Tibbi Tehqeeqat (Weekly 29) 19 July 2021-25 July 2021 - Issue 134 - Vol 5

You might also like

Download as doc, pdf, or txt
Download as doc, pdf, or txt
You are on page 1of 102

‫ویکلی‬

‫ِط ّبی تحقیقات‬


‫‪Issue‬‬
‫‪Managing‬‬‫‪134 – Vol.‬‬ ‫‪Editor‬‬ ‫‪5‬‬
‫‪ 19‬ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬ ‫‪July 21 - 25 July 2021‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال‬
‫‪Mujahid‬‬
‫‪ Ali‬ہفتہ وارجریدہ‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬
‫ہے!قدرکیجئے‬ ‫ٰ‬
‫عظمی‬ ‫صحت نعمت‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫شمارہ نمبر‪ 134‬جلد نمبر ‪۵‬‬


‫جوالئ ‪ ۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪۱۹ ۲۰۲۱‬‬

‫تحقیقات | ‪1‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ت‬
‫حق ق‬
‫طِب ّی ی ات‬

‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ‬ ‫سرپرست‪:‬محمدعثمان‬


‫ساتھ مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫اس کے عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی‬ ‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫ادارہ جات‪،‬معالجین حکماء‬ ‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری اورہرطرح کی‬
‫فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔‬
‫اوریوں تقریبا پورے پاکستان میں اسکی‬ ‫ادارتی ممبران‬
‫سرکولیشن کی جاتی ہے اورآپکے کاروبار‪،‬‬
‫پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ کابہترین ذریعہ ہے‬
‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬
‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬ ‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‬

‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬


‫معلومات کے لئے‬ ‫ماہرانہ مشاورت‬
‫حکیم زبیراحمد‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬ ‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫ڈاکٹرمحمدتحسین‬
‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تفصیل‬
‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی معلومات کے لئے‬
‫تحقیقات | ‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬

‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورونا وائرس سے لگنے والی بیماری کووڈ کی نئی عالمات کیا ہیں؟‬
‫‪24.07.2021‬‬
‫کووڈ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا سامنا ہم عالمی وبا کے آغاز‬
‫کیسے معلوم ہو کہ مجھے ِ‬
‫سے اب تک مسلسل کر رہے ہیں اور حتمی درست جواب سے ہم واقف نہیں۔ ایسے میں‬
‫عام زکام کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔‬
‫‪    ‬‬

‫کووڈ انیس کی عمومی عالمات تھیں۔ ان کے عالوہ سر ‪2020‬‬ ‫میں خشک کھانسی اور بخار ِ‬
‫درد اور جوڑوں میں تھکاوٹ کی عالمات زکام جیسی کیفیت سے ملتی جلتی تھیں۔‪  ‬گلے‬
‫میں خراش اور ہلکا سا زکام‪ ،‬یہ عالمات نزلے کی طرح کی تھیں۔ عالمی وبا کے آغاز پر‬
‫کووڈ انیس کی بیماری کو اسی طرح سادہ الفاظ میں بیان کیا جاتا رہا ہے۔ پھر اس انفیکشن‬
‫ِ‬
‫سے متعلق یہ پتا چال کہ بعض صورتوں میں اس کا شکار شخص سونگھنے اور چکھنے‬
‫کی حس بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہ بات اب بھی ایک طرح سے طے ہے کہ جب کوئی شخص‬
‫کووڈ کی انتباہی گھنٹی ہی‬
‫اپنے سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلی دیکھے‪ ،‬تو اسے ِ‬
‫سمجھے۔‬

‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دیگر عالمات کے مقابلے میں معاملہ مختلف ہے۔ محققین خون کے گروپ کے ساتھ‪ ‬اس‬
‫وائرس کی عالمات کے تعلق اور‪ ‬تنوع پر کام کر رہے ہیں۔ عالمات کا انحصار اس بات پر‬
‫بھی ہوتا ہے کہ آیا متاثرہ شخص ویکسین کا حامل ہے یا متاثرہ شخص پر کورونا کے‪ ‬کس‬
‫ویریئنٹ‪ ‬نے حملہ کیا ہے۔ اس کے عالوہ کسی شخص کی عمر‪ ،‬طبی حالت اور صحت‬
‫سے جڑے دیگر امور بھی ممکنہ عالمات طے کرتے ہیں۔‬
‫پانچ نئی اہم عالمات‬
‫برطانیہ میں ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں ایک ایپ کے ذریعے کورونا وائرس کے‬
‫شکار افراد کی رائے لی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی عالمات بہ ظاہر‬
‫تبدیل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس وقت برطانیہ میں ‪ 99‬فیصد انفکیشن کی وجہ ڈیلٹا‬
‫ویریئنٹ ہو۔‬
‫کورونا‪ ،‬زکام اور نزلے کی عالمات اور فرق‬
‫مکمل طور پر ویکسینیٹڈ افراد میں عالمات‬
‫اس ایپ کے ذریعے کورونا وائرس کے شکار تمام تر افراد نے اپنی اپنی عالمات محققین‬
‫کے ساتھ شیئر کیں مگر اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد جو ویکیسین لگوا‬
‫چکے تھے‪ ،‬ان میں یہ عالمات بہت کم دیکھی گئیں‪ ،‬جس سے نظر آتا ہے کہ ویکسینیشن‬
‫کے بعد اس وائرس کا نشانہ بننے والے افراد جلد صحت یاب ہوئے اور شدید بیمار نہ‬
‫ہوئے۔‬

‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس مطالعاتی رپورٹ کے مطابق ویکسینیٹڈ افراد بھی اس وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں‬
‫مگر ایسے افراد میں عالمات نہایت کم ہوتی ہیں اور یہ کہ ویکسین اس وائرس کی وجہ‬
‫سے جان کو الحق خطرے جیسی خطرناک صورت حال سے بچا لیتی ہے۔‬
‫سر میں درد‪ ،‬بہتی ناک‪ ،‬چھینکیں‪ ،‬خراب گال اور سونگھنے کی حس کھو دینا عام عالمات‬
‫ہیں۔ اسی وجہ سے عام افراد ان دونوں میں بروقت فرق نہیں کر سکتے۔ ماہرین کا کہنا ہے‬
‫کہ ممکنہ طور پر یہی بات برطانیہ میں ڈیلٹا وائرس کے پھیالؤ کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویکسین نہیں لگی‪ ،‬تو عالمات کیا رہیں؟‬
‫اس مطالعاتی رپورٹ کے مطابق کئی عالمات پچھلے برس کے مقابلے میں مختلف ہیں‪،‬‬
‫مگر کئی ایسی ہیں جو تبدیل نہیں ہوئیں۔‬
‫سر میں درد‪ ،‬خراب گھال‪ ،‬بہتی ناک‪ ،‬بخار اور مسلسل کھانسی اس وقت اس بیماری کی‬
‫عمومی عالمات ہیں۔ عالمات کی فہرست میں خوشبو یا بدبو سونگھنے کا احساس ختم ہو‬
‫جانا اب عالمات کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے جب کہ سانس لینے میں مشکل کی‬
‫عالمت اس فہرست میں تیسویں نمبر پر پہنچ چکی ہے۔‬
‫پریشان مت ہوں‬
‫کورونا وائرس اپ ڈیٹ سے متعلق ایک پوڈکاسٹ میں جرمن وائرولوجسٹ کرسٹیان‬
‫ڈروسٹن نے اس مطالعے کے نتائج بیان کیے۔ ڈروسٹن نے کہا کہ معمر افراد کی بڑی‬
‫تعداد چوں کہ ویکسین لگوا چکی ہے‪ ،‬اس لیے ان میں اس وائرس کی عالمات پچھلے‬
‫برس کے مقابلے میں مختلف ہیں۔ تاہم نوجوانوں میں کورونا وائرس ایک عام زکام کی‬
‫طرز کی عالمات کا حامل ہے ۔ انہیں سر میں درد‪ ،‬گلے میں خراش اور قدرے بخار جیسی‬
‫عالمات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔‬
‫ڈروسٹن نے کہا کہ سب سے بہتر اور قابل بھروسا حل یہی ہے کہ جہاں آپ کو شک‬
‫ﹰ ٹیسٹ کریں۔‬ ‫محسوس ہو‪ ،‬آپ فورا‬
‫‪https://www.dw.com/ur/%DA‬‬
‫‪%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-‬‬
‫‪%D9%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%D8%B3-%D8%B3%DB%92-‬‬
‫‪%D9%84%DA%AF%D9%86%DB%92‬‬

‫چینی ویکسین کورونا سے بچاؤ کیلئے کتنی مؤثر ہے ؟ محققین نے بتا‬


‫دیا‬

‫ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪19 2021‬‬

‫استنبول ‪ :‬کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے متعدد ممالک نے ویکسینز] تیار کی ہیں‪ ،‬ان‬
‫ویکسینز] کو عالمی سطح پر قابل استعمال قرار دیتے ہوئے عوام کو ویکسینیٹ بھی کیا جا‬
‫رہا ہے۔‬
‫اس حوالے سے چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کوویڈ ‪ 19‬ویکسین بیماری سے‬
‫تحفظ فراہم کرنے کے لیے ‪ 83.5‬فیصد تک مؤثر ہے۔ یہ بات ترکی میں جاری اس ویکسین‬
‫کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے عبوری نتائج میں سامنے ٓائی۔طبی جریدے دی النسیٹ‬
‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میں شائع نتائج میں دریافت کیا گیا کہ یہ ویکسین کوویڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے پر اسپتال میں‬

‫داخلے کے خطرے سے سو فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے۔ سائنوویک کی کورونا ویک نامی‬
‫ویکسین ناکارہ کورونا وائرس پر مبنی ہے جو اپنی نقول نہیں بناسکتا۔‬
‫تاہم مدافعتی نظام کو اس ناکارہ وائرس کی بنیاد پر اینٹی باڈیز بنانے کی تربیت دی جاسکتی‬
‫ہے یعنی اگر ویکسنیشن کے بعد کسی فرد کو وائرس کا سامنا ہوتا ہے تو اس کا جسم‬
‫بیماری یا اس کی شدت کم کرنے کے لیے زیادہ بہتر مزاحمت کرسکتا ہے۔‬
‫کورونا ویک کو پاکستان سمیت ‪ 37‬ممالک میں ہنگامی استعمال کی منظوری دی جاچکی‬
‫ہے اور عالمی ادارہ صحت نے بھی یکم جون ‪ 2021‬کو اس کی ہنگامی منظوری دی تھی‬
‫تاہم کورونا ویک کے ٹرائلز کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔‬
‫تازہ ترین نتائج ترکی میں ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے تھے جو ایک‬
‫کنٹرول ڈبل بالئنڈ رینڈمائزڈ ٹرائل تھا جس میں ‪ 10‬ہزار ‪ 29‬افراد کو شامل کیا گیا تھا۔ ان‬
‫افراد کو یا تو ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں ‪ 14‬دن کے وقفے سے استعمال کرائی گئیں یا پلیسبو‬
‫کا استعمال کرایا گیا۔‬
‫ٹرائل میں شامل رضاکاروں کی عمریں ‪ 18‬سے ‪ 59‬سال کے درمیان تھیں اور ایسے افراد‬
‫کو شامل نہیں کیا گیا جو یا تو ماضی میں کوویڈ سے متاثر ہوئے یا مدافعتی نظام دبانے‬
‫واال عالج کرارہے تھے۔‬
‫اسی طرح حاملہ یا بچوں کو دودھ پالنے والی خواتین‪ ،‬ویکسین میں موجود اجزا سے‬
‫الرجک افراد یا ٓاٹو امیون امراض کے شکار افراد کو بھی ٹرائل کا حصہ نہیں بنایا گیا۔‬
‫محققین نے رضاکاروں میں کوویڈ کی روک تھام کی تصدیق کے لیے ویکسین کی دوسری‬
‫خوراک کے کم از کم ‪ 14‬دن بعد پی سی ٓار ٹیسٹ کیا۔‬
‫اس کے بعد ‪ 43‬دن تک ان کا جائزہ لیا گیا اور محققین اس دورانیے کو بڑھانا چاہتے تھے‬
‫تاہم ترکی میں ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے بعد اسے روک دیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تمام تر ڈیٹا کے تجزیے کے بعد محققین نے دریافت کیا کہ کورونا ویک کوویڈ کی عالمات‬
‫والی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں ‪ 83.5‬فیصد تک مؤثر ہے۔‬
‫ویکسین گروپ میں شامل ‪ 6559‬افراد میں سے ‪ 9‬میں دوسری خوراک کے استعمال کے‬
‫‪ 14‬دن بعد عالمات والی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس کے مقابلے میں پلیسبو گروپ کے‬
‫‪ 3470‬میں سے ‪ 32‬کو بیماری کا سامنا ہوا۔‬
‫ڈیٹا کے مطابق ویکسین سے کوویڈ سے ہسپتال میں داخلے سے ‪ 100‬فیصد تحفظ مال‪ ،‬تاہم‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ٹرائل میں صرف ‪ 6‬افراد کووڈکے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے جو‬
‫پلیسبو گروپ سے تھے جبکہ ویکسین گروپ سے کسی کو داخل نہیں ہونا پڑا۔‬
‫ٹرائل میں کورونا ویک انتہائی محفوظ ویکسین بھی ثابت ہوئی‪ ،‬ویکسین گروپ کے صرف‬
‫‪ 19‬فیصد افراد نے مضر اثرات کو رپورٹ کیا۔‬
‫ان میں سے ‪ 90‬فیصد سے زیادہ میں یہ اثرات معمولی تھے اور ‪ 50‬فیصد سے زیادہ کو ان‬
‫کا سامنا ایک دن سے زیادہ نہیں کرنا پڑا۔ محققین کا کہنا تھا کہ دنیا کو کوویڈ کے خالف‬
‫کسی بھی محفوظ اور مؤثر ویکسین کی ہر خوراک کی ضرورت ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا ویک عالمات والی بیماری اور‬
‫اسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے‪ ،‬جبکہ ‪ 18‬سے ‪ 59‬سال کی‬
‫عمر کی ٓابادی کے لیے محفوظ بھی ہے۔‬
‫تاہم یہ ٹرائل کچھ پہلوؤں کے حوالے سے محدود ہے اور محققین کے مطابق اس تجزیے‬
‫میں جوان اور کم خطرے سے دوچار ٓابادی کو شامل کیا گیا جبکہ فالو اپ کا دورانیہ بھی‬
‫بہت مختصر تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ ویکسین سے ملنے والے تحفظ کی افادیت کو جاننے کے لیے مزید ڈیٹا‬
‫کی ضرورت ہے جبکہ معمر افراد‪ ،‬بچوں‪ ،‬نوجوانوں اور دائمی امراض کے شکار افراد‬
‫میں اس کے محفوظ ہونے اور افادیت کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خالف بھی اس کی افادیت کی جانچ‬
‫پڑتال کرنے کی ضرورت ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/sinovac-corona-vaccine-researchers/‬‬

‫وہ ‪ 5‬نشانیاں کون سی ہیں جن کے سامنے ٓانے پر ہارمونز ٹیسٹ فوراً‬


‫کروالینا چاہیے‬

‫‪19/07/2021‬‬

‫‪     ‬‬

‫ہارمونز انسانی جسم کے اندر موجود وہ اہم کیمیائی اور طبعی اجزاء سمجھے جاتے ہیں‬
‫جن کے کام میں ایک سیکنڈ کی بھی تبدیلی ٓاجائے تو انسانی جسم ایک نہیں دس بیماریوں‬
‫میں مبتال ہو جاتا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی صحت پر پڑتا ہے اور نہ‬
‫صرف ماہواری سائیکل میں پیچیدگیاں ٓاتی ہیں بلکہ جلد بھی خراب ہونے لگتی ہیں۔ ٓاج‬
‫وومن سیکشن میں ہم ٓاپ کو وہ ‪ 5‬عالمات بتانے جا رہے جن کے سامنے ٓاتے ہی ٓاپ کو‬
‫اپنا ہارمونز ٹیسٹ الزمی کروالینا چاہیئے کیونکہ ان کی‬

‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫موجودگی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ٓاپ کو پی سی او بھی ہوسکتا ہے۔عالمات‪:‬٭ چہرے‬
‫پر بالوں کی نشوونما ہونے لگے یا اگر ہلکے بال چہرے پر پہلے سے ہیں تو ان کی تعداد‬
‫میں اضافہ ہونے لگے‪ ،‬یہ موٹے ہوجائیں تو الزمی ڈاکٹر کا رخ کرلیں ۔٭ ایکنی کے مسائل‬
‫بڑھ رہے ہیں‪ ،‬جس پر جگہ جگہ ایکنی نکل رہی ہے یا چہرے پر ہی زیادہ ہو جائے تو‬
‫ہارمونز ٹیسٹ کروائیے ‪ ،‬خواتین کے ہارمونز میں اگر معدے کی گرمی شامل ہونے لگے‬
‫تو یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اووریولز کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔‬
‫٭ جسم کے اندرونی حصے‪ ،‬گردن‪ ،‬کہنی‪ ،‬ٹخنے کالے اور ٓانکھوں کے نیچے کالے گہرے‬
‫پڑ رہے ہیں تو انسولین ٹیسٹ بھی کروائیں اور پی پی ٹی کے ساتھ ڈاکٹر کے مشورے سے‬
‫اندرونی ٹیسٹ کروائیں‪ ،‬جسم میں انسولین کی مقدار بڑھنے سے بھی خواتین کے ساتھ‬
‫ہارمونز کے مسئلے بڑھتے ہیں۔٭ گٹھنوں کا درد اور ماہواری کے وقت پر نہ ہونے اور‬
‫خون کی رنگت کے زرد یا بالکل برأون ہونے پر احتیاط الزمی ہے‪ ،‬اس کی وجہ یہ ہے‬
‫پی سی اوز خواتین کی اندرونی صحت کو بالکل ختم کردیتا ہے اور ان کا جسم دیگر‬
‫اضاگی ہارمونز کیمیکلز کی بدولت کام کرتا ہے جس سے جگر پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔٭‬
‫سر کے بال تیزی سے گر رہے ہیں‪ ،‬گنج پن ٓا رہا ہے‪ ،‬بریسٹ میں کھچأو محسوس ہو رہا‬
‫ہے تو یہ ہارمونز کی سب سے زیادہ پیچیدہ بیماری اور اووری کے کینسر کی اہم وجوہات‬
‫بھی ہوسکتی ہیں۔ اس لئے احتیاط اور عالج وقت پر کریں۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-115914.html‬‬
‫عید االضحی پر گوشت کو فوراً ہضم کرنے اور بد ہضمی سے بچنے کا‬
‫ٓاسان سا نسخہ‬
‫‪     ‬‬
‫‪20/07/2021‬‬

‫عام طور پر سُرخ گوشت زیادہ کھانے سے بہت سے لوگ بد ہضمی جیسی بیماریوں کا‬
‫شکار ہو جاتے ہیں اور پیٹ خراب کی شکایت کرتے نظر ٓاتے ہیں‪ ،‬ان طریقو ں کی مدد‬
‫سے جہاں ٓاپ بد ہضمی سے بچ سکیں گے وہاں ٓاپکا نظام انہظام بہتر طور پر کام کرے گا‬
‫اور پیٹ کی‬
‫صفائی ہو جائے گی۔ ڈائیٹری فائبر گوشت کے ساتھ ایسے کھانے جن میں فائبر کی مقدار‬
‫زیادہ ہو جیسے سبز سالد‪ ،‬جو کا ٓاٹا‪ ،‬فروٹس‪ ،‬سبزیاں وغیرہ کا استعمال زیادہ کریں خاص‬
‫طور پر اسپغول کےچھلکے کا استعمال کریں کیونکہ اسکے اندر فائبر کی کافی مقدار ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬فائبر ٓاپکے نظام انہظام کو بہتر بناتی ہے اور قبض جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے یہ‬
‫معدے سے پانی کو جذب کرکے وزن پیدا کرتی ہے۔ دہی دہی گوشت کھانے کے ساتھ دہی‬
‫کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں یہ ٓاپ کے جسم میں دوست بیکٹریا کی تعداد کو بڑھائے‬
‫گا اور معدے میں انفیکشن پیدا ہونے سے روکے گا اور گوشت کو تیزی سے ہضم کرنے‬
‫میں انتہائی مددگار ثابت ہو گا۔ املی ٓالو بُخارے کا پانی املی اور ٓالو بخارے کو رات کو‬
‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بھگو دیں اور گوشت کھانے سے پہلے اس پانی کو پی لیں ‪ ،‬یہ ٓاپ کی خوراک کو جلد‬
‫ہضم کرنے میں انتہائی مدد گار ثابت ہو گا اور ٓاپ کو تیزابیت جیسی بیماریوں سے محفوظ‬
‫رکھے گا۔ کم مصالحے والے کھانے گوشت کو پکاتے وقت بازاری تیز مصالحوں کا‬
‫استعمال نہ کریں اور گوشت کو لہسن‪ ،‬ادرک ‪ ،‬ٹماٹر وغیرہ کے ساتھ پانی میں گالئیں اور‬
‫گوشت میں گھی وغیرہ ڈال کر مت بھونیں تاکہ ٓاپ کا پیٹ خراب نہ ہو اور ٓاپ کے معدے‬
‫کو گوشت کو ہضم کرنے میں مشکل نہ ہو۔ پیٹ بھر کر مت کھائیں مزیدار کھانا دیکھ کر‬
‫کھانے کو جی چاہتا ہے مگر اگر ایسا کھانا بیمار کردے تو سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے اس‬
‫لیے پیٹ بھر کر کھانا مت کھائیں تاکہ معدے کو کھانا ہضم کرنے میں ٓاسانی ہو‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116020.html‬‬

‫ٰ‬
‫االضحی پر چند ایسی باتیں جن کا ہم خیال نہیں رکھتے اور معدے‬ ‫عید‬
‫اور پیٹ کی بیماری میں مبتال ہوجاتے ہیں‬

‫‪12:31 pm 20/07/2021‬‬

‫االضحی ایک طرف تو سنت ابراہیمی کی تکمیل کرنے اور‬ ‫ٰ‬ ‫اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)عید‬
‫تعالی کی رضا‬
‫ٰ‬ ‫غریب و نادار افراد کو اپنے دستر خوان میں شریک کرنے کے ذریعے ہللا‬
‫و خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ہے تو دوسری جانب اس روز دوستوں رشتہ داروں‬
‫سے مل بیٹھنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔‬
‫االضحی تو‬
‫ٰ‬ ‫جب سب مل بیٹھیں تو مزے مزے کے کھانوں کا اہتمام کیوں نہ ہو‪ ،‬اور عید‬
‫ہے بھی مزیدار پکوان بنانے کا نام‪ ،‬تو ایسے موقع پر دستر خوان پر ہاتھ روکنا مشکل‬
‫ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسے میں بے احتیاطی ٓاپ کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔چونکہ عید‬
‫کے دنوں میں مرغن اور مصالحہ دار پکوان بہت زیادہ کھانے میں ٓاتے ہیں تو ایسے میں‬
‫معدے اور پیٹ کی تکلیف میں مبتال ہوجانا ایک عام بات ہے۔ اسی صورتحال سے بچنے‬
‫کے لیے ہم ٓاپ کو کچھ مفید تجاویز بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر ٓاپ کسی تکلیف میں مبتال‬
‫ہوئے بغیر دعوتیں اڑا سکتے ہیں۔رواں برس عید پر بارشوں کا سیزن ہے‪،‬‬

‫ایسے موسم میں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہوجاتی ہے جس سے مختلف وبائی‬
‫امراض پھیلنے لگتے ہیں‪ ،‬ل ٰہذا نہ صرف گھر کو صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے بلکہ‬
‫کھانا بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اپنے گھر سے باہر گلیوں اور محلوں کی‬
‫صفائی کرنا بھی نہ بھولیں اور قربانی کے بعد فوری طور پر ٓاالئشوں کو ٹھکانے لگا کر‬
‫صفائی کریں اور جراثیم کش ادویات کا چھڑکأو کریں۔دن کے وقت عزیز و اقارب سے‬

‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ملنے کے لیے یا سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہوئے یا پھر قربانی کا فریضہ انجام دیتے‬
‫ہوئے سخت مصروفیت کے دوران پانی پینا نہ بھولیں۔ دن بھر کی مصروفیت میں پانی کی‬
‫کمی طبیعت خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔اگر ٓاپ خاتون خانہ ہیں اور اپنے گھر میں ایک‬
‫شاندار سی دعوت کا اہتمام کر رہی ہیں تو سالد کو مینیو کا الزمی جز رکھیں۔ مختلف‬
‫سبزیوں پر مشتمل سالد یقینا ً کھانے کی تیزی کو کم کرنے میں مدد دے گا۔کھانے کے ساتھ‬
‫کولڈ ڈرنک رکھنے سے گریز کری‬
‫ں۔ اس کی جگہ فریش جوسز رکھے جاسکتے ہیں۔ اگر ٓاپ کسی کے گھر مہمان بن کر‬
‫گئے ہیں تو کھانے کے بعد کولڈ ڈرنک کی جگہ ٹھنڈا پانی پئیں۔دعوت میں کھانے کے بعد‬
‫پھلوں سے بنا ہوا میٹھا دعوت کا مزہ دوباال کردے گا اور طبیعت پر بوجھ بھی نہیں بنے‬
‫گاعید کی تعطیالت میں جس دن کوئی دعوت نہ ہو اس دن کم مصالحوں کی سبزیاں یا دال‬
‫چاول بنائیں۔ یہ سادہ کھانا مسلسل کھائے جانے والے مرغن کھانوں کے منفی اثرات سے‬
‫نمٹنے میں مدد دے گا۔عید کی تعطیالت میں گھر پر رہتے ہوئے دہی اور لسی کو اپنے‬
‫کھانے کا حصہ بنا لیں۔‬
‫یہ ٓاپ کو گرمی اور مرغن کھانوں کے اثرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔دن کے‬
‫ٓاخر میں سونے سے قبل کھلی ہوا میں چند منٹ کی چہل قدمی نہایت فائدہ مند ثابت ہوگی‬
‫اور ٓاپ کے جسمانی نظام کو معمول کے مطابق رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگی‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116006.html‬‬

‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیموں کو چار حصوں میں کاٹ کر نمک چھڑک کر کچن میں رکھ دیں‪،‬‬
‫ایسا فائدہ ملے گا کہ ٓاپ خود حیران رہ جائیں گے‬
‫‪     ‬‬
‫‪20/07/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک) لیموں کو ہمیشہ گھروں میں سالد اور کھانوں کو لذیذ بنانے‬
‫کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ٓاج ہم ٓاپ کو لیموں اور نمک کا ایسا فائدہ بتائیں گے کہ‬
‫ٓاپ بھی عش عش کراٹھیں گے۔ لیموں کو بیکٹیریا اور جراثیموں کومارنے کے لئے‬
‫استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ٓاپ لیموں کو چار حصوں میں کاٹ کر اس پر نمک چھڑک‬
‫کراسے گھر میں رکھ دیں گے تو ٓاپ کو مندرجہ ذیل فوائد ملیں گے۔اس کی خوشبو کی‬
‫وجہ سے باورچی خانے اور گھر میں موجود ناگوار بدبو ختم ہوجائےگی۔‬

‫گھر میں تازگی کا احساس رہے گا اور بھینی بھینی خوشبو گھر کو معطر رکھے گی۔گھر‬
‫میں لیموں کی وجہ سے جراثیم ختم ہوں گے اور ٓاپ کا گھر بیکٹیریا سے پاک ہوجائے گا۔‬
‫مکھیاں اور مچھر اس ٹوٹکے کی وجہ سے گھروں سے دور بھاگ جائیں گے۔لیموں کی‬
‫وجہ سے گھر میں مثبت انرجی داخل ہوتی ہے اور ان کی موجودگی سے منفی توانائی گھر‬
‫سے نکل جاتی ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116025.html‬‬

‫جو کے دلیے اور سونف کے عرق سے ٓاپ کی ایسی خطرناک بیماری‬


‫کا عالج جس پر لوگ الکھوں روپے خرچ کر چکے ہونگے‬
‫‪     ‬‬
‫‪20/07/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(نیوز ڈیسک) کسی بیماری یا جسم میں گرمی کی وجہ سے زبان پر چھالے نکل‬
‫ٓاتے ہیں یا پھر منہ خشک رہنے لگتاہے ‪ ،‬ایسے میں ٓاپ کیلئے ٓاسان نسخہ اور ذکر پیش‬
‫خدمت ہے ‪ ،‬چاہے زبان پر چھالے ہوں یا منہ میں ‪ ،‬یاپھر پورامنہ ہی خشک رہتاہویاصرف‬
‫صرف زبان ‪ ،‬دونوں صورتوں‬
‫میں مفید ہیں۔ عالج‪ 1( :‬ذرا سا کتھا انگلی پر لگا کر صبح شام ‪ 8‬سے‪ 10‬دن تک چا ٹیں۔ (‪2‬‬
‫جو کا دلیہ پانی میں پکا کر دودھ اور شہد مال کرناشتے میں استعمال کریں۔ (‪ 3‬عرق سونف‬
‫دو گھونٹ کے برابر دن میںایک مرتبہ لیں۔ ذکر‪ :‬تعداد ذکر ‪100‬یا سالم‪ ،‬یا مومن‪ ،‬یا ہللا‬
‫‪ 100‬یا رحمان‪ ،‬یا رحیم‪ ،‬یا کریم ‪ 100‬الحول و ال قوة اال باہلل ‪ 40‬ال ا لہ ہللا انت سبحانک‬
‫انی کنت من الظالمین یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ منہ میں بنے چھالوں کو نظرانداز نہ‬
‫کریں ‪ ،‬یہ کینسرکاسبب بھی بن سکتے ہیں‬
‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116026.html‬‬

‫کیا ٓاپ بھی کلیجی کھانے کے شوقین ہیں؟ تو جانئیے کہ یہ کتنی فائدہ‬
‫مند یا نقصان دہ ہو سکتی ہے؟ کھانے سے پہلے ایک بار یہ ضرور‬
‫پڑھ لیں‬
‫‪22/07/2021‬‬

‫س‬
‫ب ہی گھرانوں میں عید قرباں کے موقعے پر جانور ہللا پاک کی راہ میں قربان کرنے کے‬
‫بعد سب سے پہلے کلیجی پکائی جاتی ہے اور تمام گھر والے مل کر اسے کھاتے ہیں اور‬
‫محظوظ ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا َ تمام ہی افراد کو جانوروں کے‬
‫گردوں‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬اوجھڑی‪ ،‬کلیجی‪ ،‬زبان اور لبلبے کا گوشت کھانے کا شوق ہوتا ہے‪،‬‬
‫مگر وہیں کچھ افراد قربانی کے گوشت کے ان اعضاء کو صحت کے لیے نقصان دہ سمجھ‬
‫کر کھانے سے کتراتے ہیں۔ماہرین صحت کہتے ہیں کہ جانوروں کے ان اعضاء کا گوشت‬
‫ان کی ٹانگوں‪ ،‬پٹھوں‪ ،‬کمر اور پیٹ کے دیگر گوشت کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور‬
‫فائدہ مند ثابت‬
‫ہوتا ہے۔ ان تمام اعضاء میں گردوں‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬اوجھڑی‪ ،‬کلیجی‪ ،‬زبان اور لبلبے میں‬
‫وٹامنز اور ٓائرن سمیت میگنشیئم‪ ،‬سیلینیئم‪ ،‬زنک اور دیگر غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں‪،‬‬
‫جو انسانی صحت اور مضبوط جسم کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ہیلتھ جنرل میں شائع ہونے‬
‫والے ایک مضمون کے مطابق گائے‪ ،‬بھیڑ‪ ،‬بکری‪ ،‬بھینس اور دیگر دودھ دینے والے‬
‫جانوروں سمیت مرغی اور بطخ جیسے پرندوں سے حاصل کردہ کلیجی‪ ،‬گردوں‪ ،‬دل‪،‬‬

‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دماغ اور اوجھڑی میں انسانی جسم کو مضبوط بنانے والے اجزاء پائے جاتے ہیں۔صرف‬
‫‪ 100‬گرام کلیجی کو پکانے کے بعد اس سے ‪ 27‬گرام پروٹین‪ 175 ،‬کیلوریز‪ 1386 ،‬فیصد‬
‫وٹامن بی ‪ 522 ،12‬فیصد وٹامن اے‪ 51 ،‬فیصد وٹامن بی ‪ 47 ،6‬فیصد سیلینیئم‪ 35 ،‬فیصد‬
‫زنک اور ‪ 34‬فیصد ٓائرن حاصل ہوتا ہے‪ ،‬جو یومیہ حساب سے انسانی صحت کے لیے‬
‫بہترین غذا ہے۔کلیجی‪ ،‬اوجھڑی‪ ،‬گردوں‪ ،‬دل اور دماغ کا گوشت حاملہ خواتین کے لیے‬
‫بھی نہایت فائدہ مند ہے‪ ،‬جو نہ صرف ماں بلکہ بچے کی غذا کے لیے بھی بہترین ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116100.html‬‬

‫پیٹ میں کیڑوں کی ٓاسان سی عالمت ۔۔ طریقہ عالج بھی جان لیں اور‬
‫مہنگے عالجوں سے چھٹکارا پائیں‬
‫‪     ‬‬

‫‪20/07/2021‬‬

‫پیٹ میں کیڑے ایک عام مرض ہے جو اکثر بچوں میں پائے جاتے ہیں مگر بڑے بھی اس‬
‫کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کا موسم پیٹ میں ان کیڑوں کے لیے سازگار ماحول فراہم‬
‫کرتا ہے‪ ‬‬
‫اور یہ ٓالودہ پانی پیینے‪ ،‬بغیر دھوئے پھل یا سبزیاں کھانے اور غیر معیاری مشروب پینے‬
‫سے انسانی جسم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ عالمات‪:‬اکثر اس کی عالمات اتنی عام ہوتی ہیں‬
‫کہ لوگ توجہ بھی نہیں دیتے‪ ،‬یا انہیں پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں‪ ،‬تاہم عام طور پر‬
‫درج ذیل عالمات نظر ٓاتی ہیں۔ ہر وقت بھوک لگنا۔ جوڑوں کی اکڑن یا سوجن۔ یاداشت کے‬
‫مسائل۔ سانس کے مسائل۔ خارش‪ ،‬خصوصا ً منہ‪ ،‬ناک اور پیٹ کے ارگرد۔ مسوڑوں میں‬
‫خون۔ جلدی امراض جیسے السر‪ ،‬زخم‪ ،‬چنبل وغیرہ۔ پل پل مزاج بدلنا۔ سردرد۔‬
‫کھانے کی خواہش ختم ہوجانا۔فوڈ الرجی۔جنک اور میٹھے پکوانوں کی خواہش بڑھ جانا۔ہر‬
‫وقت نظام ہاضمہ کے مسائل۔ خون کی کمی۔عالج کیا ہے؟اگر یہ عالمات نظر ٓائیں تو سب‬
‫سے پہلے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہی سب سے بہتر حکمت عملی ہے‪ ،‬گھریلو ٹوٹکے‬
‫بھی اس حوالے سے ٓازمائے جاسکتے ہیں‪ ،‬مگر ڈاکٹر کو ترجیح دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے‪،‬‬
‫ویسے اس حوالے سے چند گھریلو ٹوٹکے درج ذیل ہیں۔تازہ لہسن‪:‬ادرک اس طرح کے‬
‫کیڑوں کو نکال باہر کرنے کے لیے موثر ترین چیزوں میں سے ایک ہے‪ ،‬اگر ادرک کا‬
‫ذائقہ کڑوا محسوس ہو تو اس کا عرق نکال لیں یا پیس لیں‪ ،‬ایک ٹکڑے سے ٓاغاز کریں‬
‫اور بتدریج مقدار بڑھالیں۔کھیرے کے بیج‪ :‬غذائی نالی سے ٹیپ وارم کو نکالنے کے لیے‬
‫کھیرے کے بیج بھی موثر ثابت ہوسکتے ہیں‪ ،‬ان بیجوں کا سفوف ان کیڑوں کے انفیکشن‬
‫سے بچأو اور ٹیپ وارم سے نجات کا کام کرتا ہے۔ ان بیجوں کو پیس لیں اور روزانہ ایک‬

‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چائے کا چمچ استعمال کریں۔لونگ‪:‬لونگ· میں موجود اجزاءجراثیم کش خصوصیات کے‬
‫حامل ہوتے ہیں جو دوران خون اس کے ذریعے کیڑوں اور ان کے انڈوں کا خاتمہ کرتے‬
‫ہیں۔‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116022.html‬‬

‫عیداالضحی پر بسیار خوری سے پرہیز کریں‪ ،‬ڈاکٹروں کا مشورہ‬

‫‪21 July,2021 05:51 pm‬‬

‫الہور‪( :‬دنیا نیوز) ڈاکٹروں نے عید پر بسیار خوری سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہوئے کہا‬
‫ہے کہ زیادہ گوشت کھانا بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔‬
‫ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بسیار خوری‪ ،‬ڈائریا‪ ،‬گیسٹرو‪ ،‬بلڈ پریشر‪ ،‬ہارٹ اٹیک اور‬
‫فالج کا سبب بنتی ہے۔ کھانے میں بے احتیاطی مریضوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی‬
‫ہے۔‬
‫ایم ایس سروسز ہسپتال ڈاکٹر محمد زاہد کا کہنا تھا کہ عیداالضحی پروٹین حاصل کرنے کا‬
‫بہترین موقع ہے تاہم گوشت کے غیر ضروری استعمال سے معدے اور پیٹ کے امراض‬
‫الحق ہو سکتے ہیں۔عید پر اعتدال کے ساتھ گوشت کھائیں‪ ،‬اس کے ساتھ سبزیوں کا‬
‫استعمال صحت کیلئے مفید ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں عید پر‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یومیہ سینکڑوں مریض ٓاتے ہیں جس سے ہسپتالوں پر بھی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ شہریوں کو‬
‫چاہیے کہ گوشت کھانے میں میانہ روی کا مظاہرہ کریں‬
‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/611577‬‬

‫عید االضحی کے دنوں میں پھیلنے والی بیماریاں‬


‫جوالئی ‪21 2021 ،‬‬

‫االضحی کے ِدنوں میں مختلف انفیکشنز اور بیماریاں پھیلنے کے خطرات میں کس حد‬ ‫ٰ‬ ‫عید‬
‫تک اضافہ ہو جاتا ہے‪ ،‬نیز کورونائی ایّام میں کس قِسم کی احتیاطی تدابیر اپنانے کی‬
‫‪ ‬ضرورت ہے؟‬
‫امراض ناک‪ ،‬کان حلق اور پاکستان میڈیکل ایسوسی‬
‫ِ‬ ‫ماہر‬
‫ِ‬ ‫ہمارے اس سوال کےجواب میں‬
‫ایشن کے سیکرٹری جنرل‪ ،‬ڈاکٹر سیّد مح ّمد قیصر سجّاد کا کہنا تھا کہ ’’سب سے پہلے تو‬
‫متع ّدی امراض یا ‪ Infectious Diseases‬عوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ‬
‫‘‘چُھوت کی بیماریاں کیا ہوتی ہیں۔‬
‫ایسی ہر بیماری‪ ،‬جو چھینکنے‪ ،‬کھانسنے‪ ،‬ہاتھ لگانے سے بٓاسانی منتقل ہوجائے وہ متع ّدی‬
‫‪ ‬مرض کہالتی ہے۔ جیسے‪ ،‬کورونا وائرس‪ ،‬عام نزلہ‪ ،‬زکام‪ ،‬کھانسی یا چکن پاکس وغیرہ۔‬
‫اب جہاں تک بات ہے عید االضحی کے ِدنوں میں بیماریاں پھیلنے کی‪ ،‬تو لوگوں کویہ‬
‫شعور ہی نہیں کہ ان کی غفلت‪ ،‬کاہلی اور بے ِحسی کی وجہ سے شہر میں کس قدر‬
‫بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے عوام مہنگا جانور خریدتے وقت تو کوئی کمپرو‬
‫مائز نہیں کرتے لیکن گلیوں‪ ،‬محلّوں کی صفائی کرواتے ہوئے جیبیں کھنگالنے لگتے ہیں۔‬
‫ہّللا کی راہ میں قربانی کے لیے الئے جانے والے جانوروں کو جس سج دھج سے پالتے‪،‬‬
‫اپنے گھروں‪ ،‬داالنوں میں رکھتے ہیں‪ ،‬انہی کی ٓاالئشیں‪ ،‬گوبر کئی کئی روز تک سڑکوں‬
‫پر پڑا رہتا ہے‪ ،‬جو صرف گندگی وغالظت کا نہیں ہزاروں‪ ،‬الکھوں بیماریوں کا بھی‬
‫موجب بنتا ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/959921‬‬

‫صحت مند فرد کو روزانہ کتنا گوشت کھانا چاہیے؟‬


‫جوالئی ‪21 2021 ،‬‬

‫ماہری ِن اغذیہ کے مطابق ایک عام صحت مند فرد کو روزانہ ایک سوگرام گوشت استعمال‬
‫کرنا چاہیے‪ ،‬کیوں کہ ایک سو گرام گوشت میں تقریبا ً ‪ 143‬کیلوریز‪ 3 ،‬سے ‪  5‬گرام‬
‫چکنائی‪ 26 ،‬گرام پروٹین اور کئی وٹامنز اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔‬
‫کسی بھی جانور کے جسم کی ساخت کے لحاظ سے مفید اجزاء کی مقدار مختلف ہوسکتی‬
‫‪: ‬ہے لیکن افادیت یکساں ہی ہے۔ مثالً‬
‫‪: ‬پروٹین]‬

‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سب )‪ ( Animal Protein‬گوشت پروٹین سے بنتا ہے۔ جانور سے حاصل کردہ پروٹین‬
‫اعلی درجے کی غذائیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ پروٹین انسانی گوشت کے پروٹین سے‬ ‫ٰ‬ ‫سے‬
‫بحالی صحت کے لیے گوشت‬ ‫ٔ‬ ‫ملتی جُلتی ہے‪ ،‬اسی لیے کسی ٓاپریشن اور بیماری کے بعد‬
‫کا استعمال بےحد مفید ثابت ہوتا ہے۔‬
‫‪:‬چکنائی یا چربی‬
‫گائے اور بکرے کے گوشت میں مختلف مقدار میں چکنائی یا چربی پائی جاتی ہے‪ ،‬جس‬
‫کا تعیّن ُعمر‪ ،‬جنس اور غذا کے مطابق ہوتا ہے۔ جانور کی چربی میں موجود بعض فیٹی‬
‫ایسڈز انسانی صحت کے لیے ازحد ضروری ہیں۔‬
‫‪ :‬وٹامن بی‪12-‬‬
‫گوشت‪ ،‬وٹامن بی ‪-12‬ا سب سے بہترین مٓاخذ ہے۔ یہ وٹامن خون بننےمیں مددگار ثابت ہوتا‬
‫ہے‪،‬تو اعصابی نظام کے لیے بھی مفید ہے۔ اگر جسم میں وٹامن بی‪ 12-‬کی کمی واقع‬
‫ہوجائے‪ ،‬تو سُستی‪ ،‬تھکاوٹ‪ ،‬مشقّت کے دوران سانس لینے میں تکلیف‪ِ ،‬جلد کی رنگت ماند‬
‫پڑجانا‪ِ ،‬دل کی دھڑکن میں تیزی اور بال گرنے جیسی عالمات ظاہر ہوتی ہیں۔ نیز‪،‬‬
‫اعصابی نظام پر بھی مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔‬
‫‪:‬زنک‬
‫گوشت میں زنک وافر مقدار میں پایا جاتا ہے‪ ،‬جو جسم کی نشوونما کے عالوہ وائرسز کی‬
‫روک تھام میں بھی ا ہم کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫‪(selenium):‬سیلینئیم‬
‫سیلینئیم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ گوشت ہے۔ یہ جُزو جسم میں مختلف کیمیائی مراحل‬
‫‪ ‬کی انجام دہی میں معاونت فراہم کرتا ہے۔‬
‫‪:‬فوالد‬
‫یہ ُجزو بھی گوشت میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے‪ ،‬اسی لیے بکرے اور گائے کے‬
‫گوشت کو’’ ریڈمیٹ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ گوشت میں موجود فوالد جسم میں جلد اور زیادہ‬
‫مقدار میں جذب ہوتا ہے۔‬
‫‪ :‬وٹامن بی‪6 -‬‬
‫یہ وٹامن بھی گوشت میں پایا جاتا ہے‪ ،‬جو خون کی افزایش اور جسم کوتوانائی فراہم کرنے‬
‫میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فاسفورس‪ :‬یہ اہم عنصر بھی جسم کی نشوونما کے لیے‬
‫یہ پٹّھوں کو‪ (Creatinine) :‬ضروری ہے‪ ،‬جو سُرخ گوشت میں پایا جاتا ہے۔کریٹینن‬
‫توانائی فراہم کرتا ہے۔‬
‫‪: ‬٭ قربانی کا گوشت درست طریقے سےمحفوظ کریں‬
‫قدیم و جدید تمام تہذیبوں میں گوشت کے بغیر مہمان نوازی ادھوری تص ّور کی جاتی ہے‪،‬‬
‫تو بیش تر گھرانوں میں عام ِدنوں میں بھی گوشت شوق اور رغبت سے کھایا جاتا ہے۔‬
‫چوں کہ غذائیت کے اعتبار سے گوشت‪ ،‬لحمیات سے بَھرپور ہوتا ہے اور اس میں روغنی‬
‫اجزا بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں‪ ،‬تو متع ّدد افراد قربانی کا گوشت فریزر میں‬
‫محفوظ کرلیتے ہیں‪ ،‬تاکہ کافی ِدنوں تک استعمال کیا جاسکے‪ ،‬لیکن اس ضمن میں کئی‬
‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چھوٹی چھوٹی باتیں مدِّنظر رکھنا ازحد ضروری ہیں‪،‬تاکہ بیماریوں سے محفوظ رہا جا‬
‫سکے۔ جیسا کہ تین سے چھے ماہ کے عرصے میں گوشت کے خواص کم ہونا شروع ہو‬
‫جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے اس سے زیادہ عرصے کے لیے گوشت فریز نہ کیا جائے۔‬
‫قربانی کاگوشت جس قدر جلد ہو سکے‪ ،‬صفر درجٔہ حرارت پر اسٹور کرلیں‪ ،‬جب ایک بار‬
‫گوشت فریزر سے نکال کر پگھاللیا جائے‪ ،‬تو دوبارہ فریز نہ کریں۔ چوں کہ بعض جگہوں‬
‫پر بار باربجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے‪ ،‬تو اس صُورت میں اگر ایک بار فریزنگ پوائنٹ‬
‫سے درجٔہ حرارت کم ہو جائے‪ ،‬تو زیادہ ِدنوں کے لیے گوشت فریز نہ کریں۔ قدیم دَور میں‬
‫گوشت محفوظ کرنے کے لیے دھوپ میں سُکھایا جاتا تھا۔ اس کا طریقٔہ کار یہ تھا کہ نمک‬
‫لگا گوشت دھوپ میں خشک کر لیا جاتا اور پھرکئی ماہ تک استعمال میں الیاجاتا تھا۔‬
‫حضور ِ پاکﷺ نے ایسا خشک گوشت کئی بارتناول فرمایا ۔حضور‬
‫پاکﷺ نےقربانی کے گوشت کو پسند فرمایا ہے‪،‬سو‪،‬قربانی کے گوشت کو‬
‫اپنے استعمال میں ضرور الئیں ۔‬
‫ٓاپﷺکے عام ِدنوں کے کھانوں میں بھی گوشت نمایاں طور پر شامل تھا‪،‬‬
‫حضور پاکﷺ نے’’حجتہ الوداع‘‘ کے موقعے پر‪100‬اونٹ ذبح‬ ‫ِ‬ ‫جب کہ‬
‫کیے تھے۔یاد رہے‪ ،‬اونٹ کا گوشت ٓاج بھی عربوں کی پسندیدہ غذا ہے ۔‬
‫حضورﷺنے بھی اونٹ کا گوشت کئی مرتبہ تناول فرمایا ۔ٓاپ‬
‫ﷺعام ِدنوں میں اور قربانی کے گوشت کو بھی مختلف طریقوں سے کھانا‬
‫پسندفرماتے۔ نبی کریمﷺنے اُبال ہوا گوشت اور کوئلوں پر بُھنی ہوئی‬
‫کلیجی بھی تناول فرمائی۔نیز‪ٓ ،‬اپ ﷺنے بکری اور بھیڑ کا گوشت بھی کئی‬
‫مرتبہ کھایا۔‬
‫مسعود سے روایت ہے کہ حضور ﷺکو دستی کا گوشت زیادہ‬ ‫ؓ‬ ‫عبدہللا بن‬
‫پسند تھا۔عربوں میں گوشت کو پانی میں اُبال کر اس میں َجو کا ٓاٹا مال کر پکایا جاتا تھا‪ ،‬جو‬
‫حلیم کی طرح کا ایک کھانا ہے اور جسے حضورﷺ نے بےحدپسند فرمایا۔‬
‫‪:‬٭ قربانی کا گوشت اور چند احتیاطی تدابیر‬
‫گوشت پکاتے وقت کم سے کم تیل یا گھی استعمال کریں۔ ادرک‪ ،‬لہسن‪ ،‬ہلدی‪ ،‬اور گرم‬
‫مسالے ضرور شامل کریں۔ایک وقت میں ساٹھ سے سو گرام گوشت کھایا جا سکتا ہے۔‬
‫گوشت کے ساتھ سبزیوں کا سالد ضرور استعمال کریں کہ یہ فائبر فراہم کرتا ہے‪ ،‬تو اس‬
‫کے کھانے سے قبض کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔‬
‫گوشت کے ساتھ لیموں کا استعمال خاص طور پر کیا جائے‪ ،‬کیوں کہ لیموں‪ ،‬گوشت میں‬
‫موجود فوالد کو جسم میں جذب ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ عید کے ایّام میں اور اس کے‬
‫بعد بھی کئی روزتک گوشت کے کئی طرح کے مرغوب اور پسندیدہ پکوان بنائے جاتے‬
‫ہیں‪ ،‬ایسے میں ان لذیذ اورمزے دار کھانوں سے ہاتھ روکنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے‪ ،‬تو یہ‬
‫گوشت کے پکوان ضرور کھائیں‪ ،‬لیکن اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔‬

‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس موقعے پر گوشت کے ساتھ سبزیوں‪ ،‬پھلوں کا استعمال بھی بےحدضروری ہے تاکہ‬
‫امراض معدہ کے مریض‬ ‫ِ‬ ‫غذا میں توازن برقرار رہے‪ ،‬بالخصوص ذیابطیس‪ ،‬بلڈپریشر اور‬
‫گوشت اور مر ّغن کھانوں کے استعمال میں زیادہ احتیاط برتیں۔ ذیابطیس کے مریض اگر‬
‫کھانے میں زیادتی کر جائیں‪ ،‬تو بہتر ہوگا کہ کچھ دیر کے لیے تیز رفتاری سے چلیں تاکہ‬
‫فشارخون اور معدے کے السر میں مبتال‬ ‫ِ‬ ‫خون میں شوگر کی مقدار معمول پر ٓاجائے۔ بُلند‬
‫افراد تال ہوا گوشت کھانے کے بجائے کوئلوں پر بُھون کر یا اُبال کر استعمال کریں۔ ہائی‬
‫بلڈ پریشر کے مریض نمک کم سے کم استعمال کریں اور کچھ دیر ٓارام بھی کرلیں ۔ تمام‬
‫احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر طبیعت میں کوئی خرابی محسوس ہو ‪،‬تو اپنے معالج سے‬
‫رجوع کریں۔‬
‫عالوہ ازیں‪ ،‬عام ِدنوں میں بھی سافٹ ڈرنکس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے‪،‬مگر‬
‫عید کے موقعے پر تو الزما ً سبز چائے کا استعمال کیا جائے کہ یہ کھانا ہضم کرنے میں‬
‫مدد دیتی ہے۔ عید االضحی پر بطور خاص اس بات کا خیال رکھیں کہ کھانا وقت پر کھا لیا‬
‫نظام‬
‫ِ‬ ‫جائے ‪،‬کیوں کہ گوشت دیر سے ہضم ہوتا ہے اور وقت ‪،‬بے وقت یا زائد کھانے سے‬
‫انہضام خرابی کا شکار ہو سکتا ہے۔کھانے کے معاملے میں وقت کی پابندی نہ کرنے کی‬
‫عادت بعض اوقات صحت کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔‬
‫‪: ‬٭بعد از قربانی ماحول ٓالودہ نہ ہونے دیں‬
‫مہذب طریقے سے انجام‬ ‫حفظان صحت کے اصولوں· کے مطابق اور بہت ّ‬ ‫ِ‬ ‫قربانی کا فریضہ‬
‫دیا جائے کہ ’’صفائی نصف ایمان‘‘ہے۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثرگھروں کے سامنے‬
‫سڑکوں اور نالیوں پرجگہ جگہ خون بہہ رہا ہوتا ہے‪ ،‬جابجا مختلف قسم کی ٓاالئشیں‬
‫بکھری نظر ٓاتی ہیں‪ ،‬جن سے بدبُو کے بھبکے اُٹھ رہے ہوتے ہیں‪ ،‬ل ٰہذا جانوروںکی·‬
‫انتڑیاں‪ ،‬اور دیگر فضالت سڑکوں‪ ،‬گلی‪ ،‬محلّوں‪ ،‬چوراہوں اور نالیوں میں پھینکنے سے‬
‫گریز کریں کہ یہ ماحول کو تعفّن زدہ کرتے ہیں اور جراثیم کی افزایش کا سبب بنتے ہیں۔‬
‫نیز‪ ،‬خون‪ ،‬گوشت اور جانور کے کٹے ہوئے اجزاءخطرناک بیماریاں پھیلنے کے امکانات‬
‫بھی بڑھا دیتے ہیں‪ ،‬ل ٰہذا ممکن ہو تو جس جگہ جانور کا خون بہا یاہو‪ ،‬وہاں فوراً چونا‬
‫چھڑک دیں‪،‬پھر جب خون جم جائے‪،‬تو اُسے بیلچے کی مدد سے اُٹھا کر مٹّی میں دفن کر‬ ‫ِ‬
‫دیں اور کچھ دیر بعد فرش سرف سے دھولیں۔اگر· جانوروں کی ٓاالئشیں ٹھکانے لگانے کے‬
‫ضمن میں شہری انتظامیہ نے کچھ ہدایات جاری کی ہوں‪ ،‬تو اُن پر سختی سےعمل کیا‬
‫جائے۔‬
‫ت دیگر اپنی مدد ٓاپ کے تحت انفرادی یا اجتماعی طور پر ان ٓاالئشوں کو ٓابادی سے‬ ‫بصور ِ‬
‫ُدورپھینک دیں‪،‬تاکہ ماحول ٓالودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ خاص طور پر ان کورونائی‬
‫ایّام میں توقربانی کے تمام تر مراحل‪ ،‬گوشت کی تقسیم‪ ،‬کھانوں کی تیاری‪ ،‬دعوتوں کے‬
‫اہتمام وغیرہ میں ہر طرح احتیاطی تدابیر پر الزما ً عمل کریں کہ کوئی معمولی سی کوتاہی‬
‫بھی کسی شدید پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/959814‬‬

‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫قربانی کا گوشت ‪ 2‬گھنٹے رکھنے کے بعد پکائیں‪ ،‬طبی ماہرین‬
‫جوالئی ‪21 2021 ،‬‬

‫ماہرین صحت نے کہا ہے کہ قربانی کا گوشت فوری طور پر نہ پکائیں بلکہ ‪ 2‬گھنٹے‬
‫رکھنے کے بعد پکائیں۔‬
‫طبی ماہرین نے عید قربان کے موقع پر عوام کی صحت کے حوالے تجاویز جاری کی ہیں۔‬
‫ماہرین صحت نے کہا کہ قربانی کا گوشت فوری نہ پکائیں‪ ،‬اسے تقریبا ً ‪ 2‬گھنٹے رکھیں‬
‫اور پھر ہنڈیا چڑھائیں۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق جب گوشت اچھی طرح گل جائے تو اسے خوب چبا چبا کر کھائیں۔‬
‫ماہرین صحت نے مزید کہا کہ عید قربان پر گوشت کھائیں لیکن ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں۔‬
‫طبی ماہرین نے کہا کہ قربانی کے بعد جانوروں کی ٓاالئشیں گلی محلے میں نہیں بلکہ‬
‫کچراکنڈی میں پہنچائیں اور صفائی کا خاص خیال رکھیں۔‬
‫‪vhttps://jang.com.pk/news/960007‬‬

‫قربانی کا گوشت لمبے عرصے تک محفوظ رکھنے کی مفید ٹپس‬


‫جوالئی ‪22 2021 ،‬‬

‫عیدالضحی کے دن ہر خاتون اس بات پر پریشان دکھائی دیتی ہے کہ کس طرح گوشت کو‬‫ٰ‬


‫محفوظ کیا جائے تاکہ قربانی کا گوشت لمبے عرصے تک استعمال میں الیا جا سکے۔‬
‫گھر میں جانور کی قربانی‪ ،‬دوست احباب اور رشتہ داروں کی جانب سے ملنے والے‬
‫قربانی کے گوشت کو محفوظ کرنا اور مستقبل میں اس گوشت کو کھانے کے قابل بنائے‬
‫رکھنا ہر خاتون خانہ کے لیے چیلنج سے کم نہیں ہے اور جب ٓاپ کے ہاں فریج کی سہولت‬
‫موجود نہ ہوتو یہ یہ کام مشکل ترین ہو جاتا ہے۔‬
‫متوسط اور امیر گھرانوں میں نہ صرف بڑے فریج بلکہ ڈیپ فریزرز بھی ہوتے ہیں‪ ،‬ان‬
‫میں جتنا چاہیں قربانی کے گوشت کو حفظان صحت کے اصولوں· کے مطابق محفوظ کیا‬
‫جاسکتا ہے‪ ،‬فریج اور فریزرمیں قربانی کے گوشت کو محفوظ رکھنے کے لیے منصوبہ‬
‫بندی کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈیڑھ دو ماہ تک گوشت کو فریزر یا فریج میں محفوظ رکھا‬
‫جاسکتا ہے‪ ،‬اسی طرح فریج کے درجہ حرارت کو بار بار کم یا زیادہ کرنے سے گریز‬
‫کریں اس سے گوشت کی صحت متاثر ہوسکتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چند گھرانوں میں گوشت بھون کر یا فرائی کر کے رکھ لیا جاتا ہے تا کہ چند دنوں تک اس‬
‫گوشت کو قابل استعمال رکھا جاسکے‪ ،‬اسی طرح گوشت کو کباب کی شکل میں خشک کر‬
‫کے رکھنے کا طریقہ بھی بہتر رہتا ہے‪ ،‬خشک کباب تقریبا ‪ 4‬تا ‪ 6‬ماہ تک خراب نہیں‬
‫ہوتے ہیں۔‬

‫قربانی کے گوشت کو پارچوں کی شکل میں کاٹ کر لہسن ادرک اور نمک لگا کر سورج‬
‫کی روشنی میں خشک کرنے کا طریقہ کار بھی بہت زیادہ محنت طلب ہے جس میں‬
‫خواتین کو مکمل طور پر مصروف رہنا پڑتا ہے۔‬
‫‪:‬گوشٹ محفوظ کرنے کی مفید اور ٓاسان ٹپس‬
‫عید سے دو یاتین دن قبل اپنے فریج اور فریزر کی صفائی کرلیں‪ ،‬فالتو اشیا کو ہٹا دیں‪،‬‬
‫فریزر کی کی صفائی کرتے ہوئے اس پر المونیم یا باریک پالسٹک بچھا دیں تا کہ گوشت‬
‫کے پیکٹس فریزر کی سطح پر نہ چپک سکیں اور فریزر کی دیواروں پر گلیسرین لگادیں‬
‫اس سے جمی برف نکالنے میں ٓاسانی ہوگی۔‬
‫اگر ٓاپ کے پاس فریج کی سہولت موجود ہے تو پہلے گوشت کا اندازہ لگا لیں کہ فریج یا‬
‫فریزر میں کتنے کلو گوشت کو رکھا جاسکتا ہے اس کے مطابق ان میں گوشت رکھنے کی‬
‫تیاری کریں۔‬
‫قربانی کے گوشت کو فریزر اور فریج میں رکھنے میں تاخیر نہ کریں‪ ،‬فریج سے باہر دو‬
‫گھنٹے تک گوشت کو چھوڑے رکھنے پر بیکٹریا کا حملہ ہوسکتا ہے‪ ،‬اس سے گوشت‬
‫خراب ہوسکتا ہے۔‬
‫گوشت کے مقابل دالیں زیادہ عرصہ تک اس لیے محفوظ رہ سکتی ہیں کیونکہ ان میں پانی‬
‫یا تو کم ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا‪ ،‬گوشت میں ‪ 90‬فیصد پانی ہوتا ہے‪ ،‬بہتر یہی ہے کہ‬
‫گوشت کو کپڑے سے خشک کرلیں پھر فریج میں پالسٹک کی تھیلیوں میں اچھی طرح بند‬
‫کر کے رکھیں۔‬
‫اگر ٓاپ فریزر میں گوشت رکھتی ہیں تو اس میں دیگر پھل اور سبزیاں نہ رکھیں کیونکہ‬
‫گوشت کی بساند سے یہ چیزیں خراب ہوسکتی ہیں۔‬
‫گوشت کو فوری فریزر میں رکھنے سے بیکٹریا نشونما نہیں پاتے‪ ،‬جس سے گوشت چند‬
‫دنوں تک قابل استعمال رہتا ہے۔‬
‫گوشت سے لگی چربی کو نکال دیں اور اسے پالسٹک کی تھیلی یا المونیم بیگ میں اچھی‬
‫طرح پیک کر کے رکھیں‪ ،‬گوشت کے ساتھ جتنی چربی کم رہے گی اتنا ہی گوشت محفوظ‬
‫رہے گا۔‬
‫گوشت کے بجائے اس کا قیمہ بھی بنا کر محفوظ کیا جاسکتا ہے‪ ،‬اگرکباب بنالیے جائیں تو‬
‫زیادہ بہتر رہتا ہے ۔‬
‫قربانی کے فوری بعد گھروں میں کلیجی‪ ،‬گردے بنانے کا رجحان عام ہوتا ہے‪ ،‬پکانے سے‬
‫قبل کلیجی کی صحت کی جانچ کریں یہ دیکھ لیں کہ کہیں کلیجی میں سوراخ‪ ،‬یا کو ز خم‬

‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تو نہیں ہے‪ ،‬کلیجی کا رنگ تبدیل تو نہیں ہوا ہے اگر ایسا کچھ دکھائی دے تو اس کلیجی‬
‫کو نہ پکائیں کیونکہ اس سے فوڈ پوائزننگ کی شکایت ہوسکتی ہے۔‬
‫قربانی کے دوران سب سے اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کو اخبار‬
‫کے کاغذ میں لپیٹ کر تقسیم نہ کریں اور نہ ہی رکھیں کیونکہ سیاہی میں سیسہ کا جُز‬
‫شامل ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔‬
‫‪:‬قربانی کا گوشت اور چند احتیاطی تدابیر‬
‫گوشت پکاتے وقت کم سے کم تیل یا گھی استعمال کریں۔ ادرک‪ ،‬لہسن‪ ،‬ہلدی‪ ،‬اور گرم‬
‫‪ ‬مسالے ضرور شامل کریں‪ ،‬ایک وقت میں ساٹھ سے سو گرام گوشت کھایا جا سکتا ہے۔‬
‫گوشت کے ساتھ سبزیوں کا سالد ضرور استعمال کریں کہ یہ فائبر فراہم کرتا ہے‪ ،‬تو اس‬
‫کے کھانے سے قبض کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔‬
‫گوشت کے ساتھ لیموں کا استعمال خاص طور پر کیا جائے‪ ،‬کیوں کہ لیموں‪ ،‬گوشت میں‬
‫‪ ‬موجود فوالد کو جسم میں جذب ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫عید کے ایّام میں اور اس کے بعد بھی کئی روزتک گوشت کے کئی طرح کے مرغوب اور‬
‫پسندیدہ پکوان بنائے جاتے ہیں‪ ،‬ایسے میں ان لذیذ اورمزے دار کھانوں سے ہاتھ روکنا‬
‫قدرے مشکل ہو جاتا ہے‪ ،‬تو یہ گوشت کے پکوان ضرور کھائیں لیکن اعتدال کا راستہ‬
‫اختیار کریں ۔‬
‫س موقعے پر گوشت کے ساتھ سبزیوں‪ ،‬پھلوں کا استعمال بھی بےحدضروری ہے تاکہ غذا‬
‫امراض معدہ کے مریض‬
‫ِ‬ ‫میں توازن برقرار رہے‪ ،‬بالخصوص ذیابطیس‪ ،‬بلڈپریشر اور‬
‫‪ ‬گوشت اور مر ّغن کھانوں کے استعمال میں زیادہ احتیاط برتیں۔‬
‫ذیابطیس کے مریض اگر کھانے میں زیادتی کر جائیں تو بہتر ہوگا کہ کچھ دیر کے لیے‬
‫‪ ‬تیز رفتاری سے چلیں تاکہ خون میں شوگر کی مقدار معمول پر ٓاجائے۔‬
‫فشارخون اور معدے کے السر میں مبتال افراد تال ہوا گوشت کھانے کے بجائے کوئلوں‬ ‫ِ‬ ‫بُلند‬
‫‪ ‬پر بُھون کر یا اُبال کر استعمال کریں۔‬
‫‪ ‬ہائی بلڈ پریشر کے مریض نمک کم سے کم استعمال کریں اور کچھ دیر ٓارام بھی کرلیں ۔‬
‫تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر طبیعت میں کوئی خرابی محسوس ہو تو اپنے معالج‬
‫سے رجوع کریں ۔عالوہ ازیں‪ ،‬عام ِدنوں میں بھی سافٹ ڈرنکس کے استعمال سے پرہیز‬
‫کرنا چاہیے مگر عید کے موقعے پر تو الزما ً سبز چائے کا استعمال کیا جائے کہ یہ کھانا‬
‫‪ ‬ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔‬
‫عید االضحی پر بطور خاص اس بات کا خیال رکھیں کہ کھانا وقت پر کھا لیا جائے کیوں‬
‫نظام انہضام خرابی‬
‫ِ‬ ‫کہ گوشت دیر سے ہضم ہوتا ہے اور وقت بے وقت یا زائد کھانے سے‬
‫کا شکار ہو سکتا ہے۔‬
‫کھانے کے معاملے میں وقت کی پابندی نہ کرنے کی عادت بعض اوقات صحت کے لیے‬
‫خاصی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/960077‬‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مٹن یا بیف‪ ،‬کونسا گوشت کتنا فائدہ مند؟‬
‫جوالئی ‪20 2021 ،‬‬

‫گوشت انسانی غذا کا ایک اہم حصہ ہے جس کے استعمال سے بنیادی جز پروٹین سمیت‬
‫متعدد منرلز بھی حاصل ہوتے ہیں‪ ،‬ماہرین کی جانب سے صحت برقرار رکھنے کے لیے‬
‫غذا میں زیادہ سبزیاں‪ ،‬پھل اوردالوں کو اہمیت دینا تجویز کیا جاتا ہے مگر گوشت کی اپنی‬
‫ہی افادیت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔‬
‫غذائی و طبی ماہرین کے مطابق انسانی صحت کا براہ راست تعلق غذا سے ہوتا ہے‪ ،‬ہر‬
‫غذا صحت کے لیے کچھ نہ کچھ افادیت کی حامل ہے بشرطیکہ اُسے اعتدال میں رہ کر‬
‫کھایا جائے‪ ،‬غذائی ماہرین کے مطابق مچھلی اور مرغی کے گوشت (وائٹ میٹ) سے‬
‫انسانی جسم کو پروٹین‪ ،‬منرلز اور وٹامنز حاصل ہوتے ہیں اور وائٹ میٹ میں کیلوریز اور‬
‫چکنائی کی مقدارکم پائی جاتی ہے۔‬
‫دوسری جانب ’ریڈ میٹ ‘ یعنی چھوٹا گوشت (مٹن‪ ،‬بکرا) اور بڑا گوشت (گائے‪ ،‬بیف ) کو‬
‫عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھانا تجویز کیا جاتا ہے۔‬
‫گوشت کھانے میں غیر معمولی زیادتی سنگین قسم کے صحت کے مسائل کا سبب بن جاتی‬
‫ہے‪ ،‬مٹن میں چکنائی کی مقدار‪ ،‬چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جبکہ بیف (بڑے گوشت)‬
‫میں چکنائی کی زیادہ مقدار مرغی‪ ،‬مچھلی اور بکرے کے گوشت سے زیادہ پائی جاتی‬
‫ہے اور دوسرے غذائی اجزا مثالً پروٹین‪ ،‬زنک‪ ،‬فاسفورس‪ٓ ،‬ائرن اور وٹامن بی کی مقدار‬
‫بھی موجود ہوتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق گائے کے گوشت کی ‪ 100‬گرام‪  ‬مقدار میں ‪ 250‬کیلوریز ‪15 ،‬‬
‫گرام فیٹ ‪ 30 ،‬فیصد کولیسٹرول ‪ 3 ،‬فیصد سوڈیم ‪ 14 ،‬فیصد ٓائرن ‪ 20 ،‬فیصد وٹامن بی‬
‫‪ 5 ،6‬فیصد میگنیشیم ‪ 1 ،‬فیصد کیلشیم اور وٹامن ڈی اور ‪ 43‬فیصد کوباال من پایا جاتا ہے‬
‫جبک بکرے کے گوشت کے ‪ 11‬گرام مقدار میں ‪ 294‬کیلوریز‪ 32 ،‬فیصد فیٹ ‪ 45 ،‬فیصد‬
‫سیچوریٹڈ فیٹ‪ 32 ،‬فیصد کولیسٹرول ‪ 3 ،‬فیصدسوڈیم ‪ 8 ،‬فیصد پوٹاشیم ‪ 50 ،‬فیصد‬
‫پروٹین ‪ 10 ،‬فیصد ٓائرن ‪ 5 ،‬فیصد وتامن بی ‪ 5 ،6‬فیصد میگنیشیم ‪ ،‬اور ‪ 43‬فیصد‬
‫کوباالمین پایا جاتا ہے ۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق سفید اور الل گوشت کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں‪ ،‬اس‬
‫لیے انہیں اعتدال میں رہ کر استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ الل گوشت خصوصا ً گائے کے‬
‫گوشت سے احتیاط ہی تجویز کی جاتی ہے۔‬
‫طبی تحقیق کے مطابق گوشت کا زیادہ استعمال مختلف سنگین بیماریوں کا سبب بنتا ہے‬
‫جیسے کہ کینسر‪ ،‬دل کے امراض‪ ،‬ذیابیطس‪ ،‬معدہ‪ ،‬جگر کی بیماریاں وغیرہ‪ ،‬ماہرین کے‬
‫مطابق جو پہلے سے ہی ان بیماریوں میں مبتال ہیں انہیں‪  ‬گوشت کے استعمال میں غیر‬
‫معمولی احتیاط برتنی چاہیے۔‬

‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق بکرے کا گوشت گرم تاثیر رکھتا ہے جبکہ یہ طاقت بخش ہے‪،‬‬
‫گائے کا گوشت ٹھنڈی تاثیر رکھتا ہے جسے کسی بھی موسم میں‪ ‬کھایا جا سکتا ہے‪ ،‬بکرے‬
‫کے گوشت کے استعمال سے جسم میں‪ ‬خون بنتا ہے‪ ،‬کمزوری دور کرتا ہے‪ ،‬لذت اور‬
‫ذائقہ کے اعتبار سے بھی بکرے کا گوشت زیادہ بہتر ہے‪ ،‬س کا اعتدال میں استعمال کرنا‬
‫جسمانی قوت کے لیے نہایت مفید ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق ُدنبے کا گوشت دیر سے ہضم ہوتا ہے اور ذائقہ دار ہوتا ہے جبکہ بیل‪،‬‬
‫گائے کا گوشت افادیت میں‪ ‬سب سے پیچھے اور اس میں غذائیت بھی کم پائی جاتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے سفید گوشت میں مچھلی اور الل گوشت‬
‫میں بکرے کے گوشت کو اہمیت دینی چاہیے‪ ،‬اس کی وجہ یہ ہے کہ غذائیت کے معاملے‬
‫میں مٹن بیف سے بہتر اور صحت بخش ثابت ہوتا ہے جبکہ بکرے کے گوشت کو دل کے‬
‫عارضے میں مبتال افراد بھی اعتدال میں رہتے ہوئے استعمال کریں تو اس سے اُن کی دل‬
‫اور مجموعی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔‬
‫غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ جب بھی گوشت کھائیں جس قسم کا بھی‬
‫ساتھ میں سالد اور رائتہ کا استعمال ضرور کریں‪ ،‬فائبر سے بھرپور سالد اور مثبت‬
‫بیکٹیریاز‪ ،‬پری بائیوٹک سے بھرپور دہی سے بنا رائتہ گوشت کو َجلد ہضم کرنے میں‪ ‬مدد‬
‫فراہم کرتا ہے اور افادیت بڑھا دیتا ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/959351‬‬

‫قربانی کے گوشت کی بو ختم کرنے کا ٓاسان طریقہ‬


‫‪22 July,2021 03:21 pm‬‬
‫الہور‪( :‬ویب ڈیسک) قربانی کے گوشت میں مخصوص بو پائی جاتی ہے جو بعض‬

‫اوقات اتنی ناگوار محسوس ہوتی ہے کہ لوگ متلی یا قے ٓانے کی شکایت کرتے ہیں اور‬
‫گوشت کھانے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔‬
‫ہم ٓاپ کو بتاتے ہیں کہ گوشت میں ٓانے والی بو کو ختم کیسے کیا جا سکتا ہے۔ سب سے‬
‫پہلے گوشت کی بو کو ختم کرنے کیلئے لہسن اور سرکہ لیں‪ ،‬گوشت کی مقدار کے مطابق‬
‫لہسن کو کاٹ کر سرکے میں مال کر پیسٹ بنا لیں۔ گوشت پر اس پیسٹ کو اس طرح لگائیں‬
‫کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ اب اس پیسٹ لگے گوشت کو ایک گھنٹے کیلئے رکھ دیں‪،‬‬
‫وقت پورا ہونے پر صاف پانی سے دھو لیں‪ ،‬لیجئے بو کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہو گا۔‬
‫ایک اور طریقہ بھی پیش خدمت ہے‪ ،‬گندم کے ٓاٹے کا خشکا لیں اور اس کو پیسٹ کی‬
‫طرح پورے گوشت پر لگا دیں۔ اگر خشکا ٹھہر نہیں رہا تو گیال ہاتھ گوشت پر ملیں‪ ،‬خشکا‬
‫گوشت پر ٹھہرنے لگے گا۔ ٓاٹے لگے گوشت کو ‪ 2‬گھنٹے بعد پانی سے دھو لیں۔ لیجئے‬
‫اس طریقے سے بھی گوشت کی بو ختم ہو جائے گی۔‬

‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/611642‬‬

‫فریج میں گوشت اور انڈے اتنے دن سے زیادہ نہ رکھیں ورنہ۔۔۔ ماہرین‬
‫نے ایسی وجہ بتادی کہ ہرکوئی گوشت غریبوں میں ابھی سے بانٹ دے‬
‫گا‬
‫‪Jul 21, 2021 | 13:41:PM‬‬

‫لندن(نیوزڈیسک) فریج میں کھانا رکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ وہ محفوظ ہے اور‬
‫خراب نہیں ہوگا لیکن ماہرین غذا نے خبردار کیا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ کھانے کی‬
‫اشیاءخراب ہوجاتی ہیں اور ان میں موجودغذائیت نہیں رہتی۔ان کے کھانے سے جسم کو‬
‫فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہوسکتا ہے اور ہم فوڈپوائزنگ کا شکار ہوسکتے ہیں۔آئیے‬
‫آپ کو بتاتے ہیں کہ کون سا کھانا کتنے دن تک فریج میں رکھنا چاہیے اور پھر اسے‬
‫پھینک دینا چاہیے۔‬
‫ماہرین غذا کا کہنا ہے کہ مچھلی اور شیل فش کو فریج میں ایک دن سے زیادہ نہ رکھیں‪،‬‬
‫نرم پھلوں کو دو دن‪ ،‬کے بعد کھالیں۔سالد کے پتوں کو زیادہ سے زیادہ تین دنوں بعد نکال‬
‫کرکھالینا چاہیے‪ ،‬دودھ چار دن کے اندر استعمال کرلینا چاہیے‪ ،‬سبزیوں کو تین سے چار‬
‫دن تک رکھنا چاہیے اور پولٹری اشیاءجیسے مرغی کو زیادہ سے زیادہ تین دنوں کے اندر‬
‫کھالینا چاہیے۔ آپ چاہیں تو انڈوں کو ایک ہفتے تک رکھ سکتے ہیں لیکن اس کے بعد ہر‬
‫صورت انہیں استعمال کرلیناچاہیے ورنہ یہ خراب ہوجائیں گے۔‬
‫ان کا مزید کہنا ہے کہ بظاہر یہ کھانے خراب نہیں ہوتے لیکن ان کی غذائیت اس حد تک‬
‫کم ہوجاتی ہے کہ انہیں کھانے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے لہذا کوشش کریں کہ تمام‬
‫چیزوں کو جلد از جلد استعمال کرلیا جائے‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318718‬‬

‫عید االضحی پر گوشت کھائیں مگر احتیاط سے‪ ،‬ایک شخص کتنا گوشت‬
‫کھا سکتا ہے؟ ماہرین صحت نے بتادیا‬

‫‪Jul 21, 2021 | 13:43:PM‬‬

‫االضحی‬
‫ٰ‬ ‫اسالم آباد (ویب ڈیسک) کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے ‪ ‬اور عید‬
‫کے موقع پر گوشت کی زیادتی اکثر لوگوں کی صحت کو متاثر کر دیتی ہے‪،‬عید قربان کے‬
‫موقع پر تقریبا ً ہر گھر میں ہی روزانہ مزے مزے کے گوشت کے پکوان تیار کیے جاتے‬
‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہیں جن کی خوشبو اور لذت کے سامنے ہاتھ روکنا مشکل ہو جاتا ہے‪ ،‬غذا میں گوشت کا‬
‫استعمال پروٹین‪،‬آئرن ‪،‬وٹامنز اور معدنی طاقت فراہم کرتا ہے لیکن اس کی زیادتی مختلف‬
‫بیماریوں سے دوچار کر سکتی ہے۔ جیونیوز کے مطابق ‪ ‬عموما ً گھروں میں گوشت کو‬
‫کئی کئی ہفتے یا مہینوں تک فریز کر دیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنے سے اس میں جراثیم پیدا‬
‫ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ گوشت کو ‪ 3‬ہفتوں سے زیادہ فریز‬
‫نہیں کیا جانا چاہیے۔‬
‫ماہرین کے مطابق خوراک میں روزانہ صحت کے لئے ‪ 90‬گرام اور ہفتہ میں ‪ 500‬گرام‬
‫تک گوشت کا استعمال مفید ہوتا ہے تاہم اس سمیں زیادتی صحت کے مسائل کا سبب بن‬
‫سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق بہت زیادہ گوشت کا استعمال کولیسٹرول ‪ ،‬فیٹ‪ ،‬بلڈ پریشر‬
‫اور پیٹ کے امراض میں اضافے کا باعث بنتا ہے جس سے انسانی قوت مدافعت اور‬
‫صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ‪ 2015‬میں کی جانے‬
‫والی ایک تحقیق کے مطابق وافر مقدار میں گوشت کے استعمال سے کینسر کے امکانات‬
‫بھی بڑھ سکتے ہیں۔اسی طرح امریکا کے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے مطابق گوشت کو‬
‫اور )‪ (HCAs‬بہت زیادہ درجہ حرارت پر پکایا جاتا ہے جس سے ہیٹروسائیکلیک· امائن‬
‫پولیسائیک لک ایرومیٹک ہائیڈروکاربن کیمیکلز فراہم ہوتے ہیں جس سے انسانی صحت‬
‫میں کینسر کا خدشہ بڑھ سکتے ہیں۔‬
‫ایسے پکوان جن میں گوشت کے ساتھ تیل کا استعمال بھی بہت زیادہ کیا جاتا ہے وہ جسم‬
‫میں چربی بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ماہرین چہل قدمی کی ہدایت کرتے ہیں ساتھ‬
‫ہی ایسے کھانوں کے ساتھ سبز چائے پینے کا مشورہ فراہم کرتے ہیں۔اکثر عیداالضحی‬
‫کے فورا بعد لوگوں میں قبض سمیت پیٹ کے امراض بھی بڑھ جاتے ہیں جس کی ایک‬
‫وجہ گوشت کے استعمال میں زیادتی ہو سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق رات میں سونے سے‬
‫قبل اسپغول کی بھوسی کا استعمال مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اسپغول کھانے میں موجود چربی‬
‫اور کولسٹرول کی ایک مقدار جذب کرکے فضلے میں خارج کردیتا ہے جس سے دل کی‬
‫بیماریوں سے ایک حد تک بچاؤ ممکن ہے‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318719‬‬

‫گوشت کو محفوظ کرنے کے وہ مفید طریقے جو شاید آپ کو معلوم نہیں‬

‫‪Jul 21, 2021 | 13:48:PM‬‬

‫االضحی پر لوگوں کو سب سے زیادہ فکر اس بات کی ہوتی ہے کہ‬


‫ٰ‬ ‫الہور (ویب ڈیسک)عید‬
‫قربانی کے گوشت کو کس طرح رکھا جائے کہ وہ کئی ہفتوں یا مہینوں کے لیے فریش‬
‫رہے اور یہ ایسا مشکل کام بھی نہیں اگر گوشت کو درست طریقے سے سٹور کیا جائے۔‬
‫ڈان نیوز کی رپورٹ کے مطابق درحقیقت گوشت کو ہفتوں‪ ،‬مہینوں بلکہ ایک سال تک‬

‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محفوظ کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے فریزر ہی سب سے واضح طریقہ کار ہے۔مگر‬
‫گوشت محفوظ کرنے چند طریقے اور بھی ہیں۔‬
‫فریزر میں محفوظ کرنا‬
‫فریزر میں رکھنے سے قبل گوشت کے پیکج بنانے ضروری ہے یعنی سب سے پہلے تو‬
‫ضروری ہے کہ گوشت ہوا سے بچے۔یعنی پالسٹک بیگ اور المونیم فوائل (جو فریزر کے‬
‫لیے ڈیزائن ہو) کا استعمال کریں۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ائیر ٹائٹ برتنوں کو بھی استعمال‬
‫کیا جاسکتا ہے یعنی پالسٹک یا فریزر کے لیے محفوظ جار یا کین وغیرہ۔جتنا ہوسکے‬
‫ہڈیوں کو نکال دیں کیونکہ فریزر میں ہڈیاں زیادہ جگہ گھیرتی ہیں جس سے فریزر کو کام‬
‫بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔گوشت کے سالئیس کے درمیان فریزر پیپر یا ریپ کو رکھیں تاکہ‬
‫وہ علیحدہ رہیں‪ ،‬جس سے انہیں پکانے کے لیے استعمال کرنے میں آسانی ہو۔‬
‫اس مقصد کے لیے فریج میں موجود فریزر کمپارٹمنٹ کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے‬
‫کیونکہ اسٹینڈ آلون فریزر بجلی بہت زیادہ خرچ کرتا ہے۔‬
‫کتنے عرصے تک گوشت کو محفوظ کیا جاسکتا ہے؟‬

‫کچے گوشت کو ‪ 4‬سے ‪ 12‬ماہ تک منجمند کرکے رکھا جاسکتا ہے۔کچا قیمہ تین ماہ تک‬
‫ہی فریزر میں ٹھیک رہ سکتا ہے۔پکے ہوئے گوشت کو ‪ 2‬سے ‪ 3‬ماہ کے لیے محفوظ کیا‬
‫یا اس ‪ °F‬جاسکتا ہے۔اور ہاں گوشت محفوظ رکھنے کے لیے فریزر کا درجہ حرارت ‪0‬‬
‫سے کم ہونا چاہئے۔‬
‫کولر کو استعمال کریں‬
‫اگر تو آپ فریج یا فریزر سے محروم ہیں تو واٹر کولر کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے‪،‬‬
‫جس کے لیے بجلی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی‪ ،‬یا بجلی کے بریک ڈاﺅن کی صورت میں‬
‫عارضی طور پر اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس مقصد کے لیے کولر کو برف سے‬
‫بھرنا ہوگا تاکہ وہ ٹھنڈا ہوسکے۔پہلے کچھ برف کولر کی تہہ میں رکھیں اور پھر گوشت‬
‫اس میں رکھ دیں‪ ،‬اس کے بعد گوشت کو مزید برف سے کور کردیں۔اس بات کو یقینی‬
‫بنائیں کہ گوشت کے ارگرد برف موجود رہے‪ ،‬جب برف پگھلے تو مزید برف کو اس میں‬
‫ڈال دیں۔‬
‫منجمند گوشت کو دوبارہ قابل استعمال کیسے بنائیں؟‬
‫اگر تو آپ نے ائیر ٹائٹ پیکج میں گوشت محفوظ کیا ہے تو اسے ٹھنڈے پانی میں ڈبو دیں‬
‫اور ہر آدھے گھنٹے بعد اس وقت تک پانی بدلتے رہیں جب تک برف پگھل نہ جائے۔‬
‫پکانے سے پہلے دیکھیں کہ گوشت فریز کرنے سے اس کی رنگت ختم تو نہیں ہوگئی‪،‬‬
‫اگر ایسا ہو تو اوپری حصے کو کھانے سے پہلے کاٹ لیں‪ ،‬اور ہاں اگر اس میں بو ہو تو‬
‫اسے کھانے سے گریز کریں۔‬
‫نمک سے گوشت محفوظ کریں‬
‫یہ گوشت کو محفوظ کرنے کا قدیم ترین طریقوں میں سے ایک ہے‪ ،‬اس مقصد کے لیے‬
‫سے مکمل طور پر کور کرکے ) ‪ (curing salt‬ائیرٹائٹ برتن یا بیگ میں گوشت کو نمک‬
‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کسی ٹھنڈی جگہ (‪ 36‬سے ‪ 40‬فارن ہائیٹ) پر ایک ماہ تک رکھا جاسکتا ہے۔ پکانے سے‬
‫پہلے اضافی نمک کو دھولیں۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318721‬‬

‫قربانی کا گوشت ‪ 2‬ماہ تک محفوظ کرنے کے ٓاسان طریقے‬

‫‪Jul 21, 2021 | 10:11:AM‬‬

‫کراچی(ویب ڈیسک) عید قرباں کی ٓامد کے ساتھ ہی گھروں میں ذبیحہ کیے جانے والے‬
‫جانوروں کا گوشت اکٹھا ہوجائے گا اور اس کے خراب ہونے کا اندیشہ بھی ہوگا تاہم اب‬
‫ٓاپ گوشت کو ‪ 2‬ماہ تک کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں۔تفصیالت کے مطابق سعودی عرب‬
‫عیدالضحی جوش و خروش سے‬
‫ٰ‬ ‫اور خلیجی ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ٓاج‬
‫ت ابراہیمی ادا کی جائے گی۔‬‫منائی گئی جبکہ کل پاکستان اور ایشیاء میں بھی سن ِ‬
‫نماز عید کے بعد جانور قربان کریں گے اور‬ ‫ِ‬ ‫قربانی کی استطاعت رکھنے والے لوگ‬
‫شریعی حکم کے مطابق اسے غرباء‪ ،‬مساکین و دیگر مصارف میں تقسیم بھی کریں گے‬
‫تاہم سب کچھ ہونے کے باوجود گھروں میں گوشت کی بڑی تعداد اکھٹی ہوجاتی ہے۔گوشت‬
‫کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ جدید دور میں‬
‫اسے محفوظ بنانے کے لیے فریج کو نہایت اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ عیدقرباں‬
‫سے قبل اس کی خرید و فروخت میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔اگر ٓاپ قربانی کے گوشت کو‬
‫زیادہ عرصے محفوظ بنانا اور استعمال کرنا چاہتے ہیں تو درج طریقے ٓازما کر گوشت کو‬
‫‪ 2‬ماہ تک کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں۔‬
‫قربانی کا گوشت فریز کرنے سے قبل اسے دھونے سے گریز کریں کیونکہ ‪ ‬گوشت پر‬
‫پانی لگنے کے بعد اسے رکھا جائے تو اس میں بیکٹریا پیدا ہوجاتا ہے جو گوشت کو‬
‫خراب کردیتا ہے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318697‬‬

‫قربانی کا گوشت کتنی دیر بعد پکانا چاہیے؟ طبی ماہرین نے مشورہ دیدیا‬
‫‪Jul 21, 2021 | 10:36:AM‬‬

‫الہور (ویب ڈیسک) بڑی عید پر بڑے پکوان نہ کھائے جائیں ایسا تو ممکن نہیں لیکن‬
‫ٹھہریے جناب ایک فرد کو دن کے‪ 24‬گھنٹوں میں صرف آدھا سے ایک پاؤ گوشت ہی‬
‫کھانا چاہیے‪ ،‬زیادہ گوشت کھانے سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ قربانی کے گوشت کو فوری نہیں پکانا چاہیے۔ گوشت کو ایک‬
‫دو گھنٹے رکھیں پھر ہنڈیا چڑھائیں۔‬
‫ماہرین صحت کے مطابق جب گوشت اچھی طرح گل جائے تو اسے خوب چبا چبا کر‬
‫عیداالضحی پر گوشت ضرور کھائیں لیکن ہاتھ ذرا ہلکا‬
‫ٰ‬ ‫کھائیں۔طبی ماہرین کہتے ہیں کہ‬
‫رکھیں۔‬
‫قربانی کے بعد جانوروں کی آالئشیں گلی محلے میں نہیں بلکہ کچراکنڈی میں پہنچائیں اور‬
‫صفائی کا خاص خیال رکھیں ورنہ مچھروں اور مکھیوں کی بہتات سے متعدد امراض‬
‫پھوٹ سکتے ہیں۔ماہرین طب کے مطابق قربانی کے گوشت میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے‬
‫اس لیے ذیابیطس‪،‬ہائی بلڈ پریشر سمیت دل کے امراض میں مبتال افراد کو خاص احتیاط‬
‫کرنی چاہیے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318701‬‬

‫شدید گرمی میں پرسکون نیند لینے اور اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنے کے‬
‫دلچسپ طریقے‬
‫‪ ‬‬
‫‪Jul 19, 2021 | 19:05:PM‬‬
‫لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) اس شدید گرمی کے موسم میں رات کو پرسکون نیند کیسے‬

‫لیں؟ برطانیہ کے نیند کے گرو جیمز ولسن نے اس کے کچھ آسان حربے بتا دیئے ہیں۔ دی‬
‫سن کے مطابق جیمز ولسن نے کہا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں رات کے وقت خود کو‬
‫ٹھنڈا رکھنے اور پرسکون نیند لینے کے لیے اپنے پیروں میں نیم گرم پانی کی ایک بوتل‬
‫رکھیں۔ یہ گرم بوتل آپ کے پیروں کے تلوﺅں کو َمس کرتی رہنی چاہیے۔ ابتداءمیں ‪10‬منٹ‬
‫‪ ‬کے لیے اس کے اوپر پاﺅں رکھیں اور پھر اسے پیروں کی طرف رکھ کر سو جائیں۔‬
‫جیمز کا کہنا تھا کہ اس طریقے پر عمل کرنے اور سونے سے پہلے اگر آپ نیم گرم پانی‬
‫سے نہا لیں تو اس سے خود کو ٹھنڈا رکھنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔ ان دو طریقوں‬
‫کے عالوہ کچھ احتیاطی تدابیر بھی ہیں جن پر عمل کرنے سے گرمیوں میں خود کو ٹھنڈا‬
‫رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ گرمیوں میں زیادہ پروٹین مت‬
‫کھائیں۔ سپرے بوتل میں پانی ڈال کر رکھیں اور رات کے وقت کئی بار اپنے چہرے اور‬
‫گردن پر پانی کا سپرے کریں۔ اگر ممکن ہو تو پہلی منزل پر واقع کسی کمرے میں سوئیں‬
‫‪ ‬کیونکہ یہ کمرے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں۔‬
‫جیمز نے مزید بتایا کہ ڈنر میں انڈا کھائیں۔ انڈا کھانے سے زیادہ نیند آتی ہے چنانچہ آپ کو‬
‫پرسکون نیند پانے میں اس سے بھی مدد مل سکے گی۔ اپنے پنکھے کے سامنے ٹھنڈے‬
‫پانی سے بھرا کوئی برتن رکھیں۔ گرمیوں کے اس موسم میں کاٹن اور بمبو کی بیڈ شیٹ‬
‫استعمال کریں۔ ان تمام طریقوں اور احتیاطی تدابیر کے عالوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ‬

‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اپنے آپ کو ذہنی طور پر پرسکون رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ ذہنی طور پر گرمی‬
‫کو خود پر مسلط کریں گے تو مذکورہ طریقے ناکام ثابت ہوں گے۔‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/19-Jul-2021/1318069‬‬

‫قربانی کرنے سے ‪12‬گھنٹے پہلے جانور کو خوراک بند کردیں تاکہ ۔ ۔ ۔‬


‫ماہرین نے ہدایات جاری کردیں‬

‫‪Jul 20, 2021 | 14:54:PM‬‬

‫اسالم آباد(ویب ڈیسک) عیداالضحی کی نماز کی ادائیگی کے بعد سے جانوروں کی قربانی‬


‫کا سلسلہ تین روز تک جاری رہتا ہے اور اس سلسلے میں ماہرین نے کچھ تجاویز بھی دی‬
‫ہیں جو آپ کی قربانی کو آسان بناسکتے ہیں۔تفصیالت کے مطابق سب سے پہلے تو یہ کہ‬
‫قربانی کرنے سے پہلے بارہ گھنٹے جانور کو خوراک دینا بند کر دی جائے۔ اس کا فائدہ یہ‬
‫ہو گا کہ جانور کی اوجڑی (اوجھا) آالئش سے بھری ہوئی نہیں ہو گی اور جانور کی کھال‬
‫اتارنے کا عمل آسان ہو گا۔‬
‫صحتمندانہ انداز میں ذبح کا عمل مکمل کرنے کے لئے ذبح کرنے کے آالت چھری ٹوکے‬
‫لکڑی کی مونڈی ہر قسم کی آالئش سے پاک ہونی چاہئے۔ قصاب کو ہاتھوں پر دستانے سر‬
‫پہننا ہو گی۔ ذبح کی جگہ )‪ (HEAD GEAR‬پر ذبح کے لئے تیار کئے گئے سر پر ٹوپی‬
‫صاف ستھری اور ماحول کو ستھرا رکھنا ہو گا۔‬
‫قصاب کو ہاتھوں پر دستانے‪ ،‬سر پر ذبح کے لئے تیار کئے گئے سر پر ٹوپی پہنائیں‪ ،‬ذبح‬
‫کی جگہ صاف ستھری اور ماحول کو ستھرا رکھیں تاکہ گوشت ہرقسم کے جراثیم وغیرہ‬
‫سے پاک رکھیں۔‬
‫روزنامہ جنگ کے مطابق سعودی عرب کی صارفین کے تحفظ کی تنظیم پروٹیکشن‬
‫کنزیومرایسوسی ایشن نے قربانی دینے والے دنیا بھر کے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ‬
‫قربانی ہونے کے دو گھنٹے کے بعد اپنے حصے کا بکرے‪ ،‬گائے‪ ،‬مینڈھے‪ ،‬اونٹ کا‬
‫گوشت ریفریجریٹر میں رکھ لیا کریں تاکہ گوشت میں بیکٹیریا کی پیدائش ہی نہ ہو پائے‬
‫‪https://dailypakistan.com.pk/20-Jul-2021/1318459‬‬

‫شدید گرمی میں بھی ‪ 30‬دن تک محفوظ رہنے والی کورونا ویکسین‬
‫تیار‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 21  ‬جوالئ‪2021  ‬‬

‫یہ ویکسین ‪ 90‬منٹ تک ‪ 100‬ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر رکھنے کے بعد بھی‬
‫کارٓامد رہی۔ (فوٹو‪ :‬سی ایس ٓائی ٓار او)‬
‫کووڈ ‪19‬‬
‫کینبرا‪ٓ :‬اسٹریلوی اور بھارتی ماہرین نے مشترکہ تحقیق کرتے ہوئے ایک نئی ِ‬
‫ویکسین تیار کرلی ہے جو ‪ 37‬ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں بھی ‪ 30‬دن تک‬
‫محفوظ اور کارٓامد رہتی ہے۔‬
‫ابتدائی تجربات کے دوران اسے چوہوں اور گنی پگ (چوہوں جیسے جانوروں) پر کامیابی‬
‫سے ٓازمایا جاچکا ہے جبکہ ان ٓازمائشوں کی تفصیالت ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس‬
‫انفیکشس ڈزیز‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہوئی ہیں۔‬
‫یہ ویکسین ٓاسٹریلیا کی اسٹارٹ اپ کمپنی ’’من ویکس‘‘· اور بھارت کے ’’انڈین انسٹی‬
‫ٹیوٹ ٓاف سائنس‘‘ کے ماہرین کی مشترکہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔‬
‫اس ویکسین کی ابتدائی ٓازمائشیں ٓاسٹریلیا میں سائنسی اور صنعتی تحقیق کے قومی ادارے‬
‫’’کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ٓارگنائزیشن‘‘· (سی ایس ٓائی ٓار او) کی تجربہ‬

‫گاہ میں کی گئیں جن سے معلوم ہوا کہ یہ کورونا وائرس کی چار اہم موجودہ اقسام یعنی‬
‫الفا‪ ،‬بی‪-‬ٹا‪ ،‬گیما اور ڈیلٹا ویریئنٹس کے خالف مؤثر ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تجربات کے دوران ایک موقع پر یہ ویکسین ‪ 90‬منٹ تک ‪ 100‬ڈگری سینٹی گریڈ درجہ‬
‫حرارت پر رکھنے کے بعد بھی اسی طرح کارٓامد رہی۔‬
‫واضح رہے کہ کورونا ویکسینز کو محفوظ کرنے کےلیے سرد ماحول کی ضرورت ہوتی‬
‫کووڈ ویکسین کو منفی ‪ 81‬سے منفی ‪ 60‬ڈگری سینٹی گریڈ‬ ‫ہے۔ مثالً فائزر کی تیار کردہ ِ‬
‫کے شدید سرد درجہ حرارت پر یعنی ’’الٹرا کولڈ اسٹوریج‘‘ میں پندرہ دنوں تک ہی‬
‫محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔‬
‫دوسری کورونا ویکسینز بھی اگرچہ نسبتا ً کم درجہ حرارت پر محفوظ رہتی ہیں لیکن انہیں‬
‫بھی عام ریفریجریٹر یا ڈیپ فریزر جیسی اندرونی ٹھنڈک الزما ً درکار ہوتی ہے۔‬
‫ان اضافی انتظامات اور اخراجات کی وجہ سے دور افتادہ اور پسماندہ عالقوں تک ویکسین‬
‫کو بحفاظت پہنچانا بہت مشکل اور مہنگا عمل بن جاتا ہے۔‬
‫نئی کورونا ویکسین کی انسانی ٓازمائشیں اس سال کے اختتام تک شروع کردی جائیں گی۔‬
‫اگر یہ ویکسین ان ٓازمائشوں میں بھی کامیاب رہی تو ویکسین کو مستقل سرد رکھنے کا‬
‫مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2204359/9812/‬‬

‫مچھلی نہ کھانے اور سگریٹ پینے کے نقصانات ایک ہی جیسے ہیں‪،‬‬


‫ماہرین‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 20  ‬جوالئ‪ 2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اومیگا تھری کی کمی سے عین وہی نقصان ہوسکتا ہے جو تمباکو نوشی سے سامنے ٓاتا‬
‫ہے‪ ،‬اومیگا تھری چکنائی والی مچھلیوں اور تصویر میں موجود اشیا میں عام پایا جاتا ہے۔‬
‫کینیڈا‪ :‬طب کے ماہرین نے ایک خوبصورت مثال سے بات سمجھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر‬
‫کوئی چکنائی بھری مچھلیوں سے منہ موڑتا ہے تو اس کا نقصان عین تمباکونوشی جیسا‬
‫ہی ہوگا۔‬
‫اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہ ماہرین نے کہا ہے کہ مچھلی میں اومیگا تھری جیسا قیمتی‬
‫مرکب ہوتا ہے جو دل و دماغ کے لیے تو مفید ہے ہی لیکن اس کی کمی سے اوسط زندگی‬
‫سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ متاثر ہوکر کم ہوجاتی ہے۔‬
‫ت بد سے اپنی قیمتی حیات‬‫ماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ سگریٹ نوش افراد اپنی عاد ِ‬
‫کے اوسط چار سال کم کردیتے ہیں لیکن سامن اور میکرل جیسی اومیگا تھری سے‬
‫بھرپور مچھلیوں سے منہ موڑ کر اوسط زندگی میں پانچ سال کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔‬
‫یعنی اومیگا تھری کی جسم میں کمی سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔‬
‫کینیڈا کی یونیورسٹی ٓاف گوئیلف سے وابستہ سائنسداں ‪ ،‬ڈاکٹر مائیکل ِمک برنی کہتے ہیں‬
‫کہ جسم میں اومیگا تھری کو ایک اشاریئے سے ناپا جاتا ہے۔ اس کی بہترین صورت چار‬
‫سے ٓاٹھ فیصد تک ہوتی ہے اور اس سے کم کو اومیگا تھری کی کمی کہا جاتا ہے۔‬

‫اومیگا تھری خون کو صاف‪ ،‬پتال اور ہموار رکھتا ہے۔ اس طرح بلڈ پریشر اور دل کی‬
‫بیماریاں پیدا نہیں ہوتیں اور انسان طویل تندرست زندگی گزارتا ہے۔ اگر ‪ 65‬سال کی عمر‬
‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کا کوئی شخص تمباکو نوشی کرتا ہے تو اس کی زندگی کے چار سال ویسے ہی کم‬
‫ہوجاتے ہیں جبکہ اس عمر میں اومیگا تھری اور مچھلی نہ کھانے سے یہ فرق پانچ برس‬
‫تک جاپہنچتا ہے۔‬
‫یہ تحقیق امریکن جرنل ٓاف کلینکل نیوٹریشن میں شائع ہوئی ہے جس میں فریمنگھم اسٹڈی‬
‫سے مدد لی گئی ہے جو اس ضمن میں ایک بہت بڑا سروے اور تاحال جاری ہے۔ اس‬
‫مطالعے میں شامل ہزاروں افراد کا طویل عرصے تک مطالعہ کیا گیا ہے۔ ان افراد کی‬
‫جنس‪ ،‬عمر‪ ،‬تمباکونوشی‪ ،‬غذائی عادات اور ورزش کے رحجانات تک کو دیکھا گیا ہے۔‬
‫تحقیق سے معلوم ہوا کہ اومیگا تھری کی کمی سے کم عمری میں اموات واقع ہوئیں اور‬
‫یوں کہا جاسکتا ہے کہ مچھلی کھانے سے عمر بڑھتی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2204204/9812/‬‬

‫ہارٹ اٹیک میں دل کے حصوں کو مرنے سے بچانے واال مکڑی کا زہر‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫ہفتہ‪ 17  ‬جوالئ‪2021  ‬‬

‫ٓاسٹریلیا کی فنل ویب مکڑی کے زہر سے دل کے دورے کے بعد خلیاتی موت اور دل کو‬
‫ناقابل تالفی نقصان سے بچایا جاسکتا ہے‬
‫ِ‬
‫کوئنز لینڈ‪ٓ :‬اسٹریلیا میں عام پائی جانے والی ایک مکڑی کے زہر میں ایسے جزو کا‬
‫انکشاف ہوا ہے جس سے دل کے دورے میں مریض کو فائدہ ہوسکتا ہے۔‬
‫اس سے قبل اسی فنل ویب نامی مکڑی کے زہر کو جلد کے سرطان اور فالج کے حملے‬
‫کے خالف مؤثر پایا گیا ہے۔ اب اس میں ایک سالمہ(مالیکیول)· پایا گیا ہے جو ہارٹ اٹیک‬
‫کے بعد ’موت کے سگنل‘ کو روک‪ ‬کر مریض کو ابتدائی طبی مدد فراہم کرسکتا ہے۔‬
‫یونیورسٹی ٓاف کوئنزلینڈ کے ماہرین نے پچھلی تحقیق پردوبارہ نظر ڈالتے ہوئے فنل ویب‬
‫مکڑی کے زہر میں ایک چھوٹا سالمہ دیکھا ہے۔ اسے فالج زدہ چوہوں پر ٓازمایا گیا تو اس‬

‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نے دماغی تباہی کو بہت حد تک روکا یہاں تک کہ فالج کے حملے کے کئی گھنٹوں بعد‬
‫بھی اس کی شفائی تاثیر نمایاں رہی۔‬
‫جامعہ سے وابستہ پروفیسر گلین کنگ کہتے ہیں کہ اس پروٹین کا نام ’ایچ ٓائی ون اے‘‬
‫ہے‪ ،‬اگر فالج کے ٓاٹھ گھنٹے بعد بھی اس کا ٹیکہ لگایا جائے تو حیرت انگیز طور پر بہت‬
‫فائدہ ہوتا ہے اور دماغ تباہی سے بچ جاتا ہے۔ پھراسی سالمے کو دل کے دورے کے لیے‬
‫بھی ٓازمایا گیا۔‬
‫سائنسدانوں نے انسانی قلب کے دھڑکتے ہوئے خلیات لیے اور ان پر بیرونی طور پر ہارٹ‬
‫اٹیک جیسا دباؤ ڈاال۔ لیکن اس کےبعد جیسے ہی دل پر یہ سالمہ ڈاال گیا تو دل کے خلیات‬
‫میں تیزی سے پھیلنے والے ’ڈیتھ سگنل‘ رک گئے۔ دل کے دورے میں یہ سگنل دل میں‬
‫ہر خلیے تک پھیل کر دل کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔‬
‫دل کے دورے کے بعد قلب تک خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جس سے ٓاکسیجن بھی ’‬
‫کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح دل کے پٹھوں کے خلیات تیزابی ہوجاتے ہیں اور سب مل کر دل‬
‫کے خلیات کو ’مرجانے کا پیغام‘ دیتے ہیں‪ ‘،‬تحقیق میں شامل ایک اور سائنسداں ناتھن‬
‫پلپنت نے کہا۔‬
‫تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایچ ٓائی ون اے نے دل کے ٓائن چینل میں تیزاب شناخت کرنے کی‬
‫قوت سلب کرلی اور موت کا سگنل ایک مقام پر رک گیا اور جب دل کے خلیات تک یہ‬
‫سگنل نہیں پہنچا تو وہ سالمت اور زندہ رہے۔ اب تک دل کے خلیات کو فنائیت کا سگنل‬

‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫روکنے کا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوسکا ۔ اس طرح ہارٹ اٹیک سے دل کے نقصان کو‬
‫بچانے میں مدد مل سکے گی۔‬
‫ماہرین کے مطابق جس طرح انجائنا کے عالج میں ایک گولی زبان کے نیچے رکھی جاتی‬
‫ہے عین اسی طرح دل کے بڑے دورے میں اس سالمے کو پہلی طبی امداد کے طور پر دیا‬
‫جاسکے گا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2202906/9812/‬‬

‫خبردار‪ ،‬کم عمری میں اینٹی بایوٹکس دماغی نشوونما متاثرکرسکتی‬


‫ہیں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 19  ‬جوالئ‪  2021  ‬‬

‫دوسال سے کم عمر میں اینٹی بایوٹکس دینے سے ان کا دماغ اور اس کی سرگرمی متاثر‬
‫ہوسکتی ہے۔ فوٹو‪ :‬فیوچراٹی‬
‫نیوجرسی‪ :‬تجربہ گاہ میں ہونے والے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ عموما ً بچوں کو‬
‫ابتدائی عمر میں دی جانے والی مشہور اینٹی بایوٹکس‪ ،‬پینسلین ( ایمپسلین اور اموکسو‬
‫سیلین) سے جسم (بالخصوص معدے) کے اندر بیکٹیریا اور جرثومے کی کیفیات بدل جاتی‬

‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے۔ یہ خردنامئے اور بیکٹیریا اربوں کھربوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی‬
‫اینٹی بایوٹکس سے جینیاتی کیفیات پر بھی فرق پڑتا ہے۔ اس سے وہ خلیات متاثر ہوتے ہیں‬
‫جو ابتدائی عمر میں دماغی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫پینسلین سے وابستہ ادویہ بچوں کو دوسال کی عمر سے پہلے عام طور پر کھالئی جاتی‬
‫ہیں اور امریکہ میں اس کے تین کورس کرائے جاتے ہیں۔ رٹگرز یونیورسٹی میں ایڈوانسڈ‬
‫بایوٹیکنالوجی مرکز کے سربراہ مارٹِن بلیسر کہتے ہیں کہ انہوں نے بعض نومولود‬
‫جانوروں پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ یہ ابتدائی کام ہے خردنامیوں کی تبدیلی‬
‫اور دماغی نشوونما کے درمیان گہرا تعلق ظاہر ہوا ہے۔‬
‫اس ضمن میں چوہے کے ان بچوں کو پینسلین کی ہلکی خوراک دی گئیں جنہوں نے چند‬
‫روز قبل ٓانکھ کھولی تھی۔ دوسرے گروہ کے بچوں کو اینٹی بایوٹکس نہیں دی گئی اور ان‬
‫دونوں کا باہمی موازنہ کیا گیا۔ جن چوہوں کو پینسلین دی گئی ان کی ٓانتو ں میں خردنامیوں‬
‫کی ترتیب بدلی اور دماغی قشر(کارٹیکس) اور ایمگڈاال‪  ‬کی تشکیل کرنے والے جین کا‬
‫اظہار(ایکسپریشن)· بھی بدل گیا۔‬
‫دماغ کے یہ دو گوشے بہت اہم ہیں‪ ،‬اول مقام پر حافظہ تشکیل پاتا ہے اور دوسرا گوشہ‬
‫خوف اور دماغی تناؤ سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس بات کے گہرے ثبوت ملے ہیں دماغ میں‬
‫خردنامیوں اور بیکٹیریا وغیرہ اور دماغی سگنل کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس‬
‫طرح دماغ اور ٓانتوں کے درمیان گہرا تعلق پایا گیا ہے۔‬
‫ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اینٹی بایوٹکس سے معدے اور ٓانتوں کے صحت مند‬
‫خلیات جس طرح بدلتے ہیں ان کا اثر دماغ پر پڑتا ہے اور نومولود اپنے بچپن اور یا‬
‫بلوغت میں اعصابی تنزلی اور دماغی نفسیات کے شکار بھی ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس ضمن میں ٓاگہی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ الزمی ہے کہ جہاں تک ممکن کو بہت‬
‫چھوٹے بچوں کو اینٹی بایوٹکس دینے سے گریز کیا جائے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2203744/9812/‬‬

‫تھوک سے کیا جانے واال شوگر ٹیسٹ ایجاد‬


‫ویب ڈیسک‪  ‬‬
‫پير‪ 19  ‬جوالئ‪2021  ‬‬

‫نئے ٹیسٹ سے ذیابیطس کے مریضوں· کو شوگر معلوم کرنے کےلیے سوئی چبھو کر‬
‫خون نکالنے کی تکلیف سے نجات مل جائے گی۔ (تصاویر‪ :‬یونیورسٹی ٓاف نیوکیسل)‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نیو‬
‫ساﺅتھ ویلز‪ٓ :‬اسٹریلوی ماہرین نے ایک ایسا شوگر ٹیسٹ ایجاد کرلیا ہے جس کے ذریعے‬
‫ب دہن (تھوک) میں شکر کی مقدار معلوم کرتے ہوئے کسی شخص کے ذیابیطس میں‬ ‫لعا ِ‬
‫مبتال ہونے یا نہ ہونے کا پتا چالیا جاسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کاالگان‪ ،‬نیو ساؤتھ ویلز میں واقع یونیورسٹی ٓاف نیوکیسل کے ڈاکٹر پال دستور اور ان کے‬
‫ساتھیوں نے یہ انقالبی شوگر ٹیسٹ ایجاد کیا ہے جو ویسی ہی ’’ٹیسٹنگ اسٹرپ‘‘ پر‬
‫مشتمل ہے جیسی روایتی شوگر ٹیسٹ میں استعمال کی جاتی ہے۔‬
‫نئے شوگر ٹیسٹ کی بدولت دنیا بھر میں ذیابیطس کے تقریبا ً ‪ 46‬کروڑ مریضوں کو اپنے‬
‫جسم میں شکر کی مقدار معلوم کرنے کےلیے ہر بار انگلی میں سوئی چبھو کر خون‬
‫نکالنے کی تکلیف سے نجات مل جائے گی۔‬
‫واضح رہے کہ خون کی طرح تھوک میں بھی شکر کی بہت معمولی مقدار ہوتی ہے۔ البتہ‬
‫ب دہن کی شکر استعمال کرنے کا تصور چند سال پہلے ہی‬ ‫ذیابیطس کی تشخیص میں لعا ِ‬
‫سامنے ٓایا ہے۔‬

‫ڈاکٹر پال دستور اور ان کے ساتھیوں نے اسی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے ایسے‬
‫حیاتیاتی حساسیے (بایو سینسرز) بنائے ہیں جو تھوک میں شامل شکر کی مقدار صرف چند‬
‫سیکنڈ میں معلوم کرسکتے ہیں۔‬
‫ان حساسیوں کو ایک پٹی (اسٹرپ) کا حصہ بنایا گیا ہے جو خون کے ذریعے شوگر معلوم‬
‫کرنے والی ٹیسٹنگ اسٹرپ جیسی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫استعمال کی غرض سے اس پٹی کو زبان سے چاٹنے والے انداز میں چھوا جاتا ہے تاکہ‬
‫ب‬
‫اس پر تھوڑی سی مقدار میں تھوک جمع ہوجائے۔ پھر اسے ایک ٓالے میں رکھ کر لعا ِ‬
‫دہن میں شکر کی مقدار معلوم کرلی جاتی ہے۔‬

‫تھوک میں شامل شکر کی اس مقدار کا موازنہ معیاری پیمائشوں سے کرتے ہوئے اس کے‬
‫معمول کے مطابق‪ ،‬کم یا زیادہ ہونے کا پتا چالیا جاتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نئے شوگر ٹیسٹ کو تجارتی پیمانے پر متعارف کروانے کےلیے ٓاسٹریلوی حکومت اور‬
‫ایک نجی کمپنی سے ڈاکٹر پال نے مجموعی طور پر ایک کروڑ ‪ 26‬الکھ ڈالر کی رقم جمع‬
‫کرلی ہے۔‬
‫انہیں امید ہے کہ نئے شوگر ٹیسٹ کےلیے اسٹرپس اور متعلقہ ٓالہ بنانے کا کارخانہ اس‬
‫سال اختتام تک مکمل ہوجائے گا جبکہ اس سے پہلی تجارتی کھیپ ‪ 2023‬تک فروخت‬
‫کےلیے پیش کردی جائے گی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2204011/9812/‬‬

‫جگر کی خرابی کیسے سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے؟؟ جانیے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪ 19 2021‬‬

‫جگر ہمارے جسم کا دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے واال عضو ہے۔ ہم‬
‫جو بھی شے کھاتے ہیں‪ ،‬چاہے غذا ہو یا دوا‪ ،‬وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔ اگر جگر‬
‫کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ بآاسانی خراب ہو کر ہمیں بہت سے امراض میں‬
‫مبتال کرسکتے ہیں۔جگر انسان جسم کے ان حصوں میں سے ایک ہے جن کو عام طور پر‬
‫اس وقت تک سنجیدہ نہیں لیا جاتا جب تک وہ مسائل کا باعث نہیں بننے لگتے اور کچھ‬
‫لوگوں کے لیے بہت تاخیر ہوجاتی ہے۔‬
‫جگر کا ایک عام مرض ہیپاٹائٹس ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے‪ ،‬یہاں‬
‫ہم ٓاپ کو ان عالمات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو جگر کی خرابی کی طرف اشارہ‬

‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کرتی ہیں۔ اگر ٓاپ کو ان میں سے کسی بھی عالمت کا سامنا ہے توٓاپ کو فوری طور پر‬
‫ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫جگر کا درست طریقے سے کام کرنا متعدد وجوہات کے باعث اچھی صحت کے لیے‬
‫انتہائی ضروری ہے تاہم اس کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اسے‬
‫ہضم کرنے کے لیے جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر جگر کے سو سے زیادہ مختلف امراض ہوتے ہیں‪،‬‬
‫جن کی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہے جیسے کوئی انفیکشن‪ ،‬بہت زیادہ الکحل کا استعمال‪،‬‬
‫مخصوص ادویات‪ ،‬منشیات‪ ،‬موٹاپا اور کینسر وغیرہ۔‬
‫اگرچہ مختلف وجوہات کے باعث مختلف امراض کا سامنا ہوسکتا ہے مگر جگر کے بیشتر‬
‫امراض سے عضو کو لگ بھگ ایک جیسے انداز سے ہی نقصان پہنچتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے‬
‫کہ وہ ایک جیسے لگتے ہیں اور ان کی عالمات بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں۔‬
‫اکثر اوقات جگر کے کسی بیماری اور اس سے متعلق عالمات بہت تیزی سے ابھرتی ہیں‪،‬‬
‫جس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں مگر زیادہ تر جگر کے امراض دائمی ہوتے ہیں‪ ،‬یعنی‬
‫ان میں عضو کو وقت کے ساتھ بتدریج نقصان پہنچتا ہے اور عالمات بھی بتدریج سامنے‬
‫ٓاتی ہیں۔‬
‫جگر کے امراض کی ابتدائی عالمات‬
‫بیشتر افراد جگر کے مختلف امراض کی ابتدائی عالمات کو پہچان نہیں پاتے اور اگر ان‬
‫پر توجہ چلی بھی جائے تو یہ جاننا مشکل ہوسکتا ہے کہ ان کی وجوہات کیا ہے۔‬
‫اس کی وجہ یہ ہے جگر کے مسائل کی ابتدائی نشانیاں بہت عام ہوتی ہیں جیسے پیٹ میں‬
‫درد‪ ،‬بھوک کا احساس نہ ہونا‪ ،‬تھکاوٹ یا توانائی کی کمی اور ہیضہ۔ ان عالمات سے‬
‫لوگوں کو یہ احساس ہوسکتا ہے کہ یہ عام سی بیماری ہے۔‬
‫نمایاں عالمات۔‪ ‬‬
‫جلد یا ٓانکھوں کی رنگت پیلی ہوجانا (یرقان)‬
‫جیسے جیسے جگر کے نقصان میں اضافہ ہوتا ہے‪ ،‬تو مسئلے کی واضح نشانیاں ابھرنے‬
‫لگتی ہیں‪ ،‬جلد کی رنگت معمول سے زیادہ زرد ہوسکتی‬
‫ہیں جبکہ ٓانکھوں کی سفیدی میں بھی پیالہٹ غالب ٓاجاتی ہے‪ ،‬ڈاکٹر اسے یرقان کہتے ہیں۔‬
‫خارش‬
‫اگر جگر کے مسائل دائمی ہو تو خارش کا احساس بھی ایک عالمت ہوسکتا ہے۔ ایسا اس‬
‫وقت بھی ہوسکتا ہے جب کسی قسم کے جلدی مسائل کا سامنا نہ بھی ہو‪ ،‬یہ خارش سونا‬
‫مشکل کرسکتی ہے‪ ،‬اگر ایسا ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہتر ہے۔‬
‫پیٹ پھول جانا‬
‫اگر جگر داغ دار ہوجائے تو اس سے جگر کے لیے خون کی روانی رک سکتی ہے جس‬
‫سے ارگرد کی خون کی شریانوں میں دبائو بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ہونے سے سیال کا اخراج‬
‫ہوتا ہے اور وہ پیٹ میں جمع ہوتا ہے۔ یہ سیال اور سوجن کم بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ‬
‫بھی۔‬
‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پیڑوں اور ٹخنوں میں ورم‬
‫ٹانگوں کا سوجنا جگر کے امراض میں عام ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پیر اکثر سوج جاتے ہیں‪،‬‬
‫تو یہ جگر میں مسائل کی نشانی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ بھی سیال کے اجتماع کا نتیجہ ہوتا‬
‫ہے۔ ایسی صورت میں نمک کا کم استعمال یا ادویات سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔‬
‫پیشاب کی رنگت گہری ہونا‬
‫جب جگر معمول کے مطابق بائل نامی سیال کو بنا نہیں پاتا یا جگر سے اس کا بہائو رکتا‬
‫ہے‪ ،‬تو فضلے کی رنگت لکڑی کی طرح زرد ہوجاتی ہے جس کے ساتھ عموما ً زرد جلد‬
‫یا یرقان بھی نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح پیشاب کی رنگت بہت گہری ہوجاتی ہے۔‬
‫تھکاوٹ اور الجھن‬
‫ہر ایک کو کسی نہ کسی وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہی ہے مگر جگر کے امراض کے‬
‫باعث جس تھکان کا تجربہ ہوتا ہے وہ بالکل متختلف ہوتی ہے۔ جگر میں خرابی کی‬
‫صورت میں یہ عضو توانائی پر کنٹرول کرکے دن کو پورا کرنا انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔‬
‫متلی اور قے‬
‫جگر کے امراض کے نتیجے میں معدہ اکثر خراب رہنے لگتا ہے‪ ،‬جب مرض کی شدت‬
‫بڑھتی ہے تو معاملہ بدتر ہوجاتا ہے‪ ،‬جس کے نتیجے میں مسلسل قے یا متلی کا سامنا ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬جو جگر کے مسائل کی نشانی ہے۔ اگر جگر کے افعال تھم رہے ہیں یا جگر فیل ہورہا‬
‫ہے تو قے میں خون بھی نظر ٓاسکتا ہے۔‬
‫جگر کے امراض سے حفاظت‬
‫جگر کو مختلف امراض اور مسائل سے بچانے کے لیے مندرجہ ذیل حفاظتی تدابیر اپنانے‬
‫کی ضروت ہے۔ صحت مندانہ طرز زندگی اپنایا جائے۔ گوشت‪ ،‬پھل‪ ،‬سبزی‪ ،‬اور ڈیری‬
‫غذائیں متوازن طریقے سے کھائی جائیں تاکہ جسم کی تمام غذائی ضروریات پوری ہوں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/liver-failure-digestive-system-health-tips/‬‬

‫عید کی دعوتیں اڑانے سے قبل ان باتوں کا خیال رکھیں‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪ 20 2021‬‬


‫االضحی ایک طرف تو سنت ابراہیمی کی تکمیل کرنے اور غریب و نادار افراد کو‬
‫ٰ‬ ‫عید‬
‫تعالی کی رضا و خوشنودی حاصل‬‫ٰ‬ ‫اپنے دستر خوان میں شریک کرنے کے ذریعے ہللا‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کرنے کا موقع ہے تو دوسری جانب اس روز دوستوں رشتہ داروں سے مل بیٹھنے کا موقع‬
‫بھی مل جاتا ہے۔‬
‫االضحی تو‬
‫ٰ‬ ‫جب سب مل بیٹھیں تو مزے مزے کے کھانوں کا اہتمام کیوں نہ ہو‪ ،‬اور عید‬
‫ہے بھی مزیدار پکوان بنانے کا نام‪ ،‬تو ایسے موقع پر دستر خوان پر ہاتھ روکنا مشکل‬
‫ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسے میں بے احتیاطی ٓاپ کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔‬
‫چونکہ عید کے دنوں میں مرغن اور مصالحہ دار پکوان بہت زیادہ کھانے میں ٓاتے ہیں تو‬
‫ایسے میں معدے اور پیٹ کی تکلیف میں مبتال ہوجانا ایک عام بات ہے۔ اسی صورتحال‬
‫سے بچنے کے لیے ہم ٓاپ کو کچھ مفید تجاویز بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر ٓاپ کسی تکلیف‬
‫میں مبتال ہوئے بغیر دعوتیں اڑا سکتے ہیں۔‬
‫صفائی کا خیال رکھیں‬
‫رواں برس عید پر بارشوں کا سیزن ہے‪ ،‬ایسے موسم میں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات‬
‫ہوجاتی ہے جس سے مختلف وبائی امراض پھیلنے لگتے ہیں‪ ،‬لہٰ ذا نہ صرف گھر کو صاف‬
‫ستھرا رکھنا ضروری ہے بلکہ کھانا بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پکایا‬
‫جائے۔‬
‫اپنے گھر سے باہر گلیوں اور محلوں کی صفائی کرنا بھی نہ بھولیں اور قربانی کے بعد‬
‫فوری طور پر ٓاالئشوں کو ٹھکانے لگا کر صفائی کریں اور جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ‬
‫کریں۔‬
‫پانی کا استعمال‬
‫دن کے وقت عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے یا سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہوئے یا‬
‫پھر قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے سخت مصروفیت کے دوران پانی پینا نہ بھولیں۔ دن‬
‫بھر کی مصروفیت میں پانی کی کمی طبیعت خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫سالد ضرور کھائیں‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر ٓاپ خاتون خانہ ہیں اور اپنے گھر میں ایک شاندار سی دعوت کا اہتمام کر رہی ہیں تو‬
‫سالد کو مینیو کا الزمی جز رکھیں۔ مختلف سبزیوں پر مشتمل سالد یقینا ً کھانے کی تیزی‬
‫کو کم کرنے میں مدد دے گا۔‬
‫کولڈ ڈرنک سے گریز‬
‫کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنک رکھنے سے گریز کریں۔ اس کی جگہ فریش جوسز رکھے‬
‫جاسکتے ہیں۔ اگر ٓاپ کسی کے گھر مہمان بن کر گئے ہیں تو کھانے کے بعد کولڈ ڈرنک‬
‫کی جگہ ٹھنڈا پانی پئیں۔‬
‫پھلوں کا استعمال‬
‫دعوت میں کھانے کے بعد پھلوں سے بنا ہوا میٹھا دعوت کا مزہ دوباال کردے گا اور‬
‫طبیعت پر بوجھ بھی نہیں بنے گا۔‬
‫دال اور سبزی بہترین‬
‫عید کی تعطیالت میں جس دن کوئی دعوت نہ ہو اس دن کم مصالحوں کی سبزیاں یا دال‬
‫چاول بنائیں۔ یہ سادہ کھانا مسلسل کھائے جانے والے مرغن کھانوں کے منفی اثرات سے‬
‫نمٹنے میں مدد دے گا۔‬
‫دہی بہترین شے‬
‫عید کی تعطیالت میں گھر پر رہتے ہوئے دہی اور لسی کو اپنے کھانے کا حصہ بنا لیں۔ یہ‬
‫ٓاپ کو گرمی اور مرغن کھانوں کے اثرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔‬
‫ورزش کریں‬
‫دن کے ٓاخر میں سونے سے قبل کھلی ہوا میں چند منٹ کی چہل قدمی نہایت فائدہ مند ثابت‬
‫ہوگی اور ٓاپ کے جسمانی نظام کو معمول کے مطابق رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/eid-dishes/‬‬

‫بہترین نسخہ‪ :‬کولیسٹرول اور بلڈپریشر کا مسئلہ حل‪ ،‬وزن بھی کم ہوگا‬

‫ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪  20 2021‬‬


‫اگر ٓاپ موٹاپے‪ ،‬کولیسٹرول یا بلڈپریشر کا شکار ہیں تو یہ نسخہ ممکنہ طور پر ان پیچیدہ‬
‫مسائل سے نجات دال سکتا ہے‪ ،‬نئی طبی تحقیق میں ثابت ہوگیا۔اس ضمن میں ہونے والی‬
‫تحقیق کے مطابق سالم اناج کے استعمال سے وزن کم کرنے کے ساتھ ساتھ کولیسٹرول اور‬
‫بلڈ پریشر کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ ایسے ضعیف افراد‬
‫جو روزانہ کم از کم ‪ 3‬اقسام کے سالم اناج کو اپنی خوراک کا حصہ بناتے ہیں ان کی کمر‬
‫کے سائز میں بہت کم اضافہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سالم اناج کا استعمال کرنے والوں میں بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر لیول بھی مقابلتا ً ان افراد‬
‫سے کم رہتا ہے جو یہ خوراک دن میں ڈیڑھ سرونگ تک استعمال کرتے ہیں۔‬

‫اس تحقیق کے نتائج گزشتہ روز جرنل ٓاف نیوٹریشن میں شائع ہوئے ہیں۔ محققین کا کہنا تھا‬
‫کہ بلڈ پریشر‪ ،‬کولیسٹرول اور اضافی وزن امراض قلب کے خطرات کو بڑھاتا ہے لہذا‬
‫سالم اناج کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس مشاہدے میں شامل وہ شرکا جنہوں نے کم از کم تین اقسام کے اناج کا استعمال کیا ان کا‬
‫بلڈ پریشر ‪ 74‬اور ‪ 122‬تک رہا جبکہ اوسطا ً یہ شرح ‪ 75‬اور ‪ 125‬تک رہی‪ ،‬یہ تحقیق‬
‫ٹفٹس یونیورسٹی بوسٹن میساچوسسٹس امریکا کے جین مائر یو ایس ڈی اے‪ ،‬ہیومین‬
‫نیوٹریشن ریسرچ سینٹر ٓان ایجنگ میں کی گئی۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ سالم اور مختلف اناج وزن کے ساتھ بڑھتی عمر میں بھی معاون کرتی‬
‫ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/best-prescription-cholesterol-and-blood-‬‬
‫‪/pressure-problem-solution-weight-loss‬‬

‫زوم کالز کی وجہ سے لوگوں میں کاسمیٹکس کے استعمال میں اضافہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪ 20 2021‬‬

‫کرونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں ناقابل تالفی معاشی نقصان کیا وہیں کچھ شعبے‬
‫ایسے بھی ہیں جو اس وبا کے دوران خوب پھلے پھولے‪ ،‬کاسمیٹکس انڈسٹری بھی انہی‬
‫میں سے ایک ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کاسمیٹکس انڈسٹری کے لیے‬
‫نہایت خوش ٓائند ثابت ہوئی ہے۔‬
‫یہ ایک عام تاثر ہے کہ کرونا وبا کے دوران کئی پہلوؤں سے افراد بہتر رویوں کے قریب‬
‫ہوئے ہیں‪ ،‬ان میں گھر کے ماحول کو بہتر بنانے‪ ،‬ساتھ رہنے والوں کے ساتھ‬
‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خوشگواریت‪ ،‬قوت مدافعت کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ چہرے کو بھی بہتر بنانا شامل‬
‫ہے۔اس تناظر میں کاسمیٹکس سرجن نے وبا میں منفعت بخش صورت حال کو زوم بوم کا‬
‫نام دیا ہے‪ ،‬کاسمیٹکس انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کیمرے سے ہونے والی‬
‫کانفرنسوں نے افراد کو بہتر روپ اپنانے کی جانب راغب کیا ہے۔‬
‫ایک کاسمیٹکس سرجن ڈاکٹر ڈینیئل زاٹلر کا کہنا ہے کہ زوم کانفرنسوں نے لوگوں کو‬
‫مجبور کر دیا ہے کہ وہ بہتر دکھائی دیں کیونکہ وہ گھنٹوں کیمرے کے سامنے ہوتے ہیں۔‬
‫امریکا میں ہونے والے ایک حالیہ سروے میں ‪ 86‬فیصد افراد نے بتایا کہ انہیں زوم‬
‫کانفرنسوں کی وجہ سے کاسمیٹکس کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔‬
‫ایک تحقیقی ادارے گرینڈ ویو ریسرچ کے مطابق سن ‪ 2020‬میں دنیا بھر میں ایستھیٹکس‬
‫میڈیسن کی مارکیٹ کا حجم ‪ 86‬بلین ڈالر سے زائد رہا اور سنہ ‪ 2028‬تک اس میں ساالنہ‬
‫بنیاد پر ‪ 10‬فیصد اضافے کا قوی امکان ہے۔ الک ڈاؤن کے باوجود امریکا میں جلد کے‬
‫ڈاکٹروں کے پاس ‪ 60‬فیصد مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔‬
‫ڈاکٹر ڈینیئل زاٹلر کا مؤقف ہے کہ خود کو بہتر بنانا ایک بہتر عمل ہے اور اب وبا رہے یا‬
‫نہ رہے‪ ،‬لوگوں میں خود کو بہتر بنانے کا احساس باقی رہے گا اور اسی باعث پالسٹک‬
‫سرجری کے ماہرین کے پاس مریضوں· کی تعداد بھی بڑھتی رہے گی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/cosmetics-use-in-lock-down/‬‬

‫میٹھا کھانے کے نقصانات اور چھوڑنے کے فوائد‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪ 20 2021‬‬

‫عام طور پر کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے لیکن میٹحی غذائیں (شکر یا چینی ) اگر‬
‫حد سے زیادہ استعمال کی جائیں تو وہ صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اسی لیے‬
‫میٹھی غذاؤں کا استعمال اعتدال میں ہونا چاہیے۔‬
‫اگر زندگی سے میٹھا نکل جائے تو یقینا ً زندگی بے رونق ہوجائے گی مگر اس کے صحت‬
‫پر بے شمار طبی فوائد مرتب ہوتے ہیں جن میں جسم کا اپنی اصل ساخت میں ٓا جانا‪،‬‬
‫شریانوں میں خون کی روانی برقرار رہنا‪ ،‬شوگر جیسی خاموش اور خطرناک بیماری سے‬
‫بچأو‪ ،‬کم عمر نظر ٓانا‪ ،‬چہرے پر جھریوں کا عمل رُک جانا شامل ہے۔‬
‫ٓائیے ٓاپ کو بتاتے ہیں کہ میٹھا ترک کرنے یا کم کرنے سے صحت پر کیا اثرات مرتب‬
‫ہوتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی کا زیادہ استعمال ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے اور لیکن اگر‬
‫چینی ترک کردی جائے تو جسمانی وزن میں کمی ٓاتی ہے اور چربی بھی پگھلنا شروع‬
‫ہوجاتی ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق انسان چینی یا شکر کا استعمال چھوڑ دے تو وہ جسم میں ورم‪،‬‬
‫سوجن اور سوزش سے بچ سکتا ہے اور ساتھ ہی نزلہ‪ ،‬زکام یا بخار وغیرہ کا خطرہ بھی‬
‫کم ہوتا ہے جبکہ الرجی اور دمہ کی عالمات سے بچأو ممکن ہوتا ہے اور ہائی بلڈ پریشر‬
‫اور ہارٹ اٹیک سے بھی بچاتی ہے۔‬
‫چینی دانتوں میں لگنے والی کیوٹیز کا باعث بنتی ہے اور سکون کی نیند میں خلل بھی پیدا‬
‫کرتی ہے‪ ،‬کیوں کہ اگر سونے سے قبل میٹھا کھایا جائے تو شوگر لیول کم ہوتا ہے اور‬
‫پسینہ بھی بہت زیادہ ٓاتا ہے لیکن اگر میٹھا چھوڑ دیں تو تین سے چار دن میں نیند کا معیار‬
‫بہتر ہوجائے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/disadvantages-of-eating-sweets-and-the-benefits-‬‬
‫‪of-skipping/‬‬

‫دماغ کو بوڑھا کرنے والی عام عادات‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪21 2021‬‬

‫کسی بھی عادت اختیار کرنے میں تو وقت نہیں لگتا لیکن اسے چھوڑنے میں مہینے بلکہ‬
‫سالوں بھی لگ سکتے ہیں جوکہ انسانی صحت پر انتہائی برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔آج‬

‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہم آپ کو وہ عام عادات بتارہے ہیں جن سے چھٹکارا پاکر ہم اپنے دماغ کو جلد بوڑھا‬
‫ہونے سے بچاسکتے ہیں‪ ،‬چند عادات درج ذیل ہیں۔‬
‫طرز زندگی‬
‫ِ‬ ‫غیر متحرک‬
‫غیر متحرک طرز زندگی یعنی بیٹھے رہنے کی عادت سے صحت پر منفی اثرات مرتب‬
‫ہوتے ہیں جیسا کہ نسیان‪ ،‬محض صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ہی نہیں بلکہ دفتر میں‬
‫طرز زندگی میں شمار ہوتا ہے۔ اس لیے مستقل‬ ‫ِ‬ ‫کرسی پر بیٹھے رہنا بھی غیر متحرک‬
‫ورزش اور دن میں وقتا ً فوقتا ً چہل قدمی کر کے خود کو فٹ رکھنے کے طریقے تالش‬
‫کریں۔‬
‫فشار‬
‫ِ‬ ‫اس کے عالوہ مستقل بیٹھے رہنے والے افراد کو ذیابیطس‪ ،‬دل کے امراض اور بلند‬
‫خون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تمام عالمات الزائمر کی طرف بھی لے جا سکتی ہیں‬
‫کم نیند لینا‬
‫طرز زندگی کی وجہ سے بہت سارے لوگ نیند کو ترجیح بھی نہیں دیتے‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫اپنے مصروف‬
‫بدقسمتی سے ان لوگوں کو اچھی نیند میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے‪ ،‬یاد رکھیں ہر‬
‫رات مناسب نیند لینا آپ کی صحت کے لیے بہت اہم ہے‪ ،‬نیند میں کمی سے دماغ پر بہت‬
‫بُرا اثر پڑتا ہے‪ ،‬جس کے باعث نسیان اور الزائمر جیسے خطرناک امراض الحق ہوسکتے‬
‫ہیں۔‬
‫اگر آپ کو رات کے اوقات میں سونے میں مشکل ہوتی ہے تو آپ کو شام کے بعد کیفین‬
‫رکھنے والے مشروبات اور الیکٹرانک· ڈیوائسز سے پرہیز کرنا چاہیے‪ ،‬سونے کی باقاعدہ‬

‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تیاری کریں‪ ،‬ماحول کو پرسکون بنائیں‪ ،‬آپ کو زندگی میں نئی تبدیلی محسوس ہوگی۔‬

‫ناقص خوراک‬
‫اُن لوگوں کے سیکھنے اور یاد رکھنے واال دماغ کا حصہ چھوٹا ہوتا ہے جو بہت زیادہ‬
‫برگر‪ ،‬فرائیز‪ ،‬آلو کے چپس کھاتے اور بوتلیں پیتے ہیں‪ ،‬ایک صحت بخش غذا کا مطلب‬
‫ہے پھل‪ ،‬خشک میووں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال ‪ ،‬جو دماغ کو محفوظ کرتی ہیں اور‬
‫اس کے زوال کی رفتار بھی آہستہ کرتی ہیں۔‬

‫تمباکو نوشی کی عادت‬

‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تمباکو نوشی کے خطرات سے کون واقف نہیں؟ پھر بھی ایسے لوگوں کی تعداد کروڑوں‬
‫میں ہے جو تمباکو نوشی کرتے ہیں‪ ،‬اس کے مضر اثرات کی طویل فہرست میں سے ایک‬
‫ہے دماغ کا سکڑ جانا۔‬
‫تمباکو نوشی یادداشت پر اثر مرتب کرتی ہے‪ ،‬نسیان اور الزائمر جیسی بیماریوں کے‬
‫خطرے کو دو گنا کر دیتی ہے اور ساتھ ہی دل کے امراض‪ ،‬ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر‬
‫فشار خون کا سبب بھی بنتی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫یعنی بلند‬

‫زیادہ کھانا‬
‫طرز زندگی کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ مل بیٹھنے کے لیے بھی کھانا اور‬
‫ِ‬ ‫آج کل کھانا گویا‬
‫باہر جانے کے لیے بھی کسی کھانے پینے کی جگہ ہی کی تالش کرنا گویا معمول ہے‪،‬‬

‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہی وجہ ہے کہ چٹوروں کی ایسی نسل تیار ہو چکی ہے کہ جن کی گفتگو کا محور محض‬
‫کھانا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ کھانے سے دماغ کی سوچنے اور یاد رکھنے کے رابطے بنانے‬
‫کی صالحیت کمزور ہوتی ہے‪ ،‬پھر زیادہ کھانے کے دوسرے بُرے اثرات بھی ہیں جیساکہ‬
‫موٹاپا‪ ،‬جو آجکل “اُم االمراض” بنا ہوا ہے جیسا کہ دل کی بیماریاں‪ ،‬ذیابیطس اور بلند‬
‫فشار خون جیسے خطرناک مرض۔ یہ سارے امراض دماغ کو بھی بُری طرح متاثر کرتے‬ ‫ِ‬
‫ہیں۔‬

‫اونچی آواز میں میوزک سننا‬


‫میوزک سننے کے لیے ہیڈ فونز اور ایئر فونز کا استعمال عام ہے اور کچھ لوگ تو انہیں‬
‫کانوں سے نکالنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ اونچی آواز میں میوزک سننے سے تو کانوں کو‬
‫نقصان پہنچتا ہی ہے لیکن ماہرین کے مطابق اس سے الزائمر جیسے دماغی مسائل بھی‬
‫جنم لے سکتے ہیں اور دماغ کے ٹشوز کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق ‪30‬‬
‫منٹ تک زیادہ آواز میں میوزک سننا ہی دماغی نقصان کے لیے کافی ہے۔‬

‫تنہائی میں رہنا‬


‫تحقیق بتاتی ہے کہ زیادہ دوست رکھنے والے لوگ زیادہ خوش رہتے ہیں اور ان کام کرنے‬
‫کی صالحیت بھی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬ان میں دماغی امراض اور الزائمر کے خطرات بھی کم‬
‫ہوتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس کے عالوہ گھر میں زیادہ رہنا بھی دماغ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے‪ ،‬بالخصوص‬
‫سرد عالقوں میں جسم کو دھوپ نہ ملنے سے بھی دماغ کی نمو سست پڑ جاتی ہے۔ تحقیق‬
‫بتاتی ہے کہ دھوپ دماغ کو اچھی طرح کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔‬
‫اگر آپ کو پریشانی ہے کہ آپ زیادہ وقت تنہا گزارتے ہیں تو کوئی مقامی کلب جوائن کر‬
‫لیں یا کسی ایسی سرگرمی کا حصہ بنیں کہ جس سے آپ کے نئے رابطے بنیں۔‬

‫ذہنی دباؤ‬
‫وقتا ً فوقتا ً دباؤ کا شکار ہونا زندگی کا حصہ ہے‪ ،‬چاہے آپ کسی بھی شعبے میں ہوں‪ ،‬کہیں‬
‫بھی رہتے ہوں‪ ،‬زندگی کے معموالت ہمیں مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار بناتے رہتے ہیں۔ دباؤ‬
‫کو سہنے کا حوصلہ بھی مختلف لوگوں میں مختلف ہوتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ جو‬
‫بات کسی ایک شخص کے لیے زیادہ پریشان ُکن نہ ہو جتنی دوسرے کے لیے ہو۔‬
‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ذہنی دباؤ ہمارے لیے اچھا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ درمیانے درجے کا ہو‪ ،‬اس سے ہم‬
‫ہوشیار اور چوکس رہتے ہیں‪ ،‬لیکن مسلسل دباؤ دماغ کے لیے بہت بُرا ہے‪ ،‬یہ دماغ کو‬
‫ذہنی امراض کی طرف لے جاتا ہے‪ ،‬اس سے دماغ مستقل بنیادوں پر تبدیلی کا شکار ہو‬
‫سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مستقل دباؤ کے شکار افراد میں مزاج میں تبدیلی اور ذہنی‬
‫اضطراب زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫حسد‪ ،‬کینہ‪ ،‬بغض و عداوت‬


‫حسد‪ ،‬کینہ‪ ،‬بغض اور عداوت یہ بہت بُری عادتیں ہیں‪ ،‬اس کے ذہن پر بہت منفی اثرات‬
‫مرتب ہوتے ہیں‪ ،‬معاف کرنا اور بھول جانا سیکھیں‪ ،‬یہ آپ کی ذہنی صحت کے لیے بھی‬
‫اچھا ہے۔تحقیق سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ معاف کردینے سے جسمانی‪ ،‬نفسیاتی بلکہ‬
‫فشار خون کا معمول پر آ جاتا ہے‪،‬‬
‫ِ‬ ‫روحانی طور پر بھی مثبت اثرات پیدا ہوتے ہیں‪ ،‬یوں‬
‫ذہنی تناؤ اور دباؤ میں کمی آتی اور ذہنی اضطراب کم ہوجاتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/common-brain-aging-habits/‬‬

‫عید قرباں‪ :‬کلیجی اورگردے کھانے سے صحت پرپڑنے والے اثرات‬

‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪21 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫—بعض لوگ کلیجی کھانے سے کتراتے ہیں‬


‫عید قرباں کے موقع پر تقریبا ہر گھر میں گوشت وافر مقدار میں پکایا جاتا ہے اور جن‬
‫خوش نصیب گھروں میں سنت ابراہیمی پر عمل کیا جاتا ہے وہاں کے لوگ کلیجی‪ ،‬گردے‪،‬‬
‫زبان اور لبلبے کے گوشت سے بھی خصوصی پکوان بنانے کا اہتمام کرتے ہیں۔‬
‫کئی افراد افراد کو جانوروں کے گردوں‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬اوجھڑی‪ ،‬کلیجی‪ ،‬زبان اور لبلبے کا‬
‫گوشت کھانے کا شوق ہوتا ہے‪ ،‬مگر کچھ افراد ایسے گوشت کو صحت کے لیے نقصان دہ‬
‫سمجھ کر کھانے سے کتراتے ہیں۔‬
‫مگر ماہرین صحت کہتے ہیں جانوروں کے اعضاء کا گوشت ان کی ٹانگوں‪ ،‬پٹھوں‪ ،‬کمر‬
‫اور پیٹ کے دیگر گوشت کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور فائدہ مند ثابت ہوتا ہے۔‬
‫جانوروں کے گردوں‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬اوجھڑی‪ ،‬کلیجی‪ ،‬زبان اور لبلبے میں وٹامنز اور ٓائرن‬
‫سمیت میگنشیئم‪ ،‬سیلینیئم‪ ،‬زنک اور دیگر غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں‪ ،‬جو انسانی صحت‬
‫اور مضبوط جسم کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔‬
‫ہیلتھ جنرل میں شائع ہونے والے ایک مضمون کے مطابق گائے‪ ،‬بھیڑ‪ ،‬بکری‪ ،‬بھینس اور‬
‫دیگر دودھ دینے والے جانوروں سمیت مرغی اور بطخ جیسے پرندوں سے حاصل کردہ‬
‫کلیجی‪ ،‬گردوں‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ اور اوجھڑی میں انسانی جسم کو مضبوط بنانے والے اجزاء‬
‫پائے جاتے ہیں۔‬
‫ہیلھ جنرل کے مطابق صرف ‪ 100‬گرام کلیجی کو پکانے کے بعد اس سے ‪ 27‬گرام‬
‫پروٹین‪ 175 ،‬کیلوریز‪ 1386 ،‬فیصد وٹامن بی ‪ 522 ،12‬فیصد وٹامن اے‪ 51 ،‬فیصد وٹامن‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بی ‪ 47 ،6‬فیصد سیلینیئم‪ 35 ،‬فیصد زنک اور ‪ 34‬فیصد ٓائرن حاصل ہوتا ہے‪ ،‬جو یومیہ‬
‫حساب سے انسانی صحت کے لیے بہترین غذا ہے۔‬
‫کلیجی‪ ،‬اوجھڑی‪ ،‬گردوں‪ ،‬دل اور دماغ کا گوشت حاملہ خواتین کے لیے بھی نہایت فائدہ‬
‫مند ہے‪ ،‬جو نہ صرف ماں بلکہ بچے کی غذا کے لیے بھی بہترین ہے۔‬
‫کلیجی‪ ،‬اوجھڑی اور گردوں میں کولیسٹرول‬
‫ہیلتھ جنرل میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ان تمام اعضاء کے گوشت میں‬
‫کولیسٹرول کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬تاہم یہ نقصان دہ نہیں ہوتی۔‬
‫ماہرین کے مطابق انسان کا جگر‪ ،‬کلیجی اور گردے کولیسٹرول پیدا کرتے ہیں‪ ،‬تاہم یہ‬
‫اعضاء اُس وقت کولیسٹرول پیدا کرنا بند کردیتے ہیں‪ ،‬جب انسان کولیسٹرول کی مقدار‬
‫والے کھانے یا پھل کھاتا ہے۔‬
‫دعوی کیا گیا کہ کلیجی‪ ،‬گردے‪ ،‬اوجھڑی‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬لبلبے اور زبان کا‬ ‫ٰ‬ ‫مضمون میں‬
‫گوشت کھانے سے خون میں کولیسٹرول کی سطح نہیں بڑھتی اور ان کو کھانے کے بعد‬
‫انسان کا کلیجہ‪ ،‬گردے اور دیگر اعضاء کولیسٹرول پیدا کرنا بند کردیتے ہیں۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164633/‬‬

‫عید قرباں‪ :‬یومیہ کتنا گوشت کھایا جا سکتا ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪21 2021‬‬

‫ماہرین کے مطابق سرخ اور تازہ گوشت صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے—فائل فوٹو‪:‬‬
‫پنٹ ریسٹ‬
‫ً‬
‫عید قرباں کے موقع پر تقریبا پاکستان کے ہر گھر میں تازہ گوشت وافر مقدار میں موجود‬
‫ہوتا ہے اور ایسے موقع پر ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تازہ اور صحت بخش‬
‫گوشت کو اپنی خوراک کا حصہ ضرور بنائے۔‬
‫گوشت ایک ایسی غذاء ہے جو انسانی صحت کے حوالے سے کئی طرح سے فائدہ مند ہوتا‬
‫ہے اور اس کے انسانی صحت پر کئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں‪ ،‬تاہم اس کی وافر‬
‫مقدار صحت کے مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔گوشت میں آئرن‪ ،‬پروٹین‪ ،‬وٹامن بی ‪،12‬زنک‬

‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اور اومیگا تھری جیسے اجزا ہوتے ہیں جو انسانی صحت و تندرستی میں انتہائی اہم کردار‬
‫ادا کرتے ہیں۔‬
‫تاہم بعض ماہرین اور طبی تحقیقات کے مطابق گوشت میں مذکورہ اجزا کا وافر مقدار میں‬
‫ہونا اس وقت خطرناک بن جاتا ہے جب کوئی گوشت کو حد سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔‬
‫برطانوی وزارت صحت نے اپنے شہریوں کو یومیہ ‪ 70‬سے ‪ 90‬گرام گوشت کھانے کی‬
‫تجویز دی ہے‪ ،‬یعنی کوئی بھی شخص یومیہ آدھا پاؤ سے بھی کم گوشت کھا سکتا ہے۔‬
‫برطانوی وزارت صحت کے مطابق برطانیہ میں وافر گوشت کھانے والے افراد میں آنتوں‬
‫کے کینسر سمیت دل کے امراض‪ ،‬موٹاپا اور کولیسٹرول میں اضافہ دیکھا گیا۔‬
‫ساتھ ہی برطانوی وزارت صحت نے وضاحت بھی کی کہ بعض قسم کے گوشت کی زائد‬
‫مقدار بھی کھائی جا سکتی ہے۔‬
‫عالوہ ازیں برطانوی ماہرین کے مطابق گوشت کو پکانے کے کچھ طریقے بھی بیماریوں‬
‫میں اضافہ کرتے ہیں‪ ،‬اس لیے گوشت کو زیادہ مصالحوں پر تیز آگ میں دیر تک نہ پکایا‬
‫جائے۔‬
‫اسی طرح امریکا کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک تحقیقاتی مضمون میں بتایا گیا کہ‬
‫متعدد تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ حد سے زیادہ سرخ گوشت استعمال کرنے والے‬
‫افراد میں کینسر اور دل کے امراض سمیت دیگر اقسام کی بیماریاں دیکھی گئیں۔‬
‫مضمون میں لوگوں کو تجویز دی گئی کہ وہ یومیہ ‪ 50‬سے ‪ 100‬گرام یعنی زیادہ سے‬
‫زیادہ آدھا پاؤ گوشت یومیہ کھا سکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکی ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ لوگ سرخ گوشت کو یومیہ اپنی خوراک کا‬
‫حصہ ضرور بنائیں‪ ،‬تاہم وہ اس ضمن میں خیال رکھیں کہ گوشت کی مقررہ مقدار ہی‬
‫استعمال کی جائے۔‬
‫امریکی اور برطانوی ماہرین نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ سال میں کچھ ہی‬
‫ہفتوں تک مسلسل یومیہ ایک کلو گوشت کھانے اور پھر سال بھر انتہائی کم گوشت کھانے‬
‫پر انسانی صحت پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔‬
‫دونوں ممالک کے ماہرین نے یومیہ سرخ گوشت کھانے والے افراد پر تحقیق کی اور اسی‬
‫بنیاد پر نتائج جاری کیے‪ ،‬دونوں ممالک کےماہرین نے کبھی کبھار آدھا سے ایک کلو‬
‫گوشت کھانے والے افراد کو تحقیق کا حصہ نہیں بنایا۔‬
‫اسی طرح برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں عالمی ادارہ‬
‫صحت کا حوالہ دیتےہوئے بتایا کہ پراسیس شدہ سرخ گوشت کا زیادہ استعمال کینسر‬
‫جیسے مرض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔‬

‫رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر لوگ گوشت کھانے کی یومیہ مقدار میں ‪ 50‬گرام کی کمی بھی‬
‫کرتے ہیں تو ان میں کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔‬
‫رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ عام طریقے سے پکایا گیا سرخ گوشت بھی کینسر سمیت‬
‫دیگر موذی امراض کے خطرات بڑھاتا ہے‪ ،‬تاہم پراسیس شدہ گوشت سے بیماریوں کے‬
‫خطرات دگنے ہوجاتے ہیں۔‬
‫لیکن سوال یہ ہے کہ پراسیس شدہ گوشت کیا ہوتا ہے؟‬
‫اس کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پراسیس شدہ گوشت وہ ہوتا ہے‪ ،‬جسے طویل‬
‫عرصے تک کھانے کے قابل بنانے کے لیے اس میں کیمیکل والے مصالحوں کا استعمال‬
‫کیا جائے یا پھر انہیں آگ پر پکا کر اس کی شکل تبدیل کرکے حد سے زیادہ نمک اور‬
‫دیگر مصالحے شامل کیے جائیں۔‬
‫ہیلتھی فوڈ نامی میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ آسٹریلوی ماہرین غذا نے لوگوں‬
‫کو ہفتے میں ‪ 700‬گرام تک سرخ گوشت کھانے کی تجویز دی ہے۔‬
‫مضمون میں بتایا گیا کہ چونکہ سرخ گوشت میں کئی آئرن اور زنک کے اجزا شامل ہیں‬
‫اور یہ اجزا انسانی تندرستی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیے ماہرین نے گوشت کھانے‬
‫کو معمول بنانے پر زور دیا ہے‪ ،‬تاہم ساتھ ہی حد سے زیادہ گوشت کھانے سے منع بھی‬
‫کیا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق ہر انسان کو ہر دوسرے دن ‪ 130‬سے ‪ 200‬گرام تک سرخ گوشت کھانا‬
‫چاہیے تاہم اس سے زیادہ مقدار کھانے سے صحت کے سنگین مسائل ہوسکتے ہیں۔‬
‫اسی مضمون میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں عام طور پر مرد زیادہ سرخ گوشت کھاتےہیں‬
‫اس لیے ان میں آئرن‪ ،‬پروٹین اور زنک کی کمی کم ہوتی ہے جب کہ خواتین کی جانب‬
‫سے گوشت کم کھانے سے ان میں زنک‪ ،‬آئرن اور پروٹین کی قلت کے باعث صحت کے‬
‫مسائل پائے جاتےہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے یومیہ گوشت کھانے کی مقدار کے‬
‫حوالے سے واضح طور پر کوئی ہدایات نہیں کیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق سرخ گوشت کا استعمال صحت کے لیے مفید ہے مگر اس‬
‫کا حد سے زیادہ استعمال کینسر اور دل کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں کے خطرات‬
‫بڑھا دیتا ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا کے ہر خطے کے افراد اپنی صحت اور خوراک کے حساب‬
‫سے گوشت کی مناسب مقدار کھائیں‪ ،‬تاہم عالمی ادارہ صحت نے واضح طور پر گوشت‬
‫کی خوراک کی محدود تجویز نہیں کی۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر شخص کی خوراک اور صحت کی ضروریات مختلف‬
‫ہوتی ہیں‪ ،‬لہذا گوشت کی کم یا زائد مقدار کا فیصلہ ہر شخص کی خوراک اور صحت کی‬
‫ضروریات کو دیکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔‬
‫البتہ عالمی ادارہ صحت نے حد سے زیادہ گوشت کھانے سے گریز کرنے کی تجویز دے‬
‫رکھی ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی تجاویز کی روشنی میں اگر قربانی کے گوشت کا جائزہ لیا جائے تو‬
‫قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک چلتا ہے اور قربانی کرنے والے افراد یومیہ‬
‫‪ 500‬سے ‪ 700‬گرام گوشت کھاتے ہیں اور ایک مہینے کے بعد ان کی خوراک میں گوشت‬
‫کی واضح کمی ہوجاتی ہے۔‬
‫لیکن کئی افراد کے ہاں قربانی کا گوشت ایک ماہ سے بھی کم عرصے تک چلتا ہے اور وہ‬
‫یومیہ ‪ 400‬سے ‪ 600‬گرام تک گوشت کھاتےہیں اور قربانی کا گوشت ختم ہونے کے بعد‬
‫ان کی خوراک میں بھی گوشت کی نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔‬
‫بعض لوگوں کا خیال ہےکہ قربانی کا گوشت کھانے والے افراد اگرچہ کچھ دنوں تک حد‬
‫سے زیادہ گوشت کھاتے ہیں لیکن پھر سال بھر وہ گوشت سے دور ہی رہتے ہیں‪ ،‬اس لیے‬
‫انہیں صحت کے زیادہ مسائل نہیں ہوتے‪ ،‬تاہم اس حوالے سے کوئی واضح طبی تحقیق‬
‫موجود نہیں ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164626/‬‬

‫عیداالضحی کے موقع اپنی صحت کا خاص خیال کیسے رکھا جائے؟‬


‫ٰ‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جوالئی ‪ 23 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫االضحی کے موقع پر جانور کی قربانی کے بعد اب تقریبا ً ہر گھر کے فرج اور ڈیپ‬‫ٰ‬ ‫عید‬
‫فریزرز گوشت سے بھر چکے ہیں اور لوگ طرح طرح کے پکوانوں سے لطف اندوز بھی‬
‫ہو رہے ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ عید کے دو روز میں لوگوں نے جی بھر کر گوشت کی دعوتیں اڑائیں اور‬
‫تکہ بوٹی سیخ کباب اور کڑھائی کے مزے لیے‪ ،‬کہیں بار بی کیو پارٹیاں منعقد کی جا رہی‬
‫ہیں تو کہیں چپلی کباب کی خوشبو ٓاپ کو بد پرہیزی پر اکسا رہی ہے۔‬
‫یہ سلسلہ نہ صرف اگلے کئی دنوں تک جاری رہے گا بلکہ کچھ گھرانوں میں تو کئی ماہ‬
‫تک قربانی کا محفوظ شدہ گوشت استعمال ہوتا رہے گا لیکن ان سب باتوں میں یہ نہ بھول‬
‫جائیں کہ پیٹ آپ کا اپنا ہے اور آپ نے ہی اس کا خیال بھی رکھنا ہے۔‬
‫اس حوالے سے آے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر صحت ڈاکٹر اریج‬
‫نے ناظرین کو اہم مشورے دیئے اور عید کے ان ایام میں خود کو کسی تکلیف یا بیماری‬
‫سے محفوظ رہنے کے آسان طریقے بھی بتائے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ گوشت کو زیادہ دن تک فریج میں نہیں رکھنا چاہیے اس سے گوشت کی‬
‫تازگی اور غذائیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے جو صحت کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔‬
‫الضحی کے موقع پر گوشت کے استعمال میں اگر اعتدال سے کام نہ‬ ‫ٰ‬ ‫ان کا کہنا تھا کہ عید‬
‫لیا جائے تو پیٹ اور معدے کے امراض الحق ہو جاتے ہیں‪ ،‬معدے میں تیزابیت اور بد‬
‫ہضمی ہونے سے دیگر امراض بھی الحق ہو سکتے ہیں۔‬
‫عیداالضحی کے موقع پر بسیارخوری اور بہت زیادہ گوشت کھانے کی وجہ‬ ‫ٰ‬ ‫خیال رہے کہ‬
‫سے مریضوں کی ایک بڑی تعداد اسپتال پہنچ جاتی ہے ل ٰہذا معتدل کھانے کے لئے دیگر‬
‫اشیاء بالخصوص سبزیوں ‪ ،‬پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/eid-ul-azha-beef-and-mutton-health-tips/‬‬
‫کورونا سے صحتیاب افراد وائرس سے کس حد تک محفوظ رہتے ہیں؟؟‬
‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪ 24 2021‬‬

‫ڈیڑھ سال قبل دنیا میں تباہی مچانے واال کورونا وائرس آج بھی اپنی بھرپور طاقت کے‬
‫ساتھ انسانوں پر حملہ آور ہے‪ ،‬لیکن وقت کے ساتھ سائنسدان بھی اس سے بچاؤ کیلئے اپنی‬
‫کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔‬
‫نئے کورونا وائرس کی وبا کو اب تک ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر اب‬
‫تک اس کے متعدد پہلو ماہرین کے لیے معمہ بنے ہوئے ہیں۔‬
‫ان میں سے ایک یہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کے شکار‬
‫ہونے والے افراد میں دوبارہ اس کا امکان ہوتا ہے یا نہیں‪ ،‬اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس‬
‫کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے؟ اب ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے کسی حد تک ٹھوس‬
‫جواب سامنے ٓایا ہے۔‬
‫امریکا کی ایموری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے صحتیاب ہونے‬
‫والے مریضوں کو بیماری کے خالف طویل المعیاد مؤثر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ یہ اب تک‬
‫کی سب سے جامع تحقیق قرار دی جارہی ہے جس میں ‪ 254‬کووڈ مریضوں کو شامل کیا‬
‫گیا تھا۔‬
‫ان مریضوں میں بیماری کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور بیماری کے ‪ 250‬دن یا ‪8‬‬
‫مہینے بعد بھی ان میں وائرس کو ناکارہ بنانے والے مدافعتی ردعمل کو دیرپا اور ٹھوس‬
‫دریافت کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے کہا کہ نتائج سے کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد تحفظ کا عندیہ‬
‫ملتا ہے اور ہم نے ایسے مدافعتی ردعمل کے مرحلے کو دریافت کیا جس کا تسلسل ‪ 8‬ماہ‬
‫بعد بھی برقرار تھا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نہ صرف مدافعتی ردعمل کی شدت بیماری کی شدت کے ساتھ‬
‫بڑھتی ہے بلکہ ہر عمر کے افراد میں یہ مختلف ہوسکتی ہے‪ ،‬یعنی ایسے نامعلوم عناصر‬
‫موجود ہیں جو مختلف عمر کے گروپس میں کووڈ کے حوالے سے ردعمل پر اثرانداز‬
‫ہوسکتے ہیں۔‬
‫مہینے گزرنے کے ساتھ محققین نے جائزہ لیا کہ ان کا مدافعتی نظام کووڈ ‪ 19‬کے خالف‬
‫کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ جسمانی دفاعی ڈھال نہ صرف متعدد اقسام کے وائرس کو ناکارہ‬
‫بنانے والی اینٹی باڈیز بناتی ہے بلکہ مخصوص ٹی اور بی سیلز کو بھی متحرک کرکے یاد‬
‫رہنے والی یادداشت کو تشکیل دیتی ہے جس سے ری انفیکشن کے خالف زیادہ مستحکم‬
‫تحفظ ملتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کووڈ کے مریضوں کو دیگر عام‬
‫انسانی کورونا وائرسز سے بھی تحفظ حاصل ہوگیا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس‬
‫بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کورونا کی نئی اقسام سے بھی تحفظ مل سکتا ہے۔‬
‫اس سے قبل مئی ‪ 2021‬میں جاپان کی یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں‬
‫دریافت کیا گیا تھا کہ کوویڈ سے بیمار ہونے والے‪ 97‬فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی‬
‫وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطا ً ان افراد میں ‪ 6‬ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز‬
‫کی سطح ‪ 98‬فیصد اور ایک سال بعد ‪ 97‬فیصد تھی۔‬
‫تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئیں ان‬
‫میں ‪ 6‬ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح ‪ 97‬فیصد جبکہ ایک سال بعد ‪ 96‬فیصد تھی اور سنگین‬
‫شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح سو فیصد تھی۔‬
‫قبل ازیں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست‬
‫دینے والے افراد میں اس بیماری کے خالف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم ‪8‬‬
‫ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت جتنی بھی ہو اور ان کی عمر جو‬
‫بھی ہو‪ ،‬یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم ‪ 8‬ماہ تک موجود رہتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے دوران ‪ 162‬کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی‬
‫پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا۔‬
‫ان میں سے ‪ 29‬مریض ہالک ہوگئے تھے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور‬
‫اپریل ‪ 2020‬میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر ‪ 2020‬کے آخر میں ایسا کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز‬
‫موجود تھیں‪ ،‬اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی‪ ،‬مگر بیماری کی تشخیص‬
‫کے ‪ 8‬ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔‬
‫جنوری ‪ 2021‬میں امریکا کے ال جوال انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق میں بھی‬
‫دریافت کیا گیا تھا کہ اس مرض کو شکست دینے والے افراد میں کورونا وائرس کے‬
‫اسپائیک پروٹین کے خالف اینٹی باڈیز ‪ 6‬ماہ بعد بھی مستحکم ہوتی ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ اس پروٹین کے لیے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح بھی بیماری ‪6‬‬
‫ماہ بعد زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬تاہم میموری ٹی سیلز کی تعداد میں ‪ 4‬سے ‪ 6‬ماہ کے دوران کمی‬
‫آنے لگتی ہے‪ ،‬مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مقدار باقی بچ جاتی ہے۔‬
‫طبی جریدے سائنس میں شائع اس تحقیق میں شامل محقق شین کروٹی نے بتایا کہ کووڈ‬
‫کے خالف مدافعتی نظام کی مدافعت اس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ممکنہ‬
‫طور پر کئی برس تک برقرار رہ کر انہیں کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سیل رپورٹس میڈیسین میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-virus-patients-recovered-immunity/‬‬

‫ڈیلٹا ویرینٹ کیخالف کون سی ویکسین انتہائی مؤثر ہے؟ محققین نے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کردیا‬ ‫بڑا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪ 23 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ فائزر ویکسین کی دو‬ ‫لندن ‪ :‬برطانوی ماہرین نے اپنی تحقیق میں‬
‫خوراکیں ڈیلٹا ویرینٹ کیخالف‪ 88‬فیصد مٔوثرہیں‪ ،‬مذکورہ ویکسین کو کورونا کی ابتدائی‬
‫اقسام کے خالف نتیجہ خیز اور کارگر قرار دیا گیا ہے۔‬
‫غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی تحقیق میں کہا گیا ہے‬
‫کہ کورونا وائرس کے سدباب کیلئے تیارکی گئی فائزر ویکسین کی دو خوراکیں ڈیلٹا‬
‫ویرینٹ کے خالف ‪ 88‬فیصد مٔوثر رہیں۔‬
‫برطانوی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی ایسٹرازینیکا ویکسین کی دو‬
‫خوراکیں ڈیلٹا ویرینٹ کے خالف ‪ 60‬فیصد مٔوثر رہیں۔‬
‫برطانوی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ کے خالف فائزر ویکسین کی ایک‬
‫خوراک ‪ 36‬فیصد جبکہ ایسٹرازینیکا کی ایک خوراک ‪30‬فیصد مٔوثر رہی۔‬
‫دوسری جانب چلی نے روسی کورونا وائرس کی ویکسین اسپوٹنک فائیو کے ہنگامی‬
‫استعمال کی منظوری دے دی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/delta-variant-pfizer-vaccine-researchers/‬‬

‫اعلی تعلیم‪ٓ ،‬اپ کے والدین کی صحت کے لیے بہتر ہوتی ہے‬


‫ٰ‬ ‫ٓاپ کی‬
‫ویب ڈیسک‪  ‬‬
‫جمعرات‪ 22  ‬جوالئ‪2021  ‬‬
‫اعلی تعلیم والدین کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫بچوں کی‬
‫اعلی تعلیم نہ صرف ان کا مستقبل سنوارتی ہے بلکہ ان کے‬ ‫ٰ‬ ‫‪ ‬نیویارک‪ :‬نوعمر بچوں کی‬
‫والدین کی دماغی‪ ،‬نفسیاتی اور جسمانی صحت کے لیے بھی بہت مفید ہوتی ہے۔‬
‫یونیورسٹی ٓاف بفیلو سے وابستہ کرسٹوفر ڈینیسن کہتے ہیں کہ نئے ڈیٹا سے معلوم ہوا ہے‬
‫کہ جن والدین کے بچے یونیورسٹی اور کالج کی ڈگری مکمل نہیں کرسکتے ان میں خرابی‬
‫اعلی تعلیم والدین‬
‫ٰ‬ ‫صحت اور ڈپریشن کے ٓاثار دیکھے جاسکتےہیں۔ اسی طرح بچوں کی‬
‫کے ذہنی اور جسمانی صحت پر مفید اثرات مرتب کرتی ہے۔‬
‫‪ 1994‬میں شروع کئے گئے ایک سروے کو مزید جاری رکھا گیا اور اس سے حاصل شدہ‬
‫اعلی تعلیمی اثرات کو بھی‬
‫ٰ‬ ‫نئے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں ایک سے زائد نسلوں پر‬
‫نوٹ کیا گیا ہے۔ پروفیسر کرسٹوفر نے بتایا کہ جن والدین کا ایک بیٹا یا بیٹی بھی جامعہ‬
‫کے درجے تک نہ پہنچ سکا ان کے والدین نے خود ایسی عالمات کا اظہار کیا جو ڈپریشن‬
‫اور صحت کی خرابی کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ تحقیق جرنل ٓاف گیرنٹولوجی کے سوشل‬
‫سائنس جرنل میں شائع ہوئی ہے۔ گویا اس میں بچوں کی کم تعلیم اور والدین کی ناخوشی‬
‫کے درمیان گہرا ربط بھی مال ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس مطالعے‬
‫میں ‪ 20‬ہزار افراد کے ڈیٹا کو پہلے ہی دیکھا گیا ہے جبکہ ‪ 30‬سے ‪ 60‬سال کے والدین‬
‫کے ساتھ مزید دوہزار ایسے والدین کو شامل کیا گیا جن کی عمریں ‪ 50‬سے ‪ 80‬برس کے‬
‫درمیان تھیں۔ یہ تحقیق ‪ 2015‬اور ‪ 2017‬میں کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ کھوج امریکی تناظر‬
‫میں کی گئی ہے جہاں والدین پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اطالق‬
‫پاکستان پربھی کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اس میں کہا گیا ہے کہ ہماری تعلیم ہماری صحت پر اثرڈالتی ہے جبکہ خود بچوں کی تعلیم‬
‫بھی ان کے والدین پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم ترین‬
‫اعلی تعلیم کے مثبت اثرات مرتب ہوتے‬
‫ٰ‬ ‫معاشی گنجائش والے والدین پر ان کے بچوں کی‬
‫ہیں۔ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانے والے بچوں کے والدین ڈپریشن اور دیگر مسائل‬
‫میں بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ والدین کی یہ فکرمندی ان کی صحت کو متاثرکرسکتی ہے۔‬
‫اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تعلیم یافتہ بچے اچھی مالزمت اور معاشی مواقع‬
‫حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے والدین سکون اور بے فکری کی زندگی گزاررہے‬
‫ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں زور دیا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پرتوجہ دیں‬
‫کیونکہ نہ صرف یہ ان کی اوالد بلکہ خود ان کی صحت کے لیے بھی بہترین سرمایہ‬
‫کاری ہوگی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2204518/9812?__cf_chl‬‬

‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‘طبی تحقیق کا نیا امید افزا میدان ’ٓارگنوئڈز‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 23  ‬جوالئ‪2021  ‬‬

‫انسانی اعضا کو مختصر کرکے ان کے ٓارگنوئڈز بناکر ان پر تحقیق کی جارہی ہے۔‬


‫قابل قدر کام کیا ہے جس‬
‫کیمبرج‪ :‬کیمبرج یونیورسٹی نے طبی تحقیق میں نئے امکانات پر ِ‬
‫سے تحقیق کی ایک نئی شاخ کا ظہور ہوا ہے جسے ’ٓارگنوئڈز‘ کا نام دیا گیا ہے۔ اس میں‬
‫انسانی جسم کے بڑے اعضا کے بہت چھوٹے ماڈل لیکن حقیقی ماڈل بنائے جاتے ہیں اور‬
‫قابل قدر تحقیق کی جاتی ہے۔‬ ‫ان پر دوا استعمال کرکے ِ‬
‫چند ماہ قبل دال کے دانے جتنا دھڑکتا ہوا انسانی دل تیار کیا گیا تھا۔ اب یہ حال ہے کہ‬
‫جگر‪ ،‬گردے‪ٓ ،‬انتوں اور دماغ جیسے اہم اعضائے انسانی کے چھوٹے ماڈل تشکیل دیئے‬
‫جارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک اہم نام پروفیسر ٹیریسا بروینی کا ہے جو ایک طویل‬
‫عرصے سے اس پر کام کررہی ہیں۔‬
‫پروفیسر ٹیریسا کی تجربہ گاہ میں ایک ٹرے میں گول گڑھوں کے اندر مائع بھرا ہے اور‬
‫ان پر گرد کے ذرات کی مانند کچھ اشیا تیررہی ہیں جو حقیقت میں اعضائے انسانی کے‬
‫ِمنی ایچر ماڈل ہیں۔ ان میں گردوں‪ ،‬جگر‪ ،‬بائل رطوبتوں کی نالیاں‪ ،‬دماغ کے خردبینی‬

‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گوشے اور دیگر اعضا موجود ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر انہیں ٓارگنوئڈز کہا جاسکتا‬
‫ہے جسے اردو میں ہم عضویئے کہہ سکتے ہیں۔‬
‫دوماہ قبل ٓاسٹریا کے سائنسدانوں نے نے دال کے دانے جتنا دھڑکتا زندہ دل بنایا تھا جس‬
‫سے ہمیں خود انسانی قلب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پھر خلوی سطح پر بیماری اور‬
‫عالج کو سمجھنے کے راستے بھی کھلیں گے۔ چند ہفتے قبل بوسٹن کے سائنسدانوں نے‬
‫ٓانتوں کا عضویہ بنایا اور یہ دیکھا کہ کووڈ ‪ 19‬کا وائرس انہیں کسطرح متاثر کرتا ہے۔‬
‫اب کیمبرج میں واقع ویلکم ایم ٓارسی اسٹیم سیل انسٹی ٹیوٹ نے انسانی جگر جیسا پیچیدہ‬
‫ماڈل بنایا ہے جو ایک چمچے میں ہزاروں کی تعداد میں سماسکتے ہیں۔ یہ اعضا ٹیکے‬
‫کے ذریعے جسم کے متاثرہ عضو میں بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور شدید بیماری کو دور‬
‫کرنے کی صالحیت رکھتے ہیں۔‬
‫ٓارگنوئڈز کی بدولت انسانی اعضا کی پیوندکاری کو بھی انقالبی جست مل سکتی ہے۔ کئی‬
‫انسانی اعضا پیوندکاری کے لیے غیرموزوں ہوتے ہیں اور ایک انارسو بیمار کی مصداق‬
‫عطیہ کردہ اعضا کی تعداد کم ہے اور اس کے امیدوار بہت سے ہوتے ہیں۔‬
‫اس مقام پر ٓارگنوئڈز متاثرہ عضو کو بہتر بناکر انہیں مریض میں منتقل کرنا ٓاسان ہوگا۔‬
‫دوسری جانب دنیا بھر میں جانوروں پر دوائیں ٓازمائی جاتی ہیں اور ٓارگنوئڈزعام ہونے‬
‫سے جانوروں کے ماڈل کی ضرورت کم ہوسکتی ہے۔ اس طرح ممالیوں بالخصوص‬
‫چمپانزی اور بندروں پر انسانی استحصال کم ہوسکے گا۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2204714/9812/‬‬

‫بنگلہ دیش کے ’’سخت جان جراثیم‘‘ ساری دنیا میں پھیل سکتے ہیں‪،‬‬
‫تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‪  ‬‬
‫ہفتہ‪ 24  ‬جوالئ‪2021  ‬‬
‫اینٹی بایوٹکس کے خالف جرثوموں میں بڑھتی ہوئی مزاحمت ایک سنگین عالمی مسئلہ‬
‫بنتی جارہی ہے‬
‫ڈھاکہ‪ :‬امریکی اور بنگلہ دیشی سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کے بعد خبردار کیا ہے کہ‬
‫بنگلہ دیش میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ایسے سخت جان بیکٹیریا سامنے ٓائے ہیں‬

‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جن پر اینٹی بایوٹکس کا کوئی اثر نہیں ہوتا؛ اور اگر ان جراثیم کو روکا نہ گیا تو یہ ساری‬
‫دنیا میں پھیل سکتے ہیں۔یہ تحقیق بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے مختلف اسپتالوں میں‬
‫نمونیا کے باعث داخل کیے جانے والے ہزاروں بچوں پر کی گئی۔‬
‫ان میں سے ‪ 108‬بچے خطرناک جرثوموں کی پانچ اقسام سے متاثر پائے گئے۔ ان اقسام‬
‫کے خالف کسی بھی طرح کی کوئی اینٹی بایوٹک دوا اثر نہیں کررہی تھی۔ ان میں سے‬
‫دوران تحقیق ہی موت کے منہ میں چلے گئے۔‬
‫ِ‬ ‫‪ 31‬بچے‬
‫ٓاکسفورڈ اکیڈمک کے ایک تحقیقی مجلّے ’’اوپن· فورم انفیکشس ڈزیزز‘‘ کے‪ ‬تازہ‬
‫شمارے‪ ‬میں ٓان الئن شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ مسئلہ‬
‫بنگلہ دیش کے کسی ایک شہر یا چند اسپتالوں کا نہیں بلکہ ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے‬
‫جس پر قابو پانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔‬
‫ت حال‪ٓ ،‬الودہ پانی اور نسخے کے بغیر عام فروخت‬ ‫اس تحقیق میں نکاسی کی خراب صور ِ‬
‫ہونے والی اینٹی بایوٹکس کو اس مسئلے کا اہم ترین ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔‬
‫ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان سخت جان اور خطرناک جرثوموں پر قابو نہ پایا گیا‬
‫اور معامالت اسی طرح چلتے رہے تو ٓانے والے برسوں میں یہ جراثیم ساری دنیا میں بھی‬
‫پھیل سکتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2204825/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓاخر ڈیلٹا کورونا کی سب سے زیادہ تشویشناک قسم کیوں تصور کی‬
‫جارہی ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪24 2021‬‬

‫کورونا وائرس کی وبا مسلسل نئی لہروں کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی رفتار کو برقرار‬
‫رکھے ہوئے ہے اور اس کی نئی اور زیادہ متعدی اقسام بھی مسلسل ابھر رہی ہیں۔‬
‫مگر اکتوبر ‪ 2020‬میں سب سے پہلے بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ڈیلٹا کو سب سے‬
‫زیادہ تشویشناک قرار دیا جارہا ہے۔‬
‫کورونا کی یہ قسم اوریجنل وائرس کے مقابلے میں دگنا زیادہ متعدی ہے‪ ،‬جبکہ اس میں‬
‫ایسے جینیاتی فیچرز موجود ہیں جو اس کو دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے میں مدد فراہم‬
‫کررہے ہیں۔‬
‫ٓاخر ڈیلٹا دیگر اقسام سے زیادہ بدترین قسم کیوں ہے؟‬
‫یہ کورونا وائرس سارس کوو ‪ 2‬کی اب تک سب سے زیادہ متعدی قسم ہے جو ایلفا کے‬
‫مقابلے میں ‪ 55‬فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے‪ ،‬جسے پہلے سب سے زیادہ متعدی‬
‫قسم مانا جاتا تھا۔اسی طرح ڈیلٹا اس وقت دنیا میں موجود دیگر اقسام کے مقابلے میں لگ‬
‫بھگ دگنا زیادہ متعدی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے خیال میں ڈیلٹا دیگر اقسام کو بہت تیزی‬
‫سے پیچھے چھوڑ کر ٓانے والے مہینوں میں دنیا بھر میں باالدست قسم ہوگی۔‬
‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈیلٹا کی تیزی سے پھیلنے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟‬
‫یہ مکمل طور پر تو واضح نہیں‪ ،‬مگر خیال کیا جاتا ہے کہ خلیات کے اندر داخل ہونے‬
‫کے بعد یہ قسم برق رفتاری سے اپنی نقول بناتی ہے اور زیادہ مقدار میں ان کو خارج‬
‫کرتی ہے۔‬
‫ڈیلٹا کو جوان افراد میں کووڈ کا زیادہ خطرہ بڑھانے سے بھی منسلک کیا جارہا ہے‪ ،‬جو‬
‫سماجی طور پر زیادہ متحرک اور ممکنہ طور پر ویکسنیشن سے محروم ہوتے ہیں۔‬
‫دوسروں سے کتنی مختلف؟‬
‫کورونا کی اس قسم میں ایک جینیاتی میوٹیشن موجود ہے جو اسے انسانی خلیات میں‬
‫موجود ایک پروٹین ایس ‪ 2‬کو زیادہ ٓاسانی سے جکڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے‪ ،‬جس سے‬
‫لوگ تیزی سے بیمار ہوتے ہیں۔‬
‫ڈیلٹا سے حال ہی میں متاثر افراد کی سانس کی گزرگاہ میں وائرل ذرات کے اجتماعات یا‬
‫وائرل لوڈ کی مقدار کورونا وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں ‪ 12‬سو گنا زیادہ ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫ایک تحقیق میں محققین نے دریافتک یا تھا کہ ڈیلٹا کو متاثرہ افراد میں وائرس جسم میں‬
‫داخل ہونے کے ‪ 4‬بعد دیکھا جاسکتا ہے‪ ،‬جو کہ سابقہ اقسام کے مقابلے میں ‪ 2‬دن کم ہے‪،‬‬
‫جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ قسم بہت تیزی سے اپنی نقول بناتی ہے اور لوگوں کو‬
‫بیماری کے ابتدائی مراحل میں زیادہ متعدی بنادیتی ہے۔‬
‫کیا ڈیلٹا زیادہ خطرناک قسم ہے؟‬
‫ایسا ممکن ہے‪ ،‬بھارت میں مئی کے وسط میں دوسری لہر کے دوران روزانہ ‪ 4‬الکھ کیسز‬
‫سامنے ٓائے‪ ،‬جبکہ ڈاکٹروں نے ڈیلٹا کو متعدد کووڈ عالمات کے ساتھ منسلک کیا جیسے‬
‫سننے کے مسائل۔‬
‫اسکاٹ لینڈ کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر کووڈ کے مریضوں کے‬
‫ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ایلفا قسم کے مقابلے میں ‪ 1.8‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫دیگر برطانویو ڈیٹا سے بھی ہسپتال میں داخلے کے زیادہ خطرے کے خیال کو تقویت ملتی‬
‫ہے مگر ایسے واضح شواہد موجود نہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ ڈیٹا کے شکار مریضوں‬
‫کو ہسپتال پہنچنے کے بعد زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫کینیڈا میں ایک تحقیق کے دوران ‪ 2‬الکھ سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کا تجزیہ کرنے‬
‫کے بعد دریافت کیا گیا کہ دیگر اقسام کے مقابلے میں ڈیلٹا سے ہسپتال اور ٓائی سی یو میں‬
‫داخلے کے ساتھ ساتھ موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫کیا بیماری سے محفوظ بھی ڈیلٹا کا شکار ہوسکتے ہیں؟‬
‫ڈیلٹا بظاہر ویکسنیشن یا پہلے کورونا کا سامنا کرنے سے پیدا ہونے والی مدافعت کے‬
‫خالف زیادہ بہتر حملہ کرنے والی قسم نظر ٓاتی ہے۔‬
‫ڈیلٹا کے خالف ویکسینز کی افادیت میں کمی کی شرح مختلف ہے‪ ،‬مثال کے طور پر‬
‫فائزر ویکسین کو اس حوالے سے ایک تحقیق میں ایسٹرازینیکا ویکسین سے زیادہ مٔوثر‬
‫قرار دیا گیا۔‬
‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم اکثر ویکسینز کی دونوں خوراکوں کے استعمال سے سنگین بیماری اور موت کے‬
‫خالف ٹحوس تحفظ ملتا ہے۔ حال ہی میں جرمنی میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک کا‬
‫استعمال اور ٹیسٹنگ سے کووڈ کے مزید پھیالٔو کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫ڈیلٹا قسم کہاں تک پھیل چکی ہے؟‬
‫ڈیلٹا قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور جوالئی میں ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ یہ متعدد‬
‫نئے ممالک میں پہنچی اور ‪ 18‬جوالئی تک یہ ‪ 124‬ممالک تک پھیل چکی تھی۔‬
‫اس وقت یہ امریکا‪ ،‬برطانیہ‪ ،‬روس‪ ،‬چین اور کم از کم دیگر ‪ 10‬ممالک میں سب سے زیادہ‬
‫کیسز کا باعث بننے والی قسم بن چکی ہے۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164770/‬‬

‫کورونا کے بعد ایک اور جراثیم دنیا بھر میں پھیلنے کا خدشہ‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جوالئی ‪ 24 2021‬‬

‫ڈھاکا‪ :‬کورونا کے بعد بنگلہ دیشی جراثیم ساری دنیا میں پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔‬
‫غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی اور بنگلہ دیشی سائنس دانوں‬
‫نے مشترکہ تحقیق میں خبردار کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں ‪ 5‬سال سے کم عمر بچوں میں‬
‫ایسے جراثیم سامنے ٓائے ہیں جن پر اینٹی بائیوٹکس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا۔‬
‫تحقیق کے مطابق اگر ان سخت جان جراثیم کو روکا نہ گیا تو یہ ساری دنیا میں پھیل‬
‫سکتے ہیں۔‬
‫بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مختلف اسپتالوں میں نمونیا کے باعث داخل ہونے‬
‫والے ہزاروں بچوں میں سے ‪ 108‬بچے خطرناک جراثیم کی پانچ اقسام سے متاثر پائے‬
‫گئے اور ان اقسام کے خالف کسی بھی طرح کی کوئی اینٹی بائیوٹک دوا اثر نہیں کر رہی‬
‫تھی جبکہ ان میں سے ‪ 31‬بچے دوران تحقیق ہی موت کا شکار ہو گئے۔‬
‫ت حال‪ٓ ،‬الودہ پانی اور نسخے کے بغیر عام فروخت‬ ‫اس تحقیق میں نکاسی کی خراب صور ِ‬
‫ہونے والی اینٹی بایوٹکس کو اس مسئلے کا اہم ترین ذمہ دار قرار دیا گیا۔‬
‫ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان سخت جان اور خطرناک جراثیموں پر قابو نہ پایا گیا‬
‫اور معامالت اسی طرح چلتے رہے تو ٓانے والے برسوں میں یہ جراثیم ساری دنیا میں بھی‬
‫پھیل سکتے ہیں۔‬
‫ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ مسئلہ بنگلہ دیش کے کسی ایک شہر یا چند اسپتالوں کا‬
‫نہیں بلکہ ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/565264-2/‬‬

‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ :19‬کورونا ویکسین کا مذاق اڑانے والے شخص کی وائرس سے‬
‫ہی موت‬
‫‪ 25‬جوالئی ‪2021‬‬
‫امریکی ریاست کیلیفورنیا کا ایک شخص جس نے سوشل میڈیا پر کووڈ ‪ 19‬ویکسین کا‬
‫مذاق اڑایا تھا‪ ،‬اسی وائرس سے ایک ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد زندگی کی‬
‫بازی ہار گیا۔‬
‫ہلسونگ میگا چرچ کے رکن سٹیفن ہارمون ویکسین کی برمال مخالفت کرتے رہے اور‬
‫انھوں نے یہ ویکسین نہ لگوانے کے سلسلے میں کئی لطیفے بھی بنائے تھے۔‬
‫جون میں اپنے سات ہزار فالوورز کو ٹویٹ کرتے ہوئے ‪ 34‬سال کے سسٹیفن نے لکھا‪:‬‬
‫’مجھے ‪ 99‬پریشانیاں ہیں لیکن ان میں ایک ویکس(ویکسین) نہیں۔‘‬
‫ان کا الس اینجلس سے باہر واقع ایک ہسپتال میں نمونیا اور کووڈ ‪ 19‬کا عالج کرایا گیا‬
‫جہاں وہ بدھ کے روز فوت ہو گئے۔‬
‫اپنی موت سے قبل کے دنوں میں سٹیفن ہارمون نے ہسپتال کے بستر سے اپنی تصاویر‬
‫شائع کی جس میں انھوں نے زندہ رہنے کے لیے اپنی لڑائی کا احوال دکھایا۔‬
‫انھوں نے کہا ’براہ کرم آپ سب دعا کریں‪ ،‬وہ مجھے وینٹیلیٹر اور سانس کی نالی پر رکھنا‬
‫چاہتے ہیں۔‘‬
‫بدھ کے روز اپنے آخری ٹویٹ میں سٹیفن ہارمون نے کہا کہ انھوں نے سانس کی نالی‬
‫لگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔‬
‫انھوں نے لکھا کہ ’پتہ نہیں میں کب اٹھوں گا‪ ،‬میرے لیے دعا کریں۔‘‬
‫تاہم وائرس کے خالف اپنی جدوجہد کے باوجود ہارمون نے پھر بھی کہا کہ وہ ویکسین‬
‫سے انکار کر دیں گے اور ان کا مذہبی عقیدہ ان کی حفاظت کرے گا۔‬
‫اپنی موت سے پہلے انھوں نے وبائی بیماری اور ویکسینز کے بارے میں مذاق کیا تھا اور‬
‫یہ بھی کہا تھا کہ وہ امریکہ میں متعدی امراض کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر اینتھونی‬
‫فاؤچی کی بجائے بائبل پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔‬

‫ہلسونگ میگا چرچ کے بانی برائن ہیوسٹن نے جمعرات کو اپنی ایک ٹویٹ میں سٹیفن‬
‫ہارمون کی موت کی خبر کی تصدیق کی۔‬
‫ایک انسٹاگرام پوسٹ میں انھوں نے ہارمون کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔‬
‫انھوں نے لکھا‪’ :‬وہ انتہائی فراخ دل لوگوں میں سے ایک تھے اور انھیں بہت سے لوگ یاد‬
‫کریں گے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ چرچ اپنے ارکان کو ’اپنے ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل‬
‫کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واضح رہے کہ کیلیفورنیا میں حالیہ ہفتوں میں کووڈ ‪ 19‬کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں‬
‫آیا ہے اور ہسپتال میں داخل بیشتر افراد ایسے ہیں جن کو ابھی تک ویکسین نہیں لگی۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/world-57959419‬‬

‫خراٹوں کا خطرہ بڑھانے والی یہ عام غلطی تو نہیں کررہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬

‫جوالئ ‪25 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫کیا ٓاپ رات کو نیند کے دوران خراٹے لینے کے عادی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ‬
‫ٓاپ کی بہت عام سی عادت ہو جو بظاہر بے ضرر محسوس ہوتی ہے۔‬
‫یقین کرنا مشکل ہوگا مگر ٹی وی کے سامنے روزانہ کئی گھنٹے گزارنا سلیپ اپنیا کا‬
‫خطرہ بڑھاتا ہے جس کا نتیجہ خراٹوں کی شکل میں نکلتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫ہاورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی وی کے سامنے روزانہ ‪ 4‬گھنٹے‬
‫سے زیادہ وقت گزارنے سے سلیپ اپنیا کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫سلیپ اپنیا کے شکار افراد کی سانس نیند کے دوران بار بار رکتی ہے جس سے خراٹوں‬
‫کے ساتھ ساتھ متعدد طبی پیچیدگیوں کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے دوران ایک الکھ ‪ 38‬ہزار افراد کی صحت اور جسمانی سرگرمیوں کی‬
‫سطح کا جائزہ ‪ 10‬سے ‪ 18‬سال تک لیا گیا تھا۔‬
‫نتائج سے دریافت ہوا کہ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا اور کم جسمانی سرگرمیاں سلیپ اپنیا کا‬
‫خطرہ بڑھانے والے عوامل ہیں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ جو لوگ دن میں زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں جیسے دفتری‬
‫مالزمت کی وجہ سے‪ ،‬تو انہیں فارغ وقت میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک ہوکر اس‬
‫کی تالفی کرنی چاہیے۔‬
‫ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں ‪ 30‬سے ‪ 69‬سال کی عمر کے ایک ارب کے قریب‬
‫افراد معتدل سے سنگین سلیپ اپنیا کے شکار ہیں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم نے جسمانی سرگرمیوں کی کمی اور سلیپ اپنیا کے خطرے کے‬
‫درمیان واضح تعلق کو دریافت کیا۔‬
‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ جو لوگ عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ فی ہفتہ ‪ 150‬منٹ جسمانی‬
‫سرگرمیوں کی گائیڈالئنز پر عمل کرتے ہیں اور دن بھر میں ‪ 4‬گھنٹے سے کم وقت ٹی وی‬
‫کے سامنے گزارتے ہیں‪ ،‬ان میں سلیپ اپنیا کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے ٓاغاز میں رضاکاروں میں سے کسی کو بھی سلیپ اپنیا کا عارضہ الحق‬
‫نہیں تھا تاہم اختتام تک ‪ 8733‬افراد میں اس کی تشخیص ہوئی۔‬
‫تمام تر عناصر بشمول عمر‪ ،‬جسمانی حجم اور تمباکو کے استعمال وغیرہ کو مدنظر‬
‫رکھتے ہوئے تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنا خراٹوں اور سلیپ‬
‫اپنیا کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔‬
‫محققین کے مطابق تحقیق میں لوگوں کے بیان کردہ طبی ڈیٹا پر انحصار کیا گیا اور مزید‬
‫تحقیق سے نتائج کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین ریسیپٹری جرنل میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164822/‬‬

‫ماں کا دودھ· بچوں میں بلڈ پریشر کی سطح کم رکھنے میں مددگار‬
‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪23 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی —ماں کا دودھ پی کر پرورش پانے والے بچوں کا‬
‫بلڈ پریشر دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬
‫ہے۔طبی جریدے جرنل ٓاف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق میں ‪ 2‬ہزار‬
‫‪ 400‬بچوں کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا تھا جو ان کی صحت کے حوالے سے ہونے والی‬
‫ایک طویل المعیاد تحقیق کے لیے اکٹھا کیا گیا تھا۔‬
‫اس ڈیٹا میں بچوں کو ماں کا دودھ پالنے کے عرصے اور ‪ 3‬سال کی عمر میں ان کے بلڈ‬
‫پریشر کا موازنہ کیا گیا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نتائج سے دریافت کیا گیا کہ دودھ پالنے کا عرصہ چاہے جتنا بھی ہو‪ ،‬ایسے بچوں کا بلڈ‬
‫پریشر دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ماں کی جانب سے چاہے ‪ 2‬دن‪ 2 ،‬ہفتے‪ 2 ،‬ماہ یا ‪ 2‬سال دودھ کیوں نہ‬
‫پالیا جائے‪ ،‬بچوں کے بلڈ پریشر کی سطح میں نمایاں بہتری ٓاتی ہے۔‬
‫اس سے قبل مختلف تحقیقی رپورٹس· میں دریافت ہوچکا ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے‬
‫بچوں میں موٹاپے‪ ،‬ذیابیطس‪ ،‬معدے کے امراض اور دیگر کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ خود‬
‫ماں کے لیے بھی کینسر‪ ،‬ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ بچوں میں بلڈ پریشر کی سطح میں کمی سے بلوغت میں جان لیوا‬
‫امراض جیسے فشار خون اور فالج کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا دودھ اور بلڈ پریشر کا ٓاپس میں تعلق‬
‫موجود ہے۔‬
‫اس سے قبل جنوری ‪ 2021‬میں برمنگھم یونیورسٹی اور برمنگھم ویمنز اینڈ چلڈرنز این‬
‫ایچ ایس فاؤنڈیشن کی تحقیق میں پہلی مرتبہ مدافعتی خلیات کی ایک مخصوص قسم کو‬
‫دریافت کیا گیا جو زندگی کے اولین ‪ 3‬ہفتوں کے دوران ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں‬
‫نشوونما پاتا ہے اور فارموال ملک پینے والے بچوں کے مقابلے میں ان میں یہ تعداد لگ‬
‫بھگ دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔‬
‫یہ مخصوص خلیات ٹی سیلز کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو بیماریوں کے خالف لڑتے ہیں‬
‫جبکہ یہ خلیات دودھ کے ساتھ ماں سے منتقل ہونے والے خلیات کے خالف ردعمل ظاہر‬
‫کرکے ورم کم کرتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا گیا کہ ماں کے دودھ پر پرورش پانے والے بچوں کے معدے‬
‫میں ٹی سیلز کے افعال کو معاونت فراہم کرنے والے مخصوص بیکٹریا کی مقدار زیادہ‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے الرجی میں شائع ہوئے‪ ،‬جس میں بریسٹ فیڈنگ کی‬
‫اہمیت پر زور دیا گیا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ماں کے دودھ کے بچوں کی نشوونما کے دوران مدافعتی ردعمل پر‬
‫مرتب اثرات پر پہلے کام نہیں کیا گیا تھا۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ماضی میں ماں کے دودھ کی اہمیت اور ابتدائی زندگی میں مخصوص‬
‫خلیات کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ ان نتائج سے بریسٹ فیڈنگ کی شرح میں اضافہ ہوگا‬
‫اور ہم مستقبل قریب میں زیادہ سے زیادہ بچوں کی صحت پر اس کے مثبت اثرات کو‬
‫دیکھیں گے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164711/‬‬

‫سائنوفارم کووڈ ویکسین کورونا کی قسم ڈیلٹا کے خالف مؤثر قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪23 2021‬‬
‫یہ بات سری لنکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی — رائٹرز فوٹو‬
‫کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس‬
‫کے نتیجے میں کیسز کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔‬
‫مگر چینی کمپنی سائنوفارم کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین کورونا کی اس زیادہ متعدی‬
‫ٰ‬
‫دعوی سری لنکا میں ہونے‬ ‫قسم سے تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے کافی مؤثر ہے۔ یہ‬
‫والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓایا۔‬

‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر‬

‫جاری کیے گیے ہیں۔سری جے وردھنے یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ کی‬
‫ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے بھی حصہ لیا اور دریافت کیا کہ سائنوفارم ویکسین‬
‫استعمال کرنے والے افراد میں ڈیلٹا قسم کے خالف اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔‬
‫تاہم ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح کورونا کی پرانی قسم کے مقابلے میں‬
‫‪ 1.38‬گنا کم ہوتی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ لیبارٹری نتائج میں ویکسین کو ڈیلٹا قسم کے‬
‫خالف بھی بہت مؤثر دریافت کیا گیا‪ ،‬ڈیلٹا کے خالف ہونے واال اینٹی باڈی ردعمل کی‬
‫شرح قدرتی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد کے برابر ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں شامل ‪ 95‬فیصد افراد کو سائنوفارم ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرائی گئی‬
‫تھیں اور ان میں کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے والے کسی فرد جتنی اینٹی باڈیز کی سطح بن‬
‫گئی۔‬
‫تحقیق کے مطابق سائنو فارم ویکسین کی ‪ 2‬خوراکوں سے ‪ 81.25‬رضاکاروں میں وائرس‬
‫ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بن گئی تھیں اور ان اینٹی باڈیز کی سطح اتنی ہی تھی جتنی‬
‫کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے کے بعد مریضوں میں ہوتی ہے۔‬
‫اس ویکسین کے اثرات کا موازنہ ڈیلٹا کے ساتھ ساتھ کورونا کی اصل قسم کے ساتھ ساتھ‬
‫ایلفا اور بیٹا اقسام کے ساتھ بھی کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈیلٹا اور دیگر اقسام کے خالف سائنوفارم‬
‫ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح اتنی ہی ہوتی ہے جتنی قدرتی بیماری کا سامنا‬
‫کرنے والے افراد میں ہوتی ہے‪ ،‬جو بہت اچھا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ‪ 20‬سے ‪ 40‬سال کی عمر کے ‪ 98‬فیصد افراد میں اینٹی باڈیز بنی جبکہ‬
‫‪ 60‬سال سے زائد عمر کے گروپ میں یہ شرح ‪ 93‬فیصد تھی‪ ،‬جو اس لیے حیران کن نہیں‬
‫کیونکہ معمر افراد میں ویکسینز کا ردعمل کچھ کم ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ سائنوفارم کا اس طرح کا ڈیٹا دنیا کے سامنے پہلے پیش نہیں ہوا تھا‬
‫اور اس طرح کا حقیقی دنیا کا ڈیٹا کسی ویکسین پر اعتماد بڑھانے کے لیے بہت اہم ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫خیال رہے کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا سب سے پہلے بھارت میں سامنے ٓائی تھی اور اب دنیا‬
‫میں سب سے زیادہ کیسز اس کے نتیجے میں سامنے ٓارہے ہیں۔‬
‫کورونا کی یہ قسم اس وقت دنیا بھر میں ‪ 90‬سے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہے۔‬
‫سری لنکن تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے‬
‫والی کورونا کی قسم بیٹا کے خالف سائنوفارم ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز اوریجنل‬
‫قسم کے مقابلے میں ‪ 10‬گنا تک کم ہوجاتی ہیں۔‬
‫تاہم محققین کے مطابق سائنوفارم ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کورونا کی ان دونوں‬
‫اقسام یعنی بیٹا اور ڈیلٹا کے خالف مؤثر ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے وہی اینٹی باڈی‬
‫ردعمل پیدا ہوتا ہے جو قدرتی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں ہوتا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164699/‬‬

‫کووڈ کو شکست دینے والوں· میں مدافعتی ردعمل طویل عرصے تک‬
‫برقرار رہنے کا امکان‬
‫ویب ڈیسک‬

‫جوالئ ‪23 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نئے کورونا وائرس کی وبا کو اب ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مگر اب تک اس‬
‫کے متعدد پہلو ماہرین کے لیے معمہ بنے ہوئے ہیں۔‬
‫ان میں سے ایک یہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کے شکار‬
‫ہونے والے افراد میں دوبارہ اس کا امکان ہوتا ہے یا نہیں‪ ،‬اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس‬
‫کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے؟‬

‫اب ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے کسی حد تک ٹھوس جواب سامنے ٓایا ہے۔‬
‫امریکا کی ایموری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے صحتیاب ہونے‬
‫والے مریضوں کو بیماری کے خالف طویل المعیاد مؤثر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔‬
‫یہ اب تک کی سب سے جامع تحقیق قرار دی جارہی ہے جس میں ‪ 254‬کووڈ مریضوں کو‬
‫شامل کیا گیا تھا۔‬
‫ان مریضوں میں بیماری کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور بیماری کے ‪ 250‬دن یا ‪8‬‬
‫مہینے بعد بھی ان میں وائرس کو ناکارہ بنانے والے مدافعتی ردعمل کو دیرپا اور ٹھوس‬
‫دریافت کیا گیا۔‬
‫محققین نے کہا کہ نتائج سے کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد تحفظ کا عندیہ‬
‫ملتا ہے اور ہم نے ایسے مدافعتی ردعمل کے مرحلے کو دریافت کیا جس کا تسلسل ‪ 8‬ماہ‬
‫بعد بھی برقرار تھا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نہ صرف مدافعتی ردعمل کی شدت بیماری کی شدت کے ساتھ‬
‫بڑھتی ہے بلکہ ہر عمر کے افراد میں یہ مختلف ہوسکتی ہے‪ ،‬یعنی ایسے نامعلوم عناصر‬

‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫موجود ہیں جو مختلف عمر کے گروپس میں کووڈ کے حوالے سے ردعمل پر اثرانداز‬
‫ہوسکتے ہیں۔‬
‫مہینے گزرنے کے ساتھ محققین نے جائزہ لیا کہ ان کا مدافعتی نظام کووڈ ‪ 19‬کے خالف‬
‫کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ جسمانی دفاعی ڈھال نہ صرف متعدد اقسام کے وائرس کو ناکارہ‬
‫بنانے والی اینٹی باڈیز بناتی ہے بلکہ مخصوص ٹی اور بی سیلز کو بھی متحرک کرکے یاد‬
‫رہنے والی یادداشت کو تشکیل دیتی ہے جس سے ری انفیکشن کے خالف زیادہ مستحکم‬
‫تحفظ ملتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کووڈ کے مریضوں کو دیگر عام‬
‫انسانی کورونا وائرسز سے بھی تحفظ حاصل ہوگیا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس‬
‫بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کورونا کی نئی اقسام سے بھی تحفظ مل سکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سیل رپورٹس میڈیسین میں شائع ہوئے۔‬
‫اس سے قبل مئی ‪ 2021‬میں جاپان کی یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں‬
‫دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے ‪ 97‬فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی‬
‫وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطا ً ان افراد میں ‪ 6‬ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز‬
‫کی سطح ‪ 98‬فیصد اور ایک سال بعد ‪ 97‬فیصد تھی۔‬
‫تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئیں ان‬
‫میں ‪ 6‬ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح ‪ 97‬فیصد جبکہ ایک سال بعد ‪ 96‬فیصد تھی اور سنگین‬
‫شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح سو فیصد تھی۔‬
‫قبل ازیں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست‬
‫دینے والے افراد میں اس بیماری کے خالف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم ‪8‬‬
‫ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت جتنی بھی ہو اور ان کی عمر جو‬
‫بھی ہو‪ ،‬یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم ‪ 8‬ماہ تک موجود رہتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے دوران ‪ 162‬کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی‬
‫پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا۔‬
‫ان میں سے ‪ 29‬مریض ہالک ہوگئے تھے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور‬
‫اپریل ‪ 2020‬میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر ‪ 2020‬کے آخر میں ایسا کیا گیا۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز‬
‫موجود تھیں‪ ،‬اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی‪ ،‬مگر بیماری کی تشخیص‬
‫کے ‪ 8‬ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔‬
‫جنوری ‪ 2021‬میں امریکا کے ال جوال انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق میں بھی‬
‫دریافت کیا گیا تھا کہ اس مرض کو شکست دینے والے افراد میں کورونا وائرس کے‬
‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسپائیک پروٹین کے خالف اینٹی باڈیز ‪ 6‬ماہ بعد بھی مستحکم ہوتی ہیں جبکہ اس پروٹین‬
‫کے لیے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح بھی بیماری ‪ 6‬ماہ بعد زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬تاہم‬
‫میموری ٹی سیلز کی تعداد میں ‪ 4‬سے ‪ 6‬ماہ کے دوران کمی آنے لگتی ہے‪ ،‬مگر پھر بھی‬
‫کچھ نہ کچھ مقدار باقی بچ جاتی ہے۔‬
‫طبی جریدے سائنس میں شائع اس تحقیق میں شامل محقق شین کروٹی نے بتایا کہ کووڈ‬
‫کے خالف مدافعتی نظام کی مدافعت اس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ممکنہ‬
‫طور پر کئی برس تک برقرار رہ کر انہیں کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164718/‬‬

‫فائزر ویکسین ڈیلٹا قسم سے ‪ 88‬فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے‪ ،‬تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪23 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫فائزر‪/‬بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین کورونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی‬
‫قسم ڈیلٹا کے خالف بہت زیادہ تحفظ فراہم کرتی ہے‪ ،‬مگر ایسا اسی صورت میں ہوتا ہے‬
‫جب دونوں خوراکوں کا استعمال کیا گیا ہو۔یہ بات برطانیہ میں ہونے والی تحقیق میں‬
‫سامنے ٓائی۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ فائزر کی ایم ٓار این اے کووڈ ویکسین لوگوں کو ڈیلٹا سے‬
‫بچانے کے لیے ‪ 88‬فیصد تک مؤثر ہے۔‬
‫خیال رہے کہ کورونا کی اصل قسم کے خالف یہ ویکسین ‪ 94‬فیصد تک مؤثر قرار دی‬
‫گئی تھی۔تاہم ڈیلٹا سے یہ تحفظ ویکسین کی صرف ایک خوراک سے حاصل نہیں ہوتا۔‬
‫طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل ٓاف میڈیسین میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ صرف ایک‬
‫خوراک استعمال کرنے والے افراد کو ڈیلٹا سے صرف ‪ 31‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔‬
‫ڈیلٹا قسم میں کورونا وائرس کے اسپائیک پروٹین میں ‪ 7‬مختلف میوٹیشنز ہوتی ہیں‪ ،‬جن‬
‫میں سے کچھ وائرس کو خلیات کو متاثر کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں اور متاثرہ خلیات‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫میں وائرس کی نقول بہت تیزی سے بڑھتی ہیں اور یہ ایک سے دوسرے فرد تک ٓاسانی‬
‫سے منتقل ہوجاتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں برطانیہ میں مئی تک کے تمام کووڈ ‪ 19‬کیسز کی جانچ پڑتال کی گئی اور‬
‫یہ دیکھا گیا کہ مریضوں کی ویکسنیشن ہوئی تھی یا نہیں۔محققین نے دریافت کیا کہ فائزر‬
‫ویکسین ہسپتال میں داخلے کا خطرہ کم کرنے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے اور یہ اس لیے‬
‫بھی زیادہ متاثر کن ہے کیونکہ یہ حقیقی دنیا کی صورتحال ہے۔‬
‫ویکسین کی پہلی خوراک مدافعتی نظام کو وائرس سے ٓاگاہ کرنے کا کام کرتی ہے جبکہ‬
‫دوسری خوراک مستقبل میں اس وائرس کے خالف ردعمل کو ڈرامائی حد تک بڑھانے‬
‫میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ڈیلٹا قسم ایلفا کے مقابلے میں بظاہر ‪ 60‬فیصد زیادہ متعدی ہے‬
‫جو پہلے ہی دیگر اوریجنل وائرس کے مقابلے میں ‪ 50‬فیصد زیادہ متعدی قرار دی گئی‬
‫ہے۔برطانوی ڈیٹا کے مطابق ڈیلٹا سے متاثر افراد میں ہسپتال داخلے کا خطرہ دگنا ہوتا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164716/‬‬

‫دماغ کی صحت کے لیے نقصان دہ غذائیں‬


‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪24 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہم ہمیشہ ہی دل کی صحت کی بات کرتے یا سنتے ہیں مگر دماغی صحت کے بارے میں‬
‫کیا خیال ہے؟‬
‫ہمارے دماغ کو بھی بہت زیادہ توجہ اور درست غذا کے ذریعے اس کی صحت کا خیال‬
‫رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ واضح طور پر سوچنے‪ ،‬توجہ مرکوز کرنے‪،‬‬
‫توانائی اور ہرممکن حد تک بہتر کام کرنے کے قابل ہوسکے۔‬
‫اس دور میں جب دنیا بھر میں دماغی امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا کی شرح میں‬
‫اضافہ ہورہا ہے تو ہمیں نوجوانی سے ہی دماغ کے لیے صحت مند غذاﺅں کے انتخاب پر‬
‫غور کرنا چاہیے۔‬
‫عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے‪ ،‬ہم چیزیں بھولنے‬
‫لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو‬
‫واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں‪ ،‬لیکن ہم اپنے ذہن کو ضرور ہر عمر کے مطابق فٹ‬
‫رکھ سکتے ہیں۔‬
‫مگر کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں اور ذہنی تنزلی‬
‫کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔‬
‫مارجرین اور میٹھی کریم کی تہہ والی اشیا‬
‫یہ غذائیں ٹرانس فیٹس سے بھرپور ہوتی ہیں‪ ،‬اگر ٓاپ کو علم نہیں تو جان لیں کہ ٹرانس‬
‫فیٹس دل اور خون کی شریانوں کی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔‬
‫تحقیقی رپورٹس کے مطابق چکنائی کی یہ قسم دماغی افعال کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی‬
‫ہے۔ جریدے نیورولوجی میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معمر افراد کے خون‬

‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کی شرح زیادہ ہو تو ان میں ڈیمینشیا ‪ elaidic acid‬میں اگر ٹرانس فیٹ کی ایک عام قسم‬
‫کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔‬
‫سوڈا اور دیگر میٹھے مشروبات‬
‫اگر ٓاپ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ کو تیز رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی غذا میں سے میٹھے‬
‫مشروبات کو نکال دیں۔‬
‫طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ بہت زیادہ سافٹ ڈرنکس‪ ،‬میٹھی چائے اور‬
‫دیگر میٹھے مشروبات پینے کے عادی ہوتے ہیں‪ ،‬ان میں یادداشت کے مسائل کا خطرہ‬
‫بھی دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ان مشروبات میں عموما ً چینی کی ایک قسم فریکٹوز موجود ہوتی ہے جو دماغ کے‬
‫مخصوص حصوں کا حجم چھوٹا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫ڈائٹ سوڈا اور مصنوعی مٹھاس والے مشروبات‬
‫اگر عام سافٹ ڈرنکس کی جگہ شوگر فری مشروبات کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ بھی کوئی‬
‫اچھا خیال نہیں۔‬
‫تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ دن بھر میں ایک ڈائٹ سافٹ ڈرنک پینے‬
‫کے عادی ہوتے ہیں ان میں فالج یا ڈیمینشیا کا خطرہ لگ بھگ ‪ 3‬گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔‬
‫فرنچ فرائیز اور دیگر تلے ہوئے پکوان‬
‫جو لوگ تلی ہوئی غذائیں بہت زیادہ کھاتے ہیں وہ سوچنے کی صالحیت کی جانچ پڑتال‬
‫کرنے والے ٹیسٹوں میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‬
‫اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ تلی ہوئی چکنائی سے بھرپور غذائیں ورم کا باعث بنتی ہیں‪،‬‬
‫جس سے دماغ کو خون پہنچانے والی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور دماغ کے لیے‬
‫بھی یہ غذائیں نقصان دہ ہوتی ہیں۔‬
‫ڈونٹس‬
‫یہ مزیدار سوغات تیل میں تلی جاتی ہے اور اس میں چینی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬یہ‬
‫امتزاج دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔‬
‫ڈیپ فرائی اور اضافی چینی کے اس امتزاج سے ورم کے امکان ہوتا ہے‪ ،‬جبکہ خون میں‬
‫شوگر کی سطح بڑھنا بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھاتا ہے۔‬
‫مزید یہ کہ بیشتر ڈونٹس میں ٹرانس فیٹس موجود ہوتے ہیں جن کے نقصانات کا ذکراوپر‬
‫ہوچکا ہے۔‬
‫سفید ڈبل روٹی اور چاول‬
‫ریفائن کاربوہائیڈریٹس چاہے مٹھاس سے پاک ہی کیوں نہ ہوں‪ ،‬بلڈ شوگر میں تیزی سے‬
‫اضافے کا باعث بنتے ہیں‪ ،‬جس میں اچانک کمی بھی ٓاتی ہے‪ ،‬جس سے ذہن پر دھند‬
‫چھانے کا احساس ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ بہت زیادہ ریفائن کاربوہائیڈریٹس· کا استعمال الزائمر امراض کا‬
‫خطرہ بڑھا سکتا ہے‪ ،‬بالخصوص جینیاتی طور پر خطرے سے دوچار افراد کے لیے۔‬

‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تو اناج‪ ،‬برئون چاول اور دیسی ٓاٹے کو ترجیح دینا دماغی صحت کے لیے مفید ثابت‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫سرخ گوشت‬
‫سرخ گوشت میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے زیادہ مقدار میں اسے کھانا دل‬
‫کے ساتھ ساتھ دماغ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫ایسا نہیں کہ اسے اپنی غذا کا حصہ نہ بنائیں مگر مقدار کو محدود رکھنا زیادہ بہتر ہے۔‬
‫مکھن اور زیادہ چکنائی واال پنیر‬
‫دودھ سے بنی زیادہ چکنائی والی یہ مصنوعات بھی زیادہ مقدار میں کھانا بھی دماغی‬
‫صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫درحقیقت کم چکنائی والی دودھ سے بنی مصنوعات کے زیادہ صحت بخش سمجھا جاتا‬
‫ہے‪ ،‬جیسے دودھ‪ ،‬دہی‪ ،‬کاٹیج چیز اور دیگر۔‬
‫الکحل‬
‫الکحل کا استعمال صحت کے لیے کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں اور اس کی معمولی مقدار‬
‫بھی دماغی ساخت اور افعال کے لیے زہر ثابت ہوتی ہے‪ ،‬چاہے عمر کوئی بھی ہو‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164765/‬‬

‫کرونا کی ڈیلٹا قسم اتنی تیزی سے کیوں‌ پھیلتی ہے؟ وجہ سامنے آگئی‬

‫‪ ‬محمد عمیر دبیر‬

‫جوالئی ‪ 25 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بیجنگ‪ :‬چین کے طبی اور تحقیقی ماہرین نے کرونا کی تغیر شدہ قسم ڈیلٹا کے تیزی سے‬
‫پھیلنے اور ہالکت خیزی کی وجہ تالش کرلی۔‬
‫چین کے ماہرین نے کرونا کی ڈیلٹا قسم پھیلنے کی وجوہات جاننے کے لیے حال ہی‬
‫میں‪ ‬مطالعہ‪ ‬کیا‪ ،‬جس میں ہالکت خیزی اور بڑھتے ہوئے کیسز کو مدنظر رکھا گیا۔‬
‫ماہرین کے مطابق ڈیلٹا قسم کے زرات عام کرونا سے زیادہ طاقت ور ہیں‪ ،‬جو پوشیدہ بھی‬
‫رہتے ہیں اور اس قدر شدت سے حملہ کرتے ہیں کہ اس کی تشخیص صرف دو روز پہلے‬
‫ہی ہوتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج پری پرنٹ سرور وائرلوجیکل میں شائع ہوئے‪ ،‬ابھی تک ماہرین کے‬
‫مطالعے اور دعوے کو کسی طبی جریدے نے شائع کرنے کی منظوری نہیں دی۔‬
‫اطالعات کے مطابق ماہرین نے چین میں رپورٹ ہونے والے چند کیسز کا تجزیہ کیا اور‬
‫یہ جاننے کی کوشش کی کہ ڈیلٹا قسم اس قدر تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا‬
‫ہے کہ ڈیلٹا قسم عام کرونا سے دگنی رفتار سے پھیلتی ہے جبکہ ایلفا قسم ‪ 60‬فیصد زیادہ‬
‫متعدی ہے۔‬
‫ماہرین نے ‪ 21‬مئی کو رپورٹ ہونے والے ڈیلٹا قسم کے پہلے کیس کا جائزہ لیا اور متاثرہ‬
‫شخص کے قریب میں رہنے والوں کی نگرانی و اسکریننگ کی۔‬
‫مریض کے قریبی افراد کو ٓائسولیٹ کرکے ان کے روزانہ پی سی ٓار ٹیسٹ کیے گئے اور‬
‫اس طرح پہلے مقامی کیس کے بعد مزید ‪ 167‬مقامی کیسز کو شناخت کیا گیا۔ اس ڈیٹا کا‬
‫موازنہ چین میں وبا کے ٓاغاز کے ڈیٹا سے کیا گیا۔‬
‫تحقیقی ماہرین کے سامنے یہ بات ٓائی کہ ’ کسی مریض میں پی سی ٓار ٹیسٹ سے بیماری‬
‫کی تشخیص کا اوسط وقت (یعنی وائرس کی اتنی مقدار کی موجودگی جو ٹیسٹ کو مثبت‬
‫بنانے کے لیے کافی ہوتی ہے) وبا کے ٓاغاز ‪ 5.61‬دن تھا جبکہ ڈیلٹا قسم کے مریضوں‬
‫میں ‪ 3.71‬دن تھا۔‬
‫ماہرین کے مطابق ’جو لوگ ڈیلٹا قسم سے متاثر ہوئے اُن میں عالمات اس لیے ظاہر نہیں‬
‫ہوئی کیونکہ جسم میں وائرس کی مقدار کو پکڑا نہیں جاسکا‪ ،‬اسی وجہ سے یہ متعدی بن‬
‫رہا ہے اور وائرل لوڈ کی صورت میں سامنے ٓایا ہے‘۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ تحقیق کو دوران یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی کہ ایک فرد کس‬
‫صورت میں وائرس کو پھیال سکتا ہے‪ ،‬بیماری کی روک تھام کی حکمت عملی کے لیے‬
‫اہمیت رکھتا ہے‪ ،‬مگر ڈیلٹا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بہت برق رفتاری سے کام‬
‫کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی روک تھام کا وقت بہت کم ہے۔‬
‫محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ پی سی ٓار ٹیسٹوں میں ڈیلٹا کے مریضوں میں وائرل لوڈ‬
‫وائرس کی اصل قسم کے مریضوں· کے مقابلے میں ‪ 1260‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین نے‬
‫بتایا کہ ڈیلٹا وائرس پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ قسم جسم کے اندر اپنے جیسا‬
‫طاقتور دوسرا وائرس پیدا کرنے کی صالحیت رکھتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر ہونے واال مریض ابتدائی ایام میں‬
‫دوسروں کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اُس میں سے اُن ذرات کا اخراج ہوتا ہے جو‪ ‬‬
‫دوسروں میں وائرس منتقل کرسکتے ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/covid-delta-variant-viral-reason/‬‬

‫کورونا کی ڈیلٹا قسم سے بچاؤ کیلیے کتنی خوراکیں ضروری ہیں؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪25 2021‬‬

‫ریاض‪ :‬سعودی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے کورونا کی بدلتی‬
‫صورتحال اور صحت کے اس پر اثرات سے متعلق وضاحتی بیان جاری کردیا۔‬
‫عرب میڈیا کے مطابق وزارت صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اب تک کورونا وائرس‬
‫کی جو نئی قسم ریکارڈ پر ٓائی ہیں ان میں سے الفا‪ ،‬بیتا‪ ،‬جاما اور ڈیلٹا تشویشناک ہیں تاہم‬
‫ان چاروں میں ڈیلٹا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔‬
‫وزارت صحت کے ترجمان نےکہا کہ ’کئی طبی جائزوں اور میڈیکل ریسرچ نے ثابت کیا‬
‫ہے کہ ڈیلٹا وائرس سے نمٹنے کے لیے کسی بھی ویکسین کی ایک خوراک ناکافی ہوگی‘۔‬
‫ترجمان نے کہا کہ ’ ڈیلٹا وائرس سے بچاؤ اور مدافعت حاصل کرنے کے لیے ویکسین کی‬
‫دو خوراکیں لینا ضروری ہیں‘۔یاد رہے کہ سعودی عرب میں اتوار ‪ 25‬جوالئی کو کورونا‬
‫کے ایک ہزار سے زیادہ نئے کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں جبکہ کورونا کے مجموعی متاثرین‬
‫کی تعداد پانچ الکھ سے بڑھ گئی ہے۔‬
‫گذشتہ ‪ 24‬گھنٹوں کے دوران کورونا کے ایک ہزار ‪ 194‬نئے مریض سامنے آئے جبکہ’‬
‫ایک ہزار ‪ 164‬افراد صحت یاب ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/565427-2/‬‬

‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نیند میں‌ خراٹے کس بیماری کی وجہ ہیں؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫جوالئی ‪25 2021‬‬

‫نیند میں خراٹے لینا ایک عمومی مسئلہ ہے جو ٓاپ کو نیند کی کمی کا شکار بھی کردیتا‬
‫ہے۔‬
‫سونے کی حالت میں خراٹے لینا دراصل ایک بیماری ہے‪ ،‬جسے طب کی زبان میں اپنیا‬
‫کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سوتے ہوئے سانس رکنے کے عمل کی وجہ سے خراٹے‬
‫نکلتے ہیں۔‬
‫امریکا کے ماہرین نے اب اپنیا نامی بیماری سے متاثر ہونے کی بنیادی وجہ تالش کرنے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے۔‬ ‫کا‬
‫امریکا میں ہونے والی تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین ریسیپٹری‪ ‬جرنل‪ ‬میں شائع‬
‫ہوئے۔ تحقیق کے دوران ‪ 10‬سے اٹھار سال تک کی عمر کے ایک الکھ ‪ 36‬ہزار سے زائد‬
‫شہریوں کی صحت اور جسمانی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔‬

‫جس میں ماہرین نے بتایا کہ ٹی وی اسکرین کے سامنے روزانہ کئی گھنٹے گزارنے سے‬
‫اپنیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫ہاورڈ کے تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ ’ٹی وی کے سامنے چار گھنٹے سے زائد وقت‬
‫گزارنے واال اپنیا کا شکار ہوسکتا ہے‘۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنیا کا شکار افراد کو نیند‬
‫کے دوران خراٹوں سمیت دیگر طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ دن بھر میں زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے والے افراد کو‬
‫چہل قدمی کو یقینی بنانا چاہیے ورنہ وہ نیند میں خراٹوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں ‪ 30‬سے ‪ 69‬سال کی عمر کے ایک ارب کے قریب افراد‬
‫معتدل سے سنگین سلیپ اپنیا کا شکار ہیں کیونکہ ایسے افراد کی جسمانی سرگرمیاں کم‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ ہر شخص کو ہفتے میں کم از کم ‪ 150‬منٹ جسمانی سرگرمیاں‬


‫عمل دینی چاہیں‪ ،‬دن بھر میں ‪ 7‬گھنٹے نیند اور ٹی وی کے سامنے کم از کم وقت گزارنا‬
‫چاہیے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/565406-2/‬‬

‫عام سی سبزی کرونا کا خطرہ کم کرنے میں معاون‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫جوالئی ‪26 2021‬‬

‫زیادہ مقدار میں سبزیاں کھانا اور کافی پینے کی عادت صحت کے لیے مفید ہونے کے‬
‫ساتھ کووڈ نائنٹین کا شکار ہونے سے بھی کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے‪ ،‬یہ بات‬
‫امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سبزیاں کھانا اور کافی پینا کووڈ کا‬
‫خطرہ کسی حد تک کم کرنے میں مددگار غذائی عادات ثابت ہوسکتی ہیں‪ ،‬تحقیق میں دیگر‬
‫غذائیں بشمول پھل‪ ،‬چائے اور سرخ گوشت کو بھی شامل کیا گیا تھا‪ ،‬مگر ان کا کوئی منفی‬
‫یا مثبت اثر دریافت نہیں ہوسکا۔‬

‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے مقابلے میں پراسیس گوشت کے کھانے کا شوق کرونا وائرس کا شکار ہونے کا‬
‫خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔‬
‫پراسیس شدہ گوشت وہ ہوتا ہے‪ ،‬جسے طویل عرصے تک کھانے کے قابل بنانے کے‬
‫لیے اس میں کیمیکل والے مصالحوں کا استعمال کیا جائے یا پھر انہیں آگ پر پکا کر اس‬
‫کی شکل تبدیل] کرکے حد سے زیادہ نمک اور دیگر مصالحے شامل کیے جائیں۔‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ کووڈ ایک متعدی مرض ہے جو نمونیا یا دیگر اقسام کے نظام تنفس‬
‫کے امراض سے ملتا جلتا ہے‪ ،‬ہم جانتے ہیں کہ مدافعت اس طرح کے کچھ متعدی امراض‬
‫سے لڑنے کے لیے صالحیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ تھی کہ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ غذا کووڈ سے بچانے میں‬
‫کس حد تک کردار ادا کرتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ غذا مدافعت پر اثرانداز ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر تحقیقی کام میں کووڈ سے شکار ہونے کے بعد لوگوں پر مرتب‬
‫ہونے والے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے مگر وزن سے ہٹ کر خطرے کے عناصر‬
‫پر زیادہ کام نہیں کیا گیا۔‬
‫اس تحقیق کے لیے یوکے بائیو بینک ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا‪ ،‬جس میں دوہزار چھ سے‬
‫دوہزار دس تک اور پھر مارچ سے نومبر دو ہزار بیس تک کووڈ کی وبا کے دوران غذائی‬
‫رویوں کو دیکھا گیا تھا۔‬
‫محققین نے ایسی غذاؤں پر خاص توجہ دی جن کے بارے میں ماضی میں انسانوں اور‬
‫جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں یہ ثابت ہوچکی تھی کہ وہ قوت مدافعت پر‬
‫اثرانداز ہوتی ہیں‬
‫تحقیق میں لگ بھگ اڑتیس ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے کووڈ ٹیسٹ ہوئے تھے‬
‫اور سترہ فیصد میں بیماری کی تشخیص ہوئی تھی‪ ،‬محققین نے دریافت کیا کہ غذا ممکنہ‬
‫طور پر کووڈ سے بچانے میں معتدل تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔‬
‫مثال کے طور پر دن بھر میں ایک یا اس سے زیادہ کپ کافی پینے والے افراد کووڈ سے‬
‫متاثر ہونے کا خطرہ اس گرم مشروب سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں ‪ 10‬فیصد تک‬
‫کم ہوجاتا ہے‪،‬اسی طرح دن بھر کی غذائی کیلوریز کا کم از کم دوتہائی حصہ سبزیوں‬
‫(بشمول ٓالو) پر مبنی ہونا بھی کووڈ کا خطرہ کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں پراسیس گوشت کا استعمال بھی‬
‫کووڈ کا خطرہ بڑھا دیتا ہے‪ ،‬اسی طرح بچپن میں ماں کے دودھ پر پرورش سے بھی‬
‫بلوغت میں کووڈ کے خطرے میں دس فیصد کمی کو دریافت کیا گیا۔‬
‫یہ غذائی عناصر مختلف اثرات کیوں مرتب کرتے ہیں‪ ،‬یہ ابھی معلوم نہیں اور تحقیق میں‬
‫کوئی واضح تعلق ثابت نہیں کیا جاسکا۔‬
‫محققین کے مطابق کافی کووڈ سے تحفظ کیوں فراہم کرتی ہے اور چائے کیوں نہیں‪ ،‬اس‬
‫کی ممکنہ وجہ کافی میں کیفین کی بہت زیادہ مقدار ہونا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ تحقیق کے کچھ نتائج اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ اچھی غذائی عادات‬
‫کتنی اہمیت رکھتی ہیں‪ ،‬نہ صرف کووڈ ‪ 19‬کے لیے بلکہ مجموعی صحت کے لیے بھی۔‬
‫تاہم ان کا کہنا تھا کہ یقینا ً کافی اور سبزیاں کووڈ ‪ 19‬ویکسین اور دیگر احتیاطی تدابیر کا‬
‫متبادل نہیں‪ ،‬یہ تحقیق طبی جریدے جرنل نیوٹریشنز میں شائع ہوئے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/potato-helps-to-reduce-the-risk-of-corona/‬‬

‫ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کا کریں خاتمہ‬


‫جوالئی ‪25 2021 ،‬‬

‫خواہ مرد ہو یا عورت ہر انسان خوبصورت نظر ٓانا چاہتا ہے اور تروتازہ شاداب چہروں‬
‫کو ہی خوبصورت قرار جاتا ہے‪ ،‬اگر ِجلد صاف شفاف نکھری ہو مگر ٓانکھوں کے گرد‬
‫سیاہ حلقے موجود ہوں تو ایسے میں ساری شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے‪ ،‬سیاہ حلقوں کا‬
‫عالج گھر میں‪ ‬ہی دنوں‪ ‬کے اندر چند مفید ٹوٹکوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔‬
‫مارکیٹ میں ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے درجنوں کیمیکل سے لبریز‬
‫کریمیں دستیاب ہیں جو کہ قیمت پر مہنگی اور نتائج سے متعلق غیر مٔوثر ثابت ہوتی ہیں‪،‬‬
‫ان کریموں کے لگانے سے حلقوں پر کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑتا البتہ ٓانکھوں کی‬
‫صحت اور بینائی ضرور دأو پر لگ جاتی ہے‪ ،‬لہٰ ذا ان کریموں سے جان چھڑانے اور گھر‬
‫ہی میں اپنی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لیے سب سے پہلے سیاہ حلقے بننے کی‬
‫وجوہات جاننا الزمی ہے۔‬
‫ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقے کیوں بنتے] ہیں ؟‬
‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کے مطابق نیند کی کمی کے سبب ٓانکھوں کے گرد گہرے حلقے بن جاتے ہیں‬
‫جبکہ خواتین میں ہارمونز کی تبدیلی اور چڑچڑے پن‪ ،‬ذہنی دبأو کے سبب بھی سیاہ حلقے‬
‫پڑتے ہیں‪ ،‬اس کے عالوہ نشہ ٓاور ادویات کا زیادہ استعمال‪ ،‬سگریٹ نوشی‪ ،‬پانی کی کمی‬
‫اور غذائی کمی کے سبب بھی ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقے بن جاتے ہیں اور ٓانکھوں کی‬
‫خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے۔‬
‫مندرجہ ذیل تجویز کیے گئے چند مفید مشوروں سے ٓانکھوں کو سیاہ حلقوں سے نجات‬
‫دال کر خوبصورت بنایا جا سکتا ہے ۔‬
‫ٓانکھوں کے گرد بن جانے والے سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے سب سے سستا ترین طریقہ‬
‫زیادہ سے زیادہ پانی پینا ہے‪ ،‬دن میں تقریبا ً ‪ 8‬سے ‪ 12‬گالس پانی الزمی پئیں۔‬
‫ٓانکھوں کے گرد سیا حلقوں کا عالج ایلوویرا سے بھی کیا جا سکتا ہے‪ٓ ،‬انکھوں پر ایوویرا‬
‫جیل لگانے سے دھبے صاف اور ٓانکھیں بھی روشن دکھائی دیتی ہیں۔‬
‫ٓالؤوں کے قتلوں کو ٓانکھوں کے نیچے ہلکے ہاتھوں سے ملیں‪ ،‬کچھ دن بعد حلقے دور‬
‫ہوجائیں گے۔‬
‫پرسکون اور کم از کم ‪ 8‬گھنٹے کی نیند ضرور لیں۔‬
‫ذہنی دبأو‪ ،‬الجھأو اور پریشانیوں سے دور رہنے کی کوشش کریں۔‬
‫پودینے کے پتوں کا پیسٹ بنا کر ٓانکھوں پر لگانے سے ٓانکھوں کےگرد جلد کی رنگت‬
‫نکھر جاتی ہے‪ ،‬سیاہ حلقے دنوں میں ختم ہو جاتے ہیں۔سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے‬
‫ٹماٹر کا جوس پینا اور لگانا دونوں نہایت مفید ثابت ہوتا ہے‪ ،‬ٹماٹر کے رس میں دو بوند‬
‫لیموں کے رس کی مالئیں اور ٓانکھوں پر روئی کی مدد سے لگا لیں‪ ،‬سیاہ حلقے جلد دور‬
‫ہو جائیں گے۔کھیرے کے قتلے اپنی ٓانکھوں پر رکھ کر کم از کم ٓادھے گھنٹے یا ‪ 15‬سے‬
‫‪ 20‬منٹ کے لے سو جائیں یا ٓانکھیں بند کر لیں‪ ،‬یہ عمل روزانہ دہرائیں‪ٓ ،‬انکھوں کے گرد‬
‫جلد کی رنگت نکھر جائے گی۔‬
‫اسٹیل کا چمچ لیں اور رات میں اسے فریزر میں ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیں‪ ،‬صبح‬
‫اٹھنے کے بعد فریج سے چمچ نکال کر اپنی دونوں ٓانکھوں پر کچھ منٹ کے لیے اس سے‬
‫مساج کریں‪ ،‬اس عمل کو تین بار دہرائیں‪ ،‬حلقے دنوں میں غائب ہو جا ئیں گے۔‬
‫گرین ٹی کے ایک ٹی بیگ کو پانی میں بھگو کر فرج میں رکھ دیں‪ ،‬بعد میں اسے اپنی‬
‫ٓانکھوں پر رکھ دیں‪ ،‬اس عمل کو بار بار کرنے سے بہترین نتائج حاصل ہوں گے۔‬
‫ٓانکھوں‪ ‬کو چمکدار‪ ،‬خوبصورت بنانے اور سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے اپنی غذا کو‬
‫ٓائرن‪ ،‬وٹامن اے‪ ،‬سی اور ای سے بھرپور بنائیں‪ ،‬اس سے ٓانکھوں کی گرد سیاہ حلقوں سے‬
‫نجات حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی‬
‫‪https://jang.com.pk/news/961292‬‬
‫کیا ٓاپ میک اپ اتارنے کا صحیح طریقہ جانتی ہیں؟‬
‫جوالئی ‪26 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫عمدہ سے عمدہ میک اپ خریدنا اور اس کا استعمال کرنا ہر لڑکی کو‪ ‬پسند ہوتا ہے‪ ،‬میک‬
‫اپ کر لینے سے خواتین کی خوبصورتی پر جہاں چار چاند لگ جاتے ہیں اور چہرے کی‬
‫جلد پر چھوٹا موٹا عیب چھپ جاتا ہے وہیں اسے صحیح طریقے سے صاف نہ کرنے کی‬
‫صورت میں خوب سے خوب تر صاف اسکن بھی خراب اور ایکنی سے بھر جاتی ہے‪،‬‬
‫اسی لیے میک اپ لگانے کا ہنر سیکھنے سمیت اسے صاف کرنے کا طریقہ بھی ٓانا چا‬
‫ہیے۔‬
‫ماہری ِن جلدی امراض کی جانب سے تو میک اپ مثالً پرائمر‪ ،‬لیکوئیڈ فأونڈین‪ ،‬بیس‪ ،‬فیس‬
‫پاوڈر‪ ،‬بلش ٓان‪ ،‬مسکارہ‪ ،‬ہائی الئٹر‪ ،‬کنسیلر لگاناسختی سے منع کیا جاتا ہے مگر شوق کے‬
‫ٓاگے ڈاکٹرز کی کون سنتا ہے‪ ،‬اسی لیے خواتین میک اپ لگانے میں تو کوئی کوتاہی نہیں‬
‫برتتیں مگر اسے اتارنے میں ِجلد کی صحت دأو پر لگا دیتی ہیں جس کے سنگین نتائج‬
‫سامنے ٓاتے ہیں۔‬
‫ماہرین جلدی امراض و بیوٹیشنز] کی جانب سے میک اتارنے کا صحیح طریقہ اور اس‬
‫سے متعلق مشورے بتائے جاتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں‪ ،‬ان تجاویز پر عمل کر کے‬
‫میک لگانے کے باوجود جلد صاف ستھری اور شفاف رہے گی۔‬
‫ماہرین کے مطابق میک اپ تا دیر لگانے سے گریز کرنا چاہیے‪ ،‬اگر سارا دن میک اپ‬
‫کرنے کی ضرورت ہے تو اسے کم از کم ‪ 8‬گھنٹے بعد اسے فریش کر لیں یا پھر معیاری‬
‫میک اپ کا انتخاب کریں۔‬
‫میک اپ اتارنے کے لیے صرف ایک فیس واش سے چہرہ دھو لینے کا مطلب ہے کہ ٓاپ‬
‫نے اپنا میک اپنے چہرے پر اچھی طرح سے َمل لیا ہے اور مسام کو مزید بند کر دیا ہے ۔‬

‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫میک اپ لگانے سے چہرے کے مسام بند ہو جاتے ہیں اور پسینے کا اخراج رُک جاتا ہے‬
‫جس کے نتیجے میں دانے بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے‪ ،‬چہرے کے مسام میں میک اپ‬
‫اور پسینہ مل کر مسام پر اضافی چکناہٹ جمع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں کیل‪،‬‬
‫مہاسوں اور ایکنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق میک اپ ہٹانے میں کبھی دیر نہ کریں‪ ،‬جیسے ہی باہر سے گھر پہنچیں‬
‫یا تقریب ختم ہو اپنا میک اپ صاف کر لیں‪ ،‬میک اپ لگائے ہوئے رات سونے سے گریز‬
‫کریں۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ میک اپ جس پر ہزاروں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے ایسے ہی میک‬
‫ہٹانے کے لیے بھی معیاری پروڈکٹس کا استعمال کریں۔‬
‫اچھے برانڈ کا میک اپ ریموور یا پھر کسی صاف اور خالص تیل کا استعمال کیا جا سکتا‬
‫ہے جیسے کہ ناریل‪ ،‬بادام اور وٹامن ای ٓائل‪ ،‬ان ٓائل سے پوروں کی مدد سے چہرے اور‬
‫گردن پر مساج کریں اور روئی کی مدد سے چہرہ صاف کر لیں۔‬
‫میک اپ صاف کرتے ہوئے پہلے چہرے پر تیل سے مساج کریں‪ ،‬روئی کی مدد سے‬
‫صاف کریں اس کے بعد‪  ‬فیس واش سے چہرہ دھو لیں۔‬
‫میک اپ اتارنے کا عمل یہاں ختم نہیں ہوا ہے‪ ،‬اب اپنے چہرے پر کسی اچھے برانڈ کی‬
‫کلینزنگ ‪ 7‬منٹ اور اس کے بعد ہلکے ہاتھ اسکرب ضرور کریں۔‬
‫میک اپ اتارنے کے بعد کسی اچھے ٹونر کا استعمال الزمی کریں یا عرق گالب لگا لیں۔‬
‫میک اپ اتارنے کے ‪ 20‬سے ‪ 30‬منٹ بعد اپنی جلد کو موسچرائز کرنے کے لیے کسی‬
‫اچھے برانڈ کی کریم کا استعمال الزمی کریں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/961686‬‬

‫خلوی تجزیاتی ٹیکنالوجی سے تپ دق کو شکست دینے میں مدد مل‬


‫سکتی ہے‬

‫ویب ڈیسک‪  ‬‬
‫اتوار‪ 25  ‬جوالئ‪2021  ‬‬
‫سائنسدانوں نے ٹی بی بیکٹیریئم اور اس کے میزبان خلیات کے درمیان تعلقات کو سمجھنے‬
‫میں اہم کامیابی حاصل کی ہے‬

‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪ ‬ن‬
‫پ دق (ٹی بی) سے کئی محاذ پر شکست‬ ‫یویارک‪ :‬جدید ترین طریقہ عالج کے باوجود ہم ت ِ‬
‫کھارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک نئی خلوی تجزیاتی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جس کی‬
‫بدولت اس مرض کو قابو کرنے اور معالجے میں مدد مل سکتی ہے۔‬
‫کورنیل یونیورسٹی میں خردحیاتیات اور امیونولوجی کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ رسل اور ان کے‬
‫ساتھیوں نے انفرادی امنیاتی خلیات اور ٹی بی بیکٹیریا کے درمیان تعلق کو دریافت کیا ہے‬
‫۔ اس تحقیق سے ایک جانب تو ٹی بی کے مؤثر عالج میں مدد ملے گی اور دوم ٹی بی‬
‫ویکسن کا کام بھی ٓاگے بڑھے گا۔‬
‫کئی برس سے ڈاکٹر ڈیوڈ اور ان کے ساتھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٓاخر ٹی بی‬
‫ٹیوبرکلوسس· (ایم ٹی بی) ایسے خلیات میں کیوں جا بیٹھتا‬
‫ِ‬ ‫کا بیکٹیریا‪ ،‬یعنی مائیکوبیکٹیریئم‬
‫ہے جو عام طور پر امنیاتی خلیات یعنی میکروفیجز ہوتے ہیں؟‬
‫اس ضمن میں نئی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جو بیکٹیریا اور اس کے میزبان (خلئے)‬
‫کے درمیان تعلق سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ پہلے طریقے میں ٓار این اے سیکوینسنگ‬
‫اور سنگل سیل ٓار این اے سیکوینسنگ سے مدد لی گئی۔ دوسرے طریقے میں ایم ٹی بی‬
‫بیکٹیریئم کو اس طرح تبدیل کیا گیا کہ وہ مختلف ماحول میں مختلف قسم کی روشنی خارج‬
‫کرتا ہے اور اس تبدیل شدہ بیکٹیریئم کو رپورٹر بیکٹریئم کا نام دیا گیا ہے۔‬
‫پھر رپورٹر بیکٹیریئم سے چوہوں کو ٹی بی کی بیماری دی گئی۔ اس کے بعد چوہے کے‬
‫پھیپھڑے سے کئی متاثرہ میکروفیجز نکالے گئے۔ پھر ہر خلئے کو دیکھ کر اندازہ لگایا گیا‬
‫کہ کون ٹی بی کے رپورٹر جراثیم سے زیادہ متاثر ہے اور کون کم متاثر ہورہا ہے۔ اس کا‬

‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ادراک خارج ہونے والی روشنی کی بنا پر کیا گیا۔اگلے مرحلے میں ان کا ٓاراین اے تجزیہ‬
‫کیا گیا تاکہ ہر انفرادی میزبان خلیے کی جینیاتی ترکیب سامنے ٓاسکے۔ معلوم ہوا کہ ایک‬
‫خلئے کے جین نے بیکٹیریا کو بڑھایا تو دوسرے خلیے کے جین نے بیکٹیریا کی نشوونما‬
‫روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بالشبہ یہ ایک بہت اہم دریافت ہے۔‬
‫اس طرح ٹی بی کے پھیالؤ کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور ان خلیات پر کئی مرکبات‬
‫ٓازما کر ہم جلد یا بدیر ٹی بی ویکسین تک پہنچ سکتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2204877/9812/‬‬

‫کورونا ویکسین نہ لگوانے والوں کے بچے بھی کو ِوڈ ‪ 19‬سے متاثر‬


‫ہوسکتے ہیں‪ ،‬ماہرین‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬اتوار‪ 25  ‬جوالئ‪2021  ‬‬

‫کورونا وائرس بچوں کے پھیپھڑوں اور گردوں کے عالوہ دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬کھال‪ٓ ،‬انکھوں اور‬
‫نظام ہاضمہ تک کو متاثر کرسکتا ہے‬
‫ِ‬

‫تحقیقات | ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیوزیانا‪ :‬امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بڑوں نے کورونا ویکسین نہ لگوائی‬
‫تو ان کے بچے بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ ان کی تعداد میں اضافہ‬
‫بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫نیو اورلینز‪ ،‬لیوزیانا میں ٹیولین یونیورسٹی اسکول ٓاف میڈیسن کے ڈاکٹر شیفلین اور ان‬
‫کووڈ ‪ 19‬عالمی وبا سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے‬ ‫کے ساتھیوں امریکا میں ِ‬
‫بعد انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے بچوں کی نمایاں تعداد کا تعلق‬
‫ان گھرانوں سے ہے جہاں خاندان کے بڑوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔‬
‫واضح رہے کہ اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد بہت کم رہی ہے لیکن‬
‫حالیہ مہینوں کے دوران اس تعداد میں ہونے والے اضافے کو تشویشناک قرار دیا جارہا‬
‫ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسین ٹاسک فورس‘‘ کے‬ ‫’’امریکن کالج ٓاف الرجی ایستھما اینڈ امیونولوجی ِ‬
‫کووڈ ‪ 19‬وبا کے ٓاغاز سے اب تک ‪40‬‬ ‫سربراہ ڈاکٹر نیرج پٹیل کے مطابق‪ ،‬امریکا میں ِ‬
‫الکھ‪ 87 ،‬ہزار ‪ 916‬بچے کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے ‪ 10,628‬بچوں‬
‫کی موت واقع ہوچکی ہے۔‬
‫ڈاکٹر پٹیل نے خبردار کیا ہے کہ بچوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح‬
‫بتدریج بڑھ رہی ہے‪ ،‬البتہ یہ عالمات بڑوں کے مقابلے میں خاصی مختلف اور پیچیدہ بھی‬
‫ہوسکتی ہیں۔‬
‫بچوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی عالمات کو مجموعی طور پر ’’ملٹی سسٹم‬
‫انفلیمیٹری سنڈروم اِن چلڈرن‘‘ (‪ )MIS-C‬بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫’’ایم ٓائی ایس سی‘‘ میں مختلف جسمانی اعضاء کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد‬
‫تکلیف میں مبتال ہوجاتے ہیں۔‬
‫نظام ہاضمہ تک‬‫ِ‬ ‫ان میں پھیپھڑوں اور گردوں کے عالوہ دل‪ ،‬دماغ‪ ،‬کھال‪ٓ ،‬انکھیں اور‬
‫شامل ہوسکتے ہیں؛ جبکہ ’’ایم ٓائی ایس سی‘‘ شدید ہونے پر بچے کی موت بھی واقع‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫کورونا ویکسین دستیاب ہونے کے باوجود‪ ،‬دنیا بھر میں ویکسین نہ لگوانے والوں کی‬
‫اکثریت ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے کورونا ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں۔‬
‫نوٹ‪ :‬اس خبر کی معلومات طبّی ویب سائٹ ’’ہیلتھ الئن‘‘ پر شائع شدہ ایک‪ ‬حالیہ‬
‫رپورٹ‪ ‬سے لی گئی ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2205358/9812/‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کا شکار ہونے کا خطرہ کم کرنے میں مددگار ممکنہ غذائیں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫جوالئ ‪25 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪100‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫زیادہ مقدار میں سبزیاں کھانا اور کافی پینے کی عادت صحت کے لیے مفید ہونے کے‬
‫ساتھ کووڈ ‪ 19‬کا شکار ہونے سے بھی کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سبزیاں کھانا اور کافی پینا کووڈ کا‬
‫خطرہ کسی حد تک کم کرنے میں مددگار غذائی عادات ثابت ہوسکتی ہیں۔‬
‫اس کے مقابلے میں پراسیس گوشت کے کھانے کا شوق کورونا وائرس کا شکار ہونے کا‬
‫خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔‬
‫تحقیق میں دیگر غذائیں بشمول پھل‪ ،‬چائے اور سرخ گوشت کو بھی شامل کیا گیا تھا‪ ،‬مگر‬
‫ان کا کوئی منفی یا مثبت اثر دریافت نہیں ہوسکا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ کووڈ ایک متعدی مرض ہے جو نمونیا یا دیگر‬
‫اقسام کے نظام تنفس کے امراض سے ملتا جلتا ہے‪ ،‬ہم جانتے ہیں کہ مدافعت اس طرح کے‬
‫کچھ متعدی امراض سے لڑنے کے لیے صالحیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ تھی کہ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ غذا کووڈ سے بچانے میں‬
‫کس حد تک کردار ادا کرتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ غذا مدافعت پر اثرانداز ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪101‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر تحقیقی کام میں کووڈ سے شکار ہونے کے بعد لوگوں پر مرتب‬
‫ہونے والے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے مگر وزن سے ہٹ کر خطرے کے عناصر‬
‫پر زیادہ کام نہیں کیا گیا۔‬
‫اس تحقیق کے لیے یوکے بائیو بینک ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا‪ ،‬جس میں ‪ 2006‬سے ‪2010‬‬
‫تک اور پھر مارچ سے نومبر ‪ 2020‬تک کووڈ کی وبا کے دوران غذائی رویوں کو دیکھا‬
‫گیا تھا۔‬
‫محققین نے ایسی غذاؤں پر خاص توجہ دی جن کے بارے میں ماضی میں انسانوں اور‬
‫جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں یہ ثابت ہوچکی تھی کہ وہ قوت مدافعت پر‬
‫اثرانداز ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں لگ بھگ ‪ 38‬ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے کووڈ ‪ 19‬ٹیسٹ ہوئے تھے‬
‫اور ‪ 17‬فیصد میں بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ غذا ممکنہ طور پر کووڈ سے بچانے میں معتدل تحفظ فراہم‬
‫کرسکتی ہے۔‬
‫مثال کے طور پر دن بھر میں ایک یا اس سے زیادہ کپ کافی پینے والے افراد کووڈ سے‬
‫متاثر ہونے کا خطرہ اس گرم مشروب سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں ‪ 10‬فیصد تک‬
‫کم ہوجاتا ہے۔‬
‫اسی طرح دن بھر کی غذائی کیلوریز کا کم از کم دوتہائی حصہ سبزیوں (بشمول ٓالو) پر‬
‫مبنی ہونا بھی کووڈ کا خطرہ کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں پراسیس گوشت کا استعمال بھی‬
‫کووڈ کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔‬
‫بچپن میں ماں کے دودھ پر پرورش سے بھی بلوغت میں کووڈ کے خطرے میں ‪ 10‬فیصد‬
‫کمی کو دریافت کیا گیا۔‬
‫یہ غذائی عناصر مختلف اثرات کیوں مرتب کرتے ہیں‪ ،‬یہ ابھی معلوم نہیں اور تحقیق میں‬
‫کوئی واضح تعلق ثابت نہیں کیا جاسکا۔‬
‫محققین کے مطابق کافی کووڈ سے تحفظ کیوں فراہم کرتی ہے اور چائے کیوں نہیں‪ ،‬اس‬
‫کی ممکنہ وجہ کافی میں کیفین کی بہت زیادہ مقدار ہونا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ تحقیق کے کچھ نتائج اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ اچھی غذائی عادات‬
‫کتنی اہمیت رکھتی ہیں‪ ،‬نہ صرف کووڈ ‪ 19‬کے لیے بلکہ مجموعی صحت کے لیے بھی۔‬
‫تاہم ان کا کہنا تھا کہ یقینا ً کافی اور سبزیاں کووڈ ‪ 19‬ویکسین اور دیگر احتیاطی تدابیر کا‬
‫متبادل نہیں۔اس تحقیق کے لیے طبی جریدے جرنل نیوٹریشنز میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1164844/‬‬

‫تحقیقات | ‪102‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۹ | ۱۳۴‬جوالئ ‪۲۱‬۔ ‪ ۲۵‬جوالئ ‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

You might also like