Professional Documents
Culture Documents
سلطنت عثمانیہ کی متنازع روایت
سلطنت عثمانیہ کی متنازع روایت
،تصویر کا کیپشن
سنہ 1595کا ایک دن۔ سلطنت عثمانیہ اپنے عروج پر ہے۔ یہ وہ دن ہے جب اس وقت کی سپر پاور کا اقتدار سلطان مراد
سوم کے انتقال پر ان کے بیٹے Wمحمت کو مل چکا ہے جو اب سلطان محمت سوم ہیں۔
لیکن اس دن کو تاریخ میں جس وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے وہ شاید استنبول میں شاہی محل میں نئے سلطان کی آمد سے
زیادہ وہاں سے 19شہزادوں کے جنازوں کا نکلنا تھا۔ یہ جنازے نئے سلطان محمت سوم کے بھائیوں کے تھے جنھیں
سلطنت میں اس وقت رائج بھائیوں کے قتل کی شاہی روایت کے تحت نئے سلطان کے تخت پر بیٹھتے ہی باری باری گال
گھونٹ کر ہالک کر دیا گیا تھا-
گڈون نے
سلطنت عثمانیہ کی تاریخ پر مبنی کتاب ’الرڈذ آف دی ہورائزنز` (مشرق اور مغرب کے آقا) میں مصنف جیسن ِ
تاریخ کے مختلف ذرائع کے حوالے سے شہزادوں کی ہالکت کی روداد بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ شہزادوں کو ایک
ایک کر کے سلطان کے سامنے الیا گیا۔
ان میں سے عمر میں سب سے بڑے شہزادے نے جو خوبصورت اور صحت مند جسامت کا مالک تھا التجا کی کہ
’میرے آقا ،میرے بھائی ،جو اب میرے والد کی جگہ ہو میری زندگی اس طرح مت ختم کرو -غم سے نڈھال سلطان نے
اپنی داڑھی نوچ لی لیکن جواب میں ایک لفظ نہ بوال۔‘
جیسن اس دن کا ذکر جاری رکھتے ہوئے لکھتے ہیں کہ گلیوں میں یہ جنازے جاتے ہوئے دیکھ کر استنبول کے شہریوں
کے دل ہل گئے تھے۔
مؤرخ لیسلی پی پیئرس نے اپنی کتاب ’امپیریئل حرم :ویمن اینڈ سورینٹی ان دی اوٹومن ایمپائر` میں اس زمانے میں تیار
کی گئی ایک رپورٹ کا حوالہ دیا ہے کہ سلطان مراد سوم کے جنازے کے ایک روز بعد ہی ان کے 19شہزادوں کے
جنازوں کے موقع پر استنبول کے شہریوں کی دوگنی تعداد باہر آئی تھی اور ’ہر آنکھ اشکبار تھی۔`
،تصویر کا ذریعہDE AGOSTINI PICTURE LIBRARY
،تصویر کا کیپشن
سلطان مراد کے والد سلطنت عثمانیہ کے 11ویں سلطان سلیم دوئم کا سنہ 1574میں 50برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔
(اس سال سلطنت عثمانیہ نے شمالی افریقہ میں تیونس بھی فتح کر لیا تھا۔)
سلطنت کی باگ ڈور ان کے سب سے بڑے بیٹے Wمراد سوئم کے ہاتھ آئی جو اپنے بعد والے بھائی سے 20سال بڑے
تھے اور ان کی جانشینی کو بظاہر کسی سے خطرہ نھیں تھا۔ لیکن پھر بھی ،فنکل لکھتی ہیں ،انھوں نے اپنی تخت نشینی
پر اپنے سب بھائی مروا دیے اور جنھیں پھر اپنے والد سلطان سلیم دوم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
مؤرخ کیروالئن فنکل نے اپنی کتاب ’عثمان کا خواب :سلطنت عثمانیہ کی کہانی ‘1923-1300میں سلطان سلیم دوم کے
یہودی طبیب ڈومینیکو ہیروسولیمیتانو کے حوالے سے شہزادوں کی ہالکت کا منظر کچھ یوں بیان کیا’ :لیکن سلطان مراد
نے ،جو بہت رحم دل تھے اور خون بہانا برداشت نھیں کر سکتے تھے ،اٹھارہ گھنٹے انتظار کیا ،اس دوران وہ تخت پر
بیٹھے اور نہ ہی شہر میں اپنی آمد کا اعالن کیا اور اپنے 9بھائیوں کی جان بچانے کے طریقوں پر غور کرتے رہے۔۔۔
سلطنت عثمانیہ کے قانون کی خالف ورزی کے ڈر سے انھوں نے روتے ہوئے اپنے (خاص طور پر اس کام کے لیے
تیار کیے گئے گونگے بہرے) اہلکاروں کو شہزادوں کا گال گھونٹ کر ہالک کرنے کے لیے روانہ کر دیا اور اس کام
کے لیے ان اہلکاروں کے انچارج کو اپنے ہاتھوں سے نو رومال دیے۔‘
’مراد اور محمت کے بھائیوں کی چھوٹی چھوٹی قبریں بتاتی ہیں کہ سلطنت میں اس افراتفری سے بچنے کی کیا قیمت ادا
کی گئی جو اکثر کسی نئے سلطان کی تخت نشینی کے وقت پیدا ہوتی تھی۔‘
درجنوں شہزادوں اور شہزادیوں کی ان ہالکتوں کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ یہ شہزادوں کا مارے جانا کسی بغاوت یا
کسی اور جرم کا نتیجہ نھیں تھا بلکہ ان میں سے کچھ تو غلطی کرنے کے قابل بھی نہیں تھے۔
جس قانون یا روایت کے تحت ان شہزادوں اور شہزادیوں کو ہالک کیا گیا اس کی بنیاد تقریبا ً ایک سو سال قبل 15ویں
صدی میں سلطان محمت دوم کے دور میں رکھی گئی تھی جنھوں نے سنہ 1481میں اپنی موت سے چند برس قبل ہدایت
دی تھی جس کے تحت نیا سلطان اپنے بھائیوں کو ہالک کر سکتا تھا۔
فنکل نے لکھا ہے کہ سلطان محمت دوم نے اپنا جانشیں نامزد نھیں کیا تھا لیکن انھوں نے اپنے انتقال سے کچھ سال قبل
جانشینی کے بارے میں اپنے خیاالت کا اظہار کر دیا تھا،جس میں انھوں نے یہ کہتے ہوئے بھائیوں کو مارنے کی
باقاعدہ اجازت دی کہ ان کا جو بھی بیٹا سلطان بنے وہ ٹھیک کرے گا ،اگر وہ دنیا کی بہتری کے لیے باقیوں کو ہالک کر
دیتا ہے۔
ترکی میں تاریخ اور قانون کے ایک استاد پروفیسر ڈاکٹر اکرم بورا اکنجے نے اس روایت کے بارے میں اپنے ایک
مضمون میں لکھا کہ سلطان محمت دوم کے اپنے الفاظ میں یہ قانون ’نظام عالم` کی بہتری کے لیے بنایا گیا تھا اور
سلطان کے مطابق ’علماء کی اکثریت اس کے حق میں ہے اس لیے اس اس کے مطابق کارروائی کی جائے۔‘
ڈاکٹر اکرم کا یہ مضمون ترکی کے اخبار ’روزنامہ صباح‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہوا تھا۔
ڈاکٹر اکنجے لکھتے ہیں ’بے شک ،بھائیوں کے قتل کا قانون عثمانوی تاریخ کے سب سے متنازع موضوعات میں سے
ایک ہے۔۔۔سلطنت کی تاریخ میں کئی بار اس طرح کے واقعات ہوئے جن میں سے زیادہ تر کو جائز سمجھا گیا لیکن کچھ
ہالکتیں/قتل Wایسے بھی ہوئے جنھیں غلط سمجھا گیا اور تنقید کی گئی۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ کسی شہزادے کے مارے جانے کے لیے اس کا کچھ غلط کرنا ضروری نھیں تھا اور کئی بار
صرف اس خطرے کی بنیاد پر ہالکت کو جائز سمجھا گیا کہ وہ شہزادہ/شہزادے مستقبل میں بغاوت کر سکتے ہیں۔
لیکن سلطان محمت دوم نے اس قانون کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہم ایک واقعے کی مدد
لے سکتے ہیں۔ اس کے لیے ہمیں عثمانوی سلطنت کی تاریخ میں تقریبا ً 70برس مزید پیچھے جانا ہو گا جب جوالئی
1402میں انقرہ کے قریب عثمانوی حکمران سلطان بیزید اور سلطان تیمور(تیمور لنگ) کے درمیان ایک بڑی جنگ
ہوئی۔
،تصویر کا کیپشن
استنبول کے فوجی میوزیم میں سلطان مراد ،سلطان بایزید اور سلطان محمت کے پورٹریٹ
فنکل کہتی ہیں کہ تیمور لنگ اپنے آپ کو چنگیز خان کا وارث سمجھتے تھے اور اسی بنیاد پر ان کے خیال میں اناطولیہ
سلجوق منگول عالقوں پر ان کا حق تھا۔ انھوں نے اناطولیہ کی مختلف ریاستوں (جو اس وقت تک عثمانی سلطانوں کے
زیر اثر نھیں آئی تھیں) کے درمیان اختالفات کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ لیکن عثمانوی سلطان بایزید کی نظر بھی
انھیں ریاستوں پر تھی۔
اس کا نتیجہ فنکل بتاتی ہیں یہ نکال کہ تیمور لنگ اور بایزید کی فوجیں 28جوالئی 1402کو انقرہ کے قریب آمنے
سامنے آ گئیں۔ اس جنگ میں سلطان بیزید Wکو شکست ہوئی اور وہ اس کے بعد Wزیادہ دیر زندہ نہیں رہے۔ ان کی ہالکت
کیسے ہوئی؟ اس کے بارے میں فنکل کہتی ہیں کہ کئی آراہ ہیں۔
لیکن آج کے موضوع کے حوالے سے اہم بات یہ ہے کہ سلطنت عثمانیہ ایک مشکل دور میں داخل ہو گئی۔ اگلے 20
برس تک سلطنت عثمانیہ کو خانہ جنگی کی وجہ سے شدید تباہی اور بربادی کا سامنا کرنا پڑا۔
ڈاکٹر اکنجے لکھتے ہیں کہ بایزید اول کے چاروں بیٹوں کے اپنے اپنے ہزاروں حامی تھے اور وہ برسوں تک آپس میں
لڑتے رہے۔
’خانہ جنگی کے آخر میں سلطان کا سب سے چھوٹا بیٹا محمت اول اپنے بھائیوں کو شکست دے کر 1413میں سلطنت
عثمانیہ کا واحد وارث بنا۔‘
سلطان محمت اول کو سلطنت عثمانیہ کو اپنے والد سلطان بایزید کی دور میں جو حدود تھیں ان تک بحال کرنے کے لیے
مزید کئی سال جدوجہد کرنی پڑی۔
اسی دوران نئے سلطان اور تیمور لنگ(جو وفات پا چکے تھے) کے بیٹے Wشاہ رخ کے درمیان خطوں کے ذریعے ایک
دلچسپ مقالمہ ہوا جو ہمارے آج کے موضوع پر روشنی ڈالتا ہے۔ کیروالئن فنکل لکھتی ہیں کہ 1416میں شاہ رخ نے
سلطان محمت اول کو خط لکھا اور اپنے بھائیوں کو ہالک کرنے پر احتجاج کیا تو عثمانوی سلطان کا جواب تھا کہ ’ایک
ملک میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے۔۔۔ ہمارے دشمن جنھوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے ہر وقت موقع کی تالش میں رہتے ہیں۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلطان بایزید خود اپنے بھائی ’کو ہالک کروانے‘ کے بعد تخت پر بیٹھے تھے۔ سنہ 1389
میں سلطنت عثمانیہ کے تیسرے سلطان مراد اول سربیا کے خالف جنگ کے دوران ہالک ہو گئے۔ اس موقع پر شہزادے
بایزید نے اپنے بھائی کو مروا کر سلطنت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔
فنکل لکھتی ہیں کہ شہزادے بایزید کے ہاتھوں ان کے بھائی شہزادہ یعقوب کا قتل ’عثمانی خاندان میں بھائی کا پہال قتل
ہے جس کا ریکارڈ موجود ہے۔‘
تاہم انھوں نے مزید لکھا کہ یہ واضح نھیں کہ یہ قتل وہیں میدان جنگ میں اپنے والد کی ہالکت کی اطالع ملتے ہی انھوں
نے کروا دیا تھا یا چند ماہ بعد کیا گیا۔ تاہم عثمانی یہ جنگ جیت گئے تھے اور سربیا ان کی تابع ریاست بن گئی تھی۔
،تصویر کا ذریعہFrank Bienewald/Getty Images
،تصویر کا کیپشن
’سلطان مراد اور ان کے بیٹے محمت کی طرف سے اپنے بھائیوں کو ہالک کروانا یہ ثابت کرتا ہے کہ یورپ کا قانون
جس کے تحت وراثت مکمل طور پر سب سے بڑے بیٹے Wکو منتقل ہوتی ہے اور جہاں چھوٹے بھائی بڑے بھائی کے لیے
خطرہ نھیں ہوتے ،ترکوں کی اس سوچ کی جگہ نھیں لے سکا جس کے تحت ہر بیٹا اپنے خاندان کی حکومت کا وارث
ہوتا ہے۔‘
اس صورتحال میں کسی بھائی کا سلطان کے خالف بغاوت یا سازش کرنا ضروری نھیں تھا بلکہ یہ بھی ممکن تھا کہ
سلطنت کے طاقتور حلقے سلطان سے ناخوش ہو کر کسی بھی دوسرے شہزادے کو سلطان بنانے کی کوشش میں لگ
جاتے۔
ڈاکٹر اکرم اکنجے نے اپنے مضمون میں آسٹریا کے ایک سفیر اوگیئر غسلِن دی بسبیک کے تاثرات کا ذکر کیا جو سلطان
سلیمان اول کے دور میں وہاں موجود تھے۔
’عثمانوی سلطان کا بیٹا ہونا کوئی خوش نصیبی نھیں ہے کیونکہ ان میں سے ایک جب سلطان بن جاتا ہے تو باقیوں کے
لیے موت کا انتظار ہی رہ جاتا ہے۔ اگر سلطان کے بھائی زندہ ہوں تو فوج کے سلطان سے تقاضے ہی ختم نھیں ہوتے
اور سلطان اگر ان کی بات نھیں مانتا تو وہ کہہ دیتے ہیں خدا تمہارے بھائی کو سالمت رکھے ،جس کا مطلب یہ بتانا ہوتا
ہے کہ وہ اسے بھی تخت پر بٹھا سکتے ہیں۔‘
،تصویر کا ذریعہChris McGrath/Getty Images
،تصویر کا کیپشن
’شروع میں اس روایت کو اقتدار کی وحدانیت برقرار رکھنے کے لیے برداشت کیا گیا تاکہ حکمران کو کسی چیلنج کا
سامنا نہ کرنا پڑے۔‘
انھوں نے مزید لکھا کہ ابتدا میں جب سلطنت عثمانیہ پھیل رہی تھی اور سلطان خود طویل عرصے کے لیے
دارالحکومت سے دور مہمات پر جاتے تھے W،لوگوں کو اس وقت یہ روایت ٹھیک لگتی ہو گی لیکن ’سلطان سلیمان کے
دور کے بعد Wکم عمر لڑکے اور بچے جو ابھی گود میں تھے اس روایت کا نشانہ بنے اور اکثر ایسے سلطانوں کو بچانے
کے لیے جو بہت کم دارالحکومت سے باہر جاتے تھے۔ سنہ 1574تک تو استنبول کے عوام نے شہزادوں کی ہالکت کا
یہ ڈرامہ اپنے سامنے دیکھا ہی نھیں تھا۔‘
مؤرخ پیئرس لکھتی ہیں ’کسی نئے سلطان کے سب بھائیوں کا ایک ساتھ مارے جانا اور محل سے ایک ساتھ جنازوں کا
نکلنا جن میں سے کچھ بہت ہی چھوٹے تھے دیکھ کر لوگوں کو لگا ہو گا کہ یہ سب پرانے زمانے کے لیے تھا۔‘
انھوں نے اپنی کتاب میں بھائیوں کو ہالک کروانے کی اس روایت کا ذکر کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے مختلف
پہلوؤں پر تفصیل سے بات کی ہیں۔
محمت سوم کے بعد سلطان احمد اول تخت نشین ہوئے لیکن انھوں نے اپنے بھائی کو دباؤ کے باوجود ہالک نھیں کروایا
لیکن یہ روایت اس وقت مکمل طور پر ختم نھیں ہوئی۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان احمد اول کے سات بیٹوں میں سے چار ان کے تخت پر بیٹھنے والے دو بیٹوں سلطان
عثمان دوم اور سلطان مراد چہارم کے حکم پر مارے گئے۔
ڈاکٹر اکرم نے لکھا کہ جب سلطان احمد اول کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ ان کا بھائی تخت نشین ہوا حاالنکہ ان کے بیٹے
موجود تھے۔ ’یہ پہال موقع تھا کہ ایک سلطان کی موت کے بعد ان کی جگہ ان کے بھائی نے لی۔‘