Professional Documents
Culture Documents
028 - Surah Al-Qasas
028 - Surah Al-Qasas
com
سورة القَ َ
صص
بِس ِْم هَّللا ِ الرَّحْ َم ِن الر ِ
َّح ِيم
طسم
﴿﴾028:001
[جالندھری] طسم
تفسیر ابن كثیر
ض َو َج َع َل أَ ْهلَهَا ِشيَعًا ِ رَْ إِ َّن فِرْ َع ْو َن َعاَل فِي اأْل
ف طَائِفَةً ِم ْنهُ ْم يُ َذبِّ ُح أَ ْبنَا َءهُ ْم َويَ ْستَحْ يِي يَ ْستَضْ ِع ُ
ان ِم َن ْال ُم ْف ِس ِد َ
ين نِ َسا َءهُ ْم ۚ إِنَّهُ َك َ
﴿﴾028:004
[جالندھری] اور ملک میں انکو قدرت دیں اور فرعون اور ہامان
اور ان کے لشکر کو وہ چیز دکھا دیں جس سے وہ ڈرتے تھے
تفسیر ابن كثیر
موسی کی ماں کی طرف وحی بھیجی کہ ٰ [جالندھری] اور ہم نے
اس کو دودھ پالؤ جب تم کو اس کے بارے میں کچھ خوف پیدا ہو
تو اسے دریا میں ڈال دینا اور نہ تو خوف کرنا اور نہ رنج کرنا ہم
اس کو تمہارے پاس واپس پہنچا دیں گے اور (پھر) اسے پیغمبر بنا
دیں گے
تفسیر ابن كثیر
ُ
َوأَصْ بَ َح فُ َؤا ُد أ ِّم ُمو َسى فَ ِ
ار ًغا ۖ إِ ْن َكا َد ْ
ت لَتُ ْب ِدي بِ ِه
ون ِم َن ْال ُم ْؤ ِمنِ َq
ين لَ ْواَل أَ ْن َربَ ْ
طنَا َعلَى قَ ْلبِهَا لِتَ ُك َ
﴿﴾028:010
ت بِ ِه َع ْن ُجنُ ٍ
ب َوهُ ْم اَل ت أِل ُ ْختِ ِه قُصِّي ِه ۖ فَبَ ُ
ص َر ْ َوقَالَ ْ
يَ ْش ُعر َ
ُون
﴿﴾028:011
فَ َر َد ْدنَاهُ إِلَى أُ ِّم ِه َك ْي تَقَ َّر َع ْينُهَاَ qواَل تَحْ َز َن َولِتَ ْعلَ َم أَ َّن
ق َولَ ِك َّن أَ ْكثَ َرهُ ْم اَل يَ ْعلَ ُم َ
ون َو ْع َد هَّللا ِ َح ٌّ
﴿﴾028:013
َولَ َّما بَلَ َغ أَ ُش َّدهُ َوا ْستَ َوى آتَ ْينَاهُُ qح ْك ًما َو ِع ْل ًما ۚ َو َك َذلِ َ
ك
نَجْ ِزي ْال ُمحْ ِسنِ َ
ين
﴿﴾028:014
گھونسے سے موت
موسی کے لڑکپن کا ذکر کیا اب ان کی جوانی کا واقعہ
ٰ حضرت
بیان ہو رہا ہے کہ ہللا نے انہیں حکمت وعلم عطافرمایا ۔ یعنی نبوت
دی۔ نیک لوگ ایسا ہی بدلہ پاتے ہیں ،پھر اس واقعہ کا ذکر ہو رہا
ہے جو حضرت موسی علیہ السالم کے مصر چھوڑنے کا باعث بنا
اور جس کے بعد ہللا کی رحمت نے ان کارخ کیا یہ مصر چھوڑ کر
مدین کی طرف چل دئیے۔ آپ ایک مرتبہ شہر میں آتے ہیں یا تو
مغرب کے بعد یا ظہر کے وقت کہ لوگ qکھانے پینے میں یا سونے
میں مشغول ہیں راستوں پر آمد ورفت نہیں تھی تو دیکھتے ہیں کہ
دو شخص لڑ جھگڑرہے ہیں۔ ایک اسرائیلی ہے دوسرا قبطی ہے۔
موسی سے قبطی کی شکایت کی اور اس کا ٰ اسرائیلی نے حضرت
زور ظلم بیان کیا جس پر آپ کو غصہ آگیا اور ایک گھونسہ اسے
موسی گھبراگئے اور
ٰ کھینچ مارا جس سے وہ اسی وقت مرگیا۔
کہنے لگے یہ تو شیطانی کام ہے اور شیطان دشمن اور گمراہ ہے
اور اس کا دوسروں کو گمراہ کرنے واال ہونا بھی ظاہر ہے ۔ پھر
تعالی سے معافی طلب کرنے لگے اور استغفار کرنے لگے۔ ہللا ہللا ٰ
نے بھی بخشش دیا وہ بخشنے واال مہربان ہی ہے۔ اب کہنے لگے
اے ہللا تونے جو جاہ وعزت بزرگی اور نعمت مجھے عطافرمائی
ہے میں اسے سامنے رکھ کر وعدہ qکرتا ہوں کہ آئندہ کبھی کسی
نافرمان کی کسی امر میں موافقت اور امداد نہیں کرونگا۔
[جالندھری] اور وہ ایسے وقت شہر میں داخل ہوئے کہ وہاں کے
باشندے بےخبر ہو رہے تھے تو دیکھا کہ وہاں دو شخص لڑ رہے
موسی کی قوم کا ہے اور دوسرا qان کے دشمنوں میں
ٰ ہیں ایک تو
سے تو جو شخص انکی قوم میں سے تھا اس نے دوسرے شخص
موسی سے
ٰ موسی کے دشمنوں میں سے تھا
ٰ کے مقابلے میں جو
مدد طلب کی تو انہوں نے اسکو مکا مارا اور اس کا کام تمام کر دیا
کہنے لگے کہ یہ کام تو (اغوائے) شیطان سے ہوا بیشک وہ (انسان
کا) دشمن اور صریح بہکانے واال ہے
تفسیر ابن كثیر
ي فَلَ ْن أَ ُك َ
ون ظَ ِهيرًا قَا َل َربِّ بِ َما أَ ْن َع ْم َ
ت َعلَ َّ
لِ ْل ُمجْ ِر ِم َ
ين
﴿﴾028:017
فَأَصْ بَ َح فِي ْال َم ِدينَ ِqة َخائِفًا يَتَ َرقَّبُ فَإِ َذا الَّ ِذي
س يَ ْستَصْ ِر ُخهُ ۚ قَا َل لَهُ ُمو َسى إِنَّ َ
ك ص َرهُ بِاأْل َ ْم ِا ْستَ ْن َ
لَ َغ ِويٌّ ُمبِ ٌ
ين
﴿﴾028:018
[جالندھری] الغرض صبح کے وقت شہر میں ڈرتے ڈرتے داخل
ہوئے کہ دیکھیں (کیا ہوتا ہے) تو ناگہاں وہی شخص جس نے کل
موسی نے اس سے
ٰ ان سے مدد مانگی تھی پھر ان کو پکار رہا ہے
کہا کہ تو تو صریح گمراہ ہے
تفسیر ابن كثیر
ش بِالَّ ِذي هُ َو َع ُد ٌّو لَهُ َما قَا َل يَا فَلَ َّما أَ ْن أَ َرا َد أَ ْن يَب ِْط َ
س ۖ إِ ْنت نَ ْفسًا بِاأْل َ ْم ِ ُمو َسى أَتُ ِري ُد أَ ْن تَ ْقتُلَنِي َك َما قَتَ ْل َ
ض َو َما تُ ِري ُد أَ ْن
ون َجبَّارًا فِي اأْل َرْ ِتُ ِري ُد إِاَّل أَ ْن تَ ُك َ
ون ِم َن ْال ُمصْ لِ ِح َ
ين تَ ُك َ
﴿﴾028:019
صى ْال َم ِدينَ ِة يَ ْس َعى قَا َل يَا ُمو َسى َو َجا َء َر ُج ٌل ِم ْن أَ ْق َ
ك فَ ْ
اخ ُرجْ إِنِّي لَ َ
ك ِم َن ك لِيَ ْقتُلُو َ إِ َّن ْال َمأَل َ يَأْتَ ِمر َ
ُون بِ َ
ين
اص ِح َ النَّ ِ
﴿﴾028:020
گمنام ہمدر
اس آنے والے qکو رجل کہاگیا۔ عربی میں رجل کہتے ہیں قدموں
موسی کے تعاقب میں
ٰ کو۔ اس نے جب دیکھا کہ سپاہ حضرت
جارہی ہے تو یہ اپنے پاؤں پر تیزی سے دوڑا اور ایک قریب کے
راستے سے نکل کر جھٹ سے آپ کو اطالع دے دی کہ یہاں کے
امیر امراء آپ کے قتل کے ارادے کرچکے ہیں آپ شہر چھوڑ
دیجئے۔ میں آپ کا بہی خواہ ہوں میری مان لیجئے۔
فَ َخ َر َج ِم ْنهَا َخائِفًا يَتَ َرقَّبُ ۖ قَا َل َربِّ نَجِّ نِي ِم َن ْالقَ ْو ِم
الظَّالِ ِم َ
ين
﴿﴾028:021
ت إِ َّن أَبِي فَ َجا َء ْتهُ إِحْ َداهُ َما qتَ ْم ِشي َعلَى ا ْستِحْ يَا ٍء قَالَ ْ
ْت لَنَا ۚ فَلَ َّما َجا َءهُ َوقَصَّ ك أَجْ َر َما َسقَي َ ك لِيَجْ ِزيَ َيَ ْد ُعو َ
ت ِم َن ْالقَ ْو ِم ف ۖ نَ َج ْو َ ص قَا َل اَل تَ َخ ْ ص َ َعلَ ْي ِه ْالقَ َ
الظَّالِ ِم َ
ين
﴿﴾028:025
ت ا ْستَأْ ِجرْ هُ ۖ إِ َّن َخ ْي َر َم ِنت إِحْ َداهُ َما يَا أَبَ ِقَالَ ْ
ا ْستَأْ َجرْ َ
ت ْالقَ ِويُّ اأْل َ ِم ُ
ين
﴿﴾028:026
ي هَاتَي ِْqن َعلَى أَ ْن ك إِحْ َدى ا ْبنَتَ َّ قَا َل إِنِّي أُ ِري ُد أَ ْن أُ ْن ِك َح َ
كت َع ْشرًا فَ ِم ْن ِع ْن ِد َ ج ۖ فَإِ ْن أَ ْت َم ْم َ جَ ح
ِ ي
َ ِ نامَ َ ث يِ نرَ ج
ُ تَأْ
ٍ
ك ۚ َستَ ِج ُدنِي إِ ْن َشا َء هَّللا ُ ِم َن ق َعلَ ْي َ ۖ َو َما أُ ِري ُد أَ ْن أَ ُش َّ
ين
الصَّالِ ِح َ
﴿﴾028:027
س ِم ْن ضى ُمو َسى اأْل َ َج َل َو َسا َر بِأ َ ْهلِ ِه آنَ َ فَلَ َّما قَ َ
ور نَارًا قَا َل أِل َ ْهلِ ِه ا ْم ُكثُوا إِنِّي آنَس ُ
ْت نَارًا ِ ُّ
الط ب
َجانِ ِ
ار لَ َعلَّ ُك ْم
ِ َّ نال نَ م
ِ ة
ٍ و
َ ْ
ذ ج
َ وْ َ لَ َعلِّي آتِي ُك ْم ِم ْنهَا qبِ َخبَ ٍر أ
تَصْ طَلُ َ
ون
﴿﴾028:029
[جالندھری] اپنا ہاتھ اپنے گریبان میں ڈالو qتو بغیر کسی عیب کے
سفید نکل آئے گا اور خوف دور ہونے (کی وجہ) سے اپنے بازو
کو اپنی طرف سکیڑ لو یہ دو دلیلیں qتمہارے پروردگار کی طرف
سے ہیں (ان کے ساتھ) فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس
(جاؤ) کہ وہ نافرمان لوگ qہیں
تفسیر ابن كثیر
اف أَ ْن يَ ْقتُلُ ِ
ون ت ِم ْنهُ ْم نَ ْفسًا فَأ َ َخ ُ
قَا َل َربِّ إِنِّي قَتَ ْل ُ
﴿﴾028:033
یاد ماضی
موسی فرعون سے خوف کھاکر اس کے ٰ یہ گزر چکاکہ حضرت
شہر سے بھاگ نکلے تھے۔ جب ہللا ٰ
تعالی نے وہیں اسی کے پاس
نبی بن کر جانے کو فرمایا تو آپ کو وہ سب یاد آگیا اور عرض
کرنے لگے اے ہللا ان کے ایک آدمی کی جان میرے ہاتھ سے نکل
گئی تھی تو ایسانہ ہو کہ وہ بدلے کا نام رکھ کر میرے قتل کے
موسی نے بچپن کے زمانے میں جب کہ ٰ درپے ہوجائیں۔ حضرت
آپ کے سامنے بطور تجربہ کے ایک آگ اور ایک کھجور یا یک
موتی رکھا تھا تو آپ نے انگارہ پکڑلیا تھا اور منہ میں ڈال لیا تھا
اس واسطے آپ کی زبان میں کچھ کسر رہ گئی تھی اور اسی لیے
آپ نے اپنی زبان کی بابت ہللا سے دعا مانگی تھی کہ میری زبان
کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے
بھائی ہارون کو میرا وزیر بنادے اس سے میرا بازو مضبوط کر
اور اسے میرے کام میں شریک کر تاکہ نبوت ورسالت کا فریضہ
ادا ہو اور تیرے بندوں qکو تیری کبریائی کی دعوت دے سکیں۔ یہاں
بھی آپ کی دعا منقول ہے کہ آپ نے فرمایا میرے بھائی ہارون کو
میرے ساتھ ہی اپنا رسول بناکر بھیجیں وہ میرا معین و وزیر
ہوجائے۔ وہ میری باتوں کو باور کرے تاکہ میرا بازو مضبوط رہے
دل بڑھا ہوا رہے۔ اور یہ بھی بات ہے کہ دو آوازیں بہ نسبت ایک
آواز کے زیادہ مضبوط اور با اثر ہوتی ہیں۔ میں اکیال رہا تو ڈر ہے
کہ کہیں وہ مجھے جھٹال نہ دیں اور ہارون ساتھ ہوا تو میری باتیں
بھی لوگوں کو سمجھا دیا کرے گا۔ جناب باری ارحم الراحمین نے
جواب دیا کہ تیری مانگ منظور ہے ہم تیرے بھائی کو تجھ کو
سہارادیں گے اور اسے بھی تیرے ساتھ نبی بنادیں گے۔ جیسے اور
موسی تیرا سوال qپورا
ٰ یاموسی )
ٰ آیت میں ہے (قد اوتیت سولک
کردیا گیا۔ اور آیت میں ہے ہم نے اپنی رحمت سے اسے اس کے
بھائی ہارون کو نبی بنادیا ۔ اسی لئے بعض اسالف کا فرمان ہے کہ
کسی بھائی نے اپنے بھائی پر وہ احسان نہیں کیا جو حضرت
موسی علیہ السالم نے حضرت ہارون پر کیا کہ ہللا سے دعا کرکے ٰ
موسی علیہ السالم کی بڑی بزرگی کی دلیل ہے ٰ انہیں نبی بنوادیا۔ qیہ
تعالی نے ان کی ایسی دعا بھی رد نہ کی۔ واقعی آپ ہللا کے کہ ہللا ٰ
نزدیک بڑے ہی مرتبہ والے تھے۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم تم دونوںq
کو زبردست دلیلیں اور کام حجتیں دیں گے فرعونی تمہیں کوئی
ایذاء نہیں دے سکتے۔ کیونکہ تم میرا پیغام میرے بندوں کے نام
پہنچانے والے ہو۔ ایسوں کو میں خود دشمنوں سے سنبھالتا ہوں ۔
ان کامددگار اور مؤید میں خود بن جاتا ہوں ۔ انجام کار تم اور
تمہارے ماننے والے ہی غالب آئیں گے۔ جیسے فرمان ہے ہللا لکھ
تعالی قوتچکا ہے میں اور میرے رسول ہی غالب آئیں گے ۔ ہللا ٰ
واال عزت واال ہے۔ اور آیت میں ہے (ان لننصر رسلنا الخ) ،ہم اپنے
رسولوں اور ایمان والوں qکی دنیا کی زندگی میں بھی مدد کرتے
ہیں ۔ ابن جریر کے نزدیک آیت کا ترجمہ یہ ہے کہ ہمارے دئیے
ہوئے غلبہ کی وجہ سے فرعونی تمہیں تکلیف نہ پہنچاسکیں گے
اور ہماری دی ہوئی نشانیوں کی وجہ سے غلبہ صرف تمہیں ہی
حاصل ہوگا۔ لیکن پہلے جو مطلب بیان ہوا ہے اس سے بھی یہی
ثابت ہے تو اس کی کوئی حاجت ہی نہیں۔ وہللا اعلم۔
ت قَالُوا َما هَ َذا إِاَّل فَلَ َّما َجا َءهُ ْم ُمو َسى بِآيَاتِنَا qبَيِّنَا ٍ
ينِسحْ ٌر ُم ْفتَرًى َو َما َس ِم ْعنَا qبِهَ َذا فِي آبَائِنَا اأْل َ َّولِ َ
﴿﴾028:036
موسی ان کے پاس ہماری کھلی نشانیاں لے ٰ [جالندھری] اور جب
کر آئے تو وہ کہنے لگے کہ یہ تو جادو ہے جو اس نے بنا کھڑا
کیا ہے اور یہ (باتیں) ہم نے اپنے اگلے qباپ دادا qمیں تو (کبھی)
سنیں نہیں
تفسیر ابن كثیر
فَأ َ َخ ْذنَاهُ َو ُجنُو َدهُ qفَنَبَ ْذنَاهُ ْم فِي ْاليَ ِّم ۖ فَا ْنظُرْ َكي َ
ْف َك َ
ان
َعاقِبَةُ الظَّالِ ِم َq
ين
﴿﴾028:040
َوأَ ْتبَ ْعنَاهُ ْم فِي هَ ِذ ِه ال ُّد ْنيَا qلَ ْعنَةً ۖ َويَ ْو َم ْالقِيَا َم ِة هُ ْم ِم َن
ين
ُوح َْال َم ْقب ِ
﴿﴾028:042
دلیل نبوت
وتعالی اپنے نبی آخرالزمان صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت
ٰ ہللا تبارک
کی دلیل دیتا ہے کہ ایک وہ شخص جو امی ہو جس نے ایک حرف
بھی نہ پڑھا ہو جو اگلی کتابوں سے محض نا آشنا ہو جس کی قوم
علمی مشاغل سے اور گذشتہ تاریخ سے بالکل بےخبر ہو وہ
تفصیل اور وضاحت کے ساتھ کام فصاحت وبالغت کے ساتھ بالکل
سچے ٹھیک اور صحیح گذشتہ واقعات کو اس طرح بیان کرے
جیسے کہ اس کے اپنے چشم دید ہو اور جیسے کہ وہ ان کے
ہونیکے وقت وہیں موجود ہو کیا یہ اس امر کی دلیل نہیں کہ وہ ہللا
تعالی خود اپنی وحی کے کی طرف سے تلقین کیا جاتا ہے اور ہللا ٰ
ذریعہ سے انہیں وہ تمام باتیں بتاتا ہے۔ حضرت مریم صدیقہ کا
واقعہ بیان فرماتے ہوئے بھی قرآن نے اس چیز کو پیش کیا ہے
اور فرمایا ہے آیت (وماکنت لدیھم اذیلقون اقالمھم الخ) ،جب کہ وہ
حضرت مریم کے پالنے کے لیے قلمیں ڈال کر فیصلے کررہے
تھے اس وقت تو ان کے پاس موجود نہ تھا اور نہ تو اس وقت تھا
جب کہ وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے پس باوجود عدم موجودگی
اور بےخبری کے آپ کی نبوت کی کھری دلیل ہے اور صاف
نشانی ہے اس امر پر کہ وحی ٰالہی سے یہ کہہ رہے ہیں۔ اسی
طرح نوح نبی کا واقعہ بیان فرما کر فرمایا ہے آیت (تلک من انباء
الغیب الخ) ،یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تم
تک پہنچا رہے ہیں تو اور تیری ساری قوم اس وحی سے پہلے ان
واقعات سے محض بےخبر تھی۔ اب صبر کے ساتھ دیکھتا رہ اور
یقین مان کہ ہللا سے ڈرتے رہنے والے qہی نیک انجام ہوتے ہیں۔
سورۃ یوسف کے آخر میں بھی ارشاد ہوا ہے کہ یہ غیب کی خبریں
ہیں جنہیں ہم بذریعہ وحی کے تیرے پاس بھیج رہے ہیں تو ان کے
پاس اس وقت موجود نہ تھا جب کہ برادران یوسف نے اپنا مصمم
ارادہ کرلیا تھا اور اپنی تدبیروں میں لگ گئے تھے۔ سورۃ طہ میں
عام طور پر فرمایا آیت (کذالک نقص علیک من انباء ما قدسبق)
اسی طرح ہم تیرے سامنے پہلے کی خبریں بیان فرماتے ہیں۔ پس
موسی علیہ السالم کی پیدائش ان کی نبوت کی ابتداء
ٰ یہاں بھی
وغیرہ اول سے آخر تک بیان فرما کر فرمایا کہ تم اے محمد صلی
ہللا علیہ وسلم مغربی پہاڑ کی جانب جہاں کے مشرقی درخت میں
سے جو وادی کے کنارے تھے ہللا نے اپنے کلیم سے باتیں کیں
موجود نہ تھے بلکہ ہللا سبحانہ وتعالی نے اپنی وحی کے ذریعے
آپ کو یہ سب معلومات کرائیں ۔ تاکہ یہ آپ کی نبوت کی ایک دلیل
ہوجائے ان زمانوں پر جو مدتوں سے چلے آرہے ہیں اور ہللا کی
باتوں کو وہ بھول بھال چکے ہیں۔ اگلے نبیوں کی وحی ان کے
ہاتھوں سے گم ہوچکی ہے اور نہ تو مدین میں رہتا تھا کہ وہاں
کے نبی حضرت شعیب علیہ السالم کی حالت بیان کرتا جو ان میں
اور ان کے قوم میں واقع ہوئے تھے۔ بلکہ ہم نے بذریعہ وحی یہ
خبریں تمہیں پہنچائیں اور تمام جہان کی طرف تجھے اپنا رسول بنا
کر بھیجا۔ اور نہ تو طور کے پاس تھا جب کہ ہم نے آواز دی۔
نسائی شریف میں حضرت ابوہریرہ فرماتے ہیں کہ یہ آواز دی گئی
کہ اے امت محمد صلی ہللا علیہ وسلم تم اس سے پہلے مجھ سے
مانگو میں نے تمہیں دے دیا اور اس سے پہلے تم مجھ سے دعا
کرو میں قبول کرچکا ۔ مقاتل کہتے ہیں کہ ہم نے تیری امت کو جو
ابھی باپ دادوں qکی پیٹھ میں تھی آواز دی کہ جب تو نبی بناکر
بھیجا جائے تو وہ تیری اتباع کریں ۔ قتادہ فرماتے ہیں مطلب یہ ہے
موسی علیہ السالم کو آواز دی یہی زیادہ مشابہ
ٰ کہ ہم نے حضرت
اور مطابق ہے کیونکہ اوپر بھی یہی ذکر ہے۔ اوپر عام طور بیان
تھا یہاں خاص طور سے ذکر کیا جیسے اور آیت میں ہے (واذا
موسی ) کو آواز دی اور آیت میں ہے کہ وادی مقدس ٰ نادی ربک
میں ہللا نے اپنے کلیم کو پکارا۔ اور آیت میں ہے کہ طور ایمن کی
طرف سے ہم نے اسے پکارا اور سرگوشیاں کرتے ہوئے اسے اپنا
قرب عطا فرمایا ۔ پھر فرماتا ہے کہ ان میں سے ایک واقعہ بھی نہ
تیری حاضری کا ہے نہ تیرا چشم دید ہے بلکہ یہ ہللا کی وحی ہے
جو وہ اپنی رحمت سے تجھ پر فرما رہے ہیں اور یہ بھی اس کی
رحمت ہے کہ اس نے تجھے اپنے بندوں کی طرف نبی بناکر بھیجا
۔ کہ تو ان لوگوں qکو آگاہ اور ہوشیار کردے جن کے پاس تجھ سے
پہلے کوئی نبی نہیں آیا تاکہ نصیحت حاصل کریں اور ہدایت پائیں۔
اور اس لیے بھی کہ ان کی دلیل باقی نہ رہ جائے اور کوئی عذر
ان کے ہاتھ میں نہ رہے اور یہ اپنے کفر کی وجہ سے عذابوں کو
آتا دیکھ کر یہ نہ کہہ سکیں کہ ان کے پاس کوئی رسول آیا ہی نہ
تھا جو انہیں راہ راست کی تعلیم دیتا اور جیسے کہ اپنی مبارک
کتاب قرآن کریم کے نزول کو بیان فرما کر فرمایا کہ یہ اس لئے
ہے کہ تم یہ نہ کہہ سکو کہ کتاب تو ہم سے پہلے کی دونوںq
جماعت پر اترتی تھی لیکن ہم تو اس کی درس وتدریس سے بالکل
غافل تھے اگر ہم پر کتاب نازل ہوتی تو یقینا ہم ان سے زیادہ راہ
راست پر آجاتے۔ اب بتاؤ کہ خود تمہارے پاس بھی تمہارے رب
کی دلیل اور ہدایت ورحمت آچکی۔ اور آیت میں ہے رسول ہیں
خوشخبریاں دینے والے qڈرانے والے qتاکہ ان رسولوں qکے بعد کسی
کی کوئی حجت ہللا پر باقی نہ رہ جائے۔ اور آیت میں فرمایا (یااھل
الکتاب قدجاءکم رسولنا علی فترہ من الرسل الخ) ،اے اہل کتاب اس
زمانہ میں جو رسولوں کی عدم موجودگی کا چال آرہا تھا ہمارا
رسول تمہارے پاس آچکا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہمارے پاس
کوئی بشیر ونذیر نہیں پہنچا لو خوشخبری دینے واال اور ڈرانے
واال تمہارے پاس ہللا کی طرف سے آپہنچا۔ اور آیتیں بھی اس
مضمون کی بہت ہیں غرض رسول آچکے اور تمہارا یہ عذر کٹ
گیا کہ اگر رسول آتے تو ہم اس کی مانتے اور مومن ہوجاتے۔
ث فِي أُ ِّمهَا
ك ْالقُ َرى َحتَّى يَ ْب َع َ ك ُم ْهلِ َ َو َما َك َ
ان َربُّ َ
َر ُسواًل يَ ْتلُو َعلَ ْي ِه ْم آيَاتِنَا ۚ َو َما ُكنَّا ُم ْهلِ ِكي ْالقُ َرى إِاَّل
َوأَ ْهلُهَا ظَالِ ُم َ
ون
﴿﴾028:059
أَفَ َم ْن َو َع ْدنَاهَُ qو ْع ًدا َح َسنًا فَهُ َو اَل قِي ِه َك َم ْن َمتَّ ْعنَاهُ
ين َمتَا َع ْال َحيَا ِة ال ُّد ْنيَا ثُ َّم هُ َو يَ ْو َم ْالقِيَا َم ِة ِم َن ْال ُمحْ َ
ض ِر َ
﴿﴾028:061
َويَ ْو َم يُنَا ِدي ِه ْم فَيَقُو ُل َما َذا أَ َج ْبتُ ُم ْال ُمرْ َسلِ َ
ين
﴿﴾028:065
صالِحًا فَ َع َسى أَ ْن يَ ُك َ
ون فَأ َ َّما َم ْن تَ َ
اب َوآ َم َن َو َع ِم َل َ
ِم َن ْال ُم ْفلِ ِح َ
ين
﴿﴾028:067
ٖ صفات ٰالہی
ساری مخلوق کا خالق تمام اختیارات واال ہللا ہی ہے ۔ نہ اس میں
کوئی اس سے جھگڑنے واال نہ اس کا شریک وساتھی۔ جو چاہے
پیدا کرے جسے چاہے اپنا خاص بندہ بنالے۔ جو چاہتا ہے ہوتا ہے
جو نہیں چاہتا ہو نہیں سکتا۔ تمام امور سب خیرو شر اسی کے ہاتھ
ہے۔ سب کی باز گشت اسی کی جانب ہے کسی کو کوئی اختیار
نہیں۔ یہی لفظ اسی معنی میں آیت (ماکان لھم الخیرۃ من امرھم) میں
ہے دنوں جگہ ما نافیہ ہے۔ گو ابن جریر نے یہ کہا کہ ما معنی میں
الذی کے ہے یعنی ہللا پسند کرتا ہے اسے جس میں بھالئی ہو اور
اس معنی کو لے کر معتزلیوں نے مراعات صالحین پر استدالل کیا
ہے لیکن صحیح بات یہی ہے کہ یہاں مانفی کے معنی میں ہے
جیسے کہ حضرت ابن عباس وغیرہ سے مروی ہے۔ یہ آیت اسی
بیان میں ہے کہ مخلوق کی پیدائش میں تقدیر کے مقرر کرنے میں
اختیار رکھنے میں ہللا ہی اکیال ہے اور نظیر سے پاک ہے۔ اسی
لیے آیت کے خاتمہ پر فرمایا کہ جب بتوں وغیرہ کو وہ شریک
ٰالہی ٹھہرا رہے ہیں جو نہ کسی چیز کو بناسکیں نہ کسی طرح
اختیار رکھیں ہللا ان سب سے پاک اور بہت دور ہے۔ پھر فرمایا
سینوں اور دلوں میں چھپی ہوئی باتیں بھی ہللا جانتا ہے اور وہ سب
بھی اس پر اسی طرح ظاہر ہیں جس طرح کھلم کھال اور ظاہر
باتیں۔ پوشیدہ بات کہو یا اعالن سے کہو وہ سب کا عالم ہے رات
میں اور دن میں جو ہو رہا ہے اس پر پوشیدہ نہیں۔ الوہیت میں بھی
وہ یکتا ہے مخلوق میں کوئی ایسا نہیں جو اپنی حاجتیں اس کی
طرف لے جائے۔ جس سے مخلوق qعاجزی کرے ،جو مخلوق
وماوی ہو ،جو عبادت کے الئق ہو۔ خالق مختار رب مالک ٰ کاملجا
وہی ہے۔ وہ جو کچھ کر رہا ہے سب الئق تعریف ہے اسکا عدل
وحکمت اسی کے ساتھ ہے۔ اس کے احکام کو کوئی رد نہیں
کرسکتا اس کے ارادوں qکو کوئی ٹال نہیں سکتا۔ غلبہ حکمت
رحمت اسی کی ذات پاک میں ہے۔ تم سب قیامت کے دن اسی کی
طرف لوٹائے جاؤ گے وہ سب کو ان کے اعمال کا بدلہ دے گا۔ اس
پر تمہارے کاموں میں سے کوئی کام چھپا ہوا نہیں۔ نیکوں کو جزا
بدوں کو سزا وہ اس روز دے گا اور اپنی مخلوق qمیں فیصلے
فرمائیں گا۔
قُلْ أَ َرأَ ْيتُ ْم إِ ْن َج َع َل هَّللا ُ َعلَ ْي ُك ُم اللَّ ْي َل َسرْ َم ًدا إِلَى يَ ْو ِم
ضيَا ٍء ۖ أَفَاَل تَ ْس َمع َ
ُون ْالقِيَا َم ِة َم ْن إِلَهٌ َغ ْي ُر هَّللا ِ يَأْتِي ُك ْم بِ ِ
﴿﴾028:071
قُلْ أَ َرأَ ْيتُ ْم إِ ْن َج َع َل هَّللا ُ َعلَ ْي ُك ُم النَّهَا َر َسرْ َم ًدا إِلَى يَ ْو ِم
ْالقِيَا َم ِة َم ْن إِلَهٌ َغ ْي ُر هَّللا ِ يَأْتِي ُك ْم بِلَي ٍْل تَ ْس ُكنُ َ
ون فِي ِه ۖ أَفَاَل
ُون
ْصر َ تُب ِ
﴿﴾028:072
َونَ َز ْعنَا ِم ْن ُك ِّل أُ َّم ٍة َش ِهي ًدا qفَقُ ْلنَا هَاتُوا بُرْ هَانَ ُك ْم
ض َّل َع ْنهُ ْم َما َكانُوا يَ ْفتَر َ
ُون ق هَّلِل ِ َو َفَ َعلِ ُموا أَ َّن ْال َح َّ
﴿﴾028:075
ان ِم ْن قَ ْو ِم ُمو َسى فَبَ َغى َعلَ ْي ِه ْم ۖ َوآتَ ْينَاهُ ُون َك َ إِ َّن قَار َ
وز َما إِ َّن َمفَاتِ َحهُ لَتَنُو ُء بِ ْال ُعصْ بَ ِة أُولِي ْالقُ َّو ِة ِ ُ نكُ ْ
ال ِم َن
إِ ْذ قَا َل لَهُ قَ ْو ُمهُ اَل تَ ْف َرحْ ۖ إِ َّن هَّللا َ اَل ي ُِحبُّ ْالفَ ِر ِح َ
ين
﴿﴾028:076
موسی کی قوم میں سے تھا اور ان پر تعدی
ٰ [جالندھری] قارون
کرتا تھا اور ہم نے اسکو اتنے خزانے دئیے تھے کہ ان کی کنجیاں
ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں جب اس سے اس کی
قوم نے کہا کہ اترائیے مت کہ خدا اترانے والوں کو پسند نہیں کرتا
تفسیر ابن كثیر
قارون
موسی علیہ السالم کے چچا کالڑکا تھا ٰ مروی ہے کہ قارون حضرت
موسی علیہ
ٰ ۔ اس کانسب یہ ہے قارون بن یصہر بن قاہیث اور
موسی بن عمران بن قاہیث ۔ ابن اسحق کی ٰ السالم کانسب یہ ہے
موسی علیہ السالم کا چچا تھا ۔ لیکن اکثر
ٰ تحقیق یہ کہ یہ حضرت
علماء چچاکا لڑکا بتاتے ہیں۔ یہ بہت خوش آواز تھا ،تورات بڑی
خوش الحانی سے پڑھتا تھا اس لئے اسے لوگ qمنور کہتے تھے۔
لیکن جس طرح سامری نے منافق پنا کیا تھا یہ ہللا کا دشمن بھی
منافق ہوگیا تھا ۔ چونکہ بہت مال دار تھا اس لئے بھول گیا تھا اور
ہللا کو بھول بیٹھا تھا ۔ قوم میں عام طور پر جس لباس کا دستور تھا
اس نے اس سے بالشت بھر نیچا لباس بنوایا تھا جس سے اس کا
غرور اور اس کی دولت ظاہر ہو۔ اس کے پاس اس قدر مال تھا کہ
اس خزانے کی کنجیاں اٹھانے پر قوی مردوں کی ایک جماعت
مقرر تھی۔ اس کے بہت خزانے تھے ۔ ہر خزانے کی کنجی الگ
تھی جو بالشت بھر کی تھی۔ جب یہ کنجیاں اس کی سواری کے
ساتھ خچروں پر الدی جاتیں تو اس کے لئے ساٹھ پنج کلیاں خچر
مقرر ہوتے ،وہللا اعلم۔ قوم کے بزرگ اور نیک لوگوں اور
عالموں نے جب اس کے سرکشی اور تکبر کو حد سے بڑھتے
ہوتے دیکھا تو اسے نصیحت کی کہ اتنا اکڑ نہیں اس قدر غرور نہ
کر ہللا کا ناشکرا نہ ہو ،ورنہ ہللا کی محبت سے دور ہوجاؤ گے ۔
قوم کے واعظوں نے کہا کہ یہ جو ہللا کی نعمتیں تیرے پاس ہیں
انہیں ہللا کی رضامندی کے کاموں میں خرچ کر تاکہ آخرت میں
بھی تیرا حصہ ہوجائے۔ یہ ہم نہیں کہتے کہ دنیا میں کچھ عیش
وعشرت کر ہی نہیں۔ نہیں اچھا کھا ،پی ،پہن اوڑھ جائز نعمتوں
سے فائدہ اٹھا نکاح سے راحت اٹھا حالل چیزیں برت لیکن جہاں
اپنا خیال رکھ وہاں مسکینوں کا بھی خیال رکھ جہاں اپنے نفس کو
نہ بھول وہاں ہللا کے حق بھی فراموش نہ کر۔ تیرے نفس کا بھی
حق ہے تیرے مہمان کا بھی تجھ پر حق ہے تیرے بال بچوں کا بھی
تجھ پر حق ہے۔ مسکین غریب کا بھی تیرے مال میں ساجھا ہے۔ ہر
حق دار کا حق ادا کر اور جیسے ہللا نے تیرے ساتھ سلوک کیا تو
اوروں کے ساتھ سلوک واحسان کر اپنے اس مفسدانہ رویہ کو بدل
ڈال ہللا کی مخلوق کی ایذ رسانی سے باز آجا۔ ہللا فسادیوں سے
محبت نہیں رکھتا۔
ك س نَ ِ
صيبَ َ ك هَّللا ُ ال َّدا َر اآْل ِخ َرةَ ۖ َواَل تَ ْن َ َوا ْبتَ ِغ ِفي َما آتَا َ
ك ۖ َواَل تَب ِْغ ِم َن ال ُّد ْنيَاَ ۖ qوأَحْ ِس ْن َك َما أَحْ َس َن هَّللا ُ إِلَ ْي َ
ض ۖ إِ َّن هَّللا َ اَل ي ُِحبُّ ْال ُم ْف ِس ِد َ
ين ْالفَ َسا َد فِي اأْل َرْ ِ ﴿﴾028:077
قَا َل إِنَّ َما أُوتِيتُهُ َعلَى ِع ْل ٍم ِع ْن ِدي ۚ أَ َولَ ْم يَ ْعلَ ْم أَ َّن هَّللا َ قَ ْد
ُون َم ْن هُ َو أَ َش ُّد ِم ْنهُ قُ َّوةً ك ِم ْن قَ ْبلِ ِه ِم َن ْالقُر ِ أَ ْهلَ َ
ونَوأَ ْكثَ ُر َج ْم ًعاَ ۚ qواَل يُسْأ َ ُل َع ْن ُذنُوبِ ِه ُم ْال ُمجْ ِر ُم َ
﴿﴾028:078
[جالندھری] بوال کہ یہ (مال) مجھے میری دانش (کے زور) سے
مال ہے کیا اس کو معلوم نہیں کہ خدا نے اس سے پہلے بہت سی
امتیں جو اس سے قوت میں بڑھ کر اور جمعیت میں بیشتر تھیں
ہالک کر ڈالی تھیں؟ اور گنہگاروں سے ان کے گناہوں کے بارے
میں پوچھا نہیں جائے گا
تفسیر ابن كثیر
[جالندھری] اور جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے کہ تم
پر افسوس مومنوں اور نیکوکاروں کے لئے (جو) ثواب خدا (کے
ہاں تیار ہے وہ) کہیں بہتر ہے اور وہ صرف صبر کرنے والوں کو
ہی ملے گا
تفسیر ابن كثیر
جوکروگے سو بھروگے
تعالی اپنے نبی کو حکم فرماتا ہے کہ رسالت کی تبلیغ کرتے ہللا ٰ
رہیں لوگوں qکو کالم ہللا سناتے رہیں ہللا ٰ
تعالی آپ کو قیامت کی
طرف واپس لے جانے واال ہے اور وہاں نبوت کی بابت پرستش
ہوگی ۔ جیسے فرمان ہے۔ آیت (فلنسئلن الذین ارسل الیھم ولنسئلن
المرسلین) یعنی امتوں سے اور رسولوں qسے سب سے ہم دریافت
فرمائیں گے۔ اور آیت میں ہے رسولوں کو جمع کرکے ہللا ٰ
تعالی
پوچھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیاگیا؟ اور آیت میں ہے نبیوں کو
اور گواہوں کو الیا جائے گا۔ معاد سے مراد جنت بھی ہوسکتی ہے
موت بھی ہوسکتی ہے ۔ دوبارہ کی زندگی بھی ہوسکتی ہے کہ
دوبارہ پیدا ہوں اور داخل جنت ہوں۔ صحیح بخاری میں ہے اس
سے مراد مکہ ہے۔ مجاہد سے مروی ہے کہ اس سے مراد مکہ
ہے جو آپ کی جائے پیدائش تھی۔ ضحاک فرماتے ہیں جب حضور
صلی ہللا علیہ وسلم مکہ سے نکلے ابھی جحفہ ہی میں تھے جو آپ
کے دل میں مکے کاشوق پیدا ہوا پس یہ آیت اتری اور آپ سے
وعدہ ہوا کہ آپ واپس مکے پہنچائے جائیں گے۔ اس سے یہ بھی
نکلتا ہے کہ یہ آیت مدنی ہو حاالنکہ پوری سورت مکی ہے یہ بھی
کہا گیا ہے کہ مراد اس سے بیت المقدس ہے شاید اس کہنے والےq
کی غرض اس سے بھی قیامت ہے۔ اس لیے کہ بیت المقدس ہی
محشر زمین ہے۔ ان تمام اقوال میں جمع کی صورت یہ ہے کہ ابن
عباس نے کبھی تو آپ کے مکے کی طرف لوٹنے سے اس کی
تفسیر کی ہے جو فتح مکہ سے پوری ہوئی ۔ اور یہ حضور صلی
ہللا علیہ وسلم کی عمر کے پورا ہونے کی ایک زبردست عالمت
تھی جیسے کہ آپ نے سورۃ اذاجاء کی تفسیر میں فرمایا ہے۔ جس
کی حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے بھی موافقت کی تھی۔ اور
فرمایا تھا کہ تو جو جانتا ہے وہی میں بھی جانتا ہوں ۔ یہی وجہ ہے
کہ انہی سے اس آیت کی تفسیر میں جہاں مکہ مروی ہے وہاں
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا انتقال بھی مروی ہے اور کبھی
قیامت سے تفسیر کی کیونکہ موت کے بعد قیامت ہے اور کبھی
جنت سے تفسیر کی جو آپ کا ٹھکانا ہے اور آپ کی تبلیغ رسالت
کا بدل ہے کہ آپ نے جن وانس کو ہللا کے دین کی دعوت دی اور
آپ تمام مخلوق سے زیادہ کالم زیادہ فصیح اور زیادیہ افضل تھے۔
پھر فرمایا کہ اپنے مخالفین سے اور جھٹالنے والوں سے کہہ دو
کہ ہم میں سے ہدایت والوں کو اور گمراہی والوں کو ہللا خوب جانتا
ہے۔ تم دیکھ لوگے کہ کس کا انجام بہتر ہوتا ہے؟ اور دنیا اور
آخرت میں بہتری اور بھالئی کس کے حصے میں آتی ہے؟ پھر
اپنی ایک اور زبردست نعمت بیان فرماتا ہے کہ وحی اترنے سے
پہلے کبھی آپ کو یہ خیال بھی نہ گزرا تھا کہ آپ پر کتاب نازل
ہوگی۔ یہ تو تجھ پر اور تمام مخلوق پر رب کی رحمت ہوئی کہ اس
نے تجھ پر اپنی پاک اور افضل کتاب نازل فرمائی۔ اب تمہیں ہرگز
کافروں کا مددگار نہ ہونا چاہئے بلکہ ان سے الگ رہنا چاہئے۔ ان
سے بیزاری ظاہر کردینی چاہیے اور ان سے مخالفت کا اعالن کر
دینا چاہیے۔ پھر فرمایا کہ ہللا کی اتری ہوئی آیتوں سے یہ لوگ
کہیں تجھے روک نہ دیں یعنی جو تیرے دین کی مخالفت کرتے ہیں
اور لوگوں qکو تیری تابعداری سے روکتے ہیں۔ تو اس سے اثر پذیر
نہ ہونا اپنے کام پر لگے رہنا ہللا تیرے کلمے کو بلند کرنے واال
ہے تیرے دین کی تائید کرنے واال ہے تیری رسالت کو غالب
کرنے واال ہے۔ تمام دینوں پر تیرے دین کو اونچا کرنے واال ہے۔
تو اپنے رب کی عبادت کی طرف لوگوں کو بالتا رہ جو اکیال اور
الشریک ہے تجھے نہیں چاہیے کہ مشرکوں کا ساتھ دے۔ ہللا کے
ساتھ کسی اور کو نہ پکار ۔ عبادت کے الئق وہی ہے الوہیت کے
قابل اسی کی عظیم الشان ذات ہے وہی دائم اور باقی ہے حی وقیوم
ہے تمام مخلوق مرجائے گی اور وہ موت سے دور ہے ۔ جیسے
فرمایا آیت (کل من علیھا فان ویبقی وجہ ربک ذوالجالل واالکرام)
جو بھی یہاں پر ہے فانی ہے ۔ تیرے رب کا چہرہ ہی باقی رہ
جائے گا جو جاللت وکرامت واالہے۔ وجہ سے مراد ذات ہے۔
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں سب سے زیادہ سچا کلمہ
لبید شاعر کا ہے جو اس نے کہا ہے شعر(اال کل شئی ماخال ہللا
باطل) یاد رکھو کہ ہللا کے سوا سب کچھ باطل ہے ۔ مجاہد وثور
سے مروی ہے کہ ہرچیز باطل ہے مگر وہ کام جو ہللا کی رضا
جوئی کے لئے کئے جائیں ان کا ثواب رہ جاتا ہے ۔ شاعروں کے
شعروں میں بھی وجہ کالفظ اس مطلب کے لئے استعمال کیا گیا ہے
مالحظہ ہو۔
شعر(استغفر ہللا ذنبا لست محصیہ
رب العباد الیہ الوجہ والعمل)
میں ہللا سے جو تمام بندوں کا رب ہے جس کی طرف توجہ اور
قصد ہے اور جس کے لئے عمل ہیں اپنے ان تمام گناہوں کی
بخشش چاہتا ہوں جنہیں میں شمار بھی نہیں کرسکتا۔ یہ قول پہلے
قول کے خالف نہیں۔ یہ بھی اپنی جگہ صحیح ہے کہ انسان کے
تمام اعمال اکارت ہیں صرف ان ہی نیکیوں کے بدلے کا مستحق
تعالی کی رضاجوئی کے لئے کی ہوں۔ اور پہلے ہے جو محض ہللا ٰ
قول کا مطلب بھی بالکل صحیح ہے کہ سب جاندار فانی اور زائل
وتعالی کی ذات پاک ہے جو فنا اور زوال
ٰ ہیں صرف ہللا تبارک
سے باالتر ہے۔ وہی اول وآخر ہے ہر چیز سے پہلے تھا اور ہر
چیز کے بعد رہے گا۔ مروی ہے کہ جب حضرت ابن عباس رضی
تعالی عنہ اپنے دل کو مضبوط کرنا چاہتے تھے تو جنگل میں ہللا ٰ
کسی کھنڈر کے دروازے qپر کھڑے ہوجاتے اور دردناک آواز سے
کہتے کہ اس کے بانی کہاں ہے؟ پھر خود جواب میں یہی پڑھتے ۔
حکم وملک اور ملکیت صرف اسی کی ہے مالک ومتصرف وہی
ہے۔ اس کے حکم احکام کو کوئی رد نہیں کرسکتا۔ روز جزا سب
اسی کی طرف لوٹائے جائیں گے۔ وہ سب کو ان نیکیوں اور بدیوں
کا بدلہ دے گا۔ نیک کو نیک بدلہ اور برے کو بری سزا ۔ الحمد ہللا
سورۃ قصص کی تفسیر ختم ہوئی۔
[جالندھری] اور خدا کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ
پکارنا اس کے سوا کوئی معبود نہیں اس کی ذات (پاک) کے سوا
ہرچیز فنا ہونے والی ہے اسی کا حکم ہے اور اسی کی طرف تم کو
لوٹ کر جانا ہے