Professional Documents
Culture Documents
ربیع الاول
ربیع الاول
ربیع الاول
خ
طب ہ 12رب ی ع االول
ف تن تہ ت
کی دمحم سے و ا و ے و ق م ی رے ہ ی ں
ت
ے ک ی نا لوح و لم ی رے ہ ی ں
ی ہ ج ہاں چ یز ہ غ
دمحم عمان اص ر
ٹ ف خ
طی ب ج امع مسج د Aسی ک ر ،ی ز5
ت ف خ تث
ت اث رات حمترم ی زئ طیٹب صاحب
ا رات حم رم ڈا ری ک ر صاحب
يم (آل عمران: قُل ِإ ْن ُك ْنتم تُ ِحبُّو َن اللَّه فَاتَّبِعونِي يحبِب ُكم اللَّه وي ْغ ِفر لَ ُكم ذُنُوب ُكم واللَّه غَ ُف ِ
ور َرح ٌ
َ ُ ُ ْ ْ ُ ُ ََ ْ ْ َ ْ َ ُ ٌ ُْ ْ
)31
وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے واال مرادیں غریبوں کی بر النے واال
مصیبت میں غیروں کے کام آنے واال وہ اپنے پرائے کا غم کھانے واال
ٰ
ماوی ،ضعیفوں کا ملجا فقیروں کا مولی
ٰ یتیموں کا والی ،غالموں کا
2
حضور ﷺ کا بچپن:
تعالی علیہ وسcلم نے ابcولہب کی لونcڈی “حضcرت ثcویبہ” کcاٰ سب سے پہلے حضور صلی ہللا
cالی عنہccا کے دودھ سccے
دودھ نوش فرمایccا پھccر اپccنی والccدہ ماجccدہ حضccرت آمنہ رضccی ہللا تعٰ c
تعالی عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیںٰ سیراب ہوتے رہے ،پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی ہللا
cالی
اور اپccنے قccبیلہ میں رکھ کccر آپ کccو دودھ پالتی رہیں اور انہیں کے پccاس آپ صccلی ہللا تعٰ c
علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔
شرفاء عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پالنے کے لئے گردو نواح دیہاتوں میں
بھیج دیتے تھے دیہات کی صاف ستھری آب و ہوا میں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت
3
بھی اچھی ہو جاتی تھی اور وہ خالص اور فصیح عربی زبccان بھی سccیکھ جccاتے تھے کیccونکہ
شہر کی زبان باہر کے آدمیcوں کے میcل جcول سcے خcالص اور فصcیح و بلیcغ زبcان نہیں رہcا
کرتی۔
تعالی علیہ واالہ وسلم چراگاہ cمیں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رضccی ٰ ایک دن آپ صلی ہللا
تعالی عنہا کے ایک فرزند “ضمرہ” دوڑتے اور ہانپتے کccانپتے ہccوئے اپccنے گھccر پccر آئے ٰ ہللا
تعالی عنہا سے کہا کہ اماں جان! بڑا غضccب ہccو ٰ اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی ہللا
تعالی علیہ وسلم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی سccفید لبccاس پہccنے ہccوئے ٰ گیا ،محمد (صلی ہللا
تھے ،چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈاال ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگcا ہcوا آیcا
تعالی عنہا اور ان کے شوہر دونccوں بccدحواس ہccو کccر ٰ ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی ہللا
cالی علیہ وآلہ وسccلم گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے تccو یہ دیکھccا کہ آپ صccلی ہللا تعٰ c
بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے ،حضccرت حلیمہ رضccی ہللا
تعالی عنہا کے شوہر نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار سccے چمکccار cکccر پوچھccا کہ بیٹccا! کیccا ٰ
تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایccا کہ تین شccخص جن کے کccپڑے بہت ہی ٰ بات ہے؟ آپ صلی ہللا
سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر مcیرا شcکم چccاک کcرکے
اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چccیز مccیرے شccکم میں ڈال کccر
شگاف کو سی دیا لیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔یہ واقعہ سن کر حضرت
تعالی عنہا اور ان کے شccوہر دونccوں بے حccد گھccبرائے اور شccوہر نے کہccا کہ ٰ حلیمہ رضی ہللا
تعالی عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰ ذا بہت ٰ حلیمہ! رضی ہللا
جلcد تم ان کccو ان کے گھccر والccوں کے پcاس چھcوڑ آؤ۔ اس کے بعcد حضcرت حلیمہ رضccی ہللا
تعالی عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھccا ٰ
cالی عنہccا
کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت cنہ کر سccکیں گے۔ حضccرت حلیمہ رضccی ہللا تعٰ c
cالی علیہ وآلہ وسccلم کی والccدہ ماجccدہ رضccی ہللا نے جب مکہ معظمہ پہنچ کccر آپ صccلی ہللا تعٰ c
تعالی عنہا تم تو بڑی ٰ تعالی عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ! رضی ہللا ٰ
خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھccر اس قccدر جلccد واپس لے
تعالی عنہا نے شکم چاک کcرنے کcا واقعہ ٰ آنے کی وجہ کیا ہے؟ جب حضرت حلیمہ رضی ہللا
cالی عنہccا نے فرمایccا کہ بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی ہللا تعٰ c
ہر گز نہیں ،خدا کی قسم! میرے نور نظر پر ہرگز ہرگز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل
دخل نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ پھccر ایccام حمccل اور وقت والدت کے حccیرت
تعالی عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ ٰ انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی ہللا
تعالی علیہ وآلہ وسلم کccو آپ کی والccدہ ماجccدہ کے سccپرد کccر ٰ تعالی عنہا آپ صلی ہللا ٰ رضی ہللا
cالی علیہ واالہ وسccلم اپccنی والccدہ ماجccدہ
کے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی ہللا تعٰ c
آغوش تربیت میں پرورش پانے لگے۔ ِ کی
تعالی عنہا کے
ٰ تعالی علیہ والہ وسلم حضرت حلیمہ رضی ہللا ٰ جب حضور اقدس صلی ہللا
“ام
گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو حضرت ِ
تعالی علیہ والہ وسلم کی خاطر داری ٰ ایمن” جو آپکے والد ماجد کی باندی تھیں آپ صلی ہللا
اور خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں۔ ِام ایمن کا نام “برکۃ” ہے
تعالی عنہ سے میراث میں ملی ٰ تعالی علیہ والہ وسلم کو آپ کے والد رضی ہللا
ٰ یہ آپ صلی ہللا
4
تھیں۔ یہی آپ کو کھانا کھالتی تھیں کپڑے پہناتی تھیں آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں آپ
تعالی
ٰ تعالی علیہ والہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غالم حضرت زید بن حارثہ رضی ہللا
ٰ صلی ہللا
تعالی عنہ پیدا ہوئے۔
ٰ عنہ سے ان کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی ہللا
تعالی علیہ وسلم کی عمر شcریف جب چھ بcرس کی ہcو گcئی تcو آپ کی ٰ حضور اقدس صلی ہللا
cالی علیہ والہ وسccلم کccو سccاتھ لے کccر مccدینہ
cالی عنہccا آپ صccلی ہللا تعٰ c
والدہ ماجدہ رضی ہللا تعٰ c
منورہ آپ کے دادا کے نانھیال بنو عدی بن نجار میں رشccتہ داروں کی مالقccات یccا اپccنے شccوہر
تعالی علیہ والہ وسccلم کے والcد
ٰ کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے گئیں۔ حضور صلی ہللا
ماجد کی باندی ِام ایمن بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھیں وہاں سے واپسی پر “ابccواء” نccامی
cالی عنہccا کی وفccات ہccو گccئی اور وہ وہیں مccدفون
گccاؤں میں حضccرت بی بی آمنہ رضccی ہللا تعٰ c
تعالی علیہ والہ وسلم کی عمر شریف آٹھ برس کی ہو گccئی تccو آپ کے ٰ ہوئیں۔ جب آپ صلی ہللا
دادا عبدالمطلب کا بھی انتقال ہو گیا۔
تعالی علیہ والہ وسلم کے چچا جناب ابccو طccالب نے
ٰ عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ صلی ہللا
تعالی علیہ وسلم کی نیccک خصccلتوں
ٰ آغوش تربیت میں لے لیا اور حضور صلی ہللا
ِ آپ کو اپنی
تعccالی
ٰ اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نےجناب ابو طالب کو آپ صلی ہللا
علیہ والہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ کو اپccنے سccاتھ ہی
رکھتے۔ اپنے ساتھ کھالتے پالتے ،اپنے پاس ہی آپ کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے لccئے
بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔
cالی علیہ
جناب ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھccا کہ حضccور صccلی ہللا تعٰ c
وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو ،یcا کبھی کسccی کccو
کوئی ایذا پہنچائی ہو ،یا بیہccودہ لڑکccوں کے پccاس کھیلccنے کے لccئے گccئے ہccوں یccا کبھی کccوئی
خالف تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخالق ،نیک اطوار ،نccرم گفتccار ،بلنccد کccردار اور ِ
اعلی درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔ ٰ
صدق و امانت اور حسن معاملہ و اخالق کی خبر سن کر آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے
درخواست کی کہ میرا مال شراکت پر ملک شام کی طرف لے جائیں۔ میرا غالم میسرہ آپ
کے ساتھ جائے گا۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ بات قبول فرما لی۔اس سفر پر آپ شام
پہنچے اور ایک درخت کے نیچے اترے۔ وہاں ایک راہب کا گھر تھا۔ اس راہب نے آپ صلی
ہللا علیہ وسلم کو دیکھا تو میسرہ سے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہیں؟۔میسرہ نے کہا کہ
قریش اہل حرم میں سے ایک شخص ہیں ۔راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے نبی کے
عالوہ اور کوئی کبھی نہیں اترا۔ گویا یہ اس راہب کی آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت کی
پیشین گوئی تھی۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم اس تجارتی سفر کے دوران شام سے خوب نفع
لے کر واپس ہوئے۔ میسرہ نے اس سفر کے دوران دیکھا کہ جب دھوپ تیز ہوتی تھی تو دو
فرشتے آپ صلی ہللا علیہ وسلم پر سایہ کر لیتے تھے۔ جب آپ صلی ہللا علیہ وسلم مکہ
مکرمہ واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا کو ان کا مال سپرد کیا۔ معلوم ہوا کہ
دوگنا یا اس کے قریب نفع ہوا ہے۔ ساتھ ہی میسرہ نے حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا سے اس
راہب کا قول اور فرشتوں کا سایہ کرنے کا قصہ بیان کیا۔ حضرت خدیجہ نے اپنے چچا زاد
بھائی ورقہ بن نوفل سے اس تمام واقعے کا ذکر کیا۔ورقہ نے کہا کہ اے خدیجہ (رضی ہللا
عنہا)! اگر یہ بات صحیح ہے تو محمد صلی ہللا علیہ وسلم اس امت کے نبی ہیں اور مجھ کو
کتب سماویہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس امت میں ایک نبی ہونے واال ہے اور اس کا یہی زمانہ
ہے۔
حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہ بڑی عاقلہ تھیں۔ آپ نے یہ سب سن کر رسول صلی ہللا علیہ
وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی قرابت ،اشرف القوم ،امین ،خوش
خو،اور صادق القول ہونے کے باعث آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے نکاح کرنا چاہتی ہوں۔ یوں
حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا کو حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی پہلی زوجہ بننے کا شرف
بھی حاصل ہوا۔
جب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم پینتیس برس کے ہوئے تو قریش نے خانہ کعبہ از سر نو
تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ جب تعمیر حجر اسود کے مرحلے تک پہنچی تو ہر قبیلہ اور ہر
شخص یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو اس کی جگہ پر وہ خود رکھے۔ قریب تھا کہ اختالف
کی بدولت آپس میں ہتھیار چل جاتے۔ آخر اہل الرائے نے یہ مشورہ دیا کہ کل جو شخص سب
سے پہلے بیت ہللا میں داخل ہوگا ،وہی حجر cاسود کو نصب کرنے کا حق دار ہوگا۔ اگلی
صبح سب نے بیت ہللا میں پہلے پہنچنے کی کوشش کی لیکن ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ
وسلم کو سب سے پہلے ہی وہاں موجود پایا۔ آپ نے ایسی تدبیر نکالی کہ سب عش عش کر
اٹھے اور آپ کی اس حسن تدبیر کو خوب پسند کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بڑا کپڑا الؤ۔
چنانچہ کپڑا الیا گیا۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر cاسود کو
اس کپڑے پر رکھا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کا آدمی اس چادر کا ایک ایک پلہ تھام لے اور
خانہ کعبہ کے کونے تک الئے۔ جب حجر cاسودوہاں پہنچا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے
فرمایا کہ سب آدمی مجھے حجر اسود کو کعبہ کے جنوب مشرقی کونے پر رکھنے کے لئے
اپنا وکیل بنا دیں کہ وکیل کا فعل بمنزلہ موکل کے ہوتا ہے۔ پھر آپ نے حجر اسود کو اٹھا کر
6
اس جگہ پر رکھ دیا۔ اس فیصلے سے سب راضی ہوگئے کیونکہ اس طرح رکھنے میں سب
ہی شریک ہوگئے تھے۔ یوں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے دست مبارک سے حجر cاسود کو
اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔
ابن ہشام نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی پاکیزہ جوانی کا نقشہ انتہائی پیارے الفاظ میں کچھ
دور جوانی میں داخل یوں کھینچا ہے” :ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم ایسی حالت میں ِ
ہوئے کہ ہللا پاک آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی حفاظت cو نگرانی فرماتے اور دور جاہلیت کی
تمام گندگیوں سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو محفوظ رکھتے تھے۔ اس لئے کہ نبوت و رسالت
اور عزت و کرامت سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو سرفراز فرمانے کا ہللا کا ارادہ ہو چکا
تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم پورے جوان اور مرد بن گئے۔ مروت و حسن اخالق
میں قوم میں سب سے بہتر۔ حسب و نسب میں سب سے اعلی۔ سب سے اچھے ہمسائے اور
پڑوسی۔ حلم و بردباری اور امانت و دیانت میں سب پر فائق۔ بات کرنے میں سب سے سچے۔
فحش و بد اخالقی سے بہت دور ،یہاں تک کہ آپ امین کے لقب سے مشہور ہوئے ۔
:بعثت کے بعد
تعالی علیہ وسلم کی مقدس زندگی کا چالیسواں سال شروع ہوا تو ٰ حضور انور صلی ہللاِ جب
تعالی علیہ وسلم کی ذات اقدس میں ایک نیا انقالب رونما ہو گیا کہ ایک دم
ٰ ناگہاں آپ صلی ہللا
تعالی علیہ وسلم خلوت پسند ہو گئے اور اکیلے تنہائی میں بیٹھ کر خدا کی عبادت ٰ آپ صلی ہللا
تعالی علیہ وسلم اکثر اوقات غور و فکر میں
ٰ کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہو گیا۔ آپ صلی ہللا
تعالی علیہ وسلم کا بیشتر وقت مناظر قدرت کے مشاہدہ اور
ٰ پائے جاتے تھے اور آپ صلی ہللا
خالق کائنات کی ذات و صفات کے ِ کائنات فطرت کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ دن رات
تصور میں مستغرق اور اپنی قوم کے بگڑے ہوئے حاالت کے سدھار اور اس کی تدبیروں
کے سوچ بچار میں مصروف رہنے لگے اور ان دنوں میں ایک نئی بات یہ بھی ہو گئی کہ
تعالی علیہ وسلم کو اچھے اچھے خواب نظر آنے لگے اور آپ صلی ہللا ٰ حضور صلی ہللا
تعالی علیہ وسلم کا ہر خواب اتنا سچا ہوتا کہ خواب میں جو کچھ دیکھتے اس کی تعبیر صبح ٰ
صادق کی طرح روشن ہو کر ظاہر ہو جایا کرتی تھی۔
cالی علیہ وسccلم “ غccار حccراء ” کے انccدر عبccادت میں مشccغول تھے کہ ایک دن آپ صلی ہللا تعٰ c
cالی علیہ وسccلم کے پccاس ایccک فرشccتہ ظccاہر ہccوا۔ (یہ بالکccل اچانccک غccار میں آپ صccلی ہللا تعٰ c
حضرت جبریل علیہ السالم تھے جو ہمیشہ خدا عزوجل کا پیغام اس کے رسولوں علیہم الصالۃ
cالی
والسالم تک پہنچccاتے رہے ہیں) فرشccتے نے ایccک دم کہccا کہ “ پڑھcئے ” آپ صccلی ہللا تعٰ c
تعcالی علیہ
ٰ علیہ وسcلم نے فرمایcا کہ میں “ پڑھcنے واال نہیں ہcوں۔ ” فرشcتہ نے آپ صcلی ہللا
cالی علیہ وسccلم سccے زور دار وسلم کو پکڑا اور نہایت گccرم جوشccی کے سccاتھ آپ صccلی ہللا تعٰ c
تعالی علیہ وسلم نے پھccر فرمایccا کہ “ ٰ معانقہ کیا پھر چھوڑ کر کہا کہ “ پڑھئے ” آپ صلی ہللا
تعcالی علیہ وسccلم کcو
ٰ میں پڑھنے واال نہیں ہوں۔ ” فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھcر آپ صcلی ہللا
تعالی علیہ وسلم نے پھر ٰ اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہا کہ “ پڑھئے ” آپ صلی ہللا
cالی
وہی فرمایا کہ “ میں پڑھنے واال نہیں ہوں۔ ” تیسری مرتبہ پھر فرشتہ نے آپ صccلی ہللا تعٰ c
7
رہا ہوں اور اگر تم لوگ ایمان نہ الؤ گے تو تم پر عذاب ٰالہی اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام
تعالی علیہ وسلم کا چچا cابو لہب بھی تھا ،سخت ناراض ہو کر سب
ٰ قریش جن میں آپ صلی ہللا
تعالی علیہ وسلم کی شان میں اول فول بکنے لگے۔
ٰ کے سب چلے گئے اور حضور صلی ہللا
:ہجرت مدینہ
تعالی
ٰ مدینہ منورہ میں جب اسالم اور مسلمانوں کو ایک پناہ گاہ مل گئی تو حضور صلی اﷲ
علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو عام اجازت cدے دی کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے
تعالی عنہ نے ہجرت کی۔ اس کے
ٰ جائیں۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ
بعد یکے بعد دیگرے دوسرے لوگ بھی مدینہ روانہ ہونے لگے۔ جب کفار قریش کو پتہ چال
تو انہوں نے روک ٹوک شروع کر دی مگر چھپ چھپ کر لوگوں نے ہجرت کا سلسلہ جاری
رکھا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بہت سے صحابہ کرام مدینہ منورہ چلے گئے۔ صرف وہی
حضرات مکہ میں رہ گئے جو یا تو کافروں کی قید میں تھے یا اپنی مفلسی کی وجہ سے
مجبور تھے۔
تعالی علیہ وسلم کے قتل پر اتفاق کر چکے اور اپنے اپنے گھروں
ٰ جب کفار حضور صلی اﷲ
کو روانہ ہو گئے تو حضرت جبریل امین علیہ السالم رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو
9
گئے کہ اے محبوب ! آج رات کو آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف
تعالی علیہ وسلم حضرت ابوبکر ٰ لے جائیں۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت حضور صلی اﷲ
تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ ٰ صدیق رضی اﷲ
تعالی عنہ سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے۔ حضرت ابوبکر ٰ
تعالی علیہ وسلم آپ پر
ٰ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ ٰ صدیق رضی اﷲ
تعالی عنہا) کے سوا اور
ٰ میرے ماں باپ قربان یہاں آپ کی اہلیہ (حضرت عائشہ رضی ہللا
تعالی
ٰ تعالی عنہا سے حضور صلی اﷲ ٰ کوئی نہیں ہے (اُس وقت حضرت عائشہ رضی ہللا
تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر
ٰ علیہ وسلم کی شادی ہو چکی تھی) حضور صلی اﷲ
تعالی نے مجھے ہجرت کی اجازت cفرما دی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ ٰ ! اﷲ
تعالی علیہ وسلم پر قربان ! مجھےٰ تعالی عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ ٰ
تعالی علیہ وسلم نے ان کی درخواست ٰ بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائیے۔ آپ صلی اﷲ
منظور فرما لی اور حضرت علی رضی ہللا عنہ کو امانتوں کی ادائیگی کی وجہ سے پیچھے
چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
تعالی علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر چونکہ مدینہ میں پہلے سے پہنچ ٰ حضور اکرم صلی اﷲ
ِ
تعالی علیہ وسلم کی تشریف ٰ چکی تھی اور عورتوں بچوں تک کی زبانوں پر آپ صلی اﷲ
آوری کا چرچا تھا۔ اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔
مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج “مسجد قبا” بنی ہوئی ہے۔ ۱۲ربیع االول کو
تعالی علیہ وسلم رونق افروز ہوئے اور قبیلۂ عمرو بن عوف کے خاندان ٰ حضور صلی اﷲ
تعالی عنہ کے مکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اﷲ اکبر ! ٰ میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ
تعالی علیہ وسلم اورصحابہٰ عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت سید االنبیاء صلی اﷲ
تعالی عنہم کے نورانی اجتماع سے ایسا سماں بندھ گیا ہو گا کہ غالبا ً چاند ،سورج
ٰ رضی ہللا
زبان حال سے کہتے ہوں گے کہ یہ ِ اور ستارے حیرت کے ساتھ اس مجمع کو دیکھ کر
تعالی
ٰ فیصلہ مشکل ہے کہ آج انجمن آسمان زیادہ روشن ہے یا حضرت کلثوم بن ہدم رضی ہللا
جوش مسرت سے مسکرا مسکرا ِ عنہ کا مکان ؟ اور شاید خاندان عمر و بن عوف کا بچہ بچہ
زبان حال سے یہ نغمہ گاتا ہو گا کہ
ِ کر
:میثاق مدینہ
مدینہ میں انصccار کے عالوہ بہت سccے یہccودی بھی آبccاد تھے۔ ان یہودیccوں کے تین قccبیلے بنccو
قینقccاع ،بنccو نضccیر ،قccریظہ مccدینہ کے اطccراف میں آبccاد تھے اور نہccایت مضccبوط محالت اور
مستحکم قلعے بنا کر رہccتے تھے۔ ہجccرت سccے پہلے یہودیccوں اور انصccار میں ہمیشccہ اختالف
رہتا تھا اور وہ اختالف اب بھی موجود تھccا اور انصccار کے دونccوں قccبیلے اوس و خccزرج cبہت
10
کمزور ہو چکے تھے۔ کیونکہ مشہور لڑائی ” جنگ بعccاث ” میں ان دونccوں قccبیلوں کے بccڑے
بڑے سردار اور نامور بہادر آپس میں لڑ لڑ کر قتل ہو چکے تھے اور یہccودی ہمیشccہ اس قسccم
کی تدبیروں اور شرارتوں میں لگے رہتے تھے کہ انصار کے یہ دونوں قبائل ہمیشccہ ٹکccراتے
cالی
حضور اقccدس صccلی اﷲ تعٰ c
ِ رہیں اور کبھی بھی متحد نہ ہونے پائیں۔ ان وجوہات کی بنا پر
علیہ وسccلم نے یہودیccوں اور مسccلمانوں کے آئنccدہ تعلقccات کے بccارے میں ایccک معاہccدہ کی
ضرورت محسوس فرمائی تاکہ دونوں فریق امن و سccکون کے سccاتھ رہیں اور آپس میں کccوئی
cالی علیہ وسccلم نے انصccار اور یہccود
تصادم اور ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ چنccانچہ آپ صccلی ہللا تعٰ c
کوبال کر معاہدہ کی ایک دستاویز لکھوائی جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے۔
اس معاہدہ کی دفعات کا خالصہ حسب ِ ذیل ہے۔
( )۱خون بہا (جان کے بدلے جو مال دیا جاتا ہے) اور فدیہ (قیدی کو چھccڑانے کے بccدلے جccو
رقم دی جاتی ہے) کا جو طریقہ پہلے سے چال آتا تھا اب بھی وہ قائم رہے گا۔
( )۲یہودیوں کو مذہبی آزادی حاصل رہے گی ان کے مذہبی رسوم میں کوئی دخل اندازی نہیں
کی جائے گی۔
()۳یہودی اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔
( )۴یہودی یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی مccدد کccرے
گا۔
( )۵اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو دونوں فریق مل کر حملہ آور کا مقابلہ کریں گے۔
( )۶کوئی فریق قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دے گا۔
( )۷کسی دشمن سے اگر ایک فریccق صccلح کccرے گccا تccو دوسccرا فریccق بھی اس مصccالحت میں
شامل ہو گا ۔
آپ ﷺ کا وصال:
تعالی علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف النا صccرف اس لccئے ٰ حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ
تھا کہ آپ خدا کے آخری اور قطعی پیغام یعنی دین اسالم کے احکام اُس کے بندوں تccک پہنچccا
cالی علیہ وسccلم نے کیccونکر دیں اور خدا کی حجت تمام فرما دیں۔ اس کccام کccو آپ صccلی اﷲ تعٰ c
انجام دیا ؟ اور اس میں آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ؟ اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ جب
سے یہ دنیا عالَ ِم وجود میں آئی ہزاروں انبیاء و ُرسل علیہم السالم اس عظیم الشان کام کو انجام
دینے کے لئے اس عالم میں تشریف الئے مگر تمام انبیاء و مرسccلین کے تبلیغی کارنccاموں کccو
cالی علیہ وسccلم کے تبلیغی اگccر جمccع کccر لیccا جccائے تccو وہ حضccور سccرور عccالم صccلی اﷲ تعٰ c
شاہکاروں کے مقابلہ میں ایسے ہی نظر آئیں گے جیسے آفتاب عالم تccاب کے مقccابلہ میں ایccک
چراغ یا ایک صحرا کے مقابلہ میں ایccک ذرہ یcا ایccک سccمندر کے مقcابلہ میں ایccک قطccرہ۔ آپ
تعالی علیہ وسلم کی تبلیغ نے عالم میں ایسا انقالب پیدا کر دیا کہ کائنات ہستی کی ہر ٰ صلی اﷲ
پستی کو معراج کمال کی سربلندی عطا فرما کر ذلت کی زمین کو عزت کا آسccمان بنccا دیccا اور
11
دین حنیف کے اس مقدس اور نورانی محل کو جس کی تعمیر کے لئے حضرت آدم علیہ السالم
عیسی علیہ السالم تcک تمcام انبیcاء و رسcل معمcار بنcا کcر بھیجے جcاتے ٰ سے لے کر حضرت
تعالی علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی شان سے اس قصر ہدایت کو اس طرح ٰ رہے آپ صلی اﷲ
ت لَ ُك ْم ِد ْينَ ُك ْم کی مہر لگا دی۔
مکمل فرما دیا کہ حضرت حق جل جاللہ نے اس پر اَلَْي ْو َم اَ ْك َم ْل ُ
تعالی علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں ۲۰
ٰ یا ۲۲صفر ۱۱ھ کو حضور صلی اﷲ
کا قبرستان ہے آدھی رات میں تشریف لے گئے وہاں سے واپس تشریف الئے تو مزاج اقدس
تعالی عنہا کی باری کا دن تھا۔ سوموار کے دن آپ
ٰ ناساز ہو گیا یہ حضرت میمونہ رضی اﷲ
تعالی علیہ وسلم کی عاللت بہت شدید ہو گئی۔ آپ کی خواہش پر تمام ازواج مطہرات ٰ صلی اﷲ
تعالی عنہا
ٰ تعالی عنہن نے اجازت دے دی کہ آپ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ ٰ رضی ہللا
تعالی عنہما نے سہارا
ٰ کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ
تعالی عنہا کے
ٰ تعالی علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ ٰ دے کر آپ صلی اﷲ
حجرۂ مبارکہ میں پہنچا دیا۔ جب تک طاقت رہی آپ خود مسجد نبوی میں نمازیں پڑھاتے
رہے۔ جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی
تعالی عنہ میرے مصلی پر امامت کریں۔ چنانچہ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق ٰ اﷲ
تعالی عنہ نے پڑھائیں۔
ٰ رضی اﷲ
تعالی علیہ
ٰ ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا تو آپ صلی اﷲ
وسلم نے حکم دیا کہ سات پانی کی مشکیں میرے اوپر ڈالی جائیں۔ جب آپ غسل فرما چکے
تعالی عنہما آپ کا مقدس بازو تھام کر آپ کو ٰ تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اﷲ
تعالی عنہ نماز پڑھا رہے تھے آہٹ پاکر ٰ مسجد میں الئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ
پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے اشارہ سے ان کو روکا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر نماز
تعالی عنہ اور
ٰ تعالی علیہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ ٰ پڑھائی۔ آپ صلی اﷲ
تعالی علیہ وسلم
ٰ دوسرے مقتدی لوگ ارکان نماز ادا کرتے رہے۔ نماز کے بعد آپ صلی اﷲ
نے ایک خطبہ بھی دیا جس میں بہت سی وصیتیں اور احکام اسالم بیان فرما کر انصار کے
فضائل اور ان کے حقوق کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سورۂ و العصر اور
تعالی علیہ وسلم کے مرض میں کمی بیشی ہوتی ٰ ایک آیت بھی تالوت فرمائی۔ آپ صلی اﷲ
رہتی تھی۔ خاص وفات کے دن یعنی سوموارکے روز طبیعت اچھی تھی۔ حجرہ cمسجد سے
متصل ہی تھا۔ آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر خوشی
سے آپ ہنس پڑے لوگوں نے سمجھا کہ آپ مسجد میں آنا چاہتے ہیں مارے خوشی کے تمام
لوگ بے قابو ہو گئے مگر آپ نے اشارہ سے روکا اور حجرہ cمیں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا یہ
تعالی عنہم نے جمال نبوت کی زیارت کی۔ ٰ سب سے آخری موقع تھا کہ صحابہ کرام رضی ہللا
ُخ انور
تعالی علیہ وسلم کا ر ِ
ٰ تعالی عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اﷲٰ حضرت انس رضی اﷲ
ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا قرآن کا کوئی ورق ہے۔ یعنی سفید ہو گیا تھا۔
12
پاس میں پانی کی ایک لگن تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ اقدس پر ملتے اور کلمہ
پڑھتے۔ چادر مبارک کو کبھی منہ پر ڈالتے کبھی ہٹا دیتے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ
تعالی عنہا سر اقدس کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اتنے میں آپ صلی اﷲ ٰ
الرفِْي ُق
تعالی علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ فرمایا اور تین مرتبہ یہ فرمایا کہ بَ ِل َّ
ٰ
زبان اقدس پر تھے کہ ناگہاں مقدس
ِ ااْل َ ْع ٰلي اب کوئی نہیں ،بلکہ وہ بڑا رفیق چاہیے۔ یہی الفاظ
ہاتھ لٹک گئے اور آنکھیں چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہیں اور آپ کی
قدسی روح عالَ ِم قدس میں پہنچ گئی۔
ِ ٍ ِ ِ ٰ ِ ِ ِ ِِ ِ
ص َحابِه اَمْج َعنْي َ
ص ِّل َو َسلِّ ْم َوبَا ِر ْك َع ٰلي َسيِّدنَا حُمَ َّمد َّو اٰله َواَ ْ
انَّا ِﷲ َو انَّا الَْيه َراجعُ ْو َن۔ اَللّ ُه َّم َ
نعت
اے رسول امیں ،خاتم المرسلیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب ،اے تو عالی نسب ،اے تو واال حسب
دودمان قریشی کے ُد ِرثمین ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
ِ
دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے ،جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے
اے ازل کے حسیں ،اے ابد کے حسیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
13
بزم کونین پہلے سجائی گئی ،پھر تری ذات منظر پر الئی گئی
سید ااالولیں ،سید اآلخریں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
تیرا سکہ رواں کل جہاں میں ہوا ،اِس زمیں میں ہوا ،آسماں میں ہوا
زیر نگیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
کیا عرب کیا عجم ،سب ہیں ِ
تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی ،تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی
تیرے انفاس میں خلد کی یاسمیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی ،زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی
لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں"
مجتبے ،تیری مدح وثنا ،میرے بس میں ،دسترس میں نہیںٰ مصطفے
ٰ
دل کو ہمت نہیں ،لب کو یارا نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
دلبر عاشقاں
سرور دلبراں ِ
ِ انفس دوجہاں،
ِ اے سراپا نفیس
جان حزیں ،تجھ سا کوئی نہیں ،تجھ سا کوئی نہیں
ڈھونڈتی ہے تجھے میری ِ