Professional Documents
Culture Documents
تصوف
تصوف
:فصل اول
صوفی کے نزدیک تصوف کا مفہوم وہی ہے جس پر اس نے اپنی ذاتی زندگی میں عمل پيرا ہونے کی کوشش کی اور جو نتائج اور
فوائد اس کو حاصل ہوئے (اسے تصوف کا نام دیا گیا)۔
اگر اُ ن مختلف تعریفوں کو یکجا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب مرتب ہو جاتی ہے۔ایسے میں بہتر یہی معلوم ہوتا ہے کہ چند
مختصر الفاظ میں اس کا مفہوم سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
تصوف عملی طور پر وہ طریقہ حیات ہے جس پر چل کر ذات خداوندی سے بال واسطہ رابطہ پیدا ہو۔اس رابطے کے حصول کے
لیے ہر صوفی کو چند نفسیاتی تجربات سے خود کو گزارنا پڑتا ہے۔یہ تجربات مختلف صوفیہ کے نزدیک مختلف ہیں۔اور صوفیاء
اسے اپنا بہترین سرمایہ حیات تصور کرتے ہیں ۔جن کی بنا پر انہیں حقائق حیات اور ذات خداوندی کے وجود پر یقین واثق پیدا ہوتا
ہے۔
ان صوفیاء کا یہ علم کتابی یا بالواسطہ نہیں بلکہ ان کے اپنے تجربات مشاہدات اور نفس کی گہرائیوں اور قلبی وارداتوں کی کھوکھ
سے ابھرتا ہے۔جسے مشاہدہ اور کشف کے نام سے موسوم کیا جا سکتا ہے۔
جب صوفیہ کے تجربات مشاہدات اور واردات قلب الفاظ اور بیان کا جامہ پہنتے ہیں تو نہ صرف ایک عام قاری بلکہ بسا اوقات
صوفی اور حکماء کے لئے بھی ایک الجھن کا باعث بن جاتے ہیں۔
جب ان صوفیاء کے بیانات کا گہرا مطالعہ کیا جاتا ہے تو مختلف قسم کے تضادات ابھر کر سامنے آنے لگتے ہیں۔
وحدت اور کثرت کے ڈانڈے کس جگہ اور کس طرح ملتے ہیں۔ )(۲
ایک محتاج محدود وسائل اور ادراک و فہم رکھنے واال انسان ایک غنی اور المحدود علم کی مالک ہستی سے کیسے واصل ہو )(۴
سکتا ہے۔
اور اسی نوعیت کے بے شمار سواالت پردہ زہن پر نمودار ہوتے ہیں۔
ہرچند کے متعلقہ صوفی کے تجربات و مشاہدات ہر قسم کے شک و شبہ سے باالتر سہی مگر جب ان تجربات کو انسانی زبان میں
ادا کیا جاتا ہے تو اس بات کی نوعیت اور اہمیت واضح کرنے کے بجائے مبہم ہوجاتی ہے ۔
پس جب بھی اس حقیقت مطلقہ کو الفاظ کا جامہ پہنایا جائے گا تو اُس کا کوئی نہ کوئی پہلو نظروں سے غائب ہو جائے گا۔
اور یوں صداقت میں کذب کی آمیزش ہو کر نزاع اور اختالف کا دروازہ کھل جاتا ہے ۔
انہیں مشکالت سے بچنے کے لیے صوفیاء نے ذات خداوندی کے لیے صفات منسوب کرنے کی کوشش کی اور معاملہ یہاں تک
پہنچا کے اس حقیقت مطلقہ کے لیے "نیستی کا نام دیا جانے لگا" اور ابن عربی اور عبد الکریم الجیلی کے ہاں "االعما" کے ناموں
سے موسوم کیا گیا۔
یہ صوفیانہ تجربات کو عقلی اصطالحات میں پیش کرنے کا الزمی نتیجہ تھا۔
تصوف
تصوف بنیادی طور پر نہ تو ذکر و اذکار کا نام ہے اور نہ ہی خاص طور اور اطوار کا نام ہے بلکہ یہ اس کی شاخیں ہیں ۔اصل میں
تصوف انسان کے اندر بنیادی سطح پر ایسی تبدیلی کرنا مقصود ہے جو انسان کے جملہ خصائص رذیلہ یکسر بدل کر اسے روحانی
اقدار کا پیکر بنا دے۔
تصوف کا واسطہ معامالت اور عبادات سے ہے۔ معامالت اور عبادات میں دو چیزیں ہوتی ہیں۔
منجیات _)(۱
ایسی چیزیں یا ایسا راستہ ہے جس پر چل کر انسان نجات پاتا ہے اور جنت کا مستحق قرار پاتا ہے۔
مہلکات _)(۲
ایسی چیزیں جو انسان کو گمراہی اور ہالکت اور تباہی و بربادی کی طرف لے جاتی ہیں۔ صحیح الفکر انسان منجیات کو ترجیح دیتا
ہے اور مهلکات سے پرہیز کرتا ہے۔ اور یہ بات انسان کی فطرت میں ودیعت کر دی گئی ہے کہ وہ منجیات کا طالب رہتا ہے اور
مہلكات uسے بچتا ہے۔
نیکی جب انسان کی جبلت بن جائے اور نیکی سے اسے حددرجہ پیار اور محبت ہو جائے تو اصل میں یہ نیکی ہے اور نیکی کا
راستہ ہے ۔اور اس طرح بدی سے بچنا انسان کی سرشت میں شامل ہو جاۓ اور بدی انسان کی شخصیت کے قریب بھی نہ پھڑکے
تو یہی انسان روحانی اقدار کا پیکر بن جاتا ہے اور مکارم اخالق کا نمونہ نظر آنے لگتا ہے۔ اسی کو تصوف کہتے ہیں۔
تصوف گفتگو نہیں " قیل وقال نہیں ہے" یہ بھوک ہے اور عمدہ چیزوں کا ترک ہے۔
اور محبوب خدا حضرت محمد مصطفی صلی ہللا علیہ و سلم کا فقر۔
)فتوح الغیب بحوالہ حقیقت تصوف از قاضی حمید فضلی ،صفحہ (70
تصوف کا لفظ تفعل کے باب سے ہے اور عربی میں تفعل تکلف کا تقاضہ کرتا ہے۔ تصوف اصل ہے اور اس کی فرع متصوف ہے۔
اور ان دونوں میں فرق لغت کے اعتبار سے واضح ہے۔
الصفا والىة ولها آىة و رواىة والتصوف حكاىة للصفا بال شكاىة
یعنی صفائے باطن والیت ہے۔ اور اس کی عالمت اور روایت ہے۔ اور تصوف بالشبہ صفائی قلب کی حکایت ہے۔
حضرت داتا گنج بخش مخدوم علی ہجویری اپنی شہرہ آفاق تصنیف کشف المحجوب میں شیخ خضری کا یہ قول نقل کرتے ہوئے
فرماتے ہیں۔
باطن کو مخالفت حق کی کدورت اور سیاہی سے پاک اور صاف کر دینے کا نام تصوف ہے۔
حضرت داتا صاحب رضی ہللا عنہ لکھتے ہیں اہل تصوف تین طرح کے ہوتے ہیں ۔
صوفی )(۱
متصوف )(۲
مستصوف )(۳
صوفی_ )(۱
صوفی وہ ہوتا ہے جو اپنی ذات کو فنا کر چکا ہو۔ اور حق کے ساتھ باقی ہو۔ وہ طبیعت سے چھٹکارا حاصل کر کے حق کے ساتھ
مال ہوا ہو۔
متصوف_ )(۲
متصوف وہ ہے جو مجاہدہ اور ریاضت کے ذریعے اس درجہ صوفی کا متالشی ہو۔اور اسی طلب میں وہ معامالت uبھی درست رکھتا
ہو۔ جو حقیقی صوفی کی طرح ہو۔
مستصوف_ )(۳
مستصوف وہ ہوتا ہے جو مال اور جاہ اور فقط دنیا کے لئے ان لوگوں کی طرح بنا پھرتا ہے۔ اسے حقیقت تصوف سے کوئی خبر
نہیں ہوتی۔ صوفیہ نے اس کے متعلق کہا ہے۔
مستصوف صوفیہ کے نزدیک مکھی کی طرح ہوتا ہے۔ اور دوسرے لوگوں کے نزدیک وہ مردار کھانے والے بھیڑیئے کی طرح
ہوتا ہے۔
پس صوفی واصل بحق ہوتا ہے۔ اور متسوف اصول تصوف پر چلنے واال ہوتا ہے۔ اور مستصوف بالکل بے هودا اور فضول ہوتا
ہے ۔
اصفا_ )(۱
بعض علماء نے لفظ تصوف سے مشتق معنی ہے۔ اگر تصوف قول الصفا سے مشتق ہو تو اس سے مراد ایسی زندگی ہوتی ہے۔ جس
میں انسان تمام گناہوں کی آلودگیوں تمام رذائل سے بچ کر اپنے قلب کو صاف و شفاف رکھتا ہے۔ جب تمام نافرمانیوں سے اور
غفلتوں سے بچ کر انسان اپنے قلب کو صیقل کر لیتا ہے تو پھر ایسا دل چونکہ صاف اور شفاف ہوتا ہے۔ اس لئے وہ ہللا تعالی کے
انوار کا جلوہ گاہ بن جاتا ہے۔
جب کوئی بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے دل پر ایک سیاہ نقطہ مرقسم ہو جاتا ہے۔ پھر اگر وہ توبہ کرے اور گریہ و زاری
کرے تو اس کا دل سیاہی سے صیقل ہو جاتا ہے۔ اگر وہ معصیت میں زیادتی کرے تو اس پر سیاہی کا اضافہ ہوتا چال جاتا ہے۔ یہی
وہ سیاہی ہے جس کا ذکر ہللا تعالی نے اپنی کتاب میں کیا ہے۔
ہرگز ایسا نہیں بلکہ (اصل وجہ ان کے تکذیب کی یہ ہے کہ) ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد کا زنگ بیٹھ گیا ہے ۔
)سورۃ المطففین(
ارشاد گرامی کا مفہوم یہ ہے کہ مسلسل گناہوں سے معصیت اور نافرمانی سے لوح قلب پر سیاہی پھلتے پھولتے مکمل طور پر چھا
جاتی ہے ۔جس کی وجہ سے اس کا دل ظلمت کدہ بن جاتا ہے ۔اس کا ضمیر مردہ ہو جاتا ہے۔ اچھائی اور برائی کی تمیز نہیں رہتی۔
اس کی قوت فیصلہ اتنی کمزور ہو جاتی ہے ۔کہ وہ برائی کو برائی بھی نہیں سمجھتا۔ نتیجتا اس کے قلب و ضمیر پر موت طاری
ہوجاتی ہے
۔جب کہ ایسا آدمی جو نیکی اور بھالئی کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور مسلسل گناہوں سے بچتا ہے۔ تو اسکے دل پر ایک نور کا نقطہ
لگ جاتا ہے حتی کہ نیکی کرتے کرتے اس کا دل مکمل طور پر نور علی نور ہو جاتا ہے تو پس ایسا شخص نے اپنے دل کو
آلودگیوں سے پاک کر لیا اور اپنے نفس کو رذائل اخالق کی تاریکوں سے منزہ کر لیا ۔ایسی صورت کو تصوف کا نام دیا جاتا ہے۔
اور اس شخص کا دل ہللا تعالی کے اسرار اور انوار کا مرکز بن جاتا ہے۔
قول ثانی
اس مادہ تصوف کے اعتبار سے بندے کے اندر حددرجہ اخالص اور صدق آ جاتا ہے۔ کہ دنیوی اعتبار سے آنے والی ہر مصیبت
اور پریشانی کا مقابلہ کرتا ہے۔ اور کسی بھی بڑے سے بڑے آمر کے سامنے uسر نہیں جھکاتا ۔بلکہ اپنی جبین اگر خم کرتا ہے تو
اپنے مالک حقیقی کے سامنے جھکاتا ہے۔ وہ دنیا کے سارے رشتے توڑ کر اسی سے لو لگاتا ہے۔ اور اپنا رشتھ اسی سے جوڑتا
ہے۔ اور اس کے سارے کام اس کی زندگی کا لمحہ لمحہ اس طرح گزرتا ہے کہ وہ رضائے الہی اور منشائے خداوندی کو پا لے ۔
چونکہ وہ مقام رضا پر فائز ہوتا ہے۔ اس لئے وہ بڑی سے بڑی مشکل کو خندہ پیشانی سے سامنا کرتا ہے ایسی صورت میں اسے
اخالص نامہ حاصل ہوتا ہے۔ اور ہللا تعالی کی رضا اسے حاصل ہوتی ہے۔
اس سے مراد ہے کہ اونی لباس پہننا اور اونی لباس چونکہ کھردرا ہوتا ہے ۔اور ایسا لباس پہننے سے مراد ہے کہ دنیوی لذتوں اور
جسمانی راحتوں سے کنارہ کشی کی عالمت ہے۔ اور ہللا تعالی کی بارگاہ میں ایسا شخص عاجز اور مزمل ہو کر پیش ہوتا ہے۔ یہ ہللا
ادنی لباس پہننا انبیاء کی سنت ہے۔ بلکہ نبی
تعالی کو تمام عبادتوں سے پسندیدہ ہے۔ کہ کوئی اس کی بارگاہ کا عاجزو فقیر رہے۔ ٰ
اکرم صلی ہللا علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے ۔
عن انس بن مالك قال كان رسول هللا صلى هللا عليه وسلم يجيب دعوه العبد ويركب اطمار و يبس الصوف
انس بن مالک سے روایت ہے کہ حضور صلی ہللا علیہ وسلم غالم کی دعوت قبول فرما لیتے۔ گدھے پر سواری فرما لیتے۔ اور
صوف کا لباس زیب تن فرما لیا کرتے تھے۔
کیونکہ یہی لباس تھا جسے تابعین اور تبع تابعین کے دور میں نیک بندگان خدا نے سنت انبیاء اور صحابی کی پیروی میں ازرا ِہ
عجز و انکساری اپنایا تھا۔ اور اسی لباس کی نسبت سے اُنھیں صوفیاء کہا جانے لگا۔ اور اس طریقہ زندگی کو جو محبوب حقیقی
کے ساتھ سچی لو لگا کر اس کی محبت میں فنا ہو جانے سے تشکیل پایا تصوف کا نام دیا جانے لگا۔
گویا ّلذ ات جسمانی سے کنارہ کش ہو کر اور عالئق دنیوی سے دستبرداری کے ساتھ ساتھ محبوب حقیقی کی بارگاہ میں ظاہرا اور
باطنا عجز و انکساری اور تواضع و تذلیل سے عبارت طرز زندگی کو تصوف کا نام دیا گیا۔
تصوف کو چوتھے مادہ اشتقاق الصوف سے مشتق مانا جائے تو لوح ذہن پر محبوب حقیقی سے محبت میں کامل یکسوئی اور
انہماک uاور استغراق کا تصور ابھرتا ہے۔تو چونکہ صوفیاء اس اعتبار سے وہ ہللا کی محبت میں فنا ہو جاتے ہیں۔وہ ہر وقت اپنے
موال کے حضور کیفیت جذب میں رہتے ہیں۔ اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہو کر اسی سے لو لگاتے ہیں۔ ان پر احوال باطنی کھل
جاتے ہیں ۔ان کے لوح قلب پر غیر کا نقش مٹ چکا ہوتا ہے۔ اور ان کے نہاں خانہ دل میں سوائے محبوب حقیقی کے غیر کے
تصور تک کا گزر نہ محال ہوتا ہے۔ ایسی زندگی بھی امتیاز انسانیت کا مقام رفیع ہے۔
اصحاب صفا حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے ایسے ساتھی تھے جو گھر پر بیوی بچوں کے جھنجھٹ سے آزاد تھے ۔مسجد نبوی
میں چبوترے جسے عربی میں سفہ کہا جاتا ہے۔اس پر رہتے تھے۔ان کی تعداد 400بتائی جاتی ہے۔اصحاب صوفہ گو اہل وعیال کی
ذمہ داریوں سے آزاد تھے مگر تارک دنیا نہ تھے۔وہ 24گھنٹے حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی بارگاہ سے فیض حاصل کرتے ۔اور
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی ظاہری تربیت روحانی فیض باطنی توجہات سے متمتع ہوکر تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن اور روحانی
بالیدگی کا سامان حاصل کرتے۔
اصحاب صفا کئ كئ دن فاقے uکاٹتے مجاہدہ نفس اور ریاضت کرتے تھے۔ مسلسل روزہ رکھتے تھے۔ کجھور اور پانی پر گزارا
کرتے تھے۔ شیخ شہاب الدین سہروردی اور دیگر مورخین علماء تصوف کے رشتے کو اصحاب صفہ سے مالتے ہیں۔
ایک روز رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم اہل صفہ کے درمیان کھڑے ہوئے اور ان کے فقر جان کنی اور سرور قلب کو دیکھا تو
فرمایا اے اصحاب صفہ خوش ہو جاؤ۔ کہ جو تم میں سے موجود صفات پر قائم رہا اور اسی حال پر راضی رہا وہ یوم قیامت میرے
رفقا میں سے ہوگا۔
یہی وہ اصحاب صفہ تھے جو ظاہرا باطنا جن کے قلب و روح جن کے دل اور دماغ نے کامل تزکیہ حاصل کرلیا تھا۔ اور وہ
مشاغل حیات اور عالئق دنیا سے بے نیاز ہو کر اپنے موال کی محبت میں فنا ہو چکے تھے۔پس جو لوگ ان اصحاب صفہ کے نقش
قدم پر چلتے ہوئے اپنے موال سے لو لگا بیٹھے اور وہ ّلذ ات دنیوی سے کنارہ کش ہوگئے اور ان کی زندگی کا مقصد اپنے موال کی
رضا ٹھہرا ۔ایسے لوگ صوفیہ کہالنے لگے اور ان کی زندگی کو تصوف کے نام سے موسوم کیا گیا۔
یہی وہ پاک بندگان خدا ہیں جن کے دل روشن ہیں اور ان کی توجہات دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہیں۔ایسے لوگ اپنے محبوب حقیقی
کے دیدار کے ہر وقت طالب رہتے ہیں۔ ایسی صورت میں ان کا عالئق دنيوی سے منقطع ہونا اور تمام تر دنیوی رنگینیوں کو
باالئے طاق رکھ کر اپنے محبوب حقیقی کے دیدار کے لیے صف اول میں حاضر ہونے کو تصوف کا نام دیا ہے۔
عیسی الشازلی(
ٰ )تصوف کے روشن حقائق صفحہ نمبر 21از عبدالقادر
اگر بنظر غائر دیکھا جائے تو لغوی معنی میں الفاظ کے اختالف کے باوجود ایک قدر ظاہرا اور باطنا مشترک نظر آتی ہے۔ اور وہ
یہ کہ تصوف کا مقصود اصل قلب و باطن کی صفائی اور طہارت سے ہو ،یا ہللا تعالی سے مخلصانہ دوستی قائم کرنے سے،
اصحاب صفہ کے ساتھ لباس میں مشابہت uسے ،یا پھر ان کی طرز زندگی اپناتے ہوئے مجاہدہ اور ریاضت سے ،یہ سارے کے
سارے احوال اس جہد کی نشاندہی کرتے ہیں۔ کہ انسان کی زندگی اس طرح مبرا اور صاف اور شفاف ہو جائے کہ جس میں ہللا اور
ادنی نافرمانی کا شائبہ تک نہ رہے۔بندے کا ظاہر باطن قلب و روح ،دل اور دماغ گو اس کا
ادنی سے ٰ
اس کے رسول کے حکم کی ٰ
اٹھنا ،بیٹھنا ،مرنا ،جینا اس طرح احکام شریعت کے تابع ہو جائے کہ تمام رذائل اخالق معصیت اثم و عدوان کے میل کچیل سے اس
کی زندگی پاک ہوجائے اور بندے کا دل انوار و تجلیات الہی کا مہبط بن جائے۔ اس کامل اخالص پر مبنی زیست کا نام تصوف ہے۔
بقول اقبال
اگر تمسک بالحقائق اور استغنا عن الخلق انسان کا حال بن جائے تو اس کی زندگی کا ہر لمحہ ان کیفیات سے ہمکنار ہوتا ہے ۔جو
توحید کا نقطہ کمال ہیں۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
تصوف کی تاریخ
حضرت گل حسن شاہ صاحب تصوف کے سلسلہ آغاز کے متعلق فرماتے ہیں ۔کہ 149ہجری میں حضرت ایوان رحمتہ ہللا علیہ نے
بمقام ج ّد ہ طریق تصوف کو سلسلہ کی صورت میں مرتب فرما کر سلسلہ کا نام ایوان رکھا کئ الکھ لوگوں نے اس میں شامل ہو کر
تربیت حاصل کی۔
پہال شخص جو صوفی کے نام سے مشہور ہوا اس کی تعریف کچھ اس طرح ہے۔کہ اس آدمی کا نام غوث بن مرہ تھا۔جس کی والدہ
کے ہاں اوالد نہیں ہوتی تھی۔ اس شخص کی والدہ نے منت مانگی کہ اگر ہللا تعالی مجھے uبیٹا عطا کرے تو میں اس کو کعبۃ ہللا کی
خدمت کے لیے وقف کر دوں گی۔چناچہ غوث پیدا ہوا اور اس کو کعبة ہللا کی خدمت کے لئے مامور کر دیا گیا۔ایک دن گرمی کی
شدت کی وجہ سے وہ بے ہوش ہوگیا اس کی والدہ نے غوث بن مرہ کو اٹھایا تو وہ بے جان سا ہو گیا تھا۔ فورا کہنے لگی یہ تو
صوفہ ہو گیا ہے۔اسی دن سے غوث بن مرہ کا نام صوفی پڑ گیا۔جن لوگوں نے اس کی طرح زندگی اپنا لی انہیں صوفی کہا جانے
لگا۔
بعض مشہور سائنسدان جابر بن حیان کو صوفی کہتے ہیں اور بعض ابوعبدہللا الصوفی التاثر االندلسی کو پہال صوفی قرار دیتے ہیں۔
بعض نے ابو ہاشم کو صوفی اول کہا اور بعض يحي بن معاذ کو پہال صوفی بتالتے ہیں۔
پہال باب۔ صوفیہ کو صوفی کیوں کہتے ہیں۔ صوفیہ کے متعلق اظہار بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ صوفیاء کو صوفی اس لیے کہتے ہیں کہ ان کے اسرار و آثار صاف ہوتے ہیں۔صوفی ہوتا ہی وہ ہے جو
صاف ہو جس کا من تن صاف نہ ہو وہ صوفی نہیں ہو سکتا۔
بشیر بن حارث صوفی کی تاریخ میں فرماتے ہیں۔
کہ صوفی وہ ہے جس کا معاملہ اس کے ساتھ صاف ہو اور ہللا تعالی کی طرف سے اس کی عزت ہو۔
_____________________________________________________________________________________
_________
:باب اول
:فصل دوم
الحمدہلل کہ اب اس باب میں کسی طرح کا کوئی شک و شبہ نہیں رہا۔کہ تصوف اور اس کے اعمال اور اشغال کا اصل مقصد دین کی
تکمیل اور خصوصا ان کیفیات اور ملکات کی تحصیل کے سوا کچھ نہیں ہے ۔جن کو کتاب وسنت ہی میں کمال ایمان اور اسالم کی
ضروری شرط قرار دیا گیا ہے۔کیونکہ اس بارے میں بہت سے حضرات کے ذہنوں میں الجھنیں ہیں۔ اس لیے جو کچھ اس سلسلے
میں ہم نے سمجھا uہے۔ اس کو ذرا تفصیل سے عرض کرتے ہیں۔وباہلل التوفیق
قرآن و حدیث کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ایمان اور دین کی تکمیل کے لیے عقائد و اعمال کی صحت کے عالوہ انسان کے
قلب اور باطن میں کچھ خاص کیفیات کا ہونا بھی ضروری ہے مثال محبت کے بارے میں سورہ بقرہ کی ایک آیت میں ارشاد ہے ۔
یعنی ایمان کی حالوت اس کو حاصل ہوگی۔ جس میں تین چیزیں موجود ہوں ۔ان میں سے اول یہ کہ ہللا اور رسول صلی ہللا علیہ
وسلم کی محبت اس کو تمام ماسوا سے زیادہ ہو۔
اور تیسرا یہ کہ ایمان کے بعد کفر کی طرف جانا اس کے لئے اتنا ناگوار اور تکلیف دہ ہو جتنا کے آگ میں ڈاال جانا۔
سچے ایمان والے بس وہی لوگ ہیں ۔جن کا یہ حال ہے کہ جب ان کے سامنے ہللا کا ذکر کیا جائے۔ تو ان کے دلوں میں خوف کی "
کیفیت پیدا ہو۔ اور جب ان کے سامنے ہللا کی آیتوں کی تالوت کی جائے تو ان کے نور ایمان میں زیادتی ہو اور اپنے پروردگار پر
"وہ بھروسہ رکھتے ہوں۔
اور سورہ مومنون میں ہللا کے اچھے اور کامیاب بندوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے۔
ان الذين هم من خشية ربهم مشفقون والذين هم بايات ربهم يؤمنون۔ والذين هم بربهم ال يشركون ۔والذين يؤتون ما اتوا وقلوبهم وجلة انهم
الى ربهم راجعون۔ اولئك يسارعون في الخيرات وهم لها سابقون۔
بے شک وہ لوگ جو اپنے رب کی ہیبت سے خوفزدہ رہتے ہیں۔ اور جو اپنے رب کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔ اور وہ جو اپنے "
رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے ہیں۔ اور وہ جن کا حال یہ ہے کہ ہللا کی راہ میں اور نیکی کے کاموں میں اپنا مال خرچ
کرتے وقت اور اسی طرح دوسرے نیک کاموں میں ان کے دل خائف رہتے ہیں ۔کہ ان کو ہللا کے حضور میں لوٹ کے جانا ہے۔ (نہ
معلوم ان کے یہ عمل قبول ہوں یا نہ ہوں) وہی لوگ بھالئیوں کی طرف تیز گامی کرتے ہیں ۔اور وہی ان کے لئے دوڑ کر پڑھنے
"والے ہیں۔
تقشعر منه جلود الذين يخشون ربهم ثم تلين جلودهم وقلوبهم الى ذكر هللا۔
اس سے ان لوگوں کے بدن کانپنے لگتے ہیں اور رونگھٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جو اپنے رب سے ڈرتے ہیں۔ اور پھر ان کا ظاہر و
باطن نرم ہو کر ہللا کی یاد کی طرف جھک جاتا ہے۔
وہ لوگ جن کا یہ حال ہے کہ ہللا کو ہر وقت اور ہر حالت میں یاد رکھتے اور یاد کرتے ہیں۔ کھڑے بیٹھے اور بستر پر لیٹے "
"ہوئے بھی۔
)آل عمران(
اور سورہ "مزمل" میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو خطاب کرکے ارشاد فرمایا گیا ہے ۔
اور اپنے رب کا نام یاد کرتے رہو اور سب سے یکسو ہو کر اسی کی طرف متوجہ رہو۔
)مزمل(
ان آیتوں میں جن اوصاف و کیفیات کو اہل ایمان کے لیے ضروری قرار دیا گیا ہے اور جن کا ان سے مطالبہ کیا گیا ہے وہ یہ ہیں۔
ان کے سامنے جب آیات الہی کی تالوت کی جائے تو ان کے نور ایمان میں اضافہ ہو۔ )(۳
ہللا پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہوں اور یہ تو کل اور اعتماد علی ہللا ہی ان کی زندگی کا سب سے بڑا سہارا ہو۔ )(۴
ہللا کا خوف ان پر اتنا غالب ہو کہ نیکی کرتے وقت بھی ان کے دل ڈرتے ہوں۔ کہ معلوم نہیں ہماری یہ نیکی قابل قبول بھی )(۶
ہوگی یا نہیں۔
قرآن مجید کی تالوت یا اس کی آیتیں سننے سے ان کے جسم کانپ جاتے ہوں اور ان کا ظاہر اور باطن ہللا تعالی کی طرف اور )(۷
اس کی یاد کی طرف جھک جاتا ہو۔
وہ ہر وقت اور ہر حالت میں ہللا کو یاد رکھتے ہوں اور کسی حال میں بھی اس سے غافل نہ ہوتے ہوں۔ )(۸
مذکورہ باال یہی وہ تعلیمات uہیں جو اہل تصوف کے ہاں ملتی ہیں۔ اور سالکین صوفیاء کی سنگت اور معیت میں بیٹھ کر ان کی
صحبت کے فیضان اور برکت سے یہی کیفیات اور یہی صفات حاصل کر لیتے ہیں۔اور انہیں کا حصول اصل مقصود ہوتا ہے۔ اور
باقی طریقے ان کیفیات اور صفات کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں۔ اور واصل الی ہللا ہونے کے لیے یہ کیفیات اور یہ صفات
سبب اور ذریعہ بن جاتی ہیں۔
_____________________________________________________________________________________
_________
:باب اول
:فصل سوم
قرآن مجید کے عالوہ حدیث کے مستند زخیرہ میں بھی اس سے زیادہ صفائی اور صراحت کے ساتھ اس قسم کے احوال و کیفیات کا
ذکر کیا گیا ہے ۔جن سے ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔
من احب هلل وابغض هلل واعطى هلل ومنع هلل فقد استكمل االيمان۔
جس شخص کا یہ حال ہو کہ وہ ہللا ہی کے لئے محبت کرے۔ (جس سے محبت رکھے) اور ہللا ہی کے لئے بغض رکھے (جس سے"
بغض کرے) اور ہللا ہی کے لئے دے( جس کو جو کچھ بھی دے) اور کسی کو کچھ دینے سے ہللا کی رضا ہی کے لئے ہاتھ روکے(
جس کو بھی دینے سے ہاتھ روکے )تو اس نے اپنا ایمان کامل کر لیا ۔
)مشکوۃ شریف(
اسی طرح مشہور حدیث جبریل میں ایمان اور اسالم کی تکمیل کا نام احسان بتالیا گیا ہے۔ اور اس کی حقیقت یہ بیان کی گئی ہے۔
ان تعبد هللا كانك تراه فان لم تكن تراه فانه يراك
) بخاری و مسلم(
احسان کا مقام یہ ہے کہ تم ہللا کی عبادت اور بندگی اس طرح کرو یا اس سے ہر دم اس طرح ڈرو گویا تم اس کو دیکھ رہے ہو۔
کیوں کہ اگرچہ تم اس کو نہیں دیکھتے ہو پر وہ تم کو ہر جگہ ہر آن دیکھتا ہے۔
)فتح الباری(
پہلی حدیث میں "اخالص" کا ذکر ہے اور دوسری حدیث میں "احسان" کا اور یہ دونوں ان ہی احوال و کیفیات میں سے ہیں جن سے
ایمان کی تکمیل ہوتی ہے۔
دین میں ان احوال اور کیفیات کی اس قدر اہمیت ہے۔ کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ان کے حصول اور ان میں ترقی کے لئے ہللا
تعالی سے دعائیں فرماتے تھے ۔اس سلسلے کی یہ چند دعائیں اس عاجز کے نزدیک خاص طور سے غور اور توجہ کے الئق ہیں۔
اللهم اجعل حبك احب الي من نفسي واهلي ومن الماء البارد
اے ہللا! مجھے ایسا کر دے کہ تیری محبت مجھے اپنی ذات اور اپنے اہل و عیال سے اور سخت uپیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے
بھی زیادہ محبوب ہو۔
___________________________
اللهم اجعل حبك احب االشياء الى كلها وحشيتك اخوف االشياء عندي واقطع عني حاجات uالدنيا والشوق الى لقائك واذا اقررت اعين اهل
الدنيا من دنياهم فاقررعيني من عبادتك۔
اے ہللا! مجھے uایسا کردے کہ ہر قابل محبت چیز سے زیادہ تیری محبت مجھے محبوب ہو۔ اور ڈرنے کے قابل ہر چیز سے زیادہ "
مجھے uتیرا ڈراور خوف ہو۔ اور اپنی مالقات کا شوق میرے دل میں ایسا غالب کر دے کہ دنیا کی ساری حاجتیں مجھ سے کٹ
جائیں۔ اور جب تو دنیا والوں کو ان کی چاہتی دنیا دے کر ان کی آنکھیں ٹھنڈی کرے تو میری آنکھیں اپنی عبادت سے ٹھنڈی کر۔
"اور اپنی عبادت کے ذریعہ میرے دل میں سکون اور ٹھنڈک پیدا کر۔
__________________________
اللهم اني اسالك ايمانا يباشر قلبي ويقينا صادقا حتى اعلم ال يصيبني اال ما كتبت لي ورضا من المعيشه بما قسمت لي۔
اے ہللا میں تجھ سے وہ ایمان مانگتا ہوں جو میرے دل میں پیوست ہو جائے۔ اور وہ سچا یقین مانگتا ہوں جس کے بعد میرے دل کو"
اس بات کا یقین اور قطعى علم حاصل ہو جائے۔ کہ مجھ پر صرف وہی حالت آ سکتی ہے اور آئے گی ۔جو تو نے میرے لیے لکھ
دی ہے۔ یعنی یہ علم میرے دل کا حال ہو جائے اور اس دنیا میں جس قسم کا گزارا تو نے میرے لئے مقرر اور مقدر کر دیا ہے میں
اس پر اپنے دل کی رضا تجھ سے مانگتا ہوں۔
_________
اللهم اني اساء لك التوفيق لمعا بك من االعمال و صدق التوكل عليك حسن ظن بك۔
اے ہللا!جو اعمال تُجھے پسند ہیں ۔میں اُن کی توفیق تجھ سے مانگتا ہوں۔اور سچے توکل کا تُجھ سے سوال کرتا ہوں۔اور تیرے ساتھ
حسن ظن کی تجھ سے ہی استدعا کرتا ہوں۔
_______________
اللهم اني اسالك نفسا بك مطمئنة تؤمن بلقائك وترضى لقضائك وتقنع بعطائك ۔
اے ہللا !میں تجھ سے ایسا نفس مانگتا ہوں جسے تجھ ہی سے اطمینان اور انس حاصل ہو جسے تیری مالقات پر سچا ایمان اور یقین
نصیب ہو۔ جو تيری قضا اور قدر پر راضی ہو۔ اور جو تیری دین پرقانع ہو۔
_____،
____
اے ہللا میں تجھ سے ایسے قلوب کا سوال کرتا ہوں جو نرم اور درد آشنا ہوں ۔ ٹوٹے ہوئے ہوں اور تیری طرف رجوع کرنے والے
ہوں۔
____
اللهم اجعل وساوس قلبى خشيتك وذكرك واجعل همتى وهو في ما تحب وترضى۔
اے ہللا! میرے دل میں خطرے اور خیاالت بھی بس تیرے خوف اور تیری یاد ہی کے آئیں۔ اور میری تمام تر توجہ اور چاہت انہی
چیزوں کی طرف ہو جو تجھے محبوب ہوں اور جن سے تو راضی ہو۔
_____
اے ہللا میرے قلب میں نور بھر دے اور مجھے uنور عطا فرما دے اور مجھے سراپائے نور بنادے۔
_____
جب یہ سب دعائیں (اور اس قسم کی بیسیوں دعائیں) کتب حدیث میں رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے مروی ہیں۔ آپ خود بھی یہ
دعائیں ہللا تعالی سے مانگتے تھے۔ اور امت کو ان دعاؤں کی تلقین اور تعلیم بھی فرماتے تھے۔
ان دعاؤں میں جن چیزوں کا سوال ہللا تعالی سے کیا گیا ہے۔ وہ سب انسان کے باطن اور قلب کی خاص کیفیات ہیں۔ مثال ہر چیز
سے زیادہ ہللا کی محبت۔ ہر چیز سے زیادہ ہللا تعالی کا خوف۔ ہللا سے شوق مالقات uکا ایسا غلبہ کہ دنیا کی ضروریات اور خواہشات
فراموش یا فنا ہوجائیں۔عبادت میں آنکھوں کو ٹھنڈک اور دل کو سکون ملنا۔ ہللا تعالی سے ہر دم اس طرح ڈرنا کے گویا وہ اپنے
جالل و جبروت کے ساتھ ہماری نگاہ کے سامنے ہے ۔یقین صادق ،رضا بالقضا ،توکل علی ہللا ،حسن ظن ،نفس کا ہللا تعالی سے
مطمئن اور مانوس ہونا اور اس کی عطا پر قانع ہونا۔ذکر ہللا سے قلب کا اثر لینا۔ اس کا درد آشنا اور ٹوٹا ہوا اور جھکا ہوا ہونا۔ ہللا
سے قلب کا تعلق اس درجہ ہوجانا کے ہللا تعالی کی یاد اور اس کا خوف وساوس اور خطرات کی جگہ بھی لے لے اور بندے کا جی
صرف انہیں چیزوں کو چاہے جو ہللا کے نزدیک محبوب اور پسندیدہ ہیں۔ نور سے قلب کا معمور ہو جانا۔
ظاہر ہے کہ ان چیزوں کا تعلق نہ عقائد کے باب سے ہے نہ اعمال کے باب سے۔ بلکہ یہ سب قلبی کیفیات اور احوال ہیں اور دین
میں ان کی اتنی اہمیت ہے کہ خود رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم ہللا تعالی سے ان کا سوال کرتے ہیں۔
پس تصوف دراصل اس قسم کی چیزوں کی تحصیل کا ذریعہ ہے۔ اور اس کے خاص اعمال واشغال( مثال صحبت شیخ اور کثرت
ذکر و فکر )کی حثیت کے سوا کچھ نہیں ہے ۔کہ وہ ان کیفیات کے پیدا کرنے کی تدبیریں ہیں۔ ایسی جن کی تجربہ تصدیق کرتا ہے۔
اور صاف ذہن رکھنے والے لوگوں کے لئے ان کی نفسیاتی اور عقلی توجیہ بھی کچھ مشکل نہیں ہے۔
یہاں یہ عرض کر دینا بھی مفید ہوگا کہ مندرجہ باال احادیث اور دعاؤں سے جن قلبی کیفیات کا دین میں مطلوب و مقصود ہونا ابھی
معلوم ہوچکا ہے۔ ان میں سے چند مثال عشق اور یقین اور قلب کی رقت اور سوزوگداز یہ تو اصل اور بنیاد کا درجہ رکھتی ہیں۔ اور
باقی زیادہ تر ان کے نتائج اور لوازم ہیں۔اس لیے تصوف کے ان اعمال و اشغال کے ذریعہ براہ راست صرف ان بنیادی کیفیات ہی
کو قلب میں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جس کے بعد باقی چیزیں خود بخود پیدا ہوجاتی ہیں۔ یہ ہے وہ اصولی نظریہ جس
پر تصوف کی بنیاد ہے اور جس کی بنا پر اس کو دین کا تکمیلی شعبہ بھی سمجھا uجاتا ہے۔
_____
دل اور دماغ نے جب یہ مان لیا کہ تصوف کے ذریعہ جن قلبی کیفیات اور ملکات کی تحصیل کی کوشش کی جاتی ہے۔ دین کی
تکمیل اور ایمانی حالوت کا حصول ان پر موقوف ہے۔
اس کا بھی یقین حاصل ہوا کہ تصوف ایمان اور اسالم کی تکمیل کے عالوہ ایک خاص قسم کی روح اور طاقت uپیدا کرنے کا بھی
ذریعہ ہے۔ اور اگر صالحیت اور طبعیت کو مناسبت ہو تو یقین اور اعتماد ،ہمت و عزیمت ،صبر اور توکل ،اور ماسوی ہللا سے بے
خوفی جیسے اوصاف (جو طاقت کا سرچشمہ ہیں) تصوف کے ذریعے ان کو پیدا کیا جا سکتا ہے۔اور ابھارا جاسکتا ہے .اسی لئے
تصوف کو اپنانے کی سب سے زیادہ ضرورت ہے ۔اور اس سے فائدہ اٹھانے کا سب سے بڑا حق میرے نزدیک ہللا تعالی کے ان
بندوں کو ہے۔ جو بے دینی کی اس دنیا میں انبیاء علیہم السالم کے طرز اور طریقے پر کسی بڑی اصالحی تبدیلی کے لیے
مصروف جدوجہد ہوں ۔اور مادہ پرستی کی فضا کو خدا پرستی کی فضا سے بدلنا چاہتے ہیں ۔
ِ
اس بات کا پورا پورا یقین ہو گیا کہ یہ کام صرف وہی حضرات کر سکتے ہیں جو اس فن کے امام اور خود اس سمندر کے شناور
ہوں۔ ورنہ اگر اس خدمت کی ذمہ داری میرے ایسے حضرات نے لے لی۔ جنہوں نے نہ اس شعبہ کی تکمیل کی ہے اور نہ اس کے
ساتھ ان کا گہرہ عملی تعلق رہا ہے۔ تو اس کا بڑا امکان ہے کہ اخالص اور ذہانت کے باوجود تصوف میں ان کی اصالح وترمیم
خدانخواستہ اسی قسم کی ہو جیسے کسی بڑھیا نے شاہی باز کی مرمت کی تھی۔
جن چند باتوں کا یقین حاصل ہوا ان میں سے ایک قابل ذکر بات یہ بھی ہے کہ کوئی شخص خواہ کتنا ہی پڑھا لکھا اور کیسا ہی ذہین
فطین ہو۔ تصوف سے صحیح واقفیت حاصل کرنے اور اس کے مالہ وماعلیہ کو علی وجہ البصیرت جاننے کے لیے اس کو بھی
ضرورت ہے کہ تصوف کی حامل کسی شخصیت کی صحبت اور خدمت میں اس کا کچھ وقت گزرے۔ اور اس شعبہ کا عملی تجربہ
حاصل کرنے پر بھی وہ زندگی کے کچھ دن صرف کرے ۔اس کے بغیر تصوف کو پوری طرح سمجھا uاور جانا نہیں جا سکتا۔
گھر کے اندر کی چیزوں کا پورا علم تو گھر میں داخل ہوکر ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔
تھوڑے ہی تجربے اور مطالعے سے ارباب تصوف اور سلوک کے اس مشہور مقولہ کی تصدیق حاصل ہوگئی کہ "من لم يذق لم
" "يدر
جس طرح دین کے دوسرے شعبے کی طرف اچھی صالحیتیں رکھنے والے افراد فی زمانہ بہت کم متوجہ ہوتے ہیں۔مثال دیکھا جا
رہا ہے کہ علم دین کے طالبوں اور اعلی هذ ا دین کی دعوت اور خدمت کی طرف توجہ کرنے والوں میں بہت بڑی تعداد آجکل
انہیں بے چاروں کی ہوتی ہے جو صالحیتوں کے لحاظ سے بہت ادنی اور پست درجہ کے ہوتے ہیں۔ بالکل یہی بلکہ شاید دین کے
دوسرے شعبوں سے زیادہ افسوسناک اور ابتر حال اس لحاظ سے دین کے اس شعبہ "تصوف "کا بھی ہے .اس وقت ان "خانقاہوں"
سے بحث نہیں جو دراصل دهوکہ و فریب کی دکانیں ہیں ۔اور جہاں اولیاء ہللا کے نام پر شرک و بدعت کا کاروبار ہوتا ہے۔ اور نہ
ہی یہاں ان نااہل موروثی سجادہ نشینوں اور پیشہ ور پیروں ،صوفیوں کا ذکر ہے ۔جو تصوف کے نام اور بزرگوں کی نسبت کی
تجارت کرتے ہیں ۔بلکہ جو واقعی مشائخ حق اور صاحب ارشاد ہیں ۔ان کے پاس جو بھی طالب بن کر آتے ہیں دیکھا جاتا ہے کہ شاذ
مستثنی کر کے دل و دماغ کی صالحیتوں کے لحاظ سے وہ بیچارے عموما ً نیچی ہی سطح کے ہوتے ہیں۔ اور ٰ ونادر مسائل کو
اگرچہ اپنے اخالص اور اپنی صادق طلبی اور محنت سے ان میں سے بھی بہت سے اس شعبہ کی کچھ برکتیں ضرور حاصل کر
لیتے ہیں لیکن ظاہر بات ہے کہ وہ بے چارے خانقاہی فیضان اور تربیت کا ایسا نمونہ تو نہیں بن سکتے ہیں جن کا حال اور قال
خانقاہیت کی بدنامی اور تصوف اور روحانیت بیزاری کے اس دور میں دین کے اس شعبہ کی اہمیت اور افادیت تسلیم کرنے پر
لوگوں کو مجبور کر دے۔
اصولی بات ہے کہ جو کام جتنا زیادہ بلند اور لطیف اور نازک ہو۔ اس کے کرنے والے بھی اسی درجہ کے ہونے چاہییں۔
موجودہ دور میں تصوف کی ناکامی اور بدنامی کا ایک بڑا سبب یہ بھی ہے کہ جو اس کے اہل ہیں وہ توجہ نہیں کرتے ۔اور جو
بیچارے توجہ کرتے ہیں عموما ان کی صالحیتیں معمولی ہوتی ہیں ۔لیکن دنیا انہیں کو پھل سمجھ کر اصل درخت کے متعلق رائے
قائم کرتی ہے۔
اس موقع پر ایک چیز خود مشائخ کرام کے متعلق بھی بے تکلف عرض کرنا ضروری ہے۔
جس طرح دنیا میں آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جو کامیاب uوکیل ہو وہ اچھا ڈاکٹر بھی ہو ،اور جو بالغ النظر
فلسفی ہو وہ سیاسیات یا معاشیات کا ماہر بھی ہو ،اور جو ماہر فن انجینئر ہو وہ اچھا ادیب اور شاعر بھی ہو۔اسی طرح یہی حال دین
کے مختلف شعبوں کا بھی ہے۔ بالکل ضروری نہیں ہے کہ جو شخص وسیع النظر عالم اور بلند پایہ محدث یا فقیہ ہو وہ تصوف میں
بھی خاص دستگاہ رکھتا ہو یا جو صاحب uصوفی اور عارف ہو وہ اسالمی قانون کا ماہر بھی ہو۔ اور عہد حاضر کے اہم مسائل کے
بارے میں دینی نقطہ نظر سے صحیح رائے قائم کرنے والی مجتہدانہ فکر اور بصیرت بھی رکھتا ہو۔ بلکہ حقائق اور واقعات کی
اس دنیا میں پہلے بھی اکثر ایسا ہی ہوا ہے۔ اور ہمارے اس زمانے میں تو تقریبا 990فیصد ایسا ہی ہے کہ جو کسی ایک شعبہ میں
ماہر اور کامل ہوتا ہے وہ دوسرے شعبوں میں اکثر خام ہی ہوتا ہے۔ اس لئے اس زمانہ میں ایسے لوگ اکثر مایوس اور محروم ہی
رہتے ہیں۔ جو صرف کسی ایسے ہی شخص سے استفادہ کرنا چاہتے ہوں جو ان کے مفروضہ معیار کے مطابق ہر جہت سے کامل
مکمل ہو۔
آپ ماضی اور حال کے متعدد ایسے حضرات سے یقینا واقف ہیں۔ جن کی زندگی آپ کی نظر میں دین اور تقوی کا کوئی اچھا اور
قابل تقلید نمونہ نہیں ہے۔ اور بالخصوص اخالص اور احسان اور توکل و تسلیم و رضا جیسی اعلی ایمانی صفات اور کیفیات میں آپ
کے نزدیک ان حضرات کا کوئی بھی خاص یا عام مقام نہیں ہے ۔لیکن اس کے باوجود ان کا علم و فکر اور ان کی خداداد ذہانت اور
بصیرت آپ کے خیال میں قابل استفادہ ہے۔ اور ہم آپ ان کی چیزوں سے برابر استفادہ کرتے ہیں۔ اور ان لوگوں کو غلطی پر
سمجھتے ہیں جو صرف ان کے علمی اور تحقیقی کوششوں سے اس لیے فائدہ نہیں اٹھاتے کہ وہ ان کی نیک خواہش کے مطابق
کوئی بڑے بزرگ اور صوفی قسم کے آدمی نہیں ہیں۔
اسی طرح ہم ہللا کے کچھ بندوں کو ایسا پاتے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں تصوف اور سلوک پر زیادہ توجہ دی۔ اور کسی شیخ
کامل کی رہنمائی اور نگرانی میں اپنے وقت اور اپنی قوتوں کا بڑا حصہ اس شعبہ کی تحصیل اور تکمیل پر صرف کیا ۔اور اس
لئے اس میں انہیں اختصاص اور امتیاز کا مقام حاصل ہو گیا۔ لیکن کسی دوسرے شعبے میں مثال علم و فکر ہی میں ہم دیکھتے ہیں
کہ انہیں کوئی خاص بلندی حاصل نہیں ہے ۔اور اس لئے دین کی بعض ضرورتوں کو جن کو ہم بہت اہم سمجھتے ہیں وہ اچھی
طرح محسوس بھی نہیں کرتے ۔اور ملت کے مشکل اور اہم اجتماعی مسائل میں وہ بہتر رہنمائی نہیں کر سکتے۔ یا فرض کیجئے کہ
مطالعہ یا غور و توجہ کی کمی کی وجہ سے وہ وقت کے بہت سے اہم معامالت کو صحیح طور پر سمجھتے بھی نہیں تو ان
خامیوں کو دیکھ کر ان کے اس کمال کی بھی نفی کرنا جو واقعی میں ان کو حاصل ہے۔ اور اپنی احتیاج کے باوجود اس شعبہ میں
بھی ان سے ہمارا استفادہ نہ کرنا ان لوگوں کی جیسی عامیانہ غلطی ہے جن کو تنگ نظری اور تاریک خیالی کا مریض سمجھا uجاتا
ہے۔
اس میں کچھ شک نہیں کہ جی تو اپنا بھی یہی چاہتا ہے اور ہر اچھا بھال آدمی یہی چاہے گا۔ کہ جو شیخ خانقاہ اور عارف حق آگاہ
ٰ
کبری کی ذمہ داریوں ہو ۔وہ بلند پایا مفسر اور محدث اور بالغ النظر فقیہ اور مجتہد بھی ہو۔بلکہ ساتھ ہی ملت کی قیادت اور امامت
کو ادا کرنے کی پوری صالحیت رکھتا ہو ۔اور اسی طرح جو اچھی نظر اور فکر رکھنے واال عالم دین ہو وہ اسالمی شریعت اور
قانون میں مہارت رکھنے کے عالوہ امت کی قیادت اور حکومت کے نظام کو چالنے کی اعلی صالحیت بھی رکھتا ہو۔ اور مزید
برآں اپنے قلب و باطن کے لحاظ سے اپنے دور کا جنید و بایزید بھی ہو۔
لیکن یہ تو صرف ہمارے جی کی چاہت اور ایک خوشگوار تمنا ہوئی۔اور یہ دنیا جس میں ہم رہتے ہیں وہ خیاالت اور تمناؤں کی
دنیا نہیں ہے۔ بلکہ حقائق اور واقعات کی دنیا ہے ۔اور عملی آدمی کو اپنا طرز عمل واقعات ہی کی اس دنیا کو سامنے رکھ کر متعین
کرنا چاہیے۔
یہ وہ زمانہ نہیں ہے کہ کسی ایک ہی دکان پر سب سودے اچھے مل سکیں۔ اس لیے جو سودا جس دکان پر اچھا ملے اس کے لئے
آدمی کو اسی دکان پر جانا چاہیے۔
اسی طرح ان اعمال و اشغال و اذکار کے بعض وہ آثار جن کے متعلق تمام مشائخ محققین یہ فرماتے ہیں۔
"ان کی کوئی اہمیت نہیں ہے بلکہ یہ ایک طرح کے اوہام و خیاالت ہیں۔"
تصوف کے ہمارے حلقوں میں تعلق رکھنے والے بہت سے حضرات انہیں کی طلب میں الجھے ہوئے ملتے ہیں ۔اسی طرح اور بھی
بہت سی غلطیاں اور الجھنیں ہیں جن میں خانقاہی طالبین بکثرت مبتال ہیں۔غالبا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بعض بزرگ ذہنوں کی
صفائی کی طرف پوری توجہ نہیں فرماتے ۔حاالنکہ یہ بڑے اہم درجہ کی ضرورت ہے۔ اور اس ناچیز کا خیال ہے کہ سلوک و
طریقت کے جن حلقوں میں پہلے کبھی گمراہیوں نے جگہ پائی ہے وہ بعض ایسے بزرگوں کی اسی قسم کی بے توجہی کا نتیجہ ہے
جو خود ہمارے نزدیک ان گمراہیوں میں مبتال نہ تھے۔
تصوف کی ساخت ہی کچھ ایسی ہے کہ مشائخ اگر پوری طرح چوکنے نہ رہیں اور اپنے طالبین اور معتقدین کے ذہنوں کی صفائی
اور خیاالت کی اصالح کی فکر نہ رکھیں تو شیطان کی گمراہ کرنے والی کوششیں اس حلقے میں بڑی آسانی سے کامیاب uہو سکتی
ہیں ۔بہرحال ہمارے بزرگوں کو اس خطرے سے غفلت نہیں برتنی چاہیے۔ اور اذہان اور خیاالت کی صفائی اور اصالح کو ذکر اور
شغل سے بھی مقدم سمجھنا چاہیے۔
آئمہ تصوف امام ربانی اور حضرت شاہ ولی ہللا وغیرہ نے اس پر بڑا زور دیا ہے کہ طالب کو پہلے ضروری عقائد کی تصحیح اور
بقدر ضرورت علم دین حاصل کرنا چاہیے۔ اور اس کو شیخ کے فرائض میں گردانہ ہے ۔کہ اگر وہ طالب اور مرید میں یہ کمی
دیکھے تو اس کو اس طرف متوجہ کرے۔ لیکن بعض مشائخ کے یہاں اس زمہ داری کا احساس اور اس کا عملی اہتمام میں بہت کمی
دیکھنے میں آئی بہت سے بیچارے سیدھے سادے ایسے بندے ان کی خدمت میں بیعت کے لیے آتے ہیں۔ جن کی باتوں سے اور جن
کی ظاہری حالت سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ ان بے چاروں کو دین کی وہ ضروری اور بنیادی باتیں بھی معلوم نہیں جو ہر مسلمان
کو معلوم ہونا چاہیے۔اور بہت واضح انداز اُن کا ہوتا ہے کہ غالبا ان کو صحیح نماز پڑھنا بھی نہ آتا ہو گا لیکن کبھی کبھی دیکھا گیا
ہے کہ ایسوں کو بھی مشائخ کے عام طریقے پر تجدید ایمان اور توبہ کرا کے بس بیعت کرلیا گیا۔اور پڑھنے کے لیے کوئی تسبیح
ان کو بتا دی گئ اور بقدر ضرورت دین سیکھنے کی طرف نہ کوئی توجہ دالئی گئی ۔اور نہ اس کا کوئی انتظام فرمایا گیا۔حاالنکہ
ان حضرات کے لیے یہ بہت آسان ہے کہ ایسے جو لوگ بھی ان کے پاس آئیں ان کو دو چار دن کے لیے روک کر ان کی ضروری
تعلیم عقائد اور نماز کی تصحیح وغیرہ کسی خادم کے سپرد کردی جائے۔ جیسا کہ نئے آنے والوں کے متعلق رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وسلم کا دستور تھا۔
ممکن ہے کہ ان بزرگوں کی اس بے توجہی کا سبب یہ ہو کہ ان آنے والوں کی اس درجہ جہالت اور دین کی بنیادی چیزوں سے
بھی اتنی ناواقفیت کا ان حضرات کو اندازہ نہ ہوتا ہو۔ لیکن عرض یہی کرنا ہے کہ اس طرف ان حضرات کی توجہ کا مبذول نہ ہونا
اور اس پہلو پر نظر نہ کرنا ان کے ذمہ دارانہ منصب کے شایان شان نہیں۔
_____________________________________________________________________________________
_________
:باب دوم
:فصل اول
آپ نے ر ِد روافض میں ایک رسالہ لکھاتھا۔ اوراپنی دیگر تحریرات میں بھی ان کے عقائد باطلہ کا رد فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے
شیعہ آپ کے جانی دشمن ہوگئے تھے۔ جہانگیرکاوزیر آصف جاہ شیعہ تھا ۔اس نے جب خلیفہ بدیع الدین کے ارشاد کا حال سنا۔تو
بادشاہ سے کہہ دیا کہ آج کل شہر سرہند میں ایک سیاسی شخصیت شیخ احمد نام ہے۔ جس کے بہت سے مرید ہیں۔ غیر ممالک کے
بادشاہ تک اس کے نیاز مند اور مرید ہیں ۔اس کا ایک خلیفہ یہاں لشکر میں بھی آیا ہوا ہے۔ اور لشکر کے اراکین اس کے مرید
ہوگئے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ شیخ سرہندی آپ کی سلطنت پر ہاتھ ڈالیں۔
اس دوران حضرت مجدد کے خالف بہت کچھ کہا جن میں سے ایک امر یہ بھی تھا کہ آپ اپنے آپ کو حضرت صدیق اکبر رضی
ہللا تعالی عنہ سے افضل جانتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ میرا مقام ان سے اوپر ہے۔ اور انہوں نے اپنے زعم فاسد میں اس کے ثبوت
میں آپ کا مکتوب 11جلد اول پیش کیا۔ جس میں آپ نے اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں تحریر فرمایا ہے۔
دوسری عرض یہ ہے کہ اس مقام کو دوبارہ مالحظہ کرنے سے کچھ اور مقامات uاوپر نیچے ظاہر ہوئے عاجزی اور شکستگی "
سے توجہ کرنے کے بعد اس مقام پر جو مقام سابق سے فوق اور اوپر تھا پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ مقام حضرت عثمان ذوالنورین
رضی ہللا تعالی عنہ کا ہے۔ اور دوسرے خلفاء رضی ہللا تعالی عنہ کو بھی اس مقام سے عبور حاصل ہوچکا ہے۔ اور یہ مقام بھی
تکمیل اور ارشاد کا مقام ہے ۔اسی طرح اوپر کے دو اور مقام بھی جن کا ذکر ابھی ہوگا مقامات uتکمیل و ارشاد ہیں۔ مقام ذالنورین
سے اوپر ایک اور مقام نظر آیا ۔جب اس مقام پر رسائی ہوئی تو معلوم ہوا کہ یہ مقام حضرت فاروق اعظم رضی ہللا تعالی عنہ کا
مقام ہے۔ اور دوسرے خلفاء کو بھی اس مقام سے عبور حاصل ہو چکا ہے ۔اور اس مقام سے اوپر حضرت صدیق اکبر رضی ہللا
تعالی عنہ کا مقام ظاہر ہوا اس مقام پر بھی پہنچنا نصیب ہوا اور اپنے مشائخ میں سے حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ کو ہر مقام پر
اپنے ساتھ پایا۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسرے خلفاء کو بھی اس مقام سے عبور حاصل ہو چکا ہے۔فرق صرف عبور ،قیام،
گزرنے اور ٹھہرنے کا ہے ۔اور اس سے اوپر کوئی مقام محسوس نہیں ہوتا سوائے حضرت خاتم المرسلین صلی ہللا علیہ وسلم کے
مقام کے۔
حضرت صدیق اکبر رضی ہللا تعالی عنہ کے مقام کے بالکل مقابل اور بہت نورانی مقام ظاہر ہوا کہ کبھی ایسا نظر نہ آیا تھا۔ یہ مقام
حضرت صدیق اکبر رضی ہللا تعالی عنہ کے مقام سے ذرا بلند تھا۔ جس طرح کے چبوترے کو زمین سے قدرے بلند بناتے ہیں۔ اور
معلوم ہوا کہ وہ مقام مقام محبوبیت ہے ۔اور وہ مقام رنگین اور منقش تھا۔ میں نے اپنے آپ کو اس مقام کے عکس سے رنگین اور
منقش پایا۔
القصہ شہنشاہ uجہانگیر جو سیر و سلوک صوفیہ کرام سے بالکل بے خبر تھا ۔مخالفین کے دام فریب میں آ گیا۔ اس نے یہ حکم
امتناعی نافذ کردیا۔ چنانچہ خانخاناں کو ملک دکن ،مہابت خان کو کابل ،سید صدر جہاں کو بنگال ،خانجہاں لودھی کو ملک مالوہ،
اور خان اعظم کو گجرات بھیج دیا۔اور پھر حاکم سرہند کو لکھا کہ شیخ مجدد کو خود لے کر حاضر ہو۔
اس طرح جب آپ بارگاہ سلطانی میں پہنچے تو آپ نے بادشاہ کو سجدہ تعظیمی نہ کیا ۔وزیر دیکھ کر حیران ہوا کہ بادشاہ نے خالف
عادت حضرت پر کوئی اعتراض نہیں کیا ۔اور بادشاہ سے کہنے لگا کہ یہ وہی شخص ہے جو اپنے آپ کو حضرت صدیق اکبر
رضی ہللا تعالی عنہ سے افضل سمجھتا ہے۔ آپ نے اس کا نہایت معقول اور مدلل جواب دیا ۔پھر آپ سے سجدہ تعظیمی کے لیے کہا
گیا اور ہرچندکوشش کی گئی کہ آپ ذرا سر ہی جھکا لیں مگر آپ نے ہرگز نہ مانا۔
الغرض بادشاہ نے وزیر کی تحریک پر آپ کے لیے قید کا حکم دیا ۔اور آپ قلعہ گوالیار میں بھیج دیئے گئے۔ بادشاہ نے اس واقعہ
کو تزک جہانگیری میں یوں لکھا ہے۔
چودھویں جلوس شاہی مجھ سے عرض کیا گیا کہ شیخ احمد نامی ایک جعل ساز نے سرہند میں مکر و فریب کا جال بچھا کر بھولے
بھالے لوگوں کو پھنسا رکھا ہے۔ اس نے ہر شہر اور ہر عالقے میں ایک خلیفہ مقرر کیا ہے جو لوگوں کو فریب دینے اور معرفتu
کی دکانداری کرنے میں بہت پختہ ہیں۔ اس نے اپنے مریدوں اور معتقدوں کے نام وقتا فوقتا جو خرافات خطوط لکھے ہیں انہیں
مکتوبات کے نام سے ایک کتاب کی شکل میں جمع کیا ہے۔
اس نے اس دفتر بے معنی میں بہت سی لغو باتیں تحریر کی ہیں جو کفر کی حد تک پہنچتی ہیں ۔
ایک مکتوب میں اس نے لکھا ہے ۔کہ مقامات uسلوک طہ کرتے ہوئے وہ مقام ذالنورین میں پہنچا جو نہایت عالی شان اور پاکیزہ تھا۔
وہاں سے گزر کرمقام فاروق اور مقام فاروق سے گزر کرمقام صدیق میں پہنچا۔ پھر وہاں سے گزر کر مقام محبوبیت میں پہنچا۔ جو
نہایت منور اور دلکشا تھا۔
ان وجوہ کی بنا پر میں نے اسے دربار میں طلب کیا تھا۔ جب حسب طلب وہ حاضر خدمت ہوا تو میں نے اس سے جتنے سواالت
کیے ان میں سے کسی ایک کا بھی کوئی معقول جواب نہ دے سکا۔ بےعقل اور کم فہم ہونے کے عالوہ مغرور اور خود پسند بھی
ہے۔ اس لئے میں نے اس کے حاالت کی اصالح کے لئے یہی موزوں سمجھا کہ اسے کچھ دنوں کے لیے قید رکھا جائے تاکہ اس
کے مزاج کی شوریدگی اور اس کے دماغ کی آشفتگی جاتی رہے ۔اور عوام میں جو شورش پھیلی ہوئی ہے وہ تھم جائے۔چنانچہ
اُسے انی رائے سنگھ ولن کے حوالے کیا کہ اسے قلعہ گوالیار میں قید رکھے۔
مندرجہ باال عبارت سے ظاہر ہے کہ بادشاہ نے جو آپ کے مکتوبات شریف اور آپ کے خلفاء کی نسبت دریدہ درهنی کی ہے۔ وہ
کسی دوسرے کے کہنے سے کی گئی ہے۔ مکتوب 11جلد اول کا جو حوالہ دیا گیا ہے۔ اگر بنظر انصاف غور کیا جائے تو اس سے
یہ عمل ہر گز ثابت نہیں ہوتا کہ آپکا حضرت صدیق اکبر کے مقام سے اعلی ہے۔ کیونکہ کسی مقام پر وصول اور رسائی اور بات
ادنی خادم کو خدمت کے لیے اپنے پاس بال لیتے ہیں۔ اور وہ امراء کے مقام سےہے اور اس مقام کا حصول اور۔ اور سالطین اپنے ٰ
گزر کر پیشی میں حاضر ہوتا ہے۔پھر اپنے مقام پر واپس جا کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس سے یہ الزم نہیں آتا کہ اس نوکر کا مرتبہ
امراءکے مرتبہ سے زیادہ ہے۔ دیگر یہ کہ آپ نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے آپ کو اس مقام کے عکس سے رنگین اور منقش پایا۔
یہ نہیں فرمایا کہ میں اس مقام پر پہنچ گیا دیکھئے کہ سورج چوتھے آسمان پر ہے اور اس کا عکس زمین پر روشن ہے۔ مگر اس
سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ زمین مقام آفتاب پر پہنچ گئی ہے۔ خود آپ کے ارادت مندوں نے آپ سے عبارت زیر بحث کا حل دریافت
کیا ہے۔ اور آپ نے ان کو کافی جواب دیے ہیں۔
بادشاہ کا یہ لکھنا کہ آپ معقول جواب نہ دے سکے بالکل غلط اور لغو ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد جہانگیر کی عبادت کے بارے میں یوں رقمطراز ہیں ۔
جہانگیر کا اس شرح و بسط کے ساتھ تذکرہ کرنا خضرت مجدد قدس سرہ کی اہمیت مقبولیت اور شہرت پر دلیل قاطع ہے ورنہ اس
زمانے میں ہزاروں تہ تیغ کر دیے گئے۔ہزاروں جیل میں ڈال دیئے گئے۔ اور بیسیوں صحراؤں میں پھینک دیئے گئے۔ کسی کا
کوئی پرسان حال نہ تھا۔ آخر بادشاہ وقت کو کیا ہوا کہ ایک مجرم کی فرد جرم کے ساتھ ساتھ اپنی صفائی پیش کر رہا ہے۔اس
تفصیل اور صفائی کی کیا ضرورت تھی؟
حضرت مجدد کی قید کی خبر سن کر اراکین سلطنت میں سخت بے چینی پیدا ہوئی۔ چنانچہ خانخاناں خان اعظم سید صدر جہاں،
اسالم خان ،مہابت خان ،تربیت خان ،خانجہاں لودھی اسکندر خان ،حیات خان اور دریا خان وغیرہ جو آپ کے مرید تھے باہم خط و
کتابت کر کے بغاوت پر آمادہ ہو گئے۔لیکن آپ نے ان سب کو تسلی اور تشفی کے خط لکھ کر بغاوت کرنے سے روک دیا ۔آپ
دوران قید بھی تبلیغ فرماتے رہے۔چنانچہ بہت سے کفار آپ کے دست مبارک پر مشرف با اسالم ہوئے ۔اور سینکڑوں کو داخل
طریقہ فرما کر آپ نے درجہ والیت تک پہنچا دیا ۔ ایّام قید میں آپ نے کبھی بادشاہ کے لیے بد دعا نہ کی۔ بلکہ فرماتے تھے اگر
بادشاہ مجھے نظر بند نہ کرتا تو اتنے سارے لوگ جو مستفید ہوئے محروم رہ جاتے۔ اور ہماری ترقی مقامات uجو نزول بال پر
موقوف تھی وہ وقوع میں نہ آتی۔جیسا کہ ان مکتوبات سے ظاہر ہے جو آپ نے ان ایام میں صاحبزادگان اور دیگر ارادت مندوں کو
لکھے ہیں۔ دو سال کے بعد بادشاہ اپنے کئے پر نادم ہوا اور آپ کو عزت اور احترام سے اپنے پاس بال کر معذرت کی۔ اور آپ کا
ایسا محب ہو گیا کہ آپ کو لشکر میں اپنے پاس رکھتا تھا۔شہزادہ جس کا لقب شاہجہان ہوا آپ کے مریدین کے زمرہ میں داخل کر دیا
بعد ازاں اورنگزیب عالمگیر بھی اسی سلسلہ میں داخل ہوا اور امرا وزراء کثرت سے سلسلہ مجددیہ میں منسلک ہوئے۔
القصہ آپ لشکری زندگی میں بھی اپنی بے اختیاری کا خوب ذوق ولطف اٹھاتے رہے ۔اور بدستور تبلیغ میں مشغول رہے۔_1622
23عیسوی میں آپ اجمير شریف میں تشریف رکھتے تھے۔ کہ آپ کو قرب موت کے آثار محسوس ہوئے۔ آپ کو لشکر سے رخصت
مل گئی وطن میں آکر آپ نے گوشہ نشینی اختیار فرما لی۔ اور ارشاد کا کام اپنے صاحبزادے خواجہ محمد معصوم کے سپرد کر دیا۔
صاحب ذبدۃ المقامات لکھتے ہیں ۔کہ اگرچہ اس کے بعد بادشاہ اس عمل سے نادم و پشیمان ہوا اور اس نے بہت سے عذر پیش کئے۔
مگر یہ بے ادبی اس کے لیے نا مبارک ہوئی اس کی سلطنت میں بہت شور و فتور پیدا ہوا۔ اس کے بعض بڑے عالقوں پر ایرانیوں
نے غلبہ پا کر اپنا قبضہ کر لیا۔ اور وہ خود مہلک کمزوریوں میں مبتال ہو گیا۔ یہاں تک کہ اسی حال میں اس دنیا سے چل دیا۔
____________________________________________
مجددالف ثانی خواجہ باقی باہلل کے مرید اور خلیفہ تھے ۔ اکبر کے دور اقتدار میں ہندوؤں کی عزت افزائی اور علماء کی تو ہین نیز
دین الہی جیسے منصوبے سے مجدد الف ثانی کافی پریشان تھے ۔ ایک مرتبہ الف ثانی نے اکبر کے پاس اپنا پیغام بھیجا کہ ایک دن
تمہاری طاقت اور سلطنت سب کی سب ختم ہو جائے گی ،دنیا کی تمام چیزیں ایک نہ ایک دن فنا ہو جائیں گی۔ وہ اپنی حرکتوں سے
باز آۓ ،ورنہ ہللا کے غضب کا انتظار کرے ۔ مجدد الف ثانی کے اس پیغام کا اثر اکبر پر بالکل بھی نہیں پڑا۔ اکبر نے اپنے دین
الہی کی نمائش کے لئے ایک بڑے مجمع کا انعقاد کیا ،جس میں الف ثانی بھی پہنچے ۔ الف ثانی کا دل بہت بے چین تھا۔ اتنے میں
آندھی آئی اور اکبر کے سارے خیمے گر پڑے اورا کبراپنے منصوبے میں نا کام رہا ۔
شیخ محمد غوث گوالیاری کا تعلق مغلوں سے ابتدا سے ہی خوشگوار تھا۔ بابر اور ہمایوں سے بھی اچھے بنتے تھے۔ شیر شاہ کے
دور میں شیخ محمد غوث گوالیار چھوڑ کر گجرات چلے گئے ۔ اکبر کے دور میں ،اکبر کے دربار کے قاضی شیخ گدائی شیخ محمد
غوث گوالیار کا مخالف تھے ۔ شیخ محمد غوث گوالیارنے اپنی تحریر’’معراج‘‘ میں معراج کے بارے میں لکھا تھا ،جس پر علماء
نے اعتراض کیا اور ایک مناظرے میں شیخ محمد غوث سے اس کو ثابت کرنے کو کہا گیا۔ شخ محمد غوث علما کی اس پالیسی سے
دل برداشتہ ہوکر آگرہ سے گوالیار چلے گئے ۔اکبر کے دربار میں انہیں عزت نہ مل سکی لیکن مغلوں کے ساتھ اچھے تعلقات ہونے
کے سبب اکر نے انہیں نذرانے کے طور پر کچھ پیسے پیش کئے جس سے شیخ محمد غوث نے گوالیار میں ایک عظیم الشان خانقاہ
کی تعمیر کرائی ۔
)انوار االولیاء کامل نئی دلی ( )1986صفحہ ( 471
جہانگیر کے دورحکومت میں اکبر کے زمانے میں پھیلی برائیوں کوختم کرنے کے لئے الف ثانی نے بہت کوششیں کی ۔الف ثانی
نے جہانگیر کو شریعت کے خالف کاموں کے خاتمے کے لئے متعدد خط لکھے ۔مجدد الف ثانی کی مقبولیت اور ان کے تعلقات کی
وجہ سے علماء ان سے خلش کر نے لگے۔ اور ان کے خالف طرح طرح کے منصوبے بنا کر ان کو بد نام کر نے کی کوشش
شروع کر دی ۔
مجدد الف ثانی کے مکتوبات ( ان کی تحریریں ) جو دوحصوں میں چھپ چکی تھی۔ جس کی مقبولیت بڑھتی جا رہی تھی ۔ ان کے
چھے مکتوبات میں تحریف کی گئی اور بہت ساری اضافی باتیں اس میں شامل کر کے از سر نو چھپوایا گیا۔ اور اس وقت کے
بادشاہ جہانگیر کے سامنے پیش کر کے مج ّد د الف ثانی کی شخصیت کو مجروح کرنے کی کوشش کی گئی ۔ ان مکتوبات میں ایسی
ایسی غیر مناسب باتیں لکھی گئیں تھیں۔ کہ اسے پڑھ کر اچھے اچھے علماء اورصوفیاء مج ّدد الف ثانی کے خالف ہوتے چلے
گئے ۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی مج ّدد الف ثانی کی تحریر کے خالف لکھا ۔ مج ّدد الف ثانی کو بادشاہ جہانگیر نے دربار
میں حاضر ہونے کا حکم جاری کیا۔ مج ّد د الف ثانی در بار میں حاضر ہوۓ اور اپنے مکتوبات جو ان کے تھے اسے پیش کیا اور
اس کی وضاحت کی ۔ جہانگیر علماء کی سازش کو سمجھ گیا اور مطمئن ہو گیا ۔
مخالفین کو جب اس میں کامیابی نہیں ملی تو مج ّد د الف ثانی کے خالف جہانگیر کے دل میں سلطنت سے متعلق سیاسی خطرے
جیسے بھرم پیدا کرنے کی کوشش کی جانے لگی ۔ جہانگیر کے دل میں یہ خوف پیدا کیا گیا کہ مج ّدد الف ثانی نے بادشاہ کو سجدہ
کئے جانے کے خالف فتوی جاری کیا ہے۔ اور وہ لوگوں کو بادشاہ کے خالف بھڑ کار ہے ہیں ۔انکے مرید امراء کے پاس ایک
الکھ گھڑ سوار کی فوج بھی ہے ۔اور
وہ کبھی بھی بادشاہ کے خالف بغاوت کر سکتے ہیں ۔ اس بات سے جہانگیر بہت فکر مند ہوا اور اس نے دربار کے سارے امراء
عمائدین اور وزراء کو اکٹھا کیا۔ اور مج ّد د الف ثانی کے سلسلے میں ایک میٹنگ کرنے کا منصوبہ بنایا۔ اس سلسلے میں آصف جاہ
نے یہ مشورہ دیا کہ سب سے پہلے الف ثانی کے ساتھ کوئی بھی کارروائی کرنے سے پہلے انکے مریدوں اور عقیدت مندوں کو
دور دور جگہوں پر بھیج دیا جائے۔ تبھی ان کے خالف کوئی بھی کارروائی کامیاب uہوسکتی ہے ۔ اس مشورے کے مطابق عبد
الرحیم خانخاناں کو دکن ،سید صدر جہاں کو مغربی ملک ،خان جہاں لودی کو مالوا ،او محابت خان کو کابل بھیج دیا گیا ۔ اس کے
بعد مج ّد د الف ثانی کو دربار میں حاضر ہونے کا حکم دیا گیا۔ اور حاضر ہونے پر بادشاہ کے سامنے uسجدہ کرنے کو کہا گیا۔ لیکن
مج ّد د الف ثانی نے بادشاہ کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ بادشاہ کے حکم کوٹھکرانے اور بادشاہ کو عزت نہ دینے کے الزام میں
دربار کے علماء اور امراء نے مج ّد د الف ثانی کوسزاۓ موت کا فتوی سنا دیا۔ لیکن جہانگیر نے سزائے موت کے فتوے کو قید میں
بدل کر انہیں گوالیار کی جیل میں قید کر دیا۔ جب مج ّد د الف ثانی کے قید کئے جانے کی خبر خان خاناں سید صدر جہاں اور اسالم
خان ،مرتضی خان اور خان جہاں لودی اور سکندر خان ،حیات خان اور مہابت uخان کو ملی ،تو انہوں نے جہانگیر کے خالف
بغاوت کر دی۔محابت خان نے تو سکے پر سے بادشاہ کا نام بھی ہٹوا دیا۔ جہانگیر اور محابت خان کے بیچ جنگ چھڑ گئی ۔مہابت
خان نے آصف جاہ اور نور جہاں کو قید کر لیا ۔ مج ّد د الف ثانی کو جب بادشاہ کے خالف جنگ کی خبر ملی۔ تو انہوں نے جیل سے
ایک خط لکھا کہ تم لوگ بغاوت مت کرو۔ اس کام سے ہمارے سارے منصوبے ختم ہو جا ئیں گے ۔ تم لوگ فوری طور پر بغاوت
ختم کر کے اپنے بادشاہ کے حکم کو قبول کرو ۔۔ میں جلد ہی جیل سے باہر آ جاؤں گا ۔ مج ّدد الف ثانی کے خط کو پڑھتے ہی مہابتu
خان نے جہانگیر کو تخت پر بیٹھا کر اس کے تمام محکموں کو قبول کرتے ہوئے سجده عقیدت کیا ۔ جہانگیر کو جب یہ بات معلوم
ہوئی تو وہ اپنے کئے پر بہت شرمندہ ہوا اور فورا مج ّدد الف ثانی کو جیل سے باہر نکاال“۔
)شیخ محمد اکرم آب کوثر سے دھلی ( )1984صفحہ نمبر ( 39
جس وقت شاہ جہاں شاہزادہ تھا اور مسند حاصل کرنے کے لئے سیاسی تو ڑ جوڑ میں ادھر ادھر بھٹک رہا تھا۔ شیخ موالنا شہباز
بھاگل پوری کی مقبولیت سن کر وہ ان کے پاس پہنچا ۔ شیخ اس وقت تعلیم دے رہے تھے۔ انہوں نے شاہجہاں کو شاہی لباس میں
دیکھ کر اس کی طرف توجہ نہیں دی ۔ شاہجہاں نے جب شیخ سے کہا ،میں کچھ کام سے آپ سے ملنے آیا ہوں ۔ شیخ نے کہا کہ تم
بادشاہت کی خواہش رکھتے ہو لیکن میں دیکھتا ہوں تمہارا لباس شریعت کی حد سے باہر ہے ۔ اگر تم شریعت محمدی پر قائم نہیں
رہو گے۔ تو تمہاری رعایا کا کیا حال ہوگا۔ شاہ جہاں نے کہا ،جو شیخ کا حکم ہو ،اسے ماننے کے لئے تیار ہوں۔ آپ نے کہا ،جو
تمہارا لباس شریعت کی حدود سے باہر ہے ۔ اسے پھاڑ کر ان طالب علموں کو دے دو ،جو اپنی ٹوپیاں بنائیں ۔ شاہجہاں uنے اس وقت
اپنے شاہی لباس کو پچھاڑ دیا اور شیخ سے درخواست کی کہ میں ہندوستان کی بادشاہت کی خواہش رکھتا ہوں ۔ سیاسی حکمت
عملی جاری ہے ۔ اگر مسند میرے نصیب میں ہے تو میں جنگ کی تیاری کروں ۔ شیخ نے کہا ،آثارتو ایسے ہی دکھائی دیتے ہیں ۔
شاہجہاں نے اس بات کو سنتے ہی جنگ کی تیاری شروع کر دی ۔ شیخ کی پیشن گوئی کے مطابق اسے تخت اور تاج مل گیا۔ تخت
پر بیٹھنے کے بعد شاہجہاں نے بہت کوشش کی کہ شیخ کسی طرح اپنی خدمت میں آنے کا حکم دے دیں۔ لیکن شیخ نے بالکل ہی اس
سے انکار کر دیا اور کہا کہ پہلے تم ایک شہزادہ تھے تو تم سے مالقات مناسب تھی۔ لیکن اب تم ایک بادشاہ ہو ،اس لئے اب تم سے
مالقات uمناسب uنہیں ہے ۔ یا درکھواگر تم نے ہم سے مالقات uکرنے کی کوشش کی تو میں تمہارا شہر چھوڑ کر چال جاؤں گا۔
شاہجہاں نے ان کی خدمت میں کچھ گاؤں کے فرمان بھیجے لیکن شیخ نے نامنظور کر دیا؟۔
اورنگ زیب نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد علماء کے ذریعہ کفر کا فتوی دلوا کر ،اپنے بھائی داراشکو ہ کوتو قتل کروا دیا لیکن
داراشکوہ کے گہرے دوست شیخ سرمد ابھی دہلی کے عوام کے دلوں پر حکومت کر رہے تھے ،جو دہلی اور دہلی کے اطراف میں
رہنے والوں کی روح تھے ۔ ان کےاشارے پر دہلی کا اقتدار ہل سکتا تھا۔ سرمد کو اپنے دوست کے بچھڑ نے کا افسوس تو تھا ہی
لیکن انہیں ان سیاسی جھگڑوں سے کوئی سروکار نہیں تھا۔ اورنگ زیب کو اس کے چاپلوس علماء نے یہ پیغام دیا کہ یہ فقیر دارا
شکوہ کا ساتھی رہا ہے ،جو حکومت کے کاموں میں رکاوٹ ڈال سکتا ہے لیکن اورنگ زیب نے ان باتوں پر توجہ نہیں دی ۔ کچھ
علماء سرمد کے خالف سازش رچنے میں مسلسل لگے ہوئے تھے ۔ ایک مرتبہ درباریوں نے اورنگ زیب سے شکایت کی کہ
سرمد ہمیشہ ننگا رہتے ہیں ۔اورنگ زیب نے کچھ لوگوں کو سرمد کے پاس ان کے ننگے رہنے کا سبب معلوم کرنے کے لئے
بھیجا۔ جب درباریوں نے سرمد سے ننگے رہنے کا سبب پوچھا ،تو سرمد نے جواب دیا ،کہ کیا کروں شیطان قوی ہے ۔
ایک مرتبہ جب اورنگ زیب نماز پڑھنے کے لئے مسجد میں داخل ہو رہے تھے تو دیکھا کہ سرمد مسجد کی سیڑھی پر بیٹھے
ہیں ۔ اورنگزیب نے سرمد کو ایسی حالت میں دیکھ کر کہا کہ آپ اس مسجد کی سیڑھی پرایسے ننگے بیٹھ کر نمازیوں کے وضو
کیوں خراب کر رہے ہیں ۔ کم سے کم اپنا کمبل ہی ڈال لیتے ۔ سرمد نے کہا تم ہی اٹھا کر میرے اوپر ڈال دو ۔ جب اورنگزیب نے
کمبل اٹھایا تو دیکھا کہ اس کمبل کے نیچے اس کے بھائی کا سر اورتازہ خون ڈھکا ہوا ہے۔ اس حالت کو اورنگزیب دیکھ کر گھبرا
گیا۔ اور اس کے ہاتھوں سے کمبل چھوٹ گیا۔ جب سرمد نے کہا ،بتا تیرے گناہوں کو ڈھکوں یا اپنے جسم کو؟ اورنگ زیب نے
کوئی جواب نہیں دیا اور چپکے سے لوٹ گیا ۔
ایک مرتبہ اورنگ زیب سے علماء نے شکایت کی کہ سرمد شریعت کو نہیں مانتے ہیں۔ یہاں تک کہ کلمہ شہادت uبھی اپنی زبان
پرنہیں التے ہیں ۔ وہ کھلے طور پر خدا اور اس کے رسول کوقبول کرنے سے انکار کرتے ہیں ۔اورنگ زیب نے سرمد کو دربار
میں بالیا۔ سرمد علماء کے درمیان در بار میں حاضر ہوئے ۔علماء نے سرمد سے کلمہ شہادت uپڑھنے کو کہا۔ سرمد نے اپنی عادت
کے مطابق صرف اتنا پڑھا ’’الالہ" یعنی کوئی معبود نہیں ہے۔ اس کلمہ کو سنتے ہی علماء نے کہا ،اس سے آگے پڑھو ،سرمد نے
کہا ،اس سے آگے ابھی میں نہیں پہنچ پایا ہوں ۔ ابھی میں نفی ،انکار میں ڈوبا ہوا ہوں۔ اقرار تک نہیں پہنچ سکا ہوں ۔اگر ال الہ اال
ہللا کہوں گا تو جھوٹ ہوگا اور جو دل میں نہ ہو ،وہ زبان پر کیسے آ سکتا ہے؟ سرمد کی اس وضاحت سے علماء نے کہا ،تو بہ
کرو ،ورنہ قتل کا فتوی جاری کر دیا جائے گا۔ سرمد نے توبہ کرنے سے انکار کر دیا۔ علماء نے سرمد پر کفر کا فتوی لگا کر قتل
کا اعالن کر دیا۔ فتوئ کے مطابق سرمد کو 1661عیسوی میں قتل کر دیا گیا۔ ان کے تن سے کٹا سر جو زندگی میں ناکمل کلمہ
ب قتل ہونا پڑا ،اسے قتل کے بعد ،پورا کر دیا۔ جسم سے ان کا سر لگ ہوتے ہی تین مرتبہ اال ہللا کہا۔ کئی جگہوں پر پڑھنے کے سب ِ
تو بہت مرتبہ کٹے سرکو کلمہ پڑھتے رہنے کا ذکر ملتا ہے۔ جب سرمد کا سر جسم سے الگ ہوا ،تو غصے میں جامع مسجد کی
سیڑھیوں کے اوپر چڑھنے لگا۔ اس غصے کو دیکھ کر ان کے پیر ہرے بھرے شاہ نے انہیں رکنے کا حکم دیا اور ان کا سر وہیں
رک گیا اور ٹھنڈا پڑ گیا۔
مغل بادشاه فروخ سیر (1713-19ء) اور صوفیاء شیخ شاہ کلیم هللا اور فروخ سیر
شیخ کلیم ہللا کے والد شیخ نور ہللا صدیقی دور شاہجہانی کے مشہور انجینئر تھے۔ فن تعمیر اور علم حساب میں مہارت uکے سبب شاہ
جہاں کے دربار میں انہیں بڑی عزت حاصل تھی ۔ خوبصورت محراب بنانے کے فن میں انہیں عبور حاصل تھا۔ دہلی کی جامع
مسجد اور آگرہ کے تاج محل کے محراب ،کی تعمیر ان کے والد نورہللا صدیقی کی دیکھ ریکھ میں ہوئی تھی ۔
شیخ شاہ کلیم ہللا کی پیدائش 1650عیسوی میں ہوئی۔ اور ان کی وفات 1730عیسوی میں ہوئی۔ یہ چشتیہ سلسلے کے مشہور صوفی
مانے جاتے ہیں ۔ چشتیہ سلسلے کو آپ نے ایسے وقت میں عروج پر پہنچایا ،جس وقت چشتیہ سلسلہ اپنا دم توڑ چکا تھا۔ شیخ شاہ
کلیم ہللا شاہ جہاں آبادی ،دہلی کے تمام عوام اور حکمراں طبقے کے دلوں پر حکومت کر رہے تھے۔ امراء اور حکمراں طبقہ کے
ذریعہ دیے جانے والے نذرانے کو وہ قبول کر لیتے تھے۔ لیکن بادشاہ کے ذریعہ دیےجانے والی رقم اور نذرانے کو قبول نہیں
کرتے تھے۔ چشتیہ سلسلے کی جو اپنی قدیم روایت تھی ،کہ اپنے آپ کو سلطنت سے الگ تھلگ رکھنا ،اس روایت کو شیخ کلیم ہللا
شاہ جہاں آبادی نے اپنی زندگی میں باقی رکھا اور سختی کے ساتھ اس پر قائم بھی رہے۔
خانقاہ میں جو بھی تحفہ ،نذرانے کی شکل میں رقم آتی تھی ،اسے لنگر خانہ ( غریبوں کے کھانے پر خرچ کر دیا جا تا تھا۔ بادشاہ
فروخ سیر نے بہت چاہا کہ خانقاہ کے خرچ کے تئیں بادشاہ کے ذریعہ دی جانے والی جاگیر کو وہ قبول کر لیں لیکن شیخ نے ہمیشہ
اپنی خانقاہ کو سلطنت سے الگ رکھا ۔
_____________________________________________________________________________________
_________
:باب دوم
فصل دوم
کی جنگ آزادی کے بعد سیاسی عمل میں صوفیہ کا کردار۔ 1857
آپ 1841عیسوی علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔
میں حضرت امیر ملت رحمۃ ہللا علیہ نے تحریک ترک مواالت کی مخالفت کی اور اعالن فرمایا کہ۔ 1914
ہندو مردے کو جال کر خاک کر دیا جاتا ہے۔ اور خاک ہوا میں اڑ جاتی ہے۔ اگر مسلمان مرے تو دو گز زمین تا قیامت uاس کی
ملکیت ہوتی ہے۔ مسلمانو ہجرت نہ کرو آپ کا وطن آپ کا جدی ورثہ ہے ۔اسے ہاتھ سے نہ جانے دو۔
مگر پھر بھی دو الکھ کے قریب مسلمان بہک کر افغانستان اور عرب ممالک میں جا پہنچے۔ اور پھر پریشان حالت میں واپس
ہندوستان آئے۔ اس مقام پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی موالنا احمد رضا خان بریلوی رحمۃ ہللا علیہ اس
مسئلہ میں آپ کے ہمنوا تھے ۔(1921عیسوی)
تحریک خالفت میں آپ نے جان جوکھوں میں ڈال کر حصہ لیا۔ اس تحریک میں آپ نے جس قدر خدمات سر انجام دیں۔ شاید بانیان
تحریک نے بھی نہ دی ہوں گی۔ آپ نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ تمام ملک کا دورہ کیا۔ خالفت فنڈ میں الکھوں روپے چندہ دیا۔
دوران تحریک ان عالقوں کا بھی دورہ کیا جہاں تک پہنچنا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن بھی تھا۔ مثال ریاست کورک (عالقہ مدراس)
مکارا ويرا جندر پیٹ اسی بلگنڈا ،اور کوہ نیل گڑھی وغیرہ وغیرہ۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آپ بمبئی سے حیدرآباد دکن کے لئے روانہ ہو رہے تھے ۔کہ موالنا شوکت علی اور احمد صدیق جنرل
سیکرٹری خالفت کمیٹی آپ کو الوداع کہنے کے لئے اسٹیشن پر آئے۔ تو موالنا موصوف نے آپ کو ایک چولہ پہنایا جس پر لفظ
خالفت اور ایک تمغہ جس پر نصر من ہللا و فتح قریب کندہ تھا ۔پیش کیا اور کہا کہ میرے پاس صرف یہی چیز تھی جسے پیش کرتا
ہوں ۔اس کے ساتھ خالفت کمںیٹی کی طرف سے پانچ سو روپے کی رسیدیں بھی دیں۔ آپ رحمتہ ہللا علیہ نے رسیدوں کو حیدرآباد
میں فروخت کر دیا اور 500کے بجائے پانچ سو بیس روپیہ خالفت کمیٹی حیدرآباد کی وساطت سے بمبئی روانہ فرما دیئے ۔جس پر
موالنا شوکت علی نے کہا کہ مجھے اصل بھی مل گیا ہے اور سود بھی۔ ایک بار موالنا شوکت علی نے یہ تحریک پیش کی کہ
ہندوستان کے ہر مسلمان سے ایک روپیہ فی کس کے حساب سے خالفت فنڈ وصول کیا جائے۔ تو آپ نے نیلگھڑی عالقہ ميصور کا
ایک دور افتادہ مقام سے اپنا اور اپنے تمام متعلقین کا چندہ بحساب ایک روپیہ فی کس بمبئی بھیج دیا اور ساتھ ہی یہ اعالن جاری
فرمایا ۔
کہ فقیر کے سب محبت والے ایک ایک روپیہ فی کس اپنے اور اپنے متعلقین کا چندہ خالفت uفنڈ میں داخل کریں"۔"
موالنا شوکت علی نے اس اعالن کو تمام ملک میں مشتہر کر دیا جس کے نتیجے کے طور پر ہندوستان کے گوشے گوشے سے
زرکثیر موصول ہوا ۔اس کے عالوہ آپ کے اکثر معتقدین نے تن تنہا ہزاروں روپیے خالفت فنڈ میں دیے چنانچے نورانی سیٹھ آف
بمبئی نے آپ رحمتہ ہللا علیہ کے ارشاد پر 25000اور اہلیان کوہاٹ نے ستائیس ہزار روپیہ کی گراں قدر رقومات uخالفت فنڈ میں
پیش کیں۔ لیکن آپ رحمتہ ہللا علیہ نے ہرگز ہرگز یہ گوارا نہیں فرمایا کہ آپ رحمتہ ہللا علیہ کے ارشادات پر عامة المسلمین تو عمل
کریں۔ اور خود اس کار خیر کے ثواب میں شامل نہ ہوں۔ چنانچہ ساالنہ جلسہ انجمن خدام صوفیا ھند منعقدہ علی پور سیداں شریف
کے موقع پر ایک دفعہ تین سو روپے ملک الدین سیکرٹری خالفت کمیٹی الہور کی وساطت سے اور دوسری دفعہ اٹھارہ سو روپے
کی گرانقدر رقم جیب خاص سے خالفت uفنڈ میں دی۔
مارچ 1921کو الل پور حال فیصل آباد میں ڈسٹرکٹ خالفت کانفرنس منعقد ہوئی تو حضرت امیر ملت رحمۃ ہللا علیہ نے اس 3-4
کی صدارت قبول فرمائی اور اپنے خطبہ صدارت میں فرمایا۔
کہ "جس کو خالفت سے محبت نہیں ہے اسے اسالم سے کوئی سروکار نہیں ہے ۔جو لوگ مجھ پر بہتان باندھتے ہیں کہ میں خالفت
"میں دلچسپی نہیں لیتا وہ کذاب اور مفتری ہیں۔ پڑھو لوگو لعنت ہللا علی الکاذبین
چنانچہ سب مسلمانوں نے پڑھا اور آپ رحمتہ ہللا علیہ نے اپنے فی البدیہی خطبہ صدارت میں پرجوش اور درد انگیز کلمات سے
عوام و خواص کے دلوں کو مسخر کرلیا۔ عوام اھل سنت خالفت uکے لئے ایسے کمر بستہ ہوئے کہ ہزاروں کے خالفت uنوٹ آن کی
آن میں فروخت ہو گئے۔
موالنا ظفر علی خان نے آپ رحمتہ ہللا علیہ سے بھرپور مخالفت کی ۔ موالنا ظفر علی خان چونکہ اہلحدیث مسلک سے تعلق
رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ آپ رحمتہ ہللا علیہ کے مخالف تھے۔ (قصوری) اس کے باوجود اپنے اخبار زمیندار مورخہ 10
مارچ 1921میں آپ کو یوں ہدیہ تبریک پیش کیا انہوں نے لکھا۔
کہ تین چار مارچ 1951کو الل پور میں جو عظیم الشان جلسہ خالفت منعقد ہوا اس میں پنجاب کے مشہور اور معروف صوفی
حضرت پیر سید جماعت علی شاہ صاحب قبلہ صدر تھے۔ آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں جس بے نظیر جرات ایمانی اور جوش
اسالمی سے مسلمانان عالم کی صحیح رہنمائی فرمائی ہے۔ وہ اس قابل ہے کہ ہمارے تمام مشائخ اور پیرزادگان اس سے سبق حاصل
کریں۔ آپ نے اپنے خطبہ صدارت میں اور تمام غلط فہمیوں کا ازالہ کردیا ہے۔ جو بعض سیاہ باطن لوگ حضرت ممدوح کے متعلق
پھیالتے تھے۔ اور صاف صاف کہہ دیا ہے کہ جو مسلمان خالفت سے محبت نہیں رکھتا وہ بے ایمان ہے۔ اور ہرگز مسلمان کہالنے
کا مستحق نہیں ہے۔آپ رحمتہ ہللا علیہ نے فرمایا کہ میں خالفت uاسالمیہ اور مقامات uمقدسہ کے لئے اپنی جان تک نثار کرنے کو
تیار ہوں۔ اور میرا جو مرید تحریک خالفت میں حصہ نہیں لیتا اس کو میں یاران طریقت میں سے نہیں سمجھتا۔ کیونکہ خالفت خدا
اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی ہے ،جو مسلمان خدا اور رسول صلی ہللا علیہ وسلم کی خالفت سے بیزار ہے یا بعض دنیاوی
مصلحتوں کے پیش نظر صداقت سے خوف کھاتا ہے وہ میرے نزدیک مسلمان نہیں ہے۔
ہم قبلہ حضرت شاہ صاحب کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں۔ کہ خدائے بزرگ و برتر نے حضرت ممدوح کو کلمۃ الحق
اولی کے مسلمانوں کا طرہ امتیاز تھی۔ ہمیں یقین ہے کہ آپ جیسی متقی شخصیت
اور صداقت کی وہی جرات عطا کی ہے۔ جو قرون ٰ
متشرع عالم اور پیشوا کی رہنمائی سے تحریک خالفت کو عظیم الشان تقویت پہنچے گی۔ اور دیگر مشائخ عظام بھی اپنی سنہری
مصلحتوں اور طواغیت باطلہ کے خوف کو باالئے طاق رکھ کر خدا اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے جھنڈے تلے آ جائیں گے
۔ہمیں معلوم ہوا ہے کہ پنجاب خالفت کانفرنس عنقریب راولپنڈی میں منعقد ہونے والی ہے ۔اس کی صدارت بھی کسی روشن ضمیر
بزرگ کی خدمت میں پیش کی جائے گی۔ اگر انہوں نے منظور کی تو یقینا مسلمانان پنجاب کی خوش قسمتی ہوگی۔ یاد رہے کہ
راولپنڈی کانفرنس کی صدارت بھی حضرت امیر ملت رحمۃ ہللا تعالی علیہ نے فرمائ تھی۔
اگر ملک کے تمام مشائخ عظام اور پیرزادگان حضرت حافظ حاجی پیر جماعت علی شاہ علی پوری کی تقلید کریں اور خالفتu
اسالمیہ کی حمایت uاور اعانت پر کمربستہ ہوجائیں۔ تو خالفت uاور آزادی وطن کے تمام مسائل کا حل بہت جلد ہو سکتا ہے ۔ہم
حضرت ممدوح کا پورا خطبہ صدارت عنقریب ہی کسی آئندہ اشاعت میں شائع کریں گے۔
موالنا شوکت علی نے اس خطبہ کی 25ہزار کاپیاں انگریزی میں ترجمہ کروا کے یورپ بیجھنے کا ارادہ ظاہر کیا تھا مگر معلوم
نہیں کہ بعد میں کیا ہوا۔ دوران تقریر جب موالنا شوکت علی نے دریافت uکیا کہ کوئی ہے جو راہ خدا میں اپنی جان فدا کرے تو اس
وقت بارہ ہزار کے مجمع میں سے صرف حضرت قبلہ ہی کھڑے ہوئے تھے۔ اور آپ نے نہایت جامع و استقالل سے فرمایا تھا۔ کہ
میں حاضر ہوں اور راہ خدا میں اپنی جان فدا کرنے کو تیار ہوں۔
موالنا شوکت علی نے آپ کے ایثار کی بے حد تحسین کی اور آپ کو سنوسی ہند کے لقب سے یاد کیا۔آپ کی اس سرفروشی کا حال
معلوم کرکے شملہ میں ایک بزرگ نے کہا ۔
تحریک خالفت میں آپ کی روز افزوں سرگرمیوں سے حکومت کے اخبار سول اینڈ ملٹری گزٹ الہور نے بڑی بوکھالہٹ کا اظہار
کرتے ہوئے لکھا کہ حکومت کو گاندھی جی کا اس قدر خطرہ نہیں ہے جس قدر پیر جماعت علی شاہ صاحب کا ہے۔
ان دنوں آپ حیدرآباد دکن میں جلوہ افروز تھے مرزا محمداصغر بیگ المخاطب uبہ اصغر یار جنگ بیرسٹر و دیگر ارکان خالفت uآپ
کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اور جلسہ خالفت کی صدارت کے لیے درخواست کی جسے آپ نے قبول فرمایا۔ حاالنکہ اسی روز
واپسی کا ٹکٹ خریدا جا چکا تھا۔ حضرت نے ٹکٹ واپس کر دیا اور بڑی جرات اور عزم و ہمت سے کام لیتے ہوئے صدارت
فرمائی۔ اس جلسہ میں نامور لیڈروں نے شرکت کی آپ نے جس انداز سے صدارتی تقریر کی اس کی مثال ناپید ہے۔ آپ کی تحریک
پر 30ہزار روپے چندہ جمع ہوا۔
گوجرہ ضلع الئلپور میں سید مہدی شاہ سرکاری درباری آدمی تھے ان کے رعب ،اثر اور رسوخ اور دبدبے کی وجہ سے ارکان
خالفت uشہر میں داخل نہیں ہوتے تھے۔ آپ کو صورتحال کا علم ہوا تو خود بنفس نفیس تشریف لے گئے۔ اور اپنے ہمراہ غازی
عبدالرحمن خالفت کمیٹی الئلپور حال فیصل آباد کو لے جا کر خالفت کمیٹی قائم کر کے عہدار مقرر کیے ۔اسی طرح کوہاٹ میں آپ
کی تحریک پر 27ہزار روپیہ جمع ہوا۔ جب حکومت نے محسوس کیا کہ آپ کی شبانہ روز کاوشوں سے خالفت کانفرنس کا شجر
بارآور ہو رہا ہے۔ تو آپ کو صوبہ سرحد سے 24گھنٹے کے اندر اندر نکل جانے کا حکم دیا گیا۔ بلوچستان میں داخلہ بند کر دیا
گیا ۔اور کشمیر میں دو سال تک داخلہ کی اجازت نہ دی گئی ۔
میں ساردہ ایکٹ کا نفاذ ہوا جس کی رو سے نہ بالغ بچوں کی شادی ممنوع قرار پائی ۔جس دن اس ايکٹ کا نفاذ ہوا حضرت 1921
امیرملت ميصور میں جلوہ افروز تھے۔ آپ کو یہ غیر ضروری قدغن ناگوار گزری۔ آپ نے اس ایکٹ کی پابندی کو قبول نہ کرتے
ہوئے متعدد نکاح پڑھائے اور ٹیلیفون پر پولیس کو اطالع دے دی۔ کہ میں نے اتنے نکاح پڑھا کر قانون توڑ دیا ہے۔ حضرت کے
اس ارشاد پر ہندستان میں ہزاروں نکاح پڑھائے گئے ۔اور فرنگی حکومت کے اس دل آزار اور اسالم دشمن قانون کی دھجیاں بکھیر
دی گئیں ۔مجبور ہو کر حکومت کو اس ایکٹ میں ترمیم کرنا پڑی۔ حضرت کے اس طرح فوالدی چٹان بن کر مقابلہ کرنے سے یہ
غیر شرعی اور مذموم قانون جاری نہ رہ سکا۔ حکیم االمت عالمہ اقبال نے یوں ہی نہیں کہ دیا تھا کہ۔
میں جب صوبہ یوپی انڈیا میں شدھی تحریک کا آغاز ہوا تو چند ہندو سرمایہ داروں نے اور بالخصوص سوامی شردھا نند نے 1923
انگریز حکمرانوں کی سازش سے مسلمانوں کو مرتد بنانے کی سکیم بنائی۔ اس صورتحال سے حضرت امیر ملت کو سخت صدمہ
پہنچا۔ آپ نے اس فتنہ کے انسداد اور استیصال کا مصمم ارادہ کرلیا۔ اور 10اپریل 1923کے ساالنہ اجالس صوفیا ہند منعقدہ علی
پور سیداں میں اپنے تاثرات ،عزائم اور پروگرام کا یوں اظہار فرمایا کہ ۔
یہ ایک ایسا نازک موقع ہے کہ اس کی نظیر تاریخ اسالم میں نہ ملے گی۔ اسالم کی دنیاوی وجاہت کو نہیں تاکا جاتا بلکہ سرے سے
اسالم کی بستی پر ضرب لگائی جاتی ہے۔ کوئی مسلمان ایسا نہیں ہے۔ جس کا دل اس صدمے سے متاثر نہ ہوا ہو۔بانی اسالم صلی
ہللا علیہ وسلم کا تو یہ حکم ہے۔ کہ اپنے مردے بھی اغیار کے ہاتھوں میں نہ جانے دو۔ اور یہاں یہ حالت ہے کہ ہمارے زندوں کو
بھی اغیار لیے جائیں اور ہم دیکھا کریں۔
اس وقت حمیت تو یہ ہے کہ جب تک اس فتنہ کا انستداد نہ ہو ہر مسلمان اپنے اوپر خواب و خور حرام سمجھے۔ اور ہر ذریعہ سے
جو خدمت اسالم کی اس سے ممکن ہو اس سے دریغ نہ کرے۔ اور جب تک یہ فتنہ فرو نہ ہو جائے اپنی کوشش کومسلسل جاری
رکھے۔
میں نے عزم کرلیا ہے کہ اس اہم مقصد کی خاطر سینکڑوں مبلغ میدان ارتداد میں بھیجوں گا۔ اور خود بھی موقع پر پہنچ کر حصہ
۔سردست مبلغ گیارہ سو روپے نقد
لوں گا ۔اور جب تک گمگشتگان دین کو حلقہ اسالم میں واپس نہ لے آؤں چین سے نہیں بیٹھوں گا ِ
دیتا ہوں۔ اور سو روپیہ ماہوار اس کارخیرمیں دیتا رہوں گا۔ اور اپنے تمام ذرائع و وسائل کو انسدادفتنہ ارتداد کے لیے وقف کر دوں
گا۔
اس اعالن کے فورا بعد آپ نے اس فتنہ کی سرکوبی کے لیے مہم شروع کر دی۔ آپ کے صاحبزادگان اور دیگر اہل خاندان نے
بھرپور کردار ادا کیا۔ آپ نے پہال وفد 21مئی 1923کو روانہ کیا اور خود دور شہر تک اس کے ساتھ تشریف لے گئے۔ تین ماہ میں
آپ نے 86وفد بھیجے جن میں خلف اکبر سراج ال ِملّت حضرت صاحبزادہ پیر سید محمد حسین شاہ صاحب ،شمس العلماء صاحبزادہ
سید نور حسین شاہ صاحب ،موالنا غالم احمد امرتسری ،موالنا قاضی حفیظ الدین ،موالنا محمد حسین قصوری ،موالنا امام الدین رام
پوری ،موالنا قاضی عبدالمجید قصوری ،جیسے علماء و فضالء اور مناظر شامل تھے۔
ہللا کے فضل اور کرم سے آپ کی کوشش بار آور ثابت ہوئی اور ہزاروں مرتد دوبارہ داخل اسالم ہو گئے۔ آپ نے باری باری تمام
متاثرہ عالقوں کا دورہ کیا آگرہ متھرا ریاست بھرت پور وغیرہ میں وفود کے ساتھ شب و روز کام کیا۔
میں آل انڈیا سنی کانفرنس کا انعقاد ہوا ۔جس نے برصغیر کے طول و عرض سے ہزاروں علماء و مشائخ اور التعداد عوام 1925
اہلسنت نے شرکت کرکے دہر میں اسم محمد سے اجاال کر نے کا عہد کیا۔ اور پروگرام کی تشکیل ہوئی آپ کو بااتفاق رائے صدر
منتخب کیا گیا۔ آپ نے معرکۃ اآلرا خطبہ صدارت میں اسالم کی حقانیت ،تبلیغ ،عیسائی مشزیوں کا مقابلہ کرنے ،اہل سنت کے
حقوق کی حفاظت اور دیگر ضروری امور کا تفصیل سے ذکر کیا ،اور عوام اہلسنت کو متحرک اور فعال اور منظم کرنے کے لیے
تجاویز پیش کی کیں۔
میں مسجد شہید گنج کی تحریک چلی تو آپ تن ،من ،دھن کی بازی لگا کر میدان میں آئے۔ مسجد کی واگزاری کے لئے یکم 1935
ستمبر کو راولپنڈی میں ایک کانفرنس ہوئی۔ جس میں آپ کو امیر ملت اور موالنا محمد اسحاق منسہروی کو نائب امیر ملت منتخب
کیا گیا۔ بیان سب سے پہلے عالمہ عنایت ہللا المشرقی نے کیا۔
امیر ملت منتخب ہونے کے بعد آپ نے مندرجہ ذیل اعالن جاری فرمایا۔
.ایک روپیہ فی کس کے حساب سے ایک الکھ روپیہ بیت المال کے لیے درکار ہے )(۲
.تمام بازاری عورتیں پیشہ ترک کردیں۔ اور شرعی نکاح کرکے رمضان المبارک سے پہلے پہلے گھروں میں بیٹھ جائیں )(۳
رات کو مسجد انگورا محلہ امام باڑہ راولپنڈی میں آپ کی صدارت میں 100سے زائد نمائندگان کا اجتماع ہوا اور آپ کی باوقار
قيادت میں انگریز حکمرانوں سے ٹکر لینے کا با اتفاق رائے فیصلہ ہوا۔ تمام پولیس کو اجالس سے باہر نکال دیا گیا۔ تو ڈی سی کا
حکم آیا کہ ڈی ایس پی اجالس میں شریک رہے گا۔ ورنہ ہم طاقت uاستعمال کریں گے۔ اس موقع پر حضرت امیر ملت نے جس قدر
جرات اور پامردی کا ثبوت دیا۔ اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ تحریک پاکستان کے نامور سپاہی سید غالم مصطفی خالد گیالنی آف
راولپنڈی اپنے ایک مضمون ماہنامہ انوار صوفیہ قصور بابت اگست 1975صفحہ 30پر لکھتے ہیں کہ۔
یہ مرحلہ امیرملت بننے کے چند گھنٹے بعد پیش آیا۔ اس آزمائش میں تمام ذمہ داری حضرت امیرملت پر ڈال دی گئی اور حضرت
نے ایک عظیم مجاہد کی طرح اپنی نیلی پوش کفن بردوش رضاکاروں کو حکم دیا کہ اجالس میں موجود ڈی ایس پی خفیہ پولیس کو
مسجد انگورا کی حدود سے خارج کر دیا جائے۔ پھر دیکھا جائے گا کہ انگریز کیا کرتا ہے۔ الغرض حکم کی تعمیل کی گئی اور ڈی
ایس پی کو مسجد کی حدود سے نکال باہر کیا۔ اس جرات مندانہ اقدام سے اجالس میں غیر معمولی جوش و خروش پیدا ہو گیا ۔اور
تمام لیڈروں نے امیر ملت کے حکم پر کٹ مرنے کی بیعت کی۔
ک پاکستان میں قائد اعظم اور مسلم لیگ کو آپ کا پورا پورا تعاون حاصل رہا۔ 1938میں جب بڑےبڑے جبہ و دستار پوش تحری ِ
علما انگریز حکومت اور کانگریس کے حاشیہ بردار بن کر ملت از وطن است کا نعرہ لگا رہے تھے۔ آپ نے ببانگ دھل مسلم لیگ
اور نظریہ پاکستان کا یقین دالیا ۔جس کی پاداش میں آپ کو گناگوں مخالفتوں ،تکلیفوں اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
میں جب کانگریس کے سیاسی مقابلے میں مسلم لیگ کو فتح نصیب ہوئی اور کانگریس وزارت سے مستعفی ہو گئی ۔تو 1939
حضرت قائد اعظم نے جمعۃ المبارک 23ستمبر 1939کو یوم نجات قرار دے کر اسالمیان ہندسے بعد نمازجمعہ بارگاہ خدا نفل
شکرانہ پیش کرنے کی اپیل کی ۔تو آپ نے علی پور سیداں سیالکوٹ میں شایان شان یوم نجات بنانے کا اہتمام فرمایا۔ اور مسجد میں
کثیر جماعت کے ساتھ نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد دوگنا شکرانہ ادا فرمایا۔ اور اپنے مخصوص دلپذیر انداز میں حاضرین سے
خطاب کیا اور یوم نجات کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ۔
دو جھنڈے ہیں ایک اسالم کا دوسرا کفر کا مسلمانو تم کس جھنڈے کے نیچے کھڑے ہوگے؟ حاضرین نے با آواز بلند جواب دیا کہ
اسالم کے .پھر آپ نے دریافت فرمایا کہ جو کفر کے جھنڈے تلے کھڑا ہوا کیا تم اس کے جنازے کی نماز پڑھو گے ؟حاضرین نے
بااتفاق کہا کہ ہرگز
ِ انکار کیا پھر آپ نے استفسار فرمایا کہ کیا تم اس کو مسلمانوں کے قبرستان میں دفن کرو گے؟ حاضرین نے
نہیں۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا کہ اس وقت اسالمی جھنڈا مسلم لیگ کا ہے ہم بھی مسلم لیگ کے ساتھ ہیں اور سب مسلمانوں کو
مسلم لیگ میں شامل ہونا چاہیے۔
مارچ 1940کو قرارداد پاکستان منظور ہوئی۔ تو آپ نے اعالن مسلم لیگ کی حمایت کا کیا اور اس کے لیے کام شروع کر دیا 23
اور سفر اور حضر میں تلقین فرمانے لگے کہ سب مسلمانوں کو مسلم لیگ کے پرچم تلے جمع ہو جانا چاہیے۔
حضرت موالنا مولوی خیر المبین رحمتہ ہللا علیہ کا جب انتقال ہوا تو ان کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ حضرت امیر ملت رحمۃ
ہللا علیہ نے پڑھائی ۔تدفین کے وقت مہاراجا کشن پرشاد وزیر اعظم حیدر آباد دکن بھی مسلمانوں کے ساتھ مل کر قبر پر مٹی ڈالنے
کے لیے بڑھا تو آپ نے ناراض ہوکر کہا۔
اوہ مردود دور ہو کیا مسلمان مر گئے ہیں؟ کہ ایک کافر مسلمان کی میت کو مٹی دے رہا ہے۔ ہزاروں کے اجتماع میں وزیراعظم
نہایت شرمندہ ہوا اور مسلمانوں کی صفوں سے باہر نکل گیا۔
سعودی حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد جب آپ حج کے لئے تشریف لے گئے تو ابن سعود نے ایک خاص ایلچی کے ذریعے
آپ رحمتہ ہللا علیہ کو مدعوکیا ۔چونکہ آپ کو ابن سعود سے اختالف مسلک و عقائد تھا۔ اس لیےآپ نے یہ دعوت سختی سے رد
فرما دی۔
میں آپ بمبئی سے بذریعہ ٹرین پنجاب واپس آرہے تھے کہ راستے میں مسیح الملک حکیم اجمل خان نے آپ سے موالنا 1924
ابوالکالم آزاد کا تعارف کرایا۔ آپ نے ابوالکالم آزاد سے فرمایا کہ آپ ہندو مسلم اتحاد کا نعرہ بلند کر رہے ہیں ۔ہندو شردها نند
مسلمانوں کو کافر بنانے کی شدھی تحریک بڑی شدومد سے شروع کیے ہوئے ہیں۔ یہ سن کر ابو الکالم آزاد نے نہایت طنز سے کہا
کہ شاہ صاحب تیرہ سو برس سے آپ ہندو کو مسلمان بناتے آ رہے ہیں ،ان کا بھی حق ہے کہ وہ اپنے دھرم کا پرچار کریں۔ اس غیر
متوقع جواب پر آپ نے فرمایا مسلمانوں کے دلوں سے متائے ایمان چھین لی جائے ،اور ہم خاموش تماشائی بنے بیٹھے رہیں؟ یہ
دینی حمیت کے خالف ہے اور قیامت کے روز خدا اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے سامنے موجب رسوائی۔
یہ سن کر ابوالکالم آزاد پر سناٹا چھاگیا اور تمام راستہ میں دوبارہ کوئی بات نہیں کی۔
آپ کی زندگی کا ایک ایک لمحہ اطاعت خداوندی اور غالمی مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم میں بسر ہوا ہے۔ آپ بعد نماز فجر تا
اشراق اور بعد از نماز عصر تا مغرب دنیاوی بات بالکل نہیں کرتے تھے۔ اور بعد نماز عصر ختم شریف حضرت خواجہ محمد
معصوم ہمیشہ پڑھا کرتے تھے۔ تہجد کی نماز کبھی قضا نہیں ہوئی۔ تمام یاران طریقت کو بھی تہجد پڑھنے کی تلقین فرماتے تھے۔
طالبعلموں کے ساتھ بہت محبت سے پیش آتے تھے۔ جب کوئی بزرگ آپ کے پاس آتا تو اسے اپنی جگہ پر بٹھاتے تھے۔ حق گوئی
و بے باقی آپ کا طرہ امتیاز تھا ۔
قیام پاکستان کے بعد آپ نے اسالمی آئین کے نفاذ کی پوری پوری کوشش کی جگہ جگہ جلسوں اور یاداشتوں کے ذریعے حکومت
کو پیغام مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کے تحفظ اور نظام مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کے نفاذ کا وعدہ یاد دالیا حضرت پیر صاحب
مانکی شریف امین الحسنات ضیغم اسالم مجاہد ملت حضرت موالنا محمد عبدالستار خان نیازی صاحب uنے آپ کی ہمنوائی میں ملک
بھر کا دورہ کیا ۔مگر افسوس کے حکومت نے وعدہ پورا نہ کیا۔ جس کا آپ کو تادم زیست صدمہ رہا۔ آپ کی وفات 30اگست1951
بروز جمعرات 110برس کی عمر میں ہوئی اور علی پور سیداں میں آخری آرام گاہ بنی۔
____________________________________________
سرہ
حضرت پیر سید محمد حسین شاہ علی پوری قدس ٗ
آپ رحمتہ ہللا علیہ کی والدت باسعادت 1878 uمیں حضرت امیر ملت پیر سید جماعت uعلی شاہ رحمۃ ہللا علیہ عالم اسالم کے مشہور
و معروف روحانی مرکز علی پور سیداں ضلع سیالکوٹ میں صبح صادق کی ساعت سعید میں ہوئی۔ آپ کی پیدائش پر بڑی خوشیاں
سرہ نے آپ کے چاند سے بڑھ کر حسین چہرے کو دیکھا تو پھولے نہ سمائے اور بے اختیار ہو منائی گئیں ۔حضرت امیر ملت قدس ٗ
کر گود میں اٹھا لیا ۔اور دائیں کان میں اذان اور بائیں میں اقامت کہی اور پھر دعائے خیر کی۔ ساتویں روز آپ کے بال منڈوائے اور
صدقہ و خیرات کیا۔ آپ کا اسم گرامی محمد حسین رکھا اور دو بکرے ذبح کرکے عقیقہ کیا ۔
آپ نے حضرت امیر ملت قدس سرہ کی زیر قیادت تمام دینی ملی مذہبی اور سیاسی تحریکوں میں بھی حصہ لیا۔ انجمن خدام صوفیا،
تحریک ارتداد ،تحریک خالفت ،اور تحریک کشمیر ،تحریک شہید گنج ،تحریک پاکستان اور دیگر تحریکوں میں بھرپور کردار ادا
کیا۔ فتنہ ارتداد کے زمانہ میں عرصہ تک آگرہ میں رونق افروز رہے۔ اور اردگرد کے عالقوں میں تبلیغ کر کے ہندوؤں کے ناپاک
منصوبوں کو خاک میں مالیا ۔تحریک شہید گنج میں بڑی جانفشانی سے کام کیا اور اس تاریخی جلوس میں نمایاں طور پر حصہ لیا
جو حضرت امیر ملت قدس سرہ کی زیرقیادت 8نومبر 1935کو بادشاہی مسجد الہور سے ننگی تلواروں کے ساتھ نکال تھا ۔اور جس
سے انگریز حکومت کے اوسان خطا ہو گئے تھے۔ تحریک پاکستان کا دور آیا حضرت امیر ملت قدس سرہ اپنے صاحبزادوں اور
عقیدت مندوں کے ساتھ میدان میں نکلے۔ حضرت سراج ملت رحمتہ ہللا علیہ نے رات دن ایک کر کے مسلم لیگ کی تائید و حمایت
میں عامہ المسلمین کو تحریک پاکستان کا ہم نوا بنایا۔ 1945کے تاریخی الیکشن میں ضلع رہتک حال مشرقی پنجاب انڈیا میں مسلم
لیگی امیدواروں کی حمایت میں دل کھول کر کام کیا ۔پھر فیروز پور میں نواب افتخار حسین ممدوٹ کے حلقہ میں اس خوبی سے
کام کیا کہ مخالفین بھی عش عش کر اٹھے ۔بعدازاں قصور میں بھی میاں افتخار الدین کے حلقہ میں بھرپور کام کیا۔ یہ ہللا تعالی کا
فضل و کرم تھا کہ آپ کے تینوں امیدوار غالب اکثریت سے کامیاب وکامران ہوئے۔
آپ کی وفات 5رمضان المبارک 4اکتوبر 1973کو ہوئی اور روزہ امیر ملت سے ملحقہ حجرے میں اپنی والدہ ماجدہ کے پہلو میں
سپرد خاک ہوئے۔
_____________________________________________________________________________________
_________
:باب دوم
فصل سوم۔
تحریک پاکستان کو کامیابی سے ہمکنار کرنے میں مشائخ عظام و علمائے کرام کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ برصغیر کی
جناح کا بھر پور ساتھ دیا تھا۔ اگر یہ کہا جائے کہ کفر و شکر کے
ؒ مختلف خانقاہوں سے وابستہ مشائخ عظام نے قائداعظم محمد علی
گڑھ ہندوستان میں کلمہ طیبہ کی بنیاد پر پاکستان کا قیام اولیائے کرام کی صدیوں پر محیط ریاضتوں کا ثمر شیریں ہے تو مبالغہ نہ
ہوگا۔ان عظیم ہستیوں نے اس خطے میں دین اسالم کی نشر و اشاعت کی ۔جبکہ ان کے عقیدت مندوں نے مسلمانوں کے اسالمی
تشخص کی داعی ٓال انڈیا مسلم لیگ کی جدوجہد میں ہراول دستے کا کردارادا کیا۔ دراصل انگریز حکومت کی طرف سے ہندوؤں
کی اندھا دھند سرپرستی کے باعث مسلمانوں کی سیاسی ،معاشی اور سماجی زندگی پر انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہو رہے تھے۔
اور اس امر کا خطرہ سر پر منڈالنے لگا تھا کہ خدانخواستہ اسالمی عقائد واقدار اور ثقافت و روایات کہیں ہندو معاشرے uمیں اپنی
پہچان نہ کھو بیٹھیں۔
یہ صورتحال مشائخ عظام اور علمائے حق کیلئے ایک لمحٔہ فکریہ تھی۔ وہ صدق دل سے محسوس کرتے تھے کہ ہندوستان میں
بسنے والے مسلمانوں کا اسالمی تشخص صرف اسی صورت محفوظ رہ سکتا ہے جب یہاں کے مسلم اکثریتی عالقوں پر مشتمل
جناح کی قیادت میں مسلم لیگ نے مارچ1940ء کے ؒ ایک علیحدہ اسالمی ریاست تشکیل دی جائے۔ چنانچہ جب قائداعظم محمد علی
تاریخ ساز اجالس میں قیام پاکستان کا نعرٔہ مستانہ بلند کیا تو گویا مشائخ عظام کی ملی ٓارزوئوں کو ایک عملی تعبیر مل گئی اوروہ
قائداعظم کے تدبر اور دُور
ؒ نہ صرف بذات خود بلکہ ان خانقاہوں کے وابستگان بھی بابائے قوم کے دست و بازو بن گئے۔ انہوں نے
اندیشی پر اعتماد کرتے ہوئے تحریک پاکستان کو پوری دل جمعی سے ٓاگے بڑھایا۔ جدوجہد ٓازادی میں ان جلیل القدر ہستیوں کی
خدمات uاور کارنامے ہماری ملی و قومی تاریخ کا ایک سنہرا باب ہیں۔ انہوںنے جہاں دو قومی نظریے کی حقانیت کو دالئل و براہین
جناح کی ذات پر کفر کے فتوے لگانے والوں کا بھی کڑااحتساب کیا۔ نظریٔہ پاکستان ٹرسٹؒ سے ثابت کیا ،وہاں قائداعظم محمد علی
عوام الناس بالخصوص نئی نسل کو ان بزرگوں کے علمی و عملی جہاد سے روشناس کرانے کیلئے تواتر کے ساتھ خصوصی
ت یوم پاکستان کے سلسے میں ایوان کارکنان تحریک پاکستان‘ الہور میں ایک لیکچر نشستوں کا اہتمام کرتا رہا۔ تقریبا ِ
بعنوان’’تحریک پاکستان میں علماء و مشائخ کا کردار‘‘ کا انعقاد کیا گیاجس کی صدارت تحریک پاکستان کے مخلص کارکن‘ سابق
صدر مملکت اور نظریٔہ پاکستان ٹرسٹ کے چیئرمین محترم محمد رفیق تارڑ صاحب نے کی۔ جبکہ سجادہ نشین ٓاستانٔہ عالیہ علی
پور سیداں شریف پیر سید منور حسین شاہ جماعتی نے کلیدی خطاب کیا۔ اس پروگرام کی نظامت کے فرائض نظریہ ٔ پاکستان ٹرسٹ
کے سیکرٹری شاہد رشید نے انجام دیے ۔
محترم محمد رفیق تارڑ نے صدارتی کلمات میں تحریک پاکستان کے دوران مشائخ عظام اور علمائے کرام کی خدمات uکو
شاندارالفاظ میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ موجودہ صورتحال میں ناگزیر ہو گیا ہے کہ ہمارے مذہبی
رہنما ہر قسم کے مسلکی اختالفات سے کنارہ کشی اختیار کرکے صرف استحکام پاکستان کو اپنا نصب العین بنا لیں۔ پیر سید منور
حسین شاہ جماعتی نے برصغیر کی مختلف خانقاہوں کے مشائخ عظام کی تحریک پاکستان میں خدمات کا تفصیلی تذکرہ کیا اور
پوری کی خدمات پر روشنی ڈالی۔ان کاؒ بطور خاص سنوسی ٔ ہندحضرت امیر ملت پیر سید جماعت uعلی شاہ صاحب محدث اعظم علی
کہنا تھا کہ حضرت امیر ملت ؒنے ہندوستان کی 475خانقاہوں کے مشائخ عظام کو خطوط ارسال کئے جن میں لکھا تھا کہ اس وقت
ٓاستانوں میں مقیم رہ کر ہللا ہللا کرنے کا نہیں بلکہ میدان عمل میں نکلنے کا وقت ہے۔ انہوں نے خود بھی پورے ہندوستان کے دورے
فتوی بھی جاری کیا جس میں کہا گیا کہ جو مسلمان‘مسلم لیگ کو ٰ کئے اور قیام پاکستان کے حق میں جلسے منعقد کئے۔ ٓاپ نے ایک
ووٹ نہ دے‘ اس کا جنازہ نہ پڑھو اور اسے مسلمانوں کی قبروں میں دفن نہ کرو۔
جناح کی صالحیتوں پر یقین کامل اور مسلم لیگ سے اٹوٹ محبت تھی ،اس ؒ قارئین کرام! حضرت امیر ملت کو قائداعظم محمد علی
لئے وہ ان کے خالف کوئی بات سننا گوارا نہ کرتے تھے۔ ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ’’اس وقت مسلمانوں کو ایک جھنڈے تلے
منظم ہو جانا چاہیے۔ وہ جھنڈا صرف مسلم لیگ کا ہے جو مسلمانوں کی جماعت ہے اور اس نازک دور میں مسلمانان ہندوستان کی
قائداعظم ہمارے سیاسی وکیل ہیں۔ ہم ان کے حکم پر پاکستان جیسی مقدس سرزمین حاصل کرنے ؒ خاطر خواہ خدمت کر رہی ہے۔
کیلئے بڑی سے بڑی قربانی دینے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔‘‘ 27اپریل1946ء کو بنارس میں منعقدہ ’’ٓال انڈیا سنی کانفرنس‘‘
کو جدوجہد ٓازادی میں ایک سنگ میل کی حیثیت حاصل ہے۔ اس کانفرنس میں الکھوں مسلمانوں کی شرکت نے 46-1945ء کے
تاریخ ساز انتخابات میں مسلم لیگ کی کامیابی پر مہر تصدیق ثبت کر دی تھی۔ کانفرنس کی اہمیت کے پیش نظر ٓاپ پیر انہ سالی
کے باوجود اس میں شریک ہوئے اور پورے جوش اور ولولے سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’جناح کو کوئی کافر کہتا ہے ،کوئی
مرتد بتاتا ہے ،کوئی ملعون ٹھہراتا ہے لیکن میں کہتا ہوں کہ وہ ولی ہللا ہے۔ ٓاپ لوگ اپنی رائے سے کہتے ہیں لیکن میں قرٓان و
"‘حدیث کی رُو سے کہتا ہوں۔
)تاریخ مشائخ نقشبند(
درحقیقت تحریک پاکستان دنیاوی نہیں‘ روحانی تحریک تھی۔ اس لئے تمام اہل نظر نے دامے ،درمے ،سخنے اس کی حمایت کی۔
جناح نے اسی
ؒ جو کوتاہ بین تھے ،وہ اس تحریک کی تہہ میں کار فرما حکمت ٰالہی کی تفہیم سے قاصر رہے۔قائداعظم محمد علی
تعالی نہ صرف اس ملکٰ ٓالہ وسلم کا روحانی فیضان قرار دیا تھا۔ ہللا تبارک و
تناظر میں قیام پاکستان کو حضور پاک صلی ہللا علیہ و ٖ
کو تا قیامت قائم و دائم رکھے گا بلکہ عہد حاضر میں اسے دین اسالم کی نشٔاۃ ثانیہ کا نکتٔہ ٓاغاز بھی بنائے گا۔ مدعی الکھ برا
چاہیں‘ایسا ہو کر رہے گا۔
____________________________________________
محرکات وہ اشیاء یا قوتیں اور مقاصد ہیں۔ جو معاشرے uکے افراد کو ترغیب دیتی ہیں۔ جن کے ذریعے فرد کسی رد عمل کا اظہار
کرتا ہے -یعنی جن چیزوں اور کاموں سے فرد کسی عمل کی طرف راغب ہو اُن کو محرکات کہا جاتا ہے؛ اور یہ امر تجرباتی
طور پر ثبوت ہے کہ انسان کو وہ محرک اپنی جانب جلد راغب کرے گا۔ جس کے حاصل کرنے کی وہ کوشش کرے گا ۔یا جو اُسے
زیادہ محبوب اور عزیز تر ہوگا-محرک جتنا طاقتور ہوتا ہے اُس کا رد عمل بھی اتنا ہی شدید ہوتا ہے۔ اور جب تک اسے مقصد
-حاصل نہ ہوجائے اُس وقت تک اپنا عمل جاری رکھتا ہے
تحریک پاکستان کا سب سے مضبوط محرک دو قومی نظریہ تھا جس کی اساس ’’ال ٰالہ اال ہللا‘‘تھی اور کون سا مسلمان ہے جو ِ
اپنے معبود حقیقی سے محبت نہیں رکھتا اور اسے ٰالہ نہیں مانتا ہے-یقینا ً جس کی محبت اپنے رب سے جتنی کامل ہوگی وہ اسی
درجہ اس نظریاتی اساس کی حفاظت بھی کرے گا۔ اور دل و جان سے قربان ہونے کے لئے بھی تیار رہے گا-تاریخ کے اوراق پر
طائرانہ نظر ڈالئے تو آپ عالم فرط و مسرت سے جھوم اٹھیں گے۔ اور اپنے عقیدے کی پختگی کے حامل بن جائیں گے ۔کہ دین پر
ت مسلمہ کے نظریات کی احیاء کی باری آئی ہے۔ جو بھی ہستی میدان میں اُتری اُس کا رابطٔہ حق اس قدر جب بھی کڑا وقت آیا یا اُم ِ
مضبوط اور ایمان اس قدر غیر متزلزل تھا۔ کہ طاغوتی اور سامراجی طاقتوں کے خالف سیسہ پالئی ہوئی دیوار بن گئے-ایسی
امام ربانی مجدد الف
ث دہلویِ ، تحریک پاکستان میں عملی شرکت کرنے والوں کی تھی۔ جیسا کہ حضرت محد ِ ِ ت حال کچھ صور ِ
خاں۔ ان سب نے اصالحی اور انقالبی طریقہ کار ث بریلی امام الشاہ احمد رضا ؒ
فضل حق خیر آبادی،محد ِ
ِ ثانی ،شاہ ولی ہللا ،عالمہ
اہل اسالم کو راغب کیا جو دو قومی نظریے کا اولین عملی اظہار تھا-یہ عشق و محبت کی بات سے اُس مضبوط محرک کی طرف ِ
فکر حریت الحق ہوگئی اور قائد اعظم اور عالمہ اقبال جیسے مدبر راہنما جب ہندو مسلم اتحاد کی بات کررہے تھے۔ تو تھی کہ جب ِ
ُ
ث بریلوی نے ان کو خبردار کیا کہ ہنود کے خفیہ ارادے کچھ ت ملی کو نظریاتی فکر فراہم کرنے کے لئے ،محد ِ اُس وقت بھی سیاس ِ
اور ہیں۔ جو ہندو مسلم اتحاد کے لئے خطرناک نتائج برآمد کرسکتے ہیں-پھر وقت نے ثابت کردیا ۔ہندو مسلم اتحاد زیادہ دیر نہ چل
-سکا اور مسلم لیگ کا قیام عمل میں النا پڑا-یہ کیسی بصیرت تھی جس کا استعمال کر کے اہل نظر را ِہ وفا پر گامزن رہے
ب رسول (ﷺ) کا مظہر ہو-جس دور کا تذکرہ یہاں کیا جا رہا ہے اُس دور میں صوفی وہی کشتہ ح ِ
ٗ خوف خدا اور
ِ صوفی وہ ہے جو
ب فقرِ صاح وہ نہیں شجر پیوستٔہ بھی-جو تصوف ب
ِ صاح اور بھی عالم یعنی تھا- ہوتا کاربند پر طریقت و شریعت علوم کہالتا تھا جو
-نہیں
ک پاکستان ایک طویل کاوش کا نام ہے-کسی بھی دور کو دیکھا جائے مشکالت اُسی دور کے اعتبار سے سامنے آتی رہیں- تحری ِ
ت محمدیہ کو را ِہ راست پر ُ
ت ارادی سے فیصلے فرماتے رہے اور ام ِ صاحب النظر لوگ اپنی دوربینی ،دور اندیشی اور مضبوط قو ِ
سرگرم عمل رہے-ِ کیلئے واحدہ ت
ِ مل آبروئے اور تحفظ کے اسالم ن
مشائخ عظام ہر دور میں ِ
دی ِ گامزن کرتے رہے-علمائے دین اور
پیش نظر حضرت مجد ِد ِ یہ فکر ہمیشہ دامن گیر رہی کہ کہیں ہندوانہ تہذیب و ثقافت اسالمی ثقافت پر اثر انداز نہ ہو-اسی فکر کے
ک پاکستان کے دوران جب جمعیت الف ثانی اور حضرت شاہ ولی ہللا ؒ نے اسالم کی نشا ِۃ ثانیہ کے لئے بھرپور کردار ادا کیا-تحری ِ
علمائے ہند نے انگریز سامراج سے خطرہ محسوس کیا تو ہندو اکثریت کا ساتھ دیا ۔مگر علماء و مشائخ کی ایک بڑی جماعت uیہ
محسوس کر رہی تھی۔ کہ برطانوی سامراج سے آزادی کے بعد ہندو اکثریت کا تسلط قائم رہے گا ۔اور آزادی کے ثمرات حاصل نہیں
مسلمانان برصغیر کے لئے الگ وطن کے لئے کاوش شروع کردی گئی-حضرت قائد اعظم ؒ کا ساتھ دیتے ہوئے ِ ہوسکیں گے-لہٰ ذا
اعظم نے خود
ؒ ت قائد
قیام پاکستان کی مخالف قوتوں کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جس کا تذکرہ حضر ِ علماء کرام اور صوفیائے عظام نے ِ
مطمح نظر ایکٔ ت عملی کچھ بھی رہی مگر حقیقت میں سب بزرگان ،مشائخ عظام اور صوفیائے کرام کا متعدد مرتبہ کیا-بظاہر حکم ِ
ہی رہا ہے اور وہ محرک کلمٔہ حق تھا-تمام محرکات uاسی ایک محرک کا طواف کرتے نظر آتے ہیں -چاہے وہ دو قومی نظریہ ہو یا
میر صاحب گویا ہوتے ہیں :نظریٔہ پاکستان ہو-ایسے ہی لوگوں کے بارے میں ؔ
سرور
ؔ :اور بقول
موضوع کی گہرائی اور گیرائی کا خیال رکھتے ہوئے محقق کی یہ کوشش ہوگی کہ یہاں اُن ہی ِ
اہل بصیرت (صوفیائے کرام) کا
ک پاکستان کے معروف نعرے کا ایک جواب اہ ِلتذکرہ کیا جائے جن کی بدولت ہم آزادی کے سائے میں سانس لے رہے ہیں-تحری ِ
:محبت کا یہ بھی رہا ہے کہ
اولیاء کا ہے فیضان
پاکستان پاکستان
زیر
ایسے ہی چند عظیم صوفیائے عظام کی کاوشوں کا اجمالی خاکہ قارئین کے سامنے پیش کیا جاتا ہے-ساتھ ہی ساتھ وہ محرکات ِ
ک پاکستان کے ہمنوا و ہم قدم بنے
-بحث آئیں گے جن کی وجہ سے وہ تحری ِ
ؒ
عبدالعزیز(1909ء1981-ء) سلطان االولیاء سلطان محمد
آپ (قدس ہللا سر ّٗہ)معروف صوفی بزرگ سلطان العارفین حضرت سلطان باھُو کی آٹھویں پشت سے ہیں-آپ نے اپنی ساری زندگی
انتہائی سادگی اور فقر و درویشی میں گزاری-آ پ اکثر مشاہدہ و استغراق میں خلوت گزین رہتے-جب پاکستان کی منزل قریب تھی
تحریک پاکستان میں اپنا عملی
ِ تحریک پاکستان کو ایک ایک مخلص کارکن کی اشد ضرورت تھی آپ نے اپنے مریدین کو ِ اور
کردار ادا کرنے کا حکم فرمایا اور آپ خود بھی اپنی رہائش گاہ سے جھنگ تشریف لے جاتے اور مسلم لیگ کے آفس میں جا کر
ک پاکستان کیلئے فنڈ جمع کرواتے۔ کیونکہ آپ اسے صرف سیاسی نہیں بلکہ ’’روحانی ملی‘‘تحریک و جدوجہد سمجھتےu تحری ِ
تحریک پاکستان ورکرز ٹرسٹ اور نظریہ پاکستان ورکرز ٹرسٹ کی جانب سے 2013ء ِ تھے-آپ کی ان خدمات کے اعتراف میں
’’تحریک پاکستان گولڈ میڈل‘‘ کا اعالن کیا گیا جو آپ کے خانوادہ سے صاحبزادہ سلطان احمد علی صاحب نےِ میں آپ کیلئے
وصول کیا-حضرت سلطان عبدالعزیز(قدس ہللا سر ّٗہ ) کی اسی نظریاتی میراث کے سبب آپ کی خانقاہ عالیہ کا یہ امتیاز ہے کہ
روحانیت کے ساتھ ملک و ملت سے مریدین کا رشتہ مضبوط کرنے کے لئے وہاں رہائشی کمپلیکسز کو کشمیر ہاؤس ،جوناگڑھ
ہاؤس اور فلسطین ہاؤس کے نام دیئے گئے ہیں-آپ (قدس ہللا سر ّٗہ)کی تحریک کے وارث حضرت سلطان محمد علی صاحب (مدظلہ
نوجوانان ملت کی روحانی ،فکری و نظریاتی تربیت کیلئے یہ خانقاہ عالیہ اپنا عملی کردار ادا کر رہی ہے
ِ -االقدس) کی قیادت میں
پشاوری (1873ء1954-ء)
ؒ ؔ
بےنوا :سید ستار بادشاہ
آپ کا سلسلٔہ نسب پیر بابا سے ملتا ہے-آپ ایک عظیم ادیب و شاعر تھے-آپ نے مسلم لیگی رضا کاروں کی سرپرستی فرمائی،
ریلیف فنڈ قائم کیا ،رضاکاروں کی وردیاں سلوا کردیں۔ اورمسلم نیشنل گارڈ کا دستہ قائم کیا-ہندوؤں کے نظریہ کو مات دینے کے
لئے آپ پر عزم و پرجوش مسلم لیگی راہنما تھے-آپ ایک مجاہد آدمی تھے یہی وجہ ہے کہ آپ نے جہاد کشمیر میں بھی بڑھ چڑھ
-کر حصہ لیا-اس تحریک میں شامل ہونے کے محرکات جذبٔہ جہاد اور خداترسی اور فالح و بہبو ِد انسانیت تھے
دہلوی (1878ء1955-ء)
ؒ :خواجہ حسن نظامی
طولی رکھتے تھے-قرآن پاک کا اُردو ترجمہ و اخبارات اور رسائل بالخصوص ’’منادی‘‘ ،وج ِہ شہرت بنا-
ٰ آپ اسلوب تحریر میں ی ِد
50سے زائد کتب کے مصنف تھے -خانقا ِہ چشت کے سجادہ نشین تھے -آپ اتحاد بین المسلمین کے داعی تھے بالخصوص اہ ِل تشیع
کو مسلم لیگ کے قریب النے کا محرک بنے -نفسیات (سائیکالوجی) کی فریب کاری کا جو حال کانگریس نے بیرو ِن ملک بیٹھ کر
اعظم اور خواجہ صاحب کی مدبرانہ قیادت نے ہی دیا -اور جو مایوسی نفسیات سے وہ پھیالنا چاہتے
ؒ پھیالیا تھا اُس کا جواب قائد
ت مسلمہ کے لئے جو درد چھپا ہوا تھا اُسی
تھے،آپ نے 10کروڑ عوام کو اس مایوسی اور بے دلی سے بچالیا-آپ کے دل میں ام ِ
-نے آپ کو مقصد کے حصول تک چین سے نہ بیٹھنے دیا
شرقپوری (1891ء1957-ء)
ؒ :میاں غالم ہللا
شرق پور شریف میں یونینسٹ کا زور تھا،مسلم لیگ کے کارکن ادھر کا رخ نہ کرتے تھے-آپ نے جرأت مندانہ اقدام کیا اور یہاں
مسلم لیگ کا پہال جلسہ منعقد کرایا جس نے یونینسٹوں کا غرور خاک میں مال دیا1946 -ء کے عام انتخابات میں چوہدری محمد
حسین چٹھہ (مسلم لیگی امیدوار) تحصیل شیخوپورہ سے کامیاب ہوئے اور اس کے پیچھے آپ ہی کا کردار تھا-آپ جذبٔہ شہادت uسے
-سرشار رہتے تھے اور اسی جذبے کی تلقین فرماتے تھے-نتیجتا ً کوئی بھی مخالف آپ کے سامنے ٹک نہیں پاتا تھا
شاہ (1841ء1951-ء)
امیر ملت پیر سید جماعت علی ؒ
ِ :
ہرگز نہ تھے -جمود کو توڑ نکالنے کا فن جانتے تھے (Static) -کے حامل تھے-سکونی ) (Dynamicآپ ُحرکی نظریہ زندگی
مخالفین پر ایسی ضرب کاری لگاتے کہ یا تو وہ ہم خیال بن جاتے یا پھر اُن کی زبانوں کو گنگ کردیتے-آپ کا مجاہدانہ اور قائدانہ
امیر ملت کا
ِ اعظم کو خط میں واضح طور پر فرمایا کہ قوم نے مجھےuؒ کردار ہی مسلم لیگ کی کامیابی کا ذریعہ بنا-آپ نے قائد
امیر ملت ہونے کے ناتے سے مجھ پر ِ خطاب دیا ہے-مگر میں ضعیف ہوں (بڑھاپا تھا) -قوم کا یہ بار آپ کے کاندھوں پر ہے اور
الزم ہوگیا ہے کہ میں تمہاری مدد کروں-چنانچہ آپ عاللت کے باوجود مسلم لیگ کے ہر جلسے میں شریک ہوتے اس کی صدارت
امیر ملت کا ہاتھ ہی کامیابی کا ذریعہ قرار دیا ہے
ِ اعظم نے خود اپنی کامیابی کے پیچھے
ؒ -فرماتے-قائد
آپ کے کردار پر سیر حاصل گفتگو کی جاسکتی ہے مگر طوالت کے خوف سے اسی پر اکتفا کیا جاتا ہے10-کروڑ مسلمانا ِن ہند کو
ٰ
فتاوی ،پُرجوش خطابات اور تحاریر نے مخالفین کی نیندیں حرام ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کا سہرہ آپ کے سرجاتا ہے-آپ کے
کردی تھیں -آپ نے اپنی ذات سے مسلم لیگ کو نفع پہنچایا-جب کچھ شرارتی لوگوں نے کانفرنس میں بدنظمی پیدا کرنے کے لئے
امیر ملت کے عہدے سے مستعفی ہونے کا کہا تو آپ نے فرمایا میں سید ہوں مجھے اس عہدے سے کوئی غرض نہیں۔ بلکہ ِ آپ کو
اس عہدے کو مجھ سے شرف ہے اور یہ حقیقت ہے آپ نے مسلمانوں کو شرف بخشا ،اپنی دولت کو قائدین پر لٹایا-مسلم لیگی
ت واحدہ بناکر منزل کی جانب رواں دواں رکھا -آپ کو میدان عمل میں اُترا دیکھ کر کئیکارکنوں کی خدمت فرمائی اور سب کو مل ِ
حتی کہ ایسے عالقہ جات جہاں مسلم صوفیائے کرام اس تحریک کا حصہ بنے اور انہوں نے اپنی گوشہ نشینی کی زندگی ترک کی ٰ
لیگ کا نام لینا گناہ سمجھا جاتا تھا۔ آپ وہاں تک پہنچے اور مسلم لیگ کا تنظیمی ڈھانچہ قائم کیا اور پھر اپنا کالم مختلف صوفیاء
کرام کو سونپتے چلے گئے-آپ کے قافلہ میں جید علمائے کرام ،صوفیائے عظام اور نامور مسلم لیگی لیڈرز تھے جو آپ کو قدر کی
نگاہ سے دیکھتے تھے اور آپ کی تائید و حمایت فرماتے تھے-مسلمان راہنماؤں کو میدا ِن کار زار میں النے کا کوئی نہ کوئی
مسلمانان ہند کے لئے خود ایک محرک تھے
ِ -محرک تھا مگر پیر صاحبu
سرہندی (1889ء1958-ء)
ؒ :پیر غالم مجدد
آپ انگریز سرکار سے سخت نفرت کرتے تھے اور زندگی بھر کسی انگریز سرکاری افسر سے نہ ملے سوائے با امر مجبوری-
تحریک خالفت ،انجمن ہال ِل
ِ تحریک ہجرت،
ِ حکومت نے آپ کو ’’شمس العلماء‘‘ کا خطاب دینا چاہا تو آپ نے ٹھکرا دیا-آپ نے
ک مواالت میں پورے جوش و جذبے کا مظاہرہک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا -تر ِتحریک مسجد منزل گاہ اور تحری ِ
ِ احمر،
-کیا
انگریز حکومت کے خالف تقاریر کیں ،انگریزی مالزمت کو حرام قرار دیا ،آپ کو گرفتار کیا گیا ،قید و بند کی صعوبتیں برداشت
کیں ،مگر نظریہ کو نہ چھوڑا-نظریٔہ پاکستان ،دو قومی نظریہ آپ کے دل میں جاگیر تھا اور عشق رسول (ﷺ) کا جذبہ کارفرما تھا
:کہ آپ نے قید میں ہونے کے باوجود فرمایا
قید میرا تو ورثہ ہے کیونکہ میں غالم مجدد اور اوال ِد مجدد الف ثانی ہوں جن کو جہانگیر بادشاہ نے قلعہ گوالیار میں نظر بند کردیا’’
‘‘-تھا
کاش آج مجھ پر یہ مقدمہ ہوتا کہ میں نے وقت کے انگریز بادشاہ جارج پنجم کو قتل کیا ہے اور اُس کے خون سے میرے ہاتھ ’’
‘‘-رنگے ہوتے
یہی وجہ ہے کہ آپ فرنگیوں کے حامی ٹولے کے بھی سخت uخالف تھے-آپ جمعیت علمائے ہند کے سرکردہ رہنما بھی رہے مگر
ک انجمن خدام کعبہ‘‘پر نہرو رپورٹ پر تمام ساتھیوں کے ساتھ مل کر اس سے بھی مستعفی ہو گئے-آپ نے علی برادران کا ’’تحری ِ
ساتھ دیا 1924 -ء میں آپ نے باقاعدہ مسلم لیگ میں شمولیت کا اعالن کیا-آپ نے فرمایا میں بغیر کسی عہدے کے مسلم لیگ کی
خدمت کروں گا-آپ نے سندھ کے دورے کئے اور مسلم لیگ کو عوامی جماعت بنا دیا-آپ نے مسلم لیگ کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالیا-
-آپ کی شبانہ روز کاوشوں کے نتیجے میں جی ایم سید جیسے لیڈر کو بھی ہار ماننا پڑی
ؒu
الحسنات آف مانکی شریف (1922ء1960-ء) :پیر محمد امین
آپ انتہائی متحرک ،بلند اخالق ،مدبر اور دانش مند انسان تھے۔ روحانیت اور سیاست uکے میدان میں آپ نے بڑا اہم کردار ادا کیا-آپ
کو ہمیشہ یہ فکر الحق رہی کہ ہندو زور پکڑ رہے ہیں۔ اور اسالم پر خطرات روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں-آپ نے اسی لئے
امیر ملت نے شرکت کی ،جمعیتu ِ 1945ء میں صوفیائے کرام کی کانفرنس بالئی جس میں سینکڑوں صوفیائے عظام بشمول
االصفیاء معرض وجود میں آئی اور مشائخ کرام نے آپ کو صدارت سونپی-آپ نے اسی کانفرنس میں مسلم لیگ کے امیدواروں کو
کامیاب uبنانے کا اعالن فرمایا -آپ کی مسلم لیگ کی شمولیت سے لوگ جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہوئے جس سے یونینٹس
اعظم کا
ؒ اعظم کا دورٔہ سرحد 1945ء کی کامیابی کا سہرہ آپ کے سر جاتا ہے-یہاں قائد
ؒ اور سرخ پوشیوں کے ہوش اُڑ گئے-قائد
ُ
اعظم کو سونے کا تمغہ پیش کیا گیا تو قائد اعظم کرسی سے سینہ تان کر اٹھ کھڑے ہوئے اور
ؒ فقید المثال استقبال بھی ہوا -جب قائد
:کہا
اور باآلخر وہ دن بھی آیا کہ جب جواہر الل نہرو پشاور کے تیسرے دورے پر آیا تو اُس کے سامنے uاحتجاج کیا گیا اور اُسے سرحد
:کے دورے سے نامراد و ناکامران لوٹنا پڑا-موالنا ظفر علی خان نے کیا خوب فرمایا
آل انڈیا سنی کانفرنس میں آپ نے نظریٔہ پاکستان کی حمایت کا اعالن فرمایا اور سرگرمی سے قرار داد پاس کرائی -سول نافرمانی
قیام
ک پاکستان کا پہال شہید بھی آپ کا چہیتا نواب خان تھا -یہ اعزاز حاصل ہواِ -
تحریک میں ہراول دستے کا کام کیا اور تحری ِ
پاکستان کے بعد آپ کو وزارت کی پیشکش بھی کی گئی مگر آپ نے اس سے اجتناب فرمایا -آپ کی کاوشوں کا اصل مقصد اسالمی
-نظام حکومت کا قیام ،عوامی بہبود اور ملکی استحکام تھا
ِ
اعظم
ؒ آپ نے کانگریس کی پالیسی کے پیش نظر اُسے خیر آباد کہا اور پھر ِ
تادم مرگ مسلم لیگ کے حامی رہے،مسلم لیگ اور قائد
کی بھر پور اعانت فرمائی-آپ نے ’’جماعت احیاء االسالم‘‘ کی بنیاد رکھی-جیکب آباد میں ایک تاریخی کانفرنس کروائی اور مسلم
-لیگ کے راستے ہموار کئےاور کانگریس کے غرور کو توڑا
اہل علم اور مشائخ کو اکٹھا کرنے میں مدد ملی آپ مسلمانوں کی اسالم سے دوری سے بے قرار جمعیت المشائخ قائم کی جس سے ِ
اعظم سے مالقات uکی اور اس شرط پر مسلم لیگ میں شامل ؒ رہے-قائد عمل سرگرم لئے کے فروغ تھے۔ اور دو قومی نظریہ کے
ہوئے کہ نئی بننے والی ریاست میں قانون اسالمی ہوگا۔ اور قرآن و سنت کے عین مطابق ہوگا-نہ صرف آپ نے شمولیت کی بلکہ
اپنی جماعت ’’احیاء االسالم‘‘ کو بھی مسلم لیگ میں ضم کر دیا-مسلم لیگ کی شمولیت کے بعد آپ نے حیدر آباد کو اپنا مرکز بنایا
تھے-قیام پاکستان
ِ اور مشائخ سرہندی کی معاونت سے مسلم لیگ کا پیغام گلی گلی عام کیا-قائد اعظم آپ کی کاوشوں سے بہت خوش
اصالح مسلمان
ِ کردی-تحریک پاکستان میں آپ کی شمولیت کے محرکات
ِ کے بعد آپ نے اپنی تمام تر توجہ مریدین کی طرف
عشق رسول (ﷺ) کا وہ جذبہ کار فرما تھا جس کی وجہ سے کانگریس کو ِ ’’احیائے اسالم‘‘ اور نظریٔہ پاکستان تھے -بالخصوص
-خیر آباد کہا اور کانگریسی مالؤں کے خالف ہو گئے
جیالنی (1889ء1961-ء)
ؒ :سید محمد طاہر اشرف
ک پاکستان کے سپاہی کی حیثیت سے آپ نے گراں قدر خدمات uسر انجام دیں1945-ء کے الیکشن میں آپ نے اپنے مریدین اور تحری ِ
معتقدین کو مسلم لیگ کو ووٹ دینے کے لئے کہاجس uسے کانگریس کو ناکامی اٹھانا پڑی -آپ کے چھوٹے بھائی مسلمانوں کے
مقدمات بغیر فیس کے عدالت میں لڑتے تھے ۔اور یہی وکیل بھائی سید سلطان اشرف ہندوؤں اور سکھوں کے ہاتھوں مسجد میں شہد
ڈالی-خلق خدا کی خدمت فرمائی -آپ کا عالقہ مسلم لیگ کا گڑھ تھا اور کسی
ِ کئے گئے-کراچی میں خانقا ِہ اشرفیہ کی بنیاد
کانگریسی کو وہاں ووٹ مانگنے کی ہمت نہ ہوتی تھی -آپ سخت نظریاتی بزرگ تھے -آپ کا نظریہ دو قومی نظریہ تھا اور آپ کی
عشق رسول (ﷺ) کا جذبہ پیدا کرنے میں نہایت اہم ہیں
ِ -کاوش
آپ ایک عالم ،فاضل ،ادیب ،خطیب ،صوفی ،شاعر ،پیر طریقت اور محدث تھے -قرآن کا ترجمہ و تفسیر ،فرش پر عرش (نعتیہ
تحریک پاکستان کے لئے گراں قدر خدمات سرانجام دیں -آپ
ِ کالم) ،حیات غوث العالم اور اتمام حجت جیسی کتابیں لکھیں -آپ نے
ایک نظریاتی اور فکری سوچ کے حامل بزرگ تھے-آپ نے مسلم لیگ کا منشور گلی گلی عام کیا-آپ نظریٔہ پاکستان کے حامی
تھے -آپ نے بنارس سنی کانفرنس میں صدارتی خطبہ ارشاد فرمایا جو کارکن کے لئے مشع ِل راہ ثابت ہوا-آپ کا ذہنی ماڈل ایسی
اسالمی ریاست تھی جو خالفت راشدہ کا نمونہ ہو -آپ نے سنی مسلمانوں کو جگایا اور پاکستان بنانے کیلئے ان کو حقیقی وارث
-قرار دیا-آپ کے اقتباسات آج بھی آپ کے جذبات اور اخالص کی ترجمانی کرتے ہیں
ب االحناف‘‘ میں اجالس ہوا جس میں سید محمد نعیم الدین مراد آبادی ،پیر قیام پاکستان کے بعد جوالئی 1948ء میں ’’دارالعلوم حز ِ
ِ
صاحب مانکی شریف ،حضرت سید محمد محدث کچھوچھوی موالنا مفتی محمد عمر نعیمی ،موالنا غالم معین الدین نعیمی ،موالنا
اعظم
ؒ دستور اسالمی کا ایک خاکہ مرتب کرکے قائد
ِ سید ابوالبرکات الہوری شریک ہوئے -اس موقعہ پر اس بات پر زور دیا گیا کہ
پایہ تکمیل تک نہ پہنچ سکا-کے سامنے uپیش کیا جائے -صد افسوس جو ٗ
امیر ملت پیر سید جماعت علی شاہ کی قیادت میں تحریک نفا ِذ شریعت
ِ بعد میں پیر آف مانکی شریف ،موالنا عبد الستار خان ،نیازی
-چالئی مگر افسوس یہ کوشش کامیاب uنہ ہوسکی
ک سفر نہ تھے
منزل انہیں ملی جو شری ِ
بیٹھی-حتی کہ پیر
ٰ مسلم لیگ اقتدار میں آنے کے بعد نشٔہ حکومت میں اپنے بزرگان اور صوفیائے کرام کے کردار کو نظر انداز کر
:آف مانکی شریف پر عرصٔہ حیات تنگ کردیا اُن کو نظر بند کیا گیا -اس پر شیر افضل جعفری (جھنگ) نے یہ شعر کہا
پیران عظام جو تحریک پاکستان کا ہرا دل دستہ رہے-اپنا تن من دھن سب کچھ نظریٔہ پاکستان پر قربان کردیا-قائد اعظم محمد علی ِ
ومشائخ عظام
ِ علماء اور کرام صوفیائے ہیں- فرمارہے دین بزرگان جو ہوگا یہی قانون کا پاکستان کہ تھا فرمایا خود نے جنہوں جناح ؒ
نظام حکومت نافذ کیا جائے گا مگر قائد
ِ نے مسلم لیگ کی سربراہی محض اس لئے فرمائی کہ نئی بننے والی ریاست میں اسالمی
اعظم کے انتقال کے بعد مسلم لیگ کے راہنما اپنا کیا ہوا وعدہ بھول گئے اور ظلم تو یہ ہوا کہ صوفیائے کرام کے کردار کو محدود
پیران عظام کی نقل و حمل پر بھی پابندیاں عائد کردی گئیں اور احسان فراموشی کی راہ اختیار کی گئی-یہ بات روز ِ کرنے کے لئے
مشائخ عظام کا سایہ مسلم لیگ پر نہ ہوتا تو پاکستان کبھی معرض وجود میں نہ
ِ روشن کی طرح واضح ہے کہ اگر صوفیائے کرام و
آتا -پاکستان آج بھی ایک ترقی یافتہ اسالمی ملک اور امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اگر اسے اُس نہج پہ ڈاال جائے جس کا خاکہ
ت صوفیائے کرام کی رو گردانی سے منہج کیسے روشن ہوسکتا ہے -اندھیرے میں منزل کی صوفیائے کرام نے پیش کیا تھا-محرکا ِu
-تالش احمقانہ فعل ہوگا
٭٭٭
ماخذ و مراجع
1 سید سلیمان اشرف بہاری اور دو قومی نظریہ ،محمد احمد ترازی 2018ء ،دارالنعمان پبلشرز ،الہور
2 نفسیات و تعلیم ،سید ساجد حسین 2000ء ،رہبر پبلشرز ،کراچی
3 تحریک پاکستان،محمد uصادق قصوری 1970ء ،فضل نور اکیڈمی ،گجرات
ِ اکابر
6 اعظم اور ان کے سیاسی رفقاء ،اقبال احمد صدیقی 1990ء ،مطبوعہ کراچی
ؒ قائد
7 تذکرہ علمائے فرنگی محل ،موالنا عنایت ہللا فرنگی محل 1930ء ،مطبوعہ لکھنو
10 اکابر اہلسنت،موالنا محمد عبد الحکیم شرف قادری 1976ء ،مطبوعہ الہور
ِ تذکرہ
11 ت مشاہیر ،پاکستان ،پروفیسر محمد اسلم 1990ء ،مطبوعہ اسالم ٓاباد
وفیا ِ
12 حاجی امداد ہللا مہاجر مکی اور ان کے خلفاء،قاری uفیوض الرحمٰ ن 1984ء ،مطبوعہ کراچی
13 جدوجہد ٓازادی میں سندھ کا کردار ،ڈاکٹر عبد الجبار عابد ،1992مطبوعہ الہور
14 کاروان گم گشتہ،سید رئیس احمد جعفری ،1971مطبوعہ کراچی
ِ
16 تذکرہ اولیائے سندھ،موالنا محمد اقبال حسین نعینی 1986ء،مطبوعہ کراچی
ک پاکستان اور سرگودھا کی یادیں ،ملک محمد اقبال ایڈووکیٹ 1984ء ،سرگودھا 19
تحری ِ
_____________________________________________________________________________________
_________
:باب سوم
:فصل اول
:تمہید و تعارف
یہ بدیہی حقیقت ہے کہ اسالم میں رہبانیت اور دنیا سے التعلقی کا کوئی تصور نہیں ہے۔ بلکہ اسالم ایک ہمہ گیر نظام کا حامل مذہب
اور قانون حیات ہے ۔جس کا تعلق زندگی کے ہر انفرادی اور اجتماعی شعبے سے ہے۔ اور زندگی کے کسی بھی شعبے کا کوئی
گوشہ اسالمی تعلیمات کی حدود سے باہر نہیں ہے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے اقوال و افعال سے زندگی کے ہر شعبے
کے لیے رہنمائی کا بھرپور سامان فراہم کیا ہے۔جنہیں سامنے رکھتے ہوئے زندگی گزارنا دین و دنیا کی کامیابی و کامرانی کا
ضامن ہے۔ رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی جامع تعلیمات uجہاں زندگی کے دیگر شعبوں کے لئے بہترین الئحہ عمل فراہم کرتی
ہیں۔ وہاں ملکی نظام چالنے حکمرانی اور سیاست کے حوالے سے بھی ابدی ہدایات فراہم کرتی ہیں۔ جن پر عمل کرنے سے نہ
صرف امت مسلمہ مسائل کی دلدل سے نکل سکتی ہے ۔بلکہ ترقی کی اعلی منازل طے کرکے دنیا کے سامنے ایک مثالی حیثیت
حاصل کر سکتی ہے۔
جب سے مسلمان سیاسی طور پر زوال پذیر ہوچکے ہیں۔ تب سے مسلمانوں نے معامالت اور ملکی و قومی مسائل جیسے اہم شعبوں
میں قرآن و سنت کی تعلیمات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ اور بہت سارے لوگوں نے اسالم کو عقائد و عبادات تک محدود کر رکھا ہے۔
جس کی وجہ سے مسلمان با حثیت قوم مزید پستی اور زوال کے شکار ہیں۔
زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست uاور حکمرانی کے اہم ترین مسئلے میں بھی ہم اسالمی تعلیمات سے پہلوتہی کیے ہوئے
ہیں۔ جس کے نتیجے میں دنیا ہی میں ذلت اور ناکامی ہمارا مقدر بن چکی ہے۔ عالمی سطح پر مسلمانوں کی حیثیت روز بروز کم
ہوتی جا رہی ہے۔ یہاں تک کہ ان کے کسی مطالبے کو درخوراعتنا بھی نہیں سمجھا uجاتا ۔جس کی اصل وجہ رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وسلم کی سیرت اور تعلیمات سے روگردانی ،ملکی اور ملی مسائل میں دینی احکام سے بے اعتنائی اور باہمی اختالفات uو
افتراق ہے۔
رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور تعلیمات میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی سیاسی برتری اور
ترقی کا اصل دارومدار حکمرانوں اور سیاستدانوں کی کارکردگی اور اعلی اخالق و صفات سے مزین ہونے پر ہے۔ جب تک
مسلمان حکمران سیرت طیبہ کو اپنانے سے پہلو تہی کرتے رہیں گے۔ اس وقت تک وہ نہ دنیا میں ترقی پا سکتے ہیں اور نہ ہی ان
کے ملک امن و امان اور کامیابی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے جب بھی
کسی کا انتخاب فرمایا تو اس کی صفات و کارکردگی کو بنیاد بنا کر اس کو مسلمانوں کے امور اور معامالت uکی قیادت سونپی ۔مگر
افسوس یہ ہے کہ آج اکثر مسلم ممالک کے ارباب سیاست uان صفات و اخالق سے تہی دامن نظر آتے ہیں۔ اور رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وسلم نے ملکی سیاست اور قیادت کے ذمہ داران کے جو فرائض بیان فرمائے ہیں ان سے بھی پہلوتہی کی جاتی ہے۔ جس کی
وجہ سے امت مسلمہ روزبروز روبہ زوال اور تنزل کا شکار ہے ۔
آج مسلمان حکمرانوں اور سیاستدانوں کا بڑا المیہ یہ ہے۔ کہ ان کی اکثریت غیروں سے مرعوب ہے ۔چنانچہ ان کے اکثر فیصلے
اور اقدامات آزادانہ نہیں ہوتے۔ بلکہ غیروں کے دباؤ یا اللچ میں آکر ملکی اور قومی مفادات کو پس پشت ڈال کر ملکی وقومی
فیصلے ہوتے ہیں۔ غیر مسلموں سے مرعوبیت اور ذہنی غالمی کا نتیجہ ہے۔ کہ مسلم ممالک کی اکثر پالیسیاں غیروں کے اشاروں
کی تابع ہوتی ہیں ۔نصاب اور نظام تعلیم جو کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے ،وہ بھی اکثر اسالمی
ممالک اپنی مرضی سے طے نہیں کرتے۔ بلکہ دوسروں کے منشاء اور مطالبے کے مطابق نصاب تعلیم تشکیل پاتا ہے ۔جس کا
خمیازہ قوموں کو سالہا سال تک بھگتنا پڑتا ہے۔۔
سیرت طیبہ کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے۔ کہ مسلمان حکمرانوں کے لئے بزدلی اور مرعوبیت زہر قاتل ہے۔ اور شجاعت اور
بہادری بنیادی صفت اور الزمی امر ہے۔ بزدل شخص کبھی بھی مسلمانوں کی حکمرانی اور قیادت کا اہل نہیں ہوسکتا۔ رسول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم کی تعلیمات سے اس کی وضاحت ملتی ہے۔ چنانچہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے دشمن کے مقابلے میں ثابت قدم
رہنے اور بہادری کے جوہر دکھانے کی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے۔
دشمن سے مقابلہ کی تمنا نہ کرو لیکن جب آمنا سامنا ہو جائے تو ثابت قدمی اختیار کرو ۔
رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم بذات خود مسلمانوں کے حکمران اور قائد تھے .اور آپ نے ہر موقع پر شجاعت اور بہادری کے
جوہر دکھائے۔ حضرت انس رضی ہللا تعالی عنہ فرماتے ہیں۔ کہ ایک رات اہل مدینہ کسی خطرے کی آواز سے گھبرا کر اس آواز
کی طرف نکلے تو دیکھا کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم حضرت ابو طلحہ رضی ہللا عنہ کے گھوڑے پر سوار گلے میں تلوار
لٹکائے خطرے کا جائزہ لے کر واپس تشریف ال رہے ہیں۔ اور فرما رہے ہیں گھبراؤ مت گھبراو مت۔
)صحیح البخاری باب الحمائل وتعليق السيف بالعنق رقم 2908ج 4ص(39
عالمہ ماوردی رحمتہ ہللا علیہ نے بھی مسلمانوں کی قیادت کو حکمرانی کی شرائط کے ضمن میں بہادری کو بطور خاص ذکر کیا
ہے۔ آپ رحمتہ ہللا علیہ فرماتے ہیں۔
) الماوردی ،ابو الحسن علي ابن محمد بن محمد المتوفی 450ھ ،االحكام السلطانيه،دارالحدیث القاھرہ ،س ن ص (19
حکمرانی کیلئے الزمی عمل شجاعت اور بہادری ہے جو ملک کی حفاظت اور دشمن کے خالف جہاد کا باعث ہے۔ اس شرط کی
اہمیت ہر زمانے میں رہی ہے۔ مگر عصر حاضر میں اس کے خطرناک اثرات کا مشاہدہ ہم اپنی آنکھوں سے کر رہے ہیں۔ یہی وجہ
ہے کہ بہت سے اسالمی ممالک کے سربراہان غیروں کی مرعوبیت کی وجہ سے راتوں رات اپنی پالیسی تبدیل کر دیتے ہیں۔
جن کے منفی اثرات سےبرسہابرس ملک و ملت چھٹکارہ نہیں پاتے۔ ہللا تعالی مسلم امت اور حکمرانوں اور قائدین کے دلوں میں
دینی حمیت و غیرت اور شجاعت و بہادری پیدا فرمائے ۔اور دشمنان ملک و ملت کے شرور سے امت مسلمہ کو محفوظ فرمائے۔
عصر حاضر میں مسلمان باہمی افتراق و انتشار کا شکار ہیں۔ ملکی مسلکی اور طبقاتی تقسیم کے نتیجے میں مسلمانوں کا شیرازہ
بکھر چکا ہے۔ کئی ممالک میں مسلمان آپس میں دست و گریباں ہیں۔ جس کی وجہ سے مسلمانوں کی اجتماعی قوت و طاقت کا نام و
نشان نظر نہیں آتا ۔حاالنکہ مسلمان حکمرانوں اور سیاستدانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پوری دنیا کے مسلمانوں کے اتفاق و اتحاد
کے لیے کردار ادا کریں ،اور انہیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کریں۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
امت مسلمہ کو جسد واحد قرار دیتے ہوئے ان کی خوشی و غمی کو ایک قرار دیا ہے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔
المؤمنون كرجل واحد ان اشتكى راسه تدعى له سائر الجسد بالحمى والسهر۔
القشري النيسابوری ابو الحسن مسلم بن الحجاج(المتوفی 261ھ )الجامع الصحیح للمسلم /المسند الصحيح المختصر من السنن بنقل (
العدل عن العدل عن رسول هللا صلى هللا عليه وسلم ،دار االخياء التراث العربي ،بيروت ،باب تراحم المؤمنين وتعاطفهم وتعاضدهم رقم
) ،2586ج 4ص2000
سارے مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں جب اس کے کسی ایک عضو کو تکلیف ہوتی ہے تو اس کا پورا جسم بے خوابی اور بخار
میں مبتال ہو جاتا ہے۔
ایک اور مقام پر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
المؤمن للمؤمن كالبنيان يشد بعضه بعضا
ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے عمارت کی اینٹ کی طرح ہے جو ایک دوسرے کی تقویت کا باعث ہوتے ہیں۔
رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے خود اپنی سیرت اور عمل سے مسلمانوں کے اتحاد و اتفاق کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائے
ہیں۔ اور ہر اس عمل سے مسلمانوں کو دور رہنے کی تلقین فرمائی جو مسلمانوں کے اتفاق میں مخل ہو۔ حضرت عائشہ صدیقہ
رضی ہللا تعالی عنہ فرماتی ہیں ،کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
.لوال حداثه عہد قومك بالكفر لنقضت الكعبه ولجعلتهاعلى اساس ابراهيم فان قريشا حين بنت البيت استقصرت ،ولجعلت لها خلفا
اگر آپ کی قوم کے کفر چھوڑنے کا عرصہ قریب نہ ہوتا (یعنی وہ قریب ہی اسالم الئے ہیں) تو میں خانہ کعبہ کو ڈھا کر حضرت
ابراہیم علیہ السالم کی بنیادوں پر بنا لیتا ۔کیونکہ قریش نے جب خانہ کعبہ کی تعمیر کی تو اخراجات کی کمی کے باعث پورا نہ بنا
سکے۔ اور میں پچھلی جانب سے اس کا دروازہ بنا لیتا۔
بیت ہللا کو حضرت ابراہیم علیہ السالم کی بنا کے مطابق اپنی اصل حالت پر تعمیر کرنا کتنا ہی اہم اور بڑی عبادت ہے ،مگر رسول
ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے صرف اس وجہ سے اس عمل کو ترک کیا کہ نو مسلموں میں افتراق و انتشار پیدا نہ ہو۔ اس سے معلوم
ہوا کہ مسلم حکمرانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ امت مسلمہ کی وحدت اور باہمی اتفاق و اتحاد کے لئے کاوشیں
کریں۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے جس طرح ساری دنیا کے مسلمانوں کو جسد واحد قرار دیا ہے ،اس کے مطابق حقیقی
معنوں میں اس امت کو یکجان بنانے کی کوشش کریں۔ اور اس کے لئے کسی بھی ممکنہ اقدام اور قربانی سے دریغ نہ کریں۔
اسالمی نقطہ نظر سے اصل تو یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایک ہی داراالسالم اور ایک ہی اسالمی ریاست ہو۔ تاکہ مسلمانوں کی
جامعیت اور قوت برقرار رہے۔ لیکن اس وقت دنیا میں 50سے زیادہ اسالمی ممالک موجود ہیں۔ اور موجودہ حاالت میں ان سب کو
ایک ہی ریاست بنانے میں باہمی جنگ و جدال اور خونریزی کا شدید اندیشہ ہے۔ اس لیے ہر اسالمی ریاست کا فرض ہے۔ کہ وہ
عالم اسالم کے اتحاد کو اولین ترجیحات میں شامل کرے۔ مسلمان ممالک کے ساتھ بہترین اور خوشگوار برادرانہ تعلقات کو اولیت
دے ۔اور پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک دوسرے کا حقیقی بھائی بنانے کی کوشش کرے۔ اس مقصد کے لیے ذاتی اور انفرادی
مادی مفادات سے باالتر ہوکر کوشش کرے ۔اور رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے ارشادات کے مطابق عالم اسالم کو ایک لڑی میں
پرونے کے لیے بھرپور اقدامات کرے۔
موجودہ زمانے میں مسلمانوں کے سیاسی مسائل اور المیوں میں سے ایک بنیادی مسئلہ ،عوام اور رعایا کی خیر خواہی کے فقدان کا
ہے۔ اکثر مسلم حکمرانوں کے معاملے میں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت کی روشنی میں سیاسی قائدین اور حکمرانوں کی
ذمہ داریوں میں اس امر کو بھی بنیادی حیثیت حاصل ہے ،کہ وہ اپنے ماتحتوں اور عوام کے ساتھ خیر خواہی اور بھالئی کا معاملہ
کریں گے ۔ان کے ساتھ حسن سلوک نرمی اور اچھائی کا معاملہ کریں گے۔ ان سے ہر قسم کے مصائب دور کرنے اور ہر ممکنہ
آرام و راحت پہنچانے کے لیے اقدامات کریں گے۔ سیرت طیبہ کی روشنی میں حکمرانوں کے ذمہ الزم ہے کہ کمزور طبقات،
خواتین ،معذورین ،یتیموں اور بے سہارا لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے مناسب انتظامات uکرے۔ رسول ہللا صلی ہللا
علیہ وسلم کی تعلیمات اور سیرت ،اس سلسلے میں مسلم قائدین کی بہترین رہنمائی کرتے ہیں۔اور انہیں عمل اور طرز حکمرانی
فراہم کرتے ہیں۔ اگر آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی ان ہدایات پر عمل کیا جائے تو نہ صرف یہ کہ ہمارے حکمران غیروں کے طرز
عمل اور طریقوں سے بے نیاز ہو جائیں گے ،بلکہ پوری دنیا کے لئے بہترین نمونہ اور آئیڈیل بھی بن جائیں گے۔ آپ صلی ہللا علیہ
وسلم کی والدت مبارکہ بیان کرتے ہوئے حضرت بریدہ رضی ہللا تعالی عنہ فرماتے ہیں۔
كان رسول هللا صلى هللا عليه وسلم اذا بعث اميرا على جيش اوصاه في حاصة نفسه بتقوى هللا ومن معه من المسلمين خيرا
)الجامع الترمذی رقم 1408ج 3ص 75بیروت(
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم جب کسی شخص کو کسی جماعت کا امیر سربراہ بنا کر بھیجتے تو اسے اپنی ذات کے متعلق تقوی
کی وصیت فرماتے ،اور دیگر مسلمانوں کے متعلق خیر خواہی اور بھالئی کی وصیت فرماتے ۔
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی اس مبارک عدت میں مسلمان سربراہوں کے لیے بہترین اُسوہ اور ہدایت کا سامان ہے۔ کہ انہیں
ٰ
تقوی اور خوف خدا اپنانے کے ساتھ اپنے ماتحتوں کے ساتھ خیر خواہی اور بھالئی کا معاملہ کرنا چاہیے۔ ابو مریم مجدی خود
رضی ہللا تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت معاویہ رضی ہللا تعالی عنہ کے پاس جا کر ان سے کہا کہ میں آپ کو ایک
حدیث سنانا چاہتا ہوں ،جو میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنی ہے ۔آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔
من من واله هللا عزوجل شيئا من امر المسلمين فاحتجب دون حاجتهم واخلتهم فقرهم احتجب هللا عنه دون حاجته وحلته و فقره ،قال فجعل
.رجال على حوائج الناس
جس شخص کو ہللا تعالی نے مسلمانوں کے امور کا نگران بنالیا۔ حکمران اور سربراہ بن گیا۔ اور اس نے ان کی حاجت پوری کرنے
اور فقر و فاقہ دور کرنے سے منہ موڑ لیا ،تو ہللا تعالی قیامت کے دن اس کی حاجت uروائی اور فکر دور کرنے سے منہ موڑ لے
گا۔یہ سن کر حضرت معاویہ رضی ہللا تعالی عنہ نے لوگوں کی حاجات uکے لیے ایک شخص کو مقرر کیا۔ حضرت معقل بن یسار
رضی ہللا تعالی عنہ نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا یہ ارشاد نقل کیا ہے ۔
.مامن رجل يسترعى راعيه حين يموت وهو غاش لرعيته اال حرم هللا عليه الجنه
جس شخص کو ہللا تعالی نے لوگوں کا نگہبان مقرر کیا ،اور اس کو اس حالت میں موت آگئی ،کہ وہ اپنی رعایا کو دھوکا دینے واال
ہو ،تو ہللا تعالی اس پر جنت حرام کر دے گا۔ اس کے عالوہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ظالمانہ ٹیکسوں اور عوام پر زیادہ
بوجھ ڈالنے سے منع فرمایا ہے ۔جو اس امر کی واضح دلیل ہے ،کہ حکمرانوں کے ذمہ الزم ہے ،کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ حسن
سلوک اور خیر خواہی کا معاملہ کریں ۔اور انہیں ہر ممکن آرام اور راحت پہنچانے کی کوشش کریں۔
انفرادی اور اجتماعی ترقی اور کامیابی کے لئے احتساب الزمی ہے ،اور ضروری عمل ہے۔ احتساب خواہ آدمی کا ہو ،یا عوام اور
جماعتوں میں ہر دو کے لیے ترقی کا زینہ ہے۔ مگر افسوس یہ ہے کہ آج کے دور میں نہ افراد کی توجہ خود احتسابی کی طرف
ہے ،اور نہ ہی حکمران سیاستدان احتساب uکے لیے تیار ہیں۔ جس کے نتیجے میں معاشرے میں رشوت ،کرپشن ،داواسی اور دھوکہ
دہی کا بازار گرم ہے۔ بلکہ جو ادارے ان جرائم کی روک تھام کے لئے وجود میں آتے ہیں ،وہ خود ان گھناؤنے جرائم میں مبتال
ہوتے ہیں۔
رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت سے اس معاملے uمیں بھی واضح رہنمائی ملتی ہے ۔کہ احتساب ملک و ملت کی ترقی میں
کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے خود بھی اس اصول پر عمل فرمایا ہے۔ اور مختلف گورنروں اور عاملین کا
احتساب فرمایا ہے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم خود بازار میں تشریف لے جاکر وہاں کے احوال دریافت uفرمایا کرتے تھے۔ اور
سرکار دو عالم صلی ہللا علیہ وسلم نے گلے کے ایک ڈھیر کے پاس سے
ِ لوگوں کا احتساب فرماتے تھے۔ چنانچہ ایک مرتبہ
ُ
گزرتے ہوئے اس میں اپنا ہاتھ مبارک ڈال دیا ۔تو ہاتھ کے ساتھ کچھ نمی سی لگ گئی۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے غلہ کے مالک
سے پوچھا یہ کیا ہے؟ اس نے جواب دیا اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم یہ بارش سے بھیگ گیا ہے۔ اس پر رسول ہللا صلی
ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
افال جعلته فوق الطعام كي يراه الناس من غش فليس مني
آپ نے اس کو گلے کے اوپر کیوں نہ رکھا ،کہ لوگ اس کو دیکھ لیتے۔ جس نے مالوٹ کی وہ مجھ سے نہیں ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ
وسلم کے بعد حضرات خلفائے راشدین رضی ہللا تعالی عنہم کے دور میں بھی اجتماعی اور انفرادی احتساب کا سلسلہ برقرار تھا۔
جس کی بنا پر معاشرے میں امن اور سکون اور محبت اور بھائی چارے کی فضا قائم تھی۔ جو یہ سلسلہ کمزور ہوتا گیا ،معاشرےu
میں جرائم کی شرح میں اضافہ ہوتا گیا۔ اور معاشرے سے امن وامان رخصت ہونے لگے۔ اس لئے آج کے دور میں خود احتسابی
کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اور حکومت کی یہ بھی ذمہ داری ہے کہ یہ احتساب کے لیے شفاف اور منصفانہ اور معیاری نظام
بنائے۔ تاکہ جرائم پیشہ عناصر کا خاتمہ ہو سکے اور مثالی معاشرے کا قیام عمل میں الیا جا سکے۔
قانون کی باالدستی کے بغیر کوئی بھی معاشرہ uپائیدار امن اور سکون کا گہوارہ نہیں بن سکتا ۔ جن معاشروں میں قانون کی پاسداری
کی جاتی ہے ،وہاں جرائم اور فسادات uانتہائی کم مقدار میں ہوتے ہیں۔ اسالم کو اس معاملے میں امتیازی مقام حاصل ہے۔ کہ اسالم
نے قانون کے سامنے uآقا غالم حکمران اور رعایا امیروغریب میں کوئی فرق نہیں کیا۔ بلکہ سب کو مساوی قرار دیتے ہوئے قانون
کو سب پر الگو کیا ہے۔ تاکہ حقیقی انصاف قائم ہو سکے۔ اور بااثر شخصیات کی باالدستی کا خاتمہ ہو سکے ۔موجودہ زمانے میں
اکثر ممالک میں امتیازی قوانین پائے جاتے ہیں۔ یا قانون کا استعمال اور اخالق امتیازی طور پر کیا جاتا ہے۔ ایسا بہت کم سننے اور
دیکھنے میں ملتا ہے کہ حکمران اور عوام قانون کے سامنے یکساں ہوں۔ اور ان کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کیا جائے ۔حاالنکہ رسول
ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تعلیمات اور ہدایات میں اس بارے میں واضح الئحہ عمل پایا
جاتا ہے ۔کہ قانون کی نظر میں تمام افراد و طبقات مساوی ہیں۔ کسی کو کسی دوسرے پر ادنی فوقیت اور برتری بھی حاصل نہیں
ہے۔ اسالم نے حقیقی انصاف اور قانون کی نظر میں سب کے برابر ہونے کی تعلیم دی ہے۔ بارخالفت اٹھانے کے بعد حضرت
عنہ نے اپنے اولین دور خالفت میں فرمایا تھا۔
ابوبکر صدیق رضی ہللا ٗ
ايها الناس ان اكيس الكيس التقي وان احمتي الحمق الفجور وان اقواکم عندي الضعىف حتى احذ له بحقه ،وان اضعفكم عندي القوى حتى
اخذ الحق منه
اے لوگو سب سے بڑی سمجھداری تقوی ہے۔ اور بڑی نادانی گناہ کا کام ہے۔ تو میں جو ضعیف ہے وہ میرے نزدیک قوی ہے۔ یہاں
تک کہ اس کا حق دلوا دوں۔ اور کوئی ضعیف ہے ،یہاں تک کہ اس سے غریب کا حق لے لوں۔ کیا دور حاضر میں ہمیں ایسی قیادت
مل سکتی ہے؟ جو حضرت صدیق اکبر جیسا نصب العین اور روشن فکر کا حامل ہو .یقینا مشکل بلکہ ناممکن ہے۔ لہذا ضرورت اس
امر کی ہے کہ حق گوئی کو عادت بالتفریق عوام کی خدمت کو اپنا شعار بنائے۔ امراء کو نوازنے اور غرباء کو مزید غربت کی
چکی میں پیسنے کا جو رواج ہمارے ہاں عام ہے ،اسے یکسر بدل دے۔ اور ذمہ داری کے احساس کے تحت اپنی خدمت سرانجام
دے۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی سیرت سے قانون کی پاسداری کا درس دیتے ہوئے ارشاد فرمایا ۔
انما اهلك الذين قبلكم انهم كانوا اذا سرق فيهم الشريف تركوه واذا سرق فيهم الضعيف اقاموا عليه الحد وايم هللا لو ان فاطمه بنت محمد
صلى هللا عليه و سلم سرقت لقطعت يدها۔
جو لوگ تم سے پہلے گزرے ہیں۔ انہیں اس چیز نے ہالک کیا کہ جب ان میں سے کوئی بڑا آدمی جرم کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے۔
اور جب کوئی کمزور چوری کرتا تو اس پر سزا جاری کر دیتےتھے ۔ہللا تعالی کی قسم اگر محمد صلی ہللا علیہ وسلم کی بیٹی فاطمہ
بھی چوری کرے گی تو میں اس کا ہاتھ بھی ضرور کاٹوں گا ۔یہ وہ مثال انصاف اور قانون کا یکساں اطالق ہے۔ جو معاشرے میں
امن اور سکون اور حکومت پر لوگوں کے اعتماد کا اظہار ہے۔ جس ملک میں انصاف ہوگا وہاں ترقی خوشحالی اور برکتوں اور
رحمتوں کا دور دورہ ہوگا ۔حضرات خلفائے راشدین اور بعد کے بہت سے مسلمان حکمرانوں نے اس کی عملی مثالیں پیش کی ہیں۔
جس میں نہ صرف اسالمی حکومت کے سربراہ کو قاضی کے سامنے پیش ہونا پڑا بلکہ کہیں دفعہ ان کے خالف فیصلے بھی کیے
گئے۔ حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ جس وقت امیر المومنین تھے۔ اس وقت قاضی شریح نے حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ
کے خالف ایک یہودی کے حق میں فیصلہ دیا ۔حضرت علی کی ایک ذرہ گم ہو گئی تھی ،آپ نے ایک یہودی کے پاس دیکھی ،جو
اسے بیچنا چاہا تھا۔ حضرت علی نے فرمایا کہ یہ ذرہ میری ہے تو یہودی نے انکار کیا اور کہا کہ یہ میرے قبضے میں ہے اور
میری ملکیت ہے۔ چنانچہ معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔ قاضی شریح نے حضرت علی سے گواہ مانگے ،حضرت علی
رضی ہللا تعالی عنہ نے ایک گواہ قمبر کو پیش کیا اور دوسرے گواہ کے طور پر اپنے بیٹے کو پیش کیا۔ قاضی شریح نے فرمایا کہ
بیٹے کی گواہی باپ کے حق میں قبول نہیں ہے ۔ چنانچہ آپ رحمتہ ہللا علیہ نے یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا۔ یہ فیصلہ سن کر
وہ یہودی اسی وقت مسلمان ہوا۔
آج کے حکمرانوں کا طرز عمل یہ ہے۔ کہ وہ حکمرانی یا کسی عہدے کو غنیمت شمار کرتے ہیں۔ اور یہی سوچتے ہیں کہ انہی
دنوں میں کہیں سالوں کے لئے دولت جمع کر لیں۔ مال کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی قیادت حکمرانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے،
اور تحائف بھی وصول کرتے ہیں ۔اور اسے اپنا حق تصور کرتے ہیں۔ جو کسی بھی ریاست کے حکمران کے شایان شان نہیں۔ یہاں
یہ بات ذہن نشین ہو کہ جہاں بھی غربت اور فقر آجائے نابودی بھی حتمی ہے۔ اور معاشرے uمیں اس وقت موت آتی ہے جب
حکمران دولت جمع کرنے میں لگ جائیں اور اپنی قیادت uاور کرسی کے جانے کا خوف پیدا ہو جائے۔ اسالمی ریاست کی قیادت کے
لیے یہ حکم ہے ،کہ نہ صرف خود سرمایہ ذخیرہ کرنے سے اپنے آپ کو بچائے رکھے ،بلکہ قیادت ریاست کے دیگر تمام ذمہ دار
افسران اور مالزمین کے طرز عمل اور کردار کی کڑی نگرانی کرے۔ اور ان کے اثاثوں کا جائزہ لیتے رہنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ
قیادت سے لے کر دربان اور چوکیدار تک سب بے لگام رہیں ۔اور جس کا جو جی چاہے کرپشن کرنے لگے۔ اس کی عملی مثال آج
کے دور میں ہمارے سامنے ہمارا ملک ہے ۔جس میں قیادت سے لے کرعوام تک سب دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار میں ملوث ہیں۔
جس کی بنا پر کوئی پانامہ کا شکار ہوتا ہے ،تو کوئی کرپشن کی بنا پر حکمرانی سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔ حاالنکہ اسالمی ہدایات
سراسر موجودہ دور کی رو سے مختلف ہیں۔ فرائض احتساب میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا سب سے بڑا فرض عمال کا محاسبہ
تھا ۔یعنی جب عمال زکوۃ اور صدقہ وصول کر کے آتے تھے۔ تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم اس غرض سے اس کا جائزہ لیتے تھے۔ کہ
انہوں نے کوئی ناجائز طریقہ تو اختیار نہیں کیا ہے۔چنانچہ ایک بار آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ابن التبیہ کو صدقہ وصول کرنے
کے لئے مامور فرمایا وہ اپنی خدمت انجام دے کر واپس آئے اور اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے ان کا جائزہ لیا۔ تو انہوں نے کہا کہ
یہ مال مسلمانوں کا ہے اور یہ مجھ کو ہدیہ پر مال ہے آپ نے فرمایا کہ گھر بیٹھے تم کو یہ ہدیہ کیوں نہیں مال۔ اس کے بعد آپ
صلی ہللا علیہ وسلم نے ایک خطبہ دیا جس میں اس کی سخت ممانعت uفرمائی۔
مسلمانوں کی دنیا و آخرت کی مکمل کامیابی و کامرانی دینی تعلیمات پر ان کی روح کے مطابق عمل کرنے میں ہے ۔جب تک
مسلمان زندگی کے ہر شعبے میں دینی تعلیمات پر عمل پیرا نہ ھوں اس وقت تک دنیا میں پوری طرح کامیاب نہیں ہو سکتے ہیں۔
اور نہ ہی آخرت میں سرخرو اور نجات کے مستحق بن سکتے ہیں۔ عصر حاضر میں جہاں عوام دینی تعلیمات سے روگردانی کر
کے اپنی خواہشات uپر عمل پیرا ہیں۔ ان سے کہیں زیادہ حکمران طبقہ دینی تعلیمات کو پس پشت ڈال چکا ہے۔ بلکہ اکثر اسالمی
ممالک کے سربراہان تو اس کو نہ کوئی کام سمجھتے ہیں اور نہ ہی ریاستی معامالت میں اسالمی احکام کی پاسداری کو الزمی اور
ضروری سمجھتے uہیں ۔چنانچہ بہت سے اسالمی ممالک میں ایسے قانون رائج ہیں ۔جو اسالمی تعلیمات کے یکسر مخالف ہیں ۔اور
مزید اس طرح کی قانون سازی ہوتی رہتی ہے۔ حاالنکہ مسلمان حکمرانوں اور اس میں یہ شامل ہے کہ وہ اسالمی تعلیمات کے
خالف نہ کوئی قانون بنائیں گے ،اور نہ ہی الگو کریں گے۔ ان کا ہر فیصلہ ہر کام شریعت مطہرہ کی روشنی میں ہونا ضروری ہے۔
ریاستی سطح پر دینی تعلیمات سے دوری کے نتیجے میں مسلمان طرح طرح کے مسائل و مصائب سے دوچار ہیں۔ جن کی
پیشنگوئی رسول اکرم صلی ہللا علیہ وسلم پہلے ہی کر چکے ہیں۔آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔
لتامرن بالمعروف ولتنهون عن المنكر او ليوشكن هللا ان يبعث عليكم عقابا منه ،ثم تدعونه فال يستجيب لكم۔
آپ لوگ ضرور نیک کام کا حکم کرو گے۔ اور برے کاموں سے روکو گے۔ ورنہ عنقریب ہللا تعالی آپ پر اپنی طرف سے عذاب
نازل فرما لے گا۔ پھر تم اس کو پکارو گے تو وہ آپ کی پکار نہیں سنے گا ۔امر بالمعروف اور نہی عن المنکر حسن حکومت اور
ریاست کی ذمہ داری ہے۔ مگر افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ آج اسالمی ممالک کے سربراہان بہت سے معامالت uمیں ایسا کرتے
ہیں جو خود منکر اور ناجائز ہوتے ہیں۔ دوسروں کو منکرات سے روکنا تو بہت دور کی بات ہے۔ جس کے نتیجے میں امت مسلمہ
طرح طرح کے مسائل اور مصائب کا شکار ہے۔ لہذا مسلمان حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ ہللا تعالی کی گرفت سے اپنے آپ کو
بچانے کے لیے کوئی ایسا حکم اور فیصلہ صادر نہ کریں جس میں حکم الہی کی نافرمانی اور خالف ورزی ہو۔ یہ چند مسائل
مختصرا ذکر کیے گئے ورنہ مسلمانوں کی حالت اور بھی بہت زیادہ خراب ہے جن کا تذکرہ باعث طوالت ہے ۔
:نتائج بحث
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سیرت طیبہ اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تعلیمات زندگی کے ہر شعبے میں مسلمانوں کو 1
بہترین الئحہ عمل فراہم کرتی ہیں۔
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے زندگی کے دیگر شعبوں کی طرح سیاست uاور حکمرانی کیلئے بھی ہدایات اور نظریات عطا 2
فرمائے ہیں۔ جن پر عمل کرنے سے امت مسلمہ دوبارہ ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن ہو سکتی ہے۔
قرآن اور سنت کی روشنی میں مسلمانوں کے غلبہ اور ترقی کے لئے سب سے بنیادی امر دینی تعلیمات کی پیروی اور مسلمانوں 3
کا باہمی اتفاق و اتحاد ہے ۔جس کے لیے کوشش کرنا اور کردار ادا کرنا مسلم حکمرانوں کی ذمہ داری ہے۔
تعلیمات نبوی صلی ہللا علیہ وسلم حکمرانوں کو اتحاد و اتفاق عوام کی حاجت روائی و دستگیری قانون کی پاسداری اور باالدستی 5
خود احتسابی اور انفرادی اور اجتماعی احتساب جیسے سنہری اصول فراہم کرتی ہے۔
مذکورہ باال تمام شرائط عوام الناس کے اندر اور حکمران طبقہ کے اندر اہل تصوف کی صحبت اور ان کی نظر اور نگاہ اور ان کی
پاکیزہ اسالمی اور روحانی تربیت کے ذریعے سے ہی پیدا کی جا سکتی ہیں۔ تا کہ اُن کے اندر دینداری کا جذبہ پروان چڑھے۔ اور
حکمران طبقہ بھی اپنی زندگی کو اسالمی اصول کے مطابق بنا لے۔ اہل تصوف اور صوفیاء اور مشائخ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ
وہ عوام الناس کی اصالح اور تربیت کریں۔ اور اتنی شفقت اور مہربانی فرمائیں کہ ہر چھوٹے سے چھوٹے اور بڑے سے بڑے فرد
کی روحانی اور دینی تربیت احکام رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے مطابق مکمل ہو جائے ۔اور دونوں طرف کے چاہے حکمران ہوں
یا چاہے عوام ہوں ان کے اندر دین کی محبت ،مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم کی محبت ،خدا کی محبت اور دین اسالم پر پابندی سے
عمل کا جذبہ اور جذبہ اطاعت و فرماں برداری ،اس طرح بیدار ہوجائے کہ جس طرح اہل تصوف کے خلفاء اور انکے مریدین میں
اور ان کی صحبت اختیار کرنے والوں میں پیدا ہو جاتا ہے۔ جب یہ صورتحال پیدا ہوجائے گی۔ چھوٹا ،بڑا ،امیر ،غریب سارے
محبت خدا سے اور محبت مصطفی سے سرشار ہو جائیں گے ،اور دین اسالم کا اور اطاعت خداوندی کا جذبہ ان کے دل اور روح
میں پیوست ہو جائے گا۔ اور جب یہ اسالمی اقدار پروان چڑھیں گی تو ہر طرف سیاسی اعتبار سے بھی اور نجی اعتبار سے بھی ہر
لحاظ سے معاشرہ u،قوم و ملک اور ریاست مضبوط ہوجائے گی۔ اور دنیا میں مسلمان عزت اور خوشگوار زندگی گزارنے کے قابل
ہو جائیں گے۔ اس لیے آج کے ماحول اور آج کے سیاسی عمل سب کو بہتر کرنے کے لئے صوفیاء اور اہل تصوف کا جو پیغام
ہے،ہللا کی محبت اور ہللا ہی کی محبت کی خاطر تمام مخلوق سے محبت اور امیر غریب کے امتیازات کو ختم کرنا ،اور سب کو
بھائی بھائی تصور کرنا ،اور سب کو یکساں حقوق فراہم کرنا ،یہ صرف اہل تصوف کی تعلیم اور ان کی صحبت سے ہی میسر
آسکتا ہے ۔اس لئے آج ہمارے سیاستدانوں کو صوفیاء کی صحبت اختیار کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اور ہماری عوام کو بھی
صوفیہ کی مجالس اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ ان کی ثابت قدمی اور ان کی روحانی تربیت کی برکت سے ہمارے سیاسی
حاالت بھی بہتر اور مضبوط ہو جائیں۔ اور ہمارا ملک ،قوم ،ملت اور ریاست دنیا کے اندر باوقار زندگی گزارنے کے قابل ہو جائے۔
کیونکہ ایک باوقار اور عزت والی زندگی گزارنے کے لیے بحیثیت قوم مصطفی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا
ہونا بہت ہی ضروری امر ہے۔ اور اس عمل کو عوام کی زندگیوں میں منتقل کرنے کے لئے صوفیاء کی صحبت اور انکی نظر و
نگاہ کا ایک بہت بڑا یہ کردار ہے۔ کہ جس کے ذریعے سے انہوں نے برصغیر پاک و ہند میں انسانوں کی تقدیر کو ہللا کی عطا سے
بدل ڈاال ۔اور مسلمانوں کو ایک جدوجہد فراہم کی۔ اور ایک نظریہ فراہم کیا جس کی بنیاد پر آج مسلمان ایک آزاد قوم کی حیثیت سے
زندگی بسر کر رہے ہیں۔ آج بھی اسی پیغام کو اجاگر کرنے کی ضرورت ہے ۔آج بھی اسی روحانیت اور اہل تصوف کی مجالس کو
اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ تاکہ آج کے ماحول اور معاشرے کے اندر بھی ہمارا سیاسی نظام مصطفی کریم صلی ہللا علیہ وسلم
کی تعلیمات کے مطابق ہو کر تمام غیر اسالمی طبقات پر غالب آجائے ۔ ہرطرف اسالم کا غلبہ ہو ۔آج اگر ہم ان امور پر عمل پیرا
ہوجائیں تو کچھ بعید نہیں کہ آج بھی دنیا کے اندر ہمیں وہ مقام حاصل ہو سکتا ہے جو ہمارے سلف صالحین کو حاصل ہوا تھا ۔ہللا
کی ذات ہمیں توفیق عطا فرمائے۔آمین
_____________________________________________________________________________________
________
:باب سوم
:فصل دوم
صوفیا کی جماعت uبیدار افراد کی جماعت ہے۔ یہ ان لوگوں کی جماعت ہے ۔جنہوں نے اپنے خالق و مالک کو پہچاننے کی کوشش
کی ۔اور تمام انسانوں کو اس کے عرفان کی طرف بالیا۔ انہوں نے زندگی اور زندگی کے مقصد کو پہچانا ۔اور دوسروں کو بھی اس
کی دعوت دی ۔ کیونکہ ہم مقصد زندگی سے غافل ہیں۔ لیکن صوفیاء کی تعلیمات میں آج بھی وہ طاقت ہے ۔جو ہمارے اندر بیداری
کی روح پھونک سکتی ہے۔ خوابیدہ انسانیت کو جگا سکتی ہے۔ سونے والے غافل انسانوں کو خواب غفلت سے بیدار کر سکتی ہے۔
ہمارے دور میں مسائل کی بھرمار ہے۔ مگر تصوف میں تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ آج جن مسائل سے دنیا دو چار ہے۔ ان میں
سب سے اہم سیاسی جبر ،سماجی تشدد ،باہمی منافرت ،دہشت گردی ،عدم مساوات ،دولت اور انسانی وسائل کی نام منصفانہ تقسیم،
اخالقی خرابیاں اور ان کے دم سے پیدا ہونے والے مسائل ہیں۔ تصوف کی یہ خوبی ہے کہ یہ ہر عہد کے مسائل کا حل پیش کرتا
ہے۔ یہ افراد اور قوم دونوں کے مسائل حل کرنے کی صالحیت رکھتا ہے۔ مثال کے طور پر دور جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ
کشمیر کو دیکھ سکتے ہیں۔ یہ تغلق عہد تک پسماندہ عالقہ تھا۔ اس کی پسماندگی صرف معاشیات uتک محدود نہیں تھی۔ بلکہ یہ
مذہبی سماجی علمی اور فکری اعتبار سے بھی ایک پسماندہ خطہ تھا۔ شرک و بت پرستی عام تھی ۔جس کے سبب خدا کے سوا سب
کا خوف انسان کے دل میں موجود تھا۔ دریا کی روانی ،موجوں کی طغیانی ،پہاڑوں کی بلندی پتھروں کی سختی ،درختوں کی
وحدہ
ٗ ہریالی ،پودوں کی شادبی سب اس کے جبین شوق مسجود تھے ۔اگر کوئی ذات ان کے جذبہ عبودیت سے دور تھی۔ تو وہ خدا
الشریک کی ذات تھی۔ آدمی آدمی کے ظلم سے پریشان تھا۔ اور آواز اٹھانے کے ہمت سے بھی محروم تھا ۔یہاں ہر ظالمانہ رسم عام
تھی ۔صنعت و حرفت جو اب اس وادی کی پہچان بن چکے ہیں۔ ان کا نام و نشان تک نہ تھا۔ ایسے میں ایک خدا رسیدہ صوفی
حضرت شرف الدین لعل شاہ رحمۃ ہللا علیہ کے قدم اس سر زمین پر پڑے ۔وادی کی فضا نعرہ توحید سے گونج اٹھی ۔معرفت سے
دلوں کے چراغ جل اٹھے ۔اور رشد و ہدایت کی روشنی نے جہالت و جاہلیت کے اندھیروں کو دور کردیا۔ حضرت شاہ ہمدان سید
علی ہمدانی نے سات سو بیدار انسانوں کے قافلے کے ساتھ وادی میں قدم رکھا۔ اچانک ماحول بدلنے لگا ۔خوابیدہ انسانیت انگڑائیاں
لے کر بیدار ہونے لگی۔ جو خود جاگ اٹھے انہوں نے دوسروں کو بھی جگایا ۔اور دیکھتے ہی دیکھتے پورا سماج جاگ اٹھا ۔
معاشرہ بیدار ہو گیا انسانوں کو اب اپنے مسائل نظر آنے لگے۔ اور ان کے حل بھی سمجھ uمیں آنے لگے۔ کیونکہ تصوف دنیا کے ہر
مسئلے کا حل پیش کرتا ہے۔
تصوف کو آج ایک قصہ پارینہ کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ماضی کی داستان سمجھا uجاتا ہے۔ اسے بس کتابوں کی بات سمجھا uجاتا
ہے۔ جو عملی طور پر ممکن نہیں۔ پریکٹیکل میں اسے برتا نہیں جا سکتا۔ حاالنکہ یہ خیال سراسر غلط ہے ۔اور ہماری العلمی کا
نتیجہ ہے۔تصوف کی معنویت آج بھی باقی ہے۔ اسے سمجھنے uکی ضرورت ہے۔ اسے کتابوں سے باہر نکالنے کی ضرورت ہے۔
تقریبا ایک ہزار سال تک تصوف عالم اسالم کے نصاب تعلیم کا حصہ رہا ہے ۔تب انسانی اخالقیات پر اس کا زبردست اثر بھی مرتب
ہوتا تھا ۔مگر رفتہ رفتہ اسے نہ صرف نصاب تعلیم سے الگ کیا گیا۔ بلکہ اس کے اثرات کو ذہنوں سے بھی کھرچ کر مٹا دینے کی
کوشش شروع ہوئی ۔اس کو تو چھوڑیئے مدرسوں نے بھی اسے اپنے نصاب میں شامل کرنے سے انکار کر دیا۔ جو علم ایک ہزار
سال تک اسالم کی روشنی پھیالتا رہا ۔ شرک کے اندھیرے دور کرتا رہا ۔الکھوں کروڑوں ظلمت کے شکار دلوں کو توحید کے نور
سے منور کرتا رہا۔ وہی اچانک شرک قرار پایا۔صوفیہ ہی تھے جن کے دم قدم سے برصغیر میں اسالم کا آفاقی پیغام پھیال ۔مگر
انہیں شرک و بدعت قرار دیا گیا ۔جن لوگوں نے صوفیہ کے دست حق پرست پر اسالم قبول کیا تھا۔ انہی کی اوالد نے اپنے محسنوں
کو بدعت قرار دیا۔ یہ ستم اگر یہیں تک محدود رہتا تو بھی ایک بات تھی۔ تصوف پرایک بڑا ظلم خود تصوف کے نام پر ہوا ۔صوفیہ
کے نام لیواؤں نے کیا ۔جنہوں نے اسے روزگار کا ذریعہ بنایا اور اسے بد نام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔مزارات اولیاء جو
الکھوں خوش عقیدہ دلوں کے مرکز تھے انہیں مادہ پرست عناصر نے اپنی کالی کمائی کا ذریعہ بنایا ۔آج مزارات اولیاء کے ایسے
خدام بھی ہیں۔ جن پر غنڈہ گردی اور قتل کے مقدمات uچل رہے ہیں ۔ان کے عالوہ وہ دنیا دار پیر بھی تصوف کی تجارت میں پیش
پیش ہیں۔ جو تصوف کی ت سے بھی واقف نہیں مگر پیری مریدی کی دکان کھول بھول بھالے عوام کو ٹھگ رہے ہیں۔خانقاہیں جہاں
دلوں کو پاکیزگی بخشی جاتی تھی اور بڑے بڑے دنیا دار بھی آکر مادہ پرستی کے کثافت uسے پاک ہو جاتے تھے۔ اب صرف مالی
منفعت کے لیے قائم ہو رہی ہیں۔ اور اسی لیے سجادہ نشینی کی جنگوں کی آماجگاہ بھی ہیں۔ ان کی حیثیت اب شوروموں سے زیادہ
نہیں رہی۔
تصوف جو ایک خالص روحانی تحریک تھی۔ اسے ایک صنعت کا روپ دے دیا گیا ۔مغرب جو ہر جگہ دولت کمانے کے راستے
تالش کرتا ہے اس نے اس سے اکتساب زر کے مختلف طریقے ڈھونڈ لیے ہیں۔ صوفیانہ گانے گائے جارہے ہیں تو کہیں ُکچھ ہو تھا
ہے۔ فیشن شو ہو رہے ہیں ۔تو کہیں کسی اور طریقے سے تصوف کے نام کوبدنام کرنے کی کوششیں ہورہی ہے۔ ان سوقیانہ افعال کا
صوفیانہ اعمال سے کیا تعلق؟ آج تصوف کی اصل تعلیمات خرافات میں گم ہوتی جا رہی ہیں ۔لہذا اس کی شدید ضرورت ہے کہ
لوگوں کو حقیقی تصوف سے آگاہ کیا جائے۔ اور اس کی معنویت کو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق پیش کیا جائے۔
خوشی کی بات یہ ہے کہ آج کے مشینی دور میں انسان ایک بار پھر تصوف اور روحانیت کی طرف دھیرے دھیرے لوٹ رہا ہے ۔
آج کی دنیا انسان کو سب ُک چھ دے سکتی ہے۔ مگر ذہنی اور قلبی سکون نہیں دے سکتی۔ قلبی سکون تو اسے تصوف ہی دے سکتا
ہے ۔خصوصی طور پر ہم نے تصوف میں غیر مسلم بھائیوں کی گہری دلچسپی محسوس کی ہے ۔وہ خواجہ معین الدین چشتی قطب
یحیی منیری ،مخدوم اشرف
ٰ الدین بختیار کاکی ،نظام الدین اولیاء ،نصیر الدین چراغ دہلی ،بندہ نواز گیسو دراز مخدوم شرف الدین
جہانگیر اور دیگر بزرگوں کے آستانوں پر آتے ہیں۔ مگر انہیں ان پیغامات کی جانکاری نہیں مل پاتی۔ کہ وہ ان صوفیاء کی تعلیمات
سے آگاہی چاہتے ہیں۔ ان کے اندر ایک بے قراری موجود ہے مگر اسے قرار دینے والے نہیں۔ تصوف میں وہ طاقت ہے کہ اگر
اسے صحیح صورت میں دنیا کے سامنے پیش کر دیا جائے ۔تو کوئی بھی اس کے اثر سے بچ نہ پائے۔
اسالمی تاریخ کے ایک ہزار سال سے زیادہ تصوف کے ہیں۔ اس دور میں اسے خوب پذیرائی حاصل ہوئی اور تصوف کو ساری
دنیا میں پھیلنے کا موقع مال۔ اس دوران یہ پورے عالم اسالم کے نصاب تعلیم کا سب سے اہم حصہ رہا۔ پورے عالم اسالم میں اس
کی درس و تدریس ہوتی رہی ۔کتابیں لکھی جاتی رہیں۔ تحقیق و تدوین کا کام ہوتا رہا اور تحریر و تقریر اور تبلیغ کے ذریعہ اس کی
اشاعت ہوتی رہی۔ اس کی اشاعت کا سب سے بڑا کارنامہ خود صوفیہ کرام نے اپنے کردار اور عمل سے انجام دیا ۔تصوف میں جو
جذب و کشش ہے اس نے ایک عالم کو گرویدہ کیا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ تقریبا دو صدی قبل پہلی بار تصوف کی مخالفت خود
مسلمانوں کے ایک حلقے میں شروع ہوئی۔ جو آج تک جاری ہے ۔اس تحریک نے عوام و خواص میں تصوف کے تعلق سے کہیں
غلط فہمیاں پیدا کیں۔ دوسری طرف خود تصوف کے نام لیواؤں کے کردار اور عمل نے بھی کچھ غلط پیغام لوگوں میں عام کیے ۔
تصوف کو جتنا نقصان اس کے مخالفین نے پہنچایا اس سے زیادہ اس کے نادان دوستوں نے پہنچایا ۔
آج کے سماج کو تصوف کی زیادہ ضرورت ہے ۔کیونکہ آج کی دنیا بہت سے مسائل سے دوچار ہے ۔اور اس کا سب سے بڑا سبب
یہی ہے کہ ہم اپنے مرکز کی طرف پیش پیٹھ کیے ہوئے ہیں۔ ہم اپنی پرچھائیوں سے اُلجھ رہے ہیں ۔ ہماری نگاہوں سے حقانیت کے
اجالےپوشیدہ ہیں۔ تمام مسائل کا حل صرف ایک ہے کہ ہم اپنے مرکز کی طرف پیٹھ کے بجائے چہرہ کرلیں۔ جیسا کہ حضرات
صوفیائے کرام نے کیا۔ حق اور باطل اس دنیا کی سچائی ہے۔ اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔حق کو پانے کے لئے اس کی طرف
رخ ہونا ضروری ہے۔ اگر انسان کو اندھیرے کی عادت پڑ جائے تو اسے اندھیرے میں ہی رہنا اچھا لگتا ہے ۔وہ اجالے سے بھاگنے
لگتا ہے۔ مثال کے طور پر سویت یونین میں تقریبا ستر سال تک لوگوں کو یہ سمجھانے کی کوشش کی گئی کہ اس دنیا کا کوئی
بنانے واال نہیں۔ یہ خود بخود وجود میں آگئی ہے۔ اس کے نظام کو چالنے واال بھی کوئی نہیں ۔خود بخود یہاں سے کچھ ہو رہا ہے۔
سورج ،چاند ،ستارے ،سیارے ،اپنے آپ ہی اپنے محور میں رواں دواں ہیں۔ خدا اور رسول ،جنت اور دوزخ ،عذاب اور ثواب ،کا
کوئی وجود نہیں ۔یہ سب انسانی وہم ہے۔ مذہب تو افیم کی گولی ہے جو انسان کے ذہن کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے۔ 70سال میں
کروڑوں لوگ اس بات سے متفق ہوگئے۔ انہوں نے مان لیا اس نظام کائنات کو چالنے واال کوئی نہیں۔ سچ پوچھو تو یہ ان لوگوں کی
جماعت تھی۔ جو اجالے سے کوسوں دور ہوگئے تھے۔ جو ظلمت کے عادی ہوگئے تھے۔ جن کی نگاہ حقانیت کے اجالوں کو
دیکھنے کی تاب نہیں ال سکتی تھی ۔ستر سال تک انہیں اندھیرے میں رکھا گیا تھا۔ حاالنکہ یہ وہی سرزمین تھی جہاں سے کبھی
روحانیت کا سورج طلوع ہوا تھا۔ جس کی مٹی سے بڑے بڑے صوفیاء و اولیاء و علماء و مفسرین اور محدثین کا خمیر اٹھا تھا۔ اس
سرزمین کوکسی دور میں مرکزی علوم ربانی ہونے کا شرف حاصل تھا۔ اگر انسان کے روح کو مرکز کی طرف سے پھیر دیا جائے
۔تو یہی ہوتا ہے کہ وہ سچائی سے دور ہو جاتا ہے۔
ہم بھی ایک اندھیرے میں مبتال ہیں۔ گویا یہ اندھیرا سویت یونین کے کمیونسٹ اندھیرے جیسا نہیں۔ مگر ہے بہرحال اندھیرا ۔ہم اندر
کے اندھیرے میں گرفتار ہیں۔ جو ایک روپے کی موم بتی سے دور نہیں ہوتا۔ مذہب پر ایمانداری سے عمل انسان کو دنیا و آخرت
کی بے پناہ مسرتوں سے ہمکنار کرتا ہے۔ اس دنیا میں سب سے خوش وہی تھے جنہوں نے سچے مذہب کو اپنایا۔ یہ مذہب خدا کی
معرفت uکا تھا۔ جنہوں نے اپنایا ان پر اُن پر مسرتوں کی بارش ہوئی۔ ہر طرح کے مسائل سے بے نیاز ہو گئے۔ دنیا کے لئے مشعل
راہ بنے۔ گو آج ہمیں ایسے لوگ نظر نہیں آتے مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہللا کی یہ کائنات اس کے نیک بندوں سے خالی
ہے۔ ویسے صوفیہ کی کتابیں ان کے ملفوظات ومکتوبات اور ان کے نشانات قدم آج بھی انسانیت کی رہنمائی کے لئے کافی ہیں۔ آج
دنیا کے سامنے بے شمار مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ڈھونڈا جائے تو ان مسائل کا حل تصوف کے نظریات کی روشنی میں مل
جائے گا۔
اگر ہم اپنے مسائل کا حل چاہتے ہیں تو ہمیں سچا مذہبی بننا ہوگا۔ زبانی نہیں۔ ہمارا یہ دعوی کہ ہم مذہبی ہیں۔ محض ایک دعوی ہے۔
ہم ایک خالق و مالک میں یقین رکھنے کی بات کرتے ہیں۔ ہم اسے پالنہار اور داتا مانتے ہیں۔ مگر ہمارا پورا عمل اس کے برخالف
ہے۔ ذرا سوچئے کیا ہم واقعی مذہبی ہیں؟ اس وقت ہم سے زیادہ بد اخالق ہم سے زیادہ بے رحم ،ہم سے زیادہ نا خدا ترس کون ہے؟
ہم نے مذہب کا چولہ پہن لیا ہے۔ ہم نے اپنے لباس کو مذہبی بنا لیا ہے۔ مگر ہمارا دل مذہب سے خالی ہے۔ ہم نے مساجد مدرسے اور
خانقاہوں کو بھی اپنی ال مذہبی سرگرمیوں کے لئے استعمال کیا ہے۔ مذہب کا تعلق دل سے ہے ۔مگر ہمارا دل مذہب سے خالی ہے ۔
اگر دل میں مذہب ہوتا تو یہ خدا کا مسکن ہو جاتا۔ اور رشک عرش ہو جاتا ۔حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے ملفوظات میں ہے
کہ رسول محترم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
جو دل اپنے خالق و مالک کا مسکن بن جائے اس میں کبھی المذہبیت نہیں سما سکتی۔ وہاں نفرت اور کدورت کو جگہ نہیں مل
سکتی۔ بغض و حسد اور تکبر کا وہاں گذر نہیں ہو سکتا۔ ہم اپنے اعمال کے اعتبار سے مذہبی نہیں ہیں ہم نے تو صرف مذہب کا
لبادہ اوڑھ رکھا ہے۔ اس پر ستم ظریفی یہ کہ جو جتنا بڑا مذہبی نظر آتا ہے وہ اتنا ہی بڑا مذہب ہوتا ہے۔ یہ کیسی بات ہے کہ آج دنیا
میں جہاں بڑی بڑی انڈسٹری چل رہی ہیں ایک انڈسٹری مذہب کی بھی ہے۔ جو دلوں کو جوڑنے کے بجائے توڑنے کا کام کر رہی
ہے۔
آج دنیا میں نفرت ہی نفرت ہے محبت نہیں
نفرت اور محبت دونوں ہی اس دنیا کا حصہ ہیں۔ ان کا وجود ایک حقیقت ہے۔ انہیں ختم نہیں کیا جا سکتا۔ مگر یہ ہو سکتا ہے کہ
ایک کو دوسرے پر غالب کر دیا جائے ۔وہ محبت چونکہ ہللا کو پسند ہے اس لئے اسی کو غالب ہونا چاہیے۔ آج سماج میں نفرت کا
غلبہ ہوتا جا رہا ہے ۔جو یقینا باعث فکر ہے۔ ہللا نے اس دنیا کو محبت سے پیدا فرمایا۔محبت کے لیے پیدا فرمایا تو پھر یہاں نفرت کا
کیا کام؟ مگر افسوس کہ اسے انسان نے کہی قسم کی نفرتوں کا مسکن بنا دیا ہے ۔کہیں مذہب کے نام پر نفرت کہیں زبان کے نام پر
تعصب کہیں رنگ اور نسل کا امتیاز ،تو کہیں عالقے کے نام پر جنگ۔
اصل میں ھم اندر کے اندھیرے میں گرفتار ہیں۔ جو ایک روپے کی موم بتی سے دور نہیں ہوتا۔ مذہب پر ایمانداری سے عمل انسان
کو دنیا و آخرت کی بےپناہ مسرتوں سے ہمکنار کرتا ہے ۔اس دنیا میں سب سے خوش وہی تھے جنہوں نے سچے مذہب کو اپنایا۔ یہ
مذہب خدا کی معرفت uکا تھا۔ جنہوں نے اپنایا ان پر مسرتوں کی بارش ہوئی ۔وہ ہر طرح کے مسائل سے بے نیاز ہو گئے۔ دنیا کے
لئے مشعل راہ بنے۔ آج ہمیں ایسے لوگ نظر نہیں آتے ۔مگر ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ ہللا کی یہ کائنات اس کے نیک بندوں سے
خالی ہے۔ ویسے صوفیاء کی کتابیں ان کے ملفوظات اور مکتوبات اور ان کے نشانات قدم آج بھی انسانیت کی رہنمائی کے لیے کافی
ہیں۔ آج دنیا کے سامنے بے شمار مسائل منہ کھولے کھڑے ہیں۔ ڈھونڈا جائے تو اُن مسائل كا حل تصوف کے نظریات کی روشنی
میں مل جائے گا۔
کیا ہمارے پیدا کرنے والے نے اسی نفرت اور دشمنی کی لڑائی کے لیے ہمیں اس کائنات میں پیدا کیا ہے۔؟ یہی اندیشہ فرشتوں کو
بھی تھا اسی لیے انہوں نے ہللا سے جاننا چاہا تھا۔ کہ اے خدا! کیا تو ایسے انسان کو زمین میں بسائے گا جو فتنہ و فساد برپا کرے
گا خون خرابہ کرے گا۔ تیری بنائی ہوئی سرزمین کو نفرت سے بھر دے گا ۔جواب مال تھا جو ہم جانتے ہیں تم نہیں جانتے۔
آج اگر ہم غور کریں تو محسوس ہوگا کہ ہللا کی یہ سر زمین نفرتوں سے بھری پڑی ہے دنیا کا کوئی بھی ملک ایسا نہیں جو اس
سے خالی ہو۔ امریکہ اور یورپ میں سیاہ و سفید فاموں کے اختالفات عام ہیں۔ عیسائی اور غیر عیسائی کے جھگڑے ہر جگہ
دیکھنے کو مل جاتے ہیں ۔عورتوں کو عورت ہونے کے سبب ساری دنیا میں دوئم درجے کی شہریت حاصل ہوتی ہے۔ امریکہ خود
کو جمہوریت اور حقوق انسانی کا سب سے بڑا علمبردار ظاہر کرتا ہے۔ مگر یہاں بھی ایک سیاہ فام کو قصر سفید تک پہنچنے
میں طویل مدت لگی گئی ۔کوئی عورت تو آج تک ملک کی صدر نہیں بن پائی۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے وہی صدیوں پرانی سوچ
ہے کہ عورت مرد سے کمتر ہے ۔آخر یہ کیسی جمہوریت ہے؟
امریکہ جیسا حال یورپ کے ممالک کا بھی ہے۔ یہاں کے مسائل بھی لگ بھگ امریکہ جیسے ہی ہیں۔ اگر ہندوستان کی سطح پر
دیکھا جائے تو یہاں صدیوں سے دلتو کو دبائے رکھا گیا ہے ۔حاالنکہ سب سے قدیم ہندوستانی یہی ہیں اور آبادی پاپولیشن کے
اعتبار سے بھی انہی کی کثرت ہے ۔اونچی ذات والے اُن آریوں کی نسل سے ہیں جو بعد میں بھارت آئے اور ملک پر قبضہ کر کے
یہاں کے قدیم باشندوں کو غالم بنا لیا۔اُنھیں شودر اور اچھوت قرار دے کر صدیوں تک ذلیل کاموں پر مجبور کر دیا۔ بھارت میں
جسم کے مظالم ڈھائے گئے اس کی مثال دنیا میں کہیں اور نہیں ملتی۔ اس وقت بھی پورے ملک میں مذہب آزاد برادری اور
عالقائیت کے نام پر تحفظ کی گرم بازاری ہے۔ دلی ممبئی اور کلکتہ جیسے شہروں میں بہار اور پوربی يوپی والوں کو اکثر تشدد
کا نشانہ بننا پڑتا ہے ۔ایسے ہی حاالت کا نتیجہ ہے کہ ملک کے بعض حصوں میں کچھ مسلح تحریکیں بھی شروع ہو گئی ہیں۔ ہر
طبقہ کو یہ شکایت ہے کہ اسے اس کے جائز حقوق نہیں دیے گئے ۔کچھ ایسا ہی حال عالم اسالم کا بھی ہے۔ پاکستان میں مسلمان ہی
ایک دوسرے سے برسرپیکار ہیں۔ مہاجر ،سندھی ،پنجابی اور بلوچی ایک مذہب کے ہونے کے باوجود ایک دوسرے سے
برسرپیکار ہیں ۔وہ ساتھ رہنا بھی نہیں چاہتے۔وہ موقع ملتے ہی دوسرے طبقے پر حملہ کرنے لگتے ہیں ۔اس کے عالوہ شیعہ سنی،
دیوبندی بریلوی ،وہابی اور غیر وہابی اختالفات اپنی جگہ ہیں۔ افغانستان میں قبائلی جنگ پرانی روایت رہی ہے ۔عرب ملکوں میں
ایک ہی قسم کے اختالفات رہے ہیں جنہوں نے کبھی کبھی مسلح صورت بھی اختیار کی ہے ہے۔
محبت روشنی ہے
نفرت سے بھری اس دنیا کی ایک ناقابل تردید حقیقت محبت ہے۔ نفرت اندھیرے کی طرح ہے اور محبت اجالے کی طرح ہے ۔جب
محبت کی روشنی پھیلتی ہے تو نفرت کا اندھیرا خ ُودب ُخ ود چھٹنے لگتا ہے۔ نفرت ہمیشہ وقتی ہوتی ہے اور محبت دائمی ہوتی ہے۔
نفرت کا وجود کمزور بنیادوں پر ہوتا ہے اور محبت کا پختہ بنیادوں پر۔ نفرت سوڈا واٹر کی طرح ہوتی ہے جو اچانک ابل پڑتی ہے
مگر دیرپا نہیں ہوتی ۔جبکہ محبت مصری کی دال کی طرح ہوتی ہے۔ جو تہ میں جاکر بیٹھ جاتی ہے اور دھیرے دھیرے گھلتی
رہتی ہے ۔محبت کی مٹھاس کو دیر تک محسوس کیا جا سکتا ہے ۔مگر نفرت کی کڑواہٹ چند لمحوں کے لیے ہوتی ہے۔ دنیا کے
کسی بھی واقعے کو آپ مثال بنا کر دیکھ سکتے ہیں۔ کہ ہٹلر کا یہودیوں کے خالف اقدام ،امریکہ کا جاپان پر ایٹمی حملہ ،مغربی
طاقتوں کا عراق اور افغانستان پر حملہ ،بھارت میں اعلی طبقات کا پسماندہ طبقات پر ظلم اور مسجد اور مندر کے نام پر ہونے والی
سیاست uکے برے اثرات ،بوسنیا اور بھارت کے فسادات میں مسلمانوں کی نسل کشی ،آج یہ تمام باتیں قصہ پارینہ بن چکی ہیں۔ گو
منافرت سرے سے ختم نہیں ہوئی ہے ۔مگر اس میں اب وہ جوش اور وہ اُبال نہیں۔ جو ابتدائی دنوں میں تھی۔ ایسا اس لیے ہوتا ہے
کہ محبت ہمیشہ نفرت سے بھاری پڑتی ہے۔ نفرت اور محبت کی جنگ میں جیت سدا محبت کی ہوتی ہے۔
تصوف محبت کا پیغام ہے ۔اور یہ محبت کو کائنات کی روح مانتا ہے ۔تصوف کی نظر میں یہ دنیا محبت کی جگہ ہے نہ کہ نفرت
کی۔ نفرت کی کوکھ سے تخریب جنم لیتی ہے۔ جب کہ محبت تعمیر کی جنم داتا ہے۔ اس دنیا کو محبت کے لیے پیدا کیا گیا ہے نفرت
کے لیے نہیں۔ انسان بھی یہاں تعمیر کے لیے آیا تخریب کے لیے نہیں۔ بلکہ انسانی فطرت میں تعمیر اور تخریب دونوں کے عناصر
دیکھے گئے ہیں ۔نفرت اور محبت دونوں طرح کے جذبات اس کے دل میں سموئے گئے ہیں۔ مگر تخریب پر تعمیر ہمیشہ حاوی
رہی ہے۔ نفرت کے عنصر پر محبت کا ہمیشہ غلبہ رہا ہے۔ انسان کے اندر کے منفی جذبات امتحان کے لیے ہیں۔ کہ وہ دنیا میں
جاکر ان کا استعمال کس پہلو سے کرتا ہے۔ اس کارگاہ حیات میں اپنے آپ کو کس طرح محبت کا پاسدار ثابت کرتا ہے۔ یہی انسانی
فطرت انسان اور فرشتوں میں فرق کرتی ہے۔ معروف صوفی حضرت بابا فرید الدین گنج شکر کے ملفوظات میں ہے۔ کہ رسول
محترم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
سلسلہ چشتیہ کے مورث اعلی حضرت محمد شاد دينوری علیہ الرحمہ فرماتے ہیں۔
ایمان والے کے دل میں ہللا کی جگہ ہے کہ وہ دل کے سوا باطن میں کہیں نہیں پہنچتا۔
:بالفاظ دیگر
جو مقام عرش الہی ہو وہاں نفرت کیسے سما سکتی ہے؟ خدا خالق محبت ہے۔ اس کا ایک صفاتی نام حبیب ہے۔ وہ اھل محبت کے
دلوں کو پسند فرماتا ہے ۔اسی لیے یہ دل اس کا مسکن ہے۔ اور نفرت عیب ہے ،برائی ہے ،گندگی ہے۔ یہی سبب ہے کہ جہاں محبت
ہوتی ہے وہاں نفرت کو جگہ نہیں ملتی ۔اس دنیا میں اگر محبت کو عام کر دیا جائے تو نفرت خود بخود ختم ہو جائے گی۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ ہللا علیہ نے فرمایا ہے۔
عاشق کا دل محبت کا آتش کدہ ہوتا ہے۔ جو کچھ اس میں جائے اسے جال دیتا ہے،اور ناچیز کر دیتا ہے۔ کیونکہ عشق کی آگ سے
بڑھ کر کوئی آگ تیز نہیں ہے۔
حضرت شاہ ہمدان سید علی ہمدانی رحمۃ ہللا علیہ اپنی کتاب ذخیرۃ الملوک میں حضرت علی المرتضی رضی ہللا عنہ کا قول نقل
کرتے ہیں۔
ہللا پاک کے نزدیک وہ دل بہت ہی پیارا ہے ۔جو اپنے بھائیوں پر زیادہ نرم اور مشفق ہے۔
)صفحہ (157
محبت پاکیزگی ہے اور نفرت گندگی ،نفرت اور محبت ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ دونوں ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتی۔ اس لئے اہل
تصوف پہلے اپنے دل کو نفرت کی گندگی سے پاک کرتے ہیں۔ تاکہ اس میں محبت کی پاکیزگی سماسکے۔ تصوف تو سراسر محبت
کا پیغام دیتا ہے۔ لہذا یہاں نفرت کو جگہ نہیں مل سکتی۔ تصوف کی تعلیم اگرچہ اپنے پیدا کرنے والے کی پہچان اور اس کی محبت
پر مرکوز ہوتی ہے۔ مگر اسی کے ساتھ یہ اس کے بندوں کے ساتھ محبت ،اخالق اور حسن سلوک کی تعلیم بھی دیتا ہے۔ اس کائنات
اور اس کی ہر چیز کو صوفی ہللا کا پر تو مانتا ہے۔ اس لئے وہ سب کا احترام کرتا ہے۔ آدمی جب کسی سے محبت کرتا ہے تو اس
کی ہر چیز سے محبت کرتا ہے۔ ہر چیز اسے ہّٰللا کے پیدا کردہ دکھائی دیتی ہے تو وہ اس کو اپنے محبوب کی نشانی سمجھ کر اُس
سے پیار کرتا ہے۔ حضرت بشر حافی ہمیشہ ننگے پير رہتے تھے۔ کسی نے سبب پوچھا تو کہنے لگے ،یہ زمین ہللا کا بچھونا ہے،
اس پر جوتے پہن کر کیسے چال جائے؟
انسان کو ہللا نے دنیا میں محبت کے لیے بھیجا ہے۔ اس کے عالوہ دوسری مخلوقات کو محبت سے وہ نسبت نہیں ۔کیونکہ ہللا نے
انہیں محبت کے احساس سے عاری رکھا ہے۔ آدمی کی فضیلت دوسری مخلوقات پر اسی لیے ہے کہ وہ محبت کا احساس رکھتا ہے۔
اس کا کام محبت کرنا اور محبت پھیالنا ہے۔ یہ دنیا بھی محبت کی جگہ ہے نفرت کی نہیں۔ اسی لیے ہللا نے آدمی کے وجود میں
یحیی منیری رحمۃ ہللا تعالی علیہ اپنے ایک مکتوب میں
ٰ ایک دل رکھا ہے جو محبت کا تہہ خانہ ہے۔ حضرت مخدوم شرف الدین
لکھتے ہیں۔
جانو! کہ دوسری مخلوقات کو محبت سے کوئی لگاؤ نہیں ہے ۔کیونکہ ان کی ہمتیں بلند نہیں ہیں۔ فرشتوں کا کام جو سیدھے طریقے
سے چل رہا ہے وہ اس لئے کہ ان تک محبت کا گزر نہیں ہوا ہے ۔اور یہ اونچ نیچ جو انسان کے ساتھ پیش آیا کرتی ہے۔ اس لیے
ہے کہ اس کو محبت سے سروکار ہے۔
محبت کا احساس انسان کا خاصہ ہے اسی لیے وہ فرشتوں پر بھی برتری رکھتا ہے ۔اگر انسان کے دل کو محبت سے الگ کر کے
دیکھا جائے تو اس کے وجود کا کوئی مطلب نہیں رہ جاتا۔ اس کائنات کی دھرتی پر الکھوں برسوں سے ہللا کی مخلوقات موجود
یحیی
ٰ تھی۔ مگر انسان کو جب ہللا نے پیدا کرنا چاہا۔ تو ایک ہنگامہ برپا ہوگیا۔ اس کا سبب کیا تھا ؟حضرت مخدوم شیخ شرف الدین
منیری لکھتے ہیں۔
جب حضرت آدم کی باری آئی تو جہاں میں ایک ہلچل مچ گئی۔ فرشتوں نے فریاد کی یہ کیسا حادثہ ہوا کہ ہماری ہزاروں برس کی
تسبیح و تہلیل برباد ہوگئی۔ اور ایک مٹی کے پتلے یعنی آدم کو سرفراز کیا۔ اور ہمارے رہتے ہوئے ان کو چنا۔ ایک آواز آئی کہ تم
مٹی کو نہ دیکھو اس پاک امانت کو دیکھو "۔يحبهم ويحبونه۔" ہللا ان سے محبت کرتا ہے اور وہ ہللا سے محبت رکھتے ہیں۔
انسان کو ہللا نے محبت سے پیدا کیا۔ اور محبت واال دل اس کے سینے میں رکھا۔ پھر وہ محبت کے بجائے اگر نفرت دنیا میں
پھیالئے تو یہ حیرت کی بات ہے ۔صوفیہ اپنے پیدا کرنے والے کے پیغام کو عام کرنے کے لیے انسان کو محبت کا سبق دیتے ہیں ۔
سب سے پہلے آدمی اپنے بنانے والے سے محبت کرے۔ اور جب وہ اپنے خالق سے محبت کرے گا ۔تو دوسری مخلوقات سے بھی
محبت کرنے لگے گا۔ کیونکہ وہ بھی اس کی پیدا کی ہوئی ہیں۔ اور ان کے وجود میں غوروفکر آدمی کو خدا کے عرفان تک پہنچا
دیتی ہے۔
صوفیہ کی جماعت uان پاک بندوں کی جماعت ہے۔ جس نے اپنے رب کا عرفان حاصل کر لیا ہے ۔اسی لئے نفرت کے جواب میں
محبت کا برتاؤ حضرات صوفیاء کے ہاں بہت عام رہا ہے۔ ان کے عقیدت مندوں میں ایک فقیر سے بادشاہ تک سبھی ہوا کرتے تھے۔
ہر شخص دل سے ان کا احترام کرتا تھا۔ اور صوفیاء کے اسی اخالق نے سماج میں ایک بڑے بدالؤ کی بنیاد ڈالی تھی ۔حضرت
حسن بصری رحمتہ ہللا علی بالکل ابتدائی عہد کے صوفی ہیں۔ اور تابعی بھی ہیں۔ ان کا مشہور واقعہ ہے ۔کہ کسی شخص نے آپ
کی غیبت کی۔ جس کی اطالع آپ کو ملی تو اس کے پاس تازہ کھجور سے بڑا طباق بجھوایا۔ اس کے ساتھ کہال بھیجا کہ میں آپ کا
شکر گزار ہوں۔ جو آپ نے میری غیبت کرکے اپنی نیکیوں کو میرے نامہ اعمال میں منتقل کرایا۔ اس احسان کا بدلہ میں نہیں چکا
سکتا۔ تاہم یہ حقیر سا تحفہ قبول فرمائے۔ اس کو دیکھ کر وہ بہت شرمندہ ہوا اور آ کر معافی چاہی۔
پیٹھ پیچھے برائی کرنا سماج میں عام ہے۔ اس کا ردعمل بھی کہیں بار انتہائی خطرناک صورت میں دیکھا جاتا ہے۔ دوست احباب
اور رشتہ داروں کے بیچ چپقلش اور من مٹاؤ کا سبب اکثر ایک دوسرے کے خالف شکوہ شکایت کرنا بھی رہتا ہے ۔مگر حضرت
حسن بصری جیسا ردعمل شاید ہی کبھی دیکھنے کو ملے۔ یہی فرق ہے ایک صوفی اور عام آدمی میں۔
اسی طرح ایک دوسرا واقعہ ہے۔ حضرت مالک بن دینار رحمۃ ہللا علیہ کا انہوں نے ایک مکان کرائے پر لیا ۔پاس ایک یہودی کا
مکان تھا ۔جو اپنے گھر کی گندگی پرنالے سے بہا دیا کرتا تھا۔ اور وہ گندگی آپ کے گھر میں چلی آتی تھی۔ اس نے ایک مدت تک
ایسا کیا مگر آپ نے کوئی شکایت نہیں کی ۔البتہ آپ خود ہی اس کی صفائی کر دیا کرتے تھے۔ ایک دن اس نے پوچھا میں جو نالے
سے گندگی بہا دیتا ہوں۔ اس سے آپ کو تکلیف نہیں ہوتی۔ آپ نے فرمایا تکلیف تو ہوتی ہے۔ مگر میں نے اس کی صفائی کے لیے
ایک جھاڑو اور ایک ٹوکری رکھ چھوڑی ہے صفائی کر دیتا ہوں۔ ظاہر ہے اس جواب کے بعد اس کے پاس سوائے شرمندگی کے
کوئی جواب نہ ہوگا۔
پڑوسیوں کے بیج جھگڑے کے جو اسباب ہوتے ہیں۔ ان میں سے ایک بڑا سبب ردعمل ہے۔ مگر جو رد عمل حضرت مالک بن
دینار کی طرف سے دیکھنے کو مال ایسا رد عمل ہمارے سماج میں کبھی دیکھنے کو نہیں ملتا۔ اگر اسی طرح کا ردعمل پڑوسیوں
کی طرف سے ہونے لگے تو تمام جھگڑےہیں تمام ہو جائیں۔
مسئلے خود بخود ختم ہو جائیں گے ۔
امام محمد غزالی علیہ الرحمہ احیاء العلوم میں لکھتے ہیں۔
جان لو! آپسی محبت ،اچھے اخالق اور اختالف بداخالقی کا نتیجہ ہے ۔اچھے اخالق باہم محبت الفت اور موافقت کا سبب ہوتے ہیں۔
اور برے اخالق سے بغض و عداوت حسد اور ایک دوسرے سے پیٹھ پھیرنے جیسی برائیاں پیدا ہوتی ہیں۔ جب پیڑ اچھا ہو تو اس کا
پھل عمدہ ہوتا ہے۔
عظیم مبلغ اسالم اور کشمیر میں روحانی اور سماجی انقالب برپا کرنے والے حضرت سید علی ہمدانی رحمۃ ہللا علیہ اپنی کتاب
ذخیرۃ الملوک میں لکھتے ہیں۔
عفو اختیار کرو اور اچھائیوں کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کش ہو جاؤ۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابہ کرام نے رسول ہللا
صلی ہللا علیہ وسلم سے اس کی تفسیر پوچھ لی۔ آپ نے فرمایا اس آیت کی تفسیر یہ ہے کہ جو شخص بے رحمی سے تعلق توڑے
تو مہربانی سے اس سے مل جا۔ اور جو تُجھ کو بھالئی سے محروم رکھے۔تو جہاں تک ہو سکے اس پرایثار ہی کرتا رہ اور جو
تجھ پر ظلم کرے تو اس کے ساتھ وفاداری سے برتاؤ کر۔
)صفحہ (112
محبت اور اچھے اخالق میں طاقت ہوتی ہے۔ یہ طاقت uنفرت کو مٹا سکتی ہے ۔اسی لیے یہ حکم ہے کہ جو برائی کرے اس کے
ساتھ بھالئی کا برتاؤ کرو ۔جو تعلق توڑنے کی کوشش کرے اس کے ساتھ بھالئی کرو اور جو ظلم کرے اس کے ساتھ بھی وفاداری
کرو ظاہر ہے۔ کہ محبت ،اخالق ،ایثار ،اور وفاداری کی طاقت نفرت بے رحمی ظلم کو مٹا سکتی ہے۔
اسی طرح کی ایک حکایت حضرت بایزید بسطامی رحمۃ ہللا علیہ کے تذکروں میں بھی ملتی ہے۔بتایا جاتا ہے کہ ایک نوجوان بیٹھا
سارنگی بجا رہا تھا ۔آپ کا ادھر سے گزر ہوا۔ تو آپ دیکھ کر آپ الحول والقوۃ پڑھنے لگے ۔وہ اس سے اس قدر آگ بگولہ ہوا کہ
سارنگی سے کھینچ کر آپ کے سر پر دے مارا ۔اس سے نہ صرف بایزید بسطامی رحمۃ ہللا علیہ کا سر پھٹ گیا۔ بلکہ اس کی
سارندگی بھی ٹوٹ گئی۔ آپ نے اسے کچھ نہ کہا اور گھر جاکر سارنگی کی قیمت uکے ساتھ ساتھ مٹھائیاں بھی اس کے پاس بھیج
دیں ۔اور کہال بھیجا کہ بھائی تمہاری سارنگی ٹوٹ گئی یہ اس کی قیمت ہے۔ اور سارنگی کے ٹوٹنے سے جو تمہیں تکلیف ہوئی
اسے دور کرنے کے لیے یہ مٹھائی ہے۔ اس اخالق نے اسے ہمیشہ کے لیے آپ کا گرویدہ بنا دیا۔
) یہ واقعہ تذکرۃاالولیاء اور افضل الفوائد ملفوظات نظام الدین اولیاء فصل 21میں درج ہے(
لڑائی جھگڑے اور باہمی منافرت ہمارے سماج کا قابل نفرت حصہ ہیں ۔ہمارے قیمتی وقت کا ایک بڑا حصہ اسی طرح کی فضول
باتوں میں گزر جاتا ہے۔ پولیس اور کورٹ کچہر اسی کی بدولت قائم ہیں ۔عوام کے کروڑوں روپے ساالنہ اس کی نظر ہو جاتے ہیں۔
لیکن اگر ہم نفرت کاجواب محبت سے دینا سیکھ لیں تو ہمارے کتنے مسائل خود بخود حل ہوجائیں۔ تصوف میں آدمی کو اسی کے
لیے راضی کیا جاتا ہے۔ یہاں محبت ہی محبت ہے ۔پیار ہی پیار ہے۔ ایسے میں کہاں کی لڑائی اور کہاں کا جھگڑا۔
بدگو کو معافی
:حضرت نظام الدین اولیاء کے ملفوظات فوائدالفواد مرتبہ امیر حسن سنجری میں ایک مجلس کا ذکر ہے ۔
حاضرین میں سے ایک نے عرض کیا کے بعض آدمیوں نے جناب کو ہر موقع پر برا کہا وہ آپ کی شان میں ایسی باتیں کہتے "
ہیں .جن کے سننے کی ہم ہمت نہیں کر سکتے ۔خواجہ صاحب نے فرمایا کہ میں نے سب کو معاف کیا۔ تم بھی معاف کر دو۔ اور
کسی سے دشمنی نہ کرو۔ بعدازاں فرمایا کہ جو ساکن اندیپ جو ہمیشہ مجھے uبرا بھال کہا کرتا۔بُرا کہنا سہل ہے اور برا چاہنا اس
سے برا ہے۔ مگر جب وہ مرگیا تو میں تیسرے روز اس کی قبر پر گیا۔ اور دعا کی کہ پروردگار جس نے میرے حق میں برا بھال
کہا میں اسے معاف کرتا ہوں۔ تو میری وجہ سے اسے عذاب نہ کرنا ۔اس بارے میں فرمایا کہ اگر دو شخصوں کے مابین رنجش ہو
".تو دور کر دینی چاہیے ۔اگر ایک شخص دور کر دے گا تو دوسرے کی طرف سے کم تکلیف ہوگی
آدمی کی شخصیت اچھائیوں اور برائیوں سے بنی ہے۔ وہ کہیں بار غیر اخالقی کام بھی کرتا ہے ۔مگر اس کی برائی کا جواب
ذرا سوچئے اگر ایک شخص کا ٹانٹے بوتا ہے اور اس کے جواب میں دوسرا بھی o9اچھائی سے دینے والے کم ہی ملتے ہیں۔
کانٹے بوئے تو پھر ایک سلسلہ چل پڑے گا۔ اور یہ دنیا کانٹوں سے بھر جائے گی۔ اور کانٹوں کی وجہ سے یہاں گزربسر ناممکن ہو
جائے گا ۔مگر کانٹوں کے جواب میں اگر پھول بوئے جانے لگیں تو کتنا اچھا ہو۔ یہ دنیا گلزار بن جائے اور جنت کا نمونہ لگنے
لگے۔
بیٹیوں سے محبت
آج کل سماج میں جس قسم کی نفرتیں عام ہوتی جارہی ہیں ۔ان ہی کی ایک قسم ہے بیٹیوں سے نفرت۔ بچے ہللا کا تحفہ ہوتے ہیں۔ اور
انسان اپنی اوالد سے محبت کرتا ہے۔ مگر ہمارے ملک میں یہ بات عام ہے ۔کہ لڑکیوں کو پیدائش سے قبل ہی قتل کر دیا جاتا ہے۔
جدید طبی آالت سے یہ ممکن ہوگیا ہے ۔کہ پیدائش سے پہلے بچے کی جنس کی تشخیص ہو سکے۔ بھارت ان ملکوں میں سے ہے
ایک ہے جہاں دختر کشی کے واقعات uسب سے زیادہ ہو رہے ہیں۔ اس کا اثر یہ دیکھنے کو مل رہا ہے ۔کہ ملک کے بعض عالقوں
میں لڑکیوں کی تعداد بے حد کم ہوگئی ہے۔ کچھ اضالع ایسے ہیں جہاں 6سال سے کم عمر کی لڑکیوں کی تعداد ہزار لڑکوں کے
مقابلے میں چھ سات سو کے قریب ہے۔ یہ لڑکیاں اگر کسی طرح پیدا ہو جاتی ہیں تو ان کے ساتھ دوسرا مسئلہ کھڑا ہوتا ہے۔ بھید
بھاؤ کے ساتھ ان کی پرورش کا ۔مگر تصوف کی نظر میں انسان برابر ہیں۔ مرد اور عورت کا فرق ایسا نہیں کہ اس کے چلتے
عورتوں کے ساتھ سوتیال برتاؤ کیا جائے۔ خواجہ عثمان ہارونی فرماتے ہیں۔
کہ بیٹیاں ہللا کا تحفہ ہیں۔ وہ شخص جسے ہللا نے بیٹی دی ہے ۔وہ اسے پیار کرتا ہے اور خوش ہوتا ہے ۔تو ہللا اس پر راضی اور "
خوش ہوتا ہے۔ جس نے لڑکی کی پیدائش پر خوشی کا اظہار کیا۔ اسے سترحج کا ثواب دیتا ہے ۔گویا اس نے 70غالم آزاد کیے۔ جو
ماں باپ لڑکیوں سے محبت کرتے ہیں اور ان پر مہربان ہوتے ہیں ہللا تعالی ان پر رحم فرماتا ہے۔
صدقہ پر زور
ہللا کے راستے میں اپنی دولت کو خرچ کرنا صوفیہ کی نظر میں بے حد پسندیدہ رہا ہے۔ قرآن بھالئی تک پہنچنے کا اچھا راستہ
صدقہ و خیرات کو بتاتا ہے۔ پیغمبر اسالم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنی پوری زندگی کبھی دولت جمع نہیں کی۔ جب آیا اور جو کچھ
آیا اسے فوراً خرچ کر ڈاال۔اہل تصوف نے اسی طریقے کو اپنایا۔ اور انسان کے ہللا تک پہنچنے کے راستے میں سب سے بڑی
رکاوٹ دولت جمع کرنے کو بتایا۔ صدقہ ان کی نظر میں نہ صرف ہللا کو پسند ہے۔ بلکہ خود رضائے الہی کا ذریعہ بھی ہے۔ اس
کے ذریعے آدمی ہللا کے بندوں کی خدمت کرتا ہے۔ اور ان کی ضرورتیں پوری کرتا ہے۔ خواجہ عثمان ہارونی رحمۃ ہللا علیہ
حضرت حسن بصری کی کتاب اسرار االولیاء کے حوالے سے بیان کرتے ہیں کہ۔
صدقہ ایک نور ہے صدقہ جنت کی حوروں کا زیور ہے۔ اور صدقہ 80ہزار رکعت نماز سے بہتر ہے ،جو پڑھی جائے۔ صدقہ "
دینے والے روز حشر عرش کے سائے میں ہوں گے۔ جس نے موت سے قبل صدقہ دیا ہو گا وہ ہللا کی رحمت سے دور نہ ہو گا ۔
پھر فرمایا صدقہ جنت کی راہ ہے۔ جو صدقہ دیتا ہے۔ وہ ہللا سے قریب ہوتا ہے۔
حضرت خواجہ شریف زندنی رحمت ہللا علیہ کا لنگر صبح سے رات گئے تک جاری رہتا ۔جو کوئی آتا کھانا کھا کر جاتا۔ آپ فرمایا
کرتے تھے ۔اگر لنگر میں کچھ نہ ہو تو پانی سے تواضع کرو کوئی خالی نہ جائے۔
پھر فرمایا زمین بھی سخی آدمی پر فخر کرتی ہے۔ جب وہ چلتا ہے تو نیکیاں اس کے نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہیں۔
) انیس االرواح ملفوظات خواجہ عثمان ہارونی مرتبہ خواجہ معین الدین چشتی مجلس (5
اہل تصوف کا صدقہ پر زور اس لیے بھی ہے ۔کہ وہ انسان کی خدمت اور اس کی محبت کو ہللا تک پہنچنے کا ذریعہ مانتے ہیں۔
صوفیہ کی خانقاہوں میں لنگر کا انتظام ہوتا تھا ۔یہ لنگر عام لوگوں کے لیے ہوتا تھا۔ کوئی بھی اس میں آکر کھانا کھا سکتا تھا ۔آنے
والے سے اس کا مذہب اور اس کی ذات نہیں پوچھی جاتی تھی۔ اس کے رنگ و نسل پر نظر نہیں رکھی جاتی تھی ۔یہاں ہر آدمی
برابر ہوتا تھا۔ بھارت کے تناظر میں اس کی اہمیت بڑھ جاتی ہے۔ جہاں ذات پات اور اونچ نیچ کا نظام صدیوں سے چال آ رہا تھا۔
پست ذاتوں کو برابری کی جگہ نہیں دی جاتی تھی۔ ایسے میں لنگر میں آ کر سب کا برابر ہو جانا صوفیہ کے پیغام محبت و اخوت
کی مثال ہے۔ اور یہی اسباب تھےکہ اسالم قبول کرنے والوں میں سب سے بڑی تعداد پسماندہ ذاتوں کی تھی۔
اوپر مذکور واقعات حسن اخالق کی بہترین مثال ہیں۔ کون ہے جو بداخالقی کا جواب خوش اخالقی سے دیتا ہے؟ کون ہے جو نفرت
کے جواب میں محبت نچھاور کرتا ہے۔ کون ہے جو گالیوں کا جواب دعاؤں سے دیتا ہے۔ کون ہے جو راستے میں کانٹے بچھانے
والوں کے لئے پھولوں کے بستر پیش کرتا ہے۔ یقینا صوفیہ کرام ہیں۔اُنھیں کی تعلیمات نے سماج کو جوڑا ہے۔ آج بھی ان کے
آستانے اگر سبھی مذاہب کے ماننے والوں کا مرکز ہیں۔ تو وہ یُونہی نہیں۔ اس قسم کا اخالق دینا کو جوڑ تا ہے۔ انسان انسان کے بیج
محبت اور اخوت پیدا کرتا ہے۔ آدمی کو آدمی کے قریب التا ہے۔ صوفیاء کی نظر میں تمام انسان ہللا کی فیملی کے ممبر ہیں ۔جنہیں
عیال ہللا بھی کہا گیا ہے ۔ظاہر ہے جب آپ کسی انسان کے بارے میں یہ سوچ رکھیں گے تو اس کے ساتھ اچھا برتاؤ بھی کریں گے
۔کوئی بھی شخص اگر انسان کو ہللا کی فیملی کا ممبر سمجھے تو اس کے ساتھ برا سلوک نہیں کر سکتا۔ تصوف کی نظر میں انسان
قابل احترام ہے۔ وہ خواہ کسی بھی مذہب کا ماننے واال ہو ،کسی بھی مسلک پے ہو ،کسی بھی زمین سے تعلق رکھتا ہو ،اور کسی
بھی تہذیبی پس منظر سے ہو ،رنگ و نسل عالقائی اور جغرافیائی حدبندیاں تصوف کی نظر میں کوئی اہمیت نہیں رکھتیں۔ کیونکہ
اس کی بنیاد انسانیت پر ہے۔
جانوروں کے ساتھ حسن سلوک
صوفیا انسان ہی نہیں جانوروں کو بھی قابل احترام اور باعث عبرت سمجھتے ہیں۔ کہ تصوف میں انسان ہی نہیں دیگر جانداروں کے
ساتھ بھی اچھے برتاؤ کی تعلیم دی جاتی ہے ۔صوفیاء کی زندگی میں ایسے واقعات بکثرت ملتے ہیں۔ ایسا ہی ایک واقعہ ابتدائی دور
کے صوفیاء حضرت بایزید بسطامی کا بھی۔ تذکرہ کی کتابوں میں ملتا ہے۔کہ ایک مرتبہ آپ ایک گلی سے اپنے مریدوں کے ساتھ
گزر رہے تھے کہ دوسری جانب سے ایک کتا آتا نظر آیا ۔جب کتا سامنے آیا تو بایزید بسطامی علیہ الرحمہ واپس مڑ گئے۔ اور کتے
کے لیے راستہ خالی کردیا۔ مریدوں میں سے ایک کے دل میں یہ خیال آیا کہ انسان تمام مخلوقات میں سے سب سے افضل ہے۔
اسے ہللا نے دوسرے جانداروں سے بہتر بنایا ہے۔ ایسے میں کتے کے لیے راستہ چھوڑنے کا کیا مطلب ہے ؟شیخ نے گویا کتے کو
ترجیح دے دی مرید کے اس خیال سے واقف ہو کر حضرت بایزید نے فرمایا۔ کہ اس کتے نے ذبان حال سے مجھ سے کہا۔ اے یزید
یہ سب ہللا کی شان ہے۔ کہ اُس نے ازل میں ُم جھے کتا اور آپ کو انسان بنایا ۔پھر آپ کو سلطان العارفین بنایا ۔میں بھی اسی کی
مخلوق ہوں۔ جس کی مخلوق آپ ہیں۔ کتے کی اس بات سے میں پریشان ہو گیا ۔اور اسے راستہ دینے کے لیے پیچھے مڑ گیا۔
انسان ،جانور ،پیڑ ،پودے اور دنیا کی ہر چیز کو پیدا کرنے واال ایک ہی ہے۔ وہ چاہتا تو ہمیں انسان کے بجائے جانور بھی بنا سکتا
تھا۔ مگر یہ اس کا احسان ہے کہ ہمیں انسان بنایا ۔اور سوچنے سمجھنے uکی طاقت دی ہے۔ اس کا یہ احسان ہمیں یاد رکھنا چاہیے۔
اور دوسرے جانداروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرنا چاہیے ۔انسان کے طور پر ہماری ذمہ داری بھی ہے۔
جہاں تک گوشت کے لیے جانوروں کو ذبح کرنے کا مسئلہ ہے تو اس کے بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ آدمی کی خوراک سبزی
اور گوشت دونوں ہیں۔ دوسرے جاندار صرف گوشت کھاتے ہیں ۔یعنی انہیں قدرتی طور پر گوشت خور بنایا گیا ہے۔ جس کی جو
خوراک ہے وہ وہی کھائے گا۔ اسی طرح دنیا کے کچھ خطے ایسے ہیں جہاں صرف گوشت دستیاب ہوتا ہے۔ زمین کھیتی کے الئق
نہیں ۔ایسے عالقوں میں انسانی زندگی کا انحصار صرف گوشت پر ہوتا ہے۔البتہ صرف اپنے دل کو خوش کرنے کے لئے جانوروں
کا شکار کرنا یا انہیں ستانا کسی طرح درست نہیں۔ خواجہ عثمان ہارونی نے ایک حدیث کے حوالے سے فرمایا۔
جوشخش نفس کے لیے جانور تلف کرے گویا اس نے خانہ کعبہ ویران کرنے کی کوشش کی۔ مگر جہاں جانور ذبح کرنا ہے اگر
وہاں کیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ پھر فرمایا فرمان مصطفی ہے ۔کہ جس شخص نے کسی جانور کو آگ میں پھینکا یا بے رحمی
سے مار ڈاال ۔اس کا کفارہ یہ ہے کہ غالم آزاد کرے یا ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھالئے یا لگاتار دو ماہ کے روزے رکھے۔
امام محمد غزالی رحمتہ ہللا علیہ نے اپنی مشہور تصنیف مکاشفۃ القلوب میں لکھا ہے۔
فرمان حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم ہے۔کہ مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ رہیں۔ اور وہ جانوروں پر
رحم کرے۔ ان سے ان کی طاقت کے مطابق کام لے۔۔
)باب (18
جانوروں کے ساتھ جہاں اچھا برتاؤ کرنے کی تعلیم دی جاتی ہو۔ وہاں انسانوں کا کیا مقام ہوگا؟ سمجھا uجاسکتا ہے۔ اوپر کی حدیث
سے ظاہر ہے کہ مکمل مسلمان وہی ہوتا ہے جو صرف انسان ہی نہیں جانوروں کے ساتھ بھی مہربانی کا سلوک کرتا ہے۔ اوپر کی
حدیث میں عام لوگوں کی بات کی گئی ہے۔ صرف مسلمانوں کی بات نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ جہاں جانوروں پر بھی مہربانی کی
بات ہو وہاں انسان کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیسے جائز ہو سکتا ہے۔ مکاشفۃ القلوب میں ہی ایک اور حدیث درج ہے جس سے ظاہر
ہوتا ہے کہ جانوروں کے ساتھ مہربانی بھرا برتاؤ کرنا کتنا اچھا کام ہے۔
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کا فرمان ہے ایک شخص سفر میں جا رہا تھا کہ اسے راستے میں سخت پیاس لگی۔ اسے قریب ہی ایک
کنواں نظر آیا۔ جب کنویں سے پانی پی کر چال تو دیکھا کہ ایک کتا پیاس کے مارے زبان نکالے پڑھا ہے۔ اسے خیال آیا کہ اسے
بھی میری طرح پیاس لگی ہوگی واپس گیا منہ میں پانی بھر کر اس کے پاس آیا ۔اور اسے پال دیا۔ ہللا تعالی نے اسی رحم کی بدولت
اس کے گناہوں کو معاف کر دیا۔
)باب (18
اسی طرح ایک موقع پر لوگوں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے پوچھا کہ جانوروں پر مہربانی کرنے سے ہمیں ثواب ملتا
ہے؟ آپ نے فرمایا ہر جاندار پر رحم کرنے کا بدلہ ملتا ہے۔
صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی ہللا عنہ بچوں سے چڑیاں خرید کر انہیں چھوڑ دیا کرتے تھے ۔اور فرماتے جاؤ آزادی کی
زندگی بسر کرو۔
کہتے ہیں کہ عبدہللا بن جعفر اپنی جاگیر کی طرف گئے۔ تو کسی کے نخلستان میں قیام کیا۔ وہاں ایک حبشی غالم ہوتا تھا۔ غالم کا
کھانا آیا تو ایک کتا باغ میں گھس آیا۔ اور غالم کے قریب ہو گیا۔غالم نے پہلے ایک روٹی اُسے ڈالی جسے کتے نے کھا لیا۔پھر
دوسری اور بھی ڈال دی کتے نے انہیں بھی کھا لیا۔ عبدہللا یہ سب کچھ دیکھ رہے تھے ۔عبدہللا نے غالم سے پوچھا کہ ایک دن کی
خوراک کتنی ہے۔؟ غالم نے کہا جتنی آپ نے دیکھی ہے۔ عبداہللا نے کہا تم نے کتے کو کیوں دے دی؟ غالم نے کہا کہ یہ کتوں کا
عالقہ نہیں ہے یہ کتا دور سے مسافت طے کر کے آیا تھا۔اور بھوکا تھا۔ اس لئے میں نے اسے مایوس کرنا پسند نہیں کیا۔ عبداہللا نے
پوچھا آج تو کیا کرے گا ؟جواب دیا آج بھوکا رہوں گا۔ یہ جواب سن کر عبدہللا بن جعفر نے کہا کہ مجھے سخاوت کرنے پر مالمت
کی جاتی ہے۔ یہ تو مجھ سے زیادہ سخي ہے۔ پھر اس باغ اور غالم کو تمام آالت کے ساتھ خرید لیا۔ اور غالم کو آزاد کر کے سب
کچھ اسے دے دیا۔
ایسا ہی ایک واقعہ حضرت شاہ ولی ہللا دہلوی رحمۃ ہللا علیہ نے اپنے والد شاہ عبدالرحیم علیہ الرحمہ کے بارے میں تحریر کیا ہے۔
جو اپنے دور کے ایک معروف صوفی گزرے ہیں وہ لکھتے ہیں۔
فرمایا شاہ عبدالرحیم نے ایک دفعہ اکبر آباد میں بارش ہوئی اور ہواؤں کے موسم میں سوار ہو کر جا رہا تھا دیکھا کہ راستے میں
ایک جگہ کتے کا پلہ دلدل میں ڈوب رہا ہے۔ یہ دیکھ کر اس کی دردناک آواز سے میرا دل بھر آیا میں نے خادم سے کہا کہ جلدی
جاؤ اور اس پلےکو باہر نکالو۔ اس نے نفرت کا اظہار کرتے ہوئے انکار کیا ۔میں جلدی جلدی گھوڑے سے اترا کپڑے اوپر کیے
اور پانی میں اترنے کے لئے آگے بڑھا۔خادم نے جب یہ صورت حال دیکھی تو چار و ناچار وہ خود آگے بڑھا اور پلے کو باہر
نکال الیا۔ قریب ہی ایک حمام تھا۔ گرم پانی لے کر میں نے اس کو نہالیا۔ اور طباخی سے روٹی لے اور شوربا لے کر اُسے خوب
کھالیا۔ پھر میں نے کہا یہ کتا اس محلے کا نہیں ہے۔ اگر اس محلے والے اس کی خبر گیری کا ذمہ لیں تو بہتر ورنہ ہم اس کو اپنے
محلے میں لے جائیں گے۔ طباخی نے اس کی ذمہ داری قبول کر لی۔ چناچہ یہ کتا اس کے حوالے کر کے میں رخصت ہوگیا۔
انسان خود انسان کی عزت و آبرو کو نہیں سمجھ رہا ہے۔ ایسے میں وہ کسی جانور اور وہ بھی ذلیل ترین جانور کی آبرو کو کیسے
سمجھ uسکتا ہے؟ حقیقت میں انسان وہی ہے جو جانوروں کے حقوق کا بھی خیال رکھے ۔جانوروں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کے خالف
آج دنیا کے کئی ملکوں میں بیداری آ رہی ہے۔ اور محبان جانوراں اس کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔مگر صدیوں پہلے جب اس
طرح کا کوئی تصور نہیں تھا۔ تب بھی صوفیاء کے ہاں جانوروں کے احترام اور ان کے حقوق کا خیال موجود تھا۔ انسانی شرافت کا
تقاضا بھی یہی ہے۔ کہ ہللا کی پیدا کی ہوئی تمام جانوں کا احترام کیا جائے۔ اُنھیں نہ ستایا جاۓ۔ ہر جگہ اسی کا نور ہے ۔ہر چیز اس
کے ہونے کی دلیل ہے۔ کائنات کا ذرہ ذرہ اس کی اور اس کی قدرت کا ہمیں احساس دالتا ہے ۔فارسی کے مقبول ترین شاعر اور
صوفی سعدی شیرازی کہتے ہیں۔
ایک دفعہ ایک یہودی کتے کو روٹی کا ٹکڑا کھال رہا تھا۔ خواجہ حسن بصری کا اس وقت گزر ہوا۔ آپ نے یہودی سے پوچھا کہ تم
مسلم ہے یا غیر مسلم ۔اس نے کہا کہ غیر مسلم۔ آپ نے کہا کہ تمہاری خدمت خلق قبول نہ ہو گی۔ یہودی نے کہا نہ ہو وہ ہللا تو
دیکھتا ہے۔ ایک عرصہ بعد خواجہ حسن بصری نے دیکھا کہ خانہ کعبہ کے پرنالے کے نیچے ایک شخص کہہ رہا ہے یا رب اور
پرنالے کے قریب سے آواز آتی ہے۔ اے میرے بندے میں حاضر ہوں۔ خواجہ صاحب کو خیال آیا کہ دیکھوں یہ کان بلند مرتبہ ہے۔
اس نے کہا آپ نے پہچانا؟ آپ نے نفی میں جواب دیا تو اس نے کہا میں وہی ہوں جس کی خیرات ہللا نے قبول کرلی اور اپنے پاس
بال لیا۔
) مجلس (5
محبت دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے۔ دنیا کے وجود کا سبب محبت ہے ۔محبت نہ ہو تو دنیا کا وجود نہ ہو۔ زمین و آسمان نہ ہوں،
چاند ستارے نہ ہوں ،سمندر پہاڑ نہ ہوں ،جھرنے اور آبشار نہ ہوں ،پودوں کا وجود نہ ہو ،پھولوں پر نکھار نہ ہو ،باغ و بہار نہ ہو،
سپنوں کا سنسار نہ ہو،پھر تو کائنات میں والدین اپنے بچوں کی پرورش نہ کریں گے۔ پرندے شکار نہ کریں۔ اور جانور چارہ نہ
کھائے۔ اور کبھی غور تو کرو انسان الڈ پیار سے اپنے بچوں کی پرورش کیوں کرتا ہے؟ چڑیا اکیس دن تک اپنے انڈے کیوں سیتی
ہیں۔ جانور اپنی جان پر کھیل کر اپنے بچوں کی حفاظت کیوں کرتے ہیں؟ ہاتھیوں کا پورا جھنڈ ایک نو زائدہ بچے کو تحفظ کیوں
دیتا ہے؟ گوشت خور شیر اور چیتے اپنے بچوں کو کیوں نہیں کھاتے .ظاہر ہے یہ سب محبت کے سبب ہے۔ ہر جگہ محبت کی
جلوہ گری ہے۔ یہ محبت اگر کسی کو اپنی جان خطرے میں ڈالنے پر اکساتی ہے۔ تو کسی کو جان بچانے پر مجبور کرتی ہے۔
انسانی معاشرہ ہو یا جنگل کی زندگی ہر جگہ کسی نہ کسی روپ میں اس جذبے کی کارفرمائی ضرور مل جاتی ہے۔ یہ جذبہ ہی
انسانی معاشرے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچاتا ہے۔ اور یہی جذبہ جانوروں کو گروہی زندگی جینے پر مجبور کرتا ہے۔ انسان ،جانور،
پیڑ ،پودے اور کائنات کا ذرہ ذرہ ایک پیدا کرنے والے کے احکام کا پابند ہے۔ اسی خالق و مالک نے سب کو محبت کا جذبہ عطا
فرمایا ہے۔ اور اسی جذبے کے سبب سب اپنے اپنے کاموں میں مصروف ہیں۔ محبت کا جذبہ گو عام ہے۔ مگر اخالق و مروت کی
صفات تو انسانوں تک ہی محدود ہیں۔ یہ اور اس جیسی کچھ دیگر خصوصیات انسان کو دوسری مخلوقات سے الگ کرتی ہیں۔ اسے
اشرفیت کا بلند مقام عطا کرتی ہیں۔ اور اسے فرشتوں میں بھی ممتاز کرتی ہیں ۔تصوف میں انہیں انسانی خصوصیات پر زور دیا
جاتا ہے۔ کیونکہ محبت اور اخالق کا یہ جذبہ نہ صرف ہماری شخصیت کی تعمیر میں ایک اہم رول ادا کرتا ہے ،بلکہ ہمارے
معاشرے uکو بھی امن و امان کا گہوارہ بنا تا ہے۔ اگر محبت اور اخالق کے جذبات سماج میں عام ہو جائیں تو تمام سماجی برائیاں
خود بخود ختم ہوجائیں۔ اور یہ معاشرہ آج جو دہشتگردی ،بدعنوانی ،رشوت ستانی ،تشدد ،خونریزی اور بے شمار اخالقی خرابیوں
کا سامنا کر رہا ہے۔ ایک صالح اور اچھا معاشرہ بن جائے۔
آج ہماری ایک بڑی خرابی یہ ہے۔ کہ ہم تعلیم کا مقصد صرف روزگار حاصل کرنا سمجھنے لگے ہیں۔ اچھا انسان بننا نہیں ۔اس
تعلیم کا آخر کیا فائدہ جو انسان کو ایک مہذب uجانور بنا کر چھوڑ دے۔ اس تربیت سے کیا حاصل کیا جو اسے محض پیٹ بھرنے کا
ذریعہ فراہم کرے۔ اور روزی دینے والے سے غافل کر دے۔ اس سیاست سے کیا حاصل جو انسان کو آزادی کے بجائے طوق
غالمی پہنا دے ۔اس تعلیم سے کیا حاصل جو دوسروں کے وسائل اور حقوق پر شب خون مارنا سکھائے۔ وہ سائنس کس کام کی جو
انسان کو زندگی کے بجائے اجتماعی موت فراہم کرے۔
انسان محبت کا خوگر ہے
آدمی کو اس کے پیدا کرنے والے نے محبت کا خوگر بنایا ہے۔ کہ محبت کرتا ہے اور محبت کیے جانے کی توقع رکھتا ہے ۔بہت
سے وقتی مسائل اسے ایک دوسرے سے دور کر دیتے ہیں۔ مگر پھر جب اس کی نگاہوں کے سامنے سے نفرت کا مصنوعی پردہ
ہٹتا ہے تو سچائی بے پردہ ہو جاتی ہے۔ اور نفرت کے دائرے سے نکل کر محبت کی روشنی میں آجاتا ہے۔ اس بات کو سمجھنےu
کے لئے ایک تمثیلی واقعہ بیان کرنا بے موقع نہ ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ ایک گاؤں میں دو الگ الگ مسلک کے مدرسے تھے۔ دونوں
کی آپس میں چپقلش رہتی تھی۔ ان کے ذمہ داران اور مدرسین کبھی ایک دوسرے کو نظر بھر کے دیکھنا پسند نہیں کرتے تھے۔ چہ
جائیکہ ایک دوسرے کے ساتھ سالم دعا کریں۔ اس قسم کی نفرت بہت عام ہے ۔اگر آپ کے گاؤں یا شہر میں دو الگ الگ مکاتب
فکر کے مدرسے ہیں تو اس قسم کی نفرت اور بیزاری کا احساس آپ بھی کر سکتے ہیں۔ امریکہ اور ایران کے درمیان صلح ممکن
ہے نارتھ کوریا اور ساؤتھ کوریا کی دشمنی ختم ہو سکتی ہے ۔مگر اہل مدارس کے بیچ میں نفرت کا ختم ہونا ایک ناممکن سی بات
ہے۔ ابھی اتنے اچھے دن نہیں آئے کہ اہل مدارس آپس میں محبت اور اخوت کا برتاؤ کریں۔ یہ کیتھولک فرقوں کی لڑائی نہیں ۔جو
ختم ہو جائے ۔یہ مسلک کی لڑائی کفر و ایمان سے آگے کی لڑائی ہے ۔اس لڑائی کو بھی ایک تقدس مقام حاصل ہے۔ یہ الگ سوال
ہے کہ جب تک یہ اہل مدارس جھگڑا کراتے رہیں ،تب تک یہ مذہبی کیسے ہو سکتے ہیں؟ کیاکوئی مذہب بھی آپس میں جھگڑا کرنا
سکھاتا ہے .کیا کوئی دھرم نفرت کی تعلیم دیتا ہے۔ اگر دیتا ہے تو وہ مذہب کب اور کیسے کہا جاسکتا ہے۔
بہرحال ان دونوں مدرسوں کے درمیان لڑائی رہتی تھی۔ کہیں باہر مناظر بھی ہو چکے تھے۔ جو بغیر کسی انجام کے ختم ہوئے
تھے۔ طلبہ بھی ایک دوسرے سے دور دور رہتے تھے۔ انہیں اسی کی تعلیم بھی دی گئی تھی۔ ایک دن اتفاق سے ایک مدرسے کا
ایک طالب علم دوسرے مدرسے کے طالب علم سے مل گیا ۔اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو دوسرے نے جواب دیا جہاں ہوا لے
جائے۔ طالب علم نے اپنی اس مالقات کی روداد اپنے استاد کو بھی سنا دی۔ استاد نے اس بات کا اسے فورا جواب بھی بتا دیا ۔کیونکہ
وہ اس لڑائی میں اپنے گروپ کو پیچھے نہیں رکھ سکتا تھا ۔اس نے کہا اب وہ طالب علم ملے تو اُسے کہنا کہ اگر ہوا بند ہو گئی تو
کہاں جاؤ گے ؟استاد کا جواب بلکہ ایسا جواب جس میں ایک سوال بھی پوشیدہ تھا ۔اب طالب علم کے پاس تھا اب اسے اس دوسرے
مدرسے کے طالب علم سے مالقات کا انتظار تھا۔ اتفاق سے ایک دن یہ مالقات uہو گئی۔ اس نے پوچھا کہاں جا رہے ہو اس لئے نہیں
کہ وہ جانا چاہتا تھا بلکہ اس لیے کہ اس کے پاس جواب تیار تھا۔ مگر اکثر تیار جواب بے کار ثابت ہوتے ہیں ۔جس طرح ایک دو
دن کا تیار کھانا باسی ہو جاتا ہے۔ اور کھانے کے الئق نہیں رہتا۔ اسی طرح دو چار دن پہلے کا تیار جواب بھی اکثر بے کار ہو جاتا
ہے۔ جواب میں پہلے مدرسے کے طالب علم نے کہا جہاں قدم لے جائیں گے۔ اب تیار شدہ جواب بے کار ہو چکا تھا ۔طالبعلم واپس
اپنے استاد کے پاس آیا اور پورا ماجرا کہہ سنایا استاد نے کہا اسی لئے تو ہماری ان سے دشمنی ہے۔ کہ دوسرے مدرسے والے اپنی
بات پر قائم نہیں رہتے۔ زبان کے پکے نہیں ورنہ ہمارا آخر ان سے اختالف کیا ہے؟ بہرحال ہم ان سے ہار ماننے والے نہیں۔ میں
تمہیں جواب بتاتا ہوں۔ اب جب وہ طالب علم ملے تو کہنا اگر خدانخواستہ پاؤں ٹوٹ گئے تو کہاں جاؤ گے ۔طالب علم کے پاس جواب
تیار تھا ۔وہ اس وقت کے انتظار میں تھا کب دوسرے مدرسے کا طالبعلم ملے اور اسے جواب دے۔ آخر کار وہ وقت بھی آیا جب
دونوں کی راستے میں مالقات ہو گئی۔ تیار شدہ جواب دہرانے کی چاہت میں اس نے پوچھا کہاں جارہے ہو؟ دوسرا طالب علم بوال
بازار سے سبزی النے جا رہا ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے ایک بار پھر تیار شدہ جواب بیکار کر دیا تھا۔
اس پورے تمثیلی واقعے کو بیان کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ انسانی سماج میں نفرت پھیالنے کی اس قسم کی کوششںیں اکثر ہوتی
رہتی ہیں ۔مگر نفرت نفرت ہے اس کی عمر لمبی نہیں ہوتی۔ اس دنیا کی سب سے بڑی سچائی تو محبت ہی ہے ۔ممکن ہے
سیاستدانوں کے گمراہ کن بیانات اور عوام کو مذہب ،ذات ،زبان اور نسل میں بانٹنے کی کوششیں وقتی طور پر کام کر جائیں۔ مگر
آخر میں حاوی محبت ہی ہوتی ہے ۔آدمی کے خمیر میں سب سے زیادہ تناسب محبت کا ہے۔ لہذا محبت ہی انجام کار سرخرو ہوتی
ہے۔
نفرت کا عالج
نفرت ہمارے سماج کا ناسور ہے ۔کہ انسانی معاشرے uمیں مختلف سطح پر پھیال ہوا ہے۔ اور اس کا صرف ایک عالج ہے کہ نفرت
کے جواب میں محبت کو عام کیا جائے۔ نفرت کاجواب محبت سے دیا جائے۔ نفرت کرنے والوں سے نفرت کرنا ایسا ہی ہے کہ اگر
کتے نے آدمی کو کاٹا تو آدمی بھی کتے کو کاٹ لے۔ جس طرح یہ غیر مناسب عمل ہے ۔اسی طرح نفرت کا جواب نفرت سے دینا
بھی غیر مناسب ہے ۔نفرت کے جواب میں ویسا ہی برتاؤ کیا جائے تو پھر اس کا سلسلہ چل پڑے گا ۔اور ہمارا معاشرہ نفرت سے
بھر جائے گا۔ ہر طرف نفرت ہی نفرت ہوگی۔ کہ دنیا انسان کے رہنے کے الئق نہیں رہے گی جہاں ہر طرف نفرت کی حکمرانی
ہوگی وہاں انسان کیسے رہ پائے گا ۔ لہٰ ذا نفرت کے جواب میں محبت کا اظہار ہی اس کا بہترین حل ہے۔ اہل تصوف کی کامیابی اور
تصوف کی مقبولیت کا ایک بڑا سبب اسی میں پنہاں ہے۔ اور یہ عین طریقہ رسول کے مطابق ہے۔ آج سماج میں نفرت بڑھ رہی
ہے ۔جب ذات ،رنگ اور نسل اور عالقائیت کے نام پر نفرت اور تعصب عام ہے۔ تصوف اس کا بہترین حل پیش کرتا ہے۔ تمام انسان
بحیثیت انسان برابر ہیں۔ کوئ پیدائش سے چھوٹا بڑا نہیں۔ کوئی اونچ نیچ نہیں۔ خواہ کسی بھی رنگ و نسل اور کسی بھی عالقے
سے تعلق رکھنے واال انسان ہو وہ ہمارے لئے قابل احترام ہے ۔
یعنی اوالد آدم ایک بدن کے مختلف اعضا کی طرح ہیں۔ کہ سبھی اپنی پیدائش میں ایک جوہر سے ہیں۔ جب جسم کے ایک عضو کو
کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو دوسرا اس کی تکلیف محسوس کرتا ہے ۔سعدی کا یہ قول انسانیت کی بنیاد ہے اور تصوف کے مزاج کا
اظہار ہے۔ یہی خیال تقریبا تمام صوفیہ کے ہاں الفاظ کے ہیر پھیر کے ساتھ ملتا ہے۔ اگر اس خیال کو کتاب سے باہر نکاال جائے
اور زندگی کا حصہ بنایا جائے عملی طور پر اسے الگو کیا جائے تو دنیا سے نفرت کا وجود مٹ سکتا ہے۔ انسان انسان کا بھائی بن
کر رہ سکتا ہے۔ اخوت و محبت کا ماحول قائم ہوسکتا ہے۔ اور امن وامان کی فضا اس خاکدان عالم کو جنت کا نمونہ بنا سکتی ہے۔
یہی وہ صوفیاء کرام کا پیغام محبت ہے۔ درحقیقت یہی اسالم کے تعلیم ہے ۔کہ جسے اپنا کر آج بھی معاشرے کو امن و امان کا
گہوارہ بنایا جاسکتا ہے۔ اور اس ملک کو ریاست کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا جا سکتا ہے۔