ربیع الاول

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 13

‫‪1‬‬

‫خ‬
‫طب ہ ‪ 12‬رب ی ع االول‬

‫ف تن تہ ت‬
‫کی دمحم سے و ا و ے و ق م ی رے ہ ی ں‬
‫ت‬
‫ے ک ی نا لوح و لم ی رے ہ ی ں‬
‫ی ہ ج ہاں چ یز ہ‬ ‫غ‬
‫دمحم عمان اص ر‬
‫ٹ ف‬ ‫خ‬
‫طی ب ج امع مسج د ‪A‬سی ک ر‪ ،‬ی ز‪5‬‬

‫ت ف خ‬ ‫تث‬
‫ت اث رات حمترم ی زئ طیٹب صاحب‬
‫ا رات حم رم ڈا ری ک ر صاحب‬

‫ت ٹ‬ ‫فن‬ ‫ن‬ ‫ش‬


‫ن‬
‫عب ہ دی ی امور ڈی س ہ اؤس گ ا ھار ی الہ ور‬
‫ٰ‬
‫الشیطن الرجیم۔‬ ‫علی رسولہ الکریم۔ اما بعد فاعوذ باہلل من‬
‫ٰ‬ ‫نحمدہ و نصلی‬
‫بسم ہللا الرحمٰ ن الرحیم۔‬

‫يم (آل عمران‪:‬‬ ‫قُل ِإ ْن ُك ْنتم تُ ِحبُّو َن اللَّه فَاتَّبِعونِي يحبِب ُكم اللَّه وي ْغ ِفر لَ ُكم ذُنُوب ُكم واللَّه غَ ُف ِ‬
‫ور َرح ٌ‬
‫َ ُ ُ ْ ْ ُ ُ ََ ْ ْ َ ْ َ ُ ٌ‬ ‫ُْ‬ ‫ْ‬
‫‪)31‬‬

‫وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے واال‬ ‫مرادیں غریبوں کی بر النے واال‬
‫مصیبت میں غیروں کے کام آنے واال‬ ‫وہ اپنے پرائے کا غم کھانے واال‬
‫ٰ‬
‫ماوی ‪ ،‬ضعیفوں کا ملجا‬ ‫فقیروں کا‬ ‫مولی‬
‫ٰ‬ ‫یتیموں کا والی‪ ،‬غالموں کا‬
‫‪2‬‬

‫معزز سامعین! ہماری آج کی اس نشست میں آپ ﷺ کی سیرت طیبہ پر گفتگو کی جائے‬


‫گی اور اسی مناسبت سے ہماری گفتگو کا عنوان ہے‬
‫ف تن ت ت‬
‫کی دمحم سے و ا و ے و ہ م ی رے ہ ی ں‬
‫ق‬
‫ت‬
‫ے ک ی ا لوح و لم ی رے ہ ی ں‬
‫ی ہ ج ہاں چ یز ہ‬

‫‪:‬حضور ﷺ کی والدت با سعادت‬


‫تعالی علیہ وسلم کی تاریخ پیدائش کے بارے میں قول مشہور یہی ہے‬ ‫ٰ‬ ‫حضور اقدس صلی ہللا‬
‫کہ واقعہ ’’ اصحاب فیل ‘‘ سے پچپن دن کے بعد ‪ ۱۲‬ربیع االول مطابق ‪ ۲۰‬اپریل ‪ ۵۷۱‬ء کو‬
‫والدت باسعادت ہوئی ۔‬
‫ض‬
‫تاریخ عالم میں یہ وہ نراال اور عظمت واال دن ہے کہ اس روز ‪ ،‬بانی کعبہ ح رت ابراہ ی م علی ہ‬
‫ت‬
‫عیسی ابن مریم علیہما السالم کی بشارت کا ظہور ہوا۔ کائنا ِ‬ ‫ٰ‬ ‫السالم کی دعااور حضرت‬
‫وج‪cc‬ود کے الجھے ہ‪cc‬وئے گیس‪cc‬وؤں ک‪cc‬و س‪cc‬نوارنے واال‪ ،‬تم‪cc‬ام جہ‪cc‬ان کے بگ‪cc‬ڑے نظ‪cc‬اموں ک‪cc‬و‬
‫‪c‬الی‬
‫‪c‬طفی ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫‪c‬بی‪ ،‬محم‪cc‬د مص‪ٰ c‬‬‫سدھارنے واال ‪ ،‬سند االصفیاء‪ ،‬اشرف االنبیاء‪ ،‬احم‪cc‬د مجت‪ٰ c‬‬
‫عالم وجود میں رونق اف‪cc‬روز ہ‪cc‬وئے اور پ‪cc‬اکیزہ ب‪cc‬دن‪ ،‬ختنہ ک‪cc‬ئے ہ‪cc‬وئے خوش‪cc‬بو میں‬ ‫علیہ وسلم ِ‬
‫بسے ہوئے مکہ مکرمہ کی مقدس س‪cc‬ر زمین میں اپ‪cc‬نے وال‪cc‬د ماج‪cc‬د کے مک‪cc‬ان کے ان‪cc‬در پی‪cc‬دا‬
‫طواف کعبہ میں مشغول تھے۔ یہ خوش‪cc‬خبری س‪cc‬ن ک‪cc‬ر دادا‬ ‫ِ‬ ‫ہوئے ۔دادا بالئے گئے جو اس وقت‬
‫‪c‬وش محبت میں اپ‪c‬نے‬ ‫“عبدالمطلب” خوش خوش حرم کعبہ سے اپ‪c‬نے گھ‪c‬ر آئے اور والہ‪c‬انہ ج‪ِ c‬‬
‫پ‪c‬وتے ک‪cc‬و کلیجے س‪cc‬ے لگ‪cc‬ا لی‪cc‬ا۔ پھ‪cc‬ر کعبہ میں لے ج‪cc‬ا ک‪cc‬ر خ‪cc‬یر و ب‪cc‬رکت کی دع‪cc‬ا م‪cc‬انگی اور‬
‫“محمد” نام رکھا۔‪ ‬‬
‫‪c‬ری ل‪cc‬رز اٹھ‪cc‬ا اور اس کے چ‪cc‬ودہ کنگ‪cc‬رے گ‪cc‬ر گ‪cc‬ئے اور‬‫حض‪cc‬ور ﷺ کی والدت پ‪cc‬ر ای‪cc‬وان کس‪ٰ c‬‬
‫دریائے سادہ خشک ہو گیا اور اس کا پانی زیر زمین چال گیا‪ ‬اور فارس‪cc‬یوں ک‪cc‬ا آتش‪cc‬گدہ بجھ گی‪cc‬ا‬
‫جو کہ ایک ہزار سال سے گرم تھا۔ ‪ ‬آسمانوں پر پہلے شیاطین چلے جاتے تھے اور کاہنوں ک‪cc‬و‬
‫بعض مغیبات کی خبر دے دیتے تھے اور وہ لوگوں ک‪cc‬و کچھ اپ‪c‬نی ط‪cc‬رف س‪cc‬ے مال ک‪cc‬ر بت‪cc‬ا دی‪cc‬ا‬
‫کرتے تھے لیکن حضور صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی آمد سے آسمانوں میں ان کا آنا جانا بند ہو‬
‫گیا اور آسمانوں کی حفاظت شہاب ثاقب سے کر دی گئی تو اس طرح وحی اور غ‪cc‬یر وحی میں‬
‫غلط ملط ہو جانے کا اندیشہ جاتا رہا۔‪ ‬‬

‫حضور ﷺ کا بچپن‪:‬‬
‫تعالی علیہ وس‪c‬لم نے اب‪c‬ولہب کی لون‪c‬ڈی “حض‪c‬رت ث‪c‬ویبہ” ک‪c‬ا‬‫ٰ‬ ‫سب سے پہلے حضور صلی ہللا‬
‫‪c‬الی عنہ‪cc‬ا کے دودھ س‪cc‬ے‬
‫دودھ نوش فرمای‪cc‬ا پھ‪cc‬ر اپ‪cc‬نی وال‪cc‬دہ ماج‪cc‬دہ حض‪cc‬رت آمنہ رض‪cc‬ی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫تعالی عنہا آپ کو اپنے ساتھ لے گئیں‬‫ٰ‬ ‫سیراب ہوتے رہے‪ ،‬پھر حضرت حلیمہ سعدیہ رضی ہللا‬
‫‪c‬الی‬
‫اور اپ‪cc‬نے ق‪cc‬بیلہ میں رکھ ک‪cc‬ر آپ ک‪cc‬و دودھ پالتی رہیں اور انہیں کے پ‪cc‬اس آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫علیہ وسلم کے دودھ پینے کا زمانہ گزرا۔‬
‫شرفاء عرب کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچوں کو دودھ پالنے کے لئے گردو نواح دیہاتوں میں‬
‫بھیج دیتے تھے دیہات کی صاف ستھری آب و ہوا میں بچوں کی تندرستی اور جسمانی صحت‬
‫‪3‬‬

‫بھی اچھی ہو جاتی تھی اور وہ خالص اور فصیح عربی زب‪cc‬ان بھی س‪cc‬یکھ ج‪cc‬اتے تھے کی‪cc‬ونکہ‬
‫شہر کی زبان باہر کے آدمی‪c‬وں کے می‪c‬ل ج‪c‬ول س‪c‬ے خ‪c‬الص اور فص‪c‬یح و بلی‪c‬غ زب‪c‬ان نہیں رہ‪c‬ا‬
‫کرتی۔‬
‫تعالی علیہ واالہ وسلم چراگاہ‪ c‬میں تھے کہ ایک دم حضرت حلیمہ رض‪cc‬ی‬ ‫ٰ‬ ‫ایک دن آپ صلی ہللا‬
‫تعالی عنہا کے ایک فرزند “ضمرہ” دوڑتے اور ہانپتے ک‪cc‬انپتے ہ‪cc‬وئے اپ‪cc‬نے گھ‪cc‬ر پ‪cc‬ر آئے‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫تعالی عنہا سے کہا کہ اماں جان! بڑا غض‪cc‬ب ہ‪cc‬و‬ ‫ٰ‬ ‫اور اپنی ماں حضرت بی بی حلیمہ رضی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم) کو تین آدمیوں نے جو بہت ہی س‪cc‬فید لب‪cc‬اس پہ‪cc‬نے ہ‪cc‬وئے‬ ‫ٰ‬ ‫گیا‪ ،‬محمد (صلی ہللا‬
‫تھے‪ ،‬چت لٹا کر ان کا شکم پھاڑ ڈاال ہے اور میں اسی حال میں ان کو چھوڑ کر بھاگ‪c‬ا ہ‪c‬وا آی‪c‬ا‬
‫تعالی عنہا اور ان کے شوہر دون‪cc‬وں ب‪cc‬دحواس ہ‪cc‬و ک‪cc‬ر‬ ‫ٰ‬ ‫ہوں۔ یہ سن کر حضرت حلیمہ رضی ہللا‬
‫‪c‬الی علیہ وآلہ وس‪cc‬لم‬ ‫گھبرائے ہوئے دوڑ کر جنگل میں پہنچے ت‪cc‬و یہ دیکھ‪cc‬ا کہ آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫بیٹھے ہوئے ہیں۔ مگر خوف و ہراس سے چہرہ زرد اور اداس ہے‪ ،‬حض‪cc‬رت حلیمہ رض‪cc‬ی ہللا‬
‫تعالی عنہا کے شوہر نے انتہائی مشفقانہ لہجے میں پیار س‪cc‬ے چمک‪cc‬ار‪ c‬ک‪cc‬ر پوچھ‪cc‬ا کہ بیٹ‪cc‬ا! کی‪cc‬ا‬ ‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمای‪cc‬ا کہ تین ش‪cc‬خص جن کے ک‪cc‬پڑے بہت ہی‬ ‫ٰ‬ ‫بات ہے؟ آپ صلی ہللا‬
‫سفیداور صاف ستھرے تھے میرے پاس آئے اور مجھ کو چت لٹا کر م‪c‬یرا ش‪c‬کم چ‪cc‬اک ک‪c‬رکے‬
‫اس میں سے کوئی چیز نکال کر باہر پھینک دی اور پھر کوئی چ‪cc‬یز م‪cc‬یرے ش‪cc‬کم میں ڈال ک‪cc‬ر‬
‫شگاف کو سی دیا لیکن مجھے ذرہ برابر بھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔یہ واقعہ سن کر حضرت‬
‫تعالی عنہا اور ان کے ش‪cc‬وہر دون‪cc‬وں بے ح‪cc‬د گھ‪cc‬برائے اور ش‪cc‬وہر نے کہ‪cc‬ا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫حلیمہ رضی ہللا‬
‫تعالی عنہا مجھے ڈر ہے کہ ان کے اوپر شاید کچھ آسیب کا اثر ہے لہٰ ذا بہت‬ ‫ٰ‬ ‫حلیمہ! رضی ہللا‬
‫جل‪c‬د تم ان ک‪cc‬و ان کے گھ‪cc‬ر وال‪cc‬وں کے پ‪c‬اس چھ‪c‬وڑ آؤ۔ اس کے بع‪c‬د حض‪c‬رت حلیمہ رض‪cc‬ی ہللا‬
‫تعالی عنہا آپ کو لے کر مکہ مکرمہ آئیں کیونکہ انہیں اس واقعہ سے یہ خوف پیدا ہو گیا تھ‪cc‬ا‬ ‫ٰ‬
‫‪c‬الی عنہ‪cc‬ا‬
‫کہ شاید اب ہم کماحقہ ان کی حفاظت‪ c‬نہ کر س‪cc‬کیں گے۔ حض‪cc‬رت حلیمہ رض‪cc‬ی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫‪c‬الی علیہ وآلہ وس‪cc‬لم کی وال‪cc‬دہ ماج‪cc‬دہ رض‪cc‬ی ہللا‬ ‫نے جب مکہ معظمہ پہنچ ک‪cc‬ر آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫تعالی عنہا تم تو بڑی‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہا کے سپرد کیا تو انہوں نے دریافت فرمایا کہ حلیمہ! رضی ہللا‬ ‫ٰ‬
‫خواہش اور چاہ کے ساتھ میرے بچے کو اپنے گھر لے گئی تھیں پھ‪cc‬ر اس ق‪cc‬در جل‪cc‬د واپس لے‬
‫تعالی عنہا نے شکم چاک ک‪c‬رنے ک‪c‬ا واقعہ‬ ‫ٰ‬ ‫آنے کی وجہ کیا ہے؟ جب حضرت حلیمہ رضی ہللا‬
‫‪c‬الی عنہ‪cc‬ا نے فرمای‪cc‬ا کہ‬ ‫بیان کیا اور آسیب کا شبہ ظاہر کیا تو حضرت بی بی آمنہ رضی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫ہر گز نہیں‪ ،‬خدا کی قسم! میرے نور نظر پر ہرگز ہرگز کبھی بھی کسی جن یا شیطان کا عمل‬
‫دخل نہیں ہو سکتا۔ میرے بیٹے کی بڑی شان ہے۔ پھ‪cc‬ر ای‪cc‬ام حم‪cc‬ل اور وقت والدت کے ح‪cc‬یرت‬
‫تعالی عنہا کو مطمئن کر دیا اور حضرت حلیمہ‬ ‫ٰ‬ ‫انگیز واقعات سنا کر حضرت حلیمہ رضی ہللا‬
‫تعالی علیہ وآلہ وسلم ک‪cc‬و آپ کی وال‪cc‬دہ ماج‪cc‬دہ کے س‪cc‬پرد ک‪cc‬ر‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی عنہا آپ صلی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫‪c‬الی علیہ واالہ وس‪cc‬لم اپ‪cc‬نی وال‪cc‬دہ ماج‪cc‬دہ‬
‫کے اپنے گاؤں میں واپس چلی آئیں اور آپ صلی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫آغوش تربیت میں پرورش پانے لگے۔‬ ‫ِ‬ ‫کی‬
‫تعالی عنہا کے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ والہ وسلم حضرت حلیمہ رضی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫جب حضور اقدس صلی ہللا‬
‫“ام‬
‫گھر سے مکہ مکرمہ پہنچ گئے اور اپنی والدہ محترمہ کے پاس رہنے لگے تو حضرت ِ‬
‫تعالی علیہ والہ وسلم کی خاطر داری‬ ‫ٰ‬ ‫ایمن” جو آپکے والد ماجد کی باندی تھیں آپ صلی ہللا‬
‫اور خدمت گزاری میں دن رات جی جان سے مصروف رہنے لگیں۔ ِام ایمن کا نام “برکۃ” ہے‬
‫تعالی عنہ سے میراث میں ملی‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ والہ وسلم کو آپ کے والد رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫یہ آپ صلی ہللا‬
‫‪4‬‬

‫تھیں۔ یہی آپ کو کھانا کھالتی تھیں کپڑے پہناتی تھیں آپ کے کپڑے دھویا کرتی تھیں آپ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ والہ وسلم نے اپنے آزاد کردہ غالم حضرت زید بن حارثہ رضی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫صلی ہللا‬
‫تعالی عنہ پیدا ہوئے۔‬
‫ٰ‬ ‫عنہ سے ان کا نکاح کر دیا تھا جن سے حضرت اسامہ بن زید رضی ہللا‬

‫تعالی علیہ وسلم کی عمر ش‪c‬ریف جب چھ ب‪c‬رس کی ہ‪c‬و گ‪c‬ئی ت‪c‬و آپ کی‬ ‫ٰ‬ ‫حضور اقدس صلی ہللا‬
‫‪c‬الی علیہ والہ وس‪cc‬لم ک‪cc‬و س‪cc‬اتھ لے ک‪cc‬ر م‪cc‬دینہ‬
‫‪c‬الی عنہ‪cc‬ا آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫والدہ ماجدہ رضی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫منورہ آپ کے دادا کے نانھیال بنو عدی بن نجار میں رش‪cc‬تہ داروں کی مالق‪cc‬ات ی‪cc‬ا اپ‪cc‬نے ش‪cc‬وہر‬
‫تعالی علیہ والہ وس‪cc‬لم کے وال‪c‬د‬
‫ٰ‬ ‫کی قبر کی زیارت کے لئے تشریف لے گئیں۔ حضور صلی ہللا‬
‫ماجد کی باندی ِام ایمن بھی اس سفر میں آپ کے ساتھ تھیں وہاں سے واپسی پر “اب‪cc‬واء” ن‪cc‬امی‬
‫‪c‬الی عنہ‪cc‬ا کی وف‪cc‬ات ہ‪cc‬و گ‪cc‬ئی اور وہ وہیں م‪cc‬دفون‬
‫گ‪cc‬اؤں میں حض‪cc‬رت بی بی آمنہ رض‪cc‬ی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫تعالی علیہ والہ وسلم کی عمر شریف آٹھ برس کی ہو گ‪cc‬ئی ت‪cc‬و آپ کے‬ ‫ٰ‬ ‫ہوئیں۔‪ ‬جب آپ صلی ہللا‬
‫دادا عبدالمطلب کا بھی انتقال ہو گیا۔‬
‫تعالی علیہ والہ وسلم کے چچا جناب اب‪cc‬و ط‪cc‬الب نے‬
‫ٰ‬ ‫عبدالمطلب کی وفات کے بعد آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم کی نی‪cc‬ک خص‪cc‬لتوں‬
‫ٰ‬ ‫آغوش تربیت میں لے لیا اور حضور صلی ہللا‬
‫ِ‬ ‫آپ کو اپنی‬
‫تع‪cc‬الی‬
‫ٰ‬ ‫اور دل لبھا دینے والی بچپن کی پیاری پیاری اداؤں نےجناب ابو طالب کو آپ صلی ہللا‬
‫علیہ والہ وسلم کا ایسا گرویدہ بنا دیا کہ مکان کے اندر اور باہر ہر وقت آپ کو اپ‪cc‬نے س‪cc‬اتھ ہی‬
‫رکھتے۔ اپنے ساتھ کھالتے پالتے‪ ،‬اپنے پاس ہی آپ کا بستر بچھاتے اور ایک لمحہ کے ل‪cc‬ئے‬
‫بھی کبھی اپنی نظروں سے اوجھل نہیں ہونے دیتے تھے۔‬
‫‪c‬الی علیہ‬
‫جناب ابو طالب کا بیان ہے کہ میں نے کبھی بھی نہیں دیکھ‪cc‬ا کہ حض‪cc‬ور ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫وسلم کسی وقت بھی کوئی جھوٹ بولے ہوں یا کبھی کسی کو دھوکہ دیا ہو‪ ،‬ی‪c‬ا کبھی کس‪cc‬ی ک‪cc‬و‬
‫کوئی ایذا پہنچائی ہو‪ ،‬یا بیہ‪cc‬ودہ لڑک‪cc‬وں کے پ‪cc‬اس کھیل‪cc‬نے کے ل‪cc‬ئے گ‪cc‬ئے ہ‪cc‬وں ی‪cc‬ا کبھی ک‪cc‬وئی‬
‫خالف تہذیب بات کی ہو۔ ہمیشہ انتہائی خوش اخالق‪ ،‬نیک اطوار‪ ،‬ن‪cc‬رم گفت‪cc‬ار‪ ،‬بلن‪cc‬د ک‪cc‬ردار اور‬ ‫ِ‬
‫اعلی درجہ کے پارسا اور پرہیز گار رہے۔‬ ‫ٰ‬

‫‪:‬حضور ﷺ کی جوانی کے ایام‬


‫آ پ جانتے ہیں کہ جوانی کا دور انسانی زندگی کا وہ اہم ترین دور ہوتا ہے کہ جب تمام ٰ‬
‫قوی‬
‫اپنے جوبن پر ہوتے ہیں اور جذبات کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہوتا ہے جس کے زور میں آدمی‬
‫کے بہہ جانے کا شدید ترین خطرہ‪ c‬ہوتا ہے اور اکثر نوجوان کسی نہ کسی درجے میں اس رو‬
‫میں بہک اور بھٹک بھی جاتے ہیں۔لیکن پیارے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کی جوانی کا‬
‫دور عام جوانوں سے بالکل مختلف اور منفرد تھا۔ اس دور میں نو جوانوں میں جو ال ابالی پن‬
‫اور جذباتیت ہوتی ہے وہ آنحضور صلی ہللا علیہ وسلم میں بالکل نہیں تھی۔آپ صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم بچپن ہی سے شجاع اور بہادر تھے ۔ جب آپ صلی ہللا علیہ وسلم پندرہ سال کے ہوئے‬
‫تو قریش کی دوسرے قبیلے سے ایک لڑائی ہوئی‪ ،‬جس میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم اپنے‬
‫عزیز و اقارب کو دشمنوں کے تیروں سے بچاتے تھے۔جب آپ صلی ہللا علیہ وسلم پچیس‬
‫سال کے ہوئے تو حضرت خدیجہ بنت خویلد رضی ہللا عنہا نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کے‬
‫‪5‬‬

‫صدق و امانت اور حسن معاملہ و اخالق کی خبر سن کر آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے‬
‫درخواست کی کہ میرا مال شراکت پر ملک شام کی طرف لے جائیں۔ میرا غالم میسرہ آپ‬
‫کے ساتھ جائے گا۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے یہ بات قبول فرما لی۔اس سفر پر آپ شام‬
‫پہنچے اور ایک درخت کے نیچے اترے۔ وہاں ایک راہب کا گھر تھا۔ اس راہب نے آپ صلی‬
‫ہللا علیہ وسلم کو دیکھا تو میسرہ سے دریافت کیا کہ یہ کون شخص ہیں؟۔میسرہ نے کہا کہ‬
‫قریش اہل حرم میں سے ایک شخص ہیں ۔راہب نے کہا کہ اس درخت کے نیچے نبی کے‬
‫عالوہ اور کوئی کبھی نہیں اترا۔ گویا یہ اس راہب کی آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت کی‬
‫پیشین گوئی تھی۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم اس تجارتی سفر کے دوران شام سے خوب نفع‬
‫لے کر واپس ہوئے۔ میسرہ نے اس سفر کے دوران دیکھا کہ جب دھوپ تیز ہوتی تھی تو دو‬
‫فرشتے آپ صلی ہللا علیہ وسلم پر سایہ کر لیتے تھے۔ جب آپ صلی ہللا علیہ وسلم مکہ‬
‫مکرمہ واپس پہنچے تو حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا کو ان کا مال سپرد کیا۔ معلوم ہوا کہ‬
‫دوگنا یا اس کے قریب نفع ہوا ہے۔ ساتھ ہی میسرہ نے حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا سے اس‬
‫راہب کا قول اور فرشتوں کا سایہ کرنے کا قصہ بیان کیا۔ حضرت خدیجہ نے اپنے چچا زاد‬
‫بھائی ورقہ بن نوفل سے اس تمام واقعے کا ذکر کیا۔ورقہ نے کہا کہ اے خدیجہ (رضی ہللا‬
‫عنہا)! اگر یہ بات صحیح ہے تو محمد صلی ہللا علیہ وسلم اس امت کے نبی ہیں اور مجھ کو‬
‫کتب سماویہ سے معلوم ہوا ہے کہ اس امت میں ایک نبی ہونے واال ہے اور اس کا یہی زمانہ‬
‫ہے۔‬
‫حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہ بڑی عاقلہ تھیں۔ آپ نے یہ سب سن کر رسول صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کے پاس پیغام بھیجا کہ میں آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی قرابت‪ ،‬اشرف القوم‪ ،‬امین‪ ،‬خوش‬
‫خو‪،‬اور صادق القول ہونے کے باعث آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے نکاح کرنا چاہتی ہوں۔ یوں‬
‫حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا کو حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی پہلی زوجہ بننے کا شرف‬
‫‪ ‬بھی حاصل ہوا۔‬
‫جب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم پینتیس برس کے ہوئے تو قریش نے خانہ کعبہ از سر نو‬
‫تعمیر کرنے کا ارادہ کیا۔ جب تعمیر حجر اسود کے مرحلے تک پہنچی تو ہر قبیلہ اور ہر‬
‫شخص یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو اس کی جگہ پر وہ خود رکھے۔ قریب تھا کہ اختالف‬
‫کی بدولت آپس میں ہتھیار چل جاتے۔ آخر اہل الرائے نے یہ مشورہ دیا کہ کل جو شخص سب‬
‫سے پہلے بیت ہللا میں داخل ہوگا ‪ ،‬وہی حجر‪ c‬اسود کو نصب کرنے کا حق دار ہوگا۔ اگلی‬
‫صبح سب نے بیت ہللا میں پہلے پہنچنے کی کوشش کی لیکن ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کو سب سے پہلے ہی وہاں موجود پایا۔ آپ نے ایسی تدبیر نکالی کہ سب عش عش کر‬
‫اٹھے اور آپ کی اس حسن تدبیر کو خوب پسند کیا۔ آپ نے فرمایا کہ ایک بڑا کپڑا الؤ۔‬
‫چنانچہ کپڑا الیا گیا۔ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے اپنے دست مبارک سے حجر‪ c‬اسود کو‬
‫اس کپڑے پر رکھا اور فرمایا کہ ہر قبیلے کا آدمی اس چادر کا ایک ایک پلہ تھام لے اور‬
‫خانہ کعبہ کے کونے تک الئے۔ جب حجر‪ c‬اسودوہاں پہنچا تو آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫فرمایا کہ سب آدمی مجھے حجر اسود کو کعبہ کے جنوب مشرقی کونے پر رکھنے کے لئے‬
‫اپنا وکیل بنا دیں کہ وکیل کا فعل بمنزلہ موکل کے ہوتا ہے۔ پھر آپ نے حجر اسود کو اٹھا کر‬
‫‪6‬‬

‫اس جگہ پر رکھ دیا۔ اس فیصلے سے سب راضی ہوگئے کیونکہ اس طرح رکھنے میں سب‬
‫ہی شریک ہوگئے تھے۔ یوں حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے دست مبارک سے حجر‪ c‬اسود کو‬
‫‪ ‬اس کی جگہ پر رکھ دیا گیا۔‬
‫ابن ہشام نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی پاکیزہ جوانی کا نقشہ انتہائی پیارے الفاظ میں کچھ‬
‫دور جوانی میں داخل‬ ‫یوں کھینچا ہے‪” :‬ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم ایسی حالت میں ِ‬
‫ہوئے کہ ہللا پاک آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی حفاظت‪ c‬و نگرانی فرماتے اور دور جاہلیت کی‬
‫تمام گندگیوں سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو محفوظ رکھتے تھے۔ اس لئے کہ نبوت و رسالت‬
‫اور عزت و کرامت سے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کو سرفراز فرمانے کا ہللا کا ارادہ ہو چکا‬
‫تھا۔ یہاں تک کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم پورے جوان اور مرد بن گئے۔ مروت و حسن اخالق‬
‫میں قوم میں سب سے بہتر۔ حسب و نسب میں سب سے اعلی۔ سب سے اچھے ہمسائے اور‬
‫پڑوسی۔ حلم و بردباری اور امانت و دیانت میں سب پر فائق۔ بات کرنے میں سب سے سچے۔‬
‫فحش و بد اخالقی سے بہت دور‪ ،‬یہاں تک کہ آپ امین کے لقب سے مشہور ہوئے ۔‬

‫‪:‬بعثت کے بعد‬
‫تعالی علیہ وسلم کی مقدس زندگی کا چالیسواں سال شروع ہوا تو‬ ‫ٰ‬ ‫حضور انور صلی ہللا‬‫ِ‬ ‫جب‬
‫تعالی علیہ وسلم کی ذات اقدس میں ایک نیا انقالب رونما ہو گیا کہ ایک دم‬
‫ٰ‬ ‫ناگہاں آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم خلوت پسند ہو گئے اور اکیلے تنہائی میں بیٹھ کر خدا کی عبادت‬ ‫ٰ‬ ‫آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم اکثر اوقات غور و فکر میں‬
‫ٰ‬ ‫کرنے کا ذوق و شوق پیدا ہو گیا۔ آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم کا بیشتر وقت مناظر قدرت کے مشاہدہ اور‬
‫ٰ‬ ‫پائے جاتے تھے اور آپ صلی ہللا‬
‫خالق کائنات کی ذات و صفات کے‬ ‫ِ‬ ‫کائنات فطرت کے مطالعہ میں صرف ہوتا تھا۔ دن رات‬
‫تصور میں مستغرق اور اپنی قوم کے بگڑے ہوئے حاالت کے سدھار اور اس کی تدبیروں‬
‫کے سوچ بچار میں مصروف رہنے لگے اور ان دنوں میں ایک نئی بات یہ بھی ہو گئی کہ‬
‫تعالی علیہ وسلم کو اچھے اچھے خواب نظر آنے لگے اور آپ صلی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫حضور صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم کا ہر خواب اتنا سچا ہوتا کہ خواب میں جو کچھ دیکھتے اس کی تعبیر صبح‬ ‫ٰ‬
‫صادق کی طرح روشن ہو کر ظاہر ہو جایا کرتی تھی۔‬

‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم “ غ‪cc‬ار ح‪cc‬راء ” کے ان‪cc‬در عب‪cc‬ادت میں مش‪cc‬غول تھے کہ‬ ‫ایک دن آپ صلی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم کے پ‪cc‬اس ای‪cc‬ک فرش‪cc‬تہ ظ‪cc‬اہر ہ‪cc‬وا۔ (یہ‬ ‫بالک‪cc‬ل اچان‪cc‬ک غ‪cc‬ار میں آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫حضرت جبریل علیہ السالم تھے جو ہمیشہ خدا عزوجل کا پیغام اس کے رسولوں علیہم الصالۃ‬
‫‪c‬الی‬
‫والسالم تک پہنچ‪cc‬اتے رہے ہیں) فرش‪cc‬تے نے ای‪cc‬ک دم کہ‪cc‬ا کہ “ پڑھ‪c‬ئے ” آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫تع‪c‬الی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وس‪c‬لم نے فرمای‪c‬ا کہ میں “ پڑھ‪c‬نے واال نہیں ہ‪c‬وں۔ ” فرش‪c‬تہ نے آپ ص‪c‬لی ہللا‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم س‪cc‬ے زور دار‬ ‫وسلم کو پکڑا اور نہایت گ‪cc‬رم جوش‪cc‬ی کے س‪cc‬اتھ آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫تعالی علیہ وسلم نے پھ‪cc‬ر فرمای‪cc‬ا کہ “‬ ‫ٰ‬ ‫معانقہ کیا پھر چھوڑ کر کہا کہ “ پڑھئے ” آپ صلی ہللا‬
‫تع‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم ک‪c‬و‬
‫ٰ‬ ‫میں پڑھنے واال نہیں ہوں۔ ” فرشتہ نے دوسری مرتبہ پھ‪c‬ر آپ ص‪c‬لی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم نے پھر‬ ‫ٰ‬ ‫اپنے سینے سے چمٹایا اور چھوڑ کر کہا کہ “ پڑھئے ” آپ صلی ہللا‬
‫‪c‬الی‬
‫وہی فرمایا کہ “ میں پڑھنے واال نہیں ہوں۔ ” تیسری مرتبہ پھر فرشتہ نے آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫‪7‬‬

‫ک الَّ ِذ ْي‬ ‫ِ‬


‫علیہ وسلم کو بہت زور کے ساتھ اپنے سینے سے لگا کر چھوڑا اور کہا کہ‪ ‬ا ْق َراْ بِ ْ‬
‫اس ِم َربِّ َ‬
‫ک ااْل َ ْكَر ُم ‪ o‬الَّ ِذ ْي َعلَّ َم بِالْ َقلَ ِم ‪َ o‬علَّ َم ااْلِ نْ َسا َن َما مَلْ َي ْعلَ ْم ‪o‬‬ ‫ِ‬
‫َخلَ َق ‪َ o‬خلَ َق ااْلِ نْ َسا َن ِم ْن َعلَ ٍق ‪ o‬ا ْقَراْ َو َربُّ َ‬
‫تعالی علیہ وسلم پر نازل ہوئی۔ ان آیت‪cc‬وں ک‪cc‬و ی‪cc‬اد‬ ‫ٰ‬ ‫یہی سب سے پہلی وحی تھی جو آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم اپنے گھر تش‪cc‬ریف الئے۔ مگ‪cc‬ر اس واقعہ س‪cc‬ے‬ ‫ٰ‬ ‫کر کے حضور اقدس صلی ہللا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ وسلم کو پیش آیا اس سے آپ صلی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫جو بالکل ناگہانی طور پر آپ صلی ہللا‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم نے گھ‪cc‬ر وال‪cc‬وں‬ ‫علیہ وسلم کے قلب مبارک پر لرزہ طاری تھا۔ آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم ک‪cc‬ا‬ ‫سے فرمایا کہ مجھے کملی اڑھاؤ۔ مجھے کملی اڑھاؤ۔ جب آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫تعالی علیہ وسلم نے حض‪cc‬رت بی بی خ‪cc‬دیجہ‬ ‫ٰ‬ ‫خوف دور ہوا اور کچھ سکون ہوا تو آپ صلی ہللا‬
‫تعالی عنہا سے غار میں پیش آنے واال واقعہ بی‪cc‬ان کی‪cc‬ا اور فرمای‪cc‬ا کہ “ مجھے اپ‪cc‬نی‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫تعالی عنہا نے کہا کہ نہیں‪ ،‬ہرگز‬ ‫ٰ‬ ‫جان کا ڈر ہے۔ ” یہ سن کر حضرت بی بی خدیجہ رضی ہللا‬
‫‪c‬الی‬
‫تعالی علیہ وسلم کی جان کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ خ‪cc‬دا کی قس‪cc‬م ! ہللا تع‪ٰ c‬‬ ‫ٰ‬ ‫نہیں۔ آپ صلی ہللا‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم‬ ‫تعالی علیہ وسلم کو رسوا نہیں کرے گ‪cc‬ا۔آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬ ‫ٰ‬ ‫کبھی بھی آپ صلی ہللا‬
‫تو رشتہ داروں کے ساتھ بہترین سلوک کرتے ہیں۔ دوسروں کا بار خود اٹھ‪cc‬اتے ہیں۔ خ‪cc‬ود کم‪cc‬ا‬
‫کما کر مفلسوں اور محتاجوں کو عطا فرماتے ہیں۔ مسافروں کی مہمان ن‪cc‬وازی ک‪cc‬رتے ہیں اور‬
‫حق و انصاف کی خاطر سب کی مصیبتوں اور مشکالت میں کام آتے ہیں۔‬
‫تعالی علیہ وسلم انتہائی پوشیدہ طور پر نہایت رازداری‬ ‫ٰ‬ ‫حضور اقدس صلی ہللا‬ ‫ِ‬ ‫تین برس تک‬
‫کے ساتھ تبلیغ اسالم کا فرض ادا فرماتے رہے اور اس درمیان میں عورتوں میں سب سے‬
‫تعالی عنہا اور آزاد مردوں میں سب سے پہلے حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫پہلے حضرت بی بی خدیجہ رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ اور لڑکوں میں سب سے پہلے حضرت علی رضی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ابوبکر صدیق رضی ہللا‬
‫تعالی عنہ ایمان الئے۔ پھر‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ اور غالموں میں سب سے پہلے زید بن حارثہ رضی ہللا‬ ‫ٰ‬
‫تعالی عنہ کی دعوت و تبلیغ سے حضرت عثمان‪ ،‬حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا‬
‫زبیر بن العوام‪ ،‬حضرت عبدالرحمن بن عوف‪ ،‬حضرت سعد بن ابی وقاص‪ ،‬حضرت طلحہ بن‬
‫تعالی عنہم بھی جلد ہی دامن اسالم میں آ گئے۔ تین برس کی اس خفیہ دعوت‬ ‫ٰ‬ ‫عبید ہللا رضی ہللا‬
‫تعالی نے اپنے حبیب صلی‬ ‫ٰ‬ ‫اسالم میں مسلمانوں کی ایک جماعت تیار ہوگئی اس کے بعد ہللا‬
‫ِ‬
‫تعالی کا حکم ہوا‬
‫ٰ‬ ‫ك ااْل َ ْقَربِنْي َ نازل فرمائی اور خداوند‬ ‫تعالی علیہ وسلم پر آیت َو اَنْذ ْر َع ِشْيَرتَ َ‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫کہ اے محبوب ! آپ اپنے قریبی خاندان والوں کو خدا سے ڈرائیے تو حضور صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے ایک دن کوہ صفا کی چوٹی پر چڑھ کر “ یامعشر قریش ” کہہ کر قبیلہ قریش‬
‫کو پکارا۔‬
‫تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے میری قوم !‬
‫ٰ‬ ‫جب سب قریش جمع ہو گئے تو آپ صلی ہللا‬
‫اگر میں تم لوگوں سے یہ کہہ دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر‬
‫حملہ کرنے واال ہے تو کیا تم لوگ میری بات کا یقین کر لو گے ؟ تو سب نے ایک زبان ہو‬
‫تعالی علیہ وسلم کی بات کا یقین کر لیں گے کیونکہ‬
‫ٰ‬ ‫کر کہا کہ ہاں ! ہاں ! ہم یقینا آپ صلی ہللا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ وسلم کو ہمیشہ سچا اور امین ہی پایا ہے۔ آپ صلی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫ہم نے آپ صلی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا تو پھر میں یہ کہتا ہوں کہ میں تم لوگوں کو عذاب ٰالہی سے ڈرا‬
‫‪8‬‬

‫رہا ہوں اور اگر تم لوگ ایمان نہ الؤ گے تو تم پر عذاب ٰالہی اتر پڑے گا۔ یہ سن کر تمام‬
‫تعالی علیہ وسلم کا چچا‪ c‬ابو لہب بھی تھا‪ ،‬سخت ناراض ہو کر سب‬
‫ٰ‬ ‫قریش جن میں آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم کی شان میں اول فول بکنے لگے۔‬
‫ٰ‬ ‫کے سب چلے گئے اور حضور صلی ہللا‬

‫اص َد ْع مِب َا تُْؤ َم ُر نازل ہوئی اور آپ ﷺ کو‬


‫اعالن نبوت کے چوتھے سال سورہ حجر کی آیت فَ ْ‬
‫حکم ہوا کہ‪  ‬اے محبوب ! آپ کو جو حکم دیا گیا ہے اس کو علی االعالن بیان فرمائیے۔‬
‫تعالی علیہ وسلم عالنیہ طور پر دین اسالم کی تبلیغ فرمانے‬
‫ٰ‬ ‫چنانچہ اس کے بعد آپ صلی ہللا‬
‫لگے۔ اور شرک و بت پرستی کی کھلم کھال برائی بیان فرمانے لگے۔ اور تمام قریش بلکہ تمام‬
‫تعالی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫اہل مکہ بلکہ پورا عرب آپ کی مخالفت پر کمربستہ ہو گیا۔ اور حضور صلی ہللا‬
‫وسلم اور مسلمانوں کی ایذا رسانیوں کا ایک طوالنی سلسلہ شروع ہو گیا۔‬
‫کفار مکہ خاندان بنو ہاشم کے انتقام اور لڑائی بھڑک اٹھنے کے خوف سے حضور صلی ہللا‬ ‫ِ‬
‫تعالی علیہ وسلم کو قتل تو نہیں کر سکے لیکن طرح طرح کی تکلیفوں اور ایذا رسانیوں سے‬ ‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم پر ظلم و ستم کا پہاڑ توڑنے لگے۔ چنانچہ سب سے پہلے تو‬ ‫ٰ‬ ‫آپ صلی ہللا‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے کاہن‪ ،‬ساحر‪ ،‬شاعر‪ ،‬مجنون ہونے کا ہر کوچہ و بازار میں‬
‫تعالی علیہ وسلم کے پیچھے شریر لڑکوں کا‬
‫ٰ‬ ‫زور دار پروپیگنڈہ کرنے لگے۔ آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم پر پھبتیاں کستے‪ ،‬گالیاں دیتے اور‬
‫ٰ‬ ‫غول لگا دیا جو راستوں میں آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم کے اوپر پتھر‬
‫ٰ‬ ‫یہ دیوانہ ہے‪ ،‬یہ دیوانہ ہے‪ ،‬کا شور مچا مچا کر آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم کے راستوں میں کانٹے بچھاتے۔ کبھی‬ ‫ٰ‬ ‫پھینکتے۔ کبھی کفار‪ c‬مکہ آپ صلی ہللا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ وسلم کے جسم مبارک پر نجاست ڈال دیتے۔ کبھی آپ صلی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫آپ صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم کی مقدس اور نازک گردن میں‬‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم کو دھکا دیتے۔ کبھی آپ صلی ہللا‬
‫چادر کا پھندہ ڈال کر گال گھونٹنے کی کوشش کرتے۔‬

‫‪ :‬ہجرت مدینہ‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫مدینہ منورہ میں جب اسالم اور مسلمانوں کو ایک پناہ گاہ مل گئی تو حضور صلی اﷲ‬
‫علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو عام اجازت‪ c‬دے دی کہ وہ مکہ سے ہجرت کرکے مدینہ چلے‬
‫تعالی عنہ نے ہجرت کی۔ اس کے‬
‫ٰ‬ ‫جائیں۔ چنانچہ سب سے پہلے حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ‬
‫بعد یکے بعد دیگرے دوسرے لوگ بھی مدینہ روانہ ہونے لگے۔ جب کفار قریش کو پتہ چال‬
‫تو انہوں نے روک ٹوک شروع کر دی مگر چھپ چھپ کر لوگوں نے ہجرت کا سلسلہ جاری‬
‫رکھا یہاں تک کہ رفتہ رفتہ بہت سے صحابہ کرام مدینہ منورہ چلے گئے۔ صرف وہی‬
‫حضرات مکہ میں رہ گئے جو یا تو کافروں کی قید میں تھے یا اپنی مفلسی کی وجہ سے‬
‫مجبور تھے۔‬
‫تعالی علیہ وسلم کے قتل پر اتفاق کر چکے اور اپنے اپنے گھروں‬
‫ٰ‬ ‫جب کفار حضور صلی اﷲ‬
‫کو روانہ ہو گئے تو حضرت جبریل امین علیہ السالم رب العالمین کا حکم لے کر نازل ہو‬
‫‪9‬‬

‫گئے کہ اے محبوب ! آج رات کو آپ اپنے بستر پر نہ سوئیں اور ہجرت کرکے مدینہ تشریف‬
‫تعالی علیہ وسلم حضرت ابوبکر‬ ‫ٰ‬ ‫لے جائیں۔ چنانچہ عین دوپہر کے وقت حضور صلی اﷲ‬
‫تعالی عنہ کے گھر تشریف لے گئے اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫صدیق رضی اﷲ‬
‫تعالی عنہ سے فرمایا کہ سب گھر والوں کو ہٹا دو کچھ مشورہ کرنا ہے۔ حضرت ابوبکر‬ ‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم آپ پر‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ ! صلی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫صدیق رضی اﷲ‬
‫تعالی عنہا) کے سوا اور‬
‫ٰ‬ ‫میرے ماں باپ قربان یہاں آپ کی اہلیہ (حضرت عائشہ رضی ہللا‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہا سے حضور صلی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫کوئی نہیں ہے (اُس وقت حضرت عائشہ رضی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے ابوبکر‬
‫ٰ‬ ‫علیہ وسلم کی شادی ہو چکی تھی) حضور صلی اﷲ‬
‫تعالی نے مجھے ہجرت کی اجازت‪ c‬فرما دی ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫! اﷲ‬
‫تعالی علیہ وسلم پر قربان ! مجھے‬‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ نے عرض کیا کہ میرے ماں باپ آپ صلی اﷲ‬ ‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم نے ان کی درخواست‬ ‫ٰ‬ ‫بھی ہمراہی کا شرف عطا فرمائیے۔ آپ صلی اﷲ‬
‫منظور فرما لی اور حضرت علی رضی ہللا عنہ کو امانتوں کی ادائیگی کی وجہ سے پیچھے‬
‫چھوڑ کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔‬
‫تعالی علیہ وسلم کی آمد آمد کی خبر چونکہ مدینہ میں پہلے سے پہنچ‬ ‫ٰ‬ ‫حضور اکرم صلی اﷲ‬
‫ِ‬
‫تعالی علیہ وسلم کی تشریف‬ ‫ٰ‬ ‫چکی تھی اور عورتوں بچوں تک کی زبانوں پر آپ صلی اﷲ‬
‫آوری کا چرچا تھا۔ اس لئے اہل مدینہ آپ کے دیدار کے لئے انتہائی مشتاق و بے قرار تھے۔‬
‫مدینہ منورہ سے تین میل کے فاصلہ پر جہاں آج “مسجد قبا” بنی ہوئی ہے۔ ‪ ۱۲‬ربیع االول کو‬
‫تعالی علیہ وسلم رونق افروز ہوئے اور قبیلۂ عمرو بن عوف کے خاندان‬ ‫ٰ‬ ‫حضور صلی اﷲ‬
‫تعالی عنہ کے مکان میں تشریف فرما ہوئے۔ اﷲ اکبر !‬ ‫ٰ‬ ‫میں حضرت کلثوم بن ہدم رضی اﷲ‬
‫تعالی علیہ وسلم اورصحابہ‬‫ٰ‬ ‫عمرو بن عوف کے خاندان میں حضرت سید االنبیاء صلی اﷲ‬
‫تعالی عنہم کے نورانی اجتماع سے ایسا سماں بندھ گیا ہو گا کہ غالبا ً چاند‪ ،‬سورج‬
‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫زبان حال سے کہتے ہوں گے کہ یہ‬ ‫ِ‬ ‫اور ستارے حیرت کے ساتھ اس مجمع کو دیکھ کر‬
‫تعالی‬
‫ٰ‬ ‫فیصلہ مشکل ہے کہ آج انجمن آسمان زیادہ روشن ہے یا حضرت کلثوم بن ہدم رضی ہللا‬
‫جوش مسرت سے مسکرا مسکرا‬ ‫ِ‬ ‫عنہ کا مکان ؟ اور شاید خاندان عمر و بن عوف کا بچہ بچہ‬
‫زبان حال سے یہ نغمہ گاتا ہو گا کہ‬
‫ِ‬ ‫کر‬

‫اُن کے قدم پہ میں نثارجن کے قدوم ناز نے‬


‫اُجڑے ہوئے دیار کو رشک چمن بنا دیا‬

‫‪:‬میثاق مدینہ‬
‫مدینہ میں انص‪cc‬ار کے عالوہ بہت س‪cc‬ے یہ‪cc‬ودی بھی آب‪cc‬اد تھے۔ ان یہودی‪cc‬وں کے تین ق‪cc‬بیلے بن‪cc‬و‬
‫قینق‪cc‬اع‪ ،‬بن‪cc‬و نض‪cc‬یر‪ ،‬ق‪cc‬ریظہ م‪cc‬دینہ کے اط‪cc‬راف میں آب‪cc‬اد تھے اور نہ‪cc‬ایت مض‪cc‬بوط محالت اور‬
‫مستحکم قلعے بنا کر رہ‪cc‬تے تھے۔ ہج‪cc‬رت س‪cc‬ے پہلے یہودی‪cc‬وں اور انص‪cc‬ار میں ہمیش‪cc‬ہ اختالف‬
‫رہتا تھا اور وہ اختالف اب بھی موجود تھ‪cc‬ا اور انص‪cc‬ار کے دون‪cc‬وں ق‪cc‬بیلے اوس و خ‪cc‬زرج‪ c‬بہت‬
‫‪10‬‬

‫کمزور ہو چکے تھے۔ کیونکہ مشہور لڑائی ” جنگ بع‪cc‬اث ” میں ان دون‪cc‬وں ق‪cc‬بیلوں کے ب‪cc‬ڑے‬
‫بڑے سردار اور نامور بہادر آپس میں لڑ لڑ کر قتل ہو چکے تھے اور یہ‪cc‬ودی ہمیش‪cc‬ہ اس قس‪cc‬م‬
‫کی تدبیروں اور شرارتوں میں لگے رہتے تھے کہ انصار کے یہ دونوں قبائل ہمیش‪cc‬ہ ٹک‪cc‬راتے‬
‫‪c‬الی‬
‫حضور اق‪cc‬دس ص‪cc‬لی اﷲ تع‪ٰ c‬‬
‫ِ‬ ‫رہیں اور کبھی بھی متحد نہ ہونے پائیں۔ ان وجوہات کی بنا پر‬
‫علیہ وس‪cc‬لم نے یہودی‪cc‬وں اور مس‪cc‬لمانوں کے آئن‪cc‬دہ تعلق‪cc‬ات کے ب‪cc‬ارے میں ای‪cc‬ک معاہ‪cc‬دہ کی‬
‫ضرورت محسوس فرمائی تاکہ دونوں فریق امن و س‪cc‬کون کے س‪cc‬اتھ رہیں اور آپس میں ک‪cc‬وئی‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم نے انص‪cc‬ار اور یہ‪cc‬ود‬
‫تصادم اور ٹکراؤ نہ ہونے پائے۔ چن‪cc‬انچہ آپ ص‪cc‬لی ہللا تع‪ٰ c‬‬
‫کوبال کر معاہدہ کی ایک دستاویز لکھوائی جس پر دونوں فریقوں کے دستخط ہوگئے۔‬
‫اس معاہدہ کی دفعات کا خالصہ حسب ِ ذیل ہے۔‬
‫(‪ )۱‬خون بہا (جان کے بدلے جو مال دیا جاتا ہے) اور فدیہ (قیدی کو چھ‪cc‬ڑانے کے ب‪cc‬دلے ج‪cc‬و‬
‫رقم دی جاتی ہے) کا جو طریقہ پہلے سے چال آتا تھا اب بھی وہ قائم رہے گا۔‬
‫(‪ )۲‬یہودیوں کو مذہبی آزادی حاصل رہے گی ان کے مذہبی رسوم میں کوئی دخل اندازی نہیں‬
‫کی جائے گی۔‬
‫(‪)۳‬یہودی اور مسلمان باہم دوستانہ برتاؤ رکھیں گے۔‬
‫(‪ )۴‬یہودی یا مسلمانوں کو کسی سے لڑائی پیش آئے گی تو ایک فریق دوسرے کی م‪cc‬دد ک‪cc‬رے‬
‫گا۔‬
‫(‪ )۵‬اگر مدینہ پر کوئی حملہ ہو گا تو دونوں فریق مل کر حملہ آور کا مقابلہ کریں گے۔‬
‫(‪ )۶‬کوئی فریق قریش اور ان کے مددگاروں کو پناہ نہیں دے گا۔‬
‫(‪ )۷‬کسی دشمن سے اگر ایک فری‪cc‬ق ص‪cc‬لح ک‪cc‬رے گ‪cc‬ا ت‪cc‬و دوس‪cc‬را فری‪cc‬ق بھی اس مص‪cc‬الحت میں‬
‫شامل ہو گا ۔‬

‫آپ ﷺ کا وصال‪:‬‬
‫تعالی علیہ وسلم کا اس عالم میں تشریف النا ص‪cc‬رف اس ل‪cc‬ئے‬ ‫ٰ‬ ‫حضور رحمۃ للعالمین صلی اﷲ‬
‫تھا کہ آپ خدا کے آخری اور قطعی پیغام یعنی دین اسالم کے احکام اُس کے بندوں ت‪cc‬ک پہنچ‪cc‬ا‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم نے کی‪cc‬ونکر‬ ‫دیں اور خدا کی حجت تمام فرما دیں۔ اس ک‪cc‬ام ک‪cc‬و آپ ص‪cc‬لی اﷲ تع‪ٰ c‬‬
‫انجام دیا ؟ اور اس میں آپ کو کتنی کامیابی حاصل ہوئی ؟ اس کا اجمالی جواب یہ ہے کہ جب‬
‫سے یہ دنیا عالَ ِم وجود میں آئی ہزاروں انبیاء و ُرسل علیہم السالم اس عظیم الشان کام کو انجام‬
‫دینے کے لئے اس عالم میں تشریف الئے مگر تمام انبیاء و مرس‪cc‬لین کے تبلیغی کارن‪cc‬اموں ک‪cc‬و‬
‫‪c‬الی علیہ وس‪cc‬لم کے تبلیغی‬ ‫اگ‪cc‬ر جم‪cc‬ع ک‪cc‬ر لی‪cc‬ا ج‪cc‬ائے ت‪cc‬و وہ حض‪cc‬ور س‪cc‬رور ع‪cc‬الم ص‪cc‬لی اﷲ تع‪ٰ c‬‬
‫شاہکاروں کے مقابلہ میں ایسے ہی نظر آئیں گے جیسے آفتاب عالم ت‪cc‬اب کے مق‪cc‬ابلہ میں ای‪cc‬ک‬
‫چراغ یا ایک صحرا کے مقابلہ میں ای‪cc‬ک ذرہ ی‪c‬ا ای‪cc‬ک س‪cc‬مندر کے مق‪c‬ابلہ میں ای‪cc‬ک قط‪cc‬رہ۔ آپ‬
‫تعالی علیہ وسلم کی تبلیغ نے عالم میں ایسا انقالب پیدا کر دیا کہ کائنات ہستی کی ہر‬ ‫ٰ‬ ‫صلی اﷲ‬
‫پستی کو معراج کمال کی سربلندی عطا فرما کر ذلت کی زمین کو عزت کا آس‪cc‬مان بن‪cc‬ا دی‪cc‬ا اور‬
‫‪11‬‬

‫دین حنیف کے اس مقدس اور نورانی محل کو جس کی تعمیر کے لئے حضرت آدم علیہ السالم‬
‫عیسی علیہ السالم ت‪c‬ک تم‪c‬ام انبی‪c‬اء و رس‪c‬ل معم‪c‬ار بن‪c‬ا ک‪c‬ر بھیجے ج‪c‬اتے‬ ‫ٰ‬ ‫سے لے کر حضرت‬
‫تعالی علیہ وسلم نے خاتم النبیین کی شان سے اس قصر ہدایت کو اس طرح‬ ‫ٰ‬ ‫رہے آپ صلی اﷲ‬
‫ت لَ ُك ْم ِد ْينَ ُك ْم‪ ‬کی مہر لگا دی۔‬
‫مکمل فرما دیا کہ حضرت حق جل جاللہ نے اس پر‪ ‬اَلَْي ْو َم اَ ْك َم ْل ُ‬
‫تعالی علیہ وسلم جنت البقیع میں جو عام مسلمانوں ‪۲۰‬‬
‫ٰ‬ ‫یا ‪ ۲۲‬صفر ‪ ۱۱‬ھ کو حضور صلی اﷲ‬
‫کا قبرستان ہے آدھی رات میں تشریف لے گئے وہاں سے واپس تشریف الئے تو مزاج اقدس‬
‫تعالی عنہا کی باری کا دن تھا۔ سوموار کے دن آپ‬
‫ٰ‬ ‫ناساز ہو گیا یہ حضرت میمونہ رضی اﷲ‬
‫تعالی علیہ وسلم کی عاللت بہت شدید ہو گئی۔ آپ کی خواہش پر تمام ازواج مطہرات‬ ‫ٰ‬ ‫صلی اﷲ‬
‫تعالی عنہا‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہن نے اجازت دے دی کہ آپ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫رضی ہللا‬
‫تعالی عنہما نے سہارا‬
‫ٰ‬ ‫کے یہاں قیام فرمائیں۔ چنانچہ حضرت عباس و حضرت علی رضی اﷲ‬
‫تعالی عنہا کے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ وسلم کو حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫دے کر آپ صلی اﷲ‬
‫حجرۂ مبارکہ میں پہنچا دیا۔ جب تک طاقت رہی آپ خود مسجد نبوی میں نمازیں پڑھاتے‬
‫رہے۔ جب کمزوری بہت زیادہ بڑھ گئی تو آپ نے حکم دیا کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی‬
‫تعالی عنہ میرے مصلی پر امامت کریں۔ چنانچہ سترہ نمازیں حضرت ابوبکر صدیق‬ ‫ٰ‬ ‫اﷲ‬
‫تعالی عنہ نے پڑھائیں۔‬
‫ٰ‬ ‫رضی اﷲ‬
‫تعالی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫ایک دن ظہر کی نماز کے وقت مرض میں کچھ افاقہ محسوس ہوا تو آپ صلی اﷲ‬
‫وسلم نے حکم دیا کہ سات پانی کی مشکیں میرے اوپر ڈالی جائیں۔ جب آپ غسل فرما چکے‬
‫تعالی عنہما آپ کا مقدس بازو تھام کر آپ کو‬ ‫ٰ‬ ‫تو حضرت عباس اور حضرت علی رضی اﷲ‬
‫تعالی عنہ نماز پڑھا رہے تھے آہٹ پاکر‬ ‫ٰ‬ ‫مسجد میں الئے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اﷲ‬
‫پیچھے ہٹنے لگے مگر آپ نے اشارہ سے ان کو روکا اور ان کے پہلو میں بیٹھ کر نماز‬
‫تعالی عنہ اور‬
‫ٰ‬ ‫تعالی علیہ وسلم کو دیکھ کر حضرت ابوبکر رضی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫پڑھائی۔ آپ صلی اﷲ‬
‫تعالی علیہ وسلم‬
‫ٰ‬ ‫دوسرے مقتدی لوگ ارکان نماز ادا کرتے رہے۔ نماز کے بعد آپ صلی اﷲ‬
‫نے ایک خطبہ بھی دیا جس میں بہت سی وصیتیں اور احکام اسالم بیان فرما کر انصار کے‬
‫فضائل اور ان کے حقوق کے بارے میں کچھ کلمات ارشاد فرمائے اور سورۂ و العصر اور‬
‫تعالی علیہ وسلم کے مرض میں کمی بیشی ہوتی‬ ‫ٰ‬ ‫ایک آیت بھی تالوت فرمائی۔ آپ صلی اﷲ‬
‫رہتی تھی۔ خاص وفات کے دن یعنی سوموارکے روز طبیعت اچھی تھی۔ حجرہ‪ c‬مسجد سے‬
‫متصل ہی تھا۔ آپ نے پردہ اٹھا کر دیکھا تو لوگ نماز فجر پڑھ رہے تھے۔ یہ دیکھ کر خوشی‬
‫سے آپ ہنس پڑے لوگوں نے سمجھا کہ آپ مسجد میں آنا چاہتے ہیں مارے خوشی کے تمام‬
‫لوگ بے قابو ہو گئے مگر آپ نے اشارہ سے روکا اور حجرہ‪ c‬میں داخل ہو کر پردہ ڈال دیا یہ‬
‫تعالی عنہم نے جمال نبوت کی زیارت کی۔‬ ‫ٰ‬ ‫سب سے آخری موقع تھا کہ صحابہ کرام رضی ہللا‬
‫ُخ انور‬
‫تعالی علیہ وسلم کا ر ِ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ کا بیان ہے کہ آپ صلی اﷲ‬‫ٰ‬ ‫حضرت انس رضی اﷲ‬
‫ایسا معلوم ہوتا تھا کہ گویا قرآن کا کوئی ورق ہے۔ یعنی سفید ہو گیا تھا۔‬
‫‪12‬‬

‫تعالی عنہا کی‬


‫ٰ‬ ‫اس کے بعد بار بار غشی طاری ہونے لگی۔ حضرت فاطمہ زہراء رضی اﷲ‬
‫زبان سے شدت غم میں یہ لفظ نکال وا کرب اباہ ہائے رے میرے باپ کی بے چینی !‬
‫تعالی علیہ وسلم نے فرمایا کہ اے بیٹی ! تمہارا باپ آج کے بعد کبھی بے‬
‫ٰ‬ ‫حضور صلی اﷲ‬
‫چین نہ ہو گا۔‬
‫تعالی عنہا کے بھائی عبدالرحمن بن‬
‫ٰ‬ ‫وفات سے تھوڑی دیر پہلے حضرت عائشہ رضی اﷲ‬
‫تعالی علیہ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ تازہ مسواک ہاتھ میں لئے حاضر ہوئے۔ آپ صلی اﷲ‬ ‫ٰ‬ ‫ابوبکر رضی اﷲ‬
‫تعالی عنہا نے سمجھا کہ‬
‫ٰ‬ ‫وسلم نے ان کی طرف نظر جما کر دیکھا۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ‬
‫مسواک کی خواہش ہے۔ انہوں نے فوراً ہی مسواک لے کر اپنے دانتوں سے نرم کی اور دست‬
‫تعالی علیہ وسلم نے مسواک فرمائی سہ پہر کا وقت تھا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫اقدس میں دے دی آپ صلی اﷲ‬
‫سینۂ اقدس میں سانس کی گھرگھراہٹ محسوس ہونے لگی اتنے میں لب مبارک ہلے تو لوگوں‬
‫لص ٰلوةَ َو َما َملَ َك ْ‬
‫ت اَمْيَانُ ُكم‪ ‬نماز اور لونڈی غالموں کا خیال رکھو۔‬ ‫اَ َّ‬ ‫نے یہ الفاظ سنے ‪:‬‬

‫پاس میں پانی کی ایک لگن تھی اس میں بار بار ہاتھ ڈالتے اور چہرۂ اقدس پر ملتے اور کلمہ‬
‫پڑھتے۔ چادر مبارک کو کبھی منہ پر ڈالتے کبھی ہٹا دیتے۔ حضرت بی بی عائشہ رضی اﷲ‬
‫تعالی عنہا سر اقدس کو اپنے سینے سے لگائے بیٹھی ہوئی تھیں۔ اتنے میں آپ صلی اﷲ‬ ‫ٰ‬
‫الرفِْي ُق‬
‫تعالی علیہ وسلم نے ہاتھ اٹھا کر انگلی سے اشارہ فرمایا اور تین مرتبہ یہ فرمایا کہ بَ ِل َّ‬
‫ٰ‬
‫زبان اقدس پر تھے کہ ناگہاں مقدس‬
‫ِ‬ ‫ااْل َ ْع ٰلي اب کوئی نہیں‪ ،‬بلکہ وہ بڑا رفیق چاہیے۔ یہی الفاظ‬
‫ہاتھ لٹک گئے اور آنکھیں چھت کی طرف دیکھتے ہوئے کھلی کی کھلی رہیں اور آپ کی‬
‫قدسی روح عالَ ِم قدس میں پہنچ گئی۔‬
‫ِ‬ ‫ٍ ِ‬ ‫ِ‬ ‫ٰ‬ ‫ِ ِ ِ ِِ ِ‬
‫ص َحابِه اَمْج َعنْي َ‬
‫ص ِّل َو َسلِّ ْم َوبَا ِر ْك َع ٰلي َسيِّدنَا حُمَ َّمد َّو اٰله َواَ ْ‬
‫انَّا ِﷲ َو انَّا الَْيه َراجعُ ْو َن۔ اَللّ ُه َّم َ‬

‫نعت‬

‫اے رسول امیں‪ ،‬خاتم المرسلیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬
‫ہے عقیدہ اپنا بصدق و یقیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬

‫اے براہیمی و ہاشمی خوش لقب‪ ،‬اے تو عالی نسب‪ ،‬اے تو واال حسب‬
‫دودمان قریشی کے ُد ِرثمین‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬
‫ِ‬

‫دست قدرت نے ایسا بنایا تجھے‪ ،‬جملہ اوصاف سے خود سجایا تجھے‬
‫اے ازل کے حسیں‪ ،‬اے ابد کے حسیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬
‫‪13‬‬

‫بزم کونین پہلے سجائی گئی‪ ،‬پھر تری ذات منظر پر الئی گئی‬
‫سید ااالولیں‪ ،‬سید اآلخریں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬

‫تیرا سکہ رواں‌ کل جہاں میں ہوا‪ ،‬اِس زمیں میں ہوا‪ ،‬آسماں میں ہوا‬
‫زیر نگیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬
‫کیا عرب کیا عجم‪ ،‬سب ہیں ِ‬

‫تیرے انداز میں وسعتیں فرش کی‪ ،‬تیری پرواز میں رفعتیں عرش کی‬
‫تیرے انفاس میں‌ خلد کی یاسمیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬

‫"قاب قوسین" گر ِد سفر میں تری"‬


‫َ‬ ‫ُالمنتہی" رہگزر میں تری ‪،‬‬
‫ٰ‬ ‫سدرۃ‬
‫تو ہے حق کے قریں‪ ،‬حق ہے تیرے قریں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬

‫کہکشاں ضو ترے سرمدی تاج کی‪ ،‬زلف ِتاباں حسیں رات معراج کی‬
‫لیلۃُ القدر "تیری منور جبیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں"‬

‫مجتبے‪ ،‬تیری مدح وثنا‪ ،‬میرے بس میں ‪ ،‬دسترس میں نہیں‬‫ٰ‬ ‫مصطفے‬
‫ٰ‬
‫دل کو ہمت نہیں ‪ ،‬لب کو یارا نہیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬

‫کوئی بتالئے کیسے سراپا لکھوں‪ ،‬کوئی ہے ! وہ کہ میں جس کو تجھ سا کہوں‬


‫توبہ توبہ! نہیں کوئی تجھ سا نہیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬

‫دلبر عاشقاں‬
‫سرور دلبراں ِ‬
‫ِ‬ ‫انفس دوجہاں‪،‬‬
‫ِ‬ ‫اے سراپا نفیس‬
‫جان حزیں‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں ‪ ،‬تجھ سا کوئی نہیں‬
‫ڈھونڈتی ہے تجھے میری ِ‬

You might also like