علم حدیث اسالم کے بنیادی علوم میں سے ایک ہے اور فقہ و عقیدہ اخذ کرنے کے ذرائع میں سے ایک ہے جس پر علماء و محدثین نے بہت محنت کی ہے ،اس کو مرتب کیا ہے اور اس پر کتب لکھی ہیں۔ یہ ایک وسیع علم ہے جس پر کئی کتب پڑھی جا سکتی ہیں جو شیعہ و سنی علماء نے لکھی ہیں۔ ٓاج جب بھی کسی حدیث کی بات کی جاتی ہے تو اب عوام الناس میں بھی اتنا شعور ٓاگیا ہے کہ وہ اس کی سند کا مطالبہ کرتی ہے یا سند کی تصدیق طلب کرتی ہے۔ یہ ایک خوش ٓائیند بات ہے لیکن ساتھ ہی یہاں کچھ تنبیہات و مالحظات قابل ذکر ہیں۔ اہل سنت احادیث اور شیعہ احادیث الگ طرح سے منتقل ہوئی ہیں۔ اہل تسنن کے یہاں أوائل میں احادیث سماعت سے یعنی مسموع (سنی ہوئی) منتقل ہوئی ہیں جس کے بعد ان کو لکھا گیا۔ اس کے مد مقابل اہل تشیع کے یہاں احادیث کی تدوین کتابت سے ہی رہی ہے سماعت کی بجائے یعنی مسموع کی بجائے مکتوب (نوشتہ) رہی ہیں۔ تبھی ٓاپ اگر شیعہ رجال کی کتب بھی دیکھیں تو ان میں سے بیشتر (جیسے شیخ نجاشی اور شیخ طوسی کی فہرست) رجال کی کتب نہیں ہیں بلکہ مصنفین کی فہرست کی کتب ہیں۔ ان میں شیعہ علماء و محدثین کا ذکر ہے جنہوں نے اپنی اپنی کتب لکھی تھیں۔ اس سبب اہل تشیع کے یہاں تدلیس ،راوی کے ٓاخری عمر کے اختالط اور دیگر بہت سے مسائل پر بحث نہیں ہوئی جو اہل سنت علم حدیث میں پائے جاتے ہیں کیونکہ دونوں کے یہاں حدیث کی منتقلی کا طریقہ مختلف رہا ہے۔ ہاں ،سماعت میں کچھ مسائل ہیں جن میں حافظے کا مسئلہ ،روایت بالمعنی ،تدلیس وغیرہ شامل ہیں اور کتابت میں بھی مسائل ہیں جیسے روایت بالمعنی (مفہوم روایت بیان کرنا) ،یا نسخوں کا اختالف ،یا تصحیف M،ادراج وغیرہ اور دیگر مسائل جو کاتب کی طرف سے یا نسخہ نقل کرنے والوں سے ٓا جایا کرتے ہیں۔ اس سے یہ امر واضح ہوتا ہے کہ دونوں کو ایک ہی معیار پر نہیں پرکھا جا سکتا کیونکہ دونوں کی حدیث کی تدوین اور بالتالی علم حدیث مختلف رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ دونوں احادیث کو پرکھنے کا معیار بھی ایک ہی نہیں ہونا چاہیئے بلکہ مختلف ہونا چاہیئے۔ اہل سنت کے یہاں عموما منہج سندی رائج رہا ہے جس میں سند کو دیکھتے ہوئے حدیث کو رد یا قبول کیا جاتا ہے۔ اگر سند صحیح ہے تو حدیث صحیح ہوگی اور پھر اس کی تاویل کی جائے گی مگر اس کو رد کرنے کا جواز نہیں ہوگا جب تک بہت بڑے مسائل متن میں واقع نہ ہوں۔ اور اگر حدیث ضعیف ہے تو فضائل االعمال اور ترغیب و ترہیب کے عالوہ فقہ و عقیدہ میں قابل استفادہ نہیں رہے گی۔ لیکن شیعہ قدماء نے کبھی یہ طریقہ نہیں اپنایا۔ شیعہ محدثین اور متقدمین نے بھی منہج سندی کو کبھی استعمال نہیں کیا احادیث کی تفریق کے لیئے بلکہ ان کے یہاں احادیث کو صحیح یا ضعیف میں تقسیم کیا جاتا تھا۔ صحیح حدیث وہ ہوتی تھی جو قرائن سے گھری ہوئی ہو (محفوف بالقرائن) اور ضعیف حدیث وہ ہوتی تھی جس میں قرائن نہ ہوں یا قوی قرائن نہ ہوں جو اس حدیث کی تائید اور تقویت کریں۔ اس سلسلے میں انہوں نے کچھ اصول اور قرائن کا ذکر کیا ،کہ اگر کسی روایت کی تائید میں قرینہ ہو یا قرائن ہوں تو وہ روایت معصوم سے صادر ہوئی ہے اور اس پر عمل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ظن پر عمل کرنا جائز نہیں ،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے ()1۔ ہم ان میں سے کچھ قرائن ذکر :کرتے ہیں جو ایک حدیث کی صحت پر دال ہو سکتے ہیں قرٓان سے موافقت ،جیسا کہ فرامین معصومین ع میں بکثرت مروی ہے کہ قرٓان کے موافق حدیث لی جائے گی اور مخالف حدیث رد کی جائے گی ( )2کیونکہ فرمان معصوم کبھی کتاب ہللا کے مخالف نہیں ہو سکتا۔ عقل سے موافقت ،جیسا کہ عقل کی حجیت پر احادیث اور درایت پر مروی روایات سے علم ہوتا ہے ( )3کیونکہ فرمان معصوم عقل کے خالف نہیں ہوتا۔ یہاں ہم اس کی وضاحت نہیں کریں گے کہ عقل کیا ہے ،اس کے لیئے ہماری فلسفی تحاریر و ابحاث کو پڑھا جا سکتا ہے۔ اور یاد رہے کہ خبر واحد جو ظنی ہوتی ہے اس کے مقابل میں عقل زیادہ قطعی ہے تو ظنی کو چھوڑ کر قطعی کو اپنایا جائے گا۔ یہاں عقل سے مراد تصور ،رائے یا خواہش نہیں بلکہ حقیقی عقل سلیم ہے جو تمام اباطیل اور بواطل سے پاک ہو۔ سنت سے موافقت ،یہ معیار بھی روایات میں مروی ہے ()4۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ جیسے مثال دس روایات ایک مفہوم پر دلیل ہوں جبکہ ایک شاذ روایت کسی اور چیز پر دلیل ہو تو شاذ کو ترک کرکے دس روایات کو اپنایا جائے گا جو سنت عمل ہے۔ تاریخی مسلمات سے موافقت۔ اس سے مراد وہ مسلمات ہیں جن پر کسی نے شک نہ کیا ہو ،جیسے یہ کہنا کہ جنگ بدر ہجرت کے بعد ہوئی ،اگر مثال کسی روایت میں ہو کہ یہ جنگ ہجرت سے قبل ہوئی تو وہ روایت متروک ہوگی۔ اور یہ بھی درایت کا حصہ ہے۔ اس کا راوی عامی ہو اور وہ اس کے مذہب کے حق میں ہو۔ کیونکہ عامی راوی اپنے خاص تمایالت و رجحانات رکھتا ہے تو عین ممکن ہے کہ وہ اپنے عقیدے کی روایات کو شیعی روایات میں خلط کردے جیسا کہ دیکھنے میں ٓایا ہے۔ یا عامی راوی ایسی روایت بیان کرے جو اس کے مذہب کے خالف ہو۔ کیونکہ کوئی اپنے عقیدے کے خالف روایت نہیں بیان کرنا چاہے گا۔ اس سبب اگر کسی خارجی یا ناصبی سے مثال امام علی ع کی فضیلت پر روایت ٓائے تو یہ اس کی صحت کا قرینہ ہے کیونکہ اس فرد کے اپنے تعصبات کے باوجود اس نے اس کو بیان کیا ہے۔ خود ائمہ ع نے بھی یہ تعلیم دی ہے کہ راوی کے خارجی یا قدری وغیرہ ہونے سے روایت کو رد نہیں کیا جاتا ( )5اور ایک مشہور عربی مقولہ ہے کہ الفضل ما شهدت به األعداء یعنی فضیلت وہ ہے جس کی گواہی دشمنان بھی دیں۔ تو جب عامی کی طرف سے خاصہ کے عقائد کی تائید ہو تو وہ اس روایت کی صحت پر ایک قرینہ ہے۔ اس کو تقیہ پر حمل کیا جانے کا امکان ہو۔ کیونکہ اگر اس روایت کے متن میں کچھ ایسا ہو جو قرینہ بنے کہ یہ روایت تقیہ میں ہے یا اگر اس کے معارض روایات موجود ہوں اور ِاس روایت میں عامہ کے موافق نظریات ہوں تو اس کو تقیہ پر حمل کیا جائے گا کیونکہ ائمہ ع نے عامہ کو ترک کرکے خاصہ کے موافق اخبار کو لینے کا حکم دیا ہے ()6۔ اس کے معارض روایت موجود نہ ہو۔ یعنی اگر کوئی روایت ہو جس سے متضاد روایت فقہ یا عقیدہ وغیرہ میں نہ ہو تو یہ خود ایک قرینہ ہے اس روایت کی صحت پر کہ یہ تقیہ میں نہیں کہی گئی اور اس کا صدور معصوم ع سے ایک قرینہ رکھتا ہے اس جہت سے۔ اور اختالف حدیث کے علل و اسباب کے لیئے الکافی کی جلد اول يث یا علل الشرائع سے رجوع کیا جا سکتا ہے ()7۔ الف ا ْلحَ ِد ِ میں بَابُ اخْ ِت ِ تجریبی علوم کے موافق ہو۔ جیسے مثال اگر کوئی روایت کہے کہ ہماری زمین چاند کی گردش کرتی ہے تو یہ تجریبی علم کے موافق نہیں اور ایسی روایت خبر واحد ہونے کے سبب ظنی ہوگی اور اگرچہ تجریبی علم خود بھی ظنی ہے جیسا کہ ہم اپنی فلسفہ سائنس کی تحریر میں بیان کر چکے ہیں ،لیکن تجریبی علم ایسی خبر واحد سے زیادہ قطعی ہے اپنی داللت میں۔ ہاں ،اگر اس میں تاویل کا امکان ہوا تو اس کی تاویل کی جائے گی تاکہ اس کو تجریبی علم کے اس جہت سے موافق الیا جائے۔ یاد رہے کہ یہ بات متواتر روایات یا قرٓان کے لیئے نہیں کہی جا سکتی کیونکہ وہ ظنی الصدور نہیں ہیں بلکہ یہ بات فقط اخبار ٓاحاد کے لیئے ہے جن کے صدور پر قرائن کی کمی ہے۔ کیونکہ تجریبی علم حق تک پہنچنے کے لیئے درست رستہ نہیں ہے مگر اس کو بطور قرینہ استعمال کرنے میں حرج نہیں کیونکہ ہم علم حصولی اور علم حضوری یعنی عقالنی و تجریبی دونوں علوم کو علم حاصل کرنے کے ذرائع سمجھتے ہیں۔ سند صحیح اور متصل ہو۔ اگر کسی روایت کی سند میں تمام روات ثقات ہوں اور اس کی سند بھی متصل ہو اور کسی قسم کا ارسال یا انقطاع نہ رکھتی ہو تو وہ روایت ایک قوی قرینہ رکھتی ہے اپنے حق میں۔ اس سے اس کا معصوم ع سے صادر ہونے کا امکان بڑھتا ہے۔ مگر یاد رہے کہ یہ فقط ایک قرینہ ہے کئی قرائن میں سے اور محض سند کے ضعیف ہونے پر روایت کو رد کرنا اور صحیح ہونے پر قبول کرنے کا طریقہ ہمارے مشایخ و قدماء کا نہیں رہا کیونکہ وہ اس کو ایک قرینہ ہی سمجھتے تھے کئی قرائن میں سے۔ تعدد طُرُ ق کے ساتھ ہو۔ اگر کوئی روایت متعدد اسانید سے مروی ہو تو یہ اس کے معصوم ع سے صدور کو تقویت دیتا ہے کیونکہ اتنی کثرت سے مختلف عالقوں کے مختلف زمانوں کے مختلف راویان کا ایک ہی متن (لفظی یا معنوی طور پر) بیان کرنا اس کے وضع کیئے جانے کو برطرف کرتا ہے۔ اس سبب جب ایک روایت متواتر ہوجائے تو یہ اس کے حق میں ایک قوی اور مضبوط قرینہ ہے کہ یہ حدیث معصوم ع سے صادر ہوئی ہے۔ اس پر طائفہ کا عمل ہو اور اس پر اجماع ہو۔ کیونکہ ہمارے مشایخ کا زمانہ ائمہ ع سے قریب کا تھا تو ان کے پاس ہم سے زیادہ قرائن موجود تھے ،حتیٰ کہ ان کے پاس اصحاب ائمہ ع اور خود ائمہ ع کے لکھے ہوئے نسخے بھی موجود تھے جیسا کہ شیخ صدوق نے من ال یحضرہ الفقیہ میں تصریح کی ہے کہ ان کے پاس امام عسکری ع کی لکھائی میں محمد بن حسن صفار کے سواالت کے جوابات موجود ہیں ()8۔ اور طائفہ کا ایک چیز پر عمل اس کی صحت پر ایک قرینہ ہے ،نیز اگر اس حدیث پر اجماع ہو تو یہ بھی اس روایت کے حق میں ایک قرینہ ہے جیسا کہ مقبولہ عمر بن حنظلہ میں مُج َمع علیہ بات کو لینے کا حکم ()9۔ کتب معتبرہ میں مشایخ نے اس کو نقل کیا ہو۔ کیونکہ ان کتب کے مقدمات میں مشایخ نے تصریح کی ہے کہ وہ معتبر روایات نقل کر رہے ہیں لیکن ساتھ ہی انہوں نے یہ قرائن بیان کیئے ہیں – جیسا کہ شیخ کلینی نے الکافی میں – کہ اگر کوئی روایت کتاب ہللا کے خالف ہو تو اس کو رد کردیا جائے گا۔ اور اگر کوئی روایت ایسی کتاب میں ہو جو معتمد و معتبر کتب میں شامل نہیں ہے تو یہ اس روایت کے خالف ایک قرینہ ہے کیونکہ ہمارا اعتماد و اعتبار ان معتبر کتب پر ہے جن کی نسبت اپنے مؤلف سے ثابت ہو اور جن کے مؤلفین ہمارے نزدیک معتمد ہوں۔ جیسے اگر ایک روایت کی سند ضعیف ہو لیکن ہمارے محدثین اس کو اپنی معتمد کتب میں نقل کریں جس میں انہوں نے یہ شرط رکھی کہ اپنے منہج پر درست روایات جمع کر رہے ہیں اور بارہا یہ معتمد کتب میں پائی جائے تو یہ ایک قرینہ ہے اس روایت کے حق میں کیونکہ محدثین نے اس پر انحصار کیا ہے مع ضعف سندها۔ کیونکہ یاد رہے کہ قدماء کے پاس متعدد قرائن موجود تھے جو ٓاج مفقود ہیں ،جن میں خود اصحاب ائمہ ع کی اصلی کتب تھیں جو ان کی اپنی لکھائی میں ان کے پاس موجود تھیں جن میں سے انہوں نے روایات نقل کیں ،جن کو "االصول االربعمائہ" بھی کہا جاتا ہے ،اور یہ کتب الگ سے ہم تک موصول نہیں ہوئیں لیکن جو ان میں سے محدثین اپنی کتب میں محفوظ کر گئے وہ ہم تک پہنچ گیا۔ اس کو بالجزم نقل کیا گیا ہو۔ کیونکہ "اإلخبار بالجزم يدل على التصحيح"۔ جیسا کہ بعض علماء و فقہاء نے شیخ صدوق کا روایات کو من ال یحضرہ الفقیہ میں بالجزم یعنی بحذف سند نقل کرنا ایک قرینہ لیا ہے کہ وہ روایت شیخ صدوق کے نزدیک اتنی قوی تھی کہ اس کے لیئے راوی کا ذکر کرنا بھی ضروری نہیں۔ لیکن یاد رہے کہ یہ قطعی قرینہ نہیں ہے مگر بہت سے قرائن میں سے ایک ہے جو ایک روایت کے حق میں ٓا سکتا ہے۔ متابعات ،شواہد اور مؤیدات۔ جیسے اگر کسی روایت کی تائید میں دیگر راویان سے وہی روایت یا اس سے ملتے جلتے مفہوم و متن کی روایت ہو تو وہ بھی اس روایت کی تقویت میں ہے اور اس سے ایک اضافی قرینہ اس روایت کے حق میں ٓاجاتا ہے۔ کیونکہ یاد رہے کہ ایک جھوٹا راوی بھی کبھی سچ بول سکتا ہے جیسا کہ شیخ مازندرانی نے بھی تصریح کی ہے ( )10جس کے سبب انہوں نے کذوب راوی کی بھی روایت کو متن کے سبب قبول کیا ہے۔ اور بہت سے دیگر قرائن جن کو دیکھ کر روایت کو قبول و رد کیا جائے گا۔ اور ان میں سے کئی قرائن کو شیخ حر عاملی نے خاتمہ الوسائل میں ذکر کیا ہے ( )11جس روایت میں جتنے زیادہ قرائن ہونگے وہ روایت اتنی زیادہ قوی ہوگی ،اور جس میں جتنے کم ہونگے وہ اتنی ضعیف ہوگی۔ جیسے اگر ایک روایت کی سند صحیح Mہے تو یہ ایک قرینہ ہے ،لیکن اگر باقی سب قرائن سے خالی ہو تو یہ ایک قرینہ اس کی حجیت کے لیئے کافی نہیں سمجھا جائے ،اور ایسے ہی اگر ایک روایت کی سند ضعیف ہو تو ایک قرینہ مفقود ہے لیکن اگر باقی پانچ چھے قرائن اس کو تقویت دیں تو وہ روایت قوی ہوجائے گی۔ یہی منہج قرائن جہاں روایات کی توثیق کرتا ہے وہاں ان کی تضعیف بھی کرتا ہے کیونکہ اگر قرائن کسی روایت کے حق میں نہ ہوں تو وہ روایت کی تضعیف کا باعث ہے۔ یہ منہج ہمارے نزدیک کئی سالوں مختلف منہجوں کو پڑھنے کے بعد درست ہے ،اور یہی منہج ہمارے اشیاخ و اسالف کا تھا جس کو ہم بھی حق جانتے ہیں اور سب سے جامع سمجھتے ہیں کیونکہ اس میں منہج سندی کی طرح محض سند پر سارا انحصار نہیں ہے اور نہ ہی محض متن پر نقد ہے بلکہ من جمیع الجہات ایک مروی حدیث یا خبر کو دیکھ کر ہی اور مکمل جانچ کر اس پر حکم لگایا جاتا ہے۔ سید کمال حیدری نے بھی اس سبب اپنے دروس میں سندی منہج پر نقد کی ہے کہ یہ علوم ٓال محمد ع کی تضییع کا باعث ہے۔ ایک طرف ساری توجہ سند کی طرف ہے تو دوسری طرف سند کی طرف بے توجہی ہے ،ہم دونوں کو جمع کرکے چلتے ہیں کیونکہ اس میں ہی جامعیت و شمولیت ہے۔ فهذا هو المنهج الذي أدين هللا به وعليه أعتمد وأتوكل وإليه أنيب۔ :مٓاخذ سسُوا وَ اَل يَ ْغتَب بَّعْضُ ُكم بَعْضً ا َأيُحِبُّ َأحَ ُد ُك ْم َأن )(1 يَا َأيُّ َها الَّذِينَ آ َمنُوا اجْ تَ ِنبُوا َكثِيرً ا ِMzمِّنَ الظ َّ ِِّ Mzن ِإنَّ بَعْضَ الظ َّ ِِّ Mzن ِإ ْث ٌم وَ اَل تَجَ َّ ﴾ي َْأ ُك َل لَحْ َم َأ ِخي ِه َم ْيتًا َف َك ِر ْهتُمُو ُه وَ اتَّقُوا اللَّـ َه ِإنَّ اللَّـ َه تَوَّابٌ رَّ ِحي ٌم ﴿الحجرات١٢ : الكافي ،ج ،1ص 8و 66و ج ،5ص ،422عيون أخبار الرضا ،ج ،2ص ،21اإلستبصار ،ج ،1ص 190و )(2 ج ،3ص ،158تهذيب األحكام M،ج ،7س 275وغيرهم نهج البالغة ،ج ،2ص ،232الرقم 239 :و ج ،4ص ،22الرقم ،98 :الكافي ،ج ،1ص 49و ج ،8ص (3) ،391 الرقم ،586 :معاني األخبار ،ص 2 رجال الكشي ،الرقم(4) 401 : علل الشرائع ،ج ،2ص (5) 395 الكافي ،ج ،1ص 8وغيره )(6 علل الشرائع ،ج ،2ص (7) 395 من ال يحضره الفقيه ،الرقم 3347 ،2010 ،393 :وموارد عديدة أخرى ( الكافي ،ج ،1ص ،68 – 67من ال يحضره الفقيه ،الرقم ،3233تهذيب األحكام ،ج ،6ص (9) 303 – 301 .شرح أصول الكافي ،ج ،2ص :25أقول :الحديث معتبر وإن كان الراوي كذوبا ( ;)4ألن الكذوب قد يصدق )(10 وسائل الشيعة ،ج ،30ص (11) 247 – 243