Professional Documents
Culture Documents
خانقاہ
خانقاہ
ا اہ (ا الم)
آزاد دائرۃ المعارف ،ویکیپیڈیا سے
Jump to navigationJump to search
▼تصوف اور سلسلہ ہائے صوفیاء
افکار ،نظریات◄
اعمال◄
اہم شخصیات◄
تصوف کے موضوعات◄
باب
د
گ
ت
ب خانقاہی
خانقاہ اور آدا ِ
لیے مساجد تعمیر کی گئیں اور مسلم معاشرہ میں مساجد کے ساتھ عبادت کا عنصر الزم کر
لگی تاکہ شمع کے گرد پروانے آسانی سے اکٹھے ہو سکیں اور دور دراز سے آنے والے
جگہ کا نام خانقاہ رکھا گیا۔ خانقاہ ہمیشہ مسجد سے الگ لیکن اس کے قریب بنائی جاتی ہے
کیونکہ صوفیا کرام نے جس ریاضت کو الزم قرار دیا اس کے لیے مساجد ناموزوں تھیں۔
مساجد میں مسلمانوں کی ظاہری تربیت کا نظام موجود ہوتا ہے اور خانقاہ میں مسلمانوں کو
طالبان
ِ باطنی تربیت کے ذریعے مومن بنایا جاتا ہے۔ یعنی فقرا کاملین اپنی کامل نگاہ سے
مولی کا تزکیۂ نفس فرما کر ان کے دلوں میں ایمان داخل کرتے ہیں۔ خانقاہ میں بندۂمسلمان
ٰ
کو اقرار باللسان سے تصدیق بالقلب تک کا سفر طے کرایا جاتا ہے تاکہ مسلمان کو مرتبہ
وآلہ وسلم ہی پوری فرما سکتے تھے ،تو قرآن میں یہ حکم
صرف آقا پاک صلی ہللا علیہ ٖ
مولی کے ساتھ رہا
ٰ وآلہ وسلم ایسے طالبا ِن
ہوگیا کہ اے انسا ِن کامل! آپ صلی ہللا علیہ ٖ
ب شدید کو
مولی کی طل ِ
ٰ تعالی کا چہرہ دیکھنے کے طالب ہیں۔ طالبا ِن
ٰ کریں جو ہر وقت ہللا
مولی کو دی ِن
ٰ م ِد نظر رکھتے ہوئے پہلی خانقاہ کی بنیاد پڑی جس کا نام صفہ تھا۔ ان طالبا ِن
صفَّہ‘‘™ سے
اسالم میں بہت اہمیت حاصل ہے جنہوں نے اس تربیت گاہ یعنی خانقا ِہ ا ّول ’’ ُ
کے لیے یہی وہ پہلی درس گاہ تھی جہاں ان کے قلوب میں ایمان داخل کیا گیا اور پھر
ملی جو انہوں نے دنیا سے دور ہو کر اور صفہ کے چبوترے پر رہائش اختیار کر کے
اعلی ترین اوصاف حاصل کیے اور یہی وہ
ٰ حاصل کیا۔ اسی قرب سے باطنی خوبیاں اور
ولی کامل کی صحبت میں کچھ دیر رہ کر اپنا تزکیۂ نفس کروائیں۔
اس ٔ
وآلہ وسلم کے بعد آپ کی اس مبارک سنت کی پیروی میں ہر دور میں
آپ صلی ہللا علیہ ٖ
مولی کی تربیت کے لیے خانقاہیں قائم کیں۔
ٰ اولیا ہللا نے طالبا ِن
عنہ کی
زمانہ اس بات کا شاہد ہے کہ سیّدنا غوث االعظم شیخ عبدالقادر جیالنی رضی ہللا ٗ
آپ کے
مولی قلم دوات اٹھائے ؓ
ٰ طالبان
ِ خانقاہ میں ہزاروں کا مجمع لگا رہتا اور کئی ہزار
پھولوں کی پتیوں سے نازک ہونٹوں سے نکلنے والے تمام ُگلوں کو قلم بند کرنے میں
ت
مولی کی باطنی تربیت کرنے کی اس مبارک سن ِ
ٰ مصروف رہتے۔ خانقاہ بنانے اور طالبا ِن
عنہ
وآلہ وسلم کو سیّدنا غوث االعظم شیخ عبدالقادر جیالنی رضی ہللا ٗ
رسول صلی ہللا علیہ ٖ
وآلہ وسلم سلسلہ در سلسلہ سیّد
ت رسول صلی ہللا علیہ ٖ
نے مزید مستحکم فرمایا اور یہ سن ِ
نجم الدین برہان پوری رحمتہ ہللا علیہ سے ہوتی ہوئی عبدالرحمن جیالنی دہلوی رحمتہ ہللا
علیہ تک پہنچی۔ پھر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ ہللا علیہ نے اس
مولی
ٰ ت عظیم کو مزید نکھارا کہ آپ رحمتہ ہللا علیہ کی خانقاہ سے فیض یاب طالبا ِن
سن ِ
احمد پور شرقیہ میں خانقاہ تعمیر فرمائی اور حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ
رحمتہ ہللا علیہ کو فیض کی دولت سے ماال مال فرما کر مڈمپال روانہ کر دیا۔ حضرت
سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی رحمتہ ہللا علیہ نے فیض حاصل کیا اور
اڈا قاسم آباد سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر خانقاہ کی بنیاد ڈالی۔ الغرض آج تک آقا پاک
حضرت سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس کی قائم کردہ خانقاہ ’’سلطان الفقر
کی اس زمانہ کے مطابق باطنی تربیت کی جاتی ہے۔ کسی بھی خانقاہ کا دارومدار ’’انسا ِن
ت مبارکہ پر ہوتا ہے۔ جس طرح پروانے کے لیے شمع کا ہونا الزمی ہے‘
کامل‘‘ کی ذا ِ
اسم اعظم جاری و ساری رہتا ہے اور چوبیس گھنٹے میں کوئی
ذکر ِ
خانقاہ میں ہر وقت ِ
اسم ہللا ذات کا ذکر نہ جاری ہو۔ اس کے برعکس مساجد میں
ایسا لمحہ نہیں ہوتا کہ جب ِ
ت کار مخصوص ہوتے ہیں اور رات کو تو مسجدوں میں تالے لگ جاتے ہیں۔ خانقاہ ہر
اوقا ِ
وقت ہر آنے والے کے لیے کھلی رہتی ہے‘ خواہ کوئی غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ خانقاہ
میں ذکر و عبادت کے لیے کوئی مخصوص اوقات نہیں کہ خانقاہ میں دائمی ذکر جاری
رہتا ہے۔ انسا ِن کامل کی ہمہ وقت موجودگی کے باعث خانقاہ کی فضا میں فیض ہی فیض
ہوتا ہے۔ اس بابرکت جگہ کے باہر سے گزرنے واال اگر ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کر دے تو
ترجمہ :یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں ہللا کے نام کا ذکر کیے جانے
نام لیتے ہیں جنہیں خدا کے ذکر ،نماز ادا کرنے اور ٰ
زکوۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی
اور نہ خریدو فروخت یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔
استعمال کر کے واضح کر سکتا تھا کہ یہ آیت صرف مساجد کے لیے ہے۔ مساجد ہمیشہ
گھروں سے جدا ہوتی ہیں۔ یہاں گھر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ایک جیسی فکر اور
ت زندگی
نظریہ کے لوگ دن رات رہتے ہوں اور یہیں کھاتے پیتے اور دیگر ضروریا ِ
سے استفادہ کرتے ہوں جبکہ مساجد صرف عبادت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں گھروں
مولی کا گھر
ٰ مولی رہتے ہیں اور خانقاہ طالبا ِن
ٰ سے مراد خانقاہیں ہیں جہاں دن رات طالبا ِن
بنانے کی مبارک سنت کو ہر زمانہ میں رائج کرنا ہے جس کا ذکر اوپر ابتدائی سطور میں
تعالی نے واضح طور پر حکم دے دیا ہے۔ پس یوں کہیں گے’’ :ان
ٰ ہو چکا ہے یعنی ہللا
گھروں (خانقاہوں) میں جنہیں ہللا نے (ہر دور میں سنت کو زندہ رکھنے کے لیے) بلند
سورۃ النور کی اس مبارک آیت نمبر 36کا اگال حصہ ہے کہَ و ی ُْذ َک َر فِ ْیہَا ا ْس ُم ٗہال یُ َسبِّ ُح لَ ٗہ
صبح و شام ہر وقت ہونے والے دائمی ذکر کا تذکرہ ہے۔ خانقاہ وہ گھر ہے جہاں ایک لمحہ
اور کوئی دم ایسا نہیں ہوتا کہ ھُو کی صدا خانقاہ کی فضا میں بلند نہ ہوتی ہو۔ یہ بھی
دیدار ٰالہی میں غرق ہللا کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے رہتے ہیں۔
ِ مولی
ٰ خانقاہ میں طالبا ِن
بھی شرط ہے اور یہ صرف خانقاہ ہی ہو سکتی ہے نہ کہ عام لوگوں کے رہنے کے گھر
ساز کی آواز ہی بلند ہوتی ہے۔ سورۃ النور کی آیت نمبر 37 کہ جن میں سے اکثر و بیشتر ت
َّ ص َ َق ٌ اَّل لھی ْ ت َ ٌ َّ اَل ب ٌ ْ
میں ارشا ِد مبارک ہے کہِ :رج َال ُ ْ ِ ْھِم ِج َارۃ و َی ْع عَن ِذکْ ِر ِ و ِا َِام ال َّل ِٰوۃ واِی ْت َٓائِ الزک ِٰوۃ یہ آیت
ہّٰللا
مولی کی ہمت اور استقامت کے متعلق ہے ’’وہ مرد ہیں کہ جنہیں غافل نہیں
ٰ مبارکہ طالبا ِن
طالبان
ِ عقبی کی عبادت کی جگہ ہے جبکہ خانقاہ صرف
ٰ طالبان
ِ طالبان دنیا اور
ِ یعنی مساجد
اسم
ت مبارکہ میں ایسے مذکر ’’مردوں‘‘™ کا ذکر ہے جو اپنی خانقاہوں میں ِ
مندرجہ باال آی ِ
زکوۃ ادا کر رہے ہیں (اصل ٰ
زکوۃ صوفیا کے نزدیک ہللا ذات کے ذکر‘ دائمی نماز اور ٰ
ذکر ہللا کے نام کر دینا اور اپنی ذات کو مکمل ہللا کے حوالے کر
اپنی زندگی کی ہر سانس ِ
دینا ہے ) اور دنیا کی کوئی چیز کوئی سودا خواہ وہ کتنا ہی منافع بخش کیوں نہ ہو ایسے
ہیں کہ وہ خانقاہ سے باہر کی دنیا کی ہر چیز سے کٹ کر صرف ہللا کی طرف راغب ہیں۔
مولی خانقاہوں میں ہر طرف سے ٹوٹ کر اور تمام دنیاوی معامالت سے منہ
ٰ یعنی طالبا ِن
* ’’جس طرح خانقا ِہ ا ّول ’صفہ‘ کے خانقاہ نشین صحابہ کرام رضی ہللا عنہم تھے بالکل
ان کے مشابہ ہر دور میں خانقاہ نشین ہوتے ہیں اور بالکل وہی اعمال دہراتے ہیں جو
صفَّہ رضی ہللا عنہم کے تھے۔‘‘ یعنی خانقاہ کے اصول و آداب وہی ہیں جو
ب ُ
اعمال اصحا ِ
* ’’وہ ہر وقت اپنی خانقاہ میں رہتے ہیں اور اس کی خبر گیری کرتے ہیں گویا خانقاہ ان
کا گھر ہے اور وہی ان کا خیمہ و خرگاہ ہے‘ جس طرح ہر قوم کے افراد کے گھر ہوتے
صفَّہ سے مشابہہ
اہل ُ
ہیں اسی طرح صوفیا کے گھر خانقاہیں ہیں۔ پس اس صورت میں وہ ِ
ث مبارکہ سے ملتا ہے جو حضرت ابو زرعہ رحمتہ
ہیں۔ اس مشابہت کا مزید ثبوت اِس حدی ِ
’’جب کوئی شخص مدینۃ الرسول میں باہر سے آتا اور اس کا یہاں کوئی شناسا ہوتا تو اس
کے ہاں قیام کرتا اور اگر کوئی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ صفہ پر آجاتا اور یہاں قیام کرتا۔
میں بھی اِن لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اہ ِل صفہ کے ساتھ قیام کیا تھا۔‘‘ (عوارف
صفَّہ نے دنیا کے جھمیلوں سے قطع تعلق کر لیا تھا ،نہ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے
’’اہل ُ
ِ *
اور نہ وہ جانور پالتے تھے۔ پس اِن کے دلوں سے کینہ مٹ گیا اور حسد رخصت ہو گیا۔
یہی حال اہ ِل خانقاہ کا ہے کہ وہ ظاہر اور باطن میں یک رنگ ہیں۔ باہمی الفت اور محبت
میں ان میں یکسانیت ہے اور اس پر سب جمع ہیں۔ ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی
باہمی گفتگو میں یک رنگی ہے اختالف نہیں ہے یعنی اکٹھے گفتگو کرتے‘ اکٹھے کھاتے
پیتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کی برکت سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘ (عوارف المعارف۔
باب )14
وہی عادات و اطوار آئندہ بھی خانقاہ نشینوں میں واضح نظر آتی ہیں۔ وہی آداب ہیں خانقاہ
کے اور وہی اصول و ضوابط ہیں خانقاہ نشینوں کے جو آج سے چودہ سو سال پہلے پہلی
صفَّہ‘‘™ کے تھے۔
خانقاہ ’’ ُ
سر فہرست
قیام خانقاہ کے قواعد ِ
خانقاہ کے آداب میں خانقاہ نشینوں کے فرائض اور سفر و ِ
ہیں۔
* خانقاہ نشینوں کے فرائض میں داخل ہے کہ مخلوق سے (باطنی طور پر) قطع تعلق کر
اکتفا کریں‘ میل جول اور ارتباط سے اپنے نفس کو روکیں‘ بُرے کاموں سے اجتناب کریں
اور اپنی تمام پچھلی عادتوں کو ترک کر کے رات دن عبادت میں مشغول رہیں۔ اپنے اوقات
کی نگہداری کریں اور ورد و وظائف میں مصروف رہیں‘ نمازوں کا انتظار کریں (نماز ادا
کرنے کے لیے تیار رہیں) اور غفلتوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔ اگر ان باتوں پر خانقاہ
المعارف)
خانقاہ میں ہر قسم کے غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سگریٹ‘ نسوار اور ہر
قسم کی نشہ آور اشیا سے پرہیز کرنا چاہیے۔ خانقاہ میں ہر قسم کے رقص و سرود،
موسیقی (موجودہ دور کے مطابق ٹی وی ،فلمیں وغیرہ دیکھنے) کی سختی سے ممانعت
تعالی سے روکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے کہ خانقاہ وہ جگہ ہے جہاں
ٰ ت حق
معرف ِ
اسم ہللا ذات جاری رہنا چاہیے ،اس قسم کے قبیح اعمال خانقاہ کے تقدس کو
ذکر ِ
ہر لمحے ِ
خوف خدا کرتے ہوئے ایسے
ِ مولی کو ہر لمحہ اور ہر جگہ
ٰ ب
پامال کرتے ہیں۔ اگرچہ طال ِ
قبیح اعمال سے پرہیز کرنا الزم ہے ،اسے ہر دم یہ خیال رہنا چاہیے کہ وہ اپنے مرشد
کامل کی نگاہ میں ہے لہٰ ذا کوئی ایسا عمل سرانجام نہ دے جو اس کی اپنی پکڑ اور مرش ِد
کامل کی دل آزاری کا باعث ہو لیکن اگر پھر بھی وہ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو نہ پا
سکے اور اس کا نفس اسے ایسے قبیح اعمال کرنے پر اکسائے تو اسے چاہیے کہ وہ ان
خواہشات کی تکمیل کے لیے خانقاہ سے باہر چال جائے تاکہ کم از کم خانقاہ کا تقدس اس
کے ہاتھوں پامال نہ ہو۔ مرش ِد کامل کی طرف سے مقرر کردہ خانقاہ کے سربراہ پر الزم
ہے کہ وہ اس بات کا سختی سے التزام کرے کہ خانقاہ میں کوئی بھی ایسا عمل نہ ہو جو
خانقاہ میں اکٹھے ہو کر ایک ہی جگہ لنگر کھانا چاہیے اور جو کچھ لنگر میں کھانے کے
ہّٰللا
لیے ملے اسےبِس ِْم ِ الرَّحْ مٰ ِن الر ِ
َّحیْم پڑھ کر کھا لینا چاہیے کیونکہ لنگر چاہے جیسا بھی
ہو شفا ہی شفا اور نور ہی نور ہوتا ہے۔ اکٹھے بیٹھ کر کھانا بابرکت ہے۔ اکٹھے مل کر
خادم خانقاہ کے لیے یہ امر مستحب ہے کہ آنے والے مہمان کے لیے کھانا پیش کرے۔
ِ
عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم وفد کی صورت میں رسول
جناب لقیط بن صبرہ رضی ہللا ٗ
وآلہ وسلم
وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ہللا علیہ ٖ
ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
کاشانۂ نبوت میں موجود نہ تھے۔ ہم وہاں ٹھہر گئے‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا
نے حکم دیا کہ ہمارے لیے حریرہ تیار کیا جائے۔ ہمارے واسطے حریرہ تیار ہوا اور ایک
وآلہ
قناع میں بھر کر ہم کو بھیجا گیا‘ ہم سب نے حریرہ کھایا۔ جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
وسلم تشریف الئے تو آپ نے ہم لوگوں سے دریافت کیا‘ تم کو کچھ (کھانے کو) مال؟ ہم نے
وآلہ وسلم!
عرض کیا‘ جی ہاں یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
حق قدم خانقاہ
بطور ِ
ِ اسی طرح آنے والے کے لیے بھی یہ مستحب ہے کہ وہ اپنی آمد پر
وآلہ وسلم
سرکار دو عالم صلی ہللا علیہ ٖ
ِ نشینوں کے لیے کچھ پیش کرے‘ منقول ہے کہ
جب مدینہ منورہ میں تشریف الئے تو آپ نے (مہمانی) کے لیے ایک اونٹ ذبح کرایا تھا۔
ب داخلہ سے کم آگاہ
کبھی کبھار ایسا اتفاق بھی ہو جاتا ہے کہ خانقاہ میں نئے آنے والے آدا ِ
ہوتے ہیں اس وقت وہ گھبرا جاتے ہیں (ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں)۔ اس لیے
مسنون طریقہ یہ ہے کہ اہ ِل خانقاہ ان کے پاس آکر بیٹھیں اور ان سے بے تکلفی اور محبت
وآلہ
عنہ سے مروی ہے کہ جب میں رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ
حضرت ابورفاعہ رضی ہللا ٗ
وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ
وآلہ وسلم یہ ایک مسافر شخص حاضر ہوا ہے وہ اپنے دین کے
یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہے۔ اس کو نہیں معلوم کہ دین کیا ہے! وہ کہتے ہیں کہ حضور
ٰ
الصلوۃ والسالم خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تشریف الئے‘ لوہے کے پاؤں والی ایک علیہ
ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور اگر کچھ ناپسندیدہ باتیں سننا یا دیکھنا پڑیں توان کو برداشت
ورزی ہوجاتی ہے تو اس کو جھڑکنا اور باہر نکال دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس لیے کہ
نہیں رکھتے ہیں لیکن وہ خانقاہ میں سچے ارادے اور پوری عقیدت کے ساتھ داخل ہوتے
ہیں ۔ جب ان سے بُرا سلوک کیا جاتا ہے تو ان کے دل پراگندہ اور پریشان ہو جاتے ہیں۔
اس کراہت اور نامناسب رویہ سے دین و دنیا کی تباہی کا امکان ہے پس اس سے پرہیز
ہے کہ ایک بدوی مسجد (نبوی) میں آیا اور اس نے وہاں پیشاب کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضور
ٰ
الصلوۃ والسالم کے حکم کے مطابق بڑے ڈول میں پانی بھر کر اس کو بہادیا گیا اور علیہ
ٰ
الصلوۃو السالم نے اس اعرابی کو جھڑکا نہیں بلکہ نہایت نرمی اور خوش حضور علیہ
کے حاالت کے بالکل منافی ہے۔ اگر خانقاہ میں کوئی ایسا شخص آئے جو اس قابل نہ ہو
کہ اس کو وہاں رکھا جائے تو اس کو کھانا پیش کرنے کے بعد وہاں سے رخصت کر دیا
ب خانقاہ کایہی طریقہ ہے۔ (عوارف
جائے لیکن مالئمت اور نرمی کے ساتھ‘ کہ اربا ِ
المعارف)
خانقاہ نشینوں کے لیے خانقاہ میں مہیا کردہ سہولتیں ہللا کی طرف سے ان کے پاس امانت
ہیں۔ ا ن سہولتوں کا ضرورت کے مطابق استعمال تو جائز و درست ہے لیکن اپنی ذاتی
تسکین اور آرام کے لیے ان کا بے جا استعمال حرام و ناجائز ہے۔ عموما ً خانقاہ نشینوں اور
یہاں کا انتظام کرنے والوں کے پاس وسائل کی کمی ہی ہوتی ہے کہ ہللا کی ذات اور مال و
ت دنیا کا آپس میں کوئی ِمیل نہیں ل ٰہذا خانقاہ میں فراہم کردہ سہولتوں مثالً بجلی پانی
دول ِ
وغیرہ کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ بہتر ہے کہ انہیں صرف ہللا سے قرب کی
غرض سے استعمال کیا جائے اور ذاتی اغراض و ضروریات کی تکمیل اپنے ذاتی خرچ
سے کی جائے یا قناعت اور صبر کیا جائے۔ یہ بہرحال اسراف ،فضول خرچی اور
سہولتوں کے ناجائز استعمال سے بہتر ہے اور قرب و رضائے ٰالہی کا باعث ہے۔
اور عادات کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ ہللا دلوں کو دیکھتا ہے اور ہللا کے زیادہ نزدیک وہی
ہے جو دل کا زیادہ صاف ہے۔ خانقاہ نشینوں کو ظاہری صفائی و ستھرائی کا بھی
خصوصی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے۔ خانقاہ کو صاف کرنے سے
شامل
ِ اہل ہللا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرے گا اور ان کی برکات اس کے
خدمت سے ِ
حال ہو جائیں گی اور اس طرح وہ اپنے عبادت گزار بھائیوں کا اپنی خدمت کے ذریعے
عالوہ ازیں خادم خدمت کے باعث سستی اور کاہلی سے محفوظ رہتا ہے اور یہی سستی و
بیکاری دل کی موت ہے۔ مختصر یہ کہ اہ ِل ہللا کی خدمت بھی صوفیا کے نزدیک نیک
اوصاف
ِ کاموں میں شامل ہے اور ان طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جن کے ذریعے
مشائخ اور صوفیا غیروں یا نااہلوں سے صرف خدمت لینا ہی ناپسند نہیں کرتے بلکہ ان
سے ارتباط و اختالط بھی ان کو پسند نہیں تھا کیونکہ جو شخص ان کے طریقے کو پسند
نہیں کرتا تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان کے طور طریقے دیکھ کر بجائے فائدے کے
نقصان اٹھاتا ہے۔ صوفیا سے بتقاضائے بشریت ایسے افعال سرزد ہو جاتے ہیں کہ علم کی
کمی کے باعث غیر ان سے کراہت کرتے ہیں۔ اس لیے غیروں سے خدمت لینے سے ان
حضرات کا گریز کسی کبر و نخوت پر مبنی نہیں ہے‘ نہ یہ بات ہے کہ وہ کسی مسلمان پر
میں مصروف ہیں تو وہ خادم بھی ان کے ثواب میں شریک ہوگیا۔ جہاں خادم یہ دیکھے کہ
وہ کسی شیخ کی خدمت اس کے بلند احوال کے باعث شایا ِن شان طور پر انجام نہیں دے
سکتا تو اس کی خدمت میں مصروف نہ ہو بلکہ ایسے شخص کی خدمت کرے جو اس کی
وآلہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضور
علیہ ٖ
ٰ
الصلوۃ والسالم نے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے علیہ
تمہارے ساتھ سفر کیا اور فراخ راستوں اور وادیوں سے تمہارے ساتھ گزرے‘ صحابہ
کرام رضی ہللا عنہم نے عرض کیا کہ حضور! وہ تو مدینہ میں رہ گئے تھے (پھر ہمارا ان
روک لیا تھا (مگر ثواب میں وہ تمہارے شریک ہیں)۔ پس وہ شخص جو صوفیا کی خدمت
پھر بھی وہ خدمت میں مصروف رہ کر خانقاہ کے گرد چکر لگاتا رہا اور ان کی خدمت
میں اپنی بھرپور کوشش کے ساتھ سرگرم رہا اور یہ خیال کرتا رہا کہ اگر وہ اُن کی نگا ِہ
تعالی
ٰ لطف سے محروم رہا تو کیا ہے شاید خدمت سے اس کی کچھ تالفی ہو جائے توہللا
اس کی خدمت پر بھی اس کو ضرور بلند پایہ جزا دے گا۔ وہ اپنی اس خدمت سے ہللا کے
بلند پایہ فضل کا سزاوار بن جاتا ہے۔
ٰ
تقوی میں تعاون کرتے تھے اور دینی مصالح پر صفَّہ بھی نیک کاموں اور
اہل ُ
اسی طرح ِ
اپنی جان و مال سے مدد کرنے کے لیے مل جل کر کام کرتے رہتے تھے پس وہ بھی ہللا
خانقاہ میں جس قدر لوگ ہوتے ہیں وہ اپنے اتحاد اور متحدہ ارادوں کے باعث ایک جسم
کی طرح ہوتے ہیں۔ دوسری جماعتوں میں یہ بات نہیں ہے‘ ان میں ایسا اتحاد نہیں پایا جاتا۔
ترجمہ’’:وہ (مومنین) ایسے متحد و متفق ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جیسے ایک سیسہ
جسم میں تکلیف ہونے لگتی ہے اسی طرح اگر کسی مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو
تمام مومنین اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔‘‘
تمام صوفیا کے لیے یہ الزمی اور ضروری وظیفہ ہے کہ وہ آپسی محبت کی بھرپور
حفاظت کریں۔ دلوں میں پراگندگی پیدا نہ ہونے دیں‘ دلی اور روحانی اتحاد سے اس
تالیف
ِ پراگندگی کا ازالہ کر دیں اس لیے کہ وہ سب ایک روحانی رشتہ میں منسلک ہیں اور
ٰالہی کے رابطہ سے باہم جڑے ہوئے ہیں اور مشاہدۂ قلوب کے ساتھ وابستہ ہیں بلکہ
اور اسی بنا پر ان کے مابین ربط و ضبط کا سلسلہ قائم ہے (کسی دنیاوی غرض سے ایسا
نہیں ہے)۔ اس صورت میں ان کے لیے باہمی خیر سگالی اور محبت و رافت اور بھی زیادہ
ضروری ہے۔
’’مومن آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آتے ہیں اور اس شخص
میں کچھ بھی بھالئی نہیں ہے جو نہ خود دوسروں سے محبت کرتا ہے اور نہ دوسرے اس
شیخ ابو زرعہ طاہر بن یوسف رحمتہ ہللا علیہ اپنے مشائخ کی اسناد کے ساتھ حضرت
ارشاد فرمایا ’’ارواح™ ایک لشکر کی طرح ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں۔ جان پہچان
والی ارواح آپس میں مانوس ہو جاتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے متعارف نہیں وہ الگ
پس یہی حال اہ ِل خانقاہ کا ہے کہ جب یہ لوگ ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو ان کے دل
ت خاطر
اور ان کے باطن بھی ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور (جمع ہونے سے جمعی ِ
پیدا ہوجاتی ہے)۔ ان کے نفوس ایک دوسرے کے ساتھی بن جاتے ہیں اور پھر وہ ایک
دوسرے کے مال کے نگران ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے ’’مومن دوسرے
ظہور پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کسی صوفی کے دل میں دوسرے کے خالف خیاالت
پیدا ہو رہے ہیں تو اسے ناپسند کرنے لگتے ہیں اس لیے کہ تفرقہ کا ظہور نفسانی خواہش
کا نتیجہ ہوتا ہے اور غلبۂ نفس سے وقت کا زیاں ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کبھی کسی درویش
میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ نفس کا شکار ہو جاتا ہے تو یہ لوگ اس کو پہچان لیتے
ہیں اور جان لیتے ہیں کہ یہ شخص اب جمعیت کے دائرے سے خارج ہوگیا اور یہ لوگ
جس طرح ان کا ظاہر ربط و ضبط سے آراستہ ہے اسی طرح ان کے باطن میں یہ ربط و
الفت قائم رہے‘ یہ وہ خصوصیت ہے جومومنوں کے سوا اور کسی گروہ میں نہیں پائی
خانقاہ نشینوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپس میں مل جل کر اور محبت سے رہیں
لیکن اگر کوئی صوفی اپنے نفس سے مغلوب ہو کر اپنے کسی بھائی سے جھگڑ بیٹھے تو
دوسرے بھائی کو چاہیے کہ اپنے بھائی کا مقابلہ نفس سے نہ کرے بلکہ نفس کا مقابلہ قلب
سے کرے کیونکہ جب نفس کا مقابلہ قلب سے کیا جاتا ہے تو برائی اور شر کا مادہ زائل ہو
جاتا ہے۔ یعنی اپنے بھائی کی بات کو دل پر مت لے اور اُس کی اِس حرکت کو معاف کر
تعالی ہے:
ٰ دے جیسا کہ ارشا ِد باری
َ ُْ ْ ن َ َ ٗ َ َ ٌ َ ٗ َ ٌّ ح ٌ َ ق اَّل ْ ف ْ تْ َ َ ُ ف َ
صب َروا( فصلت۔)35-34 ن ن
ِاد َع ب ِالَّ ِی ھِی احْسَن َِاذا الَّ ِذی ب َی ْ َک وب َی ْ َہ عَداوۃ کَا َّہ ولِی َمِی ْم ومَا ی ُلَ َّاھَا ِا الَّ ِذی ْن َ
تمہارا گہرا دوست ہو جائے اور یہ طریقہ صرف وہ استعمال کر سکتے ہیں جو صابر ہیں۔
مرشد کریم تک اس معاملہ کو نہیں پہنچانا چاہیے یعنی خود ہی معاف کر دو اور اگر تم
سے کسی بھائی کی دل آزاری ہوئی ہے تو فوراً اُس سے معافی مانگ لو قطع نظر کہ وہ تم
سے بڑا ہے یا چھوٹا‘ امیر ہے یا غریب۔ بندہ کو ہللا سے بھی معافی و استغفار کرنا چاہیے
اور اپنے اُس بھائی سے بھی معافی مانگنی چاہیے جس کی دل آزاری ہوئی ہو۔ اگر کسی
نے اپنے بھائی سے اپنی غلطی پر معافی طلب کی اور دوسرے نے اس کی معافی اور
وآلہ
عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
حضرت جابر رضی ہللا ٗ
وسلم نے فرمایا:
’’اگر کسی شخص سے کسی نے معافی مانگی اور معذرت کی اور اس نے اس معذرت
صادق و مخلص فقیر جو خانقاہ میں مقیم ہے اور چاہتا ہے کہ خانقاہ کے ما ِل وقف سے یا
اہل خانقاہ کے لیے مہیا کیا جاتا ہے‘ کھائے تو اس کے لیے ضروری ہے
اس مال سے جو ِ
کہ وہ خدا کے ذکر میں اس طرح مشغول ہو جائے کہ اگر وہ روزی کماتا تو ایسا ذکر اس
کو خانقاہ کے ما ِل وقف یا دوسرے ذرائع سے جو مال خانقاہ کے لیے آیا ہے ،اس سے
کھانا روا نہیں بلکہ اس کو خود اپنے لیے روزی کمانا چاہیے۔ اس لیے کہ خانقاہ کا کھانا تو
صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو یا ِد ٰالہی میں اس طرح مصروف و مستغرق ہیں کہ
مولی کی یاد
ٰ دوسرے کاموں کی ان کو فرصت ہی نہیں اور وہ ہمہ وقت اور ہمہ تن اپنے
بصیرت پر مبنی ہوگا۔ شاید شیخ کا یہ خیال بھی ہو کہ اس کو فقیروں کی خدمت میں لگا دیا
جائے گا ،ایسی صورت میں خادم جو کھانا کھا رہا ہے وہ اس کی خدمت کا معاوضہ سمجھا
جائے گا۔
شیخ ابو عمرو الزجاجی فرماتے ہیں کہ میں عرصہ دراز تک حضرت جنید بغدادی رحمتہ
ہللا علیہ کی خدمت میں رہا‘ اس پوری مدت میں حضرت جنید رحمتہ ہللا علیہ نے نہ مجھ
پر نظر ڈالی نہ یہ دیکھا کہ میں کس قسم کی عبادت میں مشغول ہوں اور نہ کبھی انہوں نے
مجھ سے کالم کیا‘ یہاں تک کہ ایک روز خانقاہ بالکل خالی تھی۔ میں اس وقت اٹھا‘ اپنے
کپڑے اتارے اور خانقاہ کو خوب اچھی طرح صاف ستھرا کر دیا۔ ہر طرف پانی چھڑکا‘
بیت الخال کو بھی دھو ڈاال۔ شیخ جنید رحمتہ ہللا علیہ جب خانقاہ میں آئے اور یہ تمام
صفائی دیکھی اور میرے اوپر گردوغبار پڑا ہوا دیکھا تو میرے لیے دعا کی اور مرحبا!
جوانوں کو خدمت پر مامور کر دیتے ہیں تاکہ وہ بدکاری سے محفوظ رہیں اس طرح ان کو
دو حصے مل جاتے ہیں۔ ایک حصہ معاملے کا دوسرا حصہ خدمت کا (روحانی مراتب
ہی کیوں نہ ہو ،تمام ذاتی افعال سے بہتر ہے بشرطیکہ اس میں طالب کا ِدلی خلوص اور
اُدھر کے فضول کاموں میں۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اپنے وقت کو ناجائز استعمال میں
میں اس ’’وقت‘‘ کی امانت کے متعلق بھی سوال جواب کیا جائے گا۔
خانقاہ نشینوں کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال
رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن کی کسی حرکت سے ہمسایوں کا سکون تباہ و برباد ہو جائے۔
خانقاہ میں فضول دنیاوی باتوں اور شوروغوغا سے پرہیز کرنا چاہیے کہ دنیا اور اس کی
خانقاہ نشین بھائیوں سے پوچھ کر اُدھر رکھے جہاں اُس کے لیے موزوں جگہ بتائی جائے۔
خانقاہ میں سب سے پہلے آنے والے بھائی کو پانی اور لنگر کا پوچھا جاتا ہے۔ لنگر کھانے
کے بعد اپنا مدعا بیان کرے کہ وہ کس مقصد کے لیے تشریف الیا ہے۔
چاہیے کہ خانقاہ میں نماز قصر نہیں ادا کی جاتی بلکہ مکمل نماز ادا کی جاتی ہے۔ خانقاہ
انتظار نہ کرے کہ دوسرا مجھ سے بات کرے گا تب میں بات کروں گا۔ اپنے دل میں اٹھنے
والے تمام سواالت کو مرشد کی بارگاہ میں عرض کرنے سے پہلے اپنے خانقاہ نشین
ب شیخ سے
بھائیوں سے تبادلہ خیال کر لے تاکہ نئے آنے والے بھائی کو خانقاہ نشین آدا ِ
آگاہ کر سکیں اور جس مقصد کے لیے وہ تشریف الیا ہے‘ اُس کو احسن طریقے سے
چونکہ خانقاہ فقرا کا گھر ہے اِس لیے آنے والے مہمان کوئی بھی ضرورت™ پڑنے پر
کرنا چاہتے ہیں تو وہ کسی بھی وقت خانقاہ میں آسکتے ہیں۔
خانقاہ کا دارومدار اُس پاک انسا ِن کامل (مرش ِد کامل) کی ذات پر ہوتا ہے جس کے گرداگرد
مولی اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ جب
ٰ طالبان
ِ تمام
مرشد کریم خانقاہ میں تشریف فرما ہوں تو تمام خانقاہ نشینوں اور عارضی قیام کرنے
والوں کو مرش ِد کریم کی بارگاہ میں بیٹھنا چاہیے نہ کہ اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنا چاہیے
کیونکہ مرشد کی صحبت ہی انسان کے قلب کو صاف اور نفس کو پاک کرتی ہے۔ اسی
لیے تمام بھائیوں کو چاہیے کہ اپنے ذاتی تمام ضروری اور غیر ضروری کاموں کو چھوڑ
خانقاہ میں قیام کرنے والوں کو عاجزی سے کام لینا چاہیے کیونکہ نیت میں جتنا خلوص
اور عاجزی ہوگی اتنی ہی زیادہ مرشد کی نگا ِہ اکمل سے دلوں کی صفائی ہوگی۔ تمام
مولی کو اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں مرشد کریم کی بے
ٰ طالبا ِن
ادبی نہ ہو۔ مرشد کی بارگاہ میں خاموشی سے بیٹھنا چاہیے اور ان کی گفتگو کو نہایت ادب
و اعتقاد کے ساتھ فیض کے حصول کی نیت سے سننا چاہیے۔ اگر مرشد کریم سے کوئی
بات کرنی پڑے یا سوال پوچھنا ہو تو نہایت ہی آہستہ آواز اور ادب کے دائرہ میں رہ کر
قیام کرنے والے بھائیوں کو چاہیے کہ خانقاہ نشین بھائیوں کی اجازت کے بغیر خانقاہ سے
ایک قدم بھی باہر نہ نکالیں۔ خانقاہ کی حدود میں غیر شرعی تمام کاموں سے پرہیز کرنا
چاہیے۔ سگریٹ نوشی‘ تمباکو نوشی‘ نسوار‘ نشہ آور اشیا کے استعمال سے مکمل احتیاط
اور فکر آپس میں مل جاتے ہیں تو اِن کی تاثیر تلوار سے بھی تیز ہوتی ہے۔ تفکر سے ہی
ہوتے ہیں تو ان کے ِدل سے پُردرد اور پُر سوز آہیں نکلتی ہیں جو وساوس‘ خناس اور
تفکر میں محو رہتے ہیں اور ایک لمحہ بھی فارغ نہیں ہوتے۔ تفکر سے وہ اسرار اور بھید
کہ اپنے مرشد کریم سے اجازت لیے بغیر واپس نہ جائے۔ مرشد کریم کی خانقاہ میں رہنا
اور پھر اجازت کے بغیر واپسی کا ارادہ کر لینا ادب کے دائرہ کے خالف ہے۔
وآلہ
عنہ سے مروی ہے کہ رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ
میں حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا ٗ
وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے مالقات کرے
آنے والے کو چاہیے کہ شیخ کی اجازت کے بغیر خانقاہ سے باہر نہ نکلے اور نہ کوئی کام
(عوارف المعارف)
خانقاہ کی اہمیت اور اس کے آداب کو ملحو ِظ خاطر رکھنا ہر مومن کا فرض ہے۔ اگر کوئی
وہ ہدایت کے طلبگار کو ہدایت کا راستہ ضرور دکھا دیتا ہے۔ خانقاہ وہی ہے جو بالکل
وآلہ وسلم نے بچوں کو بال کر زمین خریدنے کا فرمایا تو بچوں نے زمین ویسے ہی
علیہ ٖ
وآلہ وسلم نے منع فرمایا اور ان کو زمین
دینے کی خواہش اظہار کیا تو آپ صلی ہللا علیہ ٖ
کی رقم ادا کی گئی۔
وآلہ وسلم کے قیام کے لیے ایک چبوترہ تعمیر کیا گیا جس کو تاریخ میں صفہ کے نام
علیہ ٖ
وآلہ وسلم سے
سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ ٖ
ِ صحابہ اکٹھے ہو کر
ؓ سے یاد کیا جاتا ہے جہاں
مالقات اور ذکر و اطاعت ٰالہی میں مشغول رہے جنہیں اصحا ِ
ب صُفہ کے نام سے یاد کیا
ت حق کے قرب و معرفت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ظاہری علم سیکھنے کیلئے سکول،
ذا ِ
مدرسہ ،کالج اور یونیورسٹی کا رخ کیا جاتا ہے اسی طرح روح کی تعلیم و تربیت ،
صفائی ،پاکیزگی اور خوبصورتی کیلئے خانقاہ کے عالوہ کوئی تربیت گاہ نہیں ہے۔
جس مقام پر ذکر کرنے والے جمع ہوں وہی مقامات ایسے ہیں جن میں ہللا کے حکم سے
فقر کی نعمت و دولت کے حوالے سے ہللا پاک نے برصغیر پر خاص مہربانی فرمائی ہے
مرشدان کامل
ِ جس بنا پر اسے صوفیا اور اولیا کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر
آپ کے خلیفۂ
چشمے جاری ہوئے جنہوں نے دنیا بھر میں اسالم کی حقیقت کو روشن کیا۔ ؒ
باھو کے حکم سے احمد پور شرقیہ میں مسجد اور خانقاہ بنائی
الئے اور حضرت سلطان ؒ
شہباز
ِ آپ کا مزار مبارک ہے۔ اور آپ کے حقیقی فرزند
رہائش پذیر ہوئے اور وہیں ؒ
تعالی کی معرفت
ٰ محمود کاٹھیہ کے قریب مسجد اور خانقانہ تعمیر کرائی اور وہیں سے ہللا
کے مشن کی بنیاد رکھی۔یہ جگہ بعد میں ’’پیر دی بھنیڑی‘‘™ کے نام سے مشہور ہوئی۔
ؒ
عبدالعزیز کے سپرد فقر کا یہ مہتاب ،امانت فقر سلطان االولیا حضرت سخی سلطان محمد
کرنے کے بعد ظاہری طور پر ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ حضرت سخی سلطان محمد
اختیار کی اور یہ خانقاہ آستانہ عالیہ سلطان محمد عبدالعزیز ؒ کے نام سے مشہور ہے۔ اور
علی نے
آپ کے فرزند سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر ؒ
اس مقام پر ؒ
اسم ہللا ذات کو عام فرمایا ہے اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنے سے
اسم اعظم ِ
جس قدر ِ
نہیں ملتی۔
محرم راز
ِ آپ قیامت تک سلطان االذکار ’ھُو‘ کا فیض عام فرماگئے اور اس امانت کو اپنے
ؒ
خلیفہ اکبر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس کے
مسن ِد تلقین و ارشاد پر فائز ہو کر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن
طالبان
ِ فیض فقر کو پھیالنے کا ذریعہ ہے۔ آپ مدظلہ االقدس کی ہی مہربانی سے
ِ دنیا میں
مولی کے لیے مزید آسانی فرما دی گئی ہے اور سلطان االذکار ’ھو‘ کی آخری منزل بیعت
ٰ
ت
کے پہلے ہی دن عطا کر دی جاتی ہے جس سے سالک کے لیے فقر کی نعمت اور معرف ِ
اسی طرح آپ مدظلہ االقدس کے دروازے ساری دنیا کے لیے کھلے ہیں جس سے اسم ہللا
ذات کے نور کی کرنیں ہر خاص و عام کے قلوب کو منور کر رہی ہیں۔ آپ مدظلہ االقدس
عطا کرتے ہیں جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ ہللا علیہ نے
مرشد کامل اکمل کی شان میں بیان فرمایا ہے ’’مرشد کامل بیعت کے پہلے ہی دن طالب کو
کام اور فرائض حضور مرشد کریم مدظلہ االقدس کی زیر سرپرستی کامیاب طریقے سے
انجام دے رہی ہے۔اس میں دین اسالم کو پھیالنے کے لیے دن رات کام ہورہا ہے اور
رسائل ،کتب ،سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے ذریعے عوام الناس تک ملک کے اندر اور
خانقاہ سے جڑے لوگوں کو ہللا نے اپنی جماعت کہا ہے کیونکہ یہ مسلسل ہللا کو یاد کرتے
رہتے ہیں اور جو خدمت گار اپنے آپ کو ہللا کی راہ کے لیے وقف کر کے ہللا اور اس کے
وآلہ وسلم کی اطاعت میں مصروف رہتے ہیں اور ہللا کی راہ میں
رسول صلی ہللا علیہ ٖ
ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں تو ان کی کچھ الزم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مرشد
وآلہ وسلم سے بہرہ مند کرنا ہے تا کہ اسالم کی اصل حقیقت اور فقر محمدی جس پر
علیہ ٖ
وآلہ وسلم نے خود فخر فرمایا‘ کی تبلیغ و اشاعت کی جا سکے۔
آپ صلی ہللا علیہ ٖ
جب کوئی ہللا والوں کی خدمت اور مدد کرتا ہے تو دراصل وہ اپنی مدد کرتا ہے اور وہ
لوگ خوش نصیب ہیں جن کو ہللا اپنے کاموں کے لیے چن لیتا ہے اور ان کے مال کو قبول
وآلہ وسلم کے ساتھ قربانی اور وفا کی مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں۔
صلی ہللا علیہ ٖ
باھو فرماتے ہیں:
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان ؒ
’’ ہم خانقاہ کیلئے در در سے طلب کریں گے۔‘‘ اس سے ہمیں مسجد اور خانقاہ کی
ترجمہ :میں رضائے ٰالہی کی خاطر اپنے نفس کو رسوا کرتا ہوں اور رضائے ٰالہی کی
التجا
تعالی کا شکر ہے کہ اس نے حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان
ٰ ہللا
محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس کی صورت میں ہماری ہدایت اور اپنے قرب کی راہ
مرکز فقر بنایا۔ جس طرح تمام انبیا و اولیا کرام کا کوئی نہ
ِ کھول دی حضور مرشد کریم کو
کوئی مستقل مسکن رہا جہاں سے ان کی ظاہری اور باطنی حیات میں فیض جاری رہا۔اسی
طرح تحریک دعوت فقر کو بھی ایک مستقل مسکن کی ضرورت ہے۔ اس مسکن سے
ہم نے حضور مرشد کریم کے ساتھ مل کر اس دلیل کو جلد عملی صورت دینی ہے اس لیے
ْس لِاْل ْن َس ِ
ان اِاّل ما َس ٰعی( النجم۔ ) 39 لَی َ
تعالی ہے :
ٰ ارشا ِد باری
صا ِل oر َجا ٌل اَّل تُ ْل ِھ ْی ِھ ْم ت اَ ِذنَ ہّٰللا ُ اَ ْن تُرْ فَ َع َوی ُْذ َک َر فیھَا اِ ْس ُم ٗہ یُ َسبِّ ُح لَ ٗہ فِ ْیھَا ْ
بال ُغ ُد ِّو َوااْل َ َ * فِ ْی بُیُوْ ٍ
ہّٰللا
ارۃٌ َواَل بَ ْی ٌع ع َْن ِذ ْک ِر ِ َو اَقَ ِام الص َّٰلو ِۃ َو اِ ْیت ِ
َٓائ ال َّز ٰکو ِۃ ال یَ َخافُوْ نَ یَو ًما تَتَقَلَّبُ فِ ْی ِہ ْالقُلُوْ بُ تِ َج َ
َوااْل َ ْب َ
صار( سورۃ نور۔ )37-36
ترجمہ :یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں ہللا کے نام کا ذکر کیے جانے
نام لیتے ہیں جنہیں خدا کے ذکر ،نماز ادا کرنے اور ٰ
زکوۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی
اور نہ خریدو فروخت یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔
ہللا کے اس ارشاد میں ’’فی بیوت‘‘(یہ وہ گھر ہیں) سے مراد مساجد ہیں۔ بعض اصحاب
کہتے ہیں کہ اس سے مراد مدینۃ الرسول کے مکانات مراد ہیں اور بعض مفسرین کا خیال
ت
وآلہ وسلم کے مکانات ہیں۔ جب یہ آی ِ
ہے کہ اس سے مراد رسو ِل اکرم صلی ہللا علیہ ٖ
عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ
کریمہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا ٗ
عنہ اور
وآلہ وسلم! کیا ان گھروں میں حضرت علی رضی ہللا ٗ
یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
ٰ
الصلوۃ™ والسالم حضرت فاطمتہ الزھرا رضی ہللا عنہا کا گھر بھی شامل ہے تو حضور علیہ
عنہ فرماتے ہیں کہ زمین کے تمام گھر رسول ہللا صلی ہللا علیہ
حضرت حسن رضی ہللا ٗ
وآلہ وسلم کیلئے سجدہ گاہ بنا دئیے گئے ہیں اس اعتبار سے ذکر کر نے والے لوگوں کی
ٖ
تخصیص کی گئی ہے نہ کہ چار دیواری کی یعنی مندرجہ باال آیت میں اہمیت ذاکرین کی
ہے نہ کہ کسی مخصوص مقام یا گھر کی ،پس جس جگہ اور جس مقام پر بھی ذاکرین جمع
ہونگے وہی مقامات ایسے گھر مراد لئے جائیں گے جن میں خدا کے حکم سے اس کا ذکر
صبح و شام بلند کیا جاتا ہے۔
انس فرماتے ہیں کہ کوئی صبح و شام ایسی نہیں گزرتی کہ زمین کے بعض
حضرت ؓ
حصے دوسرے حصوں سے نہ پوچھتے ہوں کہ آج تم پر کوئی ایسا شخص گزرا ہے جس
نے تم پر (یعنی تمہاری جگہ پر) نماز پڑھی ہو یا ہللا کا ذکر کیا ہو پس بعض مقامات اثبات
میں اور بعض نفی میں جواب دیتے ہیں جو اجزا یا مقامات اثبات میں جواب دیتے ہیں ان
کو دوسرے مقامات پر فضیلت و فوقیت دی جاتی ہے اور جو بندہ کسی خطۂ زمین پر ہللا کا
تعالی ہے:
ٰ عبادت گزار بندے کے مرنے پر روتا ہے جیسے کہ ارشا ِد باری
ترجمہ :اور ان کے مرنے پر آسمان و زمین نہیں روتے (یعنی کافروں کے مرنے پر)۔
اس ارشا ِد ربانی سے یہ نکتہ ظاہر ہوتا ہے کہ اہ ِل ذکرو عبادت و اطاعت گزاروں کو یہ
فضیلت حاصل ہے کہ ان کے مرنے پر آسمان و زمین گر یہ کنا ں ہوتے ہیں اور جو لوگ
ت نفس کے پابند ہوتے ہیں ان کے مرنے پر آسمان و زمین نہیں روتے ۔پس
دنیا اور خواہشا ِ
خادم و غالم بنایا ہے اور ان کو مخدوم۔ حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ
اوردعاؤں کے ذریعے اپنے بندوں اور شہروں سے بالؤں کو دور کرتا ہے۔
شیخ العالم رضی الدین ابوالخیر احمد بن اسماعیل قزوینی اپنے مشائخ کی اسناد کے ساتھ
وآلہ وسلم
عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ
حضرت عمر رضی ہللا ٗ
جاتے۔
وآلہ
جابر سے مروی ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
ؓ ایک دوسری حدیث پاک میں حضرت
تعالی ایک نیک آدمی کی بدولت اسکی اوالد ،اوالد کی اوالد ،اسکے
ٰ وسلم نے فرمایا ہللا
گھر والوں اور اسکے پڑوسیوں کے کاموں کو سدھار دیتا ہے یعنی درست کر دیتا ہے جب
ہیں ۔
بعض دانشمندوں نے کہا ہے ’’ عبادت خانوں اور خانقاہوں سے تسبیحات و تکبیرات کا بلند
ہیں اور گرہیں کھل جاتی ہیں۔ پس اگر خانقاہیں صحیح طور پر اپنے مقاص ِد روحانی پر
ُسن معاملت اور رعایت اوقات کو ملحوظ رکھیں اور ان چیزوں سے گریز
عمل پیرا ہوں ح ِ
کریں جو اعمال کو ضائع کرنے والی ہیں اور اعمال کو درست کرنے والی باتوں پر سختی
ث برکت ہیں۔
سے کاربند رہیں تو وہ ملک وملت بلکہ تمام مخلوق کیلئے باع ِ
اہل تصوف کا معمول ہے جو ہر وقت اپنی خانقاہوں میں رہتے ہیں اور ان
ب طہارت ِ
آدا ِ
خانقاہوں کی خبر گیری کرتے رہتے ہیں اور گویا رباط (خانقاہ ) ان کا گھر ہے اور وہی ان
کا خیمہ اور قیام گاہ ہے جس طرح ہر قوم کے افراد کے گھر ہوتے ہیں اسی طرح اہ ِل
تصوف کے گھر خانقاہیں ہیں پس اس صورت میں وہ اہ ِل صفہ سے مشابہ ہیں اس مشابہت
طلحہ کی روایت نقل کی ہے ،فرماتے ہیں ’’جب کوئی شخص مدینۃ
ؓ اسناد سے حضرت
الرسول میں باہر سے آتا اور اس کا کوئی شناسا ہوتا تو اسکے ہاں قیام کرتا اور اگر کوئی
جان پہچان نہ ہوتی تو وہ صفہ پر آجاتا اور یہاں قیام کرتا اور میں بھی ان لوگوں میں سے
فرمایا:
ترجمہ :اور ہم نے ان کے سینوں سے کینہ اور رنجش کو نکال دیں گے اور وہ بھائی بھائی
یہ آمنے سامنے بیٹھے رہنا اس وجہ سے ہے کہ اب ان کا ظاہرو باطن یکساں ہوگیا ہے
جیسا کہ فرمایا گیا ’’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘‘ اہ ِل صفہ اس آیت کے مصداق تھے کیونکہ
ان کے دل کینہ سے پاک صاف تھے۔ کینہ ،بغض اور حسد دنیاداری سے پیدا ہوتا ہے جب
دنیا کے جھمیلے ساتھ ہوتے ہیں تو یہ چیزیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ دنیا کی محبت ان تمام
اہل صُفہ نے دنیا سے قطع تعلق کر لیا تھا
برائیوں کی اصل اور تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ ِ
اور ان کے دل دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھے پس ان کے دلوں سے کینہ مٹ گیا اور حسد
ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگیا۔ یہی حال اہ ِل خانقاہ کا ہے کہ وہ ظاہر و باطن میں یک رنگ
ہیں۔ باہمی محبت و الفت میں ان میں یکسانیت ہے اور اس پر سب جمع ہیں ایک ساتھ
زندگی بسر کرتے ہیں ان کی باہمی گفتگو میں یک رنگی ہے اختالف نہیں ہے(یعنی اکٹھے
گفتگو کرتے ہیں اکٹھے کھاتے پیتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کی برکت سے بخوبی
واقف ہیں)۔
والوں کی خدمت کرے یہ خدمت اسکی عبادت تصور کی جائے گی۔ وہ اپنی حس ِن خدمت
سے اہ ِل ہللا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرے گا اور ان کی برکات شام ِل حال ہو جائیں
گی اور اس طرح وہ اپنے عبادت گزار بھائیوں کا معین و مددگار ثابت ہو گا۔ نبی اکرم
وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے ’’مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں ان میں سے
صلی ہللا علیہ ٖ
ہر ایک دوسرے سے بعض ضروریات کا طالب ہے پس ان میں جو لوگ اپنے دوسرے
گا۔‘‘ عالوہ ازیں خادم خدمت کے باعث بطالت اور کاہلی و سستی سے محفوظ رہتا ہے اور
وہی بطالت اور بیکاری (نکماپن) دل کی موت کا باعث ہے۔ مختصر یہ ہے کہ خدمت بھی
نیک اعمال میں شامل ہے اوران طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جن کے ذریعے
مخدوم کی عبادت کے ثواب میں شریک ہوتا ہے کیونکہ خادم انکی خدمت میں مصروف
ہے جو ہللا کی بندگی و اطاعت اور اسکے ذکر میں مصروف ہیں تووہ بھی ان کے ثواب
ٰ
الصلوۃ تبوک سے واپس تشریف الئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضور علیہ
والسالم نے فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے تمہارے ساتھ سفر کیا اور
وآلہ وسلم! وہ تو مدینہ میں رہ گئے پھر ان کا اور ہمارا ساتھ کس
یارسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
طرح ہوا ارشاد فرمایا کہ ہاں ان کو عذر نے روک لیا تھا مگر ثواب میں وہ تمہارے ساتھ
خدمت میں بھرپور کوشش کے ساتھ سرگرم رہا اور یہ خیال کرتا رہا کہ اگر وہ انکی نگا ِہ
تعالی
ٰ لطف سے محروم رہا تو کیا ہوا شاید خدمت سے اسکی کچھ تالفی ہو جائے تو ہللا
اسکی اس خدمت کے بدلے اسکو ضرور بلند پایہ جزا اوراجر عطا فرمائے گا۔ اس طرح
ٰ
تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور اہل صفہ بھی نیک کاموں اور
ِ
دینی مصالح پر اپنی جان و مال سے مدد کرنے کیلئے مل جل کر کام کرتے رہتے تھے
ترجمہ :یہی وہ لوگ ہیں جو ہللا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اس لئے تم ان ہی کی پیروی
کرو۔
اس مادیت پرستی اور مصروفیت کے زمانے میں بھی کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو صحیح
جسم کی طرح متحد ہوتے ہیں جبکہ دوسری جماعتوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی ان میں
ترجمہ :وہ مومنین ایسے متحد اور متفق ہیں اور اسقدر مضبوط ہیں جیسے ایک سیسہ
تعالی ہے:
ٰ ارشاد باری
ش اِالَّ ہّٰللا َ َ مس ِج َد ہّٰللا ِ َم ْن ٰا َمنَ بِاہّٰلل ِ َو ْالیَوْ ِم ااْل ٰ ِخر َو اَقَا َم الص َّٰلوۃَ ٰ
واتَی ال َّز ٰکوۃَ َولَ ْم یَ ْخ َ ِ *اِنّما یَ ْع ُم ُر ٰ
ک اَ ْن یَّ ُکوْ نُوْ ا ِمنَ ْال ُم ْھتَ ِد ْینَ ۔( التوبہ۔) 18 فَع ٰ ٓسی اُ ٰ ٓ
ولئِ َ َ
جب تم کسی شخص کو مسجد کی خبر گیری کرتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دے
یوم قیامت
تعالی فرماتا ہے کہ مسجدیں وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو ہللا اور ِ
ٰ دو کیونکہ ربّ
فرمایا :
آبادیوں میں ہللا کو پیاری جگہیں مسجدیں ہیں اور بدترین جگہیں بازار ہیں۔ ( مسلم شریف،
ٰ
مشکوۃ شریف)
وآلہ وسلم
عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
4۔ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا ٗ
نے فرمایا جو شخص صبح یا شام مسجد کو جائے ہللا اس کیلئے جنت میں مہمانی کا سامان
5۔ اُ ّم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا
وآلہ وسلم نے مسجدیں بنانے اور انہیں پاک صاف اور معطر (خوشبودار)رکھنے کا
علیہ ٖ
ٰ
مشکوۃ) ۔(ترمذی‘ابن ماجہ‘ ابوداؤد‘
ِ حکم دیا
وآلہ وسلم
عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
6۔ حضرت ابوہریرہ™ رضی ہللا ٗ
نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو کچھ کھا پی لیا کرو عرض کی گئی یا
ٰ
الصلوۃ™ والسالم نے فرمایا مسجدیں۔ عرض رسول ہللا! جنت کے باغ کیا ہیں تو حضور علیہ
ٰ
مشکوۃ) کی گئی ان میں کھانا پینا کیا ہے فرمایا ہللا کا ذکر و تسبیح۔(ترمذی،
7۔ حضرت ابوامامہ روایت فرماتے ہیں کہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم نے حضور نبی
وآلہ وسلم سے پوچھا کونسی جگہ بہتر ہے حضور خاموش رہے اور
پاک صلی ہللا علیہ ٖ
وآلہ وسلم
فرمایا میں جبرائیل ؑ کے آنے تک خاموش رہوں گا چنانچہ آپ صلی ہللا علیہ ٖ
ٰ
الصلوۃ خاموش رہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السالم حاضر ہوئے تو حضور پاک علیہ
نہیں (یعنی جبرائیل ؑ نے حضور کے سامنے اپنی العلمی کا اعتراف کیا)لیکن عرض کی
میں اپنے ربّ سے پوچھوں گا پھر جبرائیل ؑ نے عرض کی اے محمد صلی ہللا علیہ ٖ
وآلہ
وسلم! آج میں ہللا کے اتنا قریب ہوا کہ اس سے پہلے میں ہللا کے اتنا قریب نہیں ہوا تھا
وآلہ وسلم میرے اور
حضور نے فرمایا کتنا قریب ہوا عرض کی یارسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ
ہللا کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے حائل تھے تو ربّ نے فرمایا بدترین جگہیں بازار
اور ہللا کی پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں۔ (صحیح ابن حبان بروایت اب ِن عمر)
مندجہ باال تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ روئے زمین کے ٹکڑوں میں سے ہللا
سر نیاز
کو وہ جگہیں زیادہ پسند ہیں جہاں اسکی عبادت کی جاتی ہے اور اسکے حضور ِ
فقیر کامل کے قدم مبارک بار
جھکائے جاتے ہیں لیکن اس جگہ کے کیا کہنے جہاں ایک ِ
مولی اسکی
ٰ بار لگتے ہوں ایک مقدس خانقاہ بھی ہو جہاں صبح و شام بلکہ ہمہ وقت طالبا ِن
اس جگہ کی فضیلت دوگنا ہو جائیگی اور اس جگہ کی تعمیرو ترقی میں جو لوگ حصہ
ڈالیں گے ان کے اجرو ثواب کے متعلق ہماری سوچ عاجز اور قاصر ہے۔ تمام قارئین سے
میری گزارش ہے کہ بڑا نادر موقع ہے ہللا اور اسکے رسول کے ساتھ تجارت کرنے کا
تعالی ہے۔
ٰ فرمان باری
* اِ َّن ہّٰللا َ ا ْشت ََر ٰی ِمنَ ْال ُمْٔو ِمنِ ْینَ اَ ْنفُ َسھُ ْم َو اَ ْم َوالَھُ ْم بِا َ َّن لَھُ ُم ْال َجنَّۃَ(سورۃ توبہ۔ )111
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس ایک مسجد اور
اس کے ساتھ خانقاہ کے قیام کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں دل کھول کر اپنے پاکیزہ اور
حالل اموال میں سے تعاون کیجئے کیونکہ یہ نہایت نفع بخش سودا ہے اور ایک کے بدلے
سات سو گنا نوازنے واال ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ وہللا واسع علیم۔