Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 29) 19 July 2021-25 July 2021 - Issue 134 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 29) 19 July 2021-25 July 2021 - Issue 134 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 29) 19 July 2021-25 July 2021 - Issue 134 - Vol 5
تحقیقات | 1 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ت
حق ق
طِب ّی ی ات
تفصیل
برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی معلومات کے لئے
تحقیقات | 2 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
Mujahid Ali 0333 457 6072
meritehreer786@gmail.com
www.alqalam786.blogspot.com
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کورونا وائرس سے لگنے والی بیماری کووڈ کی نئی عالمات کیا ہیں؟
24.07.2021
کووڈ ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا سامنا ہم عالمی وبا کے آغاز
کیسے معلوم ہو کہ مجھے ِ
سے اب تک مسلسل کر رہے ہیں اور حتمی درست جواب سے ہم واقف نہیں۔ ایسے میں
عام زکام کو بھی سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
کووڈ انیس کی عمومی عالمات تھیں۔ ان کے عالوہ سر 2020 میں خشک کھانسی اور بخار ِ
درد اور جوڑوں میں تھکاوٹ کی عالمات زکام جیسی کیفیت سے ملتی جلتی تھیں۔ گلے
میں خراش اور ہلکا سا زکام ،یہ عالمات نزلے کی طرح کی تھیں۔ عالمی وبا کے آغاز پر
کووڈ انیس کی بیماری کو اسی طرح سادہ الفاظ میں بیان کیا جاتا رہا ہے۔ پھر اس انفیکشن
ِ
سے متعلق یہ پتا چال کہ بعض صورتوں میں اس کا شکار شخص سونگھنے اور چکھنے
کی حس بھی کھو بیٹھتا ہے۔ یہ بات اب بھی ایک طرح سے طے ہے کہ جب کوئی شخص
کووڈ کی انتباہی گھنٹی ہی
اپنے سونگھنے یا چکھنے کی حس میں تبدیلی دیکھے ،تو اسے ِ
سمجھے۔
تحقیقات | 3 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دیگر عالمات کے مقابلے میں معاملہ مختلف ہے۔ محققین خون کے گروپ کے ساتھ اس
وائرس کی عالمات کے تعلق اور تنوع پر کام کر رہے ہیں۔ عالمات کا انحصار اس بات پر
بھی ہوتا ہے کہ آیا متاثرہ شخص ویکسین کا حامل ہے یا متاثرہ شخص پر کورونا کے کس
ویریئنٹ نے حملہ کیا ہے۔ اس کے عالوہ کسی شخص کی عمر ،طبی حالت اور صحت
سے جڑے دیگر امور بھی ممکنہ عالمات طے کرتے ہیں۔
پانچ نئی اہم عالمات
برطانیہ میں ہونے والی ایک تازہ تحقیق میں ایک ایپ کے ذریعے کورونا وائرس کے
شکار افراد کی رائے لی گئی۔ اس تحقیق کے مطابق کورونا وائرس کی عالمات بہ ظاہر
تبدیل ہوئی ہیں۔ ممکن ہے کہ اس وقت برطانیہ میں 99فیصد انفکیشن کی وجہ ڈیلٹا
ویریئنٹ ہو۔
کورونا ،زکام اور نزلے کی عالمات اور فرق
مکمل طور پر ویکسینیٹڈ افراد میں عالمات
اس ایپ کے ذریعے کورونا وائرس کے شکار تمام تر افراد نے اپنی اپنی عالمات محققین
کے ساتھ شیئر کیں مگر اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسے افراد جو ویکیسین لگوا
چکے تھے ،ان میں یہ عالمات بہت کم دیکھی گئیں ،جس سے نظر آتا ہے کہ ویکسینیشن
کے بعد اس وائرس کا نشانہ بننے والے افراد جلد صحت یاب ہوئے اور شدید بیمار نہ
ہوئے۔
تحقیقات | 4 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس مطالعاتی رپورٹ کے مطابق ویکسینیٹڈ افراد بھی اس وائرس کا نشانہ بن سکتے ہیں
مگر ایسے افراد میں عالمات نہایت کم ہوتی ہیں اور یہ کہ ویکسین اس وائرس کی وجہ
سے جان کو الحق خطرے جیسی خطرناک صورت حال سے بچا لیتی ہے۔
سر میں درد ،بہتی ناک ،چھینکیں ،خراب گال اور سونگھنے کی حس کھو دینا عام عالمات
ہیں۔ اسی وجہ سے عام افراد ان دونوں میں بروقت فرق نہیں کر سکتے۔ ماہرین کا کہنا ہے
کہ ممکنہ طور پر یہی بات برطانیہ میں ڈیلٹا وائرس کے پھیالؤ کی وجہ بھی ہو سکتی ہے۔
تحقیقات | 5 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویکسین نہیں لگی ،تو عالمات کیا رہیں؟
اس مطالعاتی رپورٹ کے مطابق کئی عالمات پچھلے برس کے مقابلے میں مختلف ہیں،
مگر کئی ایسی ہیں جو تبدیل نہیں ہوئیں۔
سر میں درد ،خراب گھال ،بہتی ناک ،بخار اور مسلسل کھانسی اس وقت اس بیماری کی
عمومی عالمات ہیں۔ عالمات کی فہرست میں خوشبو یا بدبو سونگھنے کا احساس ختم ہو
جانا اب عالمات کی فہرست میں نویں نمبر پر ہے جب کہ سانس لینے میں مشکل کی
عالمت اس فہرست میں تیسویں نمبر پر پہنچ چکی ہے۔
پریشان مت ہوں
کورونا وائرس اپ ڈیٹ سے متعلق ایک پوڈکاسٹ میں جرمن وائرولوجسٹ کرسٹیان
ڈروسٹن نے اس مطالعے کے نتائج بیان کیے۔ ڈروسٹن نے کہا کہ معمر افراد کی بڑی
تعداد چوں کہ ویکسین لگوا چکی ہے ،اس لیے ان میں اس وائرس کی عالمات پچھلے
برس کے مقابلے میں مختلف ہیں۔ تاہم نوجوانوں میں کورونا وائرس ایک عام زکام کی
طرز کی عالمات کا حامل ہے ۔ انہیں سر میں درد ،گلے میں خراش اور قدرے بخار جیسی
عالمات کا سامنا بھی ہوتا ہے۔
ڈروسٹن نے کہا کہ سب سے بہتر اور قابل بھروسا حل یہی ہے کہ جہاں آپ کو شک
ﹰ ٹیسٹ کریں۔ محسوس ہو ،آپ فورا
https://www.dw.com/ur/%DA
%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-
%D9%88%D8%A7%D8%A6%D8%B1%D8%B3-%D8%B3%DB%92-
%D9%84%DA%AF%D9%86%DB%92
ویب ڈیسک
استنبول :کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے متعدد ممالک نے ویکسینز] تیار کی ہیں ،ان
ویکسینز] کو عالمی سطح پر قابل استعمال قرار دیتے ہوئے عوام کو ویکسینیٹ بھی کیا جا
رہا ہے۔
اس حوالے سے چینی کمپنی سائنو ویک کی تیار کردہ کوویڈ 19ویکسین بیماری سے
تحفظ فراہم کرنے کے لیے 83.5فیصد تک مؤثر ہے۔ یہ بات ترکی میں جاری اس ویکسین
کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے عبوری نتائج میں سامنے ٓائی۔طبی جریدے دی النسیٹ
تحقیقات | 6 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
میں شائع نتائج میں دریافت کیا گیا کہ یہ ویکسین کوویڈ 19سے متاثر ہونے پر اسپتال میں
داخلے کے خطرے سے سو فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے۔ سائنوویک کی کورونا ویک نامی
ویکسین ناکارہ کورونا وائرس پر مبنی ہے جو اپنی نقول نہیں بناسکتا۔
تاہم مدافعتی نظام کو اس ناکارہ وائرس کی بنیاد پر اینٹی باڈیز بنانے کی تربیت دی جاسکتی
ہے یعنی اگر ویکسنیشن کے بعد کسی فرد کو وائرس کا سامنا ہوتا ہے تو اس کا جسم
بیماری یا اس کی شدت کم کرنے کے لیے زیادہ بہتر مزاحمت کرسکتا ہے۔
کورونا ویک کو پاکستان سمیت 37ممالک میں ہنگامی استعمال کی منظوری دی جاچکی
ہے اور عالمی ادارہ صحت نے بھی یکم جون 2021کو اس کی ہنگامی منظوری دی تھی
تاہم کورونا ویک کے ٹرائلز کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔
تازہ ترین نتائج ترکی میں ویکسین کے تیسرے مرحلے کے ٹرائل کے تھے جو ایک
کنٹرول ڈبل بالئنڈ رینڈمائزڈ ٹرائل تھا جس میں 10ہزار 29افراد کو شامل کیا گیا تھا۔ ان
افراد کو یا تو ویکسین کی 2خوراکیں 14دن کے وقفے سے استعمال کرائی گئیں یا پلیسبو
کا استعمال کرایا گیا۔
ٹرائل میں شامل رضاکاروں کی عمریں 18سے 59سال کے درمیان تھیں اور ایسے افراد
کو شامل نہیں کیا گیا جو یا تو ماضی میں کوویڈ سے متاثر ہوئے یا مدافعتی نظام دبانے
واال عالج کرارہے تھے۔
اسی طرح حاملہ یا بچوں کو دودھ پالنے والی خواتین ،ویکسین میں موجود اجزا سے
الرجک افراد یا ٓاٹو امیون امراض کے شکار افراد کو بھی ٹرائل کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
محققین نے رضاکاروں میں کوویڈ کی روک تھام کی تصدیق کے لیے ویکسین کی دوسری
خوراک کے کم از کم 14دن بعد پی سی ٓار ٹیسٹ کیا۔
اس کے بعد 43دن تک ان کا جائزہ لیا گیا اور محققین اس دورانیے کو بڑھانا چاہتے تھے
تاہم ترکی میں ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے بعد اسے روک دیا گیا۔
تحقیقات | 7 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تمام تر ڈیٹا کے تجزیے کے بعد محققین نے دریافت کیا کہ کورونا ویک کوویڈ کی عالمات
والی بیماری سے تحفظ فراہم کرنے میں 83.5فیصد تک مؤثر ہے۔
ویکسین گروپ میں شامل 6559افراد میں سے 9میں دوسری خوراک کے استعمال کے
14دن بعد عالمات والی بیماری کی تشخیص ہوئی۔ اس کے مقابلے میں پلیسبو گروپ کے
3470میں سے 32کو بیماری کا سامنا ہوا۔
ڈیٹا کے مطابق ویکسین سے کوویڈ سے ہسپتال میں داخلے سے 100فیصد تحفظ مال ،تاہم
محققین کا کہنا تھا کہ ٹرائل میں صرف 6افراد کووڈکے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے جو
پلیسبو گروپ سے تھے جبکہ ویکسین گروپ سے کسی کو داخل نہیں ہونا پڑا۔
ٹرائل میں کورونا ویک انتہائی محفوظ ویکسین بھی ثابت ہوئی ،ویکسین گروپ کے صرف
19فیصد افراد نے مضر اثرات کو رپورٹ کیا۔
ان میں سے 90فیصد سے زیادہ میں یہ اثرات معمولی تھے اور 50فیصد سے زیادہ کو ان
کا سامنا ایک دن سے زیادہ نہیں کرنا پڑا۔ محققین کا کہنا تھا کہ دنیا کو کوویڈ کے خالف
کسی بھی محفوظ اور مؤثر ویکسین کی ہر خوراک کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا ویک عالمات والی بیماری اور
اسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے ،جبکہ 18سے 59سال کی
عمر کی ٓابادی کے لیے محفوظ بھی ہے۔
تاہم یہ ٹرائل کچھ پہلوؤں کے حوالے سے محدود ہے اور محققین کے مطابق اس تجزیے
میں جوان اور کم خطرے سے دوچار ٓابادی کو شامل کیا گیا جبکہ فالو اپ کا دورانیہ بھی
بہت مختصر تھا۔
تحقیقات | 8 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے کہا کہ ویکسین سے ملنے والے تحفظ کی افادیت کو جاننے کے لیے مزید ڈیٹا
کی ضرورت ہے جبکہ معمر افراد ،بچوں ،نوجوانوں اور دائمی امراض کے شکار افراد
میں اس کے محفوظ ہونے اور افادیت کی جانچ پڑتال کی جانی چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کی نئی اقسام کے خالف بھی اس کی افادیت کی جانچ
پڑتال کرنے کی ضرورت ہے
https://urdu.arynews.tv/sinovac-corona-vaccine-researchers/
19/07/2021
ہارمونز انسانی جسم کے اندر موجود وہ اہم کیمیائی اور طبعی اجزاء سمجھے جاتے ہیں
جن کے کام میں ایک سیکنڈ کی بھی تبدیلی ٓاجائے تو انسانی جسم ایک نہیں دس بیماریوں
میں مبتال ہو جاتا ہے جس کا سب سے زیادہ اثر خواتین کی صحت پر پڑتا ہے اور نہ
صرف ماہواری سائیکل میں پیچیدگیاں ٓاتی ہیں بلکہ جلد بھی خراب ہونے لگتی ہیں۔ ٓاج
وومن سیکشن میں ہم ٓاپ کو وہ 5عالمات بتانے جا رہے جن کے سامنے ٓاتے ہی ٓاپ کو
اپنا ہارمونز ٹیسٹ الزمی کروالینا چاہیئے کیونکہ ان کی
تحقیقات | 9 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
موجودگی اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ ٓاپ کو پی سی او بھی ہوسکتا ہے۔عالمات:٭ چہرے
پر بالوں کی نشوونما ہونے لگے یا اگر ہلکے بال چہرے پر پہلے سے ہیں تو ان کی تعداد
میں اضافہ ہونے لگے ،یہ موٹے ہوجائیں تو الزمی ڈاکٹر کا رخ کرلیں ۔٭ ایکنی کے مسائل
بڑھ رہے ہیں ،جس پر جگہ جگہ ایکنی نکل رہی ہے یا چہرے پر ہی زیادہ ہو جائے تو
ہارمونز ٹیسٹ کروائیے ،خواتین کے ہارمونز میں اگر معدے کی گرمی شامل ہونے لگے
تو یہ اس بات کی جانب اشارہ ہے کہ اووریولز کا مسئلہ بڑھ رہا ہے۔
٭ جسم کے اندرونی حصے ،گردن ،کہنی ،ٹخنے کالے اور ٓانکھوں کے نیچے کالے گہرے
پڑ رہے ہیں تو انسولین ٹیسٹ بھی کروائیں اور پی پی ٹی کے ساتھ ڈاکٹر کے مشورے سے
اندرونی ٹیسٹ کروائیں ،جسم میں انسولین کی مقدار بڑھنے سے بھی خواتین کے ساتھ
ہارمونز کے مسئلے بڑھتے ہیں۔٭ گٹھنوں کا درد اور ماہواری کے وقت پر نہ ہونے اور
خون کی رنگت کے زرد یا بالکل برأون ہونے پر احتیاط الزمی ہے ،اس کی وجہ یہ ہے
پی سی اوز خواتین کی اندرونی صحت کو بالکل ختم کردیتا ہے اور ان کا جسم دیگر
اضاگی ہارمونز کیمیکلز کی بدولت کام کرتا ہے جس سے جگر پر بھی اثر پڑ سکتا ہے۔٭
سر کے بال تیزی سے گر رہے ہیں ،گنج پن ٓا رہا ہے ،بریسٹ میں کھچأو محسوس ہو رہا
ہے تو یہ ہارمونز کی سب سے زیادہ پیچیدہ بیماری اور اووری کے کینسر کی اہم وجوہات
بھی ہوسکتی ہیں۔ اس لئے احتیاط اور عالج وقت پر کریں۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-115914.html
عید االضحی پر گوشت کو فوراً ہضم کرنے اور بد ہضمی سے بچنے کا
ٓاسان سا نسخہ
20/07/2021
عام طور پر سُرخ گوشت زیادہ کھانے سے بہت سے لوگ بد ہضمی جیسی بیماریوں کا
شکار ہو جاتے ہیں اور پیٹ خراب کی شکایت کرتے نظر ٓاتے ہیں ،ان طریقو ں کی مدد
سے جہاں ٓاپ بد ہضمی سے بچ سکیں گے وہاں ٓاپکا نظام انہظام بہتر طور پر کام کرے گا
اور پیٹ کی
صفائی ہو جائے گی۔ ڈائیٹری فائبر گوشت کے ساتھ ایسے کھانے جن میں فائبر کی مقدار
زیادہ ہو جیسے سبز سالد ،جو کا ٓاٹا ،فروٹس ،سبزیاں وغیرہ کا استعمال زیادہ کریں خاص
طور پر اسپغول کےچھلکے کا استعمال کریں کیونکہ اسکے اندر فائبر کی کافی مقدار ہوتی
ہے ،فائبر ٓاپکے نظام انہظام کو بہتر بناتی ہے اور قبض جیسی بیماریوں سے بچاتی ہے یہ
معدے سے پانی کو جذب کرکے وزن پیدا کرتی ہے۔ دہی دہی گوشت کھانے کے ساتھ دہی
کا استعمال زیادہ سے زیادہ کریں یہ ٓاپ کے جسم میں دوست بیکٹریا کی تعداد کو بڑھائے
گا اور معدے میں انفیکشن پیدا ہونے سے روکے گا اور گوشت کو تیزی سے ہضم کرنے
میں انتہائی مددگار ثابت ہو گا۔ املی ٓالو بُخارے کا پانی املی اور ٓالو بخارے کو رات کو
تحقیقات | 10 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بھگو دیں اور گوشت کھانے سے پہلے اس پانی کو پی لیں ،یہ ٓاپ کی خوراک کو جلد
ہضم کرنے میں انتہائی مدد گار ثابت ہو گا اور ٓاپ کو تیزابیت جیسی بیماریوں سے محفوظ
رکھے گا۔ کم مصالحے والے کھانے گوشت کو پکاتے وقت بازاری تیز مصالحوں کا
استعمال نہ کریں اور گوشت کو لہسن ،ادرک ،ٹماٹر وغیرہ کے ساتھ پانی میں گالئیں اور
گوشت میں گھی وغیرہ ڈال کر مت بھونیں تاکہ ٓاپ کا پیٹ خراب نہ ہو اور ٓاپ کے معدے
کو گوشت کو ہضم کرنے میں مشکل نہ ہو۔ پیٹ بھر کر مت کھائیں مزیدار کھانا دیکھ کر
کھانے کو جی چاہتا ہے مگر اگر ایسا کھانا بیمار کردے تو سارا مزہ کرکرا ہوجاتا ہے اس
لیے پیٹ بھر کر کھانا مت کھائیں تاکہ معدے کو کھانا ہضم کرنے میں ٓاسانی ہو
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116020.html
ٰ
االضحی پر چند ایسی باتیں جن کا ہم خیال نہیں رکھتے اور معدے عید
اور پیٹ کی بیماری میں مبتال ہوجاتے ہیں
12:31 pm 20/07/2021
االضحی ایک طرف تو سنت ابراہیمی کی تکمیل کرنے اور ٰ اسالم ٓاباد(نیو زڈیسک)عید
تعالی کی رضا
ٰ غریب و نادار افراد کو اپنے دستر خوان میں شریک کرنے کے ذریعے ہللا
و خوشنودی حاصل کرنے کا موقع ہے تو دوسری جانب اس روز دوستوں رشتہ داروں
سے مل بیٹھنے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔
االضحی تو
ٰ جب سب مل بیٹھیں تو مزے مزے کے کھانوں کا اہتمام کیوں نہ ہو ،اور عید
ہے بھی مزیدار پکوان بنانے کا نام ،تو ایسے موقع پر دستر خوان پر ہاتھ روکنا مشکل
ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسے میں بے احتیاطی ٓاپ کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔چونکہ عید
کے دنوں میں مرغن اور مصالحہ دار پکوان بہت زیادہ کھانے میں ٓاتے ہیں تو ایسے میں
معدے اور پیٹ کی تکلیف میں مبتال ہوجانا ایک عام بات ہے۔ اسی صورتحال سے بچنے
کے لیے ہم ٓاپ کو کچھ مفید تجاویز بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر ٓاپ کسی تکلیف میں مبتال
ہوئے بغیر دعوتیں اڑا سکتے ہیں۔رواں برس عید پر بارشوں کا سیزن ہے،
ایسے موسم میں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات ہوجاتی ہے جس سے مختلف وبائی
امراض پھیلنے لگتے ہیں ،ل ٰہذا نہ صرف گھر کو صاف ستھرا رکھنا ضروری ہے بلکہ
کھانا بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق اپنے گھر سے باہر گلیوں اور محلوں کی
صفائی کرنا بھی نہ بھولیں اور قربانی کے بعد فوری طور پر ٓاالئشوں کو ٹھکانے لگا کر
صفائی کریں اور جراثیم کش ادویات کا چھڑکأو کریں۔دن کے وقت عزیز و اقارب سے
تحقیقات | 11 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ملنے کے لیے یا سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہوئے یا پھر قربانی کا فریضہ انجام دیتے
ہوئے سخت مصروفیت کے دوران پانی پینا نہ بھولیں۔ دن بھر کی مصروفیت میں پانی کی
کمی طبیعت خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔اگر ٓاپ خاتون خانہ ہیں اور اپنے گھر میں ایک
شاندار سی دعوت کا اہتمام کر رہی ہیں تو سالد کو مینیو کا الزمی جز رکھیں۔ مختلف
سبزیوں پر مشتمل سالد یقینا ً کھانے کی تیزی کو کم کرنے میں مدد دے گا۔کھانے کے ساتھ
کولڈ ڈرنک رکھنے سے گریز کری
ں۔ اس کی جگہ فریش جوسز رکھے جاسکتے ہیں۔ اگر ٓاپ کسی کے گھر مہمان بن کر
گئے ہیں تو کھانے کے بعد کولڈ ڈرنک کی جگہ ٹھنڈا پانی پئیں۔دعوت میں کھانے کے بعد
پھلوں سے بنا ہوا میٹھا دعوت کا مزہ دوباال کردے گا اور طبیعت پر بوجھ بھی نہیں بنے
گاعید کی تعطیالت میں جس دن کوئی دعوت نہ ہو اس دن کم مصالحوں کی سبزیاں یا دال
چاول بنائیں۔ یہ سادہ کھانا مسلسل کھائے جانے والے مرغن کھانوں کے منفی اثرات سے
نمٹنے میں مدد دے گا۔عید کی تعطیالت میں گھر پر رہتے ہوئے دہی اور لسی کو اپنے
کھانے کا حصہ بنا لیں۔
یہ ٓاپ کو گرمی اور مرغن کھانوں کے اثرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔دن کے
ٓاخر میں سونے سے قبل کھلی ہوا میں چند منٹ کی چہل قدمی نہایت فائدہ مند ثابت ہوگی
اور ٓاپ کے جسمانی نظام کو معمول کے مطابق رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگی
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116006.html
تحقیقات | 12 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لیموں کو چار حصوں میں کاٹ کر نمک چھڑک کر کچن میں رکھ دیں،
ایسا فائدہ ملے گا کہ ٓاپ خود حیران رہ جائیں گے
20/07/2021
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک) لیموں کو ہمیشہ گھروں میں سالد اور کھانوں کو لذیذ بنانے
کے لئے استعمال کیا جاتا ہے لیکن ٓاج ہم ٓاپ کو لیموں اور نمک کا ایسا فائدہ بتائیں گے کہ
ٓاپ بھی عش عش کراٹھیں گے۔ لیموں کو بیکٹیریا اور جراثیموں کومارنے کے لئے
استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر ٓاپ لیموں کو چار حصوں میں کاٹ کر اس پر نمک چھڑک
کراسے گھر میں رکھ دیں گے تو ٓاپ کو مندرجہ ذیل فوائد ملیں گے۔اس کی خوشبو کی
وجہ سے باورچی خانے اور گھر میں موجود ناگوار بدبو ختم ہوجائےگی۔
گھر میں تازگی کا احساس رہے گا اور بھینی بھینی خوشبو گھر کو معطر رکھے گی۔گھر
میں لیموں کی وجہ سے جراثیم ختم ہوں گے اور ٓاپ کا گھر بیکٹیریا سے پاک ہوجائے گا۔
مکھیاں اور مچھر اس ٹوٹکے کی وجہ سے گھروں سے دور بھاگ جائیں گے۔لیموں کی
وجہ سے گھر میں مثبت انرجی داخل ہوتی ہے اور ان کی موجودگی سے منفی توانائی گھر
سے نکل جاتی ہے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116025.html
اسالم ٓاباد(نیوز ڈیسک) کسی بیماری یا جسم میں گرمی کی وجہ سے زبان پر چھالے نکل
ٓاتے ہیں یا پھر منہ خشک رہنے لگتاہے ،ایسے میں ٓاپ کیلئے ٓاسان نسخہ اور ذکر پیش
خدمت ہے ،چاہے زبان پر چھالے ہوں یا منہ میں ،یاپھر پورامنہ ہی خشک رہتاہویاصرف
صرف زبان ،دونوں صورتوں
میں مفید ہیں۔ عالج 1( :ذرا سا کتھا انگلی پر لگا کر صبح شام 8سے 10دن تک چا ٹیں۔ (2
جو کا دلیہ پانی میں پکا کر دودھ اور شہد مال کرناشتے میں استعمال کریں۔ ( 3عرق سونف
دو گھونٹ کے برابر دن میںایک مرتبہ لیں۔ ذکر :تعداد ذکر 100یا سالم ،یا مومن ،یا ہللا
100یا رحمان ،یا رحیم ،یا کریم 100الحول و ال قوة اال باہلل 40ال ا لہ ہللا انت سبحانک
انی کنت من الظالمین یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ منہ میں بنے چھالوں کو نظرانداز نہ
کریں ،یہ کینسرکاسبب بھی بن سکتے ہیں
تحقیقات | 13 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116026.html
کیا ٓاپ بھی کلیجی کھانے کے شوقین ہیں؟ تو جانئیے کہ یہ کتنی فائدہ
مند یا نقصان دہ ہو سکتی ہے؟ کھانے سے پہلے ایک بار یہ ضرور
پڑھ لیں
22/07/2021
س
ب ہی گھرانوں میں عید قرباں کے موقعے پر جانور ہللا پاک کی راہ میں قربان کرنے کے
بعد سب سے پہلے کلیجی پکائی جاتی ہے اور تمام گھر والے مل کر اسے کھاتے ہیں اور
محظوظ ہوتے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریبا َ تمام ہی افراد کو جانوروں کے
گردوں ،دل ،دماغ ،اوجھڑی ،کلیجی ،زبان اور لبلبے کا گوشت کھانے کا شوق ہوتا ہے،
مگر وہیں کچھ افراد قربانی کے گوشت کے ان اعضاء کو صحت کے لیے نقصان دہ سمجھ
کر کھانے سے کتراتے ہیں۔ماہرین صحت کہتے ہیں کہ جانوروں کے ان اعضاء کا گوشت
ان کی ٹانگوں ،پٹھوں ،کمر اور پیٹ کے دیگر گوشت کے مقابلے میں زیادہ صحت مند اور
فائدہ مند ثابت
ہوتا ہے۔ ان تمام اعضاء میں گردوں ،دل ،دماغ ،اوجھڑی ،کلیجی ،زبان اور لبلبے میں
وٹامنز اور ٓائرن سمیت میگنشیئم ،سیلینیئم ،زنک اور دیگر غذائی اجزاء موجود ہوتے ہیں،
جو انسانی صحت اور مضبوط جسم کے لیے فائدہ مند ہوتے ہیں۔ہیلتھ جنرل میں شائع ہونے
والے ایک مضمون کے مطابق گائے ،بھیڑ ،بکری ،بھینس اور دیگر دودھ دینے والے
جانوروں سمیت مرغی اور بطخ جیسے پرندوں سے حاصل کردہ کلیجی ،گردوں ،دل،
تحقیقات | 14 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
دماغ اور اوجھڑی میں انسانی جسم کو مضبوط بنانے والے اجزاء پائے جاتے ہیں۔صرف
100گرام کلیجی کو پکانے کے بعد اس سے 27گرام پروٹین 175 ،کیلوریز 1386 ،فیصد
وٹامن بی 522 ،12فیصد وٹامن اے 51 ،فیصد وٹامن بی 47 ،6فیصد سیلینیئم 35 ،فیصد
زنک اور 34فیصد ٓائرن حاصل ہوتا ہے ،جو یومیہ حساب سے انسانی صحت کے لیے
بہترین غذا ہے۔کلیجی ،اوجھڑی ،گردوں ،دل اور دماغ کا گوشت حاملہ خواتین کے لیے
بھی نہایت فائدہ مند ہے ،جو نہ صرف ماں بلکہ بچے کی غذا کے لیے بھی بہترین ہے
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116100.html
پیٹ میں کیڑوں کی ٓاسان سی عالمت ۔۔ طریقہ عالج بھی جان لیں اور
مہنگے عالجوں سے چھٹکارا پائیں
20/07/2021
پیٹ میں کیڑے ایک عام مرض ہے جو اکثر بچوں میں پائے جاتے ہیں مگر بڑے بھی اس
کا شکار ہوسکتے ہیں۔ پاکستان کا موسم پیٹ میں ان کیڑوں کے لیے سازگار ماحول فراہم
کرتا ہے
اور یہ ٓالودہ پانی پیینے ،بغیر دھوئے پھل یا سبزیاں کھانے اور غیر معیاری مشروب پینے
سے انسانی جسم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ عالمات:اکثر اس کی عالمات اتنی عام ہوتی ہیں
کہ لوگ توجہ بھی نہیں دیتے ،یا انہیں پہچاننے سے قاصر رہتے ہیں ،تاہم عام طور پر
درج ذیل عالمات نظر ٓاتی ہیں۔ ہر وقت بھوک لگنا۔ جوڑوں کی اکڑن یا سوجن۔ یاداشت کے
مسائل۔ سانس کے مسائل۔ خارش ،خصوصا ً منہ ،ناک اور پیٹ کے ارگرد۔ مسوڑوں میں
خون۔ جلدی امراض جیسے السر ،زخم ،چنبل وغیرہ۔ پل پل مزاج بدلنا۔ سردرد۔
کھانے کی خواہش ختم ہوجانا۔فوڈ الرجی۔جنک اور میٹھے پکوانوں کی خواہش بڑھ جانا۔ہر
وقت نظام ہاضمہ کے مسائل۔ خون کی کمی۔عالج کیا ہے؟اگر یہ عالمات نظر ٓائیں تو سب
سے پہلے کسی ڈاکٹر سے رجوع کرنا ہی سب سے بہتر حکمت عملی ہے ،گھریلو ٹوٹکے
بھی اس حوالے سے ٓازمائے جاسکتے ہیں ،مگر ڈاکٹر کو ترجیح دینا زیادہ بہتر ہوتا ہے،
ویسے اس حوالے سے چند گھریلو ٹوٹکے درج ذیل ہیں۔تازہ لہسن:ادرک اس طرح کے
کیڑوں کو نکال باہر کرنے کے لیے موثر ترین چیزوں میں سے ایک ہے ،اگر ادرک کا
ذائقہ کڑوا محسوس ہو تو اس کا عرق نکال لیں یا پیس لیں ،ایک ٹکڑے سے ٓاغاز کریں
اور بتدریج مقدار بڑھالیں۔کھیرے کے بیج :غذائی نالی سے ٹیپ وارم کو نکالنے کے لیے
کھیرے کے بیج بھی موثر ثابت ہوسکتے ہیں ،ان بیجوں کا سفوف ان کیڑوں کے انفیکشن
سے بچأو اور ٹیپ وارم سے نجات کا کام کرتا ہے۔ ان بیجوں کو پیس لیں اور روزانہ ایک
تحقیقات | 15 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چائے کا چمچ استعمال کریں۔لونگ:لونگ· میں موجود اجزاءجراثیم کش خصوصیات کے
حامل ہوتے ہیں جو دوران خون اس کے ذریعے کیڑوں اور ان کے انڈوں کا خاتمہ کرتے
ہیں۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202107-116022.html
الہور( :دنیا نیوز) ڈاکٹروں نے عید پر بسیار خوری سے پرہیز کا مشورہ دیتے ہوئے کہا
ہے کہ زیادہ گوشت کھانا بلڈ پریشر اور دل کے مریضوں کے لئے خطرناک ہو سکتا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بسیار خوری ،ڈائریا ،گیسٹرو ،بلڈ پریشر ،ہارٹ اٹیک اور
فالج کا سبب بنتی ہے۔ کھانے میں بے احتیاطی مریضوں کے لئے خطرناک ثابت ہو سکتی
ہے۔
ایم ایس سروسز ہسپتال ڈاکٹر محمد زاہد کا کہنا تھا کہ عیداالضحی پروٹین حاصل کرنے کا
بہترین موقع ہے تاہم گوشت کے غیر ضروری استعمال سے معدے اور پیٹ کے امراض
الحق ہو سکتے ہیں۔عید پر اعتدال کے ساتھ گوشت کھائیں ،اس کے ساتھ سبزیوں کا
استعمال صحت کیلئے مفید ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں کی ایمرجنسی میں عید پر
تحقیقات | 16 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یومیہ سینکڑوں مریض ٓاتے ہیں جس سے ہسپتالوں پر بھی بوجھ بڑھ جاتا ہے۔ شہریوں کو
چاہیے کہ گوشت کھانے میں میانہ روی کا مظاہرہ کریں
https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/611577
االضحی کے ِدنوں میں مختلف انفیکشنز اور بیماریاں پھیلنے کے خطرات میں کس حد ٰ عید
تک اضافہ ہو جاتا ہے ،نیز کورونائی ایّام میں کس قِسم کی احتیاطی تدابیر اپنانے کی
ضرورت ہے؟
امراض ناک ،کان حلق اور پاکستان میڈیکل ایسوسی
ِ ماہر
ِ ہمارے اس سوال کےجواب میں
ایشن کے سیکرٹری جنرل ،ڈاکٹر سیّد مح ّمد قیصر سجّاد کا کہنا تھا کہ ’’سب سے پہلے تو
متع ّدی امراض یا Infectious Diseasesعوام کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ
‘‘چُھوت کی بیماریاں کیا ہوتی ہیں۔
ایسی ہر بیماری ،جو چھینکنے ،کھانسنے ،ہاتھ لگانے سے بٓاسانی منتقل ہوجائے وہ متع ّدی
مرض کہالتی ہے۔ جیسے ،کورونا وائرس ،عام نزلہ ،زکام ،کھانسی یا چکن پاکس وغیرہ۔
اب جہاں تک بات ہے عید االضحی کے ِدنوں میں بیماریاں پھیلنے کی ،تو لوگوں کویہ
شعور ہی نہیں کہ ان کی غفلت ،کاہلی اور بے ِحسی کی وجہ سے شہر میں کس قدر
بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔
تحقیقات | 17 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کس قدر افسوس کی بات ہے کہ ہمارے عوام مہنگا جانور خریدتے وقت تو کوئی کمپرو
مائز نہیں کرتے لیکن گلیوں ،محلّوں کی صفائی کرواتے ہوئے جیبیں کھنگالنے لگتے ہیں۔
ہّللا کی راہ میں قربانی کے لیے الئے جانے والے جانوروں کو جس سج دھج سے پالتے،
اپنے گھروں ،داالنوں میں رکھتے ہیں ،انہی کی ٓاالئشیں ،گوبر کئی کئی روز تک سڑکوں
پر پڑا رہتا ہے ،جو صرف گندگی وغالظت کا نہیں ہزاروں ،الکھوں بیماریوں کا بھی
موجب بنتا ہے۔
https://jang.com.pk/news/959921
ماہری ِن اغذیہ کے مطابق ایک عام صحت مند فرد کو روزانہ ایک سوگرام گوشت استعمال
کرنا چاہیے ،کیوں کہ ایک سو گرام گوشت میں تقریبا ً 143کیلوریز 3 ،سے 5گرام
چکنائی 26 ،گرام پروٹین اور کئی وٹامنز اور معدنیات پائے جاتے ہیں۔
کسی بھی جانور کے جسم کی ساخت کے لحاظ سے مفید اجزاء کی مقدار مختلف ہوسکتی
: ہے لیکن افادیت یکساں ہی ہے۔ مثالً
: پروٹین]
تحقیقات | 18 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سب ) ( Animal Proteinگوشت پروٹین سے بنتا ہے۔ جانور سے حاصل کردہ پروٹین
اعلی درجے کی غذائیت کی حامل ہوتی ہے۔ یہ پروٹین انسانی گوشت کے پروٹین سے ٰ سے
بحالی صحت کے لیے گوشت ٔ ملتی جُلتی ہے ،اسی لیے کسی ٓاپریشن اور بیماری کے بعد
کا استعمال بےحد مفید ثابت ہوتا ہے۔
:چکنائی یا چربی
گائے اور بکرے کے گوشت میں مختلف مقدار میں چکنائی یا چربی پائی جاتی ہے ،جس
کا تعیّن ُعمر ،جنس اور غذا کے مطابق ہوتا ہے۔ جانور کی چربی میں موجود بعض فیٹی
ایسڈز انسانی صحت کے لیے ازحد ضروری ہیں۔
:وٹامن بی12-
گوشت ،وٹامن بی -12ا سب سے بہترین مٓاخذ ہے۔ یہ وٹامن خون بننےمیں مددگار ثابت ہوتا
ہے،تو اعصابی نظام کے لیے بھی مفید ہے۔ اگر جسم میں وٹامن بی 12-کی کمی واقع
ہوجائے ،تو سُستی ،تھکاوٹ ،مشقّت کے دوران سانس لینے میں تکلیفِ ،جلد کی رنگت ماند
پڑجاناِ ،دل کی دھڑکن میں تیزی اور بال گرنے جیسی عالمات ظاہر ہوتی ہیں۔ نیز،
اعصابی نظام پر بھی مضر اثرات مرتّب ہوتے ہیں۔
:زنک
گوشت میں زنک وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ،جو جسم کی نشوونما کے عالوہ وائرسز کی
روک تھام میں بھی ا ہم کردار ادا کرتا ہے۔
(selenium):سیلینئیم
سیلینئیم کے حصول کا ایک اہم ذریعہ گوشت ہے۔ یہ جُزو جسم میں مختلف کیمیائی مراحل
کی انجام دہی میں معاونت فراہم کرتا ہے۔
:فوالد
یہ ُجزو بھی گوشت میں وافر مقدار میں پایا جاتا ہے ،اسی لیے بکرے اور گائے کے
گوشت کو’’ ریڈمیٹ ‘‘بھی کہا جاتا ہے۔ گوشت میں موجود فوالد جسم میں جلد اور زیادہ
مقدار میں جذب ہوتا ہے۔
:وٹامن بی6 -
یہ وٹامن بھی گوشت میں پایا جاتا ہے ،جو خون کی افزایش اور جسم کوتوانائی فراہم کرنے
میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ فاسفورس :یہ اہم عنصر بھی جسم کی نشوونما کے لیے
یہ پٹّھوں کو (Creatinine) :ضروری ہے ،جو سُرخ گوشت میں پایا جاتا ہے۔کریٹینن
توانائی فراہم کرتا ہے۔
: ٭ قربانی کا گوشت درست طریقے سےمحفوظ کریں
قدیم و جدید تمام تہذیبوں میں گوشت کے بغیر مہمان نوازی ادھوری تص ّور کی جاتی ہے،
تو بیش تر گھرانوں میں عام ِدنوں میں بھی گوشت شوق اور رغبت سے کھایا جاتا ہے۔
چوں کہ غذائیت کے اعتبار سے گوشت ،لحمیات سے بَھرپور ہوتا ہے اور اس میں روغنی
اجزا بھی وافر مقدار میں پائے جاتے ہیں ،تو متع ّدد افراد قربانی کا گوشت فریزر میں
محفوظ کرلیتے ہیں ،تاکہ کافی ِدنوں تک استعمال کیا جاسکے ،لیکن اس ضمن میں کئی
تحقیقات | 19 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چھوٹی چھوٹی باتیں مدِّنظر رکھنا ازحد ضروری ہیں،تاکہ بیماریوں سے محفوظ رہا جا
سکے۔ جیسا کہ تین سے چھے ماہ کے عرصے میں گوشت کے خواص کم ہونا شروع ہو
جاتے ہیں ،اس لیے اس سے زیادہ عرصے کے لیے گوشت فریز نہ کیا جائے۔
قربانی کاگوشت جس قدر جلد ہو سکے ،صفر درجٔہ حرارت پر اسٹور کرلیں ،جب ایک بار
گوشت فریزر سے نکال کر پگھاللیا جائے ،تو دوبارہ فریز نہ کریں۔ چوں کہ بعض جگہوں
پر بار باربجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہے ،تو اس صُورت میں اگر ایک بار فریزنگ پوائنٹ
سے درجٔہ حرارت کم ہو جائے ،تو زیادہ ِدنوں کے لیے گوشت فریز نہ کریں۔ قدیم دَور میں
گوشت محفوظ کرنے کے لیے دھوپ میں سُکھایا جاتا تھا۔ اس کا طریقٔہ کار یہ تھا کہ نمک
لگا گوشت دھوپ میں خشک کر لیا جاتا اور پھرکئی ماہ تک استعمال میں الیاجاتا تھا۔
حضور ِ پاکﷺ نے ایسا خشک گوشت کئی بارتناول فرمایا ۔حضور
پاکﷺ نےقربانی کے گوشت کو پسند فرمایا ہے،سو،قربانی کے گوشت کو
اپنے استعمال میں ضرور الئیں ۔
ٓاپﷺکے عام ِدنوں کے کھانوں میں بھی گوشت نمایاں طور پر شامل تھا،
حضور پاکﷺ نے’’حجتہ الوداع‘‘ کے موقعے پر100اونٹ ذبح ِ جب کہ
کیے تھے۔یاد رہے ،اونٹ کا گوشت ٓاج بھی عربوں کی پسندیدہ غذا ہے ۔
حضورﷺنے بھی اونٹ کا گوشت کئی مرتبہ تناول فرمایا ۔ٓاپ
ﷺعام ِدنوں میں اور قربانی کے گوشت کو بھی مختلف طریقوں سے کھانا
پسندفرماتے۔ نبی کریمﷺنے اُبال ہوا گوشت اور کوئلوں پر بُھنی ہوئی
کلیجی بھی تناول فرمائی۔نیزٓ ،اپ ﷺنے بکری اور بھیڑ کا گوشت بھی کئی
مرتبہ کھایا۔
مسعود سے روایت ہے کہ حضور ﷺکو دستی کا گوشت زیادہ ؓ عبدہللا بن
پسند تھا۔عربوں میں گوشت کو پانی میں اُبال کر اس میں َجو کا ٓاٹا مال کر پکایا جاتا تھا ،جو
حلیم کی طرح کا ایک کھانا ہے اور جسے حضورﷺ نے بےحدپسند فرمایا۔
:٭ قربانی کا گوشت اور چند احتیاطی تدابیر
گوشت پکاتے وقت کم سے کم تیل یا گھی استعمال کریں۔ ادرک ،لہسن ،ہلدی ،اور گرم
مسالے ضرور شامل کریں۔ایک وقت میں ساٹھ سے سو گرام گوشت کھایا جا سکتا ہے۔
گوشت کے ساتھ سبزیوں کا سالد ضرور استعمال کریں کہ یہ فائبر فراہم کرتا ہے ،تو اس
کے کھانے سے قبض کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔
گوشت کے ساتھ لیموں کا استعمال خاص طور پر کیا جائے ،کیوں کہ لیموں ،گوشت میں
موجود فوالد کو جسم میں جذب ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔ عید کے ایّام میں اور اس کے
بعد بھی کئی روزتک گوشت کے کئی طرح کے مرغوب اور پسندیدہ پکوان بنائے جاتے
ہیں ،ایسے میں ان لذیذ اورمزے دار کھانوں سے ہاتھ روکنا قدرے مشکل ہو جاتا ہے ،تو یہ
گوشت کے پکوان ضرور کھائیں ،لیکن اعتدال کا راستہ اختیار کریں۔
تحقیقات | 20 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس موقعے پر گوشت کے ساتھ سبزیوں ،پھلوں کا استعمال بھی بےحدضروری ہے تاکہ
امراض معدہ کے مریض ِ غذا میں توازن برقرار رہے ،بالخصوص ذیابطیس ،بلڈپریشر اور
گوشت اور مر ّغن کھانوں کے استعمال میں زیادہ احتیاط برتیں۔ ذیابطیس کے مریض اگر
کھانے میں زیادتی کر جائیں ،تو بہتر ہوگا کہ کچھ دیر کے لیے تیز رفتاری سے چلیں تاکہ
فشارخون اور معدے کے السر میں مبتال ِ خون میں شوگر کی مقدار معمول پر ٓاجائے۔ بُلند
افراد تال ہوا گوشت کھانے کے بجائے کوئلوں پر بُھون کر یا اُبال کر استعمال کریں۔ ہائی
بلڈ پریشر کے مریض نمک کم سے کم استعمال کریں اور کچھ دیر ٓارام بھی کرلیں ۔ تمام
احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر طبیعت میں کوئی خرابی محسوس ہو ،تو اپنے معالج سے
رجوع کریں۔
عالوہ ازیں ،عام ِدنوں میں بھی سافٹ ڈرنکس کے استعمال سے پرہیز کرنا چاہیے،مگر
عید کے موقعے پر تو الزما ً سبز چائے کا استعمال کیا جائے کہ یہ کھانا ہضم کرنے میں
مدد دیتی ہے۔ عید االضحی پر بطور خاص اس بات کا خیال رکھیں کہ کھانا وقت پر کھا لیا
نظام
ِ جائے ،کیوں کہ گوشت دیر سے ہضم ہوتا ہے اور وقت ،بے وقت یا زائد کھانے سے
انہضام خرابی کا شکار ہو سکتا ہے۔کھانے کے معاملے میں وقت کی پابندی نہ کرنے کی
عادت بعض اوقات صحت کے لیے خاصی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔
: ٭بعد از قربانی ماحول ٓالودہ نہ ہونے دیں
مہذب طریقے سے انجام حفظان صحت کے اصولوں· کے مطابق اور بہت ّ ِ قربانی کا فریضہ
دیا جائے کہ ’’صفائی نصف ایمان‘‘ہے۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ اکثرگھروں کے سامنے
سڑکوں اور نالیوں پرجگہ جگہ خون بہہ رہا ہوتا ہے ،جابجا مختلف قسم کی ٓاالئشیں
بکھری نظر ٓاتی ہیں ،جن سے بدبُو کے بھبکے اُٹھ رہے ہوتے ہیں ،ل ٰہذا جانوروںکی·
انتڑیاں ،اور دیگر فضالت سڑکوں ،گلی ،محلّوں ،چوراہوں اور نالیوں میں پھینکنے سے
گریز کریں کہ یہ ماحول کو تعفّن زدہ کرتے ہیں اور جراثیم کی افزایش کا سبب بنتے ہیں۔
نیز ،خون ،گوشت اور جانور کے کٹے ہوئے اجزاءخطرناک بیماریاں پھیلنے کے امکانات
بھی بڑھا دیتے ہیں ،ل ٰہذا ممکن ہو تو جس جگہ جانور کا خون بہا یاہو ،وہاں فوراً چونا
چھڑک دیں،پھر جب خون جم جائے،تو اُسے بیلچے کی مدد سے اُٹھا کر مٹّی میں دفن کر ِ
دیں اور کچھ دیر بعد فرش سرف سے دھولیں۔اگر· جانوروں کی ٓاالئشیں ٹھکانے لگانے کے
ضمن میں شہری انتظامیہ نے کچھ ہدایات جاری کی ہوں ،تو اُن پر سختی سےعمل کیا
جائے۔
ت دیگر اپنی مدد ٓاپ کے تحت انفرادی یا اجتماعی طور پر ان ٓاالئشوں کو ٓابادی سے بصور ِ
ُدورپھینک دیں،تاکہ ماحول ٓالودہ ہونے سے بچایا جا سکے۔ خاص طور پر ان کورونائی
ایّام میں توقربانی کے تمام تر مراحل ،گوشت کی تقسیم ،کھانوں کی تیاری ،دعوتوں کے
اہتمام وغیرہ میں ہر طرح احتیاطی تدابیر پر الزما ً عمل کریں کہ کوئی معمولی سی کوتاہی
بھی کسی شدید پریشانی کا سبب بن سکتی ہے۔
https://jang.com.pk/news/959814
تحقیقات | 21 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
قربانی کا گوشت 2گھنٹے رکھنے کے بعد پکائیں ،طبی ماہرین
جوالئی 21 2021 ،
ماہرین صحت نے کہا ہے کہ قربانی کا گوشت فوری طور پر نہ پکائیں بلکہ 2گھنٹے
رکھنے کے بعد پکائیں۔
طبی ماہرین نے عید قربان کے موقع پر عوام کی صحت کے حوالے تجاویز جاری کی ہیں۔
ماہرین صحت نے کہا کہ قربانی کا گوشت فوری نہ پکائیں ،اسے تقریبا ً 2گھنٹے رکھیں
اور پھر ہنڈیا چڑھائیں۔
طبی ماہرین کے مطابق جب گوشت اچھی طرح گل جائے تو اسے خوب چبا چبا کر کھائیں۔
ماہرین صحت نے مزید کہا کہ عید قربان پر گوشت کھائیں لیکن ہاتھ ذرا ہلکا رکھیں۔
طبی ماہرین نے کہا کہ قربانی کے بعد جانوروں کی ٓاالئشیں گلی محلے میں نہیں بلکہ
کچراکنڈی میں پہنچائیں اور صفائی کا خاص خیال رکھیں۔
vhttps://jang.com.pk/news/960007
تحقیقات | 22 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
چند گھرانوں میں گوشت بھون کر یا فرائی کر کے رکھ لیا جاتا ہے تا کہ چند دنوں تک اس
گوشت کو قابل استعمال رکھا جاسکے ،اسی طرح گوشت کو کباب کی شکل میں خشک کر
کے رکھنے کا طریقہ بھی بہتر رہتا ہے ،خشک کباب تقریبا 4تا 6ماہ تک خراب نہیں
ہوتے ہیں۔
قربانی کے گوشت کو پارچوں کی شکل میں کاٹ کر لہسن ادرک اور نمک لگا کر سورج
کی روشنی میں خشک کرنے کا طریقہ کار بھی بہت زیادہ محنت طلب ہے جس میں
خواتین کو مکمل طور پر مصروف رہنا پڑتا ہے۔
:گوشٹ محفوظ کرنے کی مفید اور ٓاسان ٹپس
عید سے دو یاتین دن قبل اپنے فریج اور فریزر کی صفائی کرلیں ،فالتو اشیا کو ہٹا دیں،
فریزر کی کی صفائی کرتے ہوئے اس پر المونیم یا باریک پالسٹک بچھا دیں تا کہ گوشت
کے پیکٹس فریزر کی سطح پر نہ چپک سکیں اور فریزر کی دیواروں پر گلیسرین لگادیں
اس سے جمی برف نکالنے میں ٓاسانی ہوگی۔
اگر ٓاپ کے پاس فریج کی سہولت موجود ہے تو پہلے گوشت کا اندازہ لگا لیں کہ فریج یا
فریزر میں کتنے کلو گوشت کو رکھا جاسکتا ہے اس کے مطابق ان میں گوشت رکھنے کی
تیاری کریں۔
قربانی کے گوشت کو فریزر اور فریج میں رکھنے میں تاخیر نہ کریں ،فریج سے باہر دو
گھنٹے تک گوشت کو چھوڑے رکھنے پر بیکٹریا کا حملہ ہوسکتا ہے ،اس سے گوشت
خراب ہوسکتا ہے۔
گوشت کے مقابل دالیں زیادہ عرصہ تک اس لیے محفوظ رہ سکتی ہیں کیونکہ ان میں پانی
یا تو کم ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا ،گوشت میں 90فیصد پانی ہوتا ہے ،بہتر یہی ہے کہ
گوشت کو کپڑے سے خشک کرلیں پھر فریج میں پالسٹک کی تھیلیوں میں اچھی طرح بند
کر کے رکھیں۔
اگر ٓاپ فریزر میں گوشت رکھتی ہیں تو اس میں دیگر پھل اور سبزیاں نہ رکھیں کیونکہ
گوشت کی بساند سے یہ چیزیں خراب ہوسکتی ہیں۔
گوشت کو فوری فریزر میں رکھنے سے بیکٹریا نشونما نہیں پاتے ،جس سے گوشت چند
دنوں تک قابل استعمال رہتا ہے۔
گوشت سے لگی چربی کو نکال دیں اور اسے پالسٹک کی تھیلی یا المونیم بیگ میں اچھی
طرح پیک کر کے رکھیں ،گوشت کے ساتھ جتنی چربی کم رہے گی اتنا ہی گوشت محفوظ
رہے گا۔
گوشت کے بجائے اس کا قیمہ بھی بنا کر محفوظ کیا جاسکتا ہے ،اگرکباب بنالیے جائیں تو
زیادہ بہتر رہتا ہے ۔
قربانی کے فوری بعد گھروں میں کلیجی ،گردے بنانے کا رجحان عام ہوتا ہے ،پکانے سے
قبل کلیجی کی صحت کی جانچ کریں یہ دیکھ لیں کہ کہیں کلیجی میں سوراخ ،یا کو ز خم
تحقیقات | 23 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تو نہیں ہے ،کلیجی کا رنگ تبدیل تو نہیں ہوا ہے اگر ایسا کچھ دکھائی دے تو اس کلیجی
کو نہ پکائیں کیونکہ اس سے فوڈ پوائزننگ کی شکایت ہوسکتی ہے۔
قربانی کے دوران سب سے اہم اور توجہ طلب بات یہ ہے کہ قربانی کے گوشت کو اخبار
کے کاغذ میں لپیٹ کر تقسیم نہ کریں اور نہ ہی رکھیں کیونکہ سیاہی میں سیسہ کا جُز
شامل ہوتا ہے جو انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک ہے۔
:قربانی کا گوشت اور چند احتیاطی تدابیر
گوشت پکاتے وقت کم سے کم تیل یا گھی استعمال کریں۔ ادرک ،لہسن ،ہلدی ،اور گرم
مسالے ضرور شامل کریں ،ایک وقت میں ساٹھ سے سو گرام گوشت کھایا جا سکتا ہے۔
گوشت کے ساتھ سبزیوں کا سالد ضرور استعمال کریں کہ یہ فائبر فراہم کرتا ہے ،تو اس
کے کھانے سے قبض کی شکایت بھی نہیں ہوتی۔
گوشت کے ساتھ لیموں کا استعمال خاص طور پر کیا جائے ،کیوں کہ لیموں ،گوشت میں
موجود فوالد کو جسم میں جذب ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
عید کے ایّام میں اور اس کے بعد بھی کئی روزتک گوشت کے کئی طرح کے مرغوب اور
پسندیدہ پکوان بنائے جاتے ہیں ،ایسے میں ان لذیذ اورمزے دار کھانوں سے ہاتھ روکنا
قدرے مشکل ہو جاتا ہے ،تو یہ گوشت کے پکوان ضرور کھائیں لیکن اعتدال کا راستہ
اختیار کریں ۔
س موقعے پر گوشت کے ساتھ سبزیوں ،پھلوں کا استعمال بھی بےحدضروری ہے تاکہ غذا
امراض معدہ کے مریض
ِ میں توازن برقرار رہے ،بالخصوص ذیابطیس ،بلڈپریشر اور
گوشت اور مر ّغن کھانوں کے استعمال میں زیادہ احتیاط برتیں۔
ذیابطیس کے مریض اگر کھانے میں زیادتی کر جائیں تو بہتر ہوگا کہ کچھ دیر کے لیے
تیز رفتاری سے چلیں تاکہ خون میں شوگر کی مقدار معمول پر ٓاجائے۔
فشارخون اور معدے کے السر میں مبتال افراد تال ہوا گوشت کھانے کے بجائے کوئلوں ِ بُلند
پر بُھون کر یا اُبال کر استعمال کریں۔
ہائی بلڈ پریشر کے مریض نمک کم سے کم استعمال کریں اور کچھ دیر ٓارام بھی کرلیں ۔
تمام احتیاطی تدابیر کے باوجود اگر طبیعت میں کوئی خرابی محسوس ہو تو اپنے معالج
سے رجوع کریں ۔عالوہ ازیں ،عام ِدنوں میں بھی سافٹ ڈرنکس کے استعمال سے پرہیز
کرنا چاہیے مگر عید کے موقعے پر تو الزما ً سبز چائے کا استعمال کیا جائے کہ یہ کھانا
ہضم کرنے میں مدد دیتی ہے۔
عید االضحی پر بطور خاص اس بات کا خیال رکھیں کہ کھانا وقت پر کھا لیا جائے کیوں
نظام انہضام خرابی
ِ کہ گوشت دیر سے ہضم ہوتا ہے اور وقت بے وقت یا زائد کھانے سے
کا شکار ہو سکتا ہے۔
کھانے کے معاملے میں وقت کی پابندی نہ کرنے کی عادت بعض اوقات صحت کے لیے
خاصی نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے
https://jang.com.pk/news/960077
تحقیقات | 24 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
مٹن یا بیف ،کونسا گوشت کتنا فائدہ مند؟
جوالئی 20 2021 ،
گوشت انسانی غذا کا ایک اہم حصہ ہے جس کے استعمال سے بنیادی جز پروٹین سمیت
متعدد منرلز بھی حاصل ہوتے ہیں ،ماہرین کی جانب سے صحت برقرار رکھنے کے لیے
غذا میں زیادہ سبزیاں ،پھل اوردالوں کو اہمیت دینا تجویز کیا جاتا ہے مگر گوشت کی اپنی
ہی افادیت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
غذائی و طبی ماہرین کے مطابق انسانی صحت کا براہ راست تعلق غذا سے ہوتا ہے ،ہر
غذا صحت کے لیے کچھ نہ کچھ افادیت کی حامل ہے بشرطیکہ اُسے اعتدال میں رہ کر
کھایا جائے ،غذائی ماہرین کے مطابق مچھلی اور مرغی کے گوشت (وائٹ میٹ) سے
انسانی جسم کو پروٹین ،منرلز اور وٹامنز حاصل ہوتے ہیں اور وائٹ میٹ میں کیلوریز اور
چکنائی کی مقدارکم پائی جاتی ہے۔
دوسری جانب ’ریڈ میٹ ‘ یعنی چھوٹا گوشت (مٹن ،بکرا) اور بڑا گوشت (گائے ،بیف ) کو
عام روٹین میں ضرورت کے مطابق کھانا تجویز کیا جاتا ہے۔
گوشت کھانے میں غیر معمولی زیادتی سنگین قسم کے صحت کے مسائل کا سبب بن جاتی
ہے ،مٹن میں چکنائی کی مقدار ،چکن کی نسبت زیادہ ہوتی ہے جبکہ بیف (بڑے گوشت)
میں چکنائی کی زیادہ مقدار مرغی ،مچھلی اور بکرے کے گوشت سے زیادہ پائی جاتی
ہے اور دوسرے غذائی اجزا مثالً پروٹین ،زنک ،فاسفورسٓ ،ائرن اور وٹامن بی کی مقدار
بھی موجود ہوتی ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق گائے کے گوشت کی 100گرام مقدار میں 250کیلوریز 15 ،
گرام فیٹ 30 ،فیصد کولیسٹرول 3 ،فیصد سوڈیم 14 ،فیصد ٓائرن 20 ،فیصد وٹامن بی
5 ،6فیصد میگنیشیم 1 ،فیصد کیلشیم اور وٹامن ڈی اور 43فیصد کوباال من پایا جاتا ہے
جبک بکرے کے گوشت کے 11گرام مقدار میں 294کیلوریز 32 ،فیصد فیٹ 45 ،فیصد
سیچوریٹڈ فیٹ 32 ،فیصد کولیسٹرول 3 ،فیصدسوڈیم 8 ،فیصد پوٹاشیم 50 ،فیصد
پروٹین 10 ،فیصد ٓائرن 5 ،فیصد وتامن بی 5 ،6فیصد میگنیشیم ،اور 43فیصد
کوباالمین پایا جاتا ہے ۔
غذائی ماہرین کے مطابق سفید اور الل گوشت کے اپنے اپنے فوائد اور نقصانات ہیں ،اس
لیے انہیں اعتدال میں رہ کر استعمال کیا جا سکتا ہے جبکہ الل گوشت خصوصا ً گائے کے
گوشت سے احتیاط ہی تجویز کی جاتی ہے۔
طبی تحقیق کے مطابق گوشت کا زیادہ استعمال مختلف سنگین بیماریوں کا سبب بنتا ہے
جیسے کہ کینسر ،دل کے امراض ،ذیابیطس ،معدہ ،جگر کی بیماریاں وغیرہ ،ماہرین کے
مطابق جو پہلے سے ہی ان بیماریوں میں مبتال ہیں انہیں گوشت کے استعمال میں غیر
معمولی احتیاط برتنی چاہیے۔
تحقیقات | 25 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
غذائی ماہرین کے مطابق بکرے کا گوشت گرم تاثیر رکھتا ہے جبکہ یہ طاقت بخش ہے،
گائے کا گوشت ٹھنڈی تاثیر رکھتا ہے جسے کسی بھی موسم میں کھایا جا سکتا ہے ،بکرے
کے گوشت کے استعمال سے جسم میں خون بنتا ہے ،کمزوری دور کرتا ہے ،لذت اور
ذائقہ کے اعتبار سے بھی بکرے کا گوشت زیادہ بہتر ہے ،س کا اعتدال میں استعمال کرنا
جسمانی قوت کے لیے نہایت مفید ہے۔
ماہرین کے مطابق ُدنبے کا گوشت دیر سے ہضم ہوتا ہے اور ذائقہ دار ہوتا ہے جبکہ بیل،
گائے کا گوشت افادیت میں سب سے پیچھے اور اس میں غذائیت بھی کم پائی جاتی ہے۔
غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے سفید گوشت میں مچھلی اور الل گوشت
میں بکرے کے گوشت کو اہمیت دینی چاہیے ،اس کی وجہ یہ ہے کہ غذائیت کے معاملے
میں مٹن بیف سے بہتر اور صحت بخش ثابت ہوتا ہے جبکہ بکرے کے گوشت کو دل کے
عارضے میں مبتال افراد بھی اعتدال میں رہتے ہوئے استعمال کریں تو اس سے اُن کی دل
اور مجموعی صحت کو کوئی خطرہ نہیں ہوتا۔
غذائی ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ جب بھی گوشت کھائیں جس قسم کا بھی
ساتھ میں سالد اور رائتہ کا استعمال ضرور کریں ،فائبر سے بھرپور سالد اور مثبت
بیکٹیریاز ،پری بائیوٹک سے بھرپور دہی سے بنا رائتہ گوشت کو َجلد ہضم کرنے میں مدد
فراہم کرتا ہے اور افادیت بڑھا دیتا ہے
https://jang.com.pk/news/959351
اوقات اتنی ناگوار محسوس ہوتی ہے کہ لوگ متلی یا قے ٓانے کی شکایت کرتے ہیں اور
گوشت کھانے سے ہی انکار کر دیتے ہیں۔
ہم ٓاپ کو بتاتے ہیں کہ گوشت میں ٓانے والی بو کو ختم کیسے کیا جا سکتا ہے۔ سب سے
پہلے گوشت کی بو کو ختم کرنے کیلئے لہسن اور سرکہ لیں ،گوشت کی مقدار کے مطابق
لہسن کو کاٹ کر سرکے میں مال کر پیسٹ بنا لیں۔ گوشت پر اس پیسٹ کو اس طرح لگائیں
کہ کوئی جگہ باقی نہ رہے۔ اب اس پیسٹ لگے گوشت کو ایک گھنٹے کیلئے رکھ دیں،
وقت پورا ہونے پر صاف پانی سے دھو لیں ،لیجئے بو کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہو گا۔
ایک اور طریقہ بھی پیش خدمت ہے ،گندم کے ٓاٹے کا خشکا لیں اور اس کو پیسٹ کی
طرح پورے گوشت پر لگا دیں۔ اگر خشکا ٹھہر نہیں رہا تو گیال ہاتھ گوشت پر ملیں ،خشکا
گوشت پر ٹھہرنے لگے گا۔ ٓاٹے لگے گوشت کو 2گھنٹے بعد پانی سے دھو لیں۔ لیجئے
اس طریقے سے بھی گوشت کی بو ختم ہو جائے گی۔
تحقیقات | 26 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/611642
فریج میں گوشت اور انڈے اتنے دن سے زیادہ نہ رکھیں ورنہ۔۔۔ ماہرین
نے ایسی وجہ بتادی کہ ہرکوئی گوشت غریبوں میں ابھی سے بانٹ دے
گا
Jul 21, 2021 | 13:41:PM
لندن(نیوزڈیسک) فریج میں کھانا رکھنے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ وہ محفوظ ہے اور
خراب نہیں ہوگا لیکن ماہرین غذا نے خبردار کیا ہے کہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ کھانے کی
اشیاءخراب ہوجاتی ہیں اور ان میں موجودغذائیت نہیں رہتی۔ان کے کھانے سے جسم کو
فائدہ ہونے کی بجائے نقصان ہوسکتا ہے اور ہم فوڈپوائزنگ کا شکار ہوسکتے ہیں۔آئیے
آپ کو بتاتے ہیں کہ کون سا کھانا کتنے دن تک فریج میں رکھنا چاہیے اور پھر اسے
پھینک دینا چاہیے۔
ماہرین غذا کا کہنا ہے کہ مچھلی اور شیل فش کو فریج میں ایک دن سے زیادہ نہ رکھیں،
نرم پھلوں کو دو دن ،کے بعد کھالیں۔سالد کے پتوں کو زیادہ سے زیادہ تین دنوں بعد نکال
کرکھالینا چاہیے ،دودھ چار دن کے اندر استعمال کرلینا چاہیے ،سبزیوں کو تین سے چار
دن تک رکھنا چاہیے اور پولٹری اشیاءجیسے مرغی کو زیادہ سے زیادہ تین دنوں کے اندر
کھالینا چاہیے۔ آپ چاہیں تو انڈوں کو ایک ہفتے تک رکھ سکتے ہیں لیکن اس کے بعد ہر
صورت انہیں استعمال کرلیناچاہیے ورنہ یہ خراب ہوجائیں گے۔
ان کا مزید کہنا ہے کہ بظاہر یہ کھانے خراب نہیں ہوتے لیکن ان کی غذائیت اس حد تک
کم ہوجاتی ہے کہ انہیں کھانے سے نقصان بھی ہوسکتا ہے لہذا کوشش کریں کہ تمام
چیزوں کو جلد از جلد استعمال کرلیا جائے
https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318718
عید االضحی پر گوشت کھائیں مگر احتیاط سے ،ایک شخص کتنا گوشت
کھا سکتا ہے؟ ماہرین صحت نے بتادیا
االضحی
ٰ اسالم آباد (ویب ڈیسک) کسی بھی چیز کی زیادتی نقصان دہ ہوتی ہے اور عید
کے موقع پر گوشت کی زیادتی اکثر لوگوں کی صحت کو متاثر کر دیتی ہے،عید قربان کے
موقع پر تقریبا ً ہر گھر میں ہی روزانہ مزے مزے کے گوشت کے پکوان تیار کیے جاتے
تحقیقات | 27 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہیں جن کی خوشبو اور لذت کے سامنے ہاتھ روکنا مشکل ہو جاتا ہے ،غذا میں گوشت کا
استعمال پروٹین،آئرن ،وٹامنز اور معدنی طاقت فراہم کرتا ہے لیکن اس کی زیادتی مختلف
بیماریوں سے دوچار کر سکتی ہے۔ جیونیوز کے مطابق عموما ً گھروں میں گوشت کو
کئی کئی ہفتے یا مہینوں تک فریز کر دیا جاتا ہے لیکن ایسا کرنے سے اس میں جراثیم پیدا
ہو سکتے ہیں۔ اس لیے ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ گوشت کو 3ہفتوں سے زیادہ فریز
نہیں کیا جانا چاہیے۔
ماہرین کے مطابق خوراک میں روزانہ صحت کے لئے 90گرام اور ہفتہ میں 500گرام
تک گوشت کا استعمال مفید ہوتا ہے تاہم اس سمیں زیادتی صحت کے مسائل کا سبب بن
سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق بہت زیادہ گوشت کا استعمال کولیسٹرول ،فیٹ ،بلڈ پریشر
اور پیٹ کے امراض میں اضافے کا باعث بنتا ہے جس سے انسانی قوت مدافعت اور
صحت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔عالمی ادارہ صحت کی جانب سے 2015میں کی جانے
والی ایک تحقیق کے مطابق وافر مقدار میں گوشت کے استعمال سے کینسر کے امکانات
بھی بڑھ سکتے ہیں۔اسی طرح امریکا کے نیشنل کینسر انسٹیٹیوٹ کے مطابق گوشت کو
اور ) (HCAsبہت زیادہ درجہ حرارت پر پکایا جاتا ہے جس سے ہیٹروسائیکلیک· امائن
پولیسائیک لک ایرومیٹک ہائیڈروکاربن کیمیکلز فراہم ہوتے ہیں جس سے انسانی صحت
میں کینسر کا خدشہ بڑھ سکتے ہیں۔
ایسے پکوان جن میں گوشت کے ساتھ تیل کا استعمال بھی بہت زیادہ کیا جاتا ہے وہ جسم
میں چربی بڑھا دیتے ہیں جس کی وجہ سے ماہرین چہل قدمی کی ہدایت کرتے ہیں ساتھ
ہی ایسے کھانوں کے ساتھ سبز چائے پینے کا مشورہ فراہم کرتے ہیں۔اکثر عیداالضحی
کے فورا بعد لوگوں میں قبض سمیت پیٹ کے امراض بھی بڑھ جاتے ہیں جس کی ایک
وجہ گوشت کے استعمال میں زیادتی ہو سکتی ہے۔ماہرین کے مطابق رات میں سونے سے
قبل اسپغول کی بھوسی کا استعمال مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ اسپغول کھانے میں موجود چربی
اور کولسٹرول کی ایک مقدار جذب کرکے فضلے میں خارج کردیتا ہے جس سے دل کی
بیماریوں سے ایک حد تک بچاؤ ممکن ہے
https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318719
تحقیقات | 28 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
محفوظ کیا جاسکتا ہے اور اس کے لیے فریزر ہی سب سے واضح طریقہ کار ہے۔مگر
گوشت محفوظ کرنے چند طریقے اور بھی ہیں۔
فریزر میں محفوظ کرنا
فریزر میں رکھنے سے قبل گوشت کے پیکج بنانے ضروری ہے یعنی سب سے پہلے تو
ضروری ہے کہ گوشت ہوا سے بچے۔یعنی پالسٹک بیگ اور المونیم فوائل (جو فریزر کے
لیے ڈیزائن ہو) کا استعمال کریں۔اگر ایسا ممکن نہ ہو تو ائیر ٹائٹ برتنوں کو بھی استعمال
کیا جاسکتا ہے یعنی پالسٹک یا فریزر کے لیے محفوظ جار یا کین وغیرہ۔جتنا ہوسکے
ہڈیوں کو نکال دیں کیونکہ فریزر میں ہڈیاں زیادہ جگہ گھیرتی ہیں جس سے فریزر کو کام
بھی زیادہ کرنا پڑتا ہے۔گوشت کے سالئیس کے درمیان فریزر پیپر یا ریپ کو رکھیں تاکہ
وہ علیحدہ رہیں ،جس سے انہیں پکانے کے لیے استعمال کرنے میں آسانی ہو۔
اس مقصد کے لیے فریج میں موجود فریزر کمپارٹمنٹ کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے
کیونکہ اسٹینڈ آلون فریزر بجلی بہت زیادہ خرچ کرتا ہے۔
کتنے عرصے تک گوشت کو محفوظ کیا جاسکتا ہے؟
کچے گوشت کو 4سے 12ماہ تک منجمند کرکے رکھا جاسکتا ہے۔کچا قیمہ تین ماہ تک
ہی فریزر میں ٹھیک رہ سکتا ہے۔پکے ہوئے گوشت کو 2سے 3ماہ کے لیے محفوظ کیا
یا اس °Fجاسکتا ہے۔اور ہاں گوشت محفوظ رکھنے کے لیے فریزر کا درجہ حرارت 0
سے کم ہونا چاہئے۔
کولر کو استعمال کریں
اگر تو آپ فریج یا فریزر سے محروم ہیں تو واٹر کولر کو بھی استعمال کیا جاسکتا ہے،
جس کے لیے بجلی کی بھی ضرورت نہیں ہوتی ،یا بجلی کے بریک ڈاﺅن کی صورت میں
عارضی طور پر اس کو استعمال کیا جاسکتا ہے۔اس مقصد کے لیے کولر کو برف سے
بھرنا ہوگا تاکہ وہ ٹھنڈا ہوسکے۔پہلے کچھ برف کولر کی تہہ میں رکھیں اور پھر گوشت
اس میں رکھ دیں ،اس کے بعد گوشت کو مزید برف سے کور کردیں۔اس بات کو یقینی
بنائیں کہ گوشت کے ارگرد برف موجود رہے ،جب برف پگھلے تو مزید برف کو اس میں
ڈال دیں۔
منجمند گوشت کو دوبارہ قابل استعمال کیسے بنائیں؟
اگر تو آپ نے ائیر ٹائٹ پیکج میں گوشت محفوظ کیا ہے تو اسے ٹھنڈے پانی میں ڈبو دیں
اور ہر آدھے گھنٹے بعد اس وقت تک پانی بدلتے رہیں جب تک برف پگھل نہ جائے۔
پکانے سے پہلے دیکھیں کہ گوشت فریز کرنے سے اس کی رنگت ختم تو نہیں ہوگئی،
اگر ایسا ہو تو اوپری حصے کو کھانے سے پہلے کاٹ لیں ،اور ہاں اگر اس میں بو ہو تو
اسے کھانے سے گریز کریں۔
نمک سے گوشت محفوظ کریں
یہ گوشت کو محفوظ کرنے کا قدیم ترین طریقوں میں سے ایک ہے ،اس مقصد کے لیے
سے مکمل طور پر کور کرکے ) (curing saltائیرٹائٹ برتن یا بیگ میں گوشت کو نمک
تحقیقات | 29 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کسی ٹھنڈی جگہ ( 36سے 40فارن ہائیٹ) پر ایک ماہ تک رکھا جاسکتا ہے۔ پکانے سے
پہلے اضافی نمک کو دھولیں۔
https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318721
کراچی(ویب ڈیسک) عید قرباں کی ٓامد کے ساتھ ہی گھروں میں ذبیحہ کیے جانے والے
جانوروں کا گوشت اکٹھا ہوجائے گا اور اس کے خراب ہونے کا اندیشہ بھی ہوگا تاہم اب
ٓاپ گوشت کو 2ماہ تک کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں۔تفصیالت کے مطابق سعودی عرب
عیدالضحی جوش و خروش سے
ٰ اور خلیجی ممالک سمیت دنیا کے مختلف ممالک میں ٓاج
ت ابراہیمی ادا کی جائے گی۔منائی گئی جبکہ کل پاکستان اور ایشیاء میں بھی سن ِ
نماز عید کے بعد جانور قربان کریں گے اور ِ قربانی کی استطاعت رکھنے والے لوگ
شریعی حکم کے مطابق اسے غرباء ،مساکین و دیگر مصارف میں تقسیم بھی کریں گے
تاہم سب کچھ ہونے کے باوجود گھروں میں گوشت کی بڑی تعداد اکھٹی ہوجاتی ہے۔گوشت
کو محفوظ بنانے کے لیے مختلف ٹوٹکے استعمال کیے جاتے ہیں جبکہ جدید دور میں
اسے محفوظ بنانے کے لیے فریج کو نہایت اہمیت حاصل ہے یہی وجہ ہے کہ عیدقرباں
سے قبل اس کی خرید و فروخت میں اضافہ بھی ہوجاتا ہے۔اگر ٓاپ قربانی کے گوشت کو
زیادہ عرصے محفوظ بنانا اور استعمال کرنا چاہتے ہیں تو درج طریقے ٓازما کر گوشت کو
2ماہ تک کے لیے محفوظ بنا سکتے ہیں۔
قربانی کا گوشت فریز کرنے سے قبل اسے دھونے سے گریز کریں کیونکہ گوشت پر
پانی لگنے کے بعد اسے رکھا جائے تو اس میں بیکٹریا پیدا ہوجاتا ہے جو گوشت کو
خراب کردیتا ہے۔
https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318697
قربانی کا گوشت کتنی دیر بعد پکانا چاہیے؟ طبی ماہرین نے مشورہ دیدیا
Jul 21, 2021 | 10:36:AM
الہور (ویب ڈیسک) بڑی عید پر بڑے پکوان نہ کھائے جائیں ایسا تو ممکن نہیں لیکن
ٹھہریے جناب ایک فرد کو دن کے 24گھنٹوں میں صرف آدھا سے ایک پاؤ گوشت ہی
کھانا چاہیے ،زیادہ گوشت کھانے سے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
تحقیقات | 30 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ قربانی کے گوشت کو فوری نہیں پکانا چاہیے۔ گوشت کو ایک
دو گھنٹے رکھیں پھر ہنڈیا چڑھائیں۔
ماہرین صحت کے مطابق جب گوشت اچھی طرح گل جائے تو اسے خوب چبا چبا کر
عیداالضحی پر گوشت ضرور کھائیں لیکن ہاتھ ذرا ہلکا
ٰ کھائیں۔طبی ماہرین کہتے ہیں کہ
رکھیں۔
قربانی کے بعد جانوروں کی آالئشیں گلی محلے میں نہیں بلکہ کچراکنڈی میں پہنچائیں اور
صفائی کا خاص خیال رکھیں ورنہ مچھروں اور مکھیوں کی بہتات سے متعدد امراض
پھوٹ سکتے ہیں۔ماہرین طب کے مطابق قربانی کے گوشت میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے
اس لیے ذیابیطس،ہائی بلڈ پریشر سمیت دل کے امراض میں مبتال افراد کو خاص احتیاط
کرنی چاہیے۔
https://dailypakistan.com.pk/21-Jul-2021/1318701
شدید گرمی میں پرسکون نیند لینے اور اپنے آپ کو ٹھنڈا رکھنے کے
دلچسپ طریقے
Jul 19, 2021 | 19:05:PM
لندن(مانیٹرنگ ڈیسک) اس شدید گرمی کے موسم میں رات کو پرسکون نیند کیسے
لیں؟ برطانیہ کے نیند کے گرو جیمز ولسن نے اس کے کچھ آسان حربے بتا دیئے ہیں۔ دی
سن کے مطابق جیمز ولسن نے کہا ہے کہ گرمیوں کے موسم میں رات کے وقت خود کو
ٹھنڈا رکھنے اور پرسکون نیند لینے کے لیے اپنے پیروں میں نیم گرم پانی کی ایک بوتل
رکھیں۔ یہ گرم بوتل آپ کے پیروں کے تلوﺅں کو َمس کرتی رہنی چاہیے۔ ابتداءمیں 10منٹ
کے لیے اس کے اوپر پاﺅں رکھیں اور پھر اسے پیروں کی طرف رکھ کر سو جائیں۔
جیمز کا کہنا تھا کہ اس طریقے پر عمل کرنے اور سونے سے پہلے اگر آپ نیم گرم پانی
سے نہا لیں تو اس سے خود کو ٹھنڈا رکھنے میں بہت زیادہ مدد ملے گی۔ ان دو طریقوں
کے عالوہ کچھ احتیاطی تدابیر بھی ہیں جن پر عمل کرنے سے گرمیوں میں خود کو ٹھنڈا
رکھنے میں مدد مل سکتی ہے۔ ان میں سے پہلی یہ ہے کہ گرمیوں میں زیادہ پروٹین مت
کھائیں۔ سپرے بوتل میں پانی ڈال کر رکھیں اور رات کے وقت کئی بار اپنے چہرے اور
گردن پر پانی کا سپرے کریں۔ اگر ممکن ہو تو پہلی منزل پر واقع کسی کمرے میں سوئیں
کیونکہ یہ کمرے زیادہ ٹھنڈے ہوتے ہیں۔
جیمز نے مزید بتایا کہ ڈنر میں انڈا کھائیں۔ انڈا کھانے سے زیادہ نیند آتی ہے چنانچہ آپ کو
پرسکون نیند پانے میں اس سے بھی مدد مل سکے گی۔ اپنے پنکھے کے سامنے ٹھنڈے
پانی سے بھرا کوئی برتن رکھیں۔ گرمیوں کے اس موسم میں کاٹن اور بمبو کی بیڈ شیٹ
استعمال کریں۔ ان تمام طریقوں اور احتیاطی تدابیر کے عالوہ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ
تحقیقات | 31 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اپنے آپ کو ذہنی طور پر پرسکون رکھنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ ذہنی طور پر گرمی
کو خود پر مسلط کریں گے تو مذکورہ طریقے ناکام ثابت ہوں گے۔
https://dailypakistan.com.pk/19-Jul-2021/1318069
شدید گرمی میں بھی 30دن تک محفوظ رہنے والی کورونا ویکسین
تیار
تحقیقات | 32 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک
بدھ 21 جوالئ2021
یہ ویکسین 90منٹ تک 100ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت پر رکھنے کے بعد بھی
کارٓامد رہی۔ (فوٹو :سی ایس ٓائی ٓار او)
کووڈ 19
کینبرآ :اسٹریلوی اور بھارتی ماہرین نے مشترکہ تحقیق کرتے ہوئے ایک نئی ِ
ویکسین تیار کرلی ہے جو 37ڈگری سینٹی گریڈ کی شدید گرمی میں بھی 30دن تک
محفوظ اور کارٓامد رہتی ہے۔
ابتدائی تجربات کے دوران اسے چوہوں اور گنی پگ (چوہوں جیسے جانوروں) پر کامیابی
سے ٓازمایا جاچکا ہے جبکہ ان ٓازمائشوں کی تفصیالت ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس
انفیکشس ڈزیز‘‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہوئی ہیں۔
یہ ویکسین ٓاسٹریلیا کی اسٹارٹ اپ کمپنی ’’من ویکس‘‘· اور بھارت کے ’’انڈین انسٹی
ٹیوٹ ٓاف سائنس‘‘ کے ماہرین کی مشترکہ تحقیق کا نتیجہ ہے۔
اس ویکسین کی ابتدائی ٓازمائشیں ٓاسٹریلیا میں سائنسی اور صنعتی تحقیق کے قومی ادارے
’’کامن ویلتھ سائنٹفک اینڈ انڈسٹریل ریسرچ ٓارگنائزیشن‘‘· (سی ایس ٓائی ٓار او) کی تجربہ
گاہ میں کی گئیں جن سے معلوم ہوا کہ یہ کورونا وائرس کی چار اہم موجودہ اقسام یعنی
الفا ،بی-ٹا ،گیما اور ڈیلٹا ویریئنٹس کے خالف مؤثر ہے۔
تحقیقات | 33 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تجربات کے دوران ایک موقع پر یہ ویکسین 90منٹ تک 100ڈگری سینٹی گریڈ درجہ
حرارت پر رکھنے کے بعد بھی اسی طرح کارٓامد رہی۔
واضح رہے کہ کورونا ویکسینز کو محفوظ کرنے کےلیے سرد ماحول کی ضرورت ہوتی
کووڈ ویکسین کو منفی 81سے منفی 60ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ مثالً فائزر کی تیار کردہ ِ
کے شدید سرد درجہ حرارت پر یعنی ’’الٹرا کولڈ اسٹوریج‘‘ میں پندرہ دنوں تک ہی
محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
دوسری کورونا ویکسینز بھی اگرچہ نسبتا ً کم درجہ حرارت پر محفوظ رہتی ہیں لیکن انہیں
بھی عام ریفریجریٹر یا ڈیپ فریزر جیسی اندرونی ٹھنڈک الزما ً درکار ہوتی ہے۔
ان اضافی انتظامات اور اخراجات کی وجہ سے دور افتادہ اور پسماندہ عالقوں تک ویکسین
کو بحفاظت پہنچانا بہت مشکل اور مہنگا عمل بن جاتا ہے۔
نئی کورونا ویکسین کی انسانی ٓازمائشیں اس سال کے اختتام تک شروع کردی جائیں گی۔
اگر یہ ویکسین ان ٓازمائشوں میں بھی کامیاب رہی تو ویکسین کو مستقل سرد رکھنے کا
مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔
https://www.express.pk/story/2204359/9812/
تحقیقات | 34 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اومیگا تھری کی کمی سے عین وہی نقصان ہوسکتا ہے جو تمباکو نوشی سے سامنے ٓاتا
ہے ،اومیگا تھری چکنائی والی مچھلیوں اور تصویر میں موجود اشیا میں عام پایا جاتا ہے۔
کینیڈا :طب کے ماہرین نے ایک خوبصورت مثال سے بات سمجھاتے ہوئے کہا ہے کہ اگر
کوئی چکنائی بھری مچھلیوں سے منہ موڑتا ہے تو اس کا نقصان عین تمباکونوشی جیسا
ہی ہوگا۔
اس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہ ماہرین نے کہا ہے کہ مچھلی میں اومیگا تھری جیسا قیمتی
مرکب ہوتا ہے جو دل و دماغ کے لیے تو مفید ہے ہی لیکن اس کی کمی سے اوسط زندگی
سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ متاثر ہوکر کم ہوجاتی ہے۔
ت بد سے اپنی قیمتی حیاتماہرین نے خیال ظاہر کیا ہے کہ سگریٹ نوش افراد اپنی عاد ِ
کے اوسط چار سال کم کردیتے ہیں لیکن سامن اور میکرل جیسی اومیگا تھری سے
بھرپور مچھلیوں سے منہ موڑ کر اوسط زندگی میں پانچ سال کی کمی واقع ہوسکتی ہے۔
یعنی اومیگا تھری کی جسم میں کمی سگریٹ نوشی سے بھی زیادہ خطرناک ہوسکتی ہے۔
کینیڈا کی یونیورسٹی ٓاف گوئیلف سے وابستہ سائنسداں ،ڈاکٹر مائیکل ِمک برنی کہتے ہیں
کہ جسم میں اومیگا تھری کو ایک اشاریئے سے ناپا جاتا ہے۔ اس کی بہترین صورت چار
سے ٓاٹھ فیصد تک ہوتی ہے اور اس سے کم کو اومیگا تھری کی کمی کہا جاتا ہے۔
اومیگا تھری خون کو صاف ،پتال اور ہموار رکھتا ہے۔ اس طرح بلڈ پریشر اور دل کی
بیماریاں پیدا نہیں ہوتیں اور انسان طویل تندرست زندگی گزارتا ہے۔ اگر 65سال کی عمر
تحقیقات | 35 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کا کوئی شخص تمباکو نوشی کرتا ہے تو اس کی زندگی کے چار سال ویسے ہی کم
ہوجاتے ہیں جبکہ اس عمر میں اومیگا تھری اور مچھلی نہ کھانے سے یہ فرق پانچ برس
تک جاپہنچتا ہے۔
یہ تحقیق امریکن جرنل ٓاف کلینکل نیوٹریشن میں شائع ہوئی ہے جس میں فریمنگھم اسٹڈی
سے مدد لی گئی ہے جو اس ضمن میں ایک بہت بڑا سروے اور تاحال جاری ہے۔ اس
مطالعے میں شامل ہزاروں افراد کا طویل عرصے تک مطالعہ کیا گیا ہے۔ ان افراد کی
جنس ،عمر ،تمباکونوشی ،غذائی عادات اور ورزش کے رحجانات تک کو دیکھا گیا ہے۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ اومیگا تھری کی کمی سے کم عمری میں اموات واقع ہوئیں اور
یوں کہا جاسکتا ہے کہ مچھلی کھانے سے عمر بڑھتی ہے۔
https://www.express.pk/story/2204204/9812/
ٓاسٹریلیا کی فنل ویب مکڑی کے زہر سے دل کے دورے کے بعد خلیاتی موت اور دل کو
ناقابل تالفی نقصان سے بچایا جاسکتا ہے
ِ
کوئنز لینڈٓ :اسٹریلیا میں عام پائی جانے والی ایک مکڑی کے زہر میں ایسے جزو کا
انکشاف ہوا ہے جس سے دل کے دورے میں مریض کو فائدہ ہوسکتا ہے۔
اس سے قبل اسی فنل ویب نامی مکڑی کے زہر کو جلد کے سرطان اور فالج کے حملے
کے خالف مؤثر پایا گیا ہے۔ اب اس میں ایک سالمہ(مالیکیول)· پایا گیا ہے جو ہارٹ اٹیک
کے بعد ’موت کے سگنل‘ کو روک کر مریض کو ابتدائی طبی مدد فراہم کرسکتا ہے۔
یونیورسٹی ٓاف کوئنزلینڈ کے ماہرین نے پچھلی تحقیق پردوبارہ نظر ڈالتے ہوئے فنل ویب
مکڑی کے زہر میں ایک چھوٹا سالمہ دیکھا ہے۔ اسے فالج زدہ چوہوں پر ٓازمایا گیا تو اس
تحقیقات | 36 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نے دماغی تباہی کو بہت حد تک روکا یہاں تک کہ فالج کے حملے کے کئی گھنٹوں بعد
بھی اس کی شفائی تاثیر نمایاں رہی۔
جامعہ سے وابستہ پروفیسر گلین کنگ کہتے ہیں کہ اس پروٹین کا نام ’ایچ ٓائی ون اے‘
ہے ،اگر فالج کے ٓاٹھ گھنٹے بعد بھی اس کا ٹیکہ لگایا جائے تو حیرت انگیز طور پر بہت
فائدہ ہوتا ہے اور دماغ تباہی سے بچ جاتا ہے۔ پھراسی سالمے کو دل کے دورے کے لیے
بھی ٓازمایا گیا۔
سائنسدانوں نے انسانی قلب کے دھڑکتے ہوئے خلیات لیے اور ان پر بیرونی طور پر ہارٹ
اٹیک جیسا دباؤ ڈاال۔ لیکن اس کےبعد جیسے ہی دل پر یہ سالمہ ڈاال گیا تو دل کے خلیات
میں تیزی سے پھیلنے والے ’ڈیتھ سگنل‘ رک گئے۔ دل کے دورے میں یہ سگنل دل میں
ہر خلیے تک پھیل کر دل کو نقصان پہنچاسکتے ہیں۔
دل کے دورے کے بعد قلب تک خون کی فراہمی متاثر ہوتی ہے جس سے ٓاکسیجن بھی ’
کم ہوجاتی ہے۔ اس طرح دل کے پٹھوں کے خلیات تیزابی ہوجاتے ہیں اور سب مل کر دل
کے خلیات کو ’مرجانے کا پیغام‘ دیتے ہیں ‘،تحقیق میں شامل ایک اور سائنسداں ناتھن
پلپنت نے کہا۔
تحقیق سے معلوم ہوا کہ ایچ ٓائی ون اے نے دل کے ٓائن چینل میں تیزاب شناخت کرنے کی
قوت سلب کرلی اور موت کا سگنل ایک مقام پر رک گیا اور جب دل کے خلیات تک یہ
سگنل نہیں پہنچا تو وہ سالمت اور زندہ رہے۔ اب تک دل کے خلیات کو فنائیت کا سگنل
تحقیقات | 37 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
روکنے کا کوئی طریقہ دریافت نہیں ہوسکا ۔ اس طرح ہارٹ اٹیک سے دل کے نقصان کو
بچانے میں مدد مل سکے گی۔
ماہرین کے مطابق جس طرح انجائنا کے عالج میں ایک گولی زبان کے نیچے رکھی جاتی
ہے عین اسی طرح دل کے بڑے دورے میں اس سالمے کو پہلی طبی امداد کے طور پر دیا
جاسکے گا۔
https://www.express.pk/story/2202906/9812/
ویب ڈیسک
پير 19 جوالئ 2021
دوسال سے کم عمر میں اینٹی بایوٹکس دینے سے ان کا دماغ اور اس کی سرگرمی متاثر
ہوسکتی ہے۔ فوٹو :فیوچراٹی
نیوجرسی :تجربہ گاہ میں ہونے والے ایک مطالعے سے معلوم ہوا ہے کہ عموما ً بچوں کو
ابتدائی عمر میں دی جانے والی مشہور اینٹی بایوٹکس ،پینسلین ( ایمپسلین اور اموکسو
سیلین) سے جسم (بالخصوص معدے) کے اندر بیکٹیریا اور جرثومے کی کیفیات بدل جاتی
تحقیقات | 38 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہے۔ یہ خردنامئے اور بیکٹیریا اربوں کھربوں کی تعداد میں موجود ہیں ۔ لیکن ساتھ ہی
اینٹی بایوٹکس سے جینیاتی کیفیات پر بھی فرق پڑتا ہے۔ اس سے وہ خلیات متاثر ہوتے ہیں
جو ابتدائی عمر میں دماغی تشکیل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
پینسلین سے وابستہ ادویہ بچوں کو دوسال کی عمر سے پہلے عام طور پر کھالئی جاتی
ہیں اور امریکہ میں اس کے تین کورس کرائے جاتے ہیں۔ رٹگرز یونیورسٹی میں ایڈوانسڈ
بایوٹیکنالوجی مرکز کے سربراہ مارٹِن بلیسر کہتے ہیں کہ انہوں نے بعض نومولود
جانوروں پر اس کے اثرات کا جائزہ لیا ہے۔ اگرچہ یہ ابتدائی کام ہے خردنامیوں کی تبدیلی
اور دماغی نشوونما کے درمیان گہرا تعلق ظاہر ہوا ہے۔
اس ضمن میں چوہے کے ان بچوں کو پینسلین کی ہلکی خوراک دی گئیں جنہوں نے چند
روز قبل ٓانکھ کھولی تھی۔ دوسرے گروہ کے بچوں کو اینٹی بایوٹکس نہیں دی گئی اور ان
دونوں کا باہمی موازنہ کیا گیا۔ جن چوہوں کو پینسلین دی گئی ان کی ٓانتو ں میں خردنامیوں
کی ترتیب بدلی اور دماغی قشر(کارٹیکس) اور ایمگڈاال کی تشکیل کرنے والے جین کا
اظہار(ایکسپریشن)· بھی بدل گیا۔
دماغ کے یہ دو گوشے بہت اہم ہیں ،اول مقام پر حافظہ تشکیل پاتا ہے اور دوسرا گوشہ
خوف اور دماغی تناؤ سے وابستہ ہوتا ہے۔ اس بات کے گہرے ثبوت ملے ہیں دماغ میں
خردنامیوں اور بیکٹیریا وغیرہ اور دماغی سگنل کے درمیان گہرا تعلق پایا جاتا ہے۔ اس
طرح دماغ اور ٓانتوں کے درمیان گہرا تعلق پایا گیا ہے۔
ماہرین یہاں تک کہہ رہے ہیں کہ اینٹی بایوٹکس سے معدے اور ٓانتوں کے صحت مند
خلیات جس طرح بدلتے ہیں ان کا اثر دماغ پر پڑتا ہے اور نومولود اپنے بچپن اور یا
بلوغت میں اعصابی تنزلی اور دماغی نفسیات کے شکار بھی ہوسکتے ہیں۔
اس ضمن میں ٓاگہی کی ضرورت کے ساتھ ساتھ الزمی ہے کہ جہاں تک ممکن کو بہت
چھوٹے بچوں کو اینٹی بایوٹکس دینے سے گریز کیا جائے۔
https://www.express.pk/story/2203744/9812/
نئے ٹیسٹ سے ذیابیطس کے مریضوں· کو شوگر معلوم کرنے کےلیے سوئی چبھو کر
خون نکالنے کی تکلیف سے نجات مل جائے گی۔ (تصاویر :یونیورسٹی ٓاف نیوکیسل)
تحقیقات | 39 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نیو
ساﺅتھ ویلزٓ :اسٹریلوی ماہرین نے ایک ایسا شوگر ٹیسٹ ایجاد کرلیا ہے جس کے ذریعے
ب دہن (تھوک) میں شکر کی مقدار معلوم کرتے ہوئے کسی شخص کے ذیابیطس میں لعا ِ
مبتال ہونے یا نہ ہونے کا پتا چالیا جاسکتا ہے۔
تحقیقات | 40 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کاالگان ،نیو ساؤتھ ویلز میں واقع یونیورسٹی ٓاف نیوکیسل کے ڈاکٹر پال دستور اور ان کے
ساتھیوں نے یہ انقالبی شوگر ٹیسٹ ایجاد کیا ہے جو ویسی ہی ’’ٹیسٹنگ اسٹرپ‘‘ پر
مشتمل ہے جیسی روایتی شوگر ٹیسٹ میں استعمال کی جاتی ہے۔
نئے شوگر ٹیسٹ کی بدولت دنیا بھر میں ذیابیطس کے تقریبا ً 46کروڑ مریضوں کو اپنے
جسم میں شکر کی مقدار معلوم کرنے کےلیے ہر بار انگلی میں سوئی چبھو کر خون
نکالنے کی تکلیف سے نجات مل جائے گی۔
واضح رہے کہ خون کی طرح تھوک میں بھی شکر کی بہت معمولی مقدار ہوتی ہے۔ البتہ
ب دہن کی شکر استعمال کرنے کا تصور چند سال پہلے ہی ذیابیطس کی تشخیص میں لعا ِ
سامنے ٓایا ہے۔
ڈاکٹر پال دستور اور ان کے ساتھیوں نے اسی تحقیق سے استفادہ کرتے ہوئے ایسے
حیاتیاتی حساسیے (بایو سینسرز) بنائے ہیں جو تھوک میں شامل شکر کی مقدار صرف چند
سیکنڈ میں معلوم کرسکتے ہیں۔
ان حساسیوں کو ایک پٹی (اسٹرپ) کا حصہ بنایا گیا ہے جو خون کے ذریعے شوگر معلوم
کرنے والی ٹیسٹنگ اسٹرپ جیسی ہے۔
تحقیقات | 41 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
استعمال کی غرض سے اس پٹی کو زبان سے چاٹنے والے انداز میں چھوا جاتا ہے تاکہ
ب
اس پر تھوڑی سی مقدار میں تھوک جمع ہوجائے۔ پھر اسے ایک ٓالے میں رکھ کر لعا ِ
دہن میں شکر کی مقدار معلوم کرلی جاتی ہے۔
تھوک میں شامل شکر کی اس مقدار کا موازنہ معیاری پیمائشوں سے کرتے ہوئے اس کے
معمول کے مطابق ،کم یا زیادہ ہونے کا پتا چالیا جاتا ہے۔
تحقیقات | 42 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نئے شوگر ٹیسٹ کو تجارتی پیمانے پر متعارف کروانے کےلیے ٓاسٹریلوی حکومت اور
ایک نجی کمپنی سے ڈاکٹر پال نے مجموعی طور پر ایک کروڑ 26الکھ ڈالر کی رقم جمع
کرلی ہے۔
انہیں امید ہے کہ نئے شوگر ٹیسٹ کےلیے اسٹرپس اور متعلقہ ٓالہ بنانے کا کارخانہ اس
سال اختتام تک مکمل ہوجائے گا جبکہ اس سے پہلی تجارتی کھیپ 2023تک فروخت
کےلیے پیش کردی جائے گی۔
https://www.express.pk/story/2204011/9812/
ویب ڈیسک
جگر ہمارے جسم کا دوسرا بڑا اور نظام ہاضمہ میں اہم کردار ادا کرنے واال عضو ہے۔ ہم
جو بھی شے کھاتے ہیں ،چاہے غذا ہو یا دوا ،وہ ہمارے جگر سے گزرتی ہے۔ اگر جگر
کی صحت کا خیال نہ رکھا جائے تو یہ بآاسانی خراب ہو کر ہمیں بہت سے امراض میں
مبتال کرسکتے ہیں۔جگر انسان جسم کے ان حصوں میں سے ایک ہے جن کو عام طور پر
اس وقت تک سنجیدہ نہیں لیا جاتا جب تک وہ مسائل کا باعث نہیں بننے لگتے اور کچھ
لوگوں کے لیے بہت تاخیر ہوجاتی ہے۔
جگر کا ایک عام مرض ہیپاٹائٹس ہے جو بعض اوقات جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا ہے ،یہاں
ہم ٓاپ کو ان عالمات کے بارے میں بتا رہے ہیں جو جگر کی خرابی کی طرف اشارہ
تحقیقات | 43 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کرتی ہیں۔ اگر ٓاپ کو ان میں سے کسی بھی عالمت کا سامنا ہے توٓاپ کو فوری طور پر
ڈاکٹر سے رجوع کرنے کی ضرورت ہے۔
جگر کا درست طریقے سے کام کرنا متعدد وجوہات کے باعث اچھی صحت کے لیے
انتہائی ضروری ہے تاہم اس کی بڑی اہمیت یہ ہے کہ ہم جو کچھ بھی کھاتے ہیں اسے
ہضم کرنے کے لیے جگر کی ضرورت ہوتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ یقین کرنا مشکل ہو مگر جگر کے سو سے زیادہ مختلف امراض ہوتے ہیں،
جن کی وجوہات بھی مختلف ہوتی ہے جیسے کوئی انفیکشن ،بہت زیادہ الکحل کا استعمال،
مخصوص ادویات ،منشیات ،موٹاپا اور کینسر وغیرہ۔
اگرچہ مختلف وجوہات کے باعث مختلف امراض کا سامنا ہوسکتا ہے مگر جگر کے بیشتر
امراض سے عضو کو لگ بھگ ایک جیسے انداز سے ہی نقصان پہنچتا ہے ،یہی وجہ ہے
کہ وہ ایک جیسے لگتے ہیں اور ان کی عالمات بھی ملتی جلتی ہوتی ہیں۔
اکثر اوقات جگر کے کسی بیماری اور اس سے متعلق عالمات بہت تیزی سے ابھرتی ہیں،
جس کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں مگر زیادہ تر جگر کے امراض دائمی ہوتے ہیں ،یعنی
ان میں عضو کو وقت کے ساتھ بتدریج نقصان پہنچتا ہے اور عالمات بھی بتدریج سامنے
ٓاتی ہیں۔
جگر کے امراض کی ابتدائی عالمات
بیشتر افراد جگر کے مختلف امراض کی ابتدائی عالمات کو پہچان نہیں پاتے اور اگر ان
پر توجہ چلی بھی جائے تو یہ جاننا مشکل ہوسکتا ہے کہ ان کی وجوہات کیا ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے جگر کے مسائل کی ابتدائی نشانیاں بہت عام ہوتی ہیں جیسے پیٹ میں
درد ،بھوک کا احساس نہ ہونا ،تھکاوٹ یا توانائی کی کمی اور ہیضہ۔ ان عالمات سے
لوگوں کو یہ احساس ہوسکتا ہے کہ یہ عام سی بیماری ہے۔
نمایاں عالمات۔
جلد یا ٓانکھوں کی رنگت پیلی ہوجانا (یرقان)
جیسے جیسے جگر کے نقصان میں اضافہ ہوتا ہے ،تو مسئلے کی واضح نشانیاں ابھرنے
لگتی ہیں ،جلد کی رنگت معمول سے زیادہ زرد ہوسکتی
ہیں جبکہ ٓانکھوں کی سفیدی میں بھی پیالہٹ غالب ٓاجاتی ہے ،ڈاکٹر اسے یرقان کہتے ہیں۔
خارش
اگر جگر کے مسائل دائمی ہو تو خارش کا احساس بھی ایک عالمت ہوسکتا ہے۔ ایسا اس
وقت بھی ہوسکتا ہے جب کسی قسم کے جلدی مسائل کا سامنا نہ بھی ہو ،یہ خارش سونا
مشکل کرسکتی ہے ،اگر ایسا ہو تو ڈاکٹر سے رجوع کرنا بہتر ہے۔
پیٹ پھول جانا
اگر جگر داغ دار ہوجائے تو اس سے جگر کے لیے خون کی روانی رک سکتی ہے جس
سے ارگرد کی خون کی شریانوں میں دبائو بڑھ جاتا ہے۔ ایسا ہونے سے سیال کا اخراج
ہوتا ہے اور وہ پیٹ میں جمع ہوتا ہے۔ یہ سیال اور سوجن کم بھی ہوسکتی ہے اور زیادہ
بھی۔
تحقیقات | 44 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
پیڑوں اور ٹخنوں میں ورم
ٹانگوں کا سوجنا جگر کے امراض میں عام ہوتا ہے۔ اگر آپ کے پیر اکثر سوج جاتے ہیں،
تو یہ جگر میں مسائل کی نشانی ہوسکتی ہے کیونکہ یہ بھی سیال کے اجتماع کا نتیجہ ہوتا
ہے۔ ایسی صورت میں نمک کا کم استعمال یا ادویات سے مدد حاصل کی جاسکتی ہے۔
پیشاب کی رنگت گہری ہونا
جب جگر معمول کے مطابق بائل نامی سیال کو بنا نہیں پاتا یا جگر سے اس کا بہائو رکتا
ہے ،تو فضلے کی رنگت لکڑی کی طرح زرد ہوجاتی ہے جس کے ساتھ عموما ً زرد جلد
یا یرقان بھی نمودار ہوتا ہے۔ اسی طرح پیشاب کی رنگت بہت گہری ہوجاتی ہے۔
تھکاوٹ اور الجھن
ہر ایک کو کسی نہ کسی وقت تھکاوٹ کا سامنا ہوتا ہی ہے مگر جگر کے امراض کے
باعث جس تھکان کا تجربہ ہوتا ہے وہ بالکل متختلف ہوتی ہے۔ جگر میں خرابی کی
صورت میں یہ عضو توانائی پر کنٹرول کرکے دن کو پورا کرنا انتہائی مشکل بنا دیتا ہے۔
متلی اور قے
جگر کے امراض کے نتیجے میں معدہ اکثر خراب رہنے لگتا ہے ،جب مرض کی شدت
بڑھتی ہے تو معاملہ بدتر ہوجاتا ہے ،جس کے نتیجے میں مسلسل قے یا متلی کا سامنا ہوتا
ہے ،جو جگر کے مسائل کی نشانی ہے۔ اگر جگر کے افعال تھم رہے ہیں یا جگر فیل ہورہا
ہے تو قے میں خون بھی نظر ٓاسکتا ہے۔
جگر کے امراض سے حفاظت
جگر کو مختلف امراض اور مسائل سے بچانے کے لیے مندرجہ ذیل حفاظتی تدابیر اپنانے
کی ضروت ہے۔ صحت مندانہ طرز زندگی اپنایا جائے۔ گوشت ،پھل ،سبزی ،اور ڈیری
غذائیں متوازن طریقے سے کھائی جائیں تاکہ جسم کی تمام غذائی ضروریات پوری ہوں
https://urdu.arynews.tv/liver-failure-digestive-system-health-tips/
ویب ڈیسک
تحقیقات | 45 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کرنے کا موقع ہے تو دوسری جانب اس روز دوستوں رشتہ داروں سے مل بیٹھنے کا موقع
بھی مل جاتا ہے۔
االضحی تو
ٰ جب سب مل بیٹھیں تو مزے مزے کے کھانوں کا اہتمام کیوں نہ ہو ،اور عید
ہے بھی مزیدار پکوان بنانے کا نام ،تو ایسے موقع پر دستر خوان پر ہاتھ روکنا مشکل
ہوجاتا ہے۔ لیکن ایسے میں بے احتیاطی ٓاپ کو نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔
چونکہ عید کے دنوں میں مرغن اور مصالحہ دار پکوان بہت زیادہ کھانے میں ٓاتے ہیں تو
ایسے میں معدے اور پیٹ کی تکلیف میں مبتال ہوجانا ایک عام بات ہے۔ اسی صورتحال
سے بچنے کے لیے ہم ٓاپ کو کچھ مفید تجاویز بتا رہے ہیں جنہیں اپنا کر ٓاپ کسی تکلیف
میں مبتال ہوئے بغیر دعوتیں اڑا سکتے ہیں۔
صفائی کا خیال رکھیں
رواں برس عید پر بارشوں کا سیزن ہے ،ایسے موسم میں مکھیوں اور مچھروں کی بہتات
ہوجاتی ہے جس سے مختلف وبائی امراض پھیلنے لگتے ہیں ،لہٰ ذا نہ صرف گھر کو صاف
ستھرا رکھنا ضروری ہے بلکہ کھانا بھی حفظان صحت کے اصولوں کے مطابق پکایا
جائے۔
اپنے گھر سے باہر گلیوں اور محلوں کی صفائی کرنا بھی نہ بھولیں اور قربانی کے بعد
فوری طور پر ٓاالئشوں کو ٹھکانے لگا کر صفائی کریں اور جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ
کریں۔
پانی کا استعمال
دن کے وقت عزیز و اقارب سے ملنے کے لیے یا سیر و تفریح کے لیے نکلتے ہوئے یا
پھر قربانی کا فریضہ انجام دیتے ہوئے سخت مصروفیت کے دوران پانی پینا نہ بھولیں۔ دن
بھر کی مصروفیت میں پانی کی کمی طبیعت خرابی کا باعث بن سکتی ہے۔
سالد ضرور کھائیں
تحقیقات | 46 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اگر ٓاپ خاتون خانہ ہیں اور اپنے گھر میں ایک شاندار سی دعوت کا اہتمام کر رہی ہیں تو
سالد کو مینیو کا الزمی جز رکھیں۔ مختلف سبزیوں پر مشتمل سالد یقینا ً کھانے کی تیزی
کو کم کرنے میں مدد دے گا۔
کولڈ ڈرنک سے گریز
کھانے کے ساتھ کولڈ ڈرنک رکھنے سے گریز کریں۔ اس کی جگہ فریش جوسز رکھے
جاسکتے ہیں۔ اگر ٓاپ کسی کے گھر مہمان بن کر گئے ہیں تو کھانے کے بعد کولڈ ڈرنک
کی جگہ ٹھنڈا پانی پئیں۔
پھلوں کا استعمال
دعوت میں کھانے کے بعد پھلوں سے بنا ہوا میٹھا دعوت کا مزہ دوباال کردے گا اور
طبیعت پر بوجھ بھی نہیں بنے گا۔
دال اور سبزی بہترین
عید کی تعطیالت میں جس دن کوئی دعوت نہ ہو اس دن کم مصالحوں کی سبزیاں یا دال
چاول بنائیں۔ یہ سادہ کھانا مسلسل کھائے جانے والے مرغن کھانوں کے منفی اثرات سے
نمٹنے میں مدد دے گا۔
دہی بہترین شے
عید کی تعطیالت میں گھر پر رہتے ہوئے دہی اور لسی کو اپنے کھانے کا حصہ بنا لیں۔ یہ
ٓاپ کو گرمی اور مرغن کھانوں کے اثرات سے بچانے میں معاون ثابت ہوگا۔
ورزش کریں
دن کے ٓاخر میں سونے سے قبل کھلی ہوا میں چند منٹ کی چہل قدمی نہایت فائدہ مند ثابت
ہوگی اور ٓاپ کے جسمانی نظام کو معمول کے مطابق رکھنے میں مدد گار ثابت ہوگی۔
https://urdu.arynews.tv/eid-dishes/
بہترین نسخہ :کولیسٹرول اور بلڈپریشر کا مسئلہ حل ،وزن بھی کم ہوگا
ویب ڈیسک
تحقیقات | 47 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سالم اناج کا استعمال کرنے والوں میں بلڈ پریشر اور بلڈ شوگر لیول بھی مقابلتا ً ان افراد
سے کم رہتا ہے جو یہ خوراک دن میں ڈیڑھ سرونگ تک استعمال کرتے ہیں۔
اس تحقیق کے نتائج گزشتہ روز جرنل ٓاف نیوٹریشن میں شائع ہوئے ہیں۔ محققین کا کہنا تھا
کہ بلڈ پریشر ،کولیسٹرول اور اضافی وزن امراض قلب کے خطرات کو بڑھاتا ہے لہذا
سالم اناج کو اپنی خوراک کا حصہ بنائیں۔
تحقیقات | 48 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس مشاہدے میں شامل وہ شرکا جنہوں نے کم از کم تین اقسام کے اناج کا استعمال کیا ان کا
بلڈ پریشر 74اور 122تک رہا جبکہ اوسطا ً یہ شرح 75اور 125تک رہی ،یہ تحقیق
ٹفٹس یونیورسٹی بوسٹن میساچوسسٹس امریکا کے جین مائر یو ایس ڈی اے ،ہیومین
نیوٹریشن ریسرچ سینٹر ٓان ایجنگ میں کی گئی۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ سالم اور مختلف اناج وزن کے ساتھ بڑھتی عمر میں بھی معاون کرتی
ہے
https://urdu.arynews.tv/best-prescription-cholesterol-and-blood-
/pressure-problem-solution-weight-loss
ویب ڈیسک
کرونا وائرس کی وبا نے جہاں دنیا بھر میں ناقابل تالفی معاشی نقصان کیا وہیں کچھ شعبے
ایسے بھی ہیں جو اس وبا کے دوران خوب پھلے پھولے ،کاسمیٹکس انڈسٹری بھی انہی
میں سے ایک ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کاسمیٹکس انڈسٹری کے لیے
نہایت خوش ٓائند ثابت ہوئی ہے۔
یہ ایک عام تاثر ہے کہ کرونا وبا کے دوران کئی پہلوؤں سے افراد بہتر رویوں کے قریب
ہوئے ہیں ،ان میں گھر کے ماحول کو بہتر بنانے ،ساتھ رہنے والوں کے ساتھ
تحقیقات | 49 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
خوشگواریت ،قوت مدافعت کو بہتر کرنے کے ساتھ ساتھ چہرے کو بھی بہتر بنانا شامل
ہے۔اس تناظر میں کاسمیٹکس سرجن نے وبا میں منفعت بخش صورت حال کو زوم بوم کا
نام دیا ہے ،کاسمیٹکس انڈسٹری سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ کیمرے سے ہونے والی
کانفرنسوں نے افراد کو بہتر روپ اپنانے کی جانب راغب کیا ہے۔
ایک کاسمیٹکس سرجن ڈاکٹر ڈینیئل زاٹلر کا کہنا ہے کہ زوم کانفرنسوں نے لوگوں کو
مجبور کر دیا ہے کہ وہ بہتر دکھائی دیں کیونکہ وہ گھنٹوں کیمرے کے سامنے ہوتے ہیں۔
امریکا میں ہونے والے ایک حالیہ سروے میں 86فیصد افراد نے بتایا کہ انہیں زوم
کانفرنسوں کی وجہ سے کاسمیٹکس کی ضرورت محسوس ہوئی ہے۔
ایک تحقیقی ادارے گرینڈ ویو ریسرچ کے مطابق سن 2020میں دنیا بھر میں ایستھیٹکس
میڈیسن کی مارکیٹ کا حجم 86بلین ڈالر سے زائد رہا اور سنہ 2028تک اس میں ساالنہ
بنیاد پر 10فیصد اضافے کا قوی امکان ہے۔ الک ڈاؤن کے باوجود امریکا میں جلد کے
ڈاکٹروں کے پاس 60فیصد مریضوں کی تعداد بڑھی ہے۔
ڈاکٹر ڈینیئل زاٹلر کا مؤقف ہے کہ خود کو بہتر بنانا ایک بہتر عمل ہے اور اب وبا رہے یا
نہ رہے ،لوگوں میں خود کو بہتر بنانے کا احساس باقی رہے گا اور اسی باعث پالسٹک
سرجری کے ماہرین کے پاس مریضوں· کی تعداد بھی بڑھتی رہے گی۔
https://urdu.arynews.tv/cosmetics-use-in-lock-down/
عام طور پر کھانے کے بعد میٹھا کھانا سنت ہے لیکن میٹحی غذائیں (شکر یا چینی ) اگر
حد سے زیادہ استعمال کی جائیں تو وہ صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہیں اسی لیے
میٹھی غذاؤں کا استعمال اعتدال میں ہونا چاہیے۔
اگر زندگی سے میٹھا نکل جائے تو یقینا ً زندگی بے رونق ہوجائے گی مگر اس کے صحت
پر بے شمار طبی فوائد مرتب ہوتے ہیں جن میں جسم کا اپنی اصل ساخت میں ٓا جانا،
شریانوں میں خون کی روانی برقرار رہنا ،شوگر جیسی خاموش اور خطرناک بیماری سے
بچأو ،کم عمر نظر ٓانا ،چہرے پر جھریوں کا عمل رُک جانا شامل ہے۔
ٓائیے ٓاپ کو بتاتے ہیں کہ میٹھا ترک کرنے یا کم کرنے سے صحت پر کیا اثرات مرتب
ہوتے ہیں۔
تحقیقات | 50 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ چینی کا زیادہ استعمال ذہنی دباؤ کا سبب بنتا ہے اور لیکن اگر
چینی ترک کردی جائے تو جسمانی وزن میں کمی ٓاتی ہے اور چربی بھی پگھلنا شروع
ہوجاتی ہے۔
طبی ماہرین کے مطابق انسان چینی یا شکر کا استعمال چھوڑ دے تو وہ جسم میں ورم،
سوجن اور سوزش سے بچ سکتا ہے اور ساتھ ہی نزلہ ،زکام یا بخار وغیرہ کا خطرہ بھی
کم ہوتا ہے جبکہ الرجی اور دمہ کی عالمات سے بچأو ممکن ہوتا ہے اور ہائی بلڈ پریشر
اور ہارٹ اٹیک سے بھی بچاتی ہے۔
چینی دانتوں میں لگنے والی کیوٹیز کا باعث بنتی ہے اور سکون کی نیند میں خلل بھی پیدا
کرتی ہے ،کیوں کہ اگر سونے سے قبل میٹھا کھایا جائے تو شوگر لیول کم ہوتا ہے اور
پسینہ بھی بہت زیادہ ٓاتا ہے لیکن اگر میٹھا چھوڑ دیں تو تین سے چار دن میں نیند کا معیار
بہتر ہوجائے گا۔
https://urdu.arynews.tv/disadvantages-of-eating-sweets-and-the-benefits-
of-skipping/
کسی بھی عادت اختیار کرنے میں تو وقت نہیں لگتا لیکن اسے چھوڑنے میں مہینے بلکہ
سالوں بھی لگ سکتے ہیں جوکہ انسانی صحت پر انتہائی برے اثرات مرتب کرتی ہیں۔آج
تحقیقات | 51 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہم آپ کو وہ عام عادات بتارہے ہیں جن سے چھٹکارا پاکر ہم اپنے دماغ کو جلد بوڑھا
ہونے سے بچاسکتے ہیں ،چند عادات درج ذیل ہیں۔
طرز زندگی
ِ غیر متحرک
غیر متحرک طرز زندگی یعنی بیٹھے رہنے کی عادت سے صحت پر منفی اثرات مرتب
ہوتے ہیں جیسا کہ نسیان ،محض صوفے پر بیٹھ کر ٹی وی دیکھنا ہی نہیں بلکہ دفتر میں
طرز زندگی میں شمار ہوتا ہے۔ اس لیے مستقل ِ کرسی پر بیٹھے رہنا بھی غیر متحرک
ورزش اور دن میں وقتا ً فوقتا ً چہل قدمی کر کے خود کو فٹ رکھنے کے طریقے تالش
کریں۔
فشار
ِ اس کے عالوہ مستقل بیٹھے رہنے والے افراد کو ذیابیطس ،دل کے امراض اور بلند
خون کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ یہ تمام عالمات الزائمر کی طرف بھی لے جا سکتی ہیں
کم نیند لینا
طرز زندگی کی وجہ سے بہت سارے لوگ نیند کو ترجیح بھی نہیں دیتے، ِ اپنے مصروف
بدقسمتی سے ان لوگوں کو اچھی نیند میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ،یاد رکھیں ہر
رات مناسب نیند لینا آپ کی صحت کے لیے بہت اہم ہے ،نیند میں کمی سے دماغ پر بہت
بُرا اثر پڑتا ہے ،جس کے باعث نسیان اور الزائمر جیسے خطرناک امراض الحق ہوسکتے
ہیں۔
اگر آپ کو رات کے اوقات میں سونے میں مشکل ہوتی ہے تو آپ کو شام کے بعد کیفین
رکھنے والے مشروبات اور الیکٹرانک· ڈیوائسز سے پرہیز کرنا چاہیے ،سونے کی باقاعدہ
تحقیقات | 52 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تیاری کریں ،ماحول کو پرسکون بنائیں ،آپ کو زندگی میں نئی تبدیلی محسوس ہوگی۔
ناقص خوراک
اُن لوگوں کے سیکھنے اور یاد رکھنے واال دماغ کا حصہ چھوٹا ہوتا ہے جو بہت زیادہ
برگر ،فرائیز ،آلو کے چپس کھاتے اور بوتلیں پیتے ہیں ،ایک صحت بخش غذا کا مطلب
ہے پھل ،خشک میووں اور سبزیوں کا زیادہ استعمال ،جو دماغ کو محفوظ کرتی ہیں اور
اس کے زوال کی رفتار بھی آہستہ کرتی ہیں۔
تحقیقات | 53 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تمباکو نوشی کے خطرات سے کون واقف نہیں؟ پھر بھی ایسے لوگوں کی تعداد کروڑوں
میں ہے جو تمباکو نوشی کرتے ہیں ،اس کے مضر اثرات کی طویل فہرست میں سے ایک
ہے دماغ کا سکڑ جانا۔
تمباکو نوشی یادداشت پر اثر مرتب کرتی ہے ،نسیان اور الزائمر جیسی بیماریوں کے
خطرے کو دو گنا کر دیتی ہے اور ساتھ ہی دل کے امراض ،ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر
فشار خون کا سبب بھی بنتی ہے۔
ِ یعنی بلند
زیادہ کھانا
طرز زندگی کا اہم حصہ بن گیا ہے۔ مل بیٹھنے کے لیے بھی کھانا اور
ِ آج کل کھانا گویا
باہر جانے کے لیے بھی کسی کھانے پینے کی جگہ ہی کی تالش کرنا گویا معمول ہے،
تحقیقات | 54 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یہی وجہ ہے کہ چٹوروں کی ایسی نسل تیار ہو چکی ہے کہ جن کی گفتگو کا محور محض
کھانا ہوتا ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ زیادہ کھانے سے دماغ کی سوچنے اور یاد رکھنے کے رابطے بنانے
کی صالحیت کمزور ہوتی ہے ،پھر زیادہ کھانے کے دوسرے بُرے اثرات بھی ہیں جیساکہ
موٹاپا ،جو آجکل “اُم االمراض” بنا ہوا ہے جیسا کہ دل کی بیماریاں ،ذیابیطس اور بلند
فشار خون جیسے خطرناک مرض۔ یہ سارے امراض دماغ کو بھی بُری طرح متاثر کرتے ِ
ہیں۔
تحقیقات | 55 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس کے عالوہ گھر میں زیادہ رہنا بھی دماغ کے لیے نقصان دہ ہو سکتا ہے ،بالخصوص
سرد عالقوں میں جسم کو دھوپ نہ ملنے سے بھی دماغ کی نمو سست پڑ جاتی ہے۔ تحقیق
بتاتی ہے کہ دھوپ دماغ کو اچھی طرح کام کرنے میں مدد دیتی ہے۔
اگر آپ کو پریشانی ہے کہ آپ زیادہ وقت تنہا گزارتے ہیں تو کوئی مقامی کلب جوائن کر
لیں یا کسی ایسی سرگرمی کا حصہ بنیں کہ جس سے آپ کے نئے رابطے بنیں۔
ذہنی دباؤ
وقتا ً فوقتا ً دباؤ کا شکار ہونا زندگی کا حصہ ہے ،چاہے آپ کسی بھی شعبے میں ہوں ،کہیں
بھی رہتے ہوں ،زندگی کے معموالت ہمیں مسلسل ذہنی دباؤ کا شکار بناتے رہتے ہیں۔ دباؤ
کو سہنے کا حوصلہ بھی مختلف لوگوں میں مختلف ہوتا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ جو
بات کسی ایک شخص کے لیے زیادہ پریشان ُکن نہ ہو جتنی دوسرے کے لیے ہو۔
تحقیقات | 56 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ذہنی دباؤ ہمارے لیے اچھا بھی ہو سکتا ہے کہ اگر وہ درمیانے درجے کا ہو ،اس سے ہم
ہوشیار اور چوکس رہتے ہیں ،لیکن مسلسل دباؤ دماغ کے لیے بہت بُرا ہے ،یہ دماغ کو
ذہنی امراض کی طرف لے جاتا ہے ،اس سے دماغ مستقل بنیادوں پر تبدیلی کا شکار ہو
سکتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مستقل دباؤ کے شکار افراد میں مزاج میں تبدیلی اور ذہنی
اضطراب زیادہ ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
جوالئ 21 2021
تحقیقات | 57 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیقات | 58 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بی 47 ،6فیصد سیلینیئم 35 ،فیصد زنک اور 34فیصد ٓائرن حاصل ہوتا ہے ،جو یومیہ
حساب سے انسانی صحت کے لیے بہترین غذا ہے۔
کلیجی ،اوجھڑی ،گردوں ،دل اور دماغ کا گوشت حاملہ خواتین کے لیے بھی نہایت فائدہ
مند ہے ،جو نہ صرف ماں بلکہ بچے کی غذا کے لیے بھی بہترین ہے۔
کلیجی ،اوجھڑی اور گردوں میں کولیسٹرول
ہیلتھ جنرل میں شائع ہونے والے مضمون کے مطابق ان تمام اعضاء کے گوشت میں
کولیسٹرول کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ،تاہم یہ نقصان دہ نہیں ہوتی۔
ماہرین کے مطابق انسان کا جگر ،کلیجی اور گردے کولیسٹرول پیدا کرتے ہیں ،تاہم یہ
اعضاء اُس وقت کولیسٹرول پیدا کرنا بند کردیتے ہیں ،جب انسان کولیسٹرول کی مقدار
والے کھانے یا پھل کھاتا ہے۔
دعوی کیا گیا کہ کلیجی ،گردے ،اوجھڑی ،دل ،دماغ ،لبلبے اور زبان کا ٰ مضمون میں
گوشت کھانے سے خون میں کولیسٹرول کی سطح نہیں بڑھتی اور ان کو کھانے کے بعد
انسان کا کلیجہ ،گردے اور دیگر اعضاء کولیسٹرول پیدا کرنا بند کردیتے ہیں۔
https://www.dawnnews.tv/news/1164633/
ویب ڈیسک
جوالئ 21 2021
ماہرین کے مطابق سرخ اور تازہ گوشت صحت کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے—فائل فوٹو:
پنٹ ریسٹ
ً
عید قرباں کے موقع پر تقریبا پاکستان کے ہر گھر میں تازہ گوشت وافر مقدار میں موجود
ہوتا ہے اور ایسے موقع پر ہر کسی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تازہ اور صحت بخش
گوشت کو اپنی خوراک کا حصہ ضرور بنائے۔
گوشت ایک ایسی غذاء ہے جو انسانی صحت کے حوالے سے کئی طرح سے فائدہ مند ہوتا
ہے اور اس کے انسانی صحت پر کئی اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں ،تاہم اس کی وافر
مقدار صحت کے مسائل بھی پیدا کرتی ہے۔گوشت میں آئرن ،پروٹین ،وٹامن بی ،12زنک
تحقیقات | 59 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اور اومیگا تھری جیسے اجزا ہوتے ہیں جو انسانی صحت و تندرستی میں انتہائی اہم کردار
ادا کرتے ہیں۔
تاہم بعض ماہرین اور طبی تحقیقات کے مطابق گوشت میں مذکورہ اجزا کا وافر مقدار میں
ہونا اس وقت خطرناک بن جاتا ہے جب کوئی گوشت کو حد سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔
برطانوی وزارت صحت نے اپنے شہریوں کو یومیہ 70سے 90گرام گوشت کھانے کی
تجویز دی ہے ،یعنی کوئی بھی شخص یومیہ آدھا پاؤ سے بھی کم گوشت کھا سکتا ہے۔
برطانوی وزارت صحت کے مطابق برطانیہ میں وافر گوشت کھانے والے افراد میں آنتوں
کے کینسر سمیت دل کے امراض ،موٹاپا اور کولیسٹرول میں اضافہ دیکھا گیا۔
ساتھ ہی برطانوی وزارت صحت نے وضاحت بھی کی کہ بعض قسم کے گوشت کی زائد
مقدار بھی کھائی جا سکتی ہے۔
عالوہ ازیں برطانوی ماہرین کے مطابق گوشت کو پکانے کے کچھ طریقے بھی بیماریوں
میں اضافہ کرتے ہیں ،اس لیے گوشت کو زیادہ مصالحوں پر تیز آگ میں دیر تک نہ پکایا
جائے۔
اسی طرح امریکا کے ہارورڈ میڈیکل اسکول کے ایک تحقیقاتی مضمون میں بتایا گیا کہ
متعدد تحقیقات سے ثابت ہوچکا ہے کہ حد سے زیادہ سرخ گوشت استعمال کرنے والے
افراد میں کینسر اور دل کے امراض سمیت دیگر اقسام کی بیماریاں دیکھی گئیں۔
مضمون میں لوگوں کو تجویز دی گئی کہ وہ یومیہ 50سے 100گرام یعنی زیادہ سے
زیادہ آدھا پاؤ گوشت یومیہ کھا سکتے ہیں۔
تحقیقات | 60 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
امریکی ماہرین نے اس بات پر بھی زور دیا کہ لوگ سرخ گوشت کو یومیہ اپنی خوراک کا
حصہ ضرور بنائیں ،تاہم وہ اس ضمن میں خیال رکھیں کہ گوشت کی مقررہ مقدار ہی
استعمال کی جائے۔
امریکی اور برطانوی ماہرین نے اس بات کی کوئی وضاحت نہیں کی کہ سال میں کچھ ہی
ہفتوں تک مسلسل یومیہ ایک کلو گوشت کھانے اور پھر سال بھر انتہائی کم گوشت کھانے
پر انسانی صحت پر کیا اثرات پڑتے ہیں۔
دونوں ممالک کے ماہرین نے یومیہ سرخ گوشت کھانے والے افراد پر تحقیق کی اور اسی
بنیاد پر نتائج جاری کیے ،دونوں ممالک کےماہرین نے کبھی کبھار آدھا سے ایک کلو
گوشت کھانے والے افراد کو تحقیق کا حصہ نہیں بنایا۔
اسی طرح برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں عالمی ادارہ
صحت کا حوالہ دیتےہوئے بتایا کہ پراسیس شدہ سرخ گوشت کا زیادہ استعمال کینسر
جیسے مرض کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگر لوگ گوشت کھانے کی یومیہ مقدار میں 50گرام کی کمی بھی
کرتے ہیں تو ان میں کینسر کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ اگرچہ عام طریقے سے پکایا گیا سرخ گوشت بھی کینسر سمیت
دیگر موذی امراض کے خطرات بڑھاتا ہے ،تاہم پراسیس شدہ گوشت سے بیماریوں کے
خطرات دگنے ہوجاتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ پراسیس شدہ گوشت کیا ہوتا ہے؟
اس کے جواب میں ماہرین کا کہنا ہے کہ پراسیس شدہ گوشت وہ ہوتا ہے ،جسے طویل
عرصے تک کھانے کے قابل بنانے کے لیے اس میں کیمیکل والے مصالحوں کا استعمال
کیا جائے یا پھر انہیں آگ پر پکا کر اس کی شکل تبدیل کرکے حد سے زیادہ نمک اور
دیگر مصالحے شامل کیے جائیں۔
ہیلتھی فوڈ نامی میگزین نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا کہ آسٹریلوی ماہرین غذا نے لوگوں
کو ہفتے میں 700گرام تک سرخ گوشت کھانے کی تجویز دی ہے۔
مضمون میں بتایا گیا کہ چونکہ سرخ گوشت میں کئی آئرن اور زنک کے اجزا شامل ہیں
اور یہ اجزا انسانی تندرستی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیے ماہرین نے گوشت کھانے
کو معمول بنانے پر زور دیا ہے ،تاہم ساتھ ہی حد سے زیادہ گوشت کھانے سے منع بھی
کیا ہے۔
ماہرین کے مطابق ہر انسان کو ہر دوسرے دن 130سے 200گرام تک سرخ گوشت کھانا
چاہیے تاہم اس سے زیادہ مقدار کھانے سے صحت کے سنگین مسائل ہوسکتے ہیں۔
اسی مضمون میں بتایا گیا کہ دنیا بھر میں عام طور پر مرد زیادہ سرخ گوشت کھاتےہیں
اس لیے ان میں آئرن ،پروٹین اور زنک کی کمی کم ہوتی ہے جب کہ خواتین کی جانب
سے گوشت کم کھانے سے ان میں زنک ،آئرن اور پروٹین کی قلت کے باعث صحت کے
مسائل پائے جاتےہیں۔
تحقیقات | 61 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ عالمی ادارہ صحت نے یومیہ گوشت کھانے کی مقدار کے
حوالے سے واضح طور پر کوئی ہدایات نہیں کیں۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق سرخ گوشت کا استعمال صحت کے لیے مفید ہے مگر اس
کا حد سے زیادہ استعمال کینسر اور دل کی بیماریوں سمیت دیگر بیماریوں کے خطرات
بڑھا دیتا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا کے ہر خطے کے افراد اپنی صحت اور خوراک کے حساب
سے گوشت کی مناسب مقدار کھائیں ،تاہم عالمی ادارہ صحت نے واضح طور پر گوشت
کی خوراک کی محدود تجویز نہیں کی۔
عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر شخص کی خوراک اور صحت کی ضروریات مختلف
ہوتی ہیں ،لہذا گوشت کی کم یا زائد مقدار کا فیصلہ ہر شخص کی خوراک اور صحت کی
ضروریات کو دیکھتے ہوئے کیا جانا چاہیے۔
البتہ عالمی ادارہ صحت نے حد سے زیادہ گوشت کھانے سے گریز کرنے کی تجویز دے
رکھی ہے۔
عالمی ادارہ صحت کی تجاویز کی روشنی میں اگر قربانی کے گوشت کا جائزہ لیا جائے تو
قربانی کا گوشت زیادہ سے زیادہ ایک ماہ تک چلتا ہے اور قربانی کرنے والے افراد یومیہ
500سے 700گرام گوشت کھاتے ہیں اور ایک مہینے کے بعد ان کی خوراک میں گوشت
کی واضح کمی ہوجاتی ہے۔
لیکن کئی افراد کے ہاں قربانی کا گوشت ایک ماہ سے بھی کم عرصے تک چلتا ہے اور وہ
یومیہ 400سے 600گرام تک گوشت کھاتےہیں اور قربانی کا گوشت ختم ہونے کے بعد
ان کی خوراک میں بھی گوشت کی نمایاں کمی ہوجاتی ہے۔
بعض لوگوں کا خیال ہےکہ قربانی کا گوشت کھانے والے افراد اگرچہ کچھ دنوں تک حد
سے زیادہ گوشت کھاتے ہیں لیکن پھر سال بھر وہ گوشت سے دور ہی رہتے ہیں ،اس لیے
انہیں صحت کے زیادہ مسائل نہیں ہوتے ،تاہم اس حوالے سے کوئی واضح طبی تحقیق
موجود نہیں ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1164626/
تحقیقات | 62 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
االضحی کے موقع پر جانور کی قربانی کے بعد اب تقریبا ً ہر گھر کے فرج اور ڈیپٰ عید
فریزرز گوشت سے بھر چکے ہیں اور لوگ طرح طرح کے پکوانوں سے لطف اندوز بھی
ہو رہے ہیں۔
اس کے عالوہ عید کے دو روز میں لوگوں نے جی بھر کر گوشت کی دعوتیں اڑائیں اور
تکہ بوٹی سیخ کباب اور کڑھائی کے مزے لیے ،کہیں بار بی کیو پارٹیاں منعقد کی جا رہی
ہیں تو کہیں چپلی کباب کی خوشبو ٓاپ کو بد پرہیزی پر اکسا رہی ہے۔
یہ سلسلہ نہ صرف اگلے کئی دنوں تک جاری رہے گا بلکہ کچھ گھرانوں میں تو کئی ماہ
تک قربانی کا محفوظ شدہ گوشت استعمال ہوتا رہے گا لیکن ان سب باتوں میں یہ نہ بھول
جائیں کہ پیٹ آپ کا اپنا ہے اور آپ نے ہی اس کا خیال بھی رکھنا ہے۔
اس حوالے سے آے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں ماہر صحت ڈاکٹر اریج
نے ناظرین کو اہم مشورے دیئے اور عید کے ان ایام میں خود کو کسی تکلیف یا بیماری
سے محفوظ رہنے کے آسان طریقے بھی بتائے۔
انہوں نے کہا کہ گوشت کو زیادہ دن تک فریج میں نہیں رکھنا چاہیے اس سے گوشت کی
تازگی اور غذائیت پر بھی برا اثر پڑتا ہے جو صحت کیلئے بہت نقصان دہ ہے۔
الضحی کے موقع پر گوشت کے استعمال میں اگر اعتدال سے کام نہ ٰ ان کا کہنا تھا کہ عید
لیا جائے تو پیٹ اور معدے کے امراض الحق ہو جاتے ہیں ،معدے میں تیزابیت اور بد
ہضمی ہونے سے دیگر امراض بھی الحق ہو سکتے ہیں۔
عیداالضحی کے موقع پر بسیارخوری اور بہت زیادہ گوشت کھانے کی وجہ ٰ خیال رہے کہ
سے مریضوں کی ایک بڑی تعداد اسپتال پہنچ جاتی ہے ل ٰہذا معتدل کھانے کے لئے دیگر
اشیاء بالخصوص سبزیوں ،پھلوں اور پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال کریں۔
https://urdu.arynews.tv/eid-ul-azha-beef-and-mutton-health-tips/
کورونا سے صحتیاب افراد وائرس سے کس حد تک محفوظ رہتے ہیں؟؟
تحقیقات | 63 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک
ڈیڑھ سال قبل دنیا میں تباہی مچانے واال کورونا وائرس آج بھی اپنی بھرپور طاقت کے
ساتھ انسانوں پر حملہ آور ہے ،لیکن وقت کے ساتھ سائنسدان بھی اس سے بچاؤ کیلئے اپنی
کوششوں میں مصروف عمل ہیں۔
نئے کورونا وائرس کی وبا کو اب تک ڈیڑھ سال سے زائد کا عرصہ ہوچکا ہے مگر اب
تک اس کے متعدد پہلو ماہرین کے لیے معمہ بنے ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19کے شکار
ہونے والے افراد میں دوبارہ اس کا امکان ہوتا ہے یا نہیں ،اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس
کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے؟ اب ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے کسی حد تک ٹھوس
جواب سامنے ٓایا ہے۔
امریکا کی ایموری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19سے صحتیاب ہونے
والے مریضوں کو بیماری کے خالف طویل المعیاد مؤثر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ یہ اب تک
کی سب سے جامع تحقیق قرار دی جارہی ہے جس میں 254کووڈ مریضوں کو شامل کیا
گیا تھا۔
ان مریضوں میں بیماری کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور بیماری کے 250دن یا 8
مہینے بعد بھی ان میں وائرس کو ناکارہ بنانے والے مدافعتی ردعمل کو دیرپا اور ٹھوس
دریافت کیا گیا۔
تحقیقات | 64 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
محققین نے کہا کہ نتائج سے کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد تحفظ کا عندیہ
ملتا ہے اور ہم نے ایسے مدافعتی ردعمل کے مرحلے کو دریافت کیا جس کا تسلسل 8ماہ
بعد بھی برقرار تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نہ صرف مدافعتی ردعمل کی شدت بیماری کی شدت کے ساتھ
بڑھتی ہے بلکہ ہر عمر کے افراد میں یہ مختلف ہوسکتی ہے ،یعنی ایسے نامعلوم عناصر
موجود ہیں جو مختلف عمر کے گروپس میں کووڈ کے حوالے سے ردعمل پر اثرانداز
ہوسکتے ہیں۔
مہینے گزرنے کے ساتھ محققین نے جائزہ لیا کہ ان کا مدافعتی نظام کووڈ 19کے خالف
کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ جسمانی دفاعی ڈھال نہ صرف متعدد اقسام کے وائرس کو ناکارہ
بنانے والی اینٹی باڈیز بناتی ہے بلکہ مخصوص ٹی اور بی سیلز کو بھی متحرک کرکے یاد
رہنے والی یادداشت کو تشکیل دیتی ہے جس سے ری انفیکشن کے خالف زیادہ مستحکم
تحفظ ملتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کووڈ کے مریضوں کو دیگر عام
انسانی کورونا وائرسز سے بھی تحفظ حاصل ہوگیا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس
بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کورونا کی نئی اقسام سے بھی تحفظ مل سکتا ہے۔
اس سے قبل مئی 2021میں جاپان کی یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں
دریافت کیا گیا تھا کہ کوویڈ سے بیمار ہونے والے 97فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی
وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطا ً ان افراد میں 6ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز
کی سطح 98فیصد اور ایک سال بعد 97فیصد تھی۔
تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئیں ان
میں 6ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97فیصد جبکہ ایک سال بعد 96فیصد تھی اور سنگین
شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح سو فیصد تھی۔
قبل ازیں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19کو شکست
دینے والے افراد میں اس بیماری کے خالف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8
ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19کی شدت جتنی بھی ہو اور ان کی عمر جو
بھی ہو ،یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8ماہ تک موجود رہتی ہیں۔
اس تحقیق کے دوران 162کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی
پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا۔
ان میں سے 29مریض ہالک ہوگئے تھے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور
اپریل 2020میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020کے آخر میں ایسا کیا گیا۔
تحقیقات | 65 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز
موجود تھیں ،اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی ،مگر بیماری کی تشخیص
کے 8ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔
جنوری 2021میں امریکا کے ال جوال انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق میں بھی
دریافت کیا گیا تھا کہ اس مرض کو شکست دینے والے افراد میں کورونا وائرس کے
اسپائیک پروٹین کے خالف اینٹی باڈیز 6ماہ بعد بھی مستحکم ہوتی ہیں۔
اس کے عالوہ اس پروٹین کے لیے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح بھی بیماری 6
ماہ بعد زیادہ ہوتی ہے ،تاہم میموری ٹی سیلز کی تعداد میں 4سے 6ماہ کے دوران کمی
آنے لگتی ہے ،مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مقدار باقی بچ جاتی ہے۔
طبی جریدے سائنس میں شائع اس تحقیق میں شامل محقق شین کروٹی نے بتایا کہ کووڈ
کے خالف مدافعتی نظام کی مدافعت اس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ممکنہ
طور پر کئی برس تک برقرار رہ کر انہیں کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سیل رپورٹس میڈیسین میں شائع ہوئے۔
https://urdu.arynews.tv/corona-virus-patients-recovered-immunity/
ڈیلٹا ویرینٹ کیخالف کون سی ویکسین انتہائی مؤثر ہے؟ محققین نے
ٰ
دعوی کردیا بڑا
ویب ڈیسک
تحقیقات | 66 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ٰ
دعوی کیا ہے کہ فائزر ویکسین کی دو لندن :برطانوی ماہرین نے اپنی تحقیق میں
خوراکیں ڈیلٹا ویرینٹ کیخالف 88فیصد مٔوثرہیں ،مذکورہ ویکسین کو کورونا کی ابتدائی
اقسام کے خالف نتیجہ خیز اور کارگر قرار دیا گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ایک برطانوی تحقیق میں کہا گیا ہے
کہ کورونا وائرس کے سدباب کیلئے تیارکی گئی فائزر ویکسین کی دو خوراکیں ڈیلٹا
ویرینٹ کے خالف 88فیصد مٔوثر رہیں۔
برطانوی تحقیق میں مزید کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کی ایسٹرازینیکا ویکسین کی دو
خوراکیں ڈیلٹا ویرینٹ کے خالف 60فیصد مٔوثر رہیں۔
برطانوی تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ڈیلٹا ویرینٹ کے خالف فائزر ویکسین کی ایک
خوراک 36فیصد جبکہ ایسٹرازینیکا کی ایک خوراک 30فیصد مٔوثر رہی۔
دوسری جانب چلی نے روسی کورونا وائرس کی ویکسین اسپوٹنک فائیو کے ہنگامی
استعمال کی منظوری دے دی ہے
https://urdu.arynews.tv/delta-variant-pfizer-vaccine-researchers/
تحقیقات | 67 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس مطالعے
میں 20ہزار افراد کے ڈیٹا کو پہلے ہی دیکھا گیا ہے جبکہ 30سے 60سال کے والدین
کے ساتھ مزید دوہزار ایسے والدین کو شامل کیا گیا جن کی عمریں 50سے 80برس کے
درمیان تھیں۔ یہ تحقیق 2015اور 2017میں کی گئی تھی۔ اگرچہ یہ کھوج امریکی تناظر
میں کی گئی ہے جہاں والدین پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے لیکن اس کا کچھ نہ کچھ اطالق
پاکستان پربھی کیا جاسکتا ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ ہماری تعلیم ہماری صحت پر اثرڈالتی ہے جبکہ خود بچوں کی تعلیم
بھی ان کے والدین پر اثرانداز ہوسکتی ہے۔ سروے سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ کم ترین
اعلی تعلیم کے مثبت اثرات مرتب ہوتے
ٰ معاشی گنجائش والے والدین پر ان کے بچوں کی
ہیں۔ تعلیمی میدان میں پیچھے رہ جانے والے بچوں کے والدین ڈپریشن اور دیگر مسائل
میں بھی گرفتار ہوسکتے ہیں۔ والدین کی یہ فکرمندی ان کی صحت کو متاثرکرسکتی ہے۔
اس کا دوسرا پہلو یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تعلیم یافتہ بچے اچھی مالزمت اور معاشی مواقع
حاصل کرتے ہیں اور اس طرح ان کے والدین سکون اور بے فکری کی زندگی گزاررہے
ہوتے ہیں۔ اس تحقیق میں زور دیا گیا ہے کہ والدین اپنے بچوں کی تعلیم پرتوجہ دیں
کیونکہ نہ صرف یہ ان کی اوالد بلکہ خود ان کی صحت کے لیے بھی بہترین سرمایہ
کاری ہوگی
https://www.express.pk/story/2204518/9812?__cf_chl
تحقیقات | 68 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
‘طبی تحقیق کا نیا امید افزا میدان ’ٓارگنوئڈز
ویب ڈیسک
جمعـء 23 جوالئ2021
تحقیقات | 69 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
گوشے اور دیگر اعضا موجود ہیں۔ اس طرح مجموعی طور پر انہیں ٓارگنوئڈز کہا جاسکتا
ہے جسے اردو میں ہم عضویئے کہہ سکتے ہیں۔
دوماہ قبل ٓاسٹریا کے سائنسدانوں نے نے دال کے دانے جتنا دھڑکتا زندہ دل بنایا تھا جس
سے ہمیں خود انسانی قلب کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔ پھر خلوی سطح پر بیماری اور
عالج کو سمجھنے کے راستے بھی کھلیں گے۔ چند ہفتے قبل بوسٹن کے سائنسدانوں نے
ٓانتوں کا عضویہ بنایا اور یہ دیکھا کہ کووڈ 19کا وائرس انہیں کسطرح متاثر کرتا ہے۔
اب کیمبرج میں واقع ویلکم ایم ٓارسی اسٹیم سیل انسٹی ٹیوٹ نے انسانی جگر جیسا پیچیدہ
ماڈل بنایا ہے جو ایک چمچے میں ہزاروں کی تعداد میں سماسکتے ہیں۔ یہ اعضا ٹیکے
کے ذریعے جسم کے متاثرہ عضو میں بھی ڈالے جاسکتے ہیں اور شدید بیماری کو دور
کرنے کی صالحیت رکھتے ہیں۔
ٓارگنوئڈز کی بدولت انسانی اعضا کی پیوندکاری کو بھی انقالبی جست مل سکتی ہے۔ کئی
انسانی اعضا پیوندکاری کے لیے غیرموزوں ہوتے ہیں اور ایک انارسو بیمار کی مصداق
عطیہ کردہ اعضا کی تعداد کم ہے اور اس کے امیدوار بہت سے ہوتے ہیں۔
اس مقام پر ٓارگنوئڈز متاثرہ عضو کو بہتر بناکر انہیں مریض میں منتقل کرنا ٓاسان ہوگا۔
دوسری جانب دنیا بھر میں جانوروں پر دوائیں ٓازمائی جاتی ہیں اور ٓارگنوئڈزعام ہونے
سے جانوروں کے ماڈل کی ضرورت کم ہوسکتی ہے۔ اس طرح ممالیوں بالخصوص
چمپانزی اور بندروں پر انسانی استحصال کم ہوسکے گا۔
https://www.express.pk/story/2204714/9812/
بنگلہ دیش کے ’’سخت جان جراثیم‘‘ ساری دنیا میں پھیل سکتے ہیں،
تحقیق
ویب ڈیسک
ہفتہ 24 جوالئ2021
اینٹی بایوٹکس کے خالف جرثوموں میں بڑھتی ہوئی مزاحمت ایک سنگین عالمی مسئلہ
بنتی جارہی ہے
ڈھاکہ :امریکی اور بنگلہ دیشی سائنسدانوں نے مشترکہ تحقیق کے بعد خبردار کیا ہے کہ
بنگلہ دیش میں پانچ سال سے کم عمر بچوں میں ایسے سخت جان بیکٹیریا سامنے ٓائے ہیں
تحقیقات | 70 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
جن پر اینٹی بایوٹکس کا کوئی اثر نہیں ہوتا؛ اور اگر ان جراثیم کو روکا نہ گیا تو یہ ساری
دنیا میں پھیل سکتے ہیں۔یہ تحقیق بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ کے مختلف اسپتالوں میں
نمونیا کے باعث داخل کیے جانے والے ہزاروں بچوں پر کی گئی۔
ان میں سے 108بچے خطرناک جرثوموں کی پانچ اقسام سے متاثر پائے گئے۔ ان اقسام
کے خالف کسی بھی طرح کی کوئی اینٹی بایوٹک دوا اثر نہیں کررہی تھی۔ ان میں سے
دوران تحقیق ہی موت کے منہ میں چلے گئے۔
ِ 31بچے
ٓاکسفورڈ اکیڈمک کے ایک تحقیقی مجلّے ’’اوپن· فورم انفیکشس ڈزیزز‘‘ کے تازہ
شمارے میں ٓان الئن شائع ہونے والی رپورٹ میں ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ مسئلہ
بنگلہ دیش کے کسی ایک شہر یا چند اسپتالوں کا نہیں بلکہ ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے
جس پر قابو پانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
ت حالٓ ،الودہ پانی اور نسخے کے بغیر عام فروخت اس تحقیق میں نکاسی کی خراب صور ِ
ہونے والی اینٹی بایوٹکس کو اس مسئلے کا اہم ترین ذمہ دار قرار دیا گیا ہے۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان سخت جان اور خطرناک جرثوموں پر قابو نہ پایا گیا
اور معامالت اسی طرح چلتے رہے تو ٓانے والے برسوں میں یہ جراثیم ساری دنیا میں بھی
پھیل سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2204825/9812/
تحقیقات | 71 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ٓاخر ڈیلٹا کورونا کی سب سے زیادہ تشویشناک قسم کیوں تصور کی
جارہی ہے؟
ویب ڈیسک
جوالئ 24 2021
کورونا وائرس کی وبا مسلسل نئی لہروں کے ذریعے دنیا بھر میں اپنی رفتار کو برقرار
رکھے ہوئے ہے اور اس کی نئی اور زیادہ متعدی اقسام بھی مسلسل ابھر رہی ہیں۔
مگر اکتوبر 2020میں سب سے پہلے بھارت میں دریافت ہونے والی قسم ڈیلٹا کو سب سے
زیادہ تشویشناک قرار دیا جارہا ہے۔
کورونا کی یہ قسم اوریجنل وائرس کے مقابلے میں دگنا زیادہ متعدی ہے ،جبکہ اس میں
ایسے جینیاتی فیچرز موجود ہیں جو اس کو دنیا بھر میں تیزی سے پھیلنے میں مدد فراہم
کررہے ہیں۔
ٓاخر ڈیلٹا دیگر اقسام سے زیادہ بدترین قسم کیوں ہے؟
یہ کورونا وائرس سارس کوو 2کی اب تک سب سے زیادہ متعدی قسم ہے جو ایلفا کے
مقابلے میں 55فیصد زیادہ تیزی سے پھیل سکتی ہے ،جسے پہلے سب سے زیادہ متعدی
قسم مانا جاتا تھا۔اسی طرح ڈیلٹا اس وقت دنیا میں موجود دیگر اقسام کے مقابلے میں لگ
بھگ دگنا زیادہ متعدی ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے خیال میں ڈیلٹا دیگر اقسام کو بہت تیزی
سے پیچھے چھوڑ کر ٓانے والے مہینوں میں دنیا بھر میں باالدست قسم ہوگی۔
تحقیقات | 72 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ڈیلٹا کی تیزی سے پھیلنے کے پیچھے کیا وجہ ہے؟
یہ مکمل طور پر تو واضح نہیں ،مگر خیال کیا جاتا ہے کہ خلیات کے اندر داخل ہونے
کے بعد یہ قسم برق رفتاری سے اپنی نقول بناتی ہے اور زیادہ مقدار میں ان کو خارج
کرتی ہے۔
ڈیلٹا کو جوان افراد میں کووڈ کا زیادہ خطرہ بڑھانے سے بھی منسلک کیا جارہا ہے ،جو
سماجی طور پر زیادہ متحرک اور ممکنہ طور پر ویکسنیشن سے محروم ہوتے ہیں۔
دوسروں سے کتنی مختلف؟
کورونا کی اس قسم میں ایک جینیاتی میوٹیشن موجود ہے جو اسے انسانی خلیات میں
موجود ایک پروٹین ایس 2کو زیادہ ٓاسانی سے جکڑنے میں مدد فراہم کرتی ہے ،جس سے
لوگ تیزی سے بیمار ہوتے ہیں۔
ڈیلٹا سے حال ہی میں متاثر افراد کی سانس کی گزرگاہ میں وائرل ذرات کے اجتماعات یا
وائرل لوڈ کی مقدار کورونا وائرس کی اوریجنل قسم کے مقابلے میں 12سو گنا زیادہ ہوتی
ہے۔
ایک تحقیق میں محققین نے دریافتک یا تھا کہ ڈیلٹا کو متاثرہ افراد میں وائرس جسم میں
داخل ہونے کے 4بعد دیکھا جاسکتا ہے ،جو کہ سابقہ اقسام کے مقابلے میں 2دن کم ہے،
جس سے عندیہ ملتا ہے کہ یہ قسم بہت تیزی سے اپنی نقول بناتی ہے اور لوگوں کو
بیماری کے ابتدائی مراحل میں زیادہ متعدی بنادیتی ہے۔
کیا ڈیلٹا زیادہ خطرناک قسم ہے؟
ایسا ممکن ہے ،بھارت میں مئی کے وسط میں دوسری لہر کے دوران روزانہ 4الکھ کیسز
سامنے ٓائے ،جبکہ ڈاکٹروں نے ڈیلٹا کو متعدد کووڈ عالمات کے ساتھ منسلک کیا جیسے
سننے کے مسائل۔
اسکاٹ لینڈ کے ابتدائی ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر کووڈ کے مریضوں کے
ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ایلفا قسم کے مقابلے میں 1.8گنا زیادہ ہوتا ہے۔
دیگر برطانویو ڈیٹا سے بھی ہسپتال میں داخلے کے زیادہ خطرے کے خیال کو تقویت ملتی
ہے مگر ایسے واضح شواہد موجود نہیں جن سے ثابت ہوتا ہو کہ ڈیٹا کے شکار مریضوں
کو ہسپتال پہنچنے کے بعد زیادہ سنگین بیماری کا سامنا ہوتا ہے۔
کینیڈا میں ایک تحقیق کے دوران 2الکھ سے زیادہ کووڈ کے مریضوں کا تجزیہ کرنے
کے بعد دریافت کیا گیا کہ دیگر اقسام کے مقابلے میں ڈیلٹا سے ہسپتال اور ٓائی سی یو میں
داخلے کے ساتھ ساتھ موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
کیا بیماری سے محفوظ بھی ڈیلٹا کا شکار ہوسکتے ہیں؟
ڈیلٹا بظاہر ویکسنیشن یا پہلے کورونا کا سامنا کرنے سے پیدا ہونے والی مدافعت کے
خالف زیادہ بہتر حملہ کرنے والی قسم نظر ٓاتی ہے۔
ڈیلٹا کے خالف ویکسینز کی افادیت میں کمی کی شرح مختلف ہے ،مثال کے طور پر
فائزر ویکسین کو اس حوالے سے ایک تحقیق میں ایسٹرازینیکا ویکسین سے زیادہ مٔوثر
قرار دیا گیا۔
تحقیقات | 73 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تاہم اکثر ویکسینز کی دونوں خوراکوں کے استعمال سے سنگین بیماری اور موت کے
خالف ٹحوس تحفظ ملتا ہے۔ حال ہی میں جرمنی میں دریافت کیا گیا کہ فیس ماسک کا
استعمال اور ٹیسٹنگ سے کووڈ کے مزید پھیالٔو کو نمایاں حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔
ڈیلٹا قسم کہاں تک پھیل چکی ہے؟
ڈیلٹا قسم بہت تیزی سے پھیل رہی ہے اور جوالئی میں ہر گزرتے ہفتے کے ساتھ یہ متعدد
نئے ممالک میں پہنچی اور 18جوالئی تک یہ 124ممالک تک پھیل چکی تھی۔
اس وقت یہ امریکا ،برطانیہ ،روس ،چین اور کم از کم دیگر 10ممالک میں سب سے زیادہ
کیسز کا باعث بننے والی قسم بن چکی ہے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1164770/
کورونا کے بعد ایک اور جراثیم دنیا بھر میں پھیلنے کا خدشہ
ویب ڈیسک
جوالئی 24 2021
ڈھاکا :کورونا کے بعد بنگلہ دیشی جراثیم ساری دنیا میں پھیلنے کا خدشہ پیدا ہوگیا۔
غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی اور بنگلہ دیشی سائنس دانوں
نے مشترکہ تحقیق میں خبردار کیا ہے کہ بنگلہ دیش میں 5سال سے کم عمر بچوں میں
ایسے جراثیم سامنے ٓائے ہیں جن پر اینٹی بائیوٹکس کا بھی کوئی اثر نہیں ہوگا۔
تحقیق کے مطابق اگر ان سخت جان جراثیم کو روکا نہ گیا تو یہ ساری دنیا میں پھیل
سکتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ کے مختلف اسپتالوں میں نمونیا کے باعث داخل ہونے
والے ہزاروں بچوں میں سے 108بچے خطرناک جراثیم کی پانچ اقسام سے متاثر پائے
گئے اور ان اقسام کے خالف کسی بھی طرح کی کوئی اینٹی بائیوٹک دوا اثر نہیں کر رہی
تھی جبکہ ان میں سے 31بچے دوران تحقیق ہی موت کا شکار ہو گئے۔
ت حالٓ ،الودہ پانی اور نسخے کے بغیر عام فروخت اس تحقیق میں نکاسی کی خراب صور ِ
ہونے والی اینٹی بایوٹکس کو اس مسئلے کا اہم ترین ذمہ دار قرار دیا گیا۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر ان سخت جان اور خطرناک جراثیموں پر قابو نہ پایا گیا
اور معامالت اسی طرح چلتے رہے تو ٓانے والے برسوں میں یہ جراثیم ساری دنیا میں بھی
پھیل سکتے ہیں۔
ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ یہ مسئلہ بنگلہ دیش کے کسی ایک شہر یا چند اسپتالوں کا
نہیں بلکہ ایک سنگین عالمی مسئلہ ہے جس پر قابو پانے کی فوری اور اشد ضرورت ہے۔
https://urdu.arynews.tv/565264-2/
تحقیقات | 74 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کووڈ :19کورونا ویکسین کا مذاق اڑانے والے شخص کی وائرس سے
ہی موت
25جوالئی 2021
امریکی ریاست کیلیفورنیا کا ایک شخص جس نے سوشل میڈیا پر کووڈ 19ویکسین کا
مذاق اڑایا تھا ،اسی وائرس سے ایک ماہ تک جاری رہنے والی لڑائی کے بعد زندگی کی
بازی ہار گیا۔
ہلسونگ میگا چرچ کے رکن سٹیفن ہارمون ویکسین کی برمال مخالفت کرتے رہے اور
انھوں نے یہ ویکسین نہ لگوانے کے سلسلے میں کئی لطیفے بھی بنائے تھے۔
جون میں اپنے سات ہزار فالوورز کو ٹویٹ کرتے ہوئے 34سال کے سسٹیفن نے لکھا:
’مجھے 99پریشانیاں ہیں لیکن ان میں ایک ویکس(ویکسین) نہیں۔‘
ان کا الس اینجلس سے باہر واقع ایک ہسپتال میں نمونیا اور کووڈ 19کا عالج کرایا گیا
جہاں وہ بدھ کے روز فوت ہو گئے۔
اپنی موت سے قبل کے دنوں میں سٹیفن ہارمون نے ہسپتال کے بستر سے اپنی تصاویر
شائع کی جس میں انھوں نے زندہ رہنے کے لیے اپنی لڑائی کا احوال دکھایا۔
انھوں نے کہا ’براہ کرم آپ سب دعا کریں ،وہ مجھے وینٹیلیٹر اور سانس کی نالی پر رکھنا
چاہتے ہیں۔‘
بدھ کے روز اپنے آخری ٹویٹ میں سٹیفن ہارمون نے کہا کہ انھوں نے سانس کی نالی
لگوانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انھوں نے لکھا کہ ’پتہ نہیں میں کب اٹھوں گا ،میرے لیے دعا کریں۔‘
تاہم وائرس کے خالف اپنی جدوجہد کے باوجود ہارمون نے پھر بھی کہا کہ وہ ویکسین
سے انکار کر دیں گے اور ان کا مذہبی عقیدہ ان کی حفاظت کرے گا۔
اپنی موت سے پہلے انھوں نے وبائی بیماری اور ویکسینز کے بارے میں مذاق کیا تھا اور
یہ بھی کہا تھا کہ وہ امریکہ میں متعدی امراض کے ادارے کے سربراہ ڈاکٹر اینتھونی
فاؤچی کی بجائے بائبل پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔
ہلسونگ میگا چرچ کے بانی برائن ہیوسٹن نے جمعرات کو اپنی ایک ٹویٹ میں سٹیفن
ہارمون کی موت کی خبر کی تصدیق کی۔
ایک انسٹاگرام پوسٹ میں انھوں نے ہارمون کو خراج تحسین بھی پیش کیا۔
انھوں نے لکھا’ :وہ انتہائی فراخ دل لوگوں میں سے ایک تھے اور انھیں بہت سے لوگ یاد
کریں گے۔‘انھوں نے مزید کہا کہ چرچ اپنے ارکان کو ’اپنے ڈاکٹروں کی ہدایت پر عمل
کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔‘
تحقیقات | 75 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
واضح رہے کہ کیلیفورنیا میں حالیہ ہفتوں میں کووڈ 19کے کیسز میں اضافہ دیکھنے میں
آیا ہے اور ہسپتال میں داخل بیشتر افراد ایسے ہیں جن کو ابھی تک ویکسین نہیں لگی۔
https://www.bbc.com/urdu/world-57959419
ویب ڈیسک
کیا ٓاپ رات کو نیند کے دوران خراٹے لینے کے عادی ہیں تو ہوسکتا ہے کہ اس کی وجہ
ٓاپ کی بہت عام سی عادت ہو جو بظاہر بے ضرر محسوس ہوتی ہے۔
یقین کرنا مشکل ہوگا مگر ٹی وی کے سامنے روزانہ کئی گھنٹے گزارنا سلیپ اپنیا کا
خطرہ بڑھاتا ہے جس کا نتیجہ خراٹوں کی شکل میں نکلتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔
ہاورڈ میڈیکل اسکول کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ ٹی وی کے سامنے روزانہ 4گھنٹے
سے زیادہ وقت گزارنے سے سلیپ اپنیا کا خطرہ بڑھتا ہے۔
سلیپ اپنیا کے شکار افراد کی سانس نیند کے دوران بار بار رکتی ہے جس سے خراٹوں
کے ساتھ ساتھ متعدد طبی پیچیدگیوں کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران ایک الکھ 38ہزار افراد کی صحت اور جسمانی سرگرمیوں کی
سطح کا جائزہ 10سے 18سال تک لیا گیا تھا۔
نتائج سے دریافت ہوا کہ زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا اور کم جسمانی سرگرمیاں سلیپ اپنیا کا
خطرہ بڑھانے والے عوامل ہیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ جو لوگ دن میں زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں جیسے دفتری
مالزمت کی وجہ سے ،تو انہیں فارغ وقت میں جسمانی طور پر زیادہ متحرک ہوکر اس
کی تالفی کرنی چاہیے۔
ایک تخمینے کے مطابق دنیا بھر میں 30سے 69سال کی عمر کے ایک ارب کے قریب
افراد معتدل سے سنگین سلیپ اپنیا کے شکار ہیں۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے جسمانی سرگرمیوں کی کمی اور سلیپ اپنیا کے خطرے کے
درمیان واضح تعلق کو دریافت کیا۔
تحقیقات | 76 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے کہا کہ جو لوگ عالمی ادارہ صحت کی تجویز کردہ فی ہفتہ 150منٹ جسمانی
سرگرمیوں کی گائیڈالئنز پر عمل کرتے ہیں اور دن بھر میں 4گھنٹے سے کم وقت ٹی وی
کے سامنے گزارتے ہیں ،ان میں سلیپ اپنیا کا خطرہ نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔
اس تحقیق کے ٓاغاز میں رضاکاروں میں سے کسی کو بھی سلیپ اپنیا کا عارضہ الحق
نہیں تھا تاہم اختتام تک 8733افراد میں اس کی تشخیص ہوئی۔
تمام تر عناصر بشمول عمر ،جسمانی حجم اور تمباکو کے استعمال وغیرہ کو مدنظر
رکھتے ہوئے تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جسمانی طور پر سرگرم رہنا خراٹوں اور سلیپ
اپنیا کے خطرے کو نمایاں حد تک کم کرتا ہے۔
محققین کے مطابق تحقیق میں لوگوں کے بیان کردہ طبی ڈیٹا پر انحصار کیا گیا اور مزید
تحقیق سے نتائج کی تصدیق کرنے کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین ریسیپٹری جرنل میں شائع ہوئے
https://www.dawnnews.tv/news/1164822/
ماں کا دودھ· بچوں میں بلڈ پریشر کی سطح کم رکھنے میں مددگار
ویب ڈیسک
جوالئ 23 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی —ماں کا دودھ پی کر پرورش پانے والے بچوں کا
بلڈ پریشر دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی
ہے۔طبی جریدے جرنل ٓاف دی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن میں شائع تحقیق میں 2ہزار
400بچوں کے ڈیٹا کو استعمال کیا گیا تھا جو ان کی صحت کے حوالے سے ہونے والی
ایک طویل المعیاد تحقیق کے لیے اکٹھا کیا گیا تھا۔
اس ڈیٹا میں بچوں کو ماں کا دودھ پالنے کے عرصے اور 3سال کی عمر میں ان کے بلڈ
پریشر کا موازنہ کیا گیا تھا۔
تحقیقات | 77 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نتائج سے دریافت کیا گیا کہ دودھ پالنے کا عرصہ چاہے جتنا بھی ہو ،ایسے بچوں کا بلڈ
پریشر دیگر کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ماں کی جانب سے چاہے 2دن 2 ،ہفتے 2 ،ماہ یا 2سال دودھ کیوں نہ
پالیا جائے ،بچوں کے بلڈ پریشر کی سطح میں نمایاں بہتری ٓاتی ہے۔
اس سے قبل مختلف تحقیقی رپورٹس· میں دریافت ہوچکا ہے کہ ماں کا دودھ پینے والے
بچوں میں موٹاپے ،ذیابیطس ،معدے کے امراض اور دیگر کا خطرہ کم ہوتا ہے جبکہ خود
ماں کے لیے بھی کینسر ،ذیابیطس اور ہائی بلڈ پریشر کا خطرہ کم ہوتا ہے۔
محققین کا کہنا تھا کہ بچوں میں بلڈ پریشر کی سطح میں کمی سے بلوغت میں جان لیوا
امراض جیسے فشار خون اور فالج کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ماں کا دودھ اور بلڈ پریشر کا ٓاپس میں تعلق
موجود ہے۔
اس سے قبل جنوری 2021میں برمنگھم یونیورسٹی اور برمنگھم ویمنز اینڈ چلڈرنز این
ایچ ایس فاؤنڈیشن کی تحقیق میں پہلی مرتبہ مدافعتی خلیات کی ایک مخصوص قسم کو
دریافت کیا گیا جو زندگی کے اولین 3ہفتوں کے دوران ماں کا دودھ پینے والے بچوں میں
نشوونما پاتا ہے اور فارموال ملک پینے والے بچوں کے مقابلے میں ان میں یہ تعداد لگ
بھگ دوگنا زیادہ ہوتی ہے۔
یہ مخصوص خلیات ٹی سیلز کو ریگولیٹ کرتے ہیں جو بیماریوں کے خالف لڑتے ہیں
جبکہ یہ خلیات دودھ کے ساتھ ماں سے منتقل ہونے والے خلیات کے خالف ردعمل ظاہر
کرکے ورم کم کرتے ہیں۔
تحقیقات | 78 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق میں یہ بھی ثابت کیا گیا کہ ماں کے دودھ پر پرورش پانے والے بچوں کے معدے
میں ٹی سیلز کے افعال کو معاونت فراہم کرنے والے مخصوص بیکٹریا کی مقدار زیادہ
ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے الرجی میں شائع ہوئے ،جس میں بریسٹ فیڈنگ کی
اہمیت پر زور دیا گیا۔
محققین کا کہنا تھا کہ ماں کے دودھ کے بچوں کی نشوونما کے دوران مدافعتی ردعمل پر
مرتب اثرات پر پہلے کام نہیں کیا گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں ماں کے دودھ کی اہمیت اور ابتدائی زندگی میں مخصوص
خلیات کی سرگرمیوں کے بارے میں زیادہ علم نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمیں توقع ہے کہ ان نتائج سے بریسٹ فیڈنگ کی شرح میں اضافہ ہوگا
اور ہم مستقبل قریب میں زیادہ سے زیادہ بچوں کی صحت پر اس کے مثبت اثرات کو
دیکھیں گے
https://www.dawnnews.tv/news/1164711/
ویب ڈیسک
جوالئ 23 2021
یہ بات سری لنکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی — رائٹرز فوٹو
کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا پاکستان سمیت دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہی ہے اور اس
کے نتیجے میں کیسز کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
مگر چینی کمپنی سائنوفارم کی تیار کردہ کووڈ 19ویکسین کورونا کی اس زیادہ متعدی
ٰ
دعوی سری لنکا میں ہونے قسم سے تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے کافی مؤثر ہے۔ یہ
والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓایا۔
تحقیقات | 79 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے بلکہ پری پرنٹ سرور پر
جاری کیے گیے ہیں۔سری جے وردھنے یونیورسٹی کی اس تحقیق میں برطانیہ کی
ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کے محققین نے بھی حصہ لیا اور دریافت کیا کہ سائنوفارم ویکسین
استعمال کرنے والے افراد میں ڈیلٹا قسم کے خالف اینٹی باڈی ردعمل پیدا ہوتا ہے۔
تاہم ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح کورونا کی پرانی قسم کے مقابلے میں
1.38گنا کم ہوتی ہے۔
اس تحقیق میں شامل محققین کا کہنا تھا کہ لیبارٹری نتائج میں ویکسین کو ڈیلٹا قسم کے
خالف بھی بہت مؤثر دریافت کیا گیا ،ڈیلٹا کے خالف ہونے واال اینٹی باڈی ردعمل کی
شرح قدرتی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد کے برابر ہوتی ہے۔
تحقیق میں شامل 95فیصد افراد کو سائنوفارم ویکسین کی 2خوراکیں استعمال کرائی گئی
تھیں اور ان میں کووڈ 19سے متاثر ہونے والے کسی فرد جتنی اینٹی باڈیز کی سطح بن
گئی۔
تحقیق کے مطابق سائنو فارم ویکسین کی 2خوراکوں سے 81.25رضاکاروں میں وائرس
ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز بن گئی تھیں اور ان اینٹی باڈیز کی سطح اتنی ہی تھی جتنی
کووڈ 19کو شکست دینے کے بعد مریضوں میں ہوتی ہے۔
اس ویکسین کے اثرات کا موازنہ ڈیلٹا کے ساتھ ساتھ کورونا کی اصل قسم کے ساتھ ساتھ
ایلفا اور بیٹا اقسام کے ساتھ بھی کیا گیا۔
تحقیقات | 80 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ ڈیلٹا اور دیگر اقسام کے خالف سائنوفارم
ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کی سطح اتنی ہی ہوتی ہے جتنی قدرتی بیماری کا سامنا
کرنے والے افراد میں ہوتی ہے ،جو بہت اچھا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ 20سے 40سال کی عمر کے 98فیصد افراد میں اینٹی باڈیز بنی جبکہ
60سال سے زائد عمر کے گروپ میں یہ شرح 93فیصد تھی ،جو اس لیے حیران کن نہیں
کیونکہ معمر افراد میں ویکسینز کا ردعمل کچھ کم ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ سائنوفارم کا اس طرح کا ڈیٹا دنیا کے سامنے پہلے پیش نہیں ہوا تھا
اور اس طرح کا حقیقی دنیا کا ڈیٹا کسی ویکسین پر اعتماد بڑھانے کے لیے بہت اہم ہوتا
ہے۔
خیال رہے کہ کورونا کی قسم ڈیلٹا سب سے پہلے بھارت میں سامنے ٓائی تھی اور اب دنیا
میں سب سے زیادہ کیسز اس کے نتیجے میں سامنے ٓارہے ہیں۔
کورونا کی یہ قسم اس وقت دنیا بھر میں 90سے زیادہ ممالک میں پھیل چکی ہے۔
سری لنکن تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ سب سے پہلے جنوبی افریقہ میں دریافت ہونے
والی کورونا کی قسم بیٹا کے خالف سائنوفارم ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز اوریجنل
قسم کے مقابلے میں 10گنا تک کم ہوجاتی ہیں۔
تاہم محققین کے مطابق سائنوفارم ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کورونا کی ان دونوں
اقسام یعنی بیٹا اور ڈیلٹا کے خالف مؤثر ہوسکتی ہے کیونکہ اس سے وہی اینٹی باڈی
ردعمل پیدا ہوتا ہے جو قدرتی بیماری کا سامنا کرنے والے افراد میں ہوتا ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1164699/
کووڈ کو شکست دینے والوں· میں مدافعتی ردعمل طویل عرصے تک
برقرار رہنے کا امکان
ویب ڈیسک
تحقیقات | 81 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نئے کورونا وائرس کی وبا کو اب ڈیڑھ سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے مگر اب تک اس
کے متعدد پہلو ماہرین کے لیے معمہ بنے ہوئے ہیں۔
ان میں سے ایک یہ ہے کہ کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ 19کے شکار
ہونے والے افراد میں دوبارہ اس کا امکان ہوتا ہے یا نہیں ،اگر ان کو تحفظ ملتا ہے تو اس
کا دورانیہ کتنا ہوسکتا ہے؟
اب ایک نئی تحقیق میں اس حوالے سے کسی حد تک ٹھوس جواب سامنے ٓایا ہے۔
امریکا کی ایموری یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ 19سے صحتیاب ہونے
والے مریضوں کو بیماری کے خالف طویل المعیاد مؤثر تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
یہ اب تک کی سب سے جامع تحقیق قرار دی جارہی ہے جس میں 254کووڈ مریضوں کو
شامل کیا گیا تھا۔
ان مریضوں میں بیماری کی شدت معمولی سے معتدل تھی اور بیماری کے 250دن یا 8
مہینے بعد بھی ان میں وائرس کو ناکارہ بنانے والے مدافعتی ردعمل کو دیرپا اور ٹھوس
دریافت کیا گیا۔
محققین نے کہا کہ نتائج سے کووڈ کو شکست دینے کے بعد طویل المعیاد تحفظ کا عندیہ
ملتا ہے اور ہم نے ایسے مدافعتی ردعمل کے مرحلے کو دریافت کیا جس کا تسلسل 8ماہ
بعد بھی برقرار تھا۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ نہ صرف مدافعتی ردعمل کی شدت بیماری کی شدت کے ساتھ
بڑھتی ہے بلکہ ہر عمر کے افراد میں یہ مختلف ہوسکتی ہے ،یعنی ایسے نامعلوم عناصر
تحقیقات | 82 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
موجود ہیں جو مختلف عمر کے گروپس میں کووڈ کے حوالے سے ردعمل پر اثرانداز
ہوسکتے ہیں۔
مہینے گزرنے کے ساتھ محققین نے جائزہ لیا کہ ان کا مدافعتی نظام کووڈ 19کے خالف
کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔
انہوں نے دریافت کیا کہ جسمانی دفاعی ڈھال نہ صرف متعدد اقسام کے وائرس کو ناکارہ
بنانے والی اینٹی باڈیز بناتی ہے بلکہ مخصوص ٹی اور بی سیلز کو بھی متحرک کرکے یاد
رہنے والی یادداشت کو تشکیل دیتی ہے جس سے ری انفیکشن کے خالف زیادہ مستحکم
تحفظ ملتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ کووڈ کے مریضوں کو دیگر عام
انسانی کورونا وائرسز سے بھی تحفظ حاصل ہوگیا ہے اور اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اس
بیماری کو شکست دینے والے افراد کو کورونا کی نئی اقسام سے بھی تحفظ مل سکتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے سیل رپورٹس میڈیسین میں شائع ہوئے۔
اس سے قبل مئی 2021میں جاپان کی یوکوہاما سٹی یونیورسٹی کی ایک تحقیق میں
دریافت کیا گیا تھا کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے 97فیصد افراد میں ایک سال بعد بھی
وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز موجود ہوتی ہیں۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ اوسطا ً ان افراد میں 6ماہ بعد وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز
کی سطح 98فیصد اور ایک سال بعد 97فیصد تھی۔
تحقیق کے مطابق جن افراد میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئیں ان
میں 6ماہ بعد اینٹی باڈیز کی سطح 97فیصد جبکہ ایک سال بعد 96فیصد تھی اور سنگین
شدت کا سامنا کرنے والوں میں یہ شرح سو فیصد تھی۔
قبل ازیں اٹلی کے سان ریفلی ہاسپٹل کی تحقیق میں بھی بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19کو شکست
دینے والے افراد میں اس بیماری کے خالف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم 8
ماہ تک موجود رہ سکتی ہیں۔
اس تحقیق میں بتایا گیا کہ مریض میں کووڈ 19کی شدت جتنی بھی ہو اور ان کی عمر جو
بھی ہو ،یہ اینٹی باڈیز خون میں کم از کم 8ماہ تک موجود رہتی ہیں۔
اس تحقیق کے دوران 162کووڈ کے مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو اٹلی میں وبا کی
پہلی لہر کے دوران ایمرجنسی روم میں داخل کرنا پڑا تھا۔
ان میں سے 29مریض ہالک ہوگئے تھے جبکہ باقی افراد کے خون کے نمونے مارچ اور
اپریل 2020میں اکٹھے کیے گئے اور ایک بار پھر نومبر 2020کے آخر میں ایسا کیا گیا۔
تحقیق میں بتایا گیا کہ ان مریضوں کے خون میں وائرس کو ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز
موجود تھیں ،اگرچہ ان کی شرح میں وقت کے ساتھ کمی آئی ،مگر بیماری کی تشخیص
کے 8ماہ بعد بھی وہ موجود تھیں۔
جنوری 2021میں امریکا کے ال جوال انسٹیٹوٹ آف امیونولوجی کی تحقیق میں بھی
دریافت کیا گیا تھا کہ اس مرض کو شکست دینے والے افراد میں کورونا وائرس کے
تحقیقات | 83 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اسپائیک پروٹین کے خالف اینٹی باڈیز 6ماہ بعد بھی مستحکم ہوتی ہیں جبکہ اس پروٹین
کے لیے مخصوص میموری بی سیلز کی سطح بھی بیماری 6ماہ بعد زیادہ ہوتی ہے ،تاہم
میموری ٹی سیلز کی تعداد میں 4سے 6ماہ کے دوران کمی آنے لگتی ہے ،مگر پھر بھی
کچھ نہ کچھ مقدار باقی بچ جاتی ہے۔
طبی جریدے سائنس میں شائع اس تحقیق میں شامل محقق شین کروٹی نے بتایا کہ کووڈ
کے خالف مدافعتی نظام کی مدافعت اس سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں ممکنہ
طور پر کئی برس تک برقرار رہ کر انہیں کووڈ سے تحفظ فراہم کرسکتی ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1164718/
فائزر ویکسین ڈیلٹا قسم سے 88فیصد تک تحفظ فراہم کرتی ہے ،تحقیق
ویب ڈیسک
جوالئ 23 2021
تحقیقات | 84 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
میں وائرس کی نقول بہت تیزی سے بڑھتی ہیں اور یہ ایک سے دوسرے فرد تک ٓاسانی
سے منتقل ہوجاتا ہے۔
اس تحقیق میں برطانیہ میں مئی تک کے تمام کووڈ 19کیسز کی جانچ پڑتال کی گئی اور
یہ دیکھا گیا کہ مریضوں کی ویکسنیشن ہوئی تھی یا نہیں۔محققین نے دریافت کیا کہ فائزر
ویکسین ہسپتال میں داخلے کا خطرہ کم کرنے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے اور یہ اس لیے
بھی زیادہ متاثر کن ہے کیونکہ یہ حقیقی دنیا کی صورتحال ہے۔
ویکسین کی پہلی خوراک مدافعتی نظام کو وائرس سے ٓاگاہ کرنے کا کام کرتی ہے جبکہ
دوسری خوراک مستقبل میں اس وائرس کے خالف ردعمل کو ڈرامائی حد تک بڑھانے
میں مددگار ثابت ہوتی ہے۔ڈیلٹا قسم ایلفا کے مقابلے میں بظاہر 60فیصد زیادہ متعدی ہے
جو پہلے ہی دیگر اوریجنل وائرس کے مقابلے میں 50فیصد زیادہ متعدی قرار دی گئی
ہے۔برطانوی ڈیٹا کے مطابق ڈیلٹا سے متاثر افراد میں ہسپتال داخلے کا خطرہ دگنا ہوتا ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1164716/
تحقیقات | 85 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہم ہمیشہ ہی دل کی صحت کی بات کرتے یا سنتے ہیں مگر دماغی صحت کے بارے میں
کیا خیال ہے؟
ہمارے دماغ کو بھی بہت زیادہ توجہ اور درست غذا کے ذریعے اس کی صحت کا خیال
رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ واضح طور پر سوچنے ،توجہ مرکوز کرنے،
توانائی اور ہرممکن حد تک بہتر کام کرنے کے قابل ہوسکے۔
اس دور میں جب دنیا بھر میں دماغی امراض جیسے الزائمر اور ڈیمینشیا کی شرح میں
اضافہ ہورہا ہے تو ہمیں نوجوانی سے ہی دماغ کے لیے صحت مند غذاﺅں کے انتخاب پر
غور کرنا چاہیے۔
عمر بڑھنے کے ساتھ ساتھ ہمارا دماغ تنزلی کا شکار ہونے لگتا ہے ،ہم چیزیں بھولنے
لگتے ہیں اور معمے حل کرنا ماضی جیسا آسان کام نہیں رہتا۔ اگرچہ بڑھاپے کے عمل کو
واپسی کا راستہ دکھانا تو ممکن نہیں ،لیکن ہم اپنے ذہن کو ضرور ہر عمر کے مطابق فٹ
رکھ سکتے ہیں۔
مگر کچھ غذائیں ایسی ہوتی ہیں جو دماغ کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی ہیں اور ذہنی تنزلی
کی جانب سفر تیز ہوجاتا ہے۔
مارجرین اور میٹھی کریم کی تہہ والی اشیا
یہ غذائیں ٹرانس فیٹس سے بھرپور ہوتی ہیں ،اگر ٓاپ کو علم نہیں تو جان لیں کہ ٹرانس
فیٹس دل اور خون کی شریانوں کی صحت کے لیے بہت نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔
تحقیقی رپورٹس کے مطابق چکنائی کی یہ قسم دماغی افعال کے لیے تباہ کن ثابت ہوتی
ہے۔ جریدے نیورولوجی میں شائع ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ معمر افراد کے خون
تحقیقات | 86 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کی شرح زیادہ ہو تو ان میں ڈیمینشیا elaidic acidمیں اگر ٹرانس فیٹ کی ایک عام قسم
کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔
سوڈا اور دیگر میٹھے مشروبات
اگر ٓاپ عمر بڑھنے کے ساتھ دماغ کو تیز رکھنا چاہتے ہیں تو اپنی غذا میں سے میٹھے
مشروبات کو نکال دیں۔
طبی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ بہت زیادہ سافٹ ڈرنکس ،میٹھی چائے اور
دیگر میٹھے مشروبات پینے کے عادی ہوتے ہیں ،ان میں یادداشت کے مسائل کا خطرہ
بھی دیگر کے مقابلے میں بہت زیادہ ہوتا ہے۔
ان مشروبات میں عموما ً چینی کی ایک قسم فریکٹوز موجود ہوتی ہے جو دماغ کے
مخصوص حصوں کا حجم چھوٹا کرنے کا باعث بن سکتی ہے۔
ڈائٹ سوڈا اور مصنوعی مٹھاس والے مشروبات
اگر عام سافٹ ڈرنکس کی جگہ شوگر فری مشروبات کو ترجیح دیتے ہیں تو یہ بھی کوئی
اچھا خیال نہیں۔
تحقیقی رپورٹس میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ دن بھر میں ایک ڈائٹ سافٹ ڈرنک پینے
کے عادی ہوتے ہیں ان میں فالج یا ڈیمینشیا کا خطرہ لگ بھگ 3گنا زیادہ ہوسکتا ہے۔
فرنچ فرائیز اور دیگر تلے ہوئے پکوان
جو لوگ تلی ہوئی غذائیں بہت زیادہ کھاتے ہیں وہ سوچنے کی صالحیت کی جانچ پڑتال
کرنے والے ٹیسٹوں میں بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
اس کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ تلی ہوئی چکنائی سے بھرپور غذائیں ورم کا باعث بنتی ہیں،
جس سے دماغ کو خون پہنچانے والی شریانوں کو نقصان پہنچتا ہے اور دماغ کے لیے
بھی یہ غذائیں نقصان دہ ہوتی ہیں۔
ڈونٹس
یہ مزیدار سوغات تیل میں تلی جاتی ہے اور اس میں چینی بھی بہت زیادہ ہوتی ہے ،یہ
امتزاج دماغی صحت کے لیے تباہ کن ثابت ہوتا ہے۔
ڈیپ فرائی اور اضافی چینی کے اس امتزاج سے ورم کے امکان ہوتا ہے ،جبکہ خون میں
شوگر کی سطح بڑھنا بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بڑھاتا ہے۔
مزید یہ کہ بیشتر ڈونٹس میں ٹرانس فیٹس موجود ہوتے ہیں جن کے نقصانات کا ذکراوپر
ہوچکا ہے۔
سفید ڈبل روٹی اور چاول
ریفائن کاربوہائیڈریٹس چاہے مٹھاس سے پاک ہی کیوں نہ ہوں ،بلڈ شوگر میں تیزی سے
اضافے کا باعث بنتے ہیں ،جس میں اچانک کمی بھی ٓاتی ہے ،جس سے ذہن پر دھند
چھانے کا احساس ہوتا ہے۔
تحقیق میں ثابت ہوا ہے کہ بہت زیادہ ریفائن کاربوہائیڈریٹس· کا استعمال الزائمر امراض کا
خطرہ بڑھا سکتا ہے ،بالخصوص جینیاتی طور پر خطرے سے دوچار افراد کے لیے۔
تحقیقات | 87 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تو اناج ،برئون چاول اور دیسی ٓاٹے کو ترجیح دینا دماغی صحت کے لیے مفید ثابت
ہوسکتا ہے۔
سرخ گوشت
سرخ گوشت میں چکنائی زیادہ ہوتی ہے اور اسی وجہ سے زیادہ مقدار میں اسے کھانا دل
کے ساتھ ساتھ دماغ کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
ایسا نہیں کہ اسے اپنی غذا کا حصہ نہ بنائیں مگر مقدار کو محدود رکھنا زیادہ بہتر ہے۔
مکھن اور زیادہ چکنائی واال پنیر
دودھ سے بنی زیادہ چکنائی والی یہ مصنوعات بھی زیادہ مقدار میں کھانا بھی دماغی
صحت کے لیے نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
درحقیقت کم چکنائی والی دودھ سے بنی مصنوعات کے زیادہ صحت بخش سمجھا جاتا
ہے ،جیسے دودھ ،دہی ،کاٹیج چیز اور دیگر۔
الکحل
الکحل کا استعمال صحت کے لیے کسی طرح بھی فائدہ مند نہیں اور اس کی معمولی مقدار
بھی دماغی ساخت اور افعال کے لیے زہر ثابت ہوتی ہے ،چاہے عمر کوئی بھی ہو
https://www.dawnnews.tv/news/1164765/
کرونا کی ڈیلٹا قسم اتنی تیزی سے کیوں پھیلتی ہے؟ وجہ سامنے آگئی
تحقیقات | 88 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بیجنگ :چین کے طبی اور تحقیقی ماہرین نے کرونا کی تغیر شدہ قسم ڈیلٹا کے تیزی سے
پھیلنے اور ہالکت خیزی کی وجہ تالش کرلی۔
چین کے ماہرین نے کرونا کی ڈیلٹا قسم پھیلنے کی وجوہات جاننے کے لیے حال ہی
میں مطالعہ کیا ،جس میں ہالکت خیزی اور بڑھتے ہوئے کیسز کو مدنظر رکھا گیا۔
ماہرین کے مطابق ڈیلٹا قسم کے زرات عام کرونا سے زیادہ طاقت ور ہیں ،جو پوشیدہ بھی
رہتے ہیں اور اس قدر شدت سے حملہ کرتے ہیں کہ اس کی تشخیص صرف دو روز پہلے
ہی ہوتی ہے۔
اس تحقیق کے نتائج پری پرنٹ سرور وائرلوجیکل میں شائع ہوئے ،ابھی تک ماہرین کے
مطالعے اور دعوے کو کسی طبی جریدے نے شائع کرنے کی منظوری نہیں دی۔
اطالعات کے مطابق ماہرین نے چین میں رپورٹ ہونے والے چند کیسز کا تجزیہ کیا اور
یہ جاننے کی کوشش کی کہ ڈیلٹا قسم اس قدر تیزی سے کیوں پھیل رہی ہے۔ ماہرین کا کہنا
ہے کہ ڈیلٹا قسم عام کرونا سے دگنی رفتار سے پھیلتی ہے جبکہ ایلفا قسم 60فیصد زیادہ
متعدی ہے۔
ماہرین نے 21مئی کو رپورٹ ہونے والے ڈیلٹا قسم کے پہلے کیس کا جائزہ لیا اور متاثرہ
شخص کے قریب میں رہنے والوں کی نگرانی و اسکریننگ کی۔
مریض کے قریبی افراد کو ٓائسولیٹ کرکے ان کے روزانہ پی سی ٓار ٹیسٹ کیے گئے اور
اس طرح پہلے مقامی کیس کے بعد مزید 167مقامی کیسز کو شناخت کیا گیا۔ اس ڈیٹا کا
موازنہ چین میں وبا کے ٓاغاز کے ڈیٹا سے کیا گیا۔
تحقیقی ماہرین کے سامنے یہ بات ٓائی کہ ’ کسی مریض میں پی سی ٓار ٹیسٹ سے بیماری
کی تشخیص کا اوسط وقت (یعنی وائرس کی اتنی مقدار کی موجودگی جو ٹیسٹ کو مثبت
بنانے کے لیے کافی ہوتی ہے) وبا کے ٓاغاز 5.61دن تھا جبکہ ڈیلٹا قسم کے مریضوں
میں 3.71دن تھا۔
ماہرین کے مطابق ’جو لوگ ڈیلٹا قسم سے متاثر ہوئے اُن میں عالمات اس لیے ظاہر نہیں
ہوئی کیونکہ جسم میں وائرس کی مقدار کو پکڑا نہیں جاسکا ،اسی وجہ سے یہ متعدی بن
رہا ہے اور وائرل لوڈ کی صورت میں سامنے ٓایا ہے‘۔
ماہرین نے بتایا کہ تحقیق کو دوران یہ جاننے کی کوشش بھی کی گئی کہ ایک فرد کس
صورت میں وائرس کو پھیال سکتا ہے ،بیماری کی روک تھام کی حکمت عملی کے لیے
اہمیت رکھتا ہے ،مگر ڈیلٹا کو پھیلنے سے روکنے کے لیے بہت برق رفتاری سے کام
کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کی روک تھام کا وقت بہت کم ہے۔
محققین نے یہ بھی دریافت کیا کہ پی سی ٓار ٹیسٹوں میں ڈیلٹا کے مریضوں میں وائرل لوڈ
وائرس کی اصل قسم کے مریضوں· کے مقابلے میں 1260گنا زیادہ ہوتا ہے۔ ماہرین نے
بتایا کہ ڈیلٹا وائرس پھیلنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ قسم جسم کے اندر اپنے جیسا
طاقتور دوسرا وائرس پیدا کرنے کی صالحیت رکھتی ہے۔
تحقیقات | 89 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیقی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈیلٹا سے متاثر ہونے واال مریض ابتدائی ایام میں
دوسروں کے لیے خطرناک ہے کیونکہ اُس میں سے اُن ذرات کا اخراج ہوتا ہے جو
دوسروں میں وائرس منتقل کرسکتے ہیں
https://urdu.arynews.tv/covid-delta-variant-viral-reason/
ویب ڈیسک
ریاض :سعودی وزارت صحت کے ترجمان ڈاکٹر محمد العبد العالی نے کورونا کی بدلتی
صورتحال اور صحت کے اس پر اثرات سے متعلق وضاحتی بیان جاری کردیا۔
عرب میڈیا کے مطابق وزارت صحت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اب تک کورونا وائرس
کی جو نئی قسم ریکارڈ پر ٓائی ہیں ان میں سے الفا ،بیتا ،جاما اور ڈیلٹا تشویشناک ہیں تاہم
ان چاروں میں ڈیلٹا سب سے زیادہ خطرناک ہے۔
وزارت صحت کے ترجمان نےکہا کہ ’کئی طبی جائزوں اور میڈیکل ریسرچ نے ثابت کیا
ہے کہ ڈیلٹا وائرس سے نمٹنے کے لیے کسی بھی ویکسین کی ایک خوراک ناکافی ہوگی‘۔
ترجمان نے کہا کہ ’ ڈیلٹا وائرس سے بچاؤ اور مدافعت حاصل کرنے کے لیے ویکسین کی
دو خوراکیں لینا ضروری ہیں‘۔یاد رہے کہ سعودی عرب میں اتوار 25جوالئی کو کورونا
کے ایک ہزار سے زیادہ نئے کیسز ریکارڈ ہوئے ہیں جبکہ کورونا کے مجموعی متاثرین
کی تعداد پانچ الکھ سے بڑھ گئی ہے۔
گذشتہ 24گھنٹوں کے دوران کورونا کے ایک ہزار 194نئے مریض سامنے آئے جبکہ’
ایک ہزار 164افراد صحت یاب ہوئے۔
https://urdu.arynews.tv/565427-2/
تحقیقات | 90 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نیند میں خراٹے کس بیماری کی وجہ ہیں؟
ویب ڈیسک
جوالئی 25 2021
نیند میں خراٹے لینا ایک عمومی مسئلہ ہے جو ٓاپ کو نیند کی کمی کا شکار بھی کردیتا
ہے۔
سونے کی حالت میں خراٹے لینا دراصل ایک بیماری ہے ،جسے طب کی زبان میں اپنیا
کہا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق سوتے ہوئے سانس رکنے کے عمل کی وجہ سے خراٹے
نکلتے ہیں۔
امریکا کے ماہرین نے اب اپنیا نامی بیماری سے متاثر ہونے کی بنیادی وجہ تالش کرنے
ٰ
دعوی کیا ہے۔ کا
امریکا میں ہونے والی تحقیق کے نتائج طبی جریدے یورپین ریسیپٹری جرنل میں شائع
ہوئے۔ تحقیق کے دوران 10سے اٹھار سال تک کی عمر کے ایک الکھ 36ہزار سے زائد
شہریوں کی صحت اور جسمانی سرگرمیوں کا جائزہ لیا گیا۔
جس میں ماہرین نے بتایا کہ ٹی وی اسکرین کے سامنے روزانہ کئی گھنٹے گزارنے سے
اپنیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔
ہاورڈ کے تحقیقی ماہرین نے بتایا کہ ’ٹی وی کے سامنے چار گھنٹے سے زائد وقت
گزارنے واال اپنیا کا شکار ہوسکتا ہے‘۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اپنیا کا شکار افراد کو نیند
کے دوران خراٹوں سمیت دیگر طبی پیچیدگیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی کہ دن بھر میں زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنے والے افراد کو
چہل قدمی کو یقینی بنانا چاہیے ورنہ وہ نیند میں خراٹوں کا شکار ہوسکتے ہیں۔
تحقیقات | 91 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ماہرین کے مطابق دنیا بھر میں 30سے 69سال کی عمر کے ایک ارب کے قریب افراد
معتدل سے سنگین سلیپ اپنیا کا شکار ہیں کیونکہ ایسے افراد کی جسمانی سرگرمیاں کم
ہیں۔
ویب ڈیسک
زیادہ مقدار میں سبزیاں کھانا اور کافی پینے کی عادت صحت کے لیے مفید ہونے کے
ساتھ کووڈ نائنٹین کا شکار ہونے سے بھی کسی حد تک تحفظ فراہم کرسکتی ہے ،یہ بات
امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔
نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ سبزیاں کھانا اور کافی پینا کووڈ کا
خطرہ کسی حد تک کم کرنے میں مددگار غذائی عادات ثابت ہوسکتی ہیں ،تحقیق میں دیگر
غذائیں بشمول پھل ،چائے اور سرخ گوشت کو بھی شامل کیا گیا تھا ،مگر ان کا کوئی منفی
یا مثبت اثر دریافت نہیں ہوسکا۔
تحقیقات | 92 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس کے مقابلے میں پراسیس گوشت کے کھانے کا شوق کرونا وائرس کا شکار ہونے کا
خطرہ بھی بڑھا سکتا ہے۔
پراسیس شدہ گوشت وہ ہوتا ہے ،جسے طویل عرصے تک کھانے کے قابل بنانے کے
لیے اس میں کیمیکل والے مصالحوں کا استعمال کیا جائے یا پھر انہیں آگ پر پکا کر اس
کی شکل تبدیل] کرکے حد سے زیادہ نمک اور دیگر مصالحے شامل کیے جائیں۔
محققین کا کہنا ہے کہ کووڈ ایک متعدی مرض ہے جو نمونیا یا دیگر اقسام کے نظام تنفس
کے امراض سے ملتا جلتا ہے ،ہم جانتے ہیں کہ مدافعت اس طرح کے کچھ متعدی امراض
سے لڑنے کے لیے صالحیت میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ یہی وجہ تھی کہ ہم یہ جاننا چاہتے تھے کہ غذا کووڈ سے بچانے میں
کس حد تک کردار ادا کرتی ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ غذا مدافعت پر اثرانداز ہوتی
ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر تحقیقی کام میں کووڈ سے شکار ہونے کے بعد لوگوں پر مرتب
ہونے والے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے مگر وزن سے ہٹ کر خطرے کے عناصر
پر زیادہ کام نہیں کیا گیا۔
اس تحقیق کے لیے یوکے بائیو بینک ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا ،جس میں دوہزار چھ سے
دوہزار دس تک اور پھر مارچ سے نومبر دو ہزار بیس تک کووڈ کی وبا کے دوران غذائی
رویوں کو دیکھا گیا تھا۔
محققین نے ایسی غذاؤں پر خاص توجہ دی جن کے بارے میں ماضی میں انسانوں اور
جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں یہ ثابت ہوچکی تھی کہ وہ قوت مدافعت پر
اثرانداز ہوتی ہیں
تحقیق میں لگ بھگ اڑتیس ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے کووڈ ٹیسٹ ہوئے تھے
اور سترہ فیصد میں بیماری کی تشخیص ہوئی تھی ،محققین نے دریافت کیا کہ غذا ممکنہ
طور پر کووڈ سے بچانے میں معتدل تحفظ فراہم کرسکتی ہے۔
مثال کے طور پر دن بھر میں ایک یا اس سے زیادہ کپ کافی پینے والے افراد کووڈ سے
متاثر ہونے کا خطرہ اس گرم مشروب سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں 10فیصد تک
کم ہوجاتا ہے،اسی طرح دن بھر کی غذائی کیلوریز کا کم از کم دوتہائی حصہ سبزیوں
(بشمول ٓالو) پر مبنی ہونا بھی کووڈ کا خطرہ کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں پراسیس گوشت کا استعمال بھی
کووڈ کا خطرہ بڑھا دیتا ہے ،اسی طرح بچپن میں ماں کے دودھ پر پرورش سے بھی
بلوغت میں کووڈ کے خطرے میں دس فیصد کمی کو دریافت کیا گیا۔
یہ غذائی عناصر مختلف اثرات کیوں مرتب کرتے ہیں ،یہ ابھی معلوم نہیں اور تحقیق میں
کوئی واضح تعلق ثابت نہیں کیا جاسکا۔
محققین کے مطابق کافی کووڈ سے تحفظ کیوں فراہم کرتی ہے اور چائے کیوں نہیں ،اس
کی ممکنہ وجہ کافی میں کیفین کی بہت زیادہ مقدار ہونا ہے۔
تحقیقات | 93 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
انہوں نے کہا کہ تحقیق کے کچھ نتائج اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ اچھی غذائی عادات
کتنی اہمیت رکھتی ہیں ،نہ صرف کووڈ 19کے لیے بلکہ مجموعی صحت کے لیے بھی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یقینا ً کافی اور سبزیاں کووڈ 19ویکسین اور دیگر احتیاطی تدابیر کا
متبادل نہیں ،یہ تحقیق طبی جریدے جرنل نیوٹریشنز میں شائع ہوئے
https://urdu.arynews.tv/potato-helps-to-reduce-the-risk-of-corona/
خواہ مرد ہو یا عورت ہر انسان خوبصورت نظر ٓانا چاہتا ہے اور تروتازہ شاداب چہروں
کو ہی خوبصورت قرار جاتا ہے ،اگر ِجلد صاف شفاف نکھری ہو مگر ٓانکھوں کے گرد
سیاہ حلقے موجود ہوں تو ایسے میں ساری شخصیت پر منفی اثر پڑتا ہے ،سیاہ حلقوں کا
عالج گھر میں ہی دنوں کے اندر چند مفید ٹوٹکوں کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔
مارکیٹ میں ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے درجنوں کیمیکل سے لبریز
کریمیں دستیاب ہیں جو کہ قیمت پر مہنگی اور نتائج سے متعلق غیر مٔوثر ثابت ہوتی ہیں،
ان کریموں کے لگانے سے حلقوں پر کوئی خاطر خواہ فرق نہیں پڑتا البتہ ٓانکھوں کی
صحت اور بینائی ضرور دأو پر لگ جاتی ہے ،لہٰ ذا ان کریموں سے جان چھڑانے اور گھر
ہی میں اپنی خوبصورتی کو چار چاند لگانے کے لیے سب سے پہلے سیاہ حلقے بننے کی
وجوہات جاننا الزمی ہے۔
ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقے کیوں بنتے] ہیں ؟
تحقیقات | 94 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ماہرین کے مطابق نیند کی کمی کے سبب ٓانکھوں کے گرد گہرے حلقے بن جاتے ہیں
جبکہ خواتین میں ہارمونز کی تبدیلی اور چڑچڑے پن ،ذہنی دبأو کے سبب بھی سیاہ حلقے
پڑتے ہیں ،اس کے عالوہ نشہ ٓاور ادویات کا زیادہ استعمال ،سگریٹ نوشی ،پانی کی کمی
اور غذائی کمی کے سبب بھی ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقے بن جاتے ہیں اور ٓانکھوں کی
خوبصورتی ماند پڑجاتی ہے۔
مندرجہ ذیل تجویز کیے گئے چند مفید مشوروں سے ٓانکھوں کو سیاہ حلقوں سے نجات
دال کر خوبصورت بنایا جا سکتا ہے ۔
ٓانکھوں کے گرد بن جانے والے سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے سب سے سستا ترین طریقہ
زیادہ سے زیادہ پانی پینا ہے ،دن میں تقریبا ً 8سے 12گالس پانی الزمی پئیں۔
ٓانکھوں کے گرد سیا حلقوں کا عالج ایلوویرا سے بھی کیا جا سکتا ہےٓ ،انکھوں پر ایوویرا
جیل لگانے سے دھبے صاف اور ٓانکھیں بھی روشن دکھائی دیتی ہیں۔
ٓالؤوں کے قتلوں کو ٓانکھوں کے نیچے ہلکے ہاتھوں سے ملیں ،کچھ دن بعد حلقے دور
ہوجائیں گے۔
پرسکون اور کم از کم 8گھنٹے کی نیند ضرور لیں۔
ذہنی دبأو ،الجھأو اور پریشانیوں سے دور رہنے کی کوشش کریں۔
پودینے کے پتوں کا پیسٹ بنا کر ٓانکھوں پر لگانے سے ٓانکھوں کےگرد جلد کی رنگت
نکھر جاتی ہے ،سیاہ حلقے دنوں میں ختم ہو جاتے ہیں۔سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے
ٹماٹر کا جوس پینا اور لگانا دونوں نہایت مفید ثابت ہوتا ہے ،ٹماٹر کے رس میں دو بوند
لیموں کے رس کی مالئیں اور ٓانکھوں پر روئی کی مدد سے لگا لیں ،سیاہ حلقے جلد دور
ہو جائیں گے۔کھیرے کے قتلے اپنی ٓانکھوں پر رکھ کر کم از کم ٓادھے گھنٹے یا 15سے
20منٹ کے لے سو جائیں یا ٓانکھیں بند کر لیں ،یہ عمل روزانہ دہرائیںٓ ،انکھوں کے گرد
جلد کی رنگت نکھر جائے گی۔
اسٹیل کا چمچ لیں اور رات میں اسے فریزر میں ٹھنڈا ہونے کے لیے رکھ دیں ،صبح
اٹھنے کے بعد فریج سے چمچ نکال کر اپنی دونوں ٓانکھوں پر کچھ منٹ کے لیے اس سے
مساج کریں ،اس عمل کو تین بار دہرائیں ،حلقے دنوں میں غائب ہو جا ئیں گے۔
گرین ٹی کے ایک ٹی بیگ کو پانی میں بھگو کر فرج میں رکھ دیں ،بعد میں اسے اپنی
ٓانکھوں پر رکھ دیں ،اس عمل کو بار بار کرنے سے بہترین نتائج حاصل ہوں گے۔
ٓانکھوں کو چمکدار ،خوبصورت بنانے اور سیاہ حلقوں کے عالج کے لیے اپنی غذا کو
ٓائرن ،وٹامن اے ،سی اور ای سے بھرپور بنائیں ،اس سے ٓانکھوں کی گرد سیاہ حلقوں سے
نجات حاصل کرنے میں بہت مدد ملے گی
https://jang.com.pk/news/961292
کیا ٓاپ میک اپ اتارنے کا صحیح طریقہ جانتی ہیں؟
جوالئی 26 2021 ،
تحقیقات | 95 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
عمدہ سے عمدہ میک اپ خریدنا اور اس کا استعمال کرنا ہر لڑکی کو پسند ہوتا ہے ،میک
اپ کر لینے سے خواتین کی خوبصورتی پر جہاں چار چاند لگ جاتے ہیں اور چہرے کی
جلد پر چھوٹا موٹا عیب چھپ جاتا ہے وہیں اسے صحیح طریقے سے صاف نہ کرنے کی
صورت میں خوب سے خوب تر صاف اسکن بھی خراب اور ایکنی سے بھر جاتی ہے،
اسی لیے میک اپ لگانے کا ہنر سیکھنے سمیت اسے صاف کرنے کا طریقہ بھی ٓانا چا
ہیے۔
ماہری ِن جلدی امراض کی جانب سے تو میک اپ مثالً پرائمر ،لیکوئیڈ فأونڈین ،بیس ،فیس
پاوڈر ،بلش ٓان ،مسکارہ ،ہائی الئٹر ،کنسیلر لگاناسختی سے منع کیا جاتا ہے مگر شوق کے
ٓاگے ڈاکٹرز کی کون سنتا ہے ،اسی لیے خواتین میک اپ لگانے میں تو کوئی کوتاہی نہیں
برتتیں مگر اسے اتارنے میں ِجلد کی صحت دأو پر لگا دیتی ہیں جس کے سنگین نتائج
سامنے ٓاتے ہیں۔
ماہرین جلدی امراض و بیوٹیشنز] کی جانب سے میک اتارنے کا صحیح طریقہ اور اس
سے متعلق مشورے بتائے جاتے ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ،ان تجاویز پر عمل کر کے
میک لگانے کے باوجود جلد صاف ستھری اور شفاف رہے گی۔
ماہرین کے مطابق میک اپ تا دیر لگانے سے گریز کرنا چاہیے ،اگر سارا دن میک اپ
کرنے کی ضرورت ہے تو اسے کم از کم 8گھنٹے بعد اسے فریش کر لیں یا پھر معیاری
میک اپ کا انتخاب کریں۔
میک اپ اتارنے کے لیے صرف ایک فیس واش سے چہرہ دھو لینے کا مطلب ہے کہ ٓاپ
نے اپنا میک اپنے چہرے پر اچھی طرح سے َمل لیا ہے اور مسام کو مزید بند کر دیا ہے ۔
تحقیقات | 96 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
میک اپ لگانے سے چہرے کے مسام بند ہو جاتے ہیں اور پسینے کا اخراج رُک جاتا ہے
جس کے نتیجے میں دانے بننے کا عمل شروع ہو جاتا ہے ،چہرے کے مسام میں میک اپ
اور پسینہ مل کر مسام پر اضافی چکناہٹ جمع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں کیل،
مہاسوں اور ایکنی میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
ماہرین کے مطابق میک اپ ہٹانے میں کبھی دیر نہ کریں ،جیسے ہی باہر سے گھر پہنچیں
یا تقریب ختم ہو اپنا میک اپ صاف کر لیں ،میک اپ لگائے ہوئے رات سونے سے گریز
کریں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ میک اپ جس پر ہزاروں روپیہ خرچ کر دیا جاتا ہے ایسے ہی میک
ہٹانے کے لیے بھی معیاری پروڈکٹس کا استعمال کریں۔
اچھے برانڈ کا میک اپ ریموور یا پھر کسی صاف اور خالص تیل کا استعمال کیا جا سکتا
ہے جیسے کہ ناریل ،بادام اور وٹامن ای ٓائل ،ان ٓائل سے پوروں کی مدد سے چہرے اور
گردن پر مساج کریں اور روئی کی مدد سے چہرہ صاف کر لیں۔
میک اپ صاف کرتے ہوئے پہلے چہرے پر تیل سے مساج کریں ،روئی کی مدد سے
صاف کریں اس کے بعد فیس واش سے چہرہ دھو لیں۔
میک اپ اتارنے کا عمل یہاں ختم نہیں ہوا ہے ،اب اپنے چہرے پر کسی اچھے برانڈ کی
کلینزنگ 7منٹ اور اس کے بعد ہلکے ہاتھ اسکرب ضرور کریں۔
میک اپ اتارنے کے بعد کسی اچھے ٹونر کا استعمال الزمی کریں یا عرق گالب لگا لیں۔
میک اپ اتارنے کے 20سے 30منٹ بعد اپنی جلد کو موسچرائز کرنے کے لیے کسی
اچھے برانڈ کی کریم کا استعمال الزمی کریں
https://jang.com.pk/news/961686
ویب ڈیسک
اتوار 25 جوالئ2021
سائنسدانوں نے ٹی بی بیکٹیریئم اور اس کے میزبان خلیات کے درمیان تعلقات کو سمجھنے
میں اہم کامیابی حاصل کی ہے
تحقیقات | 97 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ن
پ دق (ٹی بی) سے کئی محاذ پر شکست یویارک :جدید ترین طریقہ عالج کے باوجود ہم ت ِ
کھارہے ہیں۔ اس ضمن میں ایک نئی خلوی تجزیاتی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جس کی
بدولت اس مرض کو قابو کرنے اور معالجے میں مدد مل سکتی ہے۔
کورنیل یونیورسٹی میں خردحیاتیات اور امیونولوجی کے ماہر ڈاکٹر ڈیوڈ رسل اور ان کے
ساتھیوں نے انفرادی امنیاتی خلیات اور ٹی بی بیکٹیریا کے درمیان تعلق کو دریافت کیا ہے
۔ اس تحقیق سے ایک جانب تو ٹی بی کے مؤثر عالج میں مدد ملے گی اور دوم ٹی بی
ویکسن کا کام بھی ٓاگے بڑھے گا۔
کئی برس سے ڈاکٹر ڈیوڈ اور ان کے ساتھی جاننے کی کوشش کررہے ہیں کہ ٓاخر ٹی بی
ٹیوبرکلوسس· (ایم ٹی بی) ایسے خلیات میں کیوں جا بیٹھتا
ِ کا بیکٹیریا ،یعنی مائیکوبیکٹیریئم
ہے جو عام طور پر امنیاتی خلیات یعنی میکروفیجز ہوتے ہیں؟
اس ضمن میں نئی ٹیکنالوجی وضع کی گئی ہے جو بیکٹیریا اور اس کے میزبان (خلئے)
کے درمیان تعلق سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔ پہلے طریقے میں ٓار این اے سیکوینسنگ
اور سنگل سیل ٓار این اے سیکوینسنگ سے مدد لی گئی۔ دوسرے طریقے میں ایم ٹی بی
بیکٹیریئم کو اس طرح تبدیل کیا گیا کہ وہ مختلف ماحول میں مختلف قسم کی روشنی خارج
کرتا ہے اور اس تبدیل شدہ بیکٹیریئم کو رپورٹر بیکٹریئم کا نام دیا گیا ہے۔
پھر رپورٹر بیکٹیریئم سے چوہوں کو ٹی بی کی بیماری دی گئی۔ اس کے بعد چوہے کے
پھیپھڑے سے کئی متاثرہ میکروفیجز نکالے گئے۔ پھر ہر خلئے کو دیکھ کر اندازہ لگایا گیا
کہ کون ٹی بی کے رپورٹر جراثیم سے زیادہ متاثر ہے اور کون کم متاثر ہورہا ہے۔ اس کا
تحقیقات | 98 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ادراک خارج ہونے والی روشنی کی بنا پر کیا گیا۔اگلے مرحلے میں ان کا ٓاراین اے تجزیہ
کیا گیا تاکہ ہر انفرادی میزبان خلیے کی جینیاتی ترکیب سامنے ٓاسکے۔ معلوم ہوا کہ ایک
خلئے کے جین نے بیکٹیریا کو بڑھایا تو دوسرے خلیے کے جین نے بیکٹیریا کی نشوونما
روکنے میں اپنا کردار ادا کیا۔ بالشبہ یہ ایک بہت اہم دریافت ہے۔
اس طرح ٹی بی کے پھیالؤ کو سمجھنے میں مدد ملے گی اور ان خلیات پر کئی مرکبات
ٓازما کر ہم جلد یا بدیر ٹی بی ویکسین تک پہنچ سکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2204877/9812/
ویب ڈیسک
اتوار 25 جوالئ2021
کورونا وائرس بچوں کے پھیپھڑوں اور گردوں کے عالوہ دل ،دماغ ،کھالٓ ،انکھوں اور
نظام ہاضمہ تک کو متاثر کرسکتا ہے
ِ
تحقیقات | 99 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لیوزیانا :امریکی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر بڑوں نے کورونا ویکسین نہ لگوائی
تو ان کے بچے بھی کورونا وائرس سے متاثر ہوسکتے ہیں جبکہ ان کی تعداد میں اضافہ
بھی ہوسکتا ہے۔
نیو اورلینز ،لیوزیانا میں ٹیولین یونیورسٹی اسکول ٓاف میڈیسن کے ڈاکٹر شیفلین اور ان
کووڈ 19عالمی وبا سے متعلق اعداد و شمار کا تجزیہ کرنے کے کے ساتھیوں امریکا میں ِ
بعد انکشاف کیا ہے کہ کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے بچوں کی نمایاں تعداد کا تعلق
ان گھرانوں سے ہے جہاں خاندان کے بڑوں نے ویکسین نہیں لگوائی۔
واضح رہے کہ اب تک کورونا وائرس سے متاثرہ بچوں کی تعداد بہت کم رہی ہے لیکن
حالیہ مہینوں کے دوران اس تعداد میں ہونے والے اضافے کو تشویشناک قرار دیا جارہا
ہے۔
کووڈ 19ویکسین ٹاسک فورس‘‘ کے ’’امریکن کالج ٓاف الرجی ایستھما اینڈ امیونولوجی ِ
کووڈ 19وبا کے ٓاغاز سے اب تک 40 سربراہ ڈاکٹر نیرج پٹیل کے مطابق ،امریکا میں ِ
الکھ 87 ،ہزار 916بچے کورونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں جن میں سے 10,628بچوں
کی موت واقع ہوچکی ہے۔
ڈاکٹر پٹیل نے خبردار کیا ہے کہ بچوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی شرح
بتدریج بڑھ رہی ہے ،البتہ یہ عالمات بڑوں کے مقابلے میں خاصی مختلف اور پیچیدہ بھی
ہوسکتی ہیں۔
بچوں کے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی عالمات کو مجموعی طور پر ’’ملٹی سسٹم
انفلیمیٹری سنڈروم اِن چلڈرن‘‘ ( )MIS-Cبھی کہا جاتا ہے۔
’’ایم ٓائی ایس سی‘‘ میں مختلف جسمانی اعضاء کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد
تکلیف میں مبتال ہوجاتے ہیں۔
نظام ہاضمہ تکِ ان میں پھیپھڑوں اور گردوں کے عالوہ دل ،دماغ ،کھالٓ ،انکھیں اور
شامل ہوسکتے ہیں؛ جبکہ ’’ایم ٓائی ایس سی‘‘ شدید ہونے پر بچے کی موت بھی واقع
ہوسکتی ہے۔
کورونا ویکسین دستیاب ہونے کے باوجود ،دنیا بھر میں ویکسین نہ لگوانے والوں کی
اکثریت ہے جو کسی نہ کسی وجہ سے کورونا ویکسین لگوانے سے انکاری ہیں۔
نوٹ :اس خبر کی معلومات طبّی ویب سائٹ ’’ہیلتھ الئن‘‘ پر شائع شدہ ایک حالیہ
رپورٹ سے لی گئی ہیں۔
https://www.express.pk/story/2205358/9812/
کووڈ 19کا شکار ہونے کا خطرہ کم کرنے میں مددگار ممکنہ غذائیں
ویب ڈیسک
جوالئ 25 2021
تحقیقات | 100 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیقات | 101 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر تحقیقی کام میں کووڈ سے شکار ہونے کے بعد لوگوں پر مرتب
ہونے والے مسائل پر توجہ مرکوز کی گئی ہے مگر وزن سے ہٹ کر خطرے کے عناصر
پر زیادہ کام نہیں کیا گیا۔
اس تحقیق کے لیے یوکے بائیو بینک ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا تھا ،جس میں 2006سے 2010
تک اور پھر مارچ سے نومبر 2020تک کووڈ کی وبا کے دوران غذائی رویوں کو دیکھا
گیا تھا۔
محققین نے ایسی غذاؤں پر خاص توجہ دی جن کے بارے میں ماضی میں انسانوں اور
جانوروں پر ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں یہ ثابت ہوچکی تھی کہ وہ قوت مدافعت پر
اثرانداز ہوتی ہیں۔
تحقیق میں لگ بھگ 38ہزار افراد کو شامل کیا گیا تھا جن کے کووڈ 19ٹیسٹ ہوئے تھے
اور 17فیصد میں بیماری کی تشخیص ہوئی تھی۔
محققین نے دریافت کیا کہ غذا ممکنہ طور پر کووڈ سے بچانے میں معتدل تحفظ فراہم
کرسکتی ہے۔
مثال کے طور پر دن بھر میں ایک یا اس سے زیادہ کپ کافی پینے والے افراد کووڈ سے
متاثر ہونے کا خطرہ اس گرم مشروب سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں 10فیصد تک
کم ہوجاتا ہے۔
اسی طرح دن بھر کی غذائی کیلوریز کا کم از کم دوتہائی حصہ سبزیوں (بشمول ٓالو) پر
مبنی ہونا بھی کووڈ کا خطرہ کم کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ روزانہ کچھ مقدار میں پراسیس گوشت کا استعمال بھی
کووڈ کا خطرہ بڑھا دیتا ہے۔
بچپن میں ماں کے دودھ پر پرورش سے بھی بلوغت میں کووڈ کے خطرے میں 10فیصد
کمی کو دریافت کیا گیا۔
یہ غذائی عناصر مختلف اثرات کیوں مرتب کرتے ہیں ،یہ ابھی معلوم نہیں اور تحقیق میں
کوئی واضح تعلق ثابت نہیں کیا جاسکا۔
محققین کے مطابق کافی کووڈ سے تحفظ کیوں فراہم کرتی ہے اور چائے کیوں نہیں ،اس
کی ممکنہ وجہ کافی میں کیفین کی بہت زیادہ مقدار ہونا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تحقیق کے کچھ نتائج اس بات کا عندیہ دیتے ہیں کہ اچھی غذائی عادات
کتنی اہمیت رکھتی ہیں ،نہ صرف کووڈ 19کے لیے بلکہ مجموعی صحت کے لیے بھی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ یقینا ً کافی اور سبزیاں کووڈ 19ویکسین اور دیگر احتیاطی تدابیر کا
متبادل نہیں۔اس تحقیق کے لیے طبی جریدے جرنل نیوٹریشنز میں شائع ہوئے
https://www.dawnnews.tv/news/1164844/
تحقیقات | 102 جلد ، ۵شمارہ ۱۹ | ۱۳۴جوالئ ۲۱۔ ۲۵جوالئ |۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ
www.alqalam786.blogspot.com