Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 44

‫ماتریدی کی تقلید‬

‫ؒ‬ ‫عقائد اور علم الکالم میں فرق اور امام ابومنصور‬
‫اہلسنت والجماعت ان عقائد میں جو ضروریات دین ی ا ض روریا ت اس الم ہیں وہ ق رآن و س نت کی قطعی ال داللت اور‬
‫قطعی الثبوت نصوص سے رجوع کرکے لیتے ہیں ۔ان عقائد میں کسی مجتہد کی رائے ‪،‬اجتہاد یا قی اس ک و دخ ل نہیں‬
‫دیا جاتا کیونکہ عقائد قیاسی یا اجتہادی نہیں ہوتے بلکہ منصوص ہوتے ہیں اور ان عقائد اسالم میں اہلس نت ولجم اعت‬
‫کے مابین کوئی اختالف نہیں ہوتا ۔ اہلسنت و لجماعت میں کوئی بھی اسکا قائل نہیں کہ عقائد قیاس یا اجتہاد سے ث ابت‬
‫کئے جائیں۔اصل مسئلہ کو سمجھنے کیلئے چند نکا ت کا سمجھنا ضروری ہے۔ان میں س ب س ے پہلے علم الکالم اور‬
‫عقائد کا فرق سمجھا جائے۔‬

‫علم الکالم کیا ہے؟‬


‫عقائد کا ذکر پہلے کیا جاچکا ہے اب آتے ہیں علم الکالم کی ط رف ۔ آئمہ اربعہ کےا دوار میں عموم ا اوراس کے بع د‬
‫خصوصا امت میں عقائ د کے اعتب ار س ے انتہ ائی گم راہ ف رقے بلخص وص مع تزلہ ‪ ،‬جہمیہ‪ ،‬ک رامیہ‪،‬خ وارج‪ ،‬مش بہ‬
‫وغیرہ وجود میں آئے اور قرآن و سنت کی گمراہ کن تشریحات اور عقلی اعتراضات کی مدد سے سادہ لوح مسلمانوں‬
‫نیفہ اور بع د کے ادوار میں دیگ ر اک ابرین امت خصوص ا اب و‬
‫کو گمراہ کرنے لگے تومتکلمین س لف مثال ام ام اب و ح ؒ‬
‫حنفی میدان میں آئے اور گمراہ فرقوں کے عقلی دالئل کو ق رآن و‬
‫ؒ‬ ‫اشعری اور ان کے بعد ابو منصور ماتریدی‬
‫ؒ‬ ‫الحسن‬
‫سنت میں بتائے گئے عقائد کی ایسی بہترین تشریحات اپنے اجتہ اد کے ذریعے پیش کیں جس س ے گم راہ فرق وں ک و‬
‫اس میدان میں بدترین شکست ہوئی۔ علم الکالم کے بنیادی طور پر دو مقاصد ہیں‬

‫(‪ 1‬منصوص عقائد کی ایسی بہترین تشریحات کرنا جو جمہور اہلسنت کے موافق ہوں۔لہذا تشریحات چونکہ منصوص‬
‫نہیں ہوتیں جیسا کی قرآنی تفاسیر اور کتب احادیث کی شروحات جو ہر دور میں اہلسنت ولجماعت نے لکھی ہیں۔بلکل‬
‫اس ی ط رح عقائ د کی ایس ی تفص یالت بھی ہیں ج و متکلمین اہلس نت نے تش ریحات کے درجے میں بی ان کی ہیں اور‬
‫جنکی جمہور اہلسنت نے تائید کی ہے۔‬
‫(‪2‬عقائد پر وارد ہونے والے عقلی اعتراضات کا قرآن و سنت کی روشنی میں عقل و فہم ک و اس تعمال ک رتے ہ وئے‬
‫حتی المقدور ایسا بہترین جواب دینا کہ سائل کا اعتراض ختم ہوجائے ۔‬

‫عقائد اور علم الکالم میں فرق‬

‫عقائد اور علم الکالم میں چند اہم اور بنیادی فرق مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫(‪1‬عقائد اسالم غیر اجتہادی) یعنی قطعی ال داللت اور قطعی الثب وت) ہ وتے ہیں اور ان میں اجتہ اد کی گنج ائش نہیں‬
‫ہوتی ۔اسکے ب رعکس کالمی مس ائل و تفص یالت اجتہ ادی ہ وتی ہیں یع نی مجتہ دین علم الکالم ی ا متکلمین اس الم کے‬
‫اجتہاد ات پر مبنی ہوتی ہیں۔‬
‫(‪2‬عقائد اسالم قطعی ہوتےہیں جبکہ کالمی مسائل و تفصیالت ظنی ہوتی ہیں۔‬
‫(‪3‬عقائد اسالم کا جاننااور ان پر ایمان النا ہر مسلمان پر فرض عین ہے جبکہ کالمی مسائل و تفص یالت ک ا جانن ا ہ ر‬
‫مسلمان پر فرض عین نہیں ہے۔‬

‫علم الکالم اور تقلید مجتہد‬


‫عقائد اسالم چونکہ غیر اجتہادی یع نی منص وص ‪،‬قطعی ال داللت اورقطعی الثب وت ہ وتے ہیں ت و ان میں مجتہ دین کی‬
‫بجائے صرف اور صرف قرآن و سنت اور اجماع کی اتباع یا تقلید کی جاتی ہے ۔عقائد کے ماسوا تم ام اجتہ ادی عل وم‬
‫و مسائل میں غیر مجتہد ‪ ،‬مجتہد کی تقلید کرتے ہیں جیسا کہ علم الصرف‪ ،‬علم النحو‪ ،‬علم الفقہ ‪ ،‬علم الق راءت‪ ،‬اس ماء‬
‫الرج ال وغ یرہ وغ یرہ ان تم ام عل وم و فن ون کے اپ نے اپ نے مجتہ دین ہیں اور ان مجتہ دین کے عالوہ ب اقی امت ان‬
‫مجتہدین کے اجتہاد پر اعتماد کرکے تقلید کرتی ہےبلکل اس ی ط رح علم الکالم کے اجتہ ادی مس ائل میں بھی جمہ ور‬
‫اہلسنت و الجماعت مجتہدین علم الکالم کی تقلید کرتے ہیں۔‬
‫کیا علماء احناف دیوبند عقائد میں امام ابو حنیفہ ؒ کو چھوڑ کر امام ابو منصور ماتریدی ؒ کی تقلید کرتے ہیں؟؟؟‬
‫نیفہ کے مقل د ہیں اور عقائ د میں ام ام اب و‬
‫اہل بدعت کا ایک مش ہور اع تراض ہے کہ دیوبن دی فقہ میں ت و ام ام اب و ح ؒ‬
‫ماتریدی کے مقلد ہیں۔ اس اعتراض میں بدترین جہالت نمای اں ہے اور ہ و یہ ہے کہ م ذکورہ ب اال تفص یل کے‬ ‫ؒ‬ ‫منصور‬
‫مطابق علماء عقائد اسالم (جو منص وص‪ ،‬قطعی اورغیراجتہ ادی ہیں) میں تقلی د مجتہ د نہیں ک رتے بلکہ علم الکالم ی ا‬
‫دی‬
‫کالمی مسائل میں تقلید کرتے ہیں ۔ دیوبندی فقہ میں حنفی ہیں اور علم الکالم میں اپنی نسبت امام ابو منصور ماتری ؒ‬
‫کی طرف کرتے ہیں لہذا یہ کہنا بہتان ہے کہ دیوبندی عقائد میں کسی مجتہد کی تقلید کرتے ہیں۔‬

‫حنیفہ کی تقلید کیوں نہیں کرتے؟‬


‫ؒ‬ ‫حنفی کی بجائے امام ابو‬
‫ؒ‬ ‫احناف دیوبند علم الکالم میں امام ابو منصور ماتریدی‬

‫‪1‬‬
‫حنیفہ کی تقلی د کی وں نہیں‬
‫ؒ‬ ‫حنیفہ کے مقلد ہیں تو علم الکالم میں امام ابو‬
‫ؒ‬ ‫پھر یہ اعتراض کہ جب حنفی فقہ میں امام ابو‬
‫کرتے تو یہ اعتراض بھی فضول اور محض حماقت ہے اسکے جوابات مندرجہ ذیل ہیں۔‬
‫حنیفہ اور دیگر ائمہ مجتہدین کے دور کے بعد گمراہ فرقوں نے کئے اتنی شدت‬ ‫ؒ‬ ‫‪1‬۔ جس قدر زیادہ اعتراضات امام ابو‬
‫افعی کے مقل د‬
‫سے پہلے اسالمی تاریخ میں کبھی نہیں ہوئے لہذا پہلے امام ابو الحسن اش عری ج و کہ فقہ میں ام ام ش ؒ‬
‫نیفہ کے مقل د ہیں‪ ،‬می دان‬
‫ماتریدی جو کہ فقہ میں امام ابو ح ؒ‬
‫ؒ‬ ‫ہیں‪ ،‬وہ میدان میں آئے اور پھر انکے بعد امام ابو منصور‬
‫میں آئے علم الکالم کے ان دونوں آئمہ نے گمراہ فرقوں بلخصوص مع تزلہ ‪ ،‬ب اطنیہ ‪ ،‬جہمیہ‪ ،‬ک رامیہ‪ ،‬مش بہہ ‪،‬ش یعہ‬
‫وغیرہ کو اسالمی عقائد پرنت نئے اور بے تحاشا اعتراضات کے میدان میں بدترین شکست سے دو چار کی ا یہی وجہ‬
‫عری س ے علم الکالم‬‫ؒ‬ ‫ماتریدی اور ام ام اب و الحس ن اش‬
‫ؒ‬ ‫ہے کہ عقائد کی جتنی تشریحات اور تفصیالت امام ابو منصور‬
‫شافعی سے منقول نہیں ہیں اسکی بنی ادی وجہ یہ ہے کہ‬ ‫ؒ‬ ‫حنیفہ اور امام‬
‫ؒ‬ ‫کے توسط سے منقول ہیں اتنی تفصیل امام ابو‬
‫عقائد پر اتنی شدت اور بہتات سے حملے پہلے ادوار میں نہیں ہ وئے اور علم الکالم ان نظری اتی حمل وں کے مق ابلے‬
‫میں ق رآن و س نت س ے ث ابت عقائ د کی حف اظت کیل ئے پھال بڑھ ا اور ت رقی کی جیس ا کہ فن ح دیث کی اص طالحات‬
‫حضورﷺ کے دور کے بعد وجود میں آئیں تو کیا اب کوئی اہ ل ب دعت کہہ س کتا ہے کہ اص طالحات‬
‫حدیث میں کسی کی تقلید نا جائز ہے اور یہ اصطالحات و اصول غلط ہیں؟‬
‫‪2‬۔ یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ہر فن کے مجتہدین جدا ج دا ہیں جیس ا کہ اہ ل ب دعت(وکٹ ورین غیرمقل دین ) ‪ ،‬اہلس نت کی‬
‫دیکھا دیکھی میں فن قراءت کے میدان میں قاری عاصم ک وفی کی ان دھا دھن د تقلی د ک رتے ہیں ۔ جس ط رح وکٹ ورین‬
‫غیرمقل دین فن ح دیث میں دیگ ر آئمہ ح دیث کے اق وال کی ان دھا دھن د تقلی د ک رتے ہیں۔ اور جس ط رح وکٹ ورین‬
‫غیرمقلدین فن تفسیر میں ائمہ تفسیر کی اندھا دھند تقلید کتے ہیں ۔ تو عین اسی طرح علم الکالم میں بھی ایک ج دا علم‬
‫و فن ہے جسکے اپنے مجتہدین اور آئمہ ہیں تو یہ اعتراض اس لحاظ سے بھی غلط اور جہالت پر مبنی ہے۔‬
‫نیفہ کے مقل د ہیں ت و بلواس طہ ہم علم الکالم‬
‫ماتریدی جو فقہ میں امام اب و ح ؒ‬
‫ؒ‬ ‫‪3‬۔ دوسری بات یہ ہے کہ امام ابو منصور‬
‫حنیفہ کے مقلد ہوئے تو معلوم ہوا کہ اہل بدعت کا یہ اعتراض محض جہالت ہے۔‬ ‫ؒ‬ ‫میں بھی امام ابو‬

‫المہند علی المفند کی عبارت پراہل بدعت (وکٹورین غیرمقلدین) کا اعتراض اور اسکا جواب‬

‫سہانپوری نے کہ علماء دیوبند کی نس بت لکھ ا ہے"اص ول‬ ‫ؒ‬ ‫المہند علی المفند کی عبارت میں حضرت موالنا خلیل احمد‬
‫دی کے"۔ اس عب ارت میں اہ ل ب دعت یہ‬ ‫عری اور ام ام ابومنص ور ماتری ؒ‬
‫ؒ‬ ‫و اعتقادی ات میں پ یرو ہیں ام ام ابولحس ن اش‬
‫اعتراض کرتے ہیں کہ یہاں لفظ" اصول و اعتقادیات " مذکور ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ احناف دیوبند عقائد میں‬
‫ان دو آئمہ کی تقلید کرتے ہیں۔ اعتراض بھی محض جہالت اور ناسمجھی ہے ۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ اہل زبان یا اہل‬
‫علم وفن بعض اوقات کسی بات کو بیان کرنے میں مجازی الفاظ اشارتا ًبیان کرتے ہیں تاکہ مافی الضمیر بہترین ان داز‬
‫میں بیان ہوسکے۔لہذا یہاں اصول و اعتقادیات سے مراد علم الکالم کے اصول و تفصیالت ہیں ۔‬
‫اگر کوئی جاہل یہ اعتراض کرے کہ اشارتا ً یا مجازی الفاظ استعمال کرنا نامناسب ی ا ناج ائز ہے ت و ان احمق وں ک ا یہ‬
‫اعتراض پہلے قرآن و حدیث پر وارد ہوگا بعد میں علماء احناف دیوبند پر وارد ہوگ ا۔ مثال ص حیح بخ اری کی مش ہور‬
‫حدیث ہے جس میں نوافل کے ذریعے ہللا کے قرب کے اظہار کیلئے ایسے الفاظ استعمال ہ وئے جنک ا مج ازی مع نی‬
‫لئے بغیر کوئی اہلسنت تو دور کی بات ‪،‬مسلمان بھی نہیں رہ سکتا جیسا کہ فرمای ا گی ا کہ ۔۔۔ہللا بن دے ک ا ک ان بن جات ا‬
‫ہے جس وہ سنتا ہےاور ہللا بندے کی آنکھ بن جاتا ہے جس سے وہ دیکھتا ہے۔۔۔ت و اب یہ اں مج ازی مع نی ل ئے بغ یر‬
‫کوئی احمق اسکا ایسا معنی بیان کردے کہ وہ مسلمان اور اہلسنت بھی رہے اور مع نی بھی ھقیقی (یع نی غیرمج ازی)‬
‫ہو جو کہ ناممکن ہے۔اسی طرح قرآن میں بھی کئی جگہوں پر مجازی معنوں میں ہللا نے کالم کیا ہے (جسکی تفصیل‬
‫کی یہ جگہ نہیں ہے)۔توثابت ہوا کہ مخاطب اپنے مافی الضمیر کے اظہار کیلئے مجازی الفاظ استعمال کرسکتا ہے ۔‬

‫اشعریہ اور ماتریدیہ کا اختالت‬


‫فرقہ سلفیہ کے ایک شیخ محمد العثمین‪  ‬اہلسنت اشعریہ اور ماتریدیہ کے متعلق لکھتے ہیں‬
‫نقول كيف يكون الجميع اهل سنة وهم مختلفون ؟ فماذا بعد الحق اال الضالل وكيف يكونون اهل سنة وكل واحد يرد علي االخر؟ هذا‬
‫ال يمكن اال اذا امكن الجمع بين الضدين‬
‫ترجمہ ‪:‬ہم کہتے ہیں کہ یہ سب (اشعری ‪ ،‬ماتریدی ‪ ،‬س لفی) اہلس نت میں س ے کیس ے ہ و س کتے ہیں ح االنکہ ان میں‬
‫اختالفف ہیں اور حق کے سوا ج و کچھ ہے وہ گم راہی ہے اور یہ تین وں اہلس نت کیس ے ہ و س کتے ہیں جبکہ ان میں‬
‫سے ہر ایک دوسرے پر اعتراض کرتا ہے غرض ان تینوں کا اہل سنت میں سے ہونا اس ی وقت ممکن ہے جب ایس ی‬
‫دو باتوں کو جمع کیا جاسکے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔(شرح عقیدہ وسطیہ ص ‪)22‬‬
‫جبکہ اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں ک وئی اختالف نہیں ہے ‪،‬چن د ف روعی مس ائل میں اختالف ہے ج وکہ‬
‫مضرنہیں ہے یہ ایسا اختالف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ هونے سے نکل جائے ‪،‬لہذا اإلمام‬

‫‪2‬‬
‫األشعري اوراإلمام الماتريدي کے م ابین بعض ج زئی اجتهادی مس ائل میں خالف ہے ‪ ،‬اور علم اء امت نے ان مس ائل‬
‫کوبھی جمع کیا ہے ۔‬
‫اإلمام تاج الدين السبكي رحمه هللا نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل هیں ‪" ،‬تفحص ت كتب الحنفي ة‬
‫فوجدت جمي ع المس ائل التى فوجدت جميع المسائل التى بينن ا وبين الحنفية خالف فيه ا ثالث عش رة مس ائل منه ا معنوي ست مسائل‬
‫صرح بذلك أبو منصور البغدادي وغيره‬
‫والباقي لفظي وتلك الست المعنوية ال تقتضي مخالفتهم لنا وال مخالفتنا لهم تكفيراً وال تبديعاً‪ّ ،‬‬
‫من أئمتنا وأئمتهم"‪ ) ‬طبقات الشافعية ج ‪ 3‬ص ‪ ( 38‬‬
‫امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے هیں کہ میں نے احناف کی کت ابوں ک ا بغ ور مط العہ کی ا ت ومیں نے ص رف ت یره‬
‫مسائل کوپایا جن میں همارا اختالف ہے اور ان میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرک ا ) اختالف ہے اور ب اقی‬
‫(سات ) مسائل میں محض لفظی اختالف ہے ‪ ،‬اور پھر ان چھ مسائل میں معنوی ( تعبیرکا ) اختالف کا مطلب هرگزیہ‬
‫نہیں ہے کہ اس کی وجہ س ے هم ای ک دوس رے کی تکف یر اور تب دیع ( ب دعت ک ا حکم ) ک ریں ‪ ،‬اس تاذ أب و منص ور‬
‫البغدادي وغيره نے همارے ائمہ میں اور اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے ۔‪ ‬‬
‫بالکل یہی بات عالمہ مال علی قاری رحمه هللا نے بھی کی ہے ‪" ‬وقال العالمة على القارى فى المرقات ‪ ‬وماوقع من الخالف بين‬
‫الماتريدية واألشعرية فى مسائل فهى ترجع الى الفروع فى الحقيقة فانها لفظيات فلم تكن من اإلعتقادات المبينة على اليقينيات بل قال‬
‫بعض المحققين ان ال ُخلف بيننا فى الكل لفظي" اهـ۔ ( ج ‪ 1‬ص ‪) 306‬‬
‫اشعریہ وماتری دیہ کے م ابین بعض مس ائل میں اختالف حقیقت میں ف روعی اختالف ہے ‪ ،‬اور یہ ظ نی مس ائل هیں ان‬
‫اعتقادی مسائل میں سے نہیں هیں جو یقینیات کے اوپرمبنی هیں ‪ ،‬بلکہ بعض محققین نے تویہ کہا ہے کہ اش اعره اور‬
‫ماتریدیه کے درمیان سب مسائل خالفیہ میں محض لفظی اختالف ہے ۔‪ ‬‬
‫لہذا اشاعره اور ماتریدیه عقائد میں ایک هیں اور هم یہ کہ سکتے هیں کہ اش عری ماتری دی ہے اور ماتری دی اش عری‬
‫ہے‪ ،‬کیونکہ ان دونوں جلیل القدر ائمہ نے تو عقائد حقہ کو جمع ونشرکیا ہے اور اص ول عقائ د ان کے پ اس وهی هیں‬
‫جو ص حابہ ت ابعین وتب ع ت ابعین کے تھے ‪ ،‬بس ان دو ام اموں نے ت و ان عقائ د کی تبلی غ وتش ہیر ونص رت وحف اظت‬
‫وحمایت کی توجیسا کہ صحابہ تابعین وتبع تابعین عقائ د تھے وهی اش اعره اور ماتریدی ه کےعقائ د هیں ‪ ،‬اب وه ل وگ‬
‫کتنے خطرے میں هیں جو احن اف اور ام ام ابوح نیفہ س ے ض د وتعص ب کی بن ا پ ر اش اعره اور ماتریدی ه کے عقائ د‬
‫کوگمراه وغلط کہ دیتے هیں۔‬
‫اگر امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اهتم ام کی ا ت واب اگ ر ک وئی بے وق وف‬
‫شخص امام بخاری کے ساتھ عداوت وتعصب کی بنا پر صحیح بخاری ک ا انک ار ک رے ی ا اس ک و غل ط کہے ت و ایس ا‬
‫شخص حقیقت میں احادیث رسول کے انکار کا ارتکاب کر رها ہے ‪ ،‬کیونکہ امام بخاری نے تو صرف احادیث رسول‬
‫کی حفاظت وصیانت کی اور ان کو اپنی کتاب میں جمع کردیا ‪ ،‬بعینہ یہی حال ہے اإلمام األشعري اوراإلمام الماتريدي‬
‫کا ہےکہ ان دو ائمہ نے صحابہ تابعین وتبع تابعین کے عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت کی اور اپنی کتابوں میں اس کو‬
‫لکھ کر آگے لوگوں تک پہنچ ا دی ا ‪ ،‬اب ک وئ جاهل ک وڑمغز اش اعره اور ماتریدی ه کے عقائ د ک وگمراه کہے ت و اس‬
‫کی‪ ‬اس بکواس کا پہال نشانہ کون بنتا ہے ؟؟‪ ‬‬

‫اہلسنت اشعریہ و ماتریدیہ کا منہج اور فرقہ سلفیہ کے ساتھ انکا اختالف‬
‫اختالف نمبر (‪)1‬‬
‫‪  ‬ہمارا دعوی ہے کہ ہللا عرش پر مستوی ہے مگر وہ اس پر ٹھہرا ہوا نہیں۔اور ٹھہ رنے ک ا یہی مطلب ہوت ا ہے کہ‬
‫وہیں‪  ‬ہونا اور اسکے عالوہ کہیں نہ ہونا۔‬
‫استوی کا اگرچہ لفظی ترجمہ و معانی و مفہوم ‪ ‬استقرار یعنی ٹھہرنا ہوتا ہے نام نہاد سلفیوں نے اسی کا اثبات کیا ہے‬
‫کیونکہ ان کا یہی عقیدہ تھا کہ ہللا بس عرش پر ہی ہے اور کہیں نہیں جبکہ‪   ‬اسالف میں سے جمہور کا یہ عقیدہ نہیں‬
‫استوی علی العرش کو ‪ ‬متشابہات سمجھ کر اس کا علم ہللا کے س پرد کی ا ہے ۔‪ ‬جس‬ ‫ٰ‬ ‫تھا انہوں نے ‪ ‬اسکا رد کیا ہے اور‬
‫ٰ‬
‫طرح سے سلف نے ہللا‪   ‬کی ذات کیلئے جسم ‪ ، ‬جھت اور مکان کا انکار ‪ ‬کیا ہے اسی ط رح‪  ‬س لف نے ہللا تع الی کی‬
‫ذات کیلئے‪  ‬عرش پر یا کہیں اور ٹھہرنے کا بھی انکار کیا ہے۔‬
‫ے‪ ‬برابر ہونا بھی ہوتا ہے‬ ‫استوی کا مطلب‪  ‬غالب ہونا بھی ہوتا‪ ‬ہ‬
‫اَل يَ ْستَ ِوي الْ ٰق ِع ُد ْو َن ِم َن ال ُْمْٔو ِمنِْي َن غَْي ُر اُولِي الض ََّرر َوال ُْم ٰجه ُد ْو َن ف ْي َسب ْي ِل اهلل (النساء ‪)95‬‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫”برابر نہیں بیٹھ رہنے والے مسلمان جن کو کوئی عذر نہیں اور وہ مسلمان جو لڑنے والے ہیں ہللا کی راہ میں“‬
‫جس طرح سے ان دونوں معانی پر یا ای ک مع نی کی ہللا کیل ئے تخص یص نہیں کی جاس کتی اس ی ط رح اس ٰ‬
‫توی کے‬
‫تیسرے معنی استقرار ٹھہرنا متمکن ہونا کی بھی نہیں کی جاسکتی‬

‫‪3‬‬
‫استوی سے غلبہ کی تخصیص کرنے والے کو صفات کا منکر کہا جاتا ہے کیونکہ اس نے ہللا کی صفات ک و اس کے‬
‫سپرد نہیں کیا بلکہ اس کی مراد کو خود سے تعین کر لیا اسی طرح استوی کا مع نی براب ر ہون ا بھی ہوت ا ہے اگ ر ہللا‬
‫استوی کے اسی معنی کی تخصیص کر لی جائے تو پھر کہنا پڑے گا کہ ہللا عرش کے برابر ہے جبکہ ہللا سب‬ ‫ٰ‬ ‫کیلئے‬
‫سے بڑا وہ کسی کے برابر نہیں سب اس کے آگے ذرہ کے برابر بھی نہیں اسی طرح ہللا کیلئے استوی سے ٹھہرنے‪ ‬‬
‫کی تخصیص کرنے واال بھی ص فت ک ا منک ر ہ و گ ا کی ونکہ اس نے بھی ہللا کی م راد ک و اس کے س پرد ک رنے کی‬
‫بجائے خود سے اس کی مراد کو تعین کرلیا۔‬
‫استوی سے ٹھہرنا تو لے لیتا ہے لیکن س اتھ میں اس توی ک ا دوس ری مع نی‬ ‫ٰ‬ ‫فرقہ سلفیہ و کرامیہ بھی ایسا ہی کرتا ہے‬
‫جو کہ برابر ہونا بھی‪   ‬ہوتا ہے غالب ہونا بھی ہوتا اسے چھوڑ دیتا ہے اور اگر کوئی اسے اپنائے تو اسے یہ معتزلیہ‬
‫کہتا ہے۔‬
‫اب بتائے‪  ‬معتزلیہ کا یہی جرم ہے کہ اس نے استوی کا معنی غلبہ لے کر اس پر بس کی ‪ ‬اور گمراہ کہالیا‪ ،‬مجیسمیہ‬
‫کا یہی جرم ہے کہ اس نے استوی کا معنی برابر ہونا لے کر اس پر بس کی اور گم راہ کہالی اتو س لفیہ کس کھیت کی‬
‫مولی ہیں انہوں نے بھی استوی کا معنی استقرار ٹھہرنا لے کر اس پر بس کی ہے۔ مجرم تو تینوں ہیں۔‬
‫(‪ )i‬مجتہد مطلق حضرت اإلمام األعظم أبو حنيفة رحمہ هللا (وفات ‪150‬ھ) فرماتے ہیں کہ "ونقر بأن اهلل سبحانه وتعالى على‬
‫العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه"‬
‫“ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ هللا سبحانه وتعالى عرش پر ُمس توی ہ وا لیکن وه ع رش ک ا محت اج نہیں اورنہ وہ ع رش پ ر‬
‫ٹھہرا ہے۔) “كتاب الوصية (ص‪ ، )۸۷ ‬ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الك وثري (ص‪ ، )2 /‬ومال علي الق اري‬
‫في شرح الفقه االكبر (ص‪ )75 /‬عند شرح قول االمام‪ :‬ولكن يده صفته بال كيف (‬

‫األشعري (وفات ‪403‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬


‫ؒ‬ ‫(‪ )ii‬القاضي أبو بكر محمد الباقالني المالكي‬
‫وال نقول إن العرش لهء أي اهللء قرار وال مكان‪ ،‬ألن اهلل تعالى كان وال مكان‪ ،‬فلما خلق المكان لم يتغير عما كان‪ [ .‬االنصاف فيما يجب‬
‫اعتقاده وال يجوز الجهل به (ص‪([65/‬‬
‫”ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش هللا تعالی کا‪ ‬ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھ ا جب مک ان‬
‫نہیں تھا ‪ ،‬پھرجب هللا تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا (یعنی موجودبالمکان) اب بھی ویسا‪ ‬ہی ہے“‬

‫المالکی (‪449‬ھ) ام ام بخ اری‬


‫ؒ‬ ‫بخاری (وفات ‪256‬ھ) کا بھی یہی عقیدہ ہے شارح بخاری (‪ )IV‬علی بن خلف‬ ‫ؒ‬ ‫(‪ )iii‬امام‬
‫کے باب سے انکا عقیدہ لکھتے ہیں‪ :‬فال يحت اج إلى مك ان يس تقر في ه‪ ،‬کہ ان کے نزدیک (ہللا) نہیں ہے مکان کا محتاج یا‬
‫اس میں ٹھہرنے کا۔] فتح الباري (‪([13/416‬‬
‫(‪ )v‬وقال الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي‪ 476( ‬هـ)‪ ‬في عقيدته ما نصه "وان استواءه ليس باستقرار وال مالصقة ألن‬
‫االستقرار والمالصقة صفة األجسام المخلوقة‪ ،‬والرب عز وجل قديم أزلي‪ ،‬فدل على أنه كان وال مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه‬
‫كان" اهـ] أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (‪([101 /1‬‬
‫الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الش يرازي الش افعي األش عري رحم ه اهلل فرماتے هیں کہ هللا تعالی کا استواء استقرار ( کسی جگہ‬
‫الصقة ( کسی چیزسے ِملنا ُمتصل هونا ) بھی نہیں ہے ‪ ،‬کیونکہ اس تقرار وم ِ‬
‫الص َقة‬ ‫قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور ُم ِ‬
‫ُ‬
‫اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ‪ ،‬اور رب تعالی عز وجل قديم وأزلي ذات ہے ‪ ،‬پس یہ داللت ہے اس بات پر کہ هللا تعالی‬
‫تواس وقت بھی موجود تھا جب مکان نہیں تھا ‪ ،‬پھرجب هللا تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی بالمک ان )‬
‫اب بھی ویسا هی ہے ۔‬
‫الج ّد الـمالكي‪( ‬وفات ‪520‬ھ (ال أنه محلٌّ له وموضع‬
‫(‪ )vi‬القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة‪ ‬الـمعروف بابن ُر ْشد َ‬
‫الستقراره]"فتح الباري (‪([ 7/124‬بھی ہللا کیلئے ٹھہرنے کی نفی کرتے ہیں۔‬
‫(‪ )vii‬اسی طرح أحمد الرفاعي‪ ،‬الفقيه الشافعي األشعري ‪( ،‬وفات ‪578‬ھ)‬
‫بھی ہللا کیلئے ٹھرنے کی نفی کرتے ہیں۔‬
‫] البرهان الـمؤيد (ص‪ 17/‬و‪ :])18‬نزهوا اهلل عن صفات المحدثين‪ ،‬وسمات المخلوقين‪ ،‬وطهروا عقائدهم عن تفسير معنى االستواء في‬
‫حقه تعالى باالستقرار كاستواء األجسام على األجسام المستلزم للحلول والنزول واالتيان واالنتقال‬
‫حنبل (وفات ‪241‬ھ)‪ ‬اور سلف کا عقیدہ لکھتے ہیں کہ‬ ‫جوزی (وفات ‪597‬ھ)‪ ,)viii( ,‬امام احمد بن‪ؒ  ‬‬ ‫ؒ‬ ‫(‪ )vii‬اسی طرح ابن‬
‫ہللا جھت ‪ ،‬حدود ‪،‬جسم ‪ ،‬مکان‪ ‬سے ‪ ،‬بیٹھنے سے اور ٹھہرنے سے پاک ہے۔‪( ‬دفع شبه التشبيه)‬

‫‪4‬‬
‫الذي رد فيه على الـمجسمة الذين ينسبون أنفسهم إلى مذهب اإلمام أحمد واإلمام أحمد بريء مما يعتقدون ‪ .‬وقد بيَّ َن ابن الجوزي في‬
‫هذا الكتاب أن عقيدة السلف وعقيدة اإلمام أحمد تنـزيه اهلل عن الجهة والـمكان والحد والجسمية والقيام والجلوس واالستقرار‬
‫رازی (وفات ‪606‬ھ) بھی ہللا کیلئے ٹھہرنے کی نفی کرتے ہیں۔‬ ‫ؒ‬ ‫(‪ )ix‬اسی طرح امام فخر الدین‬
‫ـمفسر علي بن محمد الـمعروف بالخازن (‪741‬هـ) [تفسير الخازن (‪([2/238‬‬ ‫‪ ‬وقال ال ّ‬
‫ش } على الجلوس‬‫الع ْر ِ‬
‫اس َت َوى َعلَى َ‬
‫إن الشيخ فخر الدين الرازي ذكر الدالئل العقلية والسمعية على أنه ال يمكن حمل قوله تعالى ‪ { :‬ثُ َّم ْ‬
‫واالستقرار وشغل الـمكان والحيّز‪. ‬‬
‫قر ِف ِيه‪،‬‬ ‫يحتَاج إِلَى َم َكان ْ‬
‫يستَ ّ‬ ‫س بجسم فَاَل ْ‬
‫الحنفی‪( ‬وفات ‪855‬ھ) لکھتے ہیں‪ :‬أَن اهلل ل َْي َ‬
‫ؒ‬ ‫(‪ )X‬اسی طرح امام بدر الدین العینی‬
‫) عمدۃ القاری ج ‪ 2‬ص ‪( 117‬ہللا جسم سے پاک ہے ہللا مکان کا محتاج نہیں نہ اس میں ٹھہرنے کا۔‬
‫ٰ‬
‫جس طرح سے سلف نے ہللا‪   ‬کی ذات کیلئے جسم‪ ،  ‬جھت اور مکان کا انکار‪  ‬کیا ہے اسی طرح‪  ‬سلف نے ہللا تع الی‬
‫کی ذات کیلئے‪  ‬عرش پر یا کہیں اور ٹھہرنے کا بھی انکار کیا ہے۔‬

‫سلفیہ کا دعوی‪  ‬ہے کہ ہللا عرش پر ہی ٹھہرا ہوا ہے اور وہ کہیں نہیں ہے۔‬
‫(‪ )i‬سلفیوں کے شیخ صالح العثیمین (وفات ‪1421‬ھ) لکھتے ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫استوای کا معنی بلند اور‬ ‫م ا مع نی االس تواء عندھم فمعن ا العل و واالاس تقرار (شرح عقیدہ الوسطیہ ص ‪( 375‬ہمارے نزدیک‬
‫استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔‬
‫(‪ )ii‬سلفیوں کے ایک اور شیخ ابن عبد الرحمن جبرین (وفات ‪2009‬ء) لکھتے ہیں‬
‫ٰ‬
‫استوی علی العرش‪ ‬‬ ‫هذه ھ ه تفاسير اهل السنة االربعة اكثر هم يقول ‪ :‬استوي علي العرش اي استقرر علیه ‪.‬اکثر اہلسنت کہتے ہیں‬
‫کی تفسیر ٹھرنا ہے۔) التعلیقات الزکیۃ ص ‪(211‬‬
‫(‪ )iii‬سلفیوں کے ایک اور شیخ الفوزان (جو حیات ہیں) لکھتے ہیں۔‬
‫استوی کا معنی استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔) ش رح‬ ‫ٰ‬ ‫ام ا االس تواء فمعن ا كم ا فسرہ الس لف العل و‪ ،‬واالس تقرار ‪.‬کہ سلف کے ہاں‬
‫لمعۃ االعتقاد ص ‪(91‬‬
‫ٰ‬
‫استوی کی بات کر رہے ہیں۔‬ ‫نوٹ‪ :‬یہاں یہ سب کے سب ہللا کیلئے ہی‬
‫جبکہ ہم نے جمہور سلف اور مطلق مجتہد امام سے یہ بات ثابت کی ہے وہ اس ک ا رد ک رتے ہیں اس ک ا اثب ات قطع ا ً‬
‫نہیں کرتے۔ یہ سب کے سب ابن تیمیہ کی تقلید میں ایسا کہتے ہیں۔‬
‫(‪ )iv‬ابن تیمیہ (وفات ‪728‬ھ) لکھتے ہیں‬
‫ولو قد شاء الستقر على ظهر بعوضة فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات واألرض وكيف تنكر‬
‫أيها النفاخ أن عرشه يُِقلُّه والعرش أكبر من السموات السبع واألرضين السبع ولو كان العرش في السموات واألرضين ما وسعته ولكنه‬
‫فوق السماء السابعة) بیان تلبیس الجهمىة فی تاسیس بدعھم الکالمىة ‪(3/243‬‬
‫اوراگرہللا چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرارکرسکتاہے اوراس پر اپنی قدرت اورلطف ربویت سے بلند ورفیع‬
‫ہوسکتاہےتوعرش عظیم جو ساتوں زمین اورٓاسمان س ے بھی زی ادہ ب ڑاہے ت واس پ ر ہللا اس تقرارکیوں نہیں کرس کتا۔‬
‫توبڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو ہللا کاعرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے۔‬
‫بعد میں ابن تیمیہ کو بچانے کیلئے ان کے مقلدین نے یہ بھی کہا ہے کہ ابن تیمیہ نے ایس ا نہیں کہ ا جبکہ یہ کہن ا بے‬
‫فائدہ ہے کیونکہ ہم نے بقیہ سلفیوں کے بڑے بڑوں سے یہی بات ثابت کی ہے۔‬
‫عباس کی ای ک روایت نق ل ک رکے‬ ‫ؓ‬ ‫بیہقی کے حوالہ سے حضرت عبد ہللا بن‬ ‫ؒ‬ ‫(‪ )v‬حافظ ابن قیم (وفات ‪751‬ھ)‪ ‬نے امام‬
‫ہللا کیلئے استقرار کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔) اجتماع الجیوش االسالمیۃ ص ‪(249‬‬

‫بیہقی نے اپنی اسی کتاب میں جس کا حوالہ حافظ ابن قیم‪  ‬نے دیا اس روایت کو منکر کہ ا ہے۔ اور کہ ا ہے‬
‫ؒ‬ ‫جبکہ امام‬
‫کہ اس روایت میں جھوٹ ظاہر ہے۔‬
‫فهذه الرواية منکرة ۔۔۔۔۔۔۔ وظهور الكذب منهم في روایاتهم )‪..‬كتاب االسماء والصفات للبيهقي ص ‪(384 -383‬‬
‫حافظ ابن تیمیہ نے عب د اهلل بن عب د المجي د بن مس لم بن قتيب ة ال دينوري (وف ات ‪276‬ھ) کی کتاب کے حوالہ سے عبد ہللا بن‬
‫استوای استقرار ہے۔ ق ال ‪ :‬وق ال عب د اهلل بن المب ارك ومن تابع ه من أه ل العلم وهم‬
‫ٰ‬ ‫مبارک کا قول نقل کیا ہے جس میں ہے کہ‬
‫ؒ‬
‫كثير أن معنى استوى على العرش استقر وهو قول القتيبي‪( . ‬مجموع الفتاوى ‪(5/519‬‬
‫عبد هللا بن عبد المجيد بن مسلم بن قتيبة الدينوري‪  ‬ایک بڑے محدث اور مفسر تھے مگر مذہبا ً کرامی تھے۔‬

‫‪5‬‬
‫بیہقی انہیں کرامی فرماتے ہیں كان ابن قتيبة ي رى رأى الكرامي ة) ‪.‬سیر اعالم النبال ج ‪ 13‬ص ‪ ( 218‬اور‪  ‬کرامیہ ایک‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫گمراہ فرقہ ہے‬

‫ہم کسی کو صرف مح دث و مفس ر دیکھ ک ر ہی بقیہ تم ام امت کے خالف اس کے پ یروا نہیں ہ و س کتے ب ڑے ب ڑے‬
‫محدث گزرے ہیں جو‪  ‬کہ نبیﷺ‪ ‬کی‪  ‬حدیث روایت کرنے میں تو صحیح تھے مگر مذہبا ً یا تو شیعی‪  ‬‬
‫تھے خ وارج بھی تھے رافض ی بھی تھے خ ود بخ اری مس لم میں ک ئی راوی ایس ے موج ود ہیں۔‪  ‬ان کی‪  ‬ن بی‬
‫کریمﷺ‪ ‬سے نقل روایت درست ہے مگر ان کا مذہب درست نہیں۔‬
‫اور مح دثین ک ا اص ول ہے کہ ب دعتی کی ح دیث (ی ا روایت) کے ب ارے میں راجح م ذہب ‪  ‬یہ ہے کہ جس ح دیث (ی ا‬
‫روایت) سے اس کی بدعت کی تقویت و تائید ہوتی وہ قبول نہیں کی جاتی۔) شرح مسلم للنوی ص ‪ ، 6‬شرح نخبۃ الفکر‬
‫ص ‪(118‬‬

‫التميمي(المتوفى‪429 :‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬


‫ؒ‬ ‫عبد القاهر بن طاهر البغدادي‬
‫زمان خالف قَول من زعم من الشهامية والكرامية انه مماس لعرشه‪ ] .‬الفرق بين الفرق‬ ‫ِ‬
‫أواجمعوا على انه اَل يحويه َم َكان َواَل يجرى َعلَْيه َ‬
‫(ص‪([321/‬‬
‫ٰ‬
‫”اس‪ ‬پر اجماع ہے کہ ہللا تعالی کو کسی مکان نے گھیرا نہیں نہ اس پر زمان یع نی وقت ک ا گ ذر ہوت ا ہے بخالف اس‬
‫فرقہ‪   ‬ہشامیہ اور کرامیہ‪ ‬کے اس قول کے کہ ہللا عرش پر ہی ہے“۔‬
‫اشاعرہ و ماتردیہ کا یہ عقیدہ پہلی صدی کے مطلق مجتہد امام سے ث ابت ہے جبکہ ‪ ‬ک رامیہ س لفیہ ک ا یہ عقی دہ کس ی‬
‫ایسے سے ثابت نہیں سب نے ابن تیمیہ کی تقلید کی ہے جو کہ خود ایک غ یر اجتہ ادی اور اجم اعی مس ئلہ میں تم ام‬
‫امت کے خالف ہوئے تھے جیسے مسئلہ طالق ثالثہ میں ان کا اجماع کو چھوڑ کر سلف سے غلط ملط اس تدالل کرن ا‬
‫کوئی حیرت نہیں۔‬
‫آج کل کے تمام سلفیہ کہالنے والے صرف ابن تیمیہ کے مقلد ہیں ابن تیمیہ نے عقیدہ الوسطیہ نامی کتاب لکھی عالمہ‬
‫عثیمین نے اس کی ش رح میں اس عقی دے ک ا اق رار کی ا پھ ر عب د ال رحمن ج برین نے بھی التعلی ق ال ذکیۃ علی عقی دہ‬
‫الوسطیہ میں اس عقیدے کا اقرار کیا ہے۔‬
‫اگر ہم نے ماننا ہی ہے تو اہلسنت کی مانیں یا ان کرامیہ کی ؟‪   ‬اور ہم نے جمہور کا مذہب نق ل ک ر دی ا ہے ج و کہ ان‬
‫کے خالف ہے۔ اور اسے سلفیہ نے‪  ‬بلکل چھوڑ رکھا ہے اور اس کے مقابلہ میں ان کرامیہ کی‪  ‬اتباع کی ج ارہی ہے‬
‫اور سلفیہ کے نزدیک یہی لوگ سلف ہیں اور اہلسنت کے یہ امام ان کے نزدیک سلف میں نہیں آتے یہ ان ک ا انص اف‬
‫ہے۔‬

‫اختالف نمبر (‪)2‬‬


‫ہمارا دعوی ہے کہ ہللا جس طرح تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔ بال مکان ‪ ،‬بال جھت ‪،‬‬
‫بال حلول بال اتحاد بال کیف ‪ ،‬بال حدود‬

‫‪ )i( ‬اإلمام األعظم أبو حنیفة ؒ (‪150‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬


‫ال ُي َق ال لَهُ َك ا َن اهلل َت َع الَى َواَل َم َك ان قب ل ان يخل ق الْخل ق َو َك ا َن اهلل َت َع الَى َولم يكن أَيْن َواَل خل ق ك ل َش ْيء ‪  ( .‬الفق ه‬
‫أَيْن اهلل َت َع الَى َف َق َ‬
‫اِل ِ ِ‬
‫يمان (ص‪،)161/‬العالم والمتعالم (ص‪))57/‬‬ ‫األبسط و اکبر ‪:‬باب ا ْست ْثنَاء في اإْلِ َ‬
‫”جب تم سے کوئی پوچھے‪ ‬کہ ہللا (کی ذات) کہاں ہے ت و اس ے کہ و کہ (ہللا وہیں ہے جہ اں)‪ ‬مخل وق کی تخلی ق س ے‬
‫پہلے جب کوئی مکان نہیں تھا صرف ہللا‪ ‬موجود تھ ا۔ اوروہی‪ ‬اس وقت موج ود تھ ا جب‪ ‬مک ان مخل وق ن ا م کی ک وئی‬
‫شے ہی نہیں تھی“۔‬
‫‪ )ii( ‬إمام أهل السنة أبو الحسن األشعري (‪ 324‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"كان اهلل وال مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان‪ ،‬وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه" اهـ‪ ‬أي بال مكان ومن غير‬
‫احتياج إلى العرش والكرسي‪ .‬نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقال عن القاضي أبي المعالي الجويني۔۔‪).‬تبيين كذب المفتري فيما نسب‬
‫إلى اإلمام أبي الحسن األشعري(ص‪(( 150/‬‬
‫”هللا تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرس ي کوهللا تع الی نے پی دا کی ا اور وه مک ان ک ا محت اج نہیں ہے‬
‫اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا “۔‬
‫األشعري (‪403‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬
‫ؒ‬ ‫‪ )iii( ‬القاضي أبو بكر محمد الباقالني المالكي‬
‫وال نقول إن العرش لهء أي اهللء قرار وال مكان‪ ،‬ألن اهلل تعالى كان وال مكان‪ ،‬فلما خلق المكان لم يتغير عما كان‪ ) .‬االنصاف فيم ا يجب‬
‫اعتقاده وال يجوز الجهل به (ص‪((65/‬‬

‫‪6‬‬
‫”‪ ‬ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش هللا تعالی کا‪ ‬ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مک ان‬
‫نہیں تھا ‪ ،‬پھرجب هللا تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا (یعنی موجودبالمکان) اب بھی ویسا‪ ‬ہی ہے“‬
‫جزي (المتوفى‪741 :‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬ ‫ؒ‬ ‫‪ )iv( ‬أبو القاسم‪ ،‬ابن‬
‫َو ُه َو اآْل ن على َما َعلَْي ِه َكا َن‪( .‬القوانين الفقهية ج‪ ۱‬ص‪ ۵۷‬الْبَاب الثَّاني في ص َفات اهلل َت َعالَى عز َشأْنه وبهر ُس ْلطَانه (‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫”‪ ‬ہللا کی ذات جیسا (مخلوقات کو پیدا کرنے سے) پہلی تھی اب بھی ویسی ہی ہے“‬

‫‪ )v( ‬وقال الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري (وفات ‪ 476‬ھ)‪ ‬‬
‫في عقيدته ما نصه "وان استواء ليس باستقرار وال مالصقة ألن االستقرار والمالصقة صفة األجسام المخلوقة‪ ،‬والرب عز وجل قديم أزلي‪،‬‬
‫فدل على أنه كان وال مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ (أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع (‪))101 /1‬‬
‫الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري رحمہ هللا فرماتے هیں کہ هللا تعالی کا استواء استقرار ( کس ی‬
‫صقة ( کسی چیزسے ِملنا ُمتص ل هون ا ) بھی نہیں ہے ‪ ،‬کی ونکہ اس تقرار‬ ‫جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور ُمال ِ‬
‫صقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ‪ ،‬اور رب تعالی ع ز وج ل ق ديم وأزلي ذات ہے ‪ ،‬پس یہ داللت ہے اس ب ات پ ر‬ ‫و ُمال ِ‬
‫کہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مک ان نہیں تھ ا ‪ ،‬پھ رجب هللا تع الی نے مک ان کوپی دا کی ا ت ووه جیس ا تھ ا‬
‫( یعنی بالمکان ) اب بھی ویسا هی ہے‪ ‬۔‬
‫عساكر (وفات ‪ 620‬ھ) [طبق ات الش افعية (‬
‫ؒ‬ ‫(‪ )vi‬وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن‬
‫ٌ‬
‫تحت ‪،‬‬ ‫‪ " : ] ) 8/186‬موجو ٌد قبل ال َخ ْلق ‪ ،‬ليس له قَ ْب ٌل وال بَ ْع ٌد ‪ ،‬والفو ٌ‬
‫ق وال‬
‫ترجمہ ‪:‬ہللا موجود ہے جیسا (تمام) مخلوق کی تخلی ق س ے پہلے تھ ا‪ ،‬نہیں اس س ے پہلے کچھ نہیں اس کے بع د کچھ‬
‫نہیں اس کے اوپر کچھ نہیں اس کے نیچے کچھ ۔‬
‫(‪  )vii‬وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي االشعري (وفات ‪ 505‬ھ)‪ ‬‬
‫ما نصه ‪( " :‬تعالى أي اهلل عن أن يحويه مكان‪ ،‬كما تقدس عن أن يحده زمان‪ ،‬بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو االن على ما عليه‬
‫كان " اهـ‪ ) .‬إحياء علوم الدين‪ :‬كتاب قواعد العقاند‪ ،‬الفصل األول (‪(108 /1‬‬
‫غزالی فرماتے ہیں ہللا زمان و ماکان کی تخلیق سے پہلے تھا اور ویسا ہی ہے جیسا‪  ‬وہ (مخلوق کی تخلیق) س ے‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫پہلے تھا۔‬
‫(‪ )viii‬قال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي (‪ 520‬ھ) “ليس اهلل في‬
‫مكان‪ ،‬فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ‪ .‬ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل "‪( ‬المدخل‪ :‬فصل في االشتغال بالعلم يوم الجمعة‬
‫(‪))149/2‬‬
‫ہللا مکان میں نہیں‪  ‬وہ تو مکان کی تخلیق سے بھی پہلے تھا۔‬
‫(‪)ix‬وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السالم األشعري الملقب بسلطان العلماء‪(  ‬وفات ‪660‬ھ)‬
‫مصور‪ ،‬وال جوهر محدود ُمقدَّر‪ ،‬وال يشبه شيئا‪ ،‬وال يُشبهه شىءٌ‪ ،‬وال تحيط به الجهات‪ ،‬وال تكتنفه األرضون وال‬
‫"ليسء أي اهللء بجسم َّ‬
‫كون المكان ودبَّر الزمان‪ ،‬وهو اآلن على ما عليه كان" ا‪.‬هـ (طبقات الشافعية الكبرى‪ :‬ترجمة عبد العزيز بن عبد‬
‫السموات‪ ،‬كان قبل أن َّ‬
‫السالم (‪)219 /8‬‬
‫ہللا جسم واال نہیں محدود نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔‬
‫(‪ )x‬وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة اهلل المكي الحموي المصري (‪ 599‬هـ)‪ ‬‬
‫في تنزيه اهلل عن المكان ما نصه وصانع العالم ال يـحـويه قطر تعالـى اهلل عن تشبيه قد كان موجودا وال مكانا وحكمه االن عـلى ما كانا‬
‫س بحانه ج ل عن المك ان وع ز عن تغ ير الزم ان" اهـ )منظومت ه "ح دائق الفص ول وج واهر األص ول" في التوحي د‪ ،‬ال تي ك ان أم ر بتدريس ها‬
‫السلطان المجاهد صالح الدين األيوبي (ص‪ )13‬النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب‪( 32 /4 ،‬‬
‫ہللا موجود تھا بال مکان اور ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔‬
‫‪ )xi( ‬وقال اإلمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي اهلل عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه‪ˮ :‬إنه تعالى كان وال مكان فخلق‬
‫المكان وهو على صفة األزلية كما كان قبل خلقه المكان ال يجوز عليه التغيير في ذاته وال التبديل في صفاته " اهـ) إتحاف السادة المتقين‬
‫(‪(24 /2‬‬
‫شافعی فرماتے ہیں‬
‫ؒ‬ ‫امام‬

‫‪7‬‬
‫الی اُس ی‬
‫تعالی نے مکان کو پیدا کی ا اور ہللا تع ٰ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی موجود تھے اور کوئی مکان موجود نہیں تھا پس ہللا‬‫ٰ‬ ‫بے شک ہللا‬
‫صفت ازلیہ ( ازل سے جو ہللا کی صفت ہے) پر ہے جیسے مکان کے پیدایش سے پہلے تھے ۔ جائز نہیں ہے ہللا کے‬
‫ذات میں تبدیلی کرنا اور نہ ہللا کے صفات میں تبدیلی کرنا۔‬

‫سلفیہ کا دعوی ہے ہللا جس طرح مخلوق کی تخلیق سے پہلے تھا اب ویسا‪  ‬نہیں۔‬
‫سلفیہ کے شیخ صالح العثیمین (وفات ‪1421‬ھ) لکھتے ہیں‬
‫‪ˮ‬وهو اآلن علي ما كان عليه وهو يريد ان ينكر استواء اهلل “ہللا جیسا تھا اب بھی ویسا ہے کہنا استواء کا انکار کرنا ہے۔) شرح‬
‫عقیدہ وسطیہ ص ‪(208‬‬
‫اختالف نمبر (‪)3‬‬
‫ہمارا دعوی کہ‪  ‬جس طرح ہللا کے اوپر کچھ نہیں اسی طرح اسکے نیچے بھی کچھ نہیں‬

‫اهر والْب ِ‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ہللا تعالی قرآن ک ریم میں فرم اتے ہیں ‪ُ :‬ه َو اأْل ََّو ُل َواآْل خ ُر َوالظَّ ُ َ َ‬
‫اط ُن (الحدید ‪ )3‬وہی اول وہی آخ ر وہی ظ اہر وہہی‬ ‫ٰ‬
‫باطن‬
‫رسول ہللاﷺ‪ ‬اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں‬
‫"اللهم أنت األول‪ ،‬فليس قبل ك ش يء‪ ،‬وأنت اآلخ ر‪ ،‬فليس بع دك ش يء‪ ،‬وأنت الظ اهر فليس فوق ك ش يء‪ ،‬وأنت الب اطن‪ ،‬فليس دون ك‬
‫شيء"‪.‬‬
‫اے ہللا تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ‪ ،‬تو ”آخر“ ہے تیرے بعد ک وئی نہیں‪ ،‬ت و ”ظ اہر“ ہے تیس رے اوپ ر کچھ‬
‫نہیں‪ ،‬تو ”باطن“ ہے‪  ‬تیرے نیچے کچھ نہیں۔‪(  ‬صحیح مسلم)‬

‫امام بيهقي رحمہ هللا فرماتے ہیں کہ‬


‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫س‬ ‫ك َش ْيءٌ» ‪َ .‬وأَنْ َ‬
‫ت الْبَ اط ُن َفلَْي َ‬ ‫س َف ْوقَ َ‬
‫ت الظاه ُر َفلَْي َ‬ ‫َ‬ ‫َص َحابِنَا في َن ْف ِي ال َْم َك ان َع ْن هُ بَِق ْو ِل النَّبِ ِّي َ‬
‫ص لَّى اهللُ َعلَْي ه َو َس لَّم‪« :‬أَنْ َ َّ‬ ‫اس تَ َد َّل َب ْع ُ‬
‫ضأ ْ‬ ‫َو ْ‬
‫ان‪( .‬األسماء والصفات للبيهقي ج‪ ۲‬ص‪)۲۸۷‬‬ ‫ك َشيء "‪ .‬وإِذَا لَم ي ُكن َفوقَهُ َشيء واَل ُدونَهُ َشيء لَم ي ُكن ِفي م َك ٍ‬
‫ٌْ ْ َ ْ َ‬ ‫ٌْ َ‬ ‫ُدونَ َ ْ ٌ َ ْ َ ْ ْ‬
‫”ہمارے بعض اصحاب ہللا کو مکان سے پاک ثابت کرنے کیلئے نبیﷺ‪ ‬کی حدیث پیش ک رتے ہیں کہ‬
‫تو (ہللا) الظاہر مطلب کوئی چیز اسکے اوپر نہیں الباطن یعنی کوئی چیز اس کے نیچے نہیں اسلئے ہللا کے اوپ ر کچھ‬
‫نہیں اور اسکے نیچے کچھ نہیں تو ہللا مکان سے پاک ہے“‬
‫فائدہ‪ :‬اس سےمعلوم ہو گیا کہ ہللا کی ذات موجود بالمکان ‪ ،‬المحدود ‪    ‬اور نہ ختم ہونے والی ہےجس سے نہ اس کے‬
‫اوپر‪  ‬کسی‪   ‬اور شے کا تصور کیا جاسکتا ہے نہ اس کے نیچے کسی شے کا تصور کیا جاسکتا ہے کہ کہا ج ائے کہ‬
‫یہاں سے ہللا کی ذات ختم ہو کر یہ چیز شروع ہوتی ہے۔اِس س ے ان لوگ وں کے عقی دے کی بھی نفی ہ و گ ئی ج و یہ‬
‫کہتے ہیں کہ ہللا صرف عرش پر ہے کیونکہ اگر کہا جائے کہ ہللا صرف عرش پر ہے تو پھ ر‪  ‬کہن ا پ ڑے گ ا کہ‪  ‬ہللا‬
‫کے اوپر تو کچھ نہیں لیکن نیچے عرش ہے۔‬

‫سلفیہ کا دعوی کہ ہللا کے اوپر تو کچھ نہیں مگر نیچے ہے۔‬


‫جیسا ان کے عقیدہ سے‪  ‬صریح طور پ ر واض ح ہے کہ ہللا کی ذات کے نیچے ع رش وغ یرہ مخلوق ات کے قائ ل ہیں‬
‫اور اس کے بھی قائل ہیں نیچے کی طرف سے نعوذ باہلل ہللا کی ذات ختم ہوتی ہے پھر عرش وغیرہ ‪  ‬مخلوقات شروع‬
‫ہوتی ہیں۔‬

‫اختالف نمبر (‪)4‬‬


‫ہمارا دعوی‪  ‬ہے کہ ہللا موجود ہے لیکن بال مکان و جگہ‬
‫سفلیہ کا دعوی ہللا بال مکان موجود نہیں بلکہ اسکیلئے ایک ‪  ‬خاص جگہ‪ /‬مکان عرش ہے اور اسکے سوا وہ کہیں‬
‫نہیں۔‬

‫اختالف نمبر (‪)5‬‬


‫ٰ‬
‫دعوی ہللا آسمان میں‪  ‬بھی ہے اور ہم جہمیہ کی طرح نہیں کہتے کہ آسمان میں کچھ نہیں‬ ‫ہمارا‬

‫سلفیہ آسمانوں کو ایسے ہی خالی مانتے ہیں جیسے جہمیہ‬


‫سلفی چاہے اسکی کوئی بھی تاویل کرلیں لیکن حق بات یہی ہے کہ وہ آسمانوں کو ایسے ہی خ الی م انتے ہیں جیس ے‬
‫جہمیہ مانتے ہیں۔‬

‫‪8‬‬
‫س ِفي‬ ‫ْج ْه ِميَّةَ َف َق َ ِ‬
‫ال إنَّ َم ا يُ َح ا ِولُو َن أَ ْن ل َْي َ‬
‫ٍ‬
‫اد بْ َن َزيْ د َوذَ َك َر ال َ‬ ‫ال َس ِم ْع ُ‬
‫ت َح َّم َ‬ ‫َح َّد َثنَا َع ْب د اللَّ ِه َح َّد َثنَا َعلِ ُّي بْ ُن ُم ْس لِ ٍم قَ َ‬
‫ال َثنَ ا ُس لَْي َما ُن بْ ُن َح ْر ٍ‬
‫ب قَ َ‬
‫الس َم ِاء َش ْيءٌ (مسند اإلمام أحمد بن حنبل(ج‪/۴۵‬ص‪:)۵۶۷‬صحیح)‬ ‫َّ‬
‫(محدث و فقیہ) نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ ل وگ‬ ‫زیدؒ‬ ‫”سلیمان ؒ فرماتے ہیں حماد بن‬
‫آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان میں کچھ نہیں ہے“‬

‫اختالف نمبر (‪)6‬‬


‫ہمارا دعوی ہے کہ ہللا تمام جھات اور حدود سے پاک ہے۔‬
‫طحاوی اپنی کتاب عقی دہ طح اویہ میں تم ام اہلس نت والجم اعت کے عقائ د اور تین مجتہ دین جن میں س ے مجتہ د‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫یبانی ‪   ‬ہیں انکے‬
‫ؒ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫الحس‬ ‫بن‬ ‫د‬ ‫محم‬ ‫ام‬ ‫ام‬ ‫ذہب‬ ‫الم‬ ‫فی‬ ‫د‬ ‫مجتہ‬ ‫‪،‬‬ ‫ؒ‬
‫ف‬ ‫یوس‬ ‫و‬ ‫اب‬ ‫امام‬ ‫المذہب‬ ‫فی‬ ‫مجتہد‬ ‫‪،‬‬ ‫حنیفہ‬
‫ؒ‬ ‫ابو‬ ‫امام‬ ‫مطلق‬
‫الكوفي‪ ،‬وأبي‬ ‫ثابت‬ ‫ِ‬
‫النعمان اب ِن ٍ‬ ‫ة‬
‫َ‬ ‫حنيف‬ ‫أبي‬ ‫‪:‬‬ ‫المل ِ‬
‫ّة‬ ‫مذهب فُ ِ‬
‫قهاء ِ‬ ‫ِ‬ ‫على‬ ‫ِ‬
‫والجماعة‬ ‫أهل الس نّ ِ‬
‫ة‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫عقيدة‬ ‫عقائد نقل کرتے ہیں۔ هذا ِذكر ِ‬
‫بيان‬
‫ّ‬ ‫ُ‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫أجمعين‪ ،‬وما يعتقدو َن من أصول الدين‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫باني‪ ،‬رضوا ُن اهلل عليهم‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫يعقوب ب ِن‬
‫َ‬ ‫الشي ّ‬
‫األنصاري‪ ،‬وأبي عبد اهلل محمد ابن الحسن ْ‬ ‫ّ‬ ‫إبراهيم‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫يوسف‬
‫َ‬
‫لرب العالمين(متن عقیدہ طحاویہ ص ‪)7‬‬ ‫ِ‬
‫ويَدينون به ِّ‬
‫النعمان ابن ثابت الكوفي‪،‬اورأبي يوسف يعق وب‬ ‫ِ‬ ‫یعنی یہ بیان هے أهل السنّة والجماعة کے عقیده کا فقهاء الملة أبي حنيفةَ‬
‫بن إبراهيم األنصاريّ‪،‬اور أبي عبد هللا محمد ابن الحسن الشيْبان ّي‪ِ ،‬رضوانُ هللاِ عليهم أجمعينَ ‪،‬کے مذهب کے مط ابق اور‬
‫الدين میں اورهللا ربُ العالمين کے بارے جوعقائد وه رکهتے هیں اس کا ذکروبیان هے۔‬ ‫ِ‬ ‫أصول‬
‫پھر اسی کتاب میں اگے فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ِ‬
‫ات الس ت كس ائر المبت دعات (متن عقیدہ طحاویہ ص‬ ‫ُّ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ان واألعض اء واألدوات‪ ،‬ال تحوي ه الجه ُ‬ ‫ات واألرك ِ‬ ‫‪ ‬وتع الى عن الح ِ‬
‫دود والغاي ِ‬
‫‪)15‬‬
‫”ہللا عزوجل حدود و قیود اور جسمانی رکان و اعض ا و آالت س ے پ اک ہے اور جھ ات س تہ (اوپ ر نیچے دائیں ب ائیں‬
‫اگے پیچھے) سے پاک ہے“۔‬

‫جبکہ سلفیہ کا دعوی ہے‪  ‬کہ نہیں ہللا تمام جھات اور حدود سے پاک نہیں۔‬
‫جیسا ان کے عقیدے واضح ہے اور اگر ان کے عقیدے سے ہللا کیل ئے ح دود جھت ث ابت نہیں ہ وتی ت و اور پھ ر کس‬
‫طرح سے‪  ‬ہوتی ہے؟‬

‫اختالف نمبر (‪)7‬‬


‫ہمارا دعوی ہے کہ ہللا کی ذات اور مخلوق کے درمیان کوئی مسافت (فاصلہ) نہیں۔‬
‫حنیفہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫مجتہد مطلق حضرت امام اعظم ابو‬
‫"واهلل تعالى يُرى في اآلخرة‪ ،‬ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بال تشبيه وال كميّة‪ ،‬وال يكون بينه وبين خلقه مسافة"‬
‫اہللا تعالي کو آخرت ميں ديکھا جائے گا اور مومنين اس کو اپني آنکھوں سے ديکھيں گے جبکہ وہ جنت ميں ہ ونگے‪،‬‬
‫بنا کسي تشبيہ اور کميت کے اور ہللا اور اس کے مخلوق کے مابين کوئي مسافت (فاصلہ) بھي نہيں ہوگي ) ش رح فق ه‬
‫قاري ص ‪(137-136‬‬ ‫ؒ‬ ‫الكبر مال علي‬

‫سلفیہ کا دعوی ہے کہ ہللا اور مخلوق کے درمیان مسافت ہے۔‬


‫جیسا کہ ان کے عقیدہ سے واضح ہے کہ ہللا اور مخلوق کے درمیان ب ڑی مس افت(فاص لہ) ہے ہللا کی ذات دور اپ نے‬
‫عرش پر ہے وہ بھی بعض کے نزدیک عرش کی سطح سے بھی اوپر ہے۔‬

‫اختالف نمبر (‪)8‬‬


‫نہیں ہوا بلکہ وہ پہلے بھی تھا۔‬ ‫ٰ‬
‫استوی علی العرش کے بعد ہی ہللا عرش پر ت‬ ‫ہمارا دعوی ہے کہ‬
‫ٰ‬
‫استوی علی العرش کے بعد ہی ہللا عرش پر مس وی ہوا۔‬ ‫سلفیہ کا دعوی ہے‬
‫استوی علی العرش والی آیت کو بطور دلی ل پیش ک رتے ہیں کہ‬ ‫ٰ‬ ‫جیسا ان کے عقیدے اور دالئل سے واضح ہوتا ہے وہ‬
‫ٰ‬
‫استوی تو بعد میں ہے ہللا تو پہلے بھی وہاں تھا۔‪  ‬یا ان کا عقی دہ غل ط ہے ی ا یہ‬ ‫یہ دلیل ہے کہ ہللا عرش پر ہے۔‪  ‬جبکہ‬
‫دلیل ان کے عقیدے کے مطابق نہیں۔‬

‫اختالف نمبر‪)9( ‬‬
‫ہمارا دعوی ہے کہ ہللا کا آسمان دنیا پر نزول بال کیف ہے حرکت کے ساتھ نہیں‬

‫‪9‬‬
‫ہللا ٰ‬
‫تعالی رات کے وقت آسمان دنیا پ ر ن زول فرم اتے ہیں جیس ا کہ ح دیث میں آی ا ہے۔ اور دنی ا میں ہ ر وقت کہیں نہ‬
‫کہیں رات ہوتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ ہللا کا آسمان دنیا پر نزول یوں ‪  ‬ہے کہ ہللا عرش سے اتر کر آسمان پر آگیا تو‬
‫اس کا مطلب ہو گا کہ ہللا ہر وقت آسمان پر ہی ہے یا یہ کہا جائے کہ ہللا عرش پر بھی ہو تا ہے اور وہاں س ے نیچے‬
‫آسمان پربھی آتا تو یہ کہنا پڑھے گا کہ ہللا بیک وقت عرش اور آسمان‪  ‬پر ہوتا ہے یہ دونوں ب اتیں س لفیہ کے عقی دے‬
‫سے الزم آتی ہے جبکہ ہمارا دعوی ہے کہ‪  ‬ہللا کا نزول بال‪  ‬کسی کیفیت کے ہے۔‬

‫سلفیہ کا دعوی‪  ‬ہے نہیں بال کیف نہیں بلکہ پہلے آسمان خالی ہوتے ہیں پھر ہللا کی ذات حرکت ک رکے ع رش س ے‬
‫آسمان پر آجاتی ہے۔‬
‫جیسا کہ ان کے عقیدہ سے واضح ہے‬
‫شیخ محمد بن عثیمین لکھتے ہیں۔‬
‫الحرکة هلل تعالي فالحرکة له حق )الجواب المختار ص ‪( 22‬ہللا حرکت کرتا ہے یہ حق ہے۔‬

‫مالکی (وفات‪ 463‬ھ ) فرماتے ہیں‬ ‫ؒ‬ ‫عالمہ ابن عبد البر‬
‫وقد قالت فرقة منتسبة الي السنة انه تعالي ينزل بذاته‪  ‬وهذا قول مهجور ألنه تعالي ذكره ليس بمحل للحركات وال فيه شئ من‪  ‬عالمات‬
‫المخلوقات )االستذکار ج ‪ 8‬ص ‪(153‬‬
‫فرقہ منتسبہ یہ کہتا ہے کہ ہللا کا نزول ذات کے ساتھ ہے اور ان کا یہ قول الوارث ہے۔۔۔۔ اور حرکت کرنا مخلوق کی‬
‫عالمات میں سے ہے۔‬

‫اختالف نمبر (‪)10‬‬


‫ہمارا دعوی ہے کہ‪  ‬ہللا کے عالوہ کسی اور ذات کو حاضر ناظر سمجھنا ہللا کی ذات کے ساتھ شرک ہے‬
‫‪ ‬حاضر ناظر ہونے کا مطلب‬
‫”موجود اور دیکھنے واال جب ان دونوں کو مال کر استعمال کیا جاتا ہے تو اس سے مراد ہوتی ہے ‪  ‬وہ شخصیت جس‬
‫کا وجود کسی خاص جگہ میں نہیں بلکہ اس کا وجود بیک وقت ساری کائنات کو محیط ہے اور کائنات کی ایک ای ک‬
‫چیز کے تمام حاالت اول سے آخر تک اس کی نظر میں ہیں حاضر ناظر ہونے کا یہ مفہوم ہللا کی ذات پاک پر صادق‬
‫آتا ہے اور یہ صرف اسی کی شان ہے“۔ (اختالف امت اور صراط مستقیم ص ‪ 37‬یوسف لدھیانوی شہیدؒ (‬

‫جبکہ سلفیہ کے نزدیک کسی بھی ذات کو حاضر ناظر ماننا شرک نہیں ہوسکتا۔‬
‫کیونکہ شرک ہو تو کس کے ساتھ ہو ہللا تو حاضر و ناظر نہیں۔‬
‫اسلئے اب کوئی نبی کو یا ولی کو یا کسی بھی اور مخلوق کو ہر جگہ حاضر و ناظر مانتا ہو تو یہ‪  ‬گناہ‪  ‬اور جھ الت‪ ‬‬
‫تو ہو سکتا ہے مگر شرک نہیں ہو سکتا۔‬
‫ن‬ ‫خ‬
‫ن‬ ‫من‬ ‫ف‬ ‫‪11‬‬ ‫الف‬ ‫ات‬
‫ن‬
‫ے ‪ ‬۔‬ ‫ے اور ع ی مراد کو ہللا کے سپ رد کر ا ہ‬ ‫تای مان رکھ ا ہ‬ ‫ے کہ صوص ص ؒ فات ‪ ‬پر‬ ‫ہ مارا دعوی ہ‬
‫محدث امام ج الل الدی ن سی وطی رماے ہ ی ں‪:‬‬
‫اها ال ُْم َر ِاد ِم ْن َها إِلَى اللَّ ِه َت َعالَى َواَل ُن َف ِّ‬
‫س ُر َها َم َع َت ْن ِزي ِهنَ ا لَهُ َع ْن‬ ‫يض َم ْعنَ َ‬ ‫يث َعلَى اإْلِ يم ِ‬
‫ان بِ َها َوَت ْف ِو ِ‬ ‫َ‬
‫ف وأ َْهل الْح ِد ِ‬
‫السلَ ُ َ ُ َ‬ ‫السن َِّة ِم ْن ُه ُم َّ‬
‫ور أ َْه ِل ُّ‬
‫َو ُج ْم ُه ُ‬
‫ن‬ ‫َح ِقي َقتِ َها‪.‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ت‬
‫ے سا ھ قاس‬ ‫ات پر) ای م نان رکھ ا ہ‬ ‫ظ‬ ‫ب ( صوص ص‬ ‫ان کا مذہ ت‬ ‫ئحد ی ن) ا ل ہ ی ت فں ن‬ ‫رج مہ ‪ :‬مہور اہ ل س نت ج ن می ں سلف اور اہ لحدی ث (م‬
‫کے کہ ان کے مع ی مراد کو ہللا کی طرف سپ رد کر دی ا ج اے اور ہ م ان کی سی ر ہی ں کرے ج ب کہ ان کے اہ ری مع ی سے ہللا کو پ اک رار‬ ‫ت‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے ہ یف قں۔س ف‬ ‫دی‬
‫ع ہ نض‬ ‫من‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ک‬ ‫ف‬ ‫ل‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫روری‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫لوم‬ ‫م‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫مراد‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫ات‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫‪ ‬‬ ‫ات‬ ‫ص‬ ‫ے‬ ‫سف یل‬‫‪ ‬‬ ‫ے‬ ‫ال‬ ‫ان‬ ‫م‬ ‫ا‬
‫ئی‬‫ر‬ ‫پ‬ ‫ات‬ ‫ت‬ ‫ص‬ ‫صوص‬ ‫کہ‬
‫ہ ت‬
‫‪ ‬‬ ‫ے‬ ‫دعوی‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫‪ ‬‬ ‫کہ‬ ‫جب‬
‫ے‪ :‬هذا النص اوال صريح في التفويض المبدع المتقول علي‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫امام ی وطی ؒ کی اس ع ب ارت پر ب صرہ کرے وے ای ک ی ھت ا ہ‬
‫السلف من جانب اهل الجهل والتجهيل والتعطيل وهم المبتدعة الخلف‬
‫للقعيدة السلفية قوله ‪ 28‬ن)‬ ‫الجهمية (عداء الماتریدية‬
‫صارخ بالتعطيل صراخ‪  ‬ثكالي ٹ‬ ‫حقيقتها ‪،‬‬ ‫وثانياً قوله ‪ :‬مع تنزيھنا لهو عن‬
‫ن‬ ‫تف‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ے ( عوذ ب اللہ) کہ‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫س‬
‫ے و کہ ھوے طور پر لف کی طرف سوب ک ی ا گ ی ا‬ ‫ج‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ے و اس وی ض می خں صری ت ح‬ ‫رج مہ‪ :‬می تں کہہت ا ہ وں ی ہ ع ب ارے پ ل‬
‫ہ‬
‫ارت کہ ہ م ان کے‬ ‫عط‬
‫ل جق ی ل ناور اہ ل ی ل کی قطرف تسے ج و کہضمت ا ری ن ب دع ی ہفی ں دوسرا ی ہ کہ امام سی وطی ت‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ہللا) کی ی ہ ع ب ب‬‫(رحمہ ف‬ ‫ے ہ ں وا ح طور ر عط‬ ‫ظاہ ل ج ح‬
‫ے ان ج ہمی عور وں کی ری اد کی طرح ج و چ وں سے محروم‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫اد‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ی ی‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫اک‬ ‫پ‬ ‫‪ ‬‬ ‫کو‬ ‫ہللا‬ ‫سے‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫اہ ئری‬
‫ہ و گ ی ہ وں۔ (والع ی اذ ب اللہ)‬

‫اختالف نمبر (‪)21‬‬

‫‪10‬‬
‫تمام اہلسنت والجماعت کا اجماعی مسئلہ ہے کہ تین طالق تین ہی ہے۔‬
‫جبکہ سلفیہ کے نزدیک تین طالق ایک ہے۔‬
‫اس میں وہ تمام امت کو چھوڑ کر ابن قیم اور ابن تیمیہ کی پیروی کرتے ہیں جنہوں نے خود اس غیر اجتہ ادی مس ئلہ‬
‫میں اجتہاد کو دخل دیا۔‬

‫اختالف نمبر (‪)31‬‬


‫اہلسنت والجماعت کے نزدیک تراویح ‪ 20‬رکعت ہیں‬
‫اور یہی ‪ 1400‬سال سے حرم اور مسجد نبوی ﷺ میں پ ڑھی ج ا رہی ہیں اور اہلس نت اس ی کے قائ ل‬
‫ہیں۔ جبکہ نام نہاد سلفیہ کا موقف ہے کہ تراویح ‪ 20‬نہیں بلکہ ‪ 8‬رکعت ہی ہے‬
‫سلفیہ کے شیخ البانی صاحب نے اسے بدعت ضاللۃ قرار دیا ہے اور ع رب میں موج ود ان کے مقل دین ‪ 8‬رکعت کے‬
‫ہی قائل‪  ‬ہیں۔‬
‫خ‬ ‫ف ق ف‬ ‫قئ‬
‫ع ا د می ں ر ہ سل ی ہ کا ا ت الف حق پر کون ؟‬
‫فرقہ سلفیہ کے ایک مولوی صاحب ابن عثیمین اشاعرہ اور ماتریدیہ کو اہلسنت سے خارج ق رار دی تے ہ وئے لکھ تے‬
‫ہیں‪":‬نق ول كي ف يك ون الجمي ع اه ل س نة وهم مختلف ون ؟ فم اذا بع د الح ق اال الض الل وكي ف يكون ون اه ل س نة وك ل واح د ي رد علي‬
‫االخر؟ هذا ال يمكن اال اذا امكن الجمع بين الضدين"‬
‫ترجمہ‪ :‬ہم کہتے ہیں کہ یہ سب (اشعری ‪ ،‬ماتریدی ‪ ،‬س لفی) اہلس نت میں س ے کیس ے ہ و س کتے ہیں ح االنکہ ان میں‬
‫اختالفف ہیں اور حق کے سوا ج و کچھ ہے وہ گم راہی ہے اور یہ تین وں اہلس نت کیس ے ہ و س کتے ہیں جبکہ ان میں‬
‫سے ہر ایک دوسرے پر اعتراض کرتا ہے غرض ان تینوں کا اہل سنت میں سے ہونا اس ی وقت ممکن ہے جب ایس ی‬
‫دو باتوں کو جمع کیا جاسکے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔(شرح عقیدہ وسطیہ ص ‪)22‬‬

‫جبکہ یہ بات قطعا درست نہیں اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں کوئی‪ ‬اختالف نہیں ہے ‪،‬چند ف روعی مس ائل‬
‫میں اختالف ہے جوکہ مضرنہیں ہے یہ ایسا اختالف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ هونے سے‬
‫نکل جائے ‪،‬لہذا اإلمام األشعري اوراإلمام الماتريدي کے مابین بعض جزئی اجتهادی مسائل میں خالف ہے ‪ ،‬اور علماء‬
‫امت نے ان مسائل کوبھی جمع کیا ہے ‪،‬اإلمام تاج الدين السبكي رحمه هللا نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل‬
‫تیره مسائل هیں ‪ ،‬‬
‫تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خالف فيها ثالث عشرة مسائل منها‬
‫معن وي س ت مس ائل والب اقي لفظي وتل ك الس ت المعنوي ة ال تقتض ي مخ الفتهم لن ا وال مخالفتن ا لهم تكف يراً وال تب ديعاً‪ ،‬ص ّرح ب ذلك أب و‬
‫منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم‪ ) ‬طبقات الشافعية ج ‪ 3‬ص ‪( 38‬‬
‫امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے هیں کہ میں نے احناف کی کت ابوں ک ا بغ ور مط العہ کی ا ت ومیں نے ص رف ت یره‬
‫مسائل کوپایا جن میں همارا اختالف ہے اور ان میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرک ا ) اختالف ہے اور ب اقی‬
‫(سات ) مسائل میں محض لفظی اختالف ہے ‪ ،‬اور پھر ان چھ مسائل میں معنوی ( تعبیرکا ) اختالف کا مطلب هرگزیہ‬
‫نہیں ہے کہ اس کی وجہ س ے هم ای ک دوس رے کی تکف یر اور تب دیع ( ب دعت ک ا حکم ) ک ریں ‪ ،‬اس تاذ أب و منص ور‬
‫البغدادي وغيره نے همارے ائمہ میں اور اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے‪ ‬۔‪ ‬‬

‫اس کے برعکس فرقہ‪  ‬سلفیہ‪  ‬میں‪  ‬ان کی‪   ‬غیر اجتہادی مس ائل میں خ ؤد اجتہ ادی‪  ‬اور الم ذہبیت کی ب دولت‪   ‬عقائ د‬
‫میں‪  ‬سخت اختالف موجود ہے۔ اب‪  ‬المذہبی اسے پڑھیں اور بتائیں کہ ان میں سے کس کا مسئلہ ٹھی ک ہے اور ک ون‬
‫حق پر ہے اور کون گمراہی پر۔‬

‫عقیدہ نمبر‪ :1‬فناء نار کا مسئلہ؟‬


‫ابن تیمیہ فناء نار کے قائل ہیں یعنی جہنم ٓاخرکار ختم ہوجائے گی اوراس ک و وہ رحمت الہی ک ا تقاض امانتے ہیں ۔اس‬
‫کی ص راحت حاف ظ ابن قیم نے ح ادی االرواح فی بالداالف راح (‪)228-2/168‬میں پ وری تفص یل کے س اتھ کی ہے‬
‫اوربات یہیں تک ختم نہیں ہوتی ۔اس پر مش ہور اص ولی اورفقیہہ محم دبن اس ماعیل االمیرالص نعانی نے ابن تیمیہ کی‬
‫تردیدمیں ایک کتاب لکھی ۔جس کا نام رکھا ہے"رفع األستار إلبطال أدلة القائلين بفناء النار"‬
‫اس کتاب پر مقدمہ مشہور سلفی یاغیرمقلد عالم ناصرالدین البانی نے لکھاہے اس میں وہ لکھتے ہیں۔‬

‫‪11‬‬
‫فأخذت في البطاقات نظرا وتقليبا ‪ ،‬عما قد يكون فيها من الكنوز بحثا وتفتيشا ‪ ،‬حتىوقعت عيني على رسالة لألمام الصنعاني ‪ ،‬تحت اسم‬
‫(رفع األستار البطال أدلة القائلينبفناء النار) ‪ .‬في مجموع رقم الرسالة فيه ( ‪ ، )2619‬فطلبته ‪ ،‬فإذا فيه عدة رسائل ‪،‬هذه الثالثة منها ‪.‬‬
‫فدرستها دراسة دقيقة واعية ‪ ،‬الن مؤلفها اإلمام الصنعاني رحمهاهلل تعالى رد فيها على شيخ اإلسالم ابن تيمية وتلميذه ابن القيم ميلهم ا الى‬
‫القولبفناء النار ‪ ،‬بأسلوب علمي رصين دقيق ‪( ،‬من غير عصبية مذهبية ‪ .‬وال متابعة اشعريةوال معتزلية) كما قال هو نفسه رحمه اهلل تعالى‬
‫في آخرها ‪ .‬وقد كنت تعرضت لرد قولهماهذا منذ اكثر من عشرين سنة بإيجاز في (سلسلة األحاديث الضعيفة) في المجلد الثانيمنه (ص‬
‫‪ )75 - 71‬بمناسبة تخريجي فيه بعض األحاديث المرفوعة ‪ ،‬واآلثار الموقوفة التياحتجا ببعضها على ما ذهبا إليه من القول بفناء النار ‪،‬‬
‫وبينت هناك وهاءها وضعفها ‪،‬وان البن القيم قوال آخر ‪ ،‬وهو أن النار ال تفنى أبدا ‪ ،‬وان البن بيمية قاعدة فيالرد على من قال بفناء الجنة‬
‫والنار‪ .‬وكنت توهمت يومئذ انه يلتقي فيها مع ابنالقيم في قوله األخر ‪ ،‬فإذا بالمؤلف الصنعاني يبين بما نقله عن ابن القيم ‪ ،‬ان الردالمشار‬
‫إليه ‪ ،‬انما يعني الرد على من قال بفناء الجنة فقط من الجهمية دون من قالبفناء النار ! وانه هو نفسه ‪ -‬اعني ابن تيمية ‪ -‬يقول ‪ :‬بفنائها ‪،‬‬
‫وليس هذا فقط بلوان أهلها يدخلون بعد ذلك جنات تجري من تحتها األنهار‪ ! ‬وذلك واضح كل الوضوح فيالفصول الثالثة التي عقدها‬
‫ابن القيم له ذه المس الة الخط يرة في كتاب ه (ح ادي األرواح إلى بالد األف راح) (‪ ، )228 - 167 / 2‬وق د حش د فيه ا (من خي ل األدل ة‬
‫ورجلها ‪ ،‬وكثيرهاوقلها ‪ ،‬ودقها وجلها ‪ ،‬واجري فيها قلمه ‪ ،‬ونشر فيها علمه واتى بكل ما قدر عليه منقال وقيل ‪ ،‬واستنفر كل قبيل‬
‫وجي ل) كم ا ق ال المؤل ف رحم ه اهلل ‪ ،‬ولكن ه أض فى بهذاالوص ف على ابن تيمي ة ‪ ،‬وابن القيم أولي ب ه وأح رى ألنن ا من طريق ه عرفن ا راي‬
‫ابنتيمية ‪ ،‬في هذه المسالة ‪ ،‬وبعض أقواله فيها ‪ ،‬وأما حشد األدلة المزعومة وتكثيرها ‪،‬فهي من ابن القيم وصياغته ‪ ،‬وان كان ذلك ال ينفي‬
‫انه تلقى ذلك كله أو جله من شيخه(رفع األستار إلبطال أدلة القائلين بفناء النارص‪)۳ ‬‬
‫البانی صاحب نے اس پورے پیراگراف میں جوکچھ کہاہے اس کاخالصہ یہ ہے کہ امیر محم د بن اس ماعیل الص نعانی‬
‫نے ابن تیمیہ اورابن قیم کے رد میں یہ کتاب لکھی ہے اوراس کت اب میں ان دون وں پ ر علمی تنقی د کی گ ئی ہےاوریہ‬
‫کہ ابن تیمیہ کاقول صرف اس قدر نہیں ہے کہ جہنم فناہوجائے گی بلکہ اس کے بعد اس میں اتناضافہ بھی ہے کہ اس‬
‫کے بعد ان کو یعنی جہنمیوں کو جنت میں میں داخل کیاجائے گا۔‬
‫ابن تیمیہ کے تمام دالئل چاہے وہ قوی ہویاکمزور‪،‬چھوٹے ہوں یابڑے‪،‬تھوڑاہویازی ادہ یع نی دلی ل کے ن ام پ ر ج وکچھ‬
‫بھی انہیں مل سکتاتھا۔اس کو ابن قیم نے اپنی کتاب حادی االرواح الی بالد االفراح میں نقل کردیاہے۔‬
‫ابن تیمیہ اورابن قیم کے درمیان فناء نار کے سلسلے میں تھوڑااختالف ضرور ہے لیکن ہمیں سردس ت ابن تیمیہ س ے‬
‫بحث ہے۔‬
‫امیر محمد بن اسماعیل الصنعانی لکھتے ہیں۔‬
‫اعلم أن ه ذه المس ألة اش ار إليه ا اإلم ام ال رازي في مف اتيح الغيب ولم يتكلم عليه ا ب دليل نفي وال إثب ات وال نس بها إلى قائ ل معين ولكن ه‬
‫استوفى المقال فيها العالمة ابن القيم في كتابه حادي األرواح إلى ديار األفراح نقال عن شيخه العالمة شيخ اإلسالم أبي العباس ابن تيمية‬
‫فإنه حامل لوائها ومشيد بنائها وحاشد خيل األدلة منها ورجلها ودقها وجلها وكثيرها وقليلها وأقر كالمه تلميذه ابن القيم (رفع األستار‬
‫إلبطال أدلة القائلين بفناء النارمقدمہ امیرالصنعانی)‬
‫جان لو کہ اس مسئلہ کی جانب امام رازی نے اپ نی تفس یر مف اتیح الغیب میں اش ارہ کی اہے لیکن اس پ ر کس ی قس م ک ا‬
‫ک وئی کالم نہیں کی ااورنہ ہی اس ق ول ک و اس کے‪ ‬قائ ل کی ج انب منس وب کی ا۔لیکن اس ب ارے میں س ب س ے زی ادہ‬
‫تفصیلی بحث ابن قیم نے اپنی کتاب حادی االرواح الی دیاراالفراح میں اپنے ش یخ ابن تیمیہ کے فرم ودات کی روش نی‬
‫میں کیاہے۔اس لئے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ ہی سرخیل اورسرفہرست اوراس کے دالئل وبراہین ذک ر ک رنے والے‬
‫ہیں اورابن تیمیہ کے کالم کا ابن قیم نے اثبات کیاہے۔‬
‫ایک صاحب جن کا نام عبدالکریم صالح الحمید ہے اس نے ایک کتاب لکھی ہے ''الق ول المخت ار لبی ان فن اء الن ار''جس‬
‫میں البانی پرتنقید کیاہے اورابن تیمیہ کے مسلک کہ جہنم فن اء ہوج ائے گی اس ی کی تائی د کی ہے چن انچہ یہ ص احب‬
‫البانی پر تنقید کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔‬
‫''اس کتاب کے لکھنے کا ب اعث یہ ہ وا کہ ہم نے دیکھ اکہ بعض ل وگ کہ تے ہیں کہ ابن قیم کی کت اب میں کچھ ایس ی‬
‫چیزیں ہیں جن کی اصالح کی ضرورت ہے پھر ہم نے کتاب رفع االستار دیکھی اوروجہ کا پتہ چ ل گی ا۔یہ کت اب ج و‬
‫االلبانی کی تحقیق کے ساتھ شائع ہوئی ہے۔اس میں البانی نے ابن تیمیہ اورابن قیم پر سخت کالم کی اہے اورکہ اہے کہ‬
‫انہوں نے اپنے اس مسلک کیلئے آیات واحادیث میں خواہ مخواہ تکلف اورتاویل سے کام لیا بلکہ الب انی نے یہ اں ت ک‬
‫کہاکہ جن چیزوں میں عقل کو کوئی دخ ل نہیں ہے اس میں بھی انہ وں نے عق ل کی دخ ل ان دازی س ے ک ام لی نے کی‬
‫کوشش کی جیساکہ معتزلہ کرتے ہیں الب انی نے اس ی پ ر بس نہیں کی ابلکہ یہ ت ک کہ اکہ مع تزلہ اوراش اعرہ نے جن‬
‫صفات کی تاویل کی ہے وہ بہتر ہے کہ بہ نسبت اس کے کہ اس مسئلہ میں ابن تیمیہ جن آیات واحادیث میں تاوی ل کی‬
‫ہے(القول المختار لبیان فناء النار صفحہ (‪)14-13‬‬

‫‪12‬‬
‫اس مسئلہ پر ایک اورصاحب نے کتاب لکھی ہے جس کا نام ہے''کشف االستار البط ال ادع اء فن ار الن ار''اور اس میں‬
‫کوش ش کی ہے کہ کس ی ط رح یہ ث ابت کردیاج ائے کہ فن اء ن ار کے ابن تیمیہ قائ ل نہیں ہیں۔ لیکن یہ کوش ش س عی‬
‫الحاصل ہے اورغیرمقلدین کی پرانی عادت ہے کہ جہ اں کہیں وہ کس ی ایس ی ب ات ی اکوئی ایس ی کت اب دیکھ تے ہیں‬
‫جوان کے مزعومات کے خالف ہو تو ف وراًاس ک ا انک ار کردی تے ہیں بغ یر یہ دیکھے ہ وئے کہ علمی اص ول تحقی ق‬
‫کیاکہتاہے۔ یہی کرتب بازی انہوں نے زغل العلم میں بھی دکھائی ہے اورچونکہ حاف ظ ذہ بی نے اس میں ابن تیمیہ پ ر‬
‫سخت تنقید کی ہے لہذا ان کی پوری کوش ش ہ وتی ہے کہ حاف ظ ذہ بی کی تص نفیات کی فہرس ت س ے یہ کت اب نک ال‬
‫دیاجائے اوراسے مشکوک ثابت کیاجائے ۔‬

‫حضرت‪ ‬ابن تیمیہ اورابن قیم کے ا س موقف پر کہ جہنم بآالخر فناہوجائے گی پ ر ان کے ای ک معاص ر مش ہور فقیہہ‬
‫اورمحدث تقی الدین سبکی نے بھی رد کیاہے ان کی کتاب کا نام ہے۔"االعتب ار ببق اء الجنۃ والن ار"جس میں انہ وں نے‬
‫ان حضرات پر تردید کی ہے جو کہ جہنم کے فناہوجانے کے قائل ہیں۔‬

‫ابن تیمیہ ابن قیم کا موقف‬


‫حضرت ابن تیمیہ کی ایک تصنیف "الردعلی من قال بفناء الجنۃ والنار"کے ن ام س ے ہے۔اس میں انہ وں نے جہنم کے‬
‫فناء ہونے پر دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ ایک دودلیل کو ٓاپ بھی دیکھیں اورپرکھیں۔‬
‫حضرت ابن تیمیہ سب سے پہلے کہتے ہیں کہ جہنم کے فناء ہونے کا ق ول ایس اہے کہ اس ب ارے مین س لف اورخل ف‬
‫میں دوٓاراء رہی ہیں۔‬

‫واماالقول بفناء النار ففیها قوالن معروفان عن السلف والخلف ‪،‬والنزاع فی ذلک معروف عن التابعین ومن بعدھم ۔(مقدمہ رفع االستار‬
‫ص‪)9‬‬
‫فناء نار کے بارے میں سلف اورخلف میں دوق ول رہے ہیں اوراس ب ارے میں ت ابعین اوران کے بع د کے لوگ وں میں‬
‫نزاع رہاہے۔‬

‫والراب ع ‪ :‬ان الن ار قیدها بقولھا (الب ثین فيها احقاب ا)وقول ه (خال دین فيه ا االماش اء اهلل)وقول ه (خال دین فيه ا م ادامت الس ماوات واالرض‬
‫االماشاء ربک ) فهاذة ثالث ٓایات تقتضی قضیۃ موقتۃ اومعلقة علی شرط‪،‬وذاک دائم مطلق لیس بموقت والمعلق۔‬
‫چوتھی دلیل یہ ہے کہ قرٓان کریم میں نار ک و م ذکورہ تین ٓایت وں س ے مقی د کیاگی اہے۔ یہ تین وں ٓای تیں ن ار کے م وقت‬
‫اورشرط پر معلق ہونے ک ا تقاض اکرتی ہیں اورجس کی ص فت دوام اورمطل ق کی ہ وتی ہے وہ م وقت اورمعل ق نہیں‬
‫ہوتی ہے۔‬

‫السادس‪:‬ان الجنة من مقتضی رحمتہ ومغفرته والنار من عذابه‪ ،‬وقد قال‪( :‬نبیء عبادی انی اناالغفور الرحیم وان عذابی ھوالعذاب االلیم)‬
‫تعالی تعالی(ان ربک لسریع العقاب وانہ لغفورالرحیم۔ )‬
‫تعالی اعلموا ان اهلل شدید العقاب وان اهلل غفور رحیم)وقال ٰ‬
‫وقال ٰ‬
‫فالنعیم من موجب اسمائه التی هي من لوازم ذاته ‪،‬فیجب دوامه بدوامعانی اسمائه وصفاته واماالعذاب فانما ھو من مخلوقاته والمخلوق‬
‫قد یکون له انتهاء مثل الدنیا وغیرھا ‪،‬السیما مخلوق خلق لحکمۃ یتعلق بغیرہ۔‬
‫چھٹی دلیل یہ ہے کہ جنت ہللا کی رحمت اورمغفرت کے تقاضوں میں سے ہے اورجہنم اس کے عذاب کومقتضی ہے۔‬
‫وتعالی نے متعدد ٓایتوں مین خبردی ہے۔پس نعمت اس کے ان اس ماء کے موجب ات میں س ے ہے‬ ‫ٰ‬ ‫اوراس کی ہللا تبارک‬
‫جواس کی ذات کو الزم ہے لہذا اس کا دوام اس کے معانی اورصفات کے دوام کے ساتھ ہی متحق ق ہوس کتاہے جہ اں‬
‫تک عذاب کی بات ہے تو وہ اس کی مخلوقات مین سے ہے اورمخلوق کی کبھی انتہ اء بھی ہ وتی ہے جیس ے کہ دنی ا‬
‫اوردیگر چیزیں خاص طورپر وہ مخلوق جسے دوسری حکمت کی وجہ سے پیداکیاگیاہو۔‬

‫الوج ه الس ابع‪ :‬ان ه ق د اخ بر ان رحمت ه وس عت ک ل ش ی وان ه "کتب علی نفس ه الرحم ه"وق ال"س بقت رحم تی غض بی "و"غلبت رحم تی‬
‫غضبی"وھذا عموم واطالق فاذا قدرعذاب الٓاخرله ‪،‬لم یکن ھناک رحمة البتة(مقدمہ رفع االستار ‪)۱۳‬‬
‫وتعالی نے خبر دی ہے کہ اس کی رحمت ہرچیز پر وسیع ہے اوراس نے اپنے اوپر‬ ‫ٰ‬ ‫ساتویں دلیل یہ ہے کہ ہللا تبارک‬
‫رحمت کو الزم کیاہے اورفرمایاہے کہ میری رحمت میرے غضب پر سبقت ل ئے ہ وئے ہے اورم یری رحمت م یرے‬
‫غضب پر غالب ہے اوریہ تمام عموم اوراطالق کےساتھ وارد ہواہے پھراگرکوئی ع ذاب ایس اہو جس کی ک وئی انتہ اء‬
‫نہ ہوتو یہاں رحمت کا قطعی تحقق نہ ہوگا۔‬

‫البانی کا موقف‬

‫‪13‬‬
‫البانی نے ابن تیمیہ پ ر اس مس ئلہ پ ر تنقی د ک رتے ہ وئے رف ع االس تار میں ج وکچھ بھی لکھ اہے وہ پیش خ دمت ہے۔‬
‫ابن‪ ‬تیمیہ کی جوساتویں دلیل تھی کہ اگرالنہایہ عذاب ہوتو رحمت کا تحقیق نہیں ہوگ ا۔ اس پ ر الب انی ص احب فرم اتے‬
‫ہیں‪ ‬‬
‫فکیف یق ول ابن تیمي ه ‪:‬ولوقدرع ذاب الٓاخرل ه لم یکن ھن اک رحم ة البت ه فک ان الرحم ة عندہ التتحق ق االبش مولها للکف ار المعان دین‬
‫الطاغین !الیس ھذا من اکبراالدلة علی خطا ابن تیميه وبعدہ ھو ومن تبعہ عن الصواب فی ھذہ المسالۃ الخطیرۃ !فغفرانک اللهم‪! ‬‬
‫کہ ابن تیمیہ کیسے اس کے قائل ہیں کہ اگر جہنم فناء نہ ہوتو رحمت الہی کا تحقق نہیں ہوگ ا۔گوی اکہ رحمت ک ا ثب وت‬
‫جبھی متحقق ہوگا جب اس میں کفار اورسرکشوں کو بھی شامل کیاج ائے اورکی ایہ ابن تیمیہ اوراس مس ئلہ میں ان کی‬
‫پیروی کرنے والے کی غلطی کا اثبات نہیں ہے جو اس خطرن اک مس ئلہ میں ان کی پ یروی ک ررہے ہیں۔اس کے بع د‬
‫البانی صاحب نے یہ تاویل کرنی چاہی ہے کہ یہ ان کے ابتدائے حال کا اورسن شباب کا واقعہ تھ ا جب کہ ان مط العہ‬
‫کتاب وسنت میں وسیع نہیں تھ ا اورادلہ ش رعیہ میں انہیں مہ ارت حاص ل نہیں تھی (بعض ل وگ اس ی عم ر مین انہیں‬
‫مجتہد ماننے پر بضد ہیں)‬

‫ولعل ذلک کان منه ابان طلبه للعلم‪،‬وقبل توسعہ فی دراسة الکتاب والسنة‪،‬وتضلعة بمعرفة االدلة الشرعلة ۔(مقدمہ رفع االستارص‪)25‬‬
‫یہ تاویل کئی وجوہ کی بناء پر باطل ہے لیکن اس کی تفصیل ہم کسی اوروقت کیلئے اٹھاکر ررکھتے ہیں ۔یہاں یہ بات‬
‫واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان کا ہے جیساکہ لسان المیزان میں ‪2/334‬میں مذکور ہے۔ت و‬
‫اب بعض صفات میں تاویل کی وجہ سے احناف کو جہمی کہنے والے ابن تیمیہ ک و اس مس ئلہ کی وجہ س ے کی اکہیں‬
‫گے وہ خود فیصلہ کرلیں ۔ہم یہ فیصلہ انہی پر چھوڑتے ہیں۔‬
‫اس سے بھی بڑاس وال یہ ہے کہ حض رت ابن تیمیہ اورحض رت ابن قیم کی ای ک رائے ہے اوردوس ری رائے الب انی‬
‫صاحب کی ہے ۔ان دونوں میں برحق کون ہے اورمدعیان سلف کی زبان میں بات کریں توگمراہ کون ہے؟‬
‫عقیدہ نمبر ‪ :2‬مسئلہ استقرار علی العرش‬
‫توی ‪،‬اس ٓایت پ ر ہماراایم ان ہے س لف س ے اس‬ ‫وتعالی کاارشاد ہے الرحمن علی الع رش اس ٰ‬‫ٰ‬ ‫قرٓان پاک میں ہللا تبارک‬
‫تعلق سے جوکچھ مروی ہے وہ یہ کہ استواء معلوم ہے‪،‬اس کی کیفیت مجہول اوراس تعلق سے سوال کرنا بدعت ہے۔‬
‫اہلسنت سلف میں کسی نے بھی استواء کی تفسیر استقرار کے ساتھ نہیں کی ہے۔لیکن حض رت ابن تیمیہ اس کے قائ ل‬
‫تعالی عرش پر مستقر ہیں۔اوریہ کہ ہللا مچھر کی پیٹھ پر بھی مستقر ہوسکتاہے اورالبانی ص احب اس عقی دہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہیں کہ ہللا‬
‫کو بدعت مانتے ہیں۔چنانچہ ابن تیمیہ کہتے ہیں۔‬

‫ولو قد شاء الستقر على‪ ‬ظهر بعوضة‪ ‬فاستقلت به بقدرته ولطف ربوبيته فكيف على عرش عظيم أكبر من السموات واألرض وكيف تنكر‬
‫أيها النفاخ أن عرشه يُِقلُّه والعرش أكبر من السموات السبع واألرضين السبع ولو كان العرش في السموات واألرضين ما وسعته ولكنه‬
‫فوق السماء السابعة (بیان تلبیس الجھمیۃ فی تاسیس بدعھم الکالمیۃ‪)3/243‬‬
‫"اوراگرہللا چاہے تو وہ مچھر کی پیٹھ پر بھی استقرارکرس کتاہے اوراس پ ر اپ نی ق درت اورلط ف رب ویت س ے بلن د‬
‫ورفیع ہوس کتاہےتوعرش عظیم ج و س اتوں زمین اورٓاس مان س ے بھی زی ادہ ب ڑاہے ت واس پ ر ہللا اس تقرارکیوں نہیں‬
‫کرسکتا۔توبڑی بڑی ہانکنے والے تم اس کا انکار کیسے کرتے ہو ہللا کاعرش اس کے استقرار کیلئے کافی نہیں ہے"۔‬

‫البانی کا موقف‪ ‬‬
‫دیکھئے اس بارے میں البانی صاحب کاکیاموقف ہے؟البانی صاحب اس سلسلے میں مجاہد کا اثر ذک ر ک رنے کے بع د‬
‫کہ جس مین عرش پر ہللا کے قعود کی صراحت ہے اس کومنکر بتاتے ہوئے استقرار کی نفی کی ہے۔‬
‫ولست ادری ماالذی منع المصنف‪-‬عفااهلل عنه‪-‬من االستقرار علی ھذاالقول علی جزمه بان ھذااالثر منکر کماتقدم عنه فانه یتضمن نسبة‬
‫الی‪ ‬وھ ذا مم الم یرد ب ه ‪،‬فالیج وز اعتق ادہ ونس بته الی اهلل‬
‫القع ود علی الع رش هلل عزوج ل ‪،‬وھذایس تلزم نس بة االس تقرار علي ه هلل تع ٰ‬
‫عزوجل‪( ‬مختصر العلو للعلی العظیم ‪)1/16‬‬
‫"اورمیں نہیں جانتا کہ مصنف(حافظ ذہبی )کو اس قول پر جمنے سے کس چیز نے منع کی اہے ب اوجود اس کے کہ یہ‬
‫اثر منکر ہے جیساکہ گذرچکاکیونکہ اس اثر کو اختیار کرنے کا مطلب ہللا عزوج ل کیل ئے ع رش پ ر قع ود ک و تس لیم‬
‫وتعالی کیلئے استقرارالزم ٓائے گا جب کہ اس بارے میں کوئی نص‬‫ٰ‬ ‫کرناہوگا۔اوراس کی وجہ سے عرش پر ہللا تبارک‬
‫وارد نہیں ہوئی ہے لہذا ہللا عزوجل کی جناب مین ایسااعتقاد اورایسی باتوں کی نسبت جائز نہیں ہے"۔‬

‫وتعالی کی مخلوق کے ساتھ معیت کے بارے میں سلفیوں کا تضاد‬


‫ٰ‬ ‫عقیدہ نمبر ‪ :3‬ہللا تبارک‬

‫‪14‬‬
‫وتعالی مخلوق سے جداہے اوراس کی ص فات میں س ے‬ ‫ٰ‬ ‫ابن تیمیہ اوران کے بعض مقلدین کا قول یہ ہے کہ ہللا تبارک‬
‫ایک صفت جو علو کی ہے وہ اپنے حقیقی معنوں میں م راد ہے اورہللا کی مخل وق کے س اتھ ج و معیت ہے ت ووہ علم‬
‫کے اعتبار سے ہے۔چنانچہ حضرت ابن تیمیہ ''الرد علی اساس التقدیس‪)1/11‬میں کہتے ہیں۔"والب اری س بحانه وتع الی ف وق‬
‫العالم فوقیة حقیقة لیست فوقیة الرتبة''‬

‫اس کے برخالف ابن عثیمین اپنی کتاب ''عقیدة اہل السنةوالجماعةص‪''9‬میں کہتے ہیں۔‬
‫"ومن کان هذا شانه کان مع خلقه حقیقة وان کان فوقهم علی عرشه حقیقة''لیس کمثله شیء وهوالسمیع البصیر''‬
‫عالوہ ازیں ابن عثمین اپنے فتاوی میں جس کی تاریخ ‪24/6/1403‬میں کہتے ہیں۔‬
‫فعقیدتنا ان هلل معیة حقیقة ذاتیة تلیق به وتقتضی احاطته بکل شیء علماوقدرة وبصراوسلطاناًوتدبیراً۔‬
‫ابن عثیمین کی اس بات پرعلی بن عبدہللا الحواس‪  ‬نے اپنے رسالہ ''النقول الصحیحة الواضحة الجلیة عن السلف الص الح‬
‫فی معنی المعیة االلھیة الحقیقیة‪ ‬میں اورسی طرح ابن عثیمین پر‪ ‬عبدہللا بن اب راہیم القرع اوی‪ ‬نے اپ نے رس الہ ''االق وال‬
‫السلفیة النقیہ ترد علی من قال ان معیة ہللا ذاتیہ''میں تردید کی ہے۔‬
‫البانی کابھی کہنایہی ہے کہ ہللا کے بندوں کے ساتھ معیت ذاتیہ کا قول معطلہ کاہے۔چنانچہ وہ پر عقی دةا لطح اوی ص‬
‫‪28‬پرلکھتے ہیں۔‬
‫تعالی علی خلقه وانه بائن من خلقه بل یصرح بعضھم بانه موجود بذاته فی ک ل الوج ود اب غورکیاجائے ان‬ ‫ٰ‬ ‫ہ‬ ‫علو‬ ‫ینفون‬ ‫المعطلة الذین‬
‫نام نہاد سلفیوں کی تضادبیانی کا ۔کوئی معیت حقیقہ ذاتیہ ثابت کررہاہے اورکوئی اس کا انکار کررہاہے۔اس میں ج ادہ‬
‫حق پر گامزن کون ہے اورگمراہی کے راستے پر کون چل رہاہے؟کیاوہ لوگ جوالمہند علی المفن د اورالفقہ االک بر‪ ‬کی‬
‫عبارت یابعض علماء کی عبارت کو لے کر احناف کوجہمی ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں اورایسے عنوان لگاتے‬
‫ہیں کہ دورحاضر کے احناف جہمیہ ہیں۔ ان کوخود سے یہ پوچھناچاہئے کہ ابن عثیمین معطلہ میں شامل ہیں یانہیں۔‬

‫عقیدہ نمبر ‪ :4‬اثبات الحد ہلل تعالی‬

‫حافظ ذہبی ابتداء عمر میں حافظ ابن تیمیہ سے بہت زیادہ متاثر تھے لیکن بڑھتی عمر اوروسعت مط العہ کے بع د ابن‬
‫تیمیہ سے ان کا تاثر کم ہوتاگیا اورپہلے جہاں بعض ب اتوں میں وہ ان کی م وافقت ک رتے تھے بع د میں ان کے خالف‬
‫اپنی رائے رکھی۔یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سیر اعالم النبالء کے بعد ج و ذی ل س یر اعالم النبالء لکھ اجس مین اپ نے‬
‫مشائخ اوراپنے دور کے علماء کا ترجمہ لکھااس مین یہ صاف صاف وضاحت کردی کہ وہ بہت سے اص ولی مس ائل‬
‫اورف روعی مس ائل میں ابن تیمیہ کے مخ الف ہیں اوران ک و تیمی وں نے اورابن تیمیہ کے مخ الفین دون وں س ے اذیت‬
‫پہنچی ہے۔(مالحظہ ہو ذیل سیر اعالم النبالء ترجمہ ابن تیمیہ)‬

‫حافظ ابن تیمیہ ہللا کے لئے حد کا اقرار کرتے ہیں اورصرف اسی پر بس نہیں کرتے بلکہ جو اس ک ا منک ر ہ و اس ے‬
‫کافر تک قراردینے سے دریغ نہیں کرتے ۔ان کی صراحت مالحظہ ہو۔‬
‫فهذا كله وما أشبهه‪ ‬شواهد‪ ‬ودالئل على الحد ومن لم يعترف به فقد كفر بتنزيل اهلل تعالى وجحد آيات اهلل تعالى وقال رسول اهلل صلى‬
‫اهلل عليه وسلم إن اهلل فوق عرشه فوق سمواته‪( ‬بیان تلبیس الجھميه فی تاسیس بدعھم الکالميه ‪)3/689‬‬
‫تویہ اور جیسے شواہد اور دالئل جوہللا کیلئے حد کو واضح ک رتے ہیں کہ ج و اس ک امعترف نہ ہ و ت واس نے ہللا کی‬
‫تنزیل کا انکار کیا اورہللا کی ٓایات کے اعتراف سے منہ موڑا جب کہ اس کے بالمقاب ل ہم دیکھ تے ہیں کہ حاف ظ ذہ بی‬
‫نے سیراعالم النبالء میں جو ان کی آخری کتابوں میں سے ایک ہے۔اس میں وہ لکھتے ہیں۔‬
‫وتع الی اهلل ان یح د‪ ‬اویوص ف االبماوص ف ب ه نفس ه ‪،‬اوعلم ه رس له ب المعنی ال ذی اراد بالمث ل والکیف (لیس کمثل ه ش یء وھو الس میع‬
‫البصیر''(سیراعالم النبالء ‪)16/97‬‬
‫ہللا کی ذات اس سے بلند ہے کہ اس کو حد میں محصورکیاجائے اورکسی ایسے وصف کوبیان کیاجائے جس سے اس‬
‫نے اپنے ٓاپ کو متصف نہ کیاہو یاجس معنی کا اس نے ارادہ کیاہے اس کا علم اپنے رس ولوں ک ونہ دی اہو بغ یر کس ی‬
‫مثال اورکیف کے۔‬
‫لیکن شاید البانی صاحب کی سمجھ میں یہ مسئلہ (حد ک ا)س مجھ میں نہیں آس کا اورش رح عقی دة الطح اویہ میں اس پ ر‬
‫خاموشی سے گزرگئے ہیں اوران کا خاموشی سے گزرنابھی بتایاکہ وہ شاید اس مسئلہ میں امام طحاوی کے ہی موی د‬
‫وموافق ہیں جیسے کہ انہوں نے ہللا کیلئے کسی حد ونہایت کا انکار کیاہے۔‬
‫جب کہ ہللا کیلئے حد نہ ہونے کی بات صرف حافظ ذہبی کی ہی نہیں ہے بلکہ دیگر اجلہ اورکب ار علم اء نے بھی یہی‬
‫لکھاہے کہ ہللا کو کسی حد سے موصوف سے نہیں کیاجاسکتا۔‬
‫بِاَل جسم َواَل َج ْو َهر َواَل عرض َواَل ‪ ‬حد‪ ‬لَهُ َواَل ضد لَهُ َواَل ند لَهُ َواَل مثل لَهُ (الفقہ االکبرص‪)26‬‬

‫‪15‬‬
‫الس ِميع الْب ِ‬
‫ص ير} (العقیدۃ رواي ه ا بی بک ر الخالل‬ ‫س كمثل ه َش ْيء َو ُه َو َّ‬ ‫ِ‬ ‫ِِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫َ‬ ‫َواَل يُوص ف اهلل ب أَ ْك َث َر م َّما وص ف ب ه نَفس ه باَل ‪ ‬ح د‪َ  ‬واَل غَايَ ة {ل َْي َ‬
‫‪)1/127‬‬
‫ض ِاء واأْل ََدو ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫وَتعالَى َع ِن‪ ‬ال ِ‬
‫ات ال تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات (متن الطحاويه ص‪)45‬‬ ‫ْح ُدود‪َ  ‬والْغَايَات َواأْل َْر َكان َواأْل َ ْع َ َ َ‬ ‫ُ‬ ‫َ َ‬
‫صير بِاَل ‪ ‬حد‪َ  ‬واَل َت ْق ِدير(االبانۃ عن شریعۃ الفرقۃ الناجیۃ‪)3/327‬‬ ‫ْليس كمثله َشيء َكما وصف نَفسه سميع ب ِ‬
‫َ‬ ‫ْ َ‬ ‫َ‬
‫فمن العرش إلى ما تحت الثرى محدود واهلل سبحانه‪ 5‬فوق ذلك بحيث ال مكان وال‪ ‬حد‪ ،‬التفاقنا أن اهلل سبحانه كان وال مكان‪(  ‬رسالة‬
‫السجزی الی اھل زبیدفی الرد علی من انکر الحرف والصوت‪)1/196‬‬
‫ِّهايَة (التبصیرفی الدین‪))1/158‬‬ ‫ِ‬
‫ْحد‪َ  ‬والن َ‬
‫َوأَن تعلم أَن َخالق ال َْعالم اَل يجوز َعلَْيه‪ ‬ال َ‬
‫اس سلسلے میں یہ واقعہ بڑادلچسپ ہے جو حافظ ذہبی نے محمد بن حبان ابوحاتم البس تی کے ت رجمہ میں نق ل کی اہے‬
‫کہ ابواسماعیل الھروی نے یحیی بن عمار سے ابوحاتم ابن حبان کے بارے میں دریافت کی اتواس نے کہ ا۔ہ اں میں نے‬
‫اس کو دیکھا لیکن ہم نے اس کو سجستان سے نکال دیا۔ان کے پ اس علم ت وبہت تھ ا لیکن دین داری زی ادہ نہیں تھی۔وہ‬
‫وتعالی کیلئے حد کا انکار کیا۔توہم نے اس کو سجستان سے نکال دیا۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہمارے پاس ٓائے اورہللا تبارک‬
‫اس پر حافظ ذہبی اپنی رائے دیتے ہیں کہ‪ ‬‬
‫کسی کا ہللا کیلئے حد کو ثابت کرنا اورکسی کا ہللا کیلئے حد سے انکار کرنا دون وں فض ولیات مین س ے ہیں۔ کی ونکہ‬
‫اس بارے میں کوئی نص وارد نہیں ہوئی ہے۔اس سلسلے میں خاموش ی اورس کوت ہی س لف ص الحین ک ا ط ریقہ ک ار‬
‫رہاہے۔‬
‫قال الحافظ الذهبي في ترجمة الحافظ محمد بن حبان أبي حاتم البستي من الميزان ما نصه‪ :‬قال أبو إسماعيل الهروي شيخ اإلسالم‪،‬‬
‫س ألت يح يى بن عم ار عن أبي ح اتم بن حب ان‪ ،‬فق ال‪ :‬رأيت ه ونحن أخرجن اه من سجس تان ك ان ل ه علم كث ير‪ ،‬ولم يكن ل ه كب ير دين‪ :‬ق دم‬
‫علينا‪ ‬فأنكر الحد هلل‪ ،‬فأخرجناه‪ .‬قلت‪ :‬إنكاره الحد وإثباتكم للحد نوع من فضول الكالم والسكوت عن الطرفين أولى‪ ،‬إذ لم يأت نص‬
‫س َك ِمثْلِ ِه َش ْيءٌ} فمن أثبته‪ ،‬قال له خصم‪ :‬جعلت هلل حداً برأي ك وال نص معك بالحد‪ .‬والمحدود‬ ‫ينفي ذل ك وال إثباته‪ ،‬واهلل تعالى‪{ :‬ل َْي َ‬
‫مخل وق‪ ،‬تع الى اهلل عن ذل ك‪ .‬وق ال ه و للن افي‪ :‬س اويت رب ك بالش يء المع دوم‪ ،‬إذ المع دوم ال ح د ل ه‪ .‬فمن ن زه اهلل وس كت س لم وت ابع‬
‫السلف‪.‬‬
‫اب‪ ‬اس بارے میں ہمار ی گزارش یہ ہے کہ حضرت ابن تیمیہ بڑے شدومد کے س اتھ ہللا کیل ئے ح د ک ا اثب ات ک رتے‬
‫ہیں۔ اورحافظ ذہبی اس کو فضول کالم بتاتے ہیں۔صرف ابن تیمیہ پر ہی منحصر نہیں بلکہ اس سلسلے مین س ب س ے‬
‫پہلے حافظ ابوسعید دارمی نے اپنی کتاب النقض میں ہللا کیلئے حد کی ب ات مفص ل ط ورپر لکھی ہے۔یہی وجہ ہے کہ‬
‫حضرت ابن تیمیہ کو اس کتاب سے خاص لگاؤ تھا اوروہ اس کو پڑھنے کی اپ نے عقیدتمن دوں ک و ت رغیب دی اکرتے‬
‫تھے۔‬
‫ہللا کیلئے حد ‪،‬عرش پر قعود کی تصریح اوردیگر ایسے ہی امور ہیں جس کی وجہ سے شیخ زاہد الکوثری اس کت اب‬
‫کے سخت خالف تھے اوراس کتاب سے انتہائی بیزاری برتتے تھے ۔ولکل وجہۃ ھومولیہا ۔‬

‫عقیدہ نمبر ‪ :5‬حوادث الاول لہ‬


‫یہ مسئلہ ذرافلسفیانہ اورمتکلمانہ بحث ہے لہذا اس کی تشریح میں جائے بغیر کہ اس کا سمجھنابہت سے اف راد کیل ئے‬
‫دشوار ہے۔ اس تعلق سے حضرت ابن تیمیہ کا موقف ‪،‬البانی کا موف اوردیگر سلفیوں کاموقف سامنے رکھ دی تے ہین‬
‫قارئین خود غورکریں کہ دوسروں کے عقائد میں تضاد ڈھونڈنے والے خود عقائد مین کیسے مضطرب االقوال ہیں۔‬

‫ابن تیمیہ کاموقف‪ ‬‬


‫حضرت ابن تیمیہ نے اپنی کئی تصانیف میں اس کے اثبات پر بحث کی ہے جس میں بطور خاص درء تع ارض العق ل‬
‫والنقل ‪،‬منہاج السنۃ‪،‬اورتلبیس کالم الجھمیۃ وغیرہ شامل ہیں۔ متکلمین اس الم حض رات ح وادث الاول لہ ک ونہیں م انتے‬
‫ہیں جب کہ ابن تیمیہ نہ صرف اسے مانتے ہیں بلکہ اس کے ماننے پر زوردیتے ہیں۔ان کے چند اقوال مالحظہ ہوں۔‬
‫هذامن نمط الذی قبله‪ ،‬فان االزلی االزم هونوع الحادث العین الحادث‪( ‬درء تعارض العقل والنقل ‪)1/388‬‬
‫اس کے عالوہ حضرت ابن تیمیہ "شرح حدیث عمران بن حصین ص‪193‬میں کہتے ہیں‬
‫"وان قدران نوعھا لم یزل معہ فھذہ المعیۃ لم ینفھا شرع والعقل بل ھی من کمالہ "حضرت ابن تیمیہ نے یہ بات "موافقۃ‬
‫صحیح منقولہ لصریح معقولہ ‪2/75‬میں بھی کہی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں۔‬
‫"وامااکثر اھل الحدیث ومن وافقھم فانهم الیجعلون النوع حادثابل قدیما"‬
‫اس کے عالوہ دیکھئے "نقدمراتب االجماع "میں حضرت ابن تیمیہ ابن حزم پر تنقید کرتے ہوئے کیاکہہ رہے ہیں۔‬

‫‪16‬‬
‫وأعجب من ذلك حكايته اإلجماع على كفر من نازع أنه سبحانه "‪ ‬لم يزل‪ ‬وحده‪ ،‬وال شيء غيره معه‪ ،‬ثم خلق األشياء كما شاء "‪.‬ومعلوم‬
‫أن هذه العبارة ليست في كتاب اهلل‪ ،‬وال تنسب إلى رسول اهلل صلى اهلل عليه وسلم (نقد مراتب االجماع‪)1/304‬‬
‫صرف حضرت ابن تیمیہ کی ہی بات نہیں ہے بلکہ حافظ ابن حجر نے بھی فتح الب اری میں اس ق ول ک و ابن تیمیہ کی‬
‫جانب منسوب ماناہے۔چنانچہ وہ حضرت ابن تیمیہ کے موقف پر رد کرتے ہوئے کہتے ہیں۔‬
‫وهواصرح فی الرد علی من اثبت حوادث الاوللها من روايه الباب‪،‬وهي من مستشنع المسائل المنسوبة البن تیميه ‪،‬ووقفت فی کالم له‬
‫علی هذاالحدیث یرجح الروايه التی فی هذاالباب علی غیرهامع ان قضيه الجمع بین الروایتیں تقتضی حمل هذه علی التی فی بدء الخلق‬
‫الالعکس‪،‬والجمع یقدم علی الترجیح باالتفاق (فتح الباری ‪)13/410‬‬
‫حضرت ابن تیمیہ کی اس بات پر مشہور مالکی شافعی فقیہہ اورمحدث ابن دقیق العید نے بھی تنقید کی ہے چن انچہ وہ‬
‫اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔‬
‫وق ع هن ا من یدعی الح ذق فی المعق والت ویمیل الی الفلس فة ‪،‬فظن ان المخ الف فی ح دوث الع الم الیکف ر الن ه من قبیل مخالف ه‬
‫االجم اع ‪،‬وتمس ک بقولن اان منک ر االجم اع الیکف ر علی االطالق ح تی یثبت النق ل ب ذلک مت واترا عن ص احب الش رع‪،‬ق ال‪ :‬ھوتمس ک‬
‫ساقط اماعن عمی فی البصیرة اوتعام ‪،‬الن حدوث العالم من قبیل مااجتمع فيه االجماع والتواتربالنقل (فتح الباری ‪)12/202‬‬
‫حضرت ابن تیمیہ کے کالمی اورفلسفیانہ مباحث میں دخل اندازی کوخود ان کے سب سے بڑے محب حاف ظ ذہ بی نے‬
‫ناپسند کیا ۔چنانچہ وہ زغل العلم میں اس تعلق سے لکھتے ہیں۔‬
‫م ا أظن ك في ذل ك تبل غ رتب ة‪ ‬ابن تيمي ة‪ ‬وال واهلل تقربه ا‪ ،‬وق د رأيت م ا آل أم ره إلي ه من الح ط علي ه‪ ،‬والهج ر والتض ليل والتكف ير‬
‫والتكذيب‪ ‬بحق وبباطل‪ ،‬فقدكان قبل أن يدخل في هذه الصناعة منورا مضيئا‪ ،‬على محياه سيما السلف‪ ،‬ثم صار مظلما مكسوفا‪ ،‬عليه‬
‫قتمة عند خالئق من الناس‪ ،‬ودجاال أفاكا كافرا عند أعدائ ه‪ ،‬ومبتدعا فاضال محققا بارعا عند طوائ ف من عقالء الفضالء‪ ،‬وحامل راية‬
‫اإلسالم وحامي حوزة الدين ومحيى السنة عند عوام أصحابه‪ ،‬هو ما أقول لك‪( .‬زغل العلم ‪)43‬‬

‫حوادث الاول لہ کے مسئلہ میں خود البانی نے حضرت ابن تیمیہ پرتنقید کی ہے ۔چنانچہ البانی صاحب اس تعل ق س ے‬
‫لکھتے ہیں۔‬
‫وفيه رد أيضا على من يقول بحوادث‪ ‬ال أول‪  ‬لها‪ ،‬وأنه ما من مخلوق‪ ،‬إالومسبوق بمخلوق قبله‪ ،‬وهكذا إلى ماال بداية ل ه‪ ،‬بحيث ال يمكن‬
‫أن يقال‪:‬‬
‫هذا أول مخلوق‪.‬فالحديث يبطل هذا القول ويعين أن القلم هو أول مخلوق‪ ،‬فليس قبله قطعا أي مخلوق‪ .‬ولقد‪ ‬أطال ابن تيمية‪ ‬رحمه اهلل‬
‫الكالم في رده على الفالس فة محاوالإثب ات ح وادث‪ ‬ال أول‪ ‬له ا‪ ،‬وج اء في أثن اء ذلك بم ا‪ ‬تح ار فيه العقول‪،‬وال تقبل ه أك ثر القل وب‪ ،‬حتى‬
‫اتهمه خصومه بأنه يقول بأن المخلوقات قديمة‪ ‬الأول‪  ‬لها‪ ،‬مع أنه يقول ويصرح بأن ما من مخلوق إال وهو مسبوق بالعدم‪ ،‬ولكنه مع ذلك‬
‫يقول بتسلسل الحوادث إلى ما ال بداية له‪ .‬كما يقول هو وغيره بتسلسل الحوادث إلى ما ال نهاية‪ ،‬فذلك القول منه غير مقبول‪ ،‬بل هو‬
‫مرفوض بهذا الحديث وكم كنا نود أن ال يلج ابن تيمية رحمه اهلل هذا المولج‪ ،‬ألن الكالم فيه شبيه بالفلسفة وعلم الكالم الذي تعلمنا منه‬
‫التحذير والتنفير منه‪ ،‬ولكن صدق‬
‫اإلم ام مال ك رحم ه اهلل حين ق ال‪ " :‬م ا من ا من أح د إال رد ورد علي ه إال ص احب ه ذا الق بر ص لى اهلل علي ه وس لم‪( ." ‬سلس للة االح ادیث‬
‫الصحیحة ‪)1/258‬‬
‫ایک دوسری جگہ وہ اس سلسلے میں مختصر شرح عقیدۃ طح اویہ ج وکہ المکتب االس المی س ے ش ائع ہ وئی ہے اس‬
‫میں وہ کہتے ہیں۔‬
‫ف انی اق ول آالن‪:‬س واء ک ان ال راجح ھ ذاام ذاک‪،‬ف االختالف الم ذکور یدل بمفھوم ه علی ان العلم اء اتفق وا علی ان ھن اک اول‬
‫مخل وق‪،‬والق ائلون بح وادث الاول لھا مخ الفون لھذااالتفاق‪،‬النہم یص رحون ب ان م امن مخل وق االوقبلہ مخل وق‪،‬وهاک ذا االم االاول ل ه‪،‬‬
‫کماصرح بذلک‪ ‬ابن تیميه‪  ‬فی بعض کتبه‪،‬فان قالوا العرش اول مخلوق ‪،‬کماہوظاهر کالم الشارح نقضوا قولھم بحوادث الاول لها‪،‬وان‬
‫لم یقولوابذلک خالفوااالتفاق‪،‬فتامل ھذا فانه مهم۔ واهلل الموفق۔ (العقیدۃ الطحاويه بشرح المختصر لاللبانی طبع المکتب االسالمی طبع‬
‫االولی‪،1978‬ص‪)35‬‬

‫عقیدہ نمبر‪ :6‬اثبات الصورۃ‬

‫‪17‬‬
‫ایک مشہور حدیث ہے۔(مشہور بمعنی اصطالحی نہیں بلکہ لغوی۔)ان ہللا خل ق ٓادم علی ص ورۃ ال رحمن‪ ‬ہللا نے ٓادم ک و‬
‫رحمن کی صورت پر اوربعض روایات کے مطابق اپنی صورت پر پیداکیاہے۔‬
‫اس حدیث کا ابن تیمیہ نے بیان تلبیس الجھمیہ فی تاسیس بدعھم الکالمیہ میں اثبات کیاہے ۔اس تعلق سے وہ کہتے ہیں۔‬
‫وقد ذكر أبو بكر الخالل في كتاب السنة ما ذكره إسحاق بن منصور الكوسج في مسائله لمشهورة عن أحمد وإسحاق أنه قال ألحمد ال‬
‫تقبحوا الوجه فإن اهلل خلق آدم على صورته أليس تقول بهذه األحاديث قال أحمد صحيح وقال إسحاق صحيح وال يدعه إال مبتدع أو‬
‫ضعيف الرأيني (بیان تلبیس الحهميه فی تاسیس بدعھم الکالميه ‪)6/413‬‬
‫جب کہ اس کے بالمقابل البانی صاحب نہ صرف یہ کہ اس روایت کو درس ت نہیں م انتے بلکہ اس کے متن ک و منک ر‬
‫بھی کہتے ہیں۔چنانچہ اس حدیث کو ذکرکرنے کے بعد کہ تے ہیں۔ وه ذا إس ناد رجال ه ثق ات رج ال الش يخين ولكن ل ه‪ ‬أرب ع‬
‫علل‪  ،‬ذكر ابن خزيمة ثالثة منها فقال‪:‬إحداها‪ :‬أن الثوري قد خالف األعمش في إسناده فأرسله الثوري ولم يقل‪ " :‬عن ابن عمر "‪.‬والثانية‪:‬‬
‫أن األعمش مدلس لم يذكر أنه سمعه من حبيب بن أبي ثابت‪.‬والثالثة‪ :‬أن حبيب بن أبي ثابت أيضا مدلس لم يعلم أنه سمعه من عطاء ثم‬
‫ق ال‪ ":‬فمع نى الخ بر ‪ -‬إن ص ح من طري ق النق ل مس ندا ‪ -‬أن ابن آدم خل ق على الص ورة ال تي خلقه ا ال رحمن حين ص ور آدم ثم نفخ في ه‬
‫ال روح "‪.‬قلت‪ :‬والعل ة الرابع ة‪ :‬هي جري ر بن عب د الحمي د فإن ه وإن ك ان ثق ة كم ا تق دم فق د ذك ر ال ذهبي في ترجمت ه من " الم يزان " أن‬
‫البيهقي ذكر في " سننه " في ثالثين حديثا لجرير بن عبد الحميد قال " قد نسب في آخر عمره إلى سوء الحفظ "‪(.‬سلسل ۃ االحادیث‬
‫الضعیفۃ ‪)3/317‬‬
‫البانی صاحب نے نہ صرف یہ کہ اس کی چار علتیں بیان کی ہیں بلکہ اس حدیث کوض عیف قراردی تے ہ وئے اس ک و‬
‫دیگر احادیث صحیحہ کے مخالف بتایاہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں وخالصة القول‪ :‬إن الحديث ضعيف بلفظيه وطريقيه‪ ،‬وأنه إلى‬
‫ذل ك مخ الف لألح اديث الص حيحة بألف اظ متقارب ة‪ ،‬منه ا قول ه ص لى اهلل علي ه وس لم‪ " :‬خل ق اهلل آدم على ص ورته طول ه س تون ذراع ا‬
‫"‪ .‬المصدرالسابق‪3/319‬‬
‫اسی حدیث پر بحث کرتے ہوئے وہ اس کے متن کو منکر بھی کہتے ہیں۔‬
‫وله ذا كنت أود للش يخ األنص اري أن ال يص حح الح ديث‪ ،‬وه و ض عيف من طريقي ه‪ ،‬ومتن ه منك ر لمخالفت ه لألح اديث الص حيحة ۔‬
‫(المصدرالسابق)‬
‫اب سوال یہ ہے کہ اس حدیث کے بارے میں بات صرف ص حت اورض عف کے اعتب ار س ے نہیں ہے بلکہ یہ ح دیث‬
‫صفات الہی س ے بھی تعل ق رکھ تی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ ابن تیمیہ اس کے م اننے پ ر اورکیفیت کے پیچھے نہ پڑک ر‬
‫اس کو تسلیم کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔ البانی صاحب اس کو ضعیف اورمنکر بتاتے ہیں۔اب چ ونکہ ب ات ایم ان کی‬
‫ہے کس کی مانی جائے اورکس کی ترک کی جائے بالخصوص ایک عامی اس میں کس کی پیروی کرے۔‬
‫مزید لطف اس سارے قضیہ میں یہ ہے کہ سعودی کے ایک سلفی نے اس حدیث کے ضعیف اورمنک ر قراردی نے پ ر‬
‫البانی پر تنقید کی ہے اورانکااصرار ہے کہ یہ حدیث صحیح اورثابت ہے۔‬
‫موصوف کااسم گرامی حمود التویجری ہے۔ان کی اس سلسلے کی تالیف کانام یہ ہے ۔"عقیدۃ اھل االیمان فی خلق ٓادم علی‬
‫صورۃ الرحمن" اس کتاب پر تقریظ عبدالعزیز بن باز نے لکھی ہے۔‬

‫البانی پر تنقید کرتے ہوئے موصوف لکھتے ہیں۔‬


‫وی الدلیل علیها فالتقبل ص‬
‫وقد ادعی االلبانی فی تعلقيه علی کتاب السنۃ البن ابی عاصم ان ھذاالمرسل اصح من الموصول وھذہ دع ٰ‬
‫‪21‬‬
‫دوسری جگہ وہ البانی کے بیان کردہ علل پر بات کرتے ہوئے کہتے ہیں۔‬
‫والجواب عن ھذاالتعلیل من وجوہ احدها ان یقال‪:‬ان العلل التی ذکرها ابن خزیمه وااللبانی واھىة جداص‪22‬‬
‫موصوف مزید فرماتے ہیں۔‬
‫فالینبغی ان یلتفت الی تضعیف ابن خزیمه له فضالعن تضعیف االلبانی له تقلیداالبن خزیمه ص‪25‬‬
‫ہمیں موصوف کی اس بات سے پتہ چالکہ البانی صاحب بھی تقلید کرتے ہیں جب کہ البانی صاحب کی پ وری زن دگی‬
‫ردتقلید میں گزری ہے۔‬
‫اب دیکھ ئے عقی دہ میں ای ک نیاابہ ام پی داہوگیاہے جول وگ اب ت ک الب انی ص احب کی تحقی ق پ ر مطمئن تھے ان ک و‬
‫حمودالتویجری صاحب نے نیاٹینشن دے دیاہے کہ اس حدیث کو مانوہی مانو اورصرف م انوہی نہیں بلکہ اس پرایم ان‬
‫بھی الؤ۔‬

‫‪18‬‬
‫حمیدی اورابن خزیمہ‬
‫اس حدیث پر بات صرف البانی ‪ ،‬ابن تیمیہ اورحمودالتویجری ت ک مح دود نہیں ہے بلکہ کچھ متق دمین بھی اس کی زد‬
‫میں ٓاتے ہیں۔‬
‫وسمعت أبا عبد اهلل يقول لقد سمعت الحميدي يحضره سفيان بن عيينة فذكر هذا الحديث خلق اهلل آدم على صورته فقال من ال يقول‬
‫بهذا فهو كذا وكذا يعني من الشتم وسفيان ساكت ال يرد عليه شيئاً(بیان تلبیس الجهميه ‪)6/416‬‬
‫اس میں ٓاپ دیکھ س کتے ہیں کہ حمی دی نے س فیان بن ع یینہ کی موج ودگی میں خل ق ہللا ٓادم علی ص ورتہ ک اذکر‬
‫کیاپھرکہاکہ جواس کا قائل نہ ہو توایساویساہے اس کے سلسلے میں سب وشتم سے ک ام لی ا ۔حض رت س فیان بن ع یینہ‬
‫خاموش رہے انہوں نے کوئی تردید نہیں کی۔‬
‫اس کے بالمقابل سفیان بن عیینہ کے عہد سے تھوڑاہی متاخر حضرت امام ابن خزیمہ کااس حدیث کے سلسلے میں یہ‬
‫قول دیکھئے۔‬
‫قال ابن خزيمة توهم بعض من لم يتبحر العلم أن قوله على صو رته يريد صورة الرحمن عز وجل عن أن يكون هذا معنى الخبر بل معنى‬
‫قوله خلق آدم على صورته الهاء في هذا الموضع كناية عن اسم المضروب والمشتوم أراد أن اهلل خلق آدم على صورة هذا المضروب‬
‫الذي أمر الضارب باجتناب وجهه بالضرب والذي قبح وجهه فزجر صلى اهلل عليه وسلم أن يقول ووجه من أشبه وجهك ألن وجه آدم‬
‫شبيه وجوه بنيه فإذا قال الشاتم لبعض بني آدم قبح اهلل وجهك ووجه من أشبه وجهك كان مقيحاً وجه آدم صلوات اهلل عليه الذي وجوه‬
‫بنية شبيهة بوجه أبيهم فتفهموا رحمكم اهلل معنى الخبر ال تغلطوا وال تغالطوا فتضلوا عن سواء السبيل وتحملوا على القول بالتشبيه لذي‬
‫هو ضالل(بیان تلبیس الجھمیہ ‪)6/384‬‬

‫اس میں حض رت ابن خ زیمہ نے ب ڑی وض احت س ے بتادی اکہ جول وگ خل ق ہللا ٓادمی علی ص ورتہ میں ہ کی ض میر‬
‫کامرجع الرحمن یاہللا کی جانب کرتے ہیں وہ ایس ے ل وگ ہیں جن ک و علم میں رس وخ اورتبح ر حاص ل نہیں ہے۔ اس‬
‫کے بعد انہوں نے اس کی تاویل کی ہے پھر اپنے بھائیوں اوربرداران کو نصیحت کرےت ہوئے کہاہے کہ حدیث کے‬
‫معنی کو سمجھو۔نہ خود غلطی میں پڑو نہ ہی دوسرے کو مغالطہ دو کہ کوئی دوس را بہ ک کرس یدھے راس تے س ے‬
‫دورجاپڑے۔اوربات تشبیہ تک جاپہنچے جوکہ گمراہی ہے۔‬
‫دونوں حضرات کبارمحدثین میں سے ہیں۔ حمیدی اورابن خزیمہ۔ایک اثبات کررہے ہیں اوردوسرااس کی نفی۔‬
‫کیایہ عقیدہ کا مسئلہ ہوسکتاہے‪ ‬اوراگرواقعتاعقیدہ کا مس ئلہ ہے ت واس پ ر ح ق پ ر ک ون ہے اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٓاپ س مجھ‬
‫گئے ہوں گے خالی جگہ کا مطلب۔‬

‫عقیدہ نمبر ‪ :7‬ہللا کیلئے حرکت کااثبات ونفی‬


‫حضرت ابن تیمیہ ہللا کیلئے حرکت کو نہ صرف ثابت مانتے ہین بلکہ اس کی تائید کرتے ہوئے اسے ائمہ مح دثین ک ا‬
‫قول بھی قراردیتے ہیں اوربرضاورغبت ان لوگوں کا کالم کرتے ہیں کہ جوہللا کی ذات س ے ح رکت کی نفی کرت اہے‬
‫وہ جہمی ہے اورجمہیوں کی گمراہی پر امت کا اتفاق ہے۔‬
‫وأئم ة الس نة والح ديث على إثب ات الن وعين‪ ،‬وه و ال ذي ذك ره عنهم من نق ل م ذهبهم‪ ،‬كـ ح رب الكرم اني وعثم ان بن س عيد ال دارمي‬
‫وغيرهما‪ ،‬بل صرح هؤالء بلفظ الحركة‪ ،‬وأن ذلك هو مذهب أئمة السنة والحديث من المتقدمين والمتأخرين‪ ،‬وذكر حرب الكرماني أنه‬
‫قول من لقيه من أئمة السنة كـ أحمد بن حنبل وإسحاق بن راهويه وعبد اهلل بن الزبير الحميدي وسعيد ين منصور‪.‬وقال عثمان بن سعيد‬
‫وغيره‪ :‬إن الحركة من لوازم الحياة‪ ،‬فكل حي متحرك‪ ،‬وجعلوا نفي هذا من أقوال الجهمية نفاة الصفات‪ ،‬الذين اتفق السلف واألئمة على‬
‫تضليلهم وتبديعهم‪(.‬درء تعارض العقل والنقل‪ )2/8‬اس کے بعد وہ کہتے ہیں‬
‫وطائفة أخرى من السلفية كـ نعيم بن حماد الخزاعي والبخاري صاحب الصحيح وأبي بكر بن خزيمة‪ ،‬وغيرهم كـ أبي عمر بن عبد البر‬
‫وأمثال ه‪ :‬يثبت ون المع نى ال ذي يثبت ه ه ؤالء‪ ،‬ويس مون ذل ك فعالً ونح وه‪ ،‬ومن ه ؤالء من يمتن ع عن إطالق لف ظ الحرك ة لكون ه غ ير م أثور‪.‬‬
‫(المصدرالس ابق ) حضرت ابن تیمیہ کا رجحان پہلے گروہ کی طرف ہے کہ ہللا کیلئے حرکت ک ا اس تعمال کیاجاس کتاہے‬
‫اوراسی پر انہوں نے زوربھی دیاہے۔‬
‫البانی کا موقف‬
‫جب کہ اس کے بالمقابل البانی صاحب کا موقف یہ ہے کہ محدثین کے دوسری جماعت کے طرز پر ہللا کیلئے حرکت‬
‫یاکوئی ایسی بات نہ کہی جائے جوکتاب وس نت میں وارد نہیں ہ وئی ہے۔(تفص یل کیل ئے دیکھ ئے مختص رالعلو العلی‬
‫العظیم کا مقدمہ )‬

‫‪19‬‬
‫عقیدہ نمبر ‪ :8‬توسل کے بارے میں ابن تیمیہ‪،‬البانی اورشوکانی کا اختالف‬
‫توسل بالذات کا مسئلہ بڑامعرکۃ آالراء مسئلہ رہاہے۔ مقلدین اورغیرمقلدین کے درمیان تویہ اختالف ہے ہی۔ تعجب کی‬
‫بات یہ ہے کہ غیرمقلدین حضرات کے درمیان بھی اس مسئلہ میں اختالف موجود ہے۔‬

‫ابن تیمیہ کا موقف‬


‫حضرت ابن تیمیہ توسل کے قائل نہیں تھے جس کی تفصیل "قاعدۃ جلیلۃ فی التوسل والوسیلۃ‪ ‬میں دیکھی جاسکتی ہے۔‬
‫بع د میں جب علم اء س ے ان ک ا قاض ی کے س امنے من اظر ہ وا توانہ وں نے توس ل کی ب ات م ان لی۔ جیس اکہ ان کے‬
‫شاگرداورمشہور مورخ ابن کثیر نے لکھاہے۔‬
‫وقال البرزالی ‪:‬وفی شوال منه اشکی الصوفية بالقاهرۃ علی الشیخ تقی الدین وکلموه فی ابن عربی وغیره الی الدوة‪،‬فردواالمر فی ذلک‬
‫الی القاضی الشافعی ‪،‬فعقد له مجلس وادعی عليه ابن عطاء باشیاء فلم یثبت عليه منه اشیء‪،‬لکنه قال‪ :‬الیستغاث االباهلل الیستغاث بالنبی‬
‫استغاثة بمع نی العب ار‪-‬ولعله ا العبادۃ‪ -‬ولکن یتوس ل ب ه ویتش فع ب ه الی اهلل فبعض الحاضرین ق ال لیس علي ه فی ه ذا ش یء ورای القاض ی‬
‫بدرالدین بن جماعة ان ھذا فيه قلة ادب (البدايه والنهايه‪)14/35‬‬

‫شوکانی کا موقف‬
‫شوکانی صاحب توسل کے قائل ہیں اوراس بات کو انہوں نے اپنی کئی تصنیفات میں بیان بھی کیاہے۔‪ ‬‬
‫اجتي َه ِذه‬ ‫ِ‬
‫الر ْح َم ة يَا ُم َح َّمد إِنِّي أتوجه بك إِلَى َربِّي في َح َ‬ ‫ثم يَ ْد ُعو اللَّ ُه َّم إِنِّي أَسأَلك وأتوجه إِل َْي ك بنبيك ُم َح َّمد نَبِي َّ‬ ‫َيت َوضَّأ َويُصلي َر ْك َعَت ْي ِن َّ‬
‫حم ه اهلل‬ ‫َّس ائِ ّي َك َم ا قَ َ‬ ‫لتقضى لي اللَّه َّم فشفعه فِي (ت‪ .‬س‪ .‬مس)) ‪ //‬الح ِديث أخرجه التِّر ِم ِذي وال ِ ِ‬
‫ص نّف َر َ‬ ‫الم َ‬
‫ال ُ‬ ‫ْح اكم في ال ُْم ْس تَ ْدرك َوالن َ‬ ‫ْ َّ َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ال يَ ا َر ُس ول اهلل ا ْدع اهلل لي أَن‬ ‫ِ‬
‫اء أعمى إِلَى َر ُس ول اهلل ص لى اهلل َعلَْي ه َوس لم َف َق َ‬ ‫و ُه و من ح ِديث ُعثْم ان بن ح نيف ر ِ‬
‫ال َج َ‬
‫ض ي اهلل َعن هُ قَ َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ َ‬
‫ِ‬
‫َّس ائ ّي في بعض طرقه‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ال فَأمره أَن َيت َوضَّأ َويحسن وضوءه َو َزاد الن َ‬ ‫ال فَادعه قَ َ‬ ‫ال إن ش ْئت َد َع ْوت َوإن ش ْئت صبرت َف ُه َو خير لَك قَ َ‬ ‫يعافيني قَ َ‬
‫صنّف من َق ْوله صلى اهلل َعلَْي ِه َوسلم اللَّ ُه َّم إِنِّي أَسأَلك الخ َوأخرجه من َح ِديثه أَيْضا‬ ‫ِِ‬ ‫ِ‬ ‫َفَت َوضَّأ فصلى َر ْك َعَت ْي ِن َّ‬
‫الم َ‬
‫ي َما ذكره ُ‬ ‫ثم ذكر في الت ِّْرمذ ّ‬
‫ي حس ن‬ ‫ُّعاء َف َق ام وق د أبص ر وقَ َ ِ ِ‬ ‫الش ْي َخ ْي ِن َو َزاد فِي ِه فَ َد َعا بِ َه َذا ال د َ‬
‫ص ِحيح على َش رط َّ‬ ‫ْح اكِم فِي ال ُْم ْس تَ ْدرك َوقَ َ‬
‫ال الت ِّْرم ذ ّ‬ ‫ََ ْ َ‬ ‫ال َ‬ ‫اج ه َوال َ‬ ‫ابْن َم َ‬
‫ال َوأخرجه الطََّب َرانِ ّي بعد ذكر طرقه الَّتِي روى َبه ا‬ ‫ص ِحيح غَ ِريب اَل نعرفه إِاَّل من َه َذا ال َْو ْج ه من َح ِديث أبي َج ْع َف ر َو ُه َو غير الخطمي َوقَ َ‬ ‫َ‬
‫الص اَل ة َو َوا َف َق هُ الطََّب َرانِ ّي فِي بعض‬
‫َّس ائِ ّي بِذكر َّ‬ ‫ن‬ ‫ال‬ ‫تفرد‬ ‫قد‬ ‫و‬ ‫ة‬ ‫والْح ِديث ص ِحيح وصححهُ أَيْضا ابْن ُخزيْمة فقد صحح الح ِديث َه ُؤاَل ِء اأْل َئ َِّ‬
‫م‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ّ َ‬ ‫َ َ‬ ‫َ َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫الح ديث َدليل على َج َواز التوسل َبر ُس ول اهلل صلى اهلل َعلَْي ه َوسلم إلَى اهلل عز َوجل َم َع ا ْعت َق اد أَن الْ َفاع ل ُه َو اهلل‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬‫َّ‬
‫الطّرق التي َر َو َاه ا َوفي َ‬
‫اء َكا َن َو َما يَ َشأْ لم يكن ‪(//‬تحفۃ الذاکرین‪)211‬‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ُس ْب َحانَهُ َوَت َعالَى َوأَنه ال ُْم ْعطي ال َْمانع َما َش َ‬
‫ض ي اهلل َعنهُ َعم َر ُس ول اهلل صلى اهلل َعلَْي ِه َوسلم َوقَ َ‬
‫ال‬ ‫اس ر ِ‬ ‫ِ‬
‫الص َحابَة استسقوا بال َْعبَّ ِ َ‬ ‫الص ِحيح أَن َّ‬ ‫َوأما التوسل بالصالحين فَ ِم ْن هُ َم ا ثَبت فِي َّ‬
‫ضي اهلل َعنهُ اللَّ ُه َّم إِنَّا نتوسل إِل َْيك بعم نَبينَا(المصدرالسابق‪)60‬‬ ‫عمر ر ِ‬
‫َ‬
‫عالوہ ازیں شوکانی صاحب نے الدرالنضید فی اخالص کلمۃ التوحید میں بھی توسل کا اعتراف واقرار کیاہے۔‬

‫البانی کا موقف‬
‫البانی صاحب کا موق ف یہ ہے کہ توس ل گم راہی اورزی غ ہے جیس اکہ ان کی کت اب" التوس ل وان واعہ واحک امہ "میں‬
‫دیکھاجاسکتاہے اورجس کی تصریح انہوں نے شرح الطحاویہ کے مقدمہ میں بھی کی ہے۔‬
‫أن هن اك ثالث ة أن واع للتوس ل ش رعها اهلل تع الى‪ ،‬وحث عليه ا‪َ ،‬و َر َد بعض ها في الق رآن‪ ،‬واس تعملها الرس ول ص لى اهلل علي ه وس لم وحض‬
‫عليه ا‪ ،‬وليس في ه ذه األن واع التوسل بال ذوات أو الجاه ات أو الحق وق أو المقام ات‪ ،‬فدل ذل ك على ع دم مش روعيته وع دم دخول ه في‬
‫عموم(االتوسل وانواعه واحکامہ‪)30‬‬
‫اس کے عالوہ البانی صاحب کی یہ تصریح شرح الطحاویہ کے مقدمہ میں بھی دیکھی جاسکتی ہے۔‬
‫نوٹ‪:‬اس موض وع کے سلس لہ میں حس ن بن علی الس قاف کی کت اب" البش ارۃ واالتح اف بم ابین ابن تیمیہ وااللب انی فی‬
‫العقیدۃ من االختالف " سے مدد لی گئی ہے بلکہ یہ اس کا اختصار ہے۔کوش ش کی گ ئی ہے کہ تم ام کتب کے ح والے‬
‫کو بذات خود بھی دیکھ لیاجائے۔اوراس کے مالہ وماعلیہ پر نظردوڑالی جائے۔‪ ‬‬
‫یہ چند موٹے م وٹے عقائ د تھے جن میں ان ک ا اختالف تھ ا ‪  ، ‬اس کے عالوہ اور بھی بہت س ارے ہیں چ ونکہ ان ک ا‬
‫کوئی مذہب معین نہیں اسلئے ‪  ‬انہوں نے اپنے ساتھ ساتھ اپنے عوام ک و بھی گم راہی میں مبتال ک ر رکھ ا ہے اور دین‬
‫کو مذاق بنا رکھا ہے۔‪ ‬‬

‫‪20‬‬
‫قئ ن‬ ‫گٹ ت‬ ‫سف‬ ‫ف ق‬
‫ل‬
‫ر ہ المذہ ب ی ہ ی ہ کے ھ ی ا ری ن ع ا د و ظ ری ات‬
‫ت‬
‫ے‬
‫ق ئ یک ن‬
‫د‬ ‫د‬ ‫ا‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫کہ‬
‫ت‬
‫ن‬
‫اال‬‫ح‬ ‫ے‬ ‫ث‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ن‬
‫ن‬
‫س‬ ‫و‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ہ‬
‫کت‬
‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫چ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬‫و‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ر المذہ ب ہ دعوی کرت ا ے کہ‪  ‬ہ م ہللا کی تذات کے م ع‬
‫ق ئھ‬ ‫ی ہ‬ ‫ہ ی‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ے اسخ دعوی می ں پوری طرح ثسے ا نکام اب ت ہ وے ہ ی ں ان کے ع ا د‬ ‫پ‬ ‫دعوی کی د جھ ی اں اڑ ج ا ی ہ ی ں اور ی ہ ا‬
‫ن‬ ‫کے ب شعد ان کے اس‬ ‫ئ‬
‫دال ل رعی ہ کت اب ہللا ‪ ،‬س ت رسول ہللا‪ ،‬اج ماع امت (سلف و لف)‪   ‬کہی ں سے ب ھی اب ت ہی ں۔ ‪ ‬‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬
‫ے۔‬ ‫ب‬ ‫ے ب ھی ہ ی ں عوذ ب اللہ اور ہللا کی ذات‪  ‬کے چ ل‬ ‫ع ی دہ مب ر ‪ :1‬ہللا کی ذات کے حص‬
‫ے می ں حد ھی ہ‬
‫ے حص‬

‫بات كرنے سے قبل ياد رہے كہ امام احمد ؒ سے حد كے بارے ميں دو قول آئے ہيں ايك اثبات كا ايك نفي ‪ ،‬اب ہون ا ت و‬
‫يہ چاہيئے تها كہ حد كي نفي جو كہ اہل سنت كا عقيده ہے اور سلف كے بارے ميں منقول ہے ‪ ‬کہ ‪  ،‬وه حد ثابت نہيں‬
‫كرتے تهے‬
‫بيهقي فرماتے ہ يں‪ ‬‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫اد بْ ُن َس لَ َمةَ َو َش ِر ٌ‬
‫يك َوأَبُو [ص‪َ ]335:‬ع َوانَ ةَ اَل‬ ‫ٍ‬
‫اد بْ ُن َزيْ د َو َح َّم ُ‬ ‫األسماء والصفات للبيهقي (‪ )334 /2‬أَ َك ا َن ُس ْفيَا ُن الث َّْو ِر ُّ‬
‫ي َو ُش ْعبَةُ َو َح َّم ُ‬
‫يُ ِحدُّو َن ‪  ‬‬
‫”امام سفيان ثوري ا مام شعبه امام حماد بن زيد ‪ ،‬حماد بن سلمه امام ش ريك اور ام ام ابوعوان ه رحمهم هللا هللا تع ٰالی كي‬
‫حد ثابت نہيں كرتے تهے “‬
‫بیہقی اگے فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫ضى أَ َكابُِرنَا”اسی پر ہمارے اکابر بھی گزرے ہیں“۔‬ ‫“و َع َ َ َ َ َ‬
‫م‬ ‫ا‬ ‫ذ‬ ‫ه‬ ‫ى‬ ‫ل‬ ‫َ‬

‫تو امام احمد كو حد كے اثبات كے قول سے بری كہنا چاہئے تها اس ليے كہ اثبات حد پر قران و سنت ميں ك وئي دليل‬
‫نہيں جيسا كہ خود ‪ ‬انکے شيخ الباني نے كہا ہے ‪،‬‬
‫وليس فيه مايشهد لذالك من الكتاب والسنة‪(  ‬قهرس مخطوطات دار الکتب الظاهریه ص ‪)376‬‬
‫ليكن ابن تيميه اور قاضي ابويعلي ان كو عجيب و غريب احوال پر حمل كرت ہيں جنكا خالصہ ہم ذيل ميں لکھتے ہيں۔‬
‫قاضي ابويعلي جس سے ابن تيميه نے جگہ جگہ اخذ كيا ہے اور اس كے عقائد پ ر عالم ه ابن الج وزي ؒ نے دف ع ش به‬
‫التشبيه ميں بہت مضبوط سخت رد كيا انہوں نے امام احمد سے حد كے اثب ات اور انك ار كے دون وں روايت وں ك و اس‬
‫طرح جمع كيا ہے۔ قال إنه على العرش بحد معناه أن ما حاذى العرش من ذاته هو حد له وجهة له والموضع الذي‬
‫‪ ‬جہاں انہوں نے حد كا اثبات كيا ہے وہاں اس مراد هللا كي ذات كا وه حصہ ہے جو كہ عرش كے مقاب ل يع ني س امنے‬
‫ہے وہی اس کی حد اور جہت ہے۔‬
‫قال هو على العرش بغير حد معناه ما عدا الجهة المحاذية للعرش وهي الفوق والخلف واألمام واليمنة واليسرة وكان الفرق بين جهة‬
‫التحت المحاذية للعرش وبين غيرها ما ذكرنا أن جهة التحت تحاذي العرش بما قد ثبت من الدليل والعرش محدود‬
‫اور جہاں امام احمد نے كها كہ وه عرش پر بغير ح د كے ہے وہ اں م راد هللا كي ذات ك ا وه س ائيڈ ہے ج و ع رش كے‬
‫مقاب ل نہيں ہے ‪ ،‬ج و كہ اوپ ر ‪ ،‬آگے ‪ ،‬پيچهے ‪،‬دائيں اور ب ائيں كي س ائيڈ كي ‪ ‬ہے ‪(،‬یع نی يہ تم ام س ائيڈ هللا كے‬
‫غيرمحدود ہيں)‪ ‬‬
‫استغفرهللا ايسے خرافات پر نہ مام ابن تيميه كو كوئي غصه آتا ہے نہ ‪ ‬غيرمقلدين ‪ ،‬هللا كے ذات كے حصے بناليے ايك‬
‫وه جو عرش كي طرف عرش كے بالمقابل ہے باقي اوپر كا حصه ‪ ،‬پيچهے كا حصه ‪ ،‬دائيں ‪ ،‬ب ائيں ۔۔۔ هللا كي ذات ك و‬
‫حصوں ميں تقسيم كرليا جبكہ حصے تركيب كي واضح عالمت اور جسم كي تعريف اور خصوص يات ميں ش امل هيں‬
‫اس سے زياده تجسیم کي وضاحت اور كيا هوگي ۔‬

‫امام ابن تيميه اس پر يہ تبصره اور ابو یعلی سے اختالف کرتے ہوئے فرماتے ہيں ك ه ام ام احم د كے كالم كي تفس ير‬
‫ميں هللا كو صرف ايك جهت سے محدود ماننا ماسوائے ديگر پانچ جهتوں كے ‪ ،‬يه تفسير قاضي كي دوسري جگه بيان‬
‫كي گئي تفسير كے خالف هے (كيا امام احمد ايسے خرافات پر اپنے كالم كو حم ل كرن ا ص حيح س مجهتے هونگے )‬
‫ليكن آگے امام ابن تيميه نے جو خود امام احم د كے كالم كي تفس ير ج و ان كے ‪ ‬ہ اں مخت ار هے وه نق ل كي هے ‪ ،‬وه‬
‫بهي قابل ديد ہے ‪،‬ابن تيميه كہتے ہيں كہ‬
‫ِ‬
‫قول أحمد حد اليعلمه إال هو والثاني أنه صفة يَبين بها عن غيره ويتميز فهو تعالى فرد واحد ممتنع عن االشتراك له في أخص صفاته قال‬
‫وقد منعنا من إطالق القول بالحد في غير موضع من كتابنا ويجب أن يجوز على الوجه الذي ذكرناه فهذا القول الوسط من أقوال القاضي‬
‫الثالثة هو المطابق لكالم أحمد وغيره من األئمة وقد قال إنه تعالى في جهة مخصوصة وليس هو ذاهبً ا في الجهات بل هو خارج العالم‬
‫متميز عن خلقه منفصل عنهم غير داخل في كل الجهات وهذا معنى قول أحمد حد اليعلمه إال هو ولو كان مراد أحمد رحمه اهلل الحد‬

‫‪21‬‬
‫معلوما لعباده فإنهم قد عرفوا أن حده من هذه الجهة هو العرش فعلم أن الحد الذي ال يعلمونه مطلق ال‬
‫ً‬ ‫من جهة العرش فقط لكان ذلك‬
‫يختص بجهة العرش {بيان تلبيس الجهمية في تأسيس بدعهم الكالمية (‪})24 /3‬‬
‫” امام احمد نے جہاں حد نفي كي ہے اس سے مراد يہ ہے كہ كوئي اس حد كے اندازے كا علم نہيں ركهتا كہ كتن ا ح د‬
‫ہے ‪،‬كيونكه انهوں نے كہا ہے کہ هلل كے ايسا حد هے جس كو صرف هللا ہي جانتاہے‪ ، ،‬اگ ر اس ك ا مطلب يہ ہوت ا ہ ه‬
‫وه هللا صرف عرش كي جهت ميں محدود ہے تو وه تو هللا كے بندوں ك و معل وم تها“۔‪ ( ‬ك وئي بت ائے كهاں كس ي نص‬
‫ميں ہميں هللا كے ليے حد بتائي گئي هے كه ہميں اس بات پر علم هو ‪ ،‬ام تقولون علي هللا ماالتعلمون)‬
‫آگے لكها كه بندوں كو پته ہے كہ هللا كا حد اس جهت سے عرش ہي ہے پس معلوم هوا كہ هللا كا وه حد جو مخلوق ك و‬
‫معلوم نہيں وه مطلق هے صرف عرش كے ساتھ مختص نهيں“‬
‫آخري جملے ميں غور كیج ئے هللا كے ل يے ح د اور وه بهي جہ اں قاض ي اس ك و ص رف ع رش كي س ائيڈ ميں ث ابت‬
‫كرتے ہيں ابن تيميه اس ك و مطلق ا ث ابت ك رتے ہيں نہ كہ ص رف ع رش كي س ائيڈ ميں مخص وص ‪ ،‬س بحان هللا عم ا‬
‫يصفون ‪ ،‬كيا يه سب قران و حديث سے ليا گيا ہے ‪،‬ايس ي ب اتوں ك و يقين ا الم ذہبی س لفی علم كالم ‪ ‬ہي كهتےہهيں اور‬
‫فرماتے ہيں كہ علم كالم صرف زنديق ہي استعمال كرتے ہيں۔‪ ‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف ق ف‬ ‫ق ن‬
‫ع ی دہ مب ر ‪ :2‬ر ہ سل ی ہ المذہ ب ی ہ کے م طابق‪  ‬ا گل ی اں ہللا کے ہ ا ھ کا ای ک ج ز ہ ی ں۔‬

‫فرقہ سلفیہ کے شیخ خليل هراس كتاب التوحيد البن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں (ص‪" :)63‬القبض إنم ا يك ون‬
‫باليد حقيقة ال بالنعمة ‪ .‬فإن قالوا ‪ :‬إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته اإلنعام ‪ .‬قلنا لهم ‪ :‬وبماذا قبض ؟؟ فإن القبض محتاج إلى آلة فال‬
‫مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم ‪ )) ..‬اهـ !‬
‫خليل هراس هللا كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهت ا ہے ‪” :‬كہ قبض يع ني‬
‫پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ‪ ،‬اگر كوئي‪  ‬کہے کہ باء سبب كے ليہےے ‪ ،‬يعني هللا نے نعمت ك رنے‬
‫كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں ‪ :‬كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ‪،‬كيونكه قبض اور پكڑنا كسي آلے ك ا‬
‫محتاج هے تو ان كے ليے خالصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں“‬
‫ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو هللا سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے كے بارےہے ‪ ،‬يهاں هللا كے پك ڑنے ك و بهي‬
‫كسي "آلے يا اوزار يا محتاج " كها پس انكے هاں هللا كي ص فت يد هللا تع الي كے ل يے پك ڑنے ك ا آل ه هے اور هللا ك ا‬
‫پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذباهلل ‪ ،،‬هللا الصمد‬
‫دوسري جگه ارشاد فرماتے ہيں اس ي التوحيد كے تعليق ات ميں ‪:‬ويق ول ‪((: 89‬ومن أثبت األص ابع هلل فكي ف ينفي عن ه الي د‬
‫واألصابع جزء من اليد ؟؟!! ))‬
‫ترجمه ‪ :‬اور جس نے هللا كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح هللا س ے هات ه كي نفي كرت ا هے حاالنك ه انگلياں‬
‫هاته هي كا جزء هے (نعوذباهلل) يهاں هللا تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ‪ ،‬كس ي آيت يا ح ديث مب ارك‬
‫ميں يه بات همارے علم ميں نهيں كه هللا كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔‪ ‬‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫کئ‬ ‫شخ‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ف ق‬ ‫ق ن‬
‫ے۔‬ ‫ر‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫وہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ہ‬ ‫ے حد ن‬ ‫ہللا‬ ‫ص‬ ‫ع ی دہ مب ر ‪ :3‬ر ہ المذہ ب ہ سل ی ہ کے زدی ک ج و‬
‫ہ‬ ‫یل‬
‫ف ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ت‬
‫ے پر اصرار ب ھی کرےہ ی ں اور ج و ن ہ ماے اسے کا ر رار ید‬
‫نن‬
‫ے حد کا اث ب ات کرے ہ ی ں ب لکہ اسے ما‬
‫کئ‬ ‫ت ن‬ ‫ن ن‬
‫ے‬ ‫چ اچ ہ ناب ن یمی ہ ہ صرف ی ہ کہ ہللا ی ل‬
‫ہ ی ں ( عوذ ب اللہ)‬
‫قفهذا كله وما اشبهه شواهد و دالئل علي الحد ومن لم يعترف به فقد كفر (بيان فتلبیس الجہمیہ ج ‪ 3‬ص ‪)689‬‬
‫ن نن‬ ‫کئ‬
‫ے؟؟‬ ‫ے واال کا ر ہ‬ ‫ے ہ ما‬ ‫ے جس‬ ‫ے حد کا ذکر‪  ‬آی ا ہ‬ ‫رآن پ اک کی کس آی ت ی ا حدی ث می ں ہللا ی ل‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫متق‬ ‫ق ن‬ ‫ن ن‬ ‫سف‬ ‫ف ق‬ ‫ق ن‬
‫ے۔ عوذ ب اللہ‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫ے‬‫چ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫زول‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ان‬ ‫م‬‫آس‬ ‫کے‬ ‫ہللا‬ ‫ق‬ ‫ب‬‫ا‬‫ط‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ہ‬ ‫بی ی‬‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫المذ‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫‪4‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬‫م‬ ‫ع ی دہ‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن ت‬ ‫ش‬ ‫‪ ‬‬
‫ت‬ ‫شئ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫سف‬
‫ے ہيں‪( :‬ص‬ ‫ل ی ہ کے ی خ ليل هراس‪  ‬امام اب ن حزيمه كي ال وحي د ر اپ ي ليق ميں ہللا کے زول کے ول کے حت حاے می ں ‪ ‬لكه‬
‫ع‬
‫‪ « :)126‬يعني أن نزوله إلى السماء الدنيا يقتضي وجوده فوقها فإنه‪ :‬انتقال من علو إلى سفل! »‪.‬‬
‫ن‬ ‫ن متق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫تق ض ت‬ ‫ن ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬
‫ے ن ل ہ وے‬ ‫ے كہ‪  ‬الله اس كے اوپر ہ و كي و ك ہ زول اوپر سے يچ‬ ‫رج مه ت‪":‬يع ی اللنه ك ا آسمان د يا پر زول اس ب ات كا ا ا ك ر ي ‪  ‬ہ‬
‫ت‬
‫ی‬
‫ض‬ ‫سف‬
‫ے ت ب ب ھی المذہ ب ی ل‬ ‫ے ہيں“۔ نعوذببالله لک ت‬ ‫كوفكه‬
‫ب ال‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫الزم‬ ‫ات‬ ‫ب‬ ‫ہی‬ ‫ق‬‫ب‬‫ا‬‫ط‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ط‬ ‫ب‬ ‫وا‬ ‫و‬ ‫‪ ‬‬‫اصول‬ ‫‪ ‬‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ھی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫ای‬ ‫وہ‬ ‫اگر‬ ‫رض‬
‫ت‬
‫ہ‬ ‫عق دہ ن م ر ‪ :5‬ن زول کے وق ت عرش خ‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫الی‬ ‫ی ب‬

‫‪22‬‬
‫ش‬ ‫سف‬
‫لع ی لک ت‬ ‫ل‬
‫ے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ھ‬ ‫‪ ‬‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ث‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ی‬
‫يخلو‪ ،‬وقول بانه ال يخلو‪ ،‬وقول بالتوقف (شرح عقیدہ االوسطيه للعثیمین ص ‪)261‬‬ ‫علماء اهل السننة لهم في هذا ثالثة قول ت ق‬ ‫واذا كان‬
‫ن‬
‫کے ب ارے می ں ی ن ول ہ ی ں‬ ‫ت کے‪ (  ‬خزول) ت‬ ‫عل نماء اہ ل س ق‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬‫‪ : 1‬ن زول کے و ق ت عرش الی ہنو ج ا ا ت‬
‫عرش خ الی ہی ں ہ و ا۔‬ ‫کے و ت ئ‬ ‫‪ :2‬زول ت ق‬
‫ف ق‬ ‫ت ت ق‬ ‫ن‬ ‫ف ک ی ا ج ن اے۔‬ ‫ن‬ ‫‪ :3‬اس ر و‬
‫کے م علئق ی ن ول ہ ینں الب ت ہ قان کے ر نے کے اس‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ے کہ اہ لس ت کے زول‬ ‫ق‬ ‫دھا‬
‫ن‬
‫ا‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ا تن عث ی مپن ے اہ لس ت ر ہ ب ہت ان ع‬
‫ب ہ‬ ‫ت‬ ‫پی‬ ‫ب ع ی‬
‫ے اب ن عث ی می ن ے ان ا وال کو اہ لس ت کی طرف‬ ‫ے کہ ان کے ی ن م ت لف ا وال ہ ی ں ج ن سے ج ان چ ھڑاے ک ی ل‬ ‫نم لق ی ہ کہا ج اسکت ا ہ‬
‫ص‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫م سوب ئکر دی ا ہ‬
‫ح‬ ‫ع‬
‫ت‬ ‫کےمی طا ق ن زول کے وی ت ہللاہکانعرش خ الی ہ و ا ا ے اور ب قول ا ن عث ی م ن ہ اہ لس ت کا ول ے کہ عرش خ‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ے؟؟‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫دہ‬ ‫ق‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫کس‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ے ان‬ ‫ابقب ت ای‬
‫ے۔ ‪ ‬‬ ‫الی ہ و ا ن‬
‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ول‬ ‫پ ہل‬
‫ے‬
‫ے اور یسرا ی ہ کہ اس پر و ف ک ی ا ج اے ی ہ ب ھی اہ لس ت‬ ‫ول‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ت‬ ‫لس‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫‪ ‬‬ ‫ھی‬ ‫کے م طا ق ہللا کا عرش خ الی ہی ں ہ و ا ہ ب‬ ‫‪ ‬‬ ‫ول‬ ‫دوسرے‬ ‫ق‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫ول‬ ‫کا‬
‫ے کہ اسےنمعلوم‬ ‫ن ن ہ ماے وہ ب ئھی اہ لس ت اور ج و ی ہ کہ‬ ‫ت ج و ‪  ‬عرش کو خ الی‬ ‫لس‬ ‫ناب ج و‪  ‬نہزول تکے و تت ہللا کے ن عرش نکو خ الی ماے وہ ب ھی اہ‬
‫ع‬ ‫قئ‬
‫ے ہ ی ں اسالف می ں سے کس ے کہا‬ ‫من ذالک ی ہ ع ا د اب ن ث ی می ن ے کہاں سے ل‬ ‫ےت وع وہ تب ھی اقہ لس ت۔ تعوذ نب اللہ ن‬ ‫ہی ں نکہ ک ی ا ہ و ا ہ‬
‫ے کہ زول کے م لق ی ن ول ہ ی ن اور ی وں اہ لس ت کے ہ ی ں اور حق ہ ی ں؟؟‬ ‫ہ‬
‫قئ‬ ‫ف‬ ‫ن‬
‫فن ن‬ ‫ق ف‬ ‫ق‬
‫ے۔‬ ‫ع ی دہ مب ر ‪ :6‬ر ہ سل ی ہ ج ہمی ہ کی طرح اء ال ار کا ا ل ہ‬

‫یہاں یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ جہنم کے فناء کاقول جہم بن صفوان ک ا ہے جیس اکہ لس ان الم یزان میں ‪2/334‬میں‬
‫مذکور ہے۔‬
‫‪ ‬ابن تیمیہ کی ایک تص نیف "ال ردعلی من ق ال بفن اء الجنۃ والن ار"کے ن ام س ے ہے۔اس میں انہ وں نے جہنم کے فن اء‬
‫االستار ص ق‪)9‬ئ‬ ‫دس دلیلیں بیان کی ہیں۔ (مقدمہ رفع ف‬ ‫ہونے پر ت‬ ‫ج ن‬
‫ے ب ھی اب ن‪  ‬یمی ہ کے پ یروا ہ ی ں سب‪  ‬ج ہمی ہ کی طرف ن ا ال ن ار کے ا ل‪  ‬ہ ی ں۔‬ ‫ت‬
‫ک غ‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ین‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ے‪.‬‬ ‫ع ی دہ مب ر ‪ :7‬وی ض ( ع ی ہللا کی مراد کو اس کے سپ رد کر ا)‪  ‬المذہ ب ی ہ سل ی ہ کے زدی ک ب ل ل‪  ‬لط ہ‬
‫ؒ ف ت‬
‫امام ج الل الدی ن سی وطی رماے ہ ی ں‪:‬۔‬
‫اها ال ُْم َر ِاد ِم ْن َها إِلَى اللَّ ِه َت َعالَى َواَل ُن َف ِّ‬
‫س ُر َها َم َع َت ْن ِزي ِهنَ ا لَهُ َع ْن‬ ‫يض َم ْعنَ َ‬ ‫َ‬
‫ف وأ َْهل الْح ِد ِ‬
‫يث َعلَى اإْلِ يم ِ‬
‫ان بِ َها َوَت ْف ِو ِ‬ ‫السلَ ُ َ ُ َ‬ ‫السن َِّة ِم ْن ُه ُم َّ‬
‫ور أ َْه ِل ُّ‬‫َو ُج ْم ُه ُ‬
‫ن‬ ‫َح ِقي َقتِ َها‪.‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ش‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ت‬
‫ے سا ھ‬ ‫ات پر) ای مم نان رکھ ا ہ‬ ‫ت ( صوص ص ظ‬ ‫ںف اننکا مذہ ب‬ ‫ئی ن) امل ہ ی ت‬ ‫ت ج ن می ں سلف اور اہ لحدی ث (محد‬ ‫ن‬ ‫رج مہ‪ ”:‬مہور اہ ل س‬
‫کے کہ ان کے ت قمع ی فمراد کو ہللا قکی طرف سپ رد کر دی ا ج اے اور ہ م ان کی سی ر ہی ں کرے ج ب کہ ان کے اہ ری ع ی سے ہللا کو پ اک‬ ‫قاس ت‬
‫ے ہ ی ں“۔(الإ ان ي علوم ال رآن ج ‪ 3‬ص ‪)14‬‬ ‫رار دی‬
‫سف‬ ‫ت ئ‬ ‫ت‬
‫ل‬ ‫ہ‬
‫ے‪:‬‬ ‫اس‪  ‬پر ب صرہ کرے ہ وے ای ک المذ ب ی ی لکھت ا ہ‬
‫عط ف‬
‫ت‬
‫ض‬ ‫ق‬ ‫وثانياً قوله ‪ :‬مع تنزيھنا لهو عن حقيقتها ‪ ،‬صارخ بالتعطيل صراخ‪  ‬ثكاليق قالجهمية‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ح‬ ‫ظ‬ ‫ت‬
‫ے ہ ی ںقوا ح طور پفر ق ی ل ری اد کر‬ ‫ی‬ ‫ارت کہ ہ م ان کے اہئری ی ی مع ی سے ہللا کو‪  ‬پ اک رار تد‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ہللا) کی ی ہ ع‬
‫(رحمہ ف‬ ‫رج مہ‪” :‬امام سی وطی ت‬
‫ل‬
‫ے ان ہمی عور وں کی ری اد کی طرح ج و چ وں سے محروم ہ و گ ی ہ وں“۔(والع ی اذ ب اللہ) (عداء الما ری دية ل عيدة السل ية وله ‪)28‬‬ ‫ج‬
‫رہ ی ہ‬
‫ئن‬ ‫ق ن‬
‫ے عوذ ب اللہ جسم کا اطالق‬ ‫یل‬ ‫ک‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫‪:‬‬‫‪8‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ع ی دہ‬

‫ابن قیم نے‪  ‬اگر مگر کرتے ہوئے ہللا کیلئے جسم کا بھی اثبات کر لیا ہے۔‬
‫وإن أردتم بالجسم ما يوصف بالصفات ويرى باألبصار ويتكلم ويكلم ويسمع ويبصر ويرضى ويغضب فهذه المعاني ثابتة للرب تعالى وه و‬
‫موصوف بها فال ننفيها عنه بتسميتكم للموصوف بها جسما فرماتے ہیں‬
‫ترجمہ‪ :‬اگر جسم سے تمہاری مراد یہ ہے کہ جو صفات کے ساتھ متصف ہو اور آنکھوں کے ذریعہ دیکھا ج ائے اور‬
‫اس سے کالم کیا جائے اور وہ خود کالم کرے تو یہ سارے معانی ہللا کیلئے ثابت ہیں اس لئے ہم لفظ جس م کے اطالق‬
‫کرنے سے نفی نہیں کریں گے۔ (الصواعق المرسلة ج‪ 3‬ص ‪)940‬‬
‫ایک اور جگہ لکھتے ہیں‪ :‬وإن أردتم بالجسم ما له وجه ويدان وسمع وبصر فنحن نؤمن بوجه ربنا األعلى وبيديه وبسمعه وبصره‬
‫ترجمہ‪ :‬اور تمہاری مراد جسم سے یہ ہو کہ جس کے لئے چہرہ ہو اور دو ہاتھ ہوں اور سمع ہو اور بصر ہو تو ہم ہللا‬
‫کے چہرے‪ ،‬دونوں ہاتھوں ‪ ،‬سمع بصر پر ایمان التے ہیں۔ (الصواعق المرسلة ج‪ 3‬ص ‪)943‬‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ف ق ف‬ ‫ق ن‬
‫ع ی دہ مب ر ‪  :9‬ر ہ ‪ ‬سل ی ہ کے زدی ک ہللا کی ص ت ی د مت اش اب ہات می ں سے ہی ں۔‬

‫‪23‬‬
‫لک ت‬ ‫سف‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ٹ‬
‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ہق‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫گہ‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫‪ ‬‬ ‫ا‬‫ھ‬‫ر‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ے آپ کو ل‬ ‫ا‬ ‫مر‬ ‫اری‬‫س‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫‪ ‬‬ ‫ی‬ ‫ای ک وک وری فن اہ ل حدی ث‪  ‬شعالم زبیر علی ز‬
‫ع‬ ‫ح‬ ‫ل ب‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ع‬ ‫ن‬
‫ے“۔ (اصول ا مصای ح‪  ‬ی ق زبیر لی ز ی ص ‪)38‬‬ ‫” ہللا کی ص ت ”ی د“ کو مت ا اب ہات می ں سے کہ ا اہ ل ب دعت کا مسلک ہ‬
‫تق‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ف ق‬ ‫ق ن‬
‫ع ی دہ مب ر ‪ :10‬ر ہ المذہ ب ی ہ سل ی ہ کے زدی ک ہللا المکان سے مکان کی طرف‪  ‬من ل ہ وا‬

‫وز ِع ْن َد َك أَ ْن َي ْنتَ ِق َل َم ْن اَل‬


‫ال) ‪َ :‬ف َه ْل يَ ُج ُ‬‫ابن قیم استواء كے بارے ميں لكهتے هيں كه (اجتماع الجيوش اإلسالمية (‪ )161 /2‬فَِإ ْن قَ َ‬
‫ك‬‫ب َم َكانًا َو َك َذلِ َ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫َن َك ْونَهُ في اأْل ََزل اَل يُوج ُ‬ ‫يل إِلَى إِطْاَل ِق ذَلِ َ‬
‫ك َعلَْي ِه أِل َّ‬ ‫ِ‬ ‫ال وَتغَُّير ال َ ِ‬
‫ْح ال فَاَل َس ب َ‬
‫اِل ِ‬
‫يل لَهُ‪ :‬أ ََّما ا نْت َق ُ َ ُ‬
‫ٍ ِ‬ ‫ِ ِ‬ ‫ِ‬
‫َم َكا َن في اأْل ََزل إلَى َم َكان‪ .‬ق َ‬
‫ص ير م ْنتَ ِقاًل ِمن م َك ٍ‬
‫ان‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ب " َم َكانًا " ِم َن الْ َخل ِ‬ ‫ِ‬ ‫ك َك الْ َخل ِْق أِل َّ‬‫س ِفي ذَلِ َ‬ ‫ِ‬
‫ْ َ‬ ‫ب َم َكانًا َويَ ُ ُ‬ ‫ْق َو َن ْقلَتُ هُ تُوج ُ‬ ‫َن َك ْو َن َم ا َك ْونُهُ يُوج ُ‬ ‫ب َم َكانًا َول َْي َ‬
‫َن ْقلَتُهُ اَل تُوج ُ‬
‫كو ِ‬ ‫ِ ِ‬ ‫ول‪ :‬اسَتوى ِمن اَل م َكا َن إِلَى م َك ٍ‬ ‫ِ‬ ‫س َك َذلِ َ‬ ‫ٍ َّ‬
‫اح ًدا‪.‬‬ ‫ول‪ :‬ا ْنَت َق َل َوإِ ْن َكا َن ال َْم ْعنَى في ذَل َ َ‬ ‫ان َواَل َن ُق ُ‬ ‫َ‬ ‫ك‪َ . . .‬ولَكنَّا َن ُق ُ ْ َ ْ َ‬ ‫إلَى َم َكان َواللهُ َت َعالَى ل َْي َ‬
‫ِ‬
‫ترجمه ‪ :‬اگر كوئي كهے كه كيا آپ كے هاں جائز هے كه كوئي ذات ج و ازل ميں المك ان هو [ كس ي مك ان ميں ق رار‬
‫پائے هوئے نهيں هو ] وه كسي مكان كي طرف منتقل هوجائے ‪ ،،‬تو اسے كها جائے گا هرچه انتق ال و تغ ير [تب ديلي ]‬
‫هے تو اس كا اطالق هللا جل جالله پر هونے كا كوئي راسته نهيں هے [يعني جائز نهيں هے ] ‪ ،‬كيونكه ازل ميں اس كا‬
‫موجود هونا [اس كے ليے ] كوئي مكان ثابت نهيں كرتا ‪ ،‬اور اسي طرح اس كا منتقل هونا بهي كوئي مك ان ث ابت نهيں‬
‫كرتا ‪ ،‬اور وه اس بات ميں مخلوق كي طرح نهيں هے كيونكه ايسي موجوگي جس س ے مك ان الزم آت ا هے وه مخل وق‬
‫كي طرف سے هے [يعني ايسي موجودگي مخلوق كے ليے هے ] اور ان ك ا انتق ال بهي مك ان ث ابت كرت ا هے اور وه‬
‫[ مخلوق اپني انتق ال ميں ] ايك مك ان س ے دوس رے مك ان كي ط رف منتق ل هوج اتي هے ‪ ،،،‬اور هللا اس ط رح نهيں‬
‫هے ‪ ،،،‬ليكن هم كهتے هيں كه هللا المكان سے مكان كي طرف مستوي هوا اور يه نهيں كهتے "منتق ل " هوا اگ ر چ ه‬
‫دونوں كا مطلب ايك هي هو‪-‬‬
‫اس عبارت ميں كئي باتيں قابل غور هيں ‪:‬‬
‫ٓأل وكٹوريه مجسمه هميں فلسفے يا فلسفيانه باتوں كا طعنه ديتي رهتي هے اور كهبي كهبي ان سے جب آپ ب ات ك ريں‬
‫تو جسم كے خصوصيت جيسا كه مكان ميں استقرار ۔ طول عرض وعمق اور حد وغيره كي بات آپ ان پر الزم ك رليں‬
‫تو ان كي طبيعت بهت بهاري هوجاتي هے كه يه سب آپ لوگوں كا فلسفه هے اور هم ايسي باتيں نهيں كرتے اور كهبي‬
‫كهتے هيں يه علم كالم وال وں كي ب اتيں هيں اور يه ايك لعنت بهرا علم هے يهاں ان كے ام ام وهي فلس فيانه گفتگ و‬
‫فرمارهے هيں ‪ ،،‬اور وهي علم الكالم چهيڑ رهے هيں فرق يه هے كه آنجن اب اهل س نت متكلمين كے بج ائے كراميه‬
‫كي طرفداري ميں اپنے علم الكالم كا حصه ڈال رهے هيں‬
‫ايك طرف امام ابن قيم ؒ هللا عزوجل پر انتقال و تغير كو جائز نهيں كهتے اور ساته ميں ازل ميں هللا س ے مك ان كي نفي‬
‫فرماتے هيں اور استواء كو جس كو بعد ميں انهوں نے انتقال هي كے هم معني مان ليا هے اس مقام ميں اس س ے بهي‬
‫هللا كے ليے مكان كا لزوم نهيں مانتے ‪ ،،،‬اور اس بات كو مخلوق كا خاصه ق رار دے رهے هيں ك ه ان كي ايك جگ ه‬
‫موجودگي يا دوسري جگه منتقلي مكان الزم كرتي هے اور هللا مخلوق كي طرح نهيں هے ‪ ،،،‬ت و پهر كس ط رح آخ ر‬
‫ميں كهتے هيں كه هم كهتے هيں هللا المكان سے مكان كي طرف مستوي هوا ‪ ،،،،،‬جب كسي جگه س ے دوس ري جگ ه‬
‫منتقلي سے مكان الزم هونا مخلوق كا خاصه هے تو آخر ميں يهي خاصه كس ط رح رب الع زت كے ليےث ابت فرمايا‬
‫جو كه ليس كمثله شئ هے ‪ ،،‬اور يه بهي فرمايا كه هم اس توي كهتے هيں انتق ل نهيں كهتے ليكن دون وں ك و هم مع ني‬
‫بهي قرار دے ديا‬
‫گويا ابن قيم رحمه هللا كے هاں زياده ضروري صرف الفاظ كي رعايت هے ‪ ،،‬مع ني ج و بهي ليا ج ائے ك وئي مس ئله‬
‫نهيں حاالنكه انتقال كا هللا پر جائز نه هونا اس وجه سے نهيں هے كه يه لفظ ق ران وح ديث ميں وارد نهيں هوا بلك ه يه‬
‫لفظ هللا پر تغير اور تبديلي ث ابت ك رنے واال هے اس ل يے هللا س ے منفي هے ‪،‬محض الف اظ كي رع ايت ك ركے مع ني‬
‫خوبخو وهي لينا اتنے بڑے امام سے كيسے صادر هوتا هے ‪ ،،‬اس پر جتنا بهي تعجب كيا جائے كم هے‬
‫يهاں قابل غور بات يه بهي هے كه آج كے سلفيوں كے هاں هللا عزوجل سے جسم كي نفي بالكل غلط هے يه دليل دے‬
‫كر كه جسم كا لفظ قران وحديث ميں وارد نهيں هوا لهذا هللا كے ليے اس كا اثبات يا نفي ك وئي بهي ج ائز نهيں هے ت و‬
‫هم پوچهتے هيں آپ كے امام نے جو پهلي عبارت ميں انتقال وتغير كا اطالق هللا پر جائز ه هونے كي ب ات كي هے ت و‬
‫يه نفي كونسي آيت يا حديث ميں آئي هے‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف ق ف‬ ‫ق ن‬
‫ے ۔ عوذ ب اللہ‬ ‫ع ی دہ مب ر ‪ :11‬ر ہ سل ی ہ کے م طابق ہللا‪  ‬حرکت کر ا ہ‬
‫ت‬ ‫ش‬
‫ع ی لک ت‬
‫ے۔‬ ‫ہ ی ہ‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫حرکت‬ ‫ہللا‬ ‫)‬‫‪22‬‬ ‫ص‬ ‫المختار‬
‫ق ً ت ن‬ ‫(الجواب‬ ‫حق‬ ‫له‬ ‫فالحرکة‬ ‫تعالي‬ ‫هلل‬ ‫الحرکة‬ ‫ں۔‬
‫ھ ہن ی س ف‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫دمحم‬ ‫خ‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫نت‬
‫ے ب لکہ وہ‬ ‫ے ہ یقں وہ ی ہناں اب ن عث ی می ن کا طعاخ سا ھ ہی ں ید‬ ‫ن ب از ج ہی ں لت ی ب ہتش ما‬ ‫طرف ابت‬ ‫دوسری ن ف‬
‫ے۔‬ ‫ے ہ ی ں ب ال ب ہ‪  ‬ی ہ ول اہ لس ت وا جلماعت کے الف ہ‬ ‫حرکت کی ی کرے ہ ی ں اور کہ‬

‫‪24‬‬
‫والنزول والمجيء صفتان منفتان عن اهلل من طريق الحركة ‪ ‬واالنتقال‪  ‬من حال الي حال‪ ،‬بل هما صفتان من صفات اهلل بال تشبيه جل عم ا‬
‫يقول المعظلة ‪ ‬والمشبهة بها علوا كبيرا وال شك ان هذا القول باطل مخالف لما عليه اهل السن ة‪  ‬والجماع ة (مجموع فتاوی ج ‪ 5‬ص‪ ‬‬
‫‪)54‬‬
‫ٹ‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬
‫ے (والع ی اذ ب اللہ)‬ ‫ع ی دہ مب ر ‪ :12‬ہللا کی خم لوق ے ہللا کو ا ھا رکھا ہ‬
‫ن ف‬ ‫ت‬ ‫ث‬ ‫ت‬
‫الدارمی سے ج گہ ج گہ عق دے کا اث ات کرے ہ ں ج ن ر اب ن ج وزی ے د ع الش ہ ۃ م ں ‪  ‬رد ب‬
‫ے۔‬ ‫یہ‬‫ا‬ ‫ک‬ ‫ھی‬ ‫ب ی‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫اب ن نن یمی ہ ج تو کہ‪  ‬ع مان ب ن سع ی د ن ق‬
‫ش لَم يح ِملُوا الْعرش ومن َعلَي ِه بِ ُق َّوتِ ِهم و ِشد ِ‬ ‫ض أ َّ‬
‫َّة‬ ‫َْ‬ ‫َْ َ َ َ ْ ْ‬ ‫َن َح َملَةَ ال َْع ْر ِ ْ َ ْ‬ ‫چ ا چ ہ اب ن یمی ہ دارمی کی ع ب ارت ل کرے ہ ی ں کہ "فَاَل تَ ْد ِري أ َُّي َها ال ُْم َعا ِر ُ‬
‫يد ِه" ( بيان تلبيس الجهمية ‪)3/246‬‬ ‫أَس ِر ِهم‪ 2‬إِاَّل بِ ُق َّو ِة اللَّ ِه وتَأْيِ ِ‬
‫َ‬ ‫ْ ْ‬
‫ترجمه ‪ :‬كيا تم نهيں جانتے اے معارض ‪ ،‬كہ حملة العرش [فرشتوں ] نے عرش كو اور جو [ذات ] اس پر موج ود ہے‬
‫ت‬ ‫اس كو اپنی قوت اور طاقت سے نہيں ‪ ‬بلكہ هللا كي قوت اور مدد سے اٹهايا ہے۔‬
‫نعوذ ئباہلل من ذالک یعنی بقول ابن سعید اور ابن تیمیہ ‪  ‬مخلوق نے خالق کو اٹھا رکھا ہے۔ ی ہ ب ات اب ن یمی ہ اور اب ن سع ی د‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ے ک ی ای ک ج گہ ک ہی ہ‬
‫ابن تیمیہ اور ابن سعید کے بعض اندھے مقلد اس کا یہ جواب دینے کی بھی کوشش کرتے ہیں کہ اگر ہللا اپنے مخلوق‬
‫کو قدرت دے تو وہ اسے اٹھا سکتے (حاالنکہ‪  ‬کتاب و سنت میں اس کا کوئی ثبوت موجود نہیں کہ ہللا کی مخلوق نے‬
‫ہللا کو اٹھا رکھا ہے یہ ان ملحدین کی بدعت ہے)‪  ‬یہ بات ایسی ہی ہے جیسے کہ‪  ‬دہریے کہتے ہیں کہ اگ ر ہللا چ اہے‬
‫تو اپنے جیسا ایک اور ہللا پیدا کر دے یا‪  ‬کوئی یہ کہے کہ مخلوق ہللا کی قدرت سے ‪ ‬ہللا پر غالب آسکتی ہے۔ ‪( ‬نع وذ‬
‫باہلل من ذالک)‪  ‬ہللا کی شان اس سے پاک ہے۔‬

‫اس پر خود ایک سلفی معلق کو بھی غیرت آئی ہے اس نے بھی رد کیا ہے۔‬

‫چنانچہ ابن سعید کی کتاب نقض اإلمام أبي سعيد عثمان بن سعيد کے حاشیہ میں ایک سلفی معلق لکھتے ہیں۔‬
‫ِ‬
‫ْحام ل‬ ‫ِ‬ ‫ه َذا غير ِ‬
‫س ال َْع ْرش َح امال للرب َواَل يقلهُ‪ ،‬بل الرب ُس ْب َحانَهُ َوَت َع الَى مستغن َعن ال َْع ْرش َوغَ يره من ال َْم ْخلُوقَ ات َو ُه َو ال َ‬
‫ص حيح‪َ ،‬فلَْي َ‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫للعرش ولحملة ال َْع ْرش بقوته َوقدرته‪( '،‬نقض اإلمام أبي سعيد عثمان بن سعيد ‪)1/458‬‬
‫يہ بات [یعنی عرش ك ا هللا ك و اٹهان ا ] ص حيح نہيں كيونكہ ع رش هللا ك ا حام ل [اٹهانے واال ] نہيں ‪ ،‬بلكہ رب تع الي‬
‫عرش وغيره مخلوقات سے مستغنی ‪ ‬ہےبلكہ وہی عرش كو اور اس كے اٹهانے والوں كو اپنے ق وت اور ق درت س ے‬
‫اٹهانے واال ہے۔‬

‫يہ واضح رد كيا ہے سلفی معلق نے اگر دارمی کی ‪ ‬بات ٹهيك ہوتي تو سلفي معلق اس كي بات كو "هذا غير صحيح "‬
‫نہ كہتے يہ ہم نے صرف ان ‪ ‬جاهل سلفیہ‪    ‬کی تسلی کیلئے لگايا ورنہ س لفي معل ق كے رد كی ہميں ک وئی ض رورت‬
‫نہيں ہے جب ‪ ‬یہ بات اتنی واضح ہو‪ ‬۔‬
‫ن قئ‬ ‫ن ن‬ ‫ئ ف‬ ‫سف‬
‫ے ہ ی ں۔‬‫ے ع ا د سپ رد‪  ‬کر رکھ‬ ‫ے کہ ا ہوں ے کن کو پا‬ ‫‪ ‬‬ ‫ہ‬ ‫کر‬ ‫حہ‬ ‫ل‬ ‫ے‬ ‫ک‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ان احمق المذہ ب ل‬
‫یل م ی ہ‬
‫ت کئ‬ ‫ق ن‬
‫ے ج ہت کا اث ب ات‬ ‫ع ی دہ‪  ‬مب ر ‪ :13‬ہللا عالٰی ی ل‬
‫لک ت‬ ‫ن‬ ‫نق‬ ‫ن کئ‬ ‫ث‬ ‫کئ‬ ‫ن‬ ‫ف ق‬
‫ے ہ ی ئں۔‬ ‫ب جم ھ‬‫عد‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ے چت ن د آی ات‬ ‫ے یل‬ ‫ے ج ہت کو اب ت تکر ث‬ ‫ان صاحبع ہللا ی ل‬ ‫ر ہ اہ لحدی تث کے مج دد وابت صدیق حئسن خ ف‬
‫ے“۔ (والع ی اذ ب اللہ) ( موعہ رسا ل‬ ‫ے ج ہت وق اور لو ‪  ‬پوری صراحت کے سا ھ اب ت ہ و ی ہ‬ ‫”مذکورہ ب اال ی رہ آی ات سے ہللا عالٰی ک ی ل‬ ‫قئ‬
‫ث‬ ‫ف‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ئف‬ ‫نع ا د ج ‪ 3‬ص غ‪ 147‬ق)‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ے۔ ( ت اوی ا ی ہ مد ی ہ ص ‪)493‬‬
‫ٰ‬ ‫ے ی ج ملہ ہای ت م ی د کت اب ہ‬ ‫زل االب رار ج و کہ ی رم لدی ن کے ل‬
‫ے۔) زل االب رار‬ ‫ے اور س کا مکان عرش ہ‬ ‫ے کہ‪ˮ‬وهو في جهة‪  ‬الفوق ‪ ،‬ومكانه العرش“وہ (ہللا) اوپر کی ج ہت می ں ہ‬ ‫می ں‪  ‬لکھا ہ‬
‫ص ‪ 3‬کت اب االی مان(‬
‫قئ‬ ‫ن ت‬ ‫خ غ ق‬
‫م‬ ‫ج‬ ‫ث ن واب فد الزمان خ‬ ‫امام اہس فل ت‬
‫ے کہ توہ ع ا د می ں پوری طرح‬ ‫کی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ص‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ود‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ارے‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫احب‬ ‫ص‬ ‫ان‬ ‫وح‬ ‫حدی ت‬
‫ق‬ ‫ہ ف ق‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫)‬ ‫‪385‬‬ ‫ص‬ ‫اء‬
‫ف‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ذکرہ الن ب ال ی ی ت راج م الع‬‫ف‬ ‫ے(‬ ‫ھ‬
‫ن‬ ‫ئسے ن ل ی‬
‫ی ک ئ سل ح ی ئ‬ ‫کت‬ ‫ہ‬
‫کت‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫ک‬ ‫ق‬ ‫ج‬
‫ص ‪)635‬‬ ‫ے ( ی ی ج ا زہ ت ق‬ ‫ے ہ ی ں۔ د تھ‬ ‫ے وح ی د الزم شان کو امام ا ل حدی ث ہ‬ ‫ر یس شدوی ہی ں غ ر ہ قا لحدی ث و ی ل ی ت ہلکی تہ‬ ‫ہ‬
‫ے“۔ (حدی ث اور اہ ل ل ی د ص‬ ‫ے ہ ی ں‪ ”:‬ب ال ب ہ ی ہ ہ مارے اسالف می ں سے ھ‬ ‫داؤد ار د صاحب ی رم لد ان کے ب ارے می ں ھ‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫سلف ن‬ ‫‪ )162‬ق‬
‫ے کہ‪ ‬‬ ‫ا‬ ‫ے ہ ں ف رق ات ن‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ے ہ ں ی ون کہ ان کے ع ق ائ د و سا ل‪  ‬ب لک‬ ‫کت‬
‫کے‬ ‫ر‬‫ک‬ ‫طرف مت ق ت‬
‫سوب‬
‫ن‬ ‫م‬
‫غ‬
‫ہ‬ ‫ی ی‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ہ ی ک‬ ‫ےھآپ کولک ی ا ہی کیغ ق‬ ‫اور د الزمان ے ک‬
‫پ‬ ‫ا‬‫ن‬‫ن‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫ی‬
‫ے۔‬ ‫ی ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ہ‬ ‫لد‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫آج‬ ‫اور‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫وح ی‬

‫‪25‬‬
‫کت‬ ‫چ ن کئ‬ ‫ن‬ ‫ض‬ ‫غ ق‬
‫ے ہ ی ں تکہ ی ہ ‪  ‬ہ مار امام اہ ل‬‫ے‪  ‬اس کے ب ارے می ں ہخ‬
‫ے یل‬
‫ت‬ ‫ک‬‫ے اس امامناہ لحدی ث ‪   ‬سے ج ان ھڑا‬ ‫پ‬‫رات ا‬
‫خ‬ ‫ح‬ ‫آج کل کے ج اہشل ی رم لتدی ن‬
‫ل‬
‫ے ہ ی ں کہ وح ی د الزمان صاحب آ ری دم ک اہ ل حدی ث‬ ‫ے ای ک مولوی صاحب ھ‬ ‫حدی ث ب عد می ں ی عہ ہ و گ ی ا ھا ج ن‬
‫ب کہ ود ان کےف اپ‬
‫ے۔ (ماہ ن امہ محدث ج ‪ 35‬ج وری ‪ 2003‬ص حہ ‪)77‬‬ ‫رہ‬
‫ے؟‬ ‫ک ی ا ہللا ج ھت می ں ہ‬
‫وقال اإلمام الحافظ الفقيه أبو جعفر أحمد بن سالمة الطحاوي الحنفي (‪ 321‬ھ) في رسالته‪(  ‬متن العقيدة الطحاوية) ما نصه‪" :‬وتعالى أي‬
‫اهلل عن الحدود والغايات واألركان واألعضاء واألدوات‪ ،‬ال تحويه الجهات الست كسائر المبتدعات" اهـ‪.‬‬
‫ؒ‬ ‫ب ف‬ ‫قئ‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫نف‬
‫ے کہت ی ہ ع اق د امام ا و نح ی ہف ‪،‬‬ ‫روع می ں لکھا ہ‬ ‫ال يك ب ار علماء الس قلف می ں سے ہ ی ںت اپ ی کت اب (الع يدة ال طحاوية) جس کے‬ ‫ل‬
‫امام ا طحاوي ؒ ح‬
‫ص‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ؒ‬
‫ے“‪(  ‬م ن الع يدة ا طحاوية حہ‬ ‫امام ایو یوسف‪ ،  ‬امام دمحم کے ع ا د ہ ی ں کہ‪” ‬الله عالی” مکان و ج ھت و حدود“سے پ اک ومُ زه ومُب را ہ‬
‫ف لک ت‬ ‫ن‬ ‫ش‪)۱۵‬‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ر‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫کو‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ات‬ ‫ے کان‪  ‬کا اث‬ ‫کئ‬
‫ہللا‬‫ي‬‫ؒ‬ ‫د‬ ‫ی خ ن ظ ام الد ن الهن‬
‫ھ‬ ‫ب‬ ‫یل م‬ ‫ی‬
‫قال الشيخ نظام الهندي‪" :‬ويكفر بإثبات المكان هلل" (في كتابه الفتاوى الهندية المجلد الثاني صفحه ‪)259‬‬
‫ت‬ ‫ف ق‬ ‫قئ‬ ‫ت کئ‬ ‫خ‬ ‫ش‬
‫ے ہ ی ں"وقد قال جمع من السلف والخلف‪ :‬إن من اعتقد أن اهلل‬ ‫ے ج ھت کے ا ل کو کا ر رار ید‬ ‫ال ي خ محمود دمحم طاب السب ؒ‬
‫كيہللا عالٰی ی ل‬
‫ش ف ؒ‬ ‫في جهة فهو كافر"‪(.‬إتحاف ئ الكائنات(‬
‫حن ؒ ف ف ت‬ ‫ؒ‬ ‫ؒ‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ل کئ‬
‫ے جسم ج ھت کے ا ل پر چ اروں آ مہ امام اب و حن ی ہ ‪ ،‬امام مالک امام ا عی امام احمد ب ن ب ل کا ک ر کا وی۔‬ ‫ا له‪  ‬ی ل‬
‫ٰ‬
‫(وفي المنه اج الق ويم على المقدم ة الحض رمية) في الفق ه الش افعي لعب د اهلل بن عب د ال رحمن بن أبي بك ر بافض ل الحض رمي‪" :‬واعلم أن‬
‫القرافي وغيره حكوا عن الشافعي ومالك وأحمد وأبي حنيفة رضي اهلل عنهم القول بكفر القائلين بالجهة والتجسيم وهم حقيقون بذلك"اهـ‬
‫( ومثل ذلك نقل مال علي القاري (في كتابه المرقاة في شرح المشكاةج‪ 3‬ص ‪(271-270‬‬

‫کم‬ ‫عق دہ ن م ر ‪ :14‬محکم کو مت ش اب ہات اور مت ش اب ہات کو مح‬


‫ح خ لک ت‬ ‫ن‬ ‫ف قی ب‬
‫ن‬ ‫غ خ‬ ‫شت‬ ‫ت‬ ‫ں‪:‬‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫‪ ‬‬ ‫ان‬ ‫ی ع ق‬‫سن‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫صد‬‫ت‬ ‫واب‬ ‫دد‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ث‬
‫ق‬ ‫حدی‬ ‫ل‬ ‫ر ہ اتہ‬
‫ے‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫وض‬ ‫و‬ ‫ور‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫‪ ‬‬ ‫ں‬ ‫ہ‬
‫ب ہی‬‫ا‬ ‫م‬ ‫ات‬ ‫آ‬
‫ی ی‬‫ہ‬ ‫سو‬ ‫‪،‬‬ ‫ے‬‫ہ‬ ‫کی‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫طے‬
‫ق‬ ‫ا‬‫اح‬ ‫ئ‬ ‫اور‬ ‫درت‬ ‫لم‪،‬‬ ‫ل‬ ‫او‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫مع تی‬ ‫و‬ ‫رب‬ ‫کے‬ ‫ٰی‬ ‫ل‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫”ہللا‬
‫ے ج ب کہ آی ات اس وا محکمات ہ ی ں“۔( جمموعہ رسا ل ع ی دہ ج‪ 3  ‬ص ‪)103‬‬ ‫سود ہ‬
‫ن ن‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫غ ق‬ ‫سف‬ ‫ق ن‬
‫ے کہ ہللا کی ی ہ ص ات حادث ی ع ی و پ ی دا ہ ی ں۔‬ ‫ل‬
‫ع ی دہ مب ر ‪:15‬المذہ ب ی وں اور ی رم لدی ن کا ی ہ ع ی دہ ہ‬
‫ن ت‬ ‫خ غ ق‬ ‫ج‬ ‫ن ان ہ ف رق ہ اہ ث کے امامف اہ تل ث ن وابف د الزم خ‬
‫ے کہ وہ‬ ‫کے ب ارے می ں ود ی رم لدی ن ے ی ہ صری ح کی ہ‬ ‫انع ان صاحب نلک ت‬ ‫وح یت راج‬ ‫ن‬ ‫حدی ت‬ ‫وری طرح سے سل‬ ‫لحدی‬ ‫چ ق ئچ‬
‫ے ہ ی ں‪:‬‬‫ھ‬ ‫)‬ ‫‪385‬‬ ‫ص‬ ‫اء‬‫م‬ ‫ل‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ال‬
‫ف‬ ‫ب‬ ‫ال‬ ‫ذکرہ‬ ‫ے(‬ ‫ھ‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫د‬ ‫عا‬
‫ف‬
‫” فص الصفات الفعلية حادث “پس ی ہ ص ات علی ہ حادث ہ ی ں (ہ دية المهدي ص ‪)10‬‬

‫بہرحال ہم ان کی تسلی کیلئے ان کے بڑے ابن تیمیہ کا ‪ ‬بھی عقیدہ پیش کرتے ہیں‪  ‬جس کے یہ اندھے مقلد ہیں۔‬

‫نوٹ ‪ :‬حادث اسے کہتے ہیں جو عدم سے وجود میں آئے یعنی پہلےنہ ہو پہر موجود ہوجائے ‪ ،‬اہل س نت ک ا عقی دہ یہ‬
‫ہے کہ ہللا تبارک وتعالی کی ذات و صفات دونوں قدیم و ازلی ‪  ‬ہیں ایسا ہرگز نہیں کہ اس کی ص فات میں س ے ک وئی‬
‫صفت ایک زمانے میں نہیں ہو اور پھر بعد میں وجود میں آج ائے ‪ ،‬اگ ر ہم نعوذب اہلل ہللا کی ذات کے س اتھ ق ائم کس ی‬
‫صفت کو ایک زمانے اور وقت میں معدوم مان لیں ‪ ،‬اور کہیںکہ یہ ع دم کے بع د وج ود میں آی ا ہے‪ ،‬ت و هم نے ای ک‬
‫خاص وقت میں ہللا کواس صفت سے معطل اور خالی مان لیا ‪ ،‬اب اگ ر اس ص فت ک و هم ک وئی بے فائ دہ کہیں ت و یہ‬
‫بهی گمراهی ہے کہ ہم نے ہللا کی ذات میں فضول اور لہو چیزیں مان لیں ی ا بالف اظ دیگ ر ہللا کی کس ی ص فت ک و بال‬
‫فائدہ کہ دیا اور اگر ہم اس کو کمال کی صفت مانتے ہیں تو اس صفت کے وجود میں آنے سےپہلےہم نے ہللا کو کسی‬
‫کمال سے خالی مان لیا حاالنکہ ہللا کی ذات کسی بهی وقت کس ی کم الی ص فت س ے مح روم ق رار نہیں دی ا جاس کتا ‪،‬‬
‫ورنہ وہ ہللا ہی نہ رہے گا ‪ ،‬ثابت ہو اکہ ہللا کی ذات اور صفات دونوں ازلی قدیم اور غیرمسبوق بالعدم ہیں‬
‫ابن تیمیہ کے چند نصوص جس میں انہوں نے ہللا کی ذات میں حوادث کا قیام مانا ہے‪  ‬منهاج السنة النبویة (‪ )380 /2‬فَِإ ْن‬
‫َکم (‪َ : )4‬ن َع ْم‪َ ،‬و َه َذا َق ْولُنَا الَّ ِذی َد َّل َعلَیہ َّ‬
‫الش ْرعُ َوال َْع ْق ُل‪ ،‬‬ ‫ب‪ .‬قَالُوا ل ْ‬
‫الر ِّ‬ ‫یام الْحو ِاد ِ‬
‫ث بِ َّ‬ ‫ِِ‬
‫ُقلْتُ ْم لَنَا‪ :‬قَ ْد ُقلْتُ ْم بق ِ َ َ‬
‫ترجمہ ‪ :‬اگر آپ ہمیں کہتےہیںکہ آپ نے ہللا کے ذات میں حوادث کا قی ام م ان لی ا ‪ ،‬ت و آپ ک و وہ کہیں گے کہ ہ اں یہ‬
‫ہمارا قول ہے جس پر شرع اور عقل داللت کرتا ہے‪ ‬‬
‫سوال ‪ :‬یہاں یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ یہ ابن تیمیہ کا قول ہو ‪ ،‬کیونکہ انہوں نے کہا ‪:‬قالوا لکم ۔ یعنی وہ ل وگ آپ ک و‬
‫کہیں گے یعنی شیعہ وکرامیہ وغیرہ‬

‫‪26‬‬
‫جواب ‪ :‬محقق کتاب نے کہا ہے کہ ایک نسخے میں ت و ق الوا لکم ‪ :‬آی ا ہے لیکن چ ار نس خوں میں "قلن ا لکم " آی ا ہے‬
‫جیسا کہ اس نے چار نمبر تعلیق میں کها ‪ )4(:‬ب‪ ،‬ا‪ ،‬ن‪ ،‬م‪ :‬قُ ْلنَا لَک ْم ‪ ،‬جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس قول کو اپن انے واال‬
‫ابن تیمیہ بهی ہے‪ ‬‬
‫عالوہ ازیں ‪:‬آگے چل کر ابن تیمیہ نے اس قول کی حمایت کھل کر کی ہے جس سے کسی شک کی گنج ائش هی نہیں‬
‫رہتی ‪ ،‬بالفرض یہاں کرامیہ کی طرف بهی نس بت ہ و لیکن چ ونکہ آگے ان کی حم ایت کی ہے لهذا‪  ‬ک وئی ف رق نہیں‬
‫کل ِم َن الطَّائَِفتَی ِن ِم َن َّ‬
‫الص َو ِ‬
‫اب‪َ ،‬و َع َدلْنَا َع َّما‬ ‫پڑتا جیسا کہ انہوں نے کها ہے ‪ :‬منهاج السنة النبویة (‪َ )380 /2‬وقَ ْد أَ َخ ْذنَا بِ َما ِفی َق ْو ِل ٍّ‬
‫کم ِم َن‬ ‫ث قَ ام ْ ِ ِ‬
‫ت ب ه‪ُ .‬قلْنَ ا‪َ :‬و َم ْن أَنْ َ‬
‫کر َه َذا َق ْبلَ ْ‬
‫الش رعُ والْع ْق ل ِمن َق و ِل ک ٍّل ِم ْنهم ا‪ .‬فَِإ َذا قَ الُوا لَنَ ا‪َ :‬فه َذا ی ْل زم ( ‪ )1‬أَ ْن تَک و َن ال ِ‬
‫ْح َواد ُ َ‬ ‫َ‬ ‫َُ‬ ‫َ‬ ‫َُ‬ ‫یر ُّدہ َّ ْ َ َ ُ ْ ْ‬ ‫ُ‬
‫یح ال َْع ْق ِل‪ ،‬وہو َقو ٌل اَل ِز ٌم لِ َج ِمی ِع الطَّوائِفِ‬
‫ص ِر ِ‬ ‫ِ‬
‫ض َّم ُن ذَلک َم َع َ‬
‫ِ‬
‫السنَّة َتتَ َ‬ ‫ِ‬
‫وص الْ ُق ْرآن َو ُّ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫َ‬ ‫َ ْ‬ ‫ص ُ‬‫السلَف َواأْل َئ َّمة؟ َونُ ُ‬
‫َّ‬
‫ترجمہ ‪ :‬هم نے دونوں فریقوں کے قول میں جو صحیح تها اسے لے لیا اور دونوں کے اقوال میں سے جس ک و ش رع‬
‫اور عقل رد کرتی ہے اس س ے ع دول کی ا ‪ ،‬اگ ر ہمیں وہ کہیں کہ اس ب ات کے یہ الزم ہے کہ هللا کی ذات کے س اتھ‬
‫حوادث کا قیام ہو ‪ ،‬هم کہتےہیں کہ آپ سےپہلےسلف اور ائمہ میں سے کس نے اس کا انک ار کی ا ہے ؟ جبکہ ق ران و‬
‫سنت کے نصوص اور صریح عقل اس بات کو متضمن ہے [یعنی اس کی ط رف اش ارہ ک رتی ہے ] اور یہ ق ول تم ام‬
‫فرقوں کو الزم ہوتا ہے‪ ‬‬

‫ول بِِق ِ‬
‫یام‬ ‫والکر ِامیة قَ َ‬
‫ال‪ :‬نَ ْح ُن َن ُق ُ‬ ‫َّ‬ ‫ث کالهشامیة‬‫اد ٌ‬‫ْق ح ِ‬
‫إن الْ َخل َ َ‬ ‫ال‪َّ :‬‬
‫ایک جگہ ابن تیمیہ لکہتےہیں‪ :‬مجموع الفتاوى (‪َ )382 /16‬و َم ْن قَ َ‬
‫الْحو ِاد ِ‬
‫ث‪.‬‬ ‫ََ‬
‫یعنی ہشامیہ اور کرامیہ میں سے ج و ل وگ کہ تےہیں کہ مخل وق ح ادث ہے وہ کہ تےہیں کہ هم ہللا کی ذات کے س اتھ‬
‫حوادث کے قیام کے قائل ہیں ابن تیمیہ اس بات پر تبصرہ کرتے ہوئے لکہتےہیں‬
‫ض ِع ِه‪.‬‬
‫ط فِی مو ِ‬ ‫ِ‬
‫س‬ ‫ب‬ ‫د‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫کم‬ ‫ک‬ ‫ِ‬
‫ل‬ ‫ف ی ُد ُّل َعلَى تَ ْح ِق ِ َ‬
‫ذ‬ ‫یق‬ ‫السلَ ِ‬
‫السنَّةُ َوإِ ْج َماعُ َّ‬
‫اب َو ُّ‬ ‫یل َعلَى بُطْاَل ِن َذلِک‪ .‬بَ ْل ال َْع ْق ُل َو َّ‬‫ِ‬
‫َ َْ ُ َ َْ‬ ‫الن ْق ُل َوالْکتَ ُ‬ ‫َواَل َدل َ‬
‫یعنی اس بات کے بطالن پر کوئی دلیل نہیں بلکہ عقل اور نقل اور کتاب ‪ ،‬سنت اور اجماع سلف اس بات کے ثبوت پر‬
‫داللت کرتے ہیں جیسا کہ یہ بات اپنے مقام پر تفصیل سے بیان کی گئی ہے‬

‫ابن تیمیہ واضح طور پر کهتا ہے کہ تمام حوادث سے ہللا کو پاک کهنا غلط ہے‪  ‬منهاج السنة النبویة (‪ )381 /2‬ثُ َّم إِ َّن کثِ ًیرا‬
‫ط ِم ْن ُه ْم‪،‬‬ ‫یام الْحو ِاد ِ‬
‫ث بِہ ُمطْلَ ًقا‪َ ،‬وهو غَلَ ٌ‬ ‫ِ‬ ‫یام ِّ ِ‬
‫الص َفات‪ ،‬أ َْو ق ِ َ َ‬ ‫یج َعلُو َن ِمثْل َه َذا ُح َّجةً فِی َن ْفی قِ ِ‬
‫َ‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِم ْن نُ َف ِاة ِّ‬
‫الص َف ِ‬
‫ات ‪ -‬ال ُْم ْعتَ ِزلَة َوغَی ِره ْم ‪ْ -‬‬
‫ترجمہ ‪ :‬پہر معتزلہ وغیرہ جیسے بہت سے صفات کی نفی کرنے وال وں نے یہ ب ات [ہللا کی ذات کے س اتھ ] ص فات‬
‫کے قیام یا اس کے ساتھ حوادث کے مطلقا قیام کی نفی کے لیے دلیل بنایا ہے جو ان کی غلطی ہے‬

‫اس سے بهی واضح ہوتا ہے کہ ابن تیمیہ حوادث کے مطلقا قیام کو غلط کهتا ہے دراص ل ابن تیمیہ بعض ح وادث ک و‬
‫ہللا کی ذات کا کمال کهتا ہے اس لیے ان سے ہللا کی ذات کو خالی قرار دینا ان کے ہاں غل ط ہے‪  ‬جیس ا کہ انہ وں نے‬
‫ْجاَل ِل]‪ ‬‬ ‫ِ‬ ‫ات الْکم ِ‬ ‫الن َقائِص والْعیوب أَ ْن ی ْنتَ ِفی َعنه ما هو ِمن ِ‬
‫ص َف ِ‬ ‫ب إِذَا َن َف َ‬ ‫ِ‬
‫ال َونُ ُعوت ال َ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫یت َعنه َّ َ َ ُ َ‬ ‫کها ‪ :‬منهاج السنة النبویة (‪َ )381 /2‬واَل یج ُ‬
‫ترجمہ ‪ :‬جب آپ نے ہللا سے نقائص اور عیوب نفی کردیے تو اس سے کس اتھ ض روری نہیں کہ اس س ے وہ چ یزیں‬
‫بهی منفی کی جائیں جو کمال اور جالل کی صفات میں سے ہیں[یعنی وہ حوادث جو بقول ابن تیمی ه کم ال و جالل کے‬
‫صفات ہیں کیونکہ بات حوادث هی کے بیان کے معرض میں ہورهی ہے ]‬

‫الکرامیة‪ -‬من الضالالت مما لم یتجاسر على إطالقه قبلهم واحد من‬
‫امام ابوالمظفر االسفرائینی فرماتے ہیں‪" :‬ومما ابتدعوه‪ -‬أی َّ‬
‫األمم لعلمهم بافتض احه ه و ق ولهم‪ :‬ب أن معب ودهم مح ل الح وادث‪  ‬تح دث فی ذات ه أقوال ه وإرادت ه وإدراك ه للمس موعات والمبص رات‪،‬‬
‫وتبصرا‪ [ ،‬التبصیر فی الدین (ص‪]67 -66 /‬‬
‫ً‬ ‫سمعا‬
‫وسموا ذلک ً‬
‫یع نی ک رامیہ نے جن گمراهی وں ک و ایج اد کی ا جن پ ر ان س ےپہلےعلی االطالق کس ی نے بهی اس کی قب احت اور‬
‫رسوائی کو جاننے کی وجہ سے جراءت نہیں وہ ان [کرامیہ ] کا یہ قول ہے که‪ :‬ان کا معبود حوادث ک ا مح ل ہے اس‬
‫کے ذات میں اس کے اقوال ‪ ،‬ارادات اور اس کا مسموع اور دیکهی جانے والی چیزوں کا اادراک حادث [پیدا ] ہ وتے‬
‫ہیں‪،‬‬

‫معل وم ہ وا یہ ق ول ام ام ابن تیمیہ نے ک رامیہ کی اتب اع میں کها ہے ‪  ‬اس کی تص ریح اور اع تراف مل ک عب دالعزیز‬
‫یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی ڈگری کے حامل رسالے البیهقی و موقفہ من االلهیات کے مولف س لفی ع الم ڈاک ٹر احم د‬

‫‪27‬‬
‫الغامدی نے بهی کی ہے چنانچہ لکهتا ہے ‪:‬البیهقی وموقفه من اإللهیات (ص‪ )223 :‬وهذا الرأی الذی اختارہ ابن تیمیة وذکر أنه‬
‫مذهب السلف وأنه الحق الذی یؤیدہ الدلیل الشرعی والعقلیيه و بعینه رأى الکرامیة‬
‫یعنی ابن تیمیہ نے یہ جو رائے اختیار کیا ہے اور اس نے بتایا کہ یہ سلف کا مذهب ہے اور یهی وہ حق بات ہے جس‬
‫کی شرعی و عقلی دلیل تائید کررهی ہے ‪ ،،‬تو یہ "بعینہ کرامیہ کی رائے ہے "‬

‫خود یهی ڈاکٹر غامدی جو امام بیهقی رحمہ ہللا کو کالم ہللا کے مسئلے میں بهی سلف کا مخالف کہالتا ہے ہللا کی ذات‬
‫میں حوادث کے حلول کو حق جانتا ہے [نعوذباہلل]‪  ‬البیهقی وموقفه من اإللهیات (ص‪ )223 :‬وهکذا یتضح لنا أن القول بحلول‬
‫الحوادث بذات اهلل تعالى بمعنى أنه یتکلم متى شاء ویفعل ما یرید هو الرأی الصحیح بداللة العقل والنقل‬
‫ترجمہ ‪:‬اس طرح همارے سامنے واضح ہوجاتا ہے کہ ہللا کی ذات میں حوادث کے حلول کا قول ‪ ،‬اس مع نی س ے کہ‬
‫ہللا جب چاہے کالم کرتا ہے اور جو چاہے کرتا ہے یهی صحیح رائے ہے عقل اور نقل‪  ‬کی داللت سے‪ ‬‬

‫ان حض رات ک و ہللا کی ذات میں ح وادث ک ا حل ول ص حیح عقی دہ اس بن ا پ ر لگت ا ہے کہ یہ ل وگ کالم ہللا ک و ح ادث‬
‫کہتےہیں کہ ہللا جب چاہے کالم کرتا ہے تو گوی ا اس کالم کے ذریعے ہللا کی ذات میں ک وئی ن ئی چ یز حل ول ہوگ ئی‬
‫جوپہلےنہیںتهی حاالنکہ اگر اہل سنت کی طرح ہللا کے کالم کو قدیم اور ازلی مانتے اور یہ مانتے کہ ہللا نے قران پ ر‬
‫جو تکلم کیا اور اسی طرح موسی علی یبینا و علیہ السالم کے ساتھ جو‪  ‬تکلم کی ا یہ س ب اپ نے اس ی ازلی ق دیم ص فت‬
‫سے کیا اور اس کالم سے ہللا کی ذات میں کوئی نئی چیز پیدا نہیں ہوئی تو یقینا اس شنیع اور باطل ق ول ک ا محت اج نہ‬
‫ہوتے ‪ ،‬دوسری طرف اس سے بهی زیادہ ضعیف دلیل ہللا تعالی کے افعال سے پکڑا ہے حاالنکہ ہللا تع الی کے افع ال‬
‫جیسے کسی کو پیدا کرنا رزق دینا ‪ ،‬وغیرہ یہ س ب ہللا کی ذات میں پی دا نہیںہ وتے بلکہ ہللا اپ نے ق دیم ص فت س ے ان‬
‫افعال کو مخلوق میں کرتا اور پیدا کرتا ہے بہرحال اس بات کی طرف ک وئی بهی اش ارہ کس ی عقلی ی ا نقلی دلی ل میں‬
‫نہیںکہ ہللا تعالی کا کالم یا اس کے افعال سے ہللا کی ذات میں کوئی نئی چیز [حوادث ] حلول ہوجاتے ہیں‬

‫ابن تیمیہ اور امام احمدرحکے عقیدے میں نمایاں فرق ‪ ‬‬

‫فائدہ ‪:‬یہاں ایک فائدے کی خاطر ابن تیمیہ اور امام احمد کے عقیدے میں ف رق بت اتے ہیں کہ ام ام احم د ؒ ق ران ک و ہللا‬
‫تعالی کا ازلی کالم کہتےہیں کیونکہ قران کو امام احمد ہللا کا علم کہتےہیںجس طرح ایس اک وئی وقت نہیں تها جب ہللا‬
‫علم سے معط ل ہ و اس ی ط رح ایس ا وقت بهی نہیںتها جب ق ران نہ تها ‪ ،‬جبکہ ابن تیمیہ ک ا عقی دہ اس س ے ال گ ہے‬
‫چنانچہ ابن تیمیہ کہتےہی‬
‫ابن تیمیہ اپنے مجموع الرسائل میں لکھتےہیں وإذا ک ان اهلل ق د تکلم ب القرآن بمش یئة ک ان‪  ‬الق رآن کالم ه وک ان م نزال من ه غ یر‬
‫مخلوق ولم یکن مع ذلک أزلیا قدیما بقدم‪  ‬اهلل"ا‪.‬هـ[ "مجموع الرسائل" (‪:)1/380‬‬
‫قران ہللا کا کالم ہے اور اس ی س ے ن ازل ہ وا ہے مخل وق نہیںہے ‪ ،‬اور ہللا کے س اتھ اس کی ق دم کی ط رح ق دیم نہیں‬
‫ہے ‪،‬‬
‫دوسری طرف حافظ ابن کثیر ؒ نے البدایہ والنهایہ میں امام احمد ؒ کے خلق القران کے مس ئلے پ ر من اظرہ نق ل کی ا ہے‬
‫اس میں امام احمد کے الفاظ پر غور کریں تو واضح طور پر وہ قران کو ہللا کا علم‪  ‬اور ازلی قدیم قرار دے رہے ہیں‬
‫ول ِفی‬
‫ْت‪َ :‬م ا َت ُق ُ‬ ‫ص م‪ :‬أ ِ‬
‫َج ْب هُ‪َ .‬ف ُقل ُ‬ ‫ِ‬
‫ال ال ُْم ْعتَ ُ‬
‫ُج ْب هُ‪َ ،‬ف َق َ‬ ‫ْ‬
‫ول فِی الْ ُق ر ِ‬
‫آن؟ َفلَم أ ِ‬
‫ْ‬ ‫ال لِی َع ْب ُد َّ‬
‫الر ْح َم ِن‪َ :‬م ا َت ُق ُ‬ ‫البدایة والنهایة ط هجر (‪َ )399 /14‬ف َق َ‬
‫ین‪،‬‬ ‫ِِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ْم اهلل َم ْخلُ و ٌق َف َق ْد ک َف َر بِاللَّ ِه‪ .‬فَ َس َ‬ ‫ْت‪ :‬الْ ُق رآ ُن ِمن ِعل ِْم اللَّ ِه‪ ،‬ومن زعم أ َّ ِ‬ ‫ال ِْعل ِْم؟ فَ َس َ‬
‫یم ا بَ َین ُه ْم‪ :‬یا أَم َیر ال ُْم ْؤمن َ‬
‫کت‪َ ،‬ف َق الُوا ف َ‬ ‫َن عل َ‬ ‫ََ ْ َََ‬ ‫ْ‬ ‫کت‪َ ،‬ف ُقل ُ ْ‬
‫کت‬
‫ْم؟ فَ َس َ‬ ‫ِ‬ ‫الر ْح َم ِن‪ :‬کا َن اللَّہ َواَل ُق ْرآ َن؟ َف ُقل ُ‬ ‫ت إِلَى ذَلِک‪َ ،‬ف َق َ‬
‫کف َرنَا‪َ .‬فلَ ْم یلْتَ ِف ْ‬
‫کف َرک َو َّ‬
‫َّ‬
‫ْت‪ :‬کا َن اهلل َواَل ‪  ‬عل َ‬ ‫ال َع ْب ُد َّ‬

‫اس عبارت میں مناظرہ کرنے والے نے قران کے مخلوق ہونے پر یہ دلیل پکڑی کہ ہللا موجود تها لیکن قران نہ تها ‪،‬‬
‫اس کا جواب امام احمد نے یہ دیا کہ "کیا ہللا موجود تها اور اس ک ا علم نہ تها " ‪ ،‬یع نی یہ کیس ے ہوس کتا ہے کہ ہللا‬
‫موجود ہو اور بالعلم کے ہو اور چونکہ امام احم د ؒ نے ان س ے کها تها کہ الق ران من علم ہللا ‪ ،‬کہ ق ران ہللا کے علم‬
‫سے ہے ‪ ،‬تو لهذا یہ بات واضح ہوگئی کہ قران ازلی ق دیم ہے کیونک ه یہ ہللا ک ا علم ہے اور ہللا بالعلم کبھی بهی نہیں‬
‫تها‪  ‬اس کے برعکس امام ابن تیمیہ قران کو ازلی نہیںکہتے‪ ،،‬‬
‫یس ُّمونه " ُم ْح َدثًا‪  ‬کہ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫یس ُّمو َن َم ا قَامب ه " َحادثً ا " َواَل َ‬
‫والکرامیة َ‬
‫َّ‬ ‫ابن تیمیہ ایک جگہ لکھ تےہیں‪ :‬مجم وع الفت اوى (‪)383 /16‬‬
‫کرامیہ فرقہ ہللا تعالی کی ذات کے ساتھ قائم چیزوں کو "حادث " تو کہتے ہیں لیکن "محدث " نہیں کہتے‬

‫‪28‬‬
‫ال‬
‫کم ا قَ َ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫یث و ُّ ِ‬ ‫الکر ِامیة ِمن أَئِ َّم ِة ال ِ ِ‬
‫یس ُّمو َن ذَل ک " ُم ْح َدثًا " َ‬
‫الس نَّة َوالْکاَل م فَ َ‬ ‫ْحد َ‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫آگے لکہتےہیں‪ :‬مجموع الفتاوى (‪َ )383 /16‬وأ ََّما غَ ُیر َّ‬
‫ث}‬‫{ما یأْتِی ِهم ِمن ِذک ٍر ِمن ربِّ ِهم م ْح َد ٍ‬
‫ْ َ ُْ‬ ‫ْ ْ‬ ‫َ‬
‫یعنی کرامیہ کے عالوہ علم حدیث ‪ ،‬سنت اور علم کالم کے ائمہ اس ک و مح دث بهی کہتےہیںجیس ا کہ ہللا نے فرمای ا ‪:‬‬
‫مایاتیهم من ذکر من ربهم محدث‪ ‬‬
‫اب یهاں صفات باری تعال کو محدث کهنا ائمہ سنت کا قول ٹہرایا جبکہ هم نے نقل کیا ہے کہ ام ام احم د ؒ کی مخ الفت‬
‫کرنے والے معتزلہ هی "قران کو محدث " کہتےتھے اور اسی آیت سے حجت پکڑتے تھے‪  ‬امام ذهبی ؒ نے العلو میں‬
‫نق ل کی ا ہے [ جس س ے غیرمقل دین بهت اس تدالل ک رتے ہیںاور روای ات نق ل ک رتے ہیں]‬
‫العلو للعلی الغفار (ص‪)150 :‬‬
‫ِ‬
‫ض یل بن عیاض‬ ‫ِ‬
‫ْح ارث بن عُ َم یر َوهو َم َع فُ َ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ال َس معت ال َ‬
‫وس ى َح دثنَا أَبُو ُم َح َّمد الْمروزی قَ َ‬
‫ال ابْن أبی َح اتم َح دثنَا ُم َح َّمد بن الْفضل بن ُم َ‬
‫قَ َ‬
‫َیس من علم اهلل فهو زندیق‬
‫ی ُقول من زعم أَن الْ ُق ْرآن ُمحدث فقد کفر َومن زعم أَنه ل َ‬
‫یعنی جس نے قران کو محدث کها وہ کافر ہے اور جس نے یہ خیال کیا یہ ہللا کے علم میں سے نہیںہے وہ زندیق ہے‪ ‬‬
‫اسی طرح امام ذهبی ؒ نے یہ بهی نقل کیا ہے ‪:‬‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ارون ُم َح َّمد بن خلف الجزار َسمعت ه َشام بن عبید اهلل ی ُقول الْ ُق ْرآن کاَل م هلل غیر‬ ‫ِ‬
‫العلو للعلی الغفار (ص‪ )169 :‬ابْن أبی َحاتم َحدثنَا أَبُو َه ُ‬
‫َیس ِع ْن د اهلل بمحدث ‪ //‬قلت أِل َنه‬ ‫ِ‬ ‫{م ا یأْتِی ِه ْم ِم ْن ِذک ٍر من َربهم ُمحدث} َف َق َ‬
‫ال ُمحدث إلَینَ ا َول َ‬ ‫ال له رجل أَل َ‬
‫َیس هلل َت َعالَى ی ُقول َ‬ ‫َم ْخلُوق َف َق َ‬
‫ِ‬
‫من علمه َوعلمه قدیم فَعلم عبادہ م ْنهُ‬
‫یعنی هشام بن عبیدہللا فرماتے ہیں کہ قران ہللا کا کالم غیرمخلوق ہے ‪ ،‬کسی نے کها کہ کی ا ہللا نے یہ نہیں فرمای ا کہ‬
‫"م ا یاتیهم من ذک ر من ربهم مح دث " [پوری آیت کا ترجمہ یہ ہے ‪ :‬کہ ان کے پاس اپنے رب کی طرف سے ک وئی ن ئی‬
‫نصیحت نہیںآتی مگر وہ اس کو سنتے ہیںکهی لتے ہوئے ] ۔۔۔یعنی ہللا نے اس کو نئ چیز کہا ہے ‪،‬تو انہوں نے فرمای ا‬
‫کہ یہ ہماری طرف نئی ہے ہللا کے هاں نئی نہیں ہے‪  ‬امام ذهبی ؒ فرماتے ہیں‪ :‬میں کهت ا ہ وں کہ یہ ب ات اس ل یے ہے‬
‫کہ قران ہللا کے علم سے ہے اور ہللا کا علم قدیم ہے یہاں امام ذهبی ک ا بهی ابن تیمیہ س ے اختالف ہ وا ‪ ،‬ام ام ذهبی‬
‫قران کو ہللا کے علم سے سمجهتے ہیں جو کہ ازلی ہے جبکہ ابن تیمیہ کا قول گ زر چک ا ج و ق ران ک و ہللا کے س اتھ‬
‫ازلی قدیم نہیں مانتے بلکہ حادث مانتے ہیں۔‬

‫فرقہ سلفیہ کے جھوٹ اور دھوکے‬


‫دھوکہ نمبر ‪1‬‬
‫کہتے ہیں صحابہ اور سلف صالحین صفات متاشابہات کے جو ظاہری معنی ہیں وہی ہللا کیلئے مراد لیتے تھے‬
‫حاالنکہ یہ بات بلکل جھوٹ ہے سلف اور صحابہ پر صریح طور پر بہتان ہے‬
‫سیوطی فرماتے ہیں‪:‬‬‫ؒ‬ ‫امام جالل الدین‬
‫س ُر َها َم َع َت ْن ِزي ِهنَ ا لَهُ َع ْن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫َى‬
‫ل‬ ‫ا‬ ‫ع‬‫ت‬ ‫ِ‬
‫ه‬ ‫َّ‬
‫ل‬ ‫ال‬ ‫َى‬
‫ل‬ ‫ِ‬
‫إ‬ ‫ا‬ ‫ه‬ ‫ن‬‫م‬‫ِ‬ ‫ِ‬
‫اد‬‫ر‬‫ْم‬
‫ل‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫اه‬ ‫ن‬ ‫ع‬‫م‬ ‫ِ‬
‫يض‬‫و‬‫ِ‬ ‫ف‬ ‫ت‬‫و‬ ‫ا‬ ‫ه‬‫ِ‬
‫ب‬ ‫ِ‬
‫ان‬ ‫يم‬ ‫ِ‬ ‫ا‬ ‫ى‬ ‫ل‬‫ع‬ ‫ِ‬
‫يث‬‫د‬‫ِ‬ ‫ْح‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ور أ َْه ِل ُّ‬
‫َ َ َ اَل ُ َ ِّ‬ ‫َ َْ َ ُ َ ْ َ‬ ‫َ َ إْل َ َ َ َ ْ‬ ‫الس ْ ُ ُ َّ َ ُ َ ْ ُ َ‬
‫ل‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫َه‬
‫أ‬ ‫و‬ ‫ف‬ ‫ل‬‫الس‬ ‫م‬ ‫ه‬‫ن‬‫م‬ ‫َّة‬
‫ن‬ ‫َو ُج ْم ُه ُ‬
‫َح ِقي َقتِ َها‪.‬‬
‫ترجمہ ‪:‬جمہور اہل سنت جن میں سلف اور اہلحدیث (محدثین) شامل ہیں ان کا مذہب (نصوص صفات پر) ایم ان رکھن ا‬
‫ہے ساتھ اس کے کہ ان کے معنی مراد کو ہللا کی طرف سپرد کر دیا جائے اور ہم ان کی تفس یر نہیں ک رتے جبکہ ان‬
‫کے ظاہری معنی سے ہللا کو پاک قرار دیتے ہیں۔) اإلتقان في علوم القرآن ج ‪ 3‬ص ‪(14‬‬

‫دھوکہ نمبر ‪ 2‬کہتے ہیں کہ متقدمین نے کوئی تاویل نہیں کی‬


‫حاالنکہ یہ بات بھی درست‪  ‬نہیں‪  ‬خود صحابہ کرام اور متقدمین میں سے‪  ‬اہلس نت کے ام اموں نے ص فات میں درجہ‬
‫ظنیت میں تاویل کی‬
‫‪ ‬رئیس المفسرین حضرت عبدهللا بن عباس رضی هللا عنہما س ے س ند ص حیح کے س اتھ منق ول ہے کہ انہ وں نے ”یوم‬
‫یکشف عن ساق“( جس دن پنڈلی کھول دی جائے گی ) میں ”ساق“ کی تاویل ”شدت“ سے فرمائی ۔ (” وأما الساق فجاء عن‬
‫الی‪ :‬وجوہ یومئ ٍذ‬
‫الی‪﴿ :‬یوم یکش ف عن س اق﴾ ‪ :‬ق ال عن ش دة األمر․(فتح الب اری البن حج ر‪ ،‬ب اب‪ :‬ق ول اهلل تع ٰ‬
‫ابن عب اس فی ق ولہ تع ٰ‬
‫ناضرة إلی ربھا ناظرة ج‪ 13  ‬ص ‪)428‬‬
‫عالمہ ابن جریری طبری رحمہ هللا (وفات ‪310‬ھ) ﴿یوم یکشف عن س اق﴾ کی تفس یر میں لکھ تے ہیں کہ ص حابہ ک رام‬
‫رضی هللا عنہم اور تابعین رحمہم هللا کی ایک جماعت نے ساق کی تاویل ”شدت امر“ سے کی ہے۔) تفس یر ابن جری ر‬
‫الطبری‪ ،‬القلم‪ ،‬تحت آیة رقم‪(42:‬‬

‫‪29‬‬
‫حضرت عبدهللا بن عباس رضی هللا عنہم ا (وف ات ‪68‬ھ) حض رت ام ام‪  ‬قت ادہ (وف ات ‪118‬ھ) ‪ ،‬حض رت مجاہ د (وف ات‬
‫‪104‬ھ) حضرت سفیان ثوری (وفات ‪161‬ھ) رحمہم ا هللا نے آیت کریمہ‪” :‬والسماء بنینا ها بأید وإن ا لموس عون“ (آسمان کو‬
‫ہم نے اپنے دست سے بنایا )میں ”بأید“ کی تاویل قوت سے فرمائی ہے ۔‬
‫) تفسیر ابن حبریر الطبری‪ ،‬الذاريات تحت آیة رقم‪(47 :‬‬
‫امام احمد بن حنبل (وفات ‪241‬ھ)‬
‫ِ‬ ‫َّ‬ ‫ِ‬ ‫ْح اكِ ِم َع ْن أَبِي َع ْم ِرو بْ ِن َّ‬
‫الس َّماك َع ْن َح ْنبَ ٍل أ َّ‬ ‫ِ‬
‫ك) [الفجر‪ ]22 :‬أَنَّهُ‬
‫اء َربُّ َ‬ ‫َح َم َد بْ َن َح ْنبَ ٍل تَأ ََّو َل َق ْو َل الله َت َع الَى‪َ :‬‬
‫(و َج َ‬ ‫َن أ ْ‬ ‫َو َر َوى الَْب ْي َهق ُّي َع ِن ال َ‬
‫اء َث َوابُهُ‪.‬‬
‫َج َ‬
‫ال الْبيه ِق ُّي‪ :‬وه َذا إِسنَا ٌد اَل غُبار َعلَيه‪ِ.‬‬
‫ََ ْ‬ ‫ثُ َّم قَ َ َ ْ َ َ َ ْ‬
‫تعالی (وفات ‪241‬ھ) کے بھتیجے سے مروی ہے کہ امام حمدؒ نے ﴿وج اء ربک﴾ (اور آی ا‬ ‫ٰ‬ ‫امام احمد بن حنبل رحمہ هللا‬
‫آپ کا رب) کی تاویل وجاء ثوابہ ( اور آیا رب کا ثواب ) سے فرمایا ۔‬
‫الی فرم اتے ہیں کہ اس س ند پ ر کس ی قس م کے ش ک وش بہ کی گنج ائش نہیں ہے ۔) البداية‬ ‫ام ام بیہقی رحمہ هللا تع ٰ‬
‫والنهايةج ‪ 10‬ص ‪(361‬‬
‫‪  ‬‬
‫بخاری (وفات ‪ 256‬ھ) اپنی صحیح میں قرآن پاک کی ایک آیت کی تفسیر فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫ت َعلَْي ِه ْم {األَْنبَ اءُ}‬ ‫ي‬ ‫ِ‬
‫م‬ ‫ع‬‫ف‬ ‫"‬ ‫‪:‬‬‫د‬ ‫ِ‬
‫اه‬ ‫ج‬‫م‬ ‫ال‬ ‫ق‬ ‫و‬ ‫"‬ ‫ِ‬
‫ه‬ ‫َّ‬
‫ل‬ ‫ال‬ ‫ه‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ِ‬
‫ه‬ ‫ِ‬
‫ب‬ ‫د‬ ‫ي‬‫ر‬‫ِ‬ ‫ُ‬
‫أ‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫اَّل‬‫ِ‬
‫إ‬ ‫‪:‬‬‫ال‬ ‫ق‬‫ي‬‫و‬ ‫‪،‬‬‫ه‬ ‫ك‬ ‫ل‬‫م‬ ‫اَّل‬‫ِ‬‫إ‬ ‫"‬ ‫‪:‬‬ ‫]‬‫‪88‬‬ ‫ص‪:‬‬ ‫[القص‬ ‫}‬ ‫اَّل‬‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ٍ‬
‫َ َ َ ُ َ ٌ ََ َ ْ‬ ‫َ َُْ‬ ‫َ‬ ‫ُ ْ َ ُ َ َُ ُ‬ ‫{ ُك ُّ َ ْ َ ٌ َ ْ َ ُ‬
‫ه‬ ‫ه‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫إ‬ ‫ك‬ ‫ال‬ ‫ه‬ ‫ء‬ ‫ي‬ ‫ش‬ ‫ل‬
‫الح َج ُج "‬
‫[القصص‪ُ : ]66 :‬‬
‫ك ِإاَّل َوجْ هَ هُ ”ہ ر چ یز ہالک ہ ونے والے ہے س وائے اس‬ ‫سورہ قصص کی تفسیر! بسم ہللا الرحمن الرحیم ُكلُّ َش ْي ٍء هَالِ ٌ‬
‫کے منہ کے“ میں ”وجھہ“ سے ہللا کی سلطنت‪  ‬مراد ہے‘ بعض کہتے ہیں کہ وہ اعمال م راد ہیں‘ ج و اس کی رض ا‬
‫کے لئے کئے جائیں ‘ مجاہد کہتے ہیں کہ ”انبائ“ سے مراد دلیلیں ہیں۔ )صحیح بخاری‪  ‬ج ‪ 6‬ص ‪ 112‬کتاب التفسیر(‬
‫بخاری نے تاویل‪  ‬کی ہے۔‬ ‫ؒ‬ ‫فرقہ اہلحدیث کے ایک مولوی صاحب‪   ‬اس بات کا اقرار کرتے ہیں کہ امام‬
‫چنانچہ لکھتے ہیں‪:‬‬
‫بخاری نے سورۃ قصص کی تفسیر میں وجہ سے مراد اس کا ملک لیا ہے ‪ ،‬ہم ارے (غیرمقل دین) کے نزدی ک یہ‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫تاویل صحیح نہیں ہے۔ ) ت رجمہ کتاب التوحید ص ‪  221‬عبد الستار حماد(‬
‫بخاری نے بھی‪  ‬اپ نے ط ور پ ر تاوی ل کی‬ ‫ؒ‬ ‫تاویل غلط ہے یا صحیح یہ ایک الگ بحث ہے‪  ‬یہاں یہ ثابت ہو گیا کہ امام‬
‫ہے۔‬
‫یہ بھی سچ ہے کہ ان سلف صالحین نے تاویل کی ہے اور یہ بھی سچ ہے کہ انہوں نے معتزلیہ کی طرح قطعی ط ور‬
‫پر تاویل نہیں بلکہ درجہ طن میں تاویل کی ہے۔ معتزلیہ‪   ‬خود سے کوئی تاویل کرتے ہیں اور اسی پر بس کرتے ہیں‬
‫اور کہتے ہیں اس کے سوا اور کوئی مع نی نہیں جبکہ اہلس نت ہللا کی م راد ک و اس کے س پرد ک رکے درجہ ظن میں‬
‫تاویل‪  ‬عام لوگوں کے خیاالت کو جسمیت کی جانب سے پھیرنے کیلئے ی ا اور کس ی ض رورت کے تحت ک رتے ہیں۔‬
‫اور وہی تاویل کرتے ہیں جو‪  ‬ہللا کی شیان شان ہو۔‬
‫لہذا فرقہ سلفیہ کا یہ کہنا بھی جھوٹ ثابت ہوا کہ صحابہ و سلف صالحین نے کوئی تاویل کی ہی نہیں۔‬

‫دھوکہ نمبر ‪3‬‬


‫کہتے ہیں کہ تیسری صدی کے بعد والوں اور متاخرین اہلسنت وغیرہ نے پہلے والوں کی مخالفت کی‬
‫جبکہ یہ بات بلکل غلط اور جھوٹ ہے لعنت ہللا علی الکاذبین ان کا ایس ے کہ نے ک ا مقص د ص رف ائمہ س ے ب دگمان‬
‫کرنا ہے اور ان تیسری صدی سے پہلے والوں کا عقیدہ بجائے ان کے بعد والے کے ذریعہ سمجھنے کے‪   ‬بعد والے‬
‫اہلسنت کے اماموں کو چھوڑ کر خود سے اخذ کرنا ہے۔‬
‫قاری فرماتے ہیں‬ ‫ؒ‬ ‫مال علی‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫َّ‬ ‫ِ‬
‫الصال ِح‪َ ،‬م َعاذَ الله أَ ْن يُظَ َّن به ْم ذَل َ‬
‫ك‬ ‫السلَف َّ‬‫ِ‬ ‫ك ُم َخالََفةَ َّ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫َم يُ ِري ُدوا ب َذل َ‬
‫َول ْ‬
‫متاخرین کی یہ مراد نہیں تھی کہ وہ اسالف کی مخالفت کریں معاذ ہللا ان کے متعلق ایسی بدگمانی کرنی جائز نہیں۔‬
‫مزید فرماتے ہیں‬
‫ص ُدوا‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫اس تياَل ئ ِهم َعلَى ُع ُق ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ْج ْهميَّة َوغَْي ِر َه ا م ْن ف َرق َّ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ورةُ في أَ ْزمنَت ِه ْم ل َذل َ‬ ‫ت َّ‬ ‫‪ ‬وإِنَّم ا َد َع ِ‬
‫ول ال َْع َّامة‪َ ،‬ف َق َ‬ ‫ْ‬ ‫الض اَل لَة‪َ ،‬و ْ‬ ‫س َمة َوال َ‬ ‫ك ; ل َك ْث َرة ال ُْم َج ِّ‬ ‫الض ُر َ‬ ‫َ َ‬
‫ك َر ْد َع ُه ْم َوبُطْاَل َن َق ْوله ْم‪ )،‬مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح ج ‪ 3‬ص ‪(923‬‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫بِ َذلِ َ‬
‫ترجمہ ‪:‬انہوں نے ایسا اپنے زم انوں کی مجب وری و ض رورت کی وجہ س ے کی ا ج و یہ تھی کہ ان کے زم انوں میں‬
‫مجسمہ اور جہمیہ وغیرہ گمراہ فرقوں نے سر اٹھایا اور یہ عوام کی عقلوں پر غالب ‪  ‬ہونے لگے تو تاویل کرنے سے‬
‫ان کی غرض یہ تھی کہ ان کے فتنوں ک و دف ع ک ریں اور ان کی‪  ‬ب اتوں ک ا ت وڑ ک ریں۔ )مرق اة المف اتيح ش رح مش كاة‬
‫المصابيح ج ‪ 3‬ص ‪(923‬‬

‫‪30‬‬
‫دھوکہ نمبر ‪4‬‬
‫کہتے ہیں کہ اشعریہ اور ماتریدیہ کے بیچ حق و باطل کا اختالف ہے‬
‫العیاذ باہلل ٰ‬
‫تعالی‬
‫فرقہ سلفیہ کے ایک شیخ محمد العثمین‪  ‬اہلسنت اشعریہ اور ماتریدیہ ‪ ‬کو اہلسنت سے خارج قرار دیتے ہ وئے لکھ تے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫نقول كيف يكون الجميع اهل سنة وهم مختلفون ؟ فماذا بعد الحق اال الضالل وكيف يكونون اهل سنة وكل واحد يرد علي االخر؟ هذا‬
‫ال يمكن اال اذا امكن الجمع بين الضدين‬
‫ترجمہ ‪:‬ہم کہتے ہیں کہ یہ سب (اشعری ‪ ،‬ماتریدی ‪ ،‬س لفی) اہلس نت میں س ے کیس ے ہ و س کتے ہیں ح االنکہ ان میں‬
‫اختالفف ہیں اور حق کے سوا ج و کچھ ہے وہ گم راہی ہے اور یہ تین وں اہلس نت کیس ے ہ و س کتے ہیں جبکہ ان میں‬
‫سے ہر ایک دوسرے پر اعتراض کرتا ہے غرض ان تینوں کا اہل سنت میں سے ہونا اس ی وقت ممکن ہے جب ایس ی‬
‫دو باتوں کو جمع کیا جاسکے جو ایک دوسرے کی ضد ہیں۔) شرح عقیدہ وسطیہ ص ‪(22‬‬
‫جبکہ اشاعره اور ماتریدیه میں اصول عقیده میں ک وئی اختالف نہیں ہے ‪،‬چن د ف روعی مس ائل میں اختالف ہے ج وکہ‬
‫مضرنہیں ہے یہ ایسا اختالف نہیں ہے جس کی بنا پر ان میں سے کوئی فرقہ ناجیہ ‪ ‬ہونے سے نکل جائے ‪،‬لہذا اإلمام‬
‫األشعري اوراإلمام الماتريدي کے م ابین بعض ج زئی اجتہ ادی مس ائل میں خالف ہے ‪ ،‬اور علم اء امت نے ان مس ائل‬
‫کوبھی جمع کیا ہے ‪،‬اإلمام تاج الدين السبكي رحمه هللا نے ان مسائل کوجمع کیا اور فرمایا کہ یہ کل تیره مسائل ہیں ‪،‬‬
‫امام تاج الدین سُبکی شافعی فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫تفحصت كتب الحنفية فوجدت جميع المسائل التى فوجدت جميع المسائل التى بيننا وبين الحنفية خالف فيها ثالث عشرة مسائل منها‬
‫معن وي س ت مس ائل والب اقي لفظي وتل ك الس ت المعنوي ة ال تقتض ي مخ الفتهم لن ا وال مخالفتن ا لهم تكف يراً وال تب ديعاً‪ ،‬ص ّرح ب ذلك أب و‬
‫منصور البغدادي وغيره من أئمتنا وأئمتهم ( طبقات الشافعية ج ‪ 3‬ص ‪)38‬‬
‫میں نے احناف کی کتابوں کا بغور مطالعہ کیا تومیں نے صرف تیره مس ائل کوپای ا جن میں هم ارا اختالف ہے اور ان‬
‫میں چھ مسائل میں تو محض معنوی ( تعبیرکا ) اختالف ہے اور ب اقی (س ات ) مس ائل میں محض لفظی اختالف ہے ‪،‬‬
‫اور پھ ر ان چھ مس ائل میں معن وی ( تعبیرک ا ) اختالف ک ا مطلب هرگ زیہ نہیں ہے کہ اس کی وجہ س ے هم ای ک‬
‫دوسرے کی تکفیر اور تبدیع ( بدعت کا حکم ) ک ریں ‪ ،‬اس تاذ أب و منص ور البغ دادي وغ يره نے هم ارے ائمہ میں اور‬
‫اسی طرح ائمہ احناف نے بھی یہی تصریح کی ہے ۔‬
‫بالکل یہی بات عالمہ مال علی قاری رحمه هللا نے بھی کی ہے‬
‫وقال العالمة على القارى فى المرقات‪  :‬وماوقع من الخالف بين الماتريدية واألشعرية فى مسائل فهى ترجع الى الفروع فى الحقيقة فانها‬
‫الخلف بيننا فى الكل لفظي اهـ۔) ج ‪ 1‬ص ‪( 306‬‬
‫لفظيات فلم تكن من اإلعتقادات المبينة على اليقينيات بل قال بعض المحققين ان ُ‬
‫اش عریہ وماتری دیہ کے م ابین بعض مس ائل میں اختالف حقیقت میں ف روعی اختالف ہے ‪ ،‬اور یہ ظ نی مس ائل ہیں ان‬
‫اعتقادی مسائل میں سے نہیں ہیں جو یقینیات کے اوپرمبنی هیں ‪ ،‬بلکہ بعض محققین نے تویہ کہ ا ہے کہ اش اعره اور‬
‫ماتریدیه کے درمیان سب مسائل خالفیہ میں محض لفظی اختالف ہے ۔‬
‫لہذا اشاعره اور ماتریدیه عقائد میں ایک هیں اور هم یہ کہ سکتے هیں کہ اش عری ماتری دی ہے اور ماتری دی اش عری‬
‫ہے‪ ،‬کیونکہ ان دونوں جلیل القدر ائمہ نے تو عقائد حقہ کو جم ع ونش رکیا ہے اور اص ول عقائ د ان کے پ اس وہی ہیں‬
‫ج و ص حابہ ت ابعین وتب ع ت ابعین کے تھے‪ ،‬بس ان دو ام اموں نے ت و ان عقائ د کی تبلی غ وتش ہیر ونص رت وحف اظت‬
‫وحمایت کی توجیسا کہ صحابہ تابعین وتبع ت ابعین عقائ د تھے وهی اش اعره اور ماتریدی ه کےعقائ د ہیں ‪ ،‬اب وه ل وگ‬
‫کتنے خطرے میں ہیں ج و احن اف اور ام ام ابوح نیفہ س ے ض د وتعص ب کی بن ا پ ر اش اعره اور ماتریدی ه کے عقائ د‬
‫کوگمراه وغلط کہ دیتے ہیں۔‬
‫اگر امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری میں صحیح احادیث کو جمع کرنے کا اهتم ام کی ا ت واب اگ ر ک وئی بے وق وف‬
‫شخص امام بخاری کے ساتھ عداوت وتعصب کی بنا پر صحیح بخاری ک ا انک ار ک رے ی ا اس ک و غل ط کہے ت و ایس ا‬
‫شخص حقیقت میں احادیث رسول کے انکار کا ارتکاب کر رها ہے ‪ ،‬کیونکہ امام بخاری نے تو صرف احادیث رسول‬
‫کی حفاظت وصیانت کی اور ان کو اپنی کتاب میں جمع کردیا ‪ ،‬بعینہ یہی حال ہے اإلمام األشعري اوراإلمام الماتريدي‬
‫کا ہےکہ ان دو ائمہ نے صحابہ تابعین وتبع تابعین کے عقائد حقہ کی حفاظت وحمایت کی اور اپنی کتابوں میں اس کو‬
‫لکھ کر آگے لوگوں تک پہنچا دیا ‪ ،‬اب کوئ جاهل کوڑمغز اشاعره اور ماتریدی ه کے عقائ د ک وگمراه کہے ت و اس کی‬
‫اس بکواس کا پہال نشانہ کون بنتا ہے ؟؟‬

‫دھوکہ نمبر ‪5‬‬


‫کہتے ہیں کہ اشعریہ اور ماتریدیہ ہللا کو عرش پر نہیں مانتے‬
‫‪ ‬العیاذ باہلل ہم نے کب ایسا کہا ؟‬

‫‪31‬‬
‫ہم تو کہتے ہیں کہ ہللا عرش پ ر ہے‪  ‬جیس ا اس کی ش یان ش ان ہے‪ ،‬انک ار ت و ہم اس ب ات ک ا ک رتے ہیں ج و یہ ل وگ‬
‫کرامیہ و مشبہہ کی طرح کہتے ہیں کہ ہللا عرش پر ٹھہرا ہوا ہے۔‬
‫سلفیوں کے شیخ صالح العثیمین(وفات ‪1421‬ھ) لکھتے ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫استوای کا معنی بلن د اور‬ ‫م ا مع نی االس تواء عندھم فمعن ا العل و واالاس تقرار )ش رح عقیدہ الوس طيه ص ‪)375‬۔ ہمارے نزدیک‬
‫استقرار یعنی ٹھہرنا ہے۔‬
‫استوی کے یہ سب معنی ہیں‬
‫استقرار ‪-‬ٹھہرنا‬
‫استیال –غلبہ‬
‫برابر ہونا‬
‫جلوس ‪-‬بیٹھنا‬
‫ان میں کچھ معنی ہیں جو کہ ہللا کی شان کے الئق ہیں جیسے استیال لیکن یہ معنی جو ہللا کی ش ان کے الئ ق بھی ہے‬
‫اس معنی کی ہللا کیلئے تخصیص کرنے والے کو بھی س لف نے‪  ‬نہیں بخش ا اور اس توی کے اس ی ای ک مع نی کی ہللا‬
‫کیل ئے تخص یص ک رنے والے ک و مع تزلیہ ق رار دی ا ہے۔‪  ‬اگ ر یہ مع نی ج و ہللا کی ش ان کے الئ ق بھی ہے اس کی‬
‫تخصیص جائز نہیں تو پھر وہ معنی جن میں قوی احتمال موج ود ہے کہ یہ ہللا کی ش یان ش ان ‪ ‬ہ و س کتے ہیں ی ا نہیں‬
‫اور جو ہللا کی شان کے الئق نہیں ان کی کیسے تخصیص ہو سکتی ہے کہ بندہ ان مع نی ک و لے اور کہے بس ہللا کی‬
‫یہی‪  ‬مراد ہے؟‬

‫امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری (وفات ‪310‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬
‫كالم العرب في تأويل قول اهلل‪":‬ثم استوى إلى السماء"‬
‫وزوال) تفسیر الطبري ج‪ 1‬ص ‪(430‬‬
‫علو انتقال َ‬
‫وسلْطان‪ ،‬ال ّ‬
‫علو ُملْك ُ‬
‫عال عليها ّ‬
‫کالم عرب میں بہت سی صورتوں میں استعمال ہوا ہے ان میں س ے "االحتی از" اور "اس تیالء" کے مع نی میں‬ ‫استواء ِ‬
‫الی السماء" چنانچہ فرمایا‪ :‬هللا تعالي كي عل و بادش اهي اور‬ ‫ٰ‬
‫استوی ٰ‬ ‫تعالی کے فرمان کی تاویل کی "ثم‬
‫ٰ‬ ‫بھی ہیں‪ ،‬پھر ہللا‬
‫غلبے والي علو هے اتنقال اور زوال والي علو نهيں۔‬

‫علو "اونچا هونا " دو معنوں ميں مستعمل هے ايك طاقت اور مرت بے والي اونچ ائي جيس ا ك ه بادش اه ع الي هے اپ نے‬
‫رعايا پر چاہے وه زمين پر بيٹها ہو اور رعايا پهاڑ پر ہو ‪ ،،‬دوسرا جهت والي علو جس ميں انتقال اور زوال ك ا مع ني‬
‫موجودہے كيونكہ آپ اوپ ر كي جهت ميں تب ج ائيں گے جب آپ نيچے كي جهت س ے منتق ل ہوج ائيں اور نيچے كي‬
‫جهت سے زائل هوجائيں يهي معني غيرمقلدين ليتے ہيں اور اسي كي نفي امام ابن جرير ؒ نے كي ہے‪.‬‬

‫مجتہد مطلق حضرت اإلمام األعظم أبو حنيفة رحمہ هللا (وفات ‪150‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬
‫ونقر بأن اهلل سبحانه وتعالى على العرش استوى من غير أن يكون له حاجة إليه واستقرار عليه‪   ‬‬
‫”ہم یہ اقرار کرتے ہیں کہ هللا سبحانه وتعالى عرش پر ُمستوی ہوا لیکن وه عرش کا محتاج نہیں اور وہ عرش پر ٹھہ را‬
‫ہوا نہیں“۔ ‪) ‬كتاب الوصية (ص ‪ ،)۸۷‬ضمن مجموعة رسائل أبي حنيفة بتحقيق الكوثري (ص‪ ، )2 /‬ومال علي القاري في‬
‫شرح الفقه االكبر (ص‪ )75 /‬عند شرح قول االمام‪ :‬ولكن يده صفته بال كيف(‬

‫األشعري (وفات ‪403‬ھ)فرماتے ہیں کہ‬ ‫ؒ‬ ‫القاضي أبو بكر محمد الباقالني المالكي‬
‫وال نقول إن العرش لهء أي اهللء قرار وال مكان‪ ،‬ألن اهلل تعالى كان وال مكان‪ ،‬فلما خلق المكان لم يتغير عما كان‬
‫‪ ( ‬االنصاف فيما يجب اعتقاده وال يجوز الجهل به ص‪)65/‬‬
‫ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش هللا تعالی کا‪  ‬ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب ‪ ‬جگہ و‬
‫مکان نہیں تھا ‪ ،‬پھرجب هللا تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یعنی موجودبالمکان ) اب بھی ویسا‪  ‬ہی ہے۔‬

‫دھوکہ نمبر ‪6‬‬


‫کہتے ہیں کہ اشعریہ اور ماتریدیہ ہللا کو ہر جگہ میں مانتے ہیں۔‬
‫جبکہ وہ ایسا نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں ہللا کس ی بھی جگہ میں‪  ‬ہ ونے س ے پ اک ہے ہللا موج ود بال جگہ و مک ان‬
‫ہے اور یہ کہنا کہ ہللا ہر جگہ ہے ہمارے نزدیک ہللا کی کسی ایک خاص جگہ میں تخصیص کرنے کی نفی میں ہے۔‬
‫تعالی کے) ہر جگہ ہ ونے کے اس عقی دہ ہی کی ک وئی دلی ل نہیں۔ جب وہ ص رف‬ ‫تھانوی فرماتے ہیں ‪(  :‬ہللا ٰ‬
‫ؒ‬ ‫حضرت‬
‫جگہ میں ہونے سے پاک ہے کئی جگہوں میں اس کا ہونا تو بہت دور کی بات ہے۔‬
‫آگے لکھتے ہیں‬

‫‪32‬‬
‫اگر چہ اس محاورہ (ہللا ہر جگہ ہے) میں گنجائش زیادہ ہے کیونکہ اس سے مراد کسی جگہ میں ہونے کی قی د ک ا نہ‬
‫ہونا ہے۔) تسھیل تربیت السالک ج ‪ 3‬صفحہ ‪ (118‬یعنی‪  ‬ہللا ہر جگہ ہے کہنے سے کسی جگہ میں ہللا کی قید کی نفی‬
‫کرنا ہے۔ جیسے کوئی‪  ‬کہے کہ ہللا یہاں ہے وہاں نہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ ہللا ہر جگہ ہے۔‬
‫مکان و جگہ کی تعریف‬
‫مشهور لغوي عالم امام أب و القاس م الحس ين بن محم د المع روف ب الراغب األص فهاني اپ نی کت اب‪( ‬المف ردات في غ ريب‬
‫القرءان) میں فرماتے هیں کہ‬
‫) المك ان عن د أه ل اللغ ة الموض ع الح اوي للش يء (یع نی مک ان أهل اللغ ة کے نزدی ک اس جگہ کوکہ تے هیں جوکس ی‬
‫چیزکوحاوی (گھیرا ہوا) هو ۔‬

‫العالمة كمال الدين أحمد بن حسن البياضي الحنفي (إشارات المرام)میں فرماتے هیں کہ‬
‫) المكان هو الفراغ الذي يشغله الجسم (یعنی مکان اس خالی جگہ کوکہتے هیں جس کوجسم گھیرتا ہے ۔‬

‫الشيخ يوسف بن سعيد الضفتي المالكي فرماتے هیں کہ‬


‫) قال أهل السنة‪ :‬المكان هو الفراغ الذي يحل به الجسم (یعنی مکان وه خالی جگہ ہے جس میں جسم سماتا ہے ۔‬
‫یہ چند اقوال‪  ‬مكان کی تعریف سے متعلق تھے‬
‫اس تعریف کے مطابق قطعا ً قطعا ً یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ہللا ہ ر جگہ میں ہے ہ ر جگہ نے اس ے س ما رکھ ا ہے نع وذ‬
‫باہلل‬
‫یہ ہم پر ص ریح‪  ‬ط ور پ ر جھ وٹ ہے ہم اری کس ی کت اب میں ایس ا نہیں لکھ ا بلکہ اس کے خالف ہی لکھ ا ہے۔ البتہ‬
‫جہمیہ کا یہی عقیدہ ہے وہ زمین میں ہر چیز میں ہللا کی ذات کو حل ول کے س اتھ م انتے ہیں اور ع رش و آس مان ک و‬
‫خالی مانتے ہیں‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ْج ْهميَّةَ َف َق َ ِ‬ ‫ٍ‬ ‫ِ‬ ‫ال َثنَ ا ُس لَْي َما ُن بْ ُن َح ْر ٍ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫َح َّد َثنَا َع ْب د اللَّ ِه َح َّد َثنَا َعل ُّي بْ ُن ُم ْس ل ٍم قَ َ‬
‫س في‬‫ال إنَّ َم ا يُ َح ا ِولُو َن أَ ْن ل َْي َ‬ ‫اد بْ َن َزيْ د َوذَ َك َر ال َ‬
‫ت َح َّم َ‬‫ال َس م ْع ُ‬
‫ب قَ َ‬
‫الس َم ِاء َش ْيءٌ) مسند احمد‪:‬جلد نہم‪:‬حدیث نمبر ‪  7418‬صحیح(‬ ‫َّ‬
‫حماد بن زید نے ایک مرتبہ فرقہ جہمیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ لوگ آپس میں یہ باتیں کرتے ہیں کہ آسمان‬
‫میں کچھ نہیں ہے۔‬
‫اور فرقہ کرامیہ و‪   ‬ہشامیہ اور آج کے فرقہ سلفیہ جو کہ ہللا کی ذات کیلئے عرش کو مقرر کرتے ہیں۔‬
‫التميمي(المتوفى‪429 :‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫ؒ‬ ‫عبد القاهر بن طاهر البغدادي‬
‫زم ان خالف قَ ول من زعم من الش هامية والكرامي ة ان ه مم اس لعرش ه)‪.‬الف رق بين‬ ‫ِ‬
‫أواجمع وا على ان ه اَل يحوي ه َم َك ان َواَل يج رى َعلَْي ه َ‬
‫الفرق(ص‪(321/‬‬
‫”اس‪  ‬پر اجماع ہے کہ ہللا تعالی ک و کس ی جگہ و مک ان نے گھ یرا نہیں نہ اس پ ر زم ان یع نی وقت ک ا گ ذر ہوت ا ہے‬ ‫ٰ‬
‫بخالف اس فرقہ‪   ‬ہشامیہ اور کرامیہ‪  ‬کے اس قول کے کہ ہللا عرش پر ہی ہے“۔‬
‫ہم تو یہ کہتے ہیں کہ وہ‪   ‬جگہ میں ہونے سے پاک ہے۔‬
‫إمام أهل السنة أبو الحسن األشعري (‪ 324‬ھ)فرماتے ہیں‪:‬‬
‫“ كان اهلل وال مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان‪ ،‬وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بال مكان ومن غير‬
‫احتياج إلى العرش والكرسي‪ .‬نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقال عن القاضي أبي المعالي الجويني۔۔ (تبيين كذب المفتري فيما نسب‬
‫إلى اإلمام أبي الحسن األشعريص‪)150/‬‬
‫”هللا تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرسي کوهللا تعالی نے پیدا کیا اور وه مکان و جگہ کا محت اج نہیں‬
‫ہے اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ جگہ و مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا “۔‬
‫األشعري (وفات ‪403‬ھ)فرماتے ہیں کہ‬ ‫ؒ‬ ‫القاضي أبو بكر محمد الباقالني المالكي‬
‫وال نقول إن العرش لهء أي اهللء قرار وال مكان‪ ،‬ألن اهلل تعالى كان وال مكان‪ ،‬فلما خلق المكان لم يتغير عما كان‪( .‬االنصاف فيما يجب‬
‫اعتقاده وال يجوز الجهل به (ص‪(65/‬‬
‫”ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش هللا تعالی کا‪  ‬ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ هللا تعالی تواس وقت بھی موج ود تھ ا جب جگہ‬
‫و مکان نہیں تھا ‪ ،‬پھرجب هللا تعالی نے جگہ و مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا ( یع نی موجودبالمک ان ) اب بھی ویس ا‪ ‬‬
‫ہی ہے“‬

‫وقال الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري (وفات ‪476‬ھ)‬

‫‪33‬‬
‫في عقيدت ه ما نص ه "وان اس تواءه ليس باس تقرار وال مالصقة ألن االس تقرار والمالص قة ص فة األجس ام المخلوق ة‪ ،‬وال رب ع ز وجل قديم‬
‫أزلي‪ ،‬فدل على أنه كان وال مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ (أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع ( ‪/1‬‬
‫‪))101‬‬
‫الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري رحمہ هللا فرماتے هیں کہ هللا تعالی کا استواء استقرار ( کس ی‬
‫صقة ( کسی چیزسے ِملنا ُمتص ل هون ا ) بھی نہیں ہے ‪ ،‬کی ونکہ اس تقرار‬ ‫جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور ُمال ِ‬
‫صقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ‪ ،‬اور رب تعالی ع ز وج ل ق ديم وأزلي ذات ہے ‪ ،‬پس یہ داللت ہے اس ب ات پ ر‬ ‫و ُمال ِ‬
‫کہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب جگہ و مکان نہیں تھا ‪ ،‬پھرجب هللا تعالی نے جگہ و مکان کوپیدا کیا ت ووه‬
‫جیسا تھا ( یعنی بالمکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔‬
‫الحنفی‪(  ‬وفات ‪855‬ھ) لکھتے ہیں‬ ‫ؒ‬ ‫امام بدر الدین العینی‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫قر في ه‪ )،‬عمدۃ الق اری ج ‪ 2‬ص ‪ (117‬ہللا جسم سے پاک ہے ہللا جگہ و مکان کا‬ ‫يحتَ اج إِلَى َم َك ان ْ‬
‫يس تَ ّ‬ ‫س بجس م فَاَل ْ‬
‫‪ ‬أَن اهلل ل َْي َ‬
‫محتاج نہیں نہ اس میں ٹھہرنے کا۔‬

‫دھوکہ نمبر ‪7‬‬


‫”استوی علی العرش“ دلیل ہے ہللا کے عرش پر ہونے کی‬ ‫ٰ‬ ‫کہتے ہیں کہ‬
‫جبکہ استوی علی العرش‪  ‬ہونا تو عرش کی تخلیق کے بعد‪  ‬ہے جبکہ ہللا عرش پر مستوی ہونے سے پہلے بھے وہاں‬
‫تھا اور تمام مخلوقات کی تخلیق سے پہلے بھی جیسا تھا اب بھی ویسا ہی ہے‬
‫استوی علی العرش کا تو یہ معنی نہ ہوا ‪ ‬کہ ہللا صرف عرش پر ہی ہے‪  ‬یا ‪ ‬فرقہ سلفیہ و کرامیہ کا عقیدہ غلط ہے‬ ‫ٰ‬ ‫پھر‬
‫یا عقیدے کی دلیل غلط ہے۔‬
‫سلفیہ کے شیخ صالح العثیمین (وفات ‪1421‬ھ) لکھتے ہیں‬
‫‪ ‬وهو اآلن علي ما كان عليه وهو يريد ان ينكر استواء اهلل‬
‫ہللا جیسا تھا اب بھی ویسا ہے کہنا استواء کا انکار کرنا ہے۔) شرح عقیدہ وسطیہ ص ‪(208‬‬
‫اب دیکھئے کتنے جلیل القدر علماء فقہاء اور محدثین ایسا کہہ رہے ہیں کیا یہ سب استواء کے منکر تھے؟‬

‫‪ )i(  ‬اإلمام األعظم أبو حنیفة ؒ (‪150‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬


‫ال ُي َقال لَهُ َكا َن اهلل َت َعالَى َواَل َم َكان قبل ان يخلق الْخلق َو َكا َن اهلل َت َعالَى َولم يكن أَيْن َواَل خلق كل َش ْيء ‪( .‬الفقه األبس ط‬
‫أَيْن اهلل َت َعالَى َف َق َ‬
‫اِل ِ ِ‬
‫يمان (ص‪،)161/‬العالم والمتعالم (ص‪((57/‬‬ ‫و اکبر ‪:‬باب ا ْست ْثنَاء في اإْلِ َ‬
‫”جب تم سے کوئی پوچھے‪ ‬کہ ہللا (کی ذات) کہاں ہے ت و اس ے کہ و کہ (ہللا وہیں ہے جہ اں)‪ ‬مخل وق کی تخلی ق س ے‬
‫پہلے جب کوئی مکان نہیں تھا صرف ہللا‪ ‬موجود تھ ا۔ اوروہی‪ ‬اس وقت موج ود تھ ا جب‪ ‬مک ان مخل وق ن ا م کی ک وئی‬
‫شے ہی نہیں تھی“۔‬

‫‪ )ii( ‬إمام أهل السنة أبو الحسن األشعري (‪ 324‬ھ) فرماتے ہیں‪:‬‬


‫“ كان اهلل وال مكان فخلق العرش والكرسي ولم يحتج إلى مكان‪ ،‬وهو بعد خلق المكان كما كان قبل خلقه " اهـ أي بال مكان ومن غير‬
‫احتياج إلى العرش والكرسي‪ .‬نقل ذلك عنه الحافظ ابن عساكر نقال عن القاضي أبي المعالي الجويني۔۔‪(.‬تبيين كذب المفتري فيما نسب‬
‫إلى اإلمام أبي الحسن األشعري(ص‪(( 150/‬‬
‫” هللا تعالی موجود تھا اورمکان نہیں تھا پس عرش وكرسي کوهللا تعالی نے پی دا کی ا اور وه مک ان ک ا محت اج نہیں ہے‬
‫اوروه مکان کوپیدا کرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہے جیسا کہ مکان کو پیدا کرنے سے پہلے تھا “۔‬
‫األشعري (‪403‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬
‫ؒ‬ ‫‪ )iii( ‬القاضي أبو بكر محمد الباقالني المالكي‬
‫وال نقول إن العرش لهء أي اهللء قرار وال مكان‪ ،‬ألن اهلل تعالى كان وال مكان‪ ،‬فلما خلق المكان لم يتغير عما كان‪ ) .‬االنصاف فيم ا يجب‬
‫اعتقاده وال يجوز الجهل به (ص‪((65/‬‬
‫”ہم یہ نہیں کہتے کہ عرش هللا تعالی کا‪ ‬ٹھہرناہے یا مکان ہے کیونکہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھ ا جب مک ان‬
‫نہیں تھا ‪ ،‬پھرجب هللا تعالی نے مکان کوپیدا کیا تووه جیسا تھا (یعنی موجود بالمکان) اب بھی ویسا‪ ‬ہی ہے“‬
‫جزي (المتوفى‪741 :‬ھ) فرماتے ہیں کہ‬ ‫ؒ‬ ‫‪ )iv( ‬أبو القاسم‪ ،‬ابن‬
‫َو ُه َو اآْل ن على َما َعلَْي ِه َكا َن‪ ) .‬القوانين الفقهية ج‪ ۱‬ص‪ ۵۷‬الْبَاب الثَّاني في ص َفات اهلل َت َعالَى عز َشأْنه وبهر ُس ْلطَانه (‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫” ہللا کی ذات جیسا (مخلوقات کو پیدا کرنے سے) پہلی تھی اب بھی ویسی ہی ہے“‬
‫‪ )v( ‬وقال الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري (وفات ‪ 476‬ھ)‬

‫‪34‬‬
‫في عقيدت ه ما نص ه "وان اس تواءه ليس باس تقرار وال مالصقة ألن االس تقرار والمالص قة ص فة األجس ام المخلوق ة‪ ،‬وال رب ع ز وجل قديم‬
‫أزلي‪ ،‬فدل على أنه كان وال مكان ثم خلق المكان وهو على ما عليه كان " اهـ) أنظر عقيدة الشيرازي في مقدمة كتابه شرح اللمع ( ‪/1‬‬
‫‪((101‬‬
‫الفقيه اإلمام الشيخ أبو إسحاق الشيرازي الشافعي األشعري رحمہ هللا فرماتے هیں کہ هللا تعالی کا استواء استقرار ( کس ی‬
‫صقة ( کسی چیزسے ِملنا ُمتص ل هون ا ) بھی نہیں ہے ‪ ،‬کی ونکہ اس تقرار‬ ‫جگہ قرارپکڑنا اورٹھہرنا ) نہیں ہے اور ُمال ِ‬
‫صقَة اجسام مخلوقہ کی صفت ہے ‪ ،‬اور رب تعالی ع ز وج ل ق ديم وأزلي ذات ہے ‪ ،‬پس یہ داللت ہے اس ب ات پ ر‬ ‫و ُمال ِ‬
‫کہ هللا تعالی تواس وقت بھی موجود تھا جب مک ان نہیں تھ ا ‪ ،‬پھ رجب هللا تع الی نے مک ان کوپی دا کی ا ت ووه جیس ا تھ ا‬
‫( یعنی بالمکان ) اب بھی ویسا هی ہے ۔‬

‫عساكر (وفات ‪ 620‬ھ (‬


‫ؒ‬ ‫(‪ )vi‬وقال الشيخ أبو منصور فخر الدين عبد الرحمن بن محمد المعروف بابن‬
‫تحت ‪،‬‬
‫الخلْق ‪ ،‬ليس له َق ْب ٌل وال َب ْع ٌد ‪ ،‬والفو ٌق وال ٌ‬
‫[طبقات الشافعية (‪“ :])8/186‬موجو ٌد قبل َ‬
‫ترجمہ ‪:‬ہللا موجود ہے جیسا (تمام) مخلوق کی تخلی ق س ے پہلے تھ ا‪ ،‬نہیں اس س ے پہلے کچھ نہیں اس کے بع د کچھ‬
‫نہیں اس کے اوپر کچھ نہیں اس کے نیچے کچھ ۔‬

‫(‪ )vii‬وقال الشيخ أبو حامد محمد بن محمد الغزالي الشافعي االشعري (وفات ‪ 505‬ھ (‬
‫ما نصه ‪( " :‬تعالى أي اهلل عن أن يحويه مكان‪ ،‬كما تقدس عن أن يحده زمان‪ ،‬بل كان قبل أن خلق الزمان والمكان وهو االن على ما عليه‬
‫كان " اهـ) ‪.‬إحياء علوم الدين‪ :‬كتاب قواعد العقاند‪ ،‬الفصل األول (‪(108 /1‬‬
‫غزالی فرماتے ہیں ہللا زمان و ماکان کی تخلیق سے پہلے تھا اور ویسا ہی ہے جیسا‪  ‬وہ (مخلوق کی تخلیق) س ے‬ ‫ؒ‬ ‫امام‬
‫پہلے تھا۔‬

‫(‪ )viii‬قال القاضي الشيخ أبو الوليد محمد بن أحمد قاضي الجماعة بقرطبة المعروف بابن رشد الجد المالكي (‪ 520‬ھ)”ليس اهلل في‬
‫مكان‪ ،‬فقد كان قبل أن يخلق المكان) اهـ‪ .‬ذكره ابن الحاج المالكي في كتابه "المدخل) " المدخل‪ :‬فصل في االشتغال بالعلم يوم الجمعة‬
‫(‪((149/2‬‬
‫ہللا مکان میں نہیں‪  ‬وہ تو مکان کی تخلیق سے بھی پہلے تھا۔‬

‫(‪ )ix‬وقال الشيخ عبد العزيز بن عبد السالم األشعري الملقب بسلطان العلماء‪( ‬وفات ‪660‬ھ (‬
‫مصور‪ ،‬وال جوهر محدود ُمقدَّر‪ ،‬وال يشبه شيئا‪ ،‬وال يُشبهه شىءٌ‪ ،‬وال تحيط به الجهات‪ ،‬وال تكتنفه األرضون وال‬
‫"ليسء أي اهللء بجسم َّ‬
‫كون المكان ودبَّر الزمان‪ ،‬وهو اآلن على ما عليه كان" ا‪.‬هـ) طبقات الشافعية الكبرى‪ :‬ترجمة عبد العزيز بن عبد‬
‫السموات‪ ،‬كان قبل أن َّ‬
‫السالم (‪(219 /8‬‬
‫ہللا جسم واال نہیں محدود نہیں ۔۔۔۔۔ وہ ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔‬
‫‪ )x( ‬وقال الشيخ تاج الدين محمد بن هبة هللا المكي الحموي المصري (‪ 599‬هـ)‬
‫في تنزيه اهلل عن المكان ما نصه وصانع العالم ال يـحـويه قطر تعالـى اهلل عن تشبيه قد كان موجودا وال مكانا وحكمه االن عـلى ما كانا‬
‫س بحانه ج ل عن المك ان وع ز عن تغ ير الزم ان" اهـ (منظومت ه "ح دائق الفص ول وج واهر األص ول" في التوحي د‪ ،‬ال تي ك ان أم ر بتدريس ها‬
‫السلطان المجاهد صالح الدين األيوبي (ص‪ )13‬النهاية في غريب الحديث (مادة ق ر ب‪( 32 /4 ،‬‬
‫ہللا موجود تھا بال مکان اور ویسا ہی ہے جیسا وہ پہلے تھا۔‬
‫‪ )xi( ‬وقال اإلمام المجتهد محمد بن إدريس الشافعي رضي اهلل عنه إمام المذهب الشافعي ما نصه‪:‬‬
‫“إنه تعالى كان وال مكان فخلق المكان وهو على صفة األزلية كما كان قبل خلقه المكان ال يجوز عليه التغيير في ذاته وال التبديل في‬
‫صفاته " اهـ) إتحاف السادة المتقين (‪(24 /2‬‬
‫شافعی فرماتے ہیں‬
‫ؒ‬ ‫امام‬
‫الی اُس ی‬
‫تعالی نے مکان کو پیدا کی ا اور ہللا تع ٰ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی موجود تھے اور کوئی مکان موجود نہیں تھا پس ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫بے شک ہللا‬
‫صفت ازلیہ ( ازل سے جو ہللا کی صفت ہے) پر ہے جیسے مکان کے پیدایش سے پہلے تھے ۔ جائز نہیں ہے ہللا کے‬
‫ذات میں تبدیلی کرنا اور نہ ہللا کے صفات میں تبدیلی کرنا۔‬

‫‪35‬‬
‫دھوکہ نمبر ‪8‬‬
‫بائن الخلقۃ ہللا مخلوقات سے جدا ہے‬
‫فرقہ سلفیہ یہ عقیدہ رکھتے اور سمجھاتے ہیں ‪ ‬کہ ہللا اپنے مخلوق سے جدا ہے ایسے جیسے ایک شے دوسرے شے‬
‫سے‪  ‬جدا ہوتی ہے ہللا اور مخلوقات کے بیچ بہت بڑا‪  ‬مسافت (فاصلہ) ہے۔‬
‫جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ حق ہے کہ‬
‫تعالی‪  ‬کی ذات قدیم ہے جیسا ہللا مخلوق کو پیدا کرنے سے پہلے تھا اب بھی ویسا ہی ہے۔‬ ‫‪ ‬ہللا ٰ‬
‫پھر اس نے مخلوقات کو پیدا فرمایا اور کسی مخلوق میں یہ ہمت نہیں کہ پیدا ہونے کے بعد وہ خدا کی ذات کے س اتھ‬
‫متحد ہو جائے۔‬
‫ٰ‬
‫کاندھلوی فرماتے ہیں‪ :‬حق تعالی کسی چ یز کے س اتھ متح د نہیں ہوت ا اور نہ ک وئی چ یز اس کے س اتھ‬ ‫ؒ‬ ‫موالنا ادریس‬
‫متحد ہوتی ہے اور نہ کوئی چیز اس میں حلول کرتی ہے اور نہ وہ کسی شئے میں حلول کرت ا ہے۔) عقائ د اس الم ص‬
‫‪)59‬‬
‫ہللا اپنی ذات کے ساتھ‪  ‬متحد ہے کا عقیدہ دو طرح سے نک ل س کتا ہے ای ک یہ کہ ہللا کی ذات ک و جس م و جھت س ے‬
‫پاک نہ مانا جائے اور دوسرا اس طرح کہ ہللا کی ذات کیلئے‪  ‬کوئی جگہ مقرر کر دی جائے (جیس ا ف رقہ س لفیہ کرت ا‬
‫ہے)اور کہا جائے کہ اس کے بعد سے ہللا کی ذات نہیں پھر مخلوقات شروع ہوتی ہیں۔ اب جہاں سے بھی ہللا کی ذات‬
‫ختم قرار دی جائے گی‪  ‬پھر اس عقیدے س ے یہ بھی الزم آئے گ ا کہ ہللا کی ذات اور اس کے بع د ج و بھی مخلوق ات‬
‫ہیں وہ آپس میں متحد ہیں یا اگر ہللا‪  ‬کی ذات اور مخلوق کے درمیان کوئی فاص لہ مق رر ک ر دی تے ہیں‪  ‬ت و وہ فاص لہ‬
‫بھی ٖغیر ہللا‪  ‬یعنی کہ مخلوق ات میں ہی ش امل ہ و گ ا۔ اس لئے اب کس ی بھی ط رح یہ عقی دہ رکھن ا ج ائز نہیں۔ ہللا اور‬
‫مخلوق کے بیچ کوئی مسافت نہیں بلکہ ہللا اور مخلوق کا واسطہ بال کیف و بال تشبیہ ہے‪ ‬‬
‫) کتاب الوصيہ ميں امام اعظم فرماتے ہيں (‬
‫ٍ‬
‫القاري في شرح الفقه األكبر ص ‪"( 138‬ولقاء اهلل تعالى ألهل الجنة بال كيف وال تشبيه وال جهة حقٌّ" اهـ‪.‬‬ ‫) نقله مال علي‬
‫ّ‬
‫ہللا تعالي کي مالقت اہل جنت سے بنا کسي کيفيت‪،‬تشبيہ اور جھت کے حق ہے۔‬

‫حنیفہ مزید فرماتے ہیں‬


‫ؒ‬ ‫حضرت امام ابو‬
‫"واهلل تعالى يُرى في اآلخرة‪ ،‬ويراه المؤمنون وهم في الجنة بأعين رؤوسهم بال تشبيه وال كميّة‪ ،‬وال يكون بينه وبين خلقه مسافة"‬
‫اہللا تعالي کو آخرت ميں ديکھا جائے گا اور مومنين اس کو اپني آنکھوں سے ديکھيں گے جبکہ وہ جنت ميں ہ ونگے‪،‬‬
‫بنا کسي تشبيہ اور کميت کے اور ہللا اور اس کے مخلوق کے مابين کوئي مسافت (فاصلہ) بھي نہيں ہ وگي (ش رح فق ه‬
‫قاري ص ‪)137-136‬‬ ‫ؒ‬ ‫الكبر مال علي‬

‫دھوکہ نمبر ‪9‬‬


‫فرقہ سلفیہ یہ عقیدہ رکھتے اور سمجھاتے ہیں کہ ہللا کی ذات ختم ہوتی ہے اور پھر عرش اور دیگر مخلوقات ش روع‬
‫ہوتی ہیں‪  ‬العیاذ باہلل‬
‫جبکہ یہ عقیدہ قرآن اور حدیث کے خالف ہے‬
‫تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫ہللا ٰ‬
‫اهر والْب ِ‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫اط ُن‪( ‬الحدید ‪ )3‬وہی اول وہی آخر وہی ظاہر وہی باطن‬‫ُه َو اأْل ََّو ُل َواآْل خ ُر َوالظَّ ُ َ َ‬

‫رسول ہللاﷺ اس آیت کی تفسیر فرماتے ہیں‬


‫"اللهم أنت األول‪ ،‬فليس قبل ك ش يء‪ ،‬وأنت اآلخ ر‪ ،‬فليس بع دك ش يء‪ ،‬وأنت الظ اهر فليس فوق ك ش يء‪ ،‬وأنت الب اطن‪ ،‬فليس دون ك‬
‫شيء"‪.‬‬
‫اے ہللا تو اول ہے تجھ سے پہلے کچھ نہیں ‪ ،‬تو ”آخر“ ہے تیرے بعد ک وئی نہیں‪ ،‬ت و ”ظ اہر“ ہے تیس رے اوپ ر کچھ‬
‫نہیں‪ ،‬تو ”باطن“ ہے‪  ‬تیرے نیچے کچھ نہیں۔ (صحیح مسلم)‬

‫دھوکہ نمبر ‪10‬‬


‫حنیفہ نے فرمایا کہ جو ہللا کو عرش پر نا مانے وہ کافر ہے۔‬ ‫ؒ‬ ‫کہتے ہیں کہ امام ابو‬
‫حنیفہ کی طف منسوب یہ قول تحریف شدہ ہے۔‬ ‫ؒ‬ ‫حاالنکہ امام ابو‬
‫امام ابوحنيفہ رحمہ ہللا سے ہللا کے مکان ثابت کرنے والے کي تکفير کا قول‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫الس َماء اَ ْو فِي األ َْرض فقد كفر َو َك َذا من قَ َ‬
‫ال إِنَّه على ال َْع ْرش َواَل ادري ال َْع ْرش أَفي َّ‬
‫الس َماء اَ ْو في‬ ‫ال اَل اعرف َربِّي ِفي َّ‬
‫ال ابو حني َفة من قَ َ‬
‫قَ َ‬
‫األ َْرض‪( ‬الفقه األكبر ص‪)135 :‬‬

‫‪36‬‬
‫ابومطيع بلخي کہتے ہیں کہ امام ابوحنيفہ رحمہ ہللا نے فرمايا جس نے کہا کہ مجھے يہ معلوم نہيں کہ ميرا رب آسمان‬
‫پر ہے يا زمين پر تو اس نے کفر کيا‪ ،‬اسي طرح جو کہتا ہے کہ ہللا عرش پ ر ہے ليکن مجھے پتہ نہيں ہے کہ ع رش‬
‫آسمان پر ہے يا زمين پر تو يہ بھي کافر ہے۔‬
‫‪ ‬مالحظہ ابومطيع کي کتاب کے يہ الفاظ امام بياضي الحنفي رحمہ ہللا کے نسخے ميں صرف اس قدر ہيں اور امام فقيہ‬
‫ابوالليث سمرقندي کے نسخے ميں يہ الفاظ ہيں‪ ،‬ہللا تعالي کا ارشاد ہے الرحمن علي العرش استوي‪ ،‬پھر اگر وہ شخص‬
‫کہے ميں اس آيت کو مانتا ہوں ليکن مجھے پتہ نہيں کہ عرش آسمان پر ہے يا زمين تو اس بات سے بھي اس نے کفر‬
‫کيا‪ ،،‬اور دونوں نسخوں کے متنوں ميں وجہ کفر بيان نہيں کيا گيا کہ ايسا شخص کيوں ک افر ہے‪،‬ت و ام ام بياض ي اور‬
‫فقيہ ابوالليث سمرقندي رحمھم ہللا دونوں نے اس کا بيان کرديا کہ دراصل اس دوسري بات کا مرجع بھي پہلي ب ات کي‬
‫طرف ہے کيونکہ جب وہ ہللا کو عرش پر مان کر کہتا ہے کہ مجھے معلوم نہيں کہ عرش آس مان پ ر ہے يا زمين پ ر‬
‫تو اس کا بھي وہي مطلب ہوا جو پہلي عبارت ک ا ہے کہ ہللا آس مان پ ر ہے يا زمين پ ر تب ايس ے ش خص نے ہللا کے‬
‫ليے مکان کا عقيدہ رکھا اور ہللا کو مکان سے پاک قرار نہيں ديا۔‬
‫‪،‬اور ايسا کہنے واال ہللا کو اگر آسمان پر مانتا ہے تو زمين پر نفي کرتا ہے اور زمين پ ر مانت ا ہے ت و آس مان پ ر نفي‬
‫کرتا ہے اور يہ بات ہللا کے ليے حد کو بھي مستلزم ہے‬
‫اور اسي طرح فقيہ ابوالليث سمرقندي اور بحوالہ مال علي قاري رحمہ ہللا حل الرم وز ميں مل ک العلماءش يخ عزال دين‬
‫بن عبدالسالم الشافعي رحمہ ہللا فرماتے ہيں کہ يہ قول ہللا جل جاللہ کے ليے مکان ثابت کرنے کا وہم ديت ا ہے ت و اس‬
‫بات سے يہ شخص مشرک ہوگيا‬
‫يعني ہللا سبحانہ وتعالي تو ازل سے ہے اگر ہللا کے وجود کے ليےمکان الزم ہے تو يقينا يہ مکان ازل سے ماننا پڑے‬
‫گا اور اس طرح ايک سے زائد قديم ذات ماننا پڑيں گے جو کہ ہللا کے ساتھ شرک ہے‬

‫لہذا آج کل جو غيرمقلدين امام صاحب کے اس قول ميں الفاظ کے مالوٹ کے ساتھ معني ميں بھي تحريف ک رکے اس‬
‫کا مطلب اپني طرف موڑتے ہيں وہ بالکل غل ط اور ام ام ص احب کي اپ ني تص ريحات کے خالف ہےاور جس مالوٹ‬
‫اور لفظي تحريف کي بات ہم نے کي اس کي تفصيل يہاں ذکر کرتے ہيں‬
‫اوپر امام صاحب کا قول ابومطيع کي روايت سے ہم نے بيان کرديا کہ وہ کس قدر الفاظ کے س اتھ م روي ہے اور اس‬
‫کي تشريح فقيہ ابوالليث اور امام عزالدين بن عبدالس الم کے ارش ادات کے مط ابق بال غب ار واض ح نظ ر آتي ہے ليکن‬
‫غيرمقلدين ميں ايک شخص جن کو يہ لوگ شيخ االسالم ابواسماعيل الھروي االنصار ي صاحب الفاروق کے ن ام س ے‬
‫جانتے ہيں اور ان کي کتابوں ميں الفاروق في الصفات اور ذم الکالم شامل ہيں جن ميں يہ جن اب اش اعرہ کومس لم بلکہ‬
‫اہل کتاب بھي نہيں س مجھتے اور ان کے ذبيحے ح رام اور ان س ے نک اح بھي ح رام کہالتے ہيں اور يہ فقيہ اب والليث‬
‫سمرقندي رحمہ ہللا کے وفات سنہ ‪373‬ھ کے سو سال بعد آئے ہيں اور انہوں نےاسي روايت ميں اپني طرف جو الفاظ‬
‫چاہے اپني طرف س ے بڑھ اديئے ح تي کہ س اري ب ات ک ا مفہ وم ہي بگاڑديا اور کالم ک ا رخ اپ ني مطلب کي ط رف‬
‫پھيرديا چنانچہ ان جناب نے اس عبارت کو اس طرح روايت کيا‬
‫اس َت َوى}‬ ‫{الر ْح َم ُن َعلَى ال َْع ْر ِ‬ ‫أِل‬ ‫الس َماء أَوفِي األ َْرض۔ َف َق َ‬
‫ال َسأَلت أَبَا حني َفة َع َّمن َي ُقول اَل أعرف َربِّي فِي َّ‬
‫ش ْ‬ ‫ال قد كفر َن اهلل َت َع الَى َي ُق ول َّ‬ ‫قَ َ‬
‫ال إِذا أنكر أَنه فِي‬ ‫الس َماء أَو فِي األ َْرض‪ ،‬قَ َ‬
‫ال اَل ي ْد ِري ال َْع ْرش ِفي َّ‬ ‫وعرشه فَوق سمواته‪ ،‬فَقلت إِنَّه ي ُقول أَقُول على الْعرش اسَتوى ول ِ‬
‫َكن قَ َ‬ ‫َْ ْ َ َ‬ ‫َ‬
‫الس َماء فقد كفر‬
‫َّ‬
‫کيا‪ ،،،‬اس عبارت ميں انہوں نے الن ہللا يقول الرحمن علي العرش استوي وعرشہ فوق سموتہ کي تعليل [ع ني چ ونکہ‬
‫ہللا تعالي فرماتے ہيں کہ رحمن نے عرش پر استواء کرليا‪ ،‬اور اس کا عرش آسمانوں کے اوپر ہے] اور يہ الف اظ ف اذا‬
‫انکر انہ في السماء فقد کفر کي تعليل [يعني جب اس شخص نے انکار کرليا کہ وہ آسمان پر ہے تو اس نے کفر کيا] يہ‬
‫دونوں باتوں انہوں نے اس عبارت ميں اپني طرف سے بڑھ اديں جس کي وجہ س ے مفھ وم بظ اہر تجس يمي مع ني کي‬
‫طرف مائل ہوتا نظر آرہا ہے حاالنکہ اصلي عبارت اور امام صاحب کي ديگر تصريحات سے امام صاحب ک ا مس لک‬
‫اہل سنت کا ہي مسلک ہونے ميں واضح ہے‪ ،‬تو يہاں پر کفر کي وجہ يہ نہيں ہے کہ اس شخص نے ہللا ک و آس مان پ ر‬
‫ماننے سے انکار کرديا اس ليے کافر ہے‪،،‬بلکہ يہ الفاظ ت و الھ روي نے اپ ني ط رف س ے بڑھ اديے اور ان الف اظ ک ا‬
‫کوئي وجود ہي نہيں ہے اصل عبارت ميں‪ ،‬اور کفر کي وجہ وہي ہے جو امام ابوالليث نے الھروي سے سو سال پہلے‬
‫بيان کيا اور امام عزالدين بن عبدالسالم نے بھي بيان کيا کہ دراصل يہ بات ہللا کے ليے مک ان و جگہ ث ابت کررہ ا ہے‬
‫اس ليے يہ کفر ہے‬
‫اور تعجب يہ ہے کہ يہ شخص ابواسماعيل الھروي ان حضرات کے ہاں بہت ب ڑے پ ايے کے ہيں جبکہ ان کے اپ نے‬
‫ہي شيخ االسالم ابن تيميہ رحمہ ہللا ان کا مسلک اپنے مجموع الفتاوي ميں کالم الہي کے ب ارے ميں يہ نق ل ک رتے ہيں‬
‫کہ ان کے ہاں ہللا کا کالم نازل ہوکر مصحف ميں حلول ہوگيا والعياذباہلل اور ساتھ ميں جن اب کي يہ عجيب منط ق بھي‬
‫نقل فرمائي ہے کہ يہ وہ والي حلول نہيں جو ممنوع و مضر ہے‪( ،‬مجموع الفتاوى (‪)294 /12‬‬

‫‪37‬‬
‫ِ‬ ‫َّ ِ ِ‬ ‫ِ‬ ‫ص َح ِ‬ ‫َن كَاَل م اللَّ ِه ح ٌّ ِ‬ ‫َوطَائَِفةٌ أَطْلَ َق ْ‬
‫س‬ ‫ِ ِ‬
‫ي الهروي ‪ -‬ال ُْملَقب ب َش ْي ِخ اإْل ْس اَل م ‪َ -‬وغَْي ِره َوقَ الُوا‪ :‬ل َْي َ‬ ‫ص ا ِر ِّ‬‫يل اأْل َنْ َ‬ ‫ف َكأَبِي ْ‬
‫إس َماع َ‬ ‫ال في ال ُْم ْ‬ ‫َ‬ ‫ت الْ َق ْو َل بِأ َّ َ‬
‫ان َك َذلِ َ‬
‫ك‬ ‫الص ِحي َف ِة أَو فِي ص ْد ِر اإْلِ نْس ِ‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َن اللَّهَ ِفي َّ‬ ‫الص ِحي َف ِة َواَل ُي َق ُ‬
‫ال بِأ َّ‬ ‫ور الَّ ِذي َن َف ْينَاهُ‪ .‬بَ ْل نُطْلِ ُق الْ َق ْو َل بِأ َّ‬
‫َن الْكَاَل َم فِي َّ‬ ‫ول ال َْم ْح ُذ ُ‬
‫ْحلُ ُ‬‫َه َذا ُه َو ال ُ‬
‫ول ذَاتِ ِه‪،‬‬‫ك ُدو َن ُحلُ ِ‬ ‫ال فِي ذَلِ َ‬ ‫نُطْلِ ُق الْ َق ْو َل بِأ َّ‬
‫َن كَاَل َمهُ َح ٌّ‬
‫‪ ‬ابن تيميہ کہ تے ہيں کہ ايک گ روہ نے يہ ب ات بھي کہي ہے کہ ہللا ک ا کالم مص حف ميں حل ول ہوگيا ہے جيس ا کہ‬
‫ابواسماعيل الھروي جو کہ شيخ االسالم کے لقب سے جانے جاتے ہيں وغيرہ‪ ،‬يہ لوگ کہ تے ہيں کہ يہ وہ حل ول نہيں‬
‫ہے جو محذور ہے اور جسے ہم نے نفي کيا ہے بلکہ ہم يہ کہ تے ہيں کہ ہللا ک ا کالم ہللا ص حيفہ ميں ہے اور يہ نہيں‬
‫کہا جائے گا کہ ہللا صحيفہ ميں ہے يا انسان کے سينے ميں ہے اسي طرح ہم کہتے ہيں کہ اس کا کالم اس ميں [يع ني‬
‫مصحف يا صحيفے ميں] حلول ہوگيا ہے ليکن ہللا کي ذات حلول نہيں ہوئي‬
‫سبحان ہللا اگر يہي کالم کوئي بھي اہل سنت کا معتقد خدانخواستہ کہ ديتا تو کيا اس کو کوئي شيخ االسالم کے لقب سے‬
‫ملقب کرتا؟ تو خالصہ کالم يہ ہوا کہ ابومطيع سے امام ص احب کي اس ب ات کي روايت ک و اگ ر ابواس ماعيل الھ روي‬
‫کي من گھڑت زيادتي کے بنا نقل کيا جائے تو اس ميں کوئي خرابي نہيں اور کالم کا مفھوم مک ان کي نفي ميں واض ح‬
‫ہے خصوصاجب امام صاحب کے باقي ارشادات کي روشني ميں اس کو قوي قرائن مل جاتے ہيں‬

‫اور اسي کالم ک و‪  ‬ابن قيم‪  ‬ان الف اظ کي زيادتي س ے نق ل کيا ہے‪،‬النہ انک ر ان يک ون في الس ماء النہ تع الي في اعلي‬
‫عليين‪ ،‬يعني يہ شخص اس ليے کافر ہے کہ اس نے ہللا کو آسمان پر ماننے سے انکار کرديا‪ ،‬کيونکہ ہللا اعلي عل يين‬
‫ميں ہے حاالنکہ قران وسنت ميں کہيں بھي ہللا کو اعلي عليين ميں نہيں کہا گيا تو يہ سب تص رفات جن اب ابواس ماعيل‬
‫الھروي کي تحری ف ک رد ہ ہيں اور ان س ے ام ام ذہ بي رحمہ ہللا نے العل و ميں اور ام ام ابن قيم‪  ‬نے اجتم اع الجيوش‬
‫االسالميہ ميں ان کو اسي طرح نقل کر لیا۔‬
‫ن‬
‫ث‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ن ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫‪11‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬‫م‬ ‫دھوکہ‬
‫کت‬
‫ےت بہ ی‬ ‫ے کہ رات کے و ت ہللا عالٰی آسمان د ی ا پر زول رماے ہ ی ں لہذا اب ت ہ وا کہ ہللا عرش پر ہ ی ‪  ‬ہ‬ ‫ت‬ ‫ے ہ ی ں نکہ حدی نث می فں ہ‬ ‫تہ‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫گھ ٹ‬ ‫ن‬ ‫‪  ‬واگر یقہی ات ے ج وتکہ ہ رت ہ سل ہ کہت ا ے و سوال ہ ے کہ دن‬
‫ت‬ ‫ں۔‬
‫ف‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ق‬ ‫ے‬
‫ف‬ ‫ا‬‫م‬‫ر‬ ‫زول‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ان‬ ‫م‬‫آس‬
‫‪ 24‬ن وں ت می ں ہ ر و ت کسیگ ا ٹکسی‬ ‫گول ہ وے نکی وج ہ سے ن ث‬ ‫کے‬
‫ی مس س‬
‫ا‬ ‫ق‬ ‫گ ٹ ی ہت‬ ‫ی ہ‬ ‫ی‬ ‫ب ہ‬
‫ے لہذا اگر ‪ 24‬ھن وں‬ ‫ے ومسہللاسکی ذات کان ‪ 24‬ھن وں منی ںسہ ر و ت ئ ل تل آسمان د ی ا پر موج ود ہ و ا اب ت ہ و ا ہ‬ ‫رات ہ و ی ہ‬ ‫عالے م ں‬
‫ے و ان کے ندعوے کے تم طابق ہللا کی تذات کے عرش پر‬ ‫ہللاف کی ث ذات کات ل ل آسمان د ی ا پر موج ود ہ و ا لی م ک ی ا ج اق ن‬ ‫م ں ہ ر وقینت ن‬
‫ے اگر ی ہ ک‬ ‫ی‬
‫ے ہ ی ں کہ ان کے‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫دعوے کے م طنابق رآ تی تآی نات کا ا کار تالزم ہ و ج ا ا‬ ‫ن‬ ‫ے اور قان نکے‬ ‫ہ‬ ‫موج ود ہ وے کی ی اب تت ہ و ی‬
‫صح ح حدی ث سے‬ ‫دعوے کے م طابق اس وی علی العرش کی رآ ی آی ات کا ا کار الزم ہی ں ہ و ا‪  ‬و م درج ہ ذی ل ب ا وں کا ج واب رآن ی ا کسی ی‬
‫ٰ‬ ‫ق‬ ‫دی ں۔‬
‫ہت‬ ‫ن‬
‫ے؟‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫‪ ‬‬ ‫ود‬ ‫ج‬
‫یپ ہت‬ ‫و‬‫م‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫ان‬ ‫م‬‫آس‬ ‫صرف‬ ‫اور‬ ‫صرف‬ ‫ت‬ ‫و‬
‫ہ ق‬‫ر‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ک ی ا ہللا‬
‫ہت‬ ‫ے؟‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ود‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫عرش‬ ‫صرف‬ ‫ق‬ ‫اور‬ ‫صرف‬ ‫ت‬ ‫ق‬‫و‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ک ی ا ہللا‬
‫ن‬
‫ے؟‬ ‫ک ی ا ہللا کی ذات ہ ر و ت اور ب ی ک و ت عرش اور آسمان د ی ا پر موج ود ر ی ہ‬
‫کت ت ع ہ ن ہئ‬ ‫ن‬ ‫ن ن نت ئ ض‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ف ق ف‬ ‫ن‬
‫ےت ب ہ ی‬ ‫ے کہ ہللا کہاں ہ‬ ‫ے ہ ی ں فکہ من لوم و ا چ ا‬
‫ئ‬ ‫کہ ی ہ ہ‬
‫ے کی و ق‬‫نوٹ ‪ :‬ر ہ تسل ی ہ کال یاس می ں تسے کو ی ای ک ع ت ی ندہ اپ ا قا ائ ہا ی روری ہ‬
‫دے پر مت ق ہی ں نہ وے ک ی ا ی ہ ت‬
‫مومن ہ ی ں؟‬ ‫ے کن اب ک ی ہ لوگ‪  ‬ان ی توں ع ا د مین ں سے کتسی ای ک ع ی‬ ‫مومن ہ و ا ہ ق‬ ‫بف قدہ ف‬
‫زول کا ب ھی اس وی کا سا متعاملہ‬ ‫ے ہ ی ں اور ن‬ ‫وی قکا ظ اہفرینمعنی ن یل‬‫نسل ی ہ کے ع یتدہ سے ی ہ سب چ یزی ں الزم آ ی ہ ی قں کی و کہ نی ہ اس ٰ ف‬ ‫رہ‬
‫ے کہ اس وی‬ ‫ہ‬ ‫ے ج ب کہ اہ لس ت کا مذہ ب‬ ‫ہ‬ ‫ے ی ہ ر ہ سل ی ہ ے ب ت ا ا‬ ‫ہ‬ ‫سے کون سا ع ی دہ رکھ ا‬ ‫ن‬ ‫دعوی کرے ہ ی ں اب ان می ں‬ ‫ے کا ن‬ ‫کر ن‬
‫ٰ‬ ‫ے۔‬ ‫اور زول دو وں کی مراد کو ہللا کے ہ ی سپ رد کر ا ہ‬
‫ف ت‬ ‫ؒ ف‬
‫(الر ْح َم ُن‬ ‫وهم ِ‬
‫ظاه ُرها التشبيه‪ ،‬كقوله تعالى‪َّ :‬‬ ‫ِ‬
‫امام اب ن ج زی (و ات ‪741‬ھ) رماے ہ ی ں‪ :‬اعلم أنه ورد في القرآن والحديث ألفاظ يُ ُ‬
‫تعطيل وال تأويل‪ ،‬ويَ ِك َل‬ ‫ش استوى) [طه‪ ]٥ :‬وحديث النزول‪ ،‬وغير ذلك‪ ،‬فيجب على العبد أن ِ‬
‫ٍ‬ ‫يؤم َن بها من غير تشبيه وال‬ ‫َعلَى ال َْع ْر ِ ْ َ َ‬
‫ِعلمها إلى اهلل تعالى‪ ،‬ويقول‪ :‬آمنت بما قال اهلل تعالى وبما‬
‫قال رسوله صلى اهلل عليه وسلم بالمعنى الذي أراده اهلل ورسوله صلى اهلل عليه وسلم‪ ،‬واهلل ورسوله أعلم‪ .‬وهذا طريقة التسليم التي تقود‬
‫اس ُخو َن فِي ال ِْعل ِْم ي ُقولُو َن آمنَّا بِ ِه ُك لٌّ ِّمن ِع ِ‬
‫ند َرِّبنَ ا )[آل عمران‪:‬‬ ‫الر ِ‬
‫إلى السالمة‪ ،‬وهي التي أثنى اهلل على من اتصف بها بقوله تعالى‪َ ( :‬و َّ‬
‫ْ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫الصحابة والتابعون وأئمة المسلمين‬ ‫‪٧‬ق] وعلى هذا كان‬
‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ئض‬ ‫ت‬ ‫تش‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫اس پر ای مان ال یئ ں‬
‫ے کہ م ت‬ ‫ےق روری ہ‬ ‫وی اور زول اہ ری طور پر ب ی ہ کی طرف ‪ ‬چلے ج اے ہ ی ں ہ م تارے ل‬ ‫حدی ث می ں اس‬
‫ت‬ ‫غ” رآن اور‬
‫ے اسی پر صحاب ہ و اب عی ن اور ا مہ‬ ‫ٰ‬ ‫عط‬
‫بم یسر‪  ‬ی تل و اوی لن کے اور‪  ‬ہللا کی مراد کو اس پر اس کے رسول پر ھوڑ دی ں ی ہی سالم ی کا طری ہ ہ‬
‫ے“ ۔(ال ور المبين ص ‪)60‬‬ ‫لمی ن ھ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫دھوکہ مب ر ‪12‬‬ ‫کت‬
‫ے۔ ق ن‬ ‫اک ہ‬ ‫ھت و کان و ج گہ سےئپ ئ‬
‫م‬ ‫ے و جن‬ ‫ہ‬ ‫ھت ہی ں اور ہللا وکہ اں ن‬ ‫کے اوپر ئاوپ فر ئکو ینج گہ ‪ ،‬م نکان ی ا ج ت‬‫ے ہ ی ں کہ عرش ن‬ ‫ہ‬
‫ہ‬
‫ے کو ی ج گہ م رر کرے سے ی‬ ‫ب‬
‫ات کا جھی ا ہی ں کو ی ا دہ ثہی ں یک و کہ تاول و ‪  ‬ہللا کی ذات کا ہی ں ا کار کرے سے اور اس کے ل‬ ‫ئ‬ ‫ب‬
‫ہللا ک ج‬
‫اس‬
‫ے۔‬ ‫ے سم ‪ ،‬ھت مکان و ج گہ کا ا ب ات ہ و ج ا ا ہ‬ ‫یل‬

‫‪38‬‬
‫ت‬ ‫ف ق ن‬ ‫ف ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫کے و ت آسمان دن ی ا پر زول رماے ہ ی تں ‪  ‬اور ی ہ ر ہ‪  ‬زلٹ الی سماء کا معملہ ب ھی اس وی علی‬ ‫پ ھر‪  ‬حدی ث کے کم نطابق ہللا عالٰی رات ت‬
‫ئاب ج نب ‪ٰ  ‬‬ ‫ع‬
‫ان کے‬ ‫ے‬‫ے ہ ی ں کہ ہللا وہ ی ں ھہرا ہ وا ہ‬ ‫وی لی تالعرش تکے تب ارے قمی ں ی ہ کہ‬ ‫آسمان ٰدن‬
‫ں اور اس‬ ‫ے کے داعی ہ ی ن‬ ‫القعرش کی طرح ر ھ‬
‫ے و پ ھر و اس و ت ہللا‪  ‬مکان ‪ ،‬ج ھت اور‪  ‬حدود می ں آج اے گا ی ا ہی ں؟‬ ‫یپ ہ‬ ‫ا‬ ‫آ‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ع ی دے کے م طابق‪  ‬ہللا عرش سےیچ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ض‬ ‫ق‬ ‫دھوکہ فمب ر ‪13‬‬
‫ف ق‬
‫ے ہ ی ں کہ‬ ‫ی‬ ‫ر ہ سل ی ہ المذہ ب ی ہ تای ک ع لی ڈنھکوسلہ رور د‬
‫ب‬ ‫دی ج گہوں پر ب ھی‬ ‫ے و پ ھر ک ی ان ہللا گ ئ‬
‫ت‬ ‫قئ‬ ‫ے؟‬ ‫ےئب یحت الخ الم می ں ھیت ہ‬ ‫ہ‬
‫ک‬ ‫راض ت‬ ‫اگر نہللا ہ ر ج گہت ہ‬
‫ں ج نو کہ حلول اور ا حاد کے‬ ‫کت‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ڑ)‬ ‫ت‬‫(ج‬ ‫اد‬‫ح‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫کس)‬ ‫(‬ ‫ن‬ ‫لول‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫‪ ‬‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬‫ت‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫‪ ‬‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫قح ئاال کہ ی ہ اعن‬
‫ے نہی ں کہ ہللا مخ لوق می ں‬ ‫ہ‬ ‫و‬
‫ی پ ت ت ی ہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫ا‬ ‫ڑ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫راض‬ ‫اع‬
‫پی ت‬‫ہ‬ ‫ر‬ ‫اس‬ ‫‪ ‬‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫اس‬ ‫و‬
‫ن‬
‫ج‬ ‫گر‬ ‫م‬ ‫ں‬ ‫ہ‬
‫ک ی‬‫ے‬ ‫س‬ ‫کہہ‬ ‫ات‬
‫ی ب ت‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ں‬ ‫ما لہی ںا ی‬
‫ہ‬
‫اور حلول ہی ں ہ و سکت ا اور ن ہ ہ ی‬ ‫ق‬ ‫حد‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫ٰی‬ ‫ل‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫ہللا‬
‫ت‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫اک‬ ‫تپ‬‫سے‬ ‫اس‬ ‫ن‬ ‫ہللا‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫م‬‫ی‬
‫ک‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫ڑا‬ ‫ج‬ ‫ھ‬
‫ن‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫ئکس ہ و گ ی ا ہ ی ت‬
‫اس‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ج‬ ‫دی‬
‫ے اور م ح ظادث ‪ (  ‬و ب عد می تں پ ی دا‬ ‫ن‬ ‫دی‬
‫ے ہللا عالٰی کی ذات م ہ‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫حد(ج ڑج ان ا)‪  ‬ی ا لول ت( کس وج ا ا) و ک تی ہ‬ ‫ح‬ ‫ئچ یز ہللا کے سا ھ م‬ ‫کو ی‬
‫ے کہ ہللا عالٰی‬ ‫ے ج ہاں دو چ یزی ں ای ک ہ ی ج س کی ہ وں اور اہ ر ہ‬ ‫لول ن ہی ں ہ و سکت ا ا حاد اور حلول وہ اں ہ و ا ہ‬ ‫ے) کے سات ھ مت حد و ح‬ ‫ہوت ن‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ے اور ن ہ ہ ی ج س اعراض ق۔‬ ‫لہ و ج سف ج قواہ ر نہ‬
‫ن‬
‫ح‬ ‫خ‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ے ی ہن اع راض پ ھر‬ ‫ے کہ تاگر ہللا م نلوق کے پ اس ہ وا و قلول ی ا ا حاد ہ و ج اے گا اس ل‬ ‫ذات‪  ‬کو ای سا نی ح ی ر جم ھت ا نہ‬ ‫ہ‪  ‬کن ی ہتر ہ چ و کہل یہللا کی ت‬
‫ے قآسمان پر‬ ‫سے چ فل‬ ‫سب‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ذات‬ ‫ئ‬‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫اء‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫الی‬ ‫زول‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ہی‬ ‫ا‬ ‫لکہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫راض‬
‫سئ‬ ‫ن‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫پج ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ے ہ ی ںب کنعقی ہ اع ک ت‬ ‫نمت پر‪  ‬کر ت‬
‫ے ی ہ ر ہ ی ہاں‬ ‫ے ہ ی ں کہ ہللا کی ذات خم لوق کے پ اس ہ و و حلول اور ا حاد کے سوا کو ی راس ہ ہی ں ا ل‬ ‫ے ہ یج ں سا ھ تی ہ ھی ی دہ ر ھ‬ ‫ما‬
‫تع خ‬ ‫جن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫می‬‫حلولی ہ‬
‫ق‬ ‫ن‬
‫ے می ں چک ھ ب ھی ہی ں اور ہ م کے م لق ود‬ ‫تاور ب ری سے ب تری ج قگہ ہ ی کی وں ن ہ ہ و وہق ج ہ م‪  ‬کے م اب ل‬ ‫ے‪  ‬فگ ن دی‬ ‫ے‪  ‬د ی ا کی چ اہ‬ ‫نی اد رہ‬
‫ک‬ ‫ن‬
‫ب یﷺ رماے ہ ی ں وہ اں ہللا عالٰی ی امت کے روز اپ ا دم اس می ں ر ھی ں گے۔‬
‫"حدثنا أنس بن مالک أن نبي اهلل (صلی اهلل علىه وسلم) قال ال تزال جهنم تقول هل من مزيد حتی يضع فيها رب العزة تبارک وتعالی‬
‫قدمه فتقول قط قط وعزتک ويزوی بعضها إلی بعض"۔‬
‫حض رت انس بن مال ک (رض) بی ان فرم اتے ہیں کہ ہللا کے ن بی نے فرمای ا دوزخ لگات ار یہی کہ تی رہے گی‪ ‬ھ ل‬
‫یری‬ ‫دوزخ کہے گی ت ن‬ ‫تعالی اس میں اپنا قدم رکھے گا تو پھ ر‬ ‫ٰ‬ ‫من‪ ‬مزید یعنی کیا کچھ اور بھی ہے یہاں تک کہ جب ہللا‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ص‬
‫عزت کی قسم بس اور اس کا ایک حصہ سمٹ کر دوسرے حصے سے مل جائے گا۔ ( ی ح لم‪:‬ج لد سوم‪:‬حدی ث مب ر‬
‫ح‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ئ ن‬ ‫‪) 2676‬‬
‫ش‬ ‫ف‬
‫ے ب لکہ وہ ا ہیئں اس کی ذات کے ج ز‪  ‬اعض ا صور کرے ہ ی ں۔‬ ‫المذہ ب ی ہ ہللا کی ان صن ات کو ہللا کی ان کے ال ق ہی تں چ ھوڑ ت‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت ن‬ ‫‪ ‬اور ان المذہ ب ی ہ کے قزدی ک اگر ہللا خم لوق کے پ تاس ہ وا و حلول ی ا ا حقاد الزم آنے گا۔‬
‫ے کہ ی ہ اس و تت ج تہ م می ں ہللا تکی ذات کو لول ‪  ‬کے سا ھ ما ی ں ی ا ا حاد کے سا ھ‬
‫ح‬ ‫الزم آ ی ہ‬ ‫اس نع ی دے سے ی ہ ب اتت ن‬ ‫اب ان کے‬
‫ف‬ ‫ھ؟‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫اد‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫لول‬ ‫ح‬ ‫گے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫کس‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫اب ہ ب ت ائ ی ں کہ ج‬
‫چ ت‬ ‫ی‬ ‫کت‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ے ہ ی ں اگر ہللا کی ص ت علم‬ ‫ے اب ہ م ان سے پو ھ‬
‫ع‬
‫ے ہ ی ں کہ ہللا عالٰی کا لم ہ ر ج گہ ہ‬ ‫ے کہ ی ہ آپ لوگ بہ‬ ‫ہ مارا ان المذتہ ب ی ہ سے سوال فہ‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ف ت‬ ‫ے؟‬ ‫ے و ک ی ا ہللا کی ی ہ ص فت ب ی ت الخ ال می فں ھی ہ‬ ‫ہ ر ج گہ ہق‬
‫ے و ک ی ا وہ ہللا کی ص ت کو‬ ‫ے ک ی ا ‪  ‬ج ب حا ظ ب ی ت ا خل ال ج ا ا ہ‬ ‫ے ج و کہ حا ظ کے دل می ں مح وظ ہ و ی ہ‬ ‫رآن جم ی د ہللا کی ص ت ہ‬ ‫ت‬ ‫ک تالم ہللا‬
‫ے؟ ن‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫کر‬ ‫لے‬ ‫نسا ھ‬
‫ے‬ ‫ان‬ ‫درم‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ہکی دو ا گ‬ ‫ہللا‬ ‫دل‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫آدم‬ ‫نب ی‬
‫ی ہ‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ل‬
‫ب ی کری مﷺ رماے ہ ی ں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫َصابِ ِع َّ‬ ‫ِ‬ ‫«ما ِم ْن َقل ٍ‬
‫الر ْح َم ِن‪ ،‬تإ ْن َش َ‬
‫اء أَقَ َامهُ‪ ،‬فَوإ ْن َش َ‬
‫اء أ ََزاغَهُ»‬ ‫ْب إِاَّل نَب ْي َن إِ ْ‬
‫صَب َع ْي ِن م ْن أ َ‬ ‫َ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫تٹ‬ ‫گ‬
‫ے چ اہ ی ں و اسے س ی دھا رما دی ں اور چ اہ ی ں و ی ڑھا کر دی ں (س ن اب ن ماج ہ ج ‪ 1‬حدی ث مب ر ‪)199‬‬ ‫ہ ر دل ہللا کی دو ا لی وں کے درم ی ان ہ‬
‫ے‬ ‫ای ک اور حدی ث ہ‬
‫ٍ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ث يَ َشاءُ»‬ ‫ي‬‫ح‬ ‫ه‬‫ُ‬‫ف‬ ‫ر‬‫ص‬ ‫ي‬
‫ُ َ ِّ ُ َ ْ ُ‬ ‫‪،‬‬‫د‬ ‫اح‬‫و‬ ‫ْب‬‫ٍ‬ ‫ل‬‫ق‬ ‫ك‬ ‫‪،‬‬ ‫ِ‬
‫ن‬
‫َّ ْ َ ن َ َ َ‬ ‫م‬‫ح‬ ‫الر‬ ‫ع‬
‫ِ‬ ‫ِ‬
‫ب‬ ‫ا‬ ‫َص‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫َّ‬
‫آد َم ُ َ َ ْ َ ْ َ نَ ْ ْ َ‬
‫أ‬ ‫ن‬‫م‬ ‫ن‬ ‫ي‬‫ع‬ ‫ب‬‫ص‬‫إ‬ ‫ن‬ ‫ي‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ه‬‫ل‬ ‫ك‬ ‫وب بَنِي َ‬
‫ت«إِ َّن ُقنلُ َ‬
‫گ‬ ‫گ‬
‫مام ب یسآدم کے دل رن من کی ا لی وں می ں سے دو ا لی وں کے درم ی ان ای ک دل کی طرح ہ ی ں جس‬ ‫ح‬
‫ے۔‬‫ے اسے پ ھی ر دی ت ا ہ‬
‫ے چ اہ ت ا ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ص ح م لم ج ‪ 4‬حدی ث مبخر ‪ )2249‬ن‬ ‫س ف یح‬
‫ل‬
‫(‬
‫ہ‬ ‫گ‬
‫ے کہ ہللا کی ا ل ی اں اس کے ا ھ کا ج ز ہ ی ں۔‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ل‬
‫ی وں کے ای ک مولوی ی ل ہ راس ے ھا ہ‬
‫خليل هراس كتاب التوحيد البن حزيمه پر اپني تعليقات ميں لكهتے ہيں ص‪: 63‬‬
‫((القبض إنما يكون باليد حقيقة ال بالنعمة‪  . ‬فإن قالوا ‪ :‬إن الباء هنا للسببية أي بسبب إرادته اإلنعام‪ . ‬قلنا لهم ‪ :‬وبماذا قبض؟؟ فإن القبض‬
‫محتاج إلى آلة فال مناص لهم لو أنصفوا أنفسهم ‪ )) ..‬اهـ‪! ‬‬
‫خليل هراس هللا كي صفت "يد " كو نعمت كے معني ميں مؤول كرنے پر رد كرتے هوئے لكهتا ہے‪: ‬‬
‫لئ‬
‫ے‪ ، ‬يعني هللا نے‬ ‫”كہ قبض يعني پكڑنا حقيقة هاتھ سے ہوتا ہے نہكه نعمت سے ‪ ،‬اگر كوئي‪  ‬کہے کہ باء سبب كے‪   ‬ی‬
‫نعمت كرنے كے ارادے سے (ایسا کیا )تو هم كہتے ہيں ‪ :‬كه پهر وه پكڑتا كس چيز سے هے ‪،‬كيونكه قبض اور پكڑن ا‬
‫كسي آلے كا محتاج هے تو ان كے ليے خالصي كا كوئي راسته نهيں هے اگر يه لوگ اپنے ساته انصاف كريں“‬
‫ياد رهے كہ جناب كي يہ گفتگو هللا سبحانه وتعالي كے هاته اور پكڑنے كے بارےہے ‪ ،‬يهاں هللا كے پك ڑنے ك و بهي‬
‫كسي "آلے يا اوزار يا محتاج " كها پس ان كے هاں هللا كي صفت يد هللا تعالي كے ل يے پك ڑنے ك ا آل ه هے اور هللا ك ا‬
‫پكڑنا اسي هاته كا محتاج هے نعوذباهلل ‪ ،،‬هللا الصمد‬

‫‪39‬‬
‫دوسري جگه ارشاد فرم اتے ہيں اس ي التوحيد كے تعليق ات ميں‪: ‬ويق ول ‪(( :89‬ومن أثبت األص ابع هلل فكي ف ينفي عن ه الي د‬
‫واألصابع جزء من اليد ؟؟!!))‪ ‬اهـ‬
‫ترجمه ‪ :‬اور جس نے هللا كے ليے انگليوں كا اثبات كيا وه كس طرح هللا س ے هات ه كي نفي كرت ا هے حاالنك ه انگلياں‬
‫هاته هي كا جزء هے (نعوذباهلل)‬
‫يهاں هللا تعالي كي انگليوں كو اس كے هاته كا جزء كها ‪ ،‬كسي آيت يا حديث مبارك ميں يه ب ات هم ارے علم ميں نهيں‬
‫كه هللا كي انگلياں اس كے هاته كا جزء هيں۔‪ ‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫گ‬
‫ے؟ دوسرا ی ہ کہ ہللا کی‬ ‫ے و ک ی ا ہللا کی ا لیت وں کون ب اگہ ر چ نھوڑ کر ج ا ا ہ‬‫آدمی ج ب ب ی ت ا خل ال ج ا ا ہ‬ ‫ے کہ کٹی ا ‪  ‬ت‬ ‫اب ی مارا‪  ‬ان المذہ ب ی ہ سے سوال ہ‬
‫ے؟‬ ‫کے اوپر ھہراے ہ ی ں اب ہللا کی ذات اوپر اور اس کا ہ ا ھ اور ا لی ں چی‬ ‫لوگ صرف عرش ت‬ ‫آپ‪  ‬ف‬
‫ذات کو‪  ‬خ‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ف‬ ‫ج‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ث‬ ‫ی ہ فاعت قراض ود رق ہ اہ ل ش‬
‫حدی‬
‫ن‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫دہلوی‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫‪ 1‬ک) ت ر ہ اہ ل حدی ث ضکے نی ظ خ الک نل ی الکل م ی اں قذیر ح خسی ن‬
‫ے“۔ ( ت اوی‬ ‫ک‬
‫ے ہ ی ں‪” ‬ہ ر ج گہ حا ر و ا ر ہ و ا اور ہ ر چ یز کی ہ ر و ت ب ر ر ھ ا اص ذات وحدہ ال ری ک لہ ب اری عالٰی کے واس ط‬ ‫ل‬
‫ٰ‬ ‫ےہ‬ ‫ن ھ‬
‫ذیری ہ ج ‪ 1‬ص ‪)6‬‬

‫‪ )2‬فرقہ اہلحدیث کے شیخ السالم ثناء ہللا امرتسری‪  ‬الجہمی‬


‫لکھتے ہیں‪ ” ‬ہللا بذات خود اور بعلم خود ہر چیز اور ہر کام پر حاضر ہے“۔ (تفسیر ثنائی ص ‪) 347‬‬

‫‪ )3‬محقق اہلحدیث قاضی شوکانی الجہمی‬


‫‪ ‬لکھتے ہیں "‪:‬وكما نقول هذا االستواء والكون في تلك الجه ة‪ ‬فكنا نقول في مثل قوله تعالي وهو معكم اينما كنتم ۔۔۔۔۔ وال نتكلف‬
‫بتاويل ذالك كما يتكلف غيرنا بان المراد بهذا الكون المعنيت هوك‍ن العلم و عليتهفان هزا شعب ة‪ ‬من شعب التاويل تخالف مذاهب السلف‬
‫و تبائن ماكان عليهه الصحابة‪ ‬و تابعوهم نرضوان اللہ عليهم اجمعين"‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ق خ ن‬ ‫ہ‬ ‫تق ک ت‬ ‫ف‬ ‫ت‬
‫نت رج مہ‪” :‬ج ت ی سا ہ م اس‬
‫ےتکی‬ ‫غہ‬ ‫“‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫ارے‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫وہ‬ ‫”‬‫ت‬‫رہ‬ ‫ي‬ ‫و‬ ‫م‬ ‫ك‬‫ع‬‫ن‬‫م‬ ‫و‬‫ه‬ ‫دی‬ ‫و‬ ‫دا‬ ‫وال‬
‫ن‬ ‫ا‬‫ت‬‫ان‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫س‬ ‫وی‬ ‫ں‬ ‫ن‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫تھ‬ ‫ر‬ ‫اد‬ ‫ا‬
‫ب ع ع‬‫ت‬ ‫س‬ ‫کی‬‫ت‬ ‫وق‬ ‫ہت‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫واء‬ ‫ق کت‬
‫مارے ی ر ‪ ‬کر غے‬‫کے سا ت ھ کرے می ں ت ک شلف ہی ں کرے ج یسا کہ ہ ت‬ ‫صرت‬ ‫کے سا ھ ی ا‬ ‫ے ہ ی ں۔۔تہ م ن‬
‫اس کی اوی ل لم‬ ‫تناع ادک رت ھ‬ ‫س‬
‫ے ج و مذہ ب صحاب ہ ؓ و اب عی ن و ی رہ‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ہ بں ی‬
‫ے کی و کہ ی ہ ھی اوی ل کی ای ک اخ ہ‬ ‫مرادن ئہ‬‫ث‬ ‫لم‬ ‫ف‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫اس‬
‫ب‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫خ‬‫وہ‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ی‬
‫ے “ (ال حف ص ‪  16‬حوالہ ت اوی ا ی ہ ج ‪ 1‬ص ‪)202‬‬ ‫ہ‬ ‫سلف کے الف‬
‫ٰ‬
‫ان کے بارے میں کیا خیال ہے آج کے المذہبوں کا ؟‬
‫ہ ن‬ ‫ل‬ ‫خ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ے کے ب عد اس کی‬ ‫ے ی کن ‪  ‬ی ہبگوا ی د خی‬ ‫سے ب ری مام مخ لو بات کا خالق ہ‬ ‫ے سے اچ ھی ‪  ‬ی ات‪  ‬ب ری‬ ‫ے اچ ھ‬ ‫ہ‬ ‫ں کہ ہللا عالٰی چ ا‬‫ےہی غ‬ ‫ہش م ی ہگکہہ سک‬
‫ن‬
‫ے درست‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ہللا‬ ‫ھی‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ق‬ ‫ل‬‫ا‬ ‫ہللا‬ ‫ھی‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫اس‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫کہ‬ ‫‪ ‬‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫چ‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫لوق‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ر‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫سے‬ ‫رض‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ن ان ھ ٹ ا‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ی پ‬ ‫ہ ہ‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ہیت ں۔‬
‫ے می ری‬ ‫ے کہ ک ی ا ہللا می ہرے ہ ا ھ سے ب ڑا ہ‬ ‫ے کے ب عدن‪  ‬کو ی احمق کہ‬ ‫ے مگر ی ہ ا رار کرق ً‬ ‫ہ‬ ‫سب سےن ب ڑا‬ ‫ف‬ ‫ہللا اکب ر“ ہللا‬
‫ف‬ ‫ے کہ ”‬ ‫ہ‬ ‫نی ہ و کہا ج اسکت ا‬
‫ب‬ ‫گ‬
‫ے کہہ دو کہ ہللا ‪ ‬‬ ‫ے طعا درست ہی ں۔ ان سب کا ای ک ی ج واب ہ‬ ‫ے ک ی ا‪  ‬الں چ یز سے الں ج ا ور سے ھی ب ڑا ہ‬ ‫ا لی وں سے ب ڑا ہ‬
‫ے بس۔‬ ‫سب سے ب ڑا ہ‬
‫خالف ادب ہے۔ مثالً سسر اپنے‬ ‫ِ‬ ‫بعض چیزوں کو اجماالً بیان کریں تو مناسب اور ادب ہے‪،‬اگر تفصیالت بیان کریں تو‬
‫داماد کو کہے‪’’ :‬میری بیٹی کے حقوق کا خیال رکھنا ‘‘‪،‬تو اجماالً ق ول ہ ونے کی وجہ س ے یہ ادب ہے لیکن اگ ر وہ‬
‫خالف ادب ہے۔’’سر سے لے کر پأوں تک تمام جس م ک ا خ الق‬ ‫ِ‬ ‫تمام حقوق ایک ایک کرکے گنوانا شروع کردے تو یہ‬
‫خالف ادب ہے۔’’ہللا‬ ‫ِ‬ ‫یہ‬ ‫و‬ ‫ت‬ ‫ائے‬ ‫ج‬ ‫کہی‬ ‫ات‬ ‫ب‬ ‫یہی‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫لے‬ ‫نام‬ ‫کا‬ ‫عضو‬ ‫ہللا ہے‘‘ یہ کہنا ادب ہے لیکن تفصیالً ایک ایک‬
‫تعالی ہر جگہ ہے‘‘یہ اجماالً کہنا تو مذکورہ قاعدہ کی رو سے درس ت اور ادب ہے لیکن تفص یال ای ک ای ک جگہ ک ا‬
‫ً‬ ‫ٰ‬
‫جس میں ناپسندیدہ جگہیں بھی شامل ہوں‪ ،‬نام لے کر کہا جائے تو یہ بے ادبی ہونے کی وجہ سے غلط ہوگ ا۔لہ ذا ایس ا‬
‫سوال کرنا ہی غلط‪ ،‬نامناسب اور ناجائز ہے۔‬
‫تعالی کو وجود بمعنی ’’جسم‘‘ کے ساتھ مانیں جیسے ق رآن ک ریم ک و بیت الخالء‬ ‫ٰ‬ ‫یہ اعتراض تب پیدا ہوتا ہے جب ہللا‬
‫میں لے کر جانا قرآن کی توہین اور بے ادبی ہے حاالنکہ ہر حاف ظ جب بیت الخالء جات ا ہے ت و ق رآن اس کے س ینے‬
‫تعالی کا جس م ہی ث ابت نہیں‬ ‫ٰ‬ ‫میں موجود ہوتا ہے لیکن بے ادبی نہیں ‪ ،‬کیونکہ قرآن جسم سے پاک ہے ایسے ہی ہم ہللا‬
‫کرتے تو بے ادبی الزم نہیں آتی ۔‬
‫رمضان المبارک کا مہینہ ہر جگہ مبارک ہے ۔اگر کوئی شخص پوچھے کہ بیت الخالء میں رمضان ہے یا نہیں ؟ اگ ر‬
‫نہیں تو ہر جگہ رمضان نہیں‪ ،‬اگر ہے تو بیت الخالء میں بابرکت کیسے ؟ ت و اس ک ا یہ س وال لغ و ہوگ ا کی ونکہ جب‬
‫رمضان کا جسم نہیں ہے تو ہر جگہ ماننے میں کوئی بے ادبی نہ ہو گی اور یہ ہر جگہ با برکت ہوگا۔ اسی ط رح جب‬
‫تعالی کا جسم ہی نہیں تو ہر جگہ ماننے میں بے ادبی بھی نہیں ۔ہللا کریم دین کا صحیح فہم عطا فرمائے۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ف ن‬ ‫ن‬ ‫ق ن‬ ‫نن‬ ‫ن‬
‫ب‬ ‫ث‬ ‫کئ‬ ‫کن‬
‫ے۔‬ ‫ے کسی ج گہ کا ا ب ات کر ا ہی ں ب لکہ کسی ھی ج گہ کے م رر کرے کی ی کر ی ہ‬ ‫ے سے ہ ماری مراد ہللا ی ل‬ ‫وٹ ‪ :‬ہللا کو ہ ر ج گہ ہ‬

‫‪40‬‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ج ت‬ ‫ت ہ ق‬ ‫ت‬
‫ے ج یسا نمام‬ ‫گہ‬ ‫و‬ ‫کان‬ ‫ال‬ ‫ود‬ ‫ج‬ ‫و‬‫م‬ ‫ذات‬ ‫کی‬
‫ف‬ ‫ہللا‬‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫دہ‬ ‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ت‬ ‫لس‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ام‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫دہ‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ارا‬‫م‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ہللا کی ذاتت کے م ع‬
‫م خ ہخ‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ق ف‬ ‫ی یت ہ‬ ‫ی ہ‬ ‫ق‬
‫الف مب ر‬‫الف ا ت ن‬ ‫ے ت(مال تحظ ہ ہ و اح عری ہنما ری دی ہ کا م ہج اورن ر ہ سلئ ی ہ سے ان کا ا تت ت‬ ‫ہ‬ ‫ےہ ی‬‫ے ھیئ اب بت ھی ویس‬ ‫مخ لو ات کی خ لیئق تسے پنہل‬
‫اور لول ہی ں ہ جو سکت ا اور ہ ہ ہی کوئی چ یز ہللا ت‬
‫کے سات ھ م حد(ج ڑنج ا ا) ‪  ‬ی ا‬ ‫کے سا ھ نم حد ق‬ ‫ہللا عالٰی کسی ق‬ ‫ح‪ )2‬اسم می ں کو نی ب دی لی تہی ں آ ی ت‬
‫ے) نکے سا ھ م حد و حلول ہی نں ہ و‬ ‫حادث‪ (  ‬و ب عد می ں پ یت دا و ت‬
‫ظ‬ ‫م‬ ‫دی‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫دی‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ٰی‬ ‫ل‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫لولت ( کس ہحوج ا ا) ہ و سک تی ہ‬
‫ے ہللا‬
‫ے اور ن ہ ہ ی ج س‬ ‫ن‬
‫ے کہ ہللا عالٰی ہ و ج س ج واہ ر ہ‬ ‫ے ج ہاں دو چ یزی ں ای ک ہ ی ج س کی ہ وں اور اہ ر ہ‬ ‫سکت ا ا حاد اور لول وہ اں ہ و ا ہ‬
‫اعراض ۔‬

‫دھوکہ نمبر ‪14‬‬


‫فرقہ المذہبیہ‪    ‬کو جب مشہور علماء کے حوالہ پیش کیئےجا تے ہیں ‪  ‬تو پھر‪  ‬یہ لوگ اس عالم کی کسی دوسری مبہم‬
‫عبارت کو اٹھا کر اپنے جاہلوں میں یہ بات مشہور کر دیتے ہیں کہ اس نے رجوع کر لیا تھا۔ اس پر بن دہ‪  ‬ص رف اتن ا‬
‫ہی کہہ سکتا ہے کہ لعنت ہللا‪  ‬علی الکاذبین‬

‫البتہ ان کی رجوع والے جھوٹ سے کم از کم یہ ب ات ت و معل وم ہ و ہی ج اتی ہے کہ یہ ل وگ‪  ‬اس ع الم ک و گم راہ ہی‬
‫تصور کرتے ہیں۔‬

‫ف ق ف‬
‫ر ہ سل ی ہ سے چ ن د آسان سواالت‬
‫ن‬
‫ن‬ ‫‪1‬‬ ‫ر‬ ‫سوال ب‬
‫م‬ ‫ت‬
‫کے نی ہ سب مع ی ہ ی ں‬ ‫اس قوی ٹ‬
‫ست رار غ‪ -‬ھہر ا‬ ‫ا ت‬
‫اس ی ال ن– لب ہ‬
‫ب راب ر ہ‬
‫ن‬ ‫ا‬ ‫لوسو ا‪-‬ب ی ٹھ ن‬ ‫ج‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫ے اس ی ال ئ‬ ‫انش می ں سے چک ھ مع ی ہ یغ ں ج و ہللا کی ی ان ش نان ہتی خں مگر چک ھ غی ان ش ان ب ھی ہ ی ں ج ی شس‬
‫ب‬ ‫ب‬
‫ئ‬ ‫ےت‬ ‫ے ی ہ ہللا کی ان لے ال ق ھی ہ‬ ‫ے اور ای سام کنہ ا کہ‪  ‬ہللاصعرش پر الب ہ‬ ‫عرش پرن ھی تالب ہ‬ ‫بمال ب ہ ہللا ت‬
‫ن ب کہ آپ‬ ‫ج‬ ‫کہ‬
‫ے ونوہ‪  ‬گمراہ الے‬ ‫ہ‬ ‫مراد‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫ہی‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫ہ‬ ‫ک‬ ‫اور‬ ‫‪ ‬‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ت‬‫س‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ق‬‫اس‬ ‫اور‬ ‫‪ ‬‬ ‫کی‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫کی‬ ‫ی‬‫ن‬ ‫ع‬ ‫ٹ‬ ‫اسی‬‫ق‬ ‫کے‬ ‫وئ‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ی‬‫زل‬ ‫ب‪  ‬م ع‬ ‫نج ت‬ ‫گر‬
‫ش‬
‫نکیغ ی ان ش قان ہی ں اور آپت ے اسی پئر‬ ‫ے کہ‪  ‬ی ہ ہللا‬ ‫ہ‬‫ت‬ ‫ال‬ ‫س م ں‪  ‬ب ہت وی ا م خ‬
‫ح‬ ‫ی‬ ‫ے اس وی کا ای تک ای سا قمع ی ‪( ‬است رار ھہرش ا)‪  ‬اپ ن ای ا ج ئ‬
‫ے‬ ‫ک‬ ‫معزل ہ کی طرح بسخ کی اور ب ہ ‪  ‬کو ج و کہ ہللا کی ان تکے ال ق ب ھی ہ ں اس کی صی صخ کو آپ ے‪  ‬لط ب‬
‫ص ھی ترار دی ا۔ ج بت م ع زلی ہ ہللام ی لن‬ ‫ص‬ ‫ن‬ ‫یک ئ‬ ‫ی غ ہ ت‬ ‫ن‬ ‫ن ی‬
‫ے؟ تج ب م ع زلی ہ ای ک ع ی‬ ‫ہ‬
‫کے حین ح و سک‬ ‫ے تاس مع ی کی ف ی ص کر م ن‬ ‫ے ہللام ی لن‬‫ے و آپ یک س‬ ‫ہ‬ ‫ے ت‬ ‫کے‪  ‬لط و تسک‬ ‫ن‬ ‫ے اس مع ی کی ف صی ص کر‬ ‫اپ ت‬
‫ے؟‬ ‫ک‬‫س‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫کر‬ ‫کے‬ ‫ات‬ ‫ص‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫ع‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ک‬ ‫ا‬
‫ی ی‬‫‪ ‬‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ک‬ ‫آپ‬ ‫و‬ ‫ں‬ ‫ہ‬
‫ک ی‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫ال‬‫کہ‬ ‫کر‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ات‬ ‫ص‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫کا ی‬
‫ع‬

‫ن‬
‫ف ت‬ ‫سوال مب رق‪2‬‬ ‫ت‬
‫ہللا عالٰی رآن کری م می ں رماے ہ ی ں‪:‬‬
‫ِ ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ات فَأ ََّما الَّ ِذ ِ‬
‫اب َوأُ َخ ُر ُمتَ َش ابِ َه ٌ‬ ‫ات ه َّن أ ُُّم ال ِ‬
‫ْكتَ ِ‬ ‫اب ِم ْن هُ آيَ ٌ‬ ‫هو الَّ ِذي أَْنز َل َعلَي َ ِ‬
‫ين في ُقلُ وب ِه ْم َزيْ ٌغ َفيَتَّب ُع و َن َم ا تَ َش ابَهَ م ْن هُ ابْتغَ َ‬
‫اء‬ ‫َ‬ ‫ات ُم ْح َك َم ٌ ُ‬ ‫ك الْكتَ َ‬ ‫َ ْ‬ ‫َُ‬
‫ِ‬ ‫َ‬ ‫اَّل‬‫ِ‬ ‫َّ‬ ‫َّ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫آمنَّا ب ه ُك لٌّ م ْن ع ْن د َر ِّبنَ ا َو َم ا يَذك ُر إ أُولُو اأْل لْبَ اب (آل عمران‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫َّ‬ ‫اَّل‬‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ْ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ْ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬
‫الراس ُخو َن في الْعلْم َي ُقولُو َن َ‬ ‫اء تَأويله َو َما َي ْعلَ ُم تَأويلَهُ إ اللهُ َو َّ‬
‫الْف ْتنَة َوابْتغَ َ‬
‫ن ض‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن ت‬ ‫آیت ‪)7‬‬
‫ص‬ ‫م‬ ‫مح ی ن ن‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫دوسری‬ ‫ناور غ‬ ‫ں) وہ ا ل ہ ی ں کت اب کی‬ ‫ش‬ ‫ے ع ٰیتوا ح ہ ی ت‬ ‫اری ج ھ پر کت ناب اس می ں عض آ ی ں ہ ی ں کم ( ع ی ا ک‬ ‫ےا من‬ ‫سن ج ن‬ ‫ی‬ ‫ےج‬ ‫ہ‬‫ش‬ ‫وہ ی ت‬
‫پ‬ ‫ہ‬
‫ے نوہ پ یروی کرے ہ ی ں ضم اب ہعات کی گمرا ت ی ھ ی الے کی قرض‬ ‫ک‬‫ج‬ ‫ئ‬ ‫ج‬ ‫ہ ی ں م اب ہ( ع ی ک‬
‫نمعی ن ہی ں) سو ن کے دلوں می ں نی ہ‬ ‫ے ع ٰی‪ ‬‬
‫ےہ ی ں ہ م اس پر ی ی ن‬ ‫اور م ب وط لم والے کہ‬ ‫نکو ی ہی ں ج استج ا تسوا ہللا کے ق‬ ‫سے اور ان کا م طلب‬ ‫ت‬ ‫سے اور م طلب معلوم کرے کی وج ہ‬ ‫ئ‬
‫غ‬ ‫ے۔‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ے ہ ی ں ج نعکو ع ل‬ ‫ھ‬
‫طرف سے ا ری ہ ںغاور تسجم ھاے سے وہ ی م‬
‫ف‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫الے سب ہ نمارے رب کی ت ف‬
‫ات ‪ ،‬درت ‪ ،‬سمع ‪ ،‬ب صر و ی رہ‬ ‫ےع لم ‪ ،‬ح ی ن‬ ‫ات ب ھی ہ ی ں ج ی س‬ ‫ات ص‬ ‫ںر مکہ ابہللاہکا ع‬ ‫اور آپ دو وں ناس ب ات پر م تقعہ ی ں کہ کہللات کی ی‬ ‫ہم‬
‫ے ل ی کن ہ ماری‬ ‫حی ہ‬ ‫ات‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫طرح‬ ‫کی‬ ‫لم‬ ‫ارے‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫کن‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫لم‬ ‫ہ ہی‬‫ے‬ ‫ہی‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫وں‬ ‫دو‬ ‫آپ‬‫ن‬ ‫اور‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫اب‬
‫طرح تہیش ں۔ ت‬ ‫ات کی ت غ‬ ‫حی ف‬
‫ت‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ات‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ات‬ ‫ت‬ ‫ہص‬
‫ن‬ ‫اء‬ ‫م‬‫س‬ ‫الی‬ ‫زول‬
‫ت‬
‫ن‬
‫‪،‬‬ ‫عرش‬
‫ق‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫لی‬ ‫ے‪  ‬د ‪ ،‬ق دم ‪ ،‬و ہ ‪ ،‬اس وی ع‬ ‫س‬ ‫یاب ج و م ش اب ہات ہ یت ں ج‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫کت‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ف‬
‫ے۔ ہ م اس پر‬ ‫سے ک ی ا مراد ہ‬ ‫ے تکہ ہللات کی اس ن‬ ‫اتتکا ا رار کر تے ہ ی ں کہ‪  ‬ہ م نہی ں ج ا‬ ‫ج‬ ‫ے ہ ی ں کہ ہ م ناس ب س‬ ‫ت‬ ‫ن‬‫ات کے م لق ہ م ی ہ ہ‬ ‫ان ص ت‬
‫س‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫ب ک ای مان ت ہی ں تالی ا ج ا کت ا۔‬
‫ات تکے م علق ک‬ ‫لوم ہمتی شں ہ و گی ف‬ ‫ے کہ ج ب تک مراد م غ‬
‫ج‬
‫ے ہ ی ں اور تہ ہی ں‬
‫ات کے می علق ب ھی وھہ ی ب ات ک‬
‫اور اسے حت شق ج ا‬
‫م‬ ‫ای مان الے ہ ی ں ف‬
‫ےہی ں‬ ‫ف‬‫ہ‬ ‫ش‬ ‫غ‬ ‫ص‬ ‫ات‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫آپ‬ ‫و‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫اب‬ ‫‪ ‬‬ ‫ات‬ ‫آپ ان ص‬ ‫ج ب کہ ت‬
‫ے ج یسا ی ر من اب ہات ص ات کی مراد معلوم‬ ‫ہ‬ ‫لوم‪ ‬‬
‫ف‬
‫ے وہ تآپ کو مع‬
‫ش‬ ‫ہللا کی مراد ہ غ‬ ‫ہرہ) اس وی علی العرش سے ج و ن‬ ‫ہللا کا‪  ‬ی د (ہ ا ھ) وج ہ (چ ف‬
‫ف‬ ‫ات ئکی معلومہ ہی ضں۔ ق‬ ‫ک‬
‫آپ کو متعلوم ہیکں جف ی سا‪  ‬کہ ی ر م اب ہات نص‬
‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ےغوہ مت ش‬ ‫ے فاس کی کتیش ی ت ک ی ا ہ‬ ‫ےنہ‬ ‫ے اور کی س‬ ‫ہ‬
‫م‬
‫ے ای غک ت شی اب طہ رر کر دی ا ناگرت ص ت ات‬ ‫اور دو وں‬ ‫رق ی م ٹ ا دی ا ت‬ ‫ص ش ات اب ہات اور ی ر ت اب ہات کا ل ل‬ ‫م‬ ‫ے ت‬ ‫اب آپ غ‬
‫ب‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫تش‬
‫ات ای ک ہ ی تہشی ں و ان کی سی م کی وں کی گ ی اور اگر ‪  ‬ان م اب ہات کو ھی ی ر م اب ہات کی طرح رکھ ا ھا و ‪  ‬ہللا‬ ‫ق‬ ‫من اب ہات اور ف ی ر م اب ہ‬
‫ے ای سا کی وں رمای ا کہ اس رآن می ں م اب ہات ب ھی موج ود ہ ی ں؟‬

‫‪41‬‬
‫ن‬
‫ظ‬ ‫خ ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫‪3‬‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫سوال‬
‫ت ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ب‬
‫ہ ج تل ی ل ال ق در ا مہ ہ نں ج‬
‫ت ہی ں کی اور مت ا ری ن ے ب ھی درج ہ ن‬ ‫طرحق ط ؒعی فطور پر‬ ‫کی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬‫زل‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫‪ ‬‬ ‫اور‬ ‫کی‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ض‬ ‫ی‬‫او‬ ‫ں‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ن‬‫ج‬ ‫در‬ ‫ے‬ ‫ہوں‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫می ں اوی ل کا مس ئ لہ ا ہی سے ل ی ا ج و کہ ا ہوں ے ب و ت رورت کی ھی ج ی سا مال علی اری رماے ہ ی ں ‪:‬‬
‫ِ‬ ‫اس تِياَل ئِ ِهم َعلَى عُ ُق ِ‬ ‫س م ِة والْج ْه ِميَّ ِة وغَي ِره ا ِمن فِ ر ِق َّ ِ‬ ‫الض رورةُ ِفي أَ ْز ِمنَتِ ِهم لِ َذلِ َ ِ ِ‬ ‫ِ‬
‫ص ُدوا‬‫ول ال َْع َّامة‪َ ،‬ف َق َ‬ ‫ْ‬ ‫الض اَل لَة‪َ ،‬و ْ‬ ‫َ ْ َ ْ َ‬ ‫ك ; ل َك ْث َرة ال ُْم َج ِّ َ َ َ‬ ‫ْ‬ ‫َوإِنَّ َم ا َد َعت َّ ُ َ‬
‫ش‬ ‫ق‬
‫فت‬ ‫ك َر ْد َع ُه ْم َوبُطْاَل َن َق ْولِ ِه ْم‬‫بِ َذلِ َ‬
‫ش‬
‫ف ق‬ ‫غ‬ ‫ن‬ ‫‪ )،‬مر اة الم ا ي ح رح م كاة المصابيح ج ‪ 3‬ص ت‬
‫‪(923‬‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫کی وج ہ سےنک ی ا ج و ی ہ ھی کہ غان کےتزما وں می ں مجس فمہ ناور ج ہمیفہ و ی رہ گمراہ ر وں‬
‫ض‬
‫ے زما قوں کی غجمبوری و ن‬
‫ن‬ ‫تج‬
‫رورت ت ت‬ ‫رنمہ ‪:‬ا ٹہوں ے ای سا اپ‬
‫رض ی ہ ھی کہ ان کے ت وں کو د ع کری ں اور ان کی‪ ‬‬ ‫ے و اوی ل کرے سے ان کی ت‬ ‫تے سر ا ھای ا اور ی ہ عوام کی ع لوں پر الب‪  ‬ہ وے لگ‬
‫کری ں۔‬ ‫وڑ‬ ‫کا‬ ‫ب ا وں‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬
‫ش‬
‫ے کہ ا ہوں ے ”یوم ی ک ف عن‬
‫ن‬
‫ول‬
‫ت ق‬
‫م‬ ‫ھ‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫ح‬ ‫ص‬
‫ح‬
‫ی‬ ‫د‬ ‫‪ ‬ر یس المف سر ن ض رت ع دالله ن ع اس رض ی الله نہما سے س ن‬
‫ف ئ ہ‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ب ئب‬ ‫ب‬ ‫ح‬ ‫ی‬
‫ساق“(جس دن پ ن ڈلی کھول دی ج اے گی ) می ں ”ساق“ کی اوی ل ”ش دت“ سے رما ی ۔ (” وأما الساق فجاء عن ابن عباس فی‬
‫یومئذ ناضرة إلی ربھا‬ ‫ٍ‬ ‫تعالی‪ :‬وجوہ‬‫تعالی‪﴿ :‬یوم یکشف عن ساق﴾ ‪ :‬قال عن شدة األمر) ․فتح الباری البن حجر‪ ،‬باب‪ :‬قول اهلل ٰ‬ ‫قولہ ٰ‬
‫ناظرة ج‪ 13  ‬ص ‪(428‬‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫ت‬ ‫نق‬ ‫تف‬ ‫ش‬ ‫ف‬
‫کرام ر ت ی الله عق ہم‬ ‫ل کرےہ ی ں کہ صحاب ہ ق‬ ‫ف عن ساق﴾ کی سی ر می ں ‪  ‬ت ف‬ ‫ل ”ش‬ ‫ات ‪310‬ھ) ﴿ تیوم ی ک‬ ‫المہ اب ن ج ریمری طب ری رحمہ الله (و ن‬ ‫ع ت‬
‫ے۔) سی ر اب ن ج ریر الطب ری‪ ،‬ال لم‪ ،‬حت آیة ر م‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫سے‬ ‫“‬ ‫امر‬ ‫دت‬ ‫ی‬ ‫او‬ ‫کی‬ ‫اق‬ ‫س‬ ‫ے‬ ‫اعت‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫ی ج‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ه‬ ‫ل‬‫ل‬ ‫ا‬ ‫ہم‬ ‫ح‬ ‫ر‬ ‫ن‬ ‫ب‬
‫اور ی‬
‫ع‬ ‫ا‬
‫ض‬ ‫ف‬ ‫ض‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ض‬ ‫ن ف‬ ‫ض‬ ‫‪(42‬‬ ‫ض‬
‫ن ات ‪68‬ھ) ح رت ام نام‪  ‬ت ادہ (و نات ‪118‬ھ) ‪ ،‬ح رت مج اہ دن(و نات ‪104‬ھ) ح ن رت‬ ‫رت ع ب دا له فب ن ع ب اس ر ی ا له ع ہما (و‬
‫ل‬ ‫ل‬ ‫حف ث‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ح‬
‫ے دست سے ب ای ا )‬ ‫ہم ا الله ے تآیف ت کری مہ‪” :‬والسماء ب ی ن ا ھا ب أی د وإت ا لموسعون ق“ (آسمان کو م ے اپ‬ ‫ات ‪161‬ھ) ر ف ئ‬ ‫س ی ان وری ت(و ق‬
‫ے ۔) سی ر اب ن حب ریر الطب ری‪  ،‬الذاري ات حت آیة ر م‪(47:‬‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ر‬ ‫سے‬ ‫وت‬ ‫می ں ”ب أی د“ کی اوی ل‬
‫ف‬ ‫ن‬
‫امام احمد ب ن ح ب ل (و ات ‪241‬ھ)‬
‫ِ‬ ‫الس َّم ِ‬‫ْح اكِ ِم َع ْن أَبِي َع ْم ِرو بْ ِن َّ‬ ‫ِ‬
‫ك) [الفجر‪ ]22 :‬أَنَّهُ‬ ‫اء َربُّ َ‬
‫(و َج َ‬ ‫َح َم َد بْ َن َح ْنبَ ٍل تَأ ََّو َل َق ْو َل اللَّه َت َع الَى‪َ :‬‬ ‫اك َع ْن َح ْنبَ ٍل أ َّ‬
‫َن أ ْ‬ ‫َو َر َوى الَْب ْي َهق ُّي َع ِن ال َ‬
‫اء َث َوابُهُ‪.‬‬ ‫َج َ‬
‫ال الَْب ْي َه ِق نُّي‪َ :‬و َه َذا إِ ْسنَا ٌد اَل غُبَ َار َعلَْي ِه‪.‬‬ ‫ثُ َّم قَ َ‬
‫ؒن‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫ت‬
‫ے کہ امام حمد ے ﴿وج اء رب ک﴾ (اور آی ا آپ کا رب) کی‬ ‫ح‬
‫ے سے مروی ہ‬ ‫‪241‬ھ) کے تیج‬ ‫تامام احمد ب نث ب ل رحمہ الله ع ٰثالی (و ات ف‬
‫نئ ن‬ ‫ق‬ ‫ت واب ) سے رمای ا ۔‬ ‫اوی بل وقج اء واب ہ ( تاور آی ا فرب کا‬
‫ش‬ ‫ش‬
‫ے ۔) ال ب داية وال ن اهيةج ‪ 10‬ص ‪(361‬‬ ‫امام ی رحمہ الله ع ٰالی رماے ہ ی ں کہ اس س د پر کسی سم کے ک و ب ہ کی گ ج ا ش ہی ں ہ‬
‫ن‬ ‫یہ‬
‫تف ف ت‬ ‫ق‬ ‫‪ ‬‬
‫ص‬ ‫پن‬ ‫ب ؒ ف‬
‫امام خ اری (و ات ‪ 256‬ھ) ا ی ی ح می ں رآن پ اک کی ای ک آی ت کی سی ر رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ح‬
‫ت َعلَْي ِه ْم {األَْنبَ اءُ}‬ ‫ي‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫ف‬ ‫"‬ ‫‪:‬‬ ‫د‬ ‫ِ‬
‫ال‪ :‬إِاَّل َم ا أُ ِري َد بِ ِه َو ْج هُ اللَّ َ َ َ ُ َ ٌ َ َ َ ْ‬
‫ِ‬ ‫اه‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ال‬ ‫ق‬ ‫و‬ ‫"‬ ‫ِ‬
‫ه‬ ‫ك إِاَّل َو ْج َه هُ} [القص ص‪ " : ]88 :‬إِاَّل ُم ْل َك هُ‪َ ،‬و ُي َق ُ‬ ‫} ُك ُّل َش ْي ٍء َهالِ ٌ‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ُّ‬ ‫الح َج ُج "‬
‫[القصص‪ 66 :‬ت] ف‪ُ :‬‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫اَّل َ‬ ‫ش‬ ‫ح‬ ‫ب‬
‫کے“ می ں‬ ‫کے م ہ‬ ‫سواے اس ک ت‬ ‫ے ئ‬ ‫ے والے ئہ ئ‬ ‫ك ِإ وج ْهَهُ ”ہ ر چ یز ہ الک و ض‬
‫ہ‬ ‫سم ہللا الر من الرحی م ُك تل ْي ٍَء هَالِ ٌ‬ ‫سےکیہللا سیکیر!سل ن‬ ‫سورہ صص‬
‫ے ہ ی ں کہ ”ان ب ائ“‬ ‫ے ج ا ی ں ‘ مج اہ د ہ‬ ‫ےک‬ ‫ے ہ ی ں کہ وہ ت فاعمال مراد ہ ی ں‘ ج و اس کی ر ا کے ل‬ ‫ے‘ عض کہ‬
‫ب‬
‫ت‪  ‬بمراد ہ‬ ‫ط‬ ‫”وج ھہ“‬
‫ت ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫اب ال تسی ر(‬ ‫‪ 112‬کت ن‬ ‫صح ق ح خ اری‪  ‬ج ‪ 6‬ص ت‬ ‫سے مراد دل ی لین ں ہ یتں۔) ی‬
‫اب آپ کا ا ک ع‬
‫ے؟ ک ی ا ان کا درج ہ ن می ں اوی ل کر ا دست ھا ی ا ہی ں؟‬ ‫ے ی ا ہی ں ھ‬ ‫ے ک ی ا ی ہ گمراہ ھ‬ ‫ے م لق ک ی ا مو ف ہ‬
‫ن‬
‫ق سلف ت ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫س‬ ‫ئ‬ ‫ف‬ ‫‪4‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬‫م‬ ‫سوال‬
‫ے ی ا ہی ں ؟‬ ‫ے طالق الث ہ می ں اب ن یمی ہ اور اب ن ی م ی ھ‬
‫ث‬
‫نی ہ ی ں ی ا اور مسا ل می ں ب ھی ل ی ہ ی ں؟ ج ی س‬ ‫آپ صرف ئاسی س ئ لہنم ں سل‬ ‫کی ا ت ت‬
‫ی‬ ‫س م‬
‫ے و اس م ل می ں ا ہوں ے سلف اور پوری امت کے اج ماع کو کی وں چ ھوڑا؟‬ ‫اگر ھ‬
‫ن‬
‫ے۔‬ ‫ا‬
‫ن ت‬
‫آ‬ ‫ے‬ ‫کے‬ ‫ذات‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫عرش‬ ‫‪ ‬‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫او‬ ‫ر‬ ‫او‬ ‫کے‬ ‫عرش‬ ‫ہللا‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬
‫ت‬
‫ا‬‫ھ‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫ے اور لوگوں کو س‬ ‫ت‬ ‫سوالی ہی ع دہ رک‬
‫ق‬ ‫‪5‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬‫م‬
‫آپ‬
‫چ ہ‬ ‫ی‬ ‫پ پہ‬ ‫ی‬ ‫ی ھ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬‫‪6‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬‫م‬ ‫سوال‬
‫آسمان دن ی ا پر آ ی‬ ‫رات تکے و تئ‬ ‫ے ہ یئں کہ وہ ن‬ ‫ے وہ اں‪  ‬ہللا کی ذات کے م علق آپ ہک‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫لوق‬‫ئ‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ز‬ ‫طرح‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫لوق‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫و‬ ‫ھی‬ ‫آسمان ب‬
‫ے اب وہ اں ہللا کی ذات آسمان می ں آے‪  ‬و‪  ‬پ ھر ب ھی مکان‪  ‬و ج گہ سے پ اک ا ؟ اور ی ہاں‪  ‬کو ی موج ود ماے و‪  ‬حلول کہالے؟‬ ‫ہ‬
‫ن‬
‫خ‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫شسوال مبتر ‪ 7‬ق‬
‫ے ان کی‬ ‫ا ت اعرہ ما ری دییہ‪  ‬ئرآن و حدی ث کے مخ الف ہ ی ں ی ا ہی ں ؟ ان کی کون سی ب ات رآن‪  ‬کی کسی آی ت ی ا کسی حدی ث کے الف ہ‬
‫ک ب سے د کھا ی ں۔‬
‫ن‬
‫سوال مب ر ‪8‬‬

‫‪42‬‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ئ ئ شخ‬ ‫ف‬
‫ط‬
‫ے کہ می ں اسض وی لی ال نعرش کیککیت ی ت کو ھول ہی ں ما ت ا پ ھرب ت ا ی ں کہ وہ اسکا کون سا م لب ‪ ‬‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫ع‬ ‫ن‬‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫کر‬ ‫رض‬ ‫اگر‬
‫ٰ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫ی‬
‫ے۔‬ ‫ے گا ج و آپ ح رات اب ہی ں ر ھ‬ ‫کرے گا‪  ‬اور کون سا ع ی دہ‪  ‬اس سے کل‬
‫ن‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫‪9‬‬ ‫ر‬ ‫ب‬‫م‬ ‫ت‬ ‫سوال‬
‫ے کی ی ہی وج ہ‬ ‫ے؟ اگر ہللا کو تاوپر کی طرف سے پکار ق‬ ‫ے کہ ہللا کی ذات اوپر ہ ی قہ ن‬ ‫ہ‬ ‫ے‪ ‬‬ ‫ت‬‫ل‬ ‫ہللا عالٰی قکو اوپر کی طرف سے پقکار ا محض اسی‬ ‫کی ا ت‬
‫ہللا‬
‫ے اور رات کو جس قو تن آپ ت‬ ‫ج ہ‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫لی‬ ‫چ‬ ‫ے‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کے‬
‫ن‬ ‫رات‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫طرف‬ ‫ت‬ ‫وہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کار‬ ‫پ‬ ‫کو‬ ‫ہللا‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫دن‬ ‫آپ‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ہ‬
‫ے ھی ۔ اور دن ی ا می ں کہی ں ای ک ج ی سا و تت ہی ں ہ و ا‬ ‫ے ج و کہ دن کو چی‬ ‫ے ہ ی ں وہ وہ ی طرف ہ و ی ہ ت‬ ‫ق‬ ‫ےہو‬ ‫ہ‬ ‫سے پکار ر‬ ‫ت‬ ‫کو اوپر کی طرف‬
‫ب‬
‫ے‪  ‬ب ی ک‬ ‫کار رہ ا ہ و ت ا ہ‬‫ع‬ ‫ے‪  ‬ج و آدمی دن می تں ہللا کو جس طرف سے پ‬ ‫ے اور‪  ‬اسی و ت دوسری ج گہ رات ھی ہ و ی ہ‬ ‫ایق ک‪  ‬ج گہ پر دن ہ و ا ہ‬
‫ے کہ ہللا‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫لوم‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫اس‬
‫ن‬ ‫اب‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬‫ر‬ ‫کار‬ ‫کو‬ ‫ہللا‬ ‫سے‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫‪ ‬‬ ‫گہ‬ ‫الف‬ ‫خ‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫آدمی‬
‫ن‬ ‫دوسرا‬ ‫‪ ‬‬ ‫ک‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫و ت دوسری طرف ای خ‬
‫ے کہ ہللا کی ذات کسی‪  ‬خ اص ج گہ می ں ہی ں؟‬ ‫کی ذات کی ذات کسی‪  ‬اص ج گہ می ں ہی ں۔ ک ی ا اب ایسا کہا ج اسکت ا ہ‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫نت‬ ‫‪10‬‬ ‫ر‬ ‫سوال ب‬
‫م‬ ‫ت‬
‫ے ہللا وہ اں ہی ں ھا ؟‬ ‫ے ہ ی ں ک ی ا اس وی علی العرش سے پہل‬ ‫‪ ‬اس وی علی العرش کے ب عد ج ہاں اب ہللا کو ما‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ن‬
‫ن ن‬ ‫سوال مب ر ‪ 11‬ن‬ ‫ت‬
‫ے۔‬ ‫ے وہ ی ہللا کی مراد ہ‬ ‫وی معلوم ہ وے ؒکا فی ہ معتی ہی ں کہ ج و ہ می ں معلوم ہ‬ ‫ٰ‬
‫اس‬
‫امام ج الل الدی ن ی وطی رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫س‬
‫س ُر َها َم َع َت ْن ِزي ِهنَ ا لَهُ َع ْن‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫َى‬‫ل‬ ‫ا‬ ‫ع‬‫ت‬ ‫ِ‬
‫ه‬ ‫َّ‬
‫ل‬ ‫ال‬ ‫َى‬‫ل‬‫ِ‬
‫إ‬ ‫ا‬ ‫ه‬ ‫ن‬ ‫ِ‬
‫م‬ ‫ِ‬
‫اد‬ ‫ر‬ ‫ْم‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫اه‬ ‫ن‬ ‫ع‬‫م‬ ‫ِ‬
‫يض‬ ‫و‬‫ِ‬ ‫ف‬ ‫ت‬‫و‬ ‫ا‬ ‫ه‬ ‫ِ‬
‫ب‬ ‫ِ‬
‫ان‬ ‫يم‬ ‫ِ‬ ‫ا‬ ‫ى‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫يث‬‫ِ‬ ‫ِ‬
‫د‬ ‫ْح‬ ‫السن َِّة ِم ْن ُه ُم َّ‬
‫ور أ َْه ِل ُّ‬
‫َ َ َ اَل ُ َ ِّ‬ ‫َ َْ َ ُ َ ْ َ‬ ‫َ إْل َ َ َ َ ْ‬ ‫َ‬ ‫ف َوأ َْه ُ َ‬
‫ل‬‫ا‬ ‫ل‬ ‫السلَ ُ‬ ‫َو ُج ْم ُه ُ‬
‫ن‬ ‫َح ِقي َقتِ َها‪.‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫شم‬ ‫ث‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ت‬
‫ے سا ھ قاس‬ ‫ات پر) ای م نان رکھ ا ہ‬ ‫ظ‬ ‫ب ( صوص ص‬ ‫ان کا مذہ ت‬ ‫ئحد ی ن) ا ل ہ ی ت فں ن‬ ‫رج مہ ‪ :‬مہور اہ ل س نت ج ن می ں سلف اور اہ لحدی ث (م‬
‫ہللا کی طرف سپ رد کر دی ا ج اے اور ہ م ان کی سی ر ہی ں کرے ج ب کہ ان کے اہ ری مع ی سے ہللا کو پ اک رار‬ ‫مراد کو ق‬ ‫کے مع ی‬ ‫کے کہ ان ت‬
‫نلوم ال رآن ج ‪ 3‬ص ‪(14‬‬ ‫ے ہ ی ں۔)الإ ق ان في ع‬ ‫ت‬
‫سف‬ ‫دی‬
‫ے مع تنزيھنا لهو عن قحقيقتها ‪ ،‬صارخ بالتعطيل صراخ‪  ‬ثكالي الجهمية ت‬ ‫ل‬
‫عط ف‬ ‫ض‬ ‫ق‬ ‫ح یق م ن‬ ‫ظ‬ ‫جس پر ای ک ی عالم ے ی ہ کالم ک ی ا ہ‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫ے ہ یقں وا ح طور پر ی ل ری اد کر ر ی‬ ‫ری ی ع ی سے تہللا کو‪  ‬پ قاک رار دی ف‬ ‫امام ی وطی (رح تمہ ہللا) فکی ی ہ ع ب ارت بکہ م ان کے اہ ئ‬
‫ے ان ج ہمی عور وں کی ری اد کی طرح ج و چ وں سے محروم ہ و گ ی ہ وں۔ )عداء الما ری دية لل عيدة السل ية وله ‪(28‬‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫) والع ی اذ ب تاللہ (‬
‫ے کہ اس وی‪  ‬ک ی ا‬
‫ٰ‬ ‫ے ی ہ آپ کو معلوم ہی ں ‪ ‬اگر آپ کو ی ہ معلوم ہ‬ ‫ے مگر کی ی ت ک ی ا ہ‬ ‫وی ک ی ا ہ‬ ‫ٰ‬
‫ے کہ اس‬ ‫آپ کو معنلوم ہ‬ ‫ے ہ ی ں کہت‬ ‫آپ تی ہ کہ‬
‫ے و پ ھر آپ ب ت اے یک وں ہی ں؟‬ ‫ہ‬
‫ن‬
‫ن‬ ‫ئ غ ف‬ ‫کئ‬ ‫من‬ ‫سوال مب ر ‪ 12‬ظ‬ ‫ف‬
‫ے ب ی ر ص ات پر ای مان ہی ں الی ا ج اسکت ا؟‬ ‫ل‬ ‫مراد‬ ‫ے‬ ‫یل‬ ‫ہللا‬ ‫‪ ‬‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ری‬ ‫ک ی ا ص ات کے ہ‬
‫ا‬
‫ن‬
‫نت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫سوال مب ر ‪ 13‬ن‬
‫ے ہ ی ں؟‬ ‫ے ج ہمی ہ ما‬ ‫ے ہ ی ں ی ا ہی ں ج ی س‬ ‫ے ہ ی الی ما‬ ‫ک ی ا آپ ب ھی آسما وں کو ایس‬
‫س ِفي‬ ‫ْج ْه ِميَّةَ َف َق َ ِ‬
‫ال إنَّ َم ا يُ َح ا ِولُو َن أَ ْن ل َْي َ‬
‫ٍ‬
‫اد بْ َن َزيْ د َوذَ َك َر ال َ‬ ‫ت َح َّم َ‬ ‫ال َس ِم ْع ُ‬ ‫ب قَ َ‬ ‫ال َثنَ ا ُس لَْي َما ُن بْ ُن َح ْر ٍ‬ ‫َح َّد َثنَا َع ْب د اللَّ ِه َح َّد َثنَا َعلِ ُّي بْ ُن ُم ْس ل ٍم قَ َ‬
‫ِ‬
‫َّ ِ‬
‫ن‬ ‫الس َماء َش ْيءٌ‬
‫ن(‬ ‫صی ح‬‫‪ :)۵۶۷‬ح‬ ‫أحمد ب ن ح ب ل (ج‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ت ئ ف‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت ف‬ ‫ق‬ ‫‪/۴۵‬ص ف‬ ‫ؒ‬ ‫) مس د الإمفام ت‬
‫تمان ؒ رماے ہ ی ں حماد ب نن زی د (محدث و ی ہ) ے ای ک مر ب ہ ر ہ ج ہمی ہ کا ذکرہ کرے ہ وے رمای ا کہ ی ہ لوگ آپس می ں ی ہ ب ا ی ں‬ ‫” سل ی‬
‫ے“‬ ‫کرےن ہ ی ں کہ آسمان می ں چک ھ ہی ں ہ‬
‫سوال مب ر ‪13‬‬
‫ص) وغیرہ آیات متش ابہات پ ر ایم ان النے کیل ئے ہللا کی م راد ک ا معل وم ہون ا‬ ‫س ‪ؔ ،‬الر ‪ؔ ،‬ك ؔه ؔي ؔع ؔ‬ ‫جب ہللا کے قرآن کی ( ٰی ؔ‬
‫ضروری نہیں تو پھر ہللا کے کالم کی دوسری آیت ( استوي ‪ ،‬يد عين) جیسے متشابہات پ ر ایم ان النے کیل ئے ہللا کی‬
‫مراد کا معلوم ہونا ضروری کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫سوال نمبر ‪14‬‬


‫کیا ہللا کی صفات ہللا کی ذات سے جدا ہیں؟‬

‫سوال نمبر ‪ 15‬لع ی لک ت‬


‫ش‬ ‫سف‬
‫ں‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫‪ ‬‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ث‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ل‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫يخلو‪ ،‬وقول بانه ال يخلو‪ ،‬وقول بالتوقف ( رح ع ی دہ االوسطی ہ لعث ی می ن ص ‪)261‬‬
‫علماء اهل السننة‪ ‬لهم في هذا ثالثة‪ ‬قول ت ق‬ ‫واذا كان‬
‫ن‬
‫کے ب ارے می ں ی ن ول ہ ی ں‬ ‫ت کے‪ (  ‬خزول) ت‬ ‫عل نماء اہ ل س ق‬
‫ے۔‬ ‫ج ت‬
‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫و‬‫ن‬‫ہ‬ ‫الی‬ ‫عرش‬ ‫ت‬ ‫‪ : 1‬ن زول کے و ق‬
‫عرش خ الی ہی ں ہ و ا۔‬ ‫کے و ت ئ‬ ‫‪ :2‬زول ت ق‬
‫‪ :3‬اس پر و ف ک ی ا ج اے۔‬

‫‪43‬‬
‫ف ق‬ ‫ت ت ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ع یخ ن‬ ‫ن‬ ‫ع ن‬
‫کے م علئق ی ن ول ہ ینں الب ت ہ قان کے ر نے کے اس‬ ‫ن‬ ‫ے کہ اہ لس ت کے زول‬ ‫ق‬
‫ب ہ‬‫دھا‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ان‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫لس‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫اب تن ث ی می ن‬
‫ے اب ن عث ی می ن ے ان ا وال کو اہ لس ت کی طرف‬ ‫ے کہ ان کے ی ن م ت لف ا وال ہ ی ں ج ن سے ج ان چ ھڑاے ک ی ل‬ ‫نم لق ی ہ کہا ج اسکت ا ہ‬
‫ع‬
‫ص‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫م سوب ئکر دی ا ہ‬
‫ح‬ ‫ع‬
‫ت‬ ‫کےمی طا ق ن زول کے وی ت ہللاہکا عرش خ الی ہ و ا ا ے اور ب ول ا ن عث ی م ن ہ اہ لس ت کا ول ے کہ عرش خ‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ے؟؟‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫دہ‬‫ق‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫کس‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ے ان‬ ‫ابقب ت ای‬
‫ے۔ ‪ ‬‬ ‫ہ‬‫الی ہ و ا ن‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫خ ن‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ول‬ ‫پ ہل‬
‫ے‬
‫ے اور یسرا ی ہ کہ اس پر و ف ک ی ا ج اے ی ہ ب ھی اہ لس ت‬ ‫ہ‬ ‫ول‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ت‬ ‫لس‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫‪ ‬‬ ‫ھی‬ ‫کے م طا ق ہللا کا عرش الی ہی ں ہ و ا ہ ب‬
‫ی‬ ‫ب‬ ‫‪ ‬‬ ‫ول‬ ‫دوسرے‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫کا ہ‬ ‫ول‬
‫ے کہ اسےنمعلوم‬ ‫ن ن ہ ماے وہ ب ئھی اہ لس ت اور ج و ی ہ کہ‬ ‫ت ج و ‪  ‬عرش کو خ الی‬ ‫لس‬ ‫ناب ج و‪  ‬ن زول تکے و تت ہللا کے ن عرش نکو خ الی ماے وہ ب ھی اہ‬
‫ع‬ ‫قئ‬
‫ے ہ ی ں اسالف می ں سے کس ے کہا‬ ‫من ذالک ی ہ ع ا د اب ن ث ی می ن ے کہاں سے ل‬ ‫ےت وع وہ تب ھی اقہ لس ت۔ تعوذ نب اللہ ن‬ ‫ہی ں نکہ ک ی ا ہ و ا ہ‬
‫ے کہ زول کے م لق ی ن ول ہ ی ن اور ی وں اہ لس ت کے ہ ی ں اور حق ہ ی ں؟؟‬ ‫ہ‬

‫‪44‬‬

You might also like