Professional Documents
Culture Documents
کیا ہم قوم نہیں ایک ہجوم ہیں
کیا ہم قوم نہیں ایک ہجوم ہیں
سوشل میڈیا پر آئے روز دلچسپ تحریریں اور واقعات پڑھنے کو ملتے ہیں۔اسی طرح کی ایک تحریر
پڑھنے کو ملی تو سوچا کیوں نا اس کو موضوع بنایا جائے ۔ یہ تحریر حب الوطنی کے جذبے سے بھرپور
ہے۔اس کے پڑھنے سے پتہ چلتا ہے کہ قومیں کیا ہوتی ہیں اور ان کے عمومی رویے کیا ہوتے ہیں ۔
کہتے ہیں کہ ایک دفعہ انگلینڈ کا جعلی پاسپورٹ امریکہ میں پکڑا گیا اور پاسپورٹ کو تصدیق کے لیے
انگلینڈ بھیجا گیا۔پاسپورٹ جعلی ثابت ھونے کے باوجود انگلینڈ کے عملے نے امریکہ کو جواب دیا کہ یہ
پاسپورٹ اصلی ہے۔اس کے ساتھ انگلینڈ کے آفیسر نے مزید کہا کہ یہ یاد رہے برطانیہ کا پاسپورٹ جعلی
بنانا نا ممکن ھے۔ساتھ بیٹھے کولیگ کے پوچھنے پر کہ آپ نے جعلی کو اصل کیوں کہا تو انگلینڈ کے آفیسر
نے جواب دیا کہ سزا دینا ھمارا انگلینڈ کا اندرونی معاملہ ہے۔اگر آج ایک پاسپورٹ جعلی کنفرم کر دیتے تو
پوری دنیا میں ھمارا ھر شہری اور ہمارا ہر پاسپورٹ ھمیشہ کے لیے مشکوک ھو جاتا ۔ اور پوری قوم کو
جو اذیت اور شرمندگی ھوتی اسکا شمار نہیں ھو سکتا تھا۔
اب اس کے بعد ذرا اپنے وفاقی وزیر ہوابازی کے بیان کو یاد کریں جس میں کہا گیا کہ پاکستان میں
860ایکٹو پائلٹ ہیں جس میں سے 260پائلٹس نے امتحان خود نہیں دیا اور ان کی جگہ پر کسی اور
نے امتحان دیا ہے۔اس لیئے 262پائلٹ کے الئسنس فیک ہیں۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے پی آئی
اے کے چار پائلٹس کی ڈگریاں جعلی اور چالیس فیصد پائلٹس کے الئسنس جعلی ہیں۔ایک حکومی
وزیر کا میڈیا پر دیا گیا بیان جنگل میں آگ کی طرح پھیال۔دنیا بھر کے زرائع ابالغ نے اس بیان کو
اپنا موضوع بنایا۔بات یہیں پر نہیں رکی بلکہ یورپی یونین اور برطانیہ نے پاکستانی جہازوں کی آمد پر
چھ ماہ کی پابندی لگا دی۔دنیا بھر کی ائیرالئنز میں جہاں جہاں پر پاکستانی بطور پائلٹ خدمات
سرانجام دے رہے تھے ان کو گراونڈ کردیا گیا۔قومی ائیرالئن جو پہلے ہی خسارے میں جارہی تھی اب
بالکل بند ہونے کے قریب پہنچ گئی۔ایک حکومتی زمہ دار کی طرف سے دیا گیا انتہائی غیر زمہ
دارانہ بیان جگ ہنسائی کا سبب بن گیا۔
جعلی ڈگریوں اور جعلی الئسنس بالشبہ کسی رعایت کے مستحق نہیں ہیں۔کسی کو بھی انسانی
زندگیوں سے کھیلنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی اور جو بھی اس میں ملوث ہے اُس کا جرم ناقابل
معافی ہے۔مگر اس ضمن میں موصوف وزیرہوابازی غالم سرور خان اگر چاہتے تو خاموشی کے
ساتھ انکوائری کرکے جعلی ڈگری اور جعلی الئسنس والے پائلٹس کے خالف قانونی کاروائی کرتے۔
یہی کچھ ہمسایہ ملک ہندوستان میں بھی ہوا مگر وہاں پر شور شرابہ نہیں کیا گیا بلکہ خاموشی سے
انکوائری کرکے پائلٹس کو فارغ کردیا گیا اور ان کو قانون کے مطابق سزائیں دی گئیں۔اس سے ان
کی نا تو جگ ہنسائی ہوئی اور نا ہی قومی ائیرالئن کی ساکھ کو نقصان پہنچا۔مگر وطن عزیز میں
وزیرہوابازی بجائے اپنی غلطی کو تسلیم کرنے کے الٹا اپنے بیان کے دفاع میں ڈٹ گئے۔یہی نہیں
حکومتی جماعت کے دیگر وزرا اور منتخب نمائندے بھی ان کے بیان کی حمایت کرتے نظر آئے۔
اس حکومت کا پہلے دن سے ہی ایک مسلئہ ہے کہ یہ لوگ سنجیدگی سے کام کرنے کے عادی نہیں
ہیں۔سیاسی حوالے سے ان کا مزاج یہ ہے کہ جو دل کرئے کہدو کس نے پوچھنا ہے۔حکومتی جماعت
کے سربراہ جناب عمران خان جو کہ اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں کا لب ولہجہ ہنوز ٰڈی چوک
کے کنٹینر پر کی جانے والی تقاریر جیسا ہے۔بطور وزیراعظم عمران خان نے ایران کے پہلے دورے
پر ایرانی صدر کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں اعتراف کیا کہ ایران کے اندر ہونے والی دہشت
گردی کے واقعات میں ایسے عناصر ملوث رہے ہیں جو پاکستان کی سرزمین استعمال کرتے ہیں۔
وزیراعظم کے اس اعترافی بیان پر ملک میں کافی لے دے ہوئی مگر مجال ہے جو حکومت اور اس
کے حواریوں کے کان پر جوں تک رینگی ہو۔
یہی وجہ ہے کہ حکومتی کابینہ میں شامل وفاقی وزیر فواد چوہدری کی موشگافیاں ہوں یا پھر
ٰ
وزیرمملکت موسمیات زرتاج گل صاحبہ کی پر مغز تقاریر ہوں یا پھر فیاض الحسن چوہان کی میڈیا پر
پریس کانفرنسز ہوں ایک سے بڑھ کر ایک ارسطو دیکھنے اور سننے کو ملتا ہے۔اور تو اور فردوس
عاشق اعوان کے بیانات نے قوم کو ایک مدت تک حواس باختہ کیئے رکھا۔باقی وزیرریلوئے شیخ
رشید کے بیانات پر سب سے خوبصورت تبصرہ تو جمعیت علمائے اسالم ف کے مرکزی ترجمان اور
سابق سینیٹر حافظ حسین احمد نے کیا ہے ۔انہوں نے وفاقی وزیر ریلوئے کی کارکردگی کو کچھ اس
طرح بیان کیا ہے کہ ٹرینیں کمزور پٹڑی پر تب ہی چل سکتی ہیں جب ریلوئے کے وزیر پٹڑی پر
رہیں گے۔شیخ رشید فال واال طوطا بننے کی بجائے ریلوئے کی بہتری کے لیے کام کرتے تو ریلوئے
کی ایسی بدترین صورتحال نا ہوتی۔انہوں نے مطالبہ کیا کہ شیخ رشید مستعفی ہوجائیں اور اگر وہ
ٰ
استعفی نہیں دیتے تو ان سے لیا جائے۔
کیا حکومتیں سوشل میڈیا پر اور اوٹ پٹانگ بیانات سے چلتی ہیں تو اس کا سیدھا سا جواب ہے کہ
نہیں بالکل نہیں۔ایک ایٹمی طاقت کے حامل ملک کے حکومتی وزرا اور مشیروں اور خاص طور پر
سربراہ مملکت کو چاہے وہ جو بھی ہو جس سیاسی جماعت سے ہو سنجیدگی ،بردباری،اور پالیسی
کے تحت بیانات دینے چاہیں۔میڈیا کوریج حاصل کرنے کے لیے یا پھر نان ایشوز کو فروغ دینے کے
لیے بیانات دینا کسی طورپرمناسب نہیں ہے۔بسا اوقات بہت سے مشکل کام اور ملکی معامالت سنجیدہ
بیانات دینے سے ہی سلجھنے لگتے ہیں اور اگر عوام میں یہ تاثر قائم ہوجائے کہ حکومتی عہدیداروں
کے بیانات مذاق ہیں تو پھر حکومت کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے ۔ملکی معامالت پر حکومتی
گرفت کمزور پڑنا شروع ہوجاتی ہے۔موجودہ حکومت کو بھی چاہیے کہ کم سے کم بیانات کی حد تک
سنجیدگی کا مظاہرہ کرئے اور آئے روز کی پریس کانفرنسز پر بھی پابندی لگائیں کیونکہ مسلمہ
اصول ہے کہ جتنا بولیں گے اتنی ہی غلطیاں کریں گے ۔