Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 20

‫ٹرانسفارمیشن کے حقائق‬

‫ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیمائن کمیشن(‪)Femine Comission‬کی سفارشات‬


‫رض وجود میں آیا۔ جسے ‪ 1962‬میں زرعی یو نیورسٹی سے الگ‬
‫پر‪1906‬میں مع ِ‬
‫کر کے ریسرچ کا علیحدہ ادارہ بنا دیا گیا۔ ادارہ ٰہذا پاکستان کی تاریخ‪ ،‬فوڈ‬
‫سیکیورٹی اور زراعت کی ریسرچ میں ‪ GHQ‬اہمیت ر کھتا ہے۔اس ادارے کی‬
‫ریسرچ اور ڈیولیپمنٹ کے کردار کو دُنیا کے نامور اداروں (‪ )FAO, CIMMYT‬نے‬
‫پاکستان میں سبز انقالب (‪ )Green Revolution‬کا سہرا اسی‬ ‫بہت سراہا ہے‬
‫ادارے کے سر جاتا ہے‪ ،‬جسکا اعتراف مسٹر بورالگ بھی کر چکے ہیں۔‬
‫ادارہ ٰہذا کے ‪ ۴‬بڑے ریسرچ انسٹیٹیوٹ‪ ،‬مکئ‪ ،‬گنا‪ ،‬چاول اورگندم کو ‪Punjab Agri.‬‬
‫‪ Res. Transformation‬کے نام پر ‪ Transform‬یا آسان الفاظ میں ‪ Private‬کیا جا‬
‫رہا ہے۔‬
‫‪(Pun. Agri. Res. Transformation Act 2021, Vide: Govt. of Punjab Agri.‬‬
‫‪Dep. No. SOA (P) 9-11/2021-22; Dated 02-03-21‬‬
‫جن بے بنیادوجوہات کی بنا پر یے تبدیلی الئی جا رہی ہے وہ درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ اس ادارے کی ریسرچ کا معیار گر چکا ہے اور یہ سست روی کا شکار ہے۔‬
‫جبکہ جو ‪4‬ادارے انکے ہاتھوں تباہی کے دہانے پر کھڑے ہیں اُن کی کارکردگی کے‬
‫بارے میں ‪ 5‬سالہ اعدادو شمار بالکل مختلف تصویر کَشی کرتے ہیں‪:‬‬

‫‪ -1‬گندم‪:‬‬
‫تحقیقاتی ادارہ گندم فیصل آباد ‪،‬ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آبادکا اہم ادارہ‬
‫ہے۔ یہ ادارہ گندم کی نئی اقسام اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی پر تحقیق کرتا ہے۔‬
‫ادارہ ٰہذا کی تیار کردہ گندم کی اقسام صوبہ پنجاب میں ‪ % 99‬رقبہ پر کاشت کی‬
‫جا رہی ہے۔ یہ ادارہ اب تک ‪ 60‬سے زائد اقسام بشمول پیداواری ٹیکنالوجی‬
‫متعارف کروا چکا ہے۔‬
‫‪ 1965‬میں پہلی مرتبہ چھوٹے قد والی جدید گندم کی قسم میکسی پاک ‪ 65‬کو‬
‫متعارف کروانے کا سہرا بھی اسی ادارے کے سر ہے۔ پنجاب کا گندم کی کاشت کا‬
‫عالقہ اور پاکستان کا ‪ 80 %‬عالقہ اس ادارہ کے زرعی سائنسدانوں کی بنائی ہوئی‬
‫اقسام پر مشتمل ہے۔ اس سال پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ گندم کی‬
‫پیداوار کا سہرا سی ادارے کی اقسام کو جاتا ہے۔ ‪ 2019‬میں ادارہ گندم کی ہی‬
‫تیار کردہ جدید اقسام کی کاشت کی وجہ سے کسانوں نے ‪ 1.5‬ملین ٹن اضافی‬
‫پیداوار حاصل کی۔ جس کی بدولت حکومت کو ‪ 67.5‬ارب روپے کا معاشی فائدہ‬
‫حاصل ہوا۔ صوبہ بھر میں گندم کے معیاری بیج کی معقول نرخوں پر فراہمی کے‬
‫لئے ادارہ ہر سال کسانوں اور پرائیویٹ سیڈ کمپنیوں کو تقریبا ‪ 13700‬کلو گرام‬
‫پری بیسک اور ‪ 21000‬کلوگرام بیسک سیڈ فراہم کرتا ہے۔ اس ادارہ کی تیار کردہ‬
‫جدید اقسام کی بدولت ہی اس سال گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ چونکہ ادار‬
‫کی تیار شدہ اقسام موسمی حاالت کو مدِنظر رکھتے ہوے تیار کی جاتی ہیں اس‬
‫لئے نامساعد موسمی حاالت کو احسن طریقے سے برداشت کرنے کی صالحیت‬
‫رکھتی ہیں جسکی وجہ سے یہ اقسام درامد شدہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ‬
‫پیداوار دیتی ہیں۔ ان حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس ادارے کی نجکاری نہائیت‬
‫ناقابل تالفی نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ ادارہ ہمارے‬
‫ِ‬ ‫نامناسب قدم ہےجس سے ملک کو‬
‫لہذا اس ادارے کی‬
‫ملک کا قومی ورثہ اور فوڈ سیکیورٹی کی ضمانت ہے۔ ٰ‬
‫تحقیقاتی کاوشوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کی بقا کو الزم بنایا جائے۔‬

‫‪2‬۔ گنا‪:‬‬
‫تحقیقاتی ادارہ کماد فیصل آباد جو کہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ‪ ،‬فیصل آباد کا‬
‫معرض وجود‬
‫ِ‬ ‫ایک ذیلی ادارہ ہے‪ ،‬سنہ ‪ 1977‬میں ریسرچ انسٹیٹوٹ کے طور پر‬
‫میں آیا۔ ا ِس کے سائنسدانوں و مالزمین کی دِن ورات کی انتھک محنت سے اب‬
‫تک کماد کی ‪ 28‬نئی اقسام کی دریافت بشمول پیداواری ٹیکنالوجی ‪ ،‬کماد کیلئے‬
‫جدید مشینری ‪ ،‬کماد کی بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں کا تدارک اور ا ِس کے ساتھ‬
‫ساتھ پنجاب کے کاشتکاروں کو ان کے کھیت میں جا کر فصل کو درپیش مسائل‬
‫کی نشاندہی اور ان کے حل کے بارے میں معلومات باہم پہنچائیں۔ جس کی‬
‫بدولت صوبہ پنجاب اور پاکستان کی ناصرف چینی کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ‬
‫وطن عزیزنے چینی بر آمد کر کے خطیر ذر ِ مبادلہ بھی کمایا ۔ اور ا ِس کے ساتھ ساتھ‬
‫یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چینی کی صنعت جو کہ قیام پاکستان کے وقت‬
‫‪2‬شوگرمِ لز پر مشتمل تھی اب بڑھ کر‪ 90‬سے زائد شوگر مِ لز پر پہنچ چکی ہے‬
‫جس میں سے تقریبا ً ‪ 46‬شوگر مِ لز صوبہ پنجاب میں واقع ہیں جو کہ ملک کی‬
‫سب سے بڑی صنعت کا درجہ رکھتی ہے اور الکھوں خاندانوں بشمول کسانوں کو‬
‫روزگار مہیا کرتی ہے۔‬

‫تحقیقاتی ادارہ کماد ‪ ،‬فیصل آباد جو کہ محکمہ زراعت ‪ ،‬حکومت پنجاب کا واحد‬
‫ادارہ ہے۔ جو گنے کی نئی اقسام اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی پر تحقیق کرتا ہے۔‬
‫ادارہ ٰہذا کی دریافت کردہ اقسام صوبہ پنجاب میں‪ 95‬فیصد اور پاکستان میں ‪80‬‬
‫فیصد سے زائد گنے کے رقبہ پر کاشت کی جارہیں ہیں ۔ اگر ہم پچھلے بیس سالوں‬
‫کے کماد کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ صوبہ پنجاب جو کہ گنے اور‬
‫چینی کی کل ملکی پیداوار کا تقریبا ً ‪ 65‬فیصد پیدا کرتا ہے کماد کا رقبہ میں تو‬
‫صرف ‪ %4.6‬ا ِضافہ ہوا ہے ‪ ،‬مگر کماد کی کُل پیداوار میں ‪ % 62‬اوسط فی ایکڑ‬
‫پیداوار میں ‪ % 55‬جبکہ چینی کی پیداوار میں ‪ % 100‬سے زائد ا ِضافہ ہوا ہےادارہ‬
‫ٰھذا کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تحقیقاتی ادارہ کماد ‪ ،‬فیصل آباد اپنے‬
‫مقامی وسائل اور بیرون ممالک بشمول امریکہ ‪ ،‬برازیل ‪ ،‬آسٹریلیا ‪ ،‬جنوبی افریقہ ‪،‬‬
‫بار باڈوس اور فلپائن وغیرہ کے اشتراک سے گنے کی اقسام کی دریافت پر جو‬
‫تحقیقاتی کا م جاری ہے اس کی بدولت ملک عزیز کی چینی کی پیداوار جو کہ سنہ‬
‫‪ 2000 -01‬میں ‪ 2.47‬ملین ٹن تھی بڑھ کر سنہ ‪، 2019-20‬میں ‪ 4.82‬ملین ٹن‬
‫تک پہنچ چکی ہے۔ اور ا ِسی طر ح صوبہ پنجاب کی چینی کی پیداوار سنہ‪-01‬‬
‫‪ 2000‬میں ‪ 1.44‬ملین ٹن سے بڑھ کی سنہ ‪ 2019-20‬میں ‪ 3.06‬ملین ٹن ہو‬
‫چکی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملکی چینی کی پیداوار میں خود کفالت کا حصول‬
‫ممکن ہوا۔ یہ تمام کامیابیاں پاکستان کے کسان با لعموم اور صوبہ پنجاب کے‬
‫کسان بلخصوص کا تحقیقاتی ادارہ کماد ‪ ،‬فیصل آباد کی دریافت کردہ گنے کی‬
‫اقسام اور پیداواری ٹیکنالوجی پر اعتماد کا اظہار ہے جن کو اپنا کراس کی انتھک‬
‫محنت کی بدولت اور ناموافق حاالت (بشمول پانی کی کمی ‪ ،‬کھادو زرعی ادویات‬
‫اور ڈیزل ومشینری کی کمیابی و مہنگے داموں فراہمی وغیرہ ) کے باوجود ہم نے‬
‫صوبائی و ملکی گنے اور چینی کی پیداوار کی خود کفالت کی منازل طے کیں۔ اور‬
‫یہی وجہ ہے کے گنا ہمارے ملک کی سب سے اہم نقد آور فصل ہونے کے ساتھ‬
‫ساتھ کاشتکاری کا پہال انتخاب ہے جو کہ اس کی معاشی بہبود میں ریڑھ کی‬
‫ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور مقامی چینی کی صنعت کو خام مال( گنا) فراہم کر‬
‫کے الکھوں گھرانوں کو روز گار فراہم کرتا ہے۔‬

‫‪3‬۔ مکئی‪:‬‬
‫تحقیقاتی ادارہ برائے مکئی‪ ،‬جوار‪ ،‬باجرہ‪ ،‬یوسف واال ساہیوال ‪ 1958-59‬میں‬
‫معرض وجود میں آیا۔ ادارہ اپنے قیام سے ہی ملکی زراعت اور کسانوں کی فالح و‬
‫بہبود کے لیے کو شاں ہے۔ ‪ 1966‬میں پاکستان میں مکئی کے پہلے ہا بئرڈ ‪59‬‬
‫‪ DC‬کی تیاری اسی ادارہ کی سعی مسلسل ثمر تھا۔ اسی ادارہ کی تحقیق سے‬
‫پنجاب میں بہاریہ مکئی کی کا شت ممکن ہو سکی۔ رواں سال صوبے کے کل‬
‫رقبے اور پیداوار میں بہار یہ مکئی کا حصہ بالترتیب ‪45‬اور ‪ 51‬فیصد ہو گیا ہے‬
‫جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید برآں مکئی کی سیڈٹرٹیمنٹ اور پٹڑیوں‬
‫پر کاشت کو متعارف کروانے کا سہرا بھی اس ادارہ کے سر ہے۔‬

‫مکئی‪ ،‬جوار‪ ،‬باجرہ کی کل ‪ 43‬ہا بئرڈاور عام اقسام تیار کر اپنے قیام سے لے کر‬
‫اب تک ادارہ چکا ہے ۔ جبکہ گزشتہ ‪5‬سالوں کے دوران‪ 20‬ہابئرڈ اور عام اقسام‬
‫کسانوں کے لیے متع ارف کروائی گئی ہیں جو کہ اپنی زیادہ پیداوار اور موسی‬
‫مطابقت کی وجہ سے زمیندار طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ اس‬
‫ادارہ نے پاکستان کی پہلی منظور شدہ سویٹ کارن اور پاپ کارن کی ورائیٹیاں‬
‫دینے کے ساتھ ساتھ جوار اور باجرہ کے پہلے ملکی منظور شدہ ہابئرڈ بھی عام‬
‫کاشت کے لیے کسانوں کو دیے ہیں۔صوبہ بھر میں مکئی‪ ،‬جوار‪ ،‬باجرہ کے معیاری‬
‫پیج کی معقول نرخوں پر فراہمی کے لیے ادارہ ہر سال کسانوں اور پرائیوٹ سیڈ‬
‫کمپنیوں کو تقریبا ‪ 2300‬کلو گرام بیسک اور ہابئرڈ سیڈ مہیاکرتا ہے۔ مزید‬
‫برآںمحکمہ زراعت توسیع اور نجی سیڈ کمپنیوں کے عملے کی عملے کی تر بیتی‬
‫نشتوں کا انعقاد اور فصلوں کی جد ید پیداواری ٹیکنالوجی کو پرنٹ اور الیکٹرونک‬
‫میڈیا کے ذریعے کسان برادی تک پہنچانا بھی ادارے کی مستقل سر گرمی ہے۔‬
‫تحقیقاتی خدمات کے ساتھ ساتھ ادارہ ساالنہ‪ 12‬ملین روپے قومی خزانہ میں جمع‬
‫کر واتا ہے۔‬
‫چونکہ ادارہ کی تیارشدہ اقسام موسمی حاالت کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کی‬
‫جاتی ہیں اس لیے یہ نا مساعد موسمیاتی تغیرات کو احسن طریقے سے برداشت‬
‫کر نے کے صالحیت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے یہ اقسام درآمد شدہ اقسام کے‬
‫مقابلہ میں زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔ ادارے کی تحقیقاتی کاوشوں کا اعتراف بین‬
‫االقومی ادارہ برائے مکئی و گندم میکسیکو ( ) بار ہا مختلف فور مزپر کر چکاہے۔‬
‫حالیہ طور پر پاکستان مکئی‪ ،‬جوار‪ ،‬باجرہ کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔‬

‫مند رجہ با ال حقائق کی روشنی میں ادارہ ہذا کی نجکاری نہایت نامناسب قدم ہے‬
‫جس سے ملک وقوم کو نا قابل تالفی نقصان ہو سکتا ہے جس کا ملک پا کستان‬
‫متحمل نہیں ہو دسکتاـ نجکاری کرنے کی بجائے ادارہ کی جدید بنیادوں پر استعد‬
‫اد کار میں بہتری ال کر مکئی ‪ ،‬جوار اور باجرہ کی پیداوار مزید بڑھا کر برآمد کے آمد‬
‫کے ذرمبادلہ میں اضا فی کیا جا سکتا ہے۔‬

‫‪4‬۔ چاول‪:‬‬
‫رائس ریسرچ کاال شاہ کاکو ‪ ،‬ایوب تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کا ایک ذیلی ادارہ ہے‬
‫جو ‪ 1926‬میں بنایا گیا اس ادارے کا مقصد پورے پنجاب سے مونجی کا جرم پالزم‬
‫ا کٹھا کرنا تھا۔ ‪ 503‬مختلف اقسام کے پودے تالش کئے گئے جن کو ‪ 16‬گروپس‬
‫میں تقسیم کیا گیا ان میں ایک گروپ باسمتی کا بھی تھا۔ باسمتی گروپ کی الئن‬
‫نمبر ‪ 370‬نے پیداوار اور کوالٹی کے لحاظ سے پیداواری مقابلوں میں اچھا مقام‬
‫حاصل کیا اس طرح دنیا کی پہلی باسمتی وارائٹی باسمتی ‪ 370‬کے نام سے‬
‫‪ 1933‬میں منظور کی گئی ۔ باسمتی ‪ 370‬کا دانہ لمبا اور خوشبودار تھا جو پک کر‬
‫تقریبا ً ‪ 2‬گنا ہو جاتا ہے۔ یہ دنیا کے لیے قدرت کا ایک خاص انعام اور تحفہ تھا۔‬
‫جسکی کوالٹی صرف کالر کے عالقے (روائتی عالقے) میں ہی پیدا ہوتی ہے جو کہ‬
‫سیالکوٹ‪،‬گوجرانولہ ‪ ،‬شیخوپورہ ‪ ،‬حافظ آباد ‪ ،‬بارووال ‪ ،‬منڈی بہاو دین‪ ،‬ننکانہ‬
‫صاحب اور گجرات کے اضالع پر مشتمل ہے۔ باسمتی ‪ 370‬کو جب غیر روائتی‬
‫عالقوں یعنی ملتان یا اس سےا ٓگے لگایا جائے تو وہ اپنی اصل خاصیت کو کھو‬
‫دیتی تھی۔ یعنی دنیا کا بہترین خوشبودار چاول صرف کالر کےعالقے میں ہی پیدا‬
‫ہو سکتا ہے باسمتی ‪ 370‬دنیا کی تمام خوشبودار اقسام کے لئے ایک معیار کی‬
‫حیثیت رکھتی ہےاور اب تک کی تما م باسمتی اقسام میں براہ راست یا بالواسطہ‬
‫باسمتی ‪ 370‬کا ہی خون شامل ہے۔‬

‫اب تک تحقیقاتی ادارہ دھان ‪ ،‬کاال شاہ کاکو نے چاول کی ‪ 29‬اقسام منظور کروائی‬
‫ہیں جن میں ‪ 25‬باسمتی ‪ /‬فائن اور ‪ 4‬موٹی اقسام ہیں جو کہ پنجاب کے عالوہ‬
‫سندھ اور بلوچس تان میں بھی کافی رقبہ پر کاشت ہو رہی ہیں۔ ان میں باسمتی‬
‫‪ ، 2000‬سپر باسمتی ‪ ،‬باسمتی ‪ 515‬اور کے ایس کے ‪ 133‬نمایاں ہیں۔ ‪ 2021‬میں‬
‫دنیا کا پہال باسمتی ہائبرڈ کے ایس کے ‪ 111‬ایچ منظور کیا گیا اب تک دنیا کی‬
‫سب سے لمبے چاول ‪ 8.26‬ملی میٹر نئی ورائٹی پی کے‪ 2021‬ایرومینک بھی‬
‫‪ 2021‬میں ہی منظور کی گئی جس سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں نمایاں ور‬
‫انقالبی بہتری آئے گی۔‪ 1947‬میں پاکستان معرض وجود میں آیا اس وقت مونجی‬
‫کی فی ایکٹر پیداوار صرف ‪ 12-15‬من تھی۔ جو کہ کاال شاہ کاکو کے ذہین اور‬
‫محنتی سائنسدانوں کی شب وروزمحنت کے باعث ‪ 80‬من تک پہنچ چکی ہے‬
‫موٹی اقسام میں کے ایس کے ‪ 133‬کی پیداوار ی صالحیت ‪ 105‬من تک ہے جسکو‬
‫بہت سی پرائیویٹ سیڈ کمپنیاں ہائبڑڈسیڈ کے نام سے بیچ رہی ہے۔‬
‫مونجی میں جراثیموں جھلساو)‪ (BLB‬ایک بہت خطر ناک بیماری ہے اس کے‬
‫خالف قوت مدافعت رکھنے والی نئی قسم سپر گولڈ کے نا م سے ‪ 2019‬میں‬
‫منظور کروائی گئی۔ بچوں اور حاملہ خواتین میں آئرن اور زنک کی کمی بہت بڑا‬
‫لہذا ایسی قسم تیار کی گئی ہے جو ان میں آئرن اور زنک کی کمی کو‬
‫مسئلہ ہے۔ ٰ‬
‫فوری طور پر پورا کر سکے گی ۔ پاکستان اور پنجاب میں الکھوں ایکٹرزرعی زمین‬
‫کلر پن‪ ،‬پانی کی کمی اور خشک سالی یا سیالبوں کی وجہ سے خالی پڑی رہتی‬
‫ہے۔ ادارہ کے سائنسدانوں کی انتھک کاوشوں کی بدولت ایسی اقسام تیار ہو چکی‬
‫ہیں کو نہ صرف کلراٹھی زمینوں میں اچھی پیداوار دیتی ہیں بلکہ خشک سالی کو‬
‫بھی برداشت کرتی ہیں۔ ہر دو سے تین سالوں کے بعد سیالب آتے ہیں جو کہ‬
‫الکھوں ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصالت کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔ یہ اقسام سیالب کے‬
‫نقصان دہ اثرات کو ایک ہفتہ تک برداشت کر سکتی ہیں۔ دھان کی بیج سے براہ‬
‫راست کاشت )‪(DSR‬ادارہ کی ایک نئی ٹیکنالوجی ہے جس میں چاول گندم کی‬
‫طرح اگایا جاتا ہے جہاں زمین ہموار نہیں ہوتی وہاں بیج پانی میں ڈوب جاتا ہے اور‬
‫ا ُ گنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ ہم نے ایسی اقسام تیار کر لی ہیں جو پانی میں‬
‫ڈوبنے کے باوجود ا ُ گتی ہیں اس طرح ڈی ایس آر )‪(DSR‬کے لئے کم شاخوں والی‬
‫اقسام بھی تیار کر لی گئی ہیں۔‬

‫موٹی اقسام کی پہلے ایک ہی فصل لی جاتی تھی مگر سائنسدانون نے آرجی اے‬
‫کوا ستعمال کرتے ہوئے موٹی اقسام کی سال میں‪ 2‬فصلیں لینی شروع کر دی‬
‫ہیں۔ جن سے نئی قسم تیار کرنے کا دورانیہ کافی کم ہو گیا ہے۔ پرانی باسمتی‬
‫اقسام قد میں زیادہ ہونے کے ساتھ دیر سے پکتی تھیں مگر اب نئی باسمتی اقسام‬
‫کا قد ‪ 170‬سینٹی میٹر سے کم ہو کے ‪ 98‬سینٹی میٹر ہو گیا ہے اور پکنے کا دورانیہ‬
‫‪ 130‬دنوں سے کم کر کے ‪ 94‬دن تک ا ٓگیا ہے باسمتی دانے کی لمبائی جو کہ صرف‬
‫‪ 6.5‬ملی میٹر تھی بڑھ کر ‪ 9.5‬ملی میٹر تک پہنچ چکی ہے جو کہ مونجی کی‬
‫ایکسپورٹ میں ایک انقالب لے آئے گا۔ یہ دنیا کا سب سے لمبا چاول ہو گا۔ دھان کا‬
‫تیال ایک اہم ضرررساں کیڑا ہے اور ادارہ کے سائنسدانوں نے تیلے کی ایک نئی قسم‬
‫(چھوٹا بھورا تیلہ ) ملک میں پہلی بار دریافت کی ہے۔ اسی طرح دھان کے تیلے کے‬
‫سات متبادل خورا کی پودے (گھوڑا گھاس‪ ،‬مینا ‪ ،‬کھبل ‪ ،‬سورج مکھی‪ ،‬جوار‪ ،‬مکئی‬
‫اور برسیم) دنیا میں پہلی بار ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ تیلے کے خالف قوت مدافعت‬
‫رکھنے والی اقسام کی تیاری جارہی ہیں۔‬

‫پری بیسک اور بیسک بیج زمینداروں کی اچھی فصل کے لئے بہت ضروری ہیں۔‬
‫ادارہ اتنی مقدار میں پری بیسک اور بیسک بیج تیار کرتا ہے جو تمام پرائیویٹ‬
‫سیڈ کمپنیوں اور زمینداروں کی ڈیمانڈ پوری کرتا ہے۔ چاول کے پاوڈر سے خوردنی‬
‫تیل جو کہ دل کے مریضوں کے لئے بہترین خصوصیات کا حامل ہے کو نکالنے کی‬
‫ٹیکنالوجی تیار کی جا چکی ہے۔ سیال بنانے کے لئے ‪Parboiling‬ٹیکنالوجی متعارف‬
‫کروائی گئی ہے۔ پنجاب میں تقریبا ً ‪ %90‬رقبہ پر تحقیقاتی ادارہ دھان ‪ ،‬کاال شاہ کا‬
‫کو کی ہی تیار شدہ اقسام لگ رہی ہے۔ جن سے زمینداروں نے ساالنہ تقریبا ً ‪25‬‬
‫ارب روپے کی اضافی بچت حاصل کی جس سے ان کی سماجی زندگی پر بہت‬
‫اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انڈیا آج تک کو ئی باسمتی قسم پیدا نہیں کر سکا‬
‫بلکہ انڈیا نے پاکستان کی پی کے ‪ ، 386‬باسمتی ‪ 385‬اور سپر باسمتی اپنے ہاں‬
‫لہذا ان تمام‬
‫منظور کروائیں اور کاشتکاروں کی اقسام کو لگانے پر زور دے رہا ہے۔ ٰ‬
‫کامیابیوں کو سامنے رکھتے ہوئے رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کاال شاہ کاکو کو‬
‫پرائیویٹ یا ٹرنسفارم کرنا بالکل بھی دانشمندانہ فیصلہ نہ ہو گا۔‬

‫ان چاروں اداروں کی حاصل کردہ کامیابیاں انگنت ہیں جس کی بنیاد پر یہ تصور‬
‫کرنا بھی غلط ہو گا کہ زرعی ریسرچ سست روی کا شکار ہے۔‬

‫‪2‬۔انسٹیٹیوٹ کا بڑا اور وسیع انفرا سٹرکچر‪:‬‬


‫اس ادارے کی نجکاری کی ایک وجہ اس کا وسیع ڈھانچہ قرار دی گئی ہے جو کہ‬
‫انتظامی امور میں دشواری پیدا کرتا ہے ‪ ،‬جبکہ نجکاری کے بعد اسی ڈھانچے سے‬
‫قابل استعمال بنانے کا کوئی‬
‫ِ‬ ‫ہی فائیدہ اُٹھایا جائے گا۔ عالوہ ازیں اس ڈھانچے کو‬
‫الئحہ عمل تجویز نہیں کیا گیا۔‬

‫‪3‬۔ سائنسدانوں کی کہنہ سالی‪:‬‬


‫نجکاری کی ایک اور وجہ زرعی سائنسدانوں کی کہنہ سالی بھی بتائی گئی ہے۔‬
‫جو ان کے مطابق تحقیق کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے۔لیکن تاریخ گواہ ہے کہ‬
‫سائینسی ایجادات اور کامیابیاں تجربے سے ہی ممکن ہوئیں۔ دُنیا میں زیادہ تر‬
‫ایجادات ‪ 60‬سال سے زیادہ عمر کے سائینسدانوں نے حاصل کیں۔ سائینسدان اور‬
‫کھالڑی میں فرق محسوس کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ان کے کام اور خدمات‬
‫مختلف ہوتی ہیں۔ یہ موقف اس دستاویز میں بہت دفعہ اپنایا گیا ہے۔ بعد ازاں‬
‫کسی خاص انسان کو نوازنے کے لئے عمر کی حد ‪ 65‬سال رکھی گئی ہے۔اس سے‬
‫بڑا تضاد کیا ہو سکتا ہے؟ ایک مینیجر کی تعیناتی اس کی کم عمری اور جسمانی‬
‫تندرستی کی بنا پر کی جاتی ہے۔ جبکہ تحقیقدان اور سائینسدان کا تعین تعلیمی‬
‫قابلیت اور تجربے کی بنیاد پر ہی کیا جاتا ہے۔‬
‫اس ٹرانسفارمیشن دستاویز میں یہ تجویز دی گئی ہے کہ مالزمین کو ‪ 55‬سال کی‬
‫عمر پر فارغ کر دیا جائے‪ ،‬جبکہ ساری دُنیا کی ریسرچ کے مطابق یہی عمر سب‬
‫سے زیادہ سود مند ثابت ہوتی ہے۔مزید براں یہ سائنسدان ہمارے ملک کا سرمایہ‬
‫ہیں‪ ،‬ملک نے اپنا قیمتی سرمایہ لگا کر انکی قابلیت میں اضافہ کیا ہے۔ اور ان‬
‫سائنسدانوں نے ان تھک محنت سے مشکل حاالت میں ادارے کا ساتھ دیا ہے‪،‬‬
‫انکے آخری ‪ 5‬سال ادارہ کے لئے بے حد مفید ہوتے ہیں جب وہ اپنی صالحیتیں آنے‬
‫والی نسل کو منتقل کرتے ہیں اس وقت انہیں ادارے سے بے دخل کرنا نہ صرف‬
‫زرعی تحقیق کے تسلسل کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے بلکہ نوخیز سائنسدانوں کا‬
‫مورال بھی کم کر سکتا ہے۔ ایک ہی دستاویز میں عمروں کی دو حدیں کیا کھال‬
‫تضاد نہیں؟؟؟یہ دہرا میعار کیوں؟؟؟؟‬

‫‪3‬۔ ‪ 3‬سال کا کنٹریکٹ‪:‬‬


‫نجکاری دستاویز میں واضح تحریر ہے کہ ان چاروں اداروں کے مالزمین کو فارغ کر‬
‫کے اوپن مارکیٹ سے نئے مالزمین‪ 3‬سال کے لئے بھرتی کئے جائیں گے۔ جبکہ کوئی‬
‫بھی عقل رکھنے والے شخص اس بات کی سفارش نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ کسی‬
‫بھی فصل کی قسم کی تیاری کے لئے کم از کم ‪ 10‬سال کا دورانیہ ضروری ہے۔ ‪3‬‬
‫قابل عمل نہیں۔ ایک تیار شدہ اور حکومت سے‬
‫ِ‬ ‫سال کا عرصہ کسی صورت بھی‬
‫سرٹیفائیڈ قِسم کے پھیالو اور تشہیر کے لئے بھی یہ دورانیہ ناکافی ہے۔ تو یہ کہنا‬
‫خام خیالی ہے کہ یہ نجکاری زراعت کی ترقی کے لئے ہے۔‬
‫اسکے عالوہ اس دستاویز میں اس بات کا عاعدہ کیا گیا ہے کہ ؛‬
‫‪۱‬۔ صاف و شفاف بھرتیاں کی جائیں گی اور‬
‫‪۲‬۔ اچھے پراجیکٹس میں پیسے لگائے جائیں گے‪،‬‬
‫تاہم‪ ،‬چیف ایگزیکٹو کی ہوش ربا تنخواہ )‪ )Rs.4000000/‬اور ‪ 65‬سال عمر کی‬
‫حد کے عالوہ کچھ بھی قلم بند نہیں کیا گیا کہ؛‬
‫‪ ‬ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لئے اتنی تنخواہ لے کر کیا الئحہ عمل‬
‫اپنایا جائے گا‪ ،‬اور یہ تنخواہ ایک غریب ُملک کس طرح ادا کر پائے گا۔‬
‫‪ ‬اس ملک کے غریب عوام کیا صرف ان بڈھے ‪ ،‬اللچی اور ُملک کے اثاثوں کو‬
‫کوڑیوں کے بھاو بیچنے والوں کو تنخواہ دینے کے لئے ٹیکس دیں گئے؟؟؟‬
‫‪ ‬اتنی بھاری انویسٹمنٹ کے بعد کیا کسان کو بیج سستے داموں دیا جائے گا؟‬
‫‪ ‬کسان جو پہلے ہی کھاد ‪ ،‬زرعی ادویات‪ ،‬پیٹرول‪ ،‬ڈیزل اور بجلی کی بڑھتی‬
‫ہوئی قیمتوں سے نڈھال ہے ‪ ،‬کیا مہنگا بیج خرید پائے گا۔‬
‫یہ ساری چیزیں مہنگائی میں مزید اضافے کا باعث بنیں گی اور آخرکار ملک کی‬
‫‪ Food Security‬خطرے میں پڑ جائے گی۔مزید براں جس تنخواہ پر یہاں ایک مالزم‬
‫بھرتی کیا جائے گا اس ساالنہ تنخواہ پر ‪ 4‬مالزمین ادارہ کی خدمت میں مشغول‬
‫ہیں۔ اور یہ تنخواہ ‪ 4‬سایئنسدانوں کی پورے سال کی تنخواہ کے برابر ہے۔ غرض یہ‬
‫کہ یہ ٹرانسفارمیشن کی تجویز صرف اور صرف درغ گوئی پر مبنی ہے۔ اس میں‬
‫زراعت کی ترقی کے لیے کوئی الئحہ عمل تجویز نہیں کیا گیا‪ ،‬بلکہ یہ براہِراست‬
‫ہمارے ملک کے بڑے ادارے جو ملک کی آزادی اور خودمختاری کے ضامن ہیں‬
‫انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اس سارے تجربے سے ملک کی سالمیت خطرے میں‬
‫پڑ جائے گی‪ ،‬مہنگائی میں اضافہ عوام کو مزید برہم کر دے گا‪ ،‬بے روزگاری میں‬
‫اضافہ ہو گا اور ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں ا ٓ جائے گا۔‬
‫پچھلی ‪ 2‬دہائیوں کی دہشت گردی کے باوجود اگر ہمارا ُملک ُمستحکم رہا تو‬
‫اسکی بڑی وجہ زراعت ہے۔ زراعت ہی کسی ُملک کی فوڈ سیکیورٹی اور‬
‫خودمختاری کی ضامن ہوتی ہے۔زراعت کی تباہی ُملک کی تباہی ہے‪ ،‬روس صرف‬
‫لہذا ا ِس فیصلہ کو ملکی کی سالمتی کے‬
‫غذائی قلت کی بنا پر ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا۔ ٰ‬
‫پر فی‬ ‫لئے ایک بڑا خطرہ سمجھتے ہوئے واپس لیا جائے‪ ،‬اور درج ذیل گزارشات‬
‫الفور عمل کیا جائے تا کہ زراعت کو حقیقی معنی میں ترقی کی راہ پر گامزن کیا‬
‫جاسکے؛‬

‫گزارشات‬
‫قابل عمل پالیسز‬
‫ِ‬ ‫‪1‬۔ گورنمنٹ اس سال کی گندم پالیسی کی طرح اچھی‬
‫الئے۔(امسال گندم کی ریکارڈ پیداوار اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ فصالت کی‬
‫اقسام تو اچھی ہی پیداوار دیتی ہیں لیکن کسان گورنمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ‬
‫سے نقصان اُٹھاتا ہے۔ مزید یہ کہ باقی فصالت بھی اچھی پالیسوں سے اچھی‬
‫پیداوار دے سکتی ہیں)۔‬
‫‪ 2‬۔ ڈیم بنائے جائیں‪ ،‬کیونکہ ملک کی زراعت کو مستقبل میں پانی کی کمی کا‬
‫خطرہ ہے۔نہ کہ زرعی تحقیق سے جو کہ مستقل مزاجی سے بہتری کی طرف‬
‫گامزن ہے۔‬
‫‪ 3‬۔ تحقیقاتی اداروں اور ان کے سائینسدانوں کی علمی قابلیت بڑھانے کے مواقع‬
‫دینے چاہیں۔‬
‫تو‬ ‫پبلک۔پرائیویٹ پارٹنرشپ طرز کے ادارے بنانا چاہتی ہے‬ ‫‪4‬۔اگر حکومت‬
‫بلوچستان جیسے صوبوں میں بنائے جہاں زرعی تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے‪ ،‬نہ کہ‬
‫ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے والےاداروں کی بھینٹ اس تجربے پر‬
‫چڑھائے۔‬
‫اعلی پنجاب اور جناب وزیر ِ اعظم پاکستان‬
‫ٰ‬ ‫ان سب گزارشات کے بعد جناب وزیر‬
‫سے ُپر زور ا َپیل کی جاتی ہے کہ ا ِس ملک دُشمن نجکاری کو تجویز کو واپس لیں‪،‬‬
‫زراعت کے نمائندگان سے بالمشافہ مالقات کریں تاکہ اُنہیں درست معلومات‬
‫پہنچائی جاسکیں‪ ،‬اور ُملک دشمن عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے‪ ،‬کیونکہ زراعت‬
‫کی ترقی میں ہی پاکسان کی ترقی ہے۔‬
‫زراعت پائیندہ باد‬
‫پاکستان زندہ باد‬
‫پنجاب ایگریکلچرریسرچ ٹرانسفارمیشن‬
‫پالن‪/‬ٹرانسفارمیشن ایکٹ‬
‫(گورنمنٹ آف پنجاب‪ ،‬ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ‪ ،‬مارچ‪-‬‬
‫‪)2021‬‬
‫)‪Vide Govt. of Punjab, Agriculture Department Notification No SOA (P‬‬
‫)‪9-11/2004 (2021-22‬‬

‫اس ٹرانسفارمیشن پالن‪ /‬ٹرانسفارمیشن ایکٹ کے مطابق ایوب زرعی تحقیقاتی‬


‫ادارہ فیصل آباد کے ‪ 4‬بڑے تحقیقاتی اداروں (گندم‪ ،‬چاول‪ ،‬مکئی اور گنا) کی‬
‫نجکاری کر دی جائے گی۔یہ زرعی تحقیقاتی ادارے ہمارا قومی اثاثہ ہیں۔ ان کی‬
‫نجکاری ہماری قومی فوڈ سیکیورٹی کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ اس ٹرانسفارمیشن‬
‫پالن میں مختلف اعدادوشماردیئے گئے ہیںجو حقیقت کے منافی ہیں۔جوڑتوڑ سے‬
‫بنائے گئے ان اعدادوشمار کی بنیاد پر یہ ٹرانسفارمیشن پالن‪/‬نجکاری منصوبہ بنایا‬
‫گیا ہے۔‬
‫حقیقت‬ ‫ٹرانسفارمیشن ایکٹ‬ ‫نمبر‬
‫شمار‬

‫‪ ‬پاکستان کی تاریخ میں گندم کی‬ ‫غیر معیاری ‪ ،‬سست روی کا‬ ‫‪.1‬‬
‫ریکارڈ پیداوار ا ِسی ادارے کی‬ ‫شکار زرعی تحقیق‬
‫وجہ سے ہے۔ ا ِس ادارے کی‬
‫بنائی گئی اقسام پنجاب میں‬
‫‪ 99.5‬جبکہ پورے پاکستان میں‬
‫‪ % 80‬رقبے پر کاشت کی جاتی‬
‫ہیں۔‬
‫‪ ‬گنے کی ‪ ،%95‬اور چاول کی ‪91‬‬
‫‪ %‬اقسام جو ہماری زمینوں میں‬
‫کاشت کی جاتی ہیں وہ انہی‬
‫تحقیقاتی اداروں میں بنائی گئی‬
‫ہیں۔‬
‫‪ ‬قیامِ پاکستان کے وقت ہمارے‬
‫پاس صرف ‪ 2‬شوگر ملز تھیں اور‬
‫اب یہ تعداد‪ 90‬کے قریب ہو گئی‬
‫ہے جن میں سے ‪ 46‬پنجاب میں‬
‫واقع ہیں۔‬
‫‪ ‬ان فصالت پر تحقیق کرنے والے‬
‫یہ واحد ادارے ہیں۔‬
‫‪ ‬فصل کی ایک نئی قسم بنانے‬ ‫نئے سسٹم کے لئے سائنسی‬ ‫‪.2‬‬
‫کے لئے‪ 10‬سے ‪ 15‬سال کاوقت‬ ‫اور تکنیکی انسانی وسائل نئے‬
‫درکار ہوتا ہے جوکہ اس وقت کی‬ ‫سرے سے مارکیٹ کے مطابق‬
‫معیاد کے مطابق نہیں۔‬
‫تنخواہ کا ڈھانچہ اور ‪ 3‬سالہ‬
‫‪ ‬ان اداروں کی بہت سی اقسام‬
‫کنٹریکٹ‬
‫مارکیٹ میں آنے کے لئے تیار‬
‫ہیں۔اور بہت سی اقسام پر کام ہو‬
‫ہے۔ بریڈررائیٹس ایکٹ کے‬ ‫رہا‬
‫مطابق‪ ،‬محقق اپنا قیمتی مواد‬
‫نئے سے چنے گئے نجکاروں کو‬
‫دینے کے لئے تیار نہیں۔‬
‫‪ ‬ہمارا قیمتی سوسالہ پالنٹ جرم‬
‫پالزم )‪(Germplasm‬جو کہ ہمارا‬
‫قیمتی قومی اثاثہ ہے‪ ،‬اُس کا‬
‫نجکاروں کے ہاتھوں میں جانا‬
‫ملک کی سالمتی کے لئے خطرہ‬
‫کا باعث ہو گا۔‬
‫‪ ‬زرعی تحقیق ایک مسلسل عمل‬
‫ہے۔ اور محقق اپنی ساری‬
‫خدمات فصالت کی مختلف‬
‫اقسام بنانے میں صرف کرتا ہے‪،‬‬
‫اس لئے اُنہیں زرعی ماہر کہا‬
‫جاتا ہے۔ اور ماہرین کو چند‬
‫سالوں کے مالزمت پر نہیں رکھا‬
‫جا سکتا۔‬
‫‪ ‬اس عمل سے نئی اقسام بنانے‬
‫اور عوام کی خدمت میں پیش‬
‫کرنے کا عمل متاثر ہو گا۔‬
‫‪ ‬دستاویز کے آخر میں ا ِسی‬ ‫موجودہ زرعی تحقیقی نظام‬ ‫‪.3‬‬
‫ڈھانچہ کے ا ِستعمال کی تجاویز‬ ‫کا وسیع اور غیرمنظم ڈھانچہ‬
‫ہیںجبکہ ا ِسے منظم بنانے کے‬
‫لئے کوئی تجویز نہیں دی گئی۔‬
‫قوانین کے مطابق‬ ‫‪ ‬گورنمنٹ‬ ‫ضعیف‬ ‫کی‬ ‫سائنسدانوں‬ ‫‪.4‬‬
‫ریٹائرمنٹ کی حد ‪ 60‬سال ہے۔‬ ‫العمری کی وجہ سے گرتا‬
‫‪ ‬سائنسی محقق عمر کی بنیاد پر‬ ‫تحقیقی معیار‬
‫جانچے نہیں جا سکتے۔‬
‫‪ ‬دوسری طرف چیف ایگزیکٹو کی‬
‫عمر کی حد ‪ 65‬سال تجویز کی‬
‫گئی ہے۔‬
‫غیرجانب‬ ‫‪ ‬کوئی بھی تیسرا‬
‫دارفریق عمر کے اعدادوشمار کی‬
‫جانچ کر سکتا ہے جو کہ ا ِس‬
‫دستاویز میں توڑ مروڑ کے پیش‬
‫کئے گئے ہیں۔‬
‫بھرتی کے لئے شفاف نظام جو ‪ ‬تمام موجودہ زرعی محقق پنجاب‬ ‫‪.5‬‬
‫پبلک سروس کمیشن )‪(PPSC‬‬ ‫کہ موجودہ نظام میں نہیں‬
‫کے سلیکشن پراسیجر سے بھرتی‬
‫کئے گئے ہیں‪ ،‬جیسے کہ صوبہ‬
‫کے دوسرے اداروں میں بھرتی‬
‫کئے جاتے ہیں۔ یہ )‪ (PPSC‬پنجاب‬
‫پبلک سروس کمیشن پر اُنگلی‬
‫اُٹھانے کے مترادف ہے۔‬
‫تنخواہ کی مراعات الکھوں ‪ ‬پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک‬ ‫‪.6‬‬
‫میں یہ تنخواہ بالکل بال جواز ہے۔‬ ‫میں ماہانہ بناد پر‬
‫‪ ‬ا ِس منصوبہ میں ایک مالزم کی‬
‫تنخواہ موجودہ نظام میں ‪4‬‬
‫محققین کی ساالنہ تنخواہ کے‬
‫برابر ہے۔‬
‫‪ ‬ا ِس سے بالواسطہ کسان متاثر‬
‫ہو گا ‪ ،‬بیج کی قیمت بڑھے گی‬
‫اور کاشت کا تخمینہ بھی بڑھ‬
‫جائے گا۔‬
‫‪ ‬تنخواہ میں ا ِتنا ا ِضافہ بہترین‬
‫تحقیق کی ضمانت نہیں۔ اگر ہے‬
‫تو ا ِسے موجودہ نظام پر الگو‬
‫کیوں نہیں کیا جاسکتا۔‬
‫‪ ‬یہ ٹرانسفارمیشن پالن واضح‬
‫طور پر ایک مافیا کی نشاندہی کر‬
‫رہاہے‪ ،‬جو زیادہ مراعات اور ‪65‬‬
‫سال تک کی عمر کی حد میں‬
‫دلچسپی رکھتا ہے۔‬
‫زمینی حقائق‪:‬‬ ‫بیان کردہ مقاصد‪:‬‬ ‫‪.7‬‬

‫‪ ‬ماہانہ ‪ 40‬الکھ تنخواہ‬ ‫‪ ‬زراعت کے مختلف شعبوں‬


‫‪ 65 ‬سال عمر کی حد‬ ‫سے موثر ہم آہنگی‬
‫‪ ‬موجودہ تجربہ کار محققیق‬ ‫‪ ‬ترجیحی تحقیق کے لئے‬
‫کی برطرفی‬ ‫پراجیکٹ کی ٖفنڈنگ‬
‫‪ ‬نئے مالزمین کی بھرتی ‪3‬‬ ‫‪ ‬موثر تحقیقی نظام کے کام‬
‫سال کے لئے مارکیٹ سسٹم‬ ‫کرنے کے لئے عملی لچک‬
‫کے مطابق‬ ‫‪ ‬مارکیٹ بیسڈ تنخواہ اور‬
‫مراعات پر مشتمل نظام بیان کردہ اقدام بیان کردہ مقاصد کو‬
‫تحقیقی پورا نہیں کرتے۔‬ ‫بہترین‬ ‫سے‬
‫ماحول‬
‫‪ ‬موثر ‪ M&E‬سسٹم‬
‫‪ ‬ا ِنسانی وسائل کی بہتری‬
‫اور بڑھوتری‬
‫یہ دستاویز کسی ایک ریفارم یا بہتری کو چھونے سے ناکام رہی ہے۔ جس سے‬
‫ُملک کی نیشنل فوڈ‬ ‫زرعی تحقیق کی بہتری ہو سکے‪ ،‬لیکن یہ ‪%100‬‬
‫سیکیورٹی کو نشانہ بنانے اور غیر موثر کرنے کے لئے ہے۔ اعدادوشمار کا جوڑتوڑ‬
‫کسی بھی غیر جانبدار فریق سے جانچاجا سکتا ہے۔ یہ دہشتگردی کا غدارانہ‬
‫منصوبہ ہے جو کہ ملک کو غیر مستحکم کر دے گا‪ ،‬اور ملک مکمل طور پر بیرونی‬
‫طاقتوں کے رحم و کرم پر ہو گا۔‬

You might also like