Professional Documents
Culture Documents
کارنر سے تازہ ترین
کارنر سے تازہ ترین
کارنر سے تازہ ترین
---
---
---
ماہرلسانیات اور مترجم ہیں۔ وہ شاہد حمید اُردو کے مایہ ناز ادیبِ ،
1928ء میں جالندھر کے ایک گائوں پَرجیاں کالں میں پیدا ہوئے۔
ابتدائی تعلیم اسالمیہ ہائی سکول ننگل انبیا میں حاصل کی۔
1947ء میں فسادات کے دوران میں پاکستان ہجرت کی۔ الہور ٓا کر
پہلے اسالمیہ کالج الہور سے بی اے کیا اور گورنمنٹ کالج الہور سے
ایم اے انگریزی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے اساتذہ میں خواجہ
قابلذکر ہیں۔ مشہور نقاد مظفر
ِ منظور حسین اور ڈاکٹر محمد صادق
علی سید فرسٹ ایئر سے سکستھ ایئر تک شاہد حمید کے کالس
بطور صحافی ’’روزنامہ ٓافاق‘‘ میں کام
ِ فیلو رہے۔ تعلیم کے دوران
کیا۔ پھر سرکاری مالزمت اختیار کر لی۔ ایمرسن کالج ملتان،
گورنمنٹ کالج ساہیوال اور گورنمنٹ کالج الہور میں انگریزی پڑھاتے
رہے۔ 1988ء میں ریٹائر ہوئے۔ ادب سے دلچسپی بہت پرانی ہے،
لیکن انھوں نے فیصلہ کیا کہ تیسرے درجے کی طبع زاد تحریروں
سے عالمی کالسک کا ترجمہ زبان و ادب کی بدرجہا بہتر خدمت
ہے۔ یہ سوچ کر زمانٔہ طالب علمی میں ہی ڈیل کارنیگی کی ہر دل
عزیز کتاب ’’پریشان ہونا چھوڑئیے ،جینا سیکھیے‘‘ کا اُردو ترجمہ
کیا اور پھر لیوطالسطائی کے عظیم ناول ’’جنگ اور امن‘‘ کا اُردو
میں ترجمہ کرنے کا بیڑا اُٹھایا اور کئی سال کی محنت شاقہ کے
بعد اس کام کو مکمل کیا۔ اس ترجمے پر انھیں بہت داد ملی۔
انھوں نے ایڈورڈ سعید کی نہایت اہم تصنیف ’’مسئلہ فلسطین‘‘ کا
ترجمہ بھی کیا۔ ایڈورڈ سعید کی پیچیدہ نثر سے انصاف کرنا مشکل
تھا لیکن یہ مرحلہ بھی شاہد حمید نے کامیابی سے طے کیا۔ اس
کے بعد انھوں نے جین ٓاسٹن کے ناول ’’تکبرـ اور تعصب‘‘ ،ہیمنگوے
کی ’’بوڑھا اور سمندر‘‘ اور بین االقوامی بیسٹ سیلر ’’سوفی کی
ُد نیا‘‘ کا ترجمہ کیا۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ دستوئیفسکی کے
ناول ’’کرامازوفـ برادران‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے۔ اس ناول کو دنیا بھر
میں دستوئیفسکی کی سب سے باکمال تصنیف سمجھا گیا ہے۔ اس
باعثفخر ہے۔ انہوں نے ِ کی اُردو میں دستیابی ہم سب کے لیے
دنیا میں سب سے زیادہ پڑھے جانے والے ان ضخیم ناولوں کے
عمر عزیز کا بڑا حصہ صرف کیا ،بلکہ متن سے ِ تراجم پر نہ صرف
خراجتحسین ِ مخلص رہنے کے لیے شب وروز محنت کی۔ انھیں
پیش کرتے ہوئے معروف نقاد شمیم حنفی نے کہا تھا’’ ،یقین کرنا
مشکل ہے کہ ہزاروں صفحوں پر پھیال ہوا یہ غیرمعمولی کام ایک
اکیلی ذات کا کرشمہ ہے۔‘‘ متاز فکشن نگار نیر مسعود نے محمد
الرحمن کے نام خط میں شاہد حمید کو حیرت خیز ٓادمی قرار
ٰ سلیم
دیا۔ شاہد حمید نے اپنی خودنوشت ’’گئے دنوں کی مسافت‘‘ کے
نام سے تحریر کی تھی اور دوہزار سے زائد صفحات پر مشتمل
انگریزی اُردو لغت بھی تیار کی ہے ،جو ِ
زیرطبع ہے۔ ان کا انتقال
29جنوری 2018ء کو ہوا اور ڈیفنس الہور کے قبرستان میں ٓاسودٔہ
خاک ہیں۔ شاہد حمید نے اُردو زبان کی ثروت مندی میں جو اضافہ
کیا وہ ہمیشہ یاد رہے گا۔
---
:سرورق مصور
ِ
وسیلی پیروف (1834ء1882-ء)1870 :ء کی دہائی کے ابتدائی
عرصے میں پیروف کی مصوری نے ُروس کی عظیم ثقافت کو اپنی
توجہ کا مرکز بنایا۔ 1872ء میں اس نے دستوئیفسکی کی یہ تصویر
مکمل کی۔ یہ دستوئیفسکی کا ادبی کام تھا جس نے پیروف کو اس
طرح متاثر کیا کہ اس نے انیسویں صدی کے ُروس کی پریشان حال
سیاسی ،سماجی اور روحانی فضا میں انسانی نفسیات کی گتھیاں
سلجھائیں۔ اس جدید طباعت کے سرورق پر دی گئی تصویر بھی
پیروف کا ہی شاہکار ہے۔