Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 83

‫‪www.Momeen.blogspot.

com‬‬

‫سورة القَ َ‬
‫صص‬
‫بِس ِْم هَّللا ِ الرَّحْ َم ِن الر ِ‬
‫َّح ِيم‬
‫طسم‬
‫﴿‪﴾028:001‬‬

‫[جالندھری] طسم‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫حروف مقطعہ کا بیان پہلے ہوچکاہے۔‬


‫یہ آیتیں ہیں واضح جلی روشن صاف اور کھلے قرآن کی تمام‬
‫کاموں کی اصلیت اب گذشتہ اور آئندہ کی خبریں اس میں ہیں اور‬
‫موسی اور فرعون کا سچا‬
‫ٰ‬ ‫سب سچی اور کھلی۔ ہم تیرے سامنے‬
‫واقعہ بیان کرتے ہیں ۔ جیسے اور آیت میں ہے ہم تیرے سامنے‬
‫بہترین واقعہ بیان کرتے ہیں۔ اس طرح کہ گویا تو اس کے ہونے‬
‫کے وقت وہیں موجود تھا۔ فرعون ایک متکبر سرکش اور بددماغ‬
‫انسان تھا۔ اس نے لوگوں پر بری طرح قبضہ جمارکھا تھا اور انہیں‬
‫آپس میں لڑوا لڑوا کر ان میں پھوٹ اور اختالف ڈلوا کر انہیں‬
‫کمزور کرکے خود ان پر جبر وتعدی کے ساتھ سلطنت کر رہا تھا۔‬
‫خصوصا بنی اسرائیل کو تو اس ظالم نے نیست ونابود کرنے کا‬
‫فیصلہ کرلیا تھا۔ اور دن رات یہ بےچارے بیکار میں گھیسٹے‬
‫جاتے تھے۔ اس پر بھی اس کا غصہ ٹھنڈانہ ہوتا تھا یہ ان کی نرینہ‬
‫اوالد کو قتل کروا ڈالتا تھا ۔ تاکہ یہ افرادی قوت سے محروم رہیں‬
‫قوت والے نہ ہوجائیں اور اس لئے بھی کہ یہ ذلیل وخوار رہیں اور‬
‫اس لئے بھی کہ اسے ڈر تھا کہ ان میں سے ایک بچے کے ہاتھوں‬
‫میری سلطنت تباہ ہونے والی ہے۔ بات یہ ہے کہ جب حضرت‬
‫ابراہیم خلیل ہللا علیہ السالم مصر کی حکومت میں سے مع اپنی‬
‫بیوی صاحبہ حضرت سارہ کے جا رہے تھے اور یہاں کے سرکش‬
‫بادشاہ نے حضرت سارہ کو لونڈی بنانے کے لئے آپ سے چھین لیا‬
‫جنہیں ہللا نے اس کافر سے محفوظ رکھا اور اسے آپ پردست‬
‫درازی کرنے کی قدرت ہی حاصل نہ ہوئی تو اس وقت حضرت‬
‫ابراہیم نے بطور پیش گوئی فرمایا تھا کہ تیری اوالد‪ q‬میں سے ایک‬
‫کی اوالد کے لڑکے کے ہاتھوں ملک مصر اس قوم سے جاتا رہے‬
‫گا اور انکا بادشاہ اس کے سامنے ذلت کے ساتھ ہالک ہوگا۔ چونکہ‬
‫یہ روایت چلی آرہی تھی اور ان کے درس میں ذکر ہوتا رہتا تھا‬
‫جسے قبطی بھی سنتے تھے جو فرعون کی قوم تھی‪ ،‬انہوں نے‬
‫دربار میں مخبری کی جب سے فرعون نے یہ ظالمانہ اور سفاکانہ‬
‫قانوں بنادیا کہ بنو اسرائیل کے بچے قتل کردئے جائیں اور ان کی‬
‫بچیاں چھوڑ دی جائیں۔ لیکن رب کو جو منظور ہوتا ہے وہ اپنے‬
‫موسی زند رہ گئے اور ہللا نے‬ ‫ٰ‬ ‫وقت پر ہو کر ہی رہتا ہے حضرت‬
‫آپ کے ہاتھوں اس عاری سرکش کوذلیل‪ q‬وخوار کیا ‪ ،‬فالحمدہلل‬
‫چنانچہ فرمان ہے کہ ہم نے ان ضعیفوں اور کمزوروں پر رحم‬
‫کرنا چاہا۔ ظاہر ہے کہ ہللا کی چاہت کا پورا ہونا یقینی ہے۔ جیسے‬
‫فرمایا آیت (اورثنا القوم الذین الخ)‪ ،‬آپ نے اس گری پڑی قوم کو ان‬
‫کی تمام چیزوں کا مالک بنادیا۔ فرعون نے اپنی تمام ترطاقت کا‬
‫مظاہرہ کیا لیکن اسے ہللا کی طاقت کا اندازہ ہی نہ تھا۔ آخر ہللا کا‬
‫ارادہ غالب رہا اور جس ایک بچے کی خاطر ہزاروں بےگناہ بچوں‬
‫کا خون ناحق بہایا تھا ۔ اس بچے کو قدرت نے اسی کی گود میں‬
‫پلوایا ‪ ،‬پروان چڑھایا‪ ،‬اور اسی کے ہاتھوں اسکا اسکے لشکر کا‬
‫اور اسکے ملک ومال کا خاتمہ کرایا تاکہ وہ جان لے اور مان لے‬
‫کہ وہ ہللا کا ذلیل مسکین بےدست وپا غالم تھا اور رب کی چاہت پر‬
‫موسی اور ان کی قوم‬‫ٰ‬ ‫کسی کی چاہت غالب نہیں آسکتی۔ حضرت‬
‫کو ہللا نے مصر کی سلطنت دی اور فرعوں جس سے خائف تھا وہ‬
‫سامنے آگیا اور تباہ وبرباد ہوا۔ فالحمد ہلل‬

‫ب ْال ُمبِ ِ‪q‬‬


‫ين‬ ‫ات ْال ِكتَا ِ‬ ‫تِ ْل َ‬
‫ك آيَ ُ‬
‫﴿‪﴾028:002‬‬

‫[جالندھری] یہ کتاب روشن کی آیتیں ہیں‬


‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك ِم ْن نَبَإِ ُمو َسى َوفِرْ َع ْو َن بِ ْال َح ِّ‬


‫ق لِقَ ْو ٍم‬ ‫نَ ْتلُو َعلَ ْي َ‬
‫ي ُْؤ ِمنُ َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:003‬‬

‫موسی اور فرعون کے کچھ‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری] (اے محمد) ہم تمہیں‬
‫حاالت مومن لوگوں‪ q‬کے سنانے کے لئے صحیح صحیح سناتے ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ض َو َج َع َل أَ ْهلَهَا ِشيَعًا‬ ‫ِ‬ ‫رْ‬‫َ‬ ‫إِ َّن فِرْ َع ْو َن َعاَل فِي اأْل‬
‫ف طَائِفَةً ِم ْنهُ ْم يُ َذبِّ ُح أَ ْبنَا َءهُ ْم َويَ ْستَحْ يِي‬ ‫يَ ْستَضْ ِع ُ‬
‫ان ِم َن ْال ُم ْف ِس ِد َ‬
‫ين‬ ‫نِ َسا َءهُ ْم ۚ إِنَّهُ َك َ‬
‫﴿‪﴾028:004‬‬

‫[جالندھری] کہ فرعون نے ملک میں سر اٹھا رکھا تھا اور وہاں‬


‫کے باشندوں کو گروہ گروہ بنا رکھا تھا ان میں سے ایک گروہ کو‬
‫(یہاں تک) کمزور کر دیا تھا کہ ان کے بیٹوں کو ذبح کر ڈالتا اور‬
‫انکی لڑکیوں کو زندہ رہنے دیتا بیشک وہ مفسدوں میں تھا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫ين ا ْستُضْ ِعفُوا فِي اأْل َرْ ِ‬
‫ض‬ ‫َونُ ِري ُد أَ ْن نَ ُم َّن َعلَى الَّ ِذ َ‬
‫ين‬ ‫َونَجْ َعلَهُ ْم أَئِ َّمةً َونَجْ َعلَهُ ُم ْال َو ِ‬
‫ارثِ َ‬
‫﴿‪﴾028:005‬‬

‫[جالندھری] اور ہم چاہتے تھے کہ جو لوگ ملک میں کمزور کر‬


‫دئیے گئے ہیں ان پر احسان کریں اور ان کو پیشوا بنائیں اور انہیں‬
‫(ملک کا) وارث کریں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ي فِرْ َع ْو َن َوهَا َم َ‪q‬‬


‫ان‬ ‫َونُ َم ِّك َن لَهُ ْم فِي اأْل َرْ ِ‬
‫ض َونُ ِر َ‬
‫َو ُجنُو َدهُ َما‪ِ q‬م ْنهُ ْم َما َكانُوا يَحْ َذر َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:006‬‬

‫[جالندھری] اور ملک میں انکو قدرت دیں اور فرعون اور ہامان‬
‫اور ان کے لشکر کو وہ چیز دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے تھے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ت َعلَ ْي ِه‬ ‫َوأَ ْو َح ْينَا إِلَى أُ ِّم ُمو َسى أَ ْن أَرْ ِ‬


‫ض ِعي ِه ۖ فَإِ َذا ِخ ْف ِ‬
‫فَأ َ ْلقِي ِه فِي ْاليَ ِّم َواَل تَ َخافِي َواَل تَحْ َزنِي ۖ إِنَّا َرا ُّدوهُ‬
‫ْك َو َجا ِعلُوهُ ِم َن ْال ُمرْ َسلِ َ‬
‫ين‬ ‫إِلَي ِ‬
‫﴿‪﴾028:007‬‬

‫موسی کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ‬ ‫ٰ‬ ‫[جالندھری] اور ہم نے‬
‫اس کو دودھ پالؤ جب تم کو اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو‬
‫تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا ہم‬
‫اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اسے پیغمبر بنا‬
‫دیں گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫بچوں کا قتل اور بنی اسرائیل‬


‫مروی ہے کہ جب بنی اسرائیل کے ہزارہا بچے قتل ہوچکے تو‬
‫قبطیوں کو اندیشہ ہوا کہ اگر بنو اسرائیل ختم ہوگئے توجتنے ذلیل‬
‫کام اور بےہودہ خدمتیں حکومت ان سے لے رہیں ہیں کہیں ہم سے‬
‫نہ لینے لگیں ۔ تو دربار میں میٹنگ ہوئی اور یہ رائے قرار پائی کہ‬
‫ایک سال مار ڈالے جائیں اور دوسرے‪ q‬سال قتل نہ کئے جائیں۔‬
‫حضرت ہارون اس سال تولد‪ q‬ہوئے جس سال بچوں کو قتل نہ کیا‬
‫موسی اس سال پیدا ہوئے جس سال بنی‬ ‫ٰ‬ ‫جاتا تھا لیکن حضرت‬
‫اسرائیل کے لڑکے عام طور پر تہ تیغ ہو رہے تھے۔ عورتیں گشت‬
‫کرتی رہتی تھی اور حاملہ عورتوں کا خیال رکھتی تھی ۔ ان کے‬
‫نام لکھ لیے جاتے تھے۔ وضع حمل کے وقت یہ عورتیں پہنچ جاتی‬
‫تھی اگر لڑکی ہوئی تو واپس چلی جاتی تھی اور اگر لڑکا ہوا تو‬
‫فورا جالدوں کو خبر کردیتی تھی۔ یہ لوگ تیز چھرے لئے اسی‬
‫وقت آجاتے تھے اور ماں باپ کے سامنے اسی وقت ان کے بچوں‬
‫موسی کی والدہ‬‫ٰ‬ ‫کوٹکڑے ٹکڑے کرکے چلے جاتے تھے۔ حضرت‬
‫کا جب حمل ہوا تو عام حمل کی طرح اس کا پتا نہ چال اور جو‬
‫عورتیں اس کام پر مامور تھی اور جتنی دائیاں آتی تھی کسی کو‬
‫موسی تولد بھی ہوگئے آپ‬ ‫ٰ‬ ‫حمل کا پتہ نہ چال۔ یہاں تک کہ حضرت‬
‫کی والدہ سخت پریشان ہونے لگی اور ہر وقت خوفزدہ رہنے لگیں‬
‫اور اپنے بچے سے محبت بھی اتنی تھی کہ کسی ماں کو اپنے‬
‫تعالی نے‬ ‫بچے سے اتنی نہ ہوگی۔ ایک ماں پر ہی کیا موقوف ہللا ٰ‬
‫موسی کا چہرہ ہی ایسا بنایا تھا ۔ کہ جس کی نظر پڑ جاتی‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫تھی اس کے دل میں ان کی محبت بیٹھ جاتی تھی۔ جیسے جناب‬
‫تعالی کا ارشاد ہے آیت ( والقیت علیک محبۃ منی) میں نے‬ ‫باری ٰ‬
‫موسی ہر‬
‫ٰ‬ ‫اپنی خصوصی محبت سے تمہیں نوازا۔ پس جب کہ والدہ‬
‫وقت کبیدہ خاطر‪ ،‬خوفزدہ اور رنجیدہ رہنے لگیں تو ہللا نے ان کے‬
‫دل میں خیال ڈاال کہ اسے دودھ‪ q‬پالتی رہے اور خوف کے موقعہ‬
‫پر انہیں دریائے نیل میں بہادے جس کے کنارے پر ہی آپ کا مکان‬
‫تھا۔ چنانچہ یہی کیا کہ ایک پیٹی کی وضع کا صندوق بنالیا اس میں‬
‫موسی کو رکھ دیا دودھ‪ q‬پالدیا کرتیں اور اس میں سالدیا‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫کرتیں ۔ جہاں کوئی ایسا ڈراؤنا موقعہ آیاتو اس صندوق کو دریا میں‬
‫بہادیتیں اور ایک ڈوری سے اسے باندھ رکھا تھا خوف ٹل جانے‬
‫کے بعد اسے کھینچ لیتیں ۔ ایک مرتبہ ایک ایسا شخص گھر میں‬
‫آنے لگا جس سے آپ کی والدہ صاحبہ کو بہت دہشت ہوئی دوڑ کر‬
‫بچے کو صندوق‪ q‬میں لٹاکر دریا میں بہادیا اور جلدی اور گبھراہٹ‬
‫میں ڈوری باندھنی بھول گئیں صندوق پانی کی موجوں کے ساتھ‬
‫زور سے بہنے لگا اور فرعون کے محل کے پاس گزرا تو لونڈیوں‬
‫نے اسے اٹھالیا اور فرعون کی بیوی کے پاس لے گئیں راستے‬
‫میں انہوں نے اسے ڈر کے مارے کھوال نہ تھا کہ کہیں تہمت ان‬
‫پر نہ لگ جائے جب فرعون کی بیوی کے پاس اسے کھوال گیا تو‬
‫دیکھا کہ اس میں تو ایک نہایت خوبصورت نورانی چہرے واال‬
‫صحیح سالم بچہ لیٹا ہوا ہے جسے دیکھتے ہی ان کا دل مہر محبت‬
‫سے بھر گیا اور اس بچہ کی پیاری شکل دل میں گھر کر گئی۔ اس‬
‫میں بھی رب کی مصلحت تھی کہ فرعون کی بیوی کو راہ راست‬
‫دکھائے اور فرعون کے سامنے اس کا ڈر الئے اور اسے اور اس‬
‫کے غرور کو ڈھائے تو فرماتا ہے کہ آل فرعون نے اس صندوق‪q‬‬
‫کو اٹھالیا اور انجام کار وہ ان کی دشمنی اور ان کے رنج ومالل کا‬
‫باعث ہوا۔ محمد بن اسحاق وغیرہ فرماتے ہیں لیکون کا الم الم‬
‫عاقبت ہے الم تعلیل نہیں۔ اس لئے کہ ان کا ارادہ نہ تھا بظاہر یہ‬
‫ٹھیک بھی معلوم ہوتا ہے لیکن معنی کو دیکھتے ہوئے الم کو الم‬
‫تعلیل سمجھنے میں بھی کوئی حرج نہیں اتا اس لئے کہ ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫نے انہیں اس صندوقچے کا اٹھا نے واال اس لئے بنایا تھا کہ ہللا‬
‫اسے ان کے لئے دشمن بنادے اور ان کے رنج وغم کا باعث بنائے‬
‫بلکہ اس میں ایک لطف یہ بھی ہے کہ جس سے وہ بچنا چاہتے‬
‫تھے وہ ان کے سر چڑھ گیا۔ اس لئے اس کے بعد ہی فرمایا گیا کہ‬
‫فرعون ہامان اور ان کے ساتھی خطاکار تھے۔ روایت ہے کہ‬
‫حضرت عمر بن عبدالعزیز نے قدریہ کو جو لوگ کہ تقدیر کے‬
‫موسی کے سابق علم میں فرعون‬ ‫ٰ‬ ‫منکر ہیں ایک خط میں لکھا کہ‬
‫کے دشمن اور اس کے لئے باعث رنج وغم تھے جیسے قرآن کی‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫اس آیت سے ثابت ہے لیکن تم کہتے ہو کہ فرعون چاہتا تو‬
‫اس کے مددگار اور دوست ہوتے۔ پھر فرماتا ہے کہ اس بچے کو‬
‫دیکھتے ہی فرعون بدکا کہ ایسا نہ ہو کسی اسرائیلی عورت نے‬
‫اسے پھینک دیا ہو اور کہیں یہ وہی نہ ہو جس کے قتل کرنے کے‬
‫لئے ہزاروں بچوں کو فنا کرچکا ہوں۔ یہ سوچ کر اس نے انہیں‬
‫تعالی‬ ‫بھی قتل کرنا چاہا لیکن اس کی بیوی حضرت آسیہ رضی ہللا ٰ‬
‫عنہا نے ان کی سفارش کی۔ فرعون کو اس کے ارادے سے روکا‬
‫اور کہا اسے قتل نہ کیجیئے بہت ممکن ہے کہ یہ آپ کی اور‬
‫میری آنکھوں کی ٹھنڈک کا باعث ہو مگر فرعون نے جواب دیا کہ‬
‫تیری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو لیکن مجھے تو آنکھوں کی ٹھنڈک کی‬
‫ضروت نہیں۔ ہللا کی شان دیکھئے کہ یہی ہوا کہ حضرت آسیہ کو‬
‫موسی کی وجہ سے‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا نے اپنا دین نصیب فرمایا اور حضرت‬
‫انہوں نے ہدایت پائی اور اس متکبر کو ہللا نے اپنے نبی کے‬
‫ہاتھوں ہالک کیا۔ نسائی وغیرہ کے حوالے‪ q‬سے سورۃ طہ کی تفسیر‬
‫میں حدیث فتون میں یہ قصہ پورا بیان ہوچکا ہے۔ حضرت آسیہ‬
‫فرماتی ہے شاید ہمیں نفع پہنچائے ۔ ان کی امید ہللا نے پوری کی‬
‫موسی ان کی ہدایت کا ذریعہ بنے اور آخرت میں‬ ‫ٰ‬ ‫دنیا میں حضرت‬
‫جنت میں جانے کا۔ اور کہتی ہیں کہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ہم اسے‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫اپنا بچہ بنالیں۔ ان کی کوئی اوالد نہ تھی تو چاہا کہ حضرت‬
‫کو متبنی بنالیں ۔ ان میں سے کسی کو شعور نہ تھا کہ قدرت کس‬
‫طرح پوشیدہ‪ q‬اپنا ارادہ پوراکر رہی ہے۔‬

‫فَ ْالتَقَطَهُ آ ُل فِرْ َع ْو َن لِيَ ُك َ‬


‫ون لَهُ ْم َع ُد ًّوا َو َح َزنًا ۗ إِ َّن‬
‫ين‬ ‫ان َو ُجنُو َدهُ َما َكانُوا َخ ِ‬
‫اطئِ َ‬ ‫فِرْ َع ْو َن َوهَا َم َ‬
‫﴿‪﴾028:008‬‬
‫[جالندھری] تو فرعون کے لوگوں‪ q‬نے اس کو اٹھا لیا اس لئے کہ‬
‫(نتیجہ یہ ہو نا تھا کہ) وہ ان کا دشمن اور (انکے لئے موجب) غم‬
‫ہو بیشک فرعون اور ہامان اور ان کے لشکر چوک گئے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك ۖ اَل تَ ْقتُلُوهُ‬ ‫ت فِرْ َع ْو َن قُر ُ‬


‫َّت َعي ٍْن لِي َولَ َ‬ ‫ت ا ْم َرأَ ُ‬ ‫َوقَالَ ِ‬
‫َع َسى أَ ْن يَ ْنفَ َعنَا أَ ْو نَتَّ ِخ َذهُ َولَ ًدا َوهُ ْم اَل يَ ْش ُعر َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:009‬‬

‫[جالندھری] اور فرعون کی بیوی نے کہا کہ (یہ) میری اور‬


‫تمہاری (دونوں کی) آنکھوں کی ٹھنڈک ہے اس کو قتل نہ کرنا شاید‬
‫کہ یہ ہمیں فائدہ پہنچائے یا ہم اسے بیٹا بنا لیں اور وہ (انجام سے)‬
‫بےخبر تھے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ُ‬
‫َوأَصْ بَ َح فُ َؤا ُد أ ِّم ُمو َسى فَ ِ‬
‫ار ًغا ۖ إِ ْن َكا َد ْ‬
‫ت لَتُ ْب ِدي بِ ِه‬
‫ون ِم َن ْال ُم ْؤ ِمنِ َ‪q‬‬
‫ين‬ ‫لَ ْواَل أَ ْن َربَ ْ‬
‫طنَا َعلَى قَ ْلبِهَا لِتَ ُك َ‬
‫﴿‪﴾028:010‬‬

‫موسی کی ماں کا دل بےصبر ہوگیا اگر ہم ان کے‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری] اور‬
‫دل کو مضبوط نہ کر دیتے تو قریب تھا کہ وہ اس (قصے) کو ظاہر‬
‫کردیں غرض یہ تھی کہ وہ مومنوں میں رہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫جسے ہللا رکھے اسے کون چکھے؟‬


‫موسی علیہ السالم کی و الدہ نے جب ان کو صندوقچہ میں ڈال کر‬ ‫ٰ‬
‫دریا میں بہادیا تو بہت پریشان ہوئیں اور سوائے ہللا کے سچے‬
‫موسی کے آپ کو کسی اور‬ ‫ٰ‬ ‫رسول اور اپنے لخت جگر حضرت‬
‫چیز کا خیال ہی نہ رہا۔ صبر وسکون جاتارہا دل میں بجز حضرت‬
‫موسی کی یاد کے اور کوئی خیال ہی نہیں آتا تھا ۔ اگر ہللا کی‬
‫ٰ‬
‫طرف سے ان کی دلجمعی نہ کردی جاتی تو وہ تو بےصبری میں‬
‫راز فاش کردیتیں لوگوں سے کہہ دیتیں کہ اس طرح میرا بچہ‬
‫ضائع ہوگیا۔ لیکن ہللا نے اس کا دل ٹھہرا دیا ڈھارس دی اور تسکین‬
‫موسی نے اپنی‬
‫ٰ‬ ‫دے دی کہ تیرا بچہ تجھے ضرور ملے گا۔ والدہ‬
‫بڑی بچی سے جو ذرا سمجھ دار تھیں فرمایا کہ بیٹی تم اس‬
‫صندوق پر نظر جماکر کنارے کنارے چلی جاؤ دیکھو کیا انجام‬
‫ہوتا ہے؟ مجھے بھی خبر کرنا تو یہ دور سے اسے دیکھتی ہوئی‬
‫چلیں لیکن اس انجان پن سے کہ کوئی اور نہ سمجھ سکے کہ یہ‬
‫اس کا خیال رکھتی ہوئی اس کے ساتھ جارہی ہے۔ فرعون کے‬
‫محل تک پہنچتے ہوئے اور وہاں اس کی لونڈیوں کو اٹھاتے ہوئے‬
‫تو آپ کی ہمشیرہ نے دیکھا پھر وہیں باہر کھڑی رہ گئیں کہ شاید‬
‫کچھ معلوم ہوسکے کہ اندر کیا ہو رہا ہے۔ وہاں یہ ہوا کہ جب‬
‫حضرت آسیہ نے فرعون کو اس کے خونی ارادے سے باز رکھا‬
‫اور بچے کو اپنی پرورش میں لے لیا تو شاہی محل میں جتنی دایاں‬
‫تھیں سب کو بچہ دیاگیا۔ ہر ایک نے بشری محبت وپیار سے انہیں‬
‫موسی نے کسی کے دودھ‪q‬‬ ‫ٰ‬ ‫دودھ پالنا چاہا لیکن بحکم ٰالہی حضرت‬
‫کا ایک گھونٹ بھی نہ پیا۔ آخر اپنی لونڈیوں‪ q‬کے ہاتھوں اسے باہر‬
‫بھیجا کہ کسی دایہ کو تالش کرو جس کا دودھ یہ پئے اس کو لے‬
‫آؤ۔ چونکہ رب العلمین کو یہ منظور نہ تھا کہ اس کا اپنی والدہ کے‬
‫سوا کسی اور کا دودھ پئے اور اس میں سب سے بڑی مصلحت یہ‬
‫موسی اپنی ماں تک پہنچ جائیں۔ لونڈیاں‬‫ٰ‬ ‫تھی کہ اس بہانے حضرت‬
‫آپ کو لے کر جب باہر نکلیں تو آپ کی بہن نے آپ کو پہچان لیا‬
‫لیکن ان پر ظاہر نہ کیا اور نہ خود انہیں کوئی پتہ چل سکا آپ کی‬
‫بہن تو پہلے بہت پریشان تھی لیکن اس کے بعد ہللا نے انہیں صبر‬
‫وسکون دے دیا اور وہ خاموش اور مطمئن تھیں۔ بہن نے انکو‬
‫کہاکہ تم اس قدر پریشان کیوں ہو؟ انہوں نے کہا یہ بچہ کسی دائیہ‬
‫کا دودھ نہیں پیتا اور ہم اس کے لئے دایہ کی تالش میں ہیں۔ یہ سن‬
‫موسی نے فرمایا اگر تم کہو تو تمہیں ایک دائی کا پتہ‬
‫ٰ‬ ‫کر ہمشیرہ‬
‫دوں؟ ممکن ہے بچہ ان کا دودھ پی لئے اور اسکی پرورش کریں‬
‫اور اس کی خیر خواہی کریں۔ یہ سن کر انہیں کچھ شک گزرا کہ‬
‫یہ لڑکی اس لڑکے کی اصلیت ہے اور اس کے ماں باپ سے واقف‬
‫ہے اسے گرفتار کرلیا اور پوچھا تمہیں کیا معلوم کہ وہ عورت‬
‫اسکی کفالت اور خیر خواہی کرے گی؟ اس نے فورا جواب دیا‬
‫سبحان ہللا ۔ کون نہ چاہے گا کہ شاہی دربار میں اس کی عزت ہو۔‬
‫انعام واکرام کی خاطر کون اس سے ہمدردی نہ کریگا۔ ان کی‬
‫سمجھ میں بھی آگیا کہ ہمارا پہال گمان غلط تھا یہ تو ٹھیک کہہ رہی‬
‫ہے اسے چھوڑ دیا اور کہا اچھاچل اس کا مکان دکھا یہ انہیں لیکر‬
‫اپنے گھر لے آئیں اور اپنی والدہ کی طرف اشارہ کرکے کہا انہیں‬
‫دیجئے۔ سرکاری آدمیوں نے انہیں دیا تو بچہ دودھ‪ q‬پینے لگا۔ فورا‬
‫یہ خبر حضرت آسیہ کو دی گئی وہ یہ سن کر بہت خوش ہوئیں اور‬
‫انہیں اپنے محل میں بلوایا اور بہت کچھ انعام واکرام کیا لیکن یہ‬
‫علم نہ تھا کہ فی الواقع یہی اس بچے کی والدہ‪ q‬ہیں۔ فقط اس وجہ‬
‫موسی نے ان کا دودھ پیا تھا وہ ان سے بہت خوش‬ ‫ٰ‬ ‫سے کہ حضرت‬
‫ہوئیں۔ کچھ دنوں تک تو یونہی کام چلتارہا۔ آخرکار ایک روز‬
‫حضرت آسیہ نے فرمایا میری خوشی ہے کہ تم محل میں آجاؤ یہیں‬
‫موسی نے جواب دیا کہ یہ تو‬ ‫ٰ‬ ‫رہو سہو اور اسے دودھ پالتی رہو۔ ام‬
‫مجھ سے نہیں ہوسکتا میں بال بچوں والی ہوں میرے میاں بھی ہیں‬
‫میں انہیں دودھ پالدیاکرونگی پھر آپ کے ہاں بھیج دیا کرونگی۔ یہ‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫طے ہوا اور اس پر فرعون کی بیوی بھی رضامند ہوگئیں ام‬
‫کا خوف امن سے‪ ،‬فقیری امیری سے‪ ،‬بھوک آسودگی سے‪ ،‬دولت‬
‫وعزت میں بدل گئی۔ روزانہ انعام واکرام پاتیں۔ کھانا‪ ،‬کپڑا‪ ،‬شاہی‬
‫طریق پر ملتا اور اپنے پیارے بچے کو اپنی گود میں پالتیں۔ ایک‬
‫ہی رات یا ایک ہی دن یا ایک دن ایک رات کے بعد ہی ہللا نے اس‬
‫کی مصیبت کو راحت سے بدل دیا۔ حدیث شریف میں ہے جو‬
‫شخص اپنا کام دھندا کرے اور اسمیں ہللا کا خوف اور میری سنتوں‬
‫موسی کی مثال ہے کہ اپنے ہی بچے‬ ‫ٰ‬ ‫کا لحاظ کرے اسکی مثال ام‬
‫کو دودھ پالئے اور اجرت بھی لے۔‪ q‬ہللا کی ذات پاک ہے اسی کے‬
‫ہاتھ میں تمام کام ہے اسی کا چاہا ہوا ہوتا ہے اور جس کام کو وہ نہ‬
‫چاہے ہرگز نہیں ہوتا ۔ یقینا وہ ہر اس شخص کی مدد کرتا ہے جو‬
‫اس پر توکل کرے۔ اس کی فرمانبردای کرنے والے کا دستگیر وہی‬
‫ہے ۔ وہ اپنے نیک بندوں کے آڑے وقت کام آتا ہے اور ان کی‬
‫تکلیفوں کو دور کرتا ہے اور ان کی تنگی کو فراخی سے بدلتا‬
‫ہے ۔ اور ہر رنج کے بعد راحت عطا فرماتا ہے ۔ فسبحانہ ما اعظم‬
‫شانہ ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے اسے اسکی ماں کی طرف واپس‬
‫لوٹادیا تاکہ اس کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں اور اسے اپنے بچے کا‬
‫صدمہ نہ رہے ۔ اور وہ ہللا کے وعدوں‪ q‬کو بھی سچا سمجھے اور‬
‫یقین مان لے کہ وہ ضرور نبی اور رسول بھی ہونے واال ہے‪ ،‬اب‬
‫آپ کی والدہ‪ q‬اطمینان سے آپ کی پرورش میں مشغول ہوگئیں اور‬
‫اسی طرح پرورش کی جس طرح ایک بلند درجہ نبی کی ہونی‬
‫چاہیے ۔ ہاں رب کی حکمتیں بےعلموں‪ q‬کی نگاہ سے اوجھل رہتی‬
‫ہیں۔ وہ ہللا کے احکام کی غایت کو اور فرمانبردای کے نیک انجام‬
‫کو نہیں سوچتے۔ ظاہری نفع نقصان کے پابند رہتے ہیں۔ اور دنیا پر‬
‫ریجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ انہیں یہ نہیں سوجھتاکہ ممکن ہے جسے‬
‫وہ برا سمجھ رہے ہیں اچھاہو اور بہت ممکن ہے کہ جسے وہ‬
‫اچھاسمجھ رہے ہیں وہ برا ہو یعنی ایک کام برا جانتے ہوں مگر‬
‫کیا خبر کہ اس میں قدرت نے کیا فوائد پوشیدہ رکھیں ہیں ۔‬

‫ت بِ ِه َع ْن ُجنُ ٍ‬
‫ب َوهُ ْم اَل‬ ‫ت أِل ُ ْختِ ِه قُصِّي ِه ۖ فَبَ ُ‬
‫ص َر ْ‬ ‫َوقَالَ ْ‬
‫يَ ْش ُعر َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:011‬‬

‫[جالندھری] اور اس کی بہن نے کہا کہ اسکے پیچھے پیچھے‬


‫چلی جا تو وہ اسے دور سے دیکھتی رہی اور ان (لوگوں) کو کچھ‬
‫خبر نہ تھی‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫ت هَلْ أَ ُدلُّ ُك ْم‬ ‫َو َح َّر ْمنَا َعلَ ْي ِه ْال َم َر ِ‬
‫اض َع ِم ْن قَ ْب ُل فَقَالَ ْ‬
‫ُون‬
‫اصح َ‬ ‫َعلَى أَ ْه ِل بَ ْي ٍ‬
‫ت يَ ْكفُلُونَهُ لَ ُك ْم َوهُ ْم لَهُ نَ ِ‬ ‫﴿‪﴾028:012‬‬

‫[جالندھری] اور ہم نے پہلے ہی سے اس پر (دائیوں کے) دودھ‬


‫موسی کی بہن نے کہا کہ میں تمہیں ایسے‬
‫ٰ‬ ‫حرام کر دئیے تھے تو‬
‫گھر والے‪ q‬بتاؤں کہ تمہارے لئے اس (بچے) کو پالیں اور اسکی‬
‫خیر خواہی (سے پرورش) کریں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫فَ َر َد ْدنَاهُ إِلَى أُ ِّم ِه َك ْي تَقَ َّر َع ْينُهَا‪َ q‬واَل تَحْ َز َن َولِتَ ْعلَ َم أَ َّن‬
‫ق َولَ ِك َّن أَ ْكثَ َرهُ ْم اَل يَ ْعلَ ُم َ‬
‫ون‬ ‫َو ْع َد هَّللا ِ َح ٌّ‬
‫﴿‪﴾028:013‬‬

‫[جالندھری] تو ہم نے (اس طریق سے) ان کو ان کی ماں کے پاس‬


‫واپس پہنچا دیا کہ انکی آنکھیں ٹھنڈی ہوں اور وہ غم نہ کھائیں اور‬
‫معلوم کریں کہ خدا کا وعدہ‪ q‬سچا ہے لیکن یہ اکثر نہیں جانتے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َولَ َّما بَلَ َغ أَ ُش َّدهُ َوا ْستَ َوى آتَ ْينَاهُ‪ُ q‬ح ْك ًما َو ِع ْل ًما ۚ َو َك َذلِ َ‬
‫ك‬
‫نَجْ ِزي ْال ُمحْ ِسنِ َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:014‬‬

‫موسی جوانی کو پہنچے اور بھرپور (جوان)‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری] اور جب‬
‫ہوگئے تو ہم نے ان کو حکمت اور علم عنایت کیا اور ہم‬
‫نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫گھونسے سے موت‬
‫موسی کے لڑکپن کا ذکر کیا اب ان کی جوانی کا واقعہ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫بیان ہو رہا ہے کہ ہللا نے انہیں حکمت وعلم عطافرمایا ۔ یعنی نبوت‬
‫دی۔ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں‪ ،‬پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا‬
‫ہے جو حضرت موسی علیہ السالم کے مصر چھوڑنے کا باعث بنا‬
‫اور جس کے بعد ہللا کی رحمت نے ان کارخ کیا یہ مصر چھوڑ کر‬
‫مدین کی طرف چل دئیے۔ آپ ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو‬
‫مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ‪ q‬کھانے پینے میں یا سونے‬
‫میں مشغول ہیں راستوں پر آمد ورفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ‬
‫دو شخص لڑ جھگڑرہے ہیں۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے۔‬
‫موسی سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا‬ ‫ٰ‬ ‫اسرائیلی نے حضرت‬
‫زور ظلم بیان کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا اور ایک گھونسہ اسے‬
‫موسی گھبراگئے اور‬
‫ٰ‬ ‫کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا۔‬
‫کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے‬
‫اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے واال ہونا بھی ظاہر ہے ۔ پھر‬
‫تعالی سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے۔ ہللا‬ ‫ہللا ٰ‬
‫نے بھی بخشش دیا وہ بخشنے واال مہربان ہی ہے۔ اب کہنے لگے‬
‫اے ہللا تونے جو جاہ وعزت بزرگی اور نعمت مجھے عطافرمائی‬
‫ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ‪ q‬کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی‬
‫نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کرونگا۔‬

‫ين َغ ْفلَ ٍة ِم ْن أَ ْهلِهَا فَ َو َج َد فِيهَا‬‫َو َد َخ َل ْال َم ِدينَةَ‪َ q‬علَى ِح ِ‬


‫َر ُجلَي ِْن يَ ْقتَتِاَل ِ‪q‬ن هَ َذا ِم ْن ِشي َعتِ ِه َوهَ َذا ِم ْن َع ُد ِّو ِه ۖ‬
‫فَا ْستَ َغاثَهُ الَّ ِذي ِم ْن ِشي َعتِ ِه َعلَى الَّ ِذي ِم ْن َع ُد ِّو ِه‬
‫ضى َعلَ ْي ِه ۖ قَا َل هَ َذا ِم ْن َع َم ِل‬ ‫فَ َو َك َزهُ ُمو َسى فَقَ َ‬
‫ض ٌّل ُمبِ ٌ‬
‫ين‬ ‫ال َّش ْيطَ ِ‬
‫ان ۖ إِنَّهُ َع ُد ٌّو ُم ِ‬ ‫﴿‪﴾028:015‬‬

‫[جالندھری] اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے‬
‫باشندے بےخبر ہو رہے تھے تو دیکھا کہ وہاں دو شخص لڑ رہے‬
‫موسی کی قوم کا ہے اور دوسرا‪ q‬ان کے دشمنوں میں‬
‫ٰ‬ ‫ہیں ایک تو‬
‫سے تو جو شخص انکی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص‬
‫موسی سے‬
‫ٰ‬ ‫موسی کے دشمنوں میں سے تھا‬
‫ٰ‬ ‫کے مقابلے میں جو‬
‫مدد طلب کی تو انہوں نے اسکو مکا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا‬
‫کہنے لگے کہ یہ کام تو (اغوائے) شیطان سے ہوا بیشک وہ (انسان‬
‫کا) دشمن اور صریح بہکانے واال ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ت نَ ْف ِسي فَا ْغفِرْ لِي فَ َغفَ َر لَهُ ۚ إِنَّهُ‬


‫قَا َل َربِّ إِنِّي ظَلَ ْم ُ‬
‫هُ َو ْال َغفُو ُر الر ِ‬
‫َّحي ُم‬
‫﴿‪﴾028:016‬‬

‫[جالندھری] بولے کہ اے پروردگار میں نے اپنے آپ پر ظلم کیا‬


‫تو مجھے بخش دے تو خدا نے انکو بخش دیا بیشک وہ بخشنے‬
‫واال مہربان ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ي فَلَ ْن أَ ُك َ‬
‫ون ظَ ِهيرًا‬ ‫قَا َل َربِّ بِ َما أَ ْن َع ْم َ‬
‫ت َعلَ َّ‬
‫لِ ْل ُمجْ ِر ِم َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:017‬‬

‫[جالندھری] کہنے لگے کہ اے پروردگار تو نے جو مجھ پر‬


‫مہربانی فرمائی ہے میں (آئندہ) کبھی گنہگاروں کا مددگار نہ بنوں‬
‫گا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫فَأَصْ بَ َح فِي ْال َم ِدينَ ِ‪q‬ة َخائِفًا يَتَ َرقَّبُ فَإِ َذا الَّ ِذي‬
‫س يَ ْستَصْ ِر ُخهُ ۚ قَا َل لَهُ ُمو َسى إِنَّ َ‬
‫ك‬ ‫ص َرهُ بِاأْل َ ْم ِ‬‫ا ْستَ ْن َ‬
‫لَ َغ ِويٌّ ُمبِ ٌ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:018‬‬
‫[جالندھری] الغرض صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل‬
‫ہوئے کہ دیکھیں (کیا ہوتا ہے) تو ناگہاں وہی شخص جس نے کل‬
‫موسی نے اس سے‬
‫ٰ‬ ‫ان سے مدد مانگی تھی پھر ان کو پکار رہا ہے‬
‫کہا کہ تو تو صریح گمراہ ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫جسے بچایا اسی نے راز کھوال‬


‫موسی کے گھونسے سے قبطی مرگیا تھا اس لئے آپ کی طبیعیت‬ ‫ٰ‬
‫پر گھبراہٹ تھی۔ شہر میں ڈرتے دبکتے آئے کہ دیکھیں کیا باتیں‬
‫ہو رہی ہیں؟ کہیں راز کھل تو نہیں گیا۔ دیکھتے ہیں کہ کل واال‬
‫اسرائیلی آج ایک اور قبطی سے لڑ رہاہے۔ آپ کو دیکھتے ہی کل‬
‫کی طرح آج بھی فریاد اور دہائی دینے لگا۔ آپ نے فرمایا تم بڑے‬
‫موسی نے‬
‫ٰ‬ ‫فتنہ آدمی ہو۔ یہ سنتے ہی وہ گھبرا گیا ۔ جب حضرت‬
‫اس ظالم قبطی کو روکنے کے لئے اس کی طرف ہاتھ بڑھانا چاہا‬
‫تو یہ شخص اپنے کمینہ پن اور بزدلی سے سمجھ بیٹھا کہ آپ نے‬
‫مجھے برا کہا ہے اور مجھے پکڑنا چاہتے ہیں اپنی جان بچانے‬
‫موسی کیا جیسے تونے کل‬ ‫ٰ‬ ‫کے لئے شور مچانا شروع کردیا کہ‬
‫ایک شخص کا خون کیا تھا آج میری جان بھی لینا چاہتا ہے؟ کل کا‬
‫واقعہ صرف اسی کی موجودگی میں ہوا تھا اس لئے اب تک کسی‬
‫کو پتہ نہ چال تھا؟ لیکن آج اس کی زبان سے اس قبطی کو پتہ چال‬
‫موسی کاہے۔ اس بزدل ڈرپوک نے یہ بھی ساتھ ہی کہا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫کہ یہ کام‬
‫تو زمین پر سرکش بن کر رہنا چاہتا ہے اور تیری طبعیت میں ہی‬
‫صلح پسندی نہیں۔ قبطی یہ سن کر بھاگا دوڑا دربار فرعونی میں‬
‫پہنچا اور وہاں مخبری کی۔ فرعون کی بددلی کی اب کوئی حد نہ‬
‫موسی کو الکر پیش کریں۔‬
‫ٰ‬ ‫رہی اور فورا سپاہی دوڑائے کہ‬

‫ش بِالَّ ِذي هُ َو َع ُد ٌّو لَهُ َما قَا َل يَا‬ ‫فَلَ َّما أَ ْن أَ َرا َد أَ ْن يَب ِْط َ‬
‫س ۖ إِ ْن‬‫ت نَ ْفسًا بِاأْل َ ْم ِ‬ ‫ُمو َسى أَتُ ِري ُد أَ ْن تَ ْقتُلَنِي َك َما قَتَ ْل َ‬
‫ض َو َما تُ ِري ُد أَ ْن‬
‫ون َجبَّارًا فِي اأْل َرْ ِ‬‫تُ ِري ُد إِاَّل أَ ْن تَ ُك َ‬
‫ون ِم َن ْال ُمصْ لِ ِح َ‬
‫ين‬ ‫تَ ُك َ‬
‫﴿‪﴾028:019‬‬

‫موسی نے ارادہ کیا کہ اس شخص کو جو ان‬‫ٰ‬ ‫[جالندھری] جب‬


‫موسی کی قوم کا آدمی) بول‬
‫ٰ‬ ‫دونوں کا دشمن تھا پکڑلیں تو وہ (یعنی‬
‫اٹھا کہ جس طرح تم نے کل ایک شخص کو مار ڈاال تھا (اسی‬
‫طرح) چاہتے ہو کہ مجھے بھی مار ڈالو ! تم تو یہی چاہتے ہو کہ‬
‫ملک میں ظلم و ستم کرتے پھرو اور یہ نہیں چاہتے کہ نیکو کاروں‬
‫میں ہو‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫صى ْال َم ِدينَ ِة يَ ْس َعى قَا َل يَا ُمو َسى‬ ‫َو َجا َء َر ُج ٌل ِم ْن أَ ْق َ‬
‫ك فَ ْ‬
‫اخ ُرجْ إِنِّي لَ َ‬
‫ك ِم َن‬ ‫ك لِيَ ْقتُلُو َ‬ ‫إِ َّن ْال َمأَل َ يَأْتَ ِمر َ‬
‫ُون بِ َ‬
‫ين‬
‫اص ِح َ‬ ‫النَّ ِ‬
‫﴿‪﴾028:020‬‬

‫[جالندھری] اور ایک شخص شہر کی پرلی طرف سے دوڑتا ہوا‬


‫موسی (شہر کے) رئیس تمہارے بارے میں‬ ‫ٰ‬ ‫آیا اور بوال کہ‬
‫صالحیں کرتے ہیں کہ تم کو مار ڈالیں‪ q‬سو تم یہاں سے نکل جاؤ‬
‫میں تمہارا خیر خواہ ہوں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫گمنام ہمدر‬
‫اس آنے والے‪ q‬کو رجل کہاگیا۔ عربی میں رجل کہتے ہیں قدموں‬
‫موسی کے تعاقب میں‬
‫ٰ‬ ‫کو۔ اس نے جب دیکھا کہ سپاہ حضرت‬
‫جارہی ہے تو یہ اپنے پاؤں پر تیزی سے دوڑا اور ایک قریب کے‬
‫راستے سے نکل کر جھٹ سے آپ کو اطالع دے دی کہ یہاں کے‬
‫امیر امراء آپ کے قتل کے ارادے کرچکے ہیں آپ شہر چھوڑ‬
‫دیجئے۔ میں آپ کا بہی خواہ ہوں میری مان لیجئے۔‬
‫فَ َخ َر َج ِم ْنهَا َخائِفًا يَتَ َرقَّبُ ۖ قَا َل َربِّ نَجِّ نِي ِم َن ْالقَ ْو ِم‬
‫الظَّالِ ِم َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:021‬‬

‫موسی وہاں سے ڈرتے ڈرتے نکل کھڑے ہوئے کہ‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری]‬
‫دیکھیں (کیا ہوتا ہے اور) دعا کرنے لگے کہ اے پروردگار مجھے‬
‫ظالم لوگوں سے نجات دے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫موسی علیہ السالم کافرار‬


‫فرعون اور فرعونیوں کے ارادے جب اس شخص کی زبانی آپ کو‬
‫معلوم ہوگئے تو آپ وہاں سے تن تنہاچپ چاپ نکل کھڑے ہوئے ۔‬
‫چونکہ اس سے پہلے کی زندگی کے ایام آپ کے شہزادوں کی‬
‫طرح گزرے تھے سفر بہت کڑا معلوم ہوا لیکن خوف وہراس کے‬
‫ساتھ ادھر ادھر دیکھتے سیدھے چلے جارہے تھے اور ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫سے دعائیں مانگتے جارہے تھے کہ اے ہللا ! ان ظالموں سے یعنی‬
‫تعالی نے‬‫فرعون اور فرعونیوں سے نجات دے۔‪ q‬مروی ہے کہ ہللا ٰ‬
‫آپ کی رہبری کے واسطے ایک فرشتہ بھیجا تھا جو گھوڑے پر‬
‫آپ کے پاس آیا اور آپ کو راستہ دکھا گیا وہللا اعلم۔ تھوڑی دیر‬
‫میں آپ جنگلوں اور بیابانوں سے نکل کر مدین کے راستے پر‬
‫پہنچ گئے تو خوش ہوئے اور فرمانے لگے مجھے ذات باری سے‬
‫امید ہے کہ وہ راہ راست پر ہی لے جائے گا۔ ہللا نے آپ کی امید‬
‫بھی پوری کی۔ اور آخرت کی سیدھی راہ نہ صرف بتائی بلکہ‬
‫اوروں کو بھی سیدھی راہ بتانے واال بنایا ۔ مدین کے پاس کے‬
‫کنویں پر آئے تو دیکھا کہ چرواہے پانی کھینچ کھینچ کر اپنے اپنے‬
‫جانوروں کو پال رہے ہیں۔ وہیں آپ نے یہ بھی مالحظہ فرمایا کہ‬
‫دو عورتیں اپنی بکریوں کو ان جانوروں کے ساتھ پانی پینے سے‬
‫روک رہی ہیں تو آپ کو ان بکریوں پر اور ان عورتوں کی اس‬
‫حالت پر کہ بےچاریاں پانی نکال کر پال نہیں سکتیں اور ان‬
‫چرواہوں‪ q‬میں سے کوئی اس کاروادار‪ q‬نہیں کہ اپنے کھینچے ہوئے‬
‫پانی میں سے ان کی بکریوں کو بھی پالدے تو آپ کو رحم آیا ان‬
‫سے دریافت فرمایا کہ تم اپنے جانوروں کو اس پانی سے کیوں‬
‫روک رہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ ہم تو پانی نکال نہیں سکتیں‬
‫جب یہ اپنے جانوروں کو پانی پالکرچلے جائیں تو بچا کھچا پانی ہم‬
‫اپنی بکریوں کو پالدیں گی۔ ہمارے والد‪ q‬صاحب ہیں لیکن وہ بہت‬
‫ہی بوڑھے ہیں۔‬
‫بکریوں کو پانی پالیا‬
‫آپ نے خود ہی ان جانوروں کو پانی کھینچ کر پالدیا۔ حضرت عمر‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ اس کنویں کے منہ‬ ‫بن خطاب رضی ہللا ٰ‬
‫کو ان چرواہوں‪ q‬نے ایک بڑے پتھر سے بند کردیا تھا ۔ جس چٹان‬
‫کو دو آدمی مل کر سرکا سکتے تھے آپ نے تن تنہا اس پتھر کو‬
‫ہٹادیا اور ایک ڈول نکاال تھا جس میں ہللا نے برکت دی اور ان‬
‫دونوں لڑکیوں کی بکریاں شکم سیر ہوگئیں۔ اب آپ تھکے ہارے‬
‫بھوکے پیاسے ایک درخت کے سائے تلے بیٹھ گئے۔ مصر سے‬
‫مدین تک پیدل بھاگے دوڑے آئے تھے۔ پیروں میں چھالے پڑگئے‬
‫تھے کھانے کو کچھ پاس نہیں تھا درختوں کے پتے اور گھاس‬
‫پھونس کھاتے رہے تھے۔ پیٹ پیٹھ سے لگ رہا تھا اور گھاس کا‬
‫سبز رنگ باہر سے نظر آرہا تھا ۔ آدھی کھجور سے بھی اس وقت‬
‫آپ ترسے ہوئے تھے حاالنکہ اس وقت کی ساری مخلوق‪ q‬سے‬
‫زیادہ برگزیدہ ہللا کے نزدیک آپ تھے صلوات ہللا وسالمہ علیہ۔‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ دو رات کا‬ ‫حضرت ابن مسعود رضی ہللا ٰ‬
‫سفر کرکے میں مدین گیا اور وہاں کے لوگوں سے اس درخت کا‬
‫پتہ پوچھا جس کے نیچے ہللا کے کلیم نے سہارا لیا تھا ۔ لوگوں‬
‫ایک درخت کی طرف اشارہ کیا میں نے دیکھا کہ وہ ایک سرسبز‬
‫درخت ہے۔ میرا جانور بھوکا تھا اس نے اس میں منہ ڈاال پتے منہ‬
‫میں لے کر بڑی دیر تک بدقت چباتارہا لیکن آخر اس نے نکال‬
‫ڈالے۔‪ q‬میں نے کلیم ہللا کے لئے دعا کی اور وہاں سے واپس لوٹ‬
‫آیا۔ اور روایت میں ہے کہ آپ اس درخت کو دیکھنے کے لئے‬
‫گئے تھے جس سے ہللا نے آپ سے باتیں کی تھیں جیسے کہ آگے‬
‫تعالی۔ سدی فرماتے ہیں یہ ببول کا درخت تھا۔‬
‫ٰ‬ ‫آئے گا ۔ انشاء ہللا‬
‫الغرض اس درخت تلے بیٹھ کر آپ نے ہللا ٰ‬
‫تعالی سے دعا کی کہ‬
‫اے رب میں تیرے احسانوں کا محتاج ہوں۔ عطاء کا قول ہے کہ اس‬
‫عورت نے بھی آپ کی دعا سنی۔‬

‫َولَ َّما تَ َو َّجهَ تِ ْلقَا َء َم ْديَ َن قَا َل َع َسى َربِّي أَ ْن يَ ْه ِديَنِي‬


‫َس َوا َء ال َّسبِ ِ‬
‫يل‬
‫﴿‪﴾028:022‬‬

‫[جالندھری] اور جب مدین کی طرف رخ کیا تو کہنے لگے امید‬


‫ہے کہ میرا پروردگار مجھے سیدھا راستہ بتائے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َولَ َّما َو َر َد َما َء َم ْديَ َن َو َج َد َعلَ ْي ِه أُ َّمةً ِم َن النَّ ِ‬


‫اس‬
‫ان ۖ قَا َل َما‬‫ون َو َو َج َد ِم ْن ُدونِ ِه ُم ا ْم َرأَتَي ِْن تَ ُذو َد ِ‬ ‫يَ ْسقُ َ‬
‫طبُ ُك َما ۖ قَالَتَا اَل نَ ْسقِي َحتَّى يُصْ ِد َر ال ِّر َعا ُء ۖ َوأَبُونَا‬ ‫َخ ْ‬
‫َش ْي ٌخ َكبِي ٌر‬
‫﴿‪﴾028:023‬‬

‫[جالندھری] جب مدین کے پانی (کے مقام) پر پہنچے تو دیکھا کہ‬


‫لوگ جمع ہو رہے (اور اپنے چارپایوں کو) پانی پال رہے ہیں اور‬
‫دیکھا کہ انکے ایک طرف دو عورتیں (اپنی بکریوں کو) روکے‬
‫موسی نے (ان سے کہا) تمہارا کام کیا ہے؟ وہ بولیں کہ‬
‫ٰ‬ ‫کھڑی ہیں‬
‫جب تک چرواہے (اپنے چارپایوں کو) نہ لے جائیں ہم پانی نہیں پال‬
‫سکتے اور ہمارے والد بڑی عمر کے بوڑھے ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫فَ َسقَى لَهُ َما ثُ َّم تَ َولَّى إِلَى ال ِّ‬
‫ظلِّ فَقَا َل َربِّ إِنِّي لِ َما‬
‫ي ِم ْن َخي ٍْر فَقِي ٌر‬ ‫ت إِلَ َّ‬‫أَ ْن َز ْل َ‬
‫﴿‪﴾028:024‬‬

‫موسی نے ان کے لئے (بکریوں کو) پانی پال دیا‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری] تو‬
‫پھر سائے کی طرف چلے گئے اور کہنے لگے کہ پروردگار میں‬
‫محتاج ہوں کہ تو مجھ پر اپنی نعمت نازل فرمائے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ت إِ َّن أَبِي‬ ‫فَ َجا َء ْتهُ إِحْ َداهُ َما‪ q‬تَ ْم ِشي َعلَى ا ْستِحْ يَا ٍء قَالَ ْ‬
‫ْت لَنَا ۚ فَلَ َّما َجا َءهُ َوقَصَّ‬ ‫ك أَجْ َر َما َسقَي َ‬ ‫ك لِيَجْ ِزيَ َ‬‫يَ ْد ُعو َ‬
‫ت ِم َن ْالقَ ْو ِم‬ ‫ف ۖ نَ َج ْو َ‬ ‫ص قَا َل اَل تَ َخ ْ‬ ‫ص َ‬ ‫َعلَ ْي ِه ْالقَ َ‬
‫الظَّالِ ِم َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:025‬‬

‫[جالندھری] (تھوڑی دیر کے بعد) ان میں سے ایک عورت جو‬


‫موسی کے پاس آئی (اور) کہنے‬
‫ٰ‬ ‫شرماتی اور لجاتی چلی آتی تھی‬
‫لگی کہ تم کو میرے والد بالتے ہیں کہ تم نے جو ہمارے لئے پانی‬
‫پالیا تھا اس کی تم کو اجرت دیں جب وہ انکے پاس گئے اور ان‬
‫سے (اپنا) ماجرا بیان کیا تو انہوں نے کہا کہ کچھ خوف نہ کرو تم‬
‫ظالم لوگوں سے بچ آئے ہو‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫موسی اور شعیب علیہما السالم کا معاہدہ‬


‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫موسی علیہ السالم‬
‫ٰ‬ ‫ان دونوں‪ q‬بچیوں کی بکریوں کو جب حضرت‬
‫نے پانی پالدیا تو یہ اپنی بکریاں لیکر واپس اپنے گھر گئیں۔ باپ‬
‫نے دیکھا کہ آج وقت سے پہلے یہ آگئیں ہیں تو دریافت فرمایا کہ‬
‫آج کیا بات ہے؟ انہوں نے سچا واقعہ کہہ سنایا۔ آپ نے اسی وقت‬
‫ان دونوں‪ q‬میں سے ایک کو بھیجا کہ جاؤ اور ان کو میرے پاس لے‬
‫موسی علیہ السالم کے پاس آئیں اور جس طرح گھر‬ ‫ٰ‬ ‫آؤ۔ وہ حضرت‬
‫گھر ہست پاک دامن عفیفہ عورتوں کا دستور ہوتا ہے شرم وحیا‬
‫سے اپنی چادر میں لپٹی ہوئی پردے کے ساتھ چل رہی تھی۔ منہ‬
‫بھی چادر کے کنارے سے چھپائے ہوئے تھیں پھر اس دانائی اور‬
‫صداقت کو دیکھئے کہ صرف یہی نہی کہاکہ میرے ابا آپ کو بال‬
‫رہے ہیں کیونکہ اس میں شبہ کی باتوں کی گنجائش تھی صاف کہہ‬
‫دیا کہ میرے والد‪ q‬آپ کی مزدوری دینے کے لئے اور اس احسان کا‬
‫بدلہ اتارنے کے لئے بال رہے ہیں۔ جو آپ نے ہماری بکریوں کو‬
‫پانی پالکر ہمارے ساتھ کیا ہے۔ کلیم ہللا کو جو بھوکے پیاسے تن‬
‫تنہا مسافر اور بےخرچ تھے یہ موقعہ غنیمت معلوم ہوا یہاں آئے۔‬
‫انہیں ایک بزرگ سمجھ کر ان کے سوال پر اپنا سارا واقعہ بالکم‬
‫وکاست سنایا۔ انہوں نے دل جوئی کی اور فرمایا اب کیا خوف ہے؟‬
‫ان ظالموں کے ہاتھ سے آپ نکل آئے ۔ یہاں ان کی حکومت نہیں۔‬
‫بعض مفسرین کہتے ہیں کہ یہ بزرگ حضرت شعیب علیہ السالم‬
‫تھے جو مدین والوں کی طرف ہللا کے نبی بن کر آئے ہوئے تھے۔‬
‫یہ مشہور قول امام حسن بصری رحمۃ ہللا کا ہے اور بہت سے‬
‫علماء بھی یہی فرماتے ہیں۔ طبرانی کی ایک حدیث میں ہے کہ جب‬
‫تعالی عنہ اپنی قوم کی طرف سے ایلچی بن‬ ‫حضرت سعد رضی ہللا ٰ‬
‫کر رسول کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو‬
‫موسی کے سسرال والوں‪ q‬کو‬‫ٰ‬ ‫آپ نے فرمایا شعیب کی قوم اور‬
‫مرحبا ہو کہ تمہیں ہدایت کی گئی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ حضرت‬
‫شعیب کے بھتیجے تھے کوئی کہتا ہے کہ قوم شعیب کے ایک‬
‫مومن مرد تھے۔ بعض کا قول ہے کہ شعیب علیہ السالم کا زمانہ تو‬
‫موسی علیہ السالم کے زمانے سے بہت پہلے کا ہے۔ ان کا‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫قول قرآن میں اپنی قوم سے یہ مروی ہے کہ( وماقوم لوط منکم‬
‫ببعید) لوط کی قوم تم سے کچھ دور نہیں۔ اور یہ بھی قرآن سے‬
‫ثابت ہے کہ لوطیوں کی ہالکت حضرت ابراہیم خلیل ہللا کے زمانے‬
‫میں ہوئی تھی۔ اور یہ بھی بہت ظاہر ہے کہ حضرت ابراہیم اور‬
‫موسی علیہ السالم کے درمیان کا زمانہ بہت لمبا زما نہ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫ہے۔ تقریبا چار سو سال کا ہے جیسے اکثر مورخین کا قول ہے ہاں‬
‫بعض لوگوں نے اس مشکل کا یہ جواب دیا ہے کہ حضرت شعیب‬
‫کی بڑی لمبی عمر ہوئی تھی۔ ان کا مقصد غالبا اس اعتراض سے‬
‫بچنا ہے وہللا اعلم۔ ایک اور بات بھی خیال میں رہے کہ اگر یہ‬
‫بزرگ حضرت شعیب علیہ السالم ہی ہوئے تو چاہئے تھا کہ قرآن‬
‫میں اس موقعہ پر ان کا نام صاف لے دیا جاتا۔ ہاں البتہ بعض‬
‫احادیث میں یہ آیا ہے کہ یہ حضرت شعیب علیہ السالم تھے۔ لیکن‬
‫ان احادیث کی سندیں صحیح نہیں جیسے کہ ہم عنقریب وارد کریں‬
‫گے ان شاء ہللا ٰ‬
‫تعالی‪ ،‬بنی اسرائیل کی کتابوں میں ان کا نام ثیرون‬
‫بتالیاگیا ہے وہللا اعلم۔ حضرت ابن مسعود کے صاحبزادے فرماتے‬
‫ہیں ثیرون حضرت شعیب کے بھتیجے تھے۔ ابن عباس رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ سے مروی ہے کہ یہ یثربی تھے۔ ابن جریر فرماتے ہیں‬ ‫ٰ‬
‫یہ بات اس وقت ہوتی کہ جب اس بارے میں کوئی خبر مروی ہوتی‬
‫اور ایسا ہے نہیں۔ ان کی دونوں‪ q‬صاحبزادیوں‪ q‬میں سے ایک نے‬
‫باپ کی توجہ دالئی۔ یہ توجہ دالنے والی صاحبزادی وہی تھیں جو‬
‫آپ کو بالنے گئی تھیں۔ کہا کہ انہیں آپ ہماری بکریوں کی چرائی‬
‫پر رکھ لیجئے کیونکہ وہ کام کرنے واال اچھا ہوتا ہے جو قوی اور‬
‫امانت دار ہو۔ باپ نے بیٹی سے پوچھا تم نے یہ کیسے جان لیا کہ‬
‫ان میں یہ دونوں وصف ہیں۔ بچی نے جواب دیا کہ دس آدمی مل‬
‫کر جس پتھر کو کنویں سے ہٹا سکتے تھے انہوں نے تنہا اس کو‬
‫ہٹادیا ان سے انکی قوت کا اندازہ با آسانی ہوسکتا ہے ۔ امانت داری‬
‫کا علم مجھے اس طرح ہوا کہ جب میں انہیں لے کر آپ کے پاس‬
‫آنے لگی تو اس لئے کہ راستے سے ناواقف تھے میں آگے ہولی‬
‫انہوں نے کہاتم میرے پیچھے رہو اور جہاں راستہ بدلنا ہو اس‬
‫طرف کنکر پھینک دینا میں سمجھ لونگا کہ مجھے اس راستے چلنا‬
‫چاہیے۔ حضرت ابن مسعود رضی ہللا ٰ‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہیں تین‬
‫شخص کی سی زیرکی‪ ،‬معاملہ فہی‪ ،‬دانائی اور دوربینی کسی اور‬
‫تعالی عنہ کی‬‫میں نہیں پائی گئی۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا ٰ‬
‫دانائی کہ جب انہوں نے اپنے بعد خالفت کے لئے جناب عمر‬
‫تعالی عنہ کو منتخب کیا۔ حضرت یوسف کے خریدنے‬ ‫رضی ہللا ٰ‬
‫والے مصری جنہوں نے بیک نظر حضرت یوسف کو پہچان لیا‬
‫اور جاکر اپنی بیوی سے فرمایا کہ انہیں اچھی طرح رکھو۔ اور اس‬
‫بزرگ کی صاحبزادی جنہوں نے حضرت موسی کی نسبت اپنے‬
‫باپ سے سفارش کی کہ انہیں اپنے کام پر رکھ لیجئے ۔ یہ سنتے‬
‫ہی اس بچی کے باپ نے فرمایا کہ اگر آپ پسند کریں تو میں اس‬
‫مہر پر ان دو بچیوں میں سے ایک کا نکاح آپ کے ساتھ کردیتا‬
‫ہوں کہ آپ آٹھ سال تک ہماری بکریاں چرائیں۔ ان دونوں کا نام‬
‫صفورا اور اولیا تھا یا صفورا اور شرفایا صفوررا ورلیا۔ اصحاب‬
‫ابی حنیفہ رحمۃ ہللا نے اسی سے استدالل کیا ہے کہ جب کوئی‬
‫شخص اس طرح کی بیع کرے کہ ان دوغالموں‪ q‬میں سے ایک کو‬
‫ایک سوکے بدلے‪ q‬فروخت کرتا ہوں اور خریدار منظور کرلے تو‬
‫یہ بیع ثابت اور صحیح ہے۔ وہللا اعلم۔ اس بزرگ نے کہا کہ آٹھ‬
‫سال تو ضروری ہے اس کے بعد آپ کو اختیار ہے دس سال کا ۔‬
‫اگر آپ اپنی خوشی سے دوسال‪ q‬تک اور بھی میراکام کریں تو اچھا‬
‫ہے ورنہ آپ پر الزمی نہیں۔ آپ دیکھیں گے کی میں بد آدمی نہیں‬
‫آپ کو تکلیف نہ دونگا۔ امام اوزاعی نے اس سے استدالل کرکے‬
‫فرمایا ہے کہ اگر کوئی کہے میں فالں چیز کو نقد دس اور ادھار‬
‫بیس پر بیچتا ہوں تو یہ بیع صحیح ہے اور خریدار کو اختیار ہے‬
‫کہ دس پر نقد لے بیس پر ادھارلے۔ وہ اس حدیث کا بھی یہی مطلب‬
‫لے رہے ہیں جس میں ہے جو شخص دو بیع ایک بیع میں کرے‬
‫اسکے لئے کمی والی بیع ہے یاسود۔‪ q‬لیکن یہ مذہب غور طلب ہے‬
‫جس کی تفصیل کا یہ مقام نہیں وہللا اعلم۔ اصحاب امام محمد نے‬
‫اس آیت سے استدالل کرکے کہا ہے کہ کھانے پینے اور کپڑے پر‬
‫کسی کو مزدوری اور کام کاج پر لگالینا درست ہے۔ اس کی دلیل‬
‫میں ابن ماجہ کی ایک حدیث بھی ہے جو اس بات میں ہے کہ‬
‫مزدور مقرر کرنا اس مزدوری پر کہ وہ پیٹ بھر کر کھانا‬
‫کھالیاکرے گا اس میں حدیث الئیں ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫موسی کے ذکر‬ ‫ٰ‬ ‫وسلم نے سورۃ طس کی تالوت کی جب حضرت‬
‫موسی علیہ السالم نے اپنے پیٹ کے‬ ‫ٰ‬ ‫تک پہنچے تو فرمانے لگے‬
‫بھرنے اور اپنی شرم گاہ کو بچانے کے لئے آٹھ سال یادس سال‬
‫کے لئے اپنے آپ کو مالزم کرلیا۔ اس حدیث کا راوی مسلمہ بن‬
‫علی خشنی ہے جو ضعیف ہے ۔ یہ حدیث دوسری سند سے بھی‬
‫مروی ہے لیکن وہ سند بھی نظر سے خالی نہیں۔ کلیم ہللا نے‬
‫برزگ کی اس شرط کو قبول کرلیا اور فرمایا کہ ہم تم میں یہ طے‬
‫شدہ فیصلہ ہے مجھے اختیار ہوگا کہ خواہ دس سال پورے کروں یا‬
‫آٹھ سال کے بعد چھوڑ دوں آٹھ سال کے بعد آپ کا کوئی حق‬
‫تعالی کو اپنے اس معاملہ پر گواہ‬ ‫ٰ‬ ‫مزدوری مجھ پر الزم نہیں۔ ہم ہللا‬
‫کرتے ہیں اسی کی کارسازی کافی ہے۔ تو گو دس سال پورا کرنا‬
‫مباح ہے لیکن وہ فاضل چیز ہے ضروری نہیں ضروری آٹھ سال‬
‫ہیں جیسے منی کے آخری دو دن کے بارے میں ہللا کا حکم ہے‬
‫اور جیسے کہ حدیث میں ہے حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے حمزہ‬
‫تعالی عنہ سے فرمایا تھا جو بکثرت‬ ‫بن عمرو اسلمی رضی ہللا ٰ‬
‫روزے رکھاکرتے تھے کہ اگر تم سفر میں روزے رکھو تو تمہیں‬
‫اختیار ہے اور اگر نہ رکھو تو تمہیں اختیار ہے باوجودیکہ دوسری‬
‫دلیل سے رکھنا افضل ہے۔ چنانچہ اس کی دلیل بھی آچکی ہے کہ‬
‫موسی نے دس سال ہی پورے کئے ۔ بخاری شریف میں‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫ہے سعید بن جبیر سے یہودیوں‪ q‬نے سوال کیا کہ حضرت‬
‫علیہ السالم نے آٹھ سال پورے کئے تھے یادس سال؟ تو آپ نے‬
‫فرمایا کہ مجھے خبر نہیں پھر میں عرب کے بہت بڑے عالم‬
‫حضرت ابن عباس کے پاس گیا اور ان سے یہی سوال کیا تو آپ‬
‫نے فرمایا ان دونوں‪ q‬میں جو زیادہ اور پاک مدت تھی وہی آپ نے‬
‫تعالی کے نبی جو کہتے ہیں پورا‬ ‫پوری کی یعنی دس سال۔ ہللا ٰ‬
‫کرتے ہیں ۔ حدیث فنون میں ہے کہ سائل نصرانی تھا لیکن بخاری‬
‫اولی ہے۔ وہللا اعلم۔ ابن جریر میں ہے کہ رسول‬ ‫میں جو ہے وہی ٰ‬
‫ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل علیہ السالم سے سوال‬
‫موسی علیہ السالم نے کون سی مدت پوری کی تھی‬ ‫ٰ‬ ‫کیا کہ حضرت‬
‫تو جواب مال کہ ان دونوں‪ q‬میں سے جو کامل اور مکمل مدت تھی‬
‫ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے کسی‬
‫نے پوچھا آپ نے جبرائیل سے پوچھا جبرائیل نے اور فرشتے سے‬
‫یہاں تک کہ فرشتے نے ہللا سے۔ ہللا نے جواب دیا کہ دونوں میں‬
‫ہی پاک اور پوری مدت یعنی دس سال۔ ایک حدیث میں ہے کہ‬
‫تعالی عنہ کے سوال پر حضور صلی ہللا‬ ‫حضرت ابوذر رضی ہللا ٰ‬
‫علیہ وسلم نے دس سال کی مدت کا پورا کرنا بتایا کہ یہ بھی فرمایا‬
‫کہ اگر تجھ سے پوچھا جائے کہ کون سی لڑکی سے حضرت‬
‫موسی علیہ السالم نے نکاح کیا تھا تو جواب دینا کہ دونوں‪ q‬میں جو‬
‫ٰ‬
‫چھوٹی تھیں اور روایت میں ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫موسی حضرت‬‫ٰ‬ ‫مدت دراز کو پوراکرنا بتایا پھر فرمایا کہ جب‬
‫شیعب علیہ السالم سے رخصتی لے کر جانے لگے تو اپنی بیوی‬
‫صاحبہ سے فرمایا کہ اپنے والد سے کچھ بکریاں لے لو جن سے‬
‫ہمارا گزارہ ہوجائے آپ نے اپنے والد‪ q‬سے سوال کیا جس پر انہوں‬
‫نے وعدہ‪ q‬کیا کہ اس میں سے جتنی چت کبری بکریاں ہونگی سب‬
‫موسی علیہ السالم نے بکریوں کے پیٹ پر اپنی‬ ‫ٰ‬ ‫تمہاری حضرت‬
‫لکڑی پھیری تو ہر ایک کو دو دو تین تین بچے ہوئے اور سب کے‬
‫سب چت کبرے جن کی نسل اب تک تالش کرنے سے مل سکتی‬
‫ہے۔ دوسری روایت میں ہے کہ حضرت شعیب کی سب بکریاں‬
‫کالے رنگ کی خوبصورت تھیں۔ جتنے بچے ان کے اس سال‬
‫ہوئے سب کے سب بےعیب تھے اور بڑے بڑے بھرے ہوئے‬
‫تھنوں والے‪ q‬اور زیادہ دودھ دینے والے ان تمام روایتوں کا مدار‬
‫عبد ہللا بن لہیعہ پر ہے جو حافظہ کے اچھے نہیں اور ڈر ہے کہ‬
‫یہ روایتیں مرفوع نہ ہوں۔ چنانچہ اور سند سے یہ انس بن مالک‬
‫تعالی عنہ سے موقوفا مروی ہے۔ اور اس میں یہ بھی‬ ‫رضی ہللا ٰ‬
‫ہے کہ سب بکریوں کے بچے اس سال ابلق ہوئے سوائے ایک‬
‫بکری کے۔ جن سب کو آپ لے گئے۔ علیہ السالم‬

‫ت ا ْستَأْ ِجرْ هُ ۖ إِ َّن َخ ْي َر َم ِن‬‫ت إِحْ َداهُ َما يَا أَبَ ِ‬‫قَالَ ْ‬
‫ا ْستَأْ َجرْ َ‬
‫ت ْالقَ ِويُّ اأْل َ ِم ُ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:026‬‬

‫[جالندھری] ایک لڑکی بولی ابا ان کو نوکر رکھ لیجئے کیونکہ‬


‫بہتر نوکر جو آپ رکھیں وہ ہے (جو) توانا اور امانتدار (ہو)‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ي هَاتَي ِ‪ْq‬ن َعلَى أَ ْن‬ ‫ك إِحْ َدى ا ْبنَتَ َّ‬ ‫قَا َل إِنِّي أُ ِري ُد أَ ْن أُ ْن ِك َح َ‬
‫ك‬‫ت َع ْشرًا فَ ِم ْن ِع ْن ِد َ‬ ‫ج ۖ فَإِ ْن أَ ْت َم ْم َ‬ ‫ج‬‫َ‬ ‫ح‬
‫ِ‬ ‫ي‬
‫َ‬ ‫ِ‬ ‫ن‬‫ا‬‫م‬‫َ‬ ‫َ‬ ‫ث‬ ‫ي‬‫ِ‬ ‫ن‬‫ر‬‫َ‬ ‫ج‬
‫ُ‬ ‫تَأْ‬
‫ٍ‬
‫ك ۚ َستَ ِج ُدنِي إِ ْن َشا َء هَّللا ُ ِم َن‬ ‫ق َعلَ ْي َ‬ ‫ۖ َو َما أُ ِري ُد أَ ْن أَ ُش َّ‬
‫ين‬
‫الصَّالِ ِح َ‬
‫﴿‪﴾028:027‬‬

‫[جالندھری] انہوں نے (موسی سے) کہا کہ میں چاہتا ہوں کہ اپنی‬


‫ان دونوں‪ q‬بیٹیوں میں سے ایک تم سے بیاہ دوں اس (عہد) پر کہ تم‬
‫آٹھ برس میری خدمت کرو اور اگر دس سال پورے کردو تو وہ‬
‫تمہاری طرف سے (احسان ہے) اور میں تم پر تکلیف ڈالنی نہیں‬
‫چاہتا تم مجھے انشاء ہللا نیک لوگوں میں پاؤ گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك ۖ أَيَّ َما اأْل َ َجلَي ِْن قَ َ‬


‫ضي ُ‬
‫ْت فَاَل‬ ‫قَا َل َذلِ َ‬
‫ك بَ ْينِي َوبَ ْينَ َ‪q‬‬
‫ي ۖ َوهَّللا ُ َعلَى َما نَقُو ُل َو ِكي ٌل‬ ‫ان َعلَ َّ‬‫ُع ْد َو َ‬
‫﴿‪﴾028:028‬‬
‫[جالندھری] (موسی نے) کہا مجھ میں آپ میں یہ (عہد پختہ ہوا)‬
‫میں جونسی مدت (چاہوں) پوری کر دوں پھر مجھ پر کوئی زیادتی‬
‫نہ ہو اور ہم جو معاہدہ کرتے ہیں خدا اس کا گواہ ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫س ِم ْن‬ ‫ضى ُمو َسى اأْل َ َج َل َو َسا َر بِأ َ ْهلِ ِه آنَ َ‬ ‫فَلَ َّما قَ َ‬
‫ور نَارًا قَا َل أِل َ ْهلِ ِه ا ْم ُكثُوا إِنِّي آنَس ُ‬
‫ْت نَارًا‬ ‫ِ‬ ‫ُّ‬
‫الط‬ ‫ب‬
‫َجانِ ِ‬
‫ار لَ َعلَّ ُك ْم‬
‫ِ‬ ‫َّ‬ ‫ن‬‫ال‬ ‫ن‬‫َ‬ ‫م‬
‫ِ‬ ‫ة‬
‫ٍ‬ ‫و‬
‫َ‬ ‫ْ‬
‫ذ‬ ‫ج‬
‫َ‬ ‫و‬‫ْ‬ ‫َ‬ ‫لَ َعلِّي آتِي ُك ْم ِم ْنهَا‪ q‬بِ َخبَ ٍر أ‬
‫تَصْ طَلُ َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:029‬‬

‫موسی نے مدت پوری کردی اور اپنے گھر‬‫ٰ‬ ‫[جالندھری] جب‬


‫والوں‪ q‬کو لے کر چلے تو طور کی طرف سے آگ دکھائی دی تو‬
‫اپنے گھر والوں‪ q‬سے کہنے لگے کہ (تم یہاں) ٹھہرو مجھے آگ‬
‫نظر آئی ہے شاید میں وہاں سے (راستہ کا) کچھ پتہ الؤں یا آگ کا‬
‫انگارہ لے آؤں تاکہ تم تاپو‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫دس سال حق مہر‬


‫موسی علیہ السالم نے دس‬
‫ٰ‬ ‫پہلے یہ بیان گزرچکا ہے کہ حضرت‬
‫سال پورے کئے تھے ۔ قرآن کے اس لفظ االجل سے بھی اس کی‬
‫طرف اشارہ ہے وہللا اعلم۔ بلکہ حضرت مجاہد کا تو قول ہے کہ‬
‫دس سال یہ اور دس سال اور بھی گزرے۔ اس قول میں یہ صرف‬
‫موسی علیہ السالم کو خیال اور‬
‫ٰ‬ ‫تنہا ہے۔ وہللا اعلم۔ اب حضرت‬
‫شوق پیدا ہوا کہ چپ چاپ وطن میں جاؤں اور اپنے والوں سے مل‬
‫آؤں چنانچہ آپ اپنی بیوی صاحبہ کو اور اپنی بکریوں کو لے کر‬
‫وہاں سے چلے رات کو بارش ہونے لگی اور سرد ہوائیں چلنے‬
‫لگیں اور سخت اندھیرا ہوگیا۔ آپ ہر چند چراغ جالتے تھے مگر‬
‫روشنی نہیں ہوتی تھی۔ سخت متعجب اور حیران تھے اتنے میں‬
‫دیکھتے ہیں کہ کچھ دور آگ روشن ہے تو اپنی اہلیہ صاحبہ سے‬
‫فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو وہاں کچھ روشنی دکھائی دیتی ہے میں‬
‫وہاں جاتا ہوں اگر کوئی وہاں ہوا تو اس سے راستہ بھی دریافت‬
‫کرلونگا اس لئے کہ ہم راہ بھولے ہوئے ہیں۔ یا میں وہاں سے کچھ‬
‫آگ لے آؤنگا جس سے تم تاپ لو اور جاڑے کا عالج ہوجائے۔ جب‬
‫آپ وہاں پہنچے تو اس وادی کے دائیں جانب کے مغربی پہاڑ سے‬
‫آواز سنائی دی۔ جیسے قرآن کی اور آیت میں ہے (وماکنت بجانب‬
‫موسی آگ کے قصد‬ ‫ٰ‬ ‫الغربی) اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت‬
‫سے قبلہ کی طرف چلے تھے اور مغربی پہاڑ آپ کے دائیں طرف‬
‫تھا اور ایک سرسبز ہرے بھرے درخت میں آگ نظر آرہی تھی جو‬
‫پہاڑ کے دامن میں میدان کے متصل تھی۔ یہ وہاں جاکر اس حالت‬
‫کو دیکھ کر حیران وششدہ رہ گئے کہ ہرے اور سبز درخت میں‬
‫سے آگ کے شعلے نکلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن آگ کسی‬
‫چیز میں جلتی ہوئی دکھائی نہیں دیتی ‪ ،‬اسی وقت ہللا کی طرف‬
‫سے آواز آئی۔ حضرت عبد ہللا فرماتے ہیں کہ میں نے اس درخت‬
‫موسی کو آواز آئی تھی دیکھا ہے وہ‬
‫ٰ‬ ‫کو جس میں سے حضرت‬
‫سرسبز وشاداب‪ q‬ہرا بھرا درخت ہے جو چمک رہاہے۔ بعض کہتے‬
‫ہیں کہ یہ علیق کا درخت تھا اور بعض کہتے ہیں یہ عوسج کا‬
‫درخت تھا اور آپ کی لکڑی بھی اسی درخت کی تھی ۔ کلیم ہللا نے‬
‫موسی میں ہوں رب العالمین ۔ جو اس‬
‫ٰ‬ ‫سنا کہ آواز آرہی ہے کہ اے‬
‫وقت تجھ سے کالم کر رہا ہوں۔ میں جو چاہوں کر سکتا ہوں ۔‬
‫میرے سوا کوئی عبادت کے الئق نہیں نہ میرے سوا کوئی رب ہے‬
‫میں اس سے پاک ہو کہ کوئی مجھ جیسا ہو مخلوق میں سے کوئی‬
‫بھی میرا شریک نہیں میں یکتا اور بےمثل ہوں اور وحدہ الشریک‬
‫ہوں۔ میری ذات ‪ ،‬میری صفات ‪ ،‬میرے افعال میرے اقوال میں میرا‬
‫کوئی شریک ساجھی ساتھی نہیں۔ میں ہر طرح پاک اور نقصان‬
‫سے دور ہوں۔ اسی ضمن میں فرمان ہوا کہ اپنی لکڑی زمین پر‬
‫گرادو‪ q‬اور میری قدرت اپنی آنکھوں سے دیکھ لو۔ اور آیت میں ہے‬
‫موسی تیرے دائیں ہاتھ میں کیا‬
‫ٰ‬ ‫کہ پہلے دریافت فرمایا گیا کہ اے‬
‫ہے؟ آپ نے جواب دیا کہ یہ میری لکڑی ہے جس سے میں ٹیک‬
‫لگاتا ہوں اور جس سے اپنی بکریوں کے لے پتے جھاڑ لیتا ہوں‬
‫اور دوسرے‪ q‬بھی میرے بہت سے کام اس سے نکلتے ہیں۔ اب‬
‫مطلع فرمایا کہ لکڑی کو احساس دالکر پھر زمین پر انہی کے‬
‫ہاتھوں پھنکوائی۔ وہ زمین پر گرتے ہی ایک پھن اٹھائے پھنکارتا‬
‫ہوا اژدہا بن کر ادھر ادھر فراٹے بھرنے لگی۔ یہ اس بات کی دلیل‬
‫تھی کہ بولنے واال واقعی ہللا ہی ہے جوقادر مطلق ہے وہ جس چیز‬
‫کو جو فرمادے ٹل نہیں سکتا۔ سورۃ طہ کی تفسیر میں اس کا بیان‬
‫بھی پورا گزرچکا ہے۔ اس خوفناک سانپ کو جو باوجود بہت بڑا‬
‫اور بہت موٹا ہونے کے تیر کی طرح ادھر ادھر جارہا تھا منہ‬
‫کھولتا تھا تو معلوم ہوتا تھا کہ ابھی نگل جائے گا۔ جہاں سے گزرتا‬
‫موسی سہم گئے‬ ‫ٰ‬ ‫تھا پتھر ٹوٹ جاتے تھے اسے دیکھ کر حضرت‬
‫اور دہشت کے مارے ٹھہر نہ سکے الٹے پیروں بھاگے اور مڑ کر‬
‫موسی ادھر آ ڈر‬‫ٰ‬ ‫بھی نہ دیکھا ۔ وہیں ہللا کی طرف سے آواز آئی‬
‫موسی کا دل ٹھہر گیا ۔‬
‫ٰ‬ ‫نہیں تو میرے امن میں ہے۔ اب حضرت‬
‫اطمینان سے بےخوف ہو کر وہیں اپنی جگہ آکر باادب کھڑے‬
‫ہوگئے۔ یہ معجزہ عطافرماکر پھر دوسرا معجزہ یہ دیا کہ حضرت‬
‫موسی اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈال کر نکالتے تو وہ چاند کی طرح‬
‫ٰ‬
‫چمکنے لگتا اور بہت بھال معلوم ہوتا یہ نہیں کہ کوڑھ کے داغ کی‬
‫طرح سفید ہوجائے۔ یہ بھی بحکم ٰالہی آپ نے وہی کیا اور اپنے‬
‫ہاتھ کو مثل چاند منور دیکھ لیا ۔ پھر حکم دیا کہ تمہیں اس سانپ‬
‫سے یا کسی گھبراہٹ ڈر خوف رعب سے دہشت معلوم ہو تو اپنے‬
‫بازو اپنے بدن سے ماللو ڈر خوف جاتا رہے گا۔ اور یہ بھی ہے کہ‬
‫جو شخص ڈر اور دہشت کے وقت اپنا ہاتھ اپنے دل پر ہللا کے اس‬
‫فرمان کے ماتحت رکھ لے تو انشاء ہللا اس کا خوف ڈر جاتا رہے‬
‫موسی کے دل‬ ‫ٰ‬ ‫گا۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں کہ ابتدا میں حضرت‬
‫پر فرعون کا بہت خوف تھا آپ جب اسے دیکھتے تو یہ دعا‬
‫پڑھتے ۔ دعا(اللھم انی ادرابک فی نحرہ واعوذبک من شرہ)۔ اے ہللا‬
‫میں تجھے اس کے مقابلہ میں کرتا ہوں ۔ اور اس کی برائی سے‬
‫تعالی نے ان کے دل سے رعب وخوف‬ ‫تیری پناہ میں آتا ہوں۔ ہللا ٰ‬
‫ہٹالیا اور فرعون کے دل میں ڈال دیا پھر تو اسکا یہ حال ہوگیا تھا‬
‫موسی کو دیکھتے ہی اس کا پیشاب خطا ہوجاتا تھا ۔ یہ‬‫ٰ‬ ‫کہ حضرت‬
‫موسی اور ید بیضاء دے کر ہللا نے‬
‫ٰ‬ ‫دونوں معجزے یعنی عصائے‬
‫فرمایا کہ اب فرعون اور فرعونیوں کے پاس رسالت لے کر جاؤ‬
‫اور بطور دلیل یہ معجزہ پیش کرو اور ان فاسقوں کو ہللا کی راہ‬
‫دکھاؤ۔‬

‫اط ِئ ْال َوا ِد اأْل َ ْي َم ِن فِي ْالبُ ْق َع ِة‬


‫ي ِم ْن َش ِ‬‫فَلَ َّما أَتَاهَا نُو ِد َ‬
‫ْال ُمبَا َر َك ِة ِم َن ال َّش َج َر ِة أَ ْن يَا ُمو َسى إِنِّي أَنَا هَّللا ُ َربُّ‬
‫ْال َعالَ ِم َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:030‬‬

‫[جالندھری] جب اسکے پاس پہنچے تو میدان کے دائیں کنارے‬


‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫سے ایک مبارک جگہ میں ایک درخت میں سے آواز آئی کہ‬
‫میں تو خدائے رب العالمین ہوں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك ۖ فَلَ َّما َرآهَا تَ ْهتَ ُّز َكأَنَّهَا‪َ q‬ج ٌّ‬


‫ان َولَّى‬ ‫صا َ‬ ‫َوأَ ْن أَ ْل ِ‬
‫ق َع َ‬
‫ُم ْدبِرًا َولَ ْم يُ َعقِّبْ ۚ يَا ُمو َسى أَ ْقبِلْ َواَل تَ َخ ْ‬
‫ف ۖ إِنَّ َ‬
‫ك ِم َن‬
‫اآْل ِمنِ َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:031‬‬

‫[جالندھری] اور یہ کہ اپنی الٹھی ڈال دو جب دیکھا کہ وہ حرکت‬


‫کر رہی ہے گویا کہ وہ سانپ ہے تو پیٹھ پھیر کر چل دئیے اور‬
‫موسی آگے آؤ اور ڈرو‬
‫ٰ‬ ‫پیچھے مڑ کر بھی نہ دیکھا (ہم نے کہا کہ)‬
‫مت تم امن پانے والوں‪ q‬میں ہو‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ضا َء ِم ْن َغي ِْر سُو ٍء‬ ‫ك تَ ْخ ُرجْ بَ ْي َ‬ ‫ك فِي َج ْيبِ َ‬ ‫ا ْسلُ ْك يَ َد َ‬


‫ك بُرْ هَانَ ِ‪q‬‬
‫ان‬ ‫ب ۖ فَ َذانِ َ‬
‫ك ِم َن ال َّر ْه ِ‬ ‫ك َجنَا َح َ‪q‬‬‫َواضْ ُم ْم إِلَ ْي َ‬
‫ك إِلَى فِرْ َع ْو َن َو َملَئِ ِه ۚ إِنَّهُ ْم َكانُوا قَ ْو ًما‬ ‫ِم ْن َربِّ َ‬
‫ين‬ ‫فَ ِ‬
‫اسقِ َ‬
‫﴿‪﴾028:032‬‬

‫[جالندھری] اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو‪ q‬تو بغیر کسی عیب کے‬
‫سفید نکل آئے گا اور خوف دور ہونے (کی وجہ) سے اپنے بازو‬
‫کو اپنی طرف سکیڑ لو یہ دو دلیلیں‪ q‬تمہارے پروردگار کی طرف‬
‫سے ہیں (ان کے ساتھ) فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس‬
‫(جاؤ) کہ وہ نافرمان لوگ‪ q‬ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫اف أَ ْن يَ ْقتُلُ ِ‬
‫ون‬ ‫ت ِم ْنهُ ْم نَ ْفسًا فَأ َ َخ ُ‬
‫قَا َل َربِّ إِنِّي قَتَ ْل ُ‬
‫﴿‪﴾028:033‬‬

‫موسی نے کہا کہ اے پروردگار ان کا ایک شخص‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری]‬
‫میرے ہاتھ سے قتل ہو چکا ہے سو مجھے خوف ہے کہ وہ (کہیں)‬
‫مجھ کو مار نہ ڈالیں‪q‬‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫یاد ماضی‬
‫موسی فرعون سے خوف کھاکر اس کے‬ ‫ٰ‬ ‫یہ گزر چکاکہ حضرت‬
‫شہر سے بھاگ نکلے تھے۔ جب ہللا ٰ‬
‫تعالی نے وہیں اسی کے پاس‬
‫نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ کو وہ سب یاد آگیا اور عرض‬
‫کرنے لگے اے ہللا ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل‬
‫گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے‬
‫موسی نے بچپن کے زمانے میں جب کہ‬ ‫ٰ‬ ‫درپے ہوجائیں۔ حضرت‬
‫آپ کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک‬
‫موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑلیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا‬
‫اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے‬
‫آپ نے اپنی زبان کی بابت ہللا سے دعا مانگی تھی کہ میری زبان‬
‫کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے‬
‫بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے اس سے میرا بازو مضبوط کر‬
‫اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ‬
‫ادا ہو اور تیرے بندوں‪ q‬کو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں۔ یہاں‬
‫بھی آپ کی دعا منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو‬
‫میرے ساتھ ہی اپنا رسول بناکر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر‬
‫ہوجائے۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے‬
‫دل بڑھا ہوا رہے۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک‬
‫آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں۔ میں اکیال رہا تو ڈر ہے‬
‫کہ کہیں وہ مجھے جھٹال نہ دیں اور ہارون ساتھ ہوا تو میری باتیں‬
‫بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا۔ جناب باری ارحم الراحمین نے‬
‫جواب دیا کہ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو‬
‫سہارادیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنادیں گے۔ جیسے اور‬
‫موسی تیرا سوال‪ q‬پورا‬
‫ٰ‬ ‫یاموسی )‬
‫ٰ‬ ‫آیت میں ہے (قد اوتیت سولک‬
‫کردیا گیا۔ اور آیت میں ہے ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے‬
‫بھائی ہارون کو نبی بنادیا ۔ اسی لئے بعض اسالف کا فرمان ہے کہ‬
‫کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو حضرت‬
‫موسی علیہ السالم نے حضرت ہارون پر کیا کہ ہللا سے دعا کرکے‬ ‫ٰ‬
‫موسی علیہ السالم کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے‬ ‫ٰ‬ ‫انہیں نبی بنوادیا۔‪ q‬یہ‬
‫تعالی نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی۔ واقعی آپ ہللا کے‬ ‫کہ ہللا ٰ‬
‫نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم تم دونوں‪q‬‬
‫کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی‬
‫ایذاء نہیں دے سکتے۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام‬
‫پہنچانے والے ہو۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں ۔‬
‫ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں ۔ انجام کار تم اور‬
‫تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے۔ جیسے فرمان ہے ہللا لکھ‬
‫تعالی قوت‬‫چکا ہے میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ ہللا ٰ‬
‫واال عزت واال ہے۔ اور آیت میں ہے (ان لننصر رسلنا الخ)‪ ،‬ہم اپنے‬
‫رسولوں اور ایمان والوں‪ q‬کی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے‬
‫ہیں ۔ ابن جریر کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے‬
‫ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے‬
‫اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی‬
‫حاصل ہوگا۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی‬
‫ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ وہللا اعلم۔‬

‫ص ُح ِمنِّي لِ َسانًا فَأَرْ ِس ْلهُ َم ِع َي‬


‫ُون هُ َو أَ ْف َ‬
‫َوأَ ِخي هَار ُ‬
‫اف أَ ْن يُ َك ِّذب ِ‪q‬‬
‫ُون‬ ‫ص ِّدقُنِي ۖ إِنِّي أَ َخ ُ‬
‫ِر ْد ًءا يُ َ‬ ‫﴿‪﴾028:034‬‬

‫[جالندھری] اور ہارون (جو) میرا بھائی (ہے) اس کی زبان مجھ‬


‫سے زیادہ فصیح ہے تو اس کو میرے ساتھ مددگار بنا کر بھیج کہ‬
‫میری تصدیق کرے مجھے خوف ہے کہ وہ لوگ میری تکذیب‬
‫کریں گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك َونَجْ َع ُل لَ ُك َما س ُْلطَانًا فَاَل‬ ‫ك بِأ َ ِخي َ‬ ‫ض َد َ‬‫قَا َل َسنَ ُش ُّد َع ُ‬


‫ون إِلَ ْي ُك َما‪ ۚ q‬بِآيَاتِنَا‪ q‬أَ ْنتُ َما َو َم ِن اتَّبَ َع ُك َما ْال َغالِب َ‪q‬‬
‫ُون‬ ‫صل ُ َ‬
‫يَ ِ‬
‫﴿‪﴾028:035‬‬

‫[جالندھری] (خدا نے) فرمایا ہم تمہارے بھائی سے تمہارے بازو‬


‫کو مضبوط کریں گے اور تم دونوں کو غلبہ دیں گے تو ہماری‬
‫نشانیوں کے سبب وہ تم تک پہنچ نہ سکیں گے (اور) تم اور جنہوں‬
‫نے تمہاری پیروی کی غالب رہو گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ت قَالُوا َما هَ َذا إِاَّل‬ ‫فَلَ َّما َجا َءهُ ْم ُمو َسى بِآيَاتِنَا‪ q‬بَيِّنَا ٍ‬
‫ين‬‫ِسحْ ٌر ُم ْفتَرًى َو َما َس ِم ْعنَا‪ q‬بِهَ َذا فِي آبَائِنَا اأْل َ َّولِ َ‬
‫﴿‪﴾028:036‬‬

‫موسی ان کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لے‬ ‫ٰ‬ ‫[جالندھری] اور جب‬
‫کر آئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کھڑا‬
‫کیا ہے اور یہ (باتیں) ہم نے اپنے اگلے‪ q‬باپ دادا‪ q‬میں تو (کبھی)‬
‫سنیں نہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫فرعونی قوم کا رویہ‬


‫موسی علیہ السالم خلعت نبوت سے اور کالم ٰالہی سے‬
‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫ممتاز ہو کر بحکم ہللا مصر میں پہنچے اور فرعون اور فرعونیوں‬
‫کو ہللا کی وحدت اور اپنی رسالت کی تلقین کے ساتھ ہی جو‬
‫معجزے ہللا نے دئیے تھے انہیں دکھایا ۔ سب کو مع فرعون کے‬
‫موسی ہللا کے رسول ہیں۔ لیکن‬
‫ٰ‬ ‫یقین کامل ہوگیا کہ بیشک حضرت‬
‫مدتوں کا غرور اور پرانا کفر سر اٹھائے بغیر نہ رہا اور زبانیں دل‬
‫کے خالف کر کے کہنے لگے یہ تو صرف مصنوعی جادو ہے۔‬
‫اب فرعونی اپنے دبدے اور قوت وطاقت سے حق کے مقابلے پر‬
‫جم گئے اور ہللا کے نبیوں کا سامنا کرنے پر تل گئے اور کہنے‬
‫لگے کبھی ہم نے تو نہیں سنا کہ ہللا ایک ہے اور ہم تو کیا ہمارے‬
‫اگلے باپ دادوں کے کان بھی آشنا نہیں تھے۔ ہم سب کے سب مع‬
‫اپنے بڑے چھوٹوں کے بہت سے معبودوں کو پوجتے رہے۔ یہ نئی‬
‫موسی نے جواب دیا‬
‫ٰ‬ ‫باتیں لے کر کہاں سے آگیا؟ کلیم ہللا حضرت‬
‫کہ مجھے اور تم کو ہللا خوب جانتا ہے وہی ہم تم میں فیصلہ کرے‬
‫گا ہم میں سے ہدایت پر کون ہے؟ اور کون نیک انجام پر ہے؟ اس‬
‫کا علم بھی ہللا ہی کو ہے وہ فیصلہ کردے گا اور تم عنقریب دیکھ‬
‫لوگے کہ ہللا کی تائید کس کا ساتھ دیتی ہے؟ ظالم یعنی مشرک‬
‫کبھی خوش انجام اور شاد کام نہیں ہوئے وہ نجات سے محروم ہیں۔‬

‫َوقَا َل ُمو َسى َربِّي أَ ْعلَ ُم بِ َم ْن َجا َء بِ ْالهُ َدى ِم ْن ِع ْن ِد ِه‬


‫ار ۖ إِنَّهُ اَل يُ ْفلِ ُح الظَّالِ ُم َ‬
‫ون‬ ‫ون لَهُ َعاقِبَةُ ال َّد ِ‬
‫َو َم ْن تَ ُك ُ‬
‫﴿‪﴾028:037‬‬

‫موسی نے کہا کہ میرا پروردگار اس شخص کو‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری] اور‬
‫خوب جانتا ہے جو اس کی طرف سے حق لے کر آیا ہے اور جس‬
‫کے لئے عاقبت کا گھر (یعنی بہشت) ہے بیشک ظالم نجات نہیں‬
‫پائیں گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َوقَا َل فِرْ َع ْو ُن يَا أَيُّهَا ْال َمأَل ُ َما َعلِ ْم ُ‬


‫ت لَ ُك ْم ِم ْن إِلَ ٍه‬
‫ين فَاجْ َعلْ لِي‬ ‫ط ِ‬‫ان َعلَى ال ِّ‬ ‫َغي ِْري فَأ َ ْوقِ ْد لِي يَا هَا َم ُ‬
‫صرْ حًا لَ َعلِّي أَطَّلِ ُع إِلَى إِلَ ِه ُمو َسى َوإِنِّي أَل َظُنُّهُ ِم َن‬ ‫َ‬
‫ْال َكا ِذبِ َ‪q‬‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:038‬‬

‫[جالندھری] اور فرعون نے کہا کہ اے اہل دربار میں تمہارا اپنے‬


‫سوا کسی کو خدا نہیں جانتا تو ہامان میرے لئے گارے کو آگ لگوا‬
‫(کر اینٹیں پکوا) دو پھر میرے لئے ایک (اونچا) محل بنوا دو تاکہ‬
‫موسی کے خدا کی طرف چڑھ جاؤں اور میں تو اسے جھوٹا‬ ‫ٰ‬ ‫میں‬
‫سمجھتا ہوں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫فرعون کی سرکشی اور اس کے الہامی دعوے کا ذکر ہو رہا ہے‬


‫ٰ‬
‫دعوی منوالیا اس‬ ‫کہ اس نے اپنی قوم کو بےعقل بناکر ان سے اپنا‬
‫نے ان کمینوں کو جمع کرکے ہانک لگائی کہ تمہارا رب میں ہی‬
‫ہوں سب سے اعلی اور بلند تر ہستی میری ہی ہے اسی بنا پر ہللا‬
‫نے اسے دنیا اور آخرت کے عذابوں میں پکڑلیا اور دوسروں‪ q‬کے‬
‫لئے اسے نشان عبرت بنایا۔ ان کمینوں نے اسے ہللا مان کر اس کا‬
‫موسی سے‬‫ٰ‬ ‫دماغ یہاں تک بڑھا دیا کہ اس نے کلیم ہللا حضرت‬
‫ڈانٹ کر کہا کہ سن اگر تونے میرے سوا کسی اور کو اپنا معبود‬
‫بنایا تو میں تجھے قید میں ڈال دونگا۔ انہی سفلے لوگوں میں بیٹھ‬
‫کر اپنا دعوی انہیں منواکر اپنے ہی جیسے اپنے خبیث وزیر ہامان‬
‫سے کہتا ہے کہ تو ایک پزاوہ (بھٹہ) بنا اور اس میں اینٹیں پکوا‬
‫اور میرے لئے ایک بلند وباال مینار بناکہ میں جاکر جھانکوں کہ‬
‫موسی علیہ السالم کا کوئی ہللا ہے بھی یا نہیں۔ گو‬
‫ٰ‬ ‫واقعہ میں‬
‫مجھے اس کے دروغ گو ہونے کا علم تو ہے۔ مگر میں اس کا‬
‫جھوٹ تم سب پر ظاہر کرنا چاہتا ہوں ۔ اسی کا بیان آیت (یاھامان‬
‫ابن لی صرحا) میں بھی ہے ۔ چنانچہ ایک بلند میناربنایا گیا کہ اس‬
‫موسی علیہ السالم کو‬ ‫ٰ‬ ‫سے اونچا دنیا میں نہیں بنایاگیا ۔ یہ حضرت‬
‫دعوی رسالت میں ہی جھوٹ جانتا تھا بلکہ یہ تو واحد‬ ‫ٰ‬ ‫نہ صرف‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫باری ٰ‬
‫تعالی کا قائل ہی نہ تھا۔ چنانچہ خود قرآن میں ہے کہ‬
‫علیہ السالم سے اس نے کہا ومارب العلمین رب العالمین ہے کیا؟‬
‫اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر تو نے میرے سوا کسی کو ہللا‬
‫جانا تو میں تجھے قید کردونگا ۔ اس آیت میں بھی ہے کہ اس نے‬
‫اپنے درباریوں سے کہا میرے علم میں بجز میرے تمہارا ہللا کوئی‬
‫اور نہیں۔ جب اس کی اور اس کی قوم کی طغیانی اور سرکشی حد‬
‫سے گزر گئی۔ ہللا کے ملک میں ان کے فساد کی کوئی انتہا نہ رہی‬
‫ان کے عقیدے کھوٹے پیسے جیسے ہوگئے ۔ قیامت کے حساب‬
‫کتاب کے بالکل منکر بن بیٹھے تو باآلخر ہللا کا عذاب ان پربرس‬
‫پڑا اور رب نے انہیں تاک لیا اور بیج تک مٹادیا۔ سب کو اپنے‬
‫عذاب میں پکڑ لیا اور ایک ہی دن ایک ہی وقت ایک ساتھ دریا برد‬
‫کر دیا۔ لوگو سوچ لو کہ ظالموں‪ q‬کا کیسا عبرتناک انجام ہوتا ہے؟ ہم‬
‫نے انہیں دوزخیوں کا امام بنادیا ہے کہ یہ لوگوں کو ان کاموں کی‬
‫طرف بالتے ہیں جن سے وہ ہللا کے عذابوں میں جلیں۔ جو بھی ان‬
‫کی پرورش پر چال اسے وہ جہنم میں لئے گئے جس نے بھی‬
‫رسولوں کو جھٹالیا اور ہللا کو نہ مانا وہ ان کی راہ پر ہے۔ قیامت‬
‫کے دن بھی انکی کچھ نہ چلیں گی کہیں سے انہیں کوئی امداد‪ q‬نہ‬
‫پہنچے گی دونوں‪ q‬جہاں میں یہ نقصان اور گھاٹے میں رہیں گے‬
‫جسیے فرمان ہے (اھلکناھم فالناصر لھم) ہم نے انہیں تہہ وباال‬
‫کردیا اور کوئی ان کامددگار نہ ہوا۔ دنیا میں بھی یہ ملعون ہوئے ہللا‬
‫کی ان فرشتوں کی ان نبیوں کی اور تمام نیک بندوں کی ان پر‬
‫لعنت ہے جو بھی بھال آدمی ان کا نام سنے گا ان پر پھٹکار بھیجے‬
‫گا دنیا میں بھی ملعون ہوئے اور آخرت میں بھی قباحت والے‪ q‬ہوں‬
‫گے جیسے فرمان ہے آیت (واتبعوا فی ھذہ لعنتہ ویوم القیامۃ) یہاں‬
‫بھی پھٹکار وہاں بھی لعنت۔‬

‫ض بِ َغي ِْر ْال َح ِّ‬


‫ق َوظَنُّوا‬ ‫ِ‬ ‫رْ‬‫َ‬ ‫َوا ْستَ ْكبَ َر هُ َو َو ُجنُو ُدهُ فِي اأْل‬
‫أَنَّهُ ْم إِلَ ْينَا اَل يُرْ َجع َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:039‬‬

‫[جالندھری] اور وہ اور اس کے لشکر ملک میں ناحق مغرور ہو‬


‫رہے تھے اور خیال کرتے تھے کہ وہ ہماری طرف لوٹ کر نہیں‬
‫آئیں گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫فَأ َ َخ ْذنَاهُ َو ُجنُو َدهُ‪ q‬فَنَبَ ْذنَاهُ ْم فِي ْاليَ ِّم ۖ فَا ْنظُرْ َكي َ‬
‫ْف َك َ‬
‫ان‬
‫َعاقِبَةُ الظَّالِ ِم َ‪q‬‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:040‬‬

‫[جالندھری] تو ہم نے ان کو اور ان کے لشکروں کو پکڑ لیا اور‬


‫دریا میں ڈال دیا سو دیکھ لو کہ ظالموں کا کیسا انجام ہوا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫ار ۖ َويَ ْو َم ْالقِيَا َم ِة اَل‬ ‫َو َج َع ْلنَاهُ ْم أَئِ َّمةً يَ ْد ُع َ‪q‬‬
‫ون إِلَى النَّ ِ‬
‫ُون‬
‫صر َ‬ ‫يُ ْن َ‬
‫﴿‪﴾028:041‬‬

‫[جالندھری] اور ہم نے ان کو پیشوا بنایا تھا وہ (لوگوں کو) دوزخ‬


‫کی طرف بالتے تھے اور قیامت کے دن انکی مدد نہیں کی جائے‬
‫گی‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َوأَ ْتبَ ْعنَاهُ ْم فِي هَ ِذ ِه ال ُّد ْنيَا‪ q‬لَ ْعنَةً ۖ َويَ ْو َم ْالقِيَا َم ِة هُ ْم ِم َن‬
‫ين‬
‫ُوح َ‬‫ْال َم ْقب ِ‬
‫﴿‪﴾028:042‬‬

‫[جالندھری] اور اس دنیا میں ہم نے ان کے پیچھے لعنت لگا دی‬


‫اور وہ قیامت کے روز بھی بدحالوں‪ q‬میں ہوں گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫اب ِم ْن بَ ْع ِد َما أَ ْهلَ ْكنَا ْالقُر َ‬


‫ُون‬ ‫َولَقَ ْد آتَ ْينَا ُمو َسى ْال ِكتَ َ‬
‫اس َوهُ ًدى َو َرحْ َمةً لَ َعلَّهُ ْم‬ ‫اأْل ُولَى بَ َ‬
‫صائِ َر لِلنَّ ِ‬
‫يَتَ َذ َّكر َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:043‬‬

‫[جالندھری] اور ہم نے پہلی امتوں کے ہالک کرنے کے بعد‬


‫موسی کو کتاب دی جو لوگوں کے لئے بصیرت اور ہدایت اور‬
‫ٰ‬
‫رحمت ہے تاکہ وہ نصیحت پکڑیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫اس آیت میں ایک لطیف بات یہ ہے کہ فرعونیوں کی ہالکت کے‬


‫بعد والی امتیں اس طرح عذاب آسمانی سے ہالک نہیں ہوئیں بلکہ‬
‫جس امت نے سرکشی کی اس کی سرکشی کا بدلہ اسی زمانے کے‬
‫نیک لوگوں کے ہاتھوں ہللا نے اسے دلوایا۔ مومنین مشرکین سے‬
‫جہاد کرتے رہے جیسے فرمان باری ہے آیت (وجاء فرعون من‬
‫قبلہ والمؤتفکت با الخاطئتہ الخ)‪ ،‬یعنی فرعون اور جو امتیں اس‬
‫سے پہلے ہوئیں اور الٹی ہوئی بستی کے رہنے والے یعنی قوم لوط‬
‫یہ سب لوگ بڑے بڑے قصوروں کے مرتکب ہوئے اور اپنے‬
‫زمانے کے رسولوں کی نافرمانیوں پر کمر کس لی تو ہللا ٰ‬
‫تعالی نے‬
‫ان سب کو بھی بڑی سخت پکڑ سے پکڑ لیا۔ اس گروہ کی ہالکت‬
‫تعالی نے حضرت کلیم علیہ من ربہ افضل الصلوۃ‬ ‫کے بعد بھی ہللا ٰ‬
‫والتسلیم پر نازل ہوتے رہے جن میں سے ایک بہت بڑے انعام کا‬
‫ذکر یہاں ہے کہ انہیں تورات ملی ۔ اس تورات کے نازل ہونے کے‬
‫بعد کسی قوم کو آسمان کے یا زمین کے عام عذاب سے ہالک نہیں‬
‫کیا گیا سوائے اس بستی کے چند مجرموں کے جنہوں نے ہللا کی‬
‫حرمت کے خالف ہفتے کے دن شکار کھیال تھا اور ہللا نے انہیں‬
‫موسی کے بعد کا‬‫ٰ‬ ‫سور اور بندر بنادیا تھا۔ یہ واقعہ بیشک حضرت‬
‫ہے۔ جیسے کہ حضرت ابوسیعد خدری نے بیان فرمایا ہے اور اس‬
‫کے بعد ہی آپ نے اپنے قول کی شہادت میں یہی آیت (ولقد اتینا)‬
‫کی تالوت فرمائی۔ ایک مرفوع حدیث میں بھی ہے کہ حضور‬
‫موسی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی نے حضرت‬ ‫صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہللا ٰ‬
‫السالم کے بعد کسی قوم کو عذاب آسمانی یا زمینی سے ہالک نہیں‬
‫کیا۔ اسے عذاب جتنے آئے آپ سے پہلے آئے ۔ پھر آپ نے یہی‬
‫آیت تالوت فرمائی۔ پھر تورات کے اوصاف بیان ہور ہے ہیں کہ وہ‬
‫کتاب کو اندھاپے سے گمراہی سے نکالنے والی تھی اور حق کی‬
‫ہدات کرنے والی تھی۔ اور آپ کی رحمت سے تھی نیک اعمال کی‬
‫ہادی تھی۔ تاکہ لوگ اس سے ہدایت حاصل کریں اور نصیحت‬
‫بھی ۔ اور راہ راست پر آجائیں۔‬
‫ب ْال َغرْ بِ ِّي إِ ْذ قَ َ‬
‫ض ْينَا إِلَى ُمو َسى‬ ‫ت بِ َجانِ ِ‬ ‫َو َما ُك ْن َ‬
‫ت ِم َن ال َّشا ِه ِد َ‪q‬‬
‫ين‬ ‫اأْل َ ْم َر َو َما ُك ْن َ‬
‫﴿‪﴾028:044‬‬

‫موسی کی طرف حکم بھیجا تو تم‬


‫ٰ‬ ‫[جالندھری] اور جب تم نے‬
‫(طور کی) غرب کی طرف نہیں تھے اور نہ (اس واقعے کے)‬
‫دیکھنے والوں‪ q‬میں تھے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫دلیل نبوت‬
‫وتعالی اپنے نبی آخرالزمان صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت‬
‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک‬
‫کی دلیل دیتا ہے کہ ایک وہ شخص جو امی ہو جس نے ایک حرف‬
‫بھی نہ پڑھا ہو جو اگلی کتابوں سے محض نا آشنا ہو جس کی قوم‬
‫علمی مشاغل سے اور گذشتہ تاریخ سے بالکل بےخبر ہو وہ‬
‫تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کام فصاحت وبالغت کے ساتھ بالکل‬
‫سچے ٹھیک اور صحیح گذشتہ واقعات کو اس طرح بیان کرے‬
‫جیسے کہ اس کے اپنے چشم دید ہو اور جیسے کہ وہ ان کے‬
‫ہونیکے وقت وہیں موجود ہو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ ہللا‬
‫تعالی خود اپنی وحی کے‬ ‫کی طرف سے تلقین کیا جاتا ہے اور ہللا ٰ‬
‫ذریعہ سے انہیں وہ تمام باتیں بتاتا ہے۔ حضرت مریم صدیقہ کا‬
‫واقعہ بیان فرماتے ہوئے بھی قرآن نے اس چیز کو پیش کیا ہے‬
‫اور فرمایا ہے آیت (وماکنت لدیھم اذیلقون اقالمھم الخ)‪ ،‬جب کہ وہ‬
‫حضرت مریم کے پالنے کے لیے قلمیں ڈال کر فیصلے کررہے‬
‫تھے اس وقت تو ان کے پاس موجود نہ تھا اور نہ تو اس وقت تھا‬
‫جب کہ وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے پس باوجود عدم موجودگی‬
‫اور بےخبری کے آپ کی نبوت کی کھری دلیل ہے اور صاف‬
‫نشانی ہے اس امر پر کہ وحی ٰالہی سے یہ کہہ رہے ہیں۔ اسی‬
‫طرح نوح نبی کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا ہے آیت (تلک من انباء‬
‫الغیب الخ)‪ ،‬یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تم‬
‫تک پہنچا رہے ہیں تو اور تیری ساری قوم اس وحی سے پہلے ان‬
‫واقعات سے محض بےخبر تھی۔ اب صبر کے ساتھ دیکھتا رہ اور‬
‫یقین مان کہ ہللا سے ڈرتے رہنے والے‪ q‬ہی نیک انجام ہوتے ہیں۔‬
‫سورۃ یوسف کے آخر میں بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ غیب کی خبریں‬
‫ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تیرے پاس بھیج رہے ہیں تو ان کے‬
‫پاس اس وقت موجود نہ تھا جب کہ برادران یوسف نے اپنا مصمم‬
‫ارادہ کرلیا تھا اور اپنی تدبیروں میں لگ گئے تھے۔ سورۃ طہ میں‬
‫عام طور پر فرمایا آیت (کذالک نقص علیک من انباء ما قدسبق)‬
‫اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی خبریں بیان فرماتے ہیں۔ پس‬
‫موسی علیہ السالم کی پیدائش ان کی نبوت کی ابتداء‬
‫ٰ‬ ‫یہاں بھی‬
‫وغیرہ اول سے آخر تک بیان فرما کر فرمایا کہ تم اے محمد صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم مغربی پہاڑ کی جانب جہاں کے مشرقی درخت میں‬
‫سے جو وادی کے کنارے تھے ہللا نے اپنے کلیم سے باتیں کیں‬
‫موجود نہ تھے بلکہ ہللا سبحانہ وتعالی نے اپنی وحی کے ذریعے‬
‫آپ کو یہ سب معلومات کرائیں ۔ تاکہ یہ آپ کی نبوت کی ایک دلیل‬
‫ہوجائے ان زمانوں پر جو مدتوں سے چلے آرہے ہیں اور ہللا کی‬
‫باتوں کو وہ بھول بھال چکے ہیں۔ اگلے نبیوں کی وحی ان کے‬
‫ہاتھوں سے گم ہوچکی ہے اور نہ تو مدین میں رہتا تھا کہ وہاں‬
‫کے نبی حضرت شعیب علیہ السالم کی حالت بیان کرتا جو ان میں‬
‫اور ان کے قوم میں واقع ہوئے تھے۔ بلکہ ہم نے بذریعہ وحی یہ‬
‫خبریں تمہیں پہنچائیں اور تمام جہان کی طرف تجھے اپنا رسول بنا‬
‫کر بھیجا۔ اور نہ تو طور کے پاس تھا جب کہ ہم نے آواز دی۔‬
‫نسائی شریف میں حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ یہ آواز دی گئی‬
‫کہ اے امت محمد صلی ہللا علیہ وسلم تم اس سے پہلے مجھ سے‬
‫مانگو میں نے تمہیں دے دیا اور اس سے پہلے تم مجھ سے دعا‬
‫کرو میں قبول کرچکا ۔ مقاتل کہتے ہیں کہ ہم نے تیری امت کو جو‬
‫ابھی باپ دادوں‪ q‬کی پیٹھ میں تھی آواز دی کہ جب تو نبی بناکر‬
‫بھیجا جائے تو وہ تیری اتباع کریں ۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے‬
‫موسی علیہ السالم کو آواز دی یہی زیادہ مشابہ‬
‫ٰ‬ ‫کہ ہم نے حضرت‬
‫اور مطابق ہے کیونکہ اوپر بھی یہی ذکر ہے۔ اوپر عام طور بیان‬
‫تھا یہاں خاص طور سے ذکر کیا جیسے اور آیت میں ہے (واذا‬
‫موسی ) کو آواز دی اور آیت میں ہے کہ وادی مقدس‬ ‫ٰ‬ ‫نادی ربک‬
‫میں ہللا نے اپنے کلیم کو پکارا۔ اور آیت میں ہے کہ طور ایمن کی‬
‫طرف سے ہم نے اسے پکارا اور سرگوشیاں کرتے ہوئے اسے اپنا‬
‫قرب عطا فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک واقعہ بھی نہ‬
‫تیری حاضری کا ہے نہ تیرا چشم دید ہے بلکہ یہ ہللا کی وحی ہے‬
‫جو وہ اپنی رحمت سے تجھ پر فرما رہے ہیں اور یہ بھی اس کی‬
‫رحمت ہے کہ اس نے تجھے اپنے بندوں کی طرف نبی بناکر بھیجا‬
‫۔ کہ تو ان لوگوں‪ q‬کو آگاہ اور ہوشیار کردے جن کے پاس تجھ سے‬
‫پہلے کوئی نبی نہیں آیا تاکہ نصیحت حاصل کریں اور ہدایت پائیں۔‬
‫اور اس لیے بھی کہ ان کی دلیل باقی نہ رہ جائے اور کوئی عذر‬
‫ان کے ہاتھ میں نہ رہے اور یہ اپنے کفر کی وجہ سے عذابوں کو‬
‫آتا دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہی نہ‬
‫تھا جو انہیں راہ راست کی تعلیم دیتا اور جیسے کہ اپنی مبارک‬
‫کتاب قرآن کریم کے نزول کو بیان فرما کر فرمایا کہ یہ اس لئے‬
‫ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے کی دونوں‪q‬‬
‫جماعت پر اترتی تھی لیکن ہم تو اس کی درس وتدریس سے بالکل‬
‫غافل تھے اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو یقینا ہم ان سے زیادہ راہ‬
‫راست پر آجاتے۔ اب بتاؤ کہ خود تمہارے پاس بھی تمہارے رب‬
‫کی دلیل اور ہدایت ورحمت آچکی۔ اور آیت میں ہے رسول ہیں‬
‫خوشخبریاں دینے والے‪ q‬ڈرانے والے‪ q‬تاکہ ان رسولوں‪ q‬کے بعد کسی‬
‫کی کوئی حجت ہللا پر باقی نہ رہ جائے۔ اور آیت میں فرمایا (یااھل‬
‫الکتاب قدجاءکم رسولنا علی فترہ من الرسل الخ)‪ ،‬اے اہل کتاب اس‬
‫زمانہ میں جو رسولوں کی عدم موجودگی کا چال آرہا تھا ہمارا‬
‫رسول تمہارے پاس آچکا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس‬
‫کوئی بشیر ونذیر نہیں پہنچا لو خوشخبری دینے واال اور ڈرانے‬
‫واال تمہارے پاس ہللا کی طرف سے آپہنچا۔ اور آیتیں بھی اس‬
‫مضمون کی بہت ہیں غرض رسول آچکے اور تمہارا یہ عذر کٹ‬
‫گیا کہ اگر رسول آتے تو ہم اس کی مانتے اور مومن ہوجاتے۔‬

‫َولَ ِكنَّا أَ ْن َشأْنَا قُرُونًا فَتَطَا َو َل َعلَ ْي ِه ُم ْال ُع ُم ُر ۚ َو َما ُك ْن َ‬


‫ت‬
‫اويًا فِي أَ ْه ِل َم ْديَ َ‪q‬ن تَ ْتلُو َعلَ ْي ِه ْم آيَاتِنَا‪َ q‬ولَ ِكنَّا ُكنَّا‬
‫ثَ ِ‬
‫ُمرْ ِسلِ َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:045‬‬

‫[جالندھری] لیکن ہم نے (موسی کے بعد) کئی امتوں کو پیدا کیا‬


‫پھر ان پر مدت طویل گزر گئی اور نہ تم مدین کے رہنے والے‬
‫تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے تھے ہاں ہم ہی تو‬
‫پیغمبر بھیجنے والے تھے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ور إِ ْذ نَا َد ْينَا‪َ q‬ولَ ِك ْن َرحْ َمةً ِم ْن‬


‫الط ِ‬‫ب ُّ‬ ‫ت بِ َجانِ ِ‬ ‫َو َما ُك ْن َ‬
‫ك لَ َعلَّهُ ْم‬ ‫ك لِتُ ْن ِذ َر قَ ْو ًما َما أَتَاهُ ْم ِم ْن نَ ِذ ٍ‬
‫ير ِم ْن قَ ْبلِ َ‬ ‫َربِّ َ‬
‫يَتَ َذ َّكر َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:046‬‬

‫[جالندھری] اور نہ تم اس وقت جبکہ ہم نے (موسی کو) آواز دی‬


‫طور کے کنارے تھے بلکہ (تمہارا بھیجا جانا) تمہارے پروردگار‬
‫کی رحمت ہے تاکہ تم ان لوگوں کو جن کے پاس تم سے پہلے‬
‫کوئی ہدایت کرنے واال نہیں آیا ہدایت کرو تاکہ وہ نصیحت پکڑیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫ت أَ ْي ِدي ِه ْم فَيَقُولُوا‬
‫صيبَةٌ بِ َما قَ َّد َم ْ‬
‫صيبَهُ ْم ُم ِ‬ ‫َولَ ْواَل أَ ْن تُ ِ‬
‫ك َونَ ُك َ‬
‫ون‬ ‫َربَّنَا لَ ْواَل أَرْ َس ْل َ‬
‫ت إِلَ ْينَا َر ُسواًل فَنَتَّبِ َع آيَاتِ َ‬
‫ِم َن ْال ُم ْؤ ِمنِ َ‪q‬‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:047‬‬

‫[جالندھری] اور (اے پیغمبر ہم نے تم کو اس لئے بھیجاہے کہ)‬


‫ایسا نہ ہو کہ اگر ان (اعمال) کے سبب جو ان کے ہاتھ آگے بھیج‬
‫چکے ہیں ان پر کوئی مصیبت واقع ہو تو یہ کہنے لگیں کہ اے‬
‫پروردگار تو نے ہماری طرف کوئی پیغمبر کیوں نہ بھیجا کہ ہم‬
‫تیری آیتوں کی پیروی کرتے اور ایمان النے والوں‪ q‬میں ہوتے؟‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ق ِم ْن ِع ْن ِدنَا قَالُوا لَ ْواَل أُوتِ َي ِم ْث َل َما‬


‫فَلَ َّما َجا َءهُ ُم ْال َح ُّ‬
‫أُوتِ َي ُمو َسى ۚ أَ َولَ ْم يَ ْكفُرُوا بِ َما أُوتِ َي ُمو َسى ِم ْن قَ ْب ُل ۖ‬
‫ان تَظَاهَ َرا َوقَالُوا إِنَّا بِ ُكلٍّ َكافِر َ‬
‫ُون‬ ‫قَالُوا ِسحْ َر ِ‬‫﴿‪﴾028:048‬‬

‫[جالندھری] پھر جب ان کے پاس ہماری طرف سے حق آپہنچا تو‬


‫موسی کو ملیں تھیں ویسی اس کو‬
‫ٰ‬ ‫کہنے لگے کہ جیسی (نشانیاں)‬
‫موسی کو دی گئی تھیں‬
‫ٰ‬ ‫کیوں نہیں ملیں؟ کیا جو (نشانیاں) پہلے‬
‫انہوں نے ان سے کفر نہیں کیا؟ کہنے لگے کہ دونوں‪ q‬جادوگر ہیں‬
‫ایک دوسرے کے موافق اور بولے کہ ہم سب سے منکر ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫پہلے بیان ہوا کہ اگر نبیوں کے بھیجنے سے پہلے ہی ہم ان پر‬


‫عذاب بھیج دیتے تو ان کی یہ بات رہ جاتی کہ اگر رسول ہمارے‬
‫پاس آتے تو ہم ضرور ان کی مانتے اس لیے ہم نے رسول بھیجے۔‬
‫بالخصوص رسول اکرم حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم کو آخر‬
‫الزمان رسول بنا کر بھیجا۔ جب حضور صلی ہللا علیہ وسلم انکے‬
‫پاس پہنچے تو انہوں نے آنکھیں پھیر لیں منہ موڑلیا اور تکبر عناد‬
‫کیساتھ ضد اور ہٹ دھرمی کے ساتھ کہنے لگے جیسے حضرت‬
‫موسی کو بہت معجزات دئے گئے تھے جیسے لکڑی اور ہاتھ‬ ‫ٰ‬
‫طوفان ٹڈیاں جوئیں مینڈک خون اور اناج کی پھلوں کی کمی وغیرہ‬
‫جن سے دشمنان ٰالہی تنگ آئے اور دریاکو چیرنا اور ابر کا سایہ‬
‫وسلوی کا اتارنا وغیرہ جو زبردست اور بڑے بڑے‬‫ٰ‬ ‫کرنا اور من‬
‫معجزے تھے انہیں کیوں نہیں دئیے گئے؟ ہللا ٰ‬
‫تعالی فرماتا ہے یہ‬
‫لوگ جس واقعہ کو مثال کے طور پر پیش کرتے ہیں اور جس‬
‫جیسے معجزے طلب کر رہے ہیں یہ خود انہی معجزوں کو کلیم ہللا‬
‫کے ہاتھ ہوتے ہوئے دیکھ کر بھی کون سا ایمان الئے تھے؟ جو ان‬
‫کے ایمان کی تمناکرے؟ انہوں نے تو یہ معجزے دیکھ کر صاف‬
‫کہا تھا یہ دونوں بھائی ہمیں اپنے بڑوں کی تابعداری سے ہٹانا‬
‫چاہتے ہیں اور اپنی بڑائی ہم سے منوانا چاہتے ہیں ہم تو ہرگز‬
‫انہیں مان کر نہیں دیں گے دونوں‪ q‬نبیوں کو جھٹالتے رہے آخر‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫انجام ہالک کردئیے گئے تو فرمایا کہ ان بڑے جو حضرت‬
‫موسی کیساتھ کفر کیا اور ان‬
‫ٰ‬ ‫کے زمانہ میں تھے انہوں نے خود‬
‫معجزوں کو دیکھ کر صاف کہہ دیا تھا کہ یہ دونوں‪ q‬بھائی آپس میں‬
‫متفق ہو کر ہمیں زیر کرنے اور خود بڑا بننے کے لئے آئے ہیں تو‬
‫ہم تو ان دونوں میں سے کسی کی بھی نہیں ماننے کے۔ یہاں گو‬
‫موسی علیہ السالم کا ہے لیکن چونکہ حضرت ہارون‬ ‫ٰ‬ ‫ذکر صرف‬
‫انکے ساتھ ایسے گھل مل گئے تھے کہ گویا دونوں‪ q‬ایک تھے تو‬
‫ایک کے ذکر کے کو دووسرے کے ذکر کے لئے کافی سمجھا ‪،‬‬
‫جیسے کسی شاعر کا قول ہے کہ جب میں کسی جگہ کا ارادہ‪ q‬کرتا‬
‫ہوں تو میں نہیں جانتا کہ وہاں مجھے نفع ملے گا یا نقصان ہوگا؟‬
‫تو یہاں بھی شاعر نے خیر کا لفظ تو کہا مگر شرط کا لفظ بیان‬
‫نہیں کیونکہ خیر وشر دونوں کی مالزمت مقاربت اور مصاحبت‬
‫ہے۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں یہودیوں نے قریش سے کہا کہ تم‬
‫یہ اعتراض حضور صلی ہللا علیہ وسلم سے کرو انہوں نے کیا اور‬
‫جواب پاکر خاموش رہے ایک قول یہ بھی ہے کہ دونوں جادوگروں‬
‫موسی علیہ السالم اور آنحضرت صلی ہللا علیہ‬ ‫ٰ‬ ‫سے مراد حضرت‬
‫عیسی علیہ السالم‬
‫ٰ‬ ‫وسلم ہیں۔ ایک قول یہ بھی ہے کی مراد حضرت‬
‫اور حضور صلی ہللا علیہ وسلم ہیں لیکن اس تیسرے قول میں تو‬
‫بہت ہی بعد ہے اور دوسرے قول سے بھی پہال قول مضبوط اور‬
‫عمدہ ہے اور بہت قوی ہے وہللا اعلم۔ یہ مطلب ساحران کی قرأت‬
‫پر ہے اور جن کی قرأت سحران ہے وہ کہتے ہیں مراد تورات اور‬
‫وتعالی اعلم بالصواب۔‪ q‬لیکن اس قرأت پر‬‫ٰ‬ ‫انجیل ہے۔ وہللا سبحانہ‬
‫بھی ظاہری تورات و قرآن کے معنی ٹھیک ہیں کیونکہ اس کے بعد‬
‫ہی فرمان ہللا ہے کہ تم ہی ان دونوں سے زیادہ ہدایت کوئی کتاب‬
‫ہللا کے ہاں سے الؤ جس کی میں تابعداری کروں۔ تورات اور قرآن‬
‫کو اکثر ایک ہی جگہ میں بیان فرمایا گیا ہے۔ جیسے فرمایا آیت‬
‫موسی نورا وھدل للناس) پس یہاں‬ ‫ٰ‬ ‫(قل من انزل الکتاب الذی جاء بہ‬
‫تورات کے نور وہدایت ہونے کا ذکر فرما کر پھر فرمایا آیت (وھذا‬
‫کتاب انزلناہ مبارک) اور اس کتاب کو بھی ہم نے ہی بابرکت بناکر‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫اتارا ہے۔ اور سورت کے آخر میں فرمایا ثم آیت (اتینا‬
‫موسی کو کتاب دی اور فرمان ہے اس ہماری‬ ‫ٰ‬ ‫الکتاب) پھر ہم نے‬
‫اتاری ہوئی مبارک کتاب کی تم پیروی کرو ہللا سے ڈرو تاکہ تم پر‬
‫رحم کیا جائے جنات کا قول قرآن میں ہے کہ انہوں نے کہا ہم نے‬
‫موسی کے بعد اتاری گئی ہے جو اپنے سے پہلے‬ ‫ٰ‬ ‫وہ کتاب سنی جو‬
‫کی اور الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے ۔ ورقہ بن نوفل‬
‫کا مقولہ حدیث کی کتابوں میں مروی ہے کہ انہوں نے کہا تھا یہ‬
‫موسی علیہ السالم‬
‫ٰ‬ ‫وہی ہللا کے راز داں‪ q‬بھی دی ہے جو حضرت‬
‫کے بعد آپ کی طرف بھیجے گئے ہیں۔ جس شخص نے غائر نظر‬
‫سے علم دین کا مطالعہ کیا ہے اس پر یہ بات بالکل ظاہر ہے کہ‬
‫آسمانی کتابوں میں سب سے زیادہ عظمت وشرافت والی عزت‬
‫وکرامت والی کتاب تو یہی قرآن مجید فرقان حمید ہے جو ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫حمید و مجید نے اپنے رؤف ورحیم نبی آخر الزمان پر نازل فرمائی‬
‫اس کے بعد تورات شریف کا درجہ ہے جس میں ہدایت ونور تھا‬
‫جس کے مطابق انیباء اور انکے ماتحت حکم احکام جاری کرتے‬
‫رہے۔ انجیل تو صرف توراۃ کو تمام کرنے والی اور بعض حرام کو‬
‫حالل کرنے والی تھی اس لیے فرمایا کہ ان دونوں کتابوں سے بہتر‬
‫کتاب اگر تم ہللا کے ہاں سے الؤ تو میں اس کی تابعداری کرونگا ۔‬
‫پھر فرمایا کہ جو آپ کہتے ہیں وہ بھی اگر یہ نہ کریں اور نہ آپ‬
‫کی تابعداری کریں تو جان لے کہ دراصل انہیں دلیل برہان کی‬
‫کوئی حاجت ہی نہیں۔ یہ صرف جھگڑالو‪ q‬ہیں اور خواہش پرست‬
‫ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ خواہش کے پابند لوگوں سے جو ہللا کی ہدایت‬
‫سے خالی ہوں بڑھ کر کوئی ظالم نہیں۔ اس میں انہماک کرکے جو‬
‫لوگ اپنی جانوں پر ظلم کریں وہ آخر تک راہ راست سے محروم‬
‫رہ جاتے ہیں۔ ہم نے ان کے لیے تفصیلی قول بیان کردیا واضح‬
‫کردیا صاف کردیا اگلی پچھلی باتیں بیان کردیں قریشوں کے‬
‫سامنے سب کچھ ظاہر کردیا۔ بعض مراد اس سے رفاعہ لیتے ہیں‬
‫اور ان کے ساتھ کے اور نو آدمی ۔ یہ رفاعہ حضرت صفیہ بن حی‬
‫کے ماموں ہیں جنہوں نے تمیمیہ بن وہب کو طالق دی تھی جن کا‬
‫دوسرا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا تھا۔‬

‫ب ِم ْن ِع ْن ِد هَّللا ِ هُ َو أَ ْه َدى ِم ْنهُ َما‪ q‬أَتَّبِ ْعهُ‬‫قُلْ فَأْتُوا بِ ِكتَا ٍ‬


‫ين‬ ‫إِ ْن ُك ْنتُ ْم َ‬
‫صا ِدقِ َ‬
‫﴿‪﴾028:049‬‬

‫[جالندھری] کہہ دو کہ اگر سچے ہو تو تم خدا کے پاس سے کوئی‬


‫کتاب لے آؤ جو ان دونوں (کتابوں) سے بڑھ کر ہدایت کرنے والی‬
‫ہو تاکہ میں بھی اسی کی پیروی کروں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫ُون أَ ْه َوا َءهُ ْم ۚ‬
‫ك فَا ْعلَ ْم أَنَّ َما يَتَّبِع َ‪q‬‬
‫فَإِ ْن لَ ْم يَ ْستَ ِجيبُوا لَ َ‬
‫ضلُّ ِم َّم ِن اتَّبَ َع هَ َواهُ بِ َغي ِْر هُ ًدى ِم َن هَّللا ِ ۚ إِ َّن‬‫َو َم ْن أَ َ‬
‫هَّللا َ اَل يَ ْه ِدي ْالقَ ْو َم الظَّالِ ِم َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:050‬‬

‫[جالندھری] پھر اگر یہ تمہاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ‬


‫صرف اپنی خواہشوں‪ q‬کی پیروی کرتے ہیں اور اس سے زیادہ کون‬
‫گمراہ ہوگا جو خدا کی ہدایت کو چھوڑ کر اپنی خواہش کے پیچھے‬
‫چلے؟ بیشک خدا ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َولَقَ ْد َوص َّْلنَا لَهُ ُم ْالقَ ْو َل لَ َعلَّهُ ْم يَتَ َذ َّكر َ‬


‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:051‬‬

‫[جالندھری] اور ہم پے درپے ان لوگوں کے پاس (ہدایت کی) باتیں‬


‫بھیجتے رہے ہیں تاکہ نصیحت پکڑیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ين آتَ ْينَاهُ ُم ْال ِكتَ َ‬


‫اب ِم ْن قَ ْبلِ ِه هُ ْم بِ ِه ي ُْؤ ِمنُ َ‪q‬‬
‫ون‬ ‫الَّ ِذ َ‬
‫﴿‪﴾028:052‬‬

‫[جالندھری] جن لوگوں کو ہم نے اس سے پہلے کتاب دی تھی وہ‬


‫اس پر ایمان لے آتے ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫اہل کتاب علماء‬


‫اہل کتاب کے علماء درحقیقت ہللا کے دوست تھے ان کے پاکیزہ‬
‫اوصاف بیان ہو رہے ہیں کہ وہ قرآن کو مانتے ہیں جیسے فرمان‬
‫ہے جنہیں ہم نے کتاب دی ہے اور وہ سمجھ بوجھ کر پڑھتے ہیں‬
‫ان کا تو اس قرآن پر ایمان ہے۔ اور آیت میں ہے کہ بعض اہل کتاب‬
‫ایسے بھی ہیں جو ہللا کو مان کر تمہاری طرف نازل شدہ کتاب اور‬
‫اپنی طرف اتری ہوئی کتاب کو بھی مانتے ہیں اور ہللا سے ڈرتے‬
‫رہتے ہیں۔ اور جگہ ہے پہلے کے اہل کتاب ایسے بھی ہیں کہ‬
‫ہمارے اس قرآن کی آیتیں سن کر سجدوں میں گر پڑتے ہیں اور‬
‫زبان سے کہتے ہیں کہ دعا(سبحان ربنا ان کان وعد ربنا لمفعوال)‬
‫اور آیت میں ہے (ولتجدن اقربھم مودۃ للذین‪ q‬امنوا الذین قالوا‪q‬‬
‫انانصاری الخ)‪ ،‬یعنی مسلمانوں کے ساتھ دوستی کے اعتبار سے‬
‫سب لوگوں سے قریب تر انہیں پاؤ گے جو اپنے تئیں انصاری‬
‫کہتے ہیں اس لیے کہ ان میں علماء اور مشائخ تھے جو حضور‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی حبشہ کے بھیجے ہوئے‬
‫آئے تھے ۔ حضور صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں سورۃ یاسین سنائی‬
‫جسے سن کر یہ رونے لگے اور مسلمان ہوگئے۔ انہی کے بارے‬
‫میں یہ آیتیں اتریں کہ یہ انہیں سنتے ہی اپنے موحد مخلص ہونے‬
‫کا اقرار کرتے ہیں اور قبول کرکے مومن مسلم بن جاتے ہیں۔ ان‬
‫کی ان صفتوں پر ہللا بھی انہیں دوہرا اجر دیتا ہے ایک پہلی کتاب‬
‫کو ماننے کا دوسرا قرآن کو تسلیم کرنے وتعمیل کا۔ یہ اتباع حق پر‬
‫ثابت قدمی کرتے ہیں جو دراصل ایک مشکل اور اہم کام ہے۔‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ تین قسم کے لوگوں کو‬
‫دوہرا اجر ملتا ہے اہل کتاب جو اپنے نبی کو مان کر پھر مجھ پر‬
‫بھی ایمان الئے۔ غالم مملوک جو اپنے مجازی آقا کی فرماں‬
‫تعالی کے حق کی ادائیگی بھی کرتا رہے اور‬ ‫برداری کے ساتھ ہللا ٰ‬
‫وہ شخص جس کے پاس کوئی لونڈی ہو جسے وہ ادب وعلم‬
‫سکھائے پھر آزاد کرے اور اس سے نکاح کرلے۔ قاسم بن ابو امامہ‬
‫تعالی عنہ کہتے ہیں فتح مکہ والے‪ q‬دن میں رسول ہللا‬ ‫رضی ہللا ٰ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی سواری کیساتھ ہی اور بالکل پاس ہی تھا۔‬
‫آپ نے بہت بہترین باتیں ارشاد فرمائیں جن میں یہ بھی فرمایا کہ‬
‫یہود ونصاری میں جو مسلمان ہوجائے اسے دوہرا دوہرا اجر ہے‬
‫اور اس کے عام مسلمانوں کے برابر حقوق ہیں۔ پھر ان کے نیک‬
‫اوصاف بیان ہو رہے ہیں۔ کہ یہ برائی کا بدلہ برائی سے نہیں لیتے‬
‫بلکہ معاف کردیتے ہیں۔ درگزر کردیتے ہیں۔ اور نیک سلوک ہی‬
‫کرتے ہیں اور اپنی حالل روزیاں ہللا کے نام خرچ کرتے ہیں اپنے‬
‫بال بچوں کا پیٹ بھی پالتے ہیں زکوۃ صدقات وخیرات میں بھی‬
‫بخیلی نہیں کرتے ۔ لغویات سے بچے ہوئے رہتے ہیں۔ ایسے‬
‫لوگوں سے دوستیاں نہیں کرتے ایسی مجلسوں سے دور رہتے ہیں‬
‫بلکہ اگر اچانک گزر ہو بھی جائے تو بزرگانہ طور پر ہٹ جاتے‬
‫ہیں ایسوں سے میل جول الفت محبت نہیں کرتے صاف کہہ دیتے‬
‫ہیں کہ تمہاری کرنی تمہارے ساتھ ہمارے اعمال ہمارے ساتھ۔ یعنی‬
‫جاہلوں کی سخت کالمی برداشت کرلیتے ہیں انہیں ایسا جواب نہیں‬
‫دیتے کہ وہ اور بھڑکیں بلکہ چشم پوشی کرلیتے ہیں اور کترا کر‬
‫نکل جاتے ہیں۔ چونکہ خود پاک نفس ہیں اس لئے پاکیزہ کالم ہی‬
‫منہ سے نکالتے ہیں۔ کہہ دیتے ہیں کہ تم پر سالم ہو‪ ،‬ہم نہ جاہالنہ‬
‫روش پر چلیں نہ جہالت کی چال کو پسند کریں۔ امام محمد بن‬
‫اسحاق فرماتے ہیں کہ حبشہ سے حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کے پاس تقریبا بیس نصرانی آئے۔ آپ اس وقت مسجد میں تشریف‬
‫فرما تھے یہیں یہ بھی بیٹھ گئے اور بات چیت شروع کی اس وقت‬
‫قریشی اپنی اپنی بیٹھکوں میں کعبہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے تے ۔‬
‫ان عیسائی علماء نے جب سواالت کرلئے اور جوابات سے ان کی‬
‫تشفی ہوگئی تو آپ نے دین اسالم ان کے سامنے پیش کیا اور قرآن‬
‫کریم کی تالوت کرکے انہیں سنائی ۔ چونکہ یہ لوگ پڑھے لکھے‬
‫سنجیدہ اور روشن دماغ تھے قرآن نے ان کے دلوں پر اثر کیا اور‬
‫ان کے آنکھوں سے آنسو بہنے لگے ۔ انہوں نے فورا دین اسالم‬
‫قبول کرلیا اور ہللا پر اور ہللا کے رسول پر ایمان الئے۔ کیونکہ‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی جو صفتیں انہوں نے اپنی آسمانی‬
‫کتابوں میں پڑھی تھیں سب آپ میں موجود پائیں۔ جب یہ لوگ‪ q‬آپ‬
‫کے پاس جانے لگے تو ابوجہل بن ہشام ملعون اپنے آدمیوں کو لئے‬
‫ہوئے انہیں راستے میں مال اور تمام قریشیوں نے مل کر انہیں‬
‫طعنے دینے شروع کئے اور برا کہنے لگے کہ تم سے بدترین وفد‬
‫کسی قوم کا ہم نے نہیں دیکھا تمہاری قوم نے تمہیں اس شخص‬
‫کے حاالت معلوم کرنے کے لئے بھیجا یہاں تم نے آبائی مذہب کو‬
‫چھوڑ دیا اور اس کا ایسا رنگ تم پر چڑھا کہ ذراسی دیر میں اپنے‬
‫دین کو ترک کرکے دین بدلدیا اور اسی کا کلمہ پڑھنے لگے تم‬
‫سے زیادہ احمق ہم نے کسی کو نہیں دیکھا۔ انہوں نے ٹھنڈے دل‬
‫سے یہ سب سن لیا اور جواب دیا کہ ہم تمہارے ساتھ جاہالنہ باتیں‬
‫کرنا پسند نہیں کرتے ہمارا دین ہمارے ساتھ تمہارا مذہب تمہارے‬
‫ساتھ۔ ہم نے جس بات میں اپنی بھالئی دیکھی اسے قبول کرلیا۔ یہ‬
‫بھی کہاجاتا ہے کہ یہ وفد نجران کے نصرانیوں کا تھا وہللا اعلم۔ یہ‬
‫بھی کہا گیا ہے کہ یہ آیتیں انہی کے بارے میں اتری ہیں۔ حضرت‬
‫زہری سے ان آیتوں کا شان نزول پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا میں‬
‫تو اپنے علماء سے یہی سنتا چال آیا ہوں کہ یہ آیتیں نجاشی اور ان‬
‫کے اصحاب رضی ہللا عنہم کے بارے میں اتری ہیں۔ اور سورۃ‬
‫مائدہ کی آیتیں (ذالک بان منھم قسیسن ورھبانا سے مع الشاہدین)‬
‫تک کی آیتیں بھی انہی کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔‬

‫َوإِ َذا يُ ْتلَى َعلَ ْي ِه ْم قَالُوا آ َمنَّا بِ ِه إِنَّهُ ْال َح ُّ‬


‫ق ِم ْن َربِّنَا إِنَّا‬
‫ُكنَّا ِم ْن قَ ْبلِ ِه ُم ْسلِ ِم َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:053‬‬

‫[جالندھری] اور جب (قرآن) انکو پڑھ کر سنایا جاتا ہے تو کہتے‬


‫ہیں کہ ہم اس پر ایمان لے آئے بیشک ہمارے پروردگار کی طرف‬
‫سے برحق ہے (اور) ہم تو اس سے پہلے کے حکم بردار ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك ي ُْؤتَ ْو َن أَجْ َرهُ ْم َم َّرتَي ِْن بِ َما َ‬


‫صبَرُوا َويَ ْد َر ُء َ‬
‫ون‬ ‫أُولَئِ َ‬
‫بِ ْال َح َسنَ ِة ال َّسيِّئَةَ َو ِم َّما َر َز ْقنَاهُ ْم يُ ْنفِقُ َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:054‬‬
‫[جالندھری] ان لوگوں‪ q‬کو دگنا بدلہ دیا جائے گا کیونکہ صبر‬
‫کرتے رہے ہیں اور بھالئی کے ساتھ برائی کو دور کرتے ہیں اور‬
‫جو (مال) ہم نے انکو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َوإِ َذا َس ِمعُوا اللَّ ْغ َو أَ ْع َرضُوا َع ْنهُ َوقَالُوا لَنَا أَ ْع َمالُنَا‪q‬‬


‫َولَ ُك ْم أَ ْع َمالُ ُك ْم َساَل ٌم َعلَ ْي ُك ْم اَل نَ ْبتَ ِغي ْال َجا ِهلِ َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:055‬‬

‫[جالندھری] اور جب بےہودہ باتیں سنتے ہیں تو اس سے منہ پھیر‬


‫لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم کو ہمارے اعمال اور تم کو تمہارے‬
‫اعمال تم کو سالم ہم جاہلوں کے خواستگار نہیں ہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك اَل تَ ْه ِدي َم ْن أَحْ بَب َ‬


‫ْت َولَ ِك َّن هَّللا َ يَ ْه ِدي َم ْن يَ َشا ُء ۚ‬ ‫إِنَّ َ‬
‫ين‬‫َوهُ َو أَ ْعلَ ُم بِ ْال ُم ْهتَ ِد َ‬
‫﴿‪﴾028:056‬‬

‫[جالندھری] (اے محمد) تم جس کو دوست رکھتے ہو اسے ہدایت‬


‫نہیں کر سکتے بلکہ خدا ہی جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور‬
‫وہ ہدایت پانے والوں‪ q‬کو خوب جانتا ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ہدایت صرف ہللا کے ذمہ ہے‬


‫اے نبی صلی ہللا علیہ وسلم کسی کا ہدایت قبول کرنا تمہارے‬
‫قبضے کی چیز نہیں۔ آپ پر تو صرف پیغام ہللا کے پہنچادینے کا‬
‫فریضہ ہے ۔ ہدایت کا مالک ہللا ہے وہ اپنی حکمت کے ساتھ جسے‬
‫چاہے قبول ہدایت کی توفیق بخشتا ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت (لیس‬
‫علیک ھدھم) تیرے ذمہ ان کی ہدایت نہیں وہ چاہے تو ہدایت بخشے‬
‫۔ اور آیت میں ہے (وما اکثرالناس ولوحرصت بمومنین)۔ گو تو ہر‬
‫چند طمع کرے لیکن ان میں سے اکثر ایماندار نہیں ہوتے کہ یہ ہللا‬
‫کے ہی علم میں ہے کہ مستحق ہدایت کون ہے؟ اور مستحق‬
‫ضاللت کون ہے؟ بخاری ومسلم میں ہے کہ یہ آیت آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم کے چچا ابوطالب کے بارے میں اتری جو آپ کا بہت‬
‫طرف دار تھا اور ہر موقعہ پر آپ کی مدد کرتا تھا اور آپ کا ساتھ‬
‫دیتا تھا ۔ اور دل سے محبت کرتا تھا لیکن یہ محبت بوجہ رشتہ‬
‫داری کے طبعی تھی شرعا نہ تھی۔ جب اس کی موت کا وقت قریب‬
‫آیا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اسے اسالم کی دعوت دی اور‬
‫ایمان النے کی رغبت دالئی لیکن تقدیر کا لکھا اور ہللا کا چاہا‬
‫غالب آگیا یہ ہاتھوں میں سے پھسل گیا اور اپنے کفر پر اڑارہا۔‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم اس کے انتقال پر اس کے پاس آئے۔‬
‫ابوجہل اور عبدہللا بن امیہ بھی اس کے پاس بیٹھے ہوئے تھے آپ‬
‫نے فرمایا ال الہ اال ہللا کہو میں اس کی وجہ سے ہللا کے ہاں تیرا‬
‫سفارشی بن جاؤنگا ۔ ابوجہل اور عبدہللا کہنے لگے ابو طالب کیا تو‬
‫اپنے باپ عبدالمطلب کے مذہب سے پھر جائے گا۔ اب حضور‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم سمجھاتے اور وہ دونوں اسے رو کتے یہاں‬
‫تک کہ آخر کلمہ اسکی زبان سے یہی نکلتا کہ میں یہ کلمہ نہیں‬
‫پڑھتا اور میں عبدالمطلب کے مذہب پر ہوں۔ آپ نے فرمایا بہتر‬
‫میں تیرے لیے رب سے استغفار کرتا رہونگا یہ اور بات ہے کہ‬
‫میں روک دیا جاؤں ہللا مجھے منع فرمادے۔ لیکن اسی وقت آیت‬
‫اتری کہ (ماکان للنبی والذین‪ q‬امنوا ان یستغفروا للمشرکین ولوکانوا‬
‫اولی قربی) یعنی نبی کو اور مومن کو ہرگز یہ بات سزاوار نہیں کہ‬
‫وہ مشرکوں کے لئے استغفار کریں گو وہ ان کے نزدیکی قرابتدار‬
‫ہی کیوں نہ ہوں اور اسی ابوطالب کے بارے میں آیت (انک‬
‫التھدی) بھی نازل ہوئی (صحیح مسلم وغیرہ) ترمذی وغیرہ میں‬
‫ہے کہ ابوطالب کے مرض الموت میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫نے اس سے کہا کہ چجا ال الہ اال ہللا کہہ لو میں اس کی گواہی‬
‫قیامت کے دن دے دونگا تو اس نے کہا اگر مجھے اپنے خاندان‬
‫قریش کے اس طعنے کا خوف نہ ہو اس نے موت کی گھبراہٹ کی‬
‫وجہ سے یہ کہہ لیا تو میں اسے کہہ کر تیری آنکھوں کو ٹھنڈی‬
‫کردیتا مگر پھر بھی اسے تیری خوشی کے لئے کہتا ہوں ۔ اس پر‬
‫یہ آیت اتری ۔ دوسری روایت میں ہے کہ اس نے کلمہ پڑھنے سے‬
‫صاف انکار کردیا اور کہا کہ میرے بھتیجے میں تو اپنے بڑوں کی‬
‫روش پر ہوں۔ اور اسی بات پر اس کی موت ہوئی کہ وہ عبدالمطلب‬
‫کے مذہب پر ہے۔ قیصر کا قاصد جب رسول صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کی خدمت میں حاضر ہوا اور قیصر کا خط خدمت نبوی میں پیش‬
‫کیا تو آپ نے اسے اپنی گود میں رکھ کر فرمایا تو کس قبیلے سے‬
‫ہے؟ اس نے کہا تیرج قبیلے کا آدمی ہوں آپ نے فرمایا کہ تیرا‬
‫قصد ہے کہ تو اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السالم کے دین پر‬
‫آجائے ؟ اس نے جواب دیا کہ میں جس قوم کا قاصد ہوں جب تک‬
‫ان کے پیغام کا جواب انہیں نہ پہنچا دوں ان کے مذہب کو نہیں‬
‫چھوڑ سکتا۔ تو آپ نے مسکرا کر اپنے صحابہ کی طرف دیکھ کر‬
‫یہی آیت پڑھی۔ مشرکین اپنے ایمان نہ النے کی ایک وجہ یہ بھی‬
‫بیان کرتے تھے کہ ہم آپ کی الئی ہوئی ہدایت کو مان لیں تو ہمیں‬
‫ڈر لگتا ہے کہ اس دین کے مخالف جو ہمارے چاروں طرف ہیں‬
‫اور تعداد میں مال میں ہم سے زیادہ ہیں ۔ وہ ہمارے دشمن بن جائیں‬
‫گے اور ہمیں تکلیفیں پہنچائیں گی اور ہمیں برباد کردیں گے ۔ ہللا‬
‫فرماتا ہے کہ یہ حیلہ بھی ان کا غلط ہے ہللا نے انہیں حرم محترم‬
‫میں رکھا ہے جہاں شروع دنیا سے اب تک امن وامان رہا ہے تو یہ‬
‫کیسے ہوسکتا ہے کہ حالت کفر میں تو یہاں امن سے رہیں اور جب‬
‫ہللا کے سچے دین کو قبول کریں تو امن اٹھ جائے؟ یہی تو وہ شہر‬
‫ہے کہ طائف وغیرہ مختلف مقامات سے پھل فروٹ سامان اسباب‬
‫مال تجارت وغیرہ کی آمد و رفت بکثرت رہتی ہے ۔ تمام چیزیں‬
‫یہاں کھنچی چلی آتی ہیں اور ہم انہیں بیٹھے بیٹھائے روزیاں پہنچا‬
‫رہے ہیں لیکن ان میں اکثر بےعلم ہیں ۔ اسی لیے ایسے رکیک‬
‫حیلے اور بےجا عذر پیش کرتے ہیں مروی ہے کہ یہ کہنے‬
‫واالحارث بن عامر بن نوفل تھا۔‬
‫ضنَا ۚ‬ ‫ف ِم ْن أَرْ ِ‬ ‫ك نُتَ َخطَّ ْ‬ ‫َوقَالُوا إِ ْن نَتَّبِ ِع ْالهُ َدى َم َع َ‬
‫أَ َولَ ْم نُ َم ِّك ْ‪q‬ن لَهُ ْم َح َر ًما آ ِمنًا يُجْ بَى إِلَ ْي ِه ثَ َم َر ُ‬
‫ات ُكلِّ‬
‫َش ْي ٍء ِر ْزقًا ِم ْن لَ ُدنَّا َولَ ِك َّن أَ ْكثَ َرهُ ْم اَل يَ ْعلَ ُم َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:057‬‬

‫[جالندھری] اور کہتے ہیں کہ اگر ہم تمہارے ساتھ ہدایت کی‬


‫پیروی کریں تو اپنے ملک سے اچک لئے جائیں کیا ہم نے ان کو‬
‫حرم میں جو امن کا مقام ہے جگہ نہیں دی جہاں ہر قسم کے میوے‬
‫پہنچائے جاتے ہیں (اور یہ) رزق ہماری طرف سے ہے؟ لیکن ان‬
‫میں اکثر نہیں جانتے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك‬‫ت َم ِعي َشتَهَا‪ ۖ q‬فَتِ ْل َ‬ ‫َو َك ْم أَ ْهلَ ْكنَا ِم ْن قَرْ يَ ٍة بَ ِط َر ْ‬


‫َم َسا ِكنُهُ ْم لَ ْم تُ ْس َك ْن ِم ْن بَ ْع ِد ِه ْم إِاَّل قَلِياًل ۖ َو ُكنَّا نَحْ ُن‬
‫ين‬‫ارثِ َ‬ ‫ْال َو ِ‬
‫﴿‪﴾028:058‬‬

‫[جالندھری] اور ہم نے بہت سی بستیوں کو ہالک کر ڈاال جو اپنی‬


‫(فراخی) معیشیت میں اترا رہے تھے سو یہ ان کے مکانات ہیں جو‬
‫انکے بعد آباد ہی نہیں ہوئے مگر بہت کم اور ان کے پیچھے ہم ہی‬
‫ان کے وارث ہوئے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫اہل مکہ کو تنبیہہ‬


‫اہل مکہ کو ہوشیار کیا جاتا ہے کہ جو ہللا کے بہت سی نعمتیں‬
‫حاصل کرکے اترا رہے تھے اور سرکشی اور بڑائی کرتے تھے‬
‫اور ہللا سے کفر کرتے تھے نبی کا انکار کرتے تھے اور ہللا کی‬
‫روزیاں کھاتے تھے اور اس کی نمک حرامی کرتے تھے انہیں ہللا‬
‫تعالی نے اس طرح تباہ وبرباد کردیا کہ آج ان کا نام لینے واال نہیں‬‫ٰ‬
‫رہا۔ جیسے اور آیت میں ہے (وضرب ہللا مثال قریتہ امنتہ الخ)‪،‬‬
‫یہاں فرماتا ہے کہ ان کی اجڑی ہوئی بستیاں اب تک اجڑی پڑی‬
‫ہیں ۔ کچھ یونہی سی آبادی اگرچہ ہوگئی ہو لیکن دیکھو ان کے‬
‫کھنڈرات سے آج تک وحشت برس رہی ہے ہم ہی انکے مالک رہ‬
‫گئے ہیں حضرت کعب (تابعی) کا قول ہے کہ الو‪ q‬سے حضرت‬
‫سلیمان نے دریافت فرمایا کہ تو کھیتی اناج کیوں نہیں کھاتا اس نے‬
‫کہا کہ اس لئے کہ اسی کے باعث حضرت آدم جنت سے نکالے‬
‫گئے پوچھاپانی کیوں نہیں پیتا ؟ کہا اس لئے کہ قوم نوح اسی میں‬
‫ڈبودی گئی۔ پوچھا ویرانے میں کیوں رہتا ہے؟ کہا اس لیے کہ وہ‬
‫ہللا کی میراث ہے ۔ پھر حضرت کعب نے آیت (وکنا نحن الوارثین)‬
‫تعالی اپنے عدل وانصاف کو بیان فرما رہا ہے کہ وہ‬ ‫پڑھا۔ پھر ہللا ٰ‬
‫کسی کے ظلم سے ہالک نہیں کرتا پہلے ان پر اپنی حجت ختم کرتا‬
‫ہے اور ان کا عذر دور کرتا ہے۔ رسولوں کو بھیج کر اپناکالم ان‬
‫تک پہنچاتا ہے۔ اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حضور‬
‫ٰ‬
‫القری میں مبعوث‬ ‫صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت عام تھی آپ ام‬
‫ہوئے تھے۔ اور تمام عرب وعجم کی طرف رسول بنا کر بھیجے‬
‫ٰ‬
‫القری ومن حولھا) تاکہ‬ ‫گئے تھے جیسے فرمان ہے آیت (لتنذر ام‬
‫تو مکہ والوں کو اور دوسرے شہر والوں کو ڈرادے‪ q‬اور فرمایا‬
‫آیت (قل یا ایھا الناس انی رسول ہللا علیکم جمیعا) کہہ دے کہ اے‬
‫لوگو ! میں تم سب کی طرف ہللا کا رسول ہوں اور آیت میں ہے‬
‫(النذرکم بہ ومن بلغ) تاکہ اس قرآن سے میں تمہیں بھی ڈرادوں اور‬
‫ہر اس شخص کو جس تک یہ قرآن پہنچے۔ اور آیت میں ہے (ومن‬
‫یکفر بہ من االحزاب فالنار موعدہ) اس قرآن کے ساتھ دنیا والوں‪q‬‬
‫میں سے جو بھی کفر کریں اس کے وعدے‪ q‬کی جگہ جہنم ہے ۔ اور‬
‫جگہ ہللا کا فرمان ہے آیت (وان من قریۃ اال نحن مھلکوھا الخ)‪،‬‬
‫یعنی تمام بستیوں کو ہم قیامت سے پہلے ہالک کرنے والے‪ q‬ہیں یا‬
‫سخت عذاب کرنے والے‪ q‬ہیں۔ پس خبر دی کہ قیامت سے پہلے وہ‬
‫سب بستیوں کو برباد کردے گا۔ اور آیت میں ہے کہ ہم جب تک‬
‫رسول نہ بھیج دیں عذاب نہیں کرتے۔ پاس حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی بعثت کو عام کردیا اور تمام جہاں کے لئے کردیا اور مکہ‬
‫میں جو کہ تمام دنیا کا مرکز ہے آپ کو مبعوث فرما کر ساری دنیا‬
‫پر اپنی حجت ختم کردی۔ بخاری ومسلم میں حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کا ارشاد مروی ہے کہ میں تمام سیاہ سفید کی طرف نبی بناکر‬
‫بھیجا گیا ہوں۔ اسی لئے نبوت ورسالت کو آپ پر ختم کردیا آپ کے‬
‫بعد سے قیامت تک نہ کوئی نبی آئے گا نہ رسول۔ کہا گیا کہ مراد‬
‫ام القری سے اصل اور بڑا قریہ ہے۔‬

‫ث فِي أُ ِّمهَا‬
‫ك ْالقُ َرى َحتَّى يَ ْب َع َ‬ ‫ك ُم ْهلِ َ‬ ‫َو َما َك َ‬
‫ان َربُّ َ‬
‫َر ُسواًل يَ ْتلُو َعلَ ْي ِه ْم آيَاتِنَا ۚ َو َما ُكنَّا ُم ْهلِ ِكي ْالقُ َرى إِاَّل‬
‫َوأَ ْهلُهَا ظَالِ ُم َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:059‬‬

‫[جالندھری] اور تمہارا پروردگار بستیوں کو ہالک نہیں کیا کرتا‬


‫جب تک ان کے بڑے شہر میں پیغمبر نہ بھیج لے جو انکو ہماری‬
‫آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے اور ہم بستیوں کو ہالک نہیں کیا کرتے‬
‫مگر اس حالت میں کہ وہاں کے باشندے ظالم ہوں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َو َما أُوتِيتُ ْم ِم ْن َش ْي ٍء فَ َمتَا ُ‪q‬‬


‫ع ْال َحيَا ِة ال ُّد ْنيَا‪َ q‬و ِزينَتُهَا ۚ‬
‫ون‬ ‫َو َما ِع ْن َد هَّللا ِ َخ ْي ٌر َوأَ ْبقَى ۚ أَفَاَل تَ ْعقِلُ َ‬
‫﴿‪﴾028:060‬‬

‫[جالندھری] اور جو چیز تم کو دی گئی ہے وہ دنیا کی زندگی کا‬


‫فائدہ اور اس کی زینت ہے اور جو خدا کے پاس ہے وہ بہتر اور‬
‫باقی رہنے والی ہے کیا تم سمجھتے نہیں ؟‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫دنیا اور اخرت کا تقابلی جائزہ‬
‫تعالی دنیا کی حقارت اس کی رونق کی قلت وذلت اس کی‬ ‫ہللا ٰ‬
‫ناپائیداری بےثباتی اور برائی بیان فرما رہا ہے اور اس کے مقابلہ‬
‫میں آخرت کی نعمتوں کی پائیداری دوام عظمت اور قیام کا ذکر‬
‫فرما رہے ہیں۔ جیسے ارشاد ہے آیت (ماعندکم ینفد و ماعند ہللا باق)‬
‫تمہارے پاس جو کچھ ہے فنا ہونے واال ہے ۔ اور ہللا کے پاس تمام‬
‫چیزیں بقا والی ہیں۔ ہللا کے پاس جو ہے وہ نیک لوگوں کے لئے‬
‫بہت ہی بہتر اور عمدہ ہے۔ آخرت کے مقابلہ میں دنیا تو کچھ بھی‬
‫نہیں۔ لیکن افسوس کہ لوگ دنیا کے پیچھے پڑے ہوئے ہیں اور‬
‫آخرت سے غافل ہو رہے ہیں جو بہت بہتر اور بہت باقی رہنے‬
‫والی ہے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں دنیا آخرت کے‬
‫مقابلہ میں ایسی ہے جیسے تم میں سے کوئی سمندر میں انگلی ڈبو‬
‫کر نکال لے پھر دیکھ لے کہ اس کی انگلی پر جو پانی چڑھا ہوا‬
‫ہے وہ سمندر کے مقابلہ میں کتنا کچھ ہے افسوس کہ اس پر بھی‬
‫اکثر لوگ اپنی کم علمی اور بےعلمی کے باعث دنیا کے متوالے‪ q‬ہو‬
‫رہے ہیں۔ خیال کرلو ایک تو وہ جو ہللا پر ہللا کے نبی پر ایمان‬
‫ویقین رکھتا ہو اور ایک وہ جو ایمان نہ الیا ہو نتیجے کے اعتبار‬
‫سے برابر ہوسکتے ہیں؟ ایمان والوں‪ q‬کے ساتھ تو ہللا کا جنت کا‬
‫اور اپنی بیشمار ان مٹ غیر فانی نعمتوں کا وعدہ ہے اور کافر کے‬
‫ساتھ وہاں کے عذابوں‪ q‬کا ڈراوا‪ q‬ہے گو دنیا میں کچھ روز عیش ہی‬
‫منالے۔‪ q‬مروی ہے کہ یہ آیت حضور صلی ہللا علیہ وسلم اور‬
‫ابوجہل کے بارے میں نازل ہوئی ایک قول یہ بھی ہے کہ حمزہ‬
‫علی اور ابوجہل کے بارے میں یہ آیت اتری ہے۔ ظاہریہ ہے کہ یہ‬
‫آیت عام ہے جیسے فرمان ہللا ہے کہ جنتی مومن اپنے جنت کے‬
‫درجوں سے جھانک کر جہنمی کافر کو جہنم کے جیل خانہ میں‬
‫دیکھ کر کہے گا۔ آیت (لوال نعمتہ ربی لکنت من المحضرین) اگر‬
‫مجھ پر میرے رب کا انعام نہ ہوتا تو میں بھی ان عذابوں میں پھنس‬
‫جاتا۔ اور آیت میں ہے (ولقد علمت الجن انہم لمحضرون) جنات کو‬
‫یقین ہے کہ وہ حاضر کیے جانے والوں میں سے ہیں۔‬

‫أَفَ َم ْن َو َع ْدنَاهُ‪َ q‬و ْع ًدا َح َسنًا فَهُ َو اَل قِي ِه َك َم ْن َمتَّ ْعنَاهُ‬
‫ين‬ ‫َمتَا َع ْال َحيَا ِة ال ُّد ْنيَا ثُ َّم هُ َو يَ ْو َم ْالقِيَا َم ِة ِم َن ْال ُمحْ َ‬
‫ض ِر َ‬
‫﴿‪﴾028:061‬‬

‫[جالندھری] بھال جس شخص سے ہم نے نیک وعدہ کیا اور اس‬


‫نے اسے حاصل کر لیا تو کیا وہ اس شخص کا سا ہے جس کو ہم‬
‫نے دنیا کی زندگی کے فائدے سے بہرہ مند کیا؟ پھر وہ قیامت کے‬
‫روز ان لوگوں‪ q‬میں ہو جو (ہمارے روبرو) حاضر کئے جائیں گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َويَ ْو َم يُنَا ِدي ِه ْم فَيَقُو ُل أَي َْن ُش َر َكائِ َي الَّ ِذ َ‬


‫ين ُك ْنتُ ْم‬
‫تَ ْز ُع ُم َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:062‬‬

‫[جالندھری] اور جس روز خدا انکو پکارے گا اور کہے گا کہ‬


‫میرے وہ شریک کہاں ہیں جن کا تم کو دعوی تھا؟‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫کہاں ہیں تمہارے بت‬


‫مشرکوں کو قیامت کے دن پکار کر سامنے کھڑا کرکے ہللا تبارک‬
‫وتعالی فرمائے گا کہ دنیا میں جنہیں تم میرے سوا پوجتے رہے جن‬ ‫ٰ‬
‫بتوں اور پتھروں کو مانتے رہے ہو وہ کہاں ہیں؟ انہیں پکارو اور‬
‫دیکھو کہ وہ تمہاری کچھ مدد کرتے ہیں؟ یا وہ خود اپنی کوئی مدد‬
‫کر سکتے ہیں؟ یہ صرف بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ہوگا۔ جیسے فرمان‬
‫ہے آیت (ولقد جئتمونا فرادی کما خلقنکم اول مرۃ الخ)‪ ،‬یعنی ہم‬
‫تمہیں ویسے ہی تن تنہا اور ایک ایک کرکے الئیں گے جیسے ہم‬
‫نے اول دفعہ پیدا کیا تھا اور جو کچھ ہم نے تمہیں یاد دالیا تھا وہ‬
‫سب تم اپنے پیچھے ہی چھوڑ آئے۔ ہم تو آج تمہارے ساتھ کسی‬
‫سفارشی کو بھی نہیں دیکھتے جنہیں تم شریک ٰالہی ٹھیرائے ہوئے‬
‫تھے۔ تم میں ان میں کوئی لگاؤ نہیں رہا اور تمہارے گمان کردہ‬
‫شریک سب آج تم سے کھوئے ہوئے ہیں۔ جن پر عذاب کی بات‬
‫ثابت ہوچکی یعنی شیاطین اور سرکش لوگ اور کفر کے بانی اور‬
‫شرک کی طرف لوگوں‪ q‬کو بالنے والے‪ q‬یہ سب بڑے بڑے لوگ اس‬
‫دن کہیں گے کہ اے ہللا ہم نے انہیں گمراہ کیا اور انہوں نے ہماری‬
‫کفریہ باتیں سنیں اور مانیں جیسے ہم بہکے ہوئے تھے انہیں بھی‬
‫بہکایا۔ ہم ان کی عبادت سے تیرے سامنے اپنی بیزاری کا اظہار‬
‫کرتے ہیں۔ جیسے اور آیت میں ہے (واتخذوا من دون ہللا الھۃ الخ)‪،‬‬
‫انہوں نے ہللا کے سوا اور معبود بنالئے تاکہ وہ ان کے لئے باعث‬
‫عزت بنیں لیکن ایسا نہیں ہونے کا یہ تو انکی عبادت سے بھی‬
‫انکار کر جائیں گے اور الٹے ان کے دشمن بن جائیں گے۔ اور آیت‬
‫میں ہے (ومن اضل ممن یدعو من دون ہللا الخ)‪ ،‬اس سے بڑھ کر‬
‫گمراہ کون ہے جو ہللا کے سوا دوسروں کو پکارتا ہے جو قیامت‬
‫کی گھڑی تک انہیں جواب نہ دے سکیں اور وہ ان کی پکار سے‬
‫بھی غافل ہوں اور قیامت کے دن لوگوں کے حشر کے موقعہ پر ان‬
‫کے دشمن بن جائیں اور اس بات سے صاف انکار کردیں کہ انہوں‬
‫نے انکی عبادت کی تھی۔ حضرت خلیل ہللا علیہ السالم نے اپنی قوم‬
‫سے فرمایا تھا کہ تم نے جن بتوں کی پوجا پاٹ شروع کر رکھی‬
‫ہے ان سے صرف دنیاکی ہی دوستی ہے قیامت کے دن تو تم سب‬
‫ایک دوسرے کے منکر ہوجاؤ گے اور ایک دوسرے‪ q‬پر لعنت‬
‫بھیجوگے ۔ اور آیت میں ہے (اذتبر الذین اتبعوا من الذین اتبعوا‬
‫الخ)‪ ،‬یعنی جو تابعداری کرنے والے‪ q‬تھے اور وہ ان کی پرجوش‬
‫کی تابعداری کرتے رہے مگر یہ ان سے بری اور بیزار ہوجائیں‬
‫گے یعنی عذابوں‪ q‬کو سامنے دیکھتے ہوئے سب تعلقات ٹوٹ جائیں‬
‫گے۔ ان سے فرمایا جائے گا کہ دنیا میں جنہیں پوجتے رہے ہو آج‬
‫انہیں کیوں نہیں پکارتے؟ اب یہ پکاریں گے لیکن کوئی جواب نہ‬
‫پائیں گے اور انہیں یقین ہوجائے گا کہ یہ آگ کے عذاب میں جائیں‬
‫گے اس وقت آرزو کریں گے کہ کاش ہم راہ یافتہ ہوتے ؟ جیسے‬
‫ارشاد ہے کہ آیت (ویوم یقول نادوا شرکای الذی زعمتم الخ)‪ ،‬جس‬
‫دن فرمائے گا کہ میرے ان شریکوں کو آواز دو جنہیں تم بہت کچھ‬
‫سمجھ رہے تھے یہ پکاریں گے لیکن وہ جواب نہ دیں گے اور ہم‬
‫ان کے اور ان کے درمیان آڑ کریں گے مجرم لوگ دوزخ کو‬
‫دیکھیں گے پھر باور کرائیں گے کہ وہ اس میں گرنے والے‪ q‬ہیں‬
‫لیکن اس سے بچنے کی کوئی راہ نہ پائیں گے اسی قیامت والے دن‬
‫ان سب کو سنا کر ایک سوال یہ بھی ہوگا کہ تم نے میرے انبیاء کو‬
‫کیا جواب دیا؟ اور کہاں تک ان کا ساتھ دیا؟ پہلے توحید کے متعلق‬
‫بازپرس تھی اب رسالت کے متعلق سوال جواب ہو رہے ہیں۔ اسی‬
‫طرح قبر میں بھی سوال ہوتا ہے کہ تیرا رب کون ہے؟ تیرا نبی‬
‫کون ہے؟ اور تیرا دین کیا ہے؟ مومن جواب دیتا ہے کہ میرا معبود‬
‫تعالی ہی ہے اور میرے رسول حضرت محمد صلی ہللا‬ ‫صرف ہللا ٰ‬
‫علیہ وسلم ہیں جو ہللا کے بندے اور اس کے رسول تھے (سالم‬
‫علیہ) ہاں کافر سے کوئی جواب نہیں بن پڑتا وہ گھبراہٹ اور‬
‫پریشانی سے کہتا ہے مجھے اسکی کوئی خبر نہیں۔ اندھا بہرا ہو‬
‫جاتا ہے جیسے فرمایاآیت ( من کان فی ھذہ اعمی فھو فی االخرۃ‬
‫اعمی واضل سبیال) جو شخص یہاں اندھا ہے وہ وہاں بھی اندھا اور‬
‫راہ بھوال رہے گا۔ تمام دلیلیں ان کی نگاہوں سے ہٹ جائیں گی‬
‫رشتے ناتے حسب نسب کی کوئی قدر نہ ہوگی نسب ناموں کا کوئی‬
‫سوال نہ ہوگا۔ ہاں دنیا میں توبہ کرنے والے‪ q‬ایمان اور نیکی کے‬
‫ساتھ زندگی گزارنے والے‪ q‬تو بیشک فالح اور نجات حاصل کرلیں‬
‫گے یہاں عسی یقین کے معنی میں ہے یعنی مومن ضرور کامیاب‬
‫ہونگے۔‬
‫ين أَ ْغ َو ْينَا‬‫ق َعلَ ْي ِه ُم ْالقَ ْو ُل َربَّنَا هَ ُؤاَل ِء الَّ ِذ َ‪q‬‬ ‫قَا َل الَّ ِذ َ‬
‫ين َح َّ‬
‫ك ۖ َما َكانُوا إِيَّانَا‬ ‫أَ ْغ َو ْينَاهُ ْم َك َما َغ َو ْينَا ۖ تَبَر َّْأنَا إِلَ ْي َ‬
‫يَ ْعبُ ُد َ‪q‬‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:063‬‬

‫[جالندھری] تو جن لوگوں پر (عذاب کا) حکم ثابت ہو چکا ہوگا وہ‬


‫کہیں گے کہ ہمارے پروردگار یہ وہ لوگ ہیں جن کو ہم نے گمراہ‬
‫کیا تھا (اور) جس طرح ہم خود گمراہ ہوئے تھے اسی طرح انکو‬
‫گمراہ کیا تھا (اب) ہم تیری طرف (متوجہ ہو کر) ان سے بیزار‬
‫ہوتے ہیں یہ ہمیں نہیں پوجتے تھے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َوقِي َل ا ْد ُعوا ُش َر َكا َء ُك ْم فَ َد َع ْوهُ ْم فَلَ ْم يَ ْستَ ِجيبُوا لَهُ ْم‬


‫اب ۚ لَ ْو أَنَّهُ ْم َكانُوا يَ ْهتَ ُد َ‬
‫ون‬ ‫َو َرأَ ُوا ْال َع َذ َ‬
‫﴿‪﴾028:064‬‬

‫[جالندھری] اور کہا جائے گا کہ اپنے شریکوں کو بالؤ تو وہ انکو‬


‫پکاریں گے اور وہ ان کو جواب نہ دے سکیں گے اور (جب)‬
‫عذاب کو دیکھ لیں گے (تو تمنا کریں گے کہ) کاش وہ ہدایت یاب‬
‫ہوتے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َويَ ْو َم يُنَا ِدي ِه ْم فَيَقُو ُل َما َذا أَ َج ْبتُ ُم ْال ُمرْ َسلِ َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:065‬‬

‫[جالندھری] اور جس روز (خدا) ان کو پکارے گا اور کہے گا کہ‬


‫تم نے پیغمبروں کو کیا جواب دیا؟‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ت َعلَ ْي ِه ُم اأْل َ ْنبَا ُء يَ ْو َمئِ ٍذ فَهُ ْم اَل يَتَ َسا َءلُ َ‬


‫ون‬ ‫فَ َع ِميَ ْ‬
‫﴿‪﴾028:066‬‬
‫[جالندھری] تو وہ اس روز خبروں سے اندھے ہوجائیں گے اور‬
‫آپس میں کچھ بھی نہ پوچھ سکیں گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫صالِحًا فَ َع َسى أَ ْن يَ ُك َ‬
‫ون‬ ‫فَأ َ َّما َم ْن تَ َ‬
‫اب َوآ َم َن َو َع ِم َل َ‬
‫ِم َن ْال ُم ْفلِ ِح َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:067‬‬

‫[جالندھری] لیکن جس نے توبہ کی اور ایمان الیا اور عمل نیک‬


‫کیے تو امید ہے کہ وہ نجات پانے والوں میں ہو‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ان لَهُ ُم ْال ِخيَ َرةُ ۚ‬ ‫ك يَ ْخلُ ُ‬


‫ق َما يَ َشا ُء َويَ ْختَا ُر ۗ َما َك َ‬ ‫َو َربُّ َ‬
‫ان هَّللا ِ َوتَ َعالَى َع َّما يُ ْش ِر ُك َ‬
‫ون‬ ‫ُس ْب َح َ‪q‬‬
‫﴿‪﴾028:068‬‬

‫[جالندھری] اور تمہارا پروردگار جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے اور‬


‫(جسے چاہتا ہے) برگزیدہ کر لیتا ہے انکو اس کا اختیار نہیں ہے‬
‫یہ جو شرک کرتے ہیں خدا اس سے پاک و باالتر ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ٖ صفات ٰالہی‬
‫ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات واال ہللا ہی ہے ۔ نہ اس میں‬
‫کوئی اس سے جھگڑنے واال نہ اس کا شریک وساتھی۔ جو چاہے‬
‫پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنالے۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے‬
‫جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ‬
‫ہے۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کو کوئی اختیار‬
‫نہیں۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت (ماکان لھم الخیرۃ من امرھم) میں‬
‫ہے دنوں جگہ ما نافیہ ہے۔ گو ابن جریر نے یہ کہا کہ ما معنی میں‬
‫الذی کے ہے یعنی ہللا پسند کرتا ہے اسے جس میں بھالئی ہو اور‬
‫اس معنی کو لے کر معتزلیوں نے مراعات صالحین پر استدالل کیا‬
‫ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں مانفی کے معنی میں ہے‬
‫جیسے کہ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے۔ یہ آیت اسی‬
‫بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں‬
‫اختیار رکھنے میں ہللا ہی اکیال ہے اور نظیر سے پاک ہے۔ اسی‬
‫لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک‬
‫ٰالہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح‬
‫اختیار رکھیں ہللا ان سب سے پاک اور بہت دور ہے۔ پھر فرمایا‬
‫سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی ہللا جانتا ہے اور وہ سب‬
‫بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھال اور ظاہر‬
‫باتیں۔ پوشیدہ بات کہو یا اعالن سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات‬
‫میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں۔ الوہیت میں بھی‬
‫وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی‬
‫طرف لے جائے۔ جس سے مخلوق‪ q‬عاجزی کرے ‪ ،‬جو مخلوق‬
‫وماوی ہو‪ ،‬جو عبادت کے الئق ہو۔ خالق مختار رب مالک‬ ‫ٰ‬ ‫کاملجا‬
‫وہی ہے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب الئق تعریف ہے اسکا عدل‬
‫وحکمت اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں‬
‫کرسکتا اس کے ارادوں‪ q‬کو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ غلبہ حکمت‬
‫رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی‬
‫طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس‬
‫پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں۔ نیکوں کو جزا‬
‫بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق‪ q‬میں فیصلے‬
‫فرمائیں گا۔‬

‫ون‬ ‫ك يَ ْعلَ ُم َما تُ ِك ُّن ُ‬


‫ص ُدو ُرهُ ْم َو َما يُ ْعلِنُ َ‬ ‫َو َربُّ َ‬
‫﴿‪﴾028:069‬‬

‫[جالندھری] اور ان کے سینے جو کچھ مخفی کرتے ہیں اور جو‬


‫یہ ظاہر کرتے ہیں تمہارا پروردگار اس کو جانتا ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫َوهُ َو هَّللا ُ اَل إِلَهَ إِاَّل هُ َو ۖ لَهُ ْال َح ْم ُد فِي اأْل ُولَى َواآْل ِخ َر ِة‬
‫ۖ َولَهُ ْال ُح ْك ُم َوإِلَ ْي ِه تُرْ َجع َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:070‬‬

‫[جالندھری] اور وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں دنیا‬


‫اور آخرت میں اسی کی تعریف ہے اور اسی کا حکم اور اسی کی‬
‫طرف تم لوٹائے جاؤ گے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫قُلْ أَ َرأَ ْيتُ ْم إِ ْن َج َع َل هَّللا ُ َعلَ ْي ُك ُم اللَّ ْي َل َسرْ َم ًدا إِلَى يَ ْو ِم‬
‫ضيَا ٍء ۖ أَفَاَل تَ ْس َمع َ‬
‫ُون‬ ‫ْالقِيَا َم ِة َم ْن إِلَهٌ َغ ْي ُر هَّللا ِ يَأْتِي ُك ْم بِ ِ‬
‫﴿‪﴾028:071‬‬

‫[جالندھری] کہو بھال دیکھو تو اگر خدا تم پر ہمیشہ قیامت کے دن‬


‫تک رات (کی تاریکی) کئے رہے تو خدا کے سوا کون معبود ہے‬
‫جو تم کو روشنی الدے؟‪ q‬تو کیا تم سنتے نہیں‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫سنی ان سنی نہ کرو‬


‫ہللا کا احسان دیکھو کہ بغیر تمہاری کوشش اور تدبیر کے دن اور‬
‫رات برابر آگے پیچھے آرہے ہیں اگر رات ہی رات رہے تو تم‬
‫عاجز آجاؤ تمہارے کام رک جائیں تم پر زندگی وبال ہوجائے تم‬
‫تھک جاؤ اکتاجاؤ کسی کو نہ پاؤ جو تمہارے لئے دن نکال سکے‬
‫کہ تم اس کی روشنی میں چلو پھرو‪ ،‬دیکھو بھالو اپنے کام کاج‬
‫کرلو۔‪ q‬افسوس تم سنا کر بھی بےسناکر دیتے ہو۔ اسی طرح اگر وہ‬
‫تم پر دن ہی دن کو روک دے رات آئے ہی نہیں تو بھی تمہاری‬
‫زندگی تلخ ہوجائے۔ بدن کا نظام الٹ پلٹ ہوجائے تھک جاؤ تنگ‬
‫ہوجاؤ کوئی نہیں جسے قدرت ہو کہ وہ رات السکے جس میں تم‬
‫راحت وآرام حاصل کر سکو لیکن تم آنکھیں رکھتے ہوئے ہللا کی‬
‫ان نشانیوں اور مہربانیوں کو دیکھتے ہی نہیں ہو۔ یہ بھی اس کا‬
‫احسان ہے کہ اس نے دن رات دونوں‪ q‬پیدا کردئیے ہیں کہ رات کو‬
‫تمہیں سکون وآرام حاصل ہو اور دن کو تم کام کاج تجارت ذراعت‬
‫سفر شغل کر سکو۔ تمہیں چاہئے کہ تم اس مالک حقیقی اس قادر‬
‫مطلق کا شکر ادا‪ q‬کرو رات کو اس کی عبادتیں کرو رات کے‬
‫قصور کی تالفی دن میں اور دن کے قصور کی تالفی رات میں‬
‫کرلیا کرو۔ یہ مختلف چیزیں قدرت کے نمونے ہیں اور اس لئے ہیں‬
‫کہ تم نصیحت وعبرت سیکھو اور رب کا شکر کرو۔‬

‫قُلْ أَ َرأَ ْيتُ ْم إِ ْن َج َع َل هَّللا ُ َعلَ ْي ُك ُم النَّهَا َر َسرْ َم ًدا إِلَى يَ ْو ِم‬
‫ْالقِيَا َم ِة َم ْن إِلَهٌ َغ ْي ُر هَّللا ِ يَأْتِي ُك ْم بِلَي ٍْل تَ ْس ُكنُ َ‬
‫ون فِي ِه ۖ أَفَاَل‬
‫ُون‬
‫ْصر َ‬ ‫تُب ِ‬
‫﴿‪﴾028:072‬‬

‫[جالندھری] کہو تو بھال دیکھو تو اگر خدا تم پر ہمیشہ روز قیامت‬


‫تک دن کئے رہے تو خدا کے سوا کون معبود ہے کہ تم کو رات‬
‫الدے جس میں تم آرام کرو؟ تو کیا تم دیکھتے نہیں؟‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫َو ِم ْن َرحْ َمتِ ِه َج َع َل لَ ُك ُم اللَّ ْي َل َوالنَّهَا َر لِتَ ْس ُكنُوا فِي ِه‬


‫َولِتَ ْبتَ ُغوا ِم ْن فَضْ لِ ِه َولَ َعلَّ ُك ْم تَ ْش ُكر َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:073‬‬

‫[جالندھری] اور اس نے اپنی رحمت سے تمہارے لئے رات کو‬


‫اور دن کو بنایا تاکہ تم اس میں آرام کرو اور (اس میں) اس کا‬
‫فضل تالش کرو اور تاکہ شکر کرو‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫َويَ ْو َم يُنَا ِدي ِه ْم فَيَقُو ُل أَي َْن ُش َر َكائِ َي الَّ ِذ َ‬
‫ين ُك ْنتُ ْم‬
‫تَ ْز ُع ُم َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:074‬‬

‫[جالندھری] اور جس دن وہ ان کو پکارے گا اور کہے گا کہ‬


‫میرے وہ شریک جن کا تمہیں دعوی تھا کہاں گئے؟‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫افترا بندی چھوڑ دو‬


‫مشرکوں کو دوسری دفعہ ڈانٹ دکھائی جائے گی اور فرمایا جائے‬
‫گا کہ دنیا میں جنہیں میرا شریک ٹھہرا رہے تھے وہ آج کہاں ہیں؟‬
‫ہر امت میں سے ایک گواہ‪ q‬یعنی اس امت کا پیغمبر ممتاز کرلیا‬
‫جائے گا۔ مشرکوں سے کہاجائے گا اپنے شرک کی کوئی دلیل پیش‬
‫کرو۔ اس وقت یہ یقین کرلیں گے کہ فی الواقع عبادتوں کے الئق ہللا‬
‫کے سوا اور کوئی نہیں۔ کوئی جواب نہ دے سکیں گے حیران رہ‬
‫جائیں گے اور تمام افترا بھول جائیں گے۔‬

‫َونَ َز ْعنَا ِم ْن ُك ِّل أُ َّم ٍة َش ِهي ًدا‪ q‬فَقُ ْلنَا هَاتُوا بُرْ هَانَ ُك ْم‬
‫ض َّل َع ْنهُ ْم َما َكانُوا يَ ْفتَر َ‬
‫ُون‬ ‫ق هَّلِل ِ َو َ‬‫فَ َعلِ ُموا أَ َّن ْال َح َّ‬
‫﴿‪﴾028:075‬‬

‫[جالندھری] اور ہم ہر ایک امت میں سے گواہ نکالیں گے پھر‬


‫کہیں گے کہ اپنی دلیل پیش کرو تو وہ جان لیں گے کہ سچ بات خدا‬
‫کی ہے اور جو وہ افترا کیا کرتے تھے ان سے جاتا رہے گا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ان ِم ْن قَ ْو ِم ُمو َسى فَبَ َغى َعلَ ْي ِه ْم ۖ َوآتَ ْينَاهُ‬ ‫ُون َك َ‬ ‫إِ َّن قَار َ‬
‫وز َما إِ َّن َمفَاتِ َحهُ لَتَنُو ُء بِ ْال ُعصْ بَ ِة أُولِي ْالقُ َّو ِة‬ ‫ِ‬ ‫ُ‬ ‫ن‬‫ك‬‫ُ‬ ‫ْ‬
‫ال‬ ‫ِم َن‬
‫إِ ْذ قَا َل لَهُ قَ ْو ُمهُ اَل تَ ْف َرحْ ۖ إِ َّن هَّللا َ اَل ي ُِحبُّ ْالفَ ِر ِح َ‬
‫ين‬
‫﴿‪﴾028:076‬‬
‫موسی کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی‬
‫ٰ‬ ‫[جالندھری] قارون‬
‫کرتا تھا اور ہم نے اسکو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں‬
‫ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی‬
‫قوم نے کہا کہ اترائیے مت کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫قارون‬
‫موسی علیہ السالم کے چچا کالڑکا تھا‬ ‫ٰ‬ ‫مروی ہے کہ قارون حضرت‬
‫موسی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور‬
‫موسی بن عمران بن قاہیث ۔ ابن اسحق کی‬ ‫ٰ‬ ‫السالم کانسب یہ ہے‬
‫موسی علیہ السالم کا چچا تھا ۔ لیکن اکثر‬
‫ٰ‬ ‫تحقیق یہ کہ یہ حضرت‬
‫علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں۔ یہ بہت خوش آواز تھا ‪ ،‬تورات بڑی‬
‫خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ‪ q‬منور کہتے تھے۔‬
‫لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ ہللا کا دشمن بھی‬
‫منافق ہوگیا تھا ۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور‬
‫ہللا کو بھول بیٹھا تھا ۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا‬
‫اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا‬
‫غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ‬
‫اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت‬
‫مقرر تھی۔ اس کے بہت خزانے تھے ۔ ہر خزانے کی کنجی الگ‬
‫تھی جو بالشت بھر کی تھی۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے‬
‫ساتھ خچروں پر الدی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر‬
‫مقرر ہوتے ‪ ،‬وہللا اعلم۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور‬
‫عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے‬
‫ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ‬
‫کر ہللا کا ناشکرا نہ ہو‪ ،‬ورنہ ہللا کی محبت سے دور ہوجاؤ گے ۔‬
‫قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو ہللا کی نعمتیں تیرے پاس ہیں‬
‫انہیں ہللا کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں‬
‫بھی تیرا حصہ ہوجائے۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش‬
‫وعشرت کر ہی نہیں۔ نہیں اچھا کھا‪ ،‬پی‪ ،‬پہن اوڑھ جائز نعمتوں‬
‫سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حالل چیزیں برت لیکن جہاں‬
‫اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو‬
‫نہ بھول وہاں ہللا کے حق بھی فراموش نہ کر۔ تیرے نفس کا بھی‬
‫حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی‬
‫تجھ پر حق ہے۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے۔ ہر‬
‫حق دار کا حق ادا کر اور جیسے ہللا نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو‬
‫اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل‬
‫ڈال ہللا کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا۔ ہللا فسادیوں سے‬
‫محبت نہیں رکھتا۔‬

‫ك‬ ‫س نَ ِ‬
‫صيبَ َ‬ ‫ك هَّللا ُ ال َّدا َر اآْل ِخ َرةَ ۖ َواَل تَ ْن َ‬ ‫َوا ْبتَ ِغ ِفي َما آتَا َ‬
‫ك ۖ َواَل تَب ِْغ‬ ‫ِم َن ال ُّد ْنيَا‪َ ۖ q‬وأَحْ ِس ْن َك َما أَحْ َس َن هَّللا ُ إِلَ ْي َ‬
‫ض ۖ إِ َّن هَّللا َ اَل ي ُِحبُّ ْال ُم ْف ِس ِد َ‬
‫ين‬ ‫ْالفَ َسا َد فِي اأْل َرْ ِ‬ ‫﴿‪﴾028:077‬‬

‫[جالندھری] اور جو (مال) تم کو خدا نے عطا فرمایا ہے اس سے‬


‫آخرت (کی بھالئی) طلب کیجئے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھالئیے‬
‫اور جیسی خدا نے تم سے بھالئی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں‬
‫سے) بھالئی کرو اور ملک میں طالب فساد نہ ہو کیونکہ خدا فساد‬
‫کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫قَا َل إِنَّ َما أُوتِيتُهُ َعلَى ِع ْل ٍم ِع ْن ِدي ۚ أَ َولَ ْم يَ ْعلَ ْم أَ َّن هَّللا َ قَ ْد‬
‫ُون َم ْن هُ َو أَ َش ُّد ِم ْنهُ قُ َّوةً‬ ‫ك ِم ْن قَ ْبلِ ِه ِم َن ْالقُر ِ‬ ‫أَ ْهلَ َ‬
‫ون‬‫َوأَ ْكثَ ُر َج ْم ًعا‪َ ۚ q‬واَل يُسْأ َ ُل َع ْن ُذنُوبِ ِه ُم ْال ُمجْ ِر ُم َ‬
‫﴿‪﴾028:078‬‬
‫[جالندھری] بوال کہ یہ (مال) مجھے میری دانش (کے زور) سے‬
‫مال ہے کیا اس کو معلوم نہیں کہ خدا نے اس سے پہلے بہت سی‬
‫امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں‬
‫ہالک کر ڈالی تھیں؟ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے‬
‫میں پوچھا نہیں جائے گا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫اپنی عقل ودانش‪ q‬پہ مغرور قارون‬


‫قوم کے علماء کی نصیحتوں کو سن کر قارون نے جو جواب دئیے‬
‫اس کا ذکر ہو رہا ہے کہ اس نے کہا آپ اپنی نصیحتوں کو رہنے‬
‫تعالی نے مجھے جو دے رکھا‬ ‫دیجئے میں خوب جانتا ہوں کہ ہللا ٰ‬
‫ہے اسی کا مستحق میں تھا‪ ،‬میں ایک عقلمند زیرک‪ ،‬دانا شخص‬
‫ہوں میں اسی قابل ہوں اور اسے بھی ہللا جانتا ہے اسی لئے اس نے‬
‫مجھے یہ دولت دی ہے۔ بعض انسانوں کا یہ خاصہ ہوتا ہے جیسے‬
‫قرآن میں ہے کہ جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تب بڑی‬
‫عاجزی سے ہمیں پکارتا ہے اور جب انسان کو کوئی نعمت‬
‫وراحت اسے ہم دے دیتے ہیں تو کہہ دیتا ہے کہ آیت (انما اوتیتہ‬
‫علی علم) یعنی ہللا جانتا تھا کہ میں اسی کا مستحق ہوں اس لئے اس‬
‫نے مجھے یہ دیا ہے ۔ اور آیت میں ہے کہ اگر ہم اسے کوئی‬
‫رحمت چھکائیں اس کے بعد جب اسے مصیبت پہنچی ہو تو کہہ‬
‫اٹھتا ہے کہ ھذا لی اس کا حقدار تو میں تھاہی ۔ بعض لوگوں نے‬
‫کہا ہے کہ قارون علم کیمیا جانتا تھا لیکن یہ قول بالکل ضعیف ہے۔‬
‫بلکہ کیمیا کا علم فی الواقع ہے ہی نہیں۔ کیونکہ کسی چیز کے عین‬
‫کو بدل دینا یہ ہللا ہی کی قدرت کی بات ہے جس پر کوئی اور قادر‬
‫نہیں۔ فرمان ٰالہی ہے کہ اگر تمام مخلوق‪ q‬بھی جمع ہوجائے تو ایک‬
‫مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتی۔ صحیح حدیث میں ہے کہ ہللا ٰ‬
‫تعالی کا‬
‫فرمان ہے کہ اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو کوشش کرتا ہے‬
‫کہ میری طرح پیدائش کرے۔ اگر وہ سچا ہے تو ایک ذرہ یا ایک‬
‫جو ہی بنادے۔‪ q‬یہ حدیث ان کے بارے میں ہے جو تصویریں اتارتے‬
‫ہیں اور صرف ظاہر صورت کو نقل کرتے ہیں۔ ان کے لئے تو یہ‬
‫ٰ‬
‫دعوی کرے کہ وہ کیمیا جانتا ہے اور ایک چیز کی‬ ‫فرمایا پھر جو‬
‫کایا پلٹ کرسکتا ہے ایک ذات سے دوسری ذات بنادیتا ہے مثال‬
‫لوہے کو سونا وغیرہ تو صاف ظاہر ہے کہ یہ محض جھوٹ ہے‬
‫اور بالکل محال ہے اور جہالت وضاللت ہے۔ ہاں یہ اور بات ہے‬
‫کہ رنگ وغیرہ بدل کر دھوکے بازی کرے۔ لیکن حقیقتا یہ ناممکن‬
‫ہے۔ یہ کیمیا گر جو محض جھوٹے جاہل فاسق اور مفتری ہیں یہ‬
‫محض دعوے‪ q‬کرکے مخلوق کو دھوکے میں ڈالنے والے‪ q‬ہیں۔ ہاں‬
‫یہ خیال رہے کہ بعض اولیاء کے ہاتھوں جو کرامتیں سرزد ہوجاتی‬
‫ہیں اور کبھی کبھی چیزیں بدل جاتی ہے ان کا ہمیں انکار نہیں۔ وہ‬
‫ہللا کی طرف سے ان پر ایک خاص فضل ہوتا ہے اور وہ بھی ان‬
‫کے بس کا نہیں ہوتا‪ ،‬نہ ان کے قبضے کا ہوتا ہے‪ ،‬نہ کوئی کاری‬
‫گری‪ ،‬صنعت یا علم ہے۔ وہ محض ہللا کے فرمان کا نتیجہ ہے جو‬
‫ہللا اپنے فرمانبردار نیک کار بندوں کے ہاتھوں اپنی مخلوق کو‬
‫دکھا دیتا ہے۔ چنانچہ مروی ہے کہ حضرت حیوہ بن شریح مصری‬
‫سے ایک مرتبہ کسی سائل نے سوال کیا اور آپ کے پاس کچھ نہ‬
‫تھا اور اسکی حاجت مندی اور ضرورت کو دیکھ کر آپ دل میں‬
‫بہت آزردہ ہو رہے تھے۔ آخر آپ نے ایک کنکر زمین سے اٹھایا‬
‫اور کچھ دیر اپنے ہاتھوں میں الٹ پلٹ کرکے فقیر کی جھولی میں‬
‫ڈال دیا تو وہ سونے کا بن گیا۔ معجزے اور کرامات احادیث اور‬
‫آثار میں اور بھی بہت سے مروی ہیں۔ جنہیں یہاں بیان کرنا باعث‬
‫طول ہوگا۔ بعض کا قول ہے کہ قارون اسم اعظم جانتا تھا جسے‬
‫پڑھ کر اس نے اپنی مالداری کی دعا کی تو اس قدر دولت مند‬
‫ہوگیا۔ قارون کے اس جواب کی رد میں ہللا ٰ‬
‫تعالی فرماتا ہے کہ یہ‬
‫غلط ہے کہ میں جس پر مہربان ہوتا ہوں اسے دولت مند کردیتا ہوں‬
‫نہیں اس سے پہلے اس سے زیادہ دولت اور آسودہ‪ q‬حال لوگوں کو‬
‫میں نے تباہ کردیا ہے تو یہ سمجھ لینا کہ مالداری میری محبت کی‬
‫نشانی ہے‪ ،‬محض غلط ہے۔ جو میرا شکر ادانہ کریں کفر پر جما‬
‫رہے اس کا انجام بد ہوتا ہے۔ گناہ گاروں کے کثرت گناہ کی وجہ‬
‫سے پھر ان سے ان کے گناہوں کا سوال بھی عبث ہوتا۔ اس کا خیال‬
‫تھا کہ مجھ میں خیریت ہے اس لئے ہللا کا یہ فضل مجھ پر ہوا ہے۔‬
‫وہ جانتا ہے کہ میں اس مالداری کا اہل ہوں اگر مجھ سے خوش نہ‬
‫ہوتا اور مجھے اچھا آدمی نہ جانتا تو مجھے اپنی یہ نعمت بھی نہ‬
‫دیتا۔‬

‫ون‬ ‫فَ َخ َر َج َعلَى قَ ْو ِم ِه فِي ِزينَتِ ِه ۖ قَا َل الَّ ِذ َ‬


‫ين ي ُِري ُد َ‪q‬‬
‫ْت لَنَا ِم ْث َل َما أُوتِ َي قَار ُ‬
‫ُون إِنَّهُ لَ ُذو‬ ‫ْال َحيَاةَ ال ُّد ْنيَا يَا لَي َ‬
‫ظ َع ِظ ٍيم‬ ‫َح ٍّ‬
‫﴿‪﴾028:079‬‬

‫[جالندھری] تو (ایک روز) قارون (بڑی) آرائش (ٹھاٹھ) سے اپنی‬


‫قوم کے سامنے نکال جو لوگ دنیا کی زندگی کے طالب تھے کہنے‬
‫لگے کہ جیسا (مال و متاع) قارون کو مال ہے کاش (ایسا ہی) ہمیں‬
‫بھی ملے وہ تو بڑا ہی صاحب نصیب ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫سامان تعیش کی فروانی‬


‫قارون ایک دن نہایت قیمتی پوشاک پہن کر زرق برق عمدہ سواری‬
‫پرسوار ہو کر اپنے غالموں کو آگے پیچھے بیش بہا پوشاکیں‬
‫پہنائے ہوئے لے کر بڑے ٹھاٹھ سے اتراتا ہوا اکڑتا ہوا نکال اسکا‬
‫یہ ٹھاٹھ اور یہ زینت وتجمل دیکھ کر دنیا داروں‪ q‬کے منہ میں پانی‬
‫بھر آیا اور کہنے لگے کاش کہ ہمارے پاس بھی اس جتنا مال ہوتا۔‬
‫یہ تو بڑا خوش نصیب ہے اور بڑی قسمت واال ہے۔ علماء کرام نے‬
‫ان کی یہ بات سن کر انہیں اس خیال سے روکنا چاہا اور انہیں‬
‫سمجھانے لگے کہ دیکھو ہللا نے جو کچھ اپنے مومن اور نیک‬
‫بندوں‪ q‬کے لئے اپنے ہاں تیار کر رکھا ہے وہ اس سے کروڑہا‬
‫درجہ بارونق دیرپا اور عمدہ ہے۔ تمہیں ان درجات کو حاصل‬
‫کرنے کے لئے اس دو روزہ زندگی کو صبر وبرداشت سے گزارنا‬
‫چاہئے جنت صابروں کا حصہ ہے یہ مطلب بھی ہے کہ ایسے پاک‬
‫کلمے صبر کرنے والوں‪ q‬کی زبان ہی سے نکلتے ہیں جو دنیا کی‬
‫محبت سے دور اور دارآخرت کی محبت میں چور ہوتے ہیں اس‬
‫صورت میں ممکن ہے کہ یہ کالم ان واعظوں کا نہ ہو بلکہ ان کے‬
‫کام کی اور ان کی تعریف میں یہ جملہ ہللا کی طرف سے خبر ہو۔‬

‫ين أُوتُوا ْال ِع ْل َم َو ْيلَ ُك ْم ثَ َوابُ هَّللا ِ َخ ْي ٌر لِ َم ْن‬


‫َوقَا َل الَّ ِذ َ‬
‫صالِحًا َواَل يُلَقَّاهَا إِاَّل الصَّابِر َ‬
‫ُون‬ ‫آ َم َن َو َع ِم َل َ‬
‫﴿‪﴾028:080‬‬

‫[جالندھری] اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے کہ تم‬
‫پر افسوس مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے (جو) ثواب خدا (کے‬
‫ہاں تیار ہے وہ) کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں کو‬
‫ہی ملے گا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ان لَهُ ِم ْن فِئَ ٍة‬ ‫ض فَ َما َك َ‬‫ار ِه اأْل َرْ َ‬


‫فَ َخ َس ْفنَا بِ ِه َوبِ َد ِ‬
‫ين‬
‫ص ِر َ‬ ‫ان ِم َن ْال ُم ْنتَ ِ‬‫ون هَّللا ِ َو َما َك َ‬
‫صرُونَهُ ِم ْن ُد ِ‬ ‫يَ ْن ُ‬
‫﴿‪﴾028:081‬‬

‫[جالندھری] پس ہم نے قارون کو اور اس کے گھر کو زمین میں‬


‫دھنسا دیا تو خدا کے سوا کوئی جماعت اس کی مددگار نہ ہو سکی‬
‫اور نہ وہ بدال لے سکا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ایک بالشت کا آدمی؟‬


‫اوپر قارون کی سرکشی بے ایمانی کا ذکر ہوچکا یہاں اس کے‬
‫انجام کا بیان ہو رہا ہے۔ ایک حدیث میں ہے حضور صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم نے فرمایا ایک شخص اپنا تہبند لٹکائے فخر سے جارہا تھا کہ‬
‫ہللا نے زمین کو حکم دیا کہ اسے نگل جا۔ کتاب العجائب میں نوفل‬
‫بن ماحق کہتے ہیں کہ نجران کی مسجد میں میں نے ایک نوجوان‬
‫کو دیکھا بڑا لمبا چوڑا بھرپور جوانی کے نشہ میں چور گٹھے‬
‫ہوئے بدن واال بانکا ترچھا اچھے رنگ ورغن‪ ،‬واال خوبصورت ‪،‬‬
‫شکیل۔ میں نگاہیں جماکر اس کے جمال وکمال کو دیکھنے لگا تو‬
‫اس نے کہا کیا دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا آپ کے حسن وجمال‬
‫کامشاہدہ کر رہا ہوں اور تعجب معلوم ہو رہا ہے ۔ اس نے جواب‬
‫تعالی کو بھی تعجب ہے۔ نوفل کہتے ہیں‬ ‫دیا کہ تو ہی کیا خود ہللا ٰ‬
‫کہ اس کلمہ کے کہتے ہی وہ گھٹنے لگا اور اس کا رنگ روپ‬
‫اڑنے لگا اور قدپست ہونے لگا یہاں تک کہ بےقدر ایک بالشت کے‬
‫رہ گیا۔ آخرکار اس کا کوئی قریبی رشتہ دار اپنی آستین میں ڈال‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫کرلے گیا۔ یہ بھی مذکور ہے کہ قارون کی ہالکت حضرت‬
‫کی بدعا سے ہوئی تھی اور اس کے سبب میں بہت کچھ اختالف‬
‫ہے ۔ ایک سبب تو یہ بیان کیا جاتا ہے کہ قارون ملعون نے ایک‬
‫فاحشہ عورت کو بہت کچھ مال ومتاع دے کر اس بات پر آمادہ کیا‬
‫موسی کلیم ہللا بنی اسرائیل میں‬
‫ٰ‬ ‫کہ عین اس وقت جب حضرت‬
‫کھڑے خطبہ کہہ رہے ہوں وہ آئے اور آپ سے کہے کہ تو وہی‬
‫ہے نا جس نے میرے ساتھ ایسا ایسا کیا۔ اس عورت نے یہی کیا‬
‫موسی علیہ السالم کانپ اٹھے اور اسی وقت نماز کی نیت‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت‬
‫باندھ لی اور دو رکعت ادا کرکے اس عورت کی طرف متوجہ‬
‫ہوئے اور فرمانے لگے تجھے اس ہللا کی قسم جس نے سمندر میں‬
‫سے راستہ دیا اور تیری قوم کو فرعون کے مظالم سے نجات دی‬
‫اور بھی بہت سے احسانات کئے تو جو سچا واقعہ ہے اسے بیان‬
‫کر۔ یہ سن کر اس عورت کا رنگ بدل گیا اور اس نے صحیح‬
‫واقعہ سب کے سامنے بیان کر دیا اور ہللا سے استغفار کیا اور‬
‫موسی پھر سجدہ میں گر گئے‬ ‫ٰ‬ ‫سچے دل سے توبہ کرلی۔ حضرت‬
‫اور قارون کی سزا چاہی ۔ ہللا کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ‬
‫میں نے زمین کو تیرے تابع کردیا ہے۔ آپ نے سجدے سے سر‬
‫اٹھایا اور زمین سے کہا کہ تو اسے اور اس کے محل کو نگل لے۔‪q‬‬
‫زمین نے یہی کیا دوسرا سبب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ جب قارون‬
‫کی سواری اس طمطراق سے نکلی سفید قیمتی خچر پر بیش بہا‬
‫پوشاک پہنے سوار تھا ‪ ،‬اس کے غالم بھی سب کے سب ریشمی‬
‫موسی علیہ السالم خطبہ پڑھ رہے‬ ‫ٰ‬ ‫لباسوں میں تھے۔ ادھر حضرت‬
‫تھے بنو اسرائیل کا مجمع تھا۔ یہ جب وہاں سے نکال تو سب کی‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫نگاہیں اس پر اور اس کی دھوم دھام پر لگ گئیں۔ حضرت‬
‫علیہ السالم نے اسے دیکھ کر پوچھا آج اس طرح کیسے نکلے؟‬
‫اس نے کہا بات یہ ہے کہ ایک بات ہللا نے تمہیں دے رکھی ہے‬
‫اور ایک فضلیت مجھے دے رکھی ہے اگر تمہارے پاس نبوت ہے‬
‫تو میرے پاس یہ جاہ وحشم ہے اور اگر آپ کو میری فضیلت پر‬
‫شک ہو تو میں تیار ہوں کہ آپ اور میں چلیں اور ہللا سے دعا‬
‫کریں۔ دیکھ لیجئے کہ ہللا کس کی دعا قبول فرماتا ہے آپ اس بات‬
‫موسی علیہ السالم‬‫ٰ‬ ‫پر آمادہ ہوگئے اور اسکو لے کر چلے۔ حضرت‬
‫نے فرمایا کہ پہلے تو دعا کرتا ہے یا میں کروں؟ اس نے کہا نہیں‬
‫میں کرونگا اب اس نے دعا مانگنی شروع کردی اور ختم ہوگئی‬
‫موسی نے کہا اب دعا میں کرتا‬‫ٰ‬ ‫لیکن دعا قبول نہ ہوئی ۔ حضرت‬
‫تعالی سے دعا کی کہ یا ہللا‬ ‫ہوں اس نے کہا ہاں کیجئے ۔ آپ نے ہللا ٰ‬
‫زمین کو حکم دے کہ جو میں کہوں مان لے ہللا نے آپ کی دعا‬
‫قبول فرمائی اور وحی آئی کہ میں نے زمین کو تیری اطاعت کا‬
‫موسی علیہ السالم نے یہ سن کر زمین‬ ‫ٰ‬ ‫حکم دے دیا ہے۔ حضرت‬
‫سے فرمایا اے زمین! اسے اور اس کے لوگوں کو پکڑ لے وہیں یہ‬
‫لوگ اپنے قدموں تک زمین میں دھنس گئے ۔ آپ نے فرمایا اور‬
‫پکڑے لے ۔ یہ اپنے گھٹنوں تک دھنس گئے ۔ آپ نے فرمایا اور‬
‫پکڑ یہ مونڈھوں تک زمین میں دھنس گئے۔ پھر فرمایا ان کے‬
‫خزانے اور مال بھی یہیں لے آ۔ اسی وقت ان کے کل خزانے اور‬
‫مال وہاں آگئے اور انہوں نے اپنی آنکھوں سے ان سب کو دیکھ لیا‬
‫پھر آپ نے اپنے ہاتھ سے اشارہ کیا کہ ان کو ان کے خزانوں‬
‫سمیت اپنے اندر کرلے اسی وقت یہ سب غارت ہوگئے اور زمین‬
‫جیسی تھی ویسی ہوگئی۔ مروی ہے کہ ساتوں زمین تک یہ لوگ‬
‫بقدر انسان دھنستے جا رہے ہیں قیامت تک اسی عذاب میں رہیں‬
‫گے۔ یہاں پر بنی اسرائیل کی اور بہت سی روایتیں ہیں لیکن ہم نے‬
‫ان کا ذکر یہاں چھوڑ دیا ہے ۔ نہ تو مال ان کے کام آیا نہ جاہ و‬
‫حشم نہ دولت وتمکنت نہ کوئی ان کی مدد کے لئے اٹھا نہ یہ خود‬
‫اپنا کوئی بچاؤ کرسکے۔ تباہ ہوگئے بےنشان ہوگئے مٹ گئے اور‬
‫مٹادئیے گئے (اعاذنا ہللا) اس وقت تو ان لوگوں کی بھی آنکھیں‬
‫کھل گئی جو قارون کی دولت کو للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے‬
‫تھے۔ اور اسے نصیب دار سمجھ کر لمبے سانس لیا کرتے تھے‬
‫اور رشک کیا کرتے تھے کہ کاش ہم ایسے دولت مند ہوتے۔ وہ‬
‫کہنے لگے اب دیکھ لیا کہ واقعی سچ ہے دولت مند ہونا کچھ ہللا کی‬
‫رضامندی کا سبب نہیں۔ یہ ہللا کی حکمت ہے جسے چاہے زیادہ‬
‫دے جسے چاہے کم دے۔ جس پر چاہے وسعت کرے جس پر چاہے‬
‫تنگ کرے۔ اس کی حکمتیں وہی جانتا ہے ایک حدیث میں بھی ہے‬
‫تعالی نے تم میں اخالق کی بھی اسی طرح تقسیم کی ہے‬ ‫کہ ہللا ٰ‬
‫جس طرح روزی کی ۔ مال تو ہللا کی طرف سے اس کے دوستوں‬
‫کو بھی ملتا ہے اور اس کے دشمنوں کو بھی ۔ البتہ ایمان ہللا کی‬
‫طرف سے اسی کو ملتا ہے جسے ہللا چاہتا ہو۔ قارون کے اس‬
‫دھنسائے جانے کو دیکھ کر وہ جو اس جیسا بننے کی امیدیں‬
‫کررہے تھے کہنے لگے اگر ہللا کا لطف واحسان ہم پر نہ ہوتا تو‬
‫ہماری اس تمناکے بدلے جو ہمارے دل میں تھی کہ کاش ہم بھی‬
‫ایسے ہی ہوتے۔ آج ہللا ٰ‬
‫تعالی ہمیں بھی اس کے ساتھ دھنسادیتا۔ وہ‬
‫کافر تھا اور کافر ہللا کے ہاں فالح کے الئق نہیں ہوتے۔ نہ انہیں‬
‫دنیا میں کامیابی ملے نہ آخرت میں ہی وہ چھٹکارا پائیں۔ نحوی‬
‫کہتے ہیں ویکان کے معنی ویلک اعلم ان ہیں لیکن مخفف کرکے‬
‫ویک رہ گیا اور ان کے فتح نے اعلم کے محذوف ہونے پر داللت‬
‫کردی۔ لیکن اس قول کو امام ابن جریر نے ضعیف بتایا ہے۔ مگر‬
‫میں کہتا ہوں یہ ضعیف کہنا ٹھیک نہیں۔ قرآن کریم میں اس کی‬
‫کتابت کا ایک ساتھ ہونا اس کے ضعیف ہونے کی وجہ نہیں بن‬
‫سکتا ۔ اس لئے کہ کتابت کا طریقہ تو اختراعی امر ہے جو رواج پا‬
‫گیا وہی معتبر سمجھا جاتا ہے ۔ اس سے معنی پر کوئی اثر نہیں‬
‫ہوتا۔ وہللا اعلم ۔ دوسرے معنی اس کے الم تر ان کے لئے گئے ہیں‬
‫اور یہ بھی کہاگیا ہے کہ اس طرح یہ دو لفظ ہیں وی اور کان ۔‬
‫حرف وی تعجب کے لیے ہیں اور یا تنبیہہ کے لئے اور کان معنی‬
‫میں اظن کے ہے ۔ ان تمام اقوال میں قوی قول یہ ہے کہ یہ معنی‬
‫میں الم تر کے ہے یعنی کیا نہ دیکھا تونے جیسے کہ حضرت قتادہ‬
‫کا قول ہے اور یہی معنی عربی شعر میں بھی مراد لئے گئے ہیں۔‬

‫ون َو ْي َكأ َ َّن‬ ‫س يَقُولُ َ‬ ‫ين تَ َمنَّ ْوا َم َكانَهُ‪ q‬بِاأْل َ ْم ِ‬


‫َوأَصْ بَ َح الَّ ِذ َ‬
‫ق لِ َم ْن يَ َشا ُء ِم ْن ِعبَا ِد ِ‪q‬ه َويَ ْق ِد ُر ۖ لَ ْواَل‬ ‫هَّللا َ يَ ْب ُسطُ الرِّ ْز َ‬
‫ف بِنَا ۖ َو ْي َكأَنَّهُ‪ q‬اَل يُ ْفلِ ُح‬
‫أَ ْن َم َّن هَّللا ُ َعلَ ْينَا لَ َخ َس َ‬
‫ْال َكافِر َ‬
‫ُون‬
‫﴿‪﴾028:082‬‬

‫[جالندھری] اور وہ لوگ‪ q‬جو کل اس کے رتبے کی تمنا کرتے‬


‫تھے صبح کو کہنے لگے ہائے شامت خدا ہی تو اپنے بندوں میں‬
‫سے جس کے لئے چاہتا ہے رزق فراخ کردیتا ہے اور (جس کے‬
‫لئے چاہتا ہے) تنگ کر دیتا ہے اگر خدا ہم پر احسان نہ کرتا تو‬
‫ہمیں بھی دھنسا دیتا ہائے خرابی کافر نجات نہیں پاسکتے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ون ُعلُ ًّوا فِي‬


‫ين اَل ي ُِري ُد َ‪q‬‬ ‫ِخ َرةُ نَجْ َعلُهَا‪ q‬لِلَّ ِذ َ‬ ‫تِ ْل َ‬
‫ك ال َّدا ُر اآْل‬
‫فَ َسا ًدا ۚ َو ْال َعاقِبَةُ لِ ْل ُمتَّقِ َ‬
‫ين‬ ‫اأْل َرْ ِ‬
‫ض َواَل‬
‫﴿‪﴾028:083‬‬
‫[جالندھری] وہ (جو) آخرت کا گھر (ہے) ہم نے اسے ان لوگوں‬
‫کے لئے (تیار) کر رکھا ہے جو ملک میں ظلم اور فساد کا ارادہ‪q‬‬
‫نہیں کرتے اور انجام (نیک) تو پرہیز گاروں ہی کا ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫جنت اور آخرت‬


‫فرماتا ہے کہ جنت اور آخرت کی نعمت صرف انہی کو ملے گی‬
‫جن کے دل خوف ٰالہی سے بھرے ہوئے ہوں اور دنیا کی زندگی‬
‫تواضع فروتنی عاجزی اور اخالق کے ساتھ گزاردیں۔ کسی پر‬
‫اپنے آپ کو اونچا اور بڑا نہ سمجھیں ادھر ادھر فساد نہ پھیالئیں‬
‫سرکشی اور برائی نہ کریں۔ کسی کا مال ناحق نہ ماریں ہللا کی‬
‫زمین پر ہللا کی نافرمانیاں نہ کریں۔ حضرت علی رضی ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫عنہ سے منقول ہے کہ جسے یہ بات اچھی لگے کہ اس کی جوتی‬
‫کا تسمہ اپنے ساتھی کی جوتی کے تسمے سے اچھا ہو تو وہ بھی‬
‫اسی آیت میں داخل ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ جب وہ فخر غرور‬
‫کرے ۔ اگر صرف بطور زیبائش کے چاہتا ہے تو اس میں کوئی‬
‫حرج نہیں۔ جیسے صحیح حدیث سے ثابت ہے کہ ایک شخص نے‬
‫کہا یارسول ہللا !میری تو یہ چاہت ہے کہ میری چادر بھی اچھی ہو‬
‫میری جوتی بھی اچھی ہو تو کیا یہ بھی تکبر ہے؟ آپ نے فرمایا‬
‫تعالی جمیل ہے اور جمال کو‬ ‫نہیں نہیں یہ تو خوبصورتی ہے ہللا ٰ‬
‫پسند کرتا ہے ۔ پھر فرمایا جو ہمارے پاس نیکی الئے گا وہ بہت‬
‫سی نیکیوں کا ثواب پائے گا۔ یہ مقام فضل ہے اور برائی کا بدلہ‬
‫صرف اسی کے مطابق سزا ہے۔ یہ مقام عدل ہے اور آیت میں ہے‬
‫(من جاء بالسیئتہ فکبت وجوھھم فی النار الخ)‪ ،‬جو برائی لے کر‬
‫آئے گا وہ اندھے منہ آگ میں جائے گا۔ تمہیں وہی بدلہ دیا جائے گا‬
‫جو تم کرتے رہے۔‬
‫َم ْن َجا َء بِ ْال َح َسنَ ِة فَلَهُ َخ ْي ٌر ِم ْنهَا ۖ َو َم ْن َجا َء بِال َّسيِّئَ ِة‬
‫ت إِاَّل َما َكانُوا‬‫ين َع ِملُوا ال َّسيِّئَا ِ‬ ‫فَاَل يُجْ َزى الَّ ِذ َ‬
‫يَ ْع َملُ َ‬
‫ون‬
‫﴿‪﴾028:084‬‬

‫[جالندھری] جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے‬


‫بہتر (صلہ موجود) ہے اور جو برائی الئے گا تو جن لوگوں‪ q‬نے‬
‫برے کام کئے ان کو بدال بھی اسی طرح کا ملے گا جس طرح کے‬
‫وہ کام کرتے تھے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ك إِلَى َم َعا ٍ‪q‬د ۚ قُلْ‬ ‫ك ْالقُرْ َ‬


‫آن لَ َرا ُّد َ‬ ‫إِ َّن الَّ ِذي فَ َر َ‬
‫ض َعلَ ْي َ‬
‫ضاَل ٍل‬ ‫َربِّي أَ ْعلَ ُم َم ْن َجا َء بِ ْالهُ َدى َو َم ْن هُ َو فِي َ‬
‫ين‬
‫ُمبِ ٍ‬ ‫﴿‪﴾028:085‬‬

‫[جالندھری] (اے پیغمبر) جس (خدا) نے تم پر قرآن (کے احکام)‬


‫کو فرض کیا ہے وہ تمہیں باز گشت کی جگہ لوٹا دے گا کہہ دو کہ‬
‫میرا پروردگار اس شخص کو بھی خوب جانتا ہے جو ہدایت لے کر‬
‫آیا اور (اسکو بھی) جو صریح گمراہی میں ہے‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫جوکروگے سو بھروگے‬
‫تعالی اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے‬ ‫ہللا ٰ‬
‫رہیں لوگوں‪ q‬کو کالم ہللا سناتے رہیں ہللا ٰ‬
‫تعالی آپ کو قیامت کی‬
‫طرف واپس لے جانے واال ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرستش‬
‫ہوگی ۔ جیسے فرمان ہے۔ آیت (فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن‬
‫المرسلین) یعنی امتوں سے اور رسولوں‪ q‬سے سب سے ہم دریافت‬
‫فرمائیں گے۔ اور آیت میں ہے رسولوں کو جمع کرکے ہللا ٰ‬
‫تعالی‬
‫پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیاگیا؟ اور آیت میں ہے نبیوں کو‬
‫اور گواہوں کو الیا جائے گا۔ معاد سے مراد جنت بھی ہوسکتی ہے‬
‫موت بھی ہوسکتی ہے ۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہوسکتی ہے کہ‬
‫دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں۔ صحیح بخاری میں ہے اس‬
‫سے مراد مکہ ہے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ‬
‫ہے جو آپ کی جائے پیدائش تھی۔ ضحاک فرماتے ہیں جب حضور‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم مکہ سے نکلے ابھی جحفہ ہی میں تھے جو آپ‬
‫کے دل میں مکے کاشوق پیدا ہوا پس یہ آیت اتری اور آپ سے‬
‫وعدہ ہوا کہ آپ واپس مکے پہنچائے جائیں گے۔ اس سے یہ بھی‬
‫نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حاالنکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی‬
‫کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والے‪q‬‬
‫کی غرض اس سے بھی قیامت ہے۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی‬
‫محشر زمین ہے۔ ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ ابن‬
‫عباس نے کبھی تو آپ کے مکے کی طرف لوٹنے سے اس کی‬
‫تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی ۔ اور یہ حضور صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کی عمر کے پورا ہونے کی ایک زبردست عالمت‬
‫تھی جیسے کہ آپ نے سورۃ اذاجاء کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ جس‬
‫کی حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے بھی موافقت کی تھی۔ اور‬
‫فرمایا تھا کہ تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے‬
‫کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ مروی ہے وہاں‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی‬
‫قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی‬
‫جنت سے تفسیر کی جو آپ کا ٹھکانا ہے اور آپ کی تبلیغ رسالت‬
‫کا بدل ہے کہ آپ نے جن وانس کو ہللا کے دین کی دعوت دی اور‬
‫آپ تمام مخلوق سے زیادہ کالم زیادہ فصیح اور زیادیہ افضل تھے۔‬
‫پھر فرمایا کہ اپنے مخالفین سے اور جھٹالنے والوں سے کہہ دو‬
‫کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو ہللا خوب جانتا‬
‫ہے۔ تم دیکھ لوگے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے؟ اور دنیا اور‬
‫آخرت میں بہتری اور بھالئی کس کے حصے میں آتی ہے؟ پھر‬
‫اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ وحی اترنے سے‬
‫پہلے کبھی آپ کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ پر کتاب نازل‬
‫ہوگی۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس‬
‫نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب نازل فرمائی۔ اب تمہیں ہرگز‬
‫کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہئے۔ ان‬
‫سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیے اور ان سے مخالفت کا اعالن کر‬
‫دینا چاہیے۔ پھر فرمایا کہ ہللا کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ‬
‫کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں‬
‫اور لوگوں‪ q‬کو تیری تابعداری سے روکتے ہیں۔ تو اس سے اثر پذیر‬
‫نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا ہللا تیرے کلمے کو بلند کرنے واال‬
‫ہے تیرے دین کی تائید کرنے واال ہے تیری رسالت کو غالب‬
‫کرنے واال ہے۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے واال ہے۔‬
‫تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بالتا رہ جو اکیال اور‬
‫الشریک ہے تجھے نہیں چاہیے کہ مشرکوں کا ساتھ دے۔ ہللا کے‬
‫ساتھ کسی اور کو نہ پکار ۔ عبادت کے الئق وہی ہے الوہیت کے‬
‫قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی وقیوم‬
‫ہے تمام مخلوق مرجائے گی اور وہ موت سے دور ہے ۔ جیسے‬
‫فرمایا آیت (کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجالل واالکرام)‬
‫جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے ۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ‬
‫جائے گا جو جاللت وکرامت واالہے۔ وجہ سے مراد ذات ہے۔‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سچا کلمہ‬
‫لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے شعر(اال کل شئی ماخال ہللا‬
‫باطل) یاد رکھو کہ ہللا کے سوا سب کچھ باطل ہے ۔ مجاہد وثور‬
‫سے مروی ہے کہ ہرچیز باطل ہے مگر وہ کام جو ہللا کی رضا‬
‫جوئی کے لئے کئے جائیں ان کا ثواب رہ جاتا ہے ۔ شاعروں کے‬
‫شعروں میں بھی وجہ کالفظ اس مطلب کے لئے استعمال کیا گیا ہے‬
‫مالحظہ ہو۔‬
‫شعر(استغفر ہللا ذنبا لست محصیہ‬
‫رب العباد الیہ الوجہ والعمل)‬
‫میں ہللا سے جو تمام بندوں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور‬
‫قصد ہے اور جس کے لئے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی‬
‫بخشش چاہتا ہوں جنہیں میں شمار بھی نہیں کرسکتا۔ یہ قول پہلے‬
‫قول کے خالف نہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے‬
‫تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق‬
‫تعالی کی رضاجوئی کے لئے کی ہوں۔ اور پہلے‬ ‫ہے جو محض ہللا ٰ‬
‫قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل‬
‫وتعالی کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال‬
‫ٰ‬ ‫ہیں صرف ہللا تبارک‬
‫سے باالتر ہے۔ وہی اول وآخر ہے ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر‬
‫چیز کے بعد رہے گا۔ مروی ہے کہ جب حضرت ابن عباس رضی‬
‫تعالی عنہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں‬ ‫ہللا ٰ‬
‫کسی کھنڈر کے دروازے‪ q‬پر کھڑے ہوجاتے اور دردناک آواز سے‬
‫کہتے کہ اس کے بانی کہاں ہے؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے ۔‬
‫حکم وملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک ومتصرف وہی‬
‫ہے۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا۔ روز جزا سب‬
‫اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں‬
‫کا بدلہ دے گا۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا ۔ الحمد ہللا‬
‫سورۃ قصص کی تفسیر ختم ہوئی۔‬

‫ك ْال ِكتَابُ إِاَّل َرحْ َمةً ِم ْن‬


‫ت تَرْ جُو أَ ْن ي ُْلقَى إِلَ ْي َ‬
‫َو َما ُك ْن َ‬
‫ين‬‫ظ ِهيرًا لِ ْل َكافِ ِر َ‬
‫ك ۖ فَاَل تَ ُكونَ َّن َ‬
‫َربِّ َ‬
‫﴿‪﴾028:086‬‬

‫[جالندھری] اور تمہیں امید نہ تھی کہ تم پر یہ کتاب نازل کی‬


‫جائے گی مگر تمہارے پروردگار کی مہربانی سے (نازل ہوئی) تو‬
‫تم ہرگز کافروں کے مددگار نہ ہونا‬
‫تفسیر ابن كثیر‬
‫ك ۖ َوا ْد ُ‬
‫ع‬ ‫ت هَّللا ِ بَ ْع َ‪q‬د إِ ْذ أُ ْن ِزلَ ْ‬
‫ت إِلَ ْي َ‬ ‫ص ُّدنَّ َ‪q‬‬
‫ك َع ْن آيَا ِ‬ ‫َواَل يَ ُ‬
‫ك ۖ َواَل تَ ُكونَ َّن ِم َن ْال ُم ْش ِر ِك َ‬
‫ين‬ ‫إِلَى َربِّ َ‬
‫﴿‪﴾028:087‬‬

‫[جالندھری] اور وہ تمہیں خدا کی آیتوں (کی تبلیغ) سے بعد اس‬


‫کے کہ وہ تم پر نازل ہو چکی ہیں روک نہ دیں اور اپنے پروردگار‬
‫کو پکارتے رہو اور مشرکوں میں ہرگز نہ ہو جائیو‬
‫تفسیر ابن كثیر‬

‫ع َم َع هَّللا ِ إِلَهًا آ َخ َر ۘ اَل إِلَهَ إِاَّل هُ َو ۚ ُكلُّ َش ْي ٍء‬


‫َواَل تَ ْد ُ‬
‫ك إِاَّل َوجْ هَهُ ۚ لَهُ ْال ُح ْك ُم َوإِلَ ْي ِه تُرْ َجع َ‬
‫ُون‬ ‫هَالِ ٌ‬
‫﴿‪﴾028:088‬‬

‫[جالندھری] اور خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ‬
‫پکارنا اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کی ذات (پاک) کے سوا‬
‫ہرچیز فنا ہونے والی ہے اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم کو‬
‫لوٹ کر جانا ہے‬

You might also like