Professional Documents
Culture Documents
Amir Khusro
Amir Khusro
Amir Khusro
ِ
تلخیص
امیر خسرو جامع الکمال شخص یت تھے جنھ وں نے مختل ف اص ناف میں طب ع ٓازم ائی
کی۔ ترانہ ،قول اور قلبانہ ان کی ایجاد ہیں۔ انھیں ہندوستانی راگنی ،ایمن کلیان ک ا موج د
بتایا جاتا ہے۔ ان کی کئی تصانیف بہت مشہور اور مقبول ہیں جن میں غرۃ الکم ال ،تحفۃ
الصغر ،اعجاز خسروی ،نہ س پہر وغ یرہ مش ہور ہیں۔ان کی مش ہور کت ابوں میں ’خ الق
باری‘ بھی ہے جو ان کا ایک بے مثال منظومہ ہے۔ یہ عربی ،فارسی او رہن دوی زب انو
ں کے مترادف الفاظ پ ر مش تمل ہے۔ یہ منظ ومہ چھ ص دیوں س ے زی ادہ عرص ے ت ک
برصغیر کی تعلیم گاہوں میں پڑھایا جاتا رہا ہے۔ ہماری گنگ ا جم نی تہ ذیب کی تعم یر و
تشکیل میں اس منظومہ کا بھی حص ہ رہ ا ہے۔ ’خ الق ب اری‘ کی تفہیم ٓاج کے عہ د میں
بہت دشوار ہے اسی ل یے اس کی ش رح کی ض رورت عرص ہ دراز س ے محس وس کی
جارہی تھی۔ اس مضمون میں اسی ضرورت کی تکمیل کی امک ان بھ ر کوش ش کی گ ئی
ہے۔
کلیدی الفاظ
امیر خسرو ،خالق ب اری ،ع ربی ،فارس ی ،ہن دوی ،دکن ،حم د ،حاف ظ محم ود ش یرانی،
مولوی محمد امین ،مترادف ،کدم رأو پدم رأو ،زنجبیل ،قرنفل ،زیبق ،خردل۔
——————
خالق باری سر جن ہار
واحد ایک بدا کرتار
خالق اور ب اری دون وں ع ربی زب ان کے الف اظ ہیں اور ای ک دوس رے کے م رادف ہیں۔
فارسی میں بھی یہ دونوں ان ہی معنوں میں اس تعمال ک یے ج اتے ہیں۔ س رجن ہ اران ک ا
ہندوی مرادف ہے۔ دوسرے مصرعے میں واحد کا ہندی مرادف ایک اور بدا ک ا م رادف
کرتار بتایا گیا ہے۔واحد اور بدا عربی لفظ ہیں ج و فارس ی میں بھی اس ی ط رح مس تعمل
ہوتے ہیں۔ اس بیت میں محض سات الفاظ ہیں جن میں سے چ ار ع ربی اور فارس ی کے
مش ترک الف اظ ہیں جن کے تین ہن دی م رادف بت ائے گ ئے ہیں۔ لف ظ ’کرت ار‘گروگرنتھ
صاحب کے ٗمول منتر میں بھی ملتا ہے۔ محمود ش یرانی کی م رتبہ کت اب میں لف ظ ’ب دا‘
کی بجائے ’بڑا‘ ملتا ہے جو کہ غلط ہے۔ اس شعر میں لفظ ’بڑا‘ کے استعمال ک ا ک وئی
محل نہیں ہے۔ (معلوم نہیں کہ شیرانی صاحب نے اتنی ب ڑی غلطی ک و کی وں نظران داز
کردیا)
وسطی میں بھی حسب دستور ہر کتاب ک ا ٓاغ از اس م ب اری س ے کی ا جات ا تھ ا۔ لغت
ٰ عہد
مرادفات میں اس روایت کو نبھان ا ای ک دش وار ک ام تھ ا جس ے ام یر خس رو نے بکم ال
خوبی نبھایا ہے۔ اس ط رح کہ بنی ادی ط ور پ ر تین الف اظ اور ان کے مرادف ات س ے نہ
صرف یہ کہ وزن وبحر کی پابندی کے ساتھ ایک شعر موزوں کیا گیا ہے۔ بلکہ اس میں
لطیف معنی بھی پیدا کیے گئے ہیں اور خالق ب اری ی ا س رجن ہ ار ای ک ہی ہے کہہ ک ر
گویا ذات باری کی وحدت کا اظہار بھی کی ا گی ا ہے۔ یہ ام یر خس رو کے تخلیقی ذہن ک ا
قابل داد نمونہ ہے:
ِ
رسول پیمبر جان بسیٹھ
یار دوست بولی جو ایٹھ
رسول عربی لفظ ہے ،پیمبر فارسی لفظ۔ ہیں اور بسیٹھ ان کا ہندوی م رادف ہے ی ار اور
دوست دونوں فارسی الفاظ ہیں جن کا ہندوی مرادف ایٹھ (ایشٹھ) دی ا گی ا ہے۔فارس ی میں
رسول کے معنی اس نبی کے ہیں جس پر کتاب یا صحیفے ن ازل ہ وئے ہ وں۔ اور پیم بر
اس نبی کو کہتے ہیں جس پر صحیفے یا کتاب نازل نہیں ہوئی۔ یہاں رسول اور پیمبر ک ا
ہندوی مرادف بسیٹھ لکھا گی ا ہے س ندیش واہ ک کے مع نی میں یہ لف ظ ب رج بھاش ا کے
کوی سورداس نے بھی استعمال کیا ہے (اتی سٹھ ٹھیٹھ بسیٹھ سیام کو ہمیں سناوت گیت)
یار اور دوست کا ہندی مرادف ایٹھ لکھ ا گی ا ہے۔ اس بیت میں ب ات س مجھانے کے ل یے
ہندوی لفظ بولی جو استعمال کیا گیا ہے پرانے زمانے کے کاتب یائے معروف اور یائے
مجہول کے امال میں فرق نہیں کرتے تھے۔ راقم کے خیال سے یہ لفظ ’ب ولے ج و‘ ہون ا
چاہیے جس سے مراد ’یعنی‘ ہے۔ بولے جو دکنی اور مراٹھی زب انوں میں ٓاج بھی اس ی
معنی میں مستعمل ہے۔
یہ ’خالق باری‘کا دوسرا شعر ہے حسب روایت پہلے ش عر میں حم د ب اری ک ا مض مون
باندھا جاتاتھا۔ اسی طورمذکورہ بیت میں ذکر پیمبر کافریضہ ادا کی ا گی ا ہے۔ حم د ب اری
ت رسول خسرو کی ہر تصنیف میں پائی ج اتی ہے۔ بع د ازاں وہ اپ نے مرش د کی اور نع ِ
منقبت بھی ضرور لکھتے تھے۔ خالق باری میں منقبت شیخ کی کمی محسوس ہ وتی ہے۔
(ممکن ہے خسرو نے منقبت شیخ یا ذکر ش یخ میں بھی ک وئی ش عر لکھ ا ہ و ج و م رور
زمانہ کے باعث گم ہوگیا ہو۔)
اسم ہللا خدا کا ناؤں
گرما دھوپ سایہ ہے چھاؤں
اس بیت میں ’اسم ہللا‘ کا مرادف ’خدا کا ناؤں‘ لکھا گیا ہے۔ (فی زمانہ ناؤں اور چھ اؤں
کو نانو اور چھانو لکھا جاتا ہے۔ ہری ناؤں لیت مٹے سب پیرا۔کوی نام دیو یہاں گرما ک ا
مرادف دھوپ قابل غور ہے۔ گرما دراصل موسم گرما کے معنی میں الیاگیا ہے جس ک ا
مرادف دھوپ بتایاگیا ہے۔ قدیم اردو میں دھوپ اس معنی میں بھی مس تعمل رہ ا ہے۔دکن
میں ٓاج بھی گرم ا کے ل یے دھ وپ اور دھ وپ ک ا لہ ب وال جات ا ہے۔ دھ وپ ک الہ (ک ال)
مراٹھی اور دکنی زبانوں میں بھی موسم گرما کے معنی میں مستعمل ہے۔
راہ طریق سبیل پچھان
ارتھ تہو کا مارگ جان
راہ طریق اور سبیل (ان لفظوں کو) پہچان اور ان تینوں لفظ وں ک ا ارتھ (مفہ وم) م ارگ
جان۔ اس بیت میں طریق اور سبیل عربی کے الفاظ ہیں۔ راہ فارسی لفظ ہے ان تینوں ک ا
ہندی مرادف ’مارگ‘ بتایاگیا ہے۔ اس بیت میں مرادف کے عالوہ ہندوی کے چ ار دیگ ر
الفاظ پچھان (پہچان) ارتھ (مفہوم) تہوں (تینوں) اور جان (سمجھ ،جان) بھی ٓائے ہیں۔
سس ہے مہ نیر خورشید
کاال اُجال سیہ سفید
اس بیت کا پہال لفظ سس دراصل سسی ہے۔ اس ک ا دوس را ح رف ن اگری رس م خ ط میں
چھوٹی ای کی ماترا کے ساتھ لکھا جاتا ہے۔ اردو رسم خط میں اس ک ا ص حیح امال کچھ
دشوار ہوتا ہے ،پرانی اردو میں دوسرے ’سس‘ کے نیچے زیر دیا جات ا تھال ٰہ ذا یہ س س
بن گیا(ممکن ہے خسرو نے اسے کسی اور طرح لکھا ہو) بہ ر ح ال محم د امین عباس ی
کے اس خیال سے کہ ’’لفظ سس بتص رف حاص ل ہ وا ہے اور ام یر خس رو نے اس ک و
سس بنا کر اس کے ثقل ک و دور کی ا ہے‘‘ اتف اق نہیں کی ا جاس کتا۔ ویس ے یہ لف ظ ام یر
خسرو نے بنایا نہیں ہے بلکہ اپنے عہد میں مستعمل لفظ کو عربی اور فارسی الفاظ (نیر
اور خورشید)کا م رادف بتای ا ہے۔ س س (سس ی) دراص ل سنس کرت لف ظ ’شش ی‘ ک ا اپ
بھرنش روپ ہے۔
نیال ،پیال ،زرد ،کبود
تانا بانا ،تن ست ،و پود
زرد کا مرادف پیال اور کبود کا مرادف نیال ہے۔ (پہال مصرعہ غالباًیوں ہونا چاہیے ’پیال
نیال زرد کبود‘۔) چند مخطوطوںمیں ،اس بیت کا دوس را مص رع اس ط رح بھی ملت ا ہے۔
’تانا بانا ،تاروپود‘۔
نیرو زور بل ٓان
قوت ٗ
سارق و زدوچور ہے جان
قوت کے مرادف کی حیثیت سے دیا ہوا لفظ نیروکے معنی طاقت زور اور ب ل ہیں۔ اس ی
طرح ٓان بھی مرادف بتایاگیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں وزدو چ ور کے درمی ان ح رف
اضافت (و) اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ خسرو ہندوی اور فارسی الفاظ کے درمی ان
اضافت کے استعمال میں قباحت محسوس نہیں کرتے تھے۔
مرد منس زن ہے استری
قحط اَکال وبا ہے مری
یہاں ہندوی لفظ منس یعنی ٓادمی اپنے وسیع معنی میں استعمال ہ وا ہے یہ سنس کرت لف ظ
منشیہ کا تدبھو ہے۔ اس لفظ کا استعمال پُرُش کے معنی میں بھی ہوت ا ہے۔ ق دیم اردو اور
ہندی میں اسے پُرکھ بھی کہا جاتا رہا ہے۔
قحط کا مرادف اکال ہے جسے اردو میں عام طور پر کال بھی بوال جاتا ہے۔ اس ی ط رح
وبا کا مرادف مری ہے جسے مہاماری بھی کہتے ہیں۔ اس بیت میں لفظ منس کے ب ارے
میں مولوی محمد امین کا یہ بی ان درس ت نہیں ہے کہ منس بمع نی م رد تص رف ک رکے
حض رت ام یر خس رو نے (منش یہ س ے) منس بنای ا ،اس تص رف س ے یہ لف ظ فارس ی
اورعربی الفاظ کے ہم شکل بن گی ا اور اس کی اجن بیت ج اتی رہی۔‘‘ دراص ل زب ان ت و
عوام بناتے ہیں۔ عہد خسرو میں یہ لفظ اسی ط رح ب وال جات ا رہ ا ہوگ ا۔ اس میں تص رف
امیر خسرو نے نہیں کیا۔
دوش کالھ رات جوگئی
امشب ٓاج رات جو بھئی
دوش گزرے ہوئے کل کو کہتے ہیں ہندوی لفظ کالھ کے بھی یہی مع نی ہیں۔ لف ظ ’ک الھ‘
بعض عالقوں میں بیسویں صدی میں بھی رائج تھا۔ اب والکالم ٓازاد نے اپ نی بہن کے ن ام
ای ک خ ط میں اس ے لف ظ ’ک الھ‘ لکھ نے س ے من ع ک رتے ہ وئے اس کی بج ائے ’ک ل‘
استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔
ترا بگفتم میں تجھ کہیا
کجا بماندی توکت رہیا
’ترا بہ گفتم‘ اس فقرے کا مرادف میں تجھ کہی ا بہ مع نی میں نے تجھ س ے کہ ا ی ا میں
نے تجھے کہا ،ہیں۔ اسی طرح دوسرے مصرعے کے نصف ٓاخ ر کے اس تفہامیہ فق رے
ت رہیا کا مفہوم ’تو کہاں رہا‘ ہے؟۔ الف اظ کے م ترادف بت انے کی بج ائے فق رہ کے
توک ِ
معنی دیے گئے ہیں۔ یہ شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
بیا برادر ٓاورے بھائی
بنشیں مادر بیٹھ ری مائی
بیا کے معنی فارسی میں ’توٓا‘ ہوتے ہیں اور بنشیں کے معنی ’توبیٹھ‘ رے اور ری ع ام
بول چال کی زبان کے زیر اثر استعمال ہوئے ہیں۔ یہ شعر بہت مشہور و مقب ول ہے اب
بھی زبان زد خاص و عام ہے مرزا غالب کے یہاں بھی اس کے استعمال کی مث ال مل تی
ہے تاہم یہ شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
صعوہ سریچہ مموال جان
ک ّوا زاغ کالغ پہچان
صعوہ اورس ریچہ مم وال کے م رادف ہیںاور زاغ وکالغ ک ّواکے م رادف ہیں۔ دوس رے
مصرعے کا ٓاخری لفظ پچھان ہوسکتا ہے۔
ٓاتش ٓاگ ٓاب ہے پانی
خاک دھول جو بائو اوڑانی
پہلے مص رع میں فارس ی لف ظ ٓاتش ک ا ہن دوی م رادف ٓاگ اور ٓاب ک ا پ انی بتایاگی ا ہے۔
دوسرے مصرع میں خاک کا ہندوی مرادف دھول بت اکر س مجھایاگیا ہے کہ جس ے ب ائو
یعنی کہ ہوا اُڑاتی ہے۔ مول وی محم د امین عباس ی نے ب او اوڑانی کے مع نی ’ہ وا چلی‘
لکھے ہیں اور محمود شیرانی نے ’خاک و دھول جسے ہوا اڑا سکے‘ بتائے ہیں۔
مشک کافورست کستوری کپور
ہندوی ٓانند شادی وسرور
زیر نظر بیت کے پہلے مصرعے میں مشک اور ک افور کے ہن دوی م رادف بت انے کے
ساتھ است استعمال کیاگیا ہے جو فارسی ہے۔ یہ بح ر دگ ر ص رف تین ابی ات پ ر مش تمل
ہے جن میں سے دو ابیات میں مرادفات کے درمیان غیرمرادف فارسی لفظ بھی استعمال
ہ وئے ہیں۔ جن س ے ظ اہر ہوت ا ہے کہ ان کے مخ اطب فارس ی داں ہیں۔ ٓانن د سنس کرت
کاتت سم لفظ ہے۔
اسپ گھوڑا فیل ہاتھی شیر سیہ
گوشت ہیڑا چرم چمڑا شحم پیہ
اس بیت سے دوسرے مصرعے میں گوشت کا مرادف ہیڑا (ہے ڑا) دیاگی ا ہے۔ اس لف ظ
کا استعمال کبیر کے یہاں بھی ملتا ہے۔ (ہیڑا روٹی کھائی کے سیس کٹاوے کون؟)
شحم بنیادی طور پر عربی کا اور پیہ فارسی زبان ک ا لف ظ ہے مع نی دون وں کے چ ربی
ہیں۔ پیہ کا قافیہ سیہ (شیر) باندھا گی ا ہے۔ یہ سنس کرت لف ظ س ینہہ ک ا اب بھ رنش روپ
ہے۔
شیر جغرات ٓامدہ دودھ ودہی
روغن ٓامد گھی ودوغ ٓامدمہی
فارسی میں جغرات دہی کو اور دوغ مٹھے ک و کہ تے ہیں۔ دہی ک ا ق افیہ مہی ہن دوی ہے
جس ک ا مفہ وم مٹھ ا ہے (س اون دودھ نہ بھ ادوں مہی) گھی و (گھی و ) روغن ک ا ہن دوی
مترادف ہے۔ اس بیت میں بھی دو غیر مرادف الفاظ ٓامدہ اور ٓامد استعمال ک یے گ ئے ہیں
جو فارسی زبان کے ہیں۔یہ ش عر اس بنی اد پ ر الح اقی ق رار دی ا جاس کتا ہے کہ اس کے
دونوں مصرعوں میں ہندوی الفاظ دودھ اور گھی کے ساتھ حرف اضافت کا استعمال ملتا
ہے۔یہ بھی ممکن ہے کہ خسرو اسے جائز س مجھتے ہ وں۔ دک نی ش عرا کے یہ اں ایس ی
تراکیب استعمال ہوتی رہی ہیں۔
زر بود سونا سیم چیتل نقرہ روپا
جامہ گپڑا ٹاٹ پٹّڑ ڈبہ ُکوپا
اس بیت کے پہلے مص رعے میں زر م رادف (س ونا) کے عالوہ س یم کے م رادف کے
طور پر نقرہ چیتل (چے تل) اور روپ اتین الف اظ دیے گ ئے ہیں۔ ان میں لف ظ چیت ل غ ور
طلب ہے۔ جسے یہاں سیم ،نقرہ اور روپا کے مرادف کے طور پر چاندی کے معنی میں
استعمال کیاگیا ہے عہد خسرو س ے بہت پہلے یہ لف ظ پ الی بھاش ا میں بھی مس تعمل تھ ا۔
ب ّدھ لمبوال انبر کے ایک بھجن میں اسی معنی میں استعمال ملتا ہے۔
سونے بھری لی کرونا نادی
روپا تھوئی مہی کے ٹھاوی
واضح رہے کہ محمد امین عباسی نے ’خ الق ب اری‘کو ام یر خس رو کی تص نیف ث ابت
کرنے کے لیے لفظ چیتل کو عہ د س الطین میں رائج ای ک س کہ ’چیت ل‘ کے مع نی میں
پیش کیا تھا۔ اس طرح ایک نئی بحث کا ٓاغاز کرکے حافظ محمود شیرانی کو ت اریخ دانی
کے مظاہرے کا موقع فراہم کردیاتھا۔جس کی وجہ سے بحث عالم انہ ہ ونے کے ب اوجود
اصل موضوع سے دور ہوگئی تھی۔
خنجر وشمشیر صمصام ست تیغ
ہندوی کھانڈا کہاوے ان من میغ
اس بیت کے دوسرے مصرعے میں لفظ ان من ٓایا ہے جس کا مفہ وم پلیٹس کی لغت میں
’گھٹائیں‘ بتایا گیا ہے۔ میغ فارسی میں کالے بادل کو کہتے ہیں سنس کرت لف ظ میگھ کے
بھی یہی معنی ہیں۔ حافظ محمود ش یرانی لکھ تے ہیں کہ اس بیت میں ’ان من‘ ی ا ’ٓانمن‘
ایک حیرت میں ڈالنے واال لغت بن گیا ہے۔مول وی محم د امین ص احب بھی اس لف ظ کی
تشریح سے قاصر ہیں اور تجویز کرتے ہیں ’’قیاس یہ چاہت ا ہے کہ یہ لف ظ انم ٹر‘‘ ہے
اس صورت میں مصرع خارج از بحر ہوجاتا ہے۔ محمد امین عباسی اس لف ظ کے مع نی
’’بادل کا گھر ٓانا بیان کرتے ہیں جو یہاں چنداں صحیح معلوم نہیں ہوت ا محم ود ش یرانی
کے مطابق (چھ)مگر قلمی نسخوں میں یہ مصرع یوں بھی ہے۔
ہندوی کھانڈا کہاوے ابر میغ
اب وہ تمام گنجلک رفع ہوجاتی ہے۔ اگر شیرانی کی بات تسلیم کرلی ج ائے ت و س وال یہ
اٹھتا ہے کہ ابر اور میغ کا مرادف ہندی لف ظ کی ا ہے؟ منق ولہ بیت میں ت و ہن دی م رادف
نہیں بتایا گیا ہے۔ لہٰ ذا ان من ہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔ لفظ کھانڈا کا استعمال مثنوی ک دم
راوبدم رائو میں بھی اسی معنی میں کیا گیا ہے۔
خال تل باشد غلیو از وزغن
گفتار من
ِ چیل ہے در گوش کن
غلیواج (غلے واج) یا غلیو ازاورزغن ک ا ہن دی م رادف چی ل ہے درگ وش کن گفت ار من
یعنی میری بات پر کان دھرو۔اس میں مرادفات کے عالوہ باشد ،در گ وش کن اور گفت ار
من جیسے فارسی الفاظ مخاطب کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔ اس شعر پر الح اق ک ا ش بہ
ہوتا ہے۔
کاہ ہیزم گھاس کاٹھی جانئے
اینٹ ماٹی خشت وگل پہچانئے
فارسی میں ہیزم سوکھی لکڑی کو کہتے ہیں جو بط ور این دھن اس تعمال میں الئی ج اتی
ہے۔ اس بیت کے دونوں قافیے ج انئے اور پہچ انئے ہن دوی ہیں۔ اس لح اظ س ے ان کے
مخاطب ہندوی داں معلوم ہوتے ہیں۔شعر الحاقی ہوسکتا ہے۔
دیگ ہانڈی کفچہ ڈوئی بے خطا
تابہ گز گان ست کڑاہی وتوا
اس بیت میں گزگان ترکی االصل لفظ ہے۔ اسے گزغاں بھی لکھا جاتا ہے۔
کڑاہی اور توا کے درمیان اضافت کا وائو شک پیدا کرتا ہے کہ یہ ش عر خس رو ک ا نہیں
ہوسکتا۔’بے خطا‘ اور ’ست‘ ظاہر کرتے ہیں کہ مخاطب فارسی داں ہیں۔
سنگ پا تھر جانیے برکن اُٹھائو
اسپ میران ہندوی گھوڑا چالئو
اس بیت میں دونوں قافیے (اٹھائو اور چالئ و) ہن دوی ہیں۔ ج و مخ اطب کی زب ان ہن دوی
ظاہر کرتے ہیں۔ لف ظ پ اتھر اردو اور ہن دی زب انوں میں مس تعمل رہ ا ہے۔ ش عر الح اقی
معلوم ہوتا ہے۔
موش چوہا گربہ بلی مارناگ
سوزن ورشتہ بہندی سوئی تاگ
فارسی لفظ ’رشتہ‘ تاگ ا دھاگ ا کے مع نی میں ٓای ا ہے۔ اردو میں یہ مع نی مس تعمل نہیں۔
بٹے ہوئے سوت کو ہندی میں تاگ (تاگا) بھی کہ ا جات ا تھ ا۔ کچھ عالق وں میں دھ اگ ی ا
دھاگا بھی بوال جاتا رہا ہے۔
چھالنی غربال چاکی ٓاسیا
دیگداں چولہ وکندو کوٹھیا
دیگ داں کا ہندوی مترادف چولہا ہے۔ کندو کو ہندوی میں کٹھلہ یا ک وٹھی کہ ا جات ا ہے۔
اس بیت میں اسے کوٹھیا کہا گیا ہے ممکن ہے عہد خسرو میں کوٹھیا بوال جاتا ہو۔
سرد سیتل گرم تاتا چیرہ سخت
نرم پوالنیش ڈنک اورنگ تخت
تاتا ہندوی میں تپے ہوئے یاگرم کو بولتے ہیں کونول (کوں ول) یا کوں ورنرم کے معنی
میں ٓاتا ہے۔ کومل بھی اسی کو کہتے ہیں۔
اسی بیت کے پہلے مصرعے میں چ یرہ اور س خت دون وں فارس ی زب ان کے ہیں۔ اس ی
ط رح دوس رے مص رعے میں اورن گ اور تخت بھی فارس ی کے ہیں۔ ان کے ہن دوی
مرادفات نہیں بتائے گئے ہیں۔شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
جاروب سوہنی کہ سبدست ٹوکرا
مقراض َکترنی کہ بود اُسترا چھرا
جاروب فارسی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف سوہنی بتایاگیا ہے۔ اسی ط رح س بد فارس ی
لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ٹوکرا ہے۔ مقراض (فارسی) کا ہندوی م رادف ک ترنی اور
اُسترا (فارسی) ک ا ہن دی م رادف چھ را بتایاگی ا ہے۔ خ ان ٓارزو کے مط ابق ’’در رس الہ
منظومہ امیر خسرو چھرا بمعنی استرا اس ت و مش ہور در قص بات ہندوس تان۔‘‘ اس بیت
میں است اور بود سے ظاہر ہوتا ہے کہ مخاطب فارس ی داں ہیں۔ محم ود ش یرانی زم انہ
حال کے مطابق اُسترا اور چھُرا ک و دو مختل ف چ یزیں بت اتے ہیں۔ ان کے اع تراض ک ا
جواب دیتے ہوئے افسر امروہوی لکھتے ہیں کہ امیر خسرو کی زمانے میں دون وں لف ظ
نفسا ً ایک ہی معنی میں استعمال ہوتے ہوں گے جس کا ثبوت مثنوی کدم راو پدم راو میں
بھی ملتا ہے۔ فی زم انہ اُس ترا اور چھُ را دو مختل ف چ یزیں ہیں ،لیکن ام یر خس رو کے
زمانے میں دونوں لفظ یقینا ای ک ہی مع نی میں اس تعمال ہ وتے ہ وں گے جس ک ا ثب وت
مثنوی کدم راو پدم راو کے اس شعر سے ملتا ہے جو ام یر خس رو کے بع د والی ص دی
میں تصنیف ہوئی ہے۔
مردوہ دولنگی جو ہو دھرستیں
شکر در دہاں استرہ ٓاستیں
یہ ش عر ’’بغ ل میں چھ ری منہ میں رام رام ‘‘کی ابت دائی ش کل ہے۔ جس ک ا مطلب ہے
میٹھی میٹھی باتیں کرکے دشمنی کرنا۔
اُمید ٓاس باشد نامید ہے نراس
چرخ وفلک سپہربودٓاسماں اَکاس
یہاں باشد اور بودظ اہر ک رتے ہیں کہ اس بیت کے مخ اطب فارس ی داں ہیں۔ ب اقی الف اظ
کے معنی واضح ہیں۔ٓاس اور نراس سنسکرت الفاظ ٓاشا اور نراش ا کے اپ بھ رنش روپ
ہیں۔ لفظ ٓاس کا استعمال خسرو سے بہت پہلے پالی زبان میں بھی ملت ا ہے۔ ب ودھ بھکت و
بھولن کے بھجن سے یہ مثال دیکھیے۔
ایڑے یوچھندو بند کرن کپیڑ ٓاس
ُشتو پاکھ بھیڑ لیہورے پاس
ران وفخذ کہ جانگھ بود ناز الڈال
استخوان ہاڑ باشد و دیوانہ باوال
اس بیت میں بود اور باشدجیسے فارسی الفاظ سے ظاہرہے کہ مخ اطب فارس ی داں ہے۔
فارسی لفظ ناز کا مرادف الڈال بتایاگیا ہے جو غالبا ً سہو معلوم ہوتا ہے۔ لفظ باؤال ،دیوانہ
کے معنی میں مثنوی ک دم راو پ دم میں بھی ک ئی جگہ اس تعمال ہ وا ہے اورٓاج بھی ب وال
جاتا ہے۔
بادہ شراب وراوق وصہبامی ست مد
کار نیک بد
گرجرعہ زاں خوری توکنی ِ
بادہ ،شراب راوق اور صہبا یہ سب ایک دوسرے کے مرادف الف اظ ہیں۔ جن کے ہن دوی
مرادف ست اور م دبتائے گ ئے ہیں۔ دوس را مص رعہ بق ول حاف ظ محمودش یرانی تم ام و
کمال برائے بیت ہے اس میں کہاگیا ہے کہ اگر تو شراب کی ایک بون د بھی پ یے گ ا ت و
اچھا کام بھی خ راب ک ردے گ ا۔اس ش عر ک ا مص رعہ ث انی الح اقی ہوس کتا ہے۔ خس رو
شاعری میں ناصحانہ باتیں بیان کرنے سے گریز کرتے تھے۔
رایت لواے ونیزہ بود سپرست ڈھال
لب ٓاب ندی حوض دگرسرورست تال
لب ٓاب کے مترادف ندی اور حوض کے عالوہ سرور اور تال دیے گئے ہیں۔
طاؤس مور باشد و ُدرّاج تیترا
خوب و نکوبھالوبدوزشت ہے برا
درّاج یا درّاجہ کا ہندوی مرادف تیتر یا تیترا ہے۔ اسی بیت کے پہلے مصرعے میں لف ظ
باش د س ے ظ اہر ہوت ا ہے کہ مخ اطب فارس ی داں ہے لیکن اس ی بیت کے دوس رے
مصرعے میں لفظ ’ہے‘ مخاطب کے ہندوی داں ہونے کی داللت کرت ا ہے۔ظ اہر ہے کہ
یہ بیت الحاقی ہے۔
دیہیم وتاج وافسردر ہندوی مکٹ
زاغ بریدہ پر راتو جان کاگ کٹ
دیہیم (دے ہیم) تاج اورافسر اِن تینوں الفاظ کو ہندوی زبان میں مکٹ کہتے ہیں۔
زاغ بریدہ پررا ،تو جان کاگ کٹ ‘‘ جیسے مصرعہ میں مخاطب فارس ی اور ہن دی داں
معلوم ہوتا ہے۔ دوسرا مصرعہ مشکوک معلوم ہوتا ہے۔
گیہان ودہر وگیتی دنیادگر جہاں
درہندوی تو پرتھوی سنسار جگ بداں
در ہندوی تو پرتھوی سنسار جگ بداں یعنی گیہاں ،دہر ،گیتی دنیا اور جہاں کوتم ہن دوی
میں پرتھوی ،سنساراور جگ جانو (سمجھو)
شبگیر ولیل وشب تو بداں رات رین نس
فانند وقتدوشکر گڑجان زہربس
یہاں سُبگیر ،لیل اور شب تینوں الفاظ کے ہن دوی م ترادف رات ،رین اور نس دیے گ ئے
ہیں۔ نس سنسکرت لفظ نشا کا اپ بھرنش روپ ہے۔
جان وروان وجیوتن وکالبدکیا
عادت چوخوی سہج بدان عاطفت میا
اس بیت میں دو ہندوی قافیے کیا اور می ا(کای ا اور مای ا) اس تعمال ہ وئے ہیں۔ س مجھ میں
نہیں ٓاتا کہ کایا اور مایا جیسے عام فہم اور ٓاسان الفاظ کو کیا اور میا کیوں کر باندھا گی ا
ہے۔ یہ شعرشک پیدا کرتا ہے۔
دل ہے ہیاوخاطر و اندیشہ چیتنا
مہمان وضیف راتو بدانی کہ پاہُنا
دل کا ہندی مرادف ہیا بتایاگی ا ہے۔ ہی ا ک ا اس تعمال اس ی مع نی میں پ الی زب ان کے ک ئی
بھجنوں میں بھی ملتا ہے۔ مثال کے طور پر بودھ بھکشو ککری پا کا یہ پد مالحظہ ہو۔
ٓائی سن چرجا ککری پا نیں گائکو
کوڑی ماجھیں ایکو ہیا ہیں سمائلو
مذکورہ شعر میں چیتنا سنسکرت کا تت سم لفظ ہے اس کے مع نی گی ان اور س مجھ ہیں۔
ہیا اور خاطر کے درمیان حرف اضافت قابل غور ہے۔
ام الکتاب فاتحہ الحمد جاکونائوں
ٰ
القری تو مکہ بداں قریہ دیہہ گائوں ام
’ام الکت اب‘ س ورہ ف اتحہ ک و کہ تے ہیں اور ’ام الق ٰ
ری‘ مکہ ش ریف ک و۔ ’جاکونائو‘ک ا
مطلب ہے جس کا نام اور ’تومکہ بداں‘ کا مطلب ہے ت و مکہ ک و ج ان۔اس بیت میں بھی
پہلے مصرعے کا مخ اطب ہن دوی داں اور دوس رے مص رعے ک ا مخ اطب فارس ی داں
ہے۔
حرباگرگٹ کژدم بچھورا سونیول
سگ ہے کتا ماہی مچھلی لقمہ کول
پہلے بیت کے دونوں قوافی ہندوی ہیں لفظ نیوالکونیول (ن۔یول) باندھا گیا ہے ممکن ہے
عہد خسرو میں اس کا یہی تلفظ رہا ہو۔ اسی طرح لفظ لقمہ کا مرادف ک ول بتای ا گی ا ہے۔
جسے کور بھی کہا جاتا ہے۔
دشمن بیری کوس دمامہ باراں مینہہ
عشق محبت عاشق مترجانی نیہہ
اس بیت کے مصرعہ ثانی میں عاشق کا مترادف متر جانی بتایاگیا ہے۔ مینہ کا قافیہ نیہہ
باندھا گیا ہے۔ یہ مصرعہ ممکن ہے یوں رہا ہو۔ ’’عاشق متر جانی عشق محبت نیہ‘‘
طُعم سوا دو طعام خورش جو کہیے کھانا
عالم دانا ہندوی بولی جو کہیے سیانا
طعم عربی میں لذت ومزہ کو کہتے ہیں سواداس کا ہندوی مرادف ہے۔ اس ی ط رح ہن دی
میں عالم ودانا کو عوامی زبان میں سیانا بھی کہتے ہیں۔
سینہ چھاتی ،پستان چوچی ،بینی ناک
ظاہر پیدا پر گھٹ ڈیٹی طاہر پاک
اس بیت میں ظاہر،پیدا کے مرادف ،پ رگھٹ اور ڈی ٹی دیے گ ئے ہیں ڈی ٹی پتہ نہیں کس
لفظ کا اپ بھرنش روپ ہے۔
تپ لرزہ در ہندوی ٓامد جوڑی تاپ
در ِد سر ٓامد سر کی پیڑاتگ ہے دھاپ
تپ لرزہ کا ہندوی مرادف جوڑی تاپ ہے۔ در ِد سر کو سر کی پیڑا کہاگیا ہے۔
تگ فارسی میں قدم یا ڈگ کو کہتے ہیں جس کا ہندوی مترادف دھاپ بتایا گیا ہے۔
ہامہ کاچک مانجھ کپار جا کہیے ٹھائوں
چوں در ہندوی مرا پرسی کھوپڑی نائوں
اس بیت میں ٹھائوں اور ن ائوں دون وں ق افیے ہن دوی ہیں۔ ہ امہ ،کاچ ک ،م اتھ اور کپ ار
(کپال) سب ایک دوسرے کے مرادفات ہیں۔ چوں در ہندوی م را پرس ی۔ (اگ ر مجھ س ے
پوچھوتو) ان کا ہندوی نام کھوپڑی ہے۔ دوسرا مصرعہ الحاق زدہ ہے۔
دودَہ کاجل سرمہ انجن قیمت مول
چاکر سیوک بندہ چیرا قول سوبول
فارسی میں دودہ معنی چراغ کا کاجل ،سرسوں یا السی کے تیل سے ج و چ راغ ی ا دیے
جلتے ہیں ان کے دھوئوں سے کاجل بنای ا جات ا ہے۔ چ اکر س یوک ،بن دہ اور چ یرا (چے
را) یہ چاروں ایک دوسرے کے مرادف ہیں۔
مس ہے تانبا روئیں کانسہ ٓاہن لوہ
تیشہ بسولہ تبر کو لھاڑا غدر ُدروہ
اس بیت کے دوسرے مصرعے میں تیشہ کا ہندوی مرادف بسولہ بتایاگیا ہے دور حاضر
میں بسولہ وہ خاص اوزار کہالتا ہے جس سے بڑھی ،لکڑی کاٹنے اور چھیل نے وغ یرہ
کے کام لیتے ہیں۔
غار مغاک جو گڑھا کہیے کنواں چاہ
دریا بحر سمندر کہیے جا کی ناہیں تھاہ
یہاں ہندوی لفظ سمندر کے مرادف دریا اور بحر بتاتے ہ وئے وض احت کی گ ئی ہے کہ
جا کی ناہیں ،تھاہ ،یعنی جس کی تھاہ یا گہرائی معلوم نہیں۔
گندم گیہوں نخود چنا شالی ہے دھان
جرت جُونری عدس مسور برگ ہے پان
فارسی لفظ جرت کا ہندوی مرادف جو نری یا جواری بتایاگیا ہے جو کہ گیہوں کی طرح
غلے کی ایک قسم ہے۔ (لفظ ’جواری‘ دکنی میں ٓاج بھی عام طور پر مستعمل ہے۔ ب رگ
فارسی میں پتے کو کہتے ہیں یہاں اس کا ہندوی مرادف پ ان لکھ ا گی ا ہے۔ ج و کہ ای ک
مخصوص برگ ہے۔عہد خسرو میں اسے تنبول بھی کہا جاتا تھا۔
ابروبھوئیں سبلت موچھیں دنداں دانت
ریش محاسن ڈاڑھی کہیے رودہ ٓانت
اس بیت میں پانچ فارسی الفاظ ابرو ،س بلت ،دن داں ،ریش اور رودہ کے مرادف ات بت ائے
گئے ہیں جو بالترتیب بھوئیں ،مونچھیں ،دانت ،ڈاڑھی اور ٓانت ہیں۔
خد ،رخسارہ ہندوی بولی جوکہیے گال
ٓ اج امر وزبدان فردا ،راتو بگوئی کال
ہندوی لفظ گال کو عربی میں خد ،اور فارسی میں رخس ارہ ی ا رخس ار کہ تے ہیں۔ ٓاج ک ا
فارسی مرادف امروز اور کل (فردا) کا مرادف ک ال سنس کرت تت س م لف ظ ک ال ( وقت)
اولی
ہے۔ مثنوی کدم راو پدم میں بھی اس لفظ کا استعمال ملتا ہے۔ اس بیت کے مصرعہ ٰ
کے مخاطب ہندوی داں اور مصرعہ ثانی کے مخاطب فارسی داں معلوم ہوتے ہیں۔
منجل ست و داس دانتی جاکو نائوں
ترب مولی دار سولی جاے ٹھائوں
ہندوی لفظ دانتی یا ہنسیا کو عربی میں منجل اور فارسی میں داس کہتے ہیں۔ اس ی ط رح
فارس ی الف اظ ت رب ،دار ،اور ج ا ،کے م رادف م ولی ،س ولی اور ٹھ انو ہیں۔ ن ائوں اور
ٹھائوں دونوں قافیے ہندوی ہیں۔
غلہ افشاں چھاج ہے افشاں پچھور
شوی شوہر ہندوی ہے منس تور
ہندوی لف ظ چھ اج ک ا فارس ی م رادف غلہ افش اں بتایاگی ا ہے۔ افش اں ک ا م رادف پچھ ور
عالحدہ سے بھی سمجھایاگیا۔ فارسی لفظ شوی اور ش وہر کے ہن دوی م رادف کے ط ور
پ ر لف ظ منس دیاگی ا ہے جس کے مع نی ٓادمی ہیں اور یہ لف ظ ش وہر کے مع نی میں بھی
استعمال ہوتا ہے۔ اس بیت کا ٓاخری لفظ تور ہے۔ فارسی میں ’ت ور ‘ مع نی تالش ک رنے
کے ہیں یعنی شوہر کے معنی منس کے سمجھ لیں۔
ڈھاکنی سرپوش چپنی جانیے
ہے دھواں دودودخاں پہچانئے
اس بیت میں فارسی لفظ سرپوش کے دو ہندوی م رادف ڈھ اکنی (ڈھ انکنی) ،چپ نی دیے
گئے ہیں دوسرے مصرعے میں ہندوی لفظ دھ واں کے دوفارس ی م رادف دود اور ُدخ ان
بتائے ہیں۔ جانیے اور پہچانیے قوافی سے ظاہر ہے کہ مخاطبت ہندوی داں قارئین س ے
ہے۔
پنبہ دانہ بداں حبّ قطن در تازی
ولے بنولہ بداں چوں بہند اندازی
بداں کے معنی ’تم جانو‘ اور ’ولے‘ کے معنی لیکن ہیں۔چوں بہند ان دازی ک ا مطلب ہے
جب ہندی میں اندازہ لگایا۔
اس بیت میں صرف ایک فارسی لفظ پنبہ دانہ کا ہندوی م رادف بن ولہ بتایاگی ا ہے جس ے
عربی زبان میں حب قطن کہاجاتا ہے۔یہ شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
موسل ست معروف ہاون اوکھلی
ہیز عنّین فحل نر ٓامد لَلی
اس بیت میں ہندوی لفظ موسل کا فارسی مرادف نہیں دیاگیا ہے جب کہ فارسی لفظ ہ اون
کا ہندوی مترادف اوکھلی بتادیا گیا ہے۔ دوسرے مصرعے میں فارسی لفظ ہیز کا ہن دوی
م رادف نہیں بتای ا ہے اس کے بج ائے ع ربی م رادف عنّین دیاگی ا ہے۔ (ہ یز اور عنّین
دونوں کے معنی مخنث ہیں)اس کے بعد ایک اور عربی لفظ فحل کا ہن دوی م رادف ،ن ر
لکھا گیا ہے۔لفظ ،لَلی (لڑکی) کا استعمال یہاںقافیہ پیم ائی کے بط ور ت و ٹھی ک ہے لیکن
کوئی معنی دینے سے قاصر ہے۔یہ شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
فارسی روباہ ہندوی لو کڑی
ماکیاں را نیزمی خواں کوکڑی
اس بیت میں فارس ی کے دو الف اظ روب اہ اور ماکی اں کے ہن دوی مرادف ات ل وکڑی
(لومڑی) اور کوکڑی (مرغی) بتائے گئے ہیں۔ می خوا ں کا مطلب،تم کہو۔
کو ّکڑا می خواں خروس صبح خواں
نیزمی خواں دیک در تازی زباں
اس بیت میں ہن دوی لف ظ ک وکڑی (م رغی) کے م ذکر ک ا فارس ی م رادف بت اتے ہ وئے
’خروس صبح خواں‘ کہو اور ت ازی زب ان میں اس ی لف ظ ک ا
ِ سمجھایا گیا ہے کہ تم اسے
مترادف دیک بتایاگیا ہے کہ تازی زبان میں تم اسے دیک کہ و۔ مرغ ا پنج ابی زب ان میں
ٓاج بھی ککڑ (کک کڑ) بوال جاتا ہے۔
قصر کوشک حصن درتازی حصار
حجرہ کوٹھا بام اٹاری در ُدوار
قصر (عربی) کوشک (فارسی) ہے اور حصن کوتازی میں حصار کہتے ہیں حج رہ ب ام
اور در کے ہن دوی مرادف ات ب الترتیب کوٹھ ا۔ اٹ اری اور دوار ہیں۔ لف ظ ’م اڑھی‘ کے
متعلق خان ٓارزو لکھتے ہیں ’’عمارتے کہ برقبرٓاتش پرستاں و یہوداں سازند… لیکن بہ
معنی بام اس ت چن انچہ از رس الہ ام یر خس رو علیہ ال رحمہ معل وم می ش ود۔‘‘ (غ رائب
اللغات)
عذب شیرین ست میٹھا چاکھ دیکھ
تلخ کڑوا ترش کھٹا ٓاکھ دیکھ
عذب ع ربی لف ظ ہے جس ک ا فارس ی م رادف ش یریں ہے اور ہن دوی م رادف میٹھ ا ہے
’’اسی طرح تلخ کا مرادف کڑوا اور ترش کا مرادف کھٹا ہے۔
’چاکھ‘ اور ’ٓاکھ‘ قافیے اور ’دیکھ‘ ردیف ہے۔
ژفت انیٹھن چرب چیکن شور کھار
تیز چرپر جیبھ جانے یہ بچار
ژفت فارسی لفظ ہے جس کا ہندوی م رادف انیٹھن بتایاگی ا ہے۔ چ رب ک ا م رادف چیکن
(چکنا) شور کا کھار اور تیز ک ا چرپربت اتے ہ وئے کہاگی ا ہے کہ اس ک ا بچ ار (وچ ار)
جیبھ (زبان) جانتی ہے۔
کاغذ وقرطاس کاگد ایکھیے
ہم قلم ہم خامہ لیکھن لیکھیے
کاغذ اورقرطاس ہندوی مرادف گاگد ہے۔کاگد دراصل لفظ کاغذ ہی کا بگڑا ہ وا روپ ہے
اسے ہندوی بتایاگیا ہے۔ اور ہم قلم کو ہم خامہ لکھن ا لکھ یے۔ ایکھ یے ک ا ق افیہ لیکھ یے
باندھا گیا ہے۔ مخاطب کا ہندوی داں ہونا ظاہر ہے۔
ُد ّر و مروارید موتی جانیے
ہم صدف سیپی سمندر ٓانیے
ُدر اور مروارید کو موتی جانیے (س مجھیے) اور ص دف (س یپی ک و س مندر س ے ٓان یے
(الئیے) ٓاننا کا مطلب النا ہے۔ ٓاننا مراٹھی زب ان میں بھی ع ام ط ور پ ر اس ی مع نی میں
مستعمل ہے۔
ثور ُستُور گائو ہے بلد
خواہی الدو خواہی ا َکد
ثور اورستور عربی میں بیل یا چوپائے کو کہتے ہیں جس کا ہندوی م رادف بل د ہے ج و
سنسکرت لفظ بلی ورد کا اپ بھرنش روپ ہے۔
دوسرے مص رعے خ واہے الدو کے مع نی ہے ’چ اہے الدو‘ خ واہے اُل د ک ا مطلب ہے
چاہے نہ الدو۔ دوسرا مصرعہ سراسر غیر ضروری اور الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
ذنب گناہ جو کہیے دوش
خشم وغضب در ہندوی روش
ذنب عربی لفظ ہے جس کا فارسی م ترادف گن اہ اور ہن دوی م رادف دوش بتای ا گی ا ہے۔
خشم عربی لفظ ہے جس کا فارسی مرادف غضب اور ہندوی م رادف روش (طیش) بتای ا
گیا ہے۔
سرگین گوبر فلہ ہے پیوسی
کدال کلند جو کہیے کسّی
سرگیں فارسی میں گوبر کو کہ تے ہیں۔ فلہ بھی فارس ی لف ظ ہے جس ک ا ہن دوی م رادف
پیوسی (پے وسی) بتای ا گی ا ہے۔ ج و زچگی کے ٓاٹھ دس دن بع د ت ک ع ورت اور دودھ
دینے والے مادہ چوپایوں کے تھنوں سے قدرتی طور پر جاری رہتا ہے۔
ُکدال فارسی لفظ کلند کا ہندوی مرادف ہے۔ کسّی بھی اسی کا ہندوی مرادف ہے جو کدال
اور پھاوڑا دونوں کے لیے مستعمل ہے۔
بزرگی بڑائی وپیری بوڑھاپا
نکوئی بھالئی جوانی تناپا
بزرگی اورپیری فارسی زبان کے الفاظ ہیں جن کے ہندوی م رادف ب الترتیب ب ڑائی اور
بوڑھاپا دیے گئے ہیں۔
نکوئی اور جوانی بھی فارسی الفاظ ہیں جن کے ہندوی مرادف بالترتیب بھالئی اور تناپ ا
بتائے گئے ہیں۔ بڑائی اور پیری کے درمیان حرف اضافت اس شعر کو غ ور طلب بنات ا
ہے۔
لسان و زبان فارسی جیبھ ٓاکھو
درخت وشجر دار را رُوکھ بھاکھو
لسان عربی لف ظ ہے جس ک ا فارس ی م رادف زب ان اور ہن دوی م رادف جیبھ ہے۔ درخت
فارسی لفظ ہے اور شجر عربی۔ ان کا ہندی مرادف روکھ بتایاگیا ہے۔
ٓاکھو اور بھاکھو دونوں ہندوی الفاظ ہیں جن کے معنی کہو اوربولو ہیں۔
دروغ و دگر کذب تم جھوٹھ جانو
بزرگ وکالں را بڑا جان مانو
دروغ فارس ی لف ظ ہے جس ک ا ع ربی م رادف ک ذب اور ہن دوی جھ وٹھ (جھ وٹ) ہے۔
بزرگ اور کالں کا ہندی مرادف بڑا ہے۔
بہندی زبان خانہ ہم بیت گھر ہے
چو خوف و خطر بیم ہم ترس ڈر ہے
فارسی لفظ خانہ کا عربی مرادف بیت ہے۔ اسے ہندی زبان میں گھر کہتے ہیں۔ خ وف و
خطر (عربی) اور بیم (فارسی) کے ہندی مرادف ترس اور ڈر بتائے گئے ہیں۔
تمنا وہم ٓارزو چائو کہیے
ید ودست ہاتھ وقدم پانو کہیے
تمنا عربی لفظ ہے جس کا فارسی مرادف ٓارزو ہے۔ اس ک ا ہن دی م رادف چ او بتای ا گی ا
ہے۔ ید عربی لفظ ہے جس کا فارسی مرادف دست اور ہن دوی ہ اتھ ہے۔ ق دم فارس ی لف ظ
ہے جسے ہندی میں پأوں کہتے ہیں۔ اس بیت میں چائو ک ا ق افیہ پ انو بان دھا گی ا ہے ج و
غلط ہے۔
چراغ ست دیا فتیل ست باتی
بود ج ّد دادا نبیرہ است ناتی
چراغ فارسی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف ِدیا (دی دیا)ہے۔ فتیل عربی لف ظ ہے جس ک ا
ہندوی مرادف باتی ہے۔
ج ّد عربی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف دادا ہے۔ نبیرہ بھی عربی لفظ ہے جس کا ہندوی
مرادف ناتی ہے۔ دادا دراصل تاتار ومنگول کی زبان کا لف ظ ہے جس کے مع نی ب زرگ
سردار اور بڑا ہیں۔فی زمانہ یہ لفظ کئی ہندوستانی زبانوں میں مستعمل ہے۔
کدو خر پزہ ہر دو معروف میداں
خیارست ککڑی وکھیراہمی خواں
کدو اور خرپزہ دونوں فارسی الفاظ ہیں ،یہ بات جانو ،خیار عربی لفظ ہے جس کا ہندوی
مرادف ککڑی اور کھیرا کہو۔
در و بار دہلیز را دوار جانو
شتر اونٹ گھوڑا فرس اسپ مانو
در اور بار دونوں فارسی لفظ ہیں اور دہل یز ع ربی لف ظ ہے۔ ان ک ا ہن دوی م رادف دوار
جانو۔ فارسی لفظ شتر کا ہندوی مرادف اونٹ ہے۔ فرس عربی لفظ ہے اور اسپ فارس ی۔
دونوں کا ہندوی مرادف گھوڑا مانو۔
گرہ عقد باشد بتازی ولیکن
بہندی بود گانٹھ بشنو تو ازمن
گرہ فارسی لفظ ہے۔ عقد عربی لفظ ہے۔ اگر تم مجھ سے پوچھو تو عربی میں گ رہ عق د
ہے لیکن ہندوی میں گانٹھ ہوا ہے۔
نہار و دگر یوم روزست جانو
بہندی زبان دیوس دن راپچھانو
نہار عربی لفظ ہے۔ اس ک ا فارس ی م رادف ی وم ج انو۔ ہن دی زب ان میں اس کے م رادف
ِدیوس اور دن ہیں۔ (صحیح لفظ ِد َوس ہے۔ اسے پرانے امال میں دیوس لکھا گیا ہے۔)
کثیر و فراوان وبسیار افزوں
بسے بہت کہیے سبھی جانیو توں
کثیرعربی لفظ ہے۔ اس کا فارسی م رادف ف راواں ،بس یار اف زوں اور بس ے۔ ان س ب ک ا
ہندی مرادف بہت ہے۔
سمندر رہے ٓاگ میں جیو کیڑا
چو بعدست دور وچونزد یک نیڑا
سمندر فارسی لفظ ہے جس کے معنی ٓاگ کا کیڑا ہیں۔ بُعد عربی لفظ ہے جس ک ا ہن دوی
مرادف دور بتایاگیا ہے۔ نزدیک فارسی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف ن یڑا ہے۔ ص فدر ٓاہ
کے مطابق صحیح مصرع یوں ہے۔ جو بُعد است دوری چونزد یک نیڑا۔
نمک ملح ہے لون شیریں ہے میٹھا
بہندی زبان بے مزہ ہست سیٹھا
نمک فارسی لفظ ہے اور ملح عربی لفظ ہے۔ ان کا ہندوی م رادف ل ون ہے۔ فارس ی لف ظ
شیریں کا ہندوی مرادف میٹھا ہے۔ فارسی لفظ بے مزہ کا م رادف ہن دی زب ان میں س یٹھا
ہوتا ہے۔
پدرباپ باشد چو اُ ّم ست مادر
سناں بھال برگستوان ست پاکھر
پدر فارسی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف باپ ہے۔ اسی طرح اُ ّم ع ربی لف ظ ہے جس ک ا
فارسی مرادف مادر ہے۔سناں فارس ی لف ظ ہے جس ک ا ہن دوی بھ ال (بھ اال) بتایاگی ا ہے۔
برگستواں فارس ی لف ظ ہے اس ک ا ہن دوی م رادف پ اکھر ہے۔ یہ جن گ میں ج انے والے
ہاتھی اور گھوڑے کو پہنایا جانے واال ایک قسم کا خود ہوتا ہے۔
ذباب و مگس ماکھی و پ ّشہ ماچھر
بود ریگ بالو وسنگریزہ کانکر
ذباب عربی لفظ ہے جسے فارسی میں مگس کہتے ہیں۔ ان کا ہندوی مرادف م اکھی بتای ا
گیا ہے۔ ماکھی سرائیکی زبان میں شہد کی مکھی کو کہ ا جات ا ہے ،یہ اں وہی م راد ہے۔
پ ّشہ فارسی لفظ ہے جس کا ہن دوی م رادف م اچھر (مچھ ر) ہے۔ ری گ فارس ی لف ظ ہے
جس ے ہن دوی میں ب الو کہ تے ہیں۔ س نگریزہ فارس ی ہے اس ک ا ہن دوی م رادف ک انکر
(کنکر) ہے۔
بیا ٓاونشیں بیٹھ بروجا
بہ بیں دیکھ بدہ دے بخور کھا
بیا فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ٓاو ہے۔ نشین بھی فارسی لفظ ہے جس کا ہن دوی
مرادف بیٹھ ہے برو (فارسی) کا ہندوی مرادف جا ہے۔ بہ بیں فارسی میں دیکھ کو کہتے
ہیں۔ بدہ کا ہندوی مرادف دے ہے اور فارسی لفظ بخور کا ہندوی مرادف کھا ہے۔
بسا پیس بکش کھینچ بچش چاکھ
بزن مار بدر پھاڑبنہ راکھ
بسا فارسی لفظ ہے جسے ہندوی میں پیس کہتے ہیں۔ بہ کش بھی فارسی لف ظ ہے جس ے
ہندوی میں کھینچ کہ تے ہیں۔ اس ی ط رح بہ چش فارس ی لف ظ ہے ج و ہن دوی لف ظ چ اکھ
(چکھ) کامرادف ہے۔ بزن ،بہ در اور بہ تینوں فارسی الفاظ ہیں۔ ان کے ہن دوی مرادف ات
بالترتیب مار ،پھاڑ اور راکھ بتائے گئے ہیں۔
گلوحلق دہن مکھ سخن بول
شکم پیٹ نظر ڈیہٹہ دہل ڈھول
گلو فارسی لفظ ہے۔ حلق عربی اور دہن بھی فارسی لفظ ہے۔ ان ک ا فارس ی م رادف مکھ
بتایاگیا ہے۔ جو سنسکرت کا تت سم شبد ہے۔ سخن فارسی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف
بول ہے۔
شکم ،نظر اور دہل تینوں فارس ی الف اظ ہیں۔ ان کے ہن دوی مرادف ات ب الترتیب پیٹ ،ڈیٹھ
(درشٹی) اور ڈھول بتائے گئے ہیں۔
طبیب وحکیم ست بید اے برادر
بود بائو با ِد و دگر ٓاگ ٓاذر
ط بیب اور حکیم ع ربی الف اظ ہیں جن ک ا ہن دوی م رادف بی د (وی د) ہے۔ اے ب رادر (اے
بھائی) باد فارسی لف ظ ہے جس ک ا ہن دوی م رادف ب ائو ہے۔ ٓاگ ہن دوی لف ظ ہے جس ک ا
عربی مترادف ٓاذر ہے۔
دگر گوش کن وعظ و اندر زوپند
بہندی بود سیکھ در کار بند
دگر گوش کن= دوسری بات سنو۔ وعظ عربی لفظ ہے۔ اندر ز فارسی ہے۔ پن د بھی اس ی
کا فارسی مرادف ہے۔ یہ ہندوی میں سیکھ (نصیحت) ہوا ،جس پر کار بندرہنا۔
خراب ست ویراں تواُجڑا ہمی خواں
تو معمور ٓاباد بستاہمی داں
خراب ع ربی لف ظ ہے۔ وی راں اس ک ا فارس ی م رادف ہے۔ اس ے ہن دوی میں اج ڑا کہ و۔
معمور عربی لفظ ہے جس کا فارسی مرادف ٓاباد ہے۔ اسے ہندوی میں بستا کہو۔
ہست ابن اللیل ماہ ٓاسماں
چاند بیٹا رات کا تازی زباں
ہست (فارسی) ہے۔ ابن اللیل عربی ترکیب ہے جس کے معنی رات کا بیٹا (مرادی مع نی
چاند ہیں۔) ما ِہ ٓاسماں فارسی ترکیب ہے۔ اس کے معنی ٓاسمان کا چاند ہے ’چاند بیٹ ا رات
کا‘ ہندوی ہے۔ یہ بیت الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
لیل شب دیجور در تازی زباں
رات اندھیاری تو نیکو تر بداں
لیل عربی لفظ ہے۔ شب اسی کا فارسی م رادف ہے۔ دیج ور بھی ع ربی لف ظ ہے ،جس ے
اندھیری رات کے مرادف کے طور پر بتاتے ہوئے ت و نیک و ت ر ب داں کہ ا ہے یع نی ت و
اچھی طرح جان لے۔
دادن دینا داد دیا فعل کار
قرض و دام و دین در ہندی ادھار
داد اور دادن دونوں فارسی الف اظ ہیں جن کے ہن دوی م رادف ب الترتیب ِدی ا اور دین ا ہیں۔
فعل عربی لفظ ہے جس کا فارسی مرادف کار ہے۔ قرض عربی لفظ ہے اور دام فارس ی۔
دین بھی اسی کا مرادف ہے جسے ہندی میں اُدھار کہتے ہیں۔
ٓافت وٓاسیب ہے رنج و بال
ح ّی زندہ جانیو تم جیوتا
ٓافت عربی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف رنج ہے۔ ٓاسیب فارسی لف ظ ہے جس ک ا ع ربی
مرادف بال ہے۔ حے (غالبا ً ح ّی) عربی لفظ ہے جس کا فارس ی م رادف لف ظ ’زن دہ‘ ہے۔
اسے ہندوی میں جیوتا جانیو (سمجھو)۔
شانہ و مشط ست در ہندی زباں
کنگھی ٓامد پیش توکردم بیاں
شانہ فارسی اورمشط عربی لفظ ہے۔ ہندی زبان میں اس کا مرادف کنگھی ہے۔
است در ہندی زباں کردم بیاں یعنی ہندی زبان میں بیان کیا ہے۔
کرم شب تاب ست کیڑا چمکناں
ِ
نیز گویند ٓاتشک اورا بداں
کرم شب تاب فارسی ت رکیب ہے جس کے مع نی ہیں رات ک و چمک نے واال ک یڑا۔ یع نی
جگنو ،اس کا ہندوی مرادف ’کیڑا چمک ناں‘لکھا ہے۔ ٓاتشک اسی کا فارسی مرادف بتایا
گیا ہے۔
ناں بتازی خبز روٹی ہندوی
پنبہ ومحلوج را میداں روئی
نان فارسی لفظ ہے۔ اسے عربی میں خبز اور ہن دوی میں روٹی کہ تے ہیں۔ پنبہ فارس ی
ہے۔ محلوج (دھنی ہوئی روئی)اس ک ا ع ربی م رادف ہے جس ک ا ہن دوی م رادف روئی
جانو۔
پس بہندی پنبہ را میداں کپاس
نسر کرگس ،بوم اُلّو ،بوی باس
پس ہندوی میں پنبہ کو کپاس جانو ،یعنی لفظ پنبہ کا ہندوی مرادف کپاس ہے۔
نسر عربی لفظ ہے جس ک ا فارس ی م رادف ک رگس ہے ب وم ک ا ہن دوی م رادف الّ و ہے۔
فارسی لفظ بو ،کا ہندوی مرادف باس ہے۔
باد بیزن باد کش پنکھا بخواں
غوک ،ضفدع مینڈ کی بیشک بداں
فارسی لفظ باد بیزن (فرشی پنکھا) کا فارسی م رادف ب ادکش ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف
پنکھا سمجھ۔ غوک فارسی لفظ ہے جس کا عربی م رادف ض فدع ہے۔ اس ے کس ی ش ک
کے بغیر مینڈ کی جانو۔
ساگ سبزی ،بہج شادی ،سرخ سوہا ،لعل الل
سبز ہریا ،داشت دھریا ،ماند رہیا ،دام جال
ساگ ہندوی لفظ ہے جس کا فارسی مرادف سبزی ہے۔ بہج عربی لفظ ہے جس کا فارسی
مرادف شادی ہے۔ سرخ کا مرادف سوہا بتایاگیا ہے۔فارسی لفظ لعل کا ہندوی م رادف الل
لکھاگیا ہے۔
سیر اگھانا ،کور کانا ،بھید راز
گرسنہ بھوکا،پیاسا تشنہ باز
سیر فارسی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف اگھانا ہے۔ کور فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی
مرادف کانا بتایاگیا ہے۔ لفظ کور عموما ً اندھا کے معنی میں مس تعمل ہوت ا ہے۔ ص فدر ٓاہ
نے س ند کے س اتھ ث ابت کی ا ہے کہ عہ د خس رو میں یہ لف ظ کان ا کے مع نی میں بھی
استعمال ہوتا تھا۔ ہندوی لفظ بھید کا فارسی راز ہے اور پیاسا (ہندوی) کا فارس ی م رادف
تشنہ لکھا ہے۔ لفظ باز کا استعمال غالبا ً برائے ضرورت شعری بطور قافیہ کیاگیا ہے۔
حمار اگر ترا پرسند چیست خرست
بہندوی بود گدھا کہ بار برست
حمار عربی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف خر ہے۔ اگر تجھ سے پوچھا ج ائے کہ حم ار
کیا ہے ؟تو تو کہہ دے کہ خر ہے۔ اس کا مرادف ہن دوی میں گ دھا ہ وا ج و ب وجھ ڈھوت ا
ہے۔
خرگوش کھرہا باشد ٓاہو بود ہرن
انگشتری انگوٹھی پیرا یہ ٓابھرن
خرگوش (فارسی) کا ہندوی مرادف کھرہا ہے۔ ٓاہ و (فارس ی) ک ا ہن دی م رادف ہ رن ہ وا۔
انگشتری (فارسی) ک ا ہن دوی م رادف انگ وٹھی اور پ یرایہ (فارس ی) ک ا ہن دوی م رادف
ٓابھرن،یعنی گہنا ہے۔
بشنو تو نام چرخہ بیچارہ پیرزن
گویند نام رہٹہ در ہندوی بچن
اس شعر میں صرف ایک لفظ کا ہندی مرادف بتایاگیا ہے شعر ک ا مفہ وم ہے کہ اگ ر ت و
بیچاری بوڑھی عورت سے چرخے کا نام پوچھے تو وہ ہندوی میں ’’رہٹ‘‘ کہے گی۔
پیچک بداں تو پونی پاغندہ گالہ داں
دوک ست نام تکلہ ٓاوردہ ام بیاں
پیچک (فارسی) کا ہندوی مرادف پونی ہے۔ پاغندہ (فارسی) کا ہندوی مرادف گالہ سمجھ۔
دوک فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف تکلہ ہے۔ ٓاوردہ ام بیاں = میں نے کہا ہے۔
ٓائینہ ٓارسی کہ در روے بنکری
سیوا بہندوی تو بداں نام چاکری
ٓائینہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ٓارس ی ہے۔ اس میں ت و اپن ا چہ رہ دیکھ۔ ہن دی
لفظ سیوا،کا نام تو،چاکری(،فارسی) سمجھ۔
سنداں عالت اہرن قطیس تپک را
میداں ہتوڑا باشد بے چون و بے چرا
س ندان فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ع ربی م رادف عالت ہے اور ہن دوی م رادف اہ رن ہے۔
قطیس عربی لفظ ہے تپک اس کا (ترکی) مرادف ہے۔ اسے ہندوی میں ہتھوڑا جانو۔
چینٹی ست نام مورچہ پسوست نام کیک
ٓاں کو پیام و نامہ برد قاصد ست وپیک
چینٹی ہندوی لفظ ہے جس ک ا فارس ی م رادف م ورچہ ہے عالوہ ازیں پس و (ہن دوی) ک ا
فارسی مرادف کیک ہے۔ پیام اور نامہ برفارسی الف اظ ہیں۔ ان کے ع ربی م رادف قاص د
اور پیک ہیں۔
بیدار بداں کہ جاگتا ہے
ہم خفتہ بداں کہ سویتا ہے
بیدار فارسی لفظ ہے۔ اس کا مرادف جاگتا ہے جانو۔ خفتہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا م رادف
(س وئے ت ا) ہے س مجھو۔ اس ش عر میں دو فارس ی لفظ وں بی دار اور خفتہ کے ہن دوی
مرادف بالترتیب جاگتا اور سوئتا دیے گئے ہیں۔ یہ شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
می داں سبوگھڑ او سبوچہ بداں گھڑی
چوں تیر سقف باشد در ہندوی کڑی
می داں (تم جانو)سبو فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف گھڑا ہے۔ اسی ط رح س بوچہ
(فارسی) کا ہندی مرادف گھڑی (گھڑا کی تانیثی صورت) ہے۔ تیر سقف ع ربی لف ظ ہے
جس کے معنی چھت کا نچال حص ہ ہے اور ت یر فارس ی لف ظ ہے جس ک ا ہن دی م رادف
کڑی ہے یہاں مراد چھت میں لگی ہوئی کڑی ہے۔ گھڑا وسبوچہ ہن دوی اور فارس ی ہیں
ان کے درمیان حرف اضافت ہے۔
تگرگ ست ہم سنگحہ ژالہ اوال
چو زیرک سیانا ونادان بھوال
فارس ی زب ان میں تگ رگ س نگچہ اورژالہ یہ س ب م ترادف الف اظ ہیں اور ان ک ا ہن دوی
مرادف اوال ہے۔ زیرک اور نادان فارسی الفاظ ہیں۔ ان کے ہندوی مرادف بالترتیب س یانا
اور بھوال ہیں۔
تواخروٹ جوز خراساں بداں
دگر ناریل جوزہندی بخواں
وز خراس اں (خراس اں ِ اخ روٹ ہن دوی لف ظ ہے جس ک ا ع ربی م رادف ج
جوز ہن دی کہہ۔ واض ح
ِ کااخروٹ)ہے۔ ناریل بھی ہندوی لفظ ہے۔ اسے فارسی زبان میں
ہو کہ جوز عربی لفظ ہے اس کے معنی ثمر پھل ہیں۔
ہز بر ست ناہر پلنگ ست چیتا
چوگرگ ست بھڑیا وکرگ ست گینڈا
ہز بر عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندی مرادف ناہر ہے۔ پلنگ فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی
مرادف چیتا ہے۔ گرگ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندی مرادف بھیڑیا ہے۔ کرگ فارسی لف ظ
ہے اس کا ہندوی مرادف گینڈا ہے۔
دیگر کالوہ ککڑی ہم ریسماں سوت
انسان شمار مانس می داں تو دیو ،بھوت
کالوہ فارسی لفظ ہے جس کے معنی ریشم یا سوت کے دھاگوں کا لچھہ ی ا اٹی ا ہیں۔ لف ظ
ککڑی سابق ابیات میں مرغی کے معنی میں ٓاچکا ہے ،یہ اں اس کے اس تعمال ک ا ک وئی
محل نہیں۔ ریسماں ،فارسی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف س وت ہے۔ انس ان (فارس ی) ک ا
ہندوی مرادف مانس ہے۔ فارسی لفظ دیو کو بھوت جانو۔
قفل کلید جو تاال کلّی
گربہ خیطل جو کہیے بلی
قفل عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف تاال ہے۔ کلید فارسی لف ظ ہے جس ے ہن دوی میں
کلی کہتے ہیں۔ لفظ کلی مراٹھی میں کنجی کے معنی میں عام طور پر مستعمل ہے۔گ ربہ
(فارسی) لفظ ہے اور خیطل عربی لفظ ہے۔ ان کا ہندوی مرادف بلی ہے۔
شرم الج پوشیدن ڈھانکنا
کار ہے کاج خواستن مانگنا
شرم فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف الج ہے۔ پوشیدن (فارسی) کا ہندی پہنناہے۔
کیوان زحل سنیچر ٓامد
ٓ ادیت بپارسی خور ٓامد
کیواں فارسی لفظ ہے۔ عربی میں اس کا مرادف زحل ہے اور ان کا ہندوی م رادف س نی
چر (سنیچر) ہے۔ ٓادیت (ٓادتیہ کا اپ بھرنش) ہندوی لفظ ہے اس کا فارس ی م رادف خ ور
(خورشید کا مخفف) ہے۔
مریخ بہ زبان ہندوی منگل
رائی بہ زبان فارسی خردل
مریخ عربی زبان کا لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف منگل ہے۔ رائی ہندوی لف ظ ہے اس ے
بہ زبان فارسی خردل کہتے ہیں۔منگل (بمعنی ایک سیارہ) سنسکرت کا تت سم لفظ ہے۔
بدھ ہے عطارد گرتو بدانی
او را تو دبیر چرخ بخوانی
ُعطارد عربی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف بدھ ہے۔ اور تو اسے دبیر چرخ مان کہہ۔
برجیس مشتری برسپت
قاضی سپہر در سعادت
مشتری عربی لفظ ہے اس کا فارسی مرادف برجیس ہے۔ ان کو ہندوی میں برسپت کہتے
ہیں۔ یہ سعادت کے باعث قاضی سپہر ہے۔
شد شکر ہندوی زہرہ را نام
خنیا گر ٓاسمان دٓالرام
زہرہ عربی لفظ ہے۔ ہندوی میں اس کانام ش کر ہے۔ یہ ٓاس مان دٓالرام خنی اگر (نغمہ گ ر)
ہے۔
ہندوی پیپل بود فلفل دراز
مرچ فلفل گرد را گویند باز
پیپل ایک مشہور پیڑ کا نام ہے مگر یہا ں اس کی بجائے ایک خاص پھل کے مع نی میں
ٓایا ہے جو دوائی کے بطور استعمال ہوتا ہے۔ اس کا فارسی مرادف فلفل دراز ہے۔ م رچ
ہندی لفظ ہے اس کا مرادف فلفل گرد بتایاگیا ہے۔ فلفل گرد کالی گول مرچ ک و کہ تے ہیں
جسے عموما کالی مرچ کہا جاتا ہے۔
جوز بویا جا ئپھل بیشک بداں
ہم قرنفل لونگ را کیکر بخواں
جوزبویا عربی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی م رادف جائپھ ل ہے۔ بیش ک ب داں یع نی بے ش ک
جانو ،قرنفل عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف لونگ ہے۔ اسے کیکربھی کہتے ہیں۔
ہندوی گویند خرما را کھجور
داکھ راتو فارسی می داں انگور
خرم ا فارس ی لف ظ ہے جس ے ہن دوی میں کھج ور کہ تے ہیں۔ داکھ بھی ہن دوی لف ظ ہے۔
فارسی میں اسے انگور جانو۔ داکھ اُس انگور کو کہتے ہیں جو پکنے کے بعد سوکھ چکا
ہو ،تاہم قابل خوردنی ہو۔ حافظ محمود شیرانی نے اس بیت پر گرفت ک رتے ہ وئے لکھ ا
ہے کہ اس میں انگور کا تلفظ جس طرح بان دھاگیا ہے وہ ہمیں پنج اب کی ی اد دالت ا ہے۔
انگور کا یہ تلفظ امیر سے بعید ہے ایسی حالت میں جب کہ (خالق باری)بچوں کے ل یے
لکھی گئی ہے۔‘‘ شیرانی کا یہ اعتراض وزن رکھتا ہے۔
زنجبیل ست شنہٹی ٓامد سونٹھ نیز
چھانیے اے میت تو یعنی بہ بیز
زنجبیل عربی لف ظ ہے (سنس کرت میں اس ے ش نٹھی کہ تے ہیں) اس ک ا ہن دوی م رادف
س ونٹھ ہے۔ چھ انیے ہن دوی لف ظ ہے جس ک ا فارس ی م رادف بہ ب یز ہے۔ اے میت (اے
دوست)۔ یہ بیت دوست کو مخاطب کر کے کہی ہے۔ دوسرا مصرعہ الح اقی معل وم ہوت ا
ہے۔
بیمار،مریض،دکھیا جان
برگیر اُٹھائو باج ہے دان
بیمار فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ع ربی م رادف م ریض ہے۔ ان دون وں لفظ وں ک ا ہن دوی
مرادف دکھیا بتایاگیا ہے۔ دوسرے مصرعے سے کوئی خاص مع نی نہیں نکل تے برگ یر
(فارسی) کو ہندوی میں اٹھ ائو کہ تے ہیں ب اج فارس ی لف ظ ہے لیکن اس ک ا م رادف دان
نہیں۔ یہ بیت الحاقی ہے۔
اندھا نابینا و بینا دیکھتا
قبر باشد گور غلطاں لیٹتا
اندھا ہندوی لفظ ہے اس کا فارسی مرادف نابینا ہے۔ بین ا فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی
مرادف دیکھتا ہے۔
قبر عربی لفظ ہے جس کا فارسی مرادف گ ور ہے۔ غلط اں (فارس ی) ک ا ہن دوی م رادف
لیٹتا ہے۔
پیکان و زرہ بکترست گانسی
ہم خندہ و قہقہہ است ہانسی
پیکان فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف گانسی ہے۔ جس کا مفہوم تیر کی برچھی کی
نوک ہے۔ خندہ فارسی لف ظ ہے۔ اس ک ا ع ربی م رادف لف ظ قہقہہ ہے جس ے ہن دوی میں
ہانسی (ہنسی) کہتے ہیں۔
درع گز میزاں ترازو وزن تول
دم نفس دفتر جریدہ دلو ڈول
درع عربی لف ظ ہے۔ اس ک ا فارس ی م رادف گ ز ہے۔ م یزاں بھی ع ربی لف ظ ہے اس ک ا
فارسی مرادف ترازو ہے۔ وزن عربی لفظ اور اس کا ہندوی مرادف ت ول ہے۔ دم فارس ی
لفظ ہے اس کا عربی مرادف نفس ہے۔ دفتر فارسی اور جریدہ عربی الف اظ ہیں ج و ای ک
دوسرے کے مرادفات ہیں۔ دلو عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ڈول ہے۔
مشرق جو کہوں پورب کا نائوں
مغرب در ہندوی پچھائوں
مشرق عربی لف ظ ہے جس ک ا ہن دوی م رادف پ ورب ہے۔ مغ رب ع ربی لف ظ ہے اس ے
ہن دوی میں پچھ ائوں (پچھم) کہ تے ہیں۔ ن ائوں اور پچھ ائوں الف اظ ق افیوں کے بط ور
استعمال ہوئے ہیں۔
ہے جنوب دکھن کا اُور
ہم شمال اوتّر کا چھور
جنوب عربی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف دکھن ہے۔ شمال عربی لفظ ہے اس کا ہندوی
مرادف اوتر (اُتّر) بتایاگیا ہے۔
ہم فراز و پیش ٓاگا جانیے
ہم عقب پاچھے یقیں پہنچانیے
ہم ف راز اور پیش فارس ی الف اظ ہیں لیکن ای ک دوس رے کے م رادف نہیں۔ البتہ پیش ک ا
ہندی مرادف ٓاگا (ٓاگے) ہے۔ عقب عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف پاچھے (پیچھے )
دیاگیا ہے۔ جانئے اور پہچانئے دونوں قوافی ہندوی ہیں۔
عقر ب بتازی بچھو کژدم برج فلک
بشمر تو سروش و فرشتہ ملک
عقرب عربی لفظ ہے اس کا فارسی مرادف کژدم اور ہندی مرادف بچھو دیا گیا ہے۔
سروش اور فرش تہ دون وں فارس ی الف اظ ہیں ج و ای ک دوس رے کے م رادف ہیں۔ ان ک ا
عربی مرادف لفظ ملک ہے۔ حافظ محم ود ش یرانی کے مط ابق اس بیت میں ایس ا معل وم
ہوتا ہے کہ پہال مصرعہ انگڑائی لے رہا ہے اس کے وزن کی اگ ر تالش کی ج ائے ت و
فارس ی والے کہیں گے کہ ک وئی ہن دی وزن ہوگ ا اور ہن دی والے کہیں گے کہ فارس ی
وزن ہوگا۔ شعر الحاقی ہے۔
ہم نمونہ بانگی اٹکل قیاس
عطر خوشبوی شمیم وبوی باس
نمونہ فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف ب انگی ہے۔ قی اس ع ربی لف ظ ہے۔ اس ک ا
ہندوی مرادف اٹکل ہے۔
عطر عربی لفظ ہے اس کا فارسی مرادف خوشبوئے شمیم ہے۔
لفظ بو فارسی زبان کا ہے۔ اس کا ہندوی مرادف باس دیا گیا ہے۔
بلدہ شہر ٓامد نگر کوچہ گلی
خار کانٹا پھول گل غنچہ کلی
بلدہ عربی لفظ ہے۔ اس کا فارسی م رادف ش ہر ہے اور ہن دوی م رادف نگ ر ہے۔ ک وچہ
فارسی لفظ ہے۔ جس کا ہندی مرادف گلی ہے۔ نگر بمعنی شہر یا قصبہ سنسکرت ک ا تت
سم لفظ ہے۔
خار ،گل اور غنچہ فارسی الفاظ ہیں۔ ان کے ہندوی مترادف ات ب الترتیب کانٹ ا ،پھ ول اور
کلی بتائے گئے ہیں۔
عاقبت انجام ٓاخر کام ہے
ہم پیالہ نام ساغر جام ہے
عاقبت عربی لفظ ہے اس کا فارسی مرادف انجام ہے۔ ٓاخر بھی اس ی ک ا فارس ی م رادف
ہے۔ ساغر اور جام فارسی الفاظ ہیں۔ ان کا مرادف پیالہ ہے۔پیالہ بھی فارسی لفظ ہے۔
سند کے بطور دیکھیے:
مادر پیالہ عکس رخ یاردیدہ ایم(حافظ)
راست وچپ ہم یمین ست و یسار
ہندوی تو داہنا بایاں بچار
راست وچپ فارسی الفاظ ہیں۔ راست کا ہندوی مرادف داہنا اور چپ کا بایاں بتایاگی ا ہے۔
یمین ویسار عربی زبان کے الفاظ ہیں۔ یمین کو ہندوی میں داہنا اور یسار کو بایاں کہ تے
ہیں۔
کپارست پیشانی وہم جبین
چو اقبال ودولت بود لچھمین
کپار (کپال) ہندوی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف پیشانی بتایاگیا ہے۔ عربی زب ان ک ا لف ظ
جبین بھی اسی کا م رادف ہے۔ اقب ال ع ربی زب ان ک ا لف ظ ہے اس ک ا م رادف دولت ہے۔
ہندوی میں اسے لچھمین (مراد لکشمی یا لچھمی) لکھا گیا ہے۔
بداں مرد مک پوتلی امن چین
دگر عین ہم چشم ہم دیدہ نین
مردمک فارسی لف ظ ہے جس ک ا ہن دوی م رادف پ وتلی (ٓانکھ کی پتلی) بتایاگی ا ہے۔ امن
عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندی مرادف چین ہے۔ عین عربی لفظ ہے۔ ہم چشم اور ہم دی دہ اس
کا فارسی مرادف ہے ان کا ہندوی مرادف نین ہے۔
بود ہونٹھ لب ،زانو ہم رکبہ داں
دگر ناف را نام توندی بخواں
ہونٹھ ہندوی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف لب ہے۔ زانو فارسی لفظ ہے۔
ناف بھی فارسی لفظ ہے۔ جس کا ہندوی مرادف توندی (تونڈی) بتایاگیا ہے۔
جگرداں کلیجہ سپرزست تلی
کہ پہلو بود ہندوی پانسلی
جگر فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہن دی م رادف کلیجہ ہے۔ ُس پرز (سُ پُ رز) فارس ی لف ظ ہے۔
اس کا ہندی مرادف تلی ہے۔ فارسی لفظ پہلو کا ہندوی مرادف پانس لی۔ اس بیت کی ق افیہ
بندی میں سقم پایا جاتا ہے جو اسے مشکوک بنادیتا ہے۔
بیض سہ شب ہست یقیں داں زمہ
سیزدہم چار دہم پانزدہ
بیض عربی لفظ ہے۔ بیض سہ شب ہست یقیں داں زمہ یقی نی ط ور س ے ج انو کہ تین را
تیں تیرہویں چودہویں اور پندرہویں پرن ور ہ وتی ہیں۔اس میں ک وئی م رادف نہیں ہے۔ یہ
شعر سوفیصد الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
تین رات ہے کہیں چاندنیں
تیرہیں چود ہیں پندرہیں
اس شعر میں خالف معمول کسی زبان کا کوئی مرادف نہیں بتایاگی ا ہے۔ ماقب ل ش عر ک ا
ترجمہ ہندی میں کردیاگیا ہے جو سراسر الحاقی معلوم ہوتاہے۔
ہم ترہ ساگ ٓامدہ تنبول پاں
زعفراں کیسر حنا مہندی بداں
ت رہ فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف س اگ ہے۔ تنب ول بھی فارس ی لف ظ ہے
(سنسکرت تت سم لفظ تانبول ہے)اس کا ہندی مرادف پان ہے۔
زعفران عربی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف کیسر ہے۔ حنا عربی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی
مرادف مہندی ہے۔
اسلحہ ،ہتیار بود اہر شکار
رزم وغا جنگ دگر کار زار
اسلحہ عربی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی م رادف ہتھی ار ہے۔ اہ ر ہن دوی ہے جس ک ا فارس ی
مرادف شکار ہے۔ وغا عربی لفظ ہے۔ رزم جنگ اور ک ارزار اس کے فارس ی مرادف ات
ہیں۔
زنجبیل وسنٹھی ٓامد سونٹھ نام
ہم قرنفل لونگ ٓامد رنگ فام
زنجبیل عربی لفظ ہے۔ سنٹھی سنسکرت۔ ان کا ہندی مرادف سونٹھ ہے۔
قرنفل عربی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف لونگ ہے۔ رنگ ہندوی لفظ ہے اس کا فارس ی
مرادف فام ہے۔ اس شعر کے الفاظ ماقبل شعر میں بھی ٓائے ہیں۔ دون وں میں س ے ک وئی
ایک الحاقی ہوسکتاہے۔
توت فرصا دست کھیرا بادرنگ
چھینکا ٓاونگ سندوی ڈھیل ہے درنگ
توت (شہتوت) فارسی لفظ ہے۔ فرصاد اس کا ع ربی م رادف ہے کھ یرا ہن دوی لف ظ ہے۔
اس کا فارسی مرادف بادرنگ ہے۔چھینکا ہن دوی لف ظ۔ اس کافارس ی م رادف ٓاون گ ہے۔
ڈھیل (بمعنی تاخیر) ہندوی لفظ ہے اس کا فارسی مرادف درن گ ہے۔ اس بیت میں بق ول
محمود شیرانی ’’ٓاونگ کا گاف اور ڈھیل کی الم زائد وزن ہیں‘‘۔ (م اہر ع روض ع راق
رضا زیدی کے مط ابق ش یرانی ص احب کی یہ ب ات درس ت نہیں ،ش عر ک ا وزن ٹھی ک
ہے)۔
ہردگوئی زرد چوب ٓامدسخن
دھنیا کشنیزست ومجلس انجمن
ہر د (ہ ردی ی ا ہل دی) ہن دی لف ظ ہے۔ اس ک ا فارس ی م رادف زرد چ وب ہے۔ دھنی ا بھی
ہندوی لفظ ہے۔ اس کا فارس ی م رادف کش نیز ہے۔مجلس ع ربی لف ظ ہے۔ اس ک ا فارس ی
مرادف انجمن ہے۔
داں ہلیلہ ہڑدہم انگوزہ ہینگ
عاج ہاتھی دانت باشد شاخ سینگ
ہلیلہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ہڑ ہے۔ انگوزہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی
مرادف ہینگ ہے۔ عاج عربی لفظ ہے۔اس کا ہندی م رادف ہ اتھی دانت ہے۔ ش اخ فارس ی
لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف سینگ ہے۔
نام کیوارا بداں نیلو فر ست
کوکبہ جیش وحشم داں لشکر ست
کیوارا (کیوڑا)ہندوی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف نیلوفر بتایاگیا ہے ج و ص حیح نہیں۔
پہال مصرعہ الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
کوکبہ عربی لفظ جیش وحشم بھی عربی الفاظ ہیں ان کا فارسی مرادف لشکر ہے۔
کشتی وزورق تو بداں نائو ہے
زخم وجراحت توبداں گھائو ہے
کشتی فارسی لفظ ہے۔ زورق عربی لفظ ہے ان کا ہندوی مرادف نائو ہے۔
زخم فارسی لفظ ہے۔ جراحت عربی لفظ ان کا ہندی مرادف گھائو ہے۔
زیبق و سیماب پارہ جانیے
ہندوی گوگرد گندھک مانیے
زیبق عربی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف سیماب اور ہندوی پ ارہ ہے۔ گ و گ رد فارس ی
لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف کندھک ہے۔
جانیے اور مانیے دونوں ہندوی الفاظ ہیں جو بطور قافیہ استعمال کیے گئے ہیں۔
زاری و بکا ہندوی ہے روج
ہم پے اثر سراغ ہے کھوج
زاری فارسی لفظ ہے اور بُکا اس کا عربی مرادف ہے۔ ان کا ہندوی مرادف روج بتایاگیا
ہے۔ س راغ ت رکی زب ان ک ا لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف کھ وج ہے۔ پہلے بیت میں
تخاطب اہل ہندی سے ہے۔
رنج چوتشویش بود و درد پیر
قوس کمان ست دگر سہم تیر
اس بیت میں چو ،بود ،درد ،ست اور دگر وغ یرہ الف اظ س ے ظ اہر ہے کہ مخ اطبت اہ ل
فارسی سے ہے۔ رنج فارسی لف ظ ہے اس ک ا ع ربی م رادف تش ویش اور درد ک ا ہن دوی
مرادف پیر ہے۔ قوس عربی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف کمان ہے۔ سہم عربی لفظ ہے
اس کا فارسی مرادف تیر ہے۔ اس بیت کے پہلے مصرعے میں ایک فارسی لفظ رنج ک ا
عربی مرادف تشویش اور ہندوی مرادف درد کا پیر بتایاگیا ہے۔ دوس رے مص رعے میں
دو عربی الفاظ کے فارسی مرادف بتائے گئے ہیں ہندی مرادف نہیں بتایاگیا ہے۔
رسم و ٓائیں بشنوازمن ریت ہے
نصرف وہم فتح نام جیت ہے
اس بیت میں ریت اور جیت دو ہندوی الفاظ کے مرادفات بتائے گئے ہیں۔ ریت کا ع ربی
مرادف رسم اور فارسی مرادف ٓائین ہے۔
ہندوی لفظ ’’جیت‘‘ کے جو دو مرادفات بتائے وہ دون وں ع ربی ہیں لیکن فارس ی زب ان
میں بھی مستعمل ہیں۔ بشنوازمن یعنی مجھ سے سن۔
فارسی سی ُمرغ وعنقا ہست تدرووکبک ہنس
ہمچو یرقان ست کانور ہے زریرو نسل بنس
سیمرغ فارسی لف ظ ہے۔ عنق ا اس ک ا ع ربی م رادف ہے۔ ت درو فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا
مرادف کبک دیاگیا ہے۔ کبک بھی فارس ی لف ظ ہے ،جس کے مع نی ’’چک ور‘‘ کے ہیں
ممکن ہے ہنس بھی اس کے مرادف سمجھا جاتا ہو۔ لفظ ہنس ک ا اس تعمال برمح ل معل وم
نہیں ہوتا کیوں کہ یہ نہ تو سیمرغ یا عنقا ک ا م رادف ہے اور نہ ت درویا کب ک ک امرادف
ہے۔ ایس ا لگت ا ہے کہ یہ لف ظ یہ اں ص رف ق افیہ کی ض رورت پ وری ک رنے کے ل یے
استعمال کیا گیا ہے۔ حافظ محم ود ش یرانی نے اس بیت کے متعل ق لکھ ا ہے کہ اس میں
تدرو ،کبک اور ہنس تین مختلف پرندوں ک و مص نف نے ای ک م ان لی ا ہے۔ کب ک کس ی
تشریح کا محت اج نہیں اس ی ک و ہم چک ور کہ تے ہیں’’( کب ک ک و ہن دوی میںکہ تے ہیں
چکور۔‘‘)
یرقان عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف نور بتایاگیا ہے۔ (کالونی یا ک انوری پیلی ا کے
روگ ک و کہ ا جات ا ہے) زریرفارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ع ربی م رادف نس ل اور ہن دوی
مرادف بنس (ونش) ہے۔ بیت مشکوک ہے۔
بلبل ٓامد عندلیب وچڑیا را کنجشک داں
ہندوی ٹیڑی ملخ جل کو کڑ مر غابی بخواں
بلبل فارسی لفظ ہے۔ اس کا عربی مرادف عندلیب ہے چڑیا ہندوی لفظ ہے۔ اس کا فارسی
مرادف کنجشک سمجھ۔ ہندوی لفظ ٹیڑی کا فارسی م رادف ملخ ہے اور ہن دوی لف ظ ج ل
کو کٹر کا فارسی مرادف مرغابی پڑھ۔
شبچرا رخش و تگاورخنگ تو سن ہے ترنگ
برضیغم شیر ناہر یوز چیتا ہے پلنگ
شب چرا ،رخش ،تگاور ،خنگ اور تو سن یہ سب فارسی الفاظ ہیں ج و ہم مع نی ہیں۔ ان
کا ہندوی مرادف ’’تُرنگ‘‘ ہے۔ ببر عربی لفظ ہے۔ اس کا م رادف ہے۔ شیرفارس ی لف ظ
ہے جو ببر و ضیغم کا مرادف ہے ان کا ہندوی مرادف ناہر ہے یوز فارس ی لف ظ ہے اس
کا ہندوی مرادف چیتا ہے جسے فارسی میں پلنگ بھی کہتے ہیں۔
ہرن ٓاہو جانیے ٓاہوبچہ کہیے غزال
بوزنہ بندر خرس ریچھ ٓامدہ گیڈر شغال
ہرن ہندوی لفظ ہے۔ ٓاہو اس کا فارسی مرادف ہے۔ ٓاہو بچہ فارسی لف ظ ہے غ زال اس ک ا
فارسی مرادف ہے۔
بوزنہ فارسی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف بندر ہے۔خرس فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی
مرادف ریچھ ہے۔ گیدڑ ہن دوی لف ظ ہے اس ک ا فارس ی م رادف ش غال ہے۔ اس بیت میں
ع راق رض ا زی دی کے مط ابق ش یرانی ک ا ق ول درس ت نہیں لگت ا۔ ’’ہ رن‘‘ ک ا ’’ر‘‘
متحرک ہی استعمال ہوا ہے۔ یہاں ف اعالتن کی جگہ’’ فعالتن ‘‘ وزن ہے ج و ج ائز ہے۔
مثال میں پیش کی جاسکتی ہے۔ اس ی ط رح ’’خ رس‘‘ کی ’’ر‘‘ متح رک بھی اس تعمال
ہوتی ہے۔ یہ ضرورت وزن یہاں ہرن کی رے کو جو متحرک ہے ،ساکن اور خ رس کی
رے کو جو ساکن ہے متحرک پڑھنا ہوگا۔ یہ تلفظ مبتدیوں کے لیے یقیناگمراہ کن ہے۔
میش بھیڑی قوج مینڈھاہم سسا خرگوش ہے
استر ٓامد خچر بھینسا بداں جاموش ہے
میش فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی م رادف بھ یڑی بتایاگی ا ہے۔لف ظ میش سنس کرت میں
بھی اسی تلفظ اور مع نی میں مس تعمل ہے۔ ق وج ع ربی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف
مینڈھا ہے۔ سسا ہندوی لفظ ہے کہ اس کا فارسی مرادف خرگوش ہے۔ اس تر فارس ی لف ظ
ہے۔ اس کا ہندوی مرادف خچر بتایاگی ا ہے۔خچ ر دراص ل ت رکی زب ان ک ا لف ظ ہے جس
سے مراد گھوڑے یا گدھے کے نطفے سے پیدا شدہ چوپایہ ہے۔ بھینس ا ہن دوی لف ظ ہے۔
اس کا فارسی مرادف جاموش ہے۔
ماہ ٓامد سوم بیشہ جنگل ست
ہندوی مریخ را گو منگل ست
ماہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف سوم ہے۔بے شا فارس ی لف ظ ہے اس ک ا ہن دوی
م رادف جنگ ل ہے۔ م ریخ ع ربی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف منگ ل ہے۔ منگ ل،
سنسکرت کا تت سم شبد ہے۔
ہم شکر کہ زہرہ نام دارد
اسباب طرب ُمدام دارد
ُشکر ہندوی لفظ ہے۔مریخ اس کا عربی مرادف ہے۔ دراص ل یہ ای ک س یارہ ہے جس ک ا
وصف بھی اس بیت میں بتایاگیا ہے کہ یہ سیارہ ہمیشہ اسباب طرب رکھتا ہے۔
محبوب حبیب ہے پیارا
ہم انجم و اختر ست تارا
محبوب عربی لفظ ہے اور حبیب اسی لف ظ ک ا ع ربی م رادف ہے۔ ان ک ا ہن دوی م رادف
پیارا ہے۔ انجم عربی لفظ ہے اختر اس ک ا فارس ی م رادف ہے۔ ہن دوی م رادف ’’ت ارا‘‘
ہے۔ جو سنسکرت کا تت سم لفظ ہے۔
ہے چندر گہن خسوف می داں
ہم سرج گہن کسوف می خوراں
چن در گہن ہن دوی ت رکیب ہے گہن دراص ل لف ظ گ رہن ک ا اپ بھ رنش روپ ہے۔ اس ک ا
عربی مرادف خسوف ہے۔ می داں یعنی تم جانو ،کس وف ع ربی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی
مرادف سرج گہن (سورج گرہن) بتایا گیا ہے۔
ساعت گھڑی پہر ہے پاس
شہر ٓامد ماہ ہندوی ماس
ساعت عربی لفظ ہے۔ اس کے ہندوی مرادف گھڑی اور پہر بتائے گئے ہیں۔ پ اس ان ک ا
فارسی مرادف ہے۔
شہر عربی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف ماہ اور ہندوی مرادف ماس ہے۔
دست برنجن کنگن کہییے پائل ہے خلخال
پاے بر نجن چوڑا کہے خوبی حسن جمال
اس بحر میں صرف تین ابیات ہیں۔ سبھی ابی ات مختل ف زی ورات کے ن اموں پ ر مش تمل
ہیں۔
دست برنجن فارسی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف کنگن ہے۔ پایل ہن دوی لف ظ ہے اس ک ا
عربی مرادف خلخال بتایاگیا ہے۔ فارسی لفظ پائے برنجن ک ا ہن دوی م رادف چ وڑا لکھ ا
گیا ہے جو درست معلوم نہیں ہوتا۔ خوبی فارسی لفظ ہے۔ حسن اور جم ال دون وں ع ربی
الفاظ ہیں۔ یہ تینوں لفظ ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔
گلوبند کو تلڑی کہئے اورحمائل ہار
بازو بند بھُجالی کہیے جو پیرایہ سنگار
گلوبند فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف تل ڑی بتایاگی ا ہے۔ (تل ڑی دراص ل گلے میں
پہننے کا ایک زیور ہوتا ہے۔ جس میں تین لڑی اں ہ وتی ہیں جن کی مناس بت س ے اس ے
تلڑی کہا جاتا ہے۔) حمائل عربی لفظ ہے۔اس کا ہندوی مرادف ہار ہے۔
بازو بند فارسی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف بھجالی ہے۔ پ یرایہ فارس ی لف ظ ہے اس ک ا
ہندوی مرادف سنگار ہے۔
گوشوارہ در ہندوی برنوں کرن پھول درکان
گوہر لو لو موتی کہیے مونگا ہے مرجان
گوشوارہ فارسی لفظ ہے یہ دراصل ک ان میں پہ نے ج انے والے ای ک خ اص زی ور ک و
کہتے ہیں۔ اس کا ہندوی مرادف کرن پھول ہے۔ گوہر فارسی لفظ ہے۔ عربی لفظ لولو اس
کا م رادف ہے۔ ہن دوی میں اس ے م وتی کہ تے ہیں۔ مونگ ا ہن دوی لف ظ ہے اس ک اعربی
مرادف مرجان ہے۔
بدلی میغ چو ابر سحاب
ہیالسیل جو کیچ خالب
بدلی ہندوی لفظ ہے میغ او ر ابر اس کے فارسی مرادفات ہیں اور س حاب اس ک ا ع ربی
مرادف ہے۔ ہیال ہندوی لفظ ہے۔ اس کا عربی مرادف سیل ہے۔ کیچ ہندوی لفظ ہے اس کا
فارسی مرادف خالب ہے۔
انگشتری انگوٹھی کہیے خانم جان نگینہ
ہے زنگولہ گھنگرو بچھوا جھمکا مال خزینہ
اس بحر میں تین ابیات ہیں۔ جن میں مختلف زیورات کے نام اور ان کے ع ربی ،فارس ی
اور ہندوی مرادفات دیے گئے ہیں۔
زبان و اسلوب کے لحاظ سے ان ابیات کی قدامت مشتبہ معلوم ہوتی ہے۔
انگشتری فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی م رادف انگ وٹھی ہے۔ خ اتم ع ربی لف ظ ہے ج و
انگشتری اور انگوٹھی کا مرادف ہے لیکن اس بیت میں خاتم جان نگینہ (یع نی خ اتم ک و
نگینہ سمجھ) کہاگیا ہے جب کہ نگینہ اس خوشنما قیمتی پتھر کو کہتے ہیں ج و انگ وٹھی
میں جڑا جاتا ہے۔
زنگولہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف گھنگھرو ہے۔ بچھوا بھی ایک خاص زیور
ہے جسے عورتیں اپنے پیر کی انگلیوں میں پہنتی ہیں اور جو گھنگھرو کی ط رح بجت ا
ہے۔
جھمک ا ہن دوی لف ظ ہے م ال اور خ زینہ اس کے ع ربی م رادف نہیں ہیں۔ یہ تین وں لف ظ
ضرورت شعری کے تحت غالبا ً یونہی لکھ دیے گئے ہیں۔ خسرو جیسے ذہین اور پرگ و
شاعر سے انھیں کوئی نسبت نہیں ہوسکتی۔ یہ بیت الحاقی ہے۔
شب چراغ یا قوت رتن ہیرا ہے الماس
اور زمرّد پنّا کہیے کسوت جان لباس
شب چراغ فارسی لفظ ہے۔ یاقوت اس کا عربی مرادف۔ ان دونوں کا ہن دوی م رادف رتن
بتایاگیا ہے۔ ہیرا ہندوی لفظ ہے اس کا عربی وفارسی مرادف الماس ہے۔
زمرد عربی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف پنا ہے کسوت بھی عربی لفظ ہے اس کا ہن دی
مرادف لباس ہے۔
طال کندن سونا کہیے زیور ٓابھرن گہنا
نام جڑا و مکلل باشد اور مرصع کہنا
طال عربی لفظ جس کے ہندوی مرادف کن دن اور س ونا ہیں۔ زی ور فارس ی لف ظ ہے جس
ّ
مرص ع اس کے کے ہندوی مرادف ٓابھرن اور گہنا ہیں۔ جڑائو ہندوی لفظ ہے۔ مکل ل اور
عربی مرادفات ہیں۔
نیا خال ہندوی مامون جان
اور عمو کہئے چچا بکھان
جان اور بکھان دونوں ہندوی الفاظ قافیوں کے بطور ٓائے ہیں۔
ماموں کے ساتھ لفظ جان دو معنی پیدا کررہا ہے۔ نِیا ترکی زبان کا لفظ ہے۔ شیرانی کے
بقول نیا کے معتبر معنی دادا یا نان ا کے ہیں۔ اور فردوس ی علی العم وم انہی معن وں میں
التا ہے۔ فرہنگ عامرہ کے مطابق اس لفظ کے معنی ماموں اور بڑا بھائی کا بھی احاطہ
کرتے ہیں۔ممکن ہے ترکی میں یہ معنی بھی مراد لیے جاتے ہوں۔
برادر زادہ جان بھتیجا
خواہر زادہ کہیے بھانجا
برادر زادہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف بھتیجا ہے۔ خواہر زادہ فارس ی لف ظ ہے
اس کا ہندوی مرادف بھانجا ہے۔
خلف سپوت ،مخالف بیری
کرسی تخت ،جوالں ہے بیڑی
خلف اورمخالف دونوں عربی الفاظ ہیں۔ ان کے ہندوی مرادف بالترتیب سپوت اور ب یری
بتائے گئے ہیں۔کرسی عربی لفظ ہے اور تخت فارس ی۔ یہ دون وں لف ظ م رادف نہیں ہیں۔
ان کے ہن دوی م رادف بھی نہیں دیے گ ئے ہیں۔ ج والں فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی
مرادف بیڑی ہے۔
رعد گرج کہیے گھنگور
برق بجلی موج ہلور
رعد عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف گرج ہے ’’کہیے گھنگھور‘‘ سے مدعا رعد یا
گرج کو گھنگھور کہنے سے ہے۔برق عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف بجلی بتایاگی ا
ہے۔ موج عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ہلور ہے۔ ت اہم یہ ش عر بھی الح اقی معل وم
ہوتا ہے۔
بستر سیج ُدولیچا قالی
مر غزار کہیے ہریالی
بستر فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف سیج ہے۔ دولیچہ ترکی ہے اور لف ظ ق الی اس
کا فارسی مرادف ہے۔ مرغزار فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ہریالی بتایاگیا ہے۔
گلستاں وہم بوستاں باغ باری
چمن قطع باشد خیاباں کیاری
گلستاں اور بوستاں دونوں فارسی الفاظ ہیں ان کا ہندی مرادف باغ باری بتایاگی ا ہے۔ ج و
لفظ باغ باڑی کی شکل میں بھی م روج ہے۔ چمن اور خیاب اں فارس ی لف ظ ہیں ج و ای ک
دوسرے کے مرادف ہیں۔ قطع (گوشٔہ زمین) عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف کیاری
دیاگیا ہے۔
قُلبہ ہل ہے زراعت کھیتی
مرز بوم ہے کہیے دھرتی
قُلبہ عربی لفظ ہے جس ک ا ہن دوی م رادف ہ ل ہے۔ زراعت بھی ع ربی لف ظ ہے جس ک ا
ہندوی مرادف کھیتی ہے۔مرزبوم فارسی لفظ ہے جس کے مع نی ج ائے پی دائش ہے۔ اس
کا ہندوی مرادف دھرتی بتایاگیا ہے۔ شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
خردل رائی ارزن چینا
داد ستد ہے دینا لینا
خردل عربی اور فارسی میں مشترکہ طور پ ر مس تعمل لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف
رائی ہے۔ ارزن فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف چینا (ایک اناج کا ن ام ہے) بتایاگی ا
ہے۔ داد ستد فارسی الفاظ ہیں جن کے ہندوی مرادف دینا لینا ہیں۔
خسرپورہ سالہ ہے جان
خسر سسر اور ہان زیان
خسر پور فارسی لفظ ہے اس کا ہندوی مرادف س اال ہے۔ خس ر ک ا ہن دوی م رادف سس ر
ہے ،ہان (ہانی) ہندوی لفظ ہے اس کا فارسی مرادف زیان ہے۔ شعر الحاقی لگتا ہے۔
چرخہ رہٹہ غلّہ راپا گلہ داں
رانڈ بیوہ زال را بوڑھی بخواں
چرخہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف رہٹہ ہے۔ غلہ عربی لف ظ ہے اس ک ا فارس ی
مرادف پا غلہ ؍پاگلہ ہے۔ رانڈ ہندوی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف بیوہ ہے۔ زال فارسی
لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف بوڑھی عورت ہے۔
نیز پیچک نام پونی جانیے
ہم کالوہ نام ٓانٹی مانیے
پیچک فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف پونی ہے۔ کالوہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندی
مرادف ٓانٹی ہے۔ جانیے اور مانیے یہ دونوں ہندوی الف اظ ہیں ج و بط ور ق افیہ اس تعمال
کیے گئے ہیں۔
دوک تکال سوت باشد ریسماں
جان ریسیدن بہندی کاتناں
دوک فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف تکال ہے۔ سوت ہندوی لفظ ہے۔ اس کا فارسی
مرادف ریسماں بتایاگیا ہے۔ ریسیدن فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف کاتن اں (کاتن ا)
لکھا گیاہے۔
موسل ست معروف ہاون اوکھلی
چوب دستہ موسل ست خوشہ پھلی
موسل ہندوی لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف چوب دستہ ہے۔ ہاون فارسی لفظ ہے۔ اس ک ا
ہندوی مرادف اوکھلی ہے خوشہ فارسی لفظ ہے جس کا ہندوی مرادف پھلی بتایاگیا ہے۔
داہ کنیزک کہیے چیری
دام جال جوالن ہے بیڑی
داہ عربی اور کنیزک فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی م رادف چ یری ہے۔ دام فارس ی لف ظ
ہے۔ اس کا ہندی مرادف جال ہے۔ ج والں فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا ہن دوی م رادف ب یڑی
ہے۔
شرم و حیا در ہندی الج
حاصل کہیے باج خراج
شرم فارسی لفظ ہے۔ اس کا عربی مرادف حیااور ہندوی م رادف الج ہے۔ حاص ل ع ربی
لفظ ہے۔ اس کا فارسی مرادف باج اور عربی مرادف خراج ہے۔
طالع بخت جو کہیے بھاگ
لحن سرود ترنم راگ
طالع عربی لفظ ہے۔ فارسی زبان میں اس کا مرادف بخت اور ہندوی میں بھاگ (بھ اگیہ)
ہے۔ لحن اور ترنم عربی الفاظ ہیں۔ ان کا فارسی مرادف س رود اور ہن دوی م رادف راگ
بتایا گیا ہے۔
طفل کودک خرد باال مونڈہ را
بیضہ بہ زباں ہندوی دان انڈہ را
طفل عربی لفظ ہے۔ کودک اس کا فارسی مرادف ہے۔ ُخرد فارسی اور ب اال (چھوٹ ا بچہ)
ہے اسی معنی میں اس تعمال کی ا جات ا ہے۔ ب اال ،ان تین وں ک ا ہن دوی م رادف ہے۔ مون ڈہ
(منڈا) پنجابی زبان کا لفظ ہے اور طفل کودک اور ُخرد تینوں کا ہندی مرادف ہے۔
بیضہ عربی لفظ ہے۔ ہندوی میں اس کا مرادف انڈا ہے،
دستک ہندوی تالی جان
انگشتک چٹکی پہچان
دستک فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ت الی ہے۔ انگش تک فارس ی لف ظ ہے اس ک ا
ہندوی مرادف چٹکی ہے۔ جان اور پہچان یہ دونوں ہندوی الفاظ بطور افع ال ش عر مکم ل
کرنے کے لیے الئے گئے ہیں۔
ہکہک ہچکی فازہ جمائی
خمیازہ کہیے انگڑائی
ہکہک فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی مرادف ہچکی ہے۔ فازہ بھی فارسی لفظ ہے۔ اس ک ا
ہندوی مرادف جمائی (جماہی) بتایاگیا ہے۔ خمیازہ فارسی لفظ ہے۔ اس کا ہن دوی م رادف
انگڑائی دیا گیا ہے۔
عطسہ چھینک ٓاروغ ڈکار
محک کسوٹی جان عیار
عطسہ عربی لفظ ہے۔ اس کا ہندوی م رادف چھین ک ہے۔ ٓاروغ فارس ی لف ظ ہے۔ اس ک ا
ہندوی مرادف ڈکار ہے۔ محک عربی لفظ ہے جسے ہندوی میں کسوٹی کہتے ہیں۔ عربی
میں محک کا ایک اور مرادف عیار بھی ہے۔
ٓاخر انجام ہے نیز تمام
انت بات ہے ختم کالم
ٓاخر عربی لفظ ہے۔ اس ک ا فارس ی م رادف انج ام ن یز تم ام ہے ’’انت ب ات‘‘ ہن دوی ہے
فارسی زبان میں اس کے معنی ختم کالم دیے گئے ہیں۔ شعر الحاقی معلوم ہوتا ہے۔
مولوی صاحب ،شرن پناہ
کدا ،بھکاری ،خسرو شاہ
اس شعر کو ’’خالق باری‘‘ کا مقطع کہا جاتا ہے۔ محمد امین عباسی اور محمود ش یرانی
بھی ایسا ہی مانتے ہیں۔ افسر امروہوی کے بقول:
’’یہ ٓاٹھ الفاظ کا ایک سیٹ ہے جس کے ایک ط رف مول وی ،پن اہ ،گ دا ،خس رو ہیں اور
دوسری طرف ان کے مقابلے میں صاحب ،سرن ،بھکاری اور ش اہ ہیں۔ اس ش عر پ ر یہ
اعتراض تو ہوسکتا ہے کہ مولویٓ ،اج کل ان معنوں میں مس تعمل نہیں ج و ص احب کے
ہیں اور یہ اع تراض بھی کی ا جاس کتا ہے کہ س رن کے س اتھ پن اہ اور گ دا کے س اتھ
بھکاری ت و فارس ی و ہن دی کے متب ادل (م ترادف) الف اظ ہوگ ئے ،لیکن مول وی ص احب
دونوں عربی کے اور شاہ وخسرو دنوں فارسی کے کیوں نظم ک یے گ ئے؟‘‘ (س ہ م اہی
اردو کراچی ،بیاد خسرو)1975،
خسرو اور شاہ کے ہندوی مترادف رائے اور ران ا ہوس کتے تھے۔ یہ الف اظ عہ د خس رو
میں مستعمل بھی تھے۔ خالق باری کے بعض مخطوطات میں یہ مقطع ملتا ہے۔
خالق باری بھئی تمام
دوہوں جگ رہیا خسرو نام
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب امیرخسرو نے اپنے اس منظومہ کو کوئی عن وان نہیں
دیا تھا تو مقطع میں یہ عنوان (خالق باری)کیسے ٓاگیا؟ ظاہر ہے یہ مقطع سراسر الح اقی
ہے۔
Sadiq
B-33, Pocket 9A,
Jasola, New Delhi- 110025
Mob.No. 9818776459