Professional Documents
Culture Documents
کوانٹم میکینکس اور پارٹیکل فزکس کے چند اہم موضوعات از قلم رضاالحسن
کوانٹم میکینکس اور پارٹیکل فزکس کے چند اہم موضوعات از قلم رضاالحسن
کوانٹم میکینکس:
الیکٹران نیوکلئیس کے گرد "محدود" آربٹس میں کیوں اور کیسے ہوتے ہیں؟
اس آرٹیکل میں نیل بوہر کے ایٹمی ماڈل کے ایک انتہائی اہم اور دلچسب پہلو
پر بات ہو گی۔ جسے الیکٹران ویو کی کوانٹائزیشن
اس کے لئے پہلے ردرفورڈ کے ایٹمی ماڈل اور اس میں موجود نقائص اور
پھر بوہر کے ایٹمی ماڈل پر مختصر سی گفتگو کریں گے۔ اور پھر ہم دیکھیں
گے کہ جب بوہر کے ایٹمی ماڈل پر "ڈی برائے ہائیپوتھیسس" الگو کریں تو
کیسے "کوانٹائزیشن" ہم پر آشکار ہو جاتی ہے۔
سنہ 1911کی بات ہے جب ردرفورڈ نے یکے بعد دیگرے کئی تجربات سے
پتہ چالیا کہ ایٹم کی زیادہ تر کمیت اس کے مرکز میں مرکوز ہوتی ہے جسے
انہوں نے "نیوکلئیس" کا نام دیا۔ جہاں الیکٹران اس مرکز میں موجود
نیوکلئیس کے گرد دائروی شکل میں بلکل اُسی طرح چکر لگاتے ہیں جیسے
نظام شمسی میں سیارے مرکز میں سورج کے گرد کشش ثقل کے زیر اثر ِ
دائروی یا بیضوی مداروں میں مح ِو گردش ہیں۔ یُوں ردرفورڈ صاحب نے دنیا
کو اپنے "پلینیٹری ماڈل آف ایٹم" سے روشناس کرایا۔ اس وقت یہ ایٹم کا ایک
3
بلکل نیا اور بڑا دلچسب ماڈل تھا لیکن اس میں موجود کوتاہیوں اور نقائص
کی وجہ سے بہت جلد اسے ردی کی نذر ہونا پڑا۔
مثال کے طور پر برقی طور پر نیوٹرل اور انتہائی بڑے اجسام مثالً سیاروں
کے برعکس ،برقی طور پر چارجڈ الیکٹران جب مثبت چارجڈ نیوکلئیس کے
گرد گھومتے ہیں تو ان میں لگاتار اسراع پیدا ہوتا ہے۔ میکس ویل کے
کالسیکل الیکٹروڈائنامکس قوانین کے تحت اگر ایک چارجڈ پارٹیکل مسلسل
اسراع پذیر ہے تو اسے برقی مقناطیسی ریڈی ایشنز کی شکل میں توانائی
کھونی چاہئے۔ اور جوں جوں یہ پارٹیکل توانائی ضائع کرے گا اسے بالآخر
نیوکلئیس میں گر جانا چاہئے۔ اس صورت میں الیکٹران کا نیوکلئیس سے
تصادم محض 10⁸/1سیکنڈ (ایک سیکنڈ کے کروڑویں حصے) کے انتہائی
مختصر لمحے میں ہو جانا چاہئے۔ لیکن ایسا ہوتا ہمیں دکھائی نہیں دیتا۔ ہم
زیادہ تر عناصر میں ایٹمز کو بڑا مستحکم دیکھتے ہیں۔
ردرفورڈ کے ایٹمی ماڈل میں دوسرا بڑا مسئلہ یہ بھی تھا کہ یہ ماڈل مختلف
کیمیائی عناصر کے "ایبزارپشن سپیکٹرا" اور "ایمیشن سپیکٹرا" کی درست
وضاحت نہیں کرتا۔ جب کوئی ایٹم برقی مقناطیسی ریڈی ایشنز جذب یا خارج
کرتا ہے تو یہ ریڈی ایشنز توانائی کے ایک خاص لیول کا اظہار کرتی ہیں یعنی
ہوتی ہے ،ان سے حاصل ہونے واال سپیکٹرم discreteان میں توانائی
نہیں ہوتا۔ )Continuousمسلسل (
(جیسے تصویر نمبر 1میں دکھایا گیا ہے نیز ایبزارپشن اور ایمیشن سپیکٹرا
کی تفصیل نیچے دیئے گئے لنک سے دیکھ سکتے ہیں)۔
4
ردرفورڈ کے ایٹمی ماڈل میں موجود ان خامیوں کو دور کرنے کی ہمت نیل
بوہر نے کی۔ اور اس کوشش کو ہم "بوہر کے ایٹمی ماڈل" سے جانتے ہیں۔
نیل بوہر نے اپنے ماڈل میں دو اہم پاسچولیٹ شامل کئے۔
ایک تو یہ کہ الیکٹران نیوکلئیس کے گرد دائروی مداروں میں گھومتے ہیں۔ یہ
خیال یقینا ً انہوں نے ردرفورڈ سے ہی ادھار لیا۔
)L = n(h/2π
5
)F(e) = F (c
یہاں الیکٹران اور پروٹان کے بیچ کولمب فورس ایک سینٹری پیٹل فورس مہیا
کر رہی ہے اور الیکٹران ایک مدار میں گھوم رہا ہے۔
6
Mv² = e²/4πε₀r
V² = e²/4πε₀rm
)V = e/√(4πε₀rm
اب بڑا دلچسب مرحلہ آنے لگا ہے۔ اب ہم اس پر "ڈی برائے ہائیپوتھیسس"
الگو کرنے جا رہے ہیں۔ لیکن پہلے ڈی برائے ہائیپوتھیسس کی مختصر
وضاحت کر لیں۔
7
ڈی برائے صاحب نے فرمایا تھا کہ اگر ایک پارٹیکل کسی خاص والسٹی سے
)waveحرکت کر رہا ہے تو اس پارٹیکل کی حرکت کے ساتھ ایک لہر (
کہتے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ”Matter Waveمنسلک ہوتی ہے۔ ایسی لہر کو "
جو الیکٹران نیوکلئیس کے گرد گھوم رہا ہے اسکی بھی ایک لہر ہونی چاہئے۔
)Wavelengthڈی برائے نے کہا تھا کہ پارٹیکل کی ایسی لہر کی طول موج (
اس پارٹیکل کے مومینٹم کے معکوس متناسب ہو گی۔
P = mv = h/λ
)Λ = h/mv ........ (Eq.1
چلیں ڈی برائے ہائیپوتھیسس لگاتے ہیں اور دیکھتے ہیں ہمیں کیا ملتا ہے۔
اوپر ہم نے الیکٹران کی آربٹل والسٹی نکالی تھی اسے اگر ڈی برائے کی
مساوات میں لگاتے ہیں۔
)V = e/√(4πε₀rm
Λ = h/mv
کی قیمت نیچے والی مساوات میں لگانے سےv) :اوپر والی مساوات سے (
اب ہمارے پاس الیکٹران کی نیوکلئیس کے گرد حرکت کے دوران اسکی ویو
لینگتھ کی م ساوات آ گئی ہے۔ اس مساوات میں زیادہ تر تو کانسٹینٹس ہی
شامل ہیں۔
ہم چونکہ ہائیڈروجن ایٹم کی مثال لے رہے ہیں تو ہمیں پتا ہے کہ ہائیڈروجن
اینگسڑام ہوتا ہے۔ r) 0.53ایٹم کا آربٹ ریڈیس(
اب یہ سارے کانسٹینٹس کی قیمتیں مساوات نمبر 2میں لگا دیں تو ہمارے
پاس اس الیکٹران کی ویو لینگتھ کی قیمت کچھ یہ نکلتی ہے۔
الیکٹران کی ویو لینگتھ کی اس قیمت کے متعلق ایک بڑی خاص اور دلچسب
بات ہے۔ وہ یہ کہ جب آپ اس قیمت کو ہائیڈروجن کے آربٹل ریڈیس کو دوگنا
کر کے تقسیم کرتے ہیں تو معاملہ کچھ یوں ہوتا ہے:
33.27x10⁻¹¹/2(5.3x10⁻¹¹)=3.14
9
Λ = 2πr
πrاب یہاں ہم پر حیرت کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے کہ الیکٹران کی ویو لینگتھ 2
کے برابر آ رہی ہے جو ایک دائرے کا محیط ہوتا ہے۔ اس پر سوچیں ذرا۔ یہ
بڑی دلچسب بات ہے کہ الیکٹران نیوکلئیس کے گرد گھوم رہا ہے ،اس کے
ساتھ ایک لہر منسلک ہے اور اس لہر کی ویو لینگتھ اس آربٹ کے محیط کے
برابر ہے۔
اس بات کو تھوڑا اور آگے بڑھائیں تو مطلب یہ بھی نکلتا ہے کہ ہائیڈروجن
ایٹم میں الیکٹران کا آربٹ ایک مکمل لہر کے مساوی ہے جو اپنے آپ سے ہی
10
Standingجڑی ہوئی ہے۔ یعنی الیکٹران کی لہر ایک مکمل "ساکن موج
کا پیٹرن بنا رہی ہے۔ ”Wave
کیا یہ محض اتفاق ہے؟ یا کہانی میں ابھی کچھ باقی ہے؟
چلیں ابھی بوہر کے خود کے دئیے "کوانٹائزیشن پرنسپل" کو دیکھتے ہیں۔ ہم
نے اوپر بھی ذکر کیا کہ بوہر نے اپنا ایٹمی ماڈل دیتے وقت دوسرا اہم
پاسچولیٹ یہ دیا تھا کہ نیوکلئیس کے گرد الیکٹران محدود آربٹس میں ہی ہو
سکتے ہیں جہاں یہ شرط پوری ہونی چاہئے:
)L = n (h/2π
L = mvr
تو ہم اسے یوں لکھ سکتے ہیں:
)Mvr = n (h/2π
)2πr = n (h/mv
دراصل کسی حرکت کرتے پارٹیکل کی ویو لینگتھ )h/mvاس مساوات میں (
ہی تو ہے جو ڈی برائے صاحب نے دی تھی (مساوات نمبر 1دیکھیں)۔
اب اس مساوات کی شکل یوں ہو جاتی ہے:
2πr = n λ
اس خیال کو بنیاد بنا کر ہم ایک اور اہم بات سمجھ سکتے ہیں کہ ایسا کیوں
ہوتا ہے کہ الیکٹران کو نیوکلئیس کے گرد کچھ آربٹس کی تو اجازت ہوتی ہے
اور کچھ کی نہیں۔
آپ اگر ایک رسی پر بنی "ساکن موج" کا تصور کریں تو پتا چلتا ہے کہ یہاں
ہی ہے۔ اگر integral multipleرسی کی لمبائی بھی اسکی ویو لینگتھ کے
بنا دیں )Loopاس رسی کے دو پوانٹس کو آپس میں مال دیں اور ایک لُوپ(
تو ہمارے پاس یہ جاننے کے لئے ایک بہترین تصور ہو گا کہ نیوکلئیس کے
گرد الیکٹران بھی کچھ ایسا ہی منظر پیش کر رہے ہوتے ہیں۔
یہیں سے ایک اور اہم پہلو دیکھتے ہیں کہ اگر ہم اس لُوپ کے گرد ویو
نمبر رکھ دیں تو المحالہ ہمارے پاس fractionalلینگتھ کا کوئی
12
آئے گی یعنی ایسی صورت میں بننے والی لہر destructive interference
لُوپ کے گرد سفر کر کے واپس اس نقطے پر نہیں ملے گی جہاں سے اس
نے سفر کا آغاز کیا تھا۔ اور یوں یہ لہر تیزی سے ختم ہو جاتی ہے۔ اور ہمیں
نتیجتا ً یہاں کوئی آربٹ نہیں مل سکتا۔ یہ بڑا باریک اور اہم نقطہ ہے لہذا یہ بڑا
غور طلب ہے۔
2πrₙ = n λ
اب چند الئنوں میں اس پوری کہانی کو قید کریں تو یوں بنے گی کہ:
13
انرجی لیولز اور محدود آربٹس ہوتے ہیں جہاں discreteہر ایٹم میں
الیکٹران کی لہر کی ویو لینگتھ کچھ یُوں بنتی ہے کہ یہ لہر نیوکلئیس کے گرد
گھومتی ہے اور واپس آ کر اسی نقطے پر ملتی ہے جہاں سے یہ شروع ہوئی
تھی۔ اور یوں ہمیں کنسٹرکٹو انٹرفئیرینس حاصل ہوتی ہے اور الیکٹران کا
ایک آربٹ ملتا ہے۔
کی بجائے integralکوئی دوسرا آربٹ جہاں آربٹ کا محیط ،ویو لینگتھ کے
ملٹی پل ہوتا ہے وہاں ہمیں ڈِسٹرکٹو انٹرفئیرینس ملتی ہے اور fractional
یوں یہاں کوئی آربٹ موجود نہیں ہو سکتا۔
لہذا اگلی دفعہ جب آپ ایٹم کے سٹرکچر کا سوچیں تو "تصویر نمبر "3کو ذہن
میں بٹھا لیں کہ ایٹم کا سٹرکچر کُچھ ایسا ہو گا۔
14
15
:
اس آرٹیکل میں ہم پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود فرمیونز کی
ایک جماعت 'لیپٹانز' سے تعارف حاصل کریں گے۔ ہم دیکھیں گے کہ لیپٹانز
کتنی اقسام کے ہیں اور ان کے خواص کیا ہیں۔ ہم ان لیپٹانز کی دریافت کی
دلچسب تاریخ کا بھی ُمختصر جائزہ لیں گے۔
پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں ٹوٹل چھ طرح کے لیپٹانز ہمیں نظر آتے
)υاور تین طرح کے نیوٹرینو ( )τٹاؤ ( μ)،میوآن ( e)،ہیں۔ جن میں الیکٹران (
شامل ہیں جو پیچھے بیان کئے گئے تین لیپٹانز سے ُمنسلک ہوتے ہیں۔ یعنی
الیکٹران سے ُمنسلک نیوٹرینو کو ہم 'الیکٹران نیوٹرینو' کہتے ہیں ایسے ہی
'میوآن نیوٹرینو' اور 'ٹاؤ نیوٹرینو' ہوتے ہیں۔ سو کُل مال کر ہمارے پاس چھ
لیپٹانز اس وقت اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود ہیں۔ ان میں سے الیکٹران ،میوآن
اور ٹاؤ تینوں برقی چارج رکھتے ہیں لہذا انہیں ہم 'چارجڈ لیپٹانز' کہتے ہیں
جبکہ ان سے ُمنسلک تینوں نیوٹرینو برقی چارج نہیں رکھتے تو ہم انہیں
'نیوٹرل لیپٹانز' کہت ے ہیں۔ اس طرح سے ہمارے پاس تین چارجڈ لیپٹانز آ گئے
اور تین ہی نیوٹرل لیپٹانز آ گئے۔ ہر پارٹیکل کی طرح ان چھ لیپٹانز کے اینٹی
بھی موجود ہیں جو برقی چارج کے عالوہ باقی )anti-particlesپارٹیکلز (
خصوصیات ان لیپٹانز جیسی ہی رکھتے ہیں۔ یعنی ان لیپٹانز کے اینٹی پارٹیکلز
ان کے برابر مگر مخالف برقی چارج رکھتے ہیں۔ لیپٹانز کا چارج منفی جبکہ
اینٹی لیپٹانز کا چارج مثبت ہوتا ہے۔ نیوٹرینو چونکہ برقی چارج نہیں رکھتے
لہذا ان کے اینٹی پارٹیکلز کو ان کی ایک اور خصوصیت کی بنا پر طے کیا
کہتے ہیں جس ) helicityجاتا ہے۔ نیوٹرینو کی اس خصوصیت کو ہیلیسٹی (
پر اگلے آرٹیکل میں تفصیالً بات ہو گی۔
ان چھ لیپٹانز کو اگر کمیت (ماس) کے حساب سے بیان کریں تو نیوٹرینوز کے
ماس کے متعلق ابھی بھی کوئی حتمی رائے فزکس میں موجود نہیں ہے۔ ہمیں
فی الحال صرف اتنا پتا ہے کہ اگر ان کا ماس ہو بھی تو وہ نہایت کم ہو گا۔
جبکہ بقیہ تین لیپٹانز میں سے الیکٹران سب سے کم ماس رکھتے ہیں۔ میوآن
کا ماس الیکٹران سے زیادہ ہوتا ہے جبکہ ٹاؤ سب سے زیادہ ماس رکھنے
والے لیپٹانز ہیں۔ ہم نے ماس کے لحاظ سے لیپٹانز کو تین جنریشنز
17
میں بھی تقسیم کر رکھا ہے۔ پہلی جنریشن میں الیکٹران اور )(generations
اس سے ُمنسلک نیوٹرینو یعنی 'الیکٹران نیوٹرینو' شامل ہیں۔ انہیں ہم
کہتے ہیں۔ دوسری جنریشن میں )electronic leptonsالیکٹرانک لیپٹانز (
میوآن اور اس سے ُمنسلک نیوٹرینو یعنی 'میوآن نیوٹرینو' شامل ہیں انہیں ہم
کہتے ہیں۔ جبکہ تیسری جنریشن میں )muonic leptonsمیوآنک لیپٹانز (
کہتے )tauonic leptonsٹاؤ اور 'ٹاؤ نیوٹرینو' شامل ہیں جنہیں ہم ٹاؤنک (
ہیں۔ ماس کے عالوہ ایک اور پیمانہ بھی ہے جو ان لیپٹانز کو تین مختلف
جنریشنز میں تقسیم کرتا ہے اور وہ ان لیپٹانز کا ایک کوانٹم نمبر ہے جسے
)decayکہتے ہیں۔ ان لیپٹانز کے ڈیکے ( )lepton numberلیپٹان نمبر (
کے دوران انرجی اور مومینٹم کے ساتھ ساتھ یہ لیپٹان نمبر بھی الزمی کنزرو
ہونا ہوتا ہے ورنہ ایسا ڈیکے ممکن نہیں ہوتا جس میں لیپٹان نمبر کنزرو نہ
رہ رہا ہو۔ 'لیپٹان نمبر' کے بارے میں اس سیریز پر آگے چل کر ایک علیحدہ
آرٹیکل میں بحث ہو گی۔
کا تقابلہ کریں تو کچھ )massesاگر ہم الیکٹران ،میوآن اور ٹاؤ کی کمیتوں (
اس طرح سے ہو گا۔ ان لیپٹانز کی کمیتوں کے موازنے کے لئے ہم ان کا تقابلہ
اگر پروٹان سے کریں تو کافی واضح تصور مل سکتا ہے۔ ایک پروٹان کی
کمیت
1.67×10⁻²⁷ kg
ہوتی ہے۔ اس حساب سے الیکٹران کی کمیت پروٹان سے تقریبا ً اٹھارہ سو ُگنا
کم ہوتی ہے۔ میوآن کی کمیت پروٹان کی نسبت محض دس ُگنا کم ہوتی ہے
جبکہ ٹاؤ لیپٹانز پروٹان سے بھی دو ُگنا زیادہ کمیت رکھتے ہیں۔ پروٹان کی
کمیت سے ان لیپٹانز کا موازنہ ان لیپٹانز کی کمیت کو سمجھنے کے حوالے
سے ہمیں ایک مناسب تصور بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔
18
یہ 1935کا سال ہے۔ برطانوی فزسسٹ جیمز چیڈوک کو نیوٹران کو دریافت
کئے تقریبا ً تین سال ہو چکے ہیں۔ اس سے پہلے الیکٹران اور پروٹان بھی
دریافت ہو چکے۔ ایک جاپانی فزسسٹ ہائیڈیکی یوکاوا نیوکلئیس کے اندر
موجود نیوٹران اور پروٹان کے درمیان سٹرانگ فورس کے طریقہ کار کو
سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس سلسلے میں یوکاوا نے اپنا نظریہ یہ
دیا کہ نیوٹران اور پروٹان آپس میں ایک پارٹیکل کا مسلسل تبادلہ کرتے ہیں
جس سے ان کے درمیان سٹرانگ نیوکلئیر فورس پیدا ہوتی ہے۔ اس پارٹیکل
کو انہوں نے 'میزون' کا نام دیا۔ انہوں نے پیشین گوئی کی کہ اس نظریاتی
پارٹیکل کی کمیت تقریبا ً 100میگا الیکٹران وولٹ ہونی چاہئے۔ ہائیڈیکی
یوکاوا کے اس نظریہ کو نیوکلئیر فزکس میں 'میزون تھیوری آف نیوکلئیر
فورسز' کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک سال بعد 1936میں امریکہ میں دو
فزسسٹس نے کاسمک شعاعوں کے مطالعے کے دوران ایک پارٹیکل ڈھونڈ
نکاال جس کی کمیت تقریبا ً 106میگا الیکٹران وولٹ تھی۔ اسے فوراً سے وہی
پارٹیکل مان لیا گیا جس کی پ یشین گوئی پچھلے سال ہائیڈیکی یوکاوا نے کی
)mu-mesonتھی۔ اس نئے دریافت ہونے والے پارٹیکل کا نام میو میزون (
رکھا گیا لیکن بہت جلد ہی یہ جان لیا گیا کہ یہ نیا دریافت ہونے واال پارٹیکل
ہائیڈیکی یوکاوا کا میزون نہیں ہو سکتا کیونکہ یہ سٹرانگ انٹریکشن میں
حصہ نہیں ڈالتا تھا اور اس کا مجموعی رویہ بلکل الیکٹران کی طرح کا ہی تھا
لیکن کمیت الیکٹران کی نسبت دو سو ُگنا زیادہ تھی۔ ہائیڈیکی یوکاوا کا اصل
گیارہ سال بعد 1947میں دریافت ہو گیا اور pion) 1936پارٹیکل پائیون (
20
میں دریافت ہونے والے پارٹیکل 'میو میزون' کو الیکٹران سے کثیر مشابہت
کی بنا پر ایک لیپٹان مان لیا گیا اور اس کا نام 'میوآن' رکھا گیا۔ لیپٹانز کی
تاریخ میں باقاعدہ دریافت ہونے واال یہ دوسرا لیپٹان تھا۔
اب ایک بار واپس 1930میں چلتے ہیں۔ الیکٹران کی دریافت کے تقریبا ً 33
کے عمل پر طبیعات دان سر جوڑ کر )beta decayسال بعد بیٹا ڈیکے (
بیٹھے ہیں۔ بیٹا ڈیکے کے عمل میں انرجی اور مومینٹم کنزرو نہیں رہ رہے۔
اس کی وضاحت کرتے ہوئے آسٹریا سے تعلق رکھنے والے فزسسٹ وولف
گینگ پالی نے اس عمل کے دوران توانائی اور مومینٹم کی کنزرویشن نہ
ہوتے دیکھ کر یہ خیال پیش کیا کہ ہمارا مسئلہ ایک طرح سے حل ہو سکتا
ہے اگر ہم کوئی ایک اور پارٹیکل فرض کر لیں جو اس عمل کے دوران خارج
ہو رہا ہے لیکن ابھی تک اس کا مشاہدہ نہیں ہو سکا۔ یہ وولف گینگ پالی وہی
ہیں جن کا دیا گیا 'پالی ایکسکلوژن پرنسپل' آج فزکس اور کیمسٹری کا ایک اہم
اور بنیادی اصول ہے۔ ان کا فرض کیا گیا پارٹیکل ان کے نظریے کے 26سال
بعد 1956میں امریکی طبیعات دانوں کی ٹیم نے ڈھونڈ نکاال جسے باقاعدہ
'نیوٹرینو' کا نام دے دیا گیا۔ یہ دریافت ہونے واال پارٹیکل 'الیکٹران نیوٹرینو'
تھا اور بلکل وہی خصوصیات رکھتا تھا جس کی پیشین گوئی وولف گینگ پالی
نے کی تھی۔ نیوٹرینو کی یہ دریافت فزکس کی تاریخ کا بڑا خوبصورت باب ہے
جسے ایک الگ آرٹیکل میں تفصیل سے بیان کروں گا۔ خیر مختصر یہ کہ
لیپٹانز کی تاریخ میں الیکٹران اور میوآن کے بعد باقاعدہ دریافت ہونے واال یہ
تیسرا لیپٹان تھا۔
اور ساتھ ایک نیوٹرینو )μکا ڈیکے ایک میوآن ( )πکیا گیا تو یہاں پائیون (
میں ہو رہا تھا۔ اس ڈیکے کو ہم یوں لکھ لیتے ہیں(υ) :
Π→μ+υ
لیکن یہاں میوآن کے ساتھ خارج ہونے واال نیوٹرینو بیٹا ڈیکے میں الیکٹران
کے ساتھ خارج ہونے والے نیوٹرینو سے قدرے مختلف تھا جو یہ ظاہر کر رہا
تھا کہ ک سی ڈیکے پراسیس میں خارج ہونے والے لیپٹان کے ساتھ اسی سے
ُمنسلک ہی ایک نیوٹرینو خارج ہوتا ہے۔ یعنی بیٹا ڈیکے میں الیکٹران کے
ساتھ 'الیکٹران نیوٹرینو' خارج ہو گا اور پائیون ڈیکے میں میوآن کے ساتھ
خارج ہونے واال نیوٹرینو 'میوآن نیوٹرینو' ہو گا۔ 1962میں اس میوآن
نیوٹرینو کو تین امریکی فزسسٹس نے ایک پارٹیکل ایکسلریٹر میں دریافت کیا
جس بنا پر انہیں 1988کے نوبیل انعام سے بھی نوازا گیا۔ لیپٹانز کی تاریخ
میں دریافت ہونے واال یہ چوتھا لیپٹان تھا۔
وقت میں تھوڑا آگے سفر کرتے ہیں۔ یہ 1960کی دہائی ہے۔ ایک امریکی
فزسس ٹ مارٹن لیوس پرل ابھی نئے نئے سٹینفرڈ لینئیر ایکسلریٹر سینٹر
میں آئے تھے۔ ان کی تحقیق کا مرکز الیکٹران اور میوآن کے مختلف )(SLAC
تعامالت کا مطالعہ تھا۔ ان کی تحقیق میں میوآن کے مختلف ڈیکے پراسیس
بھی شامل تھے۔ ستر کی دہائی کے آغاز میں تائیوان میں پیدا ہونے والے اور
سو سائی نے ایک ریسرچ پیپر امریکی شہریت رکھنے والے فزسسٹ ینگُ -
شائع کیا جس میں انہوں نے الیکٹران اور میوآن کے عالوہ ایک تیسرے
بھاری لیپٹان کی پیشین گوئی کی۔ مارٹن لیوس پرل نے اپنی تحقیق میں اس
میں ہی تجربات شروع کر دئیے گئے۔ SLACپارٹیکل کو بھی شامل کر لیا اور
یہاں جس پارٹیکل کوالئیڈر کو استعمال کیا گیا اسے سٹینفورڈ پوزیٹران
22
کے نام سے تاریخ میں جانا جاتا ہے اور )SPEARالیکٹران اےسمٹرک رنگز (
جیسا کہ نام سے ظاہر ہے کہ یہاں الیکٹران اور اس کے اینٹی پارٹیکل
پوزیٹران کو نہایت زیادہ توانائی کے ساتھ ایک دوسرے سے ٹکرایا جاتا تھا
اور اس ٹکراؤ کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے نئے پارٹیکلز کا مطالعہ کیا جاتا
تھا۔ 1974سے لے کر 1977تک تین سال یہاں الیکٹران اور پوزیٹران کو
ٹکرا کر تجربات و مشاہدات کئے گئے اور بالآخر ایک لیپٹان دریافت کر لیا گیا
جو کہ الیکٹران سے تقریبا ً ُ 3500گنا زیادہ کمیت رکھتا تھا۔ اس نئے دریافت
شُدہ لیپٹان کو 'ٹاؤ لیپٹان' کا نام دیا گیا۔ گو کہ اس وقت ہونے والے تجربات
میں اس کا برا ِہ راست مشاہدہ نہیں ہو سکا کیونکہ ٹاؤ لیپٹانز بہت قلیل وقت
کے لئے موجود رہتے ہیں ان کی زندگی محض ایک سیکنڈ کا کھربواں حصہ
ہوتی ہے اور یہ فوراً دوسرے پارٹیکلز میں ڈیکے کر جاتے ہیں۔ مارٹن لیوس
پرل اور ان کی ٹیم نے تجربات سے جو ڈیٹا اکٹھا کیا تھا اس کے مطابق
الیکٹران اور پوزیٹران کے ٹکراؤ کے نتیجے میں الیکٹران اور میوآن کے
ساتھ دو نئے پارٹیکلز بھی پیدا ہو رہے تھے۔ یہ دو اضافی پارٹیکلز برا ِہ
راست مشاہدے میں تو نہیں آ رہے تھے لیکن انرجی اور مومینٹم کی
کنزرویشن کو دیکھتے ہوئے یہ تو بہرحال طے تھا کہ یہاں الیکٹران اور
میوآن کے جوڑے کے ساتھ دو مزید پارٹیکلز ضرور بن رہے ہیں۔ یعنی شروع
میں اس مکمل عمل کو یوں بیان کیا گیا تھا:
E⁻ + e⁺ → e⁻ + μ⁻ + X + Y
سے مراد وہ دو پارٹیکلز ہیں جو برا ِہ راست مشاہدے میں نہیں Yاور Xیہاں
آ رہے تھے۔ اس کی وضاحت یوں کی گئی کہ الیکٹران اور پوزیٹران برا ِہ
راست الیکٹران اور میوآن کا جوڑا نہیں بناتے بلکہ الیکٹران اور پوزیٹران کا
جوڑا شدید توانائی سے ٹکرا کر ٹاؤ اور اینٹی ٹاؤ کے جوڑے میں بدلتا ہے جو
فوراً آگے الیکٹران اور میوآن میں ڈیکے کر جاتا ہے۔ اور ساتھ نیوٹرینو خارج
ہوتے ہیں۔ یعنی اس مکمل عمل کی درست مساوات کچھ یوں بنتی تھی:
23
E⁻ + e⁺ → τ⁻ + τ⁺ → e⁻ + μ⁻ + 4υ
ٹاؤ لیپٹان کی دریافت پر مارٹن لیوس پرل کو 1995کے نوبیل انعام سے نوازا
گیا۔ لیپٹانز کی تاریخ میں دریافت ہونے واال یہ پانچواں لیپٹان تھا۔
ستر کی دہائی میں ٹاؤ لیپٹان کی دریافت کے ساتھ ہی نظریاتی طور پر ٹاؤ
نیوٹرینو کی موجودگ ی کو بھی مان لیا گیا تھا۔ ٹاؤ لیپٹان کے ڈیکے کے دوران
بلکل اسی طرح انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن میں مسائل آ رہے تھے جو
ت حال 1930میں بیٹا ڈیکے کے عمل کے دوران تھی۔ اس لئے یہاں بھی صور ِ
نظریاتی طور پر یہ تسلیم کر لیا گیا کہ یقینا ً ٹاؤ لیپٹان کے ڈیکے میں بھی ایک
نیوٹرینو خارج ہو رہا ہے جو ٹاؤ نیوٹرینو ہے۔ لیکن ٹاؤ نیوٹرینو کا برا ِہ
راست مشاہدہ نہیں ہو پا رہا تھا۔ 1990میں امریکہ میں فرمی لیب نے اپنے
پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ٹاؤ نیوٹرینو کو ڈھونڈنا شروع کر دیا۔ یہ وہ وقت تھا
میں Tevatron) 1995جب فرمی لیب کے ایک پارٹیکل ایکسلریٹر ٹیواٹران (
بھی دریافت ہوا اور مزید پانچ سال کی محنت )top quarkمیں ٹاپ کوارک (
اور ُجستجو کے بعد بالآخر سنہ 2000میں ٹاؤ نیوٹرینو کے مشاہداتی ثبوت
میسر آنے کا فرمی لیب کی طرف سے باقاعدہ اعالن کر دیا گیا ۔ یوں ہمیں
اسٹینڈرڈ ماڈل میں لیپٹان فیملی کا آخری سپُوت بھی مل گیا جس سے اسٹینڈڑد
مکمل ہو گئیں۔ )generationsماڈل میں لیپٹانز کی تین نسلیں (
کچھ طبیعات دان آج بھی یہ مانتے ہیں کہ لیپٹانز کی مزید اگلی نسلیں دریافت
ہونے کے انتظار میں ہیں۔ اگر مزید لیپٹانز دریافت ہوئے تو ہم اسٹینڈرڈ ماڈل
سے آگے بڑھ سکیں گے۔ نظریاتی طور پر مزید لیپٹانز موجود ہو سکتے ہیں
لیکن تجرباتی مشاہدات یہ بتاتے ہیں کہ کم از کم ہماری کائنات میں مزید لیپٹانز
24
کا ہونا ممکن نہیں۔ پھر بھی شاید ُمستقبل میں کوئی پارٹیکل ایکسلریٹر کسی
نئے لیپٹان کو دریافت کر کے ہم پر حیرت کا پہاڑ توڑ دے تب تک کے لئے
ہمارے پاس فی الحال لیپٹانز کی یہی تین جنریشنز ہیں۔ نہ تین سے زیادہ اور
نہ تین سے کم۔
25
اس آرٹیکل میں ہم پارٹیکل فزکس کے ایک دلچسب مظہر "کوارک کنفائنمنٹ"
)free quarksپر بات کریں گے ،یہ بھی دیکھیں گے کہ کیا آزاد کوارکس (
ہمیں مل سکتے ہیں؟ اور سٹرانگ نیوکلئیر فورس کیسے دیگر فورسز کی
نسبت ایک ُمنفرد رویہ رکھتی ہے۔
پچھلے ایک آرٹیکل میں کوارکس کے کلر چارج کے متعلق بات ہوئی تھی کہ
کیسے کچھ ہیڈرونز پر پالی ایکسکلوژن پرنسپل کے اطالق کے دوران کچھ
مسائل سامنے آئے جن کو حل کرتے ہوئے کوارکس کی اس کلر پراپرٹی کی
حقیقت ہم پر آشکار ہوئی۔ کوارکس کا کلر چارج بلکل ایسے ہی ہے جیسے کئی
پارٹیکلز مثالً الیکٹران وغیرہ پر برقی چارج ہوتا ہے۔ اور اس برقی چارج کی
وجہ سے یہ پارٹیکلز آپس میں الیکٹرومیگنیٹک فورس کے ذریعے تعامل
کرتے ہیں۔ گو کہ کوارکس بھی برقی چارج رکھتے ہیں اور الیکٹرومیگنیٹک
فورس کے ذریعے بھی تعامل کر سکتے ہیں لیکن کوارکس پر ایک اور طرح
کا چارج بھی موجود ہوتا ہے جو انکی اس کلر پراپرٹی کی وجہ سے ہوتا ہے
کہتے ہیں اور اس کَلر چارج کی وجہ )color chargeجسے ہم کَلر چارج (
سے بھی کوارکس ایک دوسرے سے تعامل کرتے ہیں اور اس تعامل کو ہم
سٹرانگ نیوکلئیر انٹریکشن یا سٹرانگ نیوکلئیر فورس سے تعبیر کرتے ہیں۔
26
ہم نے کوارکس کے کلر چارج والے آرٹیکل کے آخر میں ایک بات دیکھی تھی
کہ فرض کریں اگر ہم الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کو دیکھیں تو یہاں اگر ہم
ایک جیسا برقی چارج رکھنے والے دو پارٹیکلز مثالً دو الیکٹرانز کو ایک
دوسرے کے قریب الئیں تو دونوں ایک دوسرے کو دُور دھکیلتے ہیں۔ کوانٹم
اس مظہر کو دو پارٹیکلز کے درمیان ایک ورچوئل )QEDالیکٹروڈائنامکس (
فوٹان کے ایکسچینج سے واضح کرتی ہے۔ یعنی دونوں پارٹیکلز کے درمیان
فوٹان کے تبادلے سے مومینٹم کی ُمنتقلی ہوتی ہے اور اس مومینٹم کو کنزرو
کرنے کے لئے دونوں پارٹیکلز ایک دوسرے سے مخالف اطراف میں ہٹ
جاتے ہیں۔ اب دو کوارکس کے درمیان جب سٹرانگ انٹریکشن ہوتا ہے تو
اسے بھی یونہی بیان کرتی ہے لیکن اس )QCDکوانٹم کرومو ڈائنامکس (
دفعہ کوارکس کے بیچ ایکسچینج ہونے واال پارٹیکل فوٹان نہیں بلکہ گلوآن
ہوتا ہے جو سٹرانگ نیوکلئیر فورس کا فورس کیرئیر ہے۔ ان دو طرح کے
میں کچھ فرق ہے اور یہ فرق ان دونوں انٹریکشنز )interactionsتعامالت (
میں ایکسچینج ہونے والے بوزون پارٹیکلز کی بنیادی خصوصیات مختلف
ہونے کی وجہ سے ہے۔ الیکٹرومیگنیٹک فورس کا فورس کیرئیر فوٹان برقی
چارج نہیں رکھتا جبکہ سٹرانگ نیوکلئیر فورس کا فورس کیرئیر گلوآن خود
سے بھی کَلر چارج رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کے
دوران فوٹان ایکسچینج ہوتے ہوئے پارٹیکلز کا برقی چارج نہیں بدلتا صرف
مومینٹ م ہی منتقل ہوتا ہے۔ جبکہ اس کے برعکس سٹرانگ نیوکلئیر انٹریکشن
کے دوران گلوآن چونکہ خود سے بھی کلر چارج رکھتا ہے لہذا یہ ایکسچینج
ہوتے وقت کوارکس کا کلر بھی بدل دیتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ گلوآن کی یہ
خصوصیت ہی ہمیں پارٹیکل فزکس کے اس دلچسب مظہر سے متعارف کرواتی
ہے جسے ہم "کوارک کنفائنمنٹ" کہتے ہیں جو اس پوسٹ کا اصل موضوع
ہے۔
پارٹیکل فزکس میں ہم بے شمار پارٹیکلز کا مطالعہ کرتے ہیں۔ جن میں مشہور
پارٹیکلز الیکٹران ،نیوٹران ،پروٹان اور کئی طرح کے میزون پارٹیکلز شامل
ہیں۔ ان پارٹیکلز کو ہم انفرادی سطح پر مطالعہ کے لئے بھی استعمال کر
27
سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر الیکٹران اگر کسی ایٹم کے اندر موجود ہو یا ایک
آزاد الیکٹران ہو ،ہمیں دونوں حالتوں میں یہ مل سکتا ہے۔ لیکن کوارکس کو
ہم آج تک آزاد حالت میں حاصل نہیں کر سکے یہ ہمیشہ ہمیں گروپس کی
شکل میں ملتے ہیں۔ تین کوارکس اگر گروپ کی شکل میں موجود ہیں تو یہ
بنائیں گے اور اگر دو کوارکس (کوارک اور اینٹی کوارک) )baryonبیریون (
بن جائے گا۔ کوارکس کے اس )mesonگروپ بنا لیں تو یہ میزون پارٹیکل (
کہتے ہیں اس پر )hadronsطرح بنائے جانے والے گروپس کو ہم ہیڈرونز (
بھی ایک آرٹیکل میں بات ہو چکی ہے۔ جس کا لنک نیچے دوں گا۔
فرض کریں ہمارے پاس ایک نیوٹران ہے جو ایک اَپ کوارک اور دو ڈاؤن
کوارکس پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس نیوٹران میں سے ہم ایک کوارک کو باہر
نکالنا چاہتے ہیں۔ ہمیں اس کے لئے باہر سے بہت زیادہ توانائی دینا پڑے گی۔
ایک طریقہ یہ ہے کہ ہائی انرجی فوٹانز کو اس نیوٹران پر مسلسل پھینکا
جائے یا کسی ہائی انرجی پارٹیکل کو اس سے ٹکرایا جائے تاکہ نیوٹران کی
ٹوٹ جائے اور ہمیں اس میں موجود کوارکس الگ الگ مل configuration
جائیں۔ لیکن ایک بات ہمیں یہاں ذہن میں رکھنی ہو گی کہ نیوٹران کے اندر
کوارکس کے درمیان جس فورس نے انہیں مضبوطی سے آپس میں جوڑ رکھا
ہے یہ کوئی معمولی فورس نہیں ہے۔ یہ کائنات کی سب مضبوط فورس ہے
جسے ہم سٹرانگ نیوکلئیر فورس کہتے ہیں لہذا ہمیں اتنی بیرونی توانائی یہاں
دینی پڑے گی جو اس فورس پر غالب آ جائے اور ہم نیوٹران کے اندر موجود
کوارکس کو الگ کر پائیں۔
اب ہوتا یہ ہے کہ جیسے جیسے ہم بیرونی توانائی کو بڑھاتے رہتے ہیں ایک
وقت ایسا آ جاتا ہے کہ کوارک تو الگ نہیں ہو پاتا لیکن ہماری مہیا کردہ
توانائی دو مزید کوارکس کا ماس بنانے میں استعمال ہو جاتی ہے اور کوارک
کو الگ کرنے کی بجائے یہاں ہمیں ایک کوارک اور ایک اینٹی کوارک کا جوڑا
مل جاتا ہے۔ اور یہ کام آئن شٹائن کے
کے تحت ہوتا ہے۔ یعنی جو انرجی ہم نے کوارک کو الگ کرنے کے لئے
استعمال کی وہ
29
E=mc²
کے تحت ماس میں بدل گئی اور یہ ماس دو نئے بننے والے کوارکس کا ہے۔
Neutron: u+d+d
اور ایک اینٹی )uلیکن توانائی کے ایکسچینج کے بعد ہمیں ایک اَپ کوارک (
کا جوڑا مل گیا۔ تو ٹوٹل کوارکس ہمارے پاس پانچ ہو گئے۔ )ūاَپ کوارک (
یعنی تین کوارکس تو نیوٹران کے پہلے سے موجود تھے اور دو مزید
کوارکس اس انرجی سے مل گئے۔ نئے بننے والے دو کوارکس میں سے ایک
اَپ کوارک نیوٹران کے ایک اَپ کوارک اور ایک ڈاؤن کوارک سے مل جائے
گا تو یہاں دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک پر مشتمل ہیڈرون بن جائے
گا۔ یہ کونسا ہیڈرون ہے؟ یہ پروٹان ہی تو ہے۔
اب نیوٹران سے ایک ڈاؤن کوارک بچ گیا تھا اور نئے بننے والے دو کوارکس
میں سے ایک اینٹی اَپ کوارک بچ گیا تھا۔ یہ دونوں مل کر بھی ایک ہیڈرون
بنا ڈالیں گے۔ ایک ڈاؤن کوارک اور ایک اینٹی اَپ کوارک پر مشتمل ہیڈرون
ہے یا اسے پائیون )pi-mesonپارٹیکل کونسا ہوتا ہے؟ یہ پائی میزون (
30
بھی کہتے ہیں۔ جس کے بارے میں پچھلے آرٹیکل میں ہم نے سمجھا )(pion
تھا۔ اس سارے عمل کو ساتھ لگی تصویر میں بھی واضح کیا گیا ہے۔
اب اس موضوع کو آخر میں سمیٹیں تو چند اہم باتیں جو ہم نے کیں وہ یہ ہیں
کہ کوارکس دیگر پارٹیکلز کی طرح ہمیں آزاد حالت میں نہیں ملتے جس کی
ب نیادی وجہ کوارکس کے کلر چارج کی وجہ سے پیدا ہونے والی وہ مضبوط
فورس ہے جس نے انہیں کسی ہیڈرون پارٹیکل کے اندر نہایت مضبوطی سے
جوڑ کر رکھا ہوتا ہے۔ بظاہر ایسا ہی لگتا ہے کہ کسی ہیڈرون پارٹیکل میں
موجود کوارکس کو اگر ہم توانائی دیں تو یہ اس ہیڈرون سے آزاد ہو سکتے
ہیں لیکن کوانٹم کروموڈائنامکس اسے اتنا آسان نہیں بتاتی۔ پروٹان یا نیوٹران
کو توڑ کر کوارکس کو الگ کرنے کی کوشش کریں تو ہمیں مزید پروٹان،
نیوٹران یا دیگر میزون پارٹیکلز ہی ملتے ہیں۔
یہاں سٹرانگ نیوکلئیر فورس کا دیگر فورسز کی نسبت ایک منفرد رویہ بھی
د لچسبی سے خالی نہیں۔ الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کے دوران یہ ہوتا ہے کہ
31
):hadron
اس آرٹیکل میں ہم سمجھیں گے کہ ہیڈرون پارٹیکلز کیا ہوتے ہیں اور ان کی
کتنی اقسام ہیں؟
اس سے پچھلے آرٹیکل میں جو کہ کوارکس کے کَلر چارج پر تھا ،ہم نے
ہیڈرون پارٹیکلز کا بار بار ذکر کیا۔ ہم نے اُس آرٹیکل میں دیکھا تھا کہ کیسے
کلر چارج رکھنے والے کوارکس اپنی اس کلر پراپرٹی کی وجہ سے مسلسل
کرتے ہیں جسے ہم )interactگلوآنز کا تبادلہ کر کے آپس میں تعامل (
سٹرانگ نیوکلئیر فورس یا سٹرانگ انٹریکشن کے نام سے جانتے ہیں۔
پارٹیکل فزکس کی اس سیریز میں یہ ضروری سمجھا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل میں
موجود پارٹیکلز پر الگ الگ سے ایک تعارفی آرٹیکل موجود ہو۔ ہم اس
آرٹیکل میں ہیڈرونز کا مختصر جائزہ لیں گے جبکہ اگلے آرٹیکل میں لیپٹانز
پر گفتگو ہو گی۔
جیسا کے پچھلے آرٹیکل میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود
سترہ پارٹیکلز کو ہم دو بڑے حصوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ بارہ پارٹیکلز پر
مشتمل ایک حصے کو ہم "فرمیونز" جبکہ پانچ پارٹیکلز پر مشتمل ایک
حصے کو ہم "بوزونز" کہتے ہیں۔ فرمیونز میں شامل بارہ پارٹیکلز میں چھ
طرح کے کوارکس ہیں اور چھ طرح کے ہی لیپٹانز ہیں۔ یہ تمام کے تمام بارہ
پارٹیکلز بنیادی یعنی ایلیمینٹری پارٹیکلز ہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ
34
پارٹیکلز (اب تک کی ہماری سمجھ کے مطابق) مزید کسی پارٹیکل میں تقسیم
نہیں ہوتے۔ بقیہ پانچ پارٹیکلز جنہیں ہم بوزونز کہتے ہیں یہ مختلف تعامالت
(انٹریکش نز) کے فورس کیرئیرز کہالتے ہیں جن میں فوٹان ،گلوآن ،ڈبلیو زی
بوزون اور ہگز بوزون شامل ہیں۔
رکھتے ہیں یعنی بوزونز )integer spinجبکہ بوزونز ہمیشہ انٹیجر اسپن (
میں ہوتی ہے۔ مثال کے طور )whole numberکی اسپن ہمیشہ مکمل عدد (
پر:
-1, 0, +1
اگر تکنیکی طور پر دیکھا جائے تو فرمیونز اور بوزونز کی اسپن ان کے اسپن
کے ذریعے طے ہوتی ہے۔ )spin statistics theoremاسٹیٹسٹکس تھیورم (
کوئی پارٹیکل فرمیون ہو گا یا بوزون ہو گا اس بات کا فیصلہ یہ دیکھ کر کیا
جاتا ہے کہ پارٹیکلز کے ایکسچینج کے دوران ان کا ویو فنکشن سمٹرک رہتا
ہے یا نہیں۔ یہ شاید تھوڑا زیادہ ٹیکنیکل ہو جائے جو پاپولر سائنس میں بیان
35
نہیں کیا جاتا کیونکہ اس میں ریاضی کا بہت عمل دخل ہو جاتا۔ لیکن جو
ممبران ویو فنکشن کی سمٹری کے حساب سے فرمیونز اور بوزونز کو
سمجھنا چاہتے ہیں ان کے لئے متعلقہ آرٹیکل کا لنک نیچے دے رہا ہوں۔
فرمیونز اور بوزونز کے متعلق ایک آخری بات کر کے ہم اپنے اصل موضوع
کی طرف آتے ہیں۔ وہ یہ کہ فرمیونز پر "فرمی ڈیراک اسٹیٹسٹکس" جبکہ
بوزونز پر "بوز آئنسٹائین اسٹیٹسٹکس" الگو ہوتی ہے۔ فرمیونز پالی
ایکسکلوژن پرنسپل کی پیروی کرتے ہیں جبکہ بوزونز پر پالی ایکسکلوژن
پرنسپل الگو نہیں ہوتا۔
نے ساٹھ کی دہائی میں ہائی انرجی ُ Lev Borisovich Okunروسی فزسسٹ
فزکس پر ہونے والی ایک بین االقوامی کانفرنس میں استعمال کی۔
اب چونکہ ہم اچھی طرح سمجھ چکے ہیں کہ ہیڈرون پارٹیکلز کوارکس سے
ملکر بنتے ہیں لہذا ہیڈرونز کو بہتر طور پر سمجھنے کے لئے انہیں آگے
مزید د و بڑے حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ اس دفعہ یہ تقسیم کسی
ہیڈرون پارٹیکل میں کوارکس کی تعداد کو بنیاد بنا کر کی جائے گی۔ کوارکس
کہالتا ہے جبکہ )baryonکی طاق تعداد رکھنے واال ہیڈرون پارٹیکل بیریون (
کہتے )mesonکوارکس کی ُجفت تعداد رکھنے والے ہیڈرون کو ہم میزون (
ہیں۔ لیکن ہم نے پچھلے کوارکس کے کلر چارج والے آرٹیکل میں دیکھا تھا
کہ میزون پارٹیکل کے لئے ضروری ہے کہ کوارکس کو کوارک اور اینٹی
کوارک کے جوڑے کی شکل میں رکھے تاکہ مجموعی طور پارٹیکل کلر لیس
ہو جائے۔
بیریون پارٹیکلز اور میزون پارٹیکلز کی کوانٹم خصوصیات مثالً چارج یا اسپن
وغیرہ دراصل ان کوارکس کی خصوصیات سے ہی طے ہوتی ہیں جن سے
ملکر یہ پارٹیکلز بنتے ہیں۔ اس کے لئے ایک مثال دیکھتے ہیں۔ ہم نے اوپر
ذکر کیا کہ بیریون ہمیشہ کوارکس کی طاق تعداد رکھتے ہیں۔ مشہور بیریون
پارٹیکلز میں پروٹان اور نیوٹران شامل ہیں۔ اگر ہم نیوٹران اور پروٹان کی
دیکھیں تو دونوں تین تین کوارکس پر مشتمل ہیں۔ پروٹان configuration
میں دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک ،جبکہ نیوٹران میں دو ڈاؤن
کوارکس اور ایک اَپ کوارک ہوتا ہے۔ کوارکس کا چارج ہمیشہ فریکشنل چارج
ہوتا ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کوارکس کا چارج ہمیشہ ایک ایلیمینٹری
سے کم ہوتا ہے۔ بلکہ کوارکس واحد ایلیمینٹری پارٹیکلز ہیں جن کا )eچارج (
چارج ایلیمینٹری چارج کا انٹیجر ملٹی پل نہیں ہوتا۔ ایلیمنٹری چارج ایک فزیکل
کانسٹینٹ ہے۔ جس کی قیمت
37
1.602×10⁻¹⁹
کولمب ہوتی ہے۔ اس کی میگنیچیوڈ ایک الیکٹران کے چارج کے برابر ہوتی
ہوتا )e-جبکہ ڈاؤن کوارک کا چارج (e+) 3/1ہے۔ اَپ کوارک کا چارج (3/2
ہے۔ یہاں سے ہم آسانی سے جان سکتے ہیں کہ پروٹان اور نیوٹران پر چارج
کیا ہو گا۔ اس کے لئے ہمیں صرف اتنا پتا ہونا چاہئے کہ نیوٹران اور پروٹان
کون کون سے کوارکس سے ملکر بنتے ہیں۔ اب نیوٹران چونکہ ایک اَپ
کوارک اور دو ڈاؤن کوارکس سے ملکر بنا ہے لہذا:
Neutron → u+d+d
Neutron → (2/3)e-(1/3)e-(1/3)e
Neutron → (0/3e) → 0
یہاں سے ہمیں واضح ہو گیا کہ نیوٹران پر کوئی چارج موجود نہیں ہوتا۔ اسی
طرح اگر پروٹان کو دیکھیں جو دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک سے
ملکر بنا ہوتا ہے:
Proton → u+u+d
Proton → (2/3)e+(2/3)e-(1/3)e
Proton → (3/3e) → +1e
یہاں سے ہمیں پتا چال کہ پروٹان کا چارج ایک ایلیمینٹری چارج کے برابر ہی
ہوتا ہے لیکن یہ مثبت چارج ہے۔ ایلیمینٹری چارج کے برابر منفی چارج
الیکٹران کا ہوتا ہے۔
38
جیسا کہ اوپر ذکر کیا تھا کہ ہیڈرون پارٹیکلز کی خصوصیات ان میں موجود
کوارکس کی خصوصیات سے ہی طے ہوتی ہیں۔ اگر چارج کے حوالے سے
بات کریں تو اسی طرح ہم فوراً سے ایک میزون پارٹیکل کا چارج بھی دیکھ
ہے یہ سب سے زیادہ جانا جانے )pionلیتے ہیں۔ یہ میزون پارٹیکل پائیون (
بھی لکھا )pi mesonواال میزون پارٹیکل ہے اسے بعض جگہ پائی میزون (
سے ظاہر کرتے ہیں۔ یہ ٹوٹل تین طرح کے پارٹیکلز ہیں جو πجاتا ہے۔ اسے
π)،چارج کے لحاظ سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ ایک پر مثبت چارج (⁺
)π⁰جبکہ تیسرا پارٹیکل برقی طور پر نیوٹرل ( )πدوسرے پر منفی چارج (⁻
ہوتا ہے۔ آپ نے نیوکلئیر فورس کے مطالعہ کے دوران پائیون پارٹیکل کا
تذکرہ ضرور پڑھا ہو گا۔ نیوکلئیر فورس کا سب سے پہال کامیاب نظریہ ایک
جاپانی فزسسٹ ہائیڈیکی یوکاوا نے دیا تھا جن کے مطابق نیوکلیونز (نیوٹران
اور پروٹان) کو نیوکلئیس میں باندھ کر رکھنے والی نیوکلئیر فورس نیوکلیونز
کے درمیان اسی پائیون پارٹیکل کے مسلسل تبادلے سے پیدا ہوتی ہے۔
نیوکلئیر فزکس میں اس نظریہ کو "میزون تھیوری آف نیوکلئیر فورس" کے
نام سے جانا جاتا ہے۔ اس پر بھی اس سیریز میں الگ سے گفتگو ہو گی۔
جیسا کہ میزون پارٹیکل کے لئے ضروری ہے کہ کوارک اور اینٹی کوارک کے
ایک اَپ کوارک اور ایک اینٹی )πجوڑے پر مشتمل ہو لہذا پائیون پلس (⁺
ایک ڈاؤن کوارک اور ایک اینٹی اَپ )πپائیون مائنس (uđ)، ⁻ڈاؤن کوارک (
ایک اَپ کوارک اور ایک اینٹی اَپ )π⁰جبکہ پائیون زیرو ( )dūکوارک (
پر مشتمل )dđیا ایک ڈاؤن کوارک اور ایک اینٹی ڈاؤن کوارک ( )uūکوارک (
ہوتا ہے۔ یہاں سے ہم ان تینوں پائیون پارٹیکلز کا چارج نکال سکتے ہیں۔
بلکل اسی طرح ہم بیریون اور میزون پارٹیکلز کی ایک کوانٹم خصوصیت
کہتے ہیں ،بھی ان کے ایلیمنٹری پارٹیکلز کوارکس کی )spinجسے اسپن (
مدد سے نکال سکتے ہیں۔ کوارک ہاف سپن ( )2/1رکھنے واال پارٹیکل ہے۔
کسی پارٹیکل کی اسپن بنیادی طور پر اس کا ایک کوانٹم نمبر ہوتا ہے جو اس
کے اسپن اینگولر مومینٹم سے ُمنسلک ہوتا ہے۔ اگر ہم کسی پارٹیکل کی کسی
بیرونی میگنیٹک فیلڈ کی موجودگی میں اُس کی نسبت اسپن اینگولر مومینٹم
z-کی میگنیچیوڈ نکالیں تو ایسی صورت میں ہمیں زیڈ کمپونینٹ (
دو طرح کا ملتا ہے۔ ایک ( )+ℏ/2جبکہ دوسرا ( )-ℏ/2ہوتا )component
ہے۔ جہاں ℏسے مراد ریڈیوسڈ پالنک کانسٹینٹ ہے۔ اس موضوع میں کچھ
ریاضی آ جائے گی جو شاید ذرا ٹیکنیکل ہو جائے لیکن کوشش ہو گی کہ اسپن
اینگولر مومینٹم پر بھی اس سیریز میں ایک آرٹیکل کی گنجائش بنائی جائے۔
خیر کسی پارٹیکل کی اسپن بیان کرتے ہوئے اکثرℏکو نظر انداز کر کے لکھا
جاتا ہے لہذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ کوارک کی اسپن یا ½ ہوتی ہے یا ½ -ہوتی
ہے۔ یعنی اگر ایک کوارک کی اسپن ½ ہے تو جو کوارک اس کے مخالف اسپن
کر رہا ہو گا وہ ½ -ہو گی۔
اب پہلے ہم بیریون پارٹیکلز کی اسپن کو دیکھتے ہیں۔ بیریون چونکہ تین
کوارکس پر مشتمل ہوتا ہے لہذا اس میں موجود کوارکس کی ممکنہ
کچھ یوں ہو سکتی ہے۔ configuration
) 1۔ پہال امکان یہ ہے کہ تینوں کوارکس ایک جیسی اسپن ½ رکھیں۔ ان کو
جمع کر لیں تو ہمارے پاس بیریون کی اسپن 2/3آ جائے گی۔ یعنی یوں:
40
½ + ½ + ½ = 3/2
) 2۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ دو کوارکس ½ سپن رکھیں جبکہ تیسرا ان سے
مختلف ہو اور ½ -اسپن رکھے۔ ایسی صورت میں بیریون کی اسپن ½ +ہو
گی۔ یعنی یوں:
½=½½+½-
) 3۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ ایک کوارک ½ اسپن رکھے جبکہ دوسرے دو
کوارکس اس کے مخالف اسپن کریں جو ½ -ہو گی ایسی صورت میں بیریون
کی اسپن ½ -ہو گی۔ یعنی یوں:
½ - ½ - ½ = -1/2
-1/2 – ½ - ½ = -3/2
اس چھوٹی سی محنت کے بعد اگر ہم بیریون پارٹیکلز کی تمام ممکنہ اسپن کو
لکھنا چاہیں جو ہم نے ابھی نکالی تو وہ کچھ یوں ہو گی:
41
جیسا کہ اسی آرٹیکل میں اوپر ہم نے ایک جگہ ذکر کیا تھا کہ جن پارٹیکلز کی
ہوتی ہے انہیں ہم فرمیونز )half integerاسپن فریکشنل یا ہاف انٹیجر (
کہتے ہیں لہذا بیریون پارٹیکل کی اوپر نکالی گئی اسپن چونکہ فریکشنل ہی
ہے لہذا نتیجتا ً بیریون پارٹیکلز کا شمار فرمیونز میں ہوتا ہے۔ ان پر فرمی-
ڈ یراک اسٹیٹسٹکس الگو ہوتی ہے اور یہ پالی ایکسکلوژن پرنسپل کی پیروی
کرتے ہیں۔ یعنی کوئی دو بیریون پارٹیکلز ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹ رکھتے
ہوئے کسی ایک جگہ پر اکٹھے موجود نہیں ہو سکتے۔
اب اسی طرح فوراً سے ہم میزون پارٹیکل کی اسپن دیکھتے ہیں۔ میزون
پارٹیکل چونکہ دو کوارکس پر مشتمل ہے لہذا اس کے اسپن کی تین طرح کی
کچھ یوں ہو سکتی ہے۔ configurationممکنہ
)1۔ پہال امکان یہ ہے کہ دونوں کوارکس ایک جیسی ½ اسپن رکھیں۔ تو ایسی
صورت میں میزون پارٹیکل کی اسپن 1ہو جائے گی۔ یعنی یوں:
½+½=1
) 2۔ دوسرا امکان یہ ہے کہ دونوں کوارکس ایک دوسرے سے مخالف اسپن
رکھیں تو ایسی صورت میں میزون کی اسپن صفر ہو جائے گی۔ یعنی یوں:
42
½-½=0
)3۔ تیسرا امکان یہ ہے کہ دونوں ایک جیسی ½ -اسپن رکھیں ایسی صورت
میں میزون پارٹیکل کی اسپن -1ہو جائے گی۔ یعنی یوں:
-1/2 – ½ = -1
اب ہم اگر میزون پارٹیکلز کی تمام ممکنہ اسپن کو لکھنا چاہیں جو ہم نے ابھی
نکالی تو وہ کچھ یوں ہو گی:
-1, 0, +1
اب دیکھیں میزون پارٹیکلز کی اسپن ایک مکمل عدد کی شکل میں نکل رہی
ہے۔ یعنی یہ انٹیجر اسپن ہے اور انٹیجر اسپن رکھنے والے پارٹیکلز کو ہم
بوزونز کہتے ہیں۔ لہذا میزون پارٹیکلز بوزونز ہیں اور ان پر بوز-آئنسٹائن
اسٹیٹسٹکس الگو ہوتی ہے اور پالی ایکسکلوژن پرنسپل کا ان پارٹیکلز پر
اطالق نہیں ہوتا۔
ابھی تک سینکڑوں بیریون اور میزون پارٹیکلز ہمارے مطالعے میں آ چکے
)matterہیں۔ لیکن ان میں سے چند کے عالوہ باقی ہمیں عام موجود مادہ (
میں نہیں ملتے۔ چونکہ پروٹان اور نیوٹران مستحکم بیریون پارٹیکلز ہیں لہذا
ہمیں ہمارے اردگرد مادہ انہی پارٹیکلز سے بنا ملتا ہے۔ اسے ہم بیریونک میٹر
کہتے ہیں۔ دیگر بیریونز یا میزونز ہمیں مطالعہ کے )(baryonic matter
43
لئے یا تو پارٹیکل ایکسلریٹرز میں ملتے ہیں یا پھر کاسمک شعاعیں جب
ہمارے کُرہ ہوائی سے ٹکراتی ہیں تو ایسے بہت سے پارٹیکلز وجود میں آتے
ہیں لیکن یہ ایک سیکنڈ کے اربویں حصے کے لئے بھی اپنا وجود برقرار
کر جاتے ہیں۔ )decayنہیں رکھ پاتے اور مزید مستحکم پارٹیکلز میں ڈیکے (
بیریون اور میزون پارٹیکلز کا ڈیکے پراسیس بھی خاصا دلچسب ہے لیکن ان
ہیڈرون پارٹیکلز کا ڈیکے لیپٹانز میں ہوتا ہے لہذا پہلے اگلے آرٹیکل میں ہم
لیپٹانز سے تعارف کریں گے پھر ان پارٹیکلز کے ڈیکے کو سمجھیں گے۔
44
اس سے پہلے کہ ہم اس موضوع پر آئیں پہلے تھوڑا سا جان لیتے ہیں کہ
کوارکس ہوتے کیا ہیں۔ پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل پر نظر دوڑائیں تو
ہمیں ٹوٹل سترہ ایلیمینٹری پارٹیکلز دیکھنے کو ملتے ہیں۔ جیسا کہ نیچے
تصویر میں دکھایا گیا ہے۔ ان ایلیمینٹری پارٹیکلز کو ہم دو بڑے حصوں میں
تقسیم کرتے ہیں۔ بائیں طرف کے بارہ پارٹیکلز کو ہم "فرمیونز" جبکہ دائیں
طرف موجود پانچ پارٹیکلز کو ہم "بوزونز" کہتے ہیں۔ یہ تقسیم ہم نے ان
پارٹیکلز کی اسپن کو بنیاد بنا کر کی ہے۔ فرمیونز اور بوزونز کو ایک دوسرے
سے منفرد کرنے کے اور بھی بہت طریقے ہیں لیکن فی الحال وہ ہمارا
موضوع نہیں۔
45
پارٹیکل فزکس کے اسں اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود بارہ فرمیونز میں سے اوپر
والے چھ پارٹیکلز کوارکس ہیں۔ پارٹیکل فزکس میں اسے چھ مختلف فلیورز
کے کوارکس کہا جاتا ہے۔ جو اَپ ،ڈاؤن ،چارم ،سٹرینج ،ٹاپ اور باٹم کے
ناموں سے مختلف فلیورز کے لحاظ سے جانے جاتے ہیں۔ کوارک ہاف ()2/1
انٹیگرل اسپن رکھنے واال پارٹیکل ہے۔ دو یا دو سے زیادہ کوارکس مل کر
پارٹیکلز بناتے ہیں۔ ہیڈرون پارٹیکلز دو طرح کے ہوتے )hadronہیڈرون (
پارٹیکلز کہتے ہیں جو کہ تین یا پانچ )baryonہیں۔ ایک کو ہم بیریون (
کوارکس پر مشتمل ہوتے ہیں۔ مشہور بیریون پارٹیکلز میں نیوٹران اور پروٹان
)mesonبھی شامل ہیں۔ جبکہ دوسرے ہیڈرون پارٹیکلز کو ہم میزون (
پارٹیکلز کہتے ہیں جو کوارک اور اینٹی کوارک کے جوڑے پر مشتمل ہوتے
ہیں۔ بیریون اور میزون پارٹیکلز خود سے وسیع موضوعات ہیں جو الگ سے
تفصیلی آرٹیکل کے متقاضی ہیں۔ جن پر آئندہ گفتگو ہو گی۔
اس مختصر تمہید کے بعد اب ہم اپنے اصل موضوع کی طرف آتے ہیں۔ جیسا
کہ اوپر ذکر کیا کہ ہیڈرون پارٹیکلز دو یا دو سے زیادہ کوارکس پر مشتمل
سگما پلس پارٹیکل وغیرہ ہیں۔
ہوتے ہیں۔ ان کی مثال پروٹان ،نیوٹران اور ِ
پروٹان دو اَپ کوارکس اور ایک ڈاؤن کوارک ،نیوٹران دو ڈاؤن کوارکس اور
سگما پلس (⁺دو اَپ کوارکس اور ایک سٹرینج )Σایک اَپ کوارک جبکہ ِ
کوارک پر مشتمل ہوتا ہے۔
آپ میں سے بہت سے لوگ فزکس کے ایک بنیادی اصول سے واقف ہوں گے
جسے پالی ایکسکلوژن پرنسپل کہا جاتا ہے جو یہ بیان کرتا ہے کہ کوئی سے
دو فرمیونز ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹ رکھتے ہوئے اکٹھے ساتھ نہیں رہ
سکتے۔ تو یہاں ایک مسئلہ ہے وہ یہ کہ پالی ایکسلوژن پرنسپل کے مطابق
ایک پروٹان میں دو اَپ کوارک یا ایک نیوٹران میں دو ڈاؤن کوارک یا ایک
سگما پلس پارٹیکل میں دو اپ کوارک کیسے آ گئے؟ چلیں یہ بڑی ہی سادہ ِ
46
لیکن اب ہم ایک اور ہیڈرون پارٹیکل کی مثال لیتے ہیں۔ یہ پارٹیکل ڈیلٹا پلس
سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ یہ بنیادی طور پر چار Δپلس پارٹیکل ہے جسے ⁺⁺
طرح کے پارٹیکلز ہوتے ہیں جنہیں ڈیلٹا بیریون فیملی کہا جاتا ہے۔ ان چار
پارٹیکلز میں ڈیلٹا پلس پلس ،ڈیلٹا پلس ،ڈیلٹا زیرو ،اور ڈیلٹا مائنس شامل ہیں۔
کو )Δاور ڈیلٹا مائنس (Δ) ⁻ہم اپنی مثال کے لئے صرف ڈیلٹا پلس پلس (⁺⁺
لیتے ہیں کیونکہ ہمارے سمجھنے کے لئے ہمیں یہی دو پارٹیکلز چاہئیں۔ ذرا
دیکھیں کہ یہ دو پارٹیکلز کونسے تین کوارکس سے ملکر بنتے ہیں۔ ڈیلٹا پلس
پلس تین اَپ کوارکس سے جبکہ ڈیلٹا مائنس تین ڈاؤن کوارکس سے ملکر بنتا
ہے۔ ان کی اسپن اور آئسو اسپن دیکھیں تو دونوں 3/2ہیں۔ جس سے یہ ظاہر
ہوتا ہے کہ ان پارٹیکلز میں موجود کوارکس کی اسپن متوازی ہے۔ لہذا ہم یہاں
یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہو سکتا ہے کہ ان تینوں کوارکس کی اسپن ایک
دوسرے سے مختلف ہو۔ بالفرض اگر دو کی اسپن مختلف بھی ہو تو پھر
تیسرے کوارک کی اسپن الزمی طور پر کسی ایک سے مل جائے گی۔ ایسی ہی
پارٹیکل کی بھی ہے جو تین سٹرینج )Ωایک اور مثال اومیگا مائنس (⁻
کوارکس پر مشتمل ہوتا ہے۔
اب یہاں پالی ایکسکلوژن پرنسپل کو شدید اعتراض اُٹھ جاتا ہے کہ کوارکس
چونکہ فرمیونز ہیں اور اینٹی سمٹرک ویو فنکشن رکھتے ہیں لہذا یہ کیسے
ایک جگہ پر تینوں اکٹھے رہ لیتے ہیں۔ ساٹھ کی دہائی کے شروع میں اس
مسئلے نے فزسسٹس کو کافی پریشان رکھا۔
اس کا حل بہت جلد ہی نکال لیا گیا جس کا سہرا تین سائنسدانوں کے سر بندھتا
ہے۔ جن میں امریکی فزسسٹ آسکر گرینبرگ ،کورین فزسسٹ ُمو ہنینگ اور
47
جاپانی فزسسٹ یوئی چیرو نامبو شامل ہیں۔ اس مسئلے کے حل کے طور پر
یہ نظریہ پیش کیا گیا کہ کوارکس اسپن ،چارج وغیرہ کے عالوہ ایک اور
کا نام دیا گیا۔ اس کے )colorکوانٹم خصوصیت رکھتے ہیں جسے کلر (
سرخ (ریڈ) ،نیال
مطابق کوارکس بنیادی طور پر تین کلر رکھتے ہیں جو کہ ُ
(بلیو) اور سبز (گرین) ہیں۔ اسی طرح ان کے متعلقہ اینٹی کوارکس بھی تین
کلر رکھیں گے جو اینٹی ریڈ ،اینٹی بلیو اور اینٹی گرین ہوں گے۔
پر میزون پارٹیکل کلر لیس ہو جائے۔ لہذا ہیڈرونز میں موجود کوارکس کے
لئے بہت ضروری ہو جاتا ہے کہ دو سے زیادہ کوارکس کی صورت میں
سارے کوارکس کلر کے حساب سے برابر تناسب میں موجود ہوں یا پھر
میزون پارٹیکلز کی صورت میں ایک کوارک کسی خاص کلر کا ہو تو دوسرا
اس کا اینٹی کلر رکھے۔
کوارکس کی یہ کلر پراپرٹی اس بات کی بھی بہت خوبصورت وضاحت کرتی ہے
کہ ایسا کیوں ہے کہ ہیڈرونز میں کوارکس کی تعداد کچھ خاص ہی کیوں ہوتی
ہے۔ مثال کے طور پر بیریونز ہمیشہ طاق تعداد میں ہی کوارکس کیوں رکھتے
ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں کوئی دو یا چار کوارکس پر مشتمل بیریون پارٹیکل
کائنات میں نہیں مل سکتا کیونکہ اگر ایسا ہوا تو وہ پارٹیکل کلر لیس نہیں ہو
گا۔ لہذا بیریونز ہمیشہ تین یا پانچ کوارکس پر مشتمل ملیں گے۔
آخر میں اب اس گفتگو کو سمیٹتے ہیں اور چند آخری باتیں کوارکس کی اس
کل ر پراپرٹی کے بارے میں کہ کوارکس کا کلر چارج رکھنا بلکل ایسا ہی ہے
جیسے کئی پارٹیکلز الیکٹرک چارج رکھتے ہیں اور الیکٹرومیگنیٹک فورس
کے ذریعے آپس میں تعامل کرتے ہیں ایسے ہی کلر چارج رکھنے والے
پارٹیکلز یعنی کوارکس سٹرانگ نیوکلئیر فورس کے ذریعے تعامل کرتے ہیں۔
اسی وجہ سے سٹرانگ نیوکلئیر فورس کو بعض جگہ "کلر فورس" بھی لکھا
جاتا ہے۔ جیسے الیکٹرومیگنیٹک انٹریکشن کے دوران فوٹان بطور فورس
کیرئیر استعمال ہوتے ہیں ایسے ہی جب دو کلر چارج رکھنے والے پارٹیکلز
آپس میں سٹرانگ فورس کے ذریعے تعامل کرتے ہیں تو یہاں بھی ایک
پارٹیکل بطور فورس کیرئیر استعمال ہوتا ہے جسے "گلوآن" کا نام دیا گیا ہے۔
کوانٹم میکینکس:
فرمیونز کیوں پالی ایکسکلیوژن پرنسپل کی پیروی
کرتے ہیں جبکہ بوزونز پر اس اصول کا اطالق نہیں
ہوتا؟
اب ہم چونکہ یہاں فرض کر رہے ہیں کہ یہ دو پارٹیکلز کا سسٹم ہے یعنی یہ
دونوں پارٹیکلز ہم اگر اکٹھے رکھیں تو ان کا کمبائینڈ ویو فنکشن کچھ یوں
لکھا جائے گا:
52
)Ψ(r₁,r₂) = ψₐ(r₁)ψₓ(r₂
مشہور بوزونز اور فرمیونز سمیت بہت سے پارٹیکلز قدرتی طور پر
ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر آپ ایسے دو identical particles
پارٹیکلز کی آپس میں جگہ تبدیل کر دیں تو ایسا کوئی طریقہ ہمارے پاس نہیں
جس سے پتا چل سکے کہ یہاں پارٹیکلز کی جگہ تبدیل ہوئی ہے۔ اس کی
بنیادی وجہ یہ ہے کہ پارٹیکلز کو ایکسچینج کرنے سے پہلے اور بعد میں
دونوں صورتوں میں ان کا پرابیبیلیٹی ڈسٹریبیوشن ایک جیسا ہی رہتا ہے۔
اب اس بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے فرض کریں کہ پارٹیکلز کی پوزیشن
پر آ r₂پوزیشن پر تھا وہ اب r₁آپس میں بدل دی گئی ہے یعنی جو پارٹیکل
پوزیشن پر آ گیا ہے۔ اب اس تبدیلی کے بعد ان r₁پر تھا وہ r₂گیا ہے اور جو
دونوں پارٹیکلز کا کمبائینڈ ویو فنکشن کچھ یوں ہو جائے گا:
)Ψ(r₂,r₁) = ψₐ(r₂)ψₓ(r₁
جیسا کہ اوپر عرض کیا کہ ہمارے پاس کوئی ایسا فزیکل طریقہ موجود نہیں
کہ ہم اس میں فرق کر سکیں کہ یہاں پارٹیکلز کا ایکسچینج ہوا ہے کیونکہ
ایکسچینج سے پہلے اور بعد دونوں صورتوں میں سسٹم کا پرابیبیلیٹی
ڈسٹریبیوشن ایک جیسا ہی رہتا ہے۔ اسے ہم ریاضیاتی طور پر یوں لکھ
سکتے ہیں:
|Ψ(r₁,r₂)|² = |Ψ(r₂,r₁)|²
53
مندرجہ باال چھوٹی سی مساوات اپنے اندر ایک بہت بڑا سائنسی تصور
چھپائے ہوئے ہے جس کی بنیاد پر ہم پارٹیکلز کی بنیادی درجہ بندی کر
سکتے ہیں۔ اس کو کچھ حل کریں تو اس کی شکل یوں بنتی ہے:
)Ψ(r₁,r₂) = ± Ψ(r₂,r₁
)Ψ(r₁,r₂) = Ψ(r₂,r₁
)Ψ(r₁,r₂) = - Ψ(r₂,r₁
54
تمام ایلیمنٹری پارٹیکلز ایکسچینج کے بعد مندرجہ باال دو ممکنہ حالتوں میں
سے کوئی ایک ظاہر کریں گے۔ یعنی یا وہ سمٹرک ویو فنکشن رکھیں گے یا
اینٹی سمٹرک ویو فنکشن رکھیں گے۔
ان میں سے جن پارٹیکلز کا ویو فنکشن مثبت یعنی سمٹرک ہو گا انہیں ہم
کہتے ہیں۔ جبکہ جو پارٹیکلز منفی یعنی اینٹی سمٹرک ویو )bosonsبوزونز (
کہتے ہیں۔ )fermionsفنکشن ظاہر کریں گے انہیں ہم فرمیونز (
پارٹیکلز کے identicalاب جیسا کہ شروع میں عرض کیا تھا کہ چونکہ دو
ایکسچینج کو ہم فزیکلی طور نہیں جان سکتے لہذا نیچے لکھے گئے دونوں
ویو فنکشن سولوشنز ممکن ہو سکتے ہیں:
)Ψ(r₁,r₂) = ψₐ(r₁)ψₓ(r₂
)Ψ(r₂,r₁) = ψₐ(r₂)ψₓ(r₁
لہذا ہم پھر ایسی صورت میں ایک جنرل سولوشن لکھتے ہیں جو اوپر بیان
کئے گئے د ونوں سولوشنز کا لینئر کمبینیشن ہوتا ہے۔ جنرل سمٹرک ویو
فنکشن سولوشن یوں ہوتا ہے:
یہاں مساواتوں سے پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ یاد رکھنے والی بات
صرف یہی ہے کہ جنرل سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں مثبت کی عالمت
جبکہ جنرل اینٹی سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں منفی کی عالمت آ رہی
ہے۔
اب اگر اوپر بیان کی گئی باتیں کچھ واضح ہوئی ہوں تو ایک چھوٹی سی مثال
لیتے ہیں جہاں ہم دو پارٹیکلز لیں گے اور ان کی پوزیشن تبدیل کر کے نتیجہ
پر غور کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر ہمارے پاس دو پارٹیکلز ہیں جو ایک ہی جیسی کوانٹم اسٹیٹ
میں ہیں یعنی ان کے تمام کوانٹم نمبرز ایک جیسے ہیں۔ ایک پارٹیکل کی
ہے۔ چونکہ دونوں ایک جیسی r₂جبکہ دوسرے کی پوزیشن r₁پوزیشن
کوانٹم اسٹیٹ میں ہیں لہذا دونوں کا ویو فنکشن سولوشن یا آئیگن اسٹیٹ ایک
ہے۔ ψₐجیسی ہو گی جو فرض کریں
اب بلکل اسی طرح ہم ان دونوں پارٹیکلز کے لئے ایکسچینج سے پہلے اور
ایکسچینج کے بعد کمبائینڈ ویو فنکشن لکھ لیتے ہیں۔ یہ بلکل آسان اور وہی
کام ہے جو اوپر ہم آرٹیکل کے شروع میں کر چکے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے
کہ پہلے دونوں پارٹیکلز کی الگ الگ آئیگن اسٹیٹس تھیں جبکہ اس دفعہ
ہے۔ ψₐدونوں پارٹیکلز کی آئیگن اسٹیٹ ایک جیسی ہے جو
56
تو دو ایسے پارٹیکلز جو ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹس رکھتے ہوں ان کے لئے
ایکسچینج سے پہلے اور ایکسچینج کے بعد مندرجہ باال دو ممکنہ ویو فنکشنز
موجود ہوتے ہیں۔
میں آسانی کے لئے وہ دونوں جنرل سولیوشنز یہاں دوبارہ سے لکھ دیتا ہوں۔
وہ کچھ یوں تھے:
57
ہماری فرض کی گئی مثال کے مطابق دونوں پارٹیکلز ایک جیسی کوانٹم
اسٹیٹس میں ہیں۔ اب ہم ان کے ایکسچینج سے پہلے اور بعد کے ویو فنکشنز
لکھا تھا) جنرل سولوشن والی مساوات Bاور Aکو (جنہیں بالترتیب مساوات
ت حال پیدا ہو گی۔
میں ڈالیں تو بڑی دلچسب صور ِ
کو جنرل سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں ڈالنے سےB :اور Aمساوات
])Ψ(sym) = 1/√2[ψₐ(r₁)ψₐ(r₂)+ψₐ(r₂)ψₐ(r₁
یہاں آپ غور کریں تو ایکسچینج سے پہلے اور بعد والے دونوں ویو فنکشنز
درمیان میں +کی عالمت ہونے کی وجہ سے آپس میں جمع ہو کر ہمیں کوئی
دے رہے ہیں۔ sum valueنہ کوئی
58
جبکہ جب یہی دونوں ویو فنکشنز ہم جنرل اینٹی سمٹرک سولیوشن کی
مساوات میں ڈالتے ہیں تو ہمیں صفر نتیجہ ملتا ہے۔
کو جنرل اینٹی سمٹرک ویو فنکشن سولوشن میں ڈالنے Bاور Aمساوات
سے:
])Ψ(asym) = 1/√2[ψₐ(r₁)ψₐ(r₂)-ψₐ(r₂)ψₐ(r₁
Ψ(asym) = 0
یہاں دونوں ویو فنکشنز کے درمیان میں منفی موجود ہونے کی وجہ سے
بریکٹ کے اندر کی دونوں ٹرمز آپس میں کینسل ہو جاتی ہیں اور نتیجہ کے
طور پر ہمیں صفر ملتا ہے۔
اس صفر کا کیا مطلب ہوا؟ کسی سسٹم کا ویو فنکشن صفر ہونا ممکن نہیں
ہوتا۔ کیونکہ اس کا م طلب یہ ہو گا کہ یہ دو پارٹیکلز وجود ہی نہیں رکھتے۔
ایسا ناممکن ہے کیونکہ پارٹیکلز تو کہیں نا کہیں موجود ہیں لہذا ان کے ویو
فنکشن کی کوئی نہ کوئی ویلیو ہونی چاہئے۔
59
اگر اینٹی سمٹرک ویو فنکشن سولوشن صفر ہو رہا ہے تو اس کا مطلب صرف
ت حال ہی ممکن نہیں کہ دو پارٹیکلزایک ہی ہو سکتا ہے وہ یہ کہ ایسی صور ِ
اکٹھے ایک جیسی کوانٹم اسٹیٹ میں موجود ہوں۔
لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ ایسا صرف ان پارٹیکلز کے ساتھ ہو رہا ہے جو
اینٹی سمٹرک ویو فنکشن کی پیروی کرتے ہیں۔ اور جیسا کہ اوپر ذکر کیا کہ
کہتے ہیں۔ جبکہ دوسری طرف )Fermionsایسے پارٹیکلز کو ہم فرمیونز (
ایسے پارٹیکلز جو سمٹرک ویو فنکشن کی پیروی کرتے ہیں ان کا ویو فنکشن
دیتا ہے لہذا نتیجتا ً یہ ایک ہی جیسی sum valueتو ہمیں کوئی نہ کوئی
کہتے )Bosonsکوانٹم اسٹیٹ میں موجود ہو سکتے ہیں۔ انہیں ہم بوزونز (
ہیں۔
یہ بات ہمیں فزکس کے ایک بہت ہی اہم اصول کی طرف لے جاتی ہے جسے
ہم
Pauli Exclusion Principle
کے نام سے جانتے ہیں۔ جس کے مطابق پارٹیکلز کی ایک خاص کالس جو
اینٹی سمٹرک ویو فنکشن رکھتی ہے ان کے لئے ایک سسٹم میں ایک جیسی
کوانٹم اسٹیٹ رکھتے ہوئے رہنا ممکن نہیں ہوتا۔ پارٹیکلز کی ایسی کالس کو
ہم "فرمیونز" کہتے ہیں۔
60
اگر کائنات پھیل رہی ہے تو یہ ِکس چیز میں پھیل رہی ہے؟
فرض کریں آپ کے پاس ایک الئن ہے جو المحدُود تک پھیلی ہوئی ہے۔ اِس
الئن پر آپ نے ہر ایک اِنچ کے بعد ایک نشان لگایا ہوا ہے۔ اِس طرح اِس الئن
پر المحدود نشانات لگے ہوں گے۔ اب ہر نشان کو اِس طرح حرکت دیں کہ اِن
کا درمیانی فاصلہ دو اِنچ ہو جائے۔ یُوں اِس الئن پر سارا پیٹرن وسیع ہو جائے
گا۔
ابھی بھی یہ المحدود ہی ہوگا لیکن نشانات کا آپسی فاصلہ ایک اِنچ کی بجائے
اب دو اِنچ ہو ُچکا ہے۔ پیٹرن میں ُوسعت آ گئی لیکن مکمل لمبائی ابھی بھی
المحدود ہی ہے۔
61
اِسی ضمن میں ایک اور مثال بھی دیکھتے ہیں۔ فرض کریں آپ کے پاس ایک
لمبا المحدود َربڑ کا ٹُکڑا ہے۔ اس َربڑ کے ٹُکڑے کو کائنات مان لیں۔ َربڑ پر ہر
اِنچ کے بعد ایک نشان لگا ہے۔ اب اِس ربڑ کو اِس قدر کھینچیں کہ یہ نشانات
ایک دوسرے سے دو اِنچ کے فاصلے پر ہو جائیں۔ یہ ابھی بھی المحدود ہو گا
لیکن دو نقاط کے ِبیچ فاصلہ بڑھ گیا ہے۔
سائنسدان کائنات کو ایک خالی جگہ نہیں مانتے بلکہ اِسے َربڑ کے اِسی
ٹُکڑے کی طرح خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن اِسے َربڑ نہیں کہا جاتا بلکہ اسے
"ویکیوم" کہا جاتا ہے۔ فزکس کے مطابق "پارٹیکلز" اِس ویکیوم میں پیدا
ہونے واال ارتعاش ہوتے ہیں۔ یہ ویکیوم َربڑ کے ٹُکڑے کی مانند پھیل سکتا
ہے لیکن چونکہ یہ المحدود تک جاتا ہے لہذا اِسے پھیلنے کے لئے مزید
اسپیس نہیں چاہئے۔
اب ایک نئی چیز پر بحث کرتے ہیں جو شاید آپ کے لئے مزید اُلجھن پیدا کر
دے یا شاید اِس سے سمجھنے میں آپکو کوئی مدد ملے۔
اسٹینڈرڈ فزکس تھیوری میں کہکشائیں ایک دوسرے سے دُور جا رہی ہیں۔
اسے کائنات کا پھیالؤ کہا گیا ہے۔ لیکن ایک بات نہایت قاب ِل غور ہے کہ نظریہ
اضافت کے مطابق کوئی کہکشاں بھی اپنی جگہ سے ہِل نہیں رہی۔ ہو صرف یہ
رہا ہے کہ ان کے بیچ اسپیس (ویکیوم) میں اضافہ ہو رہا ہے۔
سیکھ سکتے۔ یہ عموما ً اس وقت آپ یہ باتیں شاید سکول یا کالج میں نہیں ِ
کی ڈگری لینے کے قریب )Ph.Dسکھائی جاتی ہیں جب آپ اپنی پی ایچ ڈی (
ہوتے ہیں۔ یہاں یہ حقیقت آپ پر کُچھ یُوں آشکار ہوتی ہے کہ:
62
"بِگ بینگ نظریہ کے مطابق تمام کہکشاؤں کے نقاط یعنی کوآرڈینیٹس ِفکسڈ
ہیں (اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حرکت نہیں کر رہیں)۔ ان کے درمیان پھیالؤ کو
"میٹرک ٹینسر" سے ظاہر کیا جاتا ہے جو ان دو مستحکم نقاط کے بیچ فاصلہ
ظاہر کرتا ہے۔ بگ بینگ نظریہ میں یہ "میٹرک ٹینسر" ہی تبدیل ہو رہا ہے۔
لہذا مستحکم کہکشاؤں کے ِبیچ پھیالؤ میں اضافہ ہو رہا ہے کیونکہ میٹرک
ٹینسر کا تبدیل ہونا ظاہر ہی اِس پھیالؤ کو کرتا ہے۔ پھیالؤ کی شَرح میں تبدیلی
کی حالیہ دریافت کا مطلب یہ ہے کہ پھیالؤ کی یہ رفتار مسلسل بڑھ رہی ہے"۔
مجھے امید ہے کہ یہ باتیں آپ کو حیرت اور تذبذب کے سمندر میں غوطہ زن
کر دیں گی لیکن یہ کوئی بُری عالمت نہیں ،یہ اچھی بات ہے۔ جب آپ کوئی
سیکھی گئی باتوں سے َیکسر مختلف نئی چیز سیکھتے ہیں جو پہلے سے ِ
ہوتی ہے تو آپ کا سب سے پہال سامنا جس چیز سے ہوتا ہے اسے
"کنفیوژن" ہی کہتے ہیں۔
ُمصنف کا تعارف:
پروفیسر ِرچرڈ َملر ایک امریکی فِزسسٹ ہیں اور یونیورسٹی آف کیلیفورنیا
میں فزکس کے سابقہ پروفیسر ہیں۔ سائنس کی کئی کتابوں کے ُمصنف بھی
سرچ پراجیکٹ" کو پروان چڑھایا اور انہی
سپرنووا َ
ہیں۔ انہوں نے "برکلے ُ
63
نے اِسی پراجیکٹ کے تحت ڈارک ”Saul Perlmutterکے ایک طالبعلم "
انرجی کی دریافت کی جس پر انہیں 1998میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔
64
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الیکٹران ایسے ہی باہر سے توانائی جذب اور خارج کر کے ایٹم کے اندر اُچھل
کُود جاری رکھتے ہیں۔ الیکٹرانز کی اس خصوصیت سے ہم اپنی روزمرہ
زندگی میں بھی کافی فائدہ اٹھاتے ہیں۔
آج کل آپ کوئی بھی الیکٹرانک ڈیوائس خرید لیں شاید سبھی میں ایک یا ایک
لگی ہوتی ہیں۔ یہ پالسٹک یا ایپوکسی کے چھوٹے بلبلے کی LEDسے زائد
طرح ہوتی ہیں جس کے ساتھ دو کنیکٹرز لگے ہوتے ہیں۔ جب ڈائیوڈ کے بیچ
سے بجلی گزرتی ہے یہ کسی خاص رنگ سے روشن ہو کر آپ تک یہ اطالع
پہنچا دیتی ہیں کہ آپ کی ڈیوائس درست کام کر رہی ہے۔
سے دُور بھاگتا ہے تاکہ ہماری دنیا کو روشن LEDاپنے الیکٹران ،ایٹم اور
کر سکے۔
میں موجود ایک الیکٹران اپنے اصل آربیٹل میں آتے ہوئے توانائی LEDجب
خارج کرتا ہے تو یہ بنیادی طور پر ایک خاص مقدار میں ہوتی ہے جسے
کہا جاتا ہے۔ یہ توانائی تقسیم نہیں ہو سکتی یعنی اسے ”)"Quantaکوانٹا (
کہیں منتقل ہونا ہے تو یہ اپنی اسی پوری مقدار کے ساتھ ہی منتقل ہو گی۔ اور
ہی ہو گی یعنی یہ فریکشن میں Whole Numberیہ خارج شدہ توانائی ایک
نہیں ہو سکتی۔ مثال کے طور پر ایک الیکٹران یا تو "ایک کوانٹا" توانائی
خارج کرے گا یا "دو کوانٹا"۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ یہ ڈیڑھ کوانٹا توانائی
خارج کرے یا اڑھائی کوانٹا۔
اور پھر ایسا بھی نہیں کہ الیکٹران جس آربیٹل میں چاہے چھالنگیں مارتا
طول موج کے حساب سے اسے آربیٹل میسر آیا یہ پھرے بلکہ جہاں اس کی ُ
وہیں اپنا قیام کر لیتا ہے۔ اور ایسے آربیٹل بڑے محدود ہوتے ہیں۔ اوپر بیان
کردہ یہ دو فیکٹرز ایسے ہیں جو اس بات کا فیصلہ کرتے ہیں کہ الیکٹران
سے خارج شُدہ توانائی کا "کوانٹا" کیا ہو گا اور نتیجتا ً پیدا ہونے واال فوٹان
ت حال سے یہ واضح ہو جاتا کس خاصیت کا مالک ہو گا۔ اب اس ساری صور ِ
67
کے الیکٹرانز ایسے ہیں جو صرف اتنی مقدار کے "کوانٹا" LEDsبہت ساری
طول موج ایٹم سے خارج ہوتے وقت تقریبا ً 700نینو خارج کرتے ہیں جن کی ُ
طول موج ہے تو نتیجتا ً ہمیں سرخ رنگ نظر میٹر ہوتی ہے۔ یہ سرخ رنگ کی ُ
آتا ہے۔ ان ایٹمز کی کوانٹم فطرت کچھ ایسی ہے کہ انکے الیکٹرانز کبھی اس
طول موج کا فوٹان خارج کر ہی نہیں سکتے لہذا یہ ہمیشہ سرخ سے بڑی ُ
رنگ کی روشنی نکالتے ہیں اور کبھی سبزِ ،پیلی یا ِنیلی روشنی خارج نہیں کر
سکتے۔
مثالً سوڈیم کو جب گرم کیا گیا تو ِپیلے رنگ کی تیز روشنی پیدا ہوئی۔
پوٹاشئیم گرم کرنے پر ہلکی بنفشی روشنی سے چَمکی جبکہ مرکری سے تیز
سرخ رنگ کی روشنی کا اخراج ہوا۔ ُ
68
جب یہی عمل انہوں نے متعدد میٹیریلز کے ساتھ کیا تو یہ واضح ہوا کہ ہر
میٹیریل سے خار ج شُدہ روشنی کا سپیکٹرم دوسرے میٹیریل سے مختلف تھا۔
بلکہ جب دو میٹیریلز کو اکٹھا کر کے یہ عمل کیا گیا تب بھی اُنہوں نے اپنے
اپنے اِنفرادی سپیکٹرم کو اکٹھا کر کے نتیجہ کے طور پر دکھایا۔
ِلیتھئیم کے ایٹم میں مرکزے کے ِگرد تین الیکٹرانز براجمان ہوتے ہیں جنہیں
بیرون سے اگر توانائی دی جائے تو یہ اس توانائی کی ایک خاص مقدار جذب
کر کے آربیٹلز میں اُچھل کُود شروع کر دیتے ہیں اور بعض اوقات تو یہ
توانائی حاصل کر کے ایٹم سے باہر بھی آ جاتے ہیں اور پیچھے ِلیتھئیم کا
ایک آئن رہ جاتا ہے۔ لیتھئیم کے پہلے الیکٹران کو ایٹم سے باہر نکالنے کے
لئے اتنی زیادہ توانائی کی ضرورت نہیں پڑتی۔ یہ تقریبا ً ِ 124کلو کیلوریز فی
مول ہوتی ہے۔ اسی لئے ِلیتھئیم کے ایٹم کو آئیونائیز کرنا اتنا مشکل نہیں
ہوتا۔
تاہم ِلیتھئیم کے آئن سے دوسرا الیکٹران باہر نکالنے کے لئے تقریبا ً 1740
ِکلو کیلوریز فی مول توانائی چاہئے ہوتی ہے اور اسی طرح تیسرا الیکٹران
باہر نکالنے کے لئے ِ 2820کلو کیولریز فی مول کی بھاری مقدار میں توانائی
درکار ہوتی ہے۔
پہلے الیکٹران کو ایٹم سے باہر نکالنے کے لئے درکار توانائی یہ جاننے کے
لئے ایک اچھا پیمانہ ہوسکتی ہے کہ یہ الیکٹران اپنے ایٹم سے کس قدر
مضبوطی سے ُجڑا ہوا ہے۔
مقام
بوہر کے ایٹمی ماڈل میں الیکٹرانز کے مرکزے کے گرد مختلف ممکنہ ِ
قیام ہو سکتے ہیں جنہیں "پرنسپل کوانٹم نمبرز" کہا جاتا ہے۔ اور اسے
" سے ظاہر کرتے ہیں۔ ان مختلف مقامات پر موجود الیکٹرانز کی nعموما ً "
توانائی کے لئے بوہر نے جو مساوات دی ،وہ کچھ یوں ہے:
70
Eₙ = - E₀/n²
اسی طرح اگر ایک الیکٹران کسی بڑے آربیٹل سے چھوٹے آربیٹل کی طرف
حرکت کر تا ہے تو یہ توانائی کی ایک خاص مقدار ہی خارج کرے گا اور اس
خارج شدہ خاص توانائی کا مطلب ہے کہ وہ فوٹان ایک خاص رنگ کا ہی ہو
ہوں ،یہ ایک خاص قسم کی روشنی ہی LEDsگا۔ لہذا سوڈیم ہو یا آجکل کی
خارج کرتی ہیں یا اگر رنگ مختلف ہوتا بھی ہے تو الزمی اس خاص رنگ کے
سپیکٹرم میں سے ہی کوئی رنگ ہوتا ہے۔
مندرجہ باال تمام ُگفتگو سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ اگر کسی میٹیریل یا
عنصر پر سفید روشنی (جس میں تمام رنگ موجود ہوتے ہیں) ڈالی جائے تو
طول موج کو ہی الیکٹرانز جذب کرتے ہیں۔ یعنی الیکٹران کو ایکچند خاص ُ
خاص توانائی کا فوٹان ہی چاہئے ہو گا جسے جذب کر کے یہ اگلے آربیٹل میں
71
طول موج الیکٹرانز نے جذب کر لیں ،سفید روشنی کے چال جائے۔ اب جتنی ُ
سپیکٹرم میں اتنا خال پیدا ہو جائے گا۔
سفید روشنی کو کسی میٹیریل پر ڈال کر سپیکٹرم میں آنے والے خال کی مدد
Absorptionمیٹیریل کے بارے میں جاننا "ایبزارپشن اسپیکٹروسکوپی
" کہالتا ہے۔Spectroscopy
اگرچہ بوہر کے ایٹمی ماڈل کو بڑی حد تک تبدیل کیا گیا ہے تاہم چند اصول
ابھی بھی قابل قبول ہیں:
1۔ الیکٹران کسی ایٹم کے مرکزے کے گرد ایک خاص فاصلے پر پائے جاتے
ہیں۔ جنہیں "آربیٹلز" کہا جاتا ہے۔
Λ=h/P
طول ” "λسے مراد مومینٹم اور " "Pسے مراد پالنک کانسٹینٹh" ،جہاں " ُ
موج کو ظاہر کرتا ہے۔
3۔ ایک ُمستقل اور متوازن آربیٹل وہی ہو گا جہاں الیکٹران (بطور موج) کی
ہو گا۔ اسے تکنیکی طور پر "ساکن Whole Numberلہروں کی تعداد ایک
" کہا جاتا ہے۔ Standing Wavesامواج
یہ ساکن امواج کے آربیٹلز ہی واحد آربیٹلز ہیں جہاں الیکٹران نہ توانائی خارج
کرتے ہیں اور نہ ہی ٹکراتے ہیں۔
نیوٹرینو کی دریافت:
اس آرٹیکل میں ہم اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود لیپٹان فیملی سے تعلق رکھنے
کے متعلق جانیں گے۔ نیوٹرینو )neutrinoوالے ایک اہم پارٹیکل نیوٹرینو (
کی دریافت کی تاریخ پر بھی نظر ڈالیں گے اور اس کے متعلق موجود جدید
سائنسی فہم کو بھی سمجھیں گے۔ نیوٹرینو کے مفروضے سے لیکر دریافت
اور پھر اِن کے متعلق جدید سائنسی نُکتہ نظر تک بیان کرنے کو اتنا کچھ ہے
75
کہ ایک قسط میں اسے سمونا بہت مشکل ہے۔لہذا پارٹیکل فزکس کی اس
سیریز میں محض نیوٹرینو پر ہی تین سے زائد اقساط بن جائیں گی۔
اس سے پچھلے آرٹیکل میں 'لیپٹانز' پر سیر حاصل گفتگو ہوئی اور اسی
آرٹیکل میں نیوٹرینو کے متعلق ہم نے یہ جانا تھا کہ نیوٹرینو برقی طور پر
نیوٹرل لیپٹان ہیں۔ ان کا ماس گو کہ آج بھی پارٹیکل فزکس کی ریسرچ کا ایک
اہم موضوع ہے لیکن اگر ان کا ماس ہو بھی تو نہایت کم ہو گا جس کی وجہ
سے نیوٹرینو روشنی کی رفتار کے بہت قریب قریب سفر کرتے ہیں۔ ہم نے یہ
بھی دیکھا تھا کہ نیوٹرینو برقی چارج اور کَلر چارج نہ رکھنے کی وجہ سے
برقی مقنا طیسی فورس اور سٹرانگ فورس کے ذریعے تعامل نہیں کرتے اور
صرف ویک فورس کے ذریعے ہی تعامل کرنے کے قابل ہوتے ہیں اور چونکہ
ویک فورس بہت ہی چھوٹے فاصلوں پر اثر کرتی ہے اور کافی کمزور قوت
ہے لہذا نیوٹرینو مادے سے تعامل کئے بغیر اس کے اندر سے ِبال روک ٹوک
ُگزر جات ے ہیں اور ان کے مادے سے تعامل کے امکانات بہت بہت کم ہوتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کائنات میں کہیں دُور پیدا ہونے والے نیوٹرینو روشنی
کی رفتار کے نہایت قریب سفر کرتے ہوئے ہر سیکنڈ میں الکھوں کروڑوں کی
تعداد میں ہماری زمین اور اِس پر موجود ہر جسم (بشمول ہم سب) سے آرپار
ہو رہے ہیں اور ڈیٹیکٹ بھی نہیں ہو رہے۔ اسی وجہ سے انہیں گھوسٹ
بھی کہا جاتا ہے۔ )ghost particlesپارٹیکلز (
نیوٹرینو سے ہمارا باضابطہ تعارف ہوئے تقریبا ً ایک صدی ہونے کو ہے لیکن
آج بھی یہ پارٹیکلز جدید فزکس کی تحقیقات میں بہت اہم سمجھے جاتے ہیں۔
نیوٹر ینو سے ہمارا پہال تعارف کوئی اتنے خوشگوار ماحول میں نہیں ہوا تھا۔
ت حال سے دوچار تھے اور ماہرین طبیعات ایک مخمصے والی صور ِِ اُس وقت
فزکس کا ایک اہم اور بنیادی قانون داؤ پر لگا ہوا تھا جسے قانون بقائے
توانائی یا الء آف کنزرویشن آف انرجی کہتے ہیں۔
76
یہ 1930کے اوائل کی بات ہے جب ایٹم کے متعلق ہماری سمجھ بُوجھ کافی
بہتر ہو چکی تھی۔ ایٹم کے دو اہم پارٹیکلز الیکٹران اور پروٹان دریافت ہو
چکے تھے۔ ایک ایٹم دوسرے ایٹم میں کیسے بدل جاتا ہے یعنی ریڈیو
ایکٹیویٹی پر بھی ہینری بیکیورل سے لیکر ردرفورڈ ،پال ِوالرڈ ،میری کیوری
اور ِپیئر کیوری ٹھیک ٹھاک کام کر چکے تھے۔ بالخصوص ردرفورڈ اور
فریڈرک سوڈی کی مشترکہ تحقیق سے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ ریڈیو
ایکٹویٹی کے دوران دو طرح کی شُعاعوں کا اخراج ہوتا ہے جو الفا ریز
تھیں۔ جنہیں بالترتیب الفا ڈیکے اور )beta raysاور ِبیٹا ریز ( )(alpha rays
ِبیٹا ڈیکے کہا گیا۔ کچھ عرصہ بعد ہی پال ِوالرڈ نے ریڈیو ایکٹیویٹی کے دوران
ایک اور مختلف قسم کی ہائی انرجی ریز بھی دریافت کیں جو الفا اور بِیٹا ریز
کا )gamma raysسے مختلف تھیں۔ ردرفورڈ نے بعد میں انہیں گیما ریز (
نام دیا اور ڈیکے کے اس عمل کو گیما ڈیکے کہا گیا۔ ہینری بیکیورل نے ِبیٹا
ڈیکے میں خارج ہونے والے بِیٹا پارٹیکل پر تحقیق شروع کی اور اس کے
ماس اور چارج کی نسبت کا موازنہ جے جے تھامسن کے حالیہ دریافت شُدہ
الیکٹران سے کیا تو پتا چال کہ ِبیٹا ڈیکے میں خارج ہونے واال ِبیٹا پارٹیکل
دراصل جے جے تھامسن کا یہ الیکٹران ہی ہے۔
بِیٹا پارٹیکل (الیکٹران) کی توانائی بھی بلکل وہی ہونی چاہئے جتنا بِیٹا ڈیکے
سے پہلے موجود نیوکلئیس اور بعد میں بننے والے نئے نیوکلئیس کی کمیتوں
کا فرق ہے اور یوں خارج ہونے والے الیکٹران کی توانائی کسی ایک خاص
ری ایکشن کے لئے فکس ہونی چاہئے تھی لیکن تجرباتی نتائج یہ بتا رہے
تھے کہ ہر دفعہ الیکٹران توانائی کی ایک مختلف قیمت رکھتا ہے یعنی
مشاہداتی نتائج کے مطابق الیکٹران کی توانائی فکس ہونے کی بجائے
تھی۔ اسے ایک مثال سے سمجھ لیتے ہیں۔ continuous
ِبیٹا ڈیکے کی ایک مثال بورون ١٢-کی ہے جو ایک ِبیٹا پارٹیکل (الیکٹران)
خارج کر کے کاربن ١٢-میں بدل جاتا ہے۔ اس ری ایکشن کو ہم یوں لکھ لیتے
ہیں:
اگر ہم اس خارج ہونے والے الیکٹران کی انرجی معلوم کرنا چاہیں تو وہ
بورون ١٢-اور کاربن ١٢-کے ماس کے فرق کے برابر ہونی چاہئے۔ چونکہ
یہ انرجی آئن شٹائن کے ماس انرجی ایکوی لینس پرنسپل کی مساوات
E=Δm.c²
سے مراد ڈیکے سے پہلے اور بعد میں Δmکے مطابق ہوتی ہے جہاں
نیوکلیائی کی کمیتوں کا فرق ہے لہذا یہاں یہ ضروری ہے کہ کسی ایک خاص
نیوکلئیس (مثالً بورون) کے ڈیکے کے دوران الیکٹران ہمیشہ اِسی انرجی کو
لیکر خارج ہو۔ لیکن اگر ہم ایک ہی نیوکلئیس کے ِبیٹا ڈیکے کو بار بار
78
صرف یہی ایک مسئلہ نہیں تھا۔ بِیٹا ڈیکے میں خارج ہونے واال بِیٹا پارٹیکل
یعنی الیکٹران انرجی کے ساتھ ساتھ لینئیر مومینٹم اور اینگولر مومینٹم کی
ماہرین
ِ کنزرویشن کے قوانین کی بھی دھجیاں بکھیر رہا تھا اور اُس وقت کے
طبیعات الیکٹران کی اس حرکت پر ششدر تھے۔ اینگولر مومینٹم کی خالف
ورزی کا معاملہ کچھ یوں تھا کہ جیسے ہم نے اوپر بورون ١٢-کی مثال لی تو
بورون ١٢-کی نیوکلئیر اسپن 1ہوتی ہے۔ یہ کافی تفصیل طلب موضوع ہے
لیکن مختصراً یہ ک ہ کسی نیوکلئیس میں پروٹان اور نیوٹران کی انفرادی تعداد
ہے تو نیوکلئیس کی اسپن ایک مکمل )oddہے یا طاق ( )evenاگر ُجفت (
کی شکل میں ہوتی ہے جیسے بورون ١٢-میں ٹوٹل )whole numberعدد (
بارہ نیوکلیونز ہیں جن میں پروٹان اور نیوٹران کی انفرادی تعداد بالترتیب پانچ
اور سات ہے جو طاق ہے تو اس کی اسپن 1بنتی ہے جو مکمل عدد ہے۔
جبکہ اگر کسی نیوکلئیس میں پروٹان اور نیوٹران میں سے کسی ایک کی
انفرادی تعداد طاق ہے اور دوسرے کی ُجفت ہے تو ایسے نیوکلئیس کی اسپن
ہاف انٹیگرل ہوتی ہے یعنی ½ یا 2/3وغیرہ۔ ایسے ہی اب بورون ١٢-چونکہ
مکمل عدد کی اسپن رکھتا ہے اور بِیٹا ڈیکے کے بعد نیوکلئیس کا ماس نمبر
نہیں بدلتا اور ڈیکے کے بعد بننے والے کاربن ١٢-میں پروٹان اور نیوٹران
کی انفرادی تعداد چھ چھ ہو جاتی ہے جو کہ ُجفت ہے لہذا اس کے نیوکلئیس
کی اسپن صفر ہے جو مکمل عدد ہے تو یہاں ضروری تھا کہ جو ِبیٹا پارٹیکل
خارج ہو وہ بھی مکمل عدد کی اسپن ہی رکھے تبھی ڈیکے سے پہلے اور بعد
میں اینگولر مومینٹم کنزرو رہتا ہے۔ لیکن خارج ہونے واال الیکٹران تو ہاف
اسپن رکھتا ہے جو ½ ہے لہذا یہاں اینگولر مومینٹم کی بھی صریحا ً خالف
79
ورزی ہو رہی تھی۔ مایوسی کا عالم یہ تھا کہ نیل بوہر نے یہاں تک کہہ دیا کہ
کہیں ان انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے قوانین کو ہم نے خواہ مخواہ
میں کاندھوں پر سوار تو نہیں کیا ہوا۔ کیا یہ قوانین واقعی اہم ہیں بھی یا نہیں؟
کیا قُدرت کی کتاب میں انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کا قانون ہے بھی یا
یہ محض ہماری ہی خام خیالی ہے جو ہم ان قوانین کو اس قدر اہمیت دے رہے
ہیں۔
مایوسی اور بے بسی کے اس ماحول میں ایک شخص ایسا تھا جو فزکس کے
انتہائی بنیادی 'انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے قوانین' کو بچانے کے
لئے سرکرداں تھا۔ یہ وولف گینگ پالی تھے جنہوں نے حال ہی میں الیکٹرانز
کے لئے فطرت کے اس قانون پر سے پردہ اٹھایا تھا کہ کوئی سے دو
الیکٹرانز ایک جیسی کوانٹم سٹیٹس رکھتے ہوئے کسی ایک کوانٹم سسٹم میں
اکٹھے نہیں رہ سکتے۔ اس اصول کو ہم 'پالی ایکسکلوژن پرنسپل' کے نام
سے جانتے ہیں۔
یہاں سے ہمارا نیوٹرینو سے باقاعدہ تعارف شروع ہو گا۔ اگلی قسط میں ہم
دیکھیں گے کہ وولف گینگ پالی نے بِیٹا ڈیکے میں انرجی اور مومینٹم کی
کنزرویشن نہ ہونے پر کیا تجاویز دیں اور دنیائے فزکس میں ان کی تجاویز پر
کیا ردِعمل سامنے آیا۔
پارٹیکل فزکس کے اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود لیپٹان فیملی سے تعلق رکھنے
والے ایک اہم پارٹیکل 'نیوٹرینو' کے متعلق یہ دوسری قسط ہے۔ پہلی قسط
ماہرین طبیعات بِیٹا ڈیکے کے مطالعہ کے دوران ایک
ِ میں ہم نے دیکھا تھا کہ
مقام پر ُرک گئے تھے جہاں ِبیٹا ڈیکے میں خارج ہونے واال الیکٹران فزکس
کے انتہائی بنیادی انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے قوانین کی صریحا ً
80
ت حال یہ بن چکی تھی کہ فزکس خالف ورزی کر رہا تھا اور اُس وقت صور ِ
کے ان بنیادی قوانین کے متعلق بھی سوال اٹھنا شروع ہو گئے تھے کہ آیا یہ
کنزرویشن کے قوانین ضروری اور درست بھی ہیں یا نہیں؟ نِیل بوہر وہ پہلے
شخص تھے جنہوں نے اس معاملہ میں انرجی اور مومینٹم کی کنزرویشن کے
قوانین کو کٹہرے میں ال کھڑا کیا تھا۔
دیکھا جائے تو فزکس کی تاریخ میں یہ کوئی پہال واقعہ نہیں تھا کہ جہاں
تجرباتی نتائج کی روشنی میں فزکس کا کوئی انتہائی بنیادی قانون داؤ پر لگ
ماہرین طبیعات
ِ چکا ہو۔ اس سے پہلے اُنیسویں صدی کے بلکل آخر میں بھی
ت حال سے ُگزر چکے تھے جہاں تجرباتی نتائج نے فزکس ایسی ہی ایک صور ِ
کے ایک اور بنیادی اور اہم قانون کی درستگی اور آفاقیت پر سوال کھڑے کر
دئیے تھے۔ یہ تھرمو ڈائنامکس کا دوسرا قانون تھا جو بلیک باڈی ریڈی ایشن
کے م سئلے کے دوران داؤ پر لگا ہوا تھا۔ لیکن جرمنی سے تعلق رکھنے
والے فزسسٹ 'میکس پالنک' اس قانون کو بچانے کے لئے کڑی محنت میں
لگے ہوئے تھے۔ اور پھر ہم نے دیکھا کہ انہوں نے کیسے بلیک باڈی ریڈی
ایشن کا مسئلہ حل کرتے ہوئے نہ صرف تھرمو ڈائنامکس کے دوسرے قانون
کی عز ت بچائی بلکہ کالسیکل فزکس کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایک لکیر لگا
کر وہاں تک محدود کر دیا اور دُنیا کے لئے کوانٹم فزکس کے دروازے کھول
دیے۔
کنزرو ہوتے ہوں۔ ایک اور رائے پر بھی غور ہو رہا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ
ڈیکے کے دوران الیکٹران باقاعدہ ڈیٹیکٹ ہونے سے پہلے کچھ انرجی کھو
رہا ہو جس کی وجہ سے یہاں انرجی غائب ہوتی لگ رہی تھی۔ لیکن بار بار
تجربات کر کے یہ بات واضح ہو چکی تھی کہ مسئلہ کسی قسم کی تجرباتی
کا نہیں تھا۔ لہذا یہ کوئی اتنی تسلی بخش )experimental errorsغلطیوں (
آراء نہیں تھیں جن پر اطمینان ظاہر کیا جا سکے۔
یہ وہ دور تھا جب نئے پارٹیکلز کا تصور کچھ اتنا اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔
بالخصوص نیل بوہر ہر اُس شخص پر تنقید میں پیش پیش ہوتے تھے جو
کسی نئے پارٹیکل کا تصور دے۔ یہ صاحب آئن شٹائن کے روشنی کے کوانٹا
کے تصور کے شدید ناقد رہے۔ پال ڈیراک نے ریلیٹوسٹک کوانٹم میکینکس کی
شکنی کی گئی کہ یہمساواتوں پر کام شروع کیا تو یہ کہہ کر ان کی حوصلہ ِ
کام تو آسکر کالئن اور والٹر گورڈن پہلے ہی اپنی 'کالئن-گورڈن مساوات' کے
ذریعے کر چکے ہیں۔ پال ڈیراک نے اپنی ریلیٹوسٹک کوانٹم میکینکس کی
مساوات کو استعمال کر کے الیکٹران کے اینٹی پارٹیکل 'پوزیٹران' کی پیشین
گوئی کی تو یہ بھی ان سے ہضم نہ ہوا۔ ہائیڈیکی یوکاوا نے نیوکلئیر فورسز
82
اس خط میں پالی نے تجویز دی اور کہا کہ میرے پاس بِیٹا ڈیکے میں انرجی
کی کنزرویشن کے اصول کو بچانے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم فرض کر لیں
ِبیٹا ڈیکے میں الیکٹران کے ساتھ ایک اور برقی طور پر نیوٹرل پارٹیکل خارج
ہو رہا ہے جسے میں 'نیوٹران' کا نام دینا چاہوں گا۔ یہ پارٹیکل نہ صرف اس
غائب ہونے والی انرجی کو لیکر جائے گا بلکہ الیکٹران کے برابر مخالف
سمت میں خارج ہو کر لینئیر مومینٹم کو بھی کنزرو کر دے گا۔ انہوں نے مزید
لکھا کہ میں جانتا ہوں کہ میری یہ رائے بڑی حد تک ناقاب ِل یقین ہے کیونکہ
اگر ایسے کوئی پارٹیکلز وجود رکھتے ہوتے تو اب تک مشاہدے میں آ چکے
ہوتے۔ لیکن میری نظر میں اس وقت اس سے بہتر اس مسئلے کا کوئی حل
نہیں ہے۔ وولف گینگ پالی کے لکھے اس مکمل خط کے انگریزی ترجمے کا
لنک اس آرٹیکل کے آخر میں دوں گا۔
پالی کی یہ تجویز بہت بہتر تھی لیکن ساتھ ساتھ بہت زیادہ مفروضاتی بھی
تھی جسے اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا گیا۔ لیکن اٹلی سے تعلق رکھنے والے
ایک نہایت قابل فزسسٹ 'اینریکو فرمی' اس پر بہت سنجیدگی سے سوچ رہے
تھے۔ یہ وہی اینریکو فرمی ہیں جن کے نام پر اسٹینڈرڈ ماڈل میں موجود
پارٹیکلز کی ایک جماعت کو ہم 'فرمیونز' کہتے ہیں۔ فرمی نے پالی کے اس
نئے پارٹیکل کو مدِنظر رکھتے ہوئے ِبیٹا ڈیکے کی تھیوری پر کام شروع کر
83
دیا۔ اسی دوران 1932میں جیمز چیڈ ِوک نے نیوکلئیس کے اندر ایک اور
پارٹیکل دریافت کر لیا جس کا ماس پروٹان کے تقریبا ً برابر ہی تھا۔ اس
پارٹیکل کا نام 'نیوٹران' رکھا گیا لیکن جیمز چیڈ ِوک کا یہ پارٹیکل بیٹا ڈیکے
میں الیکٹران کے ساتھ خارج ہونے والے پارٹیکل سے بہت زیادہ بھاری تھا
جس کا نام پالی نے بھی نیوٹران ہی رکھا تھا۔ لہذا اینریکو فرمی نے پالی کے
پارٹیکل کو جیمز چیڈ ِوک کے نیوٹران سے الگ رکھنے کے لئے نیوٹرینو
کا نام دے دیا۔ )(neutrino
اب ہم بِیٹا ڈیکے میں پالی کے فرض کردہ پارٹیکل نیوٹرینو کی ُممکنہ
خصوصیات کا مختصر جائزہ لے لیتے ہیں کہ یہ کن خصوصیات کا مالک ہونا
چاہئے۔
پہلی قسط میں ہم نے بورون ١٢-کی مثال لی تھی جو ِبیٹا ڈیکے کے دوران
الیکٹران خارج کر کے کاربن ١٢-میں بدل جاتا ہے۔ اس عمل کو ہم نے یوں
لکھا تھا:
سے مراد پالی کا تجویز کردہ پارٹیکل نیوٹرینو ہے۔ اوپر لکھے گئے υجہاں
عمل کی مساوات پر غور کریں تو بائیں طرف جیمز چیڈ ِوک کا حالیہ دریافت
کردہ نیوٹران ہے جو برقی طور پر نیوٹرل ہے اور یہ آگے تین پارٹیکلز میں
ڈیکے کر رہا ہے جس میں پروٹان پر مثبت چارج ہے اور الیکٹران پر منفی
چارج ہے۔ یوں بائیں اور دائیں جانب مجموعی چارج کنزرو رہ رہا ہے۔ لہذا یہ
ضروری ہے کہ پالی کا تجویز کردہ نیوٹرینو برقی طور پر نیوٹرل ہو ورنہ
چارج کی کنزرویشن کا مسئلہ بن جائے گا۔ لہذا نیوٹرینو برقی چارج نہیں
رکھتے یہ نیوٹرل پارٹیکز ہوتے ہیں۔
چونکہ یہ بات فرمی اور پالی سمیت بہت سے ماہرین کے علم میں تھی کہ بِیٹا
ڈیکے کے دوران الیکٹران انرجی کا ایک بڑا حصہ لیکر جاتا ہے اور اس کے
ساتھی پارٹیکل کے پاس حاصل کرنے کو بہت کم انرجی بچتی ہے اور خارج
ہونے واال پارٹیکل فوٹان بھی نہیں ہے تو یہ طے کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہ
نیا پارٹیکل تھوڑا بہت ماس ضرور رکھتا ہے اور اس کا ماس الیکٹران کی
نسبت بہت کم ہو گا اور تھوڑا بہت ماس ہونے کی وجہ سے یہ روشنی کی
رفتار پر سفر نہیں کر سکے گا۔ پالی کی پیشین گوئی کے مطابق نیوٹرینو کا
ماس پروٹان کے ماس کے محض ایک فیصد تک ہونا چاہئے تھا۔ اسی طرح
اور )ِ recoilبیٹا ڈیکے کے بعد بننے والے ڈاٹر نیوکلئیس کی ری کوائل (
الیکٹران کی سمت بھی مخالف نہیں تھی جس سے لینئر مومینٹم کی کنزرویشن
85
نہیں ہو پا رہی تھی جسے پالی کا تجویز کردہ نیوٹرینو الیکٹران کی مخالف
سمت میں حرکت کر کے کنزرو کر سکتا تھا۔
½½→½+
½½→½+½+
https://microboone-docdb.fnal.gov/cgi-
bin/RetrieveFile?docid=953;filename=pauli%20letter1930.pdf
1934کے دوران میری کیوری اور پئیر کیوری کی صاحبزادی ایرین کیوری
پر )artificial radioactivityاور اُن کے شوہر فریڈرک مصنوعی تابکاری (
تحقیق کر رہے تھے۔ جب انہوں نے ایلومینئم پر الفا پارٹیکلز کی بوچھاڑ کی
تو ایلومینئم 27-اس نیوکلئیر ری ایکشن کے دوران فاسفورس 30-میں بدل گیا
جو کہ فاسفورس کا ایک انتہائی غیر مستحکم آئسو ٹوپ ہے۔ یہ فوراً سے بِیٹا
ڈیکے کر کے سلیکون 30-میں بدل جاتا ہے۔
88
لیکن یہاں قاب ِل مشاہدہ بات یہ تھی اس دوران بطور ِبیٹا پارٹیکل خارج ہونے
واال پارٹیکل الیکٹران کی طرح کا ہی تھا لیکن الیکٹران کے برعکس یہ مثبت
چارج کا حامل ذرہ تھا۔ چونکہ تین سال قبل پال ڈیراک اپنے ایک مشہور پیپر
کے ذریعے الیکٹران کے اینٹی پارٹیکل کا عندیہ دے چکے تھے جسے ایک
سال بعد کارل اینڈرسن نے کاسمک ریز کے مطالعہ کے دوران دریافت بھی کر
لیا تھا۔ لہذا ایرین کیوری اور فریڈرک کے لئے یہ طے کرنا مشکل نہیں تھا کہ
یہ ذرہ وہی پال ڈیراک کا 'پوزیٹران' ہی ہے جو دراصل الیکٹران کا اینٹی
پارٹیکل ہے۔
فاسفورس 30-کا سلیکون 30-میں بدلنا ِبیٹا پلس ڈیکے تھا جہاں ایک نیوٹران
پروٹان میں بدلنے کی بجائے فاسفورس کا ایک پروٹان نیوٹران میں بدل کر
سلیکون کا نیوکلئیس بناتا ہے اور ساتھ بِیٹا مائنس ڈیکے کے برعکس
الیکٹران کا اینٹی پارٹیکل پوزیٹران اور نیوٹرینو خارج ہوتا ہے۔ اسی دوران
ورنر ہائزنبرگ جیسے عظیم فزسسٹ کے شاگرد اور اینریکو فرمی کے
اسسٹنٹ اٹلی سے تعلق رکھنے والے گیان کارلو ِوک نے فرمی کی ِبیٹا ڈیکے
کی تھیوری کو آگے بڑھایا اور بِیٹا ڈیکے کے ایک مزید مختلف طریقہ کار کی
پیشین گوئی کی جسے 'الیکٹران کیپچر' کہتے ہیں۔ اس مظہر کو بعد میں جلد
ہی ایک امریکی فزسسٹ لوئس والٹر نے باقاعدہ دریافت بھی کر لیا۔
89
جیسا کہ پچھلی اقساط میں یہ ذکر ہوا تھا کہ نیوٹرینو چونکہ برقی چارج نہیں
رکھتے اور ان کی کمیت الیکٹران سے بھی بہت زیادہ کم ہوتی ہے لہذا ان کا
مادہ کے ساتھ تعامل بہت نایاب ہوتا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ نیوٹرینو کے برا ِہ
راست مشاہدے یا دریافت میں بہت مشکل پیش آ رہی تھی۔ نیوٹرینو کے موجد
ُوولف گینگ پالی نے اس بارے میں کہا تھا کہ:
"میں نے ایک بڑا خطرناک کام کر دیا ہے۔ میں نے ایک ایسے ذرے کی تجویز
سراغ نہ ِمل سکے"۔
پیش کی ہے جس کا شاید کبھی بھی کوئی ُ
جبکہ اسی عمل کا انورس یوں ہو گا کہ اگر پروٹان کے ساتھ نیوٹرینو کا اینٹی
پارٹیکل یعنی اینٹی نیوٹرینو انٹریکٹ کرے اور پروٹان نیوٹران میں بدل جائے
جبکہ ساتھ پوزیٹران بطور بِیٹا پارٹیکل خارج ہو۔ اس عمل کو ہم یوں لکھتے
ہیں:
یہ 1951کا سال تھا۔ ُوولف گینگ پالی کو نیوٹرینو کو تجویز کئے اکیس سال
ہو چکے تھے۔ اس دوران نیوٹرینو کو ڈھونڈنے کی بہت کوششیں ہوئیں لیکن
تسلی بخش نتائج نہ مل سکے۔ 1946میں امریکی ائیر فورس سے ریٹائرڈ ہو
کر دو سال قبل ہی 1949میں فزکس میں اپنی پی ایچ ڈی مکمل کرنے والے
کالئیڈ کووان ابھی نئے نئے الس آالموس نیشنل لیبارٹری میں آئے تھے جہاں
ان کی مالقات پروفیسر فریڈرک رائنس سے ہوئی۔ ان دو ماہرین نے نیوٹرینو
کو اِسی انورس بیٹا ڈیکے کے عمل کے ذریعے ڈھونڈنے کی کوششیں شروع
کر دیں جس کا ذکر ابھی ہم نے اوپر کیا۔
چونکہ نیوٹرینو کا مادہ سے تعامل بہت ہی کم ہوتا ہے لہذا انہیں کسی ایسے
سورس کی ضرورت تھی جہاں سے انہیں نیوٹرینو کی خارج ہونے والی کثیر
تعداد مل سکے۔ کیونکہ جتنے زیادہ نیوٹرینو ہوں گے اتنے ہی انورس بِیٹا
ڈیکے کے امکانات بھی زیادہ ہوں گے۔ اکیس سال سے ہماری نظروں سے
اوجھل محض مساواتوں اور نظریات میں دکھائی دینے واال نیوٹرینو پارٹیکل
باقاعدہ دریافت ہونے سے مزید محض دو یا تین سال کی دُوری پر ہی تھا۔
91
اگ لی قسط میں ہم دیکھیں گے کہ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے نیوٹرینو
کی کثیر تعداد حاصل کرنے کے لئے کس جگہ کا انتخاب کیا اور ان کے تجربے
کا سیٹ اَپ کیا تھا۔ ہم فزکس کی تاریخ کے ایک ُ
سنہری باب ،نیوٹرینو کی
دریافت کے اس عظیم الشان تجربے کو اگلی قسط میں تفصیل سے دیکھیں
گے۔
92
ایسے میں دو امریکی فزسسٹس کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس انورس ِبیٹا
مصروف عمل تھے۔ پچھلی
ِ ڈیکے کے عمل سے نیوٹرینو کو ڈھونڈنے میں
قسط کے آخر میں ہم نے دیکھا تھا کہ دونوں ماہرین کسی ایسے سورس کی
تالش میں تھے جہاں سے انہیں کثیر تعداد میں نیوٹرینو مل سکیں۔ تاکہ
انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کے واقع ہونے کے امکانات زیادہ سے زیادہ ہو
سکیں۔ اِس قسط میں اِسی پر گفتگو ہو گی کہ اس قدر کثیر تعداد میں نیوٹرینو
حاصل کرنے کا سفر کیسا تھا۔ انورس ِبیٹا ڈیکے کا عمل کچھ یوں تھا کہ جب
نیوٹرینو کا اینٹی پارٹیکل یعنی اینٹی نیوٹرینو کسی ایٹم کے نیوکلئیس میں
موجود پروٹان سے تعامل کرے اور اسے نیوٹران میں بدل دے اور ساتھ
الیکٹران کا اینٹی پارٹیکل پوزیٹران خارج ہو۔
جنگ عظیم کے بعد ایٹمی ہتھیاروں کا مقابلہ بھی شروع ہو چکا تھا۔ِ دوسری
ایٹمی ہتھیاروں کی جانچ ک ے ٹیسٹ بھی تواتر کے ساتھ ہو رہے تھے۔ یہ
کے )nuclear fissionایٹمی ہتھیار چونکہ بنیادی طور پر نیوکلئیر فِشن (
اصول پر کام کرتے ہیں لہذا کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس اس بات پر متفق
تھے کہ ایسے ہی کسی ایٹمی ہتھیار کے ٹیسٹ کے دوران تجربے کو کیا
مل سکے۔ )fluxجائے تاکہ انہیں یہاں سے نیوٹرینو کی مطلوبہ کثیر فلکس (
ہم پہلے ُمختصراً یہ دیکھ لیں کہ نیوکلئیر فِشن کے عمل کے دوران اینٹی
نیوٹرینو کیسے پیدا ہوتے ہیں۔
نیوکلئیر فِشن کے طریقہ کار کو ہم اب بخوبی سمجھتے ہیں جہاں مثال کے
طور پر یورینیم کا نیوکلئیس ٹوٹ کر مزید چھوٹے نیوکلیائی میں تقسیم ہو جاتا
ہے۔ اس عمل کے نتیجے میں نئے بننے والے نیوکلئیس بھی مستحکم نہیں
ہوتے بلکہ مسلسل بِیٹا ڈیکے کر کے مزید مستحکم نیوکلئیس میں بدلتے
رہتے ہیں۔ یورینیم کی ہی ِفشن کو اگر دیکھیں تو یورینیم 235-سے جب ایک
نیوٹران آ کر ٹکراتا ہے تو یورینیم 236-کا نیوکلئیس بن جاتا ہے جو انتہائی
غیر مستحکم ہے اور فوراً سے فِشن کے عمل کے ذریعے دو چھوٹے
نیوکلیائی ِزینون 140-اور سٹرونٹیم 94-میں تقسیم ہو جاتا ہے اور ساتھ دو
اضافی نیوٹران خارج ہوتے ہیں۔
اب اس فِشن کے نتیجے میں بننے والے زینون 140-اور سٹرونٹیم 94-کے
سیزیم-
نیوکلئیس خود غیر مستحکم ہیں جو بِیٹا مائنس ڈیکے کر کے بالترتیب ِ
140اور اِٹریم 94-میں بدل جاتے ہیں۔
یُوں ایٹمی دھماکے کے دوران اوپر لکھے بِیٹا مائنس ڈیکے کے عمل کے
سیزیم اور اِٹریمتحت کثیر تعداد میں اینٹی نیوٹرینو خارج ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ ِ
سیزیم آگے بیریم ( میں ڈیکے کرتا ہے۔ بیریم )Baپر آ کر ُرک نہیں جاتا بلکہ ِ
سیریم ( )Laآگے لینتھنم (میں ِبیٹا مائنس ڈیکے )Ceمیں اور لینتھنم آگے ِ
کرتا ہے۔ اسی طرح سٹرونٹیم کے ڈیکے سے بننے واال اِٹریم آگے ِزرکونیم
میں بدل جاتا ہے جو بالآخر ایک مستحکم نیوکلئیس ہے۔ یہ سارے نئے )(Zr
ایلیمنٹس کے نیوکلیائی ِبیٹا مائنس ڈیکے کے ذریعے ہی بن رہے ہیں اور ساتھ
اینٹی نیوٹرینو پیدا ہ و رہے ہیں۔ غرض یہاں سے اندازہ لگ سکتا ہے کہ ایک
ایٹمی دھماکے میں نیوکلئیر فِشن کے عمل کے دوران کتنی کثیر تعداد میں
اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے ہیں جنہیں اس تجربے کے لئے استعمال کیا جانا تھا۔
1951کے وسط میں امریکہ ایسے ہی کچھ ایٹمی ہتھیاروں کے ٹیسٹ کرنے
جا ر ہا تھا۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس کو بہترین موقع مل چکا تھا جہاں
وہ اپنا تجربہ کر سکیں۔ امریکی حکومت سے اس تجربے کی اجازت بھی لے
لی گئی۔ ایٹمی ٹیسٹ سے چند روز قبل کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے
اپنے ممکنہ تجربے کے متعلق الس آالموس نیشنل لیبارٹری میں دیگر ماہرین
کو بریفنگ دی۔ نیوٹرینو کی بنیاد پر ِبیٹا ڈیکے کی تھیوری دینے والے
95
اینریکو فرمی بھی اس وقت ان کے بیچ موجود تھے۔ ان دنوں الس آالموس
لیبارٹری میں فزکس ڈویژن کے سربراہ ڈاکٹر کیلوگ ہوتے تھے۔ انہوں نے
سنا اور آخر میں مشورہ دیا کہ یہ ایٹمی ٹیسٹ ایک دفعہ اس ساری گفتگو کو ُ
ہی ہونا ہے اور اس دوران آپ صرف ایک بار اپنا تجربہ کر سکتے ہیں جبکہ
اگر تجربہ کامیاب بھی رہا پھر بھی آپ کو اسے بار بار دُہرا کر نتائج اکٹھے
کرنے ہوں گے تاکہ تجربے کے نتائج پر اطمینان ظاہر کیا سکے۔ لہذا آپ کو
اگلے ایٹمی ٹیسٹ کا انتظار کر نا پڑے گا۔ اس سے زیادہ بہتر ہے کہ آپ کسی
نیوکلئیر ری ایکٹر کا انتخاب کریں جہاں فِشن کے اِسی عمل کے ذریعے
نیوکلئیر فیول تیار کیا جاتا ہے۔ یہاں بھی تجربے کے لئے درکار نیوٹرینوز کی
کثیر تعداد مل سکتی ہے۔ یہ اس قدر شاندار خیال تھا کہ کالئیڈ کووان اور
فریڈرک را ئنس نے فوری طور پر اپنے تجربات ملتوی کر دیئے اور کسی
نیوکلئیر ری ایکٹر کی تالش شروع کر دی جہاں فائدہ یہ ہونا تھا کہ نیوٹرینو
کے تجربہ کو نتائج پر تسلی کے لئے بار بار دُہرایا جا سکتا تھا۔
امریکہ میں اُس وقت بہت سے نیوکلئیر ری ایکٹر فعال تھے۔ اِن نیوکلئیر ری
کے ایسے آئسو ٹوپ بنائے جاتے تھے )Puایکٹرز میں اُن دِنوں پلوٹونیم (
جو بہت زیادہ تابکار ہوں۔ مثال کے طور پر پلوٹونیم 238-اور پلوٹونیم239-
وغیرہ۔ پلوٹونیم کے ان تابکار آئسو ٹوپس کو ایٹمی ہتھیاروں میں بطور فیول
استعمال کیا جاتا تھا۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس کو پہلے پہل امریکی
پر اپنا تجربہ کرنے کی )Hanford siteریاست واشنگٹن میں ہینفرڈ سائٹ (
جنگ عظیمِ اجازت ملی۔ ہینفرڈ سائٹ وہی نیوکلئیر ری ایکٹر تھا جہاں دوسری
کے دوران جاپان کے شہر ناگاساکی پر پھینکے گئے ایٹم بم میں استعمال
ہونے والی پلوٹونیم تیار کی گئی تھی۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے
تجربات کی شروعات اِسی نیوکلئیر ری ایکٹر سے کی لیکن بعد میں انہیں
Savannahامریکی ریاست جنوبی کیرولینا جانا پڑا جہاں سوانہا ِریور پالنٹ (
کے نام سے ایک بڑا نیوکلئیر ری ایکٹر موجود تھا۔ یہاں )River Plant
یورینیم 238-سے پلوٹونیم کے دو انتہائی تابکار آئسو ٹوپ پلوٹونیم 238-اور
96
پلوٹونیم 239-تیار کئے جاتے تھے۔ اور اس دوران بھی بِیٹا مائنس ڈیکے کے
عمل سے کثیر تعداد میں اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے تھے۔ اس کا طریقہ کار یوں
تھا کہ یورینیم 238-کے نیوکلئیس کا ٹکراؤ ایک نیوٹران سے کروایا جاتا تھا
جسے جذب کر کے یہ یورینیئم 239-بن جاتا تھا جو ِبیٹا ڈیکے کر کے فوراً
سے نیپچونیم 239-میں بدل جاتا تھا۔ نیپچونیم خود سے ایک غیر مستحکم
نیوکلئیس ہے لہذا یہ دوبارہ سے سے ِبیٹا ڈیکے کر کے پلوٹونیم 239-میں
بدل جاتا تھا۔ اس نیوکلئیر ری ایکشن کی مساوات یوں بنتی ہے۔
اسی نیوکلئیر ری ایکٹر میں ایک اور مختلف نیوکلئیر ری ایکشن سے
پلوٹونیم 238-کو بھی تیار کیا جاتا تھا۔ اس کے لئے یورینیم 238-پر
کے نیوکلئیس کی بوچھاڑ کرنے پر )Hہائیڈروجن کے آئسو ٹوپ ڈیوٹیریم (²
یورینیم کو پہلے نیپچونیم 238-میں بدال جاتا پھر نیپچونیم 238-بِیٹا مائنس
ڈیکے کے ذریعے پلوٹونیم 238-میں بدل جاتی تھی۔ اس مختصر ری ایکشن
کی مساوات یوں بنتی ہے:
غرض یہ ساری تفصیل لکھنے کا مقصد یہ تھا کہ آپکو پتا چلے کہ ایک
نیوکلئیر ری ایکٹر میں بھی ِبیٹا مائنس ڈیکے کے عمل کے ذریعے کتنی کثیر
تعداد میں اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق اس تجربے
کے لئے نیوکل ئیر ری ایکٹر سے حاصل ہونے والے اینٹی نیوٹرینو کی تعداد
پچاس کھرب فی سیکنڈ فی مربع سینٹی میٹر تھی۔ یعنی ہر مربع سینٹی میٹر
سے ہر ایک سیکنڈ میں پچاس کھرب اینٹی نیوٹرینو گزر رہے تھے۔ یہی وہ
نیوکلئیر ری ایکٹر تھا جہاں اگلے کچھ دنوں میں نیوٹرینو کی دریافت کا مسئلہ
حل ہونے واال تھا۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس یہاں وہ تجربہ کرنے جا
رہے تھے جس نے غیر مرئی نیوٹرینو پر سے پوشیدگی کے تمام غالف اتار
کر اسے ایک حقیقی اور دریافت شُدہ پارٹیکل کا درجہ دے دینا تھا۔
اوپر لکھے انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے واقع ہونے کے لئے اینٹی
نیوٹرینو کی ضرورت تھی۔ بلکہ ضرورت تو اس بات کی تھی کہ تجربہ کے
لئے اینٹی نیوٹرینو کی کثیر تعداد ملے تاکہ انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے
واقع ہونے کے زیادہ سے زیادہ امکانات ہو سکیں کیونکہ جتنے زیادہ اینٹی
نیوٹرینو ہوں گے ،انورس ِبیٹا ڈیکے کا عمل ہونے کے اتنے زیادہ امکانات
ہوں گے۔ کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس کو امریکی ریاست جنوبی کیرولینا
میں واقع سوانہا ِریور پالنٹ پر اپنا تجربہ کرنے کا موقع مال جہاں نیوکلئیر ری
ایکٹر میں فِشن ،اور پھر بِیٹا مائنس ڈیکے کے عمل سے یورینیم کی مدد سے
پلوٹونیم کے مختلف تابکار آئسو ٹوپس تیار کئے جاتے تھے اور اس دوران
ِبیٹا مائنس ڈیکے کے ذریعے کثیر تعداد میں اینٹی نیوٹرینو پیدا ہوتے تھے۔
ایک اندازے کے مطابق یہاں پیدا ہونے والے اینٹی نیوٹرینوز کی تعداد پچاس
کھرب فی سیکنڈ فی مربع سینٹی میٹر تھی جو انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کے
ہونے کے لئے بہترین تھی۔
پانی کے مالیکیول میں ہائیڈروجن پروٹیم کی شکل میں موجود ہوتی ہے جس
کے نیوکلئ یس میں صرف ایک پروٹان ہی ہوتا ہے۔ نیوکلئیس میں صرف ایک
ت حالپروٹان کا اکیال ہونا انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل کے لئے بہترین صور ِ
تھی۔ کیونکہ کسی نیوکلئیس میں جتنے نیوکلیون زیادہ ہوں ،اینٹی نیوٹرینو کے
پروٹان سے تعامل کے امکانات اتنے ہی کم ہوتے جاتے ہیں۔ لہذا دو مختلف
ٹینکرز میں تقریبا ً دو سو ِلٹر کے قریب پانی بھرا گیا۔ اور ان دو ٹینکرز کو
سنٹلیٹرز (کی مدد سے الگ کر دیا گیا۔ اس کے )liquid scintillatorsلیکوڈ ِ
عالوہ پانی سے بھرے دونوں ٹینکرز کی اندرونی دیواروں کے ساتھ بھی
سنٹلیٹرزسنٹلیٹرز سے بھری چھوٹی چھوٹی ٹینکیاں رکھی گئیں۔ لیکوڈ ِ لیکوڈ ِ
کا کام چھوٹی ویو لینگتھ کی شُعاعوں کو بڑی ویو لینگتھ کی شُعاعوں میں
بدلنا ہوتا ہے۔ عالوہ ازیں ان ٹینکرز کی دیواروں کے ساتھ فوٹو ملٹی پالئیرز
بھی نصب تھے جن کا کام برقی مقناطیسی شعاعوں )(photomultipliers
میں بدلنا تھا۔ یہ سارا سیٹ اَپ آسان کر )electric pulsesکو الیکٹرک َپلسز (
کے آرٹیکل کے ساتھ لگی تصویر میں بھی دکھایا گیا ہے۔
منصوبے کے عین مطابق 1956کے شروع میں دونوں ماہرین اپنی ٹیم کے
ساتھ جنوبی کیرولینا میں موجود نیوکلئیر ری ایکٹر کے پاس اپنے تجربے کے
لئے تیار تھے۔ ہر سیکنڈ میں کھربوں کی تعداد میں اینٹی نیوٹرینو نیوکلئیر ری
ایکٹر سے پانی ک ے ٹینکرز میں داخل ہو رہے تھے اور اسی دوران فوٹو ملٹی
ملنا شروع ہو )signaturesپالئیرز کے ذریعے گیما ریز کے عالمتی نشان (
گئے اور ان گیما ریز کی انرجی 0.51میگا الیکٹران وولٹ تھی جو اس بات کا
واضح ثبوت تھا کہ یہ الیکٹران اور پوزیٹران کے آپسی تعامل کے دوران فنا
ہونے کے نتیجے میں پید ا ہونے والے گیما فوٹانز ہی ہیں۔ اور یہ پوزیٹران
انورس ِبیٹا ڈیکے کے ذریعے ہی پیدا ہوا۔ یہ نیوٹرینو کی موجودگی کا ایک
واضح ثبوت تھا کیونکہ اس تجربہ سے پہلے جیسے پیشین گوئی کی گئی تھی
نتائج ہُوبہو ویسے ہی مل رہے تھے۔
لیکن کالئیڈ کووان اسے مزید اچھی طرح جانچنا چاہتے تھے۔ ان کے خیال میں
یہاں انورس بِیٹا ڈیکے کے ذریعے جو پروٹان نیوٹران میں بدال ہے اس
نیوٹران کو بھی ڈیٹیکٹ کیا جانا چاہئے تاکہ نتائج مزید اطمینان بخش ہو
جائیں۔ اس کے لئے نظریاتی طور پر اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ انورس بِیٹا
ڈیکے کے عمل کے دوران پیدا ہونے والے نیوٹران کو پانی میں موجود
ہائیڈروجن (پروٹیم) کا کوئی نیوکلئیس ضرور جذب کر لیتا ہو گا اور اس دوران
یہ پروٹیم کا نیوکلئیس ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس میں بدل جاتا ہو گا۔ ڈیوٹیریم بھی
ہائیڈروجن کا ہی ایک آئسو ٹوپ ہے جس کے نیوکلئیس میں ایک پروٹان کے
ساتھ ایک نیوٹران بھی ہوتا ہے۔ یہ نیا بننے واال ڈیوٹیریم کا نیوکلئیس گیما
ڈیکے کے ذریعے خود کو مستحکم کرنے کے لئے گیما ریز خارج کرے گا۔
لہذا الیکٹران اور پوزیٹران کے آپسی تعامل کے بعد مزید گیما فوٹانز بھی
ڈیٹیکٹ ہونے چاہئیں جو اس بات کا ثبوت ہو گا کہ پروٹیم کا نیوکلئیس
ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس میں بدال ہے لیکن ان گیما فوٹانز کی انرجی الیکٹران
102
گو کہ الیکٹران اور پوزیٹران کی انہیلیشن کے دوران خارج ہونے والے دو
گیما فوٹانز اور اس کے بعد ڈیوٹیریم کے نیوکلئیس سے خارج ہونے والے
مزید ہائی انرجی گیما فوٹانز کے کامیاب مشاہدے کے بعد نیوٹرینو کی
موجودگی واضح ہو چکی تھی لیکن ماہرین نیوٹرینو کو ابھی مزید تجربے کی
کسوٹی پر پرکھنا چاہتے تھے۔ اس کے لئے خیال یہ تھا کہ اِسی تجربے میں
کسی ایسے میٹیریل کا استعمال کیا جائے جو نیوٹران کو ڈیوٹیریم کی نسبت
جلدی کیپچر کرنے کی اہلیت رکھتا ہو۔ تاکہ انورس ِبیٹا ڈیکے کے دوران بننے
والے نئے نیوٹران کو یہ جلدی کیپچر کرے کیونکہ اگر نیوٹران جلدی کیپچر
ہوتا ہے تو اس سے ایک تو انورس ِبیٹا ڈیکے کے عمل اور نیوٹرینو کی
موجودگی پر یقین مزید پُختہ ہو جائے گا ،دوسرا یہ کہ اگر نیا نیوٹران ڈیوٹیریم
103
کی نسبت جلدی کیپچر ہوتا ہے تو مزید گیما فوٹانز کے شواہد زیادہ جلدی اور
کثرت سے ملیں گے۔
کی خصوصیت یہ ہے کہ )Cdاس عمل کے لئے کیڈمیم کو ُچنا گیا۔ کیڈمیم (¹⁰⁸
یہ آزاد نیوٹرانز کو بہت جلدی جذب کرتا ہے۔ یہ نیوکلئیر ری ایکٹرز کے
کنٹرول راڈز میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ اس تجربے کے دوران پانی میں تقریبا ً
مال دی گئی۔ اس کا فائدہ یہ ہونا تھا )CdCl₂چالیس کلوگرام کیڈمیم کلورائیڈ (
کہ انورس ِبیٹا ڈیکے کے دوران جو نیوٹران بننا تھا اسے فوراً سے کیڈمیم-
108کے نیوکلئیس نے پکڑ لینا تھا جس سے یہ کیڈمیم 109-بن جانا تھا۔ اس
نیوکلئیس نے ایکسائیٹڈ ہونے کی وجہ سے مستحکم ہونے لئے گیما ڈیکے
کے ذریعے ہائی انرجی گیما فوٹانز خارج کر کے خود کو مستحکم کرنا تھا۔
اور بلکل ایسا ہی ہوا۔ پیشین گوئی کے عین مطابق الیکٹران پوزیٹران کی
انہیلیشن کے ٹھیک پانچ مائیکرو سیکنڈ کے ُمختصر دورانیے کے اندر اندر
ہی مزید ہائی انرجی گیما فوٹانز بھی ڈیٹیکٹ کر لئے گئے جو بالشبہہ کیڈمیم-
109کے نیوکلئیس سے خارج ہوئے تھے۔ ان گیما فوٹانز کے مشاہدے نے
گویا نیوٹرینو کی موجودگی پر ُمہر ثبت کر دی۔
2۔ اوپر بیان کئے گئے انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے دوران پیدا ہونے واال
پوزیٹران فوراً کسی الیکٹران سے مال اور پئیر انہیلیشن کے نتیجے میں دو
گیما فوٹانز پیدا ہوئے جن میں سے ہر ایک کی توانائی 0.51میگا الیکٹران
وولٹ تھی اور یہ ایک دوسرے کی مخالف سمت میں سفر کرتے ہوئے لیکوڈ
سنٹلیٹرز سے ٹکرائے۔ جیسا کہ تصویر میں دکھایا گیا ہے۔
ِ
E⁻ + e⁺ → γ + γ
4۔ پہلے پوائنٹ میں انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل سے بننے والے نیوٹران کو
کیڈمیم 108-کے نیوکلئیس نے جذب کر لیا اور کیڈمیم 109-میں بدل گیا۔ یہ
نیوکلئیس ایکسائیٹڈ ہونے کی وجہ سے گیما ڈیکے کے ذریعے تقریبا ً آٹھ میگا
الیکٹران وولٹ کا ہائی انرجی گیما فوٹان خارج کر کے مستحکم ہو گیا۔
5۔ کیڈمیم 109-کے نیوکلئیس سے خارج ہونے واال گیما فوٹان بھی اسی طرح
سنٹلیٹر سے ٹکرایا جس سے اس کی ٹینکر کے اطراف میں موجود لیکوڈ ِ
توانائی کم ہوئی اور ویزیبل الئیٹ کی توانائی کے فوٹان میں بدل گیا۔ جو بعد
105
ازاں فوٹو ملٹی پالئیر ٹیوبز س ے ٹکرایا اور الیکٹرانز خارج ہوئے جنہوں نے
الیکٹرک َپلسز پیدا کیں جنہیں ڈیٹیکٹ کر لیا گیا۔
ُ 14جون 1956کو پروفیسر کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے ُوولف گینگ
پالی کو ٹیلی گرام بھیجا کہ ہم نے آپکا چھبیس سال پہلے تجویز کردہ نیوٹرینو
انورس بِیٹا ڈیکے کے عمل کے ذریعے ڈھونڈ نکاال ہے۔ پالی اُس وقت
سرن (میں منعقدہ ایک کانفرنس )CERNسویٹزرلینڈ میں موجود تھے اور َ
میں مشغول تھے جہاں انہیں یہ ٹیلی گرام موصول ہوا جسے انہوں نے تمام
شُرکاء کو پڑھ کر سنایا۔ تاریخ میں آتا ہے کہ اِس دریافت پر پالی جھوم اٹھے
اور کانفرنس کے شُرکاء کو پالی کی طرف سے شیمپین پالئی گئی۔ پالی نے
106
چھبیس سال پر مشتمل طویل انتظار ختم ہو گیا تھا اور پالی کا ُخفیہ اور
گھوسٹ پارٹیکل 'نیوٹرینو' ڈھونڈا جا چکا تھا۔ ُ 20جون 1956کو پروفیسر
کالئیڈ کووان اور فریڈرک رائنس نے اپنے تجربات کے نتائج مشہور سائنسی
جریدے 'سائنس' میں شائع کئے۔ اس شاندار دریافت پر پروفیسر فریڈرک
رائنس کو 39سال بعد 1995میں نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ وقت کی ستم
ظریفی کہہ لیں یا کچھ اور کہ نیوٹرینو کی دریافت پر نوبیل انعام کے لئے
فریڈرک رائنس کو 39سال انتظار کرنا پڑا جو شاید بہت پہلے ِمل جانا چاہئے
تھا۔ نیوٹرینو کی دریافت پر یہ نوبیل انعام صرف پروفیسر فریڈرک رائنس نے
حاصل کیا کیونکہ کالئیڈ کووان اِکیس سال پہلے اس دُنیا سے ُرخصت ہو چکے
تھے۔
(جاری ہے)