Professional Documents
Culture Documents
Sharrar
Sharrar
ایک تعارف
شرر کی طرِز
تحریر کی نمایاں خصوصیات ذیل میں درج ہیں۔
( )۱مدعانویسی
شرر کی تحریر
کی دوسری خوبی جو انہیں سرسید گروپ کے قریب لے جاتی ہے وہ ہے استدالل۔ وہ خشک واعظ
نہیں۔ وہ اپنی بات پڑھنے والے سے منوانے کے لئے قرآنی آیات‘ احادیث نبوی صلی اللہ علیہ
وسلم اور تاریخی
واقعات کا حوالہ دیتے ہیں جیسا کہ انہوں نے اپنے مضمون قدر نعمت بعد زوال میں قرآنی آیات‘ تاریخی دالئل
دے کر
اپنے موضوع کو موثر بنایا ہے۔ استداللیت کے باوجود وہ سرسید گروپ کے عقلیت اور
منطق سے دور رہے
اور اس وجہ ان کا طبعی رحجان ہے جو تاریخ کی طرف راغب ہے۔
( )۳رومانیت
شرر کو رومانی
دبستان کا بانی کہا جاتا ہے۔ رومان میں حسن و عشق کے قصے ہوتے ہیں۔ جذبہ و تخیل کی
کارفرمائی ہوتی ہے اور یہی چیزیں ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہیں۔ ان کی اکثر و بیشتر
ناول حسن و عشق کے
موضوع کے گرد کھومتے ہیں۔ ان ناولوں کی فضا میں بھی ایک حسن رچا
بسا ہے۔ وہ جذب کا عالم تو نظر نہیں
آتا جو بعض دوسرے رومانوی مصنفین مثًال قاضی
عبدالغفار‘ سجاد حیدر‘ یلدرم اور نیاز فتح پوری کی تحریروں
کا طرہ امتیاز ہے۔ تاہم
اس کے ابتدائی نمونے شرر کے ہاں ضرور نظر آتے ہیں۔
شرر شاعرانہ
مزاج رکئتے تھی یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ناولوں کے عالوہ اپنے مضامین میں بھی
خیال
آفرینی کے خوب جوہر دکھائے ہیں۔ بلکہ ان کے مضامین کا ایک بڑا حصہ ان کے
تخیلی مضامین پر مشتمل ہے۔ یہ
خیال آفرینی انہیں آزاد کے قریب لے جاتی ہے ان کی
خیال آفرینی اس وقت اپنے کمال کو پہنچ جاتی ہے جب وہ
کسی مقام کی منظرکشی کرتے
ہیں۔ ان کے سب سے مقبول اور مشہور ناول فردوس
بریں میں خیال آفرینی کے
عمدہ
نمونے بکثرت ہیں۔ خاص طور پر جب وہ حسن
بن صباح کی جنت کا نقشہ
کھینچتے ہیں تو ان کی خیال
آفرینی اپنے نقطہ عروج کو پہنچ جاتی ہے۔ تخیل کی بلند
پروازی کی بناءپر وہ آزاد کی طرح‘ بعض ناممکن
واقعات کو ممکنات کی حد میں
الکھڑاکرتے ہیں۔
شرر اپنے
ناولوں میں مکالمہ نگاری سے بھی کام لیتے ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ ان کے مکالموں
میں جان نہیں۔
مزید برآں ان کے مکالمے بڑے طویل ہوتے ہیں۔ جن سے قاری جلد اکتا
جاتا ہے۔ ان کے پیش رو نذیر احمد اور رتن
ناتھ سرشار مکالمہ کے بادشاہ تھے۔ مکالمہ
ان کے ناولوں کی جان ہے۔ مگر شرر نے ان سے کوئی فیض نہیں پایا۔
( )۶کردارنگاری
اگرچہ شرر کا
مدعا مسلمانوں کو ان کی عظمِت رفتہ کی داستان سناکر ان کے دلوں میں جوش اور ولولہ
پیدا
کرنا تھا مگر ان سے ایک زبردست غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے ایسی نامور ہستیوں
پر قلم اٹھایا جو تاریخی اعتبار
سے پہلے ہی زندہ و پائندہ تھیں یہی وجہ ہے کہ ان
کے کردار ابھر نہیں سکے۔ ان کے کردار بے جان‘ چپ چاپ اور
حسن و عشق کی باتوں سے
بیگانہ نظر آتے ہیں۔ فردوس بریں کا ہیرو حسین اور ہیروئن زنرد اسکی واضح
مثال
ہیں۔ پورے ناول میں البتہ علی وجودی کا کردار اپنی پراسرار شخصیت ‘ اپنے
اعمال و افعال کی بناء پر ایک
مکمل کردار کہا جاسکتا ہے۔
شبلی کی ایک
نمایاں خصوصیت قوت اور جوِش بیان کی مکمل جھلک ہمیں شرر کے ہاں ملتی ہے۔ وہ بھی
اپنی
بات کو خلوص دل سے کہتے ہیں اور پرجوش انداِز بیان کی وجہ سے قاری کے دل و
دماغ کو مسخر کرلیتے ہیں۔
وہ بھی شبلی کی طرح اپنے قاری کو ایک بلند سطح سے مخاطب
کرتے ہیں۔ ان کی خطابت کی جھلک ناولوں
میں ہی نہیں بلکہ مختلف مضامین میں بھی
دیکھی جاسکتی ہے۔ بعض مقام پر تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
ہم تقریر سن رہے ہیں۔
ناکام کردار
نگاری اور مکالمہ نگاری کے باوجود جو چیز قاری کو ان کے ناول دلچسپی سے پڑھنے پر
مجبور کرتی
ہے وہ ان کی پرتکلف منظر نگاری ہے۔ شرر لکھنﺅی تھے اور اردو ان کے گھر
کی باندی تھی۔ منظر نگاری کے موقع
پر انہوں نے اس سے خوب سے کام لیا۔ خوبصورت‘ خوش
آہنگ الفاظ‘ تشبیہ اور استعارہ کی چاشنی اور تخیل
کی بلند پروازی نے مل کر ان کی
منظرکشی میں جان ڈال دی ہے۔بعض لوگ شرر کو ناکام منظرنگار کہتے ہیں جو
حقیقت سے
بالکل برعکس ہے۔
پروفیسر سلیم
نے سچ کہا ہے کہ:
شرر رنگینی
بیان کے اتنے شائق ہیں کہ ان کی منظر نگاری‘ بہاریہ قصیدہ کی تشبیب بن جاتی ہے۔
شرر کو جذبات
نگاری پر ماہرانہ دسترس حاصل ہے۔ ان کے کردار بے جان اور جنگ کے مرِد میدان نہ
ہونے کہ
باوجود عشق کے مرِد میدان ضرور ہیں۔ حسن و عشق یعنی عاشق اور معشوق کے
دلوں میں مختلف موقعوں پر
جو مختلف واردات اور کیفیات طاری ہوتی ہیں‘ شرر ان کا
ہوبہو نقشہ کھینچ دیتے ہیں۔
اردو ادب کی
تاریخ کے مصنف رام
بابو سکسینہ نے ان کی جذبات نگاری کے باری میں لکھا ہے:
شرر سچ یہ ہے
کہ اردو لٹریچر کی دنیا میں ایک چابکدست مصور ہیں اور جذباِت انسانی پر حکومت کرنے
والے بادشاہ ہیں۔
شرر کی نثر
دلکش اور شگفتہ ہے۔ انہوں نے میر امن کی سالست‘ سرسید کی مقصدیت اور سادگی اور
شبلی کی
دینی حمیت کے امتزاج سے ایک نیا اسلوِب بیان اختیار کیا ہے جسے قبوِل عام
حاصل ہوا ہے۔ ان کی مضامین میں
انشائے لطیف کی چاشنی ملتی ہے۔
شرر اپنی
تحریروں میں صرف عربی اور فارسی ادب ہی سے استفادہ نہیں کرتے بلکہ اردو کالسیکی
ادب بھی ان
کے پیِش نظررہتا ہے۔ انہوں نے اپنی تحریروں میں قدیم اردو شعراءکے
اشعار اور داستانی ادب کے مقولے‘ ضرب
االمثال اور تلمیحات موقع محل کی مناسبت سے
استعمال کی ہیں جو انکے اسلوب کو خوبصورت اور موثر
بنادیتی ہیں۔
سرسید احمد
خان اور ان کے رفقاء کی تحریروں میں انگریزی الفاظ کا استعمال بڑی کثرت سے ہوا ہے۔
شرر اگرچہ
براہ راست سرسید احمد خان اور انکی تحریک کے زیراثر نہ تھے۔ لیکن ان کے
دبستان کی بعض باتیں غیر
محسوس طور پر ان کے طرز نگارش میں بھی داخل ہوگئیں۔
چنانچہ شرر کے ہاں بھی کہیں کہیں انگریزی الفاظ
کا استعمال دکھائی دیتا ہے جو
ناگوار نہیں گزرتا۔
شرر زبان کی
سالست اور روانی کو قائم رکھنے اور بے تکلف اظہار مدعا کے لئے بعض اوقات زبان کے
لگے بندھے
قواعد سے انحراف بھی کرلیتے ہیں۔ مثًال وہ علمی الفاظ و اصطالحات کی جگہ
کہیں کہیں عوامی الفاظ و
اصطالحات استعمال کرلیتے ہیں۔
( )۷۱محاکات
محاکات یعنی
لفظی تصویر کشی میں شرر کو خاص مقام حاصل ہے۔ تصویر مناظر کی ہو یا انسانی جذبات و
کیفیات کی‘ شرر مناسب و موزوں الفاظ کی مدد سے اسے بڑی خوبصورتی سے ہمارے سامنے
پیش کرتے ہیں۔ یوں
لگتا ہے جیسے ہم خود یہ مناظر دیکھ رہے ہیں۔ اور سصحیح جذبات و
کیفیات ہم پر بھی وارد ہورہی ہیں۔
حرِف آخر
مختصر طور پر
ہم کہہ سکتے ہیں کہ شرر کا اسلوب نگارش چند ایک کے باوجود ایک منفرد اسلوب ہے اس
میں
دبستان میں سرسید کی مقصدیت’ استدالل‘ جوش خطابت شبلی کی طرح اور تخیل کی
کارفرمائی آزاد کی طرح
بھی نظر آتی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ رومانیت‘ پرتکلف
منظرنگار‘ خیال آفرینی اور لکھنﺅ کی ٹکسالی زبان
ان کی تحریر وہ نمایاں خوبیاں ہیں
جو ان کو اردو کے دیگر ادیبوںسے منفرد اور ممتاز بناتی ہیں۔