Professional Documents
Culture Documents
9402 2
9402 2
9402 2
ANS 02
جب ہم بھارت میں ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی حالت زار دیکھتے ہیں تو اپنے ملک کی
اہمیت کا احساس ہوتا ہے -ہندوستانی معاشرہ بنیادی طور پر ذات پات کے چار طبقات برہمن ،کھتری ،ویشنو اور دلت
1
میں تقسیم ہے جس میں دلت بہت نیچ طبقہ تصور کیا جاتا ہے -ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ دلت سے بھی
زیادہ برا سلوک برتا جا رہا ہے اور وہ سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے -صرف چند مسلمانوں کو مختلف سیاسی
پارٹیوں نے اپنا امیج اچھا بنانے کے لیے ساتھ مال رکھا ہے جو مراعات یافتہ طبقہ ہے جبکہ بقیہ مسلمانوں کی
حالت شودروں اور دلتوں سے بھی بدتر ہے -اسی طرح مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں اور مساجد کو مسمار کر کے
وہاں پر مندر تعمیر کیے جا رہے ہیں -مسلمانوں کے قدیم ثقافتی ورثہ کو بھارت میں زبردست خطرات الحق ہیں-
-مسلم شناخت کو مٹانے کے لیے شہروں کے نام تک تبدیل کر دیے گئے ہیں
انسانی تاریخ میں بہت کم اقوام نے آزادی کے حصول کے لیے اتنے لمبے عرصے تک اتنی بھاری قیمت ادا کی ہو
گی جتنی کشمیر کی عوام نے کی ہے -جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو جب بھی یہ محسوس ہوا ہے کہ ان کی
شناخت اور کلچر خطرے میں ہے ،انہوں نے اس کی بقا کیلیے آواز اٹھائی ہے -ڈوگرا راج کے خالف کشمیریوں کی
جدوجہد معاشرتی ،ثقافتی ،سیاسی و معاشی حقوق کے حصول کیلیے تھی -اس جدوجہد پر اس وقت برٹش انڈیا میں
یک پاکستان کے گہرے اثرات تھے -انڈیا میں پیش کیے جانے والے دو قومی نظریہ کو
چالئی جانے والی تحر ِ
کشمیری مسلمانوں کے اپنے مذہبی و ثقافتی تشخص کی پہچان سے مزید تقویت ملی1931-ء میں عالمہ محمد اقبال
کی جانب سے ٰالہ آباد میں پیش کیے گئے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کے نظریہ نے 1932ء میں
کشمیر میں مسلم کانفرنس کے قیام میں بہت مدد دی جو کہ کشمیر میں مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت تھی -اس
پس منظر میں یہ بات فطری تھی کہ کشمیر کی عوام پاکستان میں شمولیت کے لیے جدوجہد کرتے -اس بات کا اظہار
الحاق پاکستان کی اس قرارداد سے ہوتا ہے جو کشمیری نمائندوں نے 19جوالئی 1947ء کو سری نگر میں منظور
ِ
-کی
کشمیری ،انڈین قابض افواج کے ہاتھوں عرصہ دراز سے مظالم برداشت کر رہے ہیں لیکن پچھلے ایک سال سے
مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی جو سنگین پامالی جاری ہے اس بربریت کی تاریخ میں مثال نہیں
وام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے برعکس ،انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے الحاق
ملتی -اق ِ
کے یک طرفہ اقدامات اٹھائے ہیں اور شہریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں -انڈیا پورے ملک سے
ہندوؤں کو بڑی تعداد میں کشمیر میں بسا رہا ہے تا کہ آبادی کا تناسب تبدیل کر کے کشمیر میں مسلم اکثریت کو
اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے -جموں و کشمیر کی عوام نے یہ تہیّہ کیا ہے کہ وہ اس سازش کا بھرپور مقابلہ کریں
گے -ڈومیسائل سے متعلق نئے قانون نے کشمیریوں میں مزید بےچینی پید اکی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی قابض انڈین
فورسز کی جانب سے بہت سی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں -کشمیر کی عوام ایک محاصرہ جیسی کیفیت میں
زندگی گزار رہے ہیں اور انٹرنیٹ اور روابط کی دوسری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں -کوویڈ 19-وائرس کی
وجہ سے پوری دنیا میں ہونے والے الک ڈاؤن سے دنیا کشمیریوں کی مشکالت کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہے جو
2
عرصہ دراز سے کرفیو میں زندگی بسر کر رہے ہیں -دنیا میں چند ایک ایسے ممالک ہیں جو اپنے مالی مفادات کی
-وجہ کشمیریوں کے اصولی موقف کی حمایت سے گریزاں ہیں
عالمی میڈیا میں مسئلہ کشمیر کے تذکرہ اور اہمیت میں اضافہ ہوا ہے خصوصا ً جوالئی 2016ء کے بعد سے جب
اقوام متحدہ نے بھی اپنی
ِ انڈین آرمی نے سماجی کارکن برہان وانی کو بہیمانہ طور پر ماوارائے عدالت قتل کر دیا-
زیر بحث الیا ہے -اسی طرح انڈیا کے قریبی اتحادی
پچھلی 50سالہ خاموشی کو توڑا ہے اور مسئلہ کشمیر کو ِ
زیر بحث الیا ہے -اب وہ
جاپان نے بھی مسئلہ کشمیر پر بات کی ہے اور وہاں پر انڈین آرمی کے ظالمانہ کردار کو ِ
دن نہیں رہے جب انڈیا پاکستان پر بغیر ثبوتوں کے کشمیر میں دراندازی کا الزام لگا دیا کرتا تھا ،اب دُنیا کشمیر
میں جاری مظالم پہ بھارت کے سامنے آواز اُٹھاتی ہے -ایک بہت بڑی ڈویلپمنٹ فرانس میں منعقد ہونے والی جی7-
کانفرنس میں ہوئی جہاں سیشن کے اختتام پر امریکہ اور فرانس کے صدور نے نریندرا موذی سے کشمیر کے
مسئلہ پر بات کی -یہ عالمی رجحان میں بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ اب ہر کوئی انڈین گورنمنٹ سے کشمیر میں
-کیے جانے والے ظلم و ستم پر سوال کر رہا ہے -اس ضمن میں پاکستانی میڈیا کا کردار بھی حوصلہ افزاء ہے
پاکستان کو ہر ممکن وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوششیں کرنی چاہیئں خواہ ثالثی یا
دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے یا چاہے یکطرفہ اقدامات اٹھانے پڑیں -پاکستان مذاکرات کے ذریعے کم از کم 1990ء
سے جاری انسانی حقوق کی خالف ورزیوں اور بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہزاروں کشمیریوں
کے متعلق بات کر سکتا ہے -انڈیا میں اگرچہ اس وقت مخصوص فاشسٹ عزائم کی حامل گورنمنٹ ہے جس سےخود
بھارتی عوام بھی ناخوش ہے -سول سوسائٹی نہ صرف دونوں ممالک میں بلکہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر
کرنے اور اس کو ممکنہ حل کے جانب لے جانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے -یہ سوچ کہ مسئلہ کشمیر صرف
دو ممالک کا مسئلہ ہے ایک احمقانہ سوچ ہے -ہندوستان کا یہ پروپیگنڈا غلط ہے کہ مسئلہ کشمیر شملہ معاہدہ کے
تحت دو طرفہ مسئلہ ہے کیونکہ شملہ معاہدہ سے سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی اور نہ ہی
-عالمی ثالثی کو رد کیا جا سکتا ہے
یہ ہمارا قومی و عالمی فریضہ ہے کہ انسانیت کیخالف اس ظلم کو روکا جائے -انسانی حقوق کی خالف ورزی چند
عزم مصمم کرنا ہو گا کہ ہم اس وقت
لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اسکے عالمی اثرات مرتب ہوتے ہیں -ہمیں ِ
حق خود ارادیت نہیں مل جاتا -ماہرین نے اس
تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک کشمیریوں کو آزادی اور ِ
بات پر بھی زور دیا کہ تحریک کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی کے ذریعے ایک عالمی تحریک کا درجہ دیا
جائے -مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلیے ایک منظم تحریک اور انتھک کوششوں کی ضرورت ہے -پاکستان
-کی آزادی کشمیر کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے
:تجاویز
3
:مقررین کی تقاریر کے بعد ،درج ذیل تجاویز مرتب کی گئی ہیں
v اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو اپنے سفارتی ذرائع کے ذریعے قائل کرنا چاہیے کہ وہ عالمی
ِ پاکستان کو
عدالت انصاف کے رومن سٹیچوٹ کے آرٹیکل -13بی کے تحت انڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی،
-جنگی جرائم اور ظلم و بربریت کے ارتکاب پر مقدمہ چالئے
v اقوام متحدہ ،اس کے ذیلی اداروں اور دیگر عالمی تنظیموں
ِ ،یورپین یونین وغیرہ کو مقبوضہ کشمیر OIC
کے مستقل حل ،وہاں سے کرفیو اٹھانے اور معصوم شہریوں کے قتل عام کو روکنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھانے
-چاہیں
v عالمی برادری کو ایک منظم کمپین کے ذریعہ قائل کیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں’’ڈیموگرافک ٹائم بمب‘‘
-اور ڈبل الک ڈاؤن کیخالف آواز اٹھائی جا سکے
v پاکستان میں ایک نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جانا چاہیے جو کہ صرف اور صرف کشمیر کے کاز پر کام کر ے-
وزیر خارجہ کی معاونت کیلیے ایک سپیشل سیل قائم کیا جائے جس کی سربراہی سپیشل سیکریٹری کرے اور
ِ نائب
-تجربہ کار افسران کی ایک ٹیم اس میں شامل ہو
v اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ کشمیر کیلیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے جو کہ
ِ پاکستان کو
-مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خالف ورزیوں پر نظر رکھ سکے چاہے انڈیا اس کیلئے رضامند نا بھی ہو
v انڈیا ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکاری رہا ہے -پاکستان کو چاہیے کہ یکطرفہ اقدامات کے ساتھ
مختلف عالمی فورمز پر کثیر الجہتی کوششوں کو بھی جاری رکھے تاکہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل تالش کیا جا
-سکے
v عالمی میڈیا کو بھی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرے اور مقبوضہ کشمیر میں برپا کیے جانے والے
تحریک آزادئ کشمیر کی اصل تصویر کو بھی واضح کرے
ِ -بھارتی ریاستی مظالم اور
ANS 03
آزادی کے بعد اور خصوصا ً چند سالوں سے فرقہ پرست قوت نے ہندوستان سے اسالم اوراس کے پیروکار کی
یہودونصاری کی پوری پوری نیابت اختیار کررکھی ہے۔ کبھی بابری مسجد کا معاملہ تو کبھی بھاگلپور
ٰ بیخ کرنے میں
وگجرات میں مسلم نسل کشی کا ننگا ناچ ،اسی طرح کبھی مسلمانوں کی پرسنل الء میں مداخلت ،کبھی دینی مدارس
کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا گویا ”بہروپیا مختلف رنگوں میں“۔
4
”تم جتنا ہی تراشوگے اتنا ہی سوا ہوگا“کے تحت جب اسالم دشمن کی تشنہ نگاہ سیراب نہ ہوسکی تو اس نے
ہماری تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردی ،اور یہ آج ہی سے نہیں؛ بلکہ بہت پہلے ہی سے اس کی داغ بیل ڈالی
جاچکی ہے؛ لیکن ماضی قریب سے اس میں روز بروز شدت بڑھتی ہی جارہی ہے ،اور مسلم حکمرانوں خاص طور
پر حضرت عالمگیر ر حمہ ہللا کی جانب سے لوگوں میں اس قدر پروپیگنڈہ کیاگیا کہ غیر تو غیر اپنے بھی اسی
پرفریب سیالب میں بہہ پڑے ،نیز لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لینے لگا کہ آیا ہندوستان میں مسلمانوں کا
ورود باعث رحمت ہے یا زحمت؟؟؟
زاویہ فہم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ :مسلم
ٴ متعصب مورخین کی دوغلی پالیسی کے علی الرغم اکثر لوگوں کا
حکمراں نے ہندو پر تشدد نیز ان کے مقامات مقدسہ کی پوری بے حرمتی کی ہے ،اور مذہبی آزادی سلب کرلی گئی
تھی؛ لیکن انسان الکھ اپنی آنکھ بند کرکے روشن سورج کو جھٹالئے پھر بھی سورج روشن ہی رہے گا اس کی
چمک د مک پر اس نادان کی آنکھ مچولی سے ہرگز تاریکی طاری نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ ذیل کے سطور میں انھی
واقعات وحقائق پر روشنی ڈالی جائے گی اور اس نقطے کو نکھارا جائے گا کہ ہمارے جتنے بھی دعوے ہیں بغیر
دلیل کے نہیں؛ بلکہ مکمل ثبوت کے ساتھ ہیں۔
ورود اسالم سے قبل ہندوستان کا مذہب
ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی حالت کاسرسری جائزہ بھی ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں اسالم سے
پایہ
پہلے بدھ مذہب کے پیروکار تھے ،اور بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا بھی پتہ چلتا ہے؛ لیکن اتنی بات ٴ
ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی؛ بلکہ بدھسٹ کا اپنی خیرات تقسیم
کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین الئن میں ہوتے تھے وہاں برہمنوں کی قطار بھی ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند
، ۱۱۷-۱۱۸/۱از مسٹر ہنٹر) لیکن اس کے باوجود برہمن ”بدھ“ مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم کرنا چاہتے
تھے۔ مورخ اسالم اکبرشاہ خاں رحمہ ہللا کے حوالے سے چین کے مشہور عالم ”ہیونگ شیانگ“ نے ہندوستان کی
سیاحت میں پندرہ سال )/ ۶۴۵-۶۳۰تک گزارے ہیں ،اتنی ہی مدت میں ہندوستان کے چپہ چپہ کی سیر کرلی ،اور
ہرمقامات پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی جگہ ڈاکوؤں کے پنجے میں گرفتاری کا
ذکر بھی کرتا ہے ،اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر اور بے دین بتاتا ہے حاالنکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور
بدھ کے مخالف تھے۔ (آئینہ حقیقت نما،ص)۸۴:
اسالم سے پہلے ہندوستان کی مذہبی حیثیت
ہندوستان میں بدھ مذہب کو راجا ”اشوک“ کے زمانے میں کافی ترقی ملی؛ لیکن اس کے بعد اس کے شہنشاہی
ٹکڑوں میں منقسم ہوگئی جس کا الزمی نتیجہ یہ ہوا کہ بدھ کی اصل تعلیمات مسخ ہوگئیں اور عبادت و اخالق کی
بنیاد کھوکھلی ہوکر رہ گئی کیوں کہ اشوک کے عہد کو /۹سوبرس اور گوتم بدھ کے زمانے کو تقریبا ً /۱۲سو برس
ہوچکے تھے( ،آئینہ حقیقت نما،ص )۸۶-۸۵:چناں چہ پورا معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی
دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اسی زمانے کے احوال کی نقاب کشائی اکبر شاہ اس طرح کرتے ہیں کہ ” :یہاں (سندھ) میں
5
عام طور پر بت پرستی رائج تھی ،مجرموں کی شناخت کے لیے ان کو جلتی ہوئی آگ میں گذارنے کا عام رواج تھا،
اگر آگ میں جل گیا تو مجرم اور بچ گیا تو بے گناہ تھا۔“
پھر مزید کچھ آگے فرماتے ہیں کہ :جادو کا عام طور پر رواج تھا ،غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات بتانے
والوں کی بڑی گرم بازاری تھی ،محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ تھا ،چناں چہ راجا داہر نے اپنی
تعالی کا تصور
ٰ حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایماء سے شادی کی تھی ،راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا ،ذات باری
ادنی پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے۔“ (آئینہ حقیقت نما،ص-۱۷۴:
ٰ اعلی و
ٰ معدوم ہوکر
)۱۷۵
اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے علی میاں ندوی رحمہ ہللا ”منو شاستر“ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ” :اس
آلہ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا
وقت عام طور پر ہندو مذہب نت نئے دیوتاؤں یہاں تک کہ ٴ
(اورآج بھی یہ طریقہ ہندوؤں میں رائج ہے ،الحول وال قوة اال باہلل)“ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک قوم
”شودر“ نامی ہے جس کے متعلق منوشاستر،ص ۶:پر ہے” :اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے
دعوی کرے کہ اس (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو
ٰ تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے ،اگر اس کا
کھولتا ہوا تی ل اس کو پالیا جائے ،کتے ،بلی ،مینڈک ،چھپکلی ،کوے ،الو اور ”شودر“ کے مارنے کا کفارہ برابر
ہے۔“ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا
سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان
ادنی جھلک۔
کے اللے پڑجائیں۔ یہ تھی ہندی مذہب کی ٰ
عرب وہند کے تعلقات کا پس منظر
ت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل :زط (جاٹ) ،مید ،سیابچہ یا سیابجہ،
بعث ِ
تکری (ٹھاکر) کے لوگوں کا وجود بحرین ،بصرہ ،مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ
احامرہ ،اساورہ ،بیاسرہ اور ّ
۱۰ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں
حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا” :یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری
،۱۵۶/۳بحوالہ برصغیر میں اسالم کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی)
مزید اسحق بھٹی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں” :کتب تاریخ و جغرافیہ سے واضح ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر
سے ایران گئے اور وہاں کے مختلف بالد و قصبات مینآ باد ہوئے اور پھر ایران سے عرب پہنچے اور عرب کے
بزمانہ خالفت شیخین (حضرت
ٴ کئی عالقوں میں سکونت اختیار کرلی“ (ایضاً،ص )۱۸:نیز تاریخ میں ان قبائل کا۔
ابوموسی اشعری رضی ہللا عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا ثبوت بھی ملتا
ٰ ابوبکر وعمر رضی ہللا عنہما ) حضرت
ہے۔ (ایضاً،ص )۲۵:خالصہ یہ کہ یہ قبائل عرب کے ساتھ گھل مل گئے ان قبائل میں سے بعضوں کے بہت سے
رشتہ دار تھانہ ،بھڑوچ اور اس نواح کے مختلف مقامات میں (جوبحرہند کے ساحل پر تھے) آباد تھے۔
باآلخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر (متحدہ ہند) اور عرب کا باہم
شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل پڑا ،اس ہم آہنگی کی سب سے اہم کڑی عرب و ہند کے تجارتی تعلقات تھے ،یہی
6
وجہ ہے کہ ہندوستان کے نت نئے اشیائے خوردونوش وغیرہ :ناریل ،لونگ ،صندل ،روئی کے مخملی کپڑے،
سندھی مرغی ،تلواریں ،چاول اور گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں میں جاتی تھیں۔ (ایضاً،ص )۲۹:اس
واقعے کی تصریح ایک مصری مورخ یوں کرتا ہے :جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ
مکرمہ تھا ،یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر کو لے جاتے تھے ،اثنائے سفر میں یہ لوگ
مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر
ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔“ (عرب و ہند عہد رسالت میں بحوالہ الجمل فی تاریخ االدب
العربی،ص)۲۷:
ہند میں طلوع اسالم
بزور تیروشمشیر سب سے پہلے سرزمین
ِ یوں تو لوگوں میں مشہور ہے کہ ہندوستان میں اسالم کی روشنی
سندھ پر پڑی؛ لیکن یہ واقعہ ۹۳ہجری کا ہے جب کہ اس سے بہت پہلے بعہد فاروقی ۱۵ھ ہی میں ماال بار ،اور
سراندیپ کے عالقوں میں اسالم کی خوشبو پھیلنا شروع ہوگئی تھی اور سلسلہ وار عہد عثمانیہ سے خالفت امیہ تک
یکے بعد دیگرے بہت سے حضرات رسالت و توحید کی روشنی جنوبی ہند میں الالکر اس عالقے کے گوشہ گوشہ کو
روشن کرنے میں ہمہ تن منہمک تھے ،اور اسالم کسی خلل و رکاوٹ کے بغیر پھیل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن
شق قمر کا چشم دید
ودماغ کو مسخر کیے جارہا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ ماالبار کا راجا ”زمورن یا سامری“ نے معجزہ ِ
مشاہدہ کیا اور تاریخ و دن محفوظ کرکے تحقیق شروع کردی ․․․ معلوم ہوا کہ عرب میں ایک پیغمبر پیدا ہوئے ہیں
انھی کا یہ معجزہ تھا۔ (آئینہ حقیقت نما،ص ،۷۲-۷۱:از مورخ اسالم اکبرشاہ خاں نجیب آبادی)
الحاصل راجا نے بسروچشم اسالم قبول کرلیا اور اپنی سلطنت ترک کرکے سراپا ہدایت و رحمت صلی ہللا علیہ
وسلم کی بے پناہ اشتیاق میں ان کے کوچے کی طرف چل پڑا؛ لیکن وقت کا -سوائے خدا کسی کو علم نہیں -قبل اس
مالک حقیقی سے جامال۔
ِ سے کہ وہ اپنی تشنگی بجھاتا دل کی ارماں دل ہی میں لیے ہوئے
رہا محمد بن قاسم کا ہندوستان پر حملہ کا سوال ،تو اس کا مضبوط جواب یہ ہے کہ :حملہ کے اصل اسباب راجہ
داہر کے سیاہ کرتوت اوراس کے ہمراہیوں کی دراندازی تھی۔
سرزمین ہند پر مسلم حکمراں کے قدم اور ان کے اثرات ونتائج
ہندوستان پر مسلمان حکمرانوں کی تہذیب وتمدن کے اثرات کے پیش نظر عالمہ شبلی رحمہ ہللا کا نظریہ انھی
کے الفاظ میں تحریر کیا جائے گا تاکہ آئندہ سطور کو سمجھنے میں سہولت ہو۔ فرماتے ہیں” :کسی غیر قوم کا کسی
غیرملک پر قبضہ کرنا کوئی جرم نہیں ورنہ دنیا کے سب سے بڑے فاتح سب سے بڑے مجرم ہوں گے لیکن یہ
دیکھنا چاہیے کہ فاتح قوم نے ملک کی تہذیب و تمدن پر کیا اثر پیدا کیا” ،چنگیز خاں“ فتوحات کے لحاظ سے دنیا
کا فاتح اعظم ہے؛ لیکن اس کی داستان کا ایک ایک حرف خون سے رنگین ہے ،مرہٹے ایک زمانے میں تمام
ہندوستان پر چھاگئے؛ لیکن اس طرح کہ آندھی کی طرح اٹھے ،لوٹا مارا ،چوتھ (آمدنی کا چوتھائی) وصول کیا اور
نگل گئے ،بخالف اس کے متمدن قوم جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو وہاں کی تہذیب و تمدن دفعتہ بدل جاتی
ہے ،سفر کے وسائل ،رہنے سہنے کا طور ،کھانے پینے کے طریقے ،وضع و لباس کا اندازہ ،مکانوں کی سجاوٹ،
7
گھروں کی صفائی ،تجارت کے سامان ،صنعت و حرفت کی حالت ،ہر چیز پر ایک نیا عالم نظر آتا ہے۔ اور گو مفتوح
قوم ضد سے احسا ن نہ مانے لیکن درودیوار سے شکرگذاری کی صدائیں آتی ہیں۔“ (اسالمی حکومت اور ہندوستان
میں اس کا تمدنی اثر،ص)۲-۱:
یوں تو ہلکی پھلکی جھڑپیں ۱۵ھ ہی سے شروع ہوچلی تھیں ،نیز سندھی قیدیوں کا -جن کو ایران لڑائی کے
وقت کام میں التا تھا -عربوں کے ساتھ ہم محاذ ہونے کا اشارہ بھی تاریخ سے ملتا ہے؛ لیکن باضابطہ ہند پر حملہ
کا نقشہ یوں ہے :راجا داہر کی سرکشی مسلمانوں کے خالف حد سے متجاوز ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے
ت حرب و ضرب
عراق کے گورنر حجاج نے محمد بن قاسم کو ہندوستان کی طرف بارہ ہزار افواج مع اسباب و آال ِ
کے رجا داہر ک ی گوشمالی کے لیے روانہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسالمی لشکر جرار کی رجاداہر کی فوج
تعالی نے ہندوستان کی سرزمین کو ظلم و سرکشی
ٰ سے زبردست معرکہ ہوا اور راجا داہر مارا گیا۔ اس طرح سے ہللا
سے پاک کردیا․․․ پھر محمد بن قاسم نے پے درپے کئی مقامات فتح کرلیے اور ان پر شاندار کارکردگی دکھائی
جس کی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اہل سندھ پہلے کیا تھے اور اسالم کے مقدس اور روح افزا سایے میں آنے
اعلی معیار پہنچ گئے۔
ٰ کے بعد اخالق اور تعلیم و تہذیب کے کیسے
محمد بن قاسم کے بعد متعدد مسلم حکمراں آئے اور تھوڑی تھوڑی مدت میں بدلتے رہے جس کی وجہ سے پہلے
کے بنسبت نظم و نسق خاصا اثر انداز ہوا۔ البتہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ ہللا نے اپنے دور اقتدار میں اہل سندھ و ہند
کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے۔ جن میں توحید و رسالت کی دعوت اور بت پرستی و بداخالقی سے باز رہنے کی
بات تھی۔ جس کا سردست نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بہت سارے ہندو سرداران اسالم میں داخل ہوگئے جن میں سرفہرست
”جے سنگھ“ بن داہر تھا۔
ان تاریخی حقائق (جو مغربی مورخین کی نفرت آمیز آلودگی میں اوجھل ہوکر رہ گئے) پر اہل وطن کو غور کرنے
کا مقام ہے۔ پھر مسلمان حکمرانوں کا یہ سلسلہ عبدالملک بن شہاب /۷۷۶تک چال اس کے تقریبا ً دو صدی بعد
/۹۹۷میں محمود غزنوی کا ورود ہوا اور متعدد حملوں کے بعد حکومت ہند کی باگ ڈور سنبھالی ،پھر تقریبا ً ڈیرھ
صدی کے بعد / ۱۱۷۱میں محمد غوری آیا اور کئی معرکہ آرائیوں کے بعد فتح حاصل کی اور سالطین ہند میں شامل
ہوا ؛ لیکن ہندوستان پر باضابطہ مسلمانوں کی طویل حکومت کا آغاز سلطان ظہیرالدین بابر سے ہوا اس لیے کہ بابر
سے پہلے جو بھی آیا اس کی حکومت محدود عالقے تک رہی چہ جائیکہ محمود غزنوی نے اس میں کافی وسعت
عرصہ دراز کا خال بھی رہا۔
ٴ پیدا کی ،دوسرے یہ کہ ایک کے بعد دوسرے کے آنے تک
چنانچہ انھی دونوں رکاوٹوں کے باعث اسالمی اثر و رسوخ اہل ہند میں کامل طور پر اثر انداز ہوسکا اور یہاں
کے لوگوں میں تعلیم اور تہذیب وتمدن کا بڑا فقدان تھا ،اور جو تھوڑی سی مقدار صوفی سنتوں کی تھی بھی تو وہ
اس قدر رہبانیت کے گہرے سمندر میں غوطہ زن تھے کہ اپنی ہی ذات سے ناآشنا تھے ،تو بھال ان کے ذریعہ
دوسرے کی اصالح کی کیا توقع۔
بابر نے ہندوستان کو کس حالت میں پایا
8
بابر نے ترکستان سے مختلف مقامات مسخر کرتا ہوا /۱۵۲۶میں ہندوستان کو بھی اپنے زیر کمان کرلیا؛ لیکن
ہندوستان کی معاشرت اسے بڑی عجیب و غریب محسوس ہوئی ،اور اہل ہند اسے تہذیب و تمدن سے کوسوں دور
نظر آئے۔ چناں چہ عالمہ شبلی رحمہ ہللا فرماتے ہیں” :اگرچہ ظاہر ہے کہ اس سے قبل کی اسالمی حکومتوں نے
بھی ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو کچھ نہ کچھ ضرور ترقی دی تھی تاہم بابر نے ترکستان سے آکر ہندوستان کو
جس حالت میں دیکھا اس کی تصویر اسی کے لفظوں میں یہ ہے” :ہندوستان میں اچھے گھوڑے نہیں ،اچھا گوشت
ب سرد نہیں ،حمام نہیں ،مدرسہ نہیں ،شمع نہیں (ایسی
نہیں ،انگور نہیں ،خریزہ (خربوزہ) نہیں ،برف نہیں ،آ ِ
روشنی جو ہرجگہ ہر موقع سے کام آسکے) مشعل نہیں ،شمع دان نہیں ،مزید کچھ آگے فرماتے ہیں :باغوں اور
عمارتوں میں آب رواں نہیں ،عمارتوں میں نہ صفائی ہے ،نہ موزوں نی نہ ہوا ،نہ تناسب ،عام آدمی ننگے پاؤں
لنگوٹی لگائے پھرتے ہیں ،عورتیں لنگی باندھتی ہیں جس کا آدھا حصہ کمر سے لپیٹ لیتی ہیں اور آدھا سر پر ڈال
لیتی ہیں۔“ (اسالمی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص)۳-۲:
ثری سے ثریا تک
ہندوستان عہ ِد اسالمی میں ٰ
شاہان اسالم نے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا اور اس کو ترقی کی سمت گامزن کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا
ِ
نیز اس کو دیدہ زیب ،سونے کی چڑیااور پرکشش بنانے میں پوری دلچسپی کا مظاہرہ کیا ،جس کی موالنا علی میاں
ندوی رحمہ ہللا یوں منظر کشی کرتے ہیں” :مسلمان اگرچہ ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آئے لیکن اجنبی
حکمرانوں کی طرح انھوں نے اس کو محض تجارت کی منڈی اور حصو ِل دولت کا دریعہ نہیں سمجھا بلکہ اس کو
وطن بناکر یہیں رس بس گئے اور مرن ے کے بعد بھی اس کی خاک کے پیوند ہوئے اس لیے کہ انھوں نے حکومت
و سیاست ،علم وفن ،صنعت وحرفت ،زراعت وتجارت ،تہذیب و معاشرت ،ہر حیثیت سے اس کو ترقی دے کر صحیح
معنوں میں ہندوستان کو جنت نشاں بنادیا۔“ (ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی کارنامے ،ص)۱:
شہنشاہان اسالم نے مختلف مقامات پر تعلیمی ادارے قائم کیے ،رفا ِہ عام کا مکمل نظم و نسق کیا
ِ یہی وجہ ہے کہ
پھر ڈاک کی راہیں ہموار کیں ،مختلف االنواع روز مرہ نیز سردیوں کے کپڑوں کے بے شمار کارخانے بنوائے،
تجارت و زراعت کا صحیح زاویہ سکھایا اور متمدن ممالک کے اتصال کا سامان مہیا کیا نیز صنعت و حرفت کو بام
عروج تک پہنچایا۔ جس کو عالمہ شبلی رحمہ ہللا یوں لفظ کا جامہ پہناتے ہیں:
”ہندو ہمیشہ سے نہایت سادہ لباس پہنتے تھے اور غالبا ان کو گزی گاڑھے کے سوا اور کچھ پہننا نہ آتا ہوگا،
(جس کی شہادت گذشتہ سطور میں صراحت سے ملتی ہے) اکبر نے دلی ،الہور ،آگرہ ،شیخ پور ،احمد آباد اور
گجرات میں پارچہ بافی کے بڑے بڑے کارخانے جاری کیے اور (یہی نہیں بلکہ) ایران ،افغانستان ،اور چین سے
کاریگر بلواکر ہر قسم کے قیمتی کپڑے تیار کرائے۔“ (اسالمی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر،ص)۷:
اسی طرح اہل ہند کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے جن خوراک کی بھی ضرورت پڑی خواہ باطنی ہو یا
ظاہری مسلم حکمرانوں نے اس کو بہم پہنچایا۔
حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ ․․․
9
جھوٹ جھوٹ ہے اور سچ سچ ہے ،دونوں میں دن و رات کا فرق ہے ،گو جھوٹ کو سچ کالبادہ اوڑھانا دن کو
رات بنا نے کے مرادف ہے ،کوئی حقیقت سے جس طرح ممکن ہو آنکھ بند کرلے؛ لیکن راست بازی اپنی حقیقی
روشنی سے مدمقابل کی نگاہ خیرہ کرکے رکھ دیتی ہیں۔
چناں چہ چند غالم اور حقیقت سے بے خبر لوگ اسالمی حکومت کو بے انصاف ،تشدد پسند اور سالطین کی ریڑھ
کی ہڈی ،ہندوستان کے ہر ہر ذرے کو آفتاب و ماہتاب بنانے والے اور پورے پچاس سال تک سپاہیوں کی مقدار پر
تنخواہ لے کر ملک و قوم کی خدمت کرنے والے عالمگیر اورنگ زیب کو متشدد اور مذہب ہندو کا جانی دشمن قرار
دیتے ہیں۔ بڑے ․․․ رنج والم کی بات ہے۔
اس کے باوجود جواہر الل نہرو اپنی کتاب (تالش ہند) میں ہندوستانی سماج ،ہندوستانی فکر ،اور ہندوستان کی
تمدن و ثقافت پر مسلمانوں کے ناقابل فراموش گہرے اثرات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ کہتے ہیں:
”ہندوستان میں اسالم کی اور ان مختلف قوموں کی آمد نے جو اپنے ساتھ نئے خیاالت اور زندگی کے مختلف
طرز لے کر آئ ے ،یہاں کے عقائد اور یہاں کی ہیئت اجتماعی کو متاثر کیا ،بیرونی فتح خواہ کچھ بھی برائیاں لے کر
آئے اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے ،یہ عوام کے ذہنی افق میں وسعت پیدا کردیتی ہے اور انھیں مجبور کردیتی
ہے کہ وہ اپنے ذہنی حصار سے باہر نکلیں ،وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا اس سے کہیں زیادہ بڑی اور
بوقلموں ہے جیسی کہ وہ سمجھ رہے تھے۔
بالکل اسی طرح افغان فتح نے ہندوستان پر اثر ڈاال اور بہت سی تبدیلیاں وجود میں آگئیں ،اس سے بھی زیادہ
تبدیلیاں اس وقت ظہور میں آئیں جب مغل ہندوستان مینآ ئے ،کیوں کہ یہ افغانوں سے زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ
تھے ،انھوں نے ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ اس نفاست کو رائج کیا جو ایران کا حصہ تھی۔“ (تالش
ہند،ص ۲۱۹:بحوالہ ہندوستانی مسلمان،ص)۳۰:
اسی مذکورہ واقعہ کی تائید میں سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے ایک رہنما ”ڈاکٹر پٹابی ستیہ َرمیّہ“
کے الفاظ کا نقل کرنا بھی میرے خیال سے بہتر ہوگا” :مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو ماالمال کیا ہے اور ہمارے نظم
ونسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے کے قریب النے میں کامیاب
ہوئے ،اس ملک کے ادب اوراجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے۔“ (خطبہ صدارت انڈین
نیشنل کانگریس اجالس جے پور ،/۱۹۴۸بحوالہ ہندوستانی مسلمان ،ص)۳۰:
یہ تھی مسلم حکمرانوں کی طرز حکومت اور اس کے بحرذخار کے چند چھینٹے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ سمندر کو
کوزہ میں سمونا انتہائی دشوار تر امر ہے۔ آج ہمارے اہل وطن ان حکمرانوں کے احسانات جس طرح بھی ہو
فراموش کردیں؛ لیکن ان کے لگائے ہوئے اس سدا بہار گلشن کی دلربائی سے اپنی آنکھ اوران کے عطربیز پھولوں
سے اپنی ناک کب تک بند کریں گے جب کہ خود اسی باغ کے بلبل ہیں اور پرورش پاکر اس کی خوشبوؤں سے
لہلہارہے ہیں۔
ANS 04
10
زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں
کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداءکی بنیاد
برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدالل یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز
مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک
نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہالئی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم
آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا
ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی
لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختالف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق
نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
دکن میں اردو:۔
نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدالل یہ ہے کہ طلوع اسالم سے بہت
پہلے عرب ہندوستان میں ماال بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات
مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معامالت میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش
آتا ہوگا۔ اسی میل میالپ اور اختالط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم
زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی
صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ڈاکٹر غالم حسین اس نظریے کی تردید کرتے
ہوئے کہتے ہیں۔
” عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اسلیے دکن میں اردو کی ابتداءکا
سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد وشمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے
مسلمان سالطینکی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کےارتقاءسے ہے۔
ابتداءسے نہیں۔“
اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن ) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی
نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے ،یہاں سے
کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے ۔ طلو ع اسالم کے ساتھ یہ عرب تاجر ،مال تجارت کی فروخت اور
اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسالم بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پیدا
ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر
یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ
ہوسکاجہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا
11
جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقالب کی بنیاد نہ بن سکے البتہ
فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔
سندھ میں اردو:۔
یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور
یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختالط و ارتباط کے نتیجے
میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں :
” مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کوہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس
ہیولی اسی وادی سندھ میں تیار ہو ا ہوگا۔“
ٰ کا
اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔
مقامی لوگوں کی زبان ،لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب
کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد
پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بالو اسطہ طور پر متاثر
ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری
زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر
سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل “ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے
آگے نہ بڑھ سکے ۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس
ٰ
دعوے کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔بقول ڈاکٹر غالم حسین :
”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کےخاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں
صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہواتو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے ۔ اس عرصہ میں کچھ عربی
اور فارسیالفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کیابتداءکا قیاس شاید درست نہ
ہوگا۔“
اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی ،فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے
یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور
ہیولی قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر
ٰ ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگئی۔ اس آمیز ش کا
خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔
پنجاب میں اردو:۔
12
حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی
ابتداءپنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتداءاس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمو د غزنوی اور
شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے
مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیا م سے تقریبا ً دو سو سال تک یہ
فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت
کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس عالقے کے بہت سے شعراءکا کالم پیش کیا ہے ۔ جس میں پنجابی ،فارسی اور
مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار اس سلسلہ
میں لکھتے ہیں :
” سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیادور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ
سلسلہ 1000ءسے 1026ک جاری رہا اور پنجاب و سندھکے عالوہ قنوج ،گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر
تک فاتحین کے قدم پہنچےلیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ عالقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیاالبتہ
1025ءمیں الہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو مینشامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان
شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمانکثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے ،علماءاور صوفیا نے یہاں آکر رشد وہدایت
کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے مینمقامی باشندے گروہ درگروہ اسالم قبول
کرنے لگے اس سماجی انقالب کا اثر یہانکی زبان پر پڑا ۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہانکی زبان
کوبول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان ،عربی ،فارسی اور ترکی کے
ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔“
مسلمان تقریبا ً پونے دو سو سال تک پنجاب ،جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔
1193ءمیں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے
بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہوگئے۔ اب الہور کی بجائے دہلی کو دارالخالفہ کی حیثیت حاصل ہو
گئی تو الزما ً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی ،ان کے
ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی ۔
تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے عالوہ پرفیسر محمود خان شیرانی ،اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور
مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں
کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں:۔
” اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میناسماءو افعال کے خاتمے میں الف آتا
ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہےیہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم
13
اجزاءبلکہ انکے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر وتانیث کے قواعد ،افعال
مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو مینساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔“
مختصرا ً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی
وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی
بناءپر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدالل کو مزید تقویت پہنچتی
ہے۔
پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختالط کا ذکر کیا ہے اور
ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے ۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتدا ً اختیار کی وہ
وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر
مشرقی پنجاب اور یو ،پی کے مغربی اضالع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختالف نہیں اور یہ فرق آٹھ ،نو سال پہلے
تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریبا ً
ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں
کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔
حافظ محمود شیرانی کی تالیف”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی موالنا محمد حسین آزاد کے نظریے کی
تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتداءکے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو
کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ
ذرا مشکوک سا ہو گیا ۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداءکے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے
سکے۔ یوں پروفیسر اخترشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔
دہلی میں اردو:۔
اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب
کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں ۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت
اردو زبان کی نشوونما اور ارتقاءمیں تو مانی جا سکتی ہے ابتداءاور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان عالقوں کو اردو کے
ارتقاءمیں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں
ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ :
” یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتداءکا مسلمانوں سے یا سرزمین ہندمیں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور
استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھاور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی
طرح معلومہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضالع مینبولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ
14
معلوم نہیں کہ اس زبان کاآغاز انہی اضالع مینہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی
اضالع مینالیا گیا۔“
ان نظریات کے عالوہ میر امن ،سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن
یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔
مجموعی جائزہ:۔
اردو کی ابتداءکے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو
ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین االقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے
ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے
فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک
دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے
میں وہ بولتے رہے ہیں۔یوں محققین کی ان آراءکے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند
آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ ۰۰۰۱ءکے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (
موجودہ مغربی پاکستان) کے عالقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسالمی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔
یوں تو مسلمانوں نے دکن پر کئی حملے کیے لیکن عالئوالدین خلجی کے حملے نے یہاں کی زبان اور تہذیب و تمدن
اور کلچر کو کافی حد تک متاثر کیا۔ مرکزسے دور ہونے کی وجہ سے عالئو الدین خلجی نے یہاں ترک سرداروں کو
حکمران بنا دیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دیو گری کو دارالسلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کووہاں
جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھرانے وہاں آباد ہوئے۔ محمد تغلق کی سلطنت کمزور ہوئی
تو دکن میں آزاد بہمنی سلطنت قائم ہوئی اور دکن ،شمالی ہندوستان سے کٹ کر رہ گیا۔ بعد میں جب بہمنی سلطنت
کمزور ہوئی تو کئی آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی حکومت اور گولکنڈ ہ کی قطب
شاہی حکومت شامل تھی۔ ان خود مختار ریاستوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے علم
و فضل اورشعراءو ادبا دکن پہنچے۔ آیئے اب بیچاپور کی عادل شاہی سلطنت کے تحت اردو کے ارتقا ءکا جائزہ لیں۔
بیجا پور کی عادل شاہی حکومت:۔
عادل شاہی حکومت کی بنیاد 895ءہجری میں پڑی۔ یہاں کا پہال حکمران یوسف عادل شاہ تھا۔ بہمنی ریاست کے
زوال کے بعد یوسف شاہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی۔ یہ حکومت دو سو سال تک قائم رہی اور نو بادشاہ یکے بعد
دیگرے حکومت کرتے رہے۔ ابتدائی صدی میں دکنی زبان کی ترقی کے لیے کچھ خاص کام نہیں ہوا اور ایرانی اثرات
،شیعہ مذہب اور فارسی زبان دکنی زبان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنے ۔ لیکن اس کے برعکس دور عادل شاہی کی
15
شاہی سرپرستی دوسری صدی میں اردو و ادب کی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ابراہیم عادل شاہ ثانی اور ان
کے جانشین محمد عادل شاہ نے اس سلسلے میں دکنی زبان کی جانب خصوصی توجہ دی۔ محمد عادل شاہ کے
جانشین علی عادل شاہ ثانی نے دکنی کو اپنی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس صدی میں شاہی سرپرستی کی وجہ سے ادب
میں درباری رنگ پیدا ہوا۔ اصناف سخن کی باقاعدہ تقسیم ہوئی۔ قصیدے اور غزلیں کہی گئیں اور شاعری کا ایک
اعلی معیار قائم ہوا۔اس کے عالو ہ صوفیا نے بھی یہانکی زبان پر گہرے اثرات چھوڑے۔
ٰ
عادل شاہی دور میں اردو کے فروغ و ترویج کے مختصر جائزے کے بعد آئیے اب اس دور کے شاعروں کا مختصر
تذکرہ کریں تاکہ زبان و ادب کے ارتقاءکا اندازہ ہو سکے۔
ANS 05
برطانوی حکومت نے 24مارچ 1947ءکو ماﺅنٹ بیٹن کو وائسرائے ہند مقرر کیا۔ حکومت نے وائسرائے کی
معاونت کےلئے الرڈ اسمے ،سر ایرک میوائیلی اور ایلن کیمپ بیل جانسن کو مقرر کیا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے عہدہ کا
حلف اٹھاتے ہی ہندوستان کے تمام سرکردہ راہنماﺅں سے مالقات کا سلسلہ جاری رہا۔ ماﺅنٹ بیٹن واپس 19مئی
1947کو لندن پہنچے اور نہایت سرعت سے معامالت کو طے کیا گیا۔ ماﺅنٹ بیٹن محض 12دن کی قلیل مدت میں
31مئی 1947کو ہندوستان لوٹ آئے۔ 2جون 1947وائسرائے ہاﺅس میں منعقدہ کانفرنس میں رسمی طور پر
ہندوستانی رہنماﺅں کے سامنے منصوبہ پیش کیا گیا۔ جسے کانگرس اور مسلم لیگ نے بغیر زیادہ بحث و مباحثہ
کے قبول کر لیا۔ یہ منصوبہ تاریخ میں 3جون 1947کے نام سے موسوم کیا گیا۔ منصوبے کا سب سے اہم نقطہ یہ
تھا کہ انتقال اقتدار اسی سال ہو گا۔ (یعنی 1948کی بجائے 1947۔ اس اہم منصوبہ کی منظوری کے بعد کانگرس
کی جانب سے جواہر الل نہرو ،مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظم سکھوں کی جانب سے سردار بلدیو سنگھ نے آل
انڈیا ریڈیو پر تقاریر کیں۔ قائداعظم نے اپنی نشری تقریر میں منصوبہ کی منظوری کا اعالن کرتے ہوئے پہلی مرتبہ
”پاکستان زندہ باد“ کا تاریخی نعرہ بلند کیا۔
:تقسیم کے منصوبہ کے اعالن کے بعد مختلف راہنماﺅں نے اپنے اپنے خیاالت کا اظہار کیا۔ موالنا آزاد نے کہا
“مجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم عارضی ،بالکل عارضی ثابت ہو گی”
ہندو ماسبھا کی جانب سے تعصب کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا گیا۔”انڈیا واحد اور ناقابل تقسیم ہے۔ جب تک انڈیا
سے الگ ہونے والے خطوں کو دوبارہ شامل نہیں کیاجائے گا اور انہیں انڈیا کا الزمی حصہ نہ بنا دیا جائے امن کا
قیام نامکمل رہ جائے گا“۔
:گاندھی نے ماﺅنٹ بیٹن کے منصوبہ تقسیم پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا
یہ تقسیم عارضی ہے یہ زیادہ تیر تک نہ چل سکے گی بلکہ مسلمان خود بخود ہندوستان سے آملیں گے“۔”
:سردار پٹیل نے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا
اگر جسم کا ایک حصہ زہر آلود ہے اسے جتنی جلدی الگ کر دیا جائے بہتر ہے تاکہ باقی جسم بچ جائے“۔”
منصوبہ کے اعالن کے بعد مختلف اہم نوعیت کے درج ذیل فیصلے کئے گئے۔
16
سندھ اسمبلی نے 26جون 1947ءکو پاکستان میں شمولیت کا متفقہ فیصلہ کیا۔
بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری ارکان نے متفقہ طور پر پاکستان کے حق میں
رائے دی۔
ضلع سلہٹ کے ووٹرز نے سلہٹ کو آسام سے الگ کر کے مشرقی بنگال کے ساتھ مال دینے کا فیصلہ کیا۔” حق
میں 24الکھ اور مخالفت میں 8الکھ ووٹ ڈالے گئے“۔
صوبہ سرحد میں عبدالغفار خان اور جمعیت العلماءہند کے پاکستان کے خالف بھرپور مہم چالئی مگر ریفرنڈم میں
عوام نے ان کی خواہشات اور امیدوں کو خاک میں مال دیا پاکستان میں شمولیت کے حق میں 275000اور مخالفت
میں تقریبا ً 3000ووٹ پڑے۔ خان عبدالغفار خان کی ہزیمت سے کانگریسی قیادت بھی بددل ہو گئی۔
بنگال اور پنجاب کی تقسیم کےلئے سرریڈکلف کی سرکردگی میں الگ الگ کمشن قائم کئے گئے تاکہ نئے ممالک کی
سرحدات کا تعین کیا جا سکے۔ پنجاب کےلئے جسٹس دین محمد ،جسٹس محمد منیر ،مسٹر جسٹس مہر چند مہاجن،
مسٹر تیجا سنگھ ،سرحدات کے تعین کمشن کی تشکیل کےلئے قائداعظم کی خواہش تھی کہ دار االمراءکے لڈ الرڈ کو
چیئرمین بنایا جائے مگر ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے عزائم اور کانگرسی خواہشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریڈ کلف کو
چیئرمین بنایا جو سراسر غلط فیصلہ تھا۔ کمشن کی جانب سے جو غلط فیصلے کئے گئے وہ مرحلہ وار کچھ اس
طرح تھے۔
بنگال :بنگال کی سرحدات مقرر کرتے وقت کلکتہ ،مرشد آباد اور نادیہ ضلع کا بیشتر حصہ بھارت کو دے دیئے گئے
کیونکہ کانگرس نے ماﺅنٹ بیٹن سے اس امر کا اصرار کیا کہ کلکتہ کے بغیر بھارت نامکمل ہے۔ آسام کے بعض
غیر مسلم عالقے پاکستان اور بعض مسلم عالقے بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔ 1948میں بعض اختالفات پیدا
ہوئے۔ تاہم ٹربیونل کے فیصلہ کے مطابق بھارت ،بیروباری یونین کا عالقہ پاکستان کے حوالے کرنے سے پس و
:پیش کرتا رہا۔ جسٹس رحمن نے ریڈ کلف کے حتمی فیصلہ کو پڑھا تو صاف کہا
فیصلہ غیر منصفانہ اور از حد حیران کن ہے“۔”
:پنجاب
پنجاب میں عجیب صوررتحال تھی۔ اوالً تو قائداعظم پنجاب کی تقسیم کے مخالف تھے مگر تقسیم کو جب پنجاب کی
تقسیم سے مشروط کر دیا گیا تو مجبورا ً تقسیم پنجاب کو ماننا پڑا مگر یہاں صورتحال عجیب تھی سکھوں نے پنجاب
کے بیشتر اضالع پر اپنا حق جتالتے ہوئے ان کی مغربی پنجاب سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ شیخوپورہ میں ننکانہ
صاحب کے تعلق جو سکھوں کے مذہبی پیشوا ہیں اپنا حق فائق سمجھا ،عالوہ ازیں گورداسپور ،سیالکوٹ،
گوجرانوالہ ،الہور ،منٹگمری اور الئل پور میں زمینوں کے بڑے بڑے مالک سکھ تھے اور وہ ان کی آبادکاری کی
بدولت بضد تھے کہ ان اضالع کے بیشتر عالقوں کے وہ حقدار ہیں۔ انگریزوں کے سرحدات کے مقرر کرتے وقت
مسلم اکثریتی کی بیشتر تحصیلیں بھارت کے حوالے کر دیں خصوصا ً فیروز پور ،زیرہ ،نکودر ،جالندھر ،گورداسپور،
پٹھانکوٹ ،بٹالہ ،ہوشیارپور ،دسوہہ کو بھارت میں شامل کر دیا صرف شکر گڑھ کی مسلم اکثریتی تحصیل پاکستان
کو دیدی گئی۔
17
٭گورداسپور کی وجہ سے بھارت کو جموں کشمیر کا زمینی راستہ میسر آیا جو آئندہ دونوں ممالک کے لئے وجہ
تنازعہ بنا اور آج تک حل طلب ہے۔
٭مادھوپور ہیڈ بھارت کے حوالے کر دیا گیا اور آغاز سے ہی نہری پانی کا تنازعہ شروع ہو گیا حاالنکہ وہاں سے
نکلنے والی نہر ہر باری دوآب پاکستان کے بیشتر عالقوں کو سیراب کرتی تھی۔
٭کشمیر پر غاصبانہ قبضے کا خفیہ منصوبہ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریسی قیادت نے پہلے سے ہی بنا رکھا تھا۔
پٹھانکوٹ کی تحصیل سے بھارت کو زمینی راستہ میسر نہیں آ سکتا تھا اگر گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں
بھارت کو نہ دی جائیں ،یہ تمام تحصیلیں 8اگست کو پاکستان کے نقشہ میں ظاہر کی گئیں مگر ریڈ کلف نے ماﺅنٹ
بیٹن کی ایما کے مطابق یہ تمام عالقے بھارت کو دیئے۔ ریڈ کلف کا بیان تھا کہ دریائے ستلج کے مغربی جانب اور
بیاس و ستلج کے زاویہ میں مسلم اکثریتی عالقے ہندوستان کو نہیں دینا چاہتا تھا لیکن آخر کار یہ عالقے بھارت کو
دیدیئے۔
قائداعظم نے ریڈ کلف ایوارڈ کو صریحا ً ظالمانہ فیصلہ قرار دیا چونکہ وہ وعدہ کر چکے تھے اسلئے اسے مجبورا ً
قبول کرنا پڑا“۔
وزیراعلی ایٹلی نے 4جوالئی 1947ءکو مسودہ قانون برطانوی 3
ٰ جون 1947ءکے منصوبہ کی بنیاد پر برطانوی
ٰ
داراالمرا نے اسے منظور کیا 16جوالئی کو ملکہ کی پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ 15جوالئی کو بحث و تمحیص کے بعد
منظوری سے قانون آزادی ہند منظر عام پر آیا۔ دوسرے تمام اہم فیصلوں کے ساتھ ایک یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ
ملک میں موجود ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکتی ہیں مگر انگریزوں نے
اس قانونی ضابطہ کو حقیقی معنوں میں پورا کرنے کےلئے کئی متنازعہ فیصلے کئے۔ سرا سر فریب تھا۔ ہندوستان
میں انگریزوں نے حصول مال اور حصول اقتدار کےلئے بے شمار معاہدوں کو توڑا ،معاہدہ خواہو اسیران سند سے
وہ یا رنجیت سنگھ سے ،معاہدہ خواہ نظام آف حیدر آباد سے ہو یا ریاست اودھ سے ،ہر معاہدہ ان کے نزدیک کوئی
وقعت نہیں رکھتا تھا۔ اسیران سندھ سے کئے گئے معاہدوں کی خالفوری یا الحاق کی بات اس موقع پر چارلس نیپئر
نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے بھی شرم محسوس نہ کی۔ ”کہ ہم نے گناہ کیا ہے“۔ لیکن یہ ہمارے مفاد میں ہے۔
ریاستونکے الحاق کے حوالہ سے جونا گڑھ ،مناوادر ،حیدر آباد دکن اور خصوصا ً کشمیر کے حوالہ سے انگریزوں
نے ہندوﺅں کے ساتھ مل کر سازش کر کے تمام اخالقی آئینی اور قانونی ضابطوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ یہ حقیقت
ہے کہ انہوں نے مسلم دشمنی کا واضح ثبوت دیتے ہوئے ایسے اقدامات کئے جو نئی مملکت یعنی پاکستان کےلئے
بے شمار مشکالت کا باعث بنے۔ دونوں ممالک میں نفرت و عداوت کے ایسے بیج بوئے جو آج تن آور درخت بن
چکے ہیں۔ تقسیم کے بعد انگریزوں نے جس بدنیتی خصوصا ً انتظامی بدنظمی ،ال اینڈ آرڈر کی صورتحال سے چشم
پوشی ،امن و امان کی ذمہ داری سے مبرا ہونا ایسے حاالت تھے جس سے تقسیم کے بعد سرحدات خصوصا ً مشرقی
پنجاب سے آنے والے الکھوں مسلمانوں کی شہادت ،درحقیقت انگریزوں کی سنگ دلی اور حاالت کو دانستہ بگاڑنے
کا ایسا جرم تھا جسے آج بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ مجموعی طور پر پنجاب کے فسادات میں چھ الکھ افراد کی
18
ہالکت ایک کروڑ چالیس الکھ افراد کا بے گھر ہونا اور ایک الکھ معصوم اور بے گناہ لڑکیاں اغوا اور عصمت دری
کا نشانہ بیں۔ پنجاب کی تقسیم کی یہ قیمت ادا کی گئی۔
ANS 06
آج پاکستان میں مذہبی دہشت گردوں اور طالبان نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی جڑ میں
جن نعروں اور نظریوں کا بیج بویا گیا اور جن کی آبیاری گزشتہ ساٹھ سال کے دوران کی گئی وہ کچھ یوں ہیں
نظریہ پاکستان ،نظریاتی سرحدیں ،نظریاتی ریاست ،اسالمی ریاست،اسالم ایک مکمل ضابطہ حیات ،اسالمی نظام،
نفاذ شریعت یا نفاذ اسالم ،حکومت الہیہ کا قیام ،اسالمی نظام کی تجربہ گاہ ،احیائے اسالم ،اسالمی اُمہ وغیرہ۔
ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان اصطالحوں کا استعمال قیام پاکستان سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کے کچھ
عرصہ بعد شروع کیا گیا۔ درا صل یہ وہ دور تھا جب بین االقوامی سامراج (اینگلو امریکی سامراج) اور مقامی
حکمران طبقوں کو ان نعروں اور نظریوں کی شدید ضرورت پڑ گئی تھی۔ بین االقوامی سامراج کو اس لئے کہ:
سوویت روس اور ابھرتی ہوئی چین کی کمیونسٹ قوت کے گرد حصار قائم کرنے کے لئے سامراج فیصلہ کر چکا
تھا کہ مذہب کو بطور نظریاتی ہتھیار کے ستعمال کرے گا۔
مقامی حکمران طبقوں کو اس لئے کہ:
۔عوام اپنے معاشی ،جمہوری حقوق کا مطالبہ کریں تو اسے نظریہ کے نام پر رد کیا جا سکے
۔بنگال کے عوام اپنے حقوق مانگیں ،پٹ سن کی آمدنی کو بنگال پر خرچ کرنے کی بات کریں ،مالزمتوں میں اپنا
حصہ مانگیں ،فوج میں بھرتی ہونے کی بات کریں ،بنگالی کو قومی زبان بنانے کا نعرہ لگائیں،اور آئین میں آبادی
کی بنیاد پر ایک فرد ایک ووٹ کا مطالبہ کریں ،تو کہا جائے کہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کی جا رہی ہے اور نظریہ
کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کے نیچے کچل دیا جائے
۔ سندھ ،سرحد اور بلوچستان کے عوام اپنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کریں تو ان نظریاتی ہتھیاروں کو
استعمال کیا جائے
۔پاکستان کے عوام بالعموم اپنے معاشی خوشحالی اور بنیادی حقوق کے مطالبات اُٹھائیں تو بھی یہ نظریاتی ہتھیار
استعمال میں الئے جائیں۔
اور پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان نظریوں کا سہارا لے کر
۔اینگلو امریکی سامراج نے اسالمی بالک بنانے کے لئے پاکستان کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ اسالمستان
بنانے کے مشن پر چوہدری خلیق الزمان کو مسلمان ملکوں کے دوروں پر بھیجا گیا۔ پھر Middle East
Defence (MEDO) Organizationکے قیام کے لئے چوہدری ظفرا ہللا وزیر خارجہ پاکستان کو مسلمان
ملکوں میں بھیجا گیا۔اور باآلخر بغداد پیکٹ وجود میں آیا جسے بعد میں CENTOکا نام دے دیا گیا
۔ملک میں آئین سازی کے عمل کو طول دے کر پس پشت ڈال دیا گیا۔قائد اعظم کی ۱۱۔اگست 1947کی دستور
اسمبلی کی افتتاحی تقریر کو نظر انداز کر کے قرارداد مقاصد منظور کی گئی جو چند تجریدی Abstractمذہبی
19
نعروں پر مبنی تھی۔اسمبلی کے اقلیتی ارکان نے اس کی مخالفت میں تقریریں کیں اور اس کے خالف ووٹ دیا۔وزیر
قانون جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑ کر ہندوستان چال گیا۔
۔ 1953میں مذہبی جماعتوں کے قادیانی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں الہور میں مارشل الء لگا جو پاکستان کا پہال
مارشل الء تھا۔
۔1954میں دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو مسترد کرتے ہوئے اسمبلی کو توڑ دیا گیا
۔1955میں سندھ ،سرحد ،بلوچستان،پنجاب کاہکےینائے شرماون یونٹ بنا کر تخت الہور کے تحت صوبہ مغربی
پاکستان بنا دیا گیا
۔ 1956اسٹبلشمنٹ کے نمائندے چوہدری محمد علی نے پہال دستور بنایا جس میں پیریٹی کے نام پر مشرقی پاکستان
کے 54فیصد کو مغربی پاکستان کے 46فیصد کے برابر کر دیا گیا۔یہ چوہدری محمد علی وہی شخص ہے جس نے
60کی دہائی میں نظام اسالم پارٹی بنائی اور 64اور 70کے انتخابات میں دائیں بازو کے اتحاد میں شامل ہو کر
حصہ لیا۔اور یہی شخص ہے جس نے سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان کی حیثیت سے پہلی پریس ایڈوائس جاری
کی تھی کہ قائد اعظم کی ۱۱۔اگست کی تقریر کے مکمل متن کو شائع نہ کیا جائے (مگر ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین
نے پورا متن شائع کیا)۔
۔58-56کے عرصہ میں لیاقت علی خان ،چوہدری محمد علی ،سر ظفر اہللا،غالم محمد ،سکندر مرزا وغیرہ نے اسالم
اور نظریہ کے نام پر ملک کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کیا اور ایوب خان کے مارشل الء کی راہ ہموار کی۔
۔ایوب خان کے دس سالہ دور میں اسالم اور نظریہ کا کئی بار استعمال کیا گیا۔غالف کعبہ۔کشمیر کا جہاد اور 65کی
جن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیال گیا
۔یحی خان کے تین سالہ دور میں نظریہ سازی کی سرکاری فیکٹریوں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور تمام سرکاری
وسائل دائیں بازو کی نظریہ باز جماعتوں کے حوالے کر دئے گئے۔ 70کے انتخاب کا نتیجہ آیا تو اس کے نتائج یہ
کہ کر مسترد کر دئے گئے کہ نظریہ پاکستان کی مخالف جماعتیں کامیاب ہو گئی ہیں اس لئے ان انتخابات کو کالعدم
کر کے نئے انتخاب کرائے جائیں۔ اور مشرقی پاکستان میں اس انتخاب کو کالعدم کر کے فوجی ایکشن کر دیا گیا اور
اسالم اور نظریہ پاکستان کے نام پر جعلی انتخاب کرائے گئے۔ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں الشمس اور البدر نظریہ
پاکستان کے نام پر فوجی ایکشن میں شامل ہو گئیں۔ 71میں نظریہ پاکستان کے نام پر پاکستان کو توڑ دیا گیا
۔77-72بھٹو دور میں مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں نے اسالمی نظام اور نظریہ پاکستان کے نعروں کے بے
دریغ استعمال کیا اور بھٹو حکومت کو مسلسل غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ 74میں قادیانی ایجی ٹیشن کر
کے احمدیوں کو اقلیت قرار دلوایا گیا۔ 77کی PNAکی تحریک۔نظام مصطفے تحریک۔فوجی کمانڈوز نے دینی
مدرسوں کے طالب علموں کو مسلح ہو کر مظاہروں میں حصہ لینے کی ٹریننگ دی۔ بھٹو حکومت کا نظریہ پاکستان
کے نام پر تختہ الٹ دیا گیا۔
۔ 88-77ضیا دور۔ نظریہ سازی کی جو فصل گزشتہ 30سال میں بوئی گئی تھی اب اس کے کاٹنے کا وقت آ گیا
تھا۔ضیا الحق اور امریکی سامراج نے نفاذ اسالم ،نفاذ شریعت ،حدود آرڈنینس،چادر اور چار دیواری ،پھانسیاں،
20
کوڑے ،جال وطنیاں ،کالشنکوف کلچر،ہیروئین اور سب سے بڑھ کر جہاد افعانستان کے ذریعے پاکستان کے
سیاسی ،ثقافتی،معاشرتی اور اخالقی نظام کو تہہ و باال کر کے رکھ دیا۔درسی نصاب کی کتابوں،مالزمتوں کے لئے
انٹرویوز اور ترقیوں کے لئے معیار نظریہ کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کی بھینٹ چڑھا دئے۔
۔99-88بے نظیر اور نواز شریف کے میوزیکل چئرز اقتدار کے ادوار میں ISIنے ضیا دور کی تمام داخلی اور
خارجی پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا۔ افغانستان میں جہادی تنظیموں کی خانہ جنگی کے دوران ان کی سرپرستی
جاری رہی یہاں تک کہ طالبان تنظیم کو اقتدار میں الیا گیا۔ پاکستان کے اندر بھی سپاہ صحابہ ،سپاہ محمد ،لشکر
جھنگوی ،لشکر طیبہ اور جیش محمد پروان چڑھائی گئیں۔
۔2009-99۔ مشرف دور اور بعد۔ 11/9کے بعد کا پاکستان۔مذہبی انتہاپسندی جنونیت میں تبدیل ہو گئی۔ الل مسجد
اور اسی قبیل کے مدرسوں میں خود کش حملہ آوروں کی فیکٹریاں قائم ہو گئیں جنہیں ISIاور اسٹبلشمنٹ نے پروان
چڑھنے دیا۔ اعجاز الحق ،چوہدری شجاعت حسین اور دیگر حکومتی عہدیدار ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ اور میڈیا
کے بہت سے lead anchorsبھی ان کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ ملک مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کے
ہتھے چڑھ گیا اور بے گناہ معصوم لوگوں ؛ سکول کے بچوں اور عورتوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا ،سارا ملک اس
مذہبی جنونیت کے آتش فشاں کے دہانے پر رکھ دیا گیا۔اور اب اس میں بھی کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ اس پورے
ڈرامہ کے پس پشت امریکی برطانوی اور بھارتی ایجنسیاں ہیں جو ان کو جدید اسلحہ ،ٹریننگ اور ڈالرز فراہم کر
رہے ہیں۔
ہم نے اس نام نہاد نظریہ پاکستان اور دوسرے نظریاتی نعروں کے سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے جو شدید
نقصانات اُٹھائے ہیں ،سیاسی ،معاشرتی ،معاشی اور ثقافتی سطح پر جو Reverse Gearلگا ہے اس سے ہم
قریب قریب پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ اصل کنفیوژن نام نہاد پڑھے لکھے درمیانے طبقہ کی سوچ کا ہے
جس میں اکثریت پروفیشنلز کے ہے جن کے ذہنوں میں ایک طالبان بٹھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ ساٹھ سال میں
اسٹبلشمنٹ اور عالمی سامراج نے اس پر بہت کام کیا ،تمام سرکاری و غیر سرکاری وسائل اور بین االقوامی وسائل
بروئے کار الئے گئے۔ درسی کتابوں ،اخبارات و رسائل ،تقریروں تحریروں ،تعلیمی اداروں ،ابالغ کے اداروں اور
فوجی افسروں کے تربیتی اداروں میں تاریخ کو مسخ کر کے جو نظریاتی تربیت کی گئی اس نے نام نہاد پڑھے
لکھے درمیانے طبقہ کو ذہنی طالبان بنا دیا ہے۔
آئیے دیکھیں کہ نظریہ پاکستان اور دیگر نظریاتی نعروں کی اصلیت کیا ہے ؟
قیام پاکستان کے بارے میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ:
’’برصغیر کے مسلمانوں کو اسالمی نظام کے نفاذ کے لیے ایک ملک چاہیے تھا ،چنانچہ پاکستان دراصل اسالمی
نظام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی نظریاتی سرحدیں ہیں جنہیں
جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ عالمہ اقبال نے اس کا خواب دیکھا تھا ،قائد اعظم نے اس کی تعبیر
کی۔‘‘
21
اس تصور کو نظریہ پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری نظریہ بھی یہی ہے۔ اس تصور کو
ان مراعات یافتہ طبقات نے اختیار کیا جو محکوم طبقوں اور قومیتوں پر اپنی سیاسی و معاشی باالدستی کو قائم
کرنے کے لیے اسالم کی آڑ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ عالوہ ازیں اس تصو رکی نقیب سیاسی جماعتیں جو ’’نفاذ
اسالم‘‘ کے نعرے کو متذکرہ طبقات کی باالدستی اور جہادی کلچر کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں
تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی شدید مخالفت کرتی رہی ہیں۔
ایک دوسرا تصور بھی پایا جاتا ہے :
’’برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کوئی تضاد نہیں تھا۔ انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی
اختیار کر کے ان کے مابین صدیوں سے قائم بھائی چارہ کو ختم کیا اور پھر سازش کے ذریعے ملک کو تقسیم کر
کے چلے گئے تاکہ برطانوی سامراج کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔‘‘
یہ انڈیا کی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری مؤقف ہے اور اسے پاکستان کے بعض ،تمام نہیں ،ترقی پسند ،بائیں بازو اور
لبرل کہلوانے والے لوگ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو توڑنے اور تاریخ کی اس غلطی کو درست کر
کے بھارت اور پاکستان کے درمیان لکیر کو مٹانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی وفاداریاں اور
مفادات سرحد پار ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسالم آباد کے مسلسل جبر اور نا انصافیوں سے تنگ آ
کر چھوٹے صوبوں کے بعض قوم پرست رہنما بھی اس تصور کو اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔
یہ دونوں تصوراتی یا نظریاتی ماڈل یا موقف جو مختلف مخصوص مفادات کے تحت وجود میں آئے یا الئے گئے
ہیں ،جب تاریخی جدلیات کے دھارے کے سپرد کیے جائیں تو خس و خاشاک کی طرح بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔
مطالعہ تاریخ دراصل ایک سائنس ہے۔ اس میں ذاتی پسند یا ناپسند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ تاریخ کوئی عقیدہ نہیں
ہے۔ اس کا مطالعہ عقائد کی بنیاد پر نہیں بلکہ معروضیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ عقاید خواہ دائیں بازو کے ہوں یا
بائیں بازو کے ،عقیدہ پرستی کے شکنجے میں پھنس کر نہ تو ماضی کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل ہوسکتی
ہے ،نہ حال کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں کوئی درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔
تاریخ عالم ملکوں اور سلطنتوں کے عروج و زوال سے عبارت ہے۔ مختلف قبیلوں ،گروہوں ،قوموں ،نسلوں ،طبقوں
اور فرقوں کے باہمی ٹکراؤ یا جدل کے نتیجے میں نئے ملک اور سلطنتیں وجود میں آئیں اور پھر ٹکراؤ اور جدل
کے اسی عمل نے ان کا شیرازہ بکھیر دیا اور نئے ملک یا سلطنتیں وجود میں آ گئیں۔ ملکوں یا سلطنتوں کی
سرحدوں کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوا۔ کسی ملک یا سلطنت کی عمر کا انحصار اس کی داخلی و خارجی قوتوں کے
مابین تضادات کی حل پذیری پر رہا ہے۔ اگر تضادات حل ہوتے رہیں تو عمر لمبی ہو جاتی ہے ورنہ مختصر۔ اس
وقت دنیا کا جو نقشہ ہے اس کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے۔گذشتہ بیسویں صدی میں یہ تین مرتبہ بڑی تبدیلیوں سے
گزرا ،ایک پہلی عالمی جنگ کے بعد ،دوسرا دوسری عالمی جنگ کے بعد اور تیسرا سرد جنگ کے خاتمے پر۔ ا اس
دوران کبھی غالب مغلوب ہو جاتے رہے اور کبھی مغلوب غالب!
برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں غالب و مغلوب کی جدلیات ہندوؤں اور مسلمانوں کے حوالے سے کم و بیش بارہ
تیرہ سو سال پہلے شروع ہوئی۔ جب برصغیر کے مغرب میں سندھ اور پھر پنجاب پر مسلمان حملہ آوروں نے
22
حکمرانی اور غلبہ حاصل کیا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین معاشرتی اور ثقافتی تفریق بھی بہت زیادہ تھی۔
غزنوی دور کے مسلمان مفکر ابو ریحان البیرونی نے اپنی تصنیف کتاب الہند میں اس تفریق کی شدت کی نشاندہی
کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ’’ ہندو تمام غیرملکیوں یعنی مسلمانوں کو ملیچھ یعنی ناپاک سمجھتے ہیں اور اگر
کوئی مسلمان یا غیرملکی چاہے بھی تو وہ ان میں داخل نہیں ہوسکتا گویا دونوں فرقوں میں سے کوئی ایک فرقہ
بھی دوسرے میں جذب نہیں ہوسکے گا۔‘‘ ( )1برصغیر کے وسیع عالقے پر مسلمان سیاسی ،معاشی و ثقافتی
معاشرتی طور پر غالب اور ہندو مغلوب رہے۔ مسلمان حکمران تھے اور ہندو رعیت یا باجگزار۔ مسلمان حکمران
وسطی کے مروجہ استبدادی دستور کے مطابق رعیت اور محکوم پر وہ تمام ظلم و زیادتی روا رکھتے تھے
ٰ قرون
جو اس استبدادی نظام میں رائج تھا۔ اس استبداد کا اگرچہ مذہب سے تعلق نہیں تھا ،مروجہ دستورہییہ تھا ،تاہم
غالب کا مذہب غالب اور مغلوب کا مذہب مغلوب تھا۔ اس وقت کے مسلمان مورخین منہاج الدین سراج ،ضیاء الدین
برنی ،محمدقاسم فرشتہ ،نظام الدین احمد بخشی اور ُمال عبد القادر بدایونی وغیرہ کی ضخیم تصانیف تاخت و تاراج
کی ان تفاصیل سے بھری پڑی ہیں جو مسلمان حکمران اور حملہ آور مفتوحہ اور مقبوضہ عالقوں پر کرتے تھے۔
مندر تباہ و مسمار کیے جاتے تھے ،بت توڑے جاتے تھے۔ تاہم خراج ادا کرنے کی صورت میں مندر اور بت محفوظ
رہتے تھے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اس طویل دور میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوا ،ہندو مسلم تضاد کو ختم کرنے یا کم
کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں جو بعض ادوار میں کامیاب بھی ہوئیں۔ اس ضمن میں مغل شہنشاہ اکبر کا دور اور
کشمیر کے حکمران زین العابدین اور بعض اور عالقائی حکمران قابل ذکر ہیں۔ مسلمان صوفیا کا کردار بھی اس تضاد
کو کم کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے میں بڑا اہم رہا۔ خصوصا ً چشتیہ سلسلہ کے بزرگان بابا فرید
الدین ،نظام الدین اولیا اور امیر خسرو وغیرہ۔ تاہم طریقت اور شریعت کا نفاذ بھی ساتھ ساتھ کارفرما تھا۔ اہل شریعت
اس دور کے ’’نظریاتی‘‘ ماڈل کے علمبردار تھے۔ جب حکمران ان کا زیادہ اثر قبول کر لیتا تو ہندو مسلم تضاد میں
شدت آ جاتی اور جب حکمران صوفیا کے مسلک کے زیادہ زیراثر ہوتا تو یہ تضاد نرم پڑ جاتا تھا۔ صوفیا کی اس
تحریک میں بھگتی تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح یہ تاریخی جدل غالب و مغلوب کی کشمکش سے ہوتا ہوا
اٹھارویں صدی کے آغاز میں پہنچا تو مغل زوال پذیر ہوچکے تھے اور مرہٹہ ایک بڑی قوت بن چکے تھے۔
1757ء میں احمد شاہ ابدالی نے انہیں پانی پت کے میدان میں شکست فاش دی لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہ
ہوا۔ تھوڑے عرصے بعد احمد شاہ ابدالی کے ایک سکھ سپاہی رنجیت سنگھ نے پنجاب ،کشمیر اور پشاور پر اپنی
حکومت قائم کر لی اور ادھر بنگال و بہار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس حکومت کے قیام میں
ہندو مارواڑی سیٹھوں نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
اٹھارویں صدی کے انجام اور انیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے طاقت کے توازن میں ایک کیفئیتی
تبدیلی( qualitative (changeآ چکی تھی۔ وہ جو ہزار سال سے مغلوب تھے یعنی ہندو غالب قوت یعنی
انگریزی استعمار کے وفادار بن گئے یا کمپراڈور بن گئے۔ راجہ رام موہن رائے کی ترغیب پر انہوں نے انگریزی
تعلیم حاصل کی اور نئے انتظامی و سیاسی ڈھانچہ میں ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو
گئے۔ مسلمان اشرافیہ جو الرڈہیسٹنگز()Hastingsکے عارضی بندوبست اور الرڈ کارانوالس ( )Cornwalisکے
23
بندوبست دوامی کا شکار ہو کر اپنی دولت و جاگیر سے محروم ہو گئے۔ ان کی جاگیردارانہ اخالقیات اور کرم خوردہ
سماجی اقدار ان کو انگریزی تعلیم کی جانب مائل نہ کر سکی۔ مسلمان درمیانہ اور غریب طبقہ کو بھی جاگیرداروں
کی قیادت اور علماء کی قیادت جن میں وہابی اور فرائضی تحریک کے جہادی بھی شامل تھے ایک طویل عرصہ تک
جدید تعلیم اور نئے نظام سے دور رکھے رہے۔ عالوہ ازیں صدیوں سے مغلوب ہندو جو نئے تناظر ( Pardigm
)Shiftکے بعد نئی غالب قوت انگریز کے جونیئر پارٹنر تھے اپنی پوری کوشش کرتے تھے کے مسلمان کی ترقی
کا راستہ روکیں۔
7 185ء کی جنگ آزادی یا غدر کے بعد جو پاور سٹرکچر ابھر کر سامنے آیا اس میں سب سے اوپر غالب قوت
انگریز تھے ،دوسرے نمبر پر نئی ابھرتی ہوئی ہندو بورژوازی تھی اور تیسرے اور نچلے درجے پر مسلمان تھے
مستثنی کر سکتے ہیں۔ اب جدلیات ان تین قوتوں کے درمیان تھی۔
ٰ جن میں چند مسلمان ریاستوں کے نوابین کو
انگریزایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ کو ہٹا کر براہ راست تاج برطانیہ کی عملداری قائم کر چکے تھے اور اسے
مستحکم کر رہے تھے۔ نئی ہندو بورژوازی کو پہلی بار یہ اندازہ ہوا تھا کہ یورپ کے صنعتی انقالب نے جو
جمہوری نظام جنم دیا ہے اس نے عددی اکثریت کی بنیاد پر ان کے لیے حصول اقتدار کا راستہ کھول دیا ہے۔ چنانچہ
انہوں نے اپنے غلبہ کے حصول کے لیے یورپ کے بورژوا نیشنلزم کے تصور کا من و عن ہندوستان پر اطالق
کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں درپردہ بورژوا لبرل سوچ کے بجائے ہندو احیاء اور ہندو غلبہ کی کوشش تھی
جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی تھی۔ وہ اپنی جدلیات میں ایک طرف انگریز کے ساتھ اقتدار
و اختیار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی جدوجہد کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں کو مکمل طور پر
مغلوب و محکوم بنا نے کی کوشش کر رہے تھے۔
ئور ای بک کی تشکیل :اعجاز عبیدی فائل فراہم کی
iہندو نئ
اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے وسط تک کے 100سال میں برصغیر کے سیاسی ،معاشی و
معاشرتی منظر میں جس قدر بڑی تبدیلی یا Paradigm Shiftآیا تھا ،اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو جس
جدلیات کا سامنا تھا اس کے لیے اس 100سال میں انہیں شاہ ولی ہللا ،سید احمد شہید ،شاہ اسماعیل شہید ،جمال
الدین افغانی اور علمائے دیوبند کے نظریاتی مذہبی ماڈل نے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ ا ان مذہبی رہنماؤں کو اس بات
سے کوئی غرض نہ تھی کہ سیاست ،معیشت اور معاشرت کی جدل میں مسلمان ہندوؤں کے مدمقابل کیسے کھڑے
ہوں گے۔
جس زمانے میں رام موہن رائے ہندوؤں کو انگریزی تعلیم اور جدید سائنس پڑھا رہا تھا ،اسی زمانے میں سیداحمد،
شاہ اسماعیل اور ان کے بعد کے وہابی تحریک کے قائدین مسلمانوں کے جہادی جتھے بھرتی کر کے پشاور میں
طالبان ٹائپ اسالمی حکومت قائم کرنے میں مصروف تھے۔ باآلخر مسلمان اپنے تاریخی جدل کے تقاضوں سے
نمٹنے کے لیے سرسیداحمد خاں ،نواب لطیف اور سیدامیر علی جیسے لوگوں کے ساتھ شامل ہوئے۔انہوں نے راجہ
24
رام موہن رائے واال کام کم و بیش 50یا 60سال کے بعد شروع کیا اور یہ ایک ایسا فرق تھا جسے مسلمان کبھی
پورا نہیں کر سکے۔
انیسویں صدی کے اواخر تک ہندوؤں نے انگریزوں کو آنکھیں دکھانی شروع کر دی تھیں۔ وہ انڈین نیشنلزم اور
جمہوری حقوق کے نام پر اقتدار اور انتظامی ڈھانچے میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے مطالبات کر
رہے تھے۔ 1885ء میں انڈین نیشنل کانگریس خود ایک انگریز الرڈ ہیوم نے قائم کر دی تھی۔ تاکہ زیادہ مراعات
کے حصول کی تحریک ایک بورژوا جمہوری پلیٹ فارم سے ہو اور کہیں یہ تشدد کا راستہ نہ اختیار کر لے۔ یاد رہے
کہ انڈین نیشنلزم کا کوئی وجود ہندوستان کی تاریخ میں نہیں رہا۔ برصغیر کبھی ایک سلطنت یا ملک کے طور پر
موجود نہیں رہا۔ خصوصا ً جنوبی ہند ہمیشہ ایک الگ دنیا تھا اور شمالی و مغربی ہند ایک دوسری دنیا۔ یہاں تک کہ
ہندومت بھی مختلف عالقوں میں مختلف تھا۔ مختلف عالقوں کے دیوی دیوتا بھی اور رسوم و رواج بھی ایک
دوسرے سے مختلف تھے۔ مگر اس وقت ہندو اپنے مادی مفادات کے حصول اور اپنے غلبہ کے احیاء کے لیے
انڈین نیشنلزم کے نعرے کو فروغ دے رہے تھے۔ بنگال کا سریندر رناتھ بینرجی اور پونا کا بال گنگا دھر تلک اس
سودیشی تحریک میں پیش پیش تھے۔
انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمان بھی اپنی بقا کی جدلیات کے تقاضے پورے کرنے میدان میں اتر آئے تھے۔
سرسیداحمد خاں کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان ایک کثیر االقوام برصغیر ہے۔ یہ ایک ملک نہیں ہے اور نہ یہاں رہنے
والے ایک مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔سرسید نے برصغیر کا یورپ سے موازنہ کیا کہ جیسے یورپ میں کئی
اقوام ہیں ویسے ہی برصغیر ہندوستان میں کئی اقوام ہیں اور یہاں انڈیشن نیشنل کانگریس کسی ایک قوم کی نہیں
بلکہ ہندو اکثریت کے مفاد کی نمائندگی کر رہی ہے۔ 1905ء کی تقسیم بنگال پر کانگریس کی جانب سے شدید ایجی
ٹیشن نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کے فائدے میں ہونے والی کسی انتظامی تبدیلی یا اقدام پر کانگریس کا رویہ
کیا ہو گا۔ جس کے بعد 1906ء میں سرآغا خاں اور دوسرے مسلم زعماء نے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں مسلم
لیگ کے قیام کا فیصلہ کیا اور سرسید کی تعلیمی تحریک ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔
بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو برصغیر میں تینوں قوتوں کے مابین جدلیات کی کشمکش کچھ یوں تھی۔ اسٹرکچر میں
دوسری پوزیشن کے حامل ہندو جلد از جلد انگریز کو حاصل پہلی پوزیشن پر پہنچنا چاہتے تھے اور غلبے کے
حصول کی اس کوشش میں مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ازم
کی تعریف یوں کرتے تھے کہ کوئی ہندو ،مسلمان ،سکھ ،عیسائی نہیں ہے ،سب ہندوستانی ہیں۔ وہ ان کی قومی
شناخت کا انکار کر کے ان کو اپنی عددی اکثریت کے نیچے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ یوں وہ مسلمانوں سے گزشتہ
ایک ہزار سال کا بدال بھی لینا چاہتے تھے۔ ادھر مسلمان اس صورتحال میں اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے تھے۔
مسلمان انڈین نیشنلزم کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ہندوستان میں آباد دونوں بڑی قوموں کے وجود کو تسلیم کیا
جائے اور وہ آپس میں معامالت طے کر کے انڈین نیشنلزم کے لیے کام کریں۔ ان کے سیاسی ،معاشی و معاشرتی
حقوق تسلیم کیے جائیں اور ہر سطح پر انہیں ان کا حصہ دیا جائے۔ برصغیر کے مغرب اور مشرق کے وسیع
عالقوں میں وہ اکثریت میں تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی حیثیت کو منوانا چاہتے تھے۔
25
ادھر انگریز اپنی بین االقوامی سامراجی سیاست میں اتارچڑھاؤ کا شکار تھے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ
عظیم اور دونوں جنگوں کے درمیانی عرصہ میں ان کی کوشش رہی تھی کہ ہندوستان میں داخلی امن رہے اور وہ
جنگی تیاریوں میں ہندوستان کے وسائل کا بھرپور استعمال کر سکیں۔ اس کے لیے وہ ہر دس سال بعد آئینی
اصالحات کا ایک پیکیج التے تھے۔ لیکن ہر پیکیج سے پہلے اور بعد ہندو۔ مسلم تضاد شدید ہو جاتا تھا۔ وجہ یہ
ہوتی تھی کہ کانگریس اس پیکیج میں بال شرکت غیرے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرتی ،خود کو پورے
ہندوستان کے عوام کا واحد نمائندہ ثابت کرتی جبکہ حقیقت میں مسلمانوں کے فائدے کا کوئی کام ہوتا تو اس کی راہ
میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی۔ مسلمانوں کا اعتماد کانگریس سے اٹھتا چال گیا اور ہندو۔ مسلم جدلیات کے نتیجے
میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس ان کی نمائندہ جماعتوں کے طور پر ابھر آئیں۔ چونکہ کانگریس
آبادی کے لحاظ سے بڑے حصے کی نمائندہ تھی اور اس کی ایجی ٹیشن کی قوت بھی زیادہ تھی اس لیے وہ
انگریزوں سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔
5 190ء میں تقسیم بنگال سے لے کر 1947ء کی تقسیم ہندوستان تک جدلیات کی یہ مثلث اسی کشمکش کا شکار
رہی۔ کانگریس کی سودیشی تحریک کے دباؤ سے 1912ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کر دی گئی اور مسلمانوں کو
اس کے عارضی سیاسی و معاشی ثمرات سے محروم کر دیا گیا۔ 1909ء کی منٹو۔مورلے اصالحات اور 1919ء کی
مانٹیگو۔چیمسفورڈ اصالحات کے نتیجے میں بننے والی لیجسلیٹو کونسلوں میں جداگانہ نمائندگی کا اصول تسلیم
کرتے ہوئے مسلمانوں کو نمائندگی دے دی گئی تھی لیکن وہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی اپنی آبادی کے تناسب
سے بہت ہی کم تھی۔ تاہم مسلمان نمائندوں کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ محمد علی جناح بمبئی کونسل کے
رکن تھے اور مسلم لیگ اور کانگرس دونوں میں شامل تھے۔ وہ 1916ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کو ایک پلیٹ
فارم پر جمع کرنے اور میثاق لکھنؤ طے کرانے کی وجہ سے ہندو۔مسلم اتحاد کے سفیر کہالتے تھے۔ 20ء کے
عشرے میں لیگ اور کانگرس نے سیلف رول یعنی سوراج کے لیے مشترکہ کوشش شروع کی اور لگا کہ جدلیات
کی مثلت کے دو نقطے ایک دوسرے کے قریب ہو کر زیادہ قوت سے سوراج حاصل کر لیں گے۔
پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ ،ترکی کی شکست اور خالفت کا خاتمہ20 ،ء کے عشرے میں برصغیر کے مسلمانوں کی
تمام تر توانائیاں تحریک خالفت میں بہا لے گیا۔ اس تحریک کا مقصد تو پورا نہ ہوا کیونکہ اتاترک نے خالفت کی
بساط ہمیشہ کے لیے لپیٹ دی تھی۔ مگر برصغیر میں سیاسی مولویوں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہو گئی۔ ان کا
کردار ہندو۔مسلم۔انگریز جدلیات میں زیادہ تر مثبت کردار کے بجائے منفی کردار ادا کرنے کا تھا۔ وہ مسلمانوں کو
وسطی کے احیائے اسالم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے اور برصغیر سے انگریزوں کو نکالنے کے
ٰ قرون
لیے کانگرس کا ساتھ دینے کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی ،معاشی و معاشرتی حقوق کے
تحفظ کی مسلم لیگ کی جدوجہد کی کھل کر مخالفت کرتے تھے۔
0 2ء کے عشرے کے اواخر میں دوسری عالمی جنگ کی تیاری شروع ہو چکی تھی۔ حکومت برطانیہ نے اگال آئینی
پیکیج النے کے لیے ہندوستانی لیڈروں سے مشورے کے لیے سائمن کمیشن بھیجا جو 1927ء اور 1928ء میں
دو مرتبہ ہندوستان آیا۔ ایک مرتبہ پھر ہندو۔مسلم۔انگریز کی جدلیات کی مثلث میں کشمکش تیز ہو گئی۔ مسلمان متحدہ
26
ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے سیاسی ،معاشی ،معاشرتی حقوق کا تحفظ چاہتے تھے۔ مسلم اکثریت کے
عالقوں میں مکمل صوبہ کا درجہ صرف پنجاب اور بنگال کو حاصل تھا۔ سندھ صوبہ بمبئی کے حصہ تھا۔ شمال
مغربی سرحدی صوبہ مکمل صوبہ نہ تھا بلکہ ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت مرکز سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔
بلوچستان میں جو عالقہ برٹش بلوچستان کہالتا تھا وہ ایک چیف کمشنری کا درجہ رکھتا تھا۔ باقی قالت اور دوسری
ریاستوں پر مشتمل تھا۔ چنانچہ اس وقت مسلمانوں کی جدوجہد دراصل صوبائی خودمختاری کی تحریک کی شکل
اختیار کر گئی تھی۔ ان کے اولین مطالبات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنا ،صوبہ سرحد اور بلوچستان کو مکمل
صوبہ کا درجہ دینا شامل تھا۔ مزید برآں وہ ایک فیڈریشن کا ڈھانچہ چاہتے تھے جس میں صوبوں کے پاس زیادہ
اختیارات ہوں اور مرکز کے پاس چند ضروری مرکزی محکمے ہوں۔ جبکہ کانگرس مضبوط مرکز کی حامی تھی اور
صوبوں کو کم سے کم اختیارات دینا چاہتی تھی۔ اس طرح مسلم۔ ہندو جدلیات کی کشمکش اپنے اپنے مفادات کے
حوالے سے مضبوط مرکز اور ڈھیلے ڈھالے وفاق کے مطالبوں کی شکل اختیار کر گئی تھی۔
ان حاالت میں 1928ء۔ 1927ء کے دو سال میں سیاسی کشمکش میں تیزی آئی۔ جناح کی تجاویز دہلی سامنے آئیں
پھر کانگرس اور لیگ سمیت آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی اور موتی الل نہرو کو سب کے مشترکہ مطالبات پر مبنی
رپورٹ بنانے کا کام سونپا گیا تاکہ سائمن کمیشن کے ذریعے حکومت برطانیہ کو آئینی فارمولے کا ایک مشترکہ
چارٹر پیش کر دیا جائے مگر نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کے فائدے کے تمام مطالبات کو یکسر نظرانداز کر کے
ایک مضبوط مرکز پر مبنی وحدانی طرز حکومت کا منصوبہ پیش کر دیا۔ مسلمان سخت مایوس ہوئے اور انہوں نے
آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کر کے اپنا مطالبات کا علیحدہ چارٹر پیش کر دیا جسے قائد اعظم کے چودہ نکات کہا
جاتا ہے۔
محمد علی جناح حاالت سے مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے۔
یہاں تک یہ واضح ہو جاتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا سیاسی مسئلہ کیا تھا اور وہ کسی قسم کی کشمکش سے
دوچار تھے۔ مسئلہ نظریاتی ریاست کے حصول کا نہیں تھا بلکہ سیاسی و معاشی تحفظات کی کشمکش کا تھا۔ پاور
سٹرکچر کے تینوں فریق یعنی انگریز ،ہندو اور مسلمان ایک جدل میں ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ لیکن
ہمارے نظریاتی ریاست کے علمبردار اسے صرف ایک نظریاتی ریاست کے حصول کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس
مقصد کے لیے 1930ء کے مسلم لیگ کے ٰالہ آباد کے ساالنہ اجالس میں عالمہ محمد اقبال کے خطبہ صدارت کو
بنیاد بناتے ہیں۔ آیئے اس خطبے کا مطالعہ کرتے ہیں۔
اس خطبے کا پہال مسئلہ تو یہ ہے کہ اس کا مکمل متن نہ تو پڑھا جاتا ہے اور نہ درسی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
اس میں سے صرف ایک جملہ اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ جو یوں ہے کہ:
’’میری خواہش ہے کہ پنجاب ،صوبہ سرحد ،سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ مجھے یوں
لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ ،خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو ،ایک مربوط شمال
مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘‘
27
اردو درسی کتابوں میں لفظ ریاست کے ساتھ ’’خودمختار‘‘ اور انگریزی درسی کتابوں میں “”autonomous
کے لفظ کا اضافہ بھی کیا جاتا ہے جو کہ اصل خطبہ میں نہیں ہے۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ عالمہ کا مذکورہ خطبہ 28-1927ء کے پس منظر میں ہے جس میں آل پارٹیز کانفرنس ،نہرو
رپورٹ اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس اور قائد اعظم کے چودہ نکات پیش ہوئے تھے۔ یہ پورا خطبہ ایک متحدہ
ہندوستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک فیڈریشن پر مبنی ہے جو مسلمانوں کا عمومی مطالبہ تھا اس فیڈریشن کے
اندر آپ نے سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے پنجاب ،سرحد اور بلوچستان کے ساتھ ضم کر کے ریاست بطور ایک
فیڈرل یونٹ یعنی صوبہ کے طور پر مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی آپ کا نیا مطالبہ نہیں ہے بلکہ آپ خود اس خطبے
میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی۔ اس نے اس بنا پر اس تجویز کو رد
کر دیا تھا کہ اگر اس قسم کی ریاست قائم ہوئی تو یہ بے ہنگم طور پر وسیع و عریض ریاست ہو گی جس کا انتظام
کرنا دشوار ہو گا۔‘‘ اس کا حل آپ نے یہ تجویز کیا کہ اگر انبالہ ڈویژن جو ہندو اکثریت کا تھا ،نکال دیا جائے تو یہ
مجوزہ ون یونٹ کا صوبہ قابل عمل ہو جائے گا۔
عالمہ نے اپنے خطبے کے شروع کا حصہ مسلم قومیت کے تصور پر صرف کیا اور زور دیا کہ انڈین نیشنلزم
برصغیر میں آباد قوموں کے وجود سے انکار میں نہیں بلکہ ان کے وجود کو تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔ انڈین
نیشنلزم کی یہ تعریف سرسید سے لے کر جناح تک تمام مسلم رہنما کرتے تھے اور اس بنیاد پر متحدہ ہندوستان
میں ڈھیلے ڈھالے وفاق کے قیام کے خواہاں تھے۔ رینان کے ’’قوم‘‘ کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا
’’اگر اکبر کا دین ٰالہی یا کبیر کی تعلیمات عوام الناس میں مقبول ہو جاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں بھی اس
قسم کی ایک نئی قوم پیدا ہو جاتی لیکن تجربہ بتالتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد جاتیوں میں اس
قسم کا کوئی رجحان نہیں کہ وہ اپنی حیثیت کو ترک کر کے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کر لیں۔ قومیت ہند
کا اتحاد ان تمام جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے تعاون اور اشتراک اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ میری رائے
میں ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر صرف اس بات پر مبنی ہے کہ ہم قومیت ہند کا اتحاد اسی اصول پر قائم کریں۔‘‘
آگے چل کر کہا:
’’میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی ہم آہنگی ہی کی
جانب نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعالن کرنے میں تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور
کے ایک مستقل اور پائیدار حل کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن
کے ماتحت اپنے ہندوستانی مادر وطن کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ ہندوستان کی
آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘
آپ نے ون یونٹ کا صوبہ تجویز کرنے کے بعد آگے چل کر کہا کہ ’’اس سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری
مضبوط ہو گا اور جذبہ حب الوطنی فروغ پائے گا۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقع دیا
جائے کہ وہ ہندوستان کے نظام سیاست میں رہ کر نشوونما پا سکیں تو وہ ہندوستان کے خالف تمام حملوں کی
صورت میں چاہے یہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیاالت ،ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘
28
اس کے بعد آپ نے وفاق ہندوستان کے دفاع پر بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی اور کہا ’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی
حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری
فوجوں کو قائم کرنے کے لیے بخوشی رضامند ہو جائیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانبدار
فوجی طاقت مغلیہ دور حکومت میں موجود تھیں۔ اکبر کے زمانہ میں ان تمام سرحدی فوجوں کے افسر ہندو تھے۔
مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی
حب الوطنی میں اضافہ ہو گا۔‘‘
عالمہ نے اصل میں مسلم لیگ کے سرکاری موقف کے بارے میں کہ برصغیر میں ایک ڈھیال ڈھاال وفاق قائم کیا
جائے یہ خطبہ بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ نے اس میں صوبوں کی ازسرنو حدبندی کا جو مطالبہ کیا وہ بھی
مسلم لیگ پہلے سے کر رہی تھی۔ اس خطبے میں آپ نے ایک جگہ سندھ اور بلوچستان کو باہم ضم کر کے ایک
صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مجوزہ وحدانی طرز کی مضبوط مرکز کی حکومت کی
مخالفت کی اور کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں
سے پانچ میں تمام اختیارات ما البقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں 33
فیصد نشستیں نہ ملیں۔‘‘ آپ نے مسلم اکثریت پر مبنی خودمختار ریاستوں یعنی صوبوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ
’’ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان عالقوں میں ایک
طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔‘‘ آپ نے اس کے لیے ٹائمز آف انڈیا کے اداریے کے حوالے سے بتایا
کہ’’ باوجودیکہ اسالم میں سود لینا حرام ہے ،مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر
پابندی نہیں لگائی تھی۔‘‘()2
ان اقتباسات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ عالمہ اقبال نے اس خطبہ میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن
یعنی Sovereign Stateکے قیام کا کوئی تصور پیش نہیں کیا تھا۔خود عالمہ نے 1934ء میں اس کی تردید
فرمائی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے :
32-1930ء کے دوران گول میز کانفرنسوں کے انعقاد کے دوران کیمبرج کے طلبہ کے گروپ نے چودھری رحمت
علی کی قیادت میں پمفلٹ شائع کیا جس میں پاکستان کے نام سے شمالی مغربی ہندوستان میں مسلمانوں کے ملک
کا نقشہ شائع کیا گیا تھا۔ 1934ء میں عالمہ اقبال کی کتاب رموز خودی کے انگریزی ترجمے پر ان کے پروفیسر
ای۔جے۔ تھامپسن نے تبصرہ کرتے ہوئے عالمہ کے تعارف میں آپ کے خطبہ الہ آباد کو چودھری رحمت علی کی
پاکستان کی تجویز سے منسلک کر دیا۔ آپ نے یہ تبصرہ پڑھا تو جواب میں جو خط لکھا وہ پروفیسر تھامپسن کے
خطوط کے مجموعہ میں شامل ہے جسے علی گڑھ یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ آپ نے اس میں لکھا ’’۔۔۔آپ نے
ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے
میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں
ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی۔ جو شمال مغربی
ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ
29
ہو گا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس سکیم نے
کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ ‘‘()3
ANS 07
ءڈھاکہ میونسپل کمیٹی کے صدر بنے۔ 1929ءڈھاکہ یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل کے بھی رکن رہے۔ 1922
1929ءبنگال کی کابینہ میں لے لیا گیا اور وزیر تعلیم بنے۔ 1930ءانہوں نے بنگال میں الزمی ابتدائی تعلیم کا بل
پیش کر دیا۔ 1937ءمیں 1935ءکے ایکٹ کی رو سے جب مختلف صوبوں میں وزارتیں بنیں تو آپکو بنگال کا
وزیراعظم بنا دیا گیا۔ نومبر 1941ءمیں وزارت سے علیحدہ ہو گئے اور بنگال اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کے
ممبر چنے گئے۔ 1943ءاُنہوں نے بنگال میں مسلم لیگی وزارت قائم کی۔ وزیر دفاع اور امور داخلہ کے محکمے
اپنے پاس رکھے اسی زمانے میں بنگال میں زبردست قحط پڑا اور آپکی شہرت کو خاصا نقصان پہنچا 1945ءتک
آپ وزیر رہے۔ 1947ءآل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے صدر رہے۔ 1946ءمیں آپ نے جمعیت اقوام کے
اجالس جنیوا میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ کلکتہ سے پہال مسلم اخبار (دی سٹار آف انڈیا) جاری کیا اور خان بہادر
عبدالمومن کے ہمراہ کلکتہ میں مسلم ایوان تجارت قائم کیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ مشرقی پاکستان کے پہلے
وزیراعلی بنے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے گورنر جنرل بنے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد
ٰ
اکتوبر 1951ءکو آپکو وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ اس عہدہ پر 1953ءتک فائز رہے۔
خارجہ پالیسی میں تبدیلی۔ آپ خارجہ پالیسی کو اُن خطوط پر نہ چال سکے جن پر نواب زادہ لیاقت علی خان چال رہے
تھے۔ اُنکی پالیسی کا اہم ترین بنیادی نقطہ اسالمی ممالک کی حمایت اور ان کا اتحاد تھا۔ انہوں نے چودھری نذیر
حمد خان کی ان سرگرمیوں کی حمایت کی جو اُنہوں نے دولت مشترکہ میں اسالمی ممالک کے سلسلے میں شروع
کر رکھی تھیں۔ انڈونیشیا کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام۔ ایران اور مصر کی برطانیہ کے مقابلے میں حمایت
خاص طور پر مشہور تھیں۔ خواجہ صاحب نے ایران کی تیل کے مسئلہ پر رسمی حمایت کی اور سویز کے عالقہ میں
برطانوی فوجوں کے اترنے کے بارے میں مصر کی بجائے برطانیہ کی حمایت کی نتیجہ یہ کہ بھارت کو مصر کی
ہمیشہ حمایت رہی اور ایران میں بھی اگر ڈاکٹر مصدق زوال پذیر نہ ہوتے تو شاید ایران سے بھی تعلقات کشیدہ
رہتے۔
گندم کی قلت 1952ءپاکستان کو شاید پہلی مرتبہ خوراک کے بحران سے دوچار ہونا پڑا جوالئی 1953ءخواجہ نے
اعالن کیا کہ اس سال خوراک کی قلت نہیں ہو گی نہ گندم نہ چاول مگر صرف دو ماہ بعد صورت حال بہت خراب
ہوئی اور دنیا بھر کے ممالک سے گندم کے حصول کے لئے رابطہ قائم کرنا پڑا ایک توخواجہ صاحب کو صورتحال
کا علم نہ تھا دوسرے سندھ اور بہاولپور کے بارڈر سے سمگل ہوئی اور سندھ میں محمد ایوب کھوڑو صاحب
مرکزی حکومت کی مخالفت میں سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کرتے رہے الہور میں آٹا ڈے منایا گیا۔ اور جن
کو ناظم ملت کہا جاتا تھا دشمن قائد قلت کہنے لگے۔ اس وقت امریکہ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرض لینے کے لئے
معاہدہ کیا جس کی گندم درآمد کرنی تھی لیکن گندم کی پہلی کھیپ محمد علی بوگرہ کے دور میں کراچی بندرگاہ
30
پہنچی۔ دستور سازی کا مسئلہ۔ قانون ساز مجلس میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابر نمائندگی کا
مسئلہ تھا جس کی وجہ سے آئین نہ بن سکا۔ تحریک ختم نبوت۔ ساہیوال کا ڈپٹی کمشنر مرزا مظفر احمد نے اپنا اثر
و رسوخ استعمال کیا مگر مجلس احرار سے ٹھن گئی۔ مگر بعد میں 14دینی جماعتوں نے کنونشن طلب کیا اور
تحریک ختم نبوت پر شہر میں ہنگامے ہونے لگے۔ مشرقی پاکستان میں اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان بنانے
پر طلبا جھگڑا۔
ءمیں تحریک چالئی گئی۔ فروری 1952ءمیں الٹھی چارج آنسو گیس اور فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ ڈھاکہ 1952
یونیورسٹی میں ہڑتال کی گئی اور انتظامیہ نے یونیورسٹی کو بند کر دیا۔
افسوس کہ پاکستان کے ایک مطلق العنان گورنر جنرل ملک غالم محمد نے خواجہ صاحب کی شرافت سے ناجائز
ٰ
عظمی کے منصب سے غیر قانونی اور بالجواز حکم کے ذریعے برطرف کر دیا۔ آپ فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں وزارت
کو اپنے مسلم لیگی رفقائے کار کی سرد مہری۔ موقعہ پرستی اور زمانہ سازی کا دلی صدمہ تھا آپ نے گوشہ نشینی
اختیار کر لی صدر ایوب خان نے اپنی کنونشن مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش کی مگر آپ نے مادر ملت کے
ارشاد کی تکمیل کی اور کونسل مسلم لیگ کو ازسرنو منظم کرنے 16دسمبر 1962ءکو الہور تشریف الئے تو زندہ
دالن الہور نے فقیدالمثال استقبال کیا۔ 1964ءمادر ملت کے صدارتی انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور مادر ملت
کے ہمراہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا اتخابی دورہ بھی کیا۔ آپ کو کرکٹ ،فٹ بال اور ٹینس کھیلنا بہت پسند تھا۔
کافی سال انڈین ہاکی فیڈریشن کے صدر رہے۔ انہیں مچھلی کے شکار کا بھی شوق تھا۔
31