قرآن مجید کا مط العہ ک رتے ہ وئے ،اس کی آی ات کی تفس یر وتوض یح ک رتے ہ وئے اور ہللا تب ارک وتعالی کی منشا اور مدعا متعین کرتے ہوئے کچھ اصول ہیں جو ق رآن مجی د کے ہ ر ط الب علم کے ٰ سامنے رہنے چاہییں اور ان کی پابندی اس بات کی ضمانت دے گی کہ انسان ہللا کی م راد کے زی ادہ قریب پہنچنے کے قابل ہو جائے گا۔ ان میں سے کچھ اص ول علمی ن وعیت کے ہیں اور کچھ اخالقی اصول ہیں۔ ان کو ملحوظ رکھنے سے یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ انسان ہر جگہ ہر معاملے میں کس ی بھی قسم کی غلطی کا ش کار نہیں ہوگ ا ،ا س ل یے کہ بہرح ال ہللا کی کت اب ک و س مجھنا اور اس کی تفسیر وتوضیح کرنا ،اس میں انسانی فہم کا حصہ اور اس کا کردار بہت زی ادہ ہے اور انس ان ک ا فہم دعوی نہیں کر سکتا۔ لیکن بہرحال کچھ اصول ہیں جن کی پابندی سے آدمی یہ اطمینان ٰ کبھی کمال کا ہے ،کم س ے کم اس coreحاصل کر سکتا ہے کہ وہ قرآن کی تعلیم اور اس کے خاص پیغ ام ک ا جو سے محروم نہیں رہے گا۔ اسی طرح مختلف مقامات پ ر جہ اں ای ک س ے زی ادہ احتم االت ممکن ہیں اور جہاں ایک سے زی ادہ تعب یرات اور تش ریحات پیش کی ج ا س کتی ہیں ،ان میں آدمی ص حت کے قریب تر پہنچ جائے گا۔ اگ ر ان اص ولوں کی دی انت داری کے س اتھ ،اور اہلیت کے س اتھ پابن دی کی جائے تو اس بات کا اطمینان بڑی حد تک حاصل کیا جا سکتا ہے۔ سب سے بنیادی اخالقی اصول جس کی رع ایت نہ ص رف ہللا کی کت اب کے مع املے میں ،بلکہ دنی ا کی کس ی بھی کت اب کے مع املے میں ،کس ی بھی متکلم کے کالم ک و پڑھ نے کے مع املے میں ضروری ہے ،وہ یہ ہے کہ آپ پوری دیانت داری سے یہ جاننے کی کوشش کریں کہ کہنے والے ک ا جو اپن ا م دعا او ر منش ا ہے ،اس کی ج و اپ نی م راد ہے ،وہ کی ا ہے ،نہ یہ کہ آپ کے ذہن میں ج و پہلے سے موجود خیاالت ہیں ،رجحانات ہیں ،کچھ پسندیدہ یا ناپسندیدہ باتیں ہیں ،ان کو لے کر ان کی تائید یا تصویب کے لیے یا ان کی تردید تالش کرنے کے لیے آپ کسی بھی کت اب کی ط رف رج وع کریں۔ یہ انسان کی فطرت میں ،اس کی طبیعت میں جو خامی اں رکھ دی گ ئی ہیں ،ان میں س ے ای ک بڑی خامی ہے کہ اپنے ذہنی رجحانات اور اپنے پسندیدہ خیاالت سے مختلف خیاالت پر پر غور کرنا یا ان کو ہمدردی سے سمجھنے کی کوشش کرنا ،یہ انسان کے ل یے ب العموم ممکن نہیں ہوت ا ،خ اص طور پر جب معاملہ ایک مذہبی کتاب ک ا ہ و جس میں خ اص ط ور پ ر اس ک و م اننے والے ،اس پ ر ایمان رکھنے والے یہ بنیادی مسلمہ لے کر اس کی طرف جائیں گے کہ یہ کت اب ج و کچھ کہے گی، ہمیں اس کو ماننا ہوگا ،جس طرف بھی ہماری راہ نمائی کرے گی ،ہمیں اس کو قب ول کرن ا ہوگ ا۔ ت و جہاں یہ حساسیت بھی موجود ہو ،وہاں اپنے آپ کو بالکل خالی الذہن کر کے اور تعص بات س ے اور ذہنی رجحانات سے بالکل پاک کر کے اس کتاب کے سامنے سرنڈر کر دینا ،یہ رویہ انسان کے ل یے زیادہ مشکل ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا میں جتنی غلط تاویالت مذہبی کتابوں کے معاملے میں پیش آتی ہیں ،اس کا شاید عشر عشیر دوسری کتابوں کے معاملے میں پیش نہیں آتا۔ دوسری کت ابوں کے س اتھ کوئی تقدس کا جذبہ وابستہ نہیں ہوتا ،ان کے سامنے سر اطاعت خم ک رنے ک ا ک وئی تص ور وابس تہ نہیں ہوتا۔ مذہبی کتابوں کے ساتھ یہ تص ورات بھی وابس تہ ہ وتے ہیں ،لوگ وں کے دی نی ج ذبات بھی وابستہ ہوتے ہیں ،اور اس سے آپ جو بات بھی اخ ذ ک رتے ہیں ،وہ گوی ا آپ کی کہی ہ وئی ب ات کی تائید بھی فراہم ک رتی ہے ،اور دوس روں س ے اس کے س اتھ م وافقت اور اس کی قب ولیت ک ا مط البہ کرنے کے لیے بھی آپ کو بنیاد فراہم کرتی ہے۔ اس طرح کی بہت س ی چ یزیں اس کے س اتھ ج ڑی ہوئی ہوتی ہیں۔ اس لیے مذہبی کتابوں کی تاریخ میں یہ چیز بہت زیادہ مس ئلہ بن تی ہے۔ کت اب ہللا ک و خالص نیت کے ساتھ اور ہللا کی منشا ومراد تک پہنچنے کے جذبے کے ساتھ پڑھنا ،یہ خاصا مشکل کام ہے۔ انسان فطرتا ً اپنے جذبات کا اور احساسات کا اسیر ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ جب کچھ تعص بات وابستہ ہو جائیں ،کچھ ذہنی رجحانات اور کچھ پس ند ناپس ند کے مس ائل اس کے ذہن میں جگہ بن ا لیں تو پھر وہ انھی کو لے کر ہللا کی کتاب کی طرف آتا ہے اور بجائے اس کے کہ معروض ی ان داز میں اس کی کوشش کرے کہ ہللا کی کتاب کی مراد تک پہنچے ،انس ان کی خ واہش یہ ہ وتی ہے کہ اپ نے پسندیدہ خیاالت کی تصویب اس کو وہاں سے ملے اور اپنے ناپسندیدہ خیاالت کی تردید اس کے الفاظ میں وہ پڑھ لے۔ تو پہلی جو بنیادی چیز ہے ،وہ یہ ہے کہ آدمی اس کتاب کو پڑھے تو خالی الذہن ہو کر ،تعصب سے پاک ہو کر اور صحیح خالص نیت کے ساتھ ہللا کی مرادک و س مجھنے کی نیت س ے پ ڑھے۔ اس نیت سے پڑھے گا تو اس میں ہللا کی تائید وتوفیق بھی ش امل ہ وگی۔ اگ ر یہ نیت نہیں ہ وگی ت و پھ ر عین ممکن ہے کہ آدمی اس کتاب کو پڑھے ،اس کی تالوت کرے ،اس پ ر غ ور ک رے ،ت دبر بھی ک رے، لیکن اس سے جو کچھ اس کو حاصل ہو ،وہ سوائے اس کے کچھ نہ ہو کہ اپ نی ہی خواہش ات ک و ہللا کی کتاب کے الفاظ میں پڑھ لے اور اپنے تعصبات کو اس میں منتقل کر کے دوبارہ اس سے اخذ ک ر لے۔ قرآن مجید نے بھی یہ بات اپنے بارے میں ایک اور پس منظ ر میں بی ان کی ہے۔ چن انچہ فرمای ا ہے ُضلُّ بِ ِہ َکثِیرًا َّویَھ ِدی بِ ِہ َکثِیرًا۔ یعنی اس کتاب سے ہدایت پانے کے ل یے آدمی کی نیت ک ا خ الص کہ :ی ِ ہونا یہ بنیادی شرط ہے۔ خالص نیت کے بغیر بہت سے لوگ اس کی طرف رجوع کریں گے۔ ان میں سے ایک گروہ وہ تھا جو نزول قرآن کے زمانے میں موجود تھا۔ اب بھی اس کی باقیات یقینا ہیں ج و اصل میں اس کتاب کو ہدایت حاصل ک رنے کے ل یے نہیں ،بلکہ اس میں مین میکھ نک النے ،اس کے مطالب پ ر اعتراض ات اٹھ انے اور لوگ وں ک و اس کے ب ارے میں ش کوک وش بہات میں ڈال نے کے جذبے سے اس کی طرف آتے ہیں اور اس میں سے ایسی باتیں نکالنے کی کوشش کرتے ہیں جن کو وہ اس مقصد کے لیے استعمال کر سکیں۔ چونکہ یہاں جذبہ حص ول ہ دایت ک ا نہیں ہے ،نیت خ الص نہیں ہے ،قرآن مجید نے ان کے بارے میں تبصرہ کی ا ہے کہ ج و ل وگ اس نیت س ے اس کت اب ک و تعالی اسی کت اب کے ذریعے س ے ان ک و گم راہی میں مبتال ک ر دیں گے۔ یہ کت اب ٰ پڑھیں گے تو ہللا ایسی ہے کہ اس کے ذریعے سے ہللا لوگوں کو ہدایت بھی دیتا ہے اور اسی کے ذریعے سے لوگ وں کو گمراہ بھی کرتا ہے۔ مدار صدق نیت پر ہے۔ س چی نیت س ے ل وگ آئیں گے ت و انھیں ہ دایت ملے گی اور بری نیت سے آئیں گے تو اسی کتاب کو پڑھ کر بجائے اس کے کہ ہ دایت حاص ل ک ریں ،وہ اپنی گمراہی میں پختہ ہو جائیں گے۔ یہ پہال اخالقی اصول ہے۔ دوسرا اخالقی اصول جس کی پابندی قرآن کے پڑھنے والے ہ ر ش خص ک و قب ول کرن ا الزم ہے ،یہ ہے کہ اگر کہیں اس ک و ق رآن کے مط الب اور اس کی تعلیم ات کے س مجھنے میں اش تباہ پیش آ گی ا ہے ،آی ات میں ٹک راﺅ نظ ر آ رہ ا ہے ،ب ات اپ نے ص حیح مح ل میں نہیں ل گ رہی ،ا س ک ا ص حیح مصداق جو عقل وفطرت کو مطمئن کر دے ،وہ واضح نہیں ہو رہا تو یقینا وہ غور ج اری رکھے گ ا، وہ بات کی تہہ تک پہنچنے کی کوشش کرے گا ،لیکن یہ اصول بھی اس کو سامنے رکھنا چ اہیے کہ ایسی چیزوں میں بعض دفعہ توکیل وتفویض کا اصول اختیار کرن ا پڑت ا ہے۔ اس ک ا مطلب یہ ہے کہ آدمی اس بات کے درپے ہو جانے کے بج ائے اور جیس ا تیس ا ،ک وئی بھی ای ک مفہ وم ض رور طے کرنے کے بجائے یہ ذہنی رویہ اپنائے کہ کتاب ہللا کے سارے مع انی اور س ارے مط الب پ ر ح اوی ق ُک لِّ ِذی ِع ٍلم َعلِیم۔ مجھے ہونا یہ ہر شخص کے لیے نہ ضروری ہے اور نہ اس کا امک ان ہے۔ َوفَ و َ جتن ا علم اور جت نی س مجھ ہللا نے دی ہے ،اس کے لح اظ س ے اگ ر میں نہیں س مجھ پ ا رہ ا ت و کچھ دوسرے لوگ ہوں گے جن کے پاس اس کا ہوگا۔ گویا بہت سی جگہ وں پ ر ب ات کے درپے ہ ونے ی ا اس سے کوئی نہ کوئی مطلب الزمی طور پر اخذ کر کے اس کو ایک قطعی اور حتمی مفہوم س مجھ لینے کے بجائے توکیل کا اصول اختی ار کرن ا پ ڑے گ ا۔ اس کی تعلیم خ ود رس ول ہللا ص لی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ کو دی ہے۔ جہاں پ ر ک وئی ب ات س مجھ میں نہ آئے ،ک وئی اش کال ہ و ت و وہ اں پ ر مجادلہ میں یا بحث میں الجھنے کے بجائے ی ا اس کی تہہ ت ک ض رور پہنچ نے کے بج ائے بہ تر یہ ہے کہ آپ توکیل کریں۔ جو باتیں بالک ل واض ح س مجھ میں آ رہی ہیں ،ان پ ر ت وجہ رکھیں۔ ج و ب ات سمجھ میں نہیں آ رہی ،اس پر غور جاری رکھیں ،اس کے متعلق اہل علم سے سوال ک ریں ،لیکن اس کے بارے میں آدمی کی ذہنی پوزیشن یہ ہونی چاہیے کہ بھئی ،بہت سی چ یزیں ہ وں گی ج و م یرے علم کی سطح سے بلند ہیں ،جن کی حقیقت کو میں نہیں سمجھ سکتا۔ م یرے علم میں اگ ر نہیں ہیں ت و رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ فکلوہ الی عالمہ۔ اس کو اس کے ع الم کے س پرد ک ر دو جس کو ہللا نے اس کو سمجھنے کی صالحیت دی ہے۔ وہ یقین ا جانت ا ہوگ ا ،اگ رچہ م یری س مجھ میں یہ نہیں آ رہی۔ یہ بات خاص طور پر ایک عام آدمی کے لیے بڑی اہم ہے جو علمی طو رپر قرآن کی تشریح وتفسیر کے جو لوازم ہیں ،اس سے متعلق ج و عل وم وفن ون ہیں ،اس کی ج و ای ک پ وری علمی روایت ہے، علمی سطح پر اس کو سمجھنے کی اس طرح سے اہلیت نہیں رکھتا۔ وہ جب ایک س ادہ انس انی س طح پر تذکیر کے لیے ،ہدایت کے لیے ،اصالح کے لیے ،اپنے آپ کو خدا کے س اتھ ج وڑنے کے ل یے، خدا کا قرب حاصل کرنے کے ل یے اس کت اب ک و پڑھت ا ہے ت و اس ک و بہت س ے مقام ات پ ر م دعا سمجھنے میں اشتباہ پیش آ سکتا ہے۔ ایسے اشتباہات بھی پیش آ سکتے ہیں ،ایسے سواالت بھی پیش آ سکتے ہیں جن کو وہ اپنے محدود علم کی حد تک حل کرنے پر قادر نہ ہ و۔ اس ک و بعض جگہ آی ات ایک دوسرے سے ٹکراتی ہوئی نظر آئیں گی۔ بعض جگہ پر کوئی ایس ی ب ات بی ان ہ وتی ہ وئی نظ ر آئے گی جس کو انسان کی سادہ عقل قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتی۔ بہت سے ش کوک وش بہات ک رنے کے tackleبھی پیدا ہوں گے۔ ایسے موقع پر ایک صاحب علم جو اس ط رح کی چ یزوں کو علمی وسائل سے آراستہ ہے ،اس کو علمی وسائل حاصل ہیں ،وہ تو ایک علمی ط ریقے س ے ،ای ک علمی منہج کی پیروی کرتے ہوئے ان کو ح ل ک رنے کی کوش ش ک رے گ ا۔ اس س ے بھی غلطی ہ و سکتی ہے ،لیکن اگر وہ علمی اصولوں کی پیروی کرے گا ،اخالقی اصولوں کی پیروی کرے گ ا ت و وہ نسبتا ً بہتر پوزیشن میں ہوتا ہے کہ علمی سواالت سے یا علمی اش کاالت س ے ن برد آزم ا ہ و۔ ت اہم ایک عام آدمی کے لیے اس طرح کی الجھنوں کا سامنا کرنا شاید تھوڑا مشکل ہوت ا ہے۔ بہرح ال ع ام آدمی ہو یا ایک صاحب علم ہو ،یہ اصول اس کو ہر جگہ ملحوظ رکھنا ہے۔ زبان میں حقیقت ومجاز کے اسالیب اس کے بعد کچھ چیزیں ہیں جو علمی نوعیت کی ہیں جن کا تعلق کت اب ہللا کی زب ان س ے اور کس ی بھی کالم کی تشریح وتفسیر کے اصولوں سے ہے۔ متکلم کے لسانی اسالیب ،کالم کا س یاق ،ای ک ہی متکلم کے مختلف بیانات کو سامنے رکھ کر اس کا مدعا طے کرنا اور اس ط رح کی چ یزیں ہیں ج و کالم کی تفسیر کے علمی اصول ہیں اور وہ معلوم ومعروف ہیں۔ بحث کی تکمیل کے لحاظ سے یہ اں اس پہلو کا کچھ ذکر کر لیتے ہیں۔ ایک بات جس پر قرآن مجید کے سب مفسرین ،تمام اہل علم اصولی ط ور پ ر متف ق ہیں ،وہ یہ ہے کہ دنیا کی جو بھی زبان ہوگی ،اس میں دونوں ط رح کے اس الیب موج ود ہیں۔ ای ک اس لوب جس ک و ہم حقیقت کا اسلوب کہتے ہیں ،یعنی جس میں لفظ یا لفظوں کا مجموعہ یعنی جملہ اپنے انھی معنوں میں بوال اور استعمال کیا جا رہا ہے ،اس سے م راد بھی اس کے وہی مع نی ہیں ج و اس کے اپ نے اص ل اور حقیقی معنی ہیں جن کے لیے ان لفظوں کو زبان میں وضع کیا گیا۔ اسی طرح ایک دوسرا اسلوب ہے جس کو مجاز کا ،استعارے اور تمثیل کا اسلوب کہتے ہیں ،جس میں لفظ براہ راست اپنے اص لی معنی میں نہیں ،بلکہ ایسے اسلوب میں استعمال ہوتا ہے جو سننے والے کو بالواسطہ متکلم کی م راد ت ک پہنچات ا ہے۔ متکلم ای ک ص ورت ک و کس ی دوس ری ص ورت کی ط رف ت وجہ دالنے کے ل یے مستعار لے لیتا ہے۔ لفظ کا حقیقی معنی چھوڑ کر اس کو کسی دوسرے ،ایس ے مع نی کی ط رف لے جاتا ہے جو اس سے وابستہ ہے ،اس سے جڑا ہوا ہے اور مجازاً اس کا وہ مفہ وم م راد لے لیت ا ہے۔ زبان میں یہ دونوں ط رح کے اس الیب موج ود ہ وتے ہیں۔ حقیقت ک ا اس لوب بھی ہوت ا ہے ،مج از ک ا اسلوب بھی ہوتا ہے اور یہ ض رور ی ہے کہ آپ ان میں س ے ہ ر اس لوب ک و اپ نے اپ نے مح ل میں صحیح طور پر ملحوظ رکھیں۔ اس حوالے سے جو علم اصول اور علم تفسیر کے م اہرین اس کے مختل ف قواع د بھی وض ع ک رتے ہیں اور ان سب کا حاصل یہ ہے کہ آپ یہ اصول سامنے رکھیں کہ زبان میں کہیں حقیقت ک ا اس لوب ہوگا ،کہیں مجاز کا اسلوب ہوگا اور ہر اسلوب کے ساتھ کچھ قرائن اور لوازم ہوں گے۔ جہاں آپ ک و حقیقت کے اسلوب کو ملحوظ رکھتے ہوئے کالم کا مفہوم سمجھنا ہے ،اس کا اپنا محل ہے ،اور اپنے قرائن اور اسالیب ہیں۔ جہاں متکلم نے مجاز کا اسلوب استعمال کیا ہوگا ،اس کا کوئی مح ل ہوگ ا ،اس کے کچھ قرائن اور کچھ اسالیب ہوں گے۔ تو ان دونوں اصولوں ک و اپ نے اپ نے مح ل میں رکھن ا ،یہ علمی اصولوں میں سے ایک بڑا بنیادی اصول ہے۔ زبان کا عام اسلوب تو یہی ہے کہ لفظ جس مفہوم کے لیے وضع کیا گیا ہے ،جب وہ بوال جائے ت و وہی م راد لین ا چ اہیے۔ ہ اں ،جب کالم کے ان در ی ا ،ماحول کے ان در ایس ے ق رائن موج ود ہ وں ی ا متکلم اور س امع کے م ابین ج و ای ک عہ د ذہ نی ہے کا جو ایک رشتہ ہے ،اس میں ایسے قرائن ہوں جو یہ بتا رہے ہ وں invisible communication کہ متکلم دراصل ان الفاظ سے وہ لفظی مفہوم مراد نہیں لینا چاہ رہا جو عام طور پ ر اس ک ا ہوت ا ہے کریں گے ،پھر آپ انتقال کریں گے۔ یہ ق رائن کہیں shiftتو پھر آپ اس کے مجازی مفہوم کی طرف بھی ہو سکتے ہیں ،کالم میں بھی ہو سکتے ہیں ،ماحول میں بھی ہ و س کتے ہیں ،متکلم اور مخ اطب کے درمی ان ان کے ذہن میں بھی ہ و س کتے ہیں۔ خ اص ط ورپر گفتگ و کے کچھ مقام ات اور کچھ دائرے ایسے ہوتے ہیں کہ وہاں پ ر زب ان ک ا ع رف اور متکلم ک ا اس لوب یہ بت ا رہ ا ہوت ا ہے کہ اس دائرے میں وہ استعمال ہی مجازی اسلوب کرتا ہے۔ تو یہ دون وں اس لوب ،انھیں ب ڑی دقت نظ ر س ے اور علمی طور پر خوب غ ور ک رکے ملح وظ رکھن ا ض روری ہے کہ کہ اں متکلم اپ نے حقیقت کے اسلوب کو اختیار کر رہا ہے او رکہاں مجاز کے اسلوب کو اختیار کر رہا ہے۔ اس کی ایک مثال سامنے رکھیں۔ لف ظ ک ا اپن ا حقیقی مع نی م راد ہون ا چ اہیے ،اس کی مث الیں ت و بے شمار ہیں۔ مثالً قرآن مجید کہتا ہےَ :واِذ قَا َل اِب َرا ِھی ُم اِل َبِی ِہ آ َز َر۔ ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا۔ یہ اں بہت سے مفسرین کی رائے ہے کہ جس سے مکالمہ ہوا ،وہ ان کا باپ نہیں تھا ،بلکہ ان کا چچ ا تھ ا۔ تاہم کالم میں اس کا کوئی قرینہ نہیں۔ کوئی وجہ ایسی دکھائی نہیں دی تی کہ اب کے لف ظ ک و مج ازی مفہوم میں لیا جائے اور باپ کے بجائے باپ کے درجے کا کوئی دوس را رش تہ دار م راد لی ا ج ائے۔ جب قرآن نے اب کہا ہے ،یہاں بھی کہا ہے اور دوسری جگہوں پر بھی جہاں اب راہیم علیہ الس الم ک ا اپنے ایک بزرگ سے مکالمہ نقل ہوا ہے ،وہاں بھی لفظ اب ہی اس تعمال ہ وا ہے ت و لف ظ ک و اس کی حقیقت میں لینا چاہیے ،یعنی یہ ان کا حقیقی باپ تھا جس سے ابراہیم کا یہ مکالمہ ہوا۔ اگرچہ یہ قرآن کی تعلیم کے لحاظ سے یہ کوئی بہت اہم بات نہیں ہے ،کوئی اہم مسئلہ نہیں ہے کہ یہ ابراہیم کا ب اپ تھا یا چچا تھا۔ چچا ہو یا باپ ہو ،کوئی ف رق نہیں پڑت ا ،لیکن مث ال کے ل یے میں یہ ب ات ع رض کی ہے۔ یہاں پر جو اہل علم مجازی مفہوم مراد لیتے ہیں ،ان کے سامنے یہ سوال رکھا ج ا س کتا ہے کہ اس کا کیا قرینہ ہے اس کا؟ کیوں لفظ اب کو اس کے حقیقی مفہوم کے بجائے مج ازی مفہ وم میں لی ا جا رہا ہے؟ اسی اصول کو آپ تھوڑا سا پھیالئیں تو دور جدید میں ہمارے ہ اں اور دوس رے مس لم معاش روں میں بھی جو تفسیر کا ایک پورا اسکول وجود میں آیا ،اس کی غلطی بھی واضح ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ ق رآن نے انسانیت کی تخلیق کے حوالے سے آدم اور ابلیس کے دو لفظ استعمال کر کے بعض واقعات بیان کیے ہیں۔ ان میں مالئکہ کا ذکر بھی آیا ہے۔ اسی طرح قرآن بعض دوس رے مقام ات پ ر جن اور جنہ کے نام سے بھی ایک مخلوق کا ذکر کرتا ہے۔ اب اس واقعے میں آدم ک ا ذک ر ہ و رہ ا ہے ،ابلیس ک ا ذکر ہو رہا ہے ،دونوں کے درمیان گفتگو کا ذک ر ہ و رہ ا ہے ،ان کے ای ک آزم ائش کے عم ل س ے گزرنے کا ،ایک جگہ پر رکھے جانے کا ،بہکائے جانے او رپھر وہاں سے ہٹ ا دیے ج انے ک ا ای ک پورا واقعہ بیان ہوا ہے۔ دور جدید میں ایک منہج فک ر ایس ا پی دا ہ وا ج و اس ط رح کے واقع ات ک و، خاص ط ور پ ر آدم کی شخص یت اور ابلیس کی شخص یت ک و اور اس پ ورے واقعے ک و تمثی ل کے اس لوب میں دیکھت ا ہے۔ یع نی آدم س ے م راد ک وئی شخص یت نہیں ہے جس ط رح ہم ع ام ط ور پ ر سمجھتے ہیں۔ ابلیس سے مراد بھی کوئی شخص یت نہیں ہے۔ اور یہ ج و واقعہ ہ وا ،یہ حقیقی معن وں میں پیش آنے والے کسی واقعے کا بیان نہیں۔ یہ ایک تمثیلی اسلوب ہے۔ آدم س ے م راد خ یر کی اور بھالئی کی صالحیت ہے جو انسان کے اندر موجود ہے ،اور ابلیس سے مراد شر کی ط رف رجح ان رکھنے والی وہ طبیعت ہے جو انسان میں پائی ج اتی ہے۔ اور یہ ج و واقعہ ہے ،وہ اص ل میں انس ان کی شخصیت میں خیر اور شر کے مابین کشمکش کا ای ک تم ثیلی بی ان ہے۔ یہ ای ک مث ال ہے۔ اس ی اسلوب پر وہ قرآن مجید میں اس طرح کے دوسرے بہت سے واقعات کی بھی توضیح کرتے ہیں۔ یہاں علمی طور پر جو اعتراض بنتا ہے اور جو علمی اصول پامال ہوتا ہوا نظ ر آت ا ہے ،وہ یہی ہے کہ قرآن جس طرح اس واقعے کو بیان کر رہا ہے ،ا س میں آخر ایسے کون س ے ق رائن ہیں ج و اس کو حقیقت پر محمول کرنے کے بجائے اس کو تمثیل کا رنگ دینے ک ا ج واز ف راہم ک رتے ہیں؟ جس اسلوب میں یہ واقعہ بیان ہوا ہے ،اگر تو یہ بتای ا ج ا س کے کہ حقیقی واقعے کے بی ان ک ا اس لوب یہ نہیں ہوتا ،کوئی اور ہوتا ہے تو وہ سامنے الیا جائے۔ یعنی قرآن اگر ای ک واقعت ا ای ک حقیقی واقعے ہی کو بیان کرنا چاہتا تو اس کے لیے کون سا اسلوب ہوتا ج و اس س ے مختل ف ہوت ا؟ اس ل یے کہ یہ اگر تمثیل کا اسلوب ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ حقیقت کے لیے کوئی اور اسلوب ہوگ ا۔ زب ان کے جتنے معروف اسالیب ہیں اور کالم کو سادہ طور پرسمجھنے کے ل یے ہ ر جگہ ہم جس ط ریقے کی پیروی کرتے ہیں ،اس کے لحاظ سے کہیں یہ تاثر نہیں ملتا کہ یہ کوئی تمثیل بیان ہو رہی ہے۔ ق رآن نے اس کو کسی ایک جگہ بیان نہیں کیا۔ مختلف مقامات پر بیان کیا ہے اور تفصیالت کی کمی بیش ی اور فرق کے ساتھ بیان کیا ہے۔ کہیں یہ تاثر کالم کے اندر نہیں ملتاکہ اس کو ایک حقیقی واقعے کے allegorical styleبیان کے بجائے اس اسلوب کی مثال فرض کیا ج ائے جس ے ادب کی زب ان میں کہتے ہیں ،جس کا مطلب یہ ہوت ا ہے کہ آپ ک وئی عالم اتی م واد مس تعار لیں اور اس کی م دد س ے کسی معنوی حقیقت کی یا کسی ذہنی تصور کی تفہیم کرنا چ اہیں۔ یہ اں کالم کے ان در اس کے ک وئی اتے۔ ائے ج رائن نہیں پ ق تو جس اصول کی ط رف ہم ت وجہ دال رہے ہیں ،اس ک ا لف ظ کی ح د ت ک بھی اطالق ہوگ ا اور ای ک پورے واقعے پر بھی اس کا انطباق ہوگا کہ جب تک ہمیں قوی قرائن اور دالئل نہ ملیں جس کی بنیاد پر ہم کہہ سکیں کہ یہاں تمثیل کا اسلوب ہے اور استعارے اور مجاز کا اس لوب ہے ،تب ت ک اس ک و کالم کو ظاہر کے لحاظ سے اس کے حقیقی مفہوم میں ہی رکھنا چاہیے۔ اسی اصول کا انطباق حقیقت کے مقابل ،مجاز کے اسلوب کے دائرے میں بھی ہوگا۔ ہم جانتے ہیں کہ کچھ دائرے ایسے ہوتے ہیں جہاں قرائن سے یہ واضح ہوتا ہے کہ متکلم استعارہ کا اس لوب اس تعمال الی ک ا اور اس کےکر رہا ہے۔ اس کی ای ک ب ڑی اچھی مث ال ہے جہ اں ق رآن نے ص فات ب اری تع ٰ مختلف افعال کا ذکر کیا ہے۔ یہ بات قرآن مجید سے بطور اصول واضح ہے ،ا س نے بت ا دی ا ہے کہ خدا کی ذات انسان کے ادراک اور اس کے دائرئہ حواس سے ماورا ہے۔ اس کی ذات ت ک انس ان ک ا ذہن اور اس کی جو حسی ادراک کی صالحیت ہے ،وہ نہیں پہنچ سکتی اور وہ انسان کے ہ ر تص ور سے ماورا ایک ذات ہے۔ لَ َ یس َک ِمثلِ ِہ َش یئ ،اس ذات جیس ی ک وئی ش ے ہے ہی نہیں۔ اس ک ا مطلب یہ ہے کہ خدا کے بار ے میں بھی اور عالم غیب سے تعلق رکھنے والے دوس رے بہت س ے ام ور کے بار ے میں بھی انسان کے سامنے جو باتیں بیان کی جائیں گی ،وہ بنیادی طور پر تمثیل اور کسی حد تک تشبیہ کے اصول کو استعمال کرتے ہ وئے کی ج ائیں گی۔ ان س ے آدمی یہ نہیں س مجھ س کتا کہ جیسے اپنی زبان میں ہم ان کا تصو رکر سکتے ہیں ،وہ حقیقت میں بھی ایسے ہی ہیں۔ یہ تق ریب ذہن کا اصول ہوتا ہے ،کیونکہ انسان کے اپنے ذہن میں مشاہدات سے اخ ذ ک ردہ ج و م واد ہے ،اس س ے مدد لیے بغیر کسی غیر محسوس یا غیر مشاہد چیز کا تصور کرنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ تو خداکی ذات ہو یا قیامت کا ذکر ہو یا جنت کا ذکر ہو یا ماورائے مشاہدہ جو عالم ہے ،اس کے جو بھی حق ائق بیان ہوں گے ،وہ اسی اصول پر ہوں گے کہ اس کا ایسے اسلوب میں ذکر کی ا ج ائے ج و انس ان کے لیے بڑی حد تک قابل فہم ہو اور وہ اس کا کسی نہ کسی درجے میں ایک تصور قائم کر سکے۔ تعالی کی ذات کا ذکر کیا گیا ہے۔ یہ بات قرآن سے واضح ہے کہ ہللا ای ک ص احب ٰ اسی اصول پر ہللا نہیں forceارادہ ،صاحب شعور ،صاحب اقتدار اور صاحب حکمت ہستی ہے۔ وہ کوئی اندھی بہری ہے جو کسی سائنسی طاقت کے طریقے پر کام کرتی ہے۔ وہ باقاعدہ ایک ہس تی ہے ،لیکن اس ہس تی کے تعارف کے لیے ،اس کے افع ال کے بی ان کے ل یے ق رآن مجی د بہت س ے الف اظ وکلم ات ایس ے استعمال کرتا ہے جن میں تشبیہ کا ایک پہلو پایا جاتا ہے۔ مثالً خ دا کے ع رش پ ر مس توی ہ ونے ک ا بیان ہے ،خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے۔ احادیث میں آپ کو اس کی کچھ مزید تفصیالت ملیں گی۔ مثالً خ دا ہر رات عرش سے نیچے ات ر ک ر آس مان دنی ا پ ر آ جات ا ہے۔ قی امت کے دن جب جہنم ک ا پیٹ بھرن ا مقصود ہوگا اور وہ ایندھن سے نہیں بھرے گا تو خدا اپنا پاﺅں اس کے اندر رکھے گ ا اور پھ ر جہنم کہے گی کہ بس بس ،میرا پیٹ بھر گیا۔ تو قرآن نے خ دا کی ذات کے ب ارے میں ج و یہ بنی ادی ب ات بیان کر دی ،اس کی روشنی میں یہ واضح ہے کہ جب ہللا کے ہاتھ کا ذکر ہوگا یا اس کے عرش پ ر مستوی ہونے کا ذکر ہوگا تو وہ حقیقت کے لحاظ سے نہیں ہے۔ ایس ا نہیں کہ جیس ے میں کرس ی پ ر بیٹھا ہوں ،ایسے ہی خدا بھی عرش پر بیٹھا ہے۔ اسی لیے سلف نے اس کے ل یے یہ اص ول بی ان کی ا کہ یقینا خدا ان ساری صفات کے ساتھ موصوف ہے ،لیکن اس کا بیٹھنا ،اس کا اترنا ،چڑھنا ،اس ک ا متوجہ ہونا یہ ویسے ہے جیسے اس کی ذات اور اس کی شان کے الئق ہے۔ اس کو ہم انسانی اٹھ نے بیٹھنے اور انسانی اعضاءپر قیاس نہیں کر سکتے۔ اس معاملے میں بھی آپ دیکھیں گے کہ علم کالم میں ای ک پ ورا اس کول آف تھ اٹ ہے جس نے اس اصول کو ملحوظ نہ رکھنے کی وجہ سے بعض انتہا پس ندانہ کالمی تعب یرات اختی ار ک ر لی ہیں اور اس ک ا اص رار ہے کہ جیس ے یہ ب اتیں بی ان ہ وئی ہیں ،ان ک و ایس ے ہی باللف ظ مانن ا چ اہیے۔ ان ک ا استدالل اس اصول کے غلط انطباق پر مبنی ہے کہ لفظ کا حقیقی معنی مراد ہونا چاہیے۔ اگر خدا کے ہاتھ کا ذکر ہے تو وہ ایسا ہی ہاتھ ہے جیسے میرا ہاتھ ہے۔ یع نی اس انتہ ا ت ک بعض کالمی اس کول پہنچ گ ئے۔ بنی ادی غلطی یہ ہے کہ اس اص ول ک و نہیں س مجھا گی ا کہ زب ان میں دون وں ط رح کے اسالیب موجود ہیں۔ حقیقت ک ا بھی موج ود ہے ،اس تعارے ک ا بھی موج ود ہے۔ دیکھن ا یہ ہوت ا ہے کہ کون سا محل اور کون سا دائرہ کس قسم کے اسلوب کے لیے موزوں ہے۔ عالم غیب سے متعلق امور کو بیان کرنے کے لیے قرآن مجید نے ہماری اس ط رف راہ نم ائی کی ہے کہ جب یہ چ یزیں انس ان کے سامنے بیان کی جاتی ہیں تو وہ حقیقت کے اس لوب میں نہیں ہ وتیں۔ ان میں مج از اور اس تعارے کا اسلوب ہوتا ہے او رمقصود یہ ہوتا ہے کہ انسان اپنے تص ورات کی ح د ت ک جس ح د ت ک ممکن ہو ،ان چیزوں کو اپنے ذہن کی گرفت میں لے آئے اور ایک عمومی سا تصور ان کا قائم ک ر س کے۔ ایسی چیزوں میں حقیقت کے اسلوب پر اصرار کرنا ،یہ اس اصول کو پامال کرنے کا نتیجہ ہوگا۔ سواالت سوال :خالی الذہن ہونے سے کیا مراد ہے؟ انسان اپنے علمی پس منظر سے جدا ہو ک ر کیس ے کس ی نئی چیز کو دیکھ سکتا ہے؟ جواب :خالی الذہن ہونے سے یہ یقینا مراد نہیں ہے کہ آدمی ایک صاف سلیٹ لے ک ر آئے گ ا۔ ظ اہر ہے کہ یہ ممکن نہیں ہے۔ خالی الذہن ہونے سے مراد یہ ہے کہ آدمی کوئی تعصب لے کر یا یہ ارادہ لے ک ر نہ آئے کہ مجھے ای ک خ اص مفہ وم کی تالش ک رنی ہے۔ یہ چ یز اخالقی ط و رپ ر قاب ل اعتراض بن جاتی ہے کہ آپ اپنے خیال کو یا اپنی مراد کو کہیں سے حاصل کرنا چاہتے ہیں اور اس کی تائید دیکھنا چاہتے ہیں ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ آدمی جب ایک خاص ذہن لے ک ر آت ا ہے کہ اس طرح کی بات مجھے ملنی چاہیے تو پھر اس کو الفاظ میں جہ اں بھی تھ وڑی س ی گنج ائش نظ ر آتی ہے اس بات پر منطبق کرنے کی تو وہ ان ساری باتوں کو نظر انداز ک ر دیت ا ہے کہ وہ اں متکلم کا مدعا کیا ہے ،ا س کی منشا کیا ہے ،سیاق سباق میں کیا بات چلی رہی ہے ،کس محل میں کی ا ب ات ہو رہی ہے ،اور بس اگر ایک جملہ اس کے مطلب پر لفظی لحاظ سے منطبق ہو سکتا ہے ت و وہ کہہ دیتا ہے کہ مجھے قرآن کی نص مل گئی۔ جو بات میں سوچ رہا تھ ا ،ق رآن نے بھی اس کی تائی د ک ر دی۔ تو خالی الذہن سے مراد یہ ہے کہ ایسا رویہ نہ ہو۔ باقی آدمی کا اپنا ج و ای ک علمی وفک ری پس منظر ہے ،اس سے آدمی یقینا پوری طرح اوپر اٹھ نہیں سکتا۔ اس کے لیے آدمی کو بعض دفعہ ای ک سفر بھی کرنا پڑتا ہے ،ایک ریاضت بھی کرنی پڑتی ہے۔ جو چ یز اخالقی ط و رپ ر قاب ل اع تراض ہے ،وہ یہی ہے کہ آپ پہلے سے ای ک خ اص م راد ،ای ک منش ا طے ک ر کے آئیں کہ اس ط رح کی چیزیں مجھے تالش کرنی ہیں۔ سوال :ہم کس طرح طے کریں گے کہ یہ حقیقت ہے یا استعارہ ہے؟ جواب :اس کے اصول تو زبان میں کم وبیش طے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی ق رآن کے س اتھ خ اص نہیں ی ا دینیات کا کوئی علم نہیں۔ زبان کیا ہے ،اس کے معانی ومطالب کیسے طے کرنے ہیں ،اس ک ا انس ان کو ایک فطری علم دیا گیا ہے ،اس کی روشنی میں یہ باتیں طے ہوتی ہیں۔ قرآن کے لیے کوئی ال گ اص ول نہیں ہے۔ یہ ج انے پہچ انے اص ول ہیں۔ دنی ا کی ہ ر زب ان میں ان کی پابن دی کی ج اتی ہے۔ انطباق میں بعض جگہ یقینا فرق ہو ج ائے گ ا ،لیکن بنی ادی ج و اص ول ہیں ،وہ ہ ر زب ان میں معل وم ومعروف ہیں اور ان کی پیروی کی جاتی ہے۔ سوال :فرشتے ،مالئکہ اور شیاطین ،جب ہم نے ان کو دیکھا نہیں تو ان کے وجود کو کس طرح م ان سکتے ہیں؟ جواب :ان کے وجود کو ماننا اس لیے ض روری ہے کہ ای ک ایس ا ماخ ذ جس کے ب ارے میں ہم یقین رکھتے ہیں کہ وہ سچی بات ہمیں بتاتا ہے ،اس نے ہمیں اطالع دی ہے۔ اگر قرآن ی ا ح دیث نے ہمیں ان کے متعلق نہ بتایا ہوتا تو ان کی حیثیت بھی ان بے شمار مخلوقات کی طرح ہوتی ج و ہم ارے علم میں نہیں اور جن کو جاننا یا ماننا ہم ارے ل یے ک وئی اہمیت بھی نہیں رکھت ا۔ یقین ا اور بھی بہت س ی مخلوقات ہ وں گی ،لیکن ان کے ب ارے میں ق رآن میں ذک ر آ گی ا ہے۔ یہ بھی معل وم ہ و گی ا کہ ان ک ا انسانی زندگی کے ساتھ اور انسانی معامالت کے ساتھ کیا رشتہ ہے۔ توقرآن کے ی ا پیغم بر کے بی ان کی بنیاد پر ہم ان کو مانتے ہیں۔ یہ ہمارا قرآن اور رسول ہللا پر ایمان کا ایک تقاضا بن جاتا ہے۔ سوال :قرآن کے سمجھنے کے اصول کون وضع کرے گا؟ جواب :وہی لوگ جو قرآن کا علم رکھتے ہیں ،قرآن پر غور کرتے ہیں۔ جیسے دنی ا بھ ر میں ہ ر علم سے متعلق ،ا س کے علمی مباحث اور اصول وہی لوگ وضع کرتے ہیں جو اس پر ک ام ک رتے ہیں، اس پر غور وفکر کرتے ہیں ،اس کی اہلیت پیدا ک رتے ہیں ،اس ی ط رح ق رآن کے مع املے میں بھی کریں گے۔ سوال :قصہ آدم حقیقی اسلوب میں بیان ہوا ہے اور جنت اور دوزخ ک ا ت ذکرہ تم ثیلی اس لوب میں ہ وا ہے ،یہ تفریق کس بنیادی اصول سے ہوگی؟ جواب :بنیادی اصول تو میں نے عرض کیا کہ جنت اور دوزخ کا تعلق اس عالم سے ہے ج و ہم ارے لیے قابل مشاہدہ نہیں اور اس ع الم س ے مل تی جل تی ک وئی چ یز ج و حقیقت کے لح اظ س ے اس کے مماثل ہو ،وہ ہماری اس دنیا میں موج ود نہیں۔ اس ل یے اس کے ب ار ے ہمیں یہی تص ور کرن ا ہوگ ا۔ قرآن جگہ جگہ اس کی نشان دہی کرتا ہے۔ قرآن اپنی تصریحات س ے بھی اور ق رائن واس الیب س ے بھی اس کی وضاحت کرتا ہے کہ یہ جنت حقیقت میں کیا ہوگی ،اس کے جو پھ ل ہیں ،وہ نعم تیں ،وہ سکون ،وہ لذت جو انسان کو وہاں حاصل ہوگی ،اس کا اس دنیا میں ج و س کون ،ل ذت ،نعمت ،ذائقے ہیں ،ان کے ساتھ کوئی حقیقی مماثلت نہیں ہے ،لیکن ہمیں دنیا میں ان چیزوں کا ج و کچھ ادراک اور احساس حاصل ہے ،اس پر قیاس کرتے ہوئے ہم ایک ح د ت ک ان ک ا تص ور ک ر س کتے ہیں۔ حقیقت میں وہ لطف کیا ہوگ ا ،حقیقت میں وہ نعمت کی ا ہ وگی ،حقیقت میں وہ س کون قلب کی ا ہوگ ا ،اور جن نعمتوں کا اور جن باغات کا اور جن دوسری چیزوں کا ہمیں بتایا گیا ہے ،ان کا حقیقت میں وہ اں کی ا رنگ ہوگا؟ یہاں ان کا محض ایک تصور کر سکتے ہیں۔ حقیقت وہاں جا کر معلوم ہوگی ،کی ونکہ وہ بنیادی طور پر ایک ایسی دنیا سے متعلق بات ہے جو ہمارے مش اہدے میں بھی نہیں اور ج و چ یزیں ہم ارے مش اہدے میں ہیں ،ان میں ک وئی چ یز ایس ی نہیں ہے ج و حقیقت کے لح اظ س ے اس کی ترجمانی کر سکے۔ دم کا جو قصہ ہے ،وہ اس سے بالکل مختلف ہے۔ ہم نے آدم کو نہیں دیکھا ،لیکن آدم ایک انسان تھے۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے ہم ماضی کے واقعات بیان %کریں۔ ہم نے تو ان کو نہیں دیکھا ،لیکن ہم ان کو سمجھ سکتے ہیں ،اس لیے کہ ہم انسان آج بھی انسان ہیں۔ انسان کی زندگی کے جو احوال ہیں ،وہ وہی ہیں جو ان کے ہیں۔ تو ہم اپنے احوال سے ،اپنے مشاہدئہ انسان سے یہ سمجھ سکتے ہیں کہ جو واقعہ بیان کیا گیا ہے ،اس میں حقیقت کے لحاظ سے کیا ہوا ہوگا۔ آدم بھی ایک انسان تھے۔ ان کو جو واقعات اور احوال پیش آئے ،وہ بالکل اسی طرح مادی زندگی کے احوال ہیں جو ہمارے لیے قابل فہم بھی ہیں اور قابل ادراک بھی ہیں۔ تو اس کو ایک تمثیل %قرار دینے کی یا ایک استعاراتی اور مجازی اسلوب میں بیان %کردہ واقعہ فرض کرنے کی کوئی وجہ نہیں %ہے۔