Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 48

‫س‬ ‫خ نق‬

‫ا اہ (ا الم)‬
‫آزاد دائرۃ المعارف‪ ،‬ویکیپیڈیا سے‬
‫‪Jump to navigationJump to search‬‬
‫▼تصوف اور سلسلہ ہائے صوفیاء‬

‫افکار‪ ،‬نظریات◄‬

‫اعمال◄‬

‫سلسلہ ہائے صوفیا◄‬

‫اہم شخصیات◄‬

‫قابل ذکر موجودہ صوفیاء◄‬

‫تصوف کے موضوعات◄‬

‫‪   ‬باب‬

‫د‬
‫گ‬
‫ت‬

‫‪Tarnol Astana Sharif 2‬‬


‫ت‬ ‫خ ان ْ ق اہ‪ ‬ف ارسی ز ان کے ل ف ظ خ‬
‫ے۔ اور اردو‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫صرف‬ ‫د‬ ‫مز‬ ‫کر‬ ‫دل‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫کو‬ ‫گ‬ ‫ے‬ ‫ّرب‬ ‫ع‬ ‫کا‬ ‫گاہ"‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ا‬
‫ی یہ‬ ‫ی‬ ‫ی ب‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫نق‬ ‫ج‬ ‫ب خ‬
‫ے مع‪ :‬خ ا ْ اہ ی ں ۔‬ ‫می ں عربی سے ما ہ‬
‫وذ‬
‫ف‬
‫ہرست‬
‫ن‬
‫ف‬ ‫‪1‬معا ی‬ ‫‪‬‬
‫‪2‬اص طالحی م ہوم‬ ‫‪‬‬
‫ن‬
‫‪3‬دی گر ام‬ ‫‪‬‬
‫‪4‬حوالہ ج ات‬ ‫‪‬‬
‫ن ت‬
‫معاف ی[ رمی م]‬
‫ش‬
‫[‪]1‬‬
‫صو ی وں‪ ‬اور‪ ‬دروی وں‪ ‬کی ع ب ادت گاہ۔‬
‫ت‬ ‫ف‬
‫ن‬ ‫اص طالحی م ہوم[ رمی م]‬
‫ن خ‬ ‫ق‬ ‫ض‬ ‫بت‬ ‫ن‬ ‫خ ان ق اہ ولی ساز کارخ‬
‫دس موال ا ا ت ی شارالملک ورہللا‬ ‫ن‬ ‫رت ا‬ ‫ب ی ن یخ ق ح ئ‬‫(‬ ‫ں‬‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫اء‬ ‫ل‬ ‫او‬ ‫کے‬ ‫ہللا‬
‫ت‬ ‫سے‬ ‫ہاں‬ ‫ے۔‬
‫ئہ ج‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ق خ نق‬
‫ب‬ ‫م‬
‫ے ہت قسی ا اہ یض ں داپ ھرہ تکے ام سے ہور قھی ہ ی ں۔‬ ‫ب‬
‫ی‬ ‫ے دا رہ اور زاوی ہ ھی کہا ج ا اش ہ‬ ‫خمرن ق دہ) ئا اہ‪ ،‬جس‬
‫اب طری ت اور‬ ‫ب ِق‬ ‫ار‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫اء‬ ‫ن‬
‫ی‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫طری‬ ‫و‬‫ن‬‫عت‬ ‫ری‬ ‫سے‬ ‫اں‬ ‫ہ‬ ‫ا ف اہ‪،‬ئدا رہ ی ا زاوی ج سہ ج‬
‫ے‬ ‫گہ‬ ‫وہ‬ ‫ہ‬
‫ن‬
‫کے‬‫ے اور کراے اور راہ تطریخ ت خ‬ ‫لوک کی کم ازل طےنکراے ع ب ادت کر‬ ‫ن‬ ‫ے راہ‬
‫سے رش‬ ‫ن‬
‫ہ‬ ‫صو ی اے کرام خ ن ق‬
‫دمت لق کا‬ ‫خ‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫دا‬
‫ہ ی‬ ‫و‬ ‫د‬ ‫اں‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫رزما‬
‫ب ی خ ن ق ہ ن ن نی ی‬ ‫ھی۔‬ ‫ر‬ ‫اد‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫ا‬ ‫ے ا‬ ‫دی کے لی‬ ‫مب ت ن‬
‫سے حمب ت‪ ،‬ا وت‪،‬‬ ‫ں ن‬ ‫ں۔ ہین ن‬‫ی‬ ‫ی ہت ی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ے ا داز تپر ہی کر ر‬ ‫ےتاقپ‬ ‫ھیف ا اہ ی تں اپ‬ ‫آج ت‬ ‫ے اوری جک ت‬ ‫ئ‬
‫کام ا ج ام دی ا گ ی ا ہ‬
‫ب‬ ‫غ‬ ‫پ‬ ‫عم‬
‫ے ج اری‬ ‫سان کے لی‬ ‫ری‪ ،‬حری نری اور لیع ی ام شی وع ا ت‬ ‫ساوات‪ ،‬ب ھاخ نیق چہارگی‪ ،‬ہ ی‪ ،‬ا قاق و ا تحادکا ری ف ق‬ ‫نم ت‬
‫ے وہ ی ں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫اری‬ ‫ج‬ ‫مہ‬ ‫چ‬ ‫کا‬ ‫م‬ ‫لی‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫ی‬ ‫ودی‬ ‫ہ‬ ‫اور‬ ‫ث‬ ‫ی‬‫حد‬ ‫و‬ ‫رآن‬ ‫ہاں‬ ‫تج‬ ‫سے‬ ‫وں‬ ‫ا‬‫ن‬ ‫ا‬ ‫ے۔‬ ‫ہفواکر ہ‬
‫ا‬
‫ے۔‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫ے ر ی ت کی ج ا ی ہ‬ ‫س کو پ اکی زہ ب اے کے لی‬
‫ن ت‬
‫]‬ ‫م‬ ‫دی گر ام[ رمی‬
‫(‪ )Monastery‬ڈ را۔ خ ان ق اہ۔ صو عہ۔ دھرم ش اال۔ استھل۔ ھٹ‬
‫ے‘ خمان ق اہ ں۔[‪ ]2‬ص َْو َع ٌ‬ ‫خن‬ ‫شم‬ ‫سے مراد ہ ں‪ ‬تیارک الدن‬
‫کا‬ ‫س‬ ‫ارت‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫سی‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫َۃ‬ ‫ُ‬ ‫ا‬ ‫ادت‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫ٹ‬ ‫وں‬ ‫ی‬‫درو‬ ‫‪ ‬‬ ‫ا‬ ‫صوامع ن‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ش‬ ‫[‪]3‬م‬ ‫َ ی خ نق‬ ‫ب خ نق ج‬ ‫گ ی‬ ‫ج‬ ‫ی‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫ے گرج ا ھر‪ ،‬راہ ب کی‪ ‬کو ھری‪ ،‬ا اہ۔ مع صَوامِع‪ :‬ا اہ ی ں ‪ ‬اب ن ابی ی ب ہ واب نشالم ذر‬ ‫ن یس‬ ‫سر لم ب ا اور وکدار و‬
‫ے دروی وں‬ ‫ہ‬ ‫مراد‬ ‫سے‬ ‫ئ‬ ‫صوامع‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫روا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ارے‬
‫ب گ ی‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫آ‬ ‫اس‬ ‫ن‬ ‫سے‬ ‫ہ‬ ‫عال‬
‫ل ی‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫واب خنن قابی حا م‬
‫ج‬ ‫م‬
‫ے صا ی ن کی‪  ‬سج دی ں‪  ‬ن‬ ‫ب‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ل‬
‫تاور لوت سے مراد ہ‬ ‫ے صاری کے گرفج ا ھر‬ ‫اورتا ع سے مراد نہ‬ ‫کی ا اہ ں‬
‫کو وہ ص یلوات ہک‬
‫ے ہ ی ں۔[‪ ]4‬موال ا ع ب د الرح ٰمن ج امی رماے ہ ی ں‬
‫م خ نق‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫خ وش‬
‫ے‬ ‫قسج ق ہ‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫د‬ ‫و‬ ‫لس‬ ‫ا‬ ‫‪‬‬
‫کہ در وے ب ود ی ل و ِال دمحم‬ ‫‪‬‬

‫ب خانقاہی‬
‫خانقاہ اور آدا ِ‬

‫حافظ حماد الرحمن سروری قادری ایم ایس سی (باٹنی)‬


‫جہاں جہاں مسلمان گئے اور مقامی لوگوں نے اسالم قبول کیا وہاں نماز کی ادائیگی کے‬

‫لیے مساجد تعمیر کی گئیں اور مسلم معاشرہ میں مساجد کے ساتھ عبادت کا عنصر الزم کر‬

‫دین اسالم پہنچا تو اولیا کرام کی کاوش اور‬


‫دیا گیا۔ دنیا میں جہاں بھی کسی خطہ میں ِ‬
‫ولی کامل نے کسی دور دراز عالقہ میں جا کر‬
‫محبت ہی کی بدولت پہنچا۔ جب بھی کسی ٔ‬
‫مولی اکٹھے‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫تبلیغ اسالم کی خاطر ڈیرہ لگایا تو اُس ٔ‬
‫ولی کامل کے ارد گرد بہت سے‬ ‫ِ‬
‫مولی کی باطنی تربیت کے لیے ایک خاص جگہ تشکیل دی جانے‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫ہونے لگے۔ اِن‬

‫لگی تاکہ شمع کے گرد پروانے آسانی سے اکٹھے ہو سکیں اور دور دراز سے آنے والے‬

‫ت مرشد میں رہنے کے زیادہ سے زیادہ مواقع مل سکیں۔ اس خاص‬


‫مولی کو صحب ِ‬
‫ٰ‬ ‫طالبا ِن‬

‫جگہ کا نام خانقاہ رکھا گیا۔ خانقاہ ہمیشہ مسجد سے الگ لیکن اس کے قریب بنائی جاتی ہے‬

‫کیونکہ صوفیا کرام نے جس ریاضت کو الزم قرار دیا اس کے لیے مساجد ناموزوں تھیں۔‬

‫مساجد میں مسلمانوں کی ظاہری تربیت کا نظام موجود ہوتا ہے اور خانقاہ میں مسلمانوں کو‬

‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫باطنی تربیت کے ذریعے مومن بنایا جاتا ہے۔ یعنی فقرا کاملین اپنی کامل نگاہ سے‬

‫مولی کا تزکیۂ نفس فرما کر ان کے دلوں میں ایمان داخل کرتے ہیں۔ خانقاہ میں بندۂمسلمان‬
‫ٰ‬

‫کو اقرار باللسان سے تصدیق بالقلب تک کا سفر طے کرایا جاتا ہے تاکہ مسلمان کو مرتبہ‬

‫احسان پر فائز کر کے بندۂمومن بنایا جائے۔‬

‫سرور کائنات حضرت محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬


‫ِ‬ ‫خانقاہی نظام کی بنیاد بھی آقادو جہان‬

‫صفَّہ کے چبوترہ پر اکٹھا کر کے فرمائی تھی۔‬


‫ب صفہ کو ُ‬
‫وآلہ وسلم نے اصحا ِ‬
‫ٖ‬
‫ب صفہ کے متعلق فرماتا ہے‪:‬‬
‫تعالی اصحا ِ‬
‫ٰ‬ ‫سورۃ الکہف کی آیت نمبر‪ 28‬میں ہللا‬
‫ک َم َع الَّ ِذ ْینَ یَ ْد ُعوْ نَ َربَّھُ ْم بِ ْالغ َٰدو ِۃ َو ْال َع ِش ِّی ی ُِر ْی ُدوْ نَ َوجْ ھَ ٗہ‪o ‬‬
‫َواصْ بِرْ نَ ْف َس َ‬

‫وآلہ وسلم) ان لوگوں کے ساتھ رہا کریں جو رات دن اپنے‬


‫ترجمہ‪:‬اور آپ( صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫دیدار ٰالہی کی التجا کرتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫ربّ کی بارگاہ میں‬

‫وآلہ وسلم کے اردگرد ان اصحاب نے اکٹھا ہونا شروع کر دیا جن‬


‫جب آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫مولی کی طلب صرف اور‬
‫ٰ‬ ‫مولی تھے‪ ،‬ان طالبا ِن‬
‫ٰ‬ ‫دیدار ٰالہی تھی یعنی جو طال ِ‬
‫ب‬ ‫ِ‬ ‫کی غذا ہی‬

‫وآلہ وسلم ہی پوری فرما سکتے تھے‪ ،‬تو قرآن میں یہ حکم‬
‫صرف آقا پاک صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫مولی کے ساتھ رہا‬
‫ٰ‬ ‫وآلہ وسلم ایسے طالبا ِن‬
‫ہوگیا کہ اے انسا ِن کامل! آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ب شدید کو‬
‫مولی کی طل ِ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی کا چہرہ دیکھنے کے طالب ہیں۔ طالبا ِن‬
‫ٰ‬ ‫کریں جو ہر وقت ہللا‬

‫مولی کو دی ِن‬
‫ٰ‬ ‫م ِد نظر رکھتے ہوئے پہلی خانقاہ کی بنیاد پڑی جس کا نام صفہ تھا۔ ان طالبا ِن‬

‫صفَّہ‘‘™ سے‬
‫اسالم میں بہت اہمیت حاصل ہے جنہوں نے اس تربیت گاہ یعنی خانقا ِہ ا ّول ’’ ُ‬

‫صفَّہ کے نام سے موسوم ہوئے۔ صحابہ کرام رضی ہللا عنہم‬


‫ب ُ‬
‫تربیت حاصل کی اور اصحا ِ‬

‫کے لیے یہی وہ پہلی درس گاہ تھی جہاں ان کے قلوب میں ایمان داخل کیا گیا اور پھر‬

‫ب صفہ کی شان اتنی بلند ہے کہ قرآ ِن پاک میں ان کا ذکر‬


‫اسالم پوری دنیا میں پھیال۔ اصحا ِ‬

‫صفَّہ کو بشارت دیتے ہوئے‬


‫وآلہ وسلم نے بھی اہ ِل ُ‬
‫ملتا ہے اور پھر آقا پاک صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫صفَّہ! تمہیں بشارت ہو کہ تم میں سے جو کوئی ان خوبیوں پر قائم‬
‫ب ُ‬
‫فرمایا ’’اے اصحا ِ‬

‫رہے گا جس پر تم لوگ قائم ہو اور اس حالت پر خوش رہے گا تو وہ یقیناًقیامت کے دن‬

‫میرا رفیق ہو گا۔‘‘ (عوارف المعارف)‬

‫وآلہ وسلم کے قرب سے‬


‫تعالی کی رضا آقا پاک صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ٰ‬ ‫صفَّہ کو فقر اور ہللا‬
‫یعنی اہ ِل ُ‬

‫ملی جو انہوں نے دنیا سے دور ہو کر اور صفہ کے چبوترے پر رہائش اختیار کر کے‬
‫اعلی ترین اوصاف حاصل کیے اور یہی وہ‬
‫ٰ‬ ‫حاصل کیا۔ اسی قرب سے باطنی خوبیاں اور‬

‫وآلہ وسلم کی رفاقت نصیب ہوتی‬


‫اوصاف ہیں جن کی بدولت آخرت میں آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫اعلی ظاہری و باطنی‬
‫ٰ‬ ‫مولی کو بھی فقر‪ ،‬رضائے ٰالہی اور‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫ہے۔ موجودہ دور کے‬

‫اوصاف اُسی وقت نصیب ہوتے ہیں جب وہ کسی ٔ‬


‫ولی کامل کی خانقاہ میں حاضر ہوں اور‬

‫ولی کامل کی صحبت میں کچھ دیر رہ کر اپنا تزکیۂ نفس کروائیں۔‬
‫اس ٔ‬
‫وآلہ وسلم کے بعد آپ کی اس مبارک سنت کی پیروی میں ہر دور میں‬
‫آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫مولی کی تربیت کے لیے خانقاہیں قائم کیں۔‬
‫ٰ‬ ‫اولیا ہللا نے طالبا ِن‬

‫عنہ کی‬
‫زمانہ اس بات کا شاہد ہے کہ سیّدنا غوث االعظم شیخ عبدالقادر جیالنی رضی ہللا ٗ‬

‫آپ کے‬
‫مولی قلم دوات اٹھائے ؓ‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫خانقاہ میں ہزاروں کا مجمع لگا رہتا اور کئی ہزار‬

‫پھولوں کی پتیوں سے نازک ہونٹوں سے نکلنے والے تمام ُگلوں کو قلم بند کرنے میں‬

‫ت‬
‫مولی کی باطنی تربیت کرنے کی اس مبارک سن ِ‬
‫ٰ‬ ‫مصروف رہتے۔ خانقاہ بنانے اور طالبا ِن‬

‫عنہ‬
‫وآلہ وسلم کو سیّدنا غوث االعظم شیخ عبدالقادر جیالنی رضی ہللا ٗ‬
‫رسول صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫وآلہ وسلم سلسلہ در سلسلہ سیّد‬
‫ت رسول صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫نے مزید مستحکم فرمایا اور یہ سن ِ‬

‫نجم الدین برہان پوری رحمتہ ہللا علیہ سے ہوتی ہوئی عبدالرحمن جیالنی دہلوی رحمتہ ہللا‬

‫علیہ تک پہنچی۔ پھر سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ ہللا علیہ نے اس‬

‫مولی‬
‫ٰ‬ ‫ت عظیم کو مزید نکھارا کہ آپ رحمتہ ہللا علیہ کی خانقاہ سے فیض یاب طالبا ِن‬
‫سن ِ‬

‫اسم اعظم کا راز کھال۔ آپ رحمتہ ہللا علیہ کے بعد آپ کے‬


‫ساری دنیا میں پھیل گئے اور ِ‬
‫محرم راز حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبدہللا شاہ مدنی صاحب رحمتہ ہللا علیہ نے‬

‫احمد پور شرقیہ میں خانقاہ تعمیر فرمائی اور حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ‬
‫رحمتہ ہللا علیہ کو فیض کی دولت سے ماال مال فرما کر مڈمپال روانہ کر دیا۔ حضرت‬

‫شہباز عارفاں حضرت‬


‫ِ‬ ‫سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ رحمتہ ہللا علیہ کی خانقاہ سے‬

‫سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی رحمتہ ہللا علیہ نے فیض حاصل کیا اور‬

‫اڈا قاسم آباد سے ایک کلومیٹر کے فاصلہ پر خانقاہ کی بنیاد ڈالی۔ الغرض آج تک آقا پاک‬

‫ب صفہ سے شروع ہوئی‬


‫وآلہ وسلم کی یہ مبارک سنت جاری ہے جو اصحا ِ‬
‫صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫اور سلطان الفقر حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ ہللا علیہ سے ہوتی ہوئی‬

‫حضرت سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس کی قائم کردہ خانقاہ ’’سلطان الفقر‬

‫ہاؤس‘‘ کی صورت میں جاری و ساری ہے۔‬

‫وآلہ وسلم کی حدیث اور مبارک سنت سے واضح‬


‫یہ بات تو قرآن اور آقا پاک صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ولی کامل کی‬
‫دین اسالم میں خانقاہ ایک اہم کردار ادا کرتی ہے اور ہر دور میں ٔ‬
‫ہوگئی کہ ِ‬
‫وآلہ وسلم کے عین مطابق ہوتی ہے جس میں مسلمانوں‬
‫ت رسول صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫خانقاہ سن ِ‬

‫کی اس زمانہ کے مطابق باطنی تربیت کی جاتی ہے۔ کسی بھی خانقاہ کا دارومدار ’’انسا ِن‬

‫ت مبارکہ پر ہوتا ہے۔ جس طرح پروانے کے لیے شمع کا ہونا الزمی ہے‘‬
‫کامل‘‘ کی ذا ِ‬

‫مولی کی تربیت کے لیے انسا ِن کامل کی موجودگی الزمی ہے۔‬


‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫بالکل اسی طرح‬

‫اسم اعظم جاری و ساری رہتا ہے اور چوبیس گھنٹے میں کوئی‬
‫ذکر ِ‬
‫خانقاہ میں ہر وقت ِ‬
‫اسم ہللا ذات کا ذکر نہ جاری ہو۔ اس کے برعکس مساجد میں‬
‫ایسا لمحہ نہیں ہوتا کہ جب ِ‬
‫ت کار مخصوص ہوتے ہیں اور رات کو تو مسجدوں میں تالے لگ جاتے ہیں۔ خانقاہ ہر‬
‫اوقا ِ‬

‫وقت ہر آنے والے کے لیے کھلی رہتی ہے‘ خواہ کوئی غیر مسلم ہی کیوں نہ ہو۔ خانقاہ‬

‫میں ذکر و عبادت کے لیے کوئی مخصوص اوقات نہیں کہ خانقاہ میں دائمی ذکر جاری‬
‫رہتا ہے۔ انسا ِن کامل کی ہمہ وقت موجودگی کے باعث خانقاہ کی فضا میں فیض ہی فیض‬

‫ہوتا ہے۔ اس بابرکت جگہ کے باہر سے گزرنے واال اگر ہاتھ اٹھا کر دعا بھی کر دے تو‬

‫اسم ہللا ذات کے ذکر‬


‫اس کی دعا ضرور قبول ہوتی ہے۔ خانقاہ میں صبح شام یعنی ہر وقت ِ‬
‫کی بدولت اس جیسی جگہ اور کوئی نہیں ہو سکتی۔ اس بات کی تصدیق ہللا کا پاک قرآن‬

‫ت‬ ‫یوں کرتا ہے‪:‬‬


‫ٌ اَّل لھی ْ‬ ‫غ ُ ّ َ اْل‬ ‫ی ُ ٗف‬ ‫فْ ْ َ َ ُ َ ْ ت ْف َ َ ْ َ ف‬
‫ت ا ِذن ان ُر َع و ی ُذکَر ِیْہَا اسْمُہٗال ُ ِبسَ ِّّح لَہ ِیْہَا ب ِالْ ُد ِِّو وا ٰ صَالِال ِرج َال ال ُ ْ ِ ْھِم‬
‫ہّٰللا‬ ‫*‪ِ                         ‬ی ب یُ ُو ٍ‬
‫ف ْ َ ْ ت ت ق ُ ف ل ق ْ ُ َ اْلَ ُ‬ ‫َّ‬ ‫ص َ‬ ‫َق‬ ‫ت َ ٌ َّ اَل ب ٌ ْ‬
‫ِج َارۃ و َی ْع عَن ِذکْ ِر ِ و ِا َ ِام ال َّل ِٰوۃ واِی ْت َٓائِ الزک ِٰوۃ ال‪  ‬ی َخ َا ُون یَومًا َ َ َ ّلَب ِی ِْہ ا ْ ُلُوب و ا ب ْصَار۔‪( ‬سورۃ‬
‫ص‬
‫ہّٰللا‬
‫النور‪)36,37‬‬

‫ترجمہ‪ :‬یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں ہللا کے نام کا ذکر کیے جانے‬

‫تعالی کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کا‬


‫ٰ‬ ‫کا ہللا نے حکم دیا ہے۔ وہاں وہ لوگ صبح و شام ہللا‬

‫نام لیتے ہیں جنہیں خدا کے ذکر‪ ،‬نماز ادا کرنے اور ٰ‬
‫زکوۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی‬

‫اور نہ خریدو فروخت یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‬

‫ت اَ ِذنَ ہّٰللا ُ اَ ْن تُرْ فَ َع‪ ‬سے مراد وہ خاص گھر ہیں جن‬


‫سورۃ النور کی آیت نمبر ‪ 36‬میں‪ ‬فِ ْی بُیُوْ ٍ‬

‫ت‪ ‬سے مراد موجودہ زمانہ کی مساجد‬


‫کو ہللا نے ارفع (بلند) کرنے کا حکم دیا ہے۔ یہاں‪  ‬بُیُوْ ٍ‬

‫تعالی ’’مساجد‘‘ کا لفظ‬


‫ٰ‬ ‫لیا جائے تو روا نہیں کیونکہ ’’بیت‘‘™ کے معنی گھر کے ہیں۔ ہللا‬

‫استعمال کر کے واضح کر سکتا تھا کہ یہ آیت صرف مساجد کے لیے ہے۔ مساجد ہمیشہ‬

‫گھروں سے جدا ہوتی ہیں۔ یہاں گھر سے مراد وہ جگہ ہے جہاں ایک جیسی فکر اور‬

‫ت زندگی‬
‫نظریہ کے لوگ دن رات رہتے ہوں اور یہیں کھاتے پیتے اور دیگر ضروریا ِ‬
‫سے استفادہ کرتے ہوں جبکہ مساجد صرف عبادت کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ یہاں گھروں‬

‫مولی کا گھر‬
‫ٰ‬ ‫مولی رہتے ہیں اور خانقاہ طالبا ِن‬
‫ٰ‬ ‫سے مراد خانقاہیں ہیں جہاں دن رات طالبا ِن‬

‫ت مبارکہ میں لفظ تُرْ فَ َع استعمال ہوا ہے‘ جس کا مطلب ہے‬


‫ہی ہوتی ہے۔ مذکورہ باال آی ِ‬

‫ک ِذ ْک َرکْ ‘‘ کہ ہم نے آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬


‫وآلہ‬ ‫’’بلند کرنا‘‘ جیسا کہ ارشاد ہوا ہے ’’ َو َرفَ ْعنَا لَ َ‬

‫وآلہ وسلم کا ذکر بلند ہے اور‬


‫وسلم کا ذکر بلند کر دیا یعنی ہر زمانہ میں آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫بلند تر ہوتا رہے گا۔ لہٰ ذا اس آیت میں‪ ‬تُرْ فَ َع‪ ‬سے مراد عمارت کا بلند کرنا نہیں بلکہ خانقاہ‬

‫بنانے کی مبارک سنت کو ہر زمانہ میں رائج کرنا ہے جس کا ذکر اوپر ابتدائی سطور میں‬

‫تعالی نے واضح طور پر حکم دے دیا ہے۔ پس یوں کہیں گے‪’’ :‬ان‬
‫ٰ‬ ‫ہو چکا ہے یعنی ہللا‬

‫گھروں (خانقاہوں) میں جنہیں ہللا نے (ہر دور میں سنت کو زندہ رکھنے کے لیے) بلند‬

‫کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘‬

‫سورۃ النور کی اس مبارک آیت نمبر ‪ 36‬کا اگال حصہ ہے کہ‪َ  ‬و ی ُْذ َک َر فِ ْیہَا ا ْس ُم ٗہال یُ َسبِّ ُح لَ ٗہ‬

‫اسم ہللا کا ذکر اور تسبیح صبح و شام‬


‫ال‪  ‬ترجمہ‪’’:‬اور™ ان (خانقاہوں) میں ِ‬
‫ص ِ‬‫فِ ْیہَا بِ ْال ُغ ُد ِّو َوااْل ٰ َ‬

‫اسم اعظم کے‬


‫اسم ہللا ذات کے ذکر یعنی ِ‬
‫ت مبارکہ میں ِ‬
‫(ہر وقت) کی جاتی ہے۔‘‘ اس آی ِ‬

‫صبح و شام ہر وقت ہونے والے دائمی ذکر کا تذکرہ ہے۔ خانقاہ وہ گھر ہے جہاں ایک لمحہ‬

‫ذکر پاس انفاس نہ‬


‫بھی پورے دن اور رات میں ایسا نہیں گزرتا جب سلطان االذکار ھو کا ِ‬
‫مولی ھُوھُو کی صدا ہر وقت‘ ہر آن بلند کرتے رہتے ہیں‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫ہو۔ ہللا کے دیدار میں محو‬

‫اور کوئی دم ایسا نہیں ہوتا کہ ھُو کی صدا خانقاہ کی فضا میں بلند نہ ہوتی ہو۔ یہ بھی‬

‫ت‪ ‬کا لفظ مساجد نہیں بلکہ خانقاہ کے لیے‬


‫مضبوط دلیل ہے اس بات کی کہ اس آیت میں‪ ‬بُیُوْ ٍ‬
‫اسم ہللا ذات جاری و‬
‫ذکر ِ‬
‫استعمال ہوا ہے کہ خانقاہ میں ہر وقت یعنی صبح ہو یا شام‘ ِ‬
‫ساری رہتا ہے جبکہ مساجد میں ذکر اور نماز کے مخصوص اوقات ہیں۔‬

‫دیدار ٰالہی میں غرق ہللا کی تسبیح (پاکی) بیان کرتے رہتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫مولی‬
‫ٰ‬ ‫خانقاہ میں طالبا ِن‬

‫اسم ہللا ذات کا ذکر‬


‫خانقاہ میں کبھی کوئی دنیاوی گفتگو نہیں ہوتی بلکہ ہر لمحہ اور ہر پل ِ‬
‫ت حق کے اسرار و رموز پر ہی روشنی ڈالی جاتی ہے۔‬
‫و تصور اور ذا ِ‬

‫اسم ہللا ذات کا ذکر‬


‫ت مبارکہ میں جن گھروں کا ذکر ہے ان کے لیے دائمی ِ‬
‫اسی لیے اس آی ِ‬

‫بھی شرط ہے اور یہ صرف خانقاہ ہی ہو سکتی ہے نہ کہ عام لوگوں کے رہنے کے گھر‬

‫ساز کی آواز ہی بلند ہوتی ہے۔ سورۃ النور کی آیت نمبر ‪37‬‬ ‫کہ جن میں سے اکثر و بیشتر ت‬
‫َّ‬ ‫ص َ‬ ‫َق‬ ‫ٌ اَّل لھی ْ ت َ ٌ َّ اَل ب ٌ ْ‬
‫میں ارشا ِد مبارک ہے کہ‪ِ  :‬رج َال ُ ْ ِ ْھِم ِج َارۃ و َی ْع عَن ِذکْ ِر ِ و ِا َِام ال َّل ِٰوۃ واِی ْت َٓائِ الزک ِٰوۃ ‪ ‬یہ آیت‬
‫ہّٰللا‬
‫مولی کی ہمت اور استقامت کے متعلق ہے ’’وہ مرد ہیں کہ جنہیں غافل نہیں‬
‫ٰ‬ ‫مبارکہ طالبا ِن‬

‫اسم ہللا ذات کے ذکر اور نماز قائم رکھنے اور‬


‫کرتا کوئی سودا اور نہ خرید و فروخت ِ‬
‫ٰ‬
‫زکوۃ دینے سے۔‘‘‬

‫مولی ہیں جس کی داللت ایک مشہور و‬


‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫ت مبارکہ میں مردوں سے مراد‬
‫اس آی ِ‬

‫ث مبارکہ کرتی ہے کہ‪:‬‬


‫معروف حدی ِ‬

‫مولی مذکر ہیں‘‘۔‬


‫ٰ‬ ‫ب‬
‫عقبی مؤنث ہیں اور طال ِ‬
‫ٰ‬ ‫ب‬
‫ب دنیا مخنث ہیں‘ طال ِ‬
‫* ’’طال ِ‬

‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫عقبی کی عبادت کی جگہ ہے جبکہ خانقاہ صرف‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫طالبان دنیا اور‬
‫ِ‬ ‫یعنی مساجد‬

‫مولی کے لیے مخصوص ہے۔‬


‫ٰ‬

‫اسم‬
‫ت مبارکہ میں ایسے مذکر ’’مردوں‘‘™ کا ذکر ہے جو اپنی خانقاہوں میں ِ‬
‫مندرجہ باال آی ِ‬
‫زکوۃ ادا کر رہے ہیں (اصل ٰ‬
‫زکوۃ صوفیا کے نزدیک‬ ‫ہللا ذات کے ذکر‘ دائمی نماز اور ٰ‬

‫ذکر ہللا کے نام کر دینا اور اپنی ذات کو مکمل ہللا کے حوالے کر‬
‫اپنی زندگی کی ہر سانس ِ‬
‫دینا ہے ) اور دنیا کی کوئی چیز کوئی سودا خواہ وہ کتنا ہی منافع بخش کیوں نہ ہو ایسے‬

‫ذکراسم ہللا ذات میں اس قدر محو‬


‫ِ‬ ‫مولی کو چنداں نہیں بھاتا اور وہ دائمی نماز اور‬
‫ٰ‬ ‫طالبا ِن‬

‫ہیں کہ وہ خانقاہ سے باہر کی دنیا کی ہر چیز سے کٹ کر صرف ہللا کی طرف راغب ہیں۔‬

‫َو ْاذ ُک ِر ْس َم َرب َ‬


‫ِّک َوتَبَتَّل اِلَ ْی ِہ تَ ْبتِ ْیالً‪( ‬المزمل‪)-8‬‬

‫نام(اسم ہللا ذات) کا ذکر ہر طرف سے ٹوٹ کر کرو۔‬


‫ِ‬ ‫ترجمہ‪ :‬اور اپنے ربّ کے‬

‫مولی خانقاہوں میں ہر طرف سے ٹوٹ کر اور تمام دنیاوی معامالت سے منہ‬
‫ٰ‬ ‫یعنی طالبا ِن‬

‫کراسم ہللا ذات کے ذکر میں محو ہیں۔‬


‫ِ‬ ‫موڑ‬

‫حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬

‫* ’’جس طرح خانقا ِہ ا ّول ’صفہ‘ کے خانقاہ نشین صحابہ کرام رضی ہللا عنہم تھے بالکل‬

‫ان کے مشابہ ہر دور میں خانقاہ نشین ہوتے ہیں اور بالکل وہی اعمال دہراتے ہیں جو‬

‫صفَّہ رضی ہللا عنہم کے تھے۔‘‘ یعنی خانقاہ کے اصول و آداب وہی ہیں جو‬
‫ب ُ‬
‫اعمال اصحا ِ‬

‫صفَّہ اور موجودہ اور آئندہ خانقاہ نشینوں میں مشابہت‬


‫ب ُ‬
‫پہلی خانقاہ کے تھے۔ یوں اصحا ِ‬

‫پائی جاتی ہے۔ آپ رحمتہ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬

‫* ’’وہ ہر وقت اپنی خانقاہ میں رہتے ہیں اور اس کی خبر گیری کرتے ہیں گویا خانقاہ ان‬

‫کا گھر ہے اور وہی ان کا خیمہ و خرگاہ ہے‘ جس طرح ہر قوم کے افراد کے گھر ہوتے‬

‫صفَّہ سے مشابہہ‬
‫اہل ُ‬
‫ہیں اسی طرح صوفیا کے گھر خانقاہیں ہیں۔ پس اس صورت میں وہ ِ‬
‫ث مبارکہ سے ملتا ہے جو حضرت ابو زرعہ رحمتہ‬
‫ہیں۔ اس مشابہت کا مزید ثبوت اِس حدی ِ‬

‫عنہ سے روایت کی ہے‪،‬‬


‫ہللا علیہ نے اپنے مشائخ کی اسناد سے حضرت طلحہ رضی ہللا ٗ‬

‫کہ انہوں نے فرمایا‪:‬‬

‫’’جب کوئی شخص مدینۃ الرسول میں باہر سے آتا اور اس کا یہاں کوئی شناسا ہوتا تو اس‬

‫کے ہاں قیام کرتا اور اگر کوئی جان پہچان نہ ہوتی تو وہ صفہ پر آجاتا اور یہاں قیام کرتا۔‬

‫میں بھی اِن لوگوں میں سے ہوں جنہوں نے اہ ِل صفہ کے ساتھ قیام کیا تھا۔‘‘ (عوارف‬

‫المعارف۔ باب ‪)14‬‬

‫اہل صفہ اور خانقاہ نشینوں کے کردار میں‬


‫آپ رحمتہ ہللا علیہ مزید مشابہت کی وجہ ِ‬
‫یکسانیت کو قرار دیتے ہیں‪:‬‬

‫صفَّہ نے دنیا کے جھمیلوں سے قطع تعلق کر لیا تھا‪ ،‬نہ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے‬
‫’’اہل ُ‬
‫ِ‬ ‫*‬

‫اور نہ وہ جانور پالتے تھے۔ پس اِن کے دلوں سے کینہ مٹ گیا اور حسد رخصت ہو گیا۔‬

‫یہی حال اہ ِل خانقاہ کا ہے کہ وہ ظاہر اور باطن میں یک رنگ ہیں۔ باہمی الفت اور محبت‬

‫میں ان میں یکسانیت ہے اور اس پر سب جمع ہیں۔ ایک ساتھ زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان کی‬

‫باہمی گفتگو میں یک رنگی ہے اختالف نہیں ہے یعنی اکٹھے گفتگو کرتے‘ اکٹھے کھاتے‬

‫پیتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کی برکت سے بخوبی واقف ہیں۔‘‘ (عوارف المعارف۔‬

‫باب ‪)14‬‬

‫صفَّہ میں تھیں‬


‫ب ُ‬
‫وہ تمام عادات و اطوار جو صفہ کے چبوترہ پر رہنے کی بدولت اصحا ِ‬

‫وہی عادات و اطوار آئندہ بھی خانقاہ نشینوں میں واضح نظر آتی ہیں۔ وہی آداب ہیں خانقاہ‬

‫کے اور وہی اصول و ضوابط ہیں خانقاہ نشینوں کے جو آج سے چودہ سو سال پہلے پہلی‬
‫صفَّہ‘‘™ کے تھے۔‬
‫خانقاہ ’’ ُ‬

‫سر فہرست‬
‫قیام خانقاہ کے قواعد ِ‬
‫خانقاہ کے آداب میں خانقاہ نشینوں کے فرائض اور سفر و ِ‬
‫ہیں۔‬

‫خانقاہ نشینوں کے فرائض‬

‫حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬

‫* خانقاہ نشینوں کے فرائض میں داخل ہے کہ مخلوق سے (باطنی طور پر) قطع تعلق کر‬

‫ترک کسب کر کے مسبب االسباب کی کفالت پر‬


‫ِ‬ ‫لیں اور حق کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑیں‘‬

‫اکتفا کریں‘ میل جول اور ارتباط سے اپنے نفس کو روکیں‘ بُرے کاموں سے اجتناب کریں‬

‫اور اپنی تمام پچھلی عادتوں کو ترک کر کے رات دن عبادت میں مشغول رہیں۔ اپنے اوقات‬

‫کی نگہداری کریں اور ورد و وظائف میں مصروف رہیں‘ نمازوں کا انتظار کریں (نماز ادا‬

‫کرنے کے لیے تیار رہیں) اور غفلتوں سے خود کو محفوظ رکھیں۔ اگر ان باتوں پر خانقاہ‬

‫مولی)بن جائے گا۔ (عوارف‬


‫ٰ‬ ‫ب‬
‫نشین عمل پیرا ہو جائے گا تو وہ ایک زبردست مجاہد (طال ِ‬

‫المعارف)‬

‫خانقاہ میں ہر قسم کے غیر شرعی کاموں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ سگریٹ‘ نسوار اور ہر‬

‫قسم کی نشہ آور اشیا سے پرہیز کرنا چاہیے۔ خانقاہ میں ہر قسم کے رقص و سرود‪،‬‬

‫موسیقی (موجودہ دور کے مطابق ٹی وی‪ ،‬فلمیں وغیرہ دیکھنے) کی سختی سے ممانعت‬

‫مولی کو ان کی زندگی کے اصل مقصد یعنی‬


‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫ہے کہ یہ دنیاوی قبیح اعمال ہیں اور‬

‫تعالی سے روکتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے لکھا گیا ہے کہ خانقاہ وہ جگہ ہے جہاں‬
‫ٰ‬ ‫ت حق‬
‫معرف ِ‬
‫اسم ہللا ذات جاری رہنا چاہیے‪ ،‬اس قسم کے قبیح اعمال خانقاہ کے تقدس کو‬
‫ذکر ِ‬
‫ہر لمحے ِ‬
‫خوف خدا کرتے ہوئے ایسے‬
‫ِ‬ ‫مولی کو ہر لمحہ اور ہر جگہ‬
‫ٰ‬ ‫ب‬
‫پامال کرتے ہیں۔ اگرچہ طال ِ‬

‫قبیح اعمال سے پرہیز کرنا الزم ہے‪ ،‬اسے ہر دم یہ خیال رہنا چاہیے کہ وہ اپنے مرشد‬

‫کامل کی نگاہ میں ہے لہٰ ذا کوئی ایسا عمل سرانجام نہ دے جو اس کی اپنی پکڑ اور مرش ِد‬

‫کامل کی دل آزاری کا باعث ہو لیکن اگر پھر بھی وہ اپنے نفس کی خواہشات پر قابو نہ پا‬

‫سکے اور اس کا نفس اسے ایسے قبیح اعمال کرنے پر اکسائے تو اسے چاہیے کہ وہ ان‬

‫خواہشات کی تکمیل کے لیے خانقاہ سے باہر چال جائے تاکہ کم از کم خانقاہ کا تقدس اس‬

‫کے ہاتھوں پامال نہ ہو۔ مرش ِد کامل کی طرف سے مقرر کردہ خانقاہ کے سربراہ پر الزم‬

‫ہے کہ وہ اس بات کا سختی سے التزام کرے کہ خانقاہ میں کوئی بھی ایسا عمل نہ ہو جو‬

‫خانقاہ کے تقدس کی پامالی کا سبب ہو۔‬

‫خانقاہ میں اکٹھے ہو کر ایک ہی جگہ لنگر کھانا چاہیے اور جو کچھ لنگر میں کھانے کے‬
‫ہّٰللا‬
‫لیے ملے اسےبِس ِْم ِ الرَّحْ مٰ ِن الر ِ‬
‫َّحیْم‪ ‬پڑھ کر کھا لینا چاہیے کیونکہ لنگر چاہے جیسا بھی‬

‫ہو شفا ہی شفا اور نور ہی نور ہوتا ہے۔ اکٹھے بیٹھ کر کھانا بابرکت ہے۔ اکٹھے مل کر‬

‫کھانے سے یک رنگی اور مساوات کا درس ملتا ہے۔‬

‫خادم خانقاہ کے لیے یہ امر مستحب ہے کہ آنے والے مہمان کے لیے کھانا پیش کرے۔‬
‫ِ‬
‫عنہ سے روایت ہے کہ جب ہم وفد کی صورت میں رسول‬
‫جناب لقیط بن صبرہ رضی ہللا ٗ‬

‫وآلہ وسلم‬
‫وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫کاشانۂ نبوت میں موجود نہ تھے۔ ہم وہاں ٹھہر گئے‘ حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا‬
‫نے حکم دیا کہ ہمارے لیے حریرہ تیار کیا جائے۔ ہمارے واسطے حریرہ تیار ہوا اور ایک‬

‫وآلہ‬
‫قناع میں بھر کر ہم کو بھیجا گیا‘ ہم سب نے حریرہ کھایا۔ جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫وسلم تشریف الئے تو آپ نے ہم لوگوں سے دریافت کیا‘ تم کو کچھ (کھانے کو) مال؟ ہم نے‬

‫وآلہ وسلم!‬
‫عرض کیا‘ جی ہاں یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫حق قدم خانقاہ‬
‫بطور ِ‬
‫ِ‬ ‫اسی طرح آنے والے کے لیے بھی یہ مستحب ہے کہ وہ اپنی آمد پر‬

‫وآلہ وسلم‬
‫سرکار دو عالم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ِ‬ ‫نشینوں کے لیے کچھ پیش کرے‘ منقول ہے کہ‬

‫جب مدینہ منورہ میں تشریف الئے تو آپ نے (مہمانی) کے لیے ایک اونٹ ذبح کرایا تھا۔‬

‫ب داخلہ سے کم آگاہ‬
‫کبھی کبھار ایسا اتفاق بھی ہو جاتا ہے کہ خانقاہ میں نئے آنے والے آدا ِ‬

‫ہوتے ہیں اس وقت وہ گھبرا جاتے ہیں (ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ کیا کریں)۔ اس لیے‬

‫مسنون طریقہ یہ ہے کہ اہ ِل خانقاہ ان کے پاس آکر بیٹھیں اور ان سے بے تکلفی اور محبت‬

‫احساس بیگانگی اور آداب سے عدم واقفیت سے جو تحیران میں پیدا‬


‫ِ‬ ‫کے ساتھ ملیں تاکہ‬

‫اہل خانقاہ پر ہی الزم ہے کہ نئے آنے‬


‫ہوگیا ہے وہ دور ہو جائے۔ اس میں بڑی فضیلت ہے۔ ِ‬
‫ب خانقاہ سے آگاہ کریں۔‬
‫والوں کو خود آدا ِ‬

‫وآلہ‬
‫عنہ سے مروی ہے کہ جب میں رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫حضرت ابورفاعہ رضی ہللا ٗ‬

‫وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ اس وقت خطبہ دے رہے تھے۔ میں نے عرض کیا کہ‬

‫وآلہ وسلم یہ ایک مسافر شخص حاضر ہوا ہے وہ اپنے دین کے‬
‫یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫بارے میں معلوم کرنا چاہتا ہے۔ اس کو نہیں معلوم کہ دین کیا ہے! وہ کہتے ہیں کہ حضور‬

‫ٰ‬
‫الصلوۃ والسالم خطبہ چھوڑ کر میرے پاس تشریف الئے‘ لوہے کے پاؤں والی ایک‬ ‫علیہ‬

‫وآلہ وسلم اس پر تشریف فرما ہوئے اور پھر آپ صلی‬


‫کرسی الئی گئی آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫وآلہ وسلم‬
‫وآلہ وسلم نے ہمیں دینی امور کی تعلیم دی اس کے بعد آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ہللا علیہ ٖ‬
‫نے پھر خطبہ شروع فرما دیا اور اس کو تکمیل پر پہنچایا۔‬

‫اعلی اخالق میں داخل ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کے‬


‫ٰ‬ ‫پس یہ بات فقرا اور صوفیا کے‬

‫ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور اگر کچھ ناپسندیدہ باتیں سننا یا دیکھنا پڑیں توان کو برداشت‬

‫مراسم صوفیانہ کی خالف‬


‫ِ‬ ‫کریں۔ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ خانقاہ میں آنے والے فقیر سے‬

‫ورزی ہوجاتی ہے تو اس کو جھڑکنا اور باہر نکال دینا بہت بڑی غلطی ہے۔ اس لیے کہ‬

‫ب خانقاہی سے پوری پوری واقفیت‬


‫بہت سے صالح بندے اور اولیا ہللا ایسے بھی ہیں جو آدا ِ‬

‫نہیں رکھتے ہیں لیکن وہ خانقاہ میں سچے ارادے اور پوری عقیدت کے ساتھ داخل ہوتے‬

‫ہیں ۔ جب ان سے بُرا سلوک کیا جاتا ہے تو ان کے دل پراگندہ اور پریشان ہو جاتے ہیں۔‬

‫اس کراہت اور نامناسب رویہ سے دین و دنیا کی تباہی کا امکان ہے پس اس سے پرہیز‬

‫پیش نظر رکھنا‬


‫ِ‬ ‫اخالق عالیہ کو‬
‫ِ‬ ‫وآلہ وسلم کے‬
‫کرنا چاہیے اور رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃو™ السالم کس درجہ رفق و مدار فرمایا کرتے تھے۔ روایت‬ ‫چاہیے کہ حضور علیہ‬

‫ہے کہ ایک بدوی مسجد (نبوی) میں آیا اور اس نے وہاں پیشاب کر دیا۔ یہ دیکھ کر حضور‬

‫ٰ‬
‫الصلوۃ والسالم کے حکم کے مطابق بڑے ڈول میں پانی بھر کر اس کو بہادیا گیا اور‬ ‫علیہ‬

‫ٰ‬
‫الصلوۃو السالم نے اس اعرابی کو جھڑکا نہیں بلکہ نہایت نرمی اور خوش‬ ‫حضور علیہ‬

‫اخالقی کے ساتھ اسے اس کے فرض سے آگاہ کر دیا گیا۔‬

‫ث باطنی کی عالمت ہے جو صوفیا‬


‫پس یاد رکھنا چاہیے کہ سختی‘ درشتی اور بدکالمی خب ِ‬

‫کے حاالت کے بالکل منافی ہے۔ اگر خانقاہ میں کوئی ایسا شخص آئے جو اس قابل نہ ہو‬

‫کہ اس کو وہاں رکھا جائے تو اس کو کھانا پیش کرنے کے بعد وہاں سے رخصت کر دیا‬
‫ب خانقاہ کایہی طریقہ ہے۔ (عوارف‬
‫جائے لیکن مالئمت اور نرمی کے ساتھ‘ کہ اربا ِ‬

‫المعارف)‬

‫خانقاہ نشینوں کے لیے خانقاہ میں مہیا کردہ سہولتیں ہللا کی طرف سے ان کے پاس امانت‬

‫ہیں۔ ا ن سہولتوں کا ضرورت کے مطابق استعمال تو جائز و درست ہے لیکن اپنی ذاتی‬

‫تسکین اور آرام کے لیے ان کا بے جا استعمال حرام و ناجائز ہے۔ عموما ً خانقاہ نشینوں اور‬

‫یہاں کا انتظام کرنے والوں کے پاس وسائل کی کمی ہی ہوتی ہے کہ ہللا کی ذات اور مال و‬

‫ت دنیا کا آپس میں کوئی ِمیل نہیں ل ٰہذا خانقاہ میں فراہم کردہ سہولتوں مثالً بجلی پانی‬
‫دول ِ‬

‫وغیرہ کو احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ بہتر ہے کہ انہیں صرف ہللا سے قرب کی‬

‫غرض سے استعمال کیا جائے اور ذاتی اغراض و ضروریات کی تکمیل اپنے ذاتی خرچ‬

‫سے کی جائے یا قناعت اور صبر کیا جائے۔ یہ بہرحال اسراف‪ ،‬فضول خرچی اور‬

‫سہولتوں کے ناجائز استعمال سے بہتر ہے اور قرب و رضائے ٰالہی کا باعث ہے۔‬

‫تعالی مال‘ اوالد‪ ،‬لباس‬


‫ٰ‬ ‫ایک دوسرے کے مال پر نظر نہیں ہونی چاہیے۔ یاد رہے کہ ہللا‬

‫اور عادات کو نہیں دیکھتا ہے بلکہ ہللا دلوں کو دیکھتا ہے اور ہللا کے زیادہ نزدیک وہی‬

‫ہے جو دل کا زیادہ صاف ہے۔ خانقاہ نشینوں کو ظاہری صفائی و ستھرائی کا بھی‬

‫خصوصی خیال رکھنا چاہیے کیونکہ صفائی نصف ایمان ہے۔ خانقاہ کو صاف کرنے سے‬

‫تصویر یار درست اور واضح‬


‫ِ‬ ‫مراد اپنا دل صاف کرنا بھی ہے۔ دل جتنا شفاف ہوگا اتنی ہی‬

‫نظر آئے گی۔‬

‫علم معرفت کا ذائقہ نہ چکھا ہو اور‬


‫جو شخص خانقاہ میں تازہ وارد ہو اور اس نے ِ‬
‫اعلی درجہ پر فائز نہ ہوا ہو تو ایسے شخص کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ‬
‫ٰ‬ ‫روحانیت کے‬
‫حسن‬
‫ِ‬ ‫خانقاہ والوں کی خدمت کرے‪ ،‬یہ خدمت اس کی عبادت شمار کی جائے گی۔ وہ اپنی‬

‫شامل‬
‫ِ‬ ‫اہل ہللا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرے گا اور ان کی برکات اس کے‬
‫خدمت سے ِ‬
‫حال ہو جائیں گی اور اس طرح وہ اپنے عبادت گزار بھائیوں کا اپنی خدمت کے ذریعے‬

‫سے معین و مددگار ثابت ہوگا۔‬

‫وآلہ وسلم کا ارشا ِد گرامی ہے ’’مومن ایک دوسرے کے بھائی‬


‫رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ہیں۔ ہرمومن دوسرے سے بعض ضروریات کا طالب ہے‘ پس ان میں جو لوگ اپنے‬

‫تعالی قیامت کے دن ان کی ضرورتیں‬


‫ٰ‬ ‫دوسرے بھائی کی ضرورت پوری کریں گے‘ ہللا‬

‫پوری کرے گا۔‘‘‬

‫عالوہ ازیں خادم خدمت کے باعث سستی اور کاہلی سے محفوظ رہتا ہے اور یہی سستی و‬

‫بیکاری دل کی موت ہے۔ مختصر یہ کہ اہ ِل ہللا کی خدمت بھی صوفیا کے نزدیک نیک‬

‫اوصاف‬
‫ِ‬ ‫کاموں میں شامل ہے اور ان طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جن کے ذریعے‬

‫اوصاف حسنہ پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن اگر خادم‬


‫ِ‬ ‫جمیلہ حاصل کیے جاتے ہیں اور انسان میں‬

‫ب تصوف میں سے نہ ہو اور مخدوم سے ہدایت کا طالب نہ‬


‫اپنی جنس سے نہ ہویعنی اربا ِ‬

‫ہو‘ ایسے شخص سے خدمت لینا مناسب نہیں ہے۔‬

‫مشائخ اور صوفیا غیروں یا نااہلوں سے صرف خدمت لینا ہی ناپسند نہیں کرتے بلکہ ان‬

‫سے ارتباط و اختالط بھی ان کو پسند نہیں تھا کیونکہ جو شخص ان کے طریقے کو پسند‬

‫نہیں کرتا تو اکثر ایسا ہوتا ہے کہ وہ ان کے طور طریقے دیکھ کر بجائے فائدے کے‬

‫نقصان اٹھاتا ہے۔ صوفیا سے بتقاضائے بشریت ایسے افعال سرزد ہو جاتے ہیں کہ علم کی‬

‫کمی کے باعث غیر ان سے کراہت کرتے ہیں۔ اس لیے غیروں سے خدمت لینے سے ان‬
‫حضرات کا گریز کسی کبر و نخوت پر مبنی نہیں ہے‘ نہ یہ بات ہے کہ وہ کسی مسلمان پر‬

‫خلق خدا پر شفقت ہے۔‬


‫ِ‬ ‫اپنی برتری جتا رہے ہیں بلکہ ان کے گریز کی اصل وجہ‬

‫تعالی کی اطاعت و بندگی‬


‫ٰ‬ ‫جو خادم ان حضرات کی خدمت میں مصروف ہوتا ہے جو ہللا‬

‫میں مصروف ہیں تو وہ خادم بھی ان کے ثواب میں شریک ہوگیا۔ جہاں خادم یہ دیکھے کہ‬

‫وہ کسی شیخ کی خدمت اس کے بلند احوال کے باعث شایا ِن شان طور پر انجام نہیں دے‬

‫سکتا تو اس کی خدمت میں مصروف نہ ہو بلکہ ایسے شخص کی خدمت کرے جو اس کی‬

‫تعالی کی محبت کی نشانی ہے۔‬


‫ٰ‬ ‫اہل قرب کی خدمت ہللا‬
‫خدمت کا اہل ہے کہ ِ‬
‫عنہ سے باسناد مروی ہے کہ جب رسو ِل خدا صلی ہللا‬
‫حضرت انس بن مالک رضی ہللا ٗ‬

‫وآلہ وسلم غزوۂ تبوک سے واپس ہوئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضور‬
‫علیہ ٖ‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ والسالم نے فرمایا کہ مدینہ میں کچھ ایسے لوگ موجود ہیں جنہوں نے‬ ‫علیہ‬

‫تمہارے ساتھ سفر کیا اور فراخ راستوں اور وادیوں سے تمہارے ساتھ گزرے‘ صحابہ‬

‫کرام رضی ہللا عنہم نے عرض کیا کہ حضور! وہ تو مدینہ میں رہ گئے تھے (پھر ہمارا ان‬

‫الصلوۃ والسالم نے ارشاد فرمایا‘ ہاں! اُن کو عذر نے‬


‫ٰ‬ ‫کا ساتھ کس طرح ہوا؟) حضور علیہ‬

‫روک لیا تھا (مگر ثواب میں وہ تمہارے شریک ہیں)۔ پس وہ شخص جو صوفیا کی خدمت‬

‫ب عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا لیکن‬


‫کرتا ہے لیکن اپنی کسی خامی کے باعث ان جیسے مرات ِ‬

‫پھر بھی وہ خدمت میں مصروف رہ کر خانقاہ کے گرد چکر لگاتا رہا اور ان کی خدمت‬

‫میں اپنی بھرپور کوشش کے ساتھ سرگرم رہا اور یہ خیال کرتا رہا کہ اگر وہ اُن کی نگا ِہ‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫لطف سے محروم رہا تو کیا ہے شاید خدمت سے اس کی کچھ تالفی ہو جائے توہللا‬

‫اس کی خدمت پر بھی اس کو ضرور بلند پایہ جزا دے گا۔ وہ اپنی اس خدمت سے ہللا کے‬
‫بلند پایہ فضل کا سزاوار بن جاتا ہے۔‬

‫ٰ‬
‫تقوی میں تعاون کرتے تھے اور دینی مصالح پر‬ ‫صفَّہ بھی نیک کاموں اور‬
‫اہل ُ‬
‫اسی طرح ِ‬
‫اپنی جان و مال سے مدد کرنے کے لیے مل جل کر کام کرتے رہتے تھے پس وہ بھی ہللا‬

‫تعالی کے فض ِل عظیم کے سزاوار بن گئے۔‬


‫ٰ‬

‫خانقاہ میں جس قدر لوگ ہوتے ہیں وہ اپنے اتحاد اور متحدہ ارادوں کے باعث ایک جسم‬

‫کی طرح ہوتے ہیں۔ دوسری جماعتوں میں یہ بات نہیں ہے‘ ان میں ایسا اتحاد نہیں پایا جاتا۔‬

‫تعالی نے مومنین کی تعریف اس طرح فرمائی ہے‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫چنانچہ ہللا‬

‫*‪َ  ‬کانَّھُ ْم بُ ْنیَ ٌ‬


‫ان َّمرْ صُوْ صٌ‬

‫ترجمہ‪’’:‬وہ (مومنین) ایسے متحد و متفق ہیں اور اس قدر مضبوط ہیں جیسے ایک سیسہ‬

‫پالئی ہوئی دیوار‘‘۔‬

‫اس کے برعکس™ مسلمانوں کے دشمنوں کا ذکر اس طرح فرمایا ہے‪:‬‬

‫*‪ ‬تَحْ َسبُھُ ْم َج ِم ْیعًا َّوقُلُوْ بُھُ ْم َش ٰتّی‬

‫ترجمہ‪’’:‬تم ان کو متحد و متفق خیال کرتے ہو حاالنکہ ان کے دل پراگندہ ہیں‘‘۔‬

‫رسول خدا صلی ہللا علیہ‬


‫ِ‬ ‫عنہ سے روایت ہے کہ میں نے‬
‫حضرت نعمان بن بشیر رضی ہللا ٗ‬

‫وآلہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ‪:‬‬


‫ٖ‬
‫’’بے شک مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں اگر کوئی عضو مبتالئے درد ہوتا ہے تو تمام‬

‫جسم میں تکلیف ہونے لگتی ہے اسی طرح اگر کسی مومن کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو‬
‫تمام مومنین اس کی تکلیف محسوس کرتے ہیں۔‘‘‬

‫تمام صوفیا کے لیے یہ الزمی اور ضروری وظیفہ ہے کہ وہ آپسی محبت کی بھرپور‬

‫حفاظت کریں۔ دلوں میں پراگندگی پیدا نہ ہونے دیں‘ دلی اور روحانی اتحاد سے اس‬

‫تالیف‬
‫ِ‬ ‫پراگندگی کا ازالہ کر دیں اس لیے کہ وہ سب ایک روحانی رشتہ میں منسلک ہیں اور‬

‫ٰالہی کے رابطہ سے باہم جڑے ہوئے ہیں اور مشاہدۂ قلوب کے ساتھ وابستہ ہیں بلکہ‬

‫آراستگی نفس حاصل ہو‬


‫ٔ‬ ‫خانقاہوں میں ان کی موجودگی ہی اس لیے ہے کہ تزکیۂ قلب اور‬

‫اور اسی بنا پر ان کے مابین ربط و ضبط کا سلسلہ قائم ہے (کسی دنیاوی غرض سے ایسا‬

‫نہیں ہے)۔ اس صورت میں ان کے لیے باہمی خیر سگالی اور محبت و رافت اور بھی زیادہ‬

‫ضروری ہے۔‬

‫وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا‬


‫ابوہریرہ سے مروی ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ؓ‬ ‫حضرت‬

‫’’مومن آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ الفت و محبت سے پیش آتے ہیں اور اس شخص‬

‫میں کچھ بھی بھالئی نہیں ہے جو نہ خود دوسروں سے محبت کرتا ہے اور نہ دوسرے اس‬

‫سے محبت کرتے ہیں۔‘‘‬

‫شیخ ابو زرعہ طاہر بن یوسف رحمتہ ہللا علیہ اپنے مشائخ کی اسناد کے ساتھ حضرت‬

‫وآلہ وسلم نے‬


‫عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ابوہریرہ رضی ہللا ٗ‬

‫ارشاد فرمایا ’’ارواح™ ایک لشکر کی طرح ہیں جو ایک جگہ جمع ہوگئی ہیں۔ جان پہچان‬

‫والی ارواح آپس میں مانوس ہو جاتی ہیں اور جو ایک دوسرے سے متعارف نہیں وہ الگ‬

‫تھلگ رہتی ہیں۔‘‘‬

‫پس یہی حال اہ ِل خانقاہ کا ہے کہ جب یہ لوگ ایک جگہ جمع ہو جاتے ہیں تو ان کے دل‬
‫ت خاطر‬
‫اور ان کے باطن بھی ایک دوسرے سے جڑ جاتے ہیں اور (جمع ہونے سے جمعی ِ‬

‫پیدا ہوجاتی ہے)۔ ان کے نفوس ایک دوسرے کے ساتھی بن جاتے ہیں اور پھر وہ ایک‬

‫دوسرے کے مال کے نگران ہوتے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں آیا ہے ’’مومن دوسرے‬

‫پراگندگی قلب) کا‬


‫ٔ‬ ‫(پریشانی خاطر اور‬
‫ٔ‬ ‫مومن کا آئینہ ہے‘‘۔ پس جب کسی میں وہ تفرقہ‬

‫ظہور پاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ کسی صوفی کے دل میں دوسرے کے خالف خیاالت‬

‫پیدا ہو رہے ہیں تو اسے ناپسند کرنے لگتے ہیں اس لیے کہ تفرقہ کا ظہور نفسانی خواہش‬

‫کا نتیجہ ہوتا ہے اور غلبۂ نفس سے وقت کا زیاں ہوتا ہے۔ چنانچہ جب کبھی کسی درویش‬

‫میں یہ کیفیت پیدا ہوتی ہے اور وہ نفس کا شکار ہو جاتا ہے تو یہ لوگ اس کو پہچان لیتے‬

‫ہیں اور جان لیتے ہیں کہ یہ شخص اب جمعیت کے دائرے سے خارج ہوگیا اور یہ لوگ‬

‫حکم وصیت کو ضائع کیا‘ ضب ِط نفس میں سستی‬


‫ِ‬ ‫فیصلہ صادر کر دیتے ہیں کہ اس نے‬

‫ت اوقات کو ترک کر دیا اس وقت اس کے ساتھ ناراضگی کا برتاؤ کر‬


‫حسن رعای ِ‬
‫ِ‬ ‫برتی اور‬

‫کے اس کو پھر دائرہ جمعیت میں کھینچ کر الیا جاتا ہے۔‬

‫جس طرح ان کا ظاہر ربط و ضبط سے آراستہ ہے اسی طرح ان کے باطن میں یہ ربط و‬

‫الفت قائم رہے‘ یہ وہ خصوصیت ہے جومومنوں کے سوا اور کسی گروہ میں نہیں پائی‬

‫جاتی۔ (عوارف المعارف)‬

‫خانقاہ نشینوں کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ آپس میں مل جل کر اور محبت سے رہیں‬

‫لیکن اگر کوئی صوفی اپنے نفس سے مغلوب ہو کر اپنے کسی بھائی سے جھگڑ بیٹھے تو‬

‫دوسرے بھائی کو چاہیے کہ اپنے بھائی کا مقابلہ نفس سے نہ کرے بلکہ نفس کا مقابلہ قلب‬

‫سے کرے کیونکہ جب نفس کا مقابلہ قلب سے کیا جاتا ہے تو برائی اور شر کا مادہ زائل ہو‬
‫جاتا ہے۔ یعنی اپنے بھائی کی بات کو دل پر مت لے اور اُس کی اِس حرکت کو معاف کر‬

‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫دے جیسا کہ ارشا ِد باری‬

‫َ ُْ‬ ‫ْ ن َ َ ٗ َ َ ٌ َ ٗ َ ٌّ ح ٌ َ ق اَّل‬ ‫ْ ف ْ تْ َ َ ُ ف َ‬
‫صب َروا‪( ‬فصلت۔‪)35-34‬‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ِاد َع ب ِالَّ ِی ھِی احْسَن َِاذا الَّ ِذی ب َی ْ َک وب َی ْ َہ عَداوۃ کَا َّہ ولِی َمِی ْم‪ ‬ومَا ی ُلَ َّاھَا ِا الَّ ِذی ْن َ‬

‫ترجمہ‪:‬تم اچھے طریقے سے پیش آؤ کہ وہ شخص جس کے ساتھ تمہاری عداوت ہے‬

‫تمہارا گہرا دوست ہو جائے اور یہ طریقہ صرف وہ استعمال کر سکتے ہیں جو صابر ہیں۔‬

‫مرشد کریم تک اس معاملہ کو نہیں پہنچانا چاہیے یعنی خود ہی معاف کر دو اور اگر تم‬

‫سے کسی بھائی کی دل آزاری ہوئی ہے تو فوراً اُس سے معافی مانگ لو قطع نظر کہ وہ تم‬

‫سے بڑا ہے یا چھوٹا‘ امیر ہے یا غریب۔ بندہ کو ہللا سے بھی معافی و استغفار کرنا چاہیے‬

‫اور اپنے اُس بھائی سے بھی معافی مانگنی چاہیے جس کی دل آزاری ہوئی ہو۔ اگر کسی‬

‫نے اپنے بھائی سے اپنی غلطی پر معافی طلب کی اور دوسرے نے اس کی معافی اور‬

‫وآلہ وسلم نے‬


‫معذرت کو قبول نہیں کیا تو اس نے غلطی کی۔ رسول اکرم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫فرمایا ’’جس شخص کے سامنے اس کے بھائی نے معذرت کی اور اُس نے یہ معذرت‬

‫قبول نہ کی تو اس پر وہی عائد ہوگا جو اس شخص پر عائد ہوگا۔‘‘‬

‫وآلہ‬
‫عنہ سے روایت ہے کہ حضرت محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫حضرت جابر رضی ہللا ٗ‬

‫وسلم نے فرمایا‪:‬‬

‫’’اگر کسی شخص سے کسی نے معافی مانگی اور معذرت کی اور اس نے اس معذرت‬

‫حوض کوثر پر نہیں آسکے گا۔‘‘‬


‫ِ‬ ‫اور معافی کو قبول نہیں کیا تو وہ‬

‫صادق و مخلص فقیر جو خانقاہ میں مقیم ہے اور چاہتا ہے کہ خانقاہ کے ما ِل وقف سے یا‬
‫اہل خانقاہ کے لیے مہیا کیا جاتا ہے‘ کھائے تو اس کے لیے ضروری ہے‬
‫اس مال سے جو ِ‬
‫کہ وہ خدا کے ذکر میں اس طرح مشغول ہو جائے کہ اگر وہ روزی کماتا تو ایسا ذکر اس‬

‫ت فرصت میسر ہیں یا وہ اِدھر اُدھر‬


‫کے لیے ممکن نہ ہوتا اور اگر خانقاہ میں اس کو اوقا ِ‬

‫اہل باطن کی طرح ریاضت اور محنت کے فرائض‬


‫کی باتوں میں مصروف رہتا ہے اور وہ ِ‬
‫ت باطنی وظاہری میں مصروف نہیں ہے) تو ایسے درویش‬
‫پورے نہیں کر رہا ہے (ریاض ِ‬

‫کو خانقاہ کے ما ِل وقف یا دوسرے ذرائع سے جو مال خانقاہ کے لیے آیا ہے‪ ،‬اس سے‬

‫کھانا روا نہیں بلکہ اس کو خود اپنے لیے روزی کمانا چاہیے۔ اس لیے کہ خانقاہ کا کھانا تو‬

‫صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو یا ِد ٰالہی میں اس طرح مصروف و مستغرق ہیں کہ‬

‫مولی کی یاد‬
‫ٰ‬ ‫دوسرے کاموں کی ان کو فرصت ہی نہیں اور وہ ہمہ وقت اور ہمہ تن اپنے‬

‫میں مصروف ہیں اس لیے دنیا والے ان کی خدمت کرتے ہیں۔‬

‫پیر طریقت (مرشد کامل) سے استفادہ کر رہا ہے اور‬


‫البتہ اگر کوئی ایسا شخص ہے جو ِ‬
‫زیر تربیت ہے اور اس کی ہدایت سے را ِہ راست پر گامزن ہے‘ اس کے بارے میں‬
‫اس کی ِ‬
‫اگر شیخ کی رائے ہے کہ اس کو خانقاہ سے کھانا دیا جائے تو شیخ کا فیصلہ ضرور کسی‬

‫بصیرت پر مبنی ہوگا۔ شاید شیخ کا یہ خیال بھی ہو کہ اس کو فقیروں کی خدمت میں لگا دیا‬

‫جائے گا‪ ،‬ایسی صورت میں خادم جو کھانا کھا رہا ہے وہ اس کی خدمت کا معاوضہ سمجھا‬

‫جائے گا۔‬

‫شیخ ابو عمرو الزجاجی فرماتے ہیں کہ میں عرصہ دراز تک حضرت جنید بغدادی رحمتہ‬

‫ہللا علیہ کی خدمت میں رہا‘ اس پوری مدت میں حضرت جنید رحمتہ ہللا علیہ نے نہ مجھ‬

‫پر نظر ڈالی نہ یہ دیکھا کہ میں کس قسم کی عبادت میں مشغول ہوں اور نہ کبھی انہوں نے‬
‫مجھ سے کالم کیا‘ یہاں تک کہ ایک روز خانقاہ بالکل خالی تھی۔ میں اس وقت اٹھا‘ اپنے‬

‫کپڑے اتارے اور خانقاہ کو خوب اچھی طرح صاف ستھرا کر دیا۔ ہر طرف پانی چھڑکا‘‬

‫بیت الخال کو بھی دھو ڈاال۔ شیخ جنید رحمتہ ہللا علیہ جب خانقاہ میں آئے اور یہ تمام‬

‫صفائی دیکھی اور میرے اوپر گردوغبار پڑا ہوا دیکھا تو میرے لیے دعا کی اور مرحبا!‬

‫مشائخ عظام نوخیز‬


‫ِ‬ ‫جزاک ہللا اور رضیت علیک بہا‘ تین بار فرمایا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیشہ‬

‫جوانوں کو خدمت پر مامور کر دیتے ہیں تاکہ وہ بدکاری سے محفوظ رہیں اس طرح ان کو‬

‫دو حصے مل جاتے ہیں۔ ایک حصہ معاملے کا دوسرا حصہ خدمت کا (روحانی مراتب‬

‫اجر خدمت بھی میسر آئے)۔ (عوارف المعارف)‬


‫بھی حاصل ہوں اور ِ‬
‫شیخ کامل کی لگائی ہوئی کوئی ذمہ داری خواہ وہ بیت الخال کی صفائی و ستھرائی‬
‫ِ‬ ‫مرشد یا‬

‫ہی کیوں نہ ہو‪ ،‬تمام ذاتی افعال سے بہتر ہے بشرطیکہ اس میں طالب کا ِدلی خلوص اور‬

‫اسم ہللا ذات‬


‫ذکر ِ‬
‫مولی‪ِ ،‬‬
‫ٰ‬ ‫ب‬
‫صاف نیت شامل ہو۔ طالب پر الزم ہے کہ اپنا تمام وقت صرف طل ِ‬

‫صرف کرے نہ کہ اِدھر‬


‫میں یا مرشد کی طرف سے دئیے گئے فرائض کی انجام دہی میں َ‬

‫اُدھر کے فضول کاموں میں۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو اپنے وقت کو ناجائز استعمال میں‬

‫مولی میں خرچ کرنا تھا۔ آخرت‬


‫ٰ‬ ‫ب‬
‫الئے گا کیونکہ ’’وقت‘‘™ بھی ہللا کی امانت ہے جسے طل ِ‬

‫میں اس ’’وقت‘‘ کی امانت کے متعلق بھی سوال جواب کیا جائے گا۔‬

‫خانقاہ نشینوں کے لیے یہ بات بہت ضروری ہے کہ اپنے ہمسایوں کے حقوق کا خیال‬

‫رکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ اِن کی کسی حرکت سے ہمسایوں کا سکون تباہ و برباد ہو جائے۔‬

‫خانقاہ میں فضول دنیاوی باتوں اور شوروغوغا سے پرہیز کرنا چاہیے کہ دنیا اور اس کی‬

‫مولی پر حرام ہیں۔‬


‫ٰ‬ ‫ب‬
‫باتیں طال ِ‬
‫قیام خانقاہ کے فرائض‬
‫ِ‬
‫اگر کوئی بھائی چند یوم کے لیے خانقاہ میں تشریف التا ہے تو اس کو چاہیے کہ جب‬

‫بآواز بلند سالم کہے اور پھر اپنا سامان‬


‫ِ‬ ‫خانقاہ میں داخل ہو تو وہاں موجود تمام بھائیوں کو‬

‫خانقاہ نشین بھائیوں سے پوچھ کر اُدھر رکھے جہاں اُس کے لیے موزوں جگہ بتائی جائے۔‬

‫خانقاہ میں سب سے پہلے آنے والے بھائی کو پانی اور لنگر کا پوچھا جاتا ہے۔ لنگر کھانے‬

‫کے بعد اپنا مدعا بیان کرے کہ وہ کس مقصد کے لیے تشریف الیا ہے۔‬

‫مولی دور دراز سے سفر کر کے آیا ہے تو اُس کو اس بات کا علم ہونا‬


‫ٰ‬ ‫ب‬
‫اگر کوئی طال ِ‬

‫چاہیے کہ خانقاہ میں نماز قصر نہیں ادا کی جاتی بلکہ مکمل نماز ادا کی جاتی ہے۔ خانقاہ‬

‫اہلیان خانقاہ سے کالم کی خود ابتدا کرے‘ یہ‬


‫ِ‬ ‫میں قیام کرنے والے بھائی کو چاہیے کہ‬

‫انتظار نہ کرے کہ دوسرا مجھ سے بات کرے گا تب میں بات کروں گا۔ اپنے دل میں اٹھنے‬

‫والے تمام سواالت کو مرشد کی بارگاہ میں عرض کرنے سے پہلے اپنے خانقاہ نشین‬

‫ب شیخ سے‬
‫بھائیوں سے تبادلہ خیال کر لے تاکہ نئے آنے والے بھائی کو خانقاہ نشین آدا ِ‬

‫آگاہ کر سکیں اور جس مقصد کے لیے وہ تشریف الیا ہے‘ اُس کو احسن طریقے سے‬

‫مرشد کی بارگاہ میں پیش کرسکے۔‬

‫چونکہ خانقاہ فقرا کا گھر ہے اِس لیے آنے والے مہمان کوئی بھی ضرورت™ پڑنے پر‬

‫خانقاہ نشین بھائیوں سے بالجھجک اپنا مدعا بیان کر سکتے ہیں۔‬

‫ت مرشد کے لیے خانقاہ میں کچھ عرصہ کے لیے وقف‬


‫ایسے بھائی جو اپنے آپ کو صحب ِ‬

‫کرنا چاہتے ہیں تو وہ کسی بھی وقت خانقاہ میں آسکتے ہیں۔‬
‫خانقاہ کا دارومدار اُس پاک انسا ِن کامل (مرش ِد کامل) کی ذات پر ہوتا ہے جس کے گرداگرد‬

‫مولی اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس بات کا سب سے زیادہ خیال رکھنا چاہیے کہ جب‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫تمام‬

‫مرشد کریم خانقاہ میں تشریف فرما ہوں تو تمام خانقاہ نشینوں اور عارضی قیام کرنے‬

‫والوں کو مرش ِد کریم کی بارگاہ میں بیٹھنا چاہیے نہ کہ اِدھر اُدھر وقت ضائع کرنا چاہیے‬

‫کیونکہ مرشد کی صحبت ہی انسان کے قلب کو صاف اور نفس کو پاک کرتی ہے۔ اسی‬

‫لیے تمام بھائیوں کو چاہیے کہ اپنے ذاتی تمام ضروری اور غیر ضروری کاموں کو چھوڑ‬

‫کر مرشد کی بارگاہ میں چلے جائیں۔‬

‫خانقاہ میں قیام کرنے والوں کو عاجزی سے کام لینا چاہیے کیونکہ نیت میں جتنا خلوص‬

‫اور عاجزی ہوگی اتنی ہی زیادہ مرشد کی نگا ِہ اکمل سے دلوں کی صفائی ہوگی۔ تمام‬

‫مولی کو اس بات کا بھی خصوصی خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں مرشد کریم کی بے‬
‫ٰ‬ ‫طالبا ِن‬

‫ادبی نہ ہو۔ مرشد کی بارگاہ میں خاموشی سے بیٹھنا چاہیے اور ان کی گفتگو کو نہایت ادب‬

‫و اعتقاد کے ساتھ فیض کے حصول کی نیت سے سننا چاہیے۔ اگر مرشد کریم سے کوئی‬

‫بات کرنی پڑے یا سوال پوچھنا ہو تو نہایت ہی آہستہ آواز اور ادب کے دائرہ میں رہ کر‬

‫کرنا چاہیے۔ مرشد کریم کی طرف پیٹھ نہیں کرنا چاہیے۔‬

‫قیام کرنے والے بھائیوں کو چاہیے کہ خانقاہ نشین بھائیوں کی اجازت کے بغیر خانقاہ سے‬

‫ایک قدم بھی باہر نہ نکالیں۔ خانقاہ کی حدود میں غیر شرعی تمام کاموں سے پرہیز کرنا‬

‫چاہیے۔ سگریٹ نوشی‘ تمباکو نوشی‘ نسوار‘ نشہ آور اشیا کے استعمال سے مکمل احتیاط‬

‫وآلہ وسلم کی‬


‫برتنی چاہیے کیونکہ شریعت سے باہر کچھ بھی نہیں۔ آقا پاک صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫شریعت کی حفاظت ہی فقر ہے۔‬
‫ت ٰالہی کے حصول کے لیے تفکر‬
‫ذکر ہللا کے ساتھ ساتھ معرف ِ‬
‫خانقاہ میں قیام کے دوران ِ‬
‫بھی کرنا چاہیے ۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬

‫ذکر کنوں کر فکر ہمیشاں‘ ایہہ لفظ تکھا تلواروں™ ھُو‬

‫کڈھن آہیں تے جان جالون‘ فکر کرن اسراروں ھُو‬

‫فارغ یاروں ھُو‬


‫ذاکر سوئی جیہڑے فکر کماون‘ ہک پلک نہ ِ‬
‫فکر دا پھٹیا کوئی نہ جیوے‘ پٹے مڈھ چا پاڑوں ھُو‬

‫باھو ‘ ربّ رکھے فکر ِدی ماروں ھُو‬


‫حق دا کلمہ آکھیں ؒ‬

‫(اسم ہللا ذات) اور تفکر کیا کر کیونکہ جب ذکر‬


‫ِ‬ ‫آپ فرماتے ہیں کہ طالب تُو ذکر‬
‫مفہوم‪ؒ :‬‬

‫اور فکر آپس میں مل جاتے ہیں تو اِن کی تاثیر تلوار سے بھی تیز ہوتی ہے۔ تفکر سے ہی‬

‫اسرار ٰالہیہ سے واقف‬


‫ِ‬ ‫اہل تفکر جب‬
‫تعالی کے اسرار اور بھید سے آشنائی ہوتی ہے۔ ِ‬
‫ٰ‬ ‫اﷲ‬

‫ہوتے ہیں تو ان کے ِدل سے پُردرد اور پُر سوز آہیں نکلتی ہیں جو وساوس‘ خناس اور‬

‫اسم ہللا ذات کے‬


‫ذکر ِ‬
‫ت دنیا کو جال کر راکھ کر دیتی ہیں۔ اصل ذاکر تو وہ ہیں جو ِ‬
‫خواہشا ِ‬

‫تفکر میں محو رہتے ہیں اور ایک لمحہ بھی فارغ نہیں ہوتے۔ تفکر سے وہ اسرار اور بھید‬

‫آپ فرماتے ہیں ہمیشہ کلمۂ حق‬


‫القا ہوتے ہیں جو کسی اور ذریعہ سے ہو ہی نہیں سکتے۔ ؒ‬

‫تعالی کی ذات ہمیشہ محفوظ رکھے۔‬


‫ٰ‬ ‫کہتے رہنا چاہیے اور گمراہ کرنے والے فکر سے اﷲ‬

‫رخصت کی اجازت ضرور مانگنا چاہیے‬


‫خانقاہ میں قیام کے بعد اگر کوئی بھائی واپسی کا ارادہ کرے تو اُس کے لیے ضروری ہے‬

‫کہ اپنے مرشد کریم سے اجازت لیے بغیر واپس نہ جائے۔ مرشد کریم کی خانقاہ میں رہنا‬

‫اور پھر اجازت کے بغیر واپسی کا ارادہ کر لینا ادب کے دائرہ کے خالف ہے۔‬

‫حضرت شہاب الدین سہروردی رحمتہ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪:‬‬

‫برادران طریقت کے پاس آئے اور مالقات سے فارغ ہو‬


‫ِ‬ ‫شیخ طریقت یا‬
‫ِ‬ ‫* ’’جب کوئی اپنے‬

‫جائے تو اس کو چاہیے کہ جب رخصت کا ارادہ کرے تو اجازت طلب کرے‘‘۔ اس سلسلہ‬

‫وآلہ‬
‫عنہ سے مروی ہے کہ رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫میں حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا ٗ‬

‫وسلم نے ارشاد فرمایا ہے ’’جب تم میں سے کوئی شخص اپنے بھائی سے مالقات کرے‬

‫اور اس کی ہم نشینی حاصل کرے تو اس کی اجازت کے بغیر نہ اُٹھے (واپس نہ ہو)۔‘‘‬

‫آنے والے کو چاہیے کہ شیخ کی اجازت کے بغیر خانقاہ سے باہر نہ نکلے اور نہ کوئی کام‬

‫اس کی رائے کے بغیر کرے۔‬

‫اہل خانقاہ عمل کرتے ہیں اور‬


‫یہ جو کچھ آداب ہم نے بیان کیے ہیں ایسے آداب ہیں جن پر ِ‬
‫توفیق افادیت میں ترقی فرمائے۔‬
‫ِ‬ ‫تعالی اپنے فضل و کرم سے ان کی‬
‫ٰ‬ ‫ان کے پابند ہیں۔ہللا‬

‫(عوارف المعارف)‬

‫خانقاہ کی اہمیت اور اس کے آداب کو ملحو ِظ خاطر رکھنا ہر مومن کا فرض ہے۔ اگر کوئی‬

‫مسلمان سے مومن تک کا سفر کرنا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ کسی‬

‫تعالی کا وعدہ ہے کہ‬


‫ٰ‬ ‫مرش ِد کامل کی صحبت کی خاطر اُس کی خانقاہ کو تالش کرے۔ ہللا‬

‫وہ ہدایت کے طلبگار کو ہدایت کا راستہ ضرور دکھا دیتا ہے۔ خانقاہ وہی ہے جو بالکل‬

‫ب صفہ طلبگار رہتے تھے اُسی (فقر) کا‬


‫صفہ کے مشابہہ ہو اور جس چیز کے اصحا ِ‬
‫ٰ‬
‫دعوی کرتا‬ ‫طلبگار خانقاہ نشینوں کو ہونا چاہیے۔ اگر کوئی ان اوصاف کے بغیر خانقاہ کا‬

‫ہے تو وہ کذاب ہے۔‬

‫قیام مسجد و خانقاہ‬


‫ِ‬
‫وآلہ وسلم جب مکہ سے ہجرت فرما کر مدینہ تشریف الئے‬
‫سرکار دو عالم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ِ‬
‫وآلہ وسلم نے مسجد کی تعمیر کا حکم دیا اور بنفس‬
‫تو سب سے پہلے آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫نفیس اس تعمیر میں شرکت فرمائی۔ اس مسجد کی زمین سہل اور سہیل نامی دو یتیم بچوں‬

‫زیر کفالت تھے۔ حضور نبی اکرم صلی ہللا‬


‫زراہ کے ِ‬
‫ؓ‬ ‫سے خریدی گئی جو حضرت سعد بن‬

‫وآلہ وسلم نے بچوں کو بال کر زمین خریدنے کا فرمایا تو بچوں نے زمین ویسے ہی‬
‫علیہ ٖ‬
‫وآلہ وسلم نے منع فرمایا اور ان کو زمین‬
‫دینے کی خواہش اظہار کیا تو آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫کی رقم ادا کی گئی۔‬

‫عاشقان رسول صلی ہللا‬


‫ِ‬ ‫نبوی تعمیر ہوئی تو دور سے آنے والے اصحاب اور‬
‫ؐ‬ ‫جب مسجد‬

‫وآلہ وسلم کے قیام کے لیے ایک چبوترہ تعمیر کیا گیا جس کو تاریخ میں صفہ کے نام‬
‫علیہ ٖ‬
‫وآلہ وسلم سے‬
‫سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ِ‬ ‫صحابہ اکٹھے ہو کر‬
‫ؓ‬ ‫سے یاد کیا جاتا ہے جہاں‬

‫مالقات اور ذکر و اطاعت ٰالہی میں مشغول رہے جنہیں اصحا ِ‬
‫ب صُفہ کے نام سے یاد کیا‬

‫ب صفہ اور صحابہ کرام رضوان ہللا اجمعین نے نبی اکرم‬


‫جاتا ہے۔ اس چبوترے میں اصحا ِ‬

‫ب ٰالہی کی دولت حاصل‬


‫وآلہ وسلم کی صحبت پاک سے تزکیہ نفس اور قر ِ‬
‫صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫وآلہ وسلم سے سیکھا اور‬
‫کی اور دی ِن اسالم کا ظاہر وباطن حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫تمام دنیا میں اسالم اور اس کی حقیقت کا پیغام پہنچایا۔ اسالم کی اصل روح کی اشاعت میں‬
‫سالسل اور خانقاہوں کا سب سے زیادہ اہم کردار رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خانقاہ میں‬

‫ت حق کے قرب و معرفت کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ظاہری علم سیکھنے کیلئے سکول‪،‬‬
‫ذا ِ‬

‫مدرسہ‪ ،‬کالج اور یونیورسٹی کا رخ کیا جاتا ہے اسی طرح روح کی تعلیم و تربیت ‪،‬‬

‫صفائی‪ ،‬پاکیزگی اور خوبصورتی کیلئے خانقاہ کے عالوہ کوئی تربیت گاہ نہیں ہے۔‬

‫جس مقام پر ذکر کرنے والے جمع ہوں وہی مقامات ایسے ہیں جن میں ہللا کے حکم سے‬

‫وآلہ وسلم کا ذکر بلند کیا جاتا ہے ۔‬


‫صبح و شام اس کا اور اس کے رسول صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫خانقاہ کی اہمیت اس کے رہنے والوں کی بدولت ہے کیونکہ انہوں نے اپنے آپ کو ہللا اور‬

‫وآلہ وسلم کی اطاعت کے لیے وقف کر لیا ہے اور ہمہ تن ہللا‬


‫اس کے رسول صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫کی طرف مشغول ہیں۔ خانقاہ سے مراد وہ جگہ ہے جہاں مرشد کامل اکمل اپنی نگاہ‪،‬‬

‫مولی کے نفس کا تزکیہ کرتا ہے‬


‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫اسم اللہذات کے ذریعے‬
‫صحبت اور ذکر و تصور ِ‬
‫ان کی ارواح کو نئی زندگی عطا کرتا ہے۔ خانقاہ کی بنیاد کوئی آج کی نہیں بلکہ اس کا‬

‫وآلہ وسلم سے ملتا ہے۔‬


‫دور نبوت صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ثبوت ِ‬
‫االعظم نے بھی درس و تدریس اور وعظ و ہدایت کا سلسلہ اپنے مرشد کریم‬
‫ؓ‬ ‫سیّدنا غوث‬

‫مخزومی کی خانقاہ سے شروع کیا۔‬


‫ؒ‬ ‫جناب ابو سعید مبارک‬

‫فقر کی نعمت و دولت کے حوالے سے ہللا پاک نے برصغیر پر خاص مہربانی فرمائی ہے‬

‫مرشدان کامل‬
‫ِ‬ ‫جس بنا پر اسے صوفیا اور اولیا کی سرزمین کہا جاتا ہے۔ اس سرزمین پر‬

‫ت دین کی اشاعت نے ہی طالبا ِن حق کو تزکیۂ نفس‪ ،‬تصفیہ قلب و تجلیہ‬


‫کی محنت اور حقیق ِ‬

‫تعالی کا درس عام کیا جس سے اس‬


‫ٰ‬ ‫ت حق‬
‫روح کی دولت سے بہرہ مند فرما کر معرف ِ‬

‫وآلہ وسلم پیدا ہوئے جن سے‬


‫عاشقان مصطفی صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ِ‬ ‫زرخیز خطے سے بہت سے‬
‫دین اسالم کو سربلندی حاصل ہوئی۔ اسالم کی حقیقت سے لوگوں کو روشناس اور سب میں‬
‫ِ‬
‫عام کرنے میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ ہللا علیہ کا اہم ترین‬

‫اسم ہللا ذات کے اسرار و رموز کو کھول‬


‫کردار ہے ۔ آپ رحمتہ ہللا علیہ نے اپنی کتب میں ِ‬
‫وآلہ‬
‫مجلس محمدی صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ِ‬ ‫تعالی اور‬
‫ٰ‬ ‫دیدار حق‬
‫ِ‬ ‫مولی کو‬
‫ٰ‬ ‫کر بیان فرمایا اورطالبا ِن‬

‫آپ کی خانقاہ میں الکھوں لوگ مشرف بہ اسالم و تصوف‬


‫وسلم کی حضوری عطاکی۔ ؒ‬

‫فیض تزکیہ نفس‪ ،‬تصفیہ قلب اور تجلیہ روح سے ان کے‬


‫ِ‬ ‫ہوئے اور آپ رحمتہ ہللا علیہ نے‬

‫ت ٰالہی کی منازل تک پہنچایا۔ ؒ‬


‫آپ کے جاری کردہ فیض سے بے شمار‬ ‫قلوب کو معرف ِ‬

‫آپ کے خلیفۂ‬
‫چشمے جاری ہوئے جنہوں نے دنیا بھر میں اسالم کی حقیقت کو روشن کیا۔ ؒ‬

‫جیالنی آقا دوجہان‬


‫ؒ‬ ‫اکبر سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبدہللا شاہ مدنی‬

‫ت فقر کے حصول کے لیے برصغیر تشریف‬ ‫ٰ‬


‫الصلوۃ والسالم کے حکم پر امان ِ‬ ‫حضور علیہ‬

‫باھو کے حکم سے احمد پور شرقیہ میں مسجد اور خانقاہ بنائی‬
‫الئے اور حضرت سلطان ؒ‬

‫آپ کے خلیفۂ اکبر سلطان الصابرین‬


‫اور جہاں آج کل ان کا مزار مبارک بھی موجود ہے۔ ؒ‬

‫قریشی مڈمپال میں خانقاہ بنا کر‬


‫ؒ‬ ‫حضرت سخی سلطان پیر محمد عبدالغفور شاہ ہاشمی‬

‫شہباز‬
‫ِ‬ ‫آپ کا مزار مبارک ہے۔ اور آپ کے حقیقی فرزند‬
‫رہائش پذیر ہوئے اور وہیں ؒ‬

‫مشہدی نے موضع فرید‬


‫ؒ‬ ‫عارفاں حضرت سخی سلطان پیر سیّد محمد بہادر علی شاہ کاظمی‬

‫تعالی کی معرفت‬
‫ٰ‬ ‫محمود کاٹھیہ کے قریب مسجد اور خانقانہ تعمیر کرائی اور وہیں سے ہللا‬

‫کے مشن کی بنیاد رکھی۔یہ جگہ بعد میں ’’پیر دی بھنیڑی‘‘™ کے نام سے مشہور ہوئی۔‬

‫جہاں آج بھی لوگ فقر کے چشمہ سے سیراب ہو رہے ہیں۔‬

‫ؒ‬
‫عبدالعزیز کے سپرد‬ ‫فقر کا یہ مہتاب‪ ،‬امانت فقر سلطان االولیا حضرت سخی سلطان محمد‬
‫کرنے کے بعد ظاہری طور پر ہمیشہ کیلئے غروب ہوگیا۔ حضرت سخی سلطان محمد‬

‫باھو کے مزار مبارک کے پاس کچھ فاصلے پر رہائش‬ ‫ؒ‬


‫عبدالعزیز نے حضرت سلطان ؒ‬

‫اختیار کی اور یہ خانقاہ آستانہ عالیہ سلطان محمد عبدالعزیز ؒ کے نام سے مشہور ہے۔ اور‬

‫علی نے‬
‫آپ کے فرزند سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر ؒ‬
‫اس مقام پر ؒ‬

‫اسم ہللا ذات کو عام فرمایا ہے اس کی مثال تاریخ میں ڈھونڈنے سے‬
‫اسم اعظم ِ‬
‫جس قدر ِ‬
‫نہیں ملتی۔‬

‫آپ فرمایا کرتے تھے‪:‬‬


‫ؒ‬

‫اسم ہللا ذات کی دعوت دو۔انہیں بالؤ ہللا کی طرف کیونکہ‬


‫’’ملک بھر میں تمام لوگوں کو ِ‬
‫اسی میں ان کی فالح ہے۔‘‘‬

‫محرم راز‬
‫ِ‬ ‫آپ قیامت تک سلطان االذکار ’ھُو‘ کا فیض عام فرماگئے اور اس امانت کو اپنے‬
‫ؒ‬

‫خلیفہ اکبر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس کے‬

‫عشق حقیقی سے جا ملے۔‬


‫ِ‬ ‫سپرد فرما کر‬

‫مسن ِد تلقین و ارشاد پر فائز ہو کر سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن‬

‫اسم ہللا ذات کی دعوت و تبلیغ کا کام شروع فرمایا‬


‫مدظلہ االقدس نے اپنے گھر سے فقر و ِ‬
‫اور کچھ عرصہ بعد موجود خانقاہ سلسلہ سروری قادری کی بنیاد رکھی اور یہ خانقاہ پوری‬

‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫فیض فقر کو پھیالنے کا ذریعہ ہے۔ آپ مدظلہ االقدس کی ہی مہربانی سے‬
‫ِ‬ ‫دنیا میں‬

‫مولی کے لیے مزید آسانی فرما دی گئی ہے اور سلطان االذکار ’ھو‘ کی آخری منزل بیعت‬
‫ٰ‬

‫ت‬
‫کے پہلے ہی دن عطا کر دی جاتی ہے جس سے سالک کے لیے فقر کی نعمت اور معرف ِ‬

‫فیضان نظر سے باآسانی طے ہو جاتی ہیں۔ جیسا کہ‬


‫ِ‬ ‫ٰالہی کی منازل آپ مدظلہ االقدس کے‬
‫باھو نے رسالہ روحی شریف میں فرمایا ہے‪:‬‬
‫حضرت سخی سلطان ؒ‬

‫طالب بیا! طالب بیا! طالب بیا!‬

‫تعالی چاہتا ہے تو میرے پاس آ۔‬


‫ٰ‬ ‫ت حق‬
‫یعنی اے طالب! اگر تو معرف ِ‬

‫اسی طرح آپ مدظلہ االقدس کے دروازے ساری دنیا کے لیے کھلے ہیں جس سے اسم ہللا‬

‫ذات کے نور کی کرنیں ہر خاص و عام کے قلوب کو منور کر رہی ہیں۔ آپ مدظلہ االقدس‬

‫اسم ہللا ذات کو عام فرما رہے ہیں‬


‫پورے ملک میں تبلیغی دورے کر کے لوگوں تک فیض ِ‬
‫مولی کی تربیت فرما کر ان کے تزکیہ نفس‪ ،‬تجلیہ روح اور تصفیہ‬
‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫اور خانقاہ میں‬

‫وآلہ وسلم تک رسائی‬


‫تعالی اور مجلس محمدی صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ٰ‬ ‫ت حق‬
‫قلب سے انہیں معرف ِ‬

‫عطا کرتے ہیں جیسا کہ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ ہللا علیہ نے‬

‫مرشد کامل اکمل کی شان میں بیان فرمایا ہے ’’مرشد کامل بیعت کے پہلے ہی دن طالب کو‬

‫وآلہ وسلم کی حضور عطا کرتا ہے۔‘‘‬


‫اسم ہللا ذات اور مجلس محمدی صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ِ‬
‫یہ خانقاہ (خانقاہ سلسلہ سروری قادری) اب تک احسن طریقے اور انتظام کے باعث اپنے‬

‫کام اور فرائض حضور مرشد کریم مدظلہ االقدس کی زیر سرپرستی کامیاب طریقے سے‬

‫انجام دے رہی ہے۔اس میں دین اسالم کو پھیالنے کے لیے دن رات کام ہورہا ہے اور‬

‫رسائل‪ ،‬کتب‪ ،‬سوشل میڈیا اور ویب سائٹس کے ذریعے عوام الناس تک ملک کے اندر اور‬

‫پیغام حق پہنچایا جارہا ہے۔‬


‫ِ‬ ‫باہر تمام دنیا میں‬

‫چونکہ اب فقر کا یہ آفتاب تیزی سے روشن ہو رہا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک‬

‫عشق حقیقی سے اپنی پیاس بجھا سکیں اسی سلسلہ میں‬


‫ِ‬ ‫طالبان حق‬
‫ِ‬ ‫وسیع خانقاہ ہو جہاں‬

‫حکم ٰالہی سے‬


‫ِ‬ ‫سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس نے‬
‫ایک نئی اور وسیع خانقاہ کے قیام کا آغاز کیا ہے جس میں شاندار مسجد‪ ،‬الئبریری‪،‬‬

‫مولی کے لیے مہمان خانہ اور‬


‫ٰ‬ ‫طالبان‬
‫ِ‬ ‫خانقاہ‪ ،‬لنگر خانہ اور دور دراز سے آنے والے‬

‫رہائش گاہ شامل ہے۔‬

‫خانقاہ سے جڑے لوگوں کو ہللا نے اپنی جماعت کہا ہے کیونکہ یہ مسلسل ہللا کو یاد کرتے‬

‫رہتے ہیں اور جو خدمت گار اپنے آپ کو ہللا کی راہ کے لیے وقف کر کے ہللا اور اس کے‬

‫وآلہ وسلم کی اطاعت میں مصروف رہتے ہیں اور ہللا کی راہ میں‬
‫رسول صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں تو ان کی کچھ الزم ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مرشد‬

‫پاک کی شفقت سے وظیفہ بھی مقرر کیا جاتا ہے۔‬

‫ت ٰالہی اور مجلس محمدی صلی ہللا‬


‫طالبان حق کو معرف ِ‬
‫ِ‬ ‫اس خانقاہ کے اغراض و مقاصد‬

‫وآلہ وسلم سے بہرہ مند کرنا ہے تا کہ اسالم کی اصل حقیقت اور فقر محمدی جس پر‬
‫علیہ ٖ‬
‫وآلہ وسلم نے خود فخر فرمایا‘ کی تبلیغ و اشاعت کی جا سکے۔‬
‫آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫جب کوئی ہللا والوں کی خدمت اور مدد کرتا ہے تو دراصل وہ اپنی مدد کرتا ہے اور وہ‬

‫لوگ خوش نصیب ہیں جن کو ہللا اپنے کاموں کے لیے چن لیتا ہے اور ان کے مال کو قبول‬

‫کرتا ہے۔ ہللا پاک ارشاد فرماتا ہے‪:‬‬

‫ذکر ہللا سے غافل نہ کردیں۔ جو‬


‫ترجمہ‪ ’’ :‬اے ایمان والو! تمہارے مال اور اوالدیں تم کو ِ‬
‫لوگ ایسا کریں وہی خسارہ پانے والے ہیں۔ (المنافقون ‪) 9‬‬

‫اہل ذکر‘ ہللا کا ذکر بلند کرتے ہیں جو‬


‫مسجد ہللا کا گھر ہے اور خانقاہ ہللا والوں کا۔ ان میں ِ‬
‫کار خیر میں شریک ہونگے وہ ہمیشہ اس شرکت کا اجر پاتے رہیں گے۔‬
‫لوگ اس ِ‬
‫را ِہ فقر را ِہ عشق ہے عشق قربانی کا طلب گار ہے اس راہ میں اس وقت تک کامیابی نہیں‬
‫ہوتی جب تک طالب اپنا سب کچھ ہللا کی راہ میں قربان نہیں کر دیتا جیسا کہ ارشا ِد باری‬

‫تعالی ہے تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک وہ اپنی سب سے‬


‫ٰ‬

‫کرام کی حضور اکرم‬


‫قیمتی شے ہللا کی راہ میں قربان نہ کر دے۔ اس سلسلے میں صحابہ ؓ‬

‫وآلہ وسلم کے ساتھ قربانی اور وفا کی مثالیں سامنے رکھنی چاہئیں۔‬
‫صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫باھو فرماتے ہیں‪:‬‬
‫سلطان العارفین حضرت سخی سلطان ؒ‬

‫عشق دی بازی لئی اُنہاں‪ ،‬جنہاں سر دیندیاں ڈھل نہ کیتی ھُو‬

‫باھو جنہاں ترٹی چوڑ نہ کیتی ھُو‬


‫ہرگز دوست نہ ملدا ؒ‬

‫حضور مرشد پاک مدظلہ االقدس کا فرمان ہے کہ‬

‫’’ ہم خانقاہ کیلئے در در سے طلب کریں گے۔‘‘ اس سے ہمیں مسجد اور خانقاہ کی‬

‫ضرورت کی شدت کا اندازہ ہوجانا چاہیے۔‬

‫نفس را رسوا کنم بہر از خدا‬

‫ہر ہر درے قدمے زنم بہر از خدا‬

‫ترجمہ‪ :‬میں رضائے ٰالہی کی خاطر اپنے نفس کو رسوا کرتا ہوں اور رضائے ٰالہی کی‬

‫خاطر ہر در سے بھیک مانگتا ہوں۔‬

‫التجا‬

‫تعالی کا شکر ہے کہ اس نے حضور مرشد کریم سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس کی صورت میں ہماری ہدایت اور اپنے قرب کی راہ‬

‫مرکز فقر بنایا۔ جس طرح تمام انبیا و اولیا کرام کا کوئی نہ‬
‫ِ‬ ‫کھول دی حضور مرشد کریم کو‬
‫کوئی مستقل مسکن رہا جہاں سے ان کی ظاہری اور باطنی حیات میں فیض جاری رہا۔اسی‬

‫طرح تحریک دعوت فقر کو بھی ایک مستقل مسکن کی ضرورت ہے۔ اس مسکن سے‬

‫ت ٰالہیہ کا فیض جاری رہے گا۔‬


‫حضور مرشد کریم کے وسیلے سے ہمیشہ ہمیشہ معرف ِ‬

‫ت سوال دراز کرنا اپنی‬


‫محترم ساتھیو! حضور مرشد کریم کا مسجد اور خانقاہ کے لیے دس ِ‬

‫مخلوق خدا کی ہدایت کے لیے ہے اور مخلوق کی ہدایت ہی خدا‬


‫ِ‬ ‫ذات کے لیے نہیں بلکہ‬

‫کی رضا ہے۔‬

‫ہم نے حضور مرشد کریم کے ساتھ مل کر اس دلیل کو جلد عملی صورت دینی ہے اس لیے‬

‫ت سوال زیادہ دیر تک دراز نہ‬


‫اپنے تعاون کو جلد از جلد یقینی بنائیں تاکہ فقیر کامل کا دس ِ‬

‫ت سوال دراز رہے گا ہم بارگا ِہ ٰالہی میں شرمندہ رہیں گے۔‬


‫رہے ۔ جب تک یہ دس ِ‬

‫ْس لِاْل ْن َس ِ‬
‫ان اِاّل ما َس ٰعی‪( ‬النجم۔ ‪) 39‬‬ ‫‪ ‬لَی َ‬

‫ترجمہ‪ ’’:‬انسان کے ذمہ کچھ نہیں سوائے کوشش کے۔‘‘‬

‫خانقاہ اور مسجد کی فضیلت‪ ‬‬

‫(وہ گھر یا جگہ جہان ہللا کا ذکر کیا جاتا ہے)‬

‫تحریر‪ :‬موالنا محمد اسلم سروری قادری۔ الہور‬

‫تعالی ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشا ِد باری‬

‫صا ِل‪ o‬ر َجا ٌل‪  ‬اَّل تُ ْل ِھ ْی ِھ ْم‬ ‫ت اَ ِذنَ ہّٰللا ُ اَ ْن تُرْ فَ َع َوی ُْذ َک َر فیھَا اِ ْس ُم ٗہ یُ َسبِّ ُح لَ ٗہ فِ ْیھَا ْ‬
‫بال ُغ ُد ِّو َوااْل َ َ‬ ‫*‪ ‬فِ ْی بُیُوْ ٍ‬
‫ہّٰللا‬
‫ارۃٌ َواَل بَ ْی ٌع ع َْن ِذ ْک ِر ِ َو اَقَ ِام الص َّٰلو ِۃ َو اِ ْیت ِ‬
‫َٓائ ال َّز ٰکو ِۃ ال یَ َخافُوْ نَ یَو ًما تَتَقَلَّبُ فِ ْی ِہ ْالقُلُوْ بُ‬ ‫تِ َج َ‬

‫َوااْل َ ْب َ‬
‫صار‪( ‬سورۃ نور۔ ‪)37-36‬‬

‫ترجمہ‪ :‬یہ وہ گھر ہیں جن کے بلند کیے جانے اور جن میں ہللا کے نام کا ذکر کیے جانے‬

‫تعالی کی تسبیح کرتے ہیں اور اسی کا‬


‫ٰ‬ ‫کا ہللا نے حکم دیا ہے۔ وہاں وہ لوگ صبح و شام ہللا‬

‫نام لیتے ہیں جنہیں خدا کے ذکر‪ ،‬نماز ادا کرنے اور ٰ‬
‫زکوۃ دینے سے نہ تجارت غافل کرتی‬

‫اور نہ خریدو فروخت یہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن آنکھیں اُلٹ پلٹ ہو جائیں گی۔‬

‫ہللا کے اس ارشاد میں ’’فی بیوت‘‘(یہ وہ گھر ہیں) سے مراد مساجد ہیں۔ بعض اصحاب‬

‫کہتے ہیں کہ اس سے مراد مدینۃ الرسول کے مکانات مراد ہیں اور بعض مفسرین کا خیال‬

‫ت‬
‫وآلہ وسلم کے مکانات ہیں۔ جب یہ آی ِ‬
‫ہے کہ اس سے مراد رسو ِل اکرم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫عنہ کھڑے ہوئے اور عرض کیا کہ‬
‫کریمہ نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا ٗ‬

‫عنہ اور‬
‫وآلہ وسلم! کیا ان گھروں میں حضرت علی رضی ہللا ٗ‬
‫یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ™ والسالم‬ ‫حضرت فاطمتہ الزھرا رضی ہللا عنہا کا گھر بھی شامل ہے تو حضور علیہ‬

‫نے فرمایا ہاں وہ ان میں بڑھ کر ہے۔‬

‫عنہ فرماتے ہیں کہ زمین کے تمام گھر رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫حضرت حسن رضی ہللا ٗ‬

‫وآلہ وسلم کیلئے سجدہ گاہ بنا دئیے گئے ہیں اس اعتبار سے ذکر کر نے والے لوگوں کی‬
‫ٖ‬
‫تخصیص کی گئی ہے نہ کہ چار دیواری کی یعنی مندرجہ باال آیت میں اہمیت ذاکرین کی‬

‫ہے نہ کہ کسی مخصوص مقام یا گھر کی‪ ،‬پس جس جگہ اور جس مقام پر بھی ذاکرین جمع‬

‫ہونگے وہی مقامات ایسے گھر مراد لئے جائیں گے جن میں خدا کے حکم سے اس کا ذکر‬
‫صبح و شام بلند کیا جاتا ہے۔‬

‫انس فرماتے ہیں کہ کوئی صبح و شام ایسی نہیں گزرتی کہ زمین کے بعض‬
‫حضرت ؓ‬

‫حصے دوسرے حصوں سے نہ پوچھتے ہوں کہ آج تم پر کوئی ایسا شخص گزرا ہے جس‬

‫نے تم پر (یعنی تمہاری جگہ پر) نماز پڑھی ہو یا ہللا کا ذکر کیا ہو پس بعض مقامات اثبات‬

‫میں اور بعض نفی میں جواب دیتے ہیں جو اجزا یا مقامات اثبات میں جواب دیتے ہیں ان‬

‫کو دوسرے مقامات پر فضیلت و فوقیت دی جاتی ہے اور جو بندہ کسی خطۂ زمین پر ہللا کا‬

‫تعالی کے حضور اس بات کی شہادت دیتا ہے اور اس‬


‫ٰ‬ ‫ذکر کرتا ہے تو وہ خطۂ زمین ہللا‬

‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫عبادت گزار بندے کے مرنے پر روتا ہے جیسے کہ ارشا ِد باری‬

‫ئ َوااْل َرْ ضُ ‪( ‬الدخان۔‪)29‬‬ ‫فَ َما بَ َک ْ‬


‫ت َعلَ ْی ِھ ُم ال َّس َمٓا ُ‬

‫ترجمہ‪ :‬اور ان کے مرنے پر آسمان و زمین نہیں روتے (یعنی کافروں کے مرنے پر)۔‬

‫اس ارشا ِد ربانی سے یہ نکتہ ظاہر ہوتا ہے کہ اہ ِل ذکرو عبادت و اطاعت گزاروں کو یہ‬

‫فضیلت حاصل ہے کہ ان کے مرنے پر آسمان و زمین گر یہ کنا ں ہوتے ہیں اور جو لوگ‬

‫ت نفس کے پابند ہوتے ہیں ان کے مرنے پر آسمان و زمین نہیں روتے ۔پس‬
‫دنیا اور خواہشا ِ‬

‫ت ٰالہی میں مشغول ہیں جنہوں نے دنیا کو‬


‫خانقاہ نشین وہ لوگ ہیں جن کے نفوس اطاع ِ‬

‫تعالی نے دنیا کو انکا‬


‫ٰ‬ ‫ترک کر کے ہمہ تن ہللا کی طرف توجہ اور دھیان رکھا ہے تو ہللا‬

‫خادم و غالم بنایا ہے اور ان کو مخدوم۔ حضرت عمران بن حصین سے روایت ہے کہ‬

‫تعالی کا ہو جاتا ہے (سب کچھ ہللا کے‬


‫ٰ‬ ‫وآلہ وسلم نے فرمایا جو ہللا‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫تعالی اس کو وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسکے وہم‬
‫ٰ‬ ‫لئے چھوڑ دیتا ہے) تو ہللا‬
‫تعالی اُس کو ہمہ تن دنیا کے‬
‫ٰ‬ ‫و گمان میں بھی نہیں ہوتا اور جو کوئی دنیا کا ہوجاتا ہے ہللا‬

‫سپرد کر دیتا ہے۔‬

‫اہل ذکر کی برکت‬


‫اہل خانقاہ اور ِ‬
‫ِ‬
‫خانقاہ نشین اپنی خانقاہ اورہللا کی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے کیونکہ خانقاہ نشین اطاعت و‬

‫تعالی اسکی اطاعت‬


‫ٰ‬ ‫تعالی سے ارتباط (رابطہ) میں رہتا ہے اورہللا‬
‫ٰ‬ ‫عبادت کے ذریعے ہللا‬

‫اوردعاؤں کے ذریعے اپنے بندوں اور شہروں سے بالؤں کو دور کرتا ہے۔‬

‫شیخ العالم رضی الدین ابوالخیر احمد بن اسماعیل قزوینی اپنے مشائخ کی اسناد کے ساتھ‬

‫وآلہ وسلم‬
‫عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫حضرت عمر رضی ہللا ٗ‬

‫تعالی نیک اور صالح مسلمان کے ذریعے اس کے گھر والوں اور‬


‫ٰ‬ ‫نے ارشاد فرمایا ہللا‬

‫وآلہ وسلم نے ارشاد‬


‫پڑوسیوں سے بالؤں کو ٹال دیتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫تعالی کے عبادت گزار بندے‪ ،‬شیر خوار بچے اور چرنے والے مویشی نہ‬
‫ٰ‬ ‫فرمایا کہ اگر ہللا‬

‫تعالی تم پر ایسا عذاب نازل فرماتا کہ تم سب(کافر) اس عذاب میں ِ پس کر رہ‬


‫ٰ‬ ‫ہوتے تو ہللا‬

‫جاتے۔‬

‫وآلہ‬
‫جابر سے مروی ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ؓ‬ ‫ایک دوسری حدیث پاک میں حضرت‬

‫تعالی ایک نیک آدمی کی بدولت اسکی اوالد ‪ ،‬اوالد کی اوالد‪ ،‬اسکے‬
‫ٰ‬ ‫وسلم نے فرمایا ہللا‬

‫گھر والوں اور اسکے پڑوسیوں کے کاموں کو سدھار دیتا ہے یعنی درست کر دیتا ہے جب‬

‫تعالی کی حفظ و امان میں رہتے‬


‫ٰ‬ ‫تک وہ نیک بندہ ان کے ساتھ رہتا ہے وہ سب کے سب ہللا‬

‫ہیں ۔‬
‫بعض دانشمندوں نے کہا ہے ’’ عبادت خانوں اور خانقاہوں سے تسبیحات و تکبیرات کا بلند‬

‫خلوص قلب بھی ساتھ شامل ہو تو ان تمام ِگرہوں کو کھول‬


‫ِ‬ ‫ہونا حُس ِن نیت کے ساتھ ہو اور‬

‫گردش فلک مضبوطی سے باندھ دیتی ہے تقدیر کے مسئلے حل ہوجاتے‬


‫ِ‬ ‫دیتا ہے جن کو‬

‫ہیں اور گرہیں کھل جاتی ہیں۔ پس اگر خانقاہیں صحیح طور پر اپنے مقاص ِد روحانی پر‬

‫ُسن معاملت اور رعایت اوقات کو ملحوظ رکھیں اور ان چیزوں سے گریز‬
‫عمل پیرا ہوں ح ِ‬
‫کریں جو اعمال کو ضائع کرنے والی ہیں اور اعمال کو درست کرنے والی باتوں پر سختی‬

‫ث برکت ہیں۔‬
‫سے کاربند رہیں تو وہ ملک وملت بلکہ تمام مخلوق کیلئے باع ِ‬

‫خانقاہ نشینوں کی اہ ِل صفہّ سے مشابہت‬

‫تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫ق اَ ْن تَقُوْ َم فِ ْی ِہ‪  ‬ج فِ ْی ِہ ِر َجا ٌل یُ ِحبُّوْ نَ اَ ْن‬ ‫ْج ٌد اُس َ‬


‫ِّس َعلَی التَّ ْق ٰوی ِم ْن اَ َّو ِل یَوْ ٍم اَ َح ُّ‬ ‫*‪ ‬لَ َمس ِ‬
‫یَّتَطَھّرُوْ اج‪َ   ‬وہّٰللا ُ یُ ِحبُّ ْال ُمطَّھ ِِّر ْینَ ‪( ‬التوبہ۔‪)108‬‬

‫ترجمہ‪’’ :‬بے شک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے ہی دن سے تقوی اور پرہیزگاری پر رکھی‬

‫وآلہ وسلم اس میں قیام فرمائیں۔ اس‬


‫گئی ہے‘ اس بات کی مستحق ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫تعالی اہ ِل‬
‫ٰ‬ ‫مسجد میں ایسے لوگ ہیں جو پاک رہنے کو پسند کرتے ہیں اور بیشک ہللا‬

‫طہارت کو دوست رکھتا ہے۔‬

‫اہل تصوف کا معمول ہے جو ہر وقت اپنی خانقاہوں میں رہتے ہیں اور ان‬
‫ب طہارت ِ‬
‫آدا ِ‬

‫خانقاہوں کی خبر گیری کرتے رہتے ہیں اور گویا رباط (خانقاہ ) ان کا گھر ہے اور وہی ان‬
‫کا خیمہ اور قیام گاہ ہے جس طرح ہر قوم کے افراد کے گھر ہوتے ہیں اسی طرح اہ ِل‬

‫تصوف کے گھر خانقاہیں ہیں پس اس صورت میں وہ اہ ِل صفہ سے مشابہ ہیں اس مشابہت‬

‫زرعہ نے اپنے مشائخ کی‬


‫ؒ‬ ‫کا مزید ثبوت اس حدیث شریف سے ملتا ہے جو حضرت ابو‬

‫طلحہ کی روایت نقل کی ہے‪ ،‬فرماتے ہیں ’’جب کوئی شخص مدینۃ‬
‫ؓ‬ ‫اسناد سے حضرت‬

‫الرسول میں باہر سے آتا اور اس کا کوئی شناسا ہوتا تو اسکے ہاں قیام کرتا اور اگر کوئی‬

‫جان پہچان نہ ہوتی تو وہ صفہ پر آجاتا اور یہاں قیام کرتا اور میں بھی ان لوگوں میں سے‬

‫اہل صفہ کے ساتھ قیام‬


‫ہوں جنہوں نے اہ ِل صفہ کے ساتھ قیام کیا تھا (یعنی مجھے بھی ِ‬
‫اہل رباط بھی ایسے لوگ ہیں جن کا آپس میں ربط و ضبط ہوتا‬
‫کرنے کا اتفاق ہوا ہے۔) پس ِ‬
‫ہے ان کے ارادے یکساں اور عزم ایک جیسا ہوتا ہے اور سب کے احوال میں یک رنگی‬

‫تعالی نے قرآن پاک میں ارشاد‬


‫ٰ‬ ‫اہل جنت جیسا ہے۔ جیسا کہ ہللا‬
‫ربط باہمی ِ‬
‫ہوتی ہے ان کا یہ ِ‬

‫فرمایا‪:‬‬

‫ُر ُّمت َٰقبلِ ْینَ ‪( ‬سورۃ الحجر۔‪) 47‬‬ ‫ٰ‬


‫ص ُدوْ ِر ِھ ْم ِّم ْن ِغ ٍّل اِخَ َوانًا عَلی ُسر ِ‬
‫َو نَزَ ْعنَا َما فِی ُ‬

‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے ان کے سینوں سے کینہ اور رنجش کو نکال دیں گے اور وہ بھائی بھائی‬

‫بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔‬

‫یہ آمنے سامنے بیٹھے رہنا اس وجہ سے ہے کہ اب ان کا ظاہرو باطن یکساں ہوگیا ہے‬

‫جیسا کہ فرمایا گیا ’’مومن مومن کا آئینہ ہے۔‘‘ اہ ِل صفہ اس آیت کے مصداق تھے کیونکہ‬

‫ان کے دل کینہ سے پاک صاف تھے۔ کینہ‪ ،‬بغض اور حسد دنیاداری سے پیدا ہوتا ہے جب‬

‫دنیا کے جھمیلے ساتھ ہوتے ہیں تو یہ چیزیں بھی پیدا ہوجاتی ہیں۔ دنیا کی محبت ان تمام‬
‫اہل صُفہ نے دنیا سے قطع تعلق کر لیا تھا‬
‫برائیوں کی اصل اور تمام گناہوں کی جڑ ہے۔ ِ‬
‫اور ان کے دل دنیا سے بالکل الگ تھلگ تھے پس ان کے دلوں سے کینہ مٹ گیا اور حسد‬

‫ہمیشہ کیلئے رخصت ہوگیا۔ یہی حال اہ ِل خانقاہ کا ہے کہ وہ ظاہر و باطن میں یک رنگ‬

‫ہیں۔ باہمی محبت و الفت میں ان میں یکسانیت ہے اور اس پر سب جمع ہیں ایک ساتھ‬

‫زندگی بسر کرتے ہیں ان کی باہمی گفتگو میں یک رنگی ہے اختالف نہیں ہے(یعنی اکٹھے‬

‫گفتگو کرتے ہیں اکٹھے کھاتے پیتے ہیں اور اس اجتماعی زندگی کی برکت سے بخوبی‬

‫واقف ہیں)۔‬

‫اہل خانقاہ کی خدمت عبادت کا درجہ رکھتی ہے‪:‬‬


‫ِ‬
‫علم معرفت کا ذائقہ نہ چکھا ہو اور‬
‫جو شخص خانقاہ کے نظام میں نیا داخل ہو اور اس نے ِ‬
‫اعلی درجے پر فائز نہ ہو تو ایسے شخص کو حکم دیا جاتا ہے کہ وہ خانقاہ‬
‫ٰ‬ ‫روحانیت کے‬

‫والوں کی خدمت کرے یہ خدمت اسکی عبادت تصور کی جائے گی۔ وہ اپنی حس ِن خدمت‬

‫سے اہ ِل ہللا کے دلوں کو اپنی طرف مائل کرے گا اور ان کی برکات شام ِل حال ہو جائیں‬

‫گی اور اس طرح وہ اپنے عبادت گزار بھائیوں کا معین و مددگار ثابت ہو گا۔ نبی اکرم‬

‫وآلہ وسلم کا ارشاد پاک ہے ’’مومن ایک دوسرے کے بھائی ہیں ان میں سے‬
‫صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ہر ایک دوسرے سے بعض ضروریات کا طالب ہے پس ان میں جو لوگ اپنے دوسرے‬

‫تعالی قیامت کے دن ان کی ضرورتیں پوری کرے‬


‫ٰ‬ ‫بھائی کی ضرورت پوری کریں گے ہللا‬

‫گا۔‘‘ عالوہ ازیں خادم خدمت کے باعث بطالت اور کاہلی و سستی سے محفوظ رہتا ہے اور‬

‫وہی بطالت اور بیکاری (نکماپن) دل کی موت کا باعث ہے۔ مختصر یہ ہے کہ خدمت بھی‬
‫نیک اعمال میں شامل ہے اوران طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے جن کے ذریعے‬

‫اوصاف حسنہ پیدا ہوتے ہیں۔ خادم‬


‫ِ‬ ‫اوصاف جمیلہ حاصل کئے جاتے ہیں اور انسان میں‬
‫ِ‬

‫مخدوم کی عبادت کے ثواب میں شریک ہوتا ہے کیونکہ خادم انکی خدمت میں مصروف‬

‫ہے جو ہللا کی بندگی و اطاعت اور اسکے ذکر میں مصروف ہیں تووہ بھی ان کے ثواب‬

‫میں شریک ہوگیا۔‬

‫وآلہ وسلم غزوۂ‬


‫مالک سے مروی ہے کہ جب رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ؓ‬ ‫حضرت انس بن‬

‫ٰ‬
‫الصلوۃ‬ ‫تبوک سے واپس تشریف الئے اور مدینہ منورہ کے قریب پہنچے تو حضور علیہ‬

‫والسالم نے فرمایا مدینہ میں کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نے تمہارے ساتھ سفر کیا اور‬

‫کرام نے عرض کی کہ‬


‫فراخ راستوں اور وادیوں سے تمہارے ساتھ گزرے۔ صحابہ ؓ‬

‫وآلہ وسلم! وہ تو مدینہ میں رہ گئے پھر ان کا اور ہمارا ساتھ کس‬
‫یارسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫طرح ہوا ارشاد فرمایا کہ ہاں ان کو عذر نے روک لیا تھا مگر ثواب میں وہ تمہارے ساتھ‬

‫اہل ہللا کی خدمت کرتا ہے لیکن اپنی کسی خامی کے باعث‬


‫شریک ہیں۔ پس وہ شخص جو ِ‬
‫ب عالیہ تک نہ پہنچ سکا لیکن اس پر بھی وہ خدمت میں مصروف رہا اور انکی‬
‫انکے مرات ِ‬

‫خدمت میں بھرپور کوشش کے ساتھ سرگرم رہا اور یہ خیال کرتا رہا کہ اگر وہ انکی نگا ِہ‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫لطف سے محروم رہا تو کیا ہوا شاید خدمت سے اسکی کچھ تالفی ہو جائے تو ہللا‬

‫اسکی اس خدمت کے بدلے اسکو ضرور بلند پایہ جزا اوراجر عطا فرمائے گا۔ اس طرح‬

‫ٰ‬
‫تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے تھے اور‬ ‫اہل صفہ بھی نیک کاموں اور‬
‫ِ‬
‫دینی مصالح پر اپنی جان و مال سے مدد کرنے کیلئے مل جل کر کام کرتے رہتے تھے‬

‫فضل عظیم کے حقدار بن گئے۔‬


‫ِ‬ ‫تعالی کے‬
‫ٰ‬ ‫پس وہ بھی ہللا‬
‫اہل خانقاہ کے خصائص‬
‫ِ‬
‫اہل خانقاہ اور ان کی خصوصیات ایسی ممتاز ہیں جن کے باعث وہ دوسری جماعتوں سے‬
‫ِ‬
‫ممیزوممتاز ہوگئے یعنی یہ اوصاف و خصوصیات دوسری جماعتوں میں موجود نہیں ہیں‬

‫تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬


‫ٰ‬ ‫تعالی کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں۔ جیساکہ ہللا‬
‫ٰ‬ ‫یہ لوگ ہللا‬

‫ک الَّ ِذ ْینَ ھَدَی ہّٰللا ُ ط فَبِھ ُٰدھُ ُم ا ْقتَ ِد ْہ(االنعام۔‪)90‬‬ ‫اُ ٰ ٓ‬


‫ولئِ َ‬

‫ترجمہ‪ :‬یہی وہ لوگ ہیں جو ہللا کی طرف سے ہدایت یافتہ ہیں اس لئے تم ان ہی کی پیروی‬

‫کرو۔‬

‫اس مادیت پرستی اور مصروفیت کے زمانے میں بھی کچھ ہستیاں ایسی ہیں جو صحیح‬

‫طریقہ پر اپنے اسالف کے مسلک اوران کے طریقہ پر گامزن ہیں۔‬

‫اہل خانقاہ ایک جسم کی طرح متحد ہیں‪:‬‬


‫تمام ِ‬
‫خانقاہ میں جس قدرلوگ موجودہوتے ہیں وہ اپنے اتحاد اور متحد ارادوں کے باعث ایک‬

‫جسم کی طرح متحد ہوتے ہیں جبکہ دوسری جماعتوں میں یہ بات نہیں پائی جاتی ان میں‬

‫تعالی نے ان کی تعریف یوں بیان فرمائی ہے‪َ  ‬کاَنَّھُ ْم بُ ْنیَ ٌ‬


‫ان‬ ‫ٰ‬ ‫ایسا اتحاد نہیں پایا جاتا چنانچہ ہللا‬

‫َّمرْ صُوْ صٌ ‪( ‬الصف۔™‪)4‬‬

‫ترجمہ‪ :‬وہ مومنین ایسے متحد اور متفق ہیں اور اسقدر مضبوط ہیں جیسے ایک سیسہ‬

‫پالئی ہوئی دیوار ہو ۔‬


‫مسجد کی تعمیر اور اس کو آباد کرنے کی فضیلت‬

‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشاد باری‬

‫ش اِالَّ ہّٰللا َ َ‬ ‫مس ِج َد ہّٰللا ِ َم ْن ٰا َمنَ بِاہّٰلل ِ َو ْالیَوْ ِم ااْل ٰ ِخر َو اَقَا َم الص َّٰلوۃَ ٰ‬
‫واتَی ال َّز ٰکوۃَ َولَ ْم یَ ْخ َ‬ ‫ِ‬ ‫*اِنّما یَ ْع ُم ُر ٰ‬

‫ک اَ ْن یَّ ُکوْ نُوْ ا ِمنَ ْال ُم ْھتَ ِد ْینَ ۔‪( ‬التوبہ۔‪) 18‬‬ ‫فَع ٰ ٓسی اُ ٰ ٓ‬
‫ولئِ َ‬ ‫َ‬

‫یوم آخرت پر ایمان الیا‬


‫ترجمہ‪ :‬ہللا کی مسجدیں صرف وہی آباد کر سکتا ہے جوہللا پر اور ِ‬
‫اور اس نے نماز قائم کی اور ٰ‬
‫زکوۃ ادا کی اور ہللا کے سوا کسی سے نہ ڈرا سو امید ہے کہ‬

‫یہی لوگ ہدایت پانے والوں سے ہوجائیں گے۔‬

‫‪ 1‬۔ حدیث مبارکہ۔‬

‫وآلہ وسلم نے فرمایا ‪:‬‬


‫خدری سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ؓ‬ ‫حضرت ابوسعید‬

‫جب تم کسی شخص کو مسجد کی خبر گیری کرتے دیکھو تو اس کے ایمان کی گواہی دے‬

‫یوم قیامت‬
‫تعالی فرماتا ہے کہ مسجدیں وہی لوگ آباد کرتے ہیں جو ہللا اور ِ‬
‫ٰ‬ ‫دو کیونکہ ربّ‬

‫ابن ماجہ‪ ،‬دارمی شریف)‬ ‫ٰ‬


‫(مشکوۃ‪ ،‬ترمذی‪ِ ،‬‬ ‫پر ایمان رکھتے ہیں۔‬

‫‪ 2‬۔تمام روئے زمین پر پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں‬

‫وآلہ وسلم نے‬


‫ہریرہ سے روایت ہے فرماتے ہیں رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ؓ‬ ‫حضرت ابو‬

‫فرمایا ‪:‬‬

‫آبادیوں میں ہللا کو پیاری جگہیں مسجدیں ہیں اور بدترین جگہیں بازار ہیں۔ ( مسلم شریف‪،‬‬

‫ٰ‬
‫مشکوۃ شریف)‬

‫وآلہ وسلم نے فرمایا جو ہللا‬ ‫ؓ‬


‫عثمان سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬ ‫‪3‬۔ حضرت‬
‫تعالی اس کیلئے جنت میں ایک محل بنائے گا۔‬
‫ٰ‬ ‫کیلئے مسجد بنائے گا ہللا‬

‫وآلہ وسلم‬
‫عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫‪ 4‬۔ حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا ٗ‬

‫نے فرمایا جو شخص صبح یا شام مسجد کو جائے ہللا اس کیلئے جنت میں مہمانی کا سامان‬

‫بنائے گا جب کبھی صبح یا شام جائے گا۔ (بخاری و مسلم شریف)‬

‫‪ 5‬۔ اُ ّم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا فرماتی ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا‬

‫وآلہ وسلم نے مسجدیں بنانے اور انہیں پاک صاف اور معطر (خوشبودار)رکھنے کا‬
‫علیہ ٖ‬
‫ٰ‬
‫مشکوۃ)‬ ‫۔(ترمذی‘ابن ماجہ‘ ابوداؤد‘‬
‫ِ‬ ‫حکم دیا‬

‫وآلہ وسلم‬
‫عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫‪ 6‬۔ حضرت ابوہریرہ™ رضی ہللا ٗ‬

‫نے فرمایا جب تم جنت کے باغوں سے گزرو تو کچھ کھا پی لیا کرو عرض کی گئی یا‬

‫ٰ‬
‫الصلوۃ™ والسالم نے فرمایا مسجدیں۔ عرض‬ ‫رسول ہللا! جنت کے باغ کیا ہیں تو حضور علیہ‬

‫ٰ‬
‫مشکوۃ)‬ ‫کی گئی ان میں کھانا پینا کیا ہے فرمایا ہللا کا ذکر و تسبیح۔(ترمذی‪،‬‬

‫‪7‬۔ حضرت ابوامامہ روایت فرماتے ہیں کہ یہودیوں کے بہت بڑے عالم نے حضور نبی‬

‫وآلہ وسلم سے پوچھا کونسی جگہ بہتر ہے حضور خاموش رہے اور‬
‫پاک صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫وآلہ وسلم‬
‫فرمایا میں جبرائیل ؑ کے آنے تک خاموش رہوں گا چنانچہ آپ صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ٰ‬
‫الصلوۃ‬ ‫خاموش رہے۔ حضرت جبرائیل علیہ السالم حاضر ہوئے تو حضور پاک علیہ‬

‫والسالم نے ان سے پوچھا تو وہ بولے کہ جس سے سوال کیا گیا ہے وہ سائل سے بڑا عالم‬

‫نہیں (یعنی جبرائیل ؑ نے حضور کے سامنے اپنی العلمی کا اعتراف کیا)لیکن عرض کی‬

‫میں اپنے ربّ سے پوچھوں گا پھر جبرائیل ؑ نے عرض کی اے محمد صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫وآلہ‬

‫وسلم! آج میں ہللا کے اتنا قریب ہوا کہ اس سے پہلے میں ہللا کے اتنا قریب نہیں ہوا تھا‬
‫وآلہ وسلم میرے اور‬
‫حضور نے فرمایا کتنا قریب ہوا عرض کی یارسول ہللا صلی ہللا علیہ ٖ‬
‫ہللا کے درمیان ستر ہزار نور کے پردے حائل تھے تو ربّ نے فرمایا بدترین جگہیں بازار‬

‫اور ہللا کی پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں۔ (صحیح ابن حبان بروایت اب ِن عمر)‬

‫مندجہ باال تمام احادیث سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ روئے زمین کے ٹکڑوں میں سے ہللا‬

‫سر نیاز‬
‫کو وہ جگہیں زیادہ پسند ہیں جہاں اسکی عبادت کی جاتی ہے اور اسکے حضور ِ‬
‫فقیر کامل کے قدم مبارک بار‬
‫جھکائے جاتے ہیں لیکن اس جگہ کے کیا کہنے جہاں ایک ِ‬
‫مولی اسکی‬
‫ٰ‬ ‫بار لگتے ہوں ایک مقدس خانقاہ بھی ہو جہاں صبح و شام بلکہ ہمہ وقت طالبا ِن‬

‫مصروف عمل ہوں اور ساتھ ہی ہللا کا‬


‫ِ‬ ‫فقر محمدی کو فروغ دینے کیلئے‬
‫رضا چاہتے ہوئے ِ‬
‫نماز جمعہ بھی ہو تو‬
‫ِ‬ ‫نماز پنجگانہ باجماعت ادا کی جاتی ہو اور‬
‫ِ‬ ‫گھر مسجد بھی ہو جہاں‬

‫اس جگہ کی فضیلت دوگنا ہو جائیگی اور اس جگہ کی تعمیرو ترقی میں جو لوگ حصہ‬

‫ڈالیں گے ان کے اجرو ثواب کے متعلق ہماری سوچ عاجز اور قاصر ہے۔ تمام قارئین سے‬

‫میری گزارش ہے کہ بڑا نادر موقع ہے ہللا اور اسکے رسول کے ساتھ تجارت کرنے کا‬

‫تعالی ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫فرمان باری‬

‫*‪ ‬اِ َّن ہّٰللا َ ا ْشت ََر ٰی ِمنَ ْال ُمْٔو ِمنِ ْینَ اَ ْنفُ َسھُ ْم َو اَ ْم َوالَھُ ْم بِا َ َّن لَھُ ُم ْال َجنَّۃَ(سورۃ توبہ۔ ‪)111‬‬

‫تعالی نے اہ ِل ایمان سے ان کی جانیں اور ان کے مال ان کے لئے‬


‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪ :‬بے شک ہللا‬

‫جنت کے بدلے خرید لیے ہیں ۔‬

‫سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ االقدس ایک مسجد اور‬

‫اس کے ساتھ خانقاہ کے قیام کی بنیاد رکھنے جا رہے ہیں دل کھول کر اپنے پاکیزہ اور‬
‫حالل اموال میں سے تعاون کیجئے کیونکہ یہ نہایت نفع بخش سودا ہے اور ایک کے بدلے‬

‫سات سو گنا نوازنے واال ہے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ وہللا واسع علیم۔‬

‫کار خیر میں حصہ ڈالنے‬


‫خود بھی اس کار خیر میں حصہ ڈالیں اور عزیزواقارب کو بھی ِ‬
‫کی ترغیب دیں ہللا ہم سب کی کاوشیں قبول فرمائے۔ آمین‬

You might also like