Professional Documents
Culture Documents
ٹرانسفارمیشن کے حقائق
ٹرانسفارمیشن کے حقائق
-1گندم:
تحقیقاتی ادارہ گندم فیصل آباد ،ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ فیصل آبادکا اہم ادارہ
ہے۔ یہ ادارہ گندم کی نئی اقسام اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی پر تحقیق کرتا ہے۔
ادارہ ٰہذا کی تیار کردہ گندم کی اقسام صوبہ پنجاب میں % 99رقبہ پر کاشت کی
جا رہی ہے۔ یہ ادارہ اب تک 60سے زائد اقسام بشمول پیداواری ٹیکنالوجی
متعارف کروا چکا ہے۔
1965میں پہلی مرتبہ چھوٹے قد والی جدید گندم کی قسم میکسی پاک 65کو
متعارف کروانے کا سہرا بھی اسی ادارے کے سر ہے۔ پنجاب کا گندم کی کاشت کا
عالقہ اور پاکستان کا 80 %عالقہ اس ادارہ کے زرعی سائنسدانوں کی بنائی ہوئی
اقسام پر مشتمل ہے۔ اس سال پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ گندم کی
پیداوار کا سہرا سی ادارے کی اقسام کو جاتا ہے۔ 2019میں ادارہ گندم کی ہی
تیار کردہ جدید اقسام کی کاشت کی وجہ سے کسانوں نے 1.5ملین ٹن اضافی
پیداوار حاصل کی۔ جس کی بدولت حکومت کو 67.5ارب روپے کا معاشی فائدہ
حاصل ہوا۔ صوبہ بھر میں گندم کے معیاری بیج کی معقول نرخوں پر فراہمی کے
لئے ادارہ ہر سال کسانوں اور پرائیویٹ سیڈ کمپنیوں کو تقریبا 13700کلو گرام
پری بیسک اور 21000کلوگرام بیسک سیڈ فراہم کرتا ہے۔ اس ادارہ کی تیار کردہ
جدید اقسام کی بدولت ہی اس سال گندم کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ چونکہ ادار
کی تیار شدہ اقسام موسمی حاالت کو مدِنظر رکھتے ہوے تیار کی جاتی ہیں اس
لئے نامساعد موسمی حاالت کو احسن طریقے سے برداشت کرنے کی صالحیت
رکھتی ہیں جسکی وجہ سے یہ اقسام درامد شدہ اقسام کے مقابلے میں زیادہ
پیداوار دیتی ہیں۔ ان حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس ادارے کی نجکاری نہائیت
ناقابل تالفی نقصان ہوسکتا ہے۔ یہ ادارہ ہمارے
ِ نامناسب قدم ہےجس سے ملک کو
لہذا اس ادارے کی
ملک کا قومی ورثہ اور فوڈ سیکیورٹی کی ضمانت ہے۔ ٰ
تحقیقاتی کاوشوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے اس کی بقا کو الزم بنایا جائے۔
2۔ گنا:
تحقیقاتی ادارہ کماد فیصل آباد جو کہ ایوب زرعی تحقیقاتی ادارہ ،فیصل آباد کا
معرض وجود
ِ ایک ذیلی ادارہ ہے ،سنہ 1977میں ریسرچ انسٹیٹوٹ کے طور پر
میں آیا۔ ا ِس کے سائنسدانوں و مالزمین کی دِن ورات کی انتھک محنت سے اب
تک کماد کی 28نئی اقسام کی دریافت بشمول پیداواری ٹیکنالوجی ،کماد کیلئے
جدید مشینری ،کماد کی بیماریوں اور کیڑے مکوڑوں کا تدارک اور ا ِس کے ساتھ
ساتھ پنجاب کے کاشتکاروں کو ان کے کھیت میں جا کر فصل کو درپیش مسائل
کی نشاندہی اور ان کے حل کے بارے میں معلومات باہم پہنچائیں۔ جس کی
بدولت صوبہ پنجاب اور پاکستان کی ناصرف چینی کی ضروریات پوری ہوئیں بلکہ
وطن عزیزنے چینی بر آمد کر کے خطیر ذر ِ مبادلہ بھی کمایا ۔ اور ا ِس کے ساتھ ساتھ
یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ چینی کی صنعت جو کہ قیام پاکستان کے وقت
2شوگرمِ لز پر مشتمل تھی اب بڑھ کر 90سے زائد شوگر مِ لز پر پہنچ چکی ہے
جس میں سے تقریبا ً 46شوگر مِ لز صوبہ پنجاب میں واقع ہیں جو کہ ملک کی
سب سے بڑی صنعت کا درجہ رکھتی ہے اور الکھوں خاندانوں بشمول کسانوں کو
روزگار مہیا کرتی ہے۔
تحقیقاتی ادارہ کماد ،فیصل آباد جو کہ محکمہ زراعت ،حکومت پنجاب کا واحد
ادارہ ہے۔ جو گنے کی نئی اقسام اور جدید پیداواری ٹیکنالوجی پر تحقیق کرتا ہے۔
ادارہ ٰہذا کی دریافت کردہ اقسام صوبہ پنجاب میں 95فیصد اور پاکستان میں 80
فیصد سے زائد گنے کے رقبہ پر کاشت کی جارہیں ہیں ۔ اگر ہم پچھلے بیس سالوں
کے کماد کے اعداد و شمار کو دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ صوبہ پنجاب جو کہ گنے اور
چینی کی کل ملکی پیداوار کا تقریبا ً 65فیصد پیدا کرتا ہے کماد کا رقبہ میں تو
صرف %4.6ا ِضافہ ہوا ہے ،مگر کماد کی کُل پیداوار میں % 62اوسط فی ایکڑ
پیداوار میں % 55جبکہ چینی کی پیداوار میں % 100سے زائد ا ِضافہ ہوا ہےادارہ
ٰھذا کی کاوشوں کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ تحقیقاتی ادارہ کماد ،فیصل آباد اپنے
مقامی وسائل اور بیرون ممالک بشمول امریکہ ،برازیل ،آسٹریلیا ،جنوبی افریقہ ،
بار باڈوس اور فلپائن وغیرہ کے اشتراک سے گنے کی اقسام کی دریافت پر جو
تحقیقاتی کا م جاری ہے اس کی بدولت ملک عزیز کی چینی کی پیداوار جو کہ سنہ
2000 -01میں 2.47ملین ٹن تھی بڑھ کر سنہ ، 2019-20میں 4.82ملین ٹن
تک پہنچ چکی ہے۔ اور ا ِسی طر ح صوبہ پنجاب کی چینی کی پیداوار سنہ-01
2000میں 1.44ملین ٹن سے بڑھ کی سنہ 2019-20میں 3.06ملین ٹن ہو
چکی ہے۔ جس کے نتیجہ میں ملکی چینی کی پیداوار میں خود کفالت کا حصول
ممکن ہوا۔ یہ تمام کامیابیاں پاکستان کے کسان با لعموم اور صوبہ پنجاب کے
کسان بلخصوص کا تحقیقاتی ادارہ کماد ،فیصل آباد کی دریافت کردہ گنے کی
اقسام اور پیداواری ٹیکنالوجی پر اعتماد کا اظہار ہے جن کو اپنا کراس کی انتھک
محنت کی بدولت اور ناموافق حاالت (بشمول پانی کی کمی ،کھادو زرعی ادویات
اور ڈیزل ومشینری کی کمیابی و مہنگے داموں فراہمی وغیرہ ) کے باوجود ہم نے
صوبائی و ملکی گنے اور چینی کی پیداوار کی خود کفالت کی منازل طے کیں۔ اور
یہی وجہ ہے کے گنا ہمارے ملک کی سب سے اہم نقد آور فصل ہونے کے ساتھ
ساتھ کاشتکاری کا پہال انتخاب ہے جو کہ اس کی معاشی بہبود میں ریڑھ کی
ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور مقامی چینی کی صنعت کو خام مال( گنا) فراہم کر
کے الکھوں گھرانوں کو روز گار فراہم کرتا ہے۔
3۔ مکئی:
تحقیقاتی ادارہ برائے مکئی ،جوار ،باجرہ ،یوسف واال ساہیوال 1958-59میں
معرض وجود میں آیا۔ ادارہ اپنے قیام سے ہی ملکی زراعت اور کسانوں کی فالح و
بہبود کے لیے کو شاں ہے۔ 1966میں پاکستان میں مکئی کے پہلے ہا بئرڈ 59
DCکی تیاری اسی ادارہ کی سعی مسلسل ثمر تھا۔ اسی ادارہ کی تحقیق سے
پنجاب میں بہاریہ مکئی کی کا شت ممکن ہو سکی۔ رواں سال صوبے کے کل
رقبے اور پیداوار میں بہار یہ مکئی کا حصہ بالترتیب 45اور 51فیصد ہو گیا ہے
جس میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ مزید برآں مکئی کی سیڈٹرٹیمنٹ اور پٹڑیوں
پر کاشت کو متعارف کروانے کا سہرا بھی اس ادارہ کے سر ہے۔
مکئی ،جوار ،باجرہ کی کل 43ہا بئرڈاور عام اقسام تیار کر اپنے قیام سے لے کر
اب تک ادارہ چکا ہے ۔ جبکہ گزشتہ 5سالوں کے دوران 20ہابئرڈ اور عام اقسام
کسانوں کے لیے متع ارف کروائی گئی ہیں جو کہ اپنی زیادہ پیداوار اور موسی
مطابقت کی وجہ سے زمیندار طبقے میں خاصی مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔ اس
ادارہ نے پاکستان کی پہلی منظور شدہ سویٹ کارن اور پاپ کارن کی ورائیٹیاں
دینے کے ساتھ ساتھ جوار اور باجرہ کے پہلے ملکی منظور شدہ ہابئرڈ بھی عام
کاشت کے لیے کسانوں کو دیے ہیں۔صوبہ بھر میں مکئی ،جوار ،باجرہ کے معیاری
پیج کی معقول نرخوں پر فراہمی کے لیے ادارہ ہر سال کسانوں اور پرائیوٹ سیڈ
کمپنیوں کو تقریبا 2300کلو گرام بیسک اور ہابئرڈ سیڈ مہیاکرتا ہے۔ مزید
برآںمحکمہ زراعت توسیع اور نجی سیڈ کمپنیوں کے عملے کی عملے کی تر بیتی
نشتوں کا انعقاد اور فصلوں کی جد ید پیداواری ٹیکنالوجی کو پرنٹ اور الیکٹرونک
میڈیا کے ذریعے کسان برادی تک پہنچانا بھی ادارے کی مستقل سر گرمی ہے۔
تحقیقاتی خدمات کے ساتھ ساتھ ادارہ ساالنہ 12ملین روپے قومی خزانہ میں جمع
کر واتا ہے۔
چونکہ ادارہ کی تیارشدہ اقسام موسمی حاالت کو مد نظر رکھتے ہوئے تیار کی
جاتی ہیں اس لیے یہ نا مساعد موسمیاتی تغیرات کو احسن طریقے سے برداشت
کر نے کے صالحیت رکھتی ہیں جس کی وجہ سے یہ اقسام درآمد شدہ اقسام کے
مقابلہ میں زیادہ پیداوار دیتی ہیں۔ ادارے کی تحقیقاتی کاوشوں کا اعتراف بین
االقومی ادارہ برائے مکئی و گندم میکسیکو ( ) بار ہا مختلف فور مزپر کر چکاہے۔
حالیہ طور پر پاکستان مکئی ،جوار ،باجرہ کی پیداوار میں خود کفیل ہے۔
مند رجہ با ال حقائق کی روشنی میں ادارہ ہذا کی نجکاری نہایت نامناسب قدم ہے
جس سے ملک وقوم کو نا قابل تالفی نقصان ہو سکتا ہے جس کا ملک پا کستان
متحمل نہیں ہو دسکتاـ نجکاری کرنے کی بجائے ادارہ کی جدید بنیادوں پر استعد
اد کار میں بہتری ال کر مکئی ،جوار اور باجرہ کی پیداوار مزید بڑھا کر برآمد کے آمد
کے ذرمبادلہ میں اضا فی کیا جا سکتا ہے۔
4۔ چاول:
رائس ریسرچ کاال شاہ کاکو ،ایوب تحقیقاتی ادارہ فیصل آباد کا ایک ذیلی ادارہ ہے
جو 1926میں بنایا گیا اس ادارے کا مقصد پورے پنجاب سے مونجی کا جرم پالزم
ا کٹھا کرنا تھا۔ 503مختلف اقسام کے پودے تالش کئے گئے جن کو 16گروپس
میں تقسیم کیا گیا ان میں ایک گروپ باسمتی کا بھی تھا۔ باسمتی گروپ کی الئن
نمبر 370نے پیداوار اور کوالٹی کے لحاظ سے پیداواری مقابلوں میں اچھا مقام
حاصل کیا اس طرح دنیا کی پہلی باسمتی وارائٹی باسمتی 370کے نام سے
1933میں منظور کی گئی ۔ باسمتی 370کا دانہ لمبا اور خوشبودار تھا جو پک کر
تقریبا ً 2گنا ہو جاتا ہے۔ یہ دنیا کے لیے قدرت کا ایک خاص انعام اور تحفہ تھا۔
جسکی کوالٹی صرف کالر کے عالقے (روائتی عالقے) میں ہی پیدا ہوتی ہے جو کہ
سیالکوٹ،گوجرانولہ ،شیخوپورہ ،حافظ آباد ،بارووال ،منڈی بہاو دین ،ننکانہ
صاحب اور گجرات کے اضالع پر مشتمل ہے۔ باسمتی 370کو جب غیر روائتی
عالقوں یعنی ملتان یا اس سےا ٓگے لگایا جائے تو وہ اپنی اصل خاصیت کو کھو
دیتی تھی۔ یعنی دنیا کا بہترین خوشبودار چاول صرف کالر کےعالقے میں ہی پیدا
ہو سکتا ہے باسمتی 370دنیا کی تمام خوشبودار اقسام کے لئے ایک معیار کی
حیثیت رکھتی ہےاور اب تک کی تما م باسمتی اقسام میں براہ راست یا بالواسطہ
باسمتی 370کا ہی خون شامل ہے۔
اب تک تحقیقاتی ادارہ دھان ،کاال شاہ کاکو نے چاول کی 29اقسام منظور کروائی
ہیں جن میں 25باسمتی /فائن اور 4موٹی اقسام ہیں جو کہ پنجاب کے عالوہ
سندھ اور بلوچس تان میں بھی کافی رقبہ پر کاشت ہو رہی ہیں۔ ان میں باسمتی
، 2000سپر باسمتی ،باسمتی 515اور کے ایس کے 133نمایاں ہیں۔ 2021میں
دنیا کا پہال باسمتی ہائبرڈ کے ایس کے 111ایچ منظور کیا گیا اب تک دنیا کی
سب سے لمبے چاول 8.26ملی میٹر نئی ورائٹی پی کے 2021ایرومینک بھی
2021میں ہی منظور کی گئی جس سے پاکستان کی ایکسپورٹ میں نمایاں ور
انقالبی بہتری آئے گی۔ 1947میں پاکستان معرض وجود میں آیا اس وقت مونجی
کی فی ایکٹر پیداوار صرف 12-15من تھی۔ جو کہ کاال شاہ کاکو کے ذہین اور
محنتی سائنسدانوں کی شب وروزمحنت کے باعث 80من تک پہنچ چکی ہے
موٹی اقسام میں کے ایس کے 133کی پیداوار ی صالحیت 105من تک ہے جسکو
بہت سی پرائیویٹ سیڈ کمپنیاں ہائبڑڈسیڈ کے نام سے بیچ رہی ہے۔
مونجی میں جراثیموں جھلساو) (BLBایک بہت خطر ناک بیماری ہے اس کے
خالف قوت مدافعت رکھنے والی نئی قسم سپر گولڈ کے نا م سے 2019میں
منظور کروائی گئی۔ بچوں اور حاملہ خواتین میں آئرن اور زنک کی کمی بہت بڑا
لہذا ایسی قسم تیار کی گئی ہے جو ان میں آئرن اور زنک کی کمی کو
مسئلہ ہے۔ ٰ
فوری طور پر پورا کر سکے گی ۔ پاکستان اور پنجاب میں الکھوں ایکٹرزرعی زمین
کلر پن ،پانی کی کمی اور خشک سالی یا سیالبوں کی وجہ سے خالی پڑی رہتی
ہے۔ ادارہ کے سائنسدانوں کی انتھک کاوشوں کی بدولت ایسی اقسام تیار ہو چکی
ہیں کو نہ صرف کلراٹھی زمینوں میں اچھی پیداوار دیتی ہیں بلکہ خشک سالی کو
بھی برداشت کرتی ہیں۔ ہر دو سے تین سالوں کے بعد سیالب آتے ہیں جو کہ
الکھوں ایکڑ رقبہ پر کھڑی فصالت کو تباہ برباد کر دیتے ہیں۔ یہ اقسام سیالب کے
نقصان دہ اثرات کو ایک ہفتہ تک برداشت کر سکتی ہیں۔ دھان کی بیج سے براہ
راست کاشت )(DSRادارہ کی ایک نئی ٹیکنالوجی ہے جس میں چاول گندم کی
طرح اگایا جاتا ہے جہاں زمین ہموار نہیں ہوتی وہاں بیج پانی میں ڈوب جاتا ہے اور
ا ُ گنے سے پہلے ہی مر جاتا ہے۔ ہم نے ایسی اقسام تیار کر لی ہیں جو پانی میں
ڈوبنے کے باوجود ا ُ گتی ہیں اس طرح ڈی ایس آر )(DSRکے لئے کم شاخوں والی
اقسام بھی تیار کر لی گئی ہیں۔
موٹی اقسام کی پہلے ایک ہی فصل لی جاتی تھی مگر سائنسدانون نے آرجی اے
کوا ستعمال کرتے ہوئے موٹی اقسام کی سال میں 2فصلیں لینی شروع کر دی
ہیں۔ جن سے نئی قسم تیار کرنے کا دورانیہ کافی کم ہو گیا ہے۔ پرانی باسمتی
اقسام قد میں زیادہ ہونے کے ساتھ دیر سے پکتی تھیں مگر اب نئی باسمتی اقسام
کا قد 170سینٹی میٹر سے کم ہو کے 98سینٹی میٹر ہو گیا ہے اور پکنے کا دورانیہ
130دنوں سے کم کر کے 94دن تک ا ٓگیا ہے باسمتی دانے کی لمبائی جو کہ صرف
6.5ملی میٹر تھی بڑھ کر 9.5ملی میٹر تک پہنچ چکی ہے جو کہ مونجی کی
ایکسپورٹ میں ایک انقالب لے آئے گا۔ یہ دنیا کا سب سے لمبا چاول ہو گا۔ دھان کا
تیال ایک اہم ضرررساں کیڑا ہے اور ادارہ کے سائنسدانوں نے تیلے کی ایک نئی قسم
(چھوٹا بھورا تیلہ ) ملک میں پہلی بار دریافت کی ہے۔ اسی طرح دھان کے تیلے کے
سات متبادل خورا کی پودے (گھوڑا گھاس ،مینا ،کھبل ،سورج مکھی ،جوار ،مکئی
اور برسیم) دنیا میں پہلی بار ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ تیلے کے خالف قوت مدافعت
رکھنے والی اقسام کی تیاری جارہی ہیں۔
پری بیسک اور بیسک بیج زمینداروں کی اچھی فصل کے لئے بہت ضروری ہیں۔
ادارہ اتنی مقدار میں پری بیسک اور بیسک بیج تیار کرتا ہے جو تمام پرائیویٹ
سیڈ کمپنیوں اور زمینداروں کی ڈیمانڈ پوری کرتا ہے۔ چاول کے پاوڈر سے خوردنی
تیل جو کہ دل کے مریضوں کے لئے بہترین خصوصیات کا حامل ہے کو نکالنے کی
ٹیکنالوجی تیار کی جا چکی ہے۔ سیال بنانے کے لئے Parboilingٹیکنالوجی متعارف
کروائی گئی ہے۔ پنجاب میں تقریبا ً %90رقبہ پر تحقیقاتی ادارہ دھان ،کاال شاہ کا
کو کی ہی تیار شدہ اقسام لگ رہی ہے۔ جن سے زمینداروں نے ساالنہ تقریبا ً 25
ارب روپے کی اضافی بچت حاصل کی جس سے ان کی سماجی زندگی پر بہت
اچھے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ انڈیا آج تک کو ئی باسمتی قسم پیدا نہیں کر سکا
بلکہ انڈیا نے پاکستان کی پی کے ، 386باسمتی 385اور سپر باسمتی اپنے ہاں
لہذا ان تمام
منظور کروائیں اور کاشتکاروں کی اقسام کو لگانے پر زور دے رہا ہے۔ ٰ
کامیابیوں کو سامنے رکھتے ہوئے رائس ریسرچ انسٹیٹیوٹ کاال شاہ کاکو کو
پرائیویٹ یا ٹرنسفارم کرنا بالکل بھی دانشمندانہ فیصلہ نہ ہو گا۔
ان چاروں اداروں کی حاصل کردہ کامیابیاں انگنت ہیں جس کی بنیاد پر یہ تصور
کرنا بھی غلط ہو گا کہ زرعی ریسرچ سست روی کا شکار ہے۔
گزارشات
قابل عمل پالیسز
ِ 1۔ گورنمنٹ اس سال کی گندم پالیسی کی طرح اچھی
الئے۔(امسال گندم کی ریکارڈ پیداوار اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ فصالت کی
اقسام تو اچھی ہی پیداوار دیتی ہیں لیکن کسان گورنمنٹ کی پالیسیوں کی وجہ
سے نقصان اُٹھاتا ہے۔ مزید یہ کہ باقی فصالت بھی اچھی پالیسوں سے اچھی
پیداوار دے سکتی ہیں)۔
2۔ ڈیم بنائے جائیں ،کیونکہ ملک کی زراعت کو مستقبل میں پانی کی کمی کا
خطرہ ہے۔نہ کہ زرعی تحقیق سے جو کہ مستقل مزاجی سے بہتری کی طرف
گامزن ہے۔
3۔ تحقیقاتی اداروں اور ان کے سائینسدانوں کی علمی قابلیت بڑھانے کے مواقع
دینے چاہیں۔
تو پبلک۔پرائیویٹ پارٹنرشپ طرز کے ادارے بنانا چاہتی ہے 4۔اگر حکومت
بلوچستان جیسے صوبوں میں بنائے جہاں زرعی تحقیق نہ ہونے کے برابر ہے ،نہ کہ
ملک کی ترقی میں مثبت کردار ادا کرنے والےاداروں کی بھینٹ اس تجربے پر
چڑھائے۔
اعلی پنجاب اور جناب وزیر ِ اعظم پاکستان
ٰ ان سب گزارشات کے بعد جناب وزیر
سے ُپر زور ا َپیل کی جاتی ہے کہ ا ِس ملک دُشمن نجکاری کو تجویز کو واپس لیں،
زراعت کے نمائندگان سے بالمشافہ مالقات کریں تاکہ اُنہیں درست معلومات
پہنچائی جاسکیں ،اور ُملک دشمن عناصر کا خاتمہ کیا جا سکے ،کیونکہ زراعت
کی ترقی میں ہی پاکسان کی ترقی ہے۔
زراعت پائیندہ باد
پاکستان زندہ باد
پنجاب ایگریکلچرریسرچ ٹرانسفارمیشن
پالن/ٹرانسفارمیشن ایکٹ
(گورنمنٹ آف پنجاب ،ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ ،مارچ-
)2021
)Vide Govt. of Punjab, Agriculture Department Notification No SOA (P
)9-11/2004 (2021-22
پاکستان کی تاریخ میں گندم کی غیر معیاری ،سست روی کا .1
ریکارڈ پیداوار ا ِسی ادارے کی شکار زرعی تحقیق
وجہ سے ہے۔ ا ِس ادارے کی
بنائی گئی اقسام پنجاب میں
99.5جبکہ پورے پاکستان میں
% 80رقبے پر کاشت کی جاتی
ہیں۔
گنے کی ،%95اور چاول کی 91
%اقسام جو ہماری زمینوں میں
کاشت کی جاتی ہیں وہ انہی
تحقیقاتی اداروں میں بنائی گئی
ہیں۔
قیامِ پاکستان کے وقت ہمارے
پاس صرف 2شوگر ملز تھیں اور
اب یہ تعداد 90کے قریب ہو گئی
ہے جن میں سے 46پنجاب میں
واقع ہیں۔
ان فصالت پر تحقیق کرنے والے
یہ واحد ادارے ہیں۔
فصل کی ایک نئی قسم بنانے نئے سسٹم کے لئے سائنسی .2
کے لئے 10سے 15سال کاوقت اور تکنیکی انسانی وسائل نئے
درکار ہوتا ہے جوکہ اس وقت کی سرے سے مارکیٹ کے مطابق
معیاد کے مطابق نہیں۔
تنخواہ کا ڈھانچہ اور 3سالہ
ان اداروں کی بہت سی اقسام
کنٹریکٹ
مارکیٹ میں آنے کے لئے تیار
ہیں۔اور بہت سی اقسام پر کام ہو
ہے۔ بریڈررائیٹس ایکٹ کے رہا
مطابق ،محقق اپنا قیمتی مواد
نئے سے چنے گئے نجکاروں کو
دینے کے لئے تیار نہیں۔
ہمارا قیمتی سوسالہ پالنٹ جرم
پالزم )(Germplasmجو کہ ہمارا
قیمتی قومی اثاثہ ہے ،اُس کا
نجکاروں کے ہاتھوں میں جانا
ملک کی سالمتی کے لئے خطرہ
کا باعث ہو گا۔
زرعی تحقیق ایک مسلسل عمل
ہے۔ اور محقق اپنی ساری
خدمات فصالت کی مختلف
اقسام بنانے میں صرف کرتا ہے،
اس لئے اُنہیں زرعی ماہر کہا
جاتا ہے۔ اور ماہرین کو چند
سالوں کے مالزمت پر نہیں رکھا
جا سکتا۔
اس عمل سے نئی اقسام بنانے
اور عوام کی خدمت میں پیش
کرنے کا عمل متاثر ہو گا۔
دستاویز کے آخر میں ا ِسی موجودہ زرعی تحقیقی نظام .3
ڈھانچہ کے ا ِستعمال کی تجاویز کا وسیع اور غیرمنظم ڈھانچہ
ہیںجبکہ ا ِسے منظم بنانے کے
لئے کوئی تجویز نہیں دی گئی۔
قوانین کے مطابق گورنمنٹ ضعیف کی سائنسدانوں .4
ریٹائرمنٹ کی حد 60سال ہے۔ العمری کی وجہ سے گرتا
سائنسی محقق عمر کی بنیاد پر تحقیقی معیار
جانچے نہیں جا سکتے۔
دوسری طرف چیف ایگزیکٹو کی
عمر کی حد 65سال تجویز کی
گئی ہے۔
غیرجانب کوئی بھی تیسرا
دارفریق عمر کے اعدادوشمار کی
جانچ کر سکتا ہے جو کہ ا ِس
دستاویز میں توڑ مروڑ کے پیش
کئے گئے ہیں۔
بھرتی کے لئے شفاف نظام جو تمام موجودہ زرعی محقق پنجاب .5
پبلک سروس کمیشن )(PPSC کہ موجودہ نظام میں نہیں
کے سلیکشن پراسیجر سے بھرتی
کئے گئے ہیں ،جیسے کہ صوبہ
کے دوسرے اداروں میں بھرتی
کئے جاتے ہیں۔ یہ ) (PPSCپنجاب
پبلک سروس کمیشن پر اُنگلی
اُٹھانے کے مترادف ہے۔
تنخواہ کی مراعات الکھوں پاکستان جیسے ترقی پزیر ملک .6
میں یہ تنخواہ بالکل بال جواز ہے۔ میں ماہانہ بناد پر
ا ِس منصوبہ میں ایک مالزم کی
تنخواہ موجودہ نظام میں 4
محققین کی ساالنہ تنخواہ کے
برابر ہے۔
ا ِس سے بالواسطہ کسان متاثر
ہو گا ،بیج کی قیمت بڑھے گی
اور کاشت کا تخمینہ بھی بڑھ
جائے گا۔
تنخواہ میں ا ِتنا ا ِضافہ بہترین
تحقیق کی ضمانت نہیں۔ اگر ہے
تو ا ِسے موجودہ نظام پر الگو
کیوں نہیں کیا جاسکتا۔
یہ ٹرانسفارمیشن پالن واضح
طور پر ایک مافیا کی نشاندہی کر
رہاہے ،جو زیادہ مراعات اور 65
سال تک کی عمر کی حد میں
دلچسپی رکھتا ہے۔
زمینی حقائق: بیان کردہ مقاصد: .7