Professional Documents
Culture Documents
دل و جگر کا سلام پہنچے......
دل و جگر کا سلام پہنچے......
دل و جگر کا سلام پہنچے......
محبو ِ
ب کل جہاں کو
دنیا میں بہت سارے لوگوں سے محبت کی گئی ان کو چاہا گیا ،عشق کیا گیا ،لیکن محدود۔ ایک جگہ سے محبت ملتی
ہے تو دوسری جگہ نفرت کا سامنا بھی کرنا پڑتاہے ،مگر ایک ہستی جہان میں ایسی ٓائی ہے جسے المحدود چاہا گیا
،ہے۔ہللا رب العزت نے انہیں محبوب کل جہاں بنایا ہے۔ یقینا ً یہ وہی ہستی ہے جو ال محدود کماالت 6کی حامل ہے
جس سے اپنوں نے محبت کی تو بے گانے بھی اس سے خالی نظر نہیںٓ اتے جانوروں نے محبت کی ،پتھروں نے محبت
کی ،پہاڑوں نے محبت کی ،درختوں نے محبت کی خشک لکڑی نے محبت کی ،درندوں نے محبت کی ،راہبوں نے
ُلی نے محبت کی۔ کون ہے جو حتی کہ خود رب الع ٰ
محبت کی ،دنیا داروں نے محبت کی ،اولیاء نے کی انبیاء نے کیٰ ،
اس محبت سے خالی رہا ہو؟ اگر کافر مخالفت بھی کرتے تھے تو صرف اپنی انا کے پیش نظر ورنہ وہ بھی تسلیم کرتے
تھے کہ محبت کے الئق ہیں تو یہی ہیں۔
ٓاپ رب العالمین کے رسول ہیں اور ٓاخری نبی ہیں ،جس نے ٓاپ کی تصدیق کی وہ کامیاب ہوگیا اور جس نے تکذیب ’’
‘‘کی وہ ناکام ہوگیا۔
حضرت جابر رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ کھجور کا ایک خشک تنا جس پر ٹیک لگا کر محبوب خطبہ ارشاد
فرمایا کرتے تھے جب منبر بنا اور ٓاپ اس پر خطبہ دینے کے لیے چڑھے تو وہ خشک ستون اس طرح رونے اور
سسکنے لگا جیسے بچے سسکتے ہیں تو ٓاپ نے شفقت وپیار سے اس پر ہاتھ رکھا تب وہ ستون چپ ہوا۔
حضرت ضرار بن ازور رضی ہللا عنہ رومیوں کے خالف لڑتے ہوے گھوڑے پر سوار ہیں اور گھوڑا تھکن سے چور
ہوچکا ہے ایک قدم اٹھانا مشکل ہورہا ہے اسی دوران دشمن نے محاصرہ کرلیا اور ان کو زندہ گرفتار کرنے کے لیے
ٓ:اگے بڑھے تو احضرت تھوڑ ا جھکے اور گھوڑے سے فرمایا
‘‘تھوڑی دیر میرا ساتھ دے دے ورنہ میں رسول ہللا کے روضے کے سامنے تیری شکا یت کروں گا۔’’
کتابوں میں لکھا ہے )جب محبوب صلی ہللا علیہ وسلم کا نام ٓایا تو محبت نے جوش مارا اور گھوڑا محبت میں تڑپ اٹھا(
کہ یہ سننا تھا کہ گھوڑا ہنہنایا اور اس کے اندر گویا کہ بجلی سی بھر گئی اوراس طرح دوڑنے لگا جیسے بالکل تازہ دم
ہو اور رومیوں کے حصار کو توڑکر باہر نکل ٓایا۔
اور یہ محبت صرف صحابہ کے دور کے ساتھ ہی محدود نہیں تھی بلکہ بعد میں ٓانے والے امتیوں کی محبت بھی کسی
:سے ڈھکی چھپی نہیں خود ٓاقا بھی اس محبت کی گواہی دیتے ہیں ایک روایت میں ہے
سے روایت ہے کہ حضور صلی ہللا علہیہ وسلم نے فرمایا (بعض حیثیات سے) میرے ساتھ شدت hحضرت ابوہریرہ
سے محبت رکھنے والے وہ لوگ ہیں جو میرے بعد ہوں گے کہ ان میں سے ہر شخص یہ تمنا کرے گا کہ تمام اہل و
عیال اور مال کے عوض مجھ کو دیکھ لے (یعنی سب کچھ خرچ کرکے بھی میرا دیدار ممکن ہوتا تو وہ اس کے لیے
بھی تیار ہوجاتے)
:فرمایا کرتے تھے mایک کتاب میں تو عجیب بات لکھی تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی
ــ’’جو میرے بس میں سنتیں تھیں ،میں نے ا ُن پر عمل کرلیا ،ایک سنت کو پورا کرنے کی تمنا تھی ،وہ یہ کہ سیدنا
کے کپڑے گیلے aنے پیشاب کردیا ،اس سے ٓاقا hپر حسین aنے اٹھایا ہوا تھا اور ٓاپ bچھوٹے تھے ،ان کو نبی hحسین
ہو گئے۔ چنانچہ فرماتے تھے :ہللا نے بیٹی تو دی ہے ،مگر نواسہ نہیں ہے ،بڑی تمنا تھی کہ میں بھی اسے اٹھاتا او ر
میرے بھی کپڑے گیلے ہوتے ،مگر نواسہ نہ ہوا ،چنانچہ نصیحت فرمائی کہ اگر میرے مرنے کے بعد ہللا تعالی میری
‘‘بیٹی کو بیٹا عطا کردیں توا س بچےکو میری قبر پر بٹھادیا جائے یہاں تک کہ وہ وہاں پیشاب کر دے۔
ڈاکٹر عالمہ محمد اقبال (جوکہ ہمیشہ سادہ بستر استعمال کیا کرتے تھے) ایک مرتبہ کسی کے پاس بطور مہمان تشریف
لے گئے تو اس نے اچھا خاصا انتظام کیا ہوا تھا ڈاکٹر صاحب جونہی ہی بستر پر لیٹے تو بستر بہت نرم تھا تو ڈاکٹر
صاحب فوراً بستر سے کھڑے ہوگئے اور فرمانے لگے ہمارے ٓاقا نے پوری زندگی سادا بستر استعمال کیا ہے اور ٓاج ہم
اس طرح کے قیمتی اور نرم بستر استعمال کریں یہ کیسے ہوسکتا ہے (کافی دیر تک روتے رہے) فورا اٹھے اور خادم
کو حکم دیاکہ اس کو اٹھا لو اور میرا اپنا بستر لے ٓأو چنانچہ اسی سادے بستر پر رات گزاردی بلکہ جتنے دن وہاں
بطور مہمان رہے اسی سادہ بستر پر سوتے رہے۔
مدینہ منورہ میں ایک بھوکا پیاسا بچہ تھا جس کے پاس نہ کھانے کو کچھ تھا اور نہ ہی پینے کو کچھ تھا ایک ہللا والے
وہاں تشریف لے گئے انہوں نے اسے کھالیا پالیا اور کہا کہ ہمارے ساتھ ہندوستان ٓاجائیں وہاں ٓاپ کو کھانا بھی ملے گا
اور بھی بہت سی سہولیات ملیں گی تو بچہ پہلے تو تیار ہوگیا لیکن پھر کہنے لگا کیا وہاں روضہ بھی ہوگا تو ہللا والے
نے فرمایا نہیں روضہ وہاں نہیں ہوگا تو بچے نے تڑپ کر کہا اگر وہاں روضہ نہیں ہوگا تو میں وہاں کیا کروں گا یہاں
بھوکا پیاسا رہنا برداشت کرلوں گا لیکن گنبد خضراء کا سایہ چھوڑنا برداشت نہیں کرسکتا۔
ایک مسلمان لوہار اپنی دوکان پر کام کر رہا تھا تو ایک قادیانی اسے اپنے مذہب قادیانیت کی دعوت دینے کے لیے ٓایا
اور مرزے کی نبوت کو ثابت کرنے کی کوشش کرنے لگا تو مسلمان لوہار نے اس سے کہا :تو کہہ مرزا جھوٹا تھا کافر
تھا ورنہ میرے ہاتھ میں گرم لوہا ہے میں اس سے تیری پٹائی کرتا ہوں تو اس نے ڈر کر کہنے لگا :مرزا جھوٹا تھا نبی
کی شان میں گستاخی تو wمیرے ٓاقا( نہیں تھا یہ تھا وہ تھا تو اب مسلمان نے اس مرزائی سے کہا اب یہ لوہا تو پکڑ اور
wمجھ سے ایک لفظ بھی کہلوا کے دکھا ،میں مر تو جأوں گا لیکن اپنے محبوب )دور کی بات ہے معمولی بے ادبی میں
کے سچے ہونے کی wکی شان میں بے ادبی کا ایک لفظ بھی نہیں کہوں گا مرزے کے جھوٹے ہونے اور میرے محبوب
یہ ایک دلیل ہی کافی ہے۔
اور یہ محبت کا تعلق صرف یک طرفہ نہیں تھا بلکہ ٓاپﷺ نے جو محبت اپنی امت کو دی ہے وہ بھی
بے مثال بلکہ اصل محبت ہے۔ کیونکہ نہ انہوں نے اس امت کو معراج کے موقع پر بھالیا اور نہ قربانی کے موقع پر
بھالیا بلکہ ہر موقع پر یاد رکھا پتھر مارنے والوں کو بد دعا نہیں فرمائی چہرہ مبارک زخمی ہوا بد دعا نہیں فرمائی
:بلکہ یہی فرماتے رہے
‘‘اَل ٰلّ ُھ َّم اھْ ِد َق ْومِیْ َف ِا َّن ُھ ْم اَل َیعْ لَم ُْو َن’’
‘‘اے ہللا میری قوم کو ہدایت عطا فرما کیوں کہ یہ مجھے نہیں جانتے۔’’
جب ایک امتی اپنے محبوب صلی ہللا علیہ وسلم کی اس محبت کو دیکھتا ہے جو انہیں اپنے ہر ہر امتی کے ساتھ تھی
:اور ان احسانات کو دیکھتا ہے جو ہر ہر امتی پر ہیں تو بے ساختہ اس کا دل پکار اٹھتا ہے
ٰ
تعالی ہم سب کو اپنے محبوبﷺ کے ساتھ سچی اور سُچی محبت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ٓامین ہللا
ثم ٓامین