Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 5

‫‪Inter Notes‎> U‬‬

‫‪‎ rdu‎> W‬‬


‫‪‎ riters‎> ‎‬‬
‫‪Page 9‬‬

‫موالنا عبدالحلیم شرر‬

‫ایک تعارف‬

‫جس طرح اردو


میں معاشرتی اور اصالحی ناول نگاری کی ابتداءمولوی نذیر احمد سے ہوتی ہے۔ اس طرح‬
‫تاریخی ناول لکھنے کا سہرا موالنا عبدالحلیم شرر کے سر ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ناول
لکھنا ان دونوں بزرگوں کا‬
‫مقصد نہ تھا بلکہ اصالح قوم کا مقصد مِد نظر تھا اس لئے
اگر ان کے ناول آج کے معیاِر ناول نویسی پر پورے نہیں‬
‫اترتے تو قصور ان کا نہیں
بلکہ ان نقادوں کا ہے جو ان بزرگوں کو ان کے دور سے الگ کرکے دیکھتے ہیں۔ دونوں‬
‫اپنے دور کے مقبول ترین ناول نگار تھے۔ نذیر احمد کے برعکس شرر بڑے زود نویس تھے۔
اپنے رسالے‪ ‬دلگداز‪ ‬کے‬
‫لئے باالقساط لکھتے اور لکھتے ہی چلے
جاتے۔ لوگ ہاتھوں ہاتھ لیتے۔ بغیر اجازت کتابی صورت میں چھاپ بھی‬
‫دیتے۔ شرر کو
فرصت کہاں کہ وہ اپنے کرداروں‘ مکالموں‘ زبان وبیان کی اغالط درست کرتے‘ نتیجہ یہ
نکال کہ‬
‫تصنیفات کا ایک پہاڑ کھڑا ہوگیا۔ انہوں نے صرف تاریخی ناول ہی نہیں لکھے‘
ڈرامے لکھے‘ نظمیں لکھےں‘ خیالی‘‬
‫تخلیقی‘ مذہبی اور اصالحی موضوعات پر مضامین لکھے
جو آٹھ ضخیم جلدوں میں شائیع ہوئے۔‬
‫‪ ‬‬
‫طرِز تحریر کی خصوصیات‬

‫شرر کی طرِز
تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔‬

‫(‪ )۱‬مدعانویسی‬

‫شرر بھی ایک


مقصدی ادیب ہیں وہ سرسید کے‪ ‬مقتدی‪ ‬نہ سہی‪ ‬معتقد‪ ‬ضرور تھے۔ تاریخی ناول لکھنے سے ان کا‬
‫مدعایہ تھا کہ عیسائی مشزیوں اور انگریز مصنفین خصوصًا والٹر اسکاٹ نے صلیبی جنگوں
پر خامہ فرسائی‬
‫کرتے وقت مسلمانوں کا کردار جو مسخ کرکے دکھایا ہے اس کا ازالہ کیا
جائے۔ چنانچہ شررنے اپنے ناولوں اور‬
‫مضامین کے ذریعے مسلمانوں کو ان کی عظمِت رفتہ
کی تصویر کو دکھا کر ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ناولوں کے‬
‫عالوہ مختلف مضامین میں بھی
انہوں نے مسلمانوں کی دینی‘ تہذیبی اور معاشرتی اصالح کو مِد نظر رکھا۔‬
‫(‪ )۲‬استدالل‬

‫شرر کی تحریر
کی دوسری خوبی جو انہیں سرسید گروپ کے قریب لے جاتی ہے وہ ہے استدالل۔ وہ خشک واعظ‬
‫نہیں۔ وہ اپنی بات پڑھنے والے سے منوانے کے لئے قرآنی آیات‘ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم اور تاریخی‬
‫واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون‪ ‬قدر نعمت بعد زوال‪ ‬میں قرآنی آیات‘ تاریخی دالئل‬
‫دے کر
اپنے موضوع کو موثر بنایا ہے۔ استداللیت کے باوجود وہ سرسید گروپ کے عقلیت اور
منطق سے دور رہے‬
‫اور اس وجہ ان کا طبعی رحجان ہے جو تاریخ کی طرف راغب ہے۔‬

‫(‪ )۳‬رومانیت‬

‫شرر کو رومانی
دبستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ رومان میں حسن و عشق کے قصے ہوتے ہیں۔ جذبہ و تخیل کی‬
‫کارفرمائی ہوتی ہے اور یہی چیزیں ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر
ناول حسن و عشق کے‬
‫موضوع کے گرد کھومتے ہیں۔ ان ناولوں کی فضا میں بھی ایک حسن رچا
بسا ہے۔ وہ جذب کا عالم تو نظر نہیں‬
‫آتا جو بعض دوسرے رومانوی مصنفین مثًال قاضی
عبدالغفار‘ سجاد حیدر‘ یلدرم اور نیاز فتح پوری کی تحریروں‬
‫کا طرہ امتیاز ہے۔ تاہم
اس کے ابتدائی نمونے شرر کے ہاں ضرور نظر آتے ہیں۔‬

‫(‪ )۴‬خیال آفرینی‘ تخیل‬

‫شرر شاعرانہ
مزاج رکئتے تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں کے عالوہ اپنے مضامین میں بھی
خیال‬
‫آفرینی کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بلکہ ان کے مضامین کا ایک بڑا حصہ ان کے
تخیلی مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ‬
‫خیال آفرینی انہیں آزاد کے قریب لے جاتی ہے ان کی
خیال آفرینی اس وقت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے جب وہ‬
‫کسی مقام کی منظرکشی کرتے
ہیں۔ ان کے سب سے مقبول اور مشہور ناول‪ ‬فردوس
بریں‪ ‬میں خیال آفرینی کے‬
‫عمدہ
نمونے بکثرت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ‪ ‬حسن
بن صباح‪ ‬کی جنت کا نقشہ
کھینچتے ہیں تو ان کی خیال‬
‫آفرینی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تخیل کی بلند
پروازی کی بناءپر وہ آزاد کی طرح‘ بعض ناممکن‬
‫واقعات کو ممکنات کی حد میں
الکھڑاکرتے ہیں۔‬

‫(‪ )۵‬مکالمہ نگاری‬

‫شرر اپنے
ناولوں میں مکالمہ نگاری سے بھی کام لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے مکالموں
میں جان نہیں۔‬
‫مزید برآں ان کے مکالمے بڑے طویل ہوتے ہیں۔ جن سے قاری جلد اکتا
جاتا ہے۔ ان کے پیش رو نذیر احمد اور رتن‬
‫ناتھ سرشار مکالمہ کے بادشاہ تھے۔ مکالمہ
ان کے ناولوں کی جان ہے۔ مگر شرر نے ان سے کوئی فیض نہیں پایا۔‬
‫(‪ )۶‬کردارنگاری‬

‫اگرچہ شرر کا
مدعا مسلمانوں کو ان کی عظمِت رفتہ کی داستان سناکر ان کے دلوں میں جوش اور ولولہ
پیدا‬
‫کرنا تھا مگر ان سے ایک زبردست غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ایسی نامور ہستیوں
پر قلم اٹھایا جو تاریخی اعتبار‬
‫سے پہلے ہی زندہ و پائندہ تھیں یہی وجہ ہے کہ ان
کے کردار ابھر نہیں سکے۔ ان کے کردار بے جان‘ چپ چاپ اور‬
‫حسن و عشق کی باتوں سے
بیگانہ نظر آتے ہیں۔‪ ‬فردوس بریں‪ ‬کا ہیرو حسین اور ہیروئن زنرد اسکی واضح
مثال‬
‫ہیں۔ پورے ناول میں البتہ علی وجودی کا کردار اپنی پراسرار شخصیت ‘ اپنے
اعمال و افعال کی بناء پر ایک‬
‫مکمل کردار کہا جاسکتا ہے۔‬

‫(‪ )۷‬قوت اور جوِش بیان‬

‫شبلی کی ایک
نمایاں خصوصیت قوت اور جوِش بیان کی مکمل جھلک ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہے۔ وہ بھی
اپنی‬
‫بات کو خلوص دل سے کہتے ہیں اور پرجوش انداِز بیان کی وجہ سے قاری کے دل و
دماغ کو مسخر کرلیتے ہیں۔‬
‫وہ بھی شبلی کی طرح اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب
کرتے ہیں۔ ان کی خطابت کی جھلک ناولوں‬
‫میں ہی نہیں بلکہ مختلف مضامین میں بھی
دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض مقام پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے‬
‫ہم تقریر سن رہے ہیں۔‬

‫(‪ )۸‬پرتکلف منظر نگاری‬

‫ناکام کردار
نگاری اور مکالمہ نگاری کے باوجود جو چیز قاری کو ان کے ناول دلچسپی سے پڑھنے پر
مجبور کرتی‬
‫ہے وہ ان کی پرتکلف منظر نگاری ہے۔ شرر لکھنﺅی تھے اور اردو ان کے گھر
کی باندی تھی۔ منظر نگاری کے موقع‬
‫پر انہوں نے اس سے خوب سے کام لیا۔ خوبصورت‘ خوش
آہنگ الفاظ‘ تشبیہ اور استعارہ کی چاشنی اور تخیل‬
‫کی بلند پروازی نے مل کر ان کی
منظرکشی میں جان ڈال دی ہے۔بعض لوگ شرر کو ناکام منظرنگار کہتے ہیں جو‬
‫حقیقت سے
بالکل برعکس ہے۔‬

‫پروفیسر سلیم
نے سچ کہا ہے کہ‪:‬‬

‫شرر رنگینی
بیان کے اتنے شائق ہیں کہ ان کی منظر نگاری‘ بہاریہ قصیدہ کی تشبیب بن جاتی ہے۔‬

‫(‪ )۹‬جذبات نگاری‬

‫شرر کو جذبات
نگاری پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔ ان کے کردار بے جان اور جنگ کے مرِد میدان نہ
ہونے کہ‬
‫باوجود عشق کے مرِد میدان ضرور ہیں۔ حسن و عشق یعنی عاشق اور معشوق کے
دلوں میں مختلف موقعوں پر‬
‫جو مختلف واردات اور کیفیات طاری ہوتی ہیں‘ شرر ان کا
ہوبہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔‬

‫اردو ادب کی
تاریخ‪ ‬کے مصنف رام
بابو سکسینہ نے ان کی جذبات نگاری کے باری میں لکھا ہے‪:‬‬

‫شرر سچ یہ ہے
کہ اردو لٹریچر کی دنیا میں ایک چابکدست مصور ہیں اور جذباِت انسانی پر حکومت کرنے‬
‫والے بادشاہ ہیں۔‬

‫(‪ )۰۱‬سبک اور شگفتہ انداز‬

‫شرر کی نثر
دلکش اور شگفتہ ہے۔ انہوں نے میر امن کی سالست‘ سرسید کی مقصدیت اور سادگی اور
شبلی کی‬
‫دینی حمیت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوِب بیان اختیار کیا ہے جسے قبوِل عام
حاصل ہوا ہے۔ ان کی مضامین میں‬
‫انشائے لطیف کی چاشنی ملتی ہے۔‬

‫(‪ )۱۱‬عربی اور فارسی ادب سے استفادہ‬


‫شرر کا
شاعرانہ اور ادبی ذوق بہت شستہ اور لطیف تھا۔ وہ اردو زبان کے شاعر بھی تھے۔ عربی
اور فارسی سبقًا‬
‫سبقًا پڑھی تھی۔ چنانچہ ان کی تحریروں میں موقع بہ موقع ان زبانوں
کے اشعار‘ ضرب االمثال اور مقولے آتے‬
‫ہیں اور بیان کی لطافت اور دلچسپی میں اضافہ
کرتے ہیں۔‬

‫(‪ )۲۱‬اردو کے کالسیکی ادب سے استفادہ‬

‫شرر اپنی
تحریروں میں صرف عربی اور فارسی ادب ہی سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ اردو کالسیکی
ادب بھی ان‬
‫کے پیِش نظررہتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں قدیم اردو شعراءکے
اشعار اور داستانی ادب کے مقولے‘ ضرب‬
‫االمثال اور تلمیحات موقع محل کی مناسبت سے
استعمال کی ہیں جو انکے اسلوب کو خوبصورت اور موثر‬
‫بنادیتی ہیں۔‬

‫(‪ )۳۱‬انگریزی الفاط کا استعمال‬

‫سرسید احمد
خان اور ان کے رفقاء کی تحریروں میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہوا ہے۔
شرر اگرچہ‬
‫براہ راست سرسید احمد خان اور انکی تحریک کے زیراثر نہ تھے۔ لیکن ان کے
دبستان کی بعض باتیں غیر‬
‫محسوس طور پر ان کے طرز نگارش میں بھی داخل ہوگئیں۔
چنانچہ شرر کے ہاں بھی کہیں کہیں انگریزی الفاظ‬
‫کا استعمال دکھائی دیتا ہے جو
ناگوار نہیں گزرتا۔‬

‫(‪ )۴۱‬سالست و روانی‬


‫شرر کے بیشتر
موضوعات علمی اور تاریخی تھے۔ تاہم ان کا اسلوب اس قدر شگفتہ ہے کہ کہیں مشکل
نویسی کا‬
‫احساس نہیں ہوتا۔ ان کی تحریریں رواں دواں ہیں۔ یہ خصوصیت دراصل شرر کی
کمال مشاقی اور اظہار و بیان‬
‫پر ان کی کامل دسترس کا منہ بولتا ثبوت ہے۔‬

‫(‪ )۵۱‬قواعد زبان سے انحراف‬

‫شرر زبان کی
سالست اور روانی کو قائم رکھنے اور بے تکلف اظہار مدعا کے لئے بعض اوقات زبان کے
لگے بندھے‬
‫قواعد سے انحراف بھی کرلیتے ہیں۔ مثًال وہ علمی الفاظ و اصطالحات کی جگہ
کہیں کہیں عوامی الفاظ و‬
‫اصطالحات استعمال کرلیتے ہیں۔‬

‫(‪ )۶۱‬جدت پسندی‬

‫شرر جدت پسند


ادیب تھے۔ پامال راستوں پر چلنا انہیں پسند نہ تھا۔ انہوں نے اپنے لئے اظہار کے
نئے سانچے وضع‬
‫کئے۔ اس طرح مضامین میں بھی وہ صرف پہلی باتوں کو روایت کردینے پر
اکتفا نہیں کرتے۔ بلکہ تحقیق و‬
‫جستجو سے اصل حقائق تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔
انہں نے اپنے مضامین میں نئے نئے عنوانات تالش کئے‬
‫جن پر ان سے پہلے کسی نے قلم
نہیں اٹھایا تھا۔‬

‫(‪ )۷۱‬محاکات‬

‫محاکات یعنی
لفظی تصویر کشی میں شرر کو خاص مقام حاصل ہے۔ تصویر مناظر کی ہو یا انسانی جذبات و‬
‫کیفیات کی‘ شرر مناسب و موزوں الفاظ کی مدد سے اسے بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے
پیش کرتے ہیں۔ یوں‬
‫لگتا ہے جیسے ہم خود یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اور سصحیح جذبات و
کیفیات ہم پر بھی وارد ہورہی ہیں۔‬
‫‪ ‬‬
‫حرِف آخر‬

‫مختصر طور پر
ہم کہہ سکتے ہیں کہ شرر کا اسلوب نگارش چند ایک کے باوجود ایک منفرد اسلوب ہے اس
میں‬
‫دبستان میں سرسید کی مقصدیت’ استدالل‘ جوش خطابت شبلی کی طرح اور تخیل کی
کارفرمائی آزاد کی طرح‬
‫بھی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ رومانیت‘ پرتکلف
منظرنگار‘ خیال آفرینی اور لکھنﺅ کی ٹکسالی زبان‬
‫ان کی تحریر وہ نمایاں خوبیاں ہیں
جو ان کو اردو کے دیگر ادیبوںسے منفرد اور ممتاز بناتی ہیں۔‬

‫‪ ‬‬

You might also like