Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 12

‫علم حدیث میں خواتین کا کردار‬

‫دور حاضر میں خواتین کے لئے ایک روشن اور رہنما تحریر‬
‫اسالم ایک عالمگیر مذہب ہے‪ ،‬اس کی تہذیب وتم دن‪ ،‬ثق افت وحض ارت‪ ،‬اس کے نظم ونس ق‪ ،‬ق وانین‬
‫وض وابط اور ط ریقہ تعلیم وت ربیت س رمدی وآف اقی ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ اس الم ہمیش ہ س ے جہ الت‬
‫وناخواندگی اور آوارگی کا کھال دشمن اور علم ومعرفت‪ ،‬شائستگی اور آراس تگی ک ا روزازل س ے ای ک‬
‫مخلص ساتھی اور دوست رہا ہے۔ چنانچہ اس نے انسانیت ک و بغ یر کس ی تفری ق م رد وزن لف ظ "اق رء"‬
‫سے مخ اطب کی ا اور "ف اعلم انہ ال الہ اال ہللا"‪ )1( ‬یع نی ایم ان النے س ے پہلے علم ومع رفت کی اہمیت‬
‫وافادیت کو اجاگر کیا اور "قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین ال یعلم ون"‪ )2( ‬جیس ے پرکش ش وپرش کوہ‬
‫نصوص سے عالم وجاہل کے مابین ہمسری کی نفی کردی۔ نیز "یرف ع ہللا ال ذین آمن وا منکم وال ذین اوت وا‬
‫العلم درجات"‪ )3( ‬اور ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم نے "نضر ہللا امرءا سمع مقالتی فوعاہ ا ثم اداہ ا‬
‫الی من لم یسمعہا"‪ )4( ‬جیسے قیمتی اور بیش بہا فرمودات سے حص ول علم کی ت رغیب دی ہے س وائے‬
‫تین عل وم علم س حر‪ ،‬علم نج وم اور علم کہ انت کے تم ام عل وم وفن ون کے س یکھنے س کھانے‪ ،‬پڑھ نے‬
‫پڑھانے کی مکمل آزادی اور رخصت دے رکھی ہے۔‬
‫قرآن مجید کے عالوہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے بال تفریق مرد وزن اس کے حص ول ک ا حکم اور ج ا‬
‫بجا اس کی اہمیت وفضیلت کو بیان کی ا ہے‪ ،‬چن انچہ ابن م اجہ کی ای ک روایت ہے کہ "طلب العلم فریض ۃ‬
‫علی کل مسلم"‪ )5( ‬یعنی تمام مسلمانوں پرعلم دین حاص ل کرن ا ف رض ہے۔ اس میں م رد وع ورت دون وں‬
‫کے لئے حکم ہے اور اس پرعلماء امت کا اجماع ہے۔‬
‫عورت انسانی معاشرہ کا وہ اہم عنصر ہے جس کے بغیر معاش رہ وس ماج ک ا تص ور ہی ممکن نہیں‪،‬‬
‫عورت انسانی ترقی کا زینہ اور اجتماعی زندگی کی روح ہے‪ ،‬ع ورت ع الم انس انی کی بق ا اور اس کے‬
‫تحفظ کی ض امن ہے‪ ،‬ن یز کائن ات گ ل گل زار کی محاف ظ ہے۔ "ی ا ایہ ا الن اس ان ا خلقن اکم من ذک ر وان ثی‬
‫وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا"‪)6( ‬۔ ع ورت اف زائش نس ل اور اوالد کی تعلیم وت ربیت کی اعلی ذمہ دار‬
‫ہے‪ ،‬اس کی گود جہاں ایک طرف شیر خوار بچوں کی جائے پرورش ہے‪ ،‬وہیں دوس ری ط رف اس کی‬
‫آغوش حضارت وتمدن اور تعلیم وتربیت کا گہوارہ ہے‪ ،‬عورت روئے زمین پر ہللا کی نشانی بن ک ر آئی‬
‫اور رہتی دنیا تک اس چمن کی عزت اور آبرو بنی رہے گی‪ ،‬ان ش اء ہللا۔ ارش اد ب اری تع الی ہے‪" :‬ومن‬
‫آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ"‪)7( ‬۔ ع ورت ن اقص العق ل ت و‬
‫ہے لیکن تعلیم وتعلم سے کوری نہیں‪ ،‬عورت ن اقص ال دین ت و ہے مگ ر عب ادت س ے مرف وع القلم نہیں‪،‬‬
‫عورت پردہ کی پابند ضرور ہے لیکن غزوات جہاد میں شرکت کی مستحق بھی ہے۔‬
‫وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ‬
‫اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں‬
‫ایک شبہ کا ازالہ‬
‫آج کے ترقی یافتہ دور میں اسالمی معاشرہ میں جو تعلیم نس واں ی ا مدرس ہ نس واں نظ ر آت ا ہےاس ے‬
‫دیکھ ک ر بعض حض رات کہ تے ہیں کہ اس ک ا ثب وت کہ ان ہے؟ عہ د رس الت کی مش ہور تعلیم گ اہ‬
‫ویونیورسٹی جو دنیا میں اہل صفہ کے نام سے متعارف ہے‪ ،‬اس میں صحابیات اور بن ات اس الم ک ا ذک ر‬
‫ملت ا ہے؟ اس کے ثب وت کے ل ئے ای ک ح دیث ہی ک افی ہے۔ ام ام بخ اری رحمہ ہللا نے ای ک ب اب اپ نی‬
‫صحیح کے اندر قائم کیا ہے‪" :‬ہل یجعل للنساء یوم علی ح دۃ فی العلم" اور اس ب اب کے تحت ج و ح دیث‬
‫الئے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "نبی ک ریم ص لی ہللا علیہ وس لم کی حی ات طیبہ میں عورت وں کے ان در‬
‫علم حدیث کے حاصل کرنے کا شوق وجذبہ اس قدر موجزن تھا کہ تمام عورتوں نے اجتم اعی ط ور پ ر‬
‫ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہماری تعلیم کے لئے کوئی انتظ ام فرم ادیجئے۔‬
‫چنانچہ ابو سعید خدری رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وس لم نے ان کے ل ئے‬
‫ایک دن کا وعدہ کیا جس میں ان کو وعظ ونصیحت کرتےاور دینی باتوں کا حکم فرم اتے تھے‪)8( ‬۔ اس‬
‫سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اسالم میں ارش ادات نب ویہ کے حص ول ک ا کس ق در ش وق‬
‫وجذبہ تھا۔‬
‫اگر اس قسم کے ل وگ کتب رج ال کی ورق گ ردانی ک ریں ت و انہیں ص حابیات‪ ،‬تابعی ات اور مختل ف‬
‫ادوار کی روایات ومحدثات کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوسکتی ہے‪ ،‬جنہ وں نے حف اظت ح دیث کے‬
‫تعلق سے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں مل سکتی‪ ،‬فن‬
‫ح دیث ہی کی ا ش رعی علم وفن ک وئی بھی ہ و اس میں عورت وں کی ک ارکردگی نمای اں نظ ر آتی ہے‪ ،‬فن‬
‫تفسیر ہو یا حدیث‪ ،‬فقہ ہو یا اصول‪ ،‬ادب ہو یا بالغت سارے کے سارے فنون کی عورتون نے ج ان ت وڑ‬
‫خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں پیچھے رہتیں ت و آج اس المی دنی ا مس ائل‬
‫نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی‪ ،‬نکاح وطالق کے مسائل ہوں یا جماع ومباشرت کے ازدواجی‬
‫زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکالت‪ ،‬اگر اس قسم کے الجھے اور پیچ مسائل کا ح ل ہمیں‬
‫ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔‬
‫‪ -‬خواتین‪ ‬اسالم اور علم حدیث‪:‬‬
‫ابتدائے اسالم سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے ح دود ش ریعت‬
‫میں رہتے ہوئے گوشہ عمل وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر شعبہ زندگی میں حص ہ لی ا اور اس المی‬
‫معاشرہ کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا‪ ،‬خواتین اس الم نے علم ح دیث کی ج و خ دمات انج ام دی ہیں‪ ،‬ان‬
‫کی سب سے پہلی نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں‪ ،‬اس لئے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا‬
‫اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔‬
‫‪ -‬صحابیات‪:‬‬
‫صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی اپنے ذہن ودماغ کے لحاظ سے ای ک درجہ اور م رتبہ کی نہین‬
‫تھیں اور نہ سب کو یکساں طور سے آنحض رت ص لی ہللا علیہ وس لم کی ص حبت ورف اقت نص یب ہ وئی‬
‫تھی‪ ،‬اس لئے ان کی خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی‪ ،‬کیونکہ ح دیث کی خ دمات کے‬
‫لئے سب سے زیادہ ضرورت حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہ رات ک و ن بی‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ ہر لحاظ سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی‪ ،‬اس لئے اس سلس لہ میں ان کی‬
‫خدمات سب سے زیادہ ہیں‪ ،‬یوں تو صحابیات کی مجموعی تعداد حافظ ابن حج ر عس قالنی رحمہ ہللا کے‬
‫احصاء کے مطابق‪ )1545( ‬ہے‪ ،‬لیکن جنہوں نے روایت حدیث کے ذریعہ حفاظت ح دیث ک ا ب یڑا اٹھای ا‬
‫ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گئی ہے اور ان سے بڑے بڑے ص حابہ ک رام اور جلی ل الق در ائمہ‬
‫نے علم حاصل کیا ہے‪ ،)9( ‬عالمہ ابن حزم اپنی کتاب "اسماء الصحابۃ الرواۃ وم ا لک ل واح د من الع دد"‬
‫کے ان در کم وبیش‪ )125( ‬ص حابیات ک ا ت ذکرہ کی ا ہے جن س ے روای ات م روی ہیں اور ان کے اع داد‬
‫وشمار کے مطابق صحابیات سے مروی اح ادیث کی ک ل تع داد (‪ )2560‬ہے جن میں س ب س ے زی ادہ ام‬
‫المومنین عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا سے م روی ہے‪ ،‬حض رت عائش ہ مک ثرین رواۃ ص حابہ میں س ے‬
‫ہیں‪ ،‬ان کی مرویات کی تعداد (‪ )2210‬ہے‪ ،)10( ‬جن میں (‪ )286‬حدیثیں بخاری ومسلم میں موج ود ہیں‪،‬‬
‫مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹ ا نم بر ہے‪ ،)11( ‬مروی ات کی ک ثرت کے‬
‫ساتھ احادیث س ے اس تدالل اور اس تنباط مس ائل‪ ،‬ان کے عل ل واس باب کی تالش وتحقی ق میں بھی ان ک و‬
‫خ اص امتی از حاص ل تھ ا اور ان کی ص فت میں بہت کم ص حابہ ان کے ش ریک تھے‪ ،‬کتب ح دیث میں‬
‫کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔‬
‫امام زہری جو کبار تابعین میں س ے تھے وہ فرم اتے ہیں‪" :‬ک انت عائش ۃ اعلم الن اس یس الہا االک ابر من‬
‫اصحاب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم"‪ ،)12( ‬یعنی حضرت عائش ہ تم ام لوگ وں میں س ب س ے زی ادہ علم‬
‫رکھنے والی تھیں‪ ،‬بڑے بڑے صحابہ کرام ان س ے مس ائل دری افت ک رتے تھے۔ دوس ری جگہ اس ط رح‬
‫رقمطراز ہیں‪" :‬اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت‬
‫عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا"‪)13( ‬۔‬
‫حضرت عائشہ فت وی اور درس دی ا ک رتی تھیں‪ ،‬یہی نہیں بلکہ آپ نے ص حابہ ک رام کی لغزش وں کی بھی‬
‫نشاندہی فرمائی‪ ،‬عالمہ جالل الدین سیوطی اور زرکشی رحمہما ہللا نے اس موضوع پر "االصابۃ فیما استدرکتہ‬
‫عائشۃ علی الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے‪ ،‬حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے ص حابہ‬
‫وتابعین کی تعداد سو سے متجاوز ہے‪ )14( ‬۔‬
‫ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بع د حض رت ام س لمہ رض ی ہللا عنہ ا علم ح دیث میں ممت از‬
‫نظر آتی ہیں‪ ،‬علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرماتے ہیں‪" :‬ک ان ازواج الن بی‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم یحفظن من حدیث النبی صلی ہللا علیہ وسلم کث یرا مثال عائش ۃ وام س لمۃ"‪ ،)15( ‬یع نی‬
‫عام طور سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وس لم کی ازواج مطہ رات آپ کی ح دیثوں ک و بہت زی ادہ محف وظ‬
‫رکھتی تھیں‪ ،‬مگر حضرت عائشہ اور ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرا ام س لمہ س ے‬
‫(‪ )378‬ح دیثیں م روی ہیں‪)16( ‬۔‪ ‬ان کے فت وے بک ثرت پ ائے ج اتے ہیں‪ ،‬عالمہ ابن القیم رحمہ ہللا نے‬
‫"اعالم الموقعین" میں لکھا ہے‪" :‬اگر ام سلمہ رضی ہللا عنہا کے فتوے جمع کئے ج ائیں ت و ای ک چھوٹ ا‬
‫سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے‪ ،)17( ‬ان کا شمار محدثین کے تیسرے طبقہ میں ہے۔ ان کے تالمذہ حدیث میں‬
‫بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔‬
‫ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اشاعت میں حص ہ لی ا اور‬
‫ان سے بھی بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں‪ ،‬جیسے حض رت میم ونہ ہیں۔ ان‬
‫سے (‪ ،)76‬ام حبیبہ سے (‪ ،)65‬حفصہ سے (‪ ،)60‬زینب بنت جحش سے (‪ )11‬ج ویریہ س ے (‪ )7‬س ودہ‬
‫سے (‪ ،)5‬خدیجہ سے (‪ ،)1‬مزید ب راں آپ کی دون وں لون ڈیوں میم ونہ اور م اریہ قبطیہ رض ی ہللا عنہن‬
‫سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔‬
‫امہات المومنین کے عالوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہوں گی جن سے ک وئی نہ‬
‫کوئی روایت موجود نہ ہو‪ ،‬چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی ہللا عنہا سے ( ‪،)18‬‬
‫آپ کی پھوپھی حضرت ص فیہ س ے (‪ )11‬ح دیثیں م روی ہیں‪)18( ‬۔ ع ام ص حابیات میں س ے حض رت ام‬
‫خطل سے (‪ )30‬حدیثیں مروی ہیں‪ ،‬حضرت ام س لیم اور ام روم ان س ے چن د ح دیثیں م روی ہیں‪ ،‬ام س لیم‬
‫سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے‪ ،‬ایک ب ار کس ی مس ئلہ میں حض رت عب د ہللا بن عب اس‬
‫اور حضرت زید بن ثابت میں اختالف ہوا تو دونوں نے ان ہی ک و حکم مان ا‪)19( ‬۔ حض رت ام عطیہ س ے‬
‫متعدد صحابہ وت ابعین نے روایت کی ا اور ص حابہ وت ابعین ان س ے م ردہ ک و نہالنے ک ا ط ریقہ س یکھتے‬
‫تھے‪ )20( ‬۔‬
‫‪ -‬مسانید صحابیات‪:‬‬
‫صحابیات کی کثرت روایت اور ان کی خدمت حدیث کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ام ام احم د بن‬
‫حنبل نے (‪ )140‬سے زائد صحابیات کا تذکرہ لکھا ہے‪ ،‬اس ی ط رح "اس د الغ ابۃ" اور "االص ابۃ فی تمی یز‬
‫الصحابۃ" میں (‪ )500‬سے زائ د ص حابیات کے ت راجم موج ود ہیں‪" ،‬تہ ذیب التہ ذیب" میں (‪ )233‬خ واتین‬
‫اسالم کا تذکرہ ہے جن میں بیشتر صحابیات ہیں‪)21( ‬۔‬
‫‪ -‬تابعیات‪ ‬وتبع تابعیات‪:‬‬
‫صحابیات کی صحبت اور ایمان کی حالت میں جن خواتین نے پرورش پائی یا ان سے استفادہ کیا ان کو‬
‫تابعی ات کہ ا جات ا ہے‪ ،‬ص حابیات کی ط رح تابعی ات نے بھی فن ح دیث کی حف اظت واش اعت اور اس کی‬
‫روایت اور درس وتدریس میں کافی حصہ لیا اور بعض نے تو اس فن میں اتنی مہارت حاص ل کی کہ بہت‬
‫سے کبار تابعین نے ان سے اکتس اب فیض کی ا۔ حاف ظ ابن حج ر رحمہ ہللا کی کت اب "تق ریب التہ ذیب" کی‬
‫ورق گردانی کرنے سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ صحابیات کی طرح تابعیات کی ایک بڑی تعداد نے‬
‫روایت وتحمل حدیث میں انتھک کوشش کی‪ ،‬چنانچہ ان کے اعداد وشمار کے مطابق (‪ )121‬تابعیات اور (‬
‫‪ )26‬تبع تابعیات ہیں۔ البتہ "تقریب التہذیب" کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان تابعی ات میں کچھ‬
‫پائے ثقاہت کو پہنچی ہیں‪ ،‬زیادہ تعداد میں مجہوالت پائی جاتی ہیں۔ چند مشہور تابعیات کی خدمت کا تذکرہ‬
‫کیا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪ -‬حضرت حفصہ بنت سیرین‪:‬‬
‫انہوں نے متعدد صحابہ وت ابعین س ے روایت کی ہے‪ ،‬جس میں انس بن مال ک اور ام عطیہ وغ یرہ ہیں‬
‫اور ان سے روایت کرنے والوں میں ابن عون‪ ،‬خالد الحذاء‪ ،‬قتادہ وغیرہ شامل ہیں‪)22( ‬۔ جرح وتع دیل کے‬
‫امام یحیی بن معین نے ان کو "ثقۃ حجۃ" فرمایا ‪)23( ‬۔ ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں‪" :‬ما ادرکت احدا افضلتہ‬
‫علی حفصۃ"‪ )24( ‬میں نے حفصہ سے زیادہ فضل واال کسی کو نہیں پایا۔ امام ذہبی سے انہیں حفاظ حدیث‬
‫کے دوسرے طبقہ میں شامل کیا ہے‪)25( ‬۔‬
‫‪ -‬عمرہ بنت عبد الرحمن‪:‬‬
‫یہ حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی خاص تربیت ی افتہ اور ان کی اح ادیث کی امین تھیں‪ ،‬ابن الم دینی‬
‫فرماتے ہیں" حضرت عائشہ کی ح دیثوں میں س ب س ے زی ادہ زی ادہ قاب ل اعتم اد اح ادیث عم رہ بنت عب د‬
‫الرحمن‪ ،‬قاسم اور عروہ کی ہیں"۔ محمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ مجھ سے عم ر بن عب د العزی ز نے‬
‫فرمایا‪" :‬ما بقی احد اعلم بحدیث عائشۃ"‪ )26( ‬اس وقت حضرت عائش ہ کی اح ادیث ک ا ان س ے ب ڑا ک وئی‬
‫جاننے واال موجود نہیں ہے۔ ابن سعد نے ان کو "عالمہ" لکھ ا ہے‪)27( ‬۔‪ ‬اور ام ام ذہ بی نے ان ک و ت ابعین‬
‫کے تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے‪)28( ‬۔‪ ‬اور ابن المدینی نے "احد ثقات العلماء"‪ )29( ‬کے الفاظ اس تعمال‬
‫کئے ہیں۔ حضرت عائشہ کے عالوہ دوسرے ص حابہ ک رام س ے بھی انہ وں نے روای تیں کی ہیں۔ ان س ے‬
‫روایت کرنے والوں میں تیرہ سے زیادہ کبار تابعین ہیں۔ ‪103‬ھ یا ‪ 116‬ھ میں وفات پائی‪ )30( ‬۔‬
‫‪ -‬روایت حدیث کے مختلف ادوار‪:‬‬
‫خیر القرون کے تذکرے کے بعد متاخرین کے مختل ف ادوار ک ا ت ذکرہ بھی مناس ب معل وم ہوت ا ہے‪ ،‬ان‬
‫ادوار میں بھی مح دثین اور رواۃ کے ہم راہ راوی ات ومح دثات کی ای ک لم بی فہرس ت دس تیاب ہ وتی ہے‬
‫جنہوں نے حفاظت حدیث کی ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پ ر اٹھ ائی۔ خ دمت ح دیث کی ن وعیت علیح دہ‬
‫علیحدہ اور مختلف ہے۔ کوئی اپنے زمانہ کی شیخۃ الحدیث تھی‪ ،‬کسی کا مسکن علم ح دیث ک ا مرک ز تھ ا‪،‬‬
‫کسی نے حدیث کی تالش وجستجو میں محرم کے ساتھ اپنے گھر کو خیرباد کہا‪ ،‬تو کسی نے مح دثین کے‬
‫ایک جم غفیر کو روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کسی نے ح دیث کی مخص وص کت اب ص حیح‬
‫بخاری کا درس دیا‪ ،‬کتب سنہ اور دیگ ر کتب ح دیث میں س ینکڑوں ح دیثیں ایس ی ہیں ج و کس ی مح دثہ ی ا‬
‫راویہ کے توسط سے مروی ہیں۔ امام بخاری‪ ،‬امام شافعی‪ ،‬امام ابن حبان‪ ،‬امام ابن حجر‪ ،‬امام سیوطی‪ ،‬امام‬
‫سخاوی‪ ،‬عراقی‪ ،‬سمعانی اور امام ابن خلکان رحمہم ہللا جیسے اساطین علم وفن اے اساتذہ کی فہرست میں‬
‫متعدد خواتین اسالم کے نام ملتے ہیں‪ ،)31( ‬جن سے یہ حقیقت واضح ہوج اتی ہے خ واتین نے اپ نے ذاتی‬
‫ذوق وشوق کی بنیاد پر نہ صرف علم حدیث کو حاصل کیا بلکہ اس کی نشرواشاعت ک ا فریض ہ بھی انج ام‬
‫دیاہے۔ جس طرح محدثین اور علم حدیث سے شغف رکھنے والوں اور خدمت حدیث میں دل چسپی رکھنے‬
‫والوں کی تعداد وافر مقدار میں پائی جاتی ہے‪ ،‬اسی خواتین اسالم کی بھی ایک طوی ل فہرس ت کتب اس ماء‬
‫ورجال‪ ‬کی ورق گردانی کے بعد دستیاب ہوتی ہے‪ ،‬چنانچہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر دسویں ص دی‬
‫ہجری کی محدثات اور راویات اور خدمت حدیث میں اپنے نام کو روشن کرنے والیوں کا ای ک ت ذکرہ پیش‬
‫کیا جارہا ہے‪:‬‬
‫چوتھی صدی ہجری میں پانچ خواتین‪ ،‬پانچویں صدی ہجری میں پندرہ‪ ،‬چھٹی صدی ہجری میں پچھ تر‪،‬‬
‫ساتویں صدی ہجری میں پینسٹھ‪ ،‬آٹھویں صدی ہجری میں ایک سو بانوے‪ ،‬نویں صدی ہجری میں ایک س و‬
‫اکسٹھ اور دسویں صدی ہجری میں تین خواتین اسالم نے مختلف حوال وں س ے خ دمت ح دیث ک ا ک ا انج ام‬
‫دیا‪ )32( ‬۔ ان کے عالوہ بہت ساری محدثات اور راویات ہیں‪ ،‬لیکن ان کی ت اریخ وف ات ن یز ان کے اس اتذہ‬
‫اور تالمذہ کا سراغ نہ لگنے کی وجہ سے صدی متعین نہ ہوسکی‪ ،‬جس کی وجہ سے ان کا تذکرہ نہیں کیا‬
‫گیا۔ بہرحال خادمات حدیث کے جو اعداد وشمار بھی آپ کی نگاہوں سے گزرے ان سے آپ مس لم خ واتین‬
‫کی سرگرمیوں کا اندازہ بخوبی لگا س کتے ہیں‪ ،‬ن یز حف اظت ح دیث اور اس کی نش ر واش اعت میں ان کی‬
‫تگ ودو کا ہلکا سا پس منظر بھی آپ کے سامنے آگیا ہوگ ا۔ (ان تم ام ت ر خ دمات دی نیہ کے س اتھ س اتھ وہ‬
‫اسالمی اقدار کی پاسداری میں بھی اپنی مثال آپ تھیں) ۔‬
‫‪ -‬تحصیل حدیث کے لئے سفر‪:‬‬
‫جس طرح احادیث رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تالش وجستجو میں مح دثین نے ع الم اس الم کی خ اک‬
‫چھانی ہے اور جملہ نوائب ومصائب کو برداشت کیا‪ ،‬ابتدائی دور میں اح ادیث وآث ار کی روایت اور ان کی‬
‫تدوین کے لئے بہت لمبے لمبے اسفار کئے تھے‪ ،‬لیکن بعد میں سند عالی کی طلب بھی ان اس فار ک ا س بب‬
‫بن گئی‪ ،‬اسی خواتین اس الم نے بھی اپ نی ص نفی حی ثیت وص الحیت کے مط ابق ش رعی پ ردہ میں رہ ک ر‬
‫تحصیل حدیث کے لئے دور دراز ملکوں اور شہروں کا سفر کیا اور محدثین کی فہرس ت میں اپن ا ن ام درج‬
‫کروایا‪ )33( ‬۔‬
‫ام علی تقیہ بنت ابو الفرج بغدادیہ نے بغداد سے مصر جاکر قی ام کی ا اور اس کندریہ میں ام ام اب و ط اہر‬
‫احمد بن محمد السلفی سے اکتساب علم کیا‪)34( ‬۔ اسی طرح زینب بنت برہ ان ال دین اردبیلیہ کی والدت مکہ‬
‫مکرمہ میں ہوئی‪ ،‬ہوش سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ساتھ بالد عجم کا سفر کیا اور بیس سال‬
‫کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئیں‪ )35( ‬۔ ام محمد زینب بنت احمد بن عمر کا وطن بیت المقدس تھا‪ ،‬امام ذہ بی‬
‫نے ان کو "المعمرۃ الرحالۃ" کے القاب سے یاد کیا ہے‪ ،‬کیونکہ دور دراز ک ا س فر کرکےتحص یل علم اور‬
‫ح دیث کی روایت میں مش ہور تھیں‪ ،‬اس ی وجہ س ے بع د میں دور دراز ملک وں کے طلبہ ح دیث ان س ے‬
‫روایت کرتے تھے‪ )36( ‬۔ (یاد رہے کہ ان محدثات کے یہ اسفار محرم کے بغیر ہرگز نہ ہوتےتھےاور ان‬
‫کی درسگاہیں بھی اسالمی اقدار اور حجاب کی پابندی میں ہوتی تھی) ۔‬
‫‪ -‬محدثات کی درس گاہیں‪:‬‬
‫ان خواتین اسالم پاک طینت محدثات اور راویات سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے لئے مختلف عالقوں‬
‫اور دور دراز ملکوں سے طلبہ حدیث جوق در جوق حاضر ہوتے تھےاور ان سے روایت کرنے کو اپ نے‬
‫لئے باعث صد افتخ ار تص ور ک رتے تھے‪ ،‬ان کی درس گ اہوں میں طلبہ ہی نہیں بلکہ ائمہ وحف اظ ح دیث‬
‫بھی آکر اکتساب فیض کرتے تھے۔ ام محمد زینب بنت مکی حرانیہ نے چورانوے سال کی عمر تک حدیث‬
‫کا درس دیا اور ان کی درس گاہ میں طلبہ کا کافی ہج وم رہ ا کرت ا تھ ا‪ ،‬ام ام ذہ بی نے لکھ ا ہے‪" :‬وازدحم‬
‫علیہا الطلبۃ"‪ )37( ‬۔ ام عب د ہللا زینب بنت کم ال ال دین مقدس یہ مس ندۃ الش ام کی پ وری زن دگی اح ادیث کی‬
‫روایت اور کتب حدیث کی تعلیم میں گزری‪ ،‬ان کی درس گاہ میں طلبہ کی کثرت ہوا کرتی تھی‪ ،‬امام ذہ بی‬
‫نے لکھا ہے‪" :‬تکاثر علیہا وتفردت وروت کتبا کثیرا"‪ )38( ‬۔‬
‫‪ -‬علم حدیث میں خواتین کی تدریسی خدمات‪:‬‬
‫عام طور سے محدثات کی مجلس درس ان کی رہائش گاہوں میں منعقد ہ وتی تھی اور طلبہ ح دیث وہیں‬
‫جاکر استفادہ کرتے تھے‪ ،‬جیسا کا امام ذہبی اور ابن الجوزی نے ان سے روایت کے سلسلہ میں ان کی قیام‬
‫گاہوں کی نشاندہی کی ہے‪ ،‬مگر بعض محدثات نے مختلف شہروں میں بھی درس دیا ہےاور دی نی علم ک و‬
‫عام کیا ہے‪)39( ‬۔ خلدیہ بنت جعفر بن محمد بغداد کی باش ندہ تھیں‪ ،‬ای ک م رتبہ وہ بالد عجم کے س فر میں‬
‫نکلیں تو مقام دینور میں ان سے خطیب ابو الفتح منصور بن ربیعہ زہ ری نے ح دیث کی روایت کی‪ )40( ‬۔‬
‫مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمر تنوخیہ نے متعدد ب ار مص ر اور دمش ق میں ص حیح بخ اری اور مس ند‬
‫امام شافعی کا درس دیا‪ )41( ‬۔‬
‫‪ -‬علم حدیث میں خواتین کی تفصیلی خدمات‪:‬‬
‫مسلم خواتین نے صرف درس وتدریس اور روایت ہی سے اشاعت حدیث کا ک ام نہیں لی ا‪ ،‬بلکہ مح دثین‬
‫کی ط رح تص نیف وت الیف ‪ ،‬کتب اح ادیث کے نق ل اور اپ نی مروی ات کی کت ابی ش کل میں م دون ک رکے‬
‫محفوظ کیا‪ ،‬نیز فن اسماء ورجال وفن حدیث میں بھی کتابیں تص نیف کیں اور اپ نی نف ع بخش تالیف ات س ے‬
‫مکتبات اسالمیہ کو ماالمال کیا اور دنیا کے کتب خ انوں ک و س نوارنے اور انہیں زیب وزینت بخش نے میں‬
‫ان اہل قلم محدثات کا بڑا دخل رہا ہے‪ ،‬اس مختصر مقالہ میں تمام صاحب قلم خ واتین اور ان کی تص نیفات‬
‫کا احصاء تو ممکن نہیں‪ ،‬البتہ بطور مثال چند مسلم خواتین کا نام اور ان کی مولفات ک ا ن ام پیش کی ا جارہ ا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪  -1‬ام محمد فاطمہ بنت محمد اصفہانی کو تصنیف وت الیف میں ب ڑا اچھ ا س لیقہ حاص ل تھ ا‪ ،‬انہ وں نے‬
‫بہت ہی عمدہ عمدہ کتابیں تصنیف کی تھیں‪ ،‬جن میں "الرموز من الکنوز" پ انچ جل دوں میں آج بھی موج ود‬
‫ہے‪ )42( ‬۔‬
‫‪  -2‬طالبہ علم‪ :‬انہوں نے ابن حبان کی مشہور کتاب "المجروحین" میں مذکور احادیث کی فہرس ت تی ار‬
‫کی ہے۔‬
‫‪  -3‬عجیبہ بنت حافظ بغدادیہ‪ :‬انہوں نے اپنے اساتذہ وشیوخ کے ح االت اور ان کے مس موعات پ ر دس‬
‫جلدوں میں "المشیخۃ" نامی کتاب لکھی‪ )43( ‬۔‬
‫‪  -4‬ام محمد محم د ش ہدہ بنت کم ال‪ :‬ان ک و بہت س ی ح دیثیں زب انی ی اد تھیں۔ لہ ذا انہ وں نے بہت س ی‬
‫احادیث کو کتابی شکل میں یکجا کیا‪ )44( ‬۔‬
‫‪  -5‬امۃ ہللا تسنیم‪ :‬یہ عالمہ ابو الحسن علی ندوی کی بہن ہیں‪ ،‬انہوں نے ام ام ن ووی کی کت اب "ری اض‬
‫الصالحین" کا اردو ترجمہ "زاد سفر" کے نام سے کیا ہے۔‬
‫‪ -‬دور حاضر اور خدمات حدیث میں خواتین کا کردار‪:‬‬
‫عصر حاضر میں ہمارے ملک ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا جماعتی ادارہ ہو جس کے ساتھ "ش عبہ‬
‫بنات" منسلک ومربوط نہ ہو۔ فی الحال تقریبا جم اعت اہ ل ح دیث کے س ینکڑوں ادارے خ واتین اس الم کی‬
‫تعلیم وت ربیت کی ذمہ داری اٹھ ائے ہ وئے ہیں اور جہ اں دیگ ر عل وم وفن ون کے س اتھ س اتھ علم ح دیث ‪،‬‬
‫اصول حدیث اور فقہ واصول فقہ کی بھی خاطر خواہ تعلیم دی جاتی ہے‪ ،‬آئن دہ نس لوں کے ل ئے یہ بہ ترین‬
‫خوش آئند شئ ہےاور ہو بھی کیوں نہ جبکہ نسواں مدارس اس المیہ میں فی الح ال کت نی معلم ات ایس ی ہیں‬
‫جو درس حدیث کے منصب پر فائز ہیں۔‬
‫‪ -‬خالصئہ کالم‪:‬‬
‫حاصل کالم یہ ہے کہ خیر القرون سے لے کر عصر حاض ر ت ک ہ ر دور میں کم وبیش خ واتین اس الم‬
‫نے علم حدیث کی اشاعت میں ج و خ دمات جلیلہ انج ام دی ہیں خ واہ تعلیم وت دریس کے می دان میں ہ و‪ ،‬ی ا‬
‫تصنیف وتالیف کے میدان میں وہ قابل تعریف وستائش اور ناقاب ل فرام وش ہے اور پ ورے وث وق واعتم اد‬
‫کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ خواتین اسالم کی علمی خدمات سے چشم پوشی کرن ا ت اریخ کے ای ک روش ن‬
‫باب کو صفحئہ ہستی سے ناپید کرنا ہے۔‬
‫آخر میں ہللا رب العالمین سے دعا گو ہوں کہ الہی ان خواتین اسالم کی علمی خدمات اور مس اعی جمیلہ‬
‫کو شرف قبولیت عطا فرما‪ ،‬نیز ہم طالبان علوم نبوت ک و علم کے س اتھ س اتھ اس پ ر عم ل پ یرا ہ ونے کی‬
‫توفیق عنایت فرما‪ ،‬آمین۔‬

‫‪ -‬حواشی‪:‬‬
‫(‪ )1‬سورہ محمد‪  19 :‬۔(‪)2‬س ورہ الزم ر‪ )3(  9 :‬س ورہ مج ادلہ‪ 11 :‬۔‪ )4(   ‬ص حیح س نن ابن م اجہ‪:‬‬
‫‪ 4511/231‬۔ (‪ )5‬صحیح سنن ابن ماجہ‪ ،1/44/183 :‬باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم۔ ‪ )6( ‬سورہ‬
‫الحجرات‪ 13 :‬۔‪ )7( ‬سورہ الروم‪ 21 :‬۔ (‪ )8‬صحیح البخاری م ع الفتح‪ ، 1/195/101 :‬کت اب العلم ب اب ہ ل‬
‫یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم۔ (‪ )9‬خاتون اسالم ص ‪ ، 69‬تالیف‪ :‬ڈاکٹر مقتدی حس ن ازہ ری۔ (‪ )10‬بقی‬
‫بن مخلد القرطبی ص ‪ ،79‬تدریب الراوی‪ 20/677 :‬۔ (‪ )11‬خدمت حدیث میں خواتین ک ا حص ہ ص ‪، 17‬‬
‫تالیف‪ :‬مجیب ہللا ندوی ۔ (‪ )12‬تہذیب التہذیب‪ ،12/463 :‬س یر الص حابیات ص ‪ 28‬۔ (‪ )13‬تہ ذیب التہ ذیب‪:‬‬
‫‪ ،12/463‬االستیعاب‪ 4/1883 :‬۔ (‪ )14‬تہذیب التہذیب‪ 463 ،12/461 :‬۔ (‪ )15‬طبقات ابن سعد‪ 2/375 :‬۔ ‪( ‬‬
‫‪ )16‬بقی بن مخلد القرطبی ص ‪ ، 81‬سیر الصحابیات ص ‪ 9‬۔ (‪ )17‬اعالم الموقعین البن قیم الجوزیۃ‪1/15 :‬‬
‫۔ (‪ )18‬بقی بن مخلد القرطبی ص ‪ 160 /84‬۔ (‪ )19‬مس ند احم د‪ ، 6/430 :‬منق ول از خ دمت ح دیث میں‬
‫خواتین کا حصہ ص ‪ 12‬۔ (‪ )20‬تہذیب التہذیب‪ 12/455 :‬۔ (‪ )21‬تہذیب التہ ذیب‪ 516-12/426 :‬۔ (‪)22‬‬
‫تہذیب التہذیب‪ 12/438 :‬۔ (‪ )23‬تہذیب التہذیب‪ 12/438 :‬۔ (‪ )24‬تہذیب التہذیب‪ 12/438 :‬۔ (‪ )25‬تذکرۃ‬
‫الحفاظ‪ 1/9 :‬۔ (‪ )26‬تہذیب التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪ )27‬تہذیب التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪ )28‬تذکرۃ الحفاظ‪ 1/94 :‬۔‬
‫(‪ )29‬تہذیب التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪ )30‬تہذیب التہذیب‪ 12/466 :‬۔ (‪ )31‬تلخیص از ماہن امہ الس راج م ارچ‬
‫‪ 2001‬ء ص ‪ 24‬۔ (‪ )32‬تلخیص از مجلہ الفرقان جوالئی ت ا س تمبر ‪2002‬ء ص ‪ 37 -26‬۔ (‪ )33‬خ واتین‬
‫اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص ‪ 30-29‬۔ (‪ )34‬ابن خلکان ‪ 1/103‬۔ (‪ )35‬العقد الثمین‪ 8/224 :‬۔ (‪)36‬‬
‫ذیل العبر للذہبی‪ :‬ص‪ 126‬۔ (‪ )37‬الع بر‪ 5/358 :‬۔ (‪ )38‬الع بر‪ 5/213 :‬۔ (‪ )39‬خ واتین اس الم کی دی نی‬
‫وعلمی خدمات ص ‪ 54‬۔ (‪ )40‬تاریخ بغداد‪ 14/444 :‬۔ (‪ )41‬خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص ‪54‬‬
‫۔ (‪ )42‬العقد الثمین‪ 8/202 :‬۔ ‪ )43( ‬العبر للذہبی‪ 5/194 :‬۔ (‪ )44‬ذیل العبر للذہبی‪ :‬ص ‪ 49‬۔‬
‫ازواج مطہرات)‬
‫ِ‬ ‫اولی‪-‬‬
‫ٰ‬ ‫(طبقہ‬
‫ٴ‬ ‫اہ ِل بیت کی خدمات‬
‫اس طبقہ میں رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم کی س بھی ازواج مطہ رات ش امل ہیں؛ لیکن ح دیث‬
‫ش ریف میں اور دیگ ر کتب میں حض رت عائشہ‪ ،‬حض رت ام س لمہ‪ ،‬حض رت حفصہ‪ ‬اور حض رت‬
‫میمونہ‪ ‬کو اس طبقے میں شمار کیا ہے۔‬
‫‪ ‬‬
‫حضرت عائشہ کی علمی خدمات‬
‫‪          ‬حض رت عائشہ‪ ‬ک ا رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم کے س اتھ جب نک اح ہ وا‪ ،‬ت و آپ کی عم ر‬
‫صرف‪ ۶ ‬س ال تھی اور جب رخص تی ہ وئی ت و‪ ۹ ‬س ال تھی اور جب رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم ک ا‬
‫وصال ہوا تو آپ‪ ‬کی عمر‪ ۱۸ ‬سال تھی۔ حضور ص لی ہللا علیہ وس لم کے وص ال کے بع د آپ‪ ۴۸ ‬س ال‬
‫تک زندہ رہیں‪ ،‬اس دوران طویل عرصے میں یعنی تقریبا ً‪ ۵۷ ‬سال آپ ش ب وروز دین کی خ دمت ک رتی‬
‫علم دین کو پھیالتی رہیں‪ ،‬ص حابیات میں س ب س ے زی ادہ اح ادیث آپ س ے ہی م روی ہیں۔ آپ ک ا‬ ‫رہیں۔ ِ‬
‫حافظہ نہایت قوی تھا‪ ،‬جو سنتی‪  ‬تھیں وہ صرف وقتی ط ور پ ر ی اد ہی نہیں ہوجات ا تھ ا؛ بلکہ دل ودم اغ‬
‫میں نقش ہوکر رہ جاتا تھا۔ حدیث شریف سے آپ کو گہ را تعل ق تھ ا‪ ،‬کس ی ح دیث کے سلس لے میں اگ ر‬
‫ب رسول صلی ہللا علیہ وسلم کو کوئی شبہ ہوتا تھا‪ ،‬ت و آپ ہی کی ط رف رج وع کی ا جات ا تھ ا۔ آپ‬ ‫اصحا ِ‬
‫ً‬
‫بڑی آسانی کے ساتھ مدلل طور پر شک وشبہ کو رف ع کردی تی تھیں‪ ،‬مثال ای ک م رتبہ آپ ص لی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے فرمایا تھا‪” :‬لوگ قربانی کے گوش ت ک و‪ ۳ ‬دن س ے زی ادہ نہ رکھیں“ حض رت عب دہللا بن عمر‬
‫‪ ‬اور حضرت ابوس عید خ دری‪ ‬نے یہ س مجھا کہ یہ حکم دائمی ہے۔ حض رت عائشہ‪ ‬نے جب یہ ب ات‬
‫سنی تو فرمای ا کہ یہ حکم نہ ت و دائمی ہے اور نہ ہی واجب ہے؛ بلکہ مس تحب ہے۔ اس ک ا مطلب یہ ہے‬
‫کہ لوگ قربانی کے گوشت کو جمع نہ کریں؛ بلکہ دوسروں کو کھالئیں۔ حض رت عائشہ‪ ‬کی ای ک قاب ل‬
‫ذکر خوبی یہ تھی کہ جب آپ روایت ک رتی ہیں ت و س اتھ ہی س اتھ اس کی‪  ‬علم وحکمت پ ر بھی روش نی‬
‫ڈال تی ہیں‪ ،‬مثالً ابوس عید خ دری اور عب دہللا بن عمر‪ ‬س ے غس ِل جمعہ کے سلس لہ میں ص رف اس ق در‬
‫مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرلینا چاہیے؛ لیکن اس حدیث شریف کو حضرت عائش ہ ص دیقہ‪ ‬نے‬
‫ذکر فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں‪  ‬سے نماز جمعہ ک و‬
‫آیا کرتے تھے‪ ،‬وہ گردوغبار سے اٹے ہوئے اور پسینے سے تر ہ وتے تھے۔ ای ک م رتبہ ای ک ص احب‬
‫آئے تو آپ ص لی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا کہ تم آج کے دن غس ل کرلی تے ت و کتن ا اچھ ا ہوت ا۔ حض رت‬
‫عائشہ‪ ‬کے تفقہ فی الدین دقت نظر قوت حافظہ اور شوق حدیث کے موضوع پر بہت سے حضرات نے‬
‫قلم اٹھایا ہے‪ ،‬ان میں حضرت عالمہ سیوطی بھی ہیں۔ آپ نے ای ک رس الہ ”عین االص ابہ“ میں اس قس م‬
‫کی‪ ۴۰ ‬روایات کا تذکرہ کیا ہے‪ ،‬جس سے آپ کی دقیق نظر‪ ،‬تفقہ فی الدین‪ ،‬دور اندیشی اور دوربینی ک ا‬
‫اندازہ ہوتا ہے۔‬
‫ً‬
‫حض‪II‬رت عائشہ‪ ‬کے ش‪II‬اگرد‪ :‬آپ س ے تقریب ا ‪ ۱۰۰ ‬ص حابہ اور ص حابیات نے روایت کی ہے‪،‬‬
‫مثالً عروہ بن زبیر‪ ،‬سعید بن المس یب‪ ،‬عب دہللا بن ع امر‪ ،‬مس روق بن اج دع‪ ،‬عک رمہ جیس ے جلی ل الق در‬
‫حضرات آپ کے تالمذہ میں شامل ہیں۔‬
‫مرویات کی تعداد‪ :‬محدثی ِن عظ ام کے مط ابق حض رت عائشہ‪ ‬ک ا ش مار ان حض رات میں ‪ ،‬جن‬
‫سے کث یر تع داد میں ح دیث ش ریف کی روای ات ذک ر کی گ ئی ہیں‪ ،‬چھ ٹے نم بر پ ر آت ا ہے؛ بلکہ بعض‬
‫حضرات کے نزدیک رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں میں آپ کا نمبر چوتھ ا ہے۔‬
‫صحابہ کرام‪ ‬کی مرویات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف حضرت اب وہریرہ‪ ،‬عب دہللا‬
‫بن عباس‪ ‬اور عبدہللا بن عمر‪ ‬کی مرویات آپ س ے زی ادہ ہیں۔ مح دثین عظ ام نے آپ کی مروی ات کی‬
‫تعداد‪( ۲۲۱۰ ‬دوہزار دو سو دس) بتالئی ہیں‪ ،‬ان میں تقریبا ً‪۲۷۳ ‬صحیحین یعنی بخاری ش ریف اور مس لم‬
‫شریف میں موجود ہیں۔‬

‫اب سے کچھ روز قبل پاکستان اسالمی نظریاتی کونسل نے کچھ گزارشات دی ہیں جن میں خواتین کے‬

‫بارے میں قانون سازی کے لئے کچھ سفارشات کی گئی ہیں ۔ یقینا ً ان میں بہت سی گذارشات خواتین کے‬

‫حقوق کی حفاظت کے حوالے سے ہیں اور کچھ بحث طلب ہیں ‪ ،‬ہم میڈیا پر یہ ساری بحث دیکھ رہے‬

‫ہیں۔‬

‫ان سفارشات میں سے ایک نقطہ ایسا ہے کہ جس کو ہم سمجھنے سے قاسر ہیں‪ ،‬وہ یہ کہ خواتین نرسز‬

‫اب ہسپتالوں میں مردوں کا عالج نہیں کر سکتیں ۔ یقینا ً علما کی معلومات ہم سے زیادہ ہے اور وہ حق‬

‫ٰ‬
‫فتوی دے سکیں مگر ہم نے جب یہ نقطہ دیکھا تو سوچا کیوں نہ سیرت النبی‬ ‫رکھتے ہیں کہ‬

‫ﷺ سے رہنمائ لی جائے اور ہمارا ایمان ھے کہ آپ ﷺ کی ذات‬

‫انسانیت کے لیے بہترین نمونہ ہے تو یقینا ً اس حوالے سے بھی کوئی نہ کوئی مثال ضرور ملے گی۔‬

‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫اور جب سیرت النبی ﷺ کا مطالع کیا تو ایک صحابیہ حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫عنہا کا ذکر مال ۔ مگر مذید تفصیالت جاننے کے لئے ہم نے تحقیق کی تو ایک مضمون مال جو کہ‬

‫دراصل ایک تحقیقی مقالہ ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر عمر حسن کسور نے تیسری بین االقوامی نرسنگ‬

‫کانفرنس جوکہ ‪ ۱۴‬نومبر ‪ ۱۹۹۸‬میں برونائی دارالسالم منعقد ہوئی میں پیش کیا تھا۔ ہم اسی مضمون‬

‫سے اخذ کرکے کچھ تفصیل آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر ہم یہی کہیں گے کہ ہم کسی شرعی‬

‫قانونی بحث میں جانا نہیں چاھتے بلکہ اس مضمون کا مقصد صرف قارئین کی خدمت میں ان عظیم‬

‫ہستیوں کی زندگی کے کچھ پہلو رکھنا ہے کہ جن کی تربیت اور تعلیم آپ ﷺ نے خود‬

‫فرمائی اور ان کا کردار کس طرح انسانیت کے لیے مشع ِل راہ بنا۔‬


‫تعالی عنہا ھیں جو کہ اسالمی تاریخ‬
‫ٰ‬ ‫آپ ﷺ کی ایک صحابیہ حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫تعالی عنہا کا پورا نام حضرت رفیدة‬


‫ٰ‬ ‫کی سب سے پہلی نرس خاتون تھیں۔ حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫تعالی عنہا تھا جن کا تعلق بنوں اسلم سے تھا جو کہ مدینہ کے خضرج قبیلہ کا حصہ‬
‫ٰ‬ ‫بنت سعد رضی ہللا‬

‫تعالی عنہا مدینہ میں آپ ﷺ کی آمد سے پہلے پیدا ہوئی‬


‫ٰ‬ ‫تھا۔ حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫تھیں اور آپ ان جید صحابیات میں سے تھیں جو مدینہ میں سب سے پہلے اسالم الئے۔ حضرت ام رفیدة‬

‫تعالی عنہا ان صحابیات میں تھیں جنہوں نے آپ ﷺ کا مدینہ پہنچنے پر‬


‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬

‫استقبال کیا۔‬

‫تعالی عنہا کے والد ایک فزیشن‬


‫ٰ‬ ‫تھے اور آپ نے اپنے والد کے ‪ Physician‬حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫اسسٹنٹ کے طور بہت کم عمری سے کام کیا ‪ ،‬اس حوالے سے ڈاکٹر عمر حسن اپنے مقالعہ میں لکھتے‬

‫تعالی عنہا ایک نرم دل اور قائدانہ صالحیتوں کی مالک تھیں جو کہ‬
‫ٰ‬ ‫ہیں کہ حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫اپنے ماتحتوں سے بہترین طریقے سے کام لیتیں اور انہیں اپنی ٹیم کو متحرک رکھنے میں کمال حاصل‬

‫تھا۔‬

‫تعالی عنہا بہترین کلینیکل اسکیلز کی ماہر تھیں اور آپ نے بہت سی خواتین‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫کو اس کام کی تربیت بھی دی اور ان سے کام بھی لیا۔ آپ صرف نرس ہی نہیں تھیں بلکہ آپ نے‬

‫کے لئے )‪ (prevention of community disease‬معاشرے میں پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک‬

‫اقدامات بھی کئے۔ بقول ڈاکٹر عمر حسن ‪ ،‬آپ ایک پبلک نرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوشل ورکر‬

‫بھی تھیں‪ ،‬خاص طور پر جب مدینہ میں اسالمی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے اپنی زندگی کو‬

‫مکمل طور پر نرسنگ کے لیے وقف کر دیا‪ .‬آپ نے باقائدہ مسج ِدنبوی کے باہر ایک مستقل خیمہ لگایا‬

‫جو امن کے دنوں میں مدینہ کے لوگوں کے لیے خدمت انجام دیتا تھا اور جب جنگوں کا موقع آتا تو آپ‬
‫اپنے ساتھ ایک رضاکروں کی ٹیم تشکیل دیتیں جو افواج کے ساتھ میدا ِن جنگ میں جاتی اور ذخمیوں کا‬

‫عالج و تیمارداری کی خدمات انجام دیتی۔ آپ کا فیلڈ ہسپتال جنگوں میں موجود رہتا اور خود ہللا کے‬

‫تعالی عنہا کے خیمے میں‬


‫ٰ‬ ‫رسول محمد ﷺ ذخمی مجاہدین کو حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫بھیجنے کا حکم دیتے۔‬

‫تعالی عنہا نے غزوہ بدر‪ ،‬احد‪ ،‬خندق‪ ،‬خیبر کے عالوہ اور بہت سی جنگوں‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫ت نرس حصہ لیا۔‬


‫میں بحیثی ِ‬

‫ہم یہاں پر خاص طور پر غزوہ خندق کا ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی ہللا‬

‫تعالی عنہ جو کہ انصار کے بڑے سرداروں میں سے تھے انکے باذو پر تیر لگا جس سے انکی نس‬
‫ٰ‬

‫(اکحل) کٹ گئی تھی اور خون نہیں رک رہا تھا تو آپ ﷺ نے فوری حکم دیا کہ‬

‫تعالی عنہا کے خیمے میں‬


‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کو حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت سعدبن معاذ رضی ہللا‬

‫تعالی عنہا نے ان کا تیر نکاال اور نرسینگ کے‬


‫ٰ‬ ‫پہنچایا جائے اس موقع پر حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫تعالی عنہا نے نہ صرف تیر محارت سے‬


‫ٰ‬ ‫تمام فرائض خود ہی انجام دئے۔ حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫نکاال بلکہ خون کو مکمل طور سے بند کرنے میں بھی کامیاب ہوئیں جس کو ڈاکٹر عمر حسن نے اپنے‬

‫۔ اور جنگ کے دوران رسو ِل ہللا ﷺ ‪ She achieved hemostasis‬مقالہ میں لکھا کہ‬

‫تعالی عنہا کے خیمے میں تشریف التے اور حضرت سعد بن معاذ رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫تعالی عنہ کی طبیعت دریافت کرتے‪ ،‬گو کہ حضرت سعد بن معاذ جانبر نہ ہوسکے اور شہادت پائی۔‬
‫ٰ‬

‫تعالی عنہا غزوہ خیبر میں اپنی پوری ٹیم کے ساتھ شریک‬
‫ٰ‬ ‫اسکے عالوہ حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫ہوئی تھیں جس کی اجاذت خود رسول ہللا ﷺ نے دی تھی اور جنگ کے اختتام پر‬
‫تعالی عنہا کو ما ِل غنیمت میں ایک اسلحہ بردار مجاہد کے برابر حصہ دیا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫گیا۔‬

‫تعالی عنہا کےساتھ جن صحابیات نے خدمات انجام دیں انکے چند نام یہ ہیں‬
‫ٰ‬ ‫حضرت ام رفیدة رضی ہللا‬

‫تعالی عنہما اور خاص‬


‫ٰ‬ ‫حضرت ام عمارة‪ ،‬حضرت ام ایمن‪ ،‬حضرت صفیہ ‪ٓ ،‬حضرت ام صلیم رضی ہللا‬

‫ت ابی قیص ‪،‬‬


‫طور پر جن صحابیات نے نرسنگ کے حوالے سے شہرت پائی ان میں حضرت امینة بن ِ‬

‫تعالی عنہما شامل ہیں۔‬


‫ٰ‬ ‫ت کعب المذینیة رضی ہللا‬
‫حضرت ام عطیہ االنصاریة اور نسیبة بن ِ‬

‫ت رسول‬
‫ہم صرف اسالمی نظریاتی کونسل کے اکابرین سے اتنا ہی پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب صحابیا ِ‬

‫ﷺ کو خود رسول ہللا ﷺ نے اس بات کی اجاذت دی کہ وہ مسلمان‬

‫مردوں کا عالج بحیثیت نرس کرسکتی ہیں تو کیونکر اس عظیم پیشہ نرسینگ کو متناذعہ بنایا جائے کہ‬

‫جس سے ہماری بہت سی مائیں اور بہنیں منسلک ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس شعبہ سے متعلق‬

‫وابسطہ خواتین کے لیے اسالمی نظریاتی کونسل اس طرح کی سفارشات دے کہ جن کے زریے خواتین‬

‫نرسوں کو خصوصی مراعات حاصل ھوں۔‬

You might also like