Professional Documents
Culture Documents
مدارس اسلامیہ میں حدیث کی تدریس کے طرق واسالیب
مدارس اسلامیہ میں حدیث کی تدریس کے طرق واسالیب
حدیث اسالمی شریعت کا بنیادی ماخذ ہے۔اسالمی شریعت کی تفہیم وتکمی ل اس کے بغ یر ممکن نہیں۔م دارس اس المیہ چ وں کہ
شریعت ہی کی تعلیم وتدریس کے لیے قائم کیے گئے ہیں،اس لیے کتب احادیث ان کے نصاب کا الزمی حصہ ہیں۔عہد نبوی ہی
سے حدیث کی سماعت،روایت اور تفہیم کا بابرکت سلسلہ قائم ہے اور یہ ان شاء ہللا تاصبح قیامت جاری رہے گا۔
تاریخ کے مختلف ادوار میں حدیث کو یاد کرنے ،جمع کرنے،امال ک رانے،اس کی تفہیم ک رانے اور دور دراز عالق وں میں اس
کی اشاعت کرنے کے مختلف طریقے استعمال میں الئے جاتے رہے ہیں۔ایک دور وہ تھا جس میں احادیث کی تدوین عم ل میں
ٓائی اور اس کے لیے اتنی کثرت سے اسفار کیے گئے کہ وہ علوم حدیث کاایک مستقل باب بن گیا۔
درس وتدریس اور سیکھنے سکھانے کا سلسلہ اس دور میں بھی جاری رہ ا۔مح دثین ک رام نے اس تفادہ کے ل یے ٓانے والے طلبہ
کو کبھی محروم نہیں کیا بلکہ بعض حضرات نے ایک قدم ٓاگے بڑھ کر غریب اور نادار طلبہ کے لیے قیام وطعام کابھی انتظام
کیا۔کیوں کہ انھیں معلوم تھ ا کہ ن بی اک رم ﷺ نے اح ادیث س یکھنے ،س کھانے اور اس کی اش اعت ک رنے کی
فضیلت بیان فرمائی ہے ۔اصحاب حدیث کو اپنی خصوصی دعأوں سے نوازا ہے۔حدیث سیکھنے ،سکھانے ،یاد ک رنے اور امال
کرانے کی اہمیت وفضیلت سے متعلق عالمہ خطیب بغدادی نے احادیث نب ویہ،اق وال ص حابہ اورٓاث ار ت ابعین وتب ع ت ابعین اپ نی
مشہور کتاب’’شرف اصحاب الحدیث‘‘میں جمع کردیے ہیں۔اس خصوص میں اس کا مط العہ مفی د ہوگ ا۔راقم س طور نے خطیب
بغدادی کی اس کتاب کا ملخص ترجمہ بہت پہلے کیا تھا جو شیخ اکرم مختار حفظہ ہللا کے مکتبہ’’دارالعلم ممبئی‘‘سے ٓاج بھی
درس وتدریس حدیث کا کوئی خاص متعین طریقہ اسالم کی ابتدئی صدیوں میں ہمیں نظر نہیں ٓاتا اور نہ وہ پیشہ ورانہ ص ورت
دکھائی دیتی ہے جس سے ٓاج ہم ٓاشنا ہیں۔بعد کی صدیوں میں جب مختلف علوم وفنون کاارتقا ہوا،مدارس قائم کیے گئے ت و پھ ر
وہ طریقہ ایجاد کیا گیا جو ہمارے مدارس میں رائج ہے۔
زیر نظر تحریر میں مجھے یہ جائزہ پیش کرنا ہے کہ م دارس اس المیہ میں ت دریس ح دیث کے ط رق واس الیب کی ا ہیں؟ان کی
افادیت کیا ہے؟ان سے کس طرح کے نتائج سامنے ٓارہے ہیں؟کیاان میں کچھ تبدیلی الئی جاس کتی ہے ؟دوس رے لفظ وں میں ہم
یہ کہہ سکتے ہیں کہ کیا ان میں اصالح اور ترمیم کی کوئی ضرورت ہے؟اگر جواب اثبات میں ہے تو اس کاخاکہ کیا ہوگ ا اور
تدریس حدیث کے طرق واسالیب میں تنوع ہے۔برصغیر کے اساتذہ حدیث کاطریقہ کچھ ہے اورعالم عرب کے اساتذہ ح دیث ک ا
کچھ اور۔اسی طرح درس نظامی کی کمیت اور کیفیت میں ہر دواعتبارسے عالم عرب کی جامع ات کے مق ابلے میں خاص افرق
پایا جاتا ہے۔عالم عرب کی جامعات میں یونیورسٹی کاانداز پایا جاتا ہے ،بی اے کی س طح پ ر ہی اختص اص ش روع ہوجات ا ہے
اور مختلف فنون کے شعبے الگ الگ ہوجاتے ہیں ۔ہمارے مدارس میں ٓاج تک ایسا ک وئی نظم نہیں ق ائم کی ا جاس کا بلکہ عل وم
شریعت کے سارے ہی مضامین ٓاخر تک پڑھائے جاتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ ح دیث پ ر ت ازہ اور نی ا ک ام جتن ا ع الم ع رب میں
انجام پارہا ہے ،اس کاعشر عشیر بھی ہمارے یہاں نہیں ہورہا ہے۔ لیکن ایک سوال ضرور ہمیں پریش ان کرت ا ہے کہ ہندوس تان
کے اسی طریقہ تدریس سے مستفید ہونے والے ہندوس تانی مح دثین نے ماض ی میں ب ڑے ب ڑے کارن امے انج ام دیے ہیں۔ع ون
المعبود،تحفۃ االحوذی،مرعاۃ المفاتیح،بذل المجہود ،اوجزالمسالک جیسی دسیوں کتابیں وجود میں ٓائیں جن س ے پوراع الم اس الم
ٓاج بھی استفادہ کرتا ہے۔لیکن اب ایسا کیوں نہیں ہوتا،اب اس معیار کے محدثین کیوں نہیں پیدا ہوتے،نصاب تووہی ہے بلکہ اس
میں تھوڑی بہت اہم اور مفید تبدیلیاں بھی کی گئی ہیں؟ا س سوال کا بعض حض رات ج واب یہ دی تے ہیں کہ طلبہ اوراس اتذہ ک و
جیسی محنت حدیث پڑھنے اور پڑھانے میں کرنی چاہیے،اس طرح کی محنت نہیں ہوپارہی ہے۔ب ڑی ح دتک یہ ج واب درس ت
ہے،اس پہلو سے بھی اپ نے م دارس میں اص الح ک رنے کی ض رورت ہے۔لیکن ش ایداس س ے بھی انک ار نہیں کی ا جاس کتا کہ
نصاب تعلیم زمانے کے تقاضوں س ے ہم ٓاہن گ ہوت ا ہے اور ض رورت کے مط ابق اس میں ردوب دل ہوت ا رہت ا ہے لیکن ہم نے
اسے صدی ڈیڑھ صدی پہلے کے نصاب پر بڑی حدتک ٓاج بھی ب اقی رکھ ا ہے۔نص اب تعلیم مقص د کے حص ول کاای ک ذریعہ
ہے،وہ بذات خود مقصد نہیں بلکہ اس سے ایک خاص مقصد کی تکمیل ہوتی ہے۔اس لیے ہمیں ہر مفید تجربے کو اپنانا چ اہیے
برصغیر میں عام طور پر اہل سنت کے تین مکاتب فکر پائے جاتے ہیں،جن کو ہم دیوبندی ،بریلوی اور اہل حدیث کے نام س ے
جانتے ہیں ۔ہر ایک کے یہاں کتب احادیث کانصاب،اس کا طریقہ تعلیم اور ترسیل کے اسلوب میں تھ وڑا بہت اختالف پای ا جات ا
ہے۔اس کی وجہ وہ نظریاتی اختالف ہے جو مختلف فقہی مکاتب فکر میں موجود ہے۔اہل حدیث کے عالوہ ب اقی دون وں مک اتب
فکر حنفی فقہ کے پابند ہیں اور احادیث پڑھاتے ہوئے اس ب ات کاخی ال رکھ تے ہیں کہ تاوی ل اور ت وجیہ کے ذریعے فقہ حنفی
کی احادیث سے ہم ٓاہنگی واضح کی جائے۔ ہرایک مک اتب فک ر کے ط ریقہ ت دریس ح دیث کے متعل ق چن دباتیں یہ اں ذک ر کی
عام طور پر سلفی اوراہل حدیث مدارس میں بلوغ المرام ،مش کوۃ المص ابیح ،موطاام ام مال ک اور کتب س تہ کی تعلیم دی ج اتی
ہے۔بلوغ المرام جماعت ثالثہ میں اس وقت پڑھائی جاتی ہے جب ع ام طلبہ کی ع ربی زب ان ات نی اچھی نہیں ہ وتی کہ خودس ے
احادیث کا ترجمہ کرسکیں۔اس لیے بلوغ المرام کے اساتذہ عام طور پر مفردات کے معنی بھی بت اتے ہیں،جمل وں کی وض احت
عربی گرامر کے حوالے سے کرتے ہیں اور احادیث کا لفظی اور بامحاورہ ترجمہ کرتے ہیں۔چوں کہ حافظ ابن حجر عس قالنی
کی ترتیب فرمودہ یہ کتاب احکام ومسائل کی احادیث پر مشتمل ہے اس لیے اس اتذہ ک رام اح ادیث س ے مس تنبط مس ائل کی بھی
وضاحت کرتے جاتے ہیں۔کوشش کی جاتی ہے کہ کتاب مکمل ہوجائے لیکن ایسا کم ہی ہوتا ہے۔بہت سے اب واب رہ ج اتے ہیں
یاسال کے ٓاخر ی ایام میں ذرا رفتار بڑھا کر کتاب مکمل کردی جاتی ہے۔کتاب کے ٓاخر میں حافظ ابن حجر نے اخالقیات س ے
متعلق احادیث جمع کی ہیں جو تربیت کے نقطہ نظر س ے خصوص ی اہمیت کی حام ل ہیں،اس ل یے بعض م دارس اس جم اعت
کے طلبہ کوسب سے پہلے اخالقیات واال باب ہی پڑھ اتے ہیں۔اس کے بع د فقہی اب واب پڑھ ائے ج اتے ہیں۔طلبہ ک و عم ر کے
جس مرحلے میں یہ کتاب پڑھائی جاتی ہے،کیاان کے اندر فقہ کے تمام ابواب میں زیر بحث ٓانے والے مسائل کو سمجھنے کی
استعداد ہوتی ہے۔اگر نہیں ہوتی ہے اور یقینا ً نہیں ہوتی ہے تو فقہی مسائل کی تفصیالت بیان کرنا تکلی ف ماالیط اق ہے،اس پ ر
مشکوۃ المصابیح کی جلداول جماعت رابعہ میں پڑھائی جاتی ہے اور جلد ث انی جم اعت خامس ہ میں۔ان دون وں س الوں میں بھی
استاذ کا طریقہ یہی ہوتا ہے کہ وہ مفردات کے معنی بتاتااور احادیث کے جملوں کی وضاحت کرتا ہے۔مسائل واحکام بھی بی ان
کرتا ہے اور ترغیب وترہیب اور ایمان کے مختلف ابواب کی تشریح کرتا ہے۔مش کوۃ المص ابیح جیس ا کہ ہم ج انتے ہیں،منتخب
احادیث کا مجموعہ ہے۔امام بغوی کی مصابیح السنۃ میں صرف صحیح اور حسن احادیث تھیں اور ہر باب صرف دوفصلوں پر
مشتمل تھا ۔امام تبریزی نے تیسری فصل کااضافہ کیا جس میں بالعموم صحیحین اور س نن اربعہ کے عالوہ دیگ ر کتب اح ادیث
کی حدیثیں ذکر کی ہیں۔یہ کتاب بھی دونوں جماعتوں کے نصاب میں ازاول ت آاخر داخ ل ہے لیکن ش اذ ون ادر ہی ان کی تکمی ل
فضیلت سے پہلے باقی جماعتوں میں عام طور سے موطاامام مالک،سنن نسائی،سنن ترمذی،سنن ابودأود پڑھائی جاتی ہے۔س نن
ابن ماجہ کہیں پڑھائی جاتی ہے اور کہیں یہ سمجھ کر اسے شامل نصاب نہیں کیا گیا ہے کہ اس کی بیشترصحیح احادیث دیگر
کتابوں میں ٓاگئی ہیں۔اس کے زوائد میں کم ہی احادیث ہیں جن کو درجہ استناد حاصل ہے۔ان کتابوں کے پڑھانے کاانداز یہ ہوتا
ہے کہ باری باری طلبہ حدیث کی عبارت پڑھتے ہیں اوراستاذ جہاں ضرورت محسوس کرت ا ہے،اح ادیث کی تش ریح کرت ا ہے
اور مسائل کی وضاحت کرتا ہے۔بعض اساتذہ سال کے ابتدائی چند مہینوں تک ایک ایک حدیث کی تشریح ک رتے ہیں لیکن بع د
میں ان کے یہاں بھی رفتار بڑھ جاتی ہے کیوں کہ کتاب مکمل کرنے کا خیال غالب رہتاہے۔اس تم ام ج د وجہ د کے ب اوجود کم
ہی ایس ا ہوت ا ہے کہ کت اب مکم ل ہوج ائے،بہت س ے اب واب چھ وٹ ج اتے ہیں اوران کی تفہیم مکم ل نہیں ہوپ اتی۔
فضیلت کے سالوں میں صحیح بخاری اور صحیح مسلم کو پڑھایا جات ا ہے۔ان دون وں کی ت دریس ک ا بھی وہی ح ال ہے کہ کچھ
مہینوں تک استاذ احادیث کی تشریح کرتا ہے،مسائل بتاتا ہے اور ترجمۃ الباب سے مطابقت س مجھاتا ہے لیکن بع د میں ص رف
قرٔاۃ علیہ ؤانأاسمع کا منظر ہوتا ہے۔بلکہ اس ٓاپادھ اپی میں ص رف وہی طلبہ درس میں مت وجہ رہ تے ہیں جواس تاذ کے س امنے
ہوتے ہیں۔باقی یا توسوتے رہتے ہیں یا پھر دوسری مصروفیات میں لگے رہتے ہیں۔صحیحین کو جو مق ام حاص ل ہے اور کتب
احادیث میں صحت واستناد کے اعتبار سے ان کا جو بلند معیار ہے،اسے دیکھتے ہوئے طلبائے م دارس کی یہ بے ت وجہی ح د
درجہ افسوس ناک ہے،اسے ہر حال میں دور ہوناچاہیے اور انتظامیہ کے ساتھ ساتھ استاذحدیث کو بھی الرٹ رہن ا چ اہیے ت اکہ
صحیحین کو صحیح معنوں میں ان کا جائزمقام مل سکے۔فضیلتین کے طلبہ کے سامنے احادیث کااردو ترجمہ وہ اں کی ا ج ائے
جہاں ضرورت ہو باقی ک ام طلبہ ک و خ ود کرناچ اہیے اور س اتھیوں کے س اتھ اجتم اعی مط العہ ک رکے در س میں ش امل ہون ا
چاہیے۔ اسی اجتماعی مط العہ س ے ایس ے س واالت بھی ذہن وں میں ابھ ریں گے جن ک ا ج واب اس تاذ مح ترم دیں گے اور طلبہ
نصاب کا حصہ بنایاگیا ہے۔اس کے اگلے مرحلے میں کہیں الباعث الح ثیث اور کہیں مق دمہ ابن الص الح کی ت دریس ہ وتی ہے۔
اص ول ح دیث کی کت ابیں پڑھ اتے ہ وئے چ ونکہ ان اص ولوں کی عملی تط بیق نہیں ک رائی ج اتی اس ل یے طلبہ پڑھ نے کے
باوجوداصول حدیث میں کوئی خاص مہارت اپنے اندر پیدا نہیں کرپاتے اور ک ئی ای ک اص طالحات س ے وہ ن اواقف رہ ج اتے
ہیں۔اصول حدیث پر جوجدید کتابیں تیار ہوئی ہیں یاعالم عرب کے بعض اساتذہ حدیث کے جو مذکرات اب شائع ہوچکے ہیں،ان
میں بکثرت مثالیں ملتی ہیں۔ہمارے اصول حدیث کے اساتذہ کوان سے مدد لینی چ اہیے اورم دارس کی انتظ امیہ ک و چ اہیے کہ
جدید کتابیں اساتذہ کے لیے فراہم کرے۔ اب توکتابوں کی حصولیابی بہت ٓاسان ہوگئی ہے۔ان ٹرنیٹ پ ر ع ربی اس المیات ک ا بہت
بڑا ذخیرہ فری ڈأون لوڈن گ کے ل یے دس تیاب ہے۔ٓاپ ک و ج و کت اب بھی چ اہیے،وہ ٓاس انی کے س اتھ نیٹ پ ر م ل س کتی ہے۔
sultan.orgکے نام سے ایک سائٹ ہے،اس کے عربی والے حص ے میں س یکڑوں ذیلی س ائٹس ہیں،جن میں ہ زاروں کت ابیں
موجود ہیں۔ٓاپ اس سے استفادہ کرسکتے ہیں بلکہ ہمارے مدارس کو چ اہیے کہ وہ طلبہ اوراس اتذہ کے ل یے چن د تحفظ ات کے
س اتھ ان ٹرنیٹ کی س ہولیات ف راہم ک ریں۔ح دیث کی تالش اور تخ ریج ک ا مع املہ بھی نیٹ نے بہت ٓاس ان کردی ا ہے۔
یہ صورت حال ہمارے اہل ح دیث م دارس کی ہے۔ممکن ہے بعض م دارس میں ص ورت ح ال اس س ے کچھ مختل ف ہ و اوروہ
پوری ذمہ داری سے کتب احادیث کی تدریس کاحق ادا ک رتے ہ وں،لیکن عم ومی ط ور پ ر ص ورت ح ال وہی ہے جوبی ان کی
سلفی مکاتب فکرکے عالوہ دوسرے مکاتب فکر میں ت دریس ح دیث کے ط رق واس الیب کچھ اس ط رح ہیں:بعض م دارس میں
کتب ستہ کے منتخب ابواب پڑھانے کی روایت پائی جاتی ہے۔جامعۃ الفالح بلریاگنج اور مدرسۃ االصالح سرائے میر میں ش اید
یہی ط ریقہ اپنای ا جات ا ہے۔ان م دارس کے اس اتذہ اور نص اب کی ت رتیب دی نے والے م اہرین کاخی ال ہے کہ اس ط رح ہم کتب
احادیث کے تمام ابواب کی تدریس میں کامیاب ہوجائیں گے اور طلبہ کے سامنے احادیث کے مختلف ابواب ٓاجائیں گے۔بہ ظاہر
یہ بات بہت معقول نظرٓاتی ہے اور اس طریقہ سے حدیث کے مختلف ابواب کی س یر ہوج اتی ہے لیکن اس ط ریقہ ت دریس کے
نتائج حوصلہ افزا نہیں ہیں۔طلبہ کے اندرحدیث میں وہ مہارت اور صالحیت پیدا نہیں ہوپاتی جو مطلوب ہے اور طلبہ نہ صرف
حدیث میں کمزور ہوجاتے ہیں بلکہ اس کی اہمیت اور تشریعی حیثیت بھی ان کے سامنے واض ح نہیں ہ وتی۔مزی د ب راں ح دیث
کی حجیت اوراس کی اس تنادی حی ثیت کے تعل ق س ے ان کے د ل میں ط رح ط رح کی غل ط فہمی اں راہ پاج اتی ہیں۔ان دون وں
اداروں کی قیادت چوں کہ تحریک اسالمی کے ہاتھوں میں رہی ہے اور تحریک کی اولین قیادت میں موالنا مودودی اور موالنا
امین احسن اصالحی کو نمایاں مقام حاصل رہا ہے اور ان دونوں حضرات ک ا نظ ریٔہ ح دیث ،مح دثین کے نظ ریہ س ے مختل ف
ہے،یہاں کے طلبہ چوں کہ ان دون وں حض رات کی تحری روں س ے اس تفادہ ک رتے ہیں ،اس ل یے ان کے نظ ریہ ح دیث میں نہ
صالبت پائی جاتی ہے اور نہ وسعت جو فہم حدیث کے لیے ضروری ہے بلکہ اس کے برعکس قرٓان وح دیث کے ب اہمی تعل ق
بعض مدارس میں تعلیم کے ٓاخ ری م رحلے میں دورہ ح دیث کی روایت ہے۔اس س ے پہلے کے مراح ل میں وہ فقہ کی مختل ف
کتابیں پڑھاتے ہیں اور جب طلبہ کی ذہن سازی مکمل ہوجاتی ہے توتبرک کے طور پر ح دیث ک ادور کرادی ا جات ا ہے۔یہ دورہ
حدیث بس قراۃ علیہ وانااسمع کا منظر پیش کرتا ہے۔استاذحدیث اگر کہیں تقری ر کرت ا بھی ہے توص رف وہ اں جہ اں ح دیث اس
کے مسلک کے خالف ہوتی ہے یاحدیث کی تاویل اپنے مسلک کے مطابق کرنے کی ضرورت محس وس ہ وتی ہے۔مزی د یہ کہ
طلبہ کو بتایا جاتا ہے کہ محدثین نے فقہا کی تائید میں م روی روای ات ک و ض عیف ق رار دے دی ا ہے،ان کے راوی وں پ ر ج رح
کردی ہے اور اس طرح مح دثین اور فقہ ا کودوحری ف کی ش کل میں پیش ک رکے طلبہ ک و ح دیث اور مح دثین کے ب ارے میں
بدگمان کردیا جاتاہے۔موالناانورشاہ کشمیری رحمہ ہللا ایک محدث کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں،انھوں نے فیض الب اری میں
مغرب سے قبل کی سنتوں کے بارے میں ایک بڑی عجیب بات یہ لکھی ہے کہ حضرت عب دہللا بن مغف ل م زنی رض ی ہللا عنہ
ﷺ نے فرمایا:ہراذان اور تکبیر کے درمیان نماز ہے۔یعنی ہللا کے نبی ﷺ نے مغرب سے
پہلے سنتیں پڑھنے کا حکم نہیں دیا ہے بلکہ ایک صحابی نے ایک عمومی حدیث سے یہ دوسری حدیث خود بنالی ہے۔بہ ظاہر
یہ بات بہت معمولی نظرٓاتی ہے لیکن اگر غور کیاج ائے ت و پ ورے ذخ یرہ ح دیث ک و مش تبہ بن انے کے ل یے ک افی ہے۔روایت
حدیث میں صحابہ کی احتیاط اور محدثین کی تمام خدمات جس کے سامنے ہوں گی ،کیا وہ اس طرح کی کمزور ب ات کہہ س کتا
ہے۔اس بات کوتسلیم کرلینے کے بعد کسی حدیث کو فرمان رسالت کہنا بھی مشکل ہوجائے گا کیوں کہ یہ اندیشہ الحق رہے گ ا
کہ کی ا معل وم ص حابی نے کس ی دوس ری ح دیث س ے اس تنباط ک رکے یہ ح دیث ازخ ود بن الی ہ و۔
ایک طویل عرصے سے کتب احادیث کی تدریس کے یہی طرق واسالیب اپنائے ج ارہے ہیں۔ان ط رق واس الیب کی اف ادیت بھی
ہے اور ان کے کچھ نقصانات بھی ہیں۔اس کاسب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اہم کتب احادیث تک طلبہ کی رس ائی ہوج اتی ہے اور
وہ ان کتابوں کے منہج تالیف وتصنیف سے واقف ہوجاتے ہیں۔چ وں کہ یہ کت ابیں امہ ات کتب ح دیثیہ میں ش مار ہ وتی ہیں ،اس
لیے احادیث میں زیر بحث ٓانے والے بیشتر موضوعات اور مضامین کی ایک سیر ہوجاتی ہے اور ذہین طلبہ ان سے کس ی ح د
تک واقف ہوجاتے ہیں۔افادیت کے اسی پہلو کے پیش نظر ہمارے یہاں کتب احادیث کی تدریس کا یہی طریقہ اپنایا گیا ج و ب ڑی
حد تک ٓاج بھی جاری ہے۔اس طریقہ تدریس میں س ب س ے ب ڑی کمی یہ ہے کہ ح دیث ک و ج واہمیت مل نی چ اہیے وہ نہیں م ل
پارہی ہے۔فقہ کادبأو اتنازیادہ ہے کہ طلبہ اسی کے ہوکے رہ جاتے ہیں بلکہ حدیث کے تعلق سے ان کے ذہنوں میں طرح طرح
کی غلط فہمیاں پی دا ہوج اتی ہیں اور تاحی ات وہ فقہ اور ح دیث کے ب اہمی تعل ق کی گتھی ک و س لجھا نہیں پ اتے۔ منتخب اب واب
پڑھانے میں ایک نقص ان یہ ہوت ا ہے کہ ب ار ب ار کی تک رار س ے اح ادیث جس ط رح دل ودم اغ میں س رایت کرج اتی ہیں اور
تے ہیں۔ روم رہ ے یہ طلبہ مح وب بھی ہے،اس س یے مطل وت کے ل وم نب ان عل جوطالب
اصول ح دیث کی کس ی ح دتک خ واہ وہ اص طالحات کی ح د ت ک ہی کی وں نہ ہ و،تعلیم وت دریس ہوج اتی ہے لیکن ح دیث کے
دوس رے مض امین جیس ے ت دوین ح دیث کی م رحلہ وار ت اریخ،ح دیث پ ر اعتراض ات اور ش بہات ک ا ج واب اورازالہ،ج رح
وتعدیل،رجال حدیث کے مختلف طبقات سے واقفیت،حدیث کی تخریج اور اس کی استنادی حیثیت کا تعین وغیرہ ہماری درسیات
کا حصہ نہیں ہیں۔حاالنکہ ان مضامین اور موضوعات کو پڑھے اور س مجھے بغ یرتفہیم ح دیث ک احق ادا نہیں کی ا جاس کتا ہے
اور نہ ان شبہات کودور کیا جاسکتا ہے جوحدیث کے تعلق سے بعض متجددین اور مستش رقین نے پھیالرکھے ہیں۔یہ مض امین
احادیث کاتتمہ کہے جاسکتے ہیں۔احادیث کی عظمت،معنویت اور اس کی استنادی حیثیت ان مضامین سے اج اگر ہ وتی ہے اور
حدیث کے تعلق سے جواعتراضات کیے جاتے ہیں،ان کا جواب بھی اسی وقت دینا ممکن ہے جب ان مضامین حدیثیہ سے طلبہ
اور بحمدہللا اس طریقہ تدریس سے استفادہ کرنے والے علما بھی ہمارے یہاں استاذ کی حی ثیت س ے موج ود ہیں ت و ک وئی وجہ
نہیں کہ اس کو نہ اختیار کیا جائے۔ہمارے یہاں کے طریقہ تدریس س ے اص ول ح دیث میں مجتہ دانہ بص یرت،تحقی ق س ندومتن
کاذوق،جرح وتعدیل کے اصول وضوابط سے کماحقہ واقفیت اور احادیث پر صحت وضعف کا حکم لگ انے کی ص الحیت س ے
طلبہ بالعموم عاری ہوتے ہیں۔حاالنکہ علوم حدیث کے ان شعبوں کی خصوصی اہمیت ہے ،ان کے بغیر ح دیث کی تفہیم اوراس
سے مسائل مستنبط کرنا دشوار ہے۔اس کی اہمیت اس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ بعض باطل پرست اور
شرک اور بدعت کے پرستار اپنی بدعات اوردیگر اوہام وخرافات ک و موض وع اور منک ر روای ات س ے م دلل ک رتے ہیں۔اس ی
طرح امت میں فقہی گروہ بندی کی ایک بڑی وجہ ضعیف اور غیر مستند روایات ہیں۔عالم ع رب میں اب یہ رجح ان ع ام ہوگی ا
ہے کہ ضعیف اور منکر روایات دلیل میں پیش نہیں کی جاتی ہیں اور ح دیث کے ح والے مکم ل تحقی ق وتخ ریج کے بع د دیے
جاتے ہیں لیکن برصغیر کی دینی ثقافت ابھی اس شیریں چشمے سے فیض یاب نہیں ہوپارہی ہے اور نہ اس منہج کو اپنا پ ارہی
ہے جو علمی دنیا میں معروف ہوچکا ہے۔موضوع اور منکر روایات سے امت کودور رکھ نے کے ل یے اس ی منہج کی پ یروی
میری بدقسمتی ہے کہ میں سعودی جامعات سے استفادے کی س عادت س ے مح روم ہ وں۔البتہ ج امعہ اس المیہ م دینہ من ورہ اور
جامعہ ام القری ،مکہ مکرمہ کے فارغین اور مستفیدین سے وہاں کے طریقہ تدریس کے بارے میں جو معلوم ات میں نے جم ع
کی ہیں اور انٹرنیٹ پر ان دونوں جامعات کا جونص اب تعلیم دس تیاب ہے،اس کامط العہ ک رنے کے بع د یہ پتاچلت ا ہے کہ وہ اں
کتابیں پڑھانے کی بجائے فن کی تعلیم دی جاتی ہے،چن داحادیث کام ذکرہ اس تاذتیار کرت ا ہے اور پھ ران کی اس ناد،راوی وں پ ر
ج رح وتع دیل،اح ادیث کے مش کل الف اظ کی تش ریح،اح ادیث میں تع ارض ہے،ت واس ک ودور ک رنے ک ا ط ریقہ،تط بیق دی نے
کاطریقہ،حدیث سے مستنبط احکام ومسائل،فقہائے اسالم کے نقطہائے نظر،ان کے دالئل اور مختلف فیہ مسائل میں راجح اقوال
کی تعیین وغیرہ بہت تفصیل سے کی جاتی ہے اورایک ایک حدیث کئی کئی اس باق پ ر مش تمل ہ وتی ہے۔اس تم رین اور مش ق
کے نتیجے میں طلبہ،کتب احادیث،کتب شروح حدیث ،کتب رجال،کتب ج رح وتع دیل،کتب مص طلحات ح دیث اور کتب مس الک
فقہ کی سیر اور ورق گردانی کرجاتے ہیں اور ان سے اپنے نصاب سے متعلق مواد جم ع کرلی تے ہیں۔اس تاذ ح دیث لکچ ر دیت ا
ہے اور بلیک بورڈ کا بھی استعمال کرتا ہے۔امتحانات بھی اسی معیار کے مطابق کرائے جاتے ہیں اوراس میں کسی ط رح کی
کوئی ڈھیل اور چھوٹ نہیں دی جاتی۔عالمہ البانی رحمہ ہللا نے تدریس حدیث کا جو طریقہ جامعہ اسالمیہ مدینہ منورہ میں اپن ا
یا تھا،کم وبیش ٓاج بھی وہی طریقہ رائج ہے۔اس میں استاذ کو طلبہ سے زیادہ محنت کرنی پڑتی ہے اور ت دریس ک ا م واد ب ڑے
اس کے عالوہ وہاں کے موضوعات میں سنت کی مرحلہ وار تدوین،سنت کی حجیت،منکرین حدیث اور مستشرقین کے ش بہات
واعتراضات کا جواب،جرح وتعدیل،تخریج حدیث ،حدیث پر صحیح ،حسن یا ضعیف ہونے کا حکم،مصطلحات حدیث اور وضع
اور وضاعون جیسے مضامین بھی شامل ہیں۔ان مضامین کی تدریس بھی استاذ کے اپنے تیار کردہ مذکرے س ے ہ وتی ہے اور
اس میں مضامین کے تمام گوشے شامل ہوتے ہیں۔مختص ر یہ کہ کلیۃ الح دیث میں پڑھ نے والے طلبہ چ ار س الوں میں ص حیح
معن وں میں مح دث بن ک ر س امنے ٓاتے ہیں اور ح دیث کے تم ام موض وعات پ ر ب ڑے اعتم اد کے س اتھ گفتگ و ک رتے ہیں۔
سعودی جامعات کے فارغین کی ایک بڑی تعداد ہمارے یہاں مدار س میں موجود ہے لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ انھوں نے
اب تک اس طریقہ تدریس ک و یہ اں رائج نہیں کی ا اور نہ طلبہ کی اس ط رف ک وئی رہنم ائی فرم اتے ہیں۔م دارس کی انتظ امیہ
اپنانصاب تعلیم تبدیل کرنے پر راضی نہیں اور اس اتذہ ح دیث اس ک ڑی محنت س ے جی چ راتے ہیں ج و س عودی جامع ات کے
اس اتذہ ح دیث پڑھ انے میں ک رتے ہیں۔ہم اے م دارس کے نظ ام میں اس کی گنج ائش موج ودہے کہ س عودی جامع ات کے کلیۃ
الحدیث سے جوعلما بی اے،ایم اے یا پی ایچ ڈی کرکے یہ اں کے م دارس میں اس تاذ کی حی ثیت س ے اپ نے ف رائض انج ام دے
رہے ہیں،وہ الگ سے طلبہ کی تربیت فرماسکتے ہیں اوران کے ان در ح دیث ک اذوق پی دا کرس کتے ہیں۔ذہین طلبہ کی رہنم ائی
اگراس انداز میں کی جائے تواس کافائدہ بھی ہوسکتا ہے اور اندرون مدرسہ ایک علمی فضاقائم ہوسکتی ہے۔لیکن اپنے مدارس
میں ہم استاذ کی بجائے مالزم کی حیثیت سے اپناوقت پورا کرتے ہیں۔مدارس کی انتظ امیہ س ے ش کایت بج ا ہے،ان کی ط رف
سے کئی طرح کی شکایات پیدا ہوتی ہیں لیکن ایک استاذکامقام ان تمام باتوں سے بہت بلند ہے۔وہ مس ند ت دریس پ ر ای ک م ربی
کی حیثیت سے بیٹھا ہے اور اسے اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طلبہ کی صالحیتوں کو نکھارنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
جب تک اجتماعی عمل جاری ہے،اس طرح کی شکایات کبھی بھی ختم نہیں ہوسکتی ہیں لیکن وقت گزر ج ائے گ ا اور ہم طلبہ
میں وہ باتیں منتقل نہیں کر پائیں گے جو ہم نے اپنے اساتذہ سے سیکھی ہیں ی ااپنے ذاتی مط العہ س ے حاص ل کی ا ہے۔علم دین
ایک ورثہ ہے۔اس کی حفاظت کرنا اور پوری ذمہ داری سے ٓانے والی نسلوں کو منتقل کردینا یہ ہمارادینی اور اخالقی فریض ہ
ہے۔اس پہلوسے جب بھی کوئی استاذسوچے گا تو طلبہ کے ساتھ کوئی خیانت نہیں کرپائے گا بلکہ اس کا ضمیر اندرسے اسے
ا۔ ار رکھے گ ادہ وتی ے ٓام ر برابراس ام دہی پ رائض کی انج نے ف ا اوراپ رے گ مالمت ک
قرٓان حکیم کی طرح احادیث نبویہ شریعت کا بنیادی اور اور اہم ماخذ ہیں۔مدارس میں زیر تعلیم طلبہ اور ان کے مح ترم اس اتذہ
سے یہ توقع بجا طور پر کی جاسکتی ہے کہ وہ حدیث کی تعلیم ،تدریس اور تفہیم کی ذمہ داریوں س ے عہ دہ ب رٓا ہ وں گے۔ج و
طریقہ تدریس اور نصاب ہمارے موجودہ مدارس میں مروج ہے،اس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔جو کتب ح دیث زی ر
درس ہیں،ان کواستاذ ہی حرفا ً حرفا ً پڑھائے گا،یہ ممکن ہی نہیں ہے بلکہ ہمیں چاہیے کہ ہم کتب حدیث کے مختلف ابواب س ے
اح ادیث منتخب ک ریں،کچھ اح ادیث کامط العہ طلبہ خ ود ک رکے ٓائیں اور کچھ کی تش ریح اس تاذ ک ریں۔اس کے ل یے طلبہ کے
سامنے وہ کتب احادیث ہوں جن پر احادیث کے نمبرات پڑے ہوئے ہیں اور جن کو بہت واض ح اور ص اف ان داز میں ش ائع کی ا
گیا ہے۔ہمارے یہاں ابھی تک مدارس میں وہی بڑے سائز کی کتب احادیث طلبہ کو فراہم کی جاتی ہیں جن میں نہ پیراگراف ہیں
اور نہ رموزاوقاف۔کتابوں کے ایڈیشن تبدیل کرنا انتہائی ضروری ہے۔بہتر ہوگا کہ جیس ے ہی ک وئی نی ا عن وان(کت اب) ش روع
ہو،استاذ ان احادیث پر نشان لگوادے جسے اسے پڑھانا ہے اور ان کی بھی نشان دہی کردے جن کو طلبہ کواز خ ود پڑھن ا ہے۔
طلبہ کی ذمہ داری ہ وگی کہ کالس میں وقفہ کے دوران مش کل مقام ات کی وض احت اس تاذ س ے طلب ک رلیں اوراس ط رح ان
احادیث کی تفہیم مکمل ہوجائے۔ورنہ صرف ایک سال کے دورانیہ میں صحیحین کی جل د اول کی ت دریس اس ی ان دازمیں ہ وتی
ا۔ مجھ میں کچھ نہیں ٓائے گ وگی اور س وانی ہ ارت خ رف عب رہے گی کہ ص
یہاں کے مدارس کے نظام میں ایک گنجائش یہ بھی نکالی جاسکتی ہے کہ طلبہ کو ہوم ورک دی ا ج ائے اور یہ ہ وم ورک ک ئی
طرح کا ہو۔مثال کے طور پر پانچ ایسی احادیث کاانتخاب کیا جائے جو کتب ستہ میں مشترک ہیں۔طلبہ سے کہا جائے کہ وہ م ع
سندومتن کے ان کی تخ ریج ک رکے الئیں۔اس تاذ المعجم المفہ رس اللف اظ الح دیث کھ ول ک ر پہلے طلبہ ک و یہ بت ادے کہ اس کی
تصنیف وترتیب کس نوعیت کی ہے ،کسی حدیث تک اس معجم کے ذریعے کیسے پہنچاجاسکتا ہے،پھر استاذ یہ بھی بت ائے کہ
حدیث کا مضمون دیکھ کر کیسے اندازہ کیا جائے کہ یہ حدیث ترمذی میں کہاں مل سکتی ہے۔مظان تک پہنچنے کی مش ق بہت
اہمیت رکھتی ہے۔طلبہ کا ہوم ورک چیک کیا جائے اور پھراسی کے سہارے یہ بتانآاسان ہوجائے گا کہ سندوں ک ااختالف کہ اں
کہاں ہے،شاہد اور متابع کیا چیز ہے،ثقہ کااضافہ کیا ہے۔محدثین کتب ستہ نے ان احادیث کو کن کن ابواب میں درج کیا ہے اور
ان سے کون کون سے مسائل مستنبط کیے ہیں۔ہوم ورک ک ا تص ور ہم ارے م دار س میں نہیں ہے،اس ل یے ممکن ہے کہ ابت دا
میں مشکالت پیش ٓائیں لیکن ٓاہستہ ٓاہستہ ہم ان مشکالت پر قابو پ الیں گے اور ح دیث کی تعلیم وت دریس بہ تر ط ریقے پ ر انج ام
اسماء الرجال کافن ہمارے طلبہ کے لیے بالکل اجنبی ہے،وہ اس سے بالکل واقف نہیں ہیں حاالنکہ یہ ایک دل چس پ موض وع
ہے اور طلبہ کی رہنمائی کی جائے تووہ اس سے محظوظ بھی ہوں گے۔ یہ اں بھی ہ وم ورک ک اطریقہ اپنای ا جاس کتا ہے۔مث ال
کے طور پر سنن ابودأود کی ایک ایک حدیث کی سند کالس کے تمام طلبہ میں تقسیم کردی جائے اور ان سے کہا جائے کہ ہ ر
راوی کا ترجمہ تہذیب یا تقریب سے لکھ کر الئیں۔جب طلبہ رجال کی ان کتابوں میں راویان ح دیث ک ا ت رجمہ تالش ک ریں گے
توانھیں یہ معلوم ہوگا کہ راوی کاصحیح نام کیا ہے،اس کے اس اتذہ ک ون ہیں،کن تالم ذہ نے اس س ے ح دیث روایت کی ہے،وہ
کس طبقے کاراوی ہے،ائمہ جرح وتعدیل نے اس کے بارے میں کی ا رائے دی ہے اور کن کن لفظ وں میں دی ہے۔جب س ارے
طلبہ ہوم ورک مکمل کرلیں تواستاذ ایک ایک کی ک اپی دیکھت ا ج ائے اور رج ال کے تعل ق س ے وہ تم ام ب اتیں انھیں س مجھاتا
جائے جن کا تعلق اس فن سے ہے۔کسی ای ک کالس میں اس ک اعملی تج ربہ ک رکے دیکھ ا ج ائے اور پھ ر طلبہ کے ان در پی دا
ہونے والی تبدیلی اور ان کے اندر رونما ہونے والے ج ذبے ک ا ج ائزہ لی ا ج ائے ت و پت اچلے گ ا کہ ہم نے طلبہ کے ان در ای ک
خ اص قس م ک اذوق پی دا کردی ا ہے۔اب اگرانھ وں نے یہ سلس لہ ج اری رکھ ا ت و فن ح دیث میں وہ اختص اص ک ا درجہ حاص ل
کرسکتے ہیں۔اسی طرح حدیث کے بعض دوسرے مضامین بھی ہوم ورک کے ذریعے طلبہ کے ذہن نشین کرائے جاسکتے ہیں
ا۔ ڑے گ اپ اتھ لگارہن ڑے گی اور طلبہ کے س رنی پ ڑی محنت ک تاذکو ک لے میں اس لیکن اس سلس
سلفی مدارس میں تخصص فی الحدیث کاشعبہ قائم کیا جانا ضروری ہے۔علوم حدیث کی تمام ش اخوں س ے واقفیت درس نظ امی
کے موجود ہ ومروج نظام ونصاب میں تقریبا ً ناممکن ہے۔دوسرے فنون کے ساتھ اس کی گنج ائش بھی مش کل ہے لیکن اس ک ا
یہ مطلب نہیں کہ تفس یر،فقہ اور ادب کے ش عبہائے تخص ص غ یر ض روری ہیں،و ہ بھی ض روری ہیں ۔کی ا ہی بہ تر ہوت ا کہ
ہمارے یہاں چوں کہ اب بحمدہللا کئی ایک بڑے عربی مدارس موجود ہیں،ان کی موقر انتظامیہ اور سینئر اساتذہ م ل بیٹھ ک ر یہ
طے کرلیتے کہ کون سے مدارس تخصص کا کون ساشعبہ کھولیں گے۔اس طرح یہ کام جو بہ ظاہر مشکل نظ ر ٓارہ ا ہےٓ،اس ان
ہوجات ا۔ج امعہ س لفیہ بن ارس،ج امعہ اس المیہ س نابل،ج امعہ محم دیہ مالیگ أوں،ج امعہ دارالس الم عمرٓاب اد،ج امعہ س راج العل وم
جھنڈانگر،جامعہ فیض عام مئو،جامعہ عالیہ عربیہ مئو،جامعہ اثریہ دارالحدیث مئو،جامعہ اسالمیہ دریاباد،ج امعہ ام ام ابن تیمیہ
اور جامعہ امام بخاری کشن گنج اپنے وسائل اور تعلیمی معیار کے لحاظ سے اس قابل ہیں کہ وہ تخص ص ک ا ک وئی بھی ش عبہ
قائم کرسکتے ہیں اور اسے کامیابی کے ساتھ چالسکتے ہیں۔مشکل یہ ہے کہ ان م وقر جامع ات کے درمی ان علمی رواب ط نہیں
ہیں اور نہ ہم اس کے لیے کوئی کوشش کرتے ہیں کہ درس وتدریس اور تعلیم وتعلم کے مس ائل ک و ای ک دوس رے س ے ش یئر
ود میں الئیں۔ و وج ام ک تحکم نظ ک مس ریں اور ای ک
تخصص فی الحدیث کاشعبہ کھولے بغیر عل وم ح دیث میں وہ مہ ارت پی دا نہیں ہوس کتی ج و مطل وب ہے۔ممکن ہے بعض طلبہ
اپنی ذاتی محنت سے اسی نظام میں رہتے ہوئے وہ صالحیت پی دا ک رلیں ج و علم ح دیث کے ل یے ض روری ہے لیکن یہ ای ک
استثنا ہوگا،اس کومثال نہیں بنایا جاسکتا اور ایساشاذ ونادر ہی ہوت ا ہے۔دوس الہ تخص ص کے اس نص اب میں ہم تم ام ض روری
عل وم ح دیث پڑھاس کتے ہیں اور طلبہ کی مش ق بھی ک رائی جاس کتی ہے کہ وہ اح ادیث کی تخ ریج کرس کیں اوران پ ر حکم
لگاسکیں۔احادیث سے مسائل کااستنباط ایک بڑامسئلہ ہے۔اس شعبے میں جمود طاری ہے اور ہمارا یہ دعوی کمزور نظرٓاتا ہے
کہ مسائل حیات کتاب وسنت سے طے کیے جاسکتے ہیں۔محدثین عظام نے اپنی تبویب سے جو راہ دکھائی تھی،اس پر ک اروان
حدیث کو لے کر چلنا اسی وقت ممکن ہے جب ہم ان اصولوں سے واقف ہوجائیں جن کو اس تعمال ک رکے اح ادیث س ے مس ائل
کااستنباط کیا جاتا ہے۔اس وقت عالم عرب میں بھی اس پہلوس ے ک ام نہیں ہورہ ا ہے۔ابھی ت ک ج و علمی ک ام ہ وئے ہیں ان کی
نوعیت مخطوطات کی تحقیق،تخریج اوران کی اشاعت ہے،اسی طرح ج و کتب اح ادیث ش ائع ش دہ تھیں،ان کی تحقی ق وتخ ریج
ہوئی ہے،حدیث کی صحت اور ضعف کامسئلہ بھی بڑی حد تک واضح ہ وا ہے اور ح والہ دی تے ہ وئے ح دیث ک ادرجہ اس تناد
متعین کرنے کی روایت بھی عام ہوئی ہے۔اپنے میں خود یہ ایک بڑا کام ہے۔اس پہلوسے ہمیں برصغیر میں بھی کام کرنے کی
ضرورت ہے۔ہم ارے یہ اں جن مص نفین کی کت ابیں زی ادہ پ ڑھی ج اتی ہیں،ان کی کت ابوں میں جواح ادیث درج ہیں،ان ک ادرجہ
استناد متعین کرنے کی ضرورت ہے۔جامعہ اسالمیہ دریاباد کے ترجمان احتساب بلکہ اس تدراک نے اس پہلوس ے دی نی رس ائل
وجرائد کا محاسبہ شروع کیا تو لکھنے والے محتاط ہوگئے اوراب وہ حدیث درج کرنے س ے پہلے اس کی ص حت اور ض عف
کو دیکھ لیتے ہیں۔اسی طرح عالمہ شبلی،عالمہ سیدسلیمان ندوی ،موالناعلی می اں ن دوی،موالنااش رف علی تھ انوی وغ یرہ کی
اردو تصانیف کا محاسبہ اگر ہوجائے تو مصنفین محتاط ہوجائیں گے اور ضعاف اور منکرات سے استدالل کرنے کاسلسلہ رک
جائے گا۔عوام میں جو کتاب مقبول ہواور جس سے لوگ زیادہ استفادہ کرتے ہوں،اس میں درج احادیث کی تحقیق وتخریج ای ک
صحت مند عمل ہے،سید سابق کی فقہ السنۃ ،ڈاک ٹر یوس ف قرض اوی کی الحالل والح رام اور موالن ا م ودودی کے الحج اب کی
تخریج وتحقیق عالمہ البانی نے اسی نقطہ نظرسے کی تھی۔بہشتی زیور،تبلیغی نصاب(فضائل اعمال)س یرۃ الن بی اورالمرتض ی
وغ یرہ کت ابوں کی تحقی ق وتخ ریج ہوج اتی ت و پتاچلت ا کہ ان میں درج روای ات اوراح ادیث کی اس تنادی حی ثیت کی ا ہے۔
سلفی مدارس کو یہ کام اپنے ہاتھ میں لینا ہوگا کیوں کہ محدثین کے منہج مستقیم سے انہی کی فک ری ہم ٓاہنگی ہے اور وہی اس
کا حق بھی ادا کرسکتے ہیں۔حدیث کی حجیت اوراس کی استنادی حیثیت کو یوں تواہل سنت کے تمام مکاتب فک ر تس لیم ک رتے
ہیں لیکن جب بات فقہ کے اصولوں کی ٓاتی ہے ت و اس پ ر نظ ر ث انی ک رنے کے ل یے ک وئی تی ار نہیں ہوت ا۔ح دیث کی ت او ی ل
ہوسکتی ہے،بعض فقہی اصولوں کاسہارا لے کر اسے خبر واحد قرار دے ک ر رد بھی کی ا جاس کتا ہے لیکن مت اخرین متکلمین
اوراصولیوں کے وضع کردہ اصول وض وابط پ ر نظ ر ث انی نہیں کی جاس کتی۔موالن ا اب راہیم س یالکوٹی نے ت اریخ اہ ل ح دیث
میں،موالناعب دالعزیزرحیم ٓاب ادی نے حس ن البی ان میں،موالن ا عبدالس الم مب ارکپوری نے س یرۃ البخ اری میں اور
موالنامحمداسماعیل گوجرانوالہ نے حدیث سے متعلق اپنے بعض مقاالت ومضامین میں فقہ حنفی کے ایسے بہت سے اص ولوں
کی نش ان دہی کی ہے جن کی وجہ س ے بہت س ی اح ادیث رد ہوج اتی ہیں اور ان ک و ناقاب ل حجت ق رار دے دی ا جات ا ہے۔
صحیح احادیث کو نظر انداز کرکے ضعیف،منکر اور موضوع روایات کوج و ل وگ ع وام میں پھیالتے اور ع ام ک رتے ہیں،ان
کے دالئل اگر ٓاپ سنیں گے تو حیرت زدہ رہ جائیں گے۔پہلے تو یہ کہا جاتارہا کہ فضائل اعمال اور ت رغیب وت رہیب کے ب اب
میں ضعیف روایات قابل قبول ہوتی ہیں لیکن جب علمائے متق دمین کی تحری ریں س امنے ٓائیں کہ یہ ب ات عم ومی نہیں ہے بلکہ
اس کی کئی ایک شرطیں ہیں ،ان کو مدنظر رکھے بغیر ضعیف روایات پیش کرن ا درس ت نہیں ہے۔اس کے بع د یہ کہ ا گی ا کہ
کسی حدیث پر صحت اور ضعف کا حکم لگانا ایک اجتہادی مسئلہ ہے،اس میں ٓارا مختلف ہوسکتی ہیں لیکن جب یہ بتایا گیا کہ
ماہرین حدیث ہی کی ٓارا اس معاملے میں حجت ہوں گی،جو حدیث سے سروکار نہیں رکھتے،ان کی ب ات ص حت وض عف کے
معاملے میں قطعی حجت نہیں ہے،اس سلسلے میں موالناعب دالحئی ف رنگی محلی اور بعض دوس رے حنفی علم ائے ح دیث کی
ٓاراسامنے الئی گئیں تو یہ طوفان کچھ تھما لیکن اب یہ کہا جارہا ہے کہ عالمہ الب انی رحمہ ہللا نے س نن اربعہ کی ص حیح اور
ضعیف کے اعتبارسے تقسیم کرکے غلطی کی ہے،انھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے،اگرح دیث ض عیف ہے ت واس س ے کی ا ہوت ا ہے
،وہ حدیث تو ہے ،کیا ضعیف والدین کو کوئی اپنے گھرسے نکال دیتا ہے۔ضعیف تو مزید ہماری ت وجہ ک ا مس تحق ہوت ا ہے ۔یہ
خالص جاہالنا بات ہے لیکن ہندوستانی عوام جو فن حدیث کے ابجد سے بھی واقف نہیں ہے،اس ک و بہک انے اور گم راہ ک رنے
کے لیے اہل بدعت ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں۔خوف خداسے بے نیاز ہوکرعلم وفن کی حرمتوں ک و پام ال کرن ا
بائیں ہاتھ کا کھیل بن گیا ہے۔ اب وقت ٓاگیا ہے کہ خالص فنی چیزوں س ے بھی ع وام ک و متع ارف کرای ا ج ائے اور جدی د تعلیم
یافتہ ذہنوں میں علوم حدیث کی بنیادی باتیں ڈالی جائیں۔علم بڑھ رہا ہے،اس کادائرہ بھی وسیع ہورہا ہے ،ک وئی وجہ نہیں کہ فن
حدیث کی اہم اور بنیادی باتوں سے اب بھی عوام کوان دھیرے میں رکھ ا ج ائے۔ میں نے علی گ ڑھ مس لم یونیورس ٹی کے طلبہ
میں ذاتی طور پر تجربہ کیا ہے کہ جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کے سامنے جب بلیک ب ورڈ کی م دد س ے اص ول ح دیث کی بہت
سی باتوں کی مثالوں کے ذریعے تفہیم کرائی گئی تو نہ صرف انھوں نے اسے س مجھا بلکہ ح دیث کی عظمت بھی ان کے د ل
میں بیٹھی اورانھیں یہ ادراک ہ واکہ فن ح دیث پ ر ہم ارے اس الف نے کس ق در محنت کی ہے اوراس ے کن کن پہل ووں س ے
جانچ ااور پرکھ ا ہے۔س ند کی اہے،متن کس ے کہ تے ہیں،راوی ک ون ہ وتے ہیں،کتب س تہ کی ہ ر ح دیث کے ل یے س ند موج ود
ہے،صحیح حدیث کی تعریف کیا ہے،حسن کسے کہتے ہیں اور ضعیف و موضوع ح دیث کی ا ہے اور ک وئی ح دیث ض عیف ی ا
موضوع کیسے ہوتی ہے،محدثین اس پر حکم کیسے لگاتے ہیں۔ڈھائی ڈھائی گھنٹوں کے دو لیکچر میں ان پہلووں ک و س مجھایا
گی ا توعص ری تعلیم ی افتہ طلبہ نے اس س ے بہت کچھ س یکھا اور ان کی بہت س ی غل ط فہمی اں دور ہ وئیں۔منک رین ح دیث نے
احادیث کی تعداد کو لے کر ہوا کھڑا کیا ہے اور سیدناابوہریرہ رضی ہللا عنہ سے حدیث کی ات نی ب ڑی تعدادکیس ے م روی ہے
جب کہ وہ فتح خیبر کے موقع پراسالم الئے تھے۔جب انھیں بتایا گیا کہ محدثین متن کی بنیاد پر نہیں سند کی بنیاد پر احادیث کو
شمار کرتے ہیں اورایک ایک متن حدیث پچاس پچ اس اور سوسوس ندوں س ے م روی ہے ت وان کی غل ط فہمی دور ہ وئی۔اس ی
طرح تین سال کا موقع سیدناابوہریرہ کو مال،تین سالوں میں ایک ہ زار س ے زی ادہ دن ہ وتے ہیں،ہ ر دن پ ر ان کی مروی ات ک و
تقسیم کردیا جائے تو روزانہ حدیث سننے اور یاد کرنے کی تعداد پانچ چھ رہ جاتی ہے،کیااتنی حدیث کاروزانہ ی اد کرن ا ک وئی
مشکل کام ہے۔ ۵۹ھ میں ان کی وفات ہوئی اور ساڑھے ٓاٹھ سوسے زیادہ لوگوں نے ان سے حدیث روایت کی ہے۔جب ت ک علم
نہیں ہوتا لوگ حدیث کے بارے میں شبہات پیدا کرتے رہتے ہیں لیکن اگرٓاپ عام لوگوں کواس پہلوسے معلوم ات ف راہم ک ردیں
اس دور میں عالمہ البانی رحمہ ہللا کا جوعظیم علمی کام دنیا کے سامنے ٓایا ہے،اس سے حدیث کی عظمت میں اضافہ ہ وا ہے
اور ع ام لوگ وں کارجح ان اس کی ط رف ہ وا ہے۔ہم ارے طلبہ عالمہ الب انی رحمہ ہللا کے اس لوب اور ان کے ط ریقہ تحقی ق
وتخریج س ے ن اواقف ہیں۔یہی وجہ ہے کہ وہ ان کی کت ابوں س ے پ ورے ط ور پ ر مس تفید نہیں ہوپ اتے۔اس ب ابت بھی طلبہ کی
رہنمائی کی جائے اور عالمہ البانی کی کتابیں مدارس کی الئبریریوں میں فراہم کی جائیں۔عالم عرب میں اس وقت عالمہ الب انی
پر کئی جہتوں سے کام ہورہا ہے،ان کی فقہی تحقیقات کوالگ سے شائع کیا جارہا ہے،بدعات کی جو نشان دہی انھ وں نے اپ نی
کتابوں میں کی ہے،اسے الگ سے ابوعبیدہ مشہورحسن سلمان حفظہ ہللا نے ’’قاموس البدع ‘‘کے ن ام س ے م رتب کردی ا ہے ۔
پاکستان سے اس کااردو ترجمہ بھی شائع ہوگیا ہے اور ہندوستان سے اسے مکتبہ فہیم نے بھی شائع کی ا ہے۔اس ی ط رح انھ وں
نے جن راوی ان ح دیث پ ر تبص رے ک یے ہیں،ان ک و بھی کت ابی ص ورت میں م رتب کردی ا گی اہے۔ان کے فت اوی اور دوس ری
تحریروں کو بھی جمع کیا جاچکا ہے۔صحیحہ اور ضعیفہ کے دونوں سلسلوں کے فوائد حدیثیہ کو بھی م رتب کردی ا گی ا ہے۔ان
کی حیات وخدمات پر درجن بھر سے زیادہ کتابیں شائع ہوچکی ہیں۔ طلبہ میں مطالعہ کا ذوق پیدا کیا جان ا ض روری ہے۔ان کی
انجمن کی الئبریری میں کتابوں کی فراہمی میں کوئی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے ۔مدارس کے موجودہ نص اب اور نظ ام تعلیم میں
کتے ہیں ۔ تر بناس و بہ دریس ک دیث کی تعلیم اور ت ے ہم ح وں س رح کی کوشش اس ط
ایک ٓاخری بات مدارس نسواں سے متعلق عرض کرنی ہے کیوں کہ وہ بھی اب ہمارے تعلیمی نظ ام کاای ک ہم حص ہ بن چکے
ہیں اور ان میں بھی حدیث کی تدریس ہوتی ہے۔مدارس نسواں کانصاب عام مدارس کے مقابلے میں مختصر ہوناچاہیے اور اس
ر بھی۔ و اور مختص ان بھی ہ وں کے ل یے ٓاس رتیب دیاجاناچ اہیے ج و بچی یے کچھ ایسانص اب ت کے ل
نسواں مدارس میں عام مدارس کی طرح کتب احادیث کی ت دریس ک وئی ٓاس ان ک ام نہیں ہے۔بہ تر ہوگ ا کہ کتب س تہ کے منتخب
ابواب کوان کے نصاب میں شامل کیا جائے اور اس میں بھی خواتین کی ضروریات کو پیش نگاہ رکھا ج ائے۔ابھی ت ک نس واں
مدارس میں عربی زبان کا معاملہ بہت کمزور ہے۔اس کی وجہ کیا ہے،اس کو معلوم کرکے اس کمی کو پورا کرنے کی کوشش
ضروری ہے۔کیا ہی بہتر ہوتا کہ تعلیم کے مختلف مراحل کے لیے احادیث کا مذکرہ تیار کردیا جاتا اوراسی کے سہارے بچیوں
کو حدیث پڑھائی جاتی۔خواتین کے تعلق سے اح ادیث نب ویہ کاانتخ اب اس م ذکرے کی ت رجیح ہ وتی اور وہ اپ نے مس ائل س ے
مکمل ط ور پ ر ٓاگ اہ ہ وتیں۔خ واتین کی تعلیم وت ربیت اس ی ط رح ض روری ہے جس ط رح م ردوں کی ض روری ہے لیکن اس
کامطلب یہ نہیں کہ خواتین اپنے وظیفہ حی ات س ے غاف ل اوربے گ انہ ہوج ائیں ی اان ک و اپ نے ف رائض انج ام دی نے میں ک وئی
دشواری پیش ٓائے۔ہماری توقعات تو یہ ہیں کہ ایک تعلیم یافتہ عورت اپنے شوہر اوراپنے بچوں کی بہتر طریقے پ ر دیکھ بھ ال
کرسکے گی اور امور خانہ داری میں طاق ہ وگی ،عزی زوں اور رش تہ داروں کے س اتھ اپ نے گھ ر کاص حیح ت ال می ل بن ائے
رکھے گی لیکن موجودہ صورت حال بہت زیادہ حوصلہ افزا نہیں ہے بلکہ نتائج اس کے برعکس سامنے ٓارہے ہیں۔امور خ انہ
داری کی تربیت بھی بچیوں کو دی جاتی ہے لیکن وہ اس میں بھی کوئی امتیاز پیدا کرنے میں ناکام ہیں۔ص حابیات اور دوس ری
ممتاز خواتین کی سیرت کامطالعہ بھی ان کے نصاب کاحصہ ہونا چاہیے ت اکہ ان کی ذہن س ازی ہوس کے اور وہ ای ک ذمہ دار
اسالم کی نمائندہ خاتون کی صورت میں سماج میں اپنااہم کردار ادا کرسکیں۔
نام:
قلمی نام:
رفیق احمد رئیس سلفی
پیدائش:
مقام :موضع گورا بھاری ,تحصیل تلسی پور ,ضلع بلرام پور ,یوپی
تعلیم:
مشغلہ:
دعوت و تبلیغ
اسماعیل گوجرانوالہ ,نذیر احمد املوی ,عطاءہللا حنیف بھوجیانی ,محمد حنیف ندوی ,اسحاق بھٹی ,عبدالماجد دریابادی ,سید سلیمان ندوی ,شبلی
نعمانی ,علی میاں ندوی ,موالنا مودودی ,امین احسن اصالحی ,صدرالدین اصالحی ,سیدجالل الدین عمری ,ہندوپاک کے مشہور اردو ادباء
پسندیدہ کتابیں:
تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی ہللا کی تجدیدی مساعی ,اہل حدیث اور سیاست ,اساسیات اسالم ,کتب تذکرہ وسوانح موالنا اسحاق بھٹی ,رحمۃ
للعالمین ,الرحیق المختوم ,سیرۃ النبی ,آپ بیتی ,انسانی دنیا پر مسلمانوں کے عروج و زوال کا اثر ,پردہ ,سود ,الجہاد فی االسالم ,تفہیم القرآن ,تدبر
قرآن ,اساس دین کی تعمیر ,اسالم اور جاہلیت ,مطالعہ تصوف کتاب و سنت کی روشنی میں ,پرانے چراغ ,تزکیہ نفس ,دعوت دین اور اس کا
کاشانہ زہراء ,سلفیہ کامپلیکس ,ہمدرد نگر (بی) ,علی گڑھ – 202002
رابطہ:
9219789483
7906750978
hrafeeque@yahoo.in