شہادت ثالثہ در تشہد اور مصباح المتھجد اور کتاب فقہ الرضا

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 9

‫‪ 

‬‬

‫‪JAN‬‬

‫‪28‬‬

‫‪ -‬شہادت ثالثہ در تشہد اور مصباح المتھجد اور کتاب فقہ الرضا‬
‫‪Shahadat-e-Salisa aur Misbah‬‬
‫‪ul Mutahjid aur Fiqh ur Raza‬‬
‫غالی حضرات شہادت ثالثہ در تشہد کے اثبات میں بیان کرتے ہیں کہ شیخ طوسی (رہ) نے مصباح المتھجد میں جو‬
‫تشہد بیان کیا ہے اس میں شہادت ثالثہ کی گواہی کا ذکر موجود ہے مگر جب ہم مصباح المتھجد کی جانب رجوع کرتے‬
‫ہیں تو اس میں موجود تشہد میں کہیں بھی شہادت ثالثہ کا ذکر نہیں پاتے ہیں بلکہ وہاں تشہد اس طرح مروی ہے‬

‫فإذا جلست للتشهد في الرابعة على ما وصفناه قلت‬


‫بسم هللا وباهلل واألسماء الحسنى كلها هلل أشهد أن ال إله إال هللا وحده ال شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله صلى هللا‬
‫عليه وآله أرسله بالهدى ودين الحق ليظهره على الدين كله ولو كره المشركون التحيات هلل والصلوات الطيبات الطاهرات‬
‫الزاكيات الرائحات الغاديات الناعمات هلل ما طاب وطهر وزكا وخلص وما خبث فلغير‪ ‬هللا أشهد أن ال إله إال هللا وحده ال‬
‫شريك له وأشهد أن محمدا عبده ورسوله أرسله بالحق بشيرا ونذيرا بين يدي الساعة وأشهد أن الجنة حق وأن النار حق‬
‫وأن الساعة آتية ال ريب فيها وأن هللا يبعث من في القبور وأشهد أن ربي نعم الرب وأن محمدا نعم الرسول أرسل أشهد أن‬
‫ما على الرسول إال البالغ المبين‪ ‬اللهم صل على محمد وآل محمد وبارك على محمد وآل محمد وارحم محمدا وآل محمد‬
‫كأفضل ما صليت وباركت ورحمت وترحمت وتحننت على إبراهيم وآل إبراهيم إنك حميد مجيد السالم عليك أيها النبي‬
‫ورحمة هللا وبركاته السالم على جميع أنبياء هللا ومالئكته ورسله السالم على األئمة الهادين المهديين السالم علينا وعلى‬
‫عباد هللا الصالحين‬

‫مصباح المتھجد ‪ //‬طوسی (ر) ‪ //‬تحقیق ‪ :‬الشیخ حسین االعلمی‪//‬ص ‪ //54‬طبع ثانیہ ‪ //2004‬موسستہ االعلمی‬
‫للمطبوعات بیروت‬
‫مومنین مالحظہ کریں کہ غالۃ کس قدر جھوٹ اور خیانت کرتے ہیں ‪ ،‬یہاں پر ہم کو امام صادق (ع) کا فرمان یاد آتا ہے‬
‫کہ‬
‫امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں ‪   :‬بعض غالی اس قدر جھوٹے ہیں کہ شیطان کو بھی ان کے جھوٹ کی ضرورت پڑ‬
‫جاتی ہے‬

‫‪ ‬سفینتہ البحار‪//‬شیخ عباس قمی ‪  //‬ج ‪  // 6‬ص ‪ //666‬طبع قم ایران‬

‫اب یہاں پر غالۃ ‪,‬مومنین کو دھوکہ دیتے ہیں کہ آیت ہللا بروجردی (ر) نے اپنی کتاب جامع احادیث الشیعہ میں جو‬
‫تشہد مصباح المتھجد کے حوالے سے نقل کیا ہے اس میں شہادت ثالثہ کا ذکر ہے‬

‫‪ ‬غالۃ کا رد‬

‫سب سے پہلی خیانت جو غالۃ کرتے ہیں کہ وہ جامع احادیث الشیعہ کو آقائی بروجردی کی کتاب بتاتے ہیں حاالنکہ یہ‬
‫احکام الشریعة‪  ‬اور اس میں‬
‫ِ‬ ‫کتاب آقائی بروجردی کی نہیں ہے بلکہ اس کتاب کا مکمل نام ہے‪ ‬جامع احادیث الشیعة فی‬
‫‪ ‬فقہی احادیث کو جمع کرنے ‪ ‬والے مئولف کا نام ہے ‪  :‬اسماعیل ّ‬
‫معزی مالیری‬

‫اصل میں یہ کتاب آیت ہللا بروجردی (ر) کے خرچے پر چھپی تھی ‪ ،‬اس میں احادیث کو جمع کرنے والے کوئی اور‬
‫‪ ‬عالم ہیں‬

‫جامع احادیث الشیعہ کے پہلے ایڈیشن میں جو تشہد مصباح المتھجد سے نقل کیا گیا اس میں شہادت ثالثہ درج تھا مگر‬
‫معز ی مالیری نے مصباح المتھجد کے مخطوطات سے مزید تحقیق کر کے‬ ‫دوسرے ایڈیشن میں خود جناب ‪ ‬اسماعیل ّ‬
‫اس کی اصالح کر دی ‪  ‬اور یہ بات انھوں نے خود جامع احادیث الشیعہ کے دوسرے ایڈیشن میں اس کی وضاحت کی‬
‫ہے‬

‫اصل میں مصباح المتھجد کا ایک نسخہ جو کویت سے شیخیوں کی زیر نگرانی چھاپہ تھا اس نسخہ میں شہادت ثالثہ کا‬
‫معزی مالیری ‪ ‬نے اس کو‬‫اضافہ کیا گیا تھا ‪ ،‬اور جامع احادیث الشیعہ کے پہلے ایڈیشن میں مولف جناب ‪ ‬اسماعیل ّ‬
‫درج کیا تھا مگر جب مصباح المتھجد کے پرانے نسخے اور مخطوطات سے تحقیق کی گئی تو معلوم ہوا کہ یہ شیخی‬
‫غالۃ کی خیانت ہے تو بعد میں جامع احادیث الشیعہ کے دوسرے ایڈیشن میں اس کی اصالح کر دی گئی ‪ ،‬تحقیق کے‬
‫معزی مالیری ‪ ‬کا بیان دوسرے ایڈیشن میں دیکھ سکتے‬ ‫طالب حضرات جامع احادیث شیعہ کے مولف جناب ‪ ‬اسماعیل ّ‬
‫‪ ‬ہیں‬

‫بالفرض ہم یہ مان لیں کہ مصباح المتھجد میں ‪  ‬شیخ طوسی (ر) نے جو تشہد بیان کیا ہے اس میں شہادت ثالثہ کا ذکر‬
‫ہے (مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہے) تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیخ طوسی نے اپنی دو عظیم کتابیں‪" ‬تہذیب االحکام‬
‫"‪ ‬اور‪ " ‬استبصار " میں کیوں نہیں نقل کیا شہادت ثالثہ واال تشہد ‪ ،‬جبکہ ان کتب میں بااسناد تشہد مروی ہے ‪ٰٰ ،‬‬
‫حتی کہ‬
‫طویل تشہد جو ابو بصیر (ر) سے تہذیب میں مروی ہے اس میں بھی شہادت ثالثہ کا ذکر نہیں کیا ہے جبکہ مصباح‬
‫واال تشہد مرسال`` نقل کیا گیا ہے یعنی بغیر کسی سند کے نقل کیا گیا ہے ‪ .‬اصول حدیث و فقہ کے اصول کے تحت جو‬
‫تشہد تہذیب و استبصار میں نقل کیا گیا ہے وہ قابل اعتماد ہے اور اس سے استدالل کیا جائے گا جبکہ مصباح المتھجد‬
‫‪.  ‬واال تشہد مرسال`` نقل ہونے کی وجہ سے رد کر دیا جائے گا‬

‫الحمد ہللا ! ‪  ‬تمام صحیح روایات سے یہ بات بخوبی ثابت ہوجاتی ہے کہ آئمہ معصومین (ع) ‪ ‬کی نماز میں تشہد میں‬
‫شہادت ثالثہ کا کہیں ذکر نہیں پایا جاتا اور جو کوئی اس کو نماز میں تشہد میں پڑھتا ہے اس کی نماز باطل ہے اور وہ‬
‫دین میں بدعت کا مرتکب ہوتا ہے کیونکہ شہادت ثالثہ تشہد میں کسی بھی امام معصوم (ع) سے ثابت نہیں جیسا کہ‬
‫صحیح االسناد روایات سے واضح ہے‬
‫‪https://www.shiachat.com/forum/topic/235028219-the-book-fiqh-al-riza/‬‬

‫کتاب فقہ الرضا‬


‫غالی حضرات نماز میں شہادت ثالثہ کے متعلق ایک حوالہ نقل کر کے‬
‫کے مومنین کو دھوکہ دیتے ہیں کہ فقہ رضا (ع) کتاب جو امام علی‬
‫رضا(ع) کی ہے اس میں درج ہے کہ نماز میں تشہد کے مقام پر شہادت‬
‫ثالثہ پڑھنا چاہیئے ‪ .‬آیئے اس متنازع کتاب کو پوری دنیائے اسالم کے‬
‫عظیم الشان مراجع عظام کی عدالت میں لے چلتے ہیں ‪،‬ہم ان سے دریافت‬
‫‪ ‬کرتے ہیں کہ یہ کتاب امام رضا (ع) کی تصنیف‬
‫ہے ? یا نہیں ? وہ اس کتاب کے بارے میں کیا فیصلہ صادر فرماتے ہیں‬
‫اس کتاب کے ٹائٹل پہ لکھا ہے ‪ ،،‬یہ کتاب امام علی رضاؑ سے ‪1 ،،،‬‬
‫منسوب ہے لیکن پھر بھی یہ کہا جاتا ہے یہ امام کی اپنی تصنیف ہے‬
‫اگر مان لیا جائے یہ امام کی کتاب کی ہے تو اس کا ذکر کیوں نہیں‬
‫ملتا ‪ ،،،‬امام کی کتاب ‪ 1000‬سال تک کہاں گم تھی ‪ ،،،‬کتب میں صحیفہ‬
‫سجادیہ ‪ ،،‬صحیفہ زہراؑ ‪ ،،‬صحیفہ امام کاظم ؑ اور صحیفہ امام رضا کا‬
‫ذکر ملتا ہے ‪ ،،،‬بلکہ صحیفہ امام موسی کاظم تو چھپ چکا ہے تقریباؒ‬
‫شیخ صدوق جن کی پیدائش بھی امام زمنؑ کی دعا کی وجہ سے ‪2 ،،‬‬
‫ہوئی ‪ d،،،‬انہوں نے '' عیون الخبار رضا '' جس میں امام رضا کے‬
‫مناظرے ہیں ‪ d،،،‬انہوں نے اس کتاب کا ذکر کرنا ہی مناسب نہیں‬
‫سمجھا ‪ ،،،‬کمال ہے‬
‫اس میں بہت سی عجیب روایات ملتی ہیں ‪ d،،،‬امام علی نے پاوں کو ‪3،،،‬‬
‫دھویا ‪ ،،،‬مسح اور وضو دونوں جائز ہیں ‪ ،،،‬آخری ‪ 2‬سورتیں قران کا‬
‫حصہ نہیں ہیں ‪ ،،‬جب کہ شعیہ علما اس پہ متفق ہیں کہ یہ قران کا حصہ‬
‫ہیں ‪ d،،،‬ابن مسعود اس کے راوی ہیں ‪ ،،،‬امام جالل الدین السوطی کے ان‬
‫‪ ،،،‬کی روائت نقل کی ہے‬
‫مزے کی بات بتاتا چلوں ‪ ،،،‬تفسیر درمنثور جو اردو میں آ چکی ہے اس‬
‫میں عبدہللا بن مسعود کے روائت کے مطابق س مائدہ کی آیت نمبر ‪66‬‬
‫جس میں تکمیل اسالم کی بات ہے وہاں پہ موال امیرؑ کا نام موجود تھا‬
‫اس کا انکار شیخ حر عاملی ‪ ،،‬علی خونساری ‪ ،،،‬آقا وحید بھیھانی ‪4،،‬‬
‫آقائے جعفر سبحانی ‪ ،،‬نے کیا‬
‫آیت ہللا ہاشم اصفحانی نے پوری کتاب انکار میں لکھی ہے ‪5،،،‬‬
‫آقائے رضا استادی نے بھی باقاعدہ کتاب لکھی ( تحقیقی پیرامون ‪6،،،‬‬
‫کتاب فقہ الرضا)‬
‫انحرافی گروہ کہتا ہے ‪ ،،،‬یہ کتاب امام نے احمد بن سکین کو امال ‪7،،،‬‬
‫کروائی جب کہ رجال کی کسی معتبر کتاب میں اس نام کا راوی نہیں ملتا‬
‫عالمہ تقی مجلسی نے اس کتاب سے روایات لیں ہیں ‪ ،،‬ان کے ثقہ بقول‬
‫امیر حسین نے یہ کتاب دیکھی ‪ ،،،‬جس میں امام رضا کے دور کی تاریخ‬
‫لکھی ہوئی تھی‬
‫بات لمبی ہو جائے گی ‪ ،،‬صرف اتنا کہوں گا ‪ ،،‬عالمہ باقر مجلسی محدث‬
‫تھے محقیق نہیں ‪ ،،‬شیعیت کا سرمایہ تھے ‪ ،،،‬محدث کا کوئی اصول‬
‫نہیں ہوتا جو ملے جہاں سے ملے لکھو ‪ ،،‬محقیق تحقیق کے بغیر ایک‬
‫قدم بھی نہیں چلتا ‪ d،،،‬روایات نقل کرنا اس بات کی قطیعاؒ دلیل نہیں یہ‬
‫کتاب معتبر ہے‬
‫شیعہ امامیہ کے بہت سے جلیل القدر علماء اعالم ‪ ،‬فقہاء کرام اور اساطین‬
‫علم و تحقیق جو فن حدیث ‪ ،‬اس کے معارف اور اسماء الرجال پر وسیع‬
‫نظر رکھتے ہیں ‪ ،‬نے "فقہ رضا" نامی کتاب کی نسبت امام رضا (ع)‬
‫سے انکار و ابطال فرمایا ہے‬
‫آیت ہللا العظمی ٰٰ سید ابوالقاسم الخوئی (رہ) کا کتاب فقہ الرضا (ع) کے‬
‫بارے میں فیصلہ کن بیان ان کے درس کی تقریرات پر مشتمل کتاب "‬
‫مصباح الفقاھتہ" پراس سلسلے میں سیر حاصل بحث اور مکمل نقد و‬
‫تبصرہ کرنے کے بعد بطور نتیجتہ کالم فرماتے ہیں‬
‫عربی متن‬
‫ثم انه مع الغض عن جميع ما ذكرناه فان في الكتاب قرائن قطعية تدل على‬
‫عدم كونه لمثل موالنا الرضا " ع " بل هو رسالة عملية ذكرت فيها الفتاوى‬
‫والروايات بعنوان االفتاء كما يظهر لمن يالحظه كيف واكثر رواياته اما‬
‫بعنوان روي وراوي ونحوهما‪ ،‬واما نقل عن الرواة خصوصا في آخر‬
‫الكتاب فانه ينقل فيه كثيرا عن ابن ابي عمير وزرارة والحلبي وصفوان‬
‫ومحمد بن مسلم ومنصور وغيرهم‪ .‬على ان فيه عبارات يقبح صدورها عن‬
‫االمام " ع " نظير قوله جعلني هللا من السوء فداك وقوله في باب القدر صف‬
‫لي منزلتين فان هذا القول ظاهر في جهل القائل وهو مستحيل في حق االمام‬
‫" ع " إلى غير ذلك وقد نقل جملة منها في المستدرك مع انه ذكر فيه من‬
‫االحكام المتناقضة وما يخالف مذهب الشيعة بكثير وحملها على التقية بديهي‬
‫الفساد لما ورد في هذا الكتاب ايضا مما يخالفها‪ d‬بل تكذيبهم واالزراء عليهم‬
‫كما في المتعة وااللتزام بالتفصيل بأن بعض الكتاب‪ d‬امالء منه " ع " وبعضه‬
‫اآلخر الحمد بن محمد بن عيسى االشعري وان موارد التقية في الكتاب إنما‬
‫هي فيما سمع منه عليه السالم تكلف في تكلف وقول بال علم هذا كله ما يرجع‬
‫إلى نفس الكتاب‪ d،‬وقد اجاد صاحب الفصول في بعض ما افاده هنا فليراجع‬
‫إذن فقد حق القول انه لو انيطت االحكام الشرعية بمثل هذه المدارك فبين‬
‫ايدينا البخاري ومسند احمد وصحيح مسلم وعلى هذا فعلى الفقه السالم‬
‫مصباح الفقاهة من تقرير بحث االستاذ االكبر آية هللا العظمى الحاج السيد أبو‬
‫القاسم الموسوي الخوئي‪//‬ج ‪ // 1‬ص ‪//16‬طبع نجف اشرف‬
‫ترجمہ‬
‫گزشتہ تمام بحث سے قطع نظر اس کتاب کے اندر ایسے قطعی قرائن اور‬
‫شواھد موجود ہیں جن سے یہ ظاھر ہوتا ہے کہ یہ فقہ رضا ‪ ،‬حضرت‬
‫امام رضا (ع) جیسی معصوم ہستی کا کالم نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایک‬
‫فتاوی اور روایات کو بطور فتوی ٰ ذکر کیا گیا ہے‬ ‫ٰٰ‬ ‫رسالہ عملیہ جس میں‬
‫چنانچہ کتاب کو مالحظہ کرنے والے حضرات سے پوشیدہ نہیں ہے اور‬
‫امام (ع) کا کالم کیسے ہو سکتا ہے جبکہ اکثر روایات یا ُُروی کے یا‬
‫روی وغیرہ کے ذریعے بیان ہوئی ہیں یا صرف راویوں سے روایت نقل‬
‫کی گئی ہے خصوصا`` کتاب کے آخر میں بہت ساری روایات کو ابن‬
‫عمیر ‪ ،‬زرارہ ‪ ،‬حلبی ‪،‬صفوان ‪ ،‬محمد بن مسلم اور منصور وغیرہ سے‬
‫نقل کیا گیا ہے اس کے عالوہ اس کتاب کے اندر ایسی ایسی عبارتیں ہیں‬
‫کہ جن کا امام معصوم (ع) سے صادر ہونا قباحت سے خالی نہیں ہے‬
‫مثال`` ایک مقام پر ہے "جعلني هللا من السوء فداك" یا باب قدر میں‬
‫فرمایا ‪ " :‬صف لي منزلتين" یہ کلمات قائل کی جہالت کو ظاھر کرتے ہیں‬
‫جو امام (ع) کے لئے ممکن نہیں ‪ .‬ایسی بعض "مستدرک" میں نقل کی‬
‫گئی ہیں اس کے عالوہ کتاب فقہ الرضا میں باہمی متناقض احکام بیان‬
‫کئے گئے ہیں اور ایسے احکام بھی جو مذہب تشیع کے خالف ہیں ان‬
‫عبارات کو تقیہ پر محمول کرنا بھی بدیہی طور پر باطل ہے کیونکہ اسی‬
‫کتاب میں بہت سے خالف تقیہ احکام موجود ہیں بلکہ بعض عبارتوں سے‬
‫تو ائمہ (ع) کی تکذیب اور توہین الزم آتی ہے جیسے باب متعہ میں ہے‬
‫اور یہ موقف اختیار کرنا کہ کتاب کا کچھ حصہ امام رضا (ع) کی امالء‬
‫عیسی اشعری کی امالء ہے اور یہ‬ ‫ٰٰ‬ ‫ہے اور کچھ حصہ احمد بن محمد بن‬
‫کہ مقام تقیہ وہ مقام جن میں امام (ع) کی امالء سے ‪ ،‬یہ کہنا تکلف در‬
‫تکلف ہے اور علم و یقین کے بغیر ہرزہ سرائی ہے ‪ ،‬یہ کتاب فقہ الرضا‬
‫کا حال ہے ‪،‬صاحب‪ d‬فصول نے اس سلسلے میں بڑی عمدہ بحث کی ہے ‪.‬‬
‫پس حق تو یہ ہے کہ اگر احکام شرعیہ کا دارو مدار اس قسم کے مدارک‬
‫ہوں تو ہمارے سامنے بخاری ‪ ،‬مسند احمد اور صحیح مسلم بھی ہیں ‪،‬‬
‫بنابریں ایسی فقہ کا خدا حافظ‬
‫مصباح الفقاهة من تقرير بحث االستاذ االكبر آية هللا العظمى الحاج السيد أبو‬
‫القاسم الموسوي الخوئي‪//‬ج ‪ // 1‬ص ‪//16‬طبع نجف اشرف‬
‫آیت ہللا ‪ ،‬روح ہللا خمینی (رہ) کی نجف اشرف کے فقہی دروس پر مشتمل‬
‫" کتاب البیع" جو پانچ جلدوں میں ہے ‪ ،‬آپ اس کی ‪ 5‬جلد میں فقہ الرضا‬
‫نامی کتاب کے متعلق فرماتے ہیں‬
‫وأما الفقه الرضوي (‪ )5‬فال ينبغي االشكال في أنه ليس من تصنيفات الرضا‬
‫عليه السالم‪ ،‬كما ال يخفى على من راجعه وتدبر في تعبيراته‪ ،‬بل هو على ما‬
‫يظهر منه تصنيف عالم ذي القريحة المستقيمة‪ ،‬وهو مشتمل على روايات‬
‫مرسلة وفتاوى من صاحبه‪ ،‬وما حكي عنه في المقام بلفظ (روي) يكون‬
‫مضمونه قريبا من سائر الرويات‪ ،‬سيما مرسلة جميل (‪ )6‬وما حكي عنه بال‬
‫لفظة " روي " يكون على الظاهر من فتوى صاحبه‬
‫كتاب البيع‪//‬السيد الخميني‪ //‬ج ‪ //5‬ص ‪ // 10‬طبع قم ایران‬
‫ترجمہ‬
‫جہاں تک فقہ الرضا کا تعلق ہے تو بال اشکال یہ کتاب امام رضا (ع) کی‬
‫تصنیف نہیں ہے جیسا کہ کتاب کے مالحظہ کرنے اور اس کی تعبیرات‬
‫میں غور و فکر کرنے والے سے مخفی نہیں ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ‬
‫کسی مستقیم الطبع آدمی کی تصنیف سے اس میں کچھ مرسل روایات ہیں‬
‫فتاوی ہیں جو بات ُُروی کے الفاظ سے نقل‬ ‫ٰٰ‬ ‫کچھ صاحب کتاب کے اپنے‬
‫کی گئی ہے اس کا مضمون دیگر روایات سے قریب تر اور ملتا جلتا ہے‬
‫اور جو لفظ روی سے باتین نقل ہوئی ہیں وہ بظاھر صاحب کتاب کا اپنا‬
‫ٰٰ‬
‫فتوی ہے‬
‫كتاب البيع‪//‬السيد الخميني‪ //‬ج ‪ //5‬ص ‪ // 10‬طبع قم ایران‬
‫فقہ رضا (ع) ‪ ،‬عالمہ محدث ُُحر عاملی (رہ) کی نظر میں‬
‫عالمہ حر عاملی (رہ) صاحب‪ d‬وسائل الشیعہ فرماتے ہیں‬
‫وعندنا أيضا كتب ال نعرف مؤلفيها منها‪ .....‬الفقه الرضوي ال يعرف جامعه‬
‫وراويته وأمثال هذه الكتب ال يعتمد على نقلها لكنه مؤيد لغيره‬
‫أمل اآلمل‪//‬الحر العاملي ‪//‬ج ‪//2‬ص ‪//364‬طبع قم ایران‬
‫ترجمہ‬
‫ہمارے ہاں ایسی کتب بھی پائی جاتی ہیں جن کے مئولف ابھی تک ہمیں‬
‫معلوم نہ ہوسکے ان ہی میں ایسی ایک کتاب فقہ رضا (ع) ہے جس کے‬
‫جامع اور روایت کرنے والے کا پتہ نہ چل سکا‬
‫أمل اآلمل‪//‬الحر العاملي ‪//‬ج ‪//2‬ص ‪//364‬طبع قم ایران‬
‫حاصل مطالعہ‬
‫اس بحث کا نتیجہ یہ نکال کہ یہ کتاب امام رضا (ع) کی نہیں ہے بلکہ‬
‫کسی مجہول المولف کی کتاب ہے اور جب اصل ماخذ ہی غلط ہے تو‬
‫روایت خود بخود کمزور و ضعیف اور ناقابل ہو جاتی ہے ‪ .‬اس کتاب کے‬
‫مندرجات صریحا`` خالف تشیع ہیں‬
‫‪https://www.shiachat.com/forum/topic/235028219-the-book-fiqh-al-riza/‬‬

‫اپنی تسلی کے لئے مندرجہ ذی‪dd‬ل کتب س‪dd‬ے اس‪dd‬تفادہ کی‪dd‬ا ج‪dd‬ا س‪dd‬کتا ہے۔ ان‪ ‬‬
‫تمام کتب میں تشہد میں شہادت ثالثہ کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے۔‬

‫۔ تہذیب االحکام ج ‪۲‬ص ‪۹۹‬۔شیخ طوسیؒ ۔‪۱‬‬


‫عاملی ۔ ‪۲‬‬
‫ؒ‬ ‫۔وسائل شیعہ ج‪۲‬ص‪ ۹۸۹‬۔حر‬
‫مجلسی ۔‪۳‬‬
‫ؒ‬ ‫۔بحار االنوارج‪۱۸‬ص‪ ۴۰۴‬۔عالمہ‬
‫۔مستمسک العروی ج‪ ۴‬ص‪۳۵۷‬سید محسن حکیم۔‪۴‬‬
‫عروۃالوثقی ج‪۴‬ص‪ ۲۱۸‬سید محمد شیرزیؒ ۔‪۵‬‬ ‫ٰ‬ ‫۔الفقہ شر ح‬
‫۔جواہراالکالم ج‪ ۱۰‬ص ‪۳۳۵‬محمد حسین صاحب‪ d‬جواہر ؒ ۔‪۶‬‬
‫۔حدائق الناضرہ ج‪ ۳‬ص‪۳۶۷‬یوسف بحرانی۔‪۷‬‬
‫۔فالح السائل ص‪۱۳۴‬۔‪۸‬‬
‫۔دعائم االسالم ج‪ ۱‬ص‪۱۶۴‬۔‪۹‬‬
‫۔المعتبرص‪۱۸۹‬محقق حلیؒ ۔‪۱۰‬‬
‫۔المستدرک الوسائل ج ‪۱‬ص‪۳۳۲‬محدث نوریؒ ۔‪۱۱‬‬
‫۔الفقہ شرح تبصرہ ج ‪۱‬ص‪ ۳۷۹‬محمد صادق حسینیؒ ۔‪۱۲‬‬
‫۔مصباح الفقیہ ص‪۳۷۴‬۔‪۱۳‬‬
‫۔ذکری الشیعہ فی احکام الشریعہ شہید ثالثؒ ۔‪۱۴‬‬
‫طبائی ۔‪۱۵‬‬
‫ؒ‬ ‫۔عروۃالوثقی ٰ ص‪۲۱۶‬سید کاظم طبا‬
‫سبزواری ۔‪۱۶‬‬
‫ؒ‬ ‫۔مھذب االحکام ج‪ ۷‬ص‪۶۲‬عبداالعلی‬
‫۔یہ مذہب شیعہ کی نہایت اہم کتب ہیں۔ ان میں سے کسی ایک میں بھی‪ ‬‬
‫ٰ‬
‫المولی‘‬ ‫شہادت ثالثہ کا ذکر نہیں ہے اورہی نہ کسی میں ’اشہد ان علیا نعم‬
‫ہے ۔البتہ یہ اضافہ فقہ الرضا میں ملتا ہے ۔اس کے بعد نہ اس سے پہلے‬
‫کسی بھی حوالے سے یہ جملہ نہیں ملتا۔فقہ الرضا کے متعلق یہ کہنا ہی‬
‫کافی ہے کہ فقہاء مذہب شیعہ نے اسے بے سند قرار دیا ہے ۔‬

You might also like