Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 106

‫‪1‬‬

‫کوانٹم میکینکس اور پارٹیکل فزکس‬


‫کے چند اہم موضوعات‬
‫از قلم رضاالحسن‬
‫‪2‬‬

‫کوانٹم میکینکس‪:‬‬
‫الیکٹران نیوکلئیس کے گرد "محدود" آربٹس میں کیوں اور کیسے ہوتے ہیں؟‬

‫اس آرٹیکل میں نیل بوہر کے ایٹمی ماڈل کے ایک انتہائی اہم اور دلچسب پہلو‬
‫پر بات ہو گی۔ جسے الیکٹران ویو کی کوانٹائزیشن‬

‫”‪“Quantization of Electron Wave‬‬

‫کہتے ہیں۔ اور ہم سمجھیں گے کہ نیوکلئیس کے گرد الیکٹرانز کے آربٹ‬


‫"کوانٹائزڈ" کیسے ہوتے ہیں۔‬

‫اس کے لئے پہلے ردرفورڈ کے ایٹمی ماڈل اور اس میں موجود نقائص اور‬
‫پھر بوہر کے ایٹمی ماڈل پر مختصر سی گفتگو کریں گے۔ اور پھر ہم دیکھیں‬
‫گے کہ جب بوہر کے ایٹمی ماڈل پر "ڈی برائے ہائیپوتھیسس" الگو کریں تو‬
‫کیسے "کوانٹائزیشن" ہم پر آشکار ہو جاتی ہے۔‬

‫سنہ ‪ 1911‬کی بات ہے جب ردرفورڈ نے یکے بعد دیگرے کئی تجربات سے‬
‫پتہ چالیا کہ ایٹم کی زیادہ تر کمیت اس کے مرکز میں مرکوز ہوتی ہے جسے‬
‫انہوں نے "نیوکلئیس" کا نام دیا۔ جہاں الیکٹران اس مرکز میں موجود‬
‫نیوکلئیس کے گرد دائروی شکل میں بلکل اُسی طرح چکر لگاتے ہیں جیسے‬
‫نظام شمسی میں سیارے مرکز میں سورج کے گرد کشش ثقل کے زیر اثر‬ ‫ِ‬
‫دائروی یا بیضوی مداروں میں مح ِو گردش ہیں۔ یُوں ردرفورڈ صاحب نے دنیا‬
‫کو اپنے "پلینیٹری ماڈل آف ایٹم" سے روشناس کرایا۔ اس وقت یہ ایٹم کا ایک‬
‫‪3‬‬

‫بلکل نیا اور بڑا دلچسب ماڈل تھا لیکن اس میں موجود کوتاہیوں اور نقائص‬
‫کی وجہ سے بہت جلد اسے ردی کی نذر ہونا پڑا۔‬

‫مثال کے طور پر برقی طور پر نیوٹرل اور انتہائی بڑے اجسام مثالً سیاروں‬
‫کے برعکس‪ ،‬برقی طور پر چارجڈ الیکٹران جب مثبت چارجڈ نیوکلئیس کے‬
‫گرد گھومتے ہیں تو ان میں لگاتار اسراع پیدا ہوتا ہے۔ میکس ویل کے‬
‫کالسیکل الیکٹروڈائنامکس قوانین کے تحت اگر ایک چارجڈ پارٹیکل مسلسل‬
‫اسراع پذیر ہے تو اسے برقی مقناطیسی ریڈی ایشنز کی شکل میں توانائی‬
‫کھونی چاہئے۔ اور جوں جوں یہ پارٹیکل توانائی ضائع کرے گا اسے بالآخر‬
‫نیوکلئیس میں گر جانا چاہئے۔ اس صورت میں الیکٹران کا نیوکلئیس سے‬
‫تصادم محض ‪ 10⁸/1‬سیکنڈ (ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے) کے انتہائی‬
‫مختصر لمحے میں ہو جانا چاہئے۔ لیکن ایسا ہوتا ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہم‬
‫زیادہ تر عناصر میں ایٹمز کو بڑا مستحکم دیکھتے ہیں۔‬

‫ردرفورڈ کے ایٹمی ماڈل میں دوسرا بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ یہ ماڈل مختلف‬
‫کیمیائی عناصر کے "ایبزارپشن سپیکٹرا" اور "ایمیشن سپیکٹرا" کی درست‬
‫وضاحت نہیں کرتا۔ جب کوئی ایٹم برقی مقناطیسی ریڈی ایشنز جذب یا خارج‬
‫کرتا ہے تو یہ ریڈی ایشنز توانائی کے ایک خاص لیول کا اظہار کرتی ہیں یعنی‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬ان سے حاصل ہونے واال سپیکٹرم ‪discrete‬ان میں توانائی‬
‫نہیں ہوتا۔ )‪Continuous‬مسلسل (‬

‫(جیسے تصویر نمبر ‪ 1‬میں دکھایا گیا ہے نیز ایبزارپشن اور ایمیشن سپیکٹرا‬
‫کی تفصیل نیچے دیئے گئے لنک سے دیکھ سکتے ہیں)۔‬
‫‪4‬‬

‫اگر ہم ردرفورڈ کے ایٹمی ماڈل کو دیکھیں تو یہاں الیکٹران کے کسی بھی‬


‫آربٹ میں ہونے پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ الیکٹران نیوکلئیس کے گرد نظریاتی‬
‫طور پر المحدود ممکنہ آربٹس میں ہو سکتا ہے۔ اس نقطہ نظر پر تھوڑا غور‬
‫فر مائیں تو نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسی صورت میں ایبزارپشن اور ایمیشن‬
‫ہی ہو گا جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ ہم ‪Continuous Spectra‬سپیکٹرا ہمیشہ ایک‬
‫ہوتا ہے۔ ‪discrete‬اچھی طرح جانتے ہیں کہ ہر عنصر کا سپیکٹرا الگ اور‬

‫ردرفورڈ کے ایٹمی ماڈل میں موجود ان خامیوں کو دور کرنے کی ہمت نیل‬
‫بوہر نے کی۔ اور اس کوشش کو ہم "بوہر کے ایٹمی ماڈل" سے جانتے ہیں۔‬
‫نیل بوہر نے اپنے ماڈل میں دو اہم پاسچولیٹ شامل کئے۔‬

‫ایک تو یہ کہ الیکٹران نیوکلئیس کے گرد دائروی مداروں میں گھومتے ہیں۔ یہ‬
‫خیال یقینا ً انہوں نے ردرفورڈ سے ہی ادھار لیا۔‬

‫دوسرا پاسچولیٹ یہ تھا کہ ردرفورڈ ماڈل کے برعکس الیکٹران نیوکلئیس کے‬


‫گرد محدود آربٹس میں ہی ہو سکتے ہیں اور ان آربٹس کی بوہر کی جانب سے‬
‫بتائی گئی حد کو ہم "کوانٹائزیشن پرنسپل"‬
‫‪Quantization Principle‬‬
‫کے نام سے جانتے ہیں۔ جس کے مطابق نیوکلئیس کے گرد الیکٹران کے لئے‬
‫صرف وہی آربٹ قاب ِل قبول ہو سکتے ہیں جہاں الیکٹران کا اینگولر مومینٹم‬
‫ہو گا۔ اسکی ‪integral multiple‬کی نسبت" کے ‪"π‬پالنک کانسٹینٹ اور ‪2‬‬
‫مساوات کچھ یوں بنتی ہے‪:‬‬

‫)‪L = n(h/2π‬‬
‫‪5‬‬

‫پالنک کانسٹینٹ ہے۔ ان کا مزید یہ ‪h‬الیکٹران کا اینگولر مومینٹم اور ‪L‬جہاں‬


‫کہن ا تھا کہ الیکٹران ایسے آربٹ میں رہ کر نیوکلئیس کے گرد گھومنے کے‬
‫دوران توانائی بھی خارج نہیں کرے گا۔ ایبزارپشن اور ایمیشن سپیکٹرا کے‬
‫حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ جب الیکٹران ایک چھوٹے انرجی لیول کے آربٹ‬
‫سے بڑے انرجی لیول کے آربٹ کی طرف جائے گا تو اس دوران توانائی جذب‬
‫یا خارج کرے گا۔ یہ خارج اور جذب شدہ توانائی برقی مقناطیسی ریڈی ایشنز‬
‫کی شکل میں ہو گی اور یہ توانائی دونوں آربٹس کی توانائی کے فرق کے عین‬
‫برابر ہو گی۔ یہ بالشبہہ ایبزارپشن اور ایمیشن سپیکٹرا کی ایک بہترین‬
‫وضاحت تھی۔‬

‫اس سے پہلے کہ ہم الیکٹران ویو کی کوانٹائزیشن پر آئیں۔ پہلے ایک چھوٹی‬


‫سی مثال ل یتے ہیں۔ ہمارے پاس گراؤنڈ سٹیٹ میں ہائیڈروجن کا ایک ایٹم‬
‫موجود ہے۔ ایٹم کے پلینیٹری ماڈل کے مطابق الیکٹران نیوکلئیس کے گرد ایک‬
‫دائروی حرکت سے گھوم رہا ہے۔ اس آربٹ کے مستحکم ہونے کی شرط یہ ہو‬
‫گی یہاں کولمبک فورس اور سینٹری پیٹل فورس دونوں برابر ہوں‪ ،‬یعنی کچھ‬
‫یوں‪:‬‬

‫)‪F(e) = F (c‬‬

‫‪1/4πε₀ . e²/r² = mv²/r‬‬

‫یہاں الیکٹران اور پروٹان کے بیچ کولمب فورس ایک سینٹری پیٹل فورس مہیا‬
‫کر رہی ہے اور الیکٹران ایک مدار میں گھوم رہا ہے۔‬
‫‪6‬‬

‫الیکٹران کی آربٹل )‪v‬اس آربٹ کا رداس‪r) ( ،‬الیکٹرک چارج‪e) ( ،‬یہاں (‬


‫الیکٹران کا )‪m‬فری اسپیس (ویکیوم) کی پرمیٹیویٹی‪ ،‬اور ( )‪ε₀‬والسٹی‪( ،‬‬
‫ماس ہے۔‬

‫اس مساوات کو حل کر کے ہم الیکٹران کی والسٹی نکال سکتے ہیں۔ ہمیں‬


‫والسٹی کیوں چاہئے یہ ہم تھوڑی دیر میں دیکھیں گے۔‬

‫‪1/4πε₀ . e²/r² = mv²/r‬‬

‫‪1/4πε₀ . e²/r = mv²‬‬

‫‪Mv² = e²/4πε₀r‬‬

‫‪V² = e²/4πε₀rm‬‬

‫)‪V = e/√(4πε₀rm‬‬

‫اب بڑا دلچسب مرحلہ آنے لگا ہے۔ اب ہم اس پر "ڈی برائے ہائیپوتھیسس"‬
‫الگو کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن پہلے ڈی برائے ہائیپوتھیسس کی مختصر‬
‫وضاحت کر لیں۔‬
‫‪7‬‬

‫ڈی برائے صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر ایک پارٹیکل کسی خاص والسٹی سے‬
‫)‪wave‬حرکت کر رہا ہے تو اس پارٹیکل کی حرکت کے ساتھ ایک لہر (‬
‫کہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ”‪Matter Wave‬منسلک ہوتی ہے۔ ایسی لہر کو "‬
‫جو الیکٹران نیوکلئیس کے گرد گھوم رہا ہے اسکی بھی ایک لہر ہونی چاہئے۔‬
‫)‪Wavelength‬ڈی برائے نے کہا تھا کہ پارٹیکل کی ایسی لہر کی طول موج (‬
‫اس پارٹیکل کے مومینٹم کے معکوس متناسب ہو گی۔‬

‫ڈی برائے کی مساوات کچھ یوں ہے‪:‬‬

‫‪P = mv = h/λ‬‬
‫)‪Λ = h/mv ........ (Eq.1‬‬

‫چلیں ڈی برائے ہائیپوتھیسس لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں ہمیں کیا ملتا ہے۔‬
‫اوپر ہم نے الیکٹران کی آربٹل والسٹی نکالی تھی اسے اگر ڈی برائے کی‬
‫مساوات میں لگاتے ہیں۔‬

‫)‪V = e/√(4πε₀rm‬‬

‫‪Λ = h/mv‬‬

‫کی قیمت نیچے والی مساوات میں لگانے سے‪v) :‬اوپر والی مساوات سے (‬

‫‪Λ = h/m . √(4πε₀rm)/e‬‬


‫‪8‬‬

‫)‪Λ = h/e . √(4πε₀r/m) .... (Eq.2‬‬

‫اب ہمارے پاس الیکٹران کی نیوکلئیس کے گرد حرکت کے دوران اسکی ویو‬
‫لینگتھ کی م ساوات آ گئی ہے۔ اس مساوات میں زیادہ تر تو کانسٹینٹس ہی‬
‫شامل ہیں۔‬
‫ہم چونکہ ہائیڈروجن ایٹم کی مثال لے رہے ہیں تو ہمیں پتا ہے کہ ہائیڈروجن‬
‫اینگسڑام ہوتا ہے۔ ‪r) 0.53‬ایٹم کا آربٹ ریڈیس(‬

‫‪R = 0.53 A⁰ ⁼ 5.3x10⁻¹¹ m‬‬

‫اب یہ سارے کانسٹینٹس کی قیمتیں مساوات نمبر ‪ 2‬میں لگا دیں تو ہمارے‬
‫پاس اس الیکٹران کی ویو لینگتھ کی قیمت کچھ یہ نکلتی ہے۔‬

‫‪Λ = 33.27x10⁻¹¹ m‬‬

‫الیکٹران کی ویو لینگتھ کی اس قیمت کے متعلق ایک بڑی خاص اور دلچسب‬
‫بات ہے۔ وہ یہ کہ جب آپ اس قیمت کو ہائیڈروجن کے آربٹل ریڈیس کو دوگنا‬
‫کر کے تقسیم کرتے ہیں تو معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے‪:‬‬

‫‪33.27x10⁻¹¹/2(5.3x10⁻¹¹)=3.14‬‬
‫‪9‬‬

‫یہاں ہم نے جب الیکٹران کی ویو لینگتھ کو آربٹل ریڈیس کے دو گنا سے‬


‫تقسیم کیا تو جو نمبر ہمیں حاصل ہو رہا ہے یہ بڑا جانا پہچانا سا نمبر ہے۔‬
‫کی ہی قیمت ہے۔ ‪π‬جی بلکل یہ‬
‫اسکا مطلب کیا ہوا؟ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ایسا ہے تو ہم الیکٹران کی ویو‬
‫لینگتھ کی قیمت کو یوں بھی لکھ سکتے ہیں۔‬

‫‪Λ = 33.27x10⁻¹¹ m‬‬

‫‪Λ = 33.27x10⁻¹¹ = 2πr‬‬

‫‪Λ = 2πr‬‬

‫میٹر ہے۔ ‪x10⁻¹¹‬کی قیمت ‪r 5.3‬جہاں‬

‫‪ πr‬اب یہاں ہم پر حیرت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ الیکٹران کی ویو لینگتھ ‪2‬‬
‫کے برابر آ رہی ہے جو ایک دائرے کا محیط ہوتا ہے۔ اس پر سوچیں ذرا۔ یہ‬
‫بڑی دلچسب بات ہے کہ الیکٹران نیوکلئیس کے گرد گھوم رہا ہے‪ ،‬اس کے‬
‫ساتھ ایک لہر منسلک ہے اور اس لہر کی ویو لینگتھ اس آربٹ کے محیط کے‬
‫برابر ہے۔‬

‫اس بات کو تھوڑا اور آگے بڑھائیں تو مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ہائیڈروجن‬
‫ایٹم میں الیکٹران کا آربٹ ایک مکمل لہر کے مساوی ہے جو اپنے آپ سے ہی‬
‫‪10‬‬

‫‪Standing‬جڑی ہوئی ہے۔ یعنی الیکٹران کی لہر ایک مکمل "ساکن موج‬
‫کا پیٹرن بنا رہی ہے۔ ”‪Wave‬‬

‫کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا کہانی میں ابھی کچھ باقی ہے؟‬

‫چلیں ابھی بوہر کے خود کے دئیے "کوانٹائزیشن پرنسپل" کو دیکھتے ہیں۔ ہم‬
‫نے اوپر بھی ذکر کیا کہ بوہر نے اپنا ایٹمی ماڈل دیتے وقت دوسرا اہم‬
‫پاسچولیٹ یہ دیا تھا کہ نیوکلئیس کے گرد الیکٹران محدود آربٹس میں ہی ہو‬
‫سکتے ہیں جہاں یہ شرط پوری ہونی چاہئے‪:‬‬

‫)‪L = n (h/2π‬‬

‫الیکٹران کی نیوکلئیس کے گرد دائروی حرکت کے دوران اینگولر مومینٹم کچھ‬


‫یوں ہوتا ہے‪:‬‬

‫‪L = mvr‬‬
‫تو ہم اسے یوں لکھ سکتے ہیں‪:‬‬

‫)‪Mvr = n (h/2π‬‬

‫کریں تو‪rearrange :‬مساوات کو تھوڑا‬


‫‪11‬‬

‫)‪2πr = n (h/mv‬‬

‫دراصل کسی حرکت کرتے پارٹیکل کی ویو لینگتھ )‪h/mv‬اس مساوات میں (‬
‫ہی تو ہے جو ڈی برائے صاحب نے دی تھی (مساوات نمبر ‪ 1‬دیکھیں)۔‬
‫اب اس مساوات کی شکل یوں ہو جاتی ہے‪:‬‬

‫‪2πr = n λ‬‬

‫یعنی اس آربٹ کا محیط جس میں پارٹیکل حرکت کر رہا ہے یہ اس پارٹیکل کی‬


‫کے برابر ہو گا۔ ‪integral multiple‬لہر کی ویو لینگتھ کے‬

‫اس خیال کو بنیاد بنا کر ہم ایک اور اہم بات سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کیوں‬
‫ہوتا ہے کہ الیکٹران کو نیوکلئیس کے گرد کچھ آربٹس کی تو اجازت ہوتی ہے‬
‫اور کچھ کی نہیں۔‬

‫آپ اگر ایک رسی پر بنی "ساکن موج" کا تصور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں‬
‫ہی ہے۔ اگر ‪integral multiple‬رسی کی لمبائی بھی اسکی ویو لینگتھ کے‬
‫بنا دیں )‪Loop‬اس رسی کے دو پوانٹس کو آپس میں مال دیں اور ایک لُوپ(‬
‫تو ہمارے پاس یہ جاننے کے لئے ایک بہترین تصور ہو گا کہ نیوکلئیس کے‬
‫گرد الیکٹران بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔‬

‫یہیں سے ایک اور اہم پہلو دیکھتے ہیں کہ اگر ہم اس لُوپ کے گرد ویو‬
‫نمبر رکھ دیں تو المحالہ ہمارے پاس ‪fractional‬لینگتھ کا کوئی‬
‫‪12‬‬

‫آئے گی یعنی ایسی صورت میں بننے والی لہر ‪destructive interference‬‬
‫لُوپ کے گرد سفر کر کے واپس اس نقطے پر نہیں ملے گی جہاں سے اس‬
‫نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اور یوں یہ لہر تیزی سے ختم ہو جاتی ہے۔ اور ہمیں‬
‫نتیجتا ً یہاں کوئی آربٹ نہیں مل سکتا۔ یہ بڑا باریک اور اہم نقطہ ہے لہذا یہ بڑا‬
‫غور طلب ہے۔‬

‫‪integral‬دوسری صورت میں جہاں الیکٹران لہر کی ویو لینگتھ ایک‬


‫ہوتی ہے تو یہ نیوکلئیس کے گرد گھوم کر واپس اسی جگہ آ کر ‪multiple‬‬
‫‪constructive‬ملتی ہے جہاں سے یہ شروع ہوئی تھی لہذا ہمیں یہاں‬
‫دیکھنے کو ملتی ہے اور یوں یہ لہر ختم نہیں ہوتی اور ‪interference‬‬
‫نیوکلئیس کے گرد چکر لگاتی رہتی ہے‪ ،‬گویا یہاں اسے ایک آربٹ میسر آ گیا‬
‫ہے۔ (تصویر نمبر ‪ 2‬مالحظہ کریں)۔‬

‫اب آپ کو واضح ہو ُچکا ہو گا کہ جیسے ہی ہم بوہر کی کوانٹائزیشن پر ڈی‬


‫برائے ہائیپوتھیسس کا ا طالق کرتے ہیں تو یہ ایک نئی شکل لے لیتی ہے۔ اور‬
‫ہمیں ایک نیا کوانٹائزیشن پرنسپل حاصل ہوتا ہے۔ جو اوپر نکالی مساوات کی‬
‫شکل میں ہے‪:‬‬

‫‪2πrₙ = n λ‬‬

‫کی کوئی بھی قیمت ہو سکتی ہے‪n :‬جہاں‬


‫‪N = 1,2,3,4 ..................‬‬

‫اب چند الئنوں میں اس پوری کہانی کو قید کریں تو یوں بنے گی کہ‪:‬‬
‫‪13‬‬

‫انرجی لیولز اور محدود آربٹس ہوتے ہیں جہاں ‪discrete‬ہر ایٹم میں‬
‫الیکٹران کی لہر کی ویو لینگتھ کچھ یُوں بنتی ہے کہ یہ لہر نیوکلئیس کے گرد‬
‫گھومتی ہے اور واپس آ کر اسی نقطے پر ملتی ہے جہاں سے یہ شروع ہوئی‬
‫تھی۔ اور یوں ہمیں کنسٹرکٹو انٹرفئیرینس حاصل ہوتی ہے اور الیکٹران کا‬
‫ایک آربٹ ملتا ہے۔‬

‫کی بجائے ‪integral‬کوئی دوسرا آربٹ جہاں آربٹ کا محیط‪ ،‬ویو لینگتھ کے‬
‫ملٹی پل ہوتا ہے وہاں ہمیں ڈِسٹرکٹو انٹرفئیرینس ملتی ہے اور ‪fractional‬‬
‫یوں یہاں کوئی آربٹ موجود نہیں ہو سکتا۔‬

‫لہذا اگلی دفعہ جب آپ ایٹم کے سٹرکچر کا سوچیں تو "تصویر نمبر ‪ "3‬کو ذہن‬
‫میں بٹھا لیں کہ ایٹم کا سٹرکچر کُچھ ایسا ہو گا۔‬
14
‫‪15‬‬

‫‪:‬‬

‫کیا ہیں؟ )‪Leptons‬لیپٹانز (‬

‫اس آرٹیکل میں ہم پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود فرمیونز کی‬
‫ایک جماعت 'لیپٹانز' سے تعارف حاصل کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ لیپٹانز‬
‫کتنی اقسام کے ہیں اور ان کے خواص کیا ہیں۔ ہم ان لیپٹانز کی دریافت کی‬
‫دلچسب تاریخ کا بھی ُمختصر جائزہ لیں گے۔‬

‫پارٹیکل فزکس کی سیریز کے اس سفر میں ہم نے کئی دفعہ اس بات کو‬


‫ڈسکس کیا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود پارٹیکلز کو ہم دو بڑے حصوں میں‬
‫تقسیم کرتے ہیں اور یہ تقسیم ہم نے ان پارٹیکلز کی ایک کوانٹم خصوصیت کو‬
‫'اسپن' کہتے ہیں۔ اس لحاظ سے پارٹیکلز کے‬
‫ِ‬ ‫مدِنظر رکھ کر کی ہے جسے‬
‫ایک حصے کو ہم 'بوزونز' کہتے ہیں جن کی اسپن ایک مکمل عدد کی شکل‬
‫میں ہوتی ہے یعنی ‪ 0‬یا ‪ 1‬یا ‪ 2‬وغیرہ۔ جبکہ دوسرے بڑے حصے کو ہم‬
‫'فرمیونز' کہتے ہیں جو فریکشنل اسپن رکھتے ہیں یعنی ان کی اسپن مکمل‬
‫عدد نہیں ہوتی مثالً ½ یا ‪ 2/3‬وغیرہ۔ ہمارے آج کے آرٹیکل کا موضوع‬
‫'لیپٹانز' بھی پارٹیکلز کے اِسی حصے سے تعلق رکھتے ہیں۔‬

‫آپ کو یاد ہو گا کہ 'ہیڈرونز' پر لکھے گئے آرٹیکل میں ہم نے فرمیونز کو‬


‫بھی دو حصوں میں تقسیم کر لیا تھا اور یہ تقسیم ہم نے اس بنیاد پر کی تھی‬
‫کہ جو پارٹیکلز سٹرانگ فورس کے ذریعے تعامل کرتے ہیں وہ 'ہیڈرونز'‬
‫کہالتے ہیں جبکہ جو پارٹیکلز سٹرانگ فورس کے ذریعے تعامل نہیں کرتے‬
‫انہیں ہم 'لیپٹانز' کہتے ہیں جو ہمارا آج کا موضوع ہیں۔ ہیڈرونز اور لیپٹانز‬
‫میں ایک بنیادی فرق یہ ہے کہ ہیڈرونز ایلیمینٹری پارٹیکلز نہیں ہیں یعنی یہ‬
‫مزید چھوٹے پارٹیکلز سے ملکر بنتے ہیں جنہیں 'کوارکس' کہا جاتا ہے جبکہ‬
‫‪16‬‬

‫اس کے برعکس لیپٹانز ایلیمینٹری پارٹیکلز ہیں جو مزید چھوٹے پارٹیکلز‬


‫سے ملکر نہیں بنے۔‬

‫پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں ٹوٹل چھ طرح کے لیپٹانز ہمیں نظر آتے‬
‫)‪υ‬اور تین طرح کے نیوٹرینو ( )‪τ‬ٹاؤ ( ‪μ)،‬میوآن ( ‪e)،‬ہیں۔ جن میں الیکٹران (‬
‫شامل ہیں جو پیچھے بیان کئے گئے تین لیپٹانز سے ُمنسلک ہوتے ہیں۔ یعنی‬
‫الیکٹران سے ُمنسلک نیوٹرینو کو ہم 'الیکٹران نیوٹرینو' کہتے ہیں ایسے ہی‬
‫'میوآن نیوٹرینو' اور 'ٹاؤ نیوٹرینو' ہوتے ہیں۔ سو کُل مال کر ہمارے پاس چھ‬
‫لیپٹانز اس وقت اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود ہیں۔ ان میں سے الیکٹران‪ ،‬میوآن‬
‫اور ٹاؤ تینوں برقی چارج رکھتے ہیں لہذا انہیں ہم 'چارجڈ لیپٹانز' کہتے ہیں‬
‫جبکہ ان سے ُمنسلک تینوں نیوٹرینو برقی چارج نہیں رکھتے تو ہم انہیں‬
‫'نیوٹرل لیپٹانز' کہت ے ہیں۔ اس طرح سے ہمارے پاس تین چارجڈ لیپٹانز آ گئے‬
‫اور تین ہی نیوٹرل لیپٹانز آ گئے۔ ہر پارٹیکل کی طرح ان چھ لیپٹانز کے اینٹی‬
‫بھی موجود ہیں جو برقی چارج کے عالوہ باقی )‪anti-particles‬پارٹیکلز (‬
‫خصوصیات ان لیپٹانز جیسی ہی رکھتے ہیں۔ یعنی ان لیپٹانز کے اینٹی پارٹیکلز‬
‫ان کے برابر مگر مخالف برقی چارج رکھتے ہیں۔ لیپٹانز کا چارج منفی جبکہ‬
‫اینٹی لیپٹانز کا چارج مثبت ہوتا ہے۔ نیوٹرینو چونکہ برقی چارج نہیں رکھتے‬
‫لہذا ان کے اینٹی پارٹیکلز کو ان کی ایک اور خصوصیت کی بنا پر طے کیا‬
‫کہتے ہیں جس )‪ helicity‬جاتا ہے۔ نیوٹرینو کی اس خصوصیت کو ہیلیسٹی (‬
‫پر اگلے آرٹیکل میں تفصیالً بات ہو گی۔‬

‫ان چھ لیپٹانز کو اگر کمیت (ماس) کے حساب سے بیان کریں تو نیوٹرینوز کے‬
‫ماس کے متعلق ابھی بھی کوئی حتمی رائے فزکس میں موجود نہیں ہے۔ ہمیں‬
‫فی الحال صرف اتنا پتا ہے کہ اگر ان کا ماس ہو بھی تو وہ نہایت کم ہو گا۔‬
‫جبکہ بقیہ تین لیپٹانز میں سے الیکٹران سب سے کم ماس رکھتے ہیں۔ میوآن‬
‫کا ماس الیکٹران سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ ٹاؤ سب سے زیادہ ماس رکھنے‬
‫والے لیپٹانز ہیں۔ ہم نے ماس کے لحاظ سے لیپٹانز کو تین جنریشنز‬
‫‪17‬‬

‫میں بھی تقسیم کر رکھا ہے۔ پہلی جنریشن میں الیکٹران اور )‪(generations‬‬
‫اس سے ُمنسلک نیوٹرینو یعنی 'الیکٹران نیوٹرینو' شامل ہیں۔ انہیں ہم‬
‫کہتے ہیں۔ دوسری جنریشن میں )‪electronic leptons‬الیکٹرانک لیپٹانز (‬
‫میوآن اور اس سے ُمنسلک نیوٹرینو یعنی 'میوآن نیوٹرینو' شامل ہیں انہیں ہم‬
‫کہتے ہیں۔ جبکہ تیسری جنریشن میں )‪muonic leptons‬میوآنک لیپٹانز (‬
‫کہتے )‪tauonic leptons‬ٹاؤ اور 'ٹاؤ نیوٹرینو' شامل ہیں جنہیں ہم ٹاؤنک (‬
‫ہیں۔ ماس کے عالوہ ایک اور پیمانہ بھی ہے جو ان لیپٹانز کو تین مختلف‬
‫جنریشنز میں تقسیم کرتا ہے اور وہ ان لیپٹانز کا ایک کوانٹم نمبر ہے جسے‬
‫)‪decay‬کہتے ہیں۔ ان لیپٹانز کے ڈیکے ( )‪lepton number‬لیپٹان نمبر (‬
‫کے دوران انرجی اور مومینٹم کے ساتھ ساتھ یہ لیپٹان نمبر بھی الزمی کنزرو‬
‫ہونا ہوتا ہے ورنہ ایسا ڈیکے ممکن نہیں ہوتا جس میں لیپٹان نمبر کنزرو نہ‬
‫رہ رہا ہو۔ 'لیپٹان نمبر' کے بارے میں اس سیریز پر آگے چل کر ایک علیحدہ‬
‫آرٹیکل میں بحث ہو گی۔‬

‫کا تقابلہ کریں تو کچھ )‪masses‬اگر ہم الیکٹران‪ ،‬میوآن اور ٹاؤ کی کمیتوں (‬
‫اس طرح سے ہو گا۔ ان لیپٹانز کی کمیتوں کے موازنے کے لئے ہم ان کا تقابلہ‬
‫اگر پروٹان سے کریں تو کافی واضح تصور مل سکتا ہے۔ ایک پروٹان کی‬
‫کمیت‬
‫‪1.67×10⁻²⁷ kg‬‬
‫ہوتی ہے۔ اس حساب سے الیکٹران کی کمیت پروٹان سے تقریبا ً اٹھارہ سو ُگنا‬
‫کم ہوتی ہے۔ میوآن کی کمیت پروٹان کی نسبت محض دس ُگنا کم ہوتی ہے‬
‫جبکہ ٹاؤ لیپٹانز پروٹان سے بھی دو ُگنا زیادہ کمیت رکھتے ہیں۔ پروٹان کی‬
‫کمیت سے ان لیپٹانز کا موازنہ ان لیپٹانز کی کمیت کو سمجھنے کے حوالے‬
‫سے ہمیں ایک مناسب تصور بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔‬
‫‪18‬‬

‫ان چھ لیپٹانز کی جو تھوڑی بہت خصوصیات ہم نے اوپر دیکھیں ان سے ہم‬


‫بخوبی یہ طے کر سکتے ہیں کہ یہ لیپٹانز کون کون سی فورس کے ذریعے‬
‫تعامل کر سکتے ہیں۔ سٹرانگ فورس کا تعلق کسی پارٹیکل کے کَلر چارج سے‬
‫ہوتا ہے اور کَلر چارج کے حامل صرف کوارکس اور گلوآنز ہی ہوتے ہیں جو‬
‫سٹرانگ نیوکلئیر فورس کے ذریعے تعامل کرتے ہیں لہذا لیپٹانز سٹرانگ‬
‫انٹریکشن میں حصہ نہیں ڈالتے۔ ان چھ لیپٹانز میں سے تین لیپٹانز یعنی‬
‫الیکٹران‪ ،‬میوآن اور ٹاؤ چونکہ ماس اور چارج دونوں رکھتے ہیں لہذا یہ‬
‫گریویٹی اور برقی مقناطیسی فورس کے ذریعے تعامل کر سکتے ہیں۔ جبکہ‬
‫نیوٹرینوز چونکہ برقی طور پر نیوٹرل ہوتے ہیں لہذا یہ برقی مقناطیسی فورس‬
‫کے ذریعے تعامل نہیں کرتے اور ان کے ماس کے متعلق ابھی تک کوئی حتمی‬
‫رائے موجود نہیں لہذا اگر یہ تھوڑا بہت ماس رکھتے ہوئے تو یہ گریویٹی کے‬
‫ذریعے تعامل کر سکتے ہیں۔ اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود تمام کے تمام فرمیونز‬
‫ایک خاص کوانٹم خصوصیت رکھتے ہیں جسے ' ِویک آئسو اسپن' کہتے ہیں۔‬
‫اس سے یہ طے ہوتا ہے کہ یہ پارٹیکلز ِویک فورس کے ذریعے تعامل کرنے‬
‫کی اہلیت رکھتے ہیں یا نہیں۔ یہ بلکل ایسے ہی ہے جیسے پارٹیکلز پر برقی‬
‫چارج یا کَلر چارج سے ہم یہ طے کر سکتے ہیں کہ متعلقہ پارٹیکلز برقی‬
‫مقناطیسی فورس یا سٹرانگ فورس کے ذریعے تعامل کریں گے یا نہیں۔ اسی‬
‫طرح اگر کوئی پارٹیکل ' ِویک آئسو اسپن' رکھتا ہے تو وہ ِویک نیوکلئیر‬
‫فورس کے ذریعے تعامل کر سکتا ہے اور جیسا اوپر ذکر کیا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل‬
‫میں موجود تمام فرمیونز ' ِویک آئسو اسپن' رکھتے ہیں۔ یوں یہاں سے طے ہو‬
‫گیا کہ الیکٹران‪ ،‬میوآن اور ٹاؤ یہ تینوں لیپٹانز گریویٹی‪ ،‬الیکٹرومیگنیٹک‬
‫انٹریکشن اور ِویک انٹریکشن میں حصہ لے سکتے ہیں جبکہ نیوٹرینو صرف‬
‫گریویٹی اور ِویک انٹریکشن میں ہی حصہ لینے کے قابل ہیں۔‬

‫لیپٹانز کی دریافت کی تاریخ پر نظر دوڑائیں تو تقریبا ً سو سال کے بیچوں بیچ‬


‫موجودہ اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود تمام لیپٹانز دریافت ہو گئے۔ اس کی‬
‫شروعات الیکٹران سے ہوئی جسے جے جے تھامسن نے ‪ 1897‬میں اپنے‬
‫مشہور کیتھوڈ رے کے تجربات کے ذریعے دریافت کیا۔ الیکٹران کی دریافت پر‬
‫‪19‬‬

‫میٹرک کے لی ول پر ہی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے لہذا اس آرٹیکل میں تفصیل‬


‫شاید ضروری نہیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ایٹم کی ساخت کے متعلق کوئی واضح‬
‫تصور موجود نہیں تھا۔ لیکن اُس دور میں ایٹم کے ایک اہم حصے 'الیکٹران'‬
‫کی دریافت ایک بہت ہی شاندار آغاز تھا جس نے آگے انسانیت کے لئے ایٹم‬
‫کی دنیا کے دروازے کھول دینے تھے۔ سو ُمختصراً یہ کہ لیپٹان فیملی میں‬
‫سے سب سے پہلے ہم پر خود کو ظاہر کرنے واال پارٹیکل 'الیکٹران' تھا۔‬

‫یہ ‪ 1935‬کا سال ہے۔ برطانوی فزسسٹ جیمز چیڈوک کو نیوٹران کو دریافت‬
‫کئے تقریبا ً تین سال ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے الیکٹران اور پروٹان بھی‬
‫دریافت ہو چکے۔ ایک جاپانی فزسسٹ ہائیڈیکی یوکاوا نیوکلئیس کے اندر‬
‫موجود نیوٹران اور پروٹان کے درمیان سٹرانگ فورس کے طریقہ کار کو‬
‫سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یوکاوا نے اپنا نظریہ یہ‬
‫دیا کہ نیوٹران اور پروٹان آپس میں ایک پارٹیکل کا مسلسل تبادلہ کرتے ہیں‬
‫جس سے ان کے درمیان سٹرانگ نیوکلئیر فورس پیدا ہوتی ہے۔ اس پارٹیکل‬
‫کو انہوں نے 'میزون' کا نام دیا۔ انہوں نے پیشین گوئی کی کہ اس نظریاتی‬
‫پارٹیکل کی کمیت تقریبا ً ‪ 100‬میگا الیکٹران وولٹ ہونی چاہئے۔ ہائیڈیکی‬
‫یوکاوا کے اس نظریہ کو نیوکلئیر فزکس میں 'میزون تھیوری آف نیوکلئیر‬
‫فورسز' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک سال بعد ‪ 1936‬میں امریکہ میں دو‬
‫فزسسٹس نے کاسمک شعاعوں کے مطالعے کے دوران ایک پارٹیکل ڈھونڈ‬
‫نکاال جس کی کمیت تقریبا ً ‪ 106‬میگا الیکٹران وولٹ تھی۔ اسے فوراً سے وہی‬
‫پارٹیکل مان لیا گیا جس کی پ یشین گوئی پچھلے سال ہائیڈیکی یوکاوا نے کی‬
‫)‪mu-meson‬تھی۔ اس نئے دریافت ہونے والے پارٹیکل کا نام میو میزون (‬
‫رکھا گیا لیکن بہت جلد ہی یہ جان لیا گیا کہ یہ نیا دریافت ہونے واال پارٹیکل‬
‫ہائیڈیکی یوکاوا کا میزون نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ سٹرانگ انٹریکشن میں‬
‫حصہ نہیں ڈالتا تھا اور اس کا مجموعی رویہ بلکل الیکٹران کی طرح کا ہی تھا‬
‫لیکن کمیت الیکٹران کی نسبت دو سو ُگنا زیادہ تھی۔ ہائیڈیکی یوکاوا کا اصل‬
‫گیارہ سال بعد ‪ 1947‬میں دریافت ہو گیا اور ‪pion) 1936‬پارٹیکل پائیون (‬
‫‪20‬‬

‫میں دریافت ہونے والے پارٹیکل 'میو میزون' کو الیکٹران سے کثیر مشابہت‬
‫کی بنا پر ایک لیپٹان مان لیا گیا اور اس کا نام 'میوآن' رکھا گیا۔ لیپٹانز کی‬
‫تاریخ میں باقاعدہ دریافت ہونے واال یہ دوسرا لیپٹان تھا۔‬

‫اب ایک بار واپس ‪ 1930‬میں چلتے ہیں۔ الیکٹران کی دریافت کے تقریبا ً ‪33‬‬
‫کے عمل پر طبیعات دان سر جوڑ کر )‪beta decay‬سال بعد بیٹا ڈیکے (‬
‫بیٹھے ہیں۔ بیٹا ڈیکے کے عمل میں انرجی اور مومینٹم کنزرو نہیں رہ رہے۔‬
‫اس کی وضاحت کرتے ہوئے آسٹریا سے تعلق رکھنے والے فزسسٹ وولف‬
‫گینگ پالی نے اس عمل کے دوران توانائی اور مومینٹم کی کنزرویشن نہ‬
‫ہوتے دیکھ کر یہ خیال پیش کیا کہ ہمارا مسئلہ ایک طرح سے حل ہو سکتا‬
‫ہے اگر ہم کوئی ایک اور پارٹیکل فرض کر لیں جو اس عمل کے دوران خارج‬
‫ہو رہا ہے لیکن ابھی تک اس کا مشاہدہ نہیں ہو سکا۔ یہ وولف گینگ پالی وہی‬
‫ہیں جن کا دیا گیا 'پالی ایکسکلوژن پرنسپل' آج فزکس اور کیمسٹری کا ایک اہم‬
‫اور بنیادی اصول ہے۔ ان کا فرض کیا گیا پارٹیکل ان کے نظریے کے ‪ 26‬سال‬
‫بعد ‪ 1956‬میں امریکی طبیعات دانوں کی ٹیم نے ڈھونڈ نکاال جسے باقاعدہ‬
‫'نیوٹرینو' کا نام دے دیا گیا۔ یہ دریافت ہونے واال پارٹیکل 'الیکٹران نیوٹرینو'‬
‫تھا اور بلکل وہی خصوصیات رکھتا تھا جس کی پیشین گوئی وولف گینگ پالی‬
‫نے کی تھی۔ نیوٹرینو کی یہ دریافت فزکس کی تاریخ کا بڑا خوبصورت باب ہے‬
‫جسے ایک الگ آرٹیکل میں تفصیل سے بیان کروں گا۔ خیر مختصر یہ کہ‬
‫لیپٹانز کی تاریخ میں الیکٹران اور میوآن کے بعد باقاعدہ دریافت ہونے واال یہ‬
‫تیسرا لیپٹان تھا۔‬

‫الیکٹران نیوٹرینو کی ‪ 1956‬میں دریافت کے بعد بہت سے ڈیکے عوامل‬


‫میں نتائج کچھ اس طرح کے آ رہے تھے جس سے )‪(decay processes‬‬
‫بظاہر یہ لگ رہا تھا کہ نیوٹرینو صرف ایک طرح کے نہیں ہیں۔ مثال کے طور‬
‫پر ‪ 1947‬میں دریافت ہونے والے پارٹیکل 'پائیون' کے ڈیکے کا جب مطالعہ‬
‫‪21‬‬

‫اور ساتھ ایک نیوٹرینو )‪μ‬کا ڈیکے ایک میوآن ( )‪π‬کیا گیا تو یہاں پائیون (‬
‫میں ہو رہا تھا۔ اس ڈیکے کو ہم یوں لکھ لیتے ہیں‪(υ) :‬‬

‫‪Π→μ+υ‬‬

‫لیکن یہاں میوآن کے ساتھ خارج ہونے واال نیوٹرینو بیٹا ڈیکے میں الیکٹران‬
‫کے ساتھ خارج ہونے والے نیوٹرینو سے قدرے مختلف تھا جو یہ ظاہر کر رہا‬
‫تھا کہ ک سی ڈیکے پراسیس میں خارج ہونے والے لیپٹان کے ساتھ اسی سے‬
‫ُمنسلک ہی ایک نیوٹرینو خارج ہوتا ہے۔ یعنی بیٹا ڈیکے میں الیکٹران کے‬
‫ساتھ 'الیکٹران نیوٹرینو' خارج ہو گا اور پائیون ڈیکے میں میوآن کے ساتھ‬
‫خارج ہونے واال نیوٹرینو 'میوآن نیوٹرینو' ہو گا۔ ‪ 1962‬میں اس میوآن‬
‫نیوٹرینو کو تین امریکی فزسسٹس نے ایک پارٹیکل ایکسلریٹر میں دریافت کیا‬
‫جس بنا پر انہیں ‪ 1988‬کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔ لیپٹانز کی تاریخ‬
‫میں دریافت ہونے واال یہ چوتھا لیپٹان تھا۔‬

‫وقت میں تھوڑا آگے سفر کرتے ہیں۔ یہ ‪ 1960‬کی دہائی ہے۔ ایک امریکی‬
‫فزسس ٹ مارٹن لیوس پرل ابھی نئے نئے سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سینٹر‬
‫میں آئے تھے۔ ان کی تحقیق کا مرکز الیکٹران اور میوآن کے مختلف )‪(SLAC‬‬
‫تعامالت کا مطالعہ تھا۔ ان کی تحقیق میں میوآن کے مختلف ڈیکے پراسیس‬
‫بھی شامل تھے۔ ستر کی دہائی کے آغاز میں تائیوان میں پیدا ہونے والے اور‬
‫سو سائی نے ایک ریسرچ پیپر‬ ‫امریکی شہریت رکھنے والے فزسسٹ ینگ‪ُ -‬‬
‫شائع کیا جس میں انہوں نے الیکٹران اور میوآن کے عالوہ ایک تیسرے‬
‫بھاری لیپٹان کی پیشین گوئی کی۔ مارٹن لیوس پرل نے اپنی تحقیق میں اس‬
‫میں ہی تجربات شروع کر دئیے گئے۔ ‪SLAC‬پارٹیکل کو بھی شامل کر لیا اور‬
‫یہاں جس پارٹیکل کوالئیڈر کو استعمال کیا گیا اسے سٹینفورڈ پوزیٹران‬
‫‪22‬‬

‫کے نام سے تاریخ میں جانا جاتا ہے اور )‪SPEAR‬الیکٹران اےسمٹرک رنگز (‬
‫جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہاں الیکٹران اور اس کے اینٹی پارٹیکل‬
‫پوزیٹران کو نہایت زیادہ توانائی کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرایا جاتا تھا‬
‫اور اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نئے پارٹیکلز کا مطالعہ کیا جاتا‬
‫تھا۔ ‪ 1974‬سے لے کر ‪ 1977‬تک تین سال یہاں الیکٹران اور پوزیٹران کو‬
‫ٹکرا کر تجربات و مشاہدات کئے گئے اور بالآخر ایک لیپٹان دریافت کر لیا گیا‬
‫جو کہ الیکٹران سے تقریبا ً ‪ُ 3500‬گنا زیادہ کمیت رکھتا تھا۔ اس نئے دریافت‬
‫شُدہ لیپٹان کو 'ٹاؤ لیپٹان' کا نام دیا گیا۔ گو کہ اس وقت ہونے والے تجربات‬
‫میں اس کا برا ِہ راست مشاہدہ نہیں ہو سکا کیونکہ ٹاؤ لیپٹانز بہت قلیل وقت‬
‫کے لئے موجود رہتے ہیں ان کی زندگی محض ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ‬
‫ہوتی ہے اور یہ فوراً دوسرے پارٹیکلز میں ڈیکے کر جاتے ہیں۔ مارٹن لیوس‬
‫پرل اور ان کی ٹیم نے تجربات سے جو ڈیٹا اکٹھا کیا تھا اس کے مطابق‬
‫الیکٹران اور پوزیٹران کے ٹکراؤ کے نتیجے میں الیکٹران اور میوآن کے‬
‫ساتھ دو نئے پارٹیکلز بھی پیدا ہو رہے تھے۔ یہ دو اضافی پارٹیکلز برا ِہ‬
‫راست مشاہدے میں تو نہیں آ رہے تھے لیکن انرجی اور مومینٹم کی‬
‫کنزرویشن کو دیکھتے ہوئے یہ تو بہرحال طے تھا کہ یہاں الیکٹران اور‬
‫میوآن کے جوڑے کے ساتھ دو مزید پارٹیکلز ضرور بن رہے ہیں۔ یعنی شروع‬
‫میں اس مکمل عمل کو یوں بیان کیا گیا تھا‪:‬‬

‫‪E⁻ + e⁺ → e⁻ + μ⁻ + X + Y‬‬

‫سے مراد وہ دو پارٹیکلز ہیں جو برا ِہ راست مشاہدے میں نہیں ‪Y‬اور ‪X‬یہاں‬
‫آ رہے تھے۔ اس کی وضاحت یوں کی گئی کہ الیکٹران اور پوزیٹران برا ِہ‬
‫راست الیکٹران اور میوآن کا جوڑا نہیں بناتے بلکہ الیکٹران اور پوزیٹران کا‬
‫جوڑا شدید توانائی سے ٹکرا کر ٹاؤ اور اینٹی ٹاؤ کے جوڑے میں بدلتا ہے جو‬
‫فوراً آگے الیکٹران اور میوآن میں ڈیکے کر جاتا ہے۔ اور ساتھ نیوٹرینو خارج‬
‫ہوتے ہیں۔ یعنی اس مکمل عمل کی درست مساوات کچھ یوں بنتی تھی‪:‬‬
‫‪23‬‬

‫‪E⁻ + e⁺ → τ⁻ + τ⁺ → e⁻ + μ⁻ + 4υ‬‬

‫ٹاؤ لیپٹان کی دریافت پر مارٹن لیوس پرل کو ‪ 1995‬کے نوبیل انعام سے نوازا‬
‫گیا۔ لیپٹانز کی تاریخ میں دریافت ہونے واال یہ پانچواں لیپٹان تھا۔‬

‫ستر کی دہائی میں ٹاؤ لیپٹان کی دریافت کے ساتھ ہی نظریاتی طور پر ٹاؤ‬
‫نیوٹرینو کی موجودگ ی کو بھی مان لیا گیا تھا۔ ٹاؤ لیپٹان کے ڈیکے کے دوران‬
‫بلکل اسی طرح انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن میں مسائل آ رہے تھے جو‬
‫ت حال ‪ 1930‬میں بیٹا ڈیکے کے عمل کے دوران تھی۔ اس لئے یہاں بھی‬ ‫صور ِ‬
‫نظریاتی طور پر یہ تسلیم کر لیا گیا کہ یقینا ً ٹاؤ لیپٹان کے ڈیکے میں بھی ایک‬
‫نیوٹرینو خارج ہو رہا ہے جو ٹاؤ نیوٹرینو ہے۔ لیکن ٹاؤ نیوٹرینو کا برا ِہ‬
‫راست مشاہدہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ ‪ 1990‬میں امریکہ میں فرمی لیب نے اپنے‬
‫پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ٹاؤ نیوٹرینو کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا‬
‫میں ‪Tevatron) 1995‬جب فرمی لیب کے ایک پارٹیکل ایکسلریٹر ٹیواٹران (‬
‫بھی دریافت ہوا اور مزید پانچ سال کی محنت )‪top quark‬میں ٹاپ کوارک (‬
‫اور ُجستجو کے بعد بالآخر سنہ ‪ 2000‬میں ٹاؤ نیوٹرینو کے مشاہداتی ثبوت‬
‫میسر آنے کا فرمی لیب کی طرف سے باقاعدہ اعالن کر دیا گیا ۔ یوں ہمیں‬
‫اسٹینڈرڈ ماڈل میں لیپٹان فیملی کا آخری سپُوت بھی مل گیا جس سے اسٹینڈڑد‬
‫مکمل ہو گئیں۔ )‪generations‬ماڈل میں لیپٹانز کی تین نسلیں (‬

‫کچھ طبیعات دان آج بھی یہ مانتے ہیں کہ لیپٹانز کی مزید اگلی نسلیں دریافت‬
‫ہونے کے انتظار میں ہیں۔ اگر مزید لیپٹانز دریافت ہوئے تو ہم اسٹینڈرڈ ماڈل‬
‫سے آگے بڑھ سکیں گے۔ نظریاتی طور پر مزید لیپٹانز موجود ہو سکتے ہیں‬
‫لیکن تجرباتی مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ کم از کم ہماری کائنات میں مزید لیپٹانز‬
‫‪24‬‬

‫کا ہونا ممکن نہیں۔ پھر بھی شاید ُمستقبل میں کوئی پارٹیکل ایکسلریٹر کسی‬
‫نئے لیپٹان کو دریافت کر کے ہم پر حیرت کا پہاڑ توڑ دے تب تک کے لئے‬
‫ہمارے پاس فی الحال لیپٹانز کی یہی تین جنریشنز ہیں۔ نہ تین سے زیادہ اور‬
‫نہ تین سے کم۔‬
‫‪25‬‬

‫کیا ہوتی )‪Quark Confinement‬کوارک کنفائنمنٹ (‬


‫ہے؟‬

‫اس آرٹیکل میں ہم پارٹیکل فزکس کے ایک دلچسب مظہر "کوارک کنفائنمنٹ"‬
‫)‪free quarks‬پر بات کریں گے‪ ،‬یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا آزاد کوارکس (‬
‫ہمیں مل سکتے ہیں؟ اور سٹرانگ نیوکلئیر فورس کیسے دیگر فورسز کی‬
‫نسبت ایک ُمنفرد رویہ رکھتی ہے۔‬

‫پچھلے ایک آرٹیکل میں کوارکس کے کلر چارج کے متعلق بات ہوئی تھی کہ‬
‫کیسے کچھ ہیڈرونز پر پالی ایکسکلوژن پرنسپل کے اطالق کے دوران کچھ‬
‫مسائل سامنے آئے جن کو حل کرتے ہوئے کوارکس کی اس کلر پراپرٹی کی‬
‫حقیقت ہم پر آشکار ہوئی۔ کوارکس کا کلر چارج بلکل ایسے ہی ہے جیسے کئی‬
‫پارٹیکلز مثالً الیکٹران وغیرہ پر برقی چارج ہوتا ہے۔ اور اس برقی چارج کی‬
‫وجہ سے یہ پارٹیکلز آپس میں الیکٹرومیگنیٹک فورس کے ذریعے تعامل‬
‫کرتے ہیں۔ گو کہ کوارکس بھی برقی چارج رکھتے ہیں اور الیکٹرومیگنیٹک‬
‫فورس کے ذریعے بھی تعامل کر سکتے ہیں لیکن کوارکس پر ایک اور طرح‬
‫کا چارج بھی موجود ہوتا ہے جو انکی اس کلر پراپرٹی کی وجہ سے ہوتا ہے‬
‫کہتے ہیں اور اس کَلر چارج کی وجہ )‪color charge‬جسے ہم کَلر چارج (‬
‫سے بھی کوارکس ایک دوسرے سے تعامل کرتے ہیں اور اس تعامل کو ہم‬
‫سٹرانگ نیوکلئیر انٹریکشن یا سٹرانگ نیوکلئیر فورس سے تعبیر کرتے ہیں۔‬
‫‪26‬‬

‫ہم نے کوارکس کے کلر چارج والے آرٹیکل کے آخر میں ایک بات دیکھی تھی‬
‫کہ فرض کریں اگر ہم الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کو دیکھیں تو یہاں اگر ہم‬
‫ایک جیسا برقی چارج رکھنے والے دو پارٹیکلز مثالً دو الیکٹرانز کو ایک‬
‫دوسرے کے قریب الئیں تو دونوں ایک دوسرے کو دُور دھکیلتے ہیں۔ کوانٹم‬
‫اس مظہر کو دو پارٹیکلز کے درمیان ایک ورچوئل )‪QED‬الیکٹروڈائنامکس (‬
‫فوٹان کے ایکسچینج سے واضح کرتی ہے۔ یعنی دونوں پارٹیکلز کے درمیان‬
‫فوٹان کے تبادلے سے مومینٹم کی ُمنتقلی ہوتی ہے اور اس مومینٹم کو کنزرو‬
‫کرنے کے لئے دونوں پارٹیکلز ایک دوسرے سے مخالف اطراف میں ہٹ‬
‫جاتے ہیں۔ اب دو کوارکس کے درمیان جب سٹرانگ انٹریکشن ہوتا ہے تو‬
‫اسے بھی یونہی بیان کرتی ہے لیکن اس )‪QCD‬کوانٹم کرومو ڈائنامکس (‬
‫دفعہ کوارکس کے بیچ ایکسچینج ہونے واال پارٹیکل فوٹان نہیں بلکہ گلوآن‬
‫ہوتا ہے جو سٹرانگ نیوکلئیر فورس کا فورس کیرئیر ہے۔ ان دو طرح کے‬
‫میں کچھ فرق ہے اور یہ فرق ان دونوں انٹریکشنز )‪interactions‬تعامالت (‬
‫میں ایکسچینج ہونے والے بوزون پارٹیکلز کی بنیادی خصوصیات مختلف‬
‫ہونے کی وجہ سے ہے۔ الیکٹرومیگنیٹک فورس کا فورس کیرئیر فوٹان برقی‬
‫چارج نہیں رکھتا جبکہ سٹرانگ نیوکلئیر فورس کا فورس کیرئیر گلوآن خود‬
‫سے بھی کَلر چارج رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کے‬
‫دوران فوٹان ایکسچینج ہوتے ہوئے پارٹیکلز کا برقی چارج نہیں بدلتا صرف‬
‫مومینٹ م ہی منتقل ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس سٹرانگ نیوکلئیر انٹریکشن‬
‫کے دوران گلوآن چونکہ خود سے بھی کلر چارج رکھتا ہے لہذا یہ ایکسچینج‬
‫ہوتے وقت کوارکس کا کلر بھی بدل دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گلوآن کی یہ‬
‫خصوصیت ہی ہمیں پارٹیکل فزکس کے اس دلچسب مظہر سے متعارف کرواتی‬
‫ہے جسے ہم "کوارک کنفائنمنٹ" کہتے ہیں جو اس پوسٹ کا اصل موضوع‬
‫ہے۔‬

‫پارٹیکل فزکس میں ہم بے شمار پارٹیکلز کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جن میں مشہور‬
‫پارٹیکلز الیکٹران‪ ،‬نیوٹران‪ ،‬پروٹان اور کئی طرح کے میزون پارٹیکلز شامل‬
‫ہیں۔ ان پارٹیکلز کو ہم انفرادی سطح پر مطالعہ کے لئے بھی استعمال کر‬
‫‪27‬‬

‫سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر الیکٹران اگر کسی ایٹم کے اندر موجود ہو یا ایک‬
‫آزاد الیکٹران ہو‪ ،‬ہمیں دونوں حالتوں میں یہ مل سکتا ہے۔ لیکن کوارکس کو‬
‫ہم آج تک آزاد حالت میں حاصل نہیں کر سکے یہ ہمیشہ ہمیں گروپس کی‬
‫شکل میں ملتے ہیں۔ تین کوارکس اگر گروپ کی شکل میں موجود ہیں تو یہ‬
‫بنائیں گے اور اگر دو کوارکس (کوارک اور اینٹی کوارک) )‪baryon‬بیریون (‬
‫بن جائے گا۔ کوارکس کے اس )‪meson‬گروپ بنا لیں تو یہ میزون پارٹیکل (‬
‫کہتے ہیں اس پر )‪hadrons‬طرح بنائے جانے والے گروپس کو ہم ہیڈرونز (‬
‫بھی ایک آرٹیکل میں بات ہو چکی ہے۔ جس کا لنک نیچے دوں گا۔‬

‫کوارکس کو کسی ہیڈرون سے الگ کرنے کی آج تک جتنی بھی کوششیں ہوئی‬


‫ہیں وہ ساری ناکام ہی رہی ہیں۔ بظاہر دیکھنے میں یہ بڑا آسان لگتا ہے۔ آج‬
‫‪particle‬ہمارے پاس ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بہترین پارٹیکل ایکسلریٹرز (‬
‫موجود ہیں جہاں بہت زیادہ توانائی کے ساتھ پارٹیکلز کو )‪accelerators‬‬
‫ایک دوسرے سے ٹکرا کر ان سے الگ ہونے والے مزید چھوٹے پارٹیکلز کا‬
‫‪higgs‬مطالعہ کیا جاتا ہے۔ ان پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ہی ہم نے ہگز بوزون (‬
‫کو دریافت کیا جس نے ہمارے پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل کو )‪boson‬‬
‫مزی د خوبصورت کر دیا۔ لیکن اس تمام جدیدیت کے باوجود بھی ہم آج تک کسی‬
‫پروٹان یا نیوٹران سے کسی کوارک کو الگ کر کے اپنے مطالعے میں نہیں ال‬
‫سکے۔‬

‫ایسا کیوں ہے؟ اس کے پیچھے فطرت کا جو راز اب تک ہم سمجھ پائے ہیں‬


‫وہ یہی ہے کہ کوارکس کا کلر چارج کسی بھی ہیڈرون (پروٹان یا نیوٹران) میں‬
‫موجود کوارکس کو اس قدر مضبوطی سے باندھے ہوتا ہے کہ ہم نے جتنی‬
‫بھی کوششیں آج تک کسی ایک کوارک کو دیگر کوارکس سے الگ کرنے کی‬
‫کی ہیں تو نتیجے کے طور پر ہمیں ایک الگ کوارک ملنے کی بجائے کوارکس‬
‫کے مزید جوڑے مل جاتے ہیں۔ یہ بڑا دلچسب مظہر ہے۔ ایسا کیسے ہوتا ہے؟‬
‫اس مظہر کی ہم تھوڑی وضاحت کر لیتے ہیں۔‬
‫‪28‬‬

‫فرض کریں ہمارے پاس ایک نیوٹران ہے جو ایک اَپ کوارک اور دو ڈاؤن‬
‫کوارکس پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس نیوٹران میں سے ہم ایک کوارک کو باہر‬
‫نکالنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کے لئے باہر سے بہت زیادہ توانائی دینا پڑے گی۔‬
‫ایک طریقہ یہ ہے کہ ہائی انرجی فوٹانز کو اس نیوٹران پر مسلسل پھینکا‬
‫جائے یا کسی ہائی انرجی پارٹیکل کو اس سے ٹکرایا جائے تاکہ نیوٹران کی‬
‫ٹوٹ جائے اور ہمیں اس میں موجود کوارکس الگ الگ مل ‪configuration‬‬
‫جائیں۔ لیکن ایک بات ہمیں یہاں ذہن میں رکھنی ہو گی کہ نیوٹران کے اندر‬
‫کوارکس کے درمیان جس فورس نے انہیں مضبوطی سے آپس میں جوڑ رکھا‬
‫ہے یہ کوئی معمولی فورس نہیں ہے۔ یہ کائنات کی سب مضبوط فورس ہے‬
‫جسے ہم سٹرانگ نیوکلئیر فورس کہتے ہیں لہذا ہمیں اتنی بیرونی توانائی یہاں‬
‫دینی پڑے گی جو اس فورس پر غالب آ جائے اور ہم نیوٹران کے اندر موجود‬
‫کوارکس کو الگ کر پائیں۔‬

‫اب ہوتا یہ ہے کہ جیسے جیسے ہم بیرونی توانائی کو بڑھاتے رہتے ہیں ایک‬
‫وقت ایسا آ جاتا ہے کہ کوارک تو الگ نہیں ہو پاتا لیکن ہماری مہیا کردہ‬
‫توانائی دو مزید کوارکس کا ماس بنانے میں استعمال ہو جاتی ہے اور کوارک‬
‫کو الگ کرنے کی بجائے یہاں ہمیں ایک کوارک اور ایک اینٹی کوارک کا جوڑا‬
‫مل جاتا ہے۔ اور یہ کام آئن شٹائن کے‬

‫‪Mass-Energy Equivalence Principle‬‬

‫کے تحت ہوتا ہے۔ یعنی جو انرجی ہم نے کوارک کو الگ کرنے کے لئے‬
‫استعمال کی وہ‬
‫‪29‬‬

‫‪E=mc²‬‬

‫کے تحت ماس میں بدل گئی اور یہ ماس دو نئے بننے والے کوارکس کا ہے۔‬

‫جیسا کہ ہم نے اوپر نیوٹران کی مثال لی جو ایک اَپ کوارک اور دو ڈاؤن‬


‫کوارکس پر مشتمل تھا اور ہماری مہیا کردہ توانائی نے‬
‫‪E=mc²‬‬
‫کا جوڑا بنا دیا۔ اب )‪ū‬اور اینٹی اَپ کوارک ( )‪u‬کے ذریعے ایک اَپ کوارک (‬
‫‪configuration‬یہ کوارکس آپس میں جگہ بھی بدل لیں گے۔ یعنی نیوٹران کی‬
‫پہلے کچھ یوں تھی‪:‬‬

‫‪Neutron: u+d+d‬‬

‫اور ایک اینٹی )‪u‬لیکن توانائی کے ایکسچینج کے بعد ہمیں ایک اَپ کوارک (‬
‫کا جوڑا مل گیا۔ تو ٹوٹل کوارکس ہمارے پاس پانچ ہو گئے۔ )‪ū‬اَپ کوارک (‬
‫یعنی تین کوارکس تو نیوٹران کے پہلے سے موجود تھے اور دو مزید‬
‫کوارکس اس انرجی سے مل گئے۔ نئے بننے والے دو کوارکس میں سے ایک‬
‫اَپ کوارک نیوٹران کے ایک اَپ کوارک اور ایک ڈاؤن کوارک سے مل جائے‬
‫گا تو یہاں دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک پر مشتمل ہیڈرون بن جائے‬
‫گا۔ یہ کونسا ہیڈرون ہے؟ یہ پروٹان ہی تو ہے۔‬
‫اب نیوٹران سے ایک ڈاؤن کوارک بچ گیا تھا اور نئے بننے والے دو کوارکس‬
‫میں سے ایک اینٹی اَپ کوارک بچ گیا تھا۔ یہ دونوں مل کر بھی ایک ہیڈرون‬
‫بنا ڈالیں گے۔ ایک ڈاؤن کوارک اور ایک اینٹی اَپ کوارک پر مشتمل ہیڈرون‬
‫ہے یا اسے پائیون )‪pi-meson‬پارٹیکل کونسا ہوتا ہے؟ یہ پائی میزون (‬
‫‪30‬‬

‫بھی کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں پچھلے آرٹیکل میں ہم نے سمجھا )‪(pion‬‬
‫تھا۔ اس سارے عمل کو ساتھ لگی تصویر میں بھی واضح کیا گیا ہے۔‬

‫سو ُمختصر یہ کہ انرجی کے ایکسچینج سے پہلے ہمارے پاس صرف ایک‬


‫نیوٹران تھا اور جب ہم نے اُس نیوٹران میں سے ایک کوارک الگ کرنا چاہا‬
‫اور باہر سے بہت زیادہ توانائی مہیا کی تو یہ توانائی ماس میں بدل گئی۔‬
‫کوارک تو الگ نہ ہو سکا لیکن ہمارا نیوٹران بدل کر پروٹان بن گیا اور ساتھ‬
‫ہمیں ایک پائی میزون مل گیا۔ کوارک کی ہمیشہ گروپس کی شکل میں رہنے‬
‫والی ضد اپنی جگہ قائم رہی اور ہم فری کوارک حاصل کرنے میں ناکام رہے۔‬
‫جب بھی ہم کوارک کو الگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو آخر میں مزید‬
‫کوارکس حاصل کر لیتے ہیں۔ پارٹیکل فزکس میں کوارکس کے اس رویے اور‬
‫خصوصیت کو "کوارک کنفائنمنٹ" کہا جاتا ہے جو ہماری ایک طرح کی‬
‫کوارکس کو تنہا کرنے کی عدم اہلیت ہے۔‬

‫اب اس موضوع کو آخر میں سمیٹیں تو چند اہم باتیں جو ہم نے کیں وہ یہ ہیں‬
‫کہ کوارکس دیگر پارٹیکلز کی طرح ہمیں آزاد حالت میں نہیں ملتے جس کی‬
‫ب نیادی وجہ کوارکس کے کلر چارج کی وجہ سے پیدا ہونے والی وہ مضبوط‬
‫فورس ہے جس نے انہیں کسی ہیڈرون پارٹیکل کے اندر نہایت مضبوطی سے‬
‫جوڑ کر رکھا ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ کسی ہیڈرون پارٹیکل میں‬
‫موجود کوارکس کو اگر ہم توانائی دیں تو یہ اس ہیڈرون سے آزاد ہو سکتے‬
‫ہیں لیکن کوانٹم کروموڈائنامکس اسے اتنا آسان نہیں بتاتی۔ پروٹان یا نیوٹران‬
‫کو توڑ کر کوارکس کو الگ کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں مزید پروٹان‪،‬‬
‫نیوٹران یا دیگر میزون پارٹیکلز ہی ملتے ہیں۔‬

‫یہاں سٹرانگ نیوکلئیر فورس کا دیگر فورسز کی نسبت ایک منفرد رویہ بھی‬
‫د لچسبی سے خالی نہیں۔ الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کے دوران یہ ہوتا ہے کہ‬
‫‪31‬‬

‫جیسے جیسے دو چارجڈ پارٹیکلز مثالً دو الیکٹرانز ایک دوسرے سے دُور‬


‫جاتے ہیں ان کے درمیان برقی مقناطیسی فورس کمزور پڑتی جاتی ہے لیکن‬
‫سٹرانگ نیوکلئیر فورس کے ساتھ معاملہ کچھ الگ سا ہے۔ یہاں کوارکس کو‬
‫ایک دوسرے سے دُور کریں گے تو ان کے درمیان سٹرانگ فورس مزید‬
‫مضبوط ہوتی جاتی ہے جبکہ کوارکس کے ایک دوسرے کے قریب جانے سے‬
‫یہ فورس کم ہوتی جاتی ہے۔ وجہ یہی ہے کہ گلوآنز خود سے کلر چارج‬
‫رکھتے ہیں اور ان گلوآنز پر کلر چارج کے ‪ 9‬ممکنہ کمبینیشنز ہو سکتے ہیں‬
‫جو انہی تین بنیادی کلرز ریڈ‪ ،‬بلیو اور گرین سے بنتے ہیں (اسے فائنمین‬
‫ڈائیگرامز کے ذریعے بڑا تفصیالً بیان کیا جا سکتا ہے لیکن آرٹیکل بہت طویل‬
‫ہو جائے گا)۔ ایک طریقہ اسے سمجھنے کا یہ بھی ہے کہ جب ایک کوارک‬
‫دوسرے کوارک سے دُور ہوتا ہے تو گلوآنز زیادہ تعداد میں ظاہر ہوتے ہیں‬
‫اور ان کا تبادلہ زیادہ ہوتا ہے جس سے کوارکس کے درمیان فورس بڑھتی‬
‫ہے اس کے برعکس جب کوارکس ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہیں تو باہم‬
‫ایکسچینج ہونے والے گلوآنز کم تعداد میں ظاہر ہوتے ہیں جس سے ان کے‬
‫درمیان فورس میں بھی کمی آ جاتی ہے۔ لہذا جیسے ہی ہم کسی ایک کوارک‬
‫کو دوسرے کوارک سے دُور کرتے ہیں تو ان کے درمیان اس بڑھتی ہوئی‬
‫فورس پر غالب آنے کے لئے ہمیں مزید زیادہ توانائی خرچ کرنا پڑتی ہے جو‬
‫کے لئے ضروری مطلوبہ توانائی )‪pair production‬بالآخر پئیر پروڈکشن (‬
‫سے زیادہ ہو جاتی ہے اور یہاں کوارک کے الگ ہونے کی بجائے اسی توانائی‬
‫سے مزید کوارکس بن جاتے ہیں۔ کوانٹم کروموڈائنامکس میں کَلر فورس‬
‫(سٹرانگ نیوکلئیر فورس) کا کوارکس کے درمیان یوں فاصلہ بڑھنے سے‬
‫کہالتا ہے اور اس دریافت پر تین ‪asymptotic freedom‬مزید مضبوط ہونا‬
‫فزسسٹس ڈیوڈ گراس‪ ،‬فرینک ِولچیک اور ڈیوڈ پولیٹزر کو ‪ 2004‬کے نوبیل‬
‫انعام سے بھی نوازا گیا۔‬
32
‫‪33‬‬

‫)‪:hadron‬‬

‫ہیڈرون پارٹیکلز کیا ہیں ۔۔‬

‫اس آرٹیکل میں ہم سمجھیں گے کہ ہیڈرون پارٹیکلز کیا ہوتے ہیں اور ان کی‬
‫کتنی اقسام ہیں؟‬

‫اس سے پچھلے آرٹیکل میں جو کہ کوارکس کے کَلر چارج پر تھا‪ ،‬ہم نے‬
‫ہیڈرون پارٹیکلز کا بار بار ذکر کیا۔ ہم نے اُس آرٹیکل میں دیکھا تھا کہ کیسے‬
‫کلر چارج رکھنے والے کوارکس اپنی اس کلر پراپرٹی کی وجہ سے مسلسل‬
‫کرتے ہیں جسے ہم )‪interact‬گلوآنز کا تبادلہ کر کے آپس میں تعامل (‬
‫سٹرانگ نیوکلئیر فورس یا سٹرانگ انٹریکشن کے نام سے جانتے ہیں۔‬
‫پارٹیکل فزکس کی اس سیریز میں یہ ضروری سمجھا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل میں‬
‫موجود پارٹیکلز پر الگ الگ سے ایک تعارفی آرٹیکل موجود ہو۔ ہم اس‬
‫آرٹیکل میں ہیڈرونز کا مختصر جائزہ لیں گے جبکہ اگلے آرٹیکل میں لیپٹانز‬
‫پر گفتگو ہو گی۔‬

‫جیسا کے پچھلے آرٹیکل میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود‬
‫سترہ پارٹیکلز کو ہم دو بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بارہ پارٹیکلز پر‬
‫مشتمل ایک حصے کو ہم "فرمیونز" جبکہ پانچ پارٹیکلز پر مشتمل ایک‬
‫حصے کو ہم "بوزونز" کہتے ہیں۔ فرمیونز میں شامل بارہ پارٹیکلز میں چھ‬
‫طرح کے کوارکس ہیں اور چھ طرح کے ہی لیپٹانز ہیں۔ یہ تمام کے تمام بارہ‬
‫پارٹیکلز بنیادی یعنی ایلیمینٹری پارٹیکلز ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ‬
‫‪34‬‬

‫پارٹیکلز (اب تک کی ہماری سمجھ کے مطابق) مزید کسی پارٹیکل میں تقسیم‬
‫نہیں ہوتے۔ بقیہ پانچ پارٹیکلز جنہیں ہم بوزونز کہتے ہیں یہ مختلف تعامالت‬
‫(انٹریکش نز) کے فورس کیرئیرز کہالتے ہیں جن میں فوٹان‪ ،‬گلوآن‪ ،‬ڈبلیو زی‬
‫بوزون اور ہگز بوزون شامل ہیں۔‬

‫اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود پارٹیکلز کی یہ تقسیم ہم نے پارٹیکلز کی جس کوانٹم‬


‫خ صوصیت کو مدنظر رکھ کر کی ہے اسے "اسپن" کہتے ہیں۔ موٹی سی یاد‬
‫‪half‬رکھنے والی بات یہی ہے کہ فرمیونز کی اسپن ہمیشہ ہاف انٹیجر (‬
‫بھی کہتے )‪fractional spin‬ہوتی ہے جسے ہم فریکشنل اسپن ( )‪integer‬‬
‫ہیں۔ مثال کے طور پر‬

‫‪-3/2, -1/2, +1/2, +3/2‬‬

‫رکھتے ہیں یعنی بوزونز )‪integer spin‬جبکہ بوزونز ہمیشہ انٹیجر اسپن (‬
‫میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور )‪whole number‬کی اسپن ہمیشہ مکمل عدد (‬
‫پر‪:‬‬

‫‪-1, 0, +1‬‬

‫اگر تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو فرمیونز اور بوزونز کی اسپن ان کے اسپن‬
‫کے ذریعے طے ہوتی ہے۔ )‪spin statistics theorem‬اسٹیٹسٹکس تھیورم (‬
‫کوئی پارٹیکل فرمیون ہو گا یا بوزون ہو گا اس بات کا فیصلہ یہ دیکھ کر کیا‬
‫جاتا ہے کہ پارٹیکلز کے ایکسچینج کے دوران ان کا ویو فنکشن سمٹرک رہتا‬
‫ہے یا نہیں۔ یہ شاید تھوڑا زیادہ ٹیکنیکل ہو جائے جو پاپولر سائنس میں بیان‬
‫‪35‬‬

‫نہیں کیا جاتا کیونکہ اس میں ریاضی کا بہت عمل دخل ہو جاتا۔ لیکن جو‬
‫ممبران ویو فنکشن کی سمٹری کے حساب سے فرمیونز اور بوزونز کو‬
‫سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لئے متعلقہ آرٹیکل کا لنک نیچے دے رہا ہوں۔‬
‫فرمیونز اور بوزونز کے متعلق ایک آخری بات کر کے ہم اپنے اصل موضوع‬
‫کی طرف آتے ہیں۔ وہ یہ کہ فرمیونز پر "فرمی ڈیراک اسٹیٹسٹکس" جبکہ‬
‫بوزونز پر "بوز آئنسٹائین اسٹیٹسٹکس" الگو ہوتی ہے۔ فرمیونز پالی‬
‫ایکسکلوژن پرنسپل کی پیروی کرتے ہیں جبکہ بوزونز پر پالی ایکسکلوژن‬
‫پرنسپل الگو نہیں ہوتا۔‬

‫پارٹیکلز کو دو بڑے حصوں میں تقسیم کر )‪sub-atomic‬ہم سب‪-‬اٹامک (‬


‫سکتے ہیں۔ لیکن اس دفعہ یہ تقسیم ہم پارٹیکلز کی اس خصوصیت کو مدِنظر‬
‫رکھتے ہوئے کریں گے کہ کون سے پارٹیکلز سٹرانگ نیوکلئیر فورس میں‬
‫حصہ ڈالتے ہیں یا اسے یوں کہہ لیں کہ کونسے پارٹیکلز سٹرانگ نیوکلئیر‬
‫فورس کے ذریعے تعامل کرتے ہیں اور کون سے نہیں۔ اس بنا پر ہم پارٹیکلز‬
‫کو جن دو حصوں میں تقسیم کرتے ہیں وہ کچھ یوں ہو جائے گا کہ جو‬
‫پارٹیکلز سٹرانگ نیوکلئیر فورس کے ذریعے انٹریکٹ کرتے ہیں انہیں ہم‬
‫"ہیڈرون" کہتے ہیں اور جو سٹرانگ نیوکلئیر فورس کے ذریعے انٹریکٹ‬
‫نہیں کرتے وہ "لیپٹانز" ہیں۔‬

‫کوانٹم کرومو ڈائنامکس سٹرانگ نیوکلئیر فورس یا سٹرانگ انٹریکشن کو‬


‫پارٹیکلز کی کلر پراپرٹی کا نتیجہ بتاتی ہے۔ اب کلر چارج کی خصوصیت‬
‫چونکہ کوارکس میں ہی ہوتی ہے لہذا کوارکس سے ملکر بننے والے پارٹیکلز‬
‫ہی سٹرانگ نیوکلئیر فورس کے ذریعے انٹریکشن کریں گے جو کہ ہیڈرونز ہی‬
‫ہیں۔ لفظ ہیڈرون یونانی اصطالح ہے جس کا مطلب "بھاری" ہوتا ہے۔ کیونکہ‬
‫لیپٹانز کے برعکس ہیڈرونز ایلیمینٹری پارٹیکلز نہیں ہیں یہ مزید ایلیمینٹری‬
‫پارٹیکلز سے ملکر بنتے ہیں جنہیں کوارکس کہا جاتا ہے جبکہ لیپٹانز‬
‫ایلیمنٹری پارٹیکلز ہیں۔ ہیدرون پارٹیکلز کے متعلق یہ اصطالح سب سے پہلے‬
‫‪36‬‬

‫نے ساٹھ کی دہائی میں ہائی انرجی ‪ُ Lev Borisovich Okun‬روسی فزسسٹ‬
‫فزکس پر ہونے والی ایک بین االقوامی کانفرنس میں استعمال کی۔‬

‫اب چونکہ ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ہیڈرون پارٹیکلز کوارکس سے‬
‫ملکر بنتے ہیں لہذا ہیڈرونز کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے انہیں آگے‬
‫مزید د و بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس دفعہ یہ تقسیم کسی‬
‫ہیڈرون پارٹیکل میں کوارکس کی تعداد کو بنیاد بنا کر کی جائے گی۔ کوارکس‬
‫کہالتا ہے جبکہ )‪baryon‬کی طاق تعداد رکھنے واال ہیڈرون پارٹیکل بیریون (‬
‫کہتے )‪meson‬کوارکس کی ُجفت تعداد رکھنے والے ہیڈرون کو ہم میزون (‬
‫ہیں۔ لیکن ہم نے پچھلے کوارکس کے کلر چارج والے آرٹیکل میں دیکھا تھا‬
‫کہ میزون پارٹیکل کے لئے ضروری ہے کہ کوارکس کو کوارک اور اینٹی‬
‫کوارک کے جوڑے کی شکل میں رکھے تاکہ مجموعی طور پارٹیکل کلر لیس‬
‫ہو جائے۔‬

‫بیریون پارٹیکلز اور میزون پارٹیکلز کی کوانٹم خصوصیات مثالً چارج یا اسپن‬
‫وغیرہ دراصل ان کوارکس کی خصوصیات سے ہی طے ہوتی ہیں جن سے‬
‫ملکر یہ پارٹیکلز بنتے ہیں۔ اس کے لئے ایک مثال دیکھتے ہیں۔ ہم نے اوپر‬
‫ذکر کیا کہ بیریون ہمیشہ کوارکس کی طاق تعداد رکھتے ہیں۔ مشہور بیریون‬
‫پارٹیکلز میں پروٹان اور نیوٹران شامل ہیں۔ اگر ہم نیوٹران اور پروٹان کی‬
‫دیکھیں تو دونوں تین تین کوارکس پر مشتمل ہیں۔ پروٹان ‪configuration‬‬
‫میں دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک‪ ،‬جبکہ نیوٹران میں دو ڈاؤن‬
‫کوارکس اور ایک اَپ کوارک ہوتا ہے۔ کوارکس کا چارج ہمیشہ فریکشنل چارج‬
‫ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوارکس کا چارج ہمیشہ ایک ایلیمینٹری‬
‫سے کم ہوتا ہے۔ بلکہ کوارکس واحد ایلیمینٹری پارٹیکلز ہیں جن کا )‪e‬چارج (‬
‫چارج ایلیمینٹری چارج کا انٹیجر ملٹی پل نہیں ہوتا۔ ایلیمنٹری چارج ایک فزیکل‬
‫کانسٹینٹ ہے۔ جس کی قیمت‬
‫‪37‬‬

‫‪1.602×10⁻¹⁹‬‬
‫کولمب ہوتی ہے۔ اس کی میگنیچیوڈ ایک الیکٹران کے چارج کے برابر ہوتی‬
‫ہوتا )‪e-‬جبکہ ڈاؤن کوارک کا چارج (‪e+) 3/1‬ہے۔ اَپ کوارک کا چارج (‪3/2‬‬
‫ہے۔ یہاں سے ہم آسانی سے جان سکتے ہیں کہ پروٹان اور نیوٹران پر چارج‬
‫کیا ہو گا۔ اس کے لئے ہمیں صرف اتنا پتا ہونا چاہئے کہ نیوٹران اور پروٹان‬
‫کون کون سے کوارکس سے ملکر بنتے ہیں۔ اب نیوٹران چونکہ ایک اَپ‬
‫کوارک اور دو ڈاؤن کوارکس سے ملکر بنا ہے لہذا‪:‬‬

‫‪Neutron → u+d+d‬‬
‫‪Neutron → (2/3)e-(1/3)e-(1/3)e‬‬
‫‪Neutron → (0/3e) → 0‬‬

‫یہاں سے ہمیں واضح ہو گیا کہ نیوٹران پر کوئی چارج موجود نہیں ہوتا۔ اسی‬
‫طرح اگر پروٹان کو دیکھیں جو دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک سے‬
‫ملکر بنا ہوتا ہے‪:‬‬

‫‪Proton → u+u+d‬‬
‫‪Proton → (2/3)e+(2/3)e-(1/3)e‬‬
‫‪Proton → (3/3e) → +1e‬‬

‫یہاں سے ہمیں پتا چال کہ پروٹان کا چارج ایک ایلیمینٹری چارج کے برابر ہی‬
‫ہوتا ہے لیکن یہ مثبت چارج ہے۔ ایلیمینٹری چارج کے برابر منفی چارج‬
‫الیکٹران کا ہوتا ہے۔‬
‫‪38‬‬

‫جیسا کہ اوپر ذکر کیا تھا کہ ہیڈرون پارٹیکلز کی خصوصیات ان میں موجود‬
‫کوارکس کی خصوصیات سے ہی طے ہوتی ہیں۔ اگر چارج کے حوالے سے‬
‫بات کریں تو اسی طرح ہم فوراً سے ایک میزون پارٹیکل کا چارج بھی دیکھ‬
‫ہے یہ سب سے زیادہ جانا جانے )‪pion‬لیتے ہیں۔ یہ میزون پارٹیکل پائیون (‬
‫بھی لکھا )‪pi meson‬واال میزون پارٹیکل ہے اسے بعض جگہ پائی میزون (‬
‫سے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ٹوٹل تین طرح کے پارٹیکلز ہیں جو ‪π‬جاتا ہے۔ اسے‬
‫‪ π)،‬چارج کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک پر مثبت چارج (‪⁺‬‬
‫)‪π⁰‬جبکہ تیسرا پارٹیکل برقی طور پر نیوٹرل ( )‪π‬دوسرے پر منفی چارج (‪⁻‬‬
‫ہوتا ہے۔ آپ نے نیوکلئیر فورس کے مطالعہ کے دوران پائیون پارٹیکل کا‬
‫تذکرہ ضرور پڑھا ہو گا۔ نیوکلئیر فورس کا سب سے پہال کامیاب نظریہ ایک‬
‫جاپانی فزسسٹ ہائیڈیکی یوکاوا نے دیا تھا جن کے مطابق نیوکلیونز (نیوٹران‬
‫اور پروٹان) کو نیوکلئیس میں باندھ کر رکھنے والی نیوکلئیر فورس نیوکلیونز‬
‫کے درمیان اسی پائیون پارٹیکل کے مسلسل تبادلے سے پیدا ہوتی ہے۔‬
‫نیوکلئیر فزکس میں اس نظریہ کو "میزون تھیوری آف نیوکلئیر فورس" کے‬
‫نام سے جانا جاتا ہے۔ اس پر بھی اس سیریز میں الگ سے گفتگو ہو گی۔‬

‫جیسا کہ میزون پارٹیکل کے لئے ضروری ہے کہ کوارک اور اینٹی کوارک کے‬
‫ایک اَپ کوارک اور ایک اینٹی )‪π‬جوڑے پر مشتمل ہو لہذا پائیون پلس (‪⁺‬‬
‫ایک ڈاؤن کوارک اور ایک اینٹی اَپ )‪π‬پائیون مائنس (‪uđ)، ⁻‬ڈاؤن کوارک (‬
‫ایک اَپ کوارک اور ایک اینٹی اَپ )‪π⁰‬جبکہ پائیون زیرو ( )‪dū‬کوارک (‬
‫پر مشتمل )‪dđ‬یا ایک ڈاؤن کوارک اور ایک اینٹی ڈاؤن کوارک ( )‪uū‬کوارک (‬
‫ہوتا ہے۔ یہاں سے ہم ان تینوں پائیون پارٹیکلز کا چارج نکال سکتے ہیں۔‬

‫‪Π⁺ → u+đ→ (2/3)e+(1/3)e → +1e‬‬


‫‪39‬‬

‫‪Π⁻ → d+ū→ (-1/3)e+(-2/3)e → -1e‬‬

‫‪Π⁰ → u+ū→ (2/3)e+(-2/3)e → 0‬‬

‫بلکل اسی طرح ہم بیریون اور میزون پارٹیکلز کی ایک کوانٹم خصوصیت‬
‫کہتے ہیں‪ ،‬بھی ان کے ایلیمنٹری پارٹیکلز کوارکس کی )‪spin‬جسے اسپن (‬
‫مدد سے نکال سکتے ہیں۔ کوارک ہاف سپن (‪ )2/1‬رکھنے واال پارٹیکل ہے۔‬
‫کسی پارٹیکل کی اسپن بنیادی طور پر اس کا ایک کوانٹم نمبر ہوتا ہے جو اس‬
‫کے اسپن اینگولر مومینٹم سے ُمنسلک ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی پارٹیکل کی کسی‬
‫بیرونی میگنیٹک فیلڈ کی موجودگی میں اُس کی نسبت اسپن اینگولر مومینٹم‬
‫‪z-‬کی میگنیچیوڈ نکالیں تو ایسی صورت میں ہمیں زیڈ کمپونینٹ (‬
‫دو طرح کا ملتا ہے۔ ایک (‪ )+ℏ/2‬جبکہ دوسرا (‪ )-ℏ/2‬ہوتا )‪component‬‬
‫ہے۔ جہاں‪ ℏ‬سے مراد ریڈیوسڈ پالنک کانسٹینٹ ہے۔ اس موضوع میں کچھ‬
‫ریاضی آ جائے گی جو شاید ذرا ٹیکنیکل ہو جائے لیکن کوشش ہو گی کہ اسپن‬
‫اینگولر مومینٹم پر بھی اس سیریز میں ایک آرٹیکل کی گنجائش بنائی جائے۔‬
‫خیر کسی پارٹیکل کی اسپن بیان کرتے ہوئے اکثر‪ℏ‬کو نظر انداز کر کے لکھا‬
‫جاتا ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوارک کی اسپن یا ½ ہوتی ہے یا ½‪ -‬ہوتی‬
‫ہے۔ یعنی اگر ایک کوارک کی اسپن ½ ہے تو جو کوارک اس کے مخالف اسپن‬
‫کر رہا ہو گا وہ ½‪ -‬ہو گی۔‬

‫اب پہلے ہم بیریون پارٹیکلز کی اسپن کو دیکھتے ہیں۔ بیریون چونکہ تین‬
‫کوارکس پر مشتمل ہوتا ہے لہذا اس میں موجود کوارکس کی ممکنہ‬
‫کچھ یوں ہو سکتی ہے۔ ‪configuration‬‬

‫‪) 1‬۔ پہال امکان یہ ہے کہ تینوں کوارکس ایک جیسی اسپن ½ رکھیں۔ ان کو‬
‫جمع کر لیں تو ہمارے پاس بیریون کی اسپن ‪ 2/3‬آ جائے گی۔ یعنی یوں‪:‬‬
‫‪40‬‬

‫‪½ + ½ + ½ = 3/2‬‬

‫‪) 2‬۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ دو کوارکس ½ سپن رکھیں جبکہ تیسرا ان سے‬
‫مختلف ہو اور ½‪ -‬اسپن رکھے۔ ایسی صورت میں بیریون کی اسپن ½‪ +‬ہو‬
‫گی۔ یعنی یوں‪:‬‬

‫½=½‪½+½-‬‬

‫‪) 3‬۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ ایک کوارک ½ اسپن رکھے جبکہ دوسرے دو‬
‫کوارکس اس کے مخالف اسپن کریں جو ½‪ -‬ہو گی ایسی صورت میں بیریون‬
‫کی اسپن ½‪ -‬ہو گی۔ یعنی یوں‪:‬‬

‫‪½ - ½ - ½ = -1/2‬‬

‫‪)4‬۔ چوتھا امکان یہ کہ تینوں کوارکس ہی ½‪ -‬اسپن رکھیں تو ایسی صورت‬


‫میں بیریون کی اسپن ‪ -2/3‬ہو جائے گی۔ یعنی یوں‪:‬‬

‫‪-1/2 – ½ - ½ = -3/2‬‬

‫اس چھوٹی سی محنت کے بعد اگر ہم بیریون پارٹیکلز کی تمام ممکنہ اسپن کو‬
‫لکھنا چاہیں جو ہم نے ابھی نکالی تو وہ کچھ یوں ہو گی‪:‬‬
‫‪41‬‬

‫‪-3/2, ½, -1/2, 3/2‬‬

‫جیسا کہ اسی آرٹیکل میں اوپر ہم نے ایک جگہ ذکر کیا تھا کہ جن پارٹیکلز کی‬
‫ہوتی ہے انہیں ہم فرمیونز )‪half integer‬اسپن فریکشنل یا ہاف انٹیجر (‬
‫کہتے ہیں لہذا بیریون پارٹیکل کی اوپر نکالی گئی اسپن چونکہ فریکشنل ہی‬
‫ہے لہذا نتیجتا ً بیریون پارٹیکلز کا شمار فرمیونز میں ہوتا ہے۔ ان پر فرمی‪-‬‬
‫ڈ یراک اسٹیٹسٹکس الگو ہوتی ہے اور یہ پالی ایکسکلوژن پرنسپل کی پیروی‬
‫کرتے ہیں۔ یعنی کوئی دو بیریون پارٹیکلز ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹ رکھتے‬
‫ہوئے کسی ایک جگہ پر اکٹھے موجود نہیں ہو سکتے۔‬

‫اب اسی طرح فوراً سے ہم میزون پارٹیکل کی اسپن دیکھتے ہیں۔ میزون‬
‫پارٹیکل چونکہ دو کوارکس پر مشتمل ہے لہذا اس کے اسپن کی تین طرح کی‬
‫کچھ یوں ہو سکتی ہے۔ ‪configuration‬ممکنہ‬

‫‪)1‬۔ پہال امکان یہ ہے کہ دونوں کوارکس ایک جیسی ½ اسپن رکھیں۔ تو ایسی‬
‫صورت میں میزون پارٹیکل کی اسپن ‪ 1‬ہو جائے گی۔ یعنی یوں‪:‬‬

‫‪½+½=1‬‬

‫‪) 2‬۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ دونوں کوارکس ایک دوسرے سے مخالف اسپن‬
‫رکھیں تو ایسی صورت میں میزون کی اسپن صفر ہو جائے گی۔ یعنی یوں‪:‬‬
‫‪42‬‬

‫‪½-½=0‬‬

‫‪)3‬۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ دونوں ایک جیسی ½‪ -‬اسپن رکھیں ایسی صورت‬
‫میں میزون پارٹیکل کی اسپن ‪ -1‬ہو جائے گی۔ یعنی یوں‪:‬‬

‫‪-1/2 – ½ = -1‬‬

‫اب ہم اگر میزون پارٹیکلز کی تمام ممکنہ اسپن کو لکھنا چاہیں جو ہم نے ابھی‬
‫نکالی تو وہ کچھ یوں ہو گی‪:‬‬

‫‪-1, 0, +1‬‬

‫اب دیکھیں میزون پارٹیکلز کی اسپن ایک مکمل عدد کی شکل میں نکل رہی‬
‫ہے۔ یعنی یہ انٹیجر اسپن ہے اور انٹیجر اسپن رکھنے والے پارٹیکلز کو ہم‬
‫بوزونز کہتے ہیں۔ لہذا میزون پارٹیکلز بوزونز ہیں اور ان پر بوز‪-‬آئنسٹائن‬
‫اسٹیٹسٹکس الگو ہوتی ہے اور پالی ایکسکلوژن پرنسپل کا ان پارٹیکلز پر‬
‫اطالق نہیں ہوتا۔‬

‫ابھی تک سینکڑوں بیریون اور میزون پارٹیکلز ہمارے مطالعے میں آ چکے‬
‫)‪matter‬ہیں۔ لیکن ان میں سے چند کے عالوہ باقی ہمیں عام موجود مادہ (‬
‫میں نہیں ملتے۔ چونکہ پروٹان اور نیوٹران مستحکم بیریون پارٹیکلز ہیں لہذا‬
‫ہمیں ہمارے اردگرد مادہ انہی پارٹیکلز سے بنا ملتا ہے۔ اسے ہم بیریونک میٹر‬
‫کہتے ہیں۔ دیگر بیریونز یا میزونز ہمیں مطالعہ کے )‪(baryonic matter‬‬
‫‪43‬‬

‫لئے یا تو پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ملتے ہیں یا پھر کاسمک شعاعیں جب‬
‫ہمارے کُرہ ہوائی سے ٹکراتی ہیں تو ایسے بہت سے پارٹیکلز وجود میں آتے‬
‫ہیں لیکن یہ ایک سیکنڈ کے اربویں حصے کے لئے بھی اپنا وجود برقرار‬
‫کر جاتے ہیں۔ )‪decay‬نہیں رکھ پاتے اور مزید مستحکم پارٹیکلز میں ڈیکے (‬

‫بیریون اور میزون پارٹیکلز کا ڈیکے پراسیس بھی خاصا دلچسب ہے لیکن ان‬
‫ہیڈرون پارٹیکلز کا ڈیکے لیپٹانز میں ہوتا ہے لہذا پہلے اگلے آرٹیکل میں ہم‬
‫لیپٹانز سے تعارف کریں گے پھر ان پارٹیکلز کے ڈیکے کو سمجھیں گے۔‬
‫‪44‬‬

‫کوارکس کے کلر چارج سے کیا مراد ہے؟ کوارکس کی‬


‫یہ کوانٹم پراپرٹی کیسے دریافت ہوئی؟‬

‫اس آرٹیکل میں ہم سمجھیں گے کہ کوارکس کی ایک کوانٹم خصوصیت جسے‬


‫کہتے ہیں وہ کیا ہوتی ہے اور کوارکس کی یہ )‪color charge‬کلر چارج (‬
‫خصوصیت پارٹیکلز کے بننے کے لئے کتنی اور کیوں اہم ہے۔ اور کوارکس‬
‫کی اس خصوصیت کی دریافت نے ایک بڑے مسئلے کو کیسے حل کیا۔‬

‫اس سے پہلے کہ ہم اس موضوع پر آئیں پہلے تھوڑا سا جان لیتے ہیں کہ‬
‫کوارکس ہوتے کیا ہیں۔ پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل پر نظر دوڑائیں تو‬
‫ہمیں ٹوٹل سترہ ایلیمینٹری پارٹیکلز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جیسا کہ نیچے‬
‫تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ ان ایلیمینٹری پارٹیکلز کو ہم دو بڑے حصوں میں‬
‫تقسیم کرتے ہیں۔ بائیں طرف کے بارہ پارٹیکلز کو ہم "فرمیونز" جبکہ دائیں‬
‫طرف موجود پانچ پارٹیکلز کو ہم "بوزونز" کہتے ہیں۔ یہ تقسیم ہم نے ان‬
‫پارٹیکلز کی اسپن کو بنیاد بنا کر کی ہے۔ فرمیونز اور بوزونز کو ایک دوسرے‬
‫سے منفرد کرنے کے اور بھی بہت طریقے ہیں لیکن فی الحال وہ ہمارا‬
‫موضوع نہیں۔‬
‫‪45‬‬

‫پارٹیکل فزکس کے اسں اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود بارہ فرمیونز میں سے اوپر‬
‫والے چھ پارٹیکلز کوارکس ہیں۔ پارٹیکل فزکس میں اسے چھ مختلف فلیورز‬
‫کے کوارکس کہا جاتا ہے۔ جو اَپ‪ ،‬ڈاؤن‪ ،‬چارم‪ ،‬سٹرینج‪ ،‬ٹاپ اور باٹم کے‬
‫ناموں سے مختلف فلیورز کے لحاظ سے جانے جاتے ہیں۔ کوارک ہاف (‪)2/1‬‬
‫انٹیگرل اسپن رکھنے واال پارٹیکل ہے۔ دو یا دو سے زیادہ کوارکس مل کر‬
‫پارٹیکلز بناتے ہیں۔ ہیڈرون پارٹیکلز دو طرح کے ہوتے )‪hadron‬ہیڈرون (‬
‫پارٹیکلز کہتے ہیں جو کہ تین یا پانچ )‪baryon‬ہیں۔ ایک کو ہم بیریون (‬
‫کوارکس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مشہور بیریون پارٹیکلز میں نیوٹران اور پروٹان‬
‫)‪meson‬بھی شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے ہیڈرون پارٹیکلز کو ہم میزون (‬
‫پارٹیکلز کہتے ہیں جو کوارک اور اینٹی کوارک کے جوڑے پر مشتمل ہوتے‬
‫ہیں۔ بیریون اور میزون پارٹیکلز خود سے وسیع موضوعات ہیں جو الگ سے‬
‫تفصیلی آرٹیکل کے متقاضی ہیں۔ جن پر آئندہ گفتگو ہو گی۔‬

‫اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جیسا‬
‫کہ اوپر ذکر کیا کہ ہیڈرون پارٹیکلز دو یا دو سے زیادہ کوارکس پر مشتمل‬
‫سگما پلس پارٹیکل وغیرہ ہیں۔‬
‫ہوتے ہیں۔ ان کی مثال پروٹان‪ ،‬نیوٹران اور ِ‬
‫پروٹان دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک‪ ،‬نیوٹران دو ڈاؤن کوارکس اور‬
‫سگما پلس (‪⁺‬‬‫دو اَپ کوارکس اور ایک سٹرینج )‪Σ‬ایک اَپ کوارک جبکہ ِ‬
‫کوارک پر مشتمل ہوتا ہے۔‬

‫آپ میں سے بہت سے لوگ فزکس کے ایک بنیادی اصول سے واقف ہوں گے‬
‫جسے پالی ایکسکلوژن پرنسپل کہا جاتا ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ کوئی سے‬
‫دو فرمیونز ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹ رکھتے ہوئے اکٹھے ساتھ نہیں رہ‬
‫سکتے۔ تو یہاں ایک مسئلہ ہے وہ یہ کہ پالی ایکسلوژن پرنسپل کے مطابق‬
‫ایک پروٹان میں دو اَپ کوارک یا ایک نیوٹران میں دو ڈاؤن کوارک یا ایک‬
‫سگما پلس پارٹیکل میں دو اپ کوارک کیسے آ گئے؟ چلیں یہ بڑی ہی سادہ‬ ‫ِ‬
‫‪46‬‬

‫سی مثال ہے جس کا جواب یہ کہہ کر دیا جا سکتا ہے کہ ہو سکتا ہے ایک‬


‫کوارک کی اسپن دوسرے سے اُلٹ ہو۔ اور یہ بلکل درست جواب ہو گا۔‬

‫لیکن اب ہم ایک اور ہیڈرون پارٹیکل کی مثال لیتے ہیں۔ یہ پارٹیکل ڈیلٹا پلس‬
‫سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر چار ‪Δ‬پلس پارٹیکل ہے جسے ‪⁺⁺‬‬
‫طرح کے پارٹیکلز ہوتے ہیں جنہیں ڈیلٹا بیریون فیملی کہا جاتا ہے۔ ان چار‬
‫پارٹیکلز میں ڈیلٹا پلس پلس‪ ،‬ڈیلٹا پلس‪ ،‬ڈیلٹا زیرو‪ ،‬اور ڈیلٹا مائنس شامل ہیں۔‬
‫کو )‪Δ‬اور ڈیلٹا مائنس (‪Δ) ⁻‬ہم اپنی مثال کے لئے صرف ڈیلٹا پلس پلس (‪⁺⁺‬‬
‫لیتے ہیں کیونکہ ہمارے سمجھنے کے لئے ہمیں یہی دو پارٹیکلز چاہئیں۔ ذرا‬
‫دیکھیں کہ یہ دو پارٹیکلز کونسے تین کوارکس سے ملکر بنتے ہیں۔ ڈیلٹا پلس‬
‫پلس تین اَپ کوارکس سے جبکہ ڈیلٹا مائنس تین ڈاؤن کوارکس سے ملکر بنتا‬
‫ہے۔ ان کی اسپن اور آئسو اسپن دیکھیں تو دونوں ‪ 3/2‬ہیں۔ جس سے یہ ظاہر‬
‫ہوتا ہے کہ ان پارٹیکلز میں موجود کوارکس کی اسپن متوازی ہے۔ لہذا ہم یہاں‬
‫یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہو سکتا ہے کہ ان تینوں کوارکس کی اسپن ایک‬
‫دوسرے سے مختلف ہو۔ بالفرض اگر دو کی اسپن مختلف بھی ہو تو پھر‬
‫تیسرے کوارک کی اسپن الزمی طور پر کسی ایک سے مل جائے گی۔ ایسی ہی‬
‫پارٹیکل کی بھی ہے جو تین سٹرینج )‪Ω‬ایک اور مثال اومیگا مائنس (‪⁻‬‬
‫کوارکس پر مشتمل ہوتا ہے۔‬

‫اب یہاں پالی ایکسکلوژن پرنسپل کو شدید اعتراض اُٹھ جاتا ہے کہ کوارکس‬
‫چونکہ فرمیونز ہیں اور اینٹی سمٹرک ویو فنکشن رکھتے ہیں لہذا یہ کیسے‬
‫ایک جگہ پر تینوں اکٹھے رہ لیتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں اس‬
‫مسئلے نے فزسسٹس کو کافی پریشان رکھا۔‬

‫اس کا حل بہت جلد ہی نکال لیا گیا جس کا سہرا تین سائنسدانوں کے سر بندھتا‬
‫ہے۔ جن میں امریکی فزسسٹ آسکر گرینبرگ‪ ،‬کورین فزسسٹ ُمو ہنینگ اور‬
‫‪47‬‬

‫جاپانی فزسسٹ یوئی چیرو نامبو شامل ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے طور پر‬
‫یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ کوارکس اسپن‪ ،‬چارج وغیرہ کے عالوہ ایک اور‬
‫کا نام دیا گیا۔ اس کے )‪color‬کوانٹم خصوصیت رکھتے ہیں جسے کلر (‬
‫سرخ (ریڈ)‪ ،‬نیال‬
‫مطابق کوارکس بنیادی طور پر تین کلر رکھتے ہیں جو کہ ُ‬
‫(بلیو) اور سبز (گرین) ہیں۔ اسی طرح ان کے متعلقہ اینٹی کوارکس بھی تین‬
‫کلر رکھیں گے جو اینٹی ریڈ‪ ،‬اینٹی بلیو اور اینٹی گرین ہوں گے۔‬

‫یہاں یہ بات ذہن میں رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ کوارکس کی اس کلر‬


‫سرخ سبز نیلے‬ ‫پراپرٹی کا ہماری روزمرہ زندگی میں استعمال ہونے والے ُ‬
‫ہے۔ ‪naming convention‬رنگ سے کوئی تعلق نہیں ہے یہ محض ایک‬
‫کوارکس کی اس کلر پراپرٹی کی وجہ سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے کہ ڈیلٹا‬
‫پلس پلس یا اومیگا مائنس پارٹیکلز میں ایک ہی طرح کے کوارکس کیسے رہ‬
‫پاتے ہیں اور پالی ایکسکلوژن پرنسپل کیسے انہیں اجازت دے دیتا ہے۔ وہ‬
‫اس لئے کیونکہ بے شک وہ کوارکس دیگر کوانٹم خصوصیات ایک جیسی‬
‫رکھیں لیکن ان کی کلر پراپرٹی ضرور دوسرے سے مختلف ہو گی۔ یعنی کسی‬
‫بھی بیریون پارٹیکل میں تینوں کوارکس تین مختلف کلر پراپرٹی رکھیں گے۔‬
‫ایک ریڈ ہو گا تو دوسرا گرین اور تیسرا کوارک بلیو ہو گا۔‬

‫کوارکس کی اس کلر پراپرٹی کو لے کر ایک اور اہم بات یہ بھی کہ جب بھی‬


‫کوارکس مل کر ہیڈرون پارٹیکلز بناتے ہیں تو ضروری ہے کہ بننے واال‬
‫ہو۔ یہ بلکل ایسے ہی ہے جیسے ہم )‪colorless‬ہیڈرون پارٹیکل کلر لیس (‬
‫سرخ‪،‬‬‫اگر سفید رنگ کو دیکھیں تو یہ بنیادی طور پر تین پرائمری رنگوں ( ُ‬
‫سبز اور نیال) سے ملکر بنا ہوتا ہے۔ بلکل ایسے ہی جب تین مختلف کلر‬
‫پراپرٹی رکھنے والے کوارکس آپس میں مل کر کوئی ہیڈرون بناتے ہیں تو وہ‬
‫مجموعی طور پر کلر لیس پارٹیکل ہوتا ہے۔ لیکن میزون پارٹیکل میں تو دو‬
‫کوارکس ہوتے ہیں وہاں کلر لیس میزون کیسے بنے گا؟ یہاں ضروری ہے پھر‬
‫کہ اگر ایک کوارک ریڈ ہو تو دوسرا الزمی اینٹی ریڈ ہو گا تاکہ مجموعی طور‬
‫‪48‬‬

‫پر میزون پارٹیکل کلر لیس ہو جائے۔ لہذا ہیڈرونز میں موجود کوارکس کے‬
‫لئے بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ دو سے زیادہ کوارکس کی صورت میں‬
‫سارے کوارکس کلر کے حساب سے برابر تناسب میں موجود ہوں یا پھر‬
‫میزون پارٹیکلز کی صورت میں ایک کوارک کسی خاص کلر کا ہو تو دوسرا‬
‫اس کا اینٹی کلر رکھے۔‬

‫کوارکس کی یہ کلر پراپرٹی اس بات کی بھی بہت خوبصورت وضاحت کرتی ہے‬
‫کہ ایسا کیوں ہے کہ ہیڈرونز میں کوارکس کی تعداد کچھ خاص ہی کیوں ہوتی‬
‫ہے۔ مثال کے طور پر بیریونز ہمیشہ طاق تعداد میں ہی کوارکس کیوں رکھتے‬
‫ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں کوئی دو یا چار کوارکس پر مشتمل بیریون پارٹیکل‬
‫کائنات میں نہیں مل سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوا تو وہ پارٹیکل کلر لیس نہیں ہو‬
‫گا۔ لہذا بیریونز ہمیشہ تین یا پانچ کوارکس پر مشتمل ملیں گے۔‬

‫آخر میں اب اس گفتگو کو سمیٹتے ہیں اور چند آخری باتیں کوارکس کی اس‬
‫کل ر پراپرٹی کے بارے میں کہ کوارکس کا کلر چارج رکھنا بلکل ایسا ہی ہے‬
‫جیسے کئی پارٹیکلز الیکٹرک چارج رکھتے ہیں اور الیکٹرومیگنیٹک فورس‬
‫کے ذریعے آپس میں تعامل کرتے ہیں ایسے ہی کلر چارج رکھنے والے‬
‫پارٹیکلز یعنی کوارکس سٹرانگ نیوکلئیر فورس کے ذریعے تعامل کرتے ہیں۔‬
‫اسی وجہ سے سٹرانگ نیوکلئیر فورس کو بعض جگہ "کلر فورس" بھی لکھا‬
‫جاتا ہے۔ جیسے الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کے دوران فوٹان بطور فورس‬
‫کیرئیر استعمال ہوتے ہیں ایسے ہی جب دو کلر چارج رکھنے والے پارٹیکلز‬
‫آپس میں سٹرانگ فورس کے ذریعے تعامل کرتے ہیں تو یہاں بھی ایک‬
‫پارٹیکل بطور فورس کیرئیر استعمال ہوتا ہے جسے "گلوآن" کا نام دیا گیا ہے۔‬

‫لیکن دو چارجڈ پارٹیکلز کے درمیان الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کا فورس‬


‫کیرئیر "فوٹان" برقی چارج نہیں رکھتا لہذا فوٹان اس انٹریکشن میں صرف‬
‫‪49‬‬

‫فورس کیرئیر کے طور پر استعمال ہوتا ہے اور خود سے اس انٹریکشن میں‬


‫کوئی حصہ نہیں ڈالتا جبکہ اس کے برعکس دو کلر چارج رکھنے والے‬
‫پارٹیکلز کے درمیان سٹرانگ نیوکلئیر فورس میں بطور فورس کیرئیر استعمال‬
‫ہونے واال گلوآن خود بھی کلر چارج رکھتا ہے لہذا یہ اس انٹریکشن میں خود‬
‫سے بھی حصہ ڈالتا ہے یہ بات ہمیں پارٹیکل فزکس کے ایک نہایت حیرت‬
‫انگیز مگر خوبصورت مظہر سے ُروشناس کرواتی ہے جسے کوارک‬
‫کہتے ہیں جس پر پارٹیکل فزکس پر اس )‪quark confinement‬کنفائنمنٹ (‬
‫سلسلے کی آئندہ اقساط میں بات ہو گی۔‬

‫(ضروری یاد دہانی‪:‬‬


‫کوارکس کی اس کلر پراپرٹی کا ہمارے روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے‬
‫سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہ محض ایک کوانٹم ‪visual colors‬والے‬
‫پراپرٹی ہے جس کا نام ہم نے "کلر" اس لئے رکھا کیونکہ یہ تصور کو‬
‫سمجھنے میں بہت آسانی پیدا کرتی ہے۔ رچرڈ فائنمین میرے بہت ہی پسندیدہ‬
‫فزسسٹ ہیں جنہوں نے ایک بار اپنے ساتھی فزسسٹس کو کوارکس کی اس‬
‫کہہ کر مخاطب کر ‪idiot physicists‬پراپرٹی کا نام "کلر" رکھنے پر انہیں‬
‫دیا تھا۔)‬
50
‫‪51‬‬

‫کوانٹم میکینکس‪:‬‬
‫فرمیونز کیوں پالی ایکسکلیوژن پرنسپل کی پیروی‬
‫کرتے ہیں جبکہ بوزونز پر اس اصول کا اطالق نہیں‬
‫ہوتا؟‬

‫اس آرٹیکل میں ہم سمجھیں گے کہ پارٹیکلز کے سمٹرک اور اینٹی سمٹرک‬


‫ویو فنکشنز کیا اور کیسے ہوتے ہیں اور آخر ایسا کیوں ہے کہ کچھ خاص‬
‫پارٹیکلز کو ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹس رکھتے ہوئے ایک سسٹم میں موجود‬
‫رہنے کی اجازت نہیں ہوتی جبکہ کچھ خاص پارٹیکلز اس اصول سے مستثنی‬
‫ہوتے ہیں۔‬

‫فرض کریں کہ دو پارٹیکلز آپ کے پاس موجود ہیں۔ ان میں سے ایک کی‬


‫ہے۔ دونوں پارٹیکلز ایک دوسرے ‪r₂‬جبکہ دوسرے کی پوزیشن ‪r₁‬پوزیشن‬
‫ہیں۔ جہاں ‪ψₓ‬اور ‪ψₐ‬سے مختلف کوانٹم اسٹیٹس رکھتے ہیں جو کہ بالترتیب‬
‫ان پارٹیکلز کے ویو فنکشنز یا آئیگن اسٹیٹس ہیں جو محض مختلف ‪x‬اور ‪a‬‬
‫انرجی لیولز ظاہر کرتی ہیں جہاں پارٹیکلز موجود ہو سکتے ہیں۔ اور یہ ان‬
‫پر منحصر نہیں ہیں بلکہ یہ پارٹیکل کی ‪r₂‬اور ‪r₁‬پارٹیکلز کی پوزیشنز‬
‫‪rₙ‬پوزیشن کی ایک باقاعدہ پرابیبیلیٹی ڈسٹریبیوشن دیتی ہیں جس کی رینج‬
‫‪rₙ‬سے لے کر ‪r₁‬تک ہو سکتی ہے یعنی ایک الیکٹران اس ڈسٹریبیوشن میں‬
‫تک کسی بھی پوزیشن پر ہو سکتا ہے۔‬

‫اب ہم چونکہ یہاں فرض کر رہے ہیں کہ یہ دو پارٹیکلز کا سسٹم ہے یعنی یہ‬
‫دونوں پارٹیکلز ہم اگر اکٹھے رکھیں تو ان کا کمبائینڈ ویو فنکشن کچھ یوں‬
‫لکھا جائے گا‪:‬‬
‫‪52‬‬

‫)‪Ψ(r₁,r₂) = ψₐ(r₁)ψₓ(r₂‬‬

‫مشہور بوزونز اور فرمیونز سمیت بہت سے پارٹیکلز قدرتی طور پر‬
‫ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ایسے دو ‪identical particles‬‬
‫پارٹیکلز کی آپس میں جگہ تبدیل کر دیں تو ایسا کوئی طریقہ ہمارے پاس نہیں‬
‫جس سے پتا چل سکے کہ یہاں پارٹیکلز کی جگہ تبدیل ہوئی ہے۔ اس کی‬
‫بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارٹیکلز کو ایکسچینج کرنے سے پہلے اور بعد میں‬
‫دونوں صورتوں میں ان کا پرابیبیلیٹی ڈسٹریبیوشن ایک جیسا ہی رہتا ہے۔‬

‫اب اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرض کریں کہ پارٹیکلز کی پوزیشن‬
‫پر آ ‪r₂‬پوزیشن پر تھا وہ اب ‪r₁‬آپس میں بدل دی گئی ہے یعنی جو پارٹیکل‬
‫پوزیشن پر آ گیا ہے۔ اب اس تبدیلی کے بعد ان ‪r₁‬پر تھا وہ ‪r₂‬گیا ہے اور جو‬
‫دونوں پارٹیکلز کا کمبائینڈ ویو فنکشن کچھ یوں ہو جائے گا‪:‬‬

‫)‪Ψ(r₂,r₁) = ψₐ(r₂)ψₓ(r₁‬‬

‫جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ ہمارے پاس کوئی ایسا فزیکل طریقہ موجود نہیں‬
‫کہ ہم اس میں فرق کر سکیں کہ یہاں پارٹیکلز کا ایکسچینج ہوا ہے کیونکہ‬
‫ایکسچینج سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں سسٹم کا پرابیبیلیٹی‬
‫ڈسٹریبیوشن ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ اسے ہم ریاضیاتی طور پر یوں لکھ‬
‫سکتے ہیں‪:‬‬

‫‪|Ψ(r₁,r₂)|² = |Ψ(r₂,r₁)|²‬‬
‫‪53‬‬

‫مندرجہ باال چھوٹی سی مساوات اپنے اندر ایک بہت بڑا سائنسی تصور‬
‫چھپائے ہوئے ہے جس کی بنیاد پر ہم پارٹیکلز کی بنیادی درجہ بندی کر‬
‫سکتے ہیں۔ اس کو کچھ حل کریں تو اس کی شکل یوں بنتی ہے‪:‬‬

‫)‪Ψ(r₁,r₂) = ± Ψ(r₂,r₁‬‬

‫آسان الفاظ میں اس سے ہمیں یہ پتا چلتا ہے کہ پارٹیکلز کے ایکسچینج کے‬


‫ت حال دو ممکنات میں بٹ جاتی ہے جس میں ایک ممکنہ صورت‬ ‫بعد صور ِ‬
‫اور دوسری صورت (‪ )-‬کو ہم اینٹی )‪ )+(symmetric‬کو ہم سمٹرک (‬
‫کہتے ہیں۔ )‪asymmetric‬سمٹرک یا اے سمٹرک (‬

‫یعنی سمٹرک ویو فنکشن یوں گا‪:‬‬

‫)‪Ψ(r₁,r₂) = Ψ(r₂,r₁‬‬

‫جبکہ اینٹی سمٹرک ویو فنکشن یوں گا‪:‬‬

‫)‪Ψ(r₁,r₂) = - Ψ(r₂,r₁‬‬
‫‪54‬‬

‫تمام ایلیمنٹری پارٹیکلز ایکسچینج کے بعد مندرجہ باال دو ممکنہ حالتوں میں‬
‫سے کوئی ایک ظاہر کریں گے۔ یعنی یا وہ سمٹرک ویو فنکشن رکھیں گے یا‬
‫اینٹی سمٹرک ویو فنکشن رکھیں گے۔‬

‫ان میں سے جن پارٹیکلز کا ویو فنکشن مثبت یعنی سمٹرک ہو گا انہیں ہم‬
‫کہتے ہیں۔ جبکہ جو پارٹیکلز منفی یعنی اینٹی سمٹرک ویو )‪bosons‬بوزونز (‬
‫کہتے ہیں۔ )‪fermions‬فنکشن ظاہر کریں گے انہیں ہم فرمیونز (‬

‫پارٹیکلز کے ‪identical‬اب جیسا کہ شروع میں عرض کیا تھا کہ چونکہ دو‬
‫ایکسچینج کو ہم فزیکلی طور نہیں جان سکتے لہذا نیچے لکھے گئے دونوں‬
‫ویو فنکشن سولوشنز ممکن ہو سکتے ہیں‪:‬‬

‫)‪Ψ(r₁,r₂) = ψₐ(r₁)ψₓ(r₂‬‬

‫)‪Ψ(r₂,r₁) = ψₐ(r₂)ψₓ(r₁‬‬

‫لہذا ہم پھر ایسی صورت میں ایک جنرل سولوشن لکھتے ہیں جو اوپر بیان‬
‫کئے گئے د ونوں سولوشنز کا لینئر کمبینیشن ہوتا ہے۔ جنرل سمٹرک ویو‬
‫فنکشن سولوشن یوں ہوتا ہے‪:‬‬

‫])‪Ψ(sym) = 1/√2 [Ψ(r₁,r₂) + Ψ(r₂,r₁‬‬

‫جبکہ جنرل اینٹی سمٹرک ویو فنکشن یوں ہوتا ہے‪:‬‬


‫‪55‬‬

‫])‪Ψ(asym) = 1/√2 [Ψ(r₁,r₂) – Ψ(r₂,r₁‬‬

‫یہاں مساواتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یاد رکھنے والی بات‬
‫صرف یہی ہے کہ جنرل سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں مثبت کی عالمت‬
‫جبکہ جنرل اینٹی سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں منفی کی عالمت آ رہی‬
‫ہے۔‬

‫اب اگر اوپر بیان کی گئی باتیں کچھ واضح ہوئی ہوں تو ایک چھوٹی سی مثال‬
‫لیتے ہیں جہاں ہم دو پارٹیکلز لیں گے اور ان کی پوزیشن تبدیل کر کے نتیجہ‬
‫پر غور کرتے ہیں۔‬

‫مثال کے طور پر ہمارے پاس دو پارٹیکلز ہیں جو ایک ہی جیسی کوانٹم اسٹیٹ‬
‫میں ہیں یعنی ان کے تمام کوانٹم نمبرز ایک جیسے ہیں۔ ایک پارٹیکل کی‬
‫ہے۔ چونکہ دونوں ایک جیسی ‪r₂‬جبکہ دوسرے کی پوزیشن ‪r₁‬پوزیشن‬
‫کوانٹم اسٹیٹ میں ہیں لہذا دونوں کا ویو فنکشن سولوشن یا آئیگن اسٹیٹ ایک‬
‫ہے۔ ‪ψₐ‬جیسی ہو گی جو فرض کریں‬

‫اب بلکل اسی طرح ہم ان دونوں پارٹیکلز کے لئے ایکسچینج سے پہلے اور‬
‫ایکسچینج کے بعد کمبائینڈ ویو فنکشن لکھ لیتے ہیں۔ یہ بلکل آسان اور وہی‬
‫کام ہے جو اوپر ہم آرٹیکل کے شروع میں کر چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے‬
‫کہ پہلے دونوں پارٹیکلز کی الگ الگ آئیگن اسٹیٹس تھیں جبکہ اس دفعہ‬
‫ہے۔ ‪ψₐ‬دونوں پارٹیکلز کی آئیگن اسٹیٹ ایک جیسی ہے جو‬
‫‪56‬‬

‫ایکسچینج سے پہلے کمبائینڈ ویو فنکشن یوں ہو گا‪:‬‬


‫لکھ لیتے ہیں) ‪(A‬اسے ہم مساوات‬

‫‪Ψ(r₁,r₂) = ψₐ(r₁)ψₐ(r₂) → A‬‬

‫ایکسچینج کے بعد کمبائینڈ ویو فنکشن یوں ہو گا‪:‬‬


‫لکھ لیتے ہیں) ‪(B‬اسے ہم مساوات‬

‫‪Ψ(r₂,r₁) = ψₐ(r₂)ψₐ(r₁) → B‬‬

‫تو دو ایسے پارٹیکلز جو ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹس رکھتے ہوں ان کے لئے‬
‫ایکسچینج سے پہلے اور ایکسچینج کے بعد مندرجہ باال دو ممکنہ ویو فنکشنز‬
‫موجود ہوتے ہیں۔‬

‫اب ہم دیکھتے ہیں کہ جب ہم ایسے پارٹیکلز کے لینئر کمبینیشن کا جنرل‬


‫سولوشن لکھتے ہیں تو کیا ہوتا ہے۔ ہم اوپر ذکر کر چکے ہیں کہ دو‬
‫کرنا ممکن نہیں ‪measure‬پارٹیکلز کا ایکسچینج فزیکلی طور پر ‪identical‬‬
‫اسی لئے ہم اس کے لئے ان کے لینئر کمبینیشن کا ایک جنرل سولوشن‬
‫لکھتے ہیں جو بیک وقت سمٹرک اور اینٹی سمٹرک ہو سکتا ہے۔‬

‫میں آسانی کے لئے وہ دونوں جنرل سولیوشنز یہاں دوبارہ سے لکھ دیتا ہوں۔‬
‫وہ کچھ یوں تھے‪:‬‬
‫‪57‬‬

‫جنرل سمٹرک ویو فنکشن‪:‬‬


‫])‪Ψ(sym) = 1/√2 [Ψ(r₁,r₂) + Ψ(r₂,r₁‬‬

‫جنرل اینٹی سمٹرک ویو فنکشن‪:‬‬


‫])‪Ψ(asym) = 1/√2 [Ψ(r₁,r₂) – Ψ(r₂,r₁‬‬

‫ہماری فرض کی گئی مثال کے مطابق دونوں پارٹیکلز ایک جیسی کوانٹم‬
‫اسٹیٹس میں ہیں۔ اب ہم ان کے ایکسچینج سے پہلے اور بعد کے ویو فنکشنز‬
‫لکھا تھا) جنرل سولوشن والی مساوات ‪B‬اور ‪A‬کو (جنہیں بالترتیب مساوات‬
‫ت حال پیدا ہو گی۔‬
‫میں ڈالیں تو بڑی دلچسب صور ِ‬

‫کو جنرل سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں ڈالنے سے‪B :‬اور ‪A‬مساوات‬

‫])‪Ψ(sym) = 1/√2[Ψ(r₁,r₂) + Ψ(r₂,r₁‬‬

‫])‪Ψ(sym) = 1/√2[ψₐ(r₁)ψₐ(r₂)+ψₐ(r₂)ψₐ(r₁‬‬

‫یہاں آپ غور کریں تو ایکسچینج سے پہلے اور بعد والے دونوں ویو فنکشنز‬
‫درمیان میں ‪ +‬کی عالمت ہونے کی وجہ سے آپس میں جمع ہو کر ہمیں کوئی‬
‫دے رہے ہیں۔ ‪sum value‬نہ کوئی‬
‫‪58‬‬

‫جبکہ جب یہی دونوں ویو فنکشنز ہم جنرل اینٹی سمٹرک سولیوشن کی‬
‫مساوات میں ڈالتے ہیں تو ہمیں صفر نتیجہ ملتا ہے۔‬

‫کو جنرل اینٹی سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں ڈالنے ‪B‬اور ‪A‬مساوات‬
‫سے‪:‬‬

‫])‪Ψ(asym) = 1/√2[Ψ(r₁,r₂) + Ψ(r₂,r₁‬‬

‫])‪Ψ(asym) = 1/√2[ψₐ(r₁)ψₐ(r₂)-ψₐ(r₂)ψₐ(r₁‬‬

‫‪Ψ(asym) = 0‬‬

‫یہاں دونوں ویو فنکشنز کے درمیان میں منفی موجود ہونے کی وجہ سے‬
‫بریکٹ کے اندر کی دونوں ٹرمز آپس میں کینسل ہو جاتی ہیں اور نتیجہ کے‬
‫طور پر ہمیں صفر ملتا ہے۔‬

‫اس صفر کا کیا مطلب ہوا؟ کسی سسٹم کا ویو فنکشن صفر ہونا ممکن نہیں‬
‫ہوتا۔ کیونکہ اس کا م طلب یہ ہو گا کہ یہ دو پارٹیکلز وجود ہی نہیں رکھتے۔‬
‫ایسا ناممکن ہے کیونکہ پارٹیکلز تو کہیں نا کہیں موجود ہیں لہذا ان کے ویو‬
‫فنکشن کی کوئی نہ کوئی ویلیو ہونی چاہئے۔‬
‫‪59‬‬

‫اگر اینٹی سمٹرک ویو فنکشن سولوشن صفر ہو رہا ہے تو اس کا مطلب صرف‬
‫ت حال ہی ممکن نہیں کہ دو پارٹیکلز‬‫ایک ہی ہو سکتا ہے وہ یہ کہ ایسی صور ِ‬
‫اکٹھے ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹ میں موجود ہوں۔‬

‫لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا صرف ان پارٹیکلز کے ساتھ ہو رہا ہے جو‬
‫اینٹی سمٹرک ویو فنکشن کی پیروی کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ‬
‫کہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف )‪Fermions‬ایسے پارٹیکلز کو ہم فرمیونز (‬
‫ایسے پارٹیکلز جو سمٹرک ویو فنکشن کی پیروی کرتے ہیں ان کا ویو فنکشن‬
‫دیتا ہے لہذا نتیجتا ً یہ ایک ہی جیسی ‪sum value‬تو ہمیں کوئی نہ کوئی‬
‫کہتے )‪Bosons‬کوانٹم اسٹیٹ میں موجود ہو سکتے ہیں۔ انہیں ہم بوزونز (‬
‫ہیں۔‬

‫یہ بات ہمیں فزکس کے ایک بہت ہی اہم اصول کی طرف لے جاتی ہے جسے‬
‫ہم‬
‫‪Pauli Exclusion Principle‬‬

‫کے نام سے جانتے ہیں۔ جس کے مطابق پارٹیکلز کی ایک خاص کالس جو‬
‫اینٹی سمٹرک ویو فنکشن رکھتی ہے ان کے لئے ایک سسٹم میں ایک جیسی‬
‫کوانٹم اسٹیٹ رکھتے ہوئے رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ پارٹیکلز کی ایسی کالس کو‬
‫ہم "فرمیونز" کہتے ہیں۔‬
‫‪60‬‬

‫اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یہ ِکس چیز میں پھیل رہی ہے؟‬

‫جواب‪ :‬پروفیسر ِرچرڈ َملر‬


‫ترجمہ ‪ :‬رضاالحسن‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کائنات کے پھیلنے کے لئے اِس کا ِکسی چیز میں پھیلنا‬


‫ضروری نہیں ہے۔ ُمجھے معلُوم ہے کہ یہ بات آپ کو شاید اِنتہائی مضحکہ‬
‫خیز لگے‪ ،‬لیکن یہ حقیقت ہے۔ چلیں اسے ذرا آسانی سے سمجھنے لئے ایک‬
‫مثال لیتے ہیں۔‬

‫فرض کریں آپ کے پاس ایک الئن ہے جو المحدُود تک پھیلی ہوئی ہے۔ اِس‬
‫الئن پر آپ نے ہر ایک اِنچ کے بعد ایک نشان لگایا ہوا ہے۔ اِس طرح اِس الئن‬
‫پر المحدود نشانات لگے ہوں گے۔ اب ہر نشان کو اِس طرح حرکت دیں کہ اِن‬
‫کا درمیانی فاصلہ دو اِنچ ہو جائے۔ یُوں اِس الئن پر سارا پیٹرن وسیع ہو جائے‬
‫گا۔‬
‫ابھی بھی یہ المحدود ہی ہوگا لیکن نشانات کا آپسی فاصلہ ایک اِنچ کی بجائے‬
‫اب دو اِنچ ہو ُچکا ہے۔ پیٹرن میں ُوسعت آ گئی لیکن مکمل لمبائی ابھی بھی‬
‫المحدود ہی ہے۔‬
‫‪61‬‬

‫اِسی ضمن میں ایک اور مثال بھی دیکھتے ہیں۔ فرض کریں آپ کے پاس ایک‬
‫لمبا المحدود َربڑ کا ٹُکڑا ہے۔ اس َربڑ کے ٹُکڑے کو کائنات مان لیں۔ َربڑ پر ہر‬
‫اِنچ کے بعد ایک نشان لگا ہے۔ اب اِس ربڑ کو اِس قدر کھینچیں کہ یہ نشانات‬
‫ایک دوسرے سے دو اِنچ کے فاصلے پر ہو جائیں۔ یہ ابھی بھی المحدود ہو گا‬
‫لیکن دو نقاط کے ِبیچ فاصلہ بڑھ گیا ہے۔‬

‫سائنسدان کائنات کو ایک خالی جگہ نہیں مانتے بلکہ اِسے َربڑ کے اِسی‬
‫ٹُکڑے کی طرح خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اِسے َربڑ نہیں کہا جاتا بلکہ اسے‬
‫"ویکیوم" کہا جاتا ہے۔ فزکس کے مطابق "پارٹیکلز" اِس ویکیوم میں پیدا‬
‫ہونے واال ارتعاش ہوتے ہیں۔ یہ ویکیوم َربڑ کے ٹُکڑے کی مانند پھیل سکتا‬
‫ہے لیکن چونکہ یہ المحدود تک جاتا ہے لہذا اِسے پھیلنے کے لئے مزید‬
‫اسپیس نہیں چاہئے۔‬

‫اب ایک نئی چیز پر بحث کرتے ہیں جو شاید آپ کے لئے مزید اُلجھن پیدا کر‬
‫دے یا شاید اِس سے سمجھنے میں آپکو کوئی مدد ملے۔‬

‫اسٹینڈرڈ فزکس تھیوری میں کہکشائیں ایک دوسرے سے دُور جا رہی ہیں۔‬
‫اسے کائنات کا پھیالؤ کہا گیا ہے۔ لیکن ایک بات نہایت قاب ِل غور ہے کہ نظریہ‬
‫اضافت کے مطابق کوئی کہکشاں بھی اپنی جگہ سے ہِل نہیں رہی۔ ہو صرف یہ‬
‫رہا ہے کہ ان کے بیچ اسپیس (ویکیوم) میں اضافہ ہو رہا ہے۔‬

‫سیکھ سکتے۔ یہ عموما ً اس وقت‬ ‫آپ یہ باتیں شاید سکول یا کالج میں نہیں ِ‬
‫کی ڈگری لینے کے قریب )‪Ph.D‬سکھائی جاتی ہیں جب آپ اپنی پی ایچ ڈی (‬
‫ہوتے ہیں۔ یہاں یہ حقیقت آپ پر کُچھ یُوں آشکار ہوتی ہے کہ‪:‬‬
‫‪62‬‬

‫"بِگ بینگ نظریہ کے مطابق تمام کہکشاؤں کے نقاط یعنی کوآرڈینیٹس ِفکسڈ‬
‫ہیں (اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حرکت نہیں کر رہیں)۔ ان کے درمیان پھیالؤ کو‬
‫"میٹرک ٹینسر" سے ظاہر کیا جاتا ہے جو ان دو مستحکم نقاط کے بیچ فاصلہ‬
‫ظاہر کرتا ہے۔ بگ بینگ نظریہ میں یہ "میٹرک ٹینسر" ہی تبدیل ہو رہا ہے۔‬
‫لہذا مستحکم کہکشاؤں کے ِبیچ پھیالؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ میٹرک‬
‫ٹینسر کا تبدیل ہونا ظاہر ہی اِس پھیالؤ کو کرتا ہے۔ پھیالؤ کی شَرح میں تبدیلی‬
‫کی حالیہ دریافت کا مطلب یہ ہے کہ پھیالؤ کی یہ رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے"۔‬

‫سنا ہو۔ ”‪Space Curvature‬شاید آپ نے "اسپیس کرویچر‬ ‫کے بارے میں ُ‬


‫دو ساکن اجسام کے بیچ میں ایک بلیک ہول رکھیں تو ان کے درمیان فاصلہ‬
‫اچانک بڑھ جائے گا حاالنکہ یہ اجسام ساکن تھے اور انہوں نےکوئی حرکت‬
‫بھی نہیں کی۔ لہذا "فاصلہ" اتنا سادہ نہیں ہوتا جتنا اکثر لوگ اسے سمجھتے‬
‫ہیں۔ یہ البرٹ آئن شٹائین ہی تھے جنہوں نے یہ شاندار خیال پیش کیا کہ‬
‫اسپیس (ویکیوم) لچکدار ہے۔ یہ خمدار بھی ہو سکتی ہے اور پھیل بھی سکتی‬
‫ہے۔‬

‫مجھے امید ہے کہ یہ باتیں آپ کو حیرت اور تذبذب کے سمندر میں غوطہ زن‬
‫کر دیں گی لیکن یہ کوئی بُری عالمت نہیں‪ ،‬یہ اچھی بات ہے۔ جب آپ کوئی‬
‫سیکھی گئی باتوں سے َیکسر مختلف‬ ‫نئی چیز سیکھتے ہیں جو پہلے سے ِ‬
‫ہوتی ہے تو آپ کا سب سے پہال سامنا جس چیز سے ہوتا ہے اسے‬
‫"کنفیوژن" ہی کہتے ہیں۔‬

‫ُمصنف کا تعارف‪:‬‬
‫پروفیسر ِرچرڈ َملر ایک امریکی فِزسسٹ ہیں اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا‬
‫میں فزکس کے سابقہ پروفیسر ہیں۔ سائنس کی کئی کتابوں کے ُمصنف بھی‬
‫سرچ پراجیکٹ" کو پروان چڑھایا اور انہی‬
‫سپرنووا َ‬
‫ہیں۔ انہوں نے "برکلے ُ‬
‫‪63‬‬

‫نے اِسی پراجیکٹ کے تحت ڈارک ”‪Saul Perlmutter‬کے ایک طالبعلم "‬
‫انرجی کی دریافت کی جس پر انہیں ‪ 1998‬میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔‬
‫‪64‬‬

‫کوانٹم میکینکس‪ :‬الیکٹران کی رنگ بازیاں‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫جب کسی الیکٹران کا ایک فوٹان سے تصادم ہوتا ہے تو الیکٹران اس فوٹان‬


‫میں موجود توانائی جذب کر لیتا ہے اور ایک ہائیر انرجی اسٹیٹ میں چال جاتا‬
‫ہے۔‬
‫‪65‬‬

‫الیکٹران کی ویو‪-‬پارٹیکل ڈیوئیلیٹی کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس ہائیر انرجی‬


‫اسٹیٹ کے بارے میں تصور کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ الیکٹران فوٹان‬
‫طول‬‫سے ٹکرا کر ذرا تیز بھاگنے لگ جاتا ہے اب رفتار میں تیزی سے اسکی ُ‬
‫موج (ویولینگتھ) پر بھی فرق آتا ہے لہذا اب یہ پہلے آربیٹل میں رہ نہیں سکتا‬
‫کیونکہ یہ آربیٹل ایک خاص ویولینگتھ کو ہی رکھ سکتا ہے۔ لہذا ویولینگتھ‬
‫بدل جانے سے الیکٹران ایک نئے آربیٹل کواپنا مسکن بنا لیتا ہے جہاں یہ اپنی‬
‫نئی ویولینگتھ کے حساب سے سکون و آرام سے خود کو ایڈجسٹ کر سکتا‬
‫ہے۔‬

‫الیکٹران ایسے ہی باہر سے توانائی جذب اور خارج کر کے ایٹم کے اندر اُچھل‬
‫کُود جاری رکھتے ہیں۔ الیکٹرانز کی اس خصوصیت سے ہم اپنی روزمرہ‬
‫زندگی میں بھی کافی فائدہ اٹھاتے ہیں۔‬

‫آج کل آپ کوئی بھی الیکٹرانک ڈیوائس خرید لیں شاید سبھی میں ایک یا ایک‬
‫لگی ہوتی ہیں۔ یہ پالسٹک یا ایپوکسی کے چھوٹے بلبلے کی ‪LED‬سے زائد‬
‫طرح ہوتی ہیں جس کے ساتھ دو کنیکٹرز لگے ہوتے ہیں۔ جب ڈائیوڈ کے بیچ‬
‫سے بجلی گزرتی ہے یہ کسی خاص رنگ سے روشن ہو کر آپ تک یہ اطالع‬
‫پہنچا دیتی ہیں کہ آپ کی ڈیوائس درست کام کر رہی ہے۔‬

‫میں استعمال ہونے والے سیمی کنڈکٹرز میں امپیوریٹیز ‪LEDs‬ان‬


‫شامل ہوتی ہیں جیسا کہ گیلئیم‪ ،‬انڈیم‪ ،‬ایلومینیم اور فاسفائیڈ )‪(Impurities‬‬
‫وغیرہ۔ جب انہیں بیرون سے ایک خاص توانائی دی جائے تو ان میں موجود‬
‫الیکٹرانز توانائی کے ایک چھوٹے لیول سے ایک بڑے لیول تک پہنچ جاتے‬
‫ہیں اور ایک مختلف آربیٹل پر براجمان ہو جاتے ہیں۔ پھر ایک خاص وقت میں‬
‫یہ الیکٹران اپنی توانائی ایک فوٹان کی شکل میں خارج کر کے اپنے اصل‬
‫آربیٹل میں واپس آ جاتے ہیں۔ اس دوران جو فوٹان خارج ہوتا ہے یہ فوراً‬
‫‪66‬‬

‫سے دُور بھاگتا ہے تاکہ ہماری دنیا کو روشن ‪LED‬اپنے الیکٹران‪ ،‬ایٹم اور‬
‫کر سکے۔‬

‫)‪Monochromatic‬عموما ً اس عمل کے دوران نکلنے واال فوٹان یک رنگی (‬


‫ہوتا ہے۔ اگرچہ ر وشنی پیدا کرنے کا یہ ایک سستا اور آسان عمل ہے لیکن‬
‫کو ایک کمرہ روشن کرنے کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا کیونکہ یہ ‪LEDs‬‬
‫اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان سے ُمختلف رنگوں کی روشنی بیک وقت پیدا کی جا‬
‫سکے‪ ،‬جن کی سفید رنگ کے لئے ضرورت ہوتی ہے۔ اسکی بڑی وجہ ان‬
‫میں است عمال ہونے والے ایٹمز کی کوانٹم فطرت اور ان ایٹمز کے ‪LEDs‬‬
‫الیکٹرانز کی کوانٹم توانائی ہے۔‬

‫میں موجود ایک الیکٹران اپنے اصل آربیٹل میں آتے ہوئے توانائی ‪LED‬جب‬
‫خارج کرتا ہے تو یہ بنیادی طور پر ایک خاص مقدار میں ہوتی ہے جسے‬
‫کہا جاتا ہے۔ یہ توانائی تقسیم نہیں ہو سکتی یعنی اسے ”)‪"Quanta‬کوانٹا (‬
‫کہیں منتقل ہونا ہے تو یہ اپنی اسی پوری مقدار کے ساتھ ہی منتقل ہو گی۔ اور‬
‫ہی ہو گی یعنی یہ فریکشن میں ‪Whole Number‬یہ خارج شدہ توانائی ایک‬
‫نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر ایک الیکٹران یا تو "ایک کوانٹا" توانائی‬
‫خارج کرے گا یا "دو کوانٹا"۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ڈیڑھ کوانٹا توانائی‬
‫خارج کرے یا اڑھائی کوانٹا۔‬

‫اور پھر ایسا بھی نہیں کہ الیکٹران جس آربیٹل میں چاہے چھالنگیں مارتا‬
‫طول موج کے حساب سے اسے آربیٹل میسر آیا یہ‬ ‫پھرے بلکہ جہاں اس کی ُ‬
‫وہیں اپنا قیام کر لیتا ہے۔ اور ایسے آربیٹل بڑے محدود ہوتے ہیں۔ اوپر بیان‬
‫کردہ یہ دو فیکٹرز ایسے ہیں جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ الیکٹران‬
‫سے خارج شُدہ توانائی کا "کوانٹا" کیا ہو گا اور نتیجتا ً پیدا ہونے واال فوٹان‬
‫ت حال سے یہ واضح ہو جاتا‬ ‫کس خاصیت کا مالک ہو گا۔ اب اس ساری صور ِ‬
‫‪67‬‬

‫ہے کہ یہی دو فیکٹرز ہیں جو خارج شدہ فوٹان کی ُ‬


‫طول موج کا فیصلہ کرتے‬
‫طول موج پھر فوٹان کے رنگ کا فیصلہ کرتی ہے۔‬‫ہیں۔ اور یہی ُ‬

‫کے الیکٹرانز ایسے ہیں جو صرف اتنی مقدار کے "کوانٹا" ‪LEDs‬بہت ساری‬
‫طول موج ایٹم سے خارج ہوتے وقت تقریبا ً ‪ 700‬نینو‬ ‫خارج کرتے ہیں جن کی ُ‬
‫طول موج ہے تو نتیجتا ً ہمیں سرخ رنگ نظر‬ ‫میٹر ہوتی ہے۔ یہ سرخ رنگ کی ُ‬
‫آتا ہے۔ ان ایٹمز کی کوانٹم فطرت کچھ ایسی ہے کہ انکے الیکٹرانز کبھی اس‬
‫طول موج کا فوٹان خارج کر ہی نہیں سکتے لہذا یہ ہمیشہ سرخ‬ ‫سے بڑی ُ‬
‫رنگ کی روشنی نکالتے ہیں اور کبھی سبز‪ِ ،‬پیلی یا ِنیلی روشنی خارج نہیں کر‬
‫سکتے۔‬

‫ماضی میں سائنسدانوں نے ایٹمز کے اندر موجود الیکٹرانز پر مطالعہ کے‬


‫دوران میٹیریلز پر پڑنے والی روشنی سے یا میٹیریلز سے نکلنے والی‬
‫روشنی سے ایسے ہی مظاہر نوٹ کیے تھے۔‬

‫سنہ ‪ 1859‬کی بات ہے جب جرمنی کے دو سائنسدانوں گوسٹو رابرٹ کرچوف‬


‫اور رابرٹ ِول ہیلم بَنسن نے "بَنسن برنر" کا استعمال کرتے ہوئے کئی‬
‫میٹیریلز اور ِمنرلز کے چھوٹے چھوٹے ٹکروں کو اس قدر حرارت دی کہ یہ‬
‫چمکنے لگ گئیں اور ان میں سے روشنی کا اخراج ہونے لگا۔‬

‫مثالً سوڈیم کو جب گرم کیا گیا تو ِپیلے رنگ کی تیز روشنی پیدا ہوئی۔‬
‫پوٹاشئیم گرم کرنے پر ہلکی بنفشی روشنی سے چَمکی جبکہ مرکری سے تیز‬
‫سرخ رنگ کی روشنی کا اخراج ہوا۔‬ ‫ُ‬
‫‪68‬‬

‫رابرٹ کرچوف نے جب اس خارج شُدہ روشنی کو منشُور سے گزارا تو نتیجہ‬


‫ان کے لئے کافی حیران کُن تھا۔ منشور سے گزرنے کے بعد یہ روشنی مختلف‬
‫طول موج کی شُعاعیں موجود‬ ‫طول موج میں ِبکھر گئی تاہم ان میں وہ ساری ُ‬‫ُ‬
‫نہیں تھیں جو سفید روشنی میں ہوتی ہیں بلکہ یہاں صرف ایک خاص رنگ کی‬
‫طول موج ظاہر ہو رہی تھیں۔ مثالً سوڈیم سے نکلنے والی روشنی کو‬ ‫مختلف ُ‬
‫جب منشُور سے گزارا گیا تو یہ صرف ِپیلے رنگ کے سپیکٹرم میں موجود‬
‫طول موج کی شُعاعیں ظاہر کر رہی تھی۔ یہ مظہر بلکل ایسا ہی تھا‬ ‫مختلف ُ‬
‫میں ہوتا ہے۔‪LEDs‬جیسا آجکل‬

‫کرچوف اور بَنسن نے نہایت باریکی سے ان مختلف میٹیریلز سے خارج شُدہ‬


‫"ایمیشن‬
‫ِ‬ ‫روشنی کی سپیکٹرل الئینز کے نمبر اور پوزیشنز کو نوٹ کیا۔ انہیں‬
‫" کہا گیا۔ ‪Emission Spectra‬سپیکٹرا‬

‫جب یہی عمل انہوں نے متعدد میٹیریلز کے ساتھ کیا تو یہ واضح ہوا کہ ہر‬
‫میٹیریل سے خار ج شُدہ روشنی کا سپیکٹرم دوسرے میٹیریل سے مختلف تھا۔‬
‫بلکہ جب دو میٹیریلز کو اکٹھا کر کے یہ عمل کیا گیا تب بھی اُنہوں نے اپنے‬
‫اپنے اِنفرادی سپیکٹرم کو اکٹھا کر کے نتیجہ کے طور پر دکھایا۔‬

‫کرچوف اور بَنسن کے مطابق سائنسدانوں کے لئے یہ مختلف عناصر کی‬


‫پہچان کا ایک انتہائی زبردست طریقہ ہاتھ لگ گیا تھا۔ اسی سال تجربات کے‬
‫دوران ایک عنصر سے خارج شدہ روشنی کا ایسا سپیکٹرم مال جو پہلے‬
‫موجود عناصر میں سے کسی سے مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ یہ عناصر کی دُنیا‬
‫سیزیم‬
‫" رکھا گیا۔ جس کا ‪Cesium‬میں ایک نئی دریافت تھی۔ اس کا نام " ِ‬
‫الطینی مطلب "نِیال آسمانی رنگ واال" ہوتا ہے۔ اس نام سے ہی آپ اندازہ لگا‬
‫‪69‬‬

‫سکتے ہیں کہ اس عنصر کی "سپیکٹرل الئنز" روشنی کے سپیکٹرم کے کس‬


‫حصے میں ملی ہوں گی۔‬

‫ِلیتھئیم کے ایٹم میں مرکزے کے ِگرد تین الیکٹرانز براجمان ہوتے ہیں جنہیں‬
‫بیرون سے اگر توانائی دی جائے تو یہ اس توانائی کی ایک خاص مقدار جذب‬
‫کر کے آربیٹلز میں اُچھل کُود شروع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ‬
‫توانائی حاصل کر کے ایٹم سے باہر بھی آ جاتے ہیں اور پیچھے ِلیتھئیم کا‬
‫ایک آئن رہ جاتا ہے۔ لیتھئیم کے پہلے الیکٹران کو ایٹم سے باہر نکالنے کے‬
‫لئے اتنی زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ تقریبا ً ‪ِ 124‬کلو کیلوریز فی‬
‫مول ہوتی ہے۔ اسی لئے ِلیتھئیم کے ایٹم کو آئیونائیز کرنا اتنا مشکل نہیں‬
‫ہوتا۔‬

‫تاہم ِلیتھئیم کے آئن سے دوسرا الیکٹران باہر نکالنے کے لئے تقریبا ً ‪1740‬‬
‫ِکلو کیلوریز فی مول توانائی چاہئے ہوتی ہے اور اسی طرح تیسرا الیکٹران‬
‫باہر نکالنے کے لئے ‪ِ 2820‬کلو کیولریز فی مول کی بھاری مقدار میں توانائی‬
‫درکار ہوتی ہے۔‬

‫پہلے الیکٹران کو ایٹم سے باہر نکالنے کے لئے درکار توانائی یہ جاننے کے‬
‫لئے ایک اچھا پیمانہ ہوسکتی ہے کہ یہ الیکٹران اپنے ایٹم سے کس قدر‬
‫مضبوطی سے ُجڑا ہوا ہے۔‬

‫مقام‬
‫بوہر کے ایٹمی ماڈل میں الیکٹرانز کے مرکزے کے گرد مختلف ممکنہ ِ‬
‫قیام ہو سکتے ہیں جنہیں "پرنسپل کوانٹم نمبرز" کہا جاتا ہے۔ اور اسے‬
‫" سے ظاہر کرتے ہیں۔ ان مختلف مقامات پر موجود الیکٹرانز کی ‪n‬عموما ً "‬
‫توانائی کے لئے بوہر نے جو مساوات دی‪ ،‬وہ کچھ یوں ہے‪:‬‬
‫‪70‬‬

‫‪Eₙ = - E₀/n²‬‬

‫اس مساوات کی مدد سے یہ بات آسانی سے معلوم کی جا سکتی ہے کہ ایک‬


‫الیکٹران کسی خاص آربیٹل میں کس قدر توانائی حاصل کئے ہوئے ہے یا اگر‬
‫الیکٹران اپنے آربیٹل سے اوپر کسی آربیٹل میں جاتا ہے تو اسے توانائی کی‬
‫کتنی مقدار درکار ہو گی۔‬

‫) میں موجود الیکٹران اگر اپنے سے ‪n=1‬مرکزے کے قریب ترین آربیٹل (‬


‫) میں جائے گا تو یہ توانائی کی ایک خاص مقدار ہی لیکر ‪n=2‬اُوپر آربیٹل (‬
‫جائے گا اور یہ مقدار ہُو ب ُہو وہی ہو گی جو نئے آربیٹل میں جانے کے لئے‬
‫درکار ہونی چاہئے۔ یعنی اگر اس سے کم توانائی کا فوٹان اس الیکٹران سے‬
‫ٹکراتا ہے تو الیکٹران ہرگز زحمت نہیں فرمائے گا کہ وہ نئے آربیٹل میں‬
‫جانے کی کوشش بھی کرے۔‬

‫اسی طرح اگر ایک الیکٹران کسی بڑے آربیٹل سے چھوٹے آربیٹل کی طرف‬
‫حرکت کر تا ہے تو یہ توانائی کی ایک خاص مقدار ہی خارج کرے گا اور اس‬
‫خارج شدہ خاص توانائی کا مطلب ہے کہ وہ فوٹان ایک خاص رنگ کا ہی ہو‬
‫ہوں‪ ،‬یہ ایک خاص قسم کی روشنی ہی ‪LEDs‬گا۔ لہذا سوڈیم ہو یا آجکل کی‬
‫خارج کرتی ہیں یا اگر رنگ مختلف ہوتا بھی ہے تو الزمی اس خاص رنگ کے‬
‫سپیکٹرم میں سے ہی کوئی رنگ ہوتا ہے۔‬

‫مندرجہ باال تمام ُگفتگو سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر کسی میٹیریل یا‬
‫عنصر پر سفید روشنی (جس میں تمام رنگ موجود ہوتے ہیں) ڈالی جائے تو‬
‫طول موج کو ہی الیکٹرانز جذب کرتے ہیں۔ یعنی الیکٹران کو ایک‬‫چند خاص ُ‬
‫خاص توانائی کا فوٹان ہی چاہئے ہو گا جسے جذب کر کے یہ اگلے آربیٹل میں‬
‫‪71‬‬

‫طول موج الیکٹرانز نے جذب کر لیں‪ ،‬سفید روشنی کے‬ ‫چال جائے۔ اب جتنی ُ‬
‫سپیکٹرم میں اتنا خال پیدا ہو جائے گا۔‬

‫سفید روشنی کو کسی میٹیریل پر ڈال کر سپیکٹرم میں آنے والے خال کی مدد‬
‫‪Absorption‬میٹیریل کے بارے میں جاننا "ایبزارپشن اسپیکٹروسکوپی‬
‫" کہالتا ہے۔‪Spectroscopy‬‬

‫کسی میٹیریل سے خارج شُدہ روشنی کے سپیکٹرم کے مطالعہ سے میٹیریل‬


‫"ایمیشن اسپیکٹروسکوپی‬
‫ِ‬ ‫" ‪Emission Spectroscopy‬کے بارے میں جاننا‬
‫کہالتا ہے۔‬

‫اسپیکٹروسکوپی کے یہ دونوں طریقے ایک دوسرے کے بلکل برابر مگر‬


‫ُمخالف نتائج دیتے ہیں۔‬

‫اگرچہ بوہر کے ایٹمی ماڈل کو بڑی حد تک تبدیل کیا گیا ہے تاہم چند اصول‬
‫ابھی بھی قابل قبول ہیں‪:‬‬

‫‪ 1‬۔ الیکٹران کسی ایٹم کے مرکزے کے گرد ایک خاص فاصلے پر پائے جاتے‬
‫ہیں۔ جنہیں "آربیٹلز" کہا جاتا ہے۔‬

‫‪2‬۔ ایک آربیٹل میں موجود الیکٹران کی ایک خاص ُ‬


‫طول موج‬
‫کی اس مساوات ‪ )de Broglie‬ہوتی ہے۔ اس ُ‬
‫طول موج کو ‪(Wavelength‬‬
‫سے نکاال جا سکتا ہے‪:‬‬
‫‪72‬‬

‫‪Λ=h/P‬‬

‫طول ”‪ "λ‬سے مراد مومینٹم اور "‪ "P‬سے مراد پالنک کانسٹینٹ‪h" ،‬جہاں "‬ ‫ُ‬
‫موج کو ظاہر کرتا ہے۔‬

‫‪3‬۔ ایک ُمستقل اور متوازن آربیٹل وہی ہو گا جہاں الیکٹران (بطور موج) کی‬
‫ہو گا۔ اسے تکنیکی طور پر "ساکن ‪Whole Number‬لہروں کی تعداد ایک‬
‫" کہا جاتا ہے۔ ‪Standing Waves‬امواج‬
‫یہ ساکن امواج کے آربیٹلز ہی واحد آربیٹلز ہیں جہاں الیکٹران نہ توانائی خارج‬
‫کرتے ہیں اور نہ ہی ٹکراتے ہیں۔‬

‫کا کوانٹا ہو گی جسکی مقدار ‪4Whole Number‬۔ الیکٹرانز کی توانائی ایک‬


‫اس مساوات سے نکالی جا سکتی ہے‪:‬‬
‫‪Eₙ = - E₀/n‬‬
73
‫‪74‬‬

‫نیوٹرینو کی دریافت‪:‬‬

‫اس آرٹیکل میں ہم اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود لیپٹان فیملی سے تعلق رکھنے‬
‫کے متعلق جانیں گے۔ نیوٹرینو )‪neutrino‬والے ایک اہم پارٹیکل نیوٹرینو (‬
‫کی دریافت کی تاریخ پر بھی نظر ڈالیں گے اور اس کے متعلق موجود جدید‬
‫سائنسی فہم کو بھی سمجھیں گے۔ نیوٹرینو کے مفروضے سے لیکر دریافت‬
‫اور پھر اِن کے متعلق جدید سائنسی نُکتہ نظر تک بیان کرنے کو اتنا کچھ ہے‬
‫‪75‬‬

‫کہ ایک قسط میں اسے سمونا بہت مشکل ہے۔لہذا پارٹیکل فزکس کی اس‬
‫سیریز میں محض نیوٹرینو پر ہی تین سے زائد اقساط بن جائیں گی۔‬

‫اس سے پچھلے آرٹیکل میں 'لیپٹانز' پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اسی‬
‫آرٹیکل میں نیوٹرینو کے متعلق ہم نے یہ جانا تھا کہ نیوٹرینو برقی طور پر‬
‫نیوٹرل لیپٹان ہیں۔ ان کا ماس گو کہ آج بھی پارٹیکل فزکس کی ریسرچ کا ایک‬
‫اہم موضوع ہے لیکن اگر ان کا ماس ہو بھی تو نہایت کم ہو گا جس کی وجہ‬
‫سے نیوٹرینو روشنی کی رفتار کے بہت قریب قریب سفر کرتے ہیں۔ ہم نے یہ‬
‫بھی دیکھا تھا کہ نیوٹرینو برقی چارج اور کَلر چارج نہ رکھنے کی وجہ سے‬
‫برقی مقنا طیسی فورس اور سٹرانگ فورس کے ذریعے تعامل نہیں کرتے اور‬
‫صرف ویک فورس کے ذریعے ہی تعامل کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور چونکہ‬
‫ویک فورس بہت ہی چھوٹے فاصلوں پر اثر کرتی ہے اور کافی کمزور قوت‬
‫ہے لہذا نیوٹرینو مادے سے تعامل کئے بغیر اس کے اندر سے ِبال روک ٹوک‬
‫ُگزر جات ے ہیں اور ان کے مادے سے تعامل کے امکانات بہت بہت کم ہوتے‬
‫ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات میں کہیں دُور پیدا ہونے والے نیوٹرینو روشنی‬
‫کی رفتار کے نہایت قریب سفر کرتے ہوئے ہر سیکنڈ میں الکھوں کروڑوں کی‬
‫تعداد میں ہماری زمین اور اِس پر موجود ہر جسم (بشمول ہم سب) سے آرپار‬
‫ہو رہے ہیں اور ڈیٹیکٹ بھی نہیں ہو رہے۔ اسی وجہ سے انہیں گھوسٹ‬
‫بھی کہا جاتا ہے۔ )‪ghost particles‬پارٹیکلز (‬

‫نیوٹرینو سے ہمارا باضابطہ تعارف ہوئے تقریبا ً ایک صدی ہونے کو ہے لیکن‬
‫آج بھی یہ پارٹیکلز جدید فزکس کی تحقیقات میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔‬
‫نیوٹر ینو سے ہمارا پہال تعارف کوئی اتنے خوشگوار ماحول میں نہیں ہوا تھا۔‬
‫ت حال سے دوچار تھے اور‬ ‫ماہرین طبیعات ایک مخمصے والی صور ِ‬‫ِ‬ ‫اُس وقت‬
‫فزکس کا ایک اہم اور بنیادی قانون داؤ پر لگا ہوا تھا جسے قانون بقائے‬
‫توانائی یا الء آف کنزرویشن آف انرجی کہتے ہیں۔‬
‫‪76‬‬

‫یہ ‪ 1930‬کے اوائل کی بات ہے جب ایٹم کے متعلق ہماری سمجھ بُوجھ کافی‬
‫بہتر ہو چکی تھی۔ ایٹم کے دو اہم پارٹیکلز الیکٹران اور پروٹان دریافت ہو‬
‫چکے تھے۔ ایک ایٹم دوسرے ایٹم میں کیسے بدل جاتا ہے یعنی ریڈیو‬
‫ایکٹیویٹی پر بھی ہینری بیکیورل سے لیکر ردرفورڈ‪ ،‬پال ِوالرڈ‪ ،‬میری کیوری‬
‫اور ِپیئر کیوری ٹھیک ٹھاک کام کر چکے تھے۔ بالخصوص ردرفورڈ اور‬
‫فریڈرک سوڈی کی مشترکہ تحقیق سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ریڈیو‬
‫ایکٹویٹی کے دوران دو طرح کی شُعاعوں کا اخراج ہوتا ہے جو الفا ریز‬
‫تھیں۔ جنہیں بالترتیب الفا ڈیکے اور )‪beta rays‬اور ِبیٹا ریز ( )‪(alpha rays‬‬
‫ِبیٹا ڈیکے کہا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی پال ِوالرڈ نے ریڈیو ایکٹیویٹی کے دوران‬
‫ایک اور مختلف قسم کی ہائی انرجی ریز بھی دریافت کیں جو الفا اور بِیٹا ریز‬
‫کا )‪gamma rays‬سے مختلف تھیں۔ ردرفورڈ نے بعد میں انہیں گیما ریز (‬
‫نام دیا اور ڈیکے کے اس عمل کو گیما ڈیکے کہا گیا۔ ہینری بیکیورل نے ِبیٹا‬
‫ڈیکے میں خارج ہونے والے بِیٹا پارٹیکل پر تحقیق شروع کی اور اس کے‬
‫ماس اور چارج کی نسبت کا موازنہ جے جے تھامسن کے حالیہ دریافت شُدہ‬
‫الیکٹران سے کیا تو پتا چال کہ ِبیٹا ڈیکے میں خارج ہونے واال ِبیٹا پارٹیکل‬
‫دراصل جے جے تھامسن کا یہ الیکٹران ہی ہے۔‬

‫ماہرین طبیعات جو ریڈیو ایکٹیویٹی جیسے قُدرت‬


‫ِ‬ ‫وقت کا پہیہ گھومتا رہا اور‬
‫کے دلچسب مظہر کو سمجھنے میں لگے ہوئے تھے اچانک سے بِیٹا ڈیکے‬
‫کے مطالعے کے دوران ایک ایسی جگہ پر آ کر ُرک گئے کہ جہاں اب تک کی‬
‫کھڑی کی گئی فزکس کی خوبصورت عمارت کی بنیادیں ہلتی ہوئی محسوس‬
‫پس منظر کچھ یوں ہے کہ اب تک کی ریڈیو ایکٹیویٹی‬ ‫ہونے لگی تھیں۔ اس کا ِ‬
‫پر تحقیقات اور بنائی گئی فہم یہ تھی کہ ریڈیو ایکٹویٹی کے دوران خارج‬
‫ہونے واال پارٹیکل ڈیکے سے پہلے اور بعد میں بننے والے نیوکلیائی کی‬
‫کمیتوں کے فرق کے برابر توانائی لے کر جاتا ہے۔ مثال کے طور پر الفا‬
‫ڈیکے میں جب الفا پارٹیکل خارج ہوتا ہے تو اس کی توانائی بلکل وہی ہو گی‬
‫جتنا ڈیکے سے پہلے موجود نیوکلئیس اور بعد میں بننے والے نئے نیوکلئیس‬
‫کی کمیتوں میں فرق ہو گا۔ اس حساب سے ِبیٹا ڈیکے میں خارج ہونے والے‬
‫‪77‬‬

‫بِیٹا پارٹیکل (الیکٹران) کی توانائی بھی بلکل وہی ہونی چاہئے جتنا بِیٹا ڈیکے‬
‫سے پہلے موجود نیوکلئیس اور بعد میں بننے والے نئے نیوکلئیس کی کمیتوں‬
‫کا فرق ہے اور یوں خارج ہونے والے الیکٹران کی توانائی کسی ایک خاص‬
‫ری ایکشن کے لئے فکس ہونی چاہئے تھی لیکن تجرباتی نتائج یہ بتا رہے‬
‫تھے کہ ہر دفعہ الیکٹران توانائی کی ایک مختلف قیمت رکھتا ہے یعنی‬
‫مشاہداتی نتائج کے مطابق الیکٹران کی توانائی فکس ہونے کی بجائے‬
‫تھی۔ اسے ایک مثال سے سمجھ لیتے ہیں۔ ‪continuous‬‬

‫ِبیٹا ڈیکے کی ایک مثال بورون‪ ١٢-‬کی ہے جو ایک ِبیٹا پارٹیکل (الیکٹران)‬
‫خارج کر کے کاربن‪ ١٢-‬میں بدل جاتا ہے۔ اس ری ایکشن کو ہم یوں لکھ لیتے‬
‫ہیں‪:‬‬

‫‪¹²₅B → ¹²₆C + e⁻‬‬

‫اگر ہم اس خارج ہونے والے الیکٹران کی انرجی معلوم کرنا چاہیں تو وہ‬
‫بورون‪ ١٢-‬اور کاربن‪ ١٢-‬کے ماس کے فرق کے برابر ہونی چاہئے۔ چونکہ‬
‫یہ انرجی آئن شٹائن کے ماس انرجی ایکوی لینس پرنسپل کی مساوات‬

‫‪E=Δm.c²‬‬

‫سے مراد ڈیکے سے پہلے اور بعد میں ‪Δm‬کے مطابق ہوتی ہے جہاں‬
‫نیوکلیائی کی کمیتوں کا فرق ہے لہذا یہاں یہ ضروری ہے کہ کسی ایک خاص‬
‫نیوکلئیس (مثالً بورون) کے ڈیکے کے دوران الیکٹران ہمیشہ اِسی انرجی کو‬
‫لیکر خارج ہو۔ لیکن اگر ہم ایک ہی نیوکلئیس کے ِبیٹا ڈیکے کو بار بار‬
‫‪78‬‬

‫دیکھیں تو ہر دفعہ الیکٹران کی انرجی مختلف ہوتی ہے اور کبھی بھی‬


‫الیکٹران اُس مکمل انرجی کو حاصل نہیں کرتا جس کی پیشین گوئی اوپر دی‬
‫گئی مساوات کرتی ہے۔ سو یہاں انرجی غائب ہو رہی تھی۔ ڈیکے سے پہلے‬
‫اور بعد میں انرجی ایک جیسی نہیں رہ رہی تھی اور الء آف کنزرویشن آف‬
‫انرجی کی جان پر بن آئی تھی۔‬

‫صرف یہی ایک مسئلہ نہیں تھا۔ بِیٹا ڈیکے میں خارج ہونے واال بِیٹا پارٹیکل‬
‫یعنی الیکٹران انرجی کے ساتھ ساتھ لینئیر مومینٹم اور اینگولر مومینٹم کی‬
‫ماہرین‬
‫ِ‬ ‫کنزرویشن کے قوانین کی بھی دھجیاں بکھیر رہا تھا اور اُس وقت کے‬
‫طبیعات الیکٹران کی اس حرکت پر ششدر تھے۔ اینگولر مومینٹم کی خالف‬
‫ورزی کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ جیسے ہم نے اوپر بورون‪ ١٢-‬کی مثال لی تو‬
‫بورون‪ ١٢-‬کی نیوکلئیر اسپن ‪ 1‬ہوتی ہے۔ یہ کافی تفصیل طلب موضوع ہے‬
‫لیکن مختصراً یہ ک ہ کسی نیوکلئیس میں پروٹان اور نیوٹران کی انفرادی تعداد‬
‫ہے تو نیوکلئیس کی اسپن ایک مکمل )‪odd‬ہے یا طاق ( )‪even‬اگر ُجفت (‬
‫کی شکل میں ہوتی ہے جیسے بورون‪ ١٢-‬میں ٹوٹل )‪whole number‬عدد (‬
‫بارہ نیوکلیونز ہیں جن میں پروٹان اور نیوٹران کی انفرادی تعداد بالترتیب پانچ‬
‫اور سات ہے جو طاق ہے تو اس کی اسپن ‪ 1‬بنتی ہے جو مکمل عدد ہے۔‬
‫جبکہ اگر کسی نیوکلئیس میں پروٹان اور نیوٹران میں سے کسی ایک کی‬
‫انفرادی تعداد طاق ہے اور دوسرے کی ُجفت ہے تو ایسے نیوکلئیس کی اسپن‬
‫ہاف انٹیگرل ہوتی ہے یعنی ½ یا ‪ 2/3‬وغیرہ۔ ایسے ہی اب بورون‪ ١٢-‬چونکہ‬
‫مکمل عدد کی اسپن رکھتا ہے اور بِیٹا ڈیکے کے بعد نیوکلئیس کا ماس نمبر‬
‫نہیں بدلتا اور ڈیکے کے بعد بننے والے کاربن‪ ١٢-‬میں پروٹان اور نیوٹران‬
‫کی انفرادی تعداد چھ چھ ہو جاتی ہے جو کہ ُجفت ہے لہذا اس کے نیوکلئیس‬
‫کی اسپن صفر ہے جو مکمل عدد ہے تو یہاں ضروری تھا کہ جو ِبیٹا پارٹیکل‬
‫خارج ہو وہ بھی مکمل عدد کی اسپن ہی رکھے تبھی ڈیکے سے پہلے اور بعد‬
‫میں اینگولر مومینٹم کنزرو رہتا ہے۔ لیکن خارج ہونے واال الیکٹران تو ہاف‬
‫اسپن رکھتا ہے جو ½ ہے لہذا یہاں اینگولر مومینٹم کی بھی صریحا ً خالف‬
‫‪79‬‬

‫ورزی ہو رہی تھی۔ مایوسی کا عالم یہ تھا کہ نیل بوہر نے یہاں تک کہہ دیا کہ‬
‫کہیں ان انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے قوانین کو ہم نے خواہ مخواہ‬
‫میں کاندھوں پر سوار تو نہیں کیا ہوا۔ کیا یہ قوانین واقعی اہم ہیں بھی یا نہیں؟‬
‫کیا قُدرت کی کتاب میں انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کا قانون ہے بھی یا‬
‫یہ محض ہماری ہی خام خیالی ہے جو ہم ان قوانین کو اس قدر اہمیت دے رہے‬
‫ہیں۔‬

‫مایوسی اور بے بسی کے اس ماحول میں ایک شخص ایسا تھا جو فزکس کے‬
‫انتہائی بنیادی 'انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے قوانین' کو بچانے کے‬
‫لئے سرکرداں تھا۔ یہ وولف گینگ پالی تھے جنہوں نے حال ہی میں الیکٹرانز‬
‫کے لئے فطرت کے اس قانون پر سے پردہ اٹھایا تھا کہ کوئی سے دو‬
‫الیکٹرانز ایک جیسی کوانٹم سٹیٹس رکھتے ہوئے کسی ایک کوانٹم سسٹم میں‬
‫اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس اصول کو ہم 'پالی ایکسکلوژن پرنسپل' کے نام‬
‫سے جانتے ہیں۔‬

‫یہاں سے ہمارا نیوٹرینو سے باقاعدہ تعارف شروع ہو گا۔ اگلی قسط میں ہم‬
‫دیکھیں گے کہ وولف گینگ پالی نے بِیٹا ڈیکے میں انرجی اور مومینٹم کی‬
‫کنزرویشن نہ ہونے پر کیا تجاویز دیں اور دنیائے فزکس میں ان کی تجاویز پر‬
‫کیا ردِعمل سامنے آیا۔‬

‫پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود لیپٹان فیملی سے تعلق رکھنے‬
‫والے ایک اہم پارٹیکل 'نیوٹرینو' کے متعلق یہ دوسری قسط ہے۔ پہلی قسط‬
‫ماہرین طبیعات بِیٹا ڈیکے کے مطالعہ کے دوران ایک‬
‫ِ‬ ‫میں ہم نے دیکھا تھا کہ‬
‫مقام پر ُرک گئے تھے جہاں ِبیٹا ڈیکے میں خارج ہونے واال الیکٹران فزکس‬
‫کے انتہائی بنیادی انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے قوانین کی صریحا ً‬
‫‪80‬‬

‫ت حال یہ بن چکی تھی کہ فزکس‬ ‫خالف ورزی کر رہا تھا اور اُس وقت صور ِ‬
‫کے ان بنیادی قوانین کے متعلق بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ آیا یہ‬
‫کنزرویشن کے قوانین ضروری اور درست بھی ہیں یا نہیں؟ نِیل بوہر وہ پہلے‬
‫شخص تھے جنہوں نے اس معاملہ میں انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے‬
‫قوانین کو کٹہرے میں ال کھڑا کیا تھا۔‬

‫دیکھا جائے تو فزکس کی تاریخ میں یہ کوئی پہال واقعہ نہیں تھا کہ جہاں‬
‫تجرباتی نتائج کی روشنی میں فزکس کا کوئی انتہائی بنیادی قانون داؤ پر لگ‬
‫ماہرین طبیعات‬
‫ِ‬ ‫چکا ہو۔ اس سے پہلے اُنیسویں صدی کے بلکل آخر میں بھی‬
‫ت حال سے ُگزر چکے تھے جہاں تجرباتی نتائج نے فزکس‬ ‫ایسی ہی ایک صور ِ‬
‫کے ایک اور بنیادی اور اہم قانون کی درستگی اور آفاقیت پر سوال کھڑے کر‬
‫دئیے تھے۔ یہ تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون تھا جو بلیک باڈی ریڈی ایشن‬
‫کے م سئلے کے دوران داؤ پر لگا ہوا تھا۔ لیکن جرمنی سے تعلق رکھنے‬
‫والے فزسسٹ 'میکس پالنک' اس قانون کو بچانے کے لئے کڑی محنت میں‬
‫لگے ہوئے تھے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ انہوں نے کیسے بلیک باڈی ریڈی‬
‫ایشن کا مسئلہ حل کرتے ہوئے نہ صرف تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانون‬
‫کی عز ت بچائی بلکہ کالسیکل فزکس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک لکیر لگا‬
‫کر وہاں تک محدود کر دیا اور دُنیا کے لئے کوانٹم فزکس کے دروازے کھول‬
‫دیے۔‬

‫فزکس کے بنیادی قوانین چاہے وہ تھرمو ڈائنامکس کے قوانین ہوں یا انرجی‬


‫مومینٹم کی کنزرویشن کے قوانین ہوں یہ اس قدر بہترین طریقے سے بار بار‬
‫آزمائے جا چکے ہیں کہ ان کے غلط ہونے کا اب سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ یہ‬
‫ماہرین طبیعات کے ذہن میں تھی جب ِبیٹا ڈیکے کے‬
‫ِ‬ ‫بات نیل بوہر سمیت تمام‬
‫مسئلے پر سب سر جوڑ کر بیٹھے ہوئے تھے۔ اسی لئے نیل بوہر نے یہ رائے‬
‫بھی دی کہ ہو سکتا کہ کوانٹم لیول پر انرجی اور مومینٹم انفرادی واقعات کے‬
‫حساب سے کنزرو نہ رہتے ہوں بلکہ مختلف واقعات کی اوسط کے لحاظ سے‬
‫‪81‬‬

‫کنزرو ہوتے ہوں۔ ایک اور رائے پر بھی غور ہو رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ‬
‫ڈیکے کے دوران الیکٹران باقاعدہ ڈیٹیکٹ ہونے سے پہلے کچھ انرجی کھو‬
‫رہا ہو جس کی وجہ سے یہاں انرجی غائب ہوتی لگ رہی تھی۔ لیکن بار بار‬
‫تجربات کر کے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ مسئلہ کسی قسم کی تجرباتی‬
‫کا نہیں تھا۔ لہذا یہ کوئی اتنی تسلی بخش )‪experimental errors‬غلطیوں (‬
‫آراء نہیں تھیں جن پر اطمینان ظاہر کیا جا سکے۔‬

‫اہر طبیعات انرجی اور مومینٹم کی‬


‫یہاں بھی میکس پالنک کی طرح ایک م ِ‬
‫کنزرویشن کے قوانین کی الج رکھنے میں لگے ہوئے تھے۔ یہ آسٹریا سے‬
‫تعلق رکھنے والے فزسسٹ ُوولف گینگ پالی تھے جنہوں نے کچھ عرصہ‬
‫پہلے ہی 'پالی ایکسکلوژن پرنسپل' وضع کر کے اپنی صالحیتوں کا لوہا منوایا‬
‫تھا۔ وولف گینگ پالی نے تجویز یہ دی کہ ہو سکتا ہے ِبیٹا ڈیکے کے دوران‬
‫الیکٹران کے ساتھ کوئی اور پارٹیکل بھی خارج ہو رہا ہو جس کا ہم مشاہدہ‬
‫نہیں کر پا رہے۔ اور جو انرجی یہاں غائب ہو رہی ہے یہ پارٹیکل اُس انرجی‬
‫کو لیکر الیکٹران کے ساتھ خارج ہوتا ہو۔ پالی کے بقول یہ فوٹان تو نہیں ہو‬
‫سکتا تھا کیونکہ اگر یہ فوٹان ہوتا تو یہ الزمی مشاہدے میں آ چکا ہوتا لہذا یہ‬
‫ضرور کوئی اور مختلف پارٹیکل تھا جس سے ابھی ہم واقف نہیں تھے۔‬

‫یہ وہ دور تھا جب نئے پارٹیکلز کا تصور کچھ اتنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔‬
‫بالخصوص نیل بوہر ہر اُس شخص پر تنقید میں پیش پیش ہوتے تھے جو‬
‫کسی نئے پارٹیکل کا تصور دے۔ یہ صاحب آئن شٹائن کے روشنی کے کوانٹا‬
‫کے تصور کے شدید ناقد رہے۔ پال ڈیراک نے ریلیٹوسٹک کوانٹم میکینکس کی‬
‫شکنی کی گئی کہ یہ‬‫مساواتوں پر کام شروع کیا تو یہ کہہ کر ان کی حوصلہ ِ‬
‫کام تو آسکر کالئن اور والٹر گورڈن پہلے ہی اپنی 'کالئن‪-‬گورڈن مساوات' کے‬
‫ذریعے کر چکے ہیں۔ پال ڈیراک نے اپنی ریلیٹوسٹک کوانٹم میکینکس کی‬
‫مساوات کو استعمال کر کے الیکٹران کے اینٹی پارٹیکل 'پوزیٹران' کی پیشین‬
‫گوئی کی تو یہ بھی ان سے ہضم نہ ہوا۔ ہائیڈیکی یوکاوا نے نیوکلئیر فورسز‬
‫‪82‬‬

‫کی تھیوری کے دوران میزون پارٹیکل کی پیشین گوئی کی تو ان کو بھی‬


‫تضحیک کا سامنا کرنا پڑا۔ رچرڈ فائنمین کی کوانٹم الیکٹروڈائنامکس کی اپروچ‬
‫کی بھی شروع میں ایسے ہی بے قدری کی گئی۔ شاید یہ سارا ماحول وولف‬
‫گینگ پالی کے ذہن میں تھا جس کی وجہ سے وہ اپنے اس نئے پارٹیکل کی‬
‫پیشین گوئی کو کسی ریسرچ پیپر میں شائع نہیں کر سکے۔ اور انہوں نے ِبیٹا‬
‫ڈیکے میں الیکٹران کے ساتھ خارج ہونے والے اس نئے پارٹیکل کا ذکر اپنے‬
‫ایک خط میں کیا جو انہوں نے اپنے ساتھی فزسسٹس ِلیز مائیٹنر اور ہانس‬
‫گائیگر کو دسمبر ‪ 1930‬میں لکھا۔‬

‫اس خط میں پالی نے تجویز دی اور کہا کہ میرے پاس بِیٹا ڈیکے میں انرجی‬
‫کی کنزرویشن کے اصول کو بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم فرض کر لیں‬
‫ِبیٹا ڈیکے میں الیکٹران کے ساتھ ایک اور برقی طور پر نیوٹرل پارٹیکل خارج‬
‫ہو رہا ہے جسے میں 'نیوٹران' کا نام دینا چاہوں گا۔ یہ پارٹیکل نہ صرف اس‬
‫غائب ہونے والی انرجی کو لیکر جائے گا بلکہ الیکٹران کے برابر مخالف‬
‫سمت میں خارج ہو کر لینئیر مومینٹم کو بھی کنزرو کر دے گا۔ انہوں نے مزید‬
‫لکھا کہ میں جانتا ہوں کہ میری یہ رائے بڑی حد تک ناقاب ِل یقین ہے کیونکہ‬
‫اگر ایسے کوئی پارٹیکلز وجود رکھتے ہوتے تو اب تک مشاہدے میں آ چکے‬
‫ہوتے۔ لیکن میری نظر میں اس وقت اس سے بہتر اس مسئلے کا کوئی حل‬
‫نہیں ہے۔ وولف گینگ پالی کے لکھے اس مکمل خط کے انگریزی ترجمے کا‬
‫لنک اس آرٹیکل کے آخر میں دوں گا۔‬

‫پالی کی یہ تجویز بہت بہتر تھی لیکن ساتھ ساتھ بہت زیادہ مفروضاتی بھی‬
‫تھی جسے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ لیکن اٹلی سے تعلق رکھنے والے‬
‫ایک نہایت قابل فزسسٹ 'اینریکو فرمی' اس پر بہت سنجیدگی سے سوچ رہے‬
‫تھے۔ یہ وہی اینریکو فرمی ہیں جن کے نام پر اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود‬
‫پارٹیکلز کی ایک جماعت کو ہم 'فرمیونز' کہتے ہیں۔ فرمی نے پالی کے اس‬
‫نئے پارٹیکل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ِبیٹا ڈیکے کی تھیوری پر کام شروع کر‬
‫‪83‬‬

‫دیا۔ اسی دوران ‪ 1932‬میں جیمز چیڈ ِوک نے نیوکلئیس کے اندر ایک اور‬
‫پارٹیکل دریافت کر لیا جس کا ماس پروٹان کے تقریبا ً برابر ہی تھا۔ اس‬
‫پارٹیکل کا نام 'نیوٹران' رکھا گیا لیکن جیمز چیڈ ِوک کا یہ پارٹیکل بیٹا ڈیکے‬
‫میں الیکٹران کے ساتھ خارج ہونے والے پارٹیکل سے بہت زیادہ بھاری تھا‬
‫جس کا نام پالی نے بھی نیوٹران ہی رکھا تھا۔ لہذا اینریکو فرمی نے پالی کے‬
‫پارٹیکل کو جیمز چیڈ ِوک کے نیوٹران سے الگ رکھنے کے لئے نیوٹرینو‬
‫کا نام دے دیا۔ )‪(neutrino‬‬

‫اینریکو فرمی نے ‪ 1934‬میں بِیٹا ڈیکے پر اپنی تھیوری مکمل کر لی اور‬


‫ریسرچ پیپر شائع کرنے کا ارادہ کیا۔ لیکن چونکہ فرمی نے اس میں پالی کا‬
‫تجویز کردہ مفروضاتی پارٹیکل 'نیوٹرینو' شامل کیا تھا لہذا مشہور سائنسی‬
‫نے اس پیپر کو حد سے زیادہ مفروضاتی اور قیاس )‪Nature‬جریدے نیچر (‬
‫آرائی پر مبنی کہہ کر شائع کرنے سے انکار کر دیا۔ فرمی کا یہ پیپر بعد ازاں‬
‫جرمنی اور اٹلی میں دیگر سائنسی جرائد میں شائع ہوا۔ فرمی کی ِبیٹا ڈیکے‬
‫کی اس تھیوری نے سب سے پہلے ِویک انٹریکشن کو بیان کیا تھا جس کی‬
‫جگہ جدید فزکس میں اب ڈاکٹر عبدالسالم اور پروفیسر سٹیون وینبرگ کی‬
‫نے لے لی ہے۔ )‪Electroweak Theory‬الیکٹروویک تھیوری (‬

‫اب ہم بِیٹا ڈیکے میں پالی کے فرض کردہ پارٹیکل نیوٹرینو کی ُممکنہ‬
‫خصوصیات کا مختصر جائزہ لے لیتے ہیں کہ یہ کن خصوصیات کا مالک ہونا‬
‫چاہئے۔‬
‫پہلی قسط میں ہم نے بورون‪ ١٢-‬کی مثال لی تھی جو ِبیٹا ڈیکے کے دوران‬
‫الیکٹران خارج کر کے کاربن‪ ١٢-‬میں بدل جاتا ہے۔ اس عمل کو ہم نے یوں‬
‫لکھا تھا‪:‬‬

‫‪¹²₅B → ¹²₆C + e⁻‬‬


‫‪84‬‬

‫یہاں سے یہ واضح ہے کہ بورون‪ ١٢-‬کے نیوکلئیس میں موجود ایک نیوٹران‬


‫پروٹان میں بدال ہے۔ لہذا ہم ِبیٹا ڈیکے کے اس عمل کو یوں لکھ لیتے ہیں‪:‬‬

‫‪¹₀n → ¹₁p + e⁻ + υ‬‬

‫سے مراد پالی کا تجویز کردہ پارٹیکل نیوٹرینو ہے۔ اوپر لکھے گئے ‪υ‬جہاں‬
‫عمل کی مساوات پر غور کریں تو بائیں طرف جیمز چیڈ ِوک کا حالیہ دریافت‬
‫کردہ نیوٹران ہے جو برقی طور پر نیوٹرل ہے اور یہ آگے تین پارٹیکلز میں‬
‫ڈیکے کر رہا ہے جس میں پروٹان پر مثبت چارج ہے اور الیکٹران پر منفی‬
‫چارج ہے۔ یوں بائیں اور دائیں جانب مجموعی چارج کنزرو رہ رہا ہے۔ لہذا یہ‬
‫ضروری ہے کہ پالی کا تجویز کردہ نیوٹرینو برقی طور پر نیوٹرل ہو ورنہ‬
‫چارج کی کنزرویشن کا مسئلہ بن جائے گا۔ لہذا نیوٹرینو برقی چارج نہیں‬
‫رکھتے یہ نیوٹرل پارٹیکز ہوتے ہیں۔‬

‫چونکہ یہ بات فرمی اور پالی سمیت بہت سے ماہرین کے علم میں تھی کہ بِیٹا‬
‫ڈیکے کے دوران الیکٹران انرجی کا ایک بڑا حصہ لیکر جاتا ہے اور اس کے‬
‫ساتھی پارٹیکل کے پاس حاصل کرنے کو بہت کم انرجی بچتی ہے اور خارج‬
‫ہونے واال پارٹیکل فوٹان بھی نہیں ہے تو یہ طے کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہ‬
‫نیا پارٹیکل تھوڑا بہت ماس ضرور رکھتا ہے اور اس کا ماس الیکٹران کی‬
‫نسبت بہت کم ہو گا اور تھوڑا بہت ماس ہونے کی وجہ سے یہ روشنی کی‬
‫رفتار پر سفر نہیں کر سکے گا۔ پالی کی پیشین گوئی کے مطابق نیوٹرینو کا‬
‫ماس پروٹان کے ماس کے محض ایک فیصد تک ہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح‬
‫اور )‪ِ recoil‬بیٹا ڈیکے کے بعد بننے والے ڈاٹر نیوکلئیس کی ری کوائل (‬
‫الیکٹران کی سمت بھی مخالف نہیں تھی جس سے لینئر مومینٹم کی کنزرویشن‬
‫‪85‬‬

‫نہیں ہو پا رہی تھی جسے پالی کا تجویز کردہ نیوٹرینو الیکٹران کی مخالف‬
‫سمت میں حرکت کر کے کنزرو کر سکتا تھا۔‬

‫اسپن اینگولر مومینٹم کی کنزرویشن اس نئے پارٹیکل نیوٹرینو نے یوں حل‬


‫کی کہ چونکہ پہلے مشاہدات کے مطابق نیوٹران صرف پروٹان اور الیکٹران‬
‫میں ڈیکے کر رہا تھا تو اسپن اینگولر مومینٹم کی کنزرویشن نہیں ہو پا رہی‬
‫تھی۔ نیوٹران‪ ،‬پروٹان اور الیکٹران چونکہ تینوں فرمیونز ہیں لہذا ان کی اسپن‬
‫½ ہے۔ اس عمل کو پارٹیکلز کی اسپن کے حساب سے یوں لکھ لیتے ہیں‪:‬‬

‫‪¹₀n → ¹₁p + e⁻‬‬

‫½‪½→½+‬‬

‫ت حال اسپن اینگولر مومینٹم کی کنزرویشن کے خالف ہے کہ کوئی‬ ‫اب یہ صور ِ‬


‫ہاف اسپن رکھنے واال پارٹیکل دو ہاف اسپن رکھنے والے پارٹیکلز میں ڈیکے‬
‫کرے۔ کیونکہ ایسے دائیں جانب دو ہاف اسپن والے پارٹیکلز کی مجموعی‬
‫اسپن تو ایک مکمل عدد کی اسپن بن جائے گی جبکہ بائیں جانب ایک ہی‬
‫پارٹیکل ہے جس کی اسپن ہاف ہے۔ لہذا یہ ضروری ہے کہ دائیں جانب تیسرا‬
‫خارج ہونے واال پارٹیکل بھی اسپن ہاف ہی رکھے تب اس عمل کی مجموعی‬
‫اسپن دونوں طرف ہاف ہاف ہی رہے گی اور یوں اسپن اینگولر مومینٹم کنزرو‬
‫ہو جائے گا۔ یعنی کچھ یوں‪:‬‬

‫‪¹₀n → ¹₁p + e⁻ + υ‬‬


‫‪86‬‬

‫½‪½→½+½+‬‬

‫یہاں سے اسپن اینگولر مومینٹم کی کنزرویشن دیکھتے ہوئے بخوبی طے کیا‬


‫جا سکتا ہے کہ پالی کا تجویز کردہ نیوٹرینو ہاف اسپن (‪ )2/1‬رکھتا ہے جس‬
‫کا مطلب یہ بھی ایک 'فرمیون' ہے اور پالی ایکسکلوژن پرنسپل کے بھی تابع‬
‫ہو گا۔ اور چونکہ اس پر کسی قسم کے کَلر چارج کا مشاہدہ بھی نہیں کیا جا‬
‫سکا جس کا مطلب یہ سٹرانگ انٹریکشن میں حصہ نہیں لیتا لہذا اسے جدید‬
‫پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں بطور لیپٹان شامل کیا گیا۔‬

‫وولف گینگ پالی کی تجویز سے لیکر اگلے ‪ 26‬سال تک نیوٹرینو ایک‬


‫مفروضاتی پارٹیکل کے طور پر محض مساواتوں اور نظریات کی حد تک ہی‬
‫موجود رہا۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے ڈھونڈنے کی کوئی کوششیں نہیں ہوئیں‬
‫لیکن چونکہ مادے سے اس کے تعامالت بہت نایاب ہوتے ہیں لہذا کوششوں‬
‫کے باوجود نیوٹرینو کے مشاہداتی ثبوت میسر نہ آ سکے۔ اس دوران بہت‬
‫سے دوسرے ایٹمز کے نیوکلیائی کے بِیٹا ڈیکے کا گہرائی سے مطالعہ کیا گیا‬
‫جن کے نتائج اینریکو فرمی کی ِبیٹا ڈیکے کی تھیوری کے عین مطابق تھے‬
‫جس سے نیوٹرینو کی موجودگی پر ُمہر ثبت ہوتی تھی لیکن دو امریکی‬
‫فزسسٹس ایسے تھے جن کا ماننا تھا کہ اگر نیوٹرینو وجود رکھتے ہیں تو‬
‫تجرباتی طور پر بھی ثابت ہونے چاہئیں۔ انہوں نے پھر ‪ 1956‬میں نیوٹرینو کو‬
‫ڈھونڈ کر فطرت میں ان کی موجودگی کو ثابت کر بھی دیا۔ اگلی قسط میں اسی‬
‫پر گفتگو ہو گی کہ یہ دو امریکی فزسسٹس کون تھے اور انہوں نے کیسے‬
‫نیوٹرینو کو تجرباتی طور پر دریافت کیا۔‬
‫‪87‬‬

‫وولف گینگ پالی کے خط کا لنک‪:‬‬

‫‪https://microboone-docdb.fnal.gov/cgi-‬‬
‫‪bin/RetrieveFile?docid=953;filename=pauli%20letter1930.pdf‬‬

‫پارٹیکل فزکس کی اس سیریز میں نیوٹرینو کے متعلق یہ تیسری قسط ہے۔‬


‫پہلی دو اقساط میں ہم نے دیکھا کہ بِیٹا ڈیکے کے دوران خارج ہونے واال بِیٹا‬
‫پارٹیکل (الیکٹران) انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے بنیادی قوانین کی‬
‫پیروی نہیں کر رہا تھا اور اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے ُوولف گینگ‬
‫پالی نے ایک اور مختلف فرمیون کی پیشین گوئی کی جو ِبیٹا ڈیکے کے دوران‬
‫الیکٹران کے ساتھ خارج ہوتا ہے۔ اس نئے فرمیون کا نام 'نیوٹرینو' رکھا گیا۔‬
‫اس مفروضے سے انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کا مسئلہ حل ہو گیا۔‬
‫اینریکو فرمی نے ِبیٹا ڈیکے کو چار فرمیونز کے تعامل کے طور پر اپنی‬
‫'فرمی تھیوری آف بِیٹا ڈیکے' میں واضح کیا اور تقریبا ً اگلے چار عشروں تک‬
‫اینریکو فرمی کا یہ نظریہ بنیادی پارٹیکلز کے ڈیکے کے لئے ایک کامیاب‬
‫نظریہ کے طور پر مانا جاتا رہا۔‬

‫‪ 1934‬کے دوران میری کیوری اور پئیر کیوری کی صاحبزادی ایرین کیوری‬
‫پر )‪artificial radioactivity‬اور اُن کے شوہر فریڈرک مصنوعی تابکاری (‬
‫تحقیق کر رہے تھے۔ جب انہوں نے ایلومینئم پر الفا پارٹیکلز کی بوچھاڑ کی‬
‫تو ایلومینئم‪ 27-‬اس نیوکلئیر ری ایکشن کے دوران فاسفورس‪ 30-‬میں بدل گیا‬
‫جو کہ فاسفورس کا ایک انتہائی غیر مستحکم آئسو ٹوپ ہے۔ یہ فوراً سے بِیٹا‬
‫ڈیکے کر کے سلیکون‪ 30-‬میں بدل جاتا ہے۔‬
‫‪88‬‬

‫‪²⁷₁₃Al + ⁴₂He → ³⁰₁₅P + ¹₀n‬‬

‫)‪³⁰₁₅P → ³⁰₁₄Si + e⁺ + ⁻υₑ →(Beta Decay‬‬

‫لیکن یہاں قاب ِل مشاہدہ بات یہ تھی اس دوران بطور ِبیٹا پارٹیکل خارج ہونے‬
‫واال پارٹیکل الیکٹران کی طرح کا ہی تھا لیکن الیکٹران کے برعکس یہ مثبت‬
‫چارج کا حامل ذرہ تھا۔ چونکہ تین سال قبل پال ڈیراک اپنے ایک مشہور پیپر‬
‫کے ذریعے الیکٹران کے اینٹی پارٹیکل کا عندیہ دے چکے تھے جسے ایک‬
‫سال بعد کارل اینڈرسن نے کاسمک ریز کے مطالعہ کے دوران دریافت بھی کر‬
‫لیا تھا۔ لہذا ایرین کیوری اور فریڈرک کے لئے یہ طے کرنا مشکل نہیں تھا کہ‬
‫یہ ذرہ وہی پال ڈیراک کا 'پوزیٹران' ہی ہے جو دراصل الیکٹران کا اینٹی‬
‫پارٹیکل ہے۔‬

‫فاسفورس‪ 30-‬کا سلیکون‪ 30-‬میں بدلنا ِبیٹا پلس ڈیکے تھا جہاں ایک نیوٹران‬
‫پروٹان میں بدلنے کی بجائے فاسفورس کا ایک پروٹان نیوٹران میں بدل کر‬
‫سلیکون کا نیوکلئیس بناتا ہے اور ساتھ بِیٹا مائنس ڈیکے کے برعکس‬
‫الیکٹران کا اینٹی پارٹیکل پوزیٹران اور نیوٹرینو خارج ہوتا ہے۔ اسی دوران‬
‫ورنر ہائزنبرگ جیسے عظیم فزسسٹ کے شاگرد اور اینریکو فرمی کے‬
‫اسسٹنٹ اٹلی سے تعلق رکھنے والے گیان کارلو ِوک نے فرمی کی ِبیٹا ڈیکے‬
‫کی تھیوری کو آگے بڑھایا اور بِیٹا ڈیکے کے ایک مزید مختلف طریقہ کار کی‬
‫پیشین گوئی کی جسے 'الیکٹران کیپچر' کہتے ہیں۔ اس مظہر کو بعد میں جلد‬
‫ہی ایک امریکی فزسسٹ لوئس والٹر نے باقاعدہ دریافت بھی کر لیا۔‬
‫‪89‬‬

‫جیسا کہ پچھلی اقساط میں یہ ذکر ہوا تھا کہ نیوٹرینو چونکہ برقی چارج نہیں‬
‫رکھتے اور ان کی کمیت الیکٹران سے بھی بہت زیادہ کم ہوتی ہے لہذا ان کا‬
‫مادہ کے ساتھ تعامل بہت نایاب ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نیوٹرینو کے برا ِہ‬
‫راست مشاہدے یا دریافت میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔ نیوٹرینو کے موجد‬
‫ُوولف گینگ پالی نے اس بارے میں کہا تھا کہ‪:‬‬

‫"میں نے ایک بڑا خطرناک کام کر دیا ہے۔ میں نے ایک ایسے ذرے کی تجویز‬
‫سراغ نہ ِمل سکے"۔‬
‫پیش کی ہے جس کا شاید کبھی بھی کوئی ُ‬

‫نیوٹرینو کے متعلق یہ الفاظ اُس شخص کے تھے جس نے نیوٹرینو کی پیشین‬


‫گوئی کی تھی۔ لیکن ِبیٹا پلس ڈیکے کی کراس سمٹری یہ بتاتی تھی کہ اگر‬
‫کروڑوں اربوں کی تعداد میں نیوٹرینوز کا کسی نیوکلئیس کے ساتھ تعامل ہو‬
‫تو امکانات ہیں کہ کوئی ایک نیوٹرینو شاید نیوکلئیس کے پروٹان سے تعامل‬
‫کر کے اسے نیوٹران میں بدل دے۔ ایسی صورت میں یہ ِبیٹا پلس ڈیکے کا‬
‫انورس عمل ہو گا۔ یعنی بیٹا پلس ڈیکے کو ہم یوں لکھتے ہیں کہ جب پروٹان‬
‫نیوٹران میں بدلے اور ساتھ پوزیٹران اور نیوٹرینو خارج ہوں۔‬

‫‪⁰₁p → ¹₀n + e⁺ + υₑ‬‬

‫جبکہ اسی عمل کا انورس یوں ہو گا کہ اگر پروٹان کے ساتھ نیوٹرینو کا اینٹی‬
‫پارٹیکل یعنی اینٹی نیوٹرینو انٹریکٹ کرے اور پروٹان نیوٹران میں بدل جائے‬
‫جبکہ ساتھ پوزیٹران بطور بِیٹا پارٹیکل خارج ہو۔ اس عمل کو ہم یوں لکھتے‬
‫ہیں‪:‬‬

‫‪⁻υₑ + ⁰₁p → ¹₀n + e⁺‬‬


‫‪90‬‬

‫یہی وہ انٹریکشن تھا جسے نیوٹرینو کی موجودگی کو دریافت کرنے کے لئے‬


‫ماہرین سنجیدگی سے استعمال کرنے پر متفق تھے گو کہ ِچین سے تعلق‬
‫رکھنے والے فزسسٹ وانگ کنچھانگ نے 'الیکٹران کیپچر' کے ذریعے بھی‬
‫نیوٹرینو کی کھوج لگانے کی تجویز دی تھی جس پر جیمز ایلن نے تجربات‬
‫بھی کئے۔ ان تجربات کے نتائج اینریکو فرمی کی ِبیٹا ڈیکے کی تھیوری کے‬
‫عین مط ابق تھے جس سے نیوٹرینو کی موجودگی تو ثابت ہوتی تھی لیکن یہ‬
‫تجربات نیوٹرینو کی باقاعدہ دریافت کا درجہ حاصل نہ کر سکے۔‬

‫یہ ‪ 1951‬کا سال تھا۔ ُوولف گینگ پالی کو نیوٹرینو کو تجویز کئے اکیس سال‬
‫ہو چکے تھے۔ اس دوران نیوٹرینو کو ڈھونڈنے کی بہت کوششیں ہوئیں لیکن‬
‫تسلی بخش نتائج نہ مل سکے۔ ‪ 1946‬میں امریکی ائیر فورس سے ریٹائرڈ ہو‬
‫کر دو سال قبل ہی ‪ 1949‬میں فزکس میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے‬
‫کالئیڈ کووان ابھی نئے نئے الس آالموس نیشنل لیبارٹری میں آئے تھے جہاں‬
‫ان کی مالقات پروفیسر فریڈرک رائنس سے ہوئی۔ ان دو ماہرین نے نیوٹرینو‬
‫کو اِسی انورس بیٹا ڈیکے کے عمل کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوششیں شروع‬
‫کر دیں جس کا ذکر ابھی ہم نے اوپر کیا۔‬

‫چونکہ نیوٹرینو کا مادہ سے تعامل بہت ہی کم ہوتا ہے لہذا انہیں کسی ایسے‬
‫سورس کی ضرورت تھی جہاں سے انہیں نیوٹرینو کی خارج ہونے والی کثیر‬
‫تعداد مل سکے۔ کیونکہ جتنے زیادہ نیوٹرینو ہوں گے اتنے ہی انورس بِیٹا‬
‫ڈیکے کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ اکیس سال سے ہماری نظروں سے‬
‫اوجھل محض مساواتوں اور نظریات میں دکھائی دینے واال نیوٹرینو پارٹیکل‬
‫باقاعدہ دریافت ہونے سے مزید محض دو یا تین سال کی دُوری پر ہی تھا۔‬
‫‪91‬‬

‫اگ لی قسط میں ہم دیکھیں گے کہ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے نیوٹرینو‬
‫کی کثیر تعداد حاصل کرنے کے لئے کس جگہ کا انتخاب کیا اور ان کے تجربے‬
‫کا سیٹ اَپ کیا تھا۔ ہم فزکس کی تاریخ کے ایک ُ‬
‫سنہری باب‪ ،‬نیوٹرینو کی‬
‫دریافت کے اس عظیم الشان تجربے کو اگلی قسط میں تفصیل سے دیکھیں‬
‫گے۔‬
‫‪92‬‬

‫پارٹیکل فزکس کی سیریز میں نیوٹرینو کی دریافت پر جاری سلسلہ کی یہ‬


‫چوتھی قسط ہے۔ بات ِبیٹا ڈیکے کے دوران انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن‬
‫نہ ہونے سے شروع ہوئی تھی اور اس مسئلے کو یوں حل کیا گیا کہ بِیٹا‬
‫ڈیکے کے دوران الیکٹران کے ہمراہ ایک اور پارٹیکل بھی خارج ہوتا ہے جو‬
‫نہ صرف غائب شُدہ انرجی کو لیکر جاتا ہے بلکہ ِلینئر اور اینگولر مومینٹم کی‬
‫کنزرویشن کے مسائل بھی حل کر دیتا ہے۔ اس پارٹیکل کو 'نیوٹرینو' کا نام دیا‬
‫گیا تھا۔ نیوٹرینو کا مادہ کے ساتھ تعامل اس قدر نایاب تھا کہ نظریاتی حساب‬
‫کتاب کے مطابق ہر سیکنڈ میں کھربوں کی تعداد میں نیوٹرینو بغیر کسی تعامل‬
‫کے زمین کے آر پار ہو سکتے تھے۔ ایسے میں نیوٹرینو کی کھوج میں بہت‬
‫ماہرین طبیعات یہ سوچنے پر مجبور تھے کہ‬
‫ِ‬ ‫مشکل پیش آ رہی تھی اور‬
‫نیوٹرینو کا وجود شاید ہمیشہ ایک فرضی پارٹیکل کے طور پر ہی رہے گا۔‬

‫ایسے میں دو امریکی فزسسٹس کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس انورس ِبیٹا‬
‫مصروف عمل تھے۔ پچھلی‬
‫ِ‬ ‫ڈیکے کے عمل سے نیوٹرینو کو ڈھونڈنے میں‬
‫قسط کے آخر میں ہم نے دیکھا تھا کہ دونوں ماہرین کسی ایسے سورس کی‬
‫تالش میں تھے جہاں سے انہیں کثیر تعداد میں نیوٹرینو مل سکیں۔ تاکہ‬
‫انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کے واقع ہونے کے امکانات زیادہ سے زیادہ ہو‬
‫سکیں۔ اِس قسط میں اِسی پر گفتگو ہو گی کہ اس قدر کثیر تعداد میں نیوٹرینو‬
‫حاصل کرنے کا سفر کیسا تھا۔ انورس ِبیٹا ڈیکے کا عمل کچھ یوں تھا کہ جب‬
‫نیوٹرینو کا اینٹی پارٹیکل یعنی اینٹی نیوٹرینو کسی ایٹم کے نیوکلئیس میں‬
‫موجود پروٹان سے تعامل کرے اور اسے نیوٹران میں بدل دے اور ساتھ‬
‫الیکٹران کا اینٹی پارٹیکل پوزیٹران خارج ہو۔‬

‫‪⁻υₑ + ⁰₁p → ¹₀n + e⁺‬‬


‫‪93‬‬

‫جنگ عظیم کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کا مقابلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔‬‫ِ‬ ‫دوسری‬
‫ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ ک ے ٹیسٹ بھی تواتر کے ساتھ ہو رہے تھے۔ یہ‬
‫کے )‪nuclear fission‬ایٹمی ہتھیار چونکہ بنیادی طور پر نیوکلئیر فِشن (‬
‫اصول پر کام کرتے ہیں لہذا کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس اس بات پر متفق‬
‫تھے کہ ایسے ہی کسی ایٹمی ہتھیار کے ٹیسٹ کے دوران تجربے کو کیا‬
‫مل سکے۔ )‪flux‬جائے تاکہ انہیں یہاں سے نیوٹرینو کی مطلوبہ کثیر فلکس (‬
‫ہم پہلے ُمختصراً یہ دیکھ لیں کہ نیوکلئیر فِشن کے عمل کے دوران اینٹی‬
‫نیوٹرینو کیسے پیدا ہوتے ہیں۔‬

‫نیوکلئیر فِشن کے طریقہ کار کو ہم اب بخوبی سمجھتے ہیں جہاں مثال کے‬
‫طور پر یورینیم کا نیوکلئیس ٹوٹ کر مزید چھوٹے نیوکلیائی میں تقسیم ہو جاتا‬
‫ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں نئے بننے والے نیوکلئیس بھی مستحکم نہیں‬
‫ہوتے بلکہ مسلسل بِیٹا ڈیکے کر کے مزید مستحکم نیوکلئیس میں بدلتے‬
‫رہتے ہیں۔ یورینیم کی ہی ِفشن کو اگر دیکھیں تو یورینیم‪ 235-‬سے جب ایک‬
‫نیوٹران آ کر ٹکراتا ہے تو یورینیم‪ 236-‬کا نیوکلئیس بن جاتا ہے جو انتہائی‬
‫غیر مستحکم ہے اور فوراً سے فِشن کے عمل کے ذریعے دو چھوٹے‬
‫نیوکلیائی ِزینون‪ 140-‬اور سٹرونٹیم‪ 94-‬میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ساتھ دو‬
‫اضافی نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔‬

‫‪²³⁵₉₂U + ¹₀n → ²³⁶₉₂U‬‬

‫‪²³⁶₉₂U → ¹⁴⁰₅₄Xe + ⁹⁴₃₈Sr + 2¹₀n‬‬


‫‪94‬‬

‫اب اس فِشن کے نتیجے میں بننے والے زینون‪ 140-‬اور سٹرونٹیم‪ 94-‬کے‬
‫سیزیم‪-‬‬
‫نیوکلئیس خود غیر مستحکم ہیں جو بِیٹا مائنس ڈیکے کر کے بالترتیب ِ‬
‫‪ 140‬اور اِٹریم‪ 94-‬میں بدل جاتے ہیں۔‬

‫)‪¹⁴⁰₅₄Xe → ¹⁴⁰₅₅Cs + e⁻ + ⁻υₑ → (β⁻ Decay‬‬

‫)‪⁹⁴₃₈Sr → ⁹⁴₃₉Y + e⁻ + ⁻υₑ → (β⁻ Decay‬‬

‫یُوں ایٹمی دھماکے کے دوران اوپر لکھے بِیٹا مائنس ڈیکے کے عمل کے‬
‫سیزیم اور اِٹریم‬‫تحت کثیر تعداد میں اینٹی نیوٹرینو خارج ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ ِ‬
‫سیزیم آگے بیریم (‬ ‫میں ڈیکے کرتا ہے۔ بیریم )‪Ba‬پر آ کر ُرک نہیں جاتا بلکہ ِ‬
‫سیریم ( )‪La‬آگے لینتھنم (‬‫میں ِبیٹا مائنس ڈیکے )‪Ce‬میں اور لینتھنم آگے ِ‬
‫کرتا ہے۔ اسی طرح سٹرونٹیم کے ڈیکے سے بننے واال اِٹریم آگے ِزرکونیم‬
‫میں بدل جاتا ہے جو بالآخر ایک مستحکم نیوکلئیس ہے۔ یہ سارے نئے )‪(Zr‬‬
‫ایلیمنٹس کے نیوکلیائی ِبیٹا مائنس ڈیکے کے ذریعے ہی بن رہے ہیں اور ساتھ‬
‫اینٹی نیوٹرینو پیدا ہ و رہے ہیں۔ غرض یہاں سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ ایک‬
‫ایٹمی دھماکے میں نیوکلئیر فِشن کے عمل کے دوران کتنی کثیر تعداد میں‬
‫اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے ہیں جنہیں اس تجربے کے لئے استعمال کیا جانا تھا۔‬

‫‪ 1951‬کے وسط میں امریکہ ایسے ہی کچھ ایٹمی ہتھیاروں کے ٹیسٹ کرنے‬
‫جا ر ہا تھا۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس کو بہترین موقع مل چکا تھا جہاں‬
‫وہ اپنا تجربہ کر سکیں۔ امریکی حکومت سے اس تجربے کی اجازت بھی لے‬
‫لی گئی۔ ایٹمی ٹیسٹ سے چند روز قبل کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے‬
‫اپنے ممکنہ تجربے کے متعلق الس آالموس نیشنل لیبارٹری میں دیگر ماہرین‬
‫کو بریفنگ دی۔ نیوٹرینو کی بنیاد پر ِبیٹا ڈیکے کی تھیوری دینے والے‬
‫‪95‬‬

‫اینریکو فرمی بھی اس وقت ان کے بیچ موجود تھے۔ ان دنوں الس آالموس‬
‫لیبارٹری میں فزکس ڈویژن کے سربراہ ڈاکٹر کیلوگ ہوتے تھے۔ انہوں نے‬
‫سنا اور آخر میں مشورہ دیا کہ یہ ایٹمی ٹیسٹ ایک دفعہ‬ ‫اس ساری گفتگو کو ُ‬
‫ہی ہونا ہے اور اس دوران آپ صرف ایک بار اپنا تجربہ کر سکتے ہیں جبکہ‬
‫اگر تجربہ کامیاب بھی رہا پھر بھی آپ کو اسے بار بار دُہرا کر نتائج اکٹھے‬
‫کرنے ہوں گے تاکہ تجربے کے نتائج پر اطمینان ظاہر کیا سکے۔ لہذا آپ کو‬
‫اگلے ایٹمی ٹیسٹ کا انتظار کر نا پڑے گا۔ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ آپ کسی‬
‫نیوکلئیر ری ایکٹر کا انتخاب کریں جہاں فِشن کے اِسی عمل کے ذریعے‬
‫نیوکلئیر فیول تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی تجربے کے لئے درکار نیوٹرینوز کی‬
‫کثیر تعداد مل سکتی ہے۔ یہ اس قدر شاندار خیال تھا کہ کالئیڈ کووان اور‬
‫فریڈرک را ئنس نے فوری طور پر اپنے تجربات ملتوی کر دیئے اور کسی‬
‫نیوکلئیر ری ایکٹر کی تالش شروع کر دی جہاں فائدہ یہ ہونا تھا کہ نیوٹرینو‬
‫کے تجربہ کو نتائج پر تسلی کے لئے بار بار دُہرایا جا سکتا تھا۔‬

‫امریکہ میں اُس وقت بہت سے نیوکلئیر ری ایکٹر فعال تھے۔ اِن نیوکلئیر ری‬
‫کے ایسے آئسو ٹوپ بنائے جاتے تھے )‪Pu‬ایکٹرز میں اُن دِنوں پلوٹونیم (‬
‫جو بہت زیادہ تابکار ہوں۔ مثال کے طور پر پلوٹونیم‪ 238-‬اور پلوٹونیم‪239-‬‬
‫وغیرہ۔ پلوٹونیم کے ان تابکار آئسو ٹوپس کو ایٹمی ہتھیاروں میں بطور فیول‬
‫استعمال کیا جاتا تھا۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس کو پہلے پہل امریکی‬
‫پر اپنا تجربہ کرنے کی )‪Hanford site‬ریاست واشنگٹن میں ہینفرڈ سائٹ (‬
‫جنگ عظیم‬‫ِ‬ ‫اجازت ملی۔ ہینفرڈ سائٹ وہی نیوکلئیر ری ایکٹر تھا جہاں دوسری‬
‫کے دوران جاپان کے شہر ناگاساکی پر پھینکے گئے ایٹم بم میں استعمال‬
‫ہونے والی پلوٹونیم تیار کی گئی تھی۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے‬
‫تجربات کی شروعات اِسی نیوکلئیر ری ایکٹر سے کی لیکن بعد میں انہیں‬
‫‪Savannah‬امریکی ریاست جنوبی کیرولینا جانا پڑا جہاں سوانہا ِریور پالنٹ (‬
‫کے نام سے ایک بڑا نیوکلئیر ری ایکٹر موجود تھا۔ یہاں )‪River Plant‬‬
‫یورینیم‪ 238-‬سے پلوٹونیم کے دو انتہائی تابکار آئسو ٹوپ پلوٹونیم‪ 238-‬اور‬
‫‪96‬‬

‫پلوٹونیم‪ 239-‬تیار کئے جاتے تھے۔ اور اس دوران بھی بِیٹا مائنس ڈیکے کے‬
‫عمل سے کثیر تعداد میں اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے تھے۔ اس کا طریقہ کار یوں‬
‫تھا کہ یورینیم‪ 238-‬کے نیوکلئیس کا ٹکراؤ ایک نیوٹران سے کروایا جاتا تھا‬
‫جسے جذب کر کے یہ یورینیئم‪ 239-‬بن جاتا تھا جو ِبیٹا ڈیکے کر کے فوراً‬
‫سے نیپچونیم‪ 239-‬میں بدل جاتا تھا۔ نیپچونیم خود سے ایک غیر مستحکم‬
‫نیوکلئیس ہے لہذا یہ دوبارہ سے سے ِبیٹا ڈیکے کر کے پلوٹونیم‪ 239-‬میں‬
‫بدل جاتا تھا۔ اس نیوکلئیر ری ایکشن کی مساوات یوں بنتی ہے۔‬

‫‪²³⁸₉₂U + ¹₀n → ²³⁹₉₂U‬‬

‫)‪²³⁹₉₂U → ²³⁹₉₃Np + e⁻ + ⁻υₑ → (β⁻ Decay‬‬

‫)‪²³⁹₉₃Νp → ²³⁹₉₄Pu + e⁻ + ⁻υₑ → (β⁻ Decay‬‬

‫اسی نیوکلئیر ری ایکٹر میں ایک اور مختلف نیوکلئیر ری ایکشن سے‬
‫پلوٹونیم‪ 238-‬کو بھی تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے لئے یورینیم‪ 238-‬پر‬
‫کے نیوکلئیس کی بوچھاڑ کرنے پر )‪H‬ہائیڈروجن کے آئسو ٹوپ ڈیوٹیریم (‪²‬‬
‫یورینیم کو پہلے نیپچونیم‪ 238-‬میں بدال جاتا پھر نیپچونیم‪ 238-‬بِیٹا مائنس‬
‫ڈیکے کے ذریعے پلوٹونیم‪ 238-‬میں بدل جاتی تھی۔ اس مختصر ری ایکشن‬
‫کی مساوات یوں بنتی ہے‪:‬‬

‫‪²³⁸₉₂U + ²₁H → ²³⁸₉₃Np + 2¹₀n‬‬


‫‪97‬‬

‫)‪²³⁸₉₃Np → ²³⁸₉₄Pu + e⁻ + ⁻υₑ→ (β⁻ Decay‬‬

‫غرض یہ ساری تفصیل لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپکو پتا چلے کہ ایک‬
‫نیوکلئیر ری ایکٹر میں بھی ِبیٹا مائنس ڈیکے کے عمل کے ذریعے کتنی کثیر‬
‫تعداد میں اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس تجربے‬
‫کے لئے نیوکل ئیر ری ایکٹر سے حاصل ہونے والے اینٹی نیوٹرینو کی تعداد‬
‫پچاس کھرب فی سیکنڈ فی مربع سینٹی میٹر تھی۔ یعنی ہر مربع سینٹی میٹر‬
‫سے ہر ایک سیکنڈ میں پچاس کھرب اینٹی نیوٹرینو گزر رہے تھے۔ یہی وہ‬
‫نیوکلئیر ری ایکٹر تھا جہاں اگلے کچھ دنوں میں نیوٹرینو کی دریافت کا مسئلہ‬
‫حل ہونے واال تھا۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس یہاں وہ تجربہ کرنے جا‬
‫رہے تھے جس نے غیر مرئی نیوٹرینو پر سے پوشیدگی کے تمام غالف اتار‬
‫کر اسے ایک حقیقی اور دریافت شُدہ پارٹیکل کا درجہ دے دینا تھا۔‬

‫چھبیس سال سے جس پارٹیکل کو ڈھونڈنے کی کوششیں جاری تھیں‪ ،‬جس‬


‫کے متعلق ُوولف گینگ پالی سمیت کئی بڑے ماہرین کا خیال تھا کہ یہ پارٹیکل‬
‫شاید کبھی دریافت نہ ہو سکے‪ ،‬اِس نیوٹرینو کو ڈھونڈنے کے لئے کالئیڈ‬
‫کووان اور فریڈرک رائنس نے کون سا جال بچھایا؟ ان کے تجربے کا سیٹ اَپ‬
‫کیا تھا؟‬
‫‪98‬‬

‫پارٹیکل فزکس کی اس سیریز میں نیوٹرینو کی دریافت پر جاری سلسلہ کی یہ‬


‫پانچویں قِسط ہے۔ اس قسط میں ہم اُس تجربے کے متعلق تفصیلی طور پر‬
‫جانیں گے جو کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے نیوٹرینو کو دریافت کرنے‬
‫کے لئے کیا۔ اس سے پچھلی قسط میں ہم نے دیکھا تھا کہ دونوں ماہرین‬
‫انورس ِبیٹ ا ڈیکے کے عمل کے ذریعے نیوٹرینو کا وجود ثابت کرنا چاہ رہے‬
‫تھے۔ انورس بیٹا ڈیکے کا عمل کچھ یوں تھا کہ نیوٹرینو کا اینٹی پارٹیکل‬
‫یعنی اینٹی نیوٹرینو کسی ایٹم کے نیوکلئیس میں موجود پروٹان سے تعامل کر‬
‫کے اسے نیوٹران میں بدل دے اور ساتھ الیکٹران کا اینٹی پارٹیکل یعنی‬
‫پوزیٹران خارج ہو۔ اس عمل کو ہم نے یُوں لکھا تھا‪:‬‬
‫‪99‬‬

‫‪⁻υₑ + ⁰₁p → ¹₀n + e⁺‬‬

‫اوپر لکھے انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے واقع ہونے کے لئے اینٹی‬
‫نیوٹرینو کی ضرورت تھی۔ بلکہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ تجربہ کے‬
‫لئے اینٹی نیوٹرینو کی کثیر تعداد ملے تاکہ انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے‬
‫واقع ہونے کے زیادہ سے زیادہ امکانات ہو سکیں کیونکہ جتنے زیادہ اینٹی‬
‫نیوٹرینو ہوں گے‪ ،‬انورس ِبیٹا ڈیکے کا عمل ہونے کے اتنے زیادہ امکانات‬
‫ہوں گے۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس کو امریکی ریاست جنوبی کیرولینا‬
‫میں واقع سوانہا ِریور پالنٹ پر اپنا تجربہ کرنے کا موقع مال جہاں نیوکلئیر ری‬
‫ایکٹر میں فِشن‪ ،‬اور پھر بِیٹا مائنس ڈیکے کے عمل سے یورینیم کی مدد سے‬
‫پلوٹونیم کے مختلف تابکار آئسو ٹوپس تیار کئے جاتے تھے اور اس دوران‬
‫ِبیٹا مائنس ڈیکے کے ذریعے کثیر تعداد میں اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے تھے۔‬
‫ایک اندازے کے مطابق یہاں پیدا ہونے والے اینٹی نیوٹرینوز کی تعداد پچاس‬
‫کھرب فی سیکنڈ فی مربع سینٹی میٹر تھی جو انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کے‬
‫ہونے کے لئے بہترین تھی۔‬

‫انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کے ذریعے نیوٹرینو کو ڈھونڈنے کے لئے کالئیڈ‬


‫کووان اور فریڈرک رائنس کے تجربے کے سیٹ اَپ کو دیکھیں تو وہ پانی‬
‫سے بھرے دو ٹینکرز پر مشتمل تھا۔ انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کو واقع‬
‫ہونے کے لئے پروٹان چاہئے تھا اور اس تجربے میں پانی کا کام پروٹان کی‬
‫کثیر تعداد فراہم کرنا ہی تھا۔ اِس پروٹان سے نیوکلئیر ری ایکٹر میں پیدا ہونے‬
‫والے اینٹی نیوٹرینو نے آ کر ٹکرانا تھا جس سے پروٹان نے نیوٹران میں‬
‫بدلنا تھا اور ساتھ پوزیٹران خارج ہونا تھا۔ یہ عمل ہم نے پہلے بھی لکھا‪،‬‬
‫دوبارہ سے لکھ لیتے ہیں جو کچھ یوں تھا‪:‬‬

‫‪⁻υₑ + ⁰₁p → ¹₀n + e⁺‬‬


‫‪100‬‬

‫پانی کے مالیکیول میں ہائیڈروجن پروٹیم کی شکل میں موجود ہوتی ہے جس‬
‫کے نیوکلئ یس میں صرف ایک پروٹان ہی ہوتا ہے۔ نیوکلئیس میں صرف ایک‬
‫ت حال‬‫پروٹان کا اکیال ہونا انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کے لئے بہترین صور ِ‬
‫تھی۔ کیونکہ کسی نیوکلئیس میں جتنے نیوکلیون زیادہ ہوں‪ ،‬اینٹی نیوٹرینو کے‬
‫پروٹان سے تعامل کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں۔ لہذا دو مختلف‬
‫ٹینکرز میں تقریبا ً دو سو ِلٹر کے قریب پانی بھرا گیا۔ اور ان دو ٹینکرز کو‬
‫سنٹلیٹرز (‬‫کی مدد سے الگ کر دیا گیا۔ اس کے )‪liquid scintillators‬لیکوڈ ِ‬
‫عالوہ پانی سے بھرے دونوں ٹینکرز کی اندرونی دیواروں کے ساتھ بھی‬
‫سنٹلیٹرز‬‫سنٹلیٹرز سے بھری چھوٹی چھوٹی ٹینکیاں رکھی گئیں۔ لیکوڈ ِ‬ ‫لیکوڈ ِ‬
‫کا کام چھوٹی ویو لینگتھ کی شُعاعوں کو بڑی ویو لینگتھ کی شُعاعوں میں‬
‫بدلنا ہوتا ہے۔ عالوہ ازیں ان ٹینکرز کی دیواروں کے ساتھ فوٹو ملٹی پالئیرز‬
‫بھی نصب تھے جن کا کام برقی مقناطیسی شعاعوں )‪(photomultipliers‬‬
‫میں بدلنا تھا۔ یہ سارا سیٹ اَپ آسان کر )‪electric pulses‬کو الیکٹرک َپلسز (‬
‫کے آرٹیکل کے ساتھ لگی تصویر میں بھی دکھایا گیا ہے۔‬

‫منصوبہ یہ تھا کہ جونہی نیوکلئیر ری ایکٹر سے اینٹی نیوٹرینوز کی بوچھاڑ‬


‫آئے گی تو ٹینکرز میں موجود پانی کے پروٹان سے کوئی اینٹی نیوٹرینو تعامل‬
‫کر کے اسے نیوٹران میں بدل دے گا اور ساتھ پوزیٹران خارج ہو گا۔ یہ‬
‫پوزیٹران فوراً سے کسی الیکٹران سے ملے گا اور دونوں فنا ہو کر دو گیما‬
‫سنٹلیٹرز سے ٹکرائیں گے تو‬ ‫فوٹانز پیدا کریں گے۔ جب یہ گیما فوٹانز لیکوڈ ِ‬
‫یہ انہیں کم توانائی کے فوٹانز میں بدل دے گا یہ قدرے کم انرجی کے فوٹانز‬
‫پھر فوٹو ملٹی پالئیر سے ٹکرائیں گے جو انہیں اپنے ایک مخصوص مگر‬
‫پیچیدہ عمل کے ذریعے الیکٹرک پَلسز میں بدل دے گا اور ان الیکٹرک پَلسز کو‬
‫آسانی سے ڈیٹیکٹ کیا جا سکتا تھا۔ یہ ُمختصر طور بیان کردہ وہ جال تھا جو‬
‫کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے نیوٹرینو کو ڈیٹیکٹ کرنے کے لئے‬
‫بچھایا تھا۔‬
‫‪101‬‬

‫منصوبے کے عین مطابق ‪ 1956‬کے شروع میں دونوں ماہرین اپنی ٹیم کے‬
‫ساتھ جنوبی کیرولینا میں موجود نیوکلئیر ری ایکٹر کے پاس اپنے تجربے کے‬
‫لئے تیار تھے۔ ہر سیکنڈ میں کھربوں کی تعداد میں اینٹی نیوٹرینو نیوکلئیر ری‬
‫ایکٹر سے پانی ک ے ٹینکرز میں داخل ہو رہے تھے اور اسی دوران فوٹو ملٹی‬
‫ملنا شروع ہو )‪signatures‬پالئیرز کے ذریعے گیما ریز کے عالمتی نشان (‬
‫گئے اور ان گیما ریز کی انرجی ‪ 0.51‬میگا الیکٹران وولٹ تھی جو اس بات کا‬
‫واضح ثبوت تھا کہ یہ الیکٹران اور پوزیٹران کے آپسی تعامل کے دوران فنا‬
‫ہونے کے نتیجے میں پید ا ہونے والے گیما فوٹانز ہی ہیں۔ اور یہ پوزیٹران‬
‫انورس ِبیٹا ڈیکے کے ذریعے ہی پیدا ہوا۔ یہ نیوٹرینو کی موجودگی کا ایک‬
‫واضح ثبوت تھا کیونکہ اس تجربہ سے پہلے جیسے پیشین گوئی کی گئی تھی‬
‫نتائج ہُوبہو ویسے ہی مل رہے تھے۔‬

‫لیکن کالئیڈ کووان اسے مزید اچھی طرح جانچنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں‬
‫یہاں انورس بِیٹا ڈیکے کے ذریعے جو پروٹان نیوٹران میں بدال ہے اس‬
‫نیوٹران کو بھی ڈیٹیکٹ کیا جانا چاہئے تاکہ نتائج مزید اطمینان بخش ہو‬
‫جائیں۔ اس کے لئے نظریاتی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ انورس بِیٹا‬
‫ڈیکے کے عمل کے دوران پیدا ہونے والے نیوٹران کو پانی میں موجود‬
‫ہائیڈروجن (پروٹیم) کا کوئی نیوکلئیس ضرور جذب کر لیتا ہو گا اور اس دوران‬
‫یہ پروٹیم کا نیوکلئیس ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس میں بدل جاتا ہو گا۔ ڈیوٹیریم بھی‬
‫ہائیڈروجن کا ہی ایک آئسو ٹوپ ہے جس کے نیوکلئیس میں ایک پروٹان کے‬
‫ساتھ ایک نیوٹران بھی ہوتا ہے۔ یہ نیا بننے واال ڈیوٹیریم کا نیوکلئیس گیما‬
‫ڈیکے کے ذریعے خود کو مستحکم کرنے کے لئے گیما ریز خارج کرے گا۔‬
‫لہذا الیکٹران اور پوزیٹران کے آپسی تعامل کے بعد مزید گیما فوٹانز بھی‬
‫ڈیٹیکٹ ہونے چاہئیں جو اس بات کا ثبوت ہو گا کہ پروٹیم کا نیوکلئیس‬
‫ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس میں بدال ہے لیکن ان گیما فوٹانز کی انرجی الیکٹران‬
‫‪102‬‬

‫کے دوران خارج ہونے والے دو )‪annihilation‬اور پوزیٹران کی انہیلیشن (‬


‫فوٹانز کی انفرادی توانائی سے زیادہ ہو گی۔‬

‫غرض اس ساری کیلکولیشن کے بعد تجربے کو دوبارہ سے دُہرایا گیا اور‬


‫پہلے کی طرح الیکٹران پوزیٹران کی انہیلیشن کے دوران دو گیما فوٹانز دوبارہ‬
‫سے ڈیٹیکٹ کئے گئے۔ لیکن اس دفعہ تجربے کے نتیجے میں ایک‬
‫خوبصورت اضافہ اِن مزید گیما فوٹانز کا تھا جو الیکٹران اور پوزیٹران کی‬
‫انہیلیشن کے دوران پیدا ہونے والے دو گیما فوٹانز کے مشاہدے کے تقریبا ً‬
‫‪ 100‬مائیکرو سیکنڈ بعد ڈیٹیکٹ ہوئے۔ ان گیما فوٹانز کی انرجی پہلے دو‬
‫ڈیٹیکٹ کئے گئے گیما فوٹانز سے زیادہ تھی جس سے یہ بات واضح ہو جاتی‬
‫تھی کہ یہ ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس سے نکلنے والے گیما فوٹانز ہیں۔ یہاں تک‬
‫تجربے کو بار بار دُہر ایا گیا اور بار بار ایک جیسے ہی نتائج مل رہے تھے‬
‫اور ہر تجربے کے بعد نیوٹرینو پر سے پوشیدگی کے غالف بتدریج اترتے جا‬
‫رہے تھے کیونکہ نتائج نظریاتی کیلکولیشنز کے بلکل مطابق ِمل رہے تھے۔‬
‫لیکن کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس ابھی کچھ اور کرنا چاہ رہے تھے۔‬

‫گو کہ الیکٹران اور پوزیٹران کی انہیلیشن کے دوران خارج ہونے والے دو‬
‫گیما فوٹانز اور اس کے بعد ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس سے خارج ہونے والے‬
‫مزید ہائی انرجی گیما فوٹانز کے کامیاب مشاہدے کے بعد نیوٹرینو کی‬
‫موجودگی واضح ہو چکی تھی لیکن ماہرین نیوٹرینو کو ابھی مزید تجربے کی‬
‫کسوٹی پر پرکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے خیال یہ تھا کہ اِسی تجربے میں‬
‫کسی ایسے میٹیریل کا استعمال کیا جائے جو نیوٹران کو ڈیوٹیریم کی نسبت‬
‫جلدی کیپچر کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ تاکہ انورس ِبیٹا ڈیکے کے دوران بننے‬
‫والے نئے نیوٹران کو یہ جلدی کیپچر کرے کیونکہ اگر نیوٹران جلدی کیپچر‬
‫ہوتا ہے تو اس سے ایک تو انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل اور نیوٹرینو کی‬
‫موجودگی پر یقین مزید پُختہ ہو جائے گا‪ ،‬دوسرا یہ کہ اگر نیا نیوٹران ڈیوٹیریم‬
‫‪103‬‬

‫کی نسبت جلدی کیپچر ہوتا ہے تو مزید گیما فوٹانز کے شواہد زیادہ جلدی اور‬
‫کثرت سے ملیں گے۔‬

‫کی خصوصیت یہ ہے کہ )‪Cd‬اس عمل کے لئے کیڈمیم کو ُچنا گیا۔ کیڈمیم (‪¹⁰⁸‬‬
‫یہ آزاد نیوٹرانز کو بہت جلدی جذب کرتا ہے۔ یہ نیوکلئیر ری ایکٹرز کے‬
‫کنٹرول راڈز میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس تجربے کے دوران پانی میں تقریبا ً‬
‫مال دی گئی۔ اس کا فائدہ یہ ہونا تھا )‪CdCl₂‬چالیس کلوگرام کیڈمیم کلورائیڈ (‬
‫کہ انورس ِبیٹا ڈیکے کے دوران جو نیوٹران بننا تھا اسے فوراً سے کیڈمیم‪-‬‬
‫‪ 108‬کے نیوکلئیس نے پکڑ لینا تھا جس سے یہ کیڈمیم‪ 109-‬بن جانا تھا۔ اس‬
‫نیوکلئیس نے ایکسائیٹڈ ہونے کی وجہ سے مستحکم ہونے لئے گیما ڈیکے‬
‫کے ذریعے ہائی انرجی گیما فوٹانز خارج کر کے خود کو مستحکم کرنا تھا۔‬
‫اور بلکل ایسا ہی ہوا۔ پیشین گوئی کے عین مطابق الیکٹران پوزیٹران کی‬
‫انہیلیشن کے ٹھیک پانچ مائیکرو سیکنڈ کے ُمختصر دورانیے کے اندر اندر‬
‫ہی مزید ہائی انرجی گیما فوٹانز بھی ڈیٹیکٹ کر لئے گئے جو بالشبہہ کیڈمیم‪-‬‬
‫‪ 109‬کے نیوکلئیس سے خارج ہوئے تھے۔ ان گیما فوٹانز کے مشاہدے نے‬
‫گویا نیوٹرینو کی موجودگی پر ُمہر ثبت کر دی۔‬

‫اب ہم اس تجربے میں شروع سے آخر تک ہونے والے ری ایکشنز کو‬


‫ُمختصر طور پر لکھیں تو یُوں ہوں گے‪:‬‬

‫‪ 1‬۔ نیوکلئیر ری ایکٹر سے آنے والے اینٹی نیوٹرینو نے پانی کے مالیکیول‬


‫میں موجود ہائیڈروجن کے پروٹان سے تعامل کیا اور اسے نیوٹران میں بدل‬
‫دیا۔ اس دوران ایک پوزیٹران خارج ہوا۔‬

‫‪⁻υₑ + ⁰₁p → ¹₀n + e⁺‬‬


‫‪104‬‬

‫‪2‬۔ اوپر بیان کئے گئے انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے دوران پیدا ہونے واال‬
‫پوزیٹران فوراً کسی الیکٹران سے مال اور پئیر انہیلیشن کے نتیجے میں دو‬
‫گیما فوٹانز پیدا ہوئے جن میں سے ہر ایک کی توانائی ‪ 0.51‬میگا الیکٹران‬
‫وولٹ تھی اور یہ ایک دوسرے کی مخالف سمت میں سفر کرتے ہوئے لیکوڈ‬
‫سنٹلیٹرز سے ٹکرائے۔ جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے۔‬
‫ِ‬

‫‪E⁻ + e⁺ → γ + γ‬‬

‫سنٹلیٹرز نے ان گیما فوٹانز کی توانائی کم کر کے اسے ویزیبل الئیٹ‬ ‫‪3‬۔ لیکوڈ ِ‬


‫(نظر آنے والی روشنی) کے فوٹانز میں بدل دیا۔ اور یہ فوٹانز فوٹو ملٹی پالئیر‬
‫ٹیوبز سے ٹکرائے جہاں فوٹو الیکٹرک ایفیکٹ کی وجہ سے الیکٹرانز خارج‬
‫سگنل پیدا ہوا جسے ڈیٹیکٹ کیا گیا۔‬ ‫ہوئے اور ان الیکٹرانز سے الیکٹرک ِ‬

‫‪4‬۔ پہلے پوائنٹ میں انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل سے بننے والے نیوٹران کو‬
‫کیڈمیم‪ 108-‬کے نیوکلئیس نے جذب کر لیا اور کیڈمیم‪ 109-‬میں بدل گیا۔ یہ‬
‫نیوکلئیس ایکسائیٹڈ ہونے کی وجہ سے گیما ڈیکے کے ذریعے تقریبا ً آٹھ میگا‬
‫الیکٹران وولٹ کا ہائی انرجی گیما فوٹان خارج کر کے مستحکم ہو گیا۔‬

‫‪¹₀n + ¹⁰⁸Cd → ¹⁰⁹Cd* → ¹⁰⁹Cd + γ‬‬

‫‪5‬۔ کیڈمیم‪ 109-‬کے نیوکلئیس سے خارج ہونے واال گیما فوٹان بھی اسی طرح‬
‫سنٹلیٹر سے ٹکرایا جس سے اس کی‬ ‫ٹینکر کے اطراف میں موجود لیکوڈ ِ‬
‫توانائی کم ہوئی اور ویزیبل الئیٹ کی توانائی کے فوٹان میں بدل گیا۔ جو بعد‬
‫‪105‬‬

‫ازاں فوٹو ملٹی پالئیر ٹیوبز س ے ٹکرایا اور الیکٹرانز خارج ہوئے جنہوں نے‬
‫الیکٹرک َپلسز پیدا کیں جنہیں ڈیٹیکٹ کر لیا گیا۔‬

‫کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے کُلی طور پر ‪ 1371‬گھنٹے اس تجربے‬


‫کے دوران گزارے۔ اس دوران بار بار اس تجربے کو دُہرایا گیا اور نتائج‬
‫اکٹھے کئے گئے۔ اس دوران تجربے کو ایک اور طرح سے بھی جانچا گیا۔‬
‫ڈاال گیا جس میں ہائیڈروجن )‪heavy water‬پانی کی جگہ ہیوی واٹر (‬
‫ڈیوٹیریم کی شکل میں موجود ہوتی ہے۔ چونکہ ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس میں‬
‫ایک پروٹان اور ایک نیوٹران موجود ہوتے ہیں لہذا پروٹیم (ایک پروٹان) کی‬
‫نسبت یہاں اینٹی نیوٹرینو کے تعامل یعنی انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل میں‬
‫واضح کمی کا مشاہدہ کیا گیا۔‬
‫پانی میں کیڈمیم کی مقدار میں اضافہ اور کمی کی گئی جس سے کیڈمیم‬
‫نیوکلئیس کے گیما ڈیکے کے دورانیے میں کمی بیشی کا مشاہدہ کیا گیا۔‬
‫بیچ میں نیوکلئیر ری ایکٹر کو بند بھی کیا گیا جس سے انورس ِبیٹا ڈیکے کے‬
‫عمل میں غیر معمولی کمی نوٹ کی گئی۔ کیونکہ اس عمل کے لئے درکار اینٹی‬
‫نیوٹرینو موجود نہیں رہے۔ غرض ان سبھی زاویوں سے بھی تجربے کو دُہرا‬
‫کر نتائج لئے گئے جن سے نتیجہ اینٹی نیوٹرینو کی موجودگی کے حق میں ہی‬
‫نکلتا تھا اور یہ تمام نتائج بہت زیادہ تسلی بخش تھے۔‬

‫‪ُ 14‬جون ‪ 1956‬کو پروفیسر کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے ُوولف گینگ‬
‫پالی کو ٹیلی گرام بھیجا کہ ہم نے آپکا چھبیس سال پہلے تجویز کردہ نیوٹرینو‬
‫انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے ذریعے ڈھونڈ نکاال ہے۔ پالی اُس وقت‬
‫سرن (‬‫میں منعقدہ ایک کانفرنس )‪CERN‬سویٹزرلینڈ میں موجود تھے اور َ‬
‫میں مشغول تھے جہاں انہیں یہ ٹیلی گرام موصول ہوا جسے انہوں نے تمام‬
‫شُرکاء کو پڑھ کر سنایا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ اِس دریافت پر پالی جھوم اٹھے‬
‫اور کانفرنس کے شُرکاء کو پالی کی طرف سے شیمپین پالئی گئی۔ پالی نے‬
‫‪106‬‬

‫کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس کو جوابا ً ُمختصر سا خط لکھا جس میں‬


‫شُکریہ کے عالوہ صرف اتنا درج تھا کہ‪:‬‬

‫)‪“Everything comes to him, who knows how to wait”. (Pauli‬‬

‫چھبیس سال پر مشتمل طویل انتظار ختم ہو گیا تھا اور پالی کا ُخفیہ اور‬
‫گھوسٹ پارٹیکل 'نیوٹرینو' ڈھونڈا جا چکا تھا۔ ‪ُ 20‬جون ‪ 1956‬کو پروفیسر‬
‫کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے اپنے تجربات کے نتائج مشہور سائنسی‬
‫جریدے 'سائنس' میں شائع کئے۔ اس شاندار دریافت پر پروفیسر فریڈرک‬
‫رائنس کو ‪ 39‬سال بعد ‪ 1995‬میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وقت کی ستم‬
‫ظریفی کہہ لیں یا کچھ اور کہ نیوٹرینو کی دریافت پر نوبیل انعام کے لئے‬
‫فریڈرک رائنس کو ‪ 39‬سال انتظار کرنا پڑا جو شاید بہت پہلے ِمل جانا چاہئے‬
‫تھا۔ نیوٹرینو کی دریافت پر یہ نوبیل انعام صرف پروفیسر فریڈرک رائنس نے‬
‫حاصل کیا کیونکہ کالئیڈ کووان اِکیس سال پہلے اس دُنیا سے ُرخصت ہو چکے‬
‫تھے۔‬

‫یہاں ایک بات قاب ِل غور ہے کہ نیوٹرینو کی یہ دریافت دراصل اس کے اینٹی‬


‫پارٹیکل یعنی اینٹی نیوٹرینو کی دریافت تھی کیونکہ انورس ِبیٹا ڈیکے کے‬
‫عمل میں تو اینٹی نیوٹرینو ہی حصہ لیتا ہے۔ لیکن نیوٹرینو نہ تو برقی چارج‬
‫رکھتا ہے اور نہ کَلر چارج رکھتا ہے۔ پھر اس کا اینٹی پارٹیکل اس سے کس‬
‫طرح سے ُمنفرد ہے؟ وہ کونسی خصوصیت ہے جو ایک نیوٹرینو کو اینٹی‬
‫نیوٹرینو سے الگ کرتی ہے؟ پارٹیکل فزکس کی اس سیریز میں نیوٹرینو پر‬
‫جاری سلسلہ کی اگلی قسط میں ہم اِسی کا جائزہ لے لیں گے۔‬

‫(جاری ہے)‬

You might also like