Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 22

‫‪‎‬رشتہ داروں کے نام اردو اور فارسی میں‬

‫‪ .1‬ماں =مادر‬
‫‪ .2‬باپ = پدر‬
‫‪ .3‬بیٹا = پسر‬
‫‪ .4‬بیٹی = دختر‬
‫‪ .5‬بہن = خواہر‬
‫‪ .6‬بھائی = برادر‬
‫‪ .7‬دادا = پدر بزرگ‬
‫‪ .8‬دادی =مادر بزرگ‬
‫‪ .9‬نانا = پدر بزرگ‬
‫‪ .10‬نانی = مادر بزرگ‬
‫‪ .11‬پوتا = ُنوه (واؤ معروف کے ساتھ)‬
‫‪ .12‬پوتی = ُنوه‬
‫‪ .13‬نواسہ = ُنوه‬
‫‪ .14‬نواسی = ُنوه‬
‫=برادرزاده‪/‬پسر برادر‬
‫ِ‬ ‫‪ .15‬بھتیجا‬
‫زادی‪/‬دختر برادر‬
‫ِ‬ ‫‪ .16‬بھتیجی = برادر‬
‫زادہ‪/‬پسر خواہر‬ ‫ِ‬ ‫‪ .17‬بھانجا = خواہر‬
‫زادی‪/‬دختر خواہر‬
‫ِ‬ ‫خواہر‬ ‫‪ .18‬بھانجی =‬
‫‪ .19‬خالہ=خالہ‬
‫خالو=شوہر خالہ‬
‫ِ‬ ‫‪.20‬‬
‫‪ .21‬ماموں = خال‪/‬خالو‪/‬دایی‬
‫زن دایی‬ ‫زن خال‪ِ /‬‬ ‫‪ .22‬ممانی = ِ‬
‫‪ .23‬پھوپھی = عمہ‬
‫=شوہر عمہ‬
‫ِ‬ ‫‪ .24‬پھوپھا‬
‫‪ .25‬چاچا = عم‬
‫زن عم‬‫‪ .26‬چاچی = ِ‬
‫‪ .27‬تایا = عم بزرگ‬
‫زن عم بزرگ‬ ‫‪ .28‬تائی = ِ‬
‫‪ .29‬کزن = عم زادہ ‪ ،‬عمہ زادہ ‪ ،‬خالہ زادہ ‪ ،‬خال زادہ‬
‫‪ .30‬تایا زاد = عم زادہ‬
‫‪ .31‬چچازاد = عم زادہ‬
‫‪ .32‬پھوپھی زاد = عمہ زادہ‬
‫‪ .33‬خالہ زاد = خالہ زادہ‬
‫‪ .34‬ماموں زاد = خال زادہ‬
‫‪ .35‬سگا = تنی‪/‬ابوینی‬
‫‪ .36‬سوتیال‪/‬سوتیلی = ناتنی‬
‫‪ .37‬سوتیال بھائی =نابرادری‬
‫=برادر پدری‬
‫ِ‬ ‫‪ .38‬باپ شریک بھائی‬
‫=برادر مادری‬‫ِ‬ ‫‪ .39‬ماں شریک بھائی‬
‫‪ .40‬سوتیلی بہن =ناخواہری‬
‫خواہر پدری‬ ‫ِ‬ ‫‪ .41‬باپ شریک بہن =‬
‫=خواہر مادری‬ ‫ِ‬ ‫‪ .42‬ماں جائی بہن‬
‫‪ .43‬سوتیال بیٹا =ناپسری‪/‬ربیب‪/‬پسر اندر‬
‫‪ .44‬سوتیلی بیٹی =نادختری‪ /‬ربیبہ‪/‬دختر اندر‬
‫‪ .45‬میاں = خاوند‪/‬شوہر‪/‬زوج‬
‫‪ .46‬بیوی = زن‪/‬زوجہ‬
‫‪ .47‬ننھیال = نسبت ہائے مادری‪/‬خانوادٔہ مادری‬
‫‪ .48‬ددھیال = نسبت ہائے پدری‪ /‬خانوادٔہ پدری‬
‫‪ .49‬سسرال = خویشاون ِد زوجی‬
‫‪ .50‬ساس = خوش دامن‬
‫شوہر‪/‬پدر زن‬
‫ِ‬ ‫خسر‪/‬خسرخواجہ‪/‬پدر‬
‫ِ‬ ‫‪ .51‬سسر =‬
‫برادر زن‬
‫ِ‬ ‫بورہ‪/‬‬ ‫نسبتی‪/‬خسر‬ ‫برادر‬
‫ِ‬ ‫‪ .52‬ساال =‬
‫نسبتی‪/‬خیازنہ‪/‬خواہر زن‬
‫ِ‬ ‫خواہر‬
‫ِ‬ ‫=‬ ‫‪ .53‬سالی‬
‫برادر بزرگِ شوہر‬ ‫ِ‬ ‫‪ .54‬جیٹھ =‬
‫برادر بزرگِ شوہر‬ ‫ِ‬ ‫زن‬
‫ِ‬ ‫=‬ ‫جیٹھانی‬ ‫‪.55‬‬
‫برادر شوہر‬ ‫ِ‬ ‫=‬ ‫دیور‬ ‫‪.56‬‬
‫برادر شوہر‬
‫ِ‬ ‫زن‬
‫‪ .57‬دیورانی = جاری‪ِ /‬‬
‫خواہر شوہر‬ ‫ِ‬ ‫‪ .58‬نند =‬
‫خواہر شوہر‬
‫ِ‬ ‫شوہر‬
‫ِ‬ ‫‪ .59‬نندوئی =‬
‫زن برادر‬ ‫ِ‬ ‫=‬ ‫‪ .60‬بھابھی‬
‫=شوہر خواہر‬‫ِ‬ ‫‪ .61‬بہنوئی‬
‫‪ .62‬ہم زلف = ہم زلف‪ /‬باجناق‪/‬ہم ریش‬

‫* ﺍﺭﺩﻭ ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﺳﮯ ﺩﻟﭽﺴﭙﯽ ﺭﮐﮭﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ‬


‫‪‎‬ﺍﻓﺮﺍﺩ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ‬
‫‪‎‬ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﮐﺎ ﺧﺰﺍﻧﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﮨﮯ ﺍﺱ ﺩﻟﭽﺴﭗ‬
‫‪‎‬ﺗﺤﺮﯾﺮ ﻣﯿﮟ‪.‬‬
‫‪‎‬ﺩﺱ ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺑﮍﮮ‬
‫‪‎‬ﭘﺎﭘﮍ ﺑﯿﻠﮯ ‪ ...‬ﺧﻮﺏ ﺍﯾﮍﯼ ﭼﻮﭨﯽ ﮐﺎ ﺯﻭﺭ ﻟﮕﺎﯾﺎ‬
‫‪...‬‬
‫‪‎‬ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﺩﯾﺎ ‪ ...‬ﻣﮕﺮ ﺷﺎﯾﺪ ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ‬
‫‪‎‬ﺍﻭﺭ‬
‫‪‎‬ﻣﯿﺮﮮ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﭼﮭﺘﯿﺲ ﮐﺎ ﺁﻧﮑﮍﺍ‬
‫‪‎‬ﺗﮭﺎ ‪ ...‬ﮐﮧ ﺍﻭّ ﻝ ﺗﻮ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﺩﻣﺎﻍ ﮐﯽ‬
‫‪‎‬ﮔﺮﺩ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﻧﮧ ﭘﮩﻨﭻ ﭘﺎﺗﺎ ‪ ...‬ﻟﯿﮑﻦ ﺍﮔﺮ ﻗﺪﻡ‬
‫‪‎‬ﺭﻧﺠﮧ ﻓﺮﻣﺎﺗﺎ ﺑﮭﯽ ﺗﻮ ‪ ...‬ﺟﻤﻌﮧ ﺟﻤﻌﮧ ﺁﭨﮫ‬
‫‪‎‬ﺩﻥ ﮨﻮﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﺍﯾﺴﺎ ﻏﺎﺋﺐ‬
‫‪‎‬ﮨﻮﺟﺎﺗﺎ ‪ ...‬ﺟﯿﺴﮯ ﮔﺪﮬﮯ ﮐﮯ ﺳﺮ ﺳﮯ‬
‫‪‎‬ﺳﯿﻨﮓ ‪ ...‬ﭘﺘﺎ ﮨﯽ ﻧﮧ ﭼﻠﺘﺎ ﮐﮧ ﺍﺳﮯ ﺁﺳﻤﺎﻥ‬
‫‪‎‬ﮐﮭﺎﮔﯿﺎ ﯾﺎ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮕﻞ ﮔﺌﯽ۔‬
‫‪‎‬ﺧﯿﺮ ‪ !...‬ﻣﯿﮟ ﮨﻤﺖِ ﻣﺮﺩﺍﮞ ﻣﺪ ِﺩ ﺧﺪﺍ ﮐﮯ ﺍﺻﻮﻝ‬
‫‪‎‬ﮐﮯ ﺗﺤﺖ ﺣﻔﻆ ِﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﮐﮯ ﻣﯿﺪﺍﻥ ﻣﯿﮟ‬
‫‪‎‬ﮐﺎﻓﯽ ﺗﮓ ﻭ ﺩﻭ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ ‪ ...‬ﻟﯿﮑﻦ ﮈﮬﺎﮎ ﮐﮯ‬
‫‪‎‬ﻭﮨﯽ ﺗﯿﻦ ﭘﺎﺕ ‪ ...‬ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﯾﺎ ﺩ ﮨﻮﮐﮯ ﮨﯽ‬
‫‪‎‬ﻧﮩﯿﮟ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ‪ ...‬ﭘﺘﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﯾﮧ ﺩﻣﺎﻍ‬
‫‪‎‬ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﯾﺎﺩ ﮐﺮﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺑﻨﺎﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ‪...‬‬
‫‪‎‬ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺍﻧﺖ ﮐﮭﭩﮯ ﮐﺮﺩﯾﮯ ‪...‬‬
‫‪‎‬ﺑﺲ‬
‫‪‎‬ﮐﯿﺎ ﺑﺘﺎﺅﮞ ! ﻧﺎﻧﯽ ﯾﺎﺩ ﺁﮔﺌﯽ ‪ ...‬ﺍﺱ ﺗﮭﮑﺎﻭﭦ‬
‫‪‎‬ﻧﮯ‬
‫‪‎‬ﻧﺎﮐﻮﮞ ﭼﻨﮯ ﭼﺒﻮﺍﺩﯾﮯ ‪ ...‬ﺩﺍﻧﺘﻮﮞ ﺗﻠﮯ ﭘﺴﯿﻨﺎ‬
‫‪‎‬ﺁﮔﯿﺎ ‪ ...‬ﺩﻥ ﻣﯿﮟ ﺗﺎﺭﮮ ﺩﮐﮭﺎﺋﯽ ﺩ ﯾﻨﮯ ﻟﮓ ﮔﺌﮯ‬
‫‪...‬‬
‫‪‎‬ﻣﯿﮟ ﺳﻤﺠﮫ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﺎﻟﮧ ﺟﯽ ﮐﺎ‬
‫‪‎‬ﮔﮭﺮ ﻧﮩﯿﮟ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ‪ ...‬ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻧﮯ‬
‫‪‎‬ﻣﺠﮭﮯ‬
‫‪‎‬ﺁﮔﮭﯿﺮﺍ ‪!!...‬‬
‫‪‎‬ﯾﻌﻨﯽ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﮐﮍﻭﺍ ﮐﺮﯾﻼ ﺩﻭﺳﺮﺍ ﻧﯿﻢ‬
‫‪‎‬ﭼﮍﮬﺎ ‪...‬ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﭘﮩﻠﮯ ﮨﯽ ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ‬
‫‪‎‬ﮐﮯ ﯾﺎﺩ ﻧﮧ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺟﻞ ﺑﮭﻦ ﮐﺮ ﮐﺒﺎﺏ ﮨﻮﺭﮨﺎ‬
‫‪‎‬ﺗﮭﺎ ‪ ...‬ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﻧﮯ ﺍﻭﺭ ﻻﻝ ﭘﯿﻼ‬
‫‪‎‬ﮐﺮﺩﯾﺎ ‪...‬ﻧﮧ ﺟﺎﻧﮯ ﺍﺱ ﺍﻭﻧﭧ ﮐﻮ ﮐﺲ ﮐﺮﻭﭦ‬
‫‪‎‬ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ ﺗﮭﺎ ‪ ...‬ﺷﺎﯾﺪ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺱ ﻣﮩﻢ ﮐﺎ‬
‫‪‎‬ﺁﻏﺎﺯ‬
‫‪‎‬ﮐﺮﮐﮯ ﺁﺑﯿﻞ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺎﺭ ﭘﺮ ﻋﻤﻞ ﮐﯿﺎ‬
‫‪‎‬ﺗﮭﺎ ‪ ...‬ﻟﯿﮑﻦ ﺟﺐ ﺍﻭﮐﮭﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﺎ ﺳﺮﺗﻮ‬
‫‪‎‬ﻣﻮﺳﻠﻮﮞ ﮐﺎ ﮐﯿﺎ ﮈﺭ ‪ ...‬ﺩﻥ ﺭﺍﺕ ﮐﯽ ﺟﺎﮞ‬
‫‪‎‬ﻓﺸﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﻟﮯ ﺩﮮ ﮐﮯ ﯾﺎﺩ‬
‫‪‎‬ﮐﺮﮨﯽ ﻟﯿﺎ ‪ ...‬ﻋﺮﺻۂ ﺩﺭﺍﺯ ﺗﮏ ﺍﺳﮯ ﻃﻮﻃﯽ‬
‫‪‎‬ﻭﺍﺭ‬
‫ٰ‬
‫‪...‬ﺣﺘﯽ ﮐﮧ ﺍﻃﻤﯿﻨﺎﻥ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ‬ ‫‪‎‬ﺍﺯﺑﺮ ﮐﺮﺗﺎ ﺭﮨﺎ‬
‫‪‎‬ﺍﺏ‬
‫‪‎‬ﯾﮧ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﻧﺴﯿًﺎ ﻣﻨﺴﯿًﺎ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﮔﺎ۔‬
‫‪‎‬ﺍﺏ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﺑﻠﯿﻮﮞ ﺍﭼﮭﻠﻨﮯ ﻟﮕﺎ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﻣﯿﮟ‬
‫‪‎‬ﺳﺮﺟﮭﺎﮌ ﻣﻨﮧ ﭘﮭﺎﮌ ‪...‬ﺑﻐﻠﯿﮟ ﺑﺠﺎﺗﺎ ﮨﻮﺍ ﺍﭘﻨﮯ‬
‫‪‎‬ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﭘﮩﻨﭽﺎ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﯾﮧ‬
‫‪‎‬ﺧﻮﺵ ﺧﺒﺮﯼ ﺳﻨﺎﺋﯽ ‪ ...‬ﺗﺎﮐﮧ ﺍﻥ ﮐﯽ‬
‫‪‎‬ﺁﻧﮑﮭﯿﮟ‬
‫‪‎‬ﭨﮭﻨﮉﯼ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ‪ ...‬ﻟﯿﮑﻦ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﻣﻨﮧ ﮐﯽ‬
‫‪‎‬ﮐﮭﺎﺋﯽ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﺑﮍﮮ ﺳﻨﮕﯿﻦ ﺣﺎﻻﺕ ﺳﮯ‬
‫‪‎‬ﺩﻭﭼﺎﺭ‬
‫‪‎‬ﮨﻮﺍ ‪ ...‬ﮐﯿﻮﮞ ﮐﮧ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﺳﻨﺘﮯ ﮨﯽ ﻭﮦ ﺁﮒ‬
‫‪‎‬ﺑﮕﻮﻟﮧ ﮨﻮﮔﺌﮯ ‪ ...‬ﺳﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺳﮩﺎﮔﺎ ﯾﮧ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ‬
‫ﺭﺧﺴﺎﺭ ﻏﻢ ﮔﺴﺎﺭ‬
‫ِ‬ ‫‪‎‬ﺯﻧﺎﭨﮯ ﺩﺍﺭ ﻃﻤﺎﻧﭽﮧ ﻣﯿﺮﮮ‬
‫‪‎‬ﭘﺮ ﺟﮍﺩﯾﺎ۔‬
‫‪‎‬ﺍﺏ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﯼ ﺣﺎﻟﺖ ﺍﻭﺭ ﭘﺘﻠﯽ ﮨﻮﮔﺌﯽ ‪...‬‬
‫‪‎‬ﭘﯿﺮﻭﮞ‬
‫‪‎‬ﺗﻠﮯ ﺯﻣﯿﻦ ﻧﮑﻞ ﮔﺌﯽ ‪ ...‬ﺭﮨﮯ ﺳﮩﮯ ﺍﻭﺳﺎﻥ‬
‫‪‎‬ﺑﮭﯽ ﺧﻄﺎ ﮨﻮﮔﺌﮯ ‪ ...‬ﮐﮧ ﮐﺎﭨﻮ ﺗﻮ ﺑﺪﻥ ﻣﯿﮟ‬
‫‪‎‬ﻟﮩﻮ‬
‫‪‎‬ﻧﮩﯿﮟ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ‪...‬ﺍﯾﮏ ﺩﻡ ﻣﯿﺮﺍ ﭘﺎﺭﮦ ﭼﮍﮪ‬
‫‪‎‬ﮔﯿﺎ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﺍ ﻏﺼﮧ ﺁﺳﻤﺎﻥ ﺳﮯ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﮐﺮﻧﮯ‬
‫‪‎‬ﻟﮕﺎ ‪ ...‬ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺳﺮﺩﮬﮍ ﮐﯽ ﺑﺎﺯﯼ ﻟﮕﺎﮐﺮ‬
‫‪‎‬ﺍﻭﺭ‬
‫‪‎‬ﺧﻮﻥ ﭘﺴﯿﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﮐﺮﮐﮯ ﺟﻮﮐﺎﻡ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ ‪...‬‬
‫‪‎‬ﺍﺱ‬
‫‪‎‬ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﮈﺍﻧﭧ ﮈﭘﭧ ﺍﻭﺭ ﻣﺎﺭﮐﭩﺎﺋﯽ‬
‫‪‎‬ﮐﺎ ﺳﺎﻣﻨﺎ ﮐﺮﻧﺎ ﭘﮍﺍ ‪ ...‬ﺍﯾﺴﯽ ﮐﯽ ﺗﯿﺴﯽ ﺍﯾﺴﮯ‬
‫‪‎‬ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﮐﯽ ‪ ...‬ﺍﮔﺮ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﺲ ﭼﻠﺘﺎ ﺗﻮ ﺍﻥ‬
‫‪‎‬ﻣﺤﺎﻭﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﻧﯿﺴﺖ ﻭﻧﺎﺑﻮﺩ ﮨﯽ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ‪ ...‬ﺍﻥ‬
‫‪‎‬ﮐﮯ ﮔﻠﺴﺘﺎﻥ ﮐﻮ ﺗﮧ ﻭﺑﺎﻻ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ‪ ...‬ﺍﻥ ﮐﮯ‬
‫‪‎‬ﭼﻤﻦ‬
‫‪‎‬ﮐﻮ ﺯﯾﺮﻭ ﺯﺑﺮ ﮐﺮﺩﯾﺘﺎ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﮐﺎﻓﯽ‬
‫‪‎‬ﺩﯾﺮ‬
‫‪‎‬ﺗﮏ ﭘﯿﭻ ﻭ ﺗﺎﺏ ﮐﮭﺎﺗﺎ ﺭﮨﺎ ‪ ...‬ﺑﮍﯼ ﺑﮍﯼ ﮨﺎﻧﮑﺘﺎ‬
‫‪‎‬ﺭﮨﺎ ‪ ...‬ﯾﮩﺎﮞ ﺗﮏ ﮐﮧ ﺍﺳﺘﺎﺩ ﺻﺎﺣﺐ ﮐﮯ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ‬
‫‪‎‬ﭘﯿﻤﺎﻧﮧ ﻟﺒﺮﯾﺰ ﮨﻮﮔﯿﺎ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﭘﮭﺮ ﺍﻧﮩﻮﮞ ﻧﮯ‬
‫‪‎‬ﻣﺠﮭﮯ ﺧﻮﺏ ﺳﻨﺎﺋﯽ ‪ ...‬ﮐﮧ ﺗﻢ ﺑﮍﮮ ﻃﻮﻃﺎ‬
‫‪‎‬ﭼﺸﻢ ﮨﻮ ‪ ...‬ﻣﺎﻧﻨﮯ ﮐﯽ ﺻﻼﺣﯿﺖ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ‬
‫‪‎‬ﺻﻔﺮ‬
‫‪‎‬ﺑﭩﺎ ﺻﻔﺮ ﮨﮯ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﻧﮧ ﻣﺎﻧﻨﺎ ﺗﻤﮭﺎﺭﮮ ﺍﻧﺪﺭ‬
‫‪‎‬ﺳﻮﻟﮧ ﺁﻧﮯ ﻓﭧ ﮨﮯ ‪ ...‬ﺩﺱ ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺻﺮﻑ‬
‫‪‎‬ﺍﯾﮏ ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﯾﺎﺩ ﮐﯿﺎ ‪ ...‬ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﻧﭧ ﮐﮯ‬
‫‪‎‬ﻣﻨﮧ ﻣﯿﮟ ﺯﯾﺮﮦ ‪ ...‬ﺍﻭﺭ ﺁﭨﮯ ﻣﯿﮟ ﻧﻤﮏ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ‬
‫‪...‬‬
‫‪‎‬ﭘﮭﺮ ﺍﺱ ﭘﺮ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﯾﮧ ﮐﮧ ‪ ...‬ﺍﻟﭩﺎ ﭼﻮﺭ‬
‫‪‎‬ﮐﻮﺗﻮﺍﻝ‬
‫‪‎‬ﮐﻮ ﮈﺍﻧﭩﮯ ‪ ...‬ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﺗﻮ ﭼﻮﺭﯼ ﺍﻭﭘﺮ ﺳﮯ‬
‫‪‎‬ﺳﯿﻨﮧ‬
‫‪‎‬ﺯﻭﺭﯼ ‪ ...‬ﺣﺪ ﮨﻮﮔﺌﯽ ﮐﮧ ﺻﺮﻑ ﺗﯿﻦ ﻟﻔﻈﯽ‬
‫‪‎‬ﻣﺤﺎﻭﺭﮦ ﯾﺎﺩﮐﯿﺎ ‪ ...‬ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﻧﻘﻄﮯ ﺳﮯ‬
‫‪...‎‬ﺧﺎﻟﯽ‬

‫تحریر نا معلوم۔‬
‫منقول۔‬

‫پھوٹی کوڑی مغل دور حکومت کی ایک کرنسی تھی‬


‫جس کی قدر سب سے کم تھی۔ ‪ 3‬پھوٹی کوڑیوں سے‬
‫ایک کوڑی بنتی تھی اور ‪ 10‬کوڑیوں سے ایک دمڑی۔‬

‫عالوہ ازیں اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتا ً محتاجی کی عالمت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا‬
‫ہے مثالً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔‬

‫دنیا کا پُرانا ترین سکہ شاید یہی ’’پھوٹی کوڑی‘‘ ہے۔ یہ پھوٹی کوڑی ’’کوڑی‘‘ یا پھٹا ہوا گھونگھا ہے۔ جسے کوڑی‬
‫وادی سندھ کی قدیم تہذیب میں‬
‫ٔ‬ ‫گھونگھے کے نام پر رکھا گیا ہے۔ اس کا استعمال دنیا میں کوئی پانچ ہزار (‪)5000‬سال قبل‬
‫بطور کرنسی عام تھا۔‬
‫’’پھوٹی‘‘ کا نام اسے اس لئے دیا گیا کیونکہ اس کی ایک طرف پھٹی ہوئی ہوتی ہے۔ اس لیے کوڑی کا گھونگا ’’پھوٹی‬
‫کوڑی‘‘ کہالیا۔ قدرتی طور پر گھونگھوں کی پیداواری محدود تھی۔ اس کی کمیابی سے یہ مطلب لیا گیا کہ اس کی کوئی قدر‬
‫‪ /‬ویلیو ہے۔‬

‫تین پھوٹی کوڑیوں کے گھونگھے ایک پوری کوڑی کے برابر تھے۔ جو ایک چھوٹا سا سمندری گھونگھا تھا۔ لیکن ان دونوں‬
‫کی کوئی ٓاخری حیثیت ‪ /‬ویلیو تھی۔ وہ ’’روپا‘‘ تھی۔ جسے بعد میں ’’روپیہ‘‘ کہا جانے لگا۔‬

‫ایک ’’روپیہ‘‘ ‪‘’ 5,275‬پھوٹی کوڑیوں‘‘ کے برابر تھا۔ ان کے درمیان دس مختلف سکے تھے‪ ،‬جنہیں ’’کوڑی‘‘ ‪" ،‬دمڑی‘‘‬
‫‪’’ ،‬پائی‘‘ ‪’’ ،‬دھیال‘‘ ‪’’ ،‬پیسہ‘‘ ‪" ،‬ٹکہ‘‘ ‪ٓ’’ ،‬انہ‘‘ ‪’’ ،‬دونی‘‘ ‪’’ ،‬چونی‘‘ ‪’’ ،‬اٹھنی‘‘ اور پھر کہیں جا کر ’’روپیہ‘‘ بنتا تھا۔‬

‫کرنسی کی قیمت ‪ /‬وقعت (ویلیو)‬


‫‪ 3‬پھوٹی کوڑی = ‪1‬کوڑی‬
‫‪ 10‬کوڑی = ‪ 1‬دمڑی‬
‫‪ 02‬دمڑى = ‪ 1.5‬پائى‬
‫ڈیڑھ پائى = ‪ 1‬دهيال‬
‫‪2‬دهيال = ‪ 1‬پيسہ‬
‫تین پیسے = ایک ٹکہ‬
‫چھ پيسہ یا دو ٹکے = ‪ 1‬آنہ‬
‫دو آنے = دو آنی یا دواَنی‬
‫چار آنے = چونی‬
‫آٹھ آنے = اٹھنی‬
‫‪ 16‬آنے = ‪ 1‬روپيہ‬

‫جس طرح اردو زبان کے روزمرہ میں "پھوٹی کوڑی" کو محاورتا ً محتاجی کی عالمت کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے‬
‫مثالً میرے پاس پھوڑی کوڑی تک نہیں بچی۔‬
‫اسی طرح کوڑی کوڑی کا محتاج ہو جانا ۔ ۔ ۔‬

‫چمڑی جائے َپر دمڑی نہ جائے در اصل کنجوسی کی شدید حالت کو بیان کرنے کے لئے استعمال ہوتا ہے۔‬

‫ایک پائی نہ ہونا غربت کا مظہر ۔ ۔ ۔‬


‫ایک دھیلے کا نہ ہونا ذرا کم غربت ۔ ۔ ۔‬
‫ایک ٹکے کی اوقات (ذلیل کرنے کا غیر مہذب بیانیہ)‬
‫ٹکہ آج بھی بنگلہ دیش کی سرکاری کرنسی ہے۔‬

‫ٰ‬
‫اعلی اور مکمل حیثیت روپیہ کی تھی (جس میں سولہ آنے ہوتے تھے) اس لئے بات کا سولہ آنے صحیح ہونا‬ ‫چونکہ سب سے‬
‫‪ 100‬فیصد صحیح کے مترادف ہوتا تھا۔‬

‫کھجور کا درخت ہمیشہ سے کسان کا بہترین ساتھی رہا ہے۔ کھجور کے پھل کے ساتھ ساتھ درخت کی ہر ہر چیز کسان کی‬
‫گھریلو ضروریات پوری کرنے میں استعمال ہوتی ہے۔ کھجور‬
‫کے درخت کا ہر ہر حصہ اور اس سے تیار ہونے والی مصنوعات کی لسٹ اتنی لمبی ہے کہ جن کو بیان کرنے کے لیے‬
‫اردو زبان میں اتنے الفاظ ہی نہیں ملتے‪ ,‬اس لیے اپنی بات کو پوری طرح بتانے کے لیے مجھے سرائیکی زبان اور‬
‫تصویروں کا سہارا لینا پڑا۔‬
‫پھل۔ کھجور کا پھل ساون کے مہینے میں تیار ہوتا ہے۔ کسان موسم میں کھجور کا پھل استعمال کرتے ہیں اور کچھ پھل‬
‫خشک کر کے بھی رکھتے ہیں اور سارا سال استعمال کرتے رہتے ہیں۔‬

‫چھڑیاں۔ کھجور کی چھڑیوں کے ذریعے کسان اپنے کچے گھر‪ ,‬کچن یا جانوروں کے کمرے کی چھت تیار کرتا ہے۔‬

‫چھڑک۔ چھڑیوں سے جب پتے اتار لیے جاتے ہیں تو چھڑی کے درمیان والی جو لچکدار شاخ ہوتی ہے اسکو چھڑک کہتے‬
‫ہیں۔ چھڑک زیادہ تر بھیڑ بکریوں کا باڑا بنانے کے کام آتی ہے۔‬

‫تھڈ۔ کھجور کے درخت سے چھڑیاں کاٹنے کے بعد چھڑی کا جو ابتدائی حصہ تنے کے ساتھ بچ جاتا ہے اسکو تھڈ کہتے ہیں۔‬
‫تھڈ زیادہ تر ایندھن کے کام آتا ہے۔ کھجور کے درخت پر بھی تھڈ کے ذریعے چڑھا جاتا ہے۔‬

‫کبال۔ تھڈ اور کھجور کے تنے کے درمیان جو پتلے جڑے ہوئے جالی نما تنکے ہوتے ہیں انکو کبال کہتے ہیں۔ کبال کو کوٹ‬
‫کر نرم کر کے اس سے رسیاں بنائی جاتی ہیں۔ کھجور پر چڑھنے کے لیے جو موٹی رسی استعمال ہوتی ہے وہ بھی کبال‬
‫سے تیار ہوتی ہے۔ کبال سے بنی ہوئی رسی بہت مضبوط ہوتی ہے جو سالہا سال چلتی رہتی ہے۔‬

‫بھوترے۔ کھجور کی چھڑیوں سے بھوترے اتار کر انکو دھوپ میں خشک کر کے پھر پانی میں بھگونے کے بعد ان سے‬
‫چٹائیاں اور چارپائیوں کا بان تیار کیا جاتا ہے۔‬

‫بوہارا۔ کھجور کے خوشوں سے پھل اتارنے کے بعد جو خالی ٹہنیاں ہوتی ہیں انکو بوہارا کہتے ہیں۔ بوہارا سے جھاڑو بنایا‬
‫جاتا ہے۔ پتلی تیلیوں واال جھاڑو کمروں کے اندر صفائی کے لیے استعمال ہوتا ہے مگر بوہارا کا مضبوط جھاڑو زیادہ کچرا‬
‫صاف کرنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‬

‫گاچا۔ کھجور کے درخت کی درمیانی عمر کی چھڑی جس کے پتوں کا رنگ پیلے سے سبز ہو رہا ہو تو اس عمر کی چھڑی‬
‫کو گاچا کہتے ہیں۔ گاچا کے پتے یا بھوترے نرم ہوتے ہیں۔ گاچا کے بھوترے یا پتوں سے چنگیریں ‪ ,‬چھابیاں‪ ,‬چھبا‪ ,‬موڑا‪,‬‬
‫پچھی‪ ,‬مخبہ‪ ,‬تؤنگ وغیرہ تیار کیے جاتے ہیں۔ گاچا کے بھوتروں سے تیار ہونیوالی مصنوعات کا مختصر تعارف کچھ اس‬
‫طرح سے ہے۔‬
‫چنگیر = کھاتے وقت روٹیاں رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔‬
‫چھابی= روٹیاں پکاتے وقت ساری روٹیاں جس میں رکھتے ہیں اسکو چھابی کہتے ہیں۔ چھابی کا سائز چنگیر سے کچھ بڑا‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫چھبا= چھبا چھابی سے کافی بڑا ہوتا ہے۔ اسکا نچال حصہ کم سائز کا جبکہ اوپر واال حصہ کھال ہوتا ہے۔ چھابے میں گھر‬
‫کے روزمرہ استعمال کی چھوٹی چھوٹی چیزیں رکھی جاتی ہیں۔‬
‫موڑا= موڑا کچن کا کام کرتے وقت بیٹھنے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‬
‫پچھی= پچھی چھوٹا سا گول باکس ہوتا ہے۔ اسکے اوپر ڈھکن بھی ہوتا ہے۔ سوئی دھاگہ کشیدہ کاری کا سامان عموما ً اس میں‬
‫رکھا جاتا ہے۔‬
‫تؤنگ= تؤنگ گول طرح کا ایک بڑا باکس ہوتا ہے۔ اس میں کپڑے ‪ ,‬جوتے‪ ,‬چنگیریں‪ ,‬چادریں وغيرہ رکھی جاتی ہیں یعنی‬
‫ایسی چیزیں جن کی روز روز نہیں بلکہ کبھی کبھی استعمال کی ضرورت پڑے۔‬
‫مخبہ= مخبہ "ہاٹ پاٹ" کے طریقہ میں دو حصوں میں ہوتا ہے۔ روٹیوں کو رومال میں ڈھانپ کر مخبہ میں رکھا جاتا ہے‬
‫جس میں وہ کئی گھنٹے تک گرم رہتی ہیں۔‬

‫‪https://chat.whatsapp.com/DEBpNTthGaZELlCN4sOnEz‬‬
‫"نہ" اور "نا" میں فرق‬
‫یہ دونوں لفظ حرفِ نفی کہالتے ہیں ‪ ،‬ان میں دو لحاظ سے فرق ہے‪:‬‬

‫(‪ )1‬معنوی فرق‪:‬‬


‫"نہ" صرف نفی کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‬
‫جبکہ "نا" کے مختلف معانی ہیں جیسے‪:‬‬
‫۔ ۔ ۔ ‪ )1‬نفی‪ :‬جیسے "نہ کر"‬
‫۔ ۔ ۔ ‪ )2‬تاکی ِد نفی‪ :‬جیسے "نا بابا"‬
‫۔ ۔ ۔ ‪ )3‬تاکید اثبات‪ :‬جیسے "جانے دیجیے ‪ ،‬بچہ ہے نا"‬
‫۔ ۔ ۔ ‪ )4‬مصدریت جیسے "کھانا ‪ ،‬پینا ‪ ،‬سونا ‪ ،‬جاگنا"‬
‫حسن کالم کے لیے‪ :‬جیسے "چلونا ‪ ،‬آؤ نا"‬ ‫ِ‬ ‫۔ ۔ ۔ ‪)5‬‬

‫(‪ )2‬استعمالی فرق‪:‬‬


‫"نا" نافیہ کا استعمال انفرادی طور پر ٹھیک نہیں ہے لہذا "نا کرو" کہنا غلط ہے ‪ ،‬جبکہ "نہ" کو انفرادی طور پر استعمال کیا‬
‫جاتا ہے ‪ ،‬جیسے "نہ اس نے کھایا نہ میں نے" یہاں "نا" نہیں لکھ سکتے ‪" ،‬نامعلوم ‪ ،‬نادان ‪ ،‬ناسمجھ ‪ ،‬ناکارہ ‪ ،‬نازیبا" یہاں‬
‫"نہ" نہیں ال سکتے۔‬

‫ہ اور ھ کا استعمال‪:‬‬
‫ہ جسے یک چشمی بھی کہا جاتا ہے اور ھ جو دوچشمی کہالتی ہے۔‬
‫🍁‬
‫دو چشمی ھ ہندی االصل ہے۔‬
‫ہندی اور شمال و وسط ہندوستان کی مقامی زبانوں ( مثالً گورمکھی‪ ،‬ہندی‪ ،‬گجراتی وغیرہ) میں کچھ لفظ ان کے الفا بیٹ میں‬
‫شامل ہیں۔ اردو میں ان کو دو حروف کا مرکب بنا کر وہی آواز پیدا کی جاتی ہے۔‬
‫مثالً ب‪،‬پ‪ ،‬ت‪ ،‬ٹ‪،‬ج‪ ،‬چ‪ ،‬د‪،‬ک‪ ،‬گ وغیرہ کے ساتھ ھ کی آواز‬
‫مالنے سے‬
‫بھ‪ ،‬پھ‪ ،‬تھ‪ ،‬ٹھ‪ ،‬جھ‪ ،‬چھ‪ ،‬کھ اور گھ‬
‫کی آوازیں۔‬
‫مثالیں‪:‬‬
‫بھیڑ‪ِ ،‬بھیڑ‪ ،‬بھی‪ ،‬بھیانک‪ ،‬بھیتر‬
‫پھر‪ ،‬پھریرا‪ ،‬پھنسا‪ ،‬پُھنسا‪ ،‬پھرانا‬
‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ٹھونسنا‪،‬ٹھمکا‪ ،‬ٹھہرا‪ ،‬ٹھوکر‪ ،‬ٹھاکر‪ ،‬ٹھنا ٹھن‪ ،‬ٹھونکنا‬ ‫ُٹھس‪ ،‬ٹھنسا‪،‬‬
‫جھیل‪ ،‬جھولی‪ ،‬جھرنا‪ ،‬جھڑنا‪ ،‬جھپٹنا‪ ،‬جُھمکا‪،‬جھانکنا‪ ،‬جھروکہ‬
‫چھینک‪ ،‬چھینکا‪ ،‬چھیننا‪ ،‬چھکّا‪ ،‬چھ‪ ،‬چھتری‪ ،‬چھتنار‪ ،‬چھاج‬
‫دھی( بیٹی)‪ ،‬دھمکی‪ ،‬دھمکانا‪ ،‬دھڑ‪ ،‬دھڑا‪ ،‬دھرنا‪ ،‬دھوکہ‪ ،‬دھکا‪ ،‬دھوم‬
‫کھانا‪ ،‬کھڑا‪ ،‬کھانسی‪ ،‬کھنچاؤ‪ ،‬کھینچ تان‪ ،‬کھڑک‪ ،‬کھنچاؤ‪ ،‬کھڑکی‪ ،‬کھسیانا‬
‫گھر‪ ،‬گھبرانا‪ ،‬گھسیٹنا‪ ،‬گھسیڑنا‪ ،‬گھمانا‪ ،‬گھمبیر‬
‫عربی یا فارسی میں دو چشمی ھ نہیں ہے۔‬
‫اب عمومی قاعدہ یہ ہے کہ اوپر دئیے گئیے الفاظ اور ان جیسے تمام الفاظ جن میں ہندی کی اصوات( آواز) کو النا ہے ان میں‬
‫دو چشمی ھ استعمال ہوگی۔ دیگر تمام الفاظ ہ سے لکھے جائیں گے۔‬
‫ایک اور بہت اہم بات‪:‬‬
‫کیونکہ دو چشمی ھ باقاعدہ اردو حروف تہجی کا حصہ نہیں‪ ،‬لہذہ اس سے کسی لفظ کا آغاز کرنا غلط ہوگا۔‬
‫یعنی‬
‫ِالل عید‪ ،‬ھائیکو( غلط استعمال)‬
‫ھم‪ ،‬ھمارے‪ ،‬ھمرنگ‪ ،‬ھال‪ ،‬ھ ِ‬
‫ایسے تمام الفاظ ہ سے لکھے جانے چاہئیں۔‬
‫ہم‪ ،‬ہمارے‪ ،‬ہمرنگ‪ ،‬ہال‪ ،‬ہالل‪ ،‬ہائیکو وغیرہ( درست استعمال)‬
‫🍁‬

‫[‪* :PM] Gj Abdullah 8:49 ,6/6‬اردو کے گم شدہ الفاظ‪...‬‬

‫کم لوگ ہیں جو ان گم شدہ الفاظ کو جانتے ہوں گے۔ دل چاہا نئی نسل کو ان سے روشناس کیا جائے۔‬

‫*رکابی*‪ .....‬پلیٹ‬

‫*سینی*‪ .....‬گول بڑی پلیٹ یا پلیٹر‬

‫*سلفچی*‪ .....‬خوبصورت سا پیتل کا ایک برتن جس میں مہمانوں کے ہاتھ کھانے پہلے دھلوائے جاتے ہیں۔‬

‫*الگنی*‪ .....‬وہ رسی جس کو دیوار پہ باندھا جاتا ہے اور اس پہ کپڑے سکھائے جاتے ہیں۔‬

‫سر شام چراغ جال کے رکھے جاتے تھے۔‬


‫*طاق*‪ .....‬دیوار میں بنی ایک چھوٹی سی بغیر دروازے کی کھڑکی جس میں ِ‬

‫*گھڑونچی*‪ .....‬لکڑی سے بنایا گیا ایک سٹینڈ جس میں اوپر کی جانب دو یا تین بڑے بڑے سوراخ ہوتے ہیں جس میں‬
‫مٹکوں کے پیندے سما جاتے ہیں تاکہ گرنے سے بچ سکیں۔‬

‫*نعمت خانہ*‪ .....‬لکڑی سے بنایا گیا ایک خوصورت سا ڈبہ جس کی لمبائی چوڑائی ایک بڑے فریج کے برابر ہوتی ہے‬
‫لیکن اس کی دیواریں چاروں طرف سے جالی کی لگائی جاتیں ہیں تاکہ اس میں ہوا گزرتی رہے اور میں رکھی کھانے کی‬
‫چیزیں ٹھنڈی رہیں اور خراب نہ ہوں۔‬

‫*تلہ دانی*‪ .....‬چوکور کپڑے کو مثلث نما سیا جاتا ہے اور اس کے ایک کونے پر ایک خوبصورت ڈوری لگائی جاتی ہے‬
‫جس سے اسے گول کرکے باندھ دیا جاتا ہے۔ یہ عمومًا سوئی دھاگہ ریلیں رکھنے کے کام آتی ہے۔‬

‫*بگونہ*‪ .....‬ایک کھلے منہ کی چھوٹے کنارے کی پتیلی جس میں عمومًا چاول پکائے جاتے ہیں۔‬

‫*بادیہ*‪ .....‬تانبے کا بنا بڑا سا کھلے منہ کا کٹورہ جس میں بچا ہوا گوندھا آٹا رکھا جاتا ہے۔‬

‫*کٹورہ*‪ .....‬یہ بھی تانبہ کا بنا ایک خوبصورت کٹ ورک سے بنا برتن ہوتا ہے جس کے اوپر اس کا ڈھکن جو آسانی سے‬
‫کھوال اور بند کیا جا سکے۔ اس کی جگہ آج کل ہاٹ پاٹ نے لے لی ہے۔‬

‫*چھینکا*‪ .....‬یہ لوہے کے چپٹے تاروں سے بنا جو آج کل کے مکرامے جیسا ہوتا تھا۔ اسے ایک کنڈے میں چھت سے لٹکا‬
‫دیا جاتا تھا جس میں دودھ کی دیگچی یا سالن کی پتیلیاں وغیرہ رکھ دی جاتی تھیں تاکہ ٹھیک رہیں۔‬
‫کاپیڈ‬
‫[‪ُ :PM] Gj Abdullah 12:34 ,6/7‬کچھ َجدید اِصطِ الحات کےاردو میں نام‪.‬‬
‫مارندہ‬ ‫کیلکولیٹر۔ ___________ ُ‬ ‫َ‬
‫ش ِ‬
‫اَیش ٹرے ______________ راکھ دان‬
‫سپیڈ بریکر _____________ َرفتار شِ کَن‬
‫ریڈر _____________ َعیب جُو‬ ‫پرُوف َ‬
‫َٹول پالزہ ______________ راہداری‬
‫چیک پوسٹ ____________ ُنکت ِہ َتفتیش‬
‫کمپیوٹر _______________ حاسبہ‬
‫موبائل فون ___________ َجوّ ال ‪ /‬محمُول‬
‫ِنطباق‬ ‫ایپلیکی َشن ___________ نِظامِیہ ‪ /‬ا َ‬
‫الخط‬‫فونٹ ‪َ ____________ Font‬رس ُم َ‬
‫اَپ ڈیٹ ‪َ ________ Update‬تجدید‬
‫ڈاؤنلوڈ _______________ توڑنا ‪ /‬اُتارنا‬
‫ب رُخ‬ ‫فیس بُک _______________ کِتا ِ‬
‫شئیر ‪ ____________ share‬اِش َتراک‬
‫پوک __________________ کہنی مارنا‬
‫ایس ایم ایس __________ َپ َیمچہ‬
‫وال ___________________ بام‬
‫اَپلوڈ __________________ َچڑھانا‬
‫ُ‬
‫ہارڈ کاپی _____________ َورقی َنقل ‪ /‬نسخہ‬
‫سافٹ کاپی ____________ َبرقی َنقل ‪ُ /‬نسخہ‬
‫فوٹو کاپی _____________ َعکسی َنقل‬
‫چارجر _________________ َبرقِیہ‬
‫نجر _________ نامہ دان‬ ‫اِن باکس ‪ /‬مَیسِ َ‬
‫سکرین شاٹ ______________ َعکسِ یہ‬
‫آن الئن __________________ ِبالّرابطہ‬
‫آف الئن _________________ بال رابطہ‬
‫پینٹِنگ _______________ َنقشی َتصویر‬
‫فوٹو _________________ َعکسی َتصویر‬
‫نسل سکیچ _____________ خاکہ‬ ‫ِپ َ‬
‫گول کی َپر ________________ گولچی‬
‫وٹر _____________ نِشانچی ‪ /‬نِشانہ باز‬ ‫ش َ‬‫سنائ َپر ‪ُ /‬‬
‫کِتاب کا ایڈیشن ___________ جھول‬
‫َٹیگ َکرنا __________ َنتھی َکرنا ‪َ /‬پخ جوڑنا‬
‫کی بورڈ ______________ َکلیدی َتختی‬
‫َپبلِک پلیس _____________ جائے عامہ‬
‫پوسٹ ________________ مُراسلہ‬
‫ریفریجریٹر _____________ نِع َمت خانہ‬
‫ریزر __ َیخ نِع َمت خانہ‪َ /‬یخدان‪َ /‬یخچال‬ ‫ڈیپ َف َ‬
‫رسن ___________ َفرا َہمِندہ‬ ‫َ َ‬ ‫پ‬ ‫ریسورس‬
‫روسٹرم ______________ مُخاطبہ ‪ /‬مِن َبر‬
‫کاپی ___________________ َنقل‬
‫َ‬
‫پیسٹ __________________ َچسپاں کرنا‬
‫ُگذِشتہ دِن _______________ َکل‬
‫نز ِل َفرشی‬ ‫گراؤنڈ فلور ______________ َم ِ‬
‫آنے واال دِن ______________ َغد ( َعربی )‬
‫ڈیلِیٹ _________________ َح َذف َکرنا‬
‫َٹیلی ِو َّژن _______________ ُدور دَ ر َشن‬
‫سپیڈ بریکر _______ َرفتار روک‪َ /‬رفتار شِ کَن‬
‫فارس ( ‪َ _________ ) farce‬ہریانگ‬
‫میلو ڈرامہ ‪َ ___ Melodrama‬سوانگِ شیریں‬
‫سِ نکوپی َشن ‪ ___ Syncopation‬ماترائے اِضافی۔‬
‫َپیری َبل ‪_________ parable‬حِکا َیت‬
‫ِطابیہ )‬ ‫ظم خ ِ‬ ‫اوڈ۔ ‪َ _________Ode‬خطبُوم ( َن ِ‬
‫لسل ‪ُ /‬م َفصِّل‬ ‫اَ ِیپک سِ مِلی ‪َ ___ epic simile‬تشبیہ ِہ م َُس َ‬
‫اَسِ َنڈ َیٹن ‪ُ _____ Asyndeton‬س ُبکِیہ‬
‫الم َپریشاں‬ ‫سولیلو ُکوئی ‪َ _____ Soliloquy‬ک ِ‬
‫الم َنفسی‬ ‫مونو َلوگ ‪َ _____ Monologue‬ک ِ‬
‫رگوشِ یہ‬ ‫اَسائیڈ ‪َ ____________ Aside‬س ُ‬
‫ب َمقصُودی‬ ‫بیٹن ‪َ ___ Hyperbaton‬ترتی ِ‬ ‫ہائ َپر َ‬
‫ب َمعکوس‬ ‫ا َِنور َشن ‪َ _______ Inversion‬ترتی ِ‬
‫او ِم َّشن ‪ _________ Omission‬احذاف‬
‫َ‬
‫ت َتضا ِد لفظی‬ ‫نع ِ‬ ‫ص َ‬‫آکسی مورون ‪َ _______ oxymoron‬‬
‫یراڈوکس ‪َ ________ Paradox‬تضا ِد اَمری‬ ‫َپ َ‬
‫نازعہ ‪َ /‬مناقشہ‬ ‫ت َت ِ‬ ‫نع ِ‬ ‫ص َ‬ ‫تھسِ ز ‪َ _____ Antithesis‬‬ ‫اَینٹی ِ‬
‫سِ لّو ِجزم ‪ ________ syllogism‬اِس َتخرا ِجیہ‬
‫اِمیجری ‪َ _________ Imagery‬تمثال نِگاری‬
‫ِا َپو ِن َمس پلے ‪ ____ Eponymous Play‬سوانگِ َموسُومہ‬
‫اِنووکی َشن ‪َ ______ Invocation‬مناجات‬
‫صوتِیہ‬ ‫آنوماٹوپیا ‪َ _____ onomatopoei‬‬ ‫ِ‬
‫پولیپٹوٹا ‪َ _________ polyptota‬لفظ َگری‬
‫یر َمجہُول‬ ‫پرسونیفیکی َشن ‪َ _____ personification‬تبشِ ِ‬ ‫َ‬
‫َ‬
‫یر قوی‬ ‫اَلّیگری ‪ ___________ allegory‬تبشِ ِ‬
‫َ‬
‫اپوسٹروفی ‪َ ____ Apostrophe‬تخطِ یب‬
‫داستان َم ُ‬
‫نظوم ) ‪َ /‬نظمِستان‬ ‫ِ‬ ‫(‬ ‫وم‬ ‫ُ‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫دَ‬ ‫____‬ ‫رومانس پوئمز ‪Romance poems‬‬
‫ثرم = ( َنثر ) ‪َ ( +‬نظم )‬ ‫پروزائیک پوئم۔ ___ َن َ‬
‫نظوم )‬ ‫ص ِہ َم ُ‬ ‫َبیلیڈ ‪ِ _____ Ballad‬قصُّوم‪ِ ( .‬ق ّ‬
‫پرنٹِنگ پریس۔ ___________ َچھپخانہ‬ ‫ِ‬
‫شن َچندَ ن ‪َ /‬نقرہ‬ ‫ِ‬ ‫ج‬
‫َ‬ ‫________‬ ‫ُوبلی۔‬‫ج‬ ‫ر‬ ‫لو‬ ‫َ‬ ‫سِ‬
‫شن سونا ‪ُ /‬کندَ ن‬ ‫ج‬
‫َ‬ ‫________‬ ‫ُوبلی‬
‫ج‬ ‫ن‬ ‫َ‬
‫گولڈ‬
‫ِ‬
‫شن موتی‬ ‫پالٹی َنم جُوبلی _________ َج ِ‬
‫شن ہیرا‬ ‫ڈائ َمنڈ جُوبلی __________ َج ِ‬
‫وئیروُ ولف ‪َ ______ werewolf‬گرگ ما َنس‬
‫َفوگ۔ ‪ُ _______________ fog‬دھندواں‬
‫فولڈر __________________ خانہ‬ ‫َ‬
‫ایبریوئی َشن ‪ __ abbreviation‬م َُخ َّففِ َلفظی‬
‫اِنیشئلِزم ‪ _______ Initialism‬م َُخ َّفف‬
‫ایکرونِم۔ ‪َ ________ Acronym‬خفیفہ‬
‫ِنصراف‬ ‫نیمونِکس ‪ _____ Mnemonics‬ا َ‬
‫یکٹر ‪َ ______ Connector / cohesive linker‬ربطِ یہ‬ ‫کو َن َ‬
‫کالز ‪ُ ______________ Clause‬ج َملچہ‬
‫الئٹر ‪ ______________ lighter‬آتِش اَنگیز‬ ‫َ‬
‫ڈرائیور __________________ گاڑی بان‬
‫سینسر __________ َلمس َطباع‬ ‫َ‬ ‫پرنٹ‬ ‫فِنگَر ِ‬
‫لکی تاباں‬ ‫ِ‬ ‫َ‬
‫ن‬ ‫‪/‬‬ ‫تاباں‬ ‫الخ‬
‫ِ‬ ‫س‬‫َ‬ ‫_______‬ ‫الئٹ‬ ‫ٹیُوب‬
‫پ َلیٹ فارم _______________ قابُوس‬
‫ُوٹوپیا _________________ َخیالِستان‬ ‫ی ِ‬
‫ٹائم الئن ________________ روزنامچہ‬
‫پاس َورڈ ________________ َکلیدی بول‬
‫ای میل _________________ َبرقی ڈاک‬
‫اِن باکس _____________ نامہ دان ‪َ /‬تخلِیہ‬
‫الگ اِن ________________ دَ ُخول ‪ /‬داخلہ‬
‫الگ آُؤ ٹ۔ ______________ َخرُوج ‪ /‬اخراج‬
‫ِملَّی ِنَئ م ‪ _______ Millennium‬اَلفِیہ‬
‫َ‬
‫نز ِل فرشی‬ ‫گراؤنڈ فلور _____________ َم ِ‬
‫نز ِل َعرشی‬ ‫ٹاپ فلور ‪ /‬پینٹ ہاؤس ____ َم ِ‬
‫فائل __________________ مِسل‬
‫ت اَذہان‬ ‫جر ِ‬
‫برین ڈرین ______________ ِہ َ‬
‫کیوی ‪ _____________ Kiwi‬فِیل مُرغ‬
‫ایمُو ‪ ______________ Emu‬بھیڑ مُرغ‬
‫ٹریگوپان ‪ _____ Tragopan‬تی َت ِر َچرخی‬
‫مینڈرین ‪َ ______ Mandarin‬ب َط ِخ َہفت َرنگ‬

‫‪ :‬اردو کے عظیم شعرا کرام‬


‫امیر خسرو ‪1325-1253‬‬
‫میرا بائ ‪1560-1488‬‬
‫قلی قطب شاہ ‪1611-1565‬‬
‫ولی محمد ولی ‪1707-1667‬‬
‫شاہ مبارک ‪1733-1683‬‬
‫مرزا خان جاناں ‪1781-1699‬‬
‫رفیع سودا ‪1780-1713‬‬
‫خواجہ میر درد ‪85-1721‬‬
‫میر تقی میر ‪1810-1723‬‬
‫جرات بخش ‪1810-1748‬‬
‫نظیر اکبر آبادی ‪1830-1740‬‬
‫غالم حمدانی مصحفی ‪1824-1750‬‬
‫انشا خان انشا ‪1817-1756‬‬
‫بہادر شاہ ظفر ‪1862-1775‬‬
‫خواجہ حیدر آتش ‪1846-1778‬‬
‫ابراہیم ذوق ‪1854-1789‬‬
‫اسدہللا خان غالب ‪1869-1797‬‬
‫مومن خان مومن ‪52-1801‬‬
‫سالمت دبیر ‪75-1803‬‬
‫بابر انیس ‪74-1803‬‬
‫امیر مینائی ‪1900-1828‬‬
‫داغ دہلوی ‪1905-1831‬‬
‫الطاف حسین حالی ‪1914-1837‬‬
‫اکبر ٰالہ آبادی ‪1921-1846‬‬
‫شبلی نعمانی ‪1914-1857‬‬
‫ظفر علی خان ‪1956-1873‬‬
‫حسرت موہانی ‪1951-1875‬‬
‫شاہ جہاں پوری ‪1959-1875‬‬
‫عالمہ اقبال ‪1938-1877‬‬
‫فانی بدایونی ‪1941-1879‬‬
‫جگر مراد آبادی ‪1960-1890‬‬
‫جوش ملیح آبادی ‪1982-1894‬‬
‫فراق گورکھپوری ‪1982-1896‬‬
‫حفیظ جالندھری ‪1982-1900‬‬
‫اختر شیرانی ‪48-1905‬‬
‫ن م راشد ‪1975-1910‬‬
‫فیض احمد فیض ‪1984-1911‬‬
‫ریئس امروہوی ‪88-1914‬‬
‫احسان دانش ‪82-1914‬‬
‫مجید امجد ‪74-1914‬‬
‫احمد ندیم قاسمی ‪2006-1916‬‬
‫ضمیر جعفری ‪1999-1916‬‬
‫شکیل بدایونی ‪70-1916‬‬
‫آغا شورش کاشمیری ‪75-1917‬‬
‫شان الحق حقی ‪2005-1917‬‬
‫جگن ناتھ آزاد ‪2004-1918‬‬
‫قتیل شفائی ‪2001-1919‬‬
‫وزیر آغا ‪2010-1922‬‬
‫ناصر کاظمی ‪72-1925‬‬
‫ابن انشاء ‪78-1927‬‬
‫حبیب جالب ‪93-1928‬‬
‫دالور فگار ‪98-1928‬‬
‫منیر نیازی ‪2006-1928‬‬
‫احمد فراز ‪2006-1931‬‬
‫جون ایلیا ‪2003-1931‬‬
‫شکیب جاللی ‪66-1932‬‬
‫محسن بھوپالی ‪2007-1932‬‬
‫انور مسعود ‪1935‬‬
‫محمود شام ‪1940‬‬
‫کشور ناہید ‪1940‬‬
‫افتخار عارف ‪1943‬‬
‫امجد اسالم امجد ‪1944‬‬
‫ن م دانش ‪1958‬‬
‫زاہدہ حنا ‪1962‬‬
‫ادریس آزاد ‪1969‬‬
‫شاعروں اور ادیبوں کے اصل نام‬

‫قلمی نام‪ ............................‬اصل نام‬

‫میاں عبدلحمید‬ ‫آثم فردوسی‬


‫سید انور حسین‬ ‫آرزو لکھنوی‬
‫محمد داود خان‬ ‫اختر شیرانی‬
‫محمد طفیل‬ ‫اختر کاشمیری‬
‫محمد جلیل‬ ‫اختر ہاشمی‬
‫عبدالعزیز‬ ‫اختر وارثی‬
‫آئی آئی قاضی امداد امام علی قاضی‬
‫شیر محمد خان‬ ‫ابن انشاء‬
‫سید انشاءہللا خان‬ ‫انشاء‬
‫محمد اسلم ملک‬ ‫اسلم راہی‬
‫ظہیر عالم صدیقی‬ ‫افسر ماہ پوری‬
‫تبسم کاشمیری ڈاکٹر محمد صالحین‬
‫محمد انورالدین‬ ‫انور سدید‬
‫یعقوب علی‬ ‫انیس ناگی‬
‫محمد صابر‬ ‫جاذب قریشی‬
‫سید احمد شاہ‬ ‫پطرس بخاری‬
‫حبیب ہللا‬ ‫تبسم رضوانی‬
‫فقیر محمد‬ ‫تنویر بخاری‬
‫ٰ‬
‫مصطفی‬ ‫محمد غالم‬ ‫ثاقب حزیں‬
‫محمد شریف‬ ‫ثمر جالندھری‬
‫محمد نصیر‬ ‫جان کاشمیری‬
‫سردار حسن خان‬ ‫بہزاد لکھنوی‬
‫غالم بلوچ‬ ‫جعفر بلوچ‬
‫جلیل احمد‬ ‫جلیل قدوائی‬
‫گلزار احمد‬ ‫جمال پانی پتی‬
‫شبیر حسن‬ ‫جوش ملیح آبادی‬
‫مسعودالحسن‬ ‫تابش دہلوی‬
‫محمد شریف‬ ‫حافظ امرتسری‬
‫حبیب احمد‬ ‫حبیب جالب‬
‫ابواالثر حفیظ‬ ‫حفیظ جالندھری‬
‫محمد ابراہیم بیگ‬ ‫خاطر غزنوی‬
‫محمود نقوی‬ ‫سہیل بخاری‬
‫حسین پاشا‬ ‫شاعر لکھنوی‬
‫حسن رضوی‬ ‫شکیب جاللی‬
‫محمد عمر‬ ‫شوکت تھانوی‬
‫محمد امیر‬ ‫صبا اکبر آبادی‬
‫اورنگزیب‬ ‫قتیل شفائی‬
‫محمد جمیل خان‬ ‫جمیل جالبی‬
‫حافظ لدھیانوی محمد منظور حسین‬
‫سعید محمد مہدی‬ ‫رئیس امروہوی‬
‫محمد حسن‬ ‫حسن عسکری‬
‫نذر محمد‬ ‫ن م راشد‬
‫اختر علی رحمت‬ ‫صہبا اختر‬
‫محمد حسین‬ ‫قمر جاللوی‬
‫محمد حیات‬ ‫کوثر نیازی‬
‫ٰ‬
‫عبدالرحمن‬ ‫محسن بھوپالی‬
‫غالم عباس‬ ‫محسن نقوی‬
‫فاروق احمد‬ ‫محشر بدایونی‬
‫محمد شریف‬ ‫نسیم حجازی‬
‫منیر احمد‬ ‫منو بھائی‬
‫شیخ امام بخش‬ ‫ناسخ‬
‫محمد ابراہیم‬ ‫ذوق‬
‫شیخ غالم علی‬ ‫راسخ‬
‫نواب مرزا خان‬ ‫داغ‬
‫مرزا سالمت علی‬ ‫دبیر‬
‫سید خواجہ میر‬ ‫درد‬
‫پنڈت رتن ناتھ‬ ‫سرشار‬
‫عبدالحئ‬ ‫ساحر لدھیانوی‬
‫مرزا محمد رفیع‬ ‫سودا‬
‫عاشق حسین‬ ‫ماجد صدیقی‬
‫منظور حسین‬ ‫ماہر القادری‬
‫احمد صدیق‬ ‫مجنوں گورکھپوری‬
‫حکیم مومن خان‬ ‫مومن‬
‫خواجہ حیدر علی‬ ‫آتش‬
‫محمد حسین‬ ‫آرزو‬
‫فضل الحسن‬ ‫حسرت موہانی‬
‫محی الدین‬ ‫ابوالکالم آزاد‬
‫اصغر حسین‬ ‫اصغر گونڈوی‬
‫میر شیر علی‬ ‫افسوس‬
‫فراق گورکھپوری رگھو پتی سہائے‬
‫شوکت علی‬ ‫فانی بدایونی‬
‫غالم ہمدانی‬ ‫مصحفی‬
‫ثناءہللا ڈار‬ ‫میرا جی‬
‫میر غالم حسن‬ ‫حسن‬
‫محمد تقی‬ ‫میر‬
‫شیخ محمد ولی‬ ‫نظیر اکبرآبادی‬
‫سید حیدر علی‬ ‫نظم طباطبائی‬
‫ناصر رضا کاظمی‬ ‫ناصرکاظمی‬
‫اسدہللا خان‬ ‫مرزا غالب‬
‫پنڈت دیا شنکرم‬ ‫نسیم‬
‫یاس یگانہ چنگیزی مرزاواجد حسین‬
‫شمس الدین محمدولی‬ ‫ولی دکنی‬
‫تلوک چند‬ ‫محروم‬
‫ابوالحسن یمین الدین‬ ‫امیر خسرو‬
‫غیاث الدین ابوالفتح‬ ‫عمر خیام‬
‫ولی اشرف‬ ‫اشرف صبوحی‬
‫سید اکبر حسین‬ ‫امانت لکھنوی‬
‫امیر احمد‬ ‫امیر مینائی‬
‫میر ببر علی‬ ‫انیس‬
‫سیدوحیدالدین‬ ‫بےخود دہلوی‬
‫مرزا عبدلقادر‬ ‫بےدل‬
‫دھیت رائے‬ ‫پریم چند‬
‫غالم ربانی‬ ‫تاباں‬
‫پنڈت لبھو رام‬ ‫جوش ملیسانی‬
‫ٰ‬
‫یحی امان‬ ‫جرأت‬
‫علی سکندر‬ ‫جگر مرادآبادی‬
‫موالناالطاف حسین‬ ‫حالی‬
‫پنڈت برج نارائن‬ ‫چکبست‬
‫ابوحامدمحمدبن غزالی‬ ‫امام غزالی‬
‫مصلح الدین‬ ‫شیخ سعدی‬
‫سید عبدہللا‬ ‫بلھے شاہ‬
‫عبدالوہاب‬ ‫سچل سرمست‬
‫‪:Guess the Urdu muhawras‬‬

‫😎😜👑‬‫🐊😭‬ ‫‪)1‬‬

‫😁😡😠‬
‫👋️↔❎‬
‫‪)2‬‬
‫‪)3‬‬

‫🌙🌙🌙🌙‬
‫🌋⭐⭐👀‬
‫‪)4‬‬
‫‪)5‬‬

‫💯🌕🐃⃣‪🌑1‬‬
‫🎺‬
‫‪)6‬‬
‫‪)7‬‬

‫‪👀♻😎💦)10)9‬‬
‫👄🙏💪🔪‬
‫‪)8‬‬

‫👆⚡👇☔❎‬
‫💃❎⬜️↗‬ ‫‪)11‬‬

‫👏✋❎‬
‫🚶👕🐕🏠❎🚢‬
‫‪)12‬‬
‫‪)13‬‬

‫🐵❓🍤😋‬
‫🍋✅🍋🌰💰‬
‫‪)14‬‬
‫‪)15‬‬

‫👣👹👄❌‬
‫🙈🙉🙊✊‬
‫‪)16‬‬

‫‪1⃣🎋😎 )18‬‬
‫‪)17‬‬

‫‪👂👂 🏢🏢 ))1920‬‬
‫‪😜 Try to get 1 right answer at least‬‬
‫‪:Example‬‬
‫‪Number 5 is chaar chand lagana‬‬

‫منقول‬

‫بانگِ درا کا ایک کردار‬

‫عُرفی شیرازی‬

‫تبحر علم اور وسعت مطالعہ کا یہ عالم تھا کہ انکے کالم کے مطالعہ سے یوں لگتا ہے جیسے سارا عالم انکی نگاہ‬
‫ِ‬ ‫اقبال کے‬
‫میں تھا۔ فارسی کالم تو خیر دور کی بات ہے‪ ،‬حاالنکہ جس پہ عالمہ کو فخر تھا‪ ،‬اور جسکے عشاق اب خال خال ہی نطر‬
‫آتے ہیں‪ ،‬انکا اردو کالم بھی اور ابتدائی کالم بانگِ درا بھی تلمیحات سے بھر پور ہے۔ تلمیح کے لغوی معنی‪ ،‬اچٹتی ہوئی‬
‫نگاہ ڈالنا کے ہیں‪ ،‬کالم یا نثر میں اسکا مطلب کسی تاریخی واقعہ یا بات کی طرف اشارہ کرنے کے ہوتے ہیں کہ وہ بات‬
‫ث نبوی‪ ،‬تاریخ اسالم‪ ،‬تاریخ عالم‪،‬‬ ‫کالم اقبال دیکھئے‪ ،‬عالمہ پے در پے‪ ،‬قرانی آیات‪ ،‬احادی ِ‬
‫ِ‬ ‫قارئین کے ذہن میں تازہ ہوجائے۔‬
‫ت اقبال پر‬
‫فالسفہ‪ ،‬شعرا‪ ،‬متکلمین اور دیگر شخصیات کی طرف اشارہ کرتے ہی چلے جاتے ہیں‪ ،‬اور اقبالیات میں تو تلمیحا ِ‬
‫پیام اقبال کو صحیح تر سمجھنے کیلیے ضروری ہے کہ قاری عالمہ کے ساتھ ساتھ‬ ‫کالم اقبال اور ِ‬
‫ِ‬ ‫باقاعدہ کتب موجود ہیں۔‬
‫رہے وگرنہ وہی بات ہو جاتی ہے کہ ایک لحظہ غافل ہوئے اور منزل کوسوں دور جا پڑی۔‬

‫عالمہ نے جہاں تلمیحات بھر پور استعمال کی ہیں وہیں انہوں نے مشہور شعرا کے کالم پر تضمینیں بھی کہیں ہیں۔ تضمین کا‬
‫لغوی مطلب مالنا یا شامل کرنا ہے اور شاعری میں کسی مشہور کالم کو اپنی نظم میں داخل کرنا یا اس پر کچھ کہنا ہے۔‬
‫بانگِ درا میں جہاں اقبال نے دوسرے مشہور فارسی شعرا جیسے بیدل‪ ،‬صائب‪ ،‬ابو طالب کلیم وغیرہ کے فارسی کالم پر‬
‫تضمینیں کہیں ہیں وہیں انہوں نے عرفی شیرازی کے ایک شعر پر بھی تضمین کہی ہے‪ ،‬اور انہی موصوف کا تعارف‬
‫مقصود ہے۔‬

‫عرفی کا نام محمد جمال الدین تھا اور وہ ‪ 1556‬میں شیراز میں پیدا ہوا‪ ،‬ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی اور پھر ہندوستان میں‬
‫دور اکبری تھا اور سارے ایران کے سخن ور اسی کے دربار سے منسلک تھے۔ عرفی نے ہندوستان میں‬ ‫ِ‬ ‫چال آیا کہ یہاں‬
‫خوب نام کمایا‪ ،‬یہاں اسکے اصل ممدوح عبدالرحیم خانخاناں اور شہزادہ سلیم تھے۔ صرف ‪ 36‬سال کی عمر پا کر عین عالم‬
‫شباب میں فوت ہوگیا۔ پہلے الہور میں دفن ہوا لیکن بعد میں اسکی الش کو نجفِ اشرف لے جا کر دفن کیا گیا۔‬

‫عالمہ کی نظم کا پہال شعر ہی دیکھئے‬

‫محل ایسا کیا تعمیر عرفی کے تخیل نے‬


‫تصدق جس پہ حیرت خانہء سینا و فارابی‬

‫فضائے عشق پر تحریر کی اس نے نوا ایسی‬


‫میسر جس سے ہے آنکھوں کو اب تک اشک عنابی‬

‫ابن سینا اور فارابی‪ ،‬عالم اسالم کے بال شک و شبہ دو بہت بڑے فالسفر اور حکیم تھے اور بو علی سینا کے مدت تک جسکی‬
‫ِ‬
‫کتب یورپ میں نصاب کا حصہ رہیں‪ ،‬انکی تمام ریاضتوں کو عالمہ نے عرفی کے تخیل پر قربان کردیا۔ اور یہی عرفی کا‬
‫سوز عشق اور جدت‬
‫ِ‬ ‫زور بیان‪،‬‬
‫ِ‬ ‫عوج کمال ہے۔ عرفی کا شعرا میں اگر نام مہتاب کی طرح چمک رہا ہے تو اسی بلند تخیل‪،‬‬
‫ِ‬
‫طرازی کی وجہ سے۔‬

‫عالمہ نے جب اس سے امت کا مسائل کا حل پوچھا تو دیکھیے کیا شعر جواب میں منتخب کیا ہے۔‬

‫ذوق نغمہ کم یابی‬


‫نوا را تلخ تر می زن چو ِ‬
‫حدی را تیز تر می خواں چو محمل را گراں بینی‬

‫ذوق نغمہ کم ہوگیا ہے تو اپنی نوا کر تلخ تر کر دے‪ ،‬اگر اونٹ پر بوجھ زیادہ ہو تو حدی خواں اپنی لے اور تیز‬
‫ِ‬ ‫ترجمہ‪ -‬اگر‬
‫کر دیتے ہیں۔‬

‫صدیوں کے تجربات سے یہ بات عیاں ہے کہ عرب جب بے آب و گیاہ ریگستانوں میں سفر کرتے ہیں اور اونٹوں پر بوجھ‬
‫بھی ہوتا ہے تو وہ حدی خوانی کرتے ہیں جس سے نا صرف انکا خود اپنا سفر کٹ جاتا ہے بلکہ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس‬
‫لے اور تان سے اونٹ بھی بوجھ کو بھول کر مزے سے سفر کاٹ لیتے ہین یہ عرفی کا کمال مشاہدہ تھا کہ اس نے اس حقیقت‬
‫کو اپنے شعر میں بیان کر دیا اور عالمہ نے اسے منتخب کیا۔‬

‫عالمہ کے انتخاب میں کس کو کالم ہو سکتا ہے‪ ،‬اور یہ بات اگر م ِد نظر رکھیں کہ عالمہ ادب برائے ادب کے قائل نہیں‬
‫تھے‪ ،‬بلکہ ادب برائے زندگی انکا مقص ِد حیات تھا‪ ،‬وہ ایک پیغام اپنی قوم تک پہنچانا چاہتے تھے‪ ،‬اس موضوع کو کسی اور‬
‫وقت کیلیے اٹھا رکھتا ہوں کہ عالمہ نے کبھی بھی خود کو شاعر نہیں سمجھا بلکہ وہ اپنے آپ کو فلسفی یا شاعر فلسفی‬
‫سمجھتے تھے‪ ،‬تو یہ بات واضح تر ہو جاتی ہے کہ عالمہ رمز و کنایہ یا دقیق تشبیہات کے سہارے اپنی شاعری نہیں کر‬
‫سکتے تھے۔‬
‫انکے کالم سے مترشح ہے کہ آپ نے اپنا پیغام واضح اور صاف صاف الفاظ میں بیان کیا ہے اور عرفی کے شعر کو اپنے‬
‫پیش‬
‫حق میں النے سے انکا مقصد بھی یہی تھا کہ جو معروضی حاالت اس وقت کے تھے اور جو زمینی حقائق تھے‪،‬انکو ِ‬
‫نظر رکھ کر انکی نوا تلخ تر ہی ہونی چاہیے تھی اور اس نا چیز کی رائے میں عالمہ شعوری طور پر اس شعر کو اپنے کام‬
‫اور کالم کے حق میں الئے ہیں۔‬

‫عرفی کا ایک عام معنی تو وہی ہے جو ہمارے ذہن میں عرف سے آتا ہے‪ ،‬لیکن موالنا شبلی نعمانی نے اس تخلص کی وجہء‬
‫تسمیہ یہ بیان کی ہے کہ ایران میں مذہبی مسائل کی عالوہ جو دوسرے مسائل ہوتے ہیں ان کے تصفیے کیلئے جو قاضی کا‬
‫عہدہ تھا اسکو وہ عرف کہتے تھے اور یہ عہدہ عرفی کے خاندان میں تھا‪ ،‬اسی لیے اس نے فخر کی وجہ سے یہ تخلص‬
‫رکھا کہ اس زمانے میں عموما شعراء کرام بڑے گھرانوں سے نہیں ہوتے تھے۔‬

‫عرفی بہت خود دار آدمی تھا‪ ،‬اس مغلیہ زمانے میں جب شعرا جھوٹ کے پلندے قصیدوں میں انعام کے اللچ میں بیان کرتے‬
‫تھے اور در در کی جبہ سرائی کرتے تھے‪ ،‬عرفی نے اپنی خودداری کو قائم رکھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ بہت مغرور شاعر‬
‫مشہور ہے۔ اسکا دوسرا بڑا وصف اسکا ہجو گوئی سے پرہیز ہے‪ ،‬فارسی شعرا ایک دوسرے کی ہجو گوئی میں اتنا گر گئے‬
‫دامن شرافت تک کو چھوڑ دیا اور تقریبا ہر بڑے شاعر نے ہجو گوئی کی ہے اور بعضے تو فحشیات اور مغلضات‬ ‫ِ‬ ‫تھے کہ‬
‫تک آ پہنچے لیکن عرفی نے اپنا دامن اس برائی سے مکمل پاک رکھا۔ لوگوں نے اس کی ہجو گوئی کی‪ ،‬اسکو بہت برا بھال‬
‫کہا کہ یہ عام روش تھی کہ شعرا ایک دوسرے کی تضحیک کرکے بادشاہوں کی نظر میں اپنی وقعت بڑھاتے تھے لیکن‬
‫عرفی انتہائی شریف آدمی تھا۔‬

‫ب مال دا ِد عیش دینے میں‬


‫ایک اور وصف اسکا‪ ،‬پاک دامنی تھا‪ ،‬اس لہو و لعب کے دور میں جب بادشاہوں سے لیکر ہر صاح ِ‬
‫مصروف تھا‪ ،‬اسنے اپنا دامن ہر قسم کی آالئش سے پاک رکھا‬

‫عرفی نے شیراز میں کم سنی کے عالم میں ہی شاعری شروع کردی تھی اور وہاں خوب نام کمایا‪ ،‬اس زمانے میں یہ رواج‬
‫تھا کہ مشاعروں میں کسی موضوع کے حق اور مخالفت میں نظم میں دالئل دیئے جاتے تھے‪ ،‬باوجود اس کے کہ عرفی کم‬
‫سن تھا وہ دقیق موضوعات پر بڑے بڑے نامور شعراء کے سامنے ایک موضوع کے ہر دو پہلؤں پر دالئل دیتا اور دونوں‬
‫طرف بازی لے جاتا‪ ،‬لیکن زندگی میں ان کامیابیوں کی اسے بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی‪ ،‬کہ اس کے بہت سارے حاسدین‬
‫پیدا ہوگئے تھے اور یہ کامیابیاں آخر اس کی جان لے کر ہی ٹلیں۔‬

‫ہندوستان میں بھی چونکہ اس نے بہت جلد اپنا نام پیدا کرلیا تھا اور خاص طور پر وہ شہزادہ سلیم‪ ،‬جو کہ بعد میں شہنشاہ‬
‫منظو نظر بن گیا تھا‪ ،‬اسکے حاسدین نے اسے زہر دے کر ختم کر‬
‫ِ‬ ‫ت مغلیہ پر جلوہ افروز ہوا‪ ،‬کا‬
‫جہانگیر کے لقب سے تخ ِ‬
‫دیا۔ عرفی کو خود بھی اسکا احساس تھا اسلئے ایک جگہ کہتا ہے‬

‫ب ہنر مکن‬
‫از من بگیر عبرت و کس ِ‬
‫ت ہفت آسمان مخواہ‬
‫ت خود عداو ِ‬
‫با بخ ِ‬

‫مجھے دیکھ کر عبرت حاصل کر اور ہنر پیدا کرنے کا خیال چھوڑ دے‪ ،‬تو کیوں چاہتا ہے کہ سات آسمانوں کی دشمنی مول‬
‫لے لے۔‬

‫عرفی کی تصنیفات میں ایک کتاب موسوم بہ "نفسیہ" تھی جو کہ تصوف میں ہے لیکن ناپید ہے اور ذکر اسکا صرف تذکروں‬
‫میں ہی رہ گیا ہے‪ ،‬اسکے عالوہ دو مثنویاں اور ایک کلیات موجود ہیں۔ کلیات میں ‪ 26‬قصیدے‪ 270 ،‬غزلیں اور سات سو‬
‫اشعار کے قطعات اور رباعیاں ہیں۔ اس زمانے کو شعری روایات کو م ِد نظر رکھتے ہوئے دیکھیں تو یہ تعداد دوسرے شعراء‬
‫کے کالم کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں ہے اور وجہ اسکی یہ ہے کہ اسکا تقریبا ‪ 6000‬اشعار کا ایک دیوان ضائع ہو گیا‬
‫تھا‪ ،‬جس کا اس کو بہت قلق تھا اور اسکے غم میں عرفی نے ایک انتہائی درد ناک غزل بھی کہی تھی‪ ،‬لیکن اس ماتم کے‬
‫دوران انتہائی بلند ہمتی اور جوش کے عالم میں کہتا ہے‬

‫گفتہ گر شد ز کفم‪ ،‬شکر کہ نا گفتہ بجاست‬


‫از دو صد گنج یکے مشت گہر باختہ ام‬

‫اگر کہا ہوا ہاتھ سے چال گیا ہے تو کیا فکر کہ نا کہا ہوا تو موجود ہے پھر کہہ لوں گا کہ میرے بیش بہا خزانے سے صرف‬
‫ایک مٹھی بھر گوہر ہی گئے ہیں۔‬
‫میدان سخن قصیدہ ہی تھا لیکن ذاتی طور پر اپنے مزاج کے عین‬
‫ِ‬ ‫اپنے زمانے کے شعری مذاق کے مطابق عرفی کا اصل‬
‫مطابق اسے غزل گوئی ہی پسند تھی اور اسکی غزلیں واقعی ہی ال جواب ہیں‪ ،‬ایک جگہ کہتا ہے‬

‫کار ہوس پیشگان بود عرفی‬


‫قصیدہ ِ‬
‫تو از قبیلہ عشقی‪ ،‬وظیفہ ات غزل است‬

‫عرفی تیرے سامنے قصیدہ ہوس کا کام ہی ہے‪ ،‬تیرا تعلق تو قبیلہء عشاق سے ہے اور تیرا وظیفہ تو غزل ہے۔‬

‫زور کالم‪ ،‬الفاظ کی نئی نئی ترکیبیں اور‬


‫ِ‬ ‫موالنا شبلی نعمانی نے عرفی کہ جو شعری خصوصیات بیان کی ہیں ان میں‪،‬‬
‫طرز ادا کی جدت‪ ،‬صدق دوستی‪ ،‬بلند ہمتی‪ ،‬اخالق اور عشقیہ‬‫ِ‬ ‫ت تشبیہات‪ ،‬مسلسل مضامین‪ ،‬مضمون آفرینی‪،‬‬ ‫استعارے‪ ،‬جد ِ‬
‫سوز و گداز شامل ہیں۔ اسکے عالوہ عرفی کی شاعری کا بہت بڑا مقام اسکی فلسفیانہ شاعری ہے‪ ،‬یہ کوئی نئی بات نہیں‪،‬‬
‫طرز ادا کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا کہ عموما شعراء کرام‬
‫ِ‬ ‫خاص بات یہ ہے کہ اسنے اپنی فلسفیانہ شاعری میں بھی شاعرانہ‬
‫فلسفیانہ مضمون کو بیان کرتے ہوئے‪ ،‬تغزل کو قربان کر دیتے ہیں۔ ان سب خصوصیات کی امثال کو طوالت کے خوف سے‬
‫محذوف کرتا ہوں۔‬

‫ت طیع بھی تمام نابغہء روزگار لوگوں میں بدرجہ اتم پائی‬
‫یہ بھی ایک عجیب اتفاق ہے کہ بذلہ سنجی‪ ،‬حاضر جوابی اور ظراف ِ‬
‫ٰ‬
‫مستسنی نہیں ہے‪ ،‬بال کا ظریف تھا۔‬ ‫جاتی ہے‪ ،‬غالب اور اقبال ہمارے سامنے کی مثالیں ہیں‪ ،‬عرفی بھی اس سے‬

‫اکبر کے نو رتننوں میں سے دو بھائیوں‪ ،‬ابو الفضل اور فیضی نے بہت نام کمایا انکے باپ کا نام مبارک تھا۔ ایک دن عرفی‬
‫ابوالفضل کے گھر اسے ملنے گیا تو دیکھا کہ وہ قلم دانتوں میں دبائے سوچنے بیٹھا ہوا ہے‪ ،‬عرفی نے پوچھا‪ ،‬کیا سوچ رہے‬
‫ہو۔ ابوالفضل نے کہا کی بھائی صاحب‪/‬فیضی نے قرآن مجید کی جو بغیر نقطوں کے تفسیر لکھی ہے اسکا دیباچہ اسی طرح‬
‫یعنی بغیر نقطوں کے لکھ رہا ہوں۔ چاہتا ہوں کہ والد صاحب کا نام بھی اس میں آ جائے اور صنعت کا التزام بھی ہاتھ سے نہ‬
‫جائے۔ لیکن کچھ سوجھ نہیں رہا۔ عرفی نے فورا کہا اس میں تردد کی کیا بات ہے۔ اپنے لہجے میں ممارک لکھ دو۔ اس وقت‬
‫گنوار لوگ مبارک کو ممارک ہی کہتے تھے۔‬

‫ایک دفعہ فیضی بیمار تھا‪ ،‬عرفی عیادت کو گیا۔ فیضی کو کتوں کا بہت شوق تھا‪ ،‬عرفی نے دیکھا کہ فیضی کے ارد گرد‬
‫پلے سونے کے پٹے ڈالے گھوم پھر رہے ہیں۔ عرفی نے کہا‪ ،‬مخدوم زادوں کا کیا نام ہے۔ فیضی نے کہا ان کا نام عرفی ہے‬
‫یعنی کچھ خاص نہیں ہے۔ عرفی نے کہا ‪" ،‬مبارک" ہو۔‬

‫متقدمین شعر فارسی اور شعراء اردو پر ‪ ،‬مرزا عبدالقادر کے بعد اگر کوئی شاعر سب سے زیادہ اثر پذیر ہوا ہے تو وہ شاید‬
‫ِ‬
‫ٰ‬
‫مستسنی نہیں ہیں۔ اقبال کی‬ ‫عرفی ہی ہے۔ تقریبا ہر بڑے شاعر نے عرفی سے فیض حاصل کیا ہے اور اقبال بھی اس سے‬
‫فارسی میں ایک پوری غزل عرفی کی زمین‪ ،‬یعنی اسی بحر و قافیہ ردیف میں موجود ہے لیکن اسے طوالت اور فارسی کے‬
‫خوف سے چھوڑتا ہوں۔ غالب نے بھی عرفی سے بھر پور فیض حاصل کیا ہے ایک شعر اوپر عرفی کا گزر چکا ہے‪ ،‬غالب‬
‫کے اس شعر میں اسکی بازگشت دیکھیں۔‬

‫ہم کہاں کے دانا تھے‪ ،‬کس ہنر میں یکتا تھے‬


‫بے سبب ہوا غالب دشمن آسماں اپنا‬

‫چند شعر اور عرفی اور غالب کے بیان کرتا ہوں تا کہ بات واضح ہو جائے‬

‫کیش برہمناں آں کس از شہیدان است‬


‫ِ‬ ‫بہ‬
‫ت بت روئے بر زمیں میرد‬ ‫کہ در عباد ِ‬

‫برہمنوں کے نزدیک شیہد وہ ہے‪ ،‬جو بت کے سامنے سجدے میں گرے ہوئے جان دے دے۔‬

‫اور غالب یوں رقم طراز ہیں‬

‫وفاداری بشرطِ استواری‪ ،‬اصل ایماں ہے‬


‫مرے بت خانے میں تو کعبے میں گاڑو برہمن کو‬

‫عرفی کہتا ہے‬


‫ب دیدار آورد‬
‫عشق اگر مرد است‪ ،‬مردے تا ِ‬
‫ٰ‬
‫موسی بسے آورد بسیار آورد‬ ‫ورنہ چوں‬

‫ٰ‬
‫موسی آئے تھے تو اسطرح کے بہت آتے‬ ‫ب دیدار ہو‪ ،‬ورنہ جسطرح‬
‫اگر عشق بلند ہمتی کا نام ہے تو وہ مرد آئے جسے تا ِ‬
‫ہیں۔‬

‫اور غالب اس خیال کو یوں پیش کرتے ہیں‬

‫ب نبرد تھا‬‫دھمکی میں مر گیا جو نہ با ِ‬


‫گار مرد تھا‬
‫عشق نبرد پیشہ‪ ،‬طلب ِ‬

‫عرفی کچھ یوں اپنی سیہ بختی بیان کرتے ہیں‬

‫فروغ آفتابم نہ بود خبر کہ بے تو‬


‫ِ‬ ‫ز‬
‫چو دو زلف تست یکساں‪ ،‬شب و روزم از سیاہی‬

‫مجھے سورج کی روشنی کی خبر ہی نہیں ہوتی کہ تیرے بغیر میرے دن اور رات تیری دو زلفوں کی طرح یکساں سیاہ ہیں۔‬

‫اور غالب اسم مضمون کو اسطرح باندھتے ہیں‬

‫روز سیاہ میرا سا‬


‫ِ‬ ‫جسے نصیب ہو‬
‫وہ شخص دن نہ کہے رات کو تو کیونکر ہو‬

‫اور آخر میں عرفی کے کالم میں سے چند اشعار‪ ،‬نمونہء کالم کے طور پر‬

‫عرفی تو میندیش ز غوغائے رقیباں‬


‫رزق گدا را‬
‫ِ‬ ‫آواز سگاں کم نہ کند‬
‫ِ‬

‫آواز سگاں سے بھی کبھی گدا کا رزق کم ہوا ہے۔‬


‫عرفی تو رقیبوں کے شور و گل سے مت گھبرا کہ ِ‬

‫منم آں سیر ز جاں گشتہ کہ با تیغ و کفن‬


‫در خانہ جالد غزل خواں رفتم‬
‫تا ِ‬

‫میں اس جان سے وہ تنگ آیا ہوں کہ تلوار اور کفن کے ساتھ‪ ،‬جالد کے گھر کی طرف غزل خوانی کرتے ہوئے جا رہا ہوں۔‬

‫ہر کس نہ شناسندہء راز است وگرنہ‬


‫معلوم عوام است‬
‫ِ‬ ‫ایں ہا ہمہ راز است کہ‬

‫ہر شخص کو راز پہچان لینے کا ملکہ حاصل نہیں ورنہ جو کچھ عوام جانتے ہیں وہ بھی در اصل سارے کا سارا راز ہی ہے۔‬

‫عشق می خوانم و می گریم زار‬


‫طفل نادانم و اول سبق است‬
‫ِ‬

‫عشق کا سبق لیتا ہوں اور زار زار رو رہا ہوں جیسے نادان بچے کا پہال سبق ہوتا ہے۔‬

‫قبول خاطر معشوق شرط دیدار است‬‫ِ‬


‫بحکم شوق تماشا مکن کہ بے ادبی است‬
‫ِ‬

‫دوست جس حد تک پسند کرے اسی حد تک نظارہ کرنا چاہیئے کہ اپنے شوق کے موافق دیکھنا بے ادبی ہے۔‬
‫اگرفتم آں کہ بہشتم دہند بے طاعت‬
‫قبول کردن و رفتن نہ شرط انصاف ست‬

‫میں نے مان لیا کہ مجھے بہشت بغیر عمل کے ہی مل جائے گی لیکن اسے قبول کرنا اور اس میں اسطرح جانا انصاف کے‬
‫خالف ہے۔‬

‫زبان بہ بند و نظر باز کن کہ منع کلیم‬


‫کنایب از ادب آموزی تقاضائیست‬

‫ٰ‬
‫موسی کو جو منع کیا تھا تو یہ بتانا مقصود تھا کہ ادب ملحوظ رکھنا چاہیئے۔‬ ‫زبان بند کرو اور آنکھیں کھولو کہ‬

‫بیا بہ ملکِ قناعت کہ در ِد سر نہ کشی‬


‫فروش طے بستند‬
‫ِ‬ ‫ز قصہ ہا کہ بہ ہمت‬

‫قناعت کی طرف آ کہ پھر تمہیں ان کہانیوں سے جو حاتم طائی سے منسوب ہیں کوئی مطلب نہیں رہے گا۔‬

‫تذکیر و تانیث غیر حقیقی‪:‬‬

‫اُر ُدو زبان میں تذکیر و تانیث کا معاملہ بہت اُلجھا ہوا ہے۔ بے جان اسما کی تذکیر و تانیث قیاسی ہوتی ہے کیوں کہ ان میں نر‬
‫اور مادہ کا کوٸی تعلّق نہیں ہوتا لیکن اس میں ہر اسم اپنی جگہ پر یا تو مذ ّکر ہوتا ہے یا مٶنث۔ یہاں غیر حقیقی تذکیر و تانیث‬
‫کی پہچان کے چند اُصول درج کیے جاتے ہیں۔‬

‫‪ :1‬تمام دِنوں اور مہینوں کے نام مذکر ہیں البتہ جمعرات مٶنث ہے۔‬
‫‪ :2‬تمام دھاتوں اور جواہرات کے نام مذ ّکر بولے جاتے ہیں۔جیسے‪ :‬سونا‪ ،‬تانبا‪ ،‬پیتل‪ ،‬مگر ”چاندی“ اس سے م ٰ‬
‫ُستثنی ہے۔‬
‫‪ :3‬تمام سیّاروں اور ستاروں کے نام مذ ّکر ہیں جیسے‪ :‬زحل‪ ،‬مریخ‪ ،‬عطارد‪ ،‬زہرہ‪ ،‬سورج‪ ،‬چاند وغیرہ مگر زمین مٶنث ہے۔‬
‫‪ :4‬تمام شہروں کے نام مذ ّکر ہیں۔ جیسے‪ :‬الہور‪ ،‬پشاور‪ ،‬گلگت‪ ،‬اسالم آباد‪ ،‬مکہ معظمہ‪ ،‬تہران وغیرہ مگر ”دلّی“ مٶنث ہے‬
‫لیکن جب ”دہلی“ کہا جاۓ گا تو مذکر ہوگا۔‬

‫بحر ہند وغیرہ لیکن ”گنگا‪ ،‬جمنا“‬


‫‪ :5‬تمام دریاٶں اور سمندروں کے نام مذکر ہیں۔ جیسے‪ :‬دریاۓ راوی‪ ،‬جہلم‪،‬بحیرہ عرب‪ِ ،‬‬
‫مٶنث ہیں۔‬

‫‪ :6‬تمام پہاڑوں کے نام مذکر ہیں۔جیسے‪:‬‬


‫کو ِہ ہمالیہ‪ ،‬کو ِہ سلیمان‪ ،‬نانگا پربت‪ ،‬اُحد‪ ،‬کے ٹو وغیرہ۔‬

‫‪ :7‬تمام زبانوں کے نام مٶنث بولے جاتے ہیں۔ مثالً فارسی‪ ،‬عربی‪ ،‬پشتو‪ ،‬سندھی وغیرہ‬

‫‪ :8‬تمام نمازوں کے نام مٶنث بولے جاتے ہیں جیسے‪ :‬فجر‪ ،‬ظہر‪ ،‬عصر‪ ،‬مغرب‪ ،‬عشا‪ ،‬تہجد مگر ”جنازہ“ مذ ّکر ہے۔‬

‫‪ :9‬بعض فارسی‪ ،‬ہندی اور عربی کے اسم جن کے آخر میں ”ہ“ آتا ہے مذکر بولے جاتے ہیں۔ جیسے‪ :‬ہمیشہ‪ ،‬تیشہ‪ ،‬ح ّقہ‪،‬‬
‫روزہ‪ ،‬روضہ‪ ،‬نسخہ وغیرہ۔‬

‫‪ :10‬بعض اسما جسامت میں بڑے ہونے کی بنا پر مذکر بولے جاتے ہیں۔ جیسے پیالہ‪ ،‬پہاڑ‪ ،‬تختہ‪ ،‬تھیال‪ ،‬ٹوکرا وغیرہ۔ ان‬
‫الفاظ کو مٶنث بنانے کےلیے مص ّغر (چھوٹا) کیا جاتا ہے اور ”ہ“ حذف کر کے ”ی“ لگاٸی جاتی ہے۔ تب یہ مٶنث بنتے ہیں۔‬
‫جیسے‪:‬‬
‫پیالہ سے پیالی‪ ،‬پہاڑ سے پہاڑی‪ ،‬تختہ سے تختی‪ ،‬تھیال سے تھیلی‪ ،‬ٹوکرا سے ٹوکری وغیرہ۔‬

‫اہل زبان ان کو مذکر بولتے ہیں۔ جیسے‪ ، :‬دن‪ ،‬نقش‪ ،‬بُت‪،‬‬


‫‪ :11‬بعض اسما جن کے آخر میں ”الف“ یاحرفِ ”ہ“ نہیں ہوتا لیکن ِ‬
‫وزن‪ ،‬میل‪ ،‬خلعت‪ ،‬ٹکٹ‪ ،‬فوٹو‪ ،‬اخبار‪ ،‬ہوش‪ ،‬عیش‪ ،‬مزاج‪ ،‬مرہم‪ ،‬تار‪ ،‬درد‪ ،‬مرض‪ ،‬کالم‪ ،‬انتظار‪ ،‬آبشار‪ ،‬قلم‪ ،‬خواب‪ ،‬کھیل‬
‫وغیرہ۔‬
‫‪ :12‬جن بے جان اسما کے آخر میں یاۓ معروف ”ی“ ہو وہ مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے‪:‬‬
‫ٰ‬
‫مستثنی ہیں۔‬ ‫پگڑی‪َ ،‬چھڑی‪ ،‬کرسی‪ ،‬ٹوپی‪ ،‬کھڑکی‪ ،‬پگڑی‪،‬وغیرہ۔ تاہم موتی‪ ،‬دہی‪ ،‬گھی اور پانی اس سے‬

‫فعل امر کی صورت میں ہوں یا جن کے آخر میں ن‪ ،‬ہٹ‪ ،‬وٹ‪ ،‬ٸی‪ ،‬واس‪ ،‬ی‪ ،‬گ اور ل آۓ مٶنث‬ ‫حاصل مصدر جو ِ‬
‫ِ‬ ‫‪ :13‬وہ‬
‫ٰ‬
‫بولے جاتے ہیں۔ جیسے‪ :‬جلن‪ ،‬کہاوت‪ ،‬گھبراہٹ‪ ،‬بناوٹ‪ ،‬بُراٸی‪ ،‬پڑھاٸی‪ ،‬بکواس‪ ،‬ہنسی‪ ،‬ناگ وغیرہ لیکن چلن اس سے مستثنی‬
‫ہے۔‬

‫‪ :14‬جن اسماۓ مصغر کے آخر میں” یا“ ہو وہ مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے‪ :‬پُڑیا‪ ،‬ڈبیا‪ُ ،‬کٹیا وغیرہ۔‬

‫‪ :15‬ایسے سہ حرفی عربی الفاظ جن کے آخر میں ”الف“ ہو مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے‪ :‬ادا‪ ،‬وفا‪ ،‬جفا‪ ،‬عطا‪ ،‬سخا‪ ،‬رضا‪،‬‬
‫حیا‪ ،‬ثنا‪ ،‬شِ فا‪ُ ،‬دعا وغیرہ۔‬

‫‪ :16‬جن الفاظ کے آخر میں ”ہ“ ہو بالعموم مٶنث استعمال ہوتے ہیں۔ جیسے‪ :‬راہ‪ ،‬نگاہ‪ ،‬درگاہ‪ ،‬بار گاہ‪ ،‬پناہ‪ ،‬تنخواہ‪ ،‬خانقاہ‪،‬‬
‫توجّ ہ‪ ،‬توبہ‪ ،‬سمجھ بوجھ‪ ،‬سوجھ‪ ،‬جگہ‪ ،‬راکھ وغیرہ۔‬

‫‪ :17‬تمام آوازیں مٶنث ہیں۔ جیسے‪ :‬بادل کی گرج‪ ،‬کوٸل کی ُکو ُکو‪ ،‬بارش کی چھم چھم‪ ،‬ہوا کی ساٸیں ساٸیں وغیرہ۔‬

‫‪ :18‬جن اسماۓ کیفیت یا حاصل مصدر کے آخر میں‪ ،‬ت‪ ،‬ی‪ ،‬گی‪ ،‬ش‪ ،‬ہو وہ عموما ً مٶنث بولے جاتے ہیں۔ جیسے‪ :‬شرافت‪،‬‬
‫مزاحمت‪ ،‬بہادری‪ ،‬بدی‪ ،‬دیوانگی‪ ،‬کوشش‪ ،‬بخشش‪ ،‬بارش وغیرہ۔‬

‫‪ :19‬جن اسماۓ کیفیت کے آخر میں ”اٶ“ اور ” َپن“ آۓ وہ بالعموم مذ ّکر استعمال ہوتے ہیں۔ مثالً‪ :‬جُکھاٶ‪ ،‬بہاٶ‪ ،‬بچپن‪ ،‬لڑکپن‪،‬‬
‫دیوانہ پن وغیرہ۔‬

‫‪ :20‬تمام براعظموں کے نام مذ ّکر ہیں۔ جیسے‪ :‬ایشیا‪ ،‬یورپ‪ ،‬افریقہ‪ ،‬امریکہ وغیرہ۔‬

‫‪ :21‬اردو میں انگریزی کے جو الفاظ مستعمل ہیں ان کی تذکیر و تانیث کے معاملے میں اردو کے مستند ادیبوں کی پیروی‬
‫کی جاتی ہے۔ جیسے‪:‬‬
‫باٸسیکل‪ ،‬پارٹی‪ ،‬میٹینگ‪ ،‬رجمنٹ‪ ،‬الری‪ ،‬ڈیٹ‪ ،‬اپیل‪ ،‬کاپی‪ ،‬ٹیوب‪ ،‬پلیٹ‪ ،‬کالس‪ ،‬الٸن وغیرہ مٶنث اور اسٹیشن‪ ،‬ٹکٹ‪ ،‬سٹول‪،‬‬
‫کمیشن‪ ،‬ڈیسک‪ ،‬ایڈیشن‪ ،‬فوٹو‪ ،‬آفس‪ ،‬گیٹ‪ ،‬ڈپو وغیرہ مذکر استعمال ہوتے ہیں۔‬

‫ٰ‬
‫مستثنی ہیں۔‬ ‫‪ :22‬تمام کتابوں کے نام مٶنث ہیں‪ :‬جیسے‪ :‬تورات‪ ،‬انجیل‪ ،‬زبور وغیرہ لیکن قرآن مجید اور گرنتھ اس سے‬

‫‪ :23‬یہ الفاظ مٶنث بولے جاتے ہیں‪ :‬ناک‪ ،‬ڈکار‪ ،‬چھت‪ ،‬میز‪ ،‬معراج‪ ،‬محراب‪ ،‬گھاس‪ ،‬آب و ہوا‪ ،‬بارود‪ ،‬کیچڑ‪ ،‬جھاڑو‪،‬‬
‫شراب‪ ،‬بسم ہللا‪ ،‬پتنگ‪ ،‬بہشت وغیرہ جب کہ درخت اور بخت مذکر ہیں۔‬

‫اہل زبان مذ ّکر اور مٶنث دونوں طرح استعمال کرتے ہیں‪:‬‬
‫‪ :24‬مندرجہ ذیل الفاظ‪/‬اسما ِ‬
‫آغوش‪ ،‬سانس‪ ،‬بُلبل‪ ،‬غور‪ ،‬طرز‪ ،‬گیند‪ ،‬فکر وغیرہ۔‬

‫‪ :25‬جو الفاظ باب "تفعیل" کے وزن پر ہوں وہ اردو میں مونث استعمال ہوتے ہیں۔جیسے‪:‬‬
‫تذکیر ‪ ،‬تانیث‪ ،‬تقدیر‪ ،‬تذلیل ‪ ،‬تشریف‪ ،‬تعریف‪ ،‬تنکیر‪ ،‬تسبیح‪ ،‬تہلیل‪ ،‬تحریر‪ ،‬تدبیر‪ ،‬تحقیر وغیرہ۔‬
‫آج ذہانت کا پتا چلے گا۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اُردو محاورے پہچانئے ☺‬

‫😪😭🐥😋🌾‬
‫‪=🌕🐓🏠 ,,.)2‬‬
‫‪,,.)1‬‬

‫🎩👉🙇‬
‫🐪👄🏉😔💭💁‬ ‫‪©🐒😯 ,,.)4‬‬
‫‪☝ ,,.)3‬‬

‫👉🐃‬‫🏢👂‬
‫‪,,.)5‬‬
‫‪/☝,,.)6‬‬

‫💧💦➡🏝‬ ‫‪,,.😎)8‬‬
‫‪,,.)7‬‬

‫🍪👅🐈🕋‬‫💯🐀😬‬ ‫😘🔪‬
‫‪??🐵,,.)9‬‬
‫‪,,.)10‬‬

‫⛽❌💃‬
‫🏻👂🔇‬ ‫‪9⃣❌ ,,.)12‬‬
‫‪,,.)11‬‬

‫‪2⃣ 👂🏻🗣1⃣ ,,.)13‬‬


‫👅🤕🗡⬆‬
‫‪11=🚶+🚶 ,,.)15‬‬
‫‪,,.)14‬‬

‫‪=🐃🅰🌑,,.)16‬‬
‫😎😜👑‬‫🐊😭‬ ‫‪,,.)17‬‬

‫😁😡😠‬ ‫‪,,.)18‬‬

‫‪❎↔👋 ,,.),,.)2021‬‬
‫‪,,.)19‬‬

‫🌙🌙🌙🌙‬
‫🌞⭐⭐👀‬
‫💯🌕⃣‪🌑1‬‬ ‫🐃🎺‬
‫‪,,.)22‬‬
‫‪,,.)23‬‬

‫♀‍🏾👳🐕❌🏠❌🏞‬‫‪👏🌊 ,,.),,.)2526‬‬
‫‪,,.)24‬‬

‫👆⚡👇☔❎‬
‫‪↗⬜❎💃,,.)28‬‬ ‫‪,,.)27‬‬

‫‪..‬دیکھتے ہیں آپ ان میں سے کتنے پہچان پاتے ہیں 😀😋😌😌😌‬


‫جیسے‬
‫کہ‬
‫دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں۔۔۔۔۔‬

You might also like