Professional Documents
Culture Documents
علم حدیث میں خواتین کا کردار 2
علم حدیث میں خواتین کا کردار 2
دور حاضر میں خواتین کے لئے ایک روشن اور رہنما تحریر
اسالم ایک عالمگیر مذہب ہے ،اس کی تہذیب وتم دن ،ثق افت وحض ارت ،اس کے نظم ونس ق ،ق وانین
وض وابط اور ط ریقہ تعلیم وت ربیت س رمدی وآف اقی ہے ،یہی وجہ ہے کہ اس الم ہمیش ہ س ے جہ الت
وناخواندگی اور آوارگی کا کھال دشمن اور علم ومعرفت ،شائستگی اور آراس تگی ک ا روزازل س ے ای ک
مخلص ساتھی اور دوست رہا ہے۔ چنانچہ اس نے انسانیت ک و بغ یر کس ی تفری ق م رد وزن لف ظ "اق رء"
سے مخ اطب کی ا اور "ف اعلم انہ ال الہ اال ہللا" )1( یع نی ایم ان النے س ے پہلے علم ومع رفت کی اہمیت
وافادیت کو اجاگر کیا اور "قل ہل یستوی الذین یعلمون والذین ال یعلم ون" )2( جیس ے پرکش ش وپرش کوہ
نصوص سے عالم وجاہل کے مابین ہمسری کی نفی کردی۔ نیز "یرف ع ہللا ال ذین آمن وا منکم وال ذین اوت وا
العلم درجات" )3( اور ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم نے "نضر ہللا امرءا سمع مقالتی فوعاہ ا ثم اداہ ا
الی من لم یسمعہا" )4( جیسے قیمتی اور بیش بہا فرمودات سے حص ول علم کی ت رغیب دی ہے س وائے
تین عل وم علم س حر ،علم نج وم اور علم کہ انت کے تم ام عل وم وفن ون کے س یکھنے س کھانے ،پڑھ نے
پڑھانے کی مکمل آزادی اور رخصت دے رکھی ہے۔
قرآن مجید کے عالوہ نبی صلی ہللا علیہ وسلم نے بال تفریق مرد وزن اس کے حص ول ک ا حکم اور ج ا
بجا اس کی اہمیت وفضیلت کو بیان کی ا ہے ،چن انچہ ابن م اجہ کی ای ک روایت ہے کہ "طلب العلم فریض ۃ
علی کل مسلم" )5( یعنی تمام مسلمانوں پرعلم دین حاص ل کرن ا ف رض ہے۔ اس میں م رد وع ورت دون وں
کے لئے حکم ہے اور اس پرعلماء امت کا اجماع ہے۔
عورت انسانی معاشرہ کا وہ اہم عنصر ہے جس کے بغیر معاش رہ وس ماج ک ا تص ور ہی ممکن نہیں،
عورت انسانی ترقی کا زینہ اور اجتماعی زندگی کی روح ہے ،ع ورت ع الم انس انی کی بق ا اور اس کے
تحفظ کی ض امن ہے ،ن یز کائن ات گ ل گل زار کی محاف ظ ہے۔ "ی ا ایہ ا الن اس ان ا خلقن اکم من ذک ر وان ثی
وجعلناکم شعوبا وقبائل لتعارفوا")6( ۔ ع ورت اف زائش نس ل اور اوالد کی تعلیم وت ربیت کی اعلی ذمہ دار
ہے ،اس کی گود جہاں ایک طرف شیر خوار بچوں کی جائے پرورش ہے ،وہیں دوس ری ط رف اس کی
آغوش حضارت وتمدن اور تعلیم وتربیت کا گہوارہ ہے ،عورت روئے زمین پر ہللا کی نشانی بن ک ر آئی
اور رہتی دنیا تک اس چمن کی عزت اور آبرو بنی رہے گی ،ان ش اء ہللا۔ ارش اد ب اری تع الی ہے" :ومن
آیاتہ ان خلق لکم من انفسکم ازواجا لتسکنوا الیہا وجعل بینکم مودۃ ورحمۃ")7( ۔ ع ورت ن اقص العق ل ت و
ہے لیکن تعلیم وتعلم سے کوری نہیں ،عورت ن اقص ال دین ت و ہے مگ ر عب ادت س ے مرف وع القلم نہیں،
عورت پردہ کی پابند ضرور ہے لیکن غزوات جہاد میں شرکت کی مستحق بھی ہے۔
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
ایک شبہ کا ازالہ
آج کے ترقی یافتہ دور میں اسالمی معاشرہ میں جو تعلیم نس واں ی ا مدرس ہ نس واں نظ ر آت ا ہےاس ے
دیکھ ک ر بعض حض رات کہ تے ہیں کہ اس ک ا ثب وت کہ ان ہے؟ عہ د رس الت کی مش ہور تعلیم گ اہ
ویونیورسٹی جو دنیا میں اہل صفہ کے نام سے متعارف ہے ،اس میں صحابیات اور بن ات اس الم ک ا ذک ر
ملت ا ہے؟ اس کے ثب وت کے ل ئے ای ک ح دیث ہی ک افی ہے۔ ام ام بخ اری رحمہ ہللا نے ای ک ب اب اپ نی
صحیح کے اندر قائم کیا ہے" :ہل یجعل للنساء یوم علی ح دۃ فی العلم" اور اس ب اب کے تحت ج و ح دیث
الئے ہیں اس کا مفہوم یہ ہے کہ "نبی ک ریم ص لی ہللا علیہ وس لم کی حی ات طیبہ میں عورت وں کے ان در
علم حدیث کے حاصل کرنے کا شوق وجذبہ اس قدر موجزن تھا کہ تمام عورتوں نے اجتم اعی ط ور پ ر
ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم سے مطالبہ کیا کہ آپ ہماری تعلیم کے لئے کوئی انتظ ام فرم ادیجئے۔
چنانچہ ابو سعید خدری رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وس لم نے ان کے ل ئے
ایک دن کا وعدہ کیا جس میں ان کو وعظ ونصیحت کرتےاور دینی باتوں کا حکم فرم اتے تھے)8( ۔ اس
سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ خواتین اسالم میں ارش ادات نب ویہ کے حص ول ک ا کس ق در ش وق
وجذبہ تھا۔
اگر اس قسم کے ل وگ کتب رج ال کی ورق گ ردانی ک ریں ت و انہیں ص حابیات ،تابعی ات اور مختل ف
ادوار کی روایات ومحدثات کی ایک طویل فہرست دستیاب ہوسکتی ہے ،جنہ وں نے حف اظت ح دیث کے
تعلق سے وہ کارہائے نمایاں انجام دیئے جس کی مثال دنیا کے کسی مذہب وملت میں نہیں مل سکتی ،فن
ح دیث ہی کی ا ش رعی علم وفن ک وئی بھی ہ و اس میں عورت وں کی ک ارکردگی نمای اں نظ ر آتی ہے ،فن
تفسیر ہو یا حدیث ،فقہ ہو یا اصول ،ادب ہو یا بالغت سارے کے سارے فنون کی عورتون نے ج ان ت وڑ
خدمت کی۔ اگر صحابیات وتابعیات تحمل اور روایت حدیث میں پیچھے رہتیں ت و آج اس المی دنی ا مس ائل
نسواں کی علم ومعرفت سے محروم رہتی ،نکاح وطالق کے مسائل ہوں یا جماع ومباشرت کے ازدواجی
زندگی کا کوئی الجھا ہوا پہلو ہو یا خانگی مشکالت ،اگر اس قسم کے الجھے اور پیچ مسائل کا ح ل ہمیں
ملتا ہے تو صحابیات وتابعیات کی مرویات ہیں۔
-خواتین اسالم اور علم حدیث:
ابتدائے اسالم سے لے کر اس وقت تک سینکڑوں ہزاروں پردہ نشیں مسلم خواتین نے ح دود ش ریعت
میں رہتے ہوئے گوشہ عمل وفن سے لے کر میدان جہاد تک ہر شعبہ زندگی میں حص ہ لی ا اور اس المی
معاشرہ کی تعمیر میں اپنا کردار ادا کیا ،خواتین اس الم نے علم ح دیث کی ج و خ دمات انج ام دی ہیں ،ان
کی سب سے پہلی نمائندگی صحابیات وتابعیات کرتی ہیں ،اس لئے سب سے پہلے انہی کے کارناموں کا
اجمالی نقشہ پیش کیا جارہا ہے۔
-صحابیات:
صحابہ کرام کی طرح صحابیات بھی اپنے ذہن ودماغ کے لحاظ سے ای ک درجہ اور م رتبہ کی نہین
تھیں اور نہ سب کو یکساں طور سے آنحض رت ص لی ہللا علیہ وس لم کی ص حبت ورف اقت نص یب ہ وئی
تھی ،اس لئے ان کی خدمات بھی اسی کے اعتبار سے کم وبیش ہوں گی ،کیونکہ ح دیث کی خ دمات کے
لئے سب سے زیادہ ضرورت حفظ اور فہم وفراست ہی کی تھی۔ صحابیات میں ازواج مطہ رات ک و ن بی
صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ ہر لحاظ سے زیادہ خصوصیت حاصل تھی ،اس لئے اس سلس لہ میں ان کی
خدمات سب سے زیادہ ہیں ،یوں تو صحابیات کی مجموعی تعداد حافظ ابن حج ر عس قالنی رحمہ ہللا کے
احصاء کے مطابق )1545( ہے ،لیکن جنہوں نے روایت حدیث کے ذریعہ حفاظت ح دیث ک ا ب یڑا اٹھای ا
ان کی تعداد سات سو سے زائد بتائی گئی ہے اور ان سے بڑے بڑے ص حابہ ک رام اور جلی ل الق در ائمہ
نے علم حاصل کیا ہے ،)9( عالمہ ابن حزم اپنی کتاب "اسماء الصحابۃ الرواۃ وم ا لک ل واح د من الع دد"
کے ان در کم وبیش )125( ص حابیات ک ا ت ذکرہ کی ا ہے جن س ے روای ات م روی ہیں اور ان کے اع داد
وشمار کے مطابق صحابیات سے مروی اح ادیث کی ک ل تع داد ( )2560ہے جن میں س ب س ے زی ادہ ام
المومنین عائشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا سے م روی ہے ،حض رت عائش ہ مک ثرین رواۃ ص حابہ میں س ے
ہیں ،ان کی مرویات کی تعداد ( )2210ہے ،)10( جن میں ( )286حدیثیں بخاری ومسلم میں موج ود ہیں،
مرویات کی کثرت کے لحاظ سے صحابہ کرام میں ان کا چھٹ ا نم بر ہے ،)11( مروی ات کی ک ثرت کے
ساتھ احادیث س ے اس تدالل اور اس تنباط مس ائل ،ان کے عل ل واس باب کی تالش وتحقی ق میں بھی ان ک و
خ اص امتی از حاص ل تھ ا اور ان کی ص فت میں بہت کم ص حابہ ان کے ش ریک تھے ،کتب ح دیث میں
کثرت سے اس کی مثالیں موجود ہیں۔
امام زہری جو کبار تابعین میں س ے تھے وہ فرم اتے ہیں" :ک انت عائش ۃ اعلم الن اس یس الہا االک ابر من
اصحاب رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم" ،)12( یعنی حضرت عائش ہ تم ام لوگ وں میں س ب س ے زی ادہ علم
رکھنے والی تھیں ،بڑے بڑے صحابہ کرام ان س ے مس ائل دری افت ک رتے تھے۔ دوس ری جگہ اس ط رح
رقمطراز ہیں" :اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائےتو حضرت
عائشہ کا علم سب سے اعلی وافضل ہوگا")13( ۔
حضرت عائشہ فت وی اور درس دی ا ک رتی تھیں ،یہی نہیں بلکہ آپ نے ص حابہ ک رام کی لغزش وں کی بھی
نشاندہی فرمائی ،عالمہ جالل الدین سیوطی اور زرکشی رحمہما ہللا نے اس موضوع پر "االصابۃ فیما استدرکتہ
عائشۃ علی الصحابۃ" کے نام پر مستقل کتاب لکھ رکھی ہے ،حضرت عائشہ سے روایت کرنے والے ص حابہ
وتابعین کی تعداد سو سے متجاوز ہے )14( ۔
ازواج مطہرات میں حضرت عائشہ کے بع د حض رت ام س لمہ رض ی ہللا عنہ ا علم ح دیث میں ممت از
نظر آتی ہیں ،علم حدیث میں ان کے مقام ومرتبہ کے متعلق محمد بن لبید فرماتے ہیں" :ک ان ازواج الن بی
صلی ہللا علیہ وسلم یحفظن من حدیث النبی صلی ہللا علیہ وسلم کث یرا مثال عائش ۃ وام س لمۃ" ،)15( یع نی
عام طور سے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وس لم کی ازواج مطہ رات آپ کی ح دیثوں ک و بہت زی ادہ محف وظ
رکھتی تھیں ،مگر حضرت عائشہ اور ام سلمہ اس سلسلہ میں سب سے ممتاز تھیں۔ حضرا ام س لمہ س ے
( )378ح دیثیں م روی ہیں)16( ۔ ان کے فت وے بک ثرت پ ائے ج اتے ہیں ،عالمہ ابن القیم رحمہ ہللا نے
"اعالم الموقعین" میں لکھا ہے" :اگر ام سلمہ رضی ہللا عنہا کے فتوے جمع کئے ج ائیں ت و ای ک چھوٹ ا
سا رسالہ تیار ہوسکتا ہے ،)17( ان کا شمار محدثین کے تیسرے طبقہ میں ہے۔ ان کے تالمذہ حدیث میں
بے شمار تابعین اور بعض صحابہ بھی شامل ہیں۔
ان دونوں کی طرح دوسری ازواج مطہرات نے بھی حدیث کی روایت اور اشاعت میں حص ہ لی ا اور
ان سے بھی بڑے جلیل القدر صحابہ اور تابعین نے احادیث حاصل کیں ،جیسے حض رت میم ونہ ہیں۔ ان
سے ( ،)76ام حبیبہ سے ( ،)65حفصہ سے ( ،)60زینب بنت جحش سے ( )11ج ویریہ س ے ( )7س ودہ
سے ( ،)5خدیجہ سے ( ،)1مزید ب راں آپ کی دون وں لون ڈیوں میم ونہ اور م اریہ قبطیہ رض ی ہللا عنہن
سے دو دو حدیثیں مروی ہیں۔
امہات المومنین کے عالوہ صحابیات میں مشکل ہی سے کوئی صحابیہ ایسی ہوں گی جن سے ک وئی نہ
کوئی روایت موجود نہ ہو ،چنانچہ آپ کی پیاری بیٹی لخت جگر حضرت فاطمہ رضی ہللا عنہا سے ( ،)18
آپ کی پھوپھی حضرت ص فیہ س ے ( )11ح دیثیں م روی ہیں)18( ۔ ع ام ص حابیات میں س ے حض رت ام
خطل سے ( )30حدیثیں مروی ہیں ،حضرت ام س لیم اور ام روم ان س ے چن د ح دیثیں م روی ہیں ،ام س لیم
سے بڑے بڑے صحابہ مسائل دریافت کرتے تھے ،ایک ب ار کس ی مس ئلہ میں حض رت عب د ہللا بن عب اس
اور حضرت زید بن ثابت میں اختالف ہوا تو دونوں نے ان ہی ک و حکم مان ا)19( ۔ حض رت ام عطیہ س ے
متعدد صحابہ وت ابعین نے روایت کی ا اور ص حابہ وت ابعین ان س ے م ردہ ک و نہالنے ک ا ط ریقہ س یکھتے
تھے )20( ۔
-مسانید صحابیات:
صحابیات کی کثرت روایت اور ان کی خدمت حدیث کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ ام ام احم د بن
حنبل نے ( )140سے زائد صحابیات کا تذکرہ لکھا ہے ،اس ی ط رح "اس د الغ ابۃ" اور "االص ابۃ فی تمی یز
الصحابۃ" میں ( )500سے زائ د ص حابیات کے ت راجم موج ود ہیں" ،تہ ذیب التہ ذیب" میں ( )233خ واتین
اسالم کا تذکرہ ہے جن میں بیشتر صحابیات ہیں)21( ۔
-تابعیات وتبع تابعیات:
صحابیات کی صحبت اور ایمان کی حالت میں جن خواتین نے پرورش پائی یا ان سے استفادہ کیا ان کو
تابعی ات کہ ا جات ا ہے ،ص حابیات کی ط رح تابعی ات نے بھی فن ح دیث کی حف اظت واش اعت اور اس کی
روایت اور درس وتدریس میں کافی حصہ لیا اور بعض نے تو اس فن میں اتنی مہارت حاص ل کی کہ بہت
سے کبار تابعین نے ان سے اکتس اب فیض کی ا۔ حاف ظ ابن حج ر رحمہ ہللا کی کت اب "تق ریب التہ ذیب" کی
ورق گردانی کرنے سے یہ بات مترشح ہوجاتی ہے کہ صحابیات کی طرح تابعیات کی ایک بڑی تعداد نے
روایت وتحمل حدیث میں انتھک کوشش کی ،چنانچہ ان کے اعداد وشمار کے مطابق ( )121تابعیات اور (
)26تبع تابعیات ہیں۔ البتہ "تقریب التہذیب" کے مطالعہ سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ ان تابعی ات میں کچھ
پائے ثقاہت کو پہنچی ہیں ،زیادہ تعداد میں مجہوالت پائی جاتی ہیں۔ چند مشہور تابعیات کی خدمت کا تذکرہ
کیا جاتا ہے:
-حضرت حفصہ بنت سیرین:
انہوں نے متعدد صحابہ وت ابعین س ے روایت کی ہے ،جس میں انس بن مال ک اور ام عطیہ وغ یرہ ہیں
اور ان سے روایت کرنے والوں میں ابن عون ،خالد الحذاء ،قتادہ وغیرہ شامل ہیں)22( ۔ جرح وتع دیل کے
امام یحیی بن معین نے ان کو "ثقۃ حجۃ" فرمایا )23( ۔ ایاس بن معاویہ فرماتے ہیں" :ما ادرکت احدا افضلتہ
علی حفصۃ" )24( میں نے حفصہ سے زیادہ فضل واال کسی کو نہیں پایا۔ امام ذہبی سے انہیں حفاظ حدیث
کے دوسرے طبقہ میں شامل کیا ہے)25( ۔
-عمرہ بنت عبد الرحمن:
یہ حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کی خاص تربیت ی افتہ اور ان کی اح ادیث کی امین تھیں ،ابن الم دینی
فرماتے ہیں" حضرت عائشہ کی ح دیثوں میں س ب س ے زی ادہ زی ادہ قاب ل اعتم اد اح ادیث عم رہ بنت عب د
الرحمن ،قاسم اور عروہ کی ہیں"۔ محمد بن عبد الرحمن فرماتے ہیں کہ مجھ سے عم ر بن عب د العزی ز نے
فرمایا" :ما بقی احد اعلم بحدیث عائشۃ" )26( اس وقت حضرت عائش ہ کی اح ادیث ک ا ان س ے ب ڑا ک وئی
جاننے واال موجود نہیں ہے۔ ابن سعد نے ان کو "عالمہ" لکھ ا ہے)27( ۔ اور ام ام ذہ بی نے ان ک و ت ابعین
کے تیسرے طبقہ میں شمار کیا ہے)28( ۔ اور ابن المدینی نے "احد ثقات العلماء" )29( کے الفاظ اس تعمال
کئے ہیں۔ حضرت عائشہ کے عالوہ دوسرے ص حابہ ک رام س ے بھی انہ وں نے روای تیں کی ہیں۔ ان س ے
روایت کرنے والوں میں تیرہ سے زیادہ کبار تابعین ہیں۔ 103ھ یا 116ھ میں وفات پائی )30( ۔
-روایت حدیث کے مختلف ادوار:
خیر القرون کے تذکرے کے بعد متاخرین کے مختل ف ادوار ک ا ت ذکرہ بھی مناس ب معل وم ہوت ا ہے ،ان
ادوار میں بھی مح دثین اور رواۃ کے ہم راہ راوی ات ومح دثات کی ای ک لم بی فہرس ت دس تیاب ہ وتی ہے
جنہوں نے حفاظت حدیث کی ذمہ داری اپنے ناتواں کندھوں پ ر اٹھ ائی۔ خ دمت ح دیث کی ن وعیت علیح دہ
علیحدہ اور مختلف ہے۔ کوئی اپنے زمانہ کی شیخۃ الحدیث تھی ،کسی کا مسکن علم ح دیث ک ا مرک ز تھ ا،
کسی نے حدیث کی تالش وجستجو میں محرم کے ساتھ اپنے گھر کو خیرباد کہا ،تو کسی نے مح دثین کے
ایک جم غفیر کو روایت حدیث کی اجازت مرحمت فرمائی۔ کسی نے ح دیث کی مخص وص کت اب ص حیح
بخاری کا درس دیا ،کتب سنہ اور دیگ ر کتب ح دیث میں س ینکڑوں ح دیثیں ایس ی ہیں ج و کس ی مح دثہ ی ا
راویہ کے توسط سے مروی ہیں۔ امام بخاری ،امام شافعی ،امام ابن حبان ،امام ابن حجر ،امام سیوطی ،امام
سخاوی ،عراقی ،سمعانی اور امام ابن خلکان رحمہم ہللا جیسے اساطین علم وفن اے اساتذہ کی فہرست میں
متعدد خواتین اسالم کے نام ملتے ہیں ،)31( جن سے یہ حقیقت واضح ہوج اتی ہے خ واتین نے اپ نے ذاتی
ذوق وشوق کی بنیاد پر نہ صرف علم حدیث کو حاصل کیا بلکہ اس کی نشرواشاعت ک ا فریض ہ بھی انج ام
دیاہے۔ جس طرح محدثین اور علم حدیث سے شغف رکھنے والوں اور خدمت حدیث میں دل چسپی رکھنے
والوں کی تعداد وافر مقدار میں پائی جاتی ہے ،اسی خواتین اسالم کی بھی ایک طوی ل فہرس ت کتب اس ماء
ورجال کی ورق گردانی کے بعد دستیاب ہوتی ہے ،چنانچہ چوتھی صدی ہجری سے لے کر دسویں ص دی
ہجری کی محدثات اور راویات اور خدمت حدیث میں اپنے نام کو روشن کرنے والیوں کا ای ک ت ذکرہ پیش
کیا جارہا ہے:
چوتھی صدی ہجری میں پانچ خواتین ،پانچویں صدی ہجری میں پندرہ ،چھٹی صدی ہجری میں پچھ تر،
ساتویں صدی ہجری میں پینسٹھ ،آٹھویں صدی ہجری میں ایک سو بانوے ،نویں صدی ہجری میں ایک س و
اکسٹھ اور دسویں صدی ہجری میں تین خواتین اسالم نے مختلف حوال وں س ے خ دمت ح دیث ک ا ک ا انج ام
دیا )32( ۔ ان کے عالوہ بہت ساری محدثات اور راویات ہیں ،لیکن ان کی ت اریخ وف ات ن یز ان کے اس اتذہ
اور تالمذہ کا سراغ نہ لگنے کی وجہ سے صدی متعین نہ ہوسکی ،جس کی وجہ سے ان کا تذکرہ نہیں کیا
گیا۔ بہرحال خادمات حدیث کے جو اعداد وشمار بھی آپ کی نگاہوں سے گزرے ان سے آپ مس لم خ واتین
کی سرگرمیوں کا اندازہ بخوبی لگا س کتے ہیں ،ن یز حف اظت ح دیث اور اس کی نش ر واش اعت میں ان کی
تگ ودو کا ہلکا سا پس منظر بھی آپ کے سامنے آگیا ہوگ ا۔ (ان تم ام ت ر خ دمات دی نیہ کے س اتھ س اتھ وہ
اسالمی اقدار کی پاسداری میں بھی اپنی مثال آپ تھیں) ۔
-تحصیل حدیث کے لئے سفر:
جس طرح احادیث رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی تالش وجستجو میں مح دثین نے ع الم اس الم کی خ اک
چھانی ہے اور جملہ نوائب ومصائب کو برداشت کیا ،ابتدائی دور میں اح ادیث وآث ار کی روایت اور ان کی
تدوین کے لئے بہت لمبے لمبے اسفار کئے تھے ،لیکن بعد میں سند عالی کی طلب بھی ان اس فار ک ا س بب
بن گئی ،اسی خواتین اس الم نے بھی اپ نی ص نفی حی ثیت وص الحیت کے مط ابق ش رعی پ ردہ میں رہ ک ر
تحصیل حدیث کے لئے دور دراز ملکوں اور شہروں کا سفر کیا اور محدثین کی فہرس ت میں اپن ا ن ام درج
کروایا )33( ۔
ام علی تقیہ بنت ابو الفرج بغدادیہ نے بغداد سے مصر جاکر قی ام کی ا اور اس کندریہ میں ام ام اب و ط اہر
احمد بن محمد السلفی سے اکتساب علم کیا)34( ۔ اسی طرح زینب بنت برہ ان ال دین اردبیلیہ کی والدت مکہ
مکرمہ میں ہوئی ،ہوش سنبھالنے کے بعد انہوں نے اپنے چچا کے ساتھ بالد عجم کا سفر کیا اور بیس سال
کے بعد مکہ مکرمہ واپس آئیں )35( ۔ ام محمد زینب بنت احمد بن عمر کا وطن بیت المقدس تھا ،امام ذہ بی
نے ان کو "المعمرۃ الرحالۃ" کے القاب سے یاد کیا ہے ،کیونکہ دور دراز ک ا س فر کرکےتحص یل علم اور
ح دیث کی روایت میں مش ہور تھیں ،اس ی وجہ س ے بع د میں دور دراز ملک وں کے طلبہ ح دیث ان س ے
روایت کرتے تھے )36( ۔ (یاد رہے کہ ان محدثات کے یہ اسفار محرم کے بغیر ہرگز نہ ہوتےتھےاور ان
کی درسگاہیں بھی اسالمی اقدار اور حجاب کی پابندی میں ہوتی تھی) ۔
-محدثات کی درس گاہیں:
ان خواتین اسالم پاک طینت محدثات اور راویات سے شرف تلمذ حاصل کرنے کے لئے مختلف عالقوں
اور دور دراز ملکوں سے طلبہ حدیث جوق در جوق حاضر ہوتے تھےاور ان سے روایت کرنے کو اپ نے
لئے باعث صد افتخ ار تص ور ک رتے تھے ،ان کی درس گ اہوں میں طلبہ ہی نہیں بلکہ ائمہ وحف اظ ح دیث
بھی آکر اکتساب فیض کرتے تھے۔ ام محمد زینب بنت مکی حرانیہ نے چورانوے سال کی عمر تک حدیث
کا درس دیا اور ان کی درس گاہ میں طلبہ کا کافی ہج وم رہ ا کرت ا تھ ا ،ام ام ذہ بی نے لکھ ا ہے" :وازدحم
علیہا الطلبۃ" )37( ۔ ام عب د ہللا زینب بنت کم ال ال دین مقدس یہ مس ندۃ الش ام کی پ وری زن دگی اح ادیث کی
روایت اور کتب حدیث کی تعلیم میں گزری ،ان کی درس گاہ میں طلبہ کی کثرت ہوا کرتی تھی ،امام ذہ بی
نے لکھا ہے" :تکاثر علیہا وتفردت وروت کتبا کثیرا" )38( ۔
-علم حدیث میں خواتین کی تدریسی خدمات:
عام طور سے محدثات کی مجلس درس ان کی رہائش گاہوں میں منعقد ہ وتی تھی اور طلبہ ح دیث وہیں
جاکر استفادہ کرتے تھے ،جیسا کا امام ذہبی اور ابن الجوزی نے ان سے روایت کے سلسلہ میں ان کی قیام
گاہوں کی نشاندہی کی ہے ،مگر بعض محدثات نے مختلف شہروں میں بھی درس دیا ہےاور دی نی علم ک و
عام کیا ہے)39( ۔ خلدیہ بنت جعفر بن محمد بغداد کی باش ندہ تھیں ،ای ک م رتبہ وہ بالد عجم کے س فر میں
نکلیں تو مقام دینور میں ان سے خطیب ابو الفتح منصور بن ربیعہ زہ ری نے ح دیث کی روایت کی )40( ۔
مسندۃ الوقت ست الوزراء بنت عمر تنوخیہ نے متعدد ب ار مص ر اور دمش ق میں ص حیح بخ اری اور مس ند
امام شافعی کا درس دیا )41( ۔
-علم حدیث میں خواتین کی تفصیلی خدمات:
مسلم خواتین نے صرف درس وتدریس اور روایت ہی سے اشاعت حدیث کا ک ام نہیں لی ا ،بلکہ مح دثین
کی ط رح تص نیف وت الیف ،کتب اح ادیث کے نق ل اور اپ نی مروی ات کی کت ابی ش کل میں م دون ک رکے
محفوظ کیا ،نیز فن اسماء ورجال وفن حدیث میں بھی کتابیں تص نیف کیں اور اپ نی نف ع بخش تالیف ات س ے
مکتبات اسالمیہ کو ماالمال کیا اور دنیا کے کتب خ انوں ک و س نوارنے اور انہیں زیب وزینت بخش نے میں
ان اہل قلم محدثات کا بڑا دخل رہا ہے ،اس مختصر مقالہ میں تمام صاحب قلم خ واتین اور ان کی تص نیفات
کا احصاء تو ممکن نہیں ،البتہ بطور مثال چند مسلم خواتین کا نام اور ان کی مولفات ک ا ن ام پیش کی ا جارہ ا
ہے:
-1ام محمد فاطمہ بنت محمد اصفہانی کو تصنیف وت الیف میں ب ڑا اچھ ا س لیقہ حاص ل تھ ا ،انہ وں نے
بہت ہی عمدہ عمدہ کتابیں تصنیف کی تھیں ،جن میں "الرموز من الکنوز" پ انچ جل دوں میں آج بھی موج ود
ہے )42( ۔
-2طالبہ علم :انہوں نے ابن حبان کی مشہور کتاب "المجروحین" میں مذکور احادیث کی فہرس ت تی ار
کی ہے۔
-3عجیبہ بنت حافظ بغدادیہ :انہوں نے اپنے اساتذہ وشیوخ کے ح االت اور ان کے مس موعات پ ر دس
جلدوں میں "المشیخۃ" نامی کتاب لکھی )43( ۔
-4ام محمد محم د ش ہدہ بنت کم ال :ان ک و بہت س ی ح دیثیں زب انی ی اد تھیں۔ لہ ذا انہ وں نے بہت س ی
احادیث کو کتابی شکل میں یکجا کیا )44( ۔
-5امۃ ہللا تسنیم :یہ عالمہ ابو الحسن علی ندوی کی بہن ہیں ،انہوں نے ام ام ن ووی کی کت اب "ری اض
الصالحین" کا اردو ترجمہ "زاد سفر" کے نام سے کیا ہے۔
-دور حاضر اور خدمات حدیث میں خواتین کا کردار:
عصر حاضر میں ہمارے ملک ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا جماعتی ادارہ ہو جس کے ساتھ "ش عبہ
بنات" منسلک ومربوط نہ ہو۔ فی الحال تقریبا جم اعت اہ ل ح دیث کے س ینکڑوں ادارے خ واتین اس الم کی
تعلیم وت ربیت کی ذمہ داری اٹھ ائے ہ وئے ہیں اور جہ اں دیگ ر عل وم وفن ون کے س اتھ س اتھ علم ح دیث ،
اصول حدیث اور فقہ واصول فقہ کی بھی خاطر خواہ تعلیم دی جاتی ہے ،آئن دہ نس لوں کے ل ئے یہ بہ ترین
خوش آئند شئ ہےاور ہو بھی کیوں نہ جبکہ نسواں مدارس اس المیہ میں فی الح ال کت نی معلم ات ایس ی ہیں
جو درس حدیث کے منصب پر فائز ہیں۔
-خالصئہ کالم:
حاصل کالم یہ ہے کہ خیر القرون سے لے کر عصر حاض ر ت ک ہ ر دور میں کم وبیش خ واتین اس الم
نے علم حدیث کی اشاعت میں ج و خ دمات جلیلہ انج ام دی ہیں خ واہ تعلیم وت دریس کے می دان میں ہ و ،ی ا
تصنیف وتالیف کے میدان میں وہ قابل تعریف وستائش اور ناقاب ل فرام وش ہے اور پ ورے وث وق واعتم اد
کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ خواتین اسالم کی علمی خدمات سے چشم پوشی کرن ا ت اریخ کے ای ک روش ن
باب کو صفحئہ ہستی سے ناپید کرنا ہے۔
آخر میں ہللا رب العالمین سے دعا گو ہوں کہ الہی ان خواتین اسالم کی علمی خدمات اور مس اعی جمیلہ
کو شرف قبولیت عطا فرما ،نیز ہم طالبان علوم نبوت ک و علم کے س اتھ س اتھ اس پ ر عم ل پ یرا ہ ونے کی
توفیق عنایت فرما ،آمین۔
-حواشی:
( )1سورہ محمد 19 :۔()2س ورہ الزم ر )3( 9 :س ورہ مج ادلہ 11 :۔ )4( ص حیح س نن ابن م اجہ:
4511/231۔ ( )5صحیح سنن ابن ماجہ ،1/44/183 :باب فضل العلماء والحث علی طلب العلم۔ )6( سورہ
الحجرات 13 :۔ )7( سورہ الروم 21 :۔ ( )8صحیح البخاری م ع الفتح ، 1/195/101 :کت اب العلم ب اب ہ ل
یجعل للنساء یوم علی حدۃ فی العلم۔ ( )9خاتون اسالم ص ، 69تالیف :ڈاکٹر مقتدی حس ن ازہ ری۔ ( )10بقی
بن مخلد القرطبی ص ،79تدریب الراوی 20/677 :۔ ( )11خدمت حدیث میں خواتین ک ا حص ہ ص ، 17
تالیف :مجیب ہللا ندوی ۔ ( )12تہذیب التہذیب ،12/463 :س یر الص حابیات ص 28۔ ( )13تہ ذیب التہ ذیب:
،12/463االستیعاب 4/1883 :۔ ( )14تہذیب التہذیب 463 ،12/461 :۔ ( )15طبقات ابن سعد 2/375 :۔ (
)16بقی بن مخلد القرطبی ص ، 81سیر الصحابیات ص 9۔ ( )17اعالم الموقعین البن قیم الجوزیۃ1/15 :
۔ ( )18بقی بن مخلد القرطبی ص 160 /84۔ ( )19مس ند احم د ، 6/430 :منق ول از خ دمت ح دیث میں
خواتین کا حصہ ص 12۔ ( )20تہذیب التہذیب 12/455 :۔ ( )21تہذیب التہ ذیب 516-12/426 :۔ ()22
تہذیب التہذیب 12/438 :۔ ( )23تہذیب التہذیب 12/438 :۔ ( )24تہذیب التہذیب 12/438 :۔ ( )25تذکرۃ
الحفاظ 1/9 :۔ ( )26تہذیب التہذیب 12/466 :۔ ( )27تہذیب التہذیب 12/466 :۔ ( )28تذکرۃ الحفاظ 1/94 :۔
( )29تہذیب التہذیب 12/466 :۔ ( )30تہذیب التہذیب 12/466 :۔ ( )31تلخیص از ماہن امہ الس راج م ارچ
2001ء ص 24۔ ( )32تلخیص از مجلہ الفرقان جوالئی ت ا س تمبر 2002ء ص 37 -26۔ ( )33خ واتین
اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص 30-29۔ ( )34ابن خلکان 1/103۔ ( )35العقد الثمین 8/224 :۔ ()36
ذیل العبر للذہبی :ص 126۔ ( )37الع بر 5/358 :۔ ( )38الع بر 5/213 :۔ ( )39خ واتین اس الم کی دی نی
وعلمی خدمات ص 54۔ ( )40تاریخ بغداد 14/444 :۔ ( )41خواتین اسالم کی دینی وعلمی خدمات ص 54
۔ ( )42العقد الثمین 8/202 :۔ )43( العبر للذہبی 5/194 :۔ ( )44ذیل العبر للذہبی :ص 49۔
ازواج مطہرات)
ِ اولی-
ٰ (طبقہ
ٴ اہ ِل بیت کی خدمات
اس طبقہ میں رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم کی س بھی ازواج مطہ رات ش امل ہیں؛ لیکن ح دیث
ش ریف میں اور دیگ ر کتب میں حض رت عائشہ ،حض رت ام س لمہ ،حض رت حفصہ اور حض رت
میمونہ کو اس طبقے میں شمار کیا ہے۔
حضرت عائشہ کی علمی خدمات
حض رت عائشہ ک ا رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم کے س اتھ جب نک اح ہ وا ،ت و آپ کی عم ر
صرف ۶ س ال تھی اور جب رخص تی ہ وئی ت و ۹ س ال تھی اور جب رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وس لم ک ا
وصال ہوا تو آپ کی عمر ۱۸ سال تھی۔ حضور ص لی ہللا علیہ وس لم کے وص ال کے بع د آپ ۴۸ س ال
تک زندہ رہیں ،اس دوران طویل عرصے میں یعنی تقریبا ً ۵۷ سال آپ ش ب وروز دین کی خ دمت ک رتی
علم دین کو پھیالتی رہیں ،ص حابیات میں س ب س ے زی ادہ اح ادیث آپ س ے ہی م روی ہیں۔ آپ ک ا رہیں۔ ِ
حافظہ نہایت قوی تھا ،جو سنتی تھیں وہ صرف وقتی ط ور پ ر ی اد ہی نہیں ہوجات ا تھ ا؛ بلکہ دل ودم اغ
میں نقش ہوکر رہ جاتا تھا۔ حدیث شریف سے آپ کو گہ را تعل ق تھ ا ،کس ی ح دیث کے سلس لے میں اگ ر
ب رسول صلی ہللا علیہ وسلم کو کوئی شبہ ہوتا تھا ،ت و آپ ہی کی ط رف رج وع کی ا جات ا تھ ا۔ آپ اصحا ِ
ً
بڑی آسانی کے ساتھ مدلل طور پر شک وشبہ کو رف ع کردی تی تھیں ،مثال ای ک م رتبہ آپ ص لی ہللا علیہ
وسلم نے فرمایا تھا” :لوگ قربانی کے گوش ت ک و ۳ دن س ے زی ادہ نہ رکھیں“ حض رت عب دہللا بن عمر
اور حضرت ابوس عید خ دری نے یہ س مجھا کہ یہ حکم دائمی ہے۔ حض رت عائشہ نے جب یہ ب ات
سنی تو فرمای ا کہ یہ حکم نہ ت و دائمی ہے اور نہ ہی واجب ہے؛ بلکہ مس تحب ہے۔ اس ک ا مطلب یہ ہے
کہ لوگ قربانی کے گوشت کو جمع نہ کریں؛ بلکہ دوسروں کو کھالئیں۔ حض رت عائشہ کی ای ک قاب ل
ذکر خوبی یہ تھی کہ جب آپ روایت ک رتی ہیں ت و س اتھ ہی س اتھ اس کی علم وحکمت پ ر بھی روش نی
ڈال تی ہیں ،مثالً ابوس عید خ دری اور عب دہللا بن عمر س ے غس ِل جمعہ کے سلس لہ میں ص رف اس ق در
مروی ہے کہ جمعہ کے دن غسل کرلینا چاہیے؛ لیکن اس حدیث شریف کو حضرت عائش ہ ص دیقہ نے
ذکر فرمایا تویہ بھی فرمایا کہ لوگ اپنے گھروں اور مدینہ کے آس پاس کی آبادیوں سے نماز جمعہ ک و
آیا کرتے تھے ،وہ گردوغبار سے اٹے ہوئے اور پسینے سے تر ہ وتے تھے۔ ای ک م رتبہ ای ک ص احب
آئے تو آپ ص لی ہللا علیہ وس لم نے فرمای ا کہ تم آج کے دن غس ل کرلی تے ت و کتن ا اچھ ا ہوت ا۔ حض رت
عائشہ کے تفقہ فی الدین دقت نظر قوت حافظہ اور شوق حدیث کے موضوع پر بہت سے حضرات نے
قلم اٹھایا ہے ،ان میں حضرت عالمہ سیوطی بھی ہیں۔ آپ نے ای ک رس الہ ”عین االص ابہ“ میں اس قس م
کی ۴۰ روایات کا تذکرہ کیا ہے ،جس سے آپ کی دقیق نظر ،تفقہ فی الدین ،دور اندیشی اور دوربینی ک ا
اندازہ ہوتا ہے۔
ً
حضIIرت عائشہ کے شIIاگرد :آپ س ے تقریب ا ۱۰۰ ص حابہ اور ص حابیات نے روایت کی ہے،
مثالً عروہ بن زبیر ،سعید بن المس یب ،عب دہللا بن ع امر ،مس روق بن اج دع ،عک رمہ جیس ے جلی ل الق در
حضرات آپ کے تالمذہ میں شامل ہیں۔
مرویات کی تعداد :محدثی ِن عظ ام کے مط ابق حض رت عائشہ ک ا ش مار ان حض رات میں ،جن
سے کث یر تع داد میں ح دیث ش ریف کی روای ات ذک ر کی گ ئی ہیں ،چھ ٹے نم بر پ ر آت ا ہے؛ بلکہ بعض
حضرات کے نزدیک رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے روایت کرنے والوں میں آپ کا نمبر چوتھ ا ہے۔
صحابہ کرام کی مرویات کی فہرست دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ صرف حضرت اب وہریرہ ،عب دہللا
بن عباس اور عبدہللا بن عمر کی مرویات آپ س ے زی ادہ ہیں۔ مح دثین عظ ام نے آپ کی مروی ات کی
تعداد( ۲۲۱۰ دوہزار دو سو دس) بتالئی ہیں ،ان میں تقریبا ً۲۷۳ صحیحین یعنی بخاری ش ریف اور مس لم
شریف میں موجود ہیں۔
اب سے کچھ روز قبل پاکستان اسالمی نظریاتی کونسل نے کچھ گزارشات دی ہیں جن میں خواتین کے
بارے میں قانون سازی کے لئے کچھ سفارشات کی گئی ہیں ۔ یقینا ً ان میں بہت سی گذارشات خواتین کے
حقوق کی حفاظت کے حوالے سے ہیں اور کچھ بحث طلب ہیں ،ہم میڈیا پر یہ ساری بحث دیکھ رہے
ہیں۔
ان سفارشات میں سے ایک نقطہ ایسا ہے کہ جس کو ہم سمجھنے سے قاسر ہیں ،وہ یہ کہ خواتین نرسز
اب ہسپتالوں میں مردوں کا عالج نہیں کر سکتیں ۔ یقینا ً علما کی معلومات ہم سے زیادہ ہے اور وہ حق
ٰ
فتوی دے سکیں مگر ہم نے جب یہ نقطہ دیکھا تو سوچا کیوں نہ سیرت النبی رکھتے ہیں کہ
انسانیت کے لیے بہترین نمونہ ہے تو یقینا ً اس حوالے سے بھی کوئی نہ کوئی مثال ضرور ملے گی۔
تعالی
ٰ اور جب سیرت النبی ﷺ کا مطالع کیا تو ایک صحابیہ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
عنہا کا ذکر مال ۔ مگر مذید تفصیالت جاننے کے لئے ہم نے تحقیق کی تو ایک مضمون مال جو کہ
دراصل ایک تحقیقی مقالہ ہے جسے پروفیسر ڈاکٹر عمر حسن کسور نے تیسری بین االقوامی نرسنگ
کانفرنس جوکہ ۱۴نومبر ۱۹۹۸میں برونائی دارالسالم منعقد ہوئی میں پیش کیا تھا۔ ہم اسی مضمون
سے اخذ کرکے کچھ تفصیل آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں اور پھر ہم یہی کہیں گے کہ ہم کسی شرعی
قانونی بحث میں جانا نہیں چاھتے بلکہ اس مضمون کا مقصد صرف قارئین کی خدمت میں ان عظیم
تعالی عنہا تھا جن کا تعلق بنوں اسلم سے تھا جو کہ مدینہ کے خضرج قبیلہ کا حصہ
ٰ بنت سعد رضی ہللا
تھیں اور آپ ان جید صحابیات میں سے تھیں جو مدینہ میں سب سے پہلے اسالم الئے۔ حضرت ام رفیدة
استقبال کیا۔
اسسٹنٹ کے طور بہت کم عمری سے کام کیا ،اس حوالے سے ڈاکٹر عمر حسن اپنے مقالعہ میں لکھتے
تعالی عنہا ایک نرم دل اور قائدانہ صالحیتوں کی مالک تھیں جو کہ
ٰ ہیں کہ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
اپنے ماتحتوں سے بہترین طریقے سے کام لیتیں اور انہیں اپنی ٹیم کو متحرک رکھنے میں کمال حاصل
تھا۔
تعالی عنہا بہترین کلینیکل اسکیلز کی ماہر تھیں اور آپ نے بہت سی خواتین
ٰ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
کو اس کام کی تربیت بھی دی اور ان سے کام بھی لیا۔ آپ صرف نرس ہی نہیں تھیں بلکہ آپ نے
کے لئے ) (prevention of community diseaseمعاشرے میں پھیلنے والی بیماریوں کے تدارک
اقدامات بھی کئے۔ بقول ڈاکٹر عمر حسن ،آپ ایک پبلک نرس ہونے کے ساتھ ساتھ ایک سوشل ورکر
بھی تھیں ،خاص طور پر جب مدینہ میں اسالمی ریاست کا قیام عمل میں آیا تو آپ نے اپنی زندگی کو
مکمل طور پر نرسنگ کے لیے وقف کر دیا .آپ نے باقائدہ مسج ِدنبوی کے باہر ایک مستقل خیمہ لگایا
جو امن کے دنوں میں مدینہ کے لوگوں کے لیے خدمت انجام دیتا تھا اور جب جنگوں کا موقع آتا تو آپ
اپنے ساتھ ایک رضاکروں کی ٹیم تشکیل دیتیں جو افواج کے ساتھ میدا ِن جنگ میں جاتی اور ذخمیوں کا
عالج و تیمارداری کی خدمات انجام دیتی۔ آپ کا فیلڈ ہسپتال جنگوں میں موجود رہتا اور خود ہللا کے
تعالی عنہا نے غزوہ بدر ،احد ،خندق ،خیبر کے عالوہ اور بہت سی جنگوں
ٰ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
ہم یہاں پر خاص طور پر غزوہ خندق کا ذکر کرنا چاہتے ہیں کہ جب حضرت سعد بن معاذ رضی ہللا
تعالی عنہ جو کہ انصار کے بڑے سرداروں میں سے تھے انکے باذو پر تیر لگا جس سے انکی نس
ٰ
(اکحل) کٹ گئی تھی اور خون نہیں رک رہا تھا تو آپ ﷺ نے فوری حکم دیا کہ
نکاال بلکہ خون کو مکمل طور سے بند کرنے میں بھی کامیاب ہوئیں جس کو ڈاکٹر عمر حسن نے اپنے
۔ اور جنگ کے دوران رسو ِل ہللا ﷺ She achieved hemostasisمقالہ میں لکھا کہ
تعالی عنہا کے خیمے میں تشریف التے اور حضرت سعد بن معاذ رضی ہللا
ٰ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
تعالی عنہ کی طبیعت دریافت کرتے ،گو کہ حضرت سعد بن معاذ جانبر نہ ہوسکے اور شہادت پائی۔
ٰ
تعالی عنہا غزوہ خیبر میں اپنی پوری ٹیم کے ساتھ شریک
ٰ اسکے عالوہ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
ہوئی تھیں جس کی اجاذت خود رسول ہللا ﷺ نے دی تھی اور جنگ کے اختتام پر
تعالی عنہا کو ما ِل غنیمت میں ایک اسلحہ بردار مجاہد کے برابر حصہ دیا
ٰ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
گیا۔
تعالی عنہا کےساتھ جن صحابیات نے خدمات انجام دیں انکے چند نام یہ ہیں
ٰ حضرت ام رفیدة رضی ہللا
ت رسول
ہم صرف اسالمی نظریاتی کونسل کے اکابرین سے اتنا ہی پوچھنا چاہتے ہیں کہ جب صحابیا ِ
مردوں کا عالج بحیثیت نرس کرسکتی ہیں تو کیونکر اس عظیم پیشہ نرسینگ کو متناذعہ بنایا جائے کہ
جس سے ہماری بہت سی مائیں اور بہنیں منسلک ہیں جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اس شعبہ سے متعلق
وابسطہ خواتین کے لیے اسالمی نظریاتی کونسل اس طرح کی سفارشات دے کہ جن کے زریے خواتین