Professional Documents
Culture Documents
النظم فی القرآن بین الآیات والسور.ok
النظم فی القرآن بین الآیات والسور.ok
آپ صلی ہللا علیہ وسلم ,حضرت جبرائیل علیہ السالم سے تئیس
سال تک قرآن مجید کے نازل کردہ آیات کو سنتے اور سنایا کرتے
تھے-نزول کے زمانے ہی میں قرآن کی تدوین اور نازل کردہ آیات
کی ترتیب شروع ہوگئی تھی -آخری رمضان المبارک میں نبی صلی
ہللا علیہ وسلم نے حضرت جبرائیل سے دو مرتبہ قرآن کو سنا اور
سنایا -
ابوبکر رضی ہللا عنہ کے زمانے میں -:
جنگ یمامہ میں کافی حفاظ القرآن شہید ہو گئے تھے ,جس کے
نتیجے میں حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے حضرت ابوبکر رضی
ہللا عنہ کے پاس قرآن کو جمع کرنے کی رائے رکھی تاکہ یہ قرآن
کتابی شکل میں محفوظ طور پر آئندہ نسلوں تک پہنچ سکے -
عثمان رضی ہللا عنہ کے زمانے میں -:
عثمان رضی ہللا عنہ کے زمانے میں اسالم دور دور تک پھیل
گیا تھا اس لئے قرآن مجید کی سرکاری کاپیاں بنا کر جو کہ
ایک ہی تلفظ ,ایک ہی ترتیب اور ایک ہی تالوت کے ساتھ
ملک کے مختلف شہروں میں تقسیم کر دیا گیا -
ہمارے ذہنوں میں ایک سوال ضرور اٹھتا ہے کہ قرآن مجید کے متعلق
اس کے سبھی مضامین ایک ساتھ ہر صفحہ میں بار بار کیوں بیان کیے
گئے ہیں -
مثال -:سورتفاتحہ کا آغاز توحید سے ہوتا ہے اور پھر فورا آخرت کا ذکر
آجاتا ہے -آخرت کے بعد عبادت کا ذکر ہے -پھر صراط مستقیم کا ذکر
ہے -پھر ان لوگوں کا تذکرہ آ گیا جن پر ہللا تعالی نے انعام فرمایا ہے -
پھر ان لوگوں کے راستے سے بچنے کی دعا بھی کی گئی جن پر ہللا کا
غضب نازل ہوا -جو راہ راست سے بھٹک گئے -گویا کہ قرآن مجید کے
سارے مضامین بلواسطہ یا بالواسطہ قرآن مجید کی اس سورۃ فاتحہ میں
موجود ہیں -اس طرح سے آپ قرآن مجید کے ہر صفحے میں محسوس
کر سکتے ہیں -
.1قرآن سے ہدایت
قرآن مجید کتاب ہدایت ہے اور انسانی زندگی کے ہر پہلو میں ہدایت فراہم کرتا ہے -
اب چونکہ انسان کو جگہ جگہ ہدایت کی ضرورت پڑتی ہے ,اس لیے قرآن مجید
نے ان سارے پہلوؤں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی ساتھ باندھ دیا ہے -
مثال -:اگر پائپ الئن سے کسی منظر کو دیکھنا چاہیں گے تو آپ کو صرف چند انچ
کا محدود منظر نظر آئے گا اور اس چند انچ کے منظر کے عالوہ کائنات کے سارے
پہلو نظروں سے اوجھل رہتے ہیں -اگر صرف کسی ایک مضمون پر زور دیا جاتا
تو بقیہ پہلو وقتی طور پر نظر انداز ہو جاتے اور ایک انسان کو ایک وقت میں جس
مضمون کی تالش ہے اسی مضمون سے ہدایت لے رہا ہوتا -اس سے انسان کی
نظر سے کلیت اوجھل رہ جاتی اور انسان اپنی زندگی کو مختلف حصوں میں تقسیم
کر کے الگ الگ دیکھنا شروع کر دیتا -
.2قرآن سے دلچسپی
اگر قرآن مجید کی سورتیں مختلف مضامین اور مختلف احکام کے بنیاد پر الگ الگ
ہو جاتے تو لوگوں کی دلچسپی صرف اپنے مطلب کے مضمون سے ہی رہتی -
ال -:اگر ایک سورت قانون سے متعلق ہوتی ,دوسری سورت عقائد سے متعلق مث ا
ہوتی ,تیسری سورت اخالق سے متعلق ہوتی تو جس شخص کی جس سورت میں
دلچسپی ہوتی اسے پڑھ کر بقیہ سورتوں کو نظر انداز کر دیتا ,جیسا کے لوگ
الئبریری میں کرتے ہیں -ال ئبریری میں لوگ اپنے مطلب کی کتابیں اور صرف
دلچسپ مضمون کو پڑھ کر بقیہ کتابوں کو نظر انداز کر دیتے ہیں -
مگر انسان قرآن مجید کی تالوت کرتے وقت دو باتوں سے کبھی غافل نہیں
رہے گا
قرآن مجید کی ہدایت سے
قرآن مجید کی دلچسپی سے
التفات
اس کا مقصد ,ایک ہی وقت میں زمین کے تمام انسانوں سے خطاب
کرنا ہے تاکہ لوگ خود کو مخاطب پاکر بات کو زیادہ توجہ سے سنیں -
تصریف آیات
آیتوں کو پھیر پھیر کر نئے نئے انداز میں بیان کرنا تاکہ لوگ چھپی
ہوئی عبارتوں اور عالمتوں کو اچھی طرح سے سمجھ لیں –
حذف
جہاں لفظ کہے بغیر سمجھ میں آجائے ,وہاں قرآن مجید ایسے لفظوں
کی تفصیالت میں نہیں جاتا -
ایجاز
قرآن مجید میں ایسے مختصر ترین الفاظ یا باتوں کا بیان ہے جن پر
غور کرنے سے کافی مطالب سامنے آتے ہیں -
تفصیل بعد الجمال
قرآن مجید میں مختصر ترین جملے سے صرف اشارہ کر دیا گیا اور
بعد میں اس کی تفصیالت بیان کی گئیں تاکہ آگے آنے والے مضمون
کی جڑ ہاتھ میں آجائے اور حکمت و شریعت کو سمجھنے میں بڑی
مدد ملے -
عود علي البدء
اکثر سورتوں میں اُسی مضمون پر بات ختم کی جاتی ہے جہاں سے
سورۃ کا آغاز ہوا تھا جس سے اصل مضمون نظروں سے اوجھل نہیں
ہوتا –
تمثیالت
مثالوں کے استعمال سے کسی بھی بات کو اچھی طرح سے سمجھایا
جاتا ہے جس سے نصیحت کے ساتھ ساتھ غور و فکر کی باتیں بھی
حاصل ہوتی ہیں -
تقابل
دو متضاد اور متعارض باتوں کو آمنے سامنے رکھ کر بیان کیا جاتا
ہے جس سے نہ صرف کالم میں حسن پیدا ہوتا ہے بلکہ باتیں بھی
واضح ہو جاتی ہیں –
قسم
قرآن مجید میں جگہ جگہ قسموں کا استعمال ہوا ہے جس کا مقصد
نصیحت کرنا اور کسی خاص مضمون میں بحث کرنے کے لئے
استعمال ہوتا ہے -
قرآن مجید میں سارے مضامین ایک ساتھ ہر سورۃ میں جا بجا
ملتے ہے -
قرآن مجید کی سارے سورتیں سوائے سورۃ فاتحہ کے جوڑا جوڑا
ہ یں -
قرآن مجید کا اسلوب نہ شعر ہے نہ کہانت اور نہ خطابت ہے -
نزولی ترتیب
نزولی ترتیب دعوت کے لحاظ سے ہے ,مخاطب کے لحاظ سے ہے اور
اسالمی تحریک کے ضروریات کے لحاظ سے ہے-
تدوینی ترتیب
امت کا وجود ,امت کا مشن ,اور اس امت کی کتاب اور اس کتاب سے امت
کے کام اور اس کی تکمیل کیسے ہو ان تمام مضامین کو ترتیب کے ساتھ
سمجھایا گیا ہے-
نزولی ترتیب ہمارے پاس موجود نہیں ہے ,لیکن تدوینی ترتیب موجود
ہے -
امام حمید الدین فراہی رحمۃ ہللا علیہ نے اس کے متعلق بڑی دلچسپ باتیں اور حکمتیں
بیان کی ہیں -جنہیں ماضی قریب میں -فکر فراہی کے نام سے لوگ جانتے ہیں -آپ نے
اس کو اپنے کتاب میں بڑے ہی واضع انداز سے سمجھایا ہے -
قرآن کے سبھی تیس پاروں کو سات الگ الگ گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے -ہر گروہ کا
ایک مرکزی مضمون اور ایک موضوع ہے -جب ایک گروہ کا موضوع ختم ہوتا ہے تو
دوسرے گروہ کا موضوع شروع ہوتا ہے -
-:
اس طرح سے قرآن کو سات الگ الگ گروہوں میں تقسیم کیا
گیا ہے اور ہر گروہ کا ایک مرکزی نکتہ بتایا گیا ہے جس سے
آیات کو سمجھنے میں ہمارے لئے آسانی پیدا ہوتی ہے -لیکن
اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ کسی اور سورت میں مرکزی
نکتہ سے مختلف مضمون نہیں آسکتا -بلکہ ہمیں یہ بتایا گیا
ہے کہ ہر گروہ میں توحید ,رسالت ,آخرت اور اخالق کے سارے
مباحث ہیں -لیکن اس کے مرکزی نکتہ اور غالب موضوع کی
بنیاد پر ان سات الگ الگ گروہوں میں تقسیم کیا گیا ہے-