Professional Documents
Culture Documents
Aqaid 2
Aqaid 2
ؒ عقائد اور علم الکالم میں فرق اور امام ابومنصور
اہلسنت والجماعت ان عقائد میں جو ضروریات دین ی ا ض روریا ت اس الم ہیں وہ ق رآن و س نت کی قطعی ال داللت اور
قطعی الثبوت نصوص سے رجوع کرکے لیتے ہیں ۔ان عقائد میں کسی مجتہد کی رائے ،اجتہاد یا قی اس ک و دخ ل نہیں
دیا جاتا کیونکہ عقائد قیاسی یا اجتہادی نہیں ہوتے بلکہ منصوص ہوتے ہیں اور ان عقائد اسالم میں اہلس نت ولجم اعت
کے مابین کوئی اختالف نہیں ہوتا ۔ اہلسنت و لجماعت میں کوئی بھی اسکا قائل نہیں کہ عقائد قیاس یا اجتہاد سے ث ابت
کئے جائیں۔اصل مسئلہ کو سمجھنے کیلئے چند نکا ت کا سمجھنا ضروری ہے۔ان میں س ب س ے پہلے علم الکالم اور
عقائد کا فرق سمجھا جائے۔
( 1منصوص عقائد کی ایسی بہترین تشریحات کرنا جو جمہور اہلسنت کے موافق ہوں۔لہذا تشریحات چونکہ منصوص
نہیں ہوتیں جیسا کی قرآنی تفاسیر اور کتب احادیث کی شروحات جو ہر دور میں اہلسنت ولجماعت نے لکھی ہیں۔بلکل
اس ی ط رح عقائ د کی ایس ی تفص یالت بھی ہیں ج و متکلمین اہلس نت نے تش ریحات کے درجے میں بی ان کی ہیں اور
جنکی جمہور اہلسنت نے تائید کی ہے۔
(2عقائد پر وارد ہونے والے عقلی اعتراضات کا قرآن و سنت کی روشنی میں عقل و فہم ک و اس تعمال ک رتے ہ وئے
حتی المقدور ایسا بہترین جواب دینا کہ سائل کا اعتراض ختم ہوجائے ۔
عقائد اور علم الکالم میں چند اہم اور بنیادی فرق مندرجہ ذیل ہیں:
(1عقائد اسالم غیر اجتہادی) یعنی قطعی ال داللت اور قطعی الثب وت) ہ وتے ہیں اور ان میں اجتہ اد کی گنج ائش نہیں
ہوتی ۔اسکے ب رعکس کالمی مس ائل و تفص یالت اجتہ ادی ہ وتی ہیں یع نی مجتہ دین علم الکالم ی ا متکلمین اس الم کے
اجتہاد ات پر مبنی ہوتی ہیں۔
(2عقائد اسالم قطعی ہوتےہیں جبکہ کالمی مسائل و تفصیالت ظنی ہوتی ہیں۔
(3عقائد اسالم کا جاننااور ان پر ایمان النا ہر مسلمان پر فرض عین ہے جبکہ کالمی مسائل و تفص یالت ک ا جانن ا ہ ر
مسلمان پر فرض عین نہیں ہے۔
1
حنیفہ کی تقلی د کی وں نہیں
ؒ حنیفہ کے مقلد ہیں تو علم الکالم میں امام ابو
ؒ پھر یہ اعتراض کہ جب حنفی فقہ میں امام ابو
کرتے تو یہ اعتراض بھی فضول اور محض حماقت ہے اسکے جوابات مندرجہ ذیل ہیں۔
حنیفہ اور دیگر ائمہ مجتہدین کے دور کے بعد گمراہ فرقوں نے کئے اتنی شدت ؒ 1۔ جس قدر زیادہ اعتراضات امام ابو
افعی کے مقل د
سے پہلے اسالمی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے لہذا پہلے امام ابو الحسن اش عری ج و کہ فقہ میں ام ام ش ؒ
نیفہ کے مقل د ہیں ،می دان
ماتریدی جو کہ فقہ میں امام ابو ح ؒ
ؒ ہیں ،وہ میدان میں آئے اور پھر انکے بعد امام ابو منصور
میں آئے علم الکالم کے ان دونوں آئمہ نے گمراہ فرقوں بلخصوص مع تزلہ ،ب اطنیہ ،جہمیہ ،ک رامیہ ،مش بہہ ،ش یعہ
وغیرہ کو اسالمی عقائد پرنت نئے اور بے تحاشا اعتراضات کے میدان میں بدترین شکست سے دو چار کی ا یہی وجہ
عری س ے علم الکالمؒ ماتریدی اور ام ام اب و الحس ن اش
ؒ ہے کہ عقائد کی جتنی تشریحات اور تفصیالت امام ابو منصور
شافعی سے منقول نہیں ہیں اسکی بنی ادی وجہ یہ ہے کہ ؒ حنیفہ اور امام
ؒ کے توسط سے منقول ہیں اتنی تفصیل امام ابو
عقائد پر اتنی شدت اور بہتات سے حملے پہلے ادوار میں نہیں ہ وئے اور علم الکالم ان نظری اتی حمل وں کے مق ابلے
میں ق رآن و س نت س ے ث ابت عقائ د کی حف اظت کیل ئے پھال بڑھ ا اور ت رقی کی جیس ا کہ فن ح دیث کی اص طالحات
حضورﷺ کے دور کے بعد وجود میں آئیں تو کیا اب کوئی اہ ل ب دعت کہہ س کتا ہے کہ اص طالحات
حدیث میں کسی کی تقلید نا جائز ہے اور یہ اصطالحات و اصول غلط ہیں؟
2۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر فن کے مجتہدین جدا ج دا ہیں جیس ا کہ اہ ل ب دعت(وکٹ ورین غیرمقل دین ) ،اہلس نت کی
دیکھا دیکھی میں فن قراءت کے میدان میں قاری عاصم ک وفی کی ان دھا دھن د تقلی د ک رتے ہیں ۔ جس ط رح وکٹ ورین
غیرمقل دین فن ح دیث میں دیگ ر آئمہ ح دیث کے اق وال کی ان دھا دھن د تقلی د ک رتے ہیں۔ اور جس ط رح وکٹ ورین
غیرمقلدین فن تفسیر میں ائمہ تفسیر کی اندھا دھند تقلید کتے ہیں ۔ تو عین اسی طرح علم الکالم میں بھی ایک ج دا علم
و فن ہے جسکے اپنے مجتہدین اور آئمہ ہیں تو یہ اعتراض اس لحاظ سے بھی غلط اور جہالت پر مبنی ہے۔
نیفہ کے مقل د ہیں ت و بلواس طہ ہم علم الکالم
ماتریدی جو فقہ میں امام اب و ح ؒ
ؒ 3۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام ابو منصور
حنیفہ کے مقلد ہوئے تو معلوم ہوا کہ اہل بدعت کا یہ اعتراض محض جہالت ہے۔ ؒ میں بھی امام ابو
المہند علی المفند کی عبارت پراہل بدعت (وکٹورین غیرمقلدین) کا اعتراض اور اسکا جواب
سہانپوری نے کہ علماء دیوبند کی نس بت لکھ ا ہے"اص ول ؒ المہند علی المفند کی عبارت میں حضرت موالنا خلیل احمد
دی کے"۔ اس عب ارت میں اہ ل ب دعت یہ عری اور ام ام ابومنص ور ماتری ؒ
ؒ و اعتقادی ات میں پ یرو ہیں ام ام ابولحس ن اش
اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں لفظ" اصول و اعتقادیات " مذکور ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ احناف دیوبند عقائد میں
ان دو آئمہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اعتراض بھی محض جہالت اور ناسمجھی ہے ۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ اہل زبان یا اہل
علم وفن بعض اوقات کسی بات کو بیان کرنے میں مجازی الفاظ اشارتا ًبیان کرتے ہیں تاکہ مافی الضمیر بہترین ان داز
میں بیان ہوسکے۔لہذا یہاں اصول و اعتقادیات سے مراد علم الکالم کے اصول و تفصیالت ہیں ۔
اگر کوئی جاہل یہ اعتراض کرے کہ اشارتا ً یا مجازی الفاظ استعمال کرنا نامناسب ی ا ناج ائز ہے ت و ان احمق وں ک ا یہ
اعتراض پہلے قرآن و حدیث پر وارد ہوگا بعد میں علماء احناف دیوبند پر وارد ہوگ ا۔ مثال ص حیح بخ اری کی مش ہور
حدیث ہے جس میں نوافل کے ذریعے ہللا کے قرب کے اظہار کیلئے ایسے الفاظ استعمال ہ وئے جنک ا مج ازی مع نی
لئے بغیر کوئی اہلسنت تو دور کی بات ،مسلمان بھی نہیں رہ سکتا جیسا کہ فرمای ا گی ا کہ ۔۔۔ہللا بن دے ک ا ک ان بن جات ا
ہے جس وہ سنتا ہےاور ہللا بندے کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔۔۔ت و اب یہ اں مج ازی مع نی ل ئے بغ یر
کوئی احمق اسکا ایسا معنی بیان کردے کہ وہ مسلمان اور اہلسنت بھی رہے اور مع نی بھی ھقیقی (یع نی غیرمج ازی)
ہو جو کہ ناممکن ہے۔اسی طرح قرآن میں بھی کئی جگہوں پر مجازی معنوں میں ہللا نے کالم کیا ہے (جسکی تفصیل
کی یہ جگہ نہیں ہے)۔توثابت ہوا کہ مخاطب اپنے مافی الضمیر کے اظہار کیلئے مجازی الفاظ استعمال کرسکتا ہے ۔
2
األشعري اوراإلمام الماتريدي کے م ابین بعض ج زئی اجتهادی مس ائل میں خالف ہے ،اور علم اء امت نے ان مس ائل
کوبھی جمع کیا ہے ۔
اإلمام تاج الدين السبكي رحمه هللا نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل هیں " ،تفحص ت كتب الحنفي ة
فوجدت جمي ع المس ائل التى فوجدت جميع المسائل التى بينن ا وبين الحنفية خالف فيه ا ثالث عش رة مس ائل منه ا معنوي ست مسائل
صرح بذلك أبو منصور البغدادي وغيره
والباقي لفظي وتلك الست المعنوية ال تقتضي مخالفتهم لنا وال مخالفتنا لهم تكفيراً وال تبديعاًّ ،
من أئمتنا وأئمتهم" ) طبقات الشافعية ج 3ص ( 38
امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے هیں کہ میں نے احناف کی کت ابوں ک ا بغ ور مط العہ کی ا ت ومیں نے ص رف ت یره
مسائل کوپایا جن میں همارا اختالف ہے اور ان میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرک ا ) اختالف ہے اور ب اقی
(سات ) مسائل میں محض لفظی اختالف ہے ،اور پھر ان چھ مسائل میں معنوی ( تعبیرکا ) اختالف کا مطلب هرگزیہ
نہیں ہے کہ اس کی وجہ س ے هم ای ک دوس رے کی تکف یر اور تب دیع ( ب دعت ک ا حکم ) ک ریں ،اس تاذ أب و منص ور
البغدادي وغيره نے همارے ائمہ میں اور اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے ۔
بالکل یہی بات عالمہ مال علی قاری رحمه هللا نے بھی کی ہے " وقال العالمة على القارى فى المرقات وماوقع من الخالف بين
الماتريدية واألشعرية فى مسائل فهى ترجع الى الفروع فى الحقيقة فانها لفظيات فلم تكن من اإلعتقادات المبينة على اليقينيات بل قال
بعض المحققين ان ال ُخلف بيننا فى الكل لفظي" اهـ۔ ( ج 1ص ) 306
اشعریہ وماتری دیہ کے م ابین بعض مس ائل میں اختالف حقیقت میں ف روعی اختالف ہے ،اور یہ ظ نی مس ائل هیں ان
اعتقادی مسائل میں سے نہیں هیں جو یقینیات کے اوپرمبنی هیں ،بلکہ بعض محققین نے تویہ کہا ہے کہ اش اعره اور
ماتریدیه کے درمیان سب مسائل خالفیہ میں محض لفظی اختالف ہے ۔
لہذا اشاعره اور ماتریدیه عقائد میں ایک هیں اور هم یہ کہ سکتے هیں کہ اش عری ماتری دی ہے اور ماتری دی اش عری
ہے ،کیونکہ ان دونوں جلیل القدر ائمہ نے تو عقائد حقہ کو جمع ونشرکیا ہے اور اص ول عقائ د ان کے پ اس وهی هیں
جو ص حابہ ت ابعین وتب ع ت ابعین کے تھے ،بس ان دو ام اموں نے ت و ان عقائ د کی تبلی غ وتش ہیر ونص رت وحف اظت
وحمایت کی توجیسا کہ صحابہ تابعین وتبع تابعین عقائ د تھے وهی اش اعره اور ماتریدی ه کےعقائ د هیں ،اب وه ل وگ
کتنے خطرے میں هیں جو احن اف اور ام ام ابوح نیفہ س ے ض د وتعص ب کی بن ا پ ر اش اعره اور ماتریدی ه کے عقائ د
کوگمراه وغلط کہ دیتے هیں۔
اگر امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اهتم ام کی ا ت واب اگ ر ک وئی بے وق وف
شخص امام بخاری کے ساتھ عداوت وتعصب کی بنا پر صحیح بخاری ک ا انک ار ک رے ی ا اس ک و غل ط کہے ت و ایس ا
شخص حقیقت میں احادیث رسول کے انکار کا ارتکاب کر رها ہے ،کیونکہ امام بخاری نے تو صرف احادیث رسول
کی حفاظت وصیانت کی اور ان کو اپنی کتاب میں جمع کردیا ،بعینہ یہی حال ہے اإلمام األشعري اوراإلمام الماتريدي
کا ہےکہ ان دو ائمہ نے صحابہ تابعین وتبع تابعین کے عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت کی اور اپنی کتابوں میں اس کو
لکھ کر آگے لوگوں تک پہنچ ا دی ا ،اب ک وئ جاهل ک وڑمغز اش اعره اور ماتریدی ه کے عقائ د ک وگمراه کہے ت و اس
کی اس بکواس کا پہال نشانہ کون بنتا ہے ؟؟
اہلسنت اشعریہ و ماتریدیہ کا منہج اور فرقہ سلفیہ کے ساتھ انکا اختالف
اختالف نمبر ()1
ہمارا دعوی ہے کہ ہللا عرش پر مستوی ہے مگر وہ اس پر ٹھہرا ہوا نہیں۔اور ٹھہ رنے ک ا یہی مطلب ہوت ا ہے کہ
وہیں ہونا اور اسکے عالوہ کہیں نہ ہونا۔
استوی کا اگرچہ لفظی ترجمہ و معانی و مفہوم استقرار یعنی ٹھہرنا ہوتا ہے نام نہاد سلفیوں نے اسی کا اثبات کیا ہے
کیونکہ ان کا یہی عقیدہ تھا کہ ہللا بس عرش پر ہی ہے اور کہیں نہیں جبکہ اسالف میں سے جمہور کا یہ عقیدہ نہیں
استوی علی العرش کو متشابہات سمجھ کر اس کا علم ہللا کے س پرد کی ا ہے ۔ جس ٰ تھا انہوں نے اسکا رد کیا ہے اور
ٰ
طرح سے سلف نے ہللا کی ذات کیلئے جسم ، جھت اور مکان کا انکار کیا ہے اسی ط رح س لف نے ہللا تع الی کی
ذات کیلئے عرش پر یا کہیں اور ٹھہرنے کا بھی انکار کیا ہے۔
ے برابر ہونا بھی ہوتا ہے استوی کا مطلب غالب ہونا بھی ہوتا ہ
اَل يَ ْستَ ِوي الْ ٰق ِع ُد ْو َن ِم َن ال ُْمْٔو ِمنِْي َن غَْي ُر اُولِي الض ََّرر َوال ُْم ٰجه ُد ْو َن ف ْي َسب ْي ِل اهلل (النساء )95
ِ ِ ِ
”برابر نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں ہللا کی راہ میں“
جس طرح سے ان دونوں معانی پر یا ای ک مع نی کی ہللا کیل ئے تخص یص نہیں کی جاس کتی اس ی ط رح اس ٰ
توی کے
تیسرے معنی استقرار ٹھہرنا متمکن ہونا کی بھی نہیں کی جاسکتی
3
استوی سے غلبہ کی تخصیص کرنے والے کو صفات کا منکر کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے ہللا کی صفات ک و اس کے
سپرد نہیں کیا بلکہ اس کی مراد کو خود سے تعین کر لیا اسی طرح استوی کا مع نی براب ر ہون ا بھی ہوت ا ہے اگ ر ہللا
استوی کے اسی معنی کی تخصیص کر لی جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ ہللا عرش کے برابر ہے جبکہ ہللا سب ٰ کیلئے
سے بڑا وہ کسی کے برابر نہیں سب اس کے آگے ذرہ کے برابر بھی نہیں اسی طرح ہللا کیلئے استوی سے ٹھہرنے
کی تخصیص کرنے واال بھی ص فت ک ا منک ر ہ و گ ا کی ونکہ اس نے بھی ہللا کی م راد ک و اس کے س پرد ک رنے کی
بجائے خود سے اس کی مراد کو تعین کرلیا۔
استوی سے ٹھہرنا تو لے لیتا ہے لیکن س اتھ میں اس توی ک ا دوس ری مع نی ٰ فرقہ سلفیہ و کرامیہ بھی ایسا ہی کرتا ہے
جو کہ برابر ہونا بھی ہوتا ہے غالب ہونا بھی ہوتا اسے چھوڑ دیتا ہے اور اگر کوئی اسے اپنائے تو اسے یہ معتزلیہ
کہتا ہے۔
اب بتائے معتزلیہ کا یہی جرم ہے کہ اس نے استوی کا معنی غلبہ لے کر اس پر بس کی اور گمراہ کہالیا ،مجیسمیہ
کا یہی جرم ہے کہ اس نے استوی کا معنی برابر ہونا لے کر اس پر بس کی اور گم راہ کہالی اتو س لفیہ کس کھیت کی
مولی ہیں انہوں نے بھی استوی کا معنی استقرار ٹھہرنا لے کر اس پر بس کی ہے۔ مجرم تو تینوں ہیں۔
( )iمجتہد مطلق حضرت اإلمام األعظم أبو حنيفة رحمہ هللا (وفات 150ھ) فرماتے ہیں کہ "ونقر بأن اهلل سبحانه وتعالى على
العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه"
“ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ هللا سبحانه وتعالى عرش پر ُمس توی ہ وا لیکن وه ع رش ک ا محت اج نہیں اورنہ وہ ع رش پ ر
ٹھہرا ہے۔) “كتاب الوصية (ص ، )۸۷ ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الك وثري (ص ، )2 /ومال علي الق اري
في شرح الفقه االكبر (ص )75 /عند شرح قول االمام :ولكن يده صفته بال كيف (
4
الذي رد فيه على الـمجسمة الذين ينسبون أنفسهم إلى مذهب اإلمام أحمد واإلمام أحمد بريء مما يعتقدون .وقد بيَّ َن ابن الجوزي في
هذا الكتاب أن عقيدة السلف وعقيدة اإلمام أحمد تنـزيه اهلل عن الجهة والـمكان والحد والجسمية والقيام والجلوس واالستقرار
رازی (وفات 606ھ) بھی ہللا کیلئے ٹھہرنے کی نفی کرتے ہیں۔ ؒ ( )ixاسی طرح امام فخر الدین
ـمفسر علي بن محمد الـمعروف بالخازن (741هـ) [تفسير الخازن (([2/238 وقال ال ّ
ش } على الجلوسالع ْر ِ
اس َت َوى َعلَى َ
إن الشيخ فخر الدين الرازي ذكر الدالئل العقلية والسمعية على أنه ال يمكن حمل قوله تعالى { :ثُ َّم ْ
واالستقرار وشغل الـمكان والحيّز.
قر ِف ِيه، يحتَاج إِلَى َم َكان ْ
يستَ ّ س بجسم فَاَل ْ
الحنفی( وفات 855ھ) لکھتے ہیں :أَن اهلل ل َْي َ
ؒ ( )Xاسی طرح امام بدر الدین العینی
) عمدۃ القاری ج 2ص ( 117ہللا جسم سے پاک ہے ہللا مکان کا محتاج نہیں نہ اس میں ٹھہرنے کا۔
ٰ
جس طرح سے سلف نے ہللا کی ذات کیلئے جسم ، جھت اور مکان کا انکار کیا ہے اسی طرح سلف نے ہللا تع الی
کی ذات کیلئے عرش پر یا کہیں اور ٹھہرنے کا بھی انکار کیا ہے۔
سلفیہ کا دعوی ہے کہ ہللا عرش پر ہی ٹھہرا ہوا ہے اور وہ کہیں نہیں ہے۔
( )iسلفیوں کے شیخ صالح العثیمین (وفات 1421ھ) لکھتے ہیں۔
ٰ
استوای کا معنی بلند اور م ا مع نی االس تواء عندھم فمعن ا العل و واالاس تقرار (شرح عقیدہ الوسطیہ ص ( 375ہمارے نزدیک
استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔
( )iiسلفیوں کے ایک اور شیخ ابن عبد الرحمن جبرین (وفات 2009ء) لکھتے ہیں
ٰ
استوی علی العرش هذه ھ ه تفاسير اهل السنة االربعة اكثر هم يقول :استوي علي العرش اي استقرر علیه .اکثر اہلسنت کہتے ہیں
کی تفسیر ٹھرنا ہے۔) التعلیقات الزکیۃ ص (211
( )iiiسلفیوں کے ایک اور شیخ الفوزان (جو حیات ہیں) لکھتے ہیں۔
استوی کا معنی استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔) ش رح ٰ ام ا االس تواء فمعن ا كم ا فسرہ الس لف العل و ،واالس تقرار .کہ سلف کے ہاں
لمعۃ االعتقاد ص (91
ٰ
استوی کی بات کر رہے ہیں۔ نوٹ :یہاں یہ سب کے سب ہللا کیلئے ہی
جبکہ ہم نے جمہور سلف اور مطلق مجتہد امام سے یہ بات ثابت کی ہے وہ اس ک ا رد ک رتے ہیں اس ک ا اثب ات قطع ا ً
نہیں کرتے۔ یہ سب کے سب ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کہتے ہیں۔
( )ivابن تیمیہ (وفات 728ھ) لکھتے ہیں
ولو قد شاء الستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات واألرض وكيف تنكر
أيها النفاخ أن عرشه يُِقلُّه والعرش أكبر من السموات السبع واألرضين السبع ولو كان العرش في السموات واألرضين ما وسعته ولكنه
فوق السماء السابعة) بیان تلبیس الجهمىة فی تاسیس بدعھم الکالمىة (3/243
اوراگرہللا چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرارکرسکتاہے اوراس پر اپنی قدرت اورلطف ربویت سے بلند ورفیع
ہوسکتاہےتوعرش عظیم جو ساتوں زمین اورٓاسمان س ے بھی زی ادہ ب ڑاہے ت واس پ ر ہللا اس تقرارکیوں نہیں کرس کتا۔
توبڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو ہللا کاعرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے۔
بعد میں ابن تیمیہ کو بچانے کیلئے ان کے مقلدین نے یہ بھی کہا ہے کہ ابن تیمیہ نے ایس ا نہیں کہ ا جبکہ یہ کہن ا بے
فائدہ ہے کیونکہ ہم نے بقیہ سلفیوں کے بڑے بڑوں سے یہی بات ثابت کی ہے۔
عباس کی ای ک روایت نق ل ک رکے ؓ بیہقی کے حوالہ سے حضرت عبد ہللا بن ؒ ( )vحافظ ابن قیم (وفات 751ھ) نے امام
ہللا کیلئے استقرار کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔) اجتماع الجیوش االسالمیۃ ص (249
بیہقی نے اپنی اسی کتاب میں جس کا حوالہ حافظ ابن قیم نے دیا اس روایت کو منکر کہ ا ہے۔ اور کہ ا ہے
ؒ جبکہ امام
کہ اس روایت میں جھوٹ ظاہر ہے۔
فهذه الرواية منکرة ۔۔۔۔۔۔۔ وظهور الكذب منهم في روایاتهم )..كتاب االسماء والصفات للبيهقي ص (384 -383
حافظ ابن تیمیہ نے عب د اهلل بن عب د المجي د بن مس لم بن قتيب ة ال دينوري (وف ات 276ھ) کی کتاب کے حوالہ سے عبد ہللا بن
استوای استقرار ہے۔ ق ال :وق ال عب د اهلل بن المب ارك ومن تابع ه من أه ل العلم وهم
ٰ مبارک کا قول نقل کیا ہے جس میں ہے کہ
ؒ
كثير أن معنى استوى على العرش استقر وهو قول القتيبي( . مجموع الفتاوى (5/519
عبد هللا بن عبد المجيد بن مسلم بن قتيبة الدينوري ایک بڑے محدث اور مفسر تھے مگر مذہبا ً کرامی تھے۔
5
بیہقی انہیں کرامی فرماتے ہیں كان ابن قتيبة ي رى رأى الكرامي ة) .سیر اعالم النبال ج 13ص ( 218اور کرامیہ ایک
ؒ امام
گمراہ فرقہ ہے
ہم کسی کو صرف مح دث و مفس ر دیکھ ک ر ہی بقیہ تم ام امت کے خالف اس کے پ یروا نہیں ہ و س کتے ب ڑے ب ڑے
محدث گزرے ہیں جو کہ نبیﷺ کی حدیث روایت کرنے میں تو صحیح تھے مگر مذہبا ً یا تو شیعی
تھے خ وارج بھی تھے رافض ی بھی تھے خ ود بخ اری مس لم میں ک ئی راوی ایس ے موج ود ہیں۔ ان کی ن بی
کریمﷺ سے نقل روایت درست ہے مگر ان کا مذہب درست نہیں۔
اور مح دثین ک ا اص ول ہے کہ ب دعتی کی ح دیث (ی ا روایت) کے ب ارے میں راجح م ذہب یہ ہے کہ جس ح دیث (ی ا
روایت) سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی وہ قبول نہیں کی جاتی۔) شرح مسلم للنوی ص ، 6شرح نخبۃ الفکر
ص (118
6
” ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش هللا تعالی کا ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مک ان
نہیں تھا ،پھرجب هللا تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا (یعنی موجودبالمکان) اب بھی ویسا ہی ہے“
جزي (المتوفى741 :ھ) فرماتے ہیں کہ ؒ )iv( أبو القاسم ،ابن
َو ُه َو اآْل ن على َما َعلَْي ِه َكا َن( .القوانين الفقهية ج ۱ص ۵۷الْبَاب الثَّاني في ص َفات اهلل َت َعالَى عز َشأْنه وبهر ُس ْلطَانه (
ِ ِ ِ
” ہللا کی ذات جیسا (مخلوقات کو پیدا کرنے سے) پہلی تھی اب بھی ویسی ہی ہے“
)v( وقال الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري (وفات 476ھ)
في عقيدته ما نصه "وان استواء ليس باستقرار وال مالصقة ألن االستقرار والمالصقة صفة األجسام المخلوقة ،والرب عز وجل قديم أزلي،
فدل على أنه كان وال مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ (أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع ())101 /1
الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري رحمہ هللا فرماتے هیں کہ هللا تعالی کا استواء استقرار ( کس ی
صقة ( کسی چیزسے ِملنا ُمتص ل هون ا ) بھی نہیں ہے ،کی ونکہ اس تقرار جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور ُمال ِ
صقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ،اور رب تعالی ع ز وج ل ق ديم وأزلي ذات ہے ،پس یہ داللت ہے اس ب ات پ ر و ُمال ِ
کہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مک ان نہیں تھ ا ،پھ رجب هللا تع الی نے مک ان کوپی دا کی ا ت ووه جیس ا تھ ا
( یعنی بالمکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
عساكر (وفات 620ھ) [طبق ات الش افعية (
ؒ ( )viوقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن
ٌ
تحت ، " : ] ) 8/186موجو ٌد قبل ال َخ ْلق ،ليس له قَ ْب ٌل وال بَ ْع ٌد ،والفو ٌ
ق وال
ترجمہ :ہللا موجود ہے جیسا (تمام) مخلوق کی تخلی ق س ے پہلے تھ ا ،نہیں اس س ے پہلے کچھ نہیں اس کے بع د کچھ
نہیں اس کے اوپر کچھ نہیں اس کے نیچے کچھ ۔
( )viiوقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي االشعري (وفات 505ھ)
ما نصه ( " :تعالى أي اهلل عن أن يحويه مكان ،كما تقدس عن أن يحده زمان ،بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو االن على ما عليه
كان " اهـ ) .إحياء علوم الدين :كتاب قواعد العقاند ،الفصل األول ((108 /1
غزالی فرماتے ہیں ہللا زمان و ماکان کی تخلیق سے پہلے تھا اور ویسا ہی ہے جیسا وہ (مخلوق کی تخلیق) س ے ؒ امام
پہلے تھا۔
( )viiiقال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي ( 520ھ) “ليس اهلل في
مكان ،فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ .ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل "( المدخل :فصل في االشتغال بالعلم يوم الجمعة
())149/2
ہللا مکان میں نہیں وہ تو مکان کی تخلیق سے بھی پہلے تھا۔
()ixوقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السالم األشعري الملقب بسلطان العلماء( وفات 660ھ)
مصور ،وال جوهر محدود ُمقدَّر ،وال يشبه شيئا ،وال يُشبهه شىءٌ ،وال تحيط به الجهات ،وال تكتنفه األرضون وال
"ليسء أي اهللء بجسم َّ
كون المكان ودبَّر الزمان ،وهو اآلن على ما عليه كان" ا.هـ (طبقات الشافعية الكبرى :ترجمة عبد العزيز بن عبد
السموات ،كان قبل أن َّ
السالم ()219 /8
ہللا جسم واال نہیں محدود نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔
( )xوقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة اهلل المكي الحموي المصري ( 599هـ)
في تنزيه اهلل عن المكان ما نصه وصانع العالم ال يـحـويه قطر تعالـى اهلل عن تشبيه قد كان موجودا وال مكانا وحكمه االن عـلى ما كانا
س بحانه ج ل عن المك ان وع ز عن تغ ير الزم ان" اهـ )منظومت ه "ح دائق الفص ول وج واهر األص ول" في التوحي د ،ال تي ك ان أم ر بتدريس ها
السلطان المجاهد صالح الدين األيوبي (ص )13النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب( 32 /4 ،
ہللا موجود تھا بال مکان اور ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔
)xi( وقال اإلمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي اهلل عنه إمام المذهب الشافعي ما نصهˮ :إنه تعالى كان وال مكان فخلق
المكان وهو على صفة األزلية كما كان قبل خلقه المكان ال يجوز عليه التغيير في ذاته وال التبديل في صفاته " اهـ) إتحاف السادة المتقين
((24 /2
شافعی فرماتے ہیں
ؒ امام
7
الی اُس ی
تعالی نے مکان کو پیدا کی ا اور ہللا تع ٰ
ٰ تعالی موجود تھے اور کوئی مکان موجود نہیں تھا پس ہللاٰ بے شک ہللا
صفت ازلیہ ( ازل سے جو ہللا کی صفت ہے) پر ہے جیسے مکان کے پیدایش سے پہلے تھے ۔ جائز نہیں ہے ہللا کے
ذات میں تبدیلی کرنا اور نہ ہللا کے صفات میں تبدیلی کرنا۔
سلفیہ کا دعوی ہے ہللا جس طرح مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا اب ویسا نہیں۔
سلفیہ کے شیخ صالح العثیمین (وفات 1421ھ) لکھتے ہیں
ˮوهو اآلن علي ما كان عليه وهو يريد ان ينكر استواء اهلل “ہللا جیسا تھا اب بھی ویسا ہے کہنا استواء کا انکار کرنا ہے۔) شرح
عقیدہ وسطیہ ص (208
اختالف نمبر ()3
ہمارا دعوی کہ جس طرح ہللا کے اوپر کچھ نہیں اسی طرح اسکے نیچے بھی کچھ نہیں
اهر والْب ِ
ِ ِ
ہللا تعالی قرآن ک ریم میں فرم اتے ہیں ُ :ه َو اأْل ََّو ُل َواآْل خ ُر َوالظَّ ُ َ َ
اط ُن (الحدید )3وہی اول وہی آخ ر وہی ظ اہر وہہی ٰ
باطن
رسول ہللاﷺ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں
"اللهم أنت األول ،فليس قبل ك ش يء ،وأنت اآلخ ر ،فليس بع دك ش يء ،وأنت الظ اهر فليس فوق ك ش يء ،وأنت الب اطن ،فليس دون ك
شيء".
اے ہللا تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ،تو ”آخر“ ہے تیرے بعد ک وئی نہیں ،ت و ”ظ اہر“ ہے تیس رے اوپ ر کچھ
نہیں ،تو ”باطن“ ہے تیرے نیچے کچھ نہیں۔( صحیح مسلم)
8
س ِفي ْج ْه ِميَّةَ َف َق َ ِ
ال إنَّ َم ا يُ َح ا ِولُو َن أَ ْن ل َْي َ
ٍ
اد بْ َن َزيْ د َوذَ َك َر ال َ ال َس ِم ْع ُ
ت َح َّم َ َح َّد َثنَا َع ْب د اللَّ ِه َح َّد َثنَا َعلِ ُّي بْ ُن ُم ْس لِ ٍم قَ َ
ال َثنَ ا ُس لَْي َما ُن بْ ُن َح ْر ٍ
ب قَ َ
الس َم ِاء َش ْيءٌ (مسند اإلمام أحمد بن حنبل(ج/۴۵ص:)۵۶۷صحیح) َّ
(محدث و فقیہ) نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ل وگ زیدؒ ”سلیمان ؒ فرماتے ہیں حماد بن
آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے“
جبکہ سلفیہ کا دعوی ہے کہ نہیں ہللا تمام جھات اور حدود سے پاک نہیں۔
جیسا ان کے عقیدے واضح ہے اور اگر ان کے عقیدے سے ہللا کیل ئے ح دود جھت ث ابت نہیں ہ وتی ت و اور پھ ر کس
طرح سے ہوتی ہے؟
اختالف نمبر)9(
ہمارا دعوی ہے کہ ہللا کا آسمان دنیا پر نزول بال کیف ہے حرکت کے ساتھ نہیں
9
ہللا ٰ
تعالی رات کے وقت آسمان دنیا پ ر ن زول فرم اتے ہیں جیس ا کہ ح دیث میں آی ا ہے۔ اور دنی ا میں ہ ر وقت کہیں نہ
کہیں رات ہوتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ ہللا کا آسمان دنیا پر نزول یوں ہے کہ ہللا عرش سے اتر کر آسمان پر آگیا تو
اس کا مطلب ہو گا کہ ہللا ہر وقت آسمان پر ہی ہے یا یہ کہا جائے کہ ہللا عرش پر بھی ہو تا ہے اور وہاں س ے نیچے
آسمان پربھی آتا تو یہ کہنا پڑھے گا کہ ہللا بیک وقت عرش اور آسمان پر ہوتا ہے یہ دونوں ب اتیں س لفیہ کے عقی دے
سے الزم آتی ہے جبکہ ہمارا دعوی ہے کہ ہللا کا نزول بال کسی کیفیت کے ہے۔
سلفیہ کا دعوی ہے نہیں بال کیف نہیں بلکہ پہلے آسمان خالی ہوتے ہیں پھر ہللا کی ذات حرکت ک رکے ع رش س ے
آسمان پر آجاتی ہے۔
جیسا کہ ان کے عقیدہ سے واضح ہے
شیخ محمد بن عثیمین لکھتے ہیں۔
الحرکة هلل تعالي فالحرکة له حق )الجواب المختار ص ( 22ہللا حرکت کرتا ہے یہ حق ہے۔
مالکی (وفات 463ھ ) فرماتے ہیں ؒ عالمہ ابن عبد البر
وقد قالت فرقة منتسبة الي السنة انه تعالي ينزل بذاته وهذا قول مهجور ألنه تعالي ذكره ليس بمحل للحركات وال فيه شئ من عالمات
المخلوقات )االستذکار ج 8ص (153
فرقہ منتسبہ یہ کہتا ہے کہ ہللا کا نزول ذات کے ساتھ ہے اور ان کا یہ قول الوارث ہے۔۔۔۔ اور حرکت کرنا مخلوق کی
عالمات میں سے ہے۔
جبکہ سلفیہ کے نزدیک کسی بھی ذات کو حاضر ناظر ماننا شرک نہیں ہوسکتا۔
کیونکہ شرک ہو تو کس کے ساتھ ہو ہللا تو حاضر و ناظر نہیں۔
اسلئے اب کوئی نبی کو یا ولی کو یا کسی بھی اور مخلوق کو ہر جگہ حاضر و ناظر مانتا ہو تو یہ گناہ اور جھ الت
تو ہو سکتا ہے مگر شرک نہیں ہو سکتا۔
ن خ
ن من ف 11 الف ات
ن
ے ۔ ے اور ع ی مراد کو ہللا کے سپ رد کر ا ہ تای مان رکھ ا ہ ے کہ صوص ص ؒ فات پر ہ مارا دعوی ہ
محدث امام ج الل الدی ن سی وطی رماے ہ ی ں:
اها ال ُْم َر ِاد ِم ْن َها إِلَى اللَّ ِه َت َعالَى َواَل ُن َف ِّ
س ُر َها َم َع َت ْن ِزي ِهنَ ا لَهُ َع ْن يض َم ْعنَ َ يث َعلَى اإْلِ يم ِ
ان بِ َها َوَت ْف ِو ِ َ
ف وأ َْهل الْح ِد ِ
السلَ ُ َ ُ َ السن َِّة ِم ْن ُه ُم َّ
ور أ َْه ِل ُّ
َو ُج ْم ُه ُ
ن َح ِقي َقتِ َها.
ت ن ف م ش ث ن ج ت
ے سا ھ قاس ات پر) ای م نان رکھ ا ہ ظ ب ( صوص ص ان کا مذہ ت ئحد ی ن) ا ل ہ ی ت فں ن رج مہ :مہور اہ ل س نت ج ن می ں سلف اور اہ لحدی ث (م
کے کہ ان کے مع ی مراد کو ہللا کی طرف سپ رد کر دی ا ج اے اور ہ م ان کی سی ر ہی ں کرے ج ب کہ ان کے اہ ری مع ی سے ہللا کو پ اک رار ت
ت ن ن ے ہ یف قں۔س ف دی
ع ہ نض من ش م ف ئ ک ف ل
ے۔ ہ روری ا و لوم م اک مراد ی ع کے ات ہ اب ات ص ے سف یل ے ال ان م ا
ئیر پ ات ت ص صوص کہ
ہ ت
ے دعوی اک ہ ی ہ ر کہ جب
ے :هذا النص اوال صريح في التفويض المبدع المتقول علي ک ل ل ہ س
امام ی وطی ؒ کی اس ع ب ارت پر ب صرہ کرے وے ای ک ی ھت ا ہ
السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف
للقعيدة السلفية قوله 28ن) الجهمية (عداء الماتریدية
صارخ بالتعطيل صراخ ثكالي ٹ حقيقتها ، وثانياً قوله :مع تنزيھنا لهو عن
ن تف ت ت ت
ے ( عوذ ب اللہ) کہ ہ م س
ے و کہ ھوے طور پر لف کی طرف سوب ک ی ا گ ی ا ج ج ہ
ت ے و اس وی ض می خں صری ت ح رج مہ :می تں کہہت ا ہ وں ی ہ ع ب ارے پ ل
ہ
ارت کہ ہ م ان کے عط
ل جق ی ل ناور اہ ل ی ل کی قطرف تسے ج و کہضمت ا ری ن ب دع ی ہفی ں دوسرا ی ہ کہ امام سی وطی ت ہ ق ہ
ہللا) کی ی ہ ع ب ب(رحمہ ف ے ہ ں وا ح طور ر عط ظاہ ل ج ح
ے ان ج ہمی عور وں کی ری اد کی طرح ج و چ وں سے محروم ہ ی ہ ر کر اد یر ل ی پ ی ی د رار اک پ کو ہللا سے ی ع م ی ی اہ ئری
ہ و گ ی ہ وں۔ (والع ی اذ ب اللہ)
10
تمام اہلسنت والجماعت کا اجماعی مسئلہ ہے کہ تین طالق تین ہی ہے۔
جبکہ سلفیہ کے نزدیک تین طالق ایک ہے۔
اس میں وہ تمام امت کو چھوڑ کر ابن قیم اور ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہیں جنہوں نے خود اس غیر اجتہ ادی مس ئلہ
میں اجتہاد کو دخل دیا۔
جبکہ یہ بات قطعا درست نہیں اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں کوئی اختالف نہیں ہے ،چند ف روعی مس ائل
میں اختالف ہے جوکہ مضرنہیں ہے یہ ایسا اختالف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ هونے سے
نکل جائے ،لہذا اإلمام األشعري اوراإلمام الماتريدي کے مابین بعض جزئی اجتهادی مسائل میں خالف ہے ،اور علماء
امت نے ان مسائل کوبھی جمع کیا ہے ،اإلمام تاج الدين السبكي رحمه هللا نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل
تیره مسائل هیں ،
تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خالف فيها ثالث عشرة مسائل منها
معن وي س ت مس ائل والب اقي لفظي وتل ك الس ت المعنوي ة ال تقتض ي مخ الفتهم لن ا وال مخالفتن ا لهم تكف يراً وال تب ديعاً ،ص ّرح ب ذلك أب و
منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم ) طبقات الشافعية ج 3ص ( 38
امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے هیں کہ میں نے احناف کی کت ابوں ک ا بغ ور مط العہ کی ا ت ومیں نے ص رف ت یره
مسائل کوپایا جن میں همارا اختالف ہے اور ان میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرک ا ) اختالف ہے اور ب اقی
(سات ) مسائل میں محض لفظی اختالف ہے ،اور پھر ان چھ مسائل میں معنوی ( تعبیرکا ) اختالف کا مطلب هرگزیہ
نہیں ہے کہ اس کی وجہ س ے هم ای ک دوس رے کی تکف یر اور تب دیع ( ب دعت ک ا حکم ) ک ریں ،اس تاذ أب و منص ور
البغدادي وغيره نے همارے ائمہ میں اور اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے ۔
اس کے برعکس فرقہ سلفیہ میں ان کی غیر اجتہادی مس ائل میں خ ؤد اجتہ ادی اور الم ذہبیت کی ب دولت عقائ د
میں سخت اختالف موجود ہے۔ اب المذہبی اسے پڑھیں اور بتائیں کہ ان میں سے کس کا مسئلہ ٹھی ک ہے اور ک ون
حق پر ہے اور کون گمراہی پر۔
11
فأخذت في البطاقات نظرا وتقليبا ،عما قد يكون فيها من الكنوز بحثا وتفتيشا ،حتىوقعت عيني على رسالة لألمام الصنعاني ،تحت اسم
(رفع األستار البطال أدلة القائلينبفناء النار) .في مجموع رقم الرسالة فيه ( ، )2619فطلبته ،فإذا فيه عدة رسائل ،هذه الثالثة منها .
فدرستها دراسة دقيقة واعية ،الن مؤلفها اإلمام الصنعاني رحمهاهلل تعالى رد فيها على شيخ اإلسالم ابن تيمية وتلميذه ابن القيم ميلهم ا الى
القولبفناء النار ،بأسلوب علمي رصين دقيق ( ،من غير عصبية مذهبية .وال متابعة اشعريةوال معتزلية) كما قال هو نفسه رحمه اهلل تعالى
في آخرها .وقد كنت تعرضت لرد قولهماهذا منذ اكثر من عشرين سنة بإيجاز في (سلسلة األحاديث الضعيفة) في المجلد الثانيمنه (ص
)75 - 71بمناسبة تخريجي فيه بعض األحاديث المرفوعة ،واآلثار الموقوفة التياحتجا ببعضها على ما ذهبا إليه من القول بفناء النار ،
وبينت هناك وهاءها وضعفها ،وان البن القيم قوال آخر ،وهو أن النار ال تفنى أبدا ،وان البن بيمية قاعدة فيالرد على من قال بفناء الجنة
والنار .وكنت توهمت يومئذ انه يلتقي فيها مع ابنالقيم في قوله األخر ،فإذا بالمؤلف الصنعاني يبين بما نقله عن ابن القيم ،ان الردالمشار
إليه ،انما يعني الرد على من قال بفناء الجنة فقط من الجهمية دون من قالبفناء النار ! وانه هو نفسه -اعني ابن تيمية -يقول :بفنائها ،
وليس هذا فقط بلوان أهلها يدخلون بعد ذلك جنات تجري من تحتها األنهار ! وذلك واضح كل الوضوح فيالفصول الثالثة التي عقدها
ابن القيم له ذه المس الة الخط يرة في كتاب ه (ح ادي األرواح إلى بالد األف راح) ( ، )228 - 167 / 2وق د حش د فيه ا (من خي ل األدل ة
ورجلها ،وكثيرهاوقلها ،ودقها وجلها ،واجري فيها قلمه ،ونشر فيها علمه واتى بكل ما قدر عليه منقال وقيل ،واستنفر كل قبيل
وجي ل) كم ا ق ال المؤل ف رحم ه اهلل ،ولكن ه أض فى بهذاالوص ف على ابن تيمي ة ،وابن القيم أولي ب ه وأح رى ألنن ا من طريق ه عرفن ا راي
ابنتيمية ،في هذه المسالة ،وبعض أقواله فيها ،وأما حشد األدلة المزعومة وتكثيرها ،فهي من ابن القيم وصياغته ،وان كان ذلك ال ينفي
انه تلقى ذلك كله أو جله من شيخه(رفع األستار إلبطال أدلة القائلين بفناء النارص)۳
البانی صاحب نے اس پورے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اس کاخالصہ یہ ہے کہ امیر محم د بن اس ماعیل الص نعانی
نے ابن تیمیہ اورابن قیم کے رد میں یہ کتاب لکھی ہے اوراس کت اب میں ان دون وں پ ر علمی تنقی د کی گ ئی ہےاوریہ
کہ ابن تیمیہ کاقول صرف اس قدر نہیں ہے کہ جہنم فناہوجائے گی بلکہ اس کے بعد اس میں اتناضافہ بھی ہے کہ اس
کے بعد ان کو یعنی جہنمیوں کو جنت میں میں داخل کیاجائے گا۔
ابن تیمیہ کے تمام دالئل چاہے وہ قوی ہویاکمزور،چھوٹے ہوں یابڑے،تھوڑاہویازی ادہ یع نی دلی ل کے ن ام پ ر ج وکچھ
بھی انہیں مل سکتاتھا۔اس کو ابن قیم نے اپنی کتاب حادی االرواح الی بالد االفراح میں نقل کردیاہے۔
ابن تیمیہ اورابن قیم کے درمیان فناء نار کے سلسلے میں تھوڑااختالف ضرور ہے لیکن ہمیں سردس ت ابن تیمیہ س ے
بحث ہے۔
امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں۔
اعلم أن ه ذه المس ألة اش ار إليه ا اإلم ام ال رازي في مف اتيح الغيب ولم يتكلم عليه ا ب دليل نفي وال إثب ات وال نس بها إلى قائ ل معين ولكن ه
استوفى المقال فيها العالمة ابن القيم في كتابه حادي األرواح إلى ديار األفراح نقال عن شيخه العالمة شيخ اإلسالم أبي العباس ابن تيمية
فإنه حامل لوائها ومشيد بنائها وحاشد خيل األدلة منها ورجلها ودقها وجلها وكثيرها وقليلها وأقر كالمه تلميذه ابن القيم (رفع األستار
إلبطال أدلة القائلين بفناء النارمقدمہ امیرالصنعانی)
جان لو کہ اس مسئلہ کی جانب امام رازی نے اپ نی تفس یر مف اتیح الغیب میں اش ارہ کی اہے لیکن اس پ ر کس ی قس م ک ا
ک وئی کالم نہیں کی ااورنہ ہی اس ق ول ک و اس کے قائ ل کی ج انب منس وب کی ا۔لیکن اس ب ارے میں س ب س ے زی ادہ
تفصیلی بحث ابن قیم نے اپنی کتاب حادی االرواح الی دیاراالفراح میں اپنے ش یخ ابن تیمیہ کے فرم ودات کی روش نی
میں کیاہے۔اس لئے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ہی سرخیل اورسرفہرست اوراس کے دالئل وبراہین ذک ر ک رنے والے
ہیں اورابن تیمیہ کے کالم کا ابن قیم نے اثبات کیاہے۔
ایک صاحب جن کا نام عبدالکریم صالح الحمید ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ''الق ول المخت ار لبی ان فن اء الن ار''جس
میں البانی پرتنقید کیاہے اورابن تیمیہ کے مسلک کہ جہنم فن اء ہوج ائے گی اس ی کی تائی د کی ہے چن انچہ یہ ص احب
البانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
''اس کتاب کے لکھنے کا ب اعث یہ ہ وا کہ ہم نے دیکھ اکہ بعض ل وگ کہ تے ہیں کہ ابن قیم کی کت اب میں کچھ ایس ی
چیزیں ہیں جن کی اصالح کی ضرورت ہے پھر ہم نے کتاب رفع االستار دیکھی اوروجہ کا پتہ چ ل گی ا۔یہ کت اب ج و
االلبانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس میں البانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم پر سخت کالم کی اہے اورکہ اہے کہ
انہوں نے اپنے اس مسلک کیلئے آیات واحادیث میں خواہ مخواہ تکلف اورتاویل سے کام لیا بلکہ الب انی نے یہ اں ت ک
کہاکہ جن چیزوں میں عقل کو کوئی دخ ل نہیں ہے اس میں بھی انہ وں نے عق ل کی دخ ل ان دازی س ے ک ام لی نے کی
کوشش کی جیساکہ معتزلہ کرتے ہیں الب انی نے اس ی پ ر بس نہیں کی ابلکہ یہ ت ک کہ اکہ مع تزلہ اوراش اعرہ نے جن
صفات کی تاویل کی ہے وہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ جن آیات واحادیث میں تاوی ل کی
ہے(القول المختار لبیان فناء النار صفحہ ()14-13
12
اس مسئلہ پر ایک اورصاحب نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے''کشف االستار البط ال ادع اء فن ار الن ار''اور اس میں
کوش ش کی ہے کہ کس ی ط رح یہ ث ابت کردیاج ائے کہ فن اء ن ار کے ابن تیمیہ قائ ل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوش ش س عی
الحاصل ہے اورغیرمقلدین کی پرانی عادت ہے کہ جہ اں کہیں وہ کس ی ایس ی ب ات ی اکوئی ایس ی کت اب دیکھ تے ہیں
جوان کے مزعومات کے خالف ہو تو ف وراًاس ک ا انک ار کردی تے ہیں بغ یر یہ دیکھے ہ وئے کہ علمی اص ول تحقی ق
کیاکہتاہے۔ یہی کرتب بازی انہوں نے زغل العلم میں بھی دکھائی ہے اورچونکہ حاف ظ ذہ بی نے اس میں ابن تیمیہ پ ر
سخت تنقید کی ہے لہذا ان کی پوری کوش ش ہ وتی ہے کہ حاف ظ ذہ بی کی تص نفیات کی فہرس ت س ے یہ کت اب نک ال
دیاجائے اوراسے مشکوک ثابت کیاجائے ۔
حضرت ابن تیمیہ اورابن قیم کے ا س موقف پر کہ جہنم بآالخر فناہوجائے گی پ ر ان کے ای ک معاص ر مش ہور فقیہہ
اورمحدث تقی الدین سبکی نے بھی رد کیاہے ان کی کتاب کا نام ہے۔"االعتب ار ببق اء الجنۃ والن ار"جس میں انہ وں نے
ان حضرات پر تردید کی ہے جو کہ جہنم کے فناہوجانے کے قائل ہیں۔
واماالقول بفناء النار ففیها قوالن معروفان عن السلف والخلف ،والنزاع فی ذلک معروف عن التابعین ومن بعدھم ۔(مقدمہ رفع االستار
ص)9
فناء نار کے بارے میں سلف اورخلف میں دوق ول رہے ہیں اوراس ب ارے میں ت ابعین اوران کے بع د کے لوگ وں میں
نزاع رہاہے۔
والراب ع :ان الن ار قیدها بقولھا (الب ثین فيها احقاب ا)وقول ه (خال دین فيه ا االماش اء اهلل)وقول ه (خال دین فيه ا م ادامت الس ماوات واالرض
االماشاء ربک ) فهاذة ثالث ٓایات تقتضی قضیۃ موقتۃ اومعلقة علی شرط،وذاک دائم مطلق لیس بموقت والمعلق۔
چوتھی دلیل یہ ہے کہ قرٓان کریم میں نار ک و م ذکورہ تین ٓایت وں س ے مقی د کیاگی اہے۔ یہ تین وں ٓای تیں ن ار کے م وقت
اورشرط پر معلق ہونے ک ا تقاض اکرتی ہیں اورجس کی ص فت دوام اورمطل ق کی ہ وتی ہے وہ م وقت اورمعل ق نہیں
ہوتی ہے۔
السادس:ان الجنة من مقتضی رحمتہ ومغفرته والنار من عذابه ،وقد قال( :نبیء عبادی انی اناالغفور الرحیم وان عذابی ھوالعذاب االلیم)
تعالی تعالی(ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفورالرحیم۔ )
تعالی اعلموا ان اهلل شدید العقاب وان اهلل غفور رحیم)وقال ٰ
وقال ٰ
فالنعیم من موجب اسمائه التی هي من لوازم ذاته ،فیجب دوامه بدوامعانی اسمائه وصفاته واماالعذاب فانما ھو من مخلوقاته والمخلوق
قد یکون له انتهاء مثل الدنیا وغیرھا ،السیما مخلوق خلق لحکمۃ یتعلق بغیرہ۔
چھٹی دلیل یہ ہے کہ جنت ہللا کی رحمت اورمغفرت کے تقاضوں میں سے ہے اورجہنم اس کے عذاب کومقتضی ہے۔
وتعالی نے متعدد ٓایتوں مین خبردی ہے۔پس نعمت اس کے ان اس ماء کے موجب ات میں س ے ہے ٰ اوراس کی ہللا تبارک
جواس کی ذات کو الزم ہے لہذا اس کا دوام اس کے معانی اورصفات کے دوام کے ساتھ ہی متحق ق ہوس کتاہے جہ اں
تک عذاب کی بات ہے تو وہ اس کی مخلوقات مین سے ہے اورمخلوق کی کبھی انتہ اء بھی ہ وتی ہے جیس ے کہ دنی ا
اوردیگر چیزیں خاص طورپر وہ مخلوق جسے دوسری حکمت کی وجہ سے پیداکیاگیاہو۔
الوج ه الس ابع :ان ه ق د اخ بر ان رحمت ه وس عت ک ل ش ی وان ه "کتب علی نفس ه الرحم ه"وق ال"س بقت رحم تی غض بی "و"غلبت رحم تی
غضبی"وھذا عموم واطالق فاذا قدرعذاب الٓاخرله ،لم یکن ھناک رحمة البتة(مقدمہ رفع االستار )۱۳
وتعالی نے خبر دی ہے کہ اس کی رحمت ہرچیز پر وسیع ہے اوراس نے اپنے اوپر ٰ ساتویں دلیل یہ ہے کہ ہللا تبارک
رحمت کو الزم کیاہے اورفرمایاہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت ل ئے ہ وئے ہے اورم یری رحمت م یرے
غضب پر غالب ہے اوریہ تمام عموم اوراطالق کےساتھ وارد ہواہے پھراگرکوئی ع ذاب ایس اہو جس کی ک وئی انتہ اء
نہ ہوتو یہاں رحمت کا قطعی تحقق نہ ہوگا۔
البانی کا موقف
13
البانی نے ابن تیمیہ پ ر اس مس ئلہ پ ر تنقی د ک رتے ہ وئے رف ع االس تار میں ج وکچھ بھی لکھ اہے وہ پیش خ دمت ہے۔
ابن تیمیہ کی جوساتویں دلیل تھی کہ اگرالنہایہ عذاب ہوتو رحمت کا تحقیق نہیں ہوگ ا۔ اس پ ر الب انی ص احب فرم اتے
ہیں
فکیف یق ول ابن تیمي ه :ولوقدرع ذاب الٓاخرل ه لم یکن ھن اک رحم ة البت ه فک ان الرحم ة عندہ التتحق ق االبش مولها للکف ار المعان دین
الطاغین !الیس ھذا من اکبراالدلة علی خطا ابن تیميه وبعدہ ھو ومن تبعہ عن الصواب فی ھذہ المسالۃ الخطیرۃ !فغفرانک اللهم!
کہ ابن تیمیہ کیسے اس کے قائل ہیں کہ اگر جہنم فناء نہ ہوتو رحمت الہی کا تحقق نہیں ہوگ ا۔گوی اکہ رحمت ک ا ثب وت
جبھی متحقق ہوگا جب اس میں کفار اورسرکشوں کو بھی شامل کیاج ائے اورکی ایہ ابن تیمیہ اوراس مس ئلہ میں ان کی
پیروی کرنے والے کی غلطی کا اثبات نہیں ہے جو اس خطرن اک مس ئلہ میں ان کی پ یروی ک ررہے ہیں۔اس کے بع د
البانی صاحب نے یہ تاویل کرنی چاہی ہے کہ یہ ان کے ابتدائے حال کا اورسن شباب کا واقعہ تھ ا جب کہ ان مط العہ
کتاب وسنت میں وسیع نہیں تھ ا اورادلہ ش رعیہ میں انہیں مہ ارت حاص ل نہیں تھی (بعض ل وگ اس ی عم ر مین انہیں
مجتہد ماننے پر بضد ہیں)
ولعل ذلک کان منه ابان طلبه للعلم،وقبل توسعہ فی دراسة الکتاب والسنة،وتضلعة بمعرفة االدلة الشرعلة ۔(مقدمہ رفع االستارص)25
یہ تاویل کئی وجوہ کی بناء پر باطل ہے لیکن اس کی تفصیل ہم کسی اوروقت کیلئے اٹھاکر ررکھتے ہیں ۔یہاں یہ بات
واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان میں 2/334میں مذکور ہے۔ت و
اب بعض صفات میں تاویل کی وجہ سے احناف کو جہمی کہنے والے ابن تیمیہ ک و اس مس ئلہ کی وجہ س ے کی اکہیں
گے وہ خود فیصلہ کرلیں ۔ہم یہ فیصلہ انہی پر چھوڑتے ہیں۔
اس سے بھی بڑاس وال یہ ہے کہ حض رت ابن تیمیہ اورحض رت ابن قیم کی ای ک رائے ہے اوردوس ری رائے الب انی
صاحب کی ہے ۔ان دونوں میں برحق کون ہے اورمدعیان سلف کی زبان میں بات کریں توگمراہ کون ہے؟
عقیدہ نمبر :2مسئلہ استقرار علی العرش
توی ،اس ٓایت پ ر ہماراایم ان ہے س لف س ے اس وتعالی کاارشاد ہے الرحمن علی الع رش اس ٰٰ قرٓان پاک میں ہللا تبارک
تعلق سے جوکچھ مروی ہے وہ یہ کہ استواء معلوم ہے،اس کی کیفیت مجہول اوراس تعلق سے سوال کرنا بدعت ہے۔
اہلسنت سلف میں کسی نے بھی استواء کی تفسیر استقرار کے ساتھ نہیں کی ہے۔لیکن حض رت ابن تیمیہ اس کے قائ ل
تعالی عرش پر مستقر ہیں۔اوریہ کہ ہللا مچھر کی پیٹھ پر بھی مستقر ہوسکتاہے اورالبانی ص احب اس عقی دہ ٰ ہیں کہ ہللا
کو بدعت مانتے ہیں۔چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہیں۔
ولو قد شاء الستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات واألرض وكيف تنكر
أيها النفاخ أن عرشه يُِقلُّه والعرش أكبر من السموات السبع واألرضين السبع ولو كان العرش في السموات واألرضين ما وسعته ولكنه
فوق السماء السابعة (بیان تلبیس الجھمیۃ فی تاسیس بدعھم الکالمیۃ)3/243
"اوراگرہللا چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرارکرس کتاہے اوراس پ ر اپ نی ق درت اورلط ف رب ویت س ے بلن د
ورفیع ہوس کتاہےتوعرش عظیم ج و س اتوں زمین اورٓاس مان س ے بھی زی ادہ ب ڑاہے ت واس پ ر ہللا اس تقرارکیوں نہیں
کرسکتا۔توبڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو ہللا کاعرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے"۔
البانی کا موقف
دیکھئے اس بارے میں البانی صاحب کاکیاموقف ہے؟البانی صاحب اس سلسلے میں مجاہد کا اثر ذک ر ک رنے کے بع د
کہ جس مین عرش پر ہللا کے قعود کی صراحت ہے اس کومنکر بتاتے ہوئے استقرار کی نفی کی ہے۔
ولست ادری ماالذی منع المصنف-عفااهلل عنه-من االستقرار علی ھذاالقول علی جزمه بان ھذااالثر منکر کماتقدم عنه فانه یتضمن نسبة
الی وھ ذا مم الم یرد ب ه ،فالیج وز اعتق ادہ ونس بته الی اهلل
القع ود علی الع رش هلل عزوج ل ،وھذایس تلزم نس بة االس تقرار علي ه هلل تع ٰ
عزوجل( مختصر العلو للعلی العظیم )1/16
"اورمیں نہیں جانتا کہ مصنف(حافظ ذہبی )کو اس قول پر جمنے سے کس چیز نے منع کی اہے ب اوجود اس کے کہ یہ
اثر منکر ہے جیساکہ گذرچکاکیونکہ اس اثر کو اختیار کرنے کا مطلب ہللا عزوج ل کیل ئے ع رش پ ر قع ود ک و تس لیم
وتعالی کیلئے استقرارالزم ٓائے گا جب کہ اس بارے میں کوئی نصٰ کرناہوگا۔اوراس کی وجہ سے عرش پر ہللا تبارک
وارد نہیں ہوئی ہے لہذا ہللا عزوجل کی جناب مین ایسااعتقاد اورایسی باتوں کی نسبت جائز نہیں ہے"۔
14
وتعالی مخلوق سے جداہے اوراس کی ص فات میں س ے ٰ ابن تیمیہ اوران کے بعض مقلدین کا قول یہ ہے کہ ہللا تبارک
ایک صفت جو علو کی ہے وہ اپنے حقیقی معنوں میں م راد ہے اورہللا کی مخل وق کے س اتھ ج و معیت ہے ت ووہ علم
کے اعتبار سے ہے۔چنانچہ حضرت ابن تیمیہ ''الرد علی اساس التقدیس)1/11میں کہتے ہیں۔"والب اری س بحانه وتع الی ف وق
العالم فوقیة حقیقة لیست فوقیة الرتبة''
اس کے برخالف ابن عثیمین اپنی کتاب ''عقیدة اہل السنةوالجماعةص''9میں کہتے ہیں۔
"ومن کان هذا شانه کان مع خلقه حقیقة وان کان فوقهم علی عرشه حقیقة''لیس کمثله شیء وهوالسمیع البصیر''
عالوہ ازیں ابن عثمین اپنے فتاوی میں جس کی تاریخ 24/6/1403میں کہتے ہیں۔
فعقیدتنا ان هلل معیة حقیقة ذاتیة تلیق به وتقتضی احاطته بکل شیء علماوقدرة وبصراوسلطاناًوتدبیراً۔
ابن عثیمین کی اس بات پرعلی بن عبدہللا الحواس نے اپنے رسالہ ''النقول الصحیحة الواضحة الجلیة عن السلف الص الح
فی معنی المعیة االلھیة الحقیقیة میں اورسی طرح ابن عثیمین پر عبدہللا بن اب راہیم القرع اوی نے اپ نے رس الہ ''االق وال
السلفیة النقیہ ترد علی من قال ان معیة ہللا ذاتیہ''میں تردید کی ہے۔
البانی کابھی کہنایہی ہے کہ ہللا کے بندوں کے ساتھ معیت ذاتیہ کا قول معطلہ کاہے۔چنانچہ وہ پر عقی دةا لطح اوی ص
28پرلکھتے ہیں۔
تعالی علی خلقه وانه بائن من خلقه بل یصرح بعضھم بانه موجود بذاته فی ک ل الوج ود اب غورکیاجائے ان ٰ ہ علو ینفون المعطلة الذین
نام نہاد سلفیوں کی تضادبیانی کا ۔کوئی معیت حقیقہ ذاتیہ ثابت کررہاہے اورکوئی اس کا انکار کررہاہے۔اس میں ج ادہ
حق پر گامزن کون ہے اورگمراہی کے راستے پر کون چل رہاہے؟کیاوہ لوگ جوالمہند علی المفن د اورالفقہ االک بر کی
عبارت یابعض علماء کی عبارت کو لے کر احناف کوجہمی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورایسے عنوان لگاتے
ہیں کہ دورحاضر کے احناف جہمیہ ہیں۔ ان کوخود سے یہ پوچھناچاہئے کہ ابن عثیمین معطلہ میں شامل ہیں یانہیں۔
حافظ ذہبی ابتداء عمر میں حافظ ابن تیمیہ سے بہت زیادہ متاثر تھے لیکن بڑھتی عمر اوروسعت مط العہ کے بع د ابن
تیمیہ سے ان کا تاثر کم ہوتاگیا اورپہلے جہاں بعض ب اتوں میں وہ ان کی م وافقت ک رتے تھے بع د میں ان کے خالف
اپنی رائے رکھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سیر اعالم النبالء کے بعد ج و ذی ل س یر اعالم النبالء لکھ اجس مین اپ نے
مشائخ اوراپنے دور کے علماء کا ترجمہ لکھااس مین یہ صاف صاف وضاحت کردی کہ وہ بہت سے اص ولی مس ائل
اورف روعی مس ائل میں ابن تیمیہ کے مخ الف ہیں اوران ک و تیمی وں نے اورابن تیمیہ کے مخ الفین دون وں س ے اذیت
پہنچی ہے۔(مالحظہ ہو ذیل سیر اعالم النبالء ترجمہ ابن تیمیہ)
حافظ ابن تیمیہ ہللا کے لئے حد کا اقرار کرتے ہیں اورصرف اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جو اس ک ا منک ر ہ و اس ے
کافر تک قراردینے سے دریغ نہیں کرتے ۔ان کی صراحت مالحظہ ہو۔
فهذا كله وما أشبهه شواهد ودالئل على الحد ومن لم يعترف به فقد كفر بتنزيل اهلل تعالى وجحد آيات اهلل تعالى وقال رسول اهلل صلى
اهلل عليه وسلم إن اهلل فوق عرشه فوق سمواته( بیان تلبیس الجھميه فی تاسیس بدعھم الکالميه )3/689
تویہ اور جیسے شواہد اور دالئل جوہللا کیلئے حد کو واضح ک رتے ہیں کہ ج و اس ک امعترف نہ ہ و ت واس نے ہللا کی
تنزیل کا انکار کیا اورہللا کی ٓایات کے اعتراف سے منہ موڑا جب کہ اس کے بالمقاب ل ہم دیکھ تے ہیں کہ حاف ظ ذہ بی
نے سیراعالم النبالء میں جو ان کی آخری کتابوں میں سے ایک ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں۔
وتع الی اهلل ان یح د اویوص ف االبماوص ف ب ه نفس ه ،اوعلم ه رس له ب المعنی ال ذی اراد بالمث ل والکیف (لیس کمثل ه ش یء وھو الس میع
البصیر''(سیراعالم النبالء )16/97
ہللا کی ذات اس سے بلند ہے کہ اس کو حد میں محصورکیاجائے اورکسی ایسے وصف کوبیان کیاجائے جس سے اس
نے اپنے ٓاپ کو متصف نہ کیاہو یاجس معنی کا اس نے ارادہ کیاہے اس کا علم اپنے رس ولوں ک ونہ دی اہو بغ یر کس ی
مثال اورکیف کے۔
لیکن شاید البانی صاحب کی سمجھ میں یہ مسئلہ (حد ک ا)س مجھ میں نہیں آس کا اورش رح عقی دة الطح اویہ میں اس پ ر
خاموشی سے گزرگئے ہیں اوران کا خاموشی سے گزرنابھی بتایاکہ وہ شاید اس مسئلہ میں امام طحاوی کے ہی موی د
وموافق ہیں جیسے کہ انہوں نے ہللا کیلئے کسی حد ونہایت کا انکار کیاہے۔
جب کہ ہللا کیلئے حد نہ ہونے کی بات صرف حافظ ذہبی کی ہی نہیں ہے بلکہ دیگر اجلہ اورکب ار علم اء نے بھی یہی
لکھاہے کہ ہللا کو کسی حد سے موصوف سے نہیں کیاجاسکتا۔
بِاَل جسم َواَل َج ْو َهر َواَل عرض َواَل حد لَهُ َواَل ضد لَهُ َواَل ند لَهُ َواَل مثل لَهُ (الفقہ االکبرص)26
15
الس ِميع الْب ِ
ص ير} (العقیدۃ رواي ه ا بی بک ر الخالل س كمثل ه َش ْيء َو ُه َو َّ ِ ِِ ِ ِ
َ َواَل يُوص ف اهلل ب أَ ْك َث َر م َّما وص ف ب ه نَفس ه باَل ح دَ واَل غَايَ ة {ل َْي َ
)1/127
ض ِاء واأْل ََدو ِ ِ ِ وَتعالَى َع ِن ال ِ
ات ال تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات (متن الطحاويه ص)45 ْح ُدودَ والْغَايَات َواأْل َْر َكان َواأْل َ ْع َ َ َ ُ َ َ
صير بِاَل حدَ واَل َت ْق ِدير(االبانۃ عن شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ)3/327 ْليس كمثله َشيء َكما وصف نَفسه سميع ب ِ
َ ْ َ َ
فمن العرش إلى ما تحت الثرى محدود واهلل سبحانه 5فوق ذلك بحيث ال مكان وال حد ،التفاقنا أن اهلل سبحانه كان وال مكان( رسالة
السجزی الی اھل زبیدفی الرد علی من انکر الحرف والصوت)1/196
ِّهايَة (التبصیرفی الدین))1/158 ِ
ْحدَ والن َ
َوأَن تعلم أَن َخالق ال َْعالم اَل يجوز َعلَْيه ال َ
اس سلسلے میں یہ واقعہ بڑادلچسپ ہے جو حافظ ذہبی نے محمد بن حبان ابوحاتم البس تی کے ت رجمہ میں نق ل کی اہے
کہ ابواسماعیل الھروی نے یحیی بن عمار سے ابوحاتم ابن حبان کے بارے میں دریافت کی اتواس نے کہ ا۔ہ اں میں نے
اس کو دیکھا لیکن ہم نے اس کو سجستان سے نکال دیا۔ان کے پ اس علم ت وبہت تھ ا لیکن دین داری زی ادہ نہیں تھی۔وہ
وتعالی کیلئے حد کا انکار کیا۔توہم نے اس کو سجستان سے نکال دیا۔ ٰ ہمارے پاس ٓائے اورہللا تبارک
اس پر حافظ ذہبی اپنی رائے دیتے ہیں کہ
کسی کا ہللا کیلئے حد کو ثابت کرنا اورکسی کا ہللا کیلئے حد سے انکار کرنا دون وں فض ولیات مین س ے ہیں۔ کی ونکہ
اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے۔اس سلسلے میں خاموش ی اورس کوت ہی س لف ص الحین ک ا ط ریقہ ک ار
رہاہے۔
قال الحافظ الذهبي في ترجمة الحافظ محمد بن حبان أبي حاتم البستي من الميزان ما نصه :قال أبو إسماعيل الهروي شيخ اإلسالم،
س ألت يح يى بن عم ار عن أبي ح اتم بن حب ان ،فق ال :رأيت ه ونحن أخرجن اه من سجس تان ك ان ل ه علم كث ير ،ولم يكن ل ه كب ير دين :ق دم
علينا فأنكر الحد هلل ،فأخرجناه .قلت :إنكاره الحد وإثباتكم للحد نوع من فضول الكالم والسكوت عن الطرفين أولى ،إذ لم يأت نص
س َك ِمثْلِ ِه َش ْيءٌ} فمن أثبته ،قال له خصم :جعلت هلل حداً برأي ك وال نص معك بالحد .والمحدود ينفي ذل ك وال إثباته ،واهلل تعالى{ :ل َْي َ
مخل وق ،تع الى اهلل عن ذل ك .وق ال ه و للن افي :س اويت رب ك بالش يء المع دوم ،إذ المع دوم ال ح د ل ه .فمن ن زه اهلل وس كت س لم وت ابع
السلف.
اب اس بارے میں ہمار ی گزارش یہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ بڑے شدومد کے س اتھ ہللا کیل ئے ح د ک ا اثب ات ک رتے
ہیں۔ اورحافظ ذہبی اس کو فضول کالم بتاتے ہیں۔صرف ابن تیمیہ پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سلسلے مین س ب س ے
پہلے حافظ ابوسعید دارمی نے اپنی کتاب النقض میں ہللا کیلئے حد کی ب ات مفص ل ط ورپر لکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ
حضرت ابن تیمیہ کو اس کتاب سے خاص لگاؤ تھا اوروہ اس کو پڑھنے کی اپ نے عقیدتمن دوں ک و ت رغیب دی اکرتے
تھے۔
ہللا کیلئے حد ،عرش پر قعود کی تصریح اوردیگر ایسے ہی امور ہیں جس کی وجہ سے شیخ زاہد الکوثری اس کت اب
کے سخت خالف تھے اوراس کتاب سے انتہائی بیزاری برتتے تھے ۔ولکل وجہۃ ھومولیہا ۔
16
وأعجب من ذلك حكايته اإلجماع على كفر من نازع أنه سبحانه " لم يزل وحده ،وال شيء غيره معه ،ثم خلق األشياء كما شاء ".ومعلوم
أن هذه العبارة ليست في كتاب اهلل ،وال تنسب إلى رسول اهلل صلى اهلل عليه وسلم (نقد مراتب االجماع)1/304
صرف حضرت ابن تیمیہ کی ہی بات نہیں ہے بلکہ حافظ ابن حجر نے بھی فتح الب اری میں اس ق ول ک و ابن تیمیہ کی
جانب منسوب ماناہے۔چنانچہ وہ حضرت ابن تیمیہ کے موقف پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
وهواصرح فی الرد علی من اثبت حوادث الاوللها من روايه الباب،وهي من مستشنع المسائل المنسوبة البن تیميه ،ووقفت فی کالم له
علی هذاالحدیث یرجح الروايه التی فی هذاالباب علی غیرهامع ان قضيه الجمع بین الروایتیں تقتضی حمل هذه علی التی فی بدء الخلق
الالعکس،والجمع یقدم علی الترجیح باالتفاق (فتح الباری )13/410
حضرت ابن تیمیہ کی اس بات پر مشہور مالکی شافعی فقیہہ اورمحدث ابن دقیق العید نے بھی تنقید کی ہے چن انچہ وہ
اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
وق ع هن ا من یدعی الح ذق فی المعق والت ویمیل الی الفلس فة ،فظن ان المخ الف فی ح دوث الع الم الیکف ر الن ه من قبیل مخالف ه
االجم اع ،وتمس ک بقولن اان منک ر االجم اع الیکف ر علی االطالق ح تی یثبت النق ل ب ذلک مت واترا عن ص احب الش رع،ق ال :ھوتمس ک
ساقط اماعن عمی فی البصیرة اوتعام ،الن حدوث العالم من قبیل مااجتمع فيه االجماع والتواتربالنقل (فتح الباری )12/202
حضرت ابن تیمیہ کے کالمی اورفلسفیانہ مباحث میں دخل اندازی کوخود ان کے سب سے بڑے محب حاف ظ ذہ بی نے
ناپسند کیا ۔چنانچہ وہ زغل العلم میں اس تعلق سے لکھتے ہیں۔
م ا أظن ك في ذل ك تبل غ رتب ة ابن تيمي ة وال واهلل تقربه ا ،وق د رأيت م ا آل أم ره إلي ه من الح ط علي ه ،والهج ر والتض ليل والتكف ير
والتكذيب بحق وبباطل ،فقدكان قبل أن يدخل في هذه الصناعة منورا مضيئا ،على محياه سيما السلف ،ثم صار مظلما مكسوفا ،عليه
قتمة عند خالئق من الناس ،ودجاال أفاكا كافرا عند أعدائ ه ،ومبتدعا فاضال محققا بارعا عند طوائ ف من عقالء الفضالء ،وحامل راية
اإلسالم وحامي حوزة الدين ومحيى السنة عند عوام أصحابه ،هو ما أقول لك( .زغل العلم )43
حوادث الاول لہ کے مسئلہ میں خود البانی نے حضرت ابن تیمیہ پرتنقید کی ہے ۔چنانچہ البانی صاحب اس تعل ق س ے
لکھتے ہیں۔
وفيه رد أيضا على من يقول بحوادث ال أول لها ،وأنه ما من مخلوق ،إالومسبوق بمخلوق قبله ،وهكذا إلى ماال بداية ل ه ،بحيث ال يمكن
أن يقال:
هذا أول مخلوق.فالحديث يبطل هذا القول ويعين أن القلم هو أول مخلوق ،فليس قبله قطعا أي مخلوق .ولقد أطال ابن تيمية رحمه اهلل
الكالم في رده على الفالس فة محاوالإثب ات ح وادث ال أول له ا ،وج اء في أثن اء ذلك بم ا تح ار فيه العقول،وال تقبل ه أك ثر القل وب ،حتى
اتهمه خصومه بأنه يقول بأن المخلوقات قديمة الأول لها ،مع أنه يقول ويصرح بأن ما من مخلوق إال وهو مسبوق بالعدم ،ولكنه مع ذلك
يقول بتسلسل الحوادث إلى ما ال بداية له .كما يقول هو وغيره بتسلسل الحوادث إلى ما ال نهاية ،فذلك القول منه غير مقبول ،بل هو
مرفوض بهذا الحديث وكم كنا نود أن ال يلج ابن تيمية رحمه اهلل هذا المولج ،ألن الكالم فيه شبيه بالفلسفة وعلم الكالم الذي تعلمنا منه
التحذير والتنفير منه ،ولكن صدق
اإلم ام مال ك رحم ه اهلل حين ق ال " :م ا من ا من أح د إال رد ورد علي ه إال ص احب ه ذا الق بر ص لى اهلل علي ه وس لم( ." سلس للة االح ادیث
الصحیحة )1/258
ایک دوسری جگہ وہ اس سلسلے میں مختصر شرح عقیدۃ طح اویہ ج وکہ المکتب االس المی س ے ش ائع ہ وئی ہے اس
میں وہ کہتے ہیں۔
ف انی اق ول آالن:س واء ک ان ال راجح ھ ذاام ذاک،ف االختالف الم ذکور یدل بمفھوم ه علی ان العلم اء اتفق وا علی ان ھن اک اول
مخل وق،والق ائلون بح وادث الاول لھا مخ الفون لھذااالتفاق،النہم یص رحون ب ان م امن مخل وق االوقبلہ مخل وق،وهاک ذا االم االاول ل ه،
کماصرح بذلک ابن تیميه فی بعض کتبه،فان قالوا العرش اول مخلوق ،کماہوظاهر کالم الشارح نقضوا قولھم بحوادث الاول لها،وان
لم یقولوابذلک خالفوااالتفاق،فتامل ھذا فانه مهم۔ واهلل الموفق۔ (العقیدۃ الطحاويه بشرح المختصر لاللبانی طبع المکتب االسالمی طبع
االولی،1978ص)35
17
ایک مشہور حدیث ہے۔(مشہور بمعنی اصطالحی نہیں بلکہ لغوی۔)ان ہللا خل ق ٓادم علی ص ورۃ ال رحمن ہللا نے ٓادم ک و
رحمن کی صورت پر اوربعض روایات کے مطابق اپنی صورت پر پیداکیاہے۔
اس حدیث کا ابن تیمیہ نے بیان تلبیس الجھمیہ فی تاسیس بدعھم الکالمیہ میں اثبات کیاہے ۔اس تعلق سے وہ کہتے ہیں۔
وقد ذكر أبو بكر الخالل في كتاب السنة ما ذكره إسحاق بن منصور الكوسج في مسائله لمشهورة عن أحمد وإسحاق أنه قال ألحمد ال
تقبحوا الوجه فإن اهلل خلق آدم على صورته أليس تقول بهذه األحاديث قال أحمد صحيح وقال إسحاق صحيح وال يدعه إال مبتدع أو
ضعيف الرأيني (بیان تلبیس الحهميه فی تاسیس بدعھم الکالميه )6/413
جب کہ اس کے بالمقابل البانی صاحب نہ صرف یہ کہ اس روایت کو درس ت نہیں م انتے بلکہ اس کے متن ک و منک ر
بھی کہتے ہیں۔چنانچہ اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد کہ تے ہیں۔ وه ذا إس ناد رجال ه ثق ات رج ال الش يخين ولكن ل ه أرب ع
علل ،ذكر ابن خزيمة ثالثة منها فقال:إحداها :أن الثوري قد خالف األعمش في إسناده فأرسله الثوري ولم يقل " :عن ابن عمر ".والثانية:
أن األعمش مدلس لم يذكر أنه سمعه من حبيب بن أبي ثابت.والثالثة :أن حبيب بن أبي ثابت أيضا مدلس لم يعلم أنه سمعه من عطاء ثم
ق ال ":فمع نى الخ بر -إن ص ح من طري ق النق ل مس ندا -أن ابن آدم خل ق على الص ورة ال تي خلقه ا ال رحمن حين ص ور آدم ثم نفخ في ه
ال روح ".قلت :والعل ة الرابع ة :هي جري ر بن عب د الحمي د فإن ه وإن ك ان ثق ة كم ا تق دم فق د ذك ر ال ذهبي في ترجمت ه من " الم يزان " أن
البيهقي ذكر في " سننه " في ثالثين حديثا لجرير بن عبد الحميد قال " قد نسب في آخر عمره إلى سوء الحفظ "(.سلسل ۃ االحادیث
الضعیفۃ )3/317
البانی صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس کی چار علتیں بیان کی ہیں بلکہ اس حدیث کوض عیف قراردی تے ہ وئے اس ک و
دیگر احادیث صحیحہ کے مخالف بتایاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں وخالصة القول :إن الحديث ضعيف بلفظيه وطريقيه ،وأنه إلى
ذل ك مخ الف لألح اديث الص حيحة بألف اظ متقارب ة ،منه ا قول ه ص لى اهلل علي ه وس لم " :خل ق اهلل آدم على ص ورته طول ه س تون ذراع ا
" .المصدرالسابق3/319
اسی حدیث پر بحث کرتے ہوئے وہ اس کے متن کو منکر بھی کہتے ہیں۔
وله ذا كنت أود للش يخ األنص اري أن ال يص حح الح ديث ،وه و ض عيف من طريقي ه ،ومتن ه منك ر لمخالفت ه لألح اديث الص حيحة ۔
(المصدرالسابق)
اب سوال یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں بات صرف ص حت اورض عف کے اعتب ار س ے نہیں ہے بلکہ یہ ح دیث
صفات الہی س ے بھی تعل ق رکھ تی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ اس کے م اننے پ ر اورکیفیت کے پیچھے نہ پڑک ر
اس کو تسلیم کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ البانی صاحب اس کو ضعیف اورمنکر بتاتے ہیں۔اب چ ونکہ ب ات ایم ان کی
ہے کس کی مانی جائے اورکس کی ترک کی جائے بالخصوص ایک عامی اس میں کس کی پیروی کرے۔
مزید لطف اس سارے قضیہ میں یہ ہے کہ سعودی کے ایک سلفی نے اس حدیث کے ضعیف اورمنک ر قراردی نے پ ر
البانی پر تنقید کی ہے اورانکااصرار ہے کہ یہ حدیث صحیح اورثابت ہے۔
موصوف کااسم گرامی حمود التویجری ہے۔ان کی اس سلسلے کی تالیف کانام یہ ہے ۔"عقیدۃ اھل االیمان فی خلق ٓادم علی
صورۃ الرحمن" اس کتاب پر تقریظ عبدالعزیز بن باز نے لکھی ہے۔
18
حمیدی اورابن خزیمہ
اس حدیث پر بات صرف البانی ،ابن تیمیہ اورحمودالتویجری ت ک مح دود نہیں ہے بلکہ کچھ متق دمین بھی اس کی زد
میں ٓاتے ہیں۔
وسمعت أبا عبد اهلل يقول لقد سمعت الحميدي يحضره سفيان بن عيينة فذكر هذا الحديث خلق اهلل آدم على صورته فقال من ال يقول
بهذا فهو كذا وكذا يعني من الشتم وسفيان ساكت ال يرد عليه شيئاً(بیان تلبیس الجهميه )6/416
اس میں ٓاپ دیکھ س کتے ہیں کہ حمی دی نے س فیان بن ع یینہ کی موج ودگی میں خل ق ہللا ٓادم علی ص ورتہ ک اذکر
کیاپھرکہاکہ جواس کا قائل نہ ہو توایساویساہے اس کے سلسلے میں سب وشتم سے ک ام لی ا ۔حض رت س فیان بن ع یینہ
خاموش رہے انہوں نے کوئی تردید نہیں کی۔
اس کے بالمقابل سفیان بن عیینہ کے عہد سے تھوڑاہی متاخر حضرت امام ابن خزیمہ کااس حدیث کے سلسلے میں یہ
قول دیکھئے۔
قال ابن خزيمة توهم بعض من لم يتبحر العلم أن قوله على صو رته يريد صورة الرحمن عز وجل عن أن يكون هذا معنى الخبر بل معنى
قوله خلق آدم على صورته الهاء في هذا الموضع كناية عن اسم المضروب والمشتوم أراد أن اهلل خلق آدم على صورة هذا المضروب
الذي أمر الضارب باجتناب وجهه بالضرب والذي قبح وجهه فزجر صلى اهلل عليه وسلم أن يقول ووجه من أشبه وجهك ألن وجه آدم
شبيه وجوه بنيه فإذا قال الشاتم لبعض بني آدم قبح اهلل وجهك ووجه من أشبه وجهك كان مقيحاً وجه آدم صلوات اهلل عليه الذي وجوه
بنية شبيهة بوجه أبيهم فتفهموا رحمكم اهلل معنى الخبر ال تغلطوا وال تغالطوا فتضلوا عن سواء السبيل وتحملوا على القول بالتشبيه لذي
هو ضالل(بیان تلبیس الجھمیہ )6/384
اس میں حض رت ابن خ زیمہ نے ب ڑی وض احت س ے بتادی اکہ جول وگ خل ق ہللا ٓادمی علی ص ورتہ میں ہ کی ض میر
کامرجع الرحمن یاہللا کی جانب کرتے ہیں وہ ایس ے ل وگ ہیں جن ک و علم میں رس وخ اورتبح ر حاص ل نہیں ہے۔ اس
کے بعد انہوں نے اس کی تاویل کی ہے پھر اپنے بھائیوں اوربرداران کو نصیحت کرےت ہوئے کہاہے کہ حدیث کے
معنی کو سمجھو۔نہ خود غلطی میں پڑو نہ ہی دوسرے کو مغالطہ دو کہ کوئی دوس را بہ ک کرس یدھے راس تے س ے
دورجاپڑے۔اوربات تشبیہ تک جاپہنچے جوکہ گمراہی ہے۔
دونوں حضرات کبارمحدثین میں سے ہیں۔ حمیدی اورابن خزیمہ۔ایک اثبات کررہے ہیں اوردوسرااس کی نفی۔
کیایہ عقیدہ کا مسئلہ ہوسکتاہے اوراگرواقعتاعقیدہ کا مس ئلہ ہے ت واس پ ر ح ق پ ر ک ون ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٓاپ س مجھ
گئے ہوں گے خالی جگہ کا مطلب۔
19
عقیدہ نمبر :8توسل کے بارے میں ابن تیمیہ،البانی اورشوکانی کا اختالف
توسل بالذات کا مسئلہ بڑامعرکۃ آالراء مسئلہ رہاہے۔ مقلدین اورغیرمقلدین کے درمیان تویہ اختالف ہے ہی۔ تعجب کی
بات یہ ہے کہ غیرمقلدین حضرات کے درمیان بھی اس مسئلہ میں اختالف موجود ہے۔
شوکانی کا موقف
شوکانی صاحب توسل کے قائل ہیں اوراس بات کو انہوں نے اپنی کئی تصنیفات میں بیان بھی کیاہے۔
اجتي َه ِذه ِ
الر ْح َم ة يَا ُم َح َّمد إِنِّي أتوجه بك إِلَى َربِّي في َح َ ثم يَ ْد ُعو اللَّ ُه َّم إِنِّي أَسأَلك وأتوجه إِل َْي ك بنبيك ُم َح َّمد نَبِي َّ َيت َوضَّأ َويُصلي َر ْك َعَت ْي ِن َّ
حم ه اهلل َّس ائِ ّي َك َم ا قَ َ لتقضى لي اللَّه َّم فشفعه فِي (ت .س .مس)) //الح ِديث أخرجه التِّر ِم ِذي وال ِ ِ
ص نّف َر َ الم َ
ال ُ ْح اكم في ال ُْم ْس تَ ْدرك َوالن َ ْ َّ َ َ ُ
ال يَ ا َر ُس ول اهلل ا ْدع اهلل لي أَن ِ
اء أعمى إِلَى َر ُس ول اهلل ص لى اهلل َعلَْي ه َوس لم َف َق َ و ُه و من ح ِديث ُعثْم ان بن ح نيف ر ِ
ال َج َ
ض ي اهلل َعن هُ قَ َ َ َ َ َ َ
ِ
َّس ائ ّي في بعض طرقه ِ ِ ِ ِ ِ
ال فَأمره أَن َيت َوضَّأ َويحسن وضوءه َو َزاد الن َ ال فَادعه قَ َ ال إن ش ْئت َد َع ْوت َوإن ش ْئت صبرت َف ُه َو خير لَك قَ َ يعافيني قَ َ
صنّف من َق ْوله صلى اهلل َعلَْي ِه َوسلم اللَّ ُه َّم إِنِّي أَسأَلك الخ َوأخرجه من َح ِديثه أَيْضا ِِ ِ َفَت َوضَّأ فصلى َر ْك َعَت ْي ِن َّ
الم َ
ي َما ذكره ُ ثم ذكر في الت ِّْرمذ ّ
ي حس ن ُّعاء َف َق ام وق د أبص ر وقَ َ ِ ِ الش ْي َخ ْي ِن َو َزاد فِي ِه فَ َد َعا بِ َه َذا ال د َ
ص ِحيح على َش رط َّ ْح اكِم فِي ال ُْم ْس تَ ْدرك َوقَ َ
ال الت ِّْرم ذ ّ ََ ْ َ ال َ اج ه َوال َ ابْن َم َ
ال َوأخرجه الطََّب َرانِ ّي بعد ذكر طرقه الَّتِي روى َبه ا ص ِحيح غَ ِريب اَل نعرفه إِاَّل من َه َذا ال َْو ْج ه من َح ِديث أبي َج ْع َف ر َو ُه َو غير الخطمي َوقَ َ َ
الص اَل ة َو َوا َف َق هُ الطََّب َرانِ ّي فِي بعض
َّس ائِ ّي بِذكر َّ ن ال تفرد قد و ة والْح ِديث ص ِحيح وصححهُ أَيْضا ابْن ُخزيْمة فقد صحح الح ِديث َه ُؤاَل ِء اأْل َئ َِّ
م
َ َ ّ َ َ َ َ َ َ َ
ِ ِ ِ ِ
الح ديث َدليل على َج َواز التوسل َبر ُس ول اهلل صلى اهلل َعلَْي ه َوسلم إلَى اهلل عز َوجل َم َع ا ْعت َق اد أَن الْ َفاع ل ُه َو اهلل ِ ِ ِ َِّ
الطّرق التي َر َو َاه ا َوفي َ
اء َكا َن َو َما يَ َشأْ لم يكن (//تحفۃ الذاکرین)211 ِ ِ
ُس ْب َحانَهُ َوَت َعالَى َوأَنه ال ُْم ْعطي ال َْمانع َما َش َ
ض ي اهلل َعنهُ َعم َر ُس ول اهلل صلى اهلل َعلَْي ِه َوسلم َوقَ َ
ال اس ر ِ ِ
الص َحابَة استسقوا بال َْعبَّ ِ َ الص ِحيح أَن َّ َوأما التوسل بالصالحين فَ ِم ْن هُ َم ا ثَبت فِي َّ
ضي اهلل َعنهُ اللَّ ُه َّم إِنَّا نتوسل إِل َْيك بعم نَبينَا(المصدرالسابق)60 عمر ر ِ
َ
عالوہ ازیں شوکانی صاحب نے الدرالنضید فی اخالص کلمۃ التوحید میں بھی توسل کا اعتراف واقرار کیاہے۔
البانی کا موقف
البانی صاحب کا موق ف یہ ہے کہ توس ل گم راہی اورزی غ ہے جیس اکہ ان کی کت اب" التوس ل وان واعہ واحک امہ "میں
دیکھاجاسکتاہے اورجس کی تصریح انہوں نے شرح الطحاویہ کے مقدمہ میں بھی کی ہے۔
أن هن اك ثالث ة أن واع للتوس ل ش رعها اهلل تع الى ،وحث عليه اَ ،و َر َد بعض ها في الق رآن ،واس تعملها الرس ول ص لى اهلل علي ه وس لم وحض
عليه ا ،وليس في ه ذه األن واع التوسل بال ذوات أو الجاه ات أو الحق وق أو المقام ات ،فدل ذل ك على ع دم مش روعيته وع دم دخول ه في
عموم(االتوسل وانواعه واحکامہ)30
اس کے عالوہ البانی صاحب کی یہ تصریح شرح الطحاویہ کے مقدمہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔
نوٹ:اس موض وع کے سلس لہ میں حس ن بن علی الس قاف کی کت اب" البش ارۃ واالتح اف بم ابین ابن تیمیہ وااللب انی فی
العقیدۃ من االختالف " سے مدد لی گئی ہے بلکہ یہ اس کا اختصار ہے۔کوش ش کی گ ئی ہے کہ تم ام کتب کے ح والے
کو بذات خود بھی دیکھ لیاجائے۔اوراس کے مالہ وماعلیہ پر نظردوڑالی جائے۔
یہ چند موٹے م وٹے عقائ د تھے جن میں ان ک ا اختالف تھ ا ، اس کے عالوہ اور بھی بہت س ارے ہیں چ ونکہ ان ک ا
کوئی مذہب معین نہیں اسلئے انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے عوام ک و بھی گم راہی میں مبتال ک ر رکھ ا ہے اور دین
کو مذاق بنا رکھا ہے۔
20
قئ ن گٹ ت سف ف ق
ل
ر ہ المذہ ب ی ہ ی ہ کے ھ ی ا ری ن ع ا د و ظ ری ات
ت
ے
ق ئ یک ن
د د ا ع کے ان کہ
ت
ن
االح ے ث ں م ت
ن
ن
س و اب تک و ج ں ہ
کت
ے ھ ک
چ ی ہو ق ل ر المذہ ب ہ دعوی کرت ا ے کہ ہ م ہللا کی تذات کے م ع
ق ئھ ی ہ ہ ی ن ہ ی ہ
ے اسخ دعوی می ں پوری طرح ثسے ا نکام اب ت ہ وے ہ ی ں ان کے ع ا د پ دعوی کی د جھ ی اں اڑ ج ا ی ہ ی ں اور ی ہ ا
ن کے ب شعد ان کے اس ئ
دال ل رعی ہ کت اب ہللا ،س ت رسول ہللا ،اج ماع امت (سلف و لف) کہی ں سے ب ھی اب ت ہی ں۔
ن ن ق ن
ے۔ ب ے ب ھی ہ ی ں عوذ ب اللہ اور ہللا کی ذات کے چ ل ع ی دہ مب ر :1ہللا کی ذات کے حص
ے می ں حد ھی ہ
ے حص
بات كرنے سے قبل ياد رہے كہ امام احمد ؒ سے حد كے بارے ميں دو قول آئے ہيں ايك اثبات كا ايك نفي ،اب ہون ا ت و
يہ چاہيئے تها كہ حد كي نفي جو كہ اہل سنت كا عقيده ہے اور سلف كے بارے ميں منقول ہے کہ ،وه حد ثابت نہيں
كرتے تهے
بيهقي فرماتے ہ يں
ؒ امام
اد بْ ُن َس لَ َمةَ َو َش ِر ٌ
يك َوأَبُو [صَ ]335:ع َوانَ ةَ اَل ٍ
اد بْ ُن َزيْ د َو َح َّم ُ األسماء والصفات للبيهقي ( )334 /2أَ َك ا َن ُس ْفيَا ُن الث َّْو ِر ُّ
ي َو ُش ْعبَةُ َو َح َّم ُ
يُ ِحدُّو َن
”امام سفيان ثوري ا مام شعبه امام حماد بن زيد ،حماد بن سلمه امام ش ريك اور ام ام ابوعوان ه رحمهم هللا هللا تع ٰالی كي
حد ثابت نہيں كرتے تهے “
بیہقی اگے فرماتے ہیں: ؒ امام
ضى أَ َكابُِرنَا”اسی پر ہمارے اکابر بھی گزرے ہیں“۔ “و َع َ َ َ َ َ
م ا ذ ه ى ل َ
تو امام احمد كو حد كے اثبات كے قول سے بری كہنا چاہئے تها اس ليے كہ اثبات حد پر قران و سنت ميں ك وئي دليل
نہيں جيسا كہ خود انکے شيخ الباني نے كہا ہے ،
وليس فيه مايشهد لذالك من الكتاب والسنة( قهرس مخطوطات دار الکتب الظاهریه ص )376
ليكن ابن تيميه اور قاضي ابويعلي ان كو عجيب و غريب احوال پر حمل كرت ہيں جنكا خالصہ ہم ذيل ميں لکھتے ہيں۔
قاضي ابويعلي جس سے ابن تيميه نے جگہ جگہ اخذ كيا ہے اور اس كے عقائد پ ر عالم ه ابن الج وزي ؒ نے دف ع ش به
التشبيه ميں بہت مضبوط سخت رد كيا انہوں نے امام احمد سے حد كے اثب ات اور انك ار كے دون وں روايت وں ك و اس
طرح جمع كيا ہے۔ قال إنه على العرش بحد معناه أن ما حاذى العرش من ذاته هو حد له وجهة له والموضع الذي
جہاں انہوں نے حد كا اثبات كيا ہے وہاں اس مراد هللا كي ذات كا وه حصہ ہے جو كہ عرش كے مقاب ل يع ني س امنے
ہے وہی اس کی حد اور جہت ہے۔
قال هو على العرش بغير حد معناه ما عدا الجهة المحاذية للعرش وهي الفوق والخلف واألمام واليمنة واليسرة وكان الفرق بين جهة
التحت المحاذية للعرش وبين غيرها ما ذكرنا أن جهة التحت تحاذي العرش بما قد ثبت من الدليل والعرش محدود
اور جہاں امام احمد نے كها كہ وه عرش پر بغير ح د كے ہے وہ اں م راد هللا كي ذات ك ا وه س ائيڈ ہے ج و ع رش كے
مقاب ل نہيں ہے ،ج و كہ اوپ ر ،آگے ،پيچهے ،دائيں اور ب ائيں كي س ائيڈ كي ہے (،یع نی يہ تم ام س ائيڈ هللا كے
غيرمحدود ہيں)
استغفرهللا ايسے خرافات پر نہ مام ابن تيميه كو كوئي غصه آتا ہے نہ غيرمقلدين ،هللا كے ذات كے حصے بناليے ايك
وه جو عرش كي طرف عرش كے بالمقابل ہے باقي اوپر كا حصه ،پيچهے كا حصه ،دائيں ،ب ائيں ۔۔۔ هللا كي ذات ك و
حصوں ميں تقسيم كرليا جبكہ حصے تركيب كي واضح عالمت اور جسم كي تعريف اور خصوص يات ميں ش امل هيں
اس سے زياده تجسیم کي وضاحت اور كيا هوگي ۔
امام ابن تيميه اس پر يہ تبصره اور ابو یعلی سے اختالف کرتے ہوئے فرماتے ہيں ك ه ام ام احم د كے كالم كي تفس ير
ميں هللا كو صرف ايك جهت سے محدود ماننا ماسوائے ديگر پانچ جهتوں كے ،يه تفسير قاضي كي دوسري جگه بيان
كي گئي تفسير كے خالف هے (كيا امام احمد ايسے خرافات پر اپنے كالم كو حم ل كرن ا ص حيح س مجهتے هونگے )
ليكن آگے امام ابن تيميه نے جو خود امام احم د كے كالم كي تفس ير ج و ان كے ہ اں مخت ار هے وه نق ل كي هے ،وه
بهي قابل ديد ہے ،ابن تيميه كہتے ہيں كہ
ِ
قول أحمد حد اليعلمه إال هو والثاني أنه صفة يَبين بها عن غيره ويتميز فهو تعالى فرد واحد ممتنع عن االشتراك له في أخص صفاته قال
وقد منعنا من إطالق القول بالحد في غير موضع من كتابنا ويجب أن يجوز على الوجه الذي ذكرناه فهذا القول الوسط من أقوال القاضي
الثالثة هو المطابق لكالم أحمد وغيره من األئمة وقد قال إنه تعالى في جهة مخصوصة وليس هو ذاهبً ا في الجهات بل هو خارج العالم
متميز عن خلقه منفصل عنهم غير داخل في كل الجهات وهذا معنى قول أحمد حد اليعلمه إال هو ولو كان مراد أحمد رحمه اهلل الحد
21
معلوما لعباده فإنهم قد عرفوا أن حده من هذه الجهة هو العرش فعلم أن الحد الذي ال يعلمونه مطلق ال
ً من جهة العرش فقط لكان ذلك
يختص بجهة العرش {بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكالمية (})24 /3
” امام احمد نے جہاں حد نفي كي ہے اس سے مراد يہ ہے كہ كوئي اس حد كے اندازے كا علم نہيں ركهتا كہ كتن ا ح د
ہے ،كيونكه انهوں نے كہا ہے کہ هلل كے ايسا حد هے جس كو صرف هللا ہي جانتاہے ، ،اگ ر اس ك ا مطلب يہ ہوت ا ہ ه
وه هللا صرف عرش كي جهت ميں محدود ہے تو وه تو هللا كے بندوں ك و معل وم تها“۔ ( ك وئي بت ائے كهاں كس ي نص
ميں ہميں هللا كے ليے حد بتائي گئي هے كه ہميں اس بات پر علم هو ،ام تقولون علي هللا ماالتعلمون)
آگے لكها كه بندوں كو پته ہے كہ هللا كا حد اس جهت سے عرش ہي ہے پس معلوم هوا كہ هللا كا وه حد جو مخلوق ك و
معلوم نہيں وه مطلق هے صرف عرش كے ساتھ مختص نهيں“
آخري جملے ميں غور كیج ئے هللا كے ل يے ح د اور وه بهي جہ اں قاض ي اس ك و ص رف ع رش كي س ائيڈ ميں ث ابت
كرتے ہيں ابن تيميه اس ك و مطلق ا ث ابت ك رتے ہيں نہ كہ ص رف ع رش كي س ائيڈ ميں مخص وص ،س بحان هللا عم ا
يصفون ،كيا يه سب قران و حديث سے ليا گيا ہے ،ايس ي ب اتوں ك و يقين ا الم ذہبی س لفی علم كالم ہي كهتےہهيں اور
فرماتے ہيں كہ علم كالم صرف زنديق ہي استعمال كرتے ہيں۔
ت ن ف ق ف ق ن
ع ی دہ مب ر :2ر ہ سل ی ہ المذہ ب ی ہ کے م طابق ا گل ی اں ہللا کے ہ ا ھ کا ای ک ج ز ہ ی ں۔
فرقہ سلفیہ کے شیخ خليل هراس كتاب التوحيد البن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں (ص" :)63القبض إنم ا يك ون
باليد حقيقة ال بالنعمة .فإن قالوا :إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته اإلنعام .قلنا لهم :وبماذا قبض ؟؟ فإن القبض محتاج إلى آلة فال
مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم )) ..اهـ !
خليل هراس هللا كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهت ا ہے ” :كہ قبض يع ني
پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ،اگر كوئي کہے کہ باء سبب كے ليہےے ،يعني هللا نے نعمت ك رنے
كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں :كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ،كيونكه قبض اور پكڑنا كسي آلے ك ا
محتاج هے تو ان كے ليے خالصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں“
ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو هللا سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے كے بارےہے ،يهاں هللا كے پك ڑنے ك و بهي
كسي "آلے يا اوزار يا محتاج " كها پس انكے هاں هللا كي ص فت يد هللا تع الي كے ل يے پك ڑنے ك ا آل ه هے اور هللا ك ا
پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذباهلل ،،هللا الصمد
دوسري جگه ارشاد فرماتے ہيں اس ي التوحيد كے تعليق ات ميں :ويق ول ((: 89ومن أثبت األص ابع هلل فكي ف ينفي عن ه الي د
واألصابع جزء من اليد ؟؟!! ))
ترجمه :اور جس نے هللا كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح هللا س ے هات ه كي نفي كرت ا هے حاالنك ه انگلياں
هاته هي كا جزء هے (نعوذباهلل) يهاں هللا تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ،كس ي آيت يا ح ديث مب ارك
ميں يه بات همارے علم ميں نهيں كه هللا كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔
ف ن کئ شخ ن ف ف ق ق ن
ے۔ ر اک وہ ے ام ہ ے حد ن ہللا ص ع ی دہ مب ر :3ر ہ المذہ ب ہ سل ی ہ کے زدی ک ج و
ہ یل
ف ق ن ت ت
ت
ے پر اصرار ب ھی کرےہ ی ں اور ج و ن ہ ماے اسے کا ر رار ید
نن
ے حد کا اث ب ات کرے ہ ی ں ب لکہ اسے ما
کئ ت ن ن ن
ے چ اچ ہ ناب ن یمی ہ ہ صرف ی ہ کہ ہللا ی ل
ہ ی ں ( عوذ ب اللہ)
قفهذا كله وما اشبهه شواهد و دالئل علي الحد ومن لم يعترف به فقد كفر (بيان فتلبیس الجہمیہ ج 3ص )689
ن نن کئ
ے؟؟ ے واال کا ر ہ ے ہ ما ے جس ے حد کا ذکر آی ا ہ رآن پ اک کی کس آی ت ی ا حدی ث می ں ہللا ی ل
ن ت متق ق ن ن ن سف ف ق ق ن
ے۔ عوذ ب اللہ ہ ا و ہ ل ن طرف کی ےچ ی ت و کے زول ر پ ا ی د ان مآس کے ہللا ق باط م کے ہ بی یل ہ ہ المذ ہ ر 4 ر بم ع ی دہ
ت ق ن ت ش
ت شئ ن ت خ سف
ے ہيں( :ص ل ی ہ کے ی خ ليل هراس امام اب ن حزيمه كي ال وحي د ر اپ ي ليق ميں ہللا کے زول کے ول کے حت حاے می ں لكه
ع
« :)126يعني أن نزوله إلى السماء الدنيا يقتضي وجوده فوقها فإنه :انتقال من علو إلى سفل! ».
ن ن متق ن ن تق ض ت ن ن ن ت
ے ن ل ہ وے ے كہ الله اس كے اوپر ہ و كي و ك ہ زول اوپر سے يچ رج مه ت":يع ی اللنه ك ا آسمان د يا پر زول اس ب ات كا ا ا ك ر ي ہ
ت
ی
ض سف
ے ت ب ب ھی المذہ ب ی ل ے ہيں“۔ نعوذببالله لک ت كوفكه
ب ال
ے۔ ہ ی آ الزم ات ب ہی قباط م کے ط ب وا و اصول کے وں ی ھ ھی ہ اس ای وہ اگر رض
ت
ہ عق دہ ن م ر :5ن زول کے وق ت عرش خ
ے۔ ہ ا و الی ی ب
22
ش سف
لع ی لک ت ل
ے ہ ی ں: ھ ن ی م ث ا ن با خ ی کے وں ی
يخلو ،وقول بانه ال يخلو ،وقول بالتوقف (شرح عقیدہ االوسطيه للعثیمین ص )261 علماء اهل السننة لهم في هذا ثالثة قول ت ق واذا كان
ن
کے ب ارے می ں ی ن ول ہ ی ں ت کے ( خزول) ت عل نماء اہ ل س ق
ے۔ ہ : 1ن زول کے و ق ت عرش الی ہنو ج ا ا ت
عرش خ الی ہی ں ہ و ا۔ کے و ت ئ :2زول ت ق
ف ق ت ت ق ن ف ک ی ا ج ن اے۔ ن :3اس ر و
کے م علئق ی ن ول ہ ینں الب ت ہ قان کے ر نے کے اس ن
ن
ے کہ اہ لس ت کے زول ق دھا
ن
ا خ
م ی ظ ا تن عث ی مپن ے اہ لس ت ر ہ ب ہت ان ع
ب ہ ت پی ب ع ی
ے اب ن عث ی می ن ے ان ا وال کو اہ لس ت کی طرف ے کہ ان کے ی ن م ت لف ا وال ہ ی ں ج ن سے ج ان چ ھڑاے ک ی ل نم لق ی ہ کہا ج اسکت ا ہ
ص ق ے۔ م سوب ئکر دی ا ہ
ح ع
ت کےمی طا ق ن زول کے وی ت ہللاہکانعرش خ الی ہ و ا ا ے اور ب قول ا ن عث ی م ن ہ اہ لس ت کا ول ے کہ عرش خ
ق ن ق ت ے؟؟ ح ی دہ ق اک کس سے ں ے ان ابقب ت ای
ے۔ الی ہ و ا ن
ہ ئ ہ ق ت ی ت ی ب ن ہ ج ت ب م ق ول پ ہل
ے
ے اور یسرا ی ہ کہ اس پر و ف ک ی ا ج اے ی ہ ب ھی اہ لس ت ول اک ت لس ہا ھی کے م طا ق ہللا کا عرش خ الی ہی ں ہ و ا ہ ب ول دوسرے ق
ہ ی ب
ن ن ن ن ق ے۔ ول کا
ے کہ اسےنمعلوم ن ن ہ ماے وہ ب ئھی اہ لس ت اور ج و ی ہ کہ ت ج و عرش کو خ الی لس ناب ج و نہزول تکے و تت ہللا کے ن عرش نکو خ الی ماے وہ ب ھی اہ
ع قئ
ے ہ ی ں اسالف می ں سے کس ے کہا من ذالک ی ہ ع ا د اب ن ث ی می ن ے کہاں سے ل ےت وع وہ تب ھی اقہ لس ت۔ تعوذ نب اللہ ن ہی ں نکہ ک ی ا ہ و ا ہ
ے کہ زول کے م لق ی ن ول ہ ی ن اور ی وں اہ لس ت کے ہ ی ں اور حق ہ ی ں؟؟ ہ
قئ ف ن
فن ن ق ف ق
ے۔ ع ی دہ مب ر :6ر ہ سل ی ہ ج ہمی ہ کی طرح اء ال ار کا ا ل ہ
یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان ک ا ہے جیس اکہ لس ان الم یزان میں 2/334میں
مذکور ہے۔
ابن تیمیہ کی ایک تص نیف "ال ردعلی من ق ال بفن اء الجنۃ والن ار"کے ن ام س ے ہے۔اس میں انہ وں نے جہنم کے فن اء
االستار ص ق)9ئ دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ (مقدمہ رفع ف ہونے پر ت ج ن
ے ب ھی اب ن یمی ہ کے پ یروا ہ ی ں سب ج ہمی ہ کی طرف ن ا ال ن ار کے ا ل ہ ی ں۔ ت
ک غ ن ف ن ین ف ت ن ق
ے. ع ی دہ مب ر :7وی ض ( ع ی ہللا کی مراد کو اس کے سپ رد کر ا) المذہ ب ی ہ سل ی ہ کے زدی ک ب ل ل لط ہ
ؒ ف ت
امام ج الل الدی ن سی وطی رماے ہ ی ں:۔
اها ال ُْم َر ِاد ِم ْن َها إِلَى اللَّ ِه َت َعالَى َواَل ُن َف ِّ
س ُر َها َم َع َت ْن ِزي ِهنَ ا لَهُ َع ْن يض َم ْعنَ َ َ
ف وأ َْهل الْح ِد ِ
يث َعلَى اإْلِ يم ِ
ان بِ َها َوَت ْف ِو ِ السلَ ُ َ ُ َ السن َِّة ِم ْن ُه ُم َّ
ور أ َْه ِل َُّو ُج ْم ُه ُ
ن َح ِقي َقتِ َها.
ت ن ف ش ث ن ج ت
ے سا ھ ات پر) ای مم نان رکھ ا ہ ت ( صوص ص ظ ںف اننکا مذہ ب ئی ن) امل ہ ی ت ت ج ن می ں سلف اور اہ لحدی ث (محد ن رج مہ ”:مہور اہ ل س
کے کہ ان کے ت قمع ی فمراد کو ہللا قکی طرف سپ رد کر دی ا ج اے اور ہ م ان کی سی ر ہی ں کرے ج ب کہ ان کے اہ ری ع ی سے ہللا کو پ اک قاس ت
ے ہ ی ں“۔(الإ ان ي علوم ال رآن ج 3ص )14 رار دی
سف ت ئ ت
ل ہ
ے: اس پر ب صرہ کرے ہ وے ای ک المذ ب ی ی لکھت ا ہ
عط ف
ت
ض ق وثانياً قوله :مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ،صارخ بالتعطيل صراخ ثكاليق قالجهمية
ت ن ح ظ ت
ے ہ ی ںقوا ح طور پفر ق ی ل ری اد کر ی ارت کہ ہ م ان کے اہئری ی ی مع ی سے ہللا کو پ اک رار تد ب ب ہللا) کی ی ہ ع
(رحمہ ف رج مہ” :امام سی وطی ت
ل
ے ان ہمی عور وں کی ری اد کی طرح ج و چ وں سے محروم ہ و گ ی ہ وں“۔(والع ی اذ ب اللہ) (عداء الما ری دية ل عيدة السل ية وله )28 ج
رہ ی ہ
ئن ق ن
ے عوذ ب اللہ جسم کا اطالق یل ک ذات کی ہللا :8 ر ب م ع ی دہ
ابن قیم نے اگر مگر کرتے ہوئے ہللا کیلئے جسم کا بھی اثبات کر لیا ہے۔
وإن أردتم بالجسم ما يوصف بالصفات ويرى باألبصار ويتكلم ويكلم ويسمع ويبصر ويرضى ويغضب فهذه المعاني ثابتة للرب تعالى وه و
موصوف بها فال ننفيها عنه بتسميتكم للموصوف بها جسما فرماتے ہیں
ترجمہ :اگر جسم سے تمہاری مراد یہ ہے کہ جو صفات کے ساتھ متصف ہو اور آنکھوں کے ذریعہ دیکھا ج ائے اور
اس سے کالم کیا جائے اور وہ خود کالم کرے تو یہ سارے معانی ہللا کیلئے ثابت ہیں اس لئے ہم لفظ جس م کے اطالق
کرنے سے نفی نہیں کریں گے۔ (الصواعق المرسلة ج 3ص )940
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :وإن أردتم بالجسم ما له وجه ويدان وسمع وبصر فنحن نؤمن بوجه ربنا األعلى وبيديه وبسمعه وبصره
ترجمہ :اور تمہاری مراد جسم سے یہ ہو کہ جس کے لئے چہرہ ہو اور دو ہاتھ ہوں اور سمع ہو اور بصر ہو تو ہم ہللا
کے چہرے ،دونوں ہاتھوں ،سمع بصر پر ایمان التے ہیں۔ (الصواعق المرسلة ج 3ص )943
ن ف ن ف ق ف ق ن
ع ی دہ مب ر :9ر ہ سل ی ہ کے زدی ک ہللا کی ص ت ی د مت اش اب ہات می ں سے ہی ں۔
23
لک ت سف ن ئ ٹ
ئ ے۔ ہق ا ت ھ گہ ک ا اھر ا ت ہ ک ی ے آپ کو ل ا مر اریس کہ و ج ی ای ک وک وری فن اہ ل حدی ث شعالم زبیر علی ز
ع ح ل ب ج ی پ ع ن
ے“۔ (اصول ا مصای ح ی ق زبیر لی ز ی ص )38 ” ہللا کی ص ت ”ی د“ کو مت ا اب ہات می ں سے کہ ا اہ ل ب دعت کا مسلک ہ
تق ن ف ف ق ق ن
ع ی دہ مب ر :10ر ہ المذہ ب ی ہ سل ی ہ کے زدی ک ہللا المکان سے مکان کی طرف من ل ہ وا
24
والنزول والمجيء صفتان منفتان عن اهلل من طريق الحركة واالنتقال من حال الي حال ،بل هما صفتان من صفات اهلل بال تشبيه جل عم ا
يقول المعظلة والمشبهة بها علوا كبيرا وال شك ان هذا القول باطل مخالف لما عليه اهل السن ة والجماع ة (مجموع فتاوی ج 5ص
)54
ٹ ن ق ن
ے (والع ی اذ ب اللہ) ع ی دہ مب ر :12ہللا کی خم لوق ے ہللا کو ا ھا رکھا ہ
ن ف ت ث ت
الدارمی سے ج گہ ج گہ عق دے کا اث ات کرے ہ ں ج ن ر اب ن ج وزی ے د ع الش ہ ۃ م ں رد ب
ے۔ یہا ک ھی ب ی پ ی ب ی ت اب ن نن یمی ہ ج تو کہ ع مان ب ن سع ی د ن ق
ش لَم يح ِملُوا الْعرش ومن َعلَي ِه بِ ُق َّوتِ ِهم و ِشد ِ ض أ َّ
َّة َْ َْ َ َ َ ْ ْ َن َح َملَةَ ال َْع ْر ِ ْ َ ْ چ ا چ ہ اب ن یمی ہ دارمی کی ع ب ارت ل کرے ہ ی ں کہ "فَاَل تَ ْد ِري أ َُّي َها ال ُْم َعا ِر ُ
يد ِه" ( بيان تلبيس الجهمية )3/246 أَس ِر ِهم 2إِاَّل بِ ُق َّو ِة اللَّ ِه وتَأْيِ ِ
َ ْ ْ
ترجمه :كيا تم نهيں جانتے اے معارض ،كہ حملة العرش [فرشتوں ] نے عرش كو اور جو [ذات ] اس پر موج ود ہے
ت اس كو اپنی قوت اور طاقت سے نہيں بلكہ هللا كي قوت اور مدد سے اٹهايا ہے۔
نعوذ ئباہلل من ذالک یعنی بقول ابن سعید اور ابن تیمیہ مخلوق نے خالق کو اٹھا رکھا ہے۔ ی ہ ب ات اب ن یمی ہ اور اب ن سع ی د ن
ے۔ ے ک ی ای ک ج گہ ک ہی ہ
ابن تیمیہ اور ابن سعید کے بعض اندھے مقلد اس کا یہ جواب دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہللا اپنے مخلوق
کو قدرت دے تو وہ اسے اٹھا سکتے (حاالنکہ کتاب و سنت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ہللا کی مخلوق نے
ہللا کو اٹھا رکھا ہے یہ ان ملحدین کی بدعت ہے) یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کہ دہریے کہتے ہیں کہ اگ ر ہللا چ اہے
تو اپنے جیسا ایک اور ہللا پیدا کر دے یا کوئی یہ کہے کہ مخلوق ہللا کی قدرت سے ہللا پر غالب آسکتی ہے۔ ( نع وذ
باہلل من ذالک) ہللا کی شان اس سے پاک ہے۔
اس پر خود ایک سلفی معلق کو بھی غیرت آئی ہے اس نے بھی رد کیا ہے۔
چنانچہ ابن سعید کی کتاب نقض اإلمام أبي سعيد عثمان بن سعيد کے حاشیہ میں ایک سلفی معلق لکھتے ہیں۔
ِ
ْحام ل ِ ه َذا غير ِ
س ال َْع ْرش َح امال للرب َواَل يقلهُ ،بل الرب ُس ْب َحانَهُ َوَت َع الَى مستغن َعن ال َْع ْرش َوغَ يره من ال َْم ْخلُوقَ ات َو ُه َو ال َ
ص حيحَ ،فلَْي َ
َ َ
للعرش ولحملة ال َْع ْرش بقوته َوقدرته( '،نقض اإلمام أبي سعيد عثمان بن سعيد )1/458
يہ بات [یعنی عرش ك ا هللا ك و اٹهان ا ] ص حيح نہيں كيونكہ ع رش هللا ك ا حام ل [اٹهانے واال ] نہيں ،بلكہ رب تع الي
عرش وغيره مخلوقات سے مستغنی ہےبلكہ وہی عرش كو اور اس كے اٹهانے والوں كو اپنے ق وت اور ق درت س ے
اٹهانے واال ہے۔
يہ واضح رد كيا ہے سلفی معلق نے اگر دارمی کی بات ٹهيك ہوتي تو سلفي معلق اس كي بات كو "هذا غير صحيح "
نہ كہتے يہ ہم نے صرف ان جاهل سلفیہ کی تسلی کیلئے لگايا ورنہ س لفي معل ق كے رد كی ہميں ک وئی ض رورت
نہيں ہے جب یہ بات اتنی واضح ہو ۔
ن قئ ن ن ئ ف سف
ے ہ ی ں۔ے ع ا د سپ رد کر رکھ ے کہ ا ہوں ے کن کو پا ہ کر حہ ل ے ک وں ی ان احمق المذہ ب ل
یل م ی ہ
ت کئ ق ن
ے ج ہت کا اث ب ات ع ی دہ مب ر :13ہللا عالٰی ی ل
لک ت ن نق ن کئ ث کئ ن ف ق
ے ہ ی ئں۔ ب جم ھعد کے ے کر ل ے چت ن د آی ات ے یل ے ج ہت کو اب ت تکر ث ان صاحبع ہللا ی ل ر ہ اہ لحدی تث کے مج دد وابت صدیق حئسن خ ف
ے“۔ (والع ی اذ ب اللہ) ( موعہ رسا ل ے ج ہت وق اور لو پوری صراحت کے سا ھ اب ت ہ و ی ہ ”مذکورہ ب اال ی رہ آی ات سے ہللا عالٰی ک ی ل قئ
ث ف ف ن ئف نع ا د ج 3ص غ 147ق)
ن ئ ن
ن
ے۔ ( ت اوی ا ی ہ مد ی ہ ص )493
ٰ ے ی ج ملہ ہای ت م ی د کت اب ہ زل االب رار ج و کہ ی رم لدی ن کے ل
ے۔) زل االب رار ے اور س کا مکان عرش ہ ے کہˮوهو في جهة الفوق ،ومكانه العرش“وہ (ہللا) اوپر کی ج ہت می ں ہ می ں لکھا ہ
ص 3کت اب االی مان(
قئ ن ت خ غ ق
م ج ث ن واب فد الزمان خ امام اہس فل ت
ے کہ توہ ع ا د می ں پوری طرح کی ح ی ر ص ہ ے ن ی د ل ر ی ود ں م ارے کے ن احب ص ان وح حدی ت
ق ہ ف ق ی ی ب
) 385 ص اء
ف م ل ذکرہ الن ب ال ی ی ت راج م العف ے( ھ
ن ئسے ن ل ی
ی ک ئ سل ح ی ئ کت ہ
کت ل س ک ق ج
ص )635 ے ( ی ی ج ا زہ ت ق ے ہ ی ں۔ د تھ ے وح ی د الزم شان کو امام ا ل حدی ث ہ ر یس شدوی ہی ں غ ر ہ قا لحدی ث و ی ل ی ت ہلکی تہ ہ
ے“۔ (حدی ث اور اہ ل ل ی د ص ے ہ ی ں ”:ب ال ب ہ ی ہ ہ مارے اسالف می ں سے ھ داؤد ار د صاحب ی رم لد ان کے ب ارے می ں ھ
ئ ن سلف ن )162ق
ے کہ ا ے ہ ں ف رق ات ن س ج ک ا ل ے ہ ں ی ون کہ ان کے ع ق ائ د و سا ل ب لک کت
کے رک طرف مت ق ت
سوب
ن م
غ
ہ ی ی ی م ہ ی ک ےھآپ کولک ی ا ہی کیغ ق اور د الزمان ے ک
پ انن ی د ل ر ی
ے۔ ی ہ ا کر ہ لد م ر ی اک آج اور ے
ھ کر ل وح ی
25
کت چ ن کئ ن ض غ ق
ے ہ ی ں تکہ ی ہ ہ مار امام اہ لے اس کے ب ارے می ں ہخ
ے یل
ت کے اس امامناہ لحدی ث سے ج ان ھڑا پرات ا
خ ح آج کل کے ج اہشل ی رم لتدی ن
ل
ے ہ ی ں کہ وح ی د الزمان صاحب آ ری دم ک اہ ل حدی ث ے ای ک مولوی صاحب ھ حدی ث ب عد می ں ی عہ ہ و گ ی ا ھا ج ن
ب کہ ود ان کےف اپ
ے۔ (ماہ ن امہ محدث ج 35ج وری 2003ص حہ )77 رہ
ے؟ ک ی ا ہللا ج ھت می ں ہ
وقال اإلمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سالمة الطحاوي الحنفي ( 321ھ) في رسالته( متن العقيدة الطحاوية) ما نصه" :وتعالى أي
اهلل عن الحدود والغايات واألركان واألعضاء واألدوات ،ال تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات" اهـ.
ؒ ب ف قئ ش ق ن نف
ے کہت ی ہ ع اق د امام ا و نح ی ہف ، روع می ں لکھا ہ ال يك ب ار علماء الس قلف می ں سے ہ ی ںت اپ ی کت اب (الع يدة ال طحاوية) جس کے ل
امام ا طحاوي ؒ ح
ص ل ن ئ ؒ
ے“( م ن الع يدة ا طحاوية حہ امام ایو یوسف ، امام دمحم کے ع ا د ہ ی ں کہ” الله عالی” مکان و ج ھت و حدود“سے پ اک ومُ زه ومُب را ہ
ف لک ت ن ش)۱۵
ے ہ ی ں۔ ر اک کو لے ا و ے کر ات ے کان کا اث کئ
ہللايؒ د ی خ ن ظ ام الد ن الهن
ھ ب یل م ی
قال الشيخ نظام الهندي" :ويكفر بإثبات المكان هلل" (في كتابه الفتاوى الهندية المجلد الثاني صفحه )259
ت ف ق قئ ت کئ خ ش
ے ہ ی ں"وقد قال جمع من السلف والخلف :إن من اعتقد أن اهلل ے ج ھت کے ا ل کو کا ر رار ید ال ي خ محمود دمحم طاب السب ؒ
كيہللا عالٰی ی ل
ش ف ؒ في جهة فهو كافر"(.إتحاف ئ الكائنات(
حن ؒ ف ف ت ؒ ؒ ف ئ ق ل کئ
ے جسم ج ھت کے ا ل پر چ اروں آ مہ امام اب و حن ی ہ ،امام مالک امام ا عی امام احمد ب ن ب ل کا ک ر کا وی۔ ا له ی ل
ٰ
(وفي المنه اج الق ويم على المقدم ة الحض رمية) في الفق ه الش افعي لعب د اهلل بن عب د ال رحمن بن أبي بك ر بافض ل الحض رمي" :واعلم أن
القرافي وغيره حكوا عن الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة رضي اهلل عنهم القول بكفر القائلين بالجهة والتجسيم وهم حقيقون بذلك"اهـ
( ومثل ذلك نقل مال علي القاري (في كتابه المرقاة في شرح المشكاةج 3ص (271-270
بہرحال ہم ان کی تسلی کیلئے ان کے بڑے ابن تیمیہ کا بھی عقیدہ پیش کرتے ہیں جس کے یہ اندھے مقلد ہیں۔
نوٹ :حادث اسے کہتے ہیں جو عدم سے وجود میں آئے یعنی پہلےنہ ہو پہر موجود ہوجائے ،اہل س نت ک ا عقی دہ یہ
ہے کہ ہللا تبارک وتعالی کی ذات و صفات دونوں قدیم و ازلی ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ اس کی ص فات میں س ے ک وئی
صفت ایک زمانے میں نہیں ہو اور پھر بعد میں وجود میں آج ائے ،اگ ر ہم نعوذب اہلل ہللا کی ذات کے س اتھ ق ائم کس ی
صفت کو ایک زمانے اور وقت میں معدوم مان لیں ،اور کہیںکہ یہ ع دم کے بع د وج ود میں آی ا ہے ،ت و هم نے ای ک
خاص وقت میں ہللا کواس صفت سے معطل اور خالی مان لیا ،اب اگ ر اس ص فت ک و هم ک وئی بے فائ دہ کہیں ت و یہ
بهی گمراهی ہے کہ ہم نے ہللا کی ذات میں فضول اور لہو چیزیں مان لیں ی ا بالف اظ دیگ ر ہللا کی کس ی ص فت ک و بال
فائدہ کہ دیا اور اگر ہم اس کو کمال کی صفت مانتے ہیں تو اس صفت کے وجود میں آنے سےپہلےہم نے ہللا کو کسی
کمال سے خالی مان لیا حاالنکہ ہللا کی ذات کسی بهی وقت کس ی کم الی ص فت س ے مح روم ق رار نہیں دی ا جاس کتا ،
ورنہ وہ ہللا ہی نہ رہے گا ،ثابت ہو اکہ ہللا کی ذات اور صفات دونوں ازلی قدیم اور غیرمسبوق بالعدم ہیں
ابن تیمیہ کے چند نصوص جس میں انہوں نے ہللا کی ذات میں حوادث کا قیام مانا ہے منهاج السنة النبویة ( )380 /2فَِإ ْن
َکم (َ : )4ن َع ْمَ ،و َه َذا َق ْولُنَا الَّ ِذی َد َّل َعلَیہ َّ
الش ْرعُ َوال َْع ْق ُل ، ب .قَالُوا ل ْ
الر ِّ یام الْحو ِاد ِ
ث بِ َّ ِِ
ُقلْتُ ْم لَنَا :قَ ْد ُقلْتُ ْم بق ِ َ َ
ترجمہ :اگر آپ ہمیں کہتےہیںکہ آپ نے ہللا کے ذات میں حوادث کا قی ام م ان لی ا ،ت و آپ ک و وہ کہیں گے کہ ہ اں یہ
ہمارا قول ہے جس پر شرع اور عقل داللت کرتا ہے
سوال :یہاں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ ابن تیمیہ کا قول ہو ،کیونکہ انہوں نے کہا :قالوا لکم ۔ یعنی وہ ل وگ آپ ک و
کہیں گے یعنی شیعہ وکرامیہ وغیرہ
26
جواب :محقق کتاب نے کہا ہے کہ ایک نسخے میں ت و ق الوا لکم :آی ا ہے لیکن چ ار نس خوں میں "قلن ا لکم " آی ا ہے
جیسا کہ اس نے چار نمبر تعلیق میں کها )4(:ب ،ا ،ن ،م :قُ ْلنَا لَک ْم ،جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قول کو اپن انے واال
ابن تیمیہ بهی ہے
عالوہ ازیں :آگے چل کر ابن تیمیہ نے اس قول کی حمایت کھل کر کی ہے جس سے کسی شک کی گنج ائش هی نہیں
رہتی ،بالفرض یہاں کرامیہ کی طرف بهی نس بت ہ و لیکن چ ونکہ آگے ان کی حم ایت کی ہے لهذا ک وئی ف رق نہیں
کل ِم َن الطَّائَِفتَی ِن ِم َن َّ
الص َو ِ
ابَ ،و َع َدلْنَا َع َّما پڑتا جیسا کہ انہوں نے کها ہے :منهاج السنة النبویة (َ )380 /2وقَ ْد أَ َخ ْذنَا بِ َما ِفی َق ْو ِل ٍّ
کم ِم َن ث قَ ام ْ ِ ِ
ت ب هُ .قلْنَ اَ :و َم ْن أَنْ َ
کر َه َذا َق ْبلَ ْ
الش رعُ والْع ْق ل ِمن َق و ِل ک ٍّل ِم ْنهم ا .فَِإ َذا قَ الُوا لَنَ اَ :فه َذا ی ْل زم ( )1أَ ْن تَک و َن ال ِ
ْح َواد ُ َ َ َُ َ َُ یر ُّدہ َّ ْ َ َ ُ ْ ْ ُ
یح ال َْع ْق ِل ،وہو َقو ٌل اَل ِز ٌم لِ َج ِمی ِع الطَّوائِفِ
ص ِر ِ ِ
ض َّم ُن ذَلک َم َع َ
ِ
السنَّة َتتَ َ ِ
وص الْ ُق ْرآن َو ُّ ِ ِ ِ
َ َ ْ ص ُالسلَف َواأْل َئ َّمة؟ َونُ ُ
َّ
ترجمہ :هم نے دونوں فریقوں کے قول میں جو صحیح تها اسے لے لیا اور دونوں کے اقوال میں سے جس ک و ش رع
اور عقل رد کرتی ہے اس س ے ع دول کی ا ،اگ ر ہمیں وہ کہیں کہ اس ب ات کے یہ الزم ہے کہ هللا کی ذات کے س اتھ
حوادث کا قیام ہو ،هم کہتےہیں کہ آپ سےپہلےسلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انک ار کی ا ہے ؟ جبکہ ق ران و
سنت کے نصوص اور صریح عقل اس بات کو متضمن ہے [یعنی اس کی ط رف اش ارہ ک رتی ہے ] اور یہ ق ول تم ام
فرقوں کو الزم ہوتا ہے
ول بِِق ِ
یام والکر ِامیة قَ َ
ال :نَ ْح ُن َن ُق ُ َّ ث کالهشامیةاد ٌْق ح ِ
إن الْ َخل َ َ الَّ :
ایک جگہ ابن تیمیہ لکہتےہیں :مجموع الفتاوى (َ )382 /16و َم ْن قَ َ
الْحو ِاد ِ
ث. ََ
یعنی ہشامیہ اور کرامیہ میں سے ج و ل وگ کہ تےہیں کہ مخل وق ح ادث ہے وہ کہ تےہیں کہ هم ہللا کی ذات کے س اتھ
حوادث کے قیام کے قائل ہیں ابن تیمیہ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکہتےہیں
ض ِع ِه.
ط فِی مو ِ ِ
س ب د ق ا کم ک ِ
ل ف ی ُد ُّل َعلَى تَ ْح ِق ِ َ
ذ یق السلَ ِ
السنَّةُ َوإِ ْج َماعُ َّ
اب َو ُّ یل َعلَى بُطْاَل ِن َذلِک .بَ ْل ال َْع ْق ُل َو َِّ
َ َْ ُ َ َْ الن ْق ُل َوالْکتَ ُ َواَل َدل َ
یعنی اس بات کے بطالن پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقل اور نقل اور کتاب ،سنت اور اجماع سلف اس بات کے ثبوت پر
داللت کرتے ہیں جیسا کہ یہ بات اپنے مقام پر تفصیل سے بیان کی گئی ہے
ابن تیمیہ واضح طور پر کهتا ہے کہ تمام حوادث سے ہللا کو پاک کهنا غلط ہے منهاج السنة النبویة ( )381 /2ثُ َّم إِ َّن کثِ ًیرا
ط ِم ْن ُه ْم، یام الْحو ِاد ِ
ث بِہ ُمطْلَ ًقاَ ،وهو غَلَ ٌ ِ یام ِّ ِ
الص َفات ،أ َْو ق ِ َ َ یج َعلُو َن ِمثْل َه َذا ُح َّجةً فِی َن ْفی قِ ِ
َ
ِ ِ ِم ْن نُ َف ِاة ِّ
الص َف ِ
ات -ال ُْم ْعتَ ِزلَة َوغَی ِره ْم ْ -
ترجمہ :پہر معتزلہ وغیرہ جیسے بہت سے صفات کی نفی کرنے وال وں نے یہ ب ات [ہللا کی ذات کے س اتھ ] ص فات
کے قیام یا اس کے ساتھ حوادث کے مطلقا قیام کی نفی کے لیے دلیل بنایا ہے جو ان کی غلطی ہے
اس سے بهی واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ حوادث کے مطلقا قیام کو غلط کهتا ہے دراص ل ابن تیمیہ بعض ح وادث ک و
ہللا کی ذات کا کمال کهتا ہے اس لیے ان سے ہللا کی ذات کو خالی قرار دینا ان کے ہاں غل ط ہے جیس ا کہ انہ وں نے
ْجاَل ِل] ِ ات الْکم ِ الن َقائِص والْعیوب أَ ْن ی ْنتَ ِفی َعنه ما هو ِمن ِ
ص َف ِ ب إِذَا َن َف َ ِ
ال َونُ ُعوت ال َ َ ْ َ یت َعنه َّ َ َ ُ َ کها :منهاج السنة النبویة (َ )381 /2واَل یج ُ
ترجمہ :جب آپ نے ہللا سے نقائص اور عیوب نفی کردیے تو اس سے کس اتھ ض روری نہیں کہ اس س ے وہ چ یزیں
بهی منفی کی جائیں جو کمال اور جالل کی صفات میں سے ہیں[یعنی وہ حوادث جو بقول ابن تیمی ه کم ال و جالل کے
صفات ہیں کیونکہ بات حوادث هی کے بیان کے معرض میں ہورهی ہے ]
الکرامیة -من الضالالت مما لم یتجاسر على إطالقه قبلهم واحد من
امام ابوالمظفر االسفرائینی فرماتے ہیں" :ومما ابتدعوه -أی َّ
األمم لعلمهم بافتض احه ه و ق ولهم :ب أن معب ودهم مح ل الح وادث تح دث فی ذات ه أقوال ه وإرادت ه وإدراك ه للمس موعات والمبص رات،
وتبصرا [ ،التبصیر فی الدین (ص]67 -66 /
ً سمعا
وسموا ذلک ً
یع نی ک رامیہ نے جن گمراهی وں ک و ایج اد کی ا جن پ ر ان س ےپہلےعلی االطالق کس ی نے بهی اس کی قب احت اور
رسوائی کو جاننے کی وجہ سے جراءت نہیں وہ ان [کرامیہ ] کا یہ قول ہے که :ان کا معبود حوادث ک ا مح ل ہے اس
کے ذات میں اس کے اقوال ،ارادات اور اس کا مسموع اور دیکهی جانے والی چیزوں کا اادراک حادث [پیدا ] ہ وتے
ہیں،
معل وم ہ وا یہ ق ول ام ام ابن تیمیہ نے ک رامیہ کی اتب اع میں کها ہے اس کی تص ریح اور اع تراف مل ک عب دالعزیز
یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل رسالے البیهقی و موقفہ من االلهیات کے مولف س لفی ع الم ڈاک ٹر احم د
27
الغامدی نے بهی کی ہے چنانچہ لکهتا ہے :البیهقی وموقفه من اإللهیات (ص )223 :وهذا الرأی الذی اختارہ ابن تیمیة وذکر أنه
مذهب السلف وأنه الحق الذی یؤیدہ الدلیل الشرعی والعقلیيه و بعینه رأى الکرامیة
یعنی ابن تیمیہ نے یہ جو رائے اختیار کیا ہے اور اس نے بتایا کہ یہ سلف کا مذهب ہے اور یهی وہ حق بات ہے جس
کی شرعی و عقلی دلیل تائید کررهی ہے ،،تو یہ "بعینہ کرامیہ کی رائے ہے "
خود یهی ڈاکٹر غامدی جو امام بیهقی رحمہ ہللا کو کالم ہللا کے مسئلے میں بهی سلف کا مخالف کہالتا ہے ہللا کی ذات
میں حوادث کے حلول کو حق جانتا ہے [نعوذباہلل] البیهقی وموقفه من اإللهیات (ص )223 :وهکذا یتضح لنا أن القول بحلول
الحوادث بذات اهلل تعالى بمعنى أنه یتکلم متى شاء ویفعل ما یرید هو الرأی الصحیح بداللة العقل والنقل
ترجمہ :اس طرح همارے سامنے واضح ہوجاتا ہے کہ ہللا کی ذات میں حوادث کے حلول کا قول ،اس مع نی س ے کہ
ہللا جب چاہے کالم کرتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے یهی صحیح رائے ہے عقل اور نقل کی داللت سے
ان حض رات ک و ہللا کی ذات میں ح وادث ک ا حل ول ص حیح عقی دہ اس بن ا پ ر لگت ا ہے کہ یہ ل وگ کالم ہللا ک و ح ادث
کہتےہیں کہ ہللا جب چاہے کالم کرتا ہے تو گوی ا اس کالم کے ذریعے ہللا کی ذات میں ک وئی ن ئی چ یز حل ول ہوگ ئی
جوپہلےنہیںتهی حاالنکہ اگر اہل سنت کی طرح ہللا کے کالم کو قدیم اور ازلی مانتے اور یہ مانتے کہ ہللا نے قران پ ر
جو تکلم کیا اور اسی طرح موسی علی یبینا و علیہ السالم کے ساتھ جو تکلم کی ا یہ س ب اپ نے اس ی ازلی ق دیم ص فت
سے کیا اور اس کالم سے ہللا کی ذات میں کوئی نئی چیز پیدا نہیں ہوئی تو یقینا اس شنیع اور باطل ق ول ک ا محت اج نہ
ہوتے ،دوسری طرف اس سے بهی زیادہ ضعیف دلیل ہللا تعالی کے افعال سے پکڑا ہے حاالنکہ ہللا تع الی کے افع ال
جیسے کسی کو پیدا کرنا رزق دینا ،وغیرہ یہ س ب ہللا کی ذات میں پی دا نہیںہ وتے بلکہ ہللا اپ نے ق دیم ص فت س ے ان
افعال کو مخلوق میں کرتا اور پیدا کرتا ہے بہرحال اس بات کی طرف ک وئی بهی اش ارہ کس ی عقلی ی ا نقلی دلی ل میں
نہیںکہ ہللا تعالی کا کالم یا اس کے افعال سے ہللا کی ذات میں کوئی نئی چیز [حوادث ] حلول ہوجاتے ہیں
ابن تیمیہ اور امام احمدرحکے عقیدے میں نمایاں فرق
فائدہ :یہاں ایک فائدے کی خاطر ابن تیمیہ اور امام احمد کے عقیدے میں ف رق بت اتے ہیں کہ ام ام احم د ؒ ق ران ک و ہللا
تعالی کا ازلی کالم کہتےہیں کیونکہ قران کو امام احمد ہللا کا علم کہتےہیںجس طرح ایس اک وئی وقت نہیں تها جب ہللا
علم سے معط ل ہ و اس ی ط رح ایس ا وقت بهی نہیںتها جب ق ران نہ تها ،جبکہ ابن تیمیہ ک ا عقی دہ اس س ے ال گ ہے
چنانچہ ابن تیمیہ کہتےہی
ابن تیمیہ اپنے مجموع الرسائل میں لکھتےہیں وإذا ک ان اهلل ق د تکلم ب القرآن بمش یئة ک ان الق رآن کالم ه وک ان م نزال من ه غ یر
مخلوق ولم یکن مع ذلک أزلیا قدیما بقدم اهلل"ا.هـ[ "مجموع الرسائل" (:)1/380
قران ہللا کا کالم ہے اور اس ی س ے ن ازل ہ وا ہے مخل وق نہیںہے ،اور ہللا کے س اتھ اس کی ق دم کی ط رح ق دیم نہیں
ہے ،
دوسری طرف حافظ ابن کثیر ؒ نے البدایہ والنهایہ میں امام احمد ؒ کے خلق القران کے مس ئلے پ ر من اظرہ نق ل کی ا ہے
اس میں امام احمد کے الفاظ پر غور کریں تو واضح طور پر وہ قران کو ہللا کا علم اور ازلی قدیم قرار دے رہے ہیں
ول ِفی
ْتَ :م ا َت ُق ُ ص م :أ ِ
َج ْب هَُ .ف ُقل ُ ِ
ال ال ُْم ْعتَ ُ
ُج ْب هَُ ،ف َق َ ْ
ول فِی الْ ُق ر ِ
آن؟ َفلَم أ ِ
ْ ال لِی َع ْب ُد َّ
الر ْح َم ِنَ :م ا َت ُق ُ البدایة والنهایة ط هجر (َ )399 /14ف َق َ
ین، ِِ ِ ِ ْم اهلل َم ْخلُ و ٌق َف َق ْد ک َف َر بِاللَّ ِه .فَ َس َ ْت :الْ ُق رآ ُن ِمن ِعل ِْم اللَّ ِه ،ومن زعم أ َّ ِ ال ِْعل ِْم؟ فَ َس َ
یم ا بَ َین ُه ْم :یا أَم َیر ال ُْم ْؤمن َ
کتَ ،ف َق الُوا ف َ َن عل َ ََ ْ َََ ْ کتَ ،ف ُقل ُ ْ
کت
ْم؟ فَ َس َ ِ الر ْح َم ِن :کا َن اللَّہ َواَل ُق ْرآ َن؟ َف ُقل ُ ت إِلَى ذَلِکَ ،ف َق َ
کف َرنَاَ .فلَ ْم یلْتَ ِف ْ
کف َرک َو َّ
َّ
ْت :کا َن اهلل َواَل عل َ ال َع ْب ُد َّ
اس عبارت میں مناظرہ کرنے والے نے قران کے مخلوق ہونے پر یہ دلیل پکڑی کہ ہللا موجود تها لیکن قران نہ تها ،
اس کا جواب امام احمد نے یہ دیا کہ "کیا ہللا موجود تها اور اس ک ا علم نہ تها " ،یع نی یہ کیس ے ہوس کتا ہے کہ ہللا
موجود ہو اور بالعلم کے ہو اور چونکہ امام احم د ؒ نے ان س ے کها تها کہ الق ران من علم ہللا ،کہ ق ران ہللا کے علم
سے ہے ،تو لهذا یہ بات واضح ہوگئی کہ قران ازلی ق دیم ہے کیونک ه یہ ہللا ک ا علم ہے اور ہللا بالعلم کبھی بهی نہیں
تها اس کے برعکس امام ابن تیمیہ قران کو ازلی نہیںکہتے ،،
یس ُّمونه " ُم ْح َدثًا کہ ِ ِ
یس ُّمو َن َم ا قَامب ه " َحادثً ا " َواَل َ
والکرامیة َ
َّ ابن تیمیہ ایک جگہ لکھ تےہیں :مجم وع الفت اوى ()383 /16
کرامیہ فرقہ ہللا تعالی کی ذات کے ساتھ قائم چیزوں کو "حادث " تو کہتے ہیں لیکن "محدث " نہیں کہتے
28
ال
کم ا قَ َ ِ ِ یث و ُّ ِ الکر ِامیة ِمن أَئِ َّم ِة ال ِ ِ
یس ُّمو َن ذَل ک " ُم ْح َدثًا " َ
الس نَّة َوالْکاَل م فَ َ ْحد َ
َ ْ آگے لکہتےہیں :مجموع الفتاوى (َ )383 /16وأ ََّما غَ ُیر َّ
ث}{ما یأْتِی ِهم ِمن ِذک ٍر ِمن ربِّ ِهم م ْح َد ٍ
ْ َ ُْ ْ ْ َ
یعنی کرامیہ کے عالوہ علم حدیث ،سنت اور علم کالم کے ائمہ اس ک و مح دث بهی کہتےہیںجیس ا کہ ہللا نے فرمای ا :
مایاتیهم من ذکر من ربهم محدث
اب یهاں صفات باری تعال کو محدث کهنا ائمہ سنت کا قول ٹہرایا جبکہ هم نے نقل کیا ہے کہ ام ام احم د ؒ کی مخ الفت
کرنے والے معتزلہ هی "قران کو محدث " کہتےتھے اور اسی آیت سے حجت پکڑتے تھے امام ذهبی ؒ نے العلو میں
نق ل کی ا ہے [ جس س ے غیرمقل دین بهت اس تدالل ک رتے ہیںاور روای ات نق ل ک رتے ہیں]
العلو للعلی الغفار (ص)150 :
ِ
ض یل بن عیاض ِ
ْح ارث بن عُ َم یر َوهو َم َع فُ َ ِ ِ ِ
ال َس معت ال َ
وس ى َح دثنَا أَبُو ُم َح َّمد الْمروزی قَ َ
ال ابْن أبی َح اتم َح دثنَا ُم َح َّمد بن الْفضل بن ُم َ
قَ َ
َیس من علم اهلل فهو زندیق
ی ُقول من زعم أَن الْ ُق ْرآن ُمحدث فقد کفر َومن زعم أَنه ل َ
یعنی جس نے قران کو محدث کها وہ کافر ہے اور جس نے یہ خیال کیا یہ ہللا کے علم میں سے نہیںہے وہ زندیق ہے
اسی طرح امام ذهبی ؒ نے یہ بهی نقل کیا ہے :
ِ ِ
ارون ُم َح َّمد بن خلف الجزار َسمعت ه َشام بن عبید اهلل ی ُقول الْ ُق ْرآن کاَل م هلل غیر ِ
العلو للعلی الغفار (ص )169 :ابْن أبی َحاتم َحدثنَا أَبُو َه ُ
َیس ِع ْن د اهلل بمحدث //قلت أِل َنه ِ {م ا یأْتِی ِه ْم ِم ْن ِذک ٍر من َربهم ُمحدث} َف َق َ
ال ُمحدث إلَینَ ا َول َ ال له رجل أَل َ
َیس هلل َت َعالَى ی ُقول َ َم ْخلُوق َف َق َ
ِ
من علمه َوعلمه قدیم فَعلم عبادہ م ْنهُ
یعنی هشام بن عبیدہللا فرماتے ہیں کہ قران ہللا کا کالم غیرمخلوق ہے ،کسی نے کها کہ کی ا ہللا نے یہ نہیں فرمای ا کہ
"م ا یاتیهم من ذک ر من ربهم مح دث " [پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے :کہ ان کے پاس اپنے رب کی طرف سے ک وئی ن ئی
نصیحت نہیںآتی مگر وہ اس کو سنتے ہیںکهی لتے ہوئے ] ۔۔۔یعنی ہللا نے اس کو نئ چیز کہا ہے ،تو انہوں نے فرمای ا
کہ یہ ہماری طرف نئی ہے ہللا کے هاں نئی نہیں ہے امام ذهبی ؒ فرماتے ہیں :میں کهت ا ہ وں کہ یہ ب ات اس ل یے ہے
کہ قران ہللا کے علم سے ہے اور ہللا کا علم قدیم ہے یہاں امام ذهبی ک ا بهی ابن تیمیہ س ے اختالف ہ وا ،ام ام ذهبی
قران کو ہللا کے علم سے سمجهتے ہیں جو کہ ازلی ہے جبکہ ابن تیمیہ کا قول گ زر چک ا ج و ق ران ک و ہللا کے س اتھ
ازلی قدیم نہیں مانتے بلکہ حادث مانتے ہیں۔
29
حضرت عبدهللا بن عباس رضی هللا عنہم ا (وف ات 68ھ) حض رت ام ام قت ادہ (وف ات 118ھ) ،حض رت مجاہ د (وف ات
104ھ) حضرت سفیان ثوری (وفات 161ھ) رحمہم ا هللا نے آیت کریمہ” :والسماء بنینا ها بأید وإن ا لموس عون“ (آسمان کو
ہم نے اپنے دست سے بنایا )میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔
) تفسیر ابن حبریر الطبری ،الذاريات تحت آیة رقم(47 :
امام احمد بن حنبل (وفات 241ھ)
ِ َّ ِ ْح اكِ ِم َع ْن أَبِي َع ْم ِرو بْ ِن َّ
الس َّماك َع ْن َح ْنبَ ٍل أ َّ ِ
ك) [الفجر ]22 :أَنَّهُ
اء َربُّ َ َح َم َد بْ َن َح ْنبَ ٍل تَأ ََّو َل َق ْو َل الله َت َع الَىَ :
(و َج َ َن أ ْ َو َر َوى الَْب ْي َهق ُّي َع ِن ال َ
اء َث َوابُهُ.
َج َ
ال الْبيه ِق ُّي :وه َذا إِسنَا ٌد اَل غُبار َعلَيهِ.
ََ ْ ثُ َّم قَ َ َ ْ َ َ َ ْ
تعالی (وفات 241ھ) کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام حمدؒ نے ﴿وج اء ربک﴾ (اور آی ا ٰ امام احمد بن حنبل رحمہ هللا
آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔
الی فرم اتے ہیں کہ اس س ند پ ر کس ی قس م کے ش ک وش بہ کی گنج ائش نہیں ہے ۔) البداية ام ام بیہقی رحمہ هللا تع ٰ
والنهايةج 10ص (361
بخاری (وفات 256ھ) اپنی صحیح میں قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں: ؒ امام
ت َعلَْي ِه ْم {األَْنبَ اءُ} ي ِ
م عف " :د ِ
اه جم ال ق و " ِ
ه َّ
ل ال ه ج و ِ
ه ِ
ب د يرِ ُ
أ ا م اَّلِ
إ :ال قيو ،ه ك لم اَّلِإ " : ]88 ص: [القص } اَّلِ ِ ٍ
َ َ َ ُ َ ٌ ََ َ ْ َ َُْ َ ُ ْ َ ُ َ َُ ُ { ُك ُّ َ ْ َ ٌ َ ْ َ ُ
ه ه ج و إ ك ال ه ء ي ش ل
الح َج ُج "
[القصصُ : ]66 :
ك ِإاَّل َوجْ هَ هُ ”ہ ر چ یز ہالک ہ ونے والے ہے س وائے اس سورہ قصص کی تفسیر! بسم ہللا الرحمن الرحیم ُكلُّ َش ْي ٍء هَالِ ٌ
کے منہ کے“ میں ”وجھہ“ سے ہللا کی سلطنت مراد ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ وہ اعمال م راد ہیں‘ ج و اس کی رض ا
کے لئے کئے جائیں ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ”انبائ“ سے مراد دلیلیں ہیں۔ )صحیح بخاری ج 6ص 112کتاب التفسیر(
بخاری نے تاویل کی ہے۔ ؒ فرقہ اہلحدیث کے ایک مولوی صاحب اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ امام
چنانچہ لکھتے ہیں:
بخاری نے سورۃ قصص کی تفسیر میں وجہ سے مراد اس کا ملک لیا ہے ،ہم ارے (غیرمقل دین) کے نزدی ک یہ ؒ امام
تاویل صحیح نہیں ہے۔ ) ت رجمہ کتاب التوحید ص 221عبد الستار حماد(
بخاری نے بھی اپ نے ط ور پ ر تاوی ل کی ؒ تاویل غلط ہے یا صحیح یہ ایک الگ بحث ہے یہاں یہ ثابت ہو گیا کہ امام
ہے۔
یہ بھی سچ ہے کہ ان سلف صالحین نے تاویل کی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے معتزلیہ کی طرح قطعی ط ور
پر تاویل نہیں بلکہ درجہ طن میں تاویل کی ہے۔ معتزلیہ خود سے کوئی تاویل کرتے ہیں اور اسی پر بس کرتے ہیں
اور کہتے ہیں اس کے سوا اور کوئی مع نی نہیں جبکہ اہلس نت ہللا کی م راد ک و اس کے س پرد ک رکے درجہ ظن میں
تاویل عام لوگوں کے خیاالت کو جسمیت کی جانب سے پھیرنے کیلئے ی ا اور کس ی ض رورت کے تحت ک رتے ہیں۔
اور وہی تاویل کرتے ہیں جو ہللا کی شیان شان ہو۔
لہذا فرقہ سلفیہ کا یہ کہنا بھی جھوٹ ثابت ہوا کہ صحابہ و سلف صالحین نے کوئی تاویل کی ہی نہیں۔
30
دھوکہ نمبر 4
کہتے ہیں کہ اشعریہ اور ماتریدیہ کے بیچ حق و باطل کا اختالف ہے
العیاذ باہلل ٰ
تعالی
فرقہ سلفیہ کے ایک شیخ محمد العثمین اہلسنت اشعریہ اور ماتریدیہ کو اہلسنت سے خارج قرار دیتے ہ وئے لکھ تے
ہیں:
نقول كيف يكون الجميع اهل سنة وهم مختلفون ؟ فماذا بعد الحق اال الضالل وكيف يكونون اهل سنة وكل واحد يرد علي االخر؟ هذا
ال يمكن اال اذا امكن الجمع بين الضدين
ترجمہ :ہم کہتے ہیں کہ یہ سب (اشعری ،ماتریدی ،س لفی) اہلس نت میں س ے کیس ے ہ و س کتے ہیں ح االنکہ ان میں
اختالفف ہیں اور حق کے سوا ج و کچھ ہے وہ گم راہی ہے اور یہ تین وں اہلس نت کیس ے ہ و س کتے ہیں جبکہ ان میں
سے ہر ایک دوسرے پر اعتراض کرتا ہے غرض ان تینوں کا اہل سنت میں سے ہونا اس ی وقت ممکن ہے جب ایس ی
دو باتوں کو جمع کیا جاسکے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔) شرح عقیدہ وسطیہ ص (22
جبکہ اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں ک وئی اختالف نہیں ہے ،چن د ف روعی مس ائل میں اختالف ہے ج وکہ
مضرنہیں ہے یہ ایسا اختالف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ ہونے سے نکل جائے ،لہذا اإلمام
األشعري اوراإلمام الماتريدي کے م ابین بعض ج زئی اجتہ ادی مس ائل میں خالف ہے ،اور علم اء امت نے ان مس ائل
کوبھی جمع کیا ہے ،اإلمام تاج الدين السبكي رحمه هللا نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل ہیں ،
امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے ہیں کہ:
تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خالف فيها ثالث عشرة مسائل منها
معن وي س ت مس ائل والب اقي لفظي وتل ك الس ت المعنوي ة ال تقتض ي مخ الفتهم لن ا وال مخالفتن ا لهم تكف يراً وال تب ديعاً ،ص ّرح ب ذلك أب و
منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم ( طبقات الشافعية ج 3ص )38
میں نے احناف کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا تومیں نے صرف تیره مس ائل کوپای ا جن میں هم ارا اختالف ہے اور ان
میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرکا ) اختالف ہے اور ب اقی (س ات ) مس ائل میں محض لفظی اختالف ہے ،
اور پھ ر ان چھ مس ائل میں معن وی ( تعبیرک ا ) اختالف ک ا مطلب هرگ زیہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ س ے هم ای ک
دوسرے کی تکفیر اور تبدیع ( بدعت کا حکم ) ک ریں ،اس تاذ أب و منص ور البغ دادي وغ يره نے هم ارے ائمہ میں اور
اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے ۔
بالکل یہی بات عالمہ مال علی قاری رحمه هللا نے بھی کی ہے
وقال العالمة على القارى فى المرقات :وماوقع من الخالف بين الماتريدية واألشعرية فى مسائل فهى ترجع الى الفروع فى الحقيقة فانها
الخلف بيننا فى الكل لفظي اهـ۔) ج 1ص ( 306
لفظيات فلم تكن من اإلعتقادات المبينة على اليقينيات بل قال بعض المحققين ان ُ
اش عریہ وماتری دیہ کے م ابین بعض مس ائل میں اختالف حقیقت میں ف روعی اختالف ہے ،اور یہ ظ نی مس ائل ہیں ان
اعتقادی مسائل میں سے نہیں ہیں جو یقینیات کے اوپرمبنی هیں ،بلکہ بعض محققین نے تویہ کہ ا ہے کہ اش اعره اور
ماتریدیه کے درمیان سب مسائل خالفیہ میں محض لفظی اختالف ہے ۔
لہذا اشاعره اور ماتریدیه عقائد میں ایک هیں اور هم یہ کہ سکتے هیں کہ اش عری ماتری دی ہے اور ماتری دی اش عری
ہے ،کیونکہ ان دونوں جلیل القدر ائمہ نے تو عقائد حقہ کو جم ع ونش رکیا ہے اور اص ول عقائ د ان کے پ اس وہی ہیں
ج و ص حابہ ت ابعین وتب ع ت ابعین کے تھے ،بس ان دو ام اموں نے ت و ان عقائ د کی تبلی غ وتش ہیر ونص رت وحف اظت
وحمایت کی توجیسا کہ صحابہ تابعین وتبع ت ابعین عقائ د تھے وهی اش اعره اور ماتریدی ه کےعقائ د ہیں ،اب وه ل وگ
کتنے خطرے میں ہیں ج و احن اف اور ام ام ابوح نیفہ س ے ض د وتعص ب کی بن ا پ ر اش اعره اور ماتریدی ه کے عقائ د
کوگمراه وغلط کہ دیتے ہیں۔
اگر امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اهتم ام کی ا ت واب اگ ر ک وئی بے وق وف
شخص امام بخاری کے ساتھ عداوت وتعصب کی بنا پر صحیح بخاری ک ا انک ار ک رے ی ا اس ک و غل ط کہے ت و ایس ا
شخص حقیقت میں احادیث رسول کے انکار کا ارتکاب کر رها ہے ،کیونکہ امام بخاری نے تو صرف احادیث رسول
کی حفاظت وصیانت کی اور ان کو اپنی کتاب میں جمع کردیا ،بعینہ یہی حال ہے اإلمام األشعري اوراإلمام الماتريدي
کا ہےکہ ان دو ائمہ نے صحابہ تابعین وتبع تابعین کے عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت کی اور اپنی کتابوں میں اس کو
لکھ کر آگے لوگوں تک پہنچا دیا ،اب کوئ جاهل کوڑمغز اشاعره اور ماتریدی ه کے عقائ د ک وگمراه کہے ت و اس کی
اس بکواس کا پہال نشانہ کون بنتا ہے ؟؟
31
ہم تو کہتے ہیں کہ ہللا عرش پ ر ہے جیس ا اس کی ش یان ش ان ہے ،انک ار ت و ہم اس ب ات ک ا ک رتے ہیں ج و یہ ل وگ
کرامیہ و مشبہہ کی طرح کہتے ہیں کہ ہللا عرش پر ٹھہرا ہوا ہے۔
سلفیوں کے شیخ صالح العثیمین(وفات 1421ھ) لکھتے ہیں۔
ٰ
استوای کا معنی بلن د اور م ا مع نی االس تواء عندھم فمعن ا العل و واالاس تقرار )ش رح عقیدہ الوس طيه ص )375۔ ہمارے نزدیک
استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔
استوی کے یہ سب معنی ہیں
استقرار -ٹھہرنا
استیال –غلبہ
برابر ہونا
جلوس -بیٹھنا
ان میں کچھ معنی ہیں جو کہ ہللا کی شان کے الئق ہیں جیسے استیال لیکن یہ معنی جو ہللا کی ش ان کے الئ ق بھی ہے
اس معنی کی ہللا کیلئے تخصیص کرنے والے کو بھی س لف نے نہیں بخش ا اور اس توی کے اس ی ای ک مع نی کی ہللا
کیل ئے تخص یص ک رنے والے ک و مع تزلیہ ق رار دی ا ہے۔ اگ ر یہ مع نی ج و ہللا کی ش ان کے الئ ق بھی ہے اس کی
تخصیص جائز نہیں تو پھر وہ معنی جن میں قوی احتمال موج ود ہے کہ یہ ہللا کی ش یان ش ان ہ و س کتے ہیں ی ا نہیں
اور جو ہللا کی شان کے الئق نہیں ان کی کیسے تخصیص ہو سکتی ہے کہ بندہ ان مع نی ک و لے اور کہے بس ہللا کی
یہی مراد ہے؟
امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات 310ھ) فرماتے ہیں:
كالم العرب في تأويل قول اهلل":ثم استوى إلى السماء"
وزوال) تفسیر الطبري ج 1ص (430
علو انتقال َ
وسلْطان ،ال ّ
علو ُملْك ُ
عال عليها ّ
کالم عرب میں بہت سی صورتوں میں استعمال ہوا ہے ان میں س ے "االحتی از" اور "اس تیالء" کے مع نی میں استواء ِ
الی السماء" چنانچہ فرمایا :هللا تعالي كي عل و بادش اهي اور ٰ
استوی ٰ تعالی کے فرمان کی تاویل کی "ثم
ٰ بھی ہیں ،پھر ہللا
غلبے والي علو هے اتنقال اور زوال والي علو نهيں۔
علو "اونچا هونا " دو معنوں ميں مستعمل هے ايك طاقت اور مرت بے والي اونچ ائي جيس ا ك ه بادش اه ع الي هے اپ نے
رعايا پر چاہے وه زمين پر بيٹها ہو اور رعايا پهاڑ پر ہو ،،دوسرا جهت والي علو جس ميں انتقال اور زوال ك ا مع ني
موجودہے كيونكہ آپ اوپ ر كي جهت ميں تب ج ائيں گے جب آپ نيچے كي جهت س ے منتق ل ہوج ائيں اور نيچے كي
جهت سے زائل هوجائيں يهي معني غيرمقلدين ليتے ہيں اور اسي كي نفي امام ابن جرير ؒ نے كي ہے.
مجتہد مطلق حضرت اإلمام األعظم أبو حنيفة رحمہ هللا (وفات 150ھ) فرماتے ہیں کہ
ونقر بأن اهلل سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه
”ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ هللا سبحانه وتعالى عرش پر ُمستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اور وہ عرش پر ٹھہ را
ہوا نہیں“۔ ) كتاب الوصية (ص ،)۸۷ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص ، )2 /ومال علي القاري في
شرح الفقه االكبر (ص )75 /عند شرح قول االمام :ولكن يده صفته بال كيف(
األشعري (وفات 403ھ)فرماتے ہیں کہ ؒ القاضي أبو بكر محمد الباقالني المالكي
وال نقول إن العرش لهء أي اهللء قرار وال مكان ،ألن اهلل تعالى كان وال مكان ،فلما خلق المكان لم يتغير عما كان
( االنصاف فيما يجب اعتقاده وال يجوز الجهل به ص)65/
ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش هللا تعالی کا ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب جگہ و
مکان نہیں تھا ،پھرجب هللا تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبالمکان ) اب بھی ویسا ہی ہے۔
32
اگر چہ اس محاورہ (ہللا ہر جگہ ہے) میں گنجائش زیادہ ہے کیونکہ اس سے مراد کسی جگہ میں ہونے کی قی د ک ا نہ
ہونا ہے۔) تسھیل تربیت السالک ج 3صفحہ (118یعنی ہللا ہر جگہ ہے کہنے سے کسی جگہ میں ہللا کی قید کی نفی
کرنا ہے۔ جیسے کوئی کہے کہ ہللا یہاں ہے وہاں نہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہللا ہر جگہ ہے۔
مکان و جگہ کی تعریف
مشهور لغوي عالم امام أب و القاس م الحس ين بن محم د المع روف ب الراغب األص فهاني اپ نی کت اب( المف ردات في غ ريب
القرءان) میں فرماتے هیں کہ
) المك ان عن د أه ل اللغ ة الموض ع الح اوي للش يء (یع نی مک ان أهل اللغ ة کے نزدی ک اس جگہ کوکہ تے هیں جوکس ی
چیزکوحاوی (گھیرا ہوا) هو ۔
العالمة كمال الدين أحمد بن حسن البياضي الحنفي (إشارات المرام)میں فرماتے هیں کہ
) المكان هو الفراغ الذي يشغله الجسم (یعنی مکان اس خالی جگہ کوکہتے هیں جس کوجسم گھیرتا ہے ۔
وقال الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري (وفات 476ھ)
33
في عقيدت ه ما نص ه "وان اس تواءه ليس باس تقرار وال مالصقة ألن االس تقرار والمالص قة ص فة األجس ام المخلوق ة ،وال رب ع ز وجل قديم
أزلي ،فدل على أنه كان وال مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ (أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع ( /1
))101
الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري رحمہ هللا فرماتے هیں کہ هللا تعالی کا استواء استقرار ( کس ی
صقة ( کسی چیزسے ِملنا ُمتص ل هون ا ) بھی نہیں ہے ،کی ونکہ اس تقرار جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور ُمال ِ
صقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ،اور رب تعالی ع ز وج ل ق ديم وأزلي ذات ہے ،پس یہ داللت ہے اس ب ات پ ر و ُمال ِ
کہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب جگہ و مکان نہیں تھا ،پھرجب هللا تعالی نے جگہ و مکان کوپیدا کیا ت ووه
جیسا تھا ( یعنی بالمکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
الحنفی( وفات 855ھ) لکھتے ہیں ؒ امام بدر الدین العینی
ِ ِ
قر في ه )،عمدۃ الق اری ج 2ص (117ہللا جسم سے پاک ہے ہللا جگہ و مکان کا يحتَ اج إِلَى َم َك ان ْ
يس تَ ّ س بجس م فَاَل ْ
أَن اهلل ل َْي َ
محتاج نہیں نہ اس میں ٹھہرنے کا۔
34
في عقيدت ه ما نص ه "وان اس تواءه ليس باس تقرار وال مالصقة ألن االس تقرار والمالص قة ص فة األجس ام المخلوق ة ،وال رب ع ز وجل قديم
أزلي ،فدل على أنه كان وال مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ) أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع ( /1
((101
الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري رحمہ هللا فرماتے هیں کہ هللا تعالی کا استواء استقرار ( کس ی
صقة ( کسی چیزسے ِملنا ُمتص ل هون ا ) بھی نہیں ہے ،کی ونکہ اس تقرار جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور ُمال ِ
صقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ،اور رب تعالی ع ز وج ل ق ديم وأزلي ذات ہے ،پس یہ داللت ہے اس ب ات پ ر و ُمال ِ
کہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مک ان نہیں تھ ا ،پھ رجب هللا تع الی نے مک ان کوپی دا کی ا ت ووه جیس ا تھ ا
( یعنی بالمکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔
( )viiوقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي االشعري (وفات 505ھ (
ما نصه ( " :تعالى أي اهلل عن أن يحويه مكان ،كما تقدس عن أن يحده زمان ،بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو االن على ما عليه
كان " اهـ) .إحياء علوم الدين :كتاب قواعد العقاند ،الفصل األول ((108 /1
غزالی فرماتے ہیں ہللا زمان و ماکان کی تخلیق سے پہلے تھا اور ویسا ہی ہے جیسا وہ (مخلوق کی تخلیق) س ے ؒ امام
پہلے تھا۔
( )viiiقال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي ( 520ھ)”ليس اهلل في
مكان ،فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ .ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل) " المدخل :فصل في االشتغال بالعلم يوم الجمعة
(((149/2
ہللا مکان میں نہیں وہ تو مکان کی تخلیق سے بھی پہلے تھا۔
( )ixوقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السالم األشعري الملقب بسلطان العلماء( وفات 660ھ (
مصور ،وال جوهر محدود ُمقدَّر ،وال يشبه شيئا ،وال يُشبهه شىءٌ ،وال تحيط به الجهات ،وال تكتنفه األرضون وال
"ليسء أي اهللء بجسم َّ
كون المكان ودبَّر الزمان ،وهو اآلن على ما عليه كان" ا.هـ) طبقات الشافعية الكبرى :ترجمة عبد العزيز بن عبد
السموات ،كان قبل أن َّ
السالم ((219 /8
ہللا جسم واال نہیں محدود نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔
)x( وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة هللا المكي الحموي المصري ( 599هـ)
في تنزيه اهلل عن المكان ما نصه وصانع العالم ال يـحـويه قطر تعالـى اهلل عن تشبيه قد كان موجودا وال مكانا وحكمه االن عـلى ما كانا
س بحانه ج ل عن المك ان وع ز عن تغ ير الزم ان" اهـ (منظومت ه "ح دائق الفص ول وج واهر األص ول" في التوحي د ،ال تي ك ان أم ر بتدريس ها
السلطان المجاهد صالح الدين األيوبي (ص )13النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب( 32 /4 ،
ہللا موجود تھا بال مکان اور ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔
)xi( وقال اإلمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي اهلل عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه:
“إنه تعالى كان وال مكان فخلق المكان وهو على صفة األزلية كما كان قبل خلقه المكان ال يجوز عليه التغيير في ذاته وال التبديل في
صفاته " اهـ) إتحاف السادة المتقين ((24 /2
شافعی فرماتے ہیں
ؒ امام
الی اُس ی
تعالی نے مکان کو پیدا کی ا اور ہللا تع ٰ
ٰ تعالی موجود تھے اور کوئی مکان موجود نہیں تھا پس ہللا ٰ بے شک ہللا
صفت ازلیہ ( ازل سے جو ہللا کی صفت ہے) پر ہے جیسے مکان کے پیدایش سے پہلے تھے ۔ جائز نہیں ہے ہللا کے
ذات میں تبدیلی کرنا اور نہ ہللا کے صفات میں تبدیلی کرنا۔
35
دھوکہ نمبر 8
بائن الخلقۃ ہللا مخلوقات سے جدا ہے
فرقہ سلفیہ یہ عقیدہ رکھتے اور سمجھاتے ہیں کہ ہللا اپنے مخلوق سے جدا ہے ایسے جیسے ایک شے دوسرے شے
سے جدا ہوتی ہے ہللا اور مخلوقات کے بیچ بہت بڑا مسافت (فاصلہ) ہے۔
جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ حق ہے کہ
تعالی کی ذات قدیم ہے جیسا ہللا مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ ہللا ٰ
پھر اس نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور کسی مخلوق میں یہ ہمت نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد وہ خدا کی ذات کے س اتھ
متحد ہو جائے۔
ٰ
کاندھلوی فرماتے ہیں :حق تعالی کسی چ یز کے س اتھ متح د نہیں ہوت ا اور نہ ک وئی چ یز اس کے س اتھ ؒ موالنا ادریس
متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور نہ وہ کسی شئے میں حلول کرت ا ہے۔) عقائ د اس الم ص
)59
ہللا اپنی ذات کے ساتھ متحد ہے کا عقیدہ دو طرح سے نک ل س کتا ہے ای ک یہ کہ ہللا کی ذات ک و جس م و جھت س ے
پاک نہ مانا جائے اور دوسرا اس طرح کہ ہللا کی ذات کیلئے کوئی جگہ مقرر کر دی جائے (جیس ا ف رقہ س لفیہ کرت ا
ہے)اور کہا جائے کہ اس کے بعد سے ہللا کی ذات نہیں پھر مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔ اب جہاں سے بھی ہللا کی ذات
ختم قرار دی جائے گی پھر اس عقیدے س ے یہ بھی الزم آئے گ ا کہ ہللا کی ذات اور اس کے بع د ج و بھی مخلوق ات
ہیں وہ آپس میں متحد ہیں یا اگر ہللا کی ذات اور مخلوق کے درمیان کوئی فاص لہ مق رر ک ر دی تے ہیں ت و وہ فاص لہ
بھی ٖغیر ہللا یعنی کہ مخلوق ات میں ہی ش امل ہ و گ ا۔ اس لئے اب کس ی بھی ط رح یہ عقی دہ رکھن ا ج ائز نہیں۔ ہللا اور
مخلوق کے بیچ کوئی مسافت نہیں بلکہ ہللا اور مخلوق کا واسطہ بال کیف و بال تشبیہ ہے
) کتاب الوصيہ ميں امام اعظم فرماتے ہيں (
ٍ
القاري في شرح الفقه األكبر ص "( 138ولقاء اهلل تعالى ألهل الجنة بال كيف وال تشبيه وال جهة حقٌّ" اهـ. ) نقله مال علي
ّ
ہللا تعالي کي مالقت اہل جنت سے بنا کسي کيفيت،تشبيہ اور جھت کے حق ہے۔
36
ابومطيع بلخي کہتے ہیں کہ امام ابوحنيفہ رحمہ ہللا نے فرمايا جس نے کہا کہ مجھے يہ معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان
پر ہے يا زمين پر تو اس نے کفر کيا ،اسي طرح جو کہتا ہے کہ ہللا عرش پ ر ہے ليکن مجھے پتہ نہيں ہے کہ ع رش
آسمان پر ہے يا زمين پر تو يہ بھي کافر ہے۔
مالحظہ ابومطيع کي کتاب کے يہ الفاظ امام بياضي الحنفي رحمہ ہللا کے نسخے ميں صرف اس قدر ہيں اور امام فقيہ
ابوالليث سمرقندي کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں ،ہللا تعالي کا ارشاد ہے الرحمن علي العرش استوي ،پھر اگر وہ شخص
کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے پتہ نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين تو اس بات سے بھي اس نے کفر
کيا ،،اور دونوں نسخوں کے متنوں ميں وجہ کفر بيان نہيں کيا گيا کہ ايسا شخص کيوں ک افر ہے،ت و ام ام بياض ي اور
فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمھم ہللا دونوں نے اس کا بيان کرديا کہ دراصل اس دوسري بات کا مرجع بھي پہلي ب ات کي
طرف ہے کيونکہ جب وہ ہللا کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آس مان پ ر ہے يا زمين پ ر
تو اس کا بھي وہي مطلب ہوا جو پہلي عبارت ک ا ہے کہ ہللا آس مان پ ر ہے يا زمين پ ر تب ايس ے ش خص نے ہللا کے
ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور ہللا کو مکان سے پاک قرار نہيں ديا۔
،اور ايسا کہنے واال ہللا کو اگر آسمان پر مانتا ہے تو زمين پر نفي کرتا ہے اور زمين پ ر مانت ا ہے ت و آس مان پ ر نفي
کرتا ہے اور يہ بات ہللا کے ليے حد کو بھي مستلزم ہے
اور اسي طرح فقيہ ابوالليث سمرقندي اور بحوالہ مال علي قاري رحمہ ہللا حل الرم وز ميں مل ک العلماءش يخ عزال دين
بن عبدالسالم الشافعي رحمہ ہللا فرماتے ہيں کہ يہ قول ہللا جل جاللہ کے ليے مکان ثابت کرنے کا وہم ديت ا ہے ت و اس
بات سے يہ شخص مشرک ہوگيا
يعني ہللا سبحانہ وتعالي تو ازل سے ہے اگر ہللا کے وجود کے ليےمکان الزم ہے تو يقينا يہ مکان ازل سے ماننا پڑے
گا اور اس طرح ايک سے زائد قديم ذات ماننا پڑيں گے جو کہ ہللا کے ساتھ شرک ہے
لہذا آج کل جو غيرمقلدين امام صاحب کے اس قول ميں الفاظ کے مالوٹ کے ساتھ معني ميں بھي تحريف ک رکے اس
کا مطلب اپني طرف موڑتے ہيں وہ بالکل غل ط اور ام ام ص احب کي اپ ني تص ريحات کے خالف ہےاور جس مالوٹ
اور لفظي تحريف کي بات ہم نے کي اس کي تفصيل يہاں ذکر کرتے ہيں
اوپر امام صاحب کا قول ابومطيع کي روايت سے ہم نے بيان کرديا کہ وہ کس قدر الفاظ کے س اتھ م روي ہے اور اس
کي تشريح فقيہ ابوالليث اور امام عزالدين بن عبدالس الم کے ارش ادات کے مط ابق بال غب ار واض ح نظ ر آتي ہے ليکن
غيرمقلدين ميں ايک شخص جن کو يہ لوگ شيخ االسالم ابواسماعيل الھروي االنصار ي صاحب الفاروق کے ن ام س ے
جانتے ہيں اور ان کي کتابوں ميں الفاروق في الصفات اور ذم الکالم شامل ہيں جن ميں يہ جن اب اش اعرہ کومس لم بلکہ
اہل کتاب بھي نہيں س مجھتے اور ان کے ذبيحے ح رام اور ان س ے نک اح بھي ح رام کہالتے ہيں اور يہ فقيہ اب والليث
سمرقندي رحمہ ہللا کے وفات سنہ 373ھ کے سو سال بعد آئے ہيں اور انہوں نےاسي روايت ميں اپني طرف جو الفاظ
چاہے اپني طرف س ے بڑھ اديئے ح تي کہ س اري ب ات ک ا مفہ وم ہي بگاڑديا اور کالم ک ا رخ اپ ني مطلب کي ط رف
پھيرديا چنانچہ ان جناب نے اس عبارت کو اس طرح روايت کيا
اس َت َوى} {الر ْح َم ُن َعلَى ال َْع ْر ِ أِل الس َماء أَوفِي األ َْرض۔ َف َق َ
ال َسأَلت أَبَا حني َفة َع َّمن َي ُقول اَل أعرف َربِّي فِي َّ
ش ْ ال قد كفر َن اهلل َت َع الَى َي ُق ول َّ قَ َ
ال إِذا أنكر أَنه فِي الس َماء أَو فِي األ َْرض ،قَ َ
ال اَل ي ْد ِري ال َْع ْرش ِفي َّ وعرشه فَوق سمواته ،فَقلت إِنَّه ي ُقول أَقُول على الْعرش اسَتوى ول ِ
َكن قَ َ َْ ْ َ َ َ
الس َماء فقد كفر
َّ
کيا ،،،اس عبارت ميں انہوں نے الن ہللا يقول الرحمن علي العرش استوي وعرشہ فوق سموتہ کي تعليل [ع ني چ ونکہ
ہللا تعالي فرماتے ہيں کہ رحمن نے عرش پر استواء کرليا ،اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے] اور يہ الف اظ ف اذا
انکر انہ في السماء فقد کفر کي تعليل [يعني جب اس شخص نے انکار کرليا کہ وہ آسمان پر ہے تو اس نے کفر کيا] يہ
دونوں باتوں انہوں نے اس عبارت ميں اپني طرف سے بڑھ اديں جس کي وجہ س ے مفھ وم بظ اہر تجس يمي مع ني کي
طرف مائل ہوتا نظر آرہا ہے حاالنکہ اصلي عبارت اور امام صاحب کي ديگر تصريحات سے امام صاحب ک ا مس لک
اہل سنت کا ہي مسلک ہونے ميں واضح ہے ،تو يہاں پر کفر کي وجہ يہ نہيں ہے کہ اس شخص نے ہللا ک و آس مان پ ر
ماننے سے انکار کرديا اس ليے کافر ہے،،بلکہ يہ الفاظ ت و الھ روي نے اپ ني ط رف س ے بڑھ اديے اور ان الف اظ ک ا
کوئي وجود ہي نہيں ہے اصل عبارت ميں ،اور کفر کي وجہ وہي ہے جو امام ابوالليث نے الھروي سے سو سال پہلے
بيان کيا اور امام عزالدين بن عبدالسالم نے بھي بيان کيا کہ دراصل يہ بات ہللا کے ليے مک ان و جگہ ث ابت کررہ ا ہے
اس ليے يہ کفر ہے
اور تعجب يہ ہے کہ يہ شخص ابواسماعيل الھروي ان حضرات کے ہاں بہت ب ڑے پ ايے کے ہيں جبکہ ان کے اپ نے
ہي شيخ االسالم ابن تيميہ رحمہ ہللا ان کا مسلک اپنے مجموع الفتاوي ميں کالم الہي کے ب ارے ميں يہ نق ل ک رتے ہيں
کہ ان کے ہاں ہللا کا کالم نازل ہوکر مصحف ميں حلول ہوگيا والعياذباہلل اور ساتھ ميں جن اب کي يہ عجيب منط ق بھي
نقل فرمائي ہے کہ يہ وہ والي حلول نہيں جو ممنوع و مضر ہے( ،مجموع الفتاوى ()294 /12
37
ِ َّ ِ ِ ِ ص َح ِ َن كَاَل م اللَّ ِه ح ٌّ ِ َوطَائَِفةٌ أَطْلَ َق ْ
س ِ ِ
ي الهروي -ال ُْملَقب ب َش ْي ِخ اإْل ْس اَل م َ -وغَْي ِره َوقَ الُوا :ل َْي َ ص ا ِر ِّيل اأْل َنْ َ ف َكأَبِي ْ
إس َماع َ ال في ال ُْم ْ َ ت الْ َق ْو َل بِأ َّ َ
ان َك َذلِ َ
ك الص ِحي َف ِة أَو فِي ص ْد ِر اإْلِ نْس ِ
َ َ ْ َن اللَّهَ ِفي َّ الص ِحي َف ِة َواَل ُي َق ُ
ال بِأ َّ ور الَّ ِذي َن َف ْينَاهُ .بَ ْل نُطْلِ ُق الْ َق ْو َل بِأ َّ
َن الْكَاَل َم فِي َّ ول ال َْم ْح ُذ ُ
ْحلُ َُه َذا ُه َو ال ُ
ول ذَاتِ ِه،ك ُدو َن ُحلُ ِ ال فِي ذَلِ َ نُطْلِ ُق الْ َق ْو َل بِأ َّ
َن كَاَل َمهُ َح ٌّ
ابن تيميہ کہ تے ہيں کہ ايک گ روہ نے يہ ب ات بھي کہي ہے کہ ہللا ک ا کالم مص حف ميں حل ول ہوگيا ہے جيس ا کہ
ابواسماعيل الھروي جو کہ شيخ االسالم کے لقب سے جانے جاتے ہيں وغيرہ ،يہ لوگ کہ تے ہيں کہ يہ وہ حل ول نہيں
ہے جو محذور ہے اور جسے ہم نے نفي کيا ہے بلکہ ہم يہ کہ تے ہيں کہ ہللا ک ا کالم ہللا ص حيفہ ميں ہے اور يہ نہيں
کہا جائے گا کہ ہللا صحيفہ ميں ہے يا انسان کے سينے ميں ہے اسي طرح ہم کہتے ہيں کہ اس کا کالم اس ميں [يع ني
مصحف يا صحيفے ميں] حلول ہوگيا ہے ليکن ہللا کي ذات حلول نہيں ہوئي
سبحان ہللا اگر يہي کالم کوئي بھي اہل سنت کا معتقد خدانخواستہ کہ ديتا تو کيا اس کو کوئي شيخ االسالم کے لقب سے
ملقب کرتا؟ تو خالصہ کالم يہ ہوا کہ ابومطيع سے امام ص احب کي اس ب ات کي روايت ک و اگ ر ابواس ماعيل الھ روي
کي من گھڑت زيادتي کے بنا نقل کيا جائے تو اس ميں کوئي خرابي نہيں اور کالم کا مفھوم مک ان کي نفي ميں واض ح
ہے خصوصاجب امام صاحب کے باقي ارشادات کي روشني ميں اس کو قوي قرائن مل جاتے ہيں
اور اسي کالم ک و ابن قيم ان الف اظ کي زيادتي س ے نق ل کيا ہے،النہ انک ر ان يک ون في الس ماء النہ تع الي في اعلي
عليين ،يعني يہ شخص اس ليے کافر ہے کہ اس نے ہللا کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا ،کيونکہ ہللا اعلي عل يين
ميں ہے حاالنکہ قران وسنت ميں کہيں بھي ہللا کو اعلي عليين ميں نہيں کہا گيا تو يہ سب تص رفات جن اب ابواس ماعيل
الھروي کي تحری ف ک رد ہ ہيں اور ان س ے ام ام ذہ بي رحمہ ہللا نے العل و ميں اور ام ام ابن قيم نے اجتم اع الجيوش
االسالميہ ميں ان کو اسي طرح نقل کر لیا۔
ن
ث ت ف ن ن ت ق 11 ر بم دھوکہ
کت
ےت بہ ی ے کہ رات کے و ت ہللا عالٰی آسمان د ی ا پر زول رماے ہ ی ں لہذا اب ت ہ وا کہ ہللا عرش پر ہ ی ہ ت ے ہ ی ں نکہ حدی نث می فں ہ تہ
ن ق گھ ٹ ن واگر یقہی ات ے ج وتکہ ہ رت ہ سل ہ کہت ا ے و سوال ہ ے کہ دن
ت ں۔
ف ی ہ
ق ے
ف امر زول ر پ ا ی د ان مآس
24ن وں ت می ں ہ ر و ت کسیگ ا ٹکسی گول ہ وے نکی وج ہ سے ن ث کے
ی مس س
ا ق گ ٹ ی ہت ی ہ ی ب ہ
ے لہذا اگر 24ھن وں ے ومسہللاسکی ذات کان 24ھن وں منی ںسہ ر و ت ئ ل تل آسمان د ی ا پر موج ود ہ و ا اب ت ہ و ا ہ رات ہ و ی ہ عالے م ں
ے و ان کے ندعوے کے تم طابق ہللا کی تذات کے عرش پر ہللاف کی ث ذات کات ل ل آسمان د ی ا پر موج ود ہ و ا لی م ک ی ا ج اق ن م ں ہ ر وقینت ن
ے اگر ی ہ ک ی
ے ہ ی ں کہ ان کے ہ ق ہ دعوے کے م طنابق رآ تی تآی نات کا ا کار تالزم ہ و ج ا ا ن ے اور قان نکے ہ موج ود ہ وے کی ی اب تت ہ و ی
صح ح حدی ث سے دعوے کے م طابق اس وی علی العرش کی رآ ی آی ات کا ا کار الزم ہی ں ہ و ا و م درج ہ ذی ل ب ا وں کا ج واب رآن ی ا کسی ی
ٰ ق دی ں۔
ہت ن
ے؟ ہ ی ر ود ج
یپ ہت وم ر ا د ان مآس صرف اور صرف ت و
ہ قر ذات کی ک ی ا ہللا
ہت ے؟ ہ ی ر ود ج و م ر پ عرش صرف ق اور صرف ت قو ر ہ ذات کی ک ی ا ہللا
ن
ے؟ ک ی ا ہللا کی ذات ہ ر و ت اور ب ی ک و ت عرش اور آسمان د ی ا پر موج ود ر ی ہ
کت ت ع ہ ن ہئ ن ن ن نت ئ ض ق ئ ف ق ف ن
ےت ب ہ ی ے کہ ہللا کہاں ہ ے ہ ی ں فکہ من لوم و ا چ ا
ئ کہ ی ہ ہ
ے کی و قنوٹ :ر ہ تسل ی ہ کال یاس می ں تسے کو ی ای ک ع ت ی ندہ اپ ا قا ائ ہا ی روری ہ
دے پر مت ق ہی ں نہ وے ک ی ا ی ہ ت
مومن ہ ی ں؟ ے کن اب ک ی ہ لوگ ان ی توں ع ا د مین ں سے کتسی ای ک ع ی مومن ہ و ا ہ ق بف قدہ ف
زول کا ب ھی اس وی کا سا متعاملہ ے ہ ی ں اور ن وی قکا ظ اہفرینمعنی ن یلنسل ی ہ کے ع یتدہ سے ی ہ سب چ یزی ں الزم آ ی ہ ی قں کی و کہ نی ہ اس ٰ ف رہ
ے کہ اس وی ہ ے ج ب کہ اہ لس ت کا مذہ ب ہ ے ی ہ ر ہ سل ی ہ ے ب ت ا ا ہ سے کون سا ع ی دہ رکھ ا ن دعوی کرے ہ ی ں اب ان می ں ے کا ن کر ن
ٰ ے۔ اور زول دو وں کی مراد کو ہللا کے ہ ی سپ رد کر ا ہ
ف ت ؒ ف
(الر ْح َم ُن وهم ِ
ظاه ُرها التشبيه ،كقوله تعالىَّ : ِ
امام اب ن ج زی (و ات 741ھ) رماے ہ ی ں :اعلم أنه ورد في القرآن والحديث ألفاظ يُ ُ
تعطيل وال تأويل ،ويَ ِك َل ش استوى) [طه ]٥ :وحديث النزول ،وغير ذلك ،فيجب على العبد أن ِ
ٍ يؤم َن بها من غير تشبيه وال َعلَى ال َْع ْر ِ ْ َ َ
ِعلمها إلى اهلل تعالى ،ويقول :آمنت بما قال اهلل تعالى وبما
قال رسوله صلى اهلل عليه وسلم بالمعنى الذي أراده اهلل ورسوله صلى اهلل عليه وسلم ،واهلل ورسوله أعلم .وهذا طريقة التسليم التي تقود
اس ُخو َن فِي ال ِْعل ِْم ي ُقولُو َن آمنَّا بِ ِه ُك لٌّ ِّمن ِع ِ
ند َرِّبنَ ا )[آل عمران: الر ِ
إلى السالمة ،وهي التي أثنى اهلل على من اتصف بها بقوله تعالىَ ( :و َّ
ْ َ َ
الصحابة والتابعون وأئمة المسلمين ٧ق] وعلى هذا كان
ئ ہ ئض ت تش ظ ن ت ت
اس پر ای مان ال یئ ں
ے کہ م ت ےق روری ہ وی اور زول اہ ری طور پر ب ی ہ کی طرف چلے ج اے ہ ی ں ہ م تارے ل حدی ث می ں اس
ت غ” رآن اور
ے اسی پر صحاب ہ و اب عی ن اور ا مہ ٰ عط
بم یسر ی تل و اوی لن کے اور ہللا کی مراد کو اس پر اس کے رسول پر ھوڑ دی ں ی ہی سالم ی کا طری ہ ہ
ے“ ۔(ال ور المبين ص )60 لمی ن ھ
ن
ت ن ئ دھوکہ مب ر 12 کت
ے۔ ق ن اک ہ ھت و کان و ج گہ سےئپ ئ
م ے و جن ہ ھت ہی ں اور ہللا وکہ اں ن کے اوپر ئاوپ فر ئکو ینج گہ ،م نکان ی ا ج تے ہ ی ں کہ عرش ن ہ
ہ
ے کو ی ج گہ م رر کرے سے ی ب
ات کا جھی ا ہی ں کو ی ا دہ ثہی ں یک و کہ تاول و ہللا کی ذات کا ہی ں ا کار کرے سے اور اس کے ل ئ ب
ہللا ک ج
اس
ے۔ ے سم ،ھت مکان و ج گہ کا ا ب ات ہ و ج ا ا ہ یل
38
ت ف ق ن ف ت ن ق ت
کے و ت آسمان دن ی ا پر زول رماے ہ ی تں اور ی ہ ر ہ زلٹ الی سماء کا معملہ ب ھی اس وی علی پ ھر حدی ث کے کم نطابق ہللا عالٰی رات ت
ئاب ج نب ٰ ع
ان کے ےے ہ ی ں کہ ہللا وہ ی ں ھہرا ہ وا ہ وی لی تالعرش تکے تب ارے قمی ں ی ہ کہ آسمان ٰدن
ں اور اس ے کے داعی ہ ی ن القعرش کی طرح ر ھ
ے و پ ھر و اس و ت ہللا مکان ،ج ھت اور حدود می ں آج اے گا ی ا ہی ں؟ یپ ہ ا آ ر ا ے ع ی دے کے م طابق ہللا عرش سےیچ
ن
ت ض ق دھوکہ فمب ر 13
ف ق
ے ہ ی ں کہ ی ر ہ سل ی ہ المذہ ب ی ہ تای ک ع لی ڈنھکوسلہ رور د
ب دی ج گہوں پر ب ھی ے و پ ھر ک ی ان ہللا گ ئ
ت قئ ے؟ ےئب یحت الخ الم می ں ھیت ہ ہ
ک راض ت اگر نہللا ہ ر ج گہت ہ
ں ج نو کہ حلول اور ا حاد کے کت ی ہ ہ ی م
ت ہ ج کہ اس ی ج ت و ہ ل ا ن اک ڑ) ت(ج ادح ا ا ی کس) ( ن لول ئ ق ے ل ی ذات کی ہللات ی کو ب ج ے ب ب ت قح ئاال کہ ی ہ اعن
ے نہی ں کہ ہللا مخ لوق می ں ہ و
ی پ ت ت ی ہ م ہ اب ا ڑ ں ہ راض اع
پی تہ ر اس ں ی ہ ل ا اک اس و
ن
ج گر م ں ہ
ک یے س کہہ ات
ی ب ت ہ م ہ و ں ما لہی ںا ی
ہ
اور حلول ہی ں ہ و سکت ا اور ن ہ ہ ی ق حد م ھ اس کے ق سی ک ٰی ل اع ہللا
ت ے ہ اک تپسے اس ن ہللا کہ و می
ک ے۔ ہ وا ہ ڑا ج ھ
ن اس کے ت ئکس ہ و گ ی ا ہ ی ت
اس ا ے
ج دی
ے اور م ح ظادث ( و ب عد می تں پ ی دا ن دی
ے ہللا عالٰی کی ذات م ہ س ہ ہ
حد(ج ڑج ان ا) ی ا لول ت( کس وج ا ا) و ک تی ہ ح ئچ یز ہللا کے سا ھ م کو ی
ے کہ ہللا عالٰی ے ج ہاں دو چ یزی ں ای ک ہ ی ج س کی ہ وں اور اہ ر ہ لول ن ہی ں ہ و سکت ا ا حاد اور حلول وہ اں ہ و ا ہ ے) کے سات ھ مت حد و ح ہوت ن
ت ئ ئ ت ت ے اور ن ہ ہ ی ج س اعراض ق۔ لہ و ج سف ج قواہ ر نہ
ن
ح خ س ہ ی
ے ی ہن اع راض پ ھر ے کہ تاگر ہللا م نلوق کے پ اس ہ وا و قلول ی ا ا حاد ہ و ج اے گا اس ل ذات کو ای سا نی ح ی ر جم ھت ا نہ ہ کن ی ہتر ہ چ و کہل یہللا کی ت
ے قآسمان پر سے چ فل سب اک ذات ئکی ہللا ت و کے اء م س ا الی زول ے ا ا ر ہی ا لکہ ں ہ ر م ہ راض
سئ ن
ت
ت ل ت پج ہ ب ی پ ے ہ ی ںب کنعقی ہ اع ک ت نمت پر کر ت
ے ی ہ ر ہ ی ہاں ے ہ ی ں کہ ہللا کی ذات خم لوق کے پ اس ہ و و حلول اور ا حاد کے سوا کو ی راس ہ ہی ں ا ل ے ہ یج ں سا ھ تی ہ ھی ی دہ ر ھ ما
تع خ جن ن ن ے۔ ہ ا ا ج و ہ میحلولی ہ
ق ن
ے می ں چک ھ ب ھی ہی ں اور ہ م کے م لق ود تاور ب ری سے ب تری ج قگہ ہ ی کی وں ن ہ ہ و وہق ج ہ م کے م اب ل ے فگ ن دی ے د ی ا کی چ اہ نی اد رہ
ک ن
ب یﷺ رماے ہ ی ں وہ اں ہللا عالٰی ی امت کے روز اپ ا دم اس می ں ر ھی ں گے۔
"حدثنا أنس بن مالک أن نبي اهلل (صلی اهلل علىه وسلم) قال ال تزال جهنم تقول هل من مزيد حتی يضع فيها رب العزة تبارک وتعالی
قدمه فتقول قط قط وعزتک ويزوی بعضها إلی بعض"۔
حض رت انس بن مال ک (رض) بی ان فرم اتے ہیں کہ ہللا کے ن بی نے فرمای ا دوزخ لگات ار یہی کہ تی رہے گی ھ ل
یری دوزخ کہے گی ت ن تعالی اس میں اپنا قدم رکھے گا تو پھ ر ٰ من مزید یعنی کیا کچھ اور بھی ہے یہاں تک کہ جب ہللا
س م ص
عزت کی قسم بس اور اس کا ایک حصہ سمٹ کر دوسرے حصے سے مل جائے گا۔ ( ی ح لم:ج لد سوم:حدی ث مب ر
ح
ت ت ن ت ئ ن ) 2676
ش ف
ے ب لکہ وہ ا ہیئں اس کی ذات کے ج ز اعض ا صور کرے ہ ی ں۔ المذہ ب ی ہ ہللا کی ان صن ات کو ہللا کی ان کے ال ق ہی تں چ ھوڑ ت
ت ت ت ن اور ان المذہ ب ی ہ کے قزدی ک اگر ہللا خم لوق کے پ تاس ہ وا و حلول ی ا ا حقاد الزم آنے گا۔
ے کہ ی ہ اس و تت ج تہ م می ں ہللا تکی ذات کو لول کے سا ھ ما ی ں ی ا ا حاد کے سا ھ
ح الزم آ ی ہ اس نع ی دے سے ی ہ ب اتت ن اب ان کے
ف ھ؟ اس کے اد ح ا ا ھ اس کے ت لول ح گے ں ی ام ھ اس کے کس ہ ں ی م م ہ اب ہ ب ت ائ ی ں کہ ج
چ ت ی کت ی ی
ے ہ ی ں اگر ہللا کی ص ت علم ے اب ہ م ان سے پو ھ
ع
ے ہ ی ں کہ ہللا عالٰی کا لم ہ ر ج گہ ہ ے کہ ی ہ آپ لوگ بہ ہ مارا ان المذتہ ب ی ہ سے سوال فہ
ف ت ت ف ف ت ے؟ ے و ک ی ا ہللا کی ی ہ ص فت ب ی ت الخ ال می فں ھی ہ ہ ر ج گہ ہق
ے و ک ی ا وہ ہللا کی ص ت کو ے ک ی ا ج ب حا ظ ب ی ت ا خل ال ج ا ا ہ ے ج و کہ حا ظ کے دل می ں مح وظ ہ و ی ہ رآن جم ی د ہللا کی ص ت ہ ت ک تالم ہللا
ے؟ ن ا ا ج کر لے نسا ھ
ے ان درم کے وں ی ہکی دو ا گ ہللا دل اک آدم نب ی
ی ہ ت ف ل
ب ی کری مﷺ رماے ہ ی ں:
ِ ِ َصابِ ِع َّ ِ «ما ِم ْن َقل ٍ
الر ْح َم ِن ،تإ ْن َش َ
اء أَقَ َامهُ ،فَوإ ْن َش َ
اء أ ََزاغَهُ» ْب إِاَّل نَب ْي َن إِ ْ
صَب َع ْي ِن م ْن أ َ َ
ن ن تٹ گ
ے چ اہ ی ں و اسے س ی دھا رما دی ں اور چ اہ ی ں و ی ڑھا کر دی ں (س ن اب ن ماج ہ ج 1حدی ث مب ر )199 ہ ر دل ہللا کی دو ا لی وں کے درم ی ان ہ
ے ای ک اور حدی ث ہ
ٍ ِ ِ
ث يَ َشاءُ» يح هُف رص ي
ُ َ ِّ ُ َ ْ ُ ،د احو ْبٍ لق ك ، ِ
ن
َّ ْ َ ن َ َ َ مح الر ع
ِ ِ
ب ا َص ِ ِ َّ
آد َم ُ َ َ ْ َ ْ َ نَ ْ ْ َ
أ نم ن يع بصإ ن ي ب ا هل ك وب بَنِي َ
ت«إِ َّن ُقنلُ َ
گ گ
مام ب یسآدم کے دل رن من کی ا لی وں می ں سے دو ا لی وں کے درم ی ان ای ک دل کی طرح ہ ی ں جس ح
ے۔ے اسے پ ھی ر دی ت ا ہ
ے چ اہ ت ا ہ
ت ن ص ح م لم ج 4حدی ث مبخر )2249ن س ف یح
ل
(
ہ گ
ے کہ ہللا کی ا ل ی اں اس کے ا ھ کا ج ز ہ ی ں۔ ک ل ل
ی وں کے ای ک مولوی ی ل ہ راس ے ھا ہ
خليل هراس كتاب التوحيد البن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں ص: 63
((القبض إنما يكون باليد حقيقة ال بالنعمة . فإن قالوا :إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته اإلنعام . قلنا لهم :وبماذا قبض؟؟ فإن القبض
محتاج إلى آلة فال مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم )) ..اهـ!
خليل هراس هللا كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهتا ہے:
لئ
ے ، يعني هللا نے ”كہ قبض يعني پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ،اگر كوئي کہے کہ باء سبب كے ی
نعمت كرنے كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں :كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ،كيونكه قبض اور پكڑن ا
كسي آلے كا محتاج هے تو ان كے ليے خالصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں“
ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو هللا سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے كے بارےہے ،يهاں هللا كے پك ڑنے ك و بهي
كسي "آلے يا اوزار يا محتاج " كها پس ان كے هاں هللا كي صفت يد هللا تعالي كے ل يے پك ڑنے ك ا آل ه هے اور هللا ك ا
پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذباهلل ،،هللا الصمد
39
دوسري جگه ارشاد فرم اتے ہيں اس ي التوحيد كے تعليق ات ميں: ويق ول (( :89ومن أثبت األص ابع هلل فكي ف ينفي عن ه الي د
واألصابع جزء من اليد ؟؟!!)) اهـ
ترجمه :اور جس نے هللا كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح هللا س ے هات ه كي نفي كرت ا هے حاالنك ه انگلياں
هاته هي كا جزء هے (نعوذباهلل)
يهاں هللا تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ،كسي آيت يا حديث مبارك ميں يه ب ات هم ارے علم ميں نهيں
كه هللا كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔
ت ن ت ت
گ
ے؟ دوسرا ی ہ کہ ہللا کی ے و ک ی ا ہللا کی ا لیت وں کون ب اگہ ر چ نھوڑ کر ج ا ا ہآدمی ج ب ب ی ت ا خل ال ج ا ا ہ ے کہ کٹی ا ت اب ی مارا ان المذہ ب ی ہ سے سوال ہ
ے؟ کے اوپر ھہراے ہ ی ں اب ہللا کی ذات اوپر اور اس کا ہ ا ھ اور ا لی ں چی لوگ صرف عرش ت آپ ف
ذات کو خ
ے۔ ہ ا اف ج ر پ ث ی ہ فاعت قراض ود رق ہ اہ ل ش
حدی
ن
ف ت ش دہلوی
خ ن 1ک) ت ر ہ اہ ل حدی ث ضکے نی ظ خ الک نل ی الکل م ی اں قذیر ح خسی ن
ے“۔ ( ت اوی ک
ے ہ ی ں” ہ ر ج گہ حا ر و ا ر ہ و ا اور ہ ر چ یز کی ہ ر و ت ب ر ر ھ ا اص ذات وحدہ ال ری ک لہ ب اری عالٰی کے واس ط ل
ٰ ےہ ن ھ
ذیری ہ ج 1ص )6
40
ت ق ن ج ت ت ہ ق ت
ے ج یسا نمام گہ و کان ال ود ج وم ذات کی
ف ہللان کہ ے دہ ع ہ ش اک ت لس ہا ام م کہ و ے دہ ع ی و ارام ہ ق ل ہللا کی ذاتت کے م ع
م خ ہخ ج ب ق ف ی یت ہ ی ہ ق
الف مب رالف ا ت ن ے ت(مال تحظ ہ ہ و اح عری ہنما ری دی ہ کا م ہج اورن ر ہ سلئ ی ہ سے ان کا ا تت ت ہ ےہ یے ھیئ اب بت ھی ویس مخ لو ات کی خ لیئق تسے پنہل
اور لول ہی ں ہ جو سکت ا اور ہ ہ ہی کوئی چ یز ہللا ت
کے سات ھ م حد(ج ڑنج ا ا) ی ا کے سا ھ نم حد ق ہللا عالٰی کسی ق ح )2اسم می ں کو نی ب دی لی تہی ں آ ی ت
ے) نکے سا ھ م حد و حلول ہی نں ہ و حادث ( و ب عد می ں پ یت دا و ت
ظ م دی اور ے ہ م دی ذات کی ٰی ل اع لولت ( کس ہحوج ا ا) ہ و سک تی ہ
ے ہللا
ے اور ن ہ ہ ی ج س ن
ے کہ ہللا عالٰی ہ و ج س ج واہ ر ہ ے ج ہاں دو چ یزی ں ای ک ہ ی ج س کی ہ وں اور اہ ر ہ سکت ا ا حاد اور لول وہ اں ہ و ا ہ
اعراض ۔
البتہ ان کی رجوع والے جھوٹ سے کم از کم یہ ب ات ت و معل وم ہ و ہی ج اتی ہے کہ یہ ل وگ اس ع الم ک و گم راہ ہی
تصور کرتے ہیں۔
ف ق ف
ر ہ سل ی ہ سے چ ن د آسان سواالت
ن
ن 1 ر سوال ب
م ت
کے نی ہ سب مع ی ہ ی ں اس قوی ٹ
ست رار غ -ھہر ا ا ت
اس ی ال ن– لب ہ
ب راب ر ہ
ن ا لوسو ا-ب ی ٹھ ن ج
ت ش ش ن
ے اس ی ال ئ انش می ں سے چک ھ مع ی ہ یغ ں ج و ہللا کی ی ان ش نان ہتی خں مگر چک ھ غی ان ش ان ب ھی ہ ی ں ج ی شس
ب ب
ئ ےت ے ی ہ ہللا کی ان لے ال ق ھی ہ ے اور ای سام کنہ ا کہ ہللاصعرش پر الب ہ عرش پرن ھی تالب ہ بمال ب ہ ہللا ت
ن ب کہ آپ ج کہ
ے ونوہ گمراہ الے ہ مراد کی ہللا ہی ی اہ ک اور ا ی ک تس
ت ب ر پ قاس اور کی ص ی کی ین ع ٹ اسیق کے وئ
ن س ا ے ہ یزل ب م ع نج ت گر
ش
نکیغ ی ان ش قان ہی ں اور آپت ے اسی پئر ے کہ ی ہ ہللا ہت ال س م ں ب ہت وی ا م خ
ح ی ے اس وی کا ای تک ای سا قمع ی ( است رار ھہرش ا) اپ ن ای ا ج ئ
ے ک معزل ہ کی طرح بسخ کی اور ب ہ کو ج و کہ ہللا کی ان تکے ال ق ب ھی ہ ں اس کی صی صخ کو آپ ے لط ب
ص ھی ترار دی ا۔ ج بت م ع زلی ہ ہللام ی لن ص ن یک ئ ی غ ہ ت ن ن ی
ے؟ تج ب م ع زلی ہ ای ک ع ی ہ
کے حین ح و سک ے تاس مع ی کی ف ی ص کر م ن ے ہللام ی لنے و آپ یک س ہ ے ت کے لط و تسک ن ے اس مع ی کی ف صی ص کر اپ ت
ے؟ کس و ہ ں ی ہ کر کے ات ص کے ر ک ن یع ی ع ک ا
ی ی ے
س ک آپ و ں ہ
ک ی ے س الکہ کر م کے ات ص کے ر ک ن کا ی
ع
ن
ف ت سوال مب رق2 ت
ہللا عالٰی رآن کری م می ں رماے ہ ی ں:
ِ ِ ِ ِ ات فَأ ََّما الَّ ِذ ِ
اب َوأُ َخ ُر ُمتَ َش ابِ َه ٌ ات ه َّن أ ُُّم ال ِ
ْكتَ ِ اب ِم ْن هُ آيَ ٌ هو الَّ ِذي أَْنز َل َعلَي َ ِ
ين في ُقلُ وب ِه ْم َزيْ ٌغ َفيَتَّب ُع و َن َم ا تَ َش ابَهَ م ْن هُ ابْتغَ َ
اء َ ات ُم ْح َك َم ٌ ُ ك الْكتَ َ َ ْ َُ
ِ َ اَّلِ َّ َّ ِ ِ ِ
آمنَّا ب ه ُك لٌّ م ْن ع ْن د َر ِّبنَ ا َو َم ا يَذك ُر إ أُولُو اأْل لْبَ اب (آل عمران ِ ِ ِ ِ ِ ِ َّ اَّلِ ِ ْ ِ ِ ِ ْ ِ ِ ِ
الراس ُخو َن في الْعلْم َي ُقولُو َن َ اء تَأويله َو َما َي ْعلَ ُم تَأويلَهُ إ اللهُ َو َّ
الْف ْتنَة َوابْتغَ َ
ن ض ت ت ن ت آیت )7
ص م مح ی ن ن ی ب
دوسری ناور غ ں) وہ ا ل ہ ی ں کت اب کی ش ے ع ٰیتوا ح ہ ی ت اری ج ھ پر کت ناب اس می ں عض آ ی ں ہ ی ں کم ( ع ی ا ک ےا من سن ج ن ی ےج ہش وہ ی ت
پ ہ
ے نوہ پ یروی کرے ہ ی ں ضم اب ہعات کی گمرا ت ی ھ ی الے کی قرض کج ئ ج ہ ی ں م اب ہ( ع ی ک
نمعی ن ہی ں) سو ن کے دلوں می ں نی ہ ے ع ٰی
ےہ ی ں ہ م اس پر ی ی ن اور م ب وط لم والے کہ نکو ی ہی ں ج استج ا تسوا ہللا کے ق سے اور ان کا م طلب ت سے اور م طلب معلوم کرے کی وج ہ ئ
غ ے۔
ق ہ ے ہ ی ں ج نعکو ع ل ھ
طرف سے ا ری ہ ںغاور تسجم ھاے سے وہ ی م
ف ش ی الے سب ہ نمارے رب کی ت ف
ات ،درت ،سمع ،ب صر و ی رہ ےع لم ،ح ی ن ات ب ھی ہ ی ں ج ی س ات ص ںر مکہ ابہللاہکا ع اور آپ دو وں ناس ب ات پر م تقعہ ی ں کہ کہللات کی ی ہم
ے ل ی کن ہ ماری حی ہ ات کی ہللا ں ی ہ طرح کی لم ارے م ہ کن ی ل ے ہ لم ہ ہیے ہی ی ق ل م کے ان وں دو آپن اور م ہ اب
طرح تہیش ں۔ ت ات کی ت غ حی ف
ت ں۔ ی ھ ات ہ اب م ر ی و ات ت ہص
ن اء مس الی زول
ت
ن
، عرش
ق ل ا لی ے د ،ق دم ،و ہ ،اس وی ع س یاب ج و م ش اب ہات ہ یت ں ج
ت ن ج کت ی ی ع ف
ے۔ ہ م اس پر سے ک ی ا مراد ہ ے تکہ ہللات کی اس ن اتتکا ا رار کر تے ہ ی ں کہ ہ م نہی ں ج ا ج ے ہ ی ں کہ ہ م ناس ب س ت نات کے م لق ہ م ی ہ ہ ان ص ت
س ع م
ب ک ای مان ت ہی ں تالی ا ج ا کت ا۔
ات تکے م علق ک لوم ہمتی شں ہ و گی ف ے کہ ج ب تک مراد م غ
ج
ے ہ ی ں اور تہ ہی ں
ات کے می علق ب ھی وھہ ی ب ات ک
اور اسے حت شق ج ا
م ای مان الے ہ ی ں ف
ےہی ں فہ ش غ ص ات ہ اب ر ی آپ و ں ی ہ ے ہ ہ ت اب ات آپ ان ص ج ب کہ ت
ے ج یسا ی ر من اب ہات ص ات کی مراد معلوم ہ لوم
ف
ے وہ تآپ کو مع
ش ہللا کی مراد ہ غ ہرہ) اس وی علی العرش سے ج و ن ہللا کا ی د (ہ ا ھ) وج ہ (چ ف
ف ات ئکی معلومہ ہی ضں۔ ق ک
آپ کو متعلوم ہیکں جف ی سا کہ ی ر م اب ہات نص
ہ ب ق ےغوہ مت ش ے فاس کی کتیش ی ت ک ی ا ہ ےنہ ے اور کی س ہ
م
ے ای غک ت شی اب طہ رر کر دی ا ناگرت ص ت ات اور دو وں رق ی م ٹ ا دی ا ت ص ش ات اب ہات اور ی ر ت اب ہات کا ل ل م ے ت اب آپ غ
ب ل ی ش ئ تش
ات ای ک ہ ی تہشی ں و ان کی سی م کی وں کی گ ی اور اگر ان م اب ہات کو ھی ی ر م اب ہات کی طرح رکھ ا ھا و ہللا ق من اب ہات اور ف ی ر م اب ہ
ے ای سا کی وں رمای ا کہ اس رآن می ں م اب ہات ب ھی موج ود ہ ی ں؟
41
ن
ظ خ ن ن ق ت ظ ن 3 ر م سوال
ت ت ن ئ ب
ہ ج تل ی ل ال ق در ا مہ ہ نں ج
ت ہی ں کی اور مت ا ری ن ے ب ھی درج ہ ن طرحق ط ؒعی فطور پر کی ہ یزل ع م اور کی کی ل ض یاو ں ق ی م ت
ن ی ن ہنج در ے ہوں ی ی
می ں اوی ل کا مس ئ لہ ا ہی سے ل ی ا ج و کہ ا ہوں ے ب و ت رورت کی ھی ج ی سا مال علی اری رماے ہ ی ں :
ِ اس تِياَل ئِ ِهم َعلَى عُ ُق ِ س م ِة والْج ْه ِميَّ ِة وغَي ِره ا ِمن فِ ر ِق َّ ِ الض رورةُ ِفي أَ ْز ِمنَتِ ِهم لِ َذلِ َ ِ ِ ِ
ص ُدواول ال َْع َّامةَ ،ف َق َ ْ الض اَل لَةَ ،و ْ َ ْ َ ْ َ ك ; ل َك ْث َرة ال ُْم َج ِّ َ َ َ ْ َوإِنَّ َم ا َد َعت َّ ُ َ
ش ق
فت ك َر ْد َع ُه ْم َوبُطْاَل َن َق ْولِ ِه ْمبِ َذلِ َ
ش
ف ق غ ن )،مر اة الم ا ي ح رح م كاة المصابيح ج 3ص ت
(923
ن ن ن
کی وج ہ سےنک ی ا ج و ی ہ ھی کہ غان کےتزما وں می ں مجس فمہ ناور ج ہمیفہ و ی رہ گمراہ ر وں
ض
ے زما قوں کی غجمبوری و ن
ن تج
رورت ت ت رنمہ :ا ٹہوں ے ای سا اپ
رض ی ہ ھی کہ ان کے ت وں کو د ع کری ں اور ان کی ے و اوی ل کرے سے ان کی ت تے سر ا ھای ا اور ی ہ عوام کی ع لوں پر الب ہ وے لگ
کری ں۔ وڑ کا ب ا وں
ن ن ئ
ش
ے کہ ا ہوں ے ”یوم ی ک ف عن
ن
ول
ت ق
م ھ اس کے ح ص
ح
ی د ر یس المف سر ن ض رت ع دالله ن ع اس رض ی الله نہما سے س ن
ف ئ ہ ت ع ب ئب ب ح ی
ساق“(جس دن پ ن ڈلی کھول دی ج اے گی ) می ں ”ساق“ کی اوی ل ”ش دت“ سے رما ی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی
یومئذ ناضرة إلی ربھا ٍ تعالی :وجوہتعالی﴿ :یوم یکشف عن ساق﴾ :قال عن شدة األمر) ․فتح الباری البن حجر ،باب :قول اهلل ٰ قولہ ٰ
ناظرة ج 13 ص (428
ن ض ت نق تف ش ف
کرام ر ت ی الله عق ہم ل کرےہ ی ں کہ صحاب ہ ق ف عن ساق﴾ کی سی ر می ں ت ف ل ”ش ات 310ھ) ﴿ تیوم ی ک المہ اب ن ج ریمری طب ری رحمہ الله (و ن ع ت
ے۔) سی ر اب ن ج ریر الطب ری ،ال لم ،حت آیة ر م: ہ کی سے “ امر دت ی او کی اق س ے اعت م ک
ی ج ا کی ه لل ا ہم ح ر ن ب
اور ی
ع ا
ض ف ض ف ق ض ن ف ض (42 ض
ن ات 68ھ) ح رت ام نام ت ادہ (و نات 118ھ) ،ح رت مج اہ دن(و نات 104ھ) ح ن رت رت ع ب دا له فب ن ع ب اس ر ی ا له ع ہما (و
ل ل حف ث
ہ م ح
ے دست سے ب ای ا ) ہم ا الله ے تآیف ت کری مہ” :والسماء ب ی ن ا ھا ب أی د وإت ا لموسعون ق“ (آسمان کو م ے اپ ات 161ھ) ر ف ئ س ی ان وری ت(و ق
ے ۔) سی ر اب ن حب ریر الطب ری ،الذاري ات حت آیة ر م(47: ہ ی ام ر سے وت می ں ”ب أی د“ کی اوی ل
ف ن
امام احمد ب ن ح ب ل (و ات 241ھ)
ِ الس َّم ِْح اكِ ِم َع ْن أَبِي َع ْم ِرو بْ ِن َّ ِ
ك) [الفجر ]22 :أَنَّهُ اء َربُّ َ
(و َج َ َح َم َد بْ َن َح ْنبَ ٍل تَأ ََّو َل َق ْو َل اللَّه َت َع الَىَ : اك َع ْن َح ْنبَ ٍل أ َّ
َن أ ْ َو َر َوى الَْب ْي َهق ُّي َع ِن ال َ
اء َث َوابُهُ. َج َ
ال الَْب ْي َه ِق نُّيَ :و َه َذا إِ ْسنَا ٌد اَل غُبَ َار َعلَْي ِه. ثُ َّم قَ َ
ؒن ھ ب ف ت
ے کہ امام حمد ے ﴿وج اء رب ک﴾ (اور آی ا آپ کا رب) کی ح
ے سے مروی ہ 241ھ) کے تیج تامام احمد ب نث ب ل رحمہ الله ع ٰثالی (و ات ف
نئ ن ق ت واب ) سے رمای ا ۔ اوی بل وقج اء واب ہ ( تاور آی ا فرب کا
ش ش
ے ۔) ال ب داية وال ن اهيةج 10ص (361 امام ی رحمہ الله ع ٰالی رماے ہ ی ں کہ اس س د پر کسی سم کے ک و ب ہ کی گ ج ا ش ہی ں ہ
ن یہ
تف ف ت ق
ص پن ب ؒ ف
امام خ اری (و ات 256ھ) ا ی ی ح می ں رآن پ اک کی ای ک آی ت کی سی ر رماے ہ ی ں: ح
ت َعلَْي ِه ْم {األَْنبَ اءُ} ي م ع ف " : د ِ
ال :إِاَّل َم ا أُ ِري َد بِ ِه َو ْج هُ اللَّ َ َ َ ُ َ ٌ َ َ َ ْ
ِ اه ج م ال ق و " ِ
ه ك إِاَّل َو ْج َه هُ} [القص ص " : ]88 :إِاَّل ُم ْل َك هَُ ،و ُي َق ُ } ُك ُّل َش ْي ٍء َهالِ ٌ
ئ ن ُّ الح َج ُج "
[القصص 66 :ت] فُ : ق
ن اَّل َ ش ح ب
کے“ می ں کے م ہ سواے اس ک ت ے ئ ے والے ئہ ئ ك ِإ وج ْهَهُ ”ہ ر چ یز ہ الک و ض
ہ سم ہللا الر من الرحی م ُك تل ْي ٍَء هَالِ ٌ سےکیہللا سیکیر!سل ن سورہ صص
ے ہ ی ں کہ ”ان ب ائ“ ے ج ا ی ں ‘ مج اہ د ہ ےک ے ہ ی ں کہ وہ ت فاعمال مراد ہ ی ں‘ ج و اس کی ر ا کے ل ے‘ عض کہ
ب
ت بمراد ہ ط ”وج ھہ“
ت ن ن ت ظ اب ال تسی ر( 112کت ن صح ق ح خ اری ج 6ص ت سے مراد دل ی لین ں ہ یتں۔) ی
اب آپ کا ا ک ع
ے؟ ک ی ا ان کا درج ہ ن می ں اوی ل کر ا دست ھا ی ا ہی ں؟ ے ی ا ہی ں ھ ے ک ی ا ی ہ گمراہ ھ ے م لق ک ی ا مو ف ہ
ن
ق سلف ت ن ت ف س ئ ف 4 ر بم سوال
ے ی ا ہی ں ؟ ے طالق الث ہ می ں اب ن یمی ہ اور اب ن ی م ی ھ
ث
نی ہ ی ں ی ا اور مسا ل می ں ب ھی ل ی ہ ی ں؟ ج ی س آپ صرف ئاسی س ئ لہنم ں سل کی ا ت ت
ی س م
ے و اس م ل می ں ا ہوں ے سلف اور پوری امت کے اج ماع کو کی وں چ ھوڑا؟ اگر ھ
ن
ے۔ ا
ن ت
آ ے کے ذات کی ہللا عرش اور ے ر او ر او کے عرش ہللا کہ ں ہ ے
ت
اھ ج
م ے اور لوگوں کو س ت سوالی ہی ع دہ رک
ق 5 ر بم
آپ
چ ہ ی پ پہ ی ی ھ
ن
ت ق ت ت ت6 ر بم سوال
آسمان دن ی ا پر آ ی رات تکے و تئ ے ہ یئں کہ وہ ن ے وہ اں ہللا کی ذات کے م علق آپ ہک ہ ت لوقئ خ
م ن یم ز طرح س ج ے ہ لوق خ
م و ھی آسمان ب
ے اب وہ اں ہللا کی ذات آسمان می ں آے و پ ھر ب ھی مکان و ج گہ سے پ اک ا ؟ اور ی ہاں کو ی موج ود ماے و حلول کہالے؟ ہ
ن
خ ق ن شسوال مبتر 7ق
ے ان کی ا ت اعرہ ما ری دییہ ئرآن و حدی ث کے مخ الف ہ ی ں ی ا ہی ں ؟ ان کی کون سی ب ات رآن کی کسی آی ت ی ا کسی حدی ث کے الف ہ
ک ب سے د کھا ی ں۔
ن
سوال مب ر 8
42
ئ ن ن ف ت ئ ئ شخ ف
ط
ے کہ می ں اسض وی لی ال نعرش کیککیت ی ت کو ھول ہی ں ما ت ا پ ھرب ت ا ی ں کہ وہ اسکا کون سا م لب ج
م ع نا ت ہ ک ص ی کو ے ا ا ل کر رض اگر
ٰ ہ ق ج ی
ے۔ ے گا ج و آپ ح رات اب ہی ں ر ھ کرے گا اور کون سا ع ی دہ اس سے کل
ن
ن ئ ن 9 ر بم ت سوال
ے کی ی ہی وج ہ ے؟ اگر ہللا کو تاوپر کی طرف سے پکار ق ے کہ ہللا کی ذات اوپر ہ ی قہ ن ہ ے تل ہللا عالٰی قکو اوپر کی طرف سے پقکار ا محض اسی کی ا ت
ہللا
ے اور رات کو جس قو تن آپ ت ج ہ ی ا لی چ ے چ ی ت ت و کے
ن رات ھر پ طرف ت وہ ں ی ہ ے کار پ کو ہللا ت ت و کے دن آپ ت و س ج و ے ہ
ے ھی ۔ اور دن ی ا می ں کہی ں ای ک ج ی سا و تت ہی ں ہ و ا ے ج و کہ دن کو چی ے ہ ی ں وہ وہ ی طرف ہ و ی ہ ت ق ےہو ہ سے پکار ر ت کو اوپر کی طرف
ب
ے ب ی ک کار رہ ا ہ و ت ا ہع ے ج و آدمی دن می تں ہللا کو جس طرف سے پ ے اور اسی و ت دوسری ج گہ رات ھی ہ و ی ہ ایق ک ج گہ پر دن ہ و ا ہ
ے کہ ہللا ا و ہ لوم م سے اس
ن اب ے۔ ا و ہ ا ہر کار کو ہللا سے طرف کی گہ الف خ کے اس آدمی
ن دوسرا ک
ہ ہ پ ج م و ت دوسری طرف ای خ
ے کہ ہللا کی ذات کسی خ اص ج گہ می ں ہی ں؟ کی ذات کی ذات کسی اص ج گہ می ں ہی ں۔ ک ی ا اب ایسا کہا ج اسکت ا ہ
ن
ت ن ت نت 10 ر سوال ب
م ت
ے ہللا وہ اں ہی ں ھا ؟ ے ہ ی ں ک ی ا اس وی علی العرش سے پہل اس وی علی العرش کے ب عد ج ہاں اب ہللا کو ما
ٰ ٰ
ن
ن ن سوال مب ر 11ن ت
ے۔ ے وہ ی ہللا کی مراد ہ وی معلوم ہ وے ؒکا فی ہ معتی ہی ں کہ ج و ہ می ں معلوم ہ ٰ
اس
امام ج الل الدی ن ی وطی رماے ہ ی ں: س
س ُر َها َم َع َت ْن ِزي ِهنَ ا لَهُ َع ْن ف ن و َىل ا عت ِ
ه َّ
ل ال َىلِ
إ ا ه ن ِ
م ِ
اد ر ْم ل ا ا اه ن عم ِ
يض وِ ف تو ا ه ِ
ب ِ
ان يم ِ ا ى ل ع يثِ ِ
د ْح السن َِّة ِم ْن ُه ُم َّ
ور أ َْه ِل ُّ
َ َ َ اَل ُ َ ِّ َ َْ َ ُ َ ْ َ َ إْل َ َ َ َ ْ َ ف َوأ َْه ُ َ
لا ل السلَ ُ َو ُج ْم ُه ُ
ن َح ِقي َقتِ َها.
ت ن ف شم ث ن ج ت
ے سا ھ قاس ات پر) ای م نان رکھ ا ہ ظ ب ( صوص ص ان کا مذہ ت ئحد ی ن) ا ل ہ ی ت فں ن رج مہ :مہور اہ ل س نت ج ن می ں سلف اور اہ لحدی ث (م
ہللا کی طرف سپ رد کر دی ا ج اے اور ہ م ان کی سی ر ہی ں کرے ج ب کہ ان کے اہ ری مع ی سے ہللا کو پ اک رار مراد کو ق کے مع ی کے کہ ان ت
نلوم ال رآن ج 3ص (14 ے ہ ی ں۔)الإ ق ان في ع ت
سف دی
ے مع تنزيھنا لهو عن قحقيقتها ،صارخ بالتعطيل صراخ ثكالي الجهمية ت ل
عط ف ض ق ح یق م ن ظ جس پر ای ک ی عالم ے ی ہ کالم ک ی ا ہ
ہ ت ہ س
ے ہ یقں وا ح طور پر ی ل ری اد کر ر ی ری ی ع ی سے تہللا کو پ قاک رار دی ف امام ی وطی (رح تمہ ہللا) فکی ی ہ ع ب ارت بکہ م ان کے اہ ئ
ے ان ج ہمی عور وں کی ری اد کی طرح ج و چ وں سے محروم ہ و گ ی ہ وں۔ )عداء الما ری دية لل عيدة السل ية وله (28 ہ
ت ن ف ت ) والع ی اذ ب تاللہ (
ے کہ اس وی ک ی ا
ٰ ے ی ہ آپ کو معلوم ہی ں اگر آپ کو ی ہ معلوم ہ ے مگر کی ی ت ک ی ا ہ وی ک ی ا ہ ٰ
ے کہ اس آپ کو معنلوم ہ ے ہ ی ں کہت آپ تی ہ کہ
ے و پ ھر آپ ب ت اے یک وں ہی ں؟ ہ
ن
ن ئ غ ف کئ من سوال مب ر 12ظ ف
ے ب ی ر ص ات پر ای مان ہی ں الی ا ج اسکت ا؟ ل مراد ے یل ہللا ی ع ری ک ی ا ص ات کے ہ
ا
ن
نت ن ت ن خ سوال مب ر 13ن
ے ہ ی ں؟ ے ج ہمی ہ ما ے ہ ی ں ی ا ہی ں ج ی س ے ہ ی الی ما ک ی ا آپ ب ھی آسما وں کو ایس
س ِفي ْج ْه ِميَّةَ َف َق َ ِ
ال إنَّ َم ا يُ َح ا ِولُو َن أَ ْن ل َْي َ
ٍ
اد بْ َن َزيْ د َوذَ َك َر ال َ ت َح َّم َ ال َس ِم ْع ُ ب قَ َ ال َثنَ ا ُس لَْي َما ُن بْ ُن َح ْر ٍ َح َّد َثنَا َع ْب د اللَّ ِه َح َّد َثنَا َعلِ ُّي بْ ُن ُم ْس ل ٍم قَ َ
ِ
َّ ِ
ن الس َماء َش ْيءٌ
ن( صی ح :)۵۶۷ح أحمد ب ن ح ب ل (ج ن
ت ت ئ ف ت ق ت ف ق /۴۵ص ف ؒ ) مس د الإمفام ت
تمان ؒ رماے ہ ی ں حماد ب نن زی د (محدث و ی ہ) ے ای ک مر ب ہ ر ہ ج ہمی ہ کا ذکرہ کرے ہ وے رمای ا کہ ی ہ لوگ آپس می ں ی ہ ب ا ی ں ” سل ی
ے“ کرےن ہ ی ں کہ آسمان می ں چک ھ ہی ں ہ
سوال مب ر 13
ص) وغیرہ آیات متش ابہات پ ر ایم ان النے کیل ئے ہللا کی م راد ک ا معل وم ہون ا س ؔ ،الر ؔ ،ك ؔه ؔي ؔع ؔ جب ہللا کے قرآن کی ( ٰی ؔ
ضروری نہیں تو پھر ہللا کے کالم کی دوسری آیت ( استوي ،يد عين) جیسے متشابہات پ ر ایم ان النے کیل ئے ہللا کی
مراد کا معلوم ہونا ضروری کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟
43
ف ق ت ت ق ن ن ع یخ ن ن ع ن
کے م علئق ی ن ول ہ ینں الب ت ہ قان کے ر نے کے اس ن ے کہ اہ لس ت کے زول ق
ب ہدھا ا م ظ ان
ت ت ہ ب ہ ی ر پ ت لس ہا ے اب تن ث ی می ن
ے اب ن عث ی می ن ے ان ا وال کو اہ لس ت کی طرف ے کہ ان کے ی ن م ت لف ا وال ہ ی ں ج ن سے ج ان چ ھڑاے ک ی ل نم لق ی ہ کہا ج اسکت ا ہ
ع
ص ق ے۔ م سوب ئکر دی ا ہ
ح ع
ت کےمی طا ق ن زول کے وی ت ہللاہکا عرش خ الی ہ و ا ا ے اور ب ول ا ن عث ی م ن ہ اہ لس ت کا ول ے کہ عرش خ
ق ن ق ت ے؟؟ ح ی دہق اک کس سے ں ے ان ابقب ت ای
ے۔ ہالی ہ و ا ن ئ ہ ق ت ی ت ی ب ق ن ہ ج ت خ ن ب م ق ول پ ہل
ے
ے اور یسرا ی ہ کہ اس پر و ف ک ی ا ج اے ی ہ ب ھی اہ لس ت ہ ول اک ت لس ہا ھی کے م طا ق ہللا کا عرش الی ہی ں ہ و ا ہ ب
ی ب ول دوسرے ق
ن ن ن ن ق ے۔ کا ہ ول
ے کہ اسےنمعلوم ن ن ہ ماے وہ ب ئھی اہ لس ت اور ج و ی ہ کہ ت ج و عرش کو خ الی لس ناب ج و ن زول تکے و تت ہللا کے ن عرش نکو خ الی ماے وہ ب ھی اہ
ع قئ
ے ہ ی ں اسالف می ں سے کس ے کہا من ذالک ی ہ ع ا د اب ن ث ی می ن ے کہاں سے ل ےت وع وہ تب ھی اقہ لس ت۔ تعوذ نب اللہ ن ہی ں نکہ ک ی ا ہ و ا ہ
ے کہ زول کے م لق ی ن ول ہ ی ن اور ی وں اہ لس ت کے ہ ی ں اور حق ہ ی ں؟؟ ہ
44