Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 24

‫وطن کا سپاہی ‪15‬۔‬

‫جب ماریہ کو لگا کہ لوکاٹی اب گہری نیند سورہا ہے وہ لوکاٹی کا ہاتھ اپنے اوپر سے ہٹا کر بیڈ سے اتر گئی اور کمرے میں ادھر‬
‫ادھر ٹہلنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آخر میں یہاں کیا کر سکتی ہوں اور کیسے میجر دانش کی مدد کر سکتی ہوں اور پاکیشا کو‬
‫بڑی تباہی سے بچا سکتی ہوں۔ کافی دیر سوچنے کے بعد بھی اسکی سمجھ میں کچھ نہیں آیا تو اس نے لوکاٹی کے کمرے کی‬
‫تالشی لینا شروع کر دی۔ ماریہ نے ادھر ادھر کمرے میں نظریں دورائیں تو ایک طرف کچھ الماریاں موجود تھیں‪ ،‬ماریہ نے وہ‬
‫الماری کھولی‪ ،‬کچھ میں لوکاٹی کے کپڑے پڑے تھے تو کچھ الماریوں میں لڑکیوں کے انڈر گارمنٹس وغیرہ اور سیکسی نائٹی‬
‫پڑی تھیں۔ لوکاٹی رات کو لڑکیوں کے ساتھ مزے کرتے ہوئے انہیں ان نائٹیز اور سیکسی کپڑوں میں سے اپنی پسند کی نائٹی‬
‫پہننے کے لیے دیتا تھا۔‬

‫ایک الماری میں ماریہ نے تالشی لی تو اس میں ایک چھوٹی الماری مزیر پڑی تھی۔ ماریہ نے سوچا کہ ہو نہ ہو اس الماری میں‬
‫یقینی طور پر کوئی اہم چیز ہوگی۔ ماریہ نے فوری الماری کھولنے کی کوشش کی تو وہ الک تھی۔ اب ماریہ نے اسکی چابیوں‬
‫کے لیے ادھر ادھر ہاتھ مارنا شروع کیے مگر کہیں سے اسکی چابیاں نہیں ملیں۔ پھر ماریہ نے سائیڈ ٹیبل کے دراز بہت احتیاط‬
‫کے ساتھ کھولے تو ان میں سے ایک دراز میں سے ماریہ کو کچھ چابیاں مل گئیں‪ ،‬وہ بڑی احتیاط کے ساتھ چابیاں اٹھا کر واپس‬
‫اس خفیہ الماری کی طرف آئی جو ایک اور الماری کے اندر بنی ہوئی تھی۔ باری باری ماریہ اس میں چابیاں لگانے لگی تو‬
‫اچانک ایک چابی اس میں لگ گئی۔ ماریہ نے وہ چابی الماری میں گھمائی تو وہ بغیر آواز پیدا کیے گھوم گئی اور پھر بہت ہی‬
‫احتیاط کے ساتھ ماریہ نے وہ الماری بھی کھول لی۔ الماری میں ماریہ کہ ایک خاکی رنگ کا لفافہ مال‪ ،‬لفافہ دیکھ کر اب ماریہ کا‬
‫دل دھک دھک کرنے لگا تھا۔ ماریہ نے مڑ کر ایک بار سوئے ہوئے لوکاٹی کی طرف دیکھا جسکا منہ دوسری طرف تھا اور‬
‫اسکے خراٹوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ پھر ماریہ دوبارہ اس لفافے کی طرف مڑی اور وہ لفافہ اٹھا کر فرش پر بیٹھ گئی۔ ماریہ‬
‫نے ڈرتے ڈرتے وہ لفافہ کھوال کہ شاید اس میں سے اسے کوئی کام کی چیز مل جائے گی۔ مگر ماریہ کو تب بہت افسوس ہوا جب‬
‫اس لفافے میں سے ہولستان کی زمین کے کچھ کاغذات نکلے جو کسی انجان شخص نے اپنی کچھ مربے زمین لوکاٹی کے نام کی‬
‫تھی۔ اسکے عالوہ اور کوئی کام کی چیز اس لفافے سے برآمد نہیں ہوئی۔ ماریہ نے مایوسی کا شکار ہوکر وہ لفافہ واپس رکھ کر‬
‫الماری اسی طرف واپس بند کر دی اور چابیاں بھی واپس اسی دراز میں رکھ کر وہ دراز بھی احتیاط کے ساتھ بند کر دیا۔ اسکے‬
‫بعد ماریہ نے مزید کچھ جگہوں کی تالشی لی مگر ماریہ کو کوئی ایسی چیز نہیں ملی جو اسکے کسی کام آسکے۔‬

‫مایوس ہوکر ماریہ دوبارہ سے لوکاٹی کے ساتھ جا کر لیٹ گئی اور نجانے کب اسکی آنکھ لگی۔ دن کے ‪ 12‬بجے ماریہ کی آنکھ‬
‫کھلی تو وہ کمرے میں اکیلی ہی لیٹی تھی۔ لوکاٹی شاید کمرے سے نکل چکا تھا۔ کچھ دیر ماریہ یونہی اٹھ کر بیڈ پر بیٹھی رہی پھر‬
‫اٹھ کر واش روم چلی گئی اور فریش ہوکر واپس نکلی تو سامنے ‪ 2‬عورتیں کھانا لگا رہی تھیں۔ ماریہ کو واش روم سے نکلتا دیکھ‬
‫کر دونوں انتہائی احترام کے ساتھ آگےبڑھی اور باری باری ماریہ کا ہاتھ پکڑ کر چوما۔ ماریہ کو یہ سب عجیب لگا اور اس نے‬
‫اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کی مگر یہ تو یہاں کی روایت تھی۔ لہذا ان عورتوں نے ماریہ کو ویسے ہی عزت دی جیسے اس‬
‫عالقے کی روایات کے مطابق دی جاتی تھی۔ پھر انہوں نے ماریہ کو ناشتے کا بتایا کہ اسکا ناشتہ تیار ہے۔ ناشتے کی میز پر‬
‫نجانے کیا کچھ موجود تھا مگر ماریہ نے اس میں سے محض ‪ 2‬بریڈ کے پیس ایک ہاف فرائی انڈہ کھایا اور ایک جوس کا گالس‬
‫پی کر باہر چلی گئی۔ دونوں عورتیں ماریہ کے پیچھے پیچھے چلنے لگیں۔ ماریہ اسی بڑے حال کی طرف بڑھنے لگی تو ان‬
‫عورتوں نے ماریہ کو وہاں جانے سے منع کیا مگر ماریہ نے انکی ایک نا سنی اور اس حال میں چلی گئی‪ ،‬ماریہ کے سر پر نہ‬
‫تو دوپٹہ تھا اور نہ ہی گلے میں۔ اوپر سے اس نے قمیص بھی بہت فٹنگ والی پہن رکھی تھی جسمیں اسکے سینے کے ابھار بہت‬
‫واضح ہورہے تھے۔ ہال میں لوکاٹی ایک بڑی کرسی پر بیٹھا تھا‪ ،‬اسکے دائیں اور بائیں اسکے بیٹے کرم اور نذر بیٹھے تھے جب‬
‫کہ سامنے کچھ اور لوگ موجود تھے جو شاید ہولستان کے مختلف عالقوں کے ایم پی اے وغیر تھے۔‬

‫ماریہ کو دیکھتے ہی تمام مردوں نے اپنی نظریں جھکا لیں مگر اسکے احترام میں کھڑے بھی ہوگئے وہ جانتے تھے کہ جس‬
‫سائیڈ سے ماریہ آئی ہے وہ لوکاٹی کا کمرہ ہے‪ ،‬اور ان تک یہ بات بھی پہنچ چکی تھی کہ لوکاٹی صاحب نے ایک جوان لڑکی‬
‫سے شادی کر لی ہے۔ لہذا وہ سمجھ گئے تھے کہ یہ لوکاٹی کی نئی نویلی دلہن ہے جو انجانے میں اس طرف آنکلی ہے۔ ماریہ پر‬
‫نظر پڑتے ہی لوکاٹی نے قہر آلود نظروں سے ماریہ کو دیکحا اور بغیر کچھ بولے محض ہاتھ کے اشارے سے ماریہ کو واپس‬
‫جانے کو کہا ۔ ماریہ سمجھ گئی تھی کہ کچھ گڑ بڑ ہے اور لوکاٹی کی نظریں بھی ایسی تھیں جیسے وہ ابھی ماریہ کو جان سے‬
‫مار دے گا‪ ،‬اس لیے ماریہ چپ چاپ واپس آگئی۔ وہ دونوں خواتین بھی ڈرتے ڈرتے واپس ماریہ کے پاس پہنچ گئیں۔ ماریہ نے‬
‫کمرے میں جا ک ر ان سے پوچھا کہ یہ کون لوگ تھے تو انہوں نے کانپتی آواز کے ساتھ ماریہ کو بتایا کہ وہ ہولستان کی صوبائی‬
‫اسمبلی کے ممبران ہیں اور اپنے اپنے عالقوں کے سردار بھی ہیں لوکاٹی صاحب انڈیا سے واپس آئے ہیں تو وہ انکا استقبال‬
‫کرنے کے لیے ملنے آئے ہیں۔ پھر ایک عورت نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا کہ بی بی جی‪ ،‬اب ہماری خیر نہیں لوکاٹی صاحب‬
‫تو ہمیں جان سے ہی مار دیں گے ۔ ہمیں بچا لو کسی طرح۔ ماریہ نے حیران ہوکر پوچھا کیوں ایسی کیا بات ہوئی جو وہ تمہیں‬
‫جان سے مار دیں گے؟؟؟ اس عورت نے کہا بی بی جی یہاں پردے کی بہت سختی سے پابندی ہوتی ہے‪ ،‬اور آپ اس حالت میں‬
‫غیر مردوں کے سامنے چلی گئیں صاحب جی اس بے عزتی کو برداشت نہیں کر سکتے وہ ہمیں اس بات پر ۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے‬
‫کہ وہ عورت بات مکمل کرتی ایک دھماکے سے دروازہ کھال اور لوکاٹی انتہائی غصے میں اندر داخل ہوا‪ ،‬اندر آتے ہی اس نے‬
‫ایک عوت کو گردن سے پکڑ لیا اور اسکو زور سے دیواری کی طرف دے مارا۔ وہ عورت لڑکھڑاتی ہوئی دیوار سے جا لگی‬
‫اور معافیاں مانگنے لگی‪ ،‬جبکہ دوسری عورت بھی ڈری سہمی لوکاٹی کے سامنے ہاتھ جوڑ کر کھڑی ہوگئی‪ ،‬پھر لوکاٹی نے اس‬
‫نہں تم لوگوں کو تو‬‫عورت کو ایک گندی سی گالی دی اور بوال تجھے پتا نہیں ہمارے رسم و رواج کا؟؟ وہ تو نئی ہے اسکو علم ِ‬
‫پتا ہے تم نے میری عزت کو غیر مردوں کے سامنے ال کھڑا کیا تمہارے پورے خاندان کو میں آگ لگا دوں گا۔ یہ کہ کر لوکاٹی‬
‫نے اپنے ایک بیٹے کو اندر بالیا جو شاید باہر ہی کھڑا تھا۔ کرم اندر داخل ہوا تو اسکی نظریں بھی جھکی ہوئی تھیں‪ ،‬وہ بھی شاید‬
‫ماریہ کو اپنے باپ کی بیوی اور اپنی چھوٹی امی ہی سمجھ رہا تھا اور اسی طرح احترام بھی کر رہا تھا حاالنکہ وہ خود عمر میں‬
‫ماریہ سے کم سے کم بھی ‪ 20‬سال بڑا تھا۔‬

‫کرم اندر آیا تو لوکاٹی نے اسکو حکم دیا کہ ان دونوں عورتوں کے مردوں کو اور بچوں کو بیچ بازار لٹکا کر آگ لگا دی جائے۔‬
‫انہو ں نے ہماری عزت کو غیر مردوں کے سامنے ال کھڑا کیا۔ یہ حکم سن کر ماریہ کے پیروں تلے زمین نکل گئی تھی۔ اس سے‬
‫پہلے کہ کرم لوکاٹی کو کوئی جواب دیتا‪ ،‬ماریہ نے کرم کو گرجدار آواز میں کہا کہ تم ابھی باہر کھڑے ہو دوبارہ جب تمہارے‬
‫بابا بالئیں پھر اندر آنا۔ یہ سن کر لوکاٹی نے ماریہ کو بھی کھا جانے والی نظروں سے دیکھا مگر ماریہ نے اسکی نظروں کی‬
‫پرواہ کیے بغیر کرم کو دوبارہ سے باہر جانے کا اشارہ کیا تو اس بار وہ آرام سے باہر چال گیا۔ پھر ماریہ نے ان دونوں عورتوں‬
‫کو بھی باہر جانے کا کہا تو وہ بھی اپنی جان بچا کر باہر چلی گئیں مگر لوکاٹی اندر کھڑا غصے سے ہانپ رہا تھا اور ماریہ کو‬
‫کھا جانے والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ جب سب لوگ چلے گئے تو ماریہ بڑی نزاکت سے چلتی ہوئی لوکاٹی کی طرف گئی‬
‫اور اسکے کندھے پر سر رکھ کر بولی سوری ڈارلنگ‪ ،‬میری وجہ سے تمہیں آج اتنا غصہ آگیا‪ ،‬مگر یقین کرو اس میں ان دونوں‬
‫کی کوئی غلطی نہیں وہ تو مجھے روک رہی تھیں مگر جب میری آنکھ کھلی اور تم نہیں تھے کمرے میں تو میں پریشان ہوگئی‬
‫تھی‪ ،‬اور تمہیں ڈھونڈنے کے لیے بغیر کچھ سوچے سمجھے باہر آگئی۔ میرا تم سے وعدہ ہے کہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا‪ ،‬لیکن تم پلیز‬
‫ان ‪ 2‬عورتوں کو معاف کر دو‪ ،‬میں نہیں چاہتی کہ یہاں کے لوگ مجھ سے نفرت کرنے لگ جائیں۔ میں جانتی ہوں وہ تمہارے‬
‫سامنے آنکھ تک نہیں اٹھا سکتے مگر میرے آتے ہی اگر کسی کی میری وجہ سے جان لی جائے گی تو لوگ بھی مجھ سے نفرت‬
‫کریں گے اور مجھے خود کو بھی اپنے آپ سے نفرت ہونے لگے گی۔‬

‫ایک بار‪ ،‬صرف ایک بار انہیں معاف کردو‪ ،‬پھر تمہیں کبھی شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ اگر تم نے انہیں میری وجہ سے سزا‬
‫دی‪ ،‬تو میں سمجھوں گی کہ میں ہوں ہی منحوس۔ اتنا کہنا تھا کہ لوکاٹی کا دل پگھل گیا۔ وہ کہتے ہیں نا کہ عورت میں اگر نزاکت‬
‫ہو تو وہ مرد سے بڑے سے بڑا کام کروا لیتی ہے‪ ،‬اور یہاں تو نزاکت کے ساتھ ساتھ حسن بھی تھا اور جوان جسم بھی‪ ،‬اور پھر‬
‫مرد بھی لوکاٹی جیسا بوڑھا جوان جسم کا بھوکا اور ٹھرکی انسان‪ ،‬ماریہ کی ذرا سی ایکٹنگ سے اسکا دل پگھل گیا جو کبھی‬
‫لوگوں کی گردنیں کاٹتے ہوئے بھی نہیں پگھلتا تھا۔ لوکاٹی نے کہا ٹھیک ہے جان‪ ،‬بس تمہارے کہنے پر میں آج انہیں معاف کر‬
‫رہا ہوں‪ ،‬مگر ایک شرط پر۔۔۔۔ ماریہ خوش ہوتے ہوئے بولی مجھے تمہاری ہر شرط منظور ہے۔ اس پر لوکاٹی نے کہا کہ آج‬
‫رات تم مجھے منع نہ یں کرو گی‪ ،‬آج رات میں اپنی جان کو خوب جی بھر کر مزے کرواوں گا۔ ماریہ تھوڑی شرمانے کی ایکٹنگ‬
‫کرتے ہوئے بولی آپ بھی نہ‪ ، ، ، ، ،‬ٹھیک ہے مجھے منظور ہے آپکی شرط لیکن اس پر میری بھی ایک شرط ہوگی۔ لوکاٹی نے‬
‫خوش ہوتے ہوئے کہا وہ کیا؟؟؟ تو ماریہ بولی آج رات کا سیکس میری مرضی کے مطابق ہوگا جیسے میں کہوں گی ویسے ہی‬
‫آپ کریں گے۔ لوکاٹی چہکتا ہوا بوال مجھے منظور ہے ۔ اس پر ماریہ خوشی سے لوکاٹی سے لپٹ گئی اور اپنے تنے ہوئے مموں‬
‫کا لمس لوکاٹی کے سینے پر محسوس کرواتے ہوئے اسکی ایک پپی لے کر باہر کا دروازہ کھول دیا جہاں کرم سر جھکائے کھڑا‬
‫تھا اور اسکے پیچھے دونوں خواتین بھی تھیں۔ ماریہ باہر نکل کر کرم کے قریب گئی جو دروازے سے تھوڑا ہٹ کر کھڑا تھا۔‬
‫ماریہ نے کرم کو آواز دی تو وہ بوال جی بی بی جی‪ ،‬ماریہ اسکے منہ سے اپنے لیے جی بی بی جی سن کر کافی حیران ہوئی‬
‫اور پھر اپنی ہنسی رو کتے ہوئے بولی میری طرف دیکھو۔ کرم نے ڈرتے ڈرتے نظریں اٹھائیں تو ماریہ اسکو شہوت بھری‬
‫نظروں سے دیکھنے لگی۔ کرم یہ دیکھ کر تھوڑا نروس ہوگیا اور ماریہ کو بیچارگی کی نظروں سے دیکھنے لگا‪ ،‬کیونکہ کرم‬
‫کے نزدیک ماریہ چاہے اسکی بیٹیوں کے برابر ہو مگر رشتے میں اب وہ اسکی چھوٹی ماں تھی اور انکی روایات کے مطابق‬
‫ماں کا احترام اسی طرح ہوتا تھا۔ ماریہ نے کرم کی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور تھوڑی شوخی سے بولی میری لوکاٹی جی‬
‫سے بات ہوگئی ہے‪ ،‬تم ان عورتوں کو کچھ نہیں کہو گے اور نہ انکے گھر والوں سے بات کرو گے۔ کرم یہ سنکر حیران ہوکر‬
‫ماریہ کو دیکھنے لگا کیونکہ آج تک لوکاٹی نے کبھی اپنا فیصلہ نہیں بدال تھا۔ اور آج پہلی بار جب کسی کو مارنے کا حکم دیا‬
‫لوکاٹی نے تو انکو تھوڑی ہی دیر میں معاف بھی کر دیا۔ کرم کے لیے یقینا یہ حیران کن بات تھی مگر وہ صرف جی بی بی جی‬
‫ہی کہ سکا۔ یہ سنتے ہ ی دونوں عورتیں بھاگتی ہوئی آئیں اور ماریہ کے پاوں میں بیٹھ کر اسکے پاوں پکڑ کر اپنے سر اسکے‬
‫پاوں میں رکھ کر اسکا شکریہ ادا کرنے لگیں۔ یہ ماریہ کے لیے بالکل غیر متوقع تھی۔ وہ ایک دم پیچھے ہوئی اور نیچے بیٹھ کر‬
‫ان عورتوں کو کندھے سے پکڑ کر اپنے ساتھ کھڑا کیا اور آہستہ سے بولی اب تم لوگ جاو‪ ،‬بعد میں بات کرتے ہیں تمہارے‬
‫صاحب میرا انتظار کر رہے ہیں اندر۔ یہ سن کر وہ عورتیں ماریہ کا شکریہ ادا کرتی ہوئیں وہاں سے چلی گئیں جب کہ کرم‬
‫ویسے ہی کھڑا رہا۔‬
‫ماریہ نے کرم کو دیکھا اور بولی اب تمہارا بھی واپس جانے کا ارادہ ہے یا لوکاٹی اور میرے ساتھ کمرے میں ہی رکنے کا ارادہ‬
‫ہے۔ یہ کہ کر ماریہ ہنس پڑی جبکہ کرم شرمندہ ہوکر بغیر کچھ کہے واپس چال گیا اور ماریہ بھی اندر کمرے میں چلی گئی جہاں‬
‫لوکاٹی اپنے کپڑے تبدیل کر چکا تھا۔ ماریہ نے لوکاٹی سے پوچھا کہ کہاں کی تیاری ہے تو اس نے کہا کافی دن بعد واپس آیا ہوں‬
‫تو اپنے عالقے کا تھوڑا چکر لگانے جا رہا ہوں‪ ،‬تم فکر نہیں کرو جلدی واپس آوں گا۔ ماریہ نے کہا لیکن ایسے تو میں بور‬
‫ہوجاوں گی اکیلی۔ یہ سن کر لوکاٹی نے کہا بور کیوں ہوگی‪ ،‬تم اپنی دونوں بہووں سے ملو ان سے گپ شپ لگاو۔ یہ سن کر ماریہ‬
‫اور بھی حیران ہوئی کہ اسکی تو ابھی تک شادی نہیں ہوئی تو اسکی بہو کہاں سے آگئی‪ ،‬مگر پھر وہ سمجھ گئی کہ لوکاٹی کرم‬
‫اور نذر کی بیویوں کی بات کر رہا ہے۔ یہ کہ کر لوکاٹی کمرے سے نکنے لگا تو ماریہ نے کہا سنیے تو۔۔۔۔۔ لوکاٹی ماریہ کی بات‬
‫سن کر رک گیا اور بوال آپ ایسا کریں کرم کو بھی ادھر ہی چھوڑ جائیں تاکہ مجھے کوئی کام ہو تو میں اسے کہ سکوں ‪ ،‬اور وہ‬
‫مجھے میری یہ حویلی بھی دکھا دے گا۔۔۔ لوکاٹی یہ سن کر ہنسا اور بوال‪ ،‬ہاں ہاں یہ حویلی تم اپنی ہی سمجھو مہارانی‪ ،‬میں کرم‬
‫کو کہ دیتا ہوں وہ ادھر ہی رک جائے گا۔‬

‫یہ کہ کر لوکاٹی کمرے سے نکل گیا اور ماریہ کچھ دیر کے بعد دوبارہ سے کمرے سے باہر نکلی‪ ،‬اس مرتبہ کمرے کے باہر‬
‫ایک اور عورت کھڑی تھی جو ماریہ کے پیچھے پیچھے چلتی جا رہی تھی۔ ماریہ نے اس سے کرم کے بارے میں پوچھا تو اس‬
‫نے بتایا کہ وہ اپنے کمرے میں ہیں اس وقت۔ ماریہ نے اس عورت کو کہا کہ وہ اسے کرم کے کمرے تک لے جائے۔ وہ عورت‬
‫ماریہ سے آگے چلنے لگی اور مختلف راہداریوں سے ہوتی ہوئی وہ کرم کے کمرے تک چلی گئی اور کمرے کے باہر جا کر‬
‫رک گئی۔ ماریہ نے ایک مرتبہ اس سے دوبارہ پوچھا کہ کرم کا کمرہ یہی ہے تو اس نے ہاں میں سر ہالیا۔ ماریہ نے اب دروازے‬
‫پر ہلکا سا دباو ڈاال تو وہ آرام سے کھلتا چال گیا اور ماریہ بال جھجک اندر چلی گئی۔ اندر گئی تو سامنے ایک بیڈ پڑا تھا جس پر‬
‫کرم لیٹا ہوا سستا رہا تھا‪ ،‬اسکے بدن پر ایک شلوار تھی اور ایک بنیان۔ قمیص اس نے نہیں پہن رکھی تھی۔ جبکہ اسکے ساتھ ہی‬
‫کرسی پر شیشے کے سامنے ایک ادھیر عمر عورت تھی جو غالبا کرم کی بیوی تھی‪ ،‬اس نے شیشے میں ماریہ کو یوں کمرے‬
‫میں آتے دیکھا تو ایک دم کھڑی ہوگئی اور غصے سے بولی کون ہو تم اور تمہاری مجال کیسے ہوئی ہمارے کمرے میں آنے‬
‫کی؟؟؟ اسکی گرجدار آواز سن کر کرم کی بھی آنکھ کھل گئی اس نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ ہٹایا اور سیدھ اٹھ کر بیٹھ گیا‪ ،‬جب‬
‫اسکی نظر ماریہ پر پڑی تو وہ ایک دم بیڈ سے اتر گیا اور بوال ارے بی بی جی آپ۔۔۔ یہ کہ کر وہ خود ہاتھ باندھ کر سر جھکا کر‬
‫کھڑا ہوگیا جبکہ اسی حالت میں کھڑے کھڑے اس نے اپنی بیوی کو مخاطب کیا‪ ،‬زلیخا معافی مانگ بی بی جی سے اپنی گستاخی‬
‫کی۔ تیری ہمت کیسے ہوئی بی بی جی کے سامنے اونچی آواز میں بات کرنے کی‪ ،‬زلیخا اب حیرت بھری نظروں سے کبھی ماریہ‬
‫اور کبھی کرم کو دیکھ رہی تھی‪ ،‬اسکی سمجھ میں نہیں آرا تھا کہ یہ کون عورت ہے جسکے سامنے کرم یوں احترام کے ساتھ‬
‫کھڑا ہے اور اسکی کالس لینے کی بجائے الٹا اپنی بیوی کو ہی معافی مانگنے کا کہ رہا ہے۔ اس سے پہلے کہ زلیخا کچھ بولتی‪،‬‬
‫ماریہ خود ہی بول پڑی‪ ،‬ارے نہیں نہیں‪ ،‬معافی تو مجھے مانگنی چاہیے جو میں یوں بغیر بتائے کمرے میں آگئی یہ کہ کر وہ‬
‫آگے بڑھی اور زلیخا کو اپنے گلے سے لگا کر اسکے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ ماریہ اپنی اس حرکت پر خود بھی حیران تھی کہ وہ‬
‫اپنے سے دگنی عمر کی عورت کے سر پر پیار دے رہی تھی‪ ،‬شاید اس حویلی کی روایات کا اثر ماریہ پر بھی ہوگیا تھا اور وہ‬
‫بھی اپنے آپ کو اس حویلی کی مالکن اور لوکاٹی کے بعد سب سے زیادہ معزز شخصیت سمجھنے لگی تھی۔ اس دوران کرم نے‬
‫ساتھ بیڈ پر پڑی اپنی قمیص بھی پہن لی تھی مگر وہ ابھی تک نظریں جھکائے کھڑا تھا اس نے اب اپنی بیوی زلیخا کو بھی بتا دیا‬
‫تھا کہ یہ کوئی عام عورت نہیں بلکہ بابا سائیں کی نئی بیوی ہیں‪ ،‬یہ سنتے ہی زلیخا بھی احتراما ماریہ کے سامنے ہاتھ باندھ کر‬
‫کھڑی ہوگئی تھی اور اس نے اپنی گستاخی کی معافی بھی مانگ لی تھی مگر ماریہ نے اسے بڑے پیار سے کہا ارے نہیں کوئی‬
‫بات نہیں۔ یہ کہ کر ماریہ کرم کی طرف گئی اور اسکے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گئی تو کرم سائیڈ پر ہوکر کھڑا ہوگیا‪،‬‬

‫ماریہ نے ز لیخا کو بھی اپنے پاس بال لیا اور اس سے باتیں کرنے لگی‪ ،‬جبکہ کرم کو ماریہ نے بتا دیا تھا کہ ابھی وہ حویلی‬
‫دیکھنا چاہتی ہے تو کرم اسکو حویلی دکھائے گا۔ کرم نے ادب سے جواب دیا جی بابا سائیں مجھے یہ حکم دے کر ہی گئے ہیں۔‬
‫آپ فکر نہ کریں آپکو ساری حویلی دکھا دوں گا۔ پھر ماریہ نے زلیخا سے اسکے بچوں کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ‬
‫اسکی صرف ایک ہی بیٹی ہے اور اسکی عمر ‪ 15‬سال ہے اور اس وقت وہ حویلی میں موجود سکول گئی ہوئی ہے جہاں خاص‬
‫طور پر استاد آکر حویلی کی لڑکیوں کو تعلیم دیتے تھے۔ پھر ماریہ نے کچھ دیر زلیخا سے ادھر ادھر کی باتیں کیں اور پھر کرم‬
‫کو کہا کہ چلو تم مجھے حویلی دکھاو اب۔ کرم نے کہا چلیں بی بی جی میں آپکو حویلی دکھاتا ہوں۔ ماریہ زلیخا سے ملی اور‬
‫کمرے سے نکل گئی جبکہ کرم اسکے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔ مختلف راہداریوں سے ہوتا ہوا کرم اسی بڑے حال میں آگیا جہاں‬
‫کچھ دیر پہلے لوکاٹی اسمبلی کے ممبران سے مل رہا تھا۔‬

‫کرم نے ماریہ کو بتایا کہ یہ ہمارا مہمان خانہ ہے‪ ،‬جو بھی مہمان آتے ہیں وہ اسی کمرے میں بیٹھتے ہیں‪ ،‬جبکہ اسکے ساتھ ہی‬
‫ایک خواتین کے لیے بھی مہمان خانہ ہیں‪ ،‬خواتین لوکاٹی صاحب سے اس علیحدہ کمرے میں ملتے ہیں۔ کرم بار بار ماریہ کو بی‬
‫بی جی کہ کر بال رہا تھا جو ماریہ کو عجیب لگ رہا تھا‪ ،‬ماریہ نے کرم کو اب کی بار ٹوک دیا اور کہا تم مجھے بی بی جی نہیں‬
‫کہو گے بلکہ ماریہ کہ کر ہی بالو‪ ،‬میرا نام ماریہ ہے۔ یہ سن کر کرم نے کہا نہیں بی بی جی ایسا کیسے ہوسکتا ہے۔ ماریہ نے‬
‫کہا میں کہ رہی ہوں نہ‪ ،‬اگر تم میری اتنی ہی عزت کرتے ہو تو میری بات بھی مانو‪ ،‬میری ابھی اتنی عمر نہیں کہ تم مجھے بی‬
‫بی جی کہو‪ ،‬باقی لوگوں کے سامنے تم بے شک مجھے بی بی جی کہ لو مگر اکیلے میں مجھے ماریہ کہ کر ہی بالو گے۔ اب‬
‫کرم نے جھجکتے ہوئے کہا جی ٹھ یک ہے ماریہ جی۔۔۔۔ ماریہ ہنسی اور بولی‪ ،‬ماریہ جی نہیں ‪ ،‬صرف ماریہ۔۔۔۔۔۔ اب کرم نے نے‬
‫دوبارہ کہا جی ٹھیک ہے۔۔۔ ما ما۔۔۔۔۔۔ ما ریہ۔۔۔۔۔۔ ماری اب کی بار ہنسی اور کرم کا ہاتھ پکڑ کر بولی چلو مجھے باقی حویلی بھی‬
‫دکھاو‪ ،‬اور میرے ساتھ یوں نہ پھرو جیسے میں تمہاری مالکن ہوں‪ ،‬تم اور میں سمجھو دوست ہیں۔‬

‫اب کی بار کرم ہکال ہکا کر بوال‪ ،‬نہیں ماریہ۔۔۔ ایسا نہیں ہوسکتا آپ ہمارے بابا سائیں کی عزت ہو۔ تو ماریہ نے کہا تو کیا ہوا؟؟؟‬
‫میں کونسا تمہیں کہ رہی ہوں کہ تم مجھ پر بری نظر رکھو‪ ،‬بس دوستی ہی کا تو کہ رہی ہوں‪ ،‬تاکہ میں اچھے سے اس حویلی کو‬
‫گھوم پھر کر دیکھ سکوں۔ اب ماریہ نے کرم کی بات نہیں سنی اور اسکے بازو میں بازو ڈال کر اسکے ساتھ ساتھ چلنے لگی۔ کرم‬
‫بھی چپ چاپ ایسے ہی چلنے لگا‪ ،‬مگر اسکا جسم کانپ رہا تھا ‪ ،‬شاید وہ ڈرا ہوا تھا بہت زیادہ۔ ماریہ نے یہ محسوس کیا تو اس‬
‫سے پوچ ھا ارے تم تو اس حویلی کے وارث ہو‪ ،‬تم کیوں ڈر رہے ہو؟؟؟ کرم اب ڈرتے ہوئے بوال باریہ بی بی آپ بابا سائیں کی‬
‫عزت ہو‪ ،‬اگر کسی نے آپکو اور مجھے اس طرح دیکھ لیا تو آپکی بھی گردن اتار دی جائے گی اور مجھے بھی زندہ نہیں چھوڑا‬
‫جائے گا۔ یہ سنتے ہی ماریہ کرم سے تھوڑا دور ہوگئی۔ وہ بھی ڈر گئی تھی‪ ،‬اور ویسے بھی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہاں کا‬
‫ماحول کچھ زیادہ ہی مختلف ہے۔‬

‫اب ماریہ کرم سے کچھ فاصلہ رکھے اسکے ساتھ ساتھ حویلی کے مختلف حصے دیکھ رہی تھی۔ یہ بہت بڑی حویلی تھی اور‬
‫پوری حویلی دیکھتے دیکھتے ماریہ کو ایک گھنٹہ ہوچکا تھا مگر ابھی تک حویلی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ‪ ،‬اب ماریہ اور کرم حویلی‬
‫کی عمارت سے باہر مختلف باغات دیکھ رہے تھے کچھ میں محض پھول دار پودے تھے تو کچھ میں پھلدار درخت بھی تھے۔‬
‫یہاں پر ماریہ ایک بار پھر کرم کے قریب ہوگئی تھی کیونکہ یہاں دور دور تک کوئی بندہ نہیں تھا‪ ،‬مگر کرم پھر بھی گھبرا رہا‬
‫تھا اور ماریہ کی قربت سے تھوڑا ہچکچا رہا تھا۔ اس دوران ماریہ نے کرم سے اسکی بیوی کے بارے میں بات چیت کی اور‬
‫اسکے بچوں کے بارے میں بھی پوچھا کہ آخر ایسا کیوں کہ اسکی ایک ہی بیٹی ‪ ،‬مزید بچے کیوں نہیں؟ خاص طور پر ایسے‬
‫بڑے لوگ وں کو تو اپنے وارث کی بہت طلب ہوتی ہے۔ تو کرم نے اسکو بتایا کہ زلیخا اسکی تیسیری بیوی ہے۔ اس سے پہلے‬
‫ایک بیوی سے تو اوالد ہوئی ہی نہیں اور دوسری بیوی سے ‪ 2‬بار اوالد ہوئی مگر وہ بدقسمتی سے ایک ماہ سے زیادہ اندہ نہیں‬
‫رہ سکے۔ پھر تیسری شادی زلیخا سے ہوئی تو اسکی ایک بیٹی ہوئی جسکا نام جنت رکھا گیا اور اسکے بعد زلیخا ‪ 2‬بار حاملہ‬
‫ہوئی مگر دونوں بار بچہ پیٹ میں ہی ضائع ہوگیا۔ یہ سن کر ماریہ کو بہت افسوس ہوا اور اس نے کرم کو تسلی دی۔‬
‫باغات سے نکل کر جب ماریہ واپس حویلی کی جانب جانے لگی تو وہاں کچھ عورتوں کا رش تھا‪ ،‬دور سے ہی عورتوں کو دیکھ‬
‫کر کرم ماریہ سے کچھ دور ہوگیا تھا اور ماریہ کو بھی محتاط ہونے کا کہ دیا تھا۔ عورتوں کے قریب پہنچ کر کرم نے گرجدار‬
‫آواز میں پوچھا کہ وہ کیوں آئی ہیں یہاں؟؟؟ تو انکے ساتھ کھڑے ایک شخص نے اپنا سر جھکائے ہوئے کہا ادا سائیں یہ گھوٹ‬
‫ک ی عورتیں ہیں‪ ،‬انکو پتا لگا ہے کہ وڈے سائیں جی کی بی بی جی آئی ہیں تو یہ ان کا دیدار کرنے کے لیے آئی ہیں۔ اس مرد نے‬
‫ایک لمحے کے لیے بھی اپنی آنکھیں اوپر نہیں اٹھائیں۔ جبکہ اسکے ساتھ جو عورتیں موجود تھیں انہوں نے بھی اپنے سروں پر‬
‫چادریں اوڑھ رکھی تھیں اور گھ ونگٹ نکال رکھے تھے۔ اس پر کرم نے ماریہ کی طرف دیکھا اور بولی کہ کیا آپ ان سے ملنا‬
‫چاہتی ہیں؟؟ تو ماریہ نے کہا ہاں کیوں نہیں۔ تو کرم نے عورتوں کو مخاطب کر کے کہا کہ ایک ایک عورت آکر بی بی جی کو‬
‫مل لے اور جلدی جلدی نکلیں یہاں سے یہ کہ کر کرم بھی ایک سائیڈ پر جا کر کھڑا ہوگیا اور دوسرے شخص سے باتیں کرنے‬
‫لگا‪ ،‬جبکہ وہ عورتیں الئن بنا کر ایک ایک کر کے ماریہ کے پاس آتیں‪ ،‬اسکا ہاتھ پکڑ کر چومتیں اور اسکو دیکھ کر صدقے‬
‫واری جاتیں اور اسکی خوبصورتی کی تعریف اور بڑے سائیں جی کی اور بی بی کی جوڑی صدا سالمت رہنے کی دعا دیکر‬
‫آگے نکل جاتیں۔ جب ‪ 7 ، 6‬عورتیں ایسے ہی مل کر گئیں تو ایک عورت کچھ عجیب سے انداز میں آگے بڑھی اور ماریہ کی‬
‫طرف آتے ہوئے اس نے ہلکی سی گردن گھما کر کرم اور دوسرے شخص کو دیکھا اور پھر الئن سے ہٹ کر کچھ اس طرح آگے‬
‫بڑھی کہ اسکی پیٹھ اب کرم کی طرف تھی۔ آگے آ تے ہی اس نے اپنا گھونگٹ ہلکا سا اوپر اٹھایا اور ماریہ کے ہاتھ چومنے کی‬
‫بجائے اپنی قمیص کے گلے میں ہاتھ ڈال کر اپنے برا سے ایک کاغذ کا چھوٹا سا لفافہ نکال کر بولی تانیہ اپنا خیال رکھنا‪ ،‬یہ جگہ‬
‫بہت خطرناک ہے۔ اس عورت کے منہ سے اپنا نام سن کر ماریہ ایک دم حیران رہ گئی‪ ،‬یہاں تو سب اسکو ماریہ کے نام سے ہی‬
‫جانتے تھے تو پھر آخر یہ کون تھی جو اسکو تانیہ کہ کر بال رہی تھی۔ اس عورت نے اب ماریہ کو اپنا چہرہ دکھایا اور بولی میں‬
‫میجر علینہ ہوں‪ ،‬اور مجھے میجر دانش نے خاص طور پر تمہیں پیغام دینے کے لیے بھیجا ہے‪ ،‬یہ کہ کر اس عورت نے اپنا ہاتھ‬
‫ماریہ کی قمیص میں ڈال کر وہ لفافہ اسکے برا میں پھنسا دیا اور پھر دوبارہ سے اپنا گھونگٹ گرا کر جلدی جلدی تیز تیز قدموں‬
‫سے باہر جانے والی عورتوں کے پیچھے پیچھے چلدی۔‬

‫اب ماریہ کو کافی سسپینس تھا کہ آخر یہ عورت کون تھی ؟؟ کیا اسکو واقعی میجر دانش نے بھیجا ہے یا پھر یہ کوئی اور چکر‬
‫ہے؟؟؟ اور جو لفافہ اس نے ماریہ کے برا میں ڈاال ہے اس پر کیا پیغام لکھا ہوگا؟؟؟ اب ماریہ جلدی جلدی ان عورتوں سے ملکر‬
‫فارغ ہوئی اور کرم کو واپس حویلی چلنے کو کہا۔ حویلی میں جاتے ہی ماریہ کو اب اپنے کمرے میں جانے کی جلدی تھی‪ ،‬مگر‬
‫اس سے پہلے کے وہ کمرے میں جاتی‪ ،‬سامنے سے جنت آتی دکھائی دی‪ ،‬اس نے آتے ہی اپنے بابا کرم کے ہاتھ چومے اور کرم‬
‫نے اسکے سر پر پیار دیا‪ ،‬پھر اس نے ماریہ کو دیکھا اور کرم کی طرف دیکھتے ہوئے بولی‪ ،‬بابا جانی یہ بی بی جی ہیں نا؟؟؟‬
‫کرم نے کہا ہاں بیٹا یہی بی بی جی ہیں آپکی۔ یہ سنتے ہی جنت آگے بڑھی اور ماریہ سے لپٹ گئی ماریہ نے بھی اسکو پیار کیا۔‬
‫پھر جنت ماریہ کو کھینچتی ہوئی اپنے کمرے میں لیجانے لگی۔ کرم بھی اسکے ساتھ ساتھ کمرے میں داخل ہوگیا۔۔ جنت ‪ 15‬سال‬
‫کی بچی تھی مگر اسکا جسم کمال کا تھا۔ ابھرے ہوئے سینے کے ابھار سے وہ کم سے کم ‪ 18‬سال کی جوان عورت لگتی تھی‬
‫اور اسکے باہر نکلے ہوئے چوتڑ کسی بھی مرد کو چودنے کی دعوت دینے کے لیے کافی تھے۔ ماریہ دل ہی دل میں جنت کے‬
‫نسوانی حسن کی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئی مگر کرم کے سامنے وہ اسکے کچھ کہ نہیں سکتی تھی۔ جنت سے کچھ دیر باتیں‬
‫کرنے کے بعد کرم نے جنت کو کہا کہ میں بی بی جی کو باقی کی حویلی دکھا دوں تم اپنی اماں سائین کے کمرے میں جاو۔‬

‫یہ سن کر ماریہ نے جنت کو پیار کیا اور اسکے کمرے سے باہر نکل آئی جبکہ کرم اب ماریہ کو لیے ایک راہداری سے ہوتا ہوا‬
‫سیڑھیاں چڑھنے لگا‪ ،‬ماریہ بھی اسکے پیچھے پیچھے پیچھے سیڑھیاں چڑھتی گئی‪ ،‬یہاں پر زیادہ لوگ موجود نہیں تھے مجھ‬
‫ایک دو نوکر چاکر ہی تھی جو اپنا سر جھکا اپنے کاموں میں مصروف تھے۔ یہاں کرم نے ماریہ کو ٹیریس بھی دکھایا جہاں مسلح‬
‫افراد ہاتھ میں گن لیے مستند کھڑے تھے اور اسکے عالوہ مختلف کمرے بھی دکھائے اور انکے بارے میں بتایا کہ کن لوگوں کے‬
‫لیے کونسا کمرہ مخصوص ہے۔ یہاں ایک بڑی الئبریری بھی تھی جس میں مختلف کتابیں اور ناول موجود تھے اور ایک بڑا ہال‬
‫بھی تھا جس میں جالیوں سے نیچے واال ہال کمرہ نظر آتا تھا جس میں لوکاٹی نے لوگوں سے مالقات کی تھی جسکو کرم نے‬
‫مہمان خانہ بتایا تھا۔ آس پاس کوئی شخص نہ ہونے کی وجہ سے کرم اب کافی ریلیکس تھا اور ماریہ سے کافی فری ہوکر بات کر‬
‫رہا تھا۔ اس دوران ماریہ نے محسوس کیا کہ کرم موقع ملتے ہی اپنی نظریں ماریہ کے بڑے بڑے مموں پر گاڑھ دیا تھا اور جب‬
‫مار یہ کرم کی طرف دیکھتی تو وہ اپنی نظریں ہٹا لیتا۔ ماریہ نے محسوس کر لیا تھا کہ اسکی ٹائٹ فٹنگ والی قمیص میں اسکا‬
‫فِگر بہت قیامت ڈھا رہا تھا اور کرم کو بار بار مجبور کر رہا تھا کہ وہ اپنی نظروں کو ماریہ کے ان قیامت خیز مموں سے خیرہ‬
‫کرے۔ مگر ماریہ نے کرم کو اس بات سے نہیں روکا‪ ،‬بلکہ اب وہ جان بوجھ کر کرم کو موقع دے رہی تھی کہ وہ ماریہ کے‬
‫مموں کو دیکھ سکے اسکے ساتھ ساتھ ماریہ کرم سے آگے جا کر اپنی پیٹھ کرم کی طرف کر کے ایک ٹیبل کا سہار لیکر جھک‬
‫بڑ چوتڑ کرم کے لن‬ ‫کر بھی کھڑی ہوگئی اور ٹیبل پر پڑی کتاب کو الٹ پلٹ کر دیکھنے لگی۔ اس پوزیشن میں ماریہ کے بڑے َ‬
‫کو کھڑا ہونے پر مجبور کر رہے تھے اور کرم کی نظریں ماریہ کی ٹائٹ قمیص سے نظر آنے والی ماریہ کے چوتڑوں کی‬
‫درمیان الئن پر تھیں۔ وہ دل ہی دل میں اپنے باپ کی قسمت پر رشک کر رہا تھا جسکی قسمت میں اتنی گرما اور سیکسی لڑکی‬
‫آئی تھی جبکہ کرم کو یا تو اپنی ‪ 35‬سالہ بیوی کے جسم سے کام چالنا پڑتا تھا یا پھر گوٹھ کی عورتوں سے کام چالتا تھا وہ بھی‬
‫کوئی اتنی خوبصورت نہ تھیں۔ جبکہ اس کے باپ کو اس عمر میں اتنی حسین اور سیکسی لڑکی مل گئی تھی۔ ماریہ کچھ دیر اسی‬
‫طرح اپنی گانڈ دکھا نے کے بعد سیدھی کھڑی ہوئی اور پھر سے کرم سے باتیں کرنے لگی اور حویلی کی مختلف جگہیں دیکھنے‬
‫لگی اس دوران وہ کرم سے اور زیادہ قریب ہوگئی تھی اور کبھی کبھی دونوں کے جسم آپس میں ٹکراتے تو ماریہ کو احساس ہوتا‬
‫کہ کرم کا جسم کافی گرم ہے۔ جبکہ کرم بھی دل ہی دل میں سوچتا کہ اتنا گرم اور مالئم جسم اگر چودنے کے لیے مل جائے تو‬
‫مزہ آجائے۔‬

‫پوری حویلی دیکھ لینے کے بعد ماریہ نے کرم کو کہا کہ وہ اسے واپس اسکے کمرے میں چھوڑ آئے۔ تو کرم نہ چاہتے ہوئے‬
‫بھی ماریہ کو اسکے کمرے تک چھوڑ آیا۔ کمرے میں جاتے ہی ماریہ نے دروازہ بند کر لیا اور کرم اپنا سا منہ لیکر واپس اپنے‬
‫کمرے میں چال گیا۔ مگر وہ خوش تھا کہ اس نے کچھ دیر ہی سہی مگر اتنی سیکسی لڑکی کے جسم کے ابھار دیکھ لیے۔ کرم کے‬
‫جاتے ہی ماریہ نے کمرے کا جائزہ لیا‪ ،‬اسکے عالوہ کمرے میں اور کوئی نہیں تھا۔ اب ماریہ نے اپنی قمیص میں ہاتھ ڈال کر‬
‫اپنے برا سے کاغذ کا وہ لفافہ نکاال اور اسے کھوال تو اس میں سے ‪ 2‬پالسٹ کی چھوٹی چھوٹی تھیلیاں نکلیں اور ایک چھٹی سی‬
‫پرچی تھی۔ ماریہ نے وہ پرچی کھول کر پڑھنا شروع کی تو اس میں محض اتنا لکھا تھا "دونوں حکومت حاصل کر کے طاقتور‬
‫بننا چاہتے ہیں‪ ،‬دونوں کو حاکم کے خالف کرو۔ "‬

‫اسکے بعد ماریہ نے وہ چھوٹی چھوٹی تھیلیاں دیکھیں تو ان میں سے ایک پر زہر لکھا تھا جبکہ دوسری پر بے ہوشی کی دوا‬
‫لکھا ہوا تھا۔ ماریہ سمجھ گئی کہ یہ زہر ماریہ کے لیے بھیجا گیا ہے کہ اگر وہ کسی مشکل میں پھنسے تو ان ظالموں کا ظلم‬
‫برداشت کرنے کی بجائے زہر کھا لے ۔ جبکہ بے ہوشی کی دوا اسکی ضرورت کے لیے تھی کہ اگر حویلی میں کسی کو بے‬
‫ہوش کرنا پڑے تو وہ دوا ماریہ کے کام آسکے۔ جب کہ دوسرا پیغام بھی ماریہ سمجھ گئی تھی دونوں سے مراد لوکاٹی کے دونوں‬
‫بیٹے تھے اور میجر دانش نے ماریہ کو بتایا تھا کہ یو دونوں ہی کسی نہ کسی طرح لوکاٹی کی بجائے خود حکومت حاصل کرنا‬
‫چاہتے ہیں اور اگر انکو لوکاٹی کے خالف کر دیا جائے تو میجر دانش اپنی کوئی گیم چال سکتا ہے۔ ماریہ کافی دیر کمرے میں‬
‫بیٹھ رہی اور سوچتی رہی کہ آخر کیسے دونوں کو باپ کے خالف کیا جا سکتا ہے اور کیسے انکو یہ یقین دالیا جا سکتا ہے کو‬
‫انہیں حکومت مل سکتی ہے۔ کافی دیر سوچنے کے بعد ماریہ کے ذہن میں صرف ایک ہی بات آئی کہ ہر مرد عورت کے جسم کا‬
‫پیاسا ہوتا ہے‪ ،‬اور آج ماریہ نے دیکھ بھی لیا تھا کہ کرم جو بظاہر ماریہ کی طرف آنکھ اٹھا کرنہیں دیکھتا تھا‪ ،‬موقع ملنے پر‬
‫اسکی نظریں ماریہ کے مموں پر تھیں جو قمیص میں چھپے ہوئے تھے۔ قمیص میں چھپے ہوئے مموں پر کرم اس طرح مرا جا‬
‫رہا تھا تو جب وہ ان مموں کو اپنے سامنے دیکھ لے گا تو اسکا کیا حال ہوگا۔ ماریہ نے اب مکمل پالن بنا لیا تھا کہ اسے کیا کرنا‬
‫ہے۔ اور اب وہ اپنے پالن کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ضروری اقدامات کر رہی تھی۔‬
‫دیپیکا پڈوکون نے کمرے کے کی ہول میں چابی گھمائی اور ہینڈل گھما کر دروازہ اندر کی طرف دھکیال تو دروازہ کھلتا چال گیا۔‬
‫دیپیکا نے کیپٹں سنجے شرما کو اندر آنے کا اشارہ کیا اور جیسے ہی کیپٹن اندر داخل ہوا دیپیکا نے کمرہ پیچھے سے بند کر دیا‬
‫اور کنڈی لگا کر کیپٹن کی طرف بڑھی ۔ کیپٹن کے قریب جا کر دیپیکا پڈوکون رک گئی اور بولی ہاں اب بتاو کرنل وشال نے‬
‫تمہیں یہاں کیوں بھیجا ہے؟ اور تم کون ہو؟؟؟ اس پر کیپٹن نے بتایا کہ میرا نام سنجے شرما ہے اور میں انڈین آرمی میں کیپٹن‬
‫کے عہدے پر ہوں۔ اور کرنل وشال کی ٹیم میں بہت اہم خدمات سر انجام دے رہا ہوں۔ کرنل صاحب پچھلے کافی دنوں سے ایک‬
‫پاکستانی میجر جو اس وقت انڈیا میں موجود ہے اسکو پکڑنے کی کوشش کر رہے تھے‪ ،‬مگر اب اچانک انکو پاکیشا جانا پڑ گیا‬
‫ہے اور وہ اپنا میجر دانش کو پکڑنے کا مشن ادھورا چھوڑ گئے ہیں کیونکہ پاکیشا میں کچھ زیادہ ضروری کام ہیں۔ اور آپ نے‬
‫بھی کل رات ہی پاکیشا جانا ہے تو کرنل صاحب نے خاص طور پر ہدایت کی ہے کہ میں آپکے ساتھ ہی پاکیشا جاوں گا۔ اس پر‬
‫دیپیکا نے کہا مگر تم میرے ساتھ کیسے جا سکتے ہو؟ میری تو ساری تیاری مکمل ہے اور ہماری فالئٹ بھی فل ہے ۔ اس پر‬
‫کیپٹن سنجے شرما نے دیپیکا کو کہا میم آپکے ساتھ آپکا ایک مالزم مرلی بھی جا رہا ہے۔ میں آج رات مرلی کو انڈر گراونڈ کر‬
‫دوں گا اور خود مرلی بن کر اسی کے ویزے اور پاسپورٹ پر آپکے ساتھ جاوں گا۔‬
‫اس پر دیپیکا نے کہا مگر مج ھے تو کرنل وشال نے ایسی کوئی بات نہیں بتائی۔ کیپٹن نے کہا اسی لیے تو انہوں نے مجھے آپکے‬
‫پاس بھیجا ہے‪ ،‬انہیں اچانک ہی پاکیشا جانا پڑ گیا ہے‪ ،‬پہلے انہوں نے اپنا مشن اگلے ہفتے پایہ تکمیل پہنچانا تھا مگر اب انہوں‬
‫نےا چانک ہی فیصلہ کیا ہے کہ مشن مکمل کرنے کا صح یح وقت آگیا ہے اب مزید دیر نہیں کی جا سکتی‪ ،‬اسکے ساتھ ساتھ آپ‬
‫اپنی فلم کی ایک کاپی بھی مجھے دیں گی‪ ،‬میں وہ فلم خود بھی دیکھوں گا اور اپکے ساتھ پاکیشا جانے کے بعد آپکی فلم کو جلدی‬
‫ریلیز کروانے کا کام بھی میں ہی کروں گا۔ جیسے ہی آپکی فلم ہولستان کے سینما گھروں میں ریلیز ہوگی اسی رات کرنل وشال‬
‫پاکیشا پر اپنا آخری وار کریں گے اور اسکو ایک صوبے سے محروم کر دیں گے۔ دیپیکا مشکوک نظروں سے کیپٹن کو دیکھ‬
‫رہی تھی جیسے اسے اسکی باتوں پر یقین نہ ہو۔ کیپٹن نے اس بات کو محسوس کر لیا تھا‪ ،‬کیپٹن نے کہا میم ہمارے پاس زیادہ‬
‫و قت نہیں ہے‪ ،‬کل ہر صورت میں ہمیں پاکیشا جانا ہے‪ ،‬کرنل وشال آپکو وہیں ملیں گے‪ ،‬اگر آپ چاہیں تو آرمی ہیڈ کوارٹر سے‬
‫کرنل وشال کے بارے میں پتا کر سکتی ہیں کہ وہ ہندوستان میں ہیں یا پاکیشا۔ مگر اس سے پہلے اپنی شناخت ضرور کروائیے گا‬
‫وگرنہ آرمی ہیڈ کوارٹر سے آپکو ہرگز کوئی معلومات نہیں ملیں گی۔ کیپٹن کے لہجے کا یقین دیکھ کر اب دیپیکا پڈوکون کو یقین‬
‫ہو چال تھا کہ یہ سچ کہ رہا ہے۔ مگر پھر دیپیکا پڈوکون نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کہ اگر اتنی ہی ایمرجنسی ہے اور تمہیں‬
‫کرنل وشال نے میرے لیے بھیجا ہے تو تم وہاں سنی لیون کے ساتھ کیا کر رہے تھے؟؟؟؟‬

‫دیپیکا کی یہ بات سن کر کیپٹن شرما مسکرایا اور بوال آپکوکافی دیر سے ڈھونڈنے کی کوشش کر رہا تھا مگر آپ مل نہیں رہی‬
‫تھیں‪ ،‬تو نیچے ہال میں سنی جی سے مالقات ہوگئی‪ ،‬پھر آپکو تو پتا ہی ہے انکا‪ ،‬ایک تو وہ خود بہت سیکسی ہیں اوپر سے انکی‬
‫ڈری سنگ ایسی ہوتی ہے کہ کوئی بھی مرد انکی طرف کھنچا چال جاتا ہے۔ باتوں باتوں میں ہی انکے ماضی کے بارے میں بھی‬
‫بات ہوئی‪ ،‬آپکو تو معلوم ہی ہوگا کہ بالی ووڈ سے پہلے وہ کیسے واہیات فلمیں کرتی تھیں‪ ،‬پھر انہیں جب پتا چال کہ میں انڈین‬
‫آرمی میں ہوں تو انکے اندر کی وہی پورن سٹار جاگ اٹھی اور انہوں نے سوچا کہ آج کسی آرمی والے کے ساتھ بھی سیکس کا‬
‫مزہ لیا جائے‪ ،‬تبھی کسی نے مجھے بتایا کہ دیپیکا پڈوکون کچھ دیر پہلے اوپر والی منزل پر تھیں تب سنی جی مجھے لیکر اوپر‬
‫آگئیں اور بولیں کہ آپ واش روم میں ہونگی‪ ،‬میں واش روم تک آپکو ڈھونڈنے آیا تھا‪ ،‬مگر آگے سنی جی کے ارادے کچھ اور‬
‫تھے‪ ،‬اب آپ تو جانتی ہی ہیں کہ اگر کوئی عورت خود ہی تہیہ کر لے کسی مرد سے سیکس کرنے کا تو اس مرد کے لیے کتنا‬
‫مشکل ہوتا ہے انکار کرنا‪ ،‬اور اگر عورت بھی سنی جی جیسی ہو تو پھر تو نا ممکن ہے انکار۔‬

‫کیپٹن کی یہ بات سنکر دیپیکا پڈوکون نے برا سا منہ بنایا اور بولی اب ایسی بھی کوئی بات نہیں اس موٹی میں۔ خیر اب بتاو آگے‬
‫کا کیا پروگرام ہے؟؟؟ کیپٹن سنجے نے کہا پروگرام یہی ہے کہ آپ مجھے اپنی فلم کی کاپی دیں گی‪ ،‬میں اس فلم کو دیکھوں گا‬
‫اور اسکے مطابق کچھ پالن کروں گا اور اس فلم کی کاپی ہولستان کے کچھ سرداروں تک بھی آج رات ہی پہنچا دوں گا‪ ،‬اور کل‬
‫شام کو میں آپکے ساتھ پاکیشا جاوں گا اور وہاں ائیر پورٹ پر ہی ہماری کرنل وشال سے مالقات ہوگی۔ اور آگے کا پالن ہمیں‬
‫کرنل صاحب وہیں پر بتائیں گے۔ یہ سن کر دیپیکا نے ایک لمبی سی ہونہ کی۔۔۔۔۔ اور کچھ دیرخاموش رہی جیسے کچھ سوچ رہی‬
‫ہو۔۔۔ اس دوران چند لمحوں کے لیے کیپٹن نے محسوس کیا کہ دیپیکا کی نظریں کیپٹن سنجے شرما کی پینٹ پر ہیں جہاں وہ کچھ‬
‫ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی‪ ،‬مگر پھر فورا ہی اس نے اپنی نظریں ہٹا لیں۔ پھر دیپیکا نے کہا کہ یہاں تو میرے پاس فلم‬
‫موجود نہیں ہے‪ ،‬وہ میرے گھر پر ہے‪ ،‬میں وہیں چل کر تمہیں فلم دے سکتی ہوں۔ کیپٹنے سنجے نے کہا کہ چلیں پھر وہیں چلتے‬
‫ہیں۔ اس پر دیپیکا نے کہا نہیں ابھی میں نہیں جا سکتی‪ ،‬ابھی یہاں میری مزید پرفارمنس ہے اور ایوارڈ بھی ملنا ہے‪ ،‬میں یہاں‬
‫سے قریب رات کے ‪ 2‬بجے فارغ ہونگی ‪ ،‬اسکے بعد ویسے تو مجھے رنویر سنگھ کے ساتھ جانا تھا مگر وہ پروگرام میں کینسل‬
‫کر سکتی ہوں اور ‪ 2‬بجے کے بعد گھر چل کر تمہیں مووی دکھا سکتی ہوں۔‬

‫کیپٹن سنجے نے کہا ٹھیک ہے ‪ 2‬بجے یہاں سے فارغ ہوکر آپ گھر چلی جائیے گا‪ ،‬میں آپکو ‪ 2‬بجے کے بعد گھر پر ہی ملوں‬
‫گا۔ دیپیکا پڈوکون نے کہا کیا یہاں سے اکٹھے جائیں گے ہم؟؟؟ کیپٹن سنجے نے کہا نہیں آپ علیحدہ جائیں گی اور میں علیحدہ‬
‫وہاں پر پہنچوں گا‪ ،‬بس یہ خیال رکھیے گا کہ میڈیا والوں سے بچ کر جانا ہے آپ نے‪ ،‬کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ کو ایک آرمی کیپٹن‬
‫کے ساتھ د یکھ کر میڈیا بات کو پھیال دے اور پاکیشا کو بھی ہمارے پالن کی بھنک پڑ جائے۔ دیپیکا نے کہا چلو ٹھیک ہے تم‬
‫میرے گھر کا ایڈریس معلوم کر لو۔۔۔ یہ سن کر کیپٹن سنجے ہنسنے لگا اور بوال میڈیم آپ ایک آرمی کیپٹن کے سامنے کھڑی ہیں‪،‬‬
‫آپ فکر نہ کریں میں پورے وقت پر گھر پ ر ہی ملوں گا آپکو۔ دیپیکا نے کہا اب پھر میں جاوں واپس نیچے؟؟؟ سنجے شرما نے‬
‫کہا ہاں جی آپ چلیں‪ ،‬کچھ دیر میں بھی نیچے ہی رکوں گا‪ ،‬اسکے بعد میں یہاں سے چال جاوں گا کچھ ضرور کام کرنے ہیں اور‬
‫پھر رات کو آپکے گھر پر ہی مالقات ہوگی۔‬
‫یہ کہ کر کیپٹن سنجے شرما کمرے سے نکل گیا اور واپس واش روم کی طرف گیا‪ ،‬مگر اب کی بار وہ لیڈیز واش روم کی بجائے‬
‫جینٹس واش روم میں ہی گیا جبکہ دیپیکا پڈوکون دوبارہ س ے وہ کمرہ بند کر کے نیچے ہال میں چلی گئی جہاں اس وقت پریانکا‬
‫چوپڑا اپنے ہی گائے ہوئے گانے پر پرفارم کر رہی تھی۔ دیپیکا دوبارہ سے جا کررنویر سنگھ کے ساتھ بیٹھ گئی اور بولی سوری‬
‫ڈارلنگ‪ ،‬زیادہ دیر تو نہیں ہوئی مجھے؟ رنویر سنگھ نے کہا کہاں چلی گئی تھی تم اور یہ شخص کون تھا‪ ،‬دیپکا نے کسی نا کسی‬
‫طرح اسے ٹال دیا اور دوبارہ سے شو انجوائے کرنے لگی جب کہ رنویر سنگھ بھی دیپیکا سے دوسرے موضوعات پر باتیں‬
‫کرنے لگا۔‬

‫شو سے فارغ ہونے کے بعد رنویر سنگھ نے دیپیکا کو النگ ڈرائیو کی آفر کی مگر دیپیکا نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ بنا کر‬
‫رنویر کو ٹال دیا اور خود اپنی گاڑی پر گھر پہنچ گئی۔ گھر پہنچی تو رات کے ‪ 2‬بج کر ‪ 25‬منٹ ہوچکے تھے۔ دیپیکا نے گھر جا‬
‫کر کمرے کی الئٹس آن کیں اور انٹر کام پر اپنے مالزم مرلی کو اپنے کمرے میں آنے کا کہا تاکہ وہ اسکو ضرور ہدایات دے‬
‫سکے۔ تھوڑی دیر بعد دروازہ کھال تو مرلی اندر آیا۔ دیپیکا نے مرلی کو کہا کہ تم نے جو پاکیشا جانے کی تیاری کر رکھی تھی‬
‫اسکو ایسے ہی چھوڑ دو‪ ،‬تم اب پاکیشا نہیں جا رہے‪ ،‬کل تمہیں انڈر گراونڈ کر دیا جائے گا اور تمہاری جگہ کوئی اور پاکیشا‬
‫جائے گا۔ یہ سن کر مرلی بوال میم ایسی باتیں ہر کسی کو بتانے کی نہیں ہوتیں‪ ،‬یہ آرمی کے سیکریٹ ہیں‪ ،‬بات مرلی کے بارے‬
‫میں ہی ہے مگر مرلی کو بھی اس بات کا پتہ نہیں لگنا چاہیے ؟؟ یہ کہ کر مرلی ہنسنے لگا ۔۔ دیپیکا حیران ہوکر اسے دیکھنے‬
‫لگی‪ ،‬پھر اسے خیال آیا کہ یہ آواز مرلی کی نہیں بلکہ یہ تو کیپٹن سنجے شرما کی آواز ہے جو اسکو ہوٹل مہاراجہ میں مال تھا۔‬
‫دیپیکا نے پھٹی پھٹی نظروں سے مرلی کو دیکھا تو وہ ہنسنے لگا اور بوال ارے دیپیکا جی میں سنجے شرما ہی ہوں‪ ،‬آپکے مرلی‬
‫کو تو میں کب سے ٹھکانے لگا چکا۔ دیکھیں کیسا حلیہ اپنایا ہے آپ بھی نہیں پہچان سکیں کہ میں مرلی نہیں بلکہ سنجے شرما‬
‫ہوں۔ یہ کہ کر سنجے شرما نے ایک اور قہقہ لگایا اور دیپیکا کے قریب آکر بوال کیوں دیپیکا جی‪ ،‬کیسی لگی میری ایکٹنگ؟؟؟‬
‫دیپیکا نے تعریفی نظروں سے سنجے شرما کو دیکھا اور بولی میں بھی شک میں نہ پڑتی اگر تم یہ باتیں نہ کرتے مرلی کے منہ‬
‫سے آرمی کا سن کر میں حیران ہوئی ورنہ مجھے تو پتا ہی نہ لگتا۔ دیپیکا کی بات کے جواب میں سنجے شرما نے جئے ہند کا‬
‫نعرہ لگایا اور بوال جب تک ہم جیسے افسران موجود ہیں ہماری دھرتی کو کوئی غدار نقصان نہیں پہنچا سکتا‪ ،‬یہ کہتے ہوئے‬
‫کیپٹن شنجے شرما کے لہجے میں ایک اعتماد تھا کیونکہ حقیقت میں تو وہ میجر دانش تھا اور وہ ہندوستان کے لیے نہیں بلکہ‬
‫اپنے ملک پاکیشا کے لیے یہ الفاظ بول رہا تھا۔ اب سنجے شرما نے دیپیکا کو کہا میم مجھے اپنی فلم کی ایک کاپی دیں‪ ،‬رات‬
‫پہلے ہی بہت ہوگئی ہے مجھے وہ فلم دیکھنی ہے۔‬

‫اس پر دیپیکا نے کہا اچھا ٹھہرو میں پہلے چینج کر لوں‪ ،‬اس ساڑھی سے تو میں بہت تنگ ہوں۔ یہ کہ کر دیپیکا نے ساتھ واال‬
‫دروازہ کھوال جو اسکے واش روم کا تھا اور اندر جا کر دروازہ بند کر لیا جبکہ کیپٹں سنجے شرما وہیں پر پڑے ایک صوفے پر‬
‫بیٹھ گیا‪ ،‬کوئی آدھے گھنٹے بعد دیپیکا باہر نکلی تو اسکا میک اپ وغیر بالکل صاف تھا اور سڑھی کی جگہ اب ایک لوز شرٹ‬
‫اور نیکر نے لے لی تھی۔ اس ڈریسنگ میں بھی دیپیکا بہت پیاری لگ رہی تھی ‪ ،‬پیاری کے ساتھ ساتھ سیکسی بھی لگ رہی تھی‪،‬‬
‫مگر کیپٹن سنجے شرما کو اس وقت دیپیکا کی موودی دیکھنے کی جلدی تھی۔ دیپیکا کمرے میں آئی اور اپنے ایک دراز میں سے‬
‫کچھ سی ڈیز نکال کر انکو چیک کرنے لگی‪ ،‬پھر ایک سی ڈی کور میں سے دیپیکا نے سی ڈی نکال کر کیپٹن دانش کو دی اور‬
‫بولی یہ ہے میری فلم جو پاکیشا میں چالئی جائے گی۔ مگر یاد رکھنا کہ اس فلم کو ابھی تک فلم کی کاسٹ عملے اور کرنل وشال‬
‫کے عالوہ کسی نے نہیں دیکھا‪ ،‬یہ لیک نہیں ہونی چاہیے۔ سنجے شرما نے کہا میم آپ فکر نہ کریں مجھے اس بات کا پورا پورا‬
‫احساس ہے۔ اگر آپ مائنڈ نہ کریں تو میں یہیں پر یہ مووی چال سکتا ہوں؟؟‬

‫دیپیکا نے کہا ہاں تم مووی دیکھو اور اگر میرے لیے اور کوئی کام نہیں تو میں سونا چاہتی ہوں بہت تھک چکی ہوں میں۔ سنجے‬
‫شرما نے کہا میڈیم آپ بے فکر ہوکر سوجائیں بس اس بات کا خیال رکھیے گا کہ صبح جلدی اٹھ کر آپکو اپنی تیاری کرنی ہے‬
‫تاکہ شام کی فالئٹ سے ہم پاکیشا روانہ ہو سکیں۔ دیپیکا نے کہا تم فکر نہیں کرو میری تیاری مکمل ہے‪ ،‬یہ کہ کر دیپیکا بیڈ پر‬
‫لیٹ گئی اور اپنے اوپر ایک ہلکی سی چادر لے لی‪ ،‬کمرے میں اے سی چل رہا تھا اور کافی ٹھنڈا کمرہ تھا جبکہ دیپیکا کی لوز‬
‫شرٹ اور نیکر میں اسکے جسم کا زیادہ تر حصہ ننگا ہی تھا تو اسکو تھوڑی سردی لگ رہی تھی۔ سنجے شرما کو فلم دیکھنے‬
‫کا کہ کر دیپیکا جلد ہی سوگئی تھی‪ ،‬وہ واقعی بہت تھک چکی تھی اس لیے اسے بہت جلدی نیند آگئی‪ ،‬جبکہ کیپٹن سنجے شرما‬
‫سامنے پڑے سی ڈی پلئیر پر سی ڈی چال کر ‪ 40‬انچ کی بڑی ایل سی ڈی پر فلم دیکھنے میں مصروف ہوگیا تھا۔‬
‫فلم کی ابتدا میں ہندوستان اور پاکیشا کی آزادی کے کچھ مناظر دکھائے گئے تھے‪ ،‬ان میں زیادہ تر مناظر میں پاکیشا کے عالقوں‬
‫سے ہندو لوگوں کو ہجرت کرتے دکھایا گیا تھا جہیں راستے میں پاکیشائی لوگوں نے لوٹا‪ ،‬کسی کا مال لوٹا تو کسی کے مویشی‬
‫لوٹے‪ ،‬اور جہاں کہیں کوئی جوان لڑکیاں نظر آئیں وہاں انکی عزتیں لوٹی۔ یعنی اس فلم کی شروعات میں ہی پاکیشا کے خالف‬
‫نفرت پھیالنا شروع کر دی گئی تھی‪ ،‬جبکہ اسکے بعد مشرقی پاکیشا کی مغربی پاکیشا سے علیحدگی کو بھی دکھایا گیا تھا اس فلم‬
‫کے مطابق مغربی پاکیشا نے مشرقی پاکیشا کے حقوق غضب کر لیے تھے اور وہاں کی عوام کو انکے حقوق نہیں دیے تھے اور‬
‫جب ہندوستان نے انسانیت کے جذبے سے سرشار ہوکر مشرقی پاکیشا کی مدد کرنا چاہی تو مغربی پاکیشا نے اپنی افواج کو وہاں‬
‫بھیج دیا اور وہاں کے لوگوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دیے‪ ،‬ایک ہی مذہب کے ہونے کے باوجود مغربی پاکیشا کی فوج نے‬
‫مشرقی پاکیشا کی خواتین کی عصمت دری کی اور انکو حاملہ کر دیا۔ جبکہ ہندوستان کی افواج کو دکھایا گیا کہ وہ مشرقی پاکیشا‬
‫کے لوگوں کی حفاظت کی خاطر اپنی جانیں قربان کرتے رہے۔‬

‫اسکے بعد مغربی پاکیشا کے سقوطِ ڈھاکہ کے بعد کے حاالت دکھائے گئے جہاں فحاشی اور عریانی دن بدن بڑھتی جا رہی تھی‪،‬‬
‫جبکہ اسکے صوبے ہولستان کے لوگ اپنی روایات اور اقدار کو سینے سے لگائے ہوئے تھے‪ ،‬یہاں پر بھی لوگوں کے ساتھ ظلم‬
‫و ستم دکھائے گئے تھے۔ دیپیکا پڈوکون کا کر دار ایک مذہبی گھرانے کی نیک لڑکی کا تھا جسکو کبھی کسی غیر مرد نے دیکھا‬
‫تک نہ تھا۔ ہولستان کے لوگ بہت ملنسار اور پیار کرنے والے تھے جبکہ اپنی روایات کی خاطر جان قربان کرنا بھی جانتے‬
‫تھے‪ ،‬جبکہ دوسری طرف باقی صوبے اپنی اقدار اور روایات بھول کر مغربی دنیا کے رنگ میں رنگ چکے تھے۔ اسکے ساتھ‬
‫ساتھ پاکیشا کی افواج مشرقی پاکستان کو اپنے ہاتھ سے گنوانے کے بعد اب ہولستان میں وہی کردار ادا کر رہی تھی‪ ،‬پاکیشا کی‬
‫حکومت اور فوج مل کر ہولستان کے خزانوں پر قبضہ کرنا چاہتے تھے‪ ،‬وہاں کی معدینیات سے ہولستان کے لوگوں کو محروم‬
‫رک ھا جا رہا تھا وہاں پر موجود سونے کی کانوں سے حاصل ہونے والی آمدنی چوری چھپے دوسرے صوبوں میں لگائی جا رہی‬
‫تھی جبکہ ہولستان کو بتایا جا رہا تھا کہ سونے کی کانوں سے ابھی سونا نکالنا ممکن نہیں۔‬

‫وہاں کی عورتوں کے ساتھ بھی پاکیشا کی افواج ظلم و ستم کر رہی تھیں۔ انہی میں دیپیکا پڈوکون نے اپنے عالقے کی عورتوں‬
‫کے لیے آواز اٹھائی تو پاکیشا کے آرمی چیف نے بھرے بازار میں دیپیکا پڈوکون جیسی نیک اور شریف لڑکی کو زدو کوب کیا‬
‫اور اسکے سر سے دوپٹہ اتار کر اسکو ہولستان کی سڑکوں پر بالوں سے پکڑ کر گھسیٹا۔ مگر یہ بہادر لڑکی فوج سے ڈری نہیں‬
‫اور اپنے لوگوں کی حفاظت کے لیے آواز بلند کرتی رہی۔ پھر اسی فلم میں یہ بھی دکھایا گیا کہ اسی بہادر لڑکی کو پاکیشا کی‬
‫فوج کے ‪ 5‬جوانوں نے مل کر رات کی تاریکی میں اپنی ہوس کا نشانہ بنایا اور اسکے جسم کو نوچ نوچ کر لہو لہان کر دیا۔‬
‫ساری رات فوجی جوان باری باری اسکی عصمت دری کرتے رہے کبھی آگے سے اور کبھی پیچھے سے اسکو چودتے رہے۔‬
‫اور اس لڑکی کی دلخراش چیخیں سننے کے لیے وہاں کوئی موجود نہیں تھا۔ اسکے بعد اس لڑکی نے بدلہ لینے کی ٹھانی اور‬
‫اپنے لوگوں میں واپس جا کر انکو پاکیشا کے خالف بھڑکانا شروع کر دیا اور ہندوستانی افواج کی تعریفیں شروع کیں‪ ،‬اور‬
‫صوبے میں علیحدہ وطن کی تحریک شروع کر دی۔ فلم میں کہیں بھی اس چیز کا شائبہ تک نہیں دکھایا گیا کہ پاکیشا سے علیحدہ‬
‫ہونے کے بعد ہولستان ہندوستان کا حصہ بنے گا‪ ،‬بلکہ فلم میں یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ ہولستان آزادی کی تحریک کامیاب ہونے‬
‫کی صورت میں ایک آزاد وطن کی صورت میں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوگا۔‬

‫پھر فلم کے اختتام پر ہولستان کے لوگوں نے متحد ہوکر پاکیشا کے آرمی چیف کو اسی بازار میں گھسیٹا جہاں اسنے ہولستان کی‬
‫بہادر بیٹی یعنی دیپیکا پڈوکون کو گھسیٹا تھا اور ان پانچ فوجی جوانوں کی بھی گردنیں علیحدہ کرنے کے بعد ہولستان نے پاکیشا‬
‫سے علیحدہ ہونے کا اعالن کر دیا جس کو عالمی قوتوں نے فورا تسلیم کر لیا اور آخر کار پاکیشا کے مظالم سے تنگ آکر چلنے‬
‫والی تحریک کامیاب ہوئی اور ہولستان ایک علیحدہ ملک کی حیثیت سے دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوا۔ یہ فلم دیکھ کر کیپٹن سنجے‬
‫شرما کو پسینے آگئے تھے‪ ،‬اس فلم میں جو کچھ دکھایا گیا تھا وہ یقینا حقیقت سے بہت دور اور دشمن کے پراپیگینڈے کا حصہ‬
‫تھا۔ اور یہ سب کچھ اتنا خطرناک تھا کہ اگر یہ فلم ہولستان کے لوگ دیکھ لیتے تو جہاں پہلے ہی دشمن آزادی کی تحریکیں چال‬
‫رہے تھے معصوم لوگوں کو گمراہ کر کے وہاں تو آگ لگ جانی تھی اور لوکاٹی جیسے وطن فروش کی ایک آواز پر لوگوں نے‬
‫بغاوت کا اعالن کر دینا تھا۔‬
‫کیپٹن سنجے شرما کو آنے والے حاالت کا سوچ کر پسینے آرہے تھے‪ ،‬اس نے یہیں دیپیکا کے کمرے سے ہی لیپ ٹاپ کے‬
‫ذریع ے اس فلم کے چیدہ چیدہ مناظر پاکیشا آرمی ہیڈ کوارٹر کو بھیج دیے تھے‪ ،‬کیپٹن سنجے شرما دیپکا کے گھر آنے کے بعد‬
‫اسکے مالزم مرلی کو غائب کرتے ہی لیپ ٹاپ بھی لے آیا تھا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اسکو ضرورت پڑے گی اور دیپیکا کا اپنا‬
‫لیپ ٹاپ استعمال کرنا خطرناک ہوسکت ا تھا۔ یہ سب کام کرکے کیپٹں سنجے شرمانے کچھ مزید تفصیالت سے پاکیشا میں آرمی ہیڈ‬
‫کوارٹر تک پہنچائیں اور اسکے بعد اپنے آنے کی اطالع دیکر لیپ ٹاپ بند کیا اور صوفے پر ہی سوگیا۔‬
‫دوپہر کے ‪ 11‬بجے کے قریب دیپیکا پڈوکون نے کیپٹن سنجے شرما کو جگایا ‪ ،‬کیپٹن کی آنکھ کھلی تو اسکی آنکھوں کے سامنے‬
‫دیپیکا پڈوکون کا حسین و جمیل چہرہ تھا‪ ،‬مگر وہ خاصی جھنجالئی ہوئی لگ رہی تھی۔ کیپٹن نے ایک دم آنکھیں کھولیں اور‬
‫پوچھا کیا ہوا؟؟ تو دیپیکا نے کہا کب سے تمہیں اٹھا رہی ہوں مگر تم اٹھ ہی نہیں رہے۔ مرلی تو چال گیا مگر میرے باقی مالزم‬
‫کہاں ہیں؟؟؟ اس پر سنجے شرما مسکرایا اور بوال انکو بھی میں نے کل چھٹی پر بھیج دیا تھا آپکے مینیجر سے کہلوا دیا تھا کہ‬
‫میم نے پاکیشا سے واپسی تک آپ لوگوں کو چھٹی دے دی ہے تاکہ کسی کو میرے بارے میں شک نہ ہوسکے۔ اسکی بات سنکر‬
‫دیپیکا نے کہا تو اب مجھے بھ وک لگی ہے‪ ،‬باورچی بھی نہیں ہے‪ ،‬مجھے کھانا کھانا ہے پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں۔ یہن سن‬
‫کر کیپٹن سنجے شرما صوفے سے اٹھا اور بوال فریج میں دیکھ لیتے ہیں کچھ پڑا ہوگا کھانے کو‪ ،‬مگر دیپیکا نے کہا میں دیکھ‬
‫چکی ہوں کچھ نہیں ہے فریج میں۔ بھوک توسنجے شرما کو بھی لگ ر ہی تھی اسے بھی اب محسوس ہوا کہ کچھ کھا لینا چاہیے۔‬
‫سنجے شرما اب کچن میں گیا تو وہاں بریڈ کا ایک پیکٹ پڑا تھا ساتھ ہی شیلف پر ٹوسٹر بھی تھا اور کچن والے فریج میں چکن‬
‫سپریڈ اور جام بھی موجود تھا‪ ،‬ایک دودھ کا پیکٹ تھا جو کیپٹن شرما نے نکال کر چائے بنانے کے لیے استعمال کیا اور ٹوسٹر‬
‫میں کچھ سالئس گرم کر کے ساتھ جام اور چکن سپریڈ ٹرے میں رکھا‪ ،‬چائے بنانے کے ساتھ ساتھ سنجے شرما نے ‪ 2‬انڈے بھی‬
‫ہاف فرائی کر لیےاور یہ گرما گرم ناشتہ لے کر واپس کمرے میں چال گیا جہاں دیپیکا بے چینی سے کھانے کا ویٹ کر رہی تھی۔‬
‫سنجے شرما کے ہاتھ میں ناشتے کی ٹرے دیکھ کر دیپیکا فورا اٹھی اور ناشتے پر ٹوٹ پڑی‪ ،‬سنجے نے بھی دیپیکا کے ساتھ ہی‬
‫ہلکا پھلکا ناشتہ کیا۔ چائے پی کر دیپیکا نے سنجے کی تعریف کی کہ تم تو میرے باورچی سے بھی اچھی چائے بنا لیتے ہو۔ اس‬
‫پر سنجے شرما نے کہا بس میم ہم فوجیوں کو ایسے تمام کام کرنے پڑتے ہیں کیونکہ زیادہ تر تو ہم گھر سے باہر ہی رہتے ہیں‪،‬‬
‫اور اگر کسی مشن پر ہوں تو یہ سب کام خود ہی کرنے پڑتے ہیں‪ ،‬خدمت کے لیے نہ تو کوئی مالزم ہوتا ہے نا ہی جیون ساتھی۔‬
‫یہ کہ کر سنجے شرما ہنس پڑا اور دیپیکا بھی ہنسنے لگی کہ چلو اچھا ہوا کہ تمہیں کچھ بنانا آتا ہے ورنہ میری تو بھوک سے‬
‫جان ہی نکلے جا رہی تھی۔‬

‫ناشتے کے بعد دیپیکا اپنے کچھ ضروری کاموں میں مصروف ہوگئی جبکہ سنجے شرما باہر گھر سے باہر نکل کر سامنے بنے‬
‫ہوئے سوئمنگ پول پر جا کر سوئمنگ کرنے لگ گیا۔ سنجے شرما نے شرٹ بنیان اور پینٹ اتار دی تھی‪ ،‬نیچے اس نے محض‬
‫ایک انڈر وئیر پہن رکھا تھا۔ کافی دیر سنجے شرما سوئمنگ کرتا رہا‪ ،‬ٹھنڈے پانی سے اسے کافی تسکین مل رہی تھی ویسے بھی‬
‫وہ ایک آرمی آفیسر تھا اور کافی عرصے سے اس نے کوئی ورزشی کام نہیں کیا تھا‪ ،‬اور سوئمنگ سے بہتر کوئی ورزش نہیں‬
‫جس میں نہ صرف کسرت ہوجاتی ہے بلکہ ٹھنڈے پانی سے جسم کو تسکین بھی ملتی ہے۔ دیپیکا پڈوکون اپنے ضرور کام نمٹا کر‬
‫باہر نکلی تو اسکو سنجے شرما سوئمنگ پول میں سوئمنگ کرتا نظر آیا ‪ ،‬دیپیکا سوئمنگ پول کے پاس موجود بینچ پر جا کر بیٹھ‬
‫گئی اور اسے سوئمنگ کرتے دیکھنے لگی۔ جب سنجے شرما واپسی کی طرف آیا تو اسکی نظر دیپیکا پر پڑی۔ وہ سوئمنگ پول‬
‫کے کنارے پر آکر رک گیا اور کنارے کا سہارہ لیکر تھوڑا اوپر اٹھا‪ ،‬اسکا چست سینا اور چہرا دیپیکا کو نظر آرہا تھا‪ ،‬سینے پر‬
‫نظر ڈال کر دیپیکا کو اندازہ ہوگیا تھا کہ کیپٹن سنجے شرما کافی کسرت کا عادی ہے اور اسکا ورزشی جسم کسی بھی گرم لڑکی‬
‫کو اپنی جانب کھینچ سکتا تھا۔ سنجے شرما نے دیپیکا سے پوچھا کہ وہ کیا دیکھ رہی ہے؟؟ تو دیپیکا نے کہا کچھ نہیں بس ایسے‬
‫ہی تم پر نظر پڑی تو ادھر آکر بیٹھ گئی‪ ،‬یہ سن کر سنجے نے ایک قالبازی لگائی اور دوبارہ سے سوئمنگ شروع کر دی۔ جب‬
‫سنجے شرما تھوڑا کنارے سے دور ہوا تو دیپیکا اپنی جگا سے کھڑی ہوگئی اور اسے مہارت کے ساتھ سوئمنگ کرتے دیکھنے‬
‫لگی۔ دوسرے کنار پر پہنچ کر سنجے شرما دوبارہ تیزی کے ساتھ واپس آیا اور پھر سوئمنگ پول میں موجود سیڑھیوں سے‬
‫چڑھتا ہوا سوئمنگ پول سے باہر آگیا۔‬

‫دیپیکا ایک لمحے کے لیے تو سنجے شرما کے جسم کو دیکھ کر آنکھیں جھپکنا ہی بھول گئی‪ ،‬ایسا ورزشی جسم تو اسکے بوائے‬
‫فرینڈ رنویر سنگھ کا بھی نہیں تھا‪ 6 ،‬پیک باڈی‪ ،‬کسا ہوا سینہ‪ ،‬بڑے بڑے ڈولے‪ ،‬تھائیز پر کٹ ایسے تھے جیسے کسی باڈی بلڈر‬
‫کے ہوں اور اوپر سے اسک ے جسم سے ٹپکتا ہوا پانی۔۔۔۔ ۔ غرض اسکے جسم کی بناوٹ ہر لحاظ سے ایسی تھی جیسی ہر لڑکی‬
‫چاہتی ہے کہ مضبوط جسم کا لڑکا اسکا جیون ساتھی بنے۔ پھر دیپیکا کی نظریں سنجے شرما کے سفید رنگ کے انڈر وئیر پر‬
‫پڑی تو وہاں اسے کچھ ابھار نظر آیا‪ ،‬مگر یہ ابھار اتنا نہیں تھا کہ وہ یہ کہ سکے کہ انڈر وئیر میں موجود ہتھیار اپنا سر اٹھائے‬
‫ہوئے ہے۔‬

‫کیپٹن سنجے شرما نے دیپیکا کو اپنی جانب یوں دیکھتے ہوئے پایا تو اس سے آنکھوں کے اشارے سے پوچھا تو دیپیکا نے نفی‬
‫میں سر ہال کر کہا نہیں کچھ نہی اور ادھر ادھر دیکھنے لگی۔ سنے شرما اب ساتھ لگے جھولے کی طرف چال گیا‪ ،‬سوئمنگ پول‬
‫کے ساتھ ہی ایک چھوٹا سا الن تھا جس میں ایک جھوال لگا ہوا تھا‪ ،‬وہیں پر کیپٹن کے کپڑے بھی پڑے تھے سنجے وہاں جا کر‬
‫جھولے پر بیٹھ گیا اور اپنا جسم خشک ہونے کا انتظار کرنے لگا۔ اتنے میں کیپٹن کو شڑاپ کی آواز آئی جیسے پانی میں کوئی‬
‫چیز گری ہو۔ سنجے نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس سوئمنگ پول کے باہر دیپیکا پڈوکون کی شرٹ اور نیکر پڑی نظر آئی جبکہ‬
‫سامنے سوئمنگ پول میں دیپیکا پڈوکون پانی میں تیراکی کر رہی تھی۔ سنجے شرما نے کچھ دیر تو دیپیکا کو دیکھا مگر پھر‬
‫واپس مڑ کر ہلکا ہلکا جھوال ج ھولنے لگا۔ وہ ساتھ ساتھ آنے والے حاالت کے بارے میں سوچ رہا تھا‪ ،‬اسے پاکیشا کی فکر ہورہی‬
‫تھی ساتھ ہی وہ تانیہ کے بارے میں بھی سوچ رہا تھا کہ نجانے اسکا پیغام تانیہ تک پہنچ چکا ہوگا یا نہیں اور وہ اپنی حفاظت کے‬
‫ساتھ ساتھ وہ کام کرپائے گی یا نہیں جسکے بارے میں اسے خفیہ پیغام میں کہا گیا تھا۔‬

‫وہ انہی خیالوں میں گم تھا کہ اسے اپنے ساتھ کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ کیپٹن اپنی سوچوں سے باہر نکال تو اسکے ساتھ‬
‫دیپیکا پڈوکون کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر کیپٹن کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے ہی رہ گیا۔ دیپیکا کا گرم اور‬
‫سیکسی بدن مکمل ننگا تھا۔ اسکے بدن پر محض ایک سرخ رنگ کا برا اور ایک سرخ پینٹی تھی جو مکمل گیلے تھے۔ دیپیکا کی‬
‫پیشانی کے بالوں سے ٹپکتا ہوا پانی اسکے الل سرخ ہونٹوں سے ہوتا ہوا نیچے گر رہا تھا کیپٹں سنجے شرما کا دل کیا کے ابھی‬
‫ب حیات سمجھ کر پی جائے مگر اس نے ایسی کوئی حرکت نہیں کی۔ دیپیکا کے سینے کے‬ ‫وہ دیپیکا کے ہونٹوں سے ٹپکتا پانی آ ِ‬
‫ابھاروں پر بھی پانی کے قطرے کیپٹن کو اپنی زبان نکالنے پر مجبور کر رہے تھے مگر اس نے بڑی مشکل سے اپنے دل پر‬
‫اور لن کی خواہشات پر قابو پاتے ہوئے بیٹھا رہا۔ دیپیکا اب اپنی کمر لچکاتی ہوئی اسی جھولے پر بیٹھ گئی جس پر کیپٹن سنجے‬
‫شرما ابھی تک انڈر وئیر پہنے جھولے پر ایک سائیڈ پر ٹانگیں لٹکائے بیٹھا تھا۔ جب کہ دیپیکا پڈوکون بالکل دوسری سائیڈ پر‬
‫بیٹھی تھی مگر وہ ٹانگیں نیچے لٹکانے کی بجائے سنجے شرما کی طرف ٹانگیں پھیال کر جھولے پر ہی بیٹھ گئی اور اسکے پاوں‬
‫سنجے شرما کی ننگی ٹانگوں تک پہنچ گئے تھے‪ ،‬دیپیکا نے اپنے پاوں سنجے شرما کی گود میں رکھ دیے تھے۔‬

‫دیپیکا کے پاوں کی ایڑیاں کیپٹن سنجے شرما کے انڈر وئیر کے اوپر تھیں اور انکا دباو کیپٹن سنجے شرما کو اپنے لن پر‬
‫محسوس ہورہا تھا۔ ج بکہ دیپیکا ایسے بیٹھی تھی جیسے اسے معلوم ہی نہ ہو کہ اسکا پاوں سنجے شرما کے لن کے اوپر ہے‬
‫حاالنکہ اس نے جان بوجھ کر ہی ایسا کیا تھا۔ مگر کچھ ہی دیر بعد دیپیکا کو اپنے پاوں کے نیچے موجود نرم سی چیز میں سختی‬
‫آتی محسوس ہونے لگی۔ اور تھوڑی ہی دیر میں وہ فل سخت ہوگئی‪ ،‬کیپٹن سنجے شرما پوری کوشش کر رہا تھا کہ اسکا لن کھڑا‬
‫نہ ہو مگر جب سامنے اتنی سیکسی لڑکی محض برا اور پینٹی پہن کر بیٹھی ہو اور اسکا پاوں بھی لن کے اوپر ہو تو لن میاں‬
‫کہاں کسی کی سنتے ہیں‪ ،‬دیکھتی ہی دیکھتے سنجے شرما کی پینٹ میں ایک ٹینٹ بن چکا تھا جس پر دیپیکا کا پاوں تھا‪ ،‬اب‬
‫دیپیکا نے تھوڑا حیرانگی کا ڈرامہ کرتے ہوئے کہا ارے یہ کیا ہے۔۔۔۔ اور پھر اپنے پاوں کی طرف دیکھا اور پھر خود ہی بولی‪،‬‬
‫اور سوری مجھے معلوم نہیں تھا کہ میرا پاوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہ کر دیپیکا نے اپنا پاوں تھوڑا سائیڈ پر کر لیا۔ جیسے ہی دیپیکا نے‬
‫پاوں سائیڈ پر کیا تو سنجے شرما کا لن جو کچھ دبا ہوا تھا پاوں ہٹتے ہی وہ فل جوبن پر کھڑا ہوگیا اور اب صحیح معنوں میں‬
‫سنجے شرما کا انڈر وئیر ایک ٹینٹ کا منظر پیش کر رہا تھا۔‬

‫دیپیکا نے جب سنجے کے انڈر وئیر کو مزید اوپر اٹھتے ہوئے دیکھا تو ہنسی اور بولی ارے تمہیں کیا ہورہا ہے؟ کنٹرول نہیں‬
‫رکھ سکتے کیا اپنے اوپر؟؟؟ اس پر کیپٹن سنجے شرما نے جواب دیا دیپیکا جی جب آپ جیسے ہاٹ لڑکی اسکے ساتھ چھیڑ چھاڑ‬
‫کرے گی تو بھال میرے کنٹرول میں کہاں رہے گا یہ؟؟؟ دیپیکا نے کہا میں کب چھیڑ چھاڑ کی وہ تو بس ویسے ہی پاوں اوپر آگیا‬
‫تھا۔ یہ کہ کر دیپیکا نے ساتھ موجود ٹیبل سے ایک شیشی اٹھای اور بولی اچھا یہ بتا تم نے کبھی کسی کو مساج دیا ہے؟؟ کیپٹن‬
‫سمجھ گیا کہ دیپیکا اب بہانے بہانے سے آگے بڑھنا چاہتی ہے‪ ،‬لہذا وہ فورا بول اٹھا کہ جی آرمی میں مساج دینے کی بھی‬
‫ٹریننگ دی جاتی ہے بہت بار ہمیں بھیس بدل کر مساج سینٹرز میں بھی کام کرنا پڑتا ہے جہاں کسی نا کسی بڑے گینگسٹر یا‬
‫دہشت گرد کی بیوی مساج کروانے آتی رہتی ہیں۔ دیپیکا نے کہا یہ تو بہت اچھی بات ہے‪ ،‬یہ آئل پکڑو اور مجھے مساج دو۔ یہ کہ‬
‫کر دیپیکا نے سنجے شرما کو آئل کی چھوٹی شیشی پک ڑا دی اور خود الٹی ہوکر اسی جھولے پر لیٹ گئی‪ ،‬دیپیکا پڈوکون الٹی کیا‬
‫ہوئی سنجے شرما کی پینٹ میں اسکے لن نے مزید انگڑائیں لینی شروع کر دی تھیں‪ ،‬دیپیکا کی ‪ 28‬انچ کی پتلی کمر کے ساتھ ہی‬
‫اسکی ‪ 34‬انچ کی گانڈ قیامت ڈھا رہی تھی۔ گو کہ اس نے پہینٹی پہن رکھی تھی مگر پھر بھی اسکے چوتڑوں کا ابھار اور اس‬
‫میں موجود الئن بہت واضح تھی۔ پینٹی گیلی ہونے کی وجہ سے کچھ اکٹھی ہو چکی تھی اور اسکے چوتڑوں کی الئن میں جا رہی‬
‫تھی۔ ایک بار تو سنجے شرما کا دل کیا کہ ابھی اپنا لن نکالے اور دیپیکا کی گانڈ کی الئن میں گھسا دے مگر اسے اب کنٹرول‬
‫کرنا تھا۔ وہ اندر ہی اندر جانتا تھا کہ دیپیکا اس سے چدائی کروانے کے لیے مکمل تیار ہے‪ ،‬بس سنجے کو تھوڑا حوصلہ رکھنا‬
‫تھا اور دیپیکا جو اپنے طور پر اسے اپنی طرف متوجہ کرنے کے بہانے کر رہی تھی سنجے کو اسی کے بہانوں کے مطابق‬
‫اسکے قریب جانا تھا۔‬

‫سنجے شر ما دیپیکا پڈوکون کے ساتھ ہی جھولے پر بیٹھ گیا اور دیپیکا کی تھائیز پر شیشی سے آئل گراتے ہوئے نیچے اسکی‬
‫پنڈلیوں تک ایک ٹانگ پر آئل گرایا‪ ،‬پھر اسی طرح اس نے دوسری ٹانگ پر بھی آئل گریا۔ دیپیکا کی ٹانگیں بہت نرم و مالئم اور‬
‫بالوں سے مکمل طور پرصاف تھیں۔ تیل گر انے کے بعد سنجے شرما نے دیپیکا کی دونوں ٹانگوں پر اپنے ہاتھ پھیرنا شروع‬
‫کیے‪ ،‬اپنی انگلیوں کے اگلے حصوں سے دیپیکا کی تھائیز کے پچھلے حصے پر سنجے شرما نے گول گول انگلیاں گھمائیں اور‬
‫اسکی ٹانگ پر اچھی طرح تیل کی مالش کر دی۔ دیپیکا کی تھائیز کا گوشت بہت ہی مالئم تھا جس سے سنجے شرما کو بہت مزہ‬
‫آرہا تھا۔ سنجے شرما نے دیپیکا کے کولہوں سے کچھ نیچے تک اپنے ہاتھوں سے مساج کیا اسکے بعد گھٹنوں سے نچلے حصے‬
‫یعنی دیپیکا کی پنڈلیوں کا مساج کیا۔ اس دوران دیپیکا خاموشی کے ساتھ سنجے شرما کی گرم گرم انگلیوں کا لمس اپنے جسم پر‬
‫محسوس کرتی رہی۔ سنجے کو بھی محسوس ہورہا تھا کہ دیپیکا کے جسم کی گرمی آہستہ آہستہ بڑھ رہی تھی۔‬

‫پھر سنجے شرما جھولے پر چڑھ کر اسطرح سے بیٹھ گیا کہ دیپیکا کی دونوں ٹانگیں سنجے شرما کی ٹانگوں کے درمیان تھیں۔‬
‫سنجے شرما گھٹنے لگا کر دیپیکا کے اوپر بیٹھ تھا اور دیپیکا کی نرم و مالئم تھائیز پر ہولے ہولے مساج کر رہا تھا‪ ،‬ابھی تک‬
‫سنجے شرما نے دیپیکا کے چوتڑوں کو چھونے کی کوشش نہیں کی تھی ۔ مساج کرواتے ہوئے اچانک دیپیکا نے گردن تھوڑی‬
‫سی سائیڈ پر گھمائی اور پھر اپنا جسم کا اگال حصہ بھی ہلکا سا گھمایا اور سنجے شرما کی طرف دیکھتی ہوئی بولی سنجے‬
‫مجھے ایک بات تو بتاو۔ سنجے نے مساج کرتے کرتے ہی جواب دیا جی میم پوچھیں۔ دیپیکا نے کچھ دیر سوچا کہ وہ پوچھے یا‬
‫نہ پوچھے‪ ،‬پھر اس نے پوچھ ہی لیا اور بولی کہ کل جب تم سنی کے ساتھ واش روم میں تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اسکے بعد دیپیکا رک‬
‫گئی‪ ،‬سنجے پوچھا تو کیا میم؟؟؟ دیپیکا نے پھر کہا تو اس وقت وہ جو چیخیں مار رہی تھی وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ مجھے سنانے کے لیے‬
‫مار رہی تھی یا واقعی اسکو اتنا مزہ آرہا تھا؟؟؟؟ اس پر سنجے شرما ہنس پڑا اور بوال میم اسکا جواب یا تو آپکو سنی لیون ہی دے‬
‫سکتی ہے یا پھر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سنجے شرما خاموش ہوگیا اور دوبارہ سے دیپیکا کی تھائیز کا مساج کرنے لگا۔۔۔۔ دیپیکا نے پھر پوچھا‬
‫یا پھر؟؟؟؟ اس بار سنجے تھوڑا مسکرایا اور بوال یا پھر آپ خود چیک بھی کر سکتی ہیں کہ واقعی میرے ساتھ اتنا مزہ آتا ہے یا‬
‫نہیں۔۔۔ سنجے شرما کا یہ جواب سن کر دیپیکا نے قہقہ لگایا اوربولی اچھا تو تم اپنا الو سیدھا کرنا چاہتے ہو‪ ،‬چلو چپ چاپ مساج‬
‫کرو۔ پھر دیپیکا واپس سیدھی ہوکر لیٹ گئی اور سنجے شرما اسکی ٹانگوں پر مساج کرنے لگا۔ وہ دیپیکا کی ٹانگ پر گوشت کو‬
‫اپنی انگلیوں اور انگوٹھے سے پکڑ کر ہلکا سا دباو ڈال کر مسل رہا تھا جس سے دیپیکا کو واقعی بہت سکون مل رہا تھا۔‬

‫پھر سنجے شرما تھوڑا سا آگے بڑھااور اب وہ دیپیکا کے چوتڑوں سے کچھ پیچھے بیٹھ گیا تھا۔ اب وہ دیپیکا کی پتلی کمرپر تیل‬
‫گرا رہا تھا‪ ،‬کمر سے لیکر گردن تک سنجے شرما نے دیپکا کی کمر پر تیل گرایا اور اب کی بار بنا کسی جھجک کے دیپیکا کی‬
‫ڈوری پیچھے سے کھول دی‪ ،‬اور اب دیپیکا کے برا کی ڈوری صرف اسکی گردن کے گرد تھی‪ ،‬کمر پر موجود ڈوری سنجے‬
‫شرما کھول چکا تھا‪ ،‬دیپیکا نے ایک دم اپنی گردن اوپر اٹھائی اور بولی یہ کیا کر رہے ہو؟؟؟ سنجے نے اطمینان سے جواب دیا‪،‬‬
‫میم آپکا ب را خراب ہوجائے گا‪ ،‬ہم تو جب بھی کسی لیڈیز کو مساج دیتے ہیں اسکا برا اسی طرح کھول دیتے ہیں۔ اور کچھ عورتیں‬
‫تو فرنٹ سے بھی مساج کرواتی ہیں انکے تو بوبز کو بھی ہم مساج دیتے ہیں۔ دیپیکا تو پہلے ہی یہی چاہتی تھی مگر وہ تاثر یہ‬
‫دے رہی تھی کہ وہ تو صرف مساج کروان چاہ رہی ہے سیکس کرنے کا اسکا کوئ ارادہ نہیں۔ اب سنجے شرما دیپیکا کی تھائیز‬
‫پر بیٹھا دیپیکا کی پتلی کمر پر اپنے ہاتھوں سے مساج کر رہا تھا۔ وہ اپنی انگلیوں کو دیپیکا کی کمر پر دبا کر اوپر سے نیچے‬
‫لیکر آتا اور پھر نیچے سے اوپر لیکر جاتا۔ اسی طرح مساج کرتے کر تے سنجے شرما کچھ آگے ہوا اور دیپیکا کے چوتڑوں کے‬
‫عین اوپر آگیا۔ اب سنجے شرما کے لن کا دباو دیپیکا کو اپنی گانڈ پر محسوس ہورہا تھا اور وہ بے چین ہوئے جا رہی تھی سنجے‬
‫شرما کا موٹا اور لمبا لن اپنی گانڈ میں لینے کے لیے۔‬
‫سنجے شرما نے کمر پر مساج کرنے کے ساتھ ساتھ اب دیپیکا کے سینے کی سائیڈز پر بھی اپنے ہاتھوں سے مساج کرنا شروع‬
‫کر دیا تھا۔ بغلوں سے کچھ نیچے او ر مموں کے قریب کیپٹن سنجے شرما کے ہاتھ اپنا جادو دکھا رہے تھے اور نیچے دیپیکا کی‬
‫گانڈ پر سنجے کا لوڑا اپنا پریشر بڑھا رہا تھا۔ کچھ دیر تک دیپیکا کی کمر او ر مموں کے قریب مساج کرنے کے بعد سنجے شرما‬
‫کے ہاتھ واپس نیچے کی طرف آئے اور اب چوتڑوں سے کچھ اوپر کمر پر مساج کرنے لگے‪ ،‬آہستہ آہستہ سنجے کے ہاتھ دیپیکا‬
‫کی پینٹی تک پہنچ چکے تھے اور سنجے دوبار سے چوتڑوں سے کچھ نیچے ہوکر بیٹھ گیا تھا۔ پینٹی کی سائیڈ سے دیپیکا کے‬
‫چوتڑوں کی پھاڑیاں جو کافی دیر سے سنجے کو اپنی طرف بال رہی تھیں مگر سنجے نے انکو چھوا نہیں تھا‪ ،‬اب سنجے کے‬
‫ہاتھ دیپیکا کے چوتڑوں کی پھاڑیوں پر ہلکا ہلکا دباوڈ ڈال کر مساج کر رہے تھے۔ پھر سنجے شرما نے ہمت کی اور دیپیکا کو‬
‫اسکے کولہوں سے پکڑ کر کہا میم تھ وڑا سا اوپر ہوں آپکی پینٹی اتارنی ہے۔ اور حیرت انگیز طور پر دیپکا نے اپنی گانڈ اوپر‬
‫اٹھا دی اور سنجے شرما نے آرام سے دیپیکا کی پینٹی اتار دی۔‬

‫سنجے شرما کو یقین تو تھا ہی کہ دیپیکا چدائی کے لیے تیار ہے مگر اب تو اسکے دل میں لڈو پھوٹنے لگے تھے کہ وہ اتنی‬
‫سی کسی اور بالی ووڈ کی مہنگی ترین ہیروئین کو چودنے واال ہے۔ اب سنے شرما دیپیکا کے چوتڑوں کو پکڑ کر دبا رہا تھا‪ ،‬مگر‬
‫تاثر یہ دے رہا تھا کہ وہ مساج کر رہا ہے۔ وہ دیپیکا کے چوتڑوں کو نیچے کی طرف سے پکڑتا جہاں گوشت زیادہ تھا اور تھوڑا‬
‫سا کھول کر اسکی گانڈ کے سورا خ کا بھی نظارہ کرتا اور ساتھ ہی مساج کرنے کے انداز میں اپنے ہاتھ اوپر کی طرف لے کر‬
‫جاتا۔ پھر اسی طرح مساج کرتے کرتے سنجے نے اب اپنے ہاتھوں کے دونوں انگوٹھوں کو دیپکا کے چوتڑوں کی الئن میں‬
‫پھیرنے لگا تھا‪ ،‬بظاہر اسکا پورا ہاتھ دیپکا کے چوتڑوں کے گوشت پر تھا اور اسکو ہلکے ہلکے دبا کر دیپیکا کو تسکین پہنچا‬
‫رہا تھا مگر اسکے دونوں انگوٹھے چوتڑوں کی الئن میں جا کر دیپکا کی سیکس کی خواہش کو مزید بھڑکا رہے تھے‪ ،‬اور‬
‫جیسے ہی اسکا انگوٹھا دیپکا کی گانڈ کے سوراخ پر پہنچتا وہ گانڈ کے سوراخ پر اپنے انگوٹھے کا پریشر بڑھا دیتا جس سے‬
‫دیپکا کی ہلکی سی سسکی نکلتی۔ کچھ دیر تک یہی حرکتیں کرنے کے بعد سنجے شرما دیپیکا کے اوپر سے اٹھ کر نیچے اترا‬
‫اور بوال میم اب آپ سیدھی ہوجائیں دوسری طرف سے بھی آپکا مساج کر دوں۔‬

‫دیپیکا بغیر کچھ بولے سیدھی ہوگئی مگر اس نے اس بات کا خیال رکھا کہ اپنے مموں پر سے برا ہٹنے نہیں دیا‪ ،‬گو کہ پچھلی‬
‫سائیڈ سے برا کی ڈوری کھل چکی تھی مگر اس نے اپنے ہاتھوں سے برا کو پکڑ کر مموں کے اوپر ہی رہنے دیا تھا اور‬
‫سیدھے ہوتے ہی اپنے ایک ہاتھ سے اپنی پھدی کو چھپا لیا تھا۔ جبکہ سنجے شرما اب دیپیکا کی ٹانگوں کی طرف جانے کی‬
‫ب جائے سیدھا اسکے پیٹ پر مساج کرنے لگا‪ ،‬دیپیکا کی ناف کو تیل سے بھر کر سنجے شرما نے اپنی انگلی اسکے اندر گھمائی‬
‫زیر ناف پھدی سے کچھ اوپر تک‬ ‫اور پھر اسکے پیٹ پر اپنے ہاتھ پکڑ کر بہت ہی نزاکت کے ساتھ اس پر تیل ملنے لگا اور ِ‬
‫اپنے ہاتھوں کی انگلیوں سے مساج کرن ے لگا۔ پھر بغیر وقت ضائع کیے سنجے شرما دیپیکا کے اوپر آکر بیٹھ گیا‪ ،‬و اسکی پھدی‬
‫کے بالکل اوپر تھا‪ ،‬اب اس نے دیپیکا کو کہا میم اپنا یہ ہاتھ اٹھا کر اوپر کر لیں‪ ،‬کیونکہ میں اوپر بیٹھا ہوں‪ ،‬یہ اب مجھے نظر‬
‫نہیں آئے گی‪ ،‬میں اوپر والے حصے کا مساج کرنے لگا ہوں۔ د یپیکا نے بنا کچھ کہے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا۔‬

‫سنجے شرما نے اب دیپیکا کے پیٹ اور سینے کے مالپ پر اپنی انگلیوں سے جادو جگانا شروع کر دیا تھا‪ ،‬پھر سنجے نے خود‬
‫ہی دیپیکا سے پوچھا میم آپ نے کبھی اپنے بوبز کا مساج کروایا ہے؟؟ جس پر دیپیکا نے نفی میں سر ہال دیا۔ سنجے نے کہا پھر‬
‫آج تو آپکو الزمی کروانا چاہیے یقین کریں بہت سکون ملے گا‪ ،‬یہ کہ کر سنجے نے دیپیکا کے جواب کا انتظار کیے بغیر اسکا‬
‫برا ہاتھ سے اٹھا کر سائیڈ پر رکھ دیا۔ وہ جانتا تھا کہ دیپیکا انکار کر ہی نہیں سکتی وہ تو سیکس کے لیے مری جا رہی تھی۔ برا‬
‫سائیڈ پر رکھتے ہی سنجے شرما کو جب دیپیکا کے ‪ 36‬سائز کے ممے نظر آئے تو اسکی آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ دیپیکا‬
‫َ‬
‫چھوٹ گالبی دائرے اور ان دائروں میں چھوٹا سا نپل جو تن کر سخت ہو رہا تھا سنجے کو بہت‬ ‫کے گول ممے اور ان پر چھوٹے‬
‫پیارا لگا۔ اس نے پہلے آہستگی سے دیپیکا کے مموں پر ہاتھ پھیرا اور بوال میم آپکا سینا تو بہت خوبصورت ہے‪ ،‬ابھی تک میں‬
‫نے جتنی بھی لڑکیوں کو مساج دیا ہے ان سب میں آپکا سینا سب سے زیادہ خوبصورت ہے اور آپکے بوبز کی شیپ بھی بہت‬
‫اچھی ہے اور ان پر یہ چھوٹے چھوٹے سے نپل تو کمال ہی ہیں۔ یہ کہ کر سنجے شرما نے آہستگی کے ساتھ دیپیکا کے دونوں‬
‫نپلز کواپنی انگلی اور انگوٹھے سے دبا دیا جس سے دیپیکا کی ہلکی سی سسکی نکلی۔ دیپیکا نے کانپتی ہوئی آواز میں پوچھا کیا‬
‫میرا سینا سنی لیون سے بھی خوبصورت ہے؟؟ اس پر سنجے شرما نے کہا میم ویسے تو آپکے بوبز سنی جی کے بوبز کے‬
‫م قابلے میں چھوٹے ہیں‪ ،‬مگر آپ تو جانتی ہی ہو کہ اسکے بوبز کو پتا نہیں کس کس نے استعمال کیا ہے‪ ،‬ان میں اب وہ بات نہیں‬
‫رہی جو آپکے بوبز میں ہے۔ یہ کر کہ سنجے شرما نے دیپیکا کے بوبز کو اپنے ہاتھوں میں سختی سے پکڑ لیا اور انکو دبا دیا۔‬
‫دیپیکا کی ایک لمی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کی سسکاری نکلی ۔‬
‫اسکی نظریں سنجے شرما کے لن پر تھی جو اسکے انڈر وئیر میں سے باہر نکلنے کی ناکام کوشش کر رہا تھا۔ دیپیکا بھی مساج‬
‫کا ڈرامہ کر کرکے اب تنگ آچکی تھی اور اب وہ کھل کر سیکس کرنا چاہتی تھی‪ ،‬سنجے شرما دیپیکا کے مموں سے کھیلنے‬
‫میں مصروف تھ ا مگر ابھی تک وہ کھل کر انکے ساتھ نہیں کھیل رہا تھا بلکہ یہی تاثر دے رہا تھا کہ وہ مساج کر رہا ہے‪ ،‬مگر‬
‫مساج کے ذریعے وہ دیپیکا کی چوت کی گرمی کو مزید بڑھا رہا تھا۔ اور اب یہ گرمی اتنی بڑھ چکی تھی کہ دیپیکا اب کھل کر‬
‫سیکس کرنا چاہتی تھی‪ ،‬تبھی دیپیکا نے سنجے کو کہا چلو دیکھتے ہیں کہ سنی کو واقعی مزہ آرہا تھا یا وہ مجھے سنانے کے‬
‫لیے آوازیں نکال رہی تھی تم اپنا انڈر وئیر اتار کر اپنا سائز چیک کرواو پہلے۔۔۔ یہ سننا تھا کہ سنجے شرما فورا ہی دیپیکا کے‬
‫اوپر سے نیچے اتر آیا ‪ ،‬وہ تو کافی دیر سے اپنے لن کو اپنے انڈر و ئیر کی قید سے آزاد کرنا چاہ رہا تھا۔ دیپیکا کی طرف سے‬
‫فرمائش ہوتے ہی سنجے شرما نے نیچے اتر کر اپنا انڈر وئیر اتار دیا۔ انڈر وئیر کی قید سے آزاد ہوتے ہی لن تن کر ایسے کھڑا‬
‫ہوگیا جیسے کسی سپرنگ کو کافی دیر سے دبا کر رکھا ہو اور وزن ہٹنے پر وہ فل پاور کے ساتھ اوپر کی طرف کھڑا ہوجاتا‬
‫ہے۔ کچھ ایسے ہی سنجے شرما کا ‪ 8‬انچ کا لن کھڑا ہوا تھا‪ ،‬دیپیکا ابھی تک الٹی ہی لیٹی تھی‪ ،‬مگر سنجے شرما کا لن دیکھر کر‬
‫جھولے پر بیٹھ گئی اور بال جھجک سنجے کا لن ہاتھ میں پکڑ کر اسکی لمبائی اور موٹائی ماپنے لگی۔ لن کی موٹائی اور لمبائی‬
‫ماپ کر سنجے شرما نے تعریفی نظروں سے سنجے شرما کی طرف دیکھا اور بولی اسکا سائز تو قاب ِل تعریف ہے اب دیکھنا ہے‬
‫کہ یہ اپنا کام بھی صحیح طرح سے کرتا ہے یا نہیں؟؟؟ اس پر سنجے شرما نے کہا یہ تو جب آپ اپنے اندر لیں گی تبھی آپکو پتا‬
‫لگے گا اسکی کارکردگی کا۔‬

‫پھر دیپیکا نے پوچھا اسکا ذائقہ کیسا ہے؟؟؟ سنجے شرما نے کہا چکھ کر دیکھ لیں۔ دیپیکا نے اپنا منہ کھول اور سنجے شرما کے‬
‫لن کی ٹوپی اپنے منہ میں ڈال کر اس پر اپنی زبان کو گول گول گھمایا تو لن کی ٹوپی پر موجود مذی دیپیکا کی زبان پر لگ گئی‬
‫جسکا ذائقہ بالکل نمکین تھ ا‪ ،‬دیپیکا نے لن منہ سے باہر نکاال اور مزے لیتی ہوئی بولی واہ‪ ،‬یہ تو بہت ٹیسٹی ہے‪ ،‬بہت مزے کا‬
‫ذائقہ ہے اسکا۔ پھر وہ لن کو بغور دیکھنے لگی اور اسکی نظریں سنجے شرما کے لن کی ٹوپی پر جم گئیں۔۔۔ پھر وہ اچانک ہی‬
‫بولی کون ہو تم؟؟؟ تم تو مجھے مسلمان لگتے ہو؟؟ کیا تم پاکستانی ہو؟؟؟ یہ تمہارا لن؟؟؟ اتنے سارے سوال دیپیکا نے ایک ہی‬
‫سانس میں کر دیے تھے ‪ ،‬وہ سنجے شرما کے لن کو دیکھ کر ڈر گئی تھی کیونکہ اسنے خطنے کروا رکھے تھے۔ اسے کیا معلوم‬
‫تھا کہ یہ اصل میں پاکیشا کا میجر دانش ہے۔ مگر دیپیکا کے ان سوالوں سے سنجے شرما بالکل بھی پریشان نہیں ہوا‪ ،‬اس نے‬
‫اطمینان سے جواب دیا میم گھبرانے والی کوئی بات نہیں۔ میں پچھلے ‪ 10‬سال سے پاکیشا کی آرمی میں بھرتی ہوں۔ آج سے ‪15‬‬
‫سال پہلے میں ہندوستانی آرمی میں بھرتی ہوا تھا‪ ،‬میری سپیشل تربیت کی گئی تھی اور مجھے ہندی کی بجائے پاکیشا کی زبانیں‬
‫اردو‪ ،‬پنجابی اور سندھی سکھائی گئی تھیں وہیں کے رسم و رواج اور کھانے پینے کا انداز سب کچھ سکھایا گیا اور مجھے پاکیشا‬
‫بھیج دیا گیا۔ پاکیشا بھیجنے سے پہلے مجھے وہاں کے مذہب کے بارے میں بھی کافی معلومات دی گئیں اور انکی عبادات بھی‬
‫سکھائی گئیں تبھی میرے خطنے بھی کروائے گئے تھے۔‬

‫پھر میں نے پاکیشا جا کر وہاں کی آرمی جوائن کی اور ان میں رہ کر ہندوستان کے لیے جاسوسی کرتا رہا۔ اب ‪ 10‬سال کے بعد‬
‫انہوں نے مجھے ہندوستان کے کچھ راز چرانے کے لیے ہندوستان بھیجا‪ ،‬انہیں کیا معلوم کہ میں تو ہوں ہی ہندوستانی‪ ،‬میں یہاں‬
‫آکر کرن ل صاحب سے مال تو انہوں نے مجھے کہا کہ تم کچھ عرصے کے لیے رو پوش ہوجاو‪ ،‬وہاں ہم یہ مشہور کر دیں گے کہ‬
‫ایک پاکیشائی جاسوس ہندوستانی آرمی نے پکڑ لیا۔ اب پاکیشا کی آرمی کو یہی پتا ہے کہ انکا کیپٹن سرور انڈیا میں گرفتار ہوچکا‬
‫ہے اور ابھی تک انہی کی تحویل میں ہے اس لیے میں کیپٹن سرور کی حیثیت سے واپس پاکیشا نہیں جا سکتا‪ ،‬مگر میرا وہاں جانا‬
‫بھی ضرور ہے کیونکہ میں وہاں کے عالقوں سے‪ ،‬وہاں کے لوگوں سے بخوبی واقف ہوں اور کرنل صاحب کے مشن کو تکمیل‬
‫تک پہنچانے میں انکی مدد کر سکتا ہوں۔ اسی لیے میں آپکے مالزم کی حیثیت سے پاکیشا جاوں گا اور وہاں جا کر کرنل وشال‬
‫کی ٹیم کے ساتھ مل کر انکی مدد کروں گا ہولستان میں بغاوت کی تحریک کو کامیاب کرنے میں۔‬

‫یہ سٹوری سن کر دیپیکا کو کچھ تسلی ہوگئی تھی اور جس روانی سے سنجے شرما نے یہ سٹوری سنائی اس سے بھی دیپیکا کو‬
‫لگا کہ وہ صحیح کہ رہا ہے اور ویسے بھی ابھی اسکے ہاتھ میں ایک لمبا اور موٹا لن تھا جو اپنے فل جوبن پر تھا‪ ،‬لہذا دیپیکا‬
‫کے اندر کی عورت نے اس کہانی کا کھوج لگانے کی بجائے لن کے ساتھ مزے لینے کا مشورہ دیا جس پر عمل کرتے ہوئے‬
‫دیپیکا نے دوبارہ سے سنجے شرما کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی۔ دیپیکا پڈوکون بہت مہارتے کے ساتھ سنجے‬
‫شرما کا لن چوس رہی تھی مگر اس میں وہ بات نہیں تھی جو سنی لیون کے چوپوں میں تھی۔ مگر پھر بھی سنجے شرما کو دیپیکا‬
‫سے چوپے لگوانے میں کافی مزہ آرہا تھا کیونکہ اسکی دلی خواہش تھی ایک بار دیپیکا کو چودنے کی۔ وہ بہت مرتبہ دیپیکا کے‬
‫نام کی مٹھ مار چکا تھا‪ ،‬آج حقیقت میں اسے موقع مل گیا تھا دیپیکا کی چوت اور گانڈ میں اپنا لن ڈالنے کا تو وہ اسکا پورا پورا‬
‫لطف اٹھا رہا تھا۔‬

‫دیپیکا پڈوکون اپنی ٹانگیں نیچے لٹکائے جھولے پر بیٹھی تھی‪ ،‬نہ تو اسکے بدن پر پینٹی تھی اور نہ ہی برا‪ ،‬اس نے ایک ہاتھ‬
‫سے لن کو جڑ سے پکڑ رکھا تھا اور اسکو منہ میں ڈال کر منہ آگے پیچھے کر کے لن چوس رہی تھی جبکہ دیپیکا کا دوسرا ہاتھ‬
‫اسکے مموں پر تھا‪ ،‬ایکے ممے کو ہاتھ میں پکڑ کر وہ اسے دبا رہی تھی۔ ایسے محسوس ہورہا تھا کہ دیپیکا کو لن پر چوپے‬
‫لگان ے کا بہت شوق ہے اور آج اسے ایک تگڑا لن مال تھا تو وہ کھل کر اسکے چوپے لگا رہی تھی۔ پھر دیپیکا نے لن دوبارہ سے‬
‫باہر نکاال اور اور اپنی زبان کی نوک لن کے شافٹ اور ٹوپی کے مالپ پر موجود ماس پر پھیرنے لگی جسکا کیپٹن سنجے شرما‬
‫کو بہت سرور ملنے لگا۔ پہلے کبھی کس ی نے کیپٹن کا لن اس طرح سے نہیں چوسا تھا جس طرح دیپکا اپنی زبان سے چوس رہی‬
‫تھی۔ پھر دیپیکا نے اپنے ممے کو چھوڑ کر ایک ہاتھ سے سنجے شرما کے ٹٹوں کو پکڑ لیا اور انہیں مسلنے لگی جبکہ ساتھ‬
‫ساتھ لن کے چوپے لگانا بھی جاری رکھے۔‬

‫کچھ دیر بعد سنجے شرما نے دیپیکا ک ے بال سر کے پیچھے اکٹھے کر کے ایک ہاتھ سے بالوں کو پکڑ لیا اور دوسرے ہاتھ سے‬
‫دیپیکا کا منہ پکڑ کر خود ہی اسکے منہ میں لن کے گھسے لگانا شروع کر دیے‪ ،‬سنجے شرما کا آدھے سے زیادہ لن دیپیکا کے‬
‫منہ میں جا رہا تھا اور دوران اسکا منہ بھی تھوک سے بھرا ہوا تھا جسکی وجہ سے سنجے کا پورا لن گیال ہو چکا تھا۔ کچھ دیر‬
‫مزید اسی طرح دیپیکا کے منہ کی چدائی کرنے کے بعد سنجے شرما نے دیپیکا کے منہ سے اپنا لن نکال لیا اور اسکو جھولے پر‬
‫لٹا لیا۔ اور خود دیپیکا کے اوپر لیٹ کر ایک ہاتھ سے دیپیکا کی چوت پر رکھ کر اسکی چوت کے لبوں پر اپنی انگلی پھیرنے لگا‬
‫تو دوسرا ہاتھ اسکی گردن کے نیچے رکھ کر دیپیکا کے رس بھرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ دیپیکا نے بھی کسنگ میں‬
‫کیپٹن سنجے شرما کا بھرپور ساتھ دیا اور اپنا منہ کھول کر سنجے کی زبان کو اندر آنے کا راستہ دے دیا‪ ،‬سنجے نے دیپیکا کے‬
‫منہ میں ا پنی زبان ڈال کر اسے گول گول گھمایا تو دیپیکا نے اپنے ہونٹوں کا حلقہ بنا کر سنجے کی زبان کو جکڑ لیا اور اسے‬
‫اپنی زبان سے چوسنے لگی جسکا سنجے شرما کو بہت مزہ آیا‪ ،‬سنجے کی زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ دیپیکا کا جسم ہلکا ہلکا‬
‫جھٹکے بھی کھا رہا تھا کیونکہ نیچے دیپیکا کی چوت پر سنجے شرما کی انگلیاں چھیڑ چھاڑ کرنے میں مصروف تھیں۔‬

‫کچھ دیر تک دیپیکا کے رسیلے ہونٹ چوسنے کے بعد سنجے شرما کے ہونٹ اب دیپیکا کی گردن پر اپنے پیار کا نشان چھوڑنے‬
‫میں مصروف تھے‪ ،‬دیپیکا کا جسم بہت زیادہ گرم ہونے کے ساتھ ساتھ بہت مالئم اور ریشمی تھا‪ ،‬ایسا لگتا تھا کہ سنگِ مر مر‬
‫سے تراشا ہوا کوئی مجسمہ ہے جس پر ہاتھ پھیر تے ہوئے عجیب سا سرور ملتا ہے۔ سنجے شرما کے ہونٹ دیپیکا کی گردن پر‬
‫کان سے کچھ نیچے پیار کرنے میں مصروف تھے اور ساتھ ساتھ اپنے دانتوں سے ہلکا سا کاٹ کر گردن پر اپنے پیار کا نشان‬
‫بھی چ ھوڑ رہا تھا سنجے شرما‪ ،‬دیپیکا کو کافی عرصے کے بعد کسی نے اس طرح پیار کیا تھا‪ ،‬ورنہ زیادہ تر بالی ووڈ میں آنے‬
‫کے بعد تو ہر کوئی سیدھا چوت میں لن ہی ڈالتا تھا۔ مگر سنجے شرما آج دل سے دیپیکا کے جسم کو پیار کر رہا تھا‪ ،‬اور دیپیکا‬
‫کا مخملی جسم واقعی میں اس قابل تھا کہ اسکو چودنے سے زیادہ اسکے جسم پر پیار کیا جائے۔ کچھ دیر تک دیپیکا کی صراحی‬
‫دار گردن پر اپنے پیار کے نشان چھوڑنے کے بعد سنجے شرما اب دیپیکا کے سینے پر پیار کر رہا تھا‪ ،‬وہ ابھی مموں تک تو‬
‫نہیں پہنچا تھا مگر مموں سے تھوڑا ہی اوپر کے حصے پر وہ دیوانہ وا ر پیار کرنے میں مصروف تھا اور اب اسکی انگلی دیپیکا‬
‫کی چوت میں داخل ہو چکی تھی‪ ،‬جسکو وہ کبھی اندر باہر کر رہا تھا تو کبھی دیپیکا کی چوت کے اندر ہی انگلی کو گول گول‬
‫گھما رہا تھا۔‬

‫دیپیکا کی اب آہ ہ ہ ہ ‪ ، ، ،‬آوہ ہ ہ ہ ‪ ،،،،،‬اف ف ف ف ف سنجے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ کِس می سنجے۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ آوازیں‬


‫سنجے کو بھی گرم کر رہی تھیں‪ ،‬دیپیکا کے سینے پر بھی نشان ڈالنے کے بعد اب دیپیکا کے ممے سنجے شرما کے منہ میں‬
‫تھے جن پر وہ باری باری پیار کر رہا تھا‪ ،‬کبھی دائیں ممے کو منہ میں لیکر خوب زور سے چوستا تو کبھی بائیں ممے کو منہ‬
‫میں لیکر اسکا دودھ پینے لگتا جبکہ اسکی انگلی ابھی تک دیپیکا کی چوت میں اپنا جادو دکھا رہی تھی۔ جب سنجے شرما نے‬
‫دیپیکا کے مموں پر موجود چھوٹے مگر تنے ہوئے نپلز کو اپنے دانتوں سے کاٹنا شروع کی تو دیپیکا نے اپنے دونوں ہاتھوں کو‬
‫سنجے شرما کے ب الوں میں پھنسا کر اسکو اپنے مموں پر دبانا شروع کر دیا اور اسکو مزید نپل چوسنے کے لیے اکسانے لگی‪ ،‬آہ‬
‫ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ف ف ۔۔۔ سنجے تم بہت اچھا کر رہے ہو ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ سارا دودھ پی جاو میرے مموں سے۔ ۔ ۔ ۔‬
‫۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ‪ ،‬لو یو سنجے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ میرے نپلز کو دانتوں سے کاٹو‪ ،‬بہت مزہ آرہا ہے آہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ۔۔۔۔۔‬

‫دیپیکا کی ہر سسکی سنجے شرما کے لن میں نئی جان پیدا کر رہی تھی اور اسکو اپنا لن پہلے سے زیاد سخت محسوس ہو رہا تھا۔‬
‫پھر سنجے شرما نے اپنی زبان نکال لی اور دیپکا کے نپلز پر اپنی زبان کی نوک کو گول گول گھمانے لگا۔ آج دیپیکا کو بہت‬
‫عرصے بعد ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ کوئی اسکا چاہنے واال اسکے جسم کو پیار کر رہا ہے‪ ،‬وگرنہ اس سے پہلے جس نے بھی‬
‫دیپیکا کو چودا اس نے جسم کی حوس میں اور صرف اپنے لن کا پانی نکالنے کے لیے دیپیکا کی چوت کا استعمال کیا تھا۔ دیپیکا‬
‫کو بالی ووڈ انڈسٹری میں آنے سے پہلے اپنا بوائے فرینڈ یاد آگیا تھا جو دیپیکا سے بہت پیار کرتا تھا‪ ،‬وہ بھی دیپیکا کو چودنے‬
‫سے پہلے اسکے جسم کو خوب چومتا اور چاٹتا تھا اور دیپیکا کے جسم کے ایک ایک حصے کو اپنے ہونٹوں سے چومتا اور‬
‫چوستا تھا۔ و ہی تڑپ اور وہی پیار آج اسے سنجے شرما سے مل رہا تھا جو پہلے دیپیکا کے ہونٹ پھر گردن‪ ،‬پھر سینے ور اب‬
‫مموں سے ہوتا ہوا دیپیکا کی ناف تک آچکا تھا اور اسکی ناف میں اپنی زبان کو گول گول گھما رہا تھا‪ ،‬دیپیکا کا پیٹ بھی چوت‬
‫میں انگلی اور ناف میں زبان گھومنے کی وجہ سے تھر تھرا رہا تھا‪ ،‬جیسے کوئی بیلی ڈانسر اپنے پیٹ کو تھرتھراتی ہے‪ ،‬بالکل‬
‫ویسے ہی دیپیکا کا جسم سنجے کے پیار کی شدت سے تھرتھرا رہا تھا۔ اور گرمی تو اسکے جسم سے ایسے نکل رہی تھی جیسے‬
‫پاس ہی کوئی تندور دہک رہا ہو۔‬

‫اب وقت آگیا تھا دیپیکا کی گالبی چوت کو چاٹ نے کا‪ ،‬مگر سنجے کا لن بھی اپنے لیے کوئی گرم گرم سوراخ تالش کر رہا تھا‪،‬‬
‫اسکی بے چینی میں اضافہ ہو رہا تھا‪ ،‬اسی لیے سنجے شرما نے دیپیکا کی چوت سے اپنی انگلی نکالی اور دیپیکا کے اوپر اس‬
‫طرح گھٹنے لگا کر لیٹ گیا کہ سنجے شرما کا لن دیپیکا کے ہونٹوں کو چھونے لگا تھا اور سنجے شرما کے ہونٹ دیپیکا کی‬
‫پھدی کے بالکل اوپر تھے اور اسکا جوس پینے کےلیے تیار تھے۔ اپنے منہ کے سامنے دانش کا موٹا اور لمبا لن دیکھتے ہی‬
‫دیپیکا نے اسکو اپنے ہاتھ میں مظبوطی سے پکڑ کر فورا ہی اپنے منہ میں ڈال لیا اور اپنی گردن اوپر اٹھا کر دوبارہ سے سنجے‬
‫شرما کا لن چوسنے لگی‪ ،‬اور دوسری طرف سنجے شرما کی زبان اسکے منہ سے باہر آکر اب دیپیکا کی پھدی کے منہ پر آہستہ‬
‫آہستہ پیار کر رہی تھی۔ دیپیکا کی چوت بہت گرمی چھوڑ رہی تھی‪ ،‬اس نے بے چینی سے لن منہ سے نکاال اور سنجے کو کہا‬
‫جان پلیز میری پھدی کو زور زور سے چاٹو نا۔ یہ کہ کر دیپیکا نے دوبارہ سے سنجے شرما کے لن کی ٹوپی اپنے ہونٹوں کے‬
‫حلقے میں پھنسا کر اسکو چوسنا شروع کر دیا جبکہ سنجے شرما نے دیپیکا کی پھدی کے لبوں کو اپنے ہاتھ سے کھول کر اپنی‬
‫زبان اسکے اندر ڈال دی اور اسے تیزی کے ساتھ اپنی زبان سے چودنے لگا۔‬

‫سنجے شرما کی زبان کو اپنی پھدی کے اندر محسوس کرتے ہی دیپیکا نے اپنی چوت اور گانڈ کو آہستہ آہستہ اوپر نیچے ہالنا‬
‫شروع کر دیا جس سے سنجے کو اندازہ ہو رہا تھا کہ دیپیکا پڈوکون اس وقت سنجے کے لن کے لیے مری جا رہی ہے۔ اور اسکو‬
‫بہت شدت کے ساتھ لن کی طلب ہے جو اسکی چوت کی پیاس بجھا سکے۔ ابھی سنجے شرما نے محض ‪ 3 ،2‬منٹ ہی دیپیکا کی‬
‫چکنی اور پانی سے بھری پوئی پھدی کو اپنی زبان سے چوٹا اور چودا تھا کہ دیپیکا نے اپنی بے چینی کا اظہار کر دیا اور لن‬
‫اپنے منہ سے نکال کر بولی چلو اب اسکو جلدی سے میری چوت میں ڈال کر مجھے ویسے ہی چودو جیسے کل سنی لیون کو‬
‫چود رہے تھے‪ ،‬اور میری ویسے ہی آوازیں نکلنی چاہیے جیسی کل سنی لیون کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ دیپیکا کی طرف سے‬
‫اس شدت کے ساتھ لن مانگنے کے بعد سنجے شرما نے بغیر ٹائم ضائع کیا دیپیکا کو چودنے کا تہیہ کر لیا‪ ،‬سنجے شرما دیپیکا‬
‫کے اوپر سے اٹھ گیا اور اسی جھولے پر دیپیکا کی ٹانگوں کی طرف اپنے پنجوں کے بل اور گھٹنے لگا کر بیٹھ گیا‪ ،‬پھر اس نے‬
‫دیپیکا کی ٹانگوں کو کھول کر اسے اپنی طرف کھینچا تو دیپیکا کی چوت سنجے شرما کے لن کے بالکل قریب آگئی‪ ،‬پھر سنجے‬
‫شرما نے دیپیکا کی ایک ٹانگ کو اوپر اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا جبکہ دوسری ٹانگ کو باہر کی طرف نکال کر فولڈ کر دیا۔‬
‫اس طرح سنجے شرما کے لن کا راستہ دیپیکا کی پھدی تک بالکل صاف اور کھال بن گیا تھا۔‬

‫سنجے شرما نے اپنے لن کی ٹوپی کو دیپیکا کی چوت کے پانی سے تھوڑا گیال کیا‪ ،‬اور اسکے بعد دیپیکا کی چوت کے لبوں پر‬
‫لن کی ٹوپی کر رکھ کر آہستہ سے دباو ڈاال تو لن خود بخود پھدی کے اندر جانے لگا۔ سنجے شرما کو یوں لگ رہا تھا جیسے‬
‫دیپیکا کی چوت اسکے لن کو اندر کی طرف کھینچ رہی ہے۔ پھدی کی دیواروں کی چکناہٹ سے سنجے شرما کو اندازہ ہوگیا تھا‬
‫کہ دیپیکا کو کس شد ت سے اس وقت لن کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ دیپیکا کی چوت کی دیواروں نے سنجے شرما کے لن کو‬
‫ویلکم کہا تھا اور آہستہ آہستہ چوت ی دیواروں نے سنجے کا پورا ‪ 8‬انچ کا لن اپنے اندر کھینچ لیا تھا۔ جیسے ہی سنجے شرما کا‬
‫لن جڑ تک دیپیکا کی چوت میں اترا دیپیکا کی چوت نے اس کو زور سے جکڑ لیا۔ سنجے شرما نے لن باہر نکالنا چا ہا تو اسکو‬
‫کچھ دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر جب لن پورا باہر آگیا اور محض اسکے لن کی موٹی ٹوپی ہی چوت کے اندر رہ گئی تو سنجے‬
‫شرما نے اب کی بار ایک زور دار گھسا مارا اور پورا لن ایک ہی جھٹکے میں دیپیکا کی گرم تپتی ہوئی چوت میں اتار دیا‪ ،‬دیپیکا‬
‫کے منہ سے ایک ہلکی چیخ نکلی اور پھر اسکے چہرے پر خوشی کے آثار آنے لگے‪ ،‬اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ لوڑا اسکی‬
‫خوب جم کر چودائی کرنے واال ہے۔ پھر سنجے شرما کے لن نے نہ رکنے والے دھکوں کا ایک سلسلہ شروع کر دیا‪ ،‬ہر دھکے‬
‫پر دیپی کا کے منہ سے ایک ہلکی چی چیخ نکلی اور اسکی آہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ اف ف ف ف ف ف ‪ ،،،‬آہ ہ ہ ہ آہ‬
‫ہ ہ ۔ ۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ام م م م م م م م یس یس یس آہ ہ ہ ہ ہ کی سسکیاں سنجے شرما کے کانوں میں رس گھولنے لگیں۔‬

‫دیپیکا خود جتنی نفیس تھی اسکی سسکیاں اتنی ہی زیادہ سیکسی اور خوار کر دینے والی تھیں۔ سنجے شرما کے ہر دھکے پر‬
‫دیپیکا کا پورا جسم اوپر کی طرف اٹھتا تو اسکے ممے بھی اچھل کر اوپر کی طرف جاتے۔ چند منٹ کے دھکوں کے بعد ہی‬
‫دیپیکا کو محسوس ہونے لگا کہ اسکی پھدی پانی چھوڑنے والی ہے۔ اس نے اپنی پھدی کو مکمل ٹائٹ کر لیا تھا۔ جسکی وجہ سے‬
‫سنجے شرما کا لن اب پہلے سے زیادہ دیپیکا کی چوت کی دیواروں کو رگڑتا ہوا اسکی چوت میں اندر باہر نا رہا تھا‪ ،‬کچھ دیر‬
‫تک اسی طرح پھدی ٹائٹ رکھ کر چدوانے کے بعد دیپیکا نے ایک دم سے اپنی پھدی کی دیواروں کو ڈھیال چھوڑ دیا‪ ،‬جیسے ہی‬
‫پھدی کی دیواروں کو ڈھیال چھوڑا دیپیکا کی چوت نے پانی کا ایک فوارہ نکال دیا جس سے سنجے شرما کا پورا لن بھیگ گیا‪،‬‬
‫مگر اس نے دھکے نہیں روکے اور لگاتا دیپیکا کی گیلی اور پانی سے بھری ہوئی چوت میں اپنے لن سے دھکے لگاتا رہا جس‬
‫سے اب پچک پچک کی آوازیں آر ہی تھیں۔ کچھ جھٹکوں میں جب دیپیکا کی پھدی نے مکمل پانی چھوڑ دیا تو وہ اپنا سر پیچھے‬
‫کی جانب رکھ کر گہرے اور لمبے سانس لے رہی تھی۔ سنجے شرما نے اپنا لن دیپیکا کی چکنی پھدی سے باہر نکال لیا اور‬
‫دیپیکا کی طرف دیکھتے ہوئے بوال جی میم اب بتائیں‪ ،‬سنی جی آپکو سنا نے کے لیے چیخ رہی تھیں یا پھر۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟ دیپیکا نے یہ‬
‫سوال سن کر ایک سمائل دی اور بولی نہیں مجھے اندازہ ہوگیا ہے‪ ،‬اس کو بہت مزہ آرہا تھا تمہاری چدائی سے۔ تبھی وہ رنڈی‬
‫اس طرح چیخ رہی تھی۔‬

‫یہ سن کر سنجے شرما نے دیپیکا کو کہا چلیں پھر اب ذرا گھوڑی بن جائیں آپ مجھے اس سٹائل میں چودنا بہت پسند ہے۔ دیپیکا‬
‫نے کہا گھوڑی بنا کر بھی چود لینا لیکن اس سے پہلے میں تمہارے لن پر سواری کرنا چاہتی ہوں‪ ،‬یہ کہ کر دیپیکا اپنی جگہ سے‬
‫کھڑی ہوگئی اور سنجے شرما اسی جھولے پر لیٹ گیا۔ سنجے شرما کا لن اس وقت فل جوبن پر تھا‪ ،‬دیپیکا پڈوکون نے اپنا ہاتھ‬
‫اپنی زبان پر پھیر کر اس پر تھوک لگایا اور پھر اس کو اپنی چوت پر مسلنے کے بعد سنجے شرما کے لن کے اوپر بھی تھوک‬
‫پھینکا اور اسکی ٹوپی پر مسلنے کے بعد اپنی دونوں ٹانگیں سنجے شرما کے دائیں بائین رکھ کر پاوں کے بل بیٹھ گئی اور سنجے‬
‫شرما کے لن کی ٹوپی اپنی چوت کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ آہستہ اس پر بیٹھتی چلی گئی‪ ،‬جب سارا لن دیپیکا پڈوکون کی ٹائٹ‬
‫اور چکنی چوت میں غائب ہوگیا تو دیپیکا پڈوکون نے اپنے دونوں ہاتھوں کو سنجے شرما کے سینے پر رکھ کر اپنا وزن آگے کی‬
‫طرف ڈال دیا اور پیچھے سے اپنی گانڈ اٹھا کر خود ہی اپنی چودائی شروع کر دی۔ اس پوزیشن میں چودائی کی رفتار زیادہ نہیں‬
‫تھی‪ ،‬مگر جتنی تیزی سے دیپیکا اوپر نیچے ہوسکتی تھی وہ ہو رہی تھی اور ساتھ ہی اف ف ف ف ف ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ‬
‫ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اف ف ف ف ف ف ف ف ف ۔۔۔۔۔ ام م م م م م م م م م م کی آوازیں بھی نکال رہی تھی۔ دیپیکا‬
‫پڈوکون پر کھلی فضا میں چدائی کروانے کا بھی نشہ تاری تھا جسکی وجہ سے اسکی چوت خشک ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی‬
‫تھی۔ اپنے گھر کے الن میں کھلے آسمان تلے دیپیکا نے کبھی کسی سے چدائی نہیں کروائی تھی۔ یہ پہلی بار تھا کہ سوئمنگ‬
‫کرنے کے بعد اپنے الن میں ہی اپنے پسندیدہ جھولے پر دیپیکا پڈوکون ایک انجان آدمی کے لن پر سوار تھی اور خوب مزے سے‬
‫اپنی چدائی کر رہی تھی۔ دیپیکا کے ‪ 36‬سائز کے ممے جیلی کی طرح ہل رہے تھے جن پر سنجے شرما کی نظریں تھیں۔‬

‫کچھ دیر کی اچھل کود کے بعد دیپیکا پڈوکون تھک گئی تو اسنے سنجے شرما کو کہا کہ وہ اپنی گانڈ اوپر اٹھاتی ہے وہ نیچے‬
‫سے اپنے لن کے گھسے لگائے اور چودائی کی رفتار بھی بڑھا دے‪ ،‬یہ کہ کر دیپیکا پڈوکون نے اپنی گانڈ تھوڑی اوپر اٹھا لی‬
‫جس سے لن کا شافٹ باہر نکل گیا محض لن کی ٹ وپی دیپیکا کی چوت میں پھنسی ہوئی تھی۔ پھر نیچے سے سنجے شرما نے اپنی‬
‫ٹانگیں فولڈ کر کے اپنی گانڈ کے زور سے دیپیکا کی چوت میں لن کے دھکے لگانے شروع کر دیے۔ ان دھکوں کی رفتار پہلے‬
‫کی نسبت بہت زیادہ تیز تھی تبھی دیپیکا کی سسکیاں بھی پہلے کی نسبت تیز ہو چکی تھیں‪ ،‬پہلے اسکی ایک لمبی آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ‬
‫نکلتی تھی تو اب مسلسل آہ ہ ہ ‪ ،،،،‬آہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔۔۔ آہ ہ ہ کی تیز تیز آوازیں آرہی تھیں۔ کچھ دیر اس طرح دیپیکا کی چوت کو‬
‫سکون پہنچانے کے بعد اب سنجے شرما نے دیپیکا کو اپنے لن پر پوری طرح بیٹھنے کا کہا اور پاوں کی بجائے گھٹنے بھی‬
‫نیچے لگانے کو کہا تاکہ سنجے شرما کا لن طوفانی رفتار کے ساتھ دیپیکا کی گیلی چوت میں ہل چال سکے۔‬

‫سنجے شرما کے کہنے پر دیپیکا پڈوکون نے اپنے گھٹنے بھی نیچے لگا دیے اور پاوں کے پنجوں کے سہارے اپنی گانڈ کو تھوڑا‬
‫سا اوپر اٹھائے رکھا تاکہ سنجے شرما کو دھکے لگانے کے لیے جگہ مل سکے۔ اس پوزیشن میں آنے کے بعد اب جو سنجے‬
‫شرما نے دیپیکا کو چودنا شروع کیا تو وہ تو جیسے کسی اور ہی جہاں کی سیر کرنے پہنچ گئی۔ سنجے شرما نے اپنے دونوں‬
‫ہاتھوں کو دیپیکا کی تھائیز پر رکھ لیا تھا اور نیچے سے اپنے لوڑے کی ایسی مشین چالئی کے دیپیکا کی آہ ہ ہ آہ ہ ہ بھی پوری‬
‫نہیں نکل پا رہی تھی۔ جو رفتار سنجے شرما کے لن کی تھی وہی رفتار دیپیکا کی نہ ختم ہونے والی سسکیوں کی تھی اور دیپیکا‬
‫کے ممے ہوا میں ایسے اچھل رہے تھے جیسے کوئی ربڑ کی بال فرش سے ٹھپا کھا کر اوپر اٹھتی ہے۔۔۔ ‪ 3‬منٹ تک سنجے‬
‫شرما اسی رفتار کے ساتھ دیپیکا کی چودائی کرتا رہا۔ پھر وہ کچھ دیر کو رکا تو دیپیکا نے خود ہی اپنی چوت کو ہالنا شروع کر‬
‫دیا۔ دیپیکا نے اپنے دونوں ہاتھوں سے اپنے مموں کو پکڑ لیا تھا اور انکو دبا دبا کر اپنی گردن پیچھے کی طرف جھکا لی تھی‬
‫اور اپنی چوت اور گانڈ کو وہ مسلسل آگے پیچھے حرکت دے رہی تھی جسکی وجہ سے دیپیکا کی چوت کا حساس ترین مقام‬
‫جسے جی سپاٹ کہتے ہیں سنجے شرما کے لن کی ٹوپی سے رگڑ کھانے لگ گیا تھا جس سے دیپیکا مزے کی بلندیوں پر پہنچ‬
‫چکی تھی اور وہ مسلسل چوت کو آگے پیچھے ہالنے کے ساتھ ساتھ اپنے منہ سے نہ رکنے والی سسکیاں بھی نکال رہی تھی۔‬
‫دیپیکا کی ان سسکیوں نے سنجے شرما کی خواری میں اور اضافہ کر دیا تھا اور اس نے اب دیپیکا کو ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی‬
‫طرف کھینچا تو دیپیکا سنجے شرما کے سینے کے اوپر آگئی‪ ،‬سنجے شرما نے دیپیکا کی پتلی کمر کے گرد اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫سے مظبوط گرفت بنا لی اوردیپیکا کے نرم نرم ممے سنجے کے سینے میں دھنسنے لگا‪ ،‬اسکے بعد سنجے نے اپنے پاوں اپنے‬
‫چوتڑوں کے قریب رکھ کر اپنی گانڈ کو تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور پھر جو اس نے دیپیکا کی چوت میں پمپ ایکشن سٹارٹ کیا تو‬
‫دیپیکا کی سسکیاں اس ب ار چیخوں میں بدل گئی۔ کھلی فضا میں دیپیکا کی سسکیاں زیادہ دور تو نہیں جا رہی تھیں مگر اسکی‬
‫خواری میں ہر دھکے کے ساتھ اضافہ ہو رہا تھا اور اب وہ بھی فک می بے بی‪ ،‬آہ آہ آہ آۃ آۃ آہ آہ آہ آہ آہ آہ ۔۔۔۔۔ یس۔۔۔ فک می‬
‫فاسٹ‪ ،‬فک می آہ آہ آہ فک مائی پُزی۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ اف ف ف ف۔۔۔۔۔ فک فک فک فک۔۔۔۔ آہ آہ کی آوازیں‬
‫نکال رہی تھی۔ کیپٹن سنجے شرما اس قت پوری رفتار کے ساتھ دیپیکا کی چکنی چوت میں اپنا لن گھما گھما کر مار رہا تھا جس‬
‫سے دیپیکا کی چوت ایک بار پھر پانی چھوڑنے کے قریب پہنچ چکی تھی۔ پھر سنجے شرما نے دیپیکا کی کمر کے گرد اپنی‬
‫گرفت کمزور کی اور اسے تھوڑا اور آگے ہونے کو کہا تو دیپیکا تھوڑا سا آگے کو سرک گئی‪ ،‬اب دیپیکا کے ممے سنجے شرما‬
‫کے منہ کے سامنے تھے۔ سنجے شرما نے دیپیکاکے مموں کو کچھ دیر چوسا‪ ،‬اس دوران وہ بالکل ہولے ہولے اپنے لن کو دیپیکا‬
‫کی چکنی چوت میں حرکت دے رہا تھا۔ پھر سنجے نے دیپیکا کے چھوٹے چھوٹے مگر تنے ہوئے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر‬
‫دانتوں سے رگڑنا اور چوسنا شروع کر دیا۔ اور اسکے ساتھ ہی اس نے ایک بار پھر دیپیکا کی چوت میں دھکوں کی برسات کر‬
‫دی۔ اب کی بار سنجے کے تیز دھ کے دیپیکا کی نازک چوت کی برداشت سے باہر تھے‪ ،‬وہ سنجے شرما کی چودائی میں مہارت‬
‫کو مان گئی تھی‪ ،‬اسکو اس طرح کبھی رنویر سنگھ نے بھی نہیں چودا تھا اور نہ ہی کبھی شاہ رخ خان یا سلمان خان اسکی ایسی‬
‫چودائی کر پائے تھے جیسی پچھلے آدھے گھنٹے میں سنجے شرما نے کر دی تھی۔ اس نے نہ صرف دیپیکا کے جسم پر بے‬
‫تحاشا پیار کیا تھا جس سے دیپیکا نہال ہوگئی تھی بلکہ اسکے بعد دیپیکا کی چوت کو بھی ایسا سکون دیا تھا کہ وہ سنجے شرما‬
‫کے لن کی دیوانی ہوچکی تھی۔ اور اسی دیوانگی میں اس نے ایک بار پھر سنجے شرما کے لن پر اپنے پیار کی برسات کر دی‬
‫تھی۔ دیپیکا کی چوت نے سنجے شرما کے طاقتور لن کے طاقتور دھکوں کے سامنے ہتھیار ڈالتے ہوئے اپنا سارا پانی ایک بار‬
‫پھر خارج کر دیا تھا۔ دیپیکا کی چوت نے ‪ 6 ،5‬جھٹکوں میں اپنی چوت کا پانی نکاال اور اسکے بعد نڈھال ہوگئی‪ ،‬مگر وہ حیران‬
‫تھی کہ سنجے شرما کا لن ابھی تک ایک بار بھی فارغ نہیں ہوا تھا وہ ابھی تک تنا ہوا تھا۔‬
‫اب دیپیکا سنجے کے ہونٹوں پرہونٹ رکھ کر اپنے پیار کا اظہار کرنے لگی۔ دیپیکا کروٹ لیکر سنجے کے ساتھ لیٹی تھی اور‬
‫اپنی ایک ٹانگ دہری کر کے سنجے کی ٹانگوں کے اوپر رکھ دی تھی‪ ،‬اسکا ایک مما سنجے کے سینے کی سائیڈ سے ٹکرا رہا‬
‫تھا اور دیپیکا کے دائیں ہاتھ میں سنجے کا تنا ہوا اور دیپیکا کی چوت کے چکنے پانی سے بھیگا ہوا لن تھا جسکی وہ آہستہ آہستہ‬
‫مٹھ مار رہی تھی اور اوپر سے سنجے کے ہونٹوں کو چوس چوس کر اسکو خوش کر رہی تھی۔ پھر سنجے کے لن کی مٹھ مارنا‬
‫جاری رکھتے ہوئے دیپیکا نے سنجے کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ اٹھا اور بولی ابھی گھوڑی بنا کر چودنے کا موڈ ہے یا کافی‬
‫ہے اتنا؟؟؟ اسکی بات سن کر سنجے ہنسنے لگا اور بوال لگتا ہی دیپیکا جی کی چوت جواب دے گئی ہے‪ ،‬مگر میرا ہتھیار تو ابھی‬
‫تک آپکو گھوڑی بنا کر چودنے کے لیے مکمل تیار ہے۔ یہ سن کر دیپیکا نے کہا‪ ،‬فکر نہیں کرو تمہاری یہ خواہش ضرور پوری‬
‫کروں گی‪ ،‬آج بہت دنوں کے بعد کسی نے اتنی شاندار چدائی کی ہے میری۔ میری چوت کو سکون مل گیا ہے اب تمہارے لن کو‬
‫سکون پہنچانے کےلیے میں گھوڑی بھی بن جاوں گی اور جیسے جیسے تم کہو گے ویسے ویسے چدائی کرواوں گی۔‬
‫یہ کہ کر دیپیکا نے سنجے کے ہونٹوں پر ایک بار پھر لمبی کس کی اور پھر بولی مگر گھوڑی بننے سے پہلے ایک بار تمہارا یہ‬
‫ہتھیار اپنے منہ مین لیکر اس پر ڈھیر سارا پیار کرنا چاہتی ہوں میں۔ سنجے نے کہا دیپیکا جی آپکا ہی لن ہے یہ‪ ،‬جیسے دل کرے‬
‫پ یار کریں آپ۔ یہ سن کر دیپیکا اپنی جگہ سے اٹھی سنجے شرما کے لن کی طرف بڑھنے لگی مگر اسکے ساتھ ساتھ اس نے اپنی‬
‫چوت سنجے شرما کے منہ کی طرف بڑھانی شروع کر دی تھی۔ اور کچھ ہی دیر بعد دیپیکا پڈوکون سنجے شرما کے لن سے اپنی‬
‫چوت کا چکنا اور گاڑھا پانی چاٹنے میں مص روف تھی جبکہ پیچھے سے سنجے شرما اپنی زبان نکالی دیپیکا کی چوت میں‬
‫موجود اسکا چکنا شربت اپنی زبان سے پینے میں مصروف تھا۔ یعنی دونوں ‪ 69‬پوزیشن بنائے ایک دوسرے کو سکون پہنچانے‬
‫میں مصروف تھے۔ سنجے شرما کے ‪ 8‬انچ کے لوڑے سے دیپیکا نے اپنا سارا پانی چاٹ لیا تھا اور اب اپنی زبان سے وہ سنجے‬
‫شرما کے لن پر مساج کر رہی تھی ۔ کبھی وہ سنجے کے ٹٹوں کو پکڑ کر اپنے منہ میں ڈال کر چوستی تو کبھی سنجے کی ٹوپی‬
‫منہ میں لیکر آدھے سے زیادہ لن اپنی منہ میں گم کر دیتی اور اسکو چوس چوس کر سنجے شرما کو مزے دیتی۔ اسی طرح‬
‫سنجے شرما بھی اپنی ایک انگلی دیپیکا کی گانڈ کے سوراخ میں ڈال کر اسکو اندر باہر کر رہا تھا جس سے دیپیکا کی آہ ہ ہ ہ آہ ہ‬
‫ہ ہ والی سسکیاں ایک مرتبہ پھر سٹارٹ ہو چکی تھں اور نیچے سنجے کی زبان دیپیکا کی چوت کے لبوں کو کھولے اسکی‬
‫چودائی کرنے میں مصروف تھی۔‬

‫‪ 5‬منٹ تک اپنے لن کے چوپے لگوانے کے بعد اب سنے شرما نے دیپیکا کو جھولے سے اپنی گود میں اٹھا لیا اور خود جھولے‬
‫سے نیچے اتر آیا۔ دیپیکا کے خوبصورت لبوں پر سنجے شرما نے اپنے ہونٹ رکھ کر ان سے رس چوسنا شروع کردیا تھا اور‬
‫دیپیکا کی دونوں ٹانگیں سنجے شرما کی کمر کے گرد لپٹ چکی تھیں۔ پھر سنجے شرما نے دیپیکا سے پوچھا کہ باقی کی چودائی‬
‫ادھر ہی کرنی ہے یا اندر جا کر کروانی ہے؟؟؟ دیپیکا نے کہا اب اندر چلووہاں بیڈ پر سکون سے مجھے گھوڑی بنا کر چود لینا۔‬
‫یہ سن کر سنجے شرما نے دیپیکا کی گانڈ کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسے اوپر اٹھایا اور پھر دوسرے ہاتھ سے اپنا لن پکڑ کر اسکی‬
‫ٹوپی دیپیکا کی چوت کے سوراخ پر فٹ کی اور گانڈ سے اپنا ہاتھ ہٹا لیا‪ ،‬دیپیکا اپنے ہی وزن پر نیچے آگئی اور سارا لن دیپیکا‬
‫کی چوت میں گم ہوگیا۔ جس سے دیپیکا کی ایک تیز سسکی نکلی۔ اب سنجے شرما نے دیپیکا کو اپنے لن کے اوپر اچھلنے کے‬
‫لیے کہا تو دیپیکا نے سنجے کی کمر کے گرد دونوں پاوں کو مضبوطی سے باندھنے کے بعد اپنے پاوں کی طاقت استعمال کرتے‬
‫ہوئے اپنی چوت کو آگے پیچھے اور کچھ اوپر نیچے ہالنا شروع کر دیا جس سے دیپیکا کی چوت میں عمران کا لن اندر باہر‬
‫ہونے لگا۔ اور سنے شرما اسی طرح چلتے ہوئے دیپیکا کے الن سے گھر کے اندر چلنا شروع ہوگیا۔ دیپیکا سنجے کے لن پر‬
‫اچھل اچھل کر اپنی چودائی کروانے کے ساتھ ساتھ اسکے ہونٹوں کو بھی چوس رہی تھی اور سنجے کے لیے اپنے پیار کا اظہار‬
‫کر رہی تھی۔‬

‫کچھ ہی دیر میں سنجے شرما دیپیکا کے بیڈ روم میں پہنچ چکا تھا جہاں اب وہ دیپیکا کو دیوار کے ساتھ لگا کر نیچے سے اسکی‬
‫چوت میں اپنا لن تیز تیز ہال رہا تھا اور دیپیکا سسکیاں لے لے کر سنجے شرما کے لن کی تعریفیں کر رہی تھی۔ کچھ دیر اسی‬
‫طرح گود میں اٹھا کر چودائی کرنے کے بعد سنجے شرما نے اپنا لن دیپیکا کی چوت سے نکال لیا اور اسکو بیڈ پر لٹا کرگھوڑی‬
‫بننے کو کہا۔۔۔ دیپیکا فورا ہی گھوڑی بن گئی اور گردن پیچھے موڑ کر اپنا ہاتھ زبان سے گیال کر کے اپنی چوت پر پھیرنے کے‬
‫بعد سنجے شرما کو بولی ڈال دو اور نان سٹاپ ایسی چدائی کرو کہ مزہ آجائے۔ یہ سن کر سنجے شرما نے اپنا لن دیپیکا کی چوت‬
‫پر سیٹ کیا اور ایک جاندار دھکے سے سارا لن دیپیکا کی چوت میں اتار دیا اور پھر بغیر رکے ٹھکا ٹھک دیپیکا کی چوت کی‬
‫چودائی شروع کر دی۔ سنجے نے اپنے دونوں ہاتھ دیپیکا کے بڑے بڑے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں پر رکھے ہوئے تھے‬
‫اور انکو زور سے پکڑ کر اپنے دھکوں کی رفتار کی مناسبت سے آگے پیچھے ہال رہا تھا۔ بیچ میں سنجے ایک زور دار تھپڑ ب ِھ‬
‫دیپیکا کے چوتڑ پر مارتا جس سے دیپیکا کی سسکی کی بجائے ایک چیخ نکلتی اور سنجے کے ہاتھ کا نشان دیپیکا کے چوتڑ پر‬
‫پڑ جاتا۔‬

‫سنجے شرما طوفانی رفتار سے اپنا لن دیپیکا کی چوت میں اندر باہر کر رہا تھا اور دیپیکا اپنی گردن اوپر اٹھا آہ آہ آہ آہ آۃ آہ آہ آہ‬
‫آہ آہ ۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ یس۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ یس۔ ۔۔۔۔ یس یس یس یس۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ فک می۔ ۔ ۔۔ ۔ فک می الئک اے بچ۔۔۔۔ آ ہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ‬
‫ہ ہ ۔۔۔۔ اونہہ ۔ ۔ ۔ اونہہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اونہہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اونہہ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ ہ کی سسکیوں سے سنجے شرما کو مزید رفتار کے‬
‫ساتھ چودنے پر اکسا رہی تھی۔ جہاں دیپیکا سنجے کے چودنے کے سٹیمنا سے متاثر ہوئی تھی وہیں پر سنجے شرما بھی دیپیکا‬
‫کی ہمت کی داد دے رہا تھا‪ ،‬اتنی دیر کی چودائی نے کرنل وشال کی بیٹی ٹینا کی تو چوت کا برا حال کر دیا تھا۔ مگر دیپیکا‬
‫پڈوکون ابھی تک اپنی چدائی کو مکمل انجوائے کر رہی تھی۔ دیپیکا کی چوت بھی ٹینا کی چوت کے مقابلے میں خاصی کھلی تھی‬
‫مگر پھر بھی دانش کے لن سے اتنی لمبی چودائی کروانا کوئی آسان کام نہیں تھا اور دیپیکا یہ کام اب تک بڑے اچھے سے کر‬
‫رہی تھی۔‬

‫دیپیکا اب اپنی چوت کو ٹائٹ کر کے سنجے کے لن کا پانی نکلوانے کی کوشش کر رہی تھی تاکہ اسکے لن کو زیادہ سے زیادہ‬
‫رگڑ ملے اور اسکا لن پانی چھوڑ دے‪ ،‬مگر سنجے کا لن ابھی پانی چھوڑنے کے موڈ میں نہیں تھا وہ تو جی بھر کر دیپیکا کی‬
‫چک نی چوت کو چودنا چاہتا تھا کہ دیپیکا ہمیشہ اس چدائی کو یاد رکھے۔ چوت کے ٹائٹ ہونے کے بعد سنجے شرما کو اور بھی‬
‫زیادہ مزہ آنے لگا تھا دیپیکا کو چودنے کا۔ اب سنجے نے تھوڑا سا آگے ہوکر دیپیکا کے لٹکتے ہوئے اور جھومتے ہوئے مموں‬
‫کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تھا اور ا نکو دبانا شروع کر دیا تھا۔ جبکہ پیچھے سے دیپیکا کی چوت میں سنجے شرما کا لن مسلسل‬
‫فائرنگ کر رہا تھا۔ اس پوزیشن میں چودائی کی رفتار تھوڑی آہستہ ہوئی تو سنجے نے دیپکا کو مموں سے ہی پکڑ کر اسکو اپنی‬
‫طرف کھینچ لیا اور اب دیپیکا پڈوکون کے گھٹنے تو زمین پر ہی تھے مگر وہ ڈاگی سٹائل کی بجائے اب گھٹنوں کے بل سیدھی‬
‫کھڑی تھی‪ ،‬اسکی کمر میں تھوڑا سا خم تھا ‪ ،‬سنجے شرما نے اسکے دونوں مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ‬
‫رکھا تھا اور دیپیکا کی چوت میں لن مسلسل اپنی فل رفتار کے ساتھ اندر باہر جا رہا تھا۔‬

‫کچھ دیر اسی طرح دیپیکا کی چوت میں گھسے لگانے کے بعد سنجے شرما نے ایک بار پھر دیپیکا کو ڈاگی سٹائل میں بٹھا کر‬
‫چودائی جاری رکھی دیپیکا پڈوکون ایک بار پھر اپنے ہاتھ آگے بیڈ پر ٹکائے اپنی گردن پیچھے موڑ کر شنجے شرما کے شاندار‬
‫دھکے اپنی چوت میں لگتے دیکھ رہی تھی۔ دیپیکا کی سسکیاں پورے کمرے میں گونج رہی تھیں مگر اس بار دیپیکا نے بھی‬
‫ارادہ کر رکھا تھا کہ جب تک سنجے شرما کا لن پانی نہیں چھوڑتا وہ بھی اپنی چوت کا پانی نہیں نکلنے دے گی۔ سنجے شرما‬
‫نے کوئی ‪ 10‬منٹ تک دیپیکا کو گھوڑی بنا کر کسی رنڈی کی طرح چودا مگر اسکی چوت نے پانی نہیں چھوڑا اور نہ ہی سنجے‬
‫شرما کے لن نے ہار مانی۔ پھر اچانک ہی سنجے نے دیپیکا کی چوت سے اپنا لن نکال کر فورا ہی اسکی گانڈ کے سوراخ پر اپنی‬
‫ٹوپی رکھ دی۔ اپنی گانڈ کےسوراخ پر ٹوپی کو محسوس کرتے ہی دیپیکا بولی ارے ایسے نہیں ‪ ،‬پہلےاسکو چکنا تو کر لو‪ ،‬سنجے‬
‫شر ما نے کہا میرے لن پر تمہاری چوت کا گاڑھا پانی موجود ہے اسی سے گانڈ بھی اندر تک چکنی ہوجائے گی‪ ،‬یہ کہ کر سنجے‬
‫نے اپنے لن پر ہاتھ پھیرا اور پھر وہی ہاتھ دیپیکا کی گانڈ کے سوراخ پر پھیرنے لگا۔ اور پھر اپنی انگلی دیپیکا کی گانڈ کے‬
‫سوراخ میں داخل کر کے دیپیکا کی چوت کا پانی اسکی گانڈ کے اندر اچھی طرح مسل دیا۔‬

‫پھر سنجے نے دوبارہ سے دیپیکا کی گانڈ کے سوراخ پر اپنے لن کی ٹوپی رکھی اور ایک زور دار دھکا لگایا جس سے سنجے‬
‫کے لن کی ٹوپی دیپیکا کی گانڈ میں جا چکی تھی۔ پھر سنجے نے دوبارہ سے لن ٹوپی سمیت باہر نکاال اور دیپیکا کی گانڈ میں‬
‫ایک اور دھکا لگایا جس سے نہ صرف دیپیکا کی ایک دلخراش چیخ نکلی بلکہ سنجے کا آدھا لن دیپیکا کی ٹائٹ گانڈ میں گم ہوگیا‬
‫تھا۔ سنجے شرما یہاں رکا نہیں‪ ،‬وہ جانتا تھا کہ یہ ٹینا کی طرح عام لڑکی نہیں جس نے کبھی گانڈ نہ مروائی ہو‪ ،‬بلکہ یہ بالی ووڈ‬
‫ف لم انڈسٹری کی لڑکی ہے جسکو آئے دن کبھی ڈائریکٹر تو کبھی فلم کا ہیرو ضرور چودتا ہے‪ ،‬اور کوئی نہ کوئی تو انکی گانڈ‬
‫بھی مارتا ہی ہوگا۔ اور سنجے کا یہ اندازہ ٹھیک بھی تھا‪ ،‬دیپیکا کی گانڈ سنی لیون کی گانڈ کی طرح کھلی اور لن کی عادی تو‬
‫نہیں تھی مگر پھر بھی وہ مت عدد بار اپنی گانڈ مروا چکی تھی اس لیے اسنے چیخیں تو ماریں مگر اسکی گانڈ میں وہ مرچیں نہیں‬
‫لگیں جو ٹینا کی نازک اور کنواری گانڈ میں لگی تھیں جس نے ٹینا کو رونے پر مجبور کر دیا تھا۔ سنجے شرما اب اپنا لن دوبارہ‬
‫سے باہر نکال کر محض ٹوپی گانڈ کے اندر رکھ کر ایک اور دھکا لگا چکا تھا جس سے سنجے کا پورا لن دیپیکا کی پیاری سی‬
‫گانڈ کے اندر جا چکا تھا اور پھر سنجے شرما نے قدرے ہلکی رفتار کے ساتھ لن کو مسلسل اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا۔‬
‫دیپیکا ابھی بھی گھوڑی بنی ہوئی تھی مگر اب کی بار لن اسکی چوت کی بجائے اسکی گانڈ کو چود رہا تھا۔‬

‫کچھ دیر تک دیپیکا کو گھوڑی بنا کر ہی گانڈ مارنے کے بعد جب سنجے شرما کا دل بھر گیا تو اس نےاپنا لن دیپیکا کی گانڈ سے‬
‫نکاال اور دیپیکا کو لیٹنے کے لیے کہا۔ دیپیکا پڈوکون سنجے کے کہنے پر بیڈ پر لیٹ گئی تو سنجے نے اسکی سائیڈ پر آکر اسکو‬
‫کروٹ ل ینے کے لیے کہا اور خود اسکی کمر کی سائیڈ پر اسکے پیچھے جا کر لیٹ گیا‪ ،‬دیپیکا نے کروٹ لی تو سنجے شرما نے‬
‫دیپیکا کی اوپر والی ٹانگ کو فولڈ کر کے آگے کی جانب موڑ دیا جس سے دیپیکا کی گانڈ کے سوراخ تک سنجے کے لن کو کافی‬
‫کھال راستہ مل گیا تھا۔ گانڈ تک رسائی ملتے ہی سنجے نے اپنے لن کو گانڈ کے سوراخ پر فٹ کیا اور ایک ہی دھکے میں پورا‬
‫لن دیپیکا کی گانڈ کی اندھیر نگری میں ڈال دیا۔ اور پھر سے اپنی گانڈ ہال ہال کر دیپیکا کی گانڈ مارنا شروع کر دی۔ دیپیکا کی‬
‫گانڈ کی چودائی کے ساتھ ساتھ سنجے کا ایک لن دیپیکا کے ایک ممے کو پکڑ کر دبا رہا تھا تو دوسرا ہاتھ دیپیکا کی گردن کے‬
‫نیچے تھا اور دیپیکا اپنی گردن موڑ کر سنجے شرما کے ہونٹوں کو چوس چوس کر اس شاندار چوت اور گانڈ کی چودائی پر‬
‫اسکو داد دے رہی تھی۔ دیپیکا کا ہاتھ اپنی چوت پر تھا جہاں وہ ‪ 3‬انگلیوں کی مدد سے اپنی چوت کے دانے کو سہال رہی تھی۔‬

‫پھر سنجے شرما نے دیپیکا کا ایک مما چھوڑ دیا اور اپنا ہاتھ دیپیکا کے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑوں پر رکھ کر انہیں دبانے‬
‫لگا اور ساتھ ساتھ اپنے دھکے دیپیکا کی گانڈ میں لگانا جاری رکھے۔ ‪ 5‬منٹ تک اسی طرح دیپیکا کی گانڈ مارنے کے بعد اب‬
‫سنجے شرما ک و محسوس ہونے لگا تھا اسکا لن پھولنے لگا ہے اور اسکے ٹٹوں سے منی جمع ہوکر لن کی طرف بڑھنے لگی‬
‫تھی۔ سنجے شرما نے دیپیکا کو بتایا کہ بس جان اب میرا لن منی چھوڑنے واال ہے تو دیپیکا نے کہا ٹھیک ہے میرے اندر ہی منی‬
‫چھوڑ دو۔ سنجے شرما نے کہا میں تمہاری چوت میں اپ نی منی چھوڑنا چاہتا ہوں تو دیپیکا نے کہا جہاں مرضی اپنی منی چھوڑو‬
‫مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ یہ سن کر سنجے شرما نے چند دھکے مزید دیپیکا کی گانڈ میں مارنے کے بعد دیپیکا کی گانڈ سے‬
‫اپنا لن نکا لیا اور اس کے پیچھے سے اٹھ کر دیپیکا کو سیدھا کر کے لٹا دیا۔ دیپیکا سیدھی ہوکر لیٹی تو اس نے خود ہی سنجے‬
‫شرما کے لیے اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر اپنی چوت تک راستہ دے دیا۔ سنجے شرما دیپیکا کی دونوں ٹانگوں کے درمیان بیٹھ‬
‫گیا اور اسکی دونوں ٹانگوں کو اپنے بازوں پر اٹھا کر اپنا ‪ 8‬انچ کا لن دیپیکا کی چوت کے اوپر رکھ کر ایک ہی دھکے میں‬
‫دیپیکا کی جلتی ہوئی چوت میں اتار دیا تھا۔‬

‫سنجے شرما نے پورا لن دیپیکا کی گرم اور چکنی چوت میں اتارنے کے بعد اسکی ٹانگوں کو اپنے قریب کھینچ لیا اور دیپیکا کی‬
‫گانڈ کو تھوڑا سا اوپر اٹھا کر اسکی چوت میں فل رفتار کے ساتھ دھکے مارنے شروع کر دیے۔ اور دیپیکا نے بھی سسکیاں مار‬
‫مار کر پورا کمرہ سر پر اٹھا لیا ہر دھکے کے ساتھ دیپیکا کی چوت میں گرمی بڑھتی جا رہی تھی اور اب اسے بھی محسوس ہو‬
‫رہا تھا کہ وہ اپنی چوت سے نکلنے والے سیالب کے آگے زیادہ دیر تک بند نہیں باندھ سکتی‪ ،‬وہ اپنے مموں کو اپنے ہاتھوں میں‬
‫پکڑ کر ا پنی زبان سے چاٹنے کی کوشش بھی کر رہی تھی مگر اسکی زبان محض اسکے نپلز کو ہی چھو رہی تھی مگر وہ اس‬
‫پر بھی راضی تھی اور اپنی زبان اپنے نپلز پر رگڑ رگڑ کر اپنی گرمی میں اور اضافہ کر رہی تھی‪ ،‬پھر اچانک ہی سنجے شرما‬
‫نے دیپیکا کی ٹانگوں کو اپنے بازوں سے ہٹا دیا ا ور اسکی ٹانگین بیڈ پر رکھ کر خود اپنا پورا وزن دیپیکا پر ڈال کر اسکے اوپر‬
‫ہی لیٹ گیا اور اسکی چوت میں اپنے لن سے چدائی جاری رکھی‪ ،‬وہ مسلسل دیپیکا پڈوکون کے نازک لبوں کو اپنے منہ میں لیکر‬
‫زور زور سے چوس رہا تھا اور دیپیکا کے ہاتھ اب سنجے کی کمر پر مزے کی شدت کی وجہ سے اپنے ناخنوں سے نشان ڈال‬
‫رہے تھے۔ پھر سنجے شرما کے لن نے اور دیپیکا کی چوت نے اکٹھے ہی جھٹکے مارنے شروع کیے اور دونوں ایک ساتھ ہی‬
‫اپنا اپنا پانی چھوڑنے لگے۔ دیپیکا کی چوت کچھ ہی جھٹکوں کے بعد اپنے اور کیپٹن سنجے کے پانی سے بھر گئی تھی۔ کچھ دیر‬
‫ت ک دونوں کے جسم ہلکے ہلکے جھٹکوں کے ساتھ اپنا اپنا پانی چھوڑتے رہے پھر جب سارا پانی نکل گیا تو سنجے شرما بیڈ پر‬
‫سیدھا ہوکر لیٹ گیا اور گہرے گہرے سانس لیکر اپنی سانسیں درست کرنے لگا۔ اس نے دیپیکا کو کافی جان لگا کو چودا تھا اور‬
‫دیپیکا کے لیے تو یہ چودائی یادگار تھی ہی مگر سنجے شرما کو بھی لگ رہا تھا کہ وہ بہت عرصے تک دیپیکا کے مخملی بدن‪،‬‬
‫نرم و نازک ہونٹوں کو‪ ،‬چکنی اور دہکتی ہوئی چوت کو اور بھرے ہوئے کسے ہوئے مموں کو نہیں بھول پائے گا۔‬

‫کافی دیر اسی طرح لیٹے رہنے کے بعد دیپیکا سنجے شرما کے ساتھ لگ کر لیٹ گئی اور اسکے جسم پر پیار کرنے لگی۔ پھر‬
‫اس نے خود ہی سنجے کو کہا کہ آج تم نے بہت مزہ دیا ہے مجھے اور آج مجھے پتا لگ رہا ہے کہ واش روم میں سنی لیون کی‬
‫چیخیں کیوں نکل رہی تھی‪ ،‬وہ صحیح کہ رہی تھی کہ ایک دفع اس سے چدائی کراو تو رنویر سنگھ کو بھول جاو گی۔ تم واقعی‬
‫می ں بہت اچھا چودتے ہو۔ کاش پھر کبھی دوبارہ بھی تم سے ملنے کا موقع مل سکے۔ اور ہم اسی طرح ساری رات ایک دوسرے‬
‫کے جسم کو سکون پہنچا سکیں۔ اس پر سنجے نے دیپیکا کو بہت سارا پیار کیا‪ ،‬اور پھر سنجے نے دیپیکا کو احساس دالیا کہ اب‬
‫فالئیٹ کا ٹائم ہونے واال ہے لہذا اٹھ و اور تیاری کرو۔ مگر یہاں دیپیکا نے ایک اور خواہش کا اظہار کر دیا کہ جانے سے پہلے وہ‬
‫سنجے شرما کے ساتھ نہانا چاہتی ہے۔ سنجے نے وال کالک کی طرف دیکھا‪ ،‬ابھی فالئٹ میں کچھ وقت باقی تھا تو سنجے شرما‬
‫دیپیکا کو اٹھا کر واش روم لے گیا۔ جہاں سب سے پہلے تو دیپیکا ن ے شاور چال کر اپنی چوت کو اچھی طرح صاف کیا اور اپنے‬
‫پورے بدن پر پانی گرایا۔ پھر سنجے کو شاور کے نیچے کر کے دیپیکا اسکے سامنے بیٹھ کر اسکے لن کو صاف کرنے لگی۔‬
‫جب سارا لن صاف ہوگیا تو دیپیکا نے ایک بار پھر اسکا لن منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا۔ دیپیکا کے منہ میں جاتے ہی‬
‫سنجے کے بے جان اور ڈھلکے ہوئے لن میں جان آنے لگی اور وہ ایک بار پھر سے تن گیا۔ تنے ہوئے لن کے دیپیکا نے ‪ 5‬منٹ‬
‫تک چوپے لگائے اسکے بعد کھڑی ہوئی اور سنجے کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے چوسنے لگی۔ کچھ دیر تک سنجے کو پیار‬
‫کرنے کے بعد دیپیکا نے شاور بند کیا اور اپنے بدن کو ٹاول سے خشک کرنے کے بعد ٹاول سنجے شرما کو دے دیا اور خود‬
‫واش روم سے نکل آئی۔ سنجے نے بھی واش روم میں ہی اپنا بدن خشک کیا اور واش روم سے نکل آیا۔‬

‫اتنی دیر میں دیپیکا پڈوکون کے جسم پر ایک کالے رنگ کا برا اور کالی ہی پینٹی آچکی تھی۔ سنجے کا لن دوبارہ سے کھڑا‬
‫ہوچکا تھا اسکا اب دوبارہ سے من تھا دیپیکا جیسی حسن کی دیوی کی دوبارہ سے چدائی کرنے کا مگر وقت کی کمی کی وجہ‬
‫سے وہ ایسا نہ کر سکا اور اس نے بھی اپنے بیگ سے کپڑے نکال کر پہن لیے۔ پھر اس نے اپنے بیگ سے میک اپ کا‬
‫مخصوص سامان نکاال اور مرلی کی تصویر سامنے رکھ کر ایک بار پھر مرلی کے حلیے کا میک اپ کر لیا۔ دیپیکا اسکو‬
‫حیرانگی سے اس مہارت کے ساتھ میک اپ کرتا دیکھتی رہی اور جب میک اپ مکمل ہوگیا تو دیپیکا نے اسکی تعریف کی کہ تم‬
‫واقعی میں جادوگر ہو۔ پھر سنجے نے دیپیکا سے کہا کہ وہ کچھ ہلکا پھل کا کھانے کا بندوبست کرتا ہے تم اتنی دیر میں تیار ہوجاو۔‬

‫کچھ ہی دیر میں سنجے شرما کچن سے کچھ فروٹ کاٹ کر اور کچھ فروٹس کا تازہ جوس بنا کر لے آیا۔ ایک گھنٹے کی دیوانہ‬
‫وار چدائی کے بعد دونوں کو ہی انرجی کی ضرورت تھی جو اس فروٹ کے فریش جوس سے پوری ہوگئی تھی۔ دیپیکا کے بدن‬
‫پر اب ایک کالے رنگ کی ساڑھی تھی جسکا بالوز دیپیکا کی عادت کے برخالف کچھ بڑا تھا اور اسکی ناف تک آرہا تھا۔ جبکہ‬
‫ناف نظر آرہی تھی اور ساڑھی نیچے کولہوں کے برابر سے شروع ہورہی تھی ‪،‬دیپیکا نے اپنے آُ کو پاکیشائی روایت کے مطابق‬
‫لباس زیب تن کر نے کی کوشش کی تھی مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ پاکیشا کے کلچر میں بھی یہ ساڑھی کافی سیکسی اور بولڈ‬
‫تصور کی جاتی ہے۔ پھر دونوں تیار ہونے کے بعد دیپیکا کی گاڑی میں ائیر پورٹ کی طرف روانہ ہوگئے‪ ،‬جہاں سے ایک نا‬
‫معلوم شخص دیپیکا کی گاڑی لیکر دوبارہ دیپیکا کے گھر چھوڑنے چال گیا یہ کیپٹن سنجے شرما کا آدمی تھا ڈرائیور کو بھی‬
‫ٹھکانے لگانے کی وجہ سے سنجے شرما نے اس شخص کو بال رکھا تھا اور وہ خود دیپیکا کے مالزم کے حلیے میں اسکا سامان‬
‫اٹھائے اسکے پیچھے پیچھے جا رہا تھا۔‬

‫ائیر پورٹ پر دیپیکا پڈوکون کو فل پروٹوکول مل رہا تھا کیونکہ کرنل وشال بھی پاکیشا روانگی سے قبل دیپیکا پڈوکون کے سپیشل‬
‫مشن کے بارے میں ائ یرپورٹ انتظامیہ کو بتا چکا تھا‪ ،‬اور اس چیز کا فائدہ کیپٹن سنجے کو بھی ہوا کہ اسکی خاص چیکنگ نہیں‬
‫ہوئی محض پاسپورٹ چیک کیا گیا جو کہ اصلی تھا۔ مگر مرلی کے نام پر تھا جسکا حلیہ اس وقت سنجے شرما نے اپنا رکھا تھا۔‬
‫کچھ ہی دیر کے بعد یہ چھوٹی فالئیٹ ٹیک آف کرنے کے لیے تیار ہوچکی تھی جس میں چند سواریاں تھیں اور ائیرپورٹ سے‬
‫ہی کچھ فلم انڈسٹری کی غیر معروف شخصیات دیپیکا کے ساتھ ہولیں جنکا دیپیکا کی اس ریلیز کی جانے والی فلم سے کسی نا‬
‫کسی حد تک تعلق تھا مگر انکے نزدیک سنجے شرما کی کوئی حیثیت نہیں تھی وہ تو محض دیپیکا کا مالزم تھا اس لیے فرسٹ‬
‫کالس سیکشن میں ہونے کے باوجود اسکو بالکل آخری سیٹ پر بٹھایا گیا تھا جبکہ باقی لوگ کچھ آگے تھے اور دیپیکا کے قریب‬
‫تھے۔‬
‫رات ‪ 8‬بجے تک ماریہ بے چینی سے لوکاٹی کا انتظار کرتی رہی ‪ 8 ،‬بجے کے قریب ایک خاتون نے کمرے میں آکر ماریہ کو‬
‫بتایا کہ لوکاٹی صاحب کچھ ہی دیر میں آپکے کمرے میں تشریف الئیں گے انہوں نے آپکو تیار کرنے کا حکم دیا ہے۔ ماریہ نے‬
‫اسے کہا تم جاو میں خود ہی تیار ہوجاوں گی۔ یہ سنکر وہ عورت الٹے قدموں واپس چلی گئی اور ماریہ لوکاٹی کے لیے تیار‬
‫ہونے لگی۔ ماریہ کو تیار ہونے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔ مگر اسکو لوکاٹی کے لیے تھوڑا انتظارکرنا پڑا جو اسکے لیے کافی‬
‫تکلیف دہ تھا۔ وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ لوکاٹی کے لن کے لیے بے چین ہورہی تھی بلکہ وجہ تھی لوکاٹی کے خالف بنائے گئے‬
‫پالن کو عملی جامہ پہنانے کی جسکی ماریہ کو خاصی جلدی تھی۔ اور ویسے بھی اس نے آج سارے د ن میں حویلی نما محل کی‬
‫ایک ایک جگہ چھان ماری تھی اور اسے یہ بھی معلوم تھا کہ یہاں رات کو جلدی سونے کے عادی ہیں لوگ حویلی رات کے ‪9‬‬
‫ب خرگوش کے مزے لوٹتے ہیں‪،‬‬ ‫بجے ہی سنسان ہوجاتی ہے تمام مالزم اور حویلی کے مکین اپنے اپنے کمرے میں جا کر خوا ِ‬
‫رات کی ڈیوٹی والے مالزموں کے لے ایک مخصوص کمرہ تھا کہ اگر رات میں کسی کو ضرورت ہو تو وہ اسی کمرے سے‬
‫مالزم کو انٹر کام کے ذریعے بال سکتے تھے۔ ایسے میں رات کے ‪ 9‬بجے تک لوکاٹی کا انتظار کرنا کافی مشکل ہورہا تھا ماریہ‬
‫کے لیے۔‬
‫اچانک کمرے کا دروازہ کھال تو ماریہ سمجھ گئی کہ اب کی بار لوکاٹی کمرے میں آیا ہے ‪ ،‬وہ سمٹ کر بیٹھ گئی تھی۔ لوکاٹی‬
‫کمرے میں آیا تو ایک لمحے کے لیے تو اسکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ کمرے میں تمام الئٹس آف تھیں مگر بیڈ کے‬
‫چاروں طرف موم بتیاں روشن تھیں جس کی ہلکی ہلکی روشنی میں اندر کا ماحول خاصا رومانٹک اور عاشقانہ ہورہا تھا اور بیڈ‬
‫کے چاروں طرف گالب کی پتیاں موم بتی کی ہلکی روشنی میں بہت خوبصورت منظر پیش کر رہی تھیں۔ بیڈ پر بھی گالب کی‬
‫پتیاں بکھری ہوئی تھی ں اور انکے بیچ میں سرخ رنگ کی چادر میں لپٹی تانیہ لوکاٹی کا انتظار کر رہی تھی۔ گھونگٹ نکالے‬
‫ہوئے ماریہ خاصی بے چینی سے لوکاٹی کا انتظار کر رہی تھی اور اب یہ انتظار ختم ہو چکا تھا۔ لوکاٹی نے ماریہ کو سرخ چادر‬
‫میں لپٹا دیکھا تو ایک لمحے کے لیے اسے یوں لگا کہ ایک نئی نویلی دلہن اسکے انتظار میں سرخ رنگ کا عروسی جوڑا پہنے‬
‫اسکے انتظار میں بیٹھی ہے۔ کمرے کا رومانٹک ماحول اور سامنے بیڈ پر دلہنوں کی طرح بیٹھی ماریہ کو دیکھ کر لوکاٹی کے‬
‫دل میں لڈو پھوٹنے لگے تھے اور اسکی شلوار میں لن نے سر اٹھانا شروع کر دیا تھا۔ اسکو ایک بار تو وہی تانیہ یاد آگئی تھی‬
‫جسکو خوبصورت نائٹی میں گوا کے ہوٹل میں لوکاٹی نے خوب جم کر چودا تھا۔‬

‫لوکاٹی آہستہ آہستہ آگے بڑھتا ہوا ماریہ تک گیا اور اسکے پاس جا کر بیٹھ گیا اور اسے دیکھنے لگا۔ لمبی چادر سے ماریہ کے‬
‫صرف خوبصورت ہاتھ ہی نظر آرہے تھے جن پر مہندی کا خوبصورت ڈیزائن بنا ہوا تھا۔ یہ مہندی بھی ماریہ نے ایک مالزمہ‬
‫سے کہ کر شام میں ہی لگوا لی تھی جسکا ایک ہی گھنٹے میں کافی اچھا رنگ چڑھ گیا تھا‪ ،‬اور ہاتھوں سے نیچے ماریہ کے‬
‫خوبصورت چمکتے ہوئے پاوں دکھ رہے تھے‪ ،‬اسکے عالوہ باقی صرف اور صرف سرخ کرنگ کی چادر تھی۔ لوکاٹی نے آگے‬
‫بڑھ کر ماریہ کے قریب ہوکر ہولے سے کہا اگر اجازت ہو تو کیا میں آپکا گھونگٹ اٹھا سکتا ہوں۔ ماریہ نے آہستہ سے ہاں میں‬
‫سر ہالیا‪ ،‬تو لوکاٹی نے ماریہ کے چہرے کے آگے سے ہلکی سی چادر ہٹا کر اسکے سر پر رکھ دی۔ اسکی نظر ماریہ کے‬
‫چہرے پر پڑی تو وہ اور بھی خوش ہوا ‪ ،‬ماریہ کے خوبصورت گالبی اور رسیلے ہونٹوں پر اس وقت سرخ رنگ کی لپ اسٹک‬
‫لگی ہوئی تھی جو لوکاٹی کو بہت پسند تھی۔ اور اسکا ہلکا مگر بہت مہارت سے کیا گیا میک اپ اسکی خوبصورتی کو چار چاند‬
‫لگا رہا تھا اب تو لوکاٹی اپنے آپے سے باہر ہوا ج ا رہا تھا اسکا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ فوری سے پہلے ماریہ کو اسکےسارے‬
‫کپڑوں سے آزاد کر دے اور اسکی خوبصورت اور ٹائٹ پھدی میں اپنا لن گھسا کر دے گھسے پر گھسا مارے۔ مگر اس نے ماریہ‬
‫سے وعدہ کر رکھا تھا کہ آج کی رات جیسے ماریہ کہے گی ویسے ہی لوکاٹی اسکے بدن سے پیار کرے گا۔‬

‫ماریہ کا خوبصورت چہرہ دیکھ کر لوکاٹی نے اسے پیار بھری آواز میں کہا ‪ ،‬مانگو میری مہارانی آج کیا مانگتی ہو۔ آج تم جو‬
‫مانگو گی لوکاٹی وہ تمہیں دے گا تمہاری اس خوبصورت آنکھوں اور شربتی ہونٹوں کی قسم۔ ماریہ نے شرماتے ہوئے لوکاٹی کی‬
‫طرف دیکھا‪ ،‬او ر ہولے سے بولی‪ ،‬آپ نے اس چیز کو اپنی مہارانی بنا لیا اور اسکے بعد بھال میں کس چیز کی تمنا کر سکتی‬
‫ہوں‪ ،‬اب تو بس ایک ہی تمنا ہے کہ جن ہونٹوں کی آپ نے قسم کھائی ہے‪ ،‬ان ہونٹوں کی پیاس اپنے ہونٹوں سے بجھا دیجیے۔ یہ‬
‫سنتے ہی لوکاٹی کی آنکھوں میں چمک آگئی وہ تو پہلے ہی یہ چاہتا تھا اب ماریہ کی طرف سے فرمائش کے بعد تو لوکاٹی ایک‬
‫لمحہ ضائع کیے بغیر ان شربتی ہونٹوں سے سارا شربت پی جانا چاہتا تھا۔ وہ ایک دم سے ماریہ کے ہونٹوں کو چوسنے کے لیے‬
‫آگے بڑھا مگر ماریہ نے ہاتھ کہ اشارے سے روک دیا اور بولی نہیں ایسے نہیں۔ لوکاٹی بے چینی سے بوال تو پھر کیسے میری‬
‫جان من؟؟؟ ماریہ مسکرائی اور بولی پ ہلے اپنی آنکھیں بند کریں۔ اور اپنے ہاتھ اپنے سر کے پیچھے باند ھ لیں۔ اور جب تک میں‬
‫ِ‬
‫نہ کہوں آپ نہ تو اپنی آنکھیں کھولیں گے اور نہ اپنے ہاتھوں سے میرے جسم کے کسی بھی حصے کو چھونے کی کوشش کریں‬
‫گے۔‬

‫لوکاٹی نے فورا ہی اپنی آنکھیں بند کر لیں اور اپنے ہاتھ اپنے سر کے پیچھے باندھ لیے۔ جیسے ہی اس نے اپنی آنکھیں بند کی‬
‫اسے بیڈ پر ہلچل محسوس ہوئی اور پھر کچھ ہی سیکنڈز کے وقفے کے ساتھ اسکو ‪ 440‬وولٹ کا جھٹکا لگا جب اسے اپنے‬
‫ہونٹوں پر ماریہ کے خوبصورت ہونٹوں کا لمس محسوس ہوا اور اپنے چہرے پر ماریہ کے ہاتھوں کی نرم نرم گرفت محسوس‬
‫ہوئی۔ لوکاٹی نے فورا ہی ماریہ کے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا تھا مگر ماریہ کے کہنے کےمطابق نہ تو اس نے اپنی آنکھیں‬
‫کھولیں اور نہ ہی اس نے اپنے ہاتھ ماری کے جسم کی طرف بڑھائے۔ البتہ ماریہ کے نازک ہاتھ اب لوکاٹی کے گردن پر ہولے‬
‫ہولے مساج کر رہے تھے اور مسلسل لوکاٹی کے ہونٹوں کو ماریہ کے ہونٹ چوسنے میں مصروف تھے۔ پھر لوکاٹی کو اس وقت‬
‫اور بھی مزہ آنے لگا جب ماریہ نے اپنی زبان منہ سے نکال کر لوکاٹی کے ہونٹوں پر رکھ کر دباو ڈالنا شروع کیا۔ لوکاٹی سمجھ‬
‫گیا تھا کہ اسکی مہارانی اپنی زبان اسکے منہ میں داخل کرنا چاہتی تھی اس نے فوران ہی اپنا منہ ہلکا سا کھول کر ماریہ کی‬
‫زبان کو اندر جانے کا راستہ دیا اور جیسے ہی ماریہ کی زبان لوکاٹی کے منہ میں گئی اس نے فورا ہی ماریہ کی زبان کو منہ‬
‫مین لیکر چوسنا شرو ع کر دیا۔ کچھ دیر تک ماریہ اسی طرح لوکاٹی کی گردن پر ہاتھ پھیرتی رہی اور اپنی زبان اسکے منہ میں‬
‫ڈالکر پیار کرتی رہی۔ پھر ماریہ نے لوکاٹی کے دونوں ہاتھوں کو کھول کر اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور ایک ہاتھ کو اپنے ہاتھ‬
‫سے پکڑ کر اپنے چہرے پر پھیرنا شروع کردیا۔ مگر ابھی تک لوکاٹی کو آنکھیں کھولنے کی اجازت نہیں تھی۔ مگر وہ بہت‬
‫نزاکت اور پیار کے ساتھ اب اپنے ہاتھ کو ماریہ کے چہرے پر پھیر رہا تھا‪ ،‬وہ کبھی اپنے ہاتھ ماریہ کے نازک اور روئی کے‬
‫گالوں کی طرح نرم گالوں پر پھیرتا تو کبھی اپنی انگلی ماریہ کے شربتی ہونٹوں پر پھیر کر انکا لمس لیتا۔ پھر ماریہ نے لوکاٹی‬
‫کو نیچے لیٹ جانے کے لیے کہا تو لوکاٹی آنکھیں بند کیے ہی بیڈ پر لیٹ گیا اور ماریہ اسکے پیٹ کے اوپر آکر بیٹھ گئی مگر‬
‫لوکاٹی کے ہاتھ ابھی تک ماریہ کے ہاتھوں میں تھے اور اسکی آنکھیں ابھی تک بند تھیں۔۔۔‬
‫اُردو مزیدار کہانیاں‬

You might also like