9402 2

You might also like

Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 31

‫)‪ (9402‬مطالعہ پاکستان ‪Course:‬‬

‫‪Semester: Autumn, 2020‬‬

‫‪ .4‬دسمبر ‪1907‬‬ ‫‪ .3‬ہندو‬ ‫‪ .2‬پنجاب‬ ‫‪ .1‬وکیل‬


‫‪ .8‬صنعت‬ ‫‪ .7‬مغربی‬ ‫‪ .6‬پاریمانی‬ ‫‪289244 .5‬‬
‫‪1947 .10‬‬ ‫‪ .9‬دیہات‬

‫‪ANS 02‬‬
‫جب ہم بھارت میں ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں اور دوسری اقلیتوں کی حالت زار دیکھتے ہیں تو اپنے ملک کی‬
‫اہمیت کا احساس ہوتا ہے‪ -‬ہندوستانی معاشرہ بنیادی طور پر ذات پات کے چار طبقات برہمن‪ ،‬کھتری‪ ،‬ویشنو اور دلت‬

‫‪1‬‬
‫میں تقسیم ہے جس میں دلت بہت نیچ طبقہ تصور کیا جاتا ہے‪ -‬ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ دلت سے بھی‬
‫زیادہ برا سلوک برتا جا رہا ہے اور وہ سب سے زیادہ مظلوم طبقہ ہے‪ -‬صرف چند مسلمانوں کو مختلف سیاسی‬
‫پارٹیوں نے اپنا امیج اچھا بنانے کے لیے ساتھ مال رکھا ہے جو مراعات یافتہ طبقہ ہے جبکہ بقیہ مسلمانوں کی‬
‫حالت شودروں اور دلتوں سے بھی بدتر ہے‪ -‬اسی طرح مسلمانوں کی تاریخی عمارتوں اور مساجد کو مسمار کر کے‬
‫وہاں پر مندر تعمیر کیے جا رہے ہیں‪ -‬مسلمانوں کے قدیم ثقافتی ورثہ کو بھارت میں زبردست خطرات الحق ہیں‪-‬‬
‫‪-‬مسلم شناخت کو مٹانے کے لیے شہروں کے نام تک تبدیل کر دیے گئے ہیں‬

‫انسانی تاریخ میں بہت کم اقوام نے آزادی کے حصول کے لیے اتنے لمبے عرصے تک اتنی بھاری قیمت ادا کی ہو‬
‫گی جتنی کشمیر کی عوام نے کی ہے‪ -‬جموں و کشمیر کے مسلمانوں کو جب بھی یہ محسوس ہوا ہے کہ ان کی‬
‫شناخت اور کلچر خطرے میں ہے‪ ،‬انہوں نے اس کی بقا کیلیے آواز اٹھائی ہے‪ -‬ڈوگرا راج کے خالف کشمیریوں کی‬
‫جدوجہد معاشرتی‪ ،‬ثقافتی‪ ،‬سیاسی و معاشی حقوق کے حصول کیلیے تھی‪ -‬اس جدوجہد پر اس وقت برٹش انڈیا میں‬
‫یک پاکستان کے گہرے اثرات تھے‪ -‬انڈیا میں پیش کیے جانے والے دو قومی نظریہ کو‬
‫چالئی جانے والی تحر ِ‬
‫کشمیری مسلمانوں کے اپنے مذہبی و ثقافتی تشخص کی پہچان سے مزید تقویت ملی‪1931-‬ء میں عالمہ محمد اقبال‬
‫کی جانب سے ٰالہ آباد میں پیش کیے گئے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے قیام کے نظریہ نے ‪1932‬ء میں‬
‫کشمیر میں مسلم کانفرنس کے قیام میں بہت مدد دی جو کہ کشمیر میں مسلمانوں کی پہلی سیاسی جماعت تھی‪ -‬اس‬
‫پس منظر میں یہ بات فطری تھی کہ کشمیر کی عوام پاکستان میں شمولیت کے لیے جدوجہد کرتے‪ -‬اس بات کا اظہار‬
‫الحاق پاکستان کی اس قرارداد سے ہوتا ہے جو کشمیری نمائندوں نے ‪ 19‬جوالئی ‪1947‬ء کو سری نگر میں منظور‬
‫ِ‬
‫‪-‬کی‬

‫کشمیری‪ ،‬انڈین قابض افواج کے ہاتھوں عرصہ دراز سے مظالم برداشت کر رہے ہیں لیکن پچھلے ایک سال سے‬
‫مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی جو سنگین پامالی جاری ہے اس بربریت کی تاریخ میں مثال نہیں‬
‫وام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کی قراردادوں کے برعکس‪ ،‬انڈیا نے مقبوضہ جموں و کشمیر سے الحاق‬
‫ملتی‪ -‬اق ِ‬
‫کے یک طرفہ اقدامات اٹھائے ہیں اور شہریوں پر ظلم و بربریت کے پہاڑ توڑے جا رہے ہیں‪ -‬انڈیا پورے ملک سے‬
‫ہندوؤں کو بڑی تعداد میں کشمیر میں بسا رہا ہے تا کہ آبادی کا تناسب تبدیل کر کے کشمیر میں مسلم اکثریت کو‬
‫اقلیت میں تبدیل کیا جا سکے‪ -‬جموں و کشمیر کی عوام نے یہ تہیّہ کیا ہے کہ وہ اس سازش کا بھرپور مقابلہ کریں‬
‫گے‪ -‬ڈومیسائل سے متعلق نئے قانون نے کشمیریوں میں مزید بےچینی پید اکی ہے کیونکہ وہ پہلے ہی قابض انڈین‬
‫فورسز کی جانب سے بہت سی پابندیوں کا سامنا کر رہے ہیں‪ -‬کشمیر کی عوام ایک محاصرہ جیسی کیفیت میں‬
‫زندگی گزار رہے ہیں اور انٹرنیٹ اور روابط کی دوسری بنیادی سہولیات سے محروم ہیں‪ -‬کوویڈ‪ 19-‬وائرس کی‬
‫وجہ سے پوری دنیا میں ہونے والے الک ڈاؤن سے دنیا کشمیریوں کی مشکالت کا بخوبی اندازہ لگا سکتی ہے جو‬

‫‪2‬‬
‫عرصہ دراز سے کرفیو میں زندگی بسر کر رہے ہیں‪ -‬دنیا میں چند ایک ایسے ممالک ہیں جو اپنے مالی مفادات کی‬
‫‪-‬وجہ کشمیریوں کے اصولی موقف کی حمایت سے گریزاں ہیں‬

‫عالمی میڈیا میں مسئلہ کشمیر کے تذکرہ اور اہمیت میں اضافہ ہوا ہے خصوصا ً جوالئی ‪2016‬ء کے بعد سے جب‬
‫اقوام متحدہ نے بھی اپنی‬
‫ِ‬ ‫انڈین آرمی نے سماجی کارکن برہان وانی کو بہیمانہ طور پر ماوارائے عدالت قتل کر دیا‪-‬‬
‫زیر بحث الیا ہے‪ -‬اسی طرح انڈیا کے قریبی اتحادی‬
‫پچھلی ‪ 50‬سالہ خاموشی کو توڑا ہے اور مسئلہ کشمیر کو ِ‬
‫زیر بحث الیا ہے‪ -‬اب وہ‬
‫جاپان نے بھی مسئلہ کشمیر پر بات کی ہے اور وہاں پر انڈین آرمی کے ظالمانہ کردار کو ِ‬
‫دن نہیں رہے جب انڈیا پاکستان پر بغیر ثبوتوں کے کشمیر میں دراندازی کا الزام لگا دیا کرتا تھا ‪ ،‬اب دُنیا کشمیر‬
‫میں جاری مظالم پہ بھارت کے سامنے آواز اُٹھاتی ہے‪ -‬ایک بہت بڑی ڈویلپمنٹ فرانس میں منعقد ہونے والی جی‪7-‬‬
‫کانفرنس میں ہوئی جہاں سیشن کے اختتام پر امریکہ اور فرانس کے صدور نے نریندرا موذی سے کشمیر کے‬
‫مسئلہ پر بات کی‪ -‬یہ عالمی رجحان میں بہت بڑی تبدیلی ہے کیونکہ اب ہر کوئی انڈین گورنمنٹ سے کشمیر میں‬
‫‪-‬کیے جانے والے ظلم و ستم پر سوال کر رہا ہے‪ -‬اس ضمن میں پاکستانی میڈیا کا کردار بھی حوصلہ افزاء ہے‬

‫پاکستان کو ہر ممکن وسائل کا استعمال کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے کوششیں کرنی چاہیئں خواہ ثالثی یا‬
‫دوطرفہ مذاکرات کے ذریعے یا چاہے یکطرفہ اقدامات اٹھانے پڑیں‪ -‬پاکستان مذاکرات کے ذریعے کم از کم ‪1990‬ء‬
‫سے جاری انسانی حقوق کی خالف ورزیوں اور بھارتی قابض افواج کے ہاتھوں شہید ہونے والے ہزاروں کشمیریوں‬
‫کے متعلق بات کر سکتا ہے‪ -‬انڈیا میں اگرچہ اس وقت مخصوص فاشسٹ عزائم کی حامل گورنمنٹ ہے جس سےخود‬
‫بھارتی عوام بھی ناخوش ہے‪ -‬سول سوسائٹی نہ صرف دونوں ممالک میں بلکہ عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر اجاگر‬
‫کرنے اور اس کو ممکنہ حل کے جانب لے جانے میں اہم کردار ادا کر سکتی ہے‪ -‬یہ سوچ کہ مسئلہ کشمیر صرف‬
‫دو ممالک کا مسئلہ ہے ایک احمقانہ سوچ ہے ‪ -‬ہندوستان کا یہ پروپیگنڈا غلط ہے کہ مسئلہ کشمیر شملہ معاہدہ کے‬
‫تحت دو طرفہ مسئلہ ہے کیونکہ شملہ معاہدہ سے سیکورٹی کونسل کی قرار دادوں کی اہمیت کم نہیں ہوتی اور نہ ہی‬
‫‪-‬عالمی ثالثی کو رد کیا جا سکتا ہے‬

‫یہ ہمارا قومی و عالمی فریضہ ہے کہ انسانیت کیخالف اس ظلم کو روکا جائے‪ -‬انسانی حقوق کی خالف ورزی چند‬
‫عزم مصمم کرنا ہو گا کہ ہم اس وقت‬
‫لوگوں پر اثر انداز نہیں ہوتی بلکہ اسکے عالمی اثرات مرتب ہوتے ہیں‪ -‬ہمیں ِ‬
‫حق خود ارادیت نہیں مل جاتا‪ -‬ماہرین نے اس‬
‫تک اپنی کوششیں جاری رکھیں گے جب تک کشمیریوں کو آزادی اور ِ‬
‫بات پر بھی زور دیا کہ تحریک کشمیر کو عالمی میڈیا اور سول سوسائٹی کے ذریعے ایک عالمی تحریک کا درجہ دیا‬
‫جائے‪ -‬مقبوضہ جموں و کشمیر کی آزادی کیلیے ایک منظم تحریک اور انتھک کوششوں کی ضرورت ہے‪ -‬پاکستان‬
‫‪-‬کی آزادی کشمیر کی آزادی کے بغیر نامکمل ہے‬

‫‪:‬تجاویز‬

‫‪3‬‬
‫‪:‬مقررین کی تقاریر کے بعد‪ ،‬درج ذیل تجاویز مرتب کی گئی ہیں‬

‫‪v‬‬ ‫اقوام متحدہ کی سیکورٹی کونسل کو اپنے سفارتی ذرائع کے ذریعے قائل کرنا چاہیے کہ وہ عالمی‬
‫ِ‬ ‫پاکستان کو‬
‫عدالت انصاف کے رومن سٹیچوٹ کے آرٹیکل ‪-13‬بی کے تحت انڈیا پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں نسل کشی‪،‬‬
‫‪-‬جنگی جرائم اور ظلم و بربریت کے ارتکاب پر مقدمہ چالئے‬

‫‪v‬‬ ‫اقوام متحدہ ‪ ،‬اس کے ذیلی اداروں اور دیگر عالمی تنظیموں‬
‫ِ‬ ‫‪ ،‬یورپین یونین وغیرہ کو مقبوضہ کشمیر ‪OIC‬‬
‫کے مستقل حل‪ ،‬وہاں سے کرفیو اٹھانے اور معصوم شہریوں کے قتل عام کو روکنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھانے‬
‫‪-‬چاہیں‬

‫‪v‬‬ ‫عالمی برادری کو ایک منظم کمپین کے ذریعہ قائل کیا جائے تاکہ مقبوضہ کشمیر میں’’ڈیموگرافک ٹائم بمب‘‘‬
‫‪-‬اور ڈبل الک ڈاؤن کیخالف آواز اٹھائی جا سکے‬

‫‪v‬‬ ‫پاکستان میں ایک نائب وزیر خارجہ مقرر کیا جانا چاہیے جو کہ صرف اور صرف کشمیر کے کاز پر کام کر ے‪-‬‬
‫وزیر خارجہ کی معاونت کیلیے ایک سپیشل سیل قائم کیا جائے جس کی سربراہی سپیشل سیکریٹری کرے اور‬
‫ِ‬ ‫نائب‬
‫‪-‬تجربہ کار افسران کی ایک ٹیم اس میں شامل ہو‬

‫‪v‬‬ ‫اقوام متحدہ سے مطالبہ کرنا چاہیے کہ کشمیر کیلیے خصوصی نمائندہ مقرر کیا جائے جو کہ‬
‫ِ‬ ‫پاکستان کو‬
‫‪-‬مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی خالف ورزیوں پر نظر رکھ سکے چاہے انڈیا اس کیلئے رضامند نا بھی ہو‬

‫‪v‬‬ ‫انڈیا ہمیشہ پاکستان کے ساتھ مذاکرات سے انکاری رہا ہے‪ -‬پاکستان کو چاہیے کہ یکطرفہ اقدامات کے ساتھ‬
‫مختلف عالمی فورمز پر کثیر الجہتی کوششوں کو بھی جاری رکھے تاکہ مسئلہ کشمیر کا منصفانہ حل تالش کیا جا‬
‫‪-‬سکے‬

‫‪v‬‬ ‫عالمی میڈیا کو بھی چاہیے کہ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرے اور مقبوضہ کشمیر میں برپا کیے جانے والے‬
‫تحریک آزادئ کشمیر کی اصل تصویر کو بھی واضح کرے‬
‫ِ‬ ‫‪-‬بھارتی ریاستی مظالم اور‬

‫‪ANS 03‬‬
‫آزادی کے بعد اور خصوصا ً چند سالوں سے فرقہ پرست قوت نے ہندوستان سے اسالم اوراس کے پیروکار کی‬
‫یہودونصاری کی پوری پوری نیابت اختیار کررکھی ہے۔ کبھی بابری مسجد کا معاملہ تو کبھی بھاگلپور‬
‫ٰ‬ ‫بیخ کرنے میں‬
‫وگجرات میں مسلم نسل کشی کا ننگا ناچ‪ ،‬اسی طرح کبھی مسلمانوں کی پرسنل الء میں مداخلت‪ ،‬کبھی دینی مدارس‬
‫کو دہشت گردی کا مرکز قرار دینا گویا ”بہروپیا مختلف رنگوں میں“۔‬

‫‪4‬‬
‫”تم جتنا ہی تراشوگے اتنا ہی سوا ہوگا“کے تحت جب اسالم دشمن کی تشنہ نگاہ سیراب نہ ہوسکی تو اس نے‬
‫ہماری تاریخ کو مسخ کرنا شروع کردی‪ ،‬اور یہ آج ہی سے نہیں؛ بلکہ بہت پہلے ہی سے اس کی داغ بیل ڈالی‬
‫جاچکی ہے؛ لیکن ماضی قریب سے اس میں روز بروز شدت بڑھتی ہی جارہی ہے‪ ،‬اور مسلم حکمرانوں خاص طور‬
‫پر حضرت عالمگیر ر حمہ ہللا کی جانب سے لوگوں میں اس قدر پروپیگنڈہ کیاگیا کہ غیر تو غیر اپنے بھی اسی‬
‫پرفریب سیالب میں بہہ پڑے‪ ،‬نیز لوگوں کے ذہنوں میں یہ سوال بھی جنم لینے لگا کہ آیا ہندوستان میں مسلمانوں کا‬
‫ورود باعث رحمت ہے یا زحمت؟؟؟‬
‫زاویہ فہم اس حد تک پہنچ چکا ہے کہ‪ :‬مسلم‬
‫ٴ‬ ‫متعصب مورخین کی دوغلی پالیسی کے علی الرغم اکثر لوگوں کا‬
‫حکمراں نے ہندو پر تشدد نیز ان کے مقامات مقدسہ کی پوری بے حرمتی کی ہے‪ ،‬اور مذہبی آزادی سلب کرلی گئی‬
‫تھی؛ لیکن انسان الکھ اپنی آنکھ بند کرکے روشن سورج کو جھٹالئے پھر بھی سورج روشن ہی رہے گا اس کی‬
‫چمک د مک پر اس نادان کی آنکھ مچولی سے ہرگز تاریکی طاری نہیں ہوسکتی۔ چناں چہ ذیل کے سطور میں انھی‬
‫واقعات وحقائق پر روشنی ڈالی جائے گی اور اس نقطے کو نکھارا جائے گا کہ ہمارے جتنے بھی دعوے ہیں بغیر‬
‫دلیل کے نہیں؛ بلکہ مکمل ثبوت کے ساتھ ہیں۔‬
‫ورود اسالم سے قبل ہندوستان کا مذہب‬
‫ہندوستان میں مسلمانوں کی آمد سے پہلے کی حالت کاسرسری جائزہ بھی ناگزیر ہے۔ ہندوستان میں اسالم سے‬
‫پایہ‬
‫پہلے بدھ مذہب کے پیروکار تھے‪ ،‬اور بہت ہی قلت کے ساتھ برہمنی مذہب کا بھی پتہ چلتا ہے؛ لیکن اتنی بات ٴ‬
‫ثبوت کو پہنچتی ہے کہ اس وقت آرین مذہب کی کوئی خاص اہمیت نہیں تھی؛ بلکہ بدھسٹ کا اپنی خیرات تقسیم‬
‫کرتے وقت جہاں دیگر مستحقین الئن میں ہوتے تھے وہاں برہمنوں کی قطار بھی ہوتی تھی (مختصر تاریخ ہند‬
‫‪ ، ۱۱۷-۱۱۸/۱‬از مسٹر ہنٹر) لیکن اس کے باوجود برہمن ”بدھ“ مذہب کو ختم کرکے آرین مذہب قائم کرنا چاہتے‬
‫تھے۔ مورخ اسالم اکبرشاہ خاں رحمہ ہللا کے حوالے سے چین کے مشہور عالم ”ہیونگ شیانگ“ نے ہندوستان کی‬
‫سیاحت میں پندرہ سال ‪ )/ ۶۴۵-۶۳۰‬تک گزارے ہیں‪ ،‬اتنی ہی مدت میں ہندوستان کے چپہ چپہ کی سیر کرلی‪ ،‬اور‬
‫ہرمقامات پر اپنے ماننے والوں کا تذکرہ کرتا ہے۔ چناں چہ دوران سفر کئی جگہ ڈاکوؤں کے پنجے میں گرفتاری کا‬
‫ذکر بھی کرتا ہے‪ ،‬اور ہمیشہ ان (لٹیروں) کو کافر اور بے دین بتاتا ہے حاالنکہ وہ برہمنی مذہب کے پیروکار اور‬
‫بدھ کے مخالف تھے۔ (آئینہ حقیقت نما‪،‬ص‪)۸۴:‬‬
‫اسالم سے پہلے ہندوستان کی مذہبی حیثیت‬
‫ہندوستان میں بدھ مذہب کو راجا ”اشوک“ کے زمانے میں کافی ترقی ملی؛ لیکن اس کے بعد اس کے شہنشاہی‬
‫ٹکڑوں میں منقسم ہوگئی جس کا الزمی نتیجہ یہ ہوا کہ بدھ کی اصل تعلیمات مسخ ہوگئیں اور عبادت و اخالق کی‬
‫بنیاد کھوکھلی ہوکر رہ گئی کیوں کہ اشوک کے عہد کو ‪/۹‬سوبرس اور گوتم بدھ کے زمانے کو تقریبا ً ‪/۱۲‬سو برس‬
‫ہوچکے تھے‪( ،‬آئینہ حقیقت نما‪،‬ص‪ )۸۶-۸۵:‬چناں چہ پورا معاشرہ بت پرستی و بد عقیدگی اور شدت پسندی کی‬
‫دلدل میں پھنسا ہوا تھا۔ اسی زمانے کے احوال کی نقاب کشائی اکبر شاہ اس طرح کرتے ہیں کہ ‪” :‬یہاں (سندھ) میں‬

‫‪5‬‬
‫عام طور پر بت پرستی رائج تھی‪ ،‬مجرموں کی شناخت کے لیے ان کو جلتی ہوئی آگ میں گذارنے کا عام رواج تھا‪،‬‬
‫اگر آگ میں جل گیا تو مجرم اور بچ گیا تو بے گناہ تھا۔“‬
‫پھر مزید کچھ آگے فرماتے ہیں کہ‪ :‬جادو کا عام طور پر رواج تھا‪ ،‬غیب کی باتیں اور شگون کی تاثیرات بتانے‬
‫والوں کی بڑی گرم بازاری تھی‪ ،‬محرمات ابدی کے ساتھ شادیاں کرلینے میں تامل نہ تھا‪ ،‬چناں چہ راجا داہر نے اپنی‬
‫تعالی کا تصور‬
‫ٰ‬ ‫حقیقی بہن کے ساتھ پنڈتوں کی ایماء سے شادی کی تھی‪ ،‬راہزنی اکثر لوگوں کا پیشہ تھا‪ ،‬ذات باری‬
‫ادنی پتھر کی مورتوں اور بتوں کو حاجت روا سمجھتے تھے۔“ (آئینہ حقیقت نما‪،‬ص‪-۱۷۴:‬‬
‫ٰ‬ ‫اعلی و‬
‫ٰ‬ ‫معدوم ہوکر‬
‫‪)۱۷۵‬‬
‫اسی دور کا تذکرہ کرتے ہوئے علی میاں ندوی رحمہ ہللا ”منو شاستر“ کے حوالے سے فرماتے ہیں کہ‪” :‬اس‬
‫آلہ تناسل تک کا پوجا جانا بھی بڑی اہمیت رکھتا تھا‬
‫وقت عام طور پر ہندو مذہب نت نئے دیوتاؤں یہاں تک کہ ٴ‬
‫(اورآج بھی یہ طریقہ ہندوؤں میں رائج ہے‪ ،‬الحول وال قوة اال باہلل)“ طبقہ واریت بے انتہا تھی یہاں تک کہ ایک قوم‬
‫”شودر“ نامی ہے جس کے متعلق منوشاستر‪،‬ص‪ ۶:‬پر ہے‪” :‬اگر کوئی شودر کسی برہمن کو ہاتھ لگائے یا گالی دے‬
‫دعوی کرے کہ اس (کسی برہمن) کو وہ تعلیم دے سکتا ہے تو‬
‫ٰ‬ ‫تو اس کی زبان تالو سے کھینچ لی جائے‪ ،‬اگر اس کا‬
‫کھولتا ہوا تی ل اس کو پالیا جائے‪ ،‬کتے‪ ،‬بلی‪ ،‬مینڈک‪ ،‬چھپکلی‪ ،‬کوے‪ ،‬الو اور ”شودر“ کے مارنے کا کفارہ برابر‬
‫ہے۔“ یعنی اگر برہمن کا کوئی شخص دوسری ذات والے کو قتل کردے تو فقط اس کی اتنی سی سزا کہ اس کا‬
‫سرمنڈوادیا جائے اوراس کے برعکس دوسری قوم کے لوگ برہمن کے سامنے لب کشائی بھی کریں تو ان کی جان‬
‫ادنی جھلک۔‬
‫کے اللے پڑجائیں۔ یہ تھی ہندی مذہب کی ٰ‬
‫عرب وہند کے تعلقات کا پس منظر‬
‫ت نبوی صلی ہللا علیہ وسلم سے بھی پہلے ہندوستان کے مختلف قبائل‪ :‬زط (جاٹ)‪ ،‬مید‪ ،‬سیابچہ یا سیابجہ‪،‬‬
‫بعث ِ‬
‫تکری (ٹھاکر) کے لوگوں کا وجود بحرین‪ ،‬بصرہ‪ ،‬مکہ اور مدینہ میں ملتا ہے۔ چناں چہ‬
‫احامرہ‪ ،‬اساورہ‪ ،‬بیاسرہ اور ّ‬
‫‪ ۱۰‬ہجری میں نجران سے بنوحارث بن کعب کے مسلمانوں کا وفد آنحضرت صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں‬
‫حاضر ہوا تو آپ نے ان کو دیکھ کر فرمایا‪” :‬یہ کون لوگ ہیں جو ہندوستانی معلوم ہوتے ہیں“ (تاریخ طبری‬
‫‪ ،۱۵۶/۳‬بحوالہ برصغیر میں اسالم کے اولین نقوش از محمد اسحق بھٹی)‬
‫مزید اسحق بھٹی اپنی مذکورہ کتاب میں فرماتے ہیں‪” :‬کتب تاریخ و جغرافیہ سے واضح ہوتا ہے کہ جاٹ برصغیر‬
‫سے ایران گئے اور وہاں کے مختلف بالد و قصبات مینآ باد ہوئے اور پھر ایران سے عرب پہنچے اور عرب کے‬
‫بزمانہ خالفت شیخین (حضرت‬
‫ٴ‬ ‫کئی عالقوں میں سکونت اختیار کرلی“ (ایضاً‪،‬ص‪ )۱۸:‬نیز تاریخ میں ان قبائل کا۔‬
‫ابوموسی اشعری رضی ہللا عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہونے کا ثبوت بھی ملتا‬
‫ٰ‬ ‫ابوبکر وعمر رضی ہللا عنہما ) حضرت‬
‫ہے۔ (ایضاً‪،‬ص‪ )۲۵:‬خالصہ یہ کہ یہ قبائل عرب کے ساتھ گھل مل گئے ان قبائل میں سے بعضوں کے بہت سے‬
‫رشتہ دار تھانہ‪ ،‬بھڑوچ اور اس نواح کے مختلف مقامات میں (جوبحرہند کے ساحل پر تھے) آباد تھے۔‬
‫باآلخر عرب و ہند کے درمیان شدہ شدہ مراسم بڑھتے گئے یہاں تک کہ برصغیر (متحدہ ہند) اور عرب کا باہم‬
‫شادی و بیاہ کا سلسلہ بھی چل پڑا‪ ،‬اس ہم آہنگی کی سب سے اہم کڑی عرب و ہند کے تجارتی تعلقات تھے‪ ،‬یہی‬

‫‪6‬‬
‫وجہ ہے کہ ہندوستان کے نت نئے اشیائے خوردونوش وغیرہ‪ :‬ناریل‪ ،‬لونگ‪ ،‬صندل‪ ،‬روئی کے مخملی کپڑے‪،‬‬
‫سندھی مرغی‪ ،‬تلواریں‪ ،‬چاول اور گیہوں اور دیگر اشیاء عرب کی منڈیوں میں جاتی تھیں۔ (ایضاً‪،‬ص‪ )۲۹:‬اس‬
‫واقعے کی تصریح ایک مصری مورخ یوں کرتا ہے‪ :‬جنوبی عرب سے آنے والے تجارتی قافلوں کی ایک منزل مکہ‬
‫مکرمہ تھا‪ ،‬یہ قافلے ہندوستان اور یمن کا تجارتی سامان شام اور مصر کو لے جاتے تھے‪ ،‬اثنائے سفر میں یہ لوگ‬
‫مکہ مکرمہ میں قیام کرتے اور وہاں کے مشہور کنوئیں”زمزم“ سے سیراب ہوتے اوراگلے دن کے لیے بقدر‬
‫ضرورت زمزم کا پانی ساتھ لے جاتے تھے۔“ (عرب و ہند عہد رسالت میں بحوالہ الجمل فی تاریخ االدب‬
‫العربی‪،‬ص‪)۲۷:‬‬
‫ہند میں طلوع اسالم‬
‫بزور تیروشمشیر سب سے پہلے سرزمین‬
‫ِ‬ ‫یوں تو لوگوں میں مشہور ہے کہ ہندوستان میں اسالم کی روشنی‬
‫سندھ پر پڑی؛ لیکن یہ واقعہ ‪ ۹۳‬ہجری کا ہے جب کہ اس سے بہت پہلے بعہد فاروقی ‪۱۵‬ھ ہی میں ماال بار‪ ،‬اور‬
‫سراندیپ کے عالقوں میں اسالم کی خوشبو پھیلنا شروع ہوگئی تھی اور سلسلہ وار عہد عثمانیہ سے خالفت امیہ تک‬
‫یکے بعد دیگرے بہت سے حضرات رسالت و توحید کی روشنی جنوبی ہند میں الالکر اس عالقے کے گوشہ گوشہ کو‬
‫روشن کرنے میں ہمہ تن منہمک تھے‪ ،‬اور اسالم کسی خلل و رکاوٹ کے بغیر پھیل رہا تھا اور لوگوں کے ذہن‬
‫شق قمر کا چشم دید‬
‫ودماغ کو مسخر کیے جارہا تھا؛ یہی وجہ ہے کہ ماالبار کا راجا ”زمورن یا سامری“ نے معجزہ ِ‬
‫مشاہدہ کیا اور تاریخ و دن محفوظ کرکے تحقیق شروع کردی ․․․ معلوم ہوا کہ عرب میں ایک پیغمبر پیدا ہوئے ہیں‬
‫انھی کا یہ معجزہ تھا۔ (آئینہ حقیقت نما‪،‬ص‪ ،۷۲-۷۱:‬از مورخ اسالم اکبرشاہ خاں نجیب آبادی)‬
‫الحاصل راجا نے بسروچشم اسالم قبول کرلیا اور اپنی سلطنت ترک کرکے سراپا ہدایت و رحمت صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی بے پناہ اشتیاق میں ان کے کوچے کی طرف چل پڑا؛ لیکن وقت کا ‪ -‬سوائے خدا کسی کو علم نہیں‪ -‬قبل اس‬
‫مالک حقیقی سے جامال۔‬
‫ِ‬ ‫سے کہ وہ اپنی تشنگی بجھاتا دل کی ارماں دل ہی میں لیے ہوئے‬
‫رہا محمد بن قاسم کا ہندوستان پر حملہ کا سوال‪ ،‬تو اس کا مضبوط جواب یہ ہے کہ‪ :‬حملہ کے اصل اسباب راجہ‬
‫داہر کے سیاہ کرتوت اوراس کے ہمراہیوں کی دراندازی تھی۔‬
‫سرزمین ہند پر مسلم حکمراں کے قدم اور ان کے اثرات ونتائج‬
‫ہندوستان پر مسلمان حکمرانوں کی تہذیب وتمدن کے اثرات کے پیش نظر عالمہ شبلی رحمہ ہللا کا نظریہ انھی‬
‫کے الفاظ میں تحریر کیا جائے گا تاکہ آئندہ سطور کو سمجھنے میں سہولت ہو۔ فرماتے ہیں‪” :‬کسی غیر قوم کا کسی‬
‫غیرملک پر قبضہ کرنا کوئی جرم نہیں ورنہ دنیا کے سب سے بڑے فاتح سب سے بڑے مجرم ہوں گے لیکن یہ‬
‫دیکھنا چاہیے کہ فاتح قوم نے ملک کی تہذیب و تمدن پر کیا اثر پیدا کیا‪” ،‬چنگیز خاں“ فتوحات کے لحاظ سے دنیا‬
‫کا فاتح اعظم ہے؛ لیکن اس کی داستان کا ایک ایک حرف خون سے رنگین ہے‪ ،‬مرہٹے ایک زمانے میں تمام‬
‫ہندوستان پر چھاگئے؛ لیکن اس طرح کہ آندھی کی طرح اٹھے‪ ،‬لوٹا مارا‪ ،‬چوتھ (آمدنی کا چوتھائی) وصول کیا اور‬
‫نگل گئے‪ ،‬بخالف اس کے متمدن قوم جب کسی ملک پر قبضہ کرتی ہے تو وہاں کی تہذیب و تمدن دفعتہ بدل جاتی‬
‫ہے‪ ،‬سفر کے وسائل‪ ،‬رہنے سہنے کا طور‪ ،‬کھانے پینے کے طریقے‪ ،‬وضع و لباس کا اندازہ‪ ،‬مکانوں کی سجاوٹ‪،‬‬
‫‪7‬‬
‫گھروں کی صفائی‪ ،‬تجارت کے سامان‪ ،‬صنعت و حرفت کی حالت‪ ،‬ہر چیز پر ایک نیا عالم نظر آتا ہے۔ اور گو مفتوح‬
‫قوم ضد سے احسا ن نہ مانے لیکن درودیوار سے شکرگذاری کی صدائیں آتی ہیں۔“ (اسالمی حکومت اور ہندوستان‬
‫میں اس کا تمدنی اثر‪،‬ص‪)۲-۱:‬‬
‫یوں تو ہلکی پھلکی جھڑپیں ‪۱۵‬ھ ہی سے شروع ہوچلی تھیں‪ ،‬نیز سندھی قیدیوں کا ‪ -‬جن کو ایران لڑائی کے‬
‫وقت کام میں التا تھا ‪ -‬عربوں کے ساتھ ہم محاذ ہونے کا اشارہ بھی تاریخ سے ملتا ہے؛ لیکن باضابطہ ہند پر حملہ‬
‫کا نقشہ یوں ہے‪ :‬راجا داہر کی سرکشی مسلمانوں کے خالف حد سے متجاوز ہونے کی وجہ سے سب سے پہلے‬
‫ت حرب و ضرب‬
‫عراق کے گورنر حجاج نے محمد بن قاسم کو ہندوستان کی طرف بارہ ہزار افواج مع اسباب و آال ِ‬
‫کے رجا داہر ک ی گوشمالی کے لیے روانہ کیا۔ جس کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ اسالمی لشکر جرار کی رجاداہر کی فوج‬
‫تعالی نے ہندوستان کی سرزمین کو ظلم و سرکشی‬
‫ٰ‬ ‫سے زبردست معرکہ ہوا اور راجا داہر مارا گیا۔ اس طرح سے ہللا‬
‫سے پاک کردیا․․․ پھر محمد بن قاسم نے پے درپے کئی مقامات فتح کرلیے اور ان پر شاندار کارکردگی دکھائی‬
‫جس کی تاریخ کے اوراق شاہد ہیں کہ اہل سندھ پہلے کیا تھے اور اسالم کے مقدس اور روح افزا سایے میں آنے‬
‫اعلی معیار پہنچ گئے۔‬
‫ٰ‬ ‫کے بعد اخالق اور تعلیم و تہذیب کے کیسے‬
‫محمد بن قاسم کے بعد متعدد مسلم حکمراں آئے اور تھوڑی تھوڑی مدت میں بدلتے رہے جس کی وجہ سے پہلے‬
‫کے بنسبت نظم و نسق خاصا اثر انداز ہوا۔ البتہ عمر بن عبدالعزیز رحمہ ہللا نے اپنے دور اقتدار میں اہل سندھ و ہند‬
‫کے نام دعوتی خطوط روانہ کیے۔ جن میں توحید و رسالت کی دعوت اور بت پرستی و بداخالقی سے باز رہنے کی‬
‫بات تھی۔ جس کا سردست نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ بہت سارے ہندو سرداران اسالم میں داخل ہوگئے جن میں سرفہرست‬
‫”جے سنگھ“ بن داہر تھا۔‬
‫ان تاریخی حقائق (جو مغربی مورخین کی نفرت آمیز آلودگی میں اوجھل ہوکر رہ گئے) پر اہل وطن کو غور کرنے‬
‫کا مقام ہے۔ پھر مسلمان حکمرانوں کا یہ سلسلہ عبدالملک بن شہاب ‪ /۷۷۶‬تک چال اس کے تقریبا ً دو صدی بعد‬
‫‪ /۹۹۷‬میں محمود غزنوی کا ورود ہوا اور متعدد حملوں کے بعد حکومت ہند کی باگ ڈور سنبھالی‪ ،‬پھر تقریبا ً ڈیرھ‬
‫صدی کے بعد ‪ / ۱۱۷۱‬میں محمد غوری آیا اور کئی معرکہ آرائیوں کے بعد فتح حاصل کی اور سالطین ہند میں شامل‬
‫ہوا ؛ لیکن ہندوستان پر باضابطہ مسلمانوں کی طویل حکومت کا آغاز سلطان ظہیرالدین بابر سے ہوا اس لیے کہ بابر‬
‫سے پہلے جو بھی آیا اس کی حکومت محدود عالقے تک رہی چہ جائیکہ محمود غزنوی نے اس میں کافی وسعت‬
‫عرصہ دراز کا خال بھی رہا۔‬
‫ٴ‬ ‫پیدا کی‪ ،‬دوسرے یہ کہ ایک کے بعد دوسرے کے آنے تک‬
‫چنانچہ انھی دونوں رکاوٹوں کے باعث اسالمی اثر و رسوخ اہل ہند میں کامل طور پر اثر انداز ہوسکا اور یہاں‬
‫کے لوگوں میں تعلیم اور تہذیب وتمدن کا بڑا فقدان تھا‪ ،‬اور جو تھوڑی سی مقدار صوفی سنتوں کی تھی بھی تو وہ‬
‫اس قدر رہبانیت کے گہرے سمندر میں غوطہ زن تھے کہ اپنی ہی ذات سے ناآشنا تھے‪ ،‬تو بھال ان کے ذریعہ‬
‫دوسرے کی اصالح کی کیا توقع۔‬
‫بابر نے ہندوستان کو کس حالت میں پایا‬

‫‪8‬‬
‫بابر نے ترکستان سے مختلف مقامات مسخر کرتا ہوا ‪ /۱۵۲۶‬میں ہندوستان کو بھی اپنے زیر کمان کرلیا؛ لیکن‬
‫ہندوستان کی معاشرت اسے بڑی عجیب و غریب محسوس ہوئی‪ ،‬اور اہل ہند اسے تہذیب و تمدن سے کوسوں دور‬
‫نظر آئے۔ چناں چہ عالمہ شبلی رحمہ ہللا فرماتے ہیں‪” :‬اگرچہ ظاہر ہے کہ اس سے قبل کی اسالمی حکومتوں نے‬
‫بھی ہندوستان کی تہذیب و تمدن کو کچھ نہ کچھ ضرور ترقی دی تھی تاہم بابر نے ترکستان سے آکر ہندوستان کو‬
‫جس حالت میں دیکھا اس کی تصویر اسی کے لفظوں میں یہ ہے‪” :‬ہندوستان میں اچھے گھوڑے نہیں‪ ،‬اچھا گوشت‬
‫ب سرد نہیں‪ ،‬حمام نہیں‪ ،‬مدرسہ نہیں‪ ،‬شمع نہیں (ایسی‬
‫نہیں‪ ،‬انگور نہیں‪ ،‬خریزہ (خربوزہ) نہیں‪ ،‬برف نہیں‪ ،‬آ ِ‬
‫روشنی جو ہرجگہ ہر موقع سے کام آسکے) مشعل نہیں‪ ،‬شمع دان نہیں‪ ،‬مزید کچھ آگے فرماتے ہیں‪ :‬باغوں اور‬
‫عمارتوں میں آب رواں نہیں‪ ،‬عمارتوں میں نہ صفائی ہے‪ ،‬نہ موزوں نی نہ ہوا‪ ،‬نہ تناسب‪ ،‬عام آدمی ننگے پاؤں‬
‫لنگوٹی لگائے پھرتے ہیں‪ ،‬عورتیں لنگی باندھتی ہیں جس کا آدھا حصہ کمر سے لپیٹ لیتی ہیں اور آدھا سر پر ڈال‬
‫لیتی ہیں۔“ (اسالمی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر‪،‬ص‪)۳-۲:‬‬
‫ثری سے ثریا تک‬
‫ہندوستان عہ ِد اسالمی میں ٰ‬
‫شاہان اسالم نے ہندوستان کو اپنا وطن سمجھا اور اس کو ترقی کی سمت گامزن کرنے میں کوئی دقیقہ نہ چھوڑا‬
‫ِ‬
‫نیز اس کو دیدہ زیب‪ ،‬سونے کی چڑیااور پرکشش بنانے میں پوری دلچسپی کا مظاہرہ کیا‪ ،‬جس کی موالنا علی میاں‬
‫ندوی رحمہ ہللا یوں منظر کشی کرتے ہیں‪” :‬مسلمان اگرچہ ہندوستان میں فاتح کی حیثیت سے آئے لیکن اجنبی‬
‫حکمرانوں کی طرح انھوں نے اس کو محض تجارت کی منڈی اور حصو ِل دولت کا دریعہ نہیں سمجھا بلکہ اس کو‬
‫وطن بناکر یہیں رس بس گئے اور مرن ے کے بعد بھی اس کی خاک کے پیوند ہوئے اس لیے کہ انھوں نے حکومت‬
‫و سیاست‪ ،‬علم وفن‪ ،‬صنعت وحرفت‪ ،‬زراعت وتجارت‪ ،‬تہذیب و معاشرت‪ ،‬ہر حیثیت سے اس کو ترقی دے کر صحیح‬
‫معنوں میں ہندوستان کو جنت نشاں بنادیا۔“ (ہندوستان کے مسلمان حکمرانوں کے تمدنی کارنامے ‪،‬ص‪)۱:‬‬
‫شہنشاہان اسالم نے مختلف مقامات پر تعلیمی ادارے قائم کیے‪ ،‬رفا ِہ عام کا مکمل نظم و نسق کیا‬
‫ِ‬ ‫یہی وجہ ہے کہ‬
‫پھر ڈاک کی راہیں ہموار کیں‪ ،‬مختلف االنواع روز مرہ نیز سردیوں کے کپڑوں کے بے شمار کارخانے بنوائے‪،‬‬
‫تجارت و زراعت کا صحیح زاویہ سکھایا اور متمدن ممالک کے اتصال کا سامان مہیا کیا نیز صنعت و حرفت کو بام‬
‫عروج تک پہنچایا۔ جس کو عالمہ شبلی رحمہ ہللا یوں لفظ کا جامہ پہناتے ہیں‪:‬‬
‫”ہندو ہمیشہ سے نہایت سادہ لباس پہنتے تھے اور غالبا ان کو گزی گاڑھے کے سوا اور کچھ پہننا نہ آتا ہوگا‪،‬‬
‫(جس کی شہادت گذشتہ سطور میں صراحت سے ملتی ہے) اکبر نے دلی‪ ،‬الہور‪ ،‬آگرہ‪ ،‬شیخ پور‪ ،‬احمد آباد اور‬
‫گجرات میں پارچہ بافی کے بڑے بڑے کارخانے جاری کیے اور (یہی نہیں بلکہ) ایران‪ ،‬افغانستان‪ ،‬اور چین سے‬
‫کاریگر بلواکر ہر قسم کے قیمتی کپڑے تیار کرائے۔“ (اسالمی حکومت اور ہندوستان میں اس کا تمدنی اثر‪،‬ص‪)۷:‬‬
‫اسی طرح اہل ہند کی زندگی کو خوشگوار بنانے کے لیے جن خوراک کی بھی ضرورت پڑی خواہ باطنی ہو یا‬
‫ظاہری مسلم حکمرانوں نے اس کو بہم پہنچایا۔‬
‫حقیقت چھپ نہیں سکتی بناوٹ ․․․‬

‫‪9‬‬
‫جھوٹ جھوٹ ہے اور سچ سچ ہے‪ ،‬دونوں میں دن و رات کا فرق ہے‪ ،‬گو جھوٹ کو سچ کالبادہ اوڑھانا دن کو‬
‫رات بنا نے کے مرادف ہے‪ ،‬کوئی حقیقت سے جس طرح ممکن ہو آنکھ بند کرلے؛ لیکن راست بازی اپنی حقیقی‬
‫روشنی سے مدمقابل کی نگاہ خیرہ کرکے رکھ دیتی ہیں۔‬
‫چناں چہ چند غالم اور حقیقت سے بے خبر لوگ اسالمی حکومت کو بے انصاف‪ ،‬تشدد پسند اور سالطین کی ریڑھ‬
‫کی ہڈی‪ ،‬ہندوستان کے ہر ہر ذرے کو آفتاب و ماہتاب بنانے والے اور پورے پچاس سال تک سپاہیوں کی مقدار پر‬
‫تنخواہ لے کر ملک و قوم کی خدمت کرنے والے عالمگیر اورنگ زیب کو متشدد اور مذہب ہندو کا جانی دشمن قرار‬
‫دیتے ہیں۔ بڑے ․․․ رنج والم کی بات ہے۔‬
‫اس کے باوجود جواہر الل نہرو اپنی کتاب (تالش ہند) میں ہندوستانی سماج‪ ،‬ہندوستانی فکر‪ ،‬اور ہندوستان کی‬
‫تمدن و ثقافت پر مسلمانوں کے ناقابل فراموش گہرے اثرات کا اعتراف کرنے پر مجبور ہیں۔ کہتے ہیں‪:‬‬
‫”ہندوستان میں اسالم کی اور ان مختلف قوموں کی آمد نے جو اپنے ساتھ نئے خیاالت اور زندگی کے مختلف‬
‫طرز لے کر آئ ے‪ ،‬یہاں کے عقائد اور یہاں کی ہیئت اجتماعی کو متاثر کیا‪ ،‬بیرونی فتح خواہ کچھ بھی برائیاں لے کر‬
‫آئے اس کا ایک فائدہ ضرور ہوتا ہے‪ ،‬یہ عوام کے ذہنی افق میں وسعت پیدا کردیتی ہے اور انھیں مجبور کردیتی‬
‫ہے کہ وہ اپنے ذہنی حصار سے باہر نکلیں‪ ،‬وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ دنیا اس سے کہیں زیادہ بڑی اور‬
‫بوقلموں ہے جیسی کہ وہ سمجھ رہے تھے۔‬
‫بالکل اسی طرح افغان فتح نے ہندوستان پر اثر ڈاال اور بہت سی تبدیلیاں وجود میں آگئیں‪ ،‬اس سے بھی زیادہ‬
‫تبدیلیاں اس وقت ظہور میں آئیں جب مغل ہندوستان مینآ ئے‪ ،‬کیوں کہ یہ افغانوں سے زیادہ شائستہ اور ترقی یافتہ‬
‫تھے‪ ،‬انھوں نے ہندوستان میں خصوصیت کے ساتھ اس نفاست کو رائج کیا جو ایران کا حصہ تھی۔“ (تالش‬
‫ہند‪،‬ص‪ ۲۱۹:‬بحوالہ ہندوستانی مسلمان‪،‬ص‪)۳۰:‬‬
‫اسی مذکورہ واقعہ کی تائید میں سابق صدر کانگریس اور جنگ آزادی کے ایک رہنما ”ڈاکٹر پٹابی ستیہ َرمیّہ“‬
‫کے الفاظ کا نقل کرنا بھی میرے خیال سے بہتر ہوگا‪” :‬مسلمانوں نے ہمارے کلچر کو ماالمال کیا ہے اور ہمارے نظم‬
‫ونسق کو مستحکم اور مضبوط بنایا نیز وہ ملک کے دور دراز حصوں کو ایک دوسرے کے قریب النے میں کامیاب‬
‫ہوئے‪ ،‬اس ملک کے ادب اوراجتماعی زندگی میں ان کی چھاپ بہت گہری دکھائی دیتی ہے۔“ (خطبہ صدارت انڈین‬
‫نیشنل کانگریس اجالس جے پور ‪ ،/۱۹۴۸‬بحوالہ ہندوستانی مسلمان‪ ،‬ص‪)۳۰:‬‬
‫یہ تھی مسلم حکمرانوں کی طرز حکومت اور اس کے بحرذخار کے چند چھینٹے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ سمندر کو‬
‫کوزہ میں سمونا انتہائی دشوار تر امر ہے۔ آج ہمارے اہل وطن ان حکمرانوں کے احسانات جس طرح بھی ہو‬
‫فراموش کردیں؛ لیکن ان کے لگائے ہوئے اس سدا بہار گلشن کی دلربائی سے اپنی آنکھ اوران کے عطربیز پھولوں‬
‫سے اپنی ناک کب تک بند کریں گے جب کہ خود اسی باغ کے بلبل ہیں اور پرورش پاکر اس کی خوشبوؤں سے‬
‫لہلہارہے ہیں۔‬
‫‪ANS 04‬‬

‫‪10‬‬
‫زبان اردو کی ابتداءو آغاز کے بارے میں کئی مختلف و متضاد نظریات ملتے ہیں یہ آپس میں اس حد تک متضاد ہیں‬
‫کہ ایک انسان چکرا کر رہ جاتا ہے۔ان مشہور نظریات میں ایک بات مشترک ہے کہ ان میں اردو کی ابتداءکی بنیاد‬
‫برصغیر پاک و ہند میں مسلمان فاتحین کی آمد پر رکھی گئی ہے۔ اور بنیادی استدالل یہ ہے کہ اردو زبان کا آغاز‬
‫مسلمان فاتحین کی ہند میں آمد اور مقامی لوگوں سے میل جول اور مقامی زبان پر اثرات و تاثر سے ہوا۔ اور ایک‬
‫نئی زبان معرض وجود میں آئی جو بعد میں اردو کہالئی ۔ کچھ ماہرین لسانیات نے اردو کی ابتدا ءکا سراغ قدیم‬
‫آریائو ں کے زمانے میں لگانے کی کوشش کی ہے۔ بہر طور اردو زبان کی ابتداءکے بارے میں کوئی حتمی بات کہنا‬
‫ذرا مشکل ہے۔اردو زبان کے محققین اگرچہ اس بات پر متفق ہیں کہ اردو کی ابتداءمسلمانوں کی آمد کے بعد ہوئی‬
‫لیکن مقام اور نوعیت کے تعین اور نتائج کے استخراج میں اختالف پایا جاتا ہے۔ اس انداز سے اگر اردو کے متعلق‬
‫نظریات کو دیکھا جائے تو وہ نمایاں طور پر چار مختلف نظریات کی شکل میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔‬
‫دکن میں اردو‪:‬۔‬
‫نصیر الدین ہاشمی اردو زبان کا سراغ دکن میں لگاتے ہیں۔ ان کا بنیادی استدالل یہ ہے کہ طلوع اسالم سے بہت‬
‫پہلے عرب ہندوستان میں ماال بار کے ساحلوں پر بغرض تجارت آتے تھے۔ تجارت کے ضمن میں ان کے تعلقات‬
‫مقامی لوگوں سے یقینا ہوتے تھے روزمرہ کی گفتگو اور لین دین کے معامالت میں یقیناانہیں زبان کا مسئلہ درپیش‬
‫آتا ہوگا۔ اسی میل میالپ اور اختالط و ارتباط کی بنیاد پر نصیر الدین ہاشمی نے یہ نظریہ ترتیب دیا کہ اس قدیم‬
‫زمانے میں جو زبان عربوں اور دکن کے مقامی لوگوں کے مابین مشترک و سیلہ اظہار قرار پائی وہ اردو کی ابتدائی‬
‫صورت ہے۔ جدید تحقیقات کی روشنی میں یہ نظریہ قابل قبول نہیں ۔ڈاکٹر غالم حسین اس نظریے کی تردید کرتے‬
‫ہوئے کہتے ہیں۔‬

‫” عربی ایک سامی النسل زبان ہے جب کہ اردو کا تعلق آریائی خاندان سے ہے۔ اسلیے دکن میں اردو کی ابتداءکا‬
‫سوال خارج از بحث ہو جاتا ہے۔ دکن میں ارد وشمالی ہند سے خلجی اور تغلق عساکر کے ساتھ آئی اور یہاں کے‬
‫مسلمان سالطینکی سرپرستی میں اس میں شعر و ادب تخلیق ہوا۔ بہر کیف اس کا تعلق اردو کےارتقاءسے ہے۔‬
‫ابتداءسے نہیں۔“‬

‫اسی طرح دیکھا جائے تو جنوبی ہند (دکن ) کے مقامی لوگوں کے ساتھ عربوں کے تعلقات بالکل ابتدائی اور تجارتی‬
‫نوعیت کے تھے۔ عرب تاجروں نے کبھی یہاں مستقل طور پر قیام نہیں کیا یہ لوگ بغرض تجارت آتے ‪ ،‬یہاں سے‬
‫کچھ سامان خریدتے اور واپس چلے جاتے ۔ طلو ع اسالم کے ساتھ یہ عرب تاجر ‪ ،‬مال تجارت کی فروخت اور‬
‫اشیائے ضرورت کے تبادلے کے ساتھ ساتھ تبلیغ اسالم بھی کرنے لگے۔ اس سے تعلقات کی گہرائی تو یقینا پیدا‬
‫ہوئی مگر تعلقات استواری اور مضبوطی کے اس مقام تک نہ پہنچ سکے جہاں ایک دوسرے کا وجود نا گزیر ہو کر‬
‫یگانگت کے مضبوط رشتوں کا باعث بنتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ ایسی صورت میں وہ نزدیکی اور قرب پیدا نہ‬
‫ہوسکاجہاں زبان میں اجنبیت کم ہو کر ایک دوسرے میں مدغم ہو جانے کی کیفیت ظاہر ہوتی ہے اس لیے کہا‬

‫‪11‬‬
‫جاسکتا ہے کہ عربوں کے یہ تجارتی و مقامی تعلقات لسانی سطح پر کسی بڑے انقالب کی بنیاد نہ بن سکے البتہ‬
‫فکری سطح پر ان کے اثرات کے نتائج سے انکار نہیں۔‬
‫سندھ میں اردو‪:‬۔‬
‫یہ نظریہ سید سلیمان ندوی کا ہے جس کے تحت ان کا خیال ہے کہ مسلمان فاتحین جب سندھ پر حملہ آور ہوئے اور‬
‫یہاں کچھ عرصے تک ان کی باقاعدہ حکومت بھی رہی اس دور میں مقامی لوگوں سے اختالط و ارتباط کے نتیجے‬
‫میں جوزبان وجود پذیر ہوئی وہ اردو کی ابتدائی شکل تھی۔ ان کے خیال میں ‪:‬‬

‫” مسلمان سب سے پہلے سند ھ میں پہنچے ہیں اس لیے قرین قیاس یہی ہے کہ جس کوہم آج اردو کہتے ہیں۔ اس‬
‫ہیولی اسی وادی سندھ میں تیار ہو ا ہوگا۔“‬
‫ٰ‬ ‫کا‬

‫اس میں شک نہیں کہ سندھ میں مسلمانوں کی تہذیب و معاشرت اور تمدن و کلچر کا اثر مستقل اثرات کا حامل ہے۔‬
‫مقامی لوگوں کی زبان‪ ،‬لباس اور رہن سہن میں دیرپا اور واضح تغیرات سامنے آئے ہیں بلکہ عربی زبان و تہذیب‬
‫کے اثرات سندھ میں آج تک دیکھے اور محسوس کیے جاسکتے ہیں ۔ آج سندھی زبان میں عربی کے الفاظ کی تعداد‬
‫پاکستان و ہند کی دوسری تمام زبانوں کی نسبت زیادہ ہے اس کا رسم الخط بھی عربی سے بالو اسطہ طور پر متاثر‬
‫ہے۔ عربی اثرات کی گہرائی کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بعض مورخین کے نزدیک دوسری‬
‫زبانوں میں جہاں دیسی زبانوں کے الفاظ مستعمل ہیں وہاں سندھی میں عربی الفاظ آتے ہیں مثال کے طو ر پر‬
‫سندھی میں پہاڑ کو ”جبل“ اور پیاز کو ”بصل “ کہنا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ یہ اثرات زبان میں الفاظ کے دخول سے‬
‫آگے نہ بڑھ سکے ۔ اس لیے کوئی مشترک زبان پیدا نہ ہو سکی۔ یہی وجہ ہے کہ سید سلیمان ندوی اپنے اس‬
‫ٰ‬
‫دعوے کا کوئی معقول ثبوت نہیں دے سکے۔بقول ڈاکٹر غالم حسین ‪:‬‬

‫”اس بارے میں قطعیت سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ابتدائی فاتحین عرب تھے جن کےخاندان یہاں آباد ہو گئے۔ نویں‬
‫صدی میں جب ایران میں صفاریوں کا اقتدار ہواتو ایرانی اثرات سندھ اور ملتان پر ہوئے ۔ اس عرصہ میں کچھ عربی‬
‫اور فارسیالفاظ کا انجذاب مقامی زبان میں ضرور ہوا ہوگا اس سے کسی نئی زبان کیابتداءکا قیاس شاید درست نہ‬
‫ہوگا۔“‬

‫اس دور کے بعض سیاحوں نے یہاں عربی ‪ ،‬فارسی اور سندھی کے رواج کا ذکر ضرور کیا ہے مگر ان بیانات سے‬
‫یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ یہاں کسی نئی مخلوط زبان کا وجود بھی تھا۔ البتہ قیاس کیا جاسکتا ہے کہ سندھی اور‬
‫ہیولی قیاس کرنا کہاں تک مناسب ہے۔ خاطر‬
‫ٰ‬ ‫ملتا نی میں عربی اور فارسی کی آمیزش ہوئی ہوگئی۔ اس آمیز ش کا‬
‫خواہ مواد کی عدم موجودگی میں اس کا فیصلہ کرنا دشوار ہے۔‬
‫پنجاب میں اردو‪:‬۔‬

‫‪12‬‬
‫حافظ محمود شیرانی نے اپنے گہرے لسانی مطالعے اور ٹھوس تحقیقی بنیادوں پر یہ نظریہ قائم کیا ہے کہ اردو کی‬
‫ابتداءپنجاب میں ہوئی۔ ان کے خیال کے مطابق اردو کی ابتداءاس زمانے میں ہوئی جب سلطان محمو د غزنوی اور‬
‫شہاب الدین غوری ہندوستان پر باربار حملے کر رہے تھے۔ ان حملوں کے نتیجے میں فارسی بولنے والے‬
‫مسلمانوں کی مستقل حکومت پنجاب میں قائم ہوئی اور دہلی کی حکومت کے قیا م سے تقریبا ً دو سو سال تک یہ‬
‫فاتحین یہاں قیام پذیر رہے۔ اس طویل عرصے میں زبان کا بنیادی ڈھانچہ صورت پذیر ہوا اس نظریے کی صداقت‬
‫کے ثبوت میں شیرانی صاحب نے اس عالقے کے بہت سے شعراءکا کالم پیش کیا ہے ۔ جس میں پنجابی ‪،‬فارسی اور‬
‫مقامی بولیوں کے اثرات سے ایک نئی زبان کی ابتدائی صورت نظرآتی ہے۔ ڈاکٹر غالم حسین ذوالفقار اس سلسلہ‬
‫میں لکھتے ہیں ‪:‬‬

‫” سلطان محمود غزنوی کی فتوحا ت کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تاریخ کا ایک نیادور شروع ہوا۔ فتوحات کا یہ‬
‫سلسلہ ‪1000‬ءسے ‪1026‬ک جاری رہا اور پنجاب و سندھکے عالوہ قنوج ‪ ،‬گجرات (سومنات) متھرا اور کالنجر‬
‫تک فاتحین کے قدم پہنچےلیکن محمود غزنوی نے ان سب مفتوحہ عالقوں کو اپنی سلطنت میں شامل نہ کیاالبتہ‬
‫‪1025‬ءمیں الہور میں اپنا نائب مقرر کرکے پنجاب کو اپنی قلم رو مینشامل کر لیا۔ نئے فاتحین میں ترک اور افغان‬
‫شامل تھے۔ غزنوی عہد میں مسلمانکثیر تعداد میں پنجاب میں آباد ہوئے ‪ ،‬علماءاور صوفیا نے یہاں آکر رشد وہدایت‬
‫کے مراکز قائم کیے اور تبلیغ دین کا سلسلہ شروع کیا جس کے نتیجے مینمقامی باشندے گروہ درگروہ اسالم قبول‬
‫کرنے لگے اس سماجی انقالب کا اثر یہانکی زبان پر پڑا ۔ کیونکہ فاتحین نے پنجاب میں آباد ہو کر یہانکی زبان‬
‫کوبول چال کے لیے اختیار کیا۔ اس طرح غزنوی دور میں مسلمانوں کی اپنی زبان ‪،‬عربی ‪ ،‬فارسی اور ترکی کے‬
‫ساتھ ایک ہندوی زبان کے خط و خال نمایا ں ہوئے۔“‬

‫مسلمان تقریبا ً پونے دو سو سال تک پنجاب ‪ ،‬جس میں موجودہ سرحدی صوبہ اور سندھ شامل تھے حکمران رہے۔‬
‫‪1193‬ءمیں قطب الدین ایبک کے لشکروں کے ساتھ مسلمانوں نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی اور چند سالوں کے‬
‫بعد ہی سارے شمالی ہندوستان پر مسلمان قابض ہوگئے۔ اب الہور کی بجائے دہلی کو دارالخالفہ کی حیثیت حاصل ہو‬
‫گئی تو الزما ً مسلمانوں کے ساتھ یہ زبان جو اس وقت تک بول چال کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی‪ ،‬ان کے‬
‫ساتھ ہی دہلی کی طر ف سفر کر گئی ۔‬
‫تاریخی اور سیاسی واقعات و شواہد کے عالوہ پرفیسر محمود خان شیرانی ‪ ،‬اردو اور پنجابی کی لسانی شہادتوں اور‬
‫مماثلتوں سے دونوں زبانوں کے قریبی روابط و تعلق کو واضح کرکے اپنے اس نظرے کی صداقت پر زور دیتے ہیں‬
‫کہ اردو کا آغاز پنجاب میں ہوا۔ فرماتے ہیں‪:‬۔‬

‫” اردو اپنی صرف و نحو میں پنجابی و ملتانی کے بہت قریب ہے۔ دونوں میناسماءو افعال کے خاتمے میں الف آتا‬
‫ہے اور دونوں میں جمع کا طریقہ مشترک ہےیہاں تک کہ دونوں میں جمع کے جملوں میں نہ صرف جملوں کے اہم‬

‫‪13‬‬
‫اجزاءبلکہ انکے توابعات و ملحقات پر بھی ایک باقاعدہ جاری ہے۔ دنوں زبانیں تذکیر وتانیث کے قواعد ‪ ،‬افعال‬
‫مرکبہ و توبع میں متحد ہیں پنجابی اور اردو مینساٹھ فی صدی سے زیادہ الفاظ مشترک ہیں۔“‬

‫مختصرا ً پروفیسر شیرانی کی مہیا کردہ مشابہتوں اور مماثلتوں پر نظر ڈالیں تو دونوں زبانوں کے لسانی رشتوں کی‬
‫وضاحت ہو جاتی ہے اور یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اردو اپنی ساخت اور صرفی و نحوی خصوصیات کی‬
‫بناءپر پنجابی زبان سے بہت زیادہ قریب ہے اور اس سے بھی پروفیسر موصوف کے استدالل کو مزید تقویت پہنچتی‬
‫ہے۔‬
‫پروفیسر سینٹی کمار چیٹر جی نے بھی پنجاب میں مسلمان فاتحین کے معاشرتی اور نسلی اختالط کا ذکر کیا ہے اور‬
‫ڈاکٹر زور کے نقطہ نظر کی تائید کی ہے ۔ ان کے خیال میں قدرتی طور پر مسلمانوں نے جو زبان ابتدا ً اختیار کی وہ‬
‫وہی ہوگی جو اس وقت پنجاب میں بولی جاتی تھی وہ کہتے ہیں کہ موجودہ زمانے میں پنجابی زبان خاص طور پر‬
‫مشرقی پنجاب اور یو ‪ ،‬پی کے مغربی اضالع کی بولیوں میں کچھ زیادہ اختالف نہیں اور یہ فرق آٹھ‪ ،‬نو سال پہلے‬
‫تو اور بھی زیادہ کم ہوگا۔ اس بات کا بھی امکان ہے کہ وسطی و مشرقی پنجاب اور مغربی یوپی میں اس وقت قریبا ً‬
‫ملتی جلتی بولی رائج ہو۔ مزید براں پروفیسر موصوف حافظ شیرانی کی اس رائے سے بھی متفق دکھائی دیتے ہیں‬
‫کہ پنجاب کے لسانی اثرات کا سلسلہ بعد میں بھی جاری رہا۔‬
‫حافظ محمود شیرانی کی تالیف”پنجاب میں اردو“ کی اشاعت کے ساتھ ہی موالنا محمد حسین آزاد کے نظریے کی‬
‫تردید ہو گئی جس میں وہ زبان کی ابتداءکے بارے میں اردو کا رشتہ برج بھاشا سے جوڑتے ہیں۔ پنجاب میں اردو‬
‫کا نظریہ خاصہ مقبول رہا مگر پنڈت برج موہن و تاتریہ کیفی کی تالیف ”کیفیہ“ کے منظر عام پر آنے سے یہ نظریہ‬
‫ذرا مشکوک سا ہو گیا ۔ مگر خود پنڈت موصوف اردو کی ابتداءکے بارے میں کوئی قطعی اور حتمی نظریہ نہ دے‬
‫سکے۔ یوں پروفیسر اخترشیرانی کے نظریے کی اہمیت زیادہ کم نہ ہوئی۔‬
‫دہلی میں اردو‪:‬۔‬
‫اس نظریے کے حامل محققین اگرچہ لسانیات کے اصولوں سے باخبر ہیں مگر اردو کی پیدائش کے بارے میں پنجاب‬
‫کو نظر انداز کرکے دہلی اور اس کے نواح کو مرکزی حیثیت دیتے ہیں ۔ لیکن دہلی اور اس کے نواح کی مرکزیت‬
‫اردو زبان کی نشوونما اور ارتقاءمیں تو مانی جا سکتی ہے ابتداءاور آغاز میں نہیں۔ البتہ ان عالقوں کو اردو کے‬
‫ارتقاءمیں یقینا نمایاں اہمیت حاصل ہے ۔ دہلی اور اس کے نواح کو اردو کا مولد و مسکن قرار دینے والوں میں‬
‫ڈاکٹر مسعود حسین اور ڈاکٹر شوکت سبزواری نمایاں ہیں۔وہ اس بارے میں لکھتے ہیں کہ ‪:‬‬

‫” یہ سمجھ میں نہیں آتا کہ ارد و کی ابتداءکا مسلمانوں سے یا سرزمین ہندمیں ان کے سیاسی اقتدار کے قیام اور‬
‫استحکام سے کیا تعلق ہے۔ اردو میرٹھاور دہلی کی زبان ہے اس کے لیے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں ہمیں اچھی‬
‫طرح معلومہے کہ اردو اپنے ہار سنگھار کے ساتھ دہلی اور یوپی کے مغربی اضالع مینبولی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ‬

‫‪14‬‬
‫معلوم نہیں کہ اس زبان کاآغاز انہی اضالع مینہوا یا کسی اور مقام میں جہاں سے اسے دہلی اور یوپی کے مغربی‬
‫اضالع مینالیا گیا۔“‬

‫ان نظریات کے عالوہ میر امن ‪ ،‬سرسید اور محمد حسین آزاد نے بھی کچھ نظریات اپنی تصانیف میں پیش کیے لیکن‬
‫یہ نظریات متفقہ طور پر حقیقت سے دور ہیں اور جن کے پیش کنندگان فقدان تحقیق کا شکار ہیں۔‬
‫مجموعی جائزہ‪:‬۔‬
‫اردو کی ابتداءکے بارے پروفیسر محمود شیرانی کا یہ استدال بڑا وزن رکھتا ہے کہ کہ غزنوی دور میں جو ایک سو‬
‫ستر سال تک حاوی ہے ایسی بین االقوامی زبان ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ اردو چونکہ پنجاب میں بنی اس لیے‬
‫ضروری ہے کہ وہ یا تو موجودہ پنجابی کے مماثل ہو یا اس کے قریبی رشتہ دار ہو۔ بہرحال قطب الدین ایبک کے‬
‫فوجی اور دیگر متوسلین پنجاب سے کوئی ایسی زبان ہمراہ لے کر روانہ ہوئے جس میں خود مسلمان قومیں ایک‬
‫دوسرے سے تکلم کر سکیں اور ساتھ ہی ہندو اقوام بھی اس کو سمجھ سکیں اور جس کو قیام پنجاب کے زمانے‬
‫میں وہ بولتے رہے ہیں۔یوں محققین کی ان آراءکے بعد یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ قدیم اردو کا آغاز جدید ہند‬
‫آریائی زبانوں کے طلوع کے ساتھ ‪۰۰۰۱‬ءکے لگ بھک اس زمانے میں ہو گیا جب مسلم فاتحین مغربی ہند (‬
‫موجودہ مغربی پاکستان) کے عالقوں میں آباد ہوئے اور یہاں اسالمی اثرات بڑی سرعت کے ساتھ پھیلنے لگے۔‬

‫اردو ادب کا دکنی دور‬

‫یوں تو مسلمانوں نے دکن پر کئی حملے کیے لیکن عالئوالدین خلجی کے حملے نے یہاں کی زبان اور تہذیب و تمدن‬
‫اور کلچر کو کافی حد تک متاثر کیا۔ مرکزسے دور ہونے کی وجہ سے عالئو الدین خلجی نے یہاں ترک سرداروں کو‬
‫حکمران بنا دیا۔ بعد میں محمد تغلق نے دہلی کی بجائے دیو گری کو دارالسلطنت قرار دیے کر ساری آبادی کووہاں‬
‫جانے کا حکم دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سے مسلمان گھرانے وہاں آباد ہوئے۔ محمد تغلق کی سلطنت کمزور ہوئی‬
‫تو دکن میں آزاد بہمنی سلطنت قائم ہوئی اور دکن‪ ،‬شمالی ہندوستان سے کٹ کر رہ گیا۔ بعد میں جب بہمنی سلطنت‬
‫کمزور ہوئی تو کئی آزاد ریاستیں وجود میں آگئیں۔ ان میں بیجا پور کی عادل شاہی حکومت اور گولکنڈ ہ کی قطب‬
‫شاہی حکومت شامل تھی۔ ان خود مختار ریاستوں نے اردو زبان و ادب کے ارتقاءمیں اہم کردار ادا کیا۔ بہت سے علم‬
‫و فضل اورشعراءو ادبا دکن پہنچے۔ آیئے اب بیچاپور کی عادل شاہی سلطنت کے تحت اردو کے ارتقا ءکا جائزہ لیں۔‬
‫بیجا پور کی عادل شاہی حکومت‪:‬۔‬
‫عادل شاہی حکومت کی بنیاد ‪895‬ءہجری میں پڑی۔ یہاں کا پہال حکمران یوسف عادل شاہ تھا۔ بہمنی ریاست کے‬
‫زوال کے بعد یوسف شاہ نے اپنی آزاد حکومت قائم کی۔ یہ حکومت دو سو سال تک قائم رہی اور نو بادشاہ یکے بعد‬
‫دیگرے حکومت کرتے رہے۔ ابتدائی صدی میں دکنی زبان کی ترقی کے لیے کچھ خاص کام نہیں ہوا اور ایرانی اثرات‬
‫‪ ،‬شیعہ مذہب اور فارسی زبان دکنی زبان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ بنے ۔ لیکن اس کے برعکس دور عادل شاہی کی‬

‫‪15‬‬
‫شاہی سرپرستی دوسری صدی میں اردو و ادب کی ترقی میں خاص اہمیت رکھتی ہے۔ابراہیم عادل شاہ ثانی اور ان‬
‫کے جانشین محمد عادل شاہ نے اس سلسلے میں دکنی زبان کی جانب خصوصی توجہ دی۔ محمد عادل شاہ کے‬
‫جانشین علی عادل شاہ ثانی نے دکنی کو اپنی زبان قرار دیا۔ چنانچہ اس صدی میں شاہی سرپرستی کی وجہ سے ادب‬
‫میں درباری رنگ پیدا ہوا۔ اصناف سخن کی باقاعدہ تقسیم ہوئی۔ قصیدے اور غزلیں کہی گئیں اور شاعری کا ایک‬
‫اعلی معیار قائم ہوا۔اس کے عالو ہ صوفیا نے بھی یہانکی زبان پر گہرے اثرات چھوڑے۔‬
‫ٰ‬
‫عادل شاہی دور میں اردو کے فروغ و ترویج کے مختصر جائزے کے بعد آئیے اب اس دور کے شاعروں کا مختصر‬
‫تذکرہ کریں تاکہ زبان و ادب کے ارتقاءکا اندازہ ہو سکے۔‬

‫‪ANS 05‬‬
‫برطانوی حکومت نے ‪ 24‬مارچ ‪1947‬ءکو ماﺅنٹ بیٹن کو وائسرائے ہند مقرر کیا۔ حکومت نے وائسرائے کی‬
‫معاونت کےلئے الرڈ اسمے‪ ،‬سر ایرک میوائیلی اور ایلن کیمپ بیل جانسن کو مقرر کیا۔ ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے عہدہ کا‬
‫حلف اٹھاتے ہی ہندوستان کے تمام سرکردہ راہنماﺅں سے مالقات کا سلسلہ جاری رہا۔ ماﺅنٹ بیٹن واپس ‪ 19‬مئی‬
‫‪ 1947‬کو لندن پہنچے اور نہایت سرعت سے معامالت کو طے کیا گیا۔ ماﺅنٹ بیٹن محض ‪ 12‬دن کی قلیل مدت میں‬
‫‪ 31‬مئی ‪ 1947‬کو ہندوستان لوٹ آئے۔ ‪ 2‬جون ‪ 1947‬وائسرائے ہاﺅس میں منعقدہ کانفرنس میں رسمی طور پر‬
‫ہندوستانی رہنماﺅں کے سامنے منصوبہ پیش کیا گیا۔ جسے کانگرس اور مسلم لیگ نے بغیر زیادہ بحث و مباحثہ‬
‫کے قبول کر لیا۔ یہ منصوبہ تاریخ میں ‪ 3‬جون ‪ 1947‬کے نام سے موسوم کیا گیا۔ منصوبے کا سب سے اہم نقطہ یہ‬
‫تھا کہ انتقال اقتدار اسی سال ہو گا۔ (یعنی ‪ 1948‬کی بجائے ‪1947‬۔ اس اہم منصوبہ کی منظوری کے بعد کانگرس‬
‫کی جانب سے جواہر الل نہرو‪ ،‬مسلم لیگ کی جانب سے قائداعظم سکھوں کی جانب سے سردار بلدیو سنگھ نے آل‬
‫انڈیا ریڈیو پر تقاریر کیں۔ قائداعظم نے اپنی نشری تقریر میں منصوبہ کی منظوری کا اعالن کرتے ہوئے پہلی مرتبہ‬
‫”پاکستان زندہ باد“ کا تاریخی نعرہ بلند کیا۔‬
‫‪:‬تقسیم کے منصوبہ کے اعالن کے بعد مختلف راہنماﺅں نے اپنے اپنے خیاالت کا اظہار کیا۔ موالنا آزاد نے کہا‬
‫“مجھے یقین ہے کہ یہ تقسیم عارضی‪ ،‬بالکل عارضی ثابت ہو گی”‬
‫ہندو ماسبھا کی جانب سے تعصب کا اظہار کچھ اس انداز سے کیا گیا۔”انڈیا واحد اور ناقابل تقسیم ہے۔ جب تک انڈیا‬
‫سے الگ ہونے والے خطوں کو دوبارہ شامل نہیں کیاجائے گا اور انہیں انڈیا کا الزمی حصہ نہ بنا دیا جائے امن کا‬
‫قیام نامکمل رہ جائے گا“۔‬
‫‪ :‬گاندھی نے ماﺅنٹ بیٹن کے منصوبہ تقسیم پر کڑی نکتہ چینی کی اور کہا‬
‫یہ تقسیم عارضی ہے یہ زیادہ تیر تک نہ چل سکے گی بلکہ مسلمان خود بخود ہندوستان سے آملیں گے“۔”‬
‫‪:‬سردار پٹیل نے اپنی نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا‬
‫اگر جسم کا ایک حصہ زہر آلود ہے اسے جتنی جلدی الگ کر دیا جائے بہتر ہے تاکہ باقی جسم بچ جائے“۔”‬
‫منصوبہ کے اعالن کے بعد مختلف اہم نوعیت کے درج ذیل فیصلے کئے گئے۔‬

‫‪16‬‬
‫سندھ اسمبلی نے‪ 26‬جون ‪1947‬ءکو پاکستان میں شمولیت کا متفقہ فیصلہ کیا۔‬
‫بلوچستان کے شاہی جرگہ اور کوئٹہ میونسپل کمیٹی کے غیر سرکاری ارکان نے متفقہ طور پر پاکستان کے حق میں‬
‫رائے دی۔‬
‫ضلع سلہٹ کے ووٹرز نے سلہٹ کو آسام سے الگ کر کے مشرقی بنگال کے ساتھ مال دینے کا فیصلہ کیا۔” حق‬
‫میں‪ 24‬الکھ اور مخالفت میں ‪8‬الکھ ووٹ ڈالے گئے“۔‬
‫صوبہ سرحد میں عبدالغفار خان اور جمعیت العلماءہند کے پاکستان کے خالف بھرپور مہم چالئی مگر ریفرنڈم میں‬
‫عوام نے ان کی خواہشات اور امیدوں کو خاک میں مال دیا پاکستان میں شمولیت کے حق میں ‪ 275000‬اور مخالفت‬
‫میں تقریبا ً ‪ 3000‬ووٹ پڑے۔ خان عبدالغفار خان کی ہزیمت سے کانگریسی قیادت بھی بددل ہو گئی۔‬
‫بنگال اور پنجاب کی تقسیم کےلئے سرریڈکلف کی سرکردگی میں الگ الگ کمشن قائم کئے گئے تاکہ نئے ممالک کی‬
‫سرحدات کا تعین کیا جا سکے۔ پنجاب کےلئے جسٹس دین محمد‪ ،‬جسٹس محمد منیر‪ ،‬مسٹر جسٹس مہر چند مہاجن‪،‬‬
‫مسٹر تیجا سنگھ‪ ،‬سرحدات کے تعین کمشن کی تشکیل کےلئے قائداعظم کی خواہش تھی کہ دار االمراءکے لڈ الرڈ کو‬
‫چیئرمین بنایا جائے مگر ماﺅنٹ بیٹن نے اپنے عزائم اور کانگرسی خواہشات کو پیش نظر رکھتے ہوئے ریڈ کلف کو‬
‫چیئرمین بنایا جو سراسر غلط فیصلہ تھا۔ کمشن کی جانب سے جو غلط فیصلے کئے گئے وہ مرحلہ وار کچھ اس‬
‫طرح تھے۔‬
‫بنگال‪ :‬بنگال کی سرحدات مقرر کرتے وقت کلکتہ‪ ،‬مرشد آباد اور نادیہ ضلع کا بیشتر حصہ بھارت کو دے دیئے گئے‬
‫کیونکہ کانگرس نے ماﺅنٹ بیٹن سے اس امر کا اصرار کیا کہ کلکتہ کے بغیر بھارت نامکمل ہے۔ آسام کے بعض‬
‫غیر مسلم عالقے پاکستان اور بعض مسلم عالقے بھارت کے حوالے کر دیئے گئے۔ ‪ 1948‬میں بعض اختالفات پیدا‬
‫ہوئے۔ تاہم ٹربیونل کے فیصلہ کے مطابق بھارت‪ ،‬بیروباری یونین کا عالقہ پاکستان کے حوالے کرنے سے پس و‬
‫‪:‬پیش کرتا رہا۔ جسٹس رحمن نے ریڈ کلف کے حتمی فیصلہ کو پڑھا تو صاف کہا‬
‫فیصلہ غیر منصفانہ اور از حد حیران کن ہے“۔”‬
‫‪:‬پنجاب‬
‫پنجاب میں عجیب صوررتحال تھی۔ اوالً تو قائداعظم پنجاب کی تقسیم کے مخالف تھے مگر تقسیم کو جب پنجاب کی‬
‫تقسیم سے مشروط کر دیا گیا تو مجبورا ً تقسیم پنجاب کو ماننا پڑا مگر یہاں صورتحال عجیب تھی سکھوں نے پنجاب‬
‫کے بیشتر اضالع پر اپنا حق جتالتے ہوئے ان کی مغربی پنجاب سے علیحدگی کا مطالبہ کیا۔ شیخوپورہ میں ننکانہ‬
‫صاحب کے تعلق جو سکھوں کے مذہبی پیشوا ہیں اپنا حق فائق سمجھا‪ ،‬عالوہ ازیں گورداسپور‪ ،‬سیالکوٹ‪،‬‬
‫گوجرانوالہ‪ ،‬الہور‪ ،‬منٹگمری اور الئل پور میں زمینوں کے بڑے بڑے مالک سکھ تھے اور وہ ان کی آبادکاری کی‬
‫بدولت بضد تھے کہ ان اضالع کے بیشتر عالقوں کے وہ حقدار ہیں۔ انگریزوں کے سرحدات کے مقرر کرتے وقت‬
‫مسلم اکثریتی کی بیشتر تحصیلیں بھارت کے حوالے کر دیں خصوصا ً فیروز پور‪ ،‬زیرہ‪ ،‬نکودر‪ ،‬جالندھر‪ ،‬گورداسپور‪،‬‬
‫پٹھانکوٹ‪ ،‬بٹالہ‪ ،‬ہوشیارپور‪ ،‬دسوہہ کو بھارت میں شامل کر دیا صرف شکر گڑھ کی مسلم اکثریتی تحصیل پاکستان‬
‫کو دیدی گئی۔‬

‫‪17‬‬
‫٭گورداسپور کی وجہ سے بھارت کو جموں کشمیر کا زمینی راستہ میسر آیا جو آئندہ دونوں ممالک کے لئے وجہ‬
‫تنازعہ بنا اور آج تک حل طلب ہے۔‬
‫٭مادھوپور ہیڈ بھارت کے حوالے کر دیا گیا اور آغاز سے ہی نہری پانی کا تنازعہ شروع ہو گیا حاالنکہ وہاں سے‬
‫نکلنے والی نہر ہر باری دوآب پاکستان کے بیشتر عالقوں کو سیراب کرتی تھی۔‬
‫٭کشمیر پر غاصبانہ قبضے کا خفیہ منصوبہ ماﺅنٹ بیٹن اور کانگریسی قیادت نے پہلے سے ہی بنا رکھا تھا۔‬
‫پٹھانکوٹ کی تحصیل سے بھارت کو زمینی راستہ میسر نہیں آ سکتا تھا اگر گورداسپور اور بٹالہ کی تحصیلیں‬
‫بھارت کو نہ دی جائیں‪ ،‬یہ تمام تحصیلیں‪ 8‬اگست کو پاکستان کے نقشہ میں ظاہر کی گئیں مگر ریڈ کلف نے ماﺅنٹ‬
‫بیٹن کی ایما کے مطابق یہ تمام عالقے بھارت کو دیئے۔ ریڈ کلف کا بیان تھا کہ دریائے ستلج کے مغربی جانب اور‬
‫بیاس و ستلج کے زاویہ میں مسلم اکثریتی عالقے ہندوستان کو نہیں دینا چاہتا تھا لیکن آخر کار یہ عالقے بھارت کو‬
‫دیدیئے۔‬
‫قائداعظم نے ریڈ کلف ایوارڈ کو صریحا ً ظالمانہ فیصلہ قرار دیا چونکہ وہ وعدہ کر چکے تھے اسلئے اسے مجبورا ً‬
‫قبول کرنا پڑا“۔‬
‫وزیراعلی ایٹلی نے ‪4‬جوالئی ‪1947‬ءکو مسودہ قانون برطانوی ‪3‬‬
‫ٰ‬ ‫جون ‪1947‬ءکے منصوبہ کی بنیاد پر برطانوی‬
‫ٰ‬
‫داراالمرا نے اسے منظور کیا ‪ 16‬جوالئی کو ملکہ کی‬ ‫پارلیمنٹ میں پیش کیا۔ ‪ 15‬جوالئی کو بحث و تمحیص کے بعد‬
‫منظوری سے قانون آزادی ہند منظر عام پر آیا۔ دوسرے تمام اہم فیصلوں کے ساتھ ایک یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ‬
‫ملک میں موجود ریاستوں کو یہ حق دیا گیا کہ وہ جس ملک کے ساتھ چاہیں الحاق کر سکتی ہیں مگر انگریزوں نے‬
‫اس قانونی ضابطہ کو حقیقی معنوں میں پورا کرنے کےلئے کئی متنازعہ فیصلے کئے۔ سرا سر فریب تھا۔ ہندوستان‬
‫میں انگریزوں نے حصول مال اور حصول اقتدار کےلئے بے شمار معاہدوں کو توڑا‪ ،‬معاہدہ خواہو اسیران سند سے‬
‫وہ یا رنجیت سنگھ سے‪ ،‬معاہدہ خواہ نظام آف حیدر آباد سے ہو یا ریاست اودھ سے ‪ ،‬ہر معاہدہ ان کے نزدیک کوئی‬
‫وقعت نہیں رکھتا تھا۔ اسیران سندھ سے کئے گئے معاہدوں کی خالفوری یا الحاق کی بات اس موقع پر چارلس نیپئر‬
‫نے یہ ریمارکس دیتے ہوئے بھی شرم محسوس نہ کی۔ ”کہ ہم نے گناہ کیا ہے“۔ لیکن یہ ہمارے مفاد میں ہے۔‬
‫ریاستونکے الحاق کے حوالہ سے جونا گڑھ‪ ،‬مناوادر‪ ،‬حیدر آباد دکن اور خصوصا ً کشمیر کے حوالہ سے انگریزوں‬
‫نے ہندوﺅں کے ساتھ مل کر سازش کر کے تمام اخالقی آئینی اور قانونی ضابطوں کی دھجیاں بکھیر دیں۔ یہ حقیقت‬
‫ہے کہ انہوں نے مسلم دشمنی کا واضح ثبوت دیتے ہوئے ایسے اقدامات کئے جو نئی مملکت یعنی پاکستان کےلئے‬
‫بے شمار مشکالت کا باعث بنے۔ دونوں ممالک میں نفرت و عداوت کے ایسے بیج بوئے جو آج تن آور درخت بن‬
‫چکے ہیں۔ تقسیم کے بعد انگریزوں نے جس بدنیتی خصوصا ً انتظامی بدنظمی‪ ،‬ال اینڈ آرڈر کی صورتحال سے چشم‬
‫پوشی‪ ،‬امن و امان کی ذمہ داری سے مبرا ہونا ایسے حاالت تھے جس سے تقسیم کے بعد سرحدات خصوصا ً مشرقی‬
‫پنجاب سے آنے والے الکھوں مسلمانوں کی شہادت‪ ،‬درحقیقت انگریزوں کی سنگ دلی اور حاالت کو دانستہ بگاڑنے‬
‫کا ایسا جرم تھا جسے آج بھی معاف نہیں کیا جا سکتا۔ مجموعی طور پر پنجاب کے فسادات میں چھ الکھ افراد کی‬

‫‪18‬‬
‫ہالکت ایک کروڑ چالیس الکھ افراد کا بے گھر ہونا اور ایک الکھ معصوم اور بے گناہ لڑکیاں اغوا اور عصمت دری‬
‫کا نشانہ بیں۔ پنجاب کی تقسیم کی یہ قیمت ادا کی گئی۔‬
‫‪ANS 06‬‬
‫آج پاکستان میں مذہبی دہشت گردوں اور طالبان نے قتل و غارت گری کا جو بازار گرم کر رکھا ہے اس کی جڑ میں‬
‫جن نعروں اور نظریوں کا بیج بویا گیا اور جن کی آبیاری گزشتہ ساٹھ سال کے دوران کی گئی وہ کچھ یوں ہیں‬
‫نظریہ پاکستان ‪ ،‬نظریاتی سرحدیں‪ ،‬نظریاتی ریاست‪ ،‬اسالمی ریاست‪،‬اسالم ایک مکمل ضابطہ حیات‪ ،‬اسالمی نظام‪،‬‬
‫نفاذ شریعت یا نفاذ اسالم‪ ،‬حکومت الہیہ کا قیام ‪ ،‬اسالمی نظام کی تجربہ گاہ ‪ ،‬احیائے اسالم ‪ ،‬اسالمی اُمہ وغیرہ۔‬
‫ہم تاریخ پر نظر ڈالیں تو ان اصطالحوں کا استعمال قیام پاکستان سے پہلے کہیں نظر نہیں آتا بلکہ اس کے کچھ‬
‫عرصہ بعد شروع کیا گیا۔ درا صل یہ وہ دور تھا جب بین االقوامی سامراج (اینگلو امریکی سامراج) اور مقامی‬
‫حکمران طبقوں کو ان نعروں اور نظریوں کی شدید ضرورت پڑ گئی تھی۔ بین االقوامی سامراج کو اس لئے کہ‪:‬‬
‫سوویت روس اور ابھرتی ہوئی چین کی کمیونسٹ قوت کے گرد حصار قائم کرنے کے لئے سامراج فیصلہ کر چکا‬
‫تھا کہ مذہب کو بطور نظریاتی ہتھیار کے ستعمال کرے گا۔‬
‫مقامی حکمران طبقوں کو اس لئے کہ‪:‬‬
‫۔عوام اپنے معاشی‪ ،‬جمہوری حقوق کا مطالبہ کریں تو اسے نظریہ کے نام پر رد کیا جا سکے‬
‫۔بنگال کے عوام اپنے حقوق مانگیں‪ ،‬پٹ سن کی آمدنی کو بنگال پر خرچ کرنے کی بات کریں‪ ،‬مالزمتوں میں اپنا‬
‫حصہ مانگیں‪ ،‬فوج میں بھرتی ہونے کی بات کریں‪ ،‬بنگالی کو قومی زبان بنانے کا نعرہ لگائیں‪،‬اور آئین میں آبادی‬
‫کی بنیاد پر ایک فرد ایک ووٹ کا مطالبہ کریں‪ ،‬تو کہا جائے کہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کی جا رہی ہے اور نظریہ‬
‫کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کے نیچے کچل دیا جائے‬
‫۔ سندھ‪ ،‬سرحد اور بلوچستان کے عوام اپنی صوبائی خود مختاری کا مطالبہ کریں تو ان نظریاتی ہتھیاروں کو‬
‫استعمال کیا جائے‬
‫۔پاکستان کے عوام بالعموم اپنے معاشی خوشحالی اور بنیادی حقوق کے مطالبات اُٹھائیں تو بھی یہ نظریاتی ہتھیار‬
‫استعمال میں الئے جائیں۔‬
‫اور پھر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ ان نظریوں کا سہارا لے کر‬
‫۔اینگلو امریکی سامراج نے اسالمی بالک بنانے کے لئے پاکستان کو آلۂ کار کے طور پر استعمال کیا۔ اسالمستان‬
‫بنانے کے مشن پر چوہدری خلیق الزمان کو مسلمان ملکوں کے دوروں پر بھیجا گیا۔ پھر ‪Middle East‬‬
‫‪ Defence (MEDO) Organization‬کے قیام کے لئے چوہدری ظفرا ہللا وزیر خارجہ پاکستان کو مسلمان‬
‫ملکوں میں بھیجا گیا۔اور باآلخر بغداد پیکٹ وجود میں آیا جسے بعد میں ‪ CENTO‬کا نام دے دیا گیا‬
‫۔ملک میں آئین سازی کے عمل کو طول دے کر پس پشت ڈال دیا گیا۔قائد اعظم کی ‪۱۱‬۔اگست ‪1947‬کی دستور‬
‫اسمبلی کی افتتاحی تقریر کو نظر انداز کر کے قرارداد مقاصد منظور کی گئی جو چند تجریدی ‪Abstract‬مذہبی‬

‫‪19‬‬
‫نعروں پر مبنی تھی۔اسمبلی کے اقلیتی ارکان نے اس کی مخالفت میں تقریریں کیں اور اس کے خالف ووٹ دیا۔وزیر‬
‫قانون جوگندر ناتھ منڈل ملک چھوڑ کر ہندوستان چال گیا۔‬
‫۔‪ 1953‬میں مذہبی جماعتوں کے قادیانی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں الہور میں مارشل الء لگا جو پاکستان کا پہال‬
‫مارشل الء تھا۔‬
‫۔‪1954‬میں دستور ساز اسمبلی کے بنائے ہوئے آئین کو مسترد کرتے ہوئے اسمبلی کو توڑ دیا گیا‬
‫۔‪1955‬میں سندھ‪ ،‬سرحد‪ ،‬بلوچستان‪،‬پنجاب کاہکےینائے شرماون یونٹ بنا کر تخت الہور کے تحت صوبہ مغربی‬
‫پاکستان بنا دیا گیا‬
‫۔‪ 1956‬اسٹبلشمنٹ کے نمائندے چوہدری محمد علی نے پہال دستور بنایا جس میں پیریٹی کے نام پر مشرقی پاکستان‬
‫کے ‪ 54‬فیصد کو مغربی پاکستان کے ‪ 46‬فیصد کے برابر کر دیا گیا۔یہ چوہدری محمد علی وہی شخص ہے جس نے‬
‫‪ 60‬کی دہائی میں نظام اسالم پارٹی بنائی اور‪ 64‬اور‪ 70‬کے انتخابات میں دائیں بازو کے اتحاد میں شامل ہو کر‬
‫حصہ لیا۔اور یہی شخص ہے جس نے سیکرٹری جنرل حکومت پاکستان کی حیثیت سے پہلی پریس ایڈوائس جاری‬
‫کی تھی کہ قائد اعظم کی ‪۱۱‬۔اگست کی تقریر کے مکمل متن کو شائع نہ کیا جائے (مگر ڈان کے ایڈیٹر الطاف حسین‬
‫نے پورا متن شائع کیا)۔‬
‫۔‪58-56‬کے عرصہ میں لیاقت علی خان‪ ،‬چوہدری محمد علی‪ ،‬سر ظفر اہللا‪،‬غالم محمد‪ ،‬سکندر مرزا وغیرہ نے اسالم‬
‫اور نظریہ کے نام پر ملک کو سیاسی طور پر غیر مستحکم کیا اور ایوب خان کے مارشل الء کی راہ ہموار کی۔‬
‫۔ایوب خان کے دس سالہ دور میں اسالم اور نظریہ کا کئی بار استعمال کیا گیا۔غالف کعبہ۔کشمیر کا جہاد اور ‪ 65‬کی‬
‫جن اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے لوگوں کے مذہبی جذبات سے کھیال گیا‬
‫۔یحی خان کے تین سالہ دور میں نظریہ سازی کی سرکاری فیکٹریوں نے بڑھ چڑھ کر کام کیا اور تمام سرکاری‬
‫وسائل دائیں بازو کی نظریہ باز جماعتوں کے حوالے کر دئے گئے۔‪ 70‬کے انتخاب کا نتیجہ آیا تو اس کے نتائج یہ‬
‫کہ کر مسترد کر دئے گئے کہ نظریہ پاکستان کی مخالف جماعتیں کامیاب ہو گئی ہیں اس لئے ان انتخابات کو کالعدم‬
‫کر کے نئے انتخاب کرائے جائیں۔ اور مشرقی پاکستان میں اس انتخاب کو کالعدم کر کے فوجی ایکشن کر دیا گیا اور‬
‫اسالم اور نظریہ پاکستان کے نام پر جعلی انتخاب کرائے گئے۔ مذہبی انتہا پسند تنظیمیں الشمس اور البدر نظریہ‬
‫پاکستان کے نام پر فوجی ایکشن میں شامل ہو گئیں۔ ‪ 71‬میں نظریہ پاکستان کے نام پر پاکستان کو توڑ دیا گیا‬
‫۔‪77-72‬بھٹو دور میں مذہبی اور دائیں بازو کی جماعتوں نے اسالمی نظام اور نظریہ پاکستان کے نعروں کے بے‬
‫دریغ استعمال کیا اور بھٹو حکومت کو مسلسل غیر مستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ ‪74‬میں قادیانی ایجی ٹیشن کر‬
‫کے احمدیوں کو اقلیت قرار دلوایا گیا۔ ‪ 77‬کی ‪ PNA‬کی تحریک۔نظام مصطفے تحریک۔فوجی کمانڈوز نے دینی‬
‫مدرسوں کے طالب علموں کو مسلح ہو کر مظاہروں میں حصہ لینے کی ٹریننگ دی۔ بھٹو حکومت کا نظریہ پاکستان‬
‫کے نام پر تختہ الٹ دیا گیا۔‬
‫۔‪ 88-77‬ضیا دور۔ نظریہ سازی کی جو فصل گزشتہ ‪ 30‬سال میں بوئی گئی تھی اب اس کے کاٹنے کا وقت آ گیا‬
‫تھا۔ضیا الحق اور امریکی سامراج نے نفاذ اسالم‪ ،‬نفاذ شریعت‪ ،‬حدود آرڈنینس‪،‬چادر اور چار دیواری‪ ،‬پھانسیاں‪،‬‬

‫‪20‬‬
‫کوڑے ‪ ،‬جال وطنیاں‪ ،‬کالشنکوف کلچر‪،‬ہیروئین اور سب سے بڑھ کر جہاد افعانستان کے ذریعے پاکستان کے‬
‫سیاسی‪ ،‬ثقافتی‪،‬معاشرتی اور اخالقی نظام کو تہہ و باال کر کے رکھ دیا۔درسی نصاب کی کتابوں‪،‬مالزمتوں کے لئے‬
‫انٹرویوز اور ترقیوں کے لئے معیار نظریہ کے نام پر گھڑے گئے ان نعروں کی بھینٹ چڑھا دئے۔‬
‫۔‪99-88‬بے نظیر اور نواز شریف کے میوزیکل چئرز اقتدار کے ادوار میں ‪ ISI‬نے ضیا دور کی تمام داخلی اور‬
‫خارجی پالیسیوں کو من و عن جاری رکھا۔ افغانستان میں جہادی تنظیموں کی خانہ جنگی کے دوران ان کی سرپرستی‬
‫جاری رہی یہاں تک کہ طالبان تنظیم کو اقتدار میں الیا گیا۔ پاکستان کے اندر بھی سپاہ صحابہ‪ ،‬سپاہ محمد‪ ،‬لشکر‬
‫جھنگوی‪ ،‬لشکر طیبہ اور جیش محمد پروان چڑھائی گئیں۔‬
‫۔‪2009-99‬۔ مشرف دور اور بعد۔ ‪ 11/9‬کے بعد کا پاکستان۔مذہبی انتہاپسندی جنونیت میں تبدیل ہو گئی۔ الل مسجد‬
‫اور اسی قبیل کے مدرسوں میں خود کش حملہ آوروں کی فیکٹریاں قائم ہو گئیں جنہیں ‪ISI‬اور اسٹبلشمنٹ نے پروان‬
‫چڑھنے دیا۔ اعجاز الحق‪ ،‬چوہدری شجاعت حسین اور دیگر حکومتی عہدیدار ان کی سرپرستی کرتے رہے۔ اور میڈیا‬
‫کے بہت سے ‪ lead anchors‬بھی ان کی حمایت میں پیش پیش رہے۔ ملک مذہبی جنونیوں اور دہشت گردوں کے‬
‫ہتھے چڑھ گیا اور بے گناہ معصوم لوگوں ؛ سکول کے بچوں اور عورتوں کا بہیمانہ قتل عام کیا گیا‪ ،‬سارا ملک اس‬
‫مذہبی جنونیت کے آتش فشاں کے دہانے پر رکھ دیا گیا۔اور اب اس میں بھی کوئی شبہ نہیں رہ گیا کہ اس پورے‬
‫ڈرامہ کے پس پشت امریکی برطانوی اور بھارتی ایجنسیاں ہیں جو ان کو جدید اسلحہ‪ ،‬ٹریننگ اور ڈالرز فراہم کر‬
‫رہے ہیں۔‬
‫ہم نے اس نام نہاد نظریہ پاکستان اور دوسرے نظریاتی نعروں کے سراب کے پیچھے بھاگتے ہوئے جو شدید‬
‫نقصانات اُٹھائے ہیں‪ ،‬سیاسی‪ ،‬معاشرتی‪ ،‬معاشی اور ثقافتی سطح پر جو ‪ Reverse Gear‬لگا ہے اس سے ہم‬
‫قریب قریب پتھر کے زمانے میں پہنچ گئے ہیں۔ اصل کنفیوژن نام نہاد پڑھے لکھے درمیانے طبقہ کی سوچ کا ہے‬
‫جس میں اکثریت پروفیشنلز کے ہے جن کے ذہنوں میں ایک طالبان بٹھا دیا گیا ہے۔ گزشتہ ساٹھ سال میں‬
‫اسٹبلشمنٹ اور عالمی سامراج نے اس پر بہت کام کیا‪ ،‬تمام سرکاری و غیر سرکاری وسائل اور بین االقوامی وسائل‬
‫بروئے کار الئے گئے۔ درسی کتابوں‪ ،‬اخبارات و رسائل‪ ،‬تقریروں تحریروں‪ ،‬تعلیمی اداروں‪ ،‬ابالغ کے اداروں اور‬
‫فوجی افسروں کے تربیتی اداروں میں تاریخ کو مسخ کر کے جو نظریاتی تربیت کی گئی اس نے نام نہاد پڑھے‬
‫لکھے درمیانے طبقہ کو ذہنی طالبان بنا دیا ہے۔‬
‫آئیے دیکھیں کہ نظریہ پاکستان اور دیگر نظریاتی نعروں کی اصلیت کیا ہے ؟‬
‫قیام پاکستان کے بارے میں ایک نظریہ تو یہ پیش کیا جاتا ہے کہ‪:‬‬
‫’’برصغیر کے مسلمانوں کو اسالمی نظام کے نفاذ کے لیے ایک ملک چاہیے تھا‪ ،‬چنانچہ پاکستان دراصل اسالمی‬
‫نظام کی تجربہ گاہ کے طور پر حاصل کیا گیا ہے۔ یہ ایک نظریاتی ملک ہے اور اس کی نظریاتی سرحدیں ہیں جنہیں‬
‫جغرافیائی سرحدوں سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ عالمہ اقبال نے اس کا خواب دیکھا تھا‪ ،‬قائد اعظم نے اس کی تعبیر‬
‫کی۔‘‘‬

‫‪21‬‬
‫اس تصور کو نظریہ پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ پاکستانی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری نظریہ بھی یہی ہے۔ اس تصور کو‬
‫ان مراعات یافتہ طبقات نے اختیار کیا جو محکوم طبقوں اور قومیتوں پر اپنی سیاسی و معاشی باالدستی کو قائم‬
‫کرنے کے لیے اسالم کی آڑ استعمال کرنا چاہتے تھے۔ عالوہ ازیں اس تصو رکی نقیب سیاسی جماعتیں جو ’’نفاذ‬
‫اسالم‘‘ کے نعرے کو متذکرہ طبقات کی باالدستی اور جہادی کلچر کو مسلط کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں‬
‫تحریک پاکستان کے دوران قیام پاکستان کی شدید مخالفت کرتی رہی ہیں۔‬
‫ایک دوسرا تصور بھی پایا جاتا ہے ‪:‬‬
‫’’برصغیر کے مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین کوئی تضاد نہیں تھا۔ انگریزوں نے لڑاؤ اور حکومت کرو کی پالیسی‬
‫اختیار کر کے ان کے مابین صدیوں سے قائم بھائی چارہ کو ختم کیا اور پھر سازش کے ذریعے ملک کو تقسیم کر‬
‫کے چلے گئے تاکہ برطانوی سامراج کے مفادات پورے ہوتے رہیں۔‘‘‬
‫یہ انڈیا کی اسٹبلشمنٹ کا سرکاری مؤقف ہے اور اسے پاکستان کے بعض‪ ،‬تمام نہیں‪ ،‬ترقی پسند‪ ،‬بائیں بازو اور‬
‫لبرل کہلوانے والے لوگ بھی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ وہ پاکستان کو توڑنے اور تاریخ کی اس غلطی کو درست کر‬
‫کے بھارت اور پاکستان کے درمیان لکیر کو مٹانے کی بات بھی کرتے ہیں۔ ان میں سے بیشتر کی وفاداریاں اور‬
‫مفادات سرحد پار ہیں۔ اور افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اسالم آباد کے مسلسل جبر اور نا انصافیوں سے تنگ آ‬
‫کر چھوٹے صوبوں کے بعض قوم پرست رہنما بھی اس تصور کو اختیار کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔‬
‫یہ دونوں تصوراتی یا نظریاتی ماڈل یا موقف جو مختلف مخصوص مفادات کے تحت وجود میں آئے یا الئے گئے‬
‫ہیں‪ ،‬جب تاریخی جدلیات کے دھارے کے سپرد کیے جائیں تو خس و خاشاک کی طرح بہتے ہوئے نظر آتے ہیں۔‬
‫مطالعہ تاریخ دراصل ایک سائنس ہے۔ اس میں ذاتی پسند یا ناپسند کا کوئی دخل نہیں ہے۔ تاریخ کوئی عقیدہ نہیں‬
‫ہے۔ اس کا مطالعہ عقائد کی بنیاد پر نہیں بلکہ معروضیت کی بنیاد پر ہونا چاہیے۔ عقاید خواہ دائیں بازو کے ہوں یا‬
‫بائیں بازو کے ‪ ،‬عقیدہ پرستی کے شکنجے میں پھنس کر نہ تو ماضی کی اصل حقیقت سے آگاہی حاصل ہوسکتی‬
‫ہے ‪ ،‬نہ حال کو سمجھا جا سکتا ہے اور نہ مستقبل کے بارے میں کوئی درست پیش گوئی کی جا سکتی ہے۔‬
‫تاریخ عالم ملکوں اور سلطنتوں کے عروج و زوال سے عبارت ہے۔ مختلف قبیلوں‪ ،‬گروہوں‪ ،‬قوموں‪ ،‬نسلوں‪ ،‬طبقوں‬
‫اور فرقوں کے باہمی ٹکراؤ یا جدل کے نتیجے میں نئے ملک اور سلطنتیں وجود میں آئیں اور پھر ٹکراؤ اور جدل‬
‫کے اسی عمل نے ان کا شیرازہ بکھیر دیا اور نئے ملک یا سلطنتیں وجود میں آ گئیں۔ ملکوں یا سلطنتوں کی‬
‫سرحدوں کو کبھی دوام حاصل نہیں ہوا۔ کسی ملک یا سلطنت کی عمر کا انحصار اس کی داخلی و خارجی قوتوں کے‬
‫مابین تضادات کی حل پذیری پر رہا ہے۔ اگر تضادات حل ہوتے رہیں تو عمر لمبی ہو جاتی ہے ورنہ مختصر۔ اس‬
‫وقت دنیا کا جو نقشہ ہے اس کی عمر کچھ زیادہ نہیں ہے۔گذشتہ بیسویں صدی میں یہ تین مرتبہ بڑی تبدیلیوں سے‬
‫گزرا‪ ،‬ایک پہلی عالمی جنگ کے بعد‪ ،‬دوسرا دوسری عالمی جنگ کے بعد اور تیسرا سرد جنگ کے خاتمے پر۔ ا اس‬
‫دوران کبھی غالب مغلوب ہو جاتے رہے اور کبھی مغلوب غالب!‬
‫برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں غالب و مغلوب کی جدلیات ہندوؤں اور مسلمانوں کے حوالے سے کم و بیش بارہ‬
‫تیرہ سو سال پہلے شروع ہوئی۔ جب برصغیر کے مغرب میں سندھ اور پھر پنجاب پر مسلمان حملہ آوروں نے‬

‫‪22‬‬
‫حکمرانی اور غلبہ حاصل کیا۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے مابین معاشرتی اور ثقافتی تفریق بھی بہت زیادہ تھی۔‬
‫غزنوی دور کے مسلمان مفکر ابو ریحان البیرونی نے اپنی تصنیف کتاب الہند میں اس تفریق کی شدت کی نشاندہی‬
‫کرتے ہوئے یہ انکشاف کیا تھا کہ’’ ہندو تمام غیرملکیوں یعنی مسلمانوں کو ملیچھ یعنی ناپاک سمجھتے ہیں اور اگر‬
‫کوئی مسلمان یا غیرملکی چاہے بھی تو وہ ان میں داخل نہیں ہوسکتا گویا دونوں فرقوں میں سے کوئی ایک فرقہ‬
‫بھی دوسرے میں جذب نہیں ہوسکے گا۔‘‘ (‪ )1‬برصغیر کے وسیع عالقے پر مسلمان سیاسی‪ ،‬معاشی و ثقافتی‬
‫معاشرتی طور پر غالب اور ہندو مغلوب رہے۔ مسلمان حکمران تھے اور ہندو رعیت یا باجگزار۔ مسلمان حکمران‬
‫وسطی کے مروجہ استبدادی دستور کے مطابق رعیت اور محکوم پر وہ تمام ظلم و زیادتی روا رکھتے تھے‬
‫ٰ‬ ‫قرون‬
‫جو اس استبدادی نظام میں رائج تھا۔ اس استبداد کا اگرچہ مذہب سے تعلق نہیں تھا‪ ،‬مروجہ دستورہییہ تھا ‪،‬تاہم‬
‫غالب کا مذہب غالب اور مغلوب کا مذہب مغلوب تھا۔ اس وقت کے مسلمان مورخین منہاج الدین سراج‪ ،‬ضیاء الدین‬
‫برنی‪ ،‬محمدقاسم فرشتہ‪ ،‬نظام الدین احمد بخشی اور ُمال عبد القادر بدایونی وغیرہ کی ضخیم تصانیف تاخت و تاراج‬
‫کی ان تفاصیل سے بھری پڑی ہیں جو مسلمان حکمران اور حملہ آور مفتوحہ اور مقبوضہ عالقوں پر کرتے تھے۔‬
‫مندر تباہ و مسمار کیے جاتے تھے ‪ ،‬بت توڑے جاتے تھے۔ تاہم خراج ادا کرنے کی صورت میں مندر اور بت محفوظ‬
‫رہتے تھے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ اس طویل دور میں ہمیشہ ایسا نہیں ہوا‪ ،‬ہندو مسلم تضاد کو ختم کرنے یا کم‬
‫کرنے کی کوششیں بھی ہوئیں جو بعض ادوار میں کامیاب بھی ہوئیں۔ اس ضمن میں مغل شہنشاہ اکبر کا دور اور‬
‫کشمیر کے حکمران زین العابدین اور بعض اور عالقائی حکمران قابل ذکر ہیں۔ مسلمان صوفیا کا کردار بھی اس تضاد‬
‫کو کم کرنے اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی برقرار رکھنے میں بڑا اہم رہا۔ خصوصا ً چشتیہ سلسلہ کے بزرگان بابا فرید‬
‫الدین‪ ،‬نظام الدین اولیا اور امیر خسرو وغیرہ۔ تاہم طریقت اور شریعت کا نفاذ بھی ساتھ ساتھ کارفرما تھا۔ اہل شریعت‬
‫اس دور کے ’’نظریاتی‘‘ ماڈل کے علمبردار تھے۔ جب حکمران ان کا زیادہ اثر قبول کر لیتا تو ہندو مسلم تضاد میں‬
‫شدت آ جاتی اور جب حکمران صوفیا کے مسلک کے زیادہ زیراثر ہوتا تو یہ تضاد نرم پڑ جاتا تھا۔ صوفیا کی اس‬
‫تحریک میں بھگتی تحریک نے اہم کردار ادا کیا۔ اس طرح یہ تاریخی جدل غالب و مغلوب کی کشمکش سے ہوتا ہوا‬
‫اٹھارویں صدی کے آغاز میں پہنچا تو مغل زوال پذیر ہوچکے تھے اور مرہٹہ ایک بڑی قوت بن چکے تھے۔‬
‫‪1757‬ء میں احمد شاہ ابدالی نے انہیں پانی پت کے میدان میں شکست فاش دی لیکن اس کا فائدہ مسلمانوں کو نہ‬
‫ہوا۔ تھوڑے عرصے بعد احمد شاہ ابدالی کے ایک سکھ سپاہی رنجیت سنگھ نے پنجاب‪ ،‬کشمیر اور پشاور پر اپنی‬
‫حکومت قائم کر لی اور ادھر بنگال و بہار میں ایسٹ انڈیا کمپنی کی حکومت قائم ہو گئی۔ اس حکومت کے قیام میں‬
‫ہندو مارواڑی سیٹھوں نے بھی بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔‬
‫اٹھارویں صدی کے انجام اور انیسویں صدی کے آغاز میں برصغیر کے طاقت کے توازن میں ایک کیفئیتی‬
‫تبدیلی(‪ qualitative (change‬آ چکی تھی۔ وہ جو ہزار سال سے مغلوب تھے یعنی ہندو غالب قوت یعنی‬
‫انگریزی استعمار کے وفادار بن گئے یا کمپراڈور بن گئے۔ راجہ رام موہن رائے کی ترغیب پر انہوں نے انگریزی‬
‫تعلیم حاصل کی اور نئے انتظامی و سیاسی ڈھانچہ میں ایک جونیئر پارٹنر کی حیثیت حاصل کرنے میں کامیاب ہو‬
‫گئے۔ مسلمان اشرافیہ جو الرڈہیسٹنگز(‪)Hastings‬کے عارضی بندوبست اور الرڈ کارانوالس (‪ )Cornwalis‬کے‬

‫‪23‬‬
‫بندوبست دوامی کا شکار ہو کر اپنی دولت و جاگیر سے محروم ہو گئے۔ ان کی جاگیردارانہ اخالقیات اور کرم خوردہ‬
‫سماجی اقدار ان کو انگریزی تعلیم کی جانب مائل نہ کر سکی۔ مسلمان درمیانہ اور غریب طبقہ کو بھی جاگیرداروں‬
‫کی قیادت اور علماء کی قیادت جن میں وہابی اور فرائضی تحریک کے جہادی بھی شامل تھے ایک طویل عرصہ تک‬
‫جدید تعلیم اور نئے نظام سے دور رکھے رہے۔ عالوہ ازیں صدیوں سے مغلوب ہندو جو نئے تناظر ( ‪Pardigm‬‬
‫‪)Shift‬کے بعد نئی غالب قوت انگریز کے جونیئر پارٹنر تھے اپنی پوری کوشش کرتے تھے کے مسلمان کی ترقی‬
‫کا راستہ روکیں۔‬
‫‪7 185‬ء کی جنگ آزادی یا غدر کے بعد جو پاور سٹرکچر ابھر کر سامنے آیا اس میں سب سے اوپر غالب قوت‬
‫انگریز تھے ‪ ،‬دوسرے نمبر پر نئی ابھرتی ہوئی ہندو بورژوازی تھی اور تیسرے اور نچلے درجے پر مسلمان تھے‬
‫مستثنی کر سکتے ہیں۔ اب جدلیات ان تین قوتوں کے درمیان تھی۔‬
‫ٰ‬ ‫جن میں چند مسلمان ریاستوں کے نوابین کو‬
‫انگریزایسٹ انڈیا کمپنی کی انتظامیہ کو ہٹا کر براہ راست تاج برطانیہ کی عملداری قائم کر چکے تھے اور اسے‬
‫مستحکم کر رہے تھے۔ نئی ہندو بورژوازی کو پہلی بار یہ اندازہ ہوا تھا کہ یورپ کے صنعتی انقالب نے جو‬
‫جمہوری نظام جنم دیا ہے اس نے عددی اکثریت کی بنیاد پر ان کے لیے حصول اقتدار کا راستہ کھول دیا ہے۔ چنانچہ‬
‫انہوں نے اپنے غلبہ کے حصول کے لیے یورپ کے بورژوا نیشنلزم کے تصور کا من و عن ہندوستان پر اطالق‬
‫کرنے کی کوشش کی لیکن اس میں درپردہ بورژوا لبرل سوچ کے بجائے ہندو احیاء اور ہندو غلبہ کی کوشش تھی‬
‫جس میں مسلمانوں کے لیے کوئی جگہ نہیں رکھی گئی تھی۔ وہ اپنی جدلیات میں ایک طرف انگریز کے ساتھ اقتدار‬
‫و اختیار میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی جدوجہد کر رہے تھے اور دوسری طرف مسلمانوں کو مکمل طور پر‬
‫مغلوب و محکوم بنا نے کی کوشش کر رہے تھے۔‬
‫ئور ای بک کی تشکیل‪ :‬اعجاز عبیدی فائل فراہم کی‬
‫‪i‬ہندو نئ‬
‫اٹھارویں صدی کے وسط سے انیسویں صدی کے وسط تک کے ‪100‬سال میں برصغیر کے سیاسی‪ ،‬معاشی و‬
‫معاشرتی منظر میں جس قدر بڑی تبدیلی یا ‪ Paradigm Shift‬آیا تھا‪ ،‬اس کے نتیجے میں مسلمانوں کو جس‬
‫جدلیات کا سامنا تھا اس کے لیے اس ‪ 100‬سال میں انہیں شاہ ولی ہللا‪ ،‬سید احمد شہید‪ ،‬شاہ اسماعیل شہید‪ ،‬جمال‬
‫الدین افغانی اور علمائے دیوبند کے نظریاتی مذہبی ماڈل نے کہیں کا نہیں چھوڑا تھا۔ ا ان مذہبی رہنماؤں کو اس بات‬
‫سے کوئی غرض نہ تھی کہ سیاست‪ ،‬معیشت اور معاشرت کی جدل میں مسلمان ہندوؤں کے مدمقابل کیسے کھڑے‬
‫ہوں گے۔‬
‫جس زمانے میں رام موہن رائے ہندوؤں کو انگریزی تعلیم اور جدید سائنس پڑھا رہا تھا‪ ،‬اسی زمانے میں سیداحمد‪،‬‬
‫شاہ اسماعیل اور ان کے بعد کے وہابی تحریک کے قائدین مسلمانوں کے جہادی جتھے بھرتی کر کے پشاور میں‬
‫طالبان ٹائپ اسالمی حکومت قائم کرنے میں مصروف تھے۔ باآلخر مسلمان اپنے تاریخی جدل کے تقاضوں سے‬
‫نمٹنے کے لیے سرسیداحمد خاں‪ ،‬نواب لطیف اور سیدامیر علی جیسے لوگوں کے ساتھ شامل ہوئے۔انہوں نے راجہ‬

‫‪24‬‬
‫رام موہن رائے واال کام کم و بیش ‪ 50‬یا ‪ 60‬سال کے بعد شروع کیا اور یہ ایک ایسا فرق تھا جسے مسلمان کبھی‬
‫پورا نہیں کر سکے۔‬
‫انیسویں صدی کے اواخر تک ہندوؤں نے انگریزوں کو آنکھیں دکھانی شروع کر دی تھیں۔ وہ انڈین نیشنلزم اور‬
‫جمہوری حقوق کے نام پر اقتدار اور انتظامی ڈھانچے میں اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کے مطالبات کر‬
‫رہے تھے۔ ‪1885‬ء میں انڈین نیشنل کانگریس خود ایک انگریز الرڈ ہیوم نے قائم کر دی تھی۔ تاکہ زیادہ مراعات‬
‫کے حصول کی تحریک ایک بورژوا جمہوری پلیٹ فارم سے ہو اور کہیں یہ تشدد کا راستہ نہ اختیار کر لے۔ یاد رہے‬
‫کہ انڈین نیشنلزم کا کوئی وجود ہندوستان کی تاریخ میں نہیں رہا۔ برصغیر کبھی ایک سلطنت یا ملک کے طور پر‬
‫موجود نہیں رہا۔ خصوصا ً جنوبی ہند ہمیشہ ایک الگ دنیا تھا اور شمالی و مغربی ہند ایک دوسری دنیا۔ یہاں تک کہ‬
‫ہندومت بھی مختلف عالقوں میں مختلف تھا۔ مختلف عالقوں کے دیوی دیوتا بھی اور رسوم و رواج بھی ایک‬
‫دوسرے سے مختلف تھے۔ مگر اس وقت ہندو اپنے مادی مفادات کے حصول اور اپنے غلبہ کے احیاء کے لیے‬
‫انڈین نیشنلزم کے نعرے کو فروغ دے رہے تھے۔ بنگال کا سریندر رناتھ بینرجی اور پونا کا بال گنگا دھر تلک اس‬
‫سودیشی تحریک میں پیش پیش تھے۔‬
‫انیسویں صدی کے اواخر میں مسلمان بھی اپنی بقا کی جدلیات کے تقاضے پورے کرنے میدان میں اتر آئے تھے۔‬
‫سرسیداحمد خاں کا موقف یہ تھا کہ ہندوستان ایک کثیر االقوام برصغیر ہے۔ یہ ایک ملک نہیں ہے اور نہ یہاں رہنے‬
‫والے ایک مذہب یا قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔سرسید نے برصغیر کا یورپ سے موازنہ کیا کہ جیسے یورپ میں کئی‬
‫اقوام ہیں ویسے ہی برصغیر ہندوستان میں کئی اقوام ہیں اور یہاں انڈیشن نیشنل کانگریس کسی ایک قوم کی نہیں‬
‫بلکہ ہندو اکثریت کے مفاد کی نمائندگی کر رہی ہے۔ ‪1905‬ء کی تقسیم بنگال پر کانگریس کی جانب سے شدید ایجی‬
‫ٹیشن نے یہ ثابت کر دیا کہ مسلمانوں کے فائدے میں ہونے والی کسی انتظامی تبدیلی یا اقدام پر کانگریس کا رویہ‬
‫کیا ہو گا۔ جس کے بعد ‪1906‬ء میں سرآغا خاں اور دوسرے مسلم زعماء نے مسلم ایجوکیشنل کانفرنس میں مسلم‬
‫لیگ کے قیام کا فیصلہ کیا اور سرسید کی تعلیمی تحریک ایک سیاسی تحریک میں تبدیل ہو گئی۔‬
‫بیسویں صدی کا آغاز ہوا تو برصغیر میں تینوں قوتوں کے مابین جدلیات کی کشمکش کچھ یوں تھی۔ اسٹرکچر میں‬
‫دوسری پوزیشن کے حامل ہندو جلد از جلد انگریز کو حاصل پہلی پوزیشن پر پہنچنا چاہتے تھے اور غلبے کے‬
‫حصول کی اس کوشش میں مسلمانوں کی حیثیت کو تسلیم کرنے پر آمادہ نہ تھے۔ وہ انڈین نیشنلزم اور سیکولر ازم‬
‫کی تعریف یوں کرتے تھے کہ کوئی ہندو‪ ،‬مسلمان‪ ،‬سکھ‪ ،‬عیسائی نہیں ہے ‪ ،‬سب ہندوستانی ہیں۔ وہ ان کی قومی‬
‫شناخت کا انکار کر کے ان کو اپنی عددی اکثریت کے نیچے کچل ڈالنا چاہتے تھے۔ یوں وہ مسلمانوں سے گزشتہ‬
‫ایک ہزار سال کا بدال بھی لینا چاہتے تھے۔ ادھر مسلمان اس صورتحال میں اپنی بقا کی جدوجہد کر رہے تھے۔‬
‫مسلمان انڈین نیشنلزم کی تعریف یوں کرتے تھے کہ ہندوستان میں آباد دونوں بڑی قوموں کے وجود کو تسلیم کیا‬
‫جائے اور وہ آپس میں معامالت طے کر کے انڈین نیشنلزم کے لیے کام کریں۔ ان کے سیاسی‪ ،‬معاشی و معاشرتی‬
‫حقوق تسلیم کیے جائیں اور ہر سطح پر انہیں ان کا حصہ دیا جائے۔ برصغیر کے مغرب اور مشرق کے وسیع‬
‫عالقوں میں وہ اکثریت میں تھے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے اپنی حیثیت کو منوانا چاہتے تھے۔‬

‫‪25‬‬
‫ادھر انگریز اپنی بین االقوامی سامراجی سیاست میں اتارچڑھاؤ کا شکار تھے۔ پہلی جنگ عظیم اور دوسری جنگ‬
‫عظیم اور دونوں جنگوں کے درمیانی عرصہ میں ان کی کوشش رہی تھی کہ ہندوستان میں داخلی امن رہے اور وہ‬
‫جنگی تیاریوں میں ہندوستان کے وسائل کا بھرپور استعمال کر سکیں۔ اس کے لیے وہ ہر دس سال بعد آئینی‬
‫اصالحات کا ایک پیکیج التے تھے۔ لیکن ہر پیکیج سے پہلے اور بعد ہندو۔ مسلم تضاد شدید ہو جاتا تھا۔ وجہ یہ‬
‫ہوتی تھی کہ کانگریس اس پیکیج میں بال شرکت غیرے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش کرتی‪ ،‬خود کو پورے‬
‫ہندوستان کے عوام کا واحد نمائندہ ثابت کرتی جبکہ حقیقت میں مسلمانوں کے فائدے کا کوئی کام ہوتا تو اس کی راہ‬
‫میں رکاوٹ بن کر کھڑی ہو جاتی۔ مسلمانوں کا اعتماد کانگریس سے اٹھتا چال گیا اور ہندو۔ مسلم جدلیات کے نتیجے‬
‫میں آل انڈیا مسلم لیگ اور آل انڈیا مسلم کانفرنس ان کی نمائندہ جماعتوں کے طور پر ابھر آئیں۔ چونکہ کانگریس‬
‫آبادی کے لحاظ سے بڑے حصے کی نمائندہ تھی اور اس کی ایجی ٹیشن کی قوت بھی زیادہ تھی اس لیے وہ‬
‫انگریزوں سے اپنی بات منوانے میں کامیاب ہو جاتی تھی۔‬
‫‪5 190‬ء میں تقسیم بنگال سے لے کر ‪1947‬ء کی تقسیم ہندوستان تک جدلیات کی یہ مثلث اسی کشمکش کا شکار‬
‫رہی۔ کانگریس کی سودیشی تحریک کے دباؤ سے ‪1912‬ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ کر دی گئی اور مسلمانوں کو‬
‫اس کے عارضی سیاسی و معاشی ثمرات سے محروم کر دیا گیا۔ ‪1909‬ء کی منٹو۔مورلے اصالحات اور ‪1919‬ء کی‬
‫مانٹیگو۔چیمسفورڈ اصالحات کے نتیجے میں بننے والی لیجسلیٹو کونسلوں میں جداگانہ نمائندگی کا اصول تسلیم‬
‫کرتے ہوئے مسلمانوں کو نمائندگی دے دی گئی تھی لیکن وہ مسلم اکثریتی صوبوں میں بھی اپنی آبادی کے تناسب‬
‫سے بہت ہی کم تھی۔ تاہم مسلمان نمائندوں کی اکثریت کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ محمد علی جناح بمبئی کونسل کے‬
‫رکن تھے اور مسلم لیگ اور کانگرس دونوں میں شامل تھے۔ وہ ‪1916‬ء میں کانگرس اور مسلم لیگ کو ایک پلیٹ‬
‫فارم پر جمع کرنے اور میثاق لکھنؤ طے کرانے کی وجہ سے ہندو۔مسلم اتحاد کے سفیر کہالتے تھے۔ ‪20‬ء کے‬
‫عشرے میں لیگ اور کانگرس نے سیلف رول یعنی سوراج کے لیے مشترکہ کوشش شروع کی اور لگا کہ جدلیات‬
‫کی مثلت کے دو نقطے ایک دوسرے کے قریب ہو کر زیادہ قوت سے سوراج حاصل کر لیں گے۔‬
‫پہلی عالمی جنگ کا خاتمہ‪ ،‬ترکی کی شکست اور خالفت کا خاتمہ‪20 ،‬ء کے عشرے میں برصغیر کے مسلمانوں کی‬
‫تمام تر توانائیاں تحریک خالفت میں بہا لے گیا۔ اس تحریک کا مقصد تو پورا نہ ہوا کیونکہ اتاترک نے خالفت کی‬
‫بساط ہمیشہ کے لیے لپیٹ دی تھی۔ مگر برصغیر میں سیاسی مولویوں کی ایک بہت بڑی کھیپ تیار ہو گئی۔ ان کا‬
‫کردار ہندو۔مسلم۔انگریز جدلیات میں زیادہ تر مثبت کردار کے بجائے منفی کردار ادا کرنے کا تھا۔ وہ مسلمانوں کو‬
‫وسطی کے احیائے اسالم کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے اور برصغیر سے انگریزوں کو نکالنے کے‬
‫ٰ‬ ‫قرون‬
‫لیے کانگرس کا ساتھ دینے کی بھرپور حمایت کرتے تھے۔ مسلمانوں کے سیاسی‪ ،‬معاشی و معاشرتی حقوق کے‬
‫تحفظ کی مسلم لیگ کی جدوجہد کی کھل کر مخالفت کرتے تھے۔‬
‫‪0 2‬ء کے عشرے کے اواخر میں دوسری عالمی جنگ کی تیاری شروع ہو چکی تھی۔ حکومت برطانیہ نے اگال آئینی‬
‫پیکیج النے کے لیے ہندوستانی لیڈروں سے مشورے کے لیے سائمن کمیشن بھیجا جو ‪1927‬ء اور ‪1928‬ء میں‬
‫دو مرتبہ ہندوستان آیا۔ ایک مرتبہ پھر ہندو۔مسلم۔انگریز کی جدلیات کی مثلث میں کشمکش تیز ہو گئی۔ مسلمان متحدہ‬

‫‪26‬‬
‫ہند کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے سیاسی‪ ،‬معاشی‪ ،‬معاشرتی حقوق کا تحفظ چاہتے تھے۔ مسلم اکثریت کے‬
‫عالقوں میں مکمل صوبہ کا درجہ صرف پنجاب اور بنگال کو حاصل تھا۔ سندھ صوبہ بمبئی کے حصہ تھا۔ شمال‬
‫مغربی سرحدی صوبہ مکمل صوبہ نہ تھا بلکہ ایک لیفٹیننٹ گورنر کے ماتحت مرکز سے کنٹرول کیا جاتا تھا۔‬
‫بلوچستان میں جو عالقہ برٹش بلوچستان کہالتا تھا وہ ایک چیف کمشنری کا درجہ رکھتا تھا۔ باقی قالت اور دوسری‬
‫ریاستوں پر مشتمل تھا۔ چنانچہ اس وقت مسلمانوں کی جدوجہد دراصل صوبائی خودمختاری کی تحریک کی شکل‬
‫اختیار کر گئی تھی۔ ان کے اولین مطالبات میں سندھ کو بمبئی سے الگ کرنا‪ ،‬صوبہ سرحد اور بلوچستان کو مکمل‬
‫صوبہ کا درجہ دینا شامل تھا۔ مزید برآں وہ ایک فیڈریشن کا ڈھانچہ چاہتے تھے جس میں صوبوں کے پاس زیادہ‬
‫اختیارات ہوں اور مرکز کے پاس چند ضروری مرکزی محکمے ہوں۔ جبکہ کانگرس مضبوط مرکز کی حامی تھی اور‬
‫صوبوں کو کم سے کم اختیارات دینا چاہتی تھی۔ اس طرح مسلم۔ ہندو جدلیات کی کشمکش اپنے اپنے مفادات کے‬
‫حوالے سے مضبوط مرکز اور ڈھیلے ڈھالے وفاق کے مطالبوں کی شکل اختیار کر گئی تھی۔‬
‫ان حاالت میں ‪1928‬ء۔ ‪1927‬ء کے دو سال میں سیاسی کشمکش میں تیزی آئی۔ جناح کی تجاویز دہلی سامنے آئیں‬
‫پھر کانگرس اور لیگ سمیت آل پارٹیز کانفرنس منعقد ہوئی اور موتی الل نہرو کو سب کے مشترکہ مطالبات پر مبنی‬
‫رپورٹ بنانے کا کام سونپا گیا تاکہ سائمن کمیشن کے ذریعے حکومت برطانیہ کو آئینی فارمولے کا ایک مشترکہ‬
‫چارٹر پیش کر دیا جائے مگر نہرو رپورٹ نے مسلمانوں کے فائدے کے تمام مطالبات کو یکسر نظرانداز کر کے‬
‫ایک مضبوط مرکز پر مبنی وحدانی طرز حکومت کا منصوبہ پیش کر دیا۔ مسلمان سخت مایوس ہوئے اور انہوں نے‬
‫آل پارٹیز مسلم کانفرنس منعقد کر کے اپنا مطالبات کا علیحدہ چارٹر پیش کر دیا جسے قائد اعظم کے چودہ نکات کہا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫محمد علی جناح حاالت سے مایوس ہو کر انگلستان چلے گئے۔‬
‫یہاں تک یہ واضح ہو جاتا ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں کا سیاسی مسئلہ کیا تھا اور وہ کسی قسم کی کشمکش سے‬
‫دوچار تھے۔ مسئلہ نظریاتی ریاست کے حصول کا نہیں تھا بلکہ سیاسی و معاشی تحفظات کی کشمکش کا تھا۔ پاور‬
‫سٹرکچر کے تینوں فریق یعنی انگریز‪ ،‬ہندو اور مسلمان ایک جدل میں ایک دوسرے کے ساتھ نبرد آزما تھے۔ لیکن‬
‫ہمارے نظریاتی ریاست کے علمبردار اسے صرف ایک نظریاتی ریاست کے حصول کا مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس‬
‫مقصد کے لیے ‪1930‬ء کے مسلم لیگ کے ٰالہ آباد کے ساالنہ اجالس میں عالمہ محمد اقبال کے خطبہ صدارت کو‬
‫بنیاد بناتے ہیں۔ آیئے اس خطبے کا مطالعہ کرتے ہیں۔‬
‫اس خطبے کا پہال مسئلہ تو یہ ہے کہ اس کا مکمل متن نہ تو پڑھا جاتا ہے اور نہ درسی کتابوں میں پڑھایا جاتا ہے۔‬
‫اس میں سے صرف ایک جملہ اپنے سیاق و سباق سے الگ کر کے پیش کیا جاتا ہے۔ جو یوں ہے کہ‪:‬‬
‫’’میری خواہش ہے کہ پنجاب‪ ،‬صوبہ سرحد‪ ،‬سندھ اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ضم کر دیا جائے۔ مجھے یوں‬
‫لگتا ہے کہ سیلف گورنمنٹ‪ ،‬خواہ یہ سلطنت برطانیہ کے اندر ہو یا سلطنت برطانیہ کے باہر ہو‪ ،‬ایک مربوط شمال‬
‫مغربی ہندی مسلم ریاست کی تشکیل مسلمانوں کی کم از کم شمال مغربی ہند کے مسلمانوں کی تقدیر ٹھہرے گی۔‘‘‬

‫‪27‬‬
‫اردو درسی کتابوں میں لفظ ریاست کے ساتھ ’’خودمختار‘‘ اور انگریزی درسی کتابوں میں “‪”autonomous‬‬
‫کے لفظ کا اضافہ بھی کیا جاتا ہے جو کہ اصل خطبہ میں نہیں ہے۔‬
‫اصل حقیقت یہ ہے کہ عالمہ کا مذکورہ خطبہ ‪28-1927‬ء کے پس منظر میں ہے جس میں آل پارٹیز کانفرنس‪ ،‬نہرو‬
‫رپورٹ اور آل پارٹیز مسلم کانفرنس اور قائد اعظم کے چودہ نکات پیش ہوئے تھے۔ یہ پورا خطبہ ایک متحدہ‬
‫ہندوستان کے دائرہ میں رہتے ہوئے ایک فیڈریشن پر مبنی ہے جو مسلمانوں کا عمومی مطالبہ تھا اس فیڈریشن کے‬
‫اندر آپ نے سندھ کو بمبئی سے الگ کر کے پنجاب‪ ،‬سرحد اور بلوچستان کے ساتھ ضم کر کے ریاست بطور ایک‬
‫فیڈرل یونٹ یعنی صوبہ کے طور پر مطالبہ کیا ہے اور یہ بھی آپ کا نیا مطالبہ نہیں ہے بلکہ آپ خود اس خطبے‬
‫میں فرماتے ہیں کہ ’’یہ تجویز نہرو کمیٹی کے سامنے بھی پیش کی گئی تھی۔ اس نے اس بنا پر اس تجویز کو رد‬
‫کر دیا تھا کہ اگر اس قسم کی ریاست قائم ہوئی تو یہ بے ہنگم طور پر وسیع و عریض ریاست ہو گی جس کا انتظام‬
‫کرنا دشوار ہو گا۔‘‘ اس کا حل آپ نے یہ تجویز کیا کہ اگر انبالہ ڈویژن جو ہندو اکثریت کا تھا‪ ،‬نکال دیا جائے تو یہ‬
‫مجوزہ ون یونٹ کا صوبہ قابل عمل ہو جائے گا۔‬
‫عالمہ نے اپنے خطبے کے شروع کا حصہ مسلم قومیت کے تصور پر صرف کیا اور زور دیا کہ انڈین نیشنلزم‬
‫برصغیر میں آباد قوموں کے وجود سے انکار میں نہیں بلکہ ان کے وجود کو تسلیم کرنے میں مضمر ہے۔ انڈین‬
‫نیشنلزم کی یہ تعریف سرسید سے لے کر جناح تک تمام مسلم رہنما کرتے تھے اور اس بنیاد پر متحدہ ہندوستان‬
‫میں ڈھیلے ڈھالے وفاق کے قیام کے خواہاں تھے۔ رینان کے ’’قوم‘‘ کے تصور کا حوالہ دیتے ہوئے آپ نے کہا‬
‫’’اگر اکبر کا دین ٰالہی یا کبیر کی تعلیمات عوام الناس میں مقبول ہو جاتیں تو ممکن تھا کہ ہندوستان میں بھی اس‬
‫قسم کی ایک نئی قوم پیدا ہو جاتی لیکن تجربہ بتالتا ہے کہ ہندوستان کے مختلف مذاہب اور متعدد جاتیوں میں اس‬
‫قسم کا کوئی رجحان نہیں کہ وہ اپنی حیثیت کو ترک کر کے ایک وسیع جماعت کی صورت اختیار کر لیں۔ قومیت ہند‬
‫کا اتحاد ان تمام جماعتوں کی نفی میں نہیں بلکہ ان کے تعاون اور اشتراک اور ہم آہنگی پر مبنی ہے۔ میری رائے‬
‫میں ہندوستان اور ایشیا کی تقدیر صرف اس بات پر مبنی ہے کہ ہم قومیت ہند کا اتحاد اسی اصول پر قائم کریں۔‘‘‬
‫آگے چل کر کہا‪:‬‬
‫’’میرا دل اب بھی امید سے لبریز ہے۔ واقعات کا رجحان بہرکیف ہمارے داخلی اتحاد اور اندرونی ہم آہنگی ہی کی‬
‫جانب نظر آتا ہے۔ اور جہاں تک مسلمانوں کا تعلق ہے مجھے یہ اعالن کرنے میں تامل نہیں اگر فرقہ وارانہ امور‬
‫کے ایک مستقل اور پائیدار حل کے اس بنیادی اصول کو تسلیم کر لیا جائے کہ مسلمانان ہند کو اپنی روایات و تمدن‬
‫کے ماتحت اپنے ہندوستانی مادر وطن کے اندر رہتے ہوئے آزادانہ نشوونما کا حق حاصل ہے تو وہ ہندوستان کی‬
‫آزادی کے لیے بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘‬
‫آپ نے ون یونٹ کا صوبہ تجویز کرنے کے بعد آگے چل کر کہا کہ ’’اس سے مسلمانوں میں احساس ذمہ داری‬
‫مضبوط ہو گا اور جذبہ حب الوطنی فروغ پائے گا۔ اگر شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو یہ بھرپور موقع دیا‬
‫جائے کہ وہ ہندوستان کے نظام سیاست میں رہ کر نشوونما پا سکیں تو وہ ہندوستان کے خالف تمام حملوں کی‬
‫صورت میں چاہے یہ حملہ بزور قوت ہو یا بزور خیاالت‪ ،‬ہندوستان کے بہترین محافظ ثابت ہوں گے۔‘‘‬

‫‪28‬‬
‫اس کے بعد آپ نے وفاق ہندوستان کے دفاع پر بڑی تفصیل کے ساتھ بحث کی اور کہا ’’مجھے یقین ہے کہ وفاقی‬
‫حکومت کے قیام کی صورت میں مسلم وفاقی ریاستیں ہندوستان کے دفاع کی خاطر غیرجانبدار بری اور بحری‬
‫فوجوں کو قائم کرنے کے لیے بخوشی رضامند ہو جائیں گی۔ ہندوستان کے دفاع کے لیے اس قسم کی غیر جانبدار‬
‫فوجی طاقت مغلیہ دور حکومت میں موجود تھیں۔ اکبر کے زمانہ میں ان تمام سرحدی فوجوں کے افسر ہندو تھے۔‬
‫مجھے کامل یقین ہے کہ ہندوستان کے وفاق پر مبنی ایک غیرجانبدار ہندوستانی فوج کے قیام سے مسلمانوں کی‬
‫حب الوطنی میں اضافہ ہو گا۔‘‘‬
‫عالمہ نے اصل میں مسلم لیگ کے سرکاری موقف کے بارے میں کہ برصغیر میں ایک ڈھیال ڈھاال وفاق قائم کیا‬
‫جائے یہ خطبہ بہت تفصیل کے ساتھ پیش کیا۔ آپ نے اس میں صوبوں کی ازسرنو حدبندی کا جو مطالبہ کیا وہ بھی‬
‫مسلم لیگ پہلے سے کر رہی تھی۔ اس خطبے میں آپ نے ایک جگہ سندھ اور بلوچستان کو باہم ضم کر کے ایک‬
‫صوبہ بنانے کی بھی تجویز دی۔ آپ نے نہرو رپورٹ کی مجوزہ وحدانی طرز کی مضبوط مرکز کی حکومت کی‬
‫مخالفت کی اور کہا کہ ’’مسلمانوں کو اس وقت تک فائدہ نہیں ہوسکتا جب تک انہیں ہندوستان کے گیارہ صوبوں میں‬
‫سے پانچ میں تمام اختیارات ما البقی کے ساتھ اکثریت کے حقوق حاصل نہ ہوں اور وفاقی مجلس قانون ساز میں ‪33‬‬
‫فیصد نشستیں نہ ملیں۔‘‘ آپ نے مسلم اکثریت پر مبنی خودمختار ریاستوں یعنی صوبوں کے بارے میں یہ بھی کہا کہ‬
‫’’ہندوؤں کے دلوں میں یہ خدشہ نہیں ہونا چاہیے کہ خودمختار مسلم ریاستوں کے قیام سے ان عالقوں میں ایک‬
‫طرح کی مذہبی حکومتیں قائم ہو جائیں گی۔‘‘ آپ نے اس کے لیے ٹائمز آف انڈیا کے اداریے کے حوالے سے بتایا‬
‫کہ’’ باوجودیکہ اسالم میں سود لینا حرام ہے ‪ ،‬مسلم دور حکومت میں ہندوستانی مسلم ریاستوں نے شرح سود پر‬
‫پابندی نہیں لگائی تھی۔‘‘(‪)2‬‬
‫ان اقتباسات سے اندازہ ہو جاتا ہے کہ عالمہ اقبال نے اس خطبہ میں مسلمانوں کے علیحدہ وطن‬
‫یعنی ‪ Sovereign State‬کے قیام کا کوئی تصور پیش نہیں کیا تھا۔خود عالمہ نے ‪1934‬ء میں اس کی تردید‬
‫فرمائی جس کی تفصیل کچھ یوں ہے ‪:‬‬
‫‪32-1930‬ء کے دوران گول میز کانفرنسوں کے انعقاد کے دوران کیمبرج کے طلبہ کے گروپ نے چودھری رحمت‬
‫علی کی قیادت میں پمفلٹ شائع کیا جس میں پاکستان کے نام سے شمالی مغربی ہندوستان میں مسلمانوں کے ملک‬
‫کا نقشہ شائع کیا گیا تھا۔ ‪1934‬ء میں عالمہ اقبال کی کتاب رموز خودی کے انگریزی ترجمے پر ان کے پروفیسر‬
‫ای۔جے۔ تھامپسن نے تبصرہ کرتے ہوئے عالمہ کے تعارف میں آپ کے خطبہ الہ آباد کو چودھری رحمت علی کی‬
‫پاکستان کی تجویز سے منسلک کر دیا۔ آپ نے یہ تبصرہ پڑھا تو جواب میں جو خط لکھا وہ پروفیسر تھامپسن کے‬
‫خطوط کے مجموعہ میں شامل ہے جسے علی گڑھ یونیورسٹی نے شائع کیا ہے۔ آپ نے اس میں لکھا ’’۔۔۔آپ نے‬
‫ایک غلطی کی ہے جس کی میں فوری نشاندہی کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔کیونکہ یہ ایک فاش غلطی ہے۔ آپ نے‬
‫میرے بارے میں کہا ہے کہ میں اس سکیم کا حامی ہوں جسے پاکستان کہا جاتا ہے۔ جبکہ پاکستان میری سکیم نہیں‬
‫ہے۔ میں نے اپنے خطبے میں جو تجویز پیش کی تھی وہ ایک مسلم صوبہ کے بارے میں تھی۔ جو شمال مغربی‬
‫ہندوستان کے مسلم اکثریتی آبادی پر مشتمل تھا۔ میری سکیم کے مطابق یہ نیا صوبہ مجوزہ انڈین فیڈریشن کا حصہ‬

‫‪29‬‬
‫ہو گا۔ پاکستان سکیم میں مسلم صوبوں پر مشتمل ایک علیحدہ فیڈریشن کا قیام تجویز کیا گیا ہے۔۔۔۔ اس سکیم نے‬
‫کیمبرج میں جنم لیا ہے۔ ‘‘(‪)3‬‬
‫‪ANS 07‬‬
‫ءڈھاکہ میونسپل کمیٹی کے صدر بنے۔ ‪1929‬ءڈھاکہ یونیورسٹی کی ایگزیکٹو کونسل کے بھی رکن رہے۔ ‪1922‬‬
‫‪1929‬ءبنگال کی کابینہ میں لے لیا گیا اور وزیر تعلیم بنے۔ ‪1930‬ءانہوں نے بنگال میں الزمی ابتدائی تعلیم کا بل‬
‫پیش کر دیا۔ ‪1937‬ءمیں ‪1935‬ءکے ایکٹ کی رو سے جب مختلف صوبوں میں وزارتیں بنیں تو آپکو بنگال کا‬
‫وزیراعظم بنا دیا گیا۔ نومبر ‪1941‬ءمیں وزارت سے علیحدہ ہو گئے اور بنگال اسمبلی میں مسلم لیگ پارٹی کے‬
‫ممبر چنے گئے۔ ‪1943‬ءاُنہوں نے بنگال میں مسلم لیگی وزارت قائم کی۔ وزیر دفاع اور امور داخلہ کے محکمے‬
‫اپنے پاس رکھے اسی زمانے میں بنگال میں زبردست قحط پڑا اور آپکی شہرت کو خاصا نقصان پہنچا ‪1945‬ءتک‬
‫آپ وزیر رہے۔ ‪1947‬ءآل انڈیا مسلم لیگ کی مجلس عاملہ کے صدر رہے۔ ‪1946‬ءمیں آپ نے جمعیت اقوام کے‬
‫اجالس جنیوا میں ہندوستان کی نمائندگی کی۔ کلکتہ سے پہال مسلم اخبار (دی سٹار آف انڈیا) جاری کیا اور خان بہادر‬
‫عبدالمومن کے ہمراہ کلکتہ میں مسلم ایوان تجارت قائم کیا۔ قیام پاکستان کے بعد آپ مشرقی پاکستان کے پہلے‬
‫وزیراعلی بنے۔ قائداعظم کی وفات کے بعد پاکستان کے گورنر جنرل بنے۔ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد‬
‫ٰ‬
‫اکتوبر ‪1951‬ءکو آپکو وزیراعظم مقرر کیا گیا۔ اس عہدہ پر ‪1953‬ءتک فائز رہے۔‬
‫خارجہ پالیسی میں تبدیلی۔ آپ خارجہ پالیسی کو اُن خطوط پر نہ چال سکے جن پر نواب زادہ لیاقت علی خان چال رہے‬
‫تھے۔ اُنکی پالیسی کا اہم ترین بنیادی نقطہ اسالمی ممالک کی حمایت اور ان کا اتحاد تھا۔ انہوں نے چودھری نذیر‬
‫حمد خان کی ان سرگرمیوں کی حمایت کی جو اُنہوں نے دولت مشترکہ میں اسالمی ممالک کے سلسلے میں شروع‬
‫کر رکھی تھیں۔ انڈونیشیا کے ساتھ خوشگوار تعلقات کا قیام۔ ایران اور مصر کی برطانیہ کے مقابلے میں حمایت‬
‫خاص طور پر مشہور تھیں۔ خواجہ صاحب نے ایران کی تیل کے مسئلہ پر رسمی حمایت کی اور سویز کے عالقہ میں‬
‫برطانوی فوجوں کے اترنے کے بارے میں مصر کی بجائے برطانیہ کی حمایت کی نتیجہ یہ کہ بھارت کو مصر کی‬
‫ہمیشہ حمایت رہی اور ایران میں بھی اگر ڈاکٹر مصدق زوال پذیر نہ ہوتے تو شاید ایران سے بھی تعلقات کشیدہ‬
‫رہتے۔‬

‫گندم کی قلت ‪1952‬ءپاکستان کو شاید پہلی مرتبہ خوراک کے بحران سے دوچار ہونا پڑا جوالئی ‪1953‬ءخواجہ نے‬
‫اعالن کیا کہ اس سال خوراک کی قلت نہیں ہو گی نہ گندم نہ چاول مگر صرف دو ماہ بعد صورت حال بہت خراب‬
‫ہوئی اور دنیا بھر کے ممالک سے گندم کے حصول کے لئے رابطہ قائم کرنا پڑا ایک توخواجہ صاحب کو صورتحال‬
‫کا علم نہ تھا دوسرے سندھ اور بہاولپور کے بارڈر سے سمگل ہوئی اور سندھ میں محمد ایوب کھوڑو صاحب‬
‫مرکزی حکومت کی مخالفت میں سماج دشمن عناصر کی پشت پناہی کرتے رہے الہور میں آٹا ڈے منایا گیا۔ اور جن‬
‫کو ناظم ملت کہا جاتا تھا دشمن قائد قلت کہنے لگے۔ اس وقت امریکہ سے ڈیڑھ کروڑ ڈالر کا قرض لینے کے لئے‬
‫معاہدہ کیا جس کی گندم درآمد کرنی تھی لیکن گندم کی پہلی کھیپ محمد علی بوگرہ کے دور میں کراچی بندرگاہ‬

‫‪30‬‬
‫پہنچی۔ دستور سازی کا مسئلہ۔ قانون ساز مجلس میں مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان میں برابر نمائندگی کا‬
‫مسئلہ تھا جس کی وجہ سے آئین نہ بن سکا۔ تحریک ختم نبوت۔ ساہیوال کا ڈپٹی کمشنر مرزا مظفر احمد نے اپنا اثر‬
‫و رسوخ استعمال کیا مگر مجلس احرار سے ٹھن گئی۔ مگر بعد میں ‪ 14‬دینی جماعتوں نے کنونشن طلب کیا اور‬
‫تحریک ختم نبوت پر شہر میں ہنگامے ہونے لگے۔ مشرقی پاکستان میں اردو کی بجائے بنگالی کو قومی زبان بنانے‬
‫پر طلبا جھگڑا۔‬

‫ءمیں تحریک چالئی گئی۔ فروری ‪1952‬ءمیں الٹھی چارج آنسو گیس اور فائرنگ کے واقعات ہوئے۔ ڈھاکہ ‪1952‬‬
‫یونیورسٹی میں ہڑتال کی گئی اور انتظامیہ نے یونیورسٹی کو بند کر دیا۔‬

‫افسوس کہ پاکستان کے ایک مطلق العنان گورنر جنرل ملک غالم محمد نے خواجہ صاحب کی شرافت سے ناجائز‬
‫ٰ‬
‫عظمی کے منصب سے غیر قانونی اور بالجواز حکم کے ذریعے برطرف کر دیا۔ آپ‬ ‫فائدہ اٹھاتے ہوئے انہیں وزارت‬
‫کو اپنے مسلم لیگی رفقائے کار کی سرد مہری۔ موقعہ پرستی اور زمانہ سازی کا دلی صدمہ تھا آپ نے گوشہ نشینی‬
‫اختیار کر لی صدر ایوب خان نے اپنی کنونشن مسلم لیگ کی صدارت کی پیشکش کی مگر آپ نے مادر ملت کے‬
‫ارشاد کی تکمیل کی اور کونسل مسلم لیگ کو ازسرنو منظم کرنے ‪ 16‬دسمبر ‪1962‬ءکو الہور تشریف الئے تو زندہ‬
‫دالن الہور نے فقیدالمثال استقبال کیا۔ ‪1964‬ءمادر ملت کے صدارتی انتخاب میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور مادر ملت‬
‫کے ہمراہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا اتخابی دورہ بھی کیا۔ آپ کو کرکٹ‪ ،‬فٹ بال اور ٹینس کھیلنا بہت پسند تھا۔‬
‫کافی سال انڈین ہاکی فیڈریشن کے صدر رہے۔ انہیں مچھلی کے شکار کا بھی شوق تھا۔‬

‫‪31‬‬

You might also like