمايا
ہے۔
شيعہ مفکر” :يہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر سرار تہمت لگائی گئی ہے اگر قبروں کے پاس نماز پﮍھنے سے
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے نہی کيا ہے اور اسے حرام قرار ديا ہے تو الکھوں اور کروڑوں زائرين کيوں ان
کی مخالفت کرتے ہيں اور مسجد نبوی ميں آپ کی قبر اور عمر و ابوبکر کی قبروں کے سامنے اس فعل کے مرتکب ہوتے
ہيں؟“][6
اس سلسلہ ميں چند روايتيں بھی نقل ہوئی ہيں کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ان کے چند صحابيوں نے قبروں
کے قريب نماز پﮍھی ہے۔منجملہ صحيح بخاری ][7ميں نقل ہوا ہے کہ عيد قربان کے دن آنحضرت نے بقيع ميں نماز پﮍھی
اور اس کے بعد آپ نے فرمايا:
”آج کے دن کی خاص عباد ت يہ ہے کہ ہم نماز پﮍھيں اور اس کے بعد واپس ہوں اور قربانی کريں اور جس نے اس طرح
کيا اس نے گويا ميری سنت پر عمل کيا“۔
اس روايت کے مطابق رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے قبروں کے قريب نماز پﮍھی ہے ليکن تم لوگوں کو قبرونکے
پاس نماز پﮍھنے سے روکتے ہو کہ اسالم ميں يہ چيز جائزنہيں ہے اگر اسالم سے تمہارا مطلب شريعت محمدی ہے تو
صاحب شريعت حضرت محمد صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے خود بقيع ميں نماز پﮍھی ہے ہاں اس بات کی طرف توجہ رہے
کہ آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم جب مدينہ ميں وارد ہوئے تھے تو اس وقت بقيع قبرستان تھا اور اب بھی ہے۔
اس بنا پر پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے نزديک اور ان کی پيروی کرنے والوں کے نزديک قبروں کے پاس
نماز پﮍھنا جائز ہے۔ليکن تم لوگ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رائے کے خالف قبروں کے نزديک نماز پﮍھنے
سے منع کرتے ہو۔
اس سلسلہ ميں ايک غم انگيز واقعہ
ڈاکٹر سيد محمد تيجانی سماوی اہل سنت کے ايک ايسے مفکر ہيں جنھوں نے شيعيت اختيار کرلی وه لکھتے ہيں:
”ميں بقيع زيارت کے لئے گيا ہوا تھا اوروہانکھﮍا ہو کر اہل بيت عليہم السالم پر درود پﮍ ھ رہا تھا کہ ديکھا ايک بوڑھا
ضعيف اور ناتوان شخص رورہا ہے ميں نے ا س کے گريہ سے سمجھ ليا کہ وه شيعہ ہے تھوڑی ہی دير بعد يہ شخص قبلہ
رخ ہو کر نماز پﮍھنے ميں مشغول ہوگيا کہ ناگہاں ديکھا ايک سعودی فوج کا آدمی اس کے پاس دوڑا ہوا آيا جس سے يہ پتہ
چل رہا تھا کہ بہت ہی دير سے وه اس شيعہ کی ٹوه ميں لگا ہوا تھا آتے ہی اس نے اپنی اونچی ايﮍی کے جوتے سے اسے
اس طرح مارا کہ فوراًہی وه منہ کے بل زمين پر گر پﮍ ا اور کچھ دير کے لئے وه بے ہوش ہو گيا اور اسی بے ہوشی کی
حالت ميں فوج کا آدمی اسے کچھ دير تک مارتا اور برا بھال کہتا رہا۔
اس بوڑھے کو ديکھ کر ميرا دل بھر آيا اور خيال کيا کہ وه مر چکا ہے ،ميری غيرت جوش ميں آئی اور ميں نے اس فوجی
سے کہا:
”خدا خوش نہيں ہوگا اسے نماز پﮍھنے کی حالت ميں کيوں مار رہے ہو؟“
اس نے جھالّ کر مجھ سے کہا” :خاموش ہو جا ورنہ تيرا بھی يہی حشر ہوگا جو اس کا ہوا ہے“۔
ميں نے اسی جگہ بعض زائرين کو ديکھا وه کہہ رہے تھے۔”وه جوتے ہی کا مستحق ہے کيونکہ اس نے قبر کے پاس نماز
پﮍھی ہے“۔
ميں نے غصہ ميں کہا” :قبر کے پاس نماز پﮍھنا کس نے حرام قرار ديا ہے ؟اور طويل گفتگو کے بعد ميں نے کہا:
”اگربالفرض قبر کے پاس نماز پﮍھنا حرام ہے تو نرمی سے منع کرنا چاہئے نہ کہ غصہ سے“۔
ميں ايک باديہ نشين کا واقعہ تمہارے لئے نقل کرتا ہوں۔
پيغمبر اسالم کا زمانہ تھا ايک بے حيا اور بے شرم باديہ نشين نے آکر پيغمبر اسالم کے سامنے مسجد ميں پيشاب کر ديا يہ
ديکھ کر ايک صحابی اپنی شمشير لے کر اسے قتل کرنے کے لئے بﮍھا ليکن پيغمبر اسالم نے اسے سختی سے روکا اور
کہا” :اسے اذيت نہ دو ايک بالٹی پانی ال کر اس کے پيشاب پر ڈال دو تاکہ مسجد پا ک ہو جا ئے تم لوگوں کے امور کو آسان
کرنے لئے بھيجے گئے ہو نہ کہ اذيت دينے کے لئے)تم ميں جاذبيت ہونی چاہئے نہ کہ نفرت(
اصحاب نے پيغمبر کے حکم پر عمل کيا اس کے بعد آنحضرت نے باديہ نشين کو باليا اور اپنے قريب بٹھا کر بﮍے ہی نرم
لہجے ميں اس سے کہا” :يہ خدا کا گھر ہے اسے نجس نہيں کرنا چاہئے“۔
چنانچہ يہ سب ديکھ کر وه باديہ نشين اسی وقت مسلمان ہو گيا۔
کيا واقعی حرمين کے خدام کا اسی طرح سلوک ہونا چاہئے جس طرح وه ايک بوڑھے اور نابينا سے پيش آتے ہيں اور کيا
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس طرح اپنے اخالق کو پيغمبر کا اخالق کہہ کر لوگوں کے لئے اپنے کو نمونہ قرار ددے سکتے ہيں ؟][8
۵۵۔خاک شفا اور سجده گاه پر سجده کے بارے ميں ايک مناظره
مصر کی ”االزہر “يونيور سٹی کے فارغ التحصيل اہل سنت کے يک عالم دين جن کا نام ”شيخ محمد مرعی انطاکی “تھا اور
يہ شام کے رہنے والے تھے انھوں نے اپنی بہت ہی عظيم تحقيق کے بعد مذہب تشيع اختيار کر ليا ،وه اپنی کتاب ”لما ذا
اخترت مذہب الشيعة“ميں اپنے مذہب شيعہ اختيار کرنے کے سلسلہ ميں تمام علل واسباب کے مدارک لکھتے ہيں۔
يہاں پر اہل سنت سے ان کا ايک مناظره نقل کر رہے ہيں جو خاک شفا پر سجده کرنے کے سلسلے ميں ہوا تھا مالحظہ
فرمائيں:
محمد مرعی اپنے گھر ميں بيٹھے ہوئے تھے چند اہل سنت ان کے گھر پر ان سے مالقات کے لئے آئے جن ميں ان کے کچھ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
جامعہ ازہر کے پرانے دوست بھی تھے۔گھر پر گفتگو کے دوران بات چيت يہاں تک پہنچ گئی۔
علماء اہل سنت” :تمام شيعہ حضرات خاک شفا پر سجده کرتے ہيں اسی وجہ سے وه مشرک ہيں“۔
محمد مرعی” :خاک شفا پر سجده کرنا شرک نہينہے کيونکہ شيعہ خاک شفا پر خدا کے لئے سجده کرتے ہيں نہ کہ مٹی کا
سجده کرتے ہيں البتہ تمہارے فکر ميں اگر اس ميں کوئی چيز ہے اور شيعہ اس کا سجده کرتے ہيں تو وه شرک ہے ليکن
شيعہ اپنے معبود خدا کے لئے سجده کرتے ہيں نتيجہ ميں وه خدا کے سجده کے وقت اپنی پيشانی کو خاک پر رکھتے ہيں۔اس
سے واضح يہ کہ حقيقت سجده ،خدا کے سامنے خضوع وخشوع کا آخری درجہ ہے نہ کہ خاک شفا کے سامنے خضوع
وخشوع ہے۔
ان ميں سے ايک حميد نامی شخص نے کہا تمہيں اس چيز کی ميں داد ديتا ہوں کہ تم نے بہت ہی اچھا تجزيہ کيا ليکن ہمارے
لئے ايک اعتراض باقی ره جاتا ہے ،اور وه يہ کہ تم لوگ )شيعہ(کيوں اس چيز پر مصر ہو کہ خاک شفا پر ہی سجده کيا
جائے اور جس طرح مٹی پر سجده کرتے ہو اسی طرح دوسری تمام چيزوں پر سجده کيوں نہيں کرتے ؟
محمد مرعی” :ہم لوگ اس بنياد پر خاک پر سجده کرتے ہيں کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک حديث جو
تمام فرقوں ميں پائی جاتی ہے فرماياہے:
”جعلت لی االرض مسجدا وطہورا“
”زمين ميرے لئے سجده گا ه اور پاک وپاکيزه قرار دی گئی ہے“۔
حميد:کس طرح تمام مسلمان اس نظريہ پر اتفاق نہيں رکھتے ہيں ؟“
محمد مرعی” :جس وقت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدينہ کی طرف ہجرت کی اسی وقت آپ نے
مسجد بنا نے کاحکم ديا کيا اس وقت اس مسجد ميں فرش تھا؟“
حميد” :نہينفرش نہيں تھا“۔
محمد مرعی” :بس پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور اس وقت کے تمام مسلمانوں نے کس چيز پر سجده کيا تھا؟“
حميد” :مسلمانوں نے اس زمين پر سجده کيا تھا جس کا فرش خاک سے بنا ہوا تھا“۔
محمد مرعی” :بعد رحلت پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم ابو بکر ،عمر اور عثمان کی خالفت کے زمانہ ميں مسلمانوں نے
کس چيز پر سجده کيا؟کيا اس وقت مسجد ميں فرش تھا؟“
حميد” :نہيں فرش نہيں تھا۔ان لوگوں نے بھی مسجد کی زمين پر سجده کيا تھا“۔
محمد مرعی” :تمہارے اس اعتراض کی بنياد پر پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے تمام نمازوں کے سجدے زمين پر
کئے ہيں اس طرح تمام مسلمان نے آنحضرت کے زمانے ميں اور ان کے بعد بھی زمين پر ہی سجده کيا بس انھيں وجوه کی
بنا پر خاک پر سجده کرنا صحيح ہے“۔
حميد” :ہمارا اعتراض يہ ہے کہ شيعہ صرف خاک پر سجده کرتے ہيں اور خاک زمين سے لی گئی ہے اسے سجده گاه بنا
ديا اور جس پر وه اپنی پيشانيوں کو رکھتے ہيں اور سجده کے وقت اسی کو دوسری زمين پر رکھتے ہيں اور اس پر سجده
کرتے ہيں“۔
محمد مرعی” :اوالًيہ کہ شيعہ عقيده کے مطابق ہر طرح کی زمين پر سجده کرنا جائز ہے خواه پتھر کا فرش ہو يا خاک کا
فرش ہو۔ثانيا ً يہ کہ جہاں سجده کيا جائے وه پاک ہو بس نجس زمين يا خاک پر سجده کرنا جائز نہيں ہے اسی وجہ سے وه
مٹی کا ايک ٹکﮍا جو سجده گا ه کی شکل کا بنا يا جاتا ہے وه اپنے ساتھ رکھتے ہيں تاکہ اس بات کا اطمينان رہے کہ يہ پاک
ہے اور اس پر سجده ہو سکتا ہے۔
حميد” :اگر شيعوں کی مراد صرف پاک اور خاص مٹی پر سجده کرنا ہے تو کيوں اپنے ساتھ سجده گاه رکھتے ہيں کيوں
نہيں تھوڑی سے خاک اپنے پاس رکھتے ؟
محمد مرعی” :اپنے ساتھ خاک رکھنے سے کپﮍے وغيره گندے ہو سکتے ہيں کيونکہ خاک کی طبيعت ہے کہ اسے جہاں
بھی رکھا جائے گا وه اسے آلوده کر دے گی شيعہ حضرات اسی وجہ سے اس خاک کو پانی ميں مال کر ايک خوبصور ت
شکل کی سجده گاه بنا ليتے ہيں تاکہ اسے اپنے ساتھ رکھنے ميں زحمت نہ ہوا اور لباس گنده نہ ہونے پائے۔
حميد” :خا ک کے عالوه بورئے اور قالين وغير پر سجده کيوں نہيں کرتے ؟
محمد مرعی” :جيسا کہ ميں نے کہا کہ سجده کا مطلب يہ ہے کہ خدا کے سامنے آخری درجہ کا خشوع و خضوع کيا جائے،
ميں کہتا ہوں کہ خاک پر سجده کرنا خواه وه سجده گاه ہو يا نرم خاک ہو خدا کے سامنے زياده خشوع و خضوعپر داللت کرتا
ہے کيونکہ خاک سب سے زياده حقير چيز ہے اور ہم اپنے جسم کا سب سے عظيم حصہ )يعنی پيشانی(کوسب سے حقير اور
پست چيز پر سجده کے وقت رکھتے ہيں تاکہ خدا کی عبادت نہايت خشوع و خضوعسے کريں۔اسی وجہ سے مستحب ہے کہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
جائے سجده ،پير اور اعضائے بدن سے نيچی ہو تاکہ زياده سے زياده خضوع وخشوع پرداللت کرے اور اسی طرح يہ بھی
مستحب ہے کہ ناک کی نوک خاک ميں آلوده ہوتاکہ زياده سے زياده خضوع وخشوع کا اظہار ہو۔خاک کے ايک ٹکﮍے
)سجده گاه(پر سجده کرنا اسی وجہ سے تمام چيزوں سے بہتر ہے اگر کوئی انسان اپنی پيشانی کو ايک بہت ہی قيمتی سجده
گاه پر سونے چاندی کے ٹکﮍے پرسجده کرے تو اس سے اس کے خضوع وخشوع ميں کمی آجاتی ہے ،اور کبھی بھی
ايسابھی ہوسکتا ہے کہ بنده خدا کے سامنے اپنے کو چھوٹا اور پست شمار نہيں کرے گا۔
اسی وضاحت کے ساتھ کہ آيا کسی شخص کے خشک مٹی )سجده گاه( پر سجده کرنے سے تاکہ اس کا خضوع وخشوع خدا
کے نزديک زياده ہو جائے وه مشرک اور کافر ہوجائے گا؟ليکن قالين ،سنگ مرمر اور قالين و فرش وغيره پر سجده کرنا
خضوع وخشوع ميں زيادتی کرتا ہے اور تقرب خدا کا سبب بنتا ہے ؟ اس طرح کا تصور کرنے واال شخص غلط اور گھٹيا
فکر کامالک ہے“۔
حميد” :يہ کياہے جو شيعوں کی سجده گاه پر لکھا ہوا ہوتا ہے؟“
محمد مرعی” :اوالً يہ تمام سجده گاہوں پر لکھا ہوا نہيں ہوتا بلکہ اکثر ايسی ہيں جن پر کچھ نہيں لکھا ہوتا ہے ثانيا ً بعض پر
االعلی وبحمده‘ ‘ہے جو ذکر سجده کی طرف اشاره کرتاہے اور بعض سجده گاه پر ٰ لکھا بھی ہوتا ہے تو وه ”سبحان ربی
لکھا ہوا ہوتا ہے کہ يہ مٹی کربال سے لی گئی ہے تمہيں خدا کی قسم ہے آيا يہ لکھے ہوئے کلمات موجب شرک ہيں؟اور آيا
يہ لکھے ہوئے کلمات مٹی کو مٹی ہونے سے خارج کرديتے ہيں؟
حميد” :نہيں يہ ہرگز موجب شرک نہيں ہے اور اس پر سجده کرنے ميں عدم جواز پر کوئی دليل بھی نہينہے ليکن ايک
دوسرا سوال يہ کہ خاک شفا کيا خصوصيت رکھتی ہے کہ اکثر شيعہ خاک شفا پر ہی سجده کرنے کو ترجيح ديتے ہيں؟“
محمد مرعی” :اس کا راز يہ ہے کہ ہمارے ائمہ اہل بيت عليہم السالم سے روايت ہے کہ خاک شفا ہر خاک سے افضل و
برتر ہے۔امام جعفر صاد ق عليہ السالم نے فرمايا ہے:
”السجود علی تربة الحسين يخرق الحجب السبع“۔][13
”خاک شفا پر سجده کرنے سے ساتھ حجاب ہٹ جاتے ہيں“۔
يعنی نماز قبوليت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور آسمان کی طرف جاتی ہے نيز يہ بھی روايت ہے کہ آپ خدا کی بارگاه
ميں تذلل اور انکساری کی وجہ سے صرف خاک شفا پر سجده کرتے تھے۔] [14اس بنا پر خاک شفا ميں ايک ايسی فضيلت
ہے جو دوسری خاک ميں نہيں پائی جاتی ہے“۔
حميد” :آيا خاک شفا پر سجده کرنے سے نماز قبول ہوتی ہے اور اس کے عالوه اور کسی مٹی پر سجده کرنے سے نماز
قبول نہيں ہوگی ؟
محمد مرعی” :مذہب شيعہ کہتا ہے اگر آپ نماز کے شرائط صحت سے کوئی بھی شرط فاقد ہو جائے تو نمازباطل ہے اور
قبول نہيں ہوگی ليکن اگرنماز کے تمام شرائط پائے جاتے ہيں اور اس کا سجده خاک شفا پر کيا گيا ہو تو نماز قبول بھی
ہوگی اور ساتھ ساتھ وه اہميت کی بھی حامل ہوگی اور اس کا ثواب زياده ہو جائے گا۔
حميد” :کيا زمين کربال تمام زمينوں حتی مکہ اور مدينہ کی زمينوں سے بھی افضل وبرتر ہے تاکہ يہ کہا جائے کہ خاک شفا
پر نماز پﮍھنا تمام خاک سے افضل و برتر ہے؟“
محمد مرعی” :اس ميں کيا اعتراض ہے کہ خدا وند عالم نے خا ک کربال ہی ميناس طرح کی خصوصيت قرار دی ہو“۔
حميد” :زمين مکہ جو جناب آدم عليہ السالم سے لے کر آج تک مقام کعبہ ہے اور مدينہ کی زمين جس ميں پيغمبر اکرم صلی
ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک مدفون ہے کيا ان کا مقام ومنزلت کربال کی زمين سے کمتر ہے؟ يہ بﮍی عجيب بات ہے
کيا حسين عليہ السالم اپنے جد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے افضل و برتر ہيں؟
محمد مرعی” :نہيں ہر گز نہيں بلکہ امام حسين عليہ السالم کی عظمت ومنزلت ان کے جد رسول کی وجہ سے ہے ليکن
خاک کربال کو فضيلت حاصل ہونے کے سلسلے ميں يہ راز ہے کہ امام حسين عليہ السالم اس سر زمين پر اپنے نانا کے دين
کی راه ميں شہيد ہوئے ہيں امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب اور خاندان کے لوگوں نے شريعت محمد ی کی
حفاظت اور اس کی نشر واشاعت کے سلسلہ ميں اپنی جانيں قربان کی ہيں اس وجہ سے خداوند عالم نے انھيں تين
خصوصيتيں عنايت فرمائی ہيں۔
١۔آپ کے مرقد شريف ميں گنبد کے نيچے قبوليت دعا کی ضمانت۔
٢۔تمام ديگر ائمہ عليہم السالم آپ کی نسل سے ہيں۔
٣۔آپ کی خاک )خاک کربال(ميں شفا ہے۔
آيا اس طرح خاک کربال کو خصوصيتيں عطا کرنا کوئی اعتراض کا مقام ہے؟ کيا زمين کربال کو زمين مدينہ سے افضل
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کہنے کا يہ مطلب ہوا کہ امام حسين عليہ السالم اپنے نانا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے افضل وبرتر ہيں؟اور
تمہيں اس طرح اعتراض کرنے کا موقع مل جائے؟نہيں بلکہ مطلب اس کے بر عکس ہے يعنی امام حسين عليہ السالم کا
احترام ان کے جد رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا احترام ہے اور رسول اکرم کا احترام خدا کا احترام ہے“۔
جب يہ بات يہاں تک پہنچی تو انھيں ميں سے ايک شخص جو قانع ہو چکا تھا وه خوش ہو کر وہاں سے اٹھا اور ميری
تعريف و تمجيد کرنے لگا اور اس نے شيعوں کی کتابوں کی درخواست کرتے ہوئے مجھ سے کہا:
”تمہاری باتيں نہايت سنجيده اور مستحکم ہيں ابھی تک ميں خيال کررہا تھا کہ شيعہ امام حسين عليہ السالم کو رسول خدا
صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے افضل وبرتر سمجھتے ہيں۔آج مجھے حقيقت معلوم ہوئی ،تمہارے اس حسين بيان پر تمہار ا
بہت شکر گزار ہوں۔آج کے بعد سے ميں بھی خاک شفا کی سجده گاه اپنے ساتھ رکھو نگا اور اس پر نماز پﮍھوں گا۔][15
۵۶۔رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد اگر کوئی رسول ہوتا تو وه کون ہوتا؟
العظمی سيد عبد ﷲ شيرازی ( نے فرمايا” :جب ميں مکہ ميں تھا تو ”باب السالم“کے ٰ ايک مرجع تقليد )مرحوم آيت ﷲ
نزديک کتاب خريدنے ايک کتاب کی دوکان پر گيا تو وہاں بہت ہی پﮍھے لکھے اہل سنت کے عالم سے ميری مالقات ہوگئی
جب اس نے مجھے پہچان ليا کہ ميں ايک شيعہ عالم ہوں تو اس نے ميرا بہت ہی اچھی طرح احترام کيا اور مجھ سے چند
سواالت کئے جن ميں سے چند خاص خاص سواالت عرض کرتا ہوں۔اس نے مجھ سے يہ سوال کيا:
تم اس حديث کے بارے ميں کيا کہتے ہو کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے:
”لوکان نبی غيری لکان عمر“۔
”اگر ميرے بعد کوئی پيغمبر ہوتا تو وه عمر بن خطاب ہوتے“۔
ميں نے کہا” :پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ہر گز اس طرح کی کوئی حديث نہيں بيان کی ہے يہ حديث جھوٹی
اور جعلی ہے“۔
اس نے کہا” :کيا دليل ہے ؟“
ميں نے کہا” :تم حديث منزلت کے بارے ميں کيا کہتے ہو؟آيا يہ حديث ہمارے اور تمہارے درميان مسلم ہے يا نہيں کہ
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم سے فرمايا:
موسی اال انہ ال نبی بعدی“][16
ٰ ”يا علی انت منی بمنزلة ہارون من
موسی سے تھی مگر يہ کہ ميرے بعد کوئی نبی نہيں ٰ کو ”اے علی عليہ السالم !تمہارے نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون
ہوگا“۔
اس نے کہا” :ہماری نظر ميں اس حديث کے صحيح ہونے ميں کوئی شک وشبہ نہيں ہے“۔
ميں نے کہا” :اس حديث کی داللت التزامی سے يہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر پيغمبر اکرم کے بعد کوئی پيغمبر ہوتا تو وه
قطعی اور يقينی طور پر علی عليہ السالم ہوتے اس حديث کی بنا پر جس کا تم اعتراف کرتے ہو کہ يہ يقينی اور قطعی ہے
دوسری حديث خود بخود بے بنياد اور محض جھوٹ ثابت ہو جاتی ہے“۔
وه اس بات کے سامنے بے بس اور الچار ہو گيا اور حيرت زده ہو کر خاموشی اختيار کر لی۔][17
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ان دونوں کے انجام دينے والوں کی سزادوں گا وه دومتعہ ۔۔۔متعہ حج اور متعہ نساء ہے“۔
حضرت عمر کی اس بات )روايت وقرآن کے دالئل کو چھوڑ تے ہوئے (سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں متعہ رسول خدا
صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانے ميں جائز تھے ليکن اسے عمر نے حرام قرار ديا ہے۔ميں تم سے پوچھتا ہوں کہ عمر
نے کس وجہ سے ان کو حرام قرار ديا آيا وه رسول اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد پيغمبر تھے اور انھيں خدا وند
متعال نے حکم ديا کہ تم ان دونوں کوحرام کر دو يا عمر پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی؟ کسی دليل سے انھوں نے
متعہ کو حرام قرار ديا جب کہ يہ بھی ہے:
”حالل محمد حالل الی يوم القيامة وحرامہ حرام الی يوم القيامة“۔
”حالل محمد قيامت تک کے لئے حالل اورحرام محمد قيامت تک کے لئے حرام ہے“۔
آيا اس طرح کی تبديلی ايک قسم کی بدعت نہيں ہے جب کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا” :ہر بدعت
گمراہی ہے اور گمراہی کی وجہ سے انسان جہنم ميں جھونکا جائے گا “اس وجہ سے اب مسلمان کس دليل سے عمر کی
بدعت کی پيروی کرتے ہيں اور پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بات کو چھوڑ ديتے ہيں؟“][19
وه اس طرح کی باتوں کے سامنے بے بس و الچار ہو کر خاموش ہو گيا۔
مولف کا قول” :اس سلسلہ ميں بہت سی باتيں ہيں کہ ليکن اس بات کا اصلی مقام فقہی کتابيں ہيں۔
سوره نساء کی ٢۴ويں آيت متعہ کے جائز ہونے پر ايک دليل ہے صرف يہاں پر متعہ کے بارے ميں امام علی عليہ السالم ٔ
سے ايک روايت نقل کرنا ہی کافی سمجھتے ہيں۔
”ان المتعة رحمةٌ رحم ﷲ بھا عباده ولوالنھی عمر مازنی اال شقی“۔][20
”يقينا متعہ ايک ايسی رحمت ہے جس کے ذريعہ خدا وند عالم نے اپنے بندوں پر رحم کيا ہے اور اگر اسے عمر حرام نہ
کرتے تو کسی بد بخت کے عالوه زنا کا کوئی مرتکب نہ ہوتا۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”وما ارسلناک اال رحمة للعالمين “ ][24
”اور ہم نے تمہيں صرف عالمين کے لئے رحمت بنا کر بھيجا ہے“۔
عيسائی عالم” :يہ بات ميں اپنی طرف سے نہيں کہہ رہا ہوں بلکہ يہ بات ميں نے بغداد کے ايک مسلمان خطيب سے سنا
ہے“۔
شيعہ مفکر” :ہم شيعوں کے نزديک يہی مشہور ہے جو ميں نے کہا آيت سوره عبس عثمان کے لئے نازل ہوئی ہيں ليکن
بعض پست اور بنی اميہ کے زر خريد راويوں نے عثمان کی عزت محفو ظ رکھنے کے لئے ان آيتوں کی نسبت رسول خدا
سوره عبس کی آيت ميں تصريح نہيں ہوئی ہے کہ جس نے اس ٔ صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی طرف ديدی ہے۔بعبارت ديگر
نابينا سے منہ موڑا تھا وه شخص کون تھا؟ايک قرينہ کے مطابق جيسے سوره قلم کی چوتھی آيت اور سوره انبياء کی ١٠٧
ويں آيت ميں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ سوره عبس کا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے کوئی تعلق نہيں
ہے۔
امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا” :سوره عبس بنی اميہ کے ايک شخص کے سلسلے ميں نازل ہوا جو آنحضرت کے
ساتھ ساتھ رہا اور اس نے جب ابن ام مکتوم نابينا کو ديکھا تو اس پر ناراض ہو ا اور اس سے دور بھاگنے لگا اور اس نے
اپنا منہ موڑ ليا۔][25
يہ سن کر عيسائی عالم بے بس ہو گيا اور اس کے بعد کچھ نہيں کہا۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
قاضی” :يہ روايت صحيح ہے“۔
شيخ مفيد :اس روايت ميں کلمہ موال سے کيا مراد ہے ؟“
قاضی” :موال سے مطلب سر پرست اور اولويت ہے“۔
شيخ مفيد :اگر اسی طرح ہے تو پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے فرمان کے مطابق علی عليہ السالم دوسرے لوگوں کے
سرپرست اور سب پر اولويت رکھتے ہيں“۔
اب اس حديث کے بعد شيعہ اور سنی کے درميا ن اختالف اور دشمنی کيوں ہے ؟“
قاضی” :اے بھائی ! يہ حديث” غدير“ روايت ہے ليکن خالفت ابو بکر ”درايت“اور امر مسلم ہے اور عاقل شخص روايت
کی خاطر درايت کو ترک نہيں کرتا“۔
شيخ مفيد :تمام حديث کے بارے ميں کہتے ہو کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم کے بارے ميں
فرمايا:
”يا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔
”اے علی عليہ السالم ! تمہاری جنگ ميری جنگ اور تمہاری صلح ميری صلح ہے“۔
قاضی” :يہ حديث صحيح ہے“۔
شيخ مفيد:اس حديث کی بنياد پر جن لوگوں نے جنگ جمل شروع کی جيسے ،طلحہ،زبير ،عائشہ وغيره علی عليہ السالم سے
جنگ کی اس حديث کی رو سے )جب کہ تمہارا يہ بھی اعتراف ہے کہ حديث صحيح ہے( تو ان لوگوں نے گويا رسول خدا
صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے جنگ کی اور يہ لوگ کافر ہوئے“۔
قاضی” :اے بھائی!طلحہ وزبير وغيره نے توبہ کر لی تھی“۔
شيخ مفيد:جنگ جمل درايت اور قطعی ہے ليکن يہ جنگ کرنے والوں نے توبہ کی يہ روايت اور ايک سنا ہوا قول ہے اور تم
نے خود ہی کہا ہے کہ درايت کو روايت پر قربان نہيں کرنا چاہئے او ر عاقل شخص درايت کو روايت کی وجہ سے ترک
نہيں کرتا ہے“۔
قاضی” :اس سوال کا جواب دينے سے بے بس ہو گيا اور ايک لمحہ بعد اس نے چونک کر اپنا سر اٹھا يا اور کہا ”تم کون
ہو“
شيخ مفيد ” :ميں آپ کا خادم محمد بن محمد نعمان ہوں“۔
قاضی ،اس وقت اپنی جگہ سے اٹھے اور شيخ مفيد کا ہاتھ پکﮍ کر اس نے اپنی جگہ بٹھا کر ان سے کہا:
”انت المفيد حقا ً “تم حقيقت ميں مفيد ہو“۔
بزم کے تمام علماء قاضی کی اس بات سے رنجيده ہوئے اور کافی شور وغل مچايا ،قاضی نے ان لوگوں سے کہا” :ميں اس
شيخ مفيد کا جواب دينے ميں بے بس ہو گيا تم ميں سے جو بھی ان کا جواب دے سکے وه اٹھے اور بيان کرے“۔
ايک آدمی بھی نہيں اٹھا اس طرح شيخ مفيد کامياب ہوگئے اور اسی بزم سے ان کا لقب مفيد ہوگيا جو تمام لوگوں کی زبان پر
آج تک جاری ہے۔][30
گجنينہ صفا
ٔ مجموعہ فضائل و
)”اے يار غار !سردار و صديق و رہبر! اے مجموعہ فضائل اور پاکيزگی و صفا کے مرکز! لوگ آپ کے نقش قدم پر چلتے
ہيں ليکن نہ اس طرح کہ آپ نے ازدہا کے منھ اپنا ہاتھ رکھ ديا ہے“(
اب مذکوره باال مطلب کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ذيل ميں شيخ مفيد عليہ الرحمة کا )جن کی زندگی کے حاالت گزر
چکے( ايک مناظره نقل ہوا ہے ۔مالحظہ فرمائيں:
عالمہ طبرسی کتاب ”احتجاج “ميں اور کراجکی ”کنزالفوائد“ميں شيخ ابو علی حسن بن محمد رقی سے نقل کرتے ہيں کہ
شيخ مفيد نے فرمايا” :ايک شب ميں نے خواب ميں ديکھا کہ راستہ چل رہا ہوں چلتےچلتے ميری نظر لوگوں پﮍی تو ديکھا
کہ لوگ ايک شخص کے گرد جمع ہيں اور وه ان لوگوں کو قصہ سنا رہا ہے ميں نے پوچھا وه مرد کون ہے؟”لوگوں نے کہا
عمر بن خطاب ہيں“۔
ميں حضرت عمر کے قريب گيا تو ديکھا ايک شخص ان سے بات کر رہا ہے ليکن ميں ان کی باتوں کو نہيں سمجھ پارہا ہوں
بتاو کہ آيہ ٔغار)ثانی اثنين ٕاذھما فی الغار(سے ابو بکر کی برتری کی کيا ان لوگوں کی بات کاٹ کر ميں نے کہا” :مجھے ٔ
دليل ہے“۔
عمر نے کہا” :اس آيت ميں ايسے چھ نکات ہيں حضرت ابو بکر کی فضيلت کی حکايت کرتے ہيں“ ،ان چھ نکتوں کو شمار
کر نا شروع کيا:
خدا وند متعال نے قرآن ميں )سوره توبہ ،آيت( ۴٠پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو خطاب کيا ہے اور ابو بکر کو ان
کے بعد دوسرا شخص قرار ديا ہے۔)ثانی اثنين(
٢۔خدا وند متعال نے ان دونوں )پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم اور ابوبکر(کو ايک ساتھ اور ايک جگہ خطاب کيا ہے يہ
خود ان دونوں کے تعلقات کی حکايت ہے۔ )اذھما فی الغار(
٣۔خدا وند متعال نے مذکوره آيت ميں ابو بکر کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا رفيق کہہ کر خطاب کيا ہے جو
خود ابو بکر کے رتبہ اور منزلت کی حکايت کرتا ہے۔ )اذيقول لصاحبہ(
۴۔خدا وند متعال نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی عشق ومحبت کی وجہ سے ابو بکر کو خبر دی کہ مذکوره
آيت کے مطابق پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ابوبکر سے کہا):وال تحزن(غمگين نہ ہو۔
۵۔پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے کہا” :خدا وند متعال ہم دونوں کا برابر کا ہمدرد ہے اور ہماری
طرف سے دفاع کرنے واال ہے۔ )ان ﷲ معنا(
۶۔خداوند متعال نے اس آيت ميں ابو بکر کے لئے سکينہ )سکون قلب( نازل ہونے کی خبر دی ہے کيونکہ پيغمبر اکرم صلی
ﷲ عليہ و آلہ و سلم ہميشہ چين و سکون ميں تھے وه سکينہ کے نازل ہونے کے محتاج نہيں تھے) :فانزل ﷲ سکينتہ عليہ(
يہ چھ نکتے ابو بکر کی فضيلت کو ثابت کررہے ہيں کہ کوئی شخص ان کے رد کرنے کی قدرت نہيں رکھتا ہے۔
شيخ مفيد کہتے ہيں” :سچ مچ تم نے ابوبکر سے اپنی رفاقت اور دوستی کا حق ادا کيا ليکن اب ميں خدا کی مدد سے ان چھ
نکتوں کا جواب اس طرح دے رہا ہوں جيسے آندھی کی تيز ہوا راکھ کو اُڑا لے جاتی ہے۔
١۔ابوبکر کو اس آيت ميں دوسرا شخص قرا رد ينا ان کی فضيلت نہيں ہے کيونکہ مومن مومن کے ساتھ اور اسی طرح مومن
کافر کے ساتھ ايک جگہ ره سکتے ہيں اور جب انسان ان دونوں ميں سے کسی ايک کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو کہے گا ان
دونوں ميں دوسرا )ثانی اثنين(
٢۔پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ابوبکر کا ايک ساتھ ذکر کرنا بھی ابوبکر کی فضيلت پر داللت نہيں کرتا ہے
جيسا کہ پہلی دليل ميں کہا کہ ايک جگہ اکٹھا ہونا اچھائی پر دليل نہيں ہے بہت سے مواقع پر مومن اور کافر ايک جگہ اکٹھا
ہوتے ہيں جيسے مسجد پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم جو غار ثور سے نہايت ہی بافضل ہے وہاں پر بھی مومن اور منافق
ايک ساتھ جمع ہوتے تھے۔اسی لئے ہم قرآن ميں سوره معارج کی ٣۶ويں اور ٣٧آيت پﮍھتے ہيں۔
ک ُم ْہ ِط ِعينَ ۔ ع َْن ْاليَ ِم ِ
ين َوع َْن ال ﱢش َم ِ
ال ِع ِزينَ “ ال الﱠ ِذينَ َکفَرُوا قِبَلَ َ
” فَ َم ِ
”پس ان کافروں کو کيا ہوا ہے جو تمہارے پاس جلدی جلدی داہنے بائيں سے گروه در گروه آتے ہيں اور اسی طرح کشتی
نوح ميں پيغمبر ،شيطان اور تمام جانورايک جگہ جمع ہو گئے تھے“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
غرض ايک جگہ جمع ہونا دليل فضيلت نہيں ہے۔
٣۔ليکن مصاحب ہونے کے بارے ميں يہ بھی فضيلت کی دليل نہيں ہے کيونکہ يہاں پر مصاحب ہمراه کے معنی ميں ہے
بہت سے موقع پر کافر مومن کے ہمراه ہوتا ہے جيسا کہ خداوند متعال قرآن مجيد ميں فرماتا ہے:
او ُرهُ أَ َکفَرْ تَ ِبالﱠ ِذی َخلَقَ َ
ک ِم ْن تُ َراب“][32 احبُہُ َوہُ َو يُ َح ِ
ص ِ ” قَا َل لَہُ َ
”اس سے )کافر(اس کے )مومن(دوست نے بات کے درميان کہا کيا تو اس کا انکار کررہا ہے جس نے تجھے مٹی سے پيدا
کيا؟“
۴۔يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے فرمايا”” :ال تحزن “غمگين نہ ہو “يہ ابو بکر کی خطا پر
دليل ہے نہ کہ ان کی فضيلت پر کيونکہ يہ حزن يا اطاعت کی وجہ سے تھا يا گناه تھا اگر اطاعت تھا تو رسول خدا صلی ﷲ
عليه و آله وسلم کبھی اس کے لئے منع نہ کرتے پس پتہ چال گناه تھا جس سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے منع
کيا۔
۵۔يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا”:ان ﷲ معنا“)خدا ہمارے ساتھ ہے (اس سے مراد يہ نہيں ہے کہ
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے دونوں کے لئے فرمايا ہے نہيں بلکہ اس سے مراد خود تنہا پيغمبر اکرم صلی ﷲ
عليہ و آلہ و سلم نے خود اپنے لئے جمع کا صيغہ استعمال کيا ہے جيسا کہ خدا وند متعال نے اپنے لئے لفظ جمع استعمال کيا
ہے۔
ُ ْ ﱢ ْ
” ِٕانﱠا نَحْ نُ نَزلنَا الذک َر َو ِٕانا لہُ ل َحافِظون“][33
َ َ ﱠ ﱠ
”ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں“۔
۶۔يہ کہ تم نے کہا کہ سکينہ اور آرام ابو بکر پر نازل ہوا آيت کا ظاہری سياق اس کا مخالف ہے کيونکہ سکينہ اس شخص پر
نازل ہوا جس کی مدد کے لئے خداوند متعال نے نامرئی )نہ دکھائی دينے واال( لشکر روانہ کيا اور يہ خود پيغمبر اکرم صلی
ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی ذات ہے۔
اور اگر تم يہ کہنا چاہتے ہو کہ دونوں)سکينہ اور نامرئی لشکر(ابو بکر کے لئے تھا تو يہاں چاہئے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ
عليہ و آلہ و سلم کو نبوت سے خارج کردو۔
بس اس سے معلوم ہوا کہ سکينہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا کيونکہ تنہا رسول ہی تھے جو غار
ميں اس چيز کے لئے مناسب تھے ليکن دوسری جگہوں پر پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ ساتھ مومنين پر بھی
سوره فتح آيت ٢۶پﮍھتے ہيں:
ٔ سکينہ نازل کيا گيا ہے ان کا الگ الگ ذکر پايا جاتا ہے۔جيسا کہ
”فَأَ ْن َز َل ﷲُ َس ِکينَتَہُ َعلَی َرسُولِ ِہ َو َعلَی ْال ُم ْؤ ِمنِينَ “
بہتر ہے کہ اس آيت سے اپنے دوست کی فضيلت ثابت نہ کرو تو بہتر ہے۔
شيخ مفيد کہتے ہيں اس کے بعد عمر ميرا جواب نہ دے سکا اور لوگ اس سے دور بھاگے اتنے ميں ميری آنکھ کھل
گئی۔][34
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
خدا وند متعال نے اس آيت ميں ابو بکر کو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا مصاحب اور دوست کہہ کر تعارف کرا رہا
ہے۔
مامون” :عجيب بات ہے لغت اور قرآن سے تم کتنی کم آگاہی رکھتے ہو کيا کبھی کافر مومن کا مصاحب اور رفيق نہيں
ہوتا؟ايسی صورت ميں يہ مصاحب کافر کے لئے کس افتخار کا سبب بنے گی؟ جيسا کہ قرآن ميں سوره ٔ کہف آيت ٣٧ميں
خدا وند متعال فرماتا ہے:
ُ ْ
ک ِمن ت َراب“ َ َ ﱠ تَ
او ُرهُ اکفرْ بِال ِذی َخلق َ َ َ َ ٔ احبُہُ َوہُ َو يُ َح ِ ص ِ ” قَا َل لَہُ َ
”اس کے ايک ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تو اس کا انکار کرديا ہے جس نے تجھے خاک سے پيدا کيا ہے“۔
اس آيت کے مطابق مومن کافر کا ساتھی شما ر کيا گيا ہے۔
بہت سے فصحائے عرب کے اشعار بھی اس بات پر شاہد ہيں کہ کبھی کبھی انسانوں کے ساتھی حيوان بھی ہوتے ہيں ،ل ٰہذا
ساتھی ہونا کسی بھی طرح کی دليل وافتخار نہيں ہے“۔
اسحاق” :پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مذکوره آيت کے مطابق ابو بکر کو اطمينان داليا اور دل جوئی کی اور
ان سے فرمايا”:ال تحزن“ )يعنی غمگين نہ ہو(
بتاو کيا ابو بکر کا حزن ومالل گناه تھا يا اطاعت ؟اگر تم يہ سمجھتے ہو کہ اطاعت تھا تو اس صورت ميں مامون” :مجھے ٔ
تم نے گويا فرض کر ليا کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اطاعت سے منع کيا)جب کہ اس طرح کی نسبت پيغمبر اکرم
صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے متعلق بالکل غلط ہے(اور اگر کہتے ہو کہ وه عمل گناه تھا تو اب گناه کے لئے تم کون سی
فضيلت اور افتخار کو ثابت کرتے ہو؟“
اسحاق” :خدا وند متعال نے مذکوره آيت ميں اپنا سکون اور آرام )سکينہ( ابو بکر پر نازل کيا يہ خود ان کے لئے فضيلت اور
افتخار ہے اور يہ خدا کا آرام وسکون ابو بکر سے مخصوص ہے نہ کہ پيغمبر اکرم سے کيونکہ وه راحت وسکون کے
محتاج نہيں ہيں“۔
سوره توبہ کی ٢۵۔ ٢۶ويں آيت ( فرماتا ہے:- ٔ مامون” :خداوند متعال قرآن کريم ميں )
ت ثُ ﱠم َولﱠ ْيتُ ْم ُم ْد ِب ِرينَ #ثُ ﱠم أَن َز َل ﷲُ َس ِکينَتَہُ َعلَی ت َعلَ ْي ُک ْم ْ َٔ
االرْ ضُ ِب َما َر ُحبَ ْ َ◌”يَوْ َم ُحنَي ٍْن ِٕا ْذ أَ ْع َجبَ ْت ُک ْم َک ْث َرتُ ُک ْم فَلَ ْم تُ ْغ ِن َع ْن ُک ْم َش ْيئًا َو َ
ض اق َ ْ
َرسُولِ ِہ َو َعلَی ْال ُم ْؤ ِمنِينَ “
”خدا نے تمہاری بہت سی جگہوں ميں مد د کی اور حنين کے دن جب تمہيں تمہاری کثرت نے تعجب ميں ڈال ديا تھا مگر
اس کثرت نے تمہاری کوئی مدد نہ کی اور زمين تمہارے اوپر تنگ ہو گئی پھر تم ميدان سے پيٹھ دکھا کر بھاگ کھﮍے
ہوئے پھر خداوند متعال نے اپنا سکينہ اپنے رسول اور مومنين پر نازل کيا“۔
اے اسحاق ! کيا تو جانتا ہے کہ جن مومنوں نے فرار نہيں اختيار کيا تھا اور جنگ حنين ميں پيغمبر کے ساتھ ساتھ ميدان
جنگ ميں رہے وه کون لوگ تھے؟
اسحاق” :نہيں ميں نہيں جاتنا“۔
مامون:جنگ حنين ) جو سرزمين مکہ اور طائف کے درميان ہجرت کے آٹھويں سال واقع ہوئی(تمام اسالمی لشکر شکست
کھا کر ميدان سے فرار ہو چکا تھا اور ميدان جنگ ميں صرف پيغمبر اور ان کے ساتھ بنی ہاشم کے سات افراد باقی ره گئے
تھے جن ميں علی عليہ السالم تلوار سے جنگ کرتے تھے عباس )پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے چچا( نے
آنحضرت کو گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ ميں تھام رکھی تھی اور پانچ دوسرے افراد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم
کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت ميں لگے ہوئے تھے تاکہ کافروں سے انھيں کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے ][35
نتيجہ ميں خداوند متعال نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو فتح و کامرانی عطا کی )يہاں تک کہ خداوند متعال نے
اپنے آرام وسکون )سکينہ( کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور مومنين پر نازل کيا(
اس سے ثابت ہوا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم بھی ٰالہی آرام وسکون کے محتاج تھے اور مومنين سے مراد
اس آيت ميں علی عليہ السالم اور چند لوگ بنی ہاشم کے ہيں جو ميدان جنگ ميں حاضر تھے اس بنا پر کون افضل ہے ؟آيا
وه لوگ جو ميدان جنگ حنين ميں پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ ره گئے تھے اور ٰالہی آرام وسکون پيغمبر صلی
ﷲ عليه و آله وسلم اور ان لوگوں پر نازل ہوا وه لوگ برتر ہيں يا وه شخص جو پيغمبر اکرم کے ساتھ غار ميں تھا اور اس
کے لئے سکون وراحت نازل کرنا مناسب بھی نہيں تھا؟
اے اسحاق!کون شخص بہتر ہے آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ غار ميں رہنے واال يا آنحضرت پر جان فدا
کرکے ان کے بستر پر چين کی نيند سونے واال؟ کيونکہ جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے جا رہے تھے تو خدا کے حکم کے
مطابق حضرت علی عليہ السالم سے فرمايا” :تم ميرے بستر پر سو رہو۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سوجاوں تو آپ کی جان بچ جائے گی ؟“
ٔ حضرت علی عليہ السالم نے پوچھا” :اے رسول خدا !اگر ميں آپ کے بستر پر
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا” :جی ہاں“۔
حضرت علی عليہ السالم نے عرض کيا” :سمعا ً و طاعةً“
اس کے بعد آپ بستر رسول پر آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی چادر تان کر سوگئے۔مشرکين تمام رات انتظار کرتے
رہے اور وه شک بھی نہ کر سکے کہ اس بستر پر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے عالوه کوئی اور سو رہا ہے۔
يہ منصوبہ تمام مشرکين کی اتفاق رائے سے وجود ميں آيا تھا کہ ہر قبيلہ کا ايک شخص آپ کے پاس جا کر ايک ايک
ضربت لگائے تاکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم قتل ہو جائيں اور ان کا قاتل کوئی ايک شخص نہ ہو تاکہ بنی ہاشم
پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا انتقام نہ لے سکيں۔
حضرت علی عليہ السالم مشرکوں کی تمام باتيں سن رہے تھے ليکن انھوں نے ذرا بھی بيتابی کا اظہار نہيں کيا جب کہ ابو
بکر پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ غار ميں رہتے ہوئے بھی بے تابی کا اظہار کر رہے تھے اور علی عليہ
السالم نے تنہا ہوتے ہوئے بھی مکمل خلوص سے استقامت کی اور خداوند متعال نے علی عليہ السالم کے پاس فرشتے
بھيجے تاکہ وه مشرکوں سے ان کی حفاظت کريں۔
حضرت علی عليہ السالم نے اپنی زندگی ميں اس طرح کی فداکاری اور ايثار کيا اور وه اپنی طويل حيات ميں بہت ہی عظيم
فضائل ومناقب کے حامل تھے يہاں تک کہ خداوند متعال کے نزديک بہت ہی محبوب اور مقبول حالت ميں اس دنيا سے
رخصت ہوئے۔][36
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”بے شک حضرت فاطمہ سالم ﷲ عليہا )ميرے جگر کا ٹکﮍا ہے ( جس نے اسے اذيت دی اس نے مجھے اذيت دی اور
جس نے مجھے اذيت دی اس نے خدا کو اذيت دی“۔
پس اس حديث کی بنياد پر ان دونوں نے يقينی طور پر جناب فاطمہ سالم ﷲ عليہا کو اذيت دی اور فاطمہ سال م ﷲ عليہا کو
اذيت دينا خدا و رسول کو اذيت دينا ہے ان چيزوں کو جانتے ہوئے کيا کوئی يہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سالم
ﷲ عليہا کو اذيت دينا گناه صغيره ہے؟ہاں اگر يہ گناه صغيره ہے تو پھرگناه کبيره کيا ہے؟کيا خدا وند متعال قرآن مجيد ميں
نہيں فرماتا:
” ِٕا ﱠن الﱠ ِذينَ ي ُْؤ ُذونَ ﷲَ َو َرسُولَہُ لَ َعنَہُ ْم ﷲُ ِفی ال ﱡد ْنيَا َو ْاآل ِخ َر ِة َوأَ َع ﱠد لَہُ ْم َع َذابًا ُم ِہينًا“][39
”بے شک جو لوگ ﷲ اور اس کے رسول کو اذيت پہنچاتے ہيں ان پر ﷲ دنيا اور آخرت ميں لعنت بھيجتا ہے اور اس نے ان
کے لئے اہانت آميز عذاب تيار کررکھا ہے“۔
کيا گناه صغيره انجا م دينے واال شخص خدا اور رسول کی لعنت کا مستحق نہيں ہے؟
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہوناہمارے درميان سے جاتی رہے گی کيا قرآن يہ نہيں فرمارہا ہے:
” َو َما آتَا ُک ْم ال ﱠرسُو ُل فَ ُخ ُذوهُ َو َما نَہَا ُک ْم َع ْنہُ فَا ْنتَہُوا“][44
”جو کچھ رسول تم کو ديں اسے لے لو اور جس چيز سے منع کريں اسے ترک کردو“۔
سوره احزاب ميں خدا کا ارشاد ہے: ٔ اسی طرح
ضی ﷲُ َو َرسُولُہُ أَ ْمرًا أَ ْن يَ ُکونَ لَہُ ْم ْال ِخيَ َرةُ ِم ْن أَ ْم ِر ِہ ْم “][45 ” َو َما َکانَ ِل ُم ْؤ ِم ٍن َوالَ ُم ْؤ ِمنَ ٍة ِٕا َذا قَ َ
”کسی مومن يا مومنہ کو حق حاصل نہيں ہے کہ وه خدا اور اس کے رسول کے فيصلے کے بعد )کس شئے پر( اختيار
رکھے“۔
آيا پيغمبر )ص( نے يہ نہيں فرمايا:
”حالل محمد حالل الی يوم القيامة وحرام محمد حرام الی يوم القيامة“۔][46
”حالل محمد قيامت تک کے لئے حالل ہے اور حرام محمد قيامت کے لئے حرام ہے“۔
نتيجہ يہ ہوا کہ اسالم کے صريحی احکام کو بدلنا نہيں چاہئے کہ يہ کام تو پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم بھی نہيں کر
سکتے تھے جيسا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بارے ميں قرآن ميں پﮍھتے ہيں۔][47
ين ۔ثُ ﱠم لَقَطَ ْعنَا ِم ْنہُ ْال َوتِينَ ۔ فَ َما ِم ْن ُک ْم ِم ْن أَ َح ٍد َع ْنہُ َح ِ
اج ِزينَ “][48 يل۔ ََٔ
ال َخ ْذنَا ِم ْنہُ ِب ْاليَ ِم ِ او ِاالقَ ِ ْض ْ َٔ ” َولَوْ تَقَ ﱠو َل َعلَ ْينَا بَع َ
”اور اگر وه )پيغمبر( ہماری طرف جھوٹی باتيں منسوب کرتے تو ہم انھيں قوت سے پکﮍ ليتے پھر ان کی رگ قلب کو قطع
کر ديتے اور تم لوگوں ميں سے کوئی بھی اسے روک نہيں سکتا تھا“۔
تيسراحصہ
ڈاکٹرسيد محمد تيجانی کے مناظرے
اشاره:
ڈاکٹر محمد تيجانی سيماوی ”تيونس“کے رہنے والے ہيں وه اپنے شہريوں اور خاندان والوں کے دين کے مطابق اہل سنت
ميں مالکی مسلک کے پيروکارتھے ،علمی منازل طے کرنے کے بعد پﮍھےلکھے مفکروں ميں ان کا شمار ہونے لگا ڈاکٹر
محمد تيجانی نے اسالمی مذاہب ميں مذہب حقہ کی تحقيق ميں بﮍے ہی ہوش وحواس کے ساتھ انتھک کوشش کی اس سلسلہ
ميں انھوں نے متعدد سفر بھی کئے جيسے نجف اشرف ميں آيت ﷲ خوئی اور شہيد باقر الصدر اعلی ﷲ مقامہم کے پاس
پہنچے اور نہايت ہی عميق تحقيق کے بعد مذہب تشيع کو قبول کيا اوراپنے شيعہ ہونے کا قانونی طور پر اعالن کر ديا اور
اپنے اس تحقيق کو اپنی قيمتی کتاب ”ثم اھتديت “ميں بيان کيا ہے۔][49
۶۴۔ توسل کے بارے ميں ڈاکٹر تيجانی سے آيت ﷲ شہيد صدر کا مناظره
ڈاکٹر تيجانی پہلے مالکی مذہب کے پيروکار تھے انھوں نے تيونس سے نجف اشرف کا سفر کر کے اپنے دوست کے ذريعہ
العظمی سيد شہيد صدر ] [50کی خدمت ميں پہنچے انھوں نے وہاں پہنچ کر تحقيق اور مناظره شروع کيا۔ ٰ آيت
ڈاکٹرتيجانی نے پہلے اس طرح سوال شروع کئے:
سعودی علماء کہتے ہيں:
”قبر پر ہاتھ رکھنا )چومنا(صالحين کو وسيلہ قرار دينا ان سے متبر ک ہونا شرک ہے ،اس بارے ميں آپ کا کيا نظريہ ہے
؟“۔
آيت ﷲ صدر نے فرمايا” :اگر کوئی انسان اس عقيده سے قبر چومے يا انھيں وسيلہ قرار دے کہ وه )بغير اذن خدا کے
(مستقل طور پر ہميں ضرر و نفع پہنچا سکتے ہيں تو يہ شرک ہے ،ليکن مسلمان خدائے وحده ال شريک کی عبادت کرنے
واال جانتا ہے کہ صرف اور صرف خدا ہی وه ہے جو ضررونفع پہنچا سکتا ہے اور يہ اوليائے خدا اور اس کے درميان
واسطہ اور وسيلہ ہيں انھيں اس طرح واسطہ و وسيلہ قرار دينا ہرگز شرک نہيں ہے تمام سنی اور شيعہ مسلمان رسول اکرم
صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک اسی نظريہ پر متفق ہيں۔
يہ صرف وہابيت اور سعودی علماء ہيں جو اسی صدی ميں پيدا ہوئے ہيں انھوں نے ہم مسلمانونکے خالف ايک ڈھونگ رچ
رکھا ہے اور يہ لوگ مسلمانوں کے خون کو مباح بھی جانتے ہيں اور ان کے درميان فتنہ انگيزی کرتے ہيں يہ لوگ قبر کو
چومنا اور ائمہ اعليہم لسالم کو وسيلہ قرار دينا شرک سمجھتے ہيں۔
اس کے بعد شہيد نے فرمايا:سيد شرف الدين )شيعوں کے ايک عظيم محقق (صاحب کتاب ”المراجعات “”عيد غدير“کے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
موقع پر خانہ خدا کی زيارت کے لئے مکہ تشريف لے گئے۔وہاں دستور کے مطابق عبد العزيز][51کو مبارک باد پيش
کرنے کے لئے عيد قربان کے روز تمام سعودی علماء ١١۵٣ء ھ ميں اس نے خود ساختہ وہابی عقائد کا اعالن کر ديا کچھ
لوگوں نے ا س کی پيروی کی اور ١١۶٠ھ ميں يہ نجد کے ايک دوسرے مشہور و معروف شہر ”درعيہ“چال گيا جہاں اس
نے شہر کے حاکم ”محمد بن سعود “سے راه رسم پيدا کی اور پھر ان دونوں نے يہ فيصلہ کر ليا کہ مل جل کر اس نئے
عقيده کی ترويج کريں گے )آئين وہابيت ،ص (٢۶،٢٧ل ٰہذا جيسا کہ ہم آج ديکھ رہے ہيں يہ منحرف مذہب ١٢صدی ہجری
ميں پيدا ہوا اور آل سعود کے ہاتھوں پھلتا پھولتا رہا ۔
شيخ محمد بن عبد الوہاب ١٢٠۶ہجری ميں مر گيا مگر اس کے بعد بھی اس کے ماننے والوں نے اس کے مذہب کو قائم
رکھا البتہ اس E
کے ساتھ ساتھ ان کی بھی دعوت ہوئی تمام علماء کے ساتھ ساتھ وه بھی محل ميں داخل ہوئے ،لوگ مبارک باد ديتے رہے
ليکن جب آپ کی باری آئی توآپ نے پہنچ کر عبد العزيز کا ہاتھ پکﮍ ليا اور اسے ہديہ کے طور پر ايک بہت ہی پرانا قرآن
ديا ،اس نے قرآن لے کر اس کا بوسہ ديا اور مارے احترام وتعظيم کے اسے اپنی پيشانی سے مس کيا ،سيد شرف الدين نے
فرصت غنيمت جان کر اچانک اس سے کہا” :اے بادشاه! اس جلد کو بوسہ کيوں لے رہے ہو ؟يہ تو بکری کی کھال سے
بنائی گئی ہے“۔اس نے کہا” :ميں کھال کا نہيں بلکہ جو قرآن اس کے اندر ہے اس کا بوسہ لے رہا ہوں۔
جناب شرف الدين نے فوراً فرمايا:
”بہت اچھا بادشاه ہم شيعہ بھی جب رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے روضہ کے دروازه اور کھﮍکی کا بوسہ ليتے
ہيں تو يہ جانتے ہيں کہ يہ صرف لوہا ہے يہ ہميں کوئی نقصان نہيں پہنچا سکتا ہے ہماری غرض کھﮍکی اور دروازه سے
نہيں بلکہ اسے ماوراء چيز يعنی ہماری غرض رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا احترام اور تعظيم ہوتی ہے يہ تعظيم
و تکريم بالکل اسی طرح ہے جس طرح تم بکری کی کھال چوم کر قرآن کی تعظيم و تکريم کر رہے ہو۔
يہ سن کر تمام حاضرين نے تکبير کہی اور ان کی تصديق کی اس کے بعد ملک عبد العزيز نے مجبور ہو کر حاجيوں کو
رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے روضہ کو بوسہ دينے کی اجازت دے دی۔ليکن اس کے بعد جو بادشاه آيا اس نے
اس گزشتہ قانون کی کوئی رعايت نہيں کی۔
يہ سب ديکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ يہ چيزيں شرک نہيں ہيں بلکہ وہابيوں نے لوگوں
Fکے تمام عقائد ۶۶١ھ کی منحرف شخصيت ”احمد بن عبد الحليم ابن تيميہ “کے مرہون منت ہيں اگر يہ کہا جائے کہ تقريبا ً
چھ سو سال کے عرصہ تک مرده پﮍے ابن تيميہ کے منحرف عقائد اور مختلف بدعتوں کو عبد الوہاب نے نئے سرے سے
اجاگر کيا اور لوگوں کے درميان پھر سے زنده کيا تو قطعا غلط نہ ہوگا۔کيونکہ تحقيق کرنے پر يہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ
آج کی وہابيت ابن تيميہ کے خود ساختہ عقائد و نظريات کی بنيادوں پر استوار ہے۔ )ابن تيميہ صائب عبد الحميد ( ١٢٢۶ھ
ميں وہابی شاه سعود نے بيس ہراز سپاہيوں کے ساتھ کربالپر حملہ کيا اور پانچ ہزار يا اس سے زياده افراد کو تہہ تيغ کر
ڈاال۔ )تاريخ کربال ،ص(١٧٢
کے درميان اس لئے يہ پروپيگنڈه پھياليا ہے تاکہ وه اس سياست کی بنياد پر مسلمانوں کا خون مباح قرار ديں اور مسلمانوں
پر اپنی حکومت باقی رکھيں۔تاريخ اس بات پر شاہد ہے کہ وہابيوں نے امت محمد پر مصائب کے کتنے پہاڑ توڑے ہيں][52۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس سلسلے ميں ہمارے علماء نے بہت ساری کتابيں لکھی ہيں کيونکہ بنی اميہ کی حکومت کے زمانہ ميں موالئے کائنات
کی خالفت کو نابود کرنے اور ان کے بيٹوں کو قتل کرنے پر سارے حکمراں تلے ہوئے تھے اور نوبت يہاں تک پہنچ گئی
تھی کہ مسلمان منبر سے آپ پر لعن وطعن کرتے تھے اور معاويہ ان مسلمانوں کی اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس کے لئے
ترغيب کرتا تھا۔
اسی لئے شيعہ اور علی عليہ السالم کے تمام پيرو کار اذان و اقامت ميں گواہی ديتے ہيں کہ علی ابن ابی طالب عليہ السالم
ولی ٔخدا ہيں اور يہ چيز مناسب نہيں ہے کہ کوئی مسلمان ولی خدا پر لعنت بھيجے۔در اصل شيعوں کی يہ روش اس زمانے
کے حکام سے ايک طرح کا اعالن جنگ تھا تاکہ خدا اس کے رسول اور مومنوں کی عزت کو قائم و دائم رکھے اور يہ
تاريخی حوصلہ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں ميں باقی رہے اور حضرت علی عليہ السالم کی حقانيت اور ان کے دشمنوں
کی سازشوں سے پوری طرح آگاه رہيں۔اسی وجہ سے ہمارے فقہاء نے اس روش کو باقی رکھا کہ واليت علی عليہ السالم
کی گواہی اذان واقامت کے دوران مستحب جانا نہ کہ اسے اذان و اقامت کا جزء قرار ديا ہے۔
اب اس وجہ سے اگر کوئی شخص واليت علی عليہ السالم کی گواہی اذان اور اقامت کا جزء )واجب(سمجھ کر دے تو اس
کی اذان واقامت باطل ہے۔][54
العظمی آقائی خوئی طاب ثراه سے گفتگو ٰ ۶۶۔آيت ﷲ
ڈاکٹر تيجانی سماوی کہتے ہيں:
العظمی آقائے خوئی کی خدمت ميں ٰ جب ميں سنی تھا اور نيا نيا نجف اشرف ميں وارد ہوا تو اپنے دوست کے ذريعہ آيت ﷲ
جانے کا شرف حاصل ہوا ميرے دوست نے آقائے خوئی کے کانونميں کچھ کہا اور مجھ سے اشاره کيا کہ آپ کے قريب آکر
جاوں،ميں جا کربيٹھ گيا تو ميرے دوست نے اس بات پر بہت اصرار کيا کہ ميں تيونس کے شيعوں کے متعلق اپنا اور بيٹھ ٔ
وہاں کے لوگوں کا نظريہ بيان کروں۔ميں نے کہا:
موسی
ٰ ٰ
ونصاری خداوند متعال کی عبادت کرتے ہيں اور ونصاری سے بھی بدتر ہيں کيونکہ يہود ٰ ”شيعہ ہمارے يہاں يہود
وعيسی عليہم السالم سے عقيدت رکھتے ہيں ليکن جو ميں شيعوں کے بارے ميں جانتا ہوں وه يہ کہ وه حضرت علی عليہ ٰ
السالم کی پرستش کرتے ہيں اور عبادت کرتے ہيں اور انھيں پاک وپاکيزه اور مقدس قرار ديتے ہيں۔ان کے درميان ايک اور
گروه بھی ہے جو خداوند متعال کی عبادت کرتا ہے ليکن علی عليہ السالم کو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی منزلت
واعلی سمجھتا ہے اور يہاں تک کہتا ہے کہ پہلے يہ طے تھا کہ جبرئيل عليہ السالم قرآن کريم کو ٰ ومقام سے بہت ہی ارفع
حضرت علی عليہ السالم کے پاس لے آئيں ليکن انھوں نے خيانت کی اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے پاس لے
کر چلے گئے “!!
آقائے خوئی نے تھوڑی دير اپناسر جھکائے رکھا اس کے بعد فرمايا:
”ميں گواہی ديتا ہوں کہ خداوند متعال کے عالوه کوئی معبود نہيں اور محمد صلی ﷲ عليه و آله وسلم اس کے رسول ہيں:
”اللھم صل علی محمد آل محمد “ اور ميں گواہی ديتا ہوں کہ حضرت علی عليہ السالم خدا کے بندوں ميں سے ايک بنده ہيں۔
اس کے بعد انھوں نے بيٹھے ہوئے لوگوں کی طرف نظر کی اور ميری طر ف اشاره کر کے کہا” :اس بے چارے کو ديکھو
کس طرح فريب اور چھوٹی تہمتوں کا شکار ہوا ہے يہ عجيب بات نہيں ہے بلکہ ميں نے تو اس سے بھی بدتر باتيں دوسرے
لوگوں سے سنی ہيں ”ال حول وال قوة اال با “اس کے بعد ميری طرف رخ کر کے فرمايا:
”کيا تم نے قرآن پﮍھا ہے ؟“
ميں نے کہا” :ابھی ميری عمر کے دس سال بھی پورے نہيں ہوئے تھے کہ ميں نے آدھا قرآن حفظ کر ليا تھا“۔
انھوں نے فرمايا” :کيا تم يہ جانتے ہو کہ اسالم کے تمام گروه آپس ميں مذہبی اختالف کو چھوڑ کر قرآن کی حقانيت کے
بارے ميں اتفاق رکھتے ہيں؟اور جو قرآن ہمارے پاس ہے وہی قر آن تمہارے پاس بھی ہے“۔
ميں نے کہا” :ہاں ميں جانتا ہوں“۔
انھوں نے کہا” :-کيا تم نے اس آيت کو پﮍھا ہے“۔
ت ِم ْن قَ ْب ِل ِہ الرﱡ ُس ُل“ ][55” َو َما ُم َح ﱠم ٌد ِٕاالﱠ َرسُو ٌل قَ ْد َخلَ ْ
”اور محمد )ص( تو صرف ايک رسول ہيں ،جن سے پہلے بہت رسول گزر چکے ہيں“۔
اور خدا وند عالم فرماتا ہے:
ﷲ َوالﱠ ِذينَ َم َعہُ أَ ِش ﱠدا ُء َعلَی ْال ُکفﱠار“][56 ” ُم َح ﱠم ٌد َرسُو ُل ِ
” محمد)ص( ﷲ کے رسول ہيں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہيں وه کفار کے لئے سخت ترين ہيں“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پھر يہ بھی ملتا ہے۔
” َما َکانَ ُم َح ﱠم ٌد أَبَا أَ َح ٍد ِم ْن ِر َجالِ ُک ْم َولَ ِک ْن َرسُو َل ﷲِ َوخَاتَ َم النﱠ ِبيﱢينَ “][57
” محمد )ص( تمہارے مردوں ميں سے کسی ايک کے باپ نہيں ہيں ليکن وه ﷲ کے رسول اور سلسلہ انبياء کے خاتم ہيں“۔
کيا تم نے ان آيتوں کا مطالعہ کيا ہے ؟
ميں نے کہا” :ہاں ميں ان آيتوں سے واقف ہوں“۔
انھوں نے فرمايا” :ان آيتوں ميں حضرت علی عليہ السالم کہاں ہيں ؟تم ديکھتے ہو کہ يہ باتيں رسول اسالم صلی ﷲ عليه و
آله وسلم کے لئے ہيں نہ کہ حضرت علی عليہ السالم کے لئے اور ہم اور تم دونوں گروه کے لوگ قرآن کومانتے ہيں۔تم کس
طرح ہم لوگوں پر تہمت لگاتے ہو کہ ہم پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے حضرت علی عليہ السالم کو افضل وبرتر
سمجھتے ہيں؟“۔
يہ سن کر ميں نے سکوت اختيار کيا اور کوئی جواب نہيں ديا
اس کے بعد انھوں نے اپنی بات آگے بﮍھاتے ہوئے کہا” :جبرئيل کی خيانت کے بارے ميں تم لوگ جو تہمت لگاتے ہوئے
کہ ہم شيعہ کہتے ہيں کہ جبرئيل نے خيانت کی ہے يہ تہمت پہلے والی تہمت سے بھی زياده سخت ہے۔کيا ايسا نہيں ہے کہ
جب جبرئيل عليہ السالم پيغمبر اسالم پر )آغاز بعثت ميں( نازل ہوئے تو علی عليہ السالم دس سال سے بھی کم عمر تھے تو
کس طرح جناب جبرئيل نے غلطی کی اور محمد )ص(،اور حضرت علی عليہ السالم کے درميان فرق نہ کو سمجھ پائے ؟“
تھوڑی دير خاموش ره کر ميں نے ان کی باتوں پر غور کيا تو ميں سمجھ گيا کہ يہ تمام باتيں سچ ہيں۔
انھوں نے فرمايا” :ضمنا ً يہ بھی کہہ دوں کہ اسالم کے تمام گروہوں ميں صرف شيعوں کا الگ گروه ہے جو پيغمبر)ص(
اور ائمہ اطہار عليہم السالم کی عصمت کا معتقد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ يہ بھی ہمارا ہی عقيده ہے کہ جبرئيل عليہ السالم
ہر طرح کی غلطی اور شبہ سے محفوظ ہيں“۔
ميں نے کہا” :يہ سب جو مشہور ہے وه کيا ہے ؟“
انھوں نے فرمايا” :يہ سب تہمت اور غلط افواہيں ہيں جو مسلمانوں کے درميان جدائی پيدا کرنے کے لئے گﮍھ لی گئی ہيں
،تم تو الحمد ايک عاقل انسان ہو اور ان مسائل کو اچھی طرح سے سمجھتے ہو ،اب تمہيں چاہئے کہ شيعوں اور ان کے
علمی ادارونکو قريب سے ديکھو اور غور و فکر کرو کہ کيا اس طرح کی چيزيں ان کے درميان پائی جاتی ہيں“۔
ميں جب تک نجف اشرف ميں رہا شيعوں کے سلسلہ ميں جتنی بھی نامناسب سن رکھی تھيں ان سب کے بارے ميں تحقيق
کرتا رہا۔
لئے تھا تاکہ ہم سے مشقت کم ہو جائے اور اسی طرح يہ عمل ہمارے عقيده کے مطابق ہمارے ائمہ عليہم السالم سے بھی
ثابت ہے۔
اور ہم لوگوں کی طرح تم اہل سنت حضرات کے نزديک بھی روايت سے يہ چيز ثابت ہے ،مجھے تعجب ہواکہ کس طرح
ہمارے نزديک ثابت ہے کيونکہ آج تک نہ ميں نے کہيں سنا تھا اور نہ کسی اہل سنت کو ديکھا تھا کہ کسی نے اس طرح
انجام ديا ہو بلکہ وه لوگ اس کے بر خالف کہتے ہيں کہ اگر نماز اذان سے ايک منٹ بھی پہلے واقع ہو جائے تو نماز باطل
ہے چہ جائيکہ کوئی شخص نماز عصر کو ايک گھنٹہ پہلے نماز ظہرکے فوراً بعد يا نماز عشاء کو نما مغرب کے بعد فوراً
پﮍھے ان چيزوں سے ابھی تک ميں بالکل ناآشنا تھا اور ميرے نزديک يہ چيزيں باطل بھی تھيں۔
آيت ﷲ صدر نے ميرے چہره سے معلوم کرليا کہ ميں اس بات پر تعجب کر رہاہوں کہ ظہر کے بعد عصر اور مغرب کے
بعد عشاء بغير کسی فاصلہ کے کيسے پﮍھنا صحيح ہے؟اسی وقت انھوں نے اپنے ايک طالب علم کی طرف اشاره کيا اور
اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ايک کتاب کی دو جلديں ميرے پاس الکر رکھ ديں ميں نے ديکھا اس ميں ايک صحيح مسلم ہے
اور دوسری صحيح بخاری تھی۔
آيت ﷲ صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ مجھے وه حديث دکھادےں جس ميں دونوں فريضوں کو ايک وقت ميں پﮍھنے کا
ذکر کيا گيا ہے ميں نے ان دونوں کتابوں مينپﮍھا کہ رسول اکرم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء خوف بارش اور
بغير کسی ضرورت کے ايک ساتھ پﮍھاہے اور کتاب صحيح مسلم ميں مجھے اس سلسلہ ميں پورا ايک باب مال۔يہ ديکھ کر
ميں کافی حيران و پريشان ہو ا اور سوچ رہا تھا کہ خدايا اس وقت ميں کيا کروں اسی وقت ميرے دل ميں ايک شک پيدا ہوا
کہ شايد يہ دوکتابيں )صحيح مسلم اور صحيح بخاری (جو ميں نے يہاں ديکھی ہيں تحريف شده ہوں يا نقلی ہوں اور دل ہی دل
جاوں گا تو ان دونوں کتابوں کا بغور مطالعہ کر کے اس موضوع پر ميں کہنے لگا کہ جب ميں اپنے وطن تيونس واپس ٔ
تفصيلی طور پر تحقيق کروں گا۔
اسی وقت شہيد صدر نے مجھ سے پوچھا” :اب ان دليلوں کے بعد تمہاری کيا رائے ہے؟“
ميں نے کہا” :آپ حق پر ہيں اور حق کہنے والے ہيں“۔
اس کے بعد ميں نے آيت ﷲ کا شکريہ اداکيا ليکن ميرا دل مطمئن نہيں ہو اتھا يہاں تک کہ جب ميں اپنے وطن واپس پہنچا تو
صحيح مسلم اور صحيح بخاری کو لے کر پﮍھا اور تفصيلی طور پر تحقيق کی تو اچھی طرح قانع ہو گيا کہ نماز ظہر
وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء مالکر پﮍھنا بغير کسی ضرورت کے اشکال نہيں ہے کيونکہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله
وسلمنے اس کام کو انجام ديا ہے۔ميں نے ديکھا کہ امام مسلم اپنی کتاب”سفر“کے عالوه ”دونمازوں کے اجتماع“][58کے
باب ميں ابن عباس سے نقل کرتے ہيں کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء ايک ساتھ
پﮍھی تھی۔اسی طرح انھوں نے يہ بھی نقل کياہے کہ آنحضرت نے مدينہ ميں نماز ظہر عصر اور مغرب وعشاء کو بغير
خوف يا بارش کے ايک ساتھ پﮍھی ہے۔ابن عباس سے سوال کيا گيا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے کيوں ايسا کيا
تو ابن عباس نے جواب ميں کہا:
”کی اليحرج امتہ“][59
تاکہ امت کو دشواری نہ ہو“۔
اور کتاب صحيح بخاری ميں بھی)ج ١ص (١۴٠باب ”وقت مغرب“ميں ميں نے ديکھا اور پﮍھا کہ ابن عباس نقل کرتے ہيں
کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے سات رکعت نماز)نماز مغرب وعشاء(ايک ساتھ پﮍھی اور آٹھ رکعت) ظہر
وعصر(نما ز ايک ساتھ پﮍھی اور اسی طرح کتاب ”مسند احمد“][60ميں ديکھا کہ اس موضوع پر روايت ہے اسی طرح
کتاب”الموطا“][61ميں ميننے ديکھا کہ ابن عباس روايت کرتے ہيں:
”صلی رسول ﷲ الظہر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا فی غير خوف والسفر “
”رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے بغير کسی خوف وسفر کے نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ايک ساتھ پﮍھی“۔
نتيجہ يہ ہے کہ جب يہ مسئلہ اس طرح واضح اور روشن ہے تو اہل سنت کيوں تعصب اور بغض کی وجہ سے اسی
موضوع کو لے کرشيعہ پر بﮍے بﮍے اعتراض کرتے ہيں؟
اس چيز سے غافل کہ خود ان کی کتاب ميں اس چيز کا جواز ثابت ہے۔][62
۶٨۔اہل سنت کے امام جماعت سے )ايک ساتھ نماز پﮍھنے کے متعلق( بہترين مناظره
ڈاکٹر تيجانی کہتے ہيں:
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”ميں نے دونمازوں کو ايک ساتھ جمع کر کے پﮍھنے کا واقعہ اہل سنت کی کتاب صحيح بخاری اور صحيح مسلم کے
روايت کے مطابق تيونس ميں اپنے بعض دوستوں اور بعض علماء کے درميان بيان کرديا ،چند لوگوں نے اس چيز کے
صحيح ہونے کے سلسلہ ميں معلومات حاصل کر لی اور اس بات کی خبر جب شہر ”قفصہ“)تيونس کا ايک شہر(کی ايک
مسجد کے امام جماعت کے کانوں تک پہنچی تو وه سخت ناراض ہو ا اور اس نے کہا جو اس طرح کی فکر رکھتے ہيں وه
نہايت بے دين ہيں اور قرآن کے مخالف ہيں کيونکہ قرآن فرما تا ہے:
َت َعلَی ْال ُم ْؤ ِمنِينَ ِکتَابًا َموْ قُوتًا ً“][63
صالَةَ َکان ْ
”ال ﱠ
”بال شبہ مومنوں پر معين وقت پر نماز فرض کی گئی ہے“۔
ہدايت پانے والوں ميں سے ميرا يک دوست بھی تھا جس کا علمی معياربہت ہی بلند و باال تھا اور وه بہت ہی ذہين وچاالک
بھی تھا۔اس نے بہت ہی غصہ کی حالت ميں ميرے پاس آکر امام جماعت کے قول کو نقل کيا۔ميں نے دو کتاب صحيح مسلم
اور صحيح بخاری اسے ال کر دی اور اس سے کہا کہ نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ايک ساتھ پﮍھنے والے باب
کا مطالعہ کرو۔مطالعہ کے بعد اس کے نزديک بھی يہ مسئلہ ثابت ہو گيا۔يہاں تک کہ ميرا يہ دوست جو ہر روز اسی امام
جماعت کی نما ز ميں شرکت کرتا تھا ايک دن نماز جماعت کے بعد اس کے در س مينجاکر بيٹھ گيا اور امام جماعت سے
پوچھا” :نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ايک ساتھ پﮍھنے کے بارے ميں آپ کا خيال ہے ؟“
امام جماعت” :يہ شيعوں کی ايک بدعت ہے“۔
ميرے دوست نے کہا” :ايسا نہيں ہے بلکہ يہ بات صحيح مسلم اور صحيح بخاری سے بھی ثابت ہے“۔
امام جماعت” :نہيں ثابت نہيں ہے۔اس طرح کی چيز کا ہونا اس کتاب ميں مشکل ہے“۔
ميرے دوست نے وه دونوں کتابيں اس کے حوالہ کر ديں اس نے وہی باب پﮍھا۔جب اس کے درس ميں شريک ہونے والے
دوسرے نماز گزاروں نے اس سے دو نمازوں کوايک ساتھ پﮍھنے کے متعلق پوچھا تو اس نے کتابيں بند کر کے مجھے
ديتے ہوئے انھيں جواب ديا” :دونمازوں کو ايک ساتھ پﮍھنے کا جواز پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خصوصيت
ميں سے ہيں جب تم رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم ہو جانا اس وقت تمہارے لئے بھی يہ جائز ہو جائے گا“!!
ميرے دوست نے کہا” :اس کی بات سے ميری سمجھ ميں آگيا کہ يہ ايک متعصب جاہل ہے اور اس دن ميں نے قسم کھالی
کہ آج سے اس کے پيچھے نماز نہيں پﮍھوں گا“۔
يہاں ايک حکايت کا نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ،وه يہ کہ دو شکاری شکا ر کرنے صحرا کی طرف روانہ ہوئے صحرا
ميں پہنچ کر دور سے انھوں نے کالے رنگ کی ايک چيز ديکھی تو ان ميں سے ايک نے کہا” :يہ کوا ہے“۔دوسرے نے
کہا:نہيں يہ بکری لگ رہی ہے“۔
دونوں ميں بحث ہونے لگی اور دونوں اپنی اپنی بات کو صحيح ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔جب دونوں اس کالی چيز کے
قريب پہنچے تو اچانک ديکھا کہ کوا تھا جو اڑگيا۔
پہلے نے کہا” :ميں نے کہا تھا نہ کہ کواہے کيا اب تم مطمئن ہوگئے ؟
ليکن دوسرا اپنی بات پر اڑا ہو ا تھا يہ ديکھ کر دوسرے نے کہا:
”کتنے تعجب کی بات ہے ،بکری بھی اڑتی ہے ؟!!
ڈاکٹر تيجانی کہتے ہيں:
جاو اور اسے صحيح مسلم اور صحيح ٔ پاس کے جماعت امام اس ” کہا: سے اس کر بال کو دوست اپنے ”اس کے بعد ميں نے
دکھاو جہاں يہ نقل ہوا ہے کہ ابن عباس و انس ابن مالک اور دوسرے بہت سے اصحاب نے نماز ظہر ٔ بخاری ميں وه روايت
ين و مغربين کو ايک ساتھ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی اقتدا ميں پﮍھی ہے اس طرح کی نماز وں کو ايک ساتھ
پﮍھنا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے خصائص ميں سے ہر گز نہيں ہے کيا ہم رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم
کو اپنا نمونہ عمل نہيں سمجھتے؟ مگر ميرے دوست نے معذرت کرتے ہوئے کہا” :کوئی ضرورت نہيں کيونکہ اس کے
پاس اگر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم بھی آکر يہ حکم بتائيں تو بھی وه قانع نہيں ہوگا۔][64
ميں نے آگے جا کر اسے روکا اور اس سے کہا:
”مہربانی کر کے مجھے يہ بتائيں کہ اس آيت تطہير ميں اہل بيتعليہ السالم سے مراد کون ہيں؟“
ت َويُطَہﱢ َر ُک ْم ت ْ
َط ِہيرًا“][65 س أَ ْہ َل ْالبَ ْي ِ
ب َع ْن ُک ْم الرﱢجْ َ ” ِٕانﱠ َما ي ُِري ُد ﷲُ لِي ُْذ ِہ َ
”بس ﷲ کا اراده يہ ہے اے اہل بيت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکيزه رکھے جو پاک و پاکيزه
رکھنے کا حق ہے“۔
قاضی نے بغير کسی جھجھک کے جواب ديا:
”يہاں اہل بيت سے مراد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی بيوياں ہيں کيونکہ اس سے پہلے والی تمام آيتوں ميں
ازواج نبی کو خطاب کيا گيا ہے جيسا کہ خدا وند عالم نے فرمايا:
االُولَی ۔۔۔“][66 ” َوقَرْ نَ فِی بُيُوتِ ُک ﱠن َوالَتَبَرﱠجْ نَ تَبَرﱡ َج ْال َج ِاہلِيﱠ ِة ْ ٔ
”۔۔۔ اور تم اپنے گھروں ميں بيٹھی رہو اور پہلی جاہليت جيسا بناؤ سنگار نہ کرو۔۔۔“
ميں نے کہا :شيعہ کہتے ہيں کہ يہ آيت علی ،فاطمہ ،حسن وحسين عليہم السالم سے مخصوص ہے ميں نے ان سے کہا کہ
آيت کی ابتدا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی ازواج سے متعلق ہے يعنی آيت کے شروعات ہی اس جملے سے ہوتی
ہے۔
”يا ايھا النبی “
تو ان لوگوں نے جواب ميں کہا:
”جو بھی اس آيت کے شروع ميں آيا ہے وه خصوصی طور پر لفظ مونث اور صيغہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے جيسے ”لستن ،فال
تخضعن ،و قرن فی بيوتکن ،ال تبرجن ،اقمن ،آتين ،اطعن“ وغيره ليکن آيت کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے اس کا
انداز بدل گيا ہے اور اس کی ضمير ميں جمع مذکر کے طور پر ذکر ہوئی ہيں جيسے ”عنکم“ ”ليطھرکم“ وغيره“۔
قاضی نے اپنی عينک اوپر اٹھا ئی اور مجھے کوئی استداللی جواب دينے کے بجائے کہنے لگا:
”خبردار !شيعوں کی زہر آلود فکر جو آيت وقرآن کی تاويل نفسانی خواہشات کی بنا پر کرتے ہيں ان کے چکر ميں نہ
آنا“۔][67
يہاں پر ہم اس بحث کی تکميل کے لئے ”تفسير الميزان“سے استفادکرتے ہوئے کہتے ہيں کہ ان سب کے عالوه بھی ہمارے
سوره احزاب کے آخر ميں ذکر ہوئی ہے وه اپنے سے پہلے والی آيات کے ساتھ ٔ پاس کوئی دليل نہيں کہ يہ آيت تطہير جو
نازل ہوئی ہے بلکہ روايتوں سے اچھی طرح يہ پتہ چلتا ہے کہ آيت کا يہ حصہ الگ سے نازل ہوا ہے ل ٰہذا جب رسول خدا
صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد قرآن جمع کيا گيا تو اس آيت کوان آيات کے ساتھ جوڑ ديا گيا۔][68
اس کے عالوه اہل سنت حضرات سے متعددروايات اس سلسلہ ميں نقل ہوئی ہيں کہ مذکوره آيت ميں اہل بيت سے مراد علی
وفاطمہ حسن وحسين عليہم السالم ہيں اور يہاں تک کہ ازواج پيغمبر اکرم جيسے ام سلمہ ،عائشہ وغيره سے بھی نقل ہوا ہے
کہ آيت تطہير ميں اہل بيت سے مراد علی وفاطمہ حسن حسين عليہم السالم ہيں۔][69
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ڈاکٹر تيجانی” :تم شيعہ حضرات ،علی عليہ السالم کے مقام کو اس حد تک بﮍھا ديتے ہو کہ انھيں پيغمبروں کی صفت ميں
ال کر کھﮍا کر ديتے ہو کيونکہ تم لوگ ان کے نام کے بعد کرم ﷲ وجھہ کہنے کے بجائے عليہ السالم يا عليہ الصلوة والسالم
کہتے ہو جب کہ صلوات وسالم پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے مخصوص ہے جيسا کہ ہم قرآن ميں پﮍھتے ہيں۔
صلﱡوا َعلَ ْي ِہ َو َسلﱢ ُموا تَ ْس ِلي ًما “][70صلﱡونَ َعلَی النﱠ ِب ﱢی يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا َ
” ِٕا ﱠن ﷲَ َو َم َال ِئ َکتَہُ يُ َ
” بے شک ﷲ اور اس کے مالئکہ رسول پر صلوات بھيجتے ہيں ،اے صاحبان ايمان ان پر صلوات بھيجتے رہو اور ان کے
سامنے تسليم رہو“۔
استاد منعم” :ہاں تم نے سچ کہا” :ہم جب بھی حضرت علی عليہ السالم يا ان کے عالوه ديگر ائمہ کے نام ليتے ہيں تو عليہ
السالم کہتے ہيں ليکن اس کامطلب يہ نہيں ہے کہ ہم انھيں پيغمبر يا ان کے رتبہ کے برابر جانتے ہيں“۔
ڈاکٹر تيجانی” :تو پھر کس دليل سے ان پر سالم وصلوات بھيجتے ہو“۔
صلﱡونَ َعلَی النﱠ ِب ﱢی يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا ۔۔۔“کيا تم نے اس کی
استاد منعم” :اسی آيت کی دليل سے کہا جاتا ہے ” ِٕا ﱠن ﷲَ َو َم َال ِئ َکتَہُ يُ َ
تفسير پﮍھی ہے ؟شيعہ اور سنی دونوں متفقہ طور پر يہ نقل کرتے ہيں کہ جب يہ آيت نازل ہوئی تو چند صحابيوں نے
آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے پوچھا:
”يا رسول ﷲ ! آپ پر سالم بھيجنا تو ہم جانتے ہيں ليکن ہميں يہ نہيں معلو م کہ آپ پر صلوات کس طرح بھيجی جائے گی؟“
رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا :اس طرح کہو:
”اللھم صلی علی محمد وآل محمد کما صليت علی ابراہيم وآل ابراہيم فی العالمين انک حميد مجيد“۔][71
”خدايا محمد وآل محمد پر اسی طرح درود ورحمت نازل فرما جس طرح تونے ابراہيم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی
ہے بالشبہ تو قابل حمد اور بزرگ ہے“۔
اور يہ بھی فرمايا:
”ال تصلوا علي الصالةُ البتراء)مجھ پر دم بريده صلوات نہ بھيجو(“
اصحاب نے آپ سے اس کا مطلب دريافت کيا توآپ نے فرمايا:
صرف ”اللھم صل علی محمد “ کہنا ناقص صلوات ہے بلکہ تمہيں اس طرح کہنا چاہئے” :اللھم صل علی محمد وآل محمد“يہ
پوری صلوات ہے۔][72
اس کے عالوه متعدد روايتوں ميں آيا ہے کہ پوری صلوات پﮍھو اور آخر کے جملہ ميں آل محمد حذف نہ کرو يہاں تک نماز
کے تشہد ميں تمام فقہاء نے اہل بيت عليہم السالم پر صلوات بھيجنے کو واجب قرار ديا ہے اور اہل سنت کے فقہاء ميں امام
شافعی نے واجبی نمازوں کے دوسرے تشہد ميں اسے واجب جانا ہے۔][73
اسی بنياد پر شافعی اپنے مشہورو معروف شعر ميں ا س طرح کہتے ہيں:
”اے اہل بيت رسول ! تمہاری محبت ﷲ کی طرف سے نازل کرده قرآن ميں فرض قرار دی گئی ہے تمہاری عظيم منزلت
کے لئے بس يہی کافی ہے کہ جس نے تم پر صلوات نہ بھيجی اس کی نماز ہی نہ ہوگی“۔][74
ٖ◌◌ٓ ڈاکٹر تيجانی يہ سب سن کر بہت متاثر ہوئے کيونکہ استاد منعم کی يہ باتيں ان کے دلنشين ہو رہی تھيں ،انھوں نے کہا:
”ميں قبول کرتاہوں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم پر صلوات بھيجتے وقت ان کی آل کو بھی شامل کرنا چاہئے ،
چنانچہ جب ہم جب ان پر صلوات بھيجتے ہيں تو ان کے آل کے عالوه اصحاب وازواج کو بھی شامل کرليتے ہيں مگر يہ
بات قابل قبول نہيں ہے کہ جب علی عليہ السالم کا ذکر ہوتو ان کے نام کے ساتھ صلوات بھيجی جائے يا ”عليہ السالم“ کہا
جائے“۔][75
استاد منعم” :کيا تمہارے نزديک کتاب صحيح بخاری معتبر ہے ؟“
ڈاکٹر تيجانی” :ہاں يہ کتاب تو اہل سنت کے اماموں ميں سے ايک بلند پايہ کے امام ”امام بخاری“ کی تاليف کرده ہے جو
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہمارے نزديک قرآن کے درجہ رکھتی ہے“۔
اس وقت استاد منعم نے اپنے کتاب خانہ سے صحيح بخاری کا ايک نسخہ ال کر مجھے پﮍھنے کے لئے ديا ميں نے جب ان
کے نکالے ہوئے صفحہ کو پﮍھا تو مجھے اس پر يہ عبارت نظر آئی:
”فالں نے فالں سے روايت کی اور اس نے علی عليہ السالم سے روايت کی ہے ”ميں نےيہاں تک کہ اس بات کا اعتراف
اہل سنت کے ان علماء نے بھی کہا ہے جبکہ وه نئے اعتراض گﮍھنے کے عادی ہيں ،مخصوصا ً اس طرح کے اعتراضات
ميں مشہور سنی عالم دين ”ابن روزبہان“ جيسے لوگ بھی يہ قبول کرتے ہيں کہ يہاں پر”آل ياسين“سے مراد آل محمد ہيں۔
موسی
ٰ سوره صافات ميں جناب نوح )آيت (٧٩جناب ابراہيم )آيت (١٠٩جناب
ٔ مزے کی بات تو يہ ہے کہ اسی
وہارون)(١٢٠اور دوسرے مرسلين پر سالم بھيجا گيا ہے)آيت (١٨١اس سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ آل محمد انبياء
کے زمره ميں آتے ہيں اور مذکوره آيت آل محمد کی افضل ہونے کی واضح دليل ہے )دالئل الصدق ،ج، ٢ص٣٩٨۔(
جب بخاری ميں يہ جملہ ”عليہ السالم“ ديکھا تو مجھے بﮍا تعجب ہوا مجھے يقين ہی نہيں آرہا تھا کہ يہ صحيح بخاری کا
نسخہ ہے ميں نے اسے الٹ پلٹ کر ديکھا اور اس کے بعد بﮍے غور سے پﮍھا تو بھی وہی عبارت نظر آئی اب ميرا شک و
شبہ جاتا رہا۔
استاد منعم نے صحيح بخاری کا دوسرا صفحہ کھول کر دکھايا جس پر يہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ ”علی ابن الحسين عليہ
السالم “سے روايت ہے۔اس کے بعد مجھے کوئی راستہ نظر نہ آيا اور ميں نے ان کی بات کو قبول کر ليا البتہ تعجب سے يہ
ميں نے ضرور کہا ”سبحان ﷲ !ليکن تھوڑ ا شک اب بھی ميرے ذہن ميں موجود تھا ل ٰہذا ميں نے اسے الٹ پلٹ کر ديکھا تو
معلوم ہوا کہ يہ نسخہ” مصر کی پريس ،حلبی اينڈسنس“ سے چھپاہے بہر حال قبول کر لينے کے عالوه ميرے پاس کوئی
اور راستہ باقی نہيں بچا تھا۔][76
اپنے وطن تيونس ميں،ميں نے ايک سنی عالم دين سے ايک مناظره ميں اس طرح کہا:
”تم حديث غدير کو قبول کرتے ہو“؟
تيونسی عالم” :ہاں ميں اس حديث کو قبول کرتا ہوں يہ صحيح ہے“۔
سوره مائده کی ۶٧ويں آيت کی تفسير کے ذيل ميں حديث غدير کو پيش کيا ٔ ميں نے خود قرآن کی تفسيرلکھی ہے جس ميں
ہے اس کے بعد اس نے اپنی تفسير ميرے سامنے ال کر رکھ دی اور جہاں اس نے حديث غدير کا تذکره کيا تھا وه مجھے
دکھايا۔
ميں نے اس کتاب ميں ديکھا حديث غدير کے باب ميں اس طرح عبارت درج ہے:
”شيعہ حضرات اس بات کے معتقد ہيں حديث غدير صريحی طور پر علی کی خالفت بال فصل پر داللت کرتی ہے ليکن اہل
سنت حضرات کے نزديک يہ عقيده باطل ہے کيونکہ يہ حديث ابو بکر وعمر وعثمان کی خالفت سے منافات رکھتی ہے اس
وجہ سے ہمارے لئے يہ الزم ہو گيا کہ اس روايت کی صراحت سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کی تاويل کريں] [77يعنی
مولی کے معنی دوست اور ياور ہيں جيسا کہ قرآن ميں يہ لفط دوست اور ياور کے معنی ميں آيا ہے اور ٰ ہم يہ کہيں کہ يہاں
خلفائے راشدين اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے عظيم صحابيوں نے بھی لفظ موال سے يہی مراد ليا ہے اس
کے بعد ان کے تابعين اور علمائے مسلمين نے بھی اسی بات کی تائيد کی ہے اور اسی صورت کو مقبول بتايا ہے۔اس طرح
شيعوں کے اس عقيده کا کوئی اعتبار نہيں“۔
ڈاکٹر تيجانی” :کيا خود واقعہ غدير تاريخ ميں پايا جاتا ہے يا نہيں؟“
تيونسی عالم” :ہاں کيوں نہيں اگر واقعہ غدير نہ ہوا ہوتا تو علماء ومحدثين اسے نقل ہی نہ کرتے“۔][78
ڈاکٹر تيجانی” :کيا يہ مناسب ہے کہ رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم حج سے واپسی کے وقت غدير خم کے تپتے ہوئے
صحراء ميں ہزاروں مرد،عورتوں اور بچوں کے مجمع ميں سب کو روک کر ايک طويل خطبہ ديں اور اس کے بعد يہ
اعالن کريں کہ علی تمہارے دوست اور مدد گار ہيں کيا تم اس طرح کی تاويل کو پسند کرتے ہو؟“
تيونسی عالم” :بعض صحابہ کرام نے جنگ کے دوران حضرت علی عليہ السالم کے ہاتھوں نقصان اٹھا يا تھا اس ميں بہت
سے ايسے تھے جن کے دلوں ميں ان کی طرف سے کينہ پرورش پا رہا تھا ل ٰہذا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ميدان غدير ميں يہ اعالن کيا کہ جو علی سے کينہ رکھتے ہيں وه اپنے کينوں کو دور کريں اور انھيں اپنا دوست اور مددگار
سمجھيں؟“][79
ڈاکٹر تيجانی” :علی عليہ السالم کی دوستی کا مسئلہ اس بات کا تقاضہ نہيں کرتا کہ پيغمبر اکرم ايک الکھ سے زياده لوگوں
کے درميان تپتے ہوئے صحراء ميں روکيں اور نماز جماعت ادا کريں اور ايک طوالنی خطبہ ديں اور اس خطبہ کے دوران
بعض ايسے مطالب بيان کريں جو علی عليہ السالم کی رہبری اور خالفت کے لئے مناسب ہوں نہ کہ دوستی اور ياوری کے
لئے مثالًاسی خطبے کا ايک ٹکﮍا يہ ہے جس ميں آنحضرت نے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان سے سوال کيا”الست اولی
بکم من انفسکم “کہ ميں تمہاری جانوں پر تم سے زياده حق نہيں رکھتا ؟“
تمام لوگوں نے اقرار کيا ہاں کيوں نہيں يا رسول ﷲ“۔
يہ تمام باتيں اس بات کو واضح کرتی ہيں کہ يہاں پر موال سے مراد رہبر وآقا کے ہيں اور اس سے حضرت علی عليہ السالم
کی خالفت ثابت ہوتی ہے“۔
اسی وجہ سے خود ابوبکر نے بھی لفظ مولی سے امام علی عليہ السالم کی رہبری اور خالفت جانا ہے اور اسی صحرا کی
تپتی ہوئی دھوپ ميں امام علی عليہ السالم کے پاس آکر انھيں اس طرح مبارک باد پيش کيا۔
ومومنة“مومن ٔ ”بخ بخ لک يابن ابی طالب اصبحت موالی وموال کل ٔ
”مبار ک مبارک ہو ؛اے ابو طالب کے بيٹے !اب تم ميرے اور تمام مومن اور مومنہ کے موال ہوگئے “
يہ مبارک باد دينا بہت ہی مشہور حديث ہے جسے اہل سنت اور اہل تشيع سبھی نے نقل کيا ہے۔][80
اب تم سے يہ پوچھتا ہوں کہ کيا اگر يہ اعالن صرف دوستی اور ياوری کے لئے ہوتا تو ابو بکر و عمر حضرت علی عليہ
السالم کو اسی طرح مبارک باد پيش کرتے ؟اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم اپنے خطبے کے بعد اس طرح اعالن
کرتے:
المومنين“۔ ٔ بامرة عليہ ”سلّموا
”اے مسلمانو! علی کوامير المومنين کہہ کر سالم کرو“۔
سوره مائده کی ۶٧ويں آيت کے نزول کے بعد يہ عمل انجام ٔ اس کے عالوه يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے
ديا اور آيت ميں ہم يہ پﮍھتے ہيں:
ْ ْ ﱠ ْ ُ َ
ک ِم ْن النﱠ ِ
اس ِٕا ﱠن ﷲَ الَيَ ْہ ِدی القَوْ َم ال َکافِ ِرينَ “ ک َو ِٕا ْن لَ ْم تَف َعلْ فَ َما بَل ْغتَ ِر َسالَتَہُ َوﷲُ يَع ِ
ْص ُم َ ” يَاأيﱡہَا ال ﱠرسُو ُل بَلﱢ ْغ َما أ ِ
نز َل ِٕالَ ْي َ
ک ِم ْن َربﱢ َ
][81
”اے رسول وه چيز پہنچا دو جو تمہارے رب کی طرف سے پہلے ہی تم پر نازل کی جا چکی ہے اور اگر تم نے اسے نہ
پہنچايا تو گويا تم نے کار رسالت انجام ہی نہيں ديا“۔
کيا حضرت علی عليہ السالم کی دوستی کا مسئلہ اتنا زياده اہم ہو گيا تھا کہ اگر اسے لوگوں کےدرميان بيان نہ کيا جائے تو
آنحضرت کی رسالت کو خطره الحق ہوجائے ؟“
تيونسی عالم” :تو اس بارے ميں تم کيا کہو گے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے علی
عليہ السالم کی بيعت نہ کرتے ہوئے ابوبکر کی بيعت کر لی ،کيا ان کا يہ عمل گناه تھا ؟کيا انھوں نے رسول خدا صلی ﷲ
عليه و آله وسلم کی نا فرمانی کی؟“
ڈاکٹر تيجانی” :جب خود اہل تسنن اپنی کتابوں ميں لکھتے ہيں کہ بعض اصحاب نے رسول اکرم کے زمانہ ميں خود آپ کی
مخالفت کی تو اس بنا پر يہ کوئی ايسی تعجب کی بات نہيں کہ آپ کے بعد اصحاب نے ان کی مخالفت کی۔][82
جيسے شيعہ اور سنی دونوں طريقوں سے يہ ثابت ہے کہ جب رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک نواجوان
صحابی )اسامہ بن زيد(کو سپہ ساالر بنايا تو اکثر مسلمانوں نے آنحضرت کی مخالفت کی جب کہ آنحضرت نے انھيں تھوڑی
سی مدت کے لئے بہت تھوڑے سے لشکر کا سردار بنايا تھا تو يہی لوگ حضرت علی عليہ السالم کی رہبری کو کس طرح
طرح قبول کر ليتے کيونکہ وه بھی دوسروں کے مقابلہ ميں کم عمر تھے )اس وقت آپ کی عمر ٣٣سال تھی(اور خود يہ
لوگ علی عليہ السالم کو ان کی پوری زندگی تک رہبر کيسے قبول کرليتے اور تم نے خود ہی پہلے يہ اقرار کيا کہ بعض
لوگ علی عليہ السالم سے بغض و عناد رکھتے تھے“۔
تيونسی عالم” :اگر علی عليہ السالم جانتے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے مجھے اپنا خليفہ بنايا ہے تو رسول
اکرم کے بعد وه خاموش نہ بيٹھے رہتے بلکہ اپنی بے انتہا شجاعت کو بروئے کار التے ہوئے اپنی حق کا دفاع کرتے“۔
ڈاکٹر تيجانی” :يہ تو دوسری بحث ہے جس ميں ہم ابھی وارد نہيں ہونا چاہتے جب تم واضح حديث کی تاويل کرتے ہو تو
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
امام عليہ السالم کے خاموش رہنے پر بحث کرنے ميں کس طرح قانع ہو سکتے ہو؟“
تيونسی عالم نے تھوڑا مسکرا تے ہوئے کہا” :خدا کی قسم ميں ان لوگوں ميں سے ہونجو علی عليہ السالم کو دوسروں سے
افضل جانتے ہيں اور اگر يہ بات ميرے بس ميں ہوتی تو ميں علی عليہ السالم پر کسی کو مقدم نہ کرتا کيونکہ وه مدينة العلم
اور اسد ﷲ الغالب ہيں ليکن خدا نے اسی طرح چاہا کہ بعض کو مقدم اور بعض کو موخر رکھے اس کی مشيت کے بارے
ميں کيا کہيں“۔
ميں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے جواب ديا” :قضاو قدر “کی بحث دوسری ہے جس کے متعلق ابھی ہم بحث نہيں کر رہے
ہيں“۔
تيونسی عالم” :ميں اپنے عقيده پر باقی رہوں گا اور اسے بدل نہيں سکتا“۔
ڈاکٹر تيجانی کہتے ہيں :وه اسی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا يہ خود اس کی بے بسی اور عاجزی کی دليل تھی۔][83
٧٢۔شاگرد اور استاد کے درميان مناظره
شاگرد” :خالد بن نوفل نام کا ايک استاد ،اردن کی ”شريعت يونيورسٹی “ميں درس دينے آتا تھا ،ميں اس کے شاگردوں سے
تھا ،ميں شيعی مسلک کا تابع تھا“۔
چونکہ يہ استاد خود سنی تھا اس لئے اسے جب بھی موقع ملتا شيعوں پر کچھ نہ کچھ الزام تراشی کرتا رہتا تھا ،ايک دن ميں
اس کے پاس بيٹھ گيا اور رسول اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے جانشينوں کے متعلق گفتگو کرنے لگا آپ بھی اس
گفتگوکو سنيں اور فيصلہ کريں۔
استاد” :ہم حديثوں کی کتابوں ميں قطعی طور پر يہ حديث نہيں پاتے کہ آنحضرت کے باره ہی خليفہ ہوں گے ،ل ٰہذا يہ حديث
تم شيعوں کی گﮍھی ہوئی ہے“۔
شاگرد” :اتفاق سے اہل سنت کی معتبر کتابوں ميں متعدد مقامات پر متعدد سندوں سے يہ حديث نقل ہوئی ہے مثالًرسول صلی
ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا:
”الخلفاء بعدی اثنا عشر بعدد نقباء بنی اسرائيل وکلھم من قريش۔“][84
”ميرے بعد بنی اسرائيل کے نقباء کے برابر ميرے باره خليفہ ہوں گے اوروه سب کے سب قريش سے ہوں گے“۔
استاد” :اگر فرض کر ليا جائے کہ يہ حديث صحيح بھی ہے تو تمہاری نظر ميں ان باره سے کون لوگ مراد ہيں؟“
شاگرد” :اس سلسلے ميں سيکﮍوں روايات موجود ہيں جن ميں ان کے نام اس طرح بتائے گئے ہيں۔
١۔امير المومنين علی ابن ابی طالب عليہ السالم۔
٢۔حسن بن علی عليہ السالم۔
٣۔ حسين بن علی عليہ السالم۔
۴۔علی بن الحسين عليہ السالم۔
۵۔محمد بن علی الباقر عليہ السالم۔
۶۔جعفر بن محمد عليہ السالم۔
۔موسی بن جعفر عليہ السالم۔
ٰ ٧
موسی الرضا عليہ السالم۔ٰ ٨۔علی بن
٩۔محمد بن علی الجواد عليہ السالم۔
١٠۔علی محمد الہادی عليہ السالم
١١۔حسن بن علی العسکری عليہ السالم۔
١٢۔حجة القائم )عجل ﷲ فرجہ الشريف(۔
استاد” :کيا حضرت مہدی عليہ السالم ابھی زنده ہيں؟“
شاگرد” :ہاں وه زنده ہيں اور کچھ وجوہات کی بنا پر ہماری نظروں سے پوشيده ہيں جب اس دنيا ميں ان کے ظہور کی راہيں
ہموار ہوجائيں گی تو وه ظہور کريں گے اور پوری دنيا کی حکومت اپنے ہاتھ ميں لے ليں گے“۔
استاد” :يہ کس طرح ممکن ہے کہ ايک انسان ايک ہزار سال سے زياده زنده رہے جب کہ ايک انسان کی طبيعی عمر زياده
سے زياده سو سال ہوتی ہے“۔
شاگرد” :ہم مسلمان ہيں اور قدرت خداوند متعال پر يقين رکھتے ہيں اس ميں کيا برائی ہے کہ خداوند متعال کی مشيت سے
ايک انسان ايک ہزار سال سے زياده زنده رہے ؟“
استاد” :قدرت خدااپنی جگہ پر ہے ليکن اس طرح کی چيزيں سنت خدا سے خارج ہيں“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سوره عنکبوت آيت /١۴ميں خدا وند
ٔ شاگرد” :تم بھی قرآن کو قبول کرتے ہو اور ہم بھی اسے مانتے ہيں قرآن مجيد کے
متعال ارشاد فرماتا ہے:
ْ َ َ
ﱠ ٔ ” َولَقَ ْد أرْ َس ْلنَا نُوحًا ِٕالَی قَوْ ِم ِہ فلبِث فِ ِ
يہ ْم الفَ َسنَ ٍة ِٕاال َخ ْم ِسينَ عَا ًما“۔ َ َ َ
”اور بال شبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طر ف بھيجا جہاں وه پچاس سال چھوڑ کے ايک ہزار سال رہے“۔
اس آيت کے مطابق جناب نوح عليہ السالم طوفان سے پہلے اپنی قوم کے درميان ساڑھے نو سو سال زنده رہے اسی طرح
اگر خدا چاہے تو دوسرے کو بھی اتنی يا اس سے زياده عمر ديدے“۔
رسول خدا نے متعدد مقامات پر حضرت مام مہدی عليہ السالم کا تعارف دنيا کو عدل و انصاف سے بھر دينے والے کی
صورت ميں کرايا ہے اس سلسلہ ميں سيکﮍوں کيا بلکہ ہزاروں حديثيں ،سنی اور شيعہ دونوں طرف سے نقل ہوئی ہيں جن
کا انکار ممکن نہيں ہے۔
مثال کے طور پرحضرت رسول اسالم نے فرمايا ہے:
”المھدی من اہل بيتی يمالاالرض قسطا و عدال کماملئت ظلما و جوراً“۔][85
مہدی ہم اہل بيت ميں سے ہوں گے جو دنيا کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر ديں گے جس طرح وه ظلم وجور سے
بھری ہوگی۔
جب بات يہاں تک پہنچی تو وه استاد چپ ہو گيا کيونکہ اس شاگرد کی تمام باتيں منطقی اور اہل سنت کے معتبر حوالوں سے
مدلل تھيں۔
شاگرد نے اپنی بات آگے بﮍھاتے ہوئے کہا” :چلئے ہم اپنی بات کی طرف واپس پلٹتے ہيں آپ نے اس بات کی تصديق کر
دی ہے کہ رسول صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا ہے” :ميرے خليفہ باره ہوں گے اور وه سب کے سب قريش سے ہوں
گے“۔
آپ نے مجھ سے پوچھا کہ وه باره افراد کون لوگ ہيں ميں نے ان کا نام حضرت علی عليہ السالم سے لے کر امام مہدی
عليہم السالم تک سنا ديا اب ميں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے وه باره خلفاء يہ لوگ
نہيں ہيں تو پھر ان کے عالوه کون لوگ ہيں؟“
استاد” :ان باره لوگوں ميں چار خلفاء راشدين )ابو بکر،عمر،عثمان ،اور حضرت علی عليہ السالم( کا نام ليا جاتا ہے اس کے
بعد حسن عليہ السالم ،معاويہ ،ابن زبير و عمر بن عبد العزيز)کہ يہ سب مال کر آٹھ ہوگئے(اور يہ بھی ممکن ہے کہ مہدی
عباسی)بنی عباس کا تيسرا خليفہ(کو بھی شمار کر ليا جائے اس کے عالوه ابن طاہر عباسی بھی ان ميں شامل ہو سکتا ہے
خالصہ کے طور پر ہماری نظر کے مطابق يہ باره آدمی معين نہيں ہيں ان کے متعلق ہمارے علماء کے مختلف اقوال ہيں“۔
شاگرد” :رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی حديث ثقلين کے متعلق تم لوگوں کا کيا خيال ہے جس ميں آنحضرت نے
فرمايا ہے:
”انی تارک فيکم الثقلين کتاب ﷲ وعترتی اہل بيتی۔۔۔“۔][86
يہ بات واضح رہے کہ عمر وابوبکر ،معاويہ ،عباسی اور عبد العزيز عترت رسول ميں شمار نہيں کئے جا سکتے ل ٰہذا اس
صورت ميں ہمارے لئے رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے باره خليفہ کو پہچاننا ممکن نہيں ہوگا جب کہ حديث ثقلين
کے معيار کو سامنے رکھ کر ہم بﮍی آسانی سے ان کا پتہ لگا سکتے ہينذرا سی غور وفکر کے بعد يہ بات معلوم ہوجائے
گی کہ وه خلفاء وہی ہيں جن کو شيعہ مانتے ہيں کيونکہ يہی عترت اور اہل بيت کے مصداق ہيں“۔
استاد” :ٹھيک ہے اس کے جواب کے لئے مجھے کچھ موقع درکار ہے کيونکہ اس وقت ان باتونکا کوئی قانع کننده جواب
ميرے ذہن ميں نہيں آرہا ہے“۔
شاگرد” :بہت خوب اس بات کی اميد رکھتا ہوں کہ آپ تحقيق کريں گے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے باره
جانشين قيامت تک کون ہيں؟“
کچھ ہی دنوں بعد پھرشاگرد کی استاد سے مالقات ہوئی مگر ابھی تک وه استاد اپنے عقيده کے اثبات کے لئے کوئی دليل
نہيں ڈھونڈ پايا تھا۔
اسی طرح ايک دوسرے مناظره ميں جب ايک طالب علم نے اپنے ايک استاد سے سوال کيا کہ آيا آپ اس بات کو قبول کرتے
ہيں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے باره خليفہ ہوں گے اور وه سب کے سب قريش سے ہوں گے ؟
استاد” :ہاں ہماری معتبر کتابوں ميں اس طرح کی روايتيں موجود ہيں“۔
طالب علم” :وه باره کون سے لوگ ہيں؟“
استاد” :وه ابو بکر ،عمر،عثمان،علی عليہ السالم ،معاويہ اور يزيد بن معاويہ“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
طالب علم” :يزيد کو کس طرح خليفہ رسول سمجھا جا سکتا ہے جب کہ وه علی االعالن شراب پيتا تھا اور واقعہ کربال اسی
کی کارستانی ہے اور اسی نے امام حسين عليہ السالم اور ان کے صحابيوں کو قتل کيا ہے ؟“
بتاو“۔
اس کے بعد طالب علم نے اس سے کہا” :بقيہ کا نام ٔ
استاد نے جو اس کے اس سوال سے بے بس ہو چکا تھا موضوع بدل ليا اور کہنے لگا۔تم شيعہ حضرات اصحاب پيغمبر اکرم
صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو برا بھال کہتے ہو“۔
طالب علم” :ہم ان کے تمام اصحاب کو بر ابھال نہيں کہتے ،تم يہ کہتے ہو کہ وه تمام عادل تھے مگر ہم يہ کہتے ہيں کہ ايسا
نہيں ہے ،خود رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے زمانہ ميں ہی سارے منافقوں کے بارے ميں آيتيں اتری ہيں اگر ہم
يہ کہيں کہ آنحضرت کے زمانے ميں سارے اصحاب عادل تھے تو ہميں قرآن کی بہت سی آيتوں کو رد کرنا پﮍے گا جو اس
کا ايک عظيم حصہ ہيں“۔
استاد” :تم گواہی دو کہ ابو بکر عمر اور عثمان سے خوش ہو“۔
طالب علم” :ميں گواہی ديتا ہوں کہ اصحاب ميں سے جو بھی رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہرا سالم ﷲ
عليہا سے راضی تھا ميں بھی اس سے راضی ہوں اور جس سے بھی آنحضرت اور جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا راضی
نہيں تھيں ميں بھی اس سے راضی نہيں ہوں“۔
٧٣۔قبر رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پاس بلند آواز ميں زيارت پﮍھنا
ايک شيعہ عالم کہتے ہيں” :ہم تقريبا ً پچاس آدميوں کے ايک گروه کے ساتھ مدينہ منوره مسجد النبی ميں گئے اور وہاں جا
کر آنحضرت کی زيارت پﮍھنے ميں مشغول ہو گئے۔
حرم کا منتظم )شيخ عبد ﷲ بن صالح (ميرے قريب آيا اور اعتراض کے طور پر اس نے کہا” :رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله
وسلم کے مرقد کے قريب اپنی آواز بلند نہ کرو“۔
ميں نے اس سے کہا” :کيا وجہ ہے؟“
منتظم” :خدا وند متعال قرآن )سوره حجرات آيت (٢ميں فرماتا ہے:
ْض أَ ْن تَحْ بَطَ أَ ْع َمالُ ُک ْم َوأَ ْنت ْمُ ُ ْ
ت النﱠبِ ﱢی َوالَتَجْ ہَرُوا لَہُ بِالقَوْ ِل َک َج ْہ ِر بَع ِ
ْضک ْم لِبَع ٍ صوْ ِ
ق َ” يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا الَتَرْ فَعُوا أَصْ َواتَ ُک ْم فَوْ َ
الَتَ ْش ُعرُونَ “۔
چيخوچالو جس طرح تم ايک ٔ ”اے ايمان النے والو! نبی کی آواز کے اوپر اپنی آواز بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے
دوسرے کے سامنے چيختے ہو کہ کہيں تمہارے اعمال بيکار نہ ہوجائيں اور تمہيں خبر بھی نہ ہونے پائے“۔
ميں” :امام جعفر صادق عليہ السالم “کے اسی جگہ پر چار ہزار شاگرد تھے اور تدريس کے وقت باآواز بلند درس ديتے
تھے تاکہ ان کی آواز ان کے شاگردوں تک پہنچ جائے کيا انھوں نے حرام کام کيا؟ابو بکرو عمر اسی مسجد ميں بلند آواز
سے خطبہ ديا کرتے تھے اور تکبير کہتے تھے کياا ن سب لوگوں نے حرام کا م انجام ديا؟اور ابھی ابھی تمہارے خطيب نے
بلند آواز سے خطبہ ديا تم لوگ مل کر با آواز بلند تکبير کہہ رہے تھے کيا يہ لوگ قرآن کے خالف کر رہے تھے؟ کيونکہ
قرآن اس سے منع کرتا ہے ؟
منتظم” :اچھا تو پھر آيت کاکيا مطلب ہوا؟“
ميں” :اس آيت سے مراد ہے بے فائده اور بے جا شور و غل نہ کرو جو آنحضرت کی حرمت و احترام کے خالف ہو جيسا
کہ اس آيت کے شان نزول کے بارے ميں روايت ہے:
قبيلہ ”بنی تميم“کے کچھ لوگ مسجد ميں داخل ہوئے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے گھر کے پيچھے سے ٔ
چيخ کر کہنے لگے يا محمد باہر نکلو اور ہم سے مالقات کرو۔ ][87
دوسری بات يہ کہ ہم تو نہايت ہی تواضع و احترام سے زيارت پﮍھنے ميں مشغول ہيں اور مذکوره آيت ميں غور وفکر
کرنے سے يہ سمجھ ميں آتاہے کہ اس آيت ميں وه لوگ شامل ہيں جو رسول اکرم کی اہانت کی غرض سے چيخ کر آواز
لگاتے تھے کيونکہ اس آيت ميں اعمال کے بيکار ہونے کی بات آئی ہے اور يقينا اس طرح کی سزا کافر يا گناه کبيره انجام
دينے والے اور توہين کرنے والے کے لئے ہوگی نہ کہ ہمارے لئے کيونکہ ہم تو نہايت ادب واحترام سے ان کی زيارت پﮍھ
رہے ہيں اگر چہ ذراسی آواز بلند ہوگئی تو کيا ہوا اس لئے روايت ميں آيا ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئی تو ثابت بن قيس
)رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے خطيب (جن کی آواز بہت ہی موٹی تھی نے کہا کہ اس آيت سے مراد ميں ہوں اور
ميرے نيک اعمال حبط ہو گئے۔جب اس بات کا علم آنحضرت کو ہوا تو آپ نے فرمايا” :نہينايسانہيں ہے ثابت بن قيس جنتی
ہے“۔)کيونکہ وه اپنے وظيفہ پر عمل کرتا ہے نہ کہ توہين کرتا ہے(۔][88
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٧۴۔علمائے اہل سنت سے شيخ بہائی کے پدربزرگوار کے مناظرے
دسويں صدی کے بہت ہی مشہور ومعروف عالم عالمہ شيخ حسن بن عبد الصمد عاملی عليہ الرحمة )شيخ بہائی کے پدر
بزرگوار(گزرے ہيں۔
موصوف محرم ٩١٨ھ جبل عامل ميں پيدا ہوئے / ٨ربيع االول ٩٨۴ھ ميں /۶۶سال کی عمر ميں رحلت فرماگئے وه
زبردست محقق ،تجربہ کار دانشور اور ايک عظيم شاعر تھے موصوف ٩۵١ھ ميں شہر ”حلب“ )سوريہ کا ايک شہر (ميں
سفر کيا وہاں ان کی مال قات ايک صاحب علم و دانش اہل سنت عالم کے سے ہوئی اور شيعہ کے مذہب کے بارے ميں چند
جلسہ اور مناظرے ہوئے سر انجام وه سنی عالم شيعہ ہو گيا [89]،يہاں پر ہم ان مناظروں کا خالصہ چار مناظروں ميں پيش
کرتے ہيں:
امام جعفر صادق عليہ السالم کی پيروی کيوں نہيں کرتے؟
حسين بن عبد الصمد کہتے ہيں :جب ميں شہر حلب ميں وارد ہوا تو وہاں پر ايک حنفی عالم جو بہت سے علوم وفنون ميں
ماہر تھا اور اس کا شمار محققين ميں ہوتا تھا اور وه دھوکا دھﮍی سے پاک تھا۔اس نے مجھے اپنے گھر پر ہی ٹھہرا ليا۔
بات چيت ہوتے ہوتے تقليد کی بات چھﮍ گئی اور پھر ہوتے ہوتے يہی موضوع ہمارے مناظره کا محور ہوگيا۔
حسين” :تم لوگوں کے نزديک کيا قرآن ،احاديث يا سنت ميں سے کوئی ايسی دليل موجود ہے جس کے ذريعہ ثابت ہو سکے
کہ ابو حنيفہ کی تقليد اور پيروی ہم پر واجب ہے ؟“
حنفی” :نہيں اس طرح کی کوئی آيت يا روايت وارد نہيں ہوئی ہے“۔
حسين” :کيا مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہم ابو حنيفہ کی پيروی کريں ؟“
حنفی عالم” :نہيں اس طرح کی کوئی آيت يا روايت وارد نہيں ہوئی ہے“۔
حسين” :تو پھر کس دليل کی بنا پر تمہارے لئے ابو حنيفہ کی تقليد جائز ہے ؟“
حنفی عالم” :ابو حنيفہ مجتہد اور ميں مقلد ہوں اور مقلد پر واجب ہے کہ وه کسی ايک مجتہد کی تقليد کرے“۔
حسين” :جعفر بن محمد عليہ السالم جو امام جعفر صادق عليہ السالم کے نام سے مشہور ہيں ان کے بارے ميں تمہارا کيا
نظريہ ہے ؟“
ٰ
حنفی عالم” :جعفر بن محمد عليہ السالم کا مقام اجتہاد ميں بہت اونچا ہے اور وه علم و تقوی ميں سب سے زياده بلند تھے ان
کی توصيف ممکن نہيں ہمارے بعض علماء نے ان کے جن چارسو شاگردوں کے نام گنا ئے ہيں وه سب کے سب نہايت
پﮍھے لگے اور قابل اشخاص تھے انھيں لوگوں ميں سے ابو حنيفہ بھی تھے“۔
حسين” :تم اس بات کا اعتراف کر رہے ہو کہ امام جعفر صادق عليہ السالم مجتہد تھے ،پائے کے عالم دين اور صاحب تقویٰ
تھے ہم شيعہ اسی لئے ان کی تقليد کرتے ہيں ان باتوں کے باوجود تم نے يہ کيسے سمجھ ليا کہ ہم گمراه ہيں اور تم ہدايت
کی راہوں پر گامزن ہو؟
جب ہمارا عقيده يہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم معصوم تھے اور غلطی نہيں کر سکتے ،ان کا حکم خدا کا حکم
ہوتا ہے اور اس بارے ميں ہم بہت سے دالئل متفقہ بھی رکھتے ہيں وه ابو حنيفہ کی طرح قياس اور استحسان کی بنياد پر
وی نہيں ديتے تھے ،ابو حنيفہ کے فتوے ميں غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے ليکن امام جعفر صادق عليہ السالم کے فتوی فت ٰ
ميں ايسا کوئی امکان نہيں پايا جاتا تھا،بہر حال امام جعفر صادق عليہ السالم کی عصمت کے متعلق بحث چھوڑتے ہوئے اس
وقت ميں صرف آپ کی ايک بات پر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے خود کہا کہ امام جعفر صادق عليہ السالم مجتہد
تھے ليکن ہمارے پاس ايسے دالئل موجو دہيں جن کے ذريعے ہم يہ ثابت کر سکتے ہيں کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق
عليہ السالم تھے“۔
حنفی عالم” :اس انحصار کے لئے تمہارے پاس کيا دليل ہے کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق عليہ السالم تھے۔
حسين :ہماری چند دليليں ہيں:
١۔ ہماری پہلی دليل يہ ہے کہ اس بات کا تو آپ نے بھی اعتراف کيا ہے اور آپ کے عالوه اسالم کے چاروں مشہور فرقے
تقوی اور عدالت ميں تمام لوگوں سے افضل و برتر تھے ميں ٰ يہ بات قبول کرتے ہيں کہ امام جعفر صادق عليہ السالم علم و
نے اس بات ميں کسی کو اعتراض کرتے ہوئے نہيں سنا،تمام اسالمی اديان کی احاديث وروايات کی کتابوں ميں کوئی کہيں
يہ نہيں دکھا سکتا کہ کسی نے امام عليہ السالم کے کسی عمل پر اعتراض کيا ہو جب کہ وه لوگ شيعوں کے حد درجہ دشمن
تھے اور حکومت وقت ہميشہ ان کے ہاتھوں ميں رہنے کے باوجود کسی دشمن نے بھی آپ کی طرف کوئی ايسی بات منسو
ب نہيں کی][90يہ ايک ايسا امتياز ہے جو ان کے عالوه کسی اور مسلک کے امام ميں موجود نہيں ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
تقوی اور عدالت ميں سے افضل و برتر ہو ،اور محققين ٰ ل ٰہذا بغير کسی ترديد کے تقليد اس کی واجب ہو گی جو علم و فضل و
اس بات پر اجماع رکھتے ہيں کہ اچھے اور مدلل فتووں کی موجودگی ميں کمزور اور غير مستند فتاوی پر عمل کرنا جائز
نہينہے۔
اس بنا پر يہ کيونکر جائزہوسکتا ہے کہ اس شخص کی تقليد ترک کريں جس کی سبھی اسالمی علماء افضليت کا اقرار کرتے
ہيں ،اور ايسے شخص کی تقليد کريں جس کے يہاں شک و ترديد پايا جاتا ہو!،اور چونکہ مسئلہ تقليد ميں شک و ترديد کا نہ
ہونا عدالت سے بھی زياده اہم ہے ،چنانچہ يہ بحث اپنے مقام پر کی گئی ہے۔
علمائے حديث ميں سے تمہارے ايک امام ”امام غزالی“ ہيں جنھوں نے ابو حنيفہ پر تنقيد کرتے ہوئے ”المنخول“ نامی کتاب
لکھی ہے ،اسی طرح شافعی کے بعض شاگردں نے بھی ”النکت الشريفہ فی الر ّد علی ابی حنيفہ“ نامی کتاب لکھی ہے۔
ٰ
تقوی اور عدالت پر اس بنا پر اس بات ميں کوئی شک و شبہ نہيں ہے کہ تقليد اسی شخص کی جائز ہے جس کے علم و
فتوی موجود ہے تو پھر مرجوح )غير ٰ سبھی کا اتفاق ہو ،اور تمام اہل تحقيق کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب راجح )افضل(
ٰ
فتوی پر عمل کرنا جائز نہيں ہے۔ افضل(
٢۔ دوسری دليل يہ ہے کہ امام جعفرصاد ق عليہ السالم ہم شيعوں کے عقيده کے مطابق اہل بيت رسول خدا صلی ﷲ عليہ و
آيہ تطہير نے صراحت کی ہے اور اس بنا پر وه ہر طرح کی نجاست اور پليدی سے آلہ و سلم کی ايک فرد سے ہيں جس کی ٔ
پاک ہيں جيسا کہ لغوی عالمہ ابن فارس صاحب کتاب ”معجم مقاييس اللغة“نے خود اپنی کتاب ”مجمل اللغة“ميں اس بات کی
وضاحت کی ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم اہل بيت ميں شامل ہيں جب کہ ابن فارس اہل تسنن کے مشہورو معروف
عالم دين ہيں اور يہ وہی مقام طہارت ہے جس کے لئے امام جعفر صادق عليہ السالم کے متعلق شيعوں کا اعتقاد ہے ليکن
ابو حنيفہ کے بارے ميں اجماع ہے کہ وه اہل بيت عليہم السالم ميں سے نہيں ہے لہٰذا قرآن کے مطابق ہميں ايسے افراد کی
تقليد کرنا چاہئے جو تمام خطا اور نجاست سے پاک اور منزه ہوں تاکہ مقلدين يقين کی منزل تک پہنچيں اور نجات يافتہ ہوں۔
حنفی عالم” :ہم اس بات کو قبول نہيں کرتے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم اہل بيت رسول ميں ہيں بلکہ ہمارے لحاظ سے
آيہ تطہير صرف پانچ افراد)پنجتن( ہی کو شامل کرتی ہے“۔
حسين” :بالفرض اگر ہم قبول بھی کرلينکہ امام جعفر صادق عليہ السالم ان پانچ ميں سے نہيں ہيں ليکن پھر بھی ان کا حکم
اور ان کی پيروی تين دليلوں سے انھيں پانچ افراد کی مانند ہوگی“۔
١۔جو شخص بھی پنجتن کی عصمت کا معتقد ہے وه امام جعفر صادق عليہ السالم کی عصمت کو بھی قبول کر تا ہے اور جو
بھی پنجتن کی عصمت کا قائل نہيں ہے وه امام جعفر صادق عليہ السالم کی عصمت کا بھی قائل نہيں ہے۔پنجتن کا معصوم
آيہ تطہير سے ثابت ہے بس اسی وجہ سے امام جعفر صادق عليہ السالم کی بھی عصمت ثابت ہوتی ہے کيونکہ ہونا قرآن کی ٔ
علمائے اسالم اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہيں کہ امام جعفرصاد ق عليہ السالم کی عصمت ميں کوئی فرق نہيں ہے اور
امام جعفرصادق عليہ السالم کی عصمت کا قائل نہ ہو کر پنجتن کی عصمت کا قائل ہونا يہ اجماع مسلمين کے خالف ہے۔
٢۔راويوں اور مورخين کے نزديک يہ بات مشہور ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم اور ان کے آبائے اجداد نے تحصيل
علم کے لئے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہيں کيا اور يہ بھی کہيں پر نقل نہيں ہوا کہ ان لوگوں نے علماء اور مصنفين
کے دروس ميں شرکت کی ہو بلکہ تمام لوگوں نے يہ نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم نے اپنے والد )امام محمد
باقر عليہ السالم(سے اور امام محمد باقر عليہ السالم نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے والد امام حسين عليہ السالم سے علم
حاصل کيا اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ امام حسين عليہ السالم اہل بيت نبی ميں سے ہيں۔
نتيجہ يہ ہوا کہ ائمہ معصومين عليہم السالم اور امام جعفر صادق عليہ السالم کی باتيں اور اقوال اجتہاد کا نتيجہ نہيں ،يہی
وجہ ہے کہ جو شخص بھی ان کے پاس سوال کرنے گيا تو وه جواب لے کر واپس آتا تھا ،اور جواب دينے ميں کسی چيز
کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہيں کی ،اس سلسلہ ميں خود آپ نے تصريح کرتے ہوئے فرماياہے :ہم
لوگوں کی تمام باتوں کا منبع ہمارے بزرگ آباء واجداد ہيں اور ہمارے پاس جو بھی ہے وه رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و
سلمکا قول ہے اور يہ بات صحيح طريقہ سے ثابت ہے۔
پس نتيجہ يہ ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم کے اقوال وہی ہيں جو اقوال ان ذوات مقدسہ کے ہيں جن کے لئے آيہ تطہير
نے پاک وپاکيزه ہونے کی ضمانت لی ہے۔
٣۔تمہاری صحيح روايتوں ميں متعدد طريقوں سے حديث ثقلين نقل ہوئی ہے جس ميں آنحضرت نے فرمايا ہے:
”انی تارک فيکم ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی الثقلين کتاب ﷲ و عترتی ،اہل بتی ۔۔۔“][91
”ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزوں کو چھوڑے جارہا ہوں اور جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہو گے کبھی ميرے
بعد گمراه نہ ہوگے ،ايک کتاب خدا اور دوسرے ميری عترت ميرے اہل بيت“
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
يہ حديث واضح طور پر يہ بيان کر رہی ہے کہ قرآن و عترت سے تمسک موجب ہدايت ہوتا ہے اور تمام اسالمی فرقوں ميں
صرف مذہب شيعہ ہی ايسا فرقہ ہے جس نے ان دونوں سے تمسک اختيار کيا کيونکہ شيعوں کے عالوه دوسرے لوگوں نے
دوسرے لوگوں سے تمسک اختيار کيا۔
حديث ثقلين ميں يہ نہيں آيا ہے کہ ہم نے تمہارے درميان قرآن اور ابو حنيفہ يا قرآن اور شافعی کو چھوڑا ہے ،پس ممکن
ہے کہ عترت رسول کے عالوه دوسرے لوگوں سے تمسک کيا جائے
٢۔مذہب تشيع کی عدم شہرت اور اہل سنت کی شہرت کے متعلق ايک مناظره
اس سے پہلے والے مناظره ميں جب امام جعفر صادق عليہ السالم کی برتری کی بات آئی تو حنفی عالم نے کہا:
يہ بات صحيح ہے اور اس ميں ذرا بھی شک نہيں کہ امام جعفر صاق عليہ السالم اور ان کے آباء واجداد سب کے سب بہت
ہی پﮍھے لکھے اور مجتہد تھے ان کا علم دوسرے لوگوں سے بہت باالتر تھا اور ان کی تقليد ان کے مقلدوں کے لئے نجات
کی ضمانت ہوتی ہے ليکن اس کے باوجود ان کا مذہب اتنا زياده نہيں پھيال کہ عالم کے گوشے گوشے ميں ہر شخص اس
سے واقف ہو جائے جب کہ مذاہب اربعہ پوری دنيا ميں مشہور ہيں اور سبھی ان سے واقف ہيں اور تمام مسلمان اسی پر
عمل پيرا ہيں“۔
حسين” :اگر تمہارا مطلب يہ ہے کہ مذہب شافعی اور مذہب حنفی وغيره نے ہمارے مذہب کو نقل نہيں کيا تو بات صحيح ہے
،ليکن اس سے ہمارے مذہب کو کوئی نقصان نہيں پہنچتا کيونکہ ان کی طرح ہم نے بھی ان کے مذہب کی کوئی تبليغ نہيں
کی ،اسی طرح خود مذہب شافعی نے مذہب حنفی و مذہب مالکی کو نقل نہيں کيا اور اسی طرح مذہب مالکی نے حنفی و
شافعی مذہب کو نقل نہيں کيا ،اسی طرح اسالم کے تمام مذاہب کا حال ہے ،ل ٰہذا کسی مذہب کا دوسرے مذہب کا نقل نہ کرنا
کسی مذہب کے لئے نقصان ده ثابت نہيں ہوگی۔
ٰ
دعوی بالکل غلط ليکن اگر تمہاری مراد يہ ہے کہ مسلمانوں ميں سے کسی نے بھی مذہب تشيع نقل ہی نہيں کيا ،تو تمہارا يہ
ہے کيونکہ خود شيعہ اور بہت سے اہل سنت اور دوسرے اسالمی فرقوں نے جعفری مذہب کے آداب واخالق کو نقل کيا
ہے ،اس کے عالوه خود شيعوں نے بھی اپنے مذہب کی ترويج و نشر کے لئے بہت اہتمام کيا ہے ،سلسلہ ٔ روات کے متعلق
تو شيعوں نے حددرجہ تحقيق کی ہے ،اور اس موضوع پر متعدد کتابيں لکھی ہيں۔
حاالنکہ علمائے شيعہ ،سنی علماء کے مقابل کم ہيں ليکن اگر ان کا موازنہ اہل تسنن کے مختلف ديگر مسلکوں سے الگ
الگ کيا جائے تو يہ ان کے مقابل کم ہرگز نہيں ہو سکتے خاص طور پر حنبلی اور مالکی علماء سے يہ بالکل کم نہيں ہيں
بلکہ ان سے زياده خود شيعہ علماء ہيں اور خدا کا شکر ہے کہ علمائے شيعہ ہر دور ميں اپنے زمانہ کے دوسرے مذہب کے
تقوی وعلم ميں آگے ہی رہے ہيں ليکن يہ بات واضح ہے کہ باره اماموں کے زمانہ ميں کسی بھی عالم کی ٰ علماء کے مقابل
علمی اور عملی سطح ان لوگوں کے برابر نہيں تھی اور ا ن کے شاگردوں کی علمی سطح اور بحث و استدالل کی صالحيت
بال شبہ دوسرے تمام مذاہب کے علماء سے کئی گنا زياده تھی جيسے ہشام بن حکم،ہشام بن سالم ،جميل بن دراج،زراره بن
اعين ،محمد بن مسلم اور ان کے جيسے بہت سے لوگ جن کی تعريف ان کے مخالفين يہ کہہ کر کرتے تھے کہ ”يہی پايہ
کے اور حقيقی عالم ہيں“۔
امام زمانہ عليہ السالم کی غيبت کے زمانہ کے بعد شيعہ فرقہ ميں ايک سے ايک جيد علماء گزرے ہيں جيسے شيخ صدوق
رضی ،ابن طاووس ،خواجہ نصير الدين طوسی،ميثم ٰ مرتضی اور ان کے بھائی سيد
ٰ ،شيخ کلينی ،شيخ مفيد،شيخ طوسی ،سيد
بحرانی،عالمہ حلی،ان کے بيٹے فخر المحققين اور ان جيسے سيکﮍوں علماء نے اپنی تاليفات اور علمی مناظروں سے
مشرق ومغرب کو علم وحکمت سے بھر ديا ان کا انکار صرف تعصب اور جہالت کے نتيجہ ميں ہی ہو سکتا ہے۔
ل ٰہذا ب تمہيں چاہئے کہ تم ہمارے اسی مذہب کی پيروی کرو جس کی ہم تقليد کرتے ہيں کيونکہ ہمارے امام تمام لوگوں سے
افضل وبرتر ہيں اور جو بھی حقيقتا ً سچے راستے کی تالش ميں ہوگا اسے آخر کا ر ہماری روش ہی اختيار کرنا پﮍے گی
تمہارے لئے الزم ہے کہ تم مذہب حق کے بارے ميں تحقيق کرو کيونکہ تم غير معصوم کے پيرو ہو جب کہ ہمارے لئے اس
طرح کی کوئی حاجت نہيں ہے کيونکہ ہم ايسے کی تقليد کرتے ہيں جو معصوم ہے يوں بھی ہمارے يہاں امام کے لئے
معصوم ہونا شرط ہے ل ٰہذا وه فرقہ ناجيہ ہميں ہيں اگر چہ ابھی تمہاری زبان ہمارے مذہب کی حقانيت کی گواہی نہيں دے
رہی ہے مگر اس کے باوجود تمہارے پاس ايسے دالئل موجود ہيں جو تمہيں مذہب تشيع اختيار کرنے پر اکسا رہے ہيں
کيونکہ تمہا ر اخود اعتراف ہے کہ ايسے مجتہد کی تقليد سبب نجات ہے وه مجتہد صرف اور صرف ہمارے ہی مذہب ميں
پايا جاتا ہے۔
جب بات يہاں تک پہنچی تو حنفی عالم ال جواب ہوگيا اور خود اپنے اس سوال کو چھوڑ کر دوسرے مختلف سواالت کی پنا ه
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ڈھونڈنے لگا۔
--------------------------------------------------------------------------------
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [6مناظرات فی الحرمين الشريفين۔سيد علی بطحائی ،مناظره پنجم۔
] [7صحيح بخاری ج،٨ ،ص ٢۶۔) مطبوعہ مطابع الشعب(
] [8ڈاکٹر تيجانی کی کتاب”ثم اہتديت “سے اقتباس ص ١١١تا ١١٣۔
ان ابابکر تفقّد قوما ً تخلّفوا عن بيعتہ عند علي کرم ﷲ وجہہ فبعث اليہم عمر ،فجاء فناداہم و ہم فی دار عل ّي ،فاَبَوا ان ] [9و ّ
ّ
لتخرجن اوال حرقنہا علی َمن فيہا ،فقيل لہ يا اباحفص ان فيہا فاطمة؟ﱠ يخرجوا ،فدعا بال َحطَب ،و قال :و الذي نفس عمر بيده
موسسہ حلبی ص ١٩۔ (
ٔ مطبوعہ والسياسة فقال :و اِن ،فخرجوا فبايعوا اال عليّا ً “) االمامة
] [10مناظرات فی الحرمين الشرفين مناظره ٩۔
] [11شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج ۶ص(۴۶
] [12شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج ۶ص(۴۶
] [13بحار ،ج ، ٨۵ص١۵٣۔
] [14وہی مصدر ،ص ، ١۵٨ارشاد القلوب ،ص١۴١۔
] [15محمد مرعی انطاکی کی کتاب”لماذا اخترت مذہب التشيع“ص ٣۴١سے ٣۴٨تک سے اقتباس ۔
] [16صحيح مسلم ،ج ، ٣ص، ٢٣۶صحيح بخاری ،ج ، ٢ص ، ١٨۵مسند حنبل ج ، ١ص ، ١١٨، ٩٨وغيره۔
] [17االحتجاجات العشرة ،ص١۶۔
،سوره نساء کی ٢۴ويں آيت کے ذيل ميں ۔ ٔ ] [18تفسير فخر رازی
] [19االحتجاجات العشرة،ص٧۔
،سوره نساء کی ٢۴ويں آيت کے ذيل ميں ۔ ٔ ] [20تفسير ثعلبی و تفسير طبری
] [21اسباب النزول ،سيوطی ،سوره عبس کے ذيل ميں۔
] [22تفسير برہان و تفسير نور الثقلين ،اسی آيت کے ذيل ميں۔
سوره القلم آيت۴۔
ٔ ][23
سوره االنبيا ء آيت١٠٧۔
ٔ ][24
] [25يہ حديث مجمع البيان ج ١٠ص ۴٣٧ميں بھی آئی ہے جو لوگ اسے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے متعلق
خيال کرتے ہيں انھوں نے اس اعتراض کا کہ يہ بات رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بد اخالقی کی دليل ہے اس
طرح جواب ديا ہے:
ابن ام مکتوم نے آداب مجلس کا خيال نہيں کيا ل ٰہذا اس کی سز ايہی تھی کہ اسے اسی لحظہ سزادی جائے اور اس سے بے
توجہی برتی جائے اور خدانے جو اس عمل کے متعلق سرزنش کی ہے وه اس لئے کہ بھلے ہی اس وقت رسول خدا صلی ﷲ
عليه و آله وسلم کا منہ موڑنا درست تھا مگر پھر بھی اس بات کا امکان موجود تھا کہ دشمن يہ خيال کريں کہ رسول خدا
صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اس سے فقير ہونے کی وجہ سے منہ موڑ اور پيسے والوں کی طرف متوجہ رہے ل ٰہذا خدا وند
عالم نے اس آيت کے ذريعہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کو يہ سمجھايا ہے کہ بھلے ہی کوئی کام درست ہو ليکن
اگر اس کی وجہ سے دشمن سوء ظن ميں مبتال ہو جائيں تو اس عمل کو انجام نہ ديا اور اگر انجام دے بھی ديا تو ترک اولی
ہوگا۔
] [26رجال نجاشی ،ص٣١١۔
] [27البداية والنہاية،ج،١٢ص١۵۔
] [28مقدمہ اوائل المقاالت ،طبع تبريز سال ١٣٧١ھ ۔ق۔
] [29شيخ مفيد کا مناظره کے متعلق ايسا عقيده تھا کہ وه کہا کرتے تھے ۔بےشک شيعہ اثنا عشری فقيہ اور عالم دين ہميشہ
اہل مناظره تھے اور اس کی اہميت کا عقيده رکھتے تھے آنے والے علماء بھی مناظرے ميں گذشتہ علماء کی پيروی کريں
گے اور مناظرے کرتے رہيں گے اور مناظروں کو مخالفين کے قانع کننده جواب کے لئے بہترين طريقہ مانيں گے)الفصول
المختار ج ،٢ص(١١٩
المومنين ،ج، ١ص٢٠٠و )٢٠١پانچويں مجلس(۔ ] [30مجالس ٔ
] [31بوستان سعدی آواز قصائد فارسی۔
سوره کہف آيت ٣٧۔
ٔ ][32
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سوره حجرآيت ٩۔
ٔ ][33
] [34احتجاج طبرسی ،ج، ٢ص ٣٢۶سے لے کر ٣٢٩تک۔
] [35وه پانچ افراد يہ ہيں،:ابو سفيان بن حارث )رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے چچا زاد بھائی( نوفل بن حارث
،ربيعہ بن حارث ،فضل بن عباس ،عبد ﷲ بن زيبر ،بعض نے عتبہ و معتب )ابولہب کے بيٹے( کانام بھی ذکر کيا ہے ،
الوری ،ص،١١٩کامل ابن اثير ،ج ،٢ص٢٣٩۔ ( ٰ )اعالم
] [36بحار االنوار سے اقتباس ،ج ، ۴٩ص١٩۴۔ ٢٠٠۔
] [37شرح نہج البالغہ ،ج،۶ص ۴۶و۴٧۔
] [38صحيح بخاری ،مطبوعہ دار الجيل ،بيروت ،ج ٧ص، ۴٧اور ج،٩ص، ١٨۵و دوسرے مدارک ،کتاب ”فضائل الخمسہ‘
‘ ج ، ٣ص ١٩٠سے ۔
سوره احزاب آيت۵٧۔
ٔ ][39
] [40صحيح بخاری ،ج ، ٢ص ،٢۵١کامل ابن اثير ،ج ،٢ص ٣١۔
] [41شرح زرقانی بر موطا مالک ج ١ص ٢۵۔
سوره نساء آيت ٢۴کے ذيل ميں۔
ٔ ] [42تفسير فخر رازی
] [43شرح تجريد ،قوشچی ،ص،٣٧۴قوشچی اہل سنت کے ايک نہايت مشہور عالم دين ہيں جنھيں )امام المتقين (کہا جاتا تھا
۔
سوره حشر ،آيت ٧۔
ٔ [44 ]
] [45سوره احزاب ،آيت ٣۶۔
] [46مقدمہ سنن دارمی ،ص ، ٣٩اصول کافی ،ج، ١ص۶٩۔
] [47کتاب ”جستجوئے حق در بغداد “سے اقتباس )مقاتل بن عطيہ بکری( ص ١٢٧سے ١٢٩تک۔
سوره حاقہ آ يت ۴۴۔۴۶۔ٔ ][48
] [49اس کتاب کا مختلف زبانوں ميں ترجمہ ہو چکا ہے فارسی ميں ”آنگاه۔۔۔ہدايت شدم(کے نام سے اس کا ترجمہ لوگوں نے
بہت پسند کيا اور ديکھتے ديکھتے اس کا آٹھواں ايڈيشن بھی چھپ گيا ،
] [50حضرت آيت ﷲ شہيد سيد محمد صدر رحمة ﷲ عليہ ١٣۵٣ھ ق ميں کاظمين ميں متولد ہوئے اور جوانی ہی ميں مجتہد
مسلم ہو گئے آپ نے مختلف موضوعات مثالً فقہ ،اصول،منطق،فلسفہ،اور اقتصاد پر تقريبا ً ٢۴کتابيں لکھی ہيں۔ ٢٠سال
بازوں سے عراق کی بعثی حکومت سے مسلسل جہاد کرنے کے بعد آخر کار ۴٧سال کی عمر ميں اپنی مجتہده اپنے قلم اور ٔ
الہدی“ کے ساتھ يزيد صفت عراق کی بعثی پارٹی کے ہاتھوں شہيد ہوگئے ۔ ٰ بہن ”بنت
] [51مسلک وہابيت ”شيخ محمد بن عبد الوہاب “کی طرف منسوب کيا جاتا ہے وه ١١١۵ء ھ ميں نجد کے شہر ”عنيہ “ميں
پيدا ہوااس کا باپ اس شہر ميں قاضی تھا۔
]” [52آنگاه ہدايت شدم“)پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ،ص٩٢تا ٩٣۔
] [53اتنی زياده نقل ہوئی ہے کہ جس سے انسان کو يہ يقين حاصل ہو جاتا ہے کہ يہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی
حديث ہے ۔
]” [54آنگاه ہدايت شدم“)پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ،ص ٨٨تا ٨٩۔
سوره آل عمران آيت ١۴۴۔ ٔ ][55
سوره فتح آيت ٢٩۔
ٔ ][56
سوره احزاب آيت ۴٠۔
ٔ ][57
] [58صحيح مسلم ،ج، ٢ص )١۵١باب الجمع بين الصالتين فی الحضر(
] [59صحيح مسلم ،ج، ٢ص )١۵١باب الجمع بين الصالتين فی الحضر(
] [60مسند امام احمد حنبل ،ج ،١ص٢٢١۔
] [61موطا ااالمام مالک )شرح الحوالک (ج،١،ص١۶١۔
] [62الکون مع الصادقين ،ڈاکٹر تيجانی سماوی ،مطبوعہ بيروت ،ص ٢١٠سے ٢١۴تک سے خالصہ کے ساتھ اقتباس ۔
سوره نساء آيت ١٠٣۔
ٔ ][63
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [64الکون مع الصادقين سے اقتباس ،ص٢١۴و ٢١۵۔
] [65سوره احزاب ،آيت ٣٣۔
] [66سوره احزاب ،آيت ٣٣۔
]” [67آنگاه ہدايت شدم“)پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ،ص١١۴تا ١١۵۔
] [68الميزان ،ج،١۶ص١١۴۔
] [69شواہد التنزيل ،ج، ٢ص،١١اور ٢۵کے بعد )اس بحث کا ماخذ”احقا ق الحق “کی ج ٢ميں بھی آيا ہے ۔
سوره احزاب آيت ۵۶۔
ٔ ][70
] [71صحيح بخاری ،ج،۶ص١۵١۔صحيح مسلم ،ج ١ص٣٠۵۔
] [72الصواعق المحرقہ ،ص١۴۴۔
] [73شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ،ج، ۶ص١۴۴۔
] [74المواہب زرقانی ،ج ٧ص٧۔تذکره عالمہ ،ج،١ص١٢۶۔
سوره ”صافات “کی ١٣٠ويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں ”سالم علی آل ياسين“)آل ياسين پر سالم ٔ ] [75مولف کا قول:قرآن ميں
ہو (ابن عباس سے منقول ہے کہ يہاں ”آل ياسين“ سے مراد آل محمد ہيں ل ٰہذا س بنا پر قرآنی اعتبار سے بھی آل محمد ميں
سے کسی کے نام کے ساتھ ”عليہ السالم“کہنا درست ہے ۔
] [76آنگاه ہدايت شدم) ،پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ،ص ۶۵تا ۶٧۔
] [77يہ اس بات پر ايک ضمنی اقرار ہے کہ حديث غدير حضرت عليعليہ السالم کی خالفت پر واضح بيان ہے ليکن ہم
مجبور ہيں کہ اس کی وضاحت سے دست بردار ہوجائيں اور اس کی تاويل کريں )غور کريں !(۔
] [78اس حديث کے مختلف مآخذ اور مدارک کے لئے ”الغدير “کی پہلی جلد سے رجوع کريں۔
] [79اس ٹيونسی دانشور سے کہنا چاہئے اگر علی کو دوست رکھتے ہو تو ان کی دوستی کا تقاضہ يہ ہے کہ ان کی باتوں
کو قبول کيا جائے اور ان کی باتوں کو قبول کرکے ان کو خوش کياجائے حاالنکہ آپ نے رسول اسالم صلی ﷲ عليه و آله
دعوی کيا ليکن ان کی بات کو نہيں ماناگيا اور ان کو زبردستی بيعت کے لئے لے جايا گيااور آپ ٰ وسلم کے بعد خالفت کا
کے اصحاب کوآزار واذيت دی گئی اور جناب سلمان کو مارا پيٹا گيا ۔
] [80مسند احمد بن حنبل ،ج، ۴ص ،٢٨١عالمہ امينی نے الغدير کی جلد اول ميں اسے اہل سنت کے ساٹھ علماء سے نقل کيا
ہے ۔
سوره مائده ،آيت ۶٧۔
ٔ ][81
] [82صحيح بخاری وصحيح مسلم ،صلح حديبہ کے متعلق بعض صحابہ کی مخالفت ،اور عمر کا قول بھی نقل کيا ۔
] [83جناب تيجانی سماوی کے کتاب”ال کون مع الصادقين “سے اقتباس ص ۵٨سے ۶١۔ مولف کی جانب سے خالصہ اور
اضافہ کے ساتھ۔
] [84صحيح مسلم ،کتاب االمارة ،جلد ،۴ص ) ،۴٨٢مطبوعہ دار الشعب( ،مسند احمد ،ج ،۵ص ،٩٢ ،٩٠ ،٨۶مستدرک
صحيحين ،ج ،۴ص ،۵٠١مجمع ہيثمی ،ج ،۵ص ١٩٠۔
] [85مسند احمد احنبل ،ج،٣ص٢٧۔
] [86مسند حنبل ،ج،۴ص٣۶٧۔صحيح مسلم ،ج،٢ص٢٣٨۔صحيح ترمذی ،ج ،٧ص١١٢۔ کنز العمال،ج،٧ص١١٢اس کے
عالوه دوسری بہت سی کتابوں ميں يہ حديث موجود ہے۔
] [87تفسير قرطبی ،ج،٩ص۶١٢١۔صحيح بخاری ،ج،۶ص١٧٢۔
] [88مجمع البيان ،ص،٩ص١٣٠۔تفسير فی ظالل ومراغی ،اسی آيت کے ذيل ميں۔
] [89يہ مناظرے چند سال قبل عربی زبان ميں ”مناظرة الشيخ حسين بن عبد الصمد“ نامی کتاب ميں ”موسسہ قائم آل محمد
)ص(“ سے چھپ چکی ہے۔
)متوفی
ٰ )متوفی ١۵٠ھ(اور مالک بن انس
ٰ ] [90امام جعفر صادق عليہ السالم )متوفی ١۴٨ھ(فقہ تشيع کے مروج ،ابو حنيفہ
١٧٩ھ(کے استادہيں اس طرح سے آپ سنی مذہب کے دو معروف مسلک ،حنفی ومالکی کے اماموں کے استاد رہے اسی
لئے ابو حنيفہ کا يہ کہنا تھا ”لوال السنتان لھلک النعمان“اگر وه دو سال )جو ميں نے امام جعفر صادق عليہ السال م کی خدمت
ميں گزارے ہيں(نہ ہوتے تو نعمان )ابو حنيفہ (ہالک ہو جاتا۔اسی طرح مالک بن انس کا کہنا ہے ”مارايت افقہ من جعفر بن
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
محمد “ميں نے جعفر بن محمد)امام صادق عليہ السالم ( سے بﮍا فقيہ نہيں ديکھا ) ،فی سبيل الوحدة االسالمية ص۶٣و(۶۴۔
] [91يہ حديث مشہور و معروف ہے اور شيعہ و سنی کتابوں ميں موجود ہے۔
اور اس طرح کا تمسک اختيار کرنے واال بھی نجات پائے ؟ہماری يہ بات يہ تقاضا کرتی ہے کہ امام جعفر صادق عليہ
السالم کی تقليد کی جائے اور اس بات ميں تو کوئی شک و شبہ نہيں کہ امام جعفر صادق عليہ السالم کی پيروی ابو حنيفہ کی
شک آميز تقليد پر ہزار فوقيت رکھتی ہے۔
ليکن جو لوگ اہل بيت رسول اکرم کو دوست رکھتے تھے ہم بھی انھيں دوست رکھتے ہيں جيسے سلمان
،مقداد،عمار،ابوذروغيره اور ہم ان لوگوں کی دوستی کے ذريعہ خدا کا قرب چاہتے ہيں۔اصحاب رسول خدا صلی ﷲ عليہ و
آلہ و سلم کے متعلق ہمارا يہی عقيده ہے اور سب و شتم کرنا ايک طرح کی لعنت ومالمت ہے جسے خدا چاہے تو قبول
کرے اور چاہے تو نہ قبول کرے مگر يہ اصحاب کا خون بہانے کی طرح ہر گز نہيں ہو سکتا يہ معاويہ ہی تھا جس نے
حضرت علی عليہ السالم کو برا بھال کہنے کے لئے ستر ہزار منبر مخصوص کر رکھے تھے اور يہ روش ٨٠سال تک
جاری رہی ليکن اس کے باوجودبھی وه حضرت علی عليہ السالم کی منزل ميں کسی طرح کی کمی نہ کر سکا اسی طرح
شيعہ بھی خاندان رسالت کے دشمنوں کو برا بھال کہتے ہيں اور اسے از روئے اجتہا د جائز سمجھتے ہيں با لفرض اگر ان
لوگوں نے اپنے اس اجتہاد ميں غلطی کی ہوگی تو ان پر گناه نہيں ہوگا۔ توضيح کے طور پر يہ کہيں کہ اصحاب پيغمبر کئی
طرح کے تھے بعض قابل تعريف اور بعض منافق صفت تھے اور بعض اصحاب کی تعريف قرآن ميں آجانے سے دوسرے
بعض صحابہ کا فسق وفجورختم نہيں ہوتا ،اصحاب کو برا بھال کہنے کے سلسلے ميں ہمارا اجتہاد ان لوگوں کے نيک اور
رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پيرو اصحاب کے لئے ہمارا يہ اعتقاد ہر گز نہيں ہے۔
حنفی عالم نے بﮍے تعجب سے کہا” :کيا بغير کسی دليل کے اجتہاد جائز ہے ؟“
حسين” :ہمارے مجتہدين کی دليليں بﮍی واضح ہيں“۔
بتاو“۔
حنفی عالم” :ان ميں سے کوئی ايک ٔ
حسين بن عبد الصمد نے بہت سی دليليں بيان کيں جن ميں جناب فاطمہ زہرا سالم عليہا پر ہوئے مظالم کا بھی ذکر کيا اور
سوره احزاب کی ۵٧ويں آيت بھی پﮍھی جس ميں آيا ہے: ٔ
” ِٕا ﱠن الﱠ ِذينَ ي ُْؤ ُذونَ ﷲَ َو َرسُولَہُ لَ َعنَہُ ْم ﷲُ فِی ال ﱡد ْنيَا َو ْاآل ِخ َر ِة“۔ ][3
”بال شبہ جو ﷲ اور اس کے رسول کو اذيت پہنچاتے ہيں ان پر ﷲ دنيا وآخرت ميں لعنت کرتا ہے“۔][4
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
مولف:
پہلی بات تو يہ کہ يہ آيت ان لوگوں کے لئے ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔
دوسری بات يہ کہ يہ آيت بيعت ميں شامل ہونے والے منافقوں جيسے عبد ﷲ ابی اور اوس بن خولی وغيره کو شامل نہيں
کرتی ،کيونکہ آيت ميں مومن کی شرط ہے اور يہ لوگ ہر گز مومن نہيں تھے۔
تيسری بات يہ کہ مذکوره آيت کہتی ہے کہ خداوند عالم اس وقت ان لوگوں سے راضی ہوا جب انھوں نے بيعت کی نہ کہ
ہميشہ ان سے راضی رہے گا۔
اسی دليل کے لئے ہم قرآن مجيد کے اسی سوره ميں پﮍھتے ہيں:
ث َعلَی نَ ْف ِس ِہ َو َم ْن أَوْ فَی بِ َما عَاہَ َد َعلَ ْيہُ ﷲَ فَ َسي ُْؤ ِتي ِہ ا رًا ع ِ
َظي ًما“۔ جْ َ ٔ ث فَإِنﱠ َما يَ ْن ُک ُ
”فَ َم ْن نَ َک َ
”جو بھی اپنا عہد توڑتا ہے وه خود اپنا نقصان کرتا ہے اور جو ﷲ سے کئے گئے عہد کو پورا کرتا ہے تو ﷲ اسے عظيم
اجر دے گا“۔
اس آيت سے يہ پتہ چلتا ہے کہ نکث يعنی بيعت توڑنے کا امکان موجود تھا جيسا کہ بعد ميں چند جگہوں پر يہ بات آشکار
ہوئی۔اسی طرح يہ آيت ابدی رضايت پر داللت نہينکرتی بلکہ انھيں ميں سے ممکن ہے کہ دو گروه ہو جائيں جن ميں ايک
وفادار ثابت ہو اور دوسر عہد شکن۔اس کے متعلق ہم يہ کہتے ہيں کہ وه لوگ اس آيت سے خارج ہو گئے جنھوں نے وفا
نہيں کی اور اسی کی وجہ سے ہماری لعن وطعن ان پر پﮍتی ہے اور اس بات ميں آيت کی رو سے کوئی اشکال بھی نہيں
ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ميں” :يہ کس طرح جائز ہے کہ ايک جنتی دوسرے جنتی سے جنگ کرے طلحہ اور زبير عائشہ کے پر چم تلے بصره آکر
حضرت علی عليہ السالم سے جنگ لﮍيں جب کہ يہ لوگ جنتی تھے اور يہ جنگ جمل بہت سے لوگوں کے قتل کا سبب بنی
اور قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:
” َو َم ْن يَ ْقتُلْ ُم ْؤ ِمنًا ُمتَ َع ﱢمدًا فَ َجزَا ُؤهُ َجہَنﱠ ُم خَا ِلدًا ِفيہَا“][9
”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے تو اس کی جزا جہنم ہے جہاں وه ہميشہ رہے گا“۔
اس آيت کے پيش نظر جو لوگ بھی جنگ جمل ميں لوگوں کے قتل کا سبب بنے ہيں انھيں جہنمی ہونا چاہئے اور اب يہ
چاہے علی عليہ السالم ہوں يا طلحہ وزبير ہوں ل ٰہذا اس جنگ کے نتائج کو ديکھتے ہوئے يہ حديث صحيح معلوم نہيں ہوتی۔
سر پرست” :اس جنگ ميں شرکت کرنے والے وه افراد جن کا تم نے نام ليا ہے مجتہد تھے انھوں نے اپنے اجتہاد کی بنا پر
يہ کام انجا م ديا ہے ل ٰہذا وه گنہگار نہيں ہوں گے“۔
شيعہ عالم” :نص کے مقابلہ ميں اجتہاد جائز نہيں ہے کيا تمام کے تمام مسلمانوں نے يہ نقل نہيں کيا ہے کہ پيغمبر اکرم
صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم سے فرمايا:
”يا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔][10
”اے علی !تمہاری جنگ ميری جنگ ہے اور تمہاری صلح ميری صلح“۔
اور اسی طرح آپ نے يہ بھی فرمايا ہے:
”من اطاع عليا ً فقد اطاعنی ومن عصا عليا ً فقد عصانی ۔“][11
”جس نے علی کی اطاعت کی اس نے ميری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے ميری نا فرمانی کی“۔
اور اسی طرح آپ نے فرمايا:
”علی مع الحق والحق مع علی ،يدور الحق معہ حيثما دار“۔][12
”علی حق کے ساتھ ہيں اور حق علی کے ساتھ ہے حق ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے وه جيسے بھی چليں“۔
اس بنا پر نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ اسمائے مذکوره ميں ايک طرف حق ہے اور وه علی عليہ السالم کی ذات ہے اور حديث
”عشره مبشره “محض جھوٹ ہے کيونکہ باطل کے طرفداروں کو جنت نصيب نہيں ہو سکتی۔
دوسری بات يہ کہ عبد الرحمن بن عوف خود اس حديث کا راوی ہے جو خود ان دس جنتی افراد مينشامل ہے اور يہ وہی عبد
شوری تشکيل ہونے کے دن علی عليہ السالم پر تلوار تان لی تھی اور ان سے ٰ الرحمن ہے جس نے عمر کی وفات کے بعد
کہا تھا” :بيعت کرو ورنہ ميں تمہيں قتل کردوں گا“ ،يہی وه عبدالرحمن ہے جس نے عثمان کی مخالفت کی اور عثمان نے
اسے منافق کہہ کر ياد کيا ،کيا يہ تمام چيزوں مذکوره روايت سے مطابقت رکھتی ہيں؟ اور کيا عبد الرحمن ان دس افراد ميں
سے ہو سکتا ہے جنھيں جنت کی بشارت دی گئی ہو؟
کيا ابو بکر و عمر کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جب کہ يہ دونوں جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی شہادت کا سبب
بنے ؟اور جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا ان سے آخری عمر تک ناراض رہيں ہوں؟
کيا عمر نے حضرت علی کو ابو بکر کی بيعت کے لئے رسی باندھ کر کھينچتے ہوئے يہ نہيں کہا تھا کہ بيعت کرو نہيں تو
جاوگے؟ قتل کر دئے ٔ
کيا طلحہ و زبير عثمان کے قتل پر مصر نہ تھے ؟کيا يہ دونوں اس امام کی اطاعت سے خارج نہيں ہو گئے جس کی اطاعت
واجب قرار دی گئی تھی؟کيا ان دونوں نے جنگ جمل ميں حضرت علی عليہ السالم کے مقابل تلوار نہيں چالئی ؟
اس کے عالوه ان دس لوگوں ميں صرف سعد بن وقاص نے اس حديث کی تصديق کی ہے اور جب اس سے پوچھا جاتا ہے
کہ عثمان کو کس نے قتل کيا تو وه جواب ميں کہتا ہے۔”عثمان اس تلوار سے قتل کئے گئے جسے عائشہ نے غالف سے
باہر نکاال طلحہ نے اسے تيز کيا اور علی نے زہر ميں بجھا يا تھا“۔
کيا آپس کی ان تمام مخالفت اور منافقت کے باوجود يہ کہا جا سکتا ہے کہ وه سب لوگ جنتی ہيں؟ ہر گز نہيں ہر گز نہيں۔
اور خود يہ حديث سند کے لحاظ سے بھی مخدوش اور مردود ہے کيونکہ اس کی سند عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن
وقاص ميں سے کسی ايک پر تمام ہوئی ہے اور روايات ميں عبد الرحمن کی سند کا سلسلہ بھی متصل نہيں ہے ل ٰہذا يہ اپنے
اعتبار سے گر جاتی ہے اور سعيد بن زيد کے بارے ميں يہ روايت معاويہ کے دور خالفت ميں کوفہ ميں نقل کی گئی ہے
اور معاويہ کے دور سے پہلے کبھی کسی نے يہ حديث نہيں سنی تھی جس کی بنا پر صاف معلوم ہوتا ہے کہ يہ معاويہ کا
کارنامہ ہے۔][13
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٧٩۔قبروں پر پيسے ڈالنا
قبرستان بقيع ميں ايک بورڈ پر لکھا ہوا ہے ”ال يجوز رمی النقود علی القبور“قبروں پر پيسہ ڈالنا جائز نہيں ہے“۔
ايک روز امر بالمعروف کميٹی کا سر پرست بقيع ميں آيا تو اس نے ديکھا کہ کچھ قبروں پر پيسے پﮍے ہوئے ہيں اس نے
مجھے ديکھا تو مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا” :يہ پيسے زائروں کو دے دو ان کا قبروں پر ڈالنا حرام ہے“۔
شيعہ عالم” :کس دليل سے قبروں پر پيسے ڈالنا حرام ہے کيا قرآن اور سنت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ميں اس
بات کی نہی ہوئی ہے ؟جب کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ تمہارے لئے ہر وه چيز جائز ہے جس
سے تمہيں منع نہ کيا گيا ہو“۔
ص ْدقَةُ لِلفُق َرا ِء“ ][14صدقہ صرف فقراء کے لئے ہے“۔ ْ ْ سر پرست” :قرآن ميں آيا ہے ”اِنﱠ َما ال ﱠ
شيعہ عالم” :يہ پيسے بھی قبر کے فقير مجاوراٹھاتے ہيں“۔
سرپرست” :قبر کے مجاور فقير نہيں ہيں“۔
شيعہ عالم” :کوئی ضروری نہيں ہے کہ وه فقير ہی ہوں کيونکہ مدد اور بخشش کے لئے يہ قطعا ً حرام نہيں ہے اگر کوئی
شخص کسی مقصد کے تحت خدا کی راه ميں اپنا تمام مال کسی دولت مند کو بھی ديدے تو کيا کوئی حرج ہے جيسا کہ
شاديوں ميں دولہا اور دلہن کے سر سے پيسے نچھاور کرتے ہيں اور غير فقير بھی يہ پيسے اٹھا تے ہيں اور جس آيت کو تم
نے پﮍھاہے اس ميں صدقہ کے لئے آٹھ مصرف ذکر ہوئے ہيں جس ميں سے ايک ﷲ کی راه بھی ہے اور جب مسلمان
اولياء خدا کی قبروں کے پاس جاتے ہيں تو کہتے ہيں ”ہماری جان ومال آپ پر فدا ہو“ ،اب اگر ايک شخص اپنی دوستی اور
محبت کی وجہ سے اپنا تمام مال يا اس کا کچھ حصہ اسے بخش دے تو عرفا ًاس ميں کيا برائی ہے خداوند متعال نے اپنی
سوره نحل کی ١١۶ويں آيت ميں پﮍھتے ٔ دليل اورذاتی رائے سے کسی حالل کو حرام کرنے سے منع کيا ہے جيسا کہ ہم
ہيں:
ب“۔ َصفُ أ ْل ِسنَتُ ُک ْم ْال َک ِذ َ
ب ہَ َذا َحالَ ٌل َوہَ َذا َح َرا ٌم لِتَ ْفتَرُوا َعلَی ﷲِ ْال َک ِذ َ َ ” َوالَتَقُولُوا لِ َما ت ِ
”اور اپنی زبان سے نکلنے والے جھوٹ کی وجہ سے يہ نہ کہو کہ يہ حالل ہے اور يہ حرام تاکہ تم خدا پر جھوٹ باندھ
سکو“۔
کيا خداوند متعال نے تمہيں اپنی طرف سے قانون گﮍ ھنے کی اجازت دی ہے اور ہر چيز جو تمہارے ذوق کے مطابق نہ ہو
تم اسے حرام اور شرک قرار دے دو ،تم بدعت کے مقابلہ کی آڑ ميں ہرحالل کو حرام قرار دے ديتے ہو کيا تمہيں يہ نہيں
معلوم کہ حالل کو حرام کرنا خود ايک بدعت ہے اور جو لوگ اس طرح کا عقيده رکھتے ہيں وه خود جان ليں کہ انھوں نے
صراط مستقيم کو چھوڑ ديا ہے جيسا کہ ہم اس آيت ميں پﮍھتے ہيں :
”ان الذين يفترون علی ﷲ الکذب ال يفلحون“
”جو لوگ ﷲ پر جھوٹ باندھتے ہيں وه کامياب نہيں ہو سکتے“۔
چوتھاحصہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس مصنف سے مناظره
اگر يہ ہوا وہوس ميں اپنے دين کو بيچ کھانے واال وہابی ذرا بھی شيعوں کے عقائد سے واقفيت رکھتا تو شيخ رضا المظفر پر
اس طرح کا احمقانہ اعتراض نہ
کرتا۔
اگر اس طرح کی بات شرک ہوتيں تو قرآن ميں يہ آيت کبھی ذکر نہ ہوتی:
”يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا أَ ِطيعُوا ﷲَ َوأَ ِطيعُوا ال ﱠرسُو َل َوأُوْ لِی ْ َٔ
اال ْم ِر ِم ْن ُک ْم“][16
”اے ايمان والو! ﷲ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اور تم ميں سے جو اولی االمر ہو“۔
اس آيت ميں اولی االمر ،ﷲ اور رسول کے ساتھ ذکر ہوئے ہيں اور سب نے اس بات کا اعتراف بھی کيا ہے کہ حضرت
علی عليہ السالم اولی االمر کے واضح ترين مصاديق ہيں۔
کيا اس صورت حال ميں يہ کہنا ممکن ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اس آيت کو پﮍھ کر توحيد کی طرف
دعوت دينے کے بجائے شرک کی دعوت دی ہے ؟
جہاں تک رسالت کی دعوت کے ساتھ امامت کی دعوت کا ہر جگہ ہونا ہے تو يہ ايک حتمی بات ہے اس کا مطلب يہ ہے کہ
آنحضرت کے بعد امامت علی اور آپ کی خالفت کی تبليغ کرنا ہے اسی لئے آپ جس طرح اپنی رسالت اور توحيد خداوندی
کی تبليغ کرتے تھے اسی طرح علی عليہ السالم کی واليت و امامت کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے اور انھيں اس
طرف دعوت ديا کرتے تھے اس کا شرک سےکوئی ربط نہيں ہے۔
سوره شعراء کی يہ آيت نازل ہوئی:
ٔ مزيد وضاحت کے لئے ہم يہ عرض کرتے ہيں کہ جب
ک ْ َٔ
اال ْق َر ِبينَ “ ][17 ” َوأَن ِذرْ ع َِشي َرتَ َ
ڈراو“۔
”اور اپنے رشتہ داروں کو ٔ
تو رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور اس ميں آپ نے يہ اعالن کيا:
کون شخص ايسا ہے جو اس کام ميں ميری مدد کرے اور اس کے بدلے وه ميرا بھائی ،وصی اور ميرے بعد ميرا خليفہ ہو
جائے ؟“
اس وقت کوئی بھی علی عليہ السالم کے عالوه نہيں اٹھا تھا اور جب کئی دفعہ دہرانے کے بعد بھی علی عليہ السالم کے
عالوه کوئی نہ اٹھا تو آپ نے فرمايا:
”ان ھذا اخی ووصي وخليفتي فيکم فاسمعوا لہ واطيعوه“۔][18
”بالشبہ يہی ميرا بھائی ،وصی اور ميرے بعد تم لوگوں مينميراجانشين ہے ل ٰہذا تم لوگ اس کی باتيں سنو اور اس کی اطاعت
کرو“۔
شيعہ اسی بنا پر يہ کہتے ہيں کہ جب بھی پيغمبر اپنی رسالت اور خدا کی وحدانيت کی دعوت ديا کرتے تھے تو علی عليہ
السالم کی امامت کو بھی بتا ديتے تھے کيا وفات کے بعد علی کی خالفت کی طرف دعوت دينا شرک ہے کيا نبوت کی
دعوت کے ساتھ ساتھ امامت کی دعوت دينا شرک ہے؟] [19اور کيا اس کا مطلب يہ ہوگا کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و
سلم نے علی عليہ السالم کو اصل نبوت ميں اپنا شريک بنا ليا ؟
ہائے رے بے انصافی۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
انھوں نے کہنا شروع کيا کہ حج ميں کسی طرح کی سياست اور شور شرابہ نہيں ہونا چاہئے ،اور گذشتہ کی طرح صرف
خشک عبادت کے طور پر حج کے اعمال بجاالنا چاہئے جب کہ قرآن مجيد کا ارشاد ہے:
” َج َع َل ﷲُ ْال َک ْعبَةَ ْالبَيْتَ ْال َح َرا َم قِيَا ًما لِلنﱠ ِ
اس“۔][20
”ﷲ نے کعبہ کو جو بيت الحرام ہے اس کو لوگوں کے قيام اور صالح کا ذريعہ قرار ديا ہے“۔
خانہ کعبہ کے زير سايہ اپنی”مومنين کے قيام “کے وسيع معنی کے پيش نظر يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ ٔ
پہلووں کو بہتر بنا نے کے لئے کوششٔ مشکالت اور پريشانيوں کو دور کريں ،اور اپنی زندگی کے معنوی ومادی مختلف
کرتے ہوئے سعادت کی منزلوں کو طے کريں۔
اس بنياد پر دو عالموں )نام نہاد عالم اور دانشور عالم (کے درميان ايک مناظره ہوا:
عالم نما :يہ کيا شور شرابہ اور بدعتيں ہيں جو حج ميں داخل کر دی گئی ہيں ،حج کے دوران کسی بھی طرح کی سياست اور
جنگ وجدال نہيں ہونا چاہئے اور بالکل چين وسکون کے ساتھ حج کے اعمال انجام دينا چاہئے ،حج خود سازی اور رو ح
کی پاکيزگی کے لئے ايک بہترين عبادت ہے ،اس ميں کسی طرح کے نعرے زنده باد يا مرده باد نہيں ہونا چاہئے ،حج
ابراہيمی اور حج بوجہلی ،واقعا ً ايک نئی چيز ہے اس سے پہلے ہم نے کبھی نہيں سنا!
عقلمندعالم :ہمارے عقيده کے مطابق جس طرح ہم علوی اسالم اور لعنتی معاويہ کا اسالم رکھتے ہيں ،اسی طرح حج کی بھی
دو قسميں ہيں ابراہيمی ومحمدی حج ،اور بوجہلی ويزيدی حج۔
عالم نما :حج؛ نماز و روزه کسی طرح ايک عبادت ہے ل ٰہذا اس ميں سياست اور غير خدائی کاموں سے پر ہيز کرنا چاہئے۔
عقلمندعالم :سياست صحيح معنی ميں عين دين ہے ،يہ دين سے ہرگز جدا نہيں ہے بعض عبادتيں باوجود اس کے کہ عبادت
ہيں اور گناہوں کے دور ہونے اور صفائے نفس کے لئے پاکيزه ترين اور خالص ترين سبب ہيں۔
ليکن يہی عبادتيں سياسی مقاصد تک پہنچنے کا سب سے بہترين وسيلہ بھی ہيں کيونکہ روح عبادت خدا کی طرف توجہ دينا
ہے اور سياست کی روح مخلوق خداپر توجہ کرنے کا نام ہے ،اور يہ دونوں حج کے مسائل ميں اس طرح ملے ہوئے ہيں کہ
اگر ان ميں سے کسی ايک کو بھی چھوڑ ديا جائے تو پھر حج،حج نہيں رہے گا۔
واضح الفاظ ميں يوں سمجھئے کہ حج کے لئے ايک جھلکا ہے اور ايک مغز ،جو لوگ صرف حج کے ظاہری عبادتی پہلو
پر توجہ کرتے ہيں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ انھوں نے حج کو حقيقت سے خالی کر ليا ہے اور مغز کو دور پھينک ديا ہے
القری“يعنی ديہات اور شہروں کی ماں ہے۔ ][21جس ٰ اور صرف ظاہری جھلکے کو لے ليا ہے ،مکہ معظمہ کا ايک نام ”ام
طرح ماں اپنے بچوں کو کھانا ديتی ہے ،اور ان کوپرورش اور تربيت کرتی ہے اسی طرح مکہ معظمہ پر الزم ہے کہ وه
فکری ،سياسی اور معنوی لحاظ سے دنيا بھر کے تمام مسلمانوں کو غذا فراہم کرے ،اور ان کی اسالمی رشد و نموکے لحاظ
سے تربيت کرے۔
عالم نما :ہم مسلمان ہيں ،قرآن اور حديث کو مانتے ہيں کيا قرآن کريم کا ارشا د نہيں ہے؟:
”وال جدال فی الحج“][22
”حج ميں کوئی جنگ وجدال نہيں ہونا چاہئے “؟
ل ٰہذا حج کے اعمال ميں ايک حاجی کو جنگ وجدال اور تو توميں ميں نہيں کرنا چاہئے ،جس حج ميں مظاہره ،نعره بازی
اور شور شرابہ ہو تو ايسا حج جدا ل ہے جس سے قرآن نے روکا ہے۔
عقلمندعالم :مذکوره آيت ميں جس جدل سے روکا گيا ہے اس سے مراد مومنين کے درميان تو تو ميں ميں ہے ،کہ قسم بخدا
ايسا نہيں ہے يا قسم بخدا ايسا ہے۔
ائمہ اہل بيت عليہم السالم منقول احاديث سے يہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”جدال کے معنی جھوٹی قسم کھانا ہے۔يا جو کام گناه
سے متعلق ہو ،حضرت امام جعفر صادق عليہ السال م فرماتے ہيں:
”جس مجادلہ ميں قسم کھائی جائے ،ليکن اس سے مراد کسی مومن کا احترام ہو ،تو ايسے جد ل سے آيت ميں ممانعت نہيں
کی گئی ہے:بلکہ آيت ميں نہی شده جدال سے مراد وه جدال ہے جس ميں گناه کا تصور پاياجائے اور انسان اپنے ايمانی
برادر پر غلبہ کرنا چاہئے ][23ليکن اگر دين کے استحکام اور اس کے دفاع کے لئے ہو تو نہ صرف گناه نہيں ہے بلکہ
بہترين عبادت اور عظيم اطاعت ہے۔
)سوره بقره آيت (١٩٧کے ذيل ميں تحرير فرماتے ہيں” :تمام علمائے علم ٔ عالمہ فخرالدين رازی اپنی تفسير ميں مذکوره آيت
کالم اس بات پر عقيده رکھتے ہيں کہ دينی امور ميں جدال کرنا عظيم اطاعت ہے“۔اس کے بعد اس مطلب کو ثابت کرنے
سوره نحل کی ١٢۵ويں آيت جس ميں ارشاد خداوندی ہوتا ہے: ٔ کے لئے قرآن مجيد کی آيات سے استدالل کرتے ہيں،منجملہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ک ِب ْال ِح ْک َم ِة َو ْال َموْ ِعظَ ِة ْال َح َسنَ ِة َو َجا ِد ْلہُ ْم ِبالﱠ ِتی ِہ َی أحْ َسنُ “۔
يل َربﱢ َ ع ِٕالَی َس ِب ِ ” اُ ْد ُ
”آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصيحت کے ذريعہ دعوت ديں اور ان سے اس طريقہ سے بحث کريں
جو بہترين طريقہ ہے“۔
سوره ہود کی آيت نمبر ٣٢ميں پﮍھتے ہيں جہاں کفار کی باتوں کو بيان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے: ٔ اسی طرح
َ ْ
” يَانُو ُح قَ ْد َجادَلتَنَا فَأ ْکثَرْ تَ ِجدَالَنَا“۔
”)اور ان لوگوں نے کہا (:اے نوح ! آپ نے ہم سے جھگﮍا کيا اور بہت جھگﮍا کيا“۔
اس آيہ شريفہ سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح عليہ السالم اپنی قوم سے جدال کرتے تھے ،اور يہ بات واضح ہے کہ
جناب نوح عليہ السالم کا جدال صرف دعوت ٰالہی ،يکتا پرستی اور دينی استحکام کے لئے ہوتا تھا۔
ل ٰہذا جس جدال سے حج ميں نہی کی گئی ہے ،اس سے باطل اور بے ہوده کاموں ميں جدال ہے ،نہ کہ وه جدال جو حق
وحقيقت کو ثابت کرنے کے لئے ہو۔
سوره
ٔ ً عالم نما:قرآن مجيد کی بہت سی آيات ميں جدال کی مذمت کی گئی ہے اور اس کوغير مومن کا کام قرار ديا گيا ،مثال
غافر کی آيت نمبر ۴ميں ارشاد ہوتا ہے:
ت ﷲِ ِٕاالﱠ الﱠ ِذينَ َکفَرُوا“۔ ” َما يُ َجا ِد ُل فِی آيَا ِ
”ﷲ کی نشانيوں ميں صرف وه جھگﮍا کرتے ہيں جو کافر ہوگئے ہيں۔۔۔“۔
سوره حج آيت نمبر ۶٨ميں ارشاد ہوتا ہے: ٔ
ک فَقُلْ ﷲُ أَ ْعلَ ُم بِ َما تَ ْع َملُونَ “ ” َو ِٕا ْن َجا َدلُو َ
”اور اگر يہ آپ سے جھگﮍا کريں تو آپ ان سے کہہ ديجئے کہ ﷲ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے“۔
سوره انعام آيت ١٢١ميں ارشاد ہوتا ہے: ٔ اسی طرح
ْ َ ُ َ
اطينَ لَيُوحُونَ ِٕالَی أوْ لِيَائِ ِہ ْم لِيُ َجا ِدلو ُک ْم َو ِٕا ْن أطَ ْعتُ ُموہُ ْم ِٕانﱠ ُک ْم لَ ُمش ِر ُکونَ “ ﱠ
ق َو ِٕا ﱠن الشيَ ِ ” َوالَتَ ْأ ُکلُوا ِم ﱠما لَ ْم يُذکَرْ ا ْس ُم ﷲِ َعلَ ْي ِہ َو ِٕانﱠہُ لَفِ ْس ٌ
ْ
”اور ديکھو جس پر نام خدا نہ ليا گيا ہو ا سے نہ کھانا کہ يہ فسق ہے اور بے شک شياطين تو اپنے والوں کی طرف خفيہ
اشاره کرتے ہی رہتے ہيں تاکہ يہ لوگ تم سے جھگﮍا کريں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کرلی تو تمہارا شمار بھی
مشرکين ميں ہوجائے گا“۔
عقلمندعالم :قرآن مجيد ميں لفظ”جدال“کے مختلف استعمال سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ جدال کے وسيع معنی ہيں،جس
کی مجموعی طور پر دوقسم ہيں:
(١پسنديده۔
(٢نا پسند۔
جس وقت بحث و گفتگو اور دوسروں کی بات پر اعتراض حق وحقيقت روشن ہونے اور صحيح راستہ کی ہدايت کے لئے ہو
تو يہ ايک مناسب اور پسنديده عمل ہے اور بہت سے مقامات پر يہ جدال واجب ہے ،نيز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر
کا ايک حصہ ہے ،ليکن اگر باطل کو ثابت کرنے اور ناحق بات کو ثابت کرنے کے لئے ہو تو واقعا ً ايسا جدال مذموم اور
ناپسند ہے۔
نتيجہ يہ ہوا کہ حج کے دوران ہر جدال کو ناپسند قرار نہيں ديا جا سکتا۔
عالم نما:ميری باتوں کا خالصہ يہ ہے کہ عبادت کو سياست سے نہيں مالنا چاہئے ،حج جيسی مقدس عبادت اور بلند مقام
،سياست ،نعره بازی اور مظاہره کرنے کے لئے نہيں ہے ،يہ مقام مخصوص عبادت يعنی حج کے لئے ہے ،کسی دوسری
جگہ پر سياست کی باتيں کريں۔
عقلمندعالم :اسالمی عبادت ميں عبادی پہلو کے عالوه ديگر پہلو بھی پائے جاتے ہيں ،چنانچہ حج ميں عبادی پہلو کے ساتھ
ساتھ اجتماعی ،سياسی ،اخالقی ،اقتصادی اور ثقافتی پہلو بھی پائے جاتے ہيں کامل اور حقيقی حج وہی ہے جس ميں تمام
پہلووں سے فيض حاصل کياجائے،اوراگر حج ميں سياسی پہلو کو نظر انداز کر ديا جائے تو ا يسا حج ناقص ہوگا۔ ٔ
ہم يہاں پر اس مطلب کی مزيد وضاحت کے لئے حضرت امام خمينی کے بہترين کالم کو نقل کرتے ہيں:
”حج اکبر فلسفوں ميں سے ايک فلسفہ اس کا ايک سياسی پہلو ہے جس کو ختم کرنے کے لئے ہر طرف سے ظالم کوشش
کر رہے ہيں ،اور افسوس کی بات يہ ہے کہ اس کے پروپيگنڈه کا اثر مسلمانوں پر بھی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے
بہت سے مسلمانوں کا سفر حج صرف خشک عبادت بنتا جا رہا ہے جس ميں مسلمانوں کی مصلحتوں کو نظر انداز کيا جا
رہا ہے ،جس وقت سے فريضہ حج قرار ديا گيا ہے اسی وقت سے اس کا سياسی پہلو عبادی پہلو سے کم نہيں رہا ہے
،سياسی پہلو اپنی سياست کے عالوه خود بھی عبادت ہے“۔][24
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
موصوف ايک دوسری جگہ فرماتے ہيں” :لبيک لبيک “کے ذريعہ تمام بتوں کی نفی کريں اور ”ال“کے نعروں کے ذريعہ
تمام سرکش و طاغوت نمالوگوں کے خالف آواز بلند کريں،خانہ کعبہ کے طواف ميں)کہ جو عشق ٰالہی کی نشانی ہے(دل کو
دوسروں سے خالی کريں،اور دل مينغير حق کے خوف کو نکال پھينکيناور خدا کے عشق کے برابر چھوٹے بﮍے بتوں اور
سرکشوں نيز طاغوت سے وابستہ لوگوں سے برائت کريں،کيونکہ خداوند عالم اور اوليائے ٰالہی ان سے بيزار ہيں“۔][25
ل ٰہذا حج،عبادت اور سياست دونوں کامجموعہ ہے ،اور چونکہ اسالمی سياست بھی عين عبادت ہے ،ل ٰہذا ہم اسالمی سياست
کو حج سے کيسے دور کرسکتے ہيں،مثال کے طور پر اگر کسی سيب سے ا س کے پانی کو نکاليں تو کيا باقی بچے گا ؟
کيا کوڑے کو سيب کہا جا سکتا ہے؟
عالم نما :پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليہم السالم نيز ان کے ممتاز شاگرد ہمارے لئے نمونہ
عمل اور حجت ہيں،يہ حضرات حج کے دوران صرف اعمال حج انجام ديتے تھے،ان کو سياست سے کوئی مطلب نہ تھا۔
عقلمندعالم :يہ بات بغير دليل کے ہے ،اتفاقا ً پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ان کے شاگرد مناسب موقع پر خانہ
پہلووں پر اہميت ديتے تھے ،ہم يہاں پر
ٔ کعبہ کے نزديک سياسی ،اجتماعی اور ثقافتی مسائل بيان کر تے تھے اور ان مختلف
نمونہ کے طور پر چند چيزوں کی طرف اشاره کرتے ہيں:
مومن لقيلہ
يا رب انی ٔ
انی رايت الحق فی قبولہ
علی عليہ السالم کی شيعوں کے قتل کا در پہ تھا اور ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرتا تھا۔
منی ميں بنی
حضرت امام حسين عليہ السالم بھی اس سال حج کے لئے تشريف لے گئے ،مناسک حج کے دوران سر زمين ٰ
ہاشم ،شيعوں اور انصار کے ممتاز افراد کو ايک اجتماع کی دعوت دی ،جس ميں ايک ہزار سے زياده افراد جمع ہوئے جن
ميں کچھ تابعين اور اصحاب رسول کے فرزند ان بھی تھے ،حضرت امام حسين عليہ السالم اس اجتماع ميں کھﮍے ہوئے
اور ايک پر جوش تقرير کی ،چنانچہ حمد وثناء ٰالہی کے بعد فرمايا:
اما بعد !بے شک پس طاغوت )معاويہ( نے ہمارے اور ہمارے شيعوں کے ساتھ جو سلوک کيا ہے اس کو آپ تمام حضرات
اسے جانتے ہيں ،آپ لوگوں نے ديکھا ہے اور اس کے گواه ہيں ،اس کی خبريں تم تک پہنچی ہيں ميں تم سے کچھ چيز وں
کے بارے ميں پوچھنا چاہتا ہوں اگر صحيح ہوں تو ميری تصديق کرنا اور اگر جھوٹ بولوں تو مجھے جھٹالدينا ،ميری
باتوں کو سنو اور ذہن نشين کرلو اور اعمال حج کےبعد جب اپنے وطن جاؤ تو اپنے قابل اطمينان لوگوں تک يہ ميرا پيغام
پہنچا دينا ،اور ان کو معاويہ کے ظلم و ستم کے مقابلہ کی دعوت دينا ،مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر يہی حاالت رہے
تو ”حق“ نيست و نابود ہوجائے گا ،ليکن خداوندعالم اپنے نور کو کامل کرے گا اگرچہ کفار کو ناگوار ہی کيوں نہ لگے“۔
اس موقع پر امام حسين عليہ السالم نے حضرت علی عليہ السالم کی افضليت اور ان کے فرزندوں کی امامت پر قرآن مجيد
کی آيات اور احاديث رسول بيان کی ،جب آپ کی گفتگو کا ايک حصہ ختم ہو جاتا تھا تو حاضرين يہ کہتے ہوئے امام حسين
عليہ السالم کے کالم کی تصديق کرتے تھے:
”اللہم نعم ،قد سمعناه و شہدناه“ ۔
”ہم خداکو گواه قرار ديتے ہيں کہ اس کالم کو رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمسے سنااور ہم اس کی تصديق کرتے
ہيں“۔
آخر کالم ميں حضرت امام حسين عليہ السالم نے ان سے فرمايا:
” تمہيں خدا کی قسم! جس وقت اپنے وطن پہنچو تو اپنے قابل اطمينان افراد تک ميرا يہ پيغام پہنچادينا اور ان کو ميرے پيغام
سے آگاه کردينا“۔][27
يہ واقعہ بھی حج کے درميان سياسی فائده کا ايک نمونہ ہے ،جس ميں امام عليہ السالم نے حج کے دوران مسلمانوں کے
اجتماع سے ظالم و طاغوت معاويہ کے خالف اقدام فرمايا۔
اس لحاظ سے اس واقعہ ميں ہم ابراہيمی حج کو ديکھتے ہيں جو صرف خشک عبادت ہی نہيں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہم
سياسی مسائل بھی بيان ہوئے ہيں ،سخت حاالت ميں حق کی رہبری کا مسئلہ ظالم اور طاغوت کی رہبری سے نفرت جيسے
مسائل پر گفتگو ہوئی ہے جو مکمل طور پر سياسی مسائل ہيں۔
٣۔ حضرت امام سجاد عليہ السالم کا اپنے ہم عصر طاغوت سے خانہ کعبہ ميں مقابلہ
ايک مشہور و معروف تاريخی واقعہ جس ميں حج کے مراسم کے ساتھ سياسی مسائل بھی پائے جاتے ہيں ،امام سجاد عليہ
السالم کا خانہ کعبہ ميں مراسم حج کے دوران اموی طاغوت ہشام بن عبد الملک کے ساتھ مقابلہ ہے جس کا خالصہ ہم يہاں
پيش کرتے ہيں:
سلسلہ خالفت کا پانچواں خليفہ( تھا اس کا فرزند ہشام حج کے لئے شہر مکہ ميں داخل
ٔ عبد الملک کی خالفت کا زمانہ )اموی
ہوا ،وه طواف کے وقت حجر اسود کو چومنا چاہتا تھا ليکن کثير ازدحام کی وجہ سے قريب نہ جاسکتا ،چنانچہ حجر اسود
کے قريب ہشام کے لئے ايک منبر رکھا گيا ،وه منبر پر گيا ،ہشام کے پاس کچھ لوگ جمع ہوگئے اور وه طواف کرنے والوں
کو ديکھنے لگا ،اچانک ديکھا کہ امام سجاد عليہ السالم بھی طواف ميں مشغول ہيں ،امام عليہ السالم جب حجر اسود کو
چومنا چاہتے تھے تو لوگوں نے راستہ ديا اور آپ نے بہت ہی آرام سے نزديک جاکر حجر اسود کو بوسہ ليا۔
اس موقع پر ايک شامی مرد نے ہشام سے کہا:
”يہ شخص کون ہے جس کا اتنا احترام ہورہا ہے؟“
ہشام نے العلمی کا اظہار کيا اور کہا ” :ميں نہيں جانتا“۔
اس حساس موقع پر خاندان رسالت کا انقالبی شاعر فرزدق جو ائمہ عليہم السالم کے شاگردوں ميں تھا اس نے اس شامی مرد
سے کہا:
”ولکنی اعرفہ“)ليکن ميں ان کو پيچانتا ہوں“۔(
بتاو کہ يہ شخص کون ہے؟ شامی نے کہا:تو پھر ٔ
فرزدق نے اما م سجاد عليہ السالم کی شان ميں وه مشہور ومعروف اور عظيم الشان قصيده پﮍھا ،جس کہ ۴١شعر ہيں اور
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
جس کا مطلع يوں آغاز ہوتا ہے:
”يہ وه شخص ہے کہ مکہ معظمہ کے سنگريز ه اس کے پيروں کے نشانوں کو پہنچانتے ہيں ،خانہ کعبہ اور حجاز کے
بيابان ،داخل حرم اور بيرون حرم اس کو پہچانتے ہيں“۔
يہ سنتے ہی ہشام کو غصہ ہو آگيا اور فرزدق کو قيدکرنے کا حکم ديديا ،جس وقت امام سجاد عليہ السالم کو فرزدق کے
قيدی بنائے جانے کی خبر ملی تو ان کے لئے دعا کی اور ان کی دلجوئی کی ،ان کے لئے باره ہزار درہم بھيجے،ليکن
فرزدق نے ان درہموں کو قبول نہ کيا جس کے بعد امام عليہ السالم نے ان کو پيغام بھجوايا:
”تمہيں اس حق کی قسم جو ہم تم پر رکھتے ہيں ،اس مبلغ )ہديہ(کو ہماری طرف سے قبول کر لو ،خدا وند عالم تمہاری کی
پاک نيت اور تمہارے مقام سے واقف ہے “اس موقع پر فرزدق نے اس مبلغ کو قبول کر ليا،اور قيد ميں ہشام کی مذمت ميں
اشعار کہے۔][28
اس واقعہ ميں ہم ديکھتے ہيں کہ امام سجاد عليہ السالم خانہ کعبہ کے طواف کے وقت ہشام کی شان و شوکت پر کوئی توجہ
نہيں کرتے اور فرزدق کے کالم کی تائيد کرتی ہيں جو مکمل طور پر سياسی پہلو رکھتی تھی اور ان کی احوال پرسی کی،ا
ن کے لئے دعاکی اور /١٢٠٠٠درہم ان کے لئے بھيجے ،نيز ان کی پاک وپاکيزه نيت کی قدر دانی کی،اور بھر پور طريقہ
سے ان کی تائيد کی۔
کيا يہ واقعہ اور امام عليہ السالم کی تائيد اس چيز کی عکاسی نہيں کرتی کہ حج کے عظيم الشان موقع پر سياسی مسائل کا
بيان کرنا ائمہ معصومين عليہم السالم کے نزديک مقبول اور محبوب کام تھا؟!
”وھو يمين ﷲ فی ارضہ يبايع بھا خلقہ“][30
”حجر اسود زمين پر دست خدا ہے خداوند عالم اس کے ذريعہ اپنی مخلوق سے بيعت کرتا ہے“۔
يعنی مسلمان اس پر اپنا ہاتھ رکھ کرخدا سے بيعت کرتے ہيں۔
اصولی طورپر ”بيعت “مکمل طور پر ايک سياسی مسئلہ ہے ،خدا سے بيعت کرنے کا مطلب يہ ہے کہ ہم تيری راه ميں قدم
بﮍھاتے ہيں اور تيرے دشمنوں جيسے امريکہ اور اسرائيل نيز ديگر تمام مشرکين وکفار سے دشمنی کرتے ہيں۔
۔منی کے ميدان ميں ”رمی جمرات“کرتے ہيں اور ان کی طرف جو شيطان کا محاذ ہے پتھر مارتے ہيں اس عمل کا سياسی ٰ ۴
پہلو يہ ہے کہ امريکہ ،اسرائيل اور ديگر شيطانی طاقتوں کے مظہر کی طرف پتھر پھينکنا چاہئے ہميں دشمن کی پہچان اس
طرح ہو کہ پتھر اس نشانہ پر ماريں جو ”جمره“پر جا کر لگے ،اگر تھوڑا بھی ادھر ادھر لگے تو وه صحيح نہيں ہے۔
۔منی کی قربان گاه ميں،اونٹ ،گائے يا بکرا قربانی کريں جو ايثار اور فدا کاری کا درس اور شيطانيت کے مظہر سے ٰ ۵
مقابلہ کے لئے سياست کا اہم رکن ہے۔
يہاں پريہ چيز ذکر کردينا ضروری ہے کہ جس وقت امام مہدی )عج(ظہور فرمائيں گے ،تو خانہ کعبہ کے پاس ظہور ہوگا
،وہيں پر آپ کے /٣١٣انصار آپ کی بيعت کريں گے۔][31
اس بنا پر ہے کہ حضرت فا طمہ زہرا سالم ﷲ عليہا نے فرمايا:
”جعل ﷲ الحج تشييداً للدين“۔][32
”خدا وند عالم نے حج کو دينی بنياد کے استحکام کے لئے واجب قرار ديا ہے“۔
حضرت امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا:
”ال يزال الدين قائما ما قامت الکعبة “][33
”جب تک خانہ کعبہ پا بر جا ہے اسالم بھی پا برجا ہے“۔
واقعا ً يہ حقيقت ہے کہ جب حج ميں صرف اس کے عبادی پہلو پر اکتفاء کی جائے اور حج کے اہم ترين پہلو يعنی سياسی
پہلو کو نظرانداز کر ديا جائے تو کيا پھر کيا دينی بنياديں مستحکم اور مضبوط ہو سکتی ہيں؟!
٨٢۔ عبد المطلب اور ابو طالب کی قبروں کی زيارت اور ان کے ايمان کے بارے ميں ايک مناظره اشاره:
جيسا کہ ہم جانتے ہيں کہ جناب ”عبد المطلب“ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے دادا کی قبر اور ”ابو
طالب“حضرت علی عليہ السالم کے پدر بزرگوار کی قبر ”قبرستان حجون“ميں ايک جگہ ہيں،اورجب شيعہ حضرات مکہ
معظمہ مشرف ہوتے ہيں تو حتی االمکان ان دونوں بزرگو کی قبور کی زيارت کے لئے جاتے ہيں ،ليکن اہل سنت اس سلسلہ
ميں کوئی اہميت نہيں ديتے ،بلکہ اس کو جائز نہيں مانتے۔
اس چيز کے پيش نظر درج ذيل مناظره پر توجہ فرمائيں:
ايک شيعہ عالم نقل کرتے ہيں :ميرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کميٹی کے سرپرست کے درميان حضرت عبد
المطلب اور جناب ابوطالب کی قبروں کی زيارت کے حوالہ سے گفتگو ہوئی۔
اس نے کہا :آپ شيعہ لوگ عبد المطلب اور ابوطالب کی قبروں کی زيارت کے لئے کيوں جاتے ہيں؟
ميں نے کہا:کياکوئی مشکل ہے؟
سر پرست :عبد المطلب ”فَ ْترت“)خدا کی طرف سے پيغمبر نہ ہونے کا زمانہ(ميں زندگی کرتے تھے ،کيونکہ جس وقت
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم آٹھ سال کے تھے اور مبعوث بر سالت نہيں ہوئے تھے اس وقت عبد المطلب کا انتقال
ہوا،ل ٰہذا دين توحيدی اس زمانہ ميں نہيں تھا ،اس بنا پر آپ حضرات کسی بنياد پر ان کی زيارت کے لئے جاتے ہيں؟!
اور ابو طالب )نعوذ با (مشرک دنيا سے گئے ہيں،ل ٰہذا مشرک کی زيارت کے لئے جانا جائز نہيں ہے؟!
ميں نے کہا:کوئی بھی مسلمان جناب عبد المطلب کو مشرک کہنے کے لئے تيار نہيں ہے،وه اسی زمانہ ميں خدا پرست اور
عيسی عليہ السالم کے اوصياء ميں سے تھے ٰ يکتا پرست تھے،وه دين ابراہيم عليہ السالم کی پيروی کرتے تھے ،يا حضرت
وه اہل سنت کی کتابوں ميں وارد ہونے والی روايات کے مطابق ابرہہ کے حملہ کے وقت جو خانہ کعبہ کو ويران کرنے آيا
سوره فيل کے مطابق وه خود ہالک ہو گيا ،جس وقت عبد المطلب اپنے اونٹ کے لئے ابرہہ کے پاس گئے تو ابرہہ ٔ تھا ،اور
نے کہا:ميرے لحاظ سے آپ بہت پست آدمی ہيں اپنے اونٹ لينے کے لئے توآگئے ليکن اپنے دين اور دينی عبادتگاه ”کعبہ“
کے بارے ميں کچھ نہيں کہتے “!
جناب عبد المطلب نے جواب ديا:
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”انا رب االبل ،وان للبيت ربا سيمنعہ“۔
”ميں اونٹوں کا مالک ہو،اور اس گھر کا بھی ايک مالک )خدا(ہے جو عنقريب خود اس کا دفاع کرے گا“۔
اس کے بعد جناب عبد المطلب خانہ کعبہ کے پاس آئے اور خانہ کعبہ کے دروازه کا حلقہ پکﮍ کر دعا کی ،نيز چند اشعار
پﮍھے۔جن ميں سے ايک شعر کا مضمون يہ ہے:
”پالنے والے !ہر شخص اپنے اہل خانہ کا دفاع کرتا ہے ،توبھی اپنے حرم امن ميں رہنے والوں کا دفاع فرما“][34
يہی موقع وه تھا کہ عبد المطلب کی دعا قبول ہوئی ،خداوند عالم نے ابابيلوں کے گروه کو بھيجاجنھوں نے ابرہہ کے لشکر
،سوره فيل اس سلسلہ ميں نازل ہوا۔
ٔ کو نابود کرديا
اور شيعہ روايات مينبيان ہوا ہے کہ حضرت امام علی عليہ السالم نے فرمايا:خدا کی قسم،ميرے پدر گزرگوار ابو طالب ،دادا
عبد المطلب اور ہاشم بن عبد مناف نے ہر گز بتونکی پرستش نہيں کی۔
يہ حضرات کعبہ کی طرف نماز پﮍھتے تھے ،اور جناب ابراہيم عليہ السالم کے دين کے مطابق عمل کرتے تھے“۔][35
اب رہی بات ايمان ابو طالب کی بات تو:
اوالً :ائمہ اہل بيت عليہم السالم اور شيعہ علماء کے اجماع کی بناپر وه مسلمان اور مومن اس دنيا سے گئے ہيں۔
ابن ابی الحديد )جو اہل سنت کے مشہور ومعروف عالم دين ہيں(نقل کرتے ہيں ايک شخص نے حضرت امام سجاد عليہ
السالم سے سوال کی” :کيا جناب ابو طالب مومن تھے؟“امام عليہ السالم نے فرمايا” :جی ہاں“
ايک دوسرے شخص نے امام سجاد عليہ السالم سے سوال کيا” :يہاں کے کچھ لوگ جناب ابوطالب کو کافر کہتے ہيں“۔
امام عليہ السالم نے فرمايا :واقعا ً تعجب ہے اس بات پر کہ يہ لوگ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم اور جناب ابو طالب
کو ناجائز نسبت ديتے ہيں ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے مومن عورت کا کافر مرد سے نکاح کو ممنوع قرار ديا
ہے ،جب کہ اس بات ميں کوئی شک نہيں ہے کہ فاطمہ بنت اسد اسالم ميں سبقت کرنے والوں ميں تھيں،اور جناب ابو طالب
کی آخری عمر تک فاطمہ بنت اسد ان کی زوجيت پر باقی رہيں“][36
ثانيا ً :اہل سنت کے علماء اور بہت سے راويوننے نقل کيا ہے:پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عقيل بن ابو طالب
سے فرمايا:
”انی احبک حبين ،حبا لقرابتک منی وحبا لما کنت اعلم من حب عمی ابی طالب اياک“۔][37
”ميں تم سے دہری محبت کرتا ہوں ايک رشتہ داری کی بنا پر دوسرے اس وجہ سے کہ ميرے چچا ابو طالب تمہيں دوست
رکھتے تھے “۔
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی يہ گفتگو بہترين گواه ہے کہ آنحضرت ايمان ابو طالب پر عقيده رکھتے تھے ،ورنہ
تو کافر کی دوستی کوئی اہميت نہيں رکھتی جس کی وجہ سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم عقيل سے محبت
کريں۔][38
مزيد وضاحت:
افسوس کے ساتھ کہنا پﮍتا ہے کہ برادران اہل سنت اپنے آباء واجداد کی اندھی تقليد کرتے ہوئے ابو طالب کے ايمان نہ النے
کو نسل بہ نسل نقل کرتے چلے آئے ہيں،ليکن اس چيز سے غافل ہيں کہ ان کی معتبر اور مستند کتابوں ميں دسيوں بلکہ
سيکﮍوں روايت موجود ہيں جو ايمان ابوطالب پر بہترين دليل اور گواه ہيں ،ليکن حقيقت ميں حضرت ابو طالب کو مشرک
کہنے کا راز متعصب اور ہٹ دھرم لوگونکی ان کے فرزند امام علی عليہ السالم سے عداوت اور دشمنی ہے اور يہ تعصب
بنی اميہ کے زمانہ سے آج تک جاری ہے خود حضرت علی عليہ السالم کی قسم کہ اگر ابو طالب آپ کے باپ نہ ہوتے تو
حضرت ابو طالب کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا مخلص مومن اور پاکيزه ترين چچا اور قريش کی سب سے
زياده مومن شخصيت کے عنوان سے پہچنواتے۔
حقير کی مالقات عالمہ امينی مرحوم صاحب کتاب ”الغدير “کے فرزند ارجمند سے ہوئی ،جناب ابو طالب کے بارے ميں
گفتگو ہونے لگی تو موصوف نے فرمايا:جس وقت ہم نجف اشرف ميں تھے ،تو ہم نے سنا کہ ”احمد خيری“مصری دانشور
حضرت ابو طالب کے بارے ميں کوئی کتاب لکھ رہے ہيں ،ہم نے ان کو ايک خط لکھا کہ آپ اس کتاب کو اس وقت تک نہ
چھپوائيں کہ جب تک الغدير کی ساتويں جلد )جو ابھی تک نہيں چھپی اور چھاپ خانہ ميں ہے(آپ تک نہ پہنچچائے جس
وقت الغدير کی ساتويں جلد چھپ گئی )جس کا آخری حصہ حضرت ابو طالب کے بارے ميں ہے(فوراً ہی ان کے لئے کتاب
بھيجی کچھ مدت کے بعد جناب ”احمدخيری“کا خط آيا جس ميں شکريہ کے بعد تحرير تھا کہ الغدير کی ساتويں جلد مجھے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ملی،ميں نے اس کتاب کو بغور مطالعہ کيا،اس کتاب نے ابو طالب کے بارے ميں ميرا عقيده بالکل بدل ديا ،اور ميں نے
ابوطالب کے بارے ميں جو کچھ لکھا تھا بالکل بر عکس ہو گيا اور ميرا نظريہ بالکل بد ل گيا ہے اور مجھے ايک نئی فکر
مل گئی ہے۔
آخر ميں موصوف نے لکھا تھا:حضرت ابو طالب کا دفاع اور ان کا جہاد و کوشش )اسالم کے ثبات اور اسالم کی نشر
واشاعت ميں(اس قدر زياده ہيں کہ تمام مسلمانوں کے ايمان ميں ان کا حصہ ہے اور تمام مسلمان ان کے مقروض ہيں“
سر پرست :اگرا يمان ابو طالب اتنا واضح و روشن ہے تو پھرہمارے علماء ابو طالب کے بارے ميں کيونمختلف باتيں کہتے
ہيں اور بعض نے تو ان کے کفر کی وضاحت کی ہے ،اس مشکل کا راز کيا ہے؟!
ميں نے کہا :جيسا کہ اشاره ہو چکا ہے ،حقيقت يہ ہے کہ معاويہ کی حکومت کے زمانہ ميں حضرت علی عليہ السالم کے
لئے نامناسب الفاظ يہاں تک کہ نماز کی قنوت ميں بھی لعنت کی جاتی تھی ،اور تقريبا ً ٨٠سال منبر کے اوپر سے )نعوذ
با ( آپ پر لعنت کی جاتی تھی ،زر خريد قلموں نے جھوٹی اور بے بنياد روايات گﮍھ کر جناب ابوطالب کو کافر بتاديا ،تاکہ
حضرت علی عليہ السالم کو کافر زاده کے عنوان سے لوگوں ميں مشہور کيا جائے،اور قطعی طور پر آپ کو يہ معلوم ہونا
چاہئے کہ يہی جعلی روايات آپ لوگوں کی کتابوں ميں داخل ہوگئيں جس نے ذہنوں ميں يہ چيز ڈال دی ہے ،ورنہ ايمان ابو
طالب مکمل طور پر واضح ہے۔
ايک دوسرا راز يہ ہے کہ جناب ابو طالب راه اسالم اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے دفاع ميں خاص طريقہ
سے تقيہ کے عالم ميں رفتار کرتے تھے ،تاکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی بہتر طور پر حمايت کر سکيں،اور
اگر وه علنی طور پر ايمان کااظہار فرماتے تو آغاز بعثت ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی حمايت بہتر اور
شائستہ طور پر نہيں کر سکتے تھے۔
اس لحاظ سے بہت سی روايات کے مطابق حضرت ابو طالب کی مثال ”مومن آل فرعون“اور ”اصحاب کہف“کی طرح ہے
جو دين کی ترقی و سر فرازی کے لئے اپنے ايمان کو مخفی رکھتے تھے ،تفسير امام حسن عسکری عليہ السالم ميں ايک
طوالنی روايت کی ضمن ميں بيان ہوا ہے کہ امام حسن عسکری عليہ السالم نے فرمايا” :خداوندعالم نے پيغمبر اکرم صلی
ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر وحی کی کہ ميں آپ کی دو گروہوں کے ذريعہ مدد کرونگا ،ايک گروه مخفی طور اور دوسرا گروه
ظاہری طور پر مدد کرے گا ،پہلے گروه کے سب سے بہترين رئيس جناب ”ابواطالب “اور دوسرے گروه کے سب سے
بہتر سر پرست ان کے فرزند حضرت علی عليہ السالم ہيں“][39
اہل علم پر يہ بات واضح ہے کہ يہ دونوں گروه اسالم اور مسلمانوں کی طرف سے ہميشہ دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے
ہيں ،مخفيانہ مقابلہ ظاہری مقابلہ سے کم نہيں ہوتا ہے۔
کارنامے سياه تھے۔
چنانچہ اس گندی سياست کے تحت ہی جناب ابو طالب پر مشرک ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے۔
سوره انعام آيت ٢۶ميں ارشاد خداوندی ہے:
ٔ سنی عالم:قرآن مجيد کے
” َوہُ ْم يَ ْنہَوْ نَ َع ْنہُ َويَ ْنأَوْ نَ َع ْنہ“
”اور دوسروں کو اس سے روکتے ہيں ،اور خود بھی اس سے دوری کرتے ہيں“
اس آيت سے مر اد)بعض ہمارے مفسرين کے قول کے مطابق( يہ ہے کہ ”بعض لوگ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم
کا دفاع کرتے تھے ،ليکن پھر بھی خود پيغمبر سے دوری کرتے تھے “
يہ آيت ابو طالب جيسے لوگوں کے بارے ميں نازل ہوئی ہے جو دشمنوں کے مقابلہ ميں پيغمبر ٔ کا دفاع کرتے تھے ليکن
ايمان کے لحاظ سے ان سے دوری کرتے تھے !
مولف کا قول:اوالً :جيسا کہ ہم بيان کرينگے:آيت کے معنی اس طرح نہيں ہے جس طرح آپ نے کئے ہيں۔ ٔ
آيہ شريفہ جناب ابوطالب کے بارے ثانيا ً :بالفرض اگر ہم مان بھی ليں کہ يہی معنی صحيح ہيں تو بھی کس دليل کے تحت يہ ٔ
ميں صادق آتی ہے ؟!
سنی عالم :دليل يہ ہے کہ ”سفيان ثوری حبيب ابن ابی ثابت“ سے روايت کرتے ہيں کہ ابن عباس نے کہا” :يہ آيت ابو طالب
کے بارے ميں نازل ہوئی ہے ،چونکہ لوگوں کو پيغمبر اکرم کے آزار و اذيت پہنچانے سے روکتے تھے ،ليکن خود اسالم
سے دور رہے “][41
مولف :آپ کے جواب ميں مجبوراً چند چيزوں کی طرف اشاره کرتا ہوں:
١۔آيت کے معنی اس طرح نہيں ہے جس طرح آپ نے کئے ہيں بلکہ آيت کے قبل وبعد کے پيش نظر کفار ومشرکين کے
بارے ميں ہے جس کے ظاہر ی معنی يہ ہيں” :وه لوگ )کفار(لوگوں کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی پيروی
سے روکتے تھے اور خود بھی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے دور ی کرتے تھے“] [42ل ٰہذا آيت ميں پيغمبر
اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے دفاع کی کوئی بات نہيں ہے۔
٢۔لفظ ”ينئون “دوری کے معنی ميں ہے ،جب کہ جناب ابو طالب ہميشہ پيغمبر اکرم کے ساتھ رہے اور کبھی بھی آپ سے
دور ی نہيں کی۔
٣۔سفيان ثوری کی روايت جس ميں ابن عباس کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ انھوں نے کہا:مذکوره آيت ابو طالب کے بارے
ميں نازل ہوئی ہے ،يہ روايت چند لحاظ سے قابل ترديد ہے:
موثق ہے۔][43 الف:سفيان ثوری ،يہاں تک کہ خود بزرگ علمائے اہل سنت کے اعتراف کی بنا پر جھوٹا اور غير ٔ
اور ابن مبارک سے منقول ہے کہ سفيان )ثوری( تدليس کرتا تھا يعنی جھوٹ بولتا تھا اورحق کو ناحق اور ناحق کو حق کر
کے پيش کرتا تھا۔][44
اس مذکوره روايت کا دوسرا راوی ”حبيب بن ابی ثابت “ہے اور يہ بھی ابو حيان کے قول کے مطابق تدليس سے کام ليتا
تھا۔][45
ان تمام چيزوں کے عالوه مذکوره روايت ،مرسل ہے يعنی حبيب اور ابن عباس کے درميانی راوی حذف ہيں۔
ب :ابن عباس ان مشہور ومعروف افراد ميں سے ہيں جو ايمان ابو طالب کا عقيده رکھتے تھے ،ل ٰہذا کس طرح ممکن ہے کہ
وه اس طرح کی روايت نقل کريں؟!
اس کے عالوه جيساکہ ہم نے پہلے بھی اشاره کيا کہ جناب ابن عباس نے مذکوره آيت کے معنی اس طرح کئے ہيں” :کفار
لوگوں کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی پيروی سے روکتے تھے ،اور خود بھی آنحضرت سے دوری اختيار
کئے ہوئے تھے“۔
ج :مذکوره روايت کہتی ہے:يہ آيت صرف ابو طالب کے بارے ميں نازل ہوئی ہے جب کہ لفظ ”ينھون“اور ”ينئون“جمع کے
صيغے ہيں۔
چچاوں کو شامل ہے کيونکۂ اس بنا پر بعض تفسير کے مطابق مذکوره آيت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے
آنحضرتکے دس چچا تھے ،ليکن ان ميں سے تين مومن چچا يعنی حمزه ،عباس اور ابو طالب کو شامل نہيں ہے۔
مزيد وضاحت:
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم مشرکين سے دوری کرتے تھے جيسا کہ اپنے چچا ابو لہب سے دوری اختيار کئے
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
ہوئے تھے ليکن جناب ابوطالب کے ساتھ ان کی آخری عمر تک خصوصی رابطہ تھا ،چنانچہ آنحضرت نے آپ کی وفات
کے سال کو ”عام الحزن“)غم کا سال (نام رکھا اور ان کے جنازه کی تشييع کے وقت فرماتے جاتے تھے:
”وابتاه واحزناه! عليک کنت عندک بمنزلة العين من الحدقة والروح من الجسد“][46
”اے پدر بزرگوار!آپ کی موت ميرے نزديک کس قدر غمناک ہے ،ميں آپ کے نزديک آنکھ ميں پتلی کی مانند اور بدن ميں
روح کی طرح تھا“][47
کيا واقعا ً پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر ايسی ناجائز تہمت لگائی جا سکتی ہے کہ آپ کسی مشرک کی اس طرح
تعريف کريناور اس کی وفات پر اس قدر غم و اندوه کا اظہار کريں جب کہ قرآن مجيد ميں متعدد آيات يہ اعالن کرتی ہيں کہ
مشرکين سے بيزاری اختيار کرو؟!
٨٣۔ کيا حضرت علی عليہ السالم بہت قيمتی انگوٹھی پہنچتے تھے
اشاره
سوره مائده کی ۵۵ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں۔ ٔ ہم
” ِٕانﱠ َما َو ِليﱡ ُک ْم ﷲُ َو َرسُولُہُ َوالﱠ ِذينَ آ َمنُوا الﱠ ِذينَ يُ ِقي ُمونَ ال ﱠ
صالَةَ َوي ُْؤتُونَ ال ﱠز َکاةَ َوہُ ْم َرا ِکعُونَ “
”تمہارا ولی صرف خدا ،اس کا رسول اور وه صاحب ايمان ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت رکوع ميں ٰ
زکوةديتے
ہيں“۔
المومنين علی عليہ السالم کی شان ميں نازل ہوئی ہے ٔ امير آيت يہ کہ ہے ہوئی نقل روايت متواتر ونسے دون سنی اور شيعہ
اور يہ آيت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد آپ کی رہبری اور واليت کی دليل ہے۔
يہ آيت اس وقت نازل ہوئی جب موالئے کائنات علی بن ابی طالب عليہ السالم مسجد ميں نمازپﮍھ رہے تھے ايک سائل نے
آکر سوال کيا تو کسی نے اسے کچھ نہيں ديا۔ حضرت علی عليہ السالم اس وقت رکوع ميں تھے اور اسی رکوع کی حالت
ميں آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کی انگوٹھی کی طرف اشاره کيا اور سائل نے آکر آپ کی انگلی سے وه انگو ٹھی اتارلی۔ اس
طرح آپ نے نماز ميں صدقہ کے طور پر اپنی انگوٹھی فقير کو دے دی ،اس کے بعد آپ کی تعريف و تمجيد ميں يہ آيت
نازل ہوئی۔][48
اب آپ ايک يونيورسٹی کے طالب علم کاايک عالم دين سے مناظره مالحظہ فرمائيں:
طالب علم” :ميں نے سنا ہے کہ جو انگوٹھی علی عليہ السالم نے فقير کو دی تھی وه بہت ہی قيمتی تھی اور بعض کتب
جيسے تفسير برہان)ج،١ص(۴٨۵ميں ملتا ہے کہ اس انگوٹھی کا نگينہ ۵مثقال سرخ ياقوت تھا جس کی قيمت شام کے خزانہ
کے برابر تھی ،حضرت علی عليہ السالم يہ انگوٹھی کہاں سے الئے تھے ؟کيا علی عليہ السالم حُسن وتزئين پسند تھے ؟کيا
اتنی قيمتی انگوٹھی پہننا فضول خرچی نہيں ہے؟تصوير کے دوسرے رخ سے امام علی عليہ السالم کی طرف يہ نسبت دينا
بالکل غلط ہے کيونکہ وه لباس ،کھانے اور دوسری دنيوی اشياء ميں حد درجہ زہد سے کام ليتے تھے جيسا کہ ايک جگہ آپ
فرماتے ہيں:
ً
”فوﷲ ما کنزت من دنيا کم تبرا والادخرت من غنائمھا وفرا وال اعددت لبالی ثوبی طمر ا وال حزت من ارضھا شبرا وال اخذت ً
منہ اال کقوت اتان دبر ٍة“۔
”خدا کی قسم !ميں تمہاری دنيا سے سونا چاندی جمع نہيں کرتا اور غنائم اور ثروتوں کا ذخيره نہيں کرتا اور اس پرانے
لباس کی جگہ کوئی نيا لباس نہيں بنواتا اور اس کی زمين سے ايک بالشت بھی ميں نے اپنے قبضہ ميں نہيں کيا اور اس دنيا
سے اپنی تھوڑی سی خوراک سے زياده نہيں ليا ہے۔][49
عالم دين” :يہ گراں قيمت انگوٹھی کے بارے ميں فالتوبات ہے جو بالکل بے بيناد ہے اور متعدد روايتوں کے ذريعہ اس آيت
کے شان نزول کے بارے ميں ہرگز اس طرح کی انگوٹھی کا ذکر نہيں ہوا ہے اور صرف تفسير برہان ميں ايک روايت نقل
ہوئی ہے کہ اس انگوٹھی کی قيمت ملک شام کے خزانہ کے برابر تھی يہ روايت ”مرسلہ“ہے اور ممکن ہے کہ اس کے
راويوں نے موالئے کائنات کی اہميت کو کم کرنے کی خاطر اس روايت کو گﮍھا ہو“۔
طالب علم” :بہر حال انگوٹھی قيمتی تھی يہ بات تويقينی ہے ورنہ پھر فقير کا پيٹ کيسے بھرتا؟“
عالم دين” :شاعر کے قول کے مطابق اگر ہم فرض کر ليں کہ يہ انگوٹھی بہت قيمتی تھی جيسا کہ شاعر کہتا ہے:
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کہ نگين پادشاہی دھد از کرم ،گدا را
تاريخ ميں ملتا ہے کہ يہ انگوٹھی ”مروان بن طوق “نامی ايک مشرک کی تھی امام عليہ السالم جنگ کے دوران جب اس پر
کامياب ہوگئے تو اسے قتل کر کے غنيمت کے طور پر اس کے ہاتھ سے يہ انگوٹھی اتارلی اور اسے آنحضرت صلی ﷲ
عليہ و آلہ و سلمکی خدمت ميں لے کر آئے تو آپ نے فرمايا” :اس انگوٹھی کو مال غنيمت سمجھ کر تم اپنے پاس رکھو“،
ساتھ ساتھ يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم يہ جانتے تھے کہ اگر علی عليہ السالم اس انگوٹھی کو لے بھی ليں
گے تو کسی امين کی طرح اس کی حفاظت کريں گے اور مناسب مو قع پر اسے کسی محتاج و فقير کو دے ديں گے۔
اس طرح يہ انگوٹھی آپ نے خريدی نہيں تھی اور ابھی يہ انگوٹھی حضرت علی عليہ السالم کے ہاتھوں ميں چند دن ہی رہی
ہوگی کہ صرف ايک محتاج کی آواز سن کر آپ نے اسے دے ديا۔][50طالب علم ” :لوگ نقل کرتے ہيں کہ حضرت علی
عليہ السالم نماز کے وقت خشوع و خضوع ميں اس حدتک غرق ہوجاتے تھے کہ امام حسن عليہ السالم کے حکم کے مطابق
جنگ صفين ميں ان کے پير ميں لگے تير کو نماز کی حالت ميں نکال ليا گيا تھا ليکن انھيں احساس تک نہ ہوا اب اگر اس
طرح ہے تو حالت رکوع ميں انھوں نے اس فقير کی آوازکيسے سن لی اور انگوٹھی اسے دےدی؟“
عالم دين ” :جو لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہيں وه يقينا غفلت ميں ہيں کيونکہ محتاج وفقير کی آواز سننا اپنی ذات کی
طرف متوجہ کرنا نہيں ہے بلکہ يہ تو جہ خدا کی طرف عين توجہ ہے۔علی عليہ السالم نماز ميں اپنے سے بيگانہ تھے نہ کہ
زکوة دينا عبادت کے ضمن ميں عبادت ہے اور جو روح عبادت کے لئے غير خدا سے ،واضح طور پر نماز کی حالت ميں ٰ
مناسب ہے وه مادی اور دنياوی چيزيں ہيں ليکن جو توجہ خدا وند متعال کی راه ميں ہو وه يقينا روح عبادت کے موافق ہے
اور تقويت کرنے والی ہے۔
البتہ يہ جاننا چاہئے کہ خدا کی توجہ ميں غرق ہونے کا يہ مطلب نہيں کہ اس کا احساس بے اختياری طور پر اس کے ہاتھ
سے جاتا رہا ہے بلکہ اس سے مراديہ ہے کہ جو چيز خداکی مرضی کے مطابق نہيں ہے اس سے اپنی توجہ ہٹالے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اور حديث ثقلين کے مطابق جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہيں آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا ہے” :ميں
تمہارے درميان دو گراں قدر چيزيں چھوڑے جارہاہوں ايک قرآن اور دوسری ميری عترت۔۔۔“اور اسی طرح تمہاری متعدد
روايتوں کے مطابق آنحضرت نے يہ فرمايا” :ميں دو چيزيں چھوڑے جارہاہوں ،قرآن اوراپنی سنت “اس وجہ سے ہميں
چاہئے کہ سنت يعنی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی باتوں پر غور کريں اور ان پر عمل کريں اسی وجہ سے ہم
کہتے ہيں کہ مذکوره آيات پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی سنت کی بيناد پر علی عليہ السالم کی شان ميں نازل
ہوئی ہيں اور اسی وجہ سے قرآن مجيد نے امام علی عليہ السالم کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا جانشين اور بال
فصل خليفہ بتايا اگر چہ مصلحت کی بنا پر آپ کا قرآن ميں نام نہيں آيا ہے۔قرآن ميں صرف چار جگہوں پر سول خدا صلی
ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا نام آيا ہے ليکن ان کے اوصاف سيکﮍوں مرتبہ ذکر ہوئے ہيں۔)]([54
”جو حق کی طرف ہدايت کرتا ہے وه اس بات کا زياده حقدار ہے کہ اس کا اتباع کيا جائے ياوه جو بغير ہدايت کئے ہدايت
پاہی نہيں سکتا)تمہيں کيا ہوگيا ہے( تم کيسا فيصلہ کرتے ہو؟
اس بنا پر اصلح اور متقی کا انتخاب سو فيصد اسالمی اور عقلی طريقہ ہے ،رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا
ہے:
”من تقدم علی المسلمين وھو يری ان فيھم من ھو افضل منہ فقد خان ﷲ ورسولہ والمومنين “
”جو مسلمانوں کے کام کے لئے آگے بﮍھے جب کہ وه ديکھ رہا ہو کہ ان ميں کوئی ايسا بھی ہے جو اس سے افضل ہے تو
بال شبہ اس نے ﷲ ،اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خيانت کی“۔)الغدير،ج(٧
”خدا وند متعال شيخ شلتوت پر رحمت نازل کرے کہ انھوں نے اس عظيم اور اہم بات پر توجہ دی اور نہايت بہادری سے
ٰ
فتوی ديا کہ مذہب شيعہ اثنا عشری ايک فقہی اور اسالمی مذہب ہے اور يہ قرآن و سنت کے دالئل کی ہميشہ زنده رہنے واال
بنياد پر استوار ہوا ہے ل ٰہذا اس پر عمل جائز ہے“۔
عبد الرحمن بخاری کہتے ہيں:
ٰ
فتوی ديتا ہوں ”ميں آج بھی اپنا فتوی مذہب اربعہ ميں منحصر نہ سمجھتے ہوئے شيخ محمود شلتوت کے فتوے کی بنياد پر
کہ شيخ شلتوت امام ومجہتد ہيں اور ان کی رائے عين حقيقت ہوا کرتی ہے“۔
عبد الفتاح عبد المقصود لکھتے ہيں:
”مذہب شيعہ اثنا عشری اس الئق ہے کہ سنی مذہب ميں موجود تمام مسالک کے ساتھ اس کی بھی پيروی کی جائے ،سنی
مذہب ميں ايسی کوئی بات نہيں ہے کہ عمل صرف اس وقت صحيح ہوگا جب ايسے مسلک کی پيروی کی جائے جو سب
سے افضل وبرتر ہو ،جب ہميں يہ معلوم ہوچکا ہے کہ شيعہ مذہب کے اصل منبع حضرت علی عليہ السالم ہيں تو ظاہر سی
بات ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد وه سب سے زياده احکام دين جاننے والے تھے“۔][56
”تين آدمی يحی بن يحی ،ابو بکر اور زہير بن حرب وغيره نقل کرتے ہيں کہ وکيع نے سفيان اور اس نے حبيب اور اس نے
ابی وائل اور اس نے ابی الہياج اسدی سے نقل کيا ہے کہ علی عليہ السالم نے ابی الہياج سے فرمايا:
دالوں جس کے لئے رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مجھے ترغيب کی ہے کوئی کيا ميں تمہيں اس بات پر ترغيب ٔ
تصوير بھی بغير محو کئے نہ چھوڑو اور کوئی بھی بلند قبر بغير زمين کے برابر کئے نہ چھوڑو“۔
شيعہ عالم ” :يہ حديث سند اور داللت دونوں اعتبار سے مخدوش ہے سند کی رو سے اس کہ لئے اس کے راويوں ميں وکيع
،سفيان ،حبيب بن ابی ثابت ،ابی وائل جيسے لوگ ہيں کہ جن کی حديث قابل اطمينان نہيں ہے جيسا کہ احمد بن حنبل نے
”وکيع“کے بارے ميں نقل کيا ہے”اس نے پانچ سو حديثوں ميں غلطی کی ہے“۔][58
اسی طرح” سفيان “کے بارے ميں ابن مبارک سے نقل ہوا ہے کہ ”سفيان حديث نقل کرتے وقت تدليس کرتا تھا ليکن جب
مجھے ديکھتا تو شرماجاتا تھا ،تدليس :يعنی حق وناحق کو مخلوط کردينا“۔][59حبيب بن ثابت کے بارے ميں ابن حيان نے
نقل کيا ہے کہ وه بھی حديثوں ميں تدليس کرتا تھا۔][60
ابو وائل کے بارے ملتا ہے کہ وه ناصبی اور امام عليہ السالم کے دشمنوں ميں سے تھا۔][61
قابل توجہ بات يہ ہے کہ تمام صحاح ستہ ميں ابو الہياج سے صرف يہی ايک حديث نقل ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ
وه راويوں ميں سے نہيں تھا اور قابل اعتماد بھی نہيں تھا جس کی وجہ سے مذکوره حديث سند کے لحاظ سے قابل اعتماد
نہيں سمجھی جا سکتی۔
ليکن داللت اور معنی کے لحاظ سے:
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
الف” :مشرف“جو مذکوره حديث ميں آيا ہے کہ اس کے معنی لغت ميں ايک ايسا بلند مقام جو دوسرے مکانوں سے اونچا ہو
اس کی وجہ سے تمام بلندی اس ميں شامل نہيں ہوگی۔
ب” :لفظ”سوية“کے معنی لغت ميں برابر قرار دينے کے ہيں اور اسی طرح اس کے دوسرے معنی ٹيﮍھی چيز کو سيدھا
کرنا ہے۔
اب اس حديث کے معنی يہ نہيں ہوں گے کہ ہر اونچی قبر کو ويران کر دو جب کہ قبروں کو زمين کے برابر کرنا اسالمی
احکامات کے خالف ہے کيونکہ تمام اسالم فقہاء نے قبر کو زمين سے ايک بالشت بلند کر نا مستحب قرار ديا ہے۔][62
دوسرا احتمال يہ ہے کہ ”سوية “کا مطلب قبر کے باالئی حصہ کو ايک سطح ميں برابر کر ديا جائے نہ يہ کہ اسے اونٹ
کے کوہان يا مچھلی کی پشت کی طرح کر ديا جائے جيسا کہ اہل سنت کے علماء نے اس حديث کا يہی مفہوم بيان کيا ہے۔
نتيجہ يہ ہوا کہ ان تين احتماالت ،قبر ڈھادينا قبر کو زمين کے برابر کر دينا اور اس کے باالئی حصہ کو مسطح کرنے ميں
پہال اور دوسرا احتمال غلط ہے اور تيسرا صحيح ہے ،اس بنا پر يہ حديث داللت کے اعتبار سے بھی اس بات کو ثابت نہيں
کرتی کہ قبروں کا ويران کرنا جائز ہے۔][63
يہاں ہم تھوڑا سا اضافہ کرتے ہوئے کہيں گے کہ اگر امام علی عليہ السالم مزار اور قبور کو ويران کرنا واجب اور
ضروری جانتے تو ان کی خالفت کے زمانہ ميں اولياء خدا اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی قبريں موجود تھيں
انھيں کيوں نہيں ويران کيا کيونکہ تاريخ ميں اس طرح کی کوئی بات نہيں ملتی کہ آپ نے کسی قبر کو مسمار کيا ہو کہ يہ
اونچی ہے۔
اور اگر عصر حاضر ميں وہابی مزاروں کو ويران کرنا واجب جانتے ہيں تو ابھی تک پيغمبر اکرم ،ابوبکر وعمر کے
مزاروں کو کيوں نہيں ويران کيا؟
وہابی” :ان کے مزاروں کو اس لئے خراب اور ويران نہيں کيا کيونکہ ان کے اور نماز گزاروں کے درميان ديوار حائل
ہوتی ہے جس کی وجہ سے نماز گزار انھيں اپنا قبلہ قرار نہيں دے سکتے اور نہ ہی ان پر سجده کر سکتے ہيں“۔
شيعہ عالم” :يہ کام تو صرف ايک ديوار کی وجہ سے قابل قبول تھا ليکن اس پر گنبد خضرا اور اس کے قريب گلدستہ کی
کوئی ضرورت نہ تھی“۔
وہابی” :ميں تم سے ايک سوال کرتا ہوں کيا تمہارے پاس قرآن سے کوئی دليل ہے کہ تم اوليائے خدا کی قبروں کے لئے
خوبصورت مقبره بنوائيں؟“
شيعہ عالم” :اول تو يہ ضروری نہيں ہے کہ ہر چيز يہاں تک کہ مستحبات کا بھی ذکر قرآن ميں موجود ہو اور اگر ايسا ہوتا
تو قرآن مجيد اپنے موجوده حجم سے کئی گنا زياده ہوتا۔
سوره حج کی ٣٢ويں آيت ميں آيا ہے۔
ٔ دوم يہ کہ قرآن ميں اس بات کی طرف اشاره ہوا ہے جيسے
ب“ﷲ فَإِنﱠہَا ِم ْن تَ ْق َوی ْالقُلُو ِ
” َو َم ْن يُ َعظﱢ ْم َش َعا ِئ َر ِ
ٰ
تقوی ميں سے ہے“۔ ”اور جو شعائر خدا کی تعظيم کرتا ہے تو يہ دلوں کے
لفظ”شعائر“شعيره کی جمع ہے جس کے معنی عالمت اور نشانی کے ہيں اس آيت ميں خدا کے وجود اور اس کی عالمت
نہيں بلکہ اس کے دين کی عالمتوں کا ذکر ہے۔][64
سوره ٔشوری کی ٢٣ويں آيت ميں رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اقرباء کی مودت اجر رسالت کہی گئی ہے۔
کيا اگر ہم رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اقرباء کے مقبروں کو ان کی محبت اور احترام ميں خوبصورت بنائيں
اور ان کو صاف ستھرا رکھيں تو يہ کوئی غلط کام ہوگا؟“
مثال کے طور پر اگر قرآن کو ايک دھول سے اٹی ہوئی جگہ پر زمين ہی پر رکھ ديا جائے تو کيا يہ قرآن کی بے ادبی نہيں
ہو گی؟ اور يہ مان بھی ليں کہ يہ توہين نہ ہوگی تب بھی اگر اسے صاف ستھری جگہ پر نہايت ادب واحترام کے ساتھ
رکھيں تو کيا يہ کام اچھا نہ ہوگا؟“
وہابی” :يہ جو تم کہہ رہے ہو لوگوں کے پسند کی باتيں ہيں کيا تمہارے پاس قرآن کی کوئی دليل بھی موجود بھی ہے ؟“
شيعہ عالم” :قرآن ميں اصحاب کہف کے ذکر ميں آيا ہے۔
”جب ان لوگوں نے غار ميں پناه لی اور وہيں ايک نہ جاگنے والی گہری نيند ميں سوگئے تو لوگوں نے انھيں ڈھونڈنکاال ان
لوگوں کے دميان اس جگہ کے بارے ميں نزاع ہو گيا کچھ لوگوں نے کہا:
”ابنوا عليھم بنيانا“يہاں ايک عمارت بنادو“۔
ليکن دوسرے گروه نے کہا” :لنتخذن عليھم مسجدا“ہم يہاں مسجد بنائيں گے“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
قرآن مجيد نے دونوں نظريوں کوذکر کيا ہے ليکن اس نے اس پر کسی طرح کی کوئی تنقيد نہيں کی اگر ان دونوں نظريوں
ميں سے کوئی رائے حرام اور ناجائز ہوتی تو قرآن ضرور اس بات کا ذکر کرتا ليکن بات تو يہ تھی کہ يہ دونوں گروه
اصحاب کہف کے احترام کے لئے اپنی صواب ديد کے مطابق کام کرنا چاہتے تھے۔ا س طرح تين مذکوره آيتيں اس بات پر
داللت کرتی ہيں کہ اولياء کے قبروں کو شاندار بنا نا مستحب ہے۔][65
آخری بات يہ کہ جو بعض تاريخی اور حديث کتابوں ميں ديکھا گيا ہے کہ قبروں پر مزار اور قبہ نہ بنا يا جائے تو وه اس
لئے ہے کہ کہيں خود قبور اولياء ،عبادت گاه اور سجده گاه نہ بن جائے ليکن اگر مومن وحده الشريک لہ کی عبادت کرنے
واال کمال خلوص سے مزار اور مقبروں کو مقامات مقدسہ ہونے کی وجہ سے يہاں ﷲ کی عبادت کرتا ہے تو اس ميں شرک
کی کيا بات ہے بلکہ اس طرح تو اس کی توحيد اور اخالص ميں اضافہ ہی ہوتا ہے۔
٨٧۔ خانہ کعبہ مينحضرت علی عليہ السالم کی والدت پر ايک مناظره
اشاره
امام علی عليہ السالم کے امتيازات اور افتخارات ميں سے ايک عظيم افتخار يہ بھی ہے کہ آپ دنيا کے مقدس ترين مقام خانہ
کعبہ ميں پيدا ہوئے اور يہ چيز شيعہ اور سنی دونوں طرح سے ثابت اوريقينی ہے۔
عالمہ امينی ،صاحب الغدير نے اپنی کتاب کی چھٹی جلد ميں اس بات کو اہل سنت کی /١٩معتبر کتابوں سے نقل کيا ہے۔
يہ بات خود امام علی عليہ السالم کی افضليت کے لئے ايک اہم اور زنده ثبوت ہے جو دوسروں ميں نہيں پائی جاتی اور اس
بات سے ان کی رہبری اور واليت بھی منحرف لوگوں پر ثابت ہوتی ہے۔
دعوی کيا ہے کہ يہ حديث متواتر ہے۔ ٰ حاکم نے اپنی کتاب مستدرک )ج،٢ص(۴٨٣ميں يہ
چنانچہ اسی کے متعلق ايک شيعہ اور سنی عالم کے مناظره پر توجہ فرمائيں:
سنی عالم” :تاريخ ميں آيا ہے کہ حکيم بن حزام بھی کعبہ ميں پيدا ہوا ہے“۔
شيعہ عالم” :اس طرح کی چيز تاريخ ميں ثابت نہيں ہے جيسا کہ بﮍے علماء ،جيسے ابن صباغ مالکی ]،[66گنجی
شافعی] [67شبلنجی ][68اور محمد بن ابی طلحہ شافعی] [69کہتے ہيں:
”لم يولد فی الکعبة احد قبلہ“۔
”حضرت علی عليہ السالم سے پہلے کوئی بھی کعبہ ميں پيدا نہيں ہوا تھا۔
)اس بات پر توجہ رہے کہ حکيم بن حزام حضرت علی سے عمر ميں بﮍا تھا (يہ گﮍھی ہوئی روايت بھی حضرت علی عليہ
السالم کے دشمنوں کی کارستانی ہے۔انھوں نے اس طرح اس عظيم افتخار کی اہميت کو ختم کرنا چاہا ہے“۔
سنی عالم” :کعبہ ميں والدت ہونا مولود کے لئے کون سا افتخار ہے ؟“
شيعہ عالم” :ايک وقت يہ ہے کہ اگر کوئی عورت اتفاق سے ايسی جگہ پہنچ جائے اور وہاں والدت ہو جائے تو اس يقينا اس
ميں کوئی افتخار نہيں ہے ،ليکن اگر کوئی عورت اتنی زياده اہميت کی حامل ہو کہ خدا اس کے لئے خاص انتظام کرے اور
وہاں پہنچ کر بچہ کی والدت ہوتو يہ بات يقينا دونوں کے لئے افتخار کا باعث ہوگی۔حضرت علی عليہ السالم کی کعبہ ميں
والدت خدا وند متعال کی خاص عنايتوں ميں ہے جيسا کہ ديوار کاشق ہونا اور جناب فاطمہ بنت اسد کا اندر جانا سب کرامت
ولطف خداوند کی دليل نہيں تو اور کيا ہے ؟“][70
سنی عالم ” :جب علی عليہ السالم پيدا ہوئے تو وه بعثت سے ١٠سال پہلے کا واقعہ ہے اس وقت کعبہ ميں بت بھرے ہوئے
تھے جس کی وجہ سے اسے کوئی خاص اہميت حاصل نہيں تھی بلکہ وه بت کده تھا اور حضرت علی عليہ السالم جب ايک
بت کده ميں پيدا ہوئے تو بھال ان کے لئے کون سی فضيلت کی بات ہوگی“۔
شيعہ عالم ” :کعبہ وه پہلی عبادت گاه ہے جو دنيا ميں بنائی گئی ،جسے حضرت آدم عليہ السالم نے بنايا تھا اور جہاں جنت
سے حجر االسود ال کر نصب کيا گيا تھا اس کے بعد طوفان نوح کے بعد جناب ابراہيم عليہ السالم نے اپنے زمانہ ميں دوباره
اس کی تعمير کی کعبہ پوری تاريخ ميں تمام انبياء اور اولياء خدا اور فرشتوں کا جائے طواف رہا ہے ،اب اگر اس مقدس
جگہ پر کچھ دنوں کے لئے بت پرست قابض ہوجائيں اور اسے بت کده بنا ديں تو اس کی عظمت ومنزلت ميں کمی نہيں آئے
گی مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مسجد ميں ايک بوتل شراب لے جائے تو کيا اس مسجد کی عظمت ختم ہو جائے گی ؟
اگو کوئی شخص حالت جنابت ميں ياشراب لئے مسجد ميں داخل ہوتا ہے تو وه حرام کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے اس
پر ﷲ کا عذاب نازل ہو گا ليکن جب فاطمہ بنت اسد خدا کے حکم اور مشيت سے کعبہ ميں داخل ہوئيں تو يہ ان کی فضيلت و
طہارت کی دليل ہے اور وه اس طرح سے خدا کی مہمان ہوئيں۔چنانچہ اس طرح سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ يہ بات حضرت
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
علی عليہ السالم کے افتخار کا سبب ہے۔
اسی وجہ سے اوائل اسالم ميں شاعروں نے خاص طور سے اس کرامت اور عنايت کو اپنے شعروں ميں بيان کيا ہے اور
خود اس بات کو ايک عجيب وغريب واقعہ سے قرار ديا گيا ہے۔
عبدالباقی عمری اس کے متعلق حضرت علی عليہ السالم سے خطاب کر کے کہتا ہے:
انت العلی الذی فوق العلی رفعا
ببطن مکة وسط البيت اذ وضعا][71
”تم وہی ہو جو بلنديوں سے بھی بلند ہو گئے ،جب کہ تم مکہ کے درميان ،خانہ کعبہ ميں پيدا ہوئے۔
اسی طرح فارسی شاعر کہتا ہے:
”کعبہ ميں والدت اور محراب ميں شہادت ،ان کے آغاز و انجام ناز کرتا ہوں“۔
سنی عالم نے ہار مان کر مناظره کے اختتام کا اعالن کرديا۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٣۔پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد اصحاب ميں جو کشمکش اور اختالفات وجود ميں آئے وه اس حديث سے
موافقت نہيں کرتے کيونکہ آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے اور بعض نے بعض پر
اعتراض اور طعنہ زنی کی اور يہ اختالف و اعتراض اس حد تک پہنچا کہ عثمان کو قتل کر ڈاال گيا۔
اس کے عالوه يہ بھی اس حديث کے ساتھ موافق نہيں جو بعض نے بعض کو لعن وطعن کيا مثالًمعاويہ نے حضرت علی
عليہ السالم پر لعن وطعن کرنے کا حکم ديا اور بعض اصحاب نے بعض صحابہ سے جنگ کی جيسے طلحہ وزبير نے
حضرت علی عليہ السالم سے جنگ جمل ميں مقابلہ کيا اور معاويہ نے جنگ صفين ميں ان کے سامنے صف آرائی
کی۔بعض اصحاب گناه کبيره کے مرتکب ہوئے اور شراب خوری اور زنا کی وجہ سے ان پر حد جاری کی گئی۔)جيسا کہ
وليد بن عقبہ ،اور مغيره بن شعبہ کے متعلق ملتا ہے۔(
کيا ”بسر بن ارطاة “جو نبی کريم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے اصحاب ميں تھا اور جس نے ہزاروں مسلمانوں کا خون بہايا
اس قابل ہے کہ اس کی پيروی کرنے سے مسلمان ہدايت پاجائےں؟
کيا مروان بن حکم جس نے طلحہ کو قتل کيا اس کی پيروی سے ہدايت مل جائے گی؟
کيا مروان کے باپ حکم کی پيروی ہدايت دے دے گی جو اصحاب رسول ميں تھا اور آنحضرت کا مذاق اڑايا کرتا تھا ان
تمام باتوں پر توجہ رکھتے ہوئے اس جعلی حديث کو صحيح ماننا واقعا ً مضحکہ خيز ہے!!“۔
سنی استاد” :اصحابی کا مطلب يہ ہے کہ جو حقيقت ميں آنحضرت کے اصحاب تھے نہ کہ وه لوگ جو يوں ہی اصحاب بنے
بيٹھے تھے۔
شيعہ استاد” :اس طرح کے اصحاب تو صرف ،سلمان ،ابوذر،مقداد،اور عمارجيسے ہی لوگ تھے مگر تم لوگ ان کے
بجائے دوسرے لوگوں کو ان کی جگہ شمار کرتے ہوئے ل ٰہذا اب بھی اختالف ختم نہيں ہوگا ،اس لئے بہتر يہی ہوگا کہ ہم ان
حديثوں کے بارے ميں بحث کريں جو کسی طرح سے بھی قابل اعتراض نہيں ہيں جيسے حديث ثقلين ،حديث سفينہ يا وه
روايتيں جن کے بارے ميں ائمہ عليہم السالم نے تصريح کی ہے۔
روايت ميں آيا ہے کہ جب جنا ب سلمان مدائن کی طرف روانہ ہوئے تو اشعث اور جرير نامی دو افراد نے ان سے مالقات
کی مگر انھيں يقين نہ آيا کہ يہی سلمان ہيں ليکن جناب سلمان نے خود ہی اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ميں وہی سلمان
اور صحابی رسول ہوں ،پھر فورا ً آپ نے فرمايا” :ليکن يہ جان لو کہ آنحضرت کا حقيقی صحابی وہی ہے جو ان کے ساتھ
جنت ميں داخل ہوجائے“۔][74
واضح الفاظ ميں يہ کہيں کہ صحابی وہی ہے جو اپنی پوری زندگی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے احکام کی
پابندی کرے اور اس پر آخری عمر تک قائم رہے اس بنا پر جناب سلمان عليہ السالم سے نقل ہوئی حديث سے ہم يہ نتيجہ
اخذ کرتے ہيں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اس طرح کے صحابيوں کی پيروی کرکے ہم جنت وہدايت پا
سکتے ہيں ليکن ميں يہ پوچھتا ہوں کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد کتنے لوگ ايسے تھے جنھوں نے اپنی
راه نہيں بدلی اور آنحضرت کے بتائے ہوئے راستہ پر باقی رہے ؟
ہماری روايتوں کے مطابق تو صرف تين يا چار اصحاب ہی ايسے تھے جو اپنے دين پر باقی رہے جيسے سلمان ،مقداد،
عمار ياسر ،ليکن ان کے عالوه بقيہ سب مرتد ہوگئے تھے“۔
ہے۔
حميد” :حضرت علی اگر چاہتے تو ناکثين )اصحاب جمل(قاسطين )جنگ صفين کی آگ بھﮍکانے والے(اور
مارقين)خوارج(کے سرداروں کو اقتدار اور بيت المال سے خاموش کر ديتے اور اس طرح وه لوگوں کو اپنی طرف مال
ليتے“۔
حق جو ” :تمہاری بات کا انداز بتا رہا ہے کہ تم ايک عام حاکم اور خدائی رہنما جو اپنے ذاتی فائده پر خدا کے احکام کو
ترجيح ديتا ہے دونوں کے درميان فرق کو نہيں سمجھتے ،يہ بہت بﮍی غلطی ہے۔
بہتر يہ ہے کہ حضرت علی عليہ السالم کے دور خالفت ميں ہوئی جنگوں کا ہم اچھی طرح سے جائزه ليں تاکہ يہ بات اچھی
طرح سے واضح ہو جائے۔
جنگ جمل کے وجود ميں آنے کے اسباب معاشرتی برتری اور نا انصافی تھے ان تمام باتوں کو جنگ جمل کی آگ بھﮍکانے
والے اسالم کے نام پر اسالمی حکومت ميں يہی نا انصافياننافذ کرنا چاہتے تھے طلحہ وزبير جيسے لوگ حضرت علی عليہ
السالم سے اپنے لئے بﮍے بﮍے عہده کا مطالبہ کر رہے تھے يہ لوگ صاف صاف آپ سے عہدوں کے متعلق بات کرتے
ہوئے کہا کرتے تھے فالں عہده ہميں دے ديں ،بيت المال کا اتنا حصہ ہمارا ہونا چاہئے۔
اس بيکار خواہش کی بنا پر يہ اسالمی احکام کے خالف باتيں حضرت علی عليہ السالم کی حکومت ميں رائج کرانا چاہتے
تھے مگر حضرت علی عليہ السالم اس بات پر تيار نہيں ہوئے کہ خود غرض لوگوں کو ان کے ذاتی مفاد کی وجہ سے عوام
کے سياه و سفيد کا مالک بنادينن اور انھيں ان پر مسلط کر ديں۔
امام علی عليہ السالم ايک خدا پرست انسان تھے نہ کہ ايک خود خواه اور خود غرض حاکم جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے
خدائی احکامات کو پس پشت ڈال ديتے۔
جنگ صفين ميں بھی معاويہ حضرت علی عليہ السالم سے قانونی طور پر حکومت شام کے تمام اختيارات لينا چاہتا تھا اور
يہ بات بھی واضح ہے کہ معاويہ ان اختيارات کے ذريعہ اپنے خاندان اور اپنی تعريف کرنے والے شکم پر ستوں کو عوام
کی جان ومال پر مسلط کرنا چاہتا تھا اور اس طرح اس کی حکومت يقينا اسالمی اقدار کے برخالف اونچ نيچ اور طبقاتی
تفريق کی بنيادوں پر استوار ہوتی۔
ليکن کياحضرت علی عليہ السالم ايسا کرنے کا موقع ديتے ؟!!کيا اس جيسے بے دين شخص کو اسالمی حکومت کی باگ
ڈور پکﮍا ديتے؟نہينيہ ہرگز نہيں ہو سکتا تھا۔
اسی دوران مغيره بن شعبہ جيسے لوگوں نے بھی ”النصيحة المر اء المسلمين“) ،مسلمانوں کے حاکموں کے لئے نصيحت
(کی نقاب اوڑھ کر حضرت علی عليہ السالم سے اس قسم کے مطالبے کئے ليکن حضرت علی عليہ السالم نے اس کا سخت
جواب ديتے ہوئے فرمايا:
”ولم يکن ﷲ يرانی اتخذت المضلين عضدا“۔][75
بناوں“۔
”-خدا مجھے اس حالت ميں کبھی نہيں ديکھ سکتا کہ ميں گمراہوں کو اپنا مددگار ٔ
اس طرح کے مطالبے اور اس کے نتيجہ ميں حاالت کی سنگينی کا احساس کرتے ہوئے بعض حضرت علی عليہ السالم کے
مخلص اصحاب جيسے عمار ياسر ،ابو الہيثم تيہان وغيره نے آپ کو مشوره بھی ديا کہ وقتی طور پر آپ ان لوگوں سے
محبت اور رغبت کا اظہار کريں اور ان قوم کے لٹيروں کو امتيازی مقامات دے ديں تاکہ وه آپ کی حکومت کے خالف قيام
نہ کريں اور بعض حکام اور گورنروں ميں اہليت نہ پاتے ہوئے بھی انھيں ان کے مقام پر باقی رکھيں کيونکہ يہ لوگ بہر
حال قوم کے بﮍے ہيں ل ٰہذا آپ ان کا خيال کريں“۔
امام علی عليہ السالم نے ان کے جواب ميں کہا:
”اتامرونی ان اطلب النصر بالجور ،فيمن وليت عليہ ،وﷲ ال اطور بہ ما سمر سميرو ما ام نجم فی السماء نجماً۔“][76
”کيا تم مجھے اس بات کا حکم ديتے ہو کہ ميں محکوم لوگوں پر ظلم وجور کے ذريعہ غلبہ حاصل کروں خدا کی قسم جب
تک دنيا موجود ہے اور جب تک آسمان ميں کوئی ستاره دوسرے ستارے کے پيچھے پيچھے چلتا رہے گا ميں اس طرح کا
کام نہيں کر سکتا“۔
اس طرح حضرت علی عليہ السالم کا بے انصافی اور طبقاتی تفريق کرنے والوں سے سختی سے مقابلہ کرنے کی وجہ سے
اس تحريک کے حامی آپ کے مخالف ہوگئے اور جنگ جمل اور صفين ميں دو محاذوں پر وه سامنے آگئے اس کے ساتھ ہی
جنگ صفين ميں ہی جنگ نہروان کی داغ بيل پﮍ گئی تھی ،اس جنگ ميں روباه صفت معاويہ کی طرف سے نيزوں پر قرآن
بلند کرنا اس کے دھوکہ بازی کے ذريعہ صلح کی خواہش نے حضرت علی عليہ السالم کے فوجيوں کو سست کر ديا اور
نوبت يہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ کہنے لگے کہ يہ دوحاکموں کی جنگ ہے اور جوکل تک حضرت علی عليہ السالم کے سا
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
تھی تھے جذبات ميں آکر آپ کو کافر کہنے لگے نتيجہ ميں جنگ نہروان عمل ميں آئی جس ميں شرکت کرنے والے
حضرت علی عليہ السالم کے وه ساتھی تھے جنھوں نے صفين ميں آپ کی طرف سے تلوار چالئی تھی۔اس جنگ ميں
حضرت علی عليہ السالم کے ہاتھوں سے بھاگ نکلنے والوں نے مل کر آپ کے قتل کامنصوبہ بنايا اور اس طرح ”ابن ملجم
اشقی االولين واالخرين“کے ذريعہ آپ شہيد کر ديئے گئے جيسا کہ آپ کے لئے لوگوں نے کہا۔”قتل علی لشدةعدلہ۔“علی
اپنے عدل وانصاف ميں شدت کی وجہ سے قتل کر ديئے گئے“۔
اسی وجہ سے جب آپ کے سر مبارک پر ضربت لگی تو آپ نے فرمايا:
”فزت ورب الکعبة“][77
”کعبہ کے پروردگار کی قسم ميں کامياب ہوگيا“۔
علی عليہ السالم کی کاميابی اس وجہ سے نہيں تھی کہ آپ نے ذاتی اہداف کو اہميت نہيں دی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ آپ
نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک عدالت قائم کرنے اور طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔حضرت علی
عليہ السالم يہ چاہتے تھے کہ ذاتی اور شخصی مفاد کو اسالم کے سياسی اور معاشرتی مفاد پر قربان کرديں تاکہ آئنده آنے
والے مسلمان ظالموں اور ستمگروں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکيں مثال کے طور پر ظالم اسرائيل سے مذاکرے کے لئے تيار نہ
ہوں اور سامراجی طاقتوں سے دوستی کے لئے کبھی ہاتھ نہ بﮍھائيں اور محمدمصطفی صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے اسالم
کو ايک اجنبی اسالم سمجھ کر معاويہ اور يزيد کے اسالم کو نہ اپناليں۔
٩٠۔ استاد اور شاگرد کے درميان ائمہ کی سخاوت کے بارے ميں مناظره
شاگرد” :بہت سی اسالمی روايات ميں ہميں يہ بات ملتی ہے کہ فالں امام نے فالں شاعر يا محتاج کو پيسہ ديا يا اس طرح
کی مختلف روايات ائمہ عليہم السالم کے عطيوں کے بارے ميں وارد ہوئی ہيں کيايہ روايتيں صحيح ہيں؟“
استاد” :ممکن ہے بعض روايتوں کی سند صحيح نہ ہو ليکن اس طرح کی اتنی زياده روايتيں موجود ہيں کہ جن کا انکار نہيں
کی جاسکتا اور قطعی طور پر ان سب ميں کچھ روايتيں تو ہر لحاظ سے صحيح ہيں“۔
نمونہ کے طور پر مندرجہ ذيل چار روايتوں پر توجہ فرمائيں:
سوره حمد پﮍھايا تو آپ نے اسے ہزار دينار ديا اور اس زمانہ
ٔ ١۔عبد الرحمن سلمی نے امام حسين عليہ السالم کے بيٹے کو
کے ہزار حُلے )جو اس وقت کا بہترين لباس ہوا کرتا تھا( انعام کے طور پر دئے اور اس کامنہ موتيوں سے بھر ديا۔][78
٢۔ايک بھٹکاہوا مسافر امام رضا عليہ السالم کی خدمت ميں آکر کہنے لگا ميرے پاس زاد راه ختم ہوگيا ہے آپ مجھے کچھ
پيسے دے ديں تاکہ ميں اپنے وطن واپس جا سکوں ميں وطن پہنچ کر اتنی ہی مقدار ميں آپ کی طرف سے صدقہ دے دوں
گا۔
امام علی رضا عليہ السالم اٹھ کر اپنے گھر کے اندر گئے اور دو سودرہم کی تھيلی ال کر اسے دی اور فرمايا” :يہ پيسہ ميں
نے تمہيں بخش ديا ہے ل ٰہذا يہ الزم نہيں ہے کہ تم ميری طرف سے اتنی مقدار ميں صدقہ دو“۔][79
٣۔امام سجاد عليہ السالم نے ”فرزدق“کے لئے قيد ميں باره ہزار درہم يہ کہہ کر بھيجے کہ تمہيں ہمارے حق کی قسم ہے تم
اسے قبول کر لو اور فرزدق نے قبول کر ليا“۔][80
۴۔دعبل نے اہل بيت عليہم السالم کے مصائب پر ايک مرثيہ پﮍھا تو امام رضا عليہ السالم نے انھيں ايک تھيلی بھيجی جس
ميں سو دينار تھے۔ دعبل نے ان تمام سکوں کو جن پر امام کا نام لکھا تھا عراقی شيعوں ميں بانٹ ديا اور ايک ايک سکے
کے بدلے سو دينا ر لے کر اپنی زندگی آسوده کر لی۔][81
اس سلسلہ ميں اس طرح کی اور بہت سی روايتيں پائی جاتی ہيں۔
شاگرد” :اگر يہ تمام روايتيں صحيح ہيں تو حضرت علی عليہ السالم بيت المال کوخرچ کرنے ميں اتنی سختی کيوں کرتے
تھے ؟اور لوگوں ميں برابر سے تقسيم کرتے تھے جيسے ان کے بھائی عقيل نے جب اپنی ضرورت کے تحت اپنا حصہ
بﮍھانے کے لئے کہا تو حضرت علی عليہ السالم نے لوہے کی ايک سالخ گرم کر کے عقيل کے ہاتھ پر رکھ دی جس کے
بعد جناب عقيل نے ايک بلند چيخ ماری تو امام علی عليہ السالم نے فرمايا:
”عورتيں تمہارے سوگ ميں بيٹھيں تم ايک انسان کی جالئی ہوئی آگ سے چيختے ہو ليکن مجھے اس آگ کی طرف بھيج
رہے ہو جسے خدا نے اپنے غيظ و غضب سے جال رکھا ہے تم ايک چھوٹی سی اذيت سے ڈرتے ہو تو کيا ميں ہميشہ
بھﮍگنے والے آگ سے نہ ڈروں؟“][82
استاد” :يہی تمہاری غلطی ہے کہ تم يہ تصور کرتے ہو کہ تمام ائمہ عليہم السالم کی در آمد صرف بيت المال ہی تھی اسی
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
وجہ سے ان کے عطيہ و بخشش اور علی عليہ السالم کی بيت المال ميں سختی کو ايک طرح کاتضاد سمجھ رہے ہو ،جب کہ
حقيقت يہ ہے کہ ائمہ عليہم السالم کی در آمد کے مختلف ذرائع تھے اور حضرت علی عليہ السالم کام کيا کرتے تھے۔
جيسا کہ حضرت علی عليہ السالم نے جب عمر ،ابوبکر اور عثمان کے دور خالفت ميں شيعوں کو بﮍی سخت زندگی
گزارتے ديکھا تو پچيس سال کے دور ميں آپ نے بہت سی زمينوں کو قابل کا شت بنايا اور پھر اسے اپنے شيعوں کے
درميان تقسيم کر ديا تا کہ وه آرام سے ره سکيں۔
آپ نے اس کے لئے ايک وقف تشکيل دے رکھاتھا جو ان زمينوں کی مجموعی در آمد کو فقراء ميں تقسيم کرتے اور فقراء
وپريشان حال شيعوں ميں بانٹ ديا کرتے تھے۔
اسی طرح امام جعفر صادق عليہ السالم ،امام محمد باقر عليہ السالم اور ديگر ائمہ عليہم السالم نے زراعت کی اور جانوروں
کے ذريعہ تجارت کی ہے آپ ان کاموں کے لئے کچھ افراد کو معين کر ديا کرتے تھے کيونکہ انھيں اس با ت کا خيال تھا
کہ مذہب حق کے پيروکار کہيں غربت کی وجہ سے دوسری طرف مائل نہ ہو جائيں اسی لئے ائمہ عليہم السالم اپنے
اصحاب اور خاص خاص دوستوں اور خود اپنی زمينوں اور غلوں سے ہونے والی درآمد کو اپنے غريب شيعوں پر خرچ کر
ديا کرتے تھے اور اسی مال سے ان کا خيال رکھتے تھے اور ان کی حفاظت کرتے تھے ان کے عطيات اور بخششيں اسی
دولت سے ہوا کرتی تھی نہ کہ بيت المال سے۔
شاگرد” :ميں آپ کی اس منطقی گفتگو سے قانع ہوں ليکن ميں آپ سے يہ درخواست کرتا ہوں کہ ائمہ عليہم السالم کی در
آمد کے ذرائع کے دوچار نمونے بھی ذکر کرديں“۔
استاد” :بہت ہی اچھا سوال ہے۔ميں چند نمونے ذکرکرتا ہوں“۔
١۔امام علی عليہ السالم نے اپنے دوباغ جس ميں کنواں بھی تھا ”ابو نيزر“ نامی ايک مسلمان کو دے رکھا تھا جن ميں سے
ايک کانام ”ابو نيزر“ تھا اور دوسرے کا ”بغيبغہ“ان دونوں باغوں ميں کاشتکاری بھی ہوتی تھی۔
”ابو نيزر“ کا بيان ہے کہ ”ايک روز ميں باغ ميں تھا اسی دوران علی عليہ السالم باغ ميں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمايا
کيا تمہارے پاس کھانا ہے ؟“
ميں نے کہا” :اسی باغ کے ايک کدو کو ميں نے پکايا ہے“ ،آپ نے جا کر وه کھاناليا اور کھانا کھانے کے بعد بيلچہ اٹھا کر
اس کھيت ميں داخل ہوگئے۔تھوڑی دير تک کھودنے کے بعد جب آپ پسينے ميں شرابور ہو گئے تو گﮍھے سے باہر آئے
اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد پھر آپ کام ميں مشغول ہو گئے گﮍھے کے اندر سے ميں بيلچہ کی آواز کے ساتھ آپ کی زير
لب آواز بھی سن رہا تھا آپ نے گﮍھے کو کھودا اور اس کی گھاس پھوس صاف کر ديا يہاں تک کہ اونٹ کی گردن کے اتنا
اس ميں پانی بﮍھ گيا اس کے بعد آپ اس گﮍھے سے باہر آئے اور فرمايا ” :خدا کی قسم !ميں نے اس چشمے کو وقف کر
ديا“ ،اس کے بعد آپ نے کاغذ وقلم مانگا ،ميں نے ال کر ديا تو آپ نے وہيں وقف نامہ تحرير کرديا۔
روايت ميں ہے کہ ايک دفعہ امام حسين عليہ السالم مقروض ہو گئے تو معاويہ نے آپ کے پاس دوالکھ درہم بھيجے اور اس
چشمہ کو خريد نے کی خواہش کا اظہار کيا تو امام حسين عليہ السالم نے اسے جواب ديا” :ميرے بابا نے اس کھيت اور
چشمہ کو وقف کرديا ہے تاکہ قيامت ميں جہنم کی آنچ سے محفوظ رہيں،ميں اسے کسی قيمت پر نہيں بيچ سکتا“۔ ][83
٢۔امام محمد باقر عليہ السالم اپنے کھيت ميں پھاوڑا چالنے ميں مشغول تھے کہ اس موقع ”محمد بن منکدر “نام کا ايک زاہد
جاو تو بﮍی سخت حالت ہوگی“۔ نما شخص آپ کو دنيا کا اللچی سمجھ کر کہنے لگا ،اگر تم اسی حالت ميں مر ٔ
امام محمد باقر عليہ السالم نے فرمايا ” :خدا کی قسم اگر اس حالت ميں ميری موت آجائے جب کہ ميں اطاعت خدا ميں
مشغول ہوں تو بﮍی اچھی بات ہوگی کيونکہ ميں تمہاری دنيا کے کسی بھی شخص کا محتاج نہيں رہوں گا ميں تو گناه کے
عالم ميں موت آنے سے ڈرتاہوں“۔][84
اسی طرح کی ايک روايت امام جعفرصادق عليہ السالم کے بارے ميں بھی نقل ہوئی ہے۔][85
٣۔ ابو حمزه کہتے ہيں کہ ميرے باپ نے کہا کہ ميں ايک روز ايک کھيت ميں گيا تو ديکھا کہ امام کاظم عليہ السالم پھاوڑا
چالنے ميں مشغول ہيں اور ان کا بدن پسينے ميں ڈوبا ہوا ہے ميں نے کہا ” :آپ کے غالم اور دوسرے لوگ کہاں ہيں کہ آپ
پھاوڑا چال رہے ہيں ؟ “
آپ نے فرمايا” :جو لوگ مجھ سے اور ميرے باپ سے افضل تھے انھوں نے اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کيا ہے“۔
ميں نے سوال کيا” :وه کون لوگ تھے ؟ “
آپ نے فرمايا:
المومنين وآبائی کلھم کانوا قد عملوا بايديھم وھو من عمل النبيين والمرسلين واالوصياء و الصالحين“۔][86
ٔ وامير ”رسول ﷲ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
آباو اجداد سب کے سب اپنے ہاتھوں سے اپنا ”رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور حضرت علی عليہ السالم اور ميرے ٔ
کام کيا کرتے تھے يہ انبياء اور صالح اوصياء کاکام ہے“۔
شاگرد” :ميں آپ کے اس قانع کننده جواب کے لئے بہت شکر گزار ہوں اس طرح کی اور باتيں ہوں تو آپ بيان فرمائيں،تاکہ
ميں زياده سے زياده استفاده کر سکوں“۔
استاد” :ضروری بات يہ کہ ائمہ عليہم السالم کے زمانہ ميں شيعہ جو حقيقی اسالم پر عمل پيرا تھے ان کی حالت نہايت ابتر
تھی اور روز بروزان پر سختياں بﮍھتی رہتی تھيں کيونکہ ان کے حقوق اور وظيفے بند کر ديئے جاتے تھے جس کی وجہ
سے وه نہايت فقيرانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے تھے،اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ شيعوں کی حفاظت اسالم
ارکان کی حفاظت تھی اور اسالم دشمن طاقتوں کے ہاتھ کانٹنے کی مترادف تھا ،اس لئے ان لوگوں کو خمس و ٰ
زکوة اور
بيت المال ميں سے دينا بھی جائز تھا) ،البتہ اس طرح کہ ان کے اندر تبعيض نہ ہوسکے( تاکہ ان کے ذريعہ ناپاک لوگوں
کے شر سے حقيقی اسالم بچارہے کيونکہ بيت المال کے مصرفوں ميں سے ايک مصر ف اسالم کی استواری اور اس کے
استحکام کے لئے خرچ کرنا بھی ہے۔][87
٩١۔حضرت علی عليہ السالم کی عظمت اور مسئلہ وحی کے بارے ميں مناظره
مسجد لوگوں سے چھلک رہی تھی اور ايک عالم دين نے حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں تقرير کرتے کرتے مندرجہ
ذيل روايت کو نقل کيا:
”ايک روز پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے پانی مانگا تو اس وقت آپ کے پاس صرف علی ،جناب فاطمہعليہ
السالم اور امام حسن وامام حسين عليہم السالم موجود تھے۔آپ کو پانی الکر ديا گيا آپ نے پہلے اسے امام حسن عليہ السالم
کی طرف بﮍھا ديا اس کے بعد امام حسين عليہ السالم اور آخر ميں جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی طرف بﮍھا يا تو آپ
نے فرمايا” :ھنيئا ًمريئا لک ،آپ کے لئے گوارا رہو“۔
ليکن جب علی عليہ السالم کی طرف پانی بﮍھا يا اور آپ نے پانی پيا تو آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا:
”ھنيئا مريئا لک يا ول ّي وحجتی علی خلقی“۔
” اے ميرے ولی اور ميری امت پر ميری حجت آپ کے لئے گوارا رہو“۔
اور آپ سجده ميں چلے گئے ،جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا نے رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمسے پوچھا” :آپ
کے سجده کا کيا راز تھا ؟ “ ،پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا” :جب تم لوگوں نے پانی پيا اور ميں نے کہا:
”ھنيئا مريئا “تو ميرے کانوں ميں آوازا ٓئی کہ ميرے ساتھ ساتھ فرشتے بھی يہی کہہ رہے ہيں ليکن جب علی عليہ السالم نے
پانی پيا اور ان کے لئے ميں نے ”ھنيئا مريئا لک“کہا تو ميرے کانوں ميں خدا کی آواز پہنچی کہ وه بھی يہی کہہ رہا ہے
جس کی وجہ سے اس کی نعمت پر سجده شکر بجااليا“۔][88
سامع” :کيا خدا بولتا ہے کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اس کی آواز سنی ؟ “
مقرر” :خدا وند متعال مکان يا فضا ميں آواز پيدا کرديتا ہے جسے اس کا پيغمبر سنتا ہے بالفاظ ديگر :انبياء اور خدا ميں تين
طرح سے ارتباط ہوتا ہے۔
(١قلب پر القاء کرنا جو بہت سے انبياء پر وحی نازل ہونے کے بارے ميں پاياجاتا ہے۔
سوره بقره آيت ٩٧ميں اس کا ذکر کيا گيا ہے۔
ٔ (٢جبرئيل عليہ السالم کے ذريعہ جو وحی خدا النے والے ہيں جيسا کہ
موسی عليہ السالم سے باتٰ (٣حجاب کے پيچھے سے ياکسی چيز ميں آواز ايجاد کرنا جيسا کہ خد اوند متعال نے جنا ب
کی۔
ْ َ
” َوکل َم ﷲُ ُمو َسی تکلِي ًما“ ][89 ﱠ َ
موسی سے با قاعده گفتگو کی ہے“۔ ٰ ”اور )ﷲ نے(
موسی عليہ السالم نے آگ کے اندر سے خدا کی ا ٓواز ٰ سوره طہ کی ١١ويں اور ١٢ويں آيت کے مطابق حضرت ٔ اسی طرح
سنی۔
َ َ
ک“ ب
ﱡ
َ َ ر َا ن ٔ
ا ی ﱢ ن ”فَلَ ﱠما َ ِ َ ُ َ ِٕ
ا ی س و ما ي ی د و ُ ن ا ہ َا ت ٔ
ا
موسی !بال شبہ ميں تمہارا پروردگار ہوں“۔
ٰ ” جب وه اس )آگ (کے پاس آئے تو ندادی گئی اے
شوری کی ۵١ويں آيت ميں ان تين طريقوں کی وحی کی وضاحت کی گئی ہے اس طرح خداوند عالم فضايا کسی ايک ٰ سوره
ٔ
چيز ميں آواز پيدا کرتا ہے جسے اس کے انبيا سنتے ہيں۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سامع” :معاف کرنا ميں خيال کررہا تھا کہ وحی کی صرف ايک قسم ہے جو صرف جناب جبرئيل عليہ السالم کے ذريعہ آتی
ہے ليکن آپ کے بيان سے معلومات ميں اضافہ ہو ا اور ساتھ ساتھ ميں يہ بھی سمجھ گيا کہ خدا وند متعال کے نزديک علی
عليہ السالم کی منزلت کيا ہے جيسا کہ خداوند متعال نے اپنے پيغمبر کے ساتھ ہم زبان ہو کر فرمايا” :ھنيئا مريئا“۔
ليکن ميرادوسرا سوال يہ ہے کہ کياقرآن کی آيتوں کے عالوه بھی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر وحی کے طور
پر کچھ چيزيں نازل ہوئی ہيں؟ “
مقرر” :ہاں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم قرآنی آيات کے عالوه احکام وغيره کے بارے ميں بہت سی باتيں بتاتے
تھے جو تمام کی تمام وحی ٰالہی ہوتی تھيں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے معارف اور احکام ٰالہی کو صرف وحی
کے ذريعہ لوگوں کو بتايا جيسا کہ سوره ٔ نجم کی دوسری اور تيسری آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں:
ق ع َْن ْالہَ َوی ِٕا ْن ہُ َو ِٕاالﱠ َوحْ ٌ
ی يُو َحی “ ” َو َما يَ ْن ِط ُ
”اور وه اپنی خواہش سے کچھ نہيں بولتاوه وہی کہتا ہے جو وحی ہوتی ہے“۔
ل ٰہذا موسی عليہ السالم نے سوال رويت کواپنی قوم کی زبان سے کيا تھا کيونکہ
موسی عليہ
ٰ آپ نے اپنی قوم کی ضد پر خدا سے اس طرح کا سوال کرنے پر مجبور تھے ،ليکن جب زلزلہ آيا تو جناب
موسی عليہ السالم نے خدا سے عرض کيا: ٰ السالم کے عالوه تمام ٧٠افراد ہالک ہوگئے اور جناب
”اتھلکنا بما فعل السفھاء منّا“ ][92
”کيا تو ہميں اس کام کے لئے ہالک کر رہا ہے جو ہمارے بيوقوفوں نے انجام ديا ہے ؟ “
پاوگے ليکن کوه طور پر موسی عليہ السالم سے فرمايا” :تم مجھے ہر گز نہيں ديکھ ٔ ٰ جس کے بعد خداوند متعال نے جناب
لگاو اگر يہ خود اپنی جگہ پر باقی ره گيا تو مجھے ديکھ لو گے “ ،جب خدا وند متعال کی کوه طورپر تجلی ہوئی چکر ٔ
موسی عليہ السالم بے ہوش ہو کر گر پﮍے اورجب ہوش آياتو خدا وند متعال سے کہا: ٰ توکوه طورٹکﮍے ٹکﮍے ہو گيا جناب
ک َوأَنَا أَ ﱠو ُل ْال ُم ْؤ ِمنِينَ “][93
ْت ِٕالَ ْي َ
ک تُب ُ
” ُس ْب َحانَ َ
”پاک پاکيزه ہے تو ،ميں نے توبہ کی اور ميں سب سے پہال مومن ہوں“۔
پرالہی جلوه )جيسے گرج ،چمک اوربجلی( کے ظاہر ہونا اپنے آثار ظاہر کرنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے پہاڑ ٰ
موسی عليہ السالم اور ان کے ساتھيوں کو خدا وند متعال نے اپنی قدرت نمائی سے ايسا بے ٰ پہاڑ ٹکﮍے ٹکﮍے ہو گيا اور
ہوش کيا کہ تم لوگ سمجھ لو کہ جب خدا کی ايک قدرت کا اثر کا تحمل نہيں کر سکتے تو اس کے پورے وجود کو سمجھنے
کی کوشش کيوں کرتے ہو؟ تم ہر گز اپنی ان مادی آنکھوں سے خداوند متعال کے مجرد وجود کو نہيں ديکھ سکتے ہو اس
موسی عليہ السالم کے ساتھيوں نے خداوند متعال کو قلب کی آنکھوں سے ديکھا اور ساتھ ساتھ انھيں يہ بھی ٰ طرح جناب
معلوم ہو گيا کہ اسے ان ظاہری آنکھوں سے ہر گز نہيں ديکھا جا سکتا ہے“۔
طالب علم” :آپ کے اس مفصل بيان کا بہت شکريہ ميں اس موضوع پر مطمئن ہو گيا اور اس چيز کی اميد رکھتا ہوں کہ
اسی طرح آپ منطقی استدالل سے ميرے باقی دوسرے شبہات کوبھی جنھيں ميں انشاء ﷲ کسی دوسرے وقت بيان کروں گا
بيان فرمائيں گے“۔
موسی عليہ السالم
ٰ عالم دين” :قابل توجہ بات تو يہ کہ اہل سنت کے اکثر مفسرين آيت الکرسی کی تفسير کرتے ہوئے جنا ب
کے واقعہ سے مشابہ دوسرايک واقعہ نقل کرتے ہيں جس کا خالصہ يہ ہے:
موسی عليہ السالم نے عالم خواب )يا بيداری کی حالت ميں( ميں فرشتوں کو ديکھا تو ان سے سوال کيا کہ ”کيا ہمارا ٰ ”جناب
موسی عليہ
ٰ موسی عليہ السالم کو سونے نہ دو فرشتوں نے جناب ٰ خداسوتاہے ؟خداوند متعال نے اپنی فرشتوں پر وحی کی کہ
موسی عليہ السالم تھک کر ٰ السالم کو تين بار نيند سے بيدار کيا اور ان کے ساتھ وه لگے رہے تاکہ وه سونے نہ پائيں جناب
چور ہو گئے اور نيند کا احساس کيا تو خداوند متعال کی وحی کے مطابق ان کے دونوں ہاتھوں ميں پانی بھری دو شيشياں
موسی عليہ السالم اپنے دونوں ہاتھوں ميں ان دونوں شيشيوں کو لئے ہوئے ان کی حفاظت کر رہے تھے ٰ تھما دی گئيں۔ جناب
يہ ديکھ فرشتے چلے گئے اور ابھی چند لمحے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ نيند کا اثر غالب آيااور اسی وقت ان کے ہاتھ
موسی عليہ السالم پر وحی کی ميں زمين ٰ سے شيشياں چھوٹ کر گر گئيں اور وه چور چور ہو گئيں۔خدا وند متعال نے جناب
وآسمان کو اپنی قدرت سے بچائے ہوئے ہوں ”فلو اخذنی نوم اونعاس لزالتا“ ][94اگر نيند يا ہلکی سی جھپکی بھی مجھ پر
غالب آجائے تو زمين وآسمان فنا ہو جائيں۔
موسی عليہ السالم نے کيسے فرشتوں سے اس طرح کا سوال کيا جب کہ وه ٰ يہاں پر ايک سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ جناب
پيغمبر تھے اور جانتے تھے کہ خداوند متعال جسم کی تمام ضرورتوں جيسے نيند وغيره سے پاک وپاکيز ہے؟
فخر رازی اس سوال کے جواب ميں کہتے ہيں” :اگر ہم فرض کريں کہ مذکوره روايت صحيح ہے تو ہميں مجبورا ً کہنا
موسی عليہ السالم کا يہ سوال نہ تھا بلکہ ان کی جاہل اور ہٹ دھرم قوم کا سوال تھا“۔][95 ٰ پﮍے گا کہ
موسی عليہ السالم اپنی قوم کے اصرار اور ضد سے پريشان ہوکر خدا وند متعال کی ٰ واضح طور پر يوں کہا جائے کہ جناب
بارگاه ميں اس طرح کا سوال کرتے تھے تاکہ خدا وند متعال انھيں اپنی واضح نشانيوں کے ذريعہ ہدايت کردے اور جناب
موسی عليہ السالم کے ہاتھ سے شيشيوں کا ٹوٹنا اگر چہ ايک بہت ہی معمولی سا حادثہ ہے ليکن عام لوگوں کو سمجھانے ٰ
کے لئے يہ بہت ہی اہم اور ضروری تھا۔
موسی عليہ السالم کی قوم ميں اس طرح کے پس وپيش والے لوگ تھے جو اس طرح ٰ ممکن ہے يہ بھی کہا جائے کہ جناب
موسی عليہ السالم نے ايسے لوگوں کی ہدايت کے لئے خداوند عالم سے اس طرح سوال کيا ٰ کی باتيں کيا کرتے تھے جناب
تاکہ اس کے واضح جواب ميں اپنی قوم کو گمراہی سے نجات دے سکيں۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٩٣۔طالب علم اور عالم دين کے درميان مہر کے مسئلہ ميں دوسرا مناظره
طالب علم” :ميں نے مکرر يہ بات سنی ہے کہ اسالم نے اس بات کی تاکيد کی ہے کہ عورتوں کی مہر کم سے کم رکھی
جائے يہاں تک کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے:
”شوم المرأة غالء المھر“ ۔][96
منحوس عورت وه ہے جس کی مہر زياده ہو“۔
”افضل نساء امتی اصبحن وجھاواقلھن مھرا “)[97](٢
”ميری امت کی بہترين عورتيں وه ہيں جو سب سے زياده خوبصورت اور ہنس مکھ ہوں اور جن کا مہر سب سے کم ہو“۔
ليکن قرآن کريم ميں دوجگہ ايسی آيتيں پائی جاتی ہيں جہاں زياده سے زياده مہر قرار دينا بہتر کہا گيا ہے اور قرآن نے بھی
اس بات پر رضايت کا اظہار کيا ہے“۔
عالم دين” :قرآن ميں کہاں اس طرح کی باتيں آئی ہيں ؟ “
طالب علم” :پہلی جگہ سوره ٔ نساء کی بيسويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں:
ج َوآتَ ْيتُ ْم ِٕاحْ دَاہ ﱠُن قِنطَارًا فَالَتَ ْأ ُخ ُذوا ِم ْنہُ َش ْيئًا“۔ َ
” َو ِٕا ْن أ َر ْدتُ ْم ا ْستِ ْبدَا َل َزوْ ٍ
ج َم َکانَ َزوْ ٍ
”اور اگر تم نے اپنی بيوی کے بجائے کسی اور عورت سے شادی کرنے کا اراده کر ليا ہے تو جو تم نے اسے مال کثير ديا
تھا اس ميں سے کچھ واپس نہ لو“۔
لفظ ”قنطار “کے معنی بہت سے مال ہو تے ہيں۔جو ہزاروں درہم ودينا رکے لئے کہاجا تا ہے۔قرآن کی اس آيت ميں لفظ
قنطار اليا گيا ہے جس پر قرآن نے کسی طرح کہ تنقيد بھی نہيں کی ہے بلکہ يہ فرمايا ہے کہ ان سے کچھ واپس نہ لو ،اس
طرح اس آيت سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی مہر زياده قرار دينا بری بات نہيں ہے ورنہ قرآن اس بری بات پر ضرور
کچھ نہ کچھ کہتا۔
اسی بنا پر روايت ميں آيا ہے کہ عمربن خطاب نے اپنی خالفت کے زمانہ ميں جب ديکھا کہ لوگ عورتوں کی مہر زياده
سے زياده رکھ رہے ہيں تو وه منبر پر گئے اور لوگوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا” :تم لوگ کيوں زياده مہر رکھتے
ہو“۔اور خبردار کيا کہ اب اگر ميں نے سن ليا کہ کسی نے اپنی بيوی کی مہر چار سو درہم سے زياده رکھی ہے تو اس پر
حد جاری کروں گا اور چار سو درہم سے زياده رقم کو بيت المال ميں جمع کردوں گا“۔
ايک عورت نے منبر کے نيچے سے کہا:
”کيا تم مجھے چار سو درہم سے زياده مہر رکھنے سے منع کرتے ہو اور اگر کسی نے زياده رکھی تو اس سے لينے کو
کہتے ہو ؟ “
عمر نے کہا” :ہاں“۔
عورت نے کہا” :کيا قرآن کی يہ آيت تم نے نہيں سنی ہے جس ميں خدا وند متعال فرماتا ہے:
” َوآتَ ْيتُ ْم ِٕاحْ دَاہ ﱠُن قِنطَارًا فَالَتَ ْأ ُخ ُذوا ِم ْنہُ َش ْيئًا“][98
”اور اگر تم کسی زوجہ کو مال کثير بھی )بعنوان مہر( دے چکے ہو تو خبردار اس ميں سے کچھ واپس نہ لينا“۔
عمر نے اس عورت کی بات کی تصديق کی اور استغفار کرتے ہوئے کہا:
”کل الناس افقہ من عمر حتی المخدرات فی الحجال“۔][99
”تمام لوگ يہاں تک کہ پرده ميں رہنے والی عورتيں بھی عمر سے زياده فقيہ ہيں۔
پہلے،زمانہ جاہليت ميں يہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص اپنی ٔ عالم دين” :مذکوره آيت کی شان نزول يہ ہے کہ اسالم سے
پہلی بيوی کو طالق ديکر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو اس پر بری بری تہمتيں لگاتا تھا تاکہ وه پريشان ہو کر اپنی وصول
شده مہر کو واپس دے کر طالق لے لے اور بعد ميں اسی مہر کو وه اپنی دوسری بيوی کے لئے معين کر دے۔
اسالم کی نظر ميں مہر کا کم قرار دينا بہتر ہے ليکن اگر کسی سے يہ فعل سرزد ہوگيا اور اس نے عورت کی زياده مہر
معين کر دی تو بعد ميں بغير عورت کی رضامندی کے اس کو کم نہيں کيا جا سکتا۔اسی بنا پر مذکوره آيت مہر کو کم
رکھنے کے حکم سے کسی طرح بھی منافات نہيں رکھتی اور حضرت عمر اور عورت کے بحث ميں يہ کہنا چاہئے کہ
عورت کا جواب بالکل صحيح تھا کيونکہ عمرنے کہا تھا کہ اگر کسی نے چار سو درہم سے زياده مہر معين کی تو اضافی
رقم لے کر بيت المال ميں جمع کر دی جائے گی ،عورت نے مذکوره آيت پﮍھ کر عمر سے کہا مہر،معين کرنے کے بعد تم
بقيہ رقم واپس لينے کا کوئی حق نہيں رکھتے۔عمر نے بھی عورت کی اس بات کو قبول کرليا۔
نتيجہ يہ کہ اسالم ميں کم مہر رکھنا مستحب موکد ہے ليکن اگر اس سنت کو کسی نے ترک کيا اور زياده مہر رکھ ديا تو
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
بغير عورت کی رضايت کے اسے کم کرنے کا حق نہيں رکھتا۔
طالب علم” :آپ کے اس مفصل بيان کا شکريہ جو بہت ہی منطقی تھا اورميں اس سے قانع ہو گيا۔۔۔ اب مجھے اجازت ديجئے
کہ ميں آپ کی خدمت ميں دوسرا سوال پيش کروں“۔
عالم دين” :فرمائيں“۔
موسی عليہ ٰ موسی عليہ السالم اور جناب شعيب عليہ السالم کا واقعہ ملتا ہے جب جناب ٰ طالب علم” :قرآن کريم ميں جناب
السالم فرعونيوں کے ڈر سے بھاگ کر مدائن شہر پہنچے اور آخر ميں جناب شعيب عليہ السالم کے گھر ميں داخل ہوئے تو
موسی عليہ السالم سے کہا: ٰ جناب شعيب عليہ السالم نے جناب
َ َ ُ
ک َو َما أ ِري ُد أ ْن أ ُش ﱠ
ق َعلَ ْي َ ْ َ
ج فَإِ ْن أ ْت َم ْمتَ َعشرًا فَ ِم ْن ِع ْن ِد َ ْ َ ” قَا َل ِٕانﱢی أُ ِري ُد أَ ْن أُن ِک َح َ
ک ی ہَاتَي ِْن َعلَی أ ْن تَأ ُج َرنِی ثَ َمانِيَةَ ِح َج ٍ
ک ِٕاحْ دَی ا ْبنَتَ ﱠ
َست َِج ُدنِی ِٕا ْن شَا َء ﷲُ ِم ْن الصﱠالِ ِحين“][100
”ميں اپنی ان دونوں بيٹيوں )صفورا ولعيا(ميں سے کسی ايک کی شادی تمہارے ساتھ اس شرط پر کرنا چاہتاہوں کہ تم آٹھ
سال تک ميرے يہاں کام کرو اور اگر تم نے اسے دس کرديا تو يہ تمہاری مرضی ہے ،ميں تمہيں مشقت ميں نہيں ڈالنا چاہتا
پاوگے“۔ اور تم انشاء ﷲ مجھے صبر کرنے والوں ميں ٔ
موسی عليہ السالم نے جناب شعيب کی اس خواہش کی قدر کی اور ان کی درخواست قبول کيا۔ ٰ جناب
يہ واضح سی بات ہے کہ آٹھ سال کا م کرنا بہت ہی زياده مہر ہے جسے خدا کے دو نبيوں نے قبول کيا ہے اور قرآن نے
بھی بغير کسی تنقيد کے اس واقعہ کو نقل کيا ہے۔
قرآن مجيدکی تنقيد نہ کرنا زياده مہر قرارد ينے کی اجازت ديتا ہے۔
موسی
ٰ موسی عليہ السالم اور جناب شعيب عليہ السالم کے واقعہ کے بارے ميں يہ معلوم ناچاہئے کہ جناب ٰ عالم دين” :جناب
عليہ السالم کی جناب شعيب عليہ السالم کی لﮍکيوں کے ساتھ شادی معمولی شادی نہيں تھی بلکہ يہ ايک مقدمہ تھا تاکہ
موسی عليہ السالم شہر مدائن کے ”شيخ “جناب شعيب عليہ السالم کے مکتب ميں کافی دن تک ره کر علم وکمال حاصل ٰ
کريں۔
موسی عليہ السالم نے ان کے يہاں کئی سال کام کر کے مہر ادا کی ليکن شعيب عليہ السالم نے بھی ٰ اگر چہ درست ہے کہ
موسی
ٰ موسی عليہ السالم اور ان کی بيوی کی زندگی کا خرچ ٰ موسی عليہ السالم اور ان کی بيوی کا خرچ چال يا اور اگر ٰ
عليہ السالم کی مزدوری سے کم کر ديا جائے تو بہت کم مال باقی بچتا ہے اور اس لحاظ سے مہر کی مقداربہت کم قرار
پائے گی۔
موسی کی مادی ومعنوی زندگی کے تحفظ کے لئے ايک ٰ ل ٰہذا اس طرح جناب شعيب کی بيٹی کا بھاری مہر در اصل جنا ب
مقدمہ تھا جو جناب شعيب نے اپنی بيٹی کی مرضی سے انجام ديا تھا۔
واضح اور روشن عبارت ميں يہ عرض کيا جائے کہ جناب شعيب عليہ السالم ظاہری طور پر بھاری اور زياده مہر قرار دے
موسی عليہ السالم کی تنہائی ختم کرنا چاہتے تھے نہ کہ ان کا مقصد انھيں اس مہر سے پريشان کرنا تھا بلکہ ان کا ٰ کر مقصد
موسی عليہ السالم کی زندگی سہل اور آسان بنانا تھا جيسا کہ انھوں نے فرمايا” :مااريد ان اشق عليک “ ”،ميں تمہيں ٰ مقصد
زحمت ميں نہيں ڈالنا چاہتا“۔
طالب علم” :آپ کے دل کش اور استداللی بيان کا بہت شکريہ ،سچ مچ جناب شعيب عليہ السالم نے ذہانت اور ہوشمند انہ
موسی عليہ السالم کی بہت اچھی خدمت کی“۔ ٰ تدبير سے جناب
بات کی تصديق کررہے تھے ،اور اس گفتگو کے درميان انھوں نے بہت سی حديثيں حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں
نقل کيں جن ميں سے ايک يہ تھی کہ پيغمبر اکرم نے حضرت علی عليہ السالم کے لئے فرمايا:
”لحمک لحمی و دمک دمی“۔
”تمہارا گوشت ميرا گوشت تمہارا خون ميرا خون ہے“۔
اور اسی طرح کی دوسری بہت سی روايتيں بھی نقل ہوئی ہيں جو علی عليہ السالم کی دوستی ،پيغمبر اکرم کی دوستی اور
علی عليہ السالم کی دشمنی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی دشمنی پر داللت کرتی ہيں۔
يہاں تک کہ ہماری گفتگو کا سلسلہ لعن معاويہ تک بات پہنچا تو ان لوگوں نے کہا” :معاويہ پر لعنت کرنا جائز نہيں ہے ليکن
يزيد پر لعنت کرنا چاہئے کيونکہ اس نے امام حسين عليہ السالم کو قتل کيا ہے“۔
ميں نے کہا” :تمہارے مذہب کے مطابق پر لعنت کرنا جائز ہونا چاہئے کيونکہ اس پر لعنت کرنے کا جواز تمہاری ابھی حال
ميں کہی ہوئی باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم کے بارے ميں فرمايا:
”اللھم عاد من عاداه“۔
)خدايا تو اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے (
يہ بات مسلم ہے کہ معاويہ حضرت علی عليہ السالم کا سخت ترين دشمن تھا يہاں تک کہ مرتے وقت تک آپ سے دشمنی
روارکھی اور توبہ و استغفار بھی نہيں کيا اور اس طرح اس نے آپ کی دشمنی کی وجہ سے آخری عمر تک آپ کو برا بھال
کہنا نہيں چھوڑا جب کہ اس چيز کو وه آسانی سے چھوڑا سکتا تھا۔اس دليل کے ذريعہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم
نے حضرت علی عليہ السالم کے دشمنوں کے لئے بددعا کی ہے اور معاويہ حضرت علی عليہ السالم کا جانی دشمن تھا ل ٰہذا
اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔][101
يہاں پر توضيح کے طور پر اس بات پر توجہ رہے کہ اہل سنت کی معتبر کتابوں کے مطابق رسول اسالم نے خود ابو
سفيان ،معاويہ اور يزيد پر لعنت کی ہے [102]،يہاں تک کہ فرمايا” :جب بھی معاويہ کو منبر کے پر ديکھو،اسے قتل کردو۔
][103
اورا گر يہ کہا جائے )جيسا کہ معاويہ کا دفاع کرنے والے کہتے ہيں(کہ معاويہ نے اجتہاد کی رو سے علی عليہ السالم سے
دشمنی کی تو اس کے جواب ميں ہم کہتے ہيں کہ نص کے مقابلہ ميں ہر گز اجتہاد جائز نہيں ہے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ
عليہ و آلہ و سلم اس کی باطنی خباثت سے اچھی طرح آگاه تھے جس کی وجہ سے آپ نے اس کو اس طرح بددعا دی۔اہل
سنت کی روايات کے مطابق رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک دن اس پر اس طرح لعنت کی:
”خدايا معاويہ اور عمر وعاص کو جہنم ميں ڈال دے“۔][104
اہل سنت حضرات کے يہاں جو اصحاب محترم اور قابل قبول سمجھے جاتے ہيں انھوں نے بھی معاويہ کے بارے ميں سخت
باتيں کہيں ہيں) ،اس کی مزيد وضاحت کے لئے آپ کتاب الغدير جلد ١٠صفحہ ١٣٩سے ١٧٧کا مطالعہ کريں(
شيخ حر عاملی )متوفی ١١٠۴ھ ( غزالی صاحب کتاب ”احياء العلوم “کی بات کی ترديد کرتے ہوئے لکھتے ہيں :غزالی نے
صراحت کے ساتھ يہ کہا ہے کہ يزيد اور حجاج پر لعن وطعن کرنا جائز نہيں ہے“!!
اس کے شيخ حر عاملی فرماتے ہيں” :خاندان رسالت سے دشمنی و عداوت رکھنا کيا اس سے بھی زياده ممکن ہے جو
غزالی ان سے رکھتا تھا؟ جب کہ شيعہ اور سنی دونوں روايتوں سے نقل ہو ا ہے کہ ايک روز ابو سفيان اونٹ پر سوار تھا
معاويہ اس کی مہار پکﮍے ہوئے اسے کھينچ رہا تھا اور يزيد پيچھے سے ہانک رہا تھا۔
پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان تينوں کو ديکھ کر فرمايا:
”لعن ﷲ الراکب والقائد والسائق“۔
”خدا! سوار ،مہارپکﮍنے والے اور ہانکنے والے تينوں پر لعنت کرے“۔
سوره نساء ميں آيت (٩٣ميں يہ نہيں فرمايا ٔ اس کے بعد شيخ حر عاملی کہتے ہيں” :کيا خدا وند متعال نے قرآن مجيد )کے
ہے:
َظيما“ً َ
ب ﷲُ َعلَ ْي ِہ َولَ َعنَہُ َوأ َع ﱠد لَہُ َع َذابًا ع ِ ْ
” َو َم ْن يَقتُلْ ُم ْؤ ِمنًا ُمتَ َع ﱢمدًا فَ َجزَا ُؤهُ َجہَنﱠ ُم خَالِدًا فِيہَا َوغ ِ
َض َ
”اور جو بھی مومن کو عمداً قتل کرتا ہے اس کی جزا جہنم ہوتی ہے وه وہاں ہميشہ رہے گا ،ﷲ اس پر غضبناک ہوتا ہے
اور اس پر لعنت بھيجتا ہے اور اس کے لئے درد ناک عذاب تيار رکھتا ہے“۔
کيا غزالی اس بات کا معتقد ہے کہ امام حسين عليہ السالم مومن نہيں تھے جس کی وجہ سے ان کے قاتل يزيد پر لعنت
جائزنہيں سمجھتا ہے ،کيا بے انصافی ہے!!؟][105
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٩۵۔ امام حسين عليہ السالم پر گريہ سے متعلق واعظ اور سامع کے درميان مناظره
ايک بہت ہی پﮍھے لکھے واعظ نے منبر پر تقرير کے دوران امام حسين عليہ السالم پر رونے کے سلسلے ميں بہت سی
روايتيں نقل کيں جن ميں ايک يہ کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا:
”کل عين باکية يوم القيامة االعين بکت علی مصائب الحسين فانھا ضاحکة مستبشرة بنعيم الجنة“۔][106
”روز قيامت ہر آنکھ گريہ کنا ں ہوگی ليکن امام حسين عليہ السالم کی مصيبت پر رونے والی آنکھيں خدا کی نعمت ديکھ کر
ہشاش وبشاس ہوں گی“۔
منبر سے اترنے کے بعد ايک سامع اور واعظ کے درميان حسب ذيل طريقہ سے مناظره ہوا:
سامع” :يہ تمام اجر وثواب گريہ امام حسين عليہ السالم پر کيوں ہے ؟ جب کہ امام حسين عليہ السالم دنيا ميں عظيم انقالب ال
کر کامياب و سربلند ہوئے اور اپنے خون سے يزيديوں کو رسوا کيا اور ان کے چہرے ہميشہ کے لئے کالے کر ديئے اور
آخرت ميں اس کے بدلے آپ کو بہترين مقام ديا گيا ہے اور آج بھی آپ برزخ اور جنت کی نعمتوں سے بہره مند ہو رہے
سوره آل عمران ميں ارشاد فرماتا ہے:
ٔ ہيں۔اور اسالمی نظريہ کے مطابق امام حسين عليہ السالم زنده ہيں جيسا کہ قرآن مجيد
ﷲ أَ ْم َواتًا بَلْ أَحْ يَا ٌء ِع ْن َد َرب ِﱢہ ْم يُرْ َزقُون“][107
يل ِ” َوالَتَحْ َسبَ ﱠن الﱠ ِذينَ قُ ِتلُوا ِفی َس ِب ِ
”اور ﷲ کی راه ميں قتل ہوجانے والوں کو مرده نہ سمجھنا بلکہ وه لوگ زنده ہيں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہيں“۔
واعظ” :ميں نے ايسی متعدد روايتيں ديکھی ہيں جن ميں امام حسين عليہ السالم پر گريہ و زاری اور عزاداری کرنے کی
تاکيد کی گئی ہے اور اس گريہ و زاری کو برابر زنده رکھنے کے بارے ميں کہا گيا ہے اور شيعہ وسنی دونوں روايتوں
ميں آيا ہے کہ روز قيامت فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا خداوند متعال کی بارگاه ميں اس طرح عرض کريں گی:
”اللھم اقبل شفاعتی فيمن بکی علی ولدی الحسين“۔
”پالنے والے ميرے بيٹے حسين پر گريہ کرنے والوں کے لئے ميری شفاعت قبول کر“۔
اسی روايت کے ذيل ميں آيا ہے:
”فيقبل ﷲ شفاعتھا ويدخل الباکين علی الحسين عليہ السالم فی الجنة“۔][108
”خدا وند عالم فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی شفاعت قبول کرے گا اور امام حسين عليہ السالم پر گريہ کرنے والوں کو جنت
ميں داخل کرے گا“۔
متعدد روايتوں کے مطابق انبياء عليہم السالم اورپيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے امام حسين عليہ السالم پر گريہ کيا
ہے اور عزاداری برپا کی ہے۔
کيا اگر ہم اوليائے خدا اور بارگاه خدا وندی کے مقرب بندوں کی پيروی ميں امام حسين عليہ السالم پر گريہ کريں توکوئی
اعتراض کا مقام ہے ؟نہيں قطعا ً نہيں ،بلکہ اس عظيم سنت کو زنده کرنے اور ائمہ عليہم السالم کی اس چيزکی اقتداء ميں
بہت ہی اجر وثواب ہے يہاں پر ائمہ معصومين عليہم السالم نے گريہ امام حسين عليہ السالم کو کتنی اہميت دی ہے اس کے
بارے ميں سے دو عجيب واقعے نقل کر رہے ہيں مالحظہ فرمائيں:
١۔ايک روز امام سجاد عليہ السالم نے سنا :ايک شخص بازار ميں يہ کہہ رہا ہے :ميں ايک مسافر ہوں مجھ پر رحم کرو۔)انا
الغريب فارحمونی(
امام سجاد عليہ السالم اس کے پاس گئے اور اس کی طرف متوجہ ہو کر آپ نے فرمايا:
”اگر تيری قسمت اسی )شہر مدينہ ميں(مرنا ہوگی تو کيا يہاں تيری الش کو بے گوروکفن چھوڑ ديا جائے گا ؟“
اس غريب مرد نے کہا” :ﷲ اکبر کس طرح ميرے جنازه کو دفن نہيں کريں گے جب کہ ميں مسلمان ہوں اور اسالمی امت
کی آنکھوں کے سامنے ہوں“۔
امام سجاد عليہ السال م نے روتے ہوئے فرمايا:
”وا اسفاه عليک يا ابتاه۔تبقی ثالثة ايام بالدفن وانت ابن بنت رسول ﷲ“۔][109
”کتنے افسوس کی بات ہے اے ميرے بابا!رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے نواسے ہوتے ہوئے بھی آپ کی الش تين
روز تک بے گوروکفن زمين پر پﮍی رہی“۔
٢۔تاريخ ميں آيا ہے کہ منصور دوانقی )دوسرا عباسی خليفہ(نے مدينہ ميں اپنے والی کو حکم ديا کہ امام جعفر صادق عليہ
السالم کے گھر ميں آگ لگا دو۔
والی مدينہ نے حکم پانے کے بعد آگ اور لکﮍی جمع کروائی اور امام جعفرصادق عليہ السالم کے گھر ميں آگ لگادی اور
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
گھر کے داالن سے جب شعلے بھﮍکنے لگے تو مخدرات عصمت گھر ميں رونے يٹنے لگيں يہاں تک کہ ان کی آواز گھر
سے باہر پہنچ گئی امام جعفر صادق عليہ السالم نے بﮍی مشکل سے آگ بجھا ئی اس کے دوسرے دن کچھ شيعہ حضرات
آپ کی احوال پرسی کے لئے گئے تو ديکھا کہ آپ محزون ہيں اور گريہ فرمارہے ہيں ان لوگوں نے کہا” :کيا دشمنوں کے
اس عمل اور ان کی گستاخی پر آپ گريہ کر رہے ہيں جب کہ آپ کے خاندان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پہلی دفعہ نہيں ہوا
ہے؟ “
امام جعفر صادق عليہ السالم نے جواب ميں فرمايا” :مينکل کے واقعہ پر نہيں روہا ہوں بلکہ اس بات پر رورہا ہوں کہ جب
گھر ميں آگ کا شعلہ بھﮍکنے لگا تو ميں نے ديکھا کہ ميرے ہوتے ہوئے عورتيں اور بچياں ايک کمرے سے دوسرے
کمرے اور ايک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ بھاگ کر پناه لے رہی تھيں تاکہ انھيں آگ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔
”فتذکرت عيال جدی الحسين يوم عاشوراء لما ھجم القوم عليھم ومناديھم ينادی احرقوا بيوت الظالمين“۔][110
تو اس وقت مجھے روز عاشوره اپنے جد امام حسين عليہ السالم کے مصيبت زده اہل حرم کی يا د آگئے جب ايک منادی ندا
دے رہا تھا کہ ظالموں کے گھروں کو جال دو“۔
دو مذکوره واقعے اور اس کے عالوه بہت سے قرائن سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام ائمہ عليہم السالم ہميشہ چاہتے تھے
کہ امام حسين عليہ السالم پر گريہ اور ان کی عزاداری برابر لوگوں کے دلوں ميں تازه دم رہے اسی بنياد پر ہم ان کی پيروی
ميں امام حسين عليہ السالم کی مصيبت زنده رکھنے کے لئے ان پر گريہ کرتے ہيں اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس
عمل پرہميں عظيم اجر وثواب عطا ہوگا۔
امام حسين عليہ السالم کے مصائب پر گريہ کرنا اور غمگين ہونا اتنا عظيم اور مقدس عمل ہے کہ امام زمانہ عليہ السالم
زيارت امام حسين عليہ السالم کے ضمن ميں فرماتے ہيں:
”السالم علی الجيوب المضرجات“۔][111
”سالم ان گريبانوں پر جو امام حسين عليہ السال کے غم ميں چاک ہوئے ہوں“۔
سامع” :آپ کی اس راہنمائی کا بہت بہت شکريہ ،بيشک ہميں اپنی زندگی ميں چاہئے کہ ہم ائمہ عليہم السالم کو اپنے لئے
نمونہ عمل قرار ديں ،ليکن يہاں ميرا مطلب يہ ہے کہ تمام احکام حکمت ومصلحت سے خالی نہيں ہيں تمام احکام اپنے ساتھ ٔ
ايک ہدف لئے ہوئے ہيں اور کتنا بہتر ہے اگر ہم ان تمام احکام کو با معرفت انجام ديں نہ کہ اندھی تقليد کرتے ہوئے۔
اسی بنا پرميرا سوال يہ ہے کہ امام حسين عليہ السالم پر گريہ کا کيا مقصد اور کيا سبب ہے ؟ “
واعظ” :امام حسين عليہ السالم پر گريہ اور اس کے مقصد کی وضاحت کے سلسلے ميں چند باتيں کہی جاسکتی ہيں:
١۔شعائر ﷲ کی تعظيم :مرحوم مومن پر گريہ کرنا ايک طرح کا احترام ہے اور يہ گريہ اس بات پر داللت کرتا ہے کہ
معاشره ميں اس کے چلے جانے سے ايک خال واقع ہو گيا ہے اور وه اب موجود نہيں ہے تاکہ لوگ اس کے وجود سے فائده
اٹھائيں۔يہ گريہ اس کے باطنی احساسات ہيں جو مومن کے دنيا سے چلے جانے پر وجود ميں آتے ہيں کيونکہ جب وه مومن
اس دنيا ميں تھا لو گ اس سے مختلف طرح سے مستفيد ہوتے رہتے تھے ،گريہ ايک فطری عمل ہے اور جو شخص جتنا
عظيم ہوگا دنيا والے اس پر اسی حساب سے زياده گريہ کريں گے۔جو دنيا سے جاتا ہے اور اس کے اوپر کوئی گريہ نہيں
کرتا تو گويا يہ اس کی ايک طرح کی بے احترامی ہے۔
ايک شخص نے امام علی عليہ السالم سے پوچھا” :نيک اخالق کيا ہے ؟ “آپ نے جواب ديا:
”ان تعاشروا الناس معاشرة ان عشتم حنوااليکم وان متم بکوا عليکم“۔ ][112
”لوگوں سے اس طرح سلوک کرو کہ جب تک زنده رہو وه تمہارے اشتياق ميں تمہاری طرف کھنچے چلے آئيں اور جب تم
جاو تو تم پر گريہ کريں“۔ مر ٔ
ہر قوم وملت ميں يہ رسم پائی جاتی ہے کہ جب بھی اس کے درميان سے کوئی بزرگ شخصيت اٹھ جاتی ہے تو لوگ اس
کے انتقال پر گريہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہيں امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کی دين محمد ی پر شہادت
بھی ايک عظيم اور ہميشہ باقی رہنے واال واقعہ ہے جس پر گريہ کرنا ان کے ہدف و مقصد کوزنده رکھنا دينی شعائر کی
تعظيم سمجھا جاتا ہے۔
اور قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے:
ب“][113 ” َو َم ْن يُ َعظﱢ ْم َش َعا ِئ َر ﷲِ فَإِنﱠہَا ِم ْن تَ ْق َوی ْالقُلُو ِ
ٰ
تقوی کا نتيجہ ہوگی۔“-- ”اور جو بھی ﷲ کی نشانيوں کی تعظيم کرے گا يہ تعظيم اس کے دل کے
٢۔عاطفی گريہ :امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کی ايک روز )عاشورا( ميں جگر سوز شہادت ہر انسان کے دل
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
کو کباب کر ديتی ہے اور ہر انسان کا دل ظالم و ستمگر کے خالف بر انگيختہ ہوجاتا ہے کربال کا الم ناک واقعہ اس قدر دل
ہال دينے واال ہے کہ اسے زمانہ نہ کبھی بھال سکتا ہے اور نہ ہی اسے پرانا بنا سکتا ہے۔
عيسی عليہ السالم کے دشمنوں نےانھيں پھانسی دے کر قتل کر ديا ٰ مثال کے طور پر :عيسائيوں کے عقيده کے مطابق جنا ب
اب تم معلوم کر سکتے ہو کہ عيسائی اس ياد کو دنيا کے چپہ چپہ ميں لوگوں کے دلوں ميں تازه کرتے ہيں اور غم کا اظہار
کرتے ہيں يہاں تک کہ صليب اپنے لباس اور اپنے کليسا وغيره پر نصب کرکے اسے اپنی عالمت قرار ديتے ہيں۔
عيسی )عيسائيوں کے عقيدے کے مطابق(واقعہ کربال اور امام حسين عليہ السالم کی شہادت سے بہت ہی کم ٰ جب کہ قتل
اہميت کا حامل ہے۔
اسی وجہ سے امام حسين عليہ السالم پر گريہ اور ان کی عزاداری لوگوں کی محبت کو بر انگيختہ ہونے اور ان کے عظيم
اہداف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔
ايک استاد کے بقول” :عقل کی ترجمان ہميشہ زبان رہی ہے ليکن عشق کا ترجمان آنکھ ہے جہاں احساس اور درد ہوں
اورآنسو گريں وہاں عشق ضرور پايا جاتا ہے ليکن جہاں لفظوں کو ترتيب دے کر جملہ چھانٹے وہاں عقل پائی جاتی ہے“۔
اس بنا پر جس طرح مقرر کے زبردست دالئل اور پر زور خطابت اس بات کی دليل ہوتی ہے کہ وه اس خاص مذہب سے
وابستہ ہے اسی طرح آنکھوں سے گرنے واال آنسو کا ايک قطره دشمنوں کے خالف اعالن جنگ کی طرح ہوتا ہے۔][114
مقاصد کی تکميل اور دشمن کی مغلوبيت کے لئے احساساتی پہلوايک اہم کردار ادا کرتے ہيں ل ٰہذا ان کو يکسر نظر انداز
نہيں کر دينا چاہئے کيونکہ يہ بھی کسی انقالب کی آہٹيں ہوا کرتے ہيں۔
٣۔گريہ تائيد ہے :امام حسين عليہ السالم پر گريہ کرنا ايک طرح سے ان کے قيام اور ان کے اہداف کی تائيد ہے يہ گريہ
عميق ترين شعور و احساسات کو دشمنوں اور ستمگروں کے خالف ابھارتا ہے جس کے معنی يہ ہيں :اے امام حسين عليہ
السالم! آپ ہمارے قلب و جان اور احساسات کے گھروں ميں پ موجود ہيں“:
يہ زبان حال شيعہ ہے جو ہر زمان ومکان ميں تين ستونوں پر استوار ہے۔
١۔ہمارا قلب اس مبداء ايمان کی خاطر تالش کرتا ہے جس کے لئے امام حسين عليہ السالم قتل کئے گئے۔
٢۔ہمارے کان ان کی سيرت و گفتار کو سنتے ہيں۔
٣۔ہماری آنکھيں آنسو بہا کر کربال کے درد ناک واقعہ کو لوگوں کے دلوں پر نقش کرتی ہيں۔
اگر مذکوره اسباب ميں سے کسی ايک سبب کی وجہ سے گريہ ہواتو يہ سو فی صد ايک سالم فطرت تقاضہ کے تحت عمل
ميں آيا ہے اس طرح کے گريہ ميں کوئی حرج کی بات کيا بلکہ يہ تو امام حسين عليہ السالم کے قيام و انقالب کے لئے بہت
سے فوائد کا حامل بھی ہے۔
۴۔ پيام آور اور رسواگر گريہ :ہر انسان جب امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کی کيفيت شہادت سنتا ہے کہ وه
بھوکے پياسے عورتوں اور بچوں کے سامنے جلتی ہوئی زمين پر شہيد کر دئيے گئے تو بے اختيا ر اس کے قلب و دماغ
ميں انقالب پيدا ہو جاتا ہے اور وه اپنے پورے وجود سے يزيد کی پليدی اور قساوت قلبی پر لعنت ومالمت کرتا ہے۔
اسی طرح امام حسين عليہ السالم پر گريہ ہر زمان مکان ميں ظلم اور ظالم کے خالف ايک آواز اور ايک طرح کا امر
بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور کبھی کبھی يہی گريہ دشمن کو کچلنے کا بہترين ذريعہ بن ہوجاتا ہے۔ل ٰہذ جہاں بھی
گريہ بے رحم دشمنوں کی رسوائی کا سبب بنے اور ٰالہی پيغام لوگوں تک پہنچ جائے تو اسے ايک قسم کا نہی عن المنکر
دين کے راستے کو استوار کرنے اور ظلم و ستم کو جﮍ سے اکھاڑ پھينکنے ميں عملی اقدام کہا جاسکتا ہے۔
خالصہ يہ کہ گريہ کی چند قسميں ہيں جيسے خوف خدا سے گريہ ،شوق کا گريہ ،محبت کا گرم وپيام آور گريہ وغيره اگر
اس گريہ کا صحيح اور مناسب مقصد ہو تو يہ گريہ اپنی تمام قسموں ميں سب سی زياده اچھا ہے۔
ہاں ايک گريہ مايوسی ،الچاری،عاجزی اور شکست کی وجہ سے ہوتا ہے جسے گريہ ذلت کہتے ہيں اور اس طرح کا گريہ
ان عظيم ہستيوں سے بہت دور ہے اور اوليائے خدا اور اس کے آزاد بندے اس طرح کا گريہ کبھی نہيں کرتے۔
اسی طرح گريہ اور عزاداری کی دو قسم ہے ”مثبت اور منفی“منفی گريہ قابل مذمت اور نقصان ده ہے ليکن مثبت گريہ
اپنے ساتھ بہت سے اصالحی فوائد لئے ہوئے ہوتا ہے يہاں تک کہ يہ گريہ کبھی کبھی نہی عن المنکر اور طاغوتيوں کے
خالف قيامت برپاکرنے اور جہاد کی صف ميں کھﮍے ہو کر جنگ کرنے کا سب سے اچھا اسلحہ ثابت ہوتا ہے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
سامع” :ميرے سوال کے جواب ميں آپ کے منطقی جامع اور مانع بيان کا بہت شکريہ“۔
واعظ” :يہاں پر اس مناظره کی تکميل ميں کچھ اور باتيں بتاتا چلوں:
اسالم کے بعض دستور العملميں سياسی پہلو بھی اليا جاتا ہے ،چنانچہ عزاداری کی حکمتوں ميں سے ايک حکمت يہ ہے
کہ گريہ کرنے يہاں تک کہ رونے والوں جيسی صورت بنانے )تباکی( ميں ايک سياسی پہلو پوشيده ہے) ،جيسا کہ مناظره
نمر ٨١ميں آپ نے امام محمد باقر عليہ السالم کی اپنے اوپر دس سال تک گريہ کرنے کی وصيت ميں پﮍھا۔(
ائمہ عليہم السالم واقعہ کربال کے سبب عزاداری کے ضمن ميں حق وباطل کے چہره کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور
لوگوں کو غفلت سے نکالنا چاہتے تھےے ،ل ٰہذا انھوں نے ہر موقع اور مناسبت سے واقعہ عاشوره کو زنده رکھا ،يہاں تک
موسی کاظم عليہ السالم نے فرمايا:
ٰ کہ امام
”امام سجاد عليہ السالم کی انگوٹھی کے نگينہ پر يہ لکھا تھا“:
خزی و شقی قاتل الحسين بن علی عليہ السالم“۔][115 ” ٰ
”حسين بن علی عليہ السالم کا قاتل ذليل اور رسوا ہوا“۔
حقيقتا ً امام سجاد عليہ السالم نے اپنی انگوٹھی پر اس جملہ کو صرف اس لئے کنده کروارکھا تھا کہ شہادت امام حسين عليہ
السالم لوگونکے دلوں ميں تازه دم ہوتی رہے اور لوگوں کی نظر جب بھی ميری اس انگوٹھی پر پﮍے توانھيں بنی اميہ کے
مظالم ياد آجائيں اور سياسی لحاظ سے بيدا ررہيں۔
ان تمام باتوں کا خالصہ يہ ہے کہ امام حسين عليہ السالم کی عزاداری اور گريہ دو طرح کا ہے۔ مثبت ومنفی ،اب اس ميں
منفی اور قابل مذمت وه گريہ ہے جو رونے والوں کے عجز وناتوانی اور شکست کو ثابت کرے ليکن مثبت وه گريہ ہے جو
لوگوں کی عزت ،شجاعت ،صالحيت اور بيداری کا سبب بنے۔
لئے آيا ہو جس سے زينت مراد لی گئی ہو اور اگر ہم لغات کی طرف رجوع کريں تو پتہ چلے گا کہ خاتم کے معنی ختم
کرنے والے کے ہی ہيں اب اگر کوئی لفظ اپنے معنی کے عالوه کسی اور معنی ميں استعمال ہو تو اس کے لئے ضروری
ہے کہ وه اپنے ساتھ کچھ سياق وسباق رکھتا ہو،ہم اس لفظ کے ساتھ کوئی قرينہ يا کسی طرح کی کوئی دليل نہيں پاتے ہيں
جس کی وجہ سے اصلی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جائيں۔
يہاں پر لفظ خاتم کے بارے ميں چند لغات آپ مالحظہ فرمائيں فيروز آبادی ”قاموس اللغة“ ميں کہتے ہيں ”ختم“مہر کرنے
کے معنی ميں آتا ہے اور ”ختم الشئی“يعنی کسی چيز کا آخر۔
جوہری ”صحاح“ميں کہتے ہيں کہ ختم يعنی پہنچنا اور ”خاتمة الشئی“ يعنی اس چيز کاآخر۔
ابو منظور ”لسان العرب“ميں کہتے ہيں کہ” ختام القوم“ يعنی قوم کی آخری فرد اور ”خاتم النبيين“ يعنی انبياء کی آخری فرد۔
راغب ”مفردات“ميں کہتے ہيں کہ خاتم النبيين يعنی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے خود آکر سلسلہ نبوت کو
منقطع کر ديا اور نبوت کو تمام کر ديا۔][116
نتيجہ يہ ہو اکہ لفظ خاتم سے زينت معنی مراد لينا ظاہر کے خالف ہے جس کے لئے دليل کی ضرورت ہے اور يہاں پر
کوئی دليل نہيں پائی جاتی ہے“۔
بہائی” :لفظ خاتم کے معنی خط پر آخری مہرہے جس کے معنی تصديق شده کے ہيں ل ٰہذا اس سے يہ سمجھ ميں آتا ہے کہ
پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے سے پہلے کے انبياء کی تصديق کرنے والے تھے۔
مسلمان” :غرض پہلے سوال کے جواب سے يہ واضح ہو گيا کہ خاتم کے اصلی اور رائج معنی تمام اور اختتام کے ہيں اور
يہ کہيں پر نہيں سنا گيا ہے لفظ خاتم سے استعمال کے وقت تصديق مراد لی گئی ہو،اتفاق سے اس سے يہ بھی سمجھا جا
سکتا ہے کہ خاتم يعنی آخر ميں مہر لگانا يعنی خاتمہ کا اعالن کرنا“۔
بہائی” :آيت کہتی ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم خاتم النبيين،يعنی پيغمبروں کے سلسلہ کوختم کرنے والے ہيں
،آيت يہ نہيں کہتی کہ مرسلين کے ختم کرنے والے ہيں ل ٰہذا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد رسول کے آنے
کی نفی ہوتی ہے“۔
مسلمان” :اگر چہ قرآن ميں رسول اور نبی ميں فرق پايا جاتا ہے مثالًخداوند متعال نے قرآن ميں جناب اسماعيل عليہ السال م
موسی کو بھی رسول اور نبی بھی کہا ہے
ٰ )سوره مريم آيت (۵۴اور اسی طرح جناب ٔ کو رسول اور نبی دونوں کہا ہے
)سوره مريم آيت (۵١ليکن يہ چيز کسی بھی طرح لفظ خاتم ميں شبہ نہيں پيدا کرتی ہے کيونکہ نبی يعنی ايسا پيغمبر جس پر ٔ
خدا وند متعال کی طرف سے وحی ہوتی ہے خواه وه لوگوں کی تبليغ کرنے واال ہو يا نہ ہو ،ليکن رسول وه ہے جو صاحب
شريعت اور صاحب کتاب ہو ل ٰہذاہر رسول نبی ہے ليکن ہر نبی رسول نہيں ہے۔
نتيجہ يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو خاتم انبياء کہاجائے تو اس کا مطلب يہ ہوا کہ ان کے بعد کوئی پيغمبر
نہيں آئے گا اس فرض کے ساتھ کہ ہر رسول پيغمبر ہے بس رسول بھی نہيں آئے گا مثال کے طور پر نبی اور رسول کی
مثال انسان اور عالم دين )منطق کی زبان ميں عموم خصوص مطلق (کی نسبت پائی جاتی ہے جب بھی ہم کہيں کہ آج ہمارے
گھر کوئی انسان نہيں آيا يعنی عالم دين انسان بھی نہيں آيا ،اور ہماری بحث ميں اگر کہا جائے گيا کہ کوئی پيغمبر ،رسو ل
خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد نہيں آئے گا يعنی کوئی رسول بھی نہيں آئے گا“۔
بہائی” :نبی اور رسول کے درميان تباين )جدائی (پايا جاتا ہے جو نبی ہوگا وه رسول نہيں ہوگا اور جو رسول ہوگا وه نبی
نہيں ہوگا ل ٰہذا ہمارا اعتراض بجا ہے“۔
مسلمان” :لفظ رسول ونبی ميں اس طرح کا فرق ،علماء اور مفکرين اور آيات وروايات کے خالف ہے اور يہ ايک مغالطہ
ہے کيونکہ تمہارا يہ مسئلہ خود آيت ميں ذکر ہوا ہے“۔
ﷲ َو َخاتَ َم النﱠ ِبيﱢينَ “][117
” َولَ ِک ْن َرسُو َل ِ
”اور ليکن وه رسول خدا اور خاتم النبيين ہيں“۔
موسی عليہ السالم رسول بھی تھے اور نبی بھیٰ موسی عليہ السالم کے بارے ميں ملتا ہے”:وکان رسوال ”نبيا““ ٰ اسی طرح
)سوره نساء آيت (١٧١ ٔ
سوره مريم آيت ،٣٠ميں نبی کہہ
ٔ اور گئے پکارے کر کہہ ولميں(رس ١٧١ آيت نساء )سوره
ٔ بھی السالم عليہ عيسی
ٰ حضرت
کر پکارے گئے ہيں اگر لفظ نبی اور رسول آپس ميں ايک دوسرے کے متضاد لفظ ہوتے تو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ
وعيسی عليہ السالم جيسے انبياء ان دو متضاد صفتوں کے حامل نہ ہوتے ،اس کے عالوه اور ٰ موسی عليہ السالم ٰ و سلم اور
بہت سی روايتيں اس سلسلے ميں ہم تک پہنچی ہيں جس ميں پيغمبر اکرم کو خاتم المرسلين کہا گيا ہے جن مينيہ وضاحت کی
گئی ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہيں آئے گا اور آپ ہی ختم الرسل ہيں“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
بہائی” :جملہ خاتم النبيين سے ممکن ہے خاص پيغمبر مراد لئے گئے ہوں اس طرح تمام کے تمام پيغمبر اس آيت ميں شامل
نہيں ہوں گے“۔
مسلمان” :اس طرح کا اعتراض دوسرے اعتراضوں سے زياده مضحکہ خيز ہے کيونکہ جو شخص بھی عربی قواعدسے
تھوڑی بہت واقفيت رکھتا ہوگا وه اس طرح کے جملے ميں ہر جگہ ”ال“سے مراد عموم لے گا اور يہاں اس الف اور الم
سے مراد ”عہد“ہونے پر کوئی دليل نہيں ہے ل ٰہذا اس سے عموم ہی مراد ليا جائے گا“۔
٩٧۔امام حسين عليہ السالم کے قاتلوں کی حقيقت کے سلسلے ميں ايک مناظره
وہابی ” :شيعہ لوگ جو امام حسين عليہ السالم کی عزاداری اور ان پر گريہ کرتے ہيں وه اس لئے کہ اپنے اباء واجداد کے
داداوں نے امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کو قتل کيا ،اور پھر گزشتہ ظلم کا جبران کريں کيونکہ انھيں کے باپ ٔ
ان لوگوں نے توبہ کی اور اس طرح انھوں نے توابين )زياده توبہ کرنے والوں( کے عنوان سے اپنے گزشتہ ظلم و ستم کا
جبران کرنا چاہا “۔
شيعہ” :تم شيعوں پر يہ تہمت کس ماخذاور حوالہ سے پر لگار ہے ہو؟ “
وہابی” :جو لوگ کربال ميں امام حسين عليہ السالم سے جنگ کرنے آئے تھے وه شام و حجاز اور بصره کے نہيں تھے بلکہ
سب کے سب کوفہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت کوفہ ميں اکثر شيعہ ہی رہتے تھے ،انھيں لوگوں نے امام حسين عليہ
السالم کو قتل کيا“۔
شيعہ” :اوالً اگر بفرض محال شيعوں ہی ميں سے کچھ لوگ خوف و فريب سے کربال ميں امام حسين عليہ السالم کے مقابلہ
ميں جنگ کے لئے آئے تو اس کا مطلب يہ نہيں کہ مذہب شيعہ اور اس کے تمام ماننے والوں نے امام حسين عليہ السالم
سے منحرف ہو کر يزيد کے راستہ کو اختيار کر ليا تھا ،عموما ً يہ ديکھا گيا ہے کہ ہر مذہب وملت ميں کچھ نہ کچھ لوگ
اپنے مذہب سے منحرف ہوجاتے ہيں ليکن ان کا عمل مذہب کے بے بنياد ہونے پر دليل نہيں بن سکتا ہے ،ثانيا ً يہ کہ حقيقت
ميں يہ سب باتيں محض تہمتيں ہيں جو بالکل بے بنياد اور جھوٹی ہيں“۔
وہابی” :کيوناور کس دليل سے ؟ “
شيعہ” :سپاہيوں کا وه لشکر جو کوفہ سے کربال حضرت امام حسين عليہ السالم سے لﮍنے آيا تھا ان ميں اکثر خوارج ،بنی
اميہ اور وه منافق تھے جو حضرت علی عليہ السالم حضرت امام حسن عليہ السالم کے پاس سے بھگائے گئے تھے اور اس
لشکر کے تمام سردار حکومت علی عليہ السالم کے مخالفين ميں سے تھے جن کو حضرت علی عليہ السالم نے معزول کر
ديا تھا اور وه لوگ خاندان رسالت عليہم السالم کے معتوب شمار کئے جاتے تھے جن سے ابن زياد نے نا جائز فائده اٹھا يا۔
اور زياده تر اس گروه مرتزقہ)خريدے ہوئے غير عرب افراد(سے تعلق رکھتے تھے ،جنھيں بنی اميہ نے اپنی داخلی شورش
کے کارکنوں کی سرکوبی کے لئے محفوظ کر رکھا تھا اس بنياد پر کربال ميں جنگ کرنے والے شيعہ ہر گز نہيں
تھے۔][118
وضاحت :اگرچہ حضرت علی عليہ السالم کی خالفت کے زمانہ ميں کوفہ ميں شيعوں کی اکثريت تھی ليکن آپ کی شہادت
سزاوں کے خوف کی وجہ سے وه بھاگ گئے اور ٔ کے بعد معاويہ کی حکومت کے زمانہ ميں اس کے جالدوں کی اذيت اور
ادھر ادھر بکھر گئے تھے اور معاويہ کے خريدے ہوئے ظالموں نے اکثر کو قتل کر ديا تھا اور بہت سے بچے ہوئے
لوگوں کو کوفہ سے نکال ديا تھا يہاں تک کہ زياد ابن ابيہ )عراق ميں معاويہ کا گورنر( کے زمانہ ميں تمام شيعوں کو قتل
کر ديا گيا يا زندان ميں ڈال ديا گيا تھا اور يا تو وه لوگ کوفہ سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے ،معاويہ کے زمانہ ميں اگر
کسی پر کفر والحاد اور شرک کا جرم عائد ہوتا تو اس کے لئے نہ کوئی سزا تھی اور نہ کوئی خوف تھا ليکن کسی کو شيعہ
کہنا اس کے جان ومال اور اس کے گھر کو ويران کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ،زياد ابن ابيہ ”سميہ روسپی“کا بيٹا
تھا جب يہ کوفہ کے دار االمارة ميں مقرر ہو گيا تو معاويہ نے اسے لکھا” :اے زياد ! جو لوگ علی) عليہ السالم( کے مذہب
پر زندگی گزار رہے ہيں انھيں قتل کردو اور قتل کے بعد ان کے ناک کان کاٹ لو“۔زيادنے مسجد ميں اہل کوفہ کو بلوا کر
کہا کہ وه حضرت علی عليہ السالم پر لعنت کريں اگر کوئی ان پر لعنت نہيں کرے گا تو اس کی گردن اڑادی جائے
گی۔][119
منقول ہے کہ زياد ابن ابيہ ”سعد بن سرح “نامی شخص کے قتل کے کے درپے تھا ،امام حسن عليہ السالم نے زياد کو اپنے
خط کے آخر ميں لکھا کہ سعد بن سرح بے گناه مسلمان ہے اس کا پيچھا چھوڑ دے۔
زياد نے امام حسن عليہ السالم کے خط کے جو اب ميں لکھا” :کہيں نہ کہيں وه ميرے ہاتھ لگ ہی جائے گا اور اسے ميں
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
اس لئے قتل کردوں گا کہ وه تمہارے )نعوذ با (فاسق باپ سے محبت کرتا ہے“۔][120
زياد ابن ابيہ کی ايک ظلم يہ تھا کہ اس نے” سمره بن جندب “کو کوفہ اور بصره ميں اپنا جانشين بنا ديا تھا اور زياد ابن ابيہ
کے مرنے کے بعد معاويہ نے سمره کو اس کے عہده پر باقی رکھا ،سمره کی خونخوار ی کی انتہا يہ تھی کہ اس نے ايک
مرتبہ ٨٠ہزار افراد کو نہايت دردناک طريقہ سے موت کے گھاٹ اتا ر ديا تھا۔][121
عدوی کہتے ہيں :سمره نے ايک دن صبح کو ہمارے /١۴٧افراد کو بے رحمی سے قتل کرديا جو سب کے سب حافظ قرآن
تھے۔][122
سر فہرست افراد جيسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ،مالک اشتر ،محمد بن ابی بکر ،عمر بن حمق وغيره معاويہ کے
خريد ہوئے مزدوروں کے سبب شہيد کرديئے گئے۔
معاويہ کی بھيانک اور خطرناک حکومت ايسی تھی کہ عمربن حمق کا کٹا ہو اسر زندان ميں ان کی بيوی کے لئے بھيجا
گيا [123]،اور کوفہ کی فضا اتنی خطرناک حد تک دل ھال دينے والی تھی کہ لوگ اپنے نزديک ترين افراد پر بھی اس وجہ
سے اطمينان نہيں رکھتے تھے کہ کہيں يہ معاويہ کا جاسوس نہ ہو۔
عالمہ امينی لکھتے ہيں” :اس بات کی طرف توجہ رہے کہ زياد بن ابيہ کوفہ کے تمام افراد کو پہچانتا تھا کيونکہ حضرت
علی عليہ السالم کی خالفت کے زمانہ ميں وه انھيں لوگوں کا جزء تھا اور وه تمام شيعوں کو جانتا تھا جس کہ وجہ سے اگر
کسی شيعہ نے پتھر کی آڑ ميں يا کسی بل ميں بھی پناه لے رکھی تھی تو وه اسے تالش کروا کر قتل کرديتا اور ان کے ہاتھ
پير کاٹ ديتا اور ان کی آنکھوں کو پھوڑ کر پھانسی پر چﮍھا ديتا اور بعض کو شہر بدر کروا ديتاتھا نتيجہ ميں شيعہ نام کا
ايک شخص بھی کوفہ ميں باقی نہيں ره گيا تھا۔][124
مختصر يہ کہ نوبت يہاں تک پہنچ چکی تھی کہ امام حسين عليہ السالم کے زمانہ ميں چار ہزار يا پانچ ہزار شيعہ کوفہ ميں
نہيں بچے تھے اور ابن زياد جب تخت پر آياتو ان افراد کو بھی پکﮍوا ليا اور امام حسين عليہ السالم کے عراق ميں داخل
ہونے سے پہلے پہلے ان سب کو جيل ميں ڈال ديا شيعوں کی تعداد اس زمانہ ميں بس انھيں افراد پر مشتمل تھی جو يزيد کے
مرنے اور زياد ابن ابيہ کے بصره جانے کے بعد زندان کے دروازوں کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے اور امام حسين عليہ
السالم کے خون کا بدلہ لينے کے لئے قيام کيا تھا ليکن اس وقت تک امام حسين عليہ السالم کی شہادت کو چار سال گزر
چکے تھے اور جناب مختار کا قيام اس وقت تک عمل ميں نہيں آيا تھا۔
زندان سے نکلے ہوئے يہ تمام شيعہ ٩٣سالہ ”سليمان بن صرد خزاعی “کی قيادت ميں سپاه شام سے جنگ کے لئے روانہ
ہوگئے نتيجہ ميں سليمان اور اس کے بہت سے ساتھی اس دليرانہ جنگ ميں شہيد ہوگئے۔
عالمہ مامقانی لکھتے ہيں:
”امام حسين عليہ السالم کے عراق ميں وارد ہونے سے پہلے ابن زياده نے ۴۵٠٠شيعوں کو جيل ميں ڈال ديا تھا جن ميں
سليمان بن صرد خزاعی تھے جنھوں نے چار سال تک جيل کے کوٹھﮍيوں ميں زندگی گزاری ،اس طرح جو مشہور ہے اور
ابن اثر سے نقل ہوا ہے کہ شيعہ اپنی جان کے خوف سے امام حسين عليہ السالم کی حمايت ميں نہينکھﮍے ہوئے ليکن وه
شہادت امام حسين عليہ السالم کے بعد کافی شرمنده ہوئے اور سليمان بن صرد کی قيادت ميں توابين نامی ايک گروه کو
تشکيل کيا تاکہ گزشتہ گناه کی تالفی کر سکيں ،يہ سراسر جھوٹ بات ہے۔][125
اس طرح پتہ چلتا ہے کہ قاتلين امام حسين عليہ السالم کو فہ کے شيعہ نہيں تھے بلکہ خوارج ،مرتدين اور منافقين تھے جو
حضرت علی عليہ السالم کے دور حکومت ميں معزول کردئے گئے تھے اور يہ امام حسين عليہ السالم کی حکومت کے
بھگوڑے اور غير عرب کے خريدے ہوئے پٹھو تھے۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
خطره ہو يا ايسی نہی عن المنکر جو ضرر و نقصان کا سبب بنے اس کا اقدام نہيں کرنا چاہئے کيونکہ ضررونقصان ايک
قسم کی ہالکت ہے اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے خود کو ہالکت ميں نہيں ڈالنا چاہئے۔
يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ قيام امام حسين عليہ السالم آپ کی جنگ اور آپ کے دوستوں کی شہادت اس آيت سے کس
طرح سازگار ہے ؟
استاد” :اس آيت کے ابتدائی حصہ پر توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی راه ميں مال کا انفاق کرنا جہاد ہے جس کا
مطلب يہ ہے کہ خدا کی راه ميں انفاق کرنے يا حد سے زياده انفاق کرنے سے اپنے آپ کو ہالکت ميں نہ ڈالو اور انفاق
کرنے ميں افراط و تفريط سے کام نہ لو۔
اسی وجہ سے تفسير درّمنثور ميں اس آيت کے ذيل ميں ”اسلم بن ابی عمران“سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا” :ہم
قسطنطنيہ )ترکيہ ميں آج کا استامبول( ميں تھے تو ديکھا عقبہ بن سالم مصر والوں کے ساتھ اور فضال بن عبيد بھی شام
والوں کے ساتھ وہاں موجود تھے اور جب روم کا ايک بہت ہی عظيم لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے ميدان ميں آگيا تو
ميں نے بھی ان کے مقابلہ کے لئے صفوں کو منظم کيا اس اثنا ميں ايک مسلمان شخص نے روم کے قلب لشکر پر اس طر
ح حملہ کيا کہ وه لشکر ميں داخل ہوگيا يہ ديکھ کر بعض مسلمانوں نے چيخ کر کہا” :يہ شخص اپنے آپ کو ہالکت ميں ڈال
رہا ہے“۔
اس وقت رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے مشہور صحابی ابو ايوب انصاری نے کھﮍے ہوکر کہا” :تم لوگ اس آيت
”وال تلقوابايديکم ۔۔۔“کے معنی اپنی طرف سے غلط کر رہے ہويہ آيت ہم گروه انصار کے بارے ميں اس وقت نازل ہوئی
جب خداوند متعال نے اپنے دين کو کامران و کامياب کيا اور اس کے چاہنے والے بہت زياده ہوگئے تو ہم بعض لوگوں نے
چھپ چھپ کے آپس ميں کہا کہ ہمارا مال ضائع ہو گيا خداوند متعال نے اسالم کو سر فراز کيا اور اس کے ماننے والے بھی
زياده ہوگئے اگر ہم لوگ اپنے مال کو بچائے ہوئے رہتے تو ہمارا مال ضائع نہ ہوتا اس وقت ہمارے اس بيہوده اور منفی
عمل کی رد ميں خدا وند متعال نے يہ آيت نازل کی ۔”اس طرح اس آيت ميں ہالکت سے مراد اپنے مال کی حفاظت اور جہاد
کی راه ميں خرچ نہ کرنے کے ہيں۔][126
قاعده کليّہ کے طور ٔ ايک ٹکﮍا آخری کا اس ليکن ہو ميں بارے کے انفاق آيت اصل شاگرد” :اس بات ميں کيا مضائقہ ہے کہ
پر آياہو؟“
استاد” :کوئی حرج نہيں ہے ليکن اس صورت ميں اس قاعده کی اس طرح وضاحت ہوگی“ ،وه جگہيں جو ہالکت ميں شمار
جاو يعنی ايسے مقامات پر جہاں بال وجہ جان جانے کا خطره ہو اور جہاں جان دينے سے کی جاتی ہيں وہاں اپنے سے نہ ٔ
کوئی فائد ه نہ ہو“۔
ليکن اس کے عالوه دوسرے مقامات پر ”اہم اور اہم ترين“ کا قاعده نافذ ہوگا يعنی اگر جان کا خطره مول لے کر کوئی بہت
بﮍا دينی فائده حاصل ہو اور اسالم کو ضرورت ہو تو اس وقت اپنے آپ کو خطره ميں ڈالنا صرف يہی نہيں کہ کوئی حرج
کی بات نہيں بلکہ بعض اوقات واجب وضروری ہوجاتا ہے ،اسالم کے اکثر احکام جيسے جہاد ،نہی عن المنکر اور امر
بالمعروف ميں خطره پايا جاتا ہے ليکن چونکہ اس طرح کے خطرے سعادت و کامرانی تک پہنچنے کے ذرائع ہوا کرتے
ہيں ل ٰہذا ان ميں کوئی حرج نہيں۔
اس سے زياده وضاحت کے ساتھ يوں کہا جائے کہ ”ہالکت“کے معنی وه خطرات ہيں جو بد بختی اور ذلت کا سبب بنيں
ليکن اگر جہاد جيسے خطرناک کام انجام ديئے جائيں تو يہ عين سعادت اور کامرانی ہے ،امام حسين عليہ السالم اور ان کے
اصحاب کے قيام اور انقالب ميں بھی يہی مقصد کار فرما تھا ان لوگوں نے ايسے خطرے اور ايسی موت کو خود سے
اختيار کيا تھا جس کے واضح اور روشن نتائج اس زمانہ ميں اور روز قيامت تک ہر زمانہ ميں دکھائی ديتے رہيں گے ،ل ٰہذا
ايسا قدم سعادت کا وسيلہ ہوتا ہے نہ کہ بدبختی کا۔
مثال کے طور پر اگر کوئی ايسے خطر ے ميں کو دپﮍے جس ميں کچھ لوگوں کی جان چلی جائے اور سيکﮍوں ديناروں کا
نقصان ہو ليکن اس کے بدلے الکھوں انسانوں کی جان بچ جائے اور ہزاروں دينار کا فائده حاصل ہو تو کيا يہ کام اپنے آپ
کو ہالکت ميں ڈالنے کے مترادف ہوگا؟
اگر کسان گيہوں کے دانوں کو زمين ميں ڈالتا ہے تاکہ اس سے ہزاروں من گيہوں حاصل کرسکے تو کيا ا سے يہ کہنا
درست ہے ”تم کيوں ان دانوں کو بيکار کر رہے ہو اور مٹی ميں مالرہے ہو؟“
اسی بنياد پر قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے۔
َت ْ َٔ
االرْ ضُ “ ْض لَفَ َسد ْ ”لَوْ الَ َد ْف ُع ﷲِ النﱠ َ
اس بَ ْع َ
ضہُ ْم بِبَع ٍ
” اگر خدا کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں کے وسيلہ سے دفع نہ کرے تو زمين پر فتنہ و فساد پھيل جائے“۔][127
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
٩٩۔ ايرانيوں کی شيعت کے سلسلہ ميں ايک مناظره
اشاره
اگرچہ ملک ايران ميں اسالم حضرت عمر کے دور خالفت ميں پہنچا مگر اس کے باوجود کيا وجہ ہے کہ يہاں شيعوں کی
اکثريت ہے؟
تاريخی شواہد کی بنياد پر يہ معلوم ہوتا ہے کہ ايرانی عوام پہلی صدی سے لے کر ساتويں ہجری صدی تک آہستہ آہستہ
اسالم لے آئے ،ہر دفعہ ايک مخصوص کيفيت اور مخصوص واقعہ کی بنا پر ايسا ہوتا تھا جس کے اثرات کافی متاثر کن ہوا
کرتے تھے ،اب آپ درج ذيل کے مناظره پر توجہ فرمائيں:
زر تشتی” :ميری نظر ميں ايرانيوں نے چار وجوہات کی بنا پر شيعيت کو اختيار کيا“۔
١۔ايرانيوں کے يہاں چونکہ موروثی سلطنت پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے انھوں موروثی امامت کو پسند کيا۔
٢۔ايرانی قوم پہلے ہی سے اس بات کی معتقد تھی کہ سلطنت وحکومت ٰالہی تحفہ ہوتا ہے ان کا يہ عقيده شيعوں کے عقيده
سے ميل کھاتا تھا۔
٣۔ايرانيوں کے آخری بادشاه تيسرا ”يز د گرد “کی بيٹی ’شہر بانو“سے امام حسين عليہ السالم کی شادی بھی ايرانيوں کے
شيعہ ہونے ميں کافی اثرانداز رہی۔
۴۔عربوں کے مقابلہ ميں ايرانيوں کا نفسياتی رد عمل شيعيت تھا تاکہ وه اس کے زير پرده اپن زرتشی اعمال کو انجام دے
سکيں ،ل ٰہذا تشيع ايرانيوں کا ايجاد کرده مذہب ہے۔][128
شيعہ” :ايرانيوں کے شيعہ ہونے ميں ان چاروں اسباب ميں سے ايک بھی سبب درست نہيں ہے ،کيونکہ ايران ميں تشيع کی
بنياد سب سے پہلے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانہ ميں پﮍ چکی تھی رسول اسالم کی وفات کے بعد بنی ہاشم
اور کچھ اصحاب جيسے سلمان فارسی ،ابوذر،مقداد وغيره کا ايران سے رابطہ تھا۔
ساسانيوں کے ظلم وستم کی تاريخ او ر اس زمانہ کے حاالت اس بات کی گواہی ديتے ہيں کہ ايرانی عوام اس موروثی
سلطنت سے پريشان ہو چکے تھے اور وه ايک جامع اور عادالنہ نظام کی تالش ميں تھے جو انھيں ان نا انصافيوں سے
چھٹکارا دال سکے۔
ممکن ہے کہ امام حسين عليہ السالم اور جناب شہر بانو کی شادی ايرانی تشيع پر تھوڑا بہت اثر انداز ہوئی ہو مگر اسے
اساسی سبب قرار دينا غلط ہے۔
زرتشی” :اگر ايران مينتشيع کے يہ چار اسباب نہ تھے تو وه کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر ايران ميں تشيع کی جﮍيں
اتنی گہری اور مضبوط ہو گئيں؟“
شيعہ” :اسکی بﮍی لمبی داستان ہے خالصہ کے طور پر درج ذيل گياره مرحلوں ميں اس کی توضيح کی جاسکتی ہے:
١۔پہلی ہجری صدی کے دوسرے حصہ ميں ايرانی ،اسالم سے آشنا ہوئے کيونکہ وه ساسانی حکمرانوں کے ظلم وجور سے
تنگ آگئے تھے اور ايک مکمل اور عادالنہ نظام کے منتظر تھے۔
اس مرحلہ ميں جناب سلما ن کا کردار نبيادی حيثيت کا حامل تھا جنھوں نے ساسانيوں کے سابق دارالحکومت مدائن کو اسالم
کی نشر و اشاعت اور تشيع کا مرکز قرادے ديا تھا ،جناب سلمان نے اسالم کے تعارف کے لئے حضرت علی عليہ السالم کو
اختيار کيا تاکہ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکو گم نہ کرديں اور ايرانيوں نے اسالم کی صحيح شناخت کے لئے جناب
سلمان کا انتخاب کيا تاکہ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماور حضرت علی عليہ السالم کو گم نہ کر ديں۔
٢۔حضرت علی عليہ السالم کی کوفہ ميں عادالنہ حکومت جہاں ايرانيوں کا آناجانا ہوتا رہتا تھا آپ کے عدل پسند انہ طرز
حکومت اور مساوات کے طريقوں نے ان ايرانيوں کو محبت آل رسول کی طرف جذب کر ليا اور وه اس طرح سے حقيقی
اسالم سے آشنا ہوگئے۔
٣۔ امام حسين عليہ السالم کا قيام اور ان کے پيغامات بھی ايسے اسباب تھے جن کی وجہ سے ايرانيوں نے بنی اميہ کو اپنے
ساسانی حکمرانوں سے الگ نہ پايا اور انھوں نے يہ جان لياکہ يہ بھی ويسی ہی ظالم وجابر حکومت ہے ل ٰہذاوه خود بخود
اہل بيت عليہم السالم کی طرف کھينچتے چلے گئے اس کے بعد غم انگيز واقعہ کربال ايک ايسے نور کی جھلک تھی جو ان
کے دلوں کو اہل بيت عليہم السالم کی محبت سے منور کر گئی۔
۴۔امام جعفرصادق عليہ السالم کی عظيم علمی اور ثقافتی تحريک کہ جس ميں چار ہزار شاگرد شامل تھے اور سب کے سب
شيعيت کے عظيم مبلغ تھے ،يہ ايک اور مرحلہ تھا جس کی بنا پر ايرانيوں کے دلوں ميں شيعيت کی بنياديں مزيد مضبوط
ہوتی چلی گئيں کيونکہ کوفہ،مدائن سے نزديک تھا اور بصره ،ايران کی سرحد تھی ل ٰہذ ا حضرت امام جعفرصادق عليہ
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
السالم کے بہت سے شاگرد انھيں اطراف کے تھے جو کوفہ کی عظيم مسجد ميں بيٹھ کر شيعی طرز تفکر کی تبليغ کرتے
تھے اور اس کی نشر واشاعت ميں بﮍی محنت کرتے تھے۔
پھيالو
ٔ ۵۔قم وه مرکز بن چکا تھا جہاں عراق کے جابر حکمرانوں سے بھاگ کر شيعہ پناه ليتے تھے ،ايران ميں شيعيت کے
ميں اس کا بہت بﮍا ہاتھ رہا ہے۔
۶۔امام علی رضا عليہ السالم کا مدينہ سے خراسان کا سفر اور ان کی علمی و ثقافتی تحريک بھی انھيں اسباب ميں سے تھی
کيونکہ مامون شيعہ ہو چکا تھا اور اس نے امام علی رضا عليہ السالم کو سنيوں کو بﮍے بﮍے علماء سے بحث ومناظره
کرنے کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔
اس کے ساتھ ہی يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب امام علی رضا عليہ السالم نے اسالمی بنيادوں کے بيان ميں حديث
”سلسلة الذہب “بيان کی تو بيس ہزار يا ايک روايت کے مطابق چوبيس ہزار راويوں نے يہ حديث سنی اور اسے لکھا۔][129
جب کہ اس زمانہ ميں پﮍھنے لکھنے والوں کی تعداد نہ پﮍھنے لکھنے والوں کے مقابلہ ميں بہت کم تھی جب وہاں موجود
مجمع ميں ٢۴ہزار افراد لکھنے پر قدرت رکھتے تھے تو اس کا مطلب يہ ہے کہ عام مجمع اس سے کئی گنا زياده تھا۔
٧۔حجاز سے مختلف امام زادے اور امام علی رضا عليہ السالم کے خاص احباب کا سفر بھی انھيں اسباب ميں سے ہے ،يہ
لوگ امام علی رضا عليہ السالم کے عشق ميں مدينہ وغيره سے ہجرت کر کے ايران آگئے تھے اور بعد ميں ايران کے
مختلف گوشوں ميں پھيل گئے تھے ،اور ان لوگوں کا دوسرے لوگوں سے حسن رابطہ تھا ،ايران ميں اس طرح بھی شيعيت
بہت تيزی سے پھيلی۔
٨۔ايران ميں شيعوں کے بزرگ علماء کا وجود جيسے شيخ کلينی ،شيخ طوسی،شيخ صدوق،شيخ مفيدوغيره يہ سب اسالم
حقيقی يعنی شيعيت کی بنيادوں کی حيثيت رکھتے ہيں اور اسے پھيالنے ميں پورے خلوص اور جدوجہد سے عملی اقدامات
کرتے تھے جس کی وجہ سے ايران ميں مذہب جعفری کی جﮍيں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئيں ،اس کے عالوه
حوزه علميہ نجف کی تشکيل نے بھی شيعيت کو کافی فروغ ديا۔
٩۔آل بابويہ )ديالمہ(کی حکومت نے جو شيعہ تھا چوتھی اور پانچوينصدی کے دوران سياسی اعتبار سے بہت اہم کردار ادا
کيا ہے اس کی حکومت نے ايران ميں شيعيت کو استحکام بخشا اور اس مذہب کے لئے بﮍے نفع بخش کا م انجام ديئے۔
١٠۔آٹھويں صدی کے اوائل ميں سلطان خداوند کا عالمہ حلی کے ہاتھوں شيعہ ہو جانا بھی ايران ميں قانونی طور پر شيعيت
رائج ہو نے کا سبب بنا ،اسی زمانہ ميں شيعيت نے اپنے استحکام کی طرف ايک نہايت مضبوط قدم بﮍھايا۔
اسی زمانے ميں عالمہ حلی کا حوزه علميہ اور ان کی مختلف کتابيں بھی اس مذہب کی تبليغ ميں حصہ دار تھيں ان کے اس
اہم کردار کو فراموش کرنا ممکن نہيں ہے۔
١١۔دسويں اور گيارويں صدی ميں صفوی حکومت کا ظہور اور ان کے ساتھ شيعہ کے مختلف بزرگ علماء کا وجود جيسے
عالمہ مجلسی ،ميرداماد،شيخ بہائی ،يہ بھی شيعيت کے لئے ايک سنہرا زمانہ گزرا ہے۔
يہ تمام عوامل اپنی جگہ بﮍی اہميت کے حامل ہيں جن کی وجہ سے ايران ميں شيعيت کی بنياد پﮍی اور ديکھتے ديکھتے
پورے ايران کو اس نے اپنے اثر ميں لے ليا۔][130
زرتشتی” :ايرانيوں کے تشيع ميں صرف بيرونی عوامل کا ر فرما تھے ياا ندورونی يا دونوں؟“
شيعہ” :ہميں يہ کہنا چاہئے کہ دونوں عوامل اس ميں شريک ہيں کيونکہ ايک طرف سے تو ايرانی عوام ظلم وستم کے
خالف آواز اٹھانے کے لئے بے چين تھی اور مختلف بادشاہوں کے ظلم وجور سے وه پريشان ہو کر ايک عادالنہ نظام کے
خواہاں تھے ،ايک ايسا نظام ،جس ميں استحصال و غارت گری کا وجود نہ ہو۔
ل ٰہذاان وجوہات کی بنا پر ايرانی ،اندورونی طور سے اس طرح کے نظام کے خواہاں تھے دوسری طرف خارجی طور سے
انھوں نے عدل وپاکی سے آراستہ اور نہايت عالم ومقدس رہبروں کے سائے ميں مذہب شيعيت ديکھا ل ٰہذا وه اس کی طرف
کھنچتے چلے گئے۔
ايرانی قوم ايک مکمل آئين اور ايک مکمل عادالنہ نظام کو امام علی عليہ السالم اور ان کے اہل بيت کے سائے ميں ديکھتے
تھے اور ان کے مخالفين کے پاس آئين ونظام کے خالف نيا آئين پاتے تھے۔
ٰ
ل ٰہذا اس بنا پر اندورونی اور بيرونی عوامل نے ايک ساتھ مل کر ايرانيوں کے درميان ايک عظيم الہی انقالب برپا کرديا اور
ان لوگوں نے اسالم کی بہترين راه يعنی شيعيت کو اختيار کياچنانچہ پيغمبر نے اس واقعہ کی طرف اشاره کرتے ہوئے
فرمايا ہے:
”اسعد العجم باالسالم اہل فارس“۔][131
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
”اسالم کے ذريعہ سب سے زياده کامياب ہونے والے عجم اہل فارس ہيں“۔
اسی طرح آپ نے فرمايا ہے:
”اعظم الناس نصيبا فی االسالم اہل فارس“۔][132
”مسلمانوں کے درميان سب سے زياده اسالم ميں حصہ دار اہل فارس ہيں“۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
پاوگے تو ايک سے نکاح کرو“۔ عدالت نہيں کر ٔ
اس آيت کے مطابق اسالم ميں عدالت کی مراعات کرنے کی صورت ميں ايک ساتھ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے
سوره کی ١١٩ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں۔ ٔ ليکن ہم اسی
” َولَ ْن تَ ْست َِطيعُوا َأ ْن تَ ْع ِدلُوا بَ ْينَ النﱢ َسا ِء َولَوْ َح َرصْ تُم“][137
”اور تم کبھی بھی عورتوں کے درميان عدالت نہيں کر سکتے بھلے ہی تم کوشش ہی کيوں نہ کرو“۔
ل ٰہذا پہلی آيت کے مطابق کئی بيوياں رکھنا جائز ہے البتہ بشرط عدالت ،مگر دوسری آيت کے مطابق چونکہ متعدد بيويوں
کے درميان عدالت ممکن ہی نہيں ہے ل ٰہذا ان دونوں آيتوں کے درميان ايک طرح کا اختالف پايا جاتا ہے؟“
استاد” :اتفاق سے يہی بات امام جعفر صادق عليہ السالم کے زمانہ ميں منکرين خدا ،جيسے ابن ابی العوجاء جيسے لوگوں
کی جانب سے اٹھائی گئی تھی،ہشام بن حکم نے امام سے اس اعتراض کا جواب حاصل کيا اور ان اعتراض کرنے والوں کو
اس کا جواب ديا][138وه جواب يہ ہے۔
پہلی آيت ميں عدالت سے مراد رفتار وکردار ميں انصاف کرنا ہے يعنی تمام بيويوں کے حقوق برابر ہيں اورانسان سب سے
لگاو اور محبت ميں عدالت قائم کرنا ہے )جو نا برتاو کرے ليکن دوسری آيت ميں عدالت سے مراد قلبی ٔ ٔ ظاہرا ً ايک جيسا
ممکن سی بات ہے( ل ٰہذا ان دونوں آيتوں ميں تضاد نہيں ہے اگر کوئی ظاہری طور سے اپنی باتوں اور اپنے کردار سے چار
لگاو ميں عدالت کی رعايت نہ کرسکےتو اس کے لئے چار بيويوں کے درميان عدالت قائم کر سکتا ہو ليکن محبت اور دلی ٔ
بيويوں کا رکھنا جائز ہوگا“۔
شاگرد” :ہم ان دونوں آيتوں ميں کيوں عدالت کے دومعنی مراد ليں جب کہ عدالت کے ايک ہی معنی ہوتے ہيں؟“
استاد” :عربی قانون کے لحاظ سے اگر کسی معنی کے لئے قرينہ موجود ہو تو اس کے ظاہری معنی مراد نہ ليتے ہوئے
دوسرے مجازی اور باطنی معنی مراد لے سکتے ہيں ،اور ان دونوں آيتوں ميں واضح شواہد موجود ہيں کہ پہلی آيت ميں
عدالت سے مراد ظاہر رفتار وکرادر اور دوسری ميں باطنی ،جيسا کہ ظاہر آيت سے يہی بات واضح ہوتی ہے ليکن دوسری
آيت ميں جملے اس طرح ہيں۔
” فَالَتَ ِميلُوا ُک ﱠل ْال َمي ِْل فَتَ َذرُوہَا َکال ُم َعلق ِة “][139
َ ﱠ ْ
”اپنے تمام ميالن کو ايک ہی بيوی کی طرف متوجہ نہ کردو کہ اس کے نتيجے ميں دوسری بيويوں کو يوں ہی بال وجہ
چھوڑ دوگے۔
اس جملہ سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ اس آيت ميں جو يہ کہا گيا ہے کہ تم عورتوں کے درميان عدالت نہيں قائم
لگاو اور رجحانات ميں ہوتی ہے اور ظاہرسی بات ہے کہ اس طرح کی کرسکتے اس سے مراد وه عدالت ہے جو قلبی ٔ
عدالت ناممکن ہے يعنی کوئی شخص اگر چار بيويوں کا شوہر ہوگا تو يہ نہيں ہو سکتا کہ وه چاروں کوايک مقدارمينچاہے
اور ان سب سے برابر کی محبت کرے البتہ يہ ممکن ہے کہ وه چاروں سے ايک جيسا سلوک کرے۔
ل ٰہذ اان دونوں آيتوں ميں کوئی تضاد نہيں پاياجاتا۔
شاگرد” :ميں آپ کے اس قانع کننده اور مدلل بيان سے مطمئن ہو گيا،آپ کا شکريہ“۔
کيونکہ ظاہر سی بات ہے اسالمی احکام صرف وہاں تک قابل نفاذ ہوتے ہيں جہاں تک انسان کا اختيار ہو اور عمل يا عدم
عمل پر اسے قابو ہو جہاں تک محبت اور دلی تعلق کا سوال ہے تو يہ ايک اضطراری عمل ہے اور اس کا تعلق احساساتی
پہلووں سے ہوتا ہے اور انسان اپنے احساس اور قلبی محسوسات پر قادر نہيں ہوتا،ل ٰہذا اسالم ميں چار بيويوں کے درميان ٔ
ظاہری طور پر عدالت کا لحاظ رکھنے کی تاکيد کی گئی ہے کيونکہ اس طرح فساد اور لﮍائی کا امکان پايا جاتا ہے ۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
بتائيں؟“
محقق” :يہ حديث مختلف الفاظ ميں نقل ہوئی ہے يہ کوئی ايک حديث نہيں ہے بلکہ دسيوں حديث ہيں جو سب کی سب امام
کے تين سو تيره اصحاب کے بارے ميں منقول ہوئی ہيں ،ان کے نقل کی تعداد اتنی زياده ہے کہ تواتر معنوی کی حد تک
پہنچ چکی ہيں يعنی امام زمانہ عجل ﷲ تعالی فرجہ الشريف کے ظہور کے وقت ٣١٣افراد کا ان سے ملحق ہونا اس قدر
مشہور ہے کہ جس کی شہرت سے اس کا علم پيدا ہوجاتا ہے اور يہ بات ممکن ہوجاتی ہے کہ اتنے سارے لوگوں نے
جھوٹ بول کر اسے نقل کيا ہو اور اس حديث کے لئے اتنی بﮍی سازش رچی ہو۔
جستجو گر” :کوئی بات نہيں جيسا کہ موالنا کی مثنوی ميں ہے“۔
)اگر دريا کے پانی کو نہيں بھر سکتے تو پياس بجھانے کی مقدار کو پينا ہی چاہئے(۔
ل ٰہذا ان احاديث کے ايک دو نمونے ہی پيش کرديں۔
سوره ہود کی آيت ٨٠کی تفسير ميں بيان ہوا کہ جناب لوط عليہ السالم نے اپنی سر کش قوم سے خطاب کرتے ٔ محقق” :
ہوئے کہا:
آوی ِٕالَی ُر ْک ٍن َش ِدي ٍد“”لَوْ أَ ﱠن لِی بِ ُک ْم قُ ﱠوةً أَوْ ِ
”اے کاش تمہارے مقابل ميرے پاس قدرت ہوتی يا ميرے پاس کوئی مضبوط پشت پناه ہوتا“۔
امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا ہے” :يہاں ”قوة“سے مراد وہی قائم عجل ﷲ فرجہ الشريف ہيں اور ”رکن شديد“سے
مراد ان کے /٣١٣اصحاب ہيں“۔][140
دوسری روايت ميں بيان ہوا ہے کہ امام محمد باقر عليہ السالم نے فرمايا ہے:
”لکانّی انظر اليھم مصعدين ِمن نجف الکوفة ثالث مائة وبضعة عشر رجال کأن قلوبھم ُزبر الحديد“۔][141
”جيسے ميں ان تين سو اور کچھ آدميوں کو اپنی آنکھوں سے ديکھ رہا ہوں جو نجف و کوفہ سے اوپر جارہے ہيں گويا ان
کے دل فوالد کے ہيں“۔
جستجو گر” :کيا پوری دنيا ميں ابھی امام کے / ٣١٣اصحاب پيدا نہيں ہوئے جو امام عجل ﷲ تعالی فرجہ الشريف ظہور
کريں اور لوگوں کو دنيا کے ظلم و جور سے نجات حاصل ہو جائے ؟ “
محقق” :يہ / ٣١٣افراد روايت کے مطابق بہت سی خصوصيتوں کے حامل ہوں گے جس کی طرف توجہ دينے سے يہ بات
معلوم ہوتی ہے کہ دنيا ميں ابھی اتنی قوت نہيں ہے کہ وه ايسے لوگوں کو پيدا کر سکے“۔
جستجو گر” :مثالًکون سی خصوصيتيں؟“
تعالی فرجہ
ٰ محقق” :جيسے ہم امام سجاد عليہ السالم سے منقول ايک روايت ميں پﮍھتے ہيں کہ جب امام مہدی عجل ﷲ
الشريف مکہ ميں موجود جم غفير کے سامنے اپنا تعارف کرئيں گے اور لوگوں کو اپنی طرف بالئيں گے تو کچھ لوگ آپ
کو قتل کرنے کے لئے آگے بﮍھيں گے۔
”فيقوم ثالثمائة ونيف فيمنعونہ منہ“۔][142
”تين سو کچھ افراد کھﮍے ہو کر انھيں روک ليں گے“۔
”يجمعھم ﷲ بمکة قزعا ً کقزع الخريف“۔ ][143
”خدا انھيں برسات کے بادلوں کی طرف مکےه ميں اکٹھا کرے گا“۔
”وکانی انظر الی القائم علی منبر الکوفة وحولہ ثالثمائة وثالث رجال عدة اہل البدر وھم اصحاب االلوية وھم حکام ﷲ فی ارضہ
علی خلقہ“۔][144
تعالی فرجہ الشريف(کو کوفہ کے منبر پر ديکھ رہاہوں اور ان کے اطراف بدر ميں شريک ہونے والوں ٰ ”گويا قائم)عجل ﷲ
کی تعداد کے برابر مرد کھﮍے ہيں يہ ان کے پرچم دار اصحاب اور ﷲ کی طرف سے زمين پر حکومت کرنے والے لوگ
ہوں گے“۔
تقوی ميں ايسا ہونا ضروری ہے کہ اگر پوری دنيا کو ٣١٣حصوں ميں بانٹ ديا جائے ٰ اس حديث کی بنا پر ان افراد کا علم و
تو وه سب ايک ايک حصے پر حکومت کرنے کی صالحيت رکھتے ہوں بعض بزرگوں کے قول کے مطابق تين سو تيره
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
افراد امام خمينی کی طرح جنھوں نے ايران کی رہبری سنبھالی ل ٰہذا ايسے تين سو تيره افراد ہونے چاہئے کہ جن کے اندر
ايک ملک کو چالنے کی صالحيت موجود ہو۔
جستجو گر” :اب ميں سمجھ گيا کہ دنيا ميں ان خصوصيات کے ساتھ ابھی تين سو تيره افراد موجود نہيں ہيں اس کے لئے
تعالی فرجہ الشريفٰ ايک وسيع منصوبہ کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے افراد تيار کئے جاسکيں اور امام زمانہ عجل ﷲ
کے ظہور کی راہيں ہموار ہو سکيں جس طرح رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے مقصد کی تکميل اور اسالم کی
باتقوی اور مضبوط وسياسی سوجھ بوجھ رکھنے والے باايمان اصحاب کی ضرورت محسوس کرتے تھے ٰ ترقی کے لئے
تعالی فرجہ الشريف بھی اپنے ظہور کے لئے ايسے ہی افراد کی ضرورت محسوس کرتے ٰ اسی طرح امام زمانہ عجل ﷲ
ہيں۔
کيا آپ ان تين سو تيره افراد کی کچھ خصوصيات بتا سکتے ہيں؟ “
محقق” :سوره ٔ بقره کی ١۴٨ويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں:
”أَ ْينَ َما تَ ُکونُوا يَ ْأ ِ
ت بِ ُک ْم ﷲُ َج ِميعًا“
”تم جہاں کہيں بھی ہوگے ﷲ تمہيں يکجا کر دے گا“۔
امام جعفرصادق عليہ السالم نے مذکوره آيت کو پﮍھنے کے بعد فرمايا:
تعالی فرجہ الشريف کے اصحاب مراد ہيں جن کی تعداد /٣١٣ہوگی خدا کی قسم !امت ٰ ”اس سے امام زمانہ عجل ﷲ
معدودوہی لوگ ہيں خدا کی قسم!سب ايک ساعت ميں اکٹھے ہو جائيں گے جيسے موسم خزاں کے بادل تيز ہوا کے وجہ سے
جمع ہوجائيں،چنانچہ وه سب ايک دوسرے کے پاس جمع ہو جائيں گے“۔][145
اسی طرح ان کی خصوصيات ميں سے يہ بھی ہے کہ وه دور دراز شہروں اور ملکوں سے مکہ آئيں گے“۔][146
تعالی فرجہ الشريف ،ذی طوی )مکہ سے ايک فرسخ کے فاصلہ پر (ان /٣١٣افراد کے انتظار ميں ٰ اور امام زمانہ عجل ﷲ
توقف کريں گے يہاں تک کہ وه لوگ آپ کی خدمت ميں پہنچ جائيں گے اور امام عليہ السالم ان کے ساتھ کعبہ تک آئيں گے
][147وه لوگ پہلے انسان ہوں گے جو امام عليہ السالم کی بيعت کريں گے۔][148
تعالی فرجہ الشريف کے ساتھ ساتھ غيبی امداد سے ماال مال ہونگے اور دست خدا اور اور امام عليہ ٰ وه امام زمانہ عجل ﷲ
السالم کا سايہ ان کے سروں پر سايہ فگن ہوگا۔
جيسا کہ امام سجاد عليہ السالم نے فرماياہے:
”گويا ميں تمہارے صاحب)امام زمانہ عجل ﷲ تعالی فرجہ الشريف(کو ديکھ رہا ہوں جو تين سو اور کچھ افراد کے ساتھ
کوفہ کے پيچھے سے نجف آرہے ہيں داہنے طرف جبرئيل اور بائيں طرف ميکائيل ہيں اور اسرافيل ان کے سامنے ہيں
رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پرچم کو اٹھا ئے ہيں اور اس پرچم کو مخالفوں کے جس گروه کی طرف
جھکاديتے ہيں ﷲ انھيں ہال ک کرديا ہے۔][149
تعالی فرجہ الشريف کے اصحاب کے بارے ميں کيوں ”رجال“ يعنی مردوں کا لفظ استعمال ٰ جستجو گر” :امام زمانہ عجل ﷲ
ہوا ہے کيا ان کے اصحاب ميں عورتيں نہيں رہيں گی؟کيا عورتيں اس تحريک ميں بالکل حصہ نہيں ليں گی؟ “
محقق” :اکثر مردوں کی بات اس لئے آتی ہے کيونکہ ظہور کے ابتدائی ايام ميں صرف جنگ وجہاد کی باتيں ہوں گی ل ٰہذا
مردوں ہی کی بات ہوتی ہے ،اور چونکہ جنگ ميں جائيں گے ليکن عورتيں محاذ کے عالوه محنت کريں گی اور مجاہد وں
کی خدمت کر کے وه بھی جہاد کريں گی۔
اور جہاں تک ان / ٣١٣اصحاب کا سوال ہے تو بعض روايتوں کے مطابق ان ميں عورتيں بھی ہوں گی جيسا کہ امام محمد
باقر عليہ السالم نے فرماياہے:
”۔۔۔ويجی وﷲ ثالث مائة وبضعة رجال فيھم خمسون امراة بمکة علی غير ميعاد قزعا کقزاالخريف“۔][150
”خدا کی قسم ! تين سو اور کچھ آفراد آئيں گے جن ميں سے پچاس عورتيں ہوگی جو سب مکہ کے پاس فصل خزانکے
بادلوں کی طرح بغير کسی طے شده منصوبہ کے تحت جمع ہو جائيں گے۔
تعالی فرجہ الشريف کے ساتھ ٰ مفضل سے نقل ہوا ہے کہ امام جعفر صاق عليہ السالم نے فرماياہے” :اما م مہدی عجل ﷲ
تيره عورتيں ہوں گے“۔
ميں نے کہا” :يہ عورتيں امام عليہ السالم کے پاس کيوں ہوں گی“۔
امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا” :يہ زخميوں کا عالج کريں گی اور جنگی مريضوں کی تيمارداری کريں گی جيسا
کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں مختلف جنگونميں عورتيں اس طرح کا م انجام ديا کرتی تھيں“۔][151
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
جستجو گر” :امام مہدی عجل ﷲ فرجہ الشريف کے عالمی قيام کی نسبت سے يہ تعداد بہت کم ہے؟“
تعالی فرجہ الشريف سے ملحق ہو جائيں گے ليکن اس کے بعد دھيرے ٰ محقق” :يہ اصحاب ابتداہی ميں امام مہدی عجل ﷲ
دھيرے آپ کے اصحاب کی تعداد ميں اضافہ ہوتا چال جائے گا“۔
تعالی فرجہ الشريف کے وه خاص اصحاب ہوں گے جو آپ کی عالمی ٰ واضح عبارت ميں يوں کہا جائے کہ يہ امام عجل ﷲ
حکومت کے مرکزی ارکان ہوں گے مثالً ايک روايت ميں آيا ہے۔
تعالی فرجہ
ٰ ”ٰ / ٣۶٠الہی وکامل اشخاص حجر اسود اور مقام ابراہيم کے درميان بيعت کريں گے وه امام مہدی عجل ﷲ
الشريف کے وزراء اور آپ کے عالمی حکومت کے خاص ارکان ہوں گے“۔
اس کے بعد آپ نے يہ بھی فرمايا:
تعالی فرجہ الشريف کے ستر ہزار اصحاب تکبير کہتے ہوئے شرکت کريں گے پہلی ٰ ”روم کو فتح کرنے ميں امام عجل ﷲ
ہی تکبير کی گرج کے ساتھ وه ايک تہائی روم کو فتح کرليں گے اور دوسری تکبير کی گرج کے ساتھ دوسرا ايک تہائی
حصہ فتح ہو جائے گا تيسری تکبير کے ساتھ ہی پورا روم فتح ہو جائے“۔][152
يا دوسری روايت ميں امام محمد باقر عليہ السالم سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمايا” :ستر ہزار سچے اور مخلص اصحاب
تعالی فرجہ الشريف کی مدد کے لئے اٹھيں گے“۔][153 ٰ کوفہ سے امام مہدی عجل ﷲ
تعالی فرجہ
ٰ اس مناظره کی مکمل کرنے کی غرض سے اور کتاب کے حسن ختام کے طور پر حضرت امام زمانہ عجل ﷲ
الشريف کے متعلق چند روايتيں پيش خد مت ہيں:
١۔امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا:
”ان القائم صلوات ﷲ عليہ ينادی باسمہ ليلة ثالث و عشرين ،ويقوم يوم عاشوراء يوم قتل فيہ الحسين“۔][154
”بال شبہ قائم صلوات ﷲ عليہ کو ان کے نام سے )رمضان کی(/٢٣ويں شب کو ندادی جائے گی اور يوم عاشوره امام حسين
عليہ السالم کے شہادت کے روز آپ کا قيام ہوگا“۔
٢۔امام سجاد عليہ السالم نے فرماياہے:
”اذا قام قائمنا اذھب ﷲ عزوجل عن شيعتنا العاھة،وجعل قلوبھم کزبر الحديد وجعل قوة الرجل منھم قوة اربعين رجال ويکونون
حکام االرض وسنامھا“۔][155
”جب ہمارا قائم قيام کرے گا تو خدا وند عالم تمام آفتيں اور وحشتيں ہمارے شيعوں سے دور کر دے گا اور ان کے دلوں کو
فوالد کی طرف مضبوط کر دے گااس وقت ايک آدمی کی طاقت چاليس آدميوں کے برابر ہو جائے گی وه لوگ تمام دنيا کے
حاکم اور سردارہوں گے“۔
٣۔امام محمد باقر عليہ السالم نے فرماياہے:
”فاذا وقع امرنا وخرج مھدينا ،کان احدھم اجری من الليث ،وامضی من السنان ،ويطأ عدونا بقدميہ و يقتلہ بکفہ“۔][156
”جب ہمار اقائم ظہور کرے گا تو ہمارا ہر شيعہ شير سے زياده جرأت مند ہو جائے گا کہ نيزه سے زياده تيز ہوجائے گا وه
اپنے پيروں سے ہمارے دشمن کو پامال کردے گا اوراپنی ہتھيليوں سے انھيں مار ڈالے گا“۔
۴۔امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا:
”ليعدن أحدکم لخروج القائم و لو سھما“۔][157
تعالی فرجہ الشريف کے ظہور کے لئے تياری کرنا چاہئے بھلے ہی ايک ايک ٰ ”تم لوگوں کو اپنے آپ امام مہدی عجل ﷲ
تير کے ذريعہ ہی کيوں نہ ہو“۔
آپ نے اسی سلسلے ميں يہ حديث بھی فرمائی:
”يذل لہ کل صعب“۔][158
”تمام مشکالت اس کے لئے آسان ہو جائيں گی“۔
--------------------------------------------------------------------------------
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [1سوره مائده ،آيت ۵۵۔
] [2تمام مفسروں کے اتفاق رائے سے يہ آيت امام علی عليہ السالم کی شان ميں نازل ہوئی ہے جب آپ نے رکوع کے عالم
ميں انگوٹھی فقير کو دی تھی اہل سنت کی جن کتابوں ميں يہ بات ذکر ہوئی ہے ان کی تعداد تيس سے زائد ہے جيسے ذخائر
العقبی ٰ،ص،٨٨فتح القدير ،ج،٢ص ،۵٠اسباب النزول واحدی،ص ،١۴٨کنز العمال ،ج ۶ص ٣٩١وغيره مزيدمعلومات کے
لئے کتاب” احقاق الحق“ج ،٢ص ٣٩٩سے ۴١٠کا مطالعہ کريں۔
سوره احزاب آيت ۵٧۔ ٔ ][3
] [4المناظره ،تاليف شيخ حسين بن عبد الصمد ،طبع موسسہ قائم آل محمد )خالصہ اور وضاحت کے ساتھ(
] [5تاريخ طبری ،٢،ص ٢٨١کا خالصہ۔
] [6صحيح بخاری ،ج،٢ص) ١٣٠مطبع الشعب ١٣٧٨ ،ھ۔
] [7مناظرات فی الحرمين الشريفين ،مناظره نمبر ١٣۔
داود ،ص،٢ص ، ٢۶۴وغيره ميں يہی حديث تھوڑے سے فرق کے ساتھ ] [8صحيح ترمذی ،ج،١٣ص ، ١٨٢سنن ابی ٔ
“سعيد بن زيد ”سے بھی نقل ہوئی ہے )الغدير ،ج،١٠ص(١١٨
] [9سوره ٔنساء ،آيت ٩٣۔
] [10مناقب ابن مغازلی ،ص۵٠۔مناقب خوارزمی ،ص٧۶۶و٢۴۔
] [11کنز العمال ،ج،۶ص ١۵٧۔االمامة ولسياسة ،ص٧٣۔مجمع الزوائد ،ہيثمی ،ج،٧ص ٢٣۵وغيره ۔
] [12کنز العمال ،ج،۶ص ١۵٧۔االمامة والسياسة ،ص٧٣۔مجمع الزوائد ،ہيثمی ،ج،٧ص ٢٣۵وغيره ۔
] [13شرح در الغدير ،ج ،١٠ص ١٢٢تا ١٢٨۔
سوره بقره ،آيت ۶٠۔ ٔ ][14
] [15الشيعہ و التشيع ،ص ٢٠۔
سوره نساء آيت ۵٩۔ ٔ ][16
سوره شعراء آيت ٢١۴۔ ٔ ][17
] [18يہ حديث ”يوم االنذار “کے نام سے معروف ہے ،اس کے بہت سارے مدارک ہيں منجملہ :تاريخ طبری،ج،٢ص،۶٣
تاريخ ابن اثير ،ج ،٢۔تاريخ ابو الفداء ،ج ،١وغيره ،مزيد وضاحت کے لئے کتاب احقاق الحق ،ج،۴ص ۶٢کے بعد رجوع
کريں۔
] [19کتاب ”آہين وہابيت“ سے اقتباس ١٢ ،تا ١۴۔
سوره مائده ،آيت ٩٧۔ ٔ ][20
ٰ
شوری آيت٧۔( سوره سوره انعام آيت ٩٢ ُ
]” [21لِتُن ِذ َر أ ﱠم ْالقُ َری َو َم ْن َحوْ لَہَا “)
ٔ ٔ
سوره بقره آيت ١٩٧۔ ٔ ][22
] [23مجمع البيان ،ج، ٢ص٢٩۴۔
صحيفہ نور ،ج، ١٨ص۶۶،۶٧۔ ٔ ][24
صحيفہ نور ،ج ،٢ص١٨۔ ٔ ][25
] [26کحل البصر سے اقتباس ،ص، ١١٩مجمع البيان ،ج،٩ص١٢٧۔
] [27احتجاج طبرسی ،ج ،٢ص ١٩ ،١٨۔
] [28بحار االنوار ،ج،۴۶ص١٢٧۔
] [29منتہی االمال ٢،ص٧٩۔
] [30وسائل الشيعہ ،ج، ٩ص۴٠۶۔
] [31سنن ابن ماجہ ،ج،٢ص ١٩، ١٨۔بحار االنوار،ج،۵٢ص٣١۶۔
] [32اعيان الشيعہ،چاپ جديد ،ج، ١ص١۴۔
] [33وسائل الشيعہ ،ج،٨ص١۴۔
] [34شرح سيره ابن ہشام ،ج ،١ص ٣٨تا ،۶٢بلوغ االرب ،آلوسی ،ج، ١ص ٢۵٠تا٢۶٣۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [35کمال الدين ،ص١٠۴۔تفسير برہان ج،٢ص٧٩۵۔
] [36شرح نہج البالغہ ،ابن ابی الحديد ،ج، ٣ص٣١٢۔
العقبی،ص٢٢٢۔ ٰ ] [37استيعاب ،ج ،٢ص،۵٠٩ذخائر
] [38اس سلسلہ ميں مزيد آگاہی کے لئے کتاب الغدير ،ج ٧ص ٣٣٠تا ۴٠٩مالحظہ کريں۔
] [39الحجة علی الذاھب ،ص٣۶١۔
] [40شرح نہج البالغہ ،ابن ابی الحديد ،ج ،١ص ٣۶٠ ،٣۵٨۔
] [41تفسير ابن کثير ،ج ،٢ص ١٢٨۔
] [42جيسا کہ ابن عباس نے مذکوره آيت کے يہی معنی کئے ہيں ۔)الغدير ،ج(٨
] [43ميزان االعتدال ،ص٣٩٨۔
] [44تہذيب التہذيب ،ج،۴ص١١۵۔
] [45تہذيب التہذيب ،ج،٣ص١٧٩۔
] [46تاريخ طبری ،نقل از کتاب ابو طالب مومن قريش۔
] [47يہاں پر گفتگو بہت ہے ،کتاب الغدير ،ج،٧اور ابو طالب مومن قريش ،ص ٣٠٣تا ٣١١پر رجوع فرمائيں۔
] [48کتاب غاية المرام ميں اس سلسلہ ميں اہل سنت کے ١٢۴اور اہل تشيع سے ١٩روايتيں نقل ہوئی ہيں جن سے يہ ثابت
ہوتا ہے کہ يہ آيت حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں نازل ہوئی )منہاج البراعة ،ج ،٢ص (٣۵٠
] [49نہج البالغہ ،نامہ ،۴۵اس خط کے مطابق آپ کے لئے اس طرح کی انگوٹھی پہننے کی بات ايک تہمت ہے ۔
] [50وقايع االيام ،خيابانی )صيام( ص ۶٢٧۔
سوره احزاب ،آيت ٣٧۔ ٔ ضی َز ْي ٌد ِم ْنہَا َوطَرًا زَ ﱠوجْ نَا َکہَا“ ]” [51فَلَ ﱠما قَ َ
] [52ان آيات سے مزيد آگاہی کے لئے کتاب دالئل الصدق ج ،٢ص ٧٣تا ٣٢١کی طرف رجوع کريں کہ جہاں اس سلسلہ
ميں ٨٢آيت ذکر ہوئی ہيں۔
ہوا ہے کہ يہ آيتيں سب کی سب امام علی عليہ السالم کی خالفت بال فصل اور ان کی واليت و رہبری کے لئے نازل ہوئی ہيں
اور خداوند عالم کا رشاد ہے۔
سوره حشر ،آيت ٧۔ ٔ ][53
پہلووں کو مد نظر رکھ کر يہ ديکھا جائے کہ قرآن مجيد ميں جو کچھ بھی اچھائيوں کا ٔ احساساتی اور عقلی اگر اصوال [ ]54
تقوی ،علم ،جہاد ،ہجرت اور سخاوت ان کا رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے بعد حقيقی مصداق کون ٰ ذکر ہوا جيسے
ہے جو سب پر برتری رکھتا ہے تو حضرت علی عليہ السالم کے عالوه کوئی اور نہيں نظرآئے گا کيونکہ جب تک بزرگی
کے اسباب فراہم نہ ہوں اس وقت تک بﮍی جگہ پر اعتماد نہيں کيا جا سکتا ل ٰہذا قرآن کی آيت ہميں رسول اکرم صلی ﷲ عليہ
و آلہ و سلمکے بعد ہدايت کے لئے حضرت علی کا دروازه دکھاتی ہے مگر کيا ايسا نہيں ہے کہ قرآن فرماتا ہے:
ق أَ ْن يُتﱠبَ َع أَ ﱠم ْن الَيَ ِہدﱢی ِٕاالﱠ أَ ْن يُ ْہدَی فَ َما لَ ُک ْم َک ْيفَ تَحْ ُک ُمونَ “ )سوره يونس ،آيت (٣۵ق أَ َح ﱡ
”أَ فَ َم ْن يَ ْہ ِدی ِٕالَی ْال َح ﱢ
] [55مجلہ رسالہ االسالم ،ارکان رسمی ”دارالتقريب بين المذاہب اال سالمية بالقاہرة ،سال ،١١نمبر ،٣سال ١٣٧٩ھ۔
] [56فی سبيل الوحدة االسالمية ،سيد مرتضی الرضوی ،ص،۵٢،۵۴و۵۵۔
] [57صحيح مسلم ،ج،٣ص۶١۔سنن ترمذی ،ج ،٢ص ،٢۵۶سنن نسائی ،ج، ۴ص٨٨۔
] [58تہذيب التہذيب ،ج،١١ص ،١٢۵ج ،۴ص ،١١۵ج ،٣ص١٧٩۔
] [59تہذيب التہذيب ،ج،١١ص ،١٢۵ج ،۴ص ،١١۵ج ،٣ص١٧٩۔
] [60تہذيب التہذيب ،ج،١١ص ،١٢۵ج ،۴ص ،١١۵ج ،٣ص١٧٩۔
] [61شرح حديدی ،ج،٩ص٩٩۔
] [62الفقہ علی مذاہب االربعة ،ج ،١ص۴٢٠۔
]” [63آئين وہابيت“سے اقتباس ص ۵۶سے ۶۴تک۔
] [64مجمع البيان ،ج، ۴ص)٨٣معالم دين ﷲ (
] [65آئين وہابيت سے اقتباس ص ۴٣سے ۴۶تک۔
] [66الفصول المہمہ ،ص١۴۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [67کفاية الطالب ،ص٣۶١۔
] [68نور االبصار٧۶ ،۔
السول ،ص١١۔] [69مطالب ٔ
] [70دالئل الصدق ،ج،٢ص۵٠٨و۵٠٩۔
] [71دالئل الصدق ،ج،٢ص۵٠٩و۵١٠۔
] [72صحيح مسلم ،کتاب فضائل الصحابہ ،مسند احمد،ج ،۴ص٣٩٨۔
] [73مستدرک حاکم ،ج ،٣ص١۴٩۔
] [74فتاوی صحابی کبير ،ص۶٧٧۔
] [75وقعة الصفين ،طبع مصر ،ص۵٨۔
] [76نہج البالغہ صبحی صالح ،خطبہ ١٢۶۔
] [77نہج البالغہ صبحی صالح ،خطبہ ١٢۶۔
] [78مناقب آل ابی طالب ،ج ،۴ص۶۶۔
] [79فروع کافی ،ج ،۴ص٢٣و ٢۴سے اقتباس۔
] [80انو ار البہيہ ،ص١٢۵۔
] [81عيون اخبار الرضا،ج ،٢ص٢۶٣و٢۶۶۔
] [82نہج البالغہ ،خطبہ٢٢۴۔
] [83معجم البلدان ،ج ،۴ص ١٧۶۔
] [84ارشاد شيخ مفيد ،ص٢٨۴۔مستدرک الوسائل ،ج ،٢ص ۵١۴۔
] [85فروع کافی ،ج ،۵ص ٧۴۔ اسی سے مشابہ دوسری مثاليں اسی کتاب ميں موجود ہيں۔
][86
] [87خمس کی بحث طوالنی ہے ليکن يہاں خالصہ کے طور پر ہم عرض کرتے ہيں ۔
خمس کا اصل مسئلہ سوره انفال آيت ۴٣ميں ذکر ہوا ہے اور اس کے فرعی مسائل کے متعلق تقريبا /٨٠روايتيں )وسائل
الشيعہ،جلد ۶وغيره (ميں ذکر ہوئی ہيں خمس ايک حکومتی خزانہ ہے )زکات کے بر خالف جو عمومی دولت ہے ( نصف
خمس حاکم )اگر اسالمی حکومت ہو ورنہ مراجع تقليد اسی حکم ميں ہيں (کے اختيار ميں ہوتا ہے اور دوسرا حصہ مستحق
سادات کا ہوتا ہے۔ائمہ معصومين عليہم السالم ولی بھی تھے اور سادات بھی ل ٰہذ خمس انھيں کے ہاتھوں ميں رہتا تھا ل ٰہذ ا
انھيں يہ حق حاصل تھا کہ وه اس کو شيعوں کی زندگی گزارنے بھر ان کو دے ديں کيونکہ ان شيعوں کی حفاظت ايک طرح
سے اسالم کی حفاظت تھی کيونکہ ائمہ عليہم السالم کے زمانہ ميں شيعوں کی حفاظت سے زياده بﮍھ کر اسالم کو محفوظ
رکھنے کا کوئی اور ذريعہ نہ تھا ۔
] [88مشارق االنوار سے اقتباس ،بحار االنوار ،ج ، ٧۶ص ۵٧کی نقل کے مطابق۔
سوره نساء آيت ١۶۴۔
ٔ ][89
سوره اعراف آيت ١۵۵کی طرف رجوع فرمائيں۔ ٔ سوره نساء آيت ١۵٣ٔ ] [90سوره ٔ بقره آيت ۵۵۔۵۶
سوره بقره آيت ٢۶٠۔
ٔ ] [91جيسا کہ جناب ابراہيم عليہ السالم نے قيامت کے سلسلہ ميں اسی طرح کا سوال کيا تھا
سوره اعراف آيت ١۵۵۔
ٔ ][92
سوره اعراف آيت ١۴٣۔
ٔ ][93
] [94تفسير روح البيان ،ج ،١ص، ۴٠٠تفسير قرطبی ،ج ،٢ص١٠١٨۔تفسير فخر رازی ،ج،٧ص٩۔
] [95تفسير فخر رازی ،ج ،٧ص٩۔
] [96وسائل الشيعہ ،ج، ١۵ص١٠۔
] [97وسائل الشيعہ ،ج، ١۵ص١٠۔
ره نساء آيت ٢٠۔
] [98سو ٔ
] [99تفسير در منثور ،ج،٢ص١٣٣۔تفسير ابن کثير ،ج١ص۴۶٨۔تفسير قرطبی ،کشاف ،غرائب القرآن ،اسی آيت کے ذيل ميں
۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [100سوره قصص ،آيت ٢٧۔
] [101االحتجاجات العشره سے اقتباس ،احتجاج ۵۔
] [102تاريخ طبری ،ج،١١ص١٣۵٧۔تذکرة الخواص ،ص٢٠٩۔کتاب صفين ،ص٢٢٠۔
] [103تاريخ بغداد ج ،١٢ص ،١٨١شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج ،۴ص٣٣۔
] [104کتاب صفين ابن مزاحم ،ص٢١٩۔مسند بن حنبل ج،۴ص٢۴٨ميں ان کے نام کے جگہ ”فالں فالں “آيا ہے ۔
] [105االثنی عشريہ فی الرد علی الصوفيہ،تالف شيخ حرعاملی ،ص١۶۴۔
] [106بحار ،ج،۴۴ص٢٩٣۔
سوره آل عمران آيت ١۶٩۔ٔ ][107
] [108االحتجاجات العشرة،ص٢٠۔
] [109ماساة الحسين ،تاليف:الخطيب شيخ عبد الوہاب الکاشی ،ص١۵٢۔
] [110ماساة الحسين ،تاليف:الخطيب شيخ عبد الوہاب الکاشی ،ص١٣۵،١٣۶۔
] [111الوقايع والحوادث،ج،٣ص٣٠٧۔
] [112ماساة الحسين عليہ السالم ،ص١٣٧۔
سوره حج آيت ٣٢۔
ٔ ][113
] [114انگيزه پيدائش مذہب ،ص١۵٠۔
] [115منتہی اآلمال ،ج،٢ص٣۔
] [116مذکوره لغت ناموں لفظ ”ختم“
سوره احزاب آيت ۴٠۔
ٔ ][117
] [118اسی وجہ سے امام حسين عليہ السالم نے ان لشکريوں کو عاشورا کے دن ”شيعيان آل ابی سفيان“کہہ کر باليا تھا
جب دشمن خيموں پر حملہ کر نے لگے تو آپ نے فرمايا” :ويلکم يا شيعة آل ابی سفيان“تمہارا برا ہواے ابو سفيان کے اوالد
کے پيروکارو! اگر تم دين نہيں رکھتے اور تمہيں آخرت کا کوئی خوف نہيں تو کم از کم اس دنيا ميں ہی آازاد زندگی
طاووس ص،١٢ ٔ گزارو”،اللہوف“سيد ابن
ً ً
ل ٰہذا اس بنا پر يہی نہيں کہ وه حقيقتا شيعيان علی نہيں تھے بلکہ وه ظاہرا بھی شيعان علی نہيں تھے ۔
] [119مروج الذہب ج ،٢ص ،۶٩شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج ،٣ص ،١٩٩الغدير ج ،١١ص٢٣و٣٩۔
] [120تاريخ طبری،ج،۶ص١٣٢۔کامل بن اثير ،ج،٣ص١٨٣۔
] [121تاريخ طبری،ج،۶ص١٣٢۔کامل بن اثير ،ج،٣ص١٨٣۔
] [122تاريخ طبری،ج،۶ص١٣٢۔کامل بن اثير ،ج،٣ص١٨٣۔۔
] [123الغدير ج ،١١ص۴۴۔
] [124الغدير ج ،١١ص٢٨۔
] [125تنقيح المقال ،ج،٢ص۶٣۔اور اگر فرض کريں اس کے درميان کچھ لوگ برائے شيعہ تھے بھی تب بھی انھيں شيعہ
کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا البتہ ممکن ہے کہ کچھ افراد ايسے رہے ہوں جن کو سياسی اور حکومتی حاالت کا بالکل
اندازه نہ رہا ہو اور اعتقاد ميں بھی وه ضعيف رہے ہوں ل ٰہذا يزيد کی دھمکيوں سے ڈر گئے ہوں اور پيسے کی اللچ ميں
آگئے ہوں مگر اس طرح کے چند افراد کی موجودگی سے يہ کہنا کہ امام حسين کو شيعوں نے قتل کيا ہے ہر گز درست نہ
ہوگا جو واقعا ً شيعہ تھے وه ايسا نہيں کر سکتے تھے کيونکہ سارے حاالت ان کے سامنے تھے سياسی حکومتی تغيرات
سے وه پوری طرح آگاه تھے ،اس وقت کوفہ ميں موجود سارے شيعہ اسی نوعيت کے تھے ،اس طرح کی تمام باتيں بکے
مالوں کے دين ہيں۔جس کی اصالح ہونا چاہئے۔ ہوئے راويوں اور درباری ٔ
] [126تفسير الميزان،ج،٢ص٧۴۔
سوره بقره آيت ٢۵١۔
ٔ ][127
] [128اس طرح کی باتيں دو گروه کرتے ہيں ،متعصب سنی جو شيعوں کو ايرانی سياسی گروه بتانا چاہتا ہے اور ،ايرانی
نيشنلزم ،جنھوں نے اس مذہب کی آڑ ميں اپنے قديم عقائد کو محفوظ کرليا تھا۔
] [129اعيان الشيعہ ج ،٢ص ، ١٨نيا ايڈيشن۔
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com
] [130اس چيز کی تفصيل کتاب ”ايرانيان مسلمان در صدر اسالم و سير تشيع در ايران“ تاليف مولف ميں پﮍھيں۔
] [131کنز العمال،حديث ٣۴١٢۵۔
] [132کنز العمال،حديث ٣۴١٢۶۔
] [133اس بات کی وضاحت کے لئے مناظره نمبر /٣٠کا مطالعہ کريں۔
] [134سوره نساء ،آيت٨ ٢۔
سوره حجر٢٩۔
ٔ سوره ص٧٢،و
ٔ ][135
سوره اعراف آيت ١٧٩۔ٔ ][136
سوره نساء آيت ١٢٩۔
ٔ ][137
] [138تفسير برہان ،ج،١ص٢٢٠۔
سوره نساء آيت ١٢٩۔
ٔ ][139
] [140تفسير برہان ،ج،٢ص٢٢٨۔اثبات الہداة،ج ٧ص١٠٠۔
] [141بحار،ج،۵٢ص٣۴٣۔
] [142بحار االنوار ،ج ،۵٢ص٣٠۶۔
] [143اعيان الشيعہ ،نيا ايڈيشن،ج،٢ص٨۴۔
] [144بحار ،ج،۵٢ص٣٢۶۔
] [145نور الثقلين ،ج،١ص١٣٩۔
] [146اثبات الہداة،ج،٧ص١٧۶۔
] [147اثبات الہداة،ج ،٧ص٩٢۔
] [148بحار،ج،۵٢ص٣١۶۔
] [149اثبات الہداة،ج،٧ص١١٣۔اعيان الشيعہ ،طبع جديد،ج،٢ص٨٢۔
] [150بحار ،ج،۵٢ص٢٣٣۔اعيان الشيعہ ،نيا ايڈيشن،ج،٢ص٨۴۔
] [151اثبات الہداة،ج،٧ص١۵٠و١٧١۔
] [152المجالس السنيہ ،سيد محسن جبل عاملی،ج،۵ص٧١١و٧٢٣و٧٢۴۔
] [153بحار ،ج۵٢،٣٩٠۔
] [154ارشاد مفيد ،ص ،٣۴١بحاراالنوار ،ج ،۵٢ص٢٩٠۔
] [155بحار،ج،۵٢ص٣١٧۔
] [156اثبات الہداة،ج،٧ص١١٣۔
] [157غيبة النعمانية،ص١٧٢۔
] [158بحار ج،۵٢ص٢٨٣۔
تمام شد
Presented by http://www.alhassanain.com & http://www.islamicblessings.com