Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 162

‫فہرست ‪ ‬‬

‫مقدمه و پھال حصه‬


‫دوسرا حصه‬
‫تيسرا حصه‬
‫چوتھاحصه‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ١٠١‬دلچسپ مناظرے‬

‫تاليف‪ :‬استاد محمدی اشتہاردی‬

‫مترجم‪ :‬اقبال حيدر حيدری‬

‫موسسہ امام علی عليہ السالم ۔ قم‬


‫ناشر‪ٔ :‬‬

‫مقدمہ‬

‫اسالم ميں مناظره کی اہميت اور مقاصد کی تکميل ميں اس کا کردار‬


‫حقائق کی وضاحت اور واقعيت کی پہچان کے لئے مناظره اور آمنے سامنے بحث و گفتگو کرنا خصوصا ً اس زمانہ‬ ‫‪The link ed image cannot be display ed. The file may hav e been mov ed,‬‬
‫‪renamed, or deleted. Verify that the link points to the correct file and location.‬‬

‫ميں جبکہ فکری اور علمی ترقی اپنے عروج پر ہے ثقافتی اغراض و مقاصد تک پہنچنے کے لئے بہترين اور مستحکم‬
‫ترين راستہ ہے‪ ،‬اور اگر فرض کريں کہ تعصب‪ ،‬ہٹ دھرمی اور سرکشی کی بنا پر مناظره کسی نتيجہ پر نہ پہنچے تو‬
‫‪   ‬‬
‫کم سے کم اتمام حجت تو ہوہی جاتی ہے۔‬ ‫‪ ‬‬
‫کيونکہ يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ طاقت کے بل بوتہ پر اپنے عقيده اور آئيڈيل کو کسی پر نہيں‬
‫تھونپاجاسکتا‪،‬اور اگر بالفرض کوئی زبردستی قبول بھی کرلے تو چونکہ بے بنياد ہے جلد ہی ختم ہوجائے گا۔‬
‫خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں اس موضوع کو بہت زياده اہميت دی ہے‪ ،‬اور اس کو ايک ”عام قانون“ کے طور پر بيان‬
‫کيا ہے‪ ،‬چنانچہ خداوندعالم نے چار مقامات پر پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے اس طرح فرمايا ہے‪:‬‬
‫صا ِدقِينَ “]‪[1‬‬ ‫” قُلْ ہَاتُوا بُرْ ہَانَ ُک ْم ِٕا ْن ُکنتُ ْم َ‬
‫آو“۔‬
‫”ان سے کہہ ديجئے کہ اگر تم سچے ہو تو کوئی دليل لے ٔ‬
‫جس وقت اسالم دوسروں کو دليل ‪ ،‬برہان اور منطق کی دعوت ديتا ہے تو خود بھی اس کے لئے دليل اور برہان ہونا‬
‫چاہئے۔‬
‫چنانچہ خداوندعالم نے قرآن مجيد ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو خطاب کرتے ہوئے ارشاد فرمايا‪:‬‬
‫ک بِ ْال ِح ْک َم ِة َو ْال َموْ ِعظَ ِة ْال َح َسنَ ِة َو َجا ِد ْلہُ ْم بِالﱠتِی ِہ َی أَحْ َسنُ ۔۔۔“]‪[2‬‬
‫يل َربﱢ َ‬‫ع ِٕالَی َسبِ ِ‬ ‫” اُ ْد ُ‬
‫”آپ اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصيحت کے ذريعہ دعوت ديناور ان سے اس طريقہ سے بحث‬
‫کريں جو بہترين طريقہ ہے“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”حکمت“ سے مراد وه مستحکم طريقے ہيں جو عقل وعلم کی بنياد پر استوار ہوں‪ ،‬اور ”موعظہ حسنہ“ سے مراد‬
‫معنوی و روحانی نصيحتيں ہيں جن ميں عطوفت اور محبت کا پہلو پايا جاتا ہو‪ ،‬اور سننے والے کے پاک احساسات کو‬
‫حق و حقيقت کی طرف اُبھارے‪ ،‬نيز ”مجادلہ“ سے مراد ايک دوسرے کے سامنے بيٹھ کر بحث ميں تنقيدی گفتگو کرنا‪،‬‬
‫اور يہ طريقہ کار اگر انصاف اور حق کی رعايت کرتے ہوئے ہو تو ہٹ دھرم مخالف کو خاموش کرنے کے لئے الزم‬
‫اور ضروری ہے۔‬
‫وضاحت‪ :‬بعض انسانوں ميں حقائق سمجھنے کی فکری صالحيت اور قوی استعداد پائی جاتی ہے ‪ ،‬ايسے لوگوں کو‬
‫جذب کرنے کے لئے عقلی براہين و دالئل بہترين راستہ ہے‪ ،‬ليکن اگر بعض افراد ميں کمتر درجہ صالحيت پائی جاتی‬
‫ہے ان ميں تعصب‪ ،‬عادت اور احساس بہت زياده پايا جاتا ہے‪ ،‬ايسے افراد کو موعظہ اور اچھی نصيحت سے دين کی‬
‫دعوت دی جاتی ہے۔‬
‫اور بعض لوگ ہٹ دھرم‪ ،‬اور غلط فکر رکھتے ہيں ‪ ،‬ہر راستہ سے داخل ہونے کی کوشش کرتے ہيں‬
‫تاکہ اپنے باطل خياالت کوصحيح طريقہ سے پيش کرسکيں‪ ،‬ان کے نزديک دليل اور نصيحت کی کوئی اہميت نہيں‬
‫ہوتی تو ايسے لوگوں سے ”مجادلہ“ کرنا چاہئے‪ ،‬ليکن شائستہ انداز ميں مجادلہ کرنا چاہئے يعنی اخالق حسنہ اور‬
‫انصاف کے ساتھ ان سے بحث و گفتگو کی جائے۔‬
‫اس بنا پر فن مناظره ميں پہلے مناظره کرنے والوں کے حاالت اور احساسات کو پرکھنا چاہئے اور انھيں کے پيش نظر‬
‫مناظره کرنا چاہئے۔‬
‫جيسا کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم بھی مختلف مواقع پر انھيں تينوں طريقوں کو بروئے کار التے تھے اور‬
‫انھيں کے ذريعہ مختلف لوگوں کو اسالم کی دعوت ديتے تھے۔‬
‫حضرت امام صادق عليہ السالم کہ جنھوں نے تقريبا ً چار ہزار شاگردوں کی تربيت کی ہے ان ميں سے ايک گروه‬
‫علمی ميدان ميں مناظره کے فن کا ماہر تھا‪ ،‬جس وقت مخالف علمی بحث و گفتگو کرنے کے لئے آپ کی خدمت ميں‬
‫حاضر ہوتا تھا تو اگر آپ کے پاس وقت نہيں ہوتا تھا تو اپنے شاگردوں کو حکم ديتے تھے کہ ان لوگوں سے بحث و‬
‫مناظره کريں۔‬
‫ّ‬
‫ماده پرست اور منکرين خدا جيسے ابن ابی ال َعوجاء‪ ،‬ديصانی اور ابن مقفع وغيره نے بارہا حضرت امام صادق عليہ‬
‫السالم اور آپ کے شاگردوں سے بحث و گفتگو کی ہے‪ ،‬امام عليہ السالم ان کی باتوں کو سنتے تھے اور پھر ايک ايک‬
‫کرکے ان کا جواب ديتے تھے جيسا کہ ابن ابی ال َعوجاء کہتا ہے‪:‬‬
‫” حضرت امام صادق) عليہ السالم( ہم سے فرمايا کرتے تھے کہ تمہارے پاس جو بھی دليل ہے اس کو بيان کرو‪ ،‬ہم‬
‫آزادانہ طور پر اپنے دالئل پيش کرتے تھے اور امام مکمل طور پر سنتے تھے‪ ،‬اس طرح کہ ہم يہ خيال کربيٹھتے تھے‬
‫کہ ہم نے امام پر غلبہ کرليا ہے‪ ،‬ليکن جب امام کی باری آتی تھی تو بہت ہی متين انداز ميں ہمارے ايک ايک استدالل‬
‫کی تحقيق اور چھان بين کرتے تھے اور ان کو ر ّد کرتے تھے اس طرح کہ بحث و گفتگو کے لئے کسی طرح کا کوئی‬
‫بہانہ باقی نہيں بچتا تھا“۔]‪[3‬‬
‫قرآن مجيد ميں جناب ابراہيم عليہ السالم کے مناظرے‬
‫قرآن مجيد ميں خدا کے عظيم الشان پيغمبر جناب ابراہيم عليہ السالم کے بہت سے مناظرے بيان ہوئے ہيں‪ ،‬قرآن مجيد‬
‫ميں ان کا ذکر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ان کی راه پر چلنے والے اعتقادی‪ ،‬اجتماعی اور سياسی مسائل ميں‬
‫غافل نہيں ہيں‪ ،‬بلکہ مختلف مورچوں پر منجملہ دينی اور ثقافتی مورچہ پر حق اور دين کے دفاع کے لئے استدالل اور‬
‫منطقی گفتگو کرتے ہيں۔‬
‫جناب ابراہيم عليہ السالم کے بت شکنی سے متعلق واقعہ ميں قرآن مجيد ميں ارشاد ہے کہ انھوں نے سب بتوں کو توڑ‬
‫ڈاال ليکن بﮍے بت کو صحيح و سالم چھوڑ ديا‪ ،‬اور جب نمرود کے سامنے معاملہ رکھا گيا تو آپ سے سوال کيا گيا‪:‬‬
‫”تم نے ہمارے بتوں کو کيوں توڑا؟“‬
‫جناب ابراہيم عليہ السالم نے ا ن کے جواب ميں کہا‪:‬‬
‫” قَا َل بَلْ فَ َعلَہُ َکبِي ُرہُ ْم ہَ َذا فَا ْسأَلُوہُ ْم ِٕا ْن َکانُوا يَ ِ‬
‫نطقُونَ “ ]‪[4‬‬
‫”ابراہيم نے کہا کہ يہ ان کے بﮍے نے کيا ہے تم ان سے دريافت کر کے ديکھو اگر يہ بول سکيں“۔‬
‫جناب ابراہيم عليہ السالم نے در حقيقت اس استدالل ميں بت پرستوں کے عقيده کو استدالل کا وسيلہ قرار ديا‪ ،‬اور ايک‬
‫ايسا مستحکم حربہ استعمال کيا‪:‬‬
‫بت پرستوں نے کہا‪” :‬اے ابراہيم! تم تو اچھی طرح جانتے ہو کہ يہ بت بولتے نہيں ہيں؟!“‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫جناب ابراہيم عليہ السالم نے اس موقع سے فائده اٹھاتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫”پس تم ان گونگے بتوں کو کيوں پوجتے ہو‪ ،‬جو نہ کوئی فائده پہنچاسکتے ہيں اور نہ کوئی کام کرنے کی قدرت‬
‫رکھتے ہيں؟! اُف ہو تم پر اور تمہارے پست و ذليل معبودوں پر‪ ،‬کيا تم لوگ غور و فکر نہيں کرتے؟]‪[5‬‬
‫قرآن مجيد ميں ايک دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے‪ :‬نمرود )جناب ابراہيم عليہ السالم کا ہمعصر طاغوت( نے جناب‬
‫ابراہيم عليہ السالم سے کہا‪” :‬تمہارا خدا کون ہے؟“‬
‫قبضہ قدرت ميں موت و حيات ہے‪ ،‬ميں ايسے ہی خدا کے‬ ‫ٔ‬ ‫جناب ابراہيم عليہ السالم نے کہا‪” :‬ميرا خداوه ہے جس کے‬
‫سامنے سجده کرتا ہوں“۔‬
‫نمرود نے سفسطہ )يعنی دھوکہ بازی( شروع کی جس کا ساده لوح انسانوں پر بہت زياده اثر ہوتا ہے‪ ،‬اور چالنا شروع‬
‫کيا‪” :‬اے بے خبر! يہ کام تو ميرے ہاتھ مينبھی ہے‪ ،‬ميں زنده بھی کرتا ہوں اور مارتا بھی ہوں‪ ،‬کيا تم نہيں ديکھتے کہ‬
‫سزائے موت ملنے والے کو رہا کرديتا ہوں اور عام قيدی کو سزائے موت ديديتا ہوں“!!۔‬
‫اور پھر اس نے اپنے کارندوں سے کہا‪ :‬سزائے موت پانے والے مجرم کو آزاد کردو‪ ،‬اور ايک عام قيدی جس کے لئے‬
‫سزائے موت کا حکم نہيں ہے اس کو سولی پر لٹکادو۔‬
‫اس موقع پر جناب ابراہيم عليہ السالم نے نمرود کے مغالطہ اور دھوکہ بازی کے مقابلہ ميں اپنا استدالل شروع کرتے‬
‫ہوئے يوں کہا‪:‬‬
‫بضہ قدرت ميں نہيں ہے بلکہ تمام عالم ہستی اسی کے فرمان کے تحت ہے‪ ،‬اسی‬ ‫”صرف موت وحيات ہی خدا کے ق ٔ‬
‫بنياد پر ميرا خدا صبح سورج کو مشرق سے نکالتا ہے اور غروب کے وقت مغرب ميں غروب کرتا ہے‪ ،‬اگر تو سچ‬
‫کہتا ہے کہ ميں لوگوں کا خدا ہے‬
‫تو تو مغرب سے سورج نکال کر مشرق ميں غروب کرکے دکھا“۔‬
‫قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫ﱠ‬ ‫ْ‬
‫”فَب ُِہتَ الﱠ ِذی َکفَ َر َوﷲُ الَيَ ْہ ِدی القَوْ َم الظالِ ِمينَ “]‪[6‬‬
‫”تو کافر حيران ره گيا اور ﷲ ظالم قوم کی ہدايت نہيں کرتا“۔‬
‫يہ تھے جناب ابراہيم عليہ السالم کے قرآن مجيد ميں بيان ہونے والے بہت سے نمونوں ميں سے دو نمونے‪:‬‬
‫يہ نمونے اس بات کی عکاسی کرتے ہيں کہ مناظره کے صحيح طريقوں کو سيکھنا چاہئے‪ ،‬اور دينی و ثقافتی سازشوں‬
‫کے مقابلہ ميں استدالل اور مناظروں سے مسلح ہونا چاہئے تاکہ موقع پﮍنے پر حق و حقيقت کا دفاع ہوسکے۔‬
‫قرآن مجيد کے سوره نساء آيت ‪ ٧١‬ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫”يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا ُخ ُذوا ِح ْذ َر ُک ْم ۔۔۔“ ]‪[7‬‬
‫” اے ايمان النے والو! اپنے تحفظ کا سامان سنبھال لو“۔‬
‫آيہ شريفہ اس بات کی طرف اشاره کرتی ہے کہ مسلمانوں کو دشمن کے تمام مورچوں پر اور سازشوں کے مقابلہ‬ ‫يہ ٔ‬
‫کے لئے تيار رہنا چاہئے‪ ،‬جن ميں سے ايک مورچہ ثقافتی اور فکری مورچہ ہے‪ ،‬جس کا فائده دوسرے راستوں سے‬
‫زياده اور عميق تر ہے‪ ،‬اور يہ بات واضح ہے کہ ان ميں سے ايک مسئلہ فکری اور ثقافتی پہلو کی شناخت اور علمی و‬
‫استداللی بحث و گفتگو ميں مناظره اور جدل ہے جس کی شناخت کے بعد مناسب موقعوں پر حق کا دفاع کرنے کے‬
‫لئے فائده اٹھانا ضروری ہے۔‬
‫حضرت امام صادق عليہ السالم مخالفوں سے مناظره کی ضرورت کے پيش نظر فرماتے ہيں‪:‬‬
‫”خَاص ُموہُم َو بَيﱠنُوا لَہُ ُم ْالہُدَی الﱠ ِذی اَ ْنتُ ْم َعلَ ْي ِہ‪َ ،‬و بَيﱠنُوا لَہُ ْم َ‬
‫ضاللَتَہُ ْم َو بَ ِاہلُوہُ ْم فِی ع ﱟ‬
‫َلی َعلَ ْي ِہ السﱠالم“۔]‪[8‬‬
‫”مخالفين سے بحث و گفتگو کرو‪ ،‬اور راه ہدايت جس پر تم ہو ان لوگوں پر واضح کرو اور ان کی گمراہی کو روشن‬
‫کرو‪ ،‬اور حقانيت علی عليہ السالم کے بارے ميں ان سے ”مباہلہ“ )ايک دوسرے پر لعنت اور باطل کے طرفداروں‬
‫کے لئے خدا کی طرف سے بال نازل ہونے کی درخواست( کرو“۔‬
‫اس بنياد کی بنا پر خود پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليہم السالم اور اسی طرح شيعوں‬
‫کے عظيم الشان علماء ہميشہ مناسب موقعوں پر بحث و گفتگو‪ ،‬جدل اور مناظرے کيا کرتے تھے‪ ،‬اور اس طريقہ سے‬
‫بہت سے ا فراد کو راه ہدايت کی راہنمائی فرماتے اور گمراہی سے نجات ديتے تھے۔]‪[9‬‬
‫حضرت امام باقر عليہ السالم کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫”علماء شيعتنا مرابطون فی الثغر الذی يلی ابليس و عفاريتہ‪ ،‬يمنعونہم عن الخروج علی ضعفاء شيعتنا‪ ،‬و عن ان يتسلط‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫عليہم ابليس و شيعتہ النواصبُ ‪ ،‬اال فمن انتصب کان افضل ممن جاہد الروم وا لترک والخزر‪ ،‬الف الف مرة‪ ،‬النہ يدفع عن‬
‫ا ديان محبينا‪ ،‬و ذلک يدفع عن ابدانہم“۔]‪[10‬‬
‫”ہمارے شيعہ علماء ان سرحدوں کے محافظوں کی فر ع ہيں جو شيطان اور اس کے لشکر والوں کے مقابلہ ميں صف‬
‫آراء ہيں‪ ،‬وه ہمارے ضعيف شيعوں پر حملہ کرنے سے دشمن کو روکتے ہيں‪ ،‬نيز شيطان اور اس کے ناصبی‬
‫پيروکاروں کے مسلط ہونے ميں مانع ہوتے ہيں‪ ،‬آگاه ہوجاؤ کہ اس طرح کا دفاع کرنے والے شيعوں کی قدر و قيمت‬
‫ہزار ہزار درجہ زياده ہے ان سپاہيوں سے جو دشمنان اسالم ؛ روم‪ ،‬ترک اور خزر کے کفار سے جنگ ميں شريک‬
‫ہوئے ہيں‪ ،‬کيونکہ يہ )شيعہ علماء( اسالمی عقائد اور اسالمی ثقافت کے محافظ اور دينداروں کا دفاع کرنے والے‬
‫ہيں‪،‬جبکہ مجاہدين صرف جغرافيائی اعتبار سے اسالمی سرحدوں کا دفاع کرنے والے ہيں“۔‬
‫االزہر يونيورسٹی کے ايک بزرگ استاد جناب شلتوت کا قول‬
‫”االزہر “ )مصر( يونيورسٹی کے استاد کبير اور مفتی جناب شيخ محمود شلتوت جو اہل سنت کے ممتاز اور جيّد عالم‬
‫دين تھے‪ ،‬اپنے ايک انٹريو ميں اس طرح کہتے ہيں‪:‬‬
‫”والباحث المستوعب المنصف‪ ،‬سيجد کثيراً فی مذہب الشيعة ما يقوی دليلہ و يلتئم مع اہداف الشريعة من صالح االٔسرة‬
‫والمجتمع‪ ،‬و يدفعہ الی االخذ و االرشاد اليہ“۔‬
‫پہلووں کو مد نظر رکھتے ہوئے جب اسالم کے بارے ميں تحقيق کرتا ہے تو‬ ‫”وه محقق جو انصاف کی بنياد پر تمام ٔ‬
‫بہت سے مقامات پر مذہب تشيع کے بارے ميں تحقيق کرتا ہے تو اس کو ايسا لگتا ہے کہ ان کی دليليں بہت مستحکم‪،‬‬
‫شريعت اسالم کے اہداف و مقاصد کے ہمراه‪ ،‬نسل و معاشره کی اصالح سے اس طرح ہم آہنگ ہيں‪ ،‬جس کی بنا پر‬
‫انسان مذہب شيعہ اور ان کے اصول کی طرف مائل ہوجاتا ہے“۔‬
‫اور اس کے بعد نمونہ کے طور پر چند معاشرتی اور گھريلو ]‪[11‬مسائل کو بيان کرتے ہوئے کہتے ہيں‪” :‬جس وقت ان‬
‫مسائل ميں مجھ سے سوال ہوتا ہے تو ميں شيعہ فتووں کی بنياد پر جواب ديتا ہوں“۔]‪[12‬‬
‫ايک عظيم الشان استاد جو قاہره االزہر يونيورسٹی کا مقبول استاد ہو اس کی زبان سے يہ اعتراف واقعا ً بہت مفيد اور‬
‫اميد بخش ہے‪ ،‬کيونکہ موصوف مذہب تشيع کو برہان و استدالل کی بنياد پر اسالم ناب محمدی کے اہداف سے ہم آہنگ‬
‫فتوی اور مذہب تشيع کی پيروی کی صحت اور قاہره کے بﮍے بﮍے دانشوروں کی‬ ‫ٰ‬ ‫قرار ديتے ہيں‪ ،‬اور ان کا تاريخی‬
‫تائيد کے بارے ميں مناظره نمبر ‪ ۵٨‬ميں بيان ہوگا۔ )انشاء ﷲ(‬
‫کتاب ٰھذا کے بارے ميں‪:‬‬
‫اس کتاب ميں اسالم کے عظيم الشان رہبروں‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ ،‬ائمہ معصومين عليہم السالم اور‬
‫گزشتہ اور دور حاضر کے دينی عظيم الشان علمائے کرام کے مختلف مناظرے ذکر کے گئے ہيں‪ ،‬جو اس چيز کو بيان‬
‫کرتے ہيں کہ يہ حضرات منکرين خدا اور جاہل لوگوں سے کس طرح کا طريقہ کار اپناتے تھے نيز ان کی منطق اور‬
‫استدالل کے مقابلہ ميں انسانوں پر کس طرح تاثير ہوتی تھی‪ ،‬جو ہمارے لئے ايک درس ہے کہ کس طرح حق و حقيقت‬
‫کا دفاع کريں؟ اور فن استدالل اور صحيح مناظره کا کردار لوگوں کے جذب کرنے اور ان کو قانع کرنے ميں بہت‬
‫زياده موثر ہے‪ ،‬اسی وجہ سے مناسب ہے کہ ہم ان طريقوں کو سيکھيں اور انھيں کے ذريعہ مختلف موقع و محل پر‬
‫جاہل اور گمراه لوگوں کی ہدايت کا سامان فراہم کريں۔‬
‫يہ کتاب ‪،‬دو حصوں پر مشتمل ہے‪:‬‬
‫پہال حصہ‪ :‬جس ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ ،‬ائمہ معصومين عليہم السالم اور ان حضرات کے شاگردوں‬
‫کے ذريعہ مختلف افراد سے مختلف موضوعات پر کئے جانے والے مناظروں کے نمونے بيان ہوئے ہيں۔‬
‫دوسرا حصہ‪ :‬ممتاز علماء اور اسالمی محققين کے مختلف گروہوں سے کئے جانے والے مناظرے۔‬
‫اميد ہے کہ ”ايک سو ايک مناظروں کا يہ مجموعہ “ مناظره کی روش اور طريقہ کی پہچان کے لئے بہترين ناصر و‬
‫مونس قرار پائے‪ ،‬جس کے پيش نظر ”اسالمی اہداف و مقاصد“ کی تکميل کے لئے ثمر بخش نتائج برآمد ہوں‪ ،‬تاکہ‬
‫مستحکم علمی مناظروں کے ذريعہ ”حقيقی اسالم “ کے مخالفوں کی ”دينی اور ثقافتی سازشوں“ کا س ّد باب کرسکيں۔‬
‫والسالم عليکم و رحمة ﷲ وبرکاتہ‬
‫محمد محمدی اشتہاردی‬
‫حوزه علميہ ‪،‬قم المقدسہ‬
‫موسم سرما‪١٣٧١ ،‬ھ ش‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫پہال حصہ‪:‬‬

‫پيغمبر اکرم)ص(‪ ،‬ائمہ معصومين عليہم السالم اور ان کے شاگردوں کے مناظرے‬

‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے چند مناظرے‬

‫‪١‬۔ پانچ گروہوں کا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے مناظره]‪[13‬‬
‫‪ / ٢۵‬افراد پر مشتمل اسالم مخالفوں کے پانچ گروه نے آپس ميں يہ طے کيا کہ پيغمبر کے پاس جاکر مناظره کريں۔‬
‫ان گروہوں کے نام اس طرح تھے‪ :‬يہودی‪ ،‬عيسائی‪ ،‬ما ّدی‪ ،‬مانُوی اور بت پرست۔‬
‫يہ لوگ مدينہ ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور آکر آنحضرت صلی ﷲ عليہ و‬
‫آلہ و سلم کے چاروں طرف بيٹھ گئے‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے بہت ہی کشاده دلی کا مظاہره کرتے‬
‫ہوئے ان کو بحث کا آغاز کرنے کی اجازت دی۔‬
‫يہودی گروه نے کہا‪:‬‬
‫”ہم اس بات پر عقيده رکھتے ہيں کہ ”عزير“ نبی]‪ [14‬خدا کے بيٹے ہيں‪ ،‬ہم آپ سے بحث و گفتگو کرنا چاہتے ہيناور‬
‫اگر اس مناظره ميں ہم حق پر ہوں تو آپ بھی ہمارے ہم عقيده ہوجائيں کيونکہ ہم آپ سے مقدم ہيں‪ ،‬اور اگر آپ نے‬
‫ہماری موافقت نہ کی تو پھر ہم آپ کی مخالفت کرنے پر مجبور ہوجائيں گے“۔‬
‫عيسائی گروه نے کہا‪:‬‬
‫عيسی عليہ السالم خدا کے بيٹے ہيں‪ ،‬اور خدا ان کے ساتھ متحد ہوگيا ہے‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫”ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ حضرت‬
‫ہم آپ کے پاس بحث و گفتگو کرنے کے لئے آئے ہيں‪ ،‬اگر آپ ہماری پيروی کريں اور ہمارے ہم عقيده ہوجائيں )تو‬
‫بہتر ہے( کيونکہ ہم اس عقيده ميں آپ سے مقدم ہيں‪ ،‬اور اگر آپ نے ہمارے اس عقيده ميں مخالفت کی تو ہم )بھی( آپ‬
‫کی مخالفت کريں گے“۔‬
‫ما ّده پرست )منکر خدا( گروه نے کہا‪:‬‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫”ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ ”موجوات عالم“ کا کوئی آغاز اور انجام نہيں ہے‪ ،‬اور يہ ”عالم“ قديم اور ہميشہ‬
‫سے ہے‪ ،‬ہم يہاں آپ سے بحث و گفتگو کے لئے آئے ہيں‪ ،‬اگر آپ ہماری موافقت کريں گے تو واضح ہے کہ برتری‬
‫ہماری ہوگی‪ ،‬ورنہ ہم آپ کی مخالفت کريں گے“۔‬
‫دو گانہ پرست آگے بﮍھے اور کہا‪:‬‬
‫ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ اس دنيا کے دو مربی‪ ،‬دو تدبير کرنے والے اور دو مبدأ ہيں‪ ،‬جن ميں سے ايک نور‬
‫اور روشنی کا خلق کرنے واال ہے اور دوسرا ظلمت اور تاريکی کا خالق ہے‪ ،‬ہم يہاں پر آپ سے مناظره کرنے کے‬
‫لئے آئے ہيں‪ ،‬اگر آپ اس بحث ميں ہمارے ہم عقيده ہوگئے تو بہتر ہے اور اس ميں ہماری سبقت اور برتری ہے‪ ،‬اور‬
‫اگر آپ نے ہماری مخالفت کی تو ہم بھی آپ کی مخالفت کريں گے“۔‬
‫بت پرستوں نے کہا‪:‬‬
‫ہم اس بات پر عقيده رکھتے ہيں کہ يہ ہمارے بت ہمارے خدا ہيں‪ ،‬ہم آپ سے اس سلسلہ ميں بحث و گفتگو کرنے آئے‬
‫ہيں‪ ،‬اگر آپ اس عقيده ميں ہمارے موافق ہوگئے تو معلوم ہے کہ سبقت اور تقدم ہمارا ہے‪ ،‬ورنہ تو ہم آپ سے دشمنی‬
‫کريں گے“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے جواب ميں ارشاد فرمايا‪:‬‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے پہلے کلی طور پر جواب ميں بيان فرمايا‪:‬‬
‫)تم نے اپنا عقيده بيان کرديا‪ ،‬اب ميری باری ہے کہ ميں اپنا عقيده بيان کروں( ”ميرا عقيده ہے کہ خداوندعالم وحده‬
‫الشريک ہے‪ ،‬ميں اس کے عالوه ہر دوسرے معبود کا منکر ہوں‪ ،‬اور ميں ايسا پيغمبر ہوں جس کو خداوندعالم نے تمام‬
‫دنيا کے لئے مبعوث کيا ہے‪ ،‬ميں خداوندعالم کی رحمت کی بشارت اور اس کے عذاب سے ڈرانے واال ہوں‪ ،‬نيز ميں‬
‫دنيا بھر کے تمام لوگوں پر حجت ہوں‪ ،‬اور خداوندعالم مجھے دشمنوں اور مخالفوں کے خطره سے محفوظ رکھے گا“۔‬
‫اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان گروہوں کو باری باری مخاطب کيا تاکہ ہر ايک سے الگ‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫الگ مناظره کريں‪ ،‬چونکہ يہوديوں کے گروه نے چيلنج کيا تھا اس وجہ سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے‬
‫يہوديوں کے گروه کو مخاطب کيا‪:‬‬

‫ا۔ يہوديوں سے مناظره‬


‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬کيا تم لوگ يہ چاہتے ہو کہ ميں تمہاری باتوں کو بغير کسی دليل کے مان لوں؟‬
‫يہودی گروه‪ :‬نہيں۔‬

‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬اس بات پر تمہارے پاس کيا دليل ہے کہ ”عزير“ خدا کے بيٹے ہيں؟‬
‫يہودی گروه‪ :‬کتاب ”توريت “مکمل طور پر نيست و نابود ہوچکی تھی اور کوئی اس کو زنده نہيں کرسکتا تھا‪ ،‬جناب‬
‫عزير نے اس کو زنده کيا‪ ،‬اس وجہ سے ہم کہتے ہيں کہ وه خدا کے بيٹے ہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬اگر تمہارے پاس جناب عزير کے خدا کے بيٹے ہونے پر يہی دليل ہے تو‬
‫موسی )عليہ السالم( جو توريت النے والے اور جن کے پاس بہت سے معجزات تھے جن کا تم لوگ خود‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫اعتراف کرتے ہو‪ ،‬وه تو اس بات کے زياده مستحق ہيں کہ وه خدا کے بيٹے يا اس سے بھی باالتر ہوں ! پس تم لوگ‬
‫موسی )عليہ السالم( کے لئے يہ عقيده کيوں نہيں رکھتے جن کا درجہ جناب عزير سے بھی بلند و باال ہے؟‬ ‫ٰ‬ ‫جناب‬
‫اس کے عالوه اگر خدا کا بيٹا ہونے سے تمہارا مقصود يہ ہے کہ عزير بھی دوسرے باپ اور اوالد کی طرح شادی اور‬
‫ہمبستری کے ذريعہ خدا سے پيدا ہوئے ہيں تو اس صورت ميں تم نے خدا کو ايک ما ّدی‪ ،‬جسمانی اور محدود‬
‫موجودقرار ديديا ہے‪ ،‬جس کا الزمہ يہ ہے کہ خدا کے لئے کوئی خلق کرنے واال ہو‪ ،‬اور اس کو دوسرے خالق کا‬
‫محتاج تصور کريں۔‬
‫يہودی گروه‪ :‬جناب عزير کا خدا کا بيٹا ہونے سے ہماری مراد يہ نہيں ہے کہ ان کی اس طرح والدت ہوئی‪ ،‬کيونکہ يہ‬
‫معنی مراد لينا جيسا کہ آپ نے فرمايا کفر و جہل کے مترادف ہے‪ ،‬بلکہ ہماری مراد ان کی شرافت اور ان کا احترام‬
‫ہے‪،‬جيسا کہ ہمارے بعض علماء اپنے کسی ايک ممتاز شاگرد کو دوسروں پر ترجيح ديتے ہيں اور اس کے لئے کہتے‬
‫ہيں‪” :‬اے ميرے بيٹے!“ يا ”وه ميرا بيٹا ہے“‪ ،‬يہ بات تو معلوم ہے کہ والدت کے لحاظ سے بيٹا نہيں ہے کيونکہ شاگرد‬
‫‪،‬استاد کی اوالد نہيں ہوتی اور نہ ہی اس سے کوئی رشتہ داری ہوتی ہے‪ ،‬اسی طرح خداوندعالم نے جناب عزير کی‬
‫شرافت اور احترام کی وجہ سے ان کو اپنا بيٹا کہا ہے‪ ،‬اور ہم بھی اسی لحاظ سے ان کو ”خدا کا بيٹا“ کہتے ہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬تمہارا جواب وہی ہے جو ميں دے چکا ہوں‪ ،‬اگر يہ منطق اور دليل اس بات کا‬
‫موسی )عليہ السالم( جناب عزير سے‬ ‫ٰ‬ ‫سبب ہے کہ جناب عزير خدا کے بيٹے بن جائيں تو پھر جو شخص مثل حضرت‬
‫بھی بلند و باال ہوں اس بات کا زياده مستحق ہيں۔‬
‫خداوندعالم کبھی بعض لوگوں کو دالئل اور اپنے اقرار کی وجہ سے عذاب کرے گا‪ ،‬تمہاری دليل اور تمہارا اقرار اس‬
‫موسی عليہ السالم کے بارے ميں اس سے بﮍھ کر کہو جو جناب عزير کے‬ ‫ٰ‬ ‫بات کی عکاسی کرتا ہے کہ تم لوگ جناب‬
‫بارے ميں کہتے ہو‪ ،‬تم لوگوں نے مثال دی اور کہا‪ :‬کوئی بزرگ اور استاد اپنے شاگرد سے کوئی رشتہ داری نہيں‬
‫رکھتا بلکہ اس سے محبت اور احترام کی وجہ سے کہتا ہے‪:‬‬
‫”اے ميرے بيٹے!“ يا ”وه ميرا بيٹا ہے“‪ ،‬اس بناء پر تم لوگ يہ بھی جائز سمجھو کہ وه اپنے دوسرے محبوب شاگرد‬
‫سے کہے‪” :‬يہ ميرا بھائی ہے“‪ ،‬اور کسی دوسرے سے کہے‪” :‬يہ ميرا استاد ہے“‪ ،‬يا ”يہ ميرا باپ اور ميرا آقا ہے“۔‬
‫يہ تمام الفاظ شرافت اور احترام کی وجہ سے ہيں‪ ،‬جس کا بھی زياده احترام ہواس کو بہتر اور با عظمت الفاظ سے‬
‫موسی )عليہ السالم( خدا کے بھائی ہيں‪ ،‬يا خدا کے‬ ‫ٰ‬ ‫پکارا جائے‪ ،‬اس صورت ميں تم اس بات کو بھی جائز مانو کہ جناب‬
‫موسی )عليہ السالم( کا مرتبہ جناب عزير سے بلند و باال ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫استاد يا باپ ہيں‪ ،‬کيونکہ جناب‬
‫موسی )عليہ السالم( خدا کے‬
‫ٰ‬ ‫اب ميں تم سے ايک سوال کرتا ہوں کہ کيا تم لوگ اس بات کو جائز مانتے ہو کہ جناب‬
‫بھائی‪ ،‬يا خدا کے باپ يا خدا کے چچا‪ ،‬يا خدا کے استاد ‪ ،‬آقا اور ان کے سردار ہوں‪ ،‬اور خداوندعالم احترام کی وجہ‬
‫موسی )عليہ السالم( سے کہے‪ :‬اے ميرے باپ!‪ ،‬اے ميرے استاد‪ ،‬اے ميرے چچا اور اے ميرے سردار۔۔۔؟‬ ‫ٰ‬ ‫سے جناب‬
‫يہ سن کريہودی گروه ال جواب ہوگيا اور اس سے کوئی جواب نہ بن پايا‪ ،‬اور وه حيران و پريشان ره گئے تھے‪،‬چنانچہ‬
‫انھوں نے کہا‪” :‬آپ ہميں غور و فکر اور تحقيق کرنے کی اجازت ديں!“‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬بے شک تم لوگ اگر پاک و صاف دل اور انصاف کے ساتھ اس سلسلہ ميں‬
‫غور و فکر کرو تو خداوندعالم تم لوگوں کو حقيقت کی طرف راہنمائی فرمادے گا۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٢‬۔ عيسائيوں سے مناظره‬
‫عيسائيوں کی باری آئی تو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمايا‪:‬‬
‫عيسی مسيح کے ساتھ متحد ہے‪ ،‬اس عقيده سے تمہاری مراد کيا‬ ‫ٰ‬ ‫تم لوگ کہتے ہو کہ خداوندقديم اپنے بيٹے حضرت‬
‫ہے؟‬
‫کيا تم لوگوں کی مراد يہ ہے کہ خدانے اپنے قديم ہونے سے تنزل کرليا ہے‪ ،‬اور ايک حادث )جديد خلقت( موجود ميں‬
‫عيسی( کے ساتھ متحد ہوگيا ہے يا اس کے برعکس‪ ،‬يعنی حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫تبديل ہوگيا ہے‪ ،‬اور ايک حادث موجود )جناب‬
‫عيسی جو ايک حادث اور محدود موجود ہيں انھوں نے ترقی کی اوروه خداوندقديم کے ساتھ متحد ہوگئے ہيں‪ ،‬يا اتحاد‬ ‫ٰ‬
‫عيسی کا احترام اور شرافت ہے؟!‬
‫ٰ‬ ‫سے تمہارا مقصد صرف حضرت‬
‫اگر تم لوگ پہلی بات کو قبول کرتے ہو يعنی قديم وجود حادث وجود ميں تبديل ہوگيا تو يہ چيز عقلی لحاظ سے محال‬
‫ہے کہ ايک ازلی و المحدود چيز‪ ،‬حادث اور محدود ہوجائے۔‬
‫اور اگر دوسری بات کو قبول کرتے ہو تو وه بھی محال ہے‪ ،‬کيونکہ عقلی لحاظ سے يہ چيز بھی محال ہے کہ ايک‬
‫محدود اور حادث چيز المحدود اور ازلی ہوجائے۔‬
‫عيسی )عليہ السالم( دوسرے بندوں کی طرح حادث‬ ‫ٰ‬ ‫اور اگر تيسری بات کے قائل ہو تو اس کے معنی يہ ہيں کہ جناب‬
‫عيسی )عليہ‬
‫ٰ‬ ‫ہيں ليکن وه خدا کے ممتاز اور الئق احترام بنده ہيں‪ ،‬تو اس صورت ميں بھی خداوندکا )جو قديم ہے( جناب‬
‫السالم( سے متحد اور برابر ہونا قابل قبول نہيں ہے۔‬
‫عيسی مسيح )عليہ السالم( کو خاص امتيازات سے نوازا ہے‪ ،‬عجيب و‬ ‫ٰ‬ ‫عيسائی گروه‪ :‬چونکہ خداوندعالم نے حضرت‬
‫غريب معجزات اور دوسری چيزيں انھيں دی ہيں‪ ،‬اسی وجہ سے ان کو اپنا بيٹا قرار ديا ہے‪ ،‬اور يہ خدا کا بيٹا ہونا‬
‫شرافت اور احترام کی وجہ سے ہے!‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬بعينہ يہی مطلب يہوديوں سے گفتگو کے درميان بيان ہوا ہے اور تم لوگوں نے‬
‫سنا کہ اگر يہ طے ہو کہ خداوندعالم نے ان کو امتياز اور )معجزات( کی بنا پر اپنا بيٹا قرار ديا ہو تو پھر جو شخص‬
‫عيسی )عليہ السالم( سے بلند تر يا ان کے برابر ہو تو پھر اس کو اپنا باپ‪ ،‬يا استاد يا اپنا چچا قرار دے۔۔۔“۔‬‫ٰ‬ ‫جناب‬
‫عيسائی گروه يہ اعتراض سن کر الجواب ہوگيا‪ ،‬نزديک تھا کہ ان سے بحث و گفتگو ختم ہوجائے‪ ،‬ليکن ان ميں سے‬
‫ايک شخص نے کہا‪:‬‬
‫کيا آپ جناب ابراہيم) عليہ السالم( کو ”خليل خدا“ )يعنی دوست خدا( نہيں مانتے؟“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬جی ہاں‪ ،‬مانتے ہيں۔‬
‫عيسی )عليہ السالم( کو ”خدا کا بيٹا“ مانتے ہيں‪ ،‬پھر کيوں آپ ہم کو اس عقيده سے‬ ‫ٰ‬ ‫عيسائی‪ :‬اسی بنياد پر ہم جناب‬
‫روکتے ہيں؟‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬يہ دونوں لقب آپس ميں بہت فرق رکھتے ہيں‪،‬لفظ ”خليل“ دراصل لغت ميں‬
‫”خَلّہ“ )بروزن ذرّة( سے ہے جس کے معنی فقر و نياز اور ضرورت کے ہيں‪ ،‬کيونکہ جناب ابراہيم) عليہ السالم( بی‬
‫نہايت خدا کی طرف متوجہ تھے‪ ،‬اور عفت نفس کے ساتھ‪ ،‬غير سے بے نياز ہوکر صرف خداوندعالم کی بارگاه کا فقير‬
‫اور نياز مند سمجھتے تھے‪ ،‬اسی وجہ سے خداوندعالم نے جناب ابراہيم )عليہ السالم( کو اپنا ”خليل“ قرار ديا‪ ،‬تم لوگ‬
‫جناب ابراہيم) عليہ السالم( کو آگ ميں ڈالنے کا واقعہ ياد کرو‪:‬‬
‫جس وقت )نمرود کے حکم سے( ان کو منجنيق ميں رکھا تاکہ ان کو آسمان سے باتيں کرتی ہوئی آگ کے اندر ڈاال‬
‫جائے‪ ،‬اس وقت جناب جبرئيل خدا کی طرف سے آئے اور فضا ميں ان سے مالقات کی اور ان سے عرض کی کہ ميں‬
‫خدا کی طرف سے آپ کی مدد کرنے کے لئے آيا ہوں‪ ،‬جناب ابراہيم) عليہ السالم( نے ان سے کہا‪ :‬مجھے غير خدا کی‬
‫کوئی ضرورت نہيں ہے‪ ،‬مجھے اس کی مدد کافی ہے‪ ،‬وه بہترين محافظ اور مددگار ہے‪ ،‬اسی وجہ سے خداوندعالم نے‬
‫جناب ابراہيم) عليہ السالم( کو اپنا ”خليل“ قرار ديا‪ ،‬خليل يعنی خداوندعالم کا محتاج اور ضرورت مند‪ ،‬اور خلق خدا‬
‫سے بے نياز۔‬
‫اور اگر لفظ خليل کو ” ِخلّہ“ )بروزن ِپلّہ( سے مانيں جس کے معنی ”معانی کی تحقيق اور خلقت وحقائق کے اسرار و‬
‫رموز پر توجہ کرنا ہے“‪ ،‬اس صورت ميں بھی جناب ابراہيم) عليہ السالم( خليل ہيں يعنی وه خلقت اور حقائق کے‬
‫اسرار اور لطائف سے آگاه تھے‪ ،‬اور يہ معنی خالق و مخلوق ميں شباہت کی باعث نہيں ہوتی‪ ،‬اس بنا پر اگر جناب‬
‫ابراہيم) عليہ السالم( صرف خدا کے محتاج نہ ہوتے‪ ،‬اور اسرار و رموز سے آگاه نہ ہوتے تو خليل بھی نہ ہوتے‪ ،‬ليکن‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫باپ بيٹے کے درميان پيدائشی حوالہ سے ذاتی رابطہ ہوتا ہے‪ ،‬يہاں تک کہ اگر باپ اپنے بيٹے سے قطع تعلق کرلے تو‬
‫بھی وه اس کا بيٹا ہے اور باپ بيٹے کا رشتہ باقی رہتا ہے۔‬
‫اس کے عالوه اگر تمہاری دليل يہی ہے کہ چونکہ جناب ابراہيم) عليہ السالم( خليل خدا ہيں ل ٰہذا وه خدا کے بيٹے ہيں‪،‬‬
‫موسی )عليہ السالم( بھی خدا کے بيٹے ہيں‪ ،‬بلکہ جس طرح ميں نے‬ ‫ٰ‬ ‫تو اس بنياد پر تمہيں يہ بھی کہنا چاہئے کہ جناب‬
‫يہودی گروه سے کہا‪ ،‬اگر يہ طے ہو کہ لوگوں کے مقام و عظمت کی وجہ سے يہ نسبتيں صحيح ہوں تو کہنا چاہئے کہ‬
‫موسی )عليہ السالم( خدا کے باپ‪ ،‬استاد‪ ،‬چچا يا آقا ہيں۔۔۔ جبکہ تم لوگ کبھی بھی ايسا نہيں کہتے۔‬ ‫ٰ‬ ‫جناب‬
‫عيسی )عليہ السالم( پر نازل ہونے والی کتاب انجيل کے حوالہ سے‬ ‫ٰ‬ ‫عيسائيوں ميں سے ايک شخص نے کہا‪ :‬حضرت‬
‫عيسی )عليہ السالم( نے فرمايا‪” :‬ميں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“‪ ،‬ل ٰہذا اس‬ ‫ٰ‬ ‫بيان ہوا ہے کہ حضرت‬
‫عيسی )عليہ السالم( نے خود کو خدا کا بيٹا قرار ديا ہے!‬ ‫ٰ‬ ‫جملہ کی بنا پر حضرت‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬اگر تم لوگ کتاب انجيل کو قبول کرتے ہو تو پھر اس جملہ کی بنا پر تم لوگ‬
‫عيسی کہتے ہيں‪” :‬ميں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا ہوں“‪ ،‬اس جملہ کا‬ ‫ٰ‬ ‫بھی خدا کے بيٹے ہو‪ ،‬کيونکہ جناب‬
‫مفہوم يہ ہے کہ ميں بھی خدا کا بيٹا ہوناور تم بھی۔‬
‫عيسی )عليہ السالم( خاص امتيازات‪،‬‬‫ٰ‬ ‫دوسری طرف يہ عبارت تمہاری گزشتہ کہی ہوئی بات )يعنی چونکہ حضرت‬
‫شرافت اور احترام رکھتے تھے اسی وجہ سے خداوندعالم نے ان کو اپنا بيٹا قرار ديا ہے( کو باطل اور مردود قرار‬
‫عيسی )عليہ السالم( اس جملہ ميں صرف خود ہی کو خدا کا بيٹا قرار نہيں ديتے بلکہ سبھی‬ ‫ٰ‬ ‫ديتی ہے‪ ،‬کيونکہ حضرت‬
‫کو خدا کا بيٹا قرار ديتے ہيں۔‬
‫عيسی )عليہ السالم( کے خاص امتيازات )اور معجزات ميں سے( نہيں ہے‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫اس بنا پر بيٹا ہونے کا معيار حضرت‬
‫عيسی )عليہ السالم( کی زبان سے نکلے‬ ‫ٰ‬ ‫کيونکہ دوسرے لوگوں ميں اگرچہ يہ امتيازات نہيں ہيں ليکن خود حضرت‬
‫ہوئے جملہ کی بنا پر خدا کے بيٹے ہيں‪ ،‬ل ٰہذا ہر مومن اور خدا پرست انسان کے لئے کہا جاسکتا ہے‪ :‬وه خدا کا بيٹا ہے‪،‬‬
‫عيسی )عليہ السالم( کے قول کو نقل کرتے ہو ليکن اس کے برخالف گفتگو کرتے ہو۔‬ ‫ٰ‬ ‫تم لوگ حضرت‬
‫عيسی )عليہ السالم( کی گفتگو ميں بيان ہونے والے ”باپ بيٹے“ کے لفظ کو اس کے غير معنی‬ ‫ٰ‬ ‫کيوں تم لوگ حضرت‬
‫عيسی )عليہ السالم( کی مراد اس جملہ ”ميں اپنے اور تمہارے باپ کی طرف جارہا‬ ‫ٰ‬ ‫ميں استعمال کرتے ہو‪ ،‬شايد جناب‬
‫ہوں“‪ ،‬سے مراد اس کے حقيقی معنی ہوں يعنی ميں حضرت آدم و نوح )عليہما السالم( کی طرف جارہا ہوں جو ہمارے‬
‫سب کے باپ ہيں‪ ،‬اور خداوندعالم مجھے ان کے پاس لے جارہا ہے‪ ،‬جناب آدم و نوح ہمارے سب کے باپ ہيں‪ ،‬اس بنا‬
‫پر تم کيوں اس جملہ کے ظاہری اور حقيقی معنی سے دوری کرتے ہو اور اس سے دوسرے معنی مرادليتے ہو؟!‬
‫عيسائی گروه‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی مستدل گفتگو سے اس قدر مرعوب ہواکہ کہنے لگے‪ :‬ہم نے‬
‫آج تک کسی کو ايسا نہيں ديکھا کہ اس ماہرانہ انداز ميں اس طرح بحث و گفتگو کرے جيسا کہ آپ نے کی ہے‪ ،‬ہميں‬
‫اس بارے ميں غور و فکر کی فرصت ديں۔‬

‫‪٣‬۔ منکرين خدا سے مناظره‬


‫ما ّديوں اور منکرين خدا کی باری آئی تو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرتے ہوئے‬
‫فرمايا‪ :‬تم لوگ اس بات کا عقيده رکھتے ہو کہ اس موجودات عالم کا کوئی آغاز نہيں ہے بلکہ ہميشہ سے ہے اور ہميشہ‬
‫رہے گا۔‬
‫منکرين خدا‪ :‬جی ہاں‪ ،‬يہی ہمارا عقيده ہے‪ ،‬کيونکہ ہم نے اس دنيا کے آغاز اور حدوث کو نہيں ديکھا‪ ،‬اور اسی طرح‬
‫اس کے لئے فنا اور انتہا کا مشاہده نہيں کيا‪ ،‬ل ٰہذا ہمارا يہ فيصلہ ہے کہ يہ دنيا ہميشہ سے ہے اور ہميشہ رہے گی۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬ميں بھی آپ لوگوں سے سوال کرتا ہوں کہ کيا تم نے موجودات کے قديم‪،‬‬
‫ہميشگی اور ابدی ہونے کو ديکھا ہے؟‬
‫اگر تم کہتے ہو کہ ہم نے ديکھا ہے تو تمہيں اسی عقل و فکر اور بدنی طاقت کے ساتھ ہميشہ سے ابد تک رہنا چاہئے‬
‫دعوی عقل اور عينی واقعيت کے برخالف ہے ‪ ،‬اور‬ ‫ٰ‬ ‫تاکہ تمام موجوات کی ازليت اور ابديت کو ديکھ سکو‪ ،‬جبکہ ايسا‬
‫دنيا کے سبھی عقلمند حضرات اس بات ميں تمہيں جھٹالئيں گے۔‬
‫دعوی نہيں کيا کہ ہم نے موجودات کے قديم ہونے کو ديکھا ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫منکرين خدا‪ :‬ہم نے ايسا کوئی‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬تم کو ايک طرفہ فيصلہ نہيں کرنا چاہئے‪ ،‬کيونکہ تم لوگوں نے خود اقرار کيا‬
‫ہے کہ نہ ہم نے موجودات کو ديکھا ہے اور نہ ان کے قديم ہونے کو‪ ،‬اور نہ ہی ان کی نابودی کو ديکھا ہے اور نہ ان‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کی بقاء کو‪ ،‬پس تم کس طرح ايک طرفہ فيصلہ کرسکتے ہو‪،‬اور تم يہ کيسے کہہ سکتے ہو کہ چونکہ ہم نے موجودات‬
‫کے حدوث اور فنا کو نہيں ديکھا ل ٰہذا موجودات قديمی اور ابدی ہيں؟‬
‫)اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان سے ايک سوال کيا جس ميں ان کے عقيده کو مردود کرتے‬
‫ہوئے ثابت کيا کہ تمام موجودات حادث ہيں( چنانچہ آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫کيا تم نے دن اور رات کو ديکھا ہے جو ايک دوسرے کے بعد آتے ہيں اور ہميشہ آمد و رفت کرتے ہيں۔‬
‫منکرين خدا‪ :‬جی ہاں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬کيا تم لوگ دن و رات کو اس طرح ديکھتے ہو کہ ہميشہ سے تھے اور ہميشہ‬
‫رہےں گے۔‬
‫منکرين خدا‪ :‬جی ہاں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬کيا تمہاری نظر ميں يہ ممکن ہے کہ يہ دن رات ايک جگہ جمع ہوجائيں اور ان‬
‫کی ترتيب ختم ہوجائے؟‬
‫منکرين خدا‪ :‬نہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬پس اس صورت ميں ايک دوسرے سے جدا ہيں‪ ،‬جب ايک کی مدت پوری‬
‫ہوجاتی ہے تب دوسرے کی باری آتی ہے۔‬
‫منکرين خدا‪ :‬جی ہاں‪ ،‬اسی طرح ہے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬تم لوگوں نے اپنے اس اقرار ميں شب و روز ميں مقدم ہونے والے کے حدوث‬
‫کا اقرار کرليا ہے بغير اس کے کہ تم لوگوں نے اس کا مشاہده کيا ہو‪ ،‬ل ٰہذا تمہيں خدا کا بھی منکر نہيں ہونا چاہئے]‪[15‬‬
‫اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫”کيا تمہاری نظر ميں دن رات کا کوئی آغاز ہے ياان کا کوئی آغاز نہيں ہے اور ازلی ہے؟ اگر تم يہ کہتے ہو کہ آغاز‬
‫ہے تو ہمارا مقصد ”حدوث“ ثابت ہوجائے گا اور اگر تم لوگ يہ کہتے ہو کہ اس کا کوئی آغاز نہيں ہے تو تمہاری اس‬
‫بات کا الزمہ يہ ہے کہ جس کا انجام ہو اس کا کوئی آغاز نہ ہو۔‬
‫)جب دن رات انجام کے لحاظ سے محدود ہيں تو يہاں پر عقل کہتی ہے کہ آغاز کے لحاظ سے بھی محدود ہے‪ ،‬شب و‬
‫روز کے محدود ہونے کی دليل يہ ہے کہ ايک دوسرے سے جدا ہيں اور يکے بعد ديگرے گزرتے رہتے ہيں اور پھر‬
‫ايک کے بعد دوسرے کی باری آتی ہے(‬
‫اس کے بعد فرمايا‪:‬‬
‫تم لوگ کہتے ہو کہ يہ عالم قديم ہے‪ ،‬کيا تم نے اپنے اس عقيده کو خوب سمجھ بھی ليا ہے يا نہيں؟‬
‫منکرين خدا‪ :‬جی ہاں‪ ،‬ہم جانتے ہيں کہ کيا کہہ رہے ہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬کيا تم لوگ ديکھتے ہو کہ اس دنيا کی تمام موجودات ايک دوسرے سے تعلق‬
‫اور پيوند رکھتے ہيں اور اپنی بقا ء ميں ايک دوسرے کے محتاج ہيں‪ ،‬جيسا کہ ہم ايک عمارت ميں ديکھتے ہيں کہ اس‬
‫کے اجزاء )اينٹ‪ ،‬پتھر‪ ،‬سيمنٹ وغيره( ايک دوسرے سے پيوند رکھتے ہيں اور اپنی بقاء ميں ايک دوسرے کے محتاج‬
‫ہيں۔‬
‫جب اس دنيا کے تمام اجزاء اسی طرح ہيں تو پھر کس طرح ان کو قديم اور ثابت ]‪[16‬تصور کرسکتے ہو‪ ،‬اگر حقيقت‬
‫ميں يہ تمام اجزاء ايک دوسرے کے ساتھ پيوند رکھتے ہوں اور ضرورت رکھتے ہوں‪ ،‬قديم ہيں اگر حادث ہوتے تو‬
‫کيسے ہوتے؟‬
‫منکرين خدا الجواب ہوگئے‪ ،‬اور حدوث کے معنی کو بيان نہيں کرسکے‪ ،‬کيونکہ جو کچھ بھی حدوث کے معنی ميں‬
‫کہہ سکتے تھے‪ ،‬اورجن چيزوں کو قديم مانتے تھے ان پر يہ معنی صادق آتے تھے‪ ،‬ل ٰہذا بہت زياده حيران اور پريشان‬
‫ہوگئے ‪ ،‬اور انھوں نے کہا‪ :‬ہميں غور و فکر کرنے کا موقع ديں۔]‪[17‬‬

‫‪۴‬۔دوگانہ پرستوں سے مناظره‬


‫ان کے بعد دوگانہ پرستوں کی باری آئی جن کا عقيده يہ تھا کہ دنيا کے دو مبداء اور دو مدبر بنام ”نور“ اور ”ظلمت“‬
‫ہيں‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان سے فرمايا‪ :‬تم کس بنياد پر يہ عقيده رکھتے ہو؟‬
‫دوگانہ پرستوں نے جواب ديا‪ :‬ہم ديکھتے ہيں کہ يہ دنيا دو چيزوں سے تشکيل پائی ہے‪،‬اس دنيا ميں يا خير و نيکی ہے‪،‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫يا ش ّر اور برائی‪ ،‬جبکہ يہ بات معلوم ہے کہ يہ دونوں چيزيں ايک دوسرے کی ضد ہيں‪ ،‬اسی وجہ سے ہمارا عقيده ہے‬
‫کہ ان ميں سے ہر ايک کا خالق بھی الگ الگ ہے‪ ،‬کيونکہ ايک خالق دو متضاد چيزيں خلق نہيں کرتا‪ ،‬مثال کے طور‬
‫پر‪ :‬برف سے گرمی پيدا ہونا محال ہے‪ ،‬جيسا کہ آگ سے سردی پيدا ہونا بھی محال ہے‪ ،‬ل ٰہذا يہ بات ثابت ہوجاتی ہے‬
‫کہ اس دنيا ميں دو قديم خالق ہيں ايک نور کا خالق )جو نيکيوں کا خالق ہے( اور دوسرا ظلمت کا خالق )جو برائيوں کا‬
‫خالق ہے(۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬کيا تم لوگ اس بات کی تصديق کرتے ہو کہ اس دنيا ميں مختلف رنگ موجود‬
‫ہيں جيسے کاال‪ ،‬سفيد‪ ،‬سرخ‪ ،‬زرد‪ ،‬سبز اور مائل بہ سياہی جبکہ يہ رنگ ايک دوسرے کی ضد ہيں کيونکہ ان ميں دو‬
‫رنگ ايک جگہ جمع نہيں ہوسکتے‪ ،‬جيسا کہ گرمی اور سردی ايک دوسرے کی ضد ہيں اور ايک جگہ جمع نہيں‬
‫ہوسکتے۔‬
‫دوگانہ پرستوں نے جواب ديا‪ :‬جی ہاں ہم تصديق کرتے ہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬تو پھر تم لوگ ہر رنگ کے عدد کے مطابق اتنے ہی خدا کے معتقد کيوننہيں‬
‫ہو؟ کيا تمہارے عقيده کے مطابق ہر ضد کا ايک مستقل خالق نہيں ہے؟ اس پر تم ہر ضد کی تعداد کے مطابق خالق کا‬
‫کيوں عقيده نہيں رکھتے۔؟!‬
‫دوگانہ پرست اس دندان شکن سوال کے جواب دينے سے حيران و پريشان ہوگئے‪ ،‬اور غور و فکر ميں غرق ہوگئے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنی باتوں کو آگے بﮍھاتے ہوئے فرمايا‪ :‬تمہارے عقيده کے مطابق نور اور‬
‫ظلمت دونوں کس طرح ايک دوسرے کے ساتھ مل کر اس دنيا کو چال رہے ہيں‪ ،‬جبکہ نور کی فطرت ميں ترقی ہے‬
‫اور ظلمت کی فطرت ميں تنزلی ہوتی ہے‪ ،‬کيا دو شخص جن ميں سے ايک مشرق کی طرف جارہا ہو اور دوسرا‬
‫مغرب کی طرف جارہا ہو ‪ ،‬کيا يہ دونوں اسی طرح چلتے چلتے ايک جگہ جمع ہوسکتے ہيں؟!‬
‫دوگانہ پرستوں نے جواب ديا‪ :‬نہيں ‪ ،‬ايسا ممکن نہيں ہے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬اس بنا پر کس طرح نور اور ظلمت جو ايک دوسرے کے مخالف اور متضاد‬
‫ہيں آپس ميں متحد ہوکر اس دنيا کی تدبير کا کام انجام دے رہے ہيں؟ آيا اس طرح کی چيز ممکن ہے کہ يہ دنيا جو دو‬
‫متضاد اور مخالف اسباب کی وجہ سے پيدا ہو؟ مسلّم طور پر ايسا ممکن نہيں ہے‪ ،‬پس معلوم يہ ہوا کہ يہ دونوں چيزيں‬
‫مخلوق اور حادث ہيں اور خداوندقادر و قديم کی تدبير کے ماتحت ہيں۔‬
‫دوگانہ پرست مجبوراً پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے سامنے الجواب ہوگئے‪ ،‬اور انھوں نے اپنا سر‬
‫جھکاليا‪ ،‬اور کہنے لگے‪ :‬ہميں غور و فکر کرنے کی فرصت عنايت فرمائيں!‬

‫‪۵‬۔ بت پرستوں سے مناظره‬


‫اب پانچويں گروه يعنی بت پرستوں کی باری آئی ‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ کرکے‬
‫فرمايا‪” :‬تم لوگ کيوں خدا کی عبادت سے روگرداں ہو اور ان بتوں کی پوجا کرتے ہو؟“‬
‫بت پرست‪ :‬ہم ان بتوں کے ذريعہ خدا کی بارگاه ميں تقرب حاصل کرتے ہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬کيا يہ بت کچھ سنتے بھی ہيں؟ اور کيا يہ بت خدا کے حکم کی اطاعت کرتے‬
‫ہيں‪ ،‬اور کيا اس کی عبادت اور پرستش کرتے ہيں؟ جس سے تم ان کے احترام کرنے کی بدولت خدا کا تقرب حاصل‬
‫کرتے ہو؟‬
‫بت پرست‪ :‬نہيں يہ تو نہيں سنتے اور نہ خداوندعالم کی عبادت اور پرستش کرتے ہيں!‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬کيا تم لوگوں نے ان کو اپنے ہاتھوں سے نہيں تراشا ہے اور ان کو نہيں بنايا‬
‫ہے؟‬
‫بت پرست‪ :‬کيوں نہيں‪ ،‬ہم نے ان کو اپنے ہاتھوں سے بنايا ہے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬اس بنا پر تم لوگ ان کے صانع اور بنانے والے ہو‪ ،‬مناسب تو يہ ہے کہ يہ‬
‫تمہاری عبادت کريں نہ کہ تم لوگ ان کی عبادت اور پرستش کرو‪ ،‬اس کے عالوه جو خدا تمہاری مصلحت اور تمہارے‬
‫انجام نيز تمہارے فرائض اور ذمہ داريوں سے آگاه ہے اس کو چاہئے کہ بتوں کی پرستش کا حکم تمہيں دے‪ ،‬جبکہ‬
‫خداوندعالم نے ايسا کوئی حکم نہيں ديا ہے۔‬
‫جس وقت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی گفتگو يہاں تک پہنچی تو بت پرستوں کے درميان اختالف ہوگيا۔‬
‫ان ميں سے بعض لوگوں نے کہا‪ :‬خدا نے ان بتوں کی شکل و صورت والے مردوں ميں حلول کيا ہے اور ہم ان بتوں‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کی پرستش اور ان پر توجہ اس وجہ سے کرتے ہيں تاکہ ان شکلوں کا احترام کرسکيں۔‬
‫ان ميں سے بعض لوگوں نے کہا‪ :‬ہم نے ان بتوں کو پرہيزگار اور خدا کے مطيع بندوں کی شبيہ بنايا ہے‪ ،‬ہم خدا کی‬
‫تعظيم اور اس کے احترام کی وجہ سے ان کی عبادت کرتے ہيں!‬
‫تيسرے گروپ نے کہا‪ :‬جس وقت خداوندعالم نے جناب آدم کو خلق کيا‪ ،‬اور اپنے فرشتوں کو جناب آدم کے سامنے‬
‫سجده کرنے کا حکم ديا‪ ،‬ل ٰہذاہم )تمام انسان( اس بات کے سزاوار ہيں کہ جناب آدم کو سجده کريں اور چونکہ ہم اس‬
‫زمانہ ميں نہيں تھے‪ ،‬اس وجہ سے ان کو سجده کرنے سے محروم رہيں‪ ،‬آج ہم نے جناب آدم کی شبيہ بنائی ‪ ،‬اور خدا‬
‫کا تقرب حاصل کرنے کے لئے اس کے سامنے سجده کرتے ہيں تاکہ گزشتہ محروميت کی تالفی کرسکيں‪ ،‬اور جس‬
‫طرح آپ نے اپنے ہاتھوں سے )مسجدوں ميں( محرابيں بنائی اور کعبہ کی طرف منھ کرکے سجده کرتے ہيں‪ ،‬کعبہ‬
‫کے مقابل خدا کی تعظيم اور اس کے احترام کی وجہ سے سجده اور عبادت کرتے ہيں اسی طرح ہم بھی ان بتوں کے‬
‫سامنے در حقيقت خدا کا احترام کرتے ہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے تينوں گروہوں کی طرف رخ کرتے ہوئے فرمايا‪ :‬تم سبھی لوگ حقيقت سے‬
‫دور غلط اور منحرف راستہ پر ہو‪ ،‬اور پھر ايک ايک کا الگ الگ جواب دينے لگے‪:‬‬
‫پہلے گروه کی طرف رخ کرکے فرمايا‪:‬‬
‫تم جو کہتے ہو کہ خدا نے ان بتوں کی شکلوں کے لوگوں ميں حلول کررکھا ہے اس وجہ سے ہم نے ان بتوں کو انھيں‬
‫مردوں کی شکل ميں بنايا ہے اور ان کی پوجا کرتے ہيں‪ ،‬تم لوگوں نے اپنے اس بيان سے خدا کو مخلوقات کی طرح‬
‫قرار ديا ہے اور اس کو محدود اور حادث مان ليا‪ ،‬کيا خداوندعالم کسی چيز ميں حلول کرسکتاہے اور وه چيز )جو کہ‬
‫محدود ہے( خدا کو اپنے اندر سما ليتی ہے؟ ل ٰہذا کيا فرق ہے خدا اور دوسری چيزوں ميں جو جسموں ميں حلول کرتی‬
‫ہيں جيسے رنگ‪ ،‬ذائقہ‪ ،‬بو‪ ،‬نرمی‪ ،‬سختی‪ ،‬سنگينی اور سبکی‪ ،‬اس بنياد پر تم لوگ کس طرح کہتے ہو کہ جس جسم‬
‫ميں حلول ہوا ہو وه تو حادث اور محدود ہے ليکن جو خدا اس ميں واقع ہوا ہو وه قديم اور نامحدود ہے‪ ،‬جبکہ اس کے‬
‫برعکس ہونا چاہئے يعنی احاطہ کرنے واال قديم ہونا چاہئے اور احاطہ ہونے واال حادث ہونا چاہئے۔‬
‫اس کے عالوه کس طرح ممکن ہے جو خداوندعالم ہميشہ سے اور تمام موجودات سے پہلے مستقل اور غنی ہو‪ ،‬نيز‬
‫محل سے پہلے موجود ہو ‪ ،‬اس کو محل کی کيا ضرورت ہے کہ خود کو اس محل ميں قرار دے!۔‬
‫اور تمہارے اس عقيده کے پيش نظر کہ خدا نے موجودات ميں حلول کر رکھا ہے ‪ ،‬تم نے خدا کو موجودات کی صفات‬
‫کے مثل حادث اور محدود فرض کرليا ہے‪ ،‬جس کا الزمہ يہ ہے کہ خدا کا وجود قابل تغيير و زوال ہے‪ ،‬کيونکہ ہر‬
‫حادث اور محدود چيز قابل تغيير اور زوال ہوتی ہے۔‬
‫اور اگر تم لوگ يہ کہو کہ کسی موجود ميں حلول کرنا تغيير اور زوال کا سبب نہيں ہے‪ ،‬تو پھر بہت سے امور جيسے‬
‫حرکت‪ ،‬سکون‪ ،‬مختلف رنگ‪ ،‬سياه و سفيداور سرخ وغيره کو بھی ناقابل تغيير اورناقابل زوال کے سمجھو‪ ،‬اس‬
‫صورت ميں تمہارے لئے يہ کہنا صحيح ہے کہ خدا کے وجود پر ہر طرح کے عوارض اور حاالت پيدا ہوتے ہيں‪ ،‬جس‬
‫کے نتيجہ ميں خدا کو دوسرے صفات کی طرح محدود اور حادث سے توصيف کرو اور خدا کو مخلوقات کی شبيہ مانو۔‬
‫جب شکلوں ميں خدا کے حلول کا عقيده بے بنياد اور کھوکھال ہوگيا‪ ،‬تو چونکہ بت پرستی کی بنياد بھی اسی عقيده پر‬
‫ہے تو پھر وه بھی بے بنياد اور باطل ہوجائے گی۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ان دالئل اور انداز بيان کے سامنے بت پرستوں کا پہال گروه الجواب ہوگيا‪،‬‬
‫اور سرجھکاکر غور و فکر کرنے لگا اور کہا‪ :‬ہميں مزيد غور و فکر کی فرصت ديں۔‬
‫اس کے بعدپيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم دوسرے گروه کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمايا‪ :‬مجھے بتاؤ کہ جب‬
‫تم نيک اور پرہيزگار بندوں کی شکل و صورت کو پوجتے ہو اور ان شکلوں کے سامنے نماز پﮍھتے ہو اور سجده‬
‫کرتے ہو‪ ،‬اور ان شکلوں کے سامنے سجده کے عنوان سے اپنے سربلند چہروں کو زمين پر رکھتے ہو‪ ،‬اور مکمل‬
‫خضوع کے ساتھ پيش آتے ہو‪ ،‬تو پھر خدا کے لئے کيا خضوع باقی رہا‪) ،‬واضح الفاظ ميں سب سے زياده خضوع‬
‫سجده ہے‪ ،‬اور تم ان شکلوں کے سامنے سجده کرتے ہو تو پھر تمہارے پاس اور کيا خضوع باقی ہے جس کو خدا کے‬
‫سامنے پيش کرو؟( اگر تم لوگ کہتے ہو کہ خدا کے لئے بھی سجده کرتے ہيں تو پھر ان شکلوں اور خدا کے لئے برابر‬
‫کا خضوع ہوجائے گا‪ ،‬تو کيا حقيقت ميں ان بتوں کا احترام خدا کے احترام کے برابر ہے؟‬

‫مثال کے طور پر‪:‬‬


‫اگر تم لوگ کسی حاکم اور اس کے نوکر کا برابر احترام کرو‪ ،‬تو کيا کسی عظيم انسان کو چھوٹے انسان کے ساتھ قرار‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫دينا عظيم انسان کی بے احترامی نہيں ہے؟‬
‫بت پرستوں کا دوسرا گروه‪ :‬کيوں نہيں‪ ،‬بالکل اسی طرح ہے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬اس بنا پر تم لوگ ان بتوں )کہ تمہارے عقيده کی بنا پر خدا کے نيک اور‬
‫پرہيزگار بندوں کی صورت پر ہيں( کی پوجا سے در حقيقت خدا کی عظمت اور اس کے مقام و مرتبہ کی توہين کرتے‬
‫ہو۔‬
‫بت پرست ‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے منطقی دالئل کے سامنے الجواب ہوگئے‪ ،‬اور کہا ہميں اس‬
‫سلسلہ ميں غور و فکر کی فرصت عنايت کريں۔‬
‫اس کے بعد بت پرستوں کے تيسرے گروه کی باری آئی‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کی طرف رخ‬
‫کرکے فرمايا‪:‬‬
‫تم نے مثال کے ذريعہ خود کو مسلمانوں کے شبيہ قرار ديا ہے‪ ،‬اس بنياد پر بتوں کے سامنے سجده کرناحضرت آدم‬
‫)عليہ السالم( يا خانہ کعبہ کے سامنے سجده کی طرح ہے‪ ،‬ليکن يہ دو چيزيں مکمل طور پر فرق رکھتی ہيں اور قابل‬
‫موازنہ نہيں ہيں۔‬
‫مزيد وضاحت‪:‬‬
‫ہم اس بات کا عقيده رکھتے ہيں کہ ايک خدا ہے‪ ،‬ہم پر فرض ہے کہ اس کی اس طرح اطاعت کريں جس طرح وه چاہتا‬
‫ہے‪،‬اس نے جس طرح حکم ديا ہے اسی طرح عمل کريں‪ ،‬اور اس کی حدود سے آگے نہ بﮍھيں‪ ،‬ہميں اس بات کا حق‬
‫نہيں ہے کہ اس کے حکم اور اس کی مرضی کے بغير اس کے حکم کے آگے بﮍھ کر اپنی طرف سے )قياس اور تشبيہ‬
‫پہلووں سے آگاه نہيں ہيں‪ ،‬شايد خدا اس چيز کو‬
‫کے ذريعہ( اپنے لئے فرائض اور تکاليف معين کريں‪ ،‬کيونکہ ہم تمام ٔ‬
‫چاہتا ہے اور اس چيز نہيں چاہتا‪ ،‬اس نے ہميں آگے بﮍھنے سے منع کيا ہے۔‬
‫اور چونکہ اس نے ہميں حکم ديا ہے کہ خانہ کعبہ کے سامنے عبادت کريں‪ ،‬ہم بھی اس کی اطاعت کرتے ہيں‪ ،‬اور اس‬
‫کے حکم سے تجاوز نہيں کرتے‪ ،‬اسی طرح اس نے ہميں حکم ديا ہے کہ دنيا کے کسی بھی حصہ ميں خانہ کعبہ کی‬
‫سمت عبادت کريں‪،‬چنانچہ ہم اسی کے حکم کی تعميل کرتے ہيں‪ ،‬اور جناب آدم )عليہ السالم( کے بارے ميں اس نے‬
‫اپنے مالئکہ کو حکم ديا کہ حضرت آدم )عليہ السالم( کے سامنے سجده کريں نہ کہ آدم کی شکل و صورت پر بنے‬
‫کسی دوسرے کے سامنے‪ ،‬ل ٰہذا تمہارے لئے جائز نہيں ہے کہ ان کی شکل و صورت کو اپنے سے مقائسہ کرو‪،‬‬
‫کيونکہ تم نہيں جانتے کہ جو کام تم انجام ديتے ہو شايد وه اس سے راضی نہ ہو‪ ،‬کيونکہ ممکن ہے اس نے تمہيں اس‬
‫کام کا حکم نہ ديا ہو۔‬
‫مثال کے طور پر‪ :‬اگر کوئی شخص تمہيں کسی خاص دن ميں کسی خاص اور معين مکان ميں جانے کی اجازت ديدے‪،‬‬
‫تو کيا تمہارے لئے کسی دوسرے دن بھی اس مکان ميں جانے کی اجازت ہے‪ ،‬يا اس معين دن ميں کسی دوسرے مکان‬
‫ميں چلے جاؤ؟ يا کوئی شخص تمہيں لباس‪ ،‬غالموں‪ ،‬يا حيوانوں ميں سے کوئی لباس‪ ،‬غالم يا حيوان تمہيں بخش دے۔‬
‫تو کيا تمہيں اس بات کا حق ہے کہ دوسرے لباس‪ ،‬يا دوسرے غالم يا دوسرے حيوان ميں جوکہ اس کے مثل ہيں‬
‫تصرف کر وجن ميناس کی اجازت نہيں ہے۔؟‬
‫بت پرستوں کا تيسرا گروه‪ :‬نہيں‪ ،‬ايسا ہمارے لئے جائز نہيں ہے‪ ،‬کيونکہ صرف ہميں مخصوص کام ميں اجازت دی‬
‫گئی ہے کسی دوسرے ميں نہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬مجھے بتاؤ کہ کيا خداوندعالم سزاوار تر ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے‪ ،‬اور‬
‫اس کی اجازت کے بغير اس کی ملکيت ميں تصرف کريں يا دوسرے لوگ؟‬
‫بت پرستوں کا تيسرا گروه‪ :‬يقينی طور پر خدا اس بات کا زياده حقدار ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے‪ ،‬اور اس کی‬
‫اجازت کے بغير اس کی ملکيت ميں تصرف نہ کيا جائے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬پس تم نے خدا کے حکم کے بغير ہی ان بتوں کی پوجا کيوں شروع کردی‪ ،‬اور‬
‫اس کی مرضی کے بغير ہی ان بتوں کے سامنے سجده کرنے لگے؟‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بہترين دالئل کے سامنے بت پرستوں کا تيسرا گروه الجواب ہوگيا اور وه‬
‫خاموش ہوگئے‪ ،‬اور انھوں نے بھی عرض کی‪ :‬ہميں اس سلسلہ ميں غور و فکر کی اجازت ديں۔‬
‫حضرت امام صادق عليہ السالم نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ان پانچ گروہوں سے مناظره کو نقل‬
‫کرنے کے بعد فرمايا‪ :‬قسم ہے اس خدا کی کہ جس نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو مبعوث برسالت کيا‪ ،‬کہ‬
‫ابھی تين دن نہيں گزرے تھے کہ يہ پانچوں گروه کے تمام ‪ /٢۵‬افراد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ميں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے اور انھوں نے واضح طور پر اعالن کيا‪:‬‬
‫ک يَا ُم َح ﱠمد! نَ ْشہَ ُد أَنﱠ َ‬
‫ک َرسُوْ ُل ﷲِ“]‪[18‬‬ ‫” َما َرأَ ْينَا ِم ْث َل ُح ﱠجتِ َ‬
‫”اے محمد!ہم نے آپ جيسی مستدل گفتگو نہيں ديکھی ہے‪ ،‬ہم گواہی ديتے ہيں کہ آپ خدا کے بھيجے ہوئے برحق‬
‫پيغمبر ہيں“۔‬
‫‪٢‬۔ قريش کے سرداروں سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا مناظره‬
‫عجيب و غريب واقعات ميں ايک واقعہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور قريش کے سرداروں کے درميان‬
‫ہونے واال درج ذيل مناظره]‪ [19‬ہے‪:‬‬
‫ايک روز پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم چند اصحاب کے ساتھ خانہ کعبہ کے پاس بيٹھے ہوئے تھے‪ ،‬اور‬
‫قرآنی آيات اور اسالمی احکام کی تعليم ميں مشغول تھے‪ ،‬اس موقع پر قريش کے چند مشرک اور بت پرست سردار‬
‫جيسے‪ :‬وليد بن مغيره‪ ،‬ابو البختری ‪ ،‬ابو جہل ‪ ،‬عاص بن وائل‪ ،‬عبد ﷲ بن حذيفہ‪ ،‬عبد ﷲ مخزومی‪ ،‬ابوسفيان‪ ،‬عتبہ اور‬
‫شيبہ وغيره‪ ،‬تمام لوگ جمع ہوکرکہنے لگے کہ روز بروز محمد )ص( کا کام ترقی پر ہے ل ٰہذا ضروری ہے کہ ان کے‬
‫پاس جاکر پہلے ان کی سرزنش اور مالمت کريں اور پھر ان سے بحث و جدل کريں اور ان کی باتوں کو ر ّد کرتے‬
‫ہوئے ان کے کھوکھلے پن اور بے بنياد ہونے کو ان کے اصحاب اور دوستوں کے سامنے واضح کريں‪ ،‬اگر انھوں نے‬
‫ہماری باتيں سمجھ ليں اور اس انحراف اور کج روی سے باز آگئے تو ہم اپنے ہدف ميں کامياب ہوگئے‪ ،‬ورنہ تلوار کے‬
‫ذريعہ ان کا کام تمام کرديں گے۔‬
‫ابوجہل نے کہا‪ :‬ہم ميں سے کون ايسا شخص ہے جو ہماری طرف سے ان کے ساتھ جدل اور بحث و مناظره کرے؟‬
‫عبد ﷲ مخزومی نے کہا‪ :‬ميں ان سے بحث کرنے کے لئے تيار ہوں‪ ،‬اگر مجھے کافی سمجھتے ہو تو مجھے کوئی‬
‫اعتراض نہيں ہے۔‬
‫ابو جہل نے بھی اس کو پسند کيا‪ ،‬اور سب لوگ وہاں سے اٹھے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پاس‬
‫گئے۔‬
‫عبد ﷲ مخزومی نے گفتگو کا آغار کيا اور اپنی گفتگو ميں اعتراض بيان کرنے شروع کئے‪ ،‬ہر دفعہ ميں آنحضرت‬
‫صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم فرماتے جاتے تھے‪” :‬کيا ابھی تمہاری گفتگو باقی ہے؟“‪ ،‬اور وه کہتا تھا‪ :‬ہاں‪ ،‬اور اپنی باتيں‬
‫بيان کرتا جاتا تھا‪ ،‬يہاں تک کہ اس نے کہا‪ :‬ہاں بس اتنا کافی ہے‪ ،‬اگر آپ کے پاس کوئی جواب ہے تو ہم سننے کے‬
‫لئے تيار ہيں۔‬
‫اس کی گفتگو ميں دس عدد اعتراض درج ذيل ترتيب سے تھے‪:‬‬
‫‪١‬۔ تم دوسرے لوگوں کی طرح کھانا کھاتے ہو‪ ،‬پيغمبر کو دوسرے لوگوں کی طرح کوئی چيز نہيں کھانا چاہئے۔‬
‫‪٢‬۔ تمہارے پاس کيونمال و دولت نہيں ہے‪ ،‬حاالنکہ تمہيں خدا کے نمائندے اور ايک طاقتور بادشاه کی طرح صاحب جاه‬
‫و ثروت ہونا چاہئے۔‬
‫‪٣‬۔ تمہارے ساتھ ايک فرشتہ ہونا چاہئے جو تمہاری تصديق کرے‪ ،‬اور وه فرشتہ ہميں بھی دکھائی دے بلکہ مناسب ہے‬
‫کہ پيغمبر کو بھی مالئکہ کی جنس سے ہو۔‬
‫‪۴‬۔ تم پر جادو کا اثر ہے‪ ،‬اور تم جادو ہوئے افراد کی طرح ہو۔‬
‫عروه طائفی“پرکيوں نازل نہيں ہوا۔‬
‫ٔ‬ ‫ّ‬
‫‪۵‬۔ قرآن کريم کسی مشہور و معروف شخص جيسے ”وليد بن مغيره مکی“ يا ”‬
‫‪۶‬۔ ہم اس وقت تک آپ پر ايمان نہيں الئيں گے جب تک آپ سخت اور پتھريلی زمين سے پانی کا چشمہ جاری نہ‬
‫کرديں! اور خرما اور انگور کا باغ تيار نہ کرديں تاکہ ہم لوگ اس چشمہ سے پانی پئےں اور اس باغ کے پھل کھائيں۔‬
‫‪٧‬۔ يا آسمان کو سياه بادلوں کی طرح ہمارے سروں پر نيچے لے آئيں۔‬
‫‪٨‬۔ يا خدا اور فرشتوں کو ہميں اپنی آنکھوں سے دکھائيں۔‬
‫‪٩‬۔ يا سونے سے بھرا ہوا گھر آپ کے پاس ہو!‬
‫‪١٠‬۔ يا آپ آسمان پر جائيں اور خدا کی طرف سے کوئی خط لے کرآئيں تاکہ ہم اس کو پﮍھيں )يعنی خدا مشرکين کے‬
‫لئے خط لکھے کہ محمد)ص( ميرے پيغمبر ہيں لہٰذاان کی اطاعت کرو(‬
‫ان دس چيزوں کو انجام دينے کے بعد بھی ہم وعده نہيں کرتے کہ ہمارے دل کو اطمينان حاصل ہوجائے کہ آپ پيغمبر‬
‫ہيں‪ ،‬کيونکہ ممکن ہے کہ يہ تمام کام آپ جادو اور چشم بندی کے ذريعہ انجام ديں۔‬
‫مشرکين کے اعتراضات اور خواہشوں کے مقابل پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا جواب‬
‫آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عبد ﷲ مخزومی کی طرف رخ کرکے فرمايا‪:‬‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪١‬۔ کھانا کھانے کے سلسلہ ميں تم لوگوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ صالح اور اختيار خدا کے ہاتھوں ميں ہے‪ ،‬وه جس‬
‫طرح چاہے حکومت کرے‪ ،‬اس پرکسی کو اعتراض کرنے کا حق نہيں ہے‪ ،‬وه بعض کو فقير‪ ،‬بعض کو غنی‪ ،‬بعض‬
‫کوعزيز اور محترم‪ ،‬بعض کو ذليل و خوار‪ ،‬بعض و صحيح و سالم اور بعض کو بيمار کرتا ہے‪)،‬البتہ يہ تمام چيزيں‬
‫انسان کی صالحيت کی بنا پر ہيں( اس صورت ميں ان ميں سے کوئی شخص خدا پر اعتراض کا حق نہيں رکھتا۔‬
‫اور اگر کوئی شخص خدا پر اعتراض کرے تو وه کافر ہے‪ ،‬کيونکہ خداوندعالم ہی تمام عالم کا صاحب اختيار ہے‪ ،‬وہی‬
‫تمام چيزوں کی صالح اور بھالئی کو بہتر جانتا ہے‪ ،‬جو انسان کے لئے خير ہوتا ہے اس کو عطا کرتا ہے‪ ،‬اور سبھی‬
‫کو اس کے حکم کے سامنے تسليم رہنا چاہئے ‪ ،‬جس شخص نے خدا کے حکم کی اطاعت کی وه مومن ہے اور جس‬
‫نے اس کے حکم کی مخالفت کی وه گناہگار ہے اور اس کے لئے سخت سزائيں معين ہيں۔‬
‫اس کے بعد آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے قرآن مجيد کی درج ذيل آيت کی تالوت فرمائی‪:‬‬
‫ی اِنﱠ َما اِ ٰلہُ ُک ْم اِ ٰلہٌ َو ِ‬
‫اح ٌد“]‪[20‬‬ ‫”قُلْ اِنﱠ َما أَنَا بَ َش ٌر ِم ْثلُ ُک ْم يُو َحی اِلَ ﱠ‬
‫”)اے رسول( آپ کہہ ديجئے کہ ميں تمہارا ہی جيسا ايک بشر ہوں مگر ميری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا خدا ايک‬
‫اکيال ہے“۔‬
‫جيسا کہ ہر انسان کو ايک خاص چيز سے مخصوص کيا ہے‪ ،‬جس طرح تمہيں فقير‪ ،‬غنی‪ ،‬صحت مند‪ ،‬خوبصورت اور‬
‫شريف وغيره کے بارے ميں اعتراض کا حق نہيں ہے اور اس کا فرمانبردار رہنا ضروری ہے‪ ،‬اسی طرح نبوت اور‬
‫رسالت کے سلسلہ ميں بھی خدا کے فرمان کے سامنے سر تسليم جھکانا چاہئے۔‬
‫‪٢‬۔ ليکن تم لوگوں کی يہ بات کہ ”کيوں تمہارے پاس مال و دولت نہيں ہے جبکہ تم خدا کے نمائنده ہو‪ ،‬اور خدا کے‬
‫نمائنده کو بادشاه روم و ايران کی طرح صاحب زر و سيم ہونا چاہئے اور سلطان روم اور سلطان ايران کی طرح‬
‫صاحب جاه و مقام اور مال و دولت ہوناچاہئے‪ ،‬بلکہ خدا کو اس سلسلہ ميں سالطين سے بھی زياده توجہ دينا چاہئے“‪،‬‬
‫تو تمہيں معلوم ہونا چاہئے کہ تمہارا يہ اعتراض خدا پر ہے‪ ،‬اور يہ اعتراض بے جا اور غلط ہے‪ ،‬کيونکہ خداوندعالم‬
‫عالِم اور خبير ہے‪ ،‬وه اپنی تدبير اور اپنے کاموں کی اچھائی کو جانتا ہے‪ ،‬اس ميں دوسروں کی دخالت کی ضرورت‬
‫نہيں ہے‪ ،‬خدا کا لوگوں کے ساتھ موازنہ نہيں کرنا چاہئے۔‬
‫اس کے عالوه انبياء کی بعثت کا مقصد لوگوں کو خدا پرستی کی دعوت دينا ہے‪ ،‬پيغمبر کو چاہئے کہ شب و روز‬
‫لوگوں کی ہدايت کے لئے کوشاں رہے‪ ،‬اگر کوئی پيغمبر لوگوں کی طرح صاحب جاه و مقام ہو )دوسرے مستکبروں‬
‫اور صاحبان جاه کی طرح( تو پھر عام انسان اور غريب عوام ان کے پاس نہيں آسکتے‪ ،‬کيونکہ مالدار افراد ہميشہ‬
‫اونچے محلوں ميں رہتے ہيں اور اونچے اونچے محل غريب عوام کے درميان فاصلہ کرديتے ہيں‪ ،‬اور ساده انسان ان‬
‫سے مالقات بھی نہيں کرسکتے۔‬
‫اس صورت ميں بعثت انبياء کا ہدف پورا نہيں ہوسکتا‪ ،‬اور انبياء کی تعليم و تربيت رک جائے گی‪ ،‬اور نبوت کا معنی‬
‫مقام ظاہری جاه و مقام سے آلوده ہوکر بے اثر ہوجائے گا‪ ،‬جی ہاں جس وقت بادشاه اور رئيس عوام الناس سے دور‬
‫ہوجائيں تو پھر ملکی نظام درہم و برہم ہوجائے گا‪ ،‬نيز معاشره ميں جاہل اور ناچار لوگوں کے لئے پريشانياں کھﮍی‬
‫ہوجائيں گی۔‬
‫دوسری بات يہ ہے کہ خداوندعالم نے مجھے جاه و مقام اور مال و دولت نہيں دی ہے تاکہ ميں تمہارے سامنے اپنی‬
‫قدرت و طاقت کا مظاہره کرو‪ ،‬جبکہ خداوندعالم نے اپنے رسول کی نصرت و مدد کی ہے‪ ،‬اور اس کو دشمنوں اور‬
‫مخالفوں پر فتح دی ہے‪ ،‬يہ بات خود نبی کی نبوت کے صادق ہونے پر دليل ہے‪ ،‬اور قدرت خدا اور تمہارے عاجزی‬
‫کی حکايت کر رہی ہے‪) ،‬کہ اس نے اپنے پيغمبر کو بغير مال و دولت اور فوج و سلطنت کے تم پر غلبہ عطا کيا(اور‬
‫خداوندعالم بہت جلد ہی مجھے تم پر غلبہ عنايت کرے گا‪ ،‬تم لوگ ميری ترقی کو نہيں روک سکتے‪ ،‬اور نہ ہی مجھے‬
‫قتل کرسکتے ہو‪ ،‬ميں بہت جلد ہی تم پر غلبہ کرلوں گا‪،‬تمہارے شہر ميرے اختيار مينہوں گے اور سبھی مخالف اور د‬
‫شمن مومنين کے سامنے تسليم اور شرمسار ہوں گے۔ )انشاء ﷲ(‬
‫‪٣‬۔ اب رہی تمہاری يہ بات کہ ”ميرے ساتھ کوئی فرشتہ ہو اور تم اس فرشتہ کو ديکھ کر ميری تصديق کرو بلکہ پيغمبر‬
‫فرشتہ کے جنس سے ہو“تو تمہيں معلوم ہونا چاہئے کہ فرشتہ کا جسم ہوا کی مانند لطيف ہوتا ہے جو ديد کے قابل نہيں‬
‫ہوتا‪ ،‬اور اگر فرض کريں کہ تمہاری آنکھوں کی روشنی بﮍھادی جائے تاکہ تم لوگ فرشتہ کو ديکھ سکو تو بھی تم‬
‫لوگ کہو گے کہ يہ تو انسان ہی ہے نہ کہ فرشتہ‪) ،‬يعنی وه بھی انسان کی شکل ميں ہوگا( تاکہ تم سے رابطہ برقرار‬
‫رکھ سکے‪ ،‬تم سے گفتگو کرسکے‪ ،‬تاکہ اس کی باتوں اور اس کے ہدف کو سمجھ سکو‪ ،‬ورنہ تو تم کس طرح سمجھ‬
‫سکتے ہو کہ وه فرشتہ ہے نہ کہ انسان‪ ،‬اور جو کچھ بھی کہہ رہا ہے وه حق ہے۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس کے عالوه خداوندعالم اپنے پيغمبر کو معجزه دے کر بھيجتا ہے اور کوئی اس معجزه کی مثل نہيں السکتا‪ ،‬اور يہی‬
‫پيغمبر کے صادق ہونے کی نشانی ہے‪ ،‬ليکن اگر فرشتہ بھی معجزه دکھائے تو پھر اس کو تم کيسے سمجھ سکتے ہو‬
‫کہ اس فرشتہ نے جو اعجاز دکھايا ہے دوسرے فرشتے انجام دينے پر قادر نہيں ہيں؟! اس بنا پر فرشتہ کا نبوت کا‬
‫دعوی کی سچائی پر دليل نہيں بن سکتا‪ ،‬کيونکہ فرشتوں کا معجزه‬ ‫ٰ‬ ‫دعوی کرنا خود اس کے معجزات کے ساتھ اس کے‬ ‫ٰ‬
‫پرندوں کی پرواز کی مانند طرح پرواز کرنا ہے کہ جسے انسان انجام نہيں دے سکتا‪ ،‬ليکن يہی کام فرشتوں کے‬
‫درميان معجزه نہيں ہے‪ ،‬اور اگر انسان بھی پرندوں کی طرح پرواز کرے تو يہ اس کے لئے معجزه ہے۔‬
‫اور يہ بات بھی م ّد نظر رہے کہ خداوندعالم نے انسان کو نبی بنا نے ميں تم لوگوں کی سہولت کو پيش نظر رکھا ہے‬
‫کيونکہ انسان سے بغير کسی زحمت کے رابطہ برقرار کرسکتے ہو تاکہ وه تم پر اپنے دالئل اور برہان واضح‬
‫کرسکے‪ ،‬جبکہ تم لوگ اس طرح کے اعتراضات سے اپنی مشکل ميں اضافہ کررہے ہو ‪،‬لوگ اس صورت ميں حجت‬
‫اور برہان تک نہيں پہنچ سکتے۔‬
‫‪۴‬۔ اب رہا تمہارا يہ کہنا کہ ”مجھ پر سحر و جادو کا اثر ہوگيا ہے“‪ ،‬تو يہ بات کيسے صحيح ہوسکتی ہے جبکہ ميں‬
‫صحت عقل اور تشخيص کے لحاظ سے تم لوگوں پر برتری رکھتا ہوں‪ ،‬ميں نے تمہارے درميان اپنی عمر گزاری ہے‬
‫شروع سے اب تک چاليس سال تمہارے درميان زندگی بسر کی ہے‪ ،‬تم نے اس مدت ميں چھوٹی سے چھوٹی غلطی‪،‬‬
‫لغزش‪ ،‬جھوٹ‪ ،‬خيانت اور گفتگو و نظريہ ميں ضعف نہيں ديکھا‪ ،‬کيا جو شخص تمہارے درميان چاليس سال تک اپنے‬
‫طاقت و قوت يا خدا کی طاقت و قوت سے صدق و صداقت اور صحيح راستہ پر قدم بﮍھائے ہوں کيا اس کے لئے ايسی‬
‫تہمت لگانا صحيح ہے؟! اسی وجہ سے خداوندعالم تمہارے جواب ميں ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫يال“ ]‪[21‬‬‫ضلﱡوا فَالَيَ ْست َِطيعُونَ َسبِ ً‬ ‫ک ْ َٔ‬
‫اال ْمثَا َل فَ َ‬ ‫” انظُرْ َک ْيفَ َ‬
‫ض َربُوا لَ َ‬
‫”ذرا ديکھو کہ انھوں نے تمہارے لئے کيسی مثالينبيان کی ہيں اور اس طرح ايسے گمراه ہوگئے ہيں کہ کوئی راستہ‬
‫نہيں مل رہا ہے“۔‬
‫عروه طائفی“ پر‬‫ٔ‬ ‫ّ‬
‫‪۵‬۔ اور تمہارا يہ کہنا کہ ” قرآن کريم کسی مشہور و معروف شخص جيسے ”وليد بن مغيره مکی“ يا ”‬
‫کيوننازل نہيں ہوا“‪ ،‬تو تمہيں معلوم ہونا چاہئے کہ خداوندعالم کے نزديک جاه و مقام کی کوئی قيمت اور اعتبار نہينہے‬
‫‪ ،‬اور اگر دنياوی لذتيں اور نعمتيں ايک مکھی کے پر کے برابر ارزش رکھتی ہوتيں تو پھر خداوندعالم ذره برابر بھی‬
‫کافروں اور مخالفوں کو عطا نہ کرتا۔‬
‫اس کے عالوه يہ تمام تقسيمات خداوندعالم کے قبضہ قدرت ميں ہے ‪ ،‬اس سلسلہ ميں کسی کو کوئی اختيار‪ ،‬اعتراض‬
‫اور شکوه اورشکايت کا حق نہيں ہے‪ ،‬خداوندعالم اپنی نعمتوں کو اپنے لحاظ سے اور اپنی مرضی سے تقسيم کرتا ہے‬
‫جس کو وه چاہے بغير کسی خوف کے عطا کرتا ہے ‪ ،‬يہ تم لوگ ہو جو اپنے کاموں ميں مختلف چيزوں کو م ّد نظر‬
‫رکھتے ہو اور تمہارے کام ہواو ہوس اور لوگوں کے خوف سے ہوتے ہيں‪ ،‬نيز تمہارے کام حقيقت و عدالت کے بر‬
‫خالف ہوتے ہيں تم لوگ بال وجہ دوسروں کا احترام کرتے ہو اور غلط راستہ پر چلتے ہو‪ ،‬ليکن خداوندعالم کے تمام‬
‫کام حقيقت اور عدالت کے تحت ہوتے ہيں دنياوی جاه و مقام اس کے اراده ميں ذره برابر بھی تاثير نہيں رکھتے۔ يہ تم‬
‫لوگ ہو کہ ظاہری لحاظ سے مشہور و معروف اور صاحبان حيثيت افراد کو پيغمبری کے لئے دوسروں سے زياده‬
‫مستحق سمجھتے ہو‪ ،‬ليکن خداوندعالم نبوت و رسالت کو اخالقی کماالت اور معنوی و روحی عظمت‪ ،‬حقيقت ‪،‬‬
‫فرمانبرداری اور خدمت گزاری کی بنياد پر قرار ديتا ہے۔‬
‫ان کے عالوه جيسا کہ ميں نے کہا کہ خداوندعالم اپنے کاموں ميں خود مختار ہے‪ ،‬ايسا نہيں ہے کہ اگر اس نے کسی‬
‫کو دنياوی نعمت يا ظاہری منزلت عطا کی ہے تو مقام نبوت بھی اسی کو عطا کرے‪ ،‬جيسا کہ ہم ديکھتے ہيں کہ جس‬
‫کو خداوندعالم نے مال و دولت عطا کی ہے ليکن اس کو جمال اور خوبصورتی نہيں دی ہے اور اس کے برعکس اگر‬
‫کسی کو جمال اور خوبصورتی دی ہے اس کو مال و دولت نہيں دی ہے۔۔۔ کيا ان ميں سے کوئی خداوندعالم پر اعتراض‬
‫کرنے کا حق رکھتا ہے؟!]‪[22‬‬
‫‪۶‬۔اور تمہارا يہ کہنا‪ ” :‬ہم اس وقت تک آپ پر ايمان نہيں الئيں گے جب تک سخت اور پتھريلی زمين سے پانی کا چشمہ‬
‫جاری نہ کرديں! اور کھجوروں اور انگوروں کا باغ تيار نہ کرديں تاکہ اس چشمہ سے پانی پئےں اور اس باغ کے پھل‬
‫کھائيں“‪ ،‬تو تمہارا يہ تقاضا جہل و نادانی کی بنا پر ہے‪ ،‬کيونکہ سر زمين مکہ ميں پانی کا چشمہ جاری کرنے اور باغ‬
‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫اگانے کا تعلق پيغمبری سے نہيں ہے‪ ،‬جيسا کہ تم لوگ شہر طايف ميں زمين اور باغ کے مالک ہو ليکن نبوت کا‬
‫نہيں کرتے ہو اور ايسے بہت سے لوگوں کو تم جانتے بھی ہو جنھوں نے زحمت اٹھاکر باغات لگائے اور چشمے بھی‬
‫دعوی نہيں کيا اور اس طرح کے تمام کام معمولی کا موں ميں شمار ہوتے ہيں اور‬ ‫ٰ‬ ‫جاری کئے ليکن انھوں نے نبوت کا‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اگر ميں ايسا کروں بھی تب بھی يہ کام ميری نبوت کے لئے دليل نہيں بن سکتے۔‬
‫تمہارا يہ تقاضا اس طرح کا ہے کہ تم کہتے ہو ہم تم پر ايمان نہيں الئيں گے کيونکہ تم لوگوں کی طرح کھانا کھاتے ہو‬
‫اور لوگوں کے ساتھ راستہ چلتے ہو اور اگر ميں اپنی نبوت کے اثبات کے لئے اس طرح کے معمولی کام انجام دوں‬
‫اور اس پر تکيہ کر لوں تو گويا ميں نے لوگوں کو دھوکا ديا اور ان کی جہل ونادانی سے غلط فائده اٹھايا اور مقام نبوت‬
‫کو ہيچ اور معمولی کام سمجھا جب کہ مقام نبوت فريب ‪ ،‬حيلہ اور دھوکہ دھﮍی سے بالکل پاک و پاکيزه ہے۔‬
‫آوں“تو تمہيں يہ‬‫‪٧‬۔اور تمہارا يہ کہناکہ ”آسمان کو بادل کی صورت ميں ٹکﮍے ٹکﮍے کر کے ہمارے سروں پر لے ٔ‬
‫جان لينا چاہئے کہ آسمان کا نيچے گرنا تمہارے لئے ہالکت کا سبب بنے گا جب کہ بعثت اور پيغمبری کا ہدف لوگوں‬
‫کی راہنمائی ‪،‬سعادت‪ ،‬خوشبختی اور خدا کی نشانيوں کی عظمت لوگوں واضح کرنا ہے اور يہ بات روز روشن کی‬
‫طرح واضح ہے کہ حجت اور برہان کو خدا کے معين کرتاہے کيونکہ ممکن ہے کہ لوگ اپنی سطحی اور ظاہری فکر‬
‫کی بنا پر ايسے تقاضے کريں جو نظام و مصلحت کے خالف ہوں اس لئے کہ ہر شخص اپنی ہوا ھوس اور خواہش کی‬
‫بنياد پر تقاضے کرتا ہے اور يہ بھی معلوم ہے کہ اگر ہر انسان کے تقاضے ايک دوسرے کے برخالف ہوتے ہيں۔‬
‫کيا تم نے کسی ڈاکٹر کو ديکھا ہے کہ وه مريض کا عالج کرتے وقت مريض کی خواہش کے مطابق نسخہ لکھے؟ يا‬
‫دعوی کرے ليکن دليل اس کے منکر کی خواہش کے مطابق الئے‬ ‫ٰ‬ ‫کسی ايسے شخص کو ديکھا ہے کہ وه کسی بات کا‬
‫؟يہ بات مسلم ہے کہ اگر عالج ميں ڈاکٹر مريض کا پيرو ہو تو مريض کی بيماری کبھی ختم ہی نہيں ہو سکتی اور اسی‬
‫طرح اگر مدعی اس بات پر مجبور ہو کہ اپنے مخالفوں کی خواہش کے مطابق اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لئے‬
‫دليل الئے تو اس صورت ميں کسی ايک کی بھی بات ثابت نہيں ہو گی‪،‬اور مظلوم وناچار اور سچے افراد کی بات کبھی‬
‫ظالم اور جھوٹے انسان کے سامنے ثابت نہيں ہو سکے گی۔‬
‫‪٨‬۔اور تمہارا يہ کہنا کہ ”خدا اور فرشتوں کو ہماری آنکھوں کے سامنے حاضر کرو تاکہ ہم انھيں ديکھ سکيں “تو‬
‫تمہاری يہ بات بے بنياد اور غير منطقی ہے يہ چيز بالکل محال ہے کيونکہ خدا وندمتعال اس صفت سے پاک ہے جس‬
‫کے ذريعہ اسے ديکھا جا سکتا ہے بلکہ وه مخلوقات کی تمام صفات سے پاک وپاکيزه ہے۔‬
‫تم خدا وند متعال کو ان بتوں سے تشبيہ ديتے ہو جن کی تم پرستش کرتے ہو اور ان سے اسی طرح کا تقاضا کرتے ہو‬
‫ان بتوں ميں بے حد نقص و ضعف پائے جاتے ہيں اور يہ)بت( تمہارے ان تقاضوں کے لئے مناسب ہيں نہ کہ خداوند‬
‫پاک۔‬
‫اس کے بعد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کے لئے ايک ايسی مثال پيش کی جو بہت ہی واضح اور‬
‫اچھی طرح مفہوم کو سمجھانے والی تھی کہ اگر فرض کرليا جائے کہ خدا کو دکھانا محال نہيں ہے تو بھی ان کی يہ‬
‫بات معقول نہيں ہے ‪،‬وه مثال يہ ہے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عبد ﷲ مخزومی سے کہا‪” :‬کيا مکہ ميں‬
‫تمہارے پاس زمين وجائداد اور باغ وغيره ہے؟اور اس کی ديکھ بھال کے لئے اپنی طرف سے کوئی نمائنده بنايا ہے يا‬
‫نہيں؟“‬
‫عبد ﷲ‪” :‬ہاں ميرے پاس باغ وزمين اور نمائنده ہے“۔‬
‫رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ‪” :‬کيا تم خود باغ وزمين کی ديکھ بھال کرتے ہو يا نمائندے کے ذريعہ کراتے‬
‫ہو“۔‬
‫عبد ﷲ‪ :‬نمائنده کے ذريعہ“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬اگر ايک نمائنده کو زمين اجاره دو يا بيچ دو تو کيا دوسروں کايہ اعتراض کرنا‬
‫اور يہ کہنا بجاہے کہ ہم خود مالک سے رابطہ کريں گے اور ہم تمہاری نمائندگی اس وقت قبول کريں گے جب تمہارا‬
‫مالک خو د نہ آجائے اور تمہاری باتوں کی تصديق نہ ک‬
‫رے ؟ “‬
‫عبد ﷲ‪” :‬دوسرے لوگ اس طرح کا اعتراض نہيں کر سکتے“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪’ :‬ہاں يہ ضروری ہے کہ تمہارے نمائنده کے پاس کوئی ايسی دليل ہونا چاہئے‬
‫بتاو کہ اس کے پاس کيا ہونا چاہئے جس سے اس کی‬ ‫کہ جس سے پتہ چلے کہ وه واقعی تمہارا نمائنده ہے‪ ،‬اب تم يہ ٔ‬
‫نمائندگی ثابت ہو کيونکہ يہ بھی مسلم ہے کہ بغير کسی دليل کے اس کی نمائندگی کی لوگ تصديق نہيں کريں گے“۔‬
‫عبد ﷲ‪” :‬بےشک اس کے پاس کوئی نہ کوئی دليل ضرورہونا چاہئے“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬اگر لوگ اس کی سچی دليل کو قبول نہ کريں تو کيا وه اس بات پر حق رکھتا‬
‫ہے کہ اپنے مالک کو لوگوں کے سامنے حاضر کرے اور اس پر يہ فريضہ عائد کرے کہ تم ان کے سامنے حاضر ہو‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫بتاو کيا کوئی عقلمند نمائنده اس طرح اپنے مالک کے لئے کر سکتا ہے؟“‬ ‫؟سچ ٔ‬
‫عبد ﷲ‪” :‬نہيں اسے چاہئے کہ وه اپنے فرائض پر عمل کرے اور اسے يہ حق نہيں کہ وه موال پر کوئی حکم لگائے“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬جب تم ان تمام باتوں کا اعتراف کر رہے ہو تو کس طرح خدا کے نمائندے اور‬
‫رسول کے لئے انھيں باتوں پر اصرار پر کرتے ہو کہ رسول کو چاہئے کہ اپنے موال کو ہم لوگوں کے سامنے پيش‬
‫کرے ‪،‬ميں بھی خدا وند متعال کے نمائنده اور رسول سے زياده کچھ نہيں ہوں‪ ،‬ميں کس طرح اپنے موال )خدا(پر کوئی‬
‫حکم لگا سکتا ہوں اور اس کے لئے کوئی فريضہ معين کر سکتا ہوں کيونکہ خداوند متعال پر کسی طرح کا کوئی حکم‬
‫لگانا رسالت کی ذمہ داری کے خالف ہے“۔‬
‫اور اس طرح تمہارے تمام سوالوں کے جوابات جيسے فرشتوں کو حاضر کرنا وغيره واضح ہو جاتے ہيں۔‬
‫‪٩‬۔اور تم نے جو يہ کہا کہ ميرے پاس سونے سے بھرا ہوا گھر ہونا چاہئے تو يہ بھی بالکل بے بنياد بات ہے کيونکہ‬
‫دولت و ثروت ‪،‬سونا اور چاندی سے مقام رسالت کو کوئی تعلق نہيں ہے مثال کے طور پر بادشاه مصر کے پاس سونے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کر سکتا ہے؟“‬ ‫سے بھرا ہوا گھر ہے تو کيا وه اسی دليل سے نبوت کا‬
‫◌َ ◌َ ◌َ عبد ﷲ‪” :‬نہيں وه ايسا نہيں کر سکتا ہے“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪ :‬ميرے پاس بھی سونا چاندی ہونا ميری پيغمبری کے سچائی پر کوئی دليل نہيں‬
‫بن سکتا ہے ميں خدا کی حجتوں اور نشانيوں کو چھوڑ کر ايسی بے بنياد دليل کے ذريعہ کم علم اور نادان لوگوں پر‬
‫اپنی رسالت ثابت نہيں کر سکتا“۔‬
‫الوں“ تو اس طرح کی باتوں‬ ‫جاوں اور خدا کی طرف سے تمہارے لئے ايک خط ٔ‬ ‫‪١٠‬۔اور تمہارا کہنا کہ ”ميں آسمان پر ٔ‬
‫سے واضح ہوتا ہے کہ تم لوگوں ميں کوئی بھی ايسانہيں جو حق قبول کرے کيونکہ تم لوگ صرف آسمان پر جانے‬
‫سے اکتفا نہيں کر رہے ہو بلکہ ساتھ ساتھ يہ بھی کہہ رہے ہو کہ ہمارے لئے آسمان سے خط بھی الياجائے۔‬
‫يہ بات مسلم ہے کہ اگر ميں خط بھی الدوں تو بھی تم اسے قبول نہيں کروگے اور يہ بھی سچ ہے کہ اگر ميں ان تمام‬
‫الو‪،‬ليکن يہ جان لو کہ اس بغض وعناد کا نتيجہ‬‫کاموں کو انجام دے بھی دوں تب بھی يہ ممکن ہے کہ تم لوگ ايمان نہ ٔ‬
‫صرف عذاب ہے اور تم لوگ اپنے ان کا موں کی وجہ سے اس بات کے مستحق ہو کہ خداوند متعال تمہيں عذاب ميں‬
‫مبتال کرے۔‬
‫تمہارے تمام سوالوں کے جواب خدا وند متعال کے صرف اس جملہ ميں خالصہ کے طور پر بيان ہوجاتے ہيں”ميں‬
‫پہنچاوں‬
‫ٔ‬ ‫بھی تمہاری طرح بشر ہوں اور خدا کی طرف سے اس بات کے لئے معين کيا گيا ہوں کہ تم تک اس کے احکام‬
‫‪ [23]،‬اور ميرے پاس يہی قرآن معجزه اور ميری نبوت کی دليل ہے اور ميں تمہارے بے جا تقاضوں کی وجہ سے خدا‬
‫پر نہ کوئی حکم لگا سکتا ہوں اور نہ کسی بھی طرح کی اس پر تکليف عائد کر سکتاہوں“۔‬

‫ابو جہل کا سوال‬


‫موسی انھيں اپنا خدا دکھائينتو‬
‫ٰ‬ ‫کہ‬ ‫کی‬ ‫خواہش‬ ‫کی‬ ‫بات‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫قوم‬ ‫جب‬ ‫کہ‬ ‫کہتے‬ ‫نہيں‬ ‫يہ‬ ‫تم‬ ‫کيا‬ ‫”‬ ‫ابو جہل نے کہا‪:‬‬
‫خداوند عالم ان پر غضبناک ہو ااور بجلی کے ذريعہ انھيں خاکستر کرديا۔؟“‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬کيوں نہيں‪ ،‬ايسا ہی ہے“۔‬
‫موسی سے بلند اور بﮍی خواہش رکھتے ہيں ہم ہر گز اس وقت تک نہينا يمان نہيں الئيں گے جب تک‬ ‫ٰ‬ ‫ابو جہل‪” :‬ہم قوم‬
‫تم اپنے خدا اور فرشتوں کو ہمارے سامنے حاضر نہيں کروگے ‪،‬اب تم ہماری اس خواہش کی بنا پر اپنے خدا سے کہو‬
‫کہ وه ہميں جالدے يا نابود کردے“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬کيا تم نے حضرت ابراہيم عليہ السالم کی داستان ميں يہ نہيں سنا ہے کہ وه‬
‫مقام وعظمت ميں بہت ہی بلند تھے اور خداوند متعال نے انھيں خاص بصيرت عطا کی تھی کہ وه زمين پر لوگوں کے‬
‫ظاہری اور باطنی اعمال کا مشاہده کرتے تھے ‪،‬اسی دوران جناب ابراہيم عليہ السالم نے ديکھا کہ ايک مرد اور عورت‬
‫زنا کر رہے ہيں‪ ،‬آپ نے ان کے لئے بددعا کی وه ہالک ہو گئے‪ ،‬پھر ديکھا کہ دوسرے مر د و عورت زنا کر رہے ہيں‬
‫ان کے لئے بھی بددعا کی وه بھی ہالک ہو پھر تيسرے مرد و عورت کو يکھا کہ يہ بھی زنا ميں مشغول ہيں ان کے‬
‫لئے بھی بددعا کی وه بھی ہالک ہوگئے ‪،‬اس کے بعد‬
‫خداوند عالم نے ان پر وحی کی کہ اے ابراہيم ! بددعا نہ کرودنيا ہمارے اختيار ميں ہے تمہارے اختيار ميں نہيں۔‬
‫گنہگار بندوں کی تين حالتوں سے زياده چوتھی حالت نہيں ہوتی ہے‪،‬يا توبہ کرتے ہيں اور ميں انھيں بخش ديتا ہوں يا ان‬
‫کی آئنده آنے والی نسلوں ميں کوئی بنده مومن ہوتا ہے جس کی وجہ سے ميں انھيں مہلت دے ديتا ہوناور پھر ميرا‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫عذاب انھيں گھيرليتا ہے اور ان دوصورتوں کے عالوه جتنے بﮍے عذاب کا تم تصور کر سکتے ہو اسے ميں نے ان‬
‫کے لئے مہيا کر رکھا ہے“۔‬
‫اے ابو جہل !اسی وجہ سے خداوند عالم نے تجھے مہلت دی ہے کہ تيری نسل ميں ايک مومن پيدا ہوگا جس کانام‬
‫عکرمہ ہوگا۔]‪[24‬‬
‫قارئين کرام! جيسا کہ آپ نے مالحظہ کيا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے مناظره کرنے والے اسالم کے‬
‫سخت ترين دشمن تھے‪ ،‬ليکن اس کے باوجود پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مکمل صبر و حوصلہ سے ان‬
‫کی تمام باتيں سنيں اور نہايت سنجيدگی اور متانت کے ساتھ ان کا جواب ديا اور ايک تفصيلی اور استداللی بحث کے‬
‫ساتھ اپنی حجت تمام کر کے اسالم کی منطقی اور اخالقی روش کا ثبوت ديا۔‬

‫‪٣‬۔رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکا يہودی دانشوروں سے مناظره‬


‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی ہجرت سے پہلے يہوديوں کی مذہبی محفلوں ميں آپ کی عالمتوں کا تذکره‬
‫ہوتا رہتا تھا يہاں تک کہ يہودی علماء توريت کی آيتوں کی بنياد پر آنحضرت کے بارے ميں پيشين گوئياں کرتے تھے‬
‫اور بﮍے ہی اعتماد کے ساتھ اس طرح کے پيغمبر کے آنے کے بارے ميں باتيں کيا کرتے تھے۔‬
‫اور يہ تمام عالمتيں اور نشانياں پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی زندگی اور آپ کے کاموں سے مطابقت کر گئيں‬
‫يہوديوں کے بزرگ مذہبی افراد اس فکر ميں رہتے تھے کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی مدد کر کے‬
‫انھيں اپنی طرف کھينچ ليں اور نتيجہ ميں ان کے اطراف کی مذہبی قدرت کو حاصل کر ليں ليکن پيغمبر اکرم صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم نے جب مدينہ کی طرف ہجرت کی توبﮍی تيزی سے اسالم پھيال اور يہوديوں کی طاقت سے زياده‬
‫پيغمبر کو قدرت وطاقت حاصل ہوئی اور اسالم کے منتقل ہونے کی وجہ سے پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کسی‬
‫بھی صورت ميں اس بات پر راضی نہيں تھے کہ يہوديوں کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاريں يہی بات يہوديوں کی‬
‫محفلوں ميں پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی مخالفت کا سبب بنی۔‬
‫سوره بقره اور سوره ٔ نساء کی آيتوں ميں ان کاا سالم‬
‫ٔ‬ ‫يہوديوں نے طرح طرح سے اسالم کو نقصان پہنچانا چاہا جيسا کہ‬
‫سے بغض و عناد بيان ہوا ہے مثالًان کے کاموں ميں سے ايک کام يہ تھا کہ وه ”اوس“ و”خزرج“کے درميان ‪١٢٠‬‬
‫سالہ پرانے اختالف)‪ [25](١‬کوپھر سے ابھاريں اور مسلمانوں کی متحد صفوں کو انتشار کا شکار بنائيں ليکن پيغمبر‬
‫اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کی ہوشياری نے ان کے اس عزم واراده کوخاک ميں مالديا اور اسی‬
‫طرح ان کی بہت سی دوسری سازشوں کو بھی پورا نہيں ہونے ديا۔‬
‫ايک راستہ جس کے ذريعہ وه پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور اسالم کو مغلوب کرنا چاہتے تھے وه مناظره يا‬
‫آزادانہ بحث]‪ [26‬بھی تھا‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کی اس پيش کش کو ہنسی خوشی قبول کر ليا‬
‫وه آئے اور پيغمبر سے مجادلہ اور پيچيده سوال کر کے انھيں ال جواب بنا دينا چاہتے تھے ليکن اس آزاد بحث سے خود‬
‫انھيں ہی نقصان اٹھا نا پﮍا‪ ،‬اور لوگوں کو پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے علمی مقام اور غيبی اطالعات کی آگاہی‬
‫حاصل‬
‫ہوئی جس کی وجہ سے بعض يہودی اور بت پرست اسالم کے گرويده ہوگئے۔‬
‫ليکن وه لوگ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی بحث سے قانع ہونے کے باوجود بﮍی دليری کے ساتھ کہنے لگے کہ‬
‫ف“]‪ [27‬ہمارے دلوں پر پرده پﮍ گيا ہے۔‬ ‫ہم تمہاری باتوں کو نہيں سمجھ رہے ہيں‪ ” :‬قُلُوبُنَا ُغ ْل ٌ‬
‫يہوديوں کے ساتھ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے مناظرے اور مجادلے بہت ہيں جن کو پيغمبر صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم نے بﮍی ہی ہمت کے ساتھ انجام ديا اور ان کی قضاوت و فيصلے نے پوری دنيا کو دعوت فکر دی۔‬
‫بطور نمونہ ان ميں سے صرف دو يہ مناظرے مالحظہ فرمائيں‪:‬‬

‫پہال نمونہ‬
‫جب عبد ﷲ بن سالم ايمان لے آيا‪:‬‬

‫قبيلہ بنی‬
‫يہوديوں کے بزرگ علماء ميں سے ايک مشہور و معروف عالم دين جس کا نام ”عبد ﷲ بن سالم“ اور يہودی ٔ‬
‫قينقاع سے تعلق رکھتا تھا‪ ،‬پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی ہجرت کے پہلے سال ايک روز عبد ﷲ بن سالم]‪[28‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫آپ کی نشست ميں حاضر ہوا اور ديکھا کہ آپ اپنے موعظہ ميں اس طرح کی چيزيں بيان کر رہے ہيں۔‬
‫پہنچاو‪،‬اپنے رشتہ داروں سے مل جل کر رہو‪،‬آدھی‬ ‫ٔ‬ ‫”اے لوگو! آپس ميں ايک دوسرے کو سالم کرو اوران تک کھانا‬
‫رات کو جب ساری دنيا سو جايا کرے تو اٹھ کر نماز شب پﮍھو اور خداوند متعال سے راز ونياز کرو تاکہ سالمتی کے‬
‫ساتھ خدا وند متعال کی بہشت ميں داخل ہو سکو“۔‬
‫عبد ﷲ نے ديکھا کہ آپ کی باتيں اچھی ہيں جس کہ وجہ سے وه اس نشست کا گرويده ہو گيااور اس نے اس ميں شرکت‬
‫کا اراده کر ليا ]‪[29‬ايک روز عبد ﷲ نے مذہب يہود کے چاليس بزرگ علماء کے ساتھ مل کر يہ طے کيا کہ ہم پيغمبر‬
‫کے پاس جا کر ان کی نبوت کے بارے ميں بحث کريں اور انھيں زير کريں۔‬
‫اس ارادے سے جب وه لوگ آپ کے پاس آئے تو آپ نے عبد ﷲ بن سالم کی طرف متوجہ ہو کر فرمايا‪” :‬ميں بحث‬
‫کے لئے تيار ہوں“۔‬
‫يہوديوں نے موافقت کی اور بحث ومناظره شروع ہوا ‪،‬تمام يہودی پيغمبر پر پيچيده سوالوں کی بوچھار کررہے تھے‬
‫‪،‬آپ ايک ايک کرکے ان جواب کا ديتے‪،‬يہاں تک کہ ايک روز عبد ﷲ بن سالم پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی‬
‫خدمت ميں تنہا حاضر ہوا اور کہنے لگا“۔ميرے پاس تين سوال ہيں جن کا جواب پيغمبر کے عالوه کوئی دوسرا نہيں‬
‫جانتا ‪،‬کيا اجازت ہے کہ ميں انھيں بيان کروں؟ “‬
‫عبد ﷲ نے سوال کيا‪” :‬مجھے بتايئے کہ قيامت کی پہلی عالمت کيا ہے؟جنت کی خاص غذا کيا ہے؟اس کی کيا وجہ ہے‬
‫کہ بيٹا کبھی باپ کے اور کبھی ماں کے مشابہ ہوتا ہے؟“‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪” :‬ابھی جبرئيل تمہارے جوابات خدا کی طرف سے الرہے ہيں اور ميں‬
‫بتاوں گا“۔‬
‫تمہيں ٔ‬
‫جيسے ہی جبرئيل کا نام درميان ميں آيا عبد ﷲ نے کہا‪” :‬جبرئيل تو يہوديوں کا دشمن ہے کيونکہ اس نے متعدد مقامات‬
‫پر ہم سے دشمنی کی ہے بخت نصر جبرئيل کی فوج کی وجہ سے ہم پر غالب ہوا اور شہر بيت المقدس ميں آگ لگا دی‬
‫۔۔۔۔وغيره“۔‬
‫سوره بقره کی ‪ ٩٧‬ويں آيت کی تالوت فرمائی جس کا مطلب يہ‬ ‫ٔ‬ ‫ميں‬ ‫جواب‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫سلم‬ ‫و‬ ‫آلہ‬ ‫و‬ ‫عليہ‬ ‫ﷲ‬ ‫صلی‬ ‫پيغمبر‬
‫ہے‪:‬‬
‫”جبرئيل جنھيں تم اپنا دشمن سمجھتے ہو وه اپنی طرف سے کچھ نہيں کرتے اور انھوں نے قرآن کو خدا کے اذن سے‬
‫قلب پيغمبر پر نازل کيا ہے وه قرآن جو ان کتابوں سے مطابقت رکھتا ہے جن ميں رسول خدا کی نشانيوں کا تذکره ہے‬
‫‪،‬وه ان کی تصديق کرنے واال ہے ‪،‬فرشتوں کے درميان کوئی فرق نہيں اگر کوئی ان ميں سے کسی ايک سے دشمنی‬
‫رکھتا ہے تو گويا وه تمام فرشتوں ‪،‬پيغمبروں اور خدا کا دشمن ہے کيونکہ فرشتے اور پيغمبر سب کے سب خدا کے‬
‫فرمانبردارہوتے ہيں۔]‪[30‬‬
‫اس کے بعد رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عبد ﷲ کے جواب ميں فرمايا‪:‬‬
‫”قيامت کی پہلی عالمت دھوئيں سے بھری ہوئی آگ ہے جو لوگوں کو مشرق ومغرب کی طرف لے جائے گی اور‬
‫جنت کی خاص غذامچھلی کا جگر اور اس کا اضافی ٹکﮍا ہے جو نہايت ہی اچھی اور لذيذ ترين غذا ہے‪،‬اور تيسرے‬
‫سوال کے جواب ميں آپ نے فرمايا‪” :‬انعقاد نطفہ کے وقت عورت يا مرد کے نطفہ ميں جس کا نطفہ غلبہ پاجاتا ہے‬
‫بچہ اسی کی شبيہ ہوتا ہے ‪ ،‬اگر عورت کا نطفہ مرد کے نطفہ پر غالب آگيا تو بچہ ماں کی طرح ہوگا اور اگر مرد کا‬
‫نطفہ عورت کے نطفہ پر غالب آگيا تو بچہ باپ کی طرح ہوگا“۔‬
‫عبد ﷲ نے پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ان جوابوں کی تطبيق جب توريت اور انبياء سابق کی خبروں سے کی‬
‫تو يہ تمام جوابات صحيح ثابت ہوئے ‪،‬جس کے نتيجہ ميں اس نے فوراً اسالم قبول کر ليا اور اپنی زبان پر کلمہ شہادتين‬
‫جاری کيا۔‬
‫اس وقت عبد ﷲ بن سالم نے پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے عرض کيا‪” :‬ميں يہوديوں ميں سب سے زياده پﮍھا‬
‫لکھا ہوں اور بہت ہی پﮍھے لکھے شخص کا بيٹا ہوں اگر انھيں ميرے اسالم قبول کرنے کی خبر ہوگئی تو وه مجھ کو‬
‫جھٹالئيں گے‪ ،‬ل ٰہذا ابھی آپ ميرے ايمان کو پنہاں رکھئے تاکہ آپ يہ معلوم کر سکيں کہ يہودی ميرے بارے ميں کيا‬
‫خيال رکھتے ہيں“۔‬
‫پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اس فرصت کو غنيمت جان کر کہ عبد ﷲ کا اسالم النا مجادلہ اور آزاد بحث کے‬
‫لئے خود ايک طرح کی دليل بن سکتا ہے‪ ،‬چنانچہ عبد ﷲ بن سالم کو وہيں قريب ميں پردے کی آڑ ميں بٹھا ديا يہوديوں‬
‫سے گفتگو کے دوران پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪” :‬ميں پيغمبر ہوں خدا کو حاضر ناظر جانو اور‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ہواوہوس کو ترک کرکے اسالم قبول کر لو“۔‬
‫جواب ميں کہا گيا‪” :‬دين اسالم کے صحيح ہونے کے بارے ميں ہم بالکل بے اطالع ہيں“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬تمہارے درميان عبد ﷲ بن سالم کيسا شخص ہے ؟“‬
‫گروه يہود‪” :‬وه ہمارا رہبر اور ہمارے رہبر کا بيٹا ہے وه ہمارے درميان ايک بہت ہی پﮍھا لکھا شخص ہے“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬وه اگر مسلمان ہو جائے تو کيا تم لوگ اس بات پر تيار ہو کہ اس کا اتباع‬
‫کرو؟“‬
‫گروه يہود‪” :‬وه ہر گز مسلمان نہيں ہوگا“۔‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے عبد ﷲ کو آواز دی‪ ،‬عبد ﷲ بن سالم پردے سے باہر لوگوں کے سامنے حاضر‬
‫ہو کر کہنے لگا‪” :‬اشھد ان ال الہ االﷲ وان محمد رسول ﷲ“۔‬
‫الوجب تم جانتے ہو کہ وه پيغمبر خدا ہے تو تم کيوں ايمان‬ ‫اے گروه يہود! خدا سے ڈرو اور اس کے پيغمبر پر ايمان ٔ‬
‫نہيں التے ؟“‬
‫يہوديوں نے ابھی کچھ ہی دير پہلے اس کی تعريف کی تھی مگر اب وه اسے بد ترين شخص اور ذليل آدمی کا بيٹا بتانے‬
‫لگے۔‬
‫آپ کا يہ طرز استدالل نہايت عمده تھا جس کی وجہ سے وه اپنا منہ چھپانے لگے ليکن در حقيقت وه شکست کھا چکے‬
‫تھے ‪،‬عبد ﷲ کے لئے اگر چہ اسالم اس زمانہ ميں بہت دشوار ثابت ہوا ليکن وه حقيقتا ً اسالم اليا تھا‪،‬اسی لئے آنحضرت‬
‫موثر‬‫نے اس کا نام عبد ﷲ رکھا تھا]‪ [31‬اس کا ايمان قبول کرنا بعد ميں اور دوسرے ايمان النے والوں کے لئے ہی ٔ‬
‫َيرق“ تھا وه بھی اپنے چند ساتھيوں کے‬ ‫ثابت ہوا‪ ،‬ابھی کچھ ہی دير گزری تھی کہ ايک يہودی دانشور جس کانام ”مخ ِ‬
‫ساتھ ايمان لے آيا۔]‪[32‬‬

‫دوسرا نمونہ‬
‫‪۴‬۔ قبلہ کے سلسلہ ميں پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کايہوديوں سے مناظره‬
‫جيسا کہ ہم جانتے ہيں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم مکہ ميں بيت المقدس )يہوديوں کے قبلہ( کی طرف منہ‬
‫کر کے نماز پﮍھا کرتے تھے اور ہجرت کے بعد مدينہ ميں بھی آپ ‪ ١۶‬مہينے تک بيت المقدس ہی کی طرف رخ کر‬
‫کے نماز پﮍھتے رہے۔‬
‫اسالم دشمن ‪،‬يہوديوں نے اسالم کو بُرا بھال کہنے اور اسے بے اہميت کر نے کے لئے ايک اچھا بہانہ تالش کر ليا اور‬
‫دعوی کرتے ہيں کہ وه مستقل شريعت الئے ہيں جبکہ ان کا‬ ‫ٰ‬ ‫کہنے لگے‪” :‬محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماس بات کو‬
‫وہی قبلہ ہے جو يہوديوں کا قبلہ ہے“۔‬
‫اس طرح کے اعتراضات سے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم رنجيده خاطر ہوئے آنحضرت راتوں کو گھر سے‬
‫سوره بقره کی ‪ ١۴۴‬ويں آيت نازل‬ ‫ٔ‬ ‫باہر آتے اور آسمان کی طرف نگاه کرکے وحی کے منتظر رہتے تھے يہاں تک کہ‬
‫ہوئی جس ميں قبلہ کی جہت بيت المقدس سے بدل کر خانہ کعبہ کی طرف کردی گئی۔‬
‫نيمہ رجب ميں پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے چند صحابيوں کے ساتھ مسجد بنی سلمہ‬ ‫ہجرت کے ‪ ١۶‬ماه بعد ٔ‬
‫)جو مسجد احزاب سے ايک کلو ميٹر شمال کی طرف واقع ہے(ميں ظہر کی نماز ادا کر رہے تھے ‪،‬دو رکعت نماز تمام‬
‫سوره بقره کی ‪ ١۴۴‬ويں آيت لے کر نازل ہوئے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫ہونے کے بعد جبرئيل‬
‫ﱡ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ْج ِد ال َح َر ِام َو َحيْث َما ُکنتُ ْم فَ َولوا ُوجُوہَ ُک ْم‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ک شَط َر ال َمس ِ‬ ‫ً‬ ‫ﱢ‬
‫ک فِی ال ﱠس َما ِء فَلَنُ َوليَنﱠ َ‬
‫ک قِ ْبلَة تَرْ َ‬
‫ضاہَا فَ َو ﱢل َوجْ ہَ َ‬ ‫” قَ ْد نَ َری تَقَلﱡ َ‬
‫ب َوجْ ِہ َ‬
‫َط َره“]‪[33‬‬ ‫ش ْ‬
‫”اے رسول ہم آپ کی توجہ کو آسمان کی طرف ديکھ رہے ہيں تو ہم عنقريب آپ کو اس قبلہ کی طرف موڑ ديں گے‬
‫جسے آپ پسند کرتے ہيں ل ٰہذا آپ اپنا رخ مسجد الحرام کی جہت کی طرف موڑ ديجئے اور جہاں بھی رہئے اس طرف‬
‫رخ کيجئے“۔‬
‫تو آپ حالت نماز ہی ميں کعبہ کی طرف پلٹے اور دو رکعت نماز کعبہ کی طرف رخ کر کے پﮍھی‪ ،‬اسی طرح آپ کی‬
‫اقتداء کرنے والوں نے بھی کيا ‪،‬اور اسی نماز کی وجہ سے مسجد بنی سلمہ کو مسجد ”ذو قبلتين“ کہا جانے لگا“۔‬
‫اس واقعہ کے بعد يہودی ہر جگہ قبلہ بدلنے کے سلسلہ ميں اعتراض اور اسالم کے خالف پروپيگنڈه کيا کرتے تھے‬
‫‪،‬پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور يہوديوں کے درميان طے پايا کہ وه ايک جلسے ميں اس موضوع پر آزاد‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫انہ طور پر بحث کريں ‪،‬اس جلسہ ميں چند يہوديوں نے شرکت کی اور جلسہ کی شروعات يہوديوں نے کی اور سوال‬
‫کی صورت ميں انھوں نے اس طرح کہا‪”:‬آپ کو مدينہ آئے اور بيت المقدس کی طرف نماز پﮍھتے ہوئے ايک سال‬
‫سے زياده ہو گيا ليکن اب آپ بيت المقدس سے رخ موڑ کر کعبہ کی طرف نماز پﮍ ھ رہے ہيں آپ ہميں اس کا جواب‬
‫ديں کہ آپ نے بيت المقدس کی طرف رخ کر کے جو نمازيں پﮍھی ہيں وه درست تھيں يا باطل؟ اگر وه درست تھيں تو‬
‫ال محالہ آپ کا دوسرا عمل باطل ہے اور اگر باطل تھيں تو ہم کس طرح آپ کے دوسرے اعمال )جو بدلنے کی صورت‬
‫ميں ہيں(پر مطمئن ہوں کہ اس طرح آپ کا يہ قبلہ بھی باطل نہ ہو؟“‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ‪” :‬دونوں قبلے اپنے موقع کے لحاظ سے درست اور حق ہيں ان چند مہينوں ميں‬
‫بيت المقدس کی طرف نماز پﮍھنا حق تھا اور اب ہم خدا کی طرف سے اس بات پر مامور کئے گئے ہيں کہ خانہ کعبہ‬
‫کو اپنا قبلہ قرار ديں“‪ ،‬اور خدا کے لئے مشرق ومغرب ہيں تم جس طرف بھی رخ کرو وہاں خدا ہے اور بيشک خدا‬
‫بے نياز اور دانا ہے“۔]‪[34‬‬
‫گروه يہود‪” :‬اے محمد ! کيا خدا کے لئے بداء واقع ہوا؟)يعنی ايک کام گذشتہ زمانہ ميں اس پر مخفی تھا اور اب ظاہر‬
‫ہوگيا اور اس نے اپنے پہلے حکم سے پشيمان ہو کر ددوسرا حکم ديا ہے(اور اس بنا پر اس نے تمہارے لئے نيا قبلہ‬
‫معين کيا؟اگر اس طرح کی بات کرتے ہو تو گويا تم نے خدا وند متعال کو عام انسانوں کی طرح نادان تصور کر ليا“۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ‪:‬خدا کے يہاں بداء اس معنی ميں نہيں پايا جاتا ہے ‪،‬خدا ہر چيز سے آگاه اور قادر‬
‫مطلق ہے اس سے کوئی بھی چھوٹی سے چھوٹی غلطی سرزد نہيں ہو سکتی جسکی وجہ سے وه پشيمان ہو اور تجديد‬
‫نظر کرے نيز اس کے راستہ ميں کوئی چيز رکاوٹ نہيں بن سکتی جس کی وجہ سے وه اوقات ميں تبديلی کرے‪،‬ميں تم‬
‫سے سوال کرتا ہوں کہ ”کيا مريض صحت ياب نہيں ہوتا يا تندرست آدمی غمگين اور مريض نہيں ہوتا؟ يا زنده مرتا‬
‫نہيں اور موسم گرما موسم سرما ميں تبديل نہيں ہوتا؟ کيا خداوندمتعال اس‬

‫طرح کے تمام امور ميں تبديلی التا رہتا ہے تو اس کے يہاں بداء واقع ہوتا ہے؟ “‬
‫پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم ‪ :‬قبلہ کی تبديل بھی انھيں چيزوں ميں سے ہے خدا وند متعال ہميشہ اور ہر زمانہ ميں‬
‫اپنے بندوں کی فالح وبہبود کے لئے خاص حکم رکھتا ہے جو شخص بھی اطاعت کرے گا جزاکا مستحق ہوگا ورنہ‬
‫اسے عذاب ميں مبتال کيا جائے گا‪،‬اس کی تدبير اور مصلحت ميں کسی کو مخالفت کرنے کا حق نہيں۔]‪[35‬‬
‫اور تم سے ميرا دوسرا سوال يہ ہے کہ کيا تم سنيچر کے دن اپنے تمام کا موں کی چھٹی نہيں کرتے ہو اور پھر اتوار‬
‫سے اپنے کاموں مينمشغول ہوجاتے ہواس ميں سے تمہارا کون ساعمل صحيح ہے کيا پہال درست ہے اور دوسرا باطل‬
‫ہے يا دوسرا صحيح ہے اور پہال باطل يا دونوں صحيح يا دونوں باطل ؟‬
‫گروه يہود‪” :‬دونوں صحيح ہيں“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬ميں بھی اسی طرح کہتا ہوں کہ دونوں حق ہيں چند ماه اور چند سال پہلے بيت‬
‫المقدس کی طرف قبلہ قرار دينا صحيح تھا ليکن آج کعبہ کو قبلہ سمجھنا صحيح ہے۔‬
‫تم لوگ بيماروں کی طرح ہو اور تمہارا طبيب حاذق خدا ہے اور بيماروں کی صحت اور عافيت اس ميں ہے کہ وه‬
‫طبيب حاذق کی پيروی کرےں اور اس کے حکم کو اپنے ہواو ھوس پر مقدم کريں“۔‬
‫اس مناظره کے ناقل امام حسن عسکری عليہ السالم سے ايک شخص نے سوال کيا کہ روز اول سے ہی کعبہ مسلمانوں‬
‫کا قبلہ کيوں نہيں ہوا؟“‬
‫سوره بقره کی ‪ ١۴٣‬ويں آيت ميں اس کا‬‫ٔ‬ ‫امام عليہ السالم نے اس کے جواب ميں فرمايا‪” :‬خداوند متعال نے قرآن ميں‬
‫جواب ديا ہے اس کے بعد آپ نے يہ آيت پﮍھی‪:‬‬
‫”اور تحويل قبلہ کی طرح ہم نے تم کو درميانی امت قرار ديا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواه رہو اور پيغمبر‬
‫تمہارے اعمال کے گواه رہيں اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنا يا تھا کہ ديکھيں کہ کون رسول کا اتباع‬
‫پاوں پلٹ جاتا ہے اگر چہ قبلہ ان لوگوں کے عالوه سب پر گراں ہے جن کی ﷲ نے ہدايت‬ ‫کرتا ہے اور کون پچھلے ٔ‬
‫کردی ہے اور خدا تمہارے ايمان کو ضائع نہيں کرنا چاہتا ‪،‬وه بندوں کے حال پر مہربان اور رحم کرنے واال ہے“۔‬
‫اس آيت ميں مومنين کے لئے يہ حکم آيا ہے کہ ہم مشرکين سے مومنين کو جدا کرنا چاہتے ہيں تاکہ پہچانے جائيں اور‬
‫ان کی صفيں جدا اور الگ ہوں‪ ،‬خداوندمتعال نے بيت المقدس کو مسلمانوں کا قبلہ اس لئے قرار ديا تھا کيونکہ اس‬
‫زمانہ ميں خانہ کعبہ مشرکين کے بتوں کا مرکز تھا اور مشرکين جاکران کے سامنے سجده کرتے تھے ليکن پيغمبر‬
‫اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے جب مدينہ ہجرت فرمائی اور وہاں ايک مستقل حکومت کی تشکيل دی تو مسلمانوں‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کی صفيں خود بخود مشرکوں سے الگ تھلگ ہوگئيں۔]‪ [36‬اور اب اس چيز کی ضرورت نہيں رہی کہ مسلمان بيت‬
‫المقدس کی طرف سر جھکائيں‪ ،‬ل ٰہذا مسلمانوں نے کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پﮍھنا شروع کرديا‪ ،‬يہ بات بھی‬
‫واضح ہے کہ بيت المقدس کی طرف خداوندعالم نے سجده کرنے کا حکم اس لئے ديا تھا کہ نئے نئے مشرک جو‬
‫مسلمان ہوئے تھے ان کے لئے اپنی عادتيں چھوڑنا ايک بہت ہی مشکل کام تھا کيونکہ ابھی ان ميں پرانے رسوم باقی‬
‫تھے اور جب تک انسان ميں يہ قوت وصالحيت نہ پيدا ہو کہ وه اپنی عادت اور خرافات کو باآسانی ترک کرسکے وه‬
‫حق کی طرف مائل نہيں ہو سکتا لہٰذا جب انھيں پوری طرح آزماليا گيا تو انھيں بيت المقدس کی طرف سے ہٹا کر کعبہ‬
‫کی طرف نماز پﮍھنے کا حکم ديا گيا ‪،‬اور در حقيقت شروع شروع ميں بيت المقدس کو قبلہ قرار دينا اسالم کی ايک‬
‫فکری اور معنوی تحريک تھی جس کے ذريعہ اسالم نے مشرکين کی پرانی عادتوں کو ختم کر ديا ‪،‬ليکن مدينہ ميں اس‬
‫طرح کی مصلحتيں نہيں پائی جاتی تھيں يا کعبہ کی طرف رخ کرنے ميں زياده مصلحتيں تھيں۔]‪[37‬‬

‫‪۵‬۔قرآن مجيد پر اعتراض اور اس کا جواب‬


‫ايک روز کچھ لوگ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں حاضر ہوئے اور عرض کيا ”ہم قرآن کے سلسلہ‬
‫ميں چند اعتراضات لے کر حاضر ہوئے ہيں“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪” :‬اپنے اعتراضات بيان کرو“۔‬
‫ايک نے کہا‪” :‬آيا آپ خدا کے رسول ہيں؟“‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪” :‬ہاں“۔‬
‫گروه‪” :‬سوره انبياء کی ‪ ٩٨‬ويں آيت ميں خدا فرماتا ہے‪:‬‬
‫صبُ َجہَنﱠ َم“‬ ‫” ِٕانﱠ ُک ْم َو َما تَ ْعبُ ُدونَ ِم ْن د ِ‬
‫ُون ﷲِ َح َ‬
‫”ياد رکھو کہ تم لوگ خود اور جن چيزوں کی تم پرستش کررہے ہو سب کو جہنم کا ايندھن بنايا جائے گا۔۔۔“۔‬
‫عيسی عليہ السالم بھی اہل دوزخ ہوئے کيونکہ کچھ لوگ ان کی‬
‫ٰ‬ ‫” ہمارا اعتراض يہ ہے کہ اس مفہوم کی بنا پر حضرت‬
‫بھی عبادت کرتے ہيں“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے سنجيدگی اور متانت سے ان کی باتيں سنيں اور فرمايا‪:‬‬
‫”قرآن عرب کی رائج زبان کے مطابق نازل ہوا ہے عربی زبان ميں لفط ”من“ اکثر ذوالعقول )وه افراد جو عقل رکھتے‬
‫ہيں( کے لئے اور لفظ”ما“غير ذوالعقول )حيوانات‪ ،‬جمادات اور اشجار( کے لئے استعمال ہوتا ہے تم جس آيت کے‬
‫سلسلہ ميں اعتراض کر رہے ہو اس ميں لفظ ”ما“استعمال ہوا ہے جس سے مراد عقال ء نہيں بلکہ وه معبود ہيں جو عقل‬
‫نہيں رکھتے جيسے بت جنھيں مٹی‪،‬لکﮍی اور پتھر سے بنايا جاتا ہے ‪،‬اس طرح آيت کے معنی يہ ہوں گے‪:‬‬
‫”غير خدا کی عبادت کرنے والے لوگ جنھيں تم نے اپنے ہاتھوں سے مختلف قسم کے معبود بنا رکھا ہے وه سب کے‬
‫سب جہنمی ہوں گے“۔‬
‫وه پيغمبر خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے جواب سے مطمئن ہوگئے اور آپ کی تصديق کر کے رخصت گئے۔]‪[38‬‬

‫‪۶‬۔ چوبيس منافقوں کی سازش اور آنحضرت کا ان سے مناظره‬


‫منافقوں کی ہر زمانہ ميں يہ خصوصيت رہی ہے کہ وه اپنی تمام تر کوششيں حکومت واقتدار کے‬
‫حصول ميں صرف کرتے ہيں اور وه ہميشہ يہ چاہتے ہيں کہ لوگوں کی ہمدردی کی آڑ ميں عوام کے درميان مقبوليت‬
‫پيدا کر کے حکومت کی باگ ڈور اپنے ہاتھ ميں لے ليں۔‬
‫اسی وجہ سے وه ہميشہ رہبری اور حکومت کے مسئلے ميں بہت ہی چوکنا رہتے ہيں۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے زمانہ ميں مناسب موقع ديکھ کر موالئے کائنات علی ابن ابی طالب عليہ‬
‫السالم کی رہبری کا اعالن کر ديا ‪،‬ليکن منافقوں کی کوشش يہ تھی کہ رہبری اور حکومت کے سلسلہ ميں علی اور‬
‫پيغمبر پر چند ايسے حملے کئے جائيں جس سے يہ عہده ان کے خاندان سے نکل کر کہيں اور چال جائے۔‬
‫جنگ تبوک ميں منافقوں کی ايک سازش يہ تھی کہ وه اپنا خفيہ منصوبہ کے ذريعہ علی عليہ السالم اور پيغمبر کو قتل‬
‫کر ديں۔‬
‫مالحظہ فرمائيں‪:‬‬
‫منافقوں کے ايک گروه نے اپنی ايک خفيہ ميٹنگ بالئی جس ميں يہ طے پايا کہ اس وقت مسلمان جنگ ميں سر گرم ہيں‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ل ٰہذا کچھ لوگ علی عليہ السالم کے قتل کے لئے مدينہ ميں رک جائيں اور کچھ لوگ جنگ تبوک ميں شرکت کريں اور‬
‫مناسب موقع پر ديکھ کر وہاں پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو قتل کرديں۔‬
‫پيغمبر کی قيادت ميں ‪ ١٠‬ہزار سواروں اور ‪٢٠‬ہزار پياده افرا د پر مشتمل لشکر اسالم تھا جنگ تبوک کے لئے روانہ‬
‫ہو گيا‪،‬کچھ لوگ اپنی سازش کو پايہ تکميل تک پہچانے کے لئے مدينہ ہی رک گئے اور بقيہ منافقين مسلمانوں کے ساتھ‬
‫جنگ کرنے روانہ ہوگئے يہ خبر پيغمبر تک پہنچ چکی تھی کہ رومی فوج پياده اور سوارمالکر چاليس ہزار افراد پر‬
‫مشتمل ہے شام کی سرحد پر پہنچ چکی ہے اور اس فکر ميں ہے کہ مسلمانوں پر اچانک حملہ کر ديا جائے اگر چہ يہ‬
‫جنگ مختلف جہات سے جيسے گرمی کی شدت‪ ،‬طويل مسافت دشمنوں کی کثرت ‪،‬پانی اور غذاکی قلت کی وجہ سے‬
‫بہت ہی دشوار تھی اسی وجہ سے اس کو جيش العسرة کہا گيا ہے‪ ،‬ليکن مسلمان استقامت اور وه ايمان توکل اور بلند‬
‫ہمتی کے ساتھ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی سپہ ساالر ی ميں آگے بﮍھے اور مدينہ وتبوک کے درميانی‬
‫طويل راستہ طے کيا اور نويں ہجری کے ماه شعبان کے اوائل ميں سر زمين تبوک پہنچ گئے يہ ديکھ کر روم کی فوج‬
‫خوف کی وجہ سے پيچھے ہٹ گئی اور جنگ نہ ہو سکی ايسے موقع پر حکومت واقتدارکے اللچی منافقين علی عليہ‬
‫السالم اورپيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو قتل کرنے کی فکر ميں لگے ہوئے تھے ‪،‬پيغمبر صلی ﷲ عليہ و‬
‫آلہ و سلم نے تمام حاالت کا جائزه لينے کے بعد علی عليہ السالم کو اس جنگ ميں اپنے ساتھ لے جانا مناسب نہ سمجھا‬
‫اور انھيں مدينہ ميں چھوڑ گئے تھے ‪،‬تاکہ وه پيغمبر کی غير موجودگی ميں مدينہ کی حفاظت کريں۔‬
‫حضرت علی عليہ السالم کی موجودگی کی وجہ سے جب منافقوں کی سازش تيس ہزار مسلمانوں کی غير حاضری کے‬
‫باجود کامياب نہ ہوسکی تو انھوں نے افواہوں کی مدد سے فتنہ کھﮍ ا کرنا چاہا وه کہنے لگے کہ علی عليہ السالم اور‬
‫پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے درميان اختالف ہوگيا اور پيغمبر ان کی ہم نشينی سے بيزار ہوگئے ہيں جس کی‬
‫وجہ سے انھيں اپنے ساتھ جنگ ميں نہيں لے گئے وغيره۔۔۔‬
‫منافق اپنی اس بزدالنہ تہمت کے ذريعہ علی عليہ السالم کی قيادت و رہبری کی مجروح کرنا چاہتے تھے علی عليہ‬
‫السالم اس غلط پروپيگنڈه سے سخت ناراض ہوئے اور مدينہ چھوڑ کر پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں‬
‫پہنچے اور آپ کو مدينہ کے حاالت سے مطلع کيا ‪ ،‬پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫موسی اال انہ النبی بعدی “۔‬
‫ٰ‬ ‫”اما ترضی ان تکون منی بمنزلة ہارون من‬
‫موسی سے تھی صرف‬ ‫ٰ‬ ‫”کيا آپ اس بات پر راضی نہيں کہ تمہاری منزلت ميرے نزديک وہی ہے جونسبت ہارون کو‬
‫اتنا ہے کہ ميرے بعدنبی نہيں ہے“۔‬
‫يہ سن کر علی عليہ السالم کے دل کو ٹھنڈک پہنچی اور وه لوٹ آئے منافقين جو يہ چاہتے تھے کہ علی عليہ السالم کی‬
‫قيادت اور رہبری کو مجروح کرديں نہ يہ کہ ان کی تمام تر کوششيں نقش بر آب ہوگئيں بلکہ ساتھ ساتھ علی عليہ السالم‬
‫کی جانشينی اور نيابت ‪،‬مذکوره حديث کے ذريعہ واضح طور پر ثابت ہوگئی۔‬
‫منافقوں نے اپنی ايک خفيہ ميٹنگ ميں علی عليہ السالم کے قتل کا منصوبہ بنا يا اور راستے ميں ايک گﮍھا کھودديا‬
‫اور اسے گھاس پھوس سے ڈھک ديا تاکہ علی عليہ السالم واپسی کے موقع پر اس گﮍھے ميں اپنے جان کھوبيٹھيں۔‬
‫خداوند متعال نے علی عليہ السالم کو اس گﮍھے کے خطرے سے محفوظ رکھا اور وه صحيح وسالم مدينہ واپس آگئے‬
‫نتيجہ ميں اس دن منافق اپنے مقصد ميں کامياب نہ ہوسکے۔‬
‫اور وہاں منافقوں کا ‪ ١۴‬آدميوں پر مشتمل دوسرا گروه ]‪[39‬جو اسالمی لشکر کے ساتھ تھا ان کے درميان خفيہ طور پر‬
‫يہ طے ہواکہ تبوک سے لوٹتے وقت مدينہ اور شام کے درميان پہاڑ کی چوٹی پر پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و‬
‫سلم کے اونٹ کو چھپ کر پتھروں کے ذريعہ بھﮍکا ديا جائے تاکہ اونٹ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو درّه کے‬
‫اندر گرادے اور آپ کو اس بات کی اطالع بھی نہ ہونے پائے کہ اونٹ کو بھﮍکانے واال کون تھا۔‬
‫جب رسول صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماپنے ساتھيوں کے ہمراه پہاڑ کی اس چوٹی کے قريب پہنچے جہاں دره تھا‪ ،‬تو‬
‫جبرئيل نے آکر آپ کو منافقوں کی سازش سے مطلع کر ديا۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مسلمانوں کو منافقوں کی ‪،‬بالخصوص حضرت علی عليہ السالم کے سلسلہ‬
‫ميں کی گئی سازش سے مطلع کيا اور حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں چند باتيں کہيں۔‬
‫چوده افراد پر مشتمل منافقوں کا گروه جو يہ سمجھ رہا تھا کہ کسی کو کچھ خبر نہيں ہے‪ ،‬ل ٰہذا يہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و‬
‫آلہ و سلم کے سامنے دوستی اور محبت کا دم بھرنے لگے اور پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں حاضر‬
‫ہو کر علی عليہ السالم کی رہبری اور قيادت کے سلسلہ ميں سواالت کرنے لگے وه اپنے سوال کرنے سے يہ ظاہر‬
‫کرنا چاہے تھے کہ ہم تفاہم اور معلومات کے لئے بحث کر رہے ہيں اور اطمينان بخش جواب ملنے کی صورت ميں‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫قانع ومطمئن ہوجائيں گے۔‬
‫پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اتمام حجت کے لئے ان کی گزارش کو قبول کيا اور ان کے سواال ت کے جواب‬
‫ديئے۔‬

‫منافقوں کے سواالت‬
‫منافقوں نے اپنی بحث کا آغاز اس طرح کيا‪:‬‬
‫ہميں بتايئے کہ علی عليہ السالم بہتر ہيں يافرشتے؟‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬فرشتوں کا مقام اس وجہ سے افضل ہے کہ وه محمد‪ ،‬علی عليہ السالم اور خدا‬
‫کے انبياء عليہم السالم سے محبت کرتے ہيں اور ان کی رہبری وقيادت کو قبول کرتے ہيں اور جو بھی انسان ان‬
‫حضرات کی رہبری کو قبول کرے اور ان سے محبت کرے اس کا مقام فرشتوں سے افضل و برتر ہوگا ‪،‬کيا تم يہ نہيں‬
‫جانتے کہ فرشتے اپنے آپ کو ہر جہت سے آدم عليہ السالم سے افضل سمجھتے تھے‪ ،‬ليکن جب خداوندعالم نے انھيں‬
‫حضرت آدم کا علمی مرتبہ ظاہر کيا تو وه اپنے کو پست سمجھ کر ان کے سامنے سجده کے لئے جھک گئے‪ ،‬اور‬
‫سجده والے دن ہی کچھ عظيم اور نيک شخصيتيں )جيسے پيغمبر ‪،‬علی عليہ السالم اور ان کے بعد آنے والے تمام ائمہ‬
‫عليہم السالم (آد م کے صلب ميں موجود تھيں يعنی تمام مقدس شخصيتيں آدم کے پيچھے صف بنا ئے کھﮍی رہيں‬
‫‪،‬فرشتوں نے آدم کے ساتھ ساتھ ان کی تمام ذريت کا سجده کيا۔‬
‫بے شک سجده بظاہر آدم کے لئے ہو اليکن حقيقت ميں وه سجده خدا وند عالم کا سجده تھا ‪،‬جناب آدم عليہ السالم صرف‬
‫قبلہ )خانہ کعبہ( کی حيثيت رکھتے تھے ‪،‬ليکن ابليس نے گھمنڈ اورتکبر ميں چور ہونے کی وجہ سے جناب آدم عليہ‬
‫السالم کا سجده نہيں کيا جس کی وجہ سے وه بارگاه خدا وندی سے نکال ديا گيا“‪ ،‬اس بات کا امکان پايا جاتاتھا کہ منافق‬
‫اولی کا الزام لگا کر ان کی شخصيت کو مجروح کرتے ليکن پيغمبر‬ ‫جناب آدم عليہ السالم جيسے نبی پر گناه اور ترک ٰ‬
‫اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے پہلے ان کے اس اعتراض کا دروازه بند کرديا۔‬
‫اور آپ نے ان سے فرمايا‪” :‬اگر آدم عليہ السالم نے بہشت کے اس درخت سے چند دانے کھائے جس کے لئے‬
‫ولی تکبر اور غرور کی وجہ سے نہيں‬ ‫اولی کيا ليکن ان کا ترک ا ٰ‬ ‫خداوندعالم نے نہی کی تھی تو بيشک انھوں نے ترک ٰ‬
‫تھا اسی لئے انھوں نے توبہ کی اور خداوند عالم نے ان کی توبہ کو قبول بھی کر ليا“۔]‪[40‬‬

‫منافقوں کی سازش ناکام ہو گئی‬


‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی مذکوره نصيحتوں سے منافقوں کے دلوں پر کوئی اثر نہيں ہوا اور وه پوری‬
‫طرح اپنے دل ميں يہ ٹھانے ہوئے تھے کہ جيسے ہی پيغمبر کا اونٹ پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تواس کو بھﮍکا ديا‬
‫جائے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ايک خاص اور ماہر صحابی )حذيفہ(کو بال کرفرمايا‪” :‬تم پہاڑ کے نيچے‬
‫کنارے کی طرف بيٹھ جا ٔواور تمام آنے جانے والوں پر سخت نظر رکھو تاکہ مجھ سے پہلے کوئی بھی پہاڑ پر نہ‬
‫جاسکے“۔‬
‫اس کے بعد پيغمبر نے عمومی اعالن کر ديا کہ تمام لوگ ميرے پيچھے پيچھے آئيں اور کوئی بھی مجھ سے آگے‬
‫جانے کی کوشش نہ کرے۔‬
‫حذيفہ ۻ نے رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے حکم کے مطابق پہاڑ کے نيچے پہنچ کر اپنے کو ايک پتھر کی‬
‫آڑ مينچھپاليا اور چوکنا ہو کر چاروں طرف ديکھتے رہے کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے آگے کوئی‬
‫پہاڑ کی جانب نہ جاسکے ليکن حذيفہ نے ديکھا کہ منافقوں کا وہی گروه جو چوده افراد پر مشتمل تھا بﮍے ہی ماہرانہ‬
‫انداز ميں پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے پہلے پہاڑ کی چوٹی پر چﮍھنے لگا اور وہاں پہنچ کر اپنے بنائے‬
‫ہوئے منصوبہ کے تحت پتھر کی آڑ ميں چھپ گيا۔‬
‫ً‬
‫حذيفہ نے جب انکی يہ تمام حرکتيں ديکھيں اور باتيں بھی سنيں تو فورا پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو اس‬
‫بات سے آگاه کيا‪،‬رسو ل خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم منافقوں کی سازش سے آگاه ہونے کے باوجود شتر پر سوار‬
‫ہوئے اور چل پﮍے‪ ،‬حذيفہ ‪،‬سلمان و عمارپيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی حفاظت کے لئے ساتھ ساتھ چلے۔‬
‫آپ جب پہاڑ کی چوٹی پر پہنچے تو منافقوں نے اوپر سے پتھر لﮍھکانا شروع کيا تاکہ پيغمبر کا اونٹ بھﮍک اٹھے اور‬
‫وه درے ميں جاگريں۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ليکن تمام پتھر درے کی طرف لﮍھک گئے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے ساتھيوں کے ہمراه بغير‬
‫جاو اور اپنے ڈنڈے سے مار کر ان کی‬ ‫نقصان کے نيچے اتر آئے پيغمبر اسالم نے عمار سے فرمايا‪” :‬پہاڑ کے اوپر ٔ‬
‫سواريوں کو دور بھگا دو“۔‬
‫عمار‪،‬پيغمبر کے حکم کی تعميل کے لئے منافقوں کی تالش ميں نکلے اور پہاڑ پر پہنچ کر انھيں تتر بتر کر ديا اور ان‬
‫کی سواريوں کو اپنے ڈنڈے سے مارا جس کے نتيجے ميں چند منافق اپنی سواری کے ساتھ ساتھ خود بھی نيچے گرے‬
‫اور ان کے ہاتھ پير ٹوٹ گئے۔]‪[41‬‬
‫تاريخ اسالم کے يہ دقيق اور ظريف سبق آموز واقعات اور نصيحتيں ہيں جن کے ذريعہ ہم منافقوں کے حاالت سے آگاه‬
‫ہو سکتے ہيں ہميں چاہئے کہ ان کی رنگ برنگی اور نئی نئی سازشوں کے نقاب‪،‬ان کے چہرے سے نوچ کر ان کی‬
‫تمام تر سازشوں کو نقش بر آب کرديں‪،‬خاص بات يہ تھی کہ منافقوں نے اپنی سازش کو رات کی تاريکی ميں انجام ديا‬
‫اور يہ خود اس بات کی دليل ہے کہ وه ہميشہ اس بات کی کوشش ميں تھے کہ ان کا ہر کام پس پرده رہے ‪،‬ليکن ہوشيار‬
‫اور بيدار مسلمانوں نے ان کے پردے چاک کر کے ان کی سازش اور خفيہ ارادوں کو ناکام بنا ديا۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم اور حذيفہ کی تعريف چند جملوں ميں اس طرح کی‪:‬‬
‫”علی عليہ السالم اور حذيفہ منافقوں کی سازشوں سے تمام لوگوں سے زياده واقف ہيں“۔‬
‫نتيجہ يہ کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے ساتھ رہنے والے منافقوں کی سازش آشکار ہونے سے‬
‫پہلے ان سے مناظره کيا اور اس بات کو ملحوظ نظر رکھا کہ شايد وه انھيں سمجھا بجھا کر راه راست پر لے آئيں ليکن‬
‫جب ان کی بزدلی اور سازش کا بھانڈا پھوٹ گيا تو پيغمبر اسالم نے ان سے کناره کشی اختيار کر لی۔‬

‫‪٧‬۔ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کاعلماء نجران سے مناظره‬


‫”نجران“مکہ اور يمن کے درميان ايک شہر تھا جس ميں ‪ ٧٣‬بستياں تھےں ‪،‬صدر اسالم ميں وہاں عيسائی مذہب رائج‬
‫تھا اور اس وقت وہاں بہت ہی پﮍھے لکھے اور عظيم علماء رہتے تھے‪،‬خالصہ کے طور پر يہ کہہ دينا بہتر ہوگا کہ‬
‫اس وقت نجران ‪،‬آج کا ”ويٹکان“تھا۔‬
‫اس وقت شہر نجران کا بادشاه ”عاقب“ نام کا ايک شخص تھا‪ ،‬جس کے ہاتھ ميں مذہب کی باگ ڈور تھی اس کا نام ”ابو‬
‫حارثہ“تھا‪،‬اور جو شخص ہر دل عزيز‪ ،‬محترم اور لوگوں کے نزديک قابل اعتماد سمجھا جاتا تھا اس کا نام ”ايہم“تھا۔‬
‫جب پورے عالم ميناسالم کی آواز گونجی تو عيسائی علماء جنھوں نے پيغمبر کے بارے ميں جو بشارتيں توريت اور‬
‫انجيل ميں پﮍھ رکھی تھيں اس کے سلسلہ ميں ہميشہ ہی بہت حساس رہتے تھے جب انھوں نے اسالم کی آواز سنی تو‬
‫تحقيق کرنا شروع کر ديا۔‬
‫نجران کے عيسائی عوام نے اپنے نمائندوں کے ساتھ ايک خصوصی گروه بنا کر تين مرتبہ پيغمبر اسالم کی خدمت ميں‬
‫بھيجا تاکہ وه اچھی طرح اور قريب سے ان کی نبوت کی تحقيقکرسکيں۔‬
‫ايک دفعہ يہ گروه ہجرت سے پہلے مکہ روانہ ہوا اور وہاں پہنچ کر اس نے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم‬
‫سے مناظره کيا اور دو دفعہ ہجرت کے بعد مدينہ ميں آکر اس گروه نے آپ سے مناظره کيا۔‬
‫ہم ان کے تينوں مناظروں کا خالصہ پيش کررہے ہيں۔‬

‫‪١‬۔علمائے نجران سے پہال مناظره‬


‫نجران کے عيسائی علماء کا ايک گروه مکہ کی طرف اس قصد سے روانہ ہو اکہ پيغمبراسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم‬
‫کو قريب سے ديکھے اور ان کی نبوت کے بارے ميں تحقيق کرے ‪،‬يہ لوگ کعبہ کے نزديک پہنچ کر پيغمبر کی خدمت‬
‫ميں شرفياب ہوئے اور وہيں مناظره اور گفتگو شروع کر دی۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے بﮍی خوش اخالقی سے ان کے سواالت سنے اور جواب ديئے۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے قرآن کريم کی چند آيتيں تالوت فرمائيں جنھيں سن کر ان لوگوں کے دل بھر‬
‫آئے‪ ،‬اور فرط مسرت سے ان کی آنکھوں سے آنسوجاری ہوگئے اور اپنی تحقيقات ميں انھيں ايسی چيزيں معلوم ہوئيں‬
‫جو توريت اور انجيل سے بالکل مطابق تھيں جب انھوں نے يہ تمام چيزيں پيغمبر کی ذات ميں ديکھيں تو مسلمان‬
‫ہوگئے۔]‪[42‬‬
‫مشرکين بالخصوص ابو جہل اس مناظره سے بہت زياده ناراض ہوا اور جب نمائنده نجران مناظره ختم کر کے واپس‬
‫جانے لگے تو ابوجہل چند لوگوں کے ساتھ آيا اور راستے ميں انھيں گالياں دينے لگا اور کہنے لگا کہ ہم نے تم لوگوں‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫جيسا پاگل اور ديوانہ آج تک نہيں ديکھا تم لوگوں نے اپنی قوم وملت کے ساتھ خيانت کی اور اپنے مذہب کو چھوڑ کر‬
‫اسالم کے گرويده ہو گئے ان لوگوں نے بﮍے ہی نرم لہجہ ميں جواب ديتے ہوئے کہا کہ آج کے بعد ہم سے تمہارا‬
‫کوئی تعلق نہيں ہے ہم نے جو بھی کيا ہميں اپنے حال پر چھوڑ دو۔]‪[43‬‬

‫‪٢‬۔عيسائيوں کے اکابر علماء سے مناظره‬


‫راہنماوں سے مدينہ ميں ہجرت کے نويں سال واقع ہوا جس کی نوبت‬ ‫ٔ‬ ‫دوسرا مناظره نجران کے عظيم سياسی مذہبی‬
‫مباہلہ تک پہنچ گئی اور وه اس طرح ہے۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے جو خطوط سر براہان مملکت کو روانہ کئے تھے ان کے ضمن ميں ايک‬
‫خط آپ نے نجران کے پوپ ابو حارثہ کو بھی لکھا تھا جس ميں آپ نے اسے اسالم قبول کرنے کی دعوت دی تھی۔‬
‫چار افراد پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اس خط کو لے کر نجران کے لئے روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے خط کو پوپ کی خدمت ميں پيش کيا ‪،‬پوپ خط پﮍھ کر بہت ناراض ہوا اور‬
‫غصہ ميں آکر اسے پھاڑ داال اور آپ کے ان نامہ بروں کا کوئی احترام نہيں کيااور يہ اراده کيا کہ اس خط کے سلسلہ‬
‫ميں نجران کے پﮍھے لکھے لوگ غور وفکر کريں ‪،‬نجران کے پﮍھے لکھے اور مقدس لوگ جيسے شرحبيل‪ ،‬عبدا‬
‫بن جبّار بن فيض غور وفکر اور مشوره کے لئے بالئے گئے۔‬
‫ان تينوں افراد نے کہا‪” :‬چونکہ يہ بات نبوت سے متعلق ہے اس لئے ہم اس سلسلہ ميں کسی بھی طرح کا کوئی نظريہ‬
‫نہيں دے سکتے ہيں“۔پوپ نے اس مسئلہ کو نجران کے عوام کے سامنے پيش کيا‪،‬ان کی رائے لينے پر بھی يہی نتيجہ‬
‫نکال کہ ہماری قوم کی طرف سے کچھ ہو شمند اور علم وعقل کے لحاظ سے زبردست افراد مدينہ ميں محمد بن عبد ﷲ‬
‫کے پا س جائيں اور ان سے اس سلسلہ ميں بحث ومناظره کريں تاکہ حقيقت واضح ہو جائے۔‬
‫اس سلسلہ ميں بحث وگفتگو بہت زياده ہوئی ]‪[44‬ليکن آخر ميں يہ طے پايا کہ نجران کے ساٹھ افراد جن ميں سے چوده‬
‫عظيم علماء منجملہ عاقب ابو حارثہ اور ايہم بھی تھے مناظرے کے لئے مدينہ جائيں۔‬
‫ساٹھ آدميونپر مشتمل يہ قافلہ پيغمبر سے مناظره کے لئے مدينہ کی طرف روانہ ہوا۔‬
‫بيشک کسی بھی مذہب کے بارے ميں بحث ومناظره جو بغير دھوکا دھﮍی اور فريب کے ہو اور اس ميں منطقی بحث‬
‫ہو تو بہت اچھی چيز ہے ليکن اگر کوئی شخص يہ چاہے کہ بحث ومناظره کو سازش اور فريب کا رنگ دے کر عوام‬
‫کو دھوکا دے تو يقينا ايسے بحث و مناظره کو شدت سے روکنا چاہئے۔‬
‫نجران کے نمائندوں نے جان بوجھ کر بہت ہی زرق و برق لبا س زيب تن کيا اور بہت سے زيور پہنے تاکہ مدينہ پہنچ‬
‫کر اہل مدينہ کو اپنی طرف جذب کرليں اور کمزور عقيده لوگوں کو اپنا گرويده بناليں۔]‪[45‬‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے بﮍی ہو شياری سے ان کے اس فعل کی طرف توجہ کی اور ان کے اس‬
‫فريب کو ناکاره بنا نے کے لئے ايک طريقہ اپنايا کہ جب علمائے نجران پيغمبر کی خدمت ميں اس زرق وبرق لباس‬
‫ميں حاضر ہوئے تو آپ نے ان کی طرف بالکل توجہ نہيں دی اور نہ ہی ان سے کوئی بات کی ‪،‬پيغمبر کی اتباع ميں‬
‫وہاں بيٹھے ہوئے مسلمانوں نے بھی ان سے کسی طرح کی کوئی بات نہيں کی۔‬
‫علمائے نجران تين دن تک مدينہ ميں سرگرداں رہے اور عبد الرحمن اور عثمان سے پہلے کی جان پہچان کی بنا پر‬
‫بے توجہی کا سبب معلوم کيا تو يہ لوگ انھيں حضرت علی عليہ السالم کے پاس لے گئے اور تمام حاالت سے انھيں‬
‫آگاه کيا حضرت علی عليہ السالم نے علمائے نجران سے فرمايا‪” :‬تم اپنے زرق و برق لباس اتار کر پيغمبر کی خدمت‬
‫جاو انشاء ﷲ ضرور تم اپنے مقصد ميں کامياب ہو گے۔‬ ‫ميں عام لوگوں کی طرح ٔ‬
‫علمائے نجران نے موالئے کائنات علی ابن ابی طالب عليہ السالم کے اس حکم کا اتباع کيا اور کامياب ہو ئے۔‬
‫مناظره ميں دوسری اہم بات يہ ہے کہ بحث وگفتگو ميں ہر طرح کی آزادی ہو اور مناظره کی فضا بھی ہموار ہو‪،‬پيغمبر‬
‫مسجد ميں پنجگانہ نماز کو باجماعت ادا کرتے تھے اور تمام مسلمان آپ کے گرد جمع ہوجاتے تھے ‪،‬عيسائی گروه‬
‫مسلمانوں کے اس طرح کے اجتماع سے بہت ہی حيران تھا ليکن تمام عيسائی اپنے عقيدے کے مطابق ايک گوشے ميں‬
‫مشرق)بيت المقدس (کی طرف رخ کر کے نماز ادا کيا کرنے لگے‪،‬بعض مسلمانوں نے چاہا کہ ان کی اس آزادی ميں‬
‫مانع ہوں ليکن پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کو روک ديا۔‬
‫ہميں اس مختصر سی بات سے يہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عيسائی علماء مدينہ ميں بالکل آزاد تھے اور ان پر کسی بھی‬
‫طرح کی قيد وبندش نہيں تھی اورنہ ہی وه کسی کے تحت تھے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫نتيجہ ميں تين روز گزر جانے پر نماز جماعت کے بعد مسجد ہی ميں ايک جلسہ کا انعقاد کيا گيا۔‬
‫علمائے نجران کے ‪/۶٠‬افراد پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے سامنے بيٹھ گئے اور بحث ومناظره کو سننے‬
‫کے لئے تھوڑے فاصلہ پر مسلمان بھی بيٹھ گئے‪ ،‬قابل توجہ بات يہ تھی کہ چند يہوديوں نے بھی مسيحيوں اور‬
‫مسلمانوں سے بحث کرنے کے لئے اس جلسہ ميں شرکت کی تھی۔‬
‫پيغمبراسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے محبت اور خلوص سے ان کو خوش آمديد کہتے ہوئے اپنی بات شروع کی‬
‫آوہم سب مل کر وحده ٘ ال شريک کی عبادت‬ ‫اور آئے ہوئے علمائے نجران کو توحيد واسالم کی دعوت دی اور فرمايا‪ٔ ” :‬‬
‫کريں تاکہ ہم سب کے سب ايک زمره ميں آجائيں اور خدا کے پرچم تلے اپنی زندگی گزاريں اس کے بعد آپ نے قرآن‬
‫کريم کی چند آيات تالوت فرمائيں۔‬
‫پوپ‪” :‬اگر اسالم کا مطلب خدا پر ايمان رکھنا اور اس کے احکام پر عمل کرنا ہے تو ہم تم سے پہلے ہی مسلمان ہيں“۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ‪” :‬حقيقی اسالم کی چند عالمتيں ہيں اور تين چيزيں ہمارے درميان ايسی ہيں جن‬
‫سے پتہ چلتا ہے کہ تم لوگ اہل اسالم نہيں ہو‪،‬پہلی يہ کہ تم صليب کی پوجا کرتے ہو‪،‬دوسری يہ کہ تم سور کے گوشت‬
‫کو حالل جانتے ہو ‪،‬تيسری يہ کہ تم اس بات کے معتقد ہو کہ خدا صاحب اوالد ہے۔‬
‫علمائے نجران‪” :‬ہمارے عقيده کے مطابق حضرت مسيح خدا ہيں کيونکہ انھوں نے مردوں کو زنده کيا ہے اور ال عالج‬
‫بيماروں کو شفا بخشی ہے حضرت مسيح نے مٹی سے پرنده بنايا اس مينروح پھونکی اور وه اڑ گيا وغيره وغيره اس‬
‫طرح کے ان کے تمام کام ان کی خدائی پر داللت کرتے ہيں“۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ‪” :‬نہيں ايسانہيں ہے کوئی بھی ايسا کام خدائی پر داللت نہيں کرتا ہے بلکہ وه خدا‬
‫کے ايک بنده ہی ہيں‪ ،‬جنھيں خداوندمتعال نے جناب مريم عليہ السالم کے رحم ميں رکھا اور اس طرح کے تمام‬
‫معجزات ا نہيں عنايت فرمائے۔وه کھانا کھاتے تھے پانی پيتے تھے ان کے گوشت ‪،‬ہڈی اور کھال تھی اور اس طرح جو‬
‫بھی ہوگا وه خدا نہيں ہو سکتا ہے“۔‬
‫ايک نمائنده‪” :‬حضرت مسيح خدا کے بيٹے ہيں کيونکہ ان کی ماں جناب مريم عليہ السالم نے بغير کسی سے شادی‬
‫کئے انھيں جنم ديا‪ ،‬يہی ہماری دليل ہے کہ وه خدا کے بيٹے ہيں اور خدا ان کا باپ ہے“۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے وحی ٰالہی سور ٔه آل عمران آيت ‪ ۶١‬کا سہارا ليتے ہوئے فرمايا‪” :‬حضرت‬
‫عيسی عليہ السالم کی مثال آدم جيسی ہے جس طرح خداوند متعال نے جناب آدم عليہ السالم کو بغير ماں باپ کے خاک‬ ‫ٰ‬
‫عيسی کو بغير باپ کے پيدا کيا اور اگر باپ کا نہ ہونا خدا کے بيٹے ہونے پر دليل بن‬‫ٰ‬ ‫سے پيدا کيا اسی طرح جناب‬
‫سکتا ہے تو جناب آدم کے لئے يہ زياده مناسب ہے کہ کيونکہ ان کے باپ اور ماں دونوں نہيں تھے“۔‬
‫علمائے نجران نے جب يہ ديکھا کہ جو بھی بات کہی جاتی ہے اس کا دندان شکن جواب ملتا ہے تو وه حضرات جو‬
‫رياست دنيا کے چکر ميں اسالم النا نہيں چاہتے تھے انھوں نے مناظره کو ختم کر ديا اور کہنے گلے اس طرح کے‬
‫جوابات ہميں مطمئن نہيں کر رہے ہيں ل ٰہذا ہم آپ سے مباہلہ کرنے پر تيار ہيں يعنی دونوں طرف کے لوگ ايک جگہ‬
‫جمع ہو کر خداوند عالم سے دعا اور راز ونياز کريں اور جھوٹوں پر لعنت کريں تاکہ خدا جھوٹوں کو ہالک کردے۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے سوره آل عمران کی ‪ ۶١‬آيت کے نازل ہونے پر انکی اس بات کو قبول کر ليا۔‬
‫تمام مسلمانوں کو اس بات کی اطالع ہو گئی اور جہاں ديکھئے وہيں لوگ بيٹھ کر چہ می گوئياں کرنے لگے کہ‬
‫ديکھئے مباہلہ ميں کيا ہوتا ہے؟ لوگ بﮍی بے صبری سے مباہلہ کا انتظار کررہے تھے کہ بﮍے انتظار کے بعد ‪٢۴‬‬
‫ذی الحجة کا دن آہی گيا‪ ،‬علمائے نجران اپنے خاص جلسہ ميں نفسياتی طور پر يہ طے کر چکے تھے کہ اگر پيغمبر‬
‫اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ کثير تعداد ميں لوگ آئيں تو بغير کسی خوف اور جھجھک کے ان کے ساتھ‬
‫مباہلہ کے لئے تيار ہو جانا ‪ ،‬کيونکہ اس صورت ميں کوئی حقيقت نہيں ہے اس لئے کہ وه لوگوں کو جمع کرکے‬
‫دنياوی فائده اٹھانا چاہتے ہيں‪ ،‬ليکن اگر يہ ديکھو کہ پيغمبر اپنے چند خاص افراد کے ساتھ مباہلہ کے لئے آئے ہوئے‬
‫ہيں تو ہر گز مباہلہ نہ کرنا کيونکہ نتيجہ بہت ہی خطرناک نکلے گا۔‬
‫علمائے نجران مباہلہ کی مخصوص جگہ پر پہنچے اور انجيل و توريت پﮍھ کر خدا کی بارگاه ميں راز ونياز کرکے‬
‫مباہلہ کے لئے تيار ہو گئے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا انتظار کرنے لگے۔‬
‫اچانک لوگوں نے ديکھا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم چار افراد يعنی اپنی بيٹی جناب فاطمہ زہراسالم ﷲ‬
‫عليہا اور اپنے داماد علی عليہ السالم اور اپنے دونوں بيٹوں امام حسن اور امام حسين عليہما السالم کے ساتھ تشريف‬
‫الرہے ہيں‪ ،‬شرحبيل )عيسائيوں کا ايک عظيم اور بﮍا عالم (نے اپنے دوستوں سے کہا کہ خدا کی قسم !ميں وه صورتيں‬
‫ديکھ رہا ہوں کہ اگر يہ خدا سے چاہيں کہ پہاڑ اپنی جگہ ہٹ جائے تو يقينا وه اپنی جگہ سے ہٹ جائے گا ان سے ڈرو‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اور مباہلہ نہ کرو‪،‬اگر آج محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمسے مباہلہ کروگے تو نجران کا ايک بھی عيسائی اس روئے‬
‫زمين پر باقی نہيں رہے گا خدا کے لئے ميری بات ضرور مان لو چاہے بعد مينکچھ ماننا يا نہ ماننا۔‬
‫شرحبيل کے اصرار نے نجران کے علماء کے دلوں ميں عجيب اضطرابی کيفيت پيدا کر دی اور انھوں نے اپنے ايک‬
‫آدمی کو پيغمبر کی خدمت ميں بھيج کر ترک مباہلہ کی در خواست کی اور صلح کی التماس کی۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے کرم اور رحمت خداوند سے ان کی اس گزارش کو قبول کيا اور صلح‬
‫نامہ لکھا گيا جو چار نکات پر مشتمل تھا‪:‬‬
‫‪١‬۔اہل نجران کی يہ ذمہ داری ہے)تمام اسالمی ممالک کی امنيت کے سلسلہ ميں(کہ وه ہر سال دو ہزار جوڑے کپﮍے‬
‫دو قسط ميں مسلمانوں کو ديں۔‬
‫‪٢‬۔ حضرت محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے نمائنده نجران ميں ايک ماه يا ايک ماه سے زياده مہمان کی حيثيت سے‬
‫ره سکتے ہيں۔‬
‫‪٣‬۔جب بھی کبھی يمن ميں اسالم کے خالف کوئی سازش بلند ہو تو اہل نجران کے لئے واجب ہے کہ وه ‪ ٣٠‬ڈھال ‪٣٠‬‬
‫گھوڑے اور ‪ ١٣٠‬اونٹ عاريہ کے طور پر حکومت اسالمی کی حفاظت کے لئے ديں۔‬
‫‪۴‬۔اس صلح نامہ کے بعد اہل نجران کے لئے سود کھانا حرام ہے۔‬
‫علماء نجران کی اس کميٹی نے صلح نامہ کے تمام شرائط کو قبول کر ليا اور وه لوگ شکست خورده حالت ميں مدينہ‬
‫سے نجران کی طرف روانہ ہوئے]‪، [46‬ضمنا ً يہ بھی بتاتے چليں کہ اہل بيت عصمت وطہارت عليہم السالم کی عظمت‬
‫ومنزلت کے لئے آيہ مباہلہ زنده ثبوت ہے۔‬

‫‪٣‬۔ علمائے نجران کے تيسرے گروه سے مناظره‬


‫نجران کے عيسائيوں کا تيسرا گروه جو قبيلہ بنی الحارث سے تعلق رکھتا تھا اس نے نجران ميں تحقيق کر کے اسالم‬
‫قبول کر ليا تھا بعض ان کی نمائندگی کرنے کے لئے خالدبن وليد کے ساتھ مدينہ آئے اور پيغمبر کی خدمت ميں مشرف‬
‫ہو کر اظہار اسالم کيا اور کہا کہ ہم شکر ادا کرتے ہيں کہ خداوند متعال نے آپ کے ذريعہ ہم لوگوں کو ہدايت کی۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان سے پوچھا‪” :‬تم لوگ کيسے اپنے دشمنوں پر غالب ہوئے؟“‬
‫انھوں نے کہا‪” :‬اول يہ کہ ہم لوگوں ميں کسی طرح کاکوئی تفرقہ واختالف نہيں تھا دوسرے يہ کہ ہم نے کسی پر ظلم‬
‫کی ابتداء نہيں کی“۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا‪” :‬صدقتم “تم نے سچ کہا“۔ ]‪[47‬‬

‫نتيجہ يہ ہے‪:‬‬
‫جيسا کہ پہلے بھی ہم نے ذکر کيا ہے کہ نجران کے پہلے اور تيسرے گروہوں نے اسالم کے بارے ميں اچھی طرح‬
‫تحقيق کی اور اس کے بعداسالم کو قبول کر ليا ليکن دوسرا گروه وه تھا جس کی مباہلہ کی نوبت پہنچ گئی اور آخر کار‬
‫انھوں نے مباہلہ ترک کرنے کی خواہش کی انھوں نے بھی اسالم کے قوانين کے سلسلہ ميں تحقيق کی اور اس کی‬
‫حقانيت کو سمجھ گئے ليکن انھوننے اپنے پہلے گروه کی روش اختيار نہ کی اور مندرجہ ذيل وجوہات کی بنا پر‬
‫ظاہر ًاسالم قبول نہيں کيا۔‬
‫‪١‬۔پوپ نے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا خط پھاڑ ڈاال يہ اس کی رياست طلبی اور تعصب کی دليل تھی جو‬
‫حق قبول کرنے ميں مانع ہوا۔‬
‫‪٢‬۔وه مباہلہ کے لئے تيار نہيں ہوئے کيونکہ اگر وه اسالم اور محمد کی حقانيت کے سلسلے ميں تحقيق نہ کی ہوتی تو‬
‫مباہلہ کے ترک کرنے کی درخواست ہرگز نہ کرتے۔يہ خود اس بات کی عالمت ہے کہ وه اسالم اور محمد کے مکتب‬
‫کے بارے ميں اچھی خاصی تحقيق رکھتے تھے اور اس کی حقانيت کو سمجھ چکے تھے۔‬
‫‪٣‬۔تاريخ ميں يہ ملتا ہے کہ نجران کے نمائندے جب مدينہ سے واپس جارہے تھے تو ايک نمائنده نے راستہ ميں رسول‬
‫خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو برا بھال کہا تو ابو حارثہ )پوپ(نے اسے ڈانٹا اور کہا کہ پيغمبر کو کہيں بُرا بھال‬
‫کہتے ہيں؟يہی بات اس کا باعث ہوئی کہ اس شخص نے مدينہ واپس آکر اسالم قبول کر ليا۔‬
‫تاريخ کا يہ رخ بھی اس بات کی غمازی کررہا ہے کہ علمائے نجران پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی‬
‫صداقت کو سمجھ گئے تھے۔‬
‫‪۴‬۔نجران کے علماء جب واپس پہنچے تو لوگوں کو اپنی روداد سنائی‪،‬ان کی روداد سن کر نجران کا ايک راہب اس قدر‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫آو اور مجھے نيچے لے چلو ورنہ ميں ابھی اپنے‬ ‫متاثر ہوا کہ اس نے عبادت خانہ سے چيخ کر کہا‪” :‬اے لوگو!جلدی ٔ‬
‫آپ کو نيچے گرا کر اپنی زندگی تمام کر لوں گا“۔‬
‫لوگ اسے سہار ا دے کر عبادت خانہ سے نيچے لے آئے وه دوڑا ہوا مدينہ کی طرف آيا اور پيغمبر اسالم صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم کی خدمت ميں ره کر اس نے کچھ مدت تک علمی استفاده کيا اور قرآنی آيتيں سنيں ‪،‬کچھ دنوں بعد وه‬
‫نجران واپس گيا‪،‬واپس جاتے وقت وه پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے يہ وعده کر کے گيا تھا کہ جب مدينہ‬
‫دوباره آئے گا تو اسالم قبول کر لے گا ليکن وه کامياب نہيں ہوا۔]‪[48‬‬
‫غرض تمام چيزيں اس بات کی نشاندہی کرتی ہيں کہ ان کے نزديک حقيقت اسالم ثابت ہو چکی تھی اور وه اچھی‬
‫خاصی تحقيق بھی کر چکے تھے ليکن چند چيزيں جيسے رياست طلبی‪ ،‬دنيا داری اور اہل نجران سے خوف وغيره ان‬
‫کے اسالم قبول کرنے ميں رکاوٹ بن رہيں تھيں۔‬

‫‪٨‬۔ معاويہ سے حضرت علی عليہ السالم کا تحريری مناظره‬


‫معاويہ بن ابو سفيان نے حضرت علی عليہ السالم کی خالفت کے زمانہ ميں جنگ صفين کی آگ بھﮍکانے کے بعد ايک‬
‫خط لکھا جس ميں اس نے چار چيزونکو عنوان قرار ديا‪:‬‬
‫‪(١‬سر زمين شام ميرے قبضہ ميں دے دی جائے تاکہ اس کی رہبری خود ميرے ذمہ ہو۔‬
‫‪(٢‬جنگ صفين جاری رکھنا عرب کی خونريزی اور نابودی کا سبب بن سکتا ہے ل ٰہذا اسے ختم کر ديا جائے۔‬
‫‪(٣‬ہم دونوں جنگ ميں برابر ہيں ‪،‬دونوں طرف مسلمانوں ہيں اور دونوں طرف اسالمی شخصيات موجود ہيں۔‬
‫‪(۴‬ہم دونوں عبد مناف )پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پردادا( کے بيٹے ہيں اور دونوں ايک دوسرے پر‬
‫کوئی فضيلت نہيں رکھتے ل ٰہذا ابھی وقت باقی ہے کہ ہم لوگ اپنی گزشتہ باتوں پر پشيمان ہوں اور آئنده کی اصالح‬
‫کريں۔]‪[49‬‬
‫امام علی عليہ السالم نے اس کی ہربات کا بہترين جواب ديا اور لکھا‪:‬‬
‫‪(١‬تونے جو کہا ہے کہ سر زمين شام تيرے قبضے ميں دے دی جائے ‪،‬تو تجھے يہ جاننا چاہئے کہ کل جس چيز کے‬
‫لئے ميں نے تجھے منع کيا تھا آج تجھے ہر گز اسے نہيں دے سکتا )حکومت ٰالہی کے لئے آج اور کل ميں کوئی فرق‬
‫نہيں ہے کہ آج وه فاسد وں کے ہاتھوں ميں پہنچ جائے۔(‬
‫‪(٢‬اور تونے جو يہ لکھا ہے کہ جنگ عرب کی نابودی کا سبب بنے گی تو تجھے يہ جاننا چاہئے کہ جو بھی اس جنگ‬
‫ميں حق کی طرف سے قتل ہوا ہے اس کی جگہ بہشت ہے اور اگر باطل کا طرفدار تھا تو جہنم کی آگ مينجھلسے گا۔‬
‫دعوی کہ جنگ ميں ہم دونوں برابر ہيں تو ايسا نہيں ہے کيونکہ تو شک ميں ہے ہمارے يقين کے درجہ‬ ‫ٰ‬ ‫‪(٣‬اور تيرايہ‬
‫تک نہينپہنچااور اہل شام اہل عراق سے زياده آخرت کی خاطر کوشاں نہيں رہتے ہيں۔‬
‫‪(۴‬جو تونے يہ کہا کہ ہم سب عبد مناف کے بيٹے ہيں بيشک ايسا ہی ہے ليکن اميہ ‪،‬جو تيرا دادا ہے اور اس کے بھائی‬
‫ہاشم جو ميرے دادا ہينبرابر نہيں ہو سکتے‪ ،‬تيرا دادا حرب ميرے جد عبد المطلب کی طرح نہيں ہے اور تيرا باپ ابو‬
‫سفيان ميرے باپ ابو طالب کی طرح نہيں ہے‪،‬مہاجرين کبھی اسراء )وه کفار جنھيں فتح مکہ کے بعد رسول خدا صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے آزاد کيا تھا(کی مانند نہيں ہو سکتے ‪،‬اپنے باپ کا صحيح النسب فرزند اور کسی کی نسل سے‬
‫منسوب حرام زاده کی طرح نہيں ہو سکتا اور نہ حق پرست اور باطل پرست ‪،‬مومن اور فاسق کو ايک زمره ميں رکھا‬
‫جا سکتا ہے کتنے بد تر ہيں وه لوگ جو جہنم کی آگ ميں جلنے والے اپنے آباء اجداد کی اطاعت کرتے ہيں!‬
‫تجھے يہ معلوم ہونا چاہئے کہ مقام نبوت کی برتری اور افتخار ہمارے اختيار ميں ہے جس کے ذريعہ ہم نے عزيزوں‬
‫کو ذليل اور ذليلوں کو عزيز بناديا اور جس وقت لوگ جوق در جوق اسالم کے گرويده ہو رہے تھے اور اسالم قبول کر‬
‫نے ميں ايک دوسرے سے پر سبقت لے جارہے تھے اس وقت بھی تم نے سب کے بعد دنيا کی اللچ ميں يا خوف کی‬
‫وجہ سے اسالم قبول کيا )بس اس سے يہ ثابت ہوتا ہے تم کسی بھی طرح کی فضيلت اسالم النے کے سلسلہ ميں نہيں‬
‫رکھتے ہو()ل ٰہذا تجھے ہوشيار رہنا چاہئے کہ کہيں تيرے اندر شيطان نفوذ نہ کر جائے۔]‪[50‬‬

‫‪٩‬۔ علی عليہ السالم کااپنے حق کے دفاع ميں ايک مناظره‬


‫خالفت عثمان کے زمانہ مينمہاجرين اور انصار کا ايک گروه مسجد نبوی ميں جمع ہوا جن کی تعداد دو سو سے زياده‬
‫تھی اور وہيں ٹوليوں ميں تقسيم ہو کر ان لوگوں نے آپس ميں گفتگو اور مناظره کيا۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫تقوی کے بارے ميں باتيں کرتے ہوئے کہتے تھے کہ قريش تمام دوسرے لوگوں پر فضيلت رکھتے‬ ‫ٰ‬ ‫بعض لوگ علم و‬
‫ہيں کيونکہ ان کی فضيلت کے سلسلہ ميں رسول اعظم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا تھا‪:‬‬
‫”االئمة من قريش ‪،‬ائمہ قريش سے ہيں“۔‬
‫يا دوسری جگہ فرمايا‪:‬‬
‫”الناس تبع لقريش وقريش ائمة العرب“‬
‫”لوگ قريش کے پيروہيں اور قريش عرب کے امام ہيں“۔‬
‫اس طرح ہر گروه اپنی اپنی صاحب افتخار شخصيتوں کو شمار کرنے لگا ‪،‬مہاجرين ميں علی عليہ السالم سعد وقاص‬
‫عبد الرحمن عوف ‪،‬طلحہ وزبير‪ ،‬مقداد ‪ ،‬ہاشم بن عتبہ‪ ،‬عبد ﷲ بن عمر‪،‬حسن وحسين عليہم السالم اور عمر بن ابوبکر‬
‫عبد ﷲ بن جعفر جيسے لوگ تھے۔‬
‫اور انصار ميں ابی بن کعب ‪،‬زيد بن ثابت ‪،‬ابو ايوب انصاری ‪،‬قيس بن سعد‪،‬جابر بن عبد ﷲ انصاری انس بن مالک‬
‫جيسے لوگ تھے يہ گفتگو اور مناظره صبح سے لے کر دو پہر تک اسی حالت ميں ہوتا رہا‪ ،‬عثمان اپنے گھر ميں‬
‫تھے جب کہ علی عليہ السالم اور ان کے متعلقين سب کے سب خاموش بيٹھے تھے۔‬
‫اسی دوران کچھ لوگ امام علی عليہ السالم کی طرف متوجہ ہوئے اور عرض کيا‪” :‬آپ کيوں نہيں کچھ بول رہے ہيں؟“‬
‫حضرت علی عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬تم دونوں گروہوں نے اپنی اپنی عظمت بيان کی )اور رہبری کے لئے اپنی‬
‫شائستگی کے متعلق باتيں کی(ليکن ميں دونوں گروه سے يہ پوچھتاہوں کہ تم لوگوں کو خدا وند متعال نے يہ فضيلت‬
‫اور برتری کس کی وجہ سے عطا کی ہے؟“مہاجرين اور انصار نے کہا‪” :‬يہ تمام امتيازات و فضيلتيں محمد صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلماور ان کے خاندان کی وجہ سے ہميں حاصل ہوئی ہيں“‪ ،‬امام علی عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬سچ کہا‪،‬آيا‬
‫تم يہ نہيں جانتے کہ اس دنيا اور آخر ت کی تمام سعادتيں تمہيں ہمارے خاندان نبوت کی بدولت ملی ہيں اور ميرے‬
‫چچازاد بھائی محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا‪” :‬ميں اور ميرا خاندان جناب آدم عليہ السالم کی خلقت سے‬
‫چوده ہزار سال پہلے نور کی شکل ميں خداوند عالم کی بار گاه ميں موجود تھا پھر خداوندمتعال اس نور کو ايک نسل‬
‫کے بعد دوسری آنے والی نسل کے صلب اور پاک رحم ميں منتقل ہوتا رہا جس ميں ذره برابر بھی نجاست نہيں پائی‬
‫جاتی ہے۔‬
‫اس کے بعد موالئے کائنات علی عليہ السالم نے اپنے فضائل کا ايک ٹکﮍا بيان کيا اور لوگوں سے قسم دے کر پوچھا‬
‫کہ کيا ايسا نہيں ہے؟تمام لوگوں نے اس بات کا اعتراف بھی کيا کہ رسول اسالم نے آپ کے بارے ميں يہ چيزيں بيان‬
‫فرمائيں ہيں۔‬
‫منجملہ يہ بھی فرمايا‪” :‬تم لوگوں کو خدا کی قسم ديتا ہوں کہ جس شخص نے بھی پيغمبر کی زبان سے ميری خالفت‬
‫کے بارے ميں سنا ہے وه اٹھ کر گواہی دے“۔‬
‫اسی وقت سلمان ‪،‬ابوذر‪،‬مقداد‪ ،‬عمار ‪،‬زيد بن ارقم‪ ،‬براء بن عازب جيسے لوگوں نے اٹھ کر کہا‪:‬‬
‫”ہم لوگ گواہی ديتے ہيں ہميں پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی اس روزکی بات آج بھی ياد ہے کہ جب رسول‬
‫اعظم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمتشريف رکھتے تھے اور آپ منبر کے کنارے بيٹھے ہوئے تھے کہ آنحضرت نے‬
‫فرمايا‪” :‬خدا وند متعال نے مجھے يہ حکم ديا ہے کہ علی ميرے ‪،‬وصی ‪،‬جانشين اور ميرے بعد ميرے تمام کاموں کے‬
‫ذمہ دار ہيں اور خداوند متعال نے ان کی اطاعت تمام مومنوں پر واجب قرار دی ہے ‪،‬اے لوگو! يہ ميرا بھائی علی‬
‫ميرے بعد تمہارا امام موال اور راہنما ہے‪:‬‬
‫”وھو فيکم بمنزلتي فيکم فقلدوه دينکم واطيعوه فی جميع امورکم“۔]‪[51‬‬
‫”تمہارے درميان جو مقام ومنزلت ميرا ہے وہی علی کا بھی ہے تم دين خدا ميں ان کی پيروی کرو اور اپنے تمام امور‬
‫ميں انھيں کی اطاعت کرو“۔‬
‫اس طرح موالئے کائنات علی ابن ابی طالب عليہ السالم نے لوگوں کے درميان اپنی امامت کو ثابت کيا اور اتمام حجت‬
‫کر ديا۔‬

‫‪١٠‬۔ معاويہ کی سياسی سازش کا جواب‬


‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے عظيم صحابی عمار ياسر جو آنحضرت کی رحلت کے بعدبھی مذہب اسالم‬
‫کی پيروی مينعلی عليہ السالم کے ہر قدم پر ساتھ ساتھ تھے يہاں تک کہ جنگ صفين ميں آپ درجہ شہادت پر فائز‬
‫ہوگئے۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عمار ياسر سے فرمايا تھا‪” :‬تقتلک الفئة الباغية“تمہيں باغی گروه قتل کرے‬
‫گا“۔‬
‫يہ بات تمام مسلمانوں کے درميان مشہور ہو گئی کہ عمار کے سلسلے ميں پيغمبر نے اس طرح فرمايا ہے۔ابھی چند‬
‫سال گزرے تھے کہ امام علی عليہ السالم کی خالفت کے زمانہ ميں آپ کے اور معاويہ کے سپاہيوں کے درميان جنگ‬
‫کا بازار گرم ہوا جسے تاريخ مينجنگ صفين کے نام سے ياد کياجاتا ہے۔ اس جنگ ميں عمار ياسر اما م علی عليہ‬
‫السالم کے لشکر کے سپاہی تھے اس جنگ ميں آپ نہايت بہادری سے لﮍتے ہوئے آخر کار معاويہ کے سپاہيوں کے‬
‫ہاتھ شہيد ہو گئے۔‬
‫وه لوگ جو جنگ صفين ميں شک و شبہ ميں تھے کہ آيا معاويہ حق پر ہے يا علی عليہ السالم ؟ان کے نزديک پيغمبر‬
‫اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اس قول سے اس کے لشکر کے حوصلے پست پﮍ رہے ہيں کيونکہ پيغمبر اسالم‬
‫نے يہ فرمايا تھا کہ عمار ايک ظالم وباغی گروه کے ذريعہ قتل کئے جائيں گے اور عمار کو قتل کرنے واال گروه‬
‫معاويہ کا تھا ل ٰہذا معاويہ باطل پر ہے۔‬
‫معاويہ نے جب يہ ديکھا کہ پيغمبر کے اس قول سے اس کے لشکر کے حوصلے پست پﮍ رہے ہيں تو اس نے ايک‬
‫ڈھونگ رچا اورکہنے لگا کہ عمار ياسر کو ميں نے قتل نہيں‪،‬بلکہ علی نے قتل کيا ہے کيونکہ اگر وه ہمارے مقابلہ‬
‫ميں انھيں نہ بھيجتے تو وه ہر گز قتل نہ کئے جاتے۔معاويہ کی اسی توجيہ نے بعض لوگوں کو بيوقوف بنا ديا۔‬
‫امام علی عليہ السالم نے اس ڈھونگ کا بہت کھل کر جواب ديتے ہوئے فرمايا‪” :‬اگر معاويہ کی يہ بات صحيح ہے تو يہ‬
‫بھی کہنا صحيح ہوگا کہ جنگ احد ميں جناب حمزه عليہ السالم کو پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے قتل کيا ہے نہ‬
‫کہ مشرکوں نے‪ ،‬کيونکہ جناب حمزه عليہ السالم کو پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے بھيجا تھا“۔‬
‫علی عليہ السالم کے اس جواب کو عبد ﷲ بن عمر عاص نے معاويہ تک پہنچاديا جواب سن کر معاويہ اس قدر بوکھال‬
‫گيا کہ اس نے اپنے نہايت مکار و سازشی مشاور خاص کو ڈانٹتے ہوئے کہا۔”اے احمق کے بيٹے جلدی يہاں سے‬
‫بھاگ جا“۔‬
‫غرض کہ يہ بذات خود ايک ايسا مناظره تھا جس نے دشمن کی سازشوں کو خاک ميں مال کر ان کے سارے منصوبوں‬
‫کی مٹی پليد کردی۔]‪[52‬‬

‫‪١١‬۔ امام سجاد عليہ السالم کا ايک بوڑھے شخص سے مناظره اور اس کی نجات‬
‫امام سجاد عليہ السالم جب اپنے قافلے والوں کے ساتھ اسير ہو کر وارد دمشق ہوئے تو شام کا رہنے واال ايک بوڑھا‬
‫شخص امام سجاد عليہ السالم اور ان کے قافلے والوں کے پاس آکر کہنے لگا۔‬
‫”خدا کا شکر ہے کہ اس نے تمہيں قتل کيا‪،‬تمہارے شہروں کو تمہارے مردوں کی وجہ سے آسوده کيا اور امير‬
‫المومنين يزيد کو تم پر مسلط کيا“۔‬ ‫ٔ‬
‫امام سجاد عليہ السالم نے اس بوڑھے سے ‪،‬جو مسلمانوں سے بالکل بے بہره تھا اس طرح مناظره کيا۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬کيا تم نے قرآن پﮍھا ہے ؟“‬
‫بوڑھا‪” :‬ہاں“‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬کيا تم نے اس آيت کا معنی خوب اچھی طرح سمجھا ہے جس ميں خداوندمتعال فرماتاہے‪:‬‬
‫”قُلْ الَأَ ْسأَلُ ُک ْم َعلَ ْي ِہ أَجْ رًا ِٕاالﱠ ْال َم َو ﱠدةَ فِی ْالقُرْ بَی“]‪[53‬‬
‫”اے پيغمبر ان سے کہو کہ ميں تم سے اجر رسالت کچھ نہيں چاہتا مگر يہ کہ تم ميرے قرابت داروں سے محبت کرو“۔‬
‫بوڑھامرد‪” :‬ہاں ميں نے اس آيت کو پﮍھا ہے“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬اس آيت ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے قرابتداروں سے مراد ہم لوگ ہيں‪ ،‬اے‬
‫شخص! کيا تونے سوره انفال کی ‪ ۴١‬ويں آيت پﮍھی ہے‪:‬‬
‫َی ٍء فَأَ ﱠن ِ ﱠ ِ ُخ ُم َسہُ َو ِلل ﱠرس ِ‬
‫ُول َو ِل ِذی ْالقُرْ بَی۔۔۔“‬ ‫” َوا ْعلَ ُموا أَنﱠ َما َغ ِن ْمتُ ْم ِم ْن ش ْ‬
‫”اور جان لو کہ جو کچھ بھی تم نے مال غنيمت حاصل کيا ہے بالشبہ اس کا خمس ﷲ‪،‬اس کے رسول اور ذی القربی‬
‫کے لئے ہے ۔۔۔“۔‬
‫بوڑھا مرد‪” :‬ہاں ميں نے پﮍھا ہے“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬اس آيت ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے قرابت دار اس آيت ميں ہم لوگ ہيں اے‬
‫شخص ! کيا تونے اس آيت کو پﮍھا ہے“۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ت َويُطَہﱢ َر ُک ْم ت ْ‬
‫َط ِہيرًا“]‪[54‬‬ ‫س أ ْہ َل ْالبَ ْي ِ‬ ‫” ِٕانﱠ َما ي ُِري ُد ﷲُ ِلي ُْذ ِہ َ‬
‫ب َع ْن ُک ْم الرﱢجْ َ‬
‫”بس ﷲ کا اراده يہ ہے اے اہل بيت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکيزه رکھے جو پاک و‬
‫پاکيزه رکھنے کا حق ہے“۔‬
‫بوڑھا مرد‪” :‬ہاں پﮍھا ہے“۔‬
‫آيہ تطہير نازل کی ہے“۔‬
‫ٔ‬ ‫نے‬ ‫عالم‬ ‫خداوند‬ ‫لئے‬ ‫کے‬ ‫جن‬ ‫کہ‬ ‫لوگ‬ ‫امام عليہ السالم‪” :‬ہم ہيں وه‬
‫يہ سن کر بوڑھا خاموش ہو گيا اور اس کے نزديک حقيقت واضح ہو گئی جس کی وجہ سے اپنے کہے ہوئے جملہ پر‬
‫اس کے چہره سے پشيمانی ظاہر ہو رہی تھے۔‬
‫کھاو کہ تم وہی جو تم نے کہا ہے“۔‬
‫چند لمحوں بعد اس نے امام عليہ السالم سے کہا‪” :‬خدا کی قسم ٔ‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬خدا کی قسم اور اپنے جد رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے حق کا واسطہ دے کر کہا کہ ميں‬
‫انھيں کے خاندان سے ہوں“۔‬
‫يہ جملہ سنتے ہی بوڑھے مرد کی حالت غير ہو گئی اور روتے ہوئے اس نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا‪” :‬بار‬
‫الہٰا ہم آل محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے تمام دشمنوں )جن وانس(سے برائت کا اظہار کرتے ہيں“‪ ،‬اسی وقت اس‬
‫نے امام کی بارگاه ميں توبہ کی۔‬
‫ً‬
‫اس واقعہ کی خبر يزيد کے کانوں تک پہنچی۔يزيد نے فورا اس کے لئے پھانسی کا حکم صادر کيا اور اس ہدايت يافتہ‬
‫بوڑھے کو شہيد کر ديا۔]‪[55‬‬

‫‪١٢‬۔ ايک منکر خدا کاامام صاد ق عليہ السالم سے مناظره کے بعد مسلمان ہونا‬
‫سر زمين مصر ميں عبد الملک نام کا ايک شخص رہتا تھا جس کے بيٹے کا نام عبد ﷲ تھا ‪ ،‬اس بنا پر لوگ اسے ابو‬
‫عبد ﷲ کہتے تھے۔عبد الملک منکر خدا تھا اور اس کا يہ عقيده تھا کہ يہ دنيا خود بخود وجود ميں آگئی ہے اس نے يہ‬
‫سن رکھا تھا کہ شيعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق عليہ السالم مدينہ ميں رہتے ہيں جس کی وجہ سے اس‬
‫نے مدينہ کا قصد کيا تاکہ ان سے خداوند متعال کے بارے ميں مناظره کرے۔‬
‫جب يہ شخص مدينہ پہنچ کر امام کا پتہ معلوم کرنے لگا تو اسے لوگوں نے بتايا کہ وه حج کی ادائيگی کے لئے مکہ‬
‫تشريف لے گئے ہيں۔‬
‫وه مکہ کے طرف روانہ ہوا ‪،‬مکہ معظمہ پہنچ کر اس نے ديکھا کہ امام جعفر صادق عليہ السالم طواف ميں مشغول ہيں‬
‫عبد الملک طواف کرنے والوں کی صف ميں داخل ہوا اور عناد کی وجہ سے اس نے امام جعفر صادق عليہ السالم کو‬
‫دھکا ديا ليکن امام عليہ السالم نے بﮍی محبت سے فرمايا‪” :‬تمہارا نام کيا ہے ؟“‬
‫اس نے کہا‪” :‬عبد الملک“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬تمہاری کنيت کيا ہے ؟“‬
‫عبد الملک‪” :‬ابو عبد ﷲ“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬وه مالک کہ جس کے تم بنده ہو)جيسا کہ تمہارے نام سے ظاہر ہوتا ہے(وه زمين کا حاکم ہے يا آسمان‬
‫بتاو وه زمين کے خدا کا بنده ہے يا آسمان کے ؟تم جو‬
‫کا؟جب )تمہاری کنيت کے مطابق(تمہارا بيٹا بنده خدا ہے ؟ذرا ٔ‬
‫کھاوگے“۔‬
‫بھی جواب دوگے شکست ٔ‬
‫عبد الملک ال جواب ہو گيا۔ہشام برمکی امام کے شاگرد وہاں موجود تھے انھوں نے عبد الملک سے کہا‪” :‬کيوں نہيں‬
‫امام کا جواب ديتے ؟“‬
‫عبد الملک کو ہشام کی بات بہت بری لگی اور اس کا چہره بگﮍ گيا۔‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے بﮍی نرمی سے عبد الملک سے کہا‪” :‬طواف ختم ہونے تک صبر کرو اور طواف کے‬
‫آو تاکہ دونوں مل کر کچھ گفتگو کريں“۔‬‫بعد تم ميرے پاس ٔ‬
‫جب امام جعفر صادق عليہ السالم طواف سے فارغ ہوئے تو وه ان کے پاس آکر برابر ميں بيٹھ گيا۔اس وقت امام کے‬
‫چند شاگرد بھی وہاں تشريف رکھتے تھے۔‬
‫اس وقت امام عليہ السالم اور اس کے درميان اس طرح مناظره شروع ہوا۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬کيا تمہيں معلوم ہے کہ يہ زمين تہ وباال ہو تی ہے ‪ ،‬اورظاہر و باطن رکھتی ہے؟“‬
‫منکر خدا‪” :‬ہاں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬آيا زمين کے نيچے گئے ہو؟“‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫منکر خدا‪ ” :‬نہيں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬بس تمہيں کيا معلوم کہ زمين کے نيچے کيا ہے ؟“‬
‫منکر خدا‪” :‬زمين کے نيچے کے بارے ميں کچھ نہيں جانتا ليکن يہ گمان کرتا ہوں کہ زمين کے نيچے کسی چيز کا‬
‫وجود نہيں ہے“۔‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬گمان اور شک ايک طرح کی الچاری ہے جہاں تم يقين پيدا نہيں کر سکتے۔کيا تم آسمان کے اوپر‬
‫گئے ہو ؟“‬
‫منکر خدا‪ ” :‬نہيں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬کيا تمہيں کچھ معلوم ہے کہ آسمان ميں کيا ہے اور وہاں کون کون سی چيزيں پائی جاتی ہيں ؟“‬
‫منکر خدا‪” :‬نہيں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬عجيب !نہ تم نے مشرق ديکھا نہ مغرب ديکھا ہے نہ زمين کے نيچے گئے ہو اور نہ آسمان کے اوپر‬
‫گئے تاکہ يہ معلوم کر سکو کہ وہاں کيا کيا ہے اور اس جہل ونادانی کے بعد بھی تم ان تمام چيزوں کے منکر ہو) تم‬
‫اوپر اور نيچے کی موجوده اشياء اور اس کے نظم و ترتيب جو خداوند متعال کے وجود کی حکايت کرتی ہيں اس سے‬
‫بالکل نا آشنا ہو پھر کيوں منکرخد اہو؟(کيا کوئی عاقل شخص جس موضوع ميں جاہل ہوتاہے اس کا انکار کرتا ہے ؟!“‬
‫منکر خدا‪” :‬آج تک مجھ سے کسی نے اس طرح کی باتنہيں کی“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬غرض تم اس حقيقت پر شک کرتے ہو کہ آسمان کے اوپر اور زمين کے نيچے کچھ چيز موجود ہے‬
‫ہی نہيں ؟“‬
‫منکر خدا‪” :‬ہاں شايد اسی طرح ہو“۔)اس طرح منکر خدا آہستہ آہستہ مرحلہ انکار سے شک وترديد کے مرحلہ تک‬
‫پہنچا(‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬جو شخص جاہل ہے وه عالم کے لئے دليل نہيں ہو سکتا ‪،‬اے مصری برادر ! ميری بات سنو اور‬
‫سمجھو ہم خدا کے وجود کے بارے ميں ہر گز شک نہيں کرتے کيا تم سورج ‪،‬چاند اور دن ورات کو نہيں ديکھتے کہ‬
‫وه صفحہ افق پر آشکار ہوتے ہيں اور وه مجبورا ً اپنے معين راستہ پر گردش کرکے واپس پلٹتے ہيں اور وه اپنی معين‬
‫مسير ميں مجبور وناچار ہيں؟‬
‫اب ميں تم سے پوچھتا ہوناگر چاند سورج کے پاس گردش کرنے کی ذاتی قوت ہے تو وه کيوں پلٹتے ہيں اور اگر اپنے‬
‫آپ کو مجبورنہيں سمجھتے ہيں تو کيوں رات دن نہيں ہو جاتی اور دن رات نہينہو جاتا ہے ؟اے مصری برادر !خدا کی‬
‫قسم يہ چاند وسورج اپنی گردش پر مجبور ہيں اور جس نے ان کو ان کی گردش پر مجبور کيا ہے وه ان سے زياده‬
‫حکومت کا اہل اور بہترين حاکم ہے۔‬
‫منکر خدا‪” :‬سچ کہا“۔‬
‫بتاو کہ تمہارے عقيده کے مطابق اگر زمانہ کے ہاتھوں ميں موجودات کی‬ ‫امام عليہ السالم اے مصری برادر! تم يہ ٔ‬
‫زمام ہے اور وہی لوگوں کو لے جاتا ہے تو انھيں دوباره کيوں لوٹا تا اور اگر لوٹا ديتا ہے تو پھر انھيں کيوں نہيں لے‬
‫جاتا؟‬
‫اے مصری برادر ! دنيا کی ہر چيز مجبور ہے کيوں آسمان اوپر اور زمين نيچے واقع ہے ؟آسمان زمين پرکيوں نہيں‬
‫گر پﮍتا يا زمين اپنی سطح سے بلند ہو کر آسمان سے کيونچپک نہيں جاتی ؟اور زمين کی تمام موجوده اشياء آسمان سے‬
‫کيوں نہيں چپک جاتی ہيں“۔‬
‫)امام عليہ السالم کا مضبوط استدالل يہاں تک پہنچا تو عبد الملک کا شک ختم کرکے ايمان کی منزل ميں آپہنچا (وه امام‬
‫عليہ السالم کی خدمت ميں ايمان لے آيا اور اس نے وحده الشريک کی گواہی دی اور اس نے اسالم کی حقانيت کی‬
‫گواہی ديتے ہوئے بﮍے ہی پر جوش انداز ميں کہا‪” :‬وه خدا ہے جو زمين وا ٓسمان کا حاکم ہے اور جس نے انھيں روک‬
‫رکھا ہے“۔‬
‫حمران‪” :‬امام عليہ السالم کا ايک شاگرد بھی وہاں موجود تھا‪ ،‬اس نے امام عليہ السالم کی طرف ديکھ کر کہا‪” :‬ميری‬
‫جان آ پ پر فدا ہو اگر منکرين خدا آپ کی وجہ سے ايمان الئے اور مسلمان ہو جائيں تو آپ کے جد کی وجہ سے‬
‫کافروں نے بھی اسالم وايمان قبول کيا ہے“۔‬
‫عبد الملک نے جو ابھی ابھی مسلمان ہواتھا امام سے عرض کيا‪” :‬آپ مجھے شاگرد کے طور پر قبول کر ليجئے“۔‬
‫جاو اور‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے اپنے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے فرمايا‪” :‬عبد الملک کو اپنے ساتھ لے ٔ‬
‫اسے احکام اسالم کی تعليم دو“۔ہشام بن حکم جو شام اور مصر کے عوام کے لئے بہترين معلم تھے‪ ،‬عبد الملک کو‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اپنے ساتھ لے گئے اور عقائد اور احکام اسالم کی تعليم دی تاکہ وه سچے اور مضبوط عقيده والے ہوجائيں‪ ،‬اسی طرح‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے اس مومن کے ايمان اور ہشام بن حکم کی تعليمی روش کو بہت پسند کيا۔]‪[56‬‬

‫‪١٣‬۔ابن ابی العوجا ء کی بے انتہا الچاری‬


‫”عبد الکريم “جو” ابن ابی العوجاء“کے نام سے مشہور تھا ايک دن امام جعفر صادق عليہ السالم کی خدمت ميں مناظره‬
‫کے لئے حاضر ہوا اس نے ديکھا کہ چندگروه امام کے پاس بيٹھے ہوئے ہيں وه بھی امام عليہ السالم کے قريب آکر‬
‫خاموشی سے بيٹھ گيا۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬تو دوباره اس غرض سے آيا ہے کہ ميرے اور تيرے درميان جو باتيں ہوئی تھيں ان کے بارے ميں‬
‫تحقيق کرے“۔‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬ہاں‪ ،‬يابن رسول ﷲ ميں اسی لئے آيا ہوں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬تجھ پر تعجب ہوتا ہے کہ تو اس بات کی گواہی ديتا ہے کہ ميں پيغمبر کا بيٹاہوں اور خدا کا انکار‬
‫کرتا ہے “!!‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬اس طرح بات کرنے پر ہماری عادتمجبور کرتی ہے“۔‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬تو خاموش کيونہے؟“۔‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬آپ کی عظمت وجاللت کی وجہ سے ميری زبان ميں اتنی طاقت نہيں ہے کہ آپ کے سامنے کچھ‬
‫بولوں۔ميں بہت سے دانشوروں اور مقرروں کے پاس جاکر باتيں کرتا ہوں ليکن آپ کی جاللت وعظمت جس طرح‬
‫مجھے مرعوب کر ديتی ہے ايسا کہيں بھی نہيں ہوتا“۔‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬جب تو خاموش ہے تو ميں ہی بات شروع کرتا ہوں“۔‬
‫امام عليہ السالم نے فرمايا‪ ” :‬ابن ابی العوجاء تو مجھے بتا کہ تومصنوع )بنايا گيا ( ہے يا نہيں“۔‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬نہيں ‪،‬ميں نہيں بنا يا گيا ہوں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪ ’ :‬اچھا تو يہ بتا اگر تومصنوع )بنايا ہو ا( ہوتا تو کيسا ہوتا“۔‬
‫ابن ابی العوجاء‪ :‬بہت دير تک اپنے گريبان ميں جھانکتا رہا اس کے بعد اس نے اپنے پاس رکھی ہوئی لکﮍی کو اٹھا کر‬
‫ہاتھ ميں دبايا اور مصنوعی شئے کے ساخت کی نوعيت اس طرح بيان کرنے لگا‪ ” :‬لمبی‪ ،‬چوڑی‪ ،‬گہری‬
‫)عميق(‪،‬چھوٹی ‪ ،‬متحرک ‪،‬غير متحرک وغيره ‪ ،‬يہ تمام چيزيں مخلوق اور منصوع ہونے کی خصوصيات ہيں۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬ہاں اگر اس کے عالوه مصنوع چيز کی دوسری اور صفتيں نہيں جانتا تو تو خود بھی مصنوع ہے‬
‫اور تجھے چاہئے کہ اپنے آپ کو مصنوع سمجھے کيونکہ يہ تمام صفات تو اپنے وجود ميں پاتا ہے“۔‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬آپ نے جيسا سوال کيا ہے ابھی تک کسی نے مجھ سے ايسا سوال نہيں کيا اور نہ آئنده کرے گا“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬بالفرض کہ ابھی تک تجھ سے اس طرح کا کسی نے سوال نہيں کيا ليکن يہ کيسے معلوم ہو کہ آئنده‬
‫بھی ايسا سوال نہيں کيا جائے گا ؟!“‬
‫اس طرح تو اپنی بات سے اپنی ہی بات کی رد کر رہا ہے‪ ،‬کيونکہ تيرے عقيده کے مطابق ماضی ‪ ،‬حال اور آئنده سب‬
‫يکساں ہيں ‪ ،‬اب کس طرح تو کچھ چيزوں کو پہلے اور کچھ کو بعد ميں تصور کرتا ہے‪ ،‬اور اپنی باتوں ميں ماضی اور‬
‫مستقبل کا ذکر کرتا ہے‪ ،‬اے عبد الکريم! اس سے زياده توضيح دوں اگر تيرے پاس سونے کے سکوں سے بھری ہوئی‬
‫ايک تجوری ہو اور تجھ سے کوئی کہے کہ اس تجوری ميں سونے کے سکے موجو ہيں اور تو اس کے جواب ميں‬
‫کہے کہ نہيں ‪ ،‬اس ميں کچھ نہيں ہے اور وه تجھ سے کہے کہ سونے کے اوصاف بيان کر‪ ،‬اور اگر تو سونے کے‬
‫سکے اوصاف نہيں جانتا تو کيا يہ کہہ سکتے ہو کہ تجوری ميں سونے کے سکے نہيں ہيں؟“‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬نہيں اگر ميں نہيں جانتا تو ہر گز ايسی بات نہيں کہہ سکتا۔‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬اس دنيا کی لمبائی اور چوڑائی اس تجوری سے کہيں زياده ہے اب تجھ سے ميں يہ پوچھتا ہوں کہ‬
‫اس پھيلی ہوئی دنيا ميں جو مصنوع ہے تو مصنوعی اور غير مصنوعی چيزوں کی خصوصيت نہيں جانتا“۔‬
‫جب بات يہاں تک پہنچی تو ابن ابی العوجاء مجبور ہو کر خاموش ہو گيا يہ ديکھ کر اس کے بعض ہم مسلک لوگ‬
‫مسلمان ہو گئے اور بعض کفر پر باقی رہے۔]‪[57‬‬

‫‪١۴‬۔مناظره کا تيسرا دن‬


‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫تيسرے دن بھی ابن ابی العوجاء امام جعفرصادق عليہ السالم کی خدمت ميں مناظره کی غرض سے يہ سوچ کر آيا کہ‬
‫آج وه پہل کرے گا۔ ل ٰہذا وه آتے ہی کہنے لگا کہ آج ميں مناظره کی ابتداء چند سوال سے کرتا ہوں‪:‬‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬جو چاہو پوچھو“۔‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬کس دليل کی وجہ سے يہ دنيا حادث ہے )يعنی پہلے نہيں تھی اور بعد ميں وجود ميں آئی ؟(‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬تم جب بھی کسی چھوٹی چيز کا تصور کرتے ہو اگر چھوٹی چيز کو اسی جيسی کسی دوسری چيز‬
‫سے مال دو تو وه مذکوره شئے بﮍی ہو جائے گی اسی کو انتقال کہتے ہيں يعنی پہلی حالت بدل کر دوسری حالت اختيار‬
‫کرنا‪ ،‬اور حادث کے معنی بھی يہی ہيں‪ ،‬اب اگر وه چيز قديم تھی )اول سے تھی( تو دوسری حالت اختيار نہيں کرسکتی‬
‫کيونکہ جو بھی چيز نابود اور متغير ہوتی ہے وه نابودی اور تبديلی کو قبول کرتی ہے اور اس بنا پر کسی ہستی کا نابود‬
‫ہونا اس کے حادث ہونے کی دليل ہواکرتی ہے۔ اور اگر بالفرض وه قديم تھی بھی تو اب بﮍی ہوجانے کی وجہ سے و ه‬
‫تغير پذير ہو گئی اور اس طرح وه حادث ہو گئی ) يہی اشياء کے قديم نہ ہونے کی دليل ہے ( اور يہ بھی صحيح نہيں‬
‫ہے کہ ايک چيز حادث بھی ہو اور قديم بھی‪ ،‬ازلی بھی ہو اور عدمی بھی“۔‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬جی ہاں! اگر يہ فرض کر ليں کہ چھوٹی چيز بﮍی ہو جاتی ہے تو آپ کی بات درست ہے اور اس‬
‫طرح انھيں حادث ماننا پﮍے گا ليکن اگر کوئی چيز اپنے اصلی حالت پر يعنی چھوٹی ہی باقی رہے تو ان کے حادث‬
‫ہونے پر آپ کی دوسری کيادليل ہے ؟“‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬ہماری بحث کا محور يہی موجوده کائنات ہے )جو تغير و تبديل کی حالت ميں ہے ( اب اگر اس دنيا‬
‫کو چھوڑ کر دوسری دنيا کو تصور کريں اور اسے موضوع بحث بنائيں تو بھی ايک دنيا کا نابودہونا اور اس کی جگہ‬
‫ايک دوسری دنيا کا وجود ثابت ہوگا اور يہی حادث ہونے کے معنی ہيں‪ ،‬اور تمہارے کہنے کے مطابق اگر ہر چھوٹی‬
‫چيز اپنی حالت پرباقی رہتی تو کس طرح حادث ہو گی اس کا بھی جواب ديتا ہوں۔‬
‫اگر يہ فرض کر ليں کہ ہر چھوٹی چيز اپنی حالت پر باقی رہے تب بھی يہ فرض کرنا تو بہر حال صحيح ہوگا کہ اگر‬
‫دو ہم مثل چھوٹی چيزوں کو آپس ميں مالديا جائے تو وه چھوٹی چيز بﮍی چيز ہو جائے گی‪ ،‬اس طرح کے فرض کا‬
‫صحيح ہونا ہی ان کے حادث ہونے کی دليل ہے کيونکہ اس طرح کے فرض کی صحت سے يہ ثابت ہوجاتا ہے کہ وه‬
‫مفروض شئے تغير و تبديل کرتی ہے اور يہی تبديلی اس کے حادث ہونے پر داللت کرتی ہے اے عبد الکريم اس کے‬
‫بعد تمہارے پاس کہنے کو کچھ نہيں بچتا۔]‪[58‬‬

‫‪١۵‬۔ ابن ابی العوجاء کی ناگہانی موت‬


‫ابن ابی العوجاء اور امام جعفر صادق عليہ السالم کے درميان مکہ معظمہ ميں مناظره کو ايک سال گزر گيا۔اور‬
‫دوسرے سال پھر ابن ابی العوجاء کعبہ کے کنارے امام عليہ السالم کی خدمت ميں حاضر ہوا تو امام عليہ السالم کے‬
‫ايک شيعہ نے آپ سے دريافت کہ کيا ابن ابی العوجاء مسلمان ہوگيا؟‬
‫امام عليہ السالم‪ ” :‬اسالم کے سلسلے ميں اس کا دل ٹيﮍھا ہے وه ہر گز مسلمان نہيں ہوگا“۔‬
‫جب ابن ابی العوجاء کی نظر امام عليہ السالم پر پﮍی تو اس نے کہا‪” :‬اے ميرے آقا وموال !“۔‬
‫امام عليہ السالم نے کہا‪” :‬کيوں يہاں آئے ہو؟ “‬
‫ابن ابی العوجاء‪” :‬ميں يہاں اس لئے آيا ہوں تاکہ اپنے وطن والوں کا بال مونڈنا پتھر پھينکنا يا اس طرح کی دوسری‬
‫ديوانگی جو وه حج ميں انجام ديتے ہيں ديکھ سکوں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬تو ابھی تک اپنی گمراہی اور سرکشی پر باقی ہے“۔‬
‫ابن ابی العوجاء چاہتاہی تھاکہ کچھ بولے‪ ،‬امام نے اسے يہ کہہ کر روک ديا کہ حج کے زمانہ ميں بحث و مجادلہ‬
‫صحيح نہيں ہے۔‬
‫اس کے بعد امام عليہ السالم نے اپنی عبا کو جھٹکا ديا اور فرمايا‪ ” :‬اگر وه چيز حق ہے جس کا ہم عقيده رکھتے ہيں‬
‫)اور ايسا ہی ہے تو ہم کامياب ہيں(‪،‬نہ کہ تم اور اگر تو حق پر ہے‪ )،‬جب کہ ايسا نہيں ہے ( تو تم اور ہم دونوں کامياب‬
‫ہيں بہر حال ہم دونوں صورتوں ميں کامياب ہينليکن تم دوصورتوں ميں سے ايک صورت ميں ہالک ہونے والے ہو“۔‬
‫اسی وقت ابن ابی العوجاء کی حالت بدلنے لگی اور اس نے اپنے اطرافيوں سے کہا کہ ميرے دل ميں درد ہو رہا ہے‬
‫مجھے واپس لے چلو۔ جب اسے اس کے اطرافی واپس لے گئے تو وه دنيا سے جاچکا تھا‪) ،‬خدا اسے معاف نہ‬
‫کرے۔(]‪[59‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪--------------------------------------------------------------------------------‬‬

‫]‪ [1‬سوره بقره آيت ‪١١١‬۔‬


‫]‪ [2‬سوره نحل آيت ‪١٢۵‬۔‬
‫]‪ [3‬بحار االنوار‪ ،‬ج‪ ،٣‬ص‪۵٨‬۔‬
‫]‪ [4‬سوره انبياء‪ ،‬آيت‪۶٣‬۔‬
‫]‪ [5‬سوره نساء‪ ،‬آيت ‪۶۵‬۔‬
‫]‪ [6‬سوره بقره‪ ،‬آيت ‪٢۵٨‬۔‬
‫]‪ [7‬سوره نساء‪ ،‬آيت ‪٧١‬۔‬
‫]‪ [8‬بحار االنوار‪ ،‬ج‪ ،١٠‬ص‪۴۵٢‬۔‬
‫]‪ [9‬اس طرح کے مناظروں کے بارے ميں مزيد آگاہی کے لئے کتاب ”احتجاج طبرسی“ )دو جلديں( اور بحار االنوار‬
‫ج‪ ،٩‬اور ‪ ١٠‬کی طرف رجوع فرمائيں۔‬
‫]‪ [10‬احتجاج طبرسی‪ ،‬ج‪ ،١‬ص ‪١۵۵‬۔‬
‫]‪ [11‬مثال کے طور پر ايک ہی نشست ميں تين طالقوں کا مسئلہ‪ ،‬اور طالق کو کسی چيز پر معلق کرنے کے جائز نہ‬
‫ہونا‪) ،‬مثالً کوئی شوہر اپنی زوجہ سے کہے‪ :‬ميں نے اگر فالں بلڈنگ کو بيچ ديا تو تو طالق شده ہے( اور مسلسل ‪١۵‬‬
‫دفعہ سے کم دودھ پينے پر رضاعی محرميت کا واقع نہ ہونے کا مسئلہ۔۔۔۔ ]‪” [12‬اليقظہ“ اخبار‪ ،‬بغداد ‪ ،‬سال ‪ ،٣۵‬نمبر‬
‫‪ ،٩۶‬بتاريخ ‪٧‬شعبان ‪١٣٧٨‬ھ‪” ،‬فی سبيل الوحدة االسالمية“ ص‪ ،٢٧‬تا ‪ ٣٠‬کی نقل کے مطابق۔‬
‫]‪ [13‬يہ واقعہ حضرت امام صادق عليہ السالم سے نقل ہوا ليکن اس کے اصلی راوی حضرت علی عليہ السالم ہيں‪،‬‬
‫اور يہ واقعہ کتاب ”احتجاج طبرسی“‪ ،‬جلد اول صفحہ ‪ ١۶‬تا ‪ ٢۴‬سے نقل ہوا ہے۔‬
‫موسی عليہ السالم کے بعد انبيائے بنی اسرائيل ميں سے تھے ‪ ،‬جو بيت المقدس پر‬ ‫ٰ‬ ‫]‪ [14‬جناب عزير عليہ السالم‪ ،‬جناب‬
‫بخت النصر نامی حملہ ميں اسير کر لئے گئے اور شہر بابل )بغداد کے حدود ميں( بھيج دئے گئے‪ ،‬جناب عزير عليہ‬
‫السالم تقريباًسو سال ”ہخامنشی بادشاہوں“ کے زمانہ ميں بابل ميں بنی اسرائيل کے لئے تبليغ دين ميں مشغول رہے ۔‬
‫عيسی عليہ السالم( بنی اسرائيل کے ايک گروه کے ساتھ يروشلم ميں گئے‬ ‫ٰ‬ ‫يہاں تک کہ ‪ ۴۵٨‬سال قبل از ميالد )حضرت‬
‫جہاں پر بنی اسرائيليوں ميں توريت اور اس کے احکام کو بالکل بھالديا تھا ليکن جناب عزير عليہ السالم نے ان کو‬
‫دوباره زنده کيا اور ان کی اصالح کی‪ ،‬سر انجام ‪ ۴٣٠‬سال قبل از ميالد ميں ان کا انتقال ہوا‪ ،‬ان کے انتقال کے بعد بنی‬
‫اسرائيل نے نہ جانے کيا کيا کہا يہاں تک کہ انھيں ”خدا کا بيٹا“ بھی کہہ ڈاال!!۔ ليکن آج يہ عقيده بالکل ختم ہوگيا ہے‬
‫اور اس کا ماننے واال کوئی نہيں ہے۔‬
‫]‪ [15‬واضح عبارت ميں يوں کہيں‪ :‬دن رات کی جدائی کے پيش نظر پہلے مقدم ہونے والی چيز حادث ہے۔‬
‫]‪ [16‬يعنی ان کا ايک دوسرے کا محتاج ہونا ان کے حادث ہونے پر دليل ہے۔‬
‫]‪ [17‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ما ّديوں سے مناظره کرتے ہوئے آرام آرام ‪،‬قدم بقدم کے طريقہ سے‬
‫فائده اٹھايا اور درج ذيل چار چيزوں کی بنياد پر ان کو مغلوب کيا‪:‬‬
‫‪١‬۔ پہلے اس بنياد پر کہ ”نہ ملنا ‪،‬نہ ہونے پر دليل نہيں ہے“‪ ،‬حدوث کا مشاہده نہ کرنا اس کے ازليت پر دليل نہيں ہے‪،‬‬
‫جيسا کہ فناء کا مشاہده نہ کرنا اس کے ابدی ہونے پر دليل نہيں ہے۔؟‬
‫‪٢‬۔ ممکن ہے کہ ہم حدوث فعلی کے ذريعہ حدوث غائب پر استدالل کريں جو حدوث فعلی کی قسم سے ہے ‪ ،‬جيسے شب‬
‫و روز کا حدوث فعلی گزشتہ اور آئنده ميں بھی اس کے حدوث کی حکايت کرتا ہے۔‬
‫‪٣‬۔ حدوث کا حکم محدود ہوتاہے اگرچہ کے اس کے افراد بہت زياده ہوں۔‬
‫‪۴‬۔ اس دنيا کے تمام موجودات کے اجزاء ايک دوسرے سے تعلق رکھتے ہيں جو ان کے حادث ہونے پر دليل ہے‪،‬‬
‫کيونکہ قديم چيز کا کسی چيز کا محتاج ہونامحال ہے۔‬
‫]‪ [18‬احتجاج طبرسی‪ ،‬ج‪ ،١‬ص‪ ١۶‬تا ‪٢۴‬۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [19‬قرآن مجيد ميں سوره فرقان‪ ،‬آيت ‪ ،٧‬سوره اسراء‪ ،‬آيت ‪ ٩٠‬تا ‪ ٩۵‬ميں اور سوره زخرف‪ ،‬آيت ‪ ٣١‬ميں اس واقعہ‬
‫کی طرف اشاره ہوا ہے۔‬
‫سوره کہف‪ ،‬آيت ‪١١٠‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[20‬‬
‫]‪ [21‬سوره اسراء‪ ،‬آيت ‪۴٨‬۔‬
‫]‪ [22‬يہاں پر حضرت امام حسن عسکری عليہ السالم نے اضافہ فرمايا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے‬
‫اپنی اس گفتگو ميں سوره زخرف آيت ‪ ٣٢‬کی طرف اشاره فرمايا۔‬
‫سوره فصلت‪ ،‬آيت ‪۶‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫سوره کہف‪ ،‬آيت ‪،١١٠‬‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[23‬‬
‫]‪ [24‬احتجاج طبرسی ج‪ ،١‬ص‪ ٢۶‬سے ‪ ٣۶‬تک کا خالصہ ‪،‬عکرمہ ابن ابو جہل شروع ميں پيغمبر اسالم کا بہت سخت‬
‫دشمن تھا‪،‬فتح مکہ کے وقت وه بھاگ گيا تھاليکن آخر کارمدينہ ميں وه آپ کے ہاتھوں ايمان اليا اور اس نے اتنا بﮍا مقام‬
‫حاصل کر ليا تھا کہ آپ نے اسے قبيلہ ہوازن کے صدقات وزکات حاصل کرنے کے لئے اپنا نمائنده مقرر کر ديا تھا‪،‬وه‬
‫ابوبکر کی خالفت کے زمانے ميں جنگ ”اجنادين“ يا ”يرموک“ميں شہيد ہوا‪) ،‬سفينة البحار ج‪ ٢‬ص‪(٢١۶‬‬
‫]‪ [25‬مدينے کے دوبﮍے قبيلے جو اسالم کے بعد متحد ہوئے اور جنھيں انصار کے نام سے ياد کيا جاتا ہے ۔‬
‫]‪ [26‬آزاد بحث اگر چہ ايک اسالمی موضوع ہے جس کے ذريعہ حق آشکار ہوتا ہے ليکن يہوديوں نے چاہا کہ اس‬
‫بحث کی آڑ ميں اسالم اور پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی شخصيت کو مجروح کريں ليکن وه اپنے اس مقصد ميں‬
‫کامياب نہ ہوسکے۔‬
‫]‪ [27‬سوره بقره آيت ‪.88‬‬
‫]‪ [28‬عبد ﷲ کانام ”حُصين “تھا‪ ،‬يہودی ا س کا بﮍا احترام کرتے تھے‪ ،‬اسالم النے کے بعد آنحضرت صلی ﷲ عليه و‬
‫آله وسلم نے اس کا نام عبد ﷲ رکھا ديا تھا۔‬
‫]‪ [29‬اس سے پتہ چلتا ہے کہ عبد ﷲ ضدی ‪،‬سرکش‪،‬خود خواه اور نفسانی خواہشات کا اسير نہيں تھا بلکہ حق پسند‬
‫وحق طلب تھا اسی وجہ سے وه يقينی سعادت حاصل کرنے ميں کامياب ہوا‪،‬حق طلبی کی پہلی شرط يہ ہے کہ انسان‬
‫آزاد فکر اور ہر طرح کے تعصب سے دور ہو۔‬
‫]‪ [30‬بعض مفسروں نے ان آيتوں کی شان نزول کے بارے ميں کہا ہے کہ يہ عبد ﷲ بن صوريا کے بارے ميں نازل‬
‫ہوئی ہےں ليکن اس سے اس بات کی نفی نہيں ہوتی کہ عبد ﷲ بن سالم نے اس طرح کی بحث نہ کی ہوگی ۔‬
‫]‪ [31‬جيسا کہ ہم نے عرض کيا اس کا نام حُصين تھا ۔‬
‫]‪ [32‬نا سخ التواريخ ج‪،١‬ص ‪،٣٩‬سيرة ابن ہشام ج‪ ،١‬ص‪۵١۶‬اور احتجاج طبرسی ج‪١‬۔‬
‫سوره بقره‪ ،‬آيت ‪ ١٣٩‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[33‬‬
‫اس ٌع َع ِلي ٌم“ )سوره بقره‪ ،‬آيت ‪(١١۵‬‬ ‫و‬ ‫ﷲ‬ ‫ﱠ‬
‫ن‬ ‫ا‬ ‫ﷲ‬ ‫ہ‬ ‫جْ‬ ‫و‬ ‫م‬‫َ‬ ‫ث‬‫َ‬ ‫ف‬ ‫وا‬‫ﱡ‬ ‫ل‬ ‫و‬‫ُ‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫م‬‫َ‬ ‫ن‬ ‫ْ‬
‫ي‬ ‫َ‬ ‫ٔ‬
‫ا‬ ‫َ‬ ‫ف‬ ‫ر‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫ﱠ‬
‫َ َ ِ‬ ‫ﱠ َ ُ ِ ِٕ‬ ‫َ َ‬ ‫بُ‬ ‫غ‬ ‫م‬ ‫ال‬ ‫و‬ ‫ق‬ ‫ر‬‫ش‬ ‫م‬‫ال‬
‫]‪ِ َ َ ِ َ ِ ِ َ [34‬‬ ‫و‬ ‫”‬
‫]‪ [35‬قبلہ کی تبديلی ميں چند مصلحتيں تھيں منجملہ‪:‬‬
‫‪١‬۔عرب کے قبيلےکعبہ کو پسند کرتے تھے ل ٰہذا وه اس کی وجہ سے اسالم کی طرف راغب ہوئے۔‬
‫‪٢‬۔کعبہ کو حضرت ابراہيم عليہ السالم نے خدا کے حکم سے بناياتھا حضرت ابراہيم عليہ السالم تقريبا ًتمام مذاہب ميں‬
‫محترم تھے ل ٰہذا تمام مذاہب اسالم کی طرف مائل ہوئے ۔‬
‫‪٣‬۔يہوديوں کا اعتراض کہ مسلمانوں کا الگ قبلہ نہيں ہے بلکہ وه ہمارے قبلہ ہی کی طرف رخ کر کے نماز پﮍھتے ہيں‬
‫اس تبديلی سے بر طرف ہوگيا۔‬
‫‪۴‬۔مکہ مسلمانوں کے لئے نزديک تھا اس کو قبلہ بنانا اس بات کا سبب بنا کہ مسلمان کعبہ اور مکہ کو بت پرستوں سے‬
‫پاک کريں اور اپنے قبلہ کو اسالم کے پرچم تلے لے آئيں۔‬
‫‪۵‬۔اس تبديلی سے پيغمبر کا احترام بھی مقصود تھا کيونکہ مکہ آپ کی جائے پيدائش تھا۔‬
‫‪۶‬۔ايک مقصد مومن اور غير مومن کی شناخت تھا جيسا کہ آپ اس مناظره کے آخر ميں مالحظہ فرمائيں گے ۔‬
‫]‪ [36‬يہ حکم يہوديوں کو اپنی طرف مائل کر سکتا تھا جيسا کہ منصف مزاج يہودی مائل ہوئے ۔‬
‫]‪ [37‬بحار اال انوار ‪ ،‬نيا ايڈيشن‪،‬ج‪، ٩،٣٠٣‬تفسير نمونہ ‪،‬ج‪،١‬ص‪ ،٢۵۶‬ناسخ التواريخ ہجرت ‪ ،‬ج‪ ،١‬ص‪،٩٢‬احتجاج‬
‫طبرسی ج‪ ، ١‬ص‪ ۴۴‬وغيره سے اقتباس ۔يہاں پر يہ بات بھی يادرہے کہ سمت قبلہ کی تبديلی ايک طرح کی آزمائش‬
‫تھی تاکہ يہ پتہ چل سکے کہ تمام مسلمان اسالمی قوانين کے پوری طرح پابند ہيں يا نہيں؟ اوريہ بات بھی واضح ہے کہ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫خصوصا ً ايسے مقامات پر منافقين غير محسوس طريقہ اور نادانستگی کے عالم ميں اپنے آپ کو پہچنوا ديتے ہيں‬
‫‪،‬ايسے ہی مواقع پر مومنين اور کمزور ايمان والے اشخاص کے درميان ممتاز ہو جاتے ہيں اور ان کی شناخت نہايت‬
‫آسان ہو جاتی ہے۔‬
‫]‪ [38‬بحار االنوار ‪ ،‬نيا ايڈيشن‪،‬ج‪،٩‬ص‪٢٨٢‬۔‬
‫]‪ [39‬بعض مورخين نے ان منافقوں کی تعداد ‪ ١٢‬بتائی ہے جن ميں سے ‪ ٨‬قريش کے اور ‪ ۴‬مدينہ کے تھے۔‬
‫]‪ [40‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اس مناظره ميں بھی اس وجہ سے کہ قدرت طلب منافقين رہبری کے‬
‫مسئلہ پر اعتراض کر رہے تھے اور ان کا سارا ہم و غم رہبری اور امامت کو نقصان پہنچا نا تھا ل ٰہذا آنحضرت نے‬
‫تفصيل کے ساتھ گفتگو کی يہاں تک کہ فرشتوں کے سجده کو جو رہبری اور شائستہ انسانوں کو خداکی جانشينی کے‬
‫بارے ميں تھا آنحضرت نے ان لوگوں کو اچھی طرح سمجھا ديا تاکہ واليت واسالمی رہبری کے مسئلے کو اپنی ہوا‬
‫ہوس کا بازار قرار نہيں نہ دے سکيں۔‬
‫]‪ [41‬احتجاج طبرسی ج‪١‬ص‪ ٩۵‬سيره ابن ہشام ج‪ ٣‬ص‪ ۵٢٧‬سے اقتباس۔‬
‫سوره مائده کی ‪ ٨٣‬ويں آيت ۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[42‬‬
‫]‪ [43‬سيره حلبی ج‪،١‬ص‪٣٨٣‬۔‬
‫]‪ [44‬يہ مفصل گفتگو بحار االنوار ج‪٢١‬ص‪٢٧۶‬پر ذکر ہوئی ہے۔‬
‫]‪ [45‬حاالنکہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان کی اس حرکت کا توڑ کر ليا تھا ليکن پھر بھی بعض ضعيف‬
‫االعتقاد لوگ متاثر ہو ئے بغير نہ ره سکے ‪،‬يہ لوگ حسرت سے کہتے تھے کہ اے کاش! ہم لوگ بھی ان عيسائيوں کی‬
‫طرح مالدار ہوتے‪،‬يہاں تک کہ اس بارے ميں سوره آل عمران کی ‪ ١۵‬ويں آيت نازل ہوئی جس ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫بتاوں جو اس مادی سرمايہ سے بہتر ہوان لوگوں کے لئے جو‬ ‫”)اے پيغمبر !(کہہ دو کہ کيا ميں تم کو ايسی چيز کا پتہ ٔ‬
‫تقوی اختيار کرتے ہيں ان کے پروردگار کے نزديک دوسرے جہان ميں ايسے باغ ہيں جن کے درختوں کے نيچے‬ ‫ٰ‬
‫نہريں رواں ہيں وه اس ميں ہميشہ اپنی پاکيزه بيويوں کے ساتھ رہيں گے۔‬
‫طاووس‬
‫ٔ‬ ‫]‪ [46] [46‬بحار االنوار ج‪،٢١‬ص‪٣١٩‬۔سيره ابن ہشام ج‪،٢‬ص‪ ،١٧۵‬فتوح البدان ص ‪ ١٧۶‬اور اقبال ابن‬
‫ص‪۴٩۶‬۔‬
‫]‪ [47‬البدايہ ‪،‬ج‪،۵‬ص‪٩٨‬۔‬
‫]‪ [48‬البدايہ ‪،‬ج‪،۵‬ص‪۵۵‬۔‬
‫]‪ [49‬کتاب الصفين‪ ،‬مولفہ ابن مزاحم‪ ،‬ص‪ ۴۶٨‬تا ‪۴٧١‬سے اقتباس۔‬
‫]‪ [50‬نہج البالغہ ‪ ،‬مکتوب نمبر ‪ ١٧‬سے اقتباس۔‬
‫]‪ [51‬الغدير ‪،‬ج‪،١‬ص‪ ١۶٣‬سے ‪ ١۶۶‬تک کا خالصہ ‪،‬فرائد السمطين ‪،‬باب ‪،٧٨‬سمط اول۔‬
‫]‪ [52‬اعيان الشيعہ‪ ،‬ج ‪ ،۴٢‬ص ‪٢١۵‬۔‬
‫ٰ‬
‫شوری آيت ‪٢٣‬۔‬ ‫سوره‬
‫ٔ‬ ‫]‪[53‬‬
‫]‪ [54‬سوره احزاب‪ ،‬آيت ‪٣٣‬۔‬
‫]‪ [55‬لہوف‪ ،‬سيد بن طاووس‪ ،‬ص ‪ ١٧٧‬و ‪١٧٨‬۔‬
‫]‪ [56‬اصول کافی‪ ،‬ج‪ ،١‬ص‪٧٢‬۔‪٧٣‬۔‬
‫]‪ [57‬اصول کافی ‪ ،‬ج ‪ ، ١‬ص‪ ٧۶‬و ‪ ٧٧‬۔‬
‫]‪ [58‬اصول کافی ‪ ،‬ج ‪ ١‬ص ‪ ٧٧‬۔‬
‫]‪ [59‬اصول کافی ج ‪ ١‬ص ‪٧٨‬۔‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫پھال حصه ودوسرا حصہ‪  :‬‬

‫‪١۶‬۔عبد ﷲ ديصانی کا مسلمان ہونا‬


‫ہشام بن حکم امام جعفر صادق عليہ السالم کے بہترين شاگرد تھے۔ايک دن ايک منکر خدا نے ان سے مالقات کی اور پوچھا‪:‬‬
‫”کيا تمہارا خدا ہے“۔‬
‫ہشام‪” :‬ہاں“۔‬
‫عبد ﷲ‪” :‬آيا تمہارا خدا قادر ہے ؟ “‬
‫ہشام‪” :‬ہاں ميرا خدا قادر ہے اور تمام چيزوں پر قابض بھی ہے“۔‬
‫عبد ﷲ‪” :‬کيا تمہارا خدا ساری دنيا کو ايک انڈے ميں سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنيا چھوٹی ہو اور نہ ہی انڈا بﮍا ہوا۔؟ “‬
‫ہشام‪” :‬اس سوال کے جواب کے لئے مجھے مہلت دو“۔‬
‫عبد ﷲ‪” :‬ميں تمہيں ايک سال کی مہلت ديتا ہوں“۔‬
‫ہشام يہ سوال سن کر امام عليہ السالم کی خدمت ميں پہنچے اور عرض کيا‪” :‬اے فرزند رسول !‪،‬عبد ﷲ ديصانی نے مجھ‬
‫سے ايک ايسا سوال کيا جس کے جواب کے لئے صرف خداوند متعال اور آپ کا سہارا ليا جا سکتا ہے“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬اس نے کيا سوال کيا ہے ؟ “‬
‫ہشام‪” :‬اس نے کہا کہ کيا تمہارا خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس وسيع دنيا کو ايک انڈے کے اندر سمودے جب کہ نہ دنيا‬
‫چھوٹی ہو اور نہ انڈا بﮍا ہو ؟ “‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬اے ہشام! تمہارے پاس کتنے حواس ہيں ؟ “‬
‫ہشام‪” :‬ميرے پانچ حواس ہيں“۔)سامعہ ‪،‬باصره‪ ،‬ذائقہ ‪،‬المسہ اور شامہ (‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬ان ميں سب سے چھوٹی حس کون سی ہے ؟ “‬
‫ہشام‪” :‬باصره“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬آنکھوں کا وه ڈھيال جس سے ديکھتے ہو‪ ،‬کتنا بﮍا ہے ؟ “‬
‫ہشام‪” :‬ايک چنے کے دانے کے برابر يا اس سے بھی چھوٹا ہے“۔‬
‫‪   ‬‬ ‫بتاو کہ کيا دکھتے ہو ؟“‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬اے ہشام ! ذرا اوپر اور سامنے ديکھ کر مجھے ٔ‬
‫ہشام نے ديکھا اور کہا‪” :‬زمين‪ ،‬آسمان ‪،‬گھر‪ ،‬محل ‪،‬بيابان ‪،‬پہاڑ اور نہروں کو ديکھ رہا ہوں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬جو خدا اس بات پر قادر ہے کہ اس پوری دنيا کو تمہاری چھو ٹی سے آنکھ ميں سمو دے وہی اس بات پر‬
‫بھی قادر ہے کہ اس دنيا کو ايک انڈے کے اندر سمودے اور نہ دنيا چھوٹی ہو نہ انڈه بﮍا ہو۔‬
‫ہشام نے جھک کر امام جعفر صادق عليہ السالم کے ہاتھ اور پيروں کا بوسہ ديتے ہوئے کہا‪” :‬اے فرزند رسول ! بس يہی‬
‫جواب ميرے لئے کافی ہے“۔]‪[1‬‬
‫ہشام اپنے گھر آئے اور دوسرے ہی دن عبد ﷲ ان سے جاکر کہنے لگا‪“:‬۔ميں سالم عرض کرنے آيا ہوں نہ کہ اپنے سوال‬
‫کے جواب کے لئے“۔‬
‫ہشام نے کہا‪” :‬تم اگر اپنے کل کے سوال کا جواب چاہتے ہو تو اس کا جواب يہ ہے‪ ،‬اس کے بعد آپ نے امام عليہ السالم کا‬
‫جواب اسے سنا ديا۔‬
‫عبد ﷲ ديصانی نے فيصلہ کيا کہ خود ہی امام کی خدمت ميں پہنچ کر اپنے سواالت پيش کرے۔‬
‫وه امام کے گھر کی طرف چل پﮍا‪ ،‬دروازے پر پہنچ کر اس نے اجازت طلب کی اور اجازت ملنے کے بعد گھر کے اندر‬
‫داخل ہوگيا۔اندر جانے کے بعد وه امام کے قريب آکر بيٹھ گيا اورا پنی بات شروع کرتے ہوئے کہنے لگا‪:‬‬
‫”اے جعفر بن محمد مجھے ميرے معبود کی طرف جانے کا راستہ بتا دو“۔‬
‫امام عليہ السالم نے پوچھا‪:‬‬
‫”تمہارا نام کيا ہے ؟ “‬
‫عبد ﷲ باہر نکل گيا اور اس نے نام نہيں بتايا۔اس کے دوستوں نے اس سے کہا‪:‬‬
‫تم نے اپنا نام کيوں نہيں بتايا؟“‬
‫اس نے جواب ديا‪:‬‬
‫”ميں اگر اپنا نام عبد ﷲ )خدا بنده (بتاتا تو وه مجھ سے پوچھتے کہ تم جس کے بنده ہو ‪ ،‬وه کون ہے ؟‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫عبد ﷲ کے دوستوں نے کہا‪:‬‬
‫جاواور ان سے يہ کہو آپ مجھے ميرے معبود کا پتہ بتائيں اور ميرا نام نہ پوچھيں“۔‬ ‫”امام عليہ السالم کے پاس واپس ٔ‬
‫عبد ﷲ واپس گيا اور جا کر امام عليہ السالم سے عرض کيا‪:‬‬
‫”آپ مجھے خدا کی طرف ہدايت کريں مگر ميرا نام نہ پوچھيں“۔‬
‫امام عليہ السالم نے ايک طرف اشاره کرتے ہوئے اس سے فرمايا‪:‬‬
‫جاو“۔‬
‫”وہاں بيٹھ ٔ‬
‫عبد ﷲ بيٹھ گيا۔اسی وقت ايک بچہ ہاتھ ميں ايک انڈا لئے کھيلتا ہوا وہاں پہنچ گيا ‪،‬امام عليہ السالم نے بچہ سے فرمايا‪:‬‬
‫الو انڈه مجھے دے دو“۔‬
‫ٔ‬
‫امام عليہ السالم نے انڈه کو ہاتھ ميں لے کر عبد ﷲ کی طرف ديکھا اور فرمايا‪” :‬اے ديصانی !اس انڈه کی طرف ديکھ جو‬
‫ايک چھلکے سے ڈھکا ہوا ہے اور چند جھليوں ميں مقيد ہے۔‬
‫‪١‬۔موٹی جھلی۔‬
‫‪٢‬۔موٹی جھلی کے نيچے نازک اور پتلی جھلی پائی جاتی ہے۔‬
‫‪٣‬۔اور نازک اور پتلی جھلی کے نيچے پگھلی ہوئی چاند ی)انڈه کی سفيدی ( ہے۔‬
‫‪۴‬۔اس کے بعد پگھال ہوا سونا )انڈے کی زردی(ہے مگر نہ يہ اس پگھلی ہوئی چاندی سے ملتا ہے اور نہ وه پگھلی ہوئی‬
‫چاندی اس سونے ميں ملی ہوتی ہے بلکہ يہ اپنی اسی حالت پر باقی ہے نہ کوئی اس انڈے سے باہر آيا ہے جو يہ کہے کہ‬
‫دعوی کر سکے کہ ميں نے اسے تباه کيا ہے ‪،‬نہ يہ‬ ‫ٰ‬ ‫ميں نے اسے بنايا ہے اور نہ ہی باہر سے کوئی اندر ہی گيا ہے جو يہ‬
‫معلوم کہ يہ نر کے لئے ہے ياماده کے لئے اچانک کچھ مدت کے بعد يہ شگافتہ ہوتا ہے اور اس ميں سے ايک پرنده مور‬
‫کی طرح رنگ برنگ پروں کے ساتھ باہر آجاتا ہے کيا تيری نظر ميں اس طرح کی ظريف وباريک تخليقات کے لئے کوئی‬
‫مدبر و خالق موجود نہيں ہے ؟ “‬
‫عبد ﷲ ديصانی نے يہ سوال سن کر تھوڑی دير تک سر جھکائے رکھا)اس کے قلب ميں ايمان روشن ہو چکا تھا (اور پھر‬
‫اس نے بلند آواز ميں کہا‪ ” :‬ميں اس بات کی گواہی ديتا ہوں کہ خدا کے عالوه کوئی دوسرا معبود نہيں ہے وه وحده الشريک‬
‫ہے اور محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماس کے رسول ہيں اور آپ خدا کی طرف سے لوگوں کے امام معين کئے گئے ہيں‪،‬‬
‫ميں اپنے باطل عقيده سے توبہ کرتا ہوں اور پشيمان ہوں۔]‪[2‬‬

‫‪١٧‬۔ايک ثنوی کو امام عليہ السالم کا جواب‬


‫ايک ثنوی )دو خدا کا عقيده رکھنے واال( امام جعفر صادق عليہ السالم کی خدمت ميں آکر اپنے عقيده کے اثبات ميں گفتگو‬
‫کرنے لگا‪ ،‬اس کا عقيده يہ تھا کہ اس جہان ہستی کے دو خدا ہيں‪ ،‬ايک نيکيوں کا خدا ہے اور دوسرابرائيوں کا۔‬
‫اگر تو يہ کہتا ہے کہ خدا دو ہيں تو وه ان تين تصورات سے خارج نہيں ہو سکتے‪:‬‬
‫‪١‬۔يا دونوں طاقتور اور قديم ہيں۔‬
‫‪٢‬۔يا دونوں ضعيف و ناتواں ہيں۔‬
‫‪٣‬۔يا ايک قوی و مضبوط اور دوسرا ضعيف و ناتواں ہے۔‬
‫پہلی صورت کے مطابق ‪،‬کيوں پہال خدا دوسرے کی خدائی کو ختم نہيں کر ديتا تاکہ وه اکيال ہی پوری دنيا پر حکومت کرے‬
‫؟)يہ نظام کائنات جو ايک ہے اس بات کی حکايت کرتا ہے کہ اس کا حاکم بھی ايک ہے ‪،‬جو قوی و مطلق ہے(‬
‫تيسری صورت بھی اس بات کی دليل بن رہی ہے کہ خدا وحده الشريک ہے اور ہماری بات ثابت ہوتی ہے کيونکہ ہم اسی کو‬
‫خدا کہتے ہيں جو قوی ومضبوط ہے اور دوسرا اس لئے خدا نہيں کيونکہ وه ضعيف و ناتواں ہے ‪،‬اور يہ اس کے خدا نہ‬
‫ہونے کی دليل ہے۔‬
‫دوسری صورت ميں )اگر دونوں ضعيف وناتواں ہوں(يا دونوں کسی ايک جہت سے متفق ہوں اور دوسری جہت سے مختلف‬
‫خداوں ميں ايک خدا‬‫]‪ [3‬تو اس صورت ميں الزم آتا ہے کہ ان دونوں کے درميان ايک )مابہ االمتياز ہو( ) يعنی ان دونوں ٔ‬
‫کے پاس کوئی ايک شئے ہے جو دوسرے کے پاس نہ ہو( اور اس سے يہ بھی الزم آتا ہے کہ وه ) مابہ االمتياز (ا مر‬
‫دوخداوں کے ساتھ موجود رہے تاکہ‬ ‫ٔ‬ ‫وجودی قديم ہو )يعنی وه شئے اس ميں ہميشہ پائی جاتی ہو ( اور شروع سے ہی وه ان‬
‫ان کی ”دوئيت“ صحيح ہو۔‬
‫اس صورت ميں ”تين خدا وجود ميں آجائيں گے اور اسی طرح چار خدا پانچ خدا اور اس سے بھی زياده ‪،‬بلکہ بے انتہا‬
‫خداوں کا معتقد ہونا پﮍے گا۔‬
‫ٔ‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ہشام کہتے ہيں‪ :‬اس ثنوی نے دوگانہ پر ستی سے ہٹ کر اصل وجود خدا کی بحث شروع کردی اس کے سواالت ميں سے‬
‫ايک سوال يہ بھی تھا کہ اس نے امام جعفرصادق عليہ السالم سے پوچھا‪” :‬خدا کے وجود پر آپ کی کيا دليل ہے ؟“‬
‫امام جعفرصادق عليہ السالم‪” :‬دنيا کی يہ تمام چيزيں اس بات کی حکايت کرتی ہيں کہ ان کا کوئی بنانے واال ہے جيسے تم‬
‫جب کسی اونچی اور مضبوط عمارت کو ديکھتے ہو تو تمہيں يقين ہو جاتا ہے کہ اس کا کوئی بنانے واال ہے بھلے ہی تم نے‬
‫اس کے معمار کو نہ ديکھا ہو“۔‬
‫ثنويہ‪” :‬خدا کيا ہے ؟ “‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬خدا ‪،‬تمام چيزوں سے ہٹ کر ايک چيز ہے اور دوسرے الفاظ ميں اس طرح کہ وه تمام چيزوں کے معنی‬
‫ومفہوم کو ثابت کرتا ہے اوروه تمام کی حقيقت ہے ليکن جسم اور شکل نہيں رکھتا اور وه کسی حس سے نہيں سمجھا جا‬
‫سکتا ‪،‬وه خيالوں ميں نہيں ہے اور زمانہ کے گزرنے سے اس پر کوئی اثر نہيں ہوتااور نہ ہی وه اسے بدل سکتا ہے۔]‪[4‬‬

‫‪١٨‬۔ منصور کے حضور ميں امام جعفر صادق عليہ السالم اور ابو حنيفہ کا مناظره‬
‫ابن شہر آشوب ‪،‬مسند ابو حنيفہ سے روايت کرتے ہيں کہ حسن بن زياد نے کہا‪ :‬ابو حنيفہ )حنفی مذہب کے رہبر ( سے سوال‬
‫کيا گيا کہ تم نے ابھی تک جن لوگوں کو ديکھا ہے ان ميں سب سے زياده عظيم فقيہ کون ہے ؟‬
‫ابو حنيفہ نے جواب ميں کہا‪” :‬لوگوں ميں سے سب سے زياده عظيم فقيہ جعفر بن محمد )امام جعفر صادق عليہ السالم (ہيں‪،‬‬
‫منصور دوانقی )عباسی حکومت کا دوسر ا خليفہ ( جب امام کو اپنے پاس لے گيا تھا تو اس نے ميرے پاس اس طرح پيغام‬
‫بھيجا‪:‬‬
‫اے ابو حنيفہ !جعفر بن محمد )امام جعفر صاد ق عليہ السالم ( کو لوگ بہت زياده چاہنے لگے ہيں تم کچھ سخت و پيچيده‬
‫سواالت آماده کرو‪ ،‬اور ان سے مناظره کرو“۔ )تاکہ وه ان کے جواب نہ دے پائيں اور اس طرح ان کی مبقوليت ميں کمی ہو‬
‫جائے ( ميں نے چاليس سواالت تيار کئے جس کے بعد منصور نے شہر ”حيره“)بصره اور مکہ کے درميان (ميں مجھے‬
‫حاضر ہونے کے لئے کہا ‪،‬ميں ان کے پاس گيا تو ديکھا امام جعفر صادق عليہ السالم اس کے داہنے جانب بيٹھےے ہوئے‬
‫ہيں ‪،‬جيسے ہی ميری نظر امام جعفر صادق عليہ السالم پر پﮍی ميں ان کی عظمت وجاللت سے اتنا مرعوب ہوا کہ اتنا آج‬
‫تک منصور سے نہيں ہوا تھا۔ميں نے منصور کو سالم کيا ‪ ،‬اس نے مجھے بيٹھنے کا اشا ره کيا‪ ،‬ميں بيٹھ گيا پھر منصور‬
‫نے امام جعفر صادق عليہ السالم کی طرف رخ کر کے کہا‪” :‬اے ابا عبد ﷲ !يہ ابو حنيفہ ہے“۔‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬ہاں ميں اسے پہچانتا ہوں“۔‬
‫اس کے بعد منصور نے ميری طرف رخ کر کے کہا‪” :‬اے ابو حنيفہ تو اپنے سواالت پيش کر“۔‬
‫ميں نے امام جعفر صادق عليہ السالم سے اپنا ايک ايک سوال پوچھ ڈاال انھوں نے ان سب کا جواب ديا اور آپ جواب کے‬
‫دوران فرماتے تھے“۔اس مسئلہ ميں تم اس طرح کہتے ہو ‪،‬اہل مدينہ اس طرح کہتے ہيں ‪،‬ان کے بعض جوابات ميرے‬
‫نظريئے کے مطابق تھے اور بعض اہل مدينہ کے اور بعض دونوں کے مخالف تھے۔‬
‫يہا ں تک کہ ميں نے اپنے چاليس سواالت کر ڈالے اور امام جعفر صادق عليہ السالم نے ہر سوال کا جواب بطور احسن‬
‫واکمل ديا‪ ،‬اس کے بعد ابو حنيفہ کہتا ہے‪:‬‬
‫”اليس اعلم الناس ‪،‬اعلمھم باختالف الناس ۔“‬
‫”کيا سب سے زياده آگاه اور دانشور شخص وه نہيں ہے جو لوگوں کے مختلف نظريوں کو سب سے زياده جانتا ہو“۔]‪[5‬‬

‫‪١٩‬۔ايسا مناظره جس نے ايک ”خدا نما “کو بے بس کرديا‬


‫امام جعفر صادق عليہ السالم کے زمانہ ميں”جعد بن درہم “نامی ايک شخص تھا جس نے اسالم کے خالف بہت سی بدعتيں‬
‫ايجاد کی تھيں اور اس نے چند لوگوں کو اپنا شاگرد بنا ليا تھا۔آخر کار اسے عيد قربان کے دن سزائے موت دے دی گئی۔‬
‫اس نے ايک دن تھوڑی خا ک اور پانی لے کر ايک شيشی ميں ڈاال چند دنوں بعد اس ميں کيﮍے مکوڑے پيدا ہو گئے۔وه‬
‫دعوی کرنے لگا۔ان کيﮍے مکوڑوں کو ميں نے پيدا کيا ہے ‪،‬چونکہ ان کی پيدائش‬‫ٰ‬ ‫شيشی لے کر لوگوں کے درميان آکر يہ‬
‫کا سبب ميں بنا ہوں لہٰذا ميں ہی ان کا خالق و خدا ہوں“۔‬
‫چند مسلمانوں نے امام جعفر صادق عليہ السالم کو يہ بات بتائی تو آپ نے فرمايا‪” :‬اس سے پوچھو کہ شيشی ميں کيﮍوں کی‬
‫تعداد کتنی ہے ؟ اس ميں نر و ماده کتنے ہيں ‪،‬ان کا وزن کتنا ہے ؟اس سے کہو کہ ان کی شکل بدل دے ‪ ،‬کيونکہ جو ان کا‬
‫خالق ہوگا وه اس بات پر بھی قدرت رکھتا ہوگا کہ ان کی شکل بدل دے“۔‬
‫ان چند مسلمانوں نے اس سے انھيں سواالت کے ذريعہ مناظره کيا اور وه ان کے جوابات سے قاصر رہا اس طرح اس کا‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫سارا منصوبہ خاک ميں مل گيا اور اس کی ساری اميدوں پر پانی پھر گيا۔]‪[6‬‬

‫‪٢٠‬۔تم يہ جواب حجاز سے لے آئے ہو‬


‫امام جعفر صادق عليہ السالم کے زمانہ ميں بہت ہی مشہور و معروف ‪،‬ابو شاکر ديصانی نام کا ايک شخص تھا جو توحيد کا‬
‫انکار کرتا تھا اور اس بات کا معتقد تھا کہ ايک نور کا خدا ہے اور دوسرا ظلمت کا۔وه ہميشہ اس کوشش ميں رہتا تھا کہ اپنی‬
‫کالمی بحث چھيﮍ کر اپنے عقيدے کو ثابت کرے اور اسالم کو نيچا دکھائے‪ ،‬اس نے عقيده ديصانيہ کی بنيا د ڈالی تھی‬
‫اوراس کے کچھ شاگرد بھی تھے۔يہانتک کہ ہشام بن حکم بھی کچھ دنوں تک اس کے شاگرد رہے تھے‪ ،‬ہم يہاں پر اس کے‬
‫اعتراض کا ايک نمونہ نقل کرتے ہيں تو جہ فرمائيں‪:‬‬
‫ابو شاکر نے خود اپنی فکر کے مطابق قرآن کريم ميں ايک قابل اعتراض بات ڈھونڈ نکالی۔ايک روز اس نے امام جعفر‬
‫صادق عليہ السالم کے خاص شاگرد ہشام بن حکم سے کہا‪” :‬مجھے قرآن ميں ايک ايسی آيت ملی ہے جو ہمارے عقيدے‬
‫)ثنويہ( کی تصديق کرتی ہے“۔‬
‫ہشام‪” :‬کس آيت کے بارے ميں کہہ رہے ہو؟ “‬
‫سوره زخرف کی ‪ ٨۴‬ويں آيت پﮍھتا ہوں‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫ابو شاکر‪” :‬‬
‫ض ِٕالَہٌ“‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ٰ‬
‫” َوہُ َو الﱠ ِذی فِی ال ﱠس َما ِء ِٕالہٌ َوفِی ٔ‬
‫ْ‬
‫االرْ ِ‬
‫”اور جو آسمان ميں خدا ہے اور زمين ميں خدا ہے“۔‬
‫اس بنا پر ايک معبود آسما ن کا ہے اور دوسرا زمين کا ہے۔‬
‫ہشام کہتے ہيں‪” :‬ميں سمجھ نہيں سکا کہ اس کا جواب کس طرح دوں‪ ،‬ل ٰہذا اسی سال ميں جب خانہ کعبہ کی زيارت سے‬
‫مشرف ہوا تو ميں نے امام جعفر صادق عليہ السالم کی خدمت ميں جا کر يہ مسئلہ پيش کرديا۔‬
‫جاو تو اس سے پوچھو کہ کوفے‬ ‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬يہ ايک بے دين خبيث کی بات ہے جب تم واپس ٔ‬
‫ميں تيرا کيا نام ہے ؟وه کہے گا فالں‪” ،‬تم پھر کہو “‪ :‬تيرا بصره ميں کيانام ہے؟ ”وه کہے گا کہ فالں‪ ،‬تب تم اس سے کہو‬
‫درياوں‬
‫ٔ‬ ‫”ہمارا پروردگار بھی اسی طرح ہے ‪ ،‬آسمان ميں اس کا نام ”الہ“ ہے اور زمين ميں بھی اس کا نام ”الہ “ہے بيشک‬
‫صحراوں اور ہر جگہ کا وہی معبود الہ ہے“۔‬ ‫ٔ‬
‫ہشام کہتے ہيں‪” :‬جب ميں واپس لوٹا تو ابو شاکر کے پاس جاکر ميں نے اسے يہ جواب سنا ديا۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬يہ تمہاری بات نہيں ہے‪ ،‬تم اسے حجاز سے لے آئے ہو“۔]‪[7‬‬

‫‪٢١‬۔امام عليہ السالم کے شاگردوں کا ايک مردشامی سے مناظره‬


‫امام جعفرصادق عليہ السالم کے زمانہ ميں شام کا ايک دانشور ]‪)[8‬مکہ ( مينآپ کی خدمت ميں پہنچا اور اپنا تعارف اس نے‬
‫اس طرح کرايا‪” :‬ميں علم کالم‪،‬علم فقہ اور احکام ٰالہی کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اور ميں يہاں آپ کے شاگردوں سے‬
‫بحث ومناظره کے لئے حاضر ہوا ہوں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬تيری باتيں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی حديث پر مبنی ہوں گی يا تيری خود کی ہوں گی؟“‬
‫شامی دانشور‪” :‬پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی حديثيں بھی ہوں گی اور ميری کچھ ذاتی باتيں بھی ہوں گی“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬تو پھر تو پيغمبر کا شريک کار ہے ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬نہيں ميں ان کا شريک نہيں ہوں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬کيا تجھ پر وحی نازل ہوئی ہے ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬نہيں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬کيا تو جس طرح پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی اطاعت واجب جانتا ہے اسی طرح اپنی بھی اطاعت‬
‫واجب جانتا ہے ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬نہيں ميں اپنی اطاعت واجب نہيں جانتا“۔‬
‫اب امام جعفر صادق عليہ السالم انے ايک شاگرد )يونس بن يعقوب (کی طرف رخ کرکے فرمايا‪:‬‬
‫”اے يونس ! اس شخص نے بحث ومناظره شروع کرنے سے پہلے ہی شکست کھالی )کيونکہ اس نے بغير کسی دليل کے‬
‫اپنی بات کو حجت سمجھا ‪،‬حجت جانا ( اے يونس ! اگر تم علم کالم ]‪[9‬اچھی طرح جانتے تو اس شامی مرد سے مناظره‬
‫کرتے“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫يونس‪” :‬افسوس کہ ميں علم کالم سے آگاہی نہيں رکھتا ميں آپ پر فدا ہوں آپ نے علم کالم سے منع فرمايا اور کہا ہے‪” :‬قابل‬
‫افسوس ہيں وه لوگ جو علم کالم سے سروکار رکھتے ہيں اور کہتے ہيں “يہ صحيح ہے ‪،‬يہ غلط ہے۔يہ بات نتيجہ تک‬
‫پہنچتی ہے ‪،‬يہ بات سمجھ ميں آتی ہے اور يہ چيز سمجھ ميں نہيں آتی“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬ميں نے جو منع کيا تھا وه اس صورت ميں تھا کہ اسے اختيار کرنے والے ہماری باتوں کو چھوڑديں اور‬
‫جاو اور ديکھو اگر علم کالم جاننے واال ميرا کو ئی شاگرد ہو تو‬
‫جو خود جانتے ہيں اسی پر تکيہ کريں۔ اے يونس ! باہر ٔ‬
‫آو“۔‬
‫اسے يہاں لے ٔ‬
‫يونس‪” :‬ميں باہر گيا اور تين افراد )حمران بن اعين ‪،‬مومن الطاق احول اور ہشام بن حکم (جو علم کالم ميں کافی مہارت‬
‫رکھتے تھے انھيں لے کر امام عليہ السالم کی خدمت ميں حاضر ہوا اور ان لوگوں کے ساتھ ساتھ ميں نے قيس بن ماصر کو‬
‫بھی لے ليا جو ميری نظر ميں علم کالم ميں ان تمام لوگوں سے زياده ماہر تھے اور انھوں نے امام سجاد عليہ السالم سے يہ‬
‫علم حاصل کيا تھا۔جب سب لوگ ايک دوسرے کے ساتھ بيٹھ گئے تو امام جعفر صادق عليہ السالم خيمے سے باہر آئے يہ‬
‫وہی خيمہ تھا جو کہ مکہ ميں حرم کے بغل ميں آپ کے لئے لگاياگيا تھا اور آپ حج شروع ہونے سے کچھ دن قبل ہی سے‬
‫وہاں رہنے لگے تھے تبھی امام کی نظر ايک ايسے اونٹ پر پﮍی جو دوڑتے ہوئے آرہا تھا امام نے فرمايا‪” :‬خدا کی قسم‬
‫اس اونٹ پر ہشام سوار ہو کر آرہے ہيں“۔‬
‫لوگوں نے سوچا کہ امام کی مراد عقيل کے بيٹے ہيں کيونکہ امام انھيں بہت چاہتے تھے اچانک لوگوں نے ديکھا کہ اونٹ‬
‫نزديک ہوا اور اس پر” ہشام بن حکم“سوار تھے )امام کے ايک بہترين شاگرد( وه اس وقت نوجوان تھے اور ابھی جلدی ہی‬
‫ان کی ڈارھی نکلی تھی موجوده لوگوں ميں ان کی عمر سب سے کم تھی تقريبا ً سبھی ان سے بﮍے تھے۔امام نے ہشام کو‬
‫جيسے ہی ديکھا بﮍے پر جوش انداز ميں ان کا استقبال کرتے ہوئے جگہ دی اور ان کی شان ميں يہ حديث فرمائی‪:‬‬
‫”ناصرنا بقلبہ ولسانہ ويده“۔‬
‫ہشام قلب و زبان اور اپنے تمام اعضاء سے ہمارا ناصر ومددگار ہے“۔‬
‫اسی وقت امام جعفرصادق عليہ السالم نے اپنے تمام موجود شاگردوں ميں سے ايک ايک سے فرمايا‪” :‬اس شامی دانشور‬
‫سے تم لوگ بحث ومناظره کرو“۔ آپ نے خصوصی طور پر حمران سے فرمايا‪” :‬شامی مرد سے مناظره کرو“۔انھوں نے‬
‫اس سے مناظره کيا ابھی چند لمحے نہيں گزرے تھے کہ شامی‪ ،‬حمران کے سامنے بے بس ہو گيا اس کے بعد امام عليہ‬
‫السال م نے مومن الطاق ]‪ [10‬سے فرمايا‪” :‬طاق مرد شامی سے مناظره کرو“۔انھوں نے مرد شامی سے مناظره شروع کيا‬
‫ابھی تھوڑی ہی دير گزری تھی کہ طاق مرد شامی پر کامياب و کامران ہوگئے۔‬
‫اس کے بعد امام عليہ السالم نے ہشام بن سالم سے فرمايا‪” :‬تم بھی شامی مرد سے باتيں کرو“‪ ،‬وه بھی گئے اور اس سے‬
‫باتيں کی ليکن ہشان بن سالم مرد شامی پر غالب نہيں آئے بلکہ دونوں برابر رہے“۔‬
‫اب امام عليہ السالم نے قيس بن ماصر سے فرمايا‪” :‬تم جا کر اس سے مناظره کرو“۔قيس نے شامی سے مناظره شروع کيا‬
‫امام عليہ السالم اس مناظره کو سن رہے تھے اور مسکرارہے تھے کيونکہ شامی مرد قيس کے مقابل بے بس ہو گيا تھا اور‬
‫اس کی بے بسی کے آثار اس کے چہرے پر نماياں تھے جسے اچھی طرح ديکھا جا سکتا تھا۔]‪[11‬‬

‫‪٢٢‬۔شامی دانشورسے ہشام کا زبردست مناظره‬


‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے مکہ ميں شامی دانشور اور اپنے شاگردوں کے درميان ہوئے مناظره ميں )جس کی تفصيل‬
‫اس سے پہلے مناظره ميں گزرچکی ہے( ايک جوان نے )ہشام بن حکم( کی طرف رخ کر کے فرمايا‪” :‬اس سے مناظره‬
‫کرو“۔شامی دانشور مناظره کے لئے تيار ہو گيا اس طرح ہشام بن حکم اورشامی دانشور کا مناظره شروع ہوا۔‬
‫شامی دانشور )ہشام کی طرف رخ کر کے (اے جوان! اس مرد )امام جعفر صادق عليہ السالم( کی امامت کے سلسلہ ميں مجھ‬
‫سے سوال کر)ميں تجھ سے اس شخص کے بارے ميں باتيں کرنا چاہتا ہوں (“‬
‫ہشام امام کی شان ميں گستاخی اور بے ادبی سے(اس قدر غصہ ہوئے کہ ان کابدن کانپنے لگا اور اسی حالت ميں انھوں نے‬
‫شامی دانشور سے کہا‪” :‬کيا تيرا پروردگار اپنے بندوں کے بارے ميں خير و سعادت زياده چاہتا ہے يا خود بنده اپنے بارے‬
‫ميں بہتر سمجھتے ہيں ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬نہيں بلکہ پروردگار اپنے بندوں کے بارے ميں ان سے زياده خير وسعادت چاہتا ہے“۔‬
‫ہشام‪” :‬خدا وند متعال نے انسانوں کی خير وسعادت کے لئے کيا کيا ہے ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬خدا وند متعال نے اپنی حجت کو ان پر معين کيا ہے تاکہ وه منتشر نہ ہونے پائيں وه اپنے بندوں ميں اپنی‬
‫حجت کے ذريعہ الفت ومحبت پيدا کرتا ہے تاکہ ان کی بے سرو سامانی اس دوستی اور الفت کی وجہ سے ختم ہو جائے اور‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس طرح خداوند متعال اپنے بندوں کو قانون ٰالہی سے آگاه کرتا ہے“۔‬
‫ہشام‪” :‬وه حجت کون ہے ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬وه رسول خدا ہيں“۔‬
‫ہشام‪” :‬رسول خدا کے بعد کون ہے ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد قرآن وسنت حجت خدا ہيں“۔‬
‫ہشام‪” :‬کيا قرآن وسنت آج ہمارے اختالف کو ختم کرنے ميں سود مند ثابت ہو سکتے ہيں؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬ہاں“۔‬
‫ہشام‪” :‬پھر ہمارے تمہارے درميان کيوں اختالف ہے جس کی وجہ سے تم شام سے يہاں مکہ آئے ہو ؟ “‬
‫شامی دانشوراس سوال کے جواب ميں خاموش ہو گيا امام جعفرصادق عليہ السالم نے اس سے فرمايا‪” :‬کيوں نہيں کچھ‬
‫بولتے ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬اگر ہشام کے سوال کا جواب ميں اس طرح دوں کہ قرآن وسنت ہمارے اختالف کو ختم کرتے ہيں تو يہ بے‬
‫ہوده بات ہوگی کيونکہ الفاظ قرآن سے طرح طرح کے معنی مراد لئے جاتے ہيں۔اور اگر کہوں کہ ہمارا اختالف قرآن و‬
‫ٰ‬
‫دعوی کريں کہ ہم‬ ‫سنت کے سمجھنے ميں ہے تو اس طرح ميرے عقيده کو ضرر پہنچتا ہے اور اگر ہم دونوں کے دونوں‬
‫حق پر ہيں تو اس صورت ميں بھی قرآن و سنت ہم دونوں کے اختالف ميں کسی طرح سود مند ثابت نہيں ہو سکتے ہيں ليکن‬
‫يہی )مذکوره دليل( ميرے عقيده کے لئے نفع بخش ہو سکتی ہے مگر ہشام کے عقيده کے لئے نہيں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬اس مسئلہ کو ہشام )جو علم وکمال سے سر شار ہے (سے پوچھو وه تمہيں قانع کننده جواب ديں گے“۔‬
‫شامی دانشور‪” :‬آيا خدا وند متعال نے کسی کو عالم بشريت کے لئے بھيجا ہے تاکہ لوگ آپس ميں متحد و ہم آہنگ رہيں ؟اور‬
‫وه ان کے اختالف کو ختم کرے اور انھيں حق وباطل کے بارے ميں توضيح دے ؟‬
‫ہشام‪ ” :‬رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانے ميں يا آج ؟ “‬
‫شامی دانشور‪” :‬رسو ل خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں تو وه خو دتھے ليکن آج وه شخص کون ہے ؟ “‬
‫ہشام نے ‪،‬امام عليہ السالم کی طرف اشاره کرتے ہوئے کہا‪” :‬يہ شخص جو مسند پر بيٹھے ہوئے ہيں اور ہر جگہ سے لوگ‬
‫ان کے پاس آتے ہيں اور يہی حجت خدا اور ہمارے تمہارے اختالف کو ختم کرنے والے ہيں کيونکہ يہ وارث علم نبوت ہيں‬
‫جو ان کے باپ دادا سے انھيں مال ہے اور يہی ہيں جو زمين وآسمان کی باتوں کو ہميں بتاتے ہيں“۔‬
‫شامی دانشور‪” :‬ميں کس طرح سمجھوں کہ يہ شخص )امام جعفر صادق عليہ السالم (وہی حجت حق ہے“۔‬
‫ہشام‪” :‬جو بھی چاہو پوچھ لوتاکہ ان کے حجت خدا ہونے پر تمہيں دليل مل جائے“۔‬
‫شامی دانشور‪” :‬اے ہشام ! تم نے يہ کہہ کر ميرے لئے کسی طرح کا کوئی عذر نہيں چھوڑا ہے‪ ،‬اب مجھ پر واجب ہے کہ‬
‫ميں سوال کروں اور حقيقت تک پہنچوں“۔‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم‪” :‬کيا تم يہی جاننا چاہتے ہو کہ شام سے يہاں تک کہ سفر کے دوران تمہيں کيا کيا چيزيں پيش‬
‫آئيں ؟ اور امام عليہ السالم نے اس کے سفر کی کيفيت کے بارے ميں سب کچھ بيان کر ديا۔‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم کے بيانات سے شامی دانشور حيرت زده ہو گيا تھا اور اب اس نے حقيقت کو پاليا تھا جس کی‬
‫وجہ سے اسی وقت اس کے قلب ميں ايمان کا چراغ روشن ہوگيا اور بﮍی خوشی کے ساتھ اس نے کہا‪” :‬آپ نے سچ کہا‪،‬‬
‫خدا کی قسم ميں اب )حقيقی( اسالم اليا ہوں“۔‬
‫امام عليہ السالم‪” :‬بلکہ ابھی ابھی تو خدا پر ايمان لے آيااور اسالم ‪،‬ايمان سے پہلے ہے۔اسالم کے ذريعہ لوگ ايک دوسرے‬
‫کے وارث بنتے ہيں اور آپس ميں شادياں کرتے ہيں ليکن ايمان کے ذريعہ لوگ خدا کے يہاں اجر وثواب کے مستحق ہوتے‬
‫ہيں کيونکہ اجر وثواب ايمان پر ہی ہے تو بھی مسلمان تھا ليکن ہماری امامت کو قبول نہيں کرتا تھا اور اب ہماری امامت کو‬
‫قبول کرنے کی وجہ سے اپنے تمام نيک اعمال کے ثواب کے الئق ہو گيا ہے۔‬
‫شامی دانشور‪” :‬آپ نے صحيح فرمايا‪” :‬ميں گواہی ديتا ہوں کہ خدا کے عالوه کوئی معبود نہيں اور محمد اس کے رسول ہيں‬
‫اور آپ ان کے جانشين ہيں“۔‬
‫اس کے بعد امام جعفر صادق عليہ السالم نے اپنے شاگردوں سے ان کے مناظره کی کيفيت اس طرح بيان کی‪:‬‬
‫آپ نے حمران سے فرمايا‪” :‬تم اپنی بات کو احاديث سے ہم آہنگ کرتے ہو اور اس طرح حق تک پہنچ جاتے ہو“۔اور ہشام‬
‫بن سالم سے فرمايا‪” :‬تم احاديث کو حاصل کرنے ميں کافی جستجو اور سعی کرتے ہو ليکن اس کے حاصل کر نے اور‬
‫اسے سمجھنے کی صحيح صالحيت نہيں رکھتے“۔اسی طرح آپ نے مومن الطاق سے فرمايا‪” :‬تم قياس اور تشبيہ کے ذريعہ‬
‫بحث شروع کرتے ہو اور موضوع بحث سے ہٹ جاتے ہو تم باطل کو باطل ہی کے ذريعہ ر ّد کرتے ہو اور تمہارا باطلی‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫استدالل بہت ہی زربردست ہوتا ہے۔اور آپ نے قيس بن ماصر سے فرمايا‪” :‬تم اس طرح بات کرتے ہو کہ اپنی بات کو حديث‬
‫کے قريب کرنا چاہتے ہو ليکن دور ہو جاتے ہو‪ ،‬حق کو باطل کے ساتھ اس طرح مخلوط کرديتے ہو کہ تھوڑا سا حق بہت‬
‫سی باطل چيزوں سے انسان کو بے نياز کر ديتا ہے‪ ،‬تم اور مومن طاق بحث کے دوران ايک طرف سے دوسری طرف بھا‬
‫گتے ہو اور تم دونوں اس ميں اچھی خاصی مہارت رکھتے ہو“۔‬
‫يونس کہتے ہيں کہ ميں نے سوچا کہ امام عليہ السالم نے جو قيس اور مومن کے سلسلہ ميں کہا ہے وہی ہشام کے بارے ميں‬
‫بھی کہيں گے ليکن آپ نے ہشام کی بﮍی تعريف کی اور ان کی شان ميں فرمايا‪:‬‬
‫”يا ہشام ال تکاد تقع تلوی رجليک ٕاذا ھممت باالرض طرت“۔‬
‫”اے ہشام ! تمہارے دونوں پير کبھی زمين پر ٹکنے نہيں پاتے جيسے ہی تم شکست کے قريب پہنچتے ہو فورا ً اڑجاتے‬
‫ہو“۔‬
‫)يعنی جيسے ہی تم اپنے اندر ال چاری اور شکست کے آثار محسوس کرتے ہو بﮍی مہارت سے خود کو بچاليتے ہو۔(‬
‫اس کے بعد آپ نے ہشام سے فرمايا‪” :‬تم جيسے لوگوں کو مقرروں سے مناظره کرنا چاہئے اور يہ دھيان رکھنا چاہئے کہ‬
‫بحث کے دوران لغزش نہ ہونے پائے کيونکہ خداوند متعال اس طرح کے مناظره اور بحث ميں ہماری مدد کو پہنچتا ہے تاکہ‬
‫ہم اس کے مسائل کو واضح کر سکيں۔]‪[12‬‬
‫اس کے بعد امام جعفر صادق عليہ السالم نے ہشام بن حکم کے بارے ميں فرمايا‪:‬‬
‫”ہشام ہمارے حق کا دفاع کرنے والے‪ ،‬ہمارے نظريات کو لوگوں تک پہنچانے والے‪ ،‬ہماری حقانيت کو ثابت کرنے والے‬
‫اور بيہوده باتيناور لغو کالم کرنے والے دشمنوں کا دندان شکن جواب دينے والے ہيں ‪،‬جس نے ہشام بن حکم کی پيروی کی‬
‫اور ان کے افکار ميں غور خوض کيا اس نے گويا ہماری پيروی کی اور جس نے ان کی مخالفت کی اس نے ہماری مخالفت‬
‫کی“۔]‪[13‬‬

‫موسی کاظم عليہ السالم کے حضور ايک جاثليق کا مسلمان ہونا‬ ‫ٰ‬ ‫‪٢٣‬۔امام‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم کے خاص شاگرد ہشام بن حکم وغيره سے شيخ صدوق عليہ الرحمةنے روايت کی ہے کہ ايک‬
‫بہت ہی پﮍھا لکھا عيسائی تھا جس کا نام ”بريھہ“تھا ليکن اسے لوگ ”جاثليق“]‪ [14‬کہا کرتے تھے۔وه ستر سال سے مذہب‬
‫عيسائيت پر باقی تھا اور وه برابر اسالم اور حق کی تالش ميں جستجو اور کوشش کرتا رہتا تھا۔اس کے ساتھ ايک عورت‬
‫رہتی تھی جو سالہا سال سے اس کی خدمت کرتی چلی آرہی تھی۔‬
‫بريھہ نے مذہب عيسائيت کے ہيچ اور گھٹيا استدالل کو اس عورت سے اس لئے چھپا رکھا تھا کہ وه اس کے اس راز سے‬
‫آگاه نہ ہو سکے۔بريھہ برابر اسالم کے بارے ميں سواالت کيا کرتا تھا اور اسالم کے راہبر علمائے صالح کی تالش ميں رہتا‬
‫تھا اور اسالمی مفکروں کے حصول ميں اس نے کافی جستجو اور تحقيق کی تھی ہر فرقہ اور ہر گروه ميں جا کر ان کے‬
‫عقائد کے سلسلہ ميں تحقيق کرتا رہتا ليکن حق اس کے ہاتھ نہ آتا تھا۔‬
‫جاثليق ان لوگوں سے کہتاہے‪ :‬اگر تمہارے راہنما حق پر ہوتے تو تم ميں بھی تھوڑا بہت حق ضرور پايا جاتا۔‬
‫يہاں تک کہ اس نے اپنی جستجواور تحقيق کے درميان شيعوں کے بارے ميں اور ہشام بن حکم کا نام سنا۔‬
‫يونس بن عبد الرحمن )امام جعفر صادق عليہ السالم کے ايک شاگرد (کہتے ہيں کہ ہشام نے کہا‪” :‬ايک روز ميں اپنی دکان‬
‫)جو باب الکرخ ميں واقع تھی( پر بيٹھا ہوا تھا اور کچھ لوگ مجھ سے قرآن پﮍھ رہے تھے کہ نا آگاه ديکھا کہ عيسائيوں کا‬
‫ايک گروه بريھہ کے ساتھ چال آرہا ہے جس ميں بعض پادری تھے اور بعض دوسرے مختلف مذہبی منصب دار تھے وه‬
‫تقريبا ً سو افراد تھے‪ ،‬کالے کپﮍے پہنے ہوئے تھے اور سروں پر عيسائيت کی مخصوص لمبی ٹوپياں لگائے تھے۔بريھہ‬
‫جاثليق اکبر بھی ان لوگوں کے درميان موجود تھا وه سب ميری دوکان کے پاس اکٹھا ہو گئے اور بريھہ کے لئے ايک‬
‫عصاو ں پر ٹيک لگا کر کھﮍے ہوگئے۔‬‫ٔ‬ ‫مخصوص کرسی لگائی گئی وه اس پر بيٹھ گيا۔اس کے دوسرے ساتھی اپنے اپنے‬
‫بريھہ نے کہا‪” :‬مسلمانوں ميں کوئی ايسا علم کالم کامشہور عالم نہيں ہے جس سے ميں نے عيسائيت مذہب کی حقانيت کے‬
‫جاوں‪ ،‬اب ميں تيرے پاس اس‬ ‫بارے ميں بحث نہ کی ہو مگر ميں نے ان ميں ايسی چيز نہيں پايا جس سے ميں شکست کھا ٔ‬
‫لئے آيا ہوں تاکہ اسالم کی حقانيت کے بارے ميں تجھ سے مناظره کروں“۔‬
‫يونس نے ہشام اور جاثليق کے درميان ہونے والے پورے مناظره کی تفصيل بيان کرنے کے بعد کہا‪” :‬تمام نصرانی ادھر‬
‫ادھر بکھر گئے۔وه آپس ميں کہہ رہے تھے ”اے کاش !ہم ہشام کے سامنے نہ آئے ہوتے “بريھہ بھی واقعہ کے بعد بہت غم‬
‫زده ہوا وه اپنے گھر واپس آيا اور جو عورت اسکی خدمت کرتی تھی اس نے اس سے کہا‪” :‬کيا وجہ ہے کہ ميں تجھے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫غمگين و پريشان ديکھ رہی ہوں ؟ “‬
‫بريھہ نے ہشام کے ساتھ ہوئے مناظره کی تفصيل اسے بتادی اور کہا کہ ميرے غم زده ہونے کی وجہ يہی ہے۔‬
‫اس عورت نے بريھہ سے کہا‪” :‬وائے ہو تم پر!!تم حق پر رہنا چاہتے ہو يا باطل پر ؟ “‬
‫بريھہ نے جواب ديا‪” :‬ميں حق پر رہنا چاہتا ہوں“۔‬
‫جاو اور ہٹ دھرمی سے دور رہو کيونکہ يہ ايک طرح کا‬ ‫اس عورت نے کہا‪” :‬تمہيں جہاں بھی حق نظر آئے وہيں چلے ٔ‬
‫شک ہے اور شک بہت ہی بری چيز ہے اور شک کرنے والے جہنمی ہوتے ہيں“۔‬
‫بريھہ نے اس عورت کی بات کو قبول کر ليا اور يہ اراده کرليا کہ صبح ہوتے ہی ہشام کے پاس جائے گا۔ صبح ہوتے ہی وه‬
‫ہشام کے پاس پہنچ گيا اس نے ديکھا کہ ہشام کا کوئی ساتھی موجود نہيں ہے اس نے کہا‪” :‬اے ہشام ! کيا تمہاری نظر ميں‬
‫کوئی ايسا شخص ہے جس کی رائے کو تم بہتر جانتے ہو اور جس کی تم پيروی کرسکو؟“‬
‫ہشام نے کہا‪” :‬ہاں اے بريھہ!“۔‬
‫بريھہ نے اس شخص کے اوصاف کے متعلق پوچھا اور ہشام نے امام جعفرصادق عليہ السالم کے اوصاف بتا ديئے‪ ،‬بريھہ‬
‫امام جعفر صادق عليہ السال م سے مالقات کا مشتاق ہو گيا ل ٰہذا ہشام کے ساتھ اس نے عراق سے مدينہ کا سفر اختيار کيا ‪،‬وه‬
‫خادمہ بھی ان کے ساتھ تھی ان کا اراده تو يہ تھا کہ امام جعفرصادق عليہ السالم سے مالقات کرينمگر آپ کے گھر کے‬
‫موسی کاظم عليہ السالم سے مال قات ہو گئی۔‬
‫ٰ‬ ‫داالن ہی ميں امام‬
‫”ثاقب المناقب “کی روايت کے مطابق ہشام نے ان کو سالم کيا بريھہ نے بھی ان کی تقليد ميں آپ کو سالم کيا اس کے بعد‬
‫موسی کاظم عليہ السالم اس وقت بہت کم عمر‬ ‫ٰ‬ ‫امام جعفرصاد ق عليہ السالم کی خدمت ميں حاضر ہونے کی علت بتائی امام‬
‫موسی کاظم عليہ السالم کو سناديا (‬
‫ٰ‬ ‫تھے)شيخ صدوق کی روايت کے مطابق ہشام نے بريھہ کی پورا واقعہ امام‬

‫موسی کاظم عليہ السالم سے جاثليق کی گفتگو‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬


‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬اے بريھہ ! تو اپنی کتاب انجيل کے بارے ميں کس حد تک معلومات رکھتا ہے ؟ “‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫بريھہ‪” :‬ميں اپنی کتاب سے پوری طرح آگاه ہوں“۔‬
‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬اس کے باطنی معنی پر کتنا اعتماد رکھتا ہے ؟ “‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫بريھہ‪” :‬اتناہی جتنا مجھے اس پر عبور ہے“۔‬
‫موسی کاظم عليہ السالم نے انجيل کی آيتوں کو پﮍھنا شروع کر ديا۔‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫بريھہ امام سے اتنا مرعوب ہوگيا کہ وه کہنے لگا‪” :‬جناب مسيح آپ کی طرح انجيل کی تالوت کيا کرتے تھے اس طرح کی‬
‫موسی کاظم عليہ السالم کی طرف رخ‬
‫ٰ‬ ‫عيسی عليہ السالم کے عالوه کوئی نہيں کرتا“۔اس کے بعد بريھہ نے امام‬ ‫ٰ‬ ‫تالوت جناب‬
‫کر کے عرض کيا‪” :‬ميں پچاس سال سے آپ يا آپ جيسے کسی شخص کی تالش ميں تھا“۔ اس کے بعد بريھہ وہيں مسلمان‬
‫ہوگيا اور اس کے بعد بھی وه راه اسالم پر بﮍے استحکام کے ساتھ ڈٹا رہا اس کے بعد ہشام بريھہ کو اس عورت کے ساتھ‬
‫لے کر امام جعفر صادق عليہ السالم کی خدمت ميں پہنچے اور ہشام نے پوری بات آپ کو بتائی اور اس خادمہ اور بريھہ‬
‫کے مسلمان ہونے کا واقعہ بھی آپ کو سنا ديا۔‬
‫امام جعفرصادق عليہ السالم نے قرآن مجيد کی اس آيت کی تالوت فرمائی‪:‬‬
‫” ُذ ﱢريﱠةً بَ ْع ُ‬
‫ضہَا ِم ْن بَع ٍ‬
‫ْض َوﷲُ َس ِمي ٌع َعلِي ٌم “]‪[15‬‬
‫”وه لوگ ايسے فرزندان تھے جو ايک دوسرے سے لئے گئے تھے اور خدا سميع وعليم ہے“۔‬

‫بريہہ کی امام جعفر صادق عليہ السالم کے ساتھ گفتگو‬


‫بريھہ‪” :‬ميں آپ پر فدا ہوں‪ ،‬توريت وانجيل اور دوسرے پيغمبر وں کی کتابيں آپ کے پاس کيسے اور کہاں سے آئيں ؟ “‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم‪” :‬يہ کتابيں ان کی طرف سے ہميں وراثت ميں ملی ہيں جو ہم ان لوگوں کی طرح ہی ان کتابوں‬
‫کی تالوت کرتے ہيں خداوند عالم اس دنيا ميں کسی ايسے کو اپنی حجت قرار نہيں ديتا کہ جب اس سے پوچھا جائے تو وه يہ‬
‫کہے‪” :‬ميں نہيں جانتا“۔‬
‫اس کے بعد بريھہ امام جعفرصاد ق عليہ السالم اور آپ کے اصحاب کے ساتھ ہی رہنے لگا اور آخر کار امام جعفر صادق‬
‫عليہ السالم کے زمانہ ميں وفات پا گيا امام جعفر صادق عليہ السال م نے اسے خود اپنے ہاتھوں سے غسل وکفن ديا اور خود‬
‫ہی اسے قبر ميں لٹا کر فرمايا‪:‬‬
‫”ھذا حواری من حواری المسيح عليہ السالم يعرف حق ﷲ عليہ “‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫عيسی عليہ السالم کے حواريوں ميں سے ايک تھا جو اپنے اوپر ﷲ کے حق کو پہنچانتا تھا“۔‬
‫ٰ‬ ‫”يہ جناب‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم کے اکثر اصحاب يہ آرزو کرتے تھے کہ اس کی طرح بلند مقام کے حامل ہو جائيں۔]‪[16‬‬

‫سی کاظم عليہ السالم کے سامنے ابو يوسف کی الچاری‬ ‫‪٢۴‬۔امام مو ٰ‬


‫موسی کاظم عليہ السالم کی خدمت ميں بيٹھا ہوا تھا‪ ،‬ابو يوسف بھی )جو‬
‫ٰ‬ ‫مہدی عباسی بنی عباس کا تيسرا خليفہ ايک دن امام‬
‫اہل بيت عليہم السالم کا پکا مخالف تھا ( اس بزم ميں حاضر تھا اس نے مہدی عباسی کی طرف رخ کر کے کہا کہ مجھے‬
‫موسی بن جعفر سے چند سوال کرنے کی اجازت ديجئے تاکہ ميرے سوال کے جواب نہ دينے کی وجہ سے وه مجبور و‬ ‫ٰ‬
‫الچار ہو جائيں۔‬
‫مہدی عباسی نے کہا‪” :‬ميں اجازت ديتا ہوں“۔‬
‫موسی کاظم عليہ السالم سے کہا‪” :‬اجازت ہے کہ ميں ايک سوال کروں ؟ “‬ ‫ٰ‬ ‫ابو يوسف نے امام‬
‫امام عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬سوال کر“۔‬
‫ابو يوسف نے کہا‪” :‬جس نے حج کاا حرام باندھ رکھا ہو آيا اس کا سائے ميں چلنا جائز ہے ؟ “‬
‫امام عليہ السالم نے کہا‪” :‬جائز نہيں ہے“۔‬
‫ابو يوسف نے کہا‪” :‬اگر کسی محرم نے زمين ميں خيمہ نصب کر رکھا ہو تو کيا اس ميں اس کاجانا جائز ہے؟“‬
‫امام عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬ہاں جائز ہے“۔‬
‫ابو يوسف نے کہا‪” :‬ان دونوں سايوں ميں کيا فرق ہے کہ پہلے والے ميں جائز نہيں اور دوسرے والے ميں جائز ہے ؟ “‬
‫موسی کاظم عليہ السالم نے اس سے فرمايا‪” :‬عورت پر اپنی ماہواری کے زمانہ ميں چھوٹی ہوئی نمازوں کی قضا کرنا‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫واجب ہے ؟ “‬
‫ابو يوسف نے کہا‪” :‬نہيں“۔‬
‫امام عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬کيا عورت پر عادت کے زمانہ ميں چھوٹے ہوئے روزوں کی قضا ہے ؟ “۔‬
‫ابو يوسف نے کہا‪” :‬ہاں“۔‬
‫امام عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬اب تو يہ بتا کہ ان دونوں کے درميان کيا فرق ہے کہ پہلے ميں عورت پر قضاواجب نہينہے‬
‫اور دوسرے ميں قضا واجب ہے؟“‬
‫ابو يوسف نے کہا‪” :‬احکام ميں اسی طرح آيا ہے ؟ “‬
‫امام عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬حج کے زمانہ ميں احرام باندھ لينے والے کے لئے بھی اسی طرح کا حکم آيا ہے جيسا کہ ميں‬
‫نے بتايا شرعی مسائل ميں قياس درست نہيں ہے“۔‬
‫ابو يوسف اس جواب سے پانی پانی ہو گيا‪،‬مہدی عباسی نے اس سے کہا‪” :‬انھيں شکست دينا چاہتا تھا مگر کامياب نہ ہو‬
‫پايا“۔‬
‫موسی بن جعفر نے مجھے ہالکت خيز پتھر سے قتل کر ديا جس کی وجہ سے ميں‬ ‫ٰ‬ ‫“‬ ‫دامغ‬ ‫بحجر‬ ‫رمانی‬ ‫”‬ ‫کہا‪:‬‬ ‫نے‬ ‫يوسف‬ ‫ابو‬
‫بے بس والچار ہو گيا۔]‪[17‬‬

‫موسی کاظم عليہ السالم کا ہارون کے ساتھ مناظره‬


‫ٰ‬ ‫‪٢۵‬۔امام‬
‫موسی کاظم عليہ السالم کے ساتھ ايک گفتگو کے دوران اس نے‬‫ٰ‬ ‫ہارون رشيد خلفائے بنی عباس مينسے پانچوانخليفہ تھا امام‬
‫امام عليہ السال م کو مخاطب کر تے ہوئے کہا‪ ” :‬آپ نے خاص و عام ميں يہ مشہور کر رکھا ہے کہ آپ پيغمبر کی اوالدہيں‬
‫جب کہ آنحضرت کے کوئی بيٹا ہی نہيں تھا جس کے ذريعہ ان کی نسل آگے بﮍھتی‪ ،‬اس کے ساتھ ہی آپ لوگوں کا يہ بھی‬
‫کہنا ہے کہ نسل ہميشہ بيٹے کی طرف سے آگے بﮍھتی ہے اور آپ لوگ ان کی بيٹی کی اوالد ميں سے ہيں“۔‬
‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬اگر پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ابھی ابھی حاضر ہو جائيں اور تيری لﮍکی سے شادی‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫کرنا چاہيں تو کيا تو انھيں مثبت جواب دے گا ؟ “‬
‫ہارون‪” :‬ميں صرف مثبت جواب ہی نہيں دوں گا“۔بلکہ ان سے رشتہ جوڑکر ميں عرب و عجم کے درميان فخر کروں گا۔‬
‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬ليکن پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ميری بيٹی کو پيغام نہيں ديں گے اور ميں اپنی لﮍکی کو‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫ان کی زوجہ نہيں بنا سکتا“۔‬
‫ہارون‪” :‬کيوں“۔‬
‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬اس لئے کہ ميری والدت پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے سبب سے ہے )کيونکہ ميں ان‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کا نواسہ ہوں (ليکن تيری پيدائش ميں وه سبب نہيں بنے ہيں“۔‬
‫ہارون‪” :‬واه ! بہت اچھا جواب ہے‪ ،‬اب ميرا يہ سوال ہے کہ آپ لوگ کيوں خود کو پيغمبر اکرم کی ذريت سے کہتے ہو جب‬
‫کہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی کوئی نسل ہی نہيں تھی کيونکہ نسل لﮍکے سے چلتی ہے نہ کہ لﮍکی سے اور‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے کوئی لﮍکا نہيں تھا اور آپ ان کی لﮍکی حضرت زہرا سالم ﷲ عليہا سے ہيں اور‬
‫حضرت زہرا سالم ﷲ عليہا کی نسل پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی نہيں ہوگی ؟!‬
‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬کيا ميں جوا ب دوں ؟“‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫ہارون‪” :‬ہاں“۔‬
‫سوره انعام کی ‪ ٨۴‬ويں آيت ميں ارشادفرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬خدا وند متعال قرآن مجيد ميں‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫اس ُکلﱞ ِمنْ‬ ‫ْ‬ ‫حْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ک ن ِزی ال ُم ِسنِينَ ‪َ .‬وزک ِريﱠا َويَ يَی َو ِعي َسی َو ِٕاليَ َ‬ ‫حْ‬ ‫ْ‬ ‫َجْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ﱡوب َويُوسُفَ َو ُمو َسی َوہَارُونَ َوکذلِ َ‬ ‫َ‬ ‫ٔ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫” َو ِمن ذ ﱢريتِ ِہ دَا ُوو َد َو ُسلي َمانَ َواي َ‬ ‫ﱠ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬
‫الصﱠالِ ِحينَ ۔۔۔“]‪[18‬‬
‫‪،‬سليمان‪،‬ايوب‪،‬يوسف‪،‬موسی اورہارون ہيں اور ہم اسی طرح نيکوکاروں کو جزاديا کرتے ہيں‬ ‫ٰ‬ ‫”اور اس کی ذريت سے ٔ‬
‫دادو‬
‫عيسی والياس يہ سب صالحين ميں سے تھے“۔‬ ‫ٰ‬ ‫ويحی و‬
‫ٰ‬ ‫اور اسی طرح زکريا‬
‫عيسی عليہ السالم کا کون باپ تھا ؟‬ ‫ٰ‬ ‫اب ميں تم سے يہ پوچھتا ہوں کہ جناب‬
‫عيسی عليہ السالم کا کوئی باپ نہيں تھا“۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہارون‪” :‬جناب‬
‫عيسی عليہ السالم کو ماں کی طرف سے‬ ‫ٰ‬ ‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬جس طرح خداوند متعال نے مذکوره آيت ميں جناب‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫پيغمبروں کی ذريت ميں قرار ديا ہے اسی طرح ہم بھی اپنی ماں جناب فاطمہ زہرا سالم عليہا کی طرف سے پيغمبر صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی ذريت ميں شامل ہيں“۔‬
‫بﮍھاوں؟“‬ ‫ٔ‬ ‫آگے‬ ‫اور‬ ‫دليل‬ ‫اپنی‬ ‫ميں‬ ‫اس کے بعد آپ عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬آيا‬
‫ہارون نے کہا‪” :‬ہاں بﮍھايئے“۔‬
‫موسی کاظم عليہ السالم‪” :‬خداوند متعال )مباہلہ کے متعلق (فرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫امام‬
‫ع أَ ْبنَائَنَا َوأَ ْبنَائَ ُک ْم َو ِن َسائَنَا َو ِن َسائَ ُک ْم َوأَ ْنفُ َسنَا َوأَ ْنفُ َس ُک ْم ثُ ﱠم نَ ْبت َِہلْ فَنَجْ َعلْ لَ ْعنَةَ‬
‫ک ِم ْن ْال ِع ْل ِم فَقُلْ تَ َعالَوْ ا نَ ْد ُ‬ ‫َ‬ ‫ئ‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫م‬
‫َ ِ ِ ِ َ ِ َ َ َ‬ ‫د‬ ‫ْ‬
‫ع‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ْ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ي‬ ‫ف‬ ‫ک‬ ‫ج‬‫ﱠ‬ ‫ا‬ ‫” فَ َ َ‬
‫ح‬ ‫ْ‬
‫ن‬ ‫م‬
‫ﷲِ َعلَی ْال َکا ِذ ِبينَ “]‪[19‬‬
‫)نصاری(کٹ حجتی کرے تو ا ن سے کہہ دوکہ آئيں ہم اپنے بيٹوں کو‬ ‫ٰ‬ ‫”اب تمہارے پاس علم آجانے کے بعد بھی اگر کوئی‬
‫لے آئيں تم اپنے بيٹوں کو ‪،‬ہم اپنی عورتوں کو لے آئيں اور تم اپنی عورتوں کو اور ہم اپنے نفسوں کو لے آئيں اور تم اپنے‬
‫نفسوں کو‪ ،‬پھرمباہلہ کرکے جھوٹوں پر لعنت کريں“۔‬
‫دعوی نہيں کيا کہ آنحضرت نے مباہلہ کے وقت حضرت علی‬ ‫ٰ‬ ‫اس کے بعد امام عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬آج تک کسی نے يہ‬
‫‪،‬اور فاطمہ زہرا‪،‬امام حسن اور امام حسين )سالم ﷲ عليہم(کے عالوه انصار يامہاجرين ميں سے بھی کسی کو ساتھ ليا ہو‪،‬‬
‫اس واقعہ سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ ”انفسنا“ سے مراد حضرت علی عليہ السالم ہيں اور ”ابنائنا“سے مراد امام حسن اور امام‬
‫حسين عليہما السالم ہيں۔خداوند متعال نے حسنين عليہما السالم کو رسول ﷲ صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بيٹے کہہ کر ياد‬
‫کيا ہے۔‬
‫موسی۔]‪[20‬‬ ‫ٰ‬ ‫موسی کاظم عليہ السالم کی واضح دليل قبول کر لی اور کہا‪ :‬بہت خوب اے‬ ‫ٰ‬ ‫ہارون نے امام‬

‫‪٢۶‬۔امام علی رضا عليہ السالم کا ابو قرة سے مناظره‬


‫ابو قرة)اسقف اعظم کے دوستوں ميں تھا(امام علی رضا عليہ السالم کے زمانہ کے خبر پردازوں ميں تھا۔‬
‫يحيی کہتے ہيں کہ ابو قرة نے مجھ سے خواہش کی کہ ميں اسے امام‬ ‫ٰ‬ ‫امام علی رضا عليہ السالم کے ايک شاگرد صفوان بن‬
‫جاوں۔‬
‫علی رضا عليہ السالم کی خدمت ميں لے ٔ‬
‫ميں نے امام علی رضا عليہ السالم سے اجازت لی ‪،‬آپ نے اجازت دے دی۔ابو قرة نے امام علی رضا عليہ السالم کی خدمت‬
‫ميں پہنچ کر احکام دين ‪،‬حالل وحرام کے سلسلے ميں چند سواالت کئے۔يہ سوال طول پکﮍتے پکﮍتے مسئلہ توحيد تک پہنچ‬
‫گيا جس کے بارے ميں ابو قرة نے اس طرح سوال کيا‪:‬‬
‫مجھ سے کچھ لوگوں نے روايت کی ہے کہ خداوند عالم نے اپنا ديدار اور اپنی بات چيت کو دو پيغمبروں کے درميان تقسيم‬
‫کر رکھا ہے )يعنی خد ا وند عالم نے دو پيغمبروں کا انتخاب کيا ہے تاکہ ايک سےگفتگو کرے اور دوسرے کو اپنا کو ديدار‬
‫موسی عليہ السالم کو ديا اور اپنے ديدار کا رتبہ اور منزلت حضرت محمد‬
‫ٰ‬ ‫کرائے (۔ل ٰہذا اس نے ہم کالم ہونے کا مرتبہ جناب‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکو عطا فرمايا‪” :‬اس بنا پر خدا ايک ايسا وجود رکھتا ہے جسے ديکھا جا سکتا ہے“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬اگر اس طرح ہوتو جس پيغمبر نے جن وانس کو يہ بتا يا ہے کہ آنکھيں خدا کو ديکھ نہيں سکتی‬
‫ہيں اور اپنی مخلوقات کے سلسلے ميں جو اسے آگاہی ہے اس کا احاطہ کرنا اور اس کی ذات کو سمجھنا کسی کے بس ميں‬
‫نہيں ہے وه اپنا شبيہ اور مثل نہيں رکھتا ہے وه کون پيغمبر تھا؟ کيا محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکی ذات گرامی نے اس‬
‫طرح نہيں فرماياہے؟‬
‫ابو قرة‪” :‬ہاں انھوں نے ايسا ہی فرمايا“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬اب يہ کس طرح ممکن ہے کہ جولوگوں کے لئے خدا کی طرف سے آيا ہواور لوگوں کو دعوت‬
‫حق دے اور لوگوں سے کہے کہ يہ آنکھيں اس بات پر قادر نہيں ہيں کہ خداکو ديکھ سکيں ‪،‬اس کا کوئی شبيہ نہيں اور اس‬
‫کے بعد خود ہی پيغمبر يہ کہے کہ ميں نے اپنی دونوں آنکھوں سے خدا کو ديکھا ہے اور اس کے احاطہ علمی کو درک کيا‬
‫ہے کياوه انسان کی طرح ديکھا جا سکتا ہے کيا تجھے شرم محسوس نہيں ہوتی ؟ “‬
‫بے دين اور ٹيﮍھے دل والے افراد بھی اس طرح کی کوئی نسبت رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو نہيں دے سکے کہ‬
‫پہلے انھوں نے اس طرح فرمايا اور اس کے اس بر عکس کہنے لگے۔‬
‫سوره نجم )آيت ‪( ١٣‬ميں فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫ابو قرة‪” :‬خدا وند متعال خود قرآن مجيد کے‬
‫” َولَقَ ْد َرآهُ ن َْزلَةً أُ ْخ َری“‬
‫”اور سول خدا نے خدا کو دوباره ديکھا“۔‬
‫سوره نجم کی ‪١١‬ويں آيت بھی ہے جس ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم‬ ‫ٔ‬ ‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬اسی جگہ‬
‫نے جو ديکھا ہے اسے بيان کيا ہے۔‬
‫ب ْالفُؤَا ُد َما َرأَی“‬ ‫” َما َک َذ َ‬
‫”ان کے دل نے جو کچھ ديکھا اسے کبھی نہيں جھٹاليا“۔‬
‫اور اسی سوره ميں آيت نمبر ‪ ١٨‬ميں خدا وند متعال نے اس چيز کا بھی پتہ بتا ديا جسے پيغمبر اکرم نے ديکھا ہے‪:‬‬
‫ت َربﱢ ِہ ْال ُک ْب َری “]‪[21‬‬ ‫”لَقَ ْد َرأَی ِم ْن آيَا ِ‬
‫”اس نے اپنے پروردگار کی بﮍی نشانياں ديکھی ہيں“۔‬
‫پس وه نشانياں جنھيں رسول نے ديکھی وه ذات خدا کے عالوه کوئی اور چيز ہے۔‬
‫)سوره طہ کی ‪ ١١٠‬ويں آيت ميں (ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫اس طرح خدا وند عالم‬
‫” َوالَي ُِحيطُونَ بِ ِہ ِع ْل ًما“‬
‫”وه خدا وند عالم سے آگاہی نہيں رکھتے“۔‬
‫اس بنا پر اگر آنکھيں خدا کو ديکھ سکتی ہيں اور سمجھ سکتی ہيں تو اس کے آگاہی اور علم کا احاطہ بھی کر سکتی ہيں‬
‫)جب کہ مذکوره آيت ميں يہ کہا جارہا ہے کہ اس کے علم وآگاہی کا احاطہ نا ممکن ہے (‬
‫ابو قرة‪” :‬توتم ان روايتوں کی تکذيب کر رہے ہو جن ميں يہ کہا گيا ہے کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے خدا کو ديکھا‬
‫ہے ؟ “‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬اگر روايتيں قرآن کے مخالف ہوں گی تو ميں ان کی تکذيب کروں گا اور تمام مسلمان جس‬
‫رائے پر متفق ہيں وه يہ ہے کہ نہ اس کے علم وآگاہی کا کوئی احاطہ کر سکتا ہے اور نہ ہی آنکھيں اسے ديکھ سکتی ہے‬
‫وه کسی بھی چيز سے شباہت نہيں رکھتا“۔]‪[22‬‬
‫نيز صفوان کہتے ہيں‪ :‬امام علی رضا عليہ السالم سے ملنے کی اجازت کے لئے ابو قرة نے مجھے واسطہ قرار ديا اور‬
‫اجازت ملنے کے بعدوه وہاں پہنچ کر اول چند سوال حرام اور حالل کے سلسلے ميں دريافت کئے يہاں تک کہ ابو قرة نے‬
‫پوچھا‪ :‬آيا آپ اس بات کو قبول کرتے ہيں کہ خدا محمول ہے؟“‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬محمول اس کو کہتے ہيں کہ جس پر کوئی فعل حمل ہو ا ہواور اس حمل کی نسبت کسی‬
‫دوسرے کی طرف دی گئی ہو اور محمول ايک ايسا لفظ ہے جس کے معنی نقص اور دوسرے کے سہارے کے ہوتے ہيں‬
‫جسے نسبت کہا جاتا ہے مثالًتم کہتے ہو زير ‪،‬زبر‪،‬اوپر نيچے جس ميں زبر اور اوپر کا لفظ قابل تعريف اور اچھا سمجھا‬
‫جاتا ہے اور زير اور نچے کا لفظ ناقص سمجھا جاتا ہے اور يہ مناسب نہيں ہے کہ خداوند متعال قابل تغير ہو۔خدا خود حامل‬
‫يعنی تمام چيزوں کی نگہداشت کرنے واالہے اور لفظ محمول بغير کسی کے سہارے کے کوئی معنی ومفہوم نہيں رکھتا )اس‬
‫بنا پر اس کے لئے لفظ محمول مناسب نہيں ہے( اور جو شخص خدا پر ايمان رکھتا ہے اور اس کی عظمت کاقائل ہے‪ ،‬اس‬
‫لئے تم نے کبھی يہ نہ سنا ہوگا کہ ﷲ سے دعاکرتے وقت اسے ”اے محمول“کہہ کر پکارا جائے! “‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫)سوره حاقہ ‪ ،‬آيت ‪(١٧‬ميں ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫ابو قرة‪” :‬خدا وند متعال قرآن کريم‬
‫ک فَوْ قَہُ ْم يَوْ َمئِ ٍذ ثَ َمانِيَةٌ“‬ ‫ش َربﱢ َ‬ ‫” َويَحْ ِم ُل َعرْ َ‬
‫”اور اس دن آٹھ لوگ تمہارے پروردگار کا عرش اپنے اوپر اٹھائے ہوں گے“۔‬
‫)سوره غافر کی ساتويں آيت ميں(فرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫اور اسی طرح‬
‫ش“‬ ‫ْ‬
‫”الﱠ ِذينَ يَحْ ِملُونَ ال َعرْ َ‬
‫”جوعرش اٹھاتے ہيں“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬عرش ‪،‬خدا کانام نہيں ہے بلکہ عرش علم اور قدرت کا نام ہے اور ايک ايسا عرش ہے کہ جس‬
‫کے درميان تمام چيزيں پائی جاتی ہيں اس کے بعد خدا وند متعال نے حمل اور عرش کی نسبت اپنے فرشتوں کی طرف دی‬
‫ہے۔‬
‫ابو قرة‪” :‬ايک روايت ميں آيا ہے کہ جب بھی خداوند متعال غضبناک ہوتا ہے تو فرشتے اس کے غصہ کے وزن کو اپنے‬
‫کاندھوں پر محسوس کرتے ہيں اور سجده ميں گرجاتے ہيں جب خداکا غصہ ختم ہوجاتا ہے تو ان کے کاندھے ہلکے ہو‬
‫جاتے ہيں اور اپنی عام حالت ميں واپس آجاتے ہيں۔کيا آپ اس روايت کی بھی تکذيب کريں گے؟ “‬
‫امام علی رضا عليہ السالم نے اس روايت کی ترديد کرتے ہوئے فرمايا‪” :‬اے ابو قرة! تو يہ بتا کہ جب خدا وند عالم نے‬
‫شيطان پر لعنت کی اور اپنے دربار سے نکاال تب سے لے کر آج تک کيا خدا شيطان سے خوش ہوا ہے ؟)ہرگز اس سے‬
‫خوش نہيں ہوا(بلکہ ہميشہ شيطان اور اس کے چاہنے والے اور اس کی پيروی کرنے والوں پر غضبناک ہی رہا ہے )اس‬
‫طرح تيرے قول کے مطابق اس وقت سے لے کر آج تک تمام فرشتوں کو سجده کی حالت ميں رہنا چاہئے جب کہ ايسا نہيں‬
‫ہے اس سے ثابت ہوگيا کہ عرش خدا کانام نہيں ہے (‬
‫پس تو اس وقت کس طرح يہ جرائت کرتا ہے کہ اپنے پروردگار کو تغير و تبدل جيسے صفتوں سے ياد کرے اور اسے‬
‫مخلوق کی طرح مختلف حاالت سے متصف کرے۔وه ان تمام چيزوں سے پاک و پاکيزه ہے اس کی ذات غير قابل تغيرو تبدل‬
‫ہے ‪،‬دنيا کی تمام چيزيں اس کے قبضے ميں ہيں اور وه کسی کا محتاج نہيں۔]‪[23‬‬

‫‪٢٧‬۔ ايک منکر خدا سے امام علی رضا عليہ السالم کا مناظره‬
‫امام علی رضا عليہ السالم کی خدمت ميں کچھ لوگ بيٹھے ہوئے تھے کہ ايک منکرخداآيا‪،‬آپ نے اس سے فرمايا‪:‬‬
‫”اگر تو حق پر ہے )جب کہ ايسا نہيں ہے(تو اس صوت ميں ہم اور تم دونوں برابر ہيں اور نماز‪ ،‬روزه‪،‬حج‪،‬زکات اور ہمارا‬
‫ايمان ہميں کسی طرح کا کوئی نقصان نہيں پہنچائے گا اور اگر ہم حق پر ہيں)جب کہ ايسا ہی ہے ( تو اس صورت ميں ہم‬
‫کامياب ہيں اور تو گھاٹے ميں ہے اور اس طرح تو ہالکت ميں ہوگا“۔‬
‫منکر خدا‪” :‬مجھے يہ سمجھائيں کہ خدا کيا ہے ؟کہاں ہے ؟ “‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪ ” :‬وائے ہو تجھ پرکہ تو جس راستے پر چل رہا ہے وه غلط ہے ‪،‬خدا کو کيفيتوں )وه کيسا ہے اور‬
‫کيسا نہيں ہے( سے متصف نہيں کيا جا سکتا کيونکہ اسی نے اشياء ميں کيف و کيفيت کو پيدا کيا ہے اور نہ ہی اسے مکان‬
‫سے نسبت دی جا سکتی ہے کيونکہ اسی نے حقيقت مکان کو وجود بخشا ہے۔اسی بنا پر خدا وند متعال کو کيفيت اور مکان‬
‫سے نہيں پہچاناجاسکتا اور نہ ہی وه حواس سے محسوس کياجا سکتا ہے اور نہ ہی وه کسی چيز کی شبيہ ہو سکتا ہے۔‬
‫منکر خدا‪” :‬اگر خدا وند متعال کسی بھی حسی قوت سے در ک نہيں کيا جا سکتا ہے تو وه کوئی وجود نہيں ہے“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬وائے ہو تجھ پر تيری حسی قوتيں اسے درک کرنے سے عاجز ہوں تو اس کا انکار کر دے گا‬
‫ليکن ميں جب کہ ميری بھی حسی قوتيں اسے درک کرنے سے عاجز ہيں ‪،‬اس پر ايمان رکھتا ہوں اور يقين رکھتا ہوں کہ وه‬
‫ہمارا پروردگار ہے اور وه کسی کی شبيہ نہيں ہے“۔‬
‫منکر خدا‪” :‬مجھے يہ بتائيں کہ خدا کب سے ہے ؟ “‬
‫بتاوں کے کہ خدا کب سے ہے ؟ “‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬تو يہ بتا کہ خدا کب نہيں تھا تاکہ ميں تجھے يہ ٔ‬
‫منکر خدا‪” :‬خدا کے وجود پرکيا دليل ہے ؟ “‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬ميں جب اپنے پيکر کی طرف نگاه اٹھاتا ہوں تو ديکھتا ہوں کہ اس کے طول وعرض ميں کسی‬
‫طرح کی کوئی کمی و بيشی نہيں کر سکتا اس سے اس کا نقصان دور نہيں کر سکتا اور نہ ہی اس کے فوائد اس تک پہنچا‬
‫سکتا ہوں‪ ،‬اسی بات سے مجھے يقين ہو گيا کہ اس پيکر کا کوئی بنانے واال ہے اور اسی وجہ سے ميں نے وجود صانع کا‬
‫ہواوں کا چالنا ‪،‬آفتاب اور ماہتاب کو حرکت دينا‪ ،‬اس بات کی نشانی ہے کہ ان کا کوئی نہ‬‫اقرار کيا۔اس کے عالوه بادل بنانا‪ٔ ،‬‬
‫کوئی بنانے واال ضرور ہے۔]‪[24‬‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٢٨‬۔مشيت اور اراده کے معنی کے سلسلہ ميں ايک مناظره‬
‫يونس بن عبدالرحمن ‪،‬امام علی رضا عليہ السالم کے شاگرد تھے‪ ،‬ان کے زمانہ ميں ”قضا وقدر‘کی بﮍی گرما گرم بحثيں ہو‬
‫اکرتی تھيں ل ٰہذ يونس نے سوچا اس کے متعلق خود امام علی رضا عليہ السالم کی زبانی کچھ سننا چاہئے‪ ،‬يہ اسی مقصد کی‬
‫تکميل کے لئے امام علی رضا عليہ السالم کی خدمت ميں آئے اور قضاو قدر کی بحث کے متعلق گفتگو کرنے لگے امام‬
‫علی رضاعليہ السالم نے فرمايا‪:‬‬
‫اے يونس ! قدر يہ کا عقيده قبول نہ کرو کيونکہ ان کا عقيده نہ تو دوزخيوں سے ملتا ہے اور نہ ہی شيطان سے اورنہ‬
‫۔۔۔۔]‪[25‬‬

‫يونس‪” :‬خدا کی قسم مجھے اس سلسلے ميں قدريہ کا عقيده قبول نہيں ہے‪ ،‬بلکہ ميرا عقيده يہ ہے کہ خدا کے حکم اور ارداه‬
‫کے بغير کوئی چيز وجود ميں آتی ہی نہيں“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬اے يونس ! ايسانہيں ہے‪ ،‬بلکہ خدا کی مشيت يہ ہے کہ انسان بھی اپنے امور ميں مختار رہے‪،‬‬
‫کيا تم مشيت خدا کا مطلب جانتے ہو؟ “‬
‫يونس‪” :‬نہيں“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬مشيت خدا‪،‬لوح محفوظ ہے۔کيا تم اراده کے مطلب جانتے ہو؟ “‬
‫يونس‪” :‬نہيں“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬اراده يعنی وه جو چاہے وه ہو جائے۔کيا تم قدر کے معنی جانتے ہو؟ “‬
‫يونس‪” :‬نہيں“۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم‪” :‬قدر يعنی اندازه‪،‬تخمينہ اور احاطہ ہے جيسے مدت حيات اورموت کا علم‪ ،‬اس کے بعد آپ نے‬
‫فرمايا‪” :‬قضا کا مطلب ہے مضبوط بنانا اور عينی وواقعی قراردينا“۔‬
‫يونس ‪،‬امام علی رضا عليہ السالم کی اس توضيح سے مطمئن اور خوش حال ہو کر چلنے کو تيار ہوگئے‪ ،‬انھوں نے امام‬
‫کے سر اقدس کو بوسہ ليتے ہوئے آپ سے چلنے کی اجازت چاہی اور کہا‪” :‬آپ نے ميری وه مشکل حل کر دی جن کے‬
‫متعلق ميں غفلت ميں تھا۔ ]‪[26‬‬

‫‪٢٩‬۔ امام علی نقی )ع( کی فضيلت ميں مامون کا بنی عباس سے مناظره‬
‫شيخ مفيد عليہ الرحمة کتاب ”ارشاد“ ميں تحرير فرماتے ہيں کہ عباسی دور کا ساتواں خليفہ مامون رشيد ‪،‬امام علی نقی عليہ‬
‫السالم پر فريفتہ ہو گيا تھا کيونکہ اس نے امام کے علم و فضل اور کمال کا مشاہده ان کےبچپن ميں ہی کر ليا تھا۔اس نے‬
‫ديکھا کہ جو علم وکمال امام کی ذات ميں پائے جاتے ہيں وه اس دور کے بﮍے بﮍے علماء اور دانشوروں ميں دکھائی نہيں‬
‫پﮍتے۔‬
‫انھيں کماالت کی بنا پر مامون نے اپنی لﮍکی )ام فضل(کی شادی آپ سے کر دی اور مامون نے امام کو بﮍی شان وشوکت‬
‫سے مدينہ کی طرف روانہ کيا۔حسن بن محمد سليمانی ‪،‬ريان بن شبيب سے روايت کرتے ہيں کہ جب مامون نے چاہا کہ اپنی‬
‫بيٹی ام فضل کی شادی امام علی نقی عليہ السالم سے کرے اور يہ بات بنی عباس کے کانوں تک پہنچی تو انھيں يہ بات بہت‬
‫گراں محسوس ہوئی اور وه مامون کے اس اراده سے بہت ناراض ہوئے انھيں اس بات کا خوف الحق ہوگيا کہ وليعہدی کا‬
‫منصب کہيں بنی ہاشم کے ہاتھوں ميں نہ چال جائے۔‬
‫المومنين! ہم لوگ تجھے خدا کی‬‫اسی وجہ سے بنی عباس کے تمام افراد نے ايک جگہ جمع ہوکر مامون سے کہا‪” :‬اے امير ٔ‬
‫قسم ديتے ہيں کہ تونے جو ام الفضل کی شادی امام علی نقی عليہ السالم سے کرنے کا اراده کيا ہے اسے ترک کردے ورنہ‬
‫اس چيز کا امکان پايا جاتا ہے کہ خداوند متعال نے جو ہميں منصب و تخت و تاج عنايت فرمايا ہے‪،‬وه ہمارے ہاتھ سے چال‬
‫جائے اور جو مقام ومنزلت اور عزت و حشمت کا لباس ہمارے تن پر ہے وه اتر جائے کيونکہ خاندان بنی ہاشم سے ہمارے‬
‫آباء اجداد کی دشمنی سے تو اچھی طرح واقف ہے اور اس کے ساتھ ہی ساتھ تجھے يہ بھی معلوم ہے کہ گزشتہ تمام خلفاء‬
‫نے انھيں شہر بدر کيا اور انھيں ہميشہ جھوٹا سمجھتے رہے اس کے عالوه تونے جو حرکت امام علی رضا عليہ السالم کے‬
‫ساتھ کی تھی اس سے ہميں بہت تشويش ہوئی تھی ليکن خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہميں اس سے بچالياتجھے خدا کی قسم‬
‫ہے کہ تو اپنے اس عمل ميں ذرا غور وفکر کر جس نے ہمارے دلوں ميں تکليف پيدا کر دی ہے‪ ،‬تو اس اراده سے باز آجا‬
‫اور ام فضل کا رشتہ خاندان بنی عباس کے کسی مناسب فرد سے کردے۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫مامون نے بنی عباس کے اعتراض کے جواب ميں کيا‪” :‬تمہارے اور ابو طالب کے بيٹوں کے درميان کينہ پروری اور‬
‫دشمنی کی وجہ خود تم لوگ ہو !!اگر انھيں انصاف سے ان کا حق دے دو تو اس منصب خالفت کے وہی حقدار ہوتے ہيں‬
‫ليکن جيسا تم نے بيان کيا کہ ہمارے گزشتہ خلفاء نے ان کے ساتھ کيا سلوک کياميں ايسے کاموں سے خدا کی پناه چاہتا ہوں‬
‫خدا کی قسم جو بھی ميں نے امام علی رضا عليہ السالم کی وليعہدی کے لئے کيا تھا اس پر ميں ذرا بھی پشيمان نہيں‬
‫ہوں۔ميں نے تو يہی چاہاتھا کہ وه خالفت کے امور کو سنبھال ليں مگر خود انھوں نے ہی اسے قبول نہيں کيا اس کے بعد خدا‬
‫نے کيا کيا يہ تم لوگوں نے خود يکھا۔ليکن جس کی وجہ سے ميں نے امام جواد کو اپنا داماد بنانا چاہا ہے وه ان کا بچپن کا‬
‫علم وفضل ہے وه تمام لوگوں سے افضل وبرتر ہيں اور ان کی عقل کی بلندی اس عمر ميں بھی تعجب خيز ہے‪ ،‬ميں تو يہ‬
‫سوچتا ہوں کہ ميری نظروں نے جو ديکھا ہے اس کا تم لوگوں نے بھی مشاہده کيا ہے اور بہت جلد ہی تمہيں بھی معلوم ہو‬
‫جائے گا کہ ميں نے جس راستہ کا انتخاب کيا ہے وہی درست ہے“۔‬
‫ان لوگوں نے مامون کے جواب ميں کہا‪” :‬بيشک اس کم عمر نوجوان کی رفتار و کردار نے تجھے تعجب ميں ڈال ديا ہے‬
‫اور اس طرح اس نے تجھے اپنا گرويده بنا ليا ہے ليکن جو بھی ہو وه ابھی بچہ ہے اس کا علم و ادراک ابھی کم ہے اسے‬
‫کچھ دن چھوڑ دے تاکہ وه با عقل اور علم دين ميں فقيہہو جائے اس کے بعد جو تيرا دل چاہے کرنا“۔‬
‫مامون نے کہا‪” :‬تم لوگوں پر وائے ہو ‪،‬ميں اس جوان کو تم سے زياده جانتاہوں اور اسے بہت اچھی طرح سے پہچانتا‬
‫ہوں‪،‬يہ جوان اس خاندان سے تعلق رکھتا ہے جوخدا کی طرف سے علم لے کر آتا ہے اور اس کا علم المحدود ہے کيونکہ‬
‫آباواجداد علم دين ميں تمام لوگوں سے بے نياز تھے اور دوسرے لوگ ان‬ ‫اس کے علم کا تعلق امام سے ہوتا ہے اس کے تمام ٔ‬
‫کے کمال کے سامنے بے حيثيت تھے اور ان کی ڈيوڑھی پر علم وکمال کے حصول کے لئے ہاتھ پھيالئے کھﮍے رہتے‬
‫تھے اگر تم ميری باتوں کی تصديق کرنا چاہتے ہو تو ان کا امتحان لے لو تاکہ تمہارے نزديک بھی ان کا فضل وکمال واضح‬
‫ہو جائے“۔‬
‫ان لوگوں نے کہا‪” :‬يہ اچھا مشوره ہے اور اس بات پر ہم خوش بھی ہيں کہ اس بچہ کی آزمائش ہوجائے اب تو ہميں اس بات‬
‫کی اجازت دے کہ ہم کسی ايسے شخص کو لے آئيں جو اس نوجوان سے مسائل شرعيہ کے بارے ميں بحث ومناظره کر‬
‫سکے وه چند سواالت کرے گا اگر انھوں نے اس کے سواالت کے صحيح جواب ديئے تو ہم تجھے اس کا م سے ہر گز نہيں‬
‫روکيں گے اور اس طرح تجھ پر اپنے پرائے کا فرق بھی واضح ہو جائے گا اور اگر يہ نوجوان جواب دينے سے قاصر رہا‬
‫تو تجھے پتہ چل جائے گا کہ ہمارا يہ مشوره مستقبل کے لئے کتنا مفيد ہے“۔‬
‫مامون نے کہا‪” :‬جہاں بھی تم چاہوان کا امتحان لے سکتے ہو ميری طرف سے يہ اجازت ہے“۔‬
‫وه لوگ مامون کے پاس سے چلے گئے اور بعد ميں سب نے مل کر يہ پيش کش کر دی کہ مشہور زمانہ عالم اور قاضی‬
‫يحيی بن اکثم کو امام کے مقابل الياجائے۔‬
‫ٰ‬

‫امام محمد تقی عليہ السالم ميدان علم و دانش کے مجاہد‬


‫يحيی بن اکثم کے پاس گئے اور اسے ڈھيروں دولت کا اللچ دے کر امام عليہ السالم سے‬ ‫ٰ‬ ‫وه سارے اعترض کرنے والے‬
‫مناظره کرنے پر آماده کر ليا۔‬
‫ادھر کچھ لوگ مامون کے پاس تاريخ معين کرنے پہنچ گئے ‪،‬مامون نے تاريخ معين کر دی‪،‬معين دن اس دور کے بﮍے‬
‫يحيی بن اکثم کے ساتھ موجود تھے ‪،‬مامون کے حکم کے مطابق امام محمد تقی عليہ السالم کے لئے مسند‬ ‫ٰ‬ ‫بﮍے علماء‬
‫بچھائی گئی اور تھوڑی دير بعد امام عليہ السالم تشريف لے آئے )اس وقت آپ کی عمر محض نو سال تھی(مامون کی مسند‬
‫گئے۔يحيی بن اکثم نے‬
‫ٰ‬ ‫بھی آپ کے بالکل قريب بچھی ہوئی تھی وه اس پر آکر بيٹھ گيا اور دوسروں کو جہاں جگہ ملی بيٹھ‬
‫المومنين ! کيا آپ اجازت ديتے ہيں کہ ميں ابو جعفر سے سوال کروں؟“‬ ‫مامون کی طرف رخ کر کے کہا‪” :‬اے امير ٔ‬
‫مامون‪” :‬خود ان سے اجازت لو“۔‬
‫جاوں کيا مجھے سوال کرنے کی اجازت ہے ؟ “‬ ‫ٔ‬ ‫ہو‬ ‫قربان‬ ‫پر‬ ‫آپ‬ ‫ميں‬‫”‬ ‫کہا‪:‬‬ ‫مﮍکر‬ ‫يحيی بن اکثم نے آپ کی طرف‬ ‫ٰ‬
‫امام محمد تقی عليہ السالم‪” :‬پوچھو“۔‬
‫يحيی‪” :‬اس شخص کے بارے ميں آپ کيا فرماتے ہيں جس نے حالت احرام ميں شکار کيا ہو“۔‬ ‫ٰ‬
‫امام محمد تقی عليہ السالم‪” :‬آيا حرم ميں قتل کيا ہے ياحرم سے باہر ؟وه مسئلہ اور حکم سے آگاه تھا ہی نہيں؟جان بوجھ کر‬
‫شکار کيا يابھول کر ؟پہلی دفعہ تھا يا اس سے پہلے بھی چند دفعہ ايسا کر چکا تھا؟وه شکار پرنده تھا يا اس کے عالوه کچھ‬
‫اور ؟وه شکار چھوٹا تھا يا بﮍا اور ساتھ ساتھ اس کام ميں وه بے باک تھا يا پشيمان ؟دن ميں تھا يا رات ميں؟احرام عمره ميں‬
‫تھايا احرام حج ميں؟)ان بائيس )‪ (٢٢‬قسموں ميں سے کون سی قسم تھی کيونکہ ان سب کا حکم الگ الگ ہے (‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫يحيی ان سواالت کے سامنے حيرت زده ہو گيا اور اس کی بے بسی اور الچاری کی کيفيت چہره سے ظاہرہونے لگی‪،‬اس‬ ‫ٰ‬
‫کی زبان لکنت کرنے لگی۔اس کی يہ حالت ديکھ کر تمام لوگوں نے امام محمد تقی عليہ السالم کے سامنے اسے بے بس اور‬
‫الچار سمجھ ليا۔‬
‫مامون نے کہا‪” :‬خدا وند عالم کی اس نعمت پر شکر ادا کرتا ہوں کہ جو ميں نے سوچ رکھا تھا وہی ہوا‪ ،‬اس کے بعد اس نے‬
‫تمام خاندان کے افراد کی طرف رخ کر کے کہا‪” :‬تم لوگوں نے ديکھا“۔اس کے بعد امام محمد تقی عليہ السالم کا نکاح مامون‬
‫کی بيٹی سے ہو گيا۔]‪[27‬‬

‫‪٣٠‬۔ عراقی فلسفی کی حالت متغير کردينے واال ايک مناظره‬


‫اسحاق کندی جو کافر تھا‪ ،‬عراق کا بہت بﮍا عالم اور فلسفی مانا جاتا تھا ‪،‬اس نے قرآن کا مطالعہ کيا تو ديکھا کہ بعض آيتيں‬
‫ِ‬
‫بعض کے خالف ہيں تو اس نے ايک ايسی کتاب لکھنے کا اراده کيا جس ميں تناقض قرآن کوجمع کرديا گيا ہو‪،‬اس نے يہ کام‬
‫شروع کرديا۔‬
‫اس کا ايک شاگرد امام حسن عسکری عليہ السالم کی خدمت ميں پہنچا تو امام نے اس سے فرمايا‪” :‬کيا تمہارے درميان کوئی‬
‫عاقل و باشعور شخص نہيں ہے جو اسحق کو اس کے اس کام سے باز رکھے؟“‬
‫شاگرد نے کہا‪” :‬ميں اس کا شاگرد ہوں‪ ،‬اسے اس کام سے کيسے باز رکھ سکتا ہوں“۔‬
‫امام حسن عسکری عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬ميں تمہيں ايک ايسی بات بتاتا ہوں جسے تم اسحاق کندی سے کہنا ‪،‬تم اس کے‬
‫جاو اور چند دن تک اس کے اس کام ميں اس کی مدد کرتے رہو جب وه تمہيں اپنا قريبی دوست سمجھ لے اور تم سے‬ ‫پاس ٔ‬
‫مانوس ہو جائے تو اس سے کہو کہ ميں ايک سوال کرنا چاہتا ہوں وه کہے گا ”پوچھو“۔تو تم اس سے کہنا‪” :‬اگر قرآن کا‬
‫بھيجنے واال تمہارے پاس آئے اور آکر کہے کہ جس آيت کے معنی تم نے مراد لئے ہيں ‪ ،‬آيا اس کے معنی اس کے عالوه‬
‫کچھ اور نہيں ہوسکتے ؟“‪ ،‬اسحاق کندی کہے گا“‪ ،‬ہاں ‪،‬يہ امکان پايا جاتا ہے“۔تب تم اس سے کہنا کہ تمہيں کيا معلوم؟!‬
‫ہوسکتا ہے کہ اس آيت سے جو معنی تم نے سمجھے ہيں خدا نے اس کے عالوه کوئی دوسرے معنی مراد لئے ہوں“۔‬
‫شاگرد اسحاق کندی کے پاس پہنچا اور کچھ دن تک اس کی کتاب کی تاليف ميں اس کی مدد کرتا رہا يہاں تک کہ امام حسن‬
‫عسکری عليہ السالم کے حکم کے مطابق اس نے اسحاق کندی سے کہا‪” :‬آيا اس بات کا امکان ہے کہ خداوند متعال نے اس‬
‫معنی کے عالوه کوئی دوسرا مطلب مراد ليا ہو جو تم نے سمجھا ہے؟“۔‬
‫استاد نے کہا‪” :‬ہاں ممکن ہے کہ خداوند متعال نے ظاہری معنی سے ہٹ کر کوئی اور معنی مراد لئے ہوں“۔‬
‫اس کے بعد اس نے شاگرد سے کہا‪” :‬يہ بات تجھے کس نے بتائی ؟ “‬
‫شاگرد نے کہا‪” :‬يوں ہی ميرے دل ميں يہ سوال پيدا ہو گيا تھا“۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬يہ بہت ہی معياری اور پائے کا کالم ہے‪،‬ابھی تووہاں تک نہيں پہنچ سکا ہے سچ بتا يہ کس کاکالم ہے ؟ “‬
‫شاگرد نے کہا‪ :‬حضرت امام صادق عليہ السالم کا۔‬
‫اسحاق کندی نے کہا‪” :‬ہاں تونے صحيح کہا‪ ،‬اس طرح کی باتيں اس خاندان اہل بيت عليہ السالم کے عالوه کہيں اور کوئی‬
‫فرد نہيں کہہ سکتا“۔‬
‫اس کے بعد اسحاق کندی نے آگ منگواکر وه ساری چيزيں جالڈاليں جو اس نے تناقض قرآن کے متعلق لکھی تھيں۔]‪[28‬‬

‫دوسرا حصہ‪:‬‬

‫اکابر علمائے اسالم کے مختلف گروہوں کے ساتھ مناظرے‬

‫‪٣١‬۔سبط ابن جوزی سے ايک ہوشيار عورت کا مناظره‬


‫سبط ابن جوزی اہل سنت کے ايک بہت ہی مشہور ومعروف عالم تھے ‪،‬اس نے بہت ہی اہم کتابيں بھی لکھی ہيں يہ بغداد کی‬
‫مسجدوں ميں وعظ کيا کرتے تھے اور لوگوں کی تبليغ کرتے تھے ‪ ١٢‬رمضان المبارک ‪ ۵٩٨‬ھ کو ان کی وفات ہوئی۔]‪[29‬‬
‫حضرت علی عليہ السالم کی مشہور فضيلتوں ميں سے ايک فضيلت يہ بھی ہے کہ آپ اکثر بھرے مجمع ميں ” سلونی قبل ان‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫تفقدونی“کہا کرتے تھے۔اس طرح کی باتيں آپ اور دوسرے معصوم ائمہ عليہم السالم سے مخصوص ہيں ان کے عالوه جس‬
‫ٰ‬
‫دعوی کيا وه ذليل ہوا‪،‬اب آپ ايک باہمت عورت کا سبط ابن جوزی کے ساتھ مناظره مالحظہ فرمائيں‪:‬‬ ‫نے بھی اس کا‬
‫سبط ابن جوزی نے بھی ايک دن منبر پر جانے کے بعد دعوائے سلونی کرتے ہوئے اعالن کرديا کہ اے لوگو! تمہيں جو‬
‫کچھ بھی پوچھنا ہے پوچھ قبل اس کے ميں تمہارے درميان نہ رہوں‪ ،‬منبر کے نيچے بہت سے شيعہ سنی مرد اور عورت‬
‫بيٹھے ہوئے تھے۔يہ سنتے ہی ان ميں سے ايک عورت کھﮍی ہوئی اور اس نے سبط ابن جوزی سے اس طرح سوال کيا۔‬
‫بتاوکہ کيا يہ خبر صحيح ہے کہ جب عثمان کو قتل کر ديا گيا تو ان کا جنازه تين دن تک پﮍا رہا اور کوئی بھی‬
‫تم مجھے يہ ٔ‬
‫انھيں دفن کرنے نہ آيا؟‬
‫سبط‪” :‬ہاں ايسا ہی ہے ۔“‬
‫عورت‪” :‬کيا يہ بھی صحيح ہے کہ جب جناب سلمان عليہ الرحمة نے مدائن ميں وفات پائی تو حضرت علی عليہ السالم مدينہ‬
‫)يا کوفہ( سے مدائن گئے اور آپ نے ان کی تجہيز وتکفين ميں شرکت کی اور ان کی نماز جناز ه پﮍھائی ؟“‬
‫سبط‪” :‬ہاں صحيح ہے“۔‬
‫”ليکن علی عليہ السالم عثمان کی وفات کے بعد ان کے جنازے پر کيوں نہيں گئے جب کہ وه خود مدينہ ميں موجود تھے اس‬
‫طرح دوہی صورت ره جاتی ہے يا توحضرت علی عليہ السالم نے غلطی کی کہ ايک مومن کی الش تين دن تک پﮍی رہی‬
‫اور آپ گھر ہی ميں بيٹھے رہے يا پھر عثمان غير مومن تھے جس کی وجہ سے حضرت علی عليہ السالم نے ان کی تجہيز‬
‫وتکفين ميں کسی طرح کا کوئی حصہ نہيں ليا اور اپنے عمل کو اپنے لئے درست سمجھا۔”يہاں تک کہ انھيں تين روز بعد‬
‫مخفی طور پر قبرستان بقيع کے پيچھے يہوديوں کے قبرستان ميں دفن کياگيا جيسا کہ طبری نے اپنی تاريخ ميں يہ ذکر کيا‬
‫ہے )ج‪،٩‬ص‪١۴٣‬۔(‬
‫ابن جوزی اس عورت کے اس سوال کے آگے بے بس ہو گيا کيونکہ اس نے ديکھا کہ اگر دونوں ميں سے کسی ايک کو‬
‫بھی خطا کار ٹھہرا ئے گا تو يہ بات خالف عقيده ہوجائے گی کيونکہ اس کے نزديک دونوں خليفہ حق پر تھے ل ٰہذا اس نے‬
‫اس عورت کو مخاطب کر تے ہوئے کہا‪:‬‬
‫اے عورت !وائے ہوتجھ پر‪،‬اگر تو اپنے شوہر کی اجازت سے گھر کے باہر آئی کہ نامحرموں کے درميان مناظره کررہی‬
‫ہے‪ ،‬تو خدا تيرے شوہر پر لعنت کرے اور اگر بغير اجاز ت آئی ہے تو خدا تجھ پر لعنت کرے“۔‬

‫اس ہو شمند عورت نے بﮍی بے باکی سے جواب ديا‪:‬‬


‫”آيا عايشہ جنگ جمل ميں موالئے کائنا ت علی ابن ابی طالب سے لﮍنے اپنے شوہر رسول اکرم کی اجازت سے آئيں تھيں‬
‫يا بغير اجازت کے ؟“‬
‫يہ سوال سن کر سبط ابن جوزی کے رہے سہے ہوش بھی جاتے رہے اور وه بوکھال گيا کيونکہ اگر وه يہ کہے کہ عائشہ‬
‫اپنے شوہر کی اجازت کے بغير ہی آئی تھيں تو عائشہ خطاکار ہوں گی اور اگر يہ کہے کہ وه اپنے شوہر کی اجازت سے‬
‫باہر آئيں تھيں تو علی عليہ السالم خطاکار ٹھہرتے تھے‪ ،‬يہ دونوں صورت حال اس کے اس عقيده کے خالف تھيں‪ ،‬لہٰذا وه‬
‫نہايت بے بسی کے عالم ميں منبر سے اتر ا اور اپنے گھر کی طرف چل پﮍا۔]‪[30‬‬

‫‪٣٢‬۔ايک حملہ ميں تين سوالوں کے جواب‬


‫موسی کاظم عليہما السالم کے زمانہ کے ايک زبردست عالم تھے انھوں نے‬ ‫ٰ‬ ‫بہلول بن عمرو کوفی امام جعفر صادق اور امام‬
‫ہارون کے سامنے پيش کئے جانے والے عہده قضاوت سے جان چھﮍانے کے لئے خود کو ديوانہ بنا ليا تھا ‪ ،‬وه مناظر ه ميں‬
‫بﮍی مہارت رکھتے تھے اور مخالف کے الٹے سيدھے اعتراضوں کا بﮍا عمده جواب دياکرتے تھے‪ ،‬انھوں نے سن رکھا تھا‬
‫کہ ابو حنيفہ نے اپنے ايک درس ميں کہا کہ جعفر بن محمد )امام صادق عليہ السالم (نے تين باتيں کہيں ہيں‪ ،‬ليکن ميں ان‬
‫ميں سے کسی بھی بات کو قابل قبول نہيں سمجھتا اوروه تين باتيں يہ ہيں‪:‬‬
‫‪١‬۔ شيطان جہنم کی آگ ميں جاليا جائے گا۔ان کی يہ بات صحيح نہيں ہے کيونکہ وه خود آگ ہے ل ٰہذاآگ اسے کيسے جال‬
‫سکتی ہے؟‬
‫‪٢‬۔ وه کہتے ہيں کہ خدا دکھائی نہيں ديتا۔جب کہ جو چيز بھی موجود ہے اسے دکھائی دينا چاہئے۔‬
‫‪٣‬۔ بندے جو کام انجام ديتے ہيں وه اپنے اختيار وارادے سے انجام ديتے ہيں ان کی يہ بات بھی سراسر ان احاديث و روايات‬
‫کے مخالف ہے جو اس بات کا اظہار کرتی ہيں کہ بندوں کے تمام کام خدا کی طرف منسوب ہيں اور اس کے حکم کے بغير‬
‫کوئی کام انجام نہينپايا۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ايک دن ابوحنيفہ بہلول کو نظر آگئے انھوں نے زمين سے ايک ڈھيالاٹھايا اور ان کی پيشانی پر مار ديا ابو حنيفہ نے ہارون‬
‫سے بہلول کی شکايت کی اور ہارون نے بہلول کو بلواليا اور ان کی سرزنش کرنے لگا تو آپ نے ابو حنيفہ کی طرف‬
‫مخاطب ہو کر کہا‪:‬‬
‫دکھاو ورنہ اس عقيده کو غلط کہو جو تم يہ کہتے ہو کہ ہر موجود چيز کا دکھائی دينا ضروری‬ ‫ٔ‬ ‫ہے‬ ‫رہا‬ ‫ہو‬ ‫‪١‬۔ تمہيں جو درد‬
‫ہے۔‬
‫‪٢‬۔ اسی طرح تمہارا يہ بھی کہنا ہے کہ کوئی چيز اپنی ہم جنس شئے کو نقصان نہيں پہنچاتی تو پھر تمہيں کيوں درد ہو رہا‬
‫ہے جب کہ تم خود مٹی سے بنے ہوئے ہو)اور ڈھيال بھی مٹی کا تھا(؟‬
‫‪٣‬۔ تم تو يہ کہتے ہو کہ بندوں کے سارے کام خدا کی طرف منسوب ہوتے ہيں تو پھر مجھ سے کيوں شکوه کرتے ہو کيونکہ‬
‫يہ ڈھيال تو خدا نے مارا ہے۔‬
‫يہ سن کر ابو حنيفہ خاموشی سے اس بزم سے نکل گئے وه سمجھ گئے کہ بہلول نے يہ ڈھيال ميرے اس عقيده کی وجہ سے‬
‫مارا تھا۔]‪[31‬‬

‫‪٣٣‬۔جناب بہلول کاوزير کو بہترين جواب‬


‫ايک دن ہارون رشيد کے درباری وزير نے بہلول سے کہا‪” :‬تم بﮍے خوش نصيب ہو تمہيں خليفہ نے سوروں اوربھيﮍيوں‬
‫کا سر پرست بنا ديا ہے“۔‬
‫بہلول نے بﮍی بے باکی سے کہا‪” :‬اب جب تو اس بات سے آگاه ہوگيا ہے توآج سے تيرے اوپر ميری اطاعت الزم ہوگئی‬
‫ہے“۔بہلول کا يہ جواب سن کر وه شرمندگی سے خاموش ہو گيا‪ ،‬اور وہاں پر موجود لوگ يہ سن کر ہنسنے لگے۔]‪[32‬‬

‫‪٣۴‬۔جبر يہ کے ايک استاد سے شيعہ عالم کا مناظره‬


‫يحيی بن خالد کے‬
‫ٰ‬ ‫ايک دن اہل سنت کے ايک بزرگ عالم اور مذہب جبر کے استاد ضرار بن ضبی ہارون رشيد کے وزير‬
‫آو جو مجھ سے بحث کر سکے۔“‬ ‫پاس آکر کہنے لگا “ميں بحث و مناظره کرنا چاہتا ہوں تم کوئی ايسا آدمی لے ٔ‬
‫يحيی‪” :‬تم کسی شيعہ عالم سے بحث کروگے؟‬ ‫ٰ‬
‫ضرار‪” :‬ہاں ميں ہر ايک سے مناظره کرنے کے لئے تيار ہوں۔“‬
‫يحيی نے ہشام بن حکم )امام جعفر صادق عليہ السالم کے شاگرد رشيد(کو يہ پيغام بھيجا ‪،‬جناب ہشام مناظره کے لئے آگئے‬ ‫ٰ‬
‫اور مناظره اس طرح شروع ہوا‪:‬‬
‫ہشام‪” :‬امامت کے سلسلہ ميں انسان کی ظاہری صالحتيں معيار ہيں يا باطنی صالحيتيں؟“‬
‫ضرار‪” :‬ہم تو ظاہری پر ہی حکم لگاتے ہيں کيونکہ کسی کے باطن کو صرف ”وحی“کے ذريعہ ہی سمجھا جاسکتا ہے۔“‬
‫بتاو کہ ابو بکر اور حضرت علی عليہ السالم ميں ظاہری اور باطنی اعتبار سے کون رسول خدا‬ ‫ہشام‪” :‬تو نے سچ کہا۔اب يہ ٔ‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زياده ساتھ رہا ‪،‬کس نے اسال م کا زياده دفاع کيا اور بﮍی بہادری سے اسالم کی راه ميں جہاد‬
‫کيا‪،‬اسالم کے دشمنوں کو نيست ونابود کيا اور ان دونوں ميں کون ہے جس کا تمام اسالمی فتوحات ميں سب سے زياده اہم‬
‫کرداررہا؟“‬
‫ضرار‪” :‬علی عليہ السالم نے بہت جہادکيا اور اسالم کی بﮍی خدمت کی ليکن ابو بکر معنوی لحاظ سے ان سے بلند تھے ۔“‬
‫ہشام‪” :‬يہ تو باطن کی باتيں کيوں کرنے لگا جبکہ ابھی تونے يہ کہا کہ باطن کی باتيں صرف وحی کے ذريعہ معلوم ہو‬
‫سکتی ہيں اور ہم نے يہ طے کيا تھا کہ ہم صرف ظاہر کی باتيں کريں گے اور تونے اس اقرار سے کہ حضرت علی عليہ‬
‫السالم نے اسالمی فتوحات ميں نماياں کردار ادا کيا ہے اس بات کا بھی اعتراف کر لياکہ وه اور دوسرے لوگوں کے مقابل‬
‫خالفت کے زياده حقدار تھے۔“‬
‫ضرار‪” :‬ہاں ظاہر اً تو يہی بات صحيح ہے ۔“‬
‫ہشام‪” :‬اگر کسی کا نيک ظاہر ‪،‬نيک باطن جيسا ہو تو کيا يہ چيز اس کے افضل اور برتر ہونے کی دليل نہيں بن سکتی ۔“‬
‫ضرار‪” :‬يقينا ً يہ چيز انسان کے افضل وبرتر ہونے کی دليل ہوگی۔“‬
‫ہشام‪” :‬کيا تمہيں اس حديث کے بارے ميں معلوم ہے کہ جس کو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے حضرت علی عليہ‬
‫السالم کی شان ميں ارشاد فرمائی اور جسے تمام اسالمی فرقوں نے قبول کيا ہے‪:‬‬
‫موسی اال ال نبی بعدی“۔‬
‫ٰ‬ ‫”انت منی بمنزلة ہارون من‬
‫موسی سے تھی سوائے اس کے کہ ميرے بعد کوئی نبی نہيں ہوگا۔“‬ ‫ٰ‬ ‫”اے علی ! تم کو مجھ سے وہی نسبت ہے جو ہارون کو‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ضرار‪” :‬ميں اس حديث کو قبول کرتا ہوں ۔“)اس بات کی طرف توجہ رہے کہ ضرار نے کہا تھا کہ کسی کا باطن صرف‬
‫وحی کے ذريعہ پہچانا جا سکتا ہے اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی تمام باتيں وحی ٰالہی سے ہوا کرتی تھيں(۔‬
‫ہشام‪” :‬کيا يہ صحيح ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی اس طرح کی تعريف اس بات کی دليل ہے کہ حضرت‬
‫علی عليہ السالم باطنی طور پر بھی ايسی ہی صالحيتيوں کے مالک تھے؟ ورنہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی‬
‫تعريف غلط ہو جائے گی۔“‬
‫ضرار‪” :‬ہاں يہ اس بات کی دليل ہے۔يقينا ً حضرت علی عليہ السالم باطنی طور پر بھی ويسی ہی صالحيتوں کے مالک رہے‬
‫ہوں گے تب ہی تو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ان کی تعريف کی ۔“‬
‫ہشام‪” :‬بس اب اس طرح خود تمہارے قول سے حضرت علی عليہ السالم کی امامت ثابت ہو گئی کيونکہ تم نے خود ہی کہا‬
‫ہے کہ باطن کی اطالع وحی کے ذريعہ ممکن ہے اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے آپ کی تعريف کی ہے اور وه‬
‫بغير وحی کے کسی کی تعريف نہيں کرسکتے ل ٰہذا حضرت علی عليہ السالم دوسرے تمام لوگوں کے مقابل زياده خالفت کے‬
‫حقدار ہوئے۔]‪[33‬‬

‫‪٣۵‬۔جناب فضال کا ابو حنيفہ سے دلچسپ مناظره‬


‫امام جعفر صادق عليہ السالم اور ابو حنيفہ کا زمانہ تھا ايک دن مسجد کو فہ ميں ابو حنيفہ درس دے رہاتھااس وقت امام‬
‫جعفر صادق عليہ السالم کے ايک شاگرد ”فضال بن حسن “اپنے ايک د وست کے ساتھ ٹہلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انھوں‬
‫نے ديکھا کہ کچھ لوگ ابو حنيفہ کے ارد گرد بيٹھے ہوئے ہيں اور وه انھيں درس دے رہے ہيں‪ ،‬فضال نے اپنے دوست سے‬
‫جاوں گا جب تک ابو حنيفہ کو مذہب تشيع کی طرف راغب نہ کر لوں۔“‬ ‫کہا‪” :‬ميں اس وقت تک يہاں سے نہيں ٔ‬
‫فضال اپنے اس دوست کے ساتھ اس جگہ پہنچے جہاں ابو حنيفہ بيٹھے درس دے رہے تھے‪ ،‬يہ بھی ان کے شاگرد وں کے‬
‫پاس بيٹھ گئے۔تھوڑی ديرکے بعد فضال نے مناظره کے طور پر اس سے چند سواالت کئے۔‬
‫فضال‪” :‬اے رہبر !ميرا ايک بھائی ہے]‪ [34‬جو مجھ سے بﮍا ہے مگر وه شيعہ ہے۔حضرت ابوبکر کی فضيلت ثابت کرنے‬
‫کے لئے ميں جو بھی دليل لے آتا ہوں وه رد کرديتا ہے ل ٰہذا ميں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے چند ايسے دالئل بتاديں جن کے‬
‫ذريعہ ميں اس پر حضرت ابوبکر ‪،‬عمراور عثمان کی فضيلت ثابت کر کے اسے اس بات کا قائل کر دوں کہ يہ تينوں‬
‫حضرت علی سے افضل وبر تر تھے ۔“‬
‫ابو حنيفہ‪” :‬تم اپنے بھائی سے کہنا کہ وه آخر کيوں حضرت علی کو حضرت ابو بکر ‪،‬عمر اور عثمان پر فضيلت ديتا ہے‬
‫جب کہ يہ تينوں حضرات ہر جگہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی خدمت ميں رہتے تھے اور آنحضرت ‪،‬حضرت‬
‫علی عليہ السالم کو جنگ ميں بھيج ديتے تھے يہ خود اس بات کی دليل ہے کہ آپ ان تينوں کو زياده چاہتے تھے اسی لئے‬
‫ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے انھيں جنگ ميں نہ بھيج کر حضرت علی عليہ السالم کو بھيج ديا کرتے تھے ۔“‬
‫فضال‪” :‬اتفاق سے يہی بات ميں نے اپنے بھائی سے کہی تھی تو اس نے جواب ديا کہ قرآن کے لحاظ سے حضرت علی‬
‫عليہ السالم چونکہ جہاد ميں شرکت کرتے تھے اس لئے وه ان تينوں سے افضل ہوئے کيونکہ قرآن مجيد ميں خدا کاخود‬
‫فرمان ہے‪:‬‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ض َل ﷲُ ال ُم َج ِاہ ِدينَ َعلَی القَا ِع ِدينَ أجْ رًا ع ِ‬
‫َظي ًما “]‪[35‬‬ ‫” َوفَ ﱠ‬
‫”خدا وند عالم نے مجاہدوں کو بيٹھنے والوں پر اجر عظيم کے ذريعہ فضيلت بخشی ہے“۔‬
‫ابو حنيفہ‪” :‬اچھا ٹھيک ہے تم اپنے بھائی سے يہ کہو کہ وه کيسے حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر سے افضل‬
‫وبرتر سمجھتا ہے جب کہ يہ دونوں آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے پہلو ميندفن ہيناورحضرت علی عليہ السالم کا‬
‫مرقد رسول سے بہت دور ہے ۔رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے پہلو ميں دفن ہونا ايک بہت بﮍا افتخار ہے يہی بات‬
‫ان کے افضل اور بر تر ہونے کے لئے کافی ہے ۔“‬
‫فضال‪” :‬اتفاق سے ميں نے بھی اپنے بھائی سے يہی دليل بيان کی تھی مگر اس نے اس کے جواب ميں کہا کہ خدا وند عالم‬
‫قرآن ميں ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫”الَتَ ْد ُخلُوا بُيُوتَ النﱠ ِب ﱢی ِٕاالﱠ أَ ْن ي ُْؤ َذنَ لَ ُک ْم“]‪[36‬‬
‫”رسول کے گھر ميں بغير ان کی اجازت کے داخل نہ ہو“۔‬
‫يہ بات واضح ہے کہ رسو ل خدا کا گھر خود ان کی ملکيت تھا اس طرح وه قبر بھی خود رسول خدا کی ملکيت تھی اور‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے انھينا س طرح کی کوئی اجازت نہيں دی تھی اور نہ ان کے ورثاء نے اس طرح کی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کوئی اجازت دی۔“‬
‫ابو حنيفہ‪” :‬اپنی بھائی سے کہو کہ عائشہ اور حفصہ دونوں کا مہر رسول پر باقی تھا‪ ،‬ان دونوں نے اس کی جگہ رسو ل‬
‫خدا کے گھر کا وه حصہ اپنے باپ کو بخش ديا۔‬
‫فضال‪” :‬اتفاق سے يہ دليل بھی ميں نے اپنے بھائی سے بيان کی تھی تو اس نے جواب ميں کہا کہ خداوند عالم قرآن ميں‬
‫ارشاد فرما تا ہے۔‬
‫ُ‬ ‫ٔ‬ ‫ﱠ‬
‫ک الالتِی آتَيْتَ اجُو َرہ ُّن“]‪[37‬‬
‫اج َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫ک از َو َ‬‫ٔ‬ ‫” يَاأَيﱡہَا النﱠبِ ﱡی ِٕانﱠا أَحْ للنَا ل َ‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫”اے نبی!ہم نے تمہارے لئے تمہاری ان ازواج کو حالل کيا ہے جن کی اجرتيں )مہر(تم نے ادا کر دی“۔‬
‫اس سے تو يہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اپنی زندگی ميں ہی ان کا مہر ادا کر ديا تھا“۔‬
‫ابو حنيفہ‪” :‬اپنے بھائی سے کہو کہ عائشہ حفصہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بيوياں تھيں انھوں نے ارث کے‬
‫طور پر ملنے والی جگہ اپنے باپ کو بخش دی لہٰذا وه وہاں دفن ہوئے“۔‬
‫فضال‪” :‬اتفاق سے ميں نے بھی يہ دليل بيان کی تھی مگر ميرے بھائی نے کہا کہ تم اہل سنت تو اس بات کا عقيده رکھتے ہو‬
‫کہ پيغمبر وفات کے بعد کوئی چيز بطور وراثت نہيں چھوڑتا اور اسی بنا پر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بيٹی‬
‫جناب فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا کو تم لوگوں نے فدک سے بھی محروم کرديا اور اس کے عالوه اگر ہم يہ تسليم بھی کر ليں‬
‫کہ خداکے نبی وفات کے وقت ارث چھوڑتے ہيں تب يہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب رسول صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا‬
‫انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی نو بيوياں تھيں۔]‪ [38‬اور وه بھی ارث کی حقدار تھيں اب وراثت کے قانون کے لحاظ سے‬
‫گھرکا آٹھواں کاحصہ ان تمام بيويوں کا حق بنتا تھا اب اگر اس حصہ کو نو بيويو ں کے درميان تقسيم کيا جائے تو ہر بيوی‬
‫کے حصے ميں ايک بالشت زمين سے زياده نہيں کچھ نہيں آئے گا ايک آدمی کی قد وقامت کی بات ہی نہيں“۔‬
‫ابو حنيفہ يہ بات سن کر حيران ہو گئے اور غصہ ميں آکر اپنے شاگردوں سے کہنے لگے‪:‬‬
‫”اسے باہر نکالو يہ خود رافضی ہے اس کا کوئی بھائی نہيں ہے“۔]‪[39‬‬

‫‪٣۶‬۔ايک شجاع عورت کا حجاج سے زبردست مناظره‬


‫عبد الملک ) اموی سلسلہ کا پانچواں خليفہ(کی طرف سے تاريخ کا بد ترين مجرم حجاج بن يوسف ثقفی عراق کا گورنر‬
‫مقررکيا گيا تھا۔اس نے جناب کميل ‪،‬قنبر ‪،‬سعيد بن جبيرکو قتل کيا تھا کيونکہ وه حضرت علی عليہ السالم سے بہت بغض‬
‫رکھتا تھا۔‬
‫اتفاق سے ايک دن ايک نہايت شجاع و دلير عورت جسے حليمہ سعديہ کی بيٹی کہا جاتا تھا اور جس کانام حره تھا حجاج کے‬
‫دربار ميں آئی يہ حضرت علی عليہ السالم کی چاہنے والی تھی۔‬
‫حجاج اور حره کے درميان ايک نہايت پر معنی اور زبردست مناظر ه ہوا جس کی تفصيل کچھ اس طرح ہے‪:‬‬
‫حجاج‪” :‬حره کيا تم حليمہ سعديہ کی بيٹی ہو؟‬
‫حره‪” :‬يہ بے ايمان شخص کی ذہانت ہے )يہ اس بات کی طر ف اشاره تھا کہ ميں حره ہوں مگر تونے بے ايما ن ہوتے‬
‫ہوئے مجھے پہچان کر اپنی ذہانت کا ثبوت ديا ہے (؟‬
‫حجاج‪” :‬تجھے خدا نے يہاں ال کر ميرے چنگل ميں پھنساديا ہے ميں نے سنا ہے کہ تو علی کو ابوبکر و عمر وعثمان سے‬
‫افضل سمجھتی ہے ؟“‬
‫حره‪” :‬تجھ سے اس سلسلہ ميں جھوٹ کہا گيا ہے کيونکہ ان تينوں کی کيا بات ميں حضرت علی عليہ السالم کو جناب‬
‫داود ‪،‬جناب سليمان عليہم السالم سے افضل سمجھتی ہوں“۔‬‫عيسی ‪،‬جناب ٔ‬
‫ٰ‬ ‫موسی ‪،‬جناب‬
‫ٰ‬ ‫آدم‪،‬جناب نوح‪،‬جناب ابراہيم ‪،‬جناب‬
‫حجاج‪” :‬تيرا برا ہو‪ ،‬تو علی کو تمام صحابہ سے بر تر جانتی ہے اور اس کے ساتھ ہی انھيں آٹھ پيغمبروں سے جن ميں سے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کو دليل سے ثابت نہ کيا تو ميں تيری گردن اڑاد‬ ‫بعض اولوالعزم بھی ہيں افضل وبرتر جانتی ہے اگر تونے اپنے اس‬
‫وں گا۔“‬
‫حره‪” :‬يہ ميں نہيں کہتی کہ ميں علی عليہ السالم کو ان پيغمبروں سے افضل وبر تر جانتی ہوں بلکہ خداوند متعال نے خود‬
‫انھيں ان تمام پر برتری عطا کی ہے قرآن مجيد جناب آدم عليہ السالم کے بارے ميں فرماتا ہے‪:‬‬
‫َصی آد ُم َربﱠہُ فَغ ٰ‬
‫َوی“]‪[40‬‬ ‫” َوع ٰ‬
‫”اور آدم اپنے رب کی نافرمانی کا نتيجہ ميں اس کی جزا سے محروم ہو گئے“۔‬
‫ليکن خدا وند متعال علی عليہ السالم ‪،‬ان کی زوجہ اور ان کے بيٹوں کے بارے ميں فرماتا ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫” َو َکانَ َس ْعيُ ُک ْم َم ْش ُکورًا“]‪[41‬‬
‫”اور تمہاری سعی و کوشش مشکور ہے“۔‬
‫حجاج‪” :‬شاباش ليکن يہ بتا کہ تونے حضرت علی عليہ السالم کو نوح و لوط عليہما السالم پر کس دليل کے ذريعہ فضيلت دی‬
‫“۔‬
‫حره‪” :‬خداوند متعال انھيں ان لوگوں سے افضل و بر تر جانتا ہے جيسا کہ فرماتا ہے‪:‬‬
‫صالِ َحي ِْن فَخَانَتَاہُ َما فَلَ ْم يُ ْغنِيَا َع ْنہُ َما ِم ْن ﷲِ َش ْيئًا‬ ‫وط َکانَتَا تَحْ تَ َع ْب َدي ِْن ِم ْن ِعبَا ِدنَا َ‬ ‫وح َواِ ْم َرأَةَ لُ ٍ‬ ‫َ‬
‫ب ﷲُ َمثَالً ِللﱠ ِذينَ َکفَرُوا اِ ْم َرأةَ نُ ٍ‬ ‫ض َر َ‬
‫” َ‬
‫اخلِينَ “]‪[42‬‬ ‫ﱠ‬ ‫ﱠ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َوقِي َل ادخالالنا َر َم َع الد ِ‬‫ْ‬
‫”خدانے کافر ہونے والے لوگوں کو نوح و لوط کی بيويوں کی مثاليں دی ہيں۔يہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے تحت تھيں‬
‫مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خيانت کی ل ٰہذا ان کا ان دونوں سے تعلق انھيں کوئی فائده نہ پہنچا سکا اور ان سے کہا گيا کہ‬
‫جاو“۔‬
‫جہنم ميں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی ٔ‬
‫ليکن علی عليہ السالم کی زوجہ ‪،‬پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بيٹی جناب فاطمہ سالم ﷲ عليہا ہيں جن کی‬
‫خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔‬
‫حجاج‪ :‬شاباش حره! ليکن يہ بتا تو کس دليل کی بنا پر ابو االنبياء حضرت ابراہيم عليہ السالم پر حضرت علی عليہ السالم کو‬
‫فضيلت ديتی ہے؟‬
‫حره‪” :‬خدا وند متعال قرآن مجيد ميں فرماتا ہے کہ جناب ابراہيم عليہ السالم نے عرض کيا‪:‬‬
‫ط َم ِئن قَ ْل ِبي“]‪[43‬‬ ‫” َربﱢ أَ ِر ِنی َک ْيفَ تُحْ ِی ْال َموْ تَی قَا َل أَ َولَ ْم تُ ْؤ ِم ْن قَا َل بَلَی َولَ ِک ْن ِليَ ْ‬
‫”ابراہيم نے کہا پالنے والے! تو مجھے يہ دکھا دے کہ تو کيسے مردوں کو زنده کرتا ہے تو خدا نے کہا کيا تمہارا اس پر‬
‫ايمان نہيں ہے تو انھوں نے کہا کيوں نہيں مگر ميں اطمينان قلب چاہتا ہوں“۔‬
‫ليکن ميرے موال علی عليہ السالم ا س حد تک يقين کے درجہ پر فائز تھے کہ آپ نے فرمايا‪:‬‬
‫”لوکشف الغطا ء ماازددت يقينا“۔‬
‫”اگر تمام پردے ميرے سامنے سے ہٹا دئے جائيں تو بھی ميرے يقين ميں کوئی اضافہ نہيں ہوگا۔“‬
‫اور اس طرح نہ پہلے کسی نے کہا تھا اور نہ اب کوئی ايسا کہہ سکتا ہے ۔“‬
‫موسی کليم ﷲ پر فضيلت ديتے ہے؟“۔‬ ‫ٰ‬ ‫حجاج‪” :‬شاباش ليکن تو کس دليل سے حضرت علی کو جناب‬
‫حره‪” :‬خداوند عالم قرآن ميں ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫”فَ َخ َر َج ِم ْنہَا خَا ِئفًا يَتَ َرقﱠبُ “ ]‪[44‬‬
‫”وه وہاں سے ڈرتے ہوئے )کسی بھی حادثہ کی(تو قع ميں )مصر(سے باہر نکلے“۔‬
‫ليکن حضرت علی عليہ السالم کسی سے نہيں ڈرے‪ ،‬شب ہجرت رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بستر پر آرام سے‬
‫سوئے اور خدا نے ان کی شان ميں يہ آيت نازل فرمائی‪:‬‬
‫ضا ِة ﷲِ “]‪[45‬‬ ‫اس َم ْن يَ ْش ِری نَ ْف َسہُ ا ْبتِغَا َء َمرْ َ‬ ‫” َو ِم ْن النﱠ ِ‬
‫”اور لوگوں ميں سے کچھ ايسے ہيں جو اپنے نفس کو ﷲ کی رضا کے لئے بيچ ديتے ہيں“۔‬
‫داود عليہ السالم پر علی کو کس دليل سے فضيلت حاصل ہے ؟“‬ ‫حجاج‪” :‬شاباش ليکن اب يہ بتا کہ ٔ‬
‫دادو عليہ السالم کے سلسلہ ميں فرماتا ہے‪:‬‬ ‫حره‪” :‬خداوند متعال جناب ٔ‬
‫ک ع َْن َس ِب ِ‬ ‫ﱠ‬ ‫ْ‬
‫ق َوالَتَتﱠ ِب ْع الہَ َوی فَي ِ‬ ‫ْ‬
‫اس ِبال َح ﱢ‬ ‫ض فَاحْ ُک ْم بَ ْينَ النﱠ ِ‬ ‫َ‬ ‫ک َخلِيفَةً فِی ْ ٔ‬ ‫” يَادَا ُوو ُد ِٕانﱠا َج َع ْلنَا َ‬
‫يل ﷲِ “]‪[46‬‬ ‫ُضل َ‬ ‫االرْ ِ‬
‫دادو! ہم نے تمہيں زمين پر خليفہ بنا يا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درميان حق سے فيصلے کرو اور اپنی خواہشات کو‬ ‫”اے ٔ‬
‫جاو گے“۔‬ ‫ٔ‬ ‫بھٹک‬ ‫سے‬ ‫خدا‬ ‫راه‬ ‫تم‬ ‫طرح‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫کرو‬ ‫نہ‬ ‫پيروی‬
‫داود کی قضاوت کس سلسلے ميں تھی؟”‬ ‫حجاج‪” :‬جناب ٔ‬
‫حره‪” :‬دو آدميوں کے بارے ميں کہ ان ميں سے ايک بھيﮍ وں کا مالک تھا اور دوسرا کسان‪ ،‬اس بھيﮍ کے مالک کی بھيﮍوں‬
‫نے اس کے کھيت ميں جاکر اس ميں کھيتی چرلی‪ ،‬اور اس کی زراعت کو تباه و برباد کرديا‪ ،‬يہ دونوں آدمی فيصلہ کے لئے‬
‫حضرت داؤد عليہ السالم کے پاس آئے اور اپنی شکايت سنائی‪ ،‬حضرت داؤد نے فرمايا‪ :‬بھيﮍکے مالک کو اپنی تمام بھيﮍوں‬
‫کو بيچ کر اس کا پيسہ کسان کو دے دينا چاہئے تاکہ وه ان پيسوں سے کھيتی کرے اور اس کا کھيت پہلے کی طرح ہو جائے‬
‫ليکن جناب سليمان نے اپنے والد سے کہا۔”آپ کو يہ فيصلہ کرنا چاہئے کہ بھيﮍوں کا مالک کسان کو دودھ اور اون دےدے‬
‫تاکہ اس کے ذريعہ اس کے نقصان کی تالفی ہوجائے“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس سلسلہ ميں خداوند عالم نے قرآن مجيد ميں ارشاد فرمايا ہے‪” :‬ففہمنا سليمان“ ]‪[47‬‬
‫” ہم نے حکم )حقيقی( سليمان کو سمجھا ديا“۔‬
‫ليکن حضرت علی عليہ السالم فرماتے ہيں‪:‬‬
‫”سلونی قبل ان تفقدونی“۔‬
‫”مجھ سے سوال کرلو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو“۔‬
‫جنگ خيبر کی فتح کے دن جب حضرت رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی خد مت ميں تشريف لے آئے تو آنحضرت‬
‫نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمايا‪:‬‬
‫”أفضلکم و أعلمکم و أقضاکم علي“۔‬
‫”تم ميں سے افضل اور سب اچھا فيصلہ کرنے والے علی ہيں“۔‬
‫بتاو کہ کس دليل سے علی جناب سليمان عليہ السالم سے افضل ہيں‘۔‬ ‫حجاج‪” :‬شاباش ليکن اب يہ ٔ‬

‫)‪(١‬حره‪” :‬قرآن ميں جنا ب سليمان کا يہ قول نقل ہوا ہے‪:‬‬


‫ال َح ٍد ِم ْن بَ ْع ِدی“]‪[48‬‬ ‫” َربﱢ ا ْغ ِفرْ ِلی َوہَبْ ِلی ُم ْلکا ً الَيَ ْنبَ ِغی ِ َٔ‬
‫” پالنے والے! مجھے بخش دے اور مجھے ايسا ملک عطا کردے جو ميرے بعد کسی کے لئے شائستہ نہ ہو“۔‬
‫ليکن ميرے موال علی عليہ السالم نے دنيا کو تين طالق دی ہے جس کے بعد آيت نازل ہوئی‪:‬‬
‫ض َوالَفَ َسادًا َو ْال َعا ِقبَةُ ِل ْل ُمتﱠ ِقينَ “ ]‪[49‬‬ ‫ک ال ﱠدا ُر ْاآل ِخ َرةُ نَجْ َعلُہَا ِللﱠ ِذينَ الَي ُِري ُدونَ ُعلُ ًّوا ِفی ْ َٔ‬ ‫” ِت ْل َ‬
‫االرْ ِ‬
‫”وه آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے ہم قرار ديتے ہيں جو زمين پر بلندی اور فساد کو دوست نہيں رکھتے اور عاقبت تو‬
‫متقين کے لئے ہے“۔‬
‫عيسی عليہ السالم سے افضل و برتر جانتی ہے؟“‬ ‫ٰ‬ ‫حجاج‪” :‬شاباش اے حره اب يہ بتا کہ تو کيوں حضرت علی کو جنا ب‬
‫حره‪” :‬خداوند عالم قرآن مجيد ميں ارشاد فرماتا‪:‬‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ُ‬
‫ک َما يَکونُ لِی أ ْن أقو َل َما لَي َ‬
‫ْس لِی‬ ‫ُ‬ ‫ُون ﷲِ قَا َل ُس ْب َحانَ َ‬ ‫ُ‬
‫اس ات ِخذونِی َوأ ﱢمی ِٕالَہَي ِْن ِم ْن د ِ‬ ‫ﱠ‬ ‫” َو ِٕا ْذ قَا َل ﷲُ يَا ِعي َسی ا ْبنَ َمرْ يَ َم أَأَنتَ قُ ْلتَ لِلنﱠ ِ‬
‫ت لَہُ ْم ِٕاالﱠ َما أَ َمرْ تَنِی بِ ِہ“]‪[50‬‬ ‫ب ‪َ #‬ما قُ ْل ُ‬ ‫ک أَ ْنتَ َعالﱠ ُم ْال ُغيُو ِ‬ ‫ک ِٕانﱠ َ‬‫نت قُ ْلتُہُ فَقَ ْد َعلِ ْمتَہُ تَ ْعلَ ُم َما فِی نَ ْف ِسی َوالَأَ ْعلَ ُم َما فِی نَ ْف ِس َ‬
‫ق ِٕا ْن ُک ُ‬
‫بِ َح ﱟ‬
‫عيسی بن مريم ! کيا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ ﷲ کو چھوڑ کر مجھے اور‬ ‫ٰ‬ ‫”اور جب )روز قيامت( خدا کہے گا‪ :‬اے‬
‫ميری ماں کو خدا قرار دو‪ ،‬تو وه کہيں گے تو پاک وپاکيزه ہے ميں کيسے ايسی بات کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہيں‬
‫اگر ميں نے کہا ہوتا تو تو ضرور جان ليتا تو جانتا ہے ميرے نفس ميں کيا ہے ليکن ميں نہيں جانتا کہ تيرے نفس ميں کيا ہے‬
‫تو عالم الغيب ہے ميں نے ان سے صرف وہی کيا ہے جو تونے مجھے حکم ديا تھا“۔‬
‫اسی طرح جناب عيسی ٰ کی عباد ت کرنے والوں کا فيصلہ قيامت کے دن کے لئے ٹال ديا گيا مگر نصيروں نے حضرت‬
‫علی عليہ السالم کی عبادت شروع کر دی تو آپ نے انھيں فوراً قتل کرديا اور ان کے عذاب و فيصلہ کو قيامت کے لئے نہيں‬
‫چھوڑا ۔“‬
‫دعووں ميں‬
‫ٔ‬ ‫حجاج‪” :‬اے حره! تو قابل تعريف ہے تو نے اپنے جواب ميں نہايت اچھے دالئل پيش کئے اگر تو آج اپنے تمام‬
‫سچی ثابت نہ ہوتی تو ميں تيری گردن اڑاديتا ۔“‬
‫اس کے بعد حجاج نے حره کو انعام ديکر باعزت رخصت کرديا۔]‪[51‬‬

‫‪٣٧‬۔ ابو الہذيل سے ايک گمنام شخص کا عجيب مناظره‬


‫ابو الہذيل اہل سنت کا ايک بہت ہی مشہور ومعروف عراقی عالم کہتا ہے کہ ميں ايک سفر کے دوران جب شہر ”رقہ“)شام‬
‫کا ايک شہر(ميں وارد ہوا تو وہاں ميں نے سنا کہ ايک ديوانہ بہت ہی خوش گفتار شخص ”معبدز کی“ ميں رہتا ہے۔]‪[52‬‬
‫ميں جب اس کے ديدار کے لئے معبد گيا تو ميں نے وہاں ايک نہايت خوبصورت اور چھی قدو قامت کا ايک بوڑھا شخص‬
‫بوريہ پر بيٹھا ہوا ديکھا جو اپنے بالوں اور ڈاڑھی ميں کنگھی کر رہا تھا ميں نے داخل ہوتے ہی اسے سالم کيا اس نے سالم‬
‫کا جواب ديا اس کے بعد ہمارے درميان اس طرح گفتگو ہوئی۔‬
‫گمنام شخص‪” :‬تم کہاں سے تعلق رکھتے ہو؟‬
‫ابو الہذيل‪” :‬عراق کا رہنے واال ہوں۔“‬
‫گمنام شخص‪” :‬اچھا يعنی تم بہت ماہر ہو اور زندگی کے آداب واطوار سے بخوبی آشنا ہو ااچھا يہ ٔ‬
‫بتاو کہ تم عراق کے کس‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫عالقہ سے تعلق رکھتے ہو؟“۔‬
‫ابو الہذيل‪” :‬بصره سے“۔‬
‫گمنام شخص‪” :‬بس علم وعمل سے آشنا ہو‪ ،‬تمہار نام کيا ہے ؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬مجھے ابو الہذيل عالف کہتے ہيں“۔‬
‫گمنام شخص‪” :‬وہی جو بہت ہی مشہور کالمی ہے ؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬ہاں“۔‬
‫يہ سن کر اس نے ايک فرش کی طرف اشاره کيا اور تھوڑی دير بات چيت کرنے کے بعد اس نے مجھ سے سوال کيا‪:‬‬
‫”امامت کے بارے ميں تيرا کيا نظريہ ہے؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬تيری مراد کون سی امامت ہے؟“‬
‫گمنام شخص‪” :‬ميری مرا د يہ ہے کہ تونے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ان کے جانشين کے طور‬
‫پر کسے دوسرے لوگوں پر ترجيح ديتے ہوئے خليفہ تسليم کيا ہے ؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬اسی کو جسے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ترجيح دی“۔‬
‫گمنام شخص‪” :‬وه کون ہے ؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬وه ابو بکر ہيں“۔‬
‫گمنام شخص‪” :‬تم نے انھيں کيوں مقدم جانا؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬کيونکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرماياہے‪ ” :‬لوگوں ميں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو‬
‫اور اسے اپنا رہبر سمجھو“۔تمام لوگ ابو بکر کو مقدم سمجھنے کے لئے راضی ہوئے ہيں“۔‬
‫گمنام شخص‪” :‬اے ابو الہذيل ! يہاں تونے خطا کی ہے۔کيونکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرماياہے‪” :‬اپنے‬
‫ميں سب سے اچھے شخص کو مقدم رکھو اور اسی کو اپنا رہبر جانو“‪ ،‬ميرا اعتراض يہ ہے کہ خود ابو بکر نے منبر سے‬
‫کہا‪” :‬وليتکم و لست بخيرکم‪،‬ميں تم ميں سب سے بہتر نہيں ہوں“۔اگر لوگ ابو بکر کے جھوٹ کو بہتر سمجھتے ہيں اور‬
‫انھيں اپنا رہبر بناتے ہيں تو گويا سب کے سب رسول اسالم کے قول کے مخالفت کر رہے ہيں اور اگر خود ابو بکر جھوٹ‬
‫کہتے ہيں کہ ”ميں تم ميں سب سے بہتر نہيں ہوں“‪ ،‬تو جھوٹ بولنے والے کے لئے مناسب نہيں کہ وه منبر رسول پر جائے‬
‫اور تم نے جو يہ کہا تھا کہ ابو بکر کی رہبری پر سب راضی تھے تو يہ اس وقت درست ہوگا جب انصار ومہاجرين نے‬
‫ايک دوسرے سے يہ نہ کہا ہوتا کہ “ايک امير ہمارے قبيلے سے ايک تمہارے قبيلے سے“ ليکن مہاجرين کے درميان زبير‬
‫نے کہا کہ ميں علی عليہ السالم کے عالوه کسی اور کے ہا تھ پر بيعت نہيں کروں گا ان کی تلوار کو توڑ ديا گيا اور ابو‬
‫سفيان نے حضرت علی عليہ السالم کے پا س آکر کہا ”اگر آپ عليہ السالم چاہيں تو مدينے کی گليوں کو پياده اور سوار‬
‫فوجيوں سے بھر دوں“۔جناب سلمان نے بھی باہر آکر کہا ”انھوں نے کيا اور نہيں بھی کيا انھيں معلوم ہی نہيں کہ کيا کيا“۔‬
‫ابوبکر کی بيعت کے سلسلہ ميں خالف اصول کام ہوا ‪،‬اسی طرح جناب مقداد اور ابوذر نے بھی اعتراض کيا ان سب سے يہ‬
‫تو ثابت ہوتا ہے کہ سب لوگ ابو بکر کی خالفت سے راضی نہيں تھے۔‬
‫اے ابو الہذيل! ميں تجھ سے چند سواالت کرنا چاہتاہوں تو مجھے اس کا جواب دے“۔‬
‫‪١‬۔مجھے بتا کيا يہ درست نہيں ہے کہ ابو بکر نے باالئے منبر يہ اعالن کيا‪:‬‬
‫”ان لي شيطانا ً يعترينی‪ ،‬فاذا رائيتمونی مغبضا ً فاحذرونی“۔‬
‫”ميرے لئے ايک شيطان ہے جو مجھے بہکاديا کرتا ہے ل ٰہذا ميں غصہ ميں رہا کروں تو مجھ سے دور ہو جايا کرو“۔‬
‫وه در اصل يہ کہنا چاہتے تھے کہ” ميں پاگل ہوں“۔ل ٰہذا تم لوگوننے آخر کيوں ايسے شخص کو اپنا رہبر معين کر ليا؟“‬
‫‪٢‬۔تويہ بتا کہ جو شخص اس بات کا معتقد ہو کہ رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے کسی کواپنا جانشين نہيں بنا يا مگر‬
‫ابو بکر نے عمر کو اپنا جانشين معين کيا جب کہ اس کے بعد عمر نے اپنا جانشين کسی کو نہيں بنايا کيا اس کے اعتقاد ميں‬
‫ايک طرح کا تناقض نہيں پايا جاتا۔تيرے پاس اس کا کيا جواب ہے؟‬
‫شوری تشکيل دی تو يہ کيوں کہا کہ يہ چھ کے چھ جنتی ہيں اور اگر‬ ‫ٰ‬ ‫‪٣‬۔مجھے يہ بتا جب عمر نے اپنی خالفت کے بعد ايک‬
‫ان ميں سے دوافراد چار کی مخالفت کريں تو انھيں قتل کر دو اور اگر تين تين افراد آپس ميں ايک دوسرے کی مخالفت کريں‬
‫تو جس طرف عبد الرحمن بن عوف رہے اس گروه کو قتل کردينا۔ ذرا يہ بتا کہ يہ کس طرح صحيح ہوگا اور کہاں کی ديانت‬
‫داری ہوگی کہ اہل بہشت کو قتل کرنے کا حکم صادر کيا جائے ؟‬
‫‪۴‬۔تو يہ بھی بتا دے کہ ابن عباس اور عمر کی مالقات اور ان کے درميان ہونے والی گفتگو کو تو کس کے عقيده کے مطابق‬
‫سمجھتا ہے ؟‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫جب عمر بن خطاب زخمی ہونے کی وجہ سے بستر پر تھے اور عبد ﷲ ابن عباس ان کے گھر گئے تو ديکھا کہ وه بستر پر‬
‫تﮍپ رہے ہيں ‪ ،‬ابن عباس نے پوچھا‪:‬کيوں تﮍپ رہے ہو؟تو عمر نے کہا“۔ميں اپنی تکليف کی وجہ سے نہيں تﮍپ رہا ہوں‬
‫بلکہ اس لئے تﮍپ رہا ہوں کہ ميرے بعد رہبری نہ جانے کس کے ہاتھوں ميں ہوگی۔ اس کے بعد ابن عباس اور عمر کے‬
‫درميان اس طرح گفتگو ہوئی۔‬
‫ابن عباس‪” :‬طلحہ بن عبيد ﷲ کو لوگوں کا رہبر بنا دو“۔‬
‫عمر‪” :‬وه سخت مزاج ہے‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اس کے بارے ميں ايسا ہی فرمايا کرتے تھے ‪،‬ميں اس‬
‫طرح کے تند خو شخص کے ہاتھ ميں رہبری کی مہار نہيں دينا چاہتا“۔‬
‫ابن عباس‪ :‬زبير بن عوام کو رہبر بنا دو“۔‬
‫ُ‬
‫عمر‪ :‬وه کنجوس آدمی ہے ميں نے خود اسے ديکھا ہے وه اپنی بيوی کی مزدوری جو اس کے اون بننے کی تھی اس کے‬
‫بارے ميں بﮍی سختی سے پيش آتا تھا‪ ،‬ميں کنجوس کے ہاتھ ميں رہبری نہيں دے سکتا“۔‬
‫ابن عباس‪” :‬سعد وقاص کو رہبر بنادو“۔‬
‫عمر‪” :‬وه تير و تلوار اور گھوڑوں سے کام رکھتا ہے‪ ،‬ايسے افراد رہبری کے لئے مناسب نہيں ہوتے“۔‬
‫ابن عباس‪” :‬عبد الرحمن بن عوف کو کيوں نہيں رہبر بنا ديتے ؟“‬
‫عمر‪” :‬وه اپنے گھر کو تو چال نہيں سکتا“۔‬
‫ابن عباس‪” :‬اپنے بيٹے عبد ﷲ کو بنا دو“۔‬
‫عمر‪” :‬نہيں خدا کی قسم نہيں۔جو شخص اپنی بيوی کو طالق نہيں دے سکتا اس کے حوالہ ميں يہ رہبری نہيں کر سکتا“۔‬
‫ابن عباس‪” :‬عثما ن کو رہبر بنا دو“۔‬
‫عمر‪” :‬خدا کی قسم )تين بار کہا(اگر ميں عثمان کو رہبر بنا دوں گا تو اس کا مطلب يہ ہوگا کہ ميں نے ”طائفہ معيط“)بنی‬
‫اميہ کی ايک شق (کو مسلمانوں کی گردن پر سوار کر ديا جس سے مجھے يہ بھی خطره ہے کہ لوگ کہيں عثمان کو قتل کر‬
‫ڈاليں“۔‬
‫ابن عباس کہتے ہيں‪” :‬اس کے بعد ميں خاموش ہو گيا اور چونکہ حضرت علی عليہ السالم اور عمر کے درميان عداوت تھی‬
‫اس لئے ميں نے ان کا نام نہيں ليا ليکن عمر نے خود مجھ سے کہا‪” :‬اے ابن عباس ! اپنے دوست کانام لو“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬تو علی کو خليفہ بنادو“۔‬
‫عمر‪ :‬نے کہا‪ :‬خدا کی قسم! ميں صرف اس وجہ سے پريشان ہوں کہ ميں نے حق کو حقدار سے چھين ليا ہے۔‬
‫می‪ ،‬و ان يطيعوا يدخلہم الجنة“۔‬‫”و ﷲ لئن وليتہ ليحملنہم علی المحجة العظ ٰ‬
‫خدا کی قسم! اگر ميں علی عليہ السالم کو لوگوں کا رہبر بنا دوں تو وه يقينا لوگوں کو شاہراه حق وہدايت تک پہنچا ديں گے ‪،‬‬
‫اور اگر لوگ ان کی پيروی کريں گے تو وه انھيں جنت ميں داخل کرديں گے“۔‬
‫ٰ‬
‫عمر نے يہ سب کچھ کہا ‪ ،‬مگر پھر بھی اپنے بعد خالفت کے مسئلہ کو چھ نفری شوری کے حوالہ کر ديا۔‬
‫ابو الہذيل کہتا ہے‪” :‬جب وه گمنام شخص يہاں تک پہنچا تو اس کی حالت غير ہونے لگی اور وه ہوش و حواس سے بيگانہ‬
‫نظر آنے لگا‪) ،‬تقيہ کی وجہ سے خود کو ديوانہ بناليا(‪ ،‬اس کا پورا واقعہ ميں نے ساتويں اموی خليفہ مامون سے بيان کيا ‪،‬‬
‫اس نے اس شخص کو بلوا کر اس کا عالج کر ايا اور اسے اپنا نديم خاص قرار ديا ‪ ،‬اور وه اس کی منطقی بات کی وجہ سے‬
‫شيعہ ہو گيا۔]‪[53‬‬

‫‪٣٨‬۔مامو ن کا علماء سے مناظره‬


‫اہل سنت کے عظيم علماء کے لئے ايک نشست کا اہتمام کيا گيا جس ميں مامون )عباسی دور کا ساتواں خليفہ( صدر کی‬
‫حيثيت سے بيٹھا ہوا تھا اس بزم ميں ايک بہت ہی طويل مناظره ہوا جس کا ايک حصہ ہم پيش کرتے ہيں۔‬
‫اہل سنت کے ايک عالم نے کہا‪” :‬روايت ميں ملتا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ابو بکر اور عمر کی شان‬
‫ميں فرمايا‪:‬‬
‫”ابوبکر و عمر سيد ا کھول اہل الجنة“۔‬
‫”ابو بکر اور عمر جنت کے بوڑھوں کے سردار ہيں۔‬
‫مامون نے کہا‪” :‬يہ حديث غلط ہے۔کيونکہ جنت ميں بوڑھوں کا وجود ہی نہيں ہے کيونکہ روايت ميں ملتا ہے کہ ايک دن‬
‫ايک بوڑھی عورت رسول اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی خدمت اقدس ميں حاضر ہوئی تو آپ نے فرمايا‪” :‬بوڑھی‬
‫عورتيں جنت ميں نہيں جائيں گے“۔بوڑھی عورت گريہ وزاری کرنے لگی تو آپ نے فرمايا‪” :‬خداوند متعال قرآن مجيد ميں‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫فرماتا ہے‪:‬‬
‫” ِٕانﱠا أَن َش ْأنَاہ ﱠُن ِٕانشَا ًء فَ َج َع ْلنَاہ ﱠُن أ ْب َکارًا ُع ُربًا أ ْت َرابًا“]‪[54‬‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫”بے شک ہم نے انھيں بہترين طريقہ سے خلق کيا اور ان سب کو باکره قرا رديا وه ايسی بيوياں ہوں گی جو اپنے شوہروں‬
‫سے محبت کرتی ہوں گی خوش گفتار اور ان کی ہم سن سال ہوں گی“۔‬
‫اگر تمہارے مطابق ابوبکر و عمر جوان ہوں گے تو جنت ميں جائيں گے۔تو کس طرح تم کہتے ہوکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫”ان الحسن والحسين سيدا شباب اہل الجنة من االولين واالخرين وابوھما خير منھما“۔]‪[55‬‬
‫”حسن اور حسين عليہما السالم جنت کے اول وآخر کے جوانوں کے سردار ہيں اور ان کے والد علی بن ابی طالب عليہما‬
‫السالم کا مقام ان سے باالو بر تر ہے“۔‬

‫‪٣٩‬۔ حديث رسول کے سلسلہ ميں بيٹے کے اعتراض پر ابو دُلف کا جواب‬
‫عيسی عجلی جو”ابو دلف“کے نام سے مشہور تھا يہ نہايت باہمت ‪،‬سخی ‪،‬کشاده قلب‪،‬عظيم شاعر‪،‬اپنے خاندان کا‬ ‫ٰ‬ ‫قاسم بن‬
‫سربراه اور محب علی ابن ابی طالب عليہما السالم تھا۔اس کی وفات ‪ ٢٢٠‬ھ ق کوہوئی۔‬
‫ابو دلف کا ايک بيٹا تھا جس کانام ”دلف“تھا يہ بيٹا بالکل اپنے باپ کے بر عکس بہت ہی بد بخت اور بد زبان تھا۔‬
‫ايک روز اس کے بيٹے دلف نے اپنے دوستوں کے درميان علی عليہ السالم کی محبت و عداوت کے سلسلہ ميں بحث چھيﮍ‬
‫دی يہ بحث يہاں تک پہنچی کہ اس کے ايک دوست نے کہا کہ پيغمبر اسالم سے روايت ہے‪:‬‬
‫مومن تقی وال يبغضک االول ُد زنيﱠ ٍة أوحيضة“‬‫”يا علی ال يحبک اال ٔ‬
‫”اے علی عليہ السالم ! تم سے صرف متقی مومن محبت کرتا ہے اور تم سے وہی دشمنی و عداوت رکھتا ہے جو زنا زاده ہو‬
‫يا جس کا نطفہ حالت حيض ميں منعقد ہوا ہو“۔‬
‫دلف‪،‬جو ان تما چيزوں کا منکر تھا اس نے دوست سے کہا ميرے باپ ابو دلف کے بارے ميں تمہارا کيا نظريہ ہے ؟آيا کوئی‬
‫شخص اس بات کی جرائت کر سکتا ہے کہ ان کی بيوی سے زنا کرے“۔‬
‫اس کے دوستوں نے کہا‪” :‬نہيں ہر گز نہيں۔ابو دلف کے بارے ميں ايسا سوچنا بھی غلط ہے“۔‬
‫دلف نے کہا‪” :‬خدا کی قسم ميں علی عليہ السالم سے شديد دشمنی رکھتا ہوں )جب کہ ميں نہ ولد الزنا ہوں اور نہ ولد حيض(‬
‫اسی وقت ابو دلف گھر سے باہر نکل رہا تھا ان کی نظر اپنے بيٹے پر پﮍی اور ديکھا کہ وه چند لوگوں سے گفتگو ميں‬
‫مصروف ہے جب ابو دلف موضوع بحث سے آگا ه ہو ا تو اس نے کہا۔”خدا کی قسم !دلف زنا زاده بھی ہے اور ولد حيض‬
‫بھی۔کيونکہ ميں ايک روز بخار ميں مبتال تھا اور اپنے بھائی کے گھر جا کر سو گيا تھا ديکھا کہ ايک کنيز گھر ميں وارد‬
‫ہوئی نفس اماره مجھے اس کی طرف کھينچ کر لے گيا تو اس نے کہا‪:‬‬
‫”ميں اس وقت حالت حيض ميں ہوں“۔‬
‫ميں نے جماع کے لئے اس کو مجبور کيا نتيجہ ميں وه حاملہ ہو گئی جس سے دلف پيدا ہوا‪ ،‬اس طرح يہ ولد الزنابھی ہے‬
‫اور ولد حيض بھی۔]‪[56‬‬
‫تمام دوستوں نے يہ سمجھ ليا کہ علی عليہ السالم کی دشمنی دلف کے نطفہ کے وقت سے شروع ہوئی جو آج جﮍ پکﮍ گئی‪،‬‬
‫جب بنيا د ہی غلط تھی تو عمارت کيوں نہ غلط ہوتی۔‬

‫‪۴٠‬۔ ايک غيرت مند جوان کا ابو ہريره سے دندان شکن مناظره‬
‫معاويہ نے پيسہ کے ذريعہ کچھ جھوٹے صحابہ اور تابعين کو خريد رکھا تھا تاکہ وه علی عليہ السالم کے خالف حديث‬
‫گﮍھيں ان اصحاب ميں سے ابو ہريره ‪،‬عمر وعاص‪،‬مغيره بن شعبہ ‪ ،‬اور تابعين سے عروه بن زبير وغيره شامل تھے۔‬
‫ابو ہريره حضرت علی عليہ السالم کی شہادت کے بعد کوفہ آيا اور عجيب مکرو فريب سے اس نے علی عليہ السالم کے‬
‫بارے ميں نامناسب باتيں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے منسوب کرديں۔‬
‫راتوں ميں وه” با ب الکنده “مسجد کوفہ کے پاس آکر بيٹھ جا تا تھااور لوگوں کو اپنے مکر و فريب سے منحرف کرتا رہتا‬
‫تھا۔‬
‫ايک روز ايک غيور اور دانشور جوان نے اس کے اس حيلہ ميں شرکت کی ‪،‬تھوڑی دير تک وه ابو ہريره کی بيہوده باتيں‬
‫سنتا رہا اس کے بعد اس نے اس سے مخاطب ہو کر کہا‪“:‬تجھے خدا کی قسم‪ ،‬کيا تونے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫وسلم کوحضرت علی عليہ السالم کے بارے ميں يہ دعا کرتے ہوئے نہيں سنا ہے‪:‬‬
‫”اللھم وال من وااله وعاد من عاداه“۔‬
‫خدا يا !”تو اسے دوست رکھ جو علی عليہ السالم کو دوست رکھتا ہو اور اسے دشمن رکھ جو علی عليہ السالم کو دشمن‬
‫رکھتا ہو“۔‬
‫ابو ہريره نے جب يہ ديکھا کہ وه اس واضح حديث کی ترديد نہيں کر سکتا ‪ ،‬تو کہا‪” :‬اللھم نعم“ خدا يا!ميں تجھے شاہد‬
‫وناظر جانتا ہوں ‪،‬ميں نے يہ سنا ہے۔ غيور نوجوان نے کہا‪” :‬ميں خدا کو گواه بناتا ہوں کہ تو دشمن علی کو دوست رکھتا‬
‫ہے اور دوست علی کو دشمن رکھتا ہے ‪،‬اور رسول خد ا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی لعنت کا مستحق ہے“‪ ،‬اس کے بعد يہ‬
‫نواجوا ن بﮍی متانت سے وہاں سے اٹھ کر چال گيا۔]‪[57‬‬

‫‪۴١‬۔ ناروا تہمتوں کا جواب‬


‫ايک دوست کاکہنا ہے کہ ميں سعودی عرب ميں تھا وہاں کی ايک مسجد ميں ايک ادھيﮍ عمر کا شخص ميرے پاس آياجس‬
‫کو ديکھ کر ميں سمجھ گيا کہ يہ شام کا رہنے واال ہے اور اس نے بھی مجھے جان ليا کہ ميں شيعہ اثنا عشری ہوں۔‬
‫چند سوال و جواب کے بعد اس نے کہا‪” :‬تم شيعہ لوگ نماز کے آخر ميں تين مرتبہ کيوں ”خان االمين ‪،‬خان االمين ‪،‬خان‬
‫االمين “)جبرئيل نے خيانت کی( کہتے ہو؟“‬
‫يہ بات سن کر ميں پريشان ہو گيا اور ميں نے اس سے کہا کہ مجھے دو رکعت نماز پﮍھنے کی اجازت دو اور تم يہ اچھی‬
‫طرح ديکھو کہ مينکس طرح نماز پﮍھتا ہوں۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬ٹھيک ہے تم نماز پﮍھو‪ ،‬ميں کھﮍا ہوں۔ميں دو رکعت نماز آخر ی تين مستحبی تکبيروں کے ساتھ بجااليا ‪،‬اس‬
‫کے بعد اس کا نظريہ معلوم کيا تو اس نے کہا‪” :‬تم نے تو ايک ايرانی اور عجم ہوتے ہوئے بھی ہم عربوں سے اچھی نماز‬
‫پﮍھی ہے ليکن ”خان االمين ‪،‬خان االمين ‪،‬خان االمين“ کيوں نہيں کيا ؟“‬
‫ميں نے کہا‪” :‬يہ چيزيں اسالم دشمن طاقتوں کی طرف سے تم جيسے ساده لوگوں کے دلوں ميں ڈالی گئی ہيں اور يہ تہمت‬
‫ہمارے دشمنوں کی طرف سے لگائی گئی ہے تاکہ مسلمانوں کے درميان ہميشہ اختالف رہے“۔‬
‫وضاحت کے طور پر‪” :‬خان االمين “سے ان کا مطلب يہ ہے کہ العياذ با شيعہ اس بات کے معتقد ہيں کہ فرشتہ وحی‬
‫جبرئيل امين کو علی عليہ السالم کے پاس قرآن النا چاہتے تھا ليکن انھوں نے دھوکہ ديا اور آتے آتے راستہ بدل ديا اور‬
‫قرآن پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی خدمت اقدس ميں لے آئے اور قرآن آپ کے حوالہ کر ديا۔اسی وجہ سے شيعہ‬
‫حضرات نماز کے بعد تين مرتبہ ”خان االمين“ )جبرئيل نے خيانت کی (کہتے ہيں۔‬
‫کتنی بے انصافی ہے ؟!ارے کون شيعہ ہے جو اس طرح کا عقيده رکھتا ہے ؟سچ مچ اگر دنيا کے مسلمان شيعوں کو )جو‬
‫مسلمانوں کا ايک اٹوٹ حصہ ہے(اس عقيده سے پہچاننے لگيں تو کيا وه کافر کہنے کا حق نہيں رکھتے ہيں ؟!]‪[58‬‬
‫اسی طرح کی دوسری تہمت يہ ہے کہ ہمارے استاد کہتے ہيں کہ حجاز کے ايک درباری مالنے اپنے خطبہ ميں اس طرح‬
‫کہا‪:‬‬
‫”اگرشيعہ اتحاد کی دعوت ديں تو ان کے قريب نہ جانا وه ہم سے کسی بھی چيز ميں ايک نظريہ نہيں رکھتے‪،‬نہ توحيد کے‬
‫بارے ميں‪ ،‬نہ صفات خدا‪ ،‬نہ قرآن کے بارے ميں اور نہ دوسرے امور ميں وه ہمارے اور عالم اسالم کے لئے بہت ہی‬
‫خطرناک ہيں۔۔۔وغيره وغيره ۔۔۔اس نے يہاں تک کہا کہ شيعہ اس بات کے معتقد ہيں کہ خدا نہ عالم ہے نہ سميع ہے نہ بصير‬
‫بلکہ يہ تمام صفات وه اپنے امام سے منسوب کرتے ہيں اور جو قرآن ہمارے پاس ہے وه لوگ اسے قبول نہيں کرتے ۔۔۔اس‬
‫ٰ‬
‫دعوی کيا تھا کہ يہ تمام باتيں اس نے شيعی کتب سے کہی ہيں !!‬ ‫سے زياده تعجب خيز بات تو يہ تھی کہ اس مال نے‬
‫اس زر خريد مال ّسے کہنا چاہئے “اگر تو غرض پر ست نہيں ہے تو ذرا انصاف سے فيصلے کر۔شيعوں کی حقيقی کتابيں‬
‫ہر جگہ دستياب ہيں اور شيعوں کا قرآن بھی الکھوں لوگوں کے پاس موجود ہے اور تفاسير علماء شيعہ بھی لوگوں کے ہے‬
‫تمہارے لئے مناسب ہے کہ ايران کا ايک سفر کر و اورشيعوں کے حوزہائے علميہ کو قريب سے ديکھ لو تب تمہيں معلوم‬
‫ہوگا کہ وه تمہاری بيہوده تہمتيں کتنی بے بنياد ہيں۔‬

‫‪۴٢‬۔دالئل کے مقابل ايک وہابی عالم کی الچاری‬


‫ايک عالم دين فرماتے ہيں کہ ميں مدينہ ميں تھا‪ ،‬مسجد نبی ميں رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمقبر منورکے پاس‬
‫کھﮍاہوا تھاکہ ناگاه ايک ايرانی شيعہ آيا اور مرقد رسول اکرم کے درو ديوار کا بوسہ دينے لگا۔‬
‫مسجد کا امام جماعت جو ايک وہابی عالم تھا اس نے ايرانی کو بوسہ ديتے ديکھ کر چالنا شروع کيا ”کيوں ان بے شعور‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫پتھر اور کھﮍکی کا بوسہ ديتا ہے اور شرک کا مرتکب ہو تا ہے‪ ،‬يہ ديوار پتھر کی اور کھﮍکی لوہے کی ہے‪ ،‬کيوں بے‬
‫شعور پتھر اور کھﮍکی کا بوسہ ليتا ہے؟“]‪[59‬‬
‫اس وہابی اما م جماعت کی چيخ سن کر ايرانی شيعہ کے لئے ميرے دل ميں محبت پيدا ہوئی ميں نے امام جماعت کے‬
‫سامنے جاکر اس سے کہا‪” :‬درو ديوار کا بوسہ دينا اس بات کی عالمت ہے کہ ہم رسول اکرم سے محبت کرتے ہيں جس‬
‫طرح ايک باپ اپنے چھوٹے بچہ کو محبت کی وجہ سے اس کا بوسہ ديتا ہے )اس کا م ميں کسی بھی طرح کا کوئی شرک‬
‫نہيں ہے(‬
‫اس نے کہا‪” :‬نہ يہ شرک ہے“۔‬
‫ميں نے اس سے کہا‪” :‬آيا قرآن ميں سوره يوسف کی ‪ ٩۶‬ويں آيت پﮍھی ہے جس ميں خداوند عالم فرماتا ہے‪:‬‬
‫صيرًا“‬‫” فَلَ ﱠما أَ ْن َجا َء ْالبَ ِشي ُر أَ ْلقَاهُ َعلَی َوجْ ِہ ِہ فَارْ تَ ﱠد بَ ِ‬
‫”پس جب بشير )يوسف کی زندگی کی بشارت لے کر يعقوب کے پاس(آيا اور اس )قميص(کوان کے چہرے پر ڈال ديا گيا تو‬
‫ان کی آنکھوں کی بينائی لوٹ آئی“۔‬
‫تم سے ميرا سوال يہ ہے کہ يہ پيرا ہن تو ايک کپﮍا تھا اس کپﮍے نے کس طرح جنا ب يعقوب عليہ السالم کی بينائی عطا‬
‫کی‪ ،‬آيا اس کے عالوه کوئی اوربات ہے کہ يہ کپﮍا جنا ب يوسف عليہ السالم کے پاس رہنے سے ان خصوصيتوں کا مالک‬
‫ہو گيا تھا؟‬
‫وہابی امام جماعت ميرے اس سوال کے جواب ميں بے بس ہو گيا اور کوئی جواب نہ دے سکا۔‬
‫سوره يوسف کی ‪ ٩۴‬ويں آيت ميں بھی آيا ہے۔‬
‫جس وقت قافلہ سر زمين مصر سے جدا ہوا )اور کنعان کی طرف روانہ ہوا(تو يعقوب عليہ السالم )کنعان مصر سے‬
‫تقريبا ً‪ ٨٠‬فرسخ پر واقع ہے (نے کہا‪” :‬انی الجد ريح يوسف“ ميں بوئے يوسف سونگھ رہا ہوں“۔‬
‫پتہ چال اوليا عليہم السالم معنوی طاقت کے مالک ہوتے ہيں اور ان کی اس نامرئی طاقت سے بہره مند ہونا نہ صرف يہ کہ‬
‫شرک نہيں بلکہ عين توحيد ہے کيونکہ ايسے آثار ان کے پاک اور منزه عقيده توحيد سے ہی وجود ميں آئے ہيں۔‬
‫وضاحت‪ :‬قبور اولياعليہم السالم پر ہم دل کی گہرائی سے ان سے اپنا رشتہ جوڑتے ہيں اور انھيں ہم خانہ خدا کے دروازے‬
‫قرار ديتے ہيں کيونکہ ہماری زبان اس چيز کی صالحيت نہيں رکھتی کہ بغير کسی وسيلہ کے خدا سے رابطہ پيدا کر سکيں۔‬
‫اس لئے ہم انھيں اپنے اورخدا کے درميان واسطہ قرا رديتے ہيں۔‬
‫جيسا کہ سوره يوسف کی آيت ‪ ٩٧‬ميں آيا ہے‪:‬‬
‫” قَالُوا يَاأَبَانَا ا ْستَ ْغفِرْ لَنَا ُذنُوبَنَا ِٕانﱠا ُکنﱠا خ ِ‬
‫َاطئِينَ “‬
‫” انھوں نے )يعنی برادران يوسف نے(کہا اے بابا! آپ ہمارے گناہوں کے لئے استغفار کريں بے شک ہم گنہگار تھے“۔‬
‫اس طرح اولياء عليہم السالم سے توسل کرنا جائز ہے اور جو لوگ اسے توحيد کے خالف جانتے ہيں وه يا تو قرآن کی‬
‫تعليمات سے آگاه نہيں ہيں يا انھوں نے اپنے آنکھوں پر تعصب کی عينک چﮍھا رکھی ہے۔‬
‫ہم سوره مائده کی ‪ ٢۵‬ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫” يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا اتﱠقُوا ﷲَ َوا ْبتَ ُغوا ِٕالَ ْي ِہ ْال َو ِسيلَةَ “‬
‫”اے ايمان النے والو! ﷲ سے ڈروا اور اس کے لئے وسيلہ تالش کرو“۔‬
‫اس آيت ميں وسيلہ سے مراد صرف انجام واجبات اور ترک محرمات نہيں ہے بلکہ مستحبات منجملہ اولياء خداعليہم السالم‬
‫سے توسل کرنا بھی وسيلہ شمار ہوگا۔‬
‫روايتوں ميں بيان ہوا ہے کہ منصور دوانقی )عباسی سلسلہ کا دوسرا خليفہ (نے مفتی اعظم)مالک بن انس مذہب مالکی کے‬
‫بانی (سے پوچھا ”حرم پيغمبر ميں آيا روبہ قبلہ کھﮍے ہوکر دعا مانگو ں يا روبہ پيغمبر ؟‬
‫مالک نے جواب ميں کہا‪:‬‬
‫ٔ‬
‫”لم تصرف وجھک عنہ وھو وسيلتک و وسيلة ابيک آدم عليہ السالم يوم القيامة بل استقبلہ واستشفع بہ فيشفعک ﷲ ‪،‬قال ﷲ‬
‫تعالی ‪،‬ولوانھم اذ ظلموا انفسھم۔۔۔ “‬ ‫ٰ‬
‫”تو کيوں اپنا چہره ادھر سے گھمانا چاہتا ہے جب کہ وه تيرے وسيلہ ہينقيامت تک کے لئے تيرے باپ آدم عليہ السالم کے‬
‫وسيلہ ہيں بلکہ ان کی طرف رخ کر کے دعا مانگ اور ان سے شفاعت طلب کر تو ﷲ تيری شفاعت کرے گا“۔‬
‫خدا وند عالم نے ارشاد فرمايا ہے‪:‬‬
‫ْ‬ ‫ْ‬
‫ک فَا ْستَغفَرُوا ﷲَ َوا ْستَغفَ َر لَہُ ْم ال ﱠرسُو ُل لَ َو َجدُوا ﷲَ تَوﱠابًا َر ِحي ًما“]‪[60‬‬ ‫” َولَوْ أَنﱠہُ ْم ِٕا ْذ ظَلَ ُموا أَنفُ َسہُ ْم َجائُو َ‬
‫”اور اگر وه ظلم کرنے کے بعد تمہارے پاس آتے اور ﷲ سے مغفرت کرتے اور رسول اکرم بھی ان کے لئے مغفرت‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کرتے تو وه يقينا خدا کو تواب ورحيم پاتے“۔]‪[61‬‬
‫شيعہ اور سنی روايتوں ميں نقل ہوا ہے کہ تو بہ کے وقت حضرت آدم عليہ السالم نے خانہ خدا ميں پيغمبر اسالم صلی ﷲ‬
‫عليه و آله وسلم کو واسطہ قرار ديتے ہوئے کہا تھا‪:‬‬
‫”اللھم اسئلک بحق محمد االغفرت لی“۔]‪[62‬‬
‫”خدا يا ! تجھے محمد کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتاہوں کہ تو مجھے بخش دے“۔‬
‫اس بات کی تائيد ميں کہ اوليائے خدا عليہم السالم کی قبروں کا بوسہ دينا شرک نہيں ہے ‪،‬مندرجہ ذيل اہل سنت کی تين‬
‫احاديث پر توجہ فرمائيں‪:‬‬
‫‪١‬۔ايک شخص نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خدمت اقدس ميں آکر پوچھا‪” :‬اے رسول خدا ميں نے قسم کھا‬
‫رکھی ہے کہ جنت کے دروازے اور حورالعين کی پيشانی کا بوسہ دوں‪ ،‬اب ميں کيا کروں ؟‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪” :‬ماں کا پير اور باپ کی پيشانی کا بوسہ دو)يعنی اگر ايسا کروگے تو اپنی‬
‫آرزو حورعين کی پيشانی کا بوسہ دينا اور جنت کے دروازے کا بوسہ دينے تک پہنچ سکتے ہو(‬
‫اس نے پوچھا‪” :‬اگر ماں باپ مر گئے ہوں تو کيا کروں ؟“‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪”‘ :‬ان کی قبروں کا بوسہ دو“۔]‪[63‬‬
‫‪٢‬۔جس وقت جنا ب ابراہيم عليہ السالم‪ ،‬اپنے بيٹے اسماعيل عليہ السالم کے ديدار کے لئے شام سے مکہ آئے تو ديکھا‬
‫اسماعيل عليہ السالم گھر پر نہيں ہيں ابراہيم عليہ السالم واپس چلے گئے جب اسماعيل عليہ السالم اپنے سفر سے واپس آئے‬
‫تو ان کی زوجہ نے جناب ابراہيم عليہ السالم کی آمد کی اطالع دی اسماعيل عليہ السالم نے اپنے والد ابراہيم عليہ السالم کے‬
‫قدم کی جگہ کو معلوم کر کے احترام کے طور پر قدم کے نشان کا بوسہ ديا۔]‪[64‬‬
‫‪٣‬۔سفيان ثوری ) اہل سنت کا صوفی(نے امام جعفرصادق عليہ السالم کے پاس آکر عرض کيا‪” :‬کيوں لوگ کعبہ کے پردے‬
‫کا دامن پکﮍتے ہيں جب کہ وه پرده بالکل پرانا ہو چکا ہے جو کسی طرح کوئی فائده نہيں پہنچا سکتا ہے ؟“‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے جواب ميں فرمايا‪” :‬يہ اس کام کے مانند ہے کہ ايک شخص دوسرے شخص کے بارے ميں‬
‫گناه کا مرتکب ہوا ہو)مثالً اس کا حق ضائع کر ديا ہو ( اور اس کے دامن سے چپکے ‪،‬لپٹے اور اس کے اطراف اس اميد‬
‫سے گھومے کہ اس کا گناه معاف کردے گا“۔]‪[65‬‬

‫‪۴٣‬۔ايک مرجع کا وہابی پلس سے مناظره‬


‫العظمی عبد ﷲ شيرازی)عليہ الرحمة ( کتاب ”االحتجاجات العشرة“ ميں فرماتے ہيں‪” :‬ايک روز ميں مدينہ ميں قبر‬ ‫ٰ‬ ‫آيت ﷲ‬
‫رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے پاس گيا تو ديکھا کہ حوزه علميہ قم کا ايک طالب علم ضريح پيغمبر اسالم صلی ﷲ‬
‫عليه و آله وسلم کی طرف بﮍھا اور اس نے جب ديکھا کہ شرطی )امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے کارکن جو ضريح‬
‫مقدس کا بوسہ دينے والوں کو روکتے ہيں (اس سے غافل ہے تو اس نے قريب پہنچ کر ضريح مقدس کا کئی بار بوسہ ليا۔‬
‫شرطی نے جب ديکھا تو بہت ناراض ہوا اور مجھے ديکھ کر ميرے پاس آکر اس نے بﮍے احترام سے کہا‪” :‬اے آقا! اپنے‬
‫چاہنے والوں کو ضريح چومنے سے منع کيوں نہيں کرتے يہ درو ديوار کو جو بوسہ ديتے ہيں يہ لوہے کے عالوه کچھ بھی‬
‫نہيں جسے استامبول سے اليا گيا ہے انھيں چومنے سے منع کريں کيونکہ يہ تمام شرک ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬تم حجر اسود کو بوسہ ديتے ہو؟“‬
‫شرطی نے کہا‪” :‬ہاں“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی قبر پر بھی پتھر ہے اگر اس پتھر کا چومنا شرک ہے تو حجر اسود‬
‫کا بھی چومنا شرک ہے“۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬حجر اسود کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے چوما ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬اگر کسی چيز کا ”تيمنا ً و تبرکا ً“ چومنا شرک ہے تو پيغمبر اور غير پيغمبر ميں کوئی فرق نہيں ہے“۔‬
‫اس نے کہا‪ ” :‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اسے اس لئے چوما کہ وه جنت سے آيا ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬ہاں حجر اسود جنت سے اليا گيا ہے اس لئے وه محترم ومقدس ہو گيا ہے اور اسے پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه‬
‫و آله وسلم نے چوما ہے اور حکم ديا ہے کہ اسے چوما جائے کيونکہ بہشت کا ايک حصہ ہے“۔‬
‫اس نے کہا‪ :‬ہاں ”يہی وجہ ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬بہشت اور اجزاء بہشت کا مقدس اور محترم ہونا وجود پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے ہے“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس نے کہا‪” :‬ہاں“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬جب بہشت اور اجزاء بہشت‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے وجود کی وجہ سے مقدس اور محترم‬
‫ہو جاتے ہيں اور ان کا بوسہ دينا ”تيمنا ً و تبرکا ً“جائز ہوجاتا ہے تو يہ لوہا)جو قبر پيغمبر اکرم کے اطراف ميں لگا ہوا‬
‫ہے(اگر چہ استامبول سے آيا ہے ليکن قبر پيغمبر ميں لگنے کی وجہ سے مقدس اور محترم ہو گيا ہے اس وجہ سے ان کا‬
‫بھی چومنا جائز ہے“۔‬
‫بﮍھاوں۔ قرآن کی جلدچمﮍے سے بنائی جاتی ہے۔کيا يہ چمﮍا صحرا اور دريا کی گھاس کھانے‬ ‫ٔ‬ ‫توضيح کے لئے بات آگے‬
‫والے حيوانوں سے نہيں لياجاتا ہے جس کا نہ پہلے احترام کر ناضروری تھا اور نہ نجس کرنا حرام تھا ليکن اسی چمﮍے‬
‫سے جلد قرآن بننے سے وه محترم ہو جاتا ہے اور اس کی توہين کرنا حرام ہے اور ہم اسے بوسہ ديتے ہيں جس طرح صدر‬
‫اسالم سے اب تک مسلمانوں کا يہ شيوه رہا ہے کہ وه جلد قرآن کا چومناجيسے ايک باپ اپنے بيٹے کا بوسہ ليتا ہے‪،‬آج تک‬
‫کسی نہيں کہا کہ يہ شر ک اور حرام ہے‪ ،‬اسی طرح ضريح پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم اور تمام ائمہ عليہم السالم کی‬
‫ضريحوں کا بوسہ دينا نہ شرک ہے نہ بت پرستی۔‬
‫ليلی کے محلہ کا ايک کتا مجنوں کے محلہ تک پہنچ‬ ‫ليلی ومجنوں کی تاريخ حيات ميں ملتا ہے کہ ايک مرتبہ ٰ‬ ‫مولف کا قول‪ٰ :‬‬ ‫ٔ‬
‫گيا مجنوں نے جب اسے ديکھا تو اسے اپنی آغوش ميں لے کر بوسہ دينے لگا ‪ ،‬ايک شخص نے اس سے کہا‪” :‬ليس علی‬
‫المجنون حرج“مجنوں کے لئے يہ کوئی حرج نہيں ہے يعنی تم ديوانہ ہو اس لئے کتے کا بوسہ دينے پر ميں کوئی اعتراض‬
‫نہيں کروں گا۔‬
‫االعمی حرج“اندھے کے لئے کوئی بات نہيں ہے ‪ ،‬يعنی تم اندھے ہو اور تم ہمارے‬ ‫ٰ‬ ‫مجنوں نے جواب ميں کہا‪” :‬ليس علی‬
‫اس بوسہ لينے کو درک نہيں کر سکتے ہو“۔‬
‫يہ قطعہ بھی مجنوں کے لئے منسوب ہے‪:‬‬
‫أمر علی الديار ديار ليلی اُقبل ذالجدارو ذالجدار‬
‫وما حب الديار شغفن قلبي ولکن حب من سکن الديار‬
‫ليلی کے گھر کی طرف سے گزرتا ہوں تو اس کے دروديوار کو چومتا ہوں۔ اس گھر کی محبت نے مجھے پاگل نہيں‬ ‫”ميں ٰ‬
‫کيا بلکہ اس کی محبت نے مجھے ديوانہ بنا ديا جو اس گھر ميں رہتا ہے“۔]‪[66‬‬

‫علی بن ميثم کے چند دلچسپ مناظرے‬


‫اشاره‪:‬‬
‫تاريخ شيعہ کے ايک جيد اور زبردست متکلم جنا ب ميثم تمار کے پوتے جن کا نام علی ابن اسماعيل بن شعيب بن ميثم تھا‬
‫ليکن انھيں علی بن ميثم کے نام سے ياد کرتے ہيں وه امام رضا عليہ السالم کے صحابيوں ميں سے تھے اوراپنے مخالف‬
‫سے بحث ومناظره کرنے ميں بﮍی مہارت رکھتے تھے۔‬
‫ہم يہاں پر نمونہ کے طور پر ان کے چند مناظرے تحرير کرتے ہيں مالحظہ فرمائيں‪:‬‬

‫‪۴۴‬۔علی بن ميثم کاايک عيسائی سے مناظره‬


‫ايک روز آپ نے ايک عيسائی سے اس طرح مناظره کيا‪:‬‬
‫علی بن ميثم‪ ” :‬تم لوگوں نے اپنی گردن مينصليب کی شکل کيوں لٹکا رکھی ہے “؟‬
‫عيسی عليہ السالم کو لٹکا کر پھانسی دی گئی‬
‫ٰ‬ ‫عيسائی‪” :‬کيونکہ يہ شکل اس چيز سے شباہت رکھتی ہے جس پر حضرت‬
‫تھی“۔‬
‫عيسی عليہ السالم خود اس طرح کی چيز کا اپنی گردن ميں لٹکا نا پسند کريں گے ؟“‬‫ٰ‬ ‫علی بن ميثم‪” :‬کيا حضرت‬
‫عيسائی‪” :‬ہر گز نہيں“۔‬
‫علی بن ميثم‪” :‬کيوں؟“۔‬
‫عيسائی‪” :‬کيونکہ وه جس چيز پر قتل کئے گئے ہيں اس کو ہر گز نہيں پسند کريں گے“۔‬
‫عيسی عليہ السالم اپنے کاموں کے لئے گدھے پر سوار ہوتے تھے ؟“۔‬ ‫ٰ‬ ‫بتاو کہ کيا جناب‬
‫علی بن ميثم‪” :‬مجھے يہ ٔ‬
‫عيسائی‪” :‬ہاں“۔‬
‫عيسی عليہ السالم ا س چيز کو پسند کرتے کہ وه گدھا باقی رہے اور ان کی ضرورت کے وقت‬ ‫ٰ‬ ‫علی بن ميثم‪” :‬کيا حضرت‬
‫انھيں ان کی منزل مقصود تک لے جائے؟“‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫عيسائی‪” :‬ہاں“۔‬
‫عيسی عليہ السالم چاہتے تھے کہ باقی رہے اور جس چيز کو‬
‫ٰ‬ ‫علی بن ميثم‪” :‬تم نے اس چيز کو تر ک کر ديا جسے حضرت‬
‫وه پسند نہيں کرتے تھے تم لوگوں نے اسے باقی رکھا ہے اور اسے اپنی گردن ميں لٹکا رکھا ہے جب کہ تمہارے نظريہ‬
‫عيسی عليہ‬
‫ٰ‬ ‫کے مطابق تو تمہارے لئے بہتر يہ تھا کہ گدھے کی شکل کی کوئی چيز گردن ميں لٹکاتے کيونکہ حضرت‬
‫السالم اسے باقی رکھنا چاہتے تھے‪ ،‬تم صليب کو دور پھينکو ورنہ اس سے تمہاری جہل و نادانی ثابت ہوگی“۔]‪[67‬‬

‫‪۴۵‬۔ علی بن ميثم کا ايک منکر خدا سے بہترين مناظره‬


‫ايک روز علی بن اسماعيل مامون کے وزيرحسن بن سہل کے پا س گئے تو ديکھا ايک ہواو ہوس پرست منکر خدا لوگوں‬
‫کے درميان بيٹھا ہوا ہے اور وزير مامون اس کا بہت احترام کر رہا ہے اور ديگر تما م بﮍے بﮍے اور عظيم دانشور‬
‫حضرات اس کے پيچھے بيٹھے ہوئے ہيں اور يہ منکر خدا بﮍی گستاخی کے ساتھ اپنے مذہب کی حقانيت کے بارے ميں‬
‫باتيں کر رہا ہے۔‬
‫علی بن ميثم يہ ديکھ کر ٹھہر گئے اور اپنے مناظره کی شروعات کی۔‬
‫علی بن ميثم نے حسن بن سہل سے اس طرح کہا‪” :‬اے وزير! آج ميں نے تمہارے گھر کے باہر ايک بہت ہی عجيب چيز‬
‫ديکھی ہے ؟‬
‫وزير‪” :‬کيا ديکھا ؟“‬
‫علی بن ميثم ‪” :‬ديکھا کہ ايک کشتی بغير کسی ناخدا اور رسی کے ادھر سے ادھر چل رہی ہے“۔‬
‫اس وقت وه منکر خدا جو وہاں بيٹھا ہوا تھا اس نے وزير سے کہا‪” :‬يہ )علی بن ميثم(ديوانہ ہے کيونکہ عجيب الٹی سيدھی‬
‫بات کرتا ہے“۔‬
‫علی بن ميثم‪” :‬نہيں صحيح بات کر رہاہوں ميں ديوانہ کيوں ہونے لگا؟“‬
‫منکر خدا‪” :‬لکﮍی سے بنی کشتی بغير ناخدا کے کيسے ادھر سے ادھر جائے گی؟“‬
‫علی بن ميثم‪” :‬يہ ميری بات تعجب آور ہے يا تمہاری کہ يہ عالم ہستی جو عقل وجان رکھتی ہے يہ مختلف گھاس اور ديگر‬
‫نباتات جو زمين سے اگتے ہيں‪ ،‬يہ باران رحمت جو زمين پر نازل ہوتی ہے تيرے عقيده کے مطابق بغير کسی خالق و مدبر‬
‫کے ہے جب کہ تو ايک چھوٹی سی چيز کے لئے کہتا ہے کہ بغير کسی ناخدا اور راہنما کے ادھر سے ادھر نہيں چل‬
‫سکتی؟“‬
‫يہ منکر خدا علی بن ميثم کا جواب دينے سے بے بس ہو گيا اور سمجھ گيا کہ يہ کشتی والی مثال صرف مجھے شکست‬
‫دينے کے لئے دی گئی تھی۔]‪[68‬‬

‫‪۴۶‬۔ علی بن ميثم کاابو الہذيل سے مناظره‬


‫ايک روز علی بن ميثم نے ابو الہذيل سے پوچھا‪” :‬کيا يہ صحيح ہے کہ ابليس نوع انسان کو ہر نيکی سے روکتا ہے اور ہر‬
‫بدی کا حکم ديتا ہے ؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬ہاں يہ صحيح ہے“۔‬
‫علی بن ميثم‪” :‬چونکہ نيک کام کو نہيں پہچانتا ل ٰہذا اس کے انجام دينے سے لوگوں کو منع کرتا ہے يا برائی کرنے کا حکم‬
‫ديتا ہے کيونکہ اس کو نہيں جانتا“۔‬
‫ابو الہذيل‪” :‬نہيں بلکہ وه جانتا ہے“۔‬
‫علی بن ميثم‪” :‬يعنی يہ ثابت ہے کہ ابليس ہر نيکی اور ہر بدی کو جانتا ہے“۔‬
‫ابو الہذيل‪” :‬ہاں“۔‬
‫بتاو کہ رسو ل خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد تمہارا امام کون تھا؟کيا وه تمام نيکی اور بدی‬ ‫علی بن ميثم‪” :‬مجھے يہ ٔ‬
‫کو جانتا تھا يا نہيں؟“‬
‫ابو الہذيل‪” :‬نہيں تمام نيکی اور بدی کو نہيں جانتا تھا“۔‬
‫علی بن ميثم‪” :‬بس اس سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ ابليس تمہارے امام سے زياده عقلمند اور عالم ہے“۔‬
‫ابو الہذيل اس بات کو جواب دينے سے قاصر رہا اور وه بری طرح پھنس گيا۔]‪[69‬‬
‫ايک روز ابو الہذيل نے علی بن ميثم سے پوچھا کہ رسول صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد علی عليہ السالم کی امامت اور‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫حضرت ابو بکر سے افضل ہونے پر کيا دليل ہے؟‬
‫علی بن ميثم‪” :‬رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد تمام مسلمانوں کی يہ متفقہ رائے تھی کہ علی عليہ‬
‫السالم ايک کامل مومن اور عالم ہيں جب کہ اس وقت ابو بکر کے سلسلہ ميں اس طرح کا اجماع نہيں تھا“۔‬
‫ابو الہذيل‪” :‬استغفر ﷲ ‪ ،‬خدا معاف کرے کس شخص نے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد ابو بکر کے‬
‫علم وايمان پر اجما ع نہيں کيا تھا؟!“‬
‫علی بن ميثم‪” :‬ميں اور مجھ سے پہلے والے اور حاليہ زمانے ميں ميرے ساتھی“۔‬
‫ابو الہذيل‪” :‬اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تم اورتمہارے ہمنواگمراہی کی زندگی گزار رہے ہيں“!۔‬
‫علی بن ميثم‪” :‬اس طرح کا جواب گالی گلوچ اور لﮍائی جھگﮍے کے عالوه کچھ نہيں يعنی تو منطقی جواب نہ دے کر برا‬
‫بھال کہہ رہا ہے اور مجھے گمراه جانتا ہے‪ ،‬تيرا بھی جواب گالی گلوچ ہی ہے“]‪[70‬‬
‫)کيونکہ اينٹ کا جواب پتھر سے ديا جائے تو بہتر ہے(۔‬

‫‪۴٧‬۔ عمر بن عبد العزيز کا مناظره کے بعد حضرت علی عليہ السالم کی برتری کا اعالن‬
‫عمر بن عبد العزيز )اموی سلسلہ کا آٹھواں خليفہ (کے دور خالفت ميں ايک سنی نے اس طرح قسم کھائی ‪:‬‬
‫”ان عليا ًخير ھذه االمة واالامراتی طالق ثالثا“۔‬
‫يقينا علی عليہ السالم اس امت کی بہترين فرد ہيں اور اگر ايسا نہيں ہے تو ميری بيوی کوتين طالق ہو۔‬
‫وه شخص اس بات کا معتقد تھا کہ حضرت رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد سب سے بہترين شخص علی ابن‬
‫ابی طالب عليہماالسالم ہيں بس اس وجہ سے اس کی طالق باطل ہے۔‬
‫اہل سنت حضرات کا يہ عقيده ہے کہ اگر ايک نشست ميں تين مرتبہ طالق طالق کہہ ديا جائے تو طالق صحيح ہے اس‬
‫شخص کی بيوی کا باپ اس طالق کو صحيح جانتا تھا کيونکہ اس کے عقيده کے مطابق رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم‬
‫کی رحلت کے بعد علی عليہ السالم تمام مسلمانوں سے افضل وبرتر نہيں تھے۔‬
‫اس عورت کے شوہر اور اس کے باپ ميں بحث ہو گئی۔‬
‫شوہر کہتا تھا‪” :‬يہ عورت ميری بيوی ہے اور طالق باطل ہے کيونکہ شرط طالق علی عليہ السالم کا تمام امت ميں برتر نہ‬
‫ہونا ہے جب کہ يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ علی عليہ السالم تمام لوگوں سے افضل و برتر ہيں تو طالق کہاں‬
‫واقع ہوئی ؟“‬
‫باپ کہتا تھا‪” :‬طالق واقع ہوگئی کيونکہ علی عليہ السالم تما م لوگوں سے افضل و برتر نہيں ہيں نتيجہ ميں يہ عورت اپنے‬
‫شوہر پر حرام ہے“۔‬
‫يہ بحث آگے بﮍھ گئی اور کچھ لوگ باپ کے طرفدار ہوگئے اور کچھ شوہر کے اور يہ مسئلہ ايک مشکل بن گيا۔‬
‫ميمون بن مہران نے اس واقعہ کو عمر بن عبد العزيز کے پاس لکھ بھيجا تاکہ وه اسے حل کرے۔يہ مسئلہ ايک مشکل بن گيا۔‬
‫عمر بن عبد العزيزنے ايک نشست بلوائی جس ميں بنی ہاشم ‪،‬بنی اميہ اور قريش کے چند بزرگوں کو شرکت کی دعوت دی‬
‫اور ان سے کہا کہ اس مسئلہ کا حل پيش کريں۔‬
‫اس جلسہ ميں بات چيت تو بہت زياده ہوئی‪ ،‬بنی اميہ اس کا جوا ب دينے سے بے بس تھے‪ ،‬اس لئے انھوں نے سکوت‬
‫اختيار کيا۔‬
‫آخر ميں بنی ہاشم کے ايک شخص نے کہا‪:‬‬
‫”طالق صحيح نہيں ہے کيونکہ علی عليہ السالم تمام امت ميں سب سے افضل و برتر ہيں۔اور طالق کی شرط عدم برتری‬
‫ہے ل ٰہذ ا طالق واقع نہيں ہوئی“۔‬
‫دعوی کے ثبوت کے لئے عمر بن عبد العزيزی سے کہا‪:‬تجھے خدا کی قسم ہے کيا يہ صحيح نہيں ہے‬ ‫ٰ‬ ‫اس شخص نے اپنے‬
‫کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم جناب فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا کے بيمار پﮍنے پر ان کی عيادت کے لئے گئے‬
‫تھے اور اس وقت علی عليہ السالم کی زوجيت ميں تھيں۔‬
‫آپ نے فرمايا‪” :‬بيٹی کيا کھانا چاہتی ہو؟“‬
‫جنا ب فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا نے عرض کيا‪” :‬بابا انگور کھا نے کو دل چاہتا ہے“۔‬
‫حاالنکہ يہ انگور کا موسم نہيں تھا اور حضرت علی عليہ السالم بھی سفر پر تھے مگر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم‬
‫نے يوں دعا کی‪:‬‬
‫”اللھم آتنا بہ مع أفضل أمتی عندک منزلة“۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”پالنے والے ! انگو ر کو ميرے پاس اس شخص کے ذريعہ پہنچا جس کی منزلت تيرے نزديک سب سے زياده ہو“۔‬
‫ناگاه علی عليہ السالم نے دق الباب کيا اوراپنے ہاتھوں ميں عبا سے ڈھکی ٹوکری کے ساتھ گھر ميں داخل ہوئے۔‬
‫پيغمبر خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا‪” :‬علی عليہ السالم يہ کيا ہے ؟“‬
‫علی عليہ السالم نے کہا‪” :‬يہ انگور ہے جس کی فاطمہ الزہرا سال م ﷲ عليہا نے خواہش کی ہے“۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا‪” :‬ﷲ اکبر ‪،‬ﷲ اکبر‪،‬خدايا تو نے جس طرح علی کو اس امت کا بہترين‬
‫شخص قرا دے کر مجھے خوش کيا اسی طرح ان انگور کو ميری بيٹی فاطمہ کے شفا قرار دے“۔‬
‫کھاو“۔‬
‫ٔ‬ ‫کر‬ ‫کہہ‬ ‫ﷲ‬ ‫اس کے بعد آپ نے انگور کو فاطمہ سالم ﷲ عليہا کے پاس رکھ دئے اور فرمايا‪” :‬بيٹی اسے بسم‬
‫ابھی رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم جناب فاطمہ سالم ﷲ عليہا کے گھر سے باہر نہيں نکلے تھے کہ آپ صحت ياب‬
‫ہوگئيں۔‬
‫عمر بن عبد العزيز نے ہاشم مرد سے کہا‪” :‬سچ کہا اور اچھی طرح بيان کيا‪ ،‬ميں گواہی ديتا ہوں کہ اس حديث کو ميں نے‬
‫سنا ہے اور کئی جگہ ديکھا ہے اور ميں اس کو ماتنا ہوں“۔‬
‫اس کے بعد عبد العزيز نے اس عورت کے شوہر سے کہا‪” :‬عورت کا ہاتھ پکﮍ اور اپنے گھر لے جا‪،‬يہ تيری بيوی ہے اگر‬
‫اس کا باپ روکے تو مار مار کر اس کا چہره بگاڑدے“۔]‪[71‬‬
‫اس طرح اس اہم جلسہ ميں عمر بن عبد العزيز )اموی دور کے آٹھويں خليفہ ( نے قانونی طور پر تمام امت پر امام علی عليہ‬
‫السالم کی برتری کا اعالن کر اديا جس کی وجہ سے يہ بھی واضح ہوگيا کہ وه عورت اس اہل سنت شخص کی زوجيت ميں‬
‫باقی ہے۔‬

‫‪۴٨‬۔ مخالف کی رسوائی کے لئے شيخ بہائی کا ايک عجيب مناظره‬


‫دسويں اور گيارہويں صدی ہجری کے عالم تشيع کے ايک بہت ہی جليل القدر عالم دين محمد بن حسين بن عبد الصمد گزرے‬
‫ہيں جنھيں لوگ ”شيخ بہائی“ کے نام سے ياد کرتے ہيں۔‬
‫شيخ بہائی نے ‪ ١٠٣١‬ھ قمری ميں اس دنيا کو خير آباد کہا‪ ،‬آپ کی قبر امام رضا عليہ السالم کے مرقد مقدس کے جوا ر ميں‬
‫واقع ہے۔‬
‫ايک سفر کے دوران آپ کی مالقات ايک شافعی مذہب عالم دين سے ہوئی ‪ ،‬آپ نے بھی اس کے سامنے اپنے آپ کو شافعی‬
‫ظاہر کيا۔جب اس شافعی کو يہ معلوم ہوا کہ شيخ بہائی شافعی مسلک ہيں اور مرکز تشيع )ايران( سے آئے ہيں تو اس نے‬
‫شيخ بہائی سے کہا‪:‬‬
‫”يہ شيعہ حضرات اپنی باتوں کے اثبات کے لئے کوئی دليل و شاہد بھی رکھتے ہيں؟‬
‫شيخ بہائی نے کہا‪” :‬ميرا کبھی کبھی ان سے سامنا ہوا ہے اور ميں نے يہ بھی ديکھا ہے کہ وه اپنے مطلب و مقصد کے‬
‫ثبوت ميں بہت ہی محکم دالئل رکھتے ہيں“۔‬
‫شافعی عالم نے کہا‪” :‬اگر ممکن ہوتو ان ميں سے کوئی دليل نقل کرو“۔‬
‫شيخ بہائی نے کہا‪” :‬مثالًوه کہتے ہيں کہ صحيح بخاری ميں آيا ہے کہ پيغمبر اسالم )ص( نے فرماياہے‪:‬‬
‫”فاطمة بضعة منی من آذاہا فقد آذانی و من اغضبہا فقد اغضبنی“‬
‫”فاطمہ ميرے جگر کا ٹکﮍا ہے جس نے اسے اذيت دی اس نے مجھے اذيت دی اور جس نے اسے ناراض کيا اس نے‬
‫مجھے ناراض کيا“۔]‪[72‬‬
‫اور اس کے چار ہی ورق کے بعد يہ لکھا ہے‪:‬‬
‫”وخرجت فاطمة من الدنيا و ھی غاضبة عليھما“۔]‪[73‬‬
‫”فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا اس دنيا سے عمر و ابوبکر سے ناراض رخصت ہوئيں“۔‬
‫ان دونوں روايتوں کو جمع کرنے کے بعد اہل سنت کے مطابق ان کا کيا جواب ہو سکتا ہے ؟“‬
‫شافعی مذہب فکر ميں ڈوب گيا‪ ،‬کيونکہ ان روايتوں پر غور کرنے سے يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ يہ دونوں عادل نہيں تھے اور‬
‫رہبری کی لياقت نہيں رکھتے تھے (اور تھوڑے تامل کے بعد ان سے کہنے لگا‪” :‬کبھی کبھی شيعہ جھوٹ بھی بول ليتے‬
‫ہيں ہوسکتا ہے يہ بھی جھوٹ ہو مجھے کچھ وقت دو تاکہ ميں صحيح بخاری کا مطالعہ کرو ں اور اس روايت کے صدق‬
‫لگاوں اور سچ ہونے کی صورت ميں اس کا جواب بھی معلوم کرلوں“۔‬ ‫وکذب کا پتہ ٔ‬
‫شيخ بہائی کہتے ہيں‪:‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”دوسرے دن جب ميں نے اس شافعی کو ديکھا تو ميں نے اس سے کہا‪” :‬تمہاری تحقيق کہا ں تک پہنچی ؟“‬
‫اس نے کہا‪” :‬وہی ہو جو ميں کہتا تھا کہ شيعہ جھوٹ بولتے ہيں کيونکہ ميں نے ان دونوں روايتوں کو صحيح بخاری ميں‬
‫ديکھاليکن شيعہ کہتے ہيں کہ ان دونوں کے درميان چار ورق کا فاصلہ ہے ليکن ميں نے جب گنا تو پانچ ورق کا فاصلہ‬
‫پايا“!!]‪[74‬‬
‫کتنا بہترين جواب ہے ؟! کتنی بﮍی حماقت ہے ! صحيح بخاری ميں ان دونوں روايتونکا موجود ہونا مقصود ہے خواه وه پانچ‬
‫ورق کے فاصلہ پر ہو يا پچاس ورق کے فاصلہ پر ؟!‬

‫‪۴٩‬۔ سيد موصلی سے عالمہ حلی کا مناظره‬


‫آٹھويں صدی ہجری کے اوائل ميں شاه خدا بنده ‪،‬ايل خانيان کا گيارہواں بادشاه سنی المذہب تھا مگر ‪ ٧٠٩‬ہجری ميں عالمہ‬
‫حلی )شيعوں کے بزرگ دينی مرجع متوفی ‪ ٧ ٢۶‬ھ( کی زبردست مناظروں کی وجہ سے وه شيعہ ہوگيا تھا اس نے مذہب‬
‫جعفری کا قانونی طور پر اعالن کر ديا اور پورے ايران ميں اسی وجہ سے شيعہ مذہب رائج ہوا۔‬
‫ايک دن اس کے پاس اہل تسنن کے بﮍے بﮍے علماء بيٹھے ہوئے تھے‪ ،‬عالمہ حلی بھی شاه کی دعوت پر وہاں موجود تھے‬
‫اس بزم ميں شيعہ و سنی کے درميان مختلف مناظرے ہوئے ان ميں ايک مناظره يہ بھی تھا‪:‬‬
‫اہل سنت کے ايک عظيم عالم دين سيد موصلی نے عالمہ حلی سے کہا‪” :‬پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے عالوه‬
‫دوسرے لوگوں )يعنی ائمہ عليہم السالم ( پر صلوات بھيجنے کا کيا جواز ہے ؟“‬
‫عالمہ حلی نے يہ آيت پﮍھ دی‪:‬‬
‫ٌ‬ ‫صلَ َو ٌ‬
‫ات ِم ْن َرب ِﱢہ ْم َو َرحْ َمة“ ]‪[75‬‬ ‫ک َعلَي ِْہ ْم َ‬ ‫ُ‬
‫اجعُونَ ۔ أوْ لَئِ َ‬ ‫ﱠ‬ ‫ُ‬ ‫ٌ‬ ‫” َوبَ ﱢشرْ الصﱠابِ ِرينَ الﱠ ِذينَ ِٕا َذا أَ َ‬
‫صابَ ْتہُ ْم ُم ِ‬
‫صيبَة قَالوا ِٕانﱠا ِ ِ َو ِٕانﱠا ِٕالَ ْي ِہ َر ِ‬
‫”اور ان صابروں کو بشارت ديں جن کے اوپر جب کوئی مصيبت نازل ہوتی ہے تو وه کہتے ہيں ہم خدا کے لئے ہيں اور‬
‫اسی کی طرف واپس پلٹ کے جائيں گے ان لوگوں پر ان کے پروردگار کی طرف سے صلوات ورحمت ہو“۔‬
‫سيد موصلی نے بﮍی اعتنائی سے کہا‪” :‬پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے عالوه اور کن لوگوں )ائمہ معصومين عليہم‬
‫السالم ( اور کس پر ايسی مصيبت نازل ہوئی کہ وه صلوات کے مستحق ہوجائيں؟“‬
‫عالمہ حلی نے فوراً کہا‪” :‬سب سے بﮍی مصيبت تو يہ ہے ان کی نسل ميں ايک تيرے جيسا آدمی بھی ہے جو منافقوں کو آل‬
‫رسول پر ترجيح ديتا ہے! “‬
‫عالمہ کی اس حاضر جوابی پر سارا مجمع ہنس پﮍا۔]‪[76‬‬

‫‪--------------------------------------------------------------------------------‬‬

‫]‪ [1‬اس بات پر توجہ رہنا چاہئے کہ خدا کی قدرت محال چيزوں سے تعلق نہيں رکھتی۔اس جواب ميں امام کا مقصد در اصل‬
‫عوام کو قانع کرنا تھا جيسے اگر کسی سے پوچھا جائے کہ کيا انسان اڑسکتا ہے ؟اور وه اس کے جواب ميں کہے‪” :‬ہاں اڑ‬
‫سکتا ہے وه ايک ہوائی جہاز بنائے اور اس ميں بيٹھ کر فضا ميں پرواز کر سکتا ہے“۔امام ‪،‬آنکھ کے ڈھيلے کی مثال سے يہ‬
‫بتانا چاہتے تھے کہ اگر تم قدرت خدا سمجھنا چاہتے ہو تو اس طرح سمجھو نہ کہ غير معقول مثال کے ذريعہ کہ کيا خدا انڈه‬
‫ميں پوری دنيا سمو سکتا ہے جب کہ نہ دنيا چھوٹی ہو اور نہ انڈه بﮍاہو يا يہ بھی کوئی محال کام نہيں ہے اور خدا اس بات‬
‫پر قادر ہے اس کے عالوه کوئی دوسری صورت محال ہے اور خدا محاالت عقليہ پر قدرت نہيں رکھتا يہ توايسا ہی ہوگا کہ‬
‫ہم سوال کريں کہ کيا خدا اس بات پر قادر ہے کہ وه دو اور دو چار کے بجائے پانچ کر دے۔اس طرح کا سوال سراسر غلط‬
‫ہے‪ ،‬اس مسئلہ کی مکمل تحقيق اور يہ کہ خدا کی قدرت محال چيزوں سے متعلق ہوتی ہے يا نہيں اس سلسلہ ميں مختلف‬
‫کالمی اور فلسفی بحثوں پر مشتمل کتابوں کی طرف رجوع کيا جا سکتا ہے ۔‬
‫]‪ [2‬اصول کافی ‪ ،‬ص ‪ ٧٩‬و‪٨٠‬۔‬
‫]‪ [3‬کيونکہ ان دونوں ميں ہر جہت سے اختالف کا فرض غلط ہے کيونکہ دو چيزيں بھلے )ايک ہی جہت سے (مانند و مثل‬
‫ضرور رکھتی ہيں جيسے جہت وجود وہستی ميں ہر موجود شئے ايک دوسرے کی مثل ومانند ہے ۔‬
‫مولف کی طرف سے نقل معنی کے ساتھ ۔‬ ‫]‪ [4‬اصول کافی ‪،‬حديث ‪ ،۵‬ص‪٨٠‬و ‪ ٨١‬ج‪ ، ١‬تلخيص و توضيح اور ٔ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [5‬انوار البہيہ‪ ،‬ص ‪١۵٢‬۔‬
‫]‪ [6‬سفينة البحار ‪،‬ج ‪،١‬ص ‪١۵٧‬۔‬
‫]‪ [7‬اصول کافی‪ ،‬ج‪ ،١‬ص‪١٢٨‬۔‬
‫]‪ [8‬شامی دانشور ايک سنّی عالم دين تھا ۔‬
‫]‪ [9‬علم کالم ايک ايسا علم ہے جو اصول عقائد ميں عقلی ونقلی دليلوں کے ذريعہ بحث کرتا ہے ۔‬
‫]‪ [10‬اس سے مراد ابو جعفر محمد بن علی بن نعمان کوفی ہيں جن کا لقب ”احول “تھا کوفہ کے محلہ طاق المحامل ميں ان‬
‫کی دکان تھی اسی لئے ان کو ”مومن طاق “کہتے تھے مگر ان کے مخالفين ان کو ”شيطان الطاق “کہا کرتے تھے )سفينة‬
‫البحار ج‪ ،٢‬ص ‪(١٠٠‬‬
‫]‪ [11‬اصو ل کافی ج‪ ،١‬ص‪١٧١‬۔‬
‫]‪ [12‬اصول کافی ‪ ،‬ص ‪١٧٢‬و ‪ ١٧٣‬۔‬
‫]‪ [13‬الشافی سيد مرتضی ‪،‬ص ‪١٢‬۔تنقيح المقال ‪،‬ج ‪ ٣‬ص‪٢٩۵‬۔‬
‫]‪ [14‬جاثليق ‪،‬عيسائيت کی ايک بﮍی شخصيت ہوتی ہے اس کے بعد ”مطران“کا درجہ ہوتا ہے اور اس کے بعد ”اسقف‬
‫“اور اسقف کے بعد” قيس“کا درجہ ہوتا ہے۔‬
‫]‪ [15‬سوره آل عمران ‪ ،‬آيت ‪٣۴‬۔‬
‫]‪ [16‬انوار البھيہ ‪،‬ص‪ ١٨٩‬تا ‪١٩٢‬۔‬
‫]‪ [17‬عيون اخبار الرضا ج‪ ،١‬ص‪ ٧٨‬سے اقتباس ۔‬
‫]‪ [18‬سوره انعام‪ ،‬آيت ‪ ٨۴‬و ‪٨۵‬۔‬
‫]‪ [19‬سورہآل عمران ‪ ،‬آيت ‪۶١‬۔‬
‫]‪ [20‬احتجاج طبرسی ج‪،١‬ص‪ ١۶٣‬سے ‪ ١۶۵‬سے اقتباس ‪،‬اسی بنا پر بعض لوگوں کا يہ نظريہ ہے کہ جناب فاطمہ زہرا‬
‫سالم ﷲ عليہا کی تمام اوالدجو قيامت تک ان کی نسل سے وجود ميں آئے گی سيد ہوگی اور رسول اسالم کی ذريت ميں‬
‫شمار ہوگی‪ ،‬ل ٰہذا اگر کسی کا باپ سيد نہ ہو ليکن اس کی ماں جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی نسل سے ہو تو وه سيد‬
‫مولف۔‬
‫ہوگا۔)غور کريں(‪ٔ ،‬‬
‫]‪ [21‬سوره نجم‪ ،‬آيت ‪١٨‬۔‬
‫الروية‪ ،‬حديث‪ ،١‬ص‪٩۵‬و ‪ ،٩۶‬ج ‪١‬۔‬ ‫]‪ [22‬اصول کافی ‪ ،‬باب ابطال ٔ‬
‫]‪ [23‬اصول کافی ‪ ،‬جلد ‪ ،١‬باب ابطال الروية ‪،‬ص‪١٣٠‬و ‪١٣١‬۔‬
‫]‪ [24‬اصول کافی ‪،‬ج‪،١‬ص‪٧٨‬۔‬
‫]‪ [25‬قدريہ سے مراد وه لوگ ہيں جن کا يہ کہنا ہے کہ خدانے تمام امور بندوں پر چھوڑ ديئے ہيں۔‬
‫]‪ [26‬اصول کافی ج‪،١‬ص‪١۵٧‬و‪١۵٨‬۔‬
‫]‪ [27‬ترجمہ ارشاد شيخ مفيد ‪،‬ج‪،٢‬ص‪ ٢۶٩‬سے لے کر ‪ ٢٧٣‬تک۔‬
‫]‪ [28‬انو ار البھيہ‪ ،‬ص‪٣۴٩‬۔ ‪٣۵٠‬۔‬
‫]‪ [29‬سفينة البحار ‪،‬ج‪ ١‬ص‪١٩٣‬۔‬
‫]‪ [30‬الصراط الستقيم‪ ،‬بحار کی نقل کے مطابق ‪،‬ج‪ ،٨‬پرانا ايڈيشن ‪،‬ص‪١٨٣‬۔‬
‫المومنين ‪،‬ج‪، ٢‬ص‪،۴١٩‬بہجة اآلمال‪،‬ج‪ ،٢‬ص‪۴٣۶‬۔‬ ‫]‪ [31‬مجالس ٔ‬
‫]‪ [32‬بہجة اآلمال‪،‬ج‪،٢‬ص‪۴٣٧‬۔‬
‫]‪ [33‬فصول المختار‪ ،‬سيد مرتض ٰی ج‪،١‬ص‪٩‬۔قاموس الرجال ‪،‬ج‪٩‬ص‪ ٣۴٢‬سے اقتباس‪ ،‬تھوڑی وضاحت کے ساتھ‪ ،‬۔‬
‫]‪ [34‬اگرچہ فضال شيعہ تھے اور ان کا کوئی بھائی نہيں تھا ‪ ،‬ليکن وه اس طريقہ سے مناظره کرنا چاہتے تھے۔‬
‫سوره نساء‪ ،‬آيت ‪٩٧‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[35‬‬
‫سوره احزاب‪ ،‬آيت ‪۵٣‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[36‬‬
‫سوره احزاب۔آيت ‪۴٩‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[37‬‬
‫]‪ [38‬جن کے نام يہ ہيں عائشہ ‪،‬حفصہ‪،‬ام سلمہ‪،‬ام حبيبہ ‪،‬زينب‪،‬ميمونہ‪،‬صفيہ‪،‬جويريہ اور سوده۔‬
‫]‪ [39‬خزائن نراقی‪،‬ص‪١٠٩‬۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫سوره طہ ‪ ،‬آيت ‪١٢١‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[40‬‬
‫]‪ [41‬سور انسان ‪ ،‬آيت ‪٢٢‬۔‬
‫سوره تحريم آيت ‪١٠‬۔‬‫ٔ‬ ‫]‪[42‬‬
‫سوره بقر آيت ‪٢۶٠‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[43‬‬
‫سوره قصص ‪ ،‬آيت ‪٢١‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫‪[44‬‬
‫سوره بقره آيت ‪٢٠٧‬۔‬‫ٔ‬ ‫]‪[45‬‬
‫سوره ص۔آيت ‪٢۶‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[46‬‬
‫]‪ [47‬سوره انبياء‪ ،‬آيت ‪٧٩‬۔‬
‫سوره ص آيت ‪ ٣۵‬۔‬‫ٔ‬ ‫]‪[48‬‬
‫سوره قصص ‪،‬آيت ‪٨٣‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[49‬‬
‫سوره مائده آيت ‪١١٧‬۔‪١١۶‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[50‬‬
‫]‪ [51‬فضائل ابن شاذان ص‪١٢٢‬۔بحارج‪،۴‬ص‪ ١٣۴‬سے ‪ ١٣۶‬تک۔‬
‫]‪ [52‬وه درحقيقت ايک ہوشمند دانشور تھا ليکن تقيہ کے طور پر ديوانوں کی طرح زندگی بسر کررہا تھا۔‬
‫]‪ [53‬احتجاج طبرسی ‪،‬ج‪،٢‬ص‪ ١۵١‬سے ‪ ١۵۴‬تک۔‬
‫سوره واقعہ آيت‪٣۵‬۔‪٣٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[54‬‬
‫]‪ [55‬بحار‪،‬ج‪، ۴٩‬ص‪١٩٣‬۔‬
‫]‪ [56‬کشف اليقين عالمہ حلی ‪،‬ص‪١۶۶‬۔بحار ‪،‬ج‪، ٣٩‬ص‪٢٨٧‬۔‬
‫]‪ [57‬شرح نہج البالغہ ‪ ،‬ابن ابی الحديد ‪،‬ج‪ ۴‬ص‪ ١۶٣‬اور ‪۶٨‬۔‬
‫]‪” [58‬خان االمين “والی تہمت بعض سنی فرقوں ميں بہت زياده مشہور ہے جب بھی شيعوں پر اعتراض کرنا چاہتے ہيں تو‬
‫يہ جملہ ان کی زبانوں پر ہوتاہے۔ل ٰہذا ڈاکٹر تيجانی سماوی نے اپنی کتاب ”پھر ميں ہدايت پاگيا “ميں دو جگہ اس تہمت کا‬
‫ذکر کيا ہے ۔‬
‫]‪ [59‬اس طرح کا اعتراض حضرت امام صادق عليہ السالم کی زندگی ميں منکر خدا ابی العوجاء نے بھی کيا تھا کہ کيوں‬
‫حجر اسود کو بوسہ ليتے ہو‪ ،‬يہ پتھر ہے اور فہم و شعور نہيں رکھتا‪ ،‬جس کے جواب ميں ابی العوجاء مسلمان ہوگيا تھا۔‬
‫]‪ [60‬سوره نساء آيت ‪۶۴‬۔‬
‫]‪ [61‬وفاء الوفاء‪ ،‬ج‪ ،٢‬ص‪ ،١٣٧۶‬الدرر السنيہ‪ ،‬ذينی دحالن‪ ،‬ص‪١٠‬۔‬
‫]‪ [62‬الدر المنثور ‪،‬ج‪١‬ص ‪۵٩‬۔مستدرک حاکم ‪،‬ج‪، ٢‬ص ‪۶١۵‬۔مجمع البيان ج‪،١‬ص‪٨٩‬۔‬
‫]‪ [63‬االعالم ‪ ،‬قطب الدين حنفی‪ ،‬ص‪٢۴‬۔‬
‫]‪ [64‬االعالم قطب الدين حنفی ‪،‬ص‪٢۴‬۔‬
‫]‪ [65‬انوا ر البہيہ ‪،‬امام جعفر صادق عليہ السالم کی سوانحيات کے بيان ميں۔‬
‫]‪ [66‬کشکول شيخ بہائی ‪،‬ج‪ ١‬ص‪٩١‬۔‬
‫مرتضی ‪،‬ج‪ ١‬ص‪٣١‬۔‬ ‫ٰ‬ ‫]‪ [67‬الفصول المختار‪ ،‬سيد‬
‫مرتضی ‪ ،‬ص‪۴۴‬۔‬
‫ٰ‬ ‫‪،‬سيد‬ ‫]‪ [68‬الفصول المختار‬
‫مرتضی ‪،‬ج‪ ١‬ص‪۵‬۔بحار ج‪ ،١٠‬ص‪٣٧٠‬۔‬ ‫ٰ‬ ‫]‪ [69‬الفصول امختار سيد‬
‫]‪ [70‬مذکوره حوالہ ‪،‬ج‪ ،١‬ص‪۴۴‬۔‬
‫]‪ [71‬شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ‪،‬احقاق الحق کی نقل کے مطابق ‪،‬ج‪،۴‬ص‪ ٢٩٢‬سے لے کر ‪ ٢٩۵‬تک ۔‬
‫]‪ [72‬صحيح بخار ی‪ ،‬طبع دارالجبل بيروت ج‪ ٧‬ص‪۴٧‬۔‬
‫]‪ [73‬مذکوره حوالہ‪ ،‬ج‪ ٩‬ص‪ ، ١٨۵‬اور دوسرے مصادر‪ ،‬کتاب”فضائل الخمسہ من الصحاح الستہ“‪ ،‬ج‪ ، ٣‬ص‪ ١٩٠‬ميں‬
‫ديکھئے ۔‬
‫]‪ [74‬روضات الجنات )شيخ بہاء الدين عاملی کی سوانح حيات کے بيان ميں(‬
‫سوره بقره آيت‪ ١۵۵‬سے ‪١۵٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[75‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [76‬بہجة االمال ‪ ،‬ج‪ ٣‬ص ‪ ، ٢٣۴‬شرح من اليحضره الفقيہ سے نقل ‪،‬مزيد وضاحت کے لئے مناظره ‪ ٧٠‬سے رجوع کريں۔‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫دوسراحصہ و تيسراحصہ ‪ ‬‬

‫‪۵٠‬۔ايک شيعہ عالم کا امر بالمعروف کميٹی کے صدر سے مناظره‬


‫ايک شيعہ عالم دين سعودی حکومت کے مرکز امر با لمعروف اور نہی عن منکر مينپہنچ گئے وہاں انھوں نے اس کے سر‬
‫پرست سے کچھ گفتگو کی جو ايک مناظره کی شکل اختيار کر گئی ہم اسے يہاں نقل کر رہے ہيں‪:‬‬
‫سرپرست‪” :‬رسو ل اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم دنيا سے چلے گئے اور جو مرجاتا ہے وه کسی کو نقصان يا فائده نہيں‬
‫پہنچا سکتا تو تم لوگ قبر رسول سے کيا چاہتے ہو۔؟“‬
‫شيعہ عالم دين‪” :‬رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم اگر چہ اس دنيا کو چھوڑ چکے ہيں مگر در حقيقت وه زنده ہيں‬
‫کيونکہ قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫يل ﷲِ أَ ْم َواتًا بَلْ أحْ يَا ٌء ِع ْن َد َرب ِﱢہ ْم يُرْ َزقُونَ “]‪[1‬‬
‫َ‬ ‫” َو َالتَحْ َسبَ ﱠن الﱠ ِذينَ قُتِلُوا فِی َس ِب ِ‬
‫”اور ﷲ کی راه ميں قتل ہوجانے والوں کو تم ہرگز مرده نہ سمجھنا وه زنده ہيں اور اپنے پروردگار کی طرف سے رزق‬
‫پاتے ہيں“۔‬
‫نيز بہت سی روايتيں اس بات پر داللت کرتی ہيں کہ جس طرح پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا زندگی ميں احترام‬
‫کرنا واجب تھا اسی طرح مرنے کے بعد بھی احترام کرنا چاہئے“۔‬
‫سرپرست‪” :‬اس آيت ميں جو زندگی مراد لی گئی ہے کيا وه ہماری اس زندگی سے مختلف اور اس کے عالوه کوئی اور‬
‫زندگی ہے ؟“‬
‫شيعہ عالم‪” :‬اس ميں کيا حرج ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم رحلت کے بعد ايک دوسری زندگی کے مالک ہوں‬
‫اور ہماری باتيں سنيں اور اسی عالم ميں خدا کے حکم سے ہم پر لطف کريں ہماری مشکالت حل کريں؟ ميں تم سے پوچھتا‬
‫‪   ‬‬
‫ہوں ”جب تمہارا باپ مر جاتا ہے تو کيا تم اس کی قبر پر نہيں جاتے اور اس کے لئے خداسے مغفرت کی دعا نہيں کرتے‬
‫؟“‬
‫سرپرست‪” :‬کيوں نہيں ہم جاتے ہيں“۔‬
‫شيعہ عالم‪ :‬ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں نہيں تھا کہ اس طرح ان کی زيارت سے مشرف ہو‬
‫جاتا ل ٰہذا اب ان کی قبر کی زيارت کے لئے آيا ہوں“۔‬
‫اس سے واضح الفاظ ميں يونکہا جائے‪:‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے جسم اطہر کی وجہ سے قبر کے اطراف‬
‫کا حصہ يقينا مبارک ہو گيا ہے اگر ہم اس قبر مقدس کی خاک کا بوسہ ليتے ہيں يا اسے تبرک سمجھتے ہيں تو يہ بالکل اس‬
‫کے مانند ہے کہ جيسے ايک شاگرد يا بيٹا اپنے استاد يا باپ کی محبت کی وجہ سے اس کے پير کی خاک اٹھا کر اپنی‬
‫آنکھوں سے لگاتا ہے۔‬
‫مولف کا قول‪ :‬مجھے وه زمانہ ياد ہے جب امام خمينی کو ملک بدر کيا گيا تھا تو اس وقت ميرے ايک نہايت بزرگ استاد نے‬
‫کہا تھا‪” :‬ميں چاہتاہوں کہ اپنے عمامہ کے تحت الحنک کو امام خمينی کے نعلين سے مس کروں اور اس خاک آلود تحت‬
‫الحنک کے ساتھ نما ز پﮍھوں“۔‬
‫اس طرح کی باتيں در اصل شديد محبت اور تعلق کی عکاسی کرتی ہيں ان ميں کسی طرح کے کسی شرک کا کوئی شائبہ‬
‫نہيں ہوتا قرآن کريم نے اوليائے خداسے توسل کرنا جائز قرار ديتے ہوئے اسے بخشش و مغفرت کا ذريعہ قرار ديا ہے جيسا‬
‫کہ سوره ٔ نساء کی ‪ ۶۴‬ويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫” َولَوْ أنﱠہُ ْم ِٕا ْذ ظَلَ ُموا أنفُ َسہُ ْم َجائُو َ‬
‫ک فَا ْستَ ْغفَرُوا“‬
‫” اور جب انھوں نے اپنے اوپر ظلم کيا تھا تو اگر تمہارے پاس آکر ﷲ سے استغفار کرتے اور رسول بھی ان کے لئے‬
‫استغفار کرتے تو وه ﷲ کو تو اب ورحيم پاتے“۔‬

‫‪۵١‬۔عالمہ امينی کا قانع کننده جواب‬


‫عالمہ امينی شيعوں کے عظيم عالم دين کتاب ”الغدير “کے مولفنے اپنے ايک سفر کے دوران ايک جلسہ ميں شر کت کی تو‬
‫وہاں ايک سنی عالم دين نے آپ سے کہا‪” :‬تم شيعہ حضرات علی کے سلسلہ ميں غلو کرتے ہو اور انھيں حد سے زياده‬
‫بﮍھاتے ہو مثالً”يد ﷲ‪ ،‬عين ﷲ “جيسے القاب سے ياد کرتے ہو‪ ،‬صحابہ کی اس حد تک توصيف کرنا غلط ہے“۔‬
‫عالمہ امينی نے برجستہ جواب ديا‪:‬‬
‫”اگر عمر بن خطاب نے علی عليہ السالم کو ان القاب سے ياد کيا ہو تو اس کے بارے ميں تمہارا کيا خيال ؟“‬
‫اس نے کہا‪” :‬حضرت عمر کی بات ہمارے لئے حجت ہے“۔‬
‫عالمہ امينی نے اسی بزم ميں اہل سنت کی ايک کتاب منگوائی وه کتاب الئی گئی عالمہ نے چند ورق پلٹنے کے بعد اس‬
‫صفحہ کو کھو ل ديا جہا ں يہ عبارت نقل ہوئی تھی‪:‬‬
‫”ايک شخص خانہ کعبہ کے طواف ميں مشغول تھا اسی وقت اس نے ايک نامحرم پر غلط نظر ڈالی تو امام علی عليہ السالم‬
‫نے وہيں اس کے چہره پر ايک طمانچہ مارا وه اپنے چہره پر ہاتھ رکھے عمر ابن خطاب کے پاس شکايت کرنے آيااورپورا‬
‫واقعہ بيان کيا۔‬
‫عمر نے اس کے جوا ب ميں کہا‪:‬‬
‫”قد رآی عينُ ﷲ و ضرب ي ُد ﷲ“۔‬
‫”بے شک خدا کی آنکھ نے ديکھا اور خدا کے ہاتھ نے مارا“۔‬
‫سوال کرنے والے نے جب اس حديث کو ديکھا تو قانع ہو گيا۔‬
‫عيسی عليہ السالم‬
‫ٰ‬ ‫اس طرح کے الفاظ و القاب در اصل احترام و تعظيم کی خاطر ہوا کرتے ہيں مثالً”روح ﷲ“ جو حضرت‬
‫کا لقب ہے اس کا مطلب ہرگز يہ نہيں کہ ﷲ کے روح بھی ہوتی ہے بلکہ يہ ان کی عظمت و بلندی کے بيان کرنے کے لئے‬
‫کہا جاتا ہے۔‬

‫‪۵٢‬۔کيا سجده گاه اور پتھر پر سجده کرنا شرک ہے؟‬


‫ايک مرجع تقليد کہتے ہيں کہ ميں ايک روز مسجد نبوی ميں نماز صبح انجام دينے کے بعد روضہ مقدس ميں بيٹھا ہوا تھا‬
‫اور قرآن کريم کی تالوت ميں مشغول تھا۔اسی دوران ميں نے ديکھا کہ ايک شيعہ آيا اور روضہ کے بائيں طرف کھﮍا ہوکر‬
‫نماز پﮍھنے ميں مشغول ہوگيا اس کے قريب ہی دوآدمی مصری روضہ کے ستون سے ٹيک لگائے بيٹھے ہوئے تھے جب‬
‫انھوں نے اس شيعہ کو نماز کے دوران اپنی جيب سے سجدگاه نکالتے ديکھاتو ان ميں سے ايک نے دوسرے سے کہا‪” :‬اس‬
‫عجمی کو ديکھو يہ پتھر پر سجده کرنا چاہتا ہے“۔‬
‫شيعہ مرد رکوع ميں گيا‪ ،‬رکوع کے بعد سجده کرنے کے لئے ايک پتھر پر اپنی پيشانی رکھ دی يہ منظر ديکھ کر ان ميں‬
‫سے ايک دوڑتا ہوا اس کی طرف جانے لگا ليکن قبل اس کے وه وہاں تک پہنچتا ميں نے اس کا ہا تھ پکﮍ کر کہا‪” :‬تم کيوں‬
‫ايک مسلمان کی نماز باطل کرنا چاہتے ہو جو اس مقدس جگہ پر نماز ادا کررہا ہے“۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬وه پتھر پر سجده کرنا چاہتا ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬پتھر پر سجده کرنے ميں کيا اشکال ہے ميں بھی پتھر پر سجده کرتا ہوں“۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬کيوں اور کس لئے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬وه شيعہ ہے اور مذہب جعفری کا پيرو ہے ميں بھی مذہب جعفری کا معتقد ہوں کيا جعفر بن محمد امام جعفر‬
‫صادق عليہ السالم کو پہنچانتے ہو؟“‬
‫اس نے کہا‪” :‬ہاں“‬
‫ميں نے کہا‪” :‬کيا وه اہل بيت رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم ميں سے ہيں ؟“‬
‫اس نے کہا‪” :‬ہاں“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬وه ہمارے مذہب کے پيشوا ہيں ‪،‬وه کہتے ہيں کہ فرش اور قالين پر سجده کرنا جائز نہيں ہے بلکہ ايسی چيز پر‬
‫سجده کرنا چاہئے جو زمين کے اجز اميں سے ہو“۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس سنی شخص نے تھوڑی دير خاموش رہنے کے بعد کہا‪” :‬دين ايک ہے نماز بھی ايک ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬ہاں دين ايک ہے نماز ايک ہے تو اہل سنت بھی نماز ميں قيام کے وقت مختلف طريقوں سے نماز کيوں ادا‬
‫کرتے ہيں تمہارے مذہب ميں کچھ لوگ ہاتھ کھول کر نماز پﮍھتے ہيں اور کچھ ہاتھ باندھ کر نماز ادا کرتے ہيں دين ايک ہے‬
‫اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک ہی طريقہ سے نماز ادا کی تھی پھر يہ اختالف کيوں؟تم کہوگے کہ ابو‬
‫حنيفہ يا شافعی يا مالک يا احمد بن حنبل نے اس طرح کہا ہے ۔)ہاتھ کے اشارے سے بتايا (‬
‫اس نے کہا‪” :‬ہاں ان لوگوں نے اسی طرح کہا ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬جعفر بن محمد امام جعفر صادق عليہ السالم ہمارے مذہب کے پيشوا ہيں جن کے لئے تم نے اعتراف کيا ہے‬
‫کہ وه خاندان رسالت سے تعلق رکھتے ہيں انھوں نے اسی طرح نماز پﮍھنے کا حکم ديا ہے۔‬
‫اس بات پر بھی توجہ رہے کہ ”اہل البيت ادری بما فی البيت“ گھر والے گھر کی باتيں دوسروں سے زياده جانتے ہيں۔”ل ٰہذا‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے اہل بيت احکام ٰالہی سے دوسروں کے مقابل زياده آگاه ہيں امام جعفر صادق عليہ‬
‫السالم کا علم بہر حال ابو حنيفہ سے کئی گنا زياده ہے ان کا قول ہے کہ ”زمين کے اجزاء پر سجده کرنا چاہئے ل ٰہذا اون اور‬
‫روئی پر سجده کرنا درست نہيں ہے ہمارے اور تمہارے درميان اختالف کی نوعيت بالکل وہی ہے جو خود تمہارے مذہب‬
‫ميں پائے جانے والے مختلف مسالک ميں ہاتھ باندھنے اور کھولنے کے سلسلے ميں اختالف ہے اور يہ اختالف فروع دين‬
‫کا اختالف ہے نہ کہ اصول دين کا اور فروع دين کا اختالف کسی بھی طرح سے شرک سے تعلق نہيں رکھتا۔‬
‫جب ميری بات يہاں تک پہنچ گئی تو وہاں بيٹھے ہوئے تمام اہل سنت حضرات نے ميری بات کی تصديق کی اور تب ميں نے‬
‫غصہ ميں اس سے )جو شيعہ کی سجده گاه چھيننے کے لئے دوڑا تھا(کہا‪:‬‬
‫کيا تجھے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے شرم نہيں آتی کہ ايک شخص ان کی قبر کے سامنے نماز پﮍھتا ہے اور‬
‫تو اس کی نماز باطل کررہا ہے جب کہ وه خود اپنے مذہب کے مطابق نماز پﮍھ رہا ہے اور يہ شخص اس مذہب سے تعلق‬
‫رکھتا ہے جو مذہب يہ صاحب قبر لے کر آيا ہے ؟‬
‫َط ِہيرًا“‬ ‫س أَ ْہ َل ْالبَ ْي ِ‬
‫ت َويُطَہﱢ َر ُک ْم ت ْ‬ ‫”الذين ْاذ ِہ َ‬
‫ب َع ْن ُک ْم الرﱢجْ َ‬
‫وه )اہل بيت(جن سے )خدا نے( ہر برائی کو دور رکھا اور اس طرح پاک و پاکيزه رکھا جو پاک و پاکيزه رکھنے کا حق‬
‫ہے“۔‬
‫تمام حاضرين نے اس کی لعنت و مالمت کی اور اس سے کہا‪” :‬جب وه اپنے مذہب کے مطابق نماز پﮍھ رہا ہے تو اس سے‬
‫کيوں لﮍائی جھگﮍا کرتا ہے “‪ ،‬اور اس نے اس کے بعد سب لوگوں نے مجھ سے معافی مانگی۔]‪[2‬‬

‫مختصر وضاحت‬
‫واقعی وہابيوں اور سنيوں کے علماء کا کام کتنا حير ت انگيز ہے کہ وه عوام کو فريب ديتے ہيں اور انھيں يہ بات ذہن نشين‬
‫کراتے ہيں کہ خاک شفاء پتھر يا لکﮍی پر سجده کرنا حرام اور شرک ہے ميں ان سے پوچھتا ہوں سجده خاک شفا‪،‬لکﮍی‬
‫پتھر يا فرش اور ٹاٹ پر کرنے ميں کيا فرق پايا جاتا ہے ؟تم ٹاٹ اور چٹائی پر سجده کرتے ہو اسے شرک نہيں قرارديتے ہو‬
‫ليکن شيعہ حضرات اگرپتھر اور خاک شفا پر سجده کريں تو يہ شرک ہے ؟‬
‫کيا جو شخص فرش اور چٹائی پر سجده کرتا ہے تو گويا اس کی عبادت کرتا ہے ؟تم لوگ شيعہ حضرات کو شرک کی نسبت‬
‫ديتے ہو کيا انھيں سجده کرتے وقت نہيں ديکھتے کہ سجده ميں وه تين بار ”سبحان ﷲ“ کہتے ہيں يا ايک بار ”سبحان ربی‬
‫االعلی“ )پاک وپاکيزه ہے وه ذات(اور اس کی حمد وستائش پر غور نہيں کرتے ؟تم لوگوں کی زبان بھی عربی ہے تمہيں‬ ‫ٰ‬
‫عربی الفاظ سے زياده وا قف ہونا چاہئے تمہيں يہ اچھی طرح جان لينا چاہئے کہ جس پر سجده کيا جاتا ہے اور جس کے‬
‫لئے سجده کيا جاتا ہے ان دونوں ميں کيا فرق ہے ؟‬
‫اگر ہم کسی چيز پر سجده کرتے ہيں تو اس کے معنی يہ نہيں ہے کہ ہم اس کی عبادت کرنے لگے ہيں بلکہ سجده کی حالت‬
‫ميں ہم نہايت ہی خضوع اور خشوع کے ساتھ اپنے خدا وند متعال کے سامنے سر نيازخم کرتے ہيں‪ ،‬کيا تم نے يہ ديکھا ہے‬
‫کہ بت پرست اپنے سر کے نيچے بتوں کو رکھ کر ان کا سجده کرتے ہوں؟ نہيں بلکہ وه اپنے بتوں کو اپنے سامنے رکھتے‬
‫ہيں پھر ان کے سامنے اپنی پيشانی زمين پر ٹيکتے ہيں‪ ،‬يہاں پر يہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ وه بتوں کی پوجا‬
‫کرتے ہيں نہ کہ ان چيزوں کی جس پر وه اپنی پيشانيوں کورکھتے ہيں۔‬
‫نتيجہ يہ ہوا کہ پتھر پر سجده يا فرش پر سجده کرنے ميں کوئی فرق نہيں ہے اور اس سے يہ بھی ثابت نہيں ہے کہ ہم ان کا‬
‫سجده کرتے ہيں بلکہ يہ تمام صرف خداوند عالم کے لئے ہوتے ہيں‪ ،‬ہاں فرق يہ ہے کہ ہمارے مذہب کے پيشوا اور رہبر‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم فرماتے ہيں کہ زمين کی اجزاء )پتھر يا ايسی سجده گاه جو مٹی يا پتھر سے بنی ہو (پر سجده‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کرو ليکن اہل سنت کے مذہب کے رہبر اور پيشوا )مثالً ابوحنيفہ‪ ،‬امام شافعی وغير ه(کہتے ہی کہ اگر فرش پر نماز پﮍھ‬
‫رہے ہو تو اسی پر سجده کرو۔‬
‫يہاں پر اہل سنت حضرات يہ سوال کرتے ہيں کہ تم لوگ فرش پر سجده کيوں نہيں کرتے بلکہ خاک يا خاک کی انواع ميں‬
‫سے کسی ايک پر سجده کرتے ہو ؟‬
‫اس کا جواب يہی ہے‪” :‬رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم فرش پر سجده نہيں کرتے تھے بلکہ وه ريت اور خاک پر سجده‬
‫کيا کرتے تھے اور اس زمانہ کے تمام مسلمان بھی ريت اور مٹی پر سجده کرتے تھے آج ہم انھيں کی پيروی ميں ريت اور‬
‫مٹی پر سجده کرتے ہيں۔]‪[3‬‬
‫ہاں بعض روايات کے مطابق شديد گرمی کی وجہ سے لباس پر سجده کرنے کی اجازت دی گئی ہے جيسا کہ انس بن مالک‬
‫سے ايک روايت نقل ہوئی ہے۔‬
‫”کنا نصلي مع النبی صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم فيضع احدنا طرف الثوب من شدة الحر فی مکان السجود“۔]‪[4‬‬
‫”ہم لوگ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ نماز پﮍھتے تھے تو بعض لوگ شديد گرمی کی وجہ سے سجده کے وقت‬
‫مقام سجده پر اپنے لباس کا دامن رکھ ديا کرتے تھے“۔‬
‫اس روايت سے يہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ضرورت کے وقت فرش پر سجده کرنے ميں کوئی قباحت نہينہے ليکن آيا رسول‬
‫خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے بھی وقت ضرورت گرمی کی شدت کی وجہ سے فرش پر سجده کيا تھايا نہيں۔؟اس طرح‬
‫کی کوئی روايت اس موضوع پر آپ کے سلسلے ميں نہيں پائی جاتی۔‬
‫دوسری بات يہ ہے کہ اگر زمين کے اجزاء پر سجده کرنا شرک ہے تو ہميں يہ بھی کہنا چاہئے کہ خدا کے حکم سے‬
‫فرشتوں کا سجده جوان لوگوں نے آدم کے سامنے کيا تھا وه بھی شر ک ہی تھا يا کعبہ کی جانب منہ کر کے نماز پﮍھنا بھی‬
‫شرک ہے ‪،‬بلکہ ان دونوں موارد پر تو شرک ميں خاصی شدت پائی جاتی ہے کيونکہ فرشتوں نے تو جناب آدم عليہ السالم‬
‫کے سامنے سجده کيا تھا نہ کہ حضرت آدم پر اور اس طرح تمام مسلمان بھی کعبہ پر سجده نہيں کرتے بلکہ کعبہ کے‬
‫سامنے سجده کرتے ہيں۔‬
‫اس کے باوجود کسی مسلمان نے يہ نہيں کہا کہ جناب آدم عليہ السالم کے سامنے يا کعبہ کی سمت سجده کرنا شرک ہے‬
‫کيونکہ حقيقت سجده يعنی نہايت خضوع وخشوع کے ساتھ خداوند متعال کے حکم کے سامنے سر نياز خم کرنا ہے اسی وجہ‬
‫سے کعبہ کی سمت سجده کرنا خدا کے حکم سے خدا کا سجده کرنا ہے اور جناب آدم عليہ السالم کے سامنے بھی جناب آدم‬
‫کا سجده اوال ً توحکم خدا تھا جس کی اطاعت کے لئے فرشتوں نے اپنی پيشانياں خم کی تھيں دوسرے يہ کہ يہ سجده شکر‬
‫ٰالہی کے طور پر تھا اور اس بنياد پر ہم سجده گاه خاک شفايا لکﮍی پر سجده تو کرتے ہيں ليکن يہ سجده خدا کے حکم کی‬
‫بجاآوری کے لئے ہے اور ہمارا يہ سجده اس چيز پر ہے جو زمين کے اجزاء ميں سے ہے جيسا کہ ہمارے مذہب کے راہنما‬
‫وپيشوا نے فرمايا ہے کہ خدا کے سجده کے وقت اپنی پيشانی کو زمين کے اجزاء مينسے کسی چيز پررکھو۔‬

‫‪۵٣‬۔امر بالمعروف کميٹی کے صدر سے ايک شيعہ دانشور کا مناظره‬


‫ايک شيعہ عالم دين مدينہ مينامر بالمعروف کے رئيس کے پاس اپنے کسی کام سے گيا تو وہاں کميٹی کے رئيس اور شيعہ‬
‫عالم دين ميں بعض شيعہ امور کے سلسلہ ميں اس طرح بحث ہوئی‪:‬‬
‫رئيس‪” :‬تم لوگ قبر پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے قريب نماز زيارت کس لئے پﮍھتے ہو جب کہ غير خدا کے لئے‬
‫نماز پﮍھنا شرک ہے ؟“‬
‫شيعہ مفکر‪” :‬ہم پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے لئے نماز نہيں پﮍھتے بلکہ نماز خدا کے لئے پﮍھتے ہيں اور اس کا‬
‫ثواب رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی روح کے لئے ہديہ کرتے ہيں“۔‬
‫رئيس‪” :‬قبروں کے پاس نماز پﮍھنا شرک ہے“۔‬
‫شيعہ مفکر‪” :‬اگر قبروں کے پاس نماز پﮍھنا شرک ہے تو کعبہ ميں بھی نماز پﮍھنا شرک ہے کيونکہ حجر اسماعيل عليہ‬
‫السالم ميں بھی جناب ہاجره ‪،‬اسماعيل اور بعض دوسرے پيغمبروں کی قبريں پائی جاتی ہيں‪ ،‬اور يہ بات اہل سنت اور اہل‬
‫تشيع دونوں سے منقول ہے کہ بعض انبياء کی قبريں وہاں پر موجود ہيں تمہارے کہنے کے مطابق حجر اسماعيل ميں نماز‬
‫پﮍھنا شرک ہے جب کہ تمام مذاہب کے علماء )حنفی ‪،‬مالکی ‪،‬شافعی اور حنبلی وغيره(سب کے سب حجر اسماعيل ميں نماز‬
‫پﮍھتے ہيں۔ل ٰہذا اس بنا پر قبروں کے قريب نماز پﮍھنا شر ک نہيں ہے“۔]‪[5‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس کميٹی کے ايک شخص نے کہا‪” :‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے قبروں کے پاس نماز پﮍھنے سے نہی فرمايا‬
‫ہے۔‬
‫شيعہ مفکر‪” :‬يہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر سرار تہمت لگائی گئی ہے اگر قبروں کے پاس نماز پﮍھنے سے‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے نہی کيا ہے اور اسے حرام قرار ديا ہے تو الکھوں اور کروڑوں زائرين کيوں ان‬
‫کی مخالفت کرتے ہيں اور مسجد نبوی ميں آپ کی قبر اور عمر و ابوبکر کی قبروں کے سامنے اس فعل کے مرتکب ہوتے‬
‫ہيں؟“]‪[6‬‬
‫اس سلسلہ ميں چند روايتيں بھی نقل ہوئی ہيں کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ان کے چند صحابيوں نے قبروں‬
‫کے قريب نماز پﮍھی ہے۔منجملہ صحيح بخاری ]‪[7‬ميں نقل ہوا ہے کہ عيد قربان کے دن آنحضرت نے بقيع ميں نماز پﮍھی‬
‫اور اس کے بعد آپ نے فرمايا‪:‬‬
‫”آج کے دن کی خاص عباد ت يہ ہے کہ ہم نماز پﮍھيں اور اس کے بعد واپس ہوں اور قربانی کريں اور جس نے اس طرح‬
‫کيا اس نے گويا ميری سنت پر عمل کيا“۔‬
‫اس روايت کے مطابق رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے قبروں کے قريب نماز پﮍھی ہے ليکن تم لوگوں کو قبرونکے‬
‫پاس نماز پﮍھنے سے روکتے ہو کہ اسالم ميں يہ چيز جائزنہيں ہے اگر اسالم سے تمہارا مطلب شريعت محمدی ہے تو‬
‫صاحب شريعت حضرت محمد صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے خود بقيع ميں نماز پﮍھی ہے ہاں اس بات کی طرف توجہ رہے‬
‫کہ آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم جب مدينہ ميں وارد ہوئے تھے تو اس وقت بقيع قبرستان تھا اور اب بھی ہے۔‬
‫اس بنا پر پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے نزديک اور ان کی پيروی کرنے والوں کے نزديک قبروں کے پاس‬
‫نماز پﮍھنا جائز ہے۔ليکن تم لوگ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رائے کے خالف قبروں کے نزديک نماز پﮍھنے‬
‫سے منع کرتے ہو۔‬
‫اس سلسلہ ميں ايک غم انگيز واقعہ‬
‫ڈاکٹر سيد محمد تيجانی سماوی اہل سنت کے ايک ايسے مفکر ہيں جنھوں نے شيعيت اختيار کرلی وه لکھتے ہيں‪:‬‬
‫”ميں بقيع زيارت کے لئے گيا ہوا تھا اوروہانکھﮍا ہو کر اہل بيت عليہم السالم پر درود پﮍ ھ رہا تھا کہ ديکھا ايک بوڑھا‬
‫ضعيف اور ناتوان شخص رورہا ہے ميں نے ا س کے گريہ سے سمجھ ليا کہ وه شيعہ ہے تھوڑی ہی دير بعد يہ شخص قبلہ‬
‫رخ ہو کر نماز پﮍھنے ميں مشغول ہوگيا کہ ناگہاں ديکھا ايک سعودی فوج کا آدمی اس کے پاس دوڑا ہوا آيا جس سے يہ پتہ‬
‫چل رہا تھا کہ بہت ہی دير سے وه اس شيعہ کی ٹوه ميں لگا ہوا تھا آتے ہی اس نے اپنی اونچی ايﮍی کے جوتے سے اسے‬
‫اس طرح مارا کہ فوراًہی وه منہ کے بل زمين پر گر پﮍ ا اور کچھ دير کے لئے وه بے ہوش ہو گيا اور اسی بے ہوشی کی‬
‫حالت ميں فوج کا آدمی اسے کچھ دير تک مارتا اور برا بھال کہتا رہا۔‬
‫اس بوڑھے کو ديکھ کر ميرا دل بھر آيا اور خيال کيا کہ وه مر چکا ہے ‪ ،‬ميری غيرت جوش ميں آئی اور ميں نے اس فوجی‬
‫سے کہا‪:‬‬
‫”خدا خوش نہيں ہوگا اسے نماز پﮍھنے کی حالت ميں کيوں مار رہے ہو؟“‬
‫اس نے جھالّ کر مجھ سے کہا‪” :‬خاموش ہو جا ورنہ تيرا بھی يہی حشر ہوگا جو اس کا ہوا ہے“۔‬
‫ميں نے اسی جگہ بعض زائرين کو ديکھا وه کہہ رہے تھے۔”وه جوتے ہی کا مستحق ہے کيونکہ اس نے قبر کے پاس نماز‬
‫پﮍھی ہے“۔‬
‫ميں نے غصہ ميں کہا‪” :‬قبر کے پاس نماز پﮍھنا کس نے حرام قرار ديا ہے ؟اور طويل گفتگو کے بعد ميں نے کہا‪:‬‬
‫”اگربالفرض قبر کے پاس نماز پﮍھنا حرام ہے تو نرمی سے منع کرنا چاہئے نہ کہ غصہ سے“۔‬
‫ميں ايک باديہ نشين کا واقعہ تمہارے لئے نقل کرتا ہوں۔‬
‫پيغمبر اسالم کا زمانہ تھا ايک بے حيا اور بے شرم باديہ نشين نے آکر پيغمبر اسالم کے سامنے مسجد ميں پيشاب کر ديا يہ‬
‫ديکھ کر ايک صحابی اپنی شمشير لے کر اسے قتل کرنے کے لئے بﮍھا ليکن پيغمبر اسالم نے اسے سختی سے روکا اور‬
‫کہا‪” :‬اسے اذيت نہ دو ايک بالٹی پانی ال کر اس کے پيشاب پر ڈال دو تاکہ مسجد پا ک ہو جا ئے تم لوگوں کے امور کو آسان‬
‫کرنے لئے بھيجے گئے ہو نہ کہ اذيت دينے کے لئے)تم ميں جاذبيت ہونی چاہئے نہ کہ نفرت(‬
‫اصحاب نے پيغمبر کے حکم پر عمل کيا اس کے بعد آنحضرت نے باديہ نشين کو باليا اور اپنے قريب بٹھا کر بﮍے ہی نرم‬
‫لہجے ميں اس سے کہا‪” :‬يہ خدا کا گھر ہے اسے نجس نہيں کرنا چاہئے“۔‬
‫چنانچہ يہ سب ديکھ کر وه باديہ نشين اسی وقت مسلمان ہو گيا۔‬
‫کيا واقعی حرمين کے خدام کا اسی طرح سلوک ہونا چاہئے جس طرح وه ايک بوڑھے اور نابينا سے پيش آتے ہيں اور کيا‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس طرح اپنے اخالق کو پيغمبر کا اخالق کہہ کر لوگوں کے لئے اپنے کو نمونہ قرار ددے سکتے ہيں ؟]‪[8‬‬

‫‪۵۴‬۔مظلوميت فاطمہ الزہرا عليہا السالم کيوں؟‬


‫امر بالمعروف کميٹی کے ساتھ شيعہ علماء کے چند مناظرے بيان کئے جا چکے اور اب ہم چند دوسرے حصے بيان کر‬
‫رہے ہيں توجہ فرمائيں۔‬
‫رئيس‪” :‬قبر پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کے پاس اذکار کے درميان تم لوگ”السالم‬
‫عليک ايھا المظلومة“کيوں کہتے ہو)اے مظلومہ تم پر سالم ہو(کس شخص نے فاطمہ زہراسالم ﷲ عليہا پر ظلم کيا ہے؟‬
‫شيعہ مفکر‪” :‬فاطمہ الزہرا سالم ﷲ عليہا کے بارے ميں غم انگيز ستم کا واقعہ تمہاری کتابوں ميں پايا جاتا ہے“۔‬
‫رئيس‪” :‬کس کتاب ميں؟“‬
‫شيعہ مفکر‪” :‬کتاب ”االمامة والسياسة“کے صفحہ نمبر ‪ ١٣‬پر جس کے مولف ابن قتيبہ دينوری ہيں۔‬
‫رئيس‪” :‬ہمارے پاس اس طرح کی کوئی کتاب نہيں ہے“۔‬
‫الوں گا“۔‬
‫شيعہ‪” :‬ميں اس کتاب کو دکان سے خريد کر تمہارے لئے ٔ‬
‫رئيس نے مير ی اس پيش کش کو قبول کر ليا ميں بازار جا کر کتاب ”االمامہ والسياسة“خريد ال يا اور اس کے سامنے ج اول‬
‫‪ ،‬ص‪ ١٩‬کھول کر رکھ ديا اور کہا اسے پﮍھو اس صفحہ پر اس طرح لکھا ہوا تھا۔‬
‫”اس وقت ابو بکر ان لوگوں کی جستجو ميں تھا جنھوں نے اس کی بيعت کرنے سے انکار کيااورعلی عليہ السالم کے گھر‬
‫ميں پناه لی تھی۔ابو بکر نے عمر کو ان لوگوں کے پاس بھيجا عمر علی عليہ السالم کے گھر کے پا س آکر بلند آواز سے‬
‫علی عليہ السالم اور ان کے گھر ميں جو بھی لوگ تھے انھيں باليا اور کہا ابو بکر کی بيعت کے لئے گھر سے باہر نکل ٔ‬
‫آو‬
‫مگر وه لوگ گھر سے باہر نہيں آئے تو عمر نے آگ لکﮍی منگوائی اور کہا اس کی قسم جس کے ہاتھ ميں عمر کی جان ہے‬
‫آو ورنہ تم لوگوں کے ساتھ اس گھر کو آگ لگادوں گا۔‬ ‫تم لوگ جلد سے جلد باہر ٔ‬
‫عمر کے بعض ساتھيوں نے کہا اس گھر ميں حضرت فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا ہيں۔‬
‫عمر نے کہا‪” :‬ہوا کريں“۔‬
‫مجبور ہو کر حضرت علی عليہ السالم کے عالوه تمام لوگ گھر سے باہر نکل آئے۔]‪[9‬‬
‫اسی صفحہ )‪ (١٩‬کے ذيل ميں لکھا ہوا ہے کہ مرتے وقت ابو بکر نے بستر عاللت پر کہا‪:‬‬
‫۔‬ ‫“‬‫تھا‬ ‫کيا‬ ‫”کاش علی عليہ السالم کے گھر پر حملہ نہ ہوا ہوتااگر چہ انھوں نے ہم سے اعالن جنگ‬
‫يہاں شيعہ نے وہابی رئيس سے کہا‪” :‬ابو بکر کی بات پر خوب توجہ کرو مرتے وقت انھوں نے کس طرح افسوس اور‬
‫پشيمانی کا اظہار کيا“۔‬
‫رئيس اس کتاب کے استدالل سے تلمال اٹھا اور کہنے لگا۔”اس کتاب کا مولف ابن قتيبہ شيعوں کی طرف مائل ہے“۔]‪[10‬‬
‫شيعہ مفکر‪” :‬اگر ابن قتيبہ مذہب تشيع کی طرف مائل ہے تو صحيح مسلم اور صحيح بخاری کے مولفين کے بارے ميں کيا‬
‫کہتے ہو جب کہ دونوں نے روايت کی ہے‪:‬‬
‫”فہجرتہ فاطمة و لم تکلمہ فی ذلک حتی ماتت“]‪[11‬‬
‫”حضرت فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا مرتے وقت ابوبکر سے ناراض تھيں اور نفرت کرتی تھيں يہاں تک کہ دنيا کو خدا حافظ‬
‫کيا“۔‬
‫اس سلسلہ ميں صحيح مسلم ج‪ ۵‬ص‪ ١۵٣‬طبع مصر۔صحيح بخاری ج‪ ۵‬ص ‪ ١٧٧‬طبع الشعب )باب غزوة خبير( مالحظہ‬
‫فرمائيں۔]‪[12‬‬

‫‪۵۵‬۔خاک شفا اور سجده گاه پر سجده کے بارے ميں ايک مناظره‬
‫مصر کی ”االزہر “يونيور سٹی کے فارغ التحصيل اہل سنت کے يک عالم دين جن کا نام ”شيخ محمد مرعی انطاکی “تھا اور‬
‫يہ شام کے رہنے والے تھے انھوں نے اپنی بہت ہی عظيم تحقيق کے بعد مذہب تشيع اختيار کر ليا‪ ،‬وه اپنی کتاب ”لما ذا‬
‫اخترت مذہب الشيعة“ميں اپنے مذہب شيعہ اختيار کرنے کے سلسلہ ميں تمام علل واسباب کے مدارک لکھتے ہيں۔‬
‫يہاں پر اہل سنت سے ان کا ايک مناظره نقل کر رہے ہيں جو خاک شفا پر سجده کرنے کے سلسلے ميں ہوا تھا مالحظہ‬
‫فرمائيں‪:‬‬
‫محمد مرعی اپنے گھر ميں بيٹھے ہوئے تھے چند اہل سنت ان کے گھر پر ان سے مالقات کے لئے آئے جن ميں ان کے کچھ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫جامعہ ازہر کے پرانے دوست بھی تھے۔گھر پر گفتگو کے دوران بات چيت يہاں تک پہنچ گئی۔‬
‫علماء اہل سنت‪” :‬تمام شيعہ حضرات خاک شفا پر سجده کرتے ہيں اسی وجہ سے وه مشرک ہيں“۔‬
‫محمد مرعی‪” :‬خاک شفا پر سجده کرنا شرک نہينہے کيونکہ شيعہ خاک شفا پر خدا کے لئے سجده کرتے ہيں نہ کہ مٹی کا‬
‫سجده کرتے ہيں البتہ تمہارے فکر ميں اگر اس ميں کوئی چيز ہے اور شيعہ اس کا سجده کرتے ہيں تو وه شرک ہے ليکن‬
‫شيعہ اپنے معبود خدا کے لئے سجده کرتے ہيں نتيجہ ميں وه خدا کے سجده کے وقت اپنی پيشانی کو خاک پر رکھتے ہيں۔اس‬
‫سے واضح يہ کہ حقيقت سجده‪ ،‬خدا کے سامنے خضوع وخشوع کا آخری درجہ ہے نہ کہ خاک شفا کے سامنے خضوع‬
‫وخشوع ہے۔‬
‫ان ميں سے ايک حميد نامی شخص نے کہا تمہيں اس چيز کی ميں داد ديتا ہوں کہ تم نے بہت ہی اچھا تجزيہ کيا ليکن ہمارے‬
‫لئے ايک اعتراض باقی ره جاتا ہے‪ ،‬اور وه يہ کہ تم لوگ )شيعہ(کيوں اس چيز پر مصر ہو کہ خاک شفا پر ہی سجده کيا‬
‫جائے اور جس طرح مٹی پر سجده کرتے ہو اسی طرح دوسری تمام چيزوں پر سجده کيوں نہيں کرتے ؟‬
‫محمد مرعی‪” :‬ہم لوگ اس بنياد پر خاک پر سجده کرتے ہيں کہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک حديث جو‬
‫تمام فرقوں ميں پائی جاتی ہے فرماياہے‪:‬‬
‫”جعلت لی االرض مسجدا وطہورا“‬
‫”زمين ميرے لئے سجده گا ه اور پاک وپاکيزه قرار دی گئی ہے“۔‬
‫حميد‪:‬کس طرح تمام مسلمان اس نظريہ پر اتفاق نہيں رکھتے ہيں ؟“‬
‫محمد مرعی‪” :‬جس وقت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مکہ سے مدينہ کی طرف ہجرت کی اسی وقت آپ نے‬
‫مسجد بنا نے کاحکم ديا کيا اس وقت اس مسجد ميں فرش تھا؟“‬
‫حميد‪” :‬نہينفرش نہيں تھا“۔‬
‫محمد مرعی‪” :‬بس پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور اس وقت کے تمام مسلمانوں نے کس چيز پر سجده کيا تھا؟“‬
‫حميد‪” :‬مسلمانوں نے اس زمين پر سجده کيا تھا جس کا فرش خاک سے بنا ہوا تھا“۔‬
‫محمد مرعی‪” :‬بعد رحلت پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم ابو بکر ‪،‬عمر اور عثمان کی خالفت کے زمانہ ميں مسلمانوں نے‬
‫کس چيز پر سجده کيا؟کيا اس وقت مسجد ميں فرش تھا؟“‬
‫حميد‪” :‬نہيں فرش نہيں تھا۔ان لوگوں نے بھی مسجد کی زمين پر سجده کيا تھا“۔‬
‫محمد مرعی‪” :‬تمہارے اس اعتراض کی بنياد پر پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے تمام نمازوں کے سجدے زمين پر‬
‫کئے ہيں اس طرح تمام مسلمان نے آنحضرت کے زمانے ميں اور ان کے بعد بھی زمين پر ہی سجده کيا بس انھيں وجوه کی‬
‫بنا پر خاک پر سجده کرنا صحيح ہے“۔‬
‫حميد‪” :‬ہمارا اعتراض يہ ہے کہ شيعہ صرف خاک پر سجده کرتے ہيں اور خاک زمين سے لی گئی ہے اسے سجده گاه بنا‬
‫ديا اور جس پر وه اپنی پيشانيوں کو رکھتے ہيں اور سجده کے وقت اسی کو دوسری زمين پر رکھتے ہيں اور اس پر سجده‬
‫کرتے ہيں“۔‬
‫محمد مرعی‪” :‬اوالًيہ کہ شيعہ عقيده کے مطابق ہر طرح کی زمين پر سجده کرنا جائز ہے خواه پتھر کا فرش ہو يا خاک کا‬
‫فرش ہو۔ثانيا ً يہ کہ جہاں سجده کيا جائے وه پاک ہو بس نجس زمين يا خاک پر سجده کرنا جائز نہيں ہے اسی وجہ سے وه‬
‫مٹی کا ايک ٹکﮍا جو سجده گا ه کی شکل کا بنا يا جاتا ہے وه اپنے ساتھ رکھتے ہيں تاکہ اس بات کا اطمينان رہے کہ يہ پاک‬
‫ہے اور اس پر سجده ہو سکتا ہے۔‬
‫حميد‪” :‬اگر شيعوں کی مراد صرف پاک اور خاص مٹی پر سجده کرنا ہے تو کيوں اپنے ساتھ سجده گاه رکھتے ہيں کيوں‬
‫نہيں تھوڑی سے خاک اپنے پاس رکھتے ؟‬
‫محمد مرعی‪” :‬اپنے ساتھ خاک رکھنے سے کپﮍے وغيره گندے ہو سکتے ہيں کيونکہ خاک کی طبيعت ہے کہ اسے جہاں‬
‫بھی رکھا جائے گا وه اسے آلوده کر دے گی شيعہ حضرات اسی وجہ سے اس خاک کو پانی ميں مال کر ايک خوبصور ت‬
‫شکل کی سجده گاه بنا ليتے ہيں تاکہ اسے اپنے ساتھ رکھنے ميں زحمت نہ ہوا اور لباس گنده نہ ہونے پائے۔‬
‫حميد‪” :‬خا ک کے عالوه بورئے اور قالين وغير پر سجده کيوں نہيں کرتے ؟‬
‫محمد مرعی‪” :‬جيسا کہ ميں نے کہا کہ سجده کا مطلب يہ ہے کہ خدا کے سامنے آخری درجہ کا خشوع و خضوع کيا جائے‪،‬‬
‫ميں کہتا ہوں کہ خاک پر سجده کرنا خواه وه سجده گاه ہو يا نرم خاک ہو خدا کے سامنے زياده خشوع و خضوعپر داللت کرتا‬
‫ہے کيونکہ خاک سب سے زياده حقير چيز ہے اور ہم اپنے جسم کا سب سے عظيم حصہ )يعنی پيشانی(کوسب سے حقير اور‬
‫پست چيز پر سجده کے وقت رکھتے ہيں تاکہ خدا کی عبادت نہايت خشوع و خضوعسے کريں۔اسی وجہ سے مستحب ہے کہ‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫جائے سجده ‪،‬پير اور اعضائے بدن سے نيچی ہو تاکہ زياده سے زياده خضوع وخشوع پرداللت کرے اور اسی طرح يہ بھی‬
‫مستحب ہے کہ ناک کی نوک خاک ميں آلوده ہوتاکہ زياده سے زياده خضوع وخشوع کا اظہار ہو۔خاک کے ايک ٹکﮍے‬
‫)سجده گاه(پر سجده کرنا اسی وجہ سے تمام چيزوں سے بہتر ہے اگر کوئی انسان اپنی پيشانی کو ايک بہت ہی قيمتی سجده‬
‫گاه پر سونے چاندی کے ٹکﮍے پرسجده کرے تو اس سے اس کے خضوع وخشوع ميں کمی آجاتی ہے ‪ ،‬اور کبھی بھی‬
‫ايسابھی ہوسکتا ہے کہ بنده خدا کے سامنے اپنے کو چھوٹا اور پست شمار نہيں کرے گا۔‬
‫اسی وضاحت کے ساتھ کہ آيا کسی شخص کے خشک مٹی )سجده گاه( پر سجده کرنے سے تاکہ اس کا خضوع وخشوع خدا‬
‫کے نزديک زياده ہو جائے وه مشرک اور کافر ہوجائے گا؟ليکن قالين ‪،‬سنگ مرمر اور قالين و فرش وغيره پر سجده کرنا‬
‫خضوع وخشوع ميں زيادتی کرتا ہے اور تقرب خدا کا سبب بنتا ہے ؟ اس طرح کا تصور کرنے واال شخص غلط اور گھٹيا‬
‫فکر کامالک ہے“۔‬
‫حميد‪” :‬يہ کياہے جو شيعوں کی سجده گاه پر لکھا ہوا ہوتا ہے؟“‬
‫محمد مرعی‪” :‬اوالً يہ تمام سجده گاہوں پر لکھا ہوا نہيں ہوتا بلکہ اکثر ايسی ہيں جن پر کچھ نہيں لکھا ہوتا ہے ثانيا ً بعض پر‬
‫االعلی وبحمده‘ ‘ہے جو ذکر سجده کی طرف اشاره کرتاہے اور بعض سجده گاه پر‬ ‫ٰ‬ ‫لکھا بھی ہوتا ہے تو وه ”سبحان ربی‬
‫لکھا ہوا ہوتا ہے کہ يہ مٹی کربال سے لی گئی ہے تمہيں خدا کی قسم ہے آيا يہ لکھے ہوئے کلمات موجب شرک ہيں؟اور آيا‬
‫يہ لکھے ہوئے کلمات مٹی کو مٹی ہونے سے خارج کرديتے ہيں؟‬
‫حميد‪” :‬نہيں يہ ہرگز موجب شرک نہيں ہے اور اس پر سجده کرنے ميں عدم جواز پر کوئی دليل بھی نہينہے ليکن ايک‬
‫دوسرا سوال يہ کہ خاک شفا کيا خصوصيت رکھتی ہے کہ اکثر شيعہ خاک شفا پر ہی سجده کرنے کو ترجيح ديتے ہيں؟“‬
‫محمد مرعی‪” :‬اس کا راز يہ ہے کہ ہمارے ائمہ اہل بيت عليہم السالم سے روايت ہے کہ خاک شفا ہر خاک سے افضل و‬
‫برتر ہے۔امام جعفر صاد ق عليہ السالم نے فرمايا ہے‪:‬‬
‫”السجود علی تربة الحسين يخرق الحجب السبع“۔]‪[13‬‬
‫”خاک شفا پر سجده کرنے سے ساتھ حجاب ہٹ جاتے ہيں“۔‬
‫يعنی نماز قبوليت کے درجہ تک پہنچ جاتی ہے اور آسمان کی طرف جاتی ہے نيز يہ بھی روايت ہے کہ آپ خدا کی بارگاه‬
‫ميں تذلل اور انکساری کی وجہ سے صرف خاک شفا پر سجده کرتے تھے۔]‪ [14‬اس بنا پر خاک شفا ميں ايک ايسی فضيلت‬
‫ہے جو دوسری خاک ميں نہيں پائی جاتی ہے“۔‬
‫حميد‪” :‬آيا خاک شفا پر سجده کرنے سے نماز قبول ہوتی ہے اور اس کے عالوه اور کسی مٹی پر سجده کرنے سے نماز‬
‫قبول نہيں ہوگی ؟‬
‫محمد مرعی‪” :‬مذہب شيعہ کہتا ہے اگر آپ نماز کے شرائط صحت سے کوئی بھی شرط فاقد ہو جائے تو نمازباطل ہے اور‬
‫قبول نہيں ہوگی ليکن اگرنماز کے تمام شرائط پائے جاتے ہيں اور اس کا سجده خاک شفا پر کيا گيا ہو تو نماز قبول بھی‬
‫ہوگی اور ساتھ ساتھ وه اہميت کی بھی حامل ہوگی اور اس کا ثواب زياده ہو جائے گا۔‬
‫حميد‪” :‬کيا زمين کربال تمام زمينوں حتی مکہ اور مدينہ کی زمينوں سے بھی افضل وبرتر ہے تاکہ يہ کہا جائے کہ خاک شفا‬
‫پر نماز پﮍھنا تمام خاک سے افضل و برتر ہے؟“‬
‫محمد مرعی‪” :‬اس ميں کيا اعتراض ہے کہ خدا وند عالم نے خا ک کربال ہی ميناس طرح کی خصوصيت قرار دی ہو“۔‬
‫حميد‪” :‬زمين مکہ جو جناب آدم عليہ السالم سے لے کر آج تک مقام کعبہ ہے اور مدينہ کی زمين جس ميں پيغمبر اکرم صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا جسم مبارک مدفون ہے کيا ان کا مقام ومنزلت کربال کی زمين سے کمتر ہے؟ يہ بﮍی عجيب بات ہے‬
‫کيا حسين عليہ السالم اپنے جد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے افضل و برتر ہيں؟‬
‫محمد مرعی‪” :‬نہيں ہر گز نہيں بلکہ امام حسين عليہ السالم کی عظمت ومنزلت ان کے جد رسول کی وجہ سے ہے ليکن‬
‫خاک کربال کو فضيلت حاصل ہونے کے سلسلے ميں يہ راز ہے کہ امام حسين عليہ السالم اس سر زمين پر اپنے نانا کے دين‬
‫کی راه ميں شہيد ہوئے ہيں امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب اور خاندان کے لوگوں نے شريعت محمد ی کی‬
‫حفاظت اور اس کی نشر واشاعت کے سلسلہ ميں اپنی جانيں قربان کی ہيں اس وجہ سے خداوند عالم نے انھيں تين‬
‫خصوصيتيں عنايت فرمائی ہيں۔‬
‫‪١‬۔آپ کے مرقد شريف ميں گنبد کے نيچے قبوليت دعا کی ضمانت۔‬
‫‪٢‬۔تمام ديگر ائمہ عليہم السالم آپ کی نسل سے ہيں۔‬
‫‪٣‬۔آپ کی خاک )خاک کربال(ميں شفا ہے۔‬
‫آيا اس طرح خاک کربال کو خصوصيتيں عطا کرنا کوئی اعتراض کا مقام ہے؟ کيا زمين کربال کو زمين مدينہ سے افضل‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کہنے کا يہ مطلب ہوا کہ امام حسين عليہ السالم اپنے نانا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے افضل وبرتر ہيں؟اور‬
‫تمہيں اس طرح اعتراض کرنے کا موقع مل جائے؟نہيں بلکہ مطلب اس کے بر عکس ہے يعنی امام حسين عليہ السالم کا‬
‫احترام ان کے جد رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا احترام ہے اور رسول اکرم کا احترام خدا کا احترام ہے“۔‬
‫جب يہ بات يہاں تک پہنچی تو انھيں ميں سے ايک شخص جو قانع ہو چکا تھا وه خوش ہو کر وہاں سے اٹھا اور ميری‬
‫تعريف و تمجيد کرنے لگا اور اس نے شيعوں کی کتابوں کی درخواست کرتے ہوئے مجھ سے کہا‪:‬‬
‫”تمہاری باتيں نہايت سنجيده اور مستحکم ہيں ابھی تک ميں خيال کررہا تھا کہ شيعہ امام حسين عليہ السالم کو رسول خدا‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے افضل وبرتر سمجھتے ہيں۔آج مجھے حقيقت معلوم ہوئی‪ ،‬تمہارے اس حسين بيان پر تمہار ا‬
‫بہت شکر گزار ہوں۔آج کے بعد سے ميں بھی خاک شفا کی سجده گاه اپنے ساتھ رکھو نگا اور اس پر نماز پﮍھوں گا۔]‪[15‬‬

‫‪۵۶‬۔رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد اگر کوئی رسول ہوتا تو وه کون ہوتا؟‬
‫العظمی سيد عبد ﷲ شيرازی ( نے فرمايا‪” :‬جب ميں مکہ ميں تھا تو ”باب السالم“کے‬ ‫ٰ‬ ‫ايک مرجع تقليد )مرحوم آيت ﷲ‬
‫نزديک کتاب خريدنے ايک کتاب کی دوکان پر گيا تو وہاں بہت ہی پﮍھے لکھے اہل سنت کے عالم سے ميری مالقات ہوگئی‬
‫جب اس نے مجھے پہچان ليا کہ ميں ايک شيعہ عالم ہوں تو اس نے ميرا بہت ہی اچھی طرح احترام کيا اور مجھ سے چند‬
‫سواالت کئے جن ميں سے چند خاص خاص سواالت عرض کرتا ہوں۔اس نے مجھ سے يہ سوال کيا‪:‬‬
‫تم اس حديث کے بارے ميں کيا کہتے ہو کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے‪:‬‬
‫”لوکان نبی غيری لکان عمر“۔‬
‫”اگر ميرے بعد کوئی پيغمبر ہوتا تو وه عمر بن خطاب ہوتے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ہر گز اس طرح کی کوئی حديث نہيں بيان کی ہے يہ حديث جھوٹی‬
‫اور جعلی ہے“۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬کيا دليل ہے ؟“‬
‫ميں نے کہا‪” :‬تم حديث منزلت کے بارے ميں کيا کہتے ہو؟آيا يہ حديث ہمارے اور تمہارے درميان مسلم ہے يا نہيں کہ‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم سے فرمايا‪:‬‬
‫موسی اال انہ ال نبی بعدی“]‪[16‬‬
‫ٰ‬ ‫”يا علی انت منی بمنزلة ہارون من‬
‫موسی سے تھی مگر يہ کہ ميرے بعد کوئی نبی نہيں‬ ‫ٰ‬ ‫کو‬ ‫”اے علی عليہ السالم !تمہارے نسبت مجھ سے وہی ہے جو ہارون‬
‫ہوگا“۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬ہماری نظر ميں اس حديث کے صحيح ہونے ميں کوئی شک وشبہ نہيں ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬اس حديث کی داللت التزامی سے يہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر پيغمبر اکرم کے بعد کوئی پيغمبر ہوتا تو وه‬
‫قطعی اور يقينی طور پر علی عليہ السالم ہوتے اس حديث کی بنا پر جس کا تم اعتراف کرتے ہو کہ يہ يقينی اور قطعی ہے‬
‫دوسری حديث خود بخود بے بنياد اور محض جھوٹ ثابت ہو جاتی ہے“۔‬
‫وه اس بات کے سامنے بے بس اور الچار ہو گيا اور حيرت زده ہو کر خاموشی اختيار کر لی۔]‪[17‬‬

‫‪۵٧‬۔متعہ )وقتی شادی( کے جواز پر ايک مناظره‬


‫العظمی سيد عبد ﷲ شيرازی فرماتے ہيں‪” :‬اس نے اپنا دوسرا سوال اس طرح پيش کيا‪“:‬‬ ‫ٰ‬ ‫مرحوم آيت ﷲ‬
‫کيا تم شيعہ حضرات متعہ کو جائز جانتے ہو؟‬
‫ميں نے کہا‪” :‬ہاں“۔‬
‫اس نے کہا‪” :‬کس دليل کی بنا پر؟“‬
‫ميں نے کہا‪” :‬عمر ابن خطاب کی بات کی بنا پرکہ عمر ابن خطاب نے کہا تھا‪:‬‬
‫”متعتان محللتان فی زمن الرسول وانا احرمھما“‬
‫”دو متعہ رسول خدا کے زمانہ ميں حالل تھے اور ميں ان دونوں کو حرام قرار ديتا ہوں“۔‬
‫اور بعض عبارتوں ميں اس طرح آيا ہے۔‬
‫”متعتان کانتا علی عہد رسول ﷲ وانا انھی عنھما واعاقب عليھما متعة الحج ومتعة النساء“۔]‪[18‬‬
‫”رسول اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانہ ميں دو متعہ پائے جاتے تھے ليکن ميں ان دونوں سے منع کرتا ہوں اور‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ان دونوں کے انجام دينے والوں کی سزادوں گا وه دومتعہ ۔۔۔متعہ حج اور متعہ نساء ہے“۔‬
‫حضرت عمر کی اس بات )روايت وقرآن کے دالئل کو چھوڑ تے ہوئے (سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ دونوں متعہ رسول خدا‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانے ميں جائز تھے ليکن اسے عمر نے حرام قرار ديا ہے۔ميں تم سے پوچھتا ہوں کہ عمر‬
‫نے کس وجہ سے ان کو حرام قرار ديا آيا وه رسول اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد پيغمبر تھے اور انھيں خدا وند‬
‫متعال نے حکم ديا کہ تم ان دونوں کوحرام کر دو يا عمر پر خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی؟ کسی دليل سے انھوں نے‬
‫متعہ کو حرام قرار ديا جب کہ يہ بھی ہے‪:‬‬
‫”حالل محمد حالل الی يوم القيامة وحرامہ حرام الی يوم القيامة“۔‬
‫”حالل محمد قيامت تک کے لئے حالل اورحرام محمد قيامت تک کے لئے حرام ہے“۔‬
‫آيا اس طرح کی تبديلی ايک قسم کی بدعت نہيں ہے جب کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا‪” :‬ہر بدعت‬
‫گمراہی ہے اور گمراہی کی وجہ سے انسان جہنم ميں جھونکا جائے گا “اس وجہ سے اب مسلمان کس دليل سے عمر کی‬
‫بدعت کی پيروی کرتے ہيں اور پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بات کو چھوڑ ديتے ہيں؟“]‪[19‬‬
‫وه اس طرح کی باتوں کے سامنے بے بس و الچار ہو کر خاموش ہو گيا۔‬
‫مولف کا قول‪” :‬اس سلسلہ ميں بہت سی باتيں ہيں کہ ليکن اس بات کا اصلی مقام فقہی کتابيں ہيں۔‬
‫سوره نساء کی ‪ ٢۴‬ويں آيت متعہ کے جائز ہونے پر ايک دليل ہے صرف يہاں پر متعہ کے بارے ميں امام علی عليہ السالم‬ ‫ٔ‬
‫سے ايک روايت نقل کرنا ہی کافی سمجھتے ہيں۔‬
‫”ان المتعة رحمةٌ رحم ﷲ بھا عباده ولوالنھی عمر مازنی اال شقی“۔]‪[20‬‬
‫”يقينا متعہ ايک ايسی رحمت ہے جس کے ذريعہ خدا وند عالم نے اپنے بندوں پر رحم کيا ہے اور اگر اسے عمر حرام نہ‬
‫کرتے تو کسی بد بخت کے عالوه زنا کا کوئی مرتکب نہ ہوتا۔‬

‫‪۵٨‬۔ايک شيعہ دانشور کا عيسائی دانشورسے مناظره‬


‫قرآن کے سوره ”عبس“کی پہلی اور دوسری آيت ميں آيا ہے‪:‬‬
‫س َوتَ َولﱠی۔ أَ ْن َجائَہُ ْ َٔ‬
‫اال ْع َمی“‬ ‫” َعبَ َ‬
‫”اس نے منھ بسور ليا اور پيٹھ پھير لی کہ ان کے پاس ايک نابينا آگيا“۔‬
‫کتب اہل سنت ميں ايک روايت اس آيت کے شان نزول کے بارے ميں نقل ہوئی ہے جس کا خالصہ يہ ہے کہ پيغمبر صلی‬
‫ﷲ عليه و آله وسلم قريش کے سرداروں سے باتيں کررہے تھے تاکہ انھيں اسالم کی طرف دعوت دے سکيں ان کے درميان‬
‫ايک نابينا مومن فقير بھی تھا جس کانام ”عبد ﷲ بن مکتوم“تھا اس نےپيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے قريب آکر‬
‫چند بار کہا کہ يا رسول ﷲ مجھے بھی قرآنی آيات کی تعليم ديجئے۔پيغمبر اس پرناراض ہو گئے اور آپ کا چہره سرخ ہو گيا‬
‫تو خداوند متعال نے سوره عبس کے شروع کی آيت کے ذريعہ پيغمبر کی اس فعل پر سر زنش کی۔]‪[21‬‬
‫ليکن شيعہ روايت کے مطابق سوره عبس کی شروع کی آيتيں عثمان کے لئے نازل ہوئی ہيں اور انھيں خدا کی طرف سے‬
‫ڈانٹا گيا ہے کہ نابينا فقير سے کيوں بے اعتنائی کی ہے۔]‪[22‬‬
‫مذکوره بات کو مد نظر رکھتے ہوئے درج ذيل اس مناظره کو مالحظہ فرمائيں جو ايک شيعہ مفکر اور عيسائی عالم کے‬
‫درميان ہوا ہے۔‬
‫عيسی عليہ السالم تمہارے پيغمبر محمد صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے بہتر ہيں اس لئے کہ‬‫ٰ‬ ‫عيسائی عالم‪” :‬ہمارے پيغمبر‬
‫تمہارے پيغمبر تھوڑے سے بد اخالق تھے کيونکہ انھوں نے ايک نابينا فقير سے جھنجھال کر اسے ڈانٹا اور اس کی طرف‬
‫عيسی عليہ السالم‬
‫ٰ‬ ‫سے منہ موڑ ليا جيسا کہ سوره عبس کی شروع کی آيت ميں بيان کيا گيا ہے۔ ليکن ہمارے پيغمبر حضرت‬
‫اس قدر خوش اخالق تھے کہ جب بھی کبھی کسی مبروص کو ديکھ ليتے تھے تو اس پرناراض نہيں ہوتے تھے بلکہ اسے‬
‫شفا دے ديتے تھے“۔‬
‫عيسائی عالم‪” :‬ہم شيعہ اس بات کے معتقد ہيں کہ يہ سوره عثمان کی بد اخالقی پر نازل ہوا ہے کيونکہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ‬
‫عليه و آله وسلم کا فروں کے ساتھ خنده پيشانی سے ملتے تھے ہدايت يافتہ مومنين کی تو الگ بات ہے جيسا کہ تم نے قرآن‬
‫کا نام ليا اسی قرآن ميں خدا وند متعال پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی شان ميں ارشادفرماتا ہے‪:‬‬
‫”انک لعلی خلق عظيم“]‪”[23‬بال شک تم عظيم اخالق کے درجہ پر فائز ہو“۔‬
‫دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”وما ارسلناک اال رحمة للعالمين “ ]‪[24‬‬
‫”اور ہم نے تمہيں صرف عالمين کے لئے رحمت بنا کر بھيجا ہے“۔‬
‫عيسائی عالم‪” :‬يہ بات ميں اپنی طرف سے نہيں کہہ رہا ہوں بلکہ يہ بات ميں نے بغداد کے ايک مسلمان خطيب سے سنا‬
‫ہے“۔‬
‫شيعہ مفکر‪” :‬ہم شيعوں کے نزديک يہی مشہور ہے جو ميں نے کہا آيت سوره عبس عثمان کے لئے نازل ہوئی ہيں ليکن‬
‫بعض پست اور بنی اميہ کے زر خريد راويوں نے عثمان کی عزت محفو ظ رکھنے کے لئے ان آيتوں کی نسبت رسول خدا‬
‫سوره عبس کی آيت ميں تصريح نہيں ہوئی ہے کہ جس نے اس‬ ‫ٔ‬ ‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی طرف ديدی ہے۔بعبارت ديگر‬
‫نابينا سے منہ موڑا تھا وه شخص کون تھا؟ايک قرينہ کے مطابق جيسے سوره قلم کی چوتھی آيت اور سوره انبياء کی ‪١٠٧‬‬
‫ويں آيت ميں اس بات کی وضاحت ہوتی ہے کہ سوره عبس کا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے کوئی تعلق نہيں‬
‫ہے۔‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬سوره عبس بنی اميہ کے ايک شخص کے سلسلے ميں نازل ہوا جو آنحضرت کے‬
‫ساتھ ساتھ رہا اور اس نے جب ابن ام مکتوم نابينا کو ديکھا تو اس پر ناراض ہو ا اور اس سے دور بھاگنے لگا اور اس نے‬
‫اپنا منہ موڑ ليا۔]‪[25‬‬
‫يہ سن کر عيسائی عالم بے بس ہو گيا اور اس کے بعد کچھ نہيں کہا۔‬

‫‪۵٩‬۔شيخ مفيد کا قاضی عبد الجبار سے مناظره‬


‫شيعوں کے بہت ہی برجستہ اور مشہور معروف عالم دين محمد بن محمد نعمان جو لوگوں کے درميان شيخ مفيد کے نام سے‬
‫مشہور ہوئے۔‬
‫وه ذی الحجہ ميں ‪ ٣٣۶‬يا ‪ ٣٣٨‬ھ ق ميں ”سوبقہ“نام کے ايک ديہات )جو بغداد سے دس فرسخ شمال ميں واقع”عکبرا“کے‬
‫عالقہ ميں واقع ہے ( ميں پيدا ہوئے۔ وه اپنے باپ )جو معلم تھے( کے ساتھ بغداد آئے وہاں آکر تعليمی سلسلہ کو آگے‬
‫بﮍھايا‪،‬يہاں تک کہ عظيم علماء ميں شما ر کئے جانے لگے اور مسلمانوں کے تمام فرقوں ميں مقبول ہوگئے۔‬
‫عالمہ حلی‪ ،‬شيخ مفيد کے بارے ميں کہتے ہيں‪” :‬وه شيعوں کے ايک جليل القدر عالم اور بﮍے بﮍے علماء کے استاد ہيں۔ان‬
‫کے بعد آنے والے تمام لوگوں نے ان کے علم سے استفاده کيا۔]‪[26‬‬
‫ابن کثير شامی کتاب ”البداية النہاية“ميں کہتے ہيں‪” :‬شيخ مفيد شيعوں کے رہبر ‪،‬مصنف اور شيعيت کا دفاع کرنے والے‬
‫تھے ان کے درس ميں طرح طرح کے مذاہب کے علماء شرکت کرتے تھے“۔]‪[27‬‬
‫شيخ مفيد نے مختلف فرقوں پر دوسو سے زياده کتابيں تاليف کی ہيں معروف نسب شناس نجاشی ان کی ‪ ١٧٠‬کتابوں سے‬
‫زياده کانام لکھتے ہےں]‪،[28‬شيخ مفيد کی وفات شب جمعہ ميں ماه مبارک رمضان سال ‪ ۴١٣‬ھ ق کو بغداد ميں ہوئی اور‬
‫آپ کی قبر کاظمين ميں امام محمد تقی عليہ السالم کی قبر کے قريب مسلمانوں کے ايک قبر ستان ميں واقع ہے۔‬
‫شيخ مفيد فن مناظره ميں بہت ہی مستحکم اور مضبوط تھے‪ ،‬ان کے مناظروں ميں سے کچھ ٹھوس اور مستدل مناظرے جو‬
‫کتابوں ميں نقل ہوئے ہيں ان ميں سے ايک مناظره ہم يہاں نقل کرتے ہيں جس کے بارے ميں يہ کہا جاتا ہے کہ اسی مناظره‬
‫کی وجہ سے شيخ مفيد کويہ لقب مال ہے۔]‪[29‬‬
‫شيخ مفيد کے زمانہ ميں اہل سنت کا ايک بہت ہی عظيم عالم دين جسے لوگ قاضی ”عبد الجبار“ کے نام سے جانتے تھے‬
‫جو بغداد ميں در س ديا کرتے تھے‪ ،‬ايک روز قاضی عبد الجبار در س کے لئے بيٹھے تھے اور تمام شيعہ سنی شاگرد بھی‬
‫اس کے اس درس ميں موجود تھے اس دن شيخ مفيد بھی درس ميں حاضر ہوئے اور آکر چوکھٹ پر بيٹھ گئے۔‬
‫قاضی نے شيخ مفيد کو اب تک نہيں ديکھا تھا ليکن انھوں نے ان کے اوصاف سن رکھے تھے۔کچھ وقت گزرنے کے بعد‬
‫شيخ مفيد نے قاضی کی طرف ديکھ کر کہا‪:‬‬
‫”آيا مجھے ان دانشوروں کے سامنے اجازت ديتے ہو کہ ميں آپ سے ايک سوال کروں؟“‬
‫شيخ مفيد‪ :‬يہ حديث جس کے بارے ميں شيعہ حضرات روايت کرتے ہيں کہ پيغمبر نے صحرائے عرب غدير ميں علی عليہ‬
‫السالم کے لئے فرمايا‪:‬‬
‫”من کنت مواله فھذا علی مواله“۔‬
‫جس کا ميں موال ہوں پس اس کے علی موال ہيں“۔‬
‫کيا يہ صحيح ہے ياشيعوں نے گﮍھ لی ہے ؟‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫قاضی‪” :‬يہ روايت صحيح ہے“۔‬
‫شيخ مفيد ‪:‬اس روايت ميں کلمہ موال سے کيا مراد ہے ؟“‬
‫قاضی‪” :‬موال سے مطلب سر پرست اور اولويت ہے“۔‬
‫شيخ مفيد‪ :‬اگر اسی طرح ہے تو پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے فرمان کے مطابق علی عليہ السالم دوسرے لوگوں کے‬
‫سرپرست اور سب پر اولويت رکھتے ہيں“۔‬
‫اب اس حديث کے بعد شيعہ اور سنی کے درميا ن اختالف اور دشمنی کيوں ہے ؟“‬
‫قاضی‪” :‬اے بھائی ! يہ حديث” غدير“ روايت ہے ليکن خالفت ابو بکر ”درايت“اور امر مسلم ہے اور عاقل شخص روايت‬
‫کی خاطر درايت کو ترک نہيں کرتا“۔‬
‫شيخ مفيد‪ :‬تمام حديث کے بارے ميں کہتے ہو کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم کے بارے ميں‬
‫فرمايا‪:‬‬
‫”يا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔‬
‫”اے علی عليہ السالم ! تمہاری جنگ ميری جنگ اور تمہاری صلح ميری صلح ہے“۔‬
‫قاضی‪” :‬يہ حديث صحيح ہے“۔‬
‫شيخ مفيد‪:‬اس حديث کی بنياد پر جن لوگوں نے جنگ جمل شروع کی جيسے ‪،‬طلحہ‪،‬زبير ‪،‬عائشہ وغيره علی عليہ السالم سے‬
‫جنگ کی اس حديث کی رو سے )جب کہ تمہارا يہ بھی اعتراف ہے کہ حديث صحيح ہے( تو ان لوگوں نے گويا رسول خدا‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے جنگ کی اور يہ لوگ کافر ہوئے“۔‬
‫قاضی‪” :‬اے بھائی!طلحہ وزبير وغيره نے توبہ کر لی تھی“۔‬
‫شيخ مفيد‪:‬جنگ جمل درايت اور قطعی ہے ليکن يہ جنگ کرنے والوں نے توبہ کی يہ روايت اور ايک سنا ہوا قول ہے اور تم‬
‫نے خود ہی کہا ہے کہ درايت کو روايت پر قربان نہيں کرنا چاہئے او ر عاقل شخص درايت کو روايت کی وجہ سے ترک‬
‫نہيں کرتا ہے“۔‬
‫قاضی‪” :‬اس سوال کا جواب دينے سے بے بس ہو گيا اور ايک لمحہ بعد اس نے چونک کر اپنا سر اٹھا يا اور کہا ”تم کون‬
‫ہو“‬
‫شيخ مفيد ‪” :‬ميں آپ کا خادم محمد بن محمد نعمان ہوں“۔‬
‫قاضی ‪ ،‬اس وقت اپنی جگہ سے اٹھے اور شيخ مفيد کا ہاتھ پکﮍ کر اس نے اپنی جگہ بٹھا کر ان سے کہا‪:‬‬
‫”انت المفيد حقا ً “تم حقيقت ميں مفيد ہو“۔‬
‫بزم کے تمام علماء قاضی کی اس بات سے رنجيده ہوئے اور کافی شور وغل مچايا ‪،‬قاضی نے ان لوگوں سے کہا‪” :‬ميں اس‬
‫شيخ مفيد کا جواب دينے ميں بے بس ہو گيا تم ميں سے جو بھی ان کا جواب دے سکے وه اٹھے اور بيان کرے“۔‬
‫ايک آدمی بھی نہيں اٹھا اس طرح شيخ مفيد کامياب ہوگئے اور اسی بزم سے ان کا لقب مفيد ہوگيا جو تمام لوگوں کی زبان پر‬
‫آج تک جاری ہے۔]‪[30‬‬

‫‪۶٠‬شيخ مفيد کا عمر بن خطاب سے )عالم خواب ميں( مناظره‬


‫ہم قرآن ميں سوره توبہ کی ‪ ۴٠‬ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫اح ِب ِہ الَتَحْ ز َْن ِٕا ﱠن ﷲَ َم َعنَا فَأن َز َل ﷲُ‬
‫ص ِ‬ ‫ص َرهُ ﷲُ ِٕا ْذ أ ْخ َر َجہُ الﱠ ِذينَ َکفَرُوا ثَانِ َی ْاثنَي ِْن ِٕاذ ہُ َما فِی الغ ِ‬
‫َار ِٕاذ يَقُو ُل لِ َ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫صرُوهُ فَقَ ْد نَ َ‬ ‫” ِٕاالﱠ تَن ُ‬
‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ٔ‬ ‫َ‬
‫َس ِکينَتَہُ َعل ْي ِہ َوايﱠ َدهُ بِ ُجنو ٍد ل ْم تَ َروْ ہَا“‬
‫”اگر تم رسول کی مدد نہيں کروگے تو ﷲ نے ان کی مدد کی جب کفار نے انھيں مکہ سےنکال ديا‪ ،‬حاالنکہ وه دو ميں سے‬
‫ايک تھے جب وه دونوں غار ميں تھے اوروه اپنے ہم سفر سے کہہ رہے تھے غم زده نہ ہو‪ ،‬خدا ہمارے ساتھ ہے اس وقت‬
‫خدا نے اپنے سکينہ )سکون(کو ان )رسول (پر نازل کيا اور ان کی ايسے لشکر سے تائيد کی جسے تم نے نہيں ديکھا“۔‬
‫علمائے اہل سنت اس آيت کو فضائل ابو بکر کے لئے دليل مانتے ہيں اور ابو بکر کو رسول اکرم کا يار وفادار جانتے ہيں‬
‫اور ان کی خالفت کی تائيد کے لئے اس آيت کا سہارا ليتے ہيں۔‬
‫نيز اہل سنت کے شعراء بھی اسی آيت کا سہارا ليتے ہوئے ابو بکر کی ستائش کرتے ہيں۔‬
‫مثالًسعدی کہتا ہے‪:‬‬

‫ای يار غار سيد و صديق وراھبر‬


‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫گجنينہ صفا‬
‫ٔ‬ ‫مجموعہ فضائل و‬

‫مردان قدم بہ صحبت ياران نھاده اند‬


‫ليکن نہ ھمچنان کہ تو در کام اژدھا]‪[31‬‬

‫)”اے يار غار !سردار و صديق و رہبر! اے مجموعہ فضائل اور پاکيزگی و صفا کے مرکز! لوگ آپ کے نقش قدم پر چلتے‬
‫ہيں ليکن نہ اس طرح کہ آپ نے ازدہا کے منھ اپنا ہاتھ رکھ ديا ہے“(‬
‫اب مذکوره باال مطلب کی طرف توجہ رکھتے ہوئے ذيل ميں شيخ مفيد عليہ الرحمة کا )جن کی زندگی کے حاالت گزر‬
‫چکے( ايک مناظره نقل ہوا ہے ۔مالحظہ فرمائيں‪:‬‬
‫عالمہ طبرسی کتاب ”احتجاج “ميں اور کراجکی ”کنزالفوائد“ميں شيخ ابو علی حسن بن محمد رقی سے نقل کرتے ہيں کہ‬
‫شيخ مفيد نے فرمايا‪” :‬ايک شب ميں نے خواب ميں ديکھا کہ راستہ چل رہا ہوں چلتےچلتے ميری نظر لوگوں پﮍی تو ديکھا‬
‫کہ لوگ ايک شخص کے گرد جمع ہيں اور وه ان لوگوں کو قصہ سنا رہا ہے ميں نے پوچھا وه مرد کون ہے؟”لوگوں نے کہا‬
‫عمر بن خطاب ہيں“۔‬
‫ميں حضرت عمر کے قريب گيا تو ديکھا ايک شخص ان سے بات کر رہا ہے ليکن ميں ان کی باتوں کو نہيں سمجھ پارہا ہوں‬
‫بتاو کہ آيہ ٔغار)ثانی اثنين ٕاذھما فی الغار(سے ابو بکر کی برتری کی کيا‬ ‫ان لوگوں کی بات کاٹ کر ميں نے کہا‪” :‬مجھے ٔ‬
‫دليل ہے“۔‬
‫عمر نے کہا‪” :‬اس آيت ميں ايسے چھ نکات ہيں حضرت ابو بکر کی فضيلت کی حکايت کرتے ہيں“‪ ،‬ان چھ نکتوں کو شمار‬
‫کر نا شروع کيا‪:‬‬
‫خدا وند متعال نے قرآن ميں )سوره توبہ‪ ،‬آيت‪( ۴٠‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو خطاب کيا ہے اور ابو بکر کو ان‬
‫کے بعد دوسرا شخص قرار ديا ہے۔)ثانی اثنين(‬
‫‪٢‬۔خدا وند متعال نے ان دونوں )پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم اور ابوبکر(کو ايک ساتھ اور ايک جگہ خطاب کيا ہے يہ‬
‫خود ان دونوں کے تعلقات کی حکايت ہے۔ )اذھما فی الغار(‬
‫‪٣‬۔خدا وند متعال نے مذکوره آيت ميں ابو بکر کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا رفيق کہہ کر خطاب کيا ہے جو‬
‫خود ابو بکر کے رتبہ اور منزلت کی حکايت کرتا ہے۔ )اذيقول لصاحبہ(‬
‫‪۴‬۔خدا وند متعال نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی عشق ومحبت کی وجہ سے ابو بکر کو خبر دی کہ مذکوره‬
‫آيت کے مطابق پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ابوبکر سے کہا‪):‬وال تحزن(غمگين نہ ہو۔‬
‫‪۵‬۔پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے کہا‪” :‬خدا وند متعال ہم دونوں کا برابر کا ہمدرد ہے اور ہماری‬
‫طرف سے دفاع کرنے واال ہے۔ )ان ﷲ معنا(‬
‫‪۶‬۔خداوند متعال نے اس آيت ميں ابو بکر کے لئے سکينہ )سکون قلب( نازل ہونے کی خبر دی ہے کيونکہ پيغمبر اکرم صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم ہميشہ چين و سکون ميں تھے وه سکينہ کے نازل ہونے کے محتاج نہيں تھے‪) :‬فانزل ﷲ سکينتہ عليہ(‬
‫يہ چھ نکتے ابو بکر کی فضيلت کو ثابت کررہے ہيں کہ کوئی شخص ان کے رد کرنے کی قدرت نہيں رکھتا ہے۔‬
‫شيخ مفيد کہتے ہيں‪” :‬سچ مچ تم نے ابوبکر سے اپنی رفاقت اور دوستی کا حق ادا کيا ليکن اب ميں خدا کی مدد سے ان چھ‬
‫نکتوں کا جواب اس طرح دے رہا ہوں جيسے آندھی کی تيز ہوا راکھ کو اُڑا لے جاتی ہے۔‬
‫‪١‬۔ابوبکر کو اس آيت ميں دوسرا شخص قرا رد ينا ان کی فضيلت نہيں ہے کيونکہ مومن مومن کے ساتھ اور اسی طرح مومن‬
‫کافر کے ساتھ ايک جگہ ره سکتے ہيں اور جب انسان ان دونوں ميں سے کسی ايک کا ذکر کرنا چاہتا ہے تو کہے گا ان‬
‫دونوں ميں دوسرا )ثانی اثنين(‬
‫‪٢‬۔پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ابوبکر کا ايک ساتھ ذکر کرنا بھی ابوبکر کی فضيلت پر داللت نہيں کرتا ہے‬
‫جيسا کہ پہلی دليل ميں کہا کہ ايک جگہ اکٹھا ہونا اچھائی پر دليل نہيں ہے بہت سے مواقع پر مومن اور کافر ايک جگہ اکٹھا‬
‫ہوتے ہيں جيسے مسجد پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم جو غار ثور سے نہايت ہی بافضل ہے وہاں پر بھی مومن اور منافق‬
‫ايک ساتھ جمع ہوتے تھے۔اسی لئے ہم قرآن ميں سوره معارج کی ‪ ٣۶‬ويں اور‪ ٣٧‬آيت پﮍھتے ہيں۔‬
‫ک ُم ْہ ِط ِعينَ ۔ ع َْن ْاليَ ِم ِ‬
‫ين َوع َْن ال ﱢش َم ِ‬
‫ال ِع ِزينَ “‬ ‫ال الﱠ ِذينَ َکفَرُوا قِبَلَ َ‬
‫” فَ َم ِ‬
‫”پس ان کافروں کو کيا ہوا ہے جو تمہارے پاس جلدی جلدی داہنے بائيں سے گروه در گروه آتے ہيں اور اسی طرح کشتی‬
‫نوح ميں پيغمبر ‪،‬شيطان اور تمام جانورايک جگہ جمع ہو گئے تھے“۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫غرض ايک جگہ جمع ہونا دليل فضيلت نہيں ہے۔‬
‫‪٣‬۔ليکن مصاحب ہونے کے بارے ميں يہ بھی فضيلت کی دليل نہيں ہے کيونکہ يہاں پر مصاحب ہمراه کے معنی ميں ہے‬
‫بہت سے موقع پر کافر مومن کے ہمراه ہوتا ہے جيسا کہ خداوند متعال قرآن مجيد ميں فرماتا ہے‪:‬‬
‫او ُرهُ أَ َکفَرْ تَ ِبالﱠ ِذی َخلَقَ َ‬
‫ک ِم ْن تُ َراب“]‪[32‬‬ ‫احبُہُ َوہُ َو يُ َح ِ‬
‫ص ِ‬ ‫” قَا َل لَہُ َ‬
‫”اس سے )کافر(اس کے )مومن(دوست نے بات کے درميان کہا کيا تو اس کا انکار کررہا ہے جس نے تجھے مٹی سے پيدا‬
‫کيا؟“‬
‫‪۴‬۔يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ابو بکر سے فرمايا‪”” :‬ال تحزن “غمگين نہ ہو “يہ ابو بکر کی خطا پر‬
‫دليل ہے نہ کہ ان کی فضيلت پر کيونکہ يہ حزن يا اطاعت کی وجہ سے تھا يا گناه تھا اگر اطاعت تھا تو رسول خدا صلی ﷲ‬
‫عليه و آله وسلم کبھی اس کے لئے منع نہ کرتے پس پتہ چال گناه تھا جس سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے منع‬
‫کيا۔‬
‫‪۵‬۔يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪”:‬ان ﷲ معنا“)خدا ہمارے ساتھ ہے (اس سے مراد يہ نہيں ہے کہ‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے دونوں کے لئے فرمايا ہے نہيں بلکہ اس سے مراد خود تنہا پيغمبر اکرم صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم نے خود اپنے لئے جمع کا صيغہ استعمال کيا ہے جيسا کہ خدا وند متعال نے اپنے لئے لفظ جمع استعمال کيا‬
‫ہے۔‬
‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ﱢ‬ ‫ْ‬
‫” ِٕانﱠا نَحْ نُ نَزلنَا الذک َر َو ِٕانا لہُ ل َحافِظون“]‪[33‬‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ﱠ‬ ‫ﱠ‬
‫”ہم ہی نے اس قرآن کو نازل کيا ہے اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہيں“۔‬
‫‪۶‬۔يہ کہ تم نے کہا کہ سکينہ اور آرام ابو بکر پر نازل ہوا آيت کا ظاہری سياق اس کا مخالف ہے کيونکہ سکينہ اس شخص پر‬
‫نازل ہوا جس کی مدد کے لئے خداوند متعال نے نامرئی )نہ دکھائی دينے واال( لشکر روانہ کيا اور يہ خود پيغمبر اکرم صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی ذات ہے۔‬
‫اور اگر تم يہ کہنا چاہتے ہو کہ دونوں)سکينہ اور نامرئی لشکر(ابو بکر کے لئے تھا تو يہاں چاہئے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم کو نبوت سے خارج کردو۔‬
‫بس اس سے معلوم ہوا کہ سکينہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر نازل ہوا تھا کيونکہ تنہا رسول ہی تھے جو غار‬
‫ميں اس چيز کے لئے مناسب تھے ليکن دوسری جگہوں پر پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ ساتھ مومنين پر بھی‬
‫سوره فتح آيت ‪ ٢۶‬پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫سکينہ نازل کيا گيا ہے ان کا الگ الگ ذکر پايا جاتا ہے۔جيسا کہ‬
‫”فَأَ ْن َز َل ﷲُ َس ِکينَتَہُ َعلَی َرسُولِ ِہ َو َعلَی ْال ُم ْؤ ِمنِينَ “‬
‫بہتر ہے کہ اس آيت سے اپنے دوست کی فضيلت ثابت نہ کرو تو بہتر ہے۔‬
‫شيخ مفيد کہتے ہيں اس کے بعد عمر ميرا جواب نہ دے سکا اور لوگ اس سے دور بھاگے اتنے ميں ميری آنکھ کھل‬
‫گئی۔]‪[34‬‬

‫آيہ غار کے متعلق سنی عالم سے مناظره‬ ‫‪۶١‬۔مامون کا ٔ‬


‫يحيی بن اکثم )قاضی وقت(کو حکم ديا کہ تمام مشہور ومعروف علماء کو فالں روز‬ ‫ٰ‬ ‫مامون )عباسی دور کا ساتواں خليفہ (نے‬
‫فالں وقت پر ميری بزم ميں حاضر کيا جائے۔‬
‫يحيی بن اکثم نے اس زمانہ کے تمام مشہور معروف علماء اور راويوں کو ايک جگہ جمع کيا ‪،‬مامون اس بزم ميں حاضر ہوا‬ ‫ٰ‬
‫اور احوال پرسی کے بعد اس نے کہا‪” :‬ميں نے تمہيں يہاں اس لئے باليا ہے کہ ساتھ بيٹھ کر آزاد طريقہ سے اور بغير کسی‬
‫قيد وبند کے امامت کے بارے ميں باتيں کريں تاکہ تمام لوگوں پر حجت تمام ہو جائے“۔‬
‫اس بزم ميں ہر عالم نے ابوبکر و عمر کی برتری اور فضيلت کو ثابت کيا تاکہ وه خليفہ رسول سمجھے جائيں ليکن مامون‬
‫ہر ايک کو اچھی طرح جواب ديتا رہا اور ان کی دليلوں کو رد کرتا رہا يہاں تک اسحاق نامی ايک عالم ميدان مناظره ميں آيا‬
‫اور تھوڑی دير بحث کے بعد اس نے کہا‪:‬‬
‫سوره توبہ آيت ‪ ۴٠‬ميں ابو بکر کے بارے ميں فرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫”خداوند متعال قرآن کريم ميں‬
‫َ‬ ‫َار ِٕا ْذ يَقو ُل لِ َ‬
‫احبِ ِہ الَتَحْ ز َْن ِٕا ﱠن ﷲَ َم َعنَا فَأنزَ َل ﷲُ َس ِکينَتَہُ َعلَ ْي ِہ“‬
‫ص ِ‬ ‫ُ‬ ‫” ثَانِ َی ْاثنَي ِْن ِٕا ْذ ہُ َما فِی ْالغ ِ‬
‫”اور وه ايک شخص کے ساتھ نکلے اور دونوں غار ميں تھے تو اپنے ساتھی سے کہہ رہے تھے کہ رنج نہ کرو خدا‬
‫ہمارے ساتھ ہے پھر خدا نے اپنی طرف سے )اپنے پيغمبر( پر سکون )سکينہ( نازل کرديا“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫خدا وند متعال نے اس آيت ميں ابو بکر کو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا مصاحب اور دوست کہہ کر تعارف کرا رہا‬
‫ہے۔‬
‫مامون‪” :‬عجيب بات ہے لغت اور قرآن سے تم کتنی کم آگاہی رکھتے ہو کيا کبھی کافر مومن کا مصاحب اور رفيق نہيں‬
‫ہوتا؟ايسی صورت ميں يہ مصاحب کافر کے لئے کس افتخار کا سبب بنے گی؟ جيسا کہ قرآن ميں سوره ٔ کہف آيت ‪ ٣٧‬ميں‬
‫خدا وند متعال فرماتا ہے‪:‬‬
‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ک ِمن ت َراب“‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ﱠ‬ ‫تَ‬
‫او ُرهُ اکفرْ بِال ِذی َخلق َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ٔ‬ ‫احبُہُ َوہُ َو يُ َح ِ‬ ‫ص ِ‬ ‫” قَا َل لَہُ َ‬
‫”اس کے ايک ساتھی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ تو اس کا انکار کرديا ہے جس نے تجھے خاک سے پيدا کيا ہے“۔‬
‫اس آيت کے مطابق مومن کافر کا ساتھی شما ر کيا گيا ہے۔‬
‫بہت سے فصحائے عرب کے اشعار بھی اس بات پر شاہد ہيں کہ کبھی کبھی انسانوں کے ساتھی حيوان بھی ہوتے ہيں‪ ،‬ل ٰہذا‬
‫ساتھی ہونا کسی بھی طرح کی دليل وافتخار نہيں ہے“۔‬
‫اسحاق‪” :‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مذکوره آيت کے مطابق ابو بکر کو اطمينان داليا اور دل جوئی کی اور‬
‫ان سے فرمايا‪”:‬ال تحزن“ )يعنی غمگين نہ ہو(‬
‫بتاو کيا ابو بکر کا حزن ومالل گناه تھا يا اطاعت ؟اگر تم يہ سمجھتے ہو کہ اطاعت تھا تو اس صورت ميں‬ ‫مامون‪” :‬مجھے ٔ‬
‫تم نے گويا فرض کر ليا کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اطاعت سے منع کيا)جب کہ اس طرح کی نسبت پيغمبر اکرم‬
‫صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے متعلق بالکل غلط ہے(اور اگر کہتے ہو کہ وه عمل گناه تھا تو اب گناه کے لئے تم کون سی‬
‫فضيلت اور افتخار کو ثابت کرتے ہو؟“‬
‫اسحاق‪” :‬خدا وند متعال نے مذکوره آيت ميں اپنا سکون اور آرام )سکينہ( ابو بکر پر نازل کيا يہ خود ان کے لئے فضيلت اور‬
‫افتخار ہے اور يہ خدا کا آرام وسکون ابو بکر سے مخصوص ہے نہ کہ پيغمبر اکرم سے کيونکہ وه راحت وسکون کے‬
‫محتاج نہيں ہيں“۔‬
‫سوره توبہ کی ‪٢۵‬۔‪ ٢۶‬ويں آيت ( فرماتا ہے‪:-‬‬ ‫ٔ‬ ‫مامون‪” :‬خداوند متعال قرآن کريم ميں )‬
‫ت ثُ ﱠم َولﱠ ْيتُ ْم ُم ْد ِب ِرينَ ‪ #‬ثُ ﱠم أَن َز َل ﷲُ َس ِکينَتَہُ َعلَی‬ ‫ت َعلَ ْي ُک ْم ْ َٔ‬
‫االرْ ضُ ِب َما َر ُحبَ ْ‬ ‫َ◌”يَوْ َم ُحنَي ٍْن ِٕا ْذ أَ ْع َجبَ ْت ُک ْم َک ْث َرتُ ُک ْم فَلَ ْم تُ ْغ ِن َع ْن ُک ْم َش ْيئًا َو َ‬
‫ض اق َ ْ‬
‫َرسُولِ ِہ َو َعلَی ْال ُم ْؤ ِمنِينَ “‬
‫”خدا نے تمہاری بہت سی جگہوں ميں مد د کی اور حنين کے دن جب تمہيں تمہاری کثرت نے تعجب ميں ڈال ديا تھا مگر‬
‫اس کثرت نے تمہاری کوئی مدد نہ کی اور زمين تمہارے اوپر تنگ ہو گئی پھر تم ميدان سے پيٹھ دکھا کر بھاگ کھﮍے‬
‫ہوئے پھر خداوند متعال نے اپنا سکينہ اپنے رسول اور مومنين پر نازل کيا“۔‬
‫اے اسحاق ! کيا تو جانتا ہے کہ جن مومنوں نے فرار نہيں اختيار کيا تھا اور جنگ حنين ميں پيغمبر کے ساتھ ساتھ ميدان‬
‫جنگ ميں رہے وه کون لوگ تھے؟‬
‫اسحاق‪” :‬نہيں ميں نہيں جاتنا“۔‬
‫مامون‪:‬جنگ حنين ) جو سرزمين مکہ اور طائف کے درميان ہجرت کے آٹھويں سال واقع ہوئی(تمام اسالمی لشکر شکست‬
‫کھا کر ميدان سے فرار ہو چکا تھا اور ميدان جنگ ميں صرف پيغمبر اور ان کے ساتھ بنی ہاشم کے سات افراد باقی ره گئے‬
‫تھے جن ميں علی عليہ السالم تلوار سے جنگ کرتے تھے عباس )پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے چچا( نے‬
‫آنحضرت کو گھوڑے کی لگام اپنے ہاتھ ميں تھام رکھی تھی اور پانچ دوسرے افراد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم‬
‫کے ساتھ ساتھ ان کی حفاظت ميں لگے ہوئے تھے تاکہ کافروں سے انھيں کسی طرح کا کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے ]‪[35‬‬
‫نتيجہ ميں خداوند متعال نے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو فتح و کامرانی عطا کی )يہاں تک کہ خداوند متعال نے‬
‫اپنے آرام وسکون )سکينہ( کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور مومنين پر نازل کيا(‬
‫اس سے ثابت ہوا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم بھی ٰالہی آرام وسکون کے محتاج تھے اور مومنين سے مراد‬
‫اس آيت ميں علی عليہ السالم اور چند لوگ بنی ہاشم کے ہيں جو ميدان جنگ ميں حاضر تھے اس بنا پر کون افضل ہے ؟آيا‬
‫وه لوگ جو ميدان جنگ حنين ميں پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ ره گئے تھے اور ٰالہی آرام وسکون پيغمبر صلی‬
‫ﷲ عليه و آله وسلم اور ان لوگوں پر نازل ہوا وه لوگ برتر ہيں يا وه شخص جو پيغمبر اکرم کے ساتھ غار ميں تھا اور اس‬
‫کے لئے سکون وراحت نازل کرنا مناسب بھی نہيں تھا؟‬
‫اے اسحاق!کون شخص بہتر ہے آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے ساتھ غار ميں رہنے واال يا آنحضرت پر جان فدا‬
‫کرکے ان کے بستر پر چين کی نيند سونے واال؟ کيونکہ جب آپ مکہ سے ہجرت کرکے جا رہے تھے تو خدا کے حکم کے‬
‫مطابق حضرت علی عليہ السالم سے فرمايا‪” :‬تم ميرے بستر پر سو رہو۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫سوجاوں تو آپ کی جان بچ جائے گی ؟“‬
‫ٔ‬ ‫حضرت علی عليہ السالم نے پوچھا‪” :‬اے رسول خدا !اگر ميں آپ کے بستر پر‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪” :‬جی ہاں“۔‬
‫حضرت علی عليہ السالم نے عرض کيا‪” :‬سمعا ً و طاعةً“‬
‫اس کے بعد آپ بستر رسول پر آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی چادر تان کر سوگئے۔مشرکين تمام رات انتظار کرتے‬
‫رہے اور وه شک بھی نہ کر سکے کہ اس بستر پر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے عالوه کوئی اور سو رہا ہے۔‬
‫يہ منصوبہ تمام مشرکين کی اتفاق رائے سے وجود ميں آيا تھا کہ ہر قبيلہ کا ايک شخص آپ کے پاس جا کر ايک ايک‬
‫ضربت لگائے تاکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم قتل ہو جائيں اور ان کا قاتل کوئی ايک شخص نہ ہو تاکہ بنی ہاشم‬
‫پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا انتقام نہ لے سکيں۔‬
‫حضرت علی عليہ السالم مشرکوں کی تمام باتيں سن رہے تھے ليکن انھوں نے ذرا بھی بيتابی کا اظہار نہيں کيا جب کہ ابو‬
‫بکر پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے ساتھ غار ميں رہتے ہوئے بھی بے تابی کا اظہار کر رہے تھے اور علی عليہ‬
‫السالم نے تنہا ہوتے ہوئے بھی مکمل خلوص سے استقامت کی اور خداوند متعال نے علی عليہ السالم کے پاس فرشتے‬
‫بھيجے تاکہ وه مشرکوں سے ان کی حفاظت کريں۔‬
‫حضرت علی عليہ السالم نے اپنی زندگی ميں اس طرح کی فداکاری اور ايثار کيا اور وه اپنی طويل حيات ميں بہت ہی عظيم‬
‫فضائل ومناقب کے حامل تھے يہاں تک کہ خداوند متعال کے نزديک بہت ہی محبوب اور مقبول حالت ميں اس دنيا سے‬
‫رخصت ہوئے۔]‪[36‬‬

‫مولف کاابن ابی الحديد سے غائبانہ مناظره‬


‫‪۶٢‬۔ ٔ‬
‫اہل سنت کا ايک بہت ہی مشہورو معروف اور نہايت پﮍھا لکھا عظيم مورخ عبد المجيد بن محمد بن حسين بن ابی الحديد‬
‫مدائنی گزرے ہيں جسے عام لوگ ”ابن ابی الحديد “کے نام سے جانتے ہيں ان کی تاليفات و تصنيفات ميں ايک بہت ہی اہم‬
‫اور مشہور ‪٢٠‬جلدوں پر مشتمل ”شرح نہج البالغہ “ہے۔‬
‫‪ ۶۵۵‬ھ کوميں بغداد ميں انھوں نے دنيا کو ہميشہ کے لئے خدا حافظ کہا وه اپنی شرح نہج البالغہ کی چھٹی جلد ميں پيغمبر‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد پرآشوب حاالت کو لکھتے ہوئے اقرار کرتے ہيں کہ حضرت عمر نے چند‬
‫آدميوں کے ساتھ آکر فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کا گھر گھير ليا جنا ب فاطمہ زہرا سال م ﷲ عليہا کی آواز بلند ہوئی کہتم لوگ‬
‫جاو۔۔۔‬
‫ميرے گھر سے بھاگ ٔ‬
‫اور صحيح بخاری و صحيح مسلم سے بھی نقل کرتے ہوئے واضح طور پر لکھتے ہيں‪:‬‬
‫يوذن بھا ابو بکر“۔]‪[37‬‬
‫”فھجرتہ فاطمہ ولم تکلمہ فی ذلک حتی ماتت فد فنھا علی ليالولم ٔ‬
‫” پھر حضرت فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا نے ابو بکر سے دوری اختيار کر لی تھی اور مرتے وقت تک ان سے بات نہيں‬
‫کی‪ ،‬يہاں تک کہ حضرت علی عليہ السالم نے آپ کو رات کی تاريکی ميں دفن کيا اور ابوبکر کو اس بات کی خبر بھی نہ‬
‫دی۔‬
‫ان چيزوں کو ديکھتے ہوئے ابن ابی الحديد عمر و ابوبکر کی عزت کو محفوظ رکھنے کے لئے طرح طرح کی توجيہ کرتے‬
‫ہوئے اس طرح لکھتے ہيں‪:‬‬
‫”فان ھذالوثبت انہ خطالم يکن کبيرة بل کان من باب الصغائر التی ال تقتضی التبری وال توجب زوال التولی“۔‬
‫”اگر يہ ثابت ہو جائے کہ فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کے ساتھ ابوبکر کی رفتار اس طرح تھی تو ان کی طرف سے يہ خطا‬
‫اور گناه تو تھا ليکن گناه کبيره نہيں ہے بلکہ ايک گناه صغيره ہے جو ان سے بيزاری اور واليت کے زوال کا موجب نہيں بن‬
‫سکتا ہے“۔‬
‫مولف‪” :‬کيا سچ مچ حضرت فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کے گھر پر حملہ کرنا اوراس کا حکم دنيا اور آپ کو اس حد تک‬ ‫ٔ‬
‫ناراض کرنا کہ آخر عمر تک ابو بکر و عمر سے منہ پھيرے رہيں اور ان سے بات بھی نہيں کی‪ ،‬گناه صغيره ہے ؟!‬
‫اگر ابن ابی الحديد کہتے کہ اصل حادثہ ہمارے نزديک ثابت نہيں ہے تو اس پر مجھے تعجب نہ ہوتا ليکن وه اس حادثہ کا‬
‫اقرارکرتے ہوئے کس طرح ايسی باتيں کرتے ہيں؟کيا وه گناه کبيره اور صغيره کے فرق کو نہيں جانتے ؟ايسا بھی نہيں ہے‬
‫کہ ابن ابی الحديد نے صرف خود نقل کيا ہے بلکہ دوسرے علمائے اہل سنت نے بھی اس کو نقل کيا ہے پيغمبر اکرم صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کے بارے ميں فرمايا ہے۔‬
‫ويرضی لرضاھا“۔]‪[38‬‬
‫ٰ‬ ‫”ان ﷲ يغضب لغضب فاطمة‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”بے شک حضرت فاطمہ سالم ﷲ عليہا )ميرے جگر کا ٹکﮍا ہے ( جس نے اسے اذيت دی اس نے مجھے اذيت دی اور‬
‫جس نے مجھے اذيت دی اس نے خدا کو اذيت دی“۔‬
‫پس اس حديث کی بنياد پر ان دونوں نے يقينی طور پر جناب فاطمہ سالم ﷲ عليہا کو اذيت دی اور فاطمہ سال م ﷲ عليہا کو‬
‫اذيت دينا خدا و رسول کو اذيت دينا ہے ان چيزوں کو جانتے ہوئے کيا کوئی يہ کہہ سکتا ہے کہ حضرت فاطمہ زہرا سالم‬
‫ﷲ عليہا کو اذيت دينا گناه صغيره ہے؟ہاں اگر يہ گناه صغيره ہے تو پھرگناه کبيره کيا ہے؟کيا خدا وند متعال قرآن مجيد ميں‬
‫نہيں فرماتا‪:‬‬
‫” ِٕا ﱠن الﱠ ِذينَ ي ُْؤ ُذونَ ﷲَ َو َرسُولَہُ لَ َعنَہُ ْم ﷲُ ِفی ال ﱡد ْنيَا َو ْاآل ِخ َر ِة َوأَ َع ﱠد لَہُ ْم َع َذابًا ُم ِہينًا“]‪[39‬‬
‫”بے شک جو لوگ ﷲ اور اس کے رسول کو اذيت پہنچاتے ہيں ان پر ﷲ دنيا اور آخرت ميں لعنت بھيجتا ہے اور اس نے ان‬
‫کے لئے اہانت آميز عذاب تيار کررکھا ہے“۔‬
‫کيا گناه صغيره انجا م دينے واال شخص خدا اور رسول کی لعنت کا مستحق نہيں ہے؟‬

‫‪۶٣‬۔نص کے مقابل اجتہاد کے متعلق ايک مناظره‬


‫اشاره‪:‬‬
‫شريعت اسالم ميں جو چيز آيات قرآن اورسنت پيغمبر سے صريحی اور واضح ہے اس چيز کی پيروی کرنا چاہئے اگر ہم‬
‫اس کے مقابلہ ميں کوئی توجيہ کريں تو ايسا اجتہاد نص کے مقابلہ ميں ہوگا اور نص کے مقابلہ ميں اجتہاد يقينا باطل ہے‬
‫اور اس طرح کا اجتہاد ہی بدعت ہے جو کفر اور گمراہی پيدا کرتا ہے۔ليکن صحيح اجہتاد وه ہے کہ کسی موضوع کے حکم‬
‫کی صحيح دليل سند يا داللت کے لحاظ سے واضح نہ ہو‪،‬مجتہد قواعد اجتہاد کے ذريعہ اس موضوع کے حکم کے بارے ميں‬
‫استنبا ط کرتا ہے اس طرح کا اجتہاد اور اس طرح کے مجتہد جامع الشرائط مقلدين حضرات کے لئے حجت قرار ديئے گئے‬
‫ہيں اسی بات کی طرف توجہ ديتے ہوئے ذيل کا مناظره کو مالحظہ فرمائيں‪:‬‬
‫ملک شاه سلجوقی نے ايک جلسہ بال يا اس ميں خود اس کا وزير بھی موجود تھا۔اس جلسہ ميں اہل سنت کے ”عباسی “نام‬
‫کے ايک بہت ہی جليل القدر اور شيعوں کے ايک بہت ہی مشہور اور عظيم عالم )علوی( کے درميان اس طرح مناظره‬
‫شروع ہوا‪:‬‬
‫علوی‪ :‬تمہاری معتبر کتابوں ميں آيا ہے کہ بعض احکام جو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانہ ميں قطعی مناسب‬
‫اور يقينی تھے عمر نے اس ميں تصرف کيا ہے اور اسے بدل ڈال ہے“۔‬
‫عباسی‪” :‬کن احکام کو انھوں نے بدل ديا؟“‬
‫علوی‪” :‬مثال کے طور‪:‬‬
‫الف‪ :‬نماز تراويح ماه رمضان ميں پﮍھی جاتی ہے اور مستحب ہے‪ ،‬عمر نے کہا‪” :‬اسے با جماعت پﮍھو “]‪[40‬جب کہ‬
‫مستحب نمازيں جماعت کے ساتھ نہيں پﮍھنا چاہئے۔جيسا کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانے ميں اسی طرح‬
‫فرادی پﮍھی جاتی تھيں ليکن بعض مستحبی نمازيں جيسے نماز استقاء پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫تھا کہ تمام مستحبی نمازيں‬
‫و آلہ و سلم کے زمانہ ميں بھی جماعت سے پﮍھی گئی۔‬
‫ب‪ :‬يا حضرت عمر نے حکم ديا کہ اذان ميں”حی علی خير العمل“کی جگہ ”الصلوة خير من النوم“کہا جائے۔]‪[41‬‬
‫ج‪ :‬حج تمتع اور متعة النساء کو حرام قرار ديا۔]‪[42‬‬
‫سوره توبہ کی آيت نمبر ‪ ۶٠‬ميں ان کے حصے کی وضاحت ہوتی ہے اس‬ ‫ٔ‬ ‫د‪:‬مولفة القلوب کے حصہ کو ختم کر ديا جب کہ‬
‫کے عالوه اور بہت سے احکام ہيں۔‬
‫ملک شاه‪ :‬کيا سچ مچ عمر نے ان احکام کو بدل ڈاال؟“‬
‫خواجہ نظام الملک‪” :‬ہاں واقعی يہ چيزيں سنيوں کی معتبر کتابوں ميں ذکر ہوئی ہيں“۔‬
‫ملک شاه‪” :‬بس ہم کس طرح ان لوگوں کی پيروی کريں جنھوں نے بدعت پھيالرکھی ہے ؟“‬
‫قوشچی‪” :‬اگر عمر نے حج تمتع يا متعہ سے روکا ‪،‬يا اذان ميں”حی علی خير العمل“کی جگہ”الصلوة خير من النوم“کا اضافہ‬
‫کيا تو انھوں نے اجہتاد کيا ہے اور اجتہاد بدعت نہيں ہے۔]‪[43‬‬
‫علوی‪” :‬کيا قرآن کے واضح اور صريحی آيت يا رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی صريحی احاديث کے مقابلہ ميں‬
‫دوسری باتيں پيش کی جا سکتی ہيں؟ کيانص کے مقابلہ ميں اجتہاد جائز ہے ؟اگر اس طرح ہو تو ہر مجتہد اس چيز کا حق‬
‫رکھتا ہے اور ايسے ہی کچھ دنوں کے بعد اسالم کے بہت سے احکام بدل جائيں گے اور اسالم کی حقيقت اور جاويدانی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ہوناہمارے درميان سے جاتی رہے گی کيا قرآن يہ نہيں فرمارہا ہے‪:‬‬
‫” َو َما آتَا ُک ْم ال ﱠرسُو ُل فَ ُخ ُذوهُ َو َما نَہَا ُک ْم َع ْنہُ فَا ْنتَہُوا“]‪[44‬‬
‫”جو کچھ رسول تم کو ديں اسے لے لو اور جس چيز سے منع کريں اسے ترک کردو“۔‬
‫سوره احزاب ميں خدا کا ارشاد ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫اسی طرح‬
‫ضی ﷲُ َو َرسُولُہُ أَ ْمرًا أَ ْن يَ ُکونَ لَہُ ْم ْال ِخيَ َرةُ ِم ْن أَ ْم ِر ِہ ْم “]‪[45‬‬ ‫” َو َما َکانَ ِل ُم ْؤ ِم ٍن َوالَ ُم ْؤ ِمنَ ٍة ِٕا َذا قَ َ‬
‫”کسی مومن يا مومنہ کو حق حاصل نہيں ہے کہ وه خدا اور اس کے رسول کے فيصلے کے بعد )کس شئے پر( اختيار‬
‫رکھے“۔‬
‫آيا پيغمبر )ص( نے يہ نہيں فرمايا‪:‬‬
‫”حالل محمد حالل الی يوم القيامة وحرام محمد حرام الی يوم القيامة“۔]‪[46‬‬
‫”حالل محمد قيامت تک کے لئے حالل ہے اور حرام محمد قيامت کے لئے حرام ہے“۔‬
‫نتيجہ يہ ہوا کہ اسالم کے صريحی احکام کو بدلنا نہيں چاہئے کہ يہ کام تو پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم بھی نہيں کر‬
‫سکتے تھے جيسا کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بارے ميں قرآن ميں پﮍھتے ہيں۔]‪[47‬‬
‫ين ۔ثُ ﱠم لَقَطَ ْعنَا ِم ْنہُ ْال َوتِينَ ۔ فَ َما ِم ْن ُک ْم ِم ْن أَ َح ٍد َع ْنہُ َح ِ‬
‫اج ِزينَ “]‪[48‬‬ ‫يل۔ ََٔ‬
‫ال َخ ْذنَا ِم ْنہُ ِب ْاليَ ِم ِ‬ ‫او ِ‬‫االقَ ِ‬ ‫ْض ْ َٔ‬ ‫” َولَوْ تَقَ ﱠو َل َعلَ ْينَا بَع َ‬
‫”اور اگر وه )پيغمبر( ہماری طرف جھوٹی باتيں منسوب کرتے تو ہم انھيں قوت سے پکﮍ ليتے پھر ان کی رگ قلب کو قطع‬
‫کر ديتے اور تم لوگوں ميں سے کوئی بھی اسے روک نہيں سکتا تھا“۔‬

‫تيسراحصہ‬
‫ڈاکٹرسيد محمد تيجانی کے مناظرے‬
‫اشاره‪:‬‬
‫ڈاکٹر محمد تيجانی سيماوی ”تيونس“کے رہنے والے ہيں وه اپنے شہريوں اور خاندان والوں کے دين کے مطابق اہل سنت‬
‫ميں مالکی مسلک کے پيروکارتھے‪ ،‬علمی منازل طے کرنے کے بعد پﮍھےلکھے مفکروں ميں ان کا شمار ہونے لگا ڈاکٹر‬
‫محمد تيجانی نے اسالمی مذاہب ميں مذہب حقہ کی تحقيق ميں بﮍے ہی ہوش وحواس کے ساتھ انتھک کوشش کی اس سلسلہ‬
‫ميں انھوں نے متعدد سفر بھی کئے جيسے نجف اشرف ميں آيت ﷲ خوئی اور شہيد باقر الصدر اعلی ﷲ مقامہم کے پاس‬
‫پہنچے اور نہايت ہی عميق تحقيق کے بعد مذہب تشيع کو قبول کيا اوراپنے شيعہ ہونے کا قانونی طور پر اعالن کر ديا اور‬
‫اپنے اس تحقيق کو اپنی قيمتی کتاب ”ثم اھتديت “ميں بيان کيا ہے۔]‪[49‬‬

‫‪۶۴‬۔ توسل کے بارے ميں ڈاکٹر تيجانی سے آيت ﷲ شہيد صدر کا مناظره‬
‫ڈاکٹر تيجانی پہلے مالکی مذہب کے پيروکار تھے انھوں نے تيونس سے نجف اشرف کا سفر کر کے اپنے دوست کے ذريعہ‬
‫العظمی سيد شہيد صدر ]‪ [50‬کی خدمت ميں پہنچے انھوں نے وہاں پہنچ کر تحقيق اور مناظره شروع کيا۔‬ ‫ٰ‬ ‫آيت‬
‫ڈاکٹرتيجانی نے پہلے اس طرح سوال شروع کئے‪:‬‬
‫سعودی علماء کہتے ہيں‪:‬‬
‫”قبر پر ہاتھ رکھنا )چومنا(صالحين کو وسيلہ قرار دينا ان سے متبر ک ہونا شرک ہے‪ ،‬اس بارے ميں آپ کا کيا نظريہ ہے‬
‫؟“۔‬
‫آيت ﷲ صدر نے فرمايا‪” :‬اگر کوئی انسان اس عقيده سے قبر چومے يا انھيں وسيلہ قرار دے کہ وه )بغير اذن خدا کے‬
‫(مستقل طور پر ہميں ضرر و نفع پہنچا سکتے ہيں تو يہ شرک ہے‪ ،‬ليکن مسلمان خدائے وحده ال شريک کی عبادت کرنے‬
‫واال جانتا ہے کہ صرف اور صرف خدا ہی وه ہے جو ضررونفع پہنچا سکتا ہے اور يہ اوليائے خدا اور اس کے درميان‬
‫واسطہ اور وسيلہ ہيں انھيں اس طرح واسطہ و وسيلہ قرار دينا ہرگز شرک نہيں ہے تمام سنی اور شيعہ مسلمان رسول اکرم‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانہ سے لے کر آج تک اسی نظريہ پر متفق ہيں۔‬
‫يہ صرف وہابيت اور سعودی علماء ہيں جو اسی صدی ميں پيدا ہوئے ہيں انھوں نے ہم مسلمانونکے خالف ايک ڈھونگ رچ‬
‫رکھا ہے اور يہ لوگ مسلمانوں کے خون کو مباح بھی جانتے ہيں اور ان کے درميان فتنہ انگيزی کرتے ہيں يہ لوگ قبر کو‬
‫چومنا اور ائمہ اعليہم لسالم کو وسيلہ قرار دينا شرک سمجھتے ہيں۔‬
‫اس کے بعد شہيد نے فرمايا‪:‬سيد شرف الدين )شيعوں کے ايک عظيم محقق (صاحب کتاب ”المراجعات “”عيد غدير“کے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫موقع پر خانہ خدا کی زيارت کے لئے مکہ تشريف لے گئے۔وہاں دستور کے مطابق عبد العزيز]‪[51‬کو مبارک باد پيش‬
‫کرنے کے لئے عيد قربان کے روز تمام سعودی علماء ‪ ١١۵٣‬ء ھ ميں اس نے خود ساختہ وہابی عقائد کا اعالن کر ديا کچھ‬
‫لوگوں نے ا س کی پيروی کی اور ‪ ١١۶٠‬ھ ميں يہ نجد کے ايک دوسرے مشہور و معروف شہر ”درعيہ“چال گيا جہاں اس‬
‫نے شہر کے حاکم ”محمد بن سعود “سے راه رسم پيدا کی اور پھر ان دونوں نے يہ فيصلہ کر ليا کہ مل جل کر اس نئے‬
‫عقيده کی ترويج کريں گے )آئين وہابيت ‪،‬ص ‪(٢۶،٢٧‬ل ٰہذا جيسا کہ ہم آج ديکھ رہے ہيں يہ منحرف مذہب ‪ ١٢‬صدی ہجری‬
‫ميں پيدا ہوا اور آل سعود کے ہاتھوں پھلتا پھولتا رہا ۔‬
‫شيخ محمد بن عبد الوہاب ‪ ١٢٠۶‬ہجری ميں مر گيا مگر اس کے بعد بھی اس کے ماننے والوں نے اس کے مذہب کو قائم‬
‫رکھا البتہ اس ‪E‬‬
‫کے ساتھ ساتھ ان کی بھی دعوت ہوئی تمام علماء کے ساتھ ساتھ وه بھی محل ميں داخل ہوئے ‪،‬لوگ مبارک باد ديتے رہے‬
‫ليکن جب آپ کی باری آئی توآپ نے پہنچ کر عبد العزيز کا ہاتھ پکﮍ ليا اور اسے ہديہ کے طور پر ايک بہت ہی پرانا قرآن‬
‫ديا‪ ،‬اس نے قرآن لے کر اس کا بوسہ ديا اور مارے احترام وتعظيم کے اسے اپنی پيشانی سے مس کيا‪ ،‬سيد شرف الدين نے‬
‫فرصت غنيمت جان کر اچانک اس سے کہا‪” :‬اے بادشاه! اس جلد کو بوسہ کيوں لے رہے ہو ؟يہ تو بکری کی کھال سے‬
‫بنائی گئی ہے“۔اس نے کہا‪” :‬ميں کھال کا نہيں بلکہ جو قرآن اس کے اندر ہے اس کا بوسہ لے رہا ہوں۔‬
‫جناب شرف الدين نے فوراً فرمايا‪:‬‬
‫”بہت اچھا بادشاه ہم شيعہ بھی جب رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے روضہ کے دروازه اور کھﮍکی کا بوسہ ليتے‬
‫ہيں تو يہ جانتے ہيں کہ يہ صرف لوہا ہے يہ ہميں کوئی نقصان نہيں پہنچا سکتا ہے ہماری غرض کھﮍکی اور دروازه سے‬
‫نہيں بلکہ اسے ماوراء چيز يعنی ہماری غرض رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کا احترام اور تعظيم ہوتی ہے يہ تعظيم‬
‫و تکريم بالکل اسی طرح ہے جس طرح تم بکری کی کھال چوم کر قرآن کی تعظيم و تکريم کر رہے ہو۔‬
‫يہ سن کر تمام حاضرين نے تکبير کہی اور ان کی تصديق کی اس کے بعد ملک عبد العزيز نے مجبور ہو کر حاجيوں کو‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے روضہ کو بوسہ دينے کی اجازت دے دی۔ليکن اس کے بعد جو بادشاه آيا اس نے‬
‫اس گزشتہ قانون کی کوئی رعايت نہيں کی۔‬
‫يہ سب ديکھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ يہ چيزيں شرک نہيں ہيں بلکہ وہابيوں نے لوگوں‬

‫‪F‬کے تمام عقائد ‪ ۶۶١‬ھ کی منحرف شخصيت ”احمد بن عبد الحليم ابن تيميہ “کے مرہون منت ہيں اگر يہ کہا جائے کہ تقريبا ً‬
‫چھ سو سال کے عرصہ تک مرده پﮍے ابن تيميہ کے منحرف عقائد اور مختلف بدعتوں کو عبد الوہاب نے نئے سرے سے‬
‫اجاگر کيا اور لوگوں کے درميان پھر سے زنده کيا تو قطعا غلط نہ ہوگا۔کيونکہ تحقيق کرنے پر يہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ‬
‫آج کی وہابيت ابن تيميہ کے خود ساختہ عقائد و نظريات کی بنيادوں پر استوار ہے۔ )ابن تيميہ صائب عبد الحميد (‪ ١٢٢۶‬ھ‬
‫ميں وہابی شاه سعود نے بيس ہراز سپاہيوں کے ساتھ کربالپر حملہ کيا اور پانچ ہزار يا اس سے زياده افراد کو تہہ تيغ کر‬
‫ڈاال۔ )تاريخ کربال ‪،‬ص‪(١٧٢‬‬
‫کے درميان اس لئے يہ پروپيگنڈه پھياليا ہے تاکہ وه اس سياست کی بنياد پر مسلمانوں کا خون مباح قرار ديں اور مسلمانوں‬
‫پر اپنی حکومت باقی رکھيں۔تاريخ اس بات پر شاہد ہے کہ وہابيوں نے امت محمد پر مصائب کے کتنے پہاڑ توڑے ہيں]‪[52‬۔‬

‫‪۶۵‬۔ اذان ميں حضرت علی عليہ السالم کا نام کی گواہی‬


‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬شيعہ حضرات اذان واقامت ميں اس بات کی گواہی کيوں ديتے ہيں کہ علی عليہ السالم خدا کے ولی ہيں؟“‬
‫آيت ﷲ باقر الصدر‪” :‬کيونکہ حضرت علی عليہ السالم خدا کے بندوں ميں ايک منتخب بنده ہيں اور خدا وند متعال نے انھيں‬
‫لوگوں پر فضيلت و برتری عطا کی ہے تاکہ انبياء کے بعد رسالت کے بار سنگين کو وه اپنے دوش مبارک پر اٹھا سکيں ‪،‬‬
‫اور تمام ائمہ عليہم السالم پيغمبروں کے اوصياء اور جانشين ہوتے ہيں اور جس طرح ہر پيغمبر کے پاس اس کا ايک جانشين‬
‫ہوتا تھا اسی طرح پيغمبر اسالم حضرت محمد مصطفی صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے جانشين موالئے کائنات علی ابن ابی‬
‫طالب عليہ السالم ہيں ہم لوگ انھيں تمام اصحاب پر مقدم قرار ديتے ہيں کيونکہ خداوند متعال اور اس کے رسول نے انھيں‬
‫تمام لوگوں سے افضل و برتر جاناہے اور ان کی فضيلت و برتری کے لئے ہمارے پاس قرآن اور احاديث سے عقلی اور‬
‫نقلی دونوں دليليں موجود ہيں اور ان دليلوں ميں کسی طرح کوئی شک و شبہ کی گنجائش نہيں ہے کيونکہ يہ دليليں صرف‬
‫ہمارے لحاظ سے متواتر نہيں ہيں بلکہ اہل سنت حضرات کی کتابوں ميں بھی تواتر کی حيثيت رکھتی ہيں۔]‪[53‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس سلسلے ميں ہمارے علماء نے بہت ساری کتابيں لکھی ہيں کيونکہ بنی اميہ کی حکومت کے زمانہ ميں موالئے کائنات‬
‫کی خالفت کو نابود کرنے اور ان کے بيٹوں کو قتل کرنے پر سارے حکمراں تلے ہوئے تھے اور نوبت يہاں تک پہنچ گئی‬
‫تھی کہ مسلمان منبر سے آپ پر لعن وطعن کرتے تھے اور معاويہ ان مسلمانوں کی اپنی طاقت کے بل بوتے پر اس کے لئے‬
‫ترغيب کرتا تھا۔‬
‫اسی لئے شيعہ اور علی عليہ السالم کے تمام پيرو کار اذان و اقامت ميں گواہی ديتے ہيں کہ علی ابن ابی طالب عليہ السالم‬
‫ولی ٔخدا ہيں اور يہ چيز مناسب نہيں ہے کہ کوئی مسلمان ولی خدا پر لعنت بھيجے۔در اصل شيعوں کی يہ روش اس زمانے‬
‫کے حکام سے ايک طرح کا اعالن جنگ تھا تاکہ خدا اس کے رسول اور مومنوں کی عزت کو قائم و دائم رکھے اور يہ‬
‫تاريخی حوصلہ مسلمانوں کی آنے والی نسلوں ميں باقی رہے اور حضرت علی عليہ السالم کی حقانيت اور ان کے دشمنوں‬
‫کی سازشوں سے پوری طرح آگاه رہيں۔اسی وجہ سے ہمارے فقہاء نے اس روش کو باقی رکھا کہ واليت علی عليہ السالم‬
‫کی گواہی اذان واقامت کے دوران مستحب جانا نہ کہ اسے اذان و اقامت کا جزء قرار ديا ہے۔‬
‫اب اس وجہ سے اگر کوئی شخص واليت علی عليہ السالم کی گواہی اذان اور اقامت کا جزء )واجب(سمجھ کر دے تو اس‬
‫کی اذان واقامت باطل ہے۔]‪[54‬‬
‫العظمی آقائی خوئی طاب ثراه سے گفتگو‬ ‫ٰ‬ ‫‪۶۶‬۔آيت ﷲ‬
‫ڈاکٹر تيجانی سماوی کہتے ہيں‪:‬‬
‫العظمی آقائے خوئی کی خدمت ميں‬ ‫ٰ‬ ‫جب ميں سنی تھا اور نيا نيا نجف اشرف ميں وارد ہوا تو اپنے دوست کے ذريعہ آيت ﷲ‬
‫جانے کا شرف حاصل ہوا ميرے دوست نے آقائے خوئی کے کانونميں کچھ کہا اور مجھ سے اشاره کيا کہ آپ کے قريب آکر‬
‫جاوں‪،‬ميں جا کربيٹھ گيا تو ميرے دوست نے اس بات پر بہت اصرار کيا کہ ميں تيونس کے شيعوں کے متعلق اپنا اور‬ ‫بيٹھ ٔ‬
‫وہاں کے لوگوں کا نظريہ بيان کروں۔ميں نے کہا‪:‬‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ونصاری خداوند متعال کی عبادت کرتے ہيں اور‬ ‫ونصاری سے بھی بدتر ہيں کيونکہ يہود‬ ‫ٰ‬ ‫”شيعہ ہمارے يہاں يہود‬
‫وعيسی عليہم السالم سے عقيدت رکھتے ہيں ليکن جو ميں شيعوں کے بارے ميں جانتا ہوں وه يہ کہ وه حضرت علی عليہ‬ ‫ٰ‬
‫السالم کی پرستش کرتے ہيں اور عبادت کرتے ہيں اور انھيں پاک وپاکيزه اور مقدس قرار ديتے ہيں۔ان کے درميان ايک اور‬
‫گروه بھی ہے جو خداوند متعال کی عبادت کرتا ہے ليکن علی عليہ السالم کو رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی منزلت‬
‫واعلی سمجھتا ہے اور يہاں تک کہتا ہے کہ پہلے يہ طے تھا کہ جبرئيل عليہ السالم قرآن کريم کو‬ ‫ٰ‬ ‫ومقام سے بہت ہی ارفع‬
‫حضرت علی عليہ السالم کے پاس لے آئيں ليکن انھوں نے خيانت کی اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے پاس لے‬
‫کر چلے گئے “!!‬
‫آقائے خوئی نے تھوڑی دير اپناسر جھکائے رکھا اس کے بعد فرمايا‪:‬‬
‫”ميں گواہی ديتا ہوں کہ خداوند متعال کے عالوه کوئی معبود نہيں اور محمد صلی ﷲ عليه و آله وسلم اس کے رسول ہيں‪:‬‬
‫”اللھم صل علی محمد آل محمد “ اور ميں گواہی ديتا ہوں کہ حضرت علی عليہ السالم خدا کے بندوں ميں سے ايک بنده ہيں۔‬
‫اس کے بعد انھوں نے بيٹھے ہوئے لوگوں کی طرف نظر کی اور ميری طر ف اشاره کر کے کہا‪” :‬اس بے چارے کو ديکھو‬
‫کس طرح فريب اور چھوٹی تہمتوں کا شکار ہوا ہے يہ عجيب بات نہيں ہے بلکہ ميں نے تو اس سے بھی بدتر باتيں دوسرے‬
‫لوگوں سے سنی ہيں ”ال حول وال قوة اال با “اس کے بعد ميری طرف رخ کر کے فرمايا‪:‬‬
‫”کيا تم نے قرآن پﮍھا ہے ؟“‬
‫ميں نے کہا‪” :‬ابھی ميری عمر کے دس سال بھی پورے نہيں ہوئے تھے کہ ميں نے آدھا قرآن حفظ کر ليا تھا“۔‬
‫انھوں نے فرمايا‪” :‬کيا تم يہ جانتے ہو کہ اسالم کے تمام گروه آپس ميں مذہبی اختالف کو چھوڑ کر قرآن کی حقانيت کے‬
‫بارے ميں اتفاق رکھتے ہيں؟اور جو قرآن ہمارے پاس ہے وہی قر آن تمہارے پاس بھی ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬ہاں ميں جانتا ہوں“۔‬
‫انھوں نے کہا‪” :-‬کيا تم نے اس آيت کو پﮍھا ہے“۔‬
‫ت ِم ْن قَ ْب ِل ِہ الرﱡ ُس ُل“ ]‪[55‬‬‫” َو َما ُم َح ﱠم ٌد ِٕاالﱠ َرسُو ٌل قَ ْد َخلَ ْ‬
‫”اور محمد )ص( تو صرف ايک رسول ہيں‪ ،‬جن سے پہلے بہت رسول گزر چکے ہيں“۔‬
‫اور خدا وند عالم فرماتا ہے‪:‬‬
‫ﷲ َوالﱠ ِذينَ َم َعہُ أَ ِش ﱠدا ُء َعلَی ْال ُکفﱠار“]‪[56‬‬ ‫” ُم َح ﱠم ٌد َرسُو ُل ِ‬
‫” محمد)ص( ﷲ کے رسول ہيں اور جو لوگ ان کے ساتھ ہيں وه کفار کے لئے سخت ترين ہيں“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫پھر يہ بھی ملتا ہے۔‬
‫” َما َکانَ ُم َح ﱠم ٌد أَبَا أَ َح ٍد ِم ْن ِر َجالِ ُک ْم َولَ ِک ْن َرسُو َل ﷲِ َوخَاتَ َم النﱠ ِبيﱢينَ “]‪[57‬‬
‫” محمد )ص( تمہارے مردوں ميں سے کسی ايک کے باپ نہيں ہيں ليکن وه ﷲ کے رسول اور سلسلہ انبياء کے خاتم ہيں“۔‬
‫کيا تم نے ان آيتوں کا مطالعہ کيا ہے ؟‬
‫ميں نے کہا‪” :‬ہاں ميں ان آيتوں سے واقف ہوں“۔‬
‫انھوں نے فرمايا‪” :‬ان آيتوں ميں حضرت علی عليہ السالم کہاں ہيں ؟تم ديکھتے ہو کہ يہ باتيں رسول اسالم صلی ﷲ عليه و‬
‫آله وسلم کے لئے ہيں نہ کہ حضرت علی عليہ السالم کے لئے اور ہم اور تم دونوں گروه کے لوگ قرآن کومانتے ہيں۔تم کس‬
‫طرح ہم لوگوں پر تہمت لگاتے ہو کہ ہم پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے حضرت علی عليہ السالم کو افضل وبرتر‬
‫سمجھتے ہيں؟“۔‬
‫يہ سن کر ميں نے سکوت اختيار کيا اور کوئی جواب نہيں ديا‬
‫اس کے بعد انھوں نے اپنی بات آگے بﮍھاتے ہوئے کہا‪” :‬جبرئيل کی خيانت کے بارے ميں تم لوگ جو تہمت لگاتے ہوئے‬
‫کہ ہم شيعہ کہتے ہيں کہ جبرئيل نے خيانت کی ہے يہ تہمت پہلے والی تہمت سے بھی زياده سخت ہے۔کيا ايسا نہيں ہے کہ‬
‫جب جبرئيل عليہ السالم پيغمبر اسالم پر )آغاز بعثت ميں( نازل ہوئے تو علی عليہ السالم دس سال سے بھی کم عمر تھے تو‬
‫کس طرح جناب جبرئيل نے غلطی کی اور محمد )ص(‪،‬اور حضرت علی عليہ السالم کے درميان فرق نہ کو سمجھ پائے ؟“‬
‫تھوڑی دير خاموش ره کر ميں نے ان کی باتوں پر غور کيا تو ميں سمجھ گيا کہ يہ تمام باتيں سچ ہيں۔‬
‫انھوں نے فرمايا‪” :‬ضمنا ً يہ بھی کہہ دوں کہ اسالم کے تمام گروہوں ميں صرف شيعوں کا الگ گروه ہے جو پيغمبر)ص(‬
‫اور ائمہ اطہار عليہم السالم کی عصمت کا معتقد ہے اور اس کے ساتھ ساتھ يہ بھی ہمارا ہی عقيده ہے کہ جبرئيل عليہ السالم‬
‫ہر طرح کی غلطی اور شبہ سے محفوظ ہيں“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬يہ سب جو مشہور ہے وه کيا ہے ؟“‬
‫انھوں نے فرمايا‪” :‬يہ سب تہمت اور غلط افواہيں ہيں جو مسلمانوں کے درميان جدائی پيدا کرنے کے لئے گﮍھ لی گئی ہيں‬
‫‪،‬تم تو الحمد ايک عاقل انسان ہو اور ان مسائل کو اچھی طرح سے سمجھتے ہو‪ ،‬اب تمہيں چاہئے کہ شيعوں اور ان کے‬
‫علمی ادارونکو قريب سے ديکھو اور غور و فکر کرو کہ کيا اس طرح کی چيزيں ان کے درميان پائی جاتی ہيں“۔‬
‫ميں جب تک نجف اشرف ميں رہا شيعوں کے سلسلہ ميں جتنی بھی نامناسب سن رکھی تھيں ان سب کے بارے ميں تحقيق‬
‫کرتا رہا۔‬

‫‪۶٧‬۔نماز ظہرين اور مغربين کو ايک ساتھ پﮍھنا‬


‫اشاره‪:‬‬
‫جيسا کہ آپ جانتے ہيں کہ اہل سنت حضرات نما ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ايک ہی وقت ميں انجام دينا باطل‬
‫سمجھتے ہيں اور کہتے ہيں کہ ہر نماز کو جداگانہ اس کے وقت ميں پﮍھنا چاہئے اور جس طرح نماز ظہر وعصر کے‬
‫درميان فاصلہ رکھا جاتا اسی طرح مغرب وعشاء کے درميان بھی فاصلہ رکھنا چاہئے۔‬
‫ڈاکٹر تيجانی سماوی کہتے ہيں کہ جب ميں سنی تھا تو اس بنياد پر نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ايک وقت ميں‬
‫انجام دينا باطل سمجھتا تھا ليکن جب ميں نجف اشرف ميں وارد ہوا اوراپنے دوست کی رہنمائی ميں حضرت آيت ﷲ صدر‬
‫کی خدمت ميں پہنچا تو ظہر کا وقت ہو گيا جب آپ مسجد کی طرف روانہ ہوئے تو ساتھ ساتھ ميں اور ان کے ساتھ بيٹھے‬
‫ہوئے تمام افراد مسجد کی طرف روانہ ہوئے اور وہاں پہنچ کر نماز ميں مشغول ہوگئے۔‬
‫ميں نے ديکھا کہ آيت ﷲ باقر الصدر نے نماز ظہر کے چند منٹ بعد نماز عصر بھی بھی پﮍھ لی اور ميں اس وقت ايسی‬
‫ميں حالت اور ايسی جگہ پر تھا کہ صف سے باہر نہيں نکل سکتا تھا ‪ ،‬يہ پہال موقع تھا جب ميں نے نماز ظہر وعصر ايک‬
‫ہی قت ميں پﮍھی ل ٰہذا ميں بﮍے شش وپنج ميں مبتال تھا کہ آيا ميری نماز عصر صحيح ہے يا نہيں؟‬
‫اس دن ميں شہيد صدر کا مہمان تھا مجھے جيسے ہی موقع ہاتھ آيا ميں نے ان سے پوچھ ليا‪:‬‬
‫”کيا يہ صحيح ہے کہ مسلمان دو نمازوں کو بغيرضرورت کے وقت ايک ساتھ انجام ديں ؟“‬
‫شہيد صدر‪” :‬ہاں دو فريضوں کو يکے بعد ديگرے انجام دينا جائز ہے خواه ضرورت کے وقت ہويانہ“۔‬
‫ميں نے پوچھا‪” :‬اس فتوے پر آپ کی دليل کيا ہے ؟“‬
‫شہيد صدر‪” :‬چونکہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلمنے مدينہ ميں بغير کسی ضرورت کے خواه وه سفر ہويا خوف يا‬
‫بارش ہو رہی ہو نماز ظہر وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء کو يکے بعد ديگرے انجام دی ہے اور آپ کا يہ عمل اس‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫لئے تھا تاکہ ہم سے مشقت کم ہو جائے اور اسی طرح يہ عمل ہمارے عقيده کے مطابق ہمارے ائمہ عليہم السالم سے بھی‬
‫ثابت ہے۔‬
‫اور ہم لوگوں کی طرح تم اہل سنت حضرات کے نزديک بھی روايت سے يہ چيز ثابت ہے‪ ،‬مجھے تعجب ہواکہ کس طرح‬
‫ہمارے نزديک ثابت ہے کيونکہ آج تک نہ ميں نے کہيں سنا تھا اور نہ کسی اہل سنت کو ديکھا تھا کہ کسی نے اس طرح‬
‫انجام ديا ہو بلکہ وه لوگ اس کے بر خالف کہتے ہيں کہ اگر نماز اذان سے ايک منٹ بھی پہلے واقع ہو جائے تو نماز باطل‬
‫ہے چہ جائيکہ کوئی شخص نماز عصر کو ايک گھنٹہ پہلے نماز ظہرکے فوراً بعد يا نماز عشاء کو نما مغرب کے بعد فوراً‬
‫پﮍھے ان چيزوں سے ابھی تک ميں بالکل ناآشنا تھا اور ميرے نزديک يہ چيزيں باطل بھی تھيں۔‬
‫آيت ﷲ صدر نے ميرے چہره سے معلوم کرليا کہ ميں اس بات پر تعجب کر رہاہوں کہ ظہر کے بعد عصر اور مغرب کے‬
‫بعد عشاء بغير کسی فاصلہ کے کيسے پﮍھنا صحيح ہے؟اسی وقت انھوں نے اپنے ايک طالب علم کی طرف اشاره کيا اور‬
‫اس نے اپنی جگہ سے اٹھ کر ايک کتاب کی دو جلديں ميرے پاس الکر رکھ ديں ميں نے ديکھا اس ميں ايک صحيح مسلم ہے‬
‫اور دوسری صحيح بخاری تھی۔‬
‫آيت ﷲ صدر نے اس طالب علم سے کہا کہ مجھے وه حديث دکھادےں جس ميں دونوں فريضوں کو ايک وقت ميں پﮍھنے کا‬
‫ذکر کيا گيا ہے ميں نے ان دونوں کتابوں مينپﮍھا کہ رسول اکرم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء خوف بارش اور‬
‫بغير کسی ضرورت کے ايک ساتھ پﮍھاہے اور کتاب صحيح مسلم ميں مجھے اس سلسلہ ميں پورا ايک باب مال۔يہ ديکھ کر‬
‫ميں کافی حيران و پريشان ہو ا اور سوچ رہا تھا کہ خدايا اس وقت ميں کيا کروں اسی وقت ميرے دل ميں ايک شک پيدا ہوا‬
‫کہ شايد يہ دوکتابيں )صحيح مسلم اور صحيح بخاری (جو ميں نے يہاں ديکھی ہيں تحريف شده ہوں يا نقلی ہوں اور دل ہی دل‬
‫جاوں گا تو ان دونوں کتابوں کا بغور مطالعہ کر کے اس موضوع پر‬ ‫ميں کہنے لگا کہ جب ميں اپنے وطن تيونس واپس ٔ‬
‫تفصيلی طور پر تحقيق کروں گا۔‬
‫اسی وقت شہيد صدر نے مجھ سے پوچھا‪” :‬اب ان دليلوں کے بعد تمہاری کيا رائے ہے؟“‬
‫ميں نے کہا‪” :‬آپ حق پر ہيں اور حق کہنے والے ہيں“۔‬
‫اس کے بعد ميں نے آيت ﷲ کا شکريہ اداکيا ليکن ميرا دل مطمئن نہيں ہو اتھا يہاں تک کہ جب ميں اپنے وطن واپس پہنچا تو‬
‫صحيح مسلم اور صحيح بخاری کو لے کر پﮍھا اور تفصيلی طور پر تحقيق کی تو اچھی طرح قانع ہو گيا کہ نماز ظہر‬
‫وعصر اور اسی طرح مغرب وعشاء مالکر پﮍھنا بغير کسی ضرورت کے اشکال نہيں ہے کيونکہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله‬
‫وسلمنے اس کام کو انجام ديا ہے۔ميں نے ديکھا کہ امام مسلم اپنی کتاب”سفر“کے عالوه ”دونمازوں کے اجتماع“]‪[58‬کے‬
‫باب ميں ابن عباس سے نقل کرتے ہيں کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے نمازظہر وعصر اور مغرب وعشاء ايک ساتھ‬
‫پﮍھی تھی۔اسی طرح انھوں نے يہ بھی نقل کياہے کہ آنحضرت نے مدينہ ميں نماز ظہر عصر اور مغرب وعشاء کو بغير‬
‫خوف يا بارش کے ايک ساتھ پﮍھی ہے۔ابن عباس سے سوال کيا گيا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے کيوں ايسا کيا‬
‫تو ابن عباس نے جواب ميں کہا‪:‬‬
‫”کی اليحرج امتہ“]‪[59‬‬
‫تاکہ امت کو دشواری نہ ہو“۔‬
‫اور کتاب صحيح بخاری ميں بھی)ج‪ ١‬ص ‪ (١۴٠‬باب ”وقت مغرب“ميں ميں نے ديکھا اور پﮍھا کہ ابن عباس نقل کرتے ہيں‬
‫کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے سات رکعت نماز)نماز مغرب وعشاء(ايک ساتھ پﮍھی اور آٹھ رکعت) ظہر‬
‫وعصر(نما ز ايک ساتھ پﮍھی اور اسی طرح کتاب ”مسند احمد“]‪[60‬ميں ديکھا کہ اس موضوع پر روايت ہے اسی طرح‬
‫کتاب”الموطا“]‪[61‬ميں ميننے ديکھا کہ ابن عباس روايت کرتے ہيں‪:‬‬
‫”صلی رسول ﷲ الظہر والعصر جميعا والمغرب والعشاء جميعا فی غير خوف والسفر “‬
‫”رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے بغير کسی خوف وسفر کے نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ايک ساتھ پﮍھی“۔‬
‫نتيجہ يہ ہے کہ جب يہ مسئلہ اس طرح واضح اور روشن ہے تو اہل سنت کيوں تعصب اور بغض کی وجہ سے اسی‬
‫موضوع کو لے کرشيعہ پر بﮍے بﮍے اعتراض کرتے ہيں؟‬
‫اس چيز سے غافل کہ خود ان کی کتاب ميں اس چيز کا جواز ثابت ہے۔]‪[62‬‬

‫‪۶٨‬۔اہل سنت کے امام جماعت سے )ايک ساتھ نماز پﮍھنے کے متعلق( بہترين مناظره‬
‫ڈاکٹر تيجانی کہتے ہيں‪:‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”ميں نے دونمازوں کو ايک ساتھ جمع کر کے پﮍھنے کا واقعہ اہل سنت کی کتاب صحيح بخاری اور صحيح مسلم کے‬
‫روايت کے مطابق تيونس ميں اپنے بعض دوستوں اور بعض علماء کے درميان بيان کرديا‪ ،‬چند لوگوں نے اس چيز کے‬
‫صحيح ہونے کے سلسلہ ميں معلومات حاصل کر لی اور اس بات کی خبر جب شہر ”قفصہ“)تيونس کا ايک شہر(کی ايک‬
‫مسجد کے امام جماعت کے کانوں تک پہنچی تو وه سخت ناراض ہو ا اور اس نے کہا جو اس طرح کی فکر رکھتے ہيں وه‬
‫نہايت بے دين ہيں اور قرآن کے مخالف ہيں کيونکہ قرآن فرما تا ہے‪:‬‬
‫َت َعلَی ْال ُم ْؤ ِمنِينَ ِکتَابًا َموْ قُوتًا ً“]‪[63‬‬
‫صالَةَ َکان ْ‬
‫”ال ﱠ‬
‫”بال شبہ مومنوں پر معين وقت پر نماز فرض کی گئی ہے“۔‬
‫ہدايت پانے والوں ميں سے ميرا يک دوست بھی تھا جس کا علمی معياربہت ہی بلند و باال تھا اور وه بہت ہی ذہين وچاالک‬
‫بھی تھا۔اس نے بہت ہی غصہ کی حالت ميں ميرے پاس آکر امام جماعت کے قول کو نقل کيا۔ميں نے دو کتاب صحيح مسلم‬
‫اور صحيح بخاری اسے ال کر دی اور اس سے کہا کہ نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء کو ايک ساتھ پﮍھنے والے باب‬
‫کا مطالعہ کرو۔مطالعہ کے بعد اس کے نزديک بھی يہ مسئلہ ثابت ہو گيا۔يہاں تک کہ ميرا يہ دوست جو ہر روز اسی امام‬
‫جماعت کی نما ز ميں شرکت کرتا تھا ايک دن نماز جماعت کے بعد اس کے در س مينجاکر بيٹھ گيا اور امام جماعت سے‬
‫پوچھا‪” :‬نماز ظہر وعصر اور مغرب وعشاء ايک ساتھ پﮍھنے کے بارے ميں آپ کا خيال ہے ؟“‬
‫امام جماعت‪” :‬يہ شيعوں کی ايک بدعت ہے“۔‬
‫ميرے دوست نے کہا‪” :‬ايسا نہيں ہے بلکہ يہ بات صحيح مسلم اور صحيح بخاری سے بھی ثابت ہے“۔‬
‫امام جماعت‪” :‬نہيں ثابت نہيں ہے۔اس طرح کی چيز کا ہونا اس کتاب ميں مشکل ہے“۔‬
‫ميرے دوست نے وه دونوں کتابيں اس کے حوالہ کر ديں اس نے وہی باب پﮍھا۔جب اس کے درس ميں شريک ہونے والے‬
‫دوسرے نماز گزاروں نے اس سے دو نمازوں کوايک ساتھ پﮍھنے کے متعلق پوچھا تو اس نے کتابيں بند کر کے مجھے‬
‫ديتے ہوئے انھيں جواب ديا‪” :‬دونمازوں کو ايک ساتھ پﮍھنے کا جواز پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خصوصيت‬
‫ميں سے ہيں جب تم رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم ہو جانا اس وقت تمہارے لئے بھی يہ جائز ہو جائے گا“!!‬
‫ميرے دوست نے کہا‪” :‬اس کی بات سے ميری سمجھ ميں آگيا کہ يہ ايک متعصب جاہل ہے اور اس دن ميں نے قسم کھالی‬
‫کہ آج سے اس کے پيچھے نماز نہيں پﮍھوں گا“۔‬
‫يہاں ايک حکايت کا نقل کرنا مناسب سمجھتا ہوں ‪ ،‬وه يہ کہ دو شکاری شکا ر کرنے صحرا کی طرف روانہ ہوئے صحرا‬
‫ميں پہنچ کر دور سے انھوں نے کالے رنگ کی ايک چيز ديکھی تو ان ميں سے ايک نے کہا‪” :‬يہ کوا ہے“۔دوسرے نے‬
‫کہا‪:‬نہيں يہ بکری لگ رہی ہے“۔‬
‫دونوں ميں بحث ہونے لگی اور دونوں اپنی اپنی بات کو صحيح ثابت کرنے پر تلے ہوئے تھے۔جب دونوں اس کالی چيز کے‬
‫قريب پہنچے تو اچانک ديکھا کہ کوا تھا جو اڑگيا۔‬
‫پہلے نے کہا‪” :‬ميں نے کہا تھا نہ کہ کواہے کيا اب تم مطمئن ہوگئے ؟‬
‫ليکن دوسرا اپنی بات پر اڑا ہو ا تھا يہ ديکھ کر دوسرے نے کہا‪:‬‬
‫”کتنے تعجب کی بات ہے ‪ ،‬بکری بھی اڑتی ہے ؟!!‬
‫ڈاکٹر تيجانی کہتے ہيں‪:‬‬
‫جاو اور اسے صحيح مسلم اور صحيح‬ ‫ٔ‬ ‫پاس‬ ‫کے‬ ‫جماعت‬ ‫امام‬ ‫اس‬ ‫”‬ ‫کہا‪:‬‬ ‫سے‬ ‫اس‬ ‫کر‬ ‫بال‬ ‫کو‬ ‫دوست‬ ‫اپنے‬ ‫”اس کے بعد ميں نے‬
‫دکھاو جہاں يہ نقل ہوا ہے کہ ابن عباس و انس ابن مالک اور دوسرے بہت سے اصحاب نے نماز ظہر‬ ‫ٔ‬ ‫بخاری ميں وه روايت‬
‫ين و مغربين کو ايک ساتھ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی اقتدا ميں پﮍھی ہے اس طرح کی نماز وں کو ايک ساتھ‬
‫پﮍھنا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے خصائص ميں سے ہر گز نہيں ہے کيا ہم رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم‬
‫کو اپنا نمونہ عمل نہيں سمجھتے؟ مگر ميرے دوست نے معذرت کرتے ہوئے کہا‪” :‬کوئی ضرورت نہيں کيونکہ اس کے‬
‫پاس اگر رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم بھی آکر يہ حکم بتائيں تو بھی وه قانع نہيں ہوگا۔]‪[64‬‬

‫بسی)آيہ تطہير کی تحقيق(‬


‫ٔ‬ ‫‪۶٩‬۔قاضی مدينہ کی بے‬
‫ڈاکٹر محمدتيجانی کہتے ہيں‪:‬‬
‫جب ميں مدينہ ميں مسجد نبوی کی زيارت سے مشرف ہوا تو وہاں ديکھا کہ ايک خطيب کچھ نمازيوں کے درميان بيٹھ کر‬
‫درس دہے رہا ہے ميں نے اس کے در س ميں شرکت کی وه چند آيتوں کی تفسير کر رہا تھا لوگوں کی باتوں سے يہ معلوم‬
‫ہو گيا کہ يہ مدينہ کا قاضی ہے جب اس کا درس ختم ہوگيا تو وه اٹھ کر جانے لگا ابھی مسجد سے باہر نکلنا ہی چاہتا تھا کہ‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ميں نے آگے جا کر اسے روکا اور اس سے کہا‪:‬‬
‫”مہربانی کر کے مجھے يہ بتائيں کہ اس آيت تطہير ميں اہل بيتعليہ السالم سے مراد کون ہيں؟“‬
‫ت َويُطَہﱢ َر ُک ْم ت ْ‬
‫َط ِہيرًا“]‪[65‬‬ ‫س أَ ْہ َل ْالبَ ْي ِ‬
‫ب َع ْن ُک ْم الرﱢجْ َ‬ ‫” ِٕانﱠ َما ي ُِري ُد ﷲُ لِي ُْذ ِہ َ‬
‫”بس ﷲ کا اراده يہ ہے اے اہل بيت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکيزه رکھے جو پاک و پاکيزه‬
‫رکھنے کا حق ہے“۔‬
‫قاضی نے بغير کسی جھجھک کے جواب ديا‪:‬‬
‫”يہاں اہل بيت سے مراد پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی بيوياں ہيں کيونکہ اس سے پہلے والی تمام آيتوں ميں‬
‫ازواج نبی کو خطاب کيا گيا ہے جيسا کہ خدا وند عالم نے فرمايا‪:‬‬
‫االُولَی ۔۔۔“]‪[66‬‬ ‫” َوقَرْ نَ فِی بُيُوتِ ُک ﱠن َوالَتَبَرﱠجْ نَ تَبَرﱡ َج ْال َج ِاہلِيﱠ ِة ْ ٔ‬
‫”۔۔۔ اور تم اپنے گھروں ميں بيٹھی رہو اور پہلی جاہليت جيسا بناؤ سنگار نہ کرو۔۔۔“‬
‫ميں نے کہا‪ :‬شيعہ کہتے ہيں کہ يہ آيت علی ‪ ،‬فاطمہ ‪ ،‬حسن وحسين عليہم السالم سے مخصوص ہے ميں نے ان سے کہا کہ‬
‫آيت کی ابتدا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی ازواج سے متعلق ہے يعنی آيت کے شروعات ہی اس جملے سے ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫”يا ايھا النبی “‬
‫تو ان لوگوں نے جواب ميں کہا‪:‬‬
‫”جو بھی اس آيت کے شروع ميں آيا ہے وه خصوصی طور پر لفظ مونث اور صيغہ کے ساتھ ذکر ہوا ہے جيسے ”لستن‪ ،‬فال‬
‫تخضعن‪ ،‬و قرن فی بيوتکن‪ ،‬ال تبرجن‪ ،‬اقمن‪ ،‬آتين‪ ،‬اطعن“ وغيره ليکن آيت کے آخری حصے تک پہنچتے پہنچتے اس کا‬
‫انداز بدل گيا ہے اور اس کی ضمير ميں جمع مذکر کے طور پر ذکر ہوئی ہيں جيسے ”عنکم“ ”ليطھرکم“ وغيره“۔‬
‫قاضی نے اپنی عينک اوپر اٹھا ئی اور مجھے کوئی استداللی جواب دينے کے بجائے کہنے لگا‪:‬‬
‫”خبردار !شيعوں کی زہر آلود فکر جو آيت وقرآن کی تاويل نفسانی خواہشات کی بنا پر کرتے ہيں ان کے چکر ميں نہ‬
‫آنا“۔]‪[67‬‬
‫يہاں پر ہم اس بحث کی تکميل کے لئے ”تفسير الميزان“سے استفادکرتے ہوئے کہتے ہيں کہ ان سب کے عالوه بھی ہمارے‬
‫سوره احزاب کے آخر ميں ذکر ہوئی ہے وه اپنے سے پہلے والی آيات کے ساتھ‬ ‫ٔ‬ ‫پاس کوئی دليل نہيں کہ يہ آيت تطہير جو‬
‫نازل ہوئی ہے بلکہ روايتوں سے اچھی طرح يہ پتہ چلتا ہے کہ آيت کا يہ حصہ الگ سے نازل ہوا ہے ل ٰہذا جب رسول خدا‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد قرآن جمع کيا گيا تو اس آيت کوان آيات کے ساتھ جوڑ ديا گيا۔]‪[68‬‬
‫اس کے عالوه اہل سنت حضرات سے متعددروايات اس سلسلہ ميں نقل ہوئی ہيں کہ مذکوره آيت ميں اہل بيت سے مراد علی‬
‫وفاطمہ حسن وحسين عليہم السالم ہيں اور يہاں تک کہ ازواج پيغمبر اکرم جيسے ام سلمہ ‪،‬عائشہ وغيره سے بھی نقل ہوا ہے‬
‫کہ آيت تطہير ميں اہل بيت سے مراد علی وفاطمہ حسن حسين عليہم السالم ہيں۔]‪[69‬‬

‫‪٧٠‬۔آل محمد پر صلوات سے متعلق ايک مناظره‬


‫اشاره‪:‬‬
‫اہل سنت حضرات جب حضرت علی عليہ السالم کا نام ليتے ہيں تو عليہ السالم کی جگہ ”کرم ﷲ وجھہ “ کہتے ہيں۔جب کہ‬
‫ديگر تمام صحابہ کو”رضی ﷲ عنہ“کہتے ہيں کيونکہ خود وه اس بات کے معتقد ہيں کہ امام علی عليہ السالم نے کوئی گناه‬
‫نہيں کيا )جس کی وجہ سے وه انھيں رضی ﷲ عنہ کہيں بلکہ ان کے لئے کرم ﷲ وجھہ کہنا چاہئے کہ خداوندمتعال ان کے‬
‫مرتبہ کو بلند قرار دے(‬
‫يہاں ايک سوال پيدا ہوتا ہے کہ علی عليہ السالم کے نام کے ساتھ وه لوگ عليہ السالم کيوں نہيں کہتے ؟‬
‫اسی سوال کے جواب کے سلسلہ ميں آنے والے مناظره کی طرف توجہ فرمائيں۔‬
‫ڈاکٹر تيجانی سماوی جو پہلے اہل سنت سے تعلق رکھتے تھے‪ ،‬قاہره سے عراق کے سفر ميں کشتی ميں بيٹھے ہوئے تھے‬
‫کہ وہاں ان کو ايک عالم دين ”استاد منعم“ سے دوستی ہوگئی‪ ،‬جو يونيورسٹی کے استاد اور عراقی شيعہ عالم دين تھے‪،‬‬
‫چنانچہ ان دونوں کے درميان گفتگو ہوئی ‪ ،‬اور اس کے بعد بھی عراق ميں ان دونوں کے درميان بہت سی گفتگو اور‬
‫مناظرے ہوئے ہيں جن ميں سے ايک مناظره آپ حضرات کی خدمت ميں پيش کيا جارہا ہے ‪ ،‬جو بغداد ميں استاد منعم کے‬
‫مکان پر ہوا تھا‪ ،‬مالحظہ فرمائيں‪:‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬تم شيعہ حضرات ‪ ،‬علی عليہ السالم کے مقام کو اس حد تک بﮍھا ديتے ہو کہ انھيں پيغمبروں کی صفت ميں‬
‫ال کر کھﮍا کر ديتے ہو کيونکہ تم لوگ ان کے نام کے بعد کرم ﷲ وجھہ کہنے کے بجائے عليہ السالم يا عليہ الصلوة والسالم‬
‫کہتے ہو جب کہ صلوات وسالم پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے مخصوص ہے جيسا کہ ہم قرآن ميں پﮍھتے ہيں۔‬
‫صلﱡوا َعلَ ْي ِہ َو َسلﱢ ُموا تَ ْس ِلي ًما “]‪[70‬‬‫صلﱡونَ َعلَی النﱠ ِب ﱢی يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا َ‬
‫” ِٕا ﱠن ﷲَ َو َم َال ِئ َکتَہُ يُ َ‬
‫” بے شک ﷲ اور اس کے مالئکہ رسول پر صلوات بھيجتے ہيں ‪ ،‬اے صاحبان ايمان ان پر صلوات بھيجتے رہو اور ان کے‬
‫سامنے تسليم رہو“۔‬
‫استاد منعم‪” :‬ہاں تم نے سچ کہا‪” :‬ہم جب بھی حضرت علی عليہ السالم يا ان کے عالوه ديگر ائمہ کے نام ليتے ہيں تو عليہ‬
‫السالم کہتے ہيں ليکن اس کامطلب يہ نہيں ہے کہ ہم انھيں پيغمبر يا ان کے رتبہ کے برابر جانتے ہيں“۔‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬تو پھر کس دليل سے ان پر سالم وصلوات بھيجتے ہو“۔‬
‫صلﱡونَ َعلَی النﱠ ِب ﱢی يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا ۔۔۔“کيا تم نے اس کی‬
‫استاد منعم‪” :‬اسی آيت کی دليل سے کہا جاتا ہے ” ِٕا ﱠن ﷲَ َو َم َال ِئ َکتَہُ يُ َ‬
‫تفسير پﮍھی ہے ؟شيعہ اور سنی دونوں متفقہ طور پر يہ نقل کرتے ہيں کہ جب يہ آيت نازل ہوئی تو چند صحابيوں نے‬
‫آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم سے پوچھا‪:‬‬
‫”يا رسول ﷲ ! آپ پر سالم بھيجنا تو ہم جانتے ہيں ليکن ہميں يہ نہيں معلو م کہ آپ پر صلوات کس طرح بھيجی جائے گی؟“‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے فرمايا‪ :‬اس طرح کہو‪:‬‬
‫”اللھم صلی علی محمد وآل محمد کما صليت علی ابراہيم وآل ابراہيم فی العالمين انک حميد مجيد“۔]‪[71‬‬
‫”خدايا محمد وآل محمد پر اسی طرح درود ورحمت نازل فرما جس طرح تونے ابراہيم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرمائی‬
‫ہے بالشبہ تو قابل حمد اور بزرگ ہے“۔‬
‫اور يہ بھی فرمايا‪:‬‬
‫”ال تصلوا علي الصالةُ البتراء)مجھ پر دم بريده صلوات نہ بھيجو(“‬
‫اصحاب نے آپ سے اس کا مطلب دريافت کيا توآپ نے فرمايا‪:‬‬
‫صرف ”اللھم صل علی محمد “ کہنا ناقص صلوات ہے بلکہ تمہيں اس طرح کہنا چاہئے‪” :‬اللھم صل علی محمد وآل محمد“يہ‬
‫پوری صلوات ہے۔]‪[72‬‬
‫اس کے عالوه متعدد روايتوں ميں آيا ہے کہ پوری صلوات پﮍھو اور آخر کے جملہ ميں آل محمد حذف نہ کرو يہاں تک نماز‬
‫کے تشہد ميں تمام فقہاء نے اہل بيت عليہم السالم پر صلوات بھيجنے کو واجب قرار ديا ہے اور اہل سنت کے فقہاء ميں امام‬
‫شافعی نے واجبی نمازوں کے دوسرے تشہد ميں اسے واجب جانا ہے۔]‪[73‬‬
‫اسی بنياد پر شافعی اپنے مشہورو معروف شعر ميں ا س طرح کہتے ہيں‪:‬‬

‫يا اہل بيت رسول ﷲ حبکم‬


‫فرض من ﷲ فی القرآن انزلہ‬

‫کفاکم من عظيم القدر انکم‬


‫من لم يصل عليکم ال صلوة لہ‬

‫”اے اہل بيت رسول ! تمہاری محبت ﷲ کی طرف سے نازل کرده قرآن ميں فرض قرار دی گئی ہے تمہاری عظيم منزلت‬
‫کے لئے بس يہی کافی ہے کہ جس نے تم پر صلوات نہ بھيجی اس کی نماز ہی نہ ہوگی“۔]‪[74‬‬
‫ٖ◌◌ٓ ڈاکٹر تيجانی يہ سب سن کر بہت متاثر ہوئے کيونکہ استاد منعم کی يہ باتيں ان کے دلنشين ہو رہی تھيں‪ ،‬انھوں نے کہا‪:‬‬
‫”ميں قبول کرتاہوں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم پر صلوات بھيجتے وقت ان کی آل کو بھی شامل کرنا چاہئے ‪،‬‬
‫چنانچہ جب ہم جب ان پر صلوات بھيجتے ہيں تو ان کے آل کے عالوه اصحاب وازواج کو بھی شامل کرليتے ہيں مگر يہ‬
‫بات قابل قبول نہيں ہے کہ جب علی عليہ السالم کا ذکر ہوتو ان کے نام کے ساتھ صلوات بھيجی جائے يا ”عليہ السالم“ کہا‬
‫جائے“۔]‪[75‬‬
‫استاد منعم‪” :‬کيا تمہارے نزديک کتاب صحيح بخاری معتبر ہے ؟“‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬ہاں يہ کتاب تو اہل سنت کے اماموں ميں سے ايک بلند پايہ کے امام ”امام بخاری“ کی تاليف کرده ہے جو‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ہمارے نزديک قرآن کے درجہ رکھتی ہے“۔‬
‫اس وقت استاد منعم نے اپنے کتاب خانہ سے صحيح بخاری کا ايک نسخہ ال کر مجھے پﮍھنے کے لئے ديا ميں نے جب ان‬
‫کے نکالے ہوئے صفحہ کو پﮍھا تو مجھے اس پر يہ عبارت نظر آئی‪:‬‬
‫”فالں نے فالں سے روايت کی اور اس نے علی عليہ السالم سے روايت کی ہے ”ميں نےيہاں تک کہ اس بات کا اعتراف‬
‫اہل سنت کے ان علماء نے بھی کہا ہے جبکہ وه نئے اعتراض گﮍھنے کے عادی ہيں ‪ ،‬مخصوصا ً اس طرح کے اعتراضات‬
‫ميں مشہور سنی عالم دين ”ابن روزبہان“ جيسے لوگ بھی يہ قبول کرتے ہيں کہ يہاں پر”آل ياسين“سے مراد آل محمد ہيں۔‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫سوره صافات ميں جناب نوح )آيت ‪(٧٩‬جناب ابراہيم )آيت ‪(١٠٩‬جناب‬
‫ٔ‬ ‫مزے کی بات تو يہ ہے کہ اسی‬
‫وہارون)‪(١٢٠‬اور دوسرے مرسلين پر سالم بھيجا گيا ہے)آيت ‪ (١٨١‬اس سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ آل محمد انبياء‬
‫کے زمره ميں آتے ہيں اور مذکوره آيت آل محمد کی افضل ہونے کی واضح دليل ہے )دالئل الصدق ‪،‬ج‪، ٢‬ص‪٣٩٨‬۔(‬
‫جب بخاری ميں يہ جملہ ”عليہ السالم“ ديکھا تو مجھے بﮍا تعجب ہوا مجھے يقين ہی نہيں آرہا تھا کہ يہ صحيح بخاری کا‬
‫نسخہ ہے ميں نے اسے الٹ پلٹ کر ديکھا اور اس کے بعد بﮍے غور سے پﮍھا تو بھی وہی عبارت نظر آئی اب ميرا شک و‬
‫شبہ جاتا رہا۔‬
‫استاد منعم نے صحيح بخاری کا دوسرا صفحہ کھول کر دکھايا جس پر يہ عبارت لکھی ہوئی تھی کہ ”علی ابن الحسين عليہ‬
‫السالم “سے روايت ہے۔اس کے بعد مجھے کوئی راستہ نظر نہ آيا اور ميں نے ان کی بات کو قبول کر ليا البتہ تعجب سے يہ‬
‫ميں نے ضرور کہا ”سبحان ﷲ !ليکن تھوڑ ا شک اب بھی ميرے ذہن ميں موجود تھا ل ٰہذا ميں نے اسے الٹ پلٹ کر ديکھا تو‬
‫معلوم ہوا کہ يہ نسخہ” مصر کی پريس ‪،‬حلبی اينڈسنس“ سے چھپاہے بہر حال قبول کر لينے کے عالوه ميرے پاس کوئی‬
‫اور راستہ باقی نہيں بچا تھا۔]‪[76‬‬

‫‪٧١‬۔حديث غدير سے متعلق ايک مناظره‬


‫ڈاکٹر تيجانی کہتے ہيں‪:‬‬

‫اپنے وطن تيونس ميں‪،‬ميں نے ايک سنی عالم دين سے ايک مناظره ميں اس طرح کہا‪:‬‬
‫”تم حديث غدير کو قبول کرتے ہو“؟‬
‫تيونسی عالم‪” :‬ہاں ميں اس حديث کو قبول کرتا ہوں يہ صحيح ہے“۔‬
‫سوره مائده کی ‪ ۶٧‬ويں آيت کی تفسير کے ذيل ميں حديث غدير کو پيش کيا‬ ‫ٔ‬ ‫ميں نے خود قرآن کی تفسيرلکھی ہے جس ميں‬
‫ہے اس کے بعد اس نے اپنی تفسير ميرے سامنے ال کر رکھ دی اور جہاں اس نے حديث غدير کا تذکره کيا تھا وه مجھے‬
‫دکھايا۔‬
‫ميں نے اس کتاب ميں ديکھا حديث غدير کے باب ميں اس طرح عبارت درج ہے‪:‬‬
‫”شيعہ حضرات اس بات کے معتقد ہيں حديث غدير صريحی طور پر علی کی خالفت بال فصل پر داللت کرتی ہے ليکن اہل‬
‫سنت حضرات کے نزديک يہ عقيده باطل ہے کيونکہ يہ حديث ابو بکر وعمر وعثمان کی خالفت سے منافات رکھتی ہے اس‬
‫وجہ سے ہمارے لئے يہ الزم ہو گيا کہ اس روايت کی صراحت سے چشم پوشی کرتے ہوئے اس کی تاويل کريں]‪ [77‬يعنی‬
‫مولی کے معنی دوست اور ياور ہيں جيسا کہ قرآن ميں يہ لفط دوست اور ياور کے معنی ميں آيا ہے اور‬ ‫ٰ‬ ‫ہم يہ کہيں کہ يہاں‬
‫خلفائے راشدين اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے عظيم صحابيوں نے بھی لفظ موال سے يہی مراد ليا ہے اس‬
‫کے بعد ان کے تابعين اور علمائے مسلمين نے بھی اسی بات کی تائيد کی ہے اور اسی صورت کو مقبول بتايا ہے۔اس طرح‬
‫شيعوں کے اس عقيده کا کوئی اعتبار نہيں“۔‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬کيا خود واقعہ غدير تاريخ ميں پايا جاتا ہے يا نہيں؟“‬
‫تيونسی عالم‪” :‬ہاں کيوں نہيں اگر واقعہ غدير نہ ہوا ہوتا تو علماء ومحدثين اسے نقل ہی نہ کرتے“۔]‪[78‬‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬کيا يہ مناسب ہے کہ رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم حج سے واپسی کے وقت غدير خم کے تپتے ہوئے‬
‫صحراء ميں ہزاروں مرد‪،‬عورتوں اور بچوں کے مجمع ميں سب کو روک کر ايک طويل خطبہ ديں اور اس کے بعد يہ‬
‫اعالن کريں کہ علی تمہارے دوست اور مدد گار ہيں کيا تم اس طرح کی تاويل کو پسند کرتے ہو؟“‬
‫تيونسی عالم‪” :‬بعض صحابہ کرام نے جنگ کے دوران حضرت علی عليہ السالم کے ہاتھوں نقصان اٹھا يا تھا اس ميں بہت‬
‫سے ايسے تھے جن کے دلوں ميں ان کی طرف سے کينہ پرورش پا رہا تھا ل ٰہذا رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ميدان غدير ميں يہ اعالن کيا کہ جو علی سے کينہ رکھتے ہيں وه اپنے کينوں کو دور کريں اور انھيں اپنا دوست اور مددگار‬
‫سمجھيں؟“]‪[79‬‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬علی عليہ السالم کی دوستی کا مسئلہ اس بات کا تقاضہ نہيں کرتا کہ پيغمبر اکرم ايک الکھ سے زياده لوگوں‬
‫کے درميان تپتے ہوئے صحراء ميں روکيں اور نماز جماعت ادا کريں اور ايک طوالنی خطبہ ديں اور اس خطبہ کے دوران‬
‫بعض ايسے مطالب بيان کريں جو علی عليہ السالم کی رہبری اور خالفت کے لئے مناسب ہوں نہ کہ دوستی اور ياوری کے‬
‫لئے مثالًاسی خطبے کا ايک ٹکﮍا يہ ہے جس ميں آنحضرت نے لوگوں کو متوجہ کرتے ہوئے ان سے سوال کيا”الست اولی‬
‫بکم من انفسکم “کہ ميں تمہاری جانوں پر تم سے زياده حق نہيں رکھتا ؟“‬
‫تمام لوگوں نے اقرار کيا ہاں کيوں نہيں يا رسول ﷲ“۔‬
‫يہ تمام باتيں اس بات کو واضح کرتی ہيں کہ يہاں پر موال سے مراد رہبر وآقا کے ہيں اور اس سے حضرت علی عليہ السالم‬
‫کی خالفت ثابت ہوتی ہے“۔‬
‫اسی وجہ سے خود ابوبکر نے بھی لفظ مولی سے امام علی عليہ السالم کی رہبری اور خالفت جانا ہے اور اسی صحرا کی‬
‫تپتی ہوئی دھوپ ميں امام علی عليہ السالم کے پاس آکر انھيں اس طرح مبارک باد پيش کيا۔‬
‫ومومنة“‬‫مومن ٔ‬ ‫”بخ بخ لک يابن ابی طالب اصبحت موالی وموال کل ٔ‬
‫”مبار ک مبارک ہو ؛اے ابو طالب کے بيٹے !اب تم ميرے اور تمام مومن اور مومنہ کے موال ہوگئے “‬
‫يہ مبارک باد دينا بہت ہی مشہور حديث ہے جسے اہل سنت اور اہل تشيع سبھی نے نقل کيا ہے۔]‪[80‬‬
‫اب تم سے يہ پوچھتا ہوں کہ کيا اگر يہ اعالن صرف دوستی اور ياوری کے لئے ہوتا تو ابو بکر و عمر حضرت علی عليہ‬
‫السالم کو اسی طرح مبارک باد پيش کرتے ؟اور رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم اپنے خطبے کے بعد اس طرح اعالن‬
‫کرتے‪:‬‬
‫المومنين“۔‬ ‫ٔ‬ ‫بامرة‬ ‫عليہ‬ ‫”سلّموا‬
‫”اے مسلمانو! علی کوامير المومنين کہہ کر سالم کرو“۔‬
‫سوره مائده کی ‪ ۶٧‬ويں آيت کے نزول کے بعد يہ عمل انجام‬ ‫ٔ‬ ‫اس کے عالوه يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے‬
‫ديا اور آيت ميں ہم يہ پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫ﱠ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ک ِم ْن النﱠ ِ‬
‫اس ِٕا ﱠن ﷲَ الَيَ ْہ ِدی القَوْ َم ال َکافِ ِرينَ “‬ ‫ک َو ِٕا ْن لَ ْم تَف َعلْ فَ َما بَل ْغتَ ِر َسالَتَہُ َوﷲُ يَع ِ‬
‫ْص ُم َ‬ ‫” يَاأيﱡہَا ال ﱠرسُو ُل بَلﱢ ْغ َما أ ِ‬
‫نز َل ِٕالَ ْي َ‬
‫ک ِم ْن َربﱢ َ‬
‫]‪[81‬‬
‫”اے رسول وه چيز پہنچا دو جو تمہارے رب کی طرف سے پہلے ہی تم پر نازل کی جا چکی ہے اور اگر تم نے اسے نہ‬
‫پہنچايا تو گويا تم نے کار رسالت انجام ہی نہيں ديا“۔‬
‫کيا حضرت علی عليہ السالم کی دوستی کا مسئلہ اتنا زياده اہم ہو گيا تھا کہ اگر اسے لوگوں کےدرميان بيان نہ کيا جائے تو‬
‫آنحضرت کی رسالت کو خطره الحق ہوجائے ؟“‬
‫تيونسی عالم‪” :‬تو اس بارے ميں تم کيا کہو گے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی رحلت کے بعد مسلمانوں نے علی‬
‫عليہ السالم کی بيعت نہ کرتے ہوئے ابوبکر کی بيعت کر لی‪ ،‬کيا ان کا يہ عمل گناه تھا ؟کيا انھوں نے رسول خدا صلی ﷲ‬
‫عليه و آله وسلم کی نا فرمانی کی؟“‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬جب خود اہل تسنن اپنی کتابوں ميں لکھتے ہيں کہ بعض اصحاب نے رسول اکرم کے زمانہ ميں خود آپ کی‬
‫مخالفت کی تو اس بنا پر يہ کوئی ايسی تعجب کی بات نہيں کہ آپ کے بعد اصحاب نے ان کی مخالفت کی۔]‪[82‬‬
‫جيسے شيعہ اور سنی دونوں طريقوں سے يہ ثابت ہے کہ جب رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک نواجوان‬
‫صحابی )اسامہ بن زيد(کو سپہ ساالر بنايا تو اکثر مسلمانوں نے آنحضرت کی مخالفت کی جب کہ آنحضرت نے انھيں تھوڑی‬
‫سی مدت کے لئے بہت تھوڑے سے لشکر کا سردار بنايا تھا تو يہی لوگ حضرت علی عليہ السالم کی رہبری کو کس طرح‬
‫طرح قبول کر ليتے کيونکہ وه بھی دوسروں کے مقابلہ ميں کم عمر تھے )اس وقت آپ کی عمر ‪ ٣٣‬سال تھی(اور خود يہ‬
‫لوگ علی عليہ السالم کو ان کی پوری زندگی تک رہبر کيسے قبول کرليتے اور تم نے خود ہی پہلے يہ اقرار کيا کہ بعض‬
‫لوگ علی عليہ السالم سے بغض و عناد رکھتے تھے“۔‬
‫تيونسی عالم‪” :‬اگر علی عليہ السالم جانتے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے مجھے اپنا خليفہ بنايا ہے تو رسول‬
‫اکرم کے بعد وه خاموش نہ بيٹھے رہتے بلکہ اپنی بے انتہا شجاعت کو بروئے کار التے ہوئے اپنی حق کا دفاع کرتے“۔‬
‫ڈاکٹر تيجانی‪” :‬يہ تو دوسری بحث ہے جس ميں ہم ابھی وارد نہيں ہونا چاہتے جب تم واضح حديث کی تاويل کرتے ہو تو‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫امام عليہ السالم کے خاموش رہنے پر بحث کرنے ميں کس طرح قانع ہو سکتے ہو؟“‬
‫تيونسی عالم نے تھوڑا مسکرا تے ہوئے کہا‪” :‬خدا کی قسم ميں ان لوگوں ميں سے ہونجو علی عليہ السالم کو دوسروں سے‬
‫افضل جانتے ہيں اور اگر يہ بات ميرے بس ميں ہوتی تو ميں علی عليہ السالم پر کسی کو مقدم نہ کرتا کيونکہ وه مدينة العلم‬
‫اور اسد ﷲ الغالب ہيں ليکن خدا نے اسی طرح چاہا کہ بعض کو مقدم اور بعض کو موخر رکھے اس کی مشيت کے بارے‬
‫ميں کيا کہيں“۔‬
‫ميں نے بھی مسکراتے ہوئے اسے جواب ديا‪” :‬قضاو قدر “کی بحث دوسری ہے جس کے متعلق ابھی ہم بحث نہيں کر رہے‬
‫ہيں“۔‬
‫تيونسی عالم‪” :‬ميں اپنے عقيده پر باقی رہوں گا اور اسے بدل نہيں سکتا“۔‬
‫ڈاکٹر تيجانی کہتے ہيں ‪ :‬وه اسی طرح ادھر ادھر بھاگتا رہا يہ خود اس کی بے بسی اور عاجزی کی دليل تھی۔]‪[83‬‬
‫‪٧٢‬۔شاگرد اور استاد کے درميان مناظره‬
‫شاگرد‪” :‬خالد بن نوفل نام کا ايک استاد ‪ ،‬اردن کی ”شريعت يونيورسٹی “ميں درس دينے آتا تھا‪ ،‬ميں اس کے شاگردوں سے‬
‫تھا‪ ،‬ميں شيعی مسلک کا تابع تھا“۔‬
‫چونکہ يہ استاد خود سنی تھا اس لئے اسے جب بھی موقع ملتا شيعوں پر کچھ نہ کچھ الزام تراشی کرتا رہتا تھا‪ ،‬ايک دن ميں‬
‫اس کے پاس بيٹھ گيا اور رسول اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے جانشينوں کے متعلق گفتگو کرنے لگا آپ بھی اس‬
‫گفتگوکو سنيں اور فيصلہ کريں۔‬
‫استاد‪” :‬ہم حديثوں کی کتابوں ميں قطعی طور پر يہ حديث نہيں پاتے کہ آنحضرت کے باره ہی خليفہ ہوں گے ‪ ،‬ل ٰہذا يہ حديث‬
‫تم شيعوں کی گﮍھی ہوئی ہے“۔‬
‫شاگرد‪” :‬اتفاق سے اہل سنت کی معتبر کتابوں ميں متعدد مقامات پر متعدد سندوں سے يہ حديث نقل ہوئی ہے مثالًرسول صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا‪:‬‬
‫”الخلفاء بعدی اثنا عشر بعدد نقباء بنی اسرائيل وکلھم من قريش۔“]‪[84‬‬
‫”ميرے بعد بنی اسرائيل کے نقباء کے برابر ميرے باره خليفہ ہوں گے اوروه سب کے سب قريش سے ہوں گے“۔‬
‫استاد‪” :‬اگر فرض کر ليا جائے کہ يہ حديث صحيح بھی ہے تو تمہاری نظر ميں ان باره سے کون لوگ مراد ہيں؟“‬
‫شاگرد‪” :‬اس سلسلے ميں سيکﮍوں روايات موجود ہيں جن ميں ان کے نام اس طرح بتائے گئے ہيں۔‬
‫‪١‬۔امير المومنين علی ابن ابی طالب عليہ السالم۔‬
‫‪٢‬۔حسن بن علی عليہ السالم۔‬
‫‪٣‬۔ حسين بن علی عليہ السالم۔‬
‫‪۴‬۔علی بن الحسين عليہ السالم۔‬
‫‪۵‬۔محمد بن علی الباقر عليہ السالم۔‬
‫‪۶‬۔جعفر بن محمد عليہ السالم۔‬
‫۔موسی بن جعفر عليہ السالم۔‬
‫ٰ‬ ‫‪٧‬‬
‫موسی الرضا عليہ السالم۔‬‫ٰ‬ ‫‪٨‬۔علی بن‬
‫‪٩‬۔محمد بن علی الجواد عليہ السالم۔‬
‫‪١٠‬۔علی محمد الہادی عليہ السالم‬
‫‪١١‬۔حسن بن علی العسکری عليہ السالم۔‬
‫‪١٢‬۔حجة القائم )عجل ﷲ فرجہ الشريف(۔‬
‫استاد‪” :‬کيا حضرت مہدی عليہ السالم ابھی زنده ہيں؟“‬
‫شاگرد‪” :‬ہاں وه زنده ہيں اور کچھ وجوہات کی بنا پر ہماری نظروں سے پوشيده ہيں جب اس دنيا ميں ان کے ظہور کی راہيں‬
‫ہموار ہوجائيں گی تو وه ظہور کريں گے اور پوری دنيا کی حکومت اپنے ہاتھ ميں لے ليں گے“۔‬
‫استاد‪” :‬يہ کس طرح ممکن ہے کہ ايک انسان ايک ہزار سال سے زياده زنده رہے جب کہ ايک انسان کی طبيعی عمر زياده‬
‫سے زياده سو سال ہوتی ہے“۔‬
‫شاگرد‪” :‬ہم مسلمان ہيں اور قدرت خداوند متعال پر يقين رکھتے ہيں اس ميں کيا برائی ہے کہ خداوند متعال کی مشيت سے‬
‫ايک انسان ايک ہزار سال سے زياده زنده رہے ؟“‬
‫استاد‪” :‬قدرت خدااپنی جگہ پر ہے ليکن اس طرح کی چيزيں سنت خدا سے خارج ہيں“۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫سوره عنکبوت آيت ‪ /١۴‬ميں خدا وند‬
‫ٔ‬ ‫شاگرد‪” :‬تم بھی قرآن کو قبول کرتے ہو اور ہم بھی اسے مانتے ہيں قرآن مجيد کے‬
‫متعال ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫ْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ﱠ‬ ‫ٔ‬ ‫” َولَقَ ْد أرْ َس ْلنَا نُوحًا ِٕالَی قَوْ ِم ِہ فلبِث فِ ِ‬
‫يہ ْم الفَ َسنَ ٍة ِٕاال َخ ْم ِسينَ عَا ًما“۔‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫”اور بال شبہ ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طر ف بھيجا جہاں وه پچاس سال چھوڑ کے ايک ہزار سال رہے“۔‬
‫اس آيت کے مطابق جناب نوح عليہ السالم طوفان سے پہلے اپنی قوم کے درميان ساڑھے نو سو سال زنده رہے اسی طرح‬
‫اگر خدا چاہے تو دوسرے کو بھی اتنی يا اس سے زياده عمر ديدے“۔‬
‫رسول خدا نے متعدد مقامات پر حضرت مام مہدی عليہ السالم کا تعارف دنيا کو عدل و انصاف سے بھر دينے والے کی‬
‫صورت ميں کرايا ہے اس سلسلہ ميں سيکﮍوں کيا بلکہ ہزاروں حديثيں ‪،‬سنی اور شيعہ دونوں طرف سے نقل ہوئی ہيں جن‬
‫کا انکار ممکن نہيں ہے۔‬
‫مثال کے طور پرحضرت رسول اسالم نے فرمايا ہے‪:‬‬
‫”المھدی من اہل بيتی يمالاالرض قسطا و عدال کماملئت ظلما و جوراً“۔]‪[85‬‬
‫مہدی ہم اہل بيت ميں سے ہوں گے جو دنيا کو عدل وانصاف سے اسی طرح بھر ديں گے جس طرح وه ظلم وجور سے‬
‫بھری ہوگی۔‬
‫جب بات يہاں تک پہنچی تو وه استاد چپ ہو گيا کيونکہ اس شاگرد کی تمام باتيں منطقی اور اہل سنت کے معتبر حوالوں سے‬
‫مدلل تھيں۔‬
‫شاگرد نے اپنی بات آگے بﮍھاتے ہوئے کہا‪” :‬چلئے ہم اپنی بات کی طرف واپس پلٹتے ہيں آپ نے اس بات کی تصديق کر‬
‫دی ہے کہ رسول صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا ہے‪” :‬ميرے خليفہ باره ہوں گے اور وه سب کے سب قريش سے ہوں‬
‫گے“۔‬
‫آپ نے مجھ سے پوچھا کہ وه باره افراد کون لوگ ہيں ميں نے ان کا نام حضرت علی عليہ السالم سے لے کر امام مہدی‬
‫عليہم السالم تک سنا ديا اب ميں آپ سے پوچھتا ہوں کہ اگر رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے وه باره خلفاء يہ لوگ‬
‫نہيں ہيں تو پھر ان کے عالوه کون لوگ ہيں؟“‬
‫استاد‪” :‬ان باره لوگوں ميں چار خلفاء راشدين )ابو بکر‪،‬عمر‪،‬عثمان‪ ،‬اور حضرت علی عليہ السالم( کا نام ليا جاتا ہے اس کے‬
‫بعد حسن عليہ السالم‪ ،‬معاويہ ‪،‬ابن زبير و عمر بن عبد العزيز)کہ يہ سب مال کر آٹھ ہوگئے(اور يہ بھی ممکن ہے کہ مہدی‬
‫عباسی)بنی عباس کا تيسرا خليفہ(کو بھی شمار کر ليا جائے اس کے عالوه ابن طاہر عباسی بھی ان ميں شامل ہو سکتا ہے‬
‫خالصہ کے طور پر ہماری نظر کے مطابق يہ باره آدمی معين نہيں ہيں ان کے متعلق ہمارے علماء کے مختلف اقوال ہيں“۔‬
‫شاگرد‪” :‬رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی حديث ثقلين کے متعلق تم لوگوں کا کيا خيال ہے جس ميں آنحضرت نے‬
‫فرمايا ہے‪:‬‬
‫”انی تارک فيکم الثقلين کتاب ﷲ وعترتی اہل بيتی۔۔۔“۔]‪[86‬‬
‫يہ بات واضح رہے کہ عمر وابوبکر ‪،‬معاويہ ‪،‬عباسی اور عبد العزيز عترت رسول ميں شمار نہيں کئے جا سکتے ل ٰہذا اس‬
‫صورت ميں ہمارے لئے رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے باره خليفہ کو پہچاننا ممکن نہيں ہوگا جب کہ حديث ثقلين‬
‫کے معيار کو سامنے رکھ کر ہم بﮍی آسانی سے ان کا پتہ لگا سکتے ہينذرا سی غور وفکر کے بعد يہ بات معلوم ہوجائے‬
‫گی کہ وه خلفاء وہی ہيں جن کو شيعہ مانتے ہيں کيونکہ يہی عترت اور اہل بيت کے مصداق ہيں“۔‬
‫استاد‪” :‬ٹھيک ہے اس کے جواب کے لئے مجھے کچھ موقع درکار ہے کيونکہ اس وقت ان باتونکا کوئی قانع کننده جواب‬
‫ميرے ذہن ميں نہيں آرہا ہے“۔‬
‫شاگرد‪” :‬بہت خوب اس بات کی اميد رکھتا ہوں کہ آپ تحقيق کريں گے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے باره‬
‫جانشين قيامت تک کون ہيں؟“‬
‫کچھ ہی دنوں بعد پھرشاگرد کی استاد سے مالقات ہوئی مگر ابھی تک وه استاد اپنے عقيده کے اثبات کے لئے کوئی دليل‬
‫نہيں ڈھونڈ پايا تھا۔‬
‫اسی طرح ايک دوسرے مناظره ميں جب ايک طالب علم نے اپنے ايک استاد سے سوال کيا کہ آيا آپ اس بات کو قبول کرتے‬
‫ہيں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے باره خليفہ ہوں گے اور وه سب کے سب قريش سے ہوں گے ؟‬
‫استاد‪” :‬ہاں ہماری معتبر کتابوں ميں اس طرح کی روايتيں موجود ہيں“۔‬
‫طالب علم‪” :‬وه باره کون سے لوگ ہيں؟“‬
‫استاد‪” :‬وه ابو بکر ‪،‬عمر‪،‬عثمان‪،‬علی عليہ السالم‪ ،‬معاويہ اور يزيد بن معاويہ“۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫طالب علم‪” :‬يزيد کو کس طرح خليفہ رسول سمجھا جا سکتا ہے جب کہ وه علی االعالن شراب پيتا تھا اور واقعہ کربال اسی‬
‫کی کارستانی ہے اور اسی نے امام حسين عليہ السالم اور ان کے صحابيوں کو قتل کيا ہے ؟“‬
‫بتاو“۔‬
‫اس کے بعد طالب علم نے اس سے کہا‪” :‬بقيہ کا نام ٔ‬
‫استاد نے جو اس کے اس سوال سے بے بس ہو چکا تھا موضوع بدل ليا اور کہنے لگا۔تم شيعہ حضرات اصحاب پيغمبر اکرم‬
‫صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو برا بھال کہتے ہو“۔‬
‫طالب علم‪” :‬ہم ان کے تمام اصحاب کو بر ابھال نہيں کہتے‪ ،‬تم يہ کہتے ہو کہ وه تمام عادل تھے مگر ہم يہ کہتے ہيں کہ ايسا‬
‫نہيں ہے‪ ،‬خود رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے زمانہ ميں ہی سارے منافقوں کے بارے ميں آيتيں اتری ہيں اگر ہم‬
‫يہ کہيں کہ آنحضرت کے زمانے ميں سارے اصحاب عادل تھے تو ہميں قرآن کی بہت سی آيتوں کو رد کرنا پﮍے گا جو اس‬
‫کا ايک عظيم حصہ ہيں“۔‬
‫استاد‪” :‬تم گواہی دو کہ ابو بکر عمر اور عثمان سے خوش ہو“۔‬
‫طالب علم‪” :‬ميں گواہی ديتا ہوں کہ اصحاب ميں سے جو بھی رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور فاطمہ زہرا سالم ﷲ‬
‫عليہا سے راضی تھا ميں بھی اس سے راضی ہوں اور جس سے بھی آنحضرت اور جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا راضی‬
‫نہيں تھيں ميں بھی اس سے راضی نہيں ہوں“۔‬

‫‪٧٣‬۔قبر رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پاس بلند آواز ميں زيارت پﮍھنا‬
‫ايک شيعہ عالم کہتے ہيں‪” :‬ہم تقريبا ً پچاس آدميوں کے ايک گروه کے ساتھ مدينہ منوره مسجد النبی ميں گئے اور وہاں جا‬
‫کر آنحضرت کی زيارت پﮍھنے ميں مشغول ہو گئے۔‬
‫حرم کا منتظم )شيخ عبد ﷲ بن صالح (ميرے قريب آيا اور اعتراض کے طور پر اس نے کہا‪” :‬رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله‬
‫وسلم کے مرقد کے قريب اپنی آواز بلند نہ کرو“۔‬
‫ميں نے اس سے کہا‪” :‬کيا وجہ ہے؟“‬
‫منتظم‪” :‬خدا وند متعال قرآن )سوره حجرات آيت ‪(٢‬ميں فرماتا ہے‪:‬‬
‫ْض أَ ْن تَحْ بَطَ أَ ْع َمالُ ُک ْم َوأَ ْنت ْمُ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ت النﱠبِ ﱢی َوالَتَجْ ہَرُوا لَہُ بِالقَوْ ِل َک َج ْہ ِر بَع ِ‬
‫ْضک ْم لِبَع ٍ‬ ‫صوْ ِ‬
‫ق َ‬‫” يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا الَتَرْ فَعُوا أَصْ َواتَ ُک ْم فَوْ َ‬
‫الَتَ ْش ُعرُونَ “۔‬
‫چيخوچالو جس طرح تم ايک‬ ‫ٔ‬ ‫”اے ايمان النے والو! نبی کی آواز کے اوپر اپنی آواز بلند نہ کرو اور نہ ہی ان کے سامنے‬
‫دوسرے کے سامنے چيختے ہو کہ کہيں تمہارے اعمال بيکار نہ ہوجائيں اور تمہيں خبر بھی نہ ہونے پائے“۔‬
‫ميں‪” :‬امام جعفر صادق عليہ السالم “کے اسی جگہ پر چار ہزار شاگرد تھے اور تدريس کے وقت باآواز بلند درس ديتے‬
‫تھے تاکہ ان کی آواز ان کے شاگردوں تک پہنچ جائے کيا انھوں نے حرام کام کيا؟ابو بکرو عمر اسی مسجد ميں بلند آواز‬
‫سے خطبہ ديا کرتے تھے اور تکبير کہتے تھے کياا ن سب لوگوں نے حرام کا م انجام ديا؟اور ابھی ابھی تمہارے خطيب نے‬
‫بلند آواز سے خطبہ ديا تم لوگ مل کر با آواز بلند تکبير کہہ رہے تھے کيا يہ لوگ قرآن کے خالف کر رہے تھے؟ کيونکہ‬
‫قرآن اس سے منع کرتا ہے ؟‬
‫منتظم‪” :‬اچھا تو پھر آيت کاکيا مطلب ہوا؟“‬
‫ميں‪” :‬اس آيت سے مراد ہے بے فائده اور بے جا شور و غل نہ کرو جو آنحضرت کی حرمت و احترام کے خالف ہو جيسا‬
‫کہ اس آيت کے شان نزول کے بارے ميں روايت ہے‪:‬‬
‫قبيلہ ”بنی تميم“کے کچھ لوگ مسجد ميں داخل ہوئے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے گھر کے پيچھے سے‬ ‫ٔ‬
‫چيخ کر کہنے لگے يا محمد باہر نکلو اور ہم سے مالقات کرو۔ ]‪[87‬‬
‫دوسری بات يہ کہ ہم تو نہايت ہی تواضع و احترام سے زيارت پﮍھنے ميں مشغول ہيں اور مذکوره آيت ميں غور وفکر‬
‫کرنے سے يہ سمجھ ميں آتاہے کہ اس آيت ميں وه لوگ شامل ہيں جو رسول اکرم کی اہانت کی غرض سے چيخ کر آواز‬
‫لگاتے تھے کيونکہ اس آيت ميں اعمال کے بيکار ہونے کی بات آئی ہے اور يقينا اس طرح کی سزا کافر يا گناه کبيره انجام‬
‫دينے والے اور توہين کرنے والے کے لئے ہوگی نہ کہ ہمارے لئے کيونکہ ہم تو نہايت ادب واحترام سے ان کی زيارت پﮍھ‬
‫رہے ہيں اگر چہ ذراسی آواز بلند ہوگئی تو کيا ہوا اس لئے روايت ميں آيا ہے کہ جب يہ آيت نازل ہوئی تو ثابت بن قيس‬
‫)رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے خطيب (جن کی آواز بہت ہی موٹی تھی نے کہا کہ اس آيت سے مراد ميں ہوں اور‬
‫ميرے نيک اعمال حبط ہو گئے۔جب اس بات کا علم آنحضرت کو ہوا تو آپ نے فرمايا‪” :‬نہينايسانہيں ہے ثابت بن قيس جنتی‬
‫ہے“۔)کيونکہ وه اپنے وظيفہ پر عمل کرتا ہے نہ کہ توہين کرتا ہے(۔]‪[88‬‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٧۴‬۔علمائے اہل سنت سے شيخ بہائی کے پدربزرگوار کے مناظرے‬
‫دسويں صدی کے بہت ہی مشہور ومعروف عالم عالمہ شيخ حسن بن عبد الصمد عاملی عليہ الرحمة )شيخ بہائی کے پدر‬
‫بزرگوار(گزرے ہيں۔‬
‫موصوف محرم ‪٩١٨‬ھ جبل عامل ميں پيدا ہوئے ‪/ ٨‬ربيع االول ‪٩٨۴‬ھ ميں ‪ /۶۶‬سال کی عمر ميں رحلت فرماگئے وه‬
‫زبردست محقق ‪ ،‬تجربہ کار دانشور اور ايک عظيم شاعر تھے موصوف ‪٩۵١‬ھ ميں شہر ”حلب“ )سوريہ کا ايک شہر (ميں‬
‫سفر کيا وہاں ان کی مال قات ايک صاحب علم و دانش اہل سنت عالم کے سے ہوئی اور شيعہ کے مذہب کے بارے ميں چند‬
‫جلسہ اور مناظرے ہوئے سر انجام وه سنی عالم شيعہ ہو گيا‪ [89]،‬يہاں پر ہم ان مناظروں کا خالصہ چار مناظروں ميں پيش‬
‫کرتے ہيں‪:‬‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم کی پيروی کيوں نہيں کرتے؟‬
‫حسين بن عبد الصمد کہتے ہيں‪ :‬جب ميں شہر حلب ميں وارد ہوا تو وہاں پر ايک حنفی عالم جو بہت سے علوم وفنون ميں‬
‫ماہر تھا اور اس کا شمار محققين ميں ہوتا تھا اور وه دھوکا دھﮍی سے پاک تھا۔اس نے مجھے اپنے گھر پر ہی ٹھہرا ليا۔‬
‫بات چيت ہوتے ہوتے تقليد کی بات چھﮍ گئی اور پھر ہوتے ہوتے يہی موضوع ہمارے مناظره کا محور ہوگيا۔‬
‫حسين‪” :‬تم لوگوں کے نزديک کيا قرآن ‪،‬احاديث يا سنت ميں سے کوئی ايسی دليل موجود ہے جس کے ذريعہ ثابت ہو سکے‬
‫کہ ابو حنيفہ کی تقليد اور پيروی ہم پر واجب ہے ؟“‬
‫حنفی‪” :‬نہيں اس طرح کی کوئی آيت يا روايت وارد نہيں ہوئی ہے“۔‬
‫حسين‪” :‬کيا مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ ہم ابو حنيفہ کی پيروی کريں ؟“‬
‫حنفی عالم‪” :‬نہيں اس طرح کی کوئی آيت يا روايت وارد نہيں ہوئی ہے“۔‬
‫حسين‪” :‬تو پھر کس دليل کی بنا پر تمہارے لئے ابو حنيفہ کی تقليد جائز ہے ؟“‬
‫حنفی عالم‪” :‬ابو حنيفہ مجتہد اور ميں مقلد ہوں اور مقلد پر واجب ہے کہ وه کسی ايک مجتہد کی تقليد کرے“۔‬
‫حسين‪” :‬جعفر بن محمد عليہ السالم جو امام جعفر صادق عليہ السالم کے نام سے مشہور ہيں ان کے بارے ميں تمہارا کيا‬
‫نظريہ ہے ؟“‬
‫ٰ‬
‫حنفی عالم‪” :‬جعفر بن محمد عليہ السالم کا مقام اجتہاد ميں بہت اونچا ہے اور وه علم و تقوی ميں سب سے زياده بلند تھے ان‬
‫کی توصيف ممکن نہيں ہمارے بعض علماء نے ان کے جن چارسو شاگردوں کے نام گنا ئے ہيں وه سب کے سب نہايت‬
‫پﮍھے لگے اور قابل اشخاص تھے انھيں لوگوں ميں سے ابو حنيفہ بھی تھے“۔‬
‫حسين‪” :‬تم اس بات کا اعتراف کر رہے ہو کہ امام جعفر صادق عليہ السالم مجتہد تھے ‪،‬پائے کے عالم دين اور صاحب تقویٰ‬
‫تھے ہم شيعہ اسی لئے ان کی تقليد کرتے ہيں ان باتوں کے باوجود تم نے يہ کيسے سمجھ ليا کہ ہم گمراه ہيں اور تم ہدايت‬
‫کی راہوں پر گامزن ہو؟‬
‫جب ہمارا عقيده يہ بھی ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم معصوم تھے اور غلطی نہيں کر سکتے ‪ ،‬ان کا حکم خدا کا حکم‬
‫ہوتا ہے اور اس بارے ميں ہم بہت سے دالئل متفقہ بھی رکھتے ہيں وه ابو حنيفہ کی طرح قياس اور استحسان کی بنياد پر‬
‫وی نہيں ديتے تھے‪ ،‬ابو حنيفہ کے فتوے ميں غلطی کا امکان موجود ہوتا ہے ليکن امام جعفر صادق عليہ السالم کے فتوی‬ ‫فت ٰ‬
‫ميں ايسا کوئی امکان نہيں پايا جاتا تھا‪،‬بہر حال امام جعفر صادق عليہ السالم کی عصمت کے متعلق بحث چھوڑتے ہوئے اس‬
‫وقت ميں صرف آپ کی ايک بات پر کچھ گفتگو کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے خود کہا کہ امام جعفر صادق عليہ السالم مجتہد‬
‫تھے ليکن ہمارے پاس ايسے دالئل موجو دہيں جن کے ذريعے ہم يہ ثابت کر سکتے ہيں کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق‬
‫عليہ السالم تھے“۔‬
‫حنفی عالم‪” :‬اس انحصار کے لئے تمہارے پاس کيا دليل ہے کہ مجتہد صرف امام جعفر صادق عليہ السالم تھے۔‬
‫حسين‪ :‬ہماری چند دليليں ہيں‪:‬‬
‫‪١‬۔ ہماری پہلی دليل يہ ہے کہ اس بات کا تو آپ نے بھی اعتراف کيا ہے اور آپ کے عالوه اسالم کے چاروں مشہور فرقے‬
‫تقوی اور عدالت ميں تمام لوگوں سے افضل و برتر تھے ميں‬ ‫ٰ‬ ‫يہ بات قبول کرتے ہيں کہ امام جعفر صادق عليہ السالم علم و‬
‫نے اس بات ميں کسی کو اعتراض کرتے ہوئے نہيں سنا‪،‬تمام اسالمی اديان کی احاديث وروايات کی کتابوں ميں کوئی کہيں‬
‫يہ نہيں دکھا سکتا کہ کسی نے امام عليہ السالم کے کسی عمل پر اعتراض کيا ہو جب کہ وه لوگ شيعوں کے حد درجہ دشمن‬
‫تھے اور حکومت وقت ہميشہ ان کے ہاتھوں ميں رہنے کے باوجود کسی دشمن نے بھی آپ کی طرف کوئی ايسی بات منسو‬
‫ب نہيں کی]‪[90‬يہ ايک ايسا امتياز ہے جو ان کے عالوه کسی اور مسلک کے امام ميں موجود نہيں ہے۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫تقوی اور عدالت ميں سے افضل و برتر ہو‪ ،‬اور محققين‬ ‫ٰ‬ ‫ل ٰہذا بغير کسی ترديد کے تقليد اس کی واجب ہو گی جو علم و فضل و‬
‫اس بات پر اجماع رکھتے ہيں کہ اچھے اور مدلل فتووں کی موجودگی ميں کمزور اور غير مستند فتاوی پر عمل کرنا جائز‬
‫نہينہے۔‬
‫اس بنا پر يہ کيونکر جائزہوسکتا ہے کہ اس شخص کی تقليد ترک کريں جس کی سبھی اسالمی علماء افضليت کا اقرار کرتے‬
‫ہيں‪ ،‬اور ايسے شخص کی تقليد کريں جس کے يہاں شک و ترديد پايا جاتا ہو!‪،‬اور چونکہ مسئلہ تقليد ميں شک و ترديد کا نہ‬
‫ہونا عدالت سے بھی زياده اہم ہے‪ ،‬چنانچہ يہ بحث اپنے مقام پر کی گئی ہے۔‬
‫علمائے حديث ميں سے تمہارے ايک امام ”امام غزالی“ ہيں جنھوں نے ابو حنيفہ پر تنقيد کرتے ہوئے ”المنخول“ نامی کتاب‬
‫لکھی ہے‪ ،‬اسی طرح شافعی کے بعض شاگردں نے بھی ”النکت الشريفہ فی الر ّد علی ابی حنيفہ“ نامی کتاب لکھی ہے۔‬
‫ٰ‬
‫تقوی اور عدالت پر‬ ‫اس بنا پر اس بات ميں کوئی شک و شبہ نہيں ہے کہ تقليد اسی شخص کی جائز ہے جس کے علم و‬
‫فتوی موجود ہے تو پھر مرجوح )غير‬ ‫ٰ‬ ‫سبھی کا اتفاق ہو‪ ،‬اور تمام اہل تحقيق کا اس بات پر اجماع ہے کہ جب راجح )افضل(‬
‫ٰ‬
‫فتوی پر عمل کرنا جائز نہيں ہے۔‬ ‫افضل(‬
‫‪٢‬۔ دوسری دليل يہ ہے کہ امام جعفرصاد ق عليہ السالم ہم شيعوں کے عقيده کے مطابق اہل بيت رسول خدا صلی ﷲ عليہ و‬
‫آيہ تطہير نے صراحت کی ہے اور اس بنا پر وه ہر طرح کی نجاست اور پليدی سے‬ ‫آلہ و سلم کی ايک فرد سے ہيں جس کی ٔ‬
‫پاک ہيں جيسا کہ لغوی عالمہ ابن فارس صاحب کتاب ”معجم مقاييس اللغة“نے خود اپنی کتاب ”مجمل اللغة“ميں اس بات کی‬
‫وضاحت کی ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم اہل بيت ميں شامل ہيں جب کہ ابن فارس اہل تسنن کے مشہورو معروف‬
‫عالم دين ہيں اور يہ وہی مقام طہارت ہے جس کے لئے امام جعفر صادق عليہ السالم کے متعلق شيعوں کا اعتقاد ہے ليکن‬
‫ابو حنيفہ کے بارے ميں اجماع ہے کہ وه اہل بيت عليہم السالم ميں سے نہيں ہے لہٰذا قرآن کے مطابق ہميں ايسے افراد کی‬
‫تقليد کرنا چاہئے جو تمام خطا اور نجاست سے پاک اور منزه ہوں تاکہ مقلدين يقين کی منزل تک پہنچيں اور نجات يافتہ ہوں۔‬
‫حنفی عالم‪” :‬ہم اس بات کو قبول نہيں کرتے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم اہل بيت رسول ميں ہيں بلکہ ہمارے لحاظ سے‬
‫آيہ تطہير صرف پانچ افراد)پنجتن( ہی کو شامل کرتی ہے“۔‬
‫حسين‪” :‬بالفرض اگر ہم قبول بھی کرلينکہ امام جعفر صادق عليہ السالم ان پانچ ميں سے نہيں ہيں ليکن پھر بھی ان کا حکم‬
‫اور ان کی پيروی تين دليلوں سے انھيں پانچ افراد کی مانند ہوگی“۔‬
‫‪١‬۔جو شخص بھی پنجتن کی عصمت کا معتقد ہے وه امام جعفر صادق عليہ السالم کی عصمت کو بھی قبول کر تا ہے اور جو‬
‫بھی پنجتن کی عصمت کا قائل نہيں ہے وه امام جعفر صادق عليہ السالم کی عصمت کا بھی قائل نہيں ہے۔پنجتن کا معصوم‬
‫آيہ تطہير سے ثابت ہے بس اسی وجہ سے امام جعفر صادق عليہ السالم کی بھی عصمت ثابت ہوتی ہے کيونکہ‬ ‫ہونا قرآن کی ٔ‬
‫علمائے اسالم اس بات پر اتفاق رائے رکھتے ہيں کہ امام جعفرصاد ق عليہ السالم کی عصمت ميں کوئی فرق نہيں ہے اور‬
‫امام جعفرصادق عليہ السالم کی عصمت کا قائل نہ ہو کر پنجتن کی عصمت کا قائل ہونا يہ اجماع مسلمين کے خالف ہے۔‬
‫‪٢‬۔راويوں اور مورخين کے نزديک يہ بات مشہور ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم اور ان کے آبائے اجداد نے تحصيل‬
‫علم کے لئے کسی کے سامنے زانوئے ادب تہہ نہيں کيا اور يہ بھی کہيں پر نقل نہيں ہوا کہ ان لوگوں نے علماء اور مصنفين‬
‫کے دروس ميں شرکت کی ہو بلکہ تمام لوگوں نے يہ نقل کيا ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم نے اپنے والد )امام محمد‬
‫باقر عليہ السالم(سے اور امام محمد باقر عليہ السالم نے اپنے والد اور انھوں نے اپنے والد امام حسين عليہ السالم سے علم‬
‫حاصل کيا اور اس بات پر تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ امام حسين عليہ السالم اہل بيت نبی ميں سے ہيں۔‬
‫نتيجہ يہ ہوا کہ ائمہ معصومين عليہم السالم اور امام جعفر صادق عليہ السالم کی باتيں اور اقوال اجتہاد کا نتيجہ نہيں ‪ ،‬يہی‬
‫وجہ ہے کہ جو شخص بھی ان کے پاس سوال کرنے گيا تو وه جواب لے کر واپس آتا تھا‪ ،‬اور جواب دينے ميں کسی چيز‬
‫کی طرف رجوع کرنے کی ضرورت محسوس نہيں کی‪ ،‬اس سلسلہ ميں خود آپ نے تصريح کرتے ہوئے فرماياہے‪ :‬ہم‬
‫لوگوں کی تمام باتوں کا منبع ہمارے بزرگ آباء واجداد ہيں اور ہمارے پاس جو بھی ہے وه رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و‬
‫سلمکا قول ہے اور يہ بات صحيح طريقہ سے ثابت ہے۔‬
‫پس نتيجہ يہ ہے کہ امام جعفر صادق عليہ السالم کے اقوال وہی ہيں جو اقوال ان ذوات مقدسہ کے ہيں جن کے لئے آيہ تطہير‬
‫نے پاک وپاکيزه ہونے کی ضمانت لی ہے۔‬
‫‪٣‬۔تمہاری صحيح روايتوں ميں متعدد طريقوں سے حديث ثقلين نقل ہوئی ہے جس ميں آنحضرت نے فرمايا ہے‪:‬‬
‫”انی تارک فيکم ما ان تمسکتم بہما لن تضلوا بعدی الثقلين کتاب ﷲ و عترتی ‪ ،‬اہل بتی ۔۔۔“]‪[91‬‬
‫”ميں تمہارے درميان دو گرانقدر چيزوں کو چھوڑے جارہا ہوں اور جب تک تم ان دونوں سے وابستہ رہو گے کبھی ميرے‬
‫بعد گمراه نہ ہوگے‪ ،‬ايک کتاب خدا اور دوسرے ميری عترت ميرے اہل بيت“‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫يہ حديث واضح طور پر يہ بيان کر رہی ہے کہ قرآن و عترت سے تمسک موجب ہدايت ہوتا ہے اور تمام اسالمی فرقوں ميں‬
‫صرف مذہب شيعہ ہی ايسا فرقہ ہے جس نے ان دونوں سے تمسک اختيار کيا کيونکہ شيعوں کے عالوه دوسرے لوگوں نے‬
‫دوسرے لوگوں سے تمسک اختيار کيا۔‬
‫حديث ثقلين ميں يہ نہيں آيا ہے کہ ہم نے تمہارے درميان قرآن اور ابو حنيفہ يا قرآن اور شافعی کو چھوڑا ہے ‪ ،‬پس ممکن‬
‫ہے کہ عترت رسول کے عالوه دوسرے لوگوں سے تمسک کيا جائے‬

‫‪٢‬۔مذہب تشيع کی عدم شہرت اور اہل سنت کی شہرت کے متعلق ايک مناظره‬
‫اس سے پہلے والے مناظره ميں جب امام جعفر صادق عليہ السالم کی برتری کی بات آئی تو حنفی عالم نے کہا‪:‬‬
‫يہ بات صحيح ہے اور اس ميں ذرا بھی شک نہيں کہ امام جعفر صاق عليہ السالم اور ان کے آباء واجداد سب کے سب بہت‬
‫ہی پﮍھے لکھے اور مجتہد تھے ان کا علم دوسرے لوگوں سے بہت باالتر تھا اور ان کی تقليد ان کے مقلدوں کے لئے نجات‬
‫کی ضمانت ہوتی ہے ليکن اس کے باوجود ان کا مذہب اتنا زياده نہيں پھيال کہ عالم کے گوشے گوشے ميں ہر شخص اس‬
‫سے واقف ہو جائے جب کہ مذاہب اربعہ پوری دنيا ميں مشہور ہيں اور سبھی ان سے واقف ہيں اور تمام مسلمان اسی پر‬
‫عمل پيرا ہيں“۔‬
‫حسين‪” :‬اگر تمہارا مطلب يہ ہے کہ مذہب شافعی اور مذہب حنفی وغيره نے ہمارے مذہب کو نقل نہيں کيا تو بات صحيح ہے‬
‫‪ ،‬ليکن اس سے ہمارے مذہب کو کوئی نقصان نہيں پہنچتا کيونکہ ان کی طرح ہم نے بھی ان کے مذہب کی کوئی تبليغ نہيں‬
‫کی ‪ ،‬اسی طرح خود مذہب شافعی نے مذہب حنفی و مذہب مالکی کو نقل نہيں کيا اور اسی طرح مذہب مالکی نے حنفی و‬
‫شافعی مذہب کو نقل نہيں کيا‪ ،‬اسی طرح اسالم کے تمام مذاہب کا حال ہے ‪ ،‬ل ٰہذا کسی مذہب کا دوسرے مذہب کا نقل نہ کرنا‬
‫کسی مذہب کے لئے نقصان ده ثابت نہيں ہوگی۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی بالکل غلط‬ ‫ليکن اگر تمہاری مراد يہ ہے کہ مسلمانوں ميں سے کسی نے بھی مذہب تشيع نقل ہی نہيں کيا ‪ ،‬تو تمہارا يہ‬
‫ہے کيونکہ خود شيعہ اور بہت سے اہل سنت اور دوسرے اسالمی فرقوں نے جعفری مذہب کے آداب واخالق کو نقل کيا‬
‫ہے‪ ،‬اس کے عالوه خود شيعوں نے بھی اپنے مذہب کی ترويج و نشر کے لئے بہت اہتمام کيا ہے‪ ،‬سلسلہ ٔ روات کے متعلق‬
‫تو شيعوں نے حددرجہ تحقيق کی ہے‪ ،‬اور اس موضوع پر متعدد کتابيں لکھی ہيں۔‬
‫حاالنکہ علمائے شيعہ ‪،‬سنی علماء کے مقابل کم ہيں ليکن اگر ان کا موازنہ اہل تسنن کے مختلف ديگر مسلکوں سے الگ‬
‫الگ کيا جائے تو يہ ان کے مقابل کم ہرگز نہيں ہو سکتے خاص طور پر حنبلی اور مالکی علماء سے يہ بالکل کم نہيں ہيں‬
‫بلکہ ان سے زياده خود شيعہ علماء ہيں اور خدا کا شکر ہے کہ علمائے شيعہ ہر دور ميں اپنے زمانہ کے دوسرے مذہب کے‬
‫تقوی وعلم ميں آگے ہی رہے ہيں ليکن يہ بات واضح ہے کہ باره اماموں کے زمانہ ميں کسی بھی عالم کی‬ ‫ٰ‬ ‫علماء کے مقابل‬
‫علمی اور عملی سطح ان لوگوں کے برابر نہيں تھی اور ا ن کے شاگردوں کی علمی سطح اور بحث و استدالل کی صالحيت‬
‫بال شبہ دوسرے تمام مذاہب کے علماء سے کئی گنا زياده تھی جيسے ہشام بن حکم‪،‬ہشام بن سالم ‪،‬جميل بن دراج‪،‬زراره بن‬
‫اعين ‪،‬محمد بن مسلم اور ان کے جيسے بہت سے لوگ جن کی تعريف ان کے مخالفين يہ کہہ کر کرتے تھے کہ ”يہی پايہ‬
‫کے اور حقيقی عالم ہيں“۔‬
‫امام زمانہ عليہ السالم کی غيبت کے زمانہ کے بعد شيعہ فرقہ ميں ايک سے ايک جيد علماء گزرے ہيں جيسے شيخ صدوق‬
‫رضی ‪،‬ابن طاووس‪ ،‬خواجہ نصير الدين طوسی‪،‬ميثم‬ ‫ٰ‬ ‫مرتضی اور ان کے بھائی سيد‬
‫ٰ‬ ‫‪،‬شيخ کلينی ‪،‬شيخ مفيد‪،‬شيخ طوسی ‪،‬سيد‬
‫بحرانی‪،‬عالمہ حلی‪،‬ان کے بيٹے فخر المحققين اور ان جيسے سيکﮍوں علماء نے اپنی تاليفات اور علمی مناظروں سے‬
‫مشرق ومغرب کو علم وحکمت سے بھر ديا ان کا انکار صرف تعصب اور جہالت کے نتيجہ ميں ہی ہو سکتا ہے۔‬
‫ل ٰہذا ب تمہيں چاہئے کہ تم ہمارے اسی مذہب کی پيروی کرو جس کی ہم تقليد کرتے ہيں کيونکہ ہمارے امام تمام لوگوں سے‬
‫افضل وبرتر ہيں اور جو بھی حقيقتا ً سچے راستے کی تالش ميں ہوگا اسے آخر کا ر ہماری روش ہی اختيار کرنا پﮍے گی‬
‫تمہارے لئے الزم ہے کہ تم مذہب حق کے بارے ميں تحقيق کرو کيونکہ تم غير معصوم کے پيرو ہو جب کہ ہمارے لئے اس‬
‫طرح کی کوئی حاجت نہيں ہے کيونکہ ہم ايسے کی تقليد کرتے ہيں جو معصوم ہے يوں بھی ہمارے يہاں امام کے لئے‬
‫معصوم ہونا شرط ہے ل ٰہذا وه فرقہ ناجيہ ہميں ہيں اگر چہ ابھی تمہاری زبان ہمارے مذہب کی حقانيت کی گواہی نہيں دے‬
‫رہی ہے مگر اس کے باوجود تمہارے پاس ايسے دالئل موجود ہيں جو تمہيں مذہب تشيع اختيار کرنے پر اکسا رہے ہيں‬
‫کيونکہ تمہا ر اخود اعتراف ہے کہ ايسے مجتہد کی تقليد سبب نجات ہے وه مجتہد صرف اور صرف ہمارے ہی مذہب ميں‬
‫پايا جاتا ہے۔‬
‫جب بات يہاں تک پہنچی تو حنفی عالم ال جواب ہوگيا اور خود اپنے اس سوال کو چھوڑ کر دوسرے مختلف سواالت کی پنا ه‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ڈھونڈنے لگا۔‬

‫‪٧۵‬۔اصحاب کو برا بھال کہنے کے سلسلہ ميں ايک مناظره‬


‫حنفی عالم‪” :‬اب بھی ميرے لئے ايک موضوع تشنہ ره گيا ہے وه يہ کہ اصحا ب پيغمبر کو بر ابھال کہنا تمہاری نظر ميں‬
‫کيسا ہے؟ وه اصحاب جنھوں نے آنحضرت کی جان ومال سے مدد کی اور تلواروں کو نيام سے نکال کر اپنے زور بازو‬
‫سے مدد کی ‪ ،‬اور خدا کی توفيق سے نہ جانے کتنے شہروں کو قبضے ميں کر کے اس پر پر چم توحيد لہرا ديا مثال کے‬
‫طور پر وه فتوحات جوعمر بن خطاب کے زمانہ ميں ہوئی ہيں وه کسی بھی خليفہ کے زمانہ ميں نہيں ہوئيں کيونکہ ان کی‬
‫قدرت وحشمت کا کوئی مقابلہ نہيں کر سکتا تھا ميں جب بھی تمہارے دالئل پرغور کرتا ہوں تو يہی سوچتاہونکہ مذہب شيعہ‬
‫ميں سچائی اور حقانيت ہے ليکن جب ميں يہ ديکھتا ہوں کہ تمہارے مذہب ميں رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے‬
‫مقرب اصحاب کو بر ابھال کہنا صحيح ہے تو يہ مجھے بہت غلط عمل محسوس ہوتا ہے اور اسی سے ميری سمجھ ميں يہ‬
‫بات آجاتی ہے کہ يہ مذہب باطل اور بے بنياد ہے“۔‬
‫حسين‪” :‬ہمارے مذہب ميں ايسا نہيں ہے کہ اصحاب پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو برابھال کہنا واجب ہے بلکہ‬
‫ٰ‬
‫فتوی نہيں ديا کہ انھيں برابھال کہنا واجب ہے ان کی‬ ‫عوام انھيں برابھال کہتے ہيں اور ہمارے علماء ميں کسی نے بھی يہ‬
‫فقہی کتابيں دستياب ہيں تمہيں ان ميں کہيں نہيں مل سکتا ہے کہ ان اصحاب کو برا بھال کہنا واجب ہے۔‬
‫اس کے بعد ميں نے اس کے سامنے بہت ہی سخت قسم کھائی کہ ”اگر کوئی شخص مذہب تشيع پر ہزار سال زنده رہے اور‬
‫اہل بيت عليہم السالم کی واليت کو بھی دل وجان سے قبول کرے اور ان کے دشمنوں سے بيزاری کا اظہار کرے ليکن‬
‫اصحاب رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو برابھال کہے تو وه گنہگار ہوگا اور اس کا ايمان ناقص مانا جائے گا“۔‬
‫حنفی عالم نے جب ميری يہ بات سنی تو اس کا چہره کھل اٹھا اور وه نہايت خوش وخرم ہو گيا کيونکہ ميں نے اس کی بات‬
‫کی تصديق کر دی تھی۔‬
‫اس کے بعد ميں نے اس سے کہا‪” :‬جب تم پر يہ بات ثابت ہوگئی ہے کہ اہل بيت عليہم السالم ہر لحاظ سے دوسروں پر‬
‫فوقيت رکھتے ہيں تو پھر تم کيوں انھيں کا مذہب نہيناختيار کرتے ؟“‬
‫حنفی عالم‪” :‬ميں گواہی ديتا ہوں کہ ميں اہل بيت عليہم السالم کا پيرو کار ہوں ليکن ميں صحابہ کو برا بھال نہيں کہہ سکتا“۔‬
‫حسين‪” :‬تم کسی بھی صحابی کو برانہ کہو ليکن جب تمہيں اس بات کا يقين ہو گيا ہے کہ اہل بيت‪ ،‬ﷲ اور اس کے رسول‬
‫کے نزديک ايک خاص مرتبہ کے حامل ہيں تو پھر ان کے دشمنوں کے ساتھ تمہارا سلوک کيا ہونا چاہئے ؟‬
‫)ہدايت يافتہ (حنفی عالم‪” :‬ميں اہل بيت عليہم السالم کے دشمنوں سے بيزار ہوں“۔‬
‫حسين‪” :‬تمہاری شيعيت کے درست ہونے کے لئے ميرے نزديک اتناہی کافی ہے“۔‬
‫اسی دوران اس نے کہا ‪” :‬ميں خدا اس کے رسول اور اس کے فرشتوں کو گواه بنا کر کہہ رہا ہوں کہ ميں ان کا چاہنے واال‬
‫اور پيرو ہوں اور ان کے دشمنوں سے بيزار ہوں“۔‬
‫اس کے بعد اس نے مجھ سے چند شيعی عقائد اور فقہ کی کتابيں مانگی ميں نے اسے ”مختصر النافع“ )شرح شرايع ٔاالسالم‪،‬‬
‫”محقق حلی )متوفی ‪ ۶٧۶‬ھ(ديدی۔‬

‫‪--------------------------------------------------------------------------------‬‬

‫سوره آل عمران آيت ‪١۶٩‬۔‬


‫ٔ‬ ‫]‪[1‬‬
‫العظمی سيد عبد ﷲ شيرازی ص‪١٣‬و ‪١۵‬۔‬
‫ٰ‬ ‫]‪ [2‬االحتجاجات العشرة‪ ،‬مع العلماء ‪،‬فی المکة والمدينة از مرجع فقيد آيت ﷲ‬
‫]‪ [3‬مزيد معلومات کے لئے کتاب”التاج الجامع “ج‪ ٢‬ص‪ ١٩٢‬اور احاديث صحاح ستہ ‪ ،‬ج ‪ ، ١‬باب سجود کی طرف رجوع‬
‫کريں۔‬
‫]‪ [4‬مزيد معلومات کے لئے کتاب”التاج الجامع “ج‪ ٢‬ص‪ ١٩٢‬اور احاديث صحاح ستہ ‪ ،‬ج ‪ ، ١‬باب سجود کی طرف رجوع‬
‫کريں۔‬
‫]‪ [5‬مناظرات فی الحرمين الشريفين۔سيد علی بطحائی ‪،‬مناظره پنجم۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [6‬مناظرات فی الحرمين الشريفين۔سيد علی بطحائی ‪،‬مناظره پنجم۔‬
‫]‪ [7‬صحيح بخاری ج‪،٨ ،‬ص ‪٢۶‬۔) مطبوعہ مطابع الشعب(‬
‫]‪ [8‬ڈاکٹر تيجانی کی کتاب”ثم اہتديت “سے اقتباس ص ‪ ١١١‬تا‪ ١١٣‬۔‬
‫ان ابابکر تفقّد قوما ً تخلّفوا عن بيعتہ عند علي کرم ﷲ وجہہ فبعث اليہم عمر‪ ،‬فجاء فناداہم و ہم فی دار عل ّي‪ ،‬فاَبَوا ان‬ ‫]‪ [9‬و ّ‬
‫ّ‬
‫لتخرجن اوال حرقنہا علی َمن فيہا‪ ،‬فقيل لہ يا اباحفص ان فيہا فاطمة؟‬‫ﱠ‬ ‫يخرجوا‪ ،‬فدعا بال َحطَب‪ ،‬و قال‪ :‬و الذي نفس عمر بيده‬
‫موسسہ حلبی ص ‪١٩‬۔ (‬
‫ٔ‬ ‫مطبوعہ‬ ‫والسياسة‬ ‫فقال‪ :‬و اِن‪ ،‬فخرجوا فبايعوا اال عليّا ً “) االمامة‬
‫]‪ [10‬مناظرات فی الحرمين الشرفين مناظره ‪٩‬۔‬
‫]‪ [11‬شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج ‪ ۶‬ص‪(۴۶‬‬
‫]‪ [12‬شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج ‪ ۶‬ص‪(۴۶‬‬
‫]‪ [13‬بحار ‪،‬ج‪ ، ٨۵‬ص‪١۵٣‬۔‬
‫]‪ [14‬وہی مصدر ‪،‬ص‪ ، ١۵٨‬ارشاد القلوب ‪،‬ص‪١۴١‬۔‬
‫]‪ [15‬محمد مرعی انطاکی کی کتاب”لماذا اخترت مذہب التشيع“ص‪ ٣۴١‬سے ‪ ٣۴٨‬تک سے اقتباس ۔‬
‫]‪ [16‬صحيح مسلم ‪،‬ج‪ ، ٣‬ص‪، ٢٣۶‬صحيح بخاری ‪،‬ج‪ ، ٢‬ص‪ ، ١٨۵‬مسند حنبل ج‪ ، ١‬ص ‪ ، ١١٨، ٩٨‬وغيره۔‬
‫]‪ [17‬االحتجاجات العشرة ‪،‬ص‪١۶‬۔‬
‫‪،‬سوره نساء کی ‪ ٢۴‬ويں آيت کے ذيل ميں ۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪ [18‬تفسير فخر رازی‬
‫]‪ [19‬االحتجاجات العشرة‪،‬ص‪٧‬۔‬
‫‪،‬سوره نساء کی ‪ ٢۴‬ويں آيت کے ذيل ميں ۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪ [20‬تفسير ثعلبی و تفسير طبری‬
‫]‪ [21‬اسباب النزول ‪ ،‬سيوطی ‪،‬سوره عبس کے ذيل ميں۔‬
‫]‪ [22‬تفسير برہان و تفسير نور الثقلين ‪،‬اسی آيت کے ذيل ميں۔‬
‫سوره القلم آيت‪۴‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[23‬‬
‫سوره االنبيا ء آيت‪١٠٧‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[24‬‬
‫]‪ [25‬يہ حديث مجمع البيان ج‪ ١٠‬ص ‪ ۴٣٧‬ميں بھی آئی ہے جو لوگ اسے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے متعلق‬
‫خيال کرتے ہيں انھوں نے اس اعتراض کا کہ يہ بات رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی بد اخالقی کی دليل ہے اس‬
‫طرح جواب ديا ہے‪:‬‬
‫ابن ام مکتوم نے آداب مجلس کا خيال نہيں کيا ل ٰہذا اس کی سز ايہی تھی کہ اسے اسی لحظہ سزادی جائے اور اس سے بے‬
‫توجہی برتی جائے اور خدانے جو اس عمل کے متعلق سرزنش کی ہے وه اس لئے کہ بھلے ہی اس وقت رسول خدا صلی ﷲ‬
‫عليه و آله وسلم کا منہ موڑنا درست تھا مگر پھر بھی اس بات کا امکان موجود تھا کہ دشمن يہ خيال کريں کہ رسول خدا‬
‫صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اس سے فقير ہونے کی وجہ سے منہ موڑ اور پيسے والوں کی طرف متوجہ رہے ل ٰہذا خدا وند‬
‫عالم نے اس آيت کے ذريعہ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کو يہ سمجھايا ہے کہ بھلے ہی کوئی کام درست ہو ليکن‬
‫اگر اس کی وجہ سے دشمن سوء ظن ميں مبتال ہو جائيں تو اس عمل کو انجام نہ ديا اور اگر انجام دے بھی ديا تو ترک اولی‬
‫ہوگا۔‬
‫]‪ [26‬رجال نجاشی ‪،‬ص‪٣١١‬۔‬
‫]‪ [27‬البداية والنہاية‪،‬ج‪،١٢‬ص‪١۵‬۔‬
‫]‪ [28‬مقدمہ اوائل المقاالت ‪،‬طبع تبريز سال ‪ ١٣٧١‬ھ ۔ق۔‬
‫]‪ [29‬شيخ مفيد کا مناظره کے متعلق ايسا عقيده تھا کہ وه کہا کرتے تھے ۔بےشک شيعہ اثنا عشری فقيہ اور عالم دين ہميشہ‬
‫اہل مناظره تھے اور اس کی اہميت کا عقيده رکھتے تھے آنے والے علماء بھی مناظرے ميں گذشتہ علماء کی پيروی کريں‬
‫گے اور مناظرے کرتے رہيں گے اور مناظروں کو مخالفين کے قانع کننده جواب کے لئے بہترين طريقہ مانيں گے)الفصول‬
‫المختار ج‪ ،٢‬ص‪(١١٩‬‬
‫المومنين ‪،‬ج‪، ١‬ص‪٢٠٠‬و ‪)٢٠١‬پانچويں مجلس(۔‬ ‫]‪ [30‬مجالس ٔ‬
‫]‪ [31‬بوستان سعدی آواز قصائد فارسی۔‬
‫سوره کہف آيت ‪٣٧‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[32‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫سوره حجرآيت ‪٩‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[33‬‬
‫]‪ [34‬احتجاج طبرسی ‪،‬ج‪، ٢‬ص‪ ٣٢۶‬سے لے کر ‪ ٣٢٩‬تک۔‬
‫]‪ [35‬وه پانچ افراد يہ ہيں‪،:‬ابو سفيان بن حارث )رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے چچا زاد بھائی( نوفل بن حارث‬
‫‪،‬ربيعہ بن حارث ‪،‬فضل بن عباس ‪،‬عبد ﷲ بن زيبر ‪ ،‬بعض نے عتبہ و معتب )ابولہب کے بيٹے( کانام بھی ذکر کيا ہے ‪،‬‬
‫الوری ‪،‬ص‪،١١٩‬کامل ابن اثير‪ ،‬ج‪ ،٢‬ص‪٢٣٩‬۔ (‬ ‫ٰ‬ ‫)اعالم‬
‫]‪ [36‬بحار االنوار سے اقتباس ‪،‬ج‪ ، ۴٩‬ص‪١٩۴‬۔ ‪٢٠٠‬۔‬
‫]‪ [37‬شرح نہج البالغہ ‪،‬ج‪،۶‬ص‪ ۴۶‬و‪۴٧‬۔‬
‫]‪ [38‬صحيح بخاری‪ ،‬مطبوعہ دار الجيل ‪ ،‬بيروت ‪،‬ج‪ ٧‬ص‪، ۴٧‬اور ج‪،٩‬ص‪، ١٨۵‬و دوسرے مدارک‪ ،‬کتاب ”فضائل الخمسہ‘‬
‫‘ ج ‪ ، ٣‬ص ‪١٩٠‬سے ۔‬
‫سوره احزاب آيت‪۵٧‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[39‬‬
‫]‪ [40‬صحيح بخاری ‪ ،‬ج ‪ ، ٢‬ص ‪،٢۵١‬کامل ابن اثير ‪ ،‬ج ‪ ،٢‬ص ‪٣١‬۔‬
‫]‪ [41‬شرح زرقانی بر موطا مالک ج ‪ ١‬ص ‪٢۵‬۔‬
‫سوره نساء آيت ‪ ٢۴‬کے ذيل ميں۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪ [42‬تفسير فخر رازی‬
‫]‪ [43‬شرح تجريد ‪ ،‬قوشچی‪ ،‬ص‪،٣٧۴‬قوشچی اہل سنت کے ايک نہايت مشہور عالم دين ہيں جنھيں )امام المتقين (کہا جاتا تھا‬
‫۔‬
‫سوره حشر‪ ،‬آيت ‪٧‬۔‬
‫ٔ‬ ‫[‬‫‪44‬‬ ‫]‬
‫]‪ [45‬سوره احزاب‪ ،‬آيت ‪٣۶‬۔‬
‫]‪ [46‬مقدمہ سنن دارمی‪ ،‬ص‪ ، ٣٩‬اصول کافی ‪،‬ج‪، ١‬ص‪۶٩‬۔‬
‫]‪ [47‬کتاب ”جستجوئے حق در بغداد “سے اقتباس )مقاتل بن عطيہ بکری( ص‪ ١٢٧‬سے ‪ ١٢٩‬تک۔‬
‫سوره حاقہ آ يت ‪۴۴‬۔‪۴۶‬۔‬‫ٔ‬ ‫]‪[48‬‬
‫]‪ [49‬اس کتاب کا مختلف زبانوں ميں ترجمہ ہو چکا ہے فارسی ميں ”آنگاه۔۔۔ہدايت شدم(کے نام سے اس کا ترجمہ لوگوں نے‬
‫بہت پسند کيا اور ديکھتے ديکھتے اس کا آٹھواں ايڈيشن بھی چھپ گيا ‪،‬‬
‫]‪ [50‬حضرت آيت ﷲ شہيد سيد محمد صدر رحمة ﷲ عليہ ‪ ١٣۵٣‬ھ ق ميں کاظمين ميں متولد ہوئے اور جوانی ہی ميں مجتہد‬
‫مسلم ہو گئے آپ نے مختلف موضوعات مثالً فقہ‪ ،‬اصول‪،‬منطق‪،‬فلسفہ‪،‬اور اقتصاد پر تقريبا ً ‪ ٢۴‬کتابيں لکھی ہيں۔‪ ٢٠‬سال‬
‫بازوں سے عراق کی بعثی حکومت سے مسلسل جہاد کرنے کے بعد آخر کار ‪ ۴٧‬سال کی عمر ميں اپنی مجتہده‬ ‫اپنے قلم اور ٔ‬
‫الہدی“ کے ساتھ يزيد صفت عراق کی بعثی پارٹی کے ہاتھوں شہيد ہوگئے ۔‬ ‫ٰ‬ ‫بہن ”بنت‬
‫]‪ [51‬مسلک وہابيت ”شيخ محمد بن عبد الوہاب “کی طرف منسوب کيا جاتا ہے وه ‪ ١١١۵‬ء ھ ميں نجد کے شہر ”عنيہ “ميں‬
‫پيدا ہوااس کا باپ اس شہر ميں قاضی تھا۔‬
‫]‪” [52‬آنگاه ہدايت شدم“)پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ‪،‬ص‪٩٢‬تا ‪٩٣‬۔‬
‫]‪ [53‬اتنی زياده نقل ہوئی ہے کہ جس سے انسان کو يہ يقين حاصل ہو جاتا ہے کہ يہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی‬
‫حديث ہے ۔‬
‫]‪” [54‬آنگاه ہدايت شدم“)پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ‪،‬ص‪ ٨٨‬تا ‪٨٩‬۔‬
‫سوره آل عمران آيت ‪١۴۴‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[55‬‬
‫سوره فتح آيت ‪٢٩‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[56‬‬
‫سوره احزاب آيت ‪۴٠‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[57‬‬
‫]‪ [58‬صحيح مسلم ‪،‬ج‪، ٢‬ص ‪)١۵١‬باب الجمع بين الصالتين فی الحضر(‬
‫]‪ [59‬صحيح مسلم ‪،‬ج‪، ٢‬ص ‪)١۵١‬باب الجمع بين الصالتين فی الحضر(‬
‫]‪ [60‬مسند امام احمد حنبل ‪،‬ج‪ ،١‬ص‪٢٢١‬۔‬
‫]‪ [61‬موطا ااالمام مالک )شرح الحوالک (ج‪،١،‬ص‪١۶١‬۔‬
‫]‪ [62‬الکون مع الصادقين ‪،‬ڈاکٹر تيجانی سماوی‪ ،‬مطبوعہ بيروت ‪،‬ص‪ ٢١٠‬سے ‪ ٢١۴‬تک سے خالصہ کے ساتھ اقتباس ۔‬
‫سوره نساء آيت ‪١٠٣‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[63‬‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [64‬الکون مع الصادقين سے اقتباس ‪،‬ص‪٢١۴‬و ‪٢١۵‬۔‬
‫]‪ [65‬سوره احزاب‪ ،‬آيت ‪٣٣‬۔‬
‫]‪ [66‬سوره احزاب‪ ،‬آيت ‪٣٣‬۔‬
‫]‪” [67‬آنگاه ہدايت شدم“)پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ‪،‬ص‪١١۴‬تا ‪١١۵‬۔‬
‫]‪ [68‬الميزان ‪،‬ج‪،١۶‬ص‪١١۴‬۔‬
‫]‪ [69‬شواہد التنزيل ‪،‬ج‪، ٢‬ص‪،١١‬اور ‪ ٢۵‬کے بعد )اس بحث کا ماخذ”احقا ق الحق “کی ج‪ ٢‬ميں بھی آيا ہے ۔‬
‫سوره احزاب آيت ‪۵۶‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[70‬‬
‫]‪ [71‬صحيح بخاری ‪،‬ج‪،۶‬ص‪١۵١‬۔صحيح مسلم ‪،‬ج‪ ١‬ص‪٣٠۵‬۔‬
‫]‪ [72‬الصواعق المحرقہ‪ ،‬ص‪١۴۴‬۔‬
‫]‪ [73‬شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ‪،‬ج‪، ۶‬ص‪١۴۴‬۔‬
‫]‪ [74‬المواہب زرقانی ‪،‬ج‪ ٧‬ص‪٧‬۔تذکره عالمہ ‪،‬ج‪،١‬ص‪١٢۶‬۔‬
‫سوره ”صافات “کی ‪ ١٣٠‬ويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں ”سالم علی آل ياسين“)آل ياسين پر سالم‬ ‫ٔ‬ ‫]‪ [75‬مولف کا قول‪:‬قرآن ميں‬
‫ہو (ابن عباس سے منقول ہے کہ يہاں ”آل ياسين“ سے مراد آل محمد ہيں ل ٰہذا س بنا پر قرآنی اعتبار سے بھی آل محمد ميں‬
‫سے کسی کے نام کے ساتھ ”عليہ السالم“کہنا درست ہے ۔‬
‫]‪ [76‬آنگاه ہدايت شدم‪) ،‬پھر ميں ہدايت پاگيا (سے اقتباس ‪،‬ص‪ ۶۵‬تا ‪۶٧‬۔‬
‫]‪ [77‬يہ اس بات پر ايک ضمنی اقرار ہے کہ حديث غدير حضرت عليعليہ السالم کی خالفت پر واضح بيان ہے ليکن ہم‬
‫مجبور ہيں کہ اس کی وضاحت سے دست بردار ہوجائيں اور اس کی تاويل کريں )غور کريں !(۔‬
‫]‪ [78‬اس حديث کے مختلف مآخذ اور مدارک کے لئے ”الغدير “کی پہلی جلد سے رجوع کريں۔‬
‫]‪ [79‬اس ٹيونسی دانشور سے کہنا چاہئے اگر علی کو دوست رکھتے ہو تو ان کی دوستی کا تقاضہ يہ ہے کہ ان کی باتوں‬
‫کو قبول کيا جائے اور ان کی باتوں کو قبول کرکے ان کو خوش کياجائے حاالنکہ آپ نے رسول اسالم صلی ﷲ عليه و آله‬
‫دعوی کيا ليکن ان کی بات کو نہيں ماناگيا اور ان کو زبردستی بيعت کے لئے لے جايا گيااور آپ‬ ‫ٰ‬ ‫وسلم کے بعد خالفت کا‬
‫کے اصحاب کوآزار واذيت دی گئی اور جناب سلمان کو مارا پيٹا گيا ۔‬
‫]‪ [80‬مسند احمد بن حنبل ‪،‬ج‪، ۴‬ص‪ ،٢٨١‬عالمہ امينی نے الغدير کی جلد اول ميں اسے اہل سنت کے ساٹھ علماء سے نقل کيا‬
‫ہے ۔‬
‫سوره مائده ‪ ،‬آيت ‪۶٧‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[81‬‬
‫]‪ [82‬صحيح بخاری وصحيح مسلم ‪،‬صلح حديبہ کے متعلق بعض صحابہ کی مخالفت ‪،‬اور عمر کا قول بھی نقل کيا ۔‬
‫]‪ [83‬جناب تيجانی سماوی کے کتاب”ال کون مع الصادقين “سے اقتباس ص‪ ۵٨‬سے ‪۶١‬۔ مولف کی جانب سے خالصہ اور‬
‫اضافہ کے ساتھ۔‬
‫]‪ [84‬صحيح مسلم‪ ،‬کتاب االمارة‪ ،‬جلد‪ ،۴‬ص ‪) ،۴٨٢‬مطبوعہ دار الشعب(‪ ،‬مسند احمد ‪ ،‬ج ‪ ،۵‬ص‪ ،٩٢ ،٩٠ ،٨۶‬مستدرک‬
‫صحيحين‪ ،‬ج ‪ ،۴‬ص‪ ،۵٠١‬مجمع ہيثمی‪ ،‬ج ‪ ،۵‬ص ‪١٩٠‬۔‬
‫]‪ [85‬مسند احمد احنبل ‪،‬ج‪،٣‬ص‪٢٧‬۔‬
‫]‪ [86‬مسند حنبل ‪،‬ج‪،۴‬ص‪٣۶٧‬۔صحيح مسلم ‪،‬ج‪،٢‬ص‪٢٣٨‬۔صحيح ترمذی‪ ،‬ج‪ ،٧‬ص‪١١٢‬۔ کنز العمال‪،‬ج‪،٧‬ص‪١١٢‬اس کے‬
‫عالوه دوسری بہت سی کتابوں ميں يہ حديث موجود ہے۔‬
‫]‪ [87‬تفسير قرطبی ‪،‬ج‪،٩‬ص‪۶١٢١‬۔صحيح بخاری ‪،‬ج‪،۶‬ص‪١٧٢‬۔‬
‫]‪ [88‬مجمع البيان ‪،‬ص‪،٩‬ص‪١٣٠‬۔تفسير فی ظالل ومراغی ‪،‬اسی آيت کے ذيل ميں۔‬
‫]‪ [89‬يہ مناظرے چند سال قبل عربی زبان ميں ”مناظرة الشيخ حسين بن عبد الصمد“ نامی کتاب ميں ”موسسہ قائم آل محمد‬
‫)ص(“ سے چھپ چکی ہے۔‬
‫)متوفی‬
‫ٰ‬ ‫)متوفی ‪١۵٠‬ھ(اور مالک بن انس‬
‫ٰ‬ ‫]‪ [90‬امام جعفر صادق عليہ السالم )متوفی ‪١۴٨‬ھ(فقہ تشيع کے مروج‪ ،‬ابو حنيفہ‬
‫‪١٧٩‬ھ(کے استادہيں اس طرح سے آپ سنی مذہب کے دو معروف مسلک ‪،‬حنفی ومالکی کے اماموں کے استاد رہے اسی‬
‫لئے ابو حنيفہ کا يہ کہنا تھا ”لوال السنتان لھلک النعمان“اگر وه دو سال )جو ميں نے امام جعفر صادق عليہ السال م کی خدمت‬
‫ميں گزارے ہيں(نہ ہوتے تو نعمان )ابو حنيفہ (ہالک ہو جاتا۔اسی طرح مالک بن انس کا کہنا ہے ”مارايت افقہ من جعفر بن‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫محمد “ميں نے جعفر بن محمد)امام صادق عليہ السالم ( سے بﮍا فقيہ نہيں ديکھا ‪) ،‬فی سبيل الوحدة االسالمية ص‪۶٣‬و‪(۶۴‬۔‬
‫]‪ [91‬يہ حديث مشہور و معروف ہے اور شيعہ و سنی کتابوں ميں موجود ہے۔‬
‫اور اس طرح کا تمسک اختيار کرنے واال بھی نجات پائے ؟ہماری يہ بات يہ تقاضا کرتی ہے کہ امام جعفر صادق عليہ‬
‫السالم کی تقليد کی جائے اور اس بات ميں تو کوئی شک و شبہ نہيں کہ امام جعفر صادق عليہ السالم کی پيروی ابو حنيفہ کی‬
‫شک آميز تقليد پر ہزار فوقيت رکھتی ہے۔‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫تيسرا حصہ و چوتھاحصہ ‪ ‬‬

‫‪٧۶‬۔صحابہ کو برا بھال کہنے کے سلسلہ ميں دوسرا مناظره‬


‫شيخ حسين بن عبد الصمد کہتے ہيں کہ کچھ دنوں کے بعد ميں نے اس حنفی عالم دين کو ديکھا جواب شيعہ ہو چکا تھا مگر‬
‫وه حد درجہ پريشان تھا کيونکہ يہ بات اس کے دل ميں رسوخ کر گئی تھی کہ اصحاب پيغمبر کی اتنی قدر و منزلت ہونے‬
‫کے باوجود شيعہ انھيں برا بھال کہتے ہيں‪ ،‬ميں نے اس سے کہا‪” :‬اگر تم اس بات کا وعده کرو کہ انصاف سے فيصلہ کرو‬
‫گے اور ميری بات کو راز ميں رکھو گے تو ميں اصحاب کو بر ابھال کہنے کا راز بتادوں گا جب اس نے بہت ہی سختی‬
‫سے قسم کھائی اور وعده کيا کہ خدا کی قسم انصاف سے فيصلہ کروں گا اور جب تک زنده رہوں گا اس وقت تک تمہاری‬
‫بات تقيہ کے طور پر راز ميں رکھوں گا“۔‬
‫تب ميں نے کہا‪” :‬جن لوگوں نے عثمان کو قتل کيا ہے ان کے بارے ميں تمہارا کيا نظريہ ہے ؟‘‬
‫اس نے کہا‪” :‬ان صحابيوں نے يہ کام اپنے اجتہاد کی بنا پر انجام ديا ہے ل ٰہذا وه گنہگار نہيں ہوں گے جيسا کہ ہمارے علماء‬
‫نے اس بات کی وضاحت کی ہے“۔‬
‫حسين‪” :‬عائشہ ‪،‬طلحہ ‪،‬زبير اور ان کے پيرو کار وں کے بارے ميں تمہار ا کيا نظريہ ہے جنھوں نے جنگ جمل برپا کی‬
‫اور نتيجہ ميں دونوں طرف سے سولہ ہزار افراد قتل ہو گئے“۔‬
‫اور اسی طرح معاويہ اور اس کے ساتھيوں کے بارے ميں کيا نظريہ ہے جنھوں نے جنگ صفين بھﮍکائی‪ ،‬اور حضرت‬
‫علی عليہ السالم سے جنگ کی جس کے نتيجہ ميں دونوں طرف سے ساٹھ ہزار افراد قتل ہوئے۔‬
‫)ہدايت يافتہ (حنفی عالم‪” :‬يہ تمام جنگيں بھی عثمان کے قتل کی طرح اجتہاد کی بنياد پر تھيں“۔‬
‫‪   ‬‬ ‫حسين‪” :‬کيا اجتہاد مسلمانوں کے ايک گروه سے صرف مخصوص ہے اور دوسرا گروه اجتہاد کا حق نہيں رکھتا ؟“‬
‫)ہدايت يافتہ (حنفی عالم‪” :‬نہيں بلکہ مسلمانوں کا ہر گروه اجتہاد کی صالحيت رکھتا ہے“۔‬
‫حسين‪” :‬جب رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بزرگ صحابہ اور مومنوں کے خليفہ کے قتل اور آنحضرت کے چچا‬
‫زاد بھائی ‪،‬جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کے شوہر حضرت علی عليہ السالم سے جنگ کرنے کے سلسلہ ميں اجتہاد جائز‬
‫تقوی‪ ،‬فضل و زہد ميں سب سے زياده‬ ‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬يعنی جب اجتہاد کی رو سے اس شخصيت سے جنگ کرنا جائز ہے جو علم و‬
‫نماياں اور رسول اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے سب سے زياده قريبی ہو جن کی شمشير کے ذريعہ اسالم استوار ہو ا‬
‫اور جن کی تعريف ہميشہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کيا کرتے ہوں‪ ،‬جنھيں آپ نے مسلمانوں کا رہبر قرار ديا ہو‬
‫کيونکہ خدا وند متعال کا قول ہے‪:‬‬
‫ﱠ‬ ‫” ِٕانﱠ َما َولِيﱡ ُک ْم ﷲُ َو َرسُولُہُ َوالﱠ ِذينَ آ َمنُوا ال ِذينَ يُقِي ُمونَ ال ﱠ‬
‫صالَةَ َوي ُْؤتُونَ الز َکاةَ َوہُ ْم َرا ِکعُونَ “]‪[1‬‬ ‫ﱠ‬
‫زکوة ديتے ہيں( ہيں“۔‬‫”تمہارا ولی صرف ﷲ اور اس کا رسول ہے اور مومنين )جو حالت رکوع ميں ٰ‬
‫يہ بات علماء کے نزديک مسلم الثبوت ہے کہ يہاں مومنين سے مراد حضرت علی عليہ السالم ہيں‪ [2]،‬اس کے عالوه بھی‬
‫بہت سی روايتوں ميں اس طرح کی باتيں ملتی ہيں۔اب تم سے يہ سوال کرتا ہوں کہ ايسے باعظمت اشخاص کے خالف اجتہاد‬
‫ہو سکتا ہے ؟اور اگر ان کے خالف اجتہاد ہو سکتا ہے تو پھر ايسا ہی اجتہاد کر کے کيا ۔۔۔کوئی مسلمان رسول خدا صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم کے ”بعض صحابہ“کو برا بھال نہيں کہہ سکتا؟ ہم صرف ان صحابہ کو برا بھال کہتے ہيں جن کے بارے‬
‫ميں ہميں معلوم ہے کہ انھوں نے اہل بيت رسول کے ساتھ برا سلوک کيا ہے انھيں ستا يا ہے اور ان کے اوپر ظلم کيا ہے‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ليکن جو لوگ اہل بيت رسول اکرم کو دوست رکھتے تھے ہم بھی انھيں دوست رکھتے ہيں جيسے سلمان‬
‫‪،‬مقداد‪،‬عمار‪،‬ابوذروغيره اور ہم ان لوگوں کی دوستی کے ذريعہ خدا کا قرب چاہتے ہيں۔اصحاب رسول خدا صلی ﷲ عليہ و‬
‫آلہ و سلم کے متعلق ہمارا يہی عقيده ہے اور سب و شتم کرنا ايک طرح کی لعنت ومالمت ہے جسے خدا چاہے تو قبول‬
‫کرے اور چاہے تو نہ قبول کرے مگر يہ اصحاب کا خون بہانے کی طرح ہر گز نہيں ہو سکتا يہ معاويہ ہی تھا جس نے‬
‫حضرت علی عليہ السالم کو برا بھال کہنے کے لئے ستر ہزار منبر مخصوص کر رکھے تھے اور يہ روش ‪ ٨٠‬سال تک‬
‫جاری رہی ليکن اس کے باوجودبھی وه حضرت علی عليہ السالم کی منزل ميں کسی طرح کی کمی نہ کر سکا اسی طرح‬
‫شيعہ بھی خاندان رسالت کے دشمنوں کو برا بھال کہتے ہيں اور اسے از روئے اجتہا د جائز سمجھتے ہيں با لفرض اگر ان‬
‫لوگوں نے اپنے اس اجتہاد ميں غلطی کی ہوگی تو ان پر گناه نہيں ہوگا۔ توضيح کے طور پر يہ کہيں کہ اصحاب پيغمبر کئی‬
‫طرح کے تھے بعض قابل تعريف اور بعض منافق صفت تھے اور بعض اصحاب کی تعريف قرآن ميں آجانے سے دوسرے‬
‫بعض صحابہ کا فسق وفجورختم نہيں ہوتا‪ ،‬اصحاب کو برا بھال کہنے کے سلسلے ميں ہمارا اجتہاد ان لوگوں کے نيک اور‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پيرو اصحاب کے لئے ہمارا يہ اعتقاد ہر گز نہيں ہے۔‬
‫حنفی عالم نے بﮍے تعجب سے کہا‪” :‬کيا بغير کسی دليل کے اجتہاد جائز ہے ؟“‬
‫حسين‪” :‬ہمارے مجتہدين کی دليليں بﮍی واضح ہيں“۔‬
‫بتاو“۔‬
‫حنفی عالم‪” :‬ان ميں سے کوئی ايک ٔ‬
‫حسين بن عبد الصمد نے بہت سی دليليں بيان کيں جن ميں جناب فاطمہ زہرا سالم عليہا پر ہوئے مظالم کا بھی ذکر کيا اور‬
‫سوره احزاب کی ‪ ۵٧‬ويں آيت بھی پﮍھی جس ميں آيا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬
‫” ِٕا ﱠن الﱠ ِذينَ ي ُْؤ ُذونَ ﷲَ َو َرسُولَہُ لَ َعنَہُ ْم ﷲُ فِی ال ﱡد ْنيَا َو ْاآل ِخ َر ِة“۔ ]‪[3‬‬
‫”بال شبہ جو ﷲ اور اس کے رسول کو اذيت پہنچاتے ہيں ان پر ﷲ دنيا وآخرت ميں لعنت کرتا ہے“۔]‪[4‬‬

‫۔آيہ ”رضوان“ کے بارے ميں ايک مناظره‬ ‫‪ٔ ٧٧‬‬


‫مجھے ياد ہے کہ ايک شافعی عالم سے ميری مالقات ہوئی جو قرآن کی آيات و احاديث سے تھوڑی بہت واقفيت رکھتا تھا‬
‫اس نے شيعوں پر اس طرح اعتراض کرنا شروع کرديا۔‬
‫شيعہ لوگ اصحاب پيغمبر پر لعن وطعن کرتے ہيں يہ کام قرآن کے خالف ہے کيونکہ قرآن کے مطابق خدا وند متعال ان‬
‫سے خوش و راضی ہے جو لوگ خدا کی خوشنودی حاصل کر چکے ہوں ان پر لعن و طعن کرنا صحيح نہيں ہے۔‬
‫اس سلسلہ ميں سوره فتح کی ‪ ١٨‬ويں آيت ميں خدا وند عالم ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫ک تَحْ تَ ال ﱠش َج َر ِة فَ َعلِ َم َما‬ ‫ض َی ﷲُ ع َْن ْال ُم ْؤ ِمنِينَ ِٕا ْذ يُبَايِعُونَ َ‬ ‫”لَقَ ْد َر ِ‬
‫ِفی قُلُو ِب ِہ ْم فَأَ ْن َز َل ال ﱠس ِکينَةَ َعلَي ِْہ ْم َوأَثَابَہُ ْم فَ ْتحًا قَ ِريبًا“۔‬
‫”بالتحقيق خدا وند متعال ان مومنوں سے راضی ہوا جو اس درخت کے نيچے تمہاری بيعت کر رہے تھے خدا کو ان کے دل‬
‫کی بات معلوم تھی ل ٰہذا اس نے ا ن پر سيکنہ نازل کيا اور انھيں فتح قريب سے نوازا“۔‬
‫يہ آيت اس وقت نازل ہوئی جب پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ہجرت کے آٹھويں سال ماه ذی الحجة ميں چوده ہزار‬
‫مسلمانوں کے ساتھ مدينہ سے مکہ عمره کرنے کی خاطر روانہ ہوئے تھے ان لوگوں ميں عثمان‪ ،‬ابو بکر ‪،‬عمر اور طلحہ‬
‫وزبير جيسے لوگ بھی شامل تھے ليکن جيسے ہی يہ لوگ ”عسفان نامی “ايک مقام پر پہنچے تو انھيں خبر ملی کہ‬
‫مشرکوں نے مسلمانوں کو روکنے کا فيصلہ کر ليا ہے ل ٰہذا رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے حکم ديا کہ حديبيہ )جو‬
‫مکہ سے بيس کليو ميٹر کے فاصلہ پر ہے اور وہاں آب و غذا اور درخت موجود ہيں(کے پاس کوئی حتمی بات طے نہ‬
‫ہونے تک ٹھہرے رہيں۔‬
‫پھر آپ نے عثمان اور چند دوسرے لوگوں کو قريش کے پاس بات چيت کے لئے روانہ کر ديا اچھی خاصی دير ہوجانے‬
‫کے بعد بھی جب ان کے بارے ميں کچھ اطالع نہ ملی تو يہ خبر اڑ گئی کہ عثمان کوقتل کر ديا گيا ہے يہ سن کر رسول خدا‬
‫صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اسی درخت کے نيچے بيٹھ کر مسلمانوں سے تجديد بيعت کرائی اور اسی بيعت کو ”بيعت‬
‫رضوان “کے نام سے جانا جاتا ہے۔رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے مسلمانوں سے عہد ليا کہ آخری وقت تک‬
‫مشرکوں سے لﮍيں گے مگر کچھ ہونے سے پہلے يہ لوگ واپس آگئے مکر اس بيعت کی خبر سے مشرک بﮍے مرعوب‬
‫ہوگئے اور انھوں نے سہيل بن عمر کو آنحضرت کی خدمت ميں بھيجا اور آخر کار اس بات پر صلح ہو گئی کہ مسلمان‬
‫اگلے سال مکہ آئيں ليکن اِس سال واپس چلے جائيں۔]‪[5‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫مولف‪:‬‬
‫پہلی بات تو يہ کہ يہ آيت ان لوگوں کے لئے ہے جو اس وقت وہاں موجود تھے۔‬
‫دوسری بات يہ کہ يہ آيت بيعت ميں شامل ہونے والے منافقوں جيسے عبد ﷲ ابی اور اوس بن خولی وغيره کو شامل نہيں‬
‫کرتی‪ ،‬کيونکہ آيت ميں مومن کی شرط ہے اور يہ لوگ ہر گز مومن نہيں تھے۔‬
‫تيسری بات يہ کہ مذکوره آيت کہتی ہے کہ خداوند عالم اس وقت ان لوگوں سے راضی ہوا جب انھوں نے بيعت کی نہ کہ‬
‫ہميشہ ان سے راضی رہے گا۔‬
‫اسی دليل کے لئے ہم قرآن مجيد کے اسی سوره ميں پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫ث َعلَی نَ ْف ِس ِہ َو َم ْن أَوْ فَی بِ َما عَاہَ َد َعلَ ْيہُ ﷲَ فَ َسي ُْؤ ِتي ِہ ا رًا ع ِ‬
‫َظي ًما“۔‬ ‫جْ‬ ‫َ‬ ‫ٔ‬ ‫ث فَإِنﱠ َما يَ ْن ُک ُ‬
‫”فَ َم ْن نَ َک َ‬
‫”جو بھی اپنا عہد توڑتا ہے وه خود اپنا نقصان کرتا ہے اور جو ﷲ سے کئے گئے عہد کو پورا کرتا ہے تو ﷲ اسے عظيم‬
‫اجر دے گا“۔‬
‫اس آيت سے يہ پتہ چلتا ہے کہ نکث يعنی بيعت توڑنے کا امکان موجود تھا جيسا کہ بعد ميں چند جگہوں پر يہ بات آشکار‬
‫ہوئی۔اسی طرح يہ آيت ابدی رضايت پر داللت نہينکرتی بلکہ انھيں ميں سے ممکن ہے کہ دو گروه ہو جائيں جن ميں ايک‬
‫وفادار ثابت ہو اور دوسر عہد شکن۔اس کے متعلق ہم يہ کہتے ہيں کہ وه لوگ اس آيت سے خارج ہو گئے جنھوں نے وفا‬
‫نہيں کی اور اسی کی وجہ سے ہماری لعن وطعن ان پر پﮍتی ہے اور اس بات ميں آيت کی رو سے کوئی اشکال بھی نہيں‬
‫ہے۔‬

‫قبروں کے پاس بيٹھنے کے سلسلہ ميں ايک مناظره‬


‫امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کميٹی کے سر پرست نے ايک شيعہ عالم پر شديد نکتہ چينی کرتے ہوئے کہا‪” :‬تم لوگ‬
‫کيوں قبر کے پاس بيٹھتے ہو جب کہ اس طرح کا کام حرام ہے“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬اگر قبروں کے پاس بيٹھنا حرام ہے تو مسجد الحرام ميں حجر اسماعيل کے قريب جہاں بہت سے پيغمبروں اور‬
‫ٰ‬
‫فتوی نہيں ديا۔‬ ‫جناب ہاجره کی قبريں موجود ہيں بيٹھنا بھی حرام ہوگا ليکن ابھی تک کسی مفتی نے اس کا‬
‫بہت سی ايسی روايتيں اور احاديث ملتی ہيں جن سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ قبروں کے پاس بيٹھنے ميں کوئی حرج نہيں ہے‬
‫جيسے کتاب بخاری جو تم لوگوں کے نزديک قرآن کی طرح معتبر ہے اس ميں علی عليہ السالم سے روايت موجود ہے‪:‬‬
‫”ميں بقيع ميں بيٹھا ہوا تھا کہ پيغمبر ميرے پاس آئے اور بيٹھ گئے اور ميں بھی ان کے قريب جاکر بيٹھ گيا تو آنحضرت نے‬
‫قبر کی طرف اشاره کر کے فرمايا‪:‬‬
‫”ہر انسان کے لئے دو گھروں ميں سے ايک گھر ہوتا ہے ايک گھر جنت ہے اور دوسرا دوزخ۔۔“]‪[6‬‬
‫اس آيت کی بنا پر رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم قبر کے پاس بيٹھے اور وہاں جو دوسرے لوگ موجود تھے ان کو‬
‫آپ نے اس سے منع بھی نہيں کيا۔]‪[7‬‬

‫‪٧٨‬۔ ”عشره مبشره “کے سلسلہ ميں ايک مناظره‬


‫اہل سنت کے ميں احمد اپنی کتاب مسند )ج‪ ، ١‬ص‪(١٩٣‬ميں اپنی سند کے ساتھ عبد الرحمن بن عوف سے نقل کرتے ہيں کہ‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫”ابو بکر فی الجنة وعمر فی الجنة وعلی فی الجنة۔۔۔الخ“۔‬
‫”ابو بکر ‪،‬عمر ‪،‬علی ‪،‬عثمان ‪،‬طلحہ ‪،‬وزبير‪،‬عبد الرحمن بن عوف‪،‬سعد بن ابی وقاص‪،‬سعيد بن زيد ابو عبيده جراح“۔]‪[8‬‬
‫اہل سنت حضرات اس گﮍھی ہوئی حديث کو بﮍی اہميت ديتے ہيں اور ان دس آدميوں کے نام ”عشره مبشره“کے عنوان سے‬
‫تختيوں پر کنده کر کے مقدس‪ ،‬مقامات جيسے مسجد نبوی وغيره ميں نصب کرتے ہيں۔يہ اتنی مشہور بات ہے جس کے‬
‫متعلق تقريبا ًسبھی کو علم ہے اسی سلسلہ ميں ذيل کے مناظره کو مالحظہ فرمائيں‪:‬‬
‫ايک شيعہ عالم دين کہتے ہيں‪” :‬ايک روز ميں کسی کام سے مدينہ ميں نہی عن المنکر کے اداره ميں گيا تو وہاں موجود اس‬
‫کے سر پرست سے ميری بات چيت ہونے لگی جو آخر کا عشره مبشره تک جا پہنچی“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬ميں تم سے ايک سوال کر نا چاہتا ہوں“۔‬
‫سر پرست‪” :‬پوچھو“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ميں‪” :‬يہ کس طرح جائز ہے کہ ايک جنتی دوسرے جنتی سے جنگ کرے طلحہ اور زبير عائشہ کے پر چم تلے بصره آکر‬
‫حضرت علی عليہ السالم سے جنگ لﮍيں جب کہ يہ لوگ جنتی تھے اور يہ جنگ جمل بہت سے لوگوں کے قتل کا سبب بنی‬
‫اور قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫” َو َم ْن يَ ْقتُلْ ُم ْؤ ِمنًا ُمتَ َع ﱢمدًا فَ َجزَا ُؤهُ َجہَنﱠ ُم خَا ِلدًا ِفيہَا“]‪[9‬‬
‫”جو کسی مومن کو جان بوجھ کر قتل کرتا ہے تو اس کی جزا جہنم ہے جہاں وه ہميشہ رہے گا“۔‬
‫اس آيت کے پيش نظر جو لوگ بھی جنگ جمل ميں لوگوں کے قتل کا سبب بنے ہيں انھيں جہنمی ہونا چاہئے اور اب يہ‬
‫چاہے علی عليہ السالم ہوں يا طلحہ وزبير ہوں ل ٰہذا اس جنگ کے نتائج کو ديکھتے ہوئے يہ حديث صحيح معلوم نہيں ہوتی۔‬
‫سر پرست‪” :‬اس جنگ ميں شرکت کرنے والے وه افراد جن کا تم نے نام ليا ہے مجتہد تھے انھوں نے اپنے اجتہاد کی بنا پر‬
‫يہ کام انجا م ديا ہے ل ٰہذا وه گنہگار نہيں ہوں گے“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬نص کے مقابلہ ميں اجتہاد جائز نہيں ہے کيا تمام کے تمام مسلمانوں نے يہ نقل نہيں کيا ہے کہ پيغمبر اکرم‬
‫صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم سے فرمايا‪:‬‬
‫”يا علی حربک حربی وسلمک سلمی“۔]‪[10‬‬
‫”اے علی !تمہاری جنگ ميری جنگ ہے اور تمہاری صلح ميری صلح“۔‬
‫اور اسی طرح آپ نے يہ بھی فرمايا ہے‪:‬‬
‫”من اطاع عليا ً فقد اطاعنی ومن عصا عليا ً فقد عصانی ۔“]‪[11‬‬
‫”جس نے علی کی اطاعت کی اس نے ميری اطاعت کی اور جس نے علی کی نافرمانی کی اس نے ميری نا فرمانی کی“۔‬
‫اور اسی طرح آپ نے فرمايا‪:‬‬
‫”علی مع الحق والحق مع علی ‪،‬يدور الحق معہ حيثما دار“۔]‪[12‬‬
‫”علی حق کے ساتھ ہيں اور حق علی کے ساتھ ہے حق ان کے ساتھ ساتھ چلتا ہے وه جيسے بھی چليں“۔‬
‫اس بنا پر نتيجہ يہ نکلتا ہے کہ اسمائے مذکوره ميں ايک طرف حق ہے اور وه علی عليہ السالم کی ذات ہے اور حديث‬
‫”عشره مبشره “محض جھوٹ ہے کيونکہ باطل کے طرفداروں کو جنت نصيب نہيں ہو سکتی۔‬
‫دوسری بات يہ کہ عبد الرحمن بن عوف خود اس حديث کا راوی ہے جو خود ان دس جنتی افراد مينشامل ہے اور يہ وہی عبد‬
‫شوری تشکيل ہونے کے دن علی عليہ السالم پر تلوار تان لی تھی اور ان سے‬ ‫ٰ‬ ‫الرحمن ہے جس نے عمر کی وفات کے بعد‬
‫کہا تھا‪” :‬بيعت کرو ورنہ ميں تمہيں قتل کردوں گا“‪ ،‬يہی وه عبدالرحمن ہے جس نے عثمان کی مخالفت کی اور عثمان نے‬
‫اسے منافق کہہ کر ياد کيا ‪ ،‬کيا يہ تمام چيزوں مذکوره روايت سے مطابقت رکھتی ہيں؟ اور کيا عبد الرحمن ان دس افراد ميں‬
‫سے ہو سکتا ہے جنھيں جنت کی بشارت دی گئی ہو؟‬
‫کيا ابو بکر و عمر کو جنت کی بشارت دی گئی ہے جب کہ يہ دونوں جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی شہادت کا سبب‬
‫بنے ؟اور جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا ان سے آخری عمر تک ناراض رہيں ہوں؟‬
‫کيا عمر نے حضرت علی کو ابو بکر کی بيعت کے لئے رسی باندھ کر کھينچتے ہوئے يہ نہيں کہا تھا کہ بيعت کرو نہيں تو‬
‫جاوگے؟‬ ‫قتل کر دئے ٔ‬
‫کيا طلحہ و زبير عثمان کے قتل پر مصر نہ تھے ؟کيا يہ دونوں اس امام کی اطاعت سے خارج نہيں ہو گئے جس کی اطاعت‬
‫واجب قرار دی گئی تھی؟کيا ان دونوں نے جنگ جمل ميں حضرت علی عليہ السالم کے مقابل تلوار نہيں چالئی ؟‬
‫اس کے عالوه ان دس لوگوں ميں صرف سعد بن وقاص نے اس حديث کی تصديق کی ہے اور جب اس سے پوچھا جاتا ہے‬
‫کہ عثمان کو کس نے قتل کيا تو وه جواب ميں کہتا ہے۔”عثمان اس تلوار سے قتل کئے گئے جسے عائشہ نے غالف سے‬
‫باہر نکاال طلحہ نے اسے تيز کيا اور علی نے زہر ميں بجھا يا تھا“۔‬
‫کيا آپس کی ان تمام مخالفت اور منافقت کے باوجود يہ کہا جا سکتا ہے کہ وه سب لوگ جنتی ہيں؟ ہر گز نہيں ہر گز نہيں۔‬
‫اور خود يہ حديث سند کے لحاظ سے بھی مخدوش اور مردود ہے کيونکہ اس کی سند عبد الرحمن بن عوف اور سعد بن‬
‫وقاص ميں سے کسی ايک پر تمام ہوئی ہے اور روايات ميں عبد الرحمن کی سند کا سلسلہ بھی متصل نہيں ہے ل ٰہذا يہ اپنے‬
‫اعتبار سے گر جاتی ہے اور سعيد بن زيد کے بارے ميں يہ روايت معاويہ کے دور خالفت ميں کوفہ ميں نقل کی گئی ہے‬
‫اور معاويہ کے دور سے پہلے کبھی کسی نے يہ حديث نہيں سنی تھی جس کی بنا پر صاف معلوم ہوتا ہے کہ يہ معاويہ کا‬
‫کارنامہ ہے۔]‪[13‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٧٩‬۔قبروں پر پيسے ڈالنا‬
‫قبرستان بقيع ميں ايک بورڈ پر لکھا ہوا ہے ”ال يجوز رمی النقود علی القبور“قبروں پر پيسہ ڈالنا جائز نہيں ہے“۔‬
‫ايک روز امر بالمعروف کميٹی کا سر پرست بقيع ميں آيا تو اس نے ديکھا کہ کچھ قبروں پر پيسے پﮍے ہوئے ہيں اس نے‬
‫مجھے ديکھا تو مجھے مخاطب کر کے کہنے لگا‪” :‬يہ پيسے زائروں کو دے دو ان کا قبروں پر ڈالنا حرام ہے“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬کس دليل سے قبروں پر پيسے ڈالنا حرام ہے کيا قرآن اور سنت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ميں اس‬
‫بات کی نہی ہوئی ہے ؟جب کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا فرمان ہے کہ تمہارے لئے ہر وه چيز جائز ہے جس‬
‫سے تمہيں منع نہ کيا گيا ہو“۔‬
‫ص ْدقَةُ لِلفُق َرا ِء“ ]‪[14‬صدقہ صرف فقراء کے لئے ہے“۔‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫سر پرست‪” :‬قرآن ميں آيا ہے ”اِنﱠ َما ال ﱠ‬
‫شيعہ عالم‪” :‬يہ پيسے بھی قبر کے فقير مجاوراٹھاتے ہيں“۔‬
‫سرپرست‪” :‬قبر کے مجاور فقير نہيں ہيں“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬کوئی ضروری نہيں ہے کہ وه فقير ہی ہوں کيونکہ مدد اور بخشش کے لئے يہ قطعا ً حرام نہيں ہے اگر کوئی‬
‫شخص کسی مقصد کے تحت خدا کی راه ميں اپنا تمام مال کسی دولت مند کو بھی ديدے تو کيا کوئی حرج ہے جيسا کہ‬
‫شاديوں ميں دولہا اور دلہن کے سر سے پيسے نچھاور کرتے ہيں اور غير فقير بھی يہ پيسے اٹھا تے ہيں اور جس آيت کو تم‬
‫نے پﮍھاہے اس ميں صدقہ کے لئے آٹھ مصرف ذکر ہوئے ہيں جس ميں سے ايک ﷲ کی راه بھی ہے اور جب مسلمان‬
‫اولياء خدا کی قبروں کے پاس جاتے ہيں تو کہتے ہيں ”ہماری جان ومال آپ پر فدا ہو“‪ ،‬اب اگر ايک شخص اپنی دوستی اور‬
‫محبت کی وجہ سے اپنا تمام مال يا اس کا کچھ حصہ اسے بخش دے تو عرفا ًاس ميں کيا برائی ہے خداوند متعال نے اپنی‬
‫سوره نحل کی ‪ ١١۶‬ويں آيت ميں پﮍھتے‬ ‫ٔ‬ ‫دليل اورذاتی رائے سے کسی حالل کو حرام کرنے سے منع کيا ہے جيسا کہ ہم‬
‫ہيں‪:‬‬
‫ب“۔‬ ‫َصفُ أ ْل ِسنَتُ ُک ْم ْال َک ِذ َ‬
‫ب ہَ َذا َحالَ ٌل َوہَ َذا َح َرا ٌم لِتَ ْفتَرُوا َعلَی ﷲِ ْال َک ِذ َ‬ ‫َ‬ ‫” َوالَتَقُولُوا لِ َما ت ِ‬
‫”اور اپنی زبان سے نکلنے والے جھوٹ کی وجہ سے يہ نہ کہو کہ يہ حالل ہے اور يہ حرام تاکہ تم خدا پر جھوٹ باندھ‬
‫سکو“۔‬
‫کيا خداوند متعال نے تمہيں اپنی طرف سے قانون گﮍ ھنے کی اجازت دی ہے اور ہر چيز جو تمہارے ذوق کے مطابق نہ ہو‬
‫تم اسے حرام اور شرک قرار دے دو‪ ،‬تم بدعت کے مقابلہ کی آڑ ميں ہرحالل کو حرام قرار دے ديتے ہو کيا تمہيں يہ نہيں‬
‫معلوم کہ حالل کو حرام کرنا خود ايک بدعت ہے اور جو لوگ اس طرح کا عقيده رکھتے ہيں وه خود جان ليں کہ انھوں نے‬
‫صراط مستقيم کو چھوڑ ديا ہے جيسا کہ ہم اس آيت ميں پﮍھتے ہيں ‪:‬‬
‫”ان الذين يفترون علی ﷲ الکذب ال يفلحون“‬
‫”جو لوگ ﷲ پر جھوٹ باندھتے ہيں وه کامياب نہيں ہو سکتے“۔‬

‫‪٨٠‬۔ ہر طرف سے شرک کی آواز‬


‫سعودی منڈيوں ميں بہت ہی سستی شئے ہے ‪ ،‬يہ سودا ہر جگہ دستياب ہے‪ ،‬وہاں کی امر بالمعروف کميٹی جھوٹی سی بات‬
‫کو لے کر مومن کو مشرک بنا ديتی ہے! گويا ان کی تھيلوں ميں شرک اور شرک کی تہمت لگانے کے عالوه اور کوئی چيز‬
‫موجود ہی نہيں ہے يہ لوگ اس سلسلہ ميں صرف زبانی باتوں ہی پر اکتفاء نہيں کرتے بلکہ شيعوں کی مختلف مشہور‬
‫کتابوں پر بھی حملہ آور ہونے کی کوشش کرتے ہيں مثال کے طور پر شيعوں کے مشہور ومعروف محقق و عالم استاد شيخ‬
‫رضا مظفر کی يہ عبارت‪:‬‬
‫”فکانت الدعوة للتشيع ال بی الحسن عليہ السالم من صاحب الرسالة تمشی منہ جنبا لجنب مع الدعوة للشھادتين“۔‬
‫”حضرت رسول اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کی جانب سے حضرت علی عليہ السالم کی پيروی کی طرف دعوت توحيد و‬
‫رسالت کے ساتھ ساتھ پروان چﮍھی ہے“۔‬
‫ايک وہابی مولف نے اپنی کتاب ”الشيعہ والتشيع“ ميں جو سعودی عرب ميں چھپ چکی ہے لکھا ہے‪:‬‬
‫دعوی المظفّری کان يجعل عليّا ً شريکا ً لہ فی نبوتہ و رسالتہ“۔]‪[15‬‬
‫ٰ‬ ‫”ان النبی حسب‬
‫”رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم مظفر کے دعوے کے مطابق علی عليہ السالم کو اپنے نبوت و رسالت ميں شريک‬
‫قرار ديتے تھے“۔‬

‫چوتھاحصہ‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس مصنف سے مناظره‬
‫اگر يہ ہوا وہوس ميں اپنے دين کو بيچ کھانے واال وہابی ذرا بھی شيعوں کے عقائد سے واقفيت رکھتا تو شيخ رضا المظفر پر‬
‫اس طرح کا احمقانہ اعتراض نہ‬
‫کرتا۔‬
‫اگر اس طرح کی بات شرک ہوتيں تو قرآن ميں يہ آيت کبھی ذکر نہ ہوتی‪:‬‬
‫”يَاأَيﱡہَا الﱠ ِذينَ آ َمنُوا أَ ِطيعُوا ﷲَ َوأَ ِطيعُوا ال ﱠرسُو َل َوأُوْ لِی ْ َٔ‬
‫اال ْم ِر ِم ْن ُک ْم“]‪[16‬‬
‫”اے ايمان والو! ﷲ کی اطاعت کرو اس کے رسول کی اور تم ميں سے جو اولی االمر ہو“۔‬
‫اس آيت ميں اولی االمر ‪ ،‬ﷲ اور رسول کے ساتھ ذکر ہوئے ہيں اور سب نے اس بات کا اعتراف بھی کيا ہے کہ حضرت‬
‫علی عليہ السالم اولی االمر کے واضح ترين مصاديق ہيں۔‬
‫کيا اس صورت حال ميں يہ کہنا ممکن ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اس آيت کو پﮍھ کر توحيد کی طرف‬
‫دعوت دينے کے بجائے شرک کی دعوت دی ہے ؟‬
‫جہاں تک رسالت کی دعوت کے ساتھ امامت کی دعوت کا ہر جگہ ہونا ہے تو يہ ايک حتمی بات ہے اس کا مطلب يہ ہے کہ‬
‫آنحضرت کے بعد امامت علی اور آپ کی خالفت کی تبليغ کرنا ہے اسی لئے آپ جس طرح اپنی رسالت اور توحيد خداوندی‬
‫کی تبليغ کرتے تھے اسی طرح علی عليہ السالم کی واليت و امامت کی طرف بھی لوگوں کو متوجہ کرتے اور انھيں اس‬
‫طرف دعوت ديا کرتے تھے اس کا شرک سےکوئی ربط نہيں ہے۔‬
‫سوره شعراء کی يہ آيت نازل ہوئی‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫مزيد وضاحت کے لئے ہم يہ عرض کرتے ہيں کہ جب‬
‫ک ْ َٔ‬
‫اال ْق َر ِبينَ “ ]‪[17‬‬ ‫” َوأَن ِذرْ ع َِشي َرتَ َ‬
‫ڈراو“۔‬
‫”اور اپنے رشتہ داروں کو ٔ‬
‫تو رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اپنے رشتہ داروں کو دعوت دی اور اس ميں آپ نے يہ اعالن کيا‪:‬‬
‫کون شخص ايسا ہے جو اس کام ميں ميری مدد کرے اور اس کے بدلے وه ميرا بھائی ‪،‬وصی اور ميرے بعد ميرا خليفہ ہو‬
‫جائے ؟“‬
‫اس وقت کوئی بھی علی عليہ السالم کے عالوه نہيں اٹھا تھا اور جب کئی دفعہ دہرانے کے بعد بھی علی عليہ السالم کے‬
‫عالوه کوئی نہ اٹھا تو آپ نے فرمايا‪:‬‬
‫”ان ھذا اخی ووصي وخليفتي فيکم فاسمعوا لہ واطيعوه“۔]‪[18‬‬
‫”بالشبہ يہی ميرا بھائی ‪،‬وصی اور ميرے بعد تم لوگوں مينميراجانشين ہے ل ٰہذا تم لوگ اس کی باتيں سنو اور اس کی اطاعت‬
‫کرو“۔‬
‫شيعہ اسی بنا پر يہ کہتے ہيں کہ جب بھی پيغمبر اپنی رسالت اور خدا کی وحدانيت کی دعوت ديا کرتے تھے تو علی عليہ‬
‫السالم کی امامت کو بھی بتا ديتے تھے کيا وفات کے بعد علی کی خالفت کی طرف دعوت دينا شرک ہے کيا نبوت کی‬
‫دعوت کے ساتھ ساتھ امامت کی دعوت دينا شرک ہے؟]‪ [19‬اور کيا اس کا مطلب يہ ہوگا کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و‬
‫سلم نے علی عليہ السالم کو اصل نبوت ميں اپنا شريک بنا ليا ؟‬
‫ہائے رے بے انصافی۔‬

‫‪٨١‬۔ حج کے )سياسی پہلو کے( بارے ميں دو علماء کا مناظره‬


‫اسالمی انقالب )ايران(کی کاميابی کے بعد پيد اہوئے اہم مسائل کے بانی حضرت امام خمينی عليہ الرحمہ نے اپنے بيانيہ ميں‬
‫يہ اعالن کيا‪:‬‬
‫”حج کی دو قسميں ہيں‪:‬حج ابراہيمی اور حج بو جہلی! حج صرف ايک عبادت ہی نہيں بلکہ ايک مکتب اور بہترين جامع‬
‫يونيور سٹی ہے۔‬
‫ل ٰہذا ايرانيوں اور حضرت امام خمينی ۻ کے مقلدين کے نظر ميں حج کی اہميت مزيد واضح ہو گئی اور ”مشرکين سے‬
‫برائت“ کا مسئلہ پيش آيا ‪،‬جس کے بہت سے مثبت آثار پائے جاتے ہيں۔‬
‫مالو ں اور بعض پرانے نام نہاد علماء نے اشکال و اعتراض کرنا شروع کر ديا ‪ ،‬چنانچہ‬
‫اسی وجہ سے حجاز کے درباری ٔ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫انھوں نے کہنا شروع کيا کہ حج ميں کسی طرح کی سياست اور شور شرابہ نہيں ہونا چاہئے ‪،‬اور گذشتہ کی طرح صرف‬
‫خشک عبادت کے طور پر حج کے اعمال بجاالنا چاہئے جب کہ قرآن مجيد کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫” َج َع َل ﷲُ ْال َک ْعبَةَ ْالبَيْتَ ْال َح َرا َم قِيَا ًما لِلنﱠ ِ‬
‫اس“۔]‪[20‬‬
‫”ﷲ نے کعبہ کو جو بيت الحرام ہے اس کو لوگوں کے قيام اور صالح کا ذريعہ قرار ديا ہے“۔‬
‫خانہ کعبہ کے زير سايہ اپنی‬‫”مومنين کے قيام “کے وسيع معنی کے پيش نظر يہ نتيجہ نکلتا ہے کہ مسلمانوں کو چاہئے کہ ٔ‬
‫پہلووں کو بہتر بنا نے کے لئے کوشش‬‫ٔ‬ ‫مشکالت اور پريشانيوں کو دور کريں ‪،‬اور اپنی زندگی کے معنوی ومادی مختلف‬
‫کرتے ہوئے سعادت کی منزلوں کو طے کريں۔‬
‫اس بنياد پر دو عالموں )نام نہاد عالم اور دانشور عالم (کے درميان ايک مناظره ہوا‪:‬‬
‫عالم نما‪ :‬يہ کيا شور شرابہ اور بدعتيں ہيں جو حج ميں داخل کر دی گئی ہيں ‪،‬حج کے دوران کسی بھی طرح کی سياست اور‬
‫جنگ وجدال نہيں ہونا چاہئے اور بالکل چين وسکون کے ساتھ حج کے اعمال انجام دينا چاہئے ‪،‬حج خود سازی اور رو ح‬
‫کی پاکيزگی کے لئے ايک بہترين عبادت ہے ‪،‬اس ميں کسی طرح کے نعرے زنده باد يا مرده باد نہيں ہونا چاہئے ‪،‬حج‬
‫ابراہيمی اور حج بوجہلی ‪،‬واقعا ً ايک نئی چيز ہے اس سے پہلے ہم نے کبھی نہيں سنا!‬
‫عقلمندعالم‪ :‬ہمارے عقيده کے مطابق جس طرح ہم علوی اسالم اور لعنتی معاويہ کا اسالم رکھتے ہيں‪ ،‬اسی طرح حج کی بھی‬
‫دو قسميں ہيں ابراہيمی ومحمدی حج ‪،‬اور بوجہلی ويزيدی حج۔‬
‫عالم نما‪ :‬حج؛ نماز و روزه کسی طرح ايک عبادت ہے ل ٰہذا اس ميں سياست اور غير خدائی کاموں سے پر ہيز کرنا چاہئے۔‬
‫عقلمندعالم‪ :‬سياست صحيح معنی ميں عين دين ہے‪ ،‬يہ دين سے ہرگز جدا نہيں ہے بعض عبادتيں باوجود اس کے کہ عبادت‬
‫ہيں اور گناہوں کے دور ہونے اور صفائے نفس کے لئے پاکيزه ترين اور خالص ترين سبب ہيں۔‬
‫ليکن يہی عبادتيں سياسی مقاصد تک پہنچنے کا سب سے بہترين وسيلہ بھی ہيں کيونکہ روح عبادت خدا کی طرف توجہ دينا‬
‫ہے اور سياست کی روح مخلوق خداپر توجہ کرنے کا نام ہے ‪،‬اور يہ دونوں حج کے مسائل ميں اس طرح ملے ہوئے ہيں کہ‬
‫اگر ان ميں سے کسی ايک کو بھی چھوڑ ديا جائے تو پھر حج‪،‬حج نہيں رہے گا۔‬
‫واضح الفاظ ميں يوں سمجھئے کہ حج کے لئے ايک جھلکا ہے اور ايک مغز ‪،‬جو لوگ صرف حج کے ظاہری عبادتی پہلو‬
‫پر توجہ کرتے ہيں ان کو معلوم ہونا چاہئے کہ انھوں نے حج کو حقيقت سے خالی کر ليا ہے اور مغز کو دور پھينک ديا ہے‬
‫القری“يعنی ديہات اور شہروں کی ماں ہے۔ ]‪[21‬جس‬ ‫ٰ‬ ‫اور صرف ظاہری جھلکے کو لے ليا ہے ‪،‬مکہ معظمہ کا ايک نام ”ام‬
‫طرح ماں اپنے بچوں کو کھانا ديتی ہے ‪،‬اور ان کوپرورش اور تربيت کرتی ہے اسی طرح مکہ معظمہ پر الزم ہے کہ وه‬
‫فکری ‪،‬سياسی اور معنوی لحاظ سے دنيا بھر کے تمام مسلمانوں کو غذا فراہم کرے ‪،‬اور ان کی اسالمی رشد و نموکے لحاظ‬
‫سے تربيت کرے۔‬
‫عالم نما‪ :‬ہم مسلمان ہيں ‪،‬قرآن اور حديث کو مانتے ہيں کيا قرآن کريم کا ارشا د نہيں ہے؟‪:‬‬
‫”وال جدال فی الحج“]‪[22‬‬
‫”حج ميں کوئی جنگ وجدال نہيں ہونا چاہئے “؟‬
‫ل ٰہذا حج کے اعمال ميں ايک حاجی کو جنگ وجدال اور تو توميں ميں نہيں کرنا چاہئے ‪،‬جس حج ميں مظاہره ‪،‬نعره بازی‬
‫اور شور شرابہ ہو تو ايسا حج جدا ل ہے جس سے قرآن نے روکا ہے۔‬
‫عقلمندعالم‪ :‬مذکوره آيت ميں جس جدل سے روکا گيا ہے اس سے مراد مومنين کے درميان تو تو ميں ميں ہے ‪،‬کہ قسم بخدا‬
‫ايسا نہيں ہے يا قسم بخدا ايسا ہے۔‬
‫ائمہ اہل بيت عليہم السالم منقول احاديث سے يہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ”جدال کے معنی جھوٹی قسم کھانا ہے۔يا جو کام گناه‬
‫سے متعلق ہو‪ ،‬حضرت امام جعفر صادق عليہ السال م فرماتے ہيں‪:‬‬
‫”جس مجادلہ ميں قسم کھائی جائے ‪،‬ليکن اس سے مراد کسی مومن کا احترام ہو ‪،‬تو ايسے جد ل سے آيت ميں ممانعت نہيں‬
‫کی گئی ہے‪:‬بلکہ آيت ميں نہی شده جدال سے مراد وه جدال ہے جس ميں گناه کا تصور پاياجائے اور انسان اپنے ايمانی‬
‫برادر پر غلبہ کرنا چاہئے ]‪[23‬ليکن اگر دين کے استحکام اور اس کے دفاع کے لئے ہو تو نہ صرف گناه نہيں ہے بلکہ‬
‫بہترين عبادت اور عظيم اطاعت ہے۔‬
‫)سوره بقره آيت ‪(١٩٧‬کے ذيل ميں تحرير فرماتے ہيں‪” :‬تمام علمائے علم‬ ‫ٔ‬ ‫عالمہ فخرالدين رازی اپنی تفسير ميں مذکوره آيت‬
‫کالم اس بات پر عقيده رکھتے ہيں کہ دينی امور ميں جدال کرنا عظيم اطاعت ہے“۔اس کے بعد اس مطلب کو ثابت کرنے‬
‫سوره نحل کی ‪١٢۵‬ويں آيت جس ميں ارشاد خداوندی ہوتا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫کے لئے قرآن مجيد کی آيات سے استدالل کرتے ہيں‪،‬منجملہ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ک ِب ْال ِح ْک َم ِة َو ْال َموْ ِعظَ ِة ْال َح َسنَ ِة َو َجا ِد ْلہُ ْم ِبالﱠ ِتی ِہ َی أحْ َسنُ “۔‬
‫يل َربﱢ َ‬ ‫ع ِٕالَی َس ِب ِ‬ ‫” اُ ْد ُ‬
‫”آپ اپنے رب کے راستہ کی طرف حکمت اور اچھی نصيحت کے ذريعہ دعوت ديں اور ان سے اس طريقہ سے بحث کريں‬
‫جو بہترين طريقہ ہے“۔‬
‫سوره ہود کی آيت نمبر ‪ ٣٢‬ميں پﮍھتے ہيں جہاں کفار کی باتوں کو بيان کرتے ہوئے خداوند عالم فرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫اسی طرح‬
‫َ‬ ‫ْ‬
‫” يَانُو ُح قَ ْد َجادَلتَنَا فَأ ْکثَرْ تَ ِجدَالَنَا“۔‬
‫”)اور ان لوگوں نے کہا‪ (:‬اے نوح ! آپ نے ہم سے جھگﮍا کيا اور بہت جھگﮍا کيا“۔‬
‫اس آيہ شريفہ سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نوح عليہ السالم اپنی قوم سے جدال کرتے تھے‪ ،‬اور يہ بات واضح ہے کہ‬
‫جناب نوح عليہ السالم کا جدال صرف دعوت ٰالہی ‪،‬يکتا پرستی اور دينی استحکام کے لئے ہوتا تھا۔‬
‫ل ٰہذا جس جدال سے حج ميں نہی کی گئی ہے ‪،‬اس سے باطل اور بے ہوده کاموں ميں جدال ہے‪ ،‬نہ کہ وه جدال جو حق‬
‫وحقيقت کو ثابت کرنے کے لئے ہو۔‬
‫سوره‬
‫ٔ‬ ‫ً‬ ‫عالم نما‪:‬قرآن مجيد کی بہت سی آيات ميں جدال کی مذمت کی گئی ہے اور اس کوغير مومن کا کام قرار ديا گيا ‪،‬مثال‬
‫غافر کی آيت نمبر ‪ ۴‬ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫ت ﷲِ ِٕاالﱠ الﱠ ِذينَ َکفَرُوا“۔‬ ‫” َما يُ َجا ِد ُل فِی آيَا ِ‬
‫”ﷲ کی نشانيوں ميں صرف وه جھگﮍا کرتے ہيں جو کافر ہوگئے ہيں۔۔۔“۔‬
‫سوره حج آيت نمبر ‪ ۶٨‬ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬
‫ک فَقُلْ ﷲُ أَ ْعلَ ُم بِ َما تَ ْع َملُونَ “‬ ‫” َو ِٕا ْن َجا َدلُو َ‬
‫”اور اگر يہ آپ سے جھگﮍا کريں تو آپ ان سے کہہ ديجئے کہ ﷲ تمہارے اعمال سے خوب باخبر ہے“۔‬
‫سوره انعام آيت ‪١٢١‬ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬ ‫ٔ‬ ‫اسی طرح‬
‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫اطينَ لَيُوحُونَ ِٕالَی أوْ لِيَائِ ِہ ْم لِيُ َجا ِدلو ُک ْم َو ِٕا ْن أطَ ْعتُ ُموہُ ْم ِٕانﱠ ُک ْم لَ ُمش ِر ُکونَ “‬ ‫ﱠ‬
‫ق َو ِٕا ﱠن الشيَ ِ‬ ‫” َوالَتَ ْأ ُکلُوا ِم ﱠما لَ ْم يُذکَرْ ا ْس ُم ﷲِ َعلَ ْي ِہ َو ِٕانﱠہُ لَفِ ْس ٌ‬
‫ْ‬
‫”اور ديکھو جس پر نام خدا نہ ليا گيا ہو ا سے نہ کھانا کہ يہ فسق ہے اور بے شک شياطين تو اپنے والوں کی طرف خفيہ‬
‫اشاره کرتے ہی رہتے ہيں تاکہ يہ لوگ تم سے جھگﮍا کريں اور اگر تم لوگوں نے ان کی اطاعت کرلی تو تمہارا شمار بھی‬
‫مشرکين ميں ہوجائے گا“۔‬
‫عقلمندعالم‪ :‬قرآن مجيد ميں لفظ”جدال“کے مختلف استعمال سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ جدال کے وسيع معنی ہيں‪،‬جس‬
‫کی مجموعی طور پر دوقسم ہيں‪:‬‬
‫‪(١‬پسنديده۔‬
‫‪(٢‬نا پسند۔‬
‫جس وقت بحث و گفتگو اور دوسروں کی بات پر اعتراض حق وحقيقت روشن ہونے اور صحيح راستہ کی ہدايت کے لئے ہو‬
‫تو يہ ايک مناسب اور پسنديده عمل ہے اور بہت سے مقامات پر يہ جدال واجب ہے ‪،‬نيز امر بالمعروف اور نہی عن المنکر‬
‫کا ايک حصہ ہے‪ ،‬ليکن اگر باطل کو ثابت کرنے اور ناحق بات کو ثابت کرنے کے لئے ہو تو واقعا ً ايسا جدال مذموم اور‬
‫ناپسند ہے۔‬
‫نتيجہ يہ ہوا کہ حج کے دوران ہر جدال کو ناپسند قرار نہيں ديا جا سکتا۔‬
‫عالم نما‪:‬ميری باتوں کا خالصہ يہ ہے کہ عبادت کو سياست سے نہيں مالنا چاہئے ‪،‬حج جيسی مقدس عبادت اور بلند مقام‬
‫‪،‬سياست ‪،‬نعره بازی اور مظاہره کرنے کے لئے نہيں ہے ‪،‬يہ مقام مخصوص عبادت يعنی حج کے لئے ہے ‪،‬کسی دوسری‬
‫جگہ پر سياست کی باتيں کريں۔‬
‫عقلمندعالم‪ :‬اسالمی عبادت ميں عبادی پہلو کے عالوه ديگر پہلو بھی پائے جاتے ہيں ‪ ،‬چنانچہ حج ميں عبادی پہلو کے ساتھ‬
‫ساتھ اجتماعی‪ ،‬سياسی‪ ،‬اخالقی‪ ،‬اقتصادی اور ثقافتی پہلو بھی پائے جاتے ہيں کامل اور حقيقی حج وہی ہے جس ميں تمام‬
‫پہلووں سے فيض حاصل کياجائے‪،‬اوراگر حج ميں سياسی پہلو کو نظر انداز کر ديا جائے تو ا يسا حج ناقص ہوگا۔‬ ‫ٔ‬
‫ہم يہاں پر اس مطلب کی مزيد وضاحت کے لئے حضرت امام خمينی کے بہترين کالم کو نقل کرتے ہيں‪:‬‬
‫”حج اکبر فلسفوں ميں سے ايک فلسفہ اس کا ايک سياسی پہلو ہے جس کو ختم کرنے کے لئے ہر طرف سے ظالم کوشش‬
‫کر رہے ہيں ‪،‬اور افسوس کی بات يہ ہے کہ اس کے پروپيگنڈه کا اثر مسلمانوں پر بھی ہوتا جا رہا ہے جس کی وجہ سے‬
‫بہت سے مسلمانوں کا سفر حج صرف خشک عبادت بنتا جا رہا ہے جس ميں مسلمانوں کی مصلحتوں کو نظر انداز کيا جا‬
‫رہا ہے ‪،‬جس وقت سے فريضہ حج قرار ديا گيا ہے اسی وقت سے اس کا سياسی پہلو عبادی پہلو سے کم نہيں رہا ہے‬
‫‪،‬سياسی پہلو اپنی سياست کے عالوه خود بھی عبادت ہے“۔]‪[24‬‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫موصوف ايک دوسری جگہ فرماتے ہيں‪” :‬لبيک لبيک “کے ذريعہ تمام بتوں کی نفی کريں اور ”ال“کے نعروں کے ذريعہ‬
‫تمام سرکش و طاغوت نمالوگوں کے خالف آواز بلند کريں‪،‬خانہ کعبہ کے طواف ميں)کہ جو عشق ٰالہی کی نشانی ہے(دل کو‬
‫دوسروں سے خالی کريں‪،‬اور دل مينغير حق کے خوف کو نکال پھينکيناور خدا کے عشق کے برابر چھوٹے بﮍے بتوں اور‬
‫سرکشوں نيز طاغوت سے وابستہ لوگوں سے برائت کريں‪،‬کيونکہ خداوند عالم اور اوليائے ٰالہی ان سے بيزار ہيں“۔]‪[25‬‬
‫ل ٰہذا حج‪،‬عبادت اور سياست دونوں کامجموعہ ہے ‪،‬اور چونکہ اسالمی سياست بھی عين عبادت ہے ‪،‬ل ٰہذا ہم اسالمی سياست‬
‫کو حج سے کيسے دور کرسکتے ہيں‪،‬مثال کے طور پر اگر کسی سيب سے ا س کے پانی کو نکاليں تو کيا باقی بچے گا ؟‬
‫کيا کوڑے کو سيب کہا جا سکتا ہے؟‬
‫عالم نما‪ :‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ معصومين عليہم السالم نيز ان کے ممتاز شاگرد ہمارے لئے نمونہ‬
‫عمل اور حجت ہيں‪،‬يہ حضرات حج کے دوران صرف اعمال حج انجام ديتے تھے‪،‬ان کو سياست سے کوئی مطلب نہ تھا۔‬
‫عقلمندعالم‪ :‬يہ بات بغير دليل کے ہے ‪،‬اتفاقا ً پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ان کے شاگرد مناسب موقع پر خانہ‬
‫پہلووں پر اہميت ديتے تھے ‪،‬ہم يہاں پر‬
‫ٔ‬ ‫کعبہ کے نزديک سياسی ‪،‬اجتماعی اور ثقافتی مسائل بيان کر تے تھے اور ان مختلف‬
‫نمونہ کے طور پر چند چيزوں کی طرف اشاره کرتے ہيں‪:‬‬

‫‪١‬۔پيغمبر اکرم اور آپ کے ساتھيوں کا طواف کرتے وقت تو حيدی مظاہره‬


‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم ہجرت کے ساتويں سال )يعنی فتح مکہ سے ايک سال قبل(”صلح حديبيہ “ کے تحت‬
‫اس بات کا حق رکھتے تھے کہ عمره کرنے کے لئے مکہ معظمہ جائيں اور تين دن مکہ ميں ہيں‪،‬چنانچہ پيغمبر اکرم صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم دو ہزار مسلمانوں کے ساتھ مکہ معظمہ کی طرف روانہ ہوئے ‪،‬احرام باندھ کر بہت ہی شان و شوکت‬
‫کے ساتھ مينمکہ داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کا طواف کرنے لگے ‪،‬پيغمبر اکرم اور آپ کے ساتھيوں کو ديکھنے کئے لئے‬
‫کفار قريش کے مرد وعورت چھوٹے بﮍے سبھی آئے تھے‪ ،‬آنحضرت اور آپ کے اصحاب کی ہيبت ان کی آنکھوں کو خيره‬
‫کئے ہوئے تھی ‪،‬اس سياسی اہم اور حساس موقع پر آنحضرت نے اپنے ساتھيوں سے فرمايا‪:‬‬
‫بازوں کو ديکھ‬
‫ٔ‬ ‫طاقتور‬ ‫اور‬ ‫کھال‬ ‫”اپنے شانوں کو کھول دو اور شکوه مند طور پر طواف کرو‪،‬تاکہ مشرکين تمہاری ضخيم‬
‫ليں“‬
‫آپ کے اصحاب نے آپ کے فرمان کی پيروی کی اور مشرکين خانہ کعبہ کے چاروں طرف صف لگائے پيغمبر اکرم صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور آپ کے اصحاب کے عظم الشان طواف کو ديکھ رہے تھے۔‬
‫قابل توجہ بات يہ ہے کہ جس وقت ”لبيک اللھم لبيک“کے نعروں کی آواز بلند ہوتی تھی ”عبد ﷲ بن رواحہ“)اسالمی لشکر‬
‫کے سرداروں ميں سے ايک شخص(جنھوں نے اپنی تلوار کو حمائل کيا ہوا تھا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی‬
‫طرف اشاره کرتے ہوئے بلند آوازميں بجلی کی کﮍک کی طرح اس طرح ”رجز“پﮍھتے تھے اور يہ نعره لگاتے تھے‪:‬‬

‫خلو بنی الکفار عن سبيلہ‬


‫خلو فکل الخير فی قبولہ‬

‫مومن لقيلہ‬
‫يا رب انی ٔ‬
‫انی رايت الحق فی قبولہ‬

‫”اے کافر زادو!پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے راستہ سے ہٹ ٔ‬


‫جاو‪،‬راستہ چھوڑ دو اور جان لو کہ تمام خيرو‬
‫سعادت رسول ﷲ کی رسالت کو قبول کرنے ميں ہيں“۔‬
‫پالنے والے! ميں آنحضرت کے قول پر ايمان رکھتا ہوں ‪،‬اور حق کو آپ کے فرمان کو قبول کرنے پاتا ہوں“۔]‪[26‬‬
‫اس لحاظ سے ہم ديکھتے ہيں‪:‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور آپ کے ساتھيوں کے لئے طواف کعبہ‪ ،‬شان وشوکت‬
‫اوراظہار قدرت کا مظہر بن گيا جس کا تماشہ مشرکين کر رہے تھے ‪،‬حاالنکہ عبادت تھی ليکن مشرکين کو مغلوب کرنے‬
‫کے لئے سياست اور اسالمی شان وشوکت کا ايک نمونہ تھا۔‬

‫‪٢‬۔امام حسين عليہ السالم کا حج کے زمانہ ميں معاويہ پر شديد اعتراض‬


‫‪ ۵٨‬ہجری )يعنی مرگ معاويہ سے دو سال پہلے (کا زمانہ تھا معاويہ طغيانی اور سرکشی پر کمر باندھے علويوں اور اما م‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫علی عليہ السالم کی شيعوں کے قتل کا در پہ تھا اور ان کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کرتا تھا۔‬
‫منی ميں بنی‬
‫حضرت امام حسين عليہ السالم بھی اس سال حج کے لئے تشريف لے گئے‪ ،‬مناسک حج کے دوران سر زمين ٰ‬
‫ہاشم ‪،‬شيعوں اور انصار کے ممتاز افراد کو ايک اجتماع کی دعوت دی‪ ،‬جس ميں ايک ہزار سے زياده افراد جمع ہوئے جن‬
‫ميں کچھ تابعين اور اصحاب رسول کے فرزند ان بھی تھے‪ ،‬حضرت امام حسين عليہ السالم اس اجتماع ميں کھﮍے ہوئے‬
‫اور ايک پر جوش تقرير کی ‪،‬چنانچہ حمد وثناء ٰالہی کے بعد فرمايا‪:‬‬
‫اما بعد !بے شک پس طاغوت )معاويہ( نے ہمارے اور ہمارے شيعوں کے ساتھ جو سلوک کيا ہے اس کو آپ تمام حضرات‬
‫اسے جانتے ہيں‪ ،‬آپ لوگوں نے ديکھا ہے اور اس کے گواه ہيں‪ ،‬اس کی خبريں تم تک پہنچی ہيں ميں تم سے کچھ چيز وں‬
‫کے بارے ميں پوچھنا چاہتا ہوں اگر صحيح ہوں تو ميری تصديق کرنا اور اگر جھوٹ بولوں تو مجھے جھٹالدينا‪ ،‬ميری‬
‫باتوں کو سنو اور ذہن نشين کرلو اور اعمال حج کےبعد جب اپنے وطن جاؤ تو اپنے قابل اطمينان لوگوں تک يہ ميرا پيغام‬
‫پہنچا دينا‪ ،‬اور ان کو معاويہ کے ظلم و ستم کے مقابلہ کی دعوت دينا‪ ،‬مجھے اس بات کا خوف ہے کہ اگر يہی حاالت رہے‬
‫تو ”حق“ نيست و نابود ہوجائے گا‪ ،‬ليکن خداوندعالم اپنے نور کو کامل کرے گا اگرچہ کفار کو ناگوار ہی کيوں نہ لگے“۔‬
‫اس موقع پر امام حسين عليہ السالم نے حضرت علی عليہ السالم کی افضليت اور ان کے فرزندوں کی امامت پر قرآن مجيد‬
‫کی آيات اور احاديث رسول بيان کی‪ ،‬جب آپ کی گفتگو کا ايک حصہ ختم ہو جاتا تھا تو حاضرين يہ کہتے ہوئے امام حسين‬
‫عليہ السالم کے کالم کی تصديق کرتے تھے‪:‬‬
‫”اللہم نعم‪ ،‬قد سمعناه و شہدناه“ ۔‬
‫”ہم خداکو گواه قرار ديتے ہيں کہ اس کالم کو رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمسے سنااور ہم اس کی تصديق کرتے‬
‫ہيں“۔‬
‫آخر کالم ميں حضرت امام حسين عليہ السالم نے ان سے فرمايا‪:‬‬
‫” تمہيں خدا کی قسم! جس وقت اپنے وطن پہنچو تو اپنے قابل اطمينان افراد تک ميرا يہ پيغام پہنچادينا اور ان کو ميرے پيغام‬
‫سے آگاه کردينا“۔]‪[27‬‬
‫يہ واقعہ بھی حج کے درميان سياسی فائده کا ايک نمونہ ہے‪ ،‬جس ميں امام عليہ السالم نے حج کے دوران مسلمانوں کے‬
‫اجتماع سے ظالم و طاغوت معاويہ کے خالف اقدام فرمايا۔‬
‫اس لحاظ سے اس واقعہ ميں ہم ابراہيمی حج کو ديکھتے ہيں جو صرف خشک عبادت ہی نہيں ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ اہم‬
‫سياسی مسائل بھی بيان ہوئے ہيں‪ ،‬سخت حاالت ميں حق کی رہبری کا مسئلہ ظالم اور طاغوت کی رہبری سے نفرت جيسے‬
‫مسائل پر گفتگو ہوئی ہے جو مکمل طور پر سياسی مسائل ہيں۔‬

‫‪٣‬۔ حضرت امام سجاد عليہ السالم کا اپنے ہم عصر طاغوت سے خانہ کعبہ ميں مقابلہ‬
‫ايک مشہور و معروف تاريخی واقعہ جس ميں حج کے مراسم کے ساتھ سياسی مسائل بھی پائے جاتے ہيں‪ ،‬امام سجاد عليہ‬
‫السالم کا خانہ کعبہ ميں مراسم حج کے دوران اموی طاغوت ہشام بن عبد الملک کے ساتھ مقابلہ ہے جس کا خالصہ ہم يہاں‬
‫پيش کرتے ہيں‪:‬‬
‫سلسلہ خالفت کا پانچواں خليفہ( تھا اس کا فرزند ہشام حج کے لئے شہر مکہ ميں داخل‬
‫ٔ‬ ‫عبد الملک کی خالفت کا زمانہ )اموی‬
‫ہوا‪ ،‬وه طواف کے وقت حجر اسود کو چومنا چاہتا تھا ليکن کثير ازدحام کی وجہ سے قريب نہ جاسکتا‪ ،‬چنانچہ حجر اسود‬
‫کے قريب ہشام کے لئے ايک منبر رکھا گيا‪ ،‬وه منبر پر گيا‪ ،‬ہشام کے پاس کچھ لوگ جمع ہوگئے اور وه طواف کرنے والوں‬
‫کو ديکھنے لگا‪ ،‬اچانک ديکھا کہ امام سجاد عليہ السالم بھی طواف ميں مشغول ہيں‪ ،‬امام عليہ السالم جب حجر اسود کو‬
‫چومنا چاہتے تھے تو لوگوں نے راستہ ديا اور آپ نے بہت ہی آرام سے نزديک جاکر حجر اسود کو بوسہ ليا۔‬
‫اس موقع پر ايک شامی مرد نے ہشام سے کہا‪:‬‬
‫”يہ شخص کون ہے جس کا اتنا احترام ہورہا ہے؟“‬
‫ہشام نے العلمی کا اظہار کيا اور کہا‪ ” :‬ميں نہيں جانتا“۔‬
‫اس حساس موقع پر خاندان رسالت کا انقالبی شاعر فرزدق جو ائمہ عليہم السالم کے شاگردوں ميں تھا اس نے اس شامی مرد‬
‫سے کہا‪:‬‬
‫”ولکنی اعرفہ“)ليکن ميں ان کو پيچانتا ہوں“۔(‬
‫بتاو کہ يہ شخص کون ہے؟‬ ‫شامی نے کہا‪:‬تو پھر ٔ‬
‫فرزدق نے اما م سجاد عليہ السالم کی شان ميں وه مشہور ومعروف اور عظيم الشان قصيده پﮍھا‪ ،‬جس کہ ‪ ۴١‬شعر ہيں اور‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫جس کا مطلع يوں آغاز ہوتا ہے‪:‬‬

‫ھذاالذی تعرف البطحاء و طأتہ‬


‫والبيت يعرفہ والحل و الحرم‬

‫”يہ وه شخص ہے کہ مکہ معظمہ کے سنگريز ه اس کے پيروں کے نشانوں کو پہنچانتے ہيں‪ ،‬خانہ کعبہ اور حجاز کے‬
‫بيابان‪ ،‬داخل حرم اور بيرون حرم اس کو پہچانتے ہيں“۔‬
‫يہ سنتے ہی ہشام کو غصہ ہو آگيا اور فرزدق کو قيدکرنے کا حکم ديديا ‪،‬جس وقت امام سجاد عليہ السالم کو فرزدق کے‬
‫قيدی بنائے جانے کی خبر ملی تو ان کے لئے دعا کی اور ان کی دلجوئی کی ‪،‬ان کے لئے باره ہزار درہم بھيجے‪،‬ليکن‬
‫فرزدق نے ان درہموں کو قبول نہ کيا جس کے بعد امام عليہ السالم نے ان کو پيغام بھجوايا‪:‬‬
‫”تمہيں اس حق کی قسم جو ہم تم پر رکھتے ہيں ‪،‬اس مبلغ )ہديہ(کو ہماری طرف سے قبول کر لو ‪،‬خدا وند عالم تمہاری کی‬
‫پاک نيت اور تمہارے مقام سے واقف ہے “اس موقع پر فرزدق نے اس مبلغ کو قبول کر ليا‪،‬اور قيد ميں ہشام کی مذمت ميں‬
‫اشعار کہے۔]‪[28‬‬
‫اس واقعہ ميں ہم ديکھتے ہيں کہ امام سجاد عليہ السالم خانہ کعبہ کے طواف کے وقت ہشام کی شان و شوکت پر کوئی توجہ‬
‫نہيں کرتے اور فرزدق کے کالم کی تائيد کرتی ہيں جو مکمل طور پر سياسی پہلو رکھتی تھی اور ان کی احوال پرسی کی‪،‬ا‬
‫ن کے لئے دعاکی اور ‪ /١٢٠٠٠‬درہم ان کے لئے بھيجے ‪ ،‬نيز ان کی پاک وپاکيزه نيت کی قدر دانی کی‪،‬اور بھر پور طريقہ‬
‫سے ان کی تائيد کی۔‬
‫کيا يہ واقعہ اور امام عليہ السالم کی تائيد اس چيز کی عکاسی نہيں کرتی کہ حج کے عظيم الشان موقع پر سياسی مسائل کا‬
‫بيان کرنا ائمہ معصومين عليہم السالم کے نزديک مقبول اور محبوب کام تھا؟!‬

‫‪۴‬۔ حضرت امام محمد باقر عليہ السالم کی سياسی وصيت‬


‫جليل القدر محدث ثقة االسالم شيخ کلينی عليہ الرحمة موثق سند کے ساتھ نقل کرتے ہيں کہ حضرت امام جعفر صادق عليہ‬
‫السالم نے فرمايا‪:‬ہمارے پدر بزرگوار)امام محمد باقر عليہ السال م(نے وصيت فرمائی کہ ميرے مال کا ايک حصہ وقف کرنا‬
‫منی ميں د س سال تک مجھ پر گريہ کيا جائے اور ميرے مظلوميت پر آنسو ں بہائے جائيں“۔]‪[29‬‬ ‫تاکہ سر زمين ٰ‬
‫يہاں پر يہ سوال اٹھتا ہے کہ امام محمد باقر عليہ السالم نے يہ وصيت کيوں نہ فرمائی کہ مدينہ ميں ان کی قبر پر عزاداری‬
‫منی ميں ان پر عزاداری کريں؟‬
‫کی جائے! اور يہ کيوں نہ وصيت فرمائی کہ حج کے موسم کے عالوه مکہ يا ٰ‬
‫منی ميں جمع ہو جائيں اس‬‫اس سوال کا جواب يہ ہے کہ امام عليہ السالم چاہتے تھے کہ جب حج کے موسم کے دوران لوگ ٰ‬
‫وقت ان کے لئے عزاداری ہو ‪،‬مجلس برپا ہوتا کہ ظالموں کا پتہ چل جائے اور لوگوں پر بنی اميہ کا ظالمانہ کردار مسلمانوں‬
‫کے بارے ميں ان کی حق تلفی اور ظلم وستم واضح ہو جائے ‪،‬نيز اس طرح کے دوسرے مسائل بيان کئے جائيں‪،‬پس معلوم‬
‫يہ ہوا کہ موسم حج ميں ضروری سياسی مسائل کا بيان کرنااس قدر اہميت رکھتا ہے کہ جس کے بارے ميں امام محمد باقر‬
‫عليہ السالم وصيت فرماتے ہيں‪ ،‬اور اپنے مال کا ايک حصہ وقف کرتے ہيں۔‬
‫احکام حج عبادت وسياست دونوں کا مجموعہ ہے‬
‫جب ہم حج کے احکام کو ديکھتے ہيں تو معلوم ہوتا ہے کہ عبادت کے عالوه عين سياست ہيں‪ ،‬مثال کے طور پر درج ذيل‬
‫چند نمونے‪:‬‬
‫جب انسان‪ ،‬حج کے لئے احرام پہنتا ہے تو لباس کے دو حصوں سے اپنے بدن کو چھپاتا ہے‪ ،‬تمام لوگ چاہے غريب ہو يا‬
‫امير ‪،‬حاکم ہو يا رياعا‪ ،‬سب ايک طرح کے بن جاتے ہيں ‪،‬ل ٰہذايہ بھی ذات پات اور طبقہ بندی کا مقابلہ ہے جو کہ سياسی‬
‫لحاظ سے ايک اہم مسئلہ ہے۔‬
‫‪٢‬۔احرام کے احکام ميں سے ايک حکم يہ ہے کہ انسان کسی کو يہاں تک جانوروں اورگھاس کو بھی نقصان نہ‬
‫پہنچائے‪،‬حشرات کو مارنا بھی حرام ہے ‪،‬حرم ميں درخت اور گھاس کا اکھاڑنا بھی حرام ہے ‪،‬بدن سے بال اکھاڑنابھی حرام‬
‫ہے ‪،‬اسلحہ ساتھ لينا بھی حرام ہے ‪،‬۔۔۔يہ تمام احکام ہميں امنيت اور امن وامان کا درس ديتے ہيں جو حکومت کے سياسی‬
‫پہلو ٔونميں ايک اہم مسئلہ ہے۔‬
‫‪٣‬۔طواف کعبہ کے وقت جب سات چکر پورے ہو جائيں تو مستحب ہے کہ حجر اسودپر ہاتھ پھيريں ‪،‬امام جعفر صادق عليہ‬
‫السالم ايک حديث کے ضمن ميں فرماتے ہيں‪:‬‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”وھو يمين ﷲ فی ارضہ يبايع بھا خلقہ“]‪[30‬‬
‫”حجر اسود زمين پر دست خدا ہے خداوند عالم اس کے ذريعہ اپنی مخلوق سے بيعت کرتا ہے“۔‬
‫يعنی مسلمان اس پر اپنا ہاتھ رکھ کرخدا سے بيعت کرتے ہيں۔‬
‫اصولی طورپر ”بيعت “مکمل طور پر ايک سياسی مسئلہ ہے ‪،‬خدا سے بيعت کرنے کا مطلب يہ ہے کہ ہم تيری راه ميں قدم‬
‫بﮍھاتے ہيں اور تيرے دشمنوں جيسے امريکہ اور اسرائيل نيز ديگر تمام مشرکين وکفار سے دشمنی کرتے ہيں۔‬
‫۔منی کے ميدان ميں ”رمی جمرات“کرتے ہيں اور ان کی طرف جو شيطان کا محاذ ہے پتھر مارتے ہيں اس عمل کا سياسی‬ ‫‪ٰ ۴‬‬
‫پہلو يہ ہے کہ امريکہ ‪،‬اسرائيل اور ديگر شيطانی طاقتوں کے مظہر کی طرف پتھر پھينکنا چاہئے ہميں دشمن کی پہچان اس‬
‫طرح ہو کہ پتھر اس نشانہ پر ماريں جو ”جمره“پر جا کر لگے ‪،‬اگر تھوڑا بھی ادھر ادھر لگے تو وه صحيح نہيں ہے۔‬
‫۔منی کی قربان گاه ميں‪،‬اونٹ ‪،‬گائے يا بکرا قربانی کريں جو ايثار اور فدا کاری کا درس اور شيطانيت کے مظہر سے‬ ‫‪ٰ ۵‬‬
‫مقابلہ کے لئے سياست کا اہم رکن ہے۔‬
‫يہاں پريہ چيز ذکر کردينا ضروری ہے کہ جس وقت امام مہدی )عج(ظہور فرمائيں گے ‪،‬تو خانہ کعبہ کے پاس ظہور ہوگا‬
‫‪،‬وہيں پر آپ کے ‪/٣١٣‬انصار آپ کی بيعت کريں گے۔]‪[31‬‬
‫اس بنا پر ہے کہ حضرت فا طمہ زہرا سالم ﷲ عليہا نے فرمايا‪:‬‬
‫”جعل ﷲ الحج تشييداً للدين“۔]‪[32‬‬
‫”خدا وند عالم نے حج کو دينی بنياد کے استحکام کے لئے واجب قرار ديا ہے“۔‬
‫حضرت امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا‪:‬‬
‫”ال يزال الدين قائما ما قامت الکعبة “]‪[33‬‬
‫”جب تک خانہ کعبہ پا بر جا ہے اسالم بھی پا برجا ہے“۔‬
‫واقعا ً يہ حقيقت ہے کہ جب حج ميں صرف اس کے عبادی پہلو پر اکتفاء کی جائے اور حج کے اہم ترين پہلو يعنی سياسی‬
‫پہلو کو نظرانداز کر ديا جائے تو کيا پھر کيا دينی بنياديں مستحکم اور مضبوط ہو سکتی ہيں؟!‬

‫‪٨٢‬۔ عبد المطلب اور ابو طالب کی قبروں کی زيارت اور ان کے ايمان کے بارے ميں ايک مناظره اشاره‪:‬‬
‫جيسا کہ ہم جانتے ہيں کہ جناب ”عبد المطلب“ پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے دادا کی قبر اور ”ابو‬
‫طالب“حضرت علی عليہ السالم کے پدر بزرگوار کی قبر ”قبرستان حجون“ميں ايک جگہ ہيں‪،‬اورجب شيعہ حضرات مکہ‬
‫معظمہ مشرف ہوتے ہيں تو حتی االمکان ان دونوں بزرگو کی قبور کی زيارت کے لئے جاتے ہيں‪ ،‬ليکن اہل سنت اس سلسلہ‬
‫ميں کوئی اہميت نہيں ديتے ‪،‬بلکہ اس کو جائز نہيں مانتے۔‬
‫اس چيز کے پيش نظر درج ذيل مناظره پر توجہ فرمائيں‪:‬‬
‫ايک شيعہ عالم نقل کرتے ہيں‪ :‬ميرے اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کميٹی کے سرپرست کے درميان حضرت عبد‬
‫المطلب اور جناب ابوطالب کی قبروں کی زيارت کے حوالہ سے گفتگو ہوئی۔‬
‫اس نے کہا‪ :‬آپ شيعہ لوگ عبد المطلب اور ابوطالب کی قبروں کی زيارت کے لئے کيوں جاتے ہيں؟‬
‫ميں نے کہا‪:‬کياکوئی مشکل ہے؟‬
‫سر پرست‪ :‬عبد المطلب ”فَ ْترت“)خدا کی طرف سے پيغمبر نہ ہونے کا زمانہ(ميں زندگی کرتے تھے ‪،‬کيونکہ جس وقت‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم آٹھ سال کے تھے اور مبعوث بر سالت نہيں ہوئے تھے اس وقت عبد المطلب کا انتقال‬
‫ہوا‪،‬ل ٰہذا دين توحيدی اس زمانہ ميں نہيں تھا ‪،‬اس بنا پر آپ حضرات کسی بنياد پر ان کی زيارت کے لئے جاتے ہيں؟!‬
‫اور ابو طالب )نعوذ با (مشرک دنيا سے گئے ہيں‪،‬ل ٰہذا مشرک کی زيارت کے لئے جانا جائز نہيں ہے؟!‬
‫ميں نے کہا‪:‬کوئی بھی مسلمان جناب عبد المطلب کو مشرک کہنے کے لئے تيار نہيں ہے‪،‬وه اسی زمانہ ميں خدا پرست اور‬
‫عيسی عليہ السالم کے اوصياء ميں سے تھے‬ ‫ٰ‬ ‫يکتا پرست تھے‪،‬وه دين ابراہيم عليہ السالم کی پيروی کرتے تھے ‪،‬يا حضرت‬
‫وه اہل سنت کی کتابوں ميں وارد ہونے والی روايات کے مطابق ابرہہ کے حملہ کے وقت جو خانہ کعبہ کو ويران کرنے آيا‬
‫سوره فيل کے مطابق وه خود ہالک ہو گيا ‪،‬جس وقت عبد المطلب اپنے اونٹ کے لئے ابرہہ کے پاس گئے تو ابرہہ‬ ‫ٔ‬ ‫تھا ‪،‬اور‬
‫نے کہا‪:‬ميرے لحاظ سے آپ بہت پست آدمی ہيں اپنے اونٹ لينے کے لئے توآگئے ليکن اپنے دين اور دينی عبادتگاه ”کعبہ“‬
‫کے بارے ميں کچھ نہيں کہتے “!‬
‫جناب عبد المطلب نے جواب ديا‪:‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”انا رب االبل ‪،‬وان للبيت ربا سيمنعہ“۔‬
‫”ميں اونٹوں کا مالک ہو‪،‬اور اس گھر کا بھی ايک مالک )خدا(ہے جو عنقريب خود اس کا دفاع کرے گا“۔‬
‫اس کے بعد جناب عبد المطلب خانہ کعبہ کے پاس آئے اور خانہ کعبہ کے دروازه کا حلقہ پکﮍ کر دعا کی ‪،‬نيز چند اشعار‬
‫پﮍھے۔جن ميں سے ايک شعر کا مضمون يہ ہے‪:‬‬
‫”پالنے والے !ہر شخص اپنے اہل خانہ کا دفاع کرتا ہے ‪،‬توبھی اپنے حرم امن ميں رہنے والوں کا دفاع فرما“]‪[34‬‬
‫يہی موقع وه تھا کہ عبد المطلب کی دعا قبول ہوئی ‪،‬خداوند عالم نے ابابيلوں کے گروه کو بھيجاجنھوں نے ابرہہ کے لشکر‬
‫‪،‬سوره فيل اس سلسلہ ميں نازل ہوا۔‬
‫ٔ‬ ‫کو نابود کرديا‬
‫اور شيعہ روايات مينبيان ہوا ہے کہ حضرت امام علی عليہ السالم نے فرمايا‪:‬خدا کی قسم‪،‬ميرے پدر گزرگوار ابو طالب ‪،‬دادا‬
‫عبد المطلب اور ہاشم بن عبد مناف نے ہر گز بتونکی پرستش نہيں کی۔‬
‫يہ حضرات کعبہ کی طرف نماز پﮍھتے تھے ‪،‬اور جناب ابراہيم عليہ السالم کے دين کے مطابق عمل کرتے تھے“۔]‪[35‬‬
‫اب رہی بات ايمان ابو طالب کی بات تو‪:‬‬
‫اوالً‪ :‬ائمہ اہل بيت عليہم السالم اور شيعہ علماء کے اجماع کی بناپر وه مسلمان اور مومن اس دنيا سے گئے ہيں۔‬
‫ابن ابی الحديد )جو اہل سنت کے مشہور ومعروف عالم دين ہيں(نقل کرتے ہيں ايک شخص نے حضرت امام سجاد عليہ‬
‫السالم سے سوال کی‪” :‬کيا جناب ابو طالب مومن تھے؟“امام عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬جی ہاں“‬
‫ايک دوسرے شخص نے امام سجاد عليہ السالم سے سوال کيا‪” :‬يہاں کے کچھ لوگ جناب ابوطالب کو کافر کہتے ہيں“۔‬
‫امام عليہ السالم نے فرمايا‪ :‬واقعا ً تعجب ہے اس بات پر کہ يہ لوگ رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم اور جناب ابو طالب‬
‫کو ناجائز نسبت ديتے ہيں ‪،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے مومن عورت کا کافر مرد سے نکاح کو ممنوع قرار ديا‬
‫ہے ‪،‬جب کہ اس بات ميں کوئی شک نہيں ہے کہ فاطمہ بنت اسد اسالم ميں سبقت کرنے والوں ميں تھيں‪،‬اور جناب ابو طالب‬
‫کی آخری عمر تک فاطمہ بنت اسد ان کی زوجيت پر باقی رہيں“]‪[36‬‬
‫ثانيا ً‪ :‬اہل سنت کے علماء اور بہت سے راويوننے نقل کيا ہے‪:‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے عقيل بن ابو طالب‬
‫سے فرمايا‪:‬‬
‫”انی احبک حبين ‪،‬حبا لقرابتک منی وحبا لما کنت اعلم من حب عمی ابی طالب اياک“۔]‪[37‬‬
‫”ميں تم سے دہری محبت کرتا ہوں ايک رشتہ داری کی بنا پر دوسرے اس وجہ سے کہ ميرے چچا ابو طالب تمہيں دوست‬
‫رکھتے تھے “۔‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی يہ گفتگو بہترين گواه ہے کہ آنحضرت ايمان ابو طالب پر عقيده رکھتے تھے‪ ،‬ورنہ‬
‫تو کافر کی دوستی کوئی اہميت نہيں رکھتی جس کی وجہ سے پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم عقيل سے محبت‬
‫کريں۔]‪[38‬‬

‫مزيد وضاحت‪:‬‬
‫افسوس کے ساتھ کہنا پﮍتا ہے کہ برادران اہل سنت اپنے آباء واجداد کی اندھی تقليد کرتے ہوئے ابو طالب کے ايمان نہ النے‬
‫کو نسل بہ نسل نقل کرتے چلے آئے ہيں‪،‬ليکن اس چيز سے غافل ہيں کہ ان کی معتبر اور مستند کتابوں ميں دسيوں بلکہ‬
‫سيکﮍوں روايت موجود ہيں جو ايمان ابوطالب پر بہترين دليل اور گواه ہيں ‪،‬ليکن حقيقت ميں حضرت ابو طالب کو مشرک‬
‫کہنے کا راز متعصب اور ہٹ دھرم لوگونکی ان کے فرزند امام علی عليہ السالم سے عداوت اور دشمنی ہے اور يہ تعصب‬
‫بنی اميہ کے زمانہ سے آج تک جاری ہے خود حضرت علی عليہ السالم کی قسم کہ اگر ابو طالب آپ کے باپ نہ ہوتے تو‬
‫حضرت ابو طالب کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا مخلص مومن اور پاکيزه ترين چچا اور قريش کی سب سے‬
‫زياده مومن شخصيت کے عنوان سے پہچنواتے۔‬
‫حقير کی مالقات عالمہ امينی مرحوم صاحب کتاب ”الغدير “کے فرزند ارجمند سے ہوئی ‪،‬جناب ابو طالب کے بارے ميں‬
‫گفتگو ہونے لگی تو موصوف نے فرمايا‪:‬جس وقت ہم نجف اشرف ميں تھے ‪،‬تو ہم نے سنا کہ ”احمد خيری“مصری دانشور‬
‫حضرت ابو طالب کے بارے ميں کوئی کتاب لکھ رہے ہيں ‪،‬ہم نے ان کو ايک خط لکھا کہ آپ اس کتاب کو اس وقت تک نہ‬
‫چھپوائيں کہ جب تک الغدير کی ساتويں جلد )جو ابھی تک نہيں چھپی اور چھاپ خانہ ميں ہے(آپ تک نہ پہنچچائے جس‬
‫وقت الغدير کی ساتويں جلد چھپ گئی )جس کا آخری حصہ حضرت ابو طالب کے بارے ميں ہے(فوراً ہی ان کے لئے کتاب‬
‫بھيجی کچھ مدت کے بعد جناب ”احمدخيری“کا خط آيا جس ميں شکريہ کے بعد تحرير تھا کہ الغدير کی ساتويں جلد مجھے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ملی‪،‬ميں نے اس کتاب کو بغور مطالعہ کيا‪،‬اس کتاب نے ابو طالب کے بارے ميں ميرا عقيده بالکل بدل ديا ‪،‬اور ميں نے‬
‫ابوطالب کے بارے ميں جو کچھ لکھا تھا بالکل بر عکس ہو گيا اور ميرا نظريہ بالکل بد ل گيا ہے اور مجھے ايک نئی فکر‬
‫مل گئی ہے۔‬
‫آخر ميں موصوف نے لکھا تھا‪:‬حضرت ابو طالب کا دفاع اور ان کا جہاد و کوشش )اسالم کے ثبات اور اسالم کی نشر‬
‫واشاعت ميں(اس قدر زياده ہيں کہ تمام مسلمانوں کے ايمان ميں ان کا حصہ ہے اور تمام مسلمان ان کے مقروض ہيں“‬
‫سر پرست‪ :‬اگرا يمان ابو طالب اتنا واضح و روشن ہے تو پھرہمارے علماء ابو طالب کے بارے ميں کيونمختلف باتيں کہتے‬
‫ہيں اور بعض نے تو ان کے کفر کی وضاحت کی ہے ‪،‬اس مشکل کا راز کيا ہے؟!‬
‫ميں نے کہا‪ :‬جيسا کہ اشاره ہو چکا ہے ‪،‬حقيقت يہ ہے کہ معاويہ کی حکومت کے زمانہ ميں حضرت علی عليہ السالم کے‬
‫لئے نامناسب الفاظ يہاں تک کہ نماز کی قنوت ميں بھی لعنت کی جاتی تھی‪ ،‬اور تقريبا ً‪ ٨٠‬سال منبر کے اوپر سے )نعوذ‬
‫با ( آپ پر لعنت کی جاتی تھی ‪،‬زر خريد قلموں نے جھوٹی اور بے بنياد روايات گﮍھ کر جناب ابوطالب کو کافر بتاديا‪ ،‬تاکہ‬
‫حضرت علی عليہ السالم کو کافر زاده کے عنوان سے لوگوں ميں مشہور کيا جائے‪،‬اور قطعی طور پر آپ کو يہ معلوم ہونا‬
‫چاہئے کہ يہی جعلی روايات آپ لوگوں کی کتابوں ميں داخل ہوگئيں جس نے ذہنوں ميں يہ چيز ڈال دی ہے ‪،‬ورنہ ايمان ابو‬
‫طالب مکمل طور پر واضح ہے۔‬
‫ايک دوسرا راز يہ ہے کہ جناب ابو طالب راه اسالم اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے دفاع ميں خاص طريقہ‬
‫سے تقيہ کے عالم ميں رفتار کرتے تھے‪ ،‬تاکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی بہتر طور پر حمايت کر سکيں‪،‬اور‬
‫اگر وه علنی طور پر ايمان کااظہار فرماتے تو آغاز بعثت ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی حمايت بہتر اور‬
‫شائستہ طور پر نہيں کر سکتے تھے۔‬
‫اس لحاظ سے بہت سی روايات کے مطابق حضرت ابو طالب کی مثال ”مومن آل فرعون“اور ”اصحاب کہف“کی طرح ہے‬
‫جو دين کی ترقی و سر فرازی کے لئے اپنے ايمان کو مخفی رکھتے تھے ‪،‬تفسير امام حسن عسکری عليہ السالم ميں ايک‬
‫طوالنی روايت کی ضمن ميں بيان ہوا ہے کہ امام حسن عسکری عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬خداوندعالم نے پيغمبر اکرم صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر وحی کی کہ ميں آپ کی دو گروہوں کے ذريعہ مدد کرونگا ‪،‬ايک گروه مخفی طور اور دوسرا گروه‬
‫ظاہری طور پر مدد کرے گا‪ ،‬پہلے گروه کے سب سے بہترين رئيس جناب ”ابواطالب “اور دوسرے گروه کے سب سے‬
‫بہتر سر پرست ان کے فرزند حضرت علی عليہ السالم ہيں“]‪[39‬‬
‫اہل علم پر يہ بات واضح ہے کہ يہ دونوں گروه اسالم اور مسلمانوں کی طرف سے ہميشہ دشمنوں سے مقابلہ کرتے رہے‬
‫ہيں‪ ،‬مخفيانہ مقابلہ ظاہری مقابلہ سے کم نہيں ہوتا ہے۔‬

‫ايمان ابو طالب کے بارے ميں ايک اور مناظره‬


‫ايک مدرسہ ميں ميرے اور اہل سنت کے عالم کے درميان حضرت علی عليہ السالم کے پدر بزرگوار جناب ابوطالب کے‬
‫ايمان کے سلسلہ ميں ايک مناظره ہوا‪:‬‬
‫سنی عالم‪:‬ہماری معتبرکتابوں ميں ابو طالب کے بارے ميں روايات مختلف بيان ہوئی ہيں ‪،‬بعض ميں ان کی مدح و ثنا کی‬
‫گئی ہے اور بعض ميں ان کی مذمت کی گئی ہے۔‬
‫مولف‪):‬ائمہ معصومين عليہم السالم جو عترت پيامبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم ہيں کی پيروی کرتے ہوئے( شيعہ علماء کا‬ ‫ٔ‬
‫اتفاق اس بات پر ہے کہ جناب ابو طالب ايک ممتاز شخصيت ‪،‬مومن اور راه اسالم ميں بہت زياده کوشش کرنے والے فرد‬
‫ہيں۔‬
‫سنی عالم‪:‬اگر ايسا ہے تو پھر)جناب (ابو طالب کے ايمان نہ النے پر بہت سی روايات موجود ہيں؟‬
‫مولف‪:‬جناب ابو طالب کا جرم يہ ہے کہ وه حضرت علی عليہ السالم کے پدر بزرگوار ہيں‪ ،‬حضرت علی عليہ السالم کے‬ ‫ٔ‬
‫سرسخت دشمن جن ميں سر فہرست معاويہ ہے )عليہا الہاويہ( سب نے بيت المال سے دين فروشوں کو ہزار وں دينار دئے‬
‫تاکہ جعلی اور جھوٹی روايتيں گﮍھيں اور ان روايت گﮍھنے والے سيم و زر کے غالموں کی بے شرمی نے اتنا کام کيا کہ‬
‫ابو ہريره )جو جھوٹی روايت گﮍھنے ميں مشہور ہے(سے نقل کيا گيا کہ اس نے کہا‪:‬‬
‫”پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے رحلت کے وقت وصيت کی کہ علی کے ہاتھوں کو کاٹ ديا جائے“!]‪[40‬‬
‫ل ٰہذامعاويہ اور ديگر بنی اميہ خلفاء کے زمانہ ميں شکم پرست اور بے شرم وذليل لوگوں نےجناب ابوطالب کے مشر ک‬
‫ہونے پر جعلی احاديث گﮍھی ظاہر سی بات تھی ‪،‬ان لوگوں نے جناب ابوطالبعليہ السالم کے سلسلہ ميں اس قدر غلط‬
‫پروپيگنڈه کيا جس کا ہزاروں حصہ بھی ابو سفيان کے بارے ميں بھی نہيں کيا اس کا باطن پليد تھا اور پوری زندگی کے‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کارنامے سياه تھے۔‬
‫چنانچہ اس گندی سياست کے تحت ہی جناب ابو طالب پر مشرک ہونے کی تہمت لگائی گئی ہے۔‬
‫سوره انعام آيت ‪ ٢۶‬ميں ارشاد خداوندی ہے‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫سنی عالم‪:‬قرآن مجيد کے‬
‫” َوہُ ْم يَ ْنہَوْ نَ َع ْنہُ َويَ ْنأَوْ نَ َع ْنہ“‬
‫”اور دوسروں کو اس سے روکتے ہيں ‪،‬اور خود بھی اس سے دوری کرتے ہيں“‬
‫اس آيت سے مر اد)بعض ہمارے مفسرين کے قول کے مطابق( يہ ہے کہ ”بعض لوگ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم‬
‫کا دفاع کرتے تھے ‪،‬ليکن پھر بھی خود پيغمبر سے دوری کرتے تھے “‬
‫يہ آيت ابو طالب جيسے لوگوں کے بارے ميں نازل ہوئی ہے جو دشمنوں کے مقابلہ ميں پيغمبر ٔ کا دفاع کرتے تھے ليکن‬
‫ايمان کے لحاظ سے ان سے دوری کرتے تھے !‬
‫مولف کا قول‪:‬اوالً‪ :‬جيسا کہ ہم بيان کرينگے‪:‬آيت کے معنی اس طرح نہيں ہے جس طرح آپ نے کئے ہيں۔‬ ‫ٔ‬
‫آيہ شريفہ جناب ابوطالب کے بارے‬ ‫ثانيا ً‪ :‬بالفرض اگر ہم مان بھی ليں کہ يہی معنی صحيح ہيں تو بھی کس دليل کے تحت يہ ٔ‬
‫ميں صادق آتی ہے ؟!‬
‫سنی عالم‪ :‬دليل يہ ہے کہ ”سفيان ثوری حبيب ابن ابی ثابت“ سے روايت کرتے ہيں کہ ابن عباس نے کہا‪” :‬يہ آيت ابو طالب‬
‫کے بارے ميں نازل ہوئی ہے‪ ،‬چونکہ لوگوں کو پيغمبر اکرم کے آزار و اذيت پہنچانے سے روکتے تھے ‪،‬ليکن خود اسالم‬
‫سے دور رہے “]‪[41‬‬
‫مولف‪ :‬آپ کے جواب ميں مجبوراً چند چيزوں کی طرف اشاره کرتا ہوں‪:‬‬
‫‪١‬۔آيت کے معنی اس طرح نہيں ہے جس طرح آپ نے کئے ہيں بلکہ آيت کے قبل وبعد کے پيش نظر کفار ومشرکين کے‬
‫بارے ميں ہے جس کے ظاہر ی معنی يہ ہيں‪” :‬وه لوگ )کفار(لوگوں کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی پيروی‬
‫سے روکتے تھے اور خود بھی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے دور ی کرتے تھے“]‪ [42‬ل ٰہذا آيت ميں پيغمبر‬
‫اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے دفاع کی کوئی بات نہيں ہے۔‬
‫‪٢‬۔لفظ ”ينئون “دوری کے معنی ميں ہے ‪،‬جب کہ جناب ابو طالب ہميشہ پيغمبر اکرم کے ساتھ رہے اور کبھی بھی آپ سے‬
‫دور ی نہيں کی۔‬
‫‪٣‬۔سفيان ثوری کی روايت جس ميں ابن عباس کی طرف نسبت دی گئی ہے کہ انھوں نے کہا‪:‬مذکوره آيت ابو طالب کے بارے‬
‫ميں نازل ہوئی ہے‪ ،‬يہ روايت چند لحاظ سے قابل ترديد ہے‪:‬‬
‫موثق ہے۔]‪[43‬‬ ‫الف‪:‬سفيان ثوری ‪،‬يہاں تک کہ خود بزرگ علمائے اہل سنت کے اعتراف کی بنا پر جھوٹا اور غير ٔ‬
‫اور ابن مبارک سے منقول ہے کہ سفيان )ثوری( تدليس کرتا تھا يعنی جھوٹ بولتا تھا اورحق کو ناحق اور ناحق کو حق کر‬
‫کے پيش کرتا تھا۔]‪[44‬‬
‫اس مذکوره روايت کا دوسرا راوی ”حبيب بن ابی ثابت “ہے اور يہ بھی ابو حيان کے قول کے مطابق تدليس سے کام ليتا‬
‫تھا۔]‪[45‬‬
‫ان تمام چيزوں کے عالوه مذکوره روايت ‪،‬مرسل ہے يعنی حبيب اور ابن عباس کے درميانی راوی حذف ہيں۔‬
‫ب‪ :‬ابن عباس ان مشہور ومعروف افراد ميں سے ہيں جو ايمان ابو طالب کا عقيده رکھتے تھے‪ ،‬ل ٰہذا کس طرح ممکن ہے کہ‬
‫وه اس طرح کی روايت نقل کريں؟!‬
‫اس کے عالوه جيساکہ ہم نے پہلے بھی اشاره کيا کہ جناب ابن عباس نے مذکوره آيت کے معنی اس طرح کئے ہيں‪” :‬کفار‬
‫لوگوں کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی پيروی سے روکتے تھے ‪،‬اور خود بھی آنحضرت سے دوری اختيار‬
‫کئے ہوئے تھے“۔‬
‫ج‪ :‬مذکوره روايت کہتی ہے‪:‬يہ آيت صرف ابو طالب کے بارے ميں نازل ہوئی ہے جب کہ لفظ ”ينھون“اور ”ينئون“جمع کے‬
‫صيغے ہيں۔‬
‫چچاوں کو شامل ہے کيونکہ‬‫ٔ‬ ‫اس بنا پر بعض تفسير کے مطابق مذکوره آيت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے‬
‫آنحضرتکے دس چچا تھے‪ ،‬ليکن ان ميں سے تين مومن چچا يعنی حمزه‪ ،‬عباس اور ابو طالب کو شامل نہيں ہے۔‬

‫مزيد وضاحت‪:‬‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم مشرکين سے دوری کرتے تھے جيسا کہ اپنے چچا ابو لہب سے دوری اختيار کئے‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ہوئے تھے ليکن جناب ابوطالب کے ساتھ ان کی آخری عمر تک خصوصی رابطہ تھا‪ ،‬چنانچہ آنحضرت نے آپ کی وفات‬
‫کے سال کو ”عام الحزن“)غم کا سال (نام رکھا اور ان کے جنازه کی تشييع کے وقت فرماتے جاتے تھے‪:‬‬
‫”وابتاه واحزناه! عليک کنت عندک بمنزلة العين من الحدقة والروح من الجسد“]‪[46‬‬
‫”اے پدر بزرگوار!آپ کی موت ميرے نزديک کس قدر غمناک ہے ‪،‬ميں آپ کے نزديک آنکھ ميں پتلی کی مانند اور بدن ميں‬
‫روح کی طرح تھا“]‪[47‬‬
‫کيا واقعا ً پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر ايسی ناجائز تہمت لگائی جا سکتی ہے کہ آپ کسی مشرک کی اس طرح‬
‫تعريف کريناور اس کی وفات پر اس قدر غم و اندوه کا اظہار کريں جب کہ قرآن مجيد ميں متعدد آيات يہ اعالن کرتی ہيں کہ‬
‫مشرکين سے بيزاری اختيار کرو؟!‬

‫‪٨٣‬۔ کيا حضرت علی عليہ السالم بہت قيمتی انگوٹھی پہنچتے تھے‬
‫اشاره‬
‫سوره مائده کی ‪ ۵۵‬ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں۔‬ ‫ٔ‬ ‫ہم‬
‫” ِٕانﱠ َما َو ِليﱡ ُک ْم ﷲُ َو َرسُولُہُ َوالﱠ ِذينَ آ َمنُوا الﱠ ِذينَ يُ ِقي ُمونَ ال ﱠ‬
‫صالَةَ َوي ُْؤتُونَ ال ﱠز َکاةَ َوہُ ْم َرا ِکعُونَ “‬
‫”تمہارا ولی صرف خدا ‪،‬اس کا رسول اور وه صاحب ايمان ہيں جو نماز قائم کرتے ہيں اور حالت رکوع ميں ٰ‬
‫زکوةديتے‬
‫ہيں“۔‬
‫المومنين علی عليہ السالم کی شان ميں نازل ہوئی ہے‬ ‫ٔ‬ ‫امير‬ ‫آيت‬ ‫يہ‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫ہوئی‬ ‫نقل‬ ‫روايت‬ ‫متواتر‬ ‫ونسے‬ ‫دون‬ ‫سنی‬ ‫اور‬ ‫شيعہ‬
‫اور يہ آيت پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد آپ کی رہبری اور واليت کی دليل ہے۔‬
‫يہ آيت اس وقت نازل ہوئی جب موالئے کائنات علی بن ابی طالب عليہ السالم مسجد ميں نمازپﮍھ رہے تھے ايک سائل نے‬
‫آکر سوال کيا تو کسی نے اسے کچھ نہيں ديا۔ حضرت علی عليہ السالم اس وقت رکوع ميں تھے اور اسی رکوع کی حالت‬
‫ميں آپ نے اپنے داہنے ہاتھ کی انگوٹھی کی طرف اشاره کيا اور سائل نے آکر آپ کی انگلی سے وه انگو ٹھی اتارلی۔ اس‬
‫طرح آپ نے نماز ميں صدقہ کے طور پر اپنی انگوٹھی فقير کو دے دی‪ ،‬اس کے بعد آپ کی تعريف و تمجيد ميں يہ آيت‬
‫نازل ہوئی۔]‪[48‬‬
‫اب آپ ايک يونيورسٹی کے طالب علم کاايک عالم دين سے مناظره مالحظہ فرمائيں‪:‬‬
‫طالب علم‪” :‬ميں نے سنا ہے کہ جو انگوٹھی علی عليہ السالم نے فقير کو دی تھی وه بہت ہی قيمتی تھی اور بعض کتب‬
‫جيسے تفسير برہان)ج‪،١‬ص‪(۴٨۵‬ميں ملتا ہے کہ اس انگوٹھی کا نگينہ ‪ ۵‬مثقال سرخ ياقوت تھا جس کی قيمت شام کے خزانہ‬
‫کے برابر تھی‪ ،‬حضرت علی عليہ السالم يہ انگوٹھی کہاں سے الئے تھے ؟کيا علی عليہ السالم حُسن وتزئين پسند تھے ؟کيا‬
‫اتنی قيمتی انگوٹھی پہننا فضول خرچی نہيں ہے؟تصوير کے دوسرے رخ سے امام علی عليہ السالم کی طرف يہ نسبت دينا‬
‫بالکل غلط ہے کيونکہ وه لباس ‪،‬کھانے اور دوسری دنيوی اشياء ميں حد درجہ زہد سے کام ليتے تھے جيسا کہ ايک جگہ آپ‬
‫فرماتے ہيں‪:‬‬
‫ً‬
‫”فوﷲ ما کنزت من دنيا کم تبرا والادخرت من غنائمھا وفرا وال اعددت لبالی ثوبی طمر ا وال حزت من ارضھا شبرا وال اخذت‬ ‫ً‬
‫منہ اال کقوت اتان دبر ٍة“۔‬
‫”خدا کی قسم !ميں تمہاری دنيا سے سونا چاندی جمع نہيں کرتا اور غنائم اور ثروتوں کا ذخيره نہيں کرتا اور اس پرانے‬
‫لباس کی جگہ کوئی نيا لباس نہيں بنواتا اور اس کی زمين سے ايک بالشت بھی ميں نے اپنے قبضہ ميں نہيں کيا اور اس دنيا‬
‫سے اپنی تھوڑی سی خوراک سے زياده نہيں ليا ہے۔]‪[49‬‬
‫عالم دين‪” :‬يہ گراں قيمت انگوٹھی کے بارے ميں فالتوبات ہے جو بالکل بے بيناد ہے اور متعدد روايتوں کے ذريعہ اس آيت‬
‫کے شان نزول کے بارے ميں ہرگز اس طرح کی انگوٹھی کا ذکر نہيں ہوا ہے اور صرف تفسير برہان ميں ايک روايت نقل‬
‫ہوئی ہے کہ اس انگوٹھی کی قيمت ملک شام کے خزانہ کے برابر تھی يہ روايت ”مرسلہ“ہے اور ممکن ہے کہ اس کے‬
‫راويوں نے موالئے کائنات کی اہميت کو کم کرنے کی خاطر اس روايت کو گﮍھا ہو“۔‬
‫طالب علم‪” :‬بہر حال انگوٹھی قيمتی تھی يہ بات تويقينی ہے ورنہ پھر فقير کا پيٹ کيسے بھرتا؟“‬
‫عالم دين‪” :‬شاعر کے قول کے مطابق اگر ہم فرض کر ليں کہ يہ انگوٹھی بہت قيمتی تھی جيسا کہ شاعر کہتا ہے‪:‬‬

‫بر وای گدای مسکين درخانہ علی زن‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کہ نگين پادشاہی دھد از کرم ‪،‬گدا را‬

‫تاريخ ميں ملتا ہے کہ يہ انگوٹھی ”مروان بن طوق “نامی ايک مشرک کی تھی امام عليہ السالم جنگ کے دوران جب اس پر‬
‫کامياب ہوگئے تو اسے قتل کر کے غنيمت کے طور پر اس کے ہاتھ سے يہ انگوٹھی اتارلی اور اسے آنحضرت صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلمکی خدمت ميں لے کر آئے تو آپ نے فرمايا‪” :‬اس انگوٹھی کو مال غنيمت سمجھ کر تم اپنے پاس رکھو“‪،‬‬
‫ساتھ ساتھ يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم يہ جانتے تھے کہ اگر علی عليہ السالم اس انگوٹھی کو لے بھی ليں‬
‫گے تو کسی امين کی طرح اس کی حفاظت کريں گے اور مناسب مو قع پر اسے کسی محتاج و فقير کو دے ديں گے۔‬
‫اس طرح يہ انگوٹھی آپ نے خريدی نہيں تھی اور ابھی يہ انگوٹھی حضرت علی عليہ السالم کے ہاتھوں ميں چند دن ہی رہی‬
‫ہوگی کہ صرف ايک محتاج کی آواز سن کر آپ نے اسے دے ديا۔]‪[50‬طالب علم‪ ” :‬لوگ نقل کرتے ہيں کہ حضرت علی‬
‫عليہ السالم نماز کے وقت خشوع و خضوع ميں اس حدتک غرق ہوجاتے تھے کہ امام حسن عليہ السالم کے حکم کے مطابق‬
‫جنگ صفين ميں ان کے پير ميں لگے تير کو نماز کی حالت ميں نکال ليا گيا تھا ليکن انھيں احساس تک نہ ہوا اب اگر اس‬
‫طرح ہے تو حالت رکوع ميں انھوں نے اس فقير کی آوازکيسے سن لی اور انگوٹھی اسے دےدی؟“‬
‫عالم دين‪ ” :‬جو لوگ اس طرح کا اعتراض کرتے ہيں وه يقينا غفلت ميں ہيں کيونکہ محتاج وفقير کی آواز سننا اپنی ذات کی‬
‫طرف متوجہ کرنا نہيں ہے بلکہ يہ تو جہ خدا کی طرف عين توجہ ہے۔علی عليہ السالم نماز ميں اپنے سے بيگانہ تھے نہ کہ‬
‫زکوة دينا عبادت کے ضمن ميں عبادت ہے اور جو روح عبادت کے لئے غير‬ ‫خدا سے ‪ ،‬واضح طور پر نماز کی حالت ميں ٰ‬
‫مناسب ہے وه مادی اور دنياوی چيزيں ہيں ليکن جو توجہ خدا وند متعال کی راه ميں ہو وه يقينا روح عبادت کے موافق ہے‬
‫اور تقويت کرنے والی ہے۔‬
‫البتہ يہ جاننا چاہئے کہ خدا کی توجہ ميں غرق ہونے کا يہ مطلب نہيں کہ اس کا احساس بے اختياری طور پر اس کے ہاتھ‬
‫سے جاتا رہا ہے بلکہ اس سے مراديہ ہے کہ جو چيز خداکی مرضی کے مطابق نہيں ہے اس سے اپنی توجہ ہٹالے۔‬

‫‪٨۴‬۔ کيوں علی عليہ السالم کا نام قرآن ميں نہيں ؟‬


‫علمائے اہل سنت اور اہل تشيع کی ايک بہت ہی گرماگرم مجلس تھی جس ميں تمام افراد اس بات پر متقق تھے کہ بغير کسی‬
‫تعصب کے اور حسن نيت کے ساتھ مذاہب اسالم کے مذہب حقہ کے متعلق مذاکره کريں ‪،‬چنانچہ اس مناظره کا آغازاس‬
‫طرح ہوا‪:‬‬
‫سنی عالم‪” :‬اگر علی عليہ السالم پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بال فصل خليفہ ہيں تو يہ ضروری تھا کہ قرآن‬
‫مجيدميں اس چيز کا ذکر ہوتا تاکہ مسلمان اختالف کا شکار نہ ہوتے“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬زيد بن حارثہ کے عالوه قرآن ميں رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے کسی صحابی کا نام نہيں آيا ہے‬
‫اور زيد بن حارثہ کا نام پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے زيدکی سابق بيوی”زينب“کے ساتھ شادی کے سلسلہ ميں‬
‫آيا ہے“۔]‪[51‬‬
‫سنی عالم‪” :‬جس طرح ايک جزئی اور فرعی حکم کی مناسبت کی وجہ سے زيد کا نام قرآن ميں آيا ہے اسی طرح يہ بھی‬
‫ضروری تھا کہ علی عليہ السالم کا نام ان کی امامت کے سلسلہ ميں آئے“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬اگر علی عليہ السالم کا ذکر قرآن ميں ہوتا تو آپ کے دشمن کی کثرت سے وه لوگ قرآن ہی کو تحريف کر‬
‫ديتے ل ٰہذا مناسب يہی تھا کہ خدا آپ کی رہبری اور واليت کا ذکر اوصاف سے کرے کيونکہ قرآن کی يہ روش رہی ہے کہ‬
‫اس نے کليات بيان کئے ہيں اور اس کا مصداق پيغمبر اکرم نے معين کيا“۔‬
‫سنی عالم‪” :‬قرآن ميں علی عليہ السالم کے اوصاف کہانپر بيان ہوئے ہيں؟“‬
‫شيعہ عالم‪” :‬سيکﮍوں آيات ميں علی عليہ السالم کا ذکر موجود ہے اور بہت سی آيتيں تو حضرت علی عليہ السالم کی شان‬
‫مباہلہ)سوره آل عمران ‪(۶۶١‬آيہ‬
‫ٔ‬ ‫ره نساء ‪(۵٩‬آيت‬‫)سوره مائده ‪(۵۵‬آيت اطاعت )سو ٔ‬ ‫ٔ‬ ‫ميں نازل ہوئيں )(جيسے آيت واليت‬
‫ٰ‬
‫شوری ‪(٢٣‬آيت اکمال‬ ‫)سوره‬
‫ٔ‬ ‫مودت‬ ‫آيت‬ ‫شعراء(‬ ‫انذار)سوره‬
‫ٔ‬ ‫آيت‬ ‫(‬ ‫‪٧‬‬‫مائده‬ ‫غ)سوره‬
‫ٔ‬ ‫ّ‬ ‫بل‬ ‫آيہ‬
‫ٔ‬ ‫ميں‬ ‫)سوره احزاب ‪(٢٣‬غدير خم‬ ‫ٔ‬ ‫تطہير‬
‫)سوره مائده ‪(٣٠‬وغيره۔]‪[52‬‬ ‫ٔ‬
‫مذکوره آيتوں ميں ہر ايک آيت کی شان نزول کے ساتھ ساتھ شيعہ اور سنی روايتوں ميں يہ نقل‬
‫” َو َما آتَا ُک ْم ال ﱠرسُو ُل فَ ُخ ُذوهُ َو َما نَہَا ُک ْم َع ْنہُ فَا ْنتَہُوا“]‪[53‬‬
‫”اور رسول جو تمہيں دے وه لے لو اور جس چيز سے منع کردے اسے چھوڑ دو“‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اور حديث ثقلين کے مطابق جسے تمام مسلمان قبول کرتے ہيں آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا ہے‪” :‬ميں‬
‫تمہارے درميان دو گراں قدر چيزيں چھوڑے جارہاہوں ايک قرآن اور دوسری ميری عترت۔۔۔“اور اسی طرح تمہاری متعدد‬
‫روايتوں کے مطابق آنحضرت نے يہ فرمايا‪” :‬ميں دو چيزيں چھوڑے جارہاہوں ‪،‬قرآن اوراپنی سنت “اس وجہ سے ہميں‬
‫چاہئے کہ سنت يعنی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی باتوں پر غور کريں اور ان پر عمل کريں اسی وجہ سے ہم‬
‫کہتے ہيں کہ مذکوره آيات پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی سنت کی بيناد پر علی عليہ السالم کی شان ميں نازل‬
‫ہوئی ہيں اور اسی وجہ سے قرآن مجيد نے امام علی عليہ السالم کو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا جانشين اور بال‬
‫فصل خليفہ بتايا اگر چہ مصلحت کی بنا پر آپ کا قرآن ميں نام نہيں آيا ہے۔قرآن ميں صرف چار جگہوں پر سول خدا صلی‬
‫ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا نام آيا ہے ليکن ان کے اوصاف سيکﮍوں مرتبہ ذکر ہوئے ہيں۔)]‪([54‬‬

‫‪٨۵‬۔ شيعہ مذہب کی پيروی )ہی( صحيح ہے‬


‫مذکوره نشست ميں بقيہ مناظره اس طرح آگے بﮍھا‪:‬‬
‫سنی عالم نے اپنی بات بدل کر کہا‪” :‬اب اگر يہ بنا رکھی جائے کہ پانچ مذہب ميں سے کسی ايک کی پيروی کريں تو کس‬
‫مذہب کی پيروی کرناہمارے لئے بہتر ہے ؟“‬
‫شيعہ عالم‪ ” :‬اگر انصاف سے ديکھيں تو مذہب جعفری کی پيروی کرنا چاہئے کيونکہ مذہب جعفری مکتب امام جعفر صادق‬
‫عليہ السالم پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم سے ليا گيا ہے اور جو بھی اسالمی احکام امام جعفر صادق عليہ السالم کی‬
‫طرف سے بيان ہوئے ہيں وه يقينا قرآن اور سنت نبوی سے اخذ کئے گئے ہيں کيونکہ بہر حال ”گھر کی بات ‪ ،‬گھر والے‬
‫زياده بہتر جانتے ہيں“۔)جس کی تفصيل مناظره ‪ ٧۴‬ميں گزر چکی ہے(‬
‫اس بحث کی تکميل کے لئے”االزہريونيورسٹی“ کے مشہور و عظيم استاد مفتی ”شيخ محمود شلتوت“ کے فتوے کو نقل‬
‫کرتے ہيں جو دارالتقريب بين المذاہب االسالمية“کے لئے انھوں نے ديا تھا اور ‪ ١٣٧٩‬ھ ميں ”رسالة االسالم “ داراالتقريب‬
‫فتوی چھپ چکا ہے۔‬‫ٰ‬ ‫ميں يہ‬

‫”جو حق کی طرف ہدايت کرتا ہے وه اس بات کا زياده حقدار ہے کہ اس کا اتباع کيا جائے ياوه جو بغير ہدايت کئے ہدايت‬
‫پاہی نہيں سکتا)تمہيں کيا ہوگيا ہے( تم کيسا فيصلہ کرتے ہو؟‬
‫اس بنا پر اصلح اور متقی کا انتخاب سو فيصد اسالمی اور عقلی طريقہ ہے‪ ،‬رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‬
‫ہے‪:‬‬
‫”من تقدم علی المسلمين وھو يری ان فيھم من ھو افضل منہ فقد خان ﷲ ورسولہ والمومنين “‬
‫”جو مسلمانوں کے کام کے لئے آگے بﮍھے جب کہ وه ديکھ رہا ہو کہ ان ميں کوئی ايسا بھی ہے جو اس سے افضل ہے تو‬
‫بال شبہ اس نے ﷲ ‪،‬اس کے رسول اور مومنوں کے ساتھ خيانت کی“۔)الغدير‪،‬ج‪(٧‬‬

‫شيخ محمود شلتوت کا تاريخی فتوی‬


‫شيخ شلتوت اپنے اس عظيم فتوے کے ايک حصہ ميں لکھتے ہيں‪:‬‬
‫ان مذہب الجعفريہ المعروف بمذہب الشيعة االمامية االثنا عشريہ‪ ،‬مذہب يجوز التعبد بہ شرعاً‪ ،‬کسائر مذاہب اہل السنة‪ ،‬فينبغی‬ ‫” ّ‬
‫ّ‬
‫للمسلمين ان يعرفوا ذلک‪ ،‬و اَن يتخلصوا من العصبية بغير الحق لمذاہب معينة‪ ،‬فما کان دين ﷲ و ما کانت شريعتہ بتابعة لمذہب‪،‬‬
‫تعالی يجوز لمن ليس اہالً للنّظر و االجتہاد تقليدہم و العمل بما يقرّرونہ‬
‫ٰ‬ ‫او مقصورة علی مذہب‪ ،‬فالک ّل مجتہدون مقبولون عند ﷲ‬
‫فی فقہہم‪ ،‬و ال فرق فی ذلک بين العبادات و المعامالت“]‪[55‬‬
‫”مذہب جعفری جو شيعہ اثنا عشری کے نام سے مشہور ہے اس کی پيروی اور اس پر اعتقاد رکھناسنی مذہب کے دوسرے‬
‫تمام مسلکوں کی طرح جائز ہے ل ٰہذا مسلمانوں کے لئے الزم ہے کہ وه اس کے متعلق آگاہی پيدا کريں اور بے جا تعصب‬
‫اور عنادسے باز رہيں اس مذہب کے تمام علماء مجتہد ہيں اور ﷲ کے نزديک ان کے فتاوے مقبول ہيں۔‬
‫ل ٰہذا جو خود مجتہد نہ ہو اس کے لئے ان کے تقليد کرنا جائز ہے اور انھوں نے اپنی فقہ ميں جو احکام درج کئے ہيں ان پر‬
‫عمل کريں اس سلسلے ميں عبادات اور معامالت ميں کوئی فرق نہيں ہے“۔‬
‫اہل سنت کے اساتذه اور عظيم مفکرين جيسے محمود فخام جامعة االزہر کے سابق استاد ‪،‬عبد الرحمن البخاری‪ ،‬قاہره کی‬
‫مولف و غيره نے شيخ محمود کے اس فتوے کی تائيد کی‬ ‫مساجد کے متولی اور عبد الفتاح عبد المقصود مصر کے زبردست ٔ‬
‫‪ ،‬چنانچہ شيخ فخام کہتے ہيں۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”خدا وند متعال شيخ شلتوت پر رحمت نازل کرے کہ انھوں نے اس عظيم اور اہم بات پر توجہ دی اور نہايت بہادری سے‬
‫ٰ‬
‫فتوی ديا کہ مذہب شيعہ اثنا عشری ايک فقہی اور اسالمی مذہب ہے اور يہ قرآن و سنت کے دالئل کی‬ ‫ہميشہ زنده رہنے واال‬
‫بنياد پر استوار ہوا ہے ل ٰہذا اس پر عمل جائز ہے“۔‬
‫عبد الرحمن بخاری کہتے ہيں‪:‬‬
‫ٰ‬
‫فتوی ديتا ہوں‬ ‫”ميں آج بھی اپنا فتوی مذہب اربعہ ميں منحصر نہ سمجھتے ہوئے شيخ محمود شلتوت کے فتوے کی بنياد پر‬
‫کہ شيخ شلتوت امام ومجہتد ہيں اور ان کی رائے عين حقيقت ہوا کرتی ہے“۔‬
‫عبد الفتاح عبد المقصود لکھتے ہيں‪:‬‬
‫”مذہب شيعہ اثنا عشری اس الئق ہے کہ سنی مذہب ميں موجود تمام مسالک کے ساتھ اس کی بھی پيروی کی جائے‪ ،‬سنی‬
‫مذہب ميں ايسی کوئی بات نہيں ہے کہ عمل صرف اس وقت صحيح ہوگا جب ايسے مسلک کی پيروی کی جائے جو سب‬
‫سے افضل وبرتر ہو ‪،‬جب ہميں يہ معلوم ہوچکا ہے کہ شيعہ مذہب کے اصل منبع حضرت علی عليہ السالم ہيں تو ظاہر سی‬
‫بات ہے کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد وه سب سے زياده احکام دين جاننے والے تھے“۔]‪[56‬‬

‫‪٨۶‬۔قبروں کی عمارتوں کو ويرانی کے بارے ميں ايک مناظره‬


‫اشاره‬
‫مجتبی عليہ السالم ‪،‬امام سجاد عليہ السالم ‪ ،‬امام محمد‬
‫ٰ‬ ‫جب ميں مدينہ گيا تو وہاں اسالم کی عظيم شخصيتوں جيسے امام حسن‬
‫باقر عليہ السالم اور امام جعفر صادق عليہ السالم کی قبروں کو زمين کے برابر اور خاک آلود ديکھ کر بہت رنجيده ہوا‬
‫حاالنکہ ان تمام قبروں پر پہلے قبے اور منياريں تھی مگر وہابيوں نے شرک اور حرام کے بہانے سے ‪ ١٣۴۴‬ھ ميں انھيں‬
‫مسمار کر ديا۔‬
‫اسی سلسلہ ميں ايک شيعہ اور وہابی عالم کے درميان ايک مناظره ہوا جو مندرجہ ذيل تفصيل کے ساتھ پيش خدمت ہے‪:‬‬
‫شيعہ عالم‪” :‬تم لوگ کيوں ان مزاروں کو ويران کر کے ان کی اہانت کرتے ہو؟“‬
‫وہابی‪” :‬کيا تم حضرت علی عليہ السالم کو مانتے ہو؟“‬
‫شيعہ عالم‪” :‬کيوں نہيں وه تو رسول کے بال فصل خليفہ اور ہمارے پہلے امام ہيں“۔‬
‫وہابی‪” :‬ہماری معتبر]‪ [57‬کتابوں ميں اس طرح نقل ہوا ہے“۔‬
‫يحيي ‪،‬وابو بکر ابی شيبہ وزہير بن حرب قال يحي ٰياخبرنا ‪،‬وقال اآلخرون ‪،‬حدثنا وکيع عن سفيان عن حبيب ابن‬
‫ٰ‬ ‫يحيي بن‬
‫ٰ‬ ‫”حدثنا‬
‫ابی الھياج االسدی قال لی علی ابن ابی طالب ”اال ابعثک علی ما بعثنی عليہ رسول ﷲ ان ال تدع تمثاال االطمستہ وال قبراً مشر‬
‫فا ً اال سويتہ۔“‬

‫”تين آدمی يحی بن يحی‪ ،‬ابو بکر اور زہير بن حرب وغيره نقل کرتے ہيں کہ وکيع نے سفيان اور اس نے حبيب اور اس نے‬
‫ابی وائل اور اس نے ابی الہياج اسدی سے نقل کيا ہے کہ علی عليہ السالم نے ابی الہياج سے فرمايا‪:‬‬
‫دالوں جس کے لئے رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے مجھے ترغيب کی ہے کوئی‬ ‫کيا ميں تمہيں اس بات پر ترغيب ٔ‬
‫تصوير بھی بغير محو کئے نہ چھوڑو اور کوئی بھی بلند قبر بغير زمين کے برابر کئے نہ چھوڑو“۔‬
‫شيعہ عالم‪ ” :‬يہ حديث سند اور داللت دونوں اعتبار سے مخدوش ہے سند کی رو سے اس کہ لئے اس کے راويوں ميں وکيع‬
‫‪،‬سفيان ‪،‬حبيب بن ابی ثابت ‪،‬ابی وائل جيسے لوگ ہيں کہ جن کی حديث قابل اطمينان نہيں ہے جيسا کہ احمد بن حنبل نے‬
‫”وکيع“کے بارے ميں نقل کيا ہے”اس نے پانچ سو حديثوں ميں غلطی کی ہے“۔]‪[58‬‬
‫اسی طرح” سفيان “کے بارے ميں ابن مبارک سے نقل ہوا ہے کہ ”سفيان حديث نقل کرتے وقت تدليس کرتا تھا ليکن جب‬
‫مجھے ديکھتا تو شرماجاتا تھا‪ ،‬تدليس‪ :‬يعنی حق وناحق کو مخلوط کردينا“۔]‪[59‬حبيب بن ثابت کے بارے ميں ابن حيان نے‬
‫نقل کيا ہے کہ وه بھی حديثوں ميں تدليس کرتا تھا۔]‪[60‬‬
‫ابو وائل کے بارے ملتا ہے کہ وه ناصبی اور امام عليہ السالم کے دشمنوں ميں سے تھا۔]‪[61‬‬
‫قابل توجہ بات يہ ہے کہ تمام صحاح ستہ ميں ابو الہياج سے صرف يہی ايک حديث نقل ہوئی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ‬
‫وه راويوں ميں سے نہيں تھا اور قابل اعتماد بھی نہيں تھا جس کی وجہ سے مذکوره حديث سند کے لحاظ سے قابل اعتماد‬
‫نہيں سمجھی جا سکتی۔‬
‫ليکن داللت اور معنی کے لحاظ سے‪:‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫الف‪” :‬مشرف“جو مذکوره حديث ميں آيا ہے کہ اس کے معنی لغت ميں ايک ايسا بلند مقام جو دوسرے مکانوں سے اونچا ہو‬
‫اس کی وجہ سے تمام بلندی اس ميں شامل نہيں ہوگی۔‬
‫ب‪” :‬لفظ”سوية“کے معنی لغت ميں برابر قرار دينے کے ہيں اور اسی طرح اس کے دوسرے معنی ٹيﮍھی چيز کو سيدھا‬
‫کرنا ہے۔‬
‫اب اس حديث کے معنی يہ نہيں ہوں گے کہ ہر اونچی قبر کو ويران کر دو جب کہ قبروں کو زمين کے برابر کرنا اسالمی‬
‫احکامات کے خالف ہے کيونکہ تمام اسالم فقہاء نے قبر کو زمين سے ايک بالشت بلند کر نا مستحب قرار ديا ہے۔]‪[62‬‬
‫دوسرا احتمال يہ ہے کہ ”سوية “کا مطلب قبر کے باالئی حصہ کو ايک سطح ميں برابر کر ديا جائے نہ يہ کہ اسے اونٹ‬
‫کے کوہان يا مچھلی کی پشت کی طرح کر ديا جائے جيسا کہ اہل سنت کے علماء نے اس حديث کا يہی مفہوم بيان کيا ہے۔‬
‫نتيجہ يہ ہوا کہ ان تين احتماالت ‪،‬قبر ڈھادينا قبر کو زمين کے برابر کر دينا اور اس کے باالئی حصہ کو مسطح کرنے ميں‬
‫پہال اور دوسرا احتمال غلط ہے اور تيسرا صحيح ہے‪ ،‬اس بنا پر يہ حديث داللت کے اعتبار سے بھی اس بات کو ثابت نہيں‬
‫کرتی کہ قبروں کا ويران کرنا جائز ہے۔]‪[63‬‬
‫يہاں ہم تھوڑا سا اضافہ کرتے ہوئے کہيں گے کہ اگر امام علی عليہ السالم مزار اور قبور کو ويران کرنا واجب اور‬
‫ضروری جانتے تو ان کی خالفت کے زمانہ ميں اولياء خدا اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی قبريں موجود تھيں‬
‫انھيں کيوں نہيں ويران کيا کيونکہ تاريخ ميں اس طرح کی کوئی بات نہيں ملتی کہ آپ نے کسی قبر کو مسمار کيا ہو کہ يہ‬
‫اونچی ہے۔‬
‫اور اگر عصر حاضر ميں وہابی مزاروں کو ويران کرنا واجب جانتے ہيں تو ابھی تک پيغمبر اکرم ‪ ،‬ابوبکر وعمر کے‬
‫مزاروں کو کيوں نہيں ويران کيا؟‬
‫وہابی‪” :‬ان کے مزاروں کو اس لئے خراب اور ويران نہيں کيا کيونکہ ان کے اور نماز گزاروں کے درميان ديوار حائل‬
‫ہوتی ہے جس کی وجہ سے نماز گزار انھيں اپنا قبلہ قرار نہيں دے سکتے اور نہ ہی ان پر سجده کر سکتے ہيں“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬يہ کام تو صرف ايک ديوار کی وجہ سے قابل قبول تھا ليکن اس پر گنبد خضرا اور اس کے قريب گلدستہ کی‬
‫کوئی ضرورت نہ تھی“۔‬
‫وہابی‪” :‬ميں تم سے ايک سوال کرتا ہوں کيا تمہارے پاس قرآن سے کوئی دليل ہے کہ تم اوليائے خدا کی قبروں کے لئے‬
‫خوبصورت مقبره بنوائيں؟“‬
‫شيعہ عالم‪” :‬اول تو يہ ضروری نہيں ہے کہ ہر چيز يہاں تک کہ مستحبات کا بھی ذکر قرآن ميں موجود ہو اور اگر ايسا ہوتا‬
‫تو قرآن مجيد اپنے موجوده حجم سے کئی گنا زياده ہوتا۔‬
‫سوره حج کی ‪ ٣٢‬ويں آيت ميں آيا ہے۔‬
‫ٔ‬ ‫دوم يہ کہ قرآن ميں اس بات کی طرف اشاره ہوا ہے جيسے‬
‫ب“‬‫ﷲ فَإِنﱠہَا ِم ْن تَ ْق َوی ْالقُلُو ِ‬
‫” َو َم ْن يُ َعظﱢ ْم َش َعا ِئ َر ِ‬
‫ٰ‬
‫تقوی ميں سے ہے“۔‬ ‫”اور جو شعائر خدا کی تعظيم کرتا ہے تو يہ دلوں کے‬
‫لفظ”شعائر“شعيره کی جمع ہے جس کے معنی عالمت اور نشانی کے ہيں اس آيت ميں خدا کے وجود اور اس کی عالمت‬
‫نہيں بلکہ اس کے دين کی عالمتوں کا ذکر ہے۔]‪[64‬‬
‫سوره ٔشوری کی ‪ ٢٣‬ويں آيت ميں رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اقرباء کی مودت اجر رسالت کہی گئی ہے۔‬
‫کيا اگر ہم رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اقرباء کے مقبروں کو ان کی محبت اور احترام ميں خوبصورت بنائيں‬
‫اور ان کو صاف ستھرا رکھيں تو يہ کوئی غلط کام ہوگا؟“‬
‫مثال کے طور پر اگر قرآن کو ايک دھول سے اٹی ہوئی جگہ پر زمين ہی پر رکھ ديا جائے تو کيا يہ قرآن کی بے ادبی نہيں‬
‫ہو گی؟ اور يہ مان بھی ليں کہ يہ توہين نہ ہوگی تب بھی اگر اسے صاف ستھری جگہ پر نہايت ادب واحترام کے ساتھ‬
‫رکھيں تو کيا يہ کام اچھا نہ ہوگا؟“‬
‫وہابی‪” :‬يہ جو تم کہہ رہے ہو لوگوں کے پسند کی باتيں ہيں کيا تمہارے پاس قرآن کی کوئی دليل بھی موجود بھی ہے ؟“‬
‫شيعہ عالم‪” :‬قرآن ميں اصحاب کہف کے ذکر ميں آيا ہے۔‬
‫”جب ان لوگوں نے غار ميں پناه لی اور وہيں ايک نہ جاگنے والی گہری نيند ميں سوگئے تو لوگوں نے انھيں ڈھونڈنکاال ان‬
‫لوگوں کے دميان اس جگہ کے بارے ميں نزاع ہو گيا کچھ لوگوں نے کہا‪:‬‬
‫”ابنوا عليھم بنيانا“يہاں ايک عمارت بنادو“۔‬
‫ليکن دوسرے گروه نے کہا‪” :‬لنتخذن عليھم مسجدا“ہم يہاں مسجد بنائيں گے“۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫قرآن مجيد نے دونوں نظريوں کوذکر کيا ہے ليکن اس نے اس پر کسی طرح کی کوئی تنقيد نہيں کی اگر ان دونوں نظريوں‬
‫ميں سے کوئی رائے حرام اور ناجائز ہوتی تو قرآن ضرور اس بات کا ذکر کرتا ليکن بات تو يہ تھی کہ يہ دونوں گروه‬
‫اصحاب کہف کے احترام کے لئے اپنی صواب ديد کے مطابق کام کرنا چاہتے تھے۔ا س طرح تين مذکوره آيتيں اس بات پر‬
‫داللت کرتی ہيں کہ اولياء کے قبروں کو شاندار بنا نا مستحب ہے۔]‪[65‬‬
‫آخری بات يہ کہ جو بعض تاريخی اور حديث کتابوں ميں ديکھا گيا ہے کہ قبروں پر مزار اور قبہ نہ بنا يا جائے تو وه اس‬
‫لئے ہے کہ کہيں خود قبور اولياء ‪،‬عبادت گاه اور سجده گاه نہ بن جائے ليکن اگر مومن وحده الشريک لہ کی عبادت کرنے‬
‫واال کمال خلوص سے مزار اور مقبروں کو مقامات مقدسہ ہونے کی وجہ سے يہاں ﷲ کی عبادت کرتا ہے تو اس ميں شرک‬
‫کی کيا بات ہے بلکہ اس طرح تو اس کی توحيد اور اخالص ميں اضافہ ہی ہوتا ہے۔‬

‫‪٨٧‬۔ خانہ کعبہ مينحضرت علی عليہ السالم کی والدت پر ايک مناظره‬
‫اشاره‬
‫امام علی عليہ السالم کے امتيازات اور افتخارات ميں سے ايک عظيم افتخار يہ بھی ہے کہ آپ دنيا کے مقدس ترين مقام خانہ‬
‫کعبہ ميں پيدا ہوئے اور يہ چيز شيعہ اور سنی دونوں طرح سے ثابت اوريقينی ہے۔‬
‫عالمہ امينی ‪،‬صاحب الغدير نے اپنی کتاب کی چھٹی جلد ميں اس بات کو اہل سنت کی ‪ /١٩‬معتبر کتابوں سے نقل کيا ہے۔‬
‫يہ بات خود امام علی عليہ السالم کی افضليت کے لئے ايک اہم اور زنده ثبوت ہے جو دوسروں ميں نہيں پائی جاتی اور اس‬
‫بات سے ان کی رہبری اور واليت بھی منحرف لوگوں پر ثابت ہوتی ہے۔‬
‫دعوی کيا ہے کہ يہ حديث متواتر ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫حاکم نے اپنی کتاب مستدرک )ج‪،٢‬ص‪(۴٨٣‬ميں يہ‬
‫چنانچہ اسی کے متعلق ايک شيعہ اور سنی عالم کے مناظره پر توجہ فرمائيں‪:‬‬
‫سنی عالم‪” :‬تاريخ ميں آيا ہے کہ حکيم بن حزام بھی کعبہ ميں پيدا ہوا ہے“۔‬
‫شيعہ عالم‪” :‬اس طرح کی چيز تاريخ ميں ثابت نہيں ہے جيسا کہ بﮍے علماء ‪،‬جيسے ابن صباغ مالکی ]‪،[66‬گنجی‬
‫شافعی]‪ [67‬شبلنجی ]‪[68‬اور محمد بن ابی طلحہ شافعی]‪ [69‬کہتے ہيں‪:‬‬
‫”لم يولد فی الکعبة احد قبلہ“۔‬
‫”حضرت علی عليہ السالم سے پہلے کوئی بھی کعبہ ميں پيدا نہيں ہوا تھا۔‬
‫)اس بات پر توجہ رہے کہ حکيم بن حزام حضرت علی سے عمر ميں بﮍا تھا (يہ گﮍھی ہوئی روايت بھی حضرت علی عليہ‬
‫السالم کے دشمنوں کی کارستانی ہے۔انھوں نے اس طرح اس عظيم افتخار کی اہميت کو ختم کرنا چاہا ہے“۔‬
‫سنی عالم‪” :‬کعبہ ميں والدت ہونا مولود کے لئے کون سا افتخار ہے ؟“‬
‫شيعہ عالم‪” :‬ايک وقت يہ ہے کہ اگر کوئی عورت اتفاق سے ايسی جگہ پہنچ جائے اور وہاں والدت ہو جائے تو اس يقينا اس‬
‫ميں کوئی افتخار نہيں ہے‪ ،‬ليکن اگر کوئی عورت اتنی زياده اہميت کی حامل ہو کہ خدا اس کے لئے خاص انتظام کرے اور‬
‫وہاں پہنچ کر بچہ کی والدت ہوتو يہ بات يقينا دونوں کے لئے افتخار کا باعث ہوگی۔حضرت علی عليہ السالم کی کعبہ ميں‬
‫والدت خدا وند متعال کی خاص عنايتوں ميں ہے جيسا کہ ديوار کاشق ہونا اور جناب فاطمہ بنت اسد کا اندر جانا سب کرامت‬
‫ولطف خداوند کی دليل نہيں تو اور کيا ہے ؟“]‪[70‬‬
‫سنی عالم‪ ” :‬جب علی عليہ السالم پيدا ہوئے تو وه بعثت سے ‪ ١٠‬سال پہلے کا واقعہ ہے اس وقت کعبہ ميں بت بھرے ہوئے‬
‫تھے جس کی وجہ سے اسے کوئی خاص اہميت حاصل نہيں تھی بلکہ وه بت کده تھا اور حضرت علی عليہ السالم جب ايک‬
‫بت کده ميں پيدا ہوئے تو بھال ان کے لئے کون سی فضيلت کی بات ہوگی“۔‬
‫شيعہ عالم‪ ” :‬کعبہ وه پہلی عبادت گاه ہے جو دنيا ميں بنائی گئی ‪،‬جسے حضرت آدم عليہ السالم نے بنايا تھا اور جہاں جنت‬
‫سے حجر االسود ال کر نصب کيا گيا تھا اس کے بعد طوفان نوح کے بعد جناب ابراہيم عليہ السالم نے اپنے زمانہ ميں دوباره‬
‫اس کی تعمير کی کعبہ پوری تاريخ ميں تمام انبياء اور اولياء خدا اور فرشتوں کا جائے طواف رہا ہے‪ ،‬اب اگر اس مقدس‬
‫جگہ پر کچھ دنوں کے لئے بت پرست قابض ہوجائيں اور اسے بت کده بنا ديں تو اس کی عظمت ومنزلت ميں کمی نہيں آئے‬
‫گی مثال کے طور پر اگر کوئی شخص مسجد ميں ايک بوتل شراب لے جائے تو کيا اس مسجد کی عظمت ختم ہو جائے گی ؟‬
‫اگو کوئی شخص حالت جنابت ميں ياشراب لئے مسجد ميں داخل ہوتا ہے تو وه حرام کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے اس‬
‫پر ﷲ کا عذاب نازل ہو گا ليکن جب فاطمہ بنت اسد خدا کے حکم اور مشيت سے کعبہ ميں داخل ہوئيں تو يہ ان کی فضيلت و‬
‫طہارت کی دليل ہے اور وه اس طرح سے خدا کی مہمان ہوئيں۔چنانچہ اس طرح سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ يہ بات حضرت‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫علی عليہ السالم کے افتخار کا سبب ہے۔‬
‫اسی وجہ سے اوائل اسالم ميں شاعروں نے خاص طور سے اس کرامت اور عنايت کو اپنے شعروں ميں بيان کيا ہے اور‬
‫خود اس بات کو ايک عجيب وغريب واقعہ سے قرار ديا گيا ہے۔‬
‫عبدالباقی عمری اس کے متعلق حضرت علی عليہ السالم سے خطاب کر کے کہتا ہے‪:‬‬
‫انت العلی الذی فوق العلی رفعا‬
‫ببطن مکة وسط البيت اذ وضعا]‪[71‬‬
‫”تم وہی ہو جو بلنديوں سے بھی بلند ہو گئے ‪،‬جب کہ تم مکہ کے درميان ‪،‬خانہ کعبہ ميں پيدا ہوئے۔‬
‫اسی طرح فارسی شاعر کہتا ہے‪:‬‬

‫درکعبہ تولد وز محراب شد شہيد‬


‫نازم بہ حسن مطلع وحسن ختام او‬

‫”کعبہ ميں والدت اور محراب ميں شہادت‪ ،‬ان کے آغاز و انجام ناز کرتا ہوں“۔‬
‫سنی عالم نے ہار مان کر مناظره کے اختتام کا اعالن کرديا۔‬

‫‪٨٨‬۔امامت اور حديث ”اصحابی کالنجوم “سے متعلق مناظره‬


‫شيعہ استاد‪” :‬ہم اس بات کے معتقد ہيں کہ امامت ‪،‬خالفت ‪،‬پيغمبر کی جانشينی دنيا وآخرت دونوں کی ايک عظيم زعامت و‬
‫رياست ہے کيونکہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کا جانشين شريعت کی حفاظت و احکام خدا کی نشر و اشاعت‪،‬‬
‫حدودا ٰلہی کا نفاذ اور دنياسے تمام فتنہ کی نابودی ميں رسول کا نمائنده ہوتا ہے‪ ،‬ہرکس و ناکس اس عظيم منصب پر فائز‬
‫تقوی ‪،‬جہاد ‪،‬علم ‪،‬ہجرت‪،‬ذہانت ‪،‬سياست‬‫ٰ‬ ‫ہونے کی صالحيت نہيں رکھتا‪ ،‬اس منصب کا حقدار وہی ہے جو اسالم ميں‬
‫‪،‬عدالت‪،‬شجاعت اوراخالق کے لحاظ سے تمام لوگوں سے افضل و برتر ہو اور ان تمام صفات کو ديکھنے کے بعد تاريخ اس‬
‫بات کی شاہد ہے اور شيعہ و سنی روايتيں بھی اس کا اثبات کرتی ہيں کہ موالئے کائنات علی عليہ السالم کے عالوه کوئی‬
‫ايسا شخص تاريخ اسالم ميں موجود نہيں ہے جسے ان تمام صفات سے ايک ساتھ متصف ديکھا گيا ہو“۔‬
‫سنی استاد‪” :‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫”اصحابی کالنجوم بايھم اقديتم اھتديتم۔“]‪[72‬‬
‫جاوگے“۔‬
‫”ميرے اصحاب ستاروں کی مانند ہيں ‪،‬ان ميں سے جس کی بھی تم پيروی کروگے ہدايت پا ٔ‬
‫اس حديث کی بنا پر ہم بھی صحابی کی پيروی کرکے نجات حاصل کر سکتے ہيں“۔‬
‫شيعہ استاد‪ ” :‬اس حديث کی سند کو چھوڑتے ہوئے چند دالئل سے يہ ثابت ہوتا ہے کہ يہ جعلی اور گﮍھی ہوئی ہے اور‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے اس طرح کی کوئی حديث بيان نہيں کی“۔‬
‫سنی استاد‪” :‬کن دالئل سے ؟“‬
‫شيعہ استاد‪ :‬اس حديث کے جعلی ہونے کے بہت سے دالئل ہيں‪:‬‬
‫‪١‬۔رات کے مسافر جب اپنا اصل راستہ بھول جاتے ہيں تو وه الکھوں اور کروڑوں ستاروں کو آسمان ميں چمکتے ہوئے‬
‫ديکھتے ہيں اب اگر يہ مسافر اس ميں سے اپنی خواہش کے مطابق کسی بھی ايک ستارے کو معين کر ليں تو وه ہر گز اپنی‬
‫منزل تک نہيں پہنچ سکتے بلکہ کچھ مخصوص ستارے ہيں جنھيں سب جانتے ہيں کہ اگر مسافران ستاروں کا سہارا لے کر‬
‫اپنی منزل کی طرف آگے بﮍھيں گے تو ضرور اپنی منزل تک جا پہنچ جائے گا۔‬
‫‪٢‬۔ مذکوره حديث رسول خدا کی دوسری حديثوں مثالً حديث ثقلين‪،‬حديث خلفائے قريش‪ ،‬حديث عليکم باالئمة من اھل بيتی اور‬
‫حديث اہل بيتی کالنجوم وغيره کے مخالف ہے۔‬
‫جيسے آنحضرت نے فرماياہے‪:‬‬
‫”النجوم امان الہل االرض من الغرق واھل بيتی امان من االختالف“۔]‪[73‬‬
‫”ستارے زمين والوں کو ڈوبنے سے بچاتے ہيں اور ميرے اہل بيت اختالف سے نجات ديتے ہيں“۔‬
‫اس بات کی طرف بھی توجہ رہے کہ حديث”اصحابی کالنجوم“کو مسلمانوں کے ايک خاص گروه نے نقل کيا ہے ليکن اس‬
‫کی مخالف حديثوں کو مسلمانوں کے تمام گروہوں نے نقل کيا ہے۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٣‬۔پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد اصحاب ميں جو کشمکش اور اختالفات وجود ميں آئے وه اس حديث سے‬
‫موافقت نہيں کرتے کيونکہ آنحضرت صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے بعد بعض اصحاب مرتد ہوگئے اور بعض نے بعض پر‬
‫اعتراض اور طعنہ زنی کی اور يہ اختالف و اعتراض اس حد تک پہنچا کہ عثمان کو قتل کر ڈاال گيا۔‬
‫اس کے عالوه يہ بھی اس حديث کے ساتھ موافق نہيں جو بعض نے بعض کو لعن وطعن کيا مثالًمعاويہ نے حضرت علی‬
‫عليہ السالم پر لعن وطعن کرنے کا حکم ديا اور بعض اصحاب نے بعض صحابہ سے جنگ کی جيسے طلحہ وزبير نے‬
‫حضرت علی عليہ السالم سے جنگ جمل ميں مقابلہ کيا اور معاويہ نے جنگ صفين ميں ان کے سامنے صف آرائی‬
‫کی۔بعض اصحاب گناه کبيره کے مرتکب ہوئے اور شراب خوری اور زنا کی وجہ سے ان پر حد جاری کی گئی۔)جيسا کہ‬
‫وليد بن عقبہ ‪،‬اور مغيره بن شعبہ کے متعلق ملتا ہے۔(‬
‫کيا ”بسر بن ارطاة “جو نبی کريم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے اصحاب ميں تھا اور جس نے ہزاروں مسلمانوں کا خون بہايا‬
‫اس قابل ہے کہ اس کی پيروی کرنے سے مسلمان ہدايت پاجائےں؟‬
‫کيا مروان بن حکم جس نے طلحہ کو قتل کيا اس کی پيروی سے ہدايت مل جائے گی؟‬
‫کيا مروان کے باپ حکم کی پيروی ہدايت دے دے گی جو اصحاب رسول ميں تھا اور آنحضرت کا مذاق اڑايا کرتا تھا ان‬
‫تمام باتوں پر توجہ رکھتے ہوئے اس جعلی حديث کو صحيح ماننا واقعا ً مضحکہ خيز ہے!!“۔‬
‫سنی استاد‪” :‬اصحابی کا مطلب يہ ہے کہ جو حقيقت ميں آنحضرت کے اصحاب تھے نہ کہ وه لوگ جو يوں ہی اصحاب بنے‬
‫بيٹھے تھے۔‬
‫شيعہ استاد‪” :‬اس طرح کے اصحاب تو صرف‪ ،‬سلمان ‪،‬ابوذر‪،‬مقداد‪،‬اور عمارجيسے ہی لوگ تھے مگر تم لوگ ان کے‬
‫بجائے دوسرے لوگوں کو ان کی جگہ شمار کرتے ہوئے ل ٰہذا اب بھی اختالف ختم نہيں ہوگا ‪ ،‬اس لئے بہتر يہی ہوگا کہ ہم ان‬
‫حديثوں کے بارے ميں بحث کريں جو کسی طرح سے بھی قابل اعتراض نہيں ہيں جيسے حديث ثقلين ‪،‬حديث سفينہ يا وه‬
‫روايتيں جن کے بارے ميں ائمہ عليہم السالم نے تصريح کی ہے۔‬
‫روايت ميں آيا ہے کہ جب جنا ب سلمان مدائن کی طرف روانہ ہوئے تو اشعث اور جرير نامی دو افراد نے ان سے مالقات‬
‫کی مگر انھيں يقين نہ آيا کہ يہی سلمان ہيں ليکن جناب سلمان نے خود ہی اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ ميں وہی سلمان‬
‫اور صحابی رسول ہوں‪ ،‬پھر فورا ً آپ نے فرمايا‪” :‬ليکن يہ جان لو کہ آنحضرت کا حقيقی صحابی وہی ہے جو ان کے ساتھ‬
‫جنت ميں داخل ہوجائے“۔]‪[74‬‬
‫واضح الفاظ ميں يہ کہيں کہ صحابی وہی ہے جو اپنی پوری زندگی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے احکام کی‬
‫پابندی کرے اور اس پر آخری عمر تک قائم رہے اس بنا پر جناب سلمان عليہ السالم سے نقل ہوئی حديث سے ہم يہ نتيجہ‬
‫اخذ کرتے ہيں کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے اس طرح کے صحابيوں کی پيروی کرکے ہم جنت وہدايت پا‬
‫سکتے ہيں ليکن ميں يہ پوچھتا ہوں کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد کتنے لوگ ايسے تھے جنھوں نے اپنی‬
‫راه نہيں بدلی اور آنحضرت کے بتائے ہوئے راستہ پر باقی رہے ؟‬
‫ہماری روايتوں کے مطابق تو صرف تين يا چار اصحاب ہی ايسے تھے جو اپنے دين پر باقی رہے جيسے سلمان ‪،‬مقداد‪،‬‬
‫عمار ياسر ‪،‬ليکن ان کے عالوه بقيہ سب مرتد ہوگئے تھے“۔‬

‫‪٨٩‬۔علی عليہ السالم ‪ ،‬راه عدالت کے شہيد‬


‫حقجو اور حميد نامی دو اسالمی دانشوروننے اس طرح مناظره کيا‪:‬‬
‫حميد‪” :‬ہم جب امام علی عليہ السالم کی زندگی کا مطالعہ کرتے ہيں تو ان کی زندگی کا اکثر حصہ جنگ و جہادميں پاتے‬
‫ہيں‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں ان کی جنگ آنحضرت کے حکم سے ہوا کرتے تھی جس ميں‬
‫کسی شک وشبہ کی گنجائش نہيں ہے ليکن علی عليہ السالم نے اپنی خالفت )جسے عمر نے غصب کر ليا تھا( کے زمانہ‬
‫ميں جو جنگيں لﮍيں جيسے جنگ جمل ‪،‬جنگ صفين اور جنگ نہروان ان سب ميں مناسب تو يہی تھا کہ وه قوم کے بزرگوں‬
‫کے ساتھ مل بيٹھ کر مصالحت کر ليتے اور اس قدر خوريزی سے پر ہيز کرتے“۔‬
‫حق جو‪” :‬ہم امام علی عليہ السالم کو ايک حق پرست مخلص اور کامل انسان کے عنوان سے جانتے ہيں انھوں نے رسول‬
‫خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں مشرکوں او ر اسالم کے مخالفوں سے جنگ کی اور اپنے دور خالفت ميں بھی‬
‫انھيں لوگوں سے جنگ کی جنھوں نے اسالم کے ظاہر کو لے ليا اور باطن کو چھوڑ ديا تھا يہ وہی منافق تھے جو اسالم کے‬
‫نام پر اسالم کو بے عزت کر رہے تھے اور اسالم کو اس کی حقيقت سے دور کر کے اسے اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال‬
‫کر رہے تھے‪،‬اگر ہم غور کريں تو معلوم ہو جائے گا کہ اسالم کو کافروں کے مقابلہ ميں منافقوں سے زياده نقصان پہنچا‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ہے۔‬
‫حميد‪” :‬حضرت علی اگر چاہتے تو ناکثين )اصحاب جمل(قاسطين )جنگ صفين کی آگ بھﮍکانے والے(اور‬
‫مارقين)خوارج(کے سرداروں کو اقتدار اور بيت المال سے خاموش کر ديتے اور اس طرح وه لوگوں کو اپنی طرف مال‬
‫ليتے“۔‬
‫حق جو‪ ” :‬تمہاری بات کا انداز بتا رہا ہے کہ تم ايک عام حاکم اور خدائی رہنما جو اپنے ذاتی فائده پر خدا کے احکام کو‬
‫ترجيح ديتا ہے دونوں کے درميان فرق کو نہيں سمجھتے‪ ،‬يہ بہت بﮍی غلطی ہے۔‬
‫بہتر يہ ہے کہ حضرت علی عليہ السالم کے دور خالفت ميں ہوئی جنگوں کا ہم اچھی طرح سے جائزه ليں تاکہ يہ بات اچھی‬
‫طرح سے واضح ہو جائے۔‬
‫جنگ جمل کے وجود ميں آنے کے اسباب معاشرتی برتری اور نا انصافی تھے ان تمام باتوں کو جنگ جمل کی آگ بھﮍکانے‬
‫والے اسالم کے نام پر اسالمی حکومت ميں يہی نا انصافياننافذ کرنا چاہتے تھے طلحہ وزبير جيسے لوگ حضرت علی عليہ‬
‫السالم سے اپنے لئے بﮍے بﮍے عہده کا مطالبہ کر رہے تھے يہ لوگ صاف صاف آپ سے عہدوں کے متعلق بات کرتے‬
‫ہوئے کہا کرتے تھے فالں عہده ہميں دے ديں ‪،‬بيت المال کا اتنا حصہ ہمارا ہونا چاہئے۔‬
‫اس بيکار خواہش کی بنا پر يہ اسالمی احکام کے خالف باتيں حضرت علی عليہ السالم کی حکومت ميں رائج کرانا چاہتے‬
‫تھے مگر حضرت علی عليہ السالم اس بات پر تيار نہيں ہوئے کہ خود غرض لوگوں کو ان کے ذاتی مفاد کی وجہ سے عوام‬
‫کے سياه و سفيد کا مالک بنادينن اور انھيں ان پر مسلط کر ديں۔‬
‫امام علی عليہ السالم ايک خدا پرست انسان تھے نہ کہ ايک خود خواه اور خود غرض حاکم جو اپنے ذاتی مفاد کے لئے‬
‫خدائی احکامات کو پس پشت ڈال ديتے۔‬
‫جنگ صفين ميں بھی معاويہ حضرت علی عليہ السالم سے قانونی طور پر حکومت شام کے تمام اختيارات لينا چاہتا تھا اور‬
‫يہ بات بھی واضح ہے کہ معاويہ ان اختيارات کے ذريعہ اپنے خاندان اور اپنی تعريف کرنے والے شکم پر ستوں کو عوام‬
‫کی جان ومال پر مسلط کرنا چاہتا تھا اور اس طرح اس کی حکومت يقينا اسالمی اقدار کے برخالف اونچ نيچ اور طبقاتی‬
‫تفريق کی بنيادوں پر استوار ہوتی۔‬
‫ليکن کياحضرت علی عليہ السالم ايسا کرنے کا موقع ديتے ؟!!کيا اس جيسے بے دين شخص کو اسالمی حکومت کی باگ‬
‫ڈور پکﮍا ديتے؟نہينيہ ہرگز نہيں ہو سکتا تھا۔‬
‫اسی دوران مغيره بن شعبہ جيسے لوگوں نے بھی ”النصيحة المر اء المسلمين“‪) ،‬مسلمانوں کے حاکموں کے لئے نصيحت‬
‫(کی نقاب اوڑھ کر حضرت علی عليہ السالم سے اس قسم کے مطالبے کئے ليکن حضرت علی عليہ السالم نے اس کا سخت‬
‫جواب ديتے ہوئے فرمايا‪:‬‬
‫”ولم يکن ﷲ يرانی اتخذت المضلين عضدا“۔]‪[75‬‬
‫بناوں“۔‬
‫‪”-‬خدا مجھے اس حالت ميں کبھی نہيں ديکھ سکتا کہ ميں گمراہوں کو اپنا مددگار ٔ‬
‫اس طرح کے مطالبے اور اس کے نتيجہ ميں حاالت کی سنگينی کا احساس کرتے ہوئے بعض حضرت علی عليہ السالم کے‬
‫مخلص اصحاب جيسے عمار ياسر ‪،‬ابو الہيثم تيہان وغيره نے آپ کو مشوره بھی ديا کہ وقتی طور پر آپ ان لوگوں سے‬
‫محبت اور رغبت کا اظہار کريں اور ان قوم کے لٹيروں کو امتيازی مقامات دے ديں تاکہ وه آپ کی حکومت کے خالف قيام‬
‫نہ کريں اور بعض حکام اور گورنروں ميں اہليت نہ پاتے ہوئے بھی انھيں ان کے مقام پر باقی رکھيں کيونکہ يہ لوگ بہر‬
‫حال قوم کے بﮍے ہيں ل ٰہذا آپ ان کا خيال کريں“۔‬
‫امام علی عليہ السالم نے ان کے جواب ميں کہا‪:‬‬
‫”اتامرونی ان اطلب النصر بالجور ‪،‬فيمن وليت عليہ ‪،‬وﷲ ال اطور بہ ما سمر سميرو ما ام نجم فی السماء نجماً۔“]‪[76‬‬
‫”کيا تم مجھے اس بات کا حکم ديتے ہو کہ ميں محکوم لوگوں پر ظلم وجور کے ذريعہ غلبہ حاصل کروں خدا کی قسم جب‬
‫تک دنيا موجود ہے اور جب تک آسمان ميں کوئی ستاره دوسرے ستارے کے پيچھے پيچھے چلتا رہے گا ميں اس طرح کا‬
‫کام نہيں کر سکتا“۔‬
‫اس طرح حضرت علی عليہ السالم کا بے انصافی اور طبقاتی تفريق کرنے والوں سے سختی سے مقابلہ کرنے کی وجہ سے‬
‫اس تحريک کے حامی آپ کے مخالف ہوگئے اور جنگ جمل اور صفين ميں دو محاذوں پر وه سامنے آگئے اس کے ساتھ ہی‬
‫جنگ صفين ميں ہی جنگ نہروان کی داغ بيل پﮍ گئی تھی‪ ،‬اس جنگ ميں روباه صفت معاويہ کی طرف سے نيزوں پر قرآن‬
‫بلند کرنا اس کے دھوکہ بازی کے ذريعہ صلح کی خواہش نے حضرت علی عليہ السالم کے فوجيوں کو سست کر ديا اور‬
‫نوبت يہاں تک پہنچ گئی کہ لوگ کہنے لگے کہ يہ دوحاکموں کی جنگ ہے اور جوکل تک حضرت علی عليہ السالم کے سا‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫تھی تھے جذبات ميں آکر آپ کو کافر کہنے لگے نتيجہ ميں جنگ نہروان عمل ميں آئی جس ميں شرکت کرنے والے‬
‫حضرت علی عليہ السالم کے وه ساتھی تھے جنھوں نے صفين ميں آپ کی طرف سے تلوار چالئی تھی۔اس جنگ ميں‬
‫حضرت علی عليہ السالم کے ہاتھوں سے بھاگ نکلنے والوں نے مل کر آپ کے قتل کامنصوبہ بنايا اور اس طرح ”ابن ملجم‬
‫اشقی االولين واالخرين“کے ذريعہ آپ شہيد کر ديئے گئے جيسا کہ آپ کے لئے لوگوں نے کہا۔”قتل علی لشدةعدلہ۔“علی‬
‫اپنے عدل وانصاف ميں شدت کی وجہ سے قتل کر ديئے گئے“۔‬
‫اسی وجہ سے جب آپ کے سر مبارک پر ضربت لگی تو آپ نے فرمايا‪:‬‬
‫”فزت ورب الکعبة“]‪[77‬‬
‫”کعبہ کے پروردگار کی قسم ميں کامياب ہوگيا“۔‬
‫علی عليہ السالم کی کاميابی اس وجہ سے نہيں تھی کہ آپ نے ذاتی اہداف کو اہميت نہيں دی بلکہ اس وجہ سے تھی کہ آپ‬
‫نے اپنی زندگی کے آخری لمحہ تک عدالت قائم کرنے اور طبقاتی نظام کو ختم کرنے کی کوشش جاری رکھی۔حضرت علی‬
‫عليہ السالم يہ چاہتے تھے کہ ذاتی اور شخصی مفاد کو اسالم کے سياسی اور معاشرتی مفاد پر قربان کرديں تاکہ آئنده آنے‬
‫والے مسلمان ظالموں اور ستمگروں کا ڈٹ کر مقابلہ کر سکيں مثال کے طور پر ظالم اسرائيل سے مذاکرے کے لئے تيار نہ‬
‫ہوں اور سامراجی طاقتوں سے دوستی کے لئے کبھی ہاتھ نہ بﮍھائيں اور محمدمصطفی صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے اسالم‬
‫کو ايک اجنبی اسالم سمجھ کر معاويہ اور يزيد کے اسالم کو نہ اپناليں۔‬

‫‪٩٠‬۔ استاد اور شاگرد کے درميان ائمہ کی سخاوت کے بارے ميں مناظره‬
‫شاگرد‪” :‬بہت سی اسالمی روايات ميں ہميں يہ بات ملتی ہے کہ فالں امام نے فالں شاعر يا محتاج کو پيسہ ديا يا اس طرح‬
‫کی مختلف روايات ائمہ عليہم السالم کے عطيوں کے بارے ميں وارد ہوئی ہيں کيايہ روايتيں صحيح ہيں؟“‬
‫استاد‪” :‬ممکن ہے بعض روايتوں کی سند صحيح نہ ہو ليکن اس طرح کی اتنی زياده روايتيں موجود ہيں کہ جن کا انکار نہيں‬
‫کی جاسکتا اور قطعی طور پر ان سب ميں کچھ روايتيں تو ہر لحاظ سے صحيح ہيں“۔‬
‫نمونہ کے طور پر مندرجہ ذيل چار روايتوں پر توجہ فرمائيں‪:‬‬
‫سوره حمد پﮍھايا تو آپ نے اسے ہزار دينار ديا اور اس زمانہ‬
‫ٔ‬ ‫‪١‬۔عبد الرحمن سلمی نے امام حسين عليہ السالم کے بيٹے کو‬
‫کے ہزار حُلے )جو اس وقت کا بہترين لباس ہوا کرتا تھا( انعام کے طور پر دئے اور اس کامنہ موتيوں سے بھر ديا۔]‪[78‬‬
‫‪٢‬۔ايک بھٹکاہوا مسافر امام رضا عليہ السالم کی خدمت ميں آکر کہنے لگا ميرے پاس زاد راه ختم ہوگيا ہے آپ مجھے کچھ‬
‫پيسے دے ديں تاکہ ميں اپنے وطن واپس جا سکوں ميں وطن پہنچ کر اتنی ہی مقدار ميں آپ کی طرف سے صدقہ دے دوں‬
‫گا۔‬
‫امام علی رضا عليہ السالم اٹھ کر اپنے گھر کے اندر گئے اور دو سودرہم کی تھيلی ال کر اسے دی اور فرمايا‪” :‬يہ پيسہ ميں‬
‫نے تمہيں بخش ديا ہے ل ٰہذا يہ الزم نہيں ہے کہ تم ميری طرف سے اتنی مقدار ميں صدقہ دو“۔]‪[79‬‬
‫‪٣‬۔امام سجاد عليہ السالم نے ”فرزدق“کے لئے قيد ميں باره ہزار درہم يہ کہہ کر بھيجے کہ تمہيں ہمارے حق کی قسم ہے تم‬
‫اسے قبول کر لو اور فرزدق نے قبول کر ليا“۔]‪[80‬‬
‫‪۴‬۔دعبل نے اہل بيت عليہم السالم کے مصائب پر ايک مرثيہ پﮍھا تو امام رضا عليہ السالم نے انھيں ايک تھيلی بھيجی جس‬
‫ميں سو دينار تھے۔ دعبل نے ان تمام سکوں کو جن پر امام کا نام لکھا تھا عراقی شيعوں ميں بانٹ ديا اور ايک ايک سکے‬
‫کے بدلے سو دينا ر لے کر اپنی زندگی آسوده کر لی۔]‪[81‬‬
‫اس سلسلہ ميں اس طرح کی اور بہت سی روايتيں پائی جاتی ہيں۔‬
‫شاگرد‪” :‬اگر يہ تمام روايتيں صحيح ہيں تو حضرت علی عليہ السالم بيت المال کوخرچ کرنے ميں اتنی سختی کيوں کرتے‬
‫تھے ؟اور لوگوں ميں برابر سے تقسيم کرتے تھے جيسے ان کے بھائی عقيل نے جب اپنی ضرورت کے تحت اپنا حصہ‬
‫بﮍھانے کے لئے کہا تو حضرت علی عليہ السالم نے لوہے کی ايک سالخ گرم کر کے عقيل کے ہاتھ پر رکھ دی جس کے‬
‫بعد جناب عقيل نے ايک بلند چيخ ماری تو امام علی عليہ السالم نے فرمايا‪:‬‬
‫”عورتيں تمہارے سوگ ميں بيٹھيں تم ايک انسان کی جالئی ہوئی آگ سے چيختے ہو ليکن مجھے اس آگ کی طرف بھيج‬
‫رہے ہو جسے خدا نے اپنے غيظ و غضب سے جال رکھا ہے تم ايک چھوٹی سی اذيت سے ڈرتے ہو تو کيا ميں ہميشہ‬
‫بھﮍگنے والے آگ سے نہ ڈروں؟“]‪[82‬‬
‫استاد‪” :‬يہی تمہاری غلطی ہے کہ تم يہ تصور کرتے ہو کہ تمام ائمہ عليہم السالم کی در آمد صرف بيت المال ہی تھی اسی‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫وجہ سے ان کے عطيہ و بخشش اور علی عليہ السالم کی بيت المال ميں سختی کو ايک طرح کاتضاد سمجھ رہے ہو‪ ،‬جب کہ‬
‫حقيقت يہ ہے کہ ائمہ عليہم السالم کی در آمد کے مختلف ذرائع تھے اور حضرت علی عليہ السالم کام کيا کرتے تھے۔‬
‫جيسا کہ حضرت علی عليہ السالم نے جب عمر ‪ ،‬ابوبکر اور عثمان کے دور خالفت ميں شيعوں کو بﮍی سخت زندگی‬
‫گزارتے ديکھا تو پچيس سال کے دور ميں آپ نے بہت سی زمينوں کو قابل کا شت بنايا اور پھر اسے اپنے شيعوں کے‬
‫درميان تقسيم کر ديا تا کہ وه آرام سے ره سکيں۔‬
‫آپ نے اس کے لئے ايک وقف تشکيل دے رکھاتھا جو ان زمينوں کی مجموعی در آمد کو فقراء ميں تقسيم کرتے اور فقراء‬
‫وپريشان حال شيعوں ميں بانٹ ديا کرتے تھے۔‬
‫اسی طرح امام جعفر صادق عليہ السالم ‪،‬امام محمد باقر عليہ السالم اور ديگر ائمہ عليہم السالم نے زراعت کی اور جانوروں‬
‫کے ذريعہ تجارت کی ہے آپ ان کاموں کے لئے کچھ افراد کو معين کر ديا کرتے تھے کيونکہ انھيں اس با ت کا خيال تھا‬
‫کہ مذہب حق کے پيروکار کہيں غربت کی وجہ سے دوسری طرف مائل نہ ہو جائيں اسی لئے ائمہ عليہم السالم اپنے‬
‫اصحاب اور خاص خاص دوستوں اور خود اپنی زمينوں اور غلوں سے ہونے والی درآمد کو اپنے غريب شيعوں پر خرچ کر‬
‫ديا کرتے تھے اور اسی مال سے ان کا خيال رکھتے تھے اور ان کی حفاظت کرتے تھے ان کے عطيات اور بخششيں اسی‬
‫دولت سے ہوا کرتی تھی نہ کہ بيت المال سے۔‬
‫شاگرد‪” :‬ميں آپ کی اس منطقی گفتگو سے قانع ہوں ليکن ميں آپ سے يہ درخواست کرتا ہوں کہ ائمہ عليہم السالم کی در‬
‫آمد کے ذرائع کے دوچار نمونے بھی ذکر کرديں“۔‬
‫استاد‪” :‬بہت ہی اچھا سوال ہے۔ميں چند نمونے ذکرکرتا ہوں“۔‬
‫‪١‬۔امام علی عليہ السالم نے اپنے دوباغ جس ميں کنواں بھی تھا ”ابو نيزر“ نامی ايک مسلمان کو دے رکھا تھا جن ميں سے‬
‫ايک کانام ”ابو نيزر“ تھا اور دوسرے کا ”بغيبغہ“ان دونوں باغوں ميں کاشتکاری بھی ہوتی تھی۔‬
‫”ابو نيزر“ کا بيان ہے کہ ”ايک روز ميں باغ ميں تھا اسی دوران علی عليہ السالم باغ ميں داخل ہوئے اور مجھ سے فرمايا‬
‫کيا تمہارے پاس کھانا ہے ؟“‬
‫ميں نے کہا‪” :‬اسی باغ کے ايک کدو کو ميں نے پکايا ہے“‪ ،‬آپ نے جا کر وه کھاناليا اور کھانا کھانے کے بعد بيلچہ اٹھا کر‬
‫اس کھيت ميں داخل ہوگئے۔تھوڑی دير تک کھودنے کے بعد جب آپ پسينے ميں شرابور ہو گئے تو گﮍھے سے باہر آئے‬
‫اور تھوڑا آرام کرنے کے بعد پھر آپ کام ميں مشغول ہو گئے گﮍھے کے اندر سے ميں بيلچہ کی آواز کے ساتھ آپ کی زير‬
‫لب آواز بھی سن رہا تھا آپ نے گﮍھے کو کھودا اور اس کی گھاس پھوس صاف کر ديا يہاں تک کہ اونٹ کی گردن کے اتنا‬
‫اس ميں پانی بﮍھ گيا اس کے بعد آپ اس گﮍھے سے باہر آئے اور فرمايا‪ ” :‬خدا کی قسم !ميں نے اس چشمے کو وقف کر‬
‫ديا“‪ ،‬اس کے بعد آپ نے کاغذ وقلم مانگا‪ ،‬ميں نے ال کر ديا تو آپ نے وہيں وقف نامہ تحرير کرديا۔‬
‫روايت ميں ہے کہ ايک دفعہ امام حسين عليہ السالم مقروض ہو گئے تو معاويہ نے آپ کے پاس دوالکھ درہم بھيجے اور اس‬
‫چشمہ کو خريد نے کی خواہش کا اظہار کيا تو امام حسين عليہ السالم نے اسے جواب ديا‪” :‬ميرے بابا نے اس کھيت اور‬
‫چشمہ کو وقف کرديا ہے تاکہ قيامت ميں جہنم کی آنچ سے محفوظ رہيں‪،‬ميں اسے کسی قيمت پر نہيں بيچ سکتا“۔ ]‪[83‬‬
‫‪٢‬۔امام محمد باقر عليہ السالم اپنے کھيت ميں پھاوڑا چالنے ميں مشغول تھے کہ اس موقع ”محمد بن منکدر “نام کا ايک زاہد‬
‫جاو تو بﮍی سخت حالت ہوگی“۔‬ ‫نما شخص آپ کو دنيا کا اللچی سمجھ کر کہنے لگا‪ ،‬اگر تم اسی حالت ميں مر ٔ‬
‫امام محمد باقر عليہ السالم نے فرمايا‪ ” :‬خدا کی قسم اگر اس حالت ميں ميری موت آجائے جب کہ ميں اطاعت خدا ميں‬
‫مشغول ہوں تو بﮍی اچھی بات ہوگی کيونکہ ميں تمہاری دنيا کے کسی بھی شخص کا محتاج نہيں رہوں گا ميں تو گناه کے‬
‫عالم ميں موت آنے سے ڈرتاہوں“۔]‪[84‬‬
‫اسی طرح کی ايک روايت امام جعفرصادق عليہ السالم کے بارے ميں بھی نقل ہوئی ہے۔]‪[85‬‬
‫‪٣‬۔ ابو حمزه کہتے ہيں کہ ميرے باپ نے کہا کہ ميں ايک روز ايک کھيت ميں گيا تو ديکھا کہ امام کاظم عليہ السالم پھاوڑا‬
‫چالنے ميں مشغول ہيں اور ان کا بدن پسينے ميں ڈوبا ہوا ہے ميں نے کہا‪ ” :‬آپ کے غالم اور دوسرے لوگ کہاں ہيں کہ آپ‬
‫پھاوڑا چال رہے ہيں ؟ “‬
‫آپ نے فرمايا‪” :‬جو لوگ مجھ سے اور ميرے باپ سے افضل تھے انھوں نے اپنا کام اپنے ہاتھوں سے کيا ہے“۔‬
‫ميں نے سوال کيا‪” :‬وه کون لوگ تھے ؟ “‬
‫آپ نے فرمايا‪:‬‬
‫المومنين وآبائی کلھم کانوا قد عملوا بايديھم وھو من عمل النبيين والمرسلين واالوصياء و الصالحين“۔]‪[86‬‬
‫ٔ‬ ‫وامير‬ ‫”رسول ﷲ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫آباو اجداد سب کے سب اپنے ہاتھوں سے اپنا‬ ‫”رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور حضرت علی عليہ السالم اور ميرے ٔ‬
‫کام کيا کرتے تھے يہ انبياء اور صالح اوصياء کاکام ہے“۔‬
‫شاگرد‪” :‬ميں آپ کے اس قانع کننده جواب کے لئے بہت شکر گزار ہوں اس طرح کی اور باتيں ہوں تو آپ بيان فرمائيں‪،‬تاکہ‬
‫ميں زياده سے زياده استفاده کر سکوں“۔‬
‫استاد‪” :‬ضروری بات يہ کہ ائمہ عليہم السالم کے زمانہ ميں شيعہ جو حقيقی اسالم پر عمل پيرا تھے ان کی حالت نہايت ابتر‬
‫تھی اور روز بروزان پر سختياں بﮍھتی رہتی تھيں کيونکہ ان کے حقوق اور وظيفے بند کر ديئے جاتے تھے جس کی وجہ‬
‫سے وه نہايت فقيرانہ زندگی گزارنے پر مجبور ہو جاتے تھے‪،‬اس بات پر توجہ رکھتے ہوئے کہ شيعوں کی حفاظت اسالم‬
‫ارکان کی حفاظت تھی اور اسالم دشمن طاقتوں کے ہاتھ کانٹنے کی مترادف تھا‪ ،‬اس لئے ان لوگوں کو خمس و ٰ‬
‫زکوة اور‬
‫بيت المال ميں سے دينا بھی جائز تھا‪) ،‬البتہ اس طرح کہ ان کے اندر تبعيض نہ ہوسکے( تاکہ ان کے ذريعہ ناپاک لوگوں‬
‫کے شر سے حقيقی اسالم بچارہے کيونکہ بيت المال کے مصرفوں ميں سے ايک مصر ف اسالم کی استواری اور اس کے‬
‫استحکام کے لئے خرچ کرنا بھی ہے۔]‪[87‬‬

‫‪٩١‬۔حضرت علی عليہ السالم کی عظمت اور مسئلہ وحی کے بارے ميں مناظره‬
‫مسجد لوگوں سے چھلک رہی تھی اور ايک عالم دين نے حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں تقرير کرتے کرتے مندرجہ‬
‫ذيل روايت کو نقل کيا‪:‬‬
‫”ايک روز پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے پانی مانگا تو اس وقت آپ کے پاس صرف علی ‪،‬جناب فاطمہعليہ‬
‫السالم اور امام حسن وامام حسين عليہم السالم موجود تھے۔آپ کو پانی الکر ديا گيا آپ نے پہلے اسے امام حسن عليہ السالم‬
‫کی طرف بﮍھا ديا اس کے بعد امام حسين عليہ السالم اور آخر ميں جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی طرف بﮍھا يا تو آپ‬
‫نے فرمايا‪” :‬ھنيئا ًمريئا لک‪ ،‬آپ کے لئے گوارا رہو“۔‬
‫ليکن جب علی عليہ السالم کی طرف پانی بﮍھا يا اور آپ نے پانی پيا تو آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمنے فرمايا‪:‬‬
‫”ھنيئا مريئا لک يا ول ّي وحجتی علی خلقی“۔‬
‫” اے ميرے ولی اور ميری امت پر ميری حجت آپ کے لئے گوارا رہو“۔‬
‫اور آپ سجده ميں چلے گئے‪ ،‬جناب فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا نے رسول اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمسے پوچھا‪” :‬آپ‬
‫کے سجده کا کيا راز تھا ؟ “‪ ،‬پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪” :‬جب تم لوگوں نے پانی پيا اور ميں نے کہا‪:‬‬
‫”ھنيئا مريئا “تو ميرے کانوں ميں آوازا ٓئی کہ ميرے ساتھ ساتھ فرشتے بھی يہی کہہ رہے ہيں ليکن جب علی عليہ السالم نے‬
‫پانی پيا اور ان کے لئے ميں نے ”ھنيئا مريئا لک“کہا تو ميرے کانوں ميں خدا کی آواز پہنچی کہ وه بھی يہی کہہ رہا ہے‬
‫جس کی وجہ سے اس کی نعمت پر سجده شکر بجااليا“۔]‪[88‬‬
‫سامع‪” :‬کيا خدا بولتا ہے کہ پيغمبر صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے اس کی آواز سنی ؟ “‬
‫مقرر‪” :‬خدا وند متعال مکان يا فضا ميں آواز پيدا کرديتا ہے جسے اس کا پيغمبر سنتا ہے بالفاظ ديگر‪ :‬انبياء اور خدا ميں تين‬
‫طرح سے ارتباط ہوتا ہے۔‬
‫‪(١‬قلب پر القاء کرنا جو بہت سے انبياء پر وحی نازل ہونے کے بارے ميں پاياجاتا ہے۔‬
‫سوره بقره آيت ‪ ٩٧‬ميں اس کا ذکر کيا گيا ہے۔‬
‫ٔ‬ ‫‪ (٢‬جبرئيل عليہ السالم کے ذريعہ جو وحی خدا النے والے ہيں جيسا کہ‬
‫موسی عليہ السالم سے بات‬‫ٰ‬ ‫‪ (٣‬حجاب کے پيچھے سے ياکسی چيز ميں آواز ايجاد کرنا جيسا کہ خد اوند متعال نے جنا ب‬
‫کی۔‬
‫ْ‬ ‫َ‬
‫” َوکل َم ﷲُ ُمو َسی تکلِي ًما“ ]‪[89‬‬ ‫ﱠ‬ ‫َ‬
‫موسی سے با قاعده گفتگو کی ہے“۔‬ ‫ٰ‬ ‫”اور )ﷲ نے(‬
‫موسی عليہ السالم نے آگ کے اندر سے خدا کی ا ٓواز‬ ‫ٰ‬ ‫سوره طہ کی ‪١١‬ويں اور ‪ ١٢‬ويں آيت کے مطابق حضرت‬ ‫ٔ‬ ‫اسی طرح‬
‫سنی۔‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫ک“‬ ‫ب‬
‫ﱡ‬
‫َ َ‬ ‫ر‬ ‫َا‬ ‫ن‬ ‫ٔ‬
‫ا‬ ‫ی‬ ‫ﱢ‬ ‫ن‬ ‫”فَلَ ﱠما َ ِ َ ُ َ ِٕ‬
‫ا‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫م‬‫ا‬ ‫ي‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫و‬ ‫ُ‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫َا‬ ‫ت‬ ‫ٔ‬
‫ا‬
‫موسی !بال شبہ ميں تمہارا پروردگار ہوں“۔‬
‫ٰ‬ ‫” جب وه اس )آگ (کے پاس آئے تو ندادی گئی اے‬
‫شوری کی ‪ ۵١‬ويں آيت ميں ان تين طريقوں کی وحی کی وضاحت کی گئی ہے اس طرح خداوند عالم فضايا کسی ايک‬ ‫ٰ‬ ‫سوره‬
‫ٔ‬
‫چيز ميں آواز پيدا کرتا ہے جسے اس کے انبيا سنتے ہيں۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫سامع‪” :‬معاف کرنا ميں خيال کررہا تھا کہ وحی کی صرف ايک قسم ہے جو صرف جناب جبرئيل عليہ السالم کے ذريعہ آتی‬
‫ہے ليکن آپ کے بيان سے معلومات ميں اضافہ ہو ا اور ساتھ ساتھ ميں يہ بھی سمجھ گيا کہ خدا وند متعال کے نزديک علی‬
‫عليہ السالم کی منزلت کيا ہے جيسا کہ خداوند متعال نے اپنے پيغمبر کے ساتھ ہم زبان ہو کر فرمايا‪” :‬ھنيئا مريئا“۔‬
‫ليکن ميرادوسرا سوال يہ ہے کہ کياقرآن کی آيتوں کے عالوه بھی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم پر وحی کے طور‬
‫پر کچھ چيزيں نازل ہوئی ہيں؟ “‬
‫مقرر‪” :‬ہاں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم قرآنی آيات کے عالوه احکام وغيره کے بارے ميں بہت سی باتيں بتاتے‬
‫تھے جو تمام کی تمام وحی ٰالہی ہوتی تھيں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے معارف اور احکام ٰالہی کو صرف وحی‬
‫کے ذريعہ لوگوں کو بتايا جيسا کہ سوره ٔ نجم کی دوسری اور تيسری آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫ق ع َْن ْالہَ َوی ِٕا ْن ہُ َو ِٕاالﱠ َوحْ ٌ‬
‫ی يُو َحی “‬ ‫” َو َما يَ ْن ِط ُ‬
‫”اور وه اپنی خواہش سے کچھ نہيں بولتاوه وہی کہتا ہے جو وحی ہوتی ہے“۔‬

‫‪٩٢‬۔ايک طالب علم اور عالم دين کے درميان ايک مناظره‬


‫ايک جگہ کچھ مومنين بيٹھے ہوئے جن ميں ايک طالب علم اور ايک عالم دين کے درميان اس طرح مناظره ہوا۔‬
‫موسی عليہ السالم‬
‫ٰ‬ ‫سوره اعراف کی ‪١۴٣‬ويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں کہ‬‫ٔ‬ ‫طالب عالم‪” :‬قرآن ميں چند جگہوں]‪ [90‬ميں منجملہ‬
‫نے خدا سے عرض کيا‪:‬‬
‫ک“‬ ‫” َربﱢ أَ ِرنِی َٔانظُرْ ِٕالَ ْي َ‬
‫”پالنے والے توخود کو دکھا دے تاکہ ميں تجھے ديکھ سکوں“۔‬
‫ليکن خداوند متعال نے فرمايا‪:‬‬
‫”لن ترانی“‬
‫”تم مجھے ہرگز نہيں ديکھ سکتے“۔‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫ميرا سوال يہ ہے کہ خدا وند متعال نہ جسم رکھتا ہے نہ کوئی مکان رکھتا ہے اور نہ ديکھنے والی چيز ہےحضرت‬
‫عليہ السالم نے اولو العزم پيغمبر ہوتے ہوئے بھی کيسے اس طرح کا سوال کيا جب کہ اگر کوئی عام آدمی بھی اس طرح کا‬
‫سوال کرے تو لوگ اسے اچھا نہيں کہيں گے ؟ “‬
‫موسی عليہ السالم کا يہ سوال دل کی آنکھوں سے ديکھنے کے لئے ہونہ کہ ان ظاہری‬ ‫ٰ‬ ‫عالم دين‪” :‬احتمال پايا جاتا ہے کہ‬
‫موسی عليہ السالم اپنے دل کے ذريعہ روحی اور فکری شہود تک پہنچنا چاہتے تھے يعنی ”خدا يا‬ ‫ٰ‬ ‫آنکھوں سے ‪،‬جناب‬
‫مجھے ايسا بنا دے کہ ميرے قلب ميں تيرا يقين کوٹ کوٹ کر بھر جائے گويا ميں تجھے ديکھ رہا ہوں“]‪ [91‬اور بہت سی‬
‫جگہوں پر لفظ ”رويت“اس معنی ميں استعمال ہوتا ہے مثالًہم کہتے ہيں ”ميں اپنے اندر ايسی طاقت ديکھ رہا ہوں کہ ميں يہ‬
‫کام باآسانی انجام دے سکتا ہوں‪ :‬جب کہ قدرت ديکھنے والی چيز نہيں ہے“۔‬
‫طالب علم‪” :‬اس طرح کی تفسير آيت کے ظاہری لفظ کے خالف ہے کيونکہ ظاہر لفظ ”ارنی“ اپنے کو مجھے دکھا‪،‬آنکھ‬
‫موسی عليہ السالم کا سوال‬
‫ٰ‬ ‫سے ديکھنے پر داللت کرتاہے جيسے خدا کے جواب ”لن ترانی“سے سمجھا جا سکتا ہے کہ‬
‫انھيں آنکھوں سے ديکھنے کے لئے تھا اور اگر رويت اور شہود سے مراد فکری‪ ،‬روحی اور باطنی رويت ہوتی تو خدا وند‬
‫متعال ہر گز منفی جواب نہ ديتا اس طرح کا شہود خداوندمتعال اپنے خاص بندوں کو يقينی طور پر عطا کر تا ہے“۔‬
‫موسی عليہ السالم نے خدا کو ديکھنے کی خواہش کی تھی جيسا کہ ظاہری الفاظ سے‬ ‫ٰ‬ ‫عالم دين‪” :‬فرض کريں کہ جناب‬
‫سمجھا جا سکتا ہے ليکن اگر ہم تاريخ ميں اس واقعہ کی تحقيق کريں تو ہميں ملتا ہے کہ يہ سوال ان کی قوم کی طرف سے‬
‫موسی عليہ السالم نے اپنی زبان سے ادا کيا تھا کيونکہ ان کی قوم والے اس بات پراصرار کر رہے تھے کہ‬ ‫ٰ‬ ‫تھا جسے جناب‬
‫وه خدا کو ديکھيں گے اس لئے انھيں مجبور اً يہ جملہ ادا کرنا پﮍا“۔‬
‫موسی عليہ‬
‫ٰ‬ ‫تو ضيح کے طور پر يہ عرض کيا جائے کہ فرعونيوں کی ہالکت اور بنی اسرائيل کی نجات کے بعد جناب‬
‫السالم اور بنی اسرائيل کے درميان دوسری بہت سی باتيں وجود ميں آئيں ان ميں سے ايک يہ کہ بنی اسرائيل کے کچھ افراد‬
‫موسی عليہ السالم سے ضد کررہے تھے کہ ہم خدا کو ديکھيں گے بغير ديکھے خدا پر ايمان نہيں السکتے۔جناب‬ ‫ٰ‬ ‫جناب‬
‫موسی عليہ السالم آخر ميں مجبور ہو کر بنی اسرائيل کے ‪ ٧٠‬افراد کو لے کر کوه طور پر گئے اور وہاں پہنچ کر آپ نے‬ ‫ٰ‬
‫کی خداکی بارگاه ميں ان کے سوال کو بيان کيا‪ ،‬خداوندعالم نے جناب موسی عليہ السالم کو وحی کی ”لن ترانی۔۔۔“ تم مجھے‬
‫ہرگز نہيں ديکھ سکتے‪) ،‬سوره اعراف‪ ،‬آيت ‪ ، (١۴٣‬جواب نے اس بارے ميں بنی اسرائيل کے لئے تمام چيزوں کو روشن‬
‫کرديا۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫ل ٰہذا موسی عليہ السالم نے سوال رويت کواپنی قوم کی زبان سے کيا تھا کيونکہ‬
‫موسی عليہ‬
‫ٰ‬ ‫آپ نے اپنی قوم کی ضد پر خدا سے اس طرح کا سوال کرنے پر مجبور تھے‪ ،‬ليکن جب زلزلہ آيا تو جناب‬
‫موسی عليہ السالم نے خدا سے عرض کيا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫السالم کے عالوه تمام ‪ ٧٠‬افراد ہالک ہوگئے اور جناب‬
‫”اتھلکنا بما فعل السفھاء منّا“ ]‪[92‬‬
‫”کيا تو ہميں اس کام کے لئے ہالک کر رہا ہے جو ہمارے بيوقوفوں نے انجام ديا ہے ؟ “‬
‫پاوگے ليکن کوه طور پر‬ ‫موسی عليہ السالم سے فرمايا‪” :‬تم مجھے ہر گز نہيں ديکھ ٔ‬ ‫ٰ‬ ‫جس کے بعد خداوند متعال نے جناب‬
‫لگاو اگر يہ خود اپنی جگہ پر باقی ره گيا تو مجھے ديکھ لو گے “‪ ،‬جب خدا وند متعال کی کوه طورپر تجلی ہوئی‬ ‫چکر ٔ‬
‫موسی عليہ السالم بے ہوش ہو کر گر پﮍے اورجب ہوش آياتو خدا وند متعال سے کہا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫توکوه طورٹکﮍے ٹکﮍے ہو گيا جناب‬
‫ک َوأَنَا أَ ﱠو ُل ْال ُم ْؤ ِمنِينَ “]‪[93‬‬
‫ْت ِٕالَ ْي َ‬
‫ک تُب ُ‬
‫” ُس ْب َحانَ َ‬
‫”پاک پاکيزه ہے تو‪ ،‬ميں نے توبہ کی اور ميں سب سے پہال مومن ہوں“۔‬
‫پرالہی جلوه )جيسے گرج‪ ،‬چمک اوربجلی( کے ظاہر ہونا اپنے آثار ظاہر کرنے کے مترادف ہے جس کی وجہ سے‬ ‫پہاڑ ٰ‬
‫موسی عليہ السالم اور ان کے ساتھيوں کو خدا وند متعال نے اپنی قدرت نمائی سے ايسا بے‬ ‫ٰ‬ ‫پہاڑ ٹکﮍے ٹکﮍے ہو گيا اور‬
‫ہوش کيا کہ تم لوگ سمجھ لو کہ جب خدا کی ايک قدرت کا اثر کا تحمل نہيں کر سکتے تو اس کے پورے وجود کو سمجھنے‬
‫کی کوشش کيوں کرتے ہو؟ تم ہر گز اپنی ان مادی آنکھوں سے خداوند متعال کے مجرد وجود کو نہيں ديکھ سکتے ہو اس‬
‫موسی عليہ السالم کے ساتھيوں نے خداوند متعال کو قلب کی آنکھوں سے ديکھا اور ساتھ ساتھ انھيں يہ بھی‬ ‫ٰ‬ ‫طرح جناب‬
‫معلوم ہو گيا کہ اسے ان ظاہری آنکھوں سے ہر گز نہيں ديکھا جا سکتا ہے“۔‬
‫طالب علم‪” :‬آپ کے اس مفصل بيان کا بہت شکريہ ميں اس موضوع پر مطمئن ہو گيا اور اس چيز کی اميد رکھتا ہوں کہ‬
‫اسی طرح آپ منطقی استدالل سے ميرے باقی دوسرے شبہات کوبھی جنھيں ميں انشاء ﷲ کسی دوسرے وقت بيان کروں گا‬
‫بيان فرمائيں گے“۔‬
‫موسی عليہ السالم‬
‫ٰ‬ ‫عالم دين‪” :‬قابل توجہ بات تو يہ کہ اہل سنت کے اکثر مفسرين آيت الکرسی کی تفسير کرتے ہوئے جنا ب‬
‫کے واقعہ سے مشابہ دوسرايک واقعہ نقل کرتے ہيں جس کا خالصہ يہ ہے‪:‬‬
‫موسی عليہ السالم نے عالم خواب )يا بيداری کی حالت ميں( ميں فرشتوں کو ديکھا تو ان سے سوال کيا کہ ”کيا ہمارا‬ ‫ٰ‬ ‫”جناب‬
‫موسی عليہ‬
‫ٰ‬ ‫موسی عليہ السالم کو سونے نہ دو فرشتوں نے جناب‬ ‫ٰ‬ ‫خداسوتاہے ؟خداوند متعال نے اپنی فرشتوں پر وحی کی کہ‬
‫موسی عليہ السالم تھک کر‬ ‫ٰ‬ ‫السالم کو تين بار نيند سے بيدار کيا اور ان کے ساتھ وه لگے رہے تاکہ وه سونے نہ پائيں جناب‬
‫چور ہو گئے اور نيند کا احساس کيا تو خداوند متعال کی وحی کے مطابق ان کے دونوں ہاتھوں ميں پانی بھری دو شيشياں‬
‫موسی عليہ السالم اپنے دونوں ہاتھوں ميں ان دونوں شيشيوں کو لئے ہوئے ان کی حفاظت کر رہے تھے‬ ‫ٰ‬ ‫تھما دی گئيں۔ جناب‬
‫يہ ديکھ فرشتے چلے گئے اور ابھی چند لمحے بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ نيند کا اثر غالب آيااور اسی وقت ان کے ہاتھ‬
‫موسی عليہ السالم پر وحی کی ميں زمين‬ ‫ٰ‬ ‫سے شيشياں چھوٹ کر گر گئيں اور وه چور چور ہو گئيں۔خدا وند متعال نے جناب‬
‫وآسمان کو اپنی قدرت سے بچائے ہوئے ہوں ”فلو اخذنی نوم اونعاس لزالتا“ ]‪[94‬اگر نيند يا ہلکی سی جھپکی بھی مجھ پر‬
‫غالب آجائے تو زمين وآسمان فنا ہو جائيں۔‬
‫موسی عليہ السالم نے کيسے فرشتوں سے اس طرح کا سوال کيا جب کہ وه‬ ‫ٰ‬ ‫يہاں پر ايک سوال يہ پيدا ہوتا ہے کہ جناب‬
‫پيغمبر تھے اور جانتے تھے کہ خداوند متعال جسم کی تمام ضرورتوں جيسے نيند وغيره سے پاک وپاکيز ہے؟‬
‫فخر رازی اس سوال کے جواب ميں کہتے ہيں‪” :‬اگر ہم فرض کريں کہ مذکوره روايت صحيح ہے تو ہميں مجبورا ً کہنا‬
‫موسی عليہ السالم کا يہ سوال نہ تھا بلکہ ان کی جاہل اور ہٹ دھرم قوم کا سوال تھا“۔]‪[95‬‬ ‫ٰ‬ ‫پﮍے گا کہ‬
‫موسی عليہ السالم اپنی قوم کے اصرار اور ضد سے پريشان ہوکر خدا وند متعال کی‬ ‫ٰ‬ ‫واضح طور پر يوں کہا جائے کہ جناب‬
‫بارگاه ميں اس طرح کا سوال کرتے تھے تاکہ خدا وند متعال انھيں اپنی واضح نشانيوں کے ذريعہ ہدايت کردے اور جناب‬
‫موسی عليہ السالم کے ہاتھ سے شيشيوں کا ٹوٹنا اگر چہ ايک بہت ہی معمولی سا حادثہ ہے ليکن عام لوگوں کو سمجھانے‬ ‫ٰ‬
‫کے لئے يہ بہت ہی اہم اور ضروری تھا۔‬
‫موسی عليہ السالم کی قوم ميں اس طرح کے پس وپيش والے لوگ تھے جو اس طرح‬ ‫ٰ‬ ‫ممکن ہے يہ بھی کہا جائے کہ جناب‬
‫موسی عليہ السالم نے ايسے لوگوں کی ہدايت کے لئے خداوند عالم سے اس طرح سوال کيا‬ ‫ٰ‬ ‫کی باتيں کيا کرتے تھے جناب‬
‫تاکہ اس کے واضح جواب ميں اپنی قوم کو گمراہی سے نجات دے سکيں۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٩٣‬۔طالب علم اور عالم دين کے درميان مہر کے مسئلہ ميں دوسرا مناظره‬
‫طالب علم‪” :‬ميں نے مکرر يہ بات سنی ہے کہ اسالم نے اس بات کی تاکيد کی ہے کہ عورتوں کی مہر کم سے کم رکھی‬
‫جائے يہاں تک کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا ہے‪:‬‬
‫”شوم المرأة غالء المھر“ ۔]‪[96‬‬
‫منحوس عورت وه ہے جس کی مہر زياده ہو“۔‬
‫”افضل نساء امتی اصبحن وجھاواقلھن مھرا “)‪[97](٢‬‬
‫”ميری امت کی بہترين عورتيں وه ہيں جو سب سے زياده خوبصورت اور ہنس مکھ ہوں اور جن کا مہر سب سے کم ہو“۔‬
‫ليکن قرآن کريم ميں دوجگہ ايسی آيتيں پائی جاتی ہيں جہاں زياده سے زياده مہر قرار دينا بہتر کہا گيا ہے اور قرآن نے بھی‬
‫اس بات پر رضايت کا اظہار کيا ہے“۔‬
‫عالم دين‪” :‬قرآن ميں کہاں اس طرح کی باتيں آئی ہيں ؟ “‬
‫طالب علم‪” :‬پہلی جگہ سوره ٔ نساء کی بيسويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫ج َوآتَ ْيتُ ْم ِٕاحْ دَاہ ﱠُن قِنطَارًا فَالَتَ ْأ ُخ ُذوا ِم ْنہُ َش ْيئًا“۔‬ ‫َ‬
‫” َو ِٕا ْن أ َر ْدتُ ْم ا ْستِ ْبدَا َل َزوْ ٍ‬
‫ج َم َکانَ َزوْ ٍ‬
‫”اور اگر تم نے اپنی بيوی کے بجائے کسی اور عورت سے شادی کرنے کا اراده کر ليا ہے تو جو تم نے اسے مال کثير ديا‬
‫تھا اس ميں سے کچھ واپس نہ لو“۔‬
‫لفظ ”قنطار “کے معنی بہت سے مال ہو تے ہيں۔جو ہزاروں درہم ودينا رکے لئے کہاجا تا ہے۔قرآن کی اس آيت ميں لفظ‬
‫قنطار اليا گيا ہے جس پر قرآن نے کسی طرح کہ تنقيد بھی نہيں کی ہے بلکہ يہ فرمايا ہے کہ ان سے کچھ واپس نہ لو‪ ،‬اس‬
‫طرح اس آيت سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ عورت کی مہر زياده قرار دينا بری بات نہيں ہے ورنہ قرآن اس بری بات پر ضرور‬
‫کچھ نہ کچھ کہتا۔‬
‫اسی بنا پر روايت ميں آيا ہے کہ عمربن خطاب نے اپنی خالفت کے زمانہ ميں جب ديکھا کہ لوگ عورتوں کی مہر زياده‬
‫سے زياده رکھ رہے ہيں تو وه منبر پر گئے اور لوگوں پر اعتراض کرتے ہوئے کہا‪” :‬تم لوگ کيوں زياده مہر رکھتے‬
‫ہو“۔اور خبردار کيا کہ اب اگر ميں نے سن ليا کہ کسی نے اپنی بيوی کی مہر چار سو درہم سے زياده رکھی ہے تو اس پر‬
‫حد جاری کروں گا اور چار سو درہم سے زياده رقم کو بيت المال ميں جمع کردوں گا“۔‬
‫ايک عورت نے منبر کے نيچے سے کہا‪:‬‬
‫”کيا تم مجھے چار سو درہم سے زياده مہر رکھنے سے منع کرتے ہو اور اگر کسی نے زياده رکھی تو اس سے لينے کو‬
‫کہتے ہو ؟ “‬
‫عمر نے کہا‪” :‬ہاں“۔‬
‫عورت نے کہا‪” :‬کيا قرآن کی يہ آيت تم نے نہيں سنی ہے جس ميں خدا وند متعال فرماتا ہے‪:‬‬
‫” َوآتَ ْيتُ ْم ِٕاحْ دَاہ ﱠُن قِنطَارًا فَالَتَ ْأ ُخ ُذوا ِم ْنہُ َش ْيئًا“]‪[98‬‬
‫”اور اگر تم کسی زوجہ کو مال کثير بھی )بعنوان مہر( دے چکے ہو تو خبردار اس ميں سے کچھ واپس نہ لينا“۔‬
‫عمر نے اس عورت کی بات کی تصديق کی اور استغفار کرتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫”کل الناس افقہ من عمر حتی المخدرات فی الحجال“۔]‪[99‬‬
‫”تمام لوگ يہاں تک کہ پرده ميں رہنے والی عورتيں بھی عمر سے زياده فقيہ ہيں۔‬
‫پہلے‪،‬زمانہ جاہليت ميں يہ رسم تھی کہ اگر کوئی شخص اپنی‬ ‫ٔ‬ ‫عالم دين‪” :‬مذکوره آيت کی شان نزول يہ ہے کہ اسالم سے‬
‫پہلی بيوی کو طالق ديکر دوسری شادی کرنا چاہتا تھا تو اس پر بری بری تہمتيں لگاتا تھا تاکہ وه پريشان ہو کر اپنی وصول‬
‫شده مہر کو واپس دے کر طالق لے لے اور بعد ميں اسی مہر کو وه اپنی دوسری بيوی کے لئے معين کر دے۔‬
‫اسالم کی نظر ميں مہر کا کم قرار دينا بہتر ہے ليکن اگر کسی سے يہ فعل سرزد ہوگيا اور اس نے عورت کی زياده مہر‬
‫معين کر دی تو بعد ميں بغير عورت کی رضامندی کے اس کو کم نہيں کيا جا سکتا۔اسی بنا پر مذکوره آيت مہر کو کم‬
‫رکھنے کے حکم سے کسی طرح بھی منافات نہيں رکھتی اور حضرت عمر اور عورت کے بحث ميں يہ کہنا چاہئے کہ‬
‫عورت کا جواب بالکل صحيح تھا کيونکہ عمرنے کہا تھا کہ اگر کسی نے چار سو درہم سے زياده مہر معين کی تو اضافی‬
‫رقم لے کر بيت المال ميں جمع کر دی جائے گی‪ ،‬عورت نے مذکوره آيت پﮍھ کر عمر سے کہا مہر‪،‬معين کرنے کے بعد تم‬
‫بقيہ رقم واپس لينے کا کوئی حق نہيں رکھتے۔عمر نے بھی عورت کی اس بات کو قبول کرليا۔‬
‫نتيجہ يہ کہ اسالم ميں کم مہر رکھنا مستحب موکد ہے ليکن اگر اس سنت کو کسی نے ترک کيا اور زياده مہر رکھ ديا تو‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫بغير عورت کی رضايت کے اسے کم کرنے کا حق نہيں رکھتا۔‬
‫طالب علم‪” :‬آپ کے اس مفصل بيان کا شکريہ جو بہت ہی منطقی تھا اورميں اس سے قانع ہو گيا۔۔۔ اب مجھے اجازت ديجئے‬
‫کہ ميں آپ کی خدمت ميں دوسرا سوال پيش کروں“۔‬
‫عالم دين‪” :‬فرمائيں“۔‬
‫موسی عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫موسی عليہ السالم اور جناب شعيب عليہ السالم کا واقعہ ملتا ہے جب جناب‬ ‫ٰ‬ ‫طالب علم‪” :‬قرآن کريم ميں جناب‬
‫السالم فرعونيوں کے ڈر سے بھاگ کر مدائن شہر پہنچے اور آخر ميں جناب شعيب عليہ السالم کے گھر ميں داخل ہوئے تو‬
‫موسی عليہ السالم سے کہا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫جناب شعيب عليہ السالم نے جناب‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ک َو َما أ ِري ُد أ ْن أ ُش ﱠ‬
‫ق َعلَ ْي َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬
‫ج فَإِ ْن أ ْت َم ْمتَ َعشرًا فَ ِم ْن ِع ْن ِد َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫” قَا َل ِٕانﱢی أُ ِري ُد أَ ْن أُن ِک َح َ‬
‫ک‬ ‫ی ہَاتَي ِْن َعلَی أ ْن تَأ ُج َرنِی ثَ َمانِيَةَ ِح َج ٍ‬
‫ک ِٕاحْ دَی ا ْبنَتَ ﱠ‬
‫َست َِج ُدنِی ِٕا ْن شَا َء ﷲُ ِم ْن الصﱠالِ ِحين“]‪[100‬‬
‫”ميں اپنی ان دونوں بيٹيوں )صفورا ولعيا(ميں سے کسی ايک کی شادی تمہارے ساتھ اس شرط پر کرنا چاہتاہوں کہ تم آٹھ‬
‫سال تک ميرے يہاں کام کرو اور اگر تم نے اسے دس کرديا تو يہ تمہاری مرضی ہے ‪،‬ميں تمہيں مشقت ميں نہيں ڈالنا چاہتا‬
‫پاوگے“۔‬ ‫اور تم انشاء ﷲ مجھے صبر کرنے والوں ميں ٔ‬
‫موسی عليہ السالم نے جناب شعيب کی اس خواہش کی قدر کی اور ان کی درخواست قبول کيا۔‬ ‫ٰ‬ ‫جناب‬
‫يہ واضح سی بات ہے کہ آٹھ سال کا م کرنا بہت ہی زياده مہر ہے جسے خدا کے دو نبيوں نے قبول کيا ہے اور قرآن نے‬
‫بھی بغير کسی تنقيد کے اس واقعہ کو نقل کيا ہے۔‬
‫قرآن مجيدکی تنقيد نہ کرنا زياده مہر قرارد ينے کی اجازت ديتا ہے۔‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫موسی عليہ السالم اور جناب شعيب عليہ السالم کے واقعہ کے بارے ميں يہ معلوم ناچاہئے کہ جناب‬ ‫ٰ‬ ‫عالم دين‪” :‬جناب‬
‫عليہ السالم کی جناب شعيب عليہ السالم کی لﮍکيوں کے ساتھ شادی معمولی شادی نہيں تھی بلکہ يہ ايک مقدمہ تھا تاکہ‬
‫موسی عليہ السالم شہر مدائن کے ”شيخ “جناب شعيب عليہ السالم کے مکتب ميں کافی دن تک ره کر علم وکمال حاصل‬ ‫ٰ‬
‫کريں۔‬
‫موسی عليہ السالم نے ان کے يہاں کئی سال کام کر کے مہر ادا کی ليکن شعيب عليہ السالم نے بھی‬ ‫ٰ‬ ‫اگر چہ درست ہے کہ‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫موسی عليہ السالم اور ان کی بيوی کی زندگی کا خرچ‬ ‫ٰ‬ ‫موسی عليہ السالم اور ان کی بيوی کا خرچ چال يا اور اگر‬ ‫ٰ‬
‫عليہ السالم کی مزدوری سے کم کر ديا جائے تو بہت کم مال باقی بچتا ہے اور اس لحاظ سے مہر کی مقداربہت کم قرار‬
‫پائے گی۔‬
‫موسی کی مادی ومعنوی زندگی کے تحفظ کے لئے ايک‬ ‫ٰ‬ ‫ل ٰہذا اس طرح جناب شعيب کی بيٹی کا بھاری مہر در اصل جنا ب‬
‫مقدمہ تھا جو جناب شعيب نے اپنی بيٹی کی مرضی سے انجام ديا تھا۔‬
‫واضح اور روشن عبارت ميں يہ عرض کيا جائے کہ جناب شعيب عليہ السالم ظاہری طور پر بھاری اور زياده مہر قرار دے‬
‫موسی عليہ السالم کی تنہائی ختم کرنا چاہتے تھے نہ کہ ان کا مقصد انھيں اس مہر سے پريشان کرنا تھا بلکہ ان کا‬ ‫ٰ‬ ‫کر مقصد‬
‫موسی عليہ السالم کی زندگی سہل اور آسان بنانا تھا جيسا کہ انھوں نے فرمايا‪” :‬مااريد ان اشق عليک “ ‪”،‬ميں تمہيں‬ ‫ٰ‬ ‫مقصد‬
‫زحمت ميں نہيں ڈالنا چاہتا“۔‬
‫طالب علم‪” :‬آپ کے دل کش اور استداللی بيان کا بہت شکريہ‪ ،‬سچ مچ جناب شعيب عليہ السالم نے ذہانت اور ہوشمند انہ‬
‫موسی عليہ السالم کی بہت اچھی خدمت کی“۔‬ ‫ٰ‬ ‫تدبير سے جناب‬

‫‪٩۴‬۔معاويہ پر لعنت کے جواز سے متعلق ايک مناظره‬


‫العظمی سيد عبد ﷲ شيرازی فرماتے ہيں‪” :‬اہل سنت کے تقريبا ً بيس افراد جو خراسان کے‬
‫ٰ‬ ‫عظيم مرجع مرحوم آيت ﷲ‬
‫اطراف و نواح جيسے’ ’تربت جام“وغيره سے حج کے لئے مدينہ منوره آئے ہوئے تھے وہاں پر ميں بھی انھيں کے ساتھ‬
‫باغ صفا ميں رہتا تھا۔‬
‫ايک روز ميرے قريب ہی رہنے والے کچھ اصفہانی حجاج کے ساتھ يہ طے پايا کہ مجلس عزا منعقد کی جائے کيونکہ‬
‫عزاداری اور محرم کے دن بھی قريب ہيں خراسان کے اطراف تربت وغيره کے سنی کے حجاج جو باغ صفا کے ايک‬
‫بﮍے ہال ميں رہتے تھے جگہ کے لحاظ سے وه بہت ہی وسيع وعريض جگہ تھا ل ٰہذا ہم لوگوں نے ان سے باغ صفا ميں کے‬
‫اس ايوان عزاداری کی در خواست کی تو ان لوگوں نے ہماری درخواست کو قبول کرليا اور کافی مدد بھی کی۔‬
‫اسی دوران مدينہ کے رہنے والے کچھ سنی اہل علم حضرات اُن ايرانی سنيوں سے مالقات کرنے کے لئے آئے ہوئے‬
‫تھے۔ميرے اور ان کے درميان حضرت علی عليہ السالم کی عظمت ومنزلت کے بارے ميں گفتگو ہورہی تھی اور وه ہماری‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫بات کی تصديق کررہے تھے‪ ،‬اور اس گفتگو کے درميان انھوں نے بہت سی حديثيں حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں‬
‫نقل کيں جن ميں سے ايک يہ تھی کہ پيغمبر اکرم نے حضرت علی عليہ السالم کے لئے فرمايا‪:‬‬
‫”لحمک لحمی و دمک دمی“۔‬
‫”تمہارا گوشت ميرا گوشت تمہارا خون ميرا خون ہے“۔‬
‫اور اسی طرح کی دوسری بہت سی روايتيں بھی نقل ہوئی ہيں جو علی عليہ السالم کی دوستی‪ ،‬پيغمبر اکرم کی دوستی اور‬
‫علی عليہ السالم کی دشمنی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی دشمنی پر داللت کرتی ہيں۔‬
‫يہاں تک کہ ہماری گفتگو کا سلسلہ لعن معاويہ تک بات پہنچا تو ان لوگوں نے کہا‪” :‬معاويہ پر لعنت کرنا جائز نہيں ہے ليکن‬
‫يزيد پر لعنت کرنا چاہئے کيونکہ اس نے امام حسين عليہ السالم کو قتل کيا ہے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬تمہارے مذہب کے مطابق پر لعنت کرنا جائز ہونا چاہئے کيونکہ اس پر لعنت کرنے کا جواز تمہاری ابھی حال‬
‫ميں کہی ہوئی باتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے علی عليہ السالم کے بارے ميں فرمايا‪:‬‬
‫”اللھم عاد من عاداه“۔‬
‫)خدايا تو اسے دشمن رکھ جو علی کو دشمن رکھے (‬
‫يہ بات مسلم ہے کہ معاويہ حضرت علی عليہ السالم کا سخت ترين دشمن تھا يہاں تک کہ مرتے وقت تک آپ سے دشمنی‬
‫روارکھی اور توبہ و استغفار بھی نہيں کيا اور اس طرح اس نے آپ کی دشمنی کی وجہ سے آخری عمر تک آپ کو برا بھال‬
‫کہنا نہيں چھوڑا جب کہ اس چيز کو وه آسانی سے چھوڑا سکتا تھا۔اس دليل کے ذريعہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم‬
‫نے حضرت علی عليہ السالم کے دشمنوں کے لئے بددعا کی ہے اور معاويہ حضرت علی عليہ السالم کا جانی دشمن تھا ل ٰہذا‬
‫اس پر لعنت کرنا جائز ہے۔]‪[101‬‬
‫يہاں پر توضيح کے طور پر اس بات پر توجہ رہے کہ اہل سنت کی معتبر کتابوں کے مطابق رسول اسالم نے خود ابو‬
‫سفيان‪ ،‬معاويہ اور يزيد پر لعنت کی ہے‪ [102]،‬يہاں تک کہ فرمايا‪” :‬جب بھی معاويہ کو منبر کے پر ديکھو‪،‬اسے قتل کردو۔‬
‫]‪[103‬‬
‫اورا گر يہ کہا جائے )جيسا کہ معاويہ کا دفاع کرنے والے کہتے ہيں(کہ معاويہ نے اجتہاد کی رو سے علی عليہ السالم سے‬
‫دشمنی کی تو اس کے جواب ميں ہم کہتے ہيں کہ نص کے مقابلہ ميں ہر گز اجتہاد جائز نہيں ہے اور پيغمبر اکرم صلی ﷲ‬
‫عليہ و آلہ و سلم اس کی باطنی خباثت سے اچھی طرح آگاه تھے جس کی وجہ سے آپ نے اس کو اس طرح بددعا دی۔اہل‬
‫سنت کی روايات کے مطابق رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم نے ايک دن اس پر اس طرح لعنت کی‪:‬‬
‫”خدايا معاويہ اور عمر وعاص کو جہنم ميں ڈال دے“۔]‪[104‬‬
‫اہل سنت حضرات کے يہاں جو اصحاب محترم اور قابل قبول سمجھے جاتے ہيں انھوں نے بھی معاويہ کے بارے ميں سخت‬
‫باتيں کہيں ہيں‪) ،‬اس کی مزيد وضاحت کے لئے آپ کتاب الغدير جلد ‪ ١٠‬صفحہ ‪١٣٩‬سے ‪ ١٧٧‬کا مطالعہ کريں(‬
‫شيخ حر عاملی )متوفی ‪ ١١٠۴‬ھ ( غزالی صاحب کتاب ”احياء العلوم “کی بات کی ترديد کرتے ہوئے لکھتے ہيں‪ :‬غزالی نے‬
‫صراحت کے ساتھ يہ کہا ہے کہ يزيد اور حجاج پر لعن وطعن کرنا جائز نہيں ہے“!!‬
‫اس کے شيخ حر عاملی فرماتے ہيں‪” :‬خاندان رسالت سے دشمنی و عداوت رکھنا کيا اس سے بھی زياده ممکن ہے جو‬
‫غزالی ان سے رکھتا تھا؟ جب کہ شيعہ اور سنی دونوں روايتوں سے نقل ہو ا ہے کہ ايک روز ابو سفيان اونٹ پر سوار تھا‬
‫معاويہ اس کی مہار پکﮍے ہوئے اسے کھينچ رہا تھا اور يزيد پيچھے سے ہانک رہا تھا۔‬
‫پيغمبر اسالم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے ان تينوں کو ديکھ کر فرمايا‪:‬‬
‫”لعن ﷲ الراکب والقائد والسائق“۔‬
‫”خدا! سوار ‪،‬مہارپکﮍنے والے اور ہانکنے والے تينوں پر لعنت کرے“۔‬
‫سوره نساء ميں آيت ‪ (٩٣‬ميں يہ نہيں فرمايا‬ ‫ٔ‬ ‫اس کے بعد شيخ حر عاملی کہتے ہيں‪” :‬کيا خدا وند متعال نے قرآن مجيد )کے‬
‫ہے‪:‬‬
‫َظيما“ً‬ ‫َ‬
‫ب ﷲُ َعلَ ْي ِہ َولَ َعنَہُ َوأ َع ﱠد لَہُ َع َذابًا ع ِ‬ ‫ْ‬
‫” َو َم ْن يَقتُلْ ُم ْؤ ِمنًا ُمتَ َع ﱢمدًا فَ َجزَا ُؤهُ َجہَنﱠ ُم خَالِدًا فِيہَا َوغ ِ‬
‫َض َ‬
‫”اور جو بھی مومن کو عمداً قتل کرتا ہے اس کی جزا جہنم ہوتی ہے وه وہاں ہميشہ رہے گا‪ ،‬ﷲ اس پر غضبناک ہوتا ہے‬
‫اور اس پر لعنت بھيجتا ہے اور اس کے لئے درد ناک عذاب تيار رکھتا ہے“۔‬
‫کيا غزالی اس بات کا معتقد ہے کہ امام حسين عليہ السالم مومن نہيں تھے جس کی وجہ سے ان کے قاتل يزيد پر لعنت‬
‫جائزنہيں سمجھتا ہے ‪ ،‬کيا بے انصافی ہے!!؟]‪[105‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٩۵‬۔ امام حسين عليہ السالم پر گريہ سے متعلق واعظ اور سامع کے درميان مناظره‬
‫ايک بہت ہی پﮍھے لکھے واعظ نے منبر پر تقرير کے دوران امام حسين عليہ السالم پر رونے کے سلسلے ميں بہت سی‬
‫روايتيں نقل کيں جن ميں ايک يہ کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا‪:‬‬
‫”کل عين باکية يوم القيامة االعين بکت علی مصائب الحسين فانھا ضاحکة مستبشرة بنعيم الجنة“۔]‪[106‬‬
‫”روز قيامت ہر آنکھ گريہ کنا ں ہوگی ليکن امام حسين عليہ السالم کی مصيبت پر رونے والی آنکھيں خدا کی نعمت ديکھ کر‬
‫ہشاش وبشاس ہوں گی“۔‬
‫منبر سے اترنے کے بعد ايک سامع اور واعظ کے درميان حسب ذيل طريقہ سے مناظره ہوا‪:‬‬
‫سامع‪” :‬يہ تمام اجر وثواب گريہ امام حسين عليہ السالم پر کيوں ہے ؟ جب کہ امام حسين عليہ السالم دنيا ميں عظيم انقالب ال‬
‫کر کامياب و سربلند ہوئے اور اپنے خون سے يزيديوں کو رسوا کيا اور ان کے چہرے ہميشہ کے لئے کالے کر ديئے اور‬
‫آخرت ميں اس کے بدلے آپ کو بہترين مقام ديا گيا ہے اور آج بھی آپ برزخ اور جنت کی نعمتوں سے بہره مند ہو رہے‬
‫سوره آل عمران ميں ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬
‫ٔ‬ ‫ہيں۔اور اسالمی نظريہ کے مطابق امام حسين عليہ السالم زنده ہيں جيسا کہ قرآن مجيد‬
‫ﷲ أَ ْم َواتًا بَلْ أَحْ يَا ٌء ِع ْن َد َرب ِﱢہ ْم يُرْ َزقُون“]‪[107‬‬
‫يل ِ‬‫” َوالَتَحْ َسبَ ﱠن الﱠ ِذينَ قُ ِتلُوا ِفی َس ِب ِ‬
‫”اور ﷲ کی راه ميں قتل ہوجانے والوں کو مرده نہ سمجھنا بلکہ وه لوگ زنده ہيں اور اپنے پروردگار سے رزق پاتے ہيں“۔‬
‫واعظ‪” :‬ميں نے ايسی متعدد روايتيں ديکھی ہيں جن ميں امام حسين عليہ السالم پر گريہ و زاری اور عزاداری کرنے کی‬
‫تاکيد کی گئی ہے اور اس گريہ و زاری کو برابر زنده رکھنے کے بارے ميں کہا گيا ہے اور شيعہ وسنی دونوں روايتوں‬
‫ميں آيا ہے کہ روز قيامت فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا خداوند متعال کی بارگاه ميں اس طرح عرض کريں گی‪:‬‬
‫”اللھم اقبل شفاعتی فيمن بکی علی ولدی الحسين“۔‬
‫”پالنے والے ميرے بيٹے حسين پر گريہ کرنے والوں کے لئے ميری شفاعت قبول کر“۔‬
‫اسی روايت کے ذيل ميں آيا ہے‪:‬‬
‫”فيقبل ﷲ شفاعتھا ويدخل الباکين علی الحسين عليہ السالم فی الجنة“۔]‪[108‬‬
‫”خدا وند عالم فاطمہ زہرا سالم ﷲ عليہا کی شفاعت قبول کرے گا اور امام حسين عليہ السالم پر گريہ کرنے والوں کو جنت‬
‫ميں داخل کرے گا“۔‬
‫متعدد روايتوں کے مطابق انبياء عليہم السالم اورپيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے امام حسين عليہ السالم پر گريہ کيا‬
‫ہے اور عزاداری برپا کی ہے۔‬
‫کيا اگر ہم اوليائے خدا اور بارگاه خدا وندی کے مقرب بندوں کی پيروی ميں امام حسين عليہ السالم پر گريہ کريں توکوئی‬
‫اعتراض کا مقام ہے ؟نہيں قطعا ً نہيں‪ ،‬بلکہ اس عظيم سنت کو زنده کرنے اور ائمہ عليہم السالم کی اس چيزکی اقتداء ميں‬
‫بہت ہی اجر وثواب ہے يہاں پر ائمہ معصومين عليہم السالم نے گريہ امام حسين عليہ السالم کو کتنی اہميت دی ہے اس کے‬
‫بارے ميں سے دو عجيب واقعے نقل کر رہے ہيں مالحظہ فرمائيں‪:‬‬
‫‪١‬۔ايک روز امام سجاد عليہ السالم نے سنا‪ :‬ايک شخص بازار ميں يہ کہہ رہا ہے‪ :‬ميں ايک مسافر ہوں مجھ پر رحم کرو۔)انا‬
‫الغريب فارحمونی(‬
‫امام سجاد عليہ السالم اس کے پاس گئے اور اس کی طرف متوجہ ہو کر آپ نے فرمايا‪:‬‬
‫”اگر تيری قسمت اسی )شہر مدينہ ميں(مرنا ہوگی تو کيا يہاں تيری الش کو بے گوروکفن چھوڑ ديا جائے گا ؟“‬
‫اس غريب مرد نے کہا‪” :‬ﷲ اکبر کس طرح ميرے جنازه کو دفن نہيں کريں گے جب کہ ميں مسلمان ہوں اور اسالمی امت‬
‫کی آنکھوں کے سامنے ہوں“۔‬
‫امام سجاد عليہ السال م نے روتے ہوئے فرمايا‪:‬‬
‫”وا اسفاه عليک يا ابتاه۔تبقی ثالثة ايام بالدفن وانت ابن بنت رسول ﷲ“۔]‪[109‬‬
‫”کتنے افسوس کی بات ہے اے ميرے بابا!رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے نواسے ہوتے ہوئے بھی آپ کی الش تين‬
‫روز تک بے گوروکفن زمين پر پﮍی رہی“۔‬
‫‪٢‬۔تاريخ ميں آيا ہے کہ منصور دوانقی )دوسرا عباسی خليفہ(نے مدينہ ميں اپنے والی کو حکم ديا کہ امام جعفر صادق عليہ‬
‫السالم کے گھر ميں آگ لگا دو۔‬
‫والی مدينہ نے حکم پانے کے بعد آگ اور لکﮍی جمع کروائی اور امام جعفرصادق عليہ السالم کے گھر ميں آگ لگادی اور‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫گھر کے داالن سے جب شعلے بھﮍکنے لگے تو مخدرات عصمت گھر ميں رونے يٹنے لگيں يہاں تک کہ ان کی آواز گھر‬
‫سے باہر پہنچ گئی امام جعفر صادق عليہ السالم نے بﮍی مشکل سے آگ بجھا ئی اس کے دوسرے دن کچھ شيعہ حضرات‬
‫آپ کی احوال پرسی کے لئے گئے تو ديکھا کہ آپ محزون ہيں اور گريہ فرمارہے ہيں ان لوگوں نے کہا‪” :‬کيا دشمنوں کے‬
‫اس عمل اور ان کی گستاخی پر آپ گريہ کر رہے ہيں جب کہ آپ کے خاندان کے ساتھ اس طرح کا واقعہ پہلی دفعہ نہيں ہوا‬
‫ہے؟ “‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے جواب ميں فرمايا‪” :‬مينکل کے واقعہ پر نہيں روہا ہوں بلکہ اس بات پر رورہا ہوں کہ جب‬
‫گھر ميں آگ کا شعلہ بھﮍکنے لگا تو ميں نے ديکھا کہ ميرے ہوتے ہوئے عورتيں اور بچياں ايک کمرے سے دوسرے‬
‫کمرے اور ايک جگہ سے دوسری جگہ بھاگ بھاگ کر پناه لے رہی تھيں تاکہ انھيں آگ کوئی نقصان نہ پہنچا سکے۔‬
‫”فتذکرت عيال جدی الحسين يوم عاشوراء لما ھجم القوم عليھم ومناديھم ينادی احرقوا بيوت الظالمين“۔]‪[110‬‬
‫تو اس وقت مجھے روز عاشوره اپنے جد امام حسين عليہ السالم کے مصيبت زده اہل حرم کی يا د آگئے جب ايک منادی ندا‬
‫دے رہا تھا کہ ظالموں کے گھروں کو جال دو“۔‬
‫دو مذکوره واقعے اور اس کے عالوه بہت سے قرائن سے سمجھا جا سکتا ہے کہ تمام ائمہ عليہم السالم ہميشہ چاہتے تھے‬
‫کہ امام حسين عليہ السالم پر گريہ اور ان کی عزاداری برابر لوگوں کے دلوں ميں تازه دم رہے اسی بنياد پر ہم ان کی پيروی‬
‫ميں امام حسين عليہ السالم کی مصيبت زنده رکھنے کے لئے ان پر گريہ کرتے ہيں اور اس بات کا اعتقاد رکھتے ہيں کہ اس‬
‫عمل پرہميں عظيم اجر وثواب عطا ہوگا۔‬
‫امام حسين عليہ السالم کے مصائب پر گريہ کرنا اور غمگين ہونا اتنا عظيم اور مقدس عمل ہے کہ امام زمانہ عليہ السالم‬
‫زيارت امام حسين عليہ السالم کے ضمن ميں فرماتے ہيں‪:‬‬
‫”السالم علی الجيوب المضرجات“۔]‪[111‬‬
‫”سالم ان گريبانوں پر جو امام حسين عليہ السال کے غم ميں چاک ہوئے ہوں“۔‬
‫سامع‪” :‬آپ کی اس راہنمائی کا بہت بہت شکريہ ‪،‬بيشک ہميں اپنی زندگی ميں چاہئے کہ ہم ائمہ عليہم السالم کو اپنے لئے‬
‫نمونہ عمل قرار ديں‪ ،‬ليکن يہاں ميرا مطلب يہ ہے کہ تمام احکام حکمت ومصلحت سے خالی نہيں ہيں تمام احکام اپنے ساتھ‬ ‫ٔ‬
‫ايک ہدف لئے ہوئے ہيں اور کتنا بہتر ہے اگر ہم ان تمام احکام کو با معرفت انجام ديں نہ کہ اندھی تقليد کرتے ہوئے۔‬
‫اسی بنا پرميرا سوال يہ ہے کہ امام حسين عليہ السالم پر گريہ کا کيا مقصد اور کيا سبب ہے ؟ “‬
‫واعظ‪” :‬امام حسين عليہ السالم پر گريہ اور اس کے مقصد کی وضاحت کے سلسلے ميں چند باتيں کہی جاسکتی ہيں‪:‬‬
‫‪١‬۔شعائر ﷲ کی تعظيم‪ :‬مرحوم مومن پر گريہ کرنا ايک طرح کا احترام ہے اور يہ گريہ اس بات پر داللت کرتا ہے کہ‬
‫معاشره ميں اس کے چلے جانے سے ايک خال واقع ہو گيا ہے اور وه اب موجود نہيں ہے تاکہ لوگ اس کے وجود سے فائده‬
‫اٹھائيں۔يہ گريہ اس کے باطنی احساسات ہيں جو مومن کے دنيا سے چلے جانے پر وجود ميں آتے ہيں کيونکہ جب وه مومن‬
‫اس دنيا ميں تھا لو گ اس سے مختلف طرح سے مستفيد ہوتے رہتے تھے‪ ،‬گريہ ايک فطری عمل ہے اور جو شخص جتنا‬
‫عظيم ہوگا دنيا والے اس پر اسی حساب سے زياده گريہ کريں گے۔جو دنيا سے جاتا ہے اور اس کے اوپر کوئی گريہ نہيں‬
‫کرتا تو گويا يہ اس کی ايک طرح کی بے احترامی ہے۔‬
‫ايک شخص نے امام علی عليہ السالم سے پوچھا‪” :‬نيک اخالق کيا ہے ؟ “آپ نے جواب ديا‪:‬‬
‫”ان تعاشروا الناس معاشرة ان عشتم حنوااليکم وان متم بکوا عليکم“۔ ]‪[112‬‬
‫”لوگوں سے اس طرح سلوک کرو کہ جب تک زنده رہو وه تمہارے اشتياق ميں تمہاری طرف کھنچے چلے آئيں اور جب تم‬
‫جاو تو تم پر گريہ کريں“۔‬ ‫مر ٔ‬
‫ہر قوم وملت ميں يہ رسم پائی جاتی ہے کہ جب بھی اس کے درميان سے کوئی بزرگ شخصيت اٹھ جاتی ہے تو لوگ اس‬
‫کے انتقال پر گريہ اور افسوس کا اظہار کرتے ہيں امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کی دين محمد ی پر شہادت‬
‫بھی ايک عظيم اور ہميشہ باقی رہنے واال واقعہ ہے جس پر گريہ کرنا ان کے ہدف و مقصد کوزنده رکھنا دينی شعائر کی‬
‫تعظيم سمجھا جاتا ہے۔‬
‫اور قرآن ميں ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫ب“]‪[113‬‬ ‫” َو َم ْن يُ َعظﱢ ْم َش َعا ِئ َر ﷲِ فَإِنﱠہَا ِم ْن تَ ْق َوی ْالقُلُو ِ‬
‫ٰ‬
‫تقوی کا نتيجہ ہوگی۔‪“--‬‬ ‫”اور جو بھی ﷲ کی نشانيوں کی تعظيم کرے گا يہ تعظيم اس کے دل کے‬
‫‪٢‬۔عاطفی گريہ‪ :‬امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کی ايک روز )عاشورا( ميں جگر سوز شہادت ہر انسان کے دل‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫کو کباب کر ديتی ہے اور ہر انسان کا دل ظالم و ستمگر کے خالف بر انگيختہ ہوجاتا ہے کربال کا الم ناک واقعہ اس قدر دل‬
‫ہال دينے واال ہے کہ اسے زمانہ نہ کبھی بھال سکتا ہے اور نہ ہی اسے پرانا بنا سکتا ہے۔‬
‫عيسی عليہ السالم کے دشمنوں نےانھيں پھانسی دے کر قتل کر ديا‬ ‫ٰ‬ ‫مثال کے طور پر‪ :‬عيسائيوں کے عقيده کے مطابق جنا ب‬
‫اب تم معلوم کر سکتے ہو کہ عيسائی اس ياد کو دنيا کے چپہ چپہ ميں لوگوں کے دلوں ميں تازه کرتے ہيں اور غم کا اظہار‬
‫کرتے ہيں يہاں تک کہ صليب اپنے لباس اور اپنے کليسا وغيره پر نصب کرکے اسے اپنی عالمت قرار ديتے ہيں۔‬
‫عيسی )عيسائيوں کے عقيدے کے مطابق(واقعہ کربال اور امام حسين عليہ السالم کی شہادت سے بہت ہی کم‬ ‫ٰ‬ ‫جب کہ قتل‬
‫اہميت کا حامل ہے۔‬
‫اسی وجہ سے امام حسين عليہ السالم پر گريہ اور ان کی عزاداری لوگوں کی محبت کو بر انگيختہ ہونے اور ان کے عظيم‬
‫اہداف تک پہنچنے کا سبب بنتی ہے۔‬
‫ايک استاد کے بقول‪” :‬عقل کی ترجمان ہميشہ زبان رہی ہے ليکن عشق کا ترجمان آنکھ ہے جہاں احساس اور درد ہوں‬
‫اورآنسو گريں وہاں عشق ضرور پايا جاتا ہے ليکن جہاں لفظوں کو ترتيب دے کر جملہ چھانٹے وہاں عقل پائی جاتی ہے“۔‬
‫اس بنا پر جس طرح مقرر کے زبردست دالئل اور پر زور خطابت اس بات کی دليل ہوتی ہے کہ وه اس خاص مذہب سے‬
‫وابستہ ہے اسی طرح آنکھوں سے گرنے واال آنسو کا ايک قطره دشمنوں کے خالف اعالن جنگ کی طرح ہوتا ہے۔]‪[114‬‬
‫مقاصد کی تکميل اور دشمن کی مغلوبيت کے لئے احساساتی پہلوايک اہم کردار ادا کرتے ہيں ل ٰہذا ان کو يکسر نظر انداز‬
‫نہيں کر دينا چاہئے کيونکہ يہ بھی کسی انقالب کی آہٹيں ہوا کرتے ہيں۔‬
‫‪٣‬۔گريہ تائيد ہے‪ :‬امام حسين عليہ السالم پر گريہ کرنا ايک طرح سے ان کے قيام اور ان کے اہداف کی تائيد ہے يہ گريہ‬
‫عميق ترين شعور و احساسات کو دشمنوں اور ستمگروں کے خالف ابھارتا ہے جس کے معنی يہ ہيں‪ :‬اے امام حسين عليہ‬
‫السالم! آپ ہمارے قلب و جان اور احساسات کے گھروں ميں پ موجود ہيں“‪:‬‬

‫زنده در قبر دل ما بدن کشتہ تو است‬


‫جان مائی و تورا قبر حقيقت دل است‬

‫يہ زبان حال شيعہ ہے جو ہر زمان ومکان ميں تين ستونوں پر استوار ہے۔‬
‫‪١‬۔ہمارا قلب اس مبداء ايمان کی خاطر تالش کرتا ہے جس کے لئے امام حسين عليہ السالم قتل کئے گئے۔‬
‫‪٢‬۔ہمارے کان ان کی سيرت و گفتار کو سنتے ہيں۔‬
‫‪٣‬۔ہماری آنکھيں آنسو بہا کر کربال کے درد ناک واقعہ کو لوگوں کے دلوں پر نقش کرتی ہيں۔‬
‫اگر مذکوره اسباب ميں سے کسی ايک سبب کی وجہ سے گريہ ہواتو يہ سو فی صد ايک سالم فطرت تقاضہ کے تحت عمل‬
‫ميں آيا ہے اس طرح کے گريہ ميں کوئی حرج کی بات کيا بلکہ يہ تو امام حسين عليہ السالم کے قيام و انقالب کے لئے بہت‬
‫سے فوائد کا حامل بھی ہے۔‬
‫‪۴‬۔ پيام آور اور رسواگر گريہ‪ :‬ہر انسان جب امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کی کيفيت شہادت سنتا ہے کہ وه‬
‫بھوکے پياسے عورتوں اور بچوں کے سامنے جلتی ہوئی زمين پر شہيد کر دئيے گئے تو بے اختيا ر اس کے قلب و دماغ‬
‫ميں انقالب پيدا ہو جاتا ہے اور وه اپنے پورے وجود سے يزيد کی پليدی اور قساوت قلبی پر لعنت ومالمت کرتا ہے۔‬
‫اسی طرح امام حسين عليہ السالم پر گريہ ہر زمان مکان ميں ظلم اور ظالم کے خالف ايک آواز اور ايک طرح کا امر‬
‫بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے اور کبھی کبھی يہی گريہ دشمن کو کچلنے کا بہترين ذريعہ بن ہوجاتا ہے۔ل ٰہذ جہاں بھی‬
‫گريہ بے رحم دشمنوں کی رسوائی کا سبب بنے اور ٰالہی پيغام لوگوں تک پہنچ جائے تو اسے ايک قسم کا نہی عن المنکر‬
‫دين کے راستے کو استوار کرنے اور ظلم و ستم کو جﮍ سے اکھاڑ پھينکنے ميں عملی اقدام کہا جاسکتا ہے۔‬
‫خالصہ يہ کہ گريہ کی چند قسميں ہيں جيسے خوف خدا سے گريہ ‪،‬شوق کا گريہ‪ ،‬محبت کا گرم وپيام آور گريہ وغيره اگر‬
‫اس گريہ کا صحيح اور مناسب مقصد ہو تو يہ گريہ اپنی تمام قسموں ميں سب سی زياده اچھا ہے۔‬
‫ہاں ايک گريہ مايوسی ‪،‬الچاری‪،‬عاجزی اور شکست کی وجہ سے ہوتا ہے جسے گريہ ذلت کہتے ہيں اور اس طرح کا گريہ‬
‫ان عظيم ہستيوں سے بہت دور ہے اور اوليائے خدا اور اس کے آزاد بندے اس طرح کا گريہ کبھی نہيں کرتے۔‬
‫اسی طرح گريہ اور عزاداری کی دو قسم ہے ”مثبت اور منفی“منفی گريہ قابل مذمت اور نقصان ده ہے ليکن مثبت گريہ‬
‫اپنے ساتھ بہت سے اصالحی فوائد لئے ہوئے ہوتا ہے يہاں تک کہ يہ گريہ کبھی کبھی نہی عن المنکر اور طاغوتيوں کے‬
‫خالف قيامت برپاکرنے اور جہاد کی صف ميں کھﮍے ہو کر جنگ کرنے کا سب سے اچھا اسلحہ ثابت ہوتا ہے۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫سامع‪” :‬ميرے سوال کے جواب ميں آپ کے منطقی جامع اور مانع بيان کا بہت شکريہ“۔‬
‫واعظ‪” :‬يہاں پر اس مناظره کی تکميل ميں کچھ اور باتيں بتاتا چلوں‪:‬‬
‫اسالم کے بعض دستور العملميں سياسی پہلو بھی اليا جاتا ہے ‪ ،‬چنانچہ عزاداری کی حکمتوں ميں سے ايک حکمت يہ ہے‬
‫کہ گريہ کرنے يہاں تک کہ رونے والوں جيسی صورت بنانے )تباکی( ميں ايک سياسی پہلو پوشيده ہے‪) ،‬جيسا کہ مناظره‬
‫نمر ‪٨١‬ميں آپ نے امام محمد باقر عليہ السالم کی اپنے اوپر دس سال تک گريہ کرنے کی وصيت ميں پﮍھا۔(‬
‫ائمہ عليہم السالم واقعہ کربال کے سبب عزاداری کے ضمن ميں حق وباطل کے چہره کو بے نقاب کرنا چاہتے تھے اور‬
‫لوگوں کو غفلت سے نکالنا چاہتے تھےے‪ ،‬ل ٰہذا انھوں نے ہر موقع اور مناسبت سے واقعہ عاشوره کو زنده رکھا‪ ،‬يہاں تک‬
‫موسی کاظم عليہ السالم نے فرمايا‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫کہ امام‬
‫”امام سجاد عليہ السالم کی انگوٹھی کے نگينہ پر يہ لکھا تھا“‪:‬‬
‫خزی و شقی قاتل الحسين بن علی عليہ السالم“۔]‪[115‬‬ ‫” ٰ‬
‫”حسين بن علی عليہ السالم کا قاتل ذليل اور رسوا ہوا“۔‬
‫حقيقتا ً امام سجاد عليہ السالم نے اپنی انگوٹھی پر اس جملہ کو صرف اس لئے کنده کروارکھا تھا کہ شہادت امام حسين عليہ‬
‫السالم لوگونکے دلوں ميں تازه دم ہوتی رہے اور لوگوں کی نظر جب بھی ميری اس انگوٹھی پر پﮍے توانھيں بنی اميہ کے‬
‫مظالم ياد آجائيں اور سياسی لحاظ سے بيدا ررہيں۔‬
‫ان تمام باتوں کا خالصہ يہ ہے کہ امام حسين عليہ السالم کی عزاداری اور گريہ دو طرح کا ہے۔ مثبت ومنفی‪ ،‬اب اس ميں‬
‫منفی اور قابل مذمت وه گريہ ہے جو رونے والوں کے عجز وناتوانی اور شکست کو ثابت کرے ليکن مثبت وه گريہ ہے جو‬
‫لوگوں کی عزت‪ ،‬شجاعت ‪،‬صالحيت اور بيداری کا سبب بنے۔‬

‫‪٩۶‬۔پيغمبراسالم آخری نبی ہيں‪ ،‬اس سلسلہ ميں ايک مناظره‬


‫اشاره‬
‫ضروريات دين ميں پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو آخری پيغمبر ماننا ہے جس کے بعد خدا وند متعال کی طرف‬
‫سوره‬
‫ٔ‬ ‫سے نہ کوئی پيغمبر آيا اور نہ کوئی شريعت ‪،‬اس بات کے اثبات ميں قرآن ميں بہت سی آيتيں پائی جاتی ہيں جيسے‬
‫‪،‬سوره سبا ‪ ،‬آيت ‪ ٢٨‬وغيره۔‬
‫ٔ‬ ‫سوره فصلت آيت ‪۴١‬۔‪۴٢‬۔سورهٔ انعام آيت ‪١٩‬‬ ‫ٔ‬ ‫‪،‬سوره فرقان آيت‪،١‬‬ ‫ٔ‬ ‫احزاب آيت ‪۴٠‬‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اور ائمہ عليہم السالم کی بہت سی روايتيں آپ کے خاتم االنبياء ہونے پر صريحی ور‬
‫سے داللت کرتی ہيں ليکن آنحضرت صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے بعد آنے والے زمانوں ميں فريبی اور چالباز لوگوں نے‬
‫نيا نيا پيغمبر بنا کر آپ کی خاتميت کو مخدوش بنانا چاہا۔تاکہ اس طرح سے خود ساختہ اديان جيسے قاديانيت‪ ،‬بابی گری اور‬
‫بہائيت معاشره ميں اپنا اثر ورسوخ پيد ا کرسکيں۔‬
‫اب درج ذيل مناظره جو ايک مسلمان اور بہائی کے درميان ہوا مالحظہ فرمائيں‪:‬‬
‫مسلمان‪” :‬تم اپنی کتابوں اور تقريروں ميں اسالم اور قرآن کو اس فرق کے ساتھ قبول کرتے ہو کہ اسالم نسخ ہو گيا ہے اور‬
‫اس کی جگہ دوسری شريعت آگئی ہے اب ميں تم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ قرآن نے تو اپنی متعدد آيتوں ميں اسالم کو ايک‬
‫عالمی اور قيامت تک باقی رہنے واال مذہب کہا ہے اور ساتھ ساتھ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کی خاتميت کا‬
‫اعالن کرتے ہوئے آنے والے نئے دين کا باطل قرار ديا ہے۔‬
‫بہائی‪” :‬مثالًکون سی آيت يہ کہہ رہی ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم آخری پيغمبر ہيں ؟“‬
‫سوره احزاب کی ‪ ۴٠‬ويں آيت ميں۔‬ ‫ٔ‬ ‫مسلمان‪” :‬‬
‫َی ٍء َع ِلي ًما “‬
‫ْ‬ ‫ش‬ ‫ل‬
‫ﱢ‬ ‫ُ‬
‫ک‬ ‫ب‬
‫ِ‬ ‫ُ‬ ‫ﷲ‬ ‫انَ‬ ‫َ‬
‫ک‬ ‫و‬‫َ‬ ‫ﱢينَ‬ ‫ي‬ ‫ب‬‫ﱠ‬ ‫ن‬ ‫ال‬ ‫م‬‫َ‬ ‫ت‬ ‫َا‬
‫خ‬ ‫و‬ ‫ﷲ‬ ‫ل‬ ‫ُو‬
‫س‬ ‫ر‬ ‫ْ‬
‫ن‬ ‫ک‬‫َ‬ ‫ل‬ ‫و‬ ‫م‬ ‫ُ‬
‫” َما َکانَ ُم َ ﱠ َ َ ِ ِ َ ِ ْ َ ِ َ َ ِ َ َ ِ‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ر‬ ‫ْ‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫د‬
‫ٍ‬ ‫ح‬ ‫َ‬ ‫ٔ‬
‫ا‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫َ‬ ‫ٔ‬
‫ا‬ ‫ٌ‬
‫د‬ ‫م‬‫ح‬
‫”محمد ‪ ،‬تم مردوں ميں سے کسی کے باپ نہيں ہيں‪ ،‬ليکن وه رسول خدا اور خاتم النبيين ہيں اور ﷲ ہر شئے کا علم رکھنے‬
‫واال ہے“۔‬
‫آيت ميں جملہ ”خاتم النبيين “ واضح طور پر بتا رہا ہے کہ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمآخری پيغمبر ہيں‪،‬کيونکہ لفظ خاتم‬
‫کو جس طرح بھی پﮍھا جائے اس سے يہی سمجھ ميں آتا ہے ‪،‬لہٰذا اس آيت سے صريحی طور پر سمجھ ميں آتا ہے کہ آپ‬
‫آخری پيغمبر ہيں اور آپ کے بعد کوئی بھی پيغمبر اور شريعت نہيں آئے گی“۔‬
‫بہائی‪” :‬خاتم انگوٹھی کے معنی ميں بھی آيا ہے جو زينت کے لئے استعمال ہوتی ہے اس طرح اس آيت سے يہ سمجھ ميں‬
‫آتا ہے کہ پيغمبر صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم انبياء کی زينت ہيں“۔‬
‫مسلمان‪” :‬لفظ خاتم کا رائج اور حقيقی معنی ختم کرنے والے کے ہيں اور کہيں پر يہ نہيں آيا کہ لفظ خاتم کسی انسان کے‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫لئے آيا ہو جس سے زينت مراد لی گئی ہو اور اگر ہم لغات کی طرف رجوع کريں تو پتہ چلے گا کہ خاتم کے معنی ختم‬
‫کرنے والے کے ہی ہيں اب اگر کوئی لفظ اپنے معنی کے عالوه کسی اور معنی ميں استعمال ہو تو اس کے لئے ضروری‬
‫ہے کہ وه اپنے ساتھ کچھ سياق وسباق رکھتا ہو‪،‬ہم اس لفظ کے ساتھ کوئی قرينہ يا کسی طرح کی کوئی دليل نہيں پاتے ہيں‬
‫جس کی وجہ سے اصلی معنی کو چھوڑ کر مجازی معنی مراد لئے جائيں۔‬
‫يہاں پر لفظ خاتم کے بارے ميں چند لغات آپ مالحظہ فرمائيں فيروز آبادی ”قاموس اللغة“ ميں کہتے ہيں ”ختم“مہر کرنے‬
‫کے معنی ميں آتا ہے اور ”ختم الشئی“يعنی کسی چيز کا آخر۔‬
‫جوہری ”صحاح“ميں کہتے ہيں کہ ختم يعنی پہنچنا اور ”خاتمة الشئی“ يعنی اس چيز کاآخر۔‬
‫ابو منظور ”لسان العرب“ميں کہتے ہيں کہ” ختام القوم“ يعنی قوم کی آخری فرد اور ”خاتم النبيين“ يعنی انبياء کی آخری فرد۔‬
‫راغب ”مفردات“ميں کہتے ہيں کہ خاتم النبيين يعنی پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم نے خود آکر سلسلہ نبوت کو‬
‫منقطع کر ديا اور نبوت کو تمام کر ديا۔]‪[116‬‬
‫نتيجہ يہ ہو اکہ لفظ خاتم سے زينت معنی مراد لينا ظاہر کے خالف ہے جس کے لئے دليل کی ضرورت ہے اور يہاں پر‬
‫کوئی دليل نہيں پائی جاتی ہے“۔‬
‫بہائی‪” :‬لفظ خاتم کے معنی خط پر آخری مہرہے جس کے معنی تصديق شده کے ہيں ل ٰہذا اس سے يہ سمجھ ميں آتا ہے کہ‬
‫پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے سے پہلے کے انبياء کی تصديق کرنے والے تھے۔‬
‫مسلمان‪” :‬غرض پہلے سوال کے جواب سے يہ واضح ہو گيا کہ خاتم کے اصلی اور رائج معنی تمام اور اختتام کے ہيں اور‬
‫يہ کہيں پر نہيں سنا گيا ہے لفظ خاتم سے استعمال کے وقت تصديق مراد لی گئی ہو‪،‬اتفاق سے اس سے يہ بھی سمجھا جا‬
‫سکتا ہے کہ خاتم يعنی آخر ميں مہر لگانا يعنی خاتمہ کا اعالن کرنا“۔‬
‫بہائی‪” :‬آيت کہتی ہے کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم خاتم النبيين‪،‬يعنی پيغمبروں کے سلسلہ کوختم کرنے والے ہيں‬
‫‪،‬آيت يہ نہيں کہتی کہ مرسلين کے ختم کرنے والے ہيں ل ٰہذا پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد رسول کے آنے‬
‫کی نفی ہوتی ہے“۔‬
‫مسلمان‪” :‬اگر چہ قرآن ميں رسول اور نبی ميں فرق پايا جاتا ہے مثالًخداوند متعال نے قرآن ميں جناب اسماعيل عليہ السال م‬
‫موسی کو بھی رسول اور نبی بھی کہا ہے‬
‫ٰ‬ ‫)سوره مريم آيت ‪(۵۴‬اور اسی طرح جناب‬ ‫ٔ‬ ‫کو رسول اور نبی دونوں کہا ہے‬
‫)سوره مريم آيت ‪(۵١‬ليکن يہ چيز کسی بھی طرح لفظ خاتم ميں شبہ نہيں پيدا کرتی ہے کيونکہ نبی يعنی ايسا پيغمبر جس پر‬ ‫ٔ‬
‫خدا وند متعال کی طرف سے وحی ہوتی ہے خواه وه لوگوں کی تبليغ کرنے واال ہو يا نہ ہو‪ ،‬ليکن رسول وه ہے جو صاحب‬
‫شريعت اور صاحب کتاب ہو ل ٰہذاہر رسول نبی ہے ليکن ہر نبی رسول نہيں ہے۔‬
‫نتيجہ يہ کہ پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کو خاتم انبياء کہاجائے تو اس کا مطلب يہ ہوا کہ ان کے بعد کوئی پيغمبر‬
‫نہيں آئے گا اس فرض کے ساتھ کہ ہر رسول پيغمبر ہے بس رسول بھی نہيں آئے گا مثال کے طور پر نبی اور رسول کی‬
‫مثال انسان اور عالم دين )منطق کی زبان ميں عموم خصوص مطلق (کی نسبت پائی جاتی ہے جب بھی ہم کہيں کہ آج ہمارے‬
‫گھر کوئی انسان نہيں آيا يعنی عالم دين انسان بھی نہيں آيا‪ ،‬اور ہماری بحث ميں اگر کہا جائے گيا کہ کوئی پيغمبر ‪،‬رسو ل‬
‫خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے بعد نہيں آئے گا يعنی کوئی رسول بھی نہيں آئے گا“۔‬
‫بہائی‪” :‬نبی اور رسول کے درميان تباين )جدائی (پايا جاتا ہے جو نبی ہوگا وه رسول نہيں ہوگا اور جو رسول ہوگا وه نبی‬
‫نہيں ہوگا ل ٰہذا ہمارا اعتراض بجا ہے“۔‬
‫مسلمان‪” :‬لفظ رسول ونبی ميں اس طرح کا فرق ‪،‬علماء اور مفکرين اور آيات وروايات کے خالف ہے اور يہ ايک مغالطہ‬
‫ہے کيونکہ تمہارا يہ مسئلہ خود آيت ميں ذکر ہوا ہے“۔‬
‫ﷲ َو َخاتَ َم النﱠ ِبيﱢينَ “]‪[117‬‬
‫” َولَ ِک ْن َرسُو َل ِ‬
‫”اور ليکن وه رسول خدا اور خاتم النبيين ہيں“۔‬
‫موسی عليہ السالم رسول بھی تھے اور نبی بھی‬‫ٰ‬ ‫موسی عليہ السالم کے بارے ميں ملتا ہے‪”:‬وکان رسوال ”نبيا““‬ ‫ٰ‬ ‫اسی طرح‬
‫)سوره نساء آيت ‪(١٧١‬‬ ‫ٔ‬
‫سوره مريم آيت ‪،٣٠‬ميں نبی کہہ‬
‫ٔ‬ ‫اور‬ ‫گئے‬ ‫پکارے‬ ‫کر‬ ‫کہہ‬ ‫ول‬‫ميں(رس‬ ‫‪١٧١‬‬ ‫آيت‬ ‫نساء‬ ‫)سوره‬
‫ٔ‬ ‫بھی‬ ‫السالم‬ ‫عليہ‬ ‫عيسی‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫کر پکارے گئے ہيں اگر لفظ نبی اور رسول آپس ميں ايک دوسرے کے متضاد لفظ ہوتے تو پيغمبر اکرم صلی ﷲ عليہ و آلہ‬
‫وعيسی عليہ السالم جيسے انبياء ان دو متضاد صفتوں کے حامل نہ ہوتے‪ ،‬اس کے عالوه اور‬ ‫ٰ‬ ‫موسی عليہ السالم‬ ‫ٰ‬ ‫و سلم اور‬
‫بہت سی روايتيں اس سلسلے ميں ہم تک پہنچی ہيں جس ميں پيغمبر اکرم کو خاتم المرسلين کہا گيا ہے جن مينيہ وضاحت کی‬
‫گئی ہے کہ ان کے بعد کوئی نبی نہيں آئے گا اور آپ ہی ختم الرسل ہيں“۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫بہائی‪” :‬جملہ خاتم النبيين سے ممکن ہے خاص پيغمبر مراد لئے گئے ہوں اس طرح تمام کے تمام پيغمبر اس آيت ميں شامل‬
‫نہيں ہوں گے“۔‬
‫مسلمان‪” :‬اس طرح کا اعتراض دوسرے اعتراضوں سے زياده مضحکہ خيز ہے کيونکہ جو شخص بھی عربی قواعدسے‬
‫تھوڑی بہت واقفيت رکھتا ہوگا وه اس طرح کے جملے ميں ہر جگہ ”ال“سے مراد عموم لے گا اور يہاں اس الف اور الم‬
‫سے مراد ”عہد“ہونے پر کوئی دليل نہيں ہے ل ٰہذا اس سے عموم ہی مراد ليا جائے گا“۔‬

‫‪٩٧‬۔امام حسين عليہ السالم کے قاتلوں کی حقيقت کے سلسلے ميں ايک مناظره‬
‫وہابی‪ ” :‬شيعہ لوگ جو امام حسين عليہ السالم کی عزاداری اور ان پر گريہ کرتے ہيں وه اس لئے کہ اپنے اباء واجداد کے‬
‫داداوں نے امام حسين عليہ السالم اور ان کے اصحاب کو قتل کيا ‪ ،‬اور پھر‬ ‫گزشتہ ظلم کا جبران کريں کيونکہ انھيں کے باپ ٔ‬
‫ان لوگوں نے توبہ کی اور اس طرح انھوں نے توابين )زياده توبہ کرنے والوں( کے عنوان سے اپنے گزشتہ ظلم و ستم کا‬
‫جبران کرنا چاہا “۔‬
‫شيعہ‪” :‬تم شيعوں پر يہ تہمت کس ماخذاور حوالہ سے پر لگار ہے ہو؟ “‬
‫وہابی‪” :‬جو لوگ کربال ميں امام حسين عليہ السالم سے جنگ کرنے آئے تھے وه شام و حجاز اور بصره کے نہيں تھے بلکہ‬
‫سب کے سب کوفہ کے رہنے والے تھے اور اس وقت کوفہ ميں اکثر شيعہ ہی رہتے تھے‪ ،‬انھيں لوگوں نے امام حسين عليہ‬
‫السالم کو قتل کيا“۔‬
‫شيعہ‪” :‬اوالً اگر بفرض محال شيعوں ہی ميں سے کچھ لوگ خوف و فريب سے کربال ميں امام حسين عليہ السالم کے مقابلہ‬
‫ميں جنگ کے لئے آئے تو اس کا مطلب يہ نہيں کہ مذہب شيعہ اور اس کے تمام ماننے والوں نے امام حسين عليہ السالم‬
‫سے منحرف ہو کر يزيد کے راستہ کو اختيار کر ليا تھا ‪،‬عموما ً يہ ديکھا گيا ہے کہ ہر مذہب وملت ميں کچھ نہ کچھ لوگ‬
‫اپنے مذہب سے منحرف ہوجاتے ہيں ليکن ان کا عمل مذہب کے بے بنياد ہونے پر دليل نہيں بن سکتا ہے ‪،‬ثانيا ً يہ کہ حقيقت‬
‫ميں يہ سب باتيں محض تہمتيں ہيں جو بالکل بے بنياد اور جھوٹی ہيں“۔‬
‫وہابی‪” :‬کيوناور کس دليل سے ؟ “‬
‫شيعہ‪” :‬سپاہيوں کا وه لشکر جو کوفہ سے کربال حضرت امام حسين عليہ السالم سے لﮍنے آيا تھا ان ميں اکثر خوارج ‪ ،‬بنی‬
‫اميہ اور وه منافق تھے جو حضرت علی عليہ السالم حضرت امام حسن عليہ السالم کے پاس سے بھگائے گئے تھے اور اس‬
‫لشکر کے تمام سردار حکومت علی عليہ السالم کے مخالفين ميں سے تھے جن کو حضرت علی عليہ السالم نے معزول کر‬
‫ديا تھا اور وه لوگ خاندان رسالت عليہم السالم کے معتوب شمار کئے جاتے تھے جن سے ابن زياد نے نا جائز فائده اٹھا يا۔‬
‫اور زياده تر اس گروه مرتزقہ)خريدے ہوئے غير عرب افراد(سے تعلق رکھتے تھے ‪،‬جنھيں بنی اميہ نے اپنی داخلی شورش‬
‫کے کارکنوں کی سرکوبی کے لئے محفوظ کر رکھا تھا اس بنياد پر کربال ميں جنگ کرنے والے شيعہ ہر گز نہيں‬
‫تھے۔]‪[118‬‬
‫وضاحت‪ :‬اگرچہ حضرت علی عليہ السالم کی خالفت کے زمانہ ميں کوفہ ميں شيعوں کی اکثريت تھی ليکن آپ کی شہادت‬
‫سزاوں کے خوف کی وجہ سے وه بھاگ گئے اور‬ ‫ٔ‬ ‫کے بعد معاويہ کی حکومت کے زمانہ ميں اس کے جالدوں کی اذيت اور‬
‫ادھر ادھر بکھر گئے تھے اور معاويہ کے خريدے ہوئے ظالموں نے اکثر کو قتل کر ديا تھا اور بہت سے بچے ہوئے‬
‫لوگوں کو کوفہ سے نکال ديا تھا يہاں تک کہ زياد ابن ابيہ )عراق ميں معاويہ کا گورنر( کے زمانہ ميں تمام شيعوں کو قتل‬
‫کر ديا گيا يا زندان ميں ڈال ديا گيا تھا اور يا تو وه لوگ کوفہ سے جان بچا کر بھاگ گئے تھے‪ ،‬معاويہ کے زمانہ ميں اگر‬
‫کسی پر کفر والحاد اور شرک کا جرم عائد ہوتا تو اس کے لئے نہ کوئی سزا تھی اور نہ کوئی خوف تھا ليکن کسی کو شيعہ‬
‫کہنا اس کے جان ومال اور اس کے گھر کو ويران کرنے کے مترادف سمجھا جاتا تھا ‪،‬زياد ابن ابيہ ”سميہ روسپی“کا بيٹا‬
‫تھا جب يہ کوفہ کے دار االمارة ميں مقرر ہو گيا تو معاويہ نے اسے لکھا‪” :‬اے زياد ! جو لوگ علی) عليہ السالم( کے مذہب‬
‫پر زندگی گزار رہے ہيں انھيں قتل کردو اور قتل کے بعد ان کے ناک کان کاٹ لو“۔زيادنے مسجد ميں اہل کوفہ کو بلوا کر‬
‫کہا کہ وه حضرت علی عليہ السالم پر لعنت کريں اگر کوئی ان پر لعنت نہيں کرے گا تو اس کی گردن اڑادی جائے‬
‫گی۔]‪[119‬‬
‫منقول ہے کہ زياد ابن ابيہ ”سعد بن سرح “نامی شخص کے قتل کے کے درپے تھا ‪،‬امام حسن عليہ السالم نے زياد کو اپنے‬
‫خط کے آخر ميں لکھا کہ سعد بن سرح بے گناه مسلمان ہے اس کا پيچھا چھوڑ دے۔‬
‫زياد نے امام حسن عليہ السالم کے خط کے جو اب ميں لکھا‪” :‬کہيں نہ کہيں وه ميرے ہاتھ لگ ہی جائے گا اور اسے ميں‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫اس لئے قتل کردوں گا کہ وه تمہارے )نعوذ با (فاسق باپ سے محبت کرتا ہے“۔]‪[120‬‬
‫زياد ابن ابيہ کی ايک ظلم يہ تھا کہ اس نے” سمره بن جندب “کو کوفہ اور بصره ميں اپنا جانشين بنا ديا تھا اور زياد ابن ابيہ‬
‫کے مرنے کے بعد معاويہ نے سمره کو اس کے عہده پر باقی رکھا ‪،‬سمره کی خونخوار ی کی انتہا يہ تھی کہ اس نے ايک‬
‫مرتبہ ‪ ٨٠‬ہزار افراد کو نہايت دردناک طريقہ سے موت کے گھاٹ اتا ر ديا تھا۔]‪[121‬‬
‫عدوی کہتے ہيں‪ :‬سمره نے ايک دن صبح کو ہمارے ‪ /١۴٧‬افراد کو بے رحمی سے قتل کرديا جو سب کے سب حافظ قرآن‬
‫تھے۔]‪[122‬‬
‫سر فہرست افراد جيسے حجر بن عدی اور ان کے ساتھی ‪،‬مالک اشتر‪ ،‬محمد بن ابی بکر ‪،‬عمر بن حمق وغيره معاويہ کے‬
‫خريد ہوئے مزدوروں کے سبب شہيد کرديئے گئے۔‬
‫معاويہ کی بھيانک اور خطرناک حکومت ايسی تھی کہ عمربن حمق کا کٹا ہو اسر زندان ميں ان کی بيوی کے لئے بھيجا‬
‫گيا‪ [123]،‬اور کوفہ کی فضا اتنی خطرناک حد تک دل ھال دينے والی تھی کہ لوگ اپنے نزديک ترين افراد پر بھی اس وجہ‬
‫سے اطمينان نہيں رکھتے تھے کہ کہيں يہ معاويہ کا جاسوس نہ ہو۔‬
‫عالمہ امينی لکھتے ہيں‪” :‬اس بات کی طرف توجہ رہے کہ زياد بن ابيہ کوفہ کے تمام افراد کو پہچانتا تھا کيونکہ حضرت‬
‫علی عليہ السالم کی خالفت کے زمانہ ميں وه انھيں لوگوں کا جزء تھا اور وه تمام شيعوں کو جانتا تھا جس کہ وجہ سے اگر‬
‫کسی شيعہ نے پتھر کی آڑ ميں يا کسی بل ميں بھی پناه لے رکھی تھی تو وه اسے تالش کروا کر قتل کرديتا اور ان کے ہاتھ‬
‫پير کاٹ ديتا اور ان کی آنکھوں کو پھوڑ کر پھانسی پر چﮍھا ديتا اور بعض کو شہر بدر کروا ديتاتھا نتيجہ ميں شيعہ نام کا‬
‫ايک شخص بھی کوفہ ميں باقی نہيں ره گيا تھا۔]‪[124‬‬
‫مختصر يہ کہ نوبت يہاں تک پہنچ چکی تھی کہ امام حسين عليہ السالم کے زمانہ ميں چار ہزار يا پانچ ہزار شيعہ کوفہ ميں‬
‫نہيں بچے تھے اور ابن زياد جب تخت پر آياتو ان افراد کو بھی پکﮍوا ليا اور امام حسين عليہ السالم کے عراق ميں داخل‬
‫ہونے سے پہلے پہلے ان سب کو جيل ميں ڈال ديا شيعوں کی تعداد اس زمانہ ميں بس انھيں افراد پر مشتمل تھی جو يزيد کے‬
‫مرنے اور زياد ابن ابيہ کے بصره جانے کے بعد زندان کے دروازوں کو توڑ کر باہر نکل آئے تھے اور امام حسين عليہ‬
‫السالم کے خون کا بدلہ لينے کے لئے قيام کيا تھا ليکن اس وقت تک امام حسين عليہ السالم کی شہادت کو چار سال گزر‬
‫چکے تھے اور جناب مختار کا قيام اس وقت تک عمل ميں نہيں آيا تھا۔‬
‫زندان سے نکلے ہوئے يہ تمام شيعہ ‪ ٩٣‬سالہ ”سليمان بن صرد خزاعی “کی قيادت ميں سپاه شام سے جنگ کے لئے روانہ‬
‫ہوگئے نتيجہ ميں سليمان اور اس کے بہت سے ساتھی اس دليرانہ جنگ ميں شہيد ہوگئے۔‬
‫عالمہ مامقانی لکھتے ہيں‪:‬‬
‫”امام حسين عليہ السالم کے عراق ميں وارد ہونے سے پہلے ابن زياده نے ‪ ۴۵٠٠‬شيعوں کو جيل ميں ڈال ديا تھا جن ميں‬
‫سليمان بن صرد خزاعی تھے جنھوں نے چار سال تک جيل کے کوٹھﮍيوں ميں زندگی گزاری ‪،‬اس طرح جو مشہور ہے اور‬
‫ابن اثر سے نقل ہوا ہے کہ شيعہ اپنی جان کے خوف سے امام حسين عليہ السالم کی حمايت ميں نہينکھﮍے ہوئے ليکن وه‬
‫شہادت امام حسين عليہ السالم کے بعد کافی شرمنده ہوئے اور سليمان بن صرد کی قيادت ميں توابين نامی ايک گروه کو‬
‫تشکيل کيا تاکہ گزشتہ گناه کی تالفی کر سکيں‪ ،‬يہ سراسر جھوٹ بات ہے۔]‪[125‬‬
‫اس طرح پتہ چلتا ہے کہ قاتلين امام حسين عليہ السالم کو فہ کے شيعہ نہيں تھے بلکہ خوارج‪ ،‬مرتدين اور منافقين تھے جو‬
‫حضرت علی عليہ السالم کے دور حکومت ميں معزول کردئے گئے تھے اور يہ امام حسين عليہ السالم کی حکومت کے‬
‫بھگوڑے اور غير عرب کے خريدے ہوئے پٹھو تھے۔‬

‫۔آيہ ہالکت سے متعلق ميں مناظره‬ ‫‪ٔ ٩٨‬‬


‫اشاره‪:‬‬
‫سوره بقره کی آيت‪ ١٩۵‬آيت ہالکت کے نام سے مشہور ہے۔‬ ‫ٔ‬ ‫قرآن کی آيتوں ميں سے‬
‫ﷲ َوالَتُ ْلقُوا ِبأَ ْي ِدي ُک ْم ِٕالَی التﱠ ْہلُ َک ِة َوأَحْ ِسنُوا ِٕا ﱠن ﷲَ ي ُِحبﱡ ْال ُمحْ ِس ِنينَ “‬ ‫” َوأَن ِفقُوا ِفی َس ِب ِ‬
‫يل ِ‬
‫”اور راه خدا ميں خرچ کرو اور اپنے نفس کو ہالکت ميں نہ ڈالو‪ ،‬نيک برتاؤ کرو تاکہ خدا نيک عمل کرنے والوں کے ساتھ‬
‫ہے“۔‬
‫يہاں ہم مذکوره آيت کو مد نظر رکھتے ہوئے استاد و شاگرد کے درميان ہونے والے مناظره کو نقل کرتے ہيں‪:‬‬
‫شاگرد‪” :‬اس آيت ميں آيا ہے کہ ”اپنے ہاتھ سے اپنے کو ہالکت ميں نہ ڈالو‪ ،‬ل ٰہذا آيت کے مطابق ايسا قيام جس ميں جان کا‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫خطره ہو يا ايسی نہی عن المنکر جو ضرر و نقصان کا سبب بنے اس کا اقدام نہيں کرنا چاہئے کيونکہ ضررونقصان ايک‬
‫قسم کی ہالکت ہے اور انسان کو اپنے ہاتھوں سے خود کو ہالکت ميں نہيں ڈالنا چاہئے۔‬
‫يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے کہ قيام امام حسين عليہ السالم آپ کی جنگ اور آپ کے دوستوں کی شہادت اس آيت سے کس‬
‫طرح سازگار ہے ؟‬
‫استاد‪” :‬اس آيت کے ابتدائی حصہ پر توجہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خدا کی راه ميں مال کا انفاق کرنا جہاد ہے جس کا‬
‫مطلب يہ ہے کہ خدا کی راه ميں انفاق کرنے يا حد سے زياده انفاق کرنے سے اپنے آپ کو ہالکت ميں نہ ڈالو اور انفاق‬
‫کرنے ميں افراط و تفريط سے کام نہ لو۔‬
‫اسی وجہ سے تفسير درّمنثور ميں اس آيت کے ذيل ميں ”اسلم بن ابی عمران“سے نقل ہوا ہے کہ انھوں نے کہا‪” :‬ہم‬
‫قسطنطنيہ )ترکيہ ميں آج کا استامبول( ميں تھے تو ديکھا عقبہ بن سالم مصر والوں کے ساتھ اور فضال بن عبيد بھی شام‬
‫والوں کے ساتھ وہاں موجود تھے اور جب روم کا ايک بہت ہی عظيم لشکر مسلمانوں سے جنگ کے لئے ميدان ميں آگيا تو‬
‫ميں نے بھی ان کے مقابلہ کے لئے صفوں کو منظم کيا اس اثنا ميں ايک مسلمان شخص نے روم کے قلب لشکر پر اس طر‬
‫ح حملہ کيا کہ وه لشکر ميں داخل ہوگيا يہ ديکھ کر بعض مسلمانوں نے چيخ کر کہا‪” :‬يہ شخص اپنے آپ کو ہالکت ميں ڈال‬
‫رہا ہے“۔‬
‫اس وقت رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے مشہور صحابی ابو ايوب انصاری نے کھﮍے ہوکر کہا‪” :‬تم لوگ اس آيت‬
‫”وال تلقوابايديکم ۔۔۔“کے معنی اپنی طرف سے غلط کر رہے ہويہ آيت ہم گروه انصار کے بارے ميں اس وقت نازل ہوئی‬
‫جب خداوند متعال نے اپنے دين کو کامران و کامياب کيا اور اس کے چاہنے والے بہت زياده ہوگئے تو ہم بعض لوگوں نے‬
‫چھپ چھپ کے آپس ميں کہا کہ ہمارا مال ضائع ہو گيا خداوند متعال نے اسالم کو سر فراز کيا اور اس کے ماننے والے بھی‬
‫زياده ہوگئے اگر ہم لوگ اپنے مال کو بچائے ہوئے رہتے تو ہمارا مال ضائع نہ ہوتا اس وقت ہمارے اس بيہوده اور منفی‬
‫عمل کی رد ميں خدا وند متعال نے يہ آيت نازل کی ۔”اس طرح اس آيت ميں ہالکت سے مراد اپنے مال کی حفاظت اور جہاد‬
‫کی راه ميں خرچ نہ کرنے کے ہيں۔]‪[126‬‬
‫قاعده کليّہ کے طور‬ ‫ٔ‬ ‫ايک‬ ‫ٹکﮍا‬ ‫آخری‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫ليکن‬ ‫ہو‬ ‫ميں‬ ‫بارے‬ ‫کے‬ ‫انفاق‬ ‫آيت‬ ‫اصل‬ ‫شاگرد‪” :‬اس بات ميں کيا مضائقہ ہے کہ‬
‫پر آياہو؟“‬
‫استاد‪” :‬کوئی حرج نہيں ہے ليکن اس صورت ميں اس قاعده کی اس طرح وضاحت ہوگی“‪ ،‬وه جگہيں جو ہالکت ميں شمار‬
‫جاو يعنی ايسے مقامات پر جہاں بال وجہ جان جانے کا خطره ہو اور جہاں جان دينے سے‬ ‫کی جاتی ہيں وہاں اپنے سے نہ ٔ‬
‫کوئی فائد ه نہ ہو“۔‬
‫ليکن اس کے عالوه دوسرے مقامات پر ”اہم اور اہم ترين“ کا قاعده نافذ ہوگا يعنی اگر جان کا خطره مول لے کر کوئی بہت‬
‫بﮍا دينی فائده حاصل ہو اور اسالم کو ضرورت ہو تو اس وقت اپنے آپ کو خطره ميں ڈالنا صرف يہی نہيں کہ کوئی حرج‬
‫کی بات نہيں بلکہ بعض اوقات واجب وضروری ہوجاتا ہے‪ ،‬اسالم کے اکثر احکام جيسے جہاد ‪،‬نہی عن المنکر اور امر‬
‫بالمعروف ميں خطره پايا جاتا ہے ليکن چونکہ اس طرح کے خطرے سعادت و کامرانی تک پہنچنے کے ذرائع ہوا کرتے‬
‫ہيں ل ٰہذا ان ميں کوئی حرج نہيں۔‬
‫اس سے زياده وضاحت کے ساتھ يوں کہا جائے کہ ”ہالکت“کے معنی وه خطرات ہيں جو بد بختی اور ذلت کا سبب بنيں‬
‫ليکن اگر جہاد جيسے خطرناک کام انجام ديئے جائيں تو يہ عين سعادت اور کامرانی ہے ‪،‬امام حسين عليہ السالم اور ان کے‬
‫اصحاب کے قيام اور انقالب ميں بھی يہی مقصد کار فرما تھا ان لوگوں نے ايسے خطرے اور ايسی موت کو خود سے‬
‫اختيار کيا تھا جس کے واضح اور روشن نتائج اس زمانہ ميں اور روز قيامت تک ہر زمانہ ميں دکھائی ديتے رہيں گے‪ ،‬ل ٰہذا‬
‫ايسا قدم سعادت کا وسيلہ ہوتا ہے نہ کہ بدبختی کا۔‬
‫مثال کے طور پر اگر کوئی ايسے خطر ے ميں کو دپﮍے جس ميں کچھ لوگوں کی جان چلی جائے اور سيکﮍوں ديناروں کا‬
‫نقصان ہو ليکن اس کے بدلے الکھوں انسانوں کی جان بچ جائے اور ہزاروں دينار کا فائده حاصل ہو تو کيا يہ کام اپنے آپ‬
‫کو ہالکت ميں ڈالنے کے مترادف ہوگا؟‬
‫اگر کسان گيہوں کے دانوں کو زمين ميں ڈالتا ہے تاکہ اس سے ہزاروں من گيہوں حاصل کرسکے تو کيا ا سے يہ کہنا‬
‫درست ہے ”تم کيوں ان دانوں کو بيکار کر رہے ہو اور مٹی ميں مالرہے ہو؟“‬
‫اسی بنياد پر قرآن مجيد ميں ارشاد ہوتا ہے۔‬
‫َت ْ َٔ‬
‫االرْ ضُ “‬ ‫ْض لَفَ َسد ْ‬ ‫”لَوْ الَ َد ْف ُع ﷲِ النﱠ َ‬
‫اس بَ ْع َ‬
‫ضہُ ْم بِبَع ٍ‬
‫” اگر خدا کچھ لوگوں کو کچھ دوسرے لوگوں کے وسيلہ سے دفع نہ کرے تو زمين پر فتنہ و فساد پھيل جائے“۔]‪[127‬‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫‪٩٩‬۔ ايرانيوں کی شيعت کے سلسلہ ميں ايک مناظره‬
‫اشاره‬
‫اگرچہ ملک ايران ميں اسالم حضرت عمر کے دور خالفت ميں پہنچا مگر اس کے باوجود کيا وجہ ہے کہ يہاں شيعوں کی‬
‫اکثريت ہے؟‬
‫تاريخی شواہد کی بنياد پر يہ معلوم ہوتا ہے کہ ايرانی عوام پہلی صدی سے لے کر ساتويں ہجری صدی تک آہستہ آہستہ‬
‫اسالم لے آئے ‪،‬ہر دفعہ ايک مخصوص کيفيت اور مخصوص واقعہ کی بنا پر ايسا ہوتا تھا جس کے اثرات کافی متاثر کن ہوا‬
‫کرتے تھے ‪،‬اب آپ درج ذيل کے مناظره پر توجہ فرمائيں‪:‬‬
‫زر تشتی‪” :‬ميری نظر ميں ايرانيوں نے چار وجوہات کی بنا پر شيعيت کو اختيار کيا“۔‬
‫‪١‬۔ايرانيوں کے يہاں چونکہ موروثی سلطنت پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے انھوں موروثی امامت کو پسند کيا۔‬
‫‪٢‬۔ايرانی قوم پہلے ہی سے اس بات کی معتقد تھی کہ سلطنت وحکومت ٰالہی تحفہ ہوتا ہے ان کا يہ عقيده شيعوں کے عقيده‬
‫سے ميل کھاتا تھا۔‬
‫‪٣‬۔ايرانيوں کے آخری بادشاه تيسرا ”يز د گرد “کی بيٹی ’شہر بانو“سے امام حسين عليہ السالم کی شادی بھی ايرانيوں کے‬
‫شيعہ ہونے ميں کافی اثرانداز رہی۔‬
‫‪۴‬۔عربوں کے مقابلہ ميں ايرانيوں کا نفسياتی رد عمل شيعيت تھا تاکہ وه اس کے زير پرده اپن زرتشی اعمال کو انجام دے‬
‫سکيں‪ ،‬ل ٰہذا تشيع ايرانيوں کا ايجاد کرده مذہب ہے۔]‪[128‬‬
‫شيعہ‪” :‬ايرانيوں کے شيعہ ہونے ميں ان چاروں اسباب ميں سے ايک بھی سبب درست نہيں ہے ‪،‬کيونکہ ايران ميں تشيع کی‬
‫بنياد سب سے پہلے رسول خدا صلی ﷲ عليه و آله وسلم کے زمانہ ميں پﮍ چکی تھی رسول اسالم کی وفات کے بعد بنی ہاشم‬
‫اور کچھ اصحاب جيسے سلمان فارسی ‪،‬ابوذر‪،‬مقداد وغيره کا ايران سے رابطہ تھا۔‬
‫ساسانيوں کے ظلم وستم کی تاريخ او ر اس زمانہ کے حاالت اس بات کی گواہی ديتے ہيں کہ ايرانی عوام اس موروثی‬
‫سلطنت سے پريشان ہو چکے تھے اور وه ايک جامع اور عادالنہ نظام کی تالش ميں تھے جو انھيں ان نا انصافيوں سے‬
‫چھٹکارا دال سکے۔‬
‫ممکن ہے کہ امام حسين عليہ السالم اور جناب شہر بانو کی شادی ايرانی تشيع پر تھوڑا بہت اثر انداز ہوئی ہو مگر اسے‬
‫اساسی سبب قرار دينا غلط ہے۔‬
‫زرتشی‪” :‬اگر ايران مينتشيع کے يہ چار اسباب نہ تھے تو وه کون سے عوامل تھے جن کی بنا پر ايران ميں تشيع کی جﮍيں‬
‫اتنی گہری اور مضبوط ہو گئيں؟“‬
‫شيعہ‪” :‬اسکی بﮍی لمبی داستان ہے خالصہ کے طور پر درج ذيل گياره مرحلوں ميں اس کی توضيح کی جاسکتی ہے‪:‬‬
‫‪١‬۔پہلی ہجری صدی کے دوسرے حصہ ميں ايرانی ‪،‬اسالم سے آشنا ہوئے کيونکہ وه ساسانی حکمرانوں کے ظلم وجور سے‬
‫تنگ آگئے تھے اور ايک مکمل اور عادالنہ نظام کے منتظر تھے۔‬
‫اس مرحلہ ميں جناب سلما ن کا کردار نبيادی حيثيت کا حامل تھا جنھوں نے ساسانيوں کے سابق دارالحکومت مدائن کو اسالم‬
‫کی نشر و اشاعت اور تشيع کا مرکز قرادے ديا تھا ‪،‬جناب سلمان نے اسالم کے تعارف کے لئے حضرت علی عليہ السالم کو‬
‫اختيار کيا تاکہ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکو گم نہ کرديں اور ايرانيوں نے اسالم کی صحيح شناخت کے لئے جناب‬
‫سلمان کا انتخاب کيا تاکہ محمد صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلماور حضرت علی عليہ السالم کو گم نہ کر ديں۔‬
‫‪٢‬۔حضرت علی عليہ السالم کی کوفہ ميں عادالنہ حکومت جہاں ايرانيوں کا آناجانا ہوتا رہتا تھا آپ کے عدل پسند انہ طرز‬
‫حکومت اور مساوات کے طريقوں نے ان ايرانيوں کو محبت آل رسول کی طرف جذب کر ليا اور وه اس طرح سے حقيقی‬
‫اسالم سے آشنا ہوگئے۔‬
‫‪٣‬۔ امام حسين عليہ السالم کا قيام اور ان کے پيغامات بھی ايسے اسباب تھے جن کی وجہ سے ايرانيوں نے بنی اميہ کو اپنے‬
‫ساسانی حکمرانوں سے الگ نہ پايا اور انھوں نے يہ جان لياکہ يہ بھی ويسی ہی ظالم وجابر حکومت ہے ل ٰہذاوه خود بخود‬
‫اہل بيت عليہم السالم کی طرف کھينچتے چلے گئے اس کے بعد غم انگيز واقعہ کربال ايک ايسے نور کی جھلک تھی جو ان‬
‫کے دلوں کو اہل بيت عليہم السالم کی محبت سے منور کر گئی۔‬
‫‪۴‬۔امام جعفرصادق عليہ السالم کی عظيم علمی اور ثقافتی تحريک کہ جس ميں چار ہزار شاگرد شامل تھے اور سب کے سب‬
‫شيعيت کے عظيم مبلغ تھے ‪،‬يہ ايک اور مرحلہ تھا جس کی بنا پر ايرانيوں کے دلوں ميں شيعيت کی بنياديں مزيد مضبوط‬
‫ہوتی چلی گئيں کيونکہ کوفہ‪،‬مدائن سے نزديک تھا اور بصره ‪،‬ايران کی سرحد تھی ل ٰہذ ا حضرت امام جعفرصادق عليہ‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫السالم کے بہت سے شاگرد انھيں اطراف کے تھے جو کوفہ کی عظيم مسجد ميں بيٹھ کر شيعی طرز تفکر کی تبليغ کرتے‬
‫تھے اور اس کی نشر واشاعت ميں بﮍی محنت کرتے تھے۔‬
‫پھيالو‬
‫ٔ‬ ‫‪۵‬۔قم وه مرکز بن چکا تھا جہاں عراق کے جابر حکمرانوں سے بھاگ کر شيعہ پناه ليتے تھے‪ ،‬ايران ميں شيعيت کے‬
‫ميں اس کا بہت بﮍا ہاتھ رہا ہے۔‬
‫‪۶‬۔امام علی رضا عليہ السالم کا مدينہ سے خراسان کا سفر اور ان کی علمی و ثقافتی تحريک بھی انھيں اسباب ميں سے تھی‬
‫کيونکہ مامون شيعہ ہو چکا تھا اور اس نے امام علی رضا عليہ السالم کو سنيوں کو بﮍے بﮍے علماء سے بحث ومناظره‬
‫کرنے کی پوری آزادی دے رکھی تھی۔‬
‫اس کے ساتھ ہی يہ بات بھی قابل توجہ ہے کہ جب امام علی رضا عليہ السالم نے اسالمی بنيادوں کے بيان ميں حديث‬
‫”سلسلة الذہب “بيان کی تو بيس ہزار يا ايک روايت کے مطابق چوبيس ہزار راويوں نے يہ حديث سنی اور اسے لکھا۔]‪[129‬‬
‫جب کہ اس زمانہ ميں پﮍھنے لکھنے والوں کی تعداد نہ پﮍھنے لکھنے والوں کے مقابلہ ميں بہت کم تھی جب وہاں موجود‬
‫مجمع ميں ‪ ٢۴‬ہزار افراد لکھنے پر قدرت رکھتے تھے تو اس کا مطلب يہ ہے کہ عام مجمع اس سے کئی گنا زياده تھا۔‬
‫‪٧‬۔حجاز سے مختلف امام زادے اور امام علی رضا عليہ السالم کے خاص احباب کا سفر بھی انھيں اسباب ميں سے ہے ‪،‬يہ‬
‫لوگ امام علی رضا عليہ السالم کے عشق ميں مدينہ وغيره سے ہجرت کر کے ايران آگئے تھے اور بعد ميں ايران کے‬
‫مختلف گوشوں ميں پھيل گئے تھے‪ ،‬اور ان لوگوں کا دوسرے لوگوں سے حسن رابطہ تھا‪ ،‬ايران ميں اس طرح بھی شيعيت‬
‫بہت تيزی سے پھيلی۔‬
‫‪٨‬۔ايران ميں شيعوں کے بزرگ علماء کا وجود جيسے شيخ کلينی ‪،‬شيخ طوسی‪،‬شيخ صدوق‪،‬شيخ مفيدوغيره يہ سب اسالم‬
‫حقيقی يعنی شيعيت کی بنيادوں کی حيثيت رکھتے ہيں اور اسے پھيالنے ميں پورے خلوص اور جدوجہد سے عملی اقدامات‬
‫کرتے تھے جس کی وجہ سے ايران ميں مذہب جعفری کی جﮍيں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئيں‪ ،‬اس کے عالوه‬
‫حوزه علميہ نجف کی تشکيل نے بھی شيعيت کو کافی فروغ ديا۔‬
‫‪٩‬۔آل بابويہ )ديالمہ(کی حکومت نے جو شيعہ تھا چوتھی اور پانچوينصدی کے دوران سياسی اعتبار سے بہت اہم کردار ادا‬
‫کيا ہے اس کی حکومت نے ايران ميں شيعيت کو استحکام بخشا اور اس مذہب کے لئے بﮍے نفع بخش کا م انجام ديئے۔‬
‫‪١٠‬۔آٹھويں صدی کے اوائل ميں سلطان خداوند کا عالمہ حلی کے ہاتھوں شيعہ ہو جانا بھی ايران ميں قانونی طور پر شيعيت‬
‫رائج ہو نے کا سبب بنا ‪،‬اسی زمانہ ميں شيعيت نے اپنے استحکام کی طرف ايک نہايت مضبوط قدم بﮍھايا۔‬
‫اسی زمانے ميں عالمہ حلی کا حوزه علميہ اور ان کی مختلف کتابيں بھی اس مذہب کی تبليغ ميں حصہ دار تھيں ان کے اس‬
‫اہم کردار کو فراموش کرنا ممکن نہيں ہے۔‬
‫‪١١‬۔دسويں اور گيارويں صدی ميں صفوی حکومت کا ظہور اور ان کے ساتھ شيعہ کے مختلف بزرگ علماء کا وجود جيسے‬
‫عالمہ مجلسی ‪،‬ميرداماد‪،‬شيخ بہائی ‪،‬يہ بھی شيعيت کے لئے ايک سنہرا زمانہ گزرا ہے۔‬
‫يہ تمام عوامل اپنی جگہ بﮍی اہميت کے حامل ہيں جن کی وجہ سے ايران ميں شيعيت کی بنياد پﮍی اور ديکھتے ديکھتے‬
‫پورے ايران کو اس نے اپنے اثر ميں لے ليا۔]‪[130‬‬
‫زرتشتی‪” :‬ايرانيوں کے تشيع ميں صرف بيرونی عوامل کا ر فرما تھے ياا ندورونی يا دونوں؟“‬
‫شيعہ‪” :‬ہميں يہ کہنا چاہئے کہ دونوں عوامل اس ميں شريک ہيں کيونکہ ايک طرف سے تو ايرانی عوام ظلم وستم کے‬
‫خالف آواز اٹھانے کے لئے بے چين تھی اور مختلف بادشاہوں کے ظلم وجور سے وه پريشان ہو کر ايک عادالنہ نظام کے‬
‫خواہاں تھے ‪،‬ايک ايسا نظام ‪،‬جس ميں استحصال و غارت گری کا وجود نہ ہو۔‬
‫ل ٰہذاان وجوہات کی بنا پر ايرانی ‪،‬اندورونی طور سے اس طرح کے نظام کے خواہاں تھے دوسری طرف خارجی طور سے‬
‫انھوں نے عدل وپاکی سے آراستہ اور نہايت عالم ومقدس رہبروں کے سائے ميں مذہب شيعيت ديکھا ل ٰہذا وه اس کی طرف‬
‫کھنچتے چلے گئے۔‬
‫ايرانی قوم ايک مکمل آئين اور ايک مکمل عادالنہ نظام کو امام علی عليہ السالم اور ان کے اہل بيت کے سائے ميں ديکھتے‬
‫تھے اور ان کے مخالفين کے پاس آئين ونظام کے خالف نيا آئين پاتے تھے۔‬
‫ٰ‬
‫ل ٰہذا اس بنا پر اندورونی اور بيرونی عوامل نے ايک ساتھ مل کر ايرانيوں کے درميان ايک عظيم الہی انقالب برپا کرديا اور‬
‫ان لوگوں نے اسالم کی بہترين راه يعنی شيعيت کو اختيار کياچنانچہ پيغمبر نے اس واقعہ کی طرف اشاره کرتے ہوئے‬
‫فرمايا ہے‪:‬‬
‫”اسعد العجم باالسالم اہل فارس“۔]‪[131‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫”اسالم کے ذريعہ سب سے زياده کامياب ہونے والے عجم اہل فارس ہيں“۔‬
‫اسی طرح آپ نے فرمايا ہے‪:‬‬
‫”اعظم الناس نصيبا فی االسالم اہل فارس“۔]‪[132‬‬
‫”مسلمانوں کے درميان سب سے زياده اسالم ميں حصہ دار اہل فارس ہيں“۔‬

‫‪١٠٠‬۔بعض قرآنی آيتوں کے درميان ظاہری اختالف کے متعلق ايک مناظره‬


‫شاگرد‪” :‬ميں جب قرآن پﮍھتا ہوں تو اس کی آيتوں کو دوسری بعض آيتوں کے ساتھ مقائسہ کرتا ہوں ليکن مينان کے درميان‬
‫تضاد پاتا ہوں اس کی کيا وجہ ہے ؟کيا ممکن ہے کہ کالم خدا ميں اختالف پايا جائے؟“‬
‫استاد‪” :‬خدا کے کالم ميں اختالف ناممکن ہے اور قرآن کی تمام آيتوں کے درميان کسی طرح کا تضاد نہيں پايا جاتا ]‪[133‬‬
‫سوره نساء کی ‪ ٨٢‬ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں۔‬ ‫ٔ‬ ‫ل ٰہذا ہم خود‬
‫اخ ِتالَفًا َک ِثيراً“]‪[134‬‬ ‫ﷲ لَ َو َجدُوا ِفي ِہ ْ‬‫ِ ِ‬ ‫ْر‬‫ي‬ ‫َ‬
‫غ‬ ‫د‬ ‫ْ‬
‫” َولَوْ َکانَ ِ ِ ِ‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫ْ‬
‫ن‬ ‫م‬
‫”اگر قرآن غير خدا کے پاس سے ہوتا تو وه لوگ اس ميں بہت اختالف پاتے“۔‬
‫يہ قرآن کی حقانيت کی ايک دليل ہے کہ اس کی تمام آيتوں ميں کسی طرح کا کوئی تضاد اور اختالف نہيں پايا جاتا اور يہی‬
‫اختالف کا نہ پايا جانا اس کے معجزه ہونے کی سند ہے جس سے يہ معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کسی بشر کی فکری صالحيتوں‬
‫کا نتيجہ نہيں ہے بلکہ يہ خدا کی طرف سے نازل ہوا ہے۔‬
‫شاگرد‪” :‬تو پھر ميں کيوں بعض آيتونکو پﮍھتے وقت اس طرح کا احساس کرتا ہوں جب کہ آپ کہہ رہے ہيں کہ اس ميں‬
‫اختالف ممکن نہيں ہے؟ “‬
‫بتاوجن ميں تمہارے خيال ميں تضاد اور اختالف پاياجاتا ہے تاکہ ان پر غور وفکر کيا‬ ‫استاد‪” :‬تم ان آيتوں کے ايک دونمونے ٔ‬
‫جا سکے اور بات واضح ہوجائے“۔‬
‫شاگرد‪” :‬مثال کے طور پر ميں دو نمونے ذکر کرتا ہوں۔‬
‫‪١‬۔قرآن نے بعض مقامات پر انسان کی قدر منزلت کو اتنا بﮍھا يا ہے کہ اس نے کہا ہے‪:‬‬
‫اج ِدين“]‪[135‬‬ ‫ُوحی فَقَعُوا لَہُ َس ِ‬ ‫ت فِي ِہ ِم ْن ر ِ‬ ‫”فَإِ َذا َس ﱠو ْيتُہُ َونَفَ ْخ ُ‬
‫”پس جب ميں اسے برابر کر لوں اور اس ميں اپنی روح پھونک دوں تو تم لوگ سجده ريزہوجانا“۔‬
‫ليکن بعض آيتوں ميں قرآن نے اس طرح انسانوں کے مقام کو پست بتايا ہے کہ جانوروں کو بھی ان سے بلند مقام ديا ہے‬
‫جيسا کہ ہم سورهٔ انعام ميں پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫ک َک ْ َٔ‬‫ان الَيَ ْس َمعُونَ ِبہَا أُوْ لَئِ َ‬ ‫نس لَہُ ْم قُلُوبٌ الَيَ ْفقَہُونَ ِبہَا َولَہُ ْم أَ ْعي ٌُن الَيُب ِ‬ ‫ْ‬
‫اال ْن َع ِام‬ ‫ْصرُونَ ِبہَا َولَہُ ْم آ َذ ٌ‬ ‫اال ِ‬‫” َولَقَ ْد َذ َرأنَا لِ َجہَنﱠ َم َکثِيرًا ِم ْن ْال ِجنﱢ َو ْ ِٕ‬
‫ک ہُ ْم ْالغَافِلُونَ “]‪[136‬‬ ‫ضلﱡ أُوْ لَئِ َ‬ ‫بَلْ ہُ ْم أَ َ‬
‫”اور بتحقيق ہم نے بہت سے جن وانس کے گروہوں کو جہنم کے لئے پيدا کيا ہے وه ايسے لوگ ہيں جو دل رکھتے ہيں مگر‬
‫اس سے کچھ سمجھتے نہيں‪،‬يہ لوگ چوپائے بلکہ اس سے بھی بد تر ہيں اور وہی لوگ غافل ہيں“۔‬
‫استاد‪” :‬ان دونوں آيتوں کے درميان کسی طرح کا کوئی تضاد نہيں ہے بلکہ ان دونوں آيتوں نے انسانوں کو دو گروہوں ميں‬
‫بانٹ ديا ہے‪،‬اچھے‪ ،‬بُرے ‪،‬جو لوگ اچھے ہيں وه اتنے زياده مقرب بارگاه ہيں کہ ﷲ ان کے سامنے اپنے فرشتوں کو سجده‬
‫کا حکم ديتا ہے مگر ان کے عالوه کچھ ايسے لوگ بھی ہيں جو جانوروں سے بھی بد تر ہيں اور عقل جيسی گراں بہا نعمت‬
‫کی موجودگی ميں چوپايوں جيسی حرکت کرتے ہيں“۔‬
‫ل ٰہذا اس بنا پر جو پہلی آيت ميں انسانوں کی اتنی قدرومنزلت بيان کی گئی ہے وه مثبت استعداد رکھنے والوں کی بات ہے‪،‬جو‬
‫اپنی عقل کو صحيح طور سے کار فرما کرکے سعادت وبلند سے بلند ترين مقامات پر پہنچ جاتے ہيں ‪،‬اور دوسری آيت ان‬
‫لوگوں سے متعلق ہے جو اپنے اندر موجود شہوتوں سے متاثر ہوجاتے ہيں جو اپنے اندر اتنی ساری صالحيتوں اور‬
‫خصوصيتوں کے باوجود خود کو آزاد چھوڑ ديتے ہيں اور چوپايوں کے طور طريقے اپنا ليتے ہيں“۔‬
‫شاگرد‪” :‬ميں آپ کے قانع کننده بيان کا بہت شکر گزار ہوں اگر آپ اجازت ديں تو دوسرا نمونہ بھی عرض کروں؟“‬
‫استاد‪”‘ :‬کہو کوئی بات نہيں“۔‬
‫سوره نساء کی تيسری آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں“۔‬ ‫ٔ‬ ‫شاگرد‪” :‬‬
‫اح َدةً “‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬
‫ث َو ُربَا َع فَإِ ْن ِخفتُ ْم أالﱠ تَ ْع ِدلوا فَ َو ِ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬
‫اب لَ ُک ْم ِمنَ النﱢ َسا ِء َمثنَی َوثالَ َ‬ ‫” فَان ِکحُوا َما طَ َ‬
‫”پس پاک عورتوں سے نکاح کرو‪،‬دوکے ساتھ تين کے ساتھ يا چار کے ساتھ ليکن اگر تمہيں اس بات کا خوف ہو کہ تم‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫پاوگے تو ايک سے نکاح کرو“۔‬ ‫عدالت نہيں کر ٔ‬
‫اس آيت کے مطابق اسالم ميں عدالت کی مراعات کرنے کی صورت ميں ايک ساتھ چار عورتوں سے نکاح کرنا جائز ہے‬
‫سوره کی ‪١١٩‬ويں آيت ميں پﮍھتے ہيں۔‬ ‫ٔ‬ ‫ليکن ہم اسی‬
‫” َولَ ْن تَ ْست َِطيعُوا َأ ْن تَ ْع ِدلُوا بَ ْينَ النﱢ َسا ِء َولَوْ َح َرصْ تُم“]‪[137‬‬
‫”اور تم کبھی بھی عورتوں کے درميان عدالت نہيں کر سکتے بھلے ہی تم کوشش ہی کيوں نہ کرو“۔‬
‫ل ٰہذا پہلی آيت کے مطابق کئی بيوياں رکھنا جائز ہے البتہ بشرط عدالت ‪،‬مگر دوسری آيت کے مطابق چونکہ متعدد بيويوں‬
‫کے درميان عدالت ممکن ہی نہيں ہے ل ٰہذا ان دونوں آيتوں کے درميان ايک طرح کا اختالف پايا جاتا ہے؟“‬
‫استاد‪” :‬اتفاق سے يہی بات امام جعفر صادق عليہ السالم کے زمانہ ميں منکرين خدا ‪،‬جيسے ابن ابی العوجاء جيسے لوگوں‬
‫کی جانب سے اٹھائی گئی تھی‪،‬ہشام بن حکم نے امام سے اس اعتراض کا جواب حاصل کيا اور ان اعتراض کرنے والوں کو‬
‫اس کا جواب ديا]‪[138‬وه جواب يہ ہے۔‬
‫پہلی آيت ميں عدالت سے مراد رفتار وکردار ميں انصاف کرنا ہے يعنی تمام بيويوں کے حقوق برابر ہيں اورانسان سب سے‬
‫لگاو اور محبت ميں عدالت قائم کرنا ہے )جو نا‬ ‫برتاو کرے ليکن دوسری آيت ميں عدالت سے مراد قلبی ٔ‬ ‫ٔ‬ ‫ظاہرا ً ايک جيسا‬
‫ممکن سی بات ہے( ل ٰہذا ان دونوں آيتوں ميں تضاد نہيں ہے اگر کوئی ظاہری طور سے اپنی باتوں اور اپنے کردار سے چار‬
‫لگاو ميں عدالت کی رعايت نہ کرسکےتو اس کے لئے چار‬ ‫بيويوں کے درميان عدالت قائم کر سکتا ہو ليکن محبت اور دلی ٔ‬
‫بيويوں کا رکھنا جائز ہوگا“۔‬
‫شاگرد‪” :‬ہم ان دونوں آيتوں ميں کيوں عدالت کے دومعنی مراد ليں جب کہ عدالت کے ايک ہی معنی ہوتے ہيں؟“‬
‫استاد‪” :‬عربی قانون کے لحاظ سے اگر کسی معنی کے لئے قرينہ موجود ہو تو اس کے ظاہری معنی مراد نہ ليتے ہوئے‬
‫دوسرے مجازی اور باطنی معنی مراد لے سکتے ہيں‪ ،‬اور ان دونوں آيتوں ميں واضح شواہد موجود ہيں کہ پہلی آيت ميں‬
‫عدالت سے مراد ظاہر رفتار وکرادر اور دوسری ميں باطنی ‪،‬جيسا کہ ظاہر آيت سے يہی بات واضح ہوتی ہے ليکن دوسری‬
‫آيت ميں جملے اس طرح ہيں۔‬
‫” فَالَتَ ِميلُوا ُک ﱠل ْال َمي ِْل فَتَ َذرُوہَا َکال ُم َعلق ِة “]‪[139‬‬
‫َ‬ ‫ﱠ‬ ‫ْ‬
‫”اپنے تمام ميالن کو ايک ہی بيوی کی طرف متوجہ نہ کردو کہ اس کے نتيجے ميں دوسری بيويوں کو يوں ہی بال وجہ‬
‫چھوڑ دوگے۔‬
‫اس جملہ سے يہ بات سمجھ ميں آتی ہے کہ اس آيت ميں جو يہ کہا گيا ہے کہ تم عورتوں کے درميان عدالت نہيں قائم‬
‫لگاو اور رجحانات ميں ہوتی ہے اور ظاہرسی بات ہے کہ اس طرح کی‬ ‫کرسکتے اس سے مراد وه عدالت ہے جو قلبی ٔ‬
‫عدالت ناممکن ہے يعنی کوئی شخص اگر چار بيويوں کا شوہر ہوگا تو يہ نہيں ہو سکتا کہ وه چاروں کوايک مقدارمينچاہے‬
‫اور ان سب سے برابر کی محبت کرے البتہ يہ ممکن ہے کہ وه چاروں سے ايک جيسا سلوک کرے۔‬
‫ل ٰہذ اان دونوں آيتوں ميں کوئی تضاد نہيں پاياجاتا۔‬
‫شاگرد‪” :‬ميں آپ کے اس قانع کننده اور مدلل بيان سے مطمئن ہو گيا‪،‬آپ کا شکريہ“۔‬
‫کيونکہ ظاہر سی بات ہے اسالمی احکام صرف وہاں تک قابل نفاذ ہوتے ہيں جہاں تک انسان کا اختيار ہو اور عمل يا عدم‬
‫عمل پر اسے قابو ہو جہاں تک محبت اور دلی تعلق کا سوال ہے تو يہ ايک اضطراری عمل ہے اور اس کا تعلق احساساتی‬
‫پہلووں سے ہوتا ہے اور انسان اپنے احساس اور قلبی محسوسات پر قادر نہيں ہوتا‪،‬ل ٰہذا اسالم ميں چار بيويوں کے درميان‬ ‫ٔ‬
‫ظاہری طور پر عدالت کا لحاظ رکھنے کی تاکيد کی گئی ہے کيونکہ اس طرح فساد اور لﮍائی کا امکان پايا جاتا ہے ۔‬

‫‪١٠١‬۔امام زمانہ )عج ( اور آپ کے مخصوص ‪٣١٣‬ناصروں کے متعلق ايک مناظره‬


‫اشاره‪:‬‬
‫مختلف روايتوں کے فرق کے ساتھ يہ روايت نقل ہوئی ہے کہ امام کے وه اصحاب جو ظہور کے وقت خانہ کعبہ ميں آپ‬
‫کے ہاتھوں پر بيعت کريں گے جب دنيا ميں آجائيں گے تو امام ظہور کريں گے اورانھيں کے انتظار ميں ہيں‪،‬وه اپنے زمانے‬
‫کے پہلے انسان ہوں گے جو اپنے امام کے ہاتھوں پر بيعت کريں گے ان کی بيعت امام کے ظہو ر کے ساتھ ہی ہوگی وه‬
‫امام کے علمدار ہوں گے اور پوری زمين پر حضرت حجت کی طرف سے منصوب شده حاکم ہوں گے۔‬
‫اب آپ اسی کے سلسلہ ميں در ج ذيل مناظره پر توجہ فرمائيں‪:‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے ‪/ ٣١٣‬اصحاب کے متعلق وارد ہونے والی حديث‬ ‫ٰ‬ ‫جستجو گر‪” :‬براه کرم مجھے امام عجل ﷲ‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫بتائيں؟“‬
‫محقق‪” :‬يہ حديث مختلف الفاظ ميں نقل ہوئی ہے يہ کوئی ايک حديث نہيں ہے بلکہ دسيوں حديث ہيں جو سب کی سب امام‬
‫کے تين سو تيره اصحاب کے بارے ميں منقول ہوئی ہيں ‪،‬ان کے نقل کی تعداد اتنی زياده ہے کہ تواتر معنوی کی حد تک‬
‫پہنچ چکی ہيں يعنی امام زمانہ عجل ﷲ تعالی فرجہ الشريف کے ظہور کے وقت ‪ ٣١٣‬افراد کا ان سے ملحق ہونا اس قدر‬
‫مشہور ہے کہ جس کی شہرت سے اس کا علم پيدا ہوجاتا ہے اور يہ بات ممکن ہوجاتی ہے کہ اتنے سارے لوگوں نے‬
‫جھوٹ بول کر اسے نقل کيا ہو اور اس حديث کے لئے اتنی بﮍی سازش رچی ہو۔‬
‫جستجو گر‪” :‬کوئی بات نہيں جيسا کہ موالنا کی مثنوی ميں ہے“۔‬

‫آب دريا ر ا گر نتوان کشيد‬


‫پس بہ قدر تشنگی بايد چشيد‬

‫)اگر دريا کے پانی کو نہيں بھر سکتے تو پياس بجھانے کی مقدار کو پينا ہی چاہئے(۔‬
‫ل ٰہذا ان احاديث کے ايک دو نمونے ہی پيش کرديں۔‬
‫سوره ہود کی آيت ‪ ٨٠‬کی تفسير ميں بيان ہوا کہ جناب لوط عليہ السالم نے اپنی سر کش قوم سے خطاب کرتے‬ ‫ٔ‬ ‫محقق‪” :‬‬
‫ہوئے کہا‪:‬‬
‫آوی ِٕالَی ُر ْک ٍن َش ِدي ٍد“‬‫”لَوْ أَ ﱠن لِی بِ ُک ْم قُ ﱠوةً أَوْ ِ‬
‫”اے کاش تمہارے مقابل ميرے پاس قدرت ہوتی يا ميرے پاس کوئی مضبوط پشت پناه ہوتا“۔‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا ہے‪” :‬يہاں ”قوة“سے مراد وہی قائم عجل ﷲ فرجہ الشريف ہيں اور ”رکن شديد“سے‬
‫مراد ان کے ‪ /٣١٣‬اصحاب ہيں“۔]‪[140‬‬
‫دوسری روايت ميں بيان ہوا ہے کہ امام محمد باقر عليہ السالم نے فرمايا ہے‪:‬‬
‫”لکانّی انظر اليھم مصعدين ِمن نجف الکوفة ثالث مائة وبضعة عشر رجال کأن قلوبھم ُزبر الحديد“۔]‪[141‬‬
‫”جيسے ميں ان تين سو اور کچھ آدميوں کو اپنی آنکھوں سے ديکھ رہا ہوں جو نجف و کوفہ سے اوپر جارہے ہيں گويا ان‬
‫کے دل فوالد کے ہيں“۔‬
‫جستجو گر‪” :‬کيا پوری دنيا ميں ابھی امام کے ‪/ ٣١٣‬اصحاب پيدا نہيں ہوئے جو امام عجل ﷲ تعالی فرجہ الشريف ظہور‬
‫کريں اور لوگوں کو دنيا کے ظلم و جور سے نجات حاصل ہو جائے ؟ “‬
‫محقق‪” :‬يہ ‪/ ٣١٣‬افراد روايت کے مطابق بہت سی خصوصيتوں کے حامل ہوں گے جس کی طرف توجہ دينے سے يہ بات‬
‫معلوم ہوتی ہے کہ دنيا ميں ابھی اتنی قوت نہيں ہے کہ وه ايسے لوگوں کو پيدا کر سکے“۔‬
‫جستجو گر‪” :‬مثالًکون سی خصوصيتيں؟“‬
‫تعالی فرجہ‬
‫ٰ‬ ‫محقق‪” :‬جيسے ہم امام سجاد عليہ السالم سے منقول ايک روايت ميں پﮍھتے ہيں کہ جب امام مہدی عجل ﷲ‬
‫الشريف مکہ ميں موجود جم غفير کے سامنے اپنا تعارف کرئيں گے اور لوگوں کو اپنی طرف بالئيں گے تو کچھ لوگ آپ‬
‫کو قتل کرنے کے لئے آگے بﮍھيں گے۔‬
‫”فيقوم ثالثمائة ونيف فيمنعونہ منہ“۔]‪[142‬‬
‫”تين سو کچھ افراد کھﮍے ہو کر انھيں روک ليں گے“۔‬
‫”يجمعھم ﷲ بمکة قزعا ً کقزع الخريف“۔ ]‪[143‬‬
‫”خدا انھيں برسات کے بادلوں کی طرف مکےه ميں اکٹھا کرے گا“۔‬
‫”وکانی انظر الی القائم علی منبر الکوفة وحولہ ثالثمائة وثالث رجال عدة اہل البدر وھم اصحاب االلوية وھم حکام ﷲ فی ارضہ‬
‫علی خلقہ“۔]‪[144‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف(کو کوفہ کے منبر پر ديکھ رہاہوں اور ان کے اطراف بدر ميں شريک ہونے والوں‬ ‫ٰ‬ ‫”گويا قائم)عجل ﷲ‬
‫کی تعداد کے برابر مرد کھﮍے ہيں يہ ان کے پرچم دار اصحاب اور ﷲ کی طرف سے زمين پر حکومت کرنے والے لوگ‬
‫ہوں گے“۔‬
‫تقوی ميں ايسا ہونا ضروری ہے کہ اگر پوری دنيا کو ‪ ٣١٣‬حصوں ميں بانٹ ديا جائے‬ ‫ٰ‬ ‫اس حديث کی بنا پر ان افراد کا علم و‬
‫تو وه سب ايک ايک حصے پر حکومت کرنے کی صالحيت رکھتے ہوں بعض بزرگوں کے قول کے مطابق تين سو تيره‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫افراد امام خمينی کی طرح جنھوں نے ايران کی رہبری سنبھالی ل ٰہذا ايسے تين سو تيره افراد ہونے چاہئے کہ جن کے اندر‬
‫ايک ملک کو چالنے کی صالحيت موجود ہو۔‬
‫جستجو گر‪” :‬اب ميں سمجھ گيا کہ دنيا ميں ان خصوصيات کے ساتھ ابھی تين سو تيره افراد موجود نہيں ہيں اس کے لئے‬
‫تعالی فرجہ الشريف‬‫ٰ‬ ‫ايک وسيع منصوبہ کی ضرورت ہے تاکہ اس طرح کے افراد تيار کئے جاسکيں اور امام زمانہ عجل ﷲ‬
‫کے ظہور کی راہيں ہموار ہو سکيں جس طرح رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم اپنے مقصد کی تکميل اور اسالم کی‬
‫باتقوی اور مضبوط وسياسی سوجھ بوجھ رکھنے والے باايمان اصحاب کی ضرورت محسوس کرتے تھے‬ ‫ٰ‬ ‫ترقی کے لئے‬
‫تعالی فرجہ الشريف بھی اپنے ظہور کے لئے ايسے ہی افراد کی ضرورت محسوس کرتے‬ ‫ٰ‬ ‫اسی طرح امام زمانہ عجل ﷲ‬
‫ہيں۔‬
‫کيا آپ ان تين سو تيره افراد کی کچھ خصوصيات بتا سکتے ہيں؟ “‬
‫محقق‪” :‬سوره ٔ بقره کی ‪ ١۴٨‬ويں آيت ميں ہم پﮍھتے ہيں‪:‬‬
‫”أَ ْينَ َما تَ ُکونُوا يَ ْأ ِ‬
‫ت بِ ُک ْم ﷲُ َج ِميعًا“‬
‫”تم جہاں کہيں بھی ہوگے ﷲ تمہيں يکجا کر دے گا“۔‬
‫امام جعفرصادق عليہ السالم نے مذکوره آيت کو پﮍھنے کے بعد فرمايا‪:‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے اصحاب مراد ہيں جن کی تعداد ‪/٣١٣‬ہوگی خدا کی قسم !امت‬ ‫ٰ‬ ‫”اس سے امام زمانہ عجل ﷲ‬
‫معدودوہی لوگ ہيں خدا کی قسم!سب ايک ساعت ميں اکٹھے ہو جائيں گے جيسے موسم خزاں کے بادل تيز ہوا کے وجہ سے‬
‫جمع ہوجائيں‪،‬چنانچہ وه سب ايک دوسرے کے پاس جمع ہو جائيں گے“۔]‪[145‬‬
‫اسی طرح ان کی خصوصيات ميں سے يہ بھی ہے کہ وه دور دراز شہروں اور ملکوں سے مکہ آئيں گے“۔]‪[146‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف‪ ،‬ذی طوی )مکہ سے ايک فرسخ کے فاصلہ پر (ان ‪/٣١٣‬افراد کے انتظار ميں‬ ‫ٰ‬ ‫اور امام زمانہ عجل ﷲ‬
‫توقف کريں گے يہاں تک کہ وه لوگ آپ کی خدمت ميں پہنچ جائيں گے اور امام عليہ السالم ان کے ساتھ کعبہ تک آئيں گے‬
‫]‪[147‬وه لوگ پہلے انسان ہوں گے جو امام عليہ السالم کی بيعت کريں گے۔]‪[148‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے ساتھ ساتھ غيبی امداد سے ماال مال ہونگے اور دست خدا اور اور امام عليہ‬ ‫ٰ‬ ‫وه امام زمانہ عجل ﷲ‬
‫السالم کا سايہ ان کے سروں پر سايہ فگن ہوگا۔‬
‫جيسا کہ امام سجاد عليہ السالم نے فرماياہے‪:‬‬
‫”گويا ميں تمہارے صاحب)امام زمانہ عجل ﷲ تعالی فرجہ الشريف(کو ديکھ رہا ہوں جو تين سو اور کچھ افراد کے ساتھ‬
‫کوفہ کے پيچھے سے نجف آرہے ہيں داہنے طرف جبرئيل اور بائيں طرف ميکائيل ہيں اور اسرافيل ان کے سامنے ہيں‬
‫رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے پرچم کو اٹھا ئے ہيں اور اس پرچم کو مخالفوں کے جس گروه کی طرف‬
‫جھکاديتے ہيں ﷲ انھيں ہال ک کرديا ہے۔]‪[149‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے اصحاب کے بارے ميں کيوں ”رجال“ يعنی مردوں کا لفظ استعمال‬ ‫ٰ‬ ‫جستجو گر‪” :‬امام زمانہ عجل ﷲ‬
‫ہوا ہے کيا ان کے اصحاب ميں عورتيں نہيں رہيں گی؟کيا عورتيں اس تحريک ميں بالکل حصہ نہيں ليں گی؟ “‬
‫محقق‪” :‬اکثر مردوں کی بات اس لئے آتی ہے کيونکہ ظہور کے ابتدائی ايام ميں صرف جنگ وجہاد کی باتيں ہوں گی ل ٰہذا‬
‫مردوں ہی کی بات ہوتی ہے‪ ،‬اور چونکہ جنگ ميں جائيں گے ليکن عورتيں محاذ کے عالوه محنت کريں گی اور مجاہد وں‬
‫کی خدمت کر کے وه بھی جہاد کريں گی۔‬
‫اور جہاں تک ان ‪/ ٣١٣‬اصحاب کا سوال ہے تو بعض روايتوں کے مطابق ان ميں عورتيں بھی ہوں گی جيسا کہ امام محمد‬
‫باقر عليہ السالم نے فرماياہے‪:‬‬
‫”۔۔۔ويجی وﷲ ثالث مائة وبضعة رجال فيھم خمسون امراة بمکة علی غير ميعاد قزعا کقزاالخريف“۔]‪[150‬‬
‫”خدا کی قسم ! تين سو اور کچھ آفراد آئيں گے جن ميں سے پچاس عورتيں ہوگی جو سب مکہ کے پاس فصل خزانکے‬
‫بادلوں کی طرح بغير کسی طے شده منصوبہ کے تحت جمع ہو جائيں گے۔‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے ساتھ‬ ‫ٰ‬ ‫مفضل سے نقل ہوا ہے کہ امام جعفر صاق عليہ السالم نے فرماياہے‪” :‬اما م مہدی عجل ﷲ‬
‫تيره عورتيں ہوں گے“۔‬
‫ميں نے کہا‪” :‬يہ عورتيں امام عليہ السالم کے پاس کيوں ہوں گی“۔‬
‫امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا‪” :‬يہ زخميوں کا عالج کريں گی اور جنگی مريضوں کی تيمارداری کريں گی جيسا‬
‫کہ رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلم کے زمانہ ميں مختلف جنگونميں عورتيں اس طرح کا م انجام ديا کرتی تھيں“۔]‪[151‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫جستجو گر‪” :‬امام مہدی عجل ﷲ فرجہ الشريف کے عالمی قيام کی نسبت سے يہ تعداد بہت کم ہے؟“‬
‫تعالی فرجہ الشريف سے ملحق ہو جائيں گے ليکن اس کے بعد دھيرے‬ ‫ٰ‬ ‫محقق‪” :‬يہ اصحاب ابتداہی ميں امام مہدی عجل ﷲ‬
‫دھيرے آپ کے اصحاب کی تعداد ميں اضافہ ہوتا چال جائے گا“۔‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے وه خاص اصحاب ہوں گے جو آپ کی عالمی‬ ‫ٰ‬ ‫واضح عبارت ميں يوں کہا جائے کہ يہ امام عجل ﷲ‬
‫حکومت کے مرکزی ارکان ہوں گے مثالً ايک روايت ميں آيا ہے۔‬
‫تعالی فرجہ‬
‫ٰ‬ ‫”‪ٰ / ٣۶٠‬الہی وکامل اشخاص حجر اسود اور مقام ابراہيم کے درميان بيعت کريں گے وه امام مہدی عجل ﷲ‬
‫الشريف کے وزراء اور آپ کے عالمی حکومت کے خاص ارکان ہوں گے“۔‬
‫اس کے بعد آپ نے يہ بھی فرمايا‪:‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے ستر ہزار اصحاب تکبير کہتے ہوئے شرکت کريں گے پہلی‬ ‫ٰ‬ ‫”روم کو فتح کرنے ميں امام عجل ﷲ‬
‫ہی تکبير کی گرج کے ساتھ وه ايک تہائی روم کو فتح کرليں گے اور دوسری تکبير کی گرج کے ساتھ دوسرا ايک تہائی‬
‫حصہ فتح ہو جائے گا تيسری تکبير کے ساتھ ہی پورا روم فتح ہو جائے“۔]‪[152‬‬
‫يا دوسری روايت ميں امام محمد باقر عليہ السالم سے نقل ہو اہے کہ آپ نے فرمايا‪” :‬ستر ہزار سچے اور مخلص اصحاب‬
‫تعالی فرجہ الشريف کی مدد کے لئے اٹھيں گے“۔]‪[153‬‬ ‫ٰ‬ ‫کوفہ سے امام مہدی عجل ﷲ‬
‫تعالی فرجہ‬
‫ٰ‬ ‫اس مناظره کی مکمل کرنے کی غرض سے اور کتاب کے حسن ختام کے طور پر حضرت امام زمانہ عجل ﷲ‬
‫الشريف کے متعلق چند روايتيں پيش خد مت ہيں‪:‬‬
‫‪١‬۔امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا‪:‬‬
‫”ان القائم صلوات ﷲ عليہ ينادی باسمہ ليلة ثالث و عشرين‪ ،‬ويقوم يوم عاشوراء يوم قتل فيہ الحسين“۔]‪[154‬‬
‫”بال شبہ قائم صلوات ﷲ عليہ کو ان کے نام سے )رمضان کی(‪/٢٣‬ويں شب کو ندادی جائے گی اور يوم عاشوره امام حسين‬
‫عليہ السالم کے شہادت کے روز آپ کا قيام ہوگا“۔‬
‫‪٢‬۔امام سجاد عليہ السالم نے فرماياہے‪:‬‬
‫”اذا قام قائمنا اذھب ﷲ عزوجل عن شيعتنا العاھة‪،‬وجعل قلوبھم کزبر الحديد وجعل قوة الرجل منھم قوة اربعين رجال ويکونون‬
‫حکام االرض وسنامھا“۔]‪[155‬‬
‫”جب ہمارا قائم قيام کرے گا تو خدا وند عالم تمام آفتيں اور وحشتيں ہمارے شيعوں سے دور کر دے گا اور ان کے دلوں کو‬
‫فوالد کی طرف مضبوط کر دے گااس وقت ايک آدمی کی طاقت چاليس آدميوں کے برابر ہو جائے گی وه لوگ تمام دنيا کے‬
‫حاکم اور سردارہوں گے“۔‬
‫‪٣‬۔امام محمد باقر عليہ السالم نے فرماياہے‪:‬‬
‫”فاذا وقع امرنا وخرج مھدينا ‪،‬کان احدھم اجری من الليث‪ ،‬وامضی من السنان ‪،‬ويطأ عدونا بقدميہ و يقتلہ بکفہ“۔]‪[156‬‬
‫”جب ہمار اقائم ظہور کرے گا تو ہمارا ہر شيعہ شير سے زياده جرأت مند ہو جائے گا کہ نيزه سے زياده تيز ہوجائے گا وه‬
‫اپنے پيروں سے ہمارے دشمن کو پامال کردے گا اوراپنی ہتھيليوں سے انھيں مار ڈالے گا“۔‬
‫‪۴‬۔امام جعفر صادق عليہ السالم نے فرمايا‪:‬‬
‫”ليعدن أحدکم لخروج القائم و لو سھما“۔]‪[157‬‬
‫تعالی فرجہ الشريف کے ظہور کے لئے تياری کرنا چاہئے بھلے ہی ايک ايک‬ ‫ٰ‬ ‫”تم لوگوں کو اپنے آپ امام مہدی عجل ﷲ‬
‫تير کے ذريعہ ہی کيوں نہ ہو“۔‬
‫آپ نے اسی سلسلے ميں يہ حديث بھی فرمائی‪:‬‬
‫”يذل لہ کل صعب“۔]‪[158‬‬
‫”تمام مشکالت اس کے لئے آسان ہو جائيں گی“۔‬

‫رب العالمين‬ ‫الحمد‬

‫‪--------------------------------------------------------------------------------‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [1‬سوره مائده ‪ ،‬آيت ‪۵۵‬۔‬
‫]‪ [2‬تمام مفسروں کے اتفاق رائے سے يہ آيت امام علی عليہ السالم کی شان ميں نازل ہوئی ہے جب آپ نے رکوع کے عالم‬
‫ميں انگوٹھی فقير کو دی تھی اہل سنت کی جن کتابوں ميں يہ بات ذکر ہوئی ہے ان کی تعداد تيس سے زائد ہے جيسے ذخائر‬
‫العقبی‪ ٰ،‬ص‪،٨٨‬فتح القدير‪ ،‬ج‪،٢‬ص‪ ،۵٠‬اسباب النزول واحدی‪،‬ص‪ ،١۴٨‬کنز العمال ‪،‬ج‪ ۶‬ص‪ ٣٩١‬وغيره مزيدمعلومات کے‬
‫لئے کتاب” احقاق الحق“ج‪ ،٢‬ص ‪ ٣٩٩‬سے ‪ ۴١٠‬کا مطالعہ کريں۔‬
‫سوره احزاب آيت ‪۵٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[3‬‬
‫]‪ [4‬المناظره‪ ،‬تاليف شيخ حسين بن عبد الصمد ‪،‬طبع موسسہ قائم آل محمد )خالصہ اور وضاحت کے ساتھ(‬
‫]‪ [5‬تاريخ طبری ‪،٢،‬ص ‪ ٢٨١‬کا خالصہ۔‬
‫]‪ [6‬صحيح بخاری ‪،‬ج‪،٢‬ص‪) ١٣٠‬مطبع الشعب ‪١٣٧٨ ،‬ھ۔‬
‫]‪ [7‬مناظرات فی الحرمين الشريفين ‪ ،‬مناظره نمبر ‪١٣‬۔‬
‫داود ‪،‬ص‪،٢‬ص‪ ، ٢۶۴‬وغيره ميں يہی حديث تھوڑے سے فرق کے ساتھ‬ ‫]‪ [8‬صحيح ترمذی ‪،‬ج‪،١٣‬ص‪ ، ١٨٢‬سنن ابی ٔ‬
‫“سعيد بن زيد ”سے بھی نقل ہوئی ہے )الغدير ‪،‬ج‪،١٠‬ص‪(١١٨‬‬
‫]‪ [9‬سوره ٔنساء‪ ،‬آيت ‪٩٣‬۔‬
‫]‪ [10‬مناقب ابن مغازلی ‪،‬ص‪۵٠‬۔مناقب خوارزمی ‪،‬ص‪٧۶۶‬و‪٢۴‬۔‬
‫]‪ [11‬کنز العمال ‪،‬ج‪،۶‬ص‪ ١۵٧‬۔االمامة ولسياسة ‪،‬ص‪٧٣‬۔مجمع الزوائد ‪،‬ہيثمی ‪،‬ج‪،٧‬ص‪ ٢٣۵‬وغيره ۔‬
‫]‪ [12‬کنز العمال ‪،‬ج‪،۶‬ص‪ ١۵٧‬۔االمامة والسياسة ‪،‬ص‪٧٣‬۔مجمع الزوائد ‪،‬ہيثمی ‪،‬ج‪،٧‬ص‪ ٢٣۵‬وغيره ۔‬
‫]‪ [13‬شرح در الغدير ‪،‬ج‪ ،١٠‬ص‪ ١٢٢‬تا ‪ ١٢٨‬۔‬
‫سوره بقره ‪ ،‬آيت ‪۶٠‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[14‬‬
‫]‪ [15‬الشيعہ و التشيع‪ ،‬ص ‪٢٠‬۔‬
‫سوره نساء آيت ‪۵٩‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[16‬‬
‫سوره شعراء آيت ‪٢١۴‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[17‬‬
‫]‪ [18‬يہ حديث ”يوم االنذار “کے نام سے معروف ہے ‪،‬اس کے بہت سارے مدارک ہيں منجملہ‪ :‬تاريخ طبری‪،‬ج‪،٢‬ص‪،۶٣‬‬
‫تاريخ ابن اثير ‪،‬ج‪ ،٢‬۔تاريخ ابو الفداء ‪،‬ج‪ ،١‬وغيره‪ ،‬مزيد وضاحت کے لئے کتاب احقاق الحق ‪،‬ج‪،۴‬ص ‪ ۶٢‬کے بعد رجوع‬
‫کريں۔‬
‫]‪ [19‬کتاب ”آہين وہابيت“ سے اقتباس‪ ١٢ ،‬تا ‪١۴‬۔‬
‫سوره مائده ‪ ،‬آيت ‪٩٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[20‬‬
‫ٰ‬
‫شوری آيت‪٧‬۔(‬ ‫سوره‬ ‫سوره انعام آيت ‪٩٢‬‬ ‫ُ‬
‫]‪” [21‬لِتُن ِذ َر أ ﱠم ْالقُ َری َو َم ْن َحوْ لَہَا “)‬
‫ٔ‬ ‫ٔ‬
‫سوره بقره آيت ‪١٩٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[22‬‬
‫]‪ [23‬مجمع البيان ‪،‬ج‪، ٢‬ص‪٢٩۴‬۔‬
‫صحيفہ نور ‪،‬ج‪، ١٨‬ص‪۶۶،۶٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[24‬‬
‫صحيفہ نور ‪،‬ج‪ ،٢‬ص‪١٨‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[25‬‬
‫]‪ [26‬کحل البصر سے اقتباس ‪،‬ص‪، ١١٩‬مجمع البيان ‪،‬ج‪،٩‬ص‪١٢٧‬۔‬
‫]‪ [27‬احتجاج طبرسی‪ ،‬ج‪ ،٢‬ص ‪١٩ ،١٨‬۔‬
‫]‪ [28‬بحار االنوار ‪،‬ج‪،۴۶‬ص‪١٢٧‬۔‬
‫]‪ [29‬منتہی االمال ‪ ٢،‬ص‪٧٩‬۔‬
‫]‪ [30‬وسائل الشيعہ ‪،‬ج‪، ٩‬ص‪۴٠۶‬۔‬
‫]‪ [31‬سنن ابن ماجہ ‪،‬ج‪،٢‬ص‪ ١٩، ١٨‬۔بحار االنوار‪،‬ج‪،۵٢‬ص‪٣١۶‬۔‬
‫]‪ [32‬اعيان الشيعہ‪،‬چاپ جديد ‪،‬ج‪، ١‬ص‪١۴‬۔‬
‫]‪ [33‬وسائل الشيعہ ‪،‬ج‪،٨‬ص‪١۴‬۔‬
‫]‪ [34‬شرح سيره ابن ہشام ‪،‬ج‪ ،١‬ص‪ ٣٨‬تا ‪ ،۶٢‬بلوغ االرب ‪،‬آلوسی ‪،‬ج‪، ١‬ص‪ ٢۵٠‬تا‪٢۶٣‬۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [35‬کمال الدين ‪،‬ص‪١٠۴‬۔تفسير برہان ج‪،٢‬ص‪٧٩۵‬۔‬
‫]‪ [36‬شرح نہج البالغہ ‪،‬ابن ابی الحديد ‪،‬ج‪، ٣‬ص‪٣١٢‬۔‬
‫العقبی‪،‬ص‪٢٢٢‬۔‬ ‫ٰ‬ ‫]‪ [37‬استيعاب ‪،‬ج‪ ،٢‬ص‪،۵٠٩‬ذخائر‬
‫]‪ [38‬اس سلسلہ ميں مزيد آگاہی کے لئے کتاب الغدير ‪،‬ج‪ ٧‬ص‪ ٣٣٠‬تا ‪ ۴٠٩‬مالحظہ کريں۔‬
‫]‪ [39‬الحجة علی الذاھب ‪،‬ص‪٣۶١‬۔‬
‫]‪ [40‬شرح نہج البالغہ ‪،‬ابن ابی الحديد ‪،‬ج‪ ،١‬ص ‪٣۶٠ ،٣۵٨‬۔‬
‫]‪ [41‬تفسير ابن کثير ‪،‬ج ‪ ،٢‬ص ‪١٢٨‬۔‬
‫]‪ [42‬جيسا کہ ابن عباس نے مذکوره آيت کے يہی معنی کئے ہيں ۔)الغدير ‪،‬ج‪(٨‬‬
‫]‪ [43‬ميزان االعتدال ‪،‬ص‪٣٩٨‬۔‬
‫]‪ [44‬تہذيب التہذيب ‪،‬ج‪،۴‬ص‪١١۵‬۔‬
‫]‪ [45‬تہذيب التہذيب ‪،‬ج‪،٣‬ص‪١٧٩‬۔‬
‫]‪ [46‬تاريخ طبری ‪،‬نقل از کتاب ابو طالب مومن قريش۔‬
‫]‪ [47‬يہاں پر گفتگو بہت ہے ‪،‬کتاب الغدير ‪،‬ج‪،٧‬اور ابو طالب مومن قريش ‪ ،‬ص‪ ٣٠٣‬تا ‪ ٣١١‬پر رجوع فرمائيں۔‬
‫]‪ [48‬کتاب غاية المرام ميں اس سلسلہ ميں اہل سنت کے ‪ ١٢۴‬اور اہل تشيع سے ‪ ١٩‬روايتيں نقل ہوئی ہيں جن سے يہ ثابت‬
‫ہوتا ہے کہ يہ آيت حضرت علی عليہ السالم کی شان ميں نازل ہوئی )منہاج البراعة‪ ،‬ج ‪ ،٢‬ص ‪(٣۵٠‬‬
‫]‪ [49‬نہج البالغہ‪ ،‬نامہ ‪ ،۴۵‬اس خط کے مطابق آپ کے لئے اس طرح کی انگوٹھی پہننے کی بات ايک تہمت ہے ۔‬
‫]‪ [50‬وقايع االيام‪ ،‬خيابانی )صيام( ص ‪۶٢٧‬۔‬
‫سوره احزاب‪ ،‬آيت ‪٣٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫ضی َز ْي ٌد ِم ْنہَا َوطَرًا زَ ﱠوجْ نَا َکہَا“‬ ‫]‪” [51‬فَلَ ﱠما قَ َ‬
‫]‪ [52‬ان آيات سے مزيد آگاہی کے لئے کتاب دالئل الصدق ج ‪ ،٢‬ص ‪ ٧٣‬تا ‪ ٣٢١‬کی طرف رجوع کريں کہ جہاں اس سلسلہ‬
‫ميں ‪ ٨٢‬آيت ذکر ہوئی ہيں۔‬
‫ہوا ہے کہ يہ آيتيں سب کی سب امام علی عليہ السالم کی خالفت بال فصل اور ان کی واليت و رہبری کے لئے نازل ہوئی ہيں‬
‫اور خداوند عالم کا رشاد ہے۔‬
‫سوره حشر‪ ،‬آيت ‪٧‬۔‬ ‫ٔ‬ ‫]‪[53‬‬
‫پہلووں کو مد نظر رکھ کر يہ ديکھا جائے کہ قرآن مجيد ميں جو کچھ بھی اچھائيوں کا‬ ‫ٔ‬ ‫احساساتی‬ ‫اور‬ ‫عقلی‬ ‫اگر‬ ‫اصوال‬ ‫[‬ ‫]‪54‬‬
‫تقوی‪ ،‬علم‪ ،‬جہاد‪ ،‬ہجرت اور سخاوت ان کا رسول خدا صلی ﷲ عليہ و آلہ و سلمکے بعد حقيقی مصداق کون‬ ‫ٰ‬ ‫ذکر ہوا جيسے‬
‫ہے جو سب پر برتری رکھتا ہے تو حضرت علی عليہ السالم کے عالوه کوئی اور نہيں نظرآئے گا کيونکہ جب تک بزرگی‬
‫کے اسباب فراہم نہ ہوں اس وقت تک بﮍی جگہ پر اعتماد نہيں کيا جا سکتا ل ٰہذا قرآن کی آيت ہميں رسول اکرم صلی ﷲ عليہ‬
‫و آلہ و سلمکے بعد ہدايت کے لئے حضرت علی کا دروازه دکھاتی ہے مگر کيا ايسا نہيں ہے کہ قرآن فرماتا ہے‪:‬‬
‫ق أَ ْن يُتﱠبَ َع أَ ﱠم ْن الَيَ ِہدﱢی ِٕاالﱠ أَ ْن يُ ْہدَی فَ َما لَ ُک ْم َک ْيفَ تَحْ ُک ُمونَ “ )سوره يونس‪ ،‬آيت ‪(٣۵‬‬‫ق أَ َح ﱡ‬
‫”أَ فَ َم ْن يَ ْہ ِدی ِٕالَی ْال َح ﱢ‬
‫]‪ [55‬مجلہ رسالہ االسالم ‪،‬ارکان رسمی ”دارالتقريب بين المذاہب اال سالمية بالقاہرة ‪،‬سال ‪ ،١١‬نمبر ‪،٣‬سال ‪ ١٣٧٩‬ھ۔‬
‫]‪ [56‬فی سبيل الوحدة االسالمية‪ ،‬سيد مرتضی الرضوی‪ ،‬ص‪،۵٢،۵۴‬و‪۵۵‬۔‬
‫]‪ [57‬صحيح مسلم ‪،‬ج‪،٣‬ص‪۶١‬۔سنن ترمذی ‪،‬ج‪ ،٢‬ص‪ ،٢۵۶‬سنن نسائی ‪ ،‬ج‪، ۴‬ص‪٨٨‬۔‬
‫]‪ [58‬تہذيب التہذيب ‪،‬ج‪،١١‬ص‪ ،١٢۵‬ج‪ ،۴‬ص‪ ،١١۵‬ج‪ ،٣‬ص‪١٧٩‬۔‬
‫]‪ [59‬تہذيب التہذيب ‪،‬ج‪،١١‬ص‪ ،١٢۵‬ج‪ ،۴‬ص‪ ،١١۵‬ج‪ ،٣‬ص‪١٧٩‬۔‬
‫]‪ [60‬تہذيب التہذيب ‪،‬ج‪،١١‬ص‪ ،١٢۵‬ج‪ ،۴‬ص‪ ،١١۵‬ج‪ ،٣‬ص‪١٧٩‬۔‬
‫]‪ [61‬شرح حديدی ‪،‬ج‪،٩‬ص‪٩٩‬۔‬
‫]‪ [62‬الفقہ علی مذاہب االربعة ‪،‬ج ‪ ،١‬ص‪۴٢٠‬۔‬
‫]‪” [63‬آئين وہابيت“سے اقتباس ص‪ ۵۶‬سے ‪ ۶۴‬تک۔‬
‫]‪ [64‬مجمع البيان ‪،‬ج‪، ۴‬ص‪)٨٣‬معالم دين ﷲ (‬
‫]‪ [65‬آئين وہابيت سے اقتباس ص‪ ۴٣‬سے ‪ ۴۶‬تک۔‬
‫]‪ [66‬الفصول المہمہ ‪،‬ص‪١۴‬۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [67‬کفاية الطالب ‪،‬ص‪٣۶١‬۔‬
‫]‪ [68‬نور االبصار‪٧۶ ،‬۔‬
‫السول ‪،‬ص‪١١‬۔‬‫]‪ [69‬مطالب ٔ‬
‫]‪ [70‬دالئل الصدق ‪،‬ج‪،٢‬ص‪۵٠٨‬و‪۵٠٩‬۔‬
‫]‪ [71‬دالئل الصدق ‪،‬ج‪،٢‬ص‪۵٠٩‬و‪۵١٠‬۔‬
‫]‪ [72‬صحيح مسلم ‪،‬کتاب فضائل الصحابہ ‪ ،‬مسند احمد‪،‬ج‪ ،۴‬ص‪٣٩٨‬۔‬
‫]‪ [73‬مستدرک حاکم ‪ ،‬ج ‪ ،٣‬ص‪١۴٩‬۔‬
‫]‪ [74‬فتاوی صحابی کبير ‪،‬ص‪۶٧٧‬۔‬
‫]‪ [75‬وقعة الصفين ‪،‬طبع مصر‪ ،‬ص‪۵٨‬۔‬
‫]‪ [76‬نہج البالغہ صبحی صالح‪ ،‬خطبہ ‪١٢۶‬۔‬
‫]‪ [77‬نہج البالغہ صبحی صالح‪ ،‬خطبہ ‪١٢۶‬۔‬
‫]‪ [78‬مناقب آل ابی طالب‪ ،‬ج‪ ،۴‬ص‪۶۶‬۔‬
‫]‪ [79‬فروع کافی‪ ،‬ج‪ ،۴‬ص‪٢٣‬و‪ ٢۴‬سے اقتباس۔‬
‫]‪ [80‬انو ار البہيہ‪ ،‬ص‪١٢۵‬۔‬
‫]‪ [81‬عيون اخبار الرضا‪،‬ج ‪ ،٢‬ص‪٢۶٣‬و‪٢۶۶‬۔‬
‫]‪ [82‬نہج البالغہ‪ ،‬خطبہ‪٢٢۴‬۔‬
‫]‪ [83‬معجم البلدان ‪ ،‬ج ‪ ،۴‬ص ‪١٧۶‬۔‬
‫]‪ [84‬ارشاد شيخ مفيد ‪ ،‬ص‪٢٨۴‬۔مستدرک الوسائل ‪ ،‬ج ‪ ،٢‬ص ‪۵١۴‬۔‬
‫]‪ [85‬فروع کافی ‪،‬ج ‪ ،۵‬ص ‪٧۴‬۔ اسی سے مشابہ دوسری مثاليں اسی کتاب ميں موجود ہيں۔‬
‫]‪[86‬‬
‫]‪ [87‬خمس کی بحث طوالنی ہے ليکن يہاں خالصہ کے طور پر ہم عرض کرتے ہيں ۔‬
‫خمس کا اصل مسئلہ سوره انفال آيت ‪ ۴٣‬ميں ذکر ہوا ہے اور اس کے فرعی مسائل کے متعلق تقريبا ‪/٨٠‬روايتيں )وسائل‬
‫الشيعہ‪،‬جلد‪ ۶‬وغيره (ميں ذکر ہوئی ہيں خمس ايک حکومتی خزانہ ہے )زکات کے بر خالف جو عمومی دولت ہے ( نصف‬
‫خمس حاکم )اگر اسالمی حکومت ہو ورنہ مراجع تقليد اسی حکم ميں ہيں (کے اختيار ميں ہوتا ہے اور دوسرا حصہ مستحق‬
‫سادات کا ہوتا ہے۔ائمہ معصومين عليہم السالم ولی بھی تھے اور سادات بھی ل ٰہذ خمس انھيں کے ہاتھوں ميں رہتا تھا ل ٰہذ ا‬
‫انھيں يہ حق حاصل تھا کہ وه اس کو شيعوں کی زندگی گزارنے بھر ان کو دے ديں کيونکہ ان شيعوں کی حفاظت ايک طرح‬
‫سے اسالم کی حفاظت تھی کيونکہ ائمہ عليہم السالم کے زمانہ ميں شيعوں کی حفاظت سے زياده بﮍھ کر اسالم کو محفوظ‬
‫رکھنے کا کوئی اور ذريعہ نہ تھا ۔‬
‫]‪ [88‬مشارق االنوار سے اقتباس ‪ ،‬بحار االنوار‪ ،‬ج ‪، ٧۶‬ص ‪ ۵٧‬کی نقل کے مطابق۔‬
‫سوره نساء آيت ‪١۶۴‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[89‬‬
‫سوره اعراف آيت ‪١۵۵‬کی طرف رجوع فرمائيں۔‬ ‫ٔ‬ ‫سوره نساء آيت ‪١۵٣‬‬‫ٔ‬ ‫]‪ [90‬سوره ٔ بقره آيت ‪۵۵‬۔‪۵۶‬‬
‫سوره بقره آيت ‪٢۶٠‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪ [91‬جيسا کہ جناب ابراہيم عليہ السالم نے قيامت کے سلسلہ ميں اسی طرح کا سوال کيا تھا‬
‫سوره اعراف آيت ‪١۵۵‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[92‬‬
‫سوره اعراف آيت ‪١۴٣‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[93‬‬
‫]‪ [94‬تفسير روح البيان ‪،‬ج ‪،١‬ص‪، ۴٠٠‬تفسير قرطبی ‪،‬ج ‪،٢‬ص‪١٠١٨‬۔تفسير فخر رازی ‪،‬ج‪،٧‬ص‪٩‬۔‬
‫]‪ [95‬تفسير فخر رازی ‪،‬ج‪ ،٧‬ص‪٩‬۔‬
‫]‪ [96‬وسائل الشيعہ ‪،‬ج‪، ١۵‬ص‪١٠‬۔‬
‫]‪ [97‬وسائل الشيعہ ‪،‬ج‪، ١۵‬ص‪١٠‬۔‬
‫ره نساء آيت ‪٢٠‬۔‬
‫]‪ [98‬سو ٔ‬
‫]‪ [99‬تفسير در منثور ‪،‬ج‪،٢‬ص‪١٣٣‬۔تفسير ابن کثير ‪،‬ج‪١‬ص‪۴۶٨‬۔تفسير قرطبی ‪،‬کشاف ‪،‬غرائب القرآن ‪،‬اسی آيت کے ذيل ميں‬
‫۔‬
‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [100‬سوره قصص‪ ،‬آيت ‪٢٧‬۔‬
‫]‪ [101‬االحتجاجات العشره سے اقتباس ‪،‬احتجاج ‪۵‬۔‬
‫]‪ [102‬تاريخ طبری ‪،‬ج‪،١١‬ص‪١٣۵٧‬۔تذکرة الخواص ‪،‬ص‪٢٠٩‬۔کتاب صفين ‪،‬ص‪٢٢٠‬۔‬
‫]‪ [103‬تاريخ بغداد ج‪ ،١٢‬ص‪ ،١٨١‬شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج‪ ،۴‬ص‪٣٣‬۔‬
‫]‪ [104‬کتاب صفين ابن مزاحم ‪،‬ص‪٢١٩‬۔مسند بن حنبل ج‪،۴‬ص‪٢۴٨‬ميں ان کے نام کے جگہ ”فالں فالں “آيا ہے ۔‬
‫]‪ [105‬االثنی عشريہ فی الرد علی الصوفيہ‪،‬تالف شيخ حرعاملی ‪،‬ص‪١۶۴‬۔‬
‫]‪ [106‬بحار ‪،‬ج‪،۴۴‬ص‪٢٩٣‬۔‬
‫سوره آل عمران آيت ‪١۶٩‬۔‬‫ٔ‬ ‫]‪[107‬‬
‫]‪ [108‬االحتجاجات العشرة‪،‬ص‪٢٠‬۔‬
‫]‪ [109‬ماساة الحسين ‪،‬تاليف‪:‬الخطيب شيخ عبد الوہاب الکاشی ‪،‬ص‪١۵٢‬۔‬
‫]‪ [110‬ماساة الحسين ‪،‬تاليف‪:‬الخطيب شيخ عبد الوہاب الکاشی ‪،‬ص‪١٣۵،١٣۶‬۔‬
‫]‪ [111‬الوقايع والحوادث‪،‬ج‪،٣‬ص‪٣٠٧‬۔‬
‫]‪ [112‬ماساة الحسين عليہ السالم ‪،‬ص‪١٣٧‬۔‬
‫سوره حج آيت ‪٣٢‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[113‬‬
‫]‪ [114‬انگيزه پيدائش مذہب ‪،‬ص‪١۵٠‬۔‬
‫]‪ [115‬منتہی اآلمال ‪،‬ج‪،٢‬ص‪٣‬۔‬
‫]‪ [116‬مذکوره لغت ناموں لفظ ”ختم“‬
‫سوره احزاب آيت ‪۴٠‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[117‬‬
‫]‪ [118‬اسی وجہ سے امام حسين عليہ السالم نے ان لشکريوں کو عاشورا کے دن ”شيعيان آل ابی سفيان“کہہ کر باليا تھا‬
‫جب دشمن خيموں پر حملہ کر نے لگے تو آپ نے فرمايا‪” :‬ويلکم يا شيعة آل ابی سفيان“تمہارا برا ہواے ابو سفيان کے اوالد‬
‫کے پيروکارو! اگر تم دين نہيں رکھتے اور تمہيں آخرت کا کوئی خوف نہيں تو کم از کم اس دنيا ميں ہی آازاد زندگی‬
‫طاووس ص‪،١٢‬‬ ‫ٔ‬ ‫گزارو‪”،‬اللہوف“سيد ابن‬
‫ً‬ ‫ً‬
‫ل ٰہذا اس بنا پر يہی نہيں کہ وه حقيقتا شيعيان علی نہيں تھے بلکہ وه ظاہرا بھی شيعان علی نہيں تھے ۔‬
‫]‪ [119‬مروج الذہب ج‪ ،٢‬ص‪ ،۶٩‬شرح نہج البالغہ ابن ابی الحديد ج‪ ،٣‬ص‪ ،١٩٩‬الغدير ج‪ ،١١‬ص‪٢٣‬و‪٣٩‬۔‬
‫]‪ [120‬تاريخ طبری‪،‬ج‪،۶‬ص‪١٣٢‬۔کامل بن اثير ‪،‬ج‪،٣‬ص‪١٨٣‬۔‬
‫]‪ [121‬تاريخ طبری‪،‬ج‪،۶‬ص‪١٣٢‬۔کامل بن اثير ‪،‬ج‪،٣‬ص‪١٨٣‬۔‬
‫]‪ [122‬تاريخ طبری‪،‬ج‪،۶‬ص‪١٣٢‬۔کامل بن اثير ‪،‬ج‪،٣‬ص‪١٨٣‬۔۔‬
‫]‪ [123‬الغدير ج‪ ،١١‬ص‪۴۴‬۔‬
‫]‪ [124‬الغدير ج‪ ،١١‬ص‪٢٨‬۔‬
‫]‪ [125‬تنقيح المقال ‪،‬ج‪،٢‬ص‪۶٣‬۔اور اگر فرض کريں اس کے درميان کچھ لوگ برائے شيعہ تھے بھی تب بھی انھيں شيعہ‬
‫کہنا کسی طرح درست نہ ہوگا البتہ ممکن ہے کہ کچھ افراد ايسے رہے ہوں جن کو سياسی اور حکومتی حاالت کا بالکل‬
‫اندازه نہ رہا ہو اور اعتقاد ميں بھی وه ضعيف رہے ہوں ل ٰہذا يزيد کی دھمکيوں سے ڈر گئے ہوں اور پيسے کی اللچ ميں‬
‫آگئے ہوں مگر اس طرح کے چند افراد کی موجودگی سے يہ کہنا کہ امام حسين کو شيعوں نے قتل کيا ہے ہر گز درست نہ‬
‫ہوگا جو واقعا ً شيعہ تھے وه ايسا نہيں کر سکتے تھے کيونکہ سارے حاالت ان کے سامنے تھے سياسی حکومتی تغيرات‬
‫سے وه پوری طرح آگاه تھے ‪،‬اس وقت کوفہ ميں موجود سارے شيعہ اسی نوعيت کے تھے ‪،‬اس طرح کی تمام باتيں بکے‬
‫مالوں کے دين ہيں۔جس کی اصالح ہونا چاہئے۔‬ ‫ہوئے راويوں اور درباری ٔ‬
‫]‪ [126‬تفسير الميزان‪،‬ج‪،٢‬ص‪٧۴‬۔‬
‫سوره بقره آيت ‪٢۵١‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[127‬‬
‫]‪ [128‬اس طرح کی باتيں دو گروه کرتے ہيں ‪،‬متعصب سنی جو شيعوں کو ايرانی سياسی گروه بتانا چاہتا ہے اور ‪،‬ايرانی‬
‫نيشنلزم ‪ ،‬جنھوں نے اس مذہب کی آڑ ميں اپنے قديم عقائد کو محفوظ کرليا تھا۔‬
‫]‪ [129‬اعيان الشيعہ ج‪ ،٢‬ص‪ ، ١٨‬نيا ايڈيشن۔‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬
‫]‪ [130‬اس چيز کی تفصيل کتاب ”ايرانيان مسلمان در صدر اسالم و سير تشيع در ايران“ تاليف مولف ميں پﮍھيں۔‬
‫]‪ [131‬کنز العمال‪،‬حديث ‪٣۴١٢۵‬۔‬
‫]‪ [132‬کنز العمال‪،‬حديث ‪٣۴١٢۶‬۔‬
‫]‪ [133‬اس بات کی وضاحت کے لئے مناظره نمبر ‪ /٣٠‬کا مطالعہ کريں۔‬
‫]‪ [134‬سوره نساء‪ ،‬آيت‪٨ ٢‬۔‬
‫سوره حجر‪٢٩‬۔‬
‫ٔ‬ ‫سوره ص‪٧٢،‬و‬
‫ٔ‬ ‫]‪[135‬‬
‫سوره اعراف آيت ‪١٧٩‬۔‬‫ٔ‬ ‫]‪[136‬‬
‫سوره نساء آيت ‪١٢٩‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[137‬‬
‫]‪ [138‬تفسير برہان ‪،‬ج‪،١‬ص‪٢٢٠‬۔‬
‫سوره نساء آيت ‪١٢٩‬۔‬
‫ٔ‬ ‫]‪[139‬‬
‫]‪ [140‬تفسير برہان ‪،‬ج‪،٢‬ص‪٢٢٨‬۔اثبات الہداة‪،‬ج‪ ٧‬ص‪١٠٠‬۔‬
‫]‪ [141‬بحار‪،‬ج‪،۵٢‬ص‪٣۴٣‬۔‬
‫]‪ [142‬بحار االنوار‪ ،‬ج‪ ،۵٢‬ص‪٣٠۶‬۔‬
‫]‪ [143‬اعيان الشيعہ ‪ ،‬نيا ايڈيشن‪،‬ج‪،٢‬ص‪٨۴‬۔‬
‫]‪ [144‬بحار ‪،‬ج‪،۵٢‬ص‪٣٢۶‬۔‬
‫]‪ [145‬نور الثقلين ‪،‬ج‪،١‬ص‪١٣٩‬۔‬
‫]‪ [146‬اثبات الہداة‪،‬ج‪،٧‬ص‪١٧۶‬۔‬
‫]‪ [147‬اثبات الہداة‪،‬ج‪ ،٧‬ص‪٩٢‬۔‬
‫]‪ [148‬بحار‪،‬ج‪،۵٢‬ص‪٣١۶‬۔‬
‫]‪ [149‬اثبات الہداة‪،‬ج‪،٧‬ص‪١١٣‬۔اعيان الشيعہ ‪،‬طبع جديد‪،‬ج‪،٢‬ص‪٨٢‬۔‬
‫]‪ [150‬بحار ‪،‬ج‪،۵٢‬ص‪٢٣٣‬۔اعيان الشيعہ ‪ ،‬نيا ايڈيشن‪،‬ج‪،٢‬ص‪٨۴‬۔‬
‫]‪ [151‬اثبات الہداة‪،‬ج‪،٧‬ص‪١۵٠‬و‪١٧١‬۔‬
‫]‪ [152‬المجالس السنيہ‪ ،‬سيد محسن جبل عاملی‪،‬ج‪،۵‬ص‪٧١١‬و‪٧٢٣‬و‪٧٢۴‬۔‬
‫]‪ [153‬بحار ‪،‬ج‪۵٢،٣٩٠‬۔‬
‫]‪ [154‬ارشاد مفيد ‪،‬ص‪ ،٣۴١‬بحاراالنوار‪ ،‬ج‪ ،۵٢‬ص‪٢٩٠‬۔‬
‫]‪ [155‬بحار‪،‬ج‪،۵٢‬ص‪٣١٧‬۔‬
‫]‪ [156‬اثبات الہداة‪،‬ج‪،٧‬ص‪١١٣‬۔‬
‫]‪ [157‬غيبة النعمانية‪،‬ص‪١٧٢‬۔‬
‫]‪ [158‬بحار ج‪،۵٢‬ص‪٢٨٣‬۔‬

‫تمام شد‬
‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪ ‬‬

‫‪Presented by http://www.alhassanain.com  &   http://www.islamicblessings.com ‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪ ‬‬

You might also like