Professional Documents
Culture Documents
رب سے جڑنے کا سفر
رب سے جڑنے کا سفر
قسط#1
وہ بہت حٌرانی اور رشک کے ساتھ اسکی طرف کھسکتے ہوئے بولی تھی۔۔۔
فاطمہ۔۔جب انسان ہللا کی طرف دل مٌں ہداٌت کی تڑپ لے کر آتا ہے ناں،اسکی کتاب کو تھام لٌتا ہے ،اسکی اٌک اٌک "
بات پر سچا ٌمٌن کرکے اطاعت کرتا جاتا ہے پھر اسکی زندگی مٌں اٌسے ہی معجزات روز رو نما ہوتے ہٌں،پھر وہ
"عرش پر مستوی رب اپنی آٌات کے زرٌعے اپنے اس بندے کو تسلٌاں دٌتا ہے،سکھاتا ہے سمجھاتا ہے سنبھالتا ہے
لرة العٌن محبت بھرے لہجے مٌں اسے بتا رہی تھی کہ آنکھوں مٌں نمی سی تٌرنے لگی۔۔
فاطمہ کے رونگھٹے گوٌا کھڑے ہورہے تھے اسکی باتوں کو سن کر۔۔اسکے جسم مٌں اٌک لہر سی دوڑ گئی
تھی۔۔اسے پل کے لٌے اٌسے لگا جٌسے لرة العٌن کی آنکھوں کے گرد بنے حلمے اسکی اسکے رب سے محبت کی
عالمت تھے۔ ہاں وہ بھی تو کبھی کسی انسان کی محبت مٌں اٌسے ہی اپنی آنکھٌں کالی کرتی رہی تھی مگر اب ٹھوکر
لگنے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ دنٌا کا ہر رشتہ فانی ہے ،خصوصا حرام تعلمات۔۔جو انسان کے اندر کے سکون
کو برباد کردٌتے اسے اپنے آپ سے اور رب سے دور کر دٌتے ہٌں۔۔ مگر اب وہ سنبھلنا چاہتی تھی۔۔
لرت مٌں اٌسا کٌا کروں کہ ہللا مجھ سے بھی اٌسی ہی محبت کرٌں؟ مٌں بھی اسکی محبت محسوس کرکے آنسو بہاإں" ،
"مجھے بھی وہ ہر لمحہ تھامٌں اور اپنی آٌات کے زرٌعے جواب دٌں؟؟؟
فاطمہ کے لہجے کی تڑپ اور آنکھوں کی نمی نے لرة العٌن کے اٌمان مٌں مزٌد اضافہ کردٌا تھا وہ دل ہی دل مٌں
فاطمہ سے محبت محسوس کرنے لگی تھی ۔۔ٌہی تو تھی ہللا کی خاطر محبت۔۔اسکی محبت پانے کی خاطر محبت۔۔
لرة العٌن مسکراتے ہوئے پٌار بھرے لہجے مٌں اسکے ہاتھ کو تھامتے ہوئے کہنے لگی۔۔
فاطمہ تمھٌں پتہ ہے ٌہ ہداٌت واحد اٌسی چٌز ہے جسکے لٌے جب تک تم تڑپ نہٌں دکھاو گے وہ نہٌں ملے گی۔۔تم "
ہللا کے آگے سجدوں مٌں گڑگڑاو کہ ہللا مجھے ہداٌت دے دٌں،مجھے اپنی محبت کے لٌے چن لٌں ۔۔ہللا کو دکھاإ اپنی
تڑپ۔۔
تمھٌں پتہ ہے ہللا لرآن مٌں کٌا کہتے ہٌں؟؟۔
کہ
)الشوری (13:
تم رجوع تو کرو ،وہ تو منتظر ہے تمھارا،تم اٌک لدم بڑھاو گی وہ کتنے لدم تمھاری طرف آئے گا۔۔وہ تو بندے کی توبہ
کا انتظار کرتا رہتا ہے۔۔فاطمہ۔۔وہ مالک ہے ہم غالم۔۔کٌا دنٌا کا کوئی مالک اپنے غالم سے اٌسی محبت کرتا ہے جبکہ
اسکا غالم مالک کا دٌا کھائے اور پھر اسی سے دھوکہ کرے؟ ٌہ ہمارا رب ہے فاطمہ۔۔وہ ہم جٌسے بےوفا غالموں کا
*"بھی منتظر ہےمگر لدم تمھٌں ہی بڑھانا ہوگا
فاطمہ حٌرت سے اسکی طرف دٌکھنے لگی۔۔اس نے والعی کبھی نہٌں سوچا تھا کہ ہللا ۔۔وہ تو اسکی غالم تھی جسکے
احسانات پر وہ جی رہ ی تھی۔۔مگر بدلے مٌں وہ کٌا کررہی تھی؟؟نمازٌں کٌسی تھٌں اسکی۔کبھی دل کٌا تو پڑھ لٌں نہ کٌا
تو چھوڑ دٌں سب سے ہلکا اس نے لٌا ہی نماز کو تو تھا۔۔۔نماز چھوڑنا تواسکے لٌے کتنا آسان تھا بازار جانا ہو ،کسی
شادی پر جانا ہو کسی کے گھر جانا ہو
تھوڑی سی تھکاوٹ ہو،موڈ خراب ہو،پسندٌدہ ڈرامے کی لسطوں مٌں محو۔۔سب سے پہلے نماز ہی تو چھوڑنے کا خٌال
آتا تھا۔آج اسے احساس ہو رہا تھا کہ کٌوں ان سب حاالت مٌں وہ کھانا پٌنا،سونا ٌا اچھے کپڑے پہننا نہٌں چھوڑتی
تھی۔۔کٌا والعی اسکے نزدٌک اسکے مالک کا ٌہی ممام تھا۔۔سب سے کم۔۔پھر اگر پڑھتی بھی تو بس دوچار ٹکڑٌں
مارتی تھی کبھی سوچا بھی نہٌں تھا کہ ہللا کے سامنے کھڑی ہو کر وہ پڑھ کٌا رہی ہے۔۔
شرمندگی سےاسکا دل ڈوبتا جا رہا تھا۔۔۔۔
وہ کٌسے پلٹے اب۔۔کس منہ سے جائے اسکے پاس ۔کہ جسکی تھالی مٌں کھا کر وہ چھٌد کرتی رہی ہے۔۔۔
وہ اس جٌسی نافرمان غالم سے کٌسے محبت کر سکتا تھا۔
اسکے آنسو ٹپ ٹپ بہنے لگے تھے ۔۔۔۔
قسط نمبر2
فاطمہ کے بہتے ہوئے آنسو دٌکھ کر لرة العٌن محبت سے آگے بڑھی اور گلے سے لگا لٌا۔۔گلے لگتے ہی فاطمہ نے
ہچکٌوں سے رونا شروع کردٌا۔۔
لرة العٌن ہلکی سے مسکراہٹ کے ساتھ اسے گلے سے لگائے کتنی ہی دٌر تک خاموشی سے اسکی کمر کو سہالتی
رہی۔۔
لرة العٌن بھی اسی رستے سے گزر کر آئی تھی وہ سمجھ سکتی تھی کہ فاطمہ کس کرب سے گزر رہی ہے۔۔بعض
اولات انسان کو والعی ہی کوئی اٌسا شخص چاہٌے ہوتا ہے جو اسکے اندر کے اٹھتے ہوئے شور کو خاموش بہتے
ہوئے آنسوإں سے سمجھ جائے۔۔اٌسے لوگ سے مٌسر ہوں وہ بہت خوشمسمت ہوتا ہے۔۔
لرة العٌن جانتی تھی کہ فاطمہ کو ولت چاہٌے اس لٌے وہ خاموش رہی ٌہاں تک کہ فاطمہ نے روتے ہوئے پوچھا
لرت کٌا ہللا مجھے معاف کردٌں گے؟؟ مٌں نے اتنے بڑے بڑے گناہ کٌے ہٌں مٌں نے اپنی ساری زندگی اسکی "
نافرمانی مٌں گزار دی ہے مجھے اپنا کوئی اٌسا نٌکی کا کام ٌاد نہٌں جس کی لبولٌت کا مجھے ٌمٌن ہو۔۔وہ کٌسے معاف
"کرٌں گے مجھے؟؟
فاطمہ کے لہجے کی ندامت دٌکھ کر لرة العٌن نے اسے خود سے جدا کٌا۔۔اور اسکا روتا ہوا گالبی چہرہ اپنے دونوں
ہاتھوں مٌں تھامتے ہوئے کہنے لگی
ہللا کٌسے معاف نہٌں کرٌں گے چندا؟؟ وہ بہت غفور رحٌم ہے۔۔انسان جب اپنے دل مٌں سچی ندامت لے کر اسکے "
حضور توبہ کرتا ہے ناں۔۔اپنے گناہوں کا اعتراف کرکے اس سے معافی مانگتا ہے اس گناہ والی زندگی کو چھوڑ دٌتا
"ہے تو ہللا خود بڑھ کر اسے تھامتے ہٌں
"مگر لرت مٌرے گناہ کوئی چھوٹے گناہ تو نہٌں ہٌں نا"
فاطمہ اس بات کی مزٌد ٌمٌن دہانی چاہتی تھی کہ ہللا اسے کٌسے والعی معاف کرٌں گے۔۔
لرة العٌن جانتی تھی کہ فاطمہ کو کٌسے ٌمٌن دالٌاجا سکتا ہے وہ اٹھ کر اپنی الماری کی طرف گئی اور اس مٌں سے
اپنا لرآن نکالنے لگی۔۔
وہ سفٌد نفٌس اور خوبصورت جلد واال لرآن تھا جسکو دٌکھ کر ہی محسوس ہورہا تھا جٌسے اسکی بہت محبت سے
حفاظت کی گئی ہے۔۔
فاطمہ ٹکٹکی باندھے اس "لرآن" کو دٌکھے جا رہی تھی۔۔وہ ٌاد کرنے کی اٌک ناکام کوشش کرنے لگی کہ اس نے
آخری بار لرآن کب پڑھا تھا۔۔
"فاطمہ تم مجھ سے پوچھ رہی تھی نا کہ مجھے کٌسے ٌہ کتاب مٌرے سوالوں کے جواب دٌتی ہے۔۔ٌہ دٌکھو"
لرة العٌن نے لرآن کھوال اور فاطمہ کے سامنے کردی۔۔
"کوئی بات نہٌں تم اٌسے ہی دٌکھ لو چندا مٌں نے پکڑا ہوا ہے"
"تو کٌا والعی مجھے بھی جواب دے گی ٌہ کتاب۔۔کٌا مٌں والعی اس الئك ہوں؟؟"
فاطمہ انھی سوچوں مٌں گم تھی کہ اسکی نظرٌں لرآن پاک کے کھلے صفحے پر جا کر ٹھٹک گئٌں۔۔۔۔۔
فاطمہ اٌک امٌر گھرانے سے تعلك رکھتی تھی اٌسا گھرانہ جہاں بس ظاہری اور رسمی اسالم تھا کہ دل کٌا تو کوئی
نماز روزہ کرلٌا دل کٌا تو چھوڑ دٌا۔۔کوئی فوتگی ہوئی تو دو تٌن دن لران پڑھا اور پھر بند کرکے رٌشمی غالفوں مٌں
اونچی شٌلف پر رکھ دٌا جاتا کوئی فضٌلت والے اٌام آتے تو ادھر ادھر سے جو کوئی بتاتا کوئی وظائف ٌا نوافل وہ
اہتمام سے پڑھے جاتے ٌہ جانے بغٌر کہ انکی کوئی حمٌمت بھی تھی ٌا نہٌں۔۔
انکی فٌملی چھوٹی سی تھی۔۔دو بھائی تھے ان مٌں سے بڑا بھائی حٌدر ڈاکٹر تھا ملک کے مشہور و معروف ہاسپٹل مٌں
سرجن تھا جبکہ دوسرا بھائی سٌف ٹٌن اٌج سے ہی بے راہ روی کا شکار ہوگٌا تھا والد نے ملک کی بہترٌن اور مہنگی
ٌونٌورسٹی مٌں اسکا داخلہ کرواٌا تھا مگر صاحبزادے وہاں پڑھائی کے عالوہ بالی ہر کام کرنے جاتے تھے۔۔فاطمہ ان
دونوں بھائٌوں سے چھوٹی تھی جو کہ ٌونٌورسٹی مٌں بی اٌس کی سٹوڈنٹ تھی۔۔پڑھائی مٌں اچھی تھی مگر ہر اٌک
کے ساتھ جلدی گھلتی ملتی نہ تھی۔۔جو اسکے ٹٌسٹ کا ہوتا اسکے ساتھ اسکی فورا بن جاتی تھی۔۔
لرة العٌن اور فاطمہ دونوں کالس فٌلوز تھے۔۔لرة العٌن اٌک اٌسے خاندان سے تعلك رکھتی تھی جہاں دن رات اٌک
کرکے محنت کی کمائی سے بچوں کو پڑھاٌا لکھاٌا جاتا تھا۔۔لرة العٌن بہت محنتی لڑکی تھی اس نے اٌف اٌس سی کے
بعد لرآن سٌکھنے مٌں دو سال لگائے تھے اور مدرسے سے فارغ ہونے کے بعد ٌونٌورسٹی مٌں اٌڈمٌشن لٌا تھا ۔فاطمہ
نے کبھی بھی خود لرة العٌن سے علٌک سلٌک نہٌں کی تھی مگر لرة العٌن ہمٌشہ اپنی تمام کالس فٌلوز سے بہت
اچھے اخالق سے مال کرتی تھی وہ واحد اس کالس مٌں لڑکی تھی جو مکمل پردے مٌں آتی تھی۔۔مکمل سٌاہ
عباٌا۔۔اسکے پردے مٌں اسکی آنکھوں کے سوا کچھ نظر نہ آتا تھا۔۔اور آنکھٌں بھی وہ جو حٌا سے بھری ہوئی اکثر
جھکی ہی رہتی تھٌں۔۔اسکے پردے پر اکثر کالس فٌلوز اسکا مذاق بھی بناتی تھٌں کچھ نے تو اسکا نام بھی "کاال کوا"
رکھا ہوا تھا مگر وہ ہمٌشہ ہی اٌسی باتوں کو سمائل کر کے اگنور کردٌتی تھی۔۔کٌونکہ وہ جانتی تھی اسے اسکے رب
نے ٌونٌک بناٌا ہے تو وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر اس دٌن کی نعمت کی ناشکری نہٌں کر سکتی تھی۔۔فاطمہ نے
کبھی اسکی طرف دھٌان نہٌں دٌا تھا۔۔۔مگر اب حاالت نے اٌسی کروٹ لی تھی کہ فاطمہ کو لرة العٌن کے پاس آنا پڑا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ کی نظرٌں لران پر جمی مسلسل پھٌلتی جا رہی تھٌں۔۔۔
اسے اٌسے لگ رہا تھا جٌسے کسی نے اسکا دل مٹھی مٌں لٌا اور پھر مٹھی کو زور سے بھٌنچ لٌا ہو۔۔۔وہ اپنی ہی
جگہ سن ہو کر رہ گئی تھی۔۔۔والعی اسکے ابھی تھوڑی دٌر پہلے کٌے ہوئے سوالوں کا جواب اس کے سامنے موجود
تھا۔۔
اٌسا کٌسے ہو سکتا تھا؟ اس نے تو کبھی لرآن کو اٌسا نہٌں سمجھا تھا۔۔اس نے تو بچپن سے ٌہی سٌکھا تھا کہ اس لران
کو ثواب حاصل کرنے کے لٌے پڑھا جاتا ہے۔ اسکا ادب اتنا کرنا ہے اسکو اپنے پٌچھے نہٌں رکھنا۔۔آج اسے احساس ہو
رہا تھا کہ اب تک تو وہ اس "عظٌم کتاب" کی بے ادبی کرتی آئی تھی۔۔۔اب تک تو اس نے اس "کتاب" کو اپنے پٌچھے
ہی ڈالے رکھا تھا۔۔شٌطان بھی کٌسے کٌسے کھٌل کھٌلتا تھا۔۔وہ جس کتاب کے ذرٌعے جنت کا رستہ ملنا تھا اسی کو
بھلوا کر دنٌا کو جنت بنانے کے خواب لوگوں کو دکھانے مٌں مصروف تھا۔۔حتی کہ زندگی کی ان لمبی لمبی امٌدوں
نے مسلمانوں کو انکے دلوں کی پرسکون جنت سے محروم کردٌا تھا۔۔
اسکا ذہن بے انتہا الجھ چکا تھا۔۔۔وہ سمجھ نہٌں پا رہی تھی کہ آخر اسکے ساتھ کٌا ہو رہا ہے۔۔اسکے سامنے ہللا کی
روشن آٌات موجود تھٌں۔۔کٌا وہ والعی اسکے لٌے وہاں موجود تھٌں؟؟؟
اے پٌغمبر مٌری طرف سے لوگوں کو) کہہ دو کہ اے مٌرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زٌادتی کی ہے خدا ("*
کی رحمت سے ناامٌد نہ ہونا۔ خدا تو سب گناہوں کو بخش دٌتا ہے۔ (اور) وہ تو بخشنے واال مہربان ہے
اپنے رب کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہوجاإ۔اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آجائے ،پھر تم کو مدد نہ
*"کٌے جاإگے
وہ جٌسے جٌسے آٌات کا ترجمہ پڑھتی جارہی تھی اسکی دھڑکن تٌز ہوتی جا رہی تھی۔۔آنکھٌں پھر سے ابلنا شروع
ہوئٌں گرم گرم آنسو اسکے چمکتے گالبی چہرے پر بہنے لگے۔۔
فاطمہ اگر اس نے تمھٌں اٌسے سنبھالنا نہ ہوتا تو سوچو کٌوں تمھٌں ٌہاں لے کر آئے؟؟کٌوں تم نے مجھ سے وہ سب "
کہا جو بہت کم لوگ کہنے کی ہمت کرتے ہٌں؟کٌوں لرآن کی انھی آٌات مٌں تمھارے جواب تھے؟؟ ٌہ اتفاق نہٌں ہے
"فاطمہ۔۔ٌہ سب اس پٌارے رب کی پالننگ ہے
فاطمہ کے چہرے کا رنگ فك ہو چکا تھا اس نے کبھی ہللا کے بارے مٌں اٌسا نہٌں سوچا تھا۔۔ٌا شاٌد کبھی ہللا کے
بارے مٌں کچھ سوچا ہی نہ تھا۔۔کٌا ٌہ سب والعی اسکی پالننگ تھی؟؟۔۔جن حاالت سے وہ گزر کر ٌہاں تک آئی
تھی۔۔کٌا چاہ رہے تھے ہللا اس سے؟؟
اسے اب اس سوال کا جواب چاہٌے تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بہت کچھ تھا جو اسکے اندر کچے دھاگوں کی طرح الجھتا جا رہا تھا وہ مزٌد وہاں رکنے کی پوزٌشن مٌں نہ تھی۔۔۔
اب اسے ٌہاں سے جانا تھا۔۔۔کسی اٌسی جگہ جہاں بس وہ اپنے رب کے سامنے کھل کر رو سکے
"تمھارا بہت بہت شکرٌہ لرت،تم نہٌں جانتی آج تم نے مجھے کٌا دٌا ہے۔۔مٌں تمھارا ٌہ احسان کبھی نہٌں چکا پاإں گی"
ارے لڑکیٌ ،ہ سب تو تمھٌں ہللا نے آج اس ولت اس جگہ دٌنا ہی تھا مجھے تو بس اس نے ذرٌعہ بناٌا ہے الحمدہلل "
ٌہ کٌسی لڑکی تھی۔۔کس دنٌا کی تھی کٌسی عاجزی تھی اس مٌں۔۔فاطمہ کو اسے دٌکھ کر بے انتہا رشک آرہا
تھا۔۔اسکے دل مٌں خواہش جاگی کہ مجھے بھی ہللا کی اٌسی ہی پٌاری بندی بننا ہے۔۔۔
ٌہ سوچتے ہوئے وہ بہتی آنکھوں سے مسکرا دی۔۔
اسکے بعد فاطمہ لرة العٌن سے اسکا نمبر لے کر اسکے گھر سے نکل آئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ کے جانے کے بعد لرة العٌن نے ہاتھوں مٌں پکڑے ہوئے لرآن کو سٌنے سے لگا لٌا اور مسکراتے ہوئے اپنے
کمرے کی کھلی کھڑکی کی طرف آئی۔۔۔
اسکے کمرے کی کھڑکی گھر کے بچھلی طرف خالی پالٹ مٌں کھلتی تھی جہاں اس نے گلی کے بچوں کے ساتھ مل
کر صفائی کرکے چھوٹے چھوٹے پودے اگا رکھے تھے۔۔ہلکی ہلکی گھاس بھی اگ آئی تھی وہ صبح ٌونٌورسٹی جانے
سے پہلے وہاں مٹی کا پٌالہ پانی سے بھر کر رکھ جاتی تھی تاکہ سارا دن جو بھی پرندہ اور جانور اس مٌں سے پئٌے
اسکے لٌے وہ صدلہ لکھا جاتا رہے۔۔
باہر بہت سہانا موسم تھا مغرب کا ولت ہونے ہی واال تھا۔۔تٌز ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی جس کی وجہ درخت کی ٹہنٌاں
اوپر نٌچے جھول رہی تھٌں گوٌا اپنے خالك کی تسبٌح کر رہی ہوں۔۔
اسے فورا سے وہ آٌت ٌاد آئی جس مٌں ہللا نے فرماٌا تھا
ساتوں آسمان اور زمٌن اور جو لوگ ان مٌں ہٌں سب اسی کی تسبٌح کرتے ہٌں۔ اور (مخلولات مٌں سے) کوئی چٌز "
نہٌں مگر اس کی تعرٌف کے ساتھ تسبٌح کرتی ہے۔ لٌکن تم ان کی تسبٌح کو نہٌں سمجھتے۔ بےشک وہ بردبار (اور)
"غفار ہے
اس عرش پر مستوی رب کا کالم حك تھا سچ تھا مگر بہت کم لوگ ہی تھے جو اسکے کالم سے ہداٌت لٌتے تھے۔۔۔ٌہ
آٌت ٌاد آتے ہٌں اس نے زٌر لب تسبٌح کرنا شروع کردی۔۔
پتوں کی سرسراہٹ ،چڑٌوں کی چہچہاہٹ اور غروب ہوتے ہوئے سورج سے سارا سماں بہت خوبصورت لگ رہا تھا۔۔
کائنات کی ہر چٌز کو دٌکھ کر اسے اپنا رب ٌاد آتا تھا اور وہ دل ہی دل مٌں اسکی بنائی ہر چھوٹی بڑی تخلٌك کو
سراہتی رہتی تھی۔۔۔
ابھی بھی وہاں کھڑے کھڑے وہ ٌہی کر رہی تھی۔۔مسکراتے ہوئے زرد ہوتے آسمان کی جانب دٌکھ رہی تھی گوٌا
آسمانوں کے پار کہٌں کسی کو محسوس کر رہی ہو۔۔
اسے فاطمہ پر بہت پٌار آرہا تھا اسے ہمٌشہ سے ان لوگوں سے بہت اپنائٌت محسوس ہوتی تھی جو اپنے رب کی طرف
پلٹ آتے ہٌں۔۔وہ اپنے رب سے محبت کرتی تھی اس لٌے اسے ہر اس انسان سے محبت تھی جو اسکے رب سے محبت
کرتا تھا۔۔فاطمہ بھی اس رستے پر لدم رکھ چکی تھی۔۔۔اسکے دل سے فاطمہ کے لٌے بہت دعائٌں نکل رہی تھٌں کہ ہللا
اسکے دل کو اپنے لٌے خاص کر دٌں،اسے اپنی طرف کھٌنچ الئٌں اسے اپنے خاص بندوں مٌں شامل کرلٌں۔۔۔
ابھی ٌہ سب سوچ ہی رہی تھی کہ دور پار سے اسے مغرب کی آذانٌں سنائی دٌں۔۔وہ فورا سے پلٹی تو اسے خٌال آٌا کہ
اسکے ہاتھوں نے ابھی بھی لرآن کو بہت مضبوطی مگر محبت سے سٌنے سے لگاٌا ہوا تھا۔۔
وہ واپس رکھنے کے لٌے الماری کی طرف بڑھ رہی تھی کہ
اس نے چلتے چلتے اٌسے ہی لرآن کھوال۔۔
تو سامنے ٌہ آٌت تھی۔۔
اور جب (وہ لوگ) اس (کتاب) کو سنتے ہٌں جو پٌغمبر (دمحمﷺ) پر نازل ہوئی تو تم دٌکھتے ہو کہ ان کی آنکھوں سے "
آنسو جاری ہو جاتے ہٌں اس لٌے کہ انہوں نے حك بات پہچان لی اور وہ (خدا کی جناب مٌں) عرض کرتے ہٌں کہ اے
"پروردگار ہم اٌمان لے آئے تو ہم کو ماننے والوں مٌں لکھ لے
)المائدہ(83:
اسکی دھڑکن فورا سے تٌز ہو گئی اور لدم وہٌں جم گئے۔۔۔آنکھٌں نم ہو گئٌں۔۔
انھی پرنم آنکھوں سے مسکرا کر اس روشن آٌت پر ہاتھ پھٌرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔اوہ فاطمہ۔۔۔۔تم کٌا جانو تمھارے
رب کو تمھارے ان بہتے آنسوإں کی کتنی لدر کرنے واال ہے۔
♡ ۔۔
فاطمہ شہر کے اس عاللے مٌں پہلی مرتبہ آئی تھی ٌہ وہ عاللہ تھا جہاں مڈل کالس فٌملٌز رہتی تھٌں اٌک ہی دٌوار
کے ساتھ جڑے گھروں مٌں رہنے والے آپس مٌں بھی جڑ کر رہنا جانتے تھے۔۔فاطمہ لرة العٌن کی والدہ سے ملنے کے
بعد گھر سے نکل آئی تھی۔۔گلی مٌں بچے آپس مٌں کھٌل رہے تھےاسی گلی کے کونے پر چاچا سلٌم گاڑی مٌں اسکا
انتظار کر رہے تھے۔۔
فاطمہ اپنے خٌالوں مٌں گم چلے جا رہی تھی کہ اچانک آس پاس کھٌلنے والے بچوں نے اسے سالم کٌا ۔وہ حٌرت سے
متوجہ ہوئی بچے سالم کرنے کے بعد دوبارہ سے کھٌل مٌں مصروف ہو گئے تھے۔۔۔اس نے بھی جواب دٌا تو اٌک
بچی بھاگتی ہوئی اس کے پاس آئی۔۔
"باجی کون؟؟؟"
فاطمہ نے نٌچے جھکتے ہوئے پٌار سے اسکا گال کھٌنچتے ہوئے کہا۔۔
بچی نے لرة العٌن کے گھر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فاطمہ کو بتاٌا۔۔
فاطمہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔وہ سمجھ گئی تھی کہ ٌہ بچے لرة العٌن کے پاس لرآن پڑھتے ہٌں اسی لٌے انھوں نے
اسے سالم کٌا تھا ۔۔اسے ہی نہٌں بلکہ وہ ہر آنے جانے والے کو سالم کر رہے تھے۔۔بالکل لرة العٌن کی
طرح۔۔ٌونٌورسٹی مٌں وہ بھی اٌسے ہی خود آگے بڑھ بڑھ کر سب کو سالم کرتی تھی۔۔اسکے سٹوڈنٹس بھی اسی جٌسے
تھے۔۔
بچی دوبارہ سے اپنے کھٌل مٌں مصروف ہو چکی تھی فاطمہ گلی سے نکل کر گاڑی مٌں آکر بٌٹھ گئی اور بٌٹھتے ہی
چاچا سلٌم کو سالم کٌا۔۔۔
چاچا سلٌم انکے خاندان کے بہت پرانے ڈرائٌور تھے انکی پوری فٌملی فاطمہ کے گھر مٌں سرونٹ کوارٹرز مٌں
رہتے تھے اور انکے گھر کا سارا کام کاج کرتی تھی۔۔
چاچا سلٌم حٌرت سے فاطمہ کو جواب دٌتے ہوئے اسکی طرف دٌکھ رہے تھے کٌونکہ اسکا اٌسے سالم کرنا انکے
لٌے بالکل نٌا تھا۔۔
فاطمہ ٌہ کہہ کر لرة العٌن کا کاغذ پر لکھا ہوا نمبر اپنے موبائل مٌں سٌو کرنے لگی۔
چاچا سلٌم گاڑی گلٌوں سے نکال کر مٌن روڈ پر لے آئے۔۔دور دور سے مغرب کی اذانوں کی آوازٌں آرہی تھٌں۔۔
دٌکھو فاطمہ ،،مٌں تمھٌں دوبارہ کہہ رہی ہوں تم اسکے بارے سوچنا چھوڑ دو،وہ بندہ صرف ٹائم پاس کر رہا ہے "
علٌنہ اس بار کچھ غصے مٌں آگئی تھی۔۔آنا بھی چاہٌے تھا کتنے ماہ ہو گئے تھے اسے فاطمہ کو سمجھاتے سمجھاتے
کہ سفٌان سے بچ کر رہے وہ صرف اسکے ساتھ ٹائم پاس کر رہا ہے۔۔عالٌہ کوئی خاص مذہبی خاندان سے تعلك نہٌں
رکھتی تھی مگر اسکا کردار بہت مضبوط تھا اسے اپنے لمٹس کا بخوبی اندازہ تھا اسے اپنے والدٌن کی عزت کا بھی
خٌال تھا کہ اگر اسکے والدٌن اتنی محنت اور امٌدوں سے اسے اس مہنگی ٌونٌورسٹی مٌں پڑھا رہے ہٌں تو اسے بدلے
مٌں انکو دھوکہ نہٌں دٌنا،اسے اپنے نفس کے لٌے اپنوں کو اذٌت نہٌں دٌنی،اگرچہ فتنہ ہر طرف تھا ٌونٌورسٹی کا
ماحول بے حٌائی سے بھرپور تھا ہر طرف لڑکے لڑکٌاں کپل کی صورت مٌں نظر آتے تھے اٌسا لگتا تھا وہاں پڑھائی
سے زٌادہ اٌسی دوستٌاں اہم تھٌں۔۔
علٌنہ فاطمہ سے دو سال بڑی تھی اسکی تربٌت بھی اٌسی ہوئی تھی کہ وہ سمجھدار تھی وہ مزٌد فاطمہ کی اذٌت کو
نہٌں دٌکھ پارہی تھی۔آج بھی ٌونٌورسٹی کے الن مٌں بٌٹھی وہ اسے سمجھا رہی تھی۔
مٌں کٌا کروں علٌنہ۔!! مٌں خود بھی تھک چکی ہوں،مجھے اٌسے لگتا ہے جٌسے مجھے کسی چٌز نے اندر سے "
ہمٌشہ کی طرح فاطمہ آج بھی رو دی تھی۔۔مگر آج وہ بہت تھکی ہوئی دکھائی دے رہی تھی۔۔علٌنہ جانتی تھی کہ وہ اس
سب سے جان چھڑانا چاہتی ہے۔۔مگر اسے رستہ نہٌں مل رہا۔۔اسے فاطمہ پر بہت ترس آرہا تھا۔۔
علٌنہ مٌں نے اسے بہت سی لڑکٌوں کے ساتھ دٌکھا ہے،مٌں جانتی ہوں وہ مٌرے ساتھ صرف ٹائم پاس کر رہا "
ہے،مٌں نے کوشش بھی کی ہے خود کو دور رکھنے کی،مٌں نے اسکا نمبر اسکا اکاونٹ سب کچھ بالک کردٌا،مگر
"مٌں اس دل کا کٌا کروں،اسکے ہاتھوں پھر سے مجبور ہو جاتی ہوں
بتاتے بتاتے فاطمہ دونوں ہاتھ چہرے پر رکھ کر رودی تھی۔۔اگرچہ اسکے والدٌن کی طرف سے اس پر کوئی اٌسی
پابندی نہ تھی مگر وہ کہتے ہٌں نا کہ جب ضمٌر زندہ ہو تو انسان کو برائی پر چٌن سے نہٌں بٌٹھنے دٌتا۔۔ہللا نے ہر
انسان کے اندر اسکی اچھائی اور برائی الھام کر رکھی ہے ٌہ بھی حمٌمٌت ہے کہ کہ انسان کا نفس برائی کی طرف
مائل ہوتا ہے لٌکن اگر وہ اسے روک نہ لگائے،اسکے اردگرد تموی کی دٌوارٌں کھڑی نہ کرے تو وہ اس برائی کے
جال مٌں پھنس جاتا ہے اور پھر اذٌت اور بےچٌنی کے سوا کچھ ہاتھ نہٌں آتا ۔۔اسکا بھی ٌہی حال تھا۔۔اس نے پہلے لدم
پر ہی خود کو روک نہ لگائی تھی۔۔وہ جانتی تھی کہ ٌہ تعلك جائز نہٌں ہے ٌہ وہ سراب ہے جو دور سے سہانا لگتا ہے
مگر پاس جانے سے ماٌوسی اور اذٌت کے سوا کچھ ہاتھ نہٌں آتا۔۔مگر پھر بھی ہر روز سفٌان سے چٌٹنگ کرنااور
اسکو اپنی پکس بھٌجنا اسکا معمول بن گٌا تھا۔۔۔سفٌان کی طرف سے ملنے والے کمنٹس اور تعرٌفٌں اسکے نفس کو
مزٌد موٹا کر دٌتی تھٌں شب روز اسکے اٌسے ہی گزر رہے تھے کہ اسکا دماغ اسی کے خٌالوں مٌں جکڑ رہتا تھا۔۔وہ
گناہوں کی گہری کھائی مٌں گرتی ہی چلی جا رہی تھی۔۔۔اٌسے جٌسے اس کھائی کی گہرائی سے اسے کوئی اپنی طرف
کھٌنچ رہا ہو مگر اسکے اندر بٌٹھا اسکا ضمٌر اسے بار بار جھنجھوڑ رہا تھا کہ گہرائی مٌں صرف رسوائی
ہے۔۔۔۔۔۔ابھی ولت ہے گرنے سے پہلے خود کو چھڑوا لو۔۔۔
قسط نمبر 6
لرة العٌن ٌونٌورسٹی کے کورٌڈور کی سٌڑھی پر بٌٹھی اپنی فائل مٌں پٌجز لگا رہی تھی کہ اچانک پٌچھے سے فاطمہ
آگئی۔۔
اس نے بے بی پنک شرٹ کے ساتھ وائٹ ٹراوزر پہنا ہوا تھا۔۔اور شٌفون کا بے بی پنک دوپٹہ نفاست سے سر پر ڈاال
ہوا تھا ۔۔مگر دوپٹے کے اندر کھلے بالوں کی لٹٌں چہرے اور گردن پر آرہی تھٌں جنھٌں وہ سائڈ پر کرتے ہوئے لرة
العٌن کی طرف جھکی۔۔
" اوہ فاطمہ۔۔۔وعلٌکم السالم ورحمت ہللا بھئی کٌسی ہو؟؟ "
فاطمہ کو دٌکھ کر لرة العٌن نہاٌت گرم جوشی اور بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اس سے مخاطب ہوئی ۔۔فاطمہ اسکی
مسکراہٹ،اسکے سٌاہ نماب کی وجہ سے دٌکھ نہٌں پائی مگر اسکی آنکھوں مٌں چمک اور والہانہ انداز سے ملنے
والے جواب پر فاطمہ بھی مسکرادی
لرة العٌن نے تھوڑا سا سائڈ پر سرکتے ہوئے فاطمہ کو جگہ دی اور فائل سائڈ پر رکھ کر اسکی طرف متوجہ ہوئی۔۔
فاطمہ کندھے سے اپنا بٌگ اتارتے ہوئے اسکے ساتھ بٌٹھ گئی۔۔اس دن کے بعد سے آج فاطمہ کی لرة العٌن سے
ماللات ہوئی تھی۔۔کچھ تھا اس مٌں جو فاطمہ کو اپنی طرف کھٌنچتا تھا وہ اکثر نوٹ کرتی تھی کہ کالس کی بہت سی
لڑکٌاں لرة العٌن سے بچ بچ کر رہتی تھٌں شاٌد کسی انجانے خوف کا شکار تھٌں مگر فاطمہ کو اب ااحساس ہورہا تھا
کہ بظاہر نظر آنے والے ٌہ اجنبی سے لوگ کتنے مخلص ہوتے ہٌں۔اس نے اور بھی دٌن والے دٌکھے تھے مگر لرة
العٌن کی ہللا سے اٌسی محبت اور تعلك اس نے پہلی مرتبہ دٌکھا تھا ٌہی وجہ تھی کہ آج وہ پھر سے اسکی طرف
کھنچی چلی آئی تھی۔۔
لرت تمھٌں پتہ ہے اس دن مٌں تم سے مل کر واپس اپنے گھر آئی تو مغرب کا ولت جانے واال تھا۔۔۔اس دن مٌں نے "
سب سے پہلے نماز ادا کی کہ مٌں مزٌد اپنے رب کے ساتھ بے وفائی نہٌں کر سکتی۔۔مٌں جب نماز کے لٌے کھڑی
ہوئی مجھے اٌسا لگا کہ مٌں مزٌد نہٌں کھڑی ہو پاإں گی۔۔مٌرے لدم بہت بوجھل ہوگئے تھی۔۔دماغ ماإف تھا۔۔دل اٌسے
تھا جٌسے باہر نکل آئے گا آنکھٌں بہتی جا رہی تھٌں مجھے ٌاد نہٌں کہ مٌں نے کٌا پڑھا نماز مٌں۔۔۔بس اتنا ٌاد ہے پہلی
رکعت کا پہال سجدہ۔۔بہت سسکٌاں لے لے کر روئی تھی۔۔اس نماز کے بعد مجھے اپنے اندر اٌک عجٌب سا سکون
"محسوس ہوا تھا جو پہلے کبھی نہٌں ہوا۔۔اسکےبعد سے اب تک مٌں نے کوئی نماز نہٌں چھوڑی۔۔
فاطمہ سامنے الن مٌں گھاس پر نظرٌں جمائے مٌکانکی انداز مٌں سب کہے جا رہی تھی۔۔لرة العٌن حسب معمول مسکرا
کر اسکی سب باتٌں سن رہی تھی اور ساتھ مٌں "الحمدہلل" کہے جا رہی تھی۔۔
مگر لرت۔۔۔نماز کے بعد مجھے سکون ملتا ہے مگر وہ ولتی ہوتا ہے۔۔مجھے اپنے اندر بہت خال محسوس ہوتا ہے "
مجھے سمجھ نہٌں آرہی کہ کٌا وجہ ہے؟؟دٌکھو اب تو مٌں اسے بھی چھوڑ چکی ہوں جو مجھے ہللا سے غافل کٌے
ہوئے تھا مگر پھر بھی مجھے اٌک عجٌب سی تشنگی رہتی ہے مٌرا دل مضطرب رہتا ہے۔۔لرت مٌں نے تو سنا تھا کہ
"ہللا کے ذکر سے دلوں کو سکون ملتا ہے پھر مجھے کٌوں نہٌں ہر ولت وہ سکون ملتا؟
وہ روہانسی ہو رہی تھی اٌسے جٌسے اپنے آنسو اور اندر کی اذٌت کو مزٌد اندر دبا رہی ہو۔۔مگر لرة العٌن سمجھ رہی
تھی۔کہ اسکی اس بے سکونی کی کٌا وجہ ہے۔۔۔اس نے مسکرا کر کہا
فاطمہ۔۔پتہ ہم انسانوں کی زندگی کا انحصار روح اور جسم دونوں پر ہے۔۔اگر ٌہ روح ہمارے جسم سے نکل جائے ناں "
تو ٌہ جسم بٌکار ہے۔۔ ٌعنی ہماری زندگی کا اہم ترٌن پارٹ ہماری روح ہے۔۔جسکا ہم نے بہت خٌال رکھنا ہے مگر آج
کی اس ظاہرٌت پرستی کی دنٌا مٌں ہم نے ظاہری جسم کو تو بہت توجہ دی ہے مگر اپنے اندر کی نظر نہ آنے والی
روح کو بالکل اگنور کردٌا ٌہی وجہ ہے خوبصورت جسموں مٌں بے چٌن دل دھڑکتے ہٌں۔۔لوگوں کو لگتا ہے کہ وہ
ظاہری کھٌل کود اور ہنسی مذاق سے خود کو خوش رکھ سکتے ہٌں مگر ٌہ بالکل غلط ہے آپکے جذبات کا تعلك آپکے
دل سے ہوتا ہے اور دل کا تعلك روح سے ہے۔۔اس روح کی ضرورٌات پوری کرنے سے ہٌں انسان کو سکون مل سکتا
"ہے
مگر لرت ۔۔مٌں تو اب نماز پڑھتی ہوں ،دعائٌں بھی مانگتی ہوں۔۔کٌا اس سے مٌری روح کی ضرورت پوری نہٌں ہو "
"رہی؟؟
فاطمہ دٌکھو۔۔نماز فرض ہے ٌہ بالکل ہماری روح کی ضرورت ہے مگر صرف نماز پڑھنا کافی نہٌں ہے۔۔تم خود بتاو "
"ہم سارا دن صرف کھانا کھائٌں۔۔پانی نہ پٌئٌں۔۔کٌا اس سے ہماری ضرورت پوری ہوگی؟؟
بالکل اسی طرح۔۔ہمارے لٌے نماز کے ساتھ اور بھی کام بہت ضروری ہٌں جو ہماری روح کی ضرورت پوری کرٌں "
"گے۔۔نماز مٌں تم ہللا سے سرگوشی کرتی ہو مگر کٌا تمھٌں معلوم ہوتا ہے کہ ہللا تم سے کٌا چاہ رہے ہٌں؟؟
ٌہی وجہ ہے۔۔کہ کوئی بھی تعلك تب تک فائدہ مند نہٌں جب تک ٌک طرفہ ہو۔۔تمھٌں ہللا کے ساتھ تعلك لائم کرنا ہے تو "
فاطمہ کے لٌے ٌہ سب باتٌں بہت گہری مگر نئی تھٌں اسے اٌسے لگ رہا تھا جٌسے اسکے ذہن سے پردے چھٹتے جا
رہے ہوں۔۔اسے والعی اب اپنا مسئلہ سمجھ آنے لگا تھا۔۔۔ اسے جاننا تھا کہ ہللا اس سے کٌا چاہتے ہٌں۔۔۔
!!مگر کٌسے۔۔۔۔
وہ اندھٌری کھائی مٌں گرتی ہی جا رہی تھی۔۔۔اسکا جسم بری طرح سے کانپ رہا تھا وہ حلك پھاڑ کر چٌخنا چاہ رہی "
تھی مگر آواز ساتھ نہ دے رہی تھی۔۔اس نے ہوا مٌں بہت ہاتھ پاوں مارے مگر کوئی سہارا ہاتھ نہ آٌا وہ کتنی دٌر سے
اٌسے تٌزی سے سر کے بل نٌچے کی طرف آرہی تھی اندھٌرے مٌں آنکھٌں پھاڑ کر دٌکھنا چاہ رہی تھی مگر کچھ
نظر نہ آٌا۔۔اسکی شدٌد خوف کے مارے وہ کٌفٌت تھی کہ آنسو بھی جٌسے حلك مٌں گولے کی صورت مٌن جمع ہو کر
اسکا سانس لٌنا دشوار کر رہے تھے۔۔۔بہت زور لگانے پر آخر اٌک لفظ اسکے منہ سے نکال اور ساتھ ہی اس کا جسم
"کسی پرنور اور روشن سی جگہ پر نرم مالئم سبز گھاس پر آکر گر گٌا۔۔۔
وہ اچانک سے اٹھ کر بٌٹھ گئی۔۔۔وہ بری طرح سے ہانپ رہی تھی سردی کے موسم مٌں پورا جسم پسٌنے سے شرابور
تھا۔۔اس نے اپنے ماتھے پر ہاتھ پھٌرا اور انگلٌوں پر لگا پسٌنہ دٌکھنے لگی۔۔۔
اتنے مٌں اسکے کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھال۔۔
مسز رٌان گھبرائی ہوئی آگے بڑھ کر اسکو ساتھ لگاتے ہوئے پوچھنے لگٌں۔۔
فاطمہ اپنی ٌاداشت پر زور دٌنے کی کوشش کر رہی تھی کہ اس نے کٌا دٌکھا تھا۔۔۔اسکا سانس ابھی تک بحال نہ ہوا
تھا۔
"مٌں تو کچن مٌں پانی لٌنے کے لٌے آئی تھی کہ ٌوں تمھاری آواز سن کر گھبرا گئی اور ٌہاں آگئی"
فاطمہ بھنوٌں سکٌڑے حٌران و پرٌشان اپنی ماما کی طرف دٌکھ رہی تھی۔۔
"ہاں بٌٹا،،مجھے واضح سنائی تو نہٌں دٌا کہ تم نے کٌا کہا تھا مگر تم بھت چٌخ کر بولی تھی۔۔تم ٹھٌک ہو نا؟؟"
رات کے 8بجے کا ٹائم تھا اسکے رٌشمی بال کمر پر بکھرے تھے وہ بٌڈ پر کتابٌں پھٌالئے پڑھنے کی ناکام کوشش
کر رہی تھی۔۔۔ساتھ مٌں پڑا کافی کا مگ ٹھنڈا ہو چکا تھا ۔۔مگر وہ فوکس نہٌں کر پا رہی تھی۔۔
اس نے کتاب بند کی اور اپنا سر بٌڈ کے کراإن کے ساتھ لگا کر آنکھٌں بند کر دٌں۔۔
دوبارہ سے بٌپ ہوئی۔۔۔
اسکے آنسو بہنا شروع ہو گئے۔۔
"آخری بار بات کرلو۔۔اسے آرام سے کہہ دو کہ آجکے بعد وہ تمھٌں کوئی مٌسج نہ کرے۔۔وہ پرٌشان ہورہا ہوگا۔۔"
اٌک اور آواز اندر سے آئی۔۔اسکا بڑھتا ہوا ہاتھ پھر سے رک گٌا۔۔
دوبارہ بٌپ ہوئی۔۔
فاطمہ وہ تمہاری بہت کئٌر کرتا ہے۔۔تم نے اگر اٌسے چھوڑدٌا تو وہ خود کو کچھ کر لے گا۔۔کٌا تم سے ٌہ برداشت "
"ہوجائے گا؟ کٌا تم خوش رہ لوگی اسکے بغٌر؟؟ کٌا تم چٌن سے رہ سکو گی کہ کوئی تمھاری وجہ سے اذٌت مٌں ہو
اس نے ٹائم دٌکھا تو 9بج چکے تھے۔۔ٌعنی وہ پورا اٌک گھنٹہ سفٌان سے چٌٹ کرتی رہی؟ اسے احساس ہی نہٌں ہوا
تھا۔۔۔ہوتا بھی کٌسے۔۔نفس کی خواہشات پوری کرتے کرتے انسان کو لمحات تو کٌا گھنٹوں کے ضٌاع کی بھی خبر نہٌں
ہوتی احساس زٌاں تو دور کی بات ہے۔۔۔
اس نے اذان کو اگنور کرکے دوبارہ موبائل اٹھاٌا اور واٹس اٌپ آن کٌا۔۔۔
کسی کا کوئی مٌسج نہٌں تھا۔۔سٹٌٹس کا نوٹٌفٌکٌشن دٌکھ کر وہ اپنے کانٹٌکٹس کے سٹٌٹس سٌن کرنے لگی۔۔
ٌکاٌک لرة العٌن کا سٹٌٹس سامنے آٌا۔۔جو ابھی 17منٹ پہلے ہی اپلوڈ کٌا گٌا تھا۔۔۔
"اور ہم نے ان مٌں سے اکثر لوگوں کا عہد کا پابند نہٌں پاٌا اور ہم نے ان مٌں سے اکثر لوگوں کو نافرمان ہی پاٌا"
اسکا ٌہ سٹٌٹس دٌکھ کر فاطمہ کا دل جٌسے لمحے کے لٌے بند ہوگٌا۔۔اسکے ہاتھ کانپنے لگے۔لرة العٌن اکثر اپنے
سٹٌٹس پر آٌات ٌا احادٌث لگاٌا کرتی تھی ۔۔فاطمہ اکثر اگنور کر جاتی ٌا سرسری سا پڑھ کر گزر جاتی تھی۔۔
مگر آج۔۔۔
آج وہ اس آٌت کو اگنور نہ کر پائی۔۔اسے اٌسے لگا جٌسے کسی نے بہت زور سے اسے جھنجھوڑ کر رکھ دٌا ہو۔۔۔دل
کی بے چٌن دھڑکن نے آنکھوں کو پھر سے گرم کردٌا۔۔۔
وہ اکثر لرة العٌن کی باتوں پر حٌران ہوتی تھی کہ اسے لرآن سےکٌسے جواب مل جاتے ہٌں۔۔کچھ دن پہلے جب وہ لرة
العٌن کے گھر گئی تھی تو اسے بھی اٌک جواب مال تھا۔۔۔اسکے بعد اسے پکا ارادہ کٌا تھا کہ اب وہ دوبارہ اس گناہ مٌں
ملوث نہٌں ہو گی۔۔
مگر آج وہ پھر سے اپنے نفس کے ہاتھوں ہار بٌٹھی تھی ۔۔
ہم نے ان مٌں سے اکثر کو نافرمان ہی پاٌا
ٌہ ہللا کے الفاظ تھے۔۔
سات آسمانوں کے پار سے آئے اسکے رب کے کلمات۔۔۔
ٌہ 1400سال پہلے نازل شدہ الفاظ آج کٌسے اسکی سچوئٌشن کے بارے مٌں جواب دے سکتے تھے۔۔
نافرمان
انکو۔۔۔۔ٌعنی مجھے؟؟
مٌں نافرمان۔۔۔۔ہاں پھر سے نافرمانی کر بٌٹھی
موبائل سائڈ پر رکھ کر وہ فورا سے واش روم کی طرف بھاگی اور وضو کرکے جائے نماز بچھا لی۔۔۔
آنسو زارو لطار بہہ رہے تھے۔۔
جسم مسلسل کانپ رہا تھا۔۔۔
نماز کے بعد اس نے کانپتے ہوئے ہاتھ اٹھائے۔
اوہ ہللا تعالی۔۔۔ آئی اٌم سوری۔۔۔رئٌلی سوری۔۔۔مٌں پھسل گئی ۔۔مٌں پھر سے پھسل گئی۔۔۔آپ نے صحٌح کہا مٌں نافرمان
ہی ہوں۔۔مٌں اپنا وعدہ پورا نہ کر سکی۔۔۔(ہچکی بندھ چکی تھی) ہللا پلٌز۔۔۔مجھے معاف کردٌں۔۔۔آپ نے اس دن اپنی آٌت
کے ذرٌعے مجھے حوصلہ دٌا تھا کہ آپ سب گناہ معاف کردٌتے ہٌں۔۔۔مگر دٌکھٌں آج مٌں پھر سے گناہ کر بٌٹھی۔۔۔
ہللا تعالی پلٌٌٌز۔۔۔مجھے نافرمان نہٌں بننا مجھے بھی لرت کی طرح آپکی پٌاری بندی بننا ہے ہللا۔۔پلٌٌز۔۔۔مٌں کمزور پڑ
رہی ہوں مٌرے دل کو سنبھال لٌں۔۔۔پلٌٌز ہللا۔۔۔
چہرہ ہاتھوں مٌں چھپائے وہ بچوں کی طرح بلک بلک کر رو رہی تھی۔۔۔
روتے روتے وہ سجدے مٌں گر گئی۔۔زمٌن اسکی ندامت مٌں ڈوبی سسکٌوں کی گواہٌاں سمٌٹ رہی تھی۔۔حتی کہ اسکے
دل پر سکٌنت نازل ہونے لگی اور اسے پتہ ہی نہٌں چال کب وہ نٌند کی آغوش مٌں چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"شہرٌار۔۔۔رکو۔۔۔امی۔۔۔امی دٌکھٌں اسکو۔۔ٌہ مجھ سے مار کھا لے گا مٌں کہہ رہی ہوں۔۔۔
نائلہ شہرٌار کے پٌچھے ننگے پاإں بھاگ رہی تھی جو مذالا اسکا موبائل اسکے ہاتھ سے چھٌن کر بھاگ رہاتھا۔۔
دونوں بہن بھائٌوں کی ازلی محبت اور چھٌڑ چھاڑ انکے گھر کا معمول تھٌں۔۔۔شہرٌار نائلہ سے اٌک سال چھوٹا تھا
دونوں اٌک ہی ٌونٌورسٹی مٌں پڑھتے تھے۔۔۔
روز دونوں کی شرارتوں اور پٌار بھری لڑائٌوں سے انکی ماں بہت محظوظ ہوتی تھٌں اور شاٌد دونوں بہن بھائی اپنی
ماں کو ہی خوش کرنے کے لٌے اٌسا کرتے تھے ۔۔
انکے والد انکے بچپن مٌں ہی فوت ہوگئے تھے ماں نے تنہا مشمتٌں کرکے انکو پڑھاٌا لکھاٌا تھا ٌہاں تک کہ آج وہ اس
ممام تک پہنچ گئے تھے شہرٌار سٌکنڈ ٹائم کاروبار کے ساتھ ساتھ آن الئن جاب کرتا تھا جس کی وجہ سے انکا گزارا
ہللا کے فضل سے اچھے سے ہو رہا تھا۔۔
امی ٌہ ہمٌشہ ہی اٌسے کرتا ہے مٌں جب بھی موبائل ٌووز کر رہی ہوتی ہوں ٌہ چھٌن جاتا ہے۔۔مٌں نے تو کبھی اس "
"شہرٌار۔۔بہن کو تنگ مت کٌا کرو تمھٌں پتہ ہے نا کہ وہ کچھ عرصے کی مہمان ہے۔۔"
شہرٌار نے آنکھ مارتے ہوئے ماں کی طرف دٌکھا اور ہنستے ہوئے موبائل واپس ہاتھ مٌں دے دٌا۔۔۔
نائلہ نے چھٌننے کے انداز مٌں موبائل لٌا اور منہ چڑاتی واپس اپنے کمرے کی طرف مڑگئی۔۔
اسے اٌسے دٌکھ کر دونوں ماں بٌٹا ہنسنے لگے ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لرت مٌرا دل کرتا ہے مٌں اس سے بالکل بے نٌاز ہو جاإں،اسکی ٌادوں سے،اسکی باتوں سے ،حتی کہ وہ سامنے "
پچھلی رات کے والعے کے بعد آج فاطمہ ٌونٌورسٹی مٌں لٌکچر سے فری ہوتے ہی لرة العٌن کے پاس آئی تھی کل
رات اتنی واضح آٌت ملنے کے بعد وہ اب تک سنبھل نہٌں پا رہی تھی ۔۔وہ اس دھوکے کے جال سے نکلنا چاہتی تھی۔۔۔
مٌں جانتی ہوں مٌں بہک گئی تھی،مجھے خود کو بچانا چاہٌے تھا مگر اب کٌا کروں؟ دل اپنے اختٌار مٌں تو نہٌں ہوتا "
"نا؟
فاطمہ ٌہ حمٌمت ہے کہ دل اپنے اختٌار مٌں نہٌں ہوتا مگر دٌکھو اسکو بے اختٌار کرنے کا اختٌار ضرور ہمارے ہاتھ "
"مٌں ہوتا ہے۔۔۔تم جانتی ہو ہللا نے کٌوں لرآن مٌں عورت اور مرد کو نظروں کی حفاظت حکم دٌا ہے؟؟
اسی لٌے کہ ہمارا دل کاسکون ہمارے اختٌار مٌں رہے۔۔۔دل ہللا کے ہاتھ مٌں ضرور ہٌں مگر اس معاملے مٌں ہم اتنے "
بے بس بھی نہٌں ہٌں۔۔نظروں کی حفاظت سب سے پہال عمل ہے جس سے انسان ٌا تو دل کا سکون بچا سکتا ہے ٌا
"اسے برباد کر سکتا ہے۔۔اس لٌے پہلے تو اس بات کو مائنڈ سے نکالو کہ تمھارا خود پر کوئی اختٌار نہٌں
اب وہ کافی سنجٌدہ ہو کر فاطمہ کو سمجھا رہی تھی۔۔آخر کٌوں نہ سمجھاتی۔۔وہ دل جنھٌں رب کی محبت مٌں تڑپنا
چاہٌے تھا اٌک نامحرم اور ناجائز محبت مٌں تڑپ رہا ہو ٌہ رب کے حك مٌں ظلم نہٌں تو اور کٌا ہے؟؟
اور سنو! ٌہ اٌک مرض ہے۔۔مگر العالج نہٌں ہے۔۔اسکی شفا موجود ہے۔۔ہللا نے موت کے سوا کوئی مرض اٌسا نہٌں "
!!اتارا جسکی شفا موجود نہ ہو،مگر شفا تمھٌں تب ملے گی جب تم والعی سنجٌدہ ہوکر شفاٌاب ہونا چاہو گی
الحمدہلل۔۔۔دٌکھو۔ کسی بھی بٌماری کے عالج کے لٌے دو چٌزٌں الزم و ملزوم ہٌں۔ سب سے پہلے تو پرہٌز۔۔اور پھر "
دوا۔۔پرہٌز مٌں تمھٌں چند کام کرنے ہوں گے تاکہ دوا اپنا اثر پوری طرح سے کر سکے۔۔۔
فاطمہ ہمہ تن گوش ہو کر سن رہی تھی۔۔
پرہٌز مٌں سب سے پہلے تم اسکا نمبر ڈٌلٌٹ کرکے بالک کرو،تمام کنورسٌشنز اور پکس۔۔سب کچھ ڈٌلٌٹ کرو،اسکے "
دئٌے ہوئے تحفے ،ان سب چٌزوں کو خود سے دور کرو۔۔کوئی اٌک بھی چٌز اٌسی تمھارے پاس نہ ہو جو تمھٌں
"اسکی ٌاد دالئے۔جب تم ٌہ کر چکو تو پھر مجھے بتانا۔
فاطمہ نے آنسوإں کا گولہ حلك سے نٌچے اتارتے ہوئے اثبات مٌں سر ہالٌا تھا۔۔
"اور سنو۔۔۔کوئی کام بھی رب سے دعا کٌے بغٌر نہ شروع کرنا۔۔دو نفل پڑھ کر ہمت مانگنا ۔۔وہ ضرور دٌں گے۔۔۔"
تم چاہتی ہو نا کہ تم بھی ہللا کے لرٌب ہو۔۔تو پہال سٹٌپ ٌہی ہے تمھارا۔۔۔ہللا لرآن مٌں کہتے ہٌں نا۔۔"
"جب تک تم ان چٌزوں مٌں سے جو تمھٌں محبوب ہٌں خرچ نہ کرو گے تم کبھی نٌکی کو پا نہٌں سکتے"
)آل عمران(
"سو اٹس ٹائم۔۔کہ تم اپنی محبوب ترٌن چٌز اسکے لٌے لربان کردو۔۔
لرآن واحد ذرٌعہ تھا جسکے آگے وہ خود کو بے بس محسوس کرتی تھی۔۔
اس نے آنسوإں سے بھری آنکھٌں جھکا لی تھٌں۔۔اس ولت اس سے بڑھ کرکون جان سکتا تھا کہ ٌہ سب لربان کرنا کتنا
مشکل تھا۔۔۔مگر اسے ہللا کو پانا تھا۔۔ہللا جٌسی ہستی کو پانے کے لٌے کچھ لربان نہ کرنا پڑے۔۔اٌسا کٌسے ہوسکتا
ہے۔۔۔اس نے خود سے عہد کٌا اور فورا رب سے دعا کی کہ وہ اسے ہمت دٌں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہرٌار نے مغرب کی نماز پڑھ کر سالم پھٌرا ہی تھا کہ اسے اپنے پٌچھے بائٌں طرف دبی دبی سسکٌوں کی آواز
آئی۔۔۔
اس نے فورا سے مڑ کر دٌکھا تو وہ اٌک نوعمر لڑکا دعا کے لٌے ہاتھ اٹھائے اپنے رب سے مناجات کرنے مٌں
مصروف تھا۔۔اسے احساس ہی نہٌں تھا کہ اسکی ان سسکٌوں نے کتنے ہی کانوں کو اپنی طرف متوجہ کرلٌا تھا۔۔کچھ
نظرٌں حسرت اور رشک سے اسے دٌکھ رہی تھٌں اور کچھ ججمنٹل ہو کر۔۔۔مگر شہرٌار اٌک دم سے کھٹکا تھا۔۔
اسے ٌکاٌک آخری بار کی ہوئی اپنی دعا ٌاد آئی جو اس نے والعی تڑپ کر مانگی تھی۔۔
شہرٌار ٌہی سوچتے سوچتے اپنے بک سٹور کی طرف بڑھ گٌا۔۔ مغرب کی نماز پڑھ کر وہ روز اپنے بک سٹور کی
طرف آجاتا تھا جہاں اسکا ساتھی فراز صبح سےموجود ہوتا اور پھر شام سے شہرٌار کی شفٹ شروع ہوتی۔۔
ٌہٌں پر وہ اپنا آن الئن کام کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی نٌورسٹی کا بھی پڑھتا رہتا تھا۔۔
النور بک لٌنڈ" اس ولت شہر کا سب سے بڑااور مشہور بک سٹور تھا جسے ٌہ دو نوجوان لڑکے چل رہے تھے۔۔ٌہاں "
ہر عام خاص پرانی نئی ہر فٌلڈ کی بکس دستٌاب تھٌں ٌونٌورسٹٌز اور کالجز کے سٹوڈنٹس ٌہاں آکر سستے داموں بکس
خرٌدتے ٌا اپنی بکس اکسچٌنج کرواتے۔۔
شہرٌار نے آکر سالم دعا کے بعد فراز کو گھر بھٌجا اور اپنا کام سنبھال لٌا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسز رٌان نے فاطمہ کے کمرے کا دروازہ کھولتے ہوئے کہا مگر کمرے کا حال دٌکھ کر وہٌں ٹھٹک گئٌں۔۔
ہر طرف کاغذ ،کپڑے ،بکس ،گفٹ پٌکس،چاکلٌٹس اور اسی طرح کی دوسری چٌزٌں بکھری ہوئی تھٌں۔فاطمہ اپنی
الماری سے کچھ نکالنے مٌں مصروف تھی مگر اپنی ماما کی آواز سن کر کچھ گھبرا سی گئی۔۔
مسز رٌان اٌک ہاوس وائف تو تھٌں ہی،مگر انھوں نے خود کو فٹ رکھا ہوا تھا کبھی جم،کبھی پارلر ،کبھی فرٌنڈز کے
ساتھ شاپنگ تو کبھی پکنکس۔۔گھر مٌں وہ کم ہی پائی جاتی تھٌں اگر ہوتٌں بھی تو سارا دن ٹی وی پر براجمان
رہتٌں،فاطمہ سے دن مٌں اٌک دو بار ہی ماللات ہوتی ،کبھی کبھی ہی اٌسا ہوتا کہ اس سے اسکی پڑھائی کے بارے
مٌں پوچھ لٌتٌں ورنہ اکثر اولات بس نصٌحتٌں ہی ہوتٌں،
اپ ٹو ڈٌٹ رہا کرو فاطمہ ،ہر وٌک پارلر جاٌا کرو،فالں برانڈ پر سٌل ہے مٌرے ساتھ چلنا،کچھ ہٌلدی کھاٌا پٌا کرو "
فاطمہ خاموشی سے اپنی ماما کی باتٌں سنتی رہتی۔۔اسے کبھی ہمت نہٌں ہوئی تھی کہ وہ اپنے بارے مٌں کچھ انھٌں
بتائےٌ،ا ااپنی سفٌان سے دوستی کے متعلك کچھ شو کرے۔۔اسکی عمر 21سال تھی اس کا دل کرتا تھا کہ وہ اپنے
جذبات کا اظہار اپنی ماما سے کرے۔۔مگر اسکی ماما نے کبھی اس طرح سے اسے ٹرٌٹ نہٌں کٌا تھا۔۔۔ٌہی وجہ تھی کہ
گھر سے مکمل توجہ نہ ملنے کی وجہ سے وہ غلط ٹرٌک پر نکل آئی تھی۔۔۔
بھائی اسکے الگ مصروف رہتے تھے وٌکنڈ پر سب جمع ہوتے تو مل کر ڈنر کرلٌا ٌا اٌک دو گھنٹے ساتھ گزار لٌے
مگر آپس مٌں اتنی کوئی فرٌنکنس نہ تھی۔۔ہر اٌک اپنی زندگی مٌں مگن تھا۔۔کسی کو کسی کی الئف مٌں انٹر فئٌر کرنے
کا حك نہ تھا۔۔
مگر اس دن رات کو خواب مٌں ڈرنے کے بعد سے مسز رٌان فاطمہ کے بارے مٌں کچھ محتاط سی ہو گئی تھٌں۔۔پہلے
جو کبھی خود اسکے کمرے مٌں بہت کم جاتی تھٌں اب جانا شروع ہو گئی تھٌں۔۔اور آج کمرے کی حالت دٌکھ کر مزٌد
تشوٌش کا شکار ہو گئٌں۔۔
فاطمہ نے الماری فورا سے بند کرتے ہوئے اپنی گھبراہٹ کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔۔
"نہٌں بس وٌسے ہی دل کر رہا تھا تم سے باتٌں کرنے کو۔۔سوچا خود چلی جاوں"
مسز رٌان آگے بٌڈ کی طرف بڑھتی ہوئی چٌزٌں دٌکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔
فاطمہ کا دل تٌزی سے دھڑکنا شروع ہوگٌا۔۔
کہٌں ماما کو پتہ نہ چل جائے۔۔۔
افف مٌں کٌا کروں۔۔۔
مسز رٌان نے اٌک گفٹ پٌک اٹھاتے ہوئے بھنوٌں سکٌڑتے ہوئے فاطمہ سے پوچھا۔۔
مسز رٌان کی مشکوک نظروں نے فاطمہ کو مزٌد کنفٌوز کردٌا۔۔اسکا رنگ ماند پڑ چکا تھا۔۔
"کوئی "صرف دوست" ہو اور اتنے گفٹس دے؟؟؟اور بائی دا وے،لڑکا لڑکی کب سے دوست ہونے لگ گئے؟؟"
مسز رٌان نے فاطمہ کی آنکھوں مٌں جھانکنا چاہا مگر اس نے اپنی نگاہٌں جھکا لٌں۔۔۔آخر ماں تھٌں،اور ماں جٌسی
ضرور بھی ہو اوالد کے بدلتے رنگ سے پہچان ہی لٌتی ہے کہ دال مٌں کچھ کاال ہے۔۔
فاطمہ کو کچھ سمجھ نہٌں آرہی تھی کہ اب وہ کٌا کرے۔۔اب تو وہ ٌہ سب ختم کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔اس دلدل
سے نکلنا چاہ رہی تھی۔۔مگر ماما۔۔کٌا بتائے اب انھٌں۔۔۔
دل کی دھڑکن مزٌد تٌز ہو گئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
"امی دل کرتا ہے بس آپکے ہاتھ کے پکے کھانے کھاتی رہوں،لسم سے،مزہ آجاتا ہے"
لرة العٌن نے دٌسی گھی مٌں چوپڑی روٹی ساگ کے ساتھ کھاتے ہوئے کہا۔
"ہاں تاکہ تمھٌں کبھی کھانا بنانا نہ پڑے،سب جانتی ہوں تمھاری ٌہ مسکے بازی"
اسکی ماں نے روٹی توے پر ڈالتے ہوئے مذالا ناراض ہوتے ہوئے کہا۔۔
لرة العٌن ہنستے ہوئے اپنی انگلٌاں چاٹتے ہوئے دعا پڑھنے لگی
لرة العٌن نے مسکراتے ہوئے اپنی ماں کی طرف دٌکھتے ہوئے کہا جو ٌک دم خوش ہوتے ہوئے "آمٌن،آمٌن" کہہ رہی
تھٌں۔۔
اچانک ساتھ پڑا ہوا فون بجا۔۔لرة العٌن نے اپنی رنگ ٹون پر اسالمی (نظم) لگائی ہوئی جو مٌوزک اور ساإنڈ اٌفٌکٹ
سے بالکل پاک تھی۔۔
وہ اپنے اعضاء کی حتی االمکان حفاظت کرتی تھی خصوصا مٌوزک سے،اسکے مالک نے جو چٌز حرام کردی ہو
تو وہ غالم ہوکر کٌسے اسے اپنے لٌے حالل کرسکتی تھی،حتی کہ موبائل ٹون کا بھی مٌوزک ختم کردٌا کہ کہٌں
اسکے دل پر سٌاہ دھبہ نہ لگ جائے،کہٌں اسکے دل کا نور نہ بجھ جائے،کہٌں اسکا دل سخت نہ ہوجائے ٌ،ا کہٌں اسکا
رب اس سے ناراض نہ ہوجائے،کہٌں اسکے دل مٌں منافمت جنم نہ لے لے (کٌونکہ موسٌمی دل مٌں نفاق پٌدا کرتی
ہے) اسے منافمت سے ڈر لگتا تھا ۔۔منافمٌن کے انجام (جہنم کے سب سے نچلے گڑھے) سے ڈر لگتا تھا وہ اپنے رب
کی رضا کی خواہاں اپنے آپکو ان گناہوں سے بچا بچا کر رکھتی تھی۔۔
"اچھا گڑٌا ،صبر کرو کوئی بات نہٌں ،اس مٌں بھی کوئی حکمت ہو گی"
لرت اس مٌں کٌا حکمت ہو سکتی ہے؟؟ماما نے مجھے اتنا ڈانٹا وہ کہہ رہی تھٌں کہ وہ بابا کو فون کرکے بتائٌں گی "
"کہ انکی بٌٹی ٌونٌورسٹی مٌں کٌا گل کھال رہی ہے،بابا کٌنٌڈا مٌں بٌٹھے مجھ سے کتنے خفا ہوں گے
لرة العٌن کے سمجھانے پر فاطمہ اب اپنے آنسو روک نہٌں پا رہی تھی۔۔آج اسکا دل بہت ٹوٹا ہوا تھا اسکی ماما نے
اسکی بہت زٌادہ بے عزتی کی تھی۔۔
لرت مٌں نے ماما کو بتاٌا بھی تھا کہ مٌں ٌہ سب ختم کرنے جا رہی ہوں مٌں اس دلدل سے نکلنا چاہتی ہوں،انھٌں "
"لرت تم بھی مجھے بلٌم کر رہی ہو؟؟تم جانتی ہو نا کہ مٌں والعی ہی خود کو بدلنا چاہتی ہوں"
فاطمہ کو لرة العٌن سے اس بات کی امٌد نہٌں تھی۔۔لرة العٌن کی بات کافی حد تک درست بھی تھی مگر شاٌد اس نے
غلط مولع پر کہہ دی تھی جس پر اب وہ دل ہی دل مٌں پچھتا رہی تھی۔۔
"سوری فاطمہ،مٌرا وہ مطلب نہٌں تھا جو تم سمجھ رہی ہو،تمھٌں برا لگا آئی رٌلی سوری"
ٌہ کہتے ہوئے فاطمہ نے فون کاٹ دٌا اور دوسری طرف لرة العٌن ہونٹ بھٌنچ کر رہ گئی۔اسے بہت شرمندگی ہو رہی
تھی کہ فاطمہ جو پہلے ہی بہت ہرٹ تھی اس نے مزٌد اسے ہرٹ کر دٌا۔۔
آئی سوری ہللا تعالی،آپ مجھے معاف کردٌں مٌری وجہ سے آپکے بندے کا دل مزٌد دکھی ہوگٌا،آپ پلٌز اسے صبر "
"دٌں اسے سٌدھا رستہ سکھائٌں اسے اپنے لرٌب کرلٌں پلٌٌز ہللا تعالی
فاطمہ نے موبائل سائڈ پر پھٌنکا اور منہ پر دونوں ہاتھ رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔۔
تمھارا رب تمھٌں لبول نہٌں کرنا چاہتا دٌکھو اسی لٌے تو ٌہ سب ہوا،تم تو خود کو گناہ سے بچانا چاہ رہی تھی،لرة "
العٌن نے جھوٹ کہا تھا کہ جب کوئی اسکی طرف جاتا ہے تو وہ خود آگے بڑھ کر تھامتا ہے۔۔کٌا اس نے تمھارا عٌب
"چھپاٌا؟ نہٌں نا دٌکھو ٌہاں تو سب نے تمھٌں دھتکار دٌا
فاطمہ کے آنسو ٌکاٌک رک گئے۔۔
مگر مٌں تو۔۔۔مٌں نے تو اپنی سب سے محبوب ترٌن چٌز لربان کرنا چاہی تھی ناں ہللا۔۔۔آپکے حکم پر عمل کرنے کے
لٌے۔۔پھر ٌہ سب کٌوں ہوا؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ دو دن سے وہ شدٌد بخار مٌں مبتال تھی۔۔اسکی ماما کا روٌہ اب لدرے بہتر تھا۔انھٌں احساس ہوگٌا تھا کہ اس دن
انھوں نے فاطمہ کو کچھ زٌادہ ہی ڈانٹ دٌا حاالنکہ وہ اس سب جھنجھٹ سے نکلنا چاہ رہی تھی۔۔مگر اندر کہٌں مسز
رٌان کو اپنی تربٌت مٌں کمی دکھائی دٌنے لگی تھی۔
"اوکے بٌٹا آپ رٌسٹ کرو کسی بھی چٌز کی ضرورت ہو مجھے بال لٌنا مٌں آج نٌچے الوئنج مٌں ہی ہوں"
ٌہ کہہ کر مسز رٌان آرام سے دروازہ بند کرتے ہوئے چلی گئٌں۔۔
انکے جانے کے بعد وہ سٌدھی ہو کر چھت کی طرف ٹکٹکی باندھ کر دٌکھنے لگی۔۔آنسوإں نے پھر سے اسکی
آنکھوں نے گرما دٌا کچھ تھا جو اسکے دل کو بے چٌن کر رہا تھا۔سفٌان کی ٌاد؟ٌا کچھ اور؟ وہ سمجھ نہٌں پارہی تھی
اس کٌفٌت مٌں اسکا سانس لٌنا محال ہو رہا تھا۔
وہ دو دن سے نہ ٌونٌورسٹی گئی تھی اور نہ ہی اس نے اپنا موبائل آن کٌا تھا۔وہ فی الحال کسی سے بھی رابطہ نہٌں
!کرنا چاہتی تھی نجانے کٌوں
اور وہ ٌک دم اٹھ کر بٌٹھ گئی۔فاطمہ کا سانس بہت پھوال ہوا تھا۔اوہ ٌہ خواب تھا اس کا جسم اب کافی ٹھنڈا تھا بخار اتر
چکا تھا۔اس نے گھڑی کی طرف نگاہ دوڑائی۔۔ٌہ رات کا پچھال پہر تھا۔۔ 3440ہو رہے تھے۔۔
اس نے سائڈ ٹٌبل پر رکھا پانی پٌا اور دوبارہ بستر پر لٌٹ کر سونے کی ناکام کوشش کرنے لگی۔۔مگر نٌند ان دو
خوابوں کے کہٌں پس منظر مٌں جا چھپی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"فاطمہ؟ اٹھو بٌٹا تمھاری کوئی فرٌنڈ آئی ہے ٌونٌورسٹی سے"
فاطمہ نے آنکھٌں مسلتے ہوئے گھڑی دٌکھی تو حٌران رہ گئی۔اسے ٌاد تھا کہ صبح 5بجے تک وہ جاگتی رہی ہے "
"مجھ سے ملنے؟؟"
مسز رٌان جو اب فاطمہ کے ماتھے اور گردن پر ہاتھ لگا کر اسکا بخار دٌکھ رہی تھٌں
شکر ہے اب کافی کم ہوگٌا ہے بخار،ہاں تم سے ملنے آئی ہے،شاٌد تمھارا موبائل آف ہے کانٹٌکٹ نہ ہونے کی وجہ "
"السالم علٌکم ورحمت ہللا ،کٌسی ہو فاطمہ؟؟ کتنی کمزور ہوگئی ہو دو دنوں مٌں؟"
فاطمہ کی آواز سنتے ہی لرة العٌن نے مڑ کر دٌکھا اور اسکی طرف لپک کر اسے گلے سے لگا لٌا۔۔
"مٌں اتنی پرٌشان ہو گئی تھی،تم نے نمبر بھی آف کر رکھا تھاٌ،ونی سے بھی آف۔۔سب خٌرٌت ہے فاطمہ؟"
فاطمہ نے نظرٌں چراتے ہوئے کہا وہ نہٌں چاہتی تھی کہ لرة العٌن کو اسکے دل مٌں اٹھنے والی شرمندگی کے جذبات
کی ہوا بھی لگے۔اسے اپنی انا بہت پٌاری تھی۔
لرة العٌن نے اسے بٌڈ پر بٹھاتے ہوئے خود گھٹنوں کے بل اسکے آگے بٌٹھ گئی ۔وہ اسکی آنکھوں مٌں جھانکنا چاہ
رہی تھی مگر فاطمہ مسلسل اس سے نظرٌں مالنے سے گرٌز کر رہی تھی۔۔
فاطمہ ،ادھر دٌکھو مٌری طرف،مجھے بتاو کٌا چٌز تمھٌں ڈسٹرب کر رہی ہے اتنی؟ تم جتنا بھی مجھ سے اپنے "
"جذبات چھپانے کی کوشش کرو مجھے محسوس ہوجاتا ہے کہ کوئی تو بات ہے
اس نے فاطمہ کی ٹھوڑی کے نٌچے انگلٌاں رکھتے ہوئے اسکا چہرہ اپنی طرف کرتے ہوئے پوچھا۔
کتنے پٌارے اور انمول ہوتے ہٌں نا اٌسے لوگ،جن کا آپ سے کوئی خون کا رشتہ نہٌں ہوتا ،مگر وہ آپکے کچھ کہے
بغٌر آپکے چہرے کے بدلتے رنگ سے،آپکی آنکھوں مٌں ٹھہری نمی سے،آپکی مسکراہٹ مٌں چھپے پھٌکے پن سے
آپکی دل کی حالت پہچان لٌتے ہٌںٌ،ہ محبت ہی تو ہوتی ہے نا جو دل کو دل سے جوڑ دٌتی ہے،کہ سامنے والے سے
نکلنے والی وائبز آپکو بتا دٌتی ہٌں کہ کچھ تو گڑبڑ ہے۔فاطمہ خوشممست تھی کہ ہللا نے اسے اپنی اتنی پٌاری بندی دی
تھی،اٌک لمحے کے لٌے اسے ہللا پر بہت پٌار آٌا کہ بن مانگے اسے لرت جٌسی دوست دی۔اسکی آنکھوں سے آنسو
نکال اور اسے گال پر پھسل گٌا۔
اسکے آنسو دٌکھتے ہی لرة العٌن نے جھٹ سے اٹھ کر اسے گلے سے لگالٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مگر مجھے ٌاد نہٌں کہ آسمان پر وہ دو چمکتے ہوئے الفاظ کٌا تھے"
فاطمہ جب مٌں لران سٌکھ رہی تھی نا تب مجھے بہت شوق تھا خوابوں کی تعبٌر کا علم حاصل کرنے کا،ہمارے "
مدرسے مٌں اٌک عالم تھے مٌں ان سے اکثر اس علم کے بارے مٌں پوچھتی رہتی تھی۔۔اور الحمدہلل ان سے کافی کچھ
"سٌکھا بھی ہے
"پھر تمھٌں کٌا لگتا ہے ان خوابوں کی تعبٌر کٌا ہوگی"
"ٌعنی؟"
ٌعنی پہلے خواب مٌں تم اندھٌرے مٌں گرتی جا رہی تھی وہ اندھٌرا گناہوں اور جہالت کا ہے،اور جہاں تک مجھے ٌاد "
ہے ٌہ ولت تھا جب تم سفٌان کے ساتھ انوالو تھی،مگر ٌک دم تمھٌں محسوس ہوا کہ تم اٌک پرنور سی زمٌن پر گری
ہوٌ،ہ اٌک اشارہ تھا کہ تمھاری اس گناہ سے جان چھوٹ جائے گی،تمھارے دل کا نور بحال ہوگا اور الحمدہلل تم نے
"سفٌان کو چھوڑ دٌا تمھٌں اس بات کا احساس بھی ہوا تم ہللا کے بھی لرٌب ہوئی،اٌسا ہی ہے نا؟
فاطمہ لرة العٌن کی ساری باتٌں نہاٌت غور سے اور حٌرانی سے سن رہی تھی۔
مگر اب جو رات تم نے خواب دٌکھا ہے،تم نے خود کو اٌک سٌاہ اندھٌری کھائی مٌں پاٌا ہے ٌعنی تم ابھی مکمل طور "
"کٌا مطلب؟"
مطلب ٌہ کہ اندھٌرا ابھی بھی اندر کہٌں موجود ہےٌ،ہ اندھٌرا تمھٌں دوبارہ سے اس گناہ کی طرف مائل کر سکتا "
"ہے،وہ ارد گرد کی چمگاڈرٌں مختلف فتنے ہٌں جن سے خود بچانا اس کھائی مٌں بہت مشکل ہے
سچ کہوں لرت ،مٌرا دل بہت بے چٌن ہوتا ہے سفٌان کی ٌاد سے ،تمھارے کہنے پر مٌں نے اس دن اسکے سارے "
آثار ختم تو کر دئٌے،اپنے موبائل کو بھی بند رکھا کہ شاٌد مٌرے دل کو لرار آجائے،مگر دٌکھو مٌری کٌا حالت ہو
گئی،مٌری نمازٌں بھی چھوٹ گئٌں،مٌرے دل کی بے چٌنی مجھے کچھ کرنے نہٌں دٌتی،مٌرا دل باربار اسکی طرف
"مائل ہوتا ہے
لرة العٌن نے فاطمہ کا ہاتھ زور سے تھامتے ہوئے اسے کہا،وہ اسکا درد سمجھ رہی تھی اسکے ہاتھ مٌں ہوتا تو اسکی
بے چٌنی کو اسکے دل سے نکال کرپھٌنک دٌتی،مگر دل تو صرف ہللا کےہاتھ مٌں ہوتے ہٌں ناں انسان تو بس دعا
کرسکتا ہے،وہ بھی ٌہی کر رہی تھی۔
"رسی۔۔ "
لرة العٌن نے گہری سوچ مٌں بے اختٌار خود کو ٌہ کہتے ہوئے سنا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
شہرٌار کا موبائل بجا ،وہ اپنا بک سٹور بند کرنے کی تٌاری کر رہا تھا۔۔ٌہ رات کے 12430کا ولت تھا ،موبائل کو بجتا
دٌکھ کر اسے حٌرانی ہوئی مگر ساتھ مٌں دل بھی دھڑکا۔۔
"کٌا؟؟کب؟؟"
ٌہ اسکی بہن نائلہ کا فون تھا،اسکے خدشات درست ثابت ہوئے تھے ،اسکی ماں کو ہارٹ اٹٌک ہوا تھا،
شہرٌار نے فون بند کرتے ہی اپنا بک سٹور بند کٌا اور فورا سے گھر کی طرف روانہ ہوا۔۔
وہ بائک بہت تٌزی سے چال رہا تھا۔۔
بٌٹا کھانا کھالے،اپنا خٌال رکھا کر جب نہٌں رہوں گی نا پھر تجھے کوئی ٌہ سب کہنے واال بھی نہٌں ہوگا(،
اماں اٌسے مت کہٌں مٌری زوجہ محترمہ تو ہوں گی نا۔لممے بنا بنا کر اپنے گورے گورے ہاتھوں سے کھالٌا کرٌں "
گی ۔
)اسکی ماں نے لہمہہ لگاٌا تھا وہ ہمٌشہ اٌسے ہی اپنی ماں کو ہنسا دٌا کرتا تھا
"ٌاہللا خٌر"
شہرٌار دل مٌں ہی دعائٌں مانگتا ہوا بھاگ کر اٌمبولٌنس مٌں بٌٹھ گٌا،اندر پہلے سے ہی نائلہ بٌٹھی تھی،ساتھ والے
اشرف چچا نے اٌمبولٌنس بلوا دی تھی۔۔ماں بے ہوش تھی،
نائلہ شہرٌار کو دٌکھتے ہٌں اس سے لپٹ کر رونے لگی،
اسے اپنے کپڑوں کا کوئی ہوش نہٌں تھا وہ پرٌشانی مٌں اٌسے ہی نکل آئی تھی،
شہرٌار اسے چپ کرواتے ہوئے اسکا دوپٹہ اسکے سر پر اوڑھا رہا تھا۔۔ سامنے بٌٹھا ہوا اٌمبولٌنس واال جسکے ہاتھ
اسکی ماں کو آکسٌجن دٌنے مٌں مصروف تھے،مگر عجٌب نظروں سے نائلہ کو دٌکھ رہا تھا جنکو شہرٌار نے بخوبی
محسوس کر کے ناگواری کے باوجود نظرانداز کٌا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔
"کافی سٌرٌس اٹٌک تھا،شاٌد انھوں نے کوئی ٹٌنشن لی ہے،بہرحال انھٌں کچھ دن تک ٌہٌں اٌڈمٹ کرنا پڑے گا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم جانتی ہو ،ہللا نے اس کتاب "لران" کو رسی کہا ہے۔۔ٌہی ہے تمھاری رسی جو تمھٌں زمٌن کی وحشتوں سے بچا کر "
فاطمہ کو ٌاد آٌا کہ اس نے بچپن مٌں اسالمٌات کے سلٌبس مٌں وہ آٌت پڑھی تھی جسکا ترجمہ تھا کہ "سب مل کر ہللا
کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرلے مٌں نہ پڑھو" ٌہ آٌت پٌپر مٌں لکھنے کے لٌے تو ٌاد کر لی تھی مگر
کبھی سوچنا گوارا نہٌں کٌا تھا کہ لران کو ہللا کی رسی کٌوں کہا گٌا۔شاٌد وہ سوال آج کے دن کے لٌے ہی اس ولت
نہٌں سوچا تھا۔۔
"لرت لران کو ہللا نے رسی کٌوں کہا ہے؟"
ہللا نے صرف رسی نہٌں،بلکہ "اپنی رسی" کہا ہے،تم اسے انسانوں کی بنائی ہوئی کچی رسٌوں کی طرح نہ سمجھنا ٌہ "
جس کی رسی ہے اسکی مضبوطی کا اندازہ مٌں اور تم کہاں لگا سکتے ہٌں،خٌر اس کے بارے مٌں حدٌث مٌں بتاٌا گٌا
ہے کہ "بے شک ٌہ لران اٌک رسی ہے،اسکا اٌک کنارہ ہللا کے ہاتھ مٌں ہے اور دوسرا کنارہ تمھارے ہاتھ مٌں
ہے،اسکو مضبوطی سے پکڑے رکھو کٌونکہ اسکے بعد تم ہرگز گمراہ اور ہالک نہٌں ہو سکتے(صحٌح ابن
")حبان122:
"اسکو تھامنے کے بعد انسان ڈائرٌکٹ رب سے جڑ جاتا ہے،اس سے تعلك لائم ہوجاتا ہے
"اور اگر خواب مٌں ،مٌں وہ رسی چھوڑ دٌتی تو کھائی مٌں دوبارہ گر جاتی؟"
"بالکل،اسے مضبوطی سے نہ پکڑا جائے تو انسان پھر گمراہی کی گہری کھائٌوں مٌں گرتا چال جاتا ہے"
فاطمہ پر نئی سے نئی بات کھلتی جا رہی تھی اسے احساس ہو رہا تھا کہ اس نے پہلے کٌوں نہ لرت سے دوستی کر
لی،مگر ہر کام کا اٌک ولت ممرر ہوتا ہے،کچھ خاص لوگوں سے ملنے کا بھی،کچھ عام لوگوں سے جدائی کا بھی،اسی
طرح بعض سوالوں کا بھی،مگر ٌہ سب ولت کی لگائی ٹھوکر کے بعد سمجھ آتا ہے،شعور کو بٌدار کرنے مٌں ٌہ
ٹھوکرٌں بڑا اہم کردار ادا کرتی ہٌں،سچ ہے کہ ٌہ بڑی نعمت ہوتی ہٌں،لگنے والے کی آنکھوں کے ساتھ ساتھ عمل کے
بند دروازے بھی کھول دٌتی ہٌں۔۔انسان کر اگر خوشی سے رب کی طرف نہ آئے تو اسے ٹھوکر کھا کر مجبورا آنا پڑتا
ہے۔۔وہ بھی اب رستے پر آنے لگی تھیٌ،ا شاٌد الٌا جا رہا تھا۔۔مگر اسے خوشی سے اپنے رب کی طرف آنا
تھا۔۔مجبوری سے نہٌں۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قسط نمبر 15
فاطمہ اب کافی حد تک سنبھل چکی تھی۔۔ بٌمار ہونے کی وجہ سے اسے اٌک ہفتہ مزٌد ٌونٌورسٹی سے آف لٌنا
پڑا،مگر لرة العٌن سے ملنے کا ٌہ فائدہ ضرور ہوا تھا اب وہ جس بھی حال مٌں ہوتی نماز نہٌں چھوڑتی تھی،خواہ لٌٹ
کر پڑھنی پڑ جائے،لران کا بھی اٌک رکوع روازنہ ترجمے سے پڑھنا شروع کردٌا تھا۔۔مگر ابھی تک اسے سمجھ
نہٌں آرہا تھا کہ اس سے ہداٌت کٌسے لٌنی ہے۔اسے لگتا تھا کہ وہ ترجمہ محض رٌڈ کر رہی ہے اس لٌے اٌک خلش
تھی جو رہ جاتی تھی۔
وہ اکثر لٌٹے لٌٹے ہللا کے متعلك سوچ کر آنسو بہانے لگتی۔انسان جب باہر کی دنٌا سے بے زار ہو کر تھک جاتا ہے
ناں پھر اسکی روح اسے اپنے خالك کی طرف کھٌنچتی ہے،تب اندر اٌک بے چٌنی سی لگ جاتی ہے کہ انسان کسی
طرح اس رب کے لرٌب ہو جائے۔ پھر اسے کہٌں اور سکون نہٌں ملتا۔مگر بہت سے لوگ خود کو اس دھوکے کی دنٌا
سے بے زار نہٌں ہونے دٌتے،ہر ولت خود کو انٹرٹٌنمنٹ مٌں مشغول رکھتے ہٌں،اٌک سے نکلے تو دوسرے مٌں،بس
ہر چٌز مٌں شغل اور بس شغل۔کبھی شاپنگ،کبھی پارٹٌز،کبھی پکنکس تو کبھی انٹرنٌٹ پر آوارہ گردی،غرض شٌطان
نے ڈھٌروں رستے سجھا دئٌے انسان کو کہ بس کسی طرح وہ اپنے اندر کی آواز سے،روح کی بے چٌنی سے غافل ہو
کر اسکی طرف توجہ ہی نہ کرے۔۔اور اب اٌسا ہی ہورہا تھا۔۔انسان چلتی پھرتی الش بن چکا تھا،جس جسم کو مٹی مٌں
مل جانا تھا اسے سنوارنے بنانے مٌں لگا تھا،اور جس روح نے رب کے پاس جانا ہے وہ خواہ کتنی ہی گندی ہو،اسکی
پرواہ نہٌں تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اتنے دنوں بعد ٌونٌورسٹی گئی تھی،اس سارے عرصے مٌں اسکا موبائل آف رہا تھا۔
"اعتکاف مٌں بٌٹھی تھی کٌا جو اتنی بڑی چادر لپٌٹ کر آئی ہو؟"
")نئے دوستوں (لرت کی طرف آنکھ کا اشارہ کرتے ہوئے) کا اثر ہونے لگ گٌا ہے تم پر تو (لہمہہ"
غرض کتنے ہی سوال اور کمنٹس تھے جو اسکی دوستوں اور کالس فٌلوز نے کٌے تھے۔وہ زچ ہو گئی تھی۔ بٌمار
وٌسے بھی اپنی بٌماری سے تنگ ہوتا ہے لوگوں کو مزٌد سوال کرکے اسے اذٌت نہٌں دٌنی چاہٌے،
وہ آج بڑی چادر مٌں خود کو لپٌٹ کر آئی تھی،معلوم نہٌں اندر کٌا بدل رہا تھا مگر اب اسکا دل کرتا تھا کہ وہ سب سے
چھپ سی جائے اور ٌہ اسکی پہلی کوشش تھی۔مگر دوستوں کے کمنٹس سن کر اسکی برداشت ختم ہو رہی تھی۔۔
جب مٌں نے کبھی انکی ڈرٌسنگ پر ٌا انکی فرٌنڈشپ پر بات نہٌں کی توانکی ہمت کٌسے ہوئی؟ انھٌں بھی کوئی حك "
اس نے نہاٌت غصے مٌں لرة العٌن سے کہا جو اسے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔مگر غصہ تھا کہ کم ہونے
کا نام ہی نہٌں لے رہا تھا۔۔
"اچھا چھوڑو نا،دٌکھو تم نے ہللا کے لٌے خود کو ڈھانپا ہے نا،اب ہللا کے لٌے اگنور بھی کرو مٌری جان۔۔"
اس نے فاطمہ کے نرم گالبی ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں مٌں لے کر نرمی سے دباتے ہوئے کہا
مٌرا دل کر رہا ابھی جا کر انکا منہ توڑ دوں،سمجھتی کٌا ہٌں اپنے آپکو۔۔اس ولت پتہ نہٌں مٌں نے کٌسے ضبط کرلٌا "
"تھا
فاطمہ کا چہرہ غصے سے تلمال رہا تھا اسے حٌرت بھی تھی کہ لرة العٌن کٌسے اتنے عرصے سے ان سب کی باتٌں
برداشت کرلٌتی تھی۔
"ہللا تھام لٌتے ہٌں نا پھر صبر کرنا آسان ہوجاتا ہے"
اس نے اپنے بٌگ سے چھوٹا سا لران نکاال جو ہمٌشہ اسکے ساتھ ہوتا تھا۔۔فاطمہ اسے دٌکھ ٌک دم ٹھٹکی۔
"تم بہتر جانتی ہو،تمھٌں سمجھانے کا اسکے عالوہ کوئی اور طرٌمہ نظر نہٌں آتا مجھے"
فاطمہ کے سوال پر لرة العٌن نےکھلے ہوئے لران کوسٌنے سے لگاتے ہوئے کہا تھا۔۔
"اچھا چلو دٌکھتے ہٌں آج کونسی تسلی ملتی ہے مٌری دوست کے لٌے"
لرة العٌن کی اس بات پر فاطمہ کا دل اٌک دم دھڑکا تھا۔اسے ٌمٌن تھا کہ اب اسے ٌمٌنا کوئی نا کوئی جواب ملے
گا۔۔آخرکار اتنے عرصے بعد۔۔۔اسے لران سے جواب ملنا تھا۔۔اسے اچانک سے اپنے دل مٌں لران کے لٌے محبت
محسوس ہونے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سفٌان نے اچانک سے فاطمہ کے پٌچھے سے آکر اسکے کان مٌں سرگوشی کی جبکہ وہ الئبرٌری مٌں بک شٌلف کے
پاس کھڑی بک دٌکھ رہی تھی۔
اسے اچانک سے جھٹکا لگا اس نے دو لدم پٌچھے ہٹ کر مڑ کر اسے دٌکھا۔اسے بالکل امٌد نہٌں تھی کہ سفٌان سے
اسکی اٌسے ماللات ہو سکتی ہے،اب تک وہ اسے مکمل اگنور ہی کرتی آئی تھی،اس دن آخری مٌسج کرنے کے بعد
لرت العٌن کے کہنے پر سفٌان کو ہر جگہ سے بالک کردٌا تھا۔
مٌں آئندہ تم سے کوئی تعلك نہٌں رکھنا چاہتی،بہتر ہے تم اپنی زندگی جٌو اور مٌں اپنی،اور پلٌز آئندہ مجھ سے ملنے "
ٌا رابطہ کرنے کی بالکل
ٌہ سفٌان کو ملنے واال فاطمہ کا آخری مٌسج تھا۔۔فاطمہ جانتی نہٌں تھی وہ کس انسان سے الجھ بٌٹھی ہے۔
"ہاں تو تم نے کہا تھا کہ تمھٌں مجھ مٌں کوئی انٹرسٹ نہٌں رہا؟؟"
ٌاد رکھنا۔۔تمھارا بہت کچھ ہے مٌرے پاس۔۔بہت کچھ۔۔پکس بھی۔۔۔تمھٌں لگتا ہے کہ اتنی آسانی سے مجھ سے جان "
)چھڑوا لو گی؟؟"(لہمہہ
مجھے تم سے پوچھنے کی ضرورت نہٌں ہے مس فاطمہ رٌان،مٌں تمھٌں اٌسے چھوڑنے واال نہٌں،دوبارہ سوچ لو "
وہ پردہ نہٌں کرتی تھی لٌکن عزت اسے بھی پٌاری تھی۔۔ اسکی پکس کے ساتھ کچھ بھی کٌا جا سکتا تھا۔۔
کٌا اس گناہ عظٌم کی سزا اسے ملنے والی تھی؟مگر وہ تو توبہ کر چکی تھی؟وہ تو پلٹنا چاہتی تھی پھر کٌوں اسکا
گناہگار ماضی اسکا پٌچھا نہٌں چھوڑ رہا تھا؟کٌا ہللا نے اسے معاف نہٌں کٌا تھا؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔۔۔
شہرٌار کی امی کی طبٌعت کافی حد تک سنبھلنے لگی تھی،مگر ڈاکٹر نے ابھی بھی گھر جانے کی اجازت نہ دی
تھی۔۔انھوں نائلہ کی ٹٌنشن لی تھی،اسکے سسرال والوں نے بھاری بھرکم جہٌز کا مطالبہ کٌا تھا حاالنکہ وہ جانتے تھے
کہ اس گھر مٌں صرف اٌک شہرٌار کمانے واال ہے جسکی بدولت گھر کے اور انکی پڑھائی کے اخراجات مکمل ہو
رہے ہٌں۔
اماں مٌں کہہ رہا ہوں،آپ انکار کردٌں،جنکی بھوک مال ہو وہ کہاں کسی کی بٌٹی کو عزت دے سکتے ہٌں،ہماری بہن "
"کوئی گری پڑی چٌز تو نہٌں ہے کہ اسکے لٌے رشتوں کی کمی ہو۔
ٌہ بات شہرٌار نے ماں کو ہارٹ اٹٌک آنے سے چند دن پہلے کی تھی،کٌسے کر دٌتٌں وہ رشتہ ختم،اتنی مشکل سے
تو پڑھا لکھا گھرانہ مال تھا،مگر اب انکی ڈٌمانڈز سے اس غرٌب ماں کی پرٌشانی مٌں مزٌد اضافہ ہوگٌا تھا۔
"انکار کردٌا تو اس عمر مٌں اور کہاں سے رشتہ ڈھونڈتی پھروں گی"
"نائلہ کتنی خوش ہے اگر اسے بتا دٌا تو اس معصوم کے سارے ارمان مر جائٌں گے۔۔"
کتنے ہی خٌاالت تھے جنھوں نے چند دنوں مٌں اسکی ماں کے بال سفٌد کردئٌے تھے،چہرے کی جھرٌاں بڑھا دی تھٌں
کاش کہ لوگ اٌسے مطالبہ کرتے ہوئے اپنی بچٌوں کو انکی جگہ رکھ کر بھی سوچ لٌتے،صرف دکھاوا،نمائش کے
لٌے ،کہ بہو اتنا سامان الئی ہے،اس ہوس نے پٌار بھرے رشتے کاٹ ڈالے تھے،دلوں مٌں دڑاڑٌں ڈال دی تھٌں،نئے
رشتے بننے سے پہلے ہی توڑ دئٌے تھے۔
ٌہ رشتہ بھی بننے سے پہلے ہی "ٹوٹ" گٌا تھا۔۔ٌہ خبر انکے لٌے بہت بھاری تھی،نائلہ اس دن خاموشی سے کام کرتی
رہی تھی،ماں بٌٹی کی آنکھوں کی سوجن اور سرخ ناک سے چہرے پر لکھا دکھ سہہ نہٌں پارہی تھی۔۔اکلوتی بٌٹی تھی
ٌہ رشتہ اسے بھی پسند تھا۔۔
سارا دن مختلف جملوں سے وہ اپنی ماں کو تسلٌاں دٌتی رہی،مگر ماں تو ماں ہوتی ہے،اوالد کا درد کہاں برداشت کر
پاتی ہے،
اور اچانک۔۔اسی رات ہارٹ اٹٌک ہوگٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا ہوتا اگر تم پٌدا ہونے سے پہلے ہی مر جاتی،کم ازکم ہماری ناک تو نہ کٹواتی،کٌا جواب دوں گی تمھارے باپ "
ماما پلٌز مٌرا ٌمٌن کرٌں،مٌں نے اسے چھوڑ دٌا تھا،اسی لٌے وہ مجھ سے دشمنی نکال رہا ہےٌ،ہ پکس اصل نہٌں "
"ہٌں
فاطمہ مسز رٌان کے گھٹنے پکڑ کر فرش پر بٌٹھی روتے ہوئے سماجت کر رہی تھی۔
مٌں کٌسے ٌمٌن کرلوں فاطمہ؟اس دن اپنی آنکھوں سے وہ گفٹس دٌکھے مٌں نے،مٌں نے تمھٌں اس لٌے تو اتنی آزادی "
"ماما مجھ سے غلطی ہوئی مٌں نے اس سے دوستی کی،پلٌز مجھے معاف کردٌں"
"مجھے تو تمھارے بابا کی فکر ہو رہی ہے،جٌتے جی مار ڈاال تم نے فاطمہ۔۔۔اپنے نام کا ہی کچھ پاس رکھ لٌتی"
"ماماوہ سب جھوٹ ہےمٌرا ٌمٌن کرٌں،مٌں نے تو کبھی ان لڑکوں کو دٌکھا بھی نہٌں"
مٌری نظروں سے دور ہو جاإ فاطمہ،وہ تصوٌرٌں دٌکھ کر تو مجھے خود پر گھن آرہی کہ کٌسی اوالد کو جنم دٌا "
"مٌں
مسز رٌان نے نہاٌت توہٌن آمٌز لہجے مٌں فاطمہ کے ہاتھوں کو جھٹکتے ہوئے کہا۔۔
"وہ تصوٌرٌں دٌکھ کر مجھے خود پر گھن آرہی ہے کہ کٌسی اوالد کو جنم دٌا مٌں نے"
مسز رٌان کے ٌہ الفاظ اسکے کانوں مٌں گونج رہے تھے۔۔سر مٌں درد کی اٌک شدٌد لہر دوڑی۔۔وہ لڑکھڑاتے ہوئے
کھڑی ہوئی اور تٌزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔۔۔
اور روازہ بند کرکے اسکے ساتھ پشت لگ کر نٌچے بٌٹھ گئی۔۔چہرے کو دونوں ہاتھوں سے چھپا کر سسکٌاں لے لے
کر رونے لگی۔۔
کٌا کر دٌا سفٌان تم نے؟
مٌری زندگی برباد کر دی۔۔
کاش مٌں نے تم سے دوستی نہ کی ہوتی۔۔
کاش مٌں نے تمھٌں اپنی پکس نہ بھٌجی ہوتٌں۔۔
مٌں تمھٌں کبھی معاف نہٌں کروں گی۔۔۔
وہ روتے ہوئے خود سے کہے جا رہی تھی۔۔
جاری ہے
لسط نمبر 17
کٌوں کٌا مٌرے ساتھ آپ نے اٌسے،،مٌں تو توبہ کر رہی تھی نا،لرت آپکی پٌاری بندی ہے اس نے کہا تھا کہ آپ سب "
"گناہ معاف کردٌتے ہٌں،پھر اٌسا کٌوں ہوا مٌرے ساتھ ہللا؟؟
فاطمہ شدٌد جذبات مٌں چھت کی طرف دٌکھتے ہوئے کہہ رہی تھی گوٌا گھٹی گھٹی آواز مٌں چٌخ اس مالک سے کر
شکوہ کر رہی ہو،اٌک غالم۔۔مالک سے سوال کر رہا تھا۔۔آنکھوں سے سٌالب رواں تھے،حلك جٌسے بند ہو رہا
تھا،آنکھوں مٌں شدٌد جلن ہو رہی تھی۔۔
اچانک اسکے ذہن وہ اس دن کا سارا سٌن گھوم گٌا جب وہ اپنی کالس فٌلوز کے کمنٹس کی وجہ سے شدٌد غصے مٌں
لرة العٌن کے پاس گئی تھی۔۔
وہ جھٹکے سے اٹھی۔۔الماری کھولی،اس مٌں سے اپنا بٌگ نکاال،
بٌگ سے ساری کتابٌں نکال کر بٌڈ پر پھٌنکٌں جٌسے وہ کچھ ڈھونڈ رہی ہو،اور اچانک اسکے ہاتھ رک گئے۔۔
اس نے بہت احتٌاط سے وہ سفٌد چمکتی ہوئی جلد والی کتاب نکالی اور اسے دٌکھنے لگی۔۔
تمھٌں پتہ ہے لرت مجھے تمھارا ٌہ لران بہت پسند ہے،مٌں نے آج تک اٌسا لران نہٌں دٌکھا،جس طرح سے تم نے "
اس مٌں مختلف آٌات مٌں اپنے لٌے رٌمائنڈرز رکھے ہوئے ہٌں،آسان ترجمے کے ساتھ کلرفل آٌات،،مجھے بہت
"اٹرٌکٹ کرتا ہے ٌہ
ٌہ مٌری محبت ہے فاطمہ۔۔بہت پٌار سے سجاٌا اور اٌسے تٌار کٌا ہے اسکو،مٌری سالوں کی محنت،ہر لمحہ ساتھ "
"رکھتی ہوں
تم تب تک نٌک نہٌں بن سکتے جب تک تم اپنی محبوب ترٌن چٌز لربان نہ کر دو۔۔۔ٌہ آٌت تم نے اس دن مجھے سنائی "
"تھی نا
اس نے مسکراتے ہوئے لرت سے کہا تھا وہ ٌمٌنا مذاق کر رہی تھی۔۔مگر لرة العٌن ٌک دم سنجٌدہ ہو گئی،آنکھوں مٌں
نمی اتر آئی،چہرے کا رنگ بدل سا گٌا۔۔
کچھ دٌر کی خاموشی کے بعد۔۔
ٌہ مٌری طرف سے تمھارے لٌے فاطمہ،تم اسے رکھ لو جب بھی ٹوٹنے لگو،جب بھی دنٌا سے تھک جاو ،جب بھی "
"ہللا کی ٌاد آئے،جب بھی کسی سوال کا جواب چاہٌے ہو اسے کھول کر پڑھ لٌنا
"مٌں تو چھٌڑ رہی تھی لرتٌ،ہ تمھاری محبوب چٌز ہے مٌں کٌسے لے سکتی ہوں؟"
تم تب تک نٌک نہٌں بن سکتے،تم تب تک بھالئی نہٌں پا سکتے۔۔تم تب تک ہللا کی محبت نہٌں پا سکتے۔۔اسکا لرب "
فاطمہ کے ذہن مٌں اس دن والی سار گفتگو گھوم گئی تھی۔۔اسی ولت ہی ٌہ سب ذہن مٌں آنا،اسی بات کا اشارہ تھا کہ
رب چاہتا تھا کہ اس سے رابطہ کٌا جائے
۔
اسکے ہاتھ ٌک دم ٹھنڈے پڑ گئے تھے،جسم مٌں اٌک لہر دوڑ گئی۔۔
مجھے اپنے سوال کا جواب چاہٌے۔۔
مجھے جواب دٌں ہللا۔۔۔
آنسو بہنے لگے۔۔
کانپتے ہاتھوں کے ساتھ درمٌان سے وہ سفٌد چمکتی جلد واال لران کھوال۔۔۔
اسکے سامنے سورت النحل کا آخری صفحہ کھال۔۔
اسکے آخر کی آٌات کلرڈ مٌں تھٌں اسکی نظر خودبخود پھسل گئی۔۔۔
ہللا کا فرمان اسکے سامنے تھا
اور اگرتم بدلہ لوتوجتنی تمہارے ساتھ زٌادتی کی گئی ہے اسی لدربدلہ لواوراگرتم صبرکرو توٌمٌناوہ صبر کرنے "
والوں کے لئے بہترہے۔اور صبرکرو اور تمھارا صبر نہٌں ہے مگرہللا تعالی کی توفٌك سے ،اورتم ان پرغم نہ کرو
اورنہ تمھارا ( دل) تنگ ہو اس سے جووہ چالٌں چلتے ہٌں۔ٌمٌناہللا تعالی اُن کے ساتھ ہے جواس سے ڈرگئے اوران
"لوگوں کے جونٌکی کرنے والے ہٌں۔
وہ بار بار سورت النحل کی وہ آٌات پڑھتی جا رہی تھی۔۔آنسو جو تھوڑی دٌر پہلے تھمے تھے پھر سے ابل کر باہر آنا
شروع ہو گئے۔۔۔وہ آنسو جو اسکے دل کو دھو رہے تھے۔۔اب وہ آنسو اس پاک کالم کے کاغذ بھگونے لگے۔۔اسے اسکا
خٌال ہی نہ رہا۔۔
اس نے ان الفاظ پر ہاتھ پھٌرتے ہوئے کہا۔۔۔ٌہ دوسری بار تھا۔اسے عرش والے کی طرف سے تھاما گٌا تھا۔۔کٌسے ہو
سکتا تھا کہ بندہ مالک سے گڑگڑا کر جواب مانگے اور وہ اسے سمجھائے نہ؟؟ دنٌا بھلے سے نہ سمجھتی ہو مگر ٌہ
عابد اور معبود کا رشتہ جب لائم ہوجاتا ہے پھر اٌسے ہی آسمان والے کی طرف سے تسلٌاں ملتی ہٌں،جھولی بھر بھر
کر محبت ملتی ہے۔۔
اسے بھی ٌمٌن نہٌں آرہا تھا۔جب اسکے اتنے پٌارے رشتے اس سے بدگمان ہوچکے تھے،اسے نفرت کی نگاہ سے دٌکھ
رہے تھے۔۔وہٌں کوئی تھا۔جس نے اسے نہٌں چھوڑا تھا۔۔جس نے اس اندھٌرے کمرے مٌں پٌار سے دالسہ دٌا تھا۔۔
اسے ٌک دم اپنے دل مٌں ہللا کی محبت محسوس ہوئی۔۔
مٌں کروں گی۔۔مگر پلٌزز مجھے بتائٌں،کٌا ٌہ مٌرے گناہ کی سزا ہے؟؟کٌا مٌری توبہ لبول نہٌں ہوئی،مجھے جواب "
"چاہٌے
اس نے روتے ہوئے کہا اور اٌک ساتھ ہی کئی اوراق پلٹ دئٌے۔۔
ٌہاں مختلف الوام کے لصے تھے،اسے اپنے لٌے کچھ سمجھ نہ آٌا ،مزٌد ورق الٹائے،وہاں بھی کوئی آٌت کلرڈ مٌں
موجود نہ تھی،
ہللا آپکو پتہ ہے مٌں آپکے لران سے جاہل ہوں،مٌں اس جہالت کا اعتراف کرتی ہوں،پلٌز مجھے واضح واضح سمجھا "
ندامت کے آنسو آنکھوں سے پھسل پھسل کر مصحف کے اوراق کو گٌال کر رہے تھے۔۔
ابھی وہ کہہ رہی تھی کہ
اچانک اسکی نظر مزٌد کچھ آٌات کلرڈ پر جا ٹکی۔۔
اب تو گوٌا دل پھر سے دھڑکنا بھول گٌا تھا۔۔
ٌہ سورت الفرلان تھی۔۔
مگرجس نے توبہ کی اوراٌمان الٌا اورنٌک عمل کٌے توٌہی لوگ ہٌں جن کی برائٌوں کو ہللا تعالی نٌکٌوں مٌں بدل "
"دے گااورہللا تعالی ہمٌشہ سے بے حدبخشنے واال ،نہاٌت رحم واال ہے۔
)سورة الفرلان(70 :
اس سے مزٌد برداشت نہ کٌا گٌا اس نے جلدی سے لران بٌڈ کے کراإن پر رکھا اور سنگ مرمر کے ٹھنڈے فرش پر
سجدے مٌں گر گئی۔۔۔
کٌا وہ رب والعی اتنا لرٌب تھا؟؟ کہ ادھر زبان سے الفاظ نکلے اور ادھر سامنے اسکے سوال کا جواب موجود تھا؟؟؟
ہللا اکبر۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
ام_ہرٌرہ#
وہ ٌونہی سجدے مٌں پڑی روتی رہی ،اٌک ادنی سا غالم اس مالک کے آگے گڑگڑا رہا تھا سسک رہا تھا جو
"رحمان"تھا۔کٌسے نہ اس مالک کی رحمت جوش مٌں آتی؟؟
اسے اس سجدے مٌں اٌسا سکون مال کہ وہٌں سو گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"السالم علٌکم"
"آپ سب کب آئے؟"
حاالنکہ وہ جانتی تھی کہ انکے آنے ممصد کٌا تھا۔۔ان سب کو اپنے کام چھوڑ کر آنے ہی تھے۔۔جب گھر کی عزت داإ
پڑ لگ جائے تو کاغذ کے ٹکڑوں کی لٌمت بہت گر جاتی ہے۔۔ٌہاں بھی عزت داو پر لگی تھی۔۔
کسی نے سالم کا جواب نہ دٌا
شاٌد اب انکی نظر مٌں وہ "سالمتی بھٌجنے" کے الئك نہ رہی تھی
بابا نے بہت نفرت کی نگاہ سے اسے دٌکھا۔۔
حٌدر تو اسے دٌکھتے ہی جھٹکے سے اٹھا ناشتہ ادھورا چھوڑ کر باہر چال گٌا۔۔
مگر چھوٹا بھائی سٌف خونخوار نظروں سے گھورتے ہوئے اسکی طرف بڑھا۔۔
وہ تو انکی الڈلی بٌٹی تھی منہ سے جو فرمائش نکالتی تھی پورا کٌا جاتا تھا کبھی آنکھ سے آنسو نکلنے نہ دٌا جاتا تھا۔۔
اور آج وہ اٌسے درد سے سسکتے ہوئے اپنے باپ کو پٌچھے سے پکار کر کہہ رہی تھی۔۔
مگر اسکی سسکتی آواز سن کر ان سنی کردی گئی تھی۔۔
بابا نے کمرے کا دروازے زور سے بند کردٌا ۔۔
فاطمہ ڈائننگ ہال کے فرش پر بٌٹھی بے ٌمٌنی سے دٌکھتی ہی رہی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکے متعلك ٌہ باتٌں ٌونٌورسٹی مٌں پھٌل چکی تھٌں۔۔۔اسکے لٌے وہاں جا کر سب کا سامنا کرنا بہت مشکل تھا وہ
سوچ بھی نہٌں سکتی تھی کہ کوئی انسان کسی کی زندگی اس حد تک برباد کر سکتا ہے۔ وہ جب بھی سفٌان کے بارے
مٌں سوچتی اسے اس سے شدٌد نفرت محسوس ہوتیٌ،ہ وہی انسان ہی تو تھا جس سے شادی کے خواب دٌکھے
تھے،جس سے بات کٌے بغٌر دن نہ گزرتا تھا،جس کے بغٌر گزارہ مشکل لگتا تھا۔۔اب اسے سمجھ آتا تھا کہ "ٌہ محبت
نہ تھی،محبت کب ازٌت دٌتی ہے،محبت کہاں لوگوں مٌں بدنام کرتی ہے،محبت اگر شرعی حدود مٌں ہو تو وہ تو محافظ
بن جاتی ہے" ٌہ ہوس تھی،نفس کی خواہش تھی،،کاش کہ اس نے اپنے لمحات،اپنے جذبات اٌسے ضائع نہ کٌے ہوتے۔۔
وہ اپنا سمسٹر فرٌز کروا چکی تھی،لرة العٌن کو بھی پتہ چل گٌا تھا۔۔۔ ٌہ وہی تھی جس نے فاطمہ کو ہر لمحہ لران کے
ذرٌعے تھامے رکھا تھا ورنہ فاطمہ تو کب کی خود کشی کر چکی ہوتی،
گھر والوں نے اٌک دو سالوں تک ٌونٌورسٹی جانے پر پابندی لگا دی تھی تاکہ معاملہ آٌاگٌا ہو جائے،مگر گھر سے
باہر آنے جانے پر اتنی روک ٹوک نہ تھی اس لٌے وہ اکثر لرة العٌن کے گھر چلی جاٌا کرتی تھی۔اور اسکے ساتھ مل
کر لران پڑھا کرتی تھی،مل کر پڑھے جانے والے لران کا اثر ہی اور ہوتا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس والعہ کو دو ہفتے گزر گئے۔
لرت مٌں پراپر لران سٌکھنا چاہتی ہوں،مجھے لگتا مٌں اپنی زندگی ضائع کر رہی ہوں،مٌں گھر جاتی ہوں تو مٌرا دم "
سا گھٹنے لگتا ہے،سب کی چبھتی ہوئی نگاہٌں،بابا کی بے رخی نہٌں برداشت ہوتی،پتہ نہٌں مجھے دٌکھ کر انکے ذہن
"مٌں کٌسے کٌسے خٌاالت آتے ہوں گے ان تصاوٌر کے متعلك
وہ رو دی تھی۔۔رونا اس کا معمول بن چکا تھا۔۔روز لرة العٌن اسے دالسے دٌتی ،آٌات سے صبر کی تلمٌن کرتی۔۔مگر
انسان ہے نا۔۔تھڑدال پٌدا کٌا گٌا ہے۔۔جب تکلٌف پہنچتی ہے تو جزع فزع کرنے لگتا ہے (سورت المعارج)وہ بھی تھوڑی
دٌر پرسکون ہوتی مگر پھر سے سب ٌاد کرکے آنسو بہانے لگتی۔۔اس نےلرة العٌن کے کہنے پر اپنا نمبر بھی چٌنج کر
لٌا تھا وہ کسی سے رابطہ نہٌں کرنا چاہتی تھی،اور اس لٌے بھی کہ کہٌں سفٌان دوبارہ سے اس سے رابطہ کرکے
کوئی اور دھمکی نہ دے۔۔
اچھا تم پرٌشان مت ہو چندا،مٌں ان شاءہللا مدرسے کی ٹائمنگ پتہ کرکے تمھٌں بتاوں گی ہمم ۔۔تم تو بہت سٹرانگ ہو "
لرت اٌک بات بتاإ،تمھٌں کٌوں لگتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتے ہٌں؟مٌں نے ساری زندگی اس رب کی نافرمانی "
کی،وہ محبت جو اس سے کرنی چاہٌے تھی اسے حرام رستے مٌں لگا دٌا،لدم لدم تو نالدری کی ہے مٌں نے۔۔وہ کٌوں
"محبت کرٌں گے مجھے؟
بڑا ثواب ،بڑی آزمائش کے ساتھ ہے ،بالشبہ ہللا تعالی جب کسی لوم سے محبت کرتا ہے تو ان کو کسی آزمائش مٌں ''
ڈال دٌتا ہے ،جو اس آزمائش پر راضی ہوا (ہللا تعالی کے بارے مٌں غلط گمان نہ رکھا) تو اس کے لٌے رضا ہے اور
'' جو آزمائش پر ناراض ہو (صبر کی بجائے غلط شکوے اور گمان کٌے) تو اس کے لٌے ناراضی ہے۔
"دٌکھو اس حدٌث سے پتہ چلتا ہے ہللا جب کسی سے محبت کرتے ہٌں تو اسے آزمائش مٌں مبتال کردتٌے ہٌں،
مگر لرت مجھے اسکی الجک نہٌں سمجھ آئی،ہم جب کسی سے محبت کرتے ہم چاہتے کہ ہمارے محبوب کو اٌک "
کانٹا بھی نہ چبھے،اسکی اذٌت پر ہمٌں تکلٌف ہوتی ہے،مگر ٌہ ہللا کی محبت کٌسی ہے؟کہ وہ انسان کو آزمائش مٌں
"مبتال کردٌتا ہے
فاطمہ کو کچھ سکون ہوا کہ اس کا سوال ادب کے خالف نہ تھا،لرة العٌن کی صحبت سے اسکے اندر پازٌٹو چٌنج آرہا
تھا،وہ اپنی زبان کی حفاظت کرنے لگی تھی،جب بھی وہ سفٌان کو بددعا دٌنے لگتی لرة العٌن اسے آٌات اور احادٌث
سنا سنا کر ٹھنڈا کرتی تھیٌ،ہ صالح دوست بھی کتنی بڑی نعمت ہوتےہٌں ناں،آپکو گرنے نہٌں دٌتے،گناہ نہٌن کرنے
دٌتے،گوٌا اس نے ابھی لران پراپر طرٌمے سے سٌکھنا شروع نہٌں کٌا تھا مگر لران کی طالب علم کی صحبت سے
لران کی خوشبو ضرور محسوس کرنے لگی تھی (حدٌث کے مطابك اچھا دوست خوشبو بٌچنے والے کی طرح ہوتا ہے
)،انسان اگر اٌسے ہللا والوں کو دوست بنالے،ان سے محبت کرے اور ان سے سٌکھنا چاہے تو کٌسے نہ وہ بھی
سدھرنے لگے ۔۔
اسالم مٌں دوستی کے متعلك اتنی زٌادہ تاکٌد بالوجہ تو نہٌں آئی تھی،حدٌث کے مطابك
آدمی اپنے دوست کے دٌن پر ہوتا ہے ،اس لٌے تم مٌں سے ہر شخص کو ٌہ دٌکھنا چاہٌئے کہ وہ کس سے دوستی ”
)کر رہا ہے“ جامع ترمذی2378:
اتنا زٌادہ اثر ہوتا ہے دوستی کا۔۔فاطمہ کو اب سمجھ آٌا تھا۔۔مگر وہ اٌسے نٌک ساتھ کے لٌے ہللا کی بہت شکر گزار
بھی تھی۔۔
وہ سٌدھی ہوکر بٌٹھ گئی گوٌا پورے اعضاء کو جواب سننے کے لٌے متوجہ کر رہی ہو۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
لسط_نمبر #19
دٌکھو،جب ہم کسی سے محبت کرتے ہٌں ہم کٌا چاہتے ہٌں؟؟کہ وہ بھی ہم سے محبت کرے،وہ بھی ہمٌں ٌاد کرے،وہ "
تو ہللا تعالی کو بھی ہم سے ٌہی مطلوب ہے کہ ہم اسے ٌاد کرٌں،ہم اس سے محبت کرٌں،ہم اسے بار بار بالئٌں،اسکے "
پاس جائٌں،مگر مسئلہ پتہ کٌا ہے؟ہم انسان اسکے پاس جاتے ہی تب ہٌں جب دنٌا ہمٌں توڑ چکی ہوتی ہے،جب ہمارے
اوپر کوئی مشکل ہوتی ہے۔۔حمٌمت مٌں وہ سب بھی ہللا کے اذن سے ہی ہوتا ہے تاکہ ہم اسکی طرف متوجہ ہوں،ورنہ
تم دٌکھو خوشی مٌں کون ہللا کو ٌاد کرتا ہے؟بلکہ ہم تو سب سے زٌادہ ناراض ہی اسے اپنی خوشی کے موالع پر
"کرتے ہٌں،سمجھ رہی ہو نا ان آزمائشوں کے آنے کا ممصد؟
ٌعنی اگر ٌہ سب نہ ہوتا تو مٌں آج اٌسے تمھارے پاس بٌٹھ کر ہللا کی باتٌں نہ کرتی،اسکا لران نہ پڑھ رہی ہوتی۔۔ہے "
"نا؟
بالکلٌ،ہ سب اسکی پالننگ ہے۔۔ہمارے حك مٌں کٌا ہوا اسکا کوئی اٌک فٌصلہ بھی ہمارے لٌے برا نہٌں ہوتا،ہمٌں لگتا "
ہے کہ ٌہ مٌرے ساتھ برا ہوا،مجھے ٌہ محرومی دٌکھنی پڑی،مگر اصل مٌں وہ اسکی حکمت ہوتی ہے،اسکی حکمت
"مٌں ہی ہمارے لٌے رحمت ہوتی ہے۔۔اگر ہم سمجھ جائٌں،خود کو جھکا دٌں تو زندگی بہت پرسکون ہوجاتی ہے
فاطمہ شرمندگی کے آنسو بہا رہی تھی۔۔ٌہ سب اس نے کٌوں نہٌں سوچا تھا وہ اپنے رب سے پہلے تو اٌسے کبھی نہ
جڑی تھی جٌسے اس حادثے کے بعد ۔۔
"سسسس"
ٌکاٌک اسکے منہ سے درد سے آواز نکلی اور وہ بے اختٌار اپنے پٌٹ پر ہاتھ رکھتے ہوئے جھک سی گئی۔۔
"ہمم مٌں ٹھٌک ہوں بس پٌٹ مٌں درد ہے شاٌد کھانا نہٌں کھاٌا صبح"
"اچھا مٌں تمھارے لٌے کچھ کھانے کو التی ہوں"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اسالم علٌکم ورحمت ہللا! بھائی ہمٌں لفظی ترجمے واال لران چاہٌے"
"وعلٌکم السالم،باجی آپ کچھ دٌر انتظار کرسکتی ہٌں؟ مٌں پتہ کرکے بتاتا ہوں"
لرة العٌن اور فاطمہ ،النور بک سٹور ہر لران پاک خرٌدنے گئی تھٌں،فاطمہ کا مدرسے مٌں اٌڈمٌشن کنفرم ہو چکا تھا
آج وہ لرة العٌن کے ساتھ اپنا سلٌبس خرٌدنے آئی تھی۔۔
شہرٌار شام کے ولت اب سٹور پر آجاٌا کرتا تھا اسکی غٌر موجودگی نے انکا کام پٌچھے جانے لگا تھا۔۔والدہ کے
ہاسپٹل کا خرچ اٹھانے کے لٌے اٌسا کرنا اسکی مجبوری تھی۔
باجی بھائی بس آرہے ہٌں ،وہ آپکو خود نکال دٌتے ہٌں دراصل ابھی دو دن پہلے ہی نٌو سٹاک آٌا ہے وہ کھولنے واال "
"جی"
لرة العٌن نے مختصر جواب دٌا۔۔دونوں لڑکٌاں انتظار مٌں وہاں کھڑی تھٌں۔۔لرة العٌن مکمل سٌاہ عباٌا مٌں،جبکہ فاطمہ
ابھی چادر سے زٌادہ نہ کر پائی تھی اسکا چمکتا ہوا چہرہ ننگا تھا جس پر پرٌشانی کے آثار ظاہر تھے۔
فاطمہ،لران سب سے آسان کتاب ہے تم جب سٌکھنے لگو گی تو تمھٌں لگے گا ٌہ جو تم نے 15،14سال اپنی پڑھائی "
"السالم علٌکم،سوری مٌم آپکو انتظار کرنا پڑا،مٌں ابھی نکال کر التا ہوں"
ٌکاٌک شہرٌار سٹور مٌں داخل ہوا اور انتظار مٌں کھڑی دو لڑکٌوں کو دٌکھ کر کچھ شرمندہ بھی ہوا لہذا معذرت
کرتے ہوئے اندر سٹور مٌن چال گٌا۔۔
مطلوبہ لران نکال کر النے کے بعد وہ انھٌں دکھا رہا تھا۔
مگر وہ اپنی نظرٌں مسلسل جھکانے کی کوشش مٌں تھا۔۔کچھ تو تھا جسکی وجہ سے اسکا دل بار بار عباٌا مٌں چھپی
اس لڑکی کی طرف کھنچتا چال جا رہا تھا جسکی آنکھٌں تک نظر نہ آرہی تھٌں۔۔
وہ دونوں لران لے کر جا چکی تھٌں مگر شہرٌار کے خٌاالت ابھی تک انکا پٌچھا کر رہے تھے۔۔
وہ منہ مٌں بڑبڑاٌا۔۔۔اور پھر سر جھٹک کر اپنے دوسرے کام نمٹانے لگا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تمھٌں ہوتا کٌا جا رہا ہے آخر؟؟ اور کتنا مٌرا امتحان لو گی تم؟؟"
مسز رٌان فاطمہ پر چال رہی تھٌں ،فاطمہ نے انھٌں اپنے مدرسے مٌں اٌڈمٌشن کے متعلك بتاٌا تھا۔۔
"اگر مٌں نے تمھٌں آزادی دی ہوئی ہے اسکا مطلب ٌہ نہٌں ہے کہ تم جو چاہو کرتی پھرو"
ماما،مٌں لران ہی تو سٌکھنا چاہتی ہوں،آپ نے ٌونٌورسٹی چھڑوائی مٌں نے چھوڑ دی،مگر آپ بتائٌے اب مٌں کٌا "
فاطمہ مٌرا دماغ مت خراب کرو مزٌد۔۔اپنے کرتوت دٌکھو پہلے،کس منہ سے تم اس پاک کتاب کو سٌکھنے جا رہی "
اسکے لٌے وہاں مزٌد رکنا مشکل ہوگٌا تھا وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر اپنی سسکٌاں روکتے ہوئے کمرے کی طرف بھاگ
گئی۔۔۔
ماما اور لرة العٌن کی باتٌں اسکے کانوں مٌں گونج رہی تھٌں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
وہ سسکٌوں سے روتی ہوئی مٌکانکی انداز مٌں اپنی ڈائری پر لکھتی جا رہی تھی۔۔۔مسز رٌان کی باتوں سے فاطمہ کا
دل بہت ٹوٹ چکا تھا۔۔
اسے بہت دکھ تھا۔۔۔اپنے ماضی پر ۔۔اپنے حال پر۔۔لوگوں پر۔۔وہ لوگ جو نہ خود لران سٌکھتے تھے اور نہ سٌکھنے
دٌنا چاہتے تھے۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"امی ڈاکٹرز نے تسلی دی ہے ان شاءہللا جلد ہی آپکو ہاسپٹل سے ڈسچارج کردٌں گے"
شہرٌار اپنی ماں کا رگوں کے جال سے بھرپور ،بڑھاپے کے بےکٌف رنگ مٌں رنگا ہاتھ پکڑ کر کر سہال رہا تھا
والعی بٌٹا اب بس ہو چکی ہے ٌہاں،پورا مہٌنہ ہوگٌا۔۔ٌہاں اردگرد کے مرٌضوں کو دٌکھتی ہوں تو حٌرت ہوتی ہے کہ "
اس جگہ سے باہر ہم کبھی اپنی صحت کی لدر نہٌں کرتے اور ٌہاں آإ تو اٌسے لگتا ہے ہر کوئی بس جی جان کی
"بازی لگا رہا ہے خود کو اس لٌد خانے سے نکالنے کے لٌے
انکی جھڑٌوں زدہ آنکھوں مٌں نمی اتر آئی تھی۔شہرٌار کو آج اپنی ماں بہت کمزور اور ضعٌف لگٌں۔۔اس اٌک مہٌنے
نے انکے چہرے کی رونك چھٌن لی تھی
"آمٌن،بٌٹا مٌری زندگی کا کچھ نہٌں پتہ بس مٌں چاہتی ہوں جلد از جلد تم دونوں کو اپنے گھر کا کر جاإں"
شہرٌار اپنی ماں کی بات سن کر ٹھٹکا۔۔۔سٌاہ عباٌا والی لڑکی کا ساٌہ اسکے دماغ مٌں اٌک لمحہ کے لہراٌا۔۔اس نے
فورا سے سر جھٹک کر کہا
"امی آپ ٹھٌک ہوجائٌں ان شاءہللا پہلے ہم مل کر نائلہ کو اسکے گھر کا کرٌں گے پھر مٌرا بھی بعد مٌں سوچ لٌں گے"
ماإں کو بن بٌاہی بٌٹٌوں کی فکرٌں ہی کھا جاتی ہٌں،نائلہ کے رشتے کی بات سے انھوں نے بھی ٹھنڈی آہ لی اور
آنکھوں کی نمی چھپاتے ہوئے کروٹ بدل لی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہاسپٹل سے وہ اپنی سوچوں مٌں گم نکال۔۔
دور دور سے عصر کی آذانوں کی آواز آرہی تھی۔۔
اس نے جٌب سے سگرٌٹ نکال کر سلگائی اور کنپٹی کو انگلٌوں سے مسلنے لگا۔۔
اس نے پہلے بھی عباٌا والی لڑکٌاں دٌکھی تھٌں۔۔مگر اس مٌں کٌا تھا جو اسے اسکی طرف کھٌنچے چلے جا رہا
تھا۔۔اسکی تو آنکھٌں بھی نظر نہٌں آرہی تھٌں۔۔
اس نے کش لگاتے ہوئے دھواں ہوا مٌں اڑاٌا۔۔وہ سگرٌٹ کا عادی نہٌں تھا مگر کبھی کبھی بہت پرٌشانی مٌں پی لٌا
کرتا تھا۔۔ماں کی اس حالت کے بعد اب وہ ہر تٌسرے چوتھے دن اٌک سگرٌٹ پٌنے لگا تھا۔۔اسے معلوم تھا کہ وہ ٹھٌک
نہٌں کر رہا مگر ان دنوں وہ جن الجھنوں مٌں گرفتار تھا بے چٌنی اسکے رگ و پے مٌں دوڑ رہی تھی۔۔
وہ اپنے ہی خٌالوں مٌں مسجد کے سامنے گزر گٌا۔۔۔نمازی مسجد مٌں جا رہے تھے۔اور شہرٌار۔۔مسجد سے دور چلتا گٌا
ٌہ سوچے بغٌر کہ مستمبل کے بننے والے گھر کے خواب دٌکھتے دٌکھتے اس نے عصر کی نماز ضائع کرکے اپنا اہل
و مال ہالک ہونے کی وعٌد کا ٹٌگ خود پر لگا لٌا تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آسمان پر وہ دو الفاظ چمک رہے تھے،وہ مسلسل رسی کو مضبوطی سے پکڑے اوپر جانے کی ان تھک کوشش کر "
رہی تھی،اسکے ہاتھ زخمی ہوچکے تھے ،وہ جٌسے جٌسے اوپر جا رہی تھی اندھٌرا کم ہوتا جا رہا تھا۔۔اسے اس
"روشن آسمان تک پہنچنا تھا اور لرٌب جا کر ان الفاظ کو پڑھنا تھا۔۔کہ اچانک اٌک چمگاڈر آئی اور اس سے ٹکرائی
وہ ہڑبڑا کر اٹھ بٌٹھی۔۔فاطمہ کا جسم پسٌنے سے شرابور تھا۔رات کے تٌن بج رہے تھے۔
لرت نے مجھے بتاٌا تھا کہ رسی لران ہے،مگر وہ دو الفاظ کٌا ہٌں؟؟اور ٌہ چمگاڈر؟؟ ہللا مجھے سمجھ نہٌں آتی اٌسی "
"الجھی باتٌں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
لسط نمبر 21
"چلو فاطمہ مٌں چلتی ہوں،زندگی کا نٌا سفر مبارک ہو،اب تم پر زندگی اپنی حمٌمتوں کے راز کھولے گی ان شاءہللا"
تم کرلوگی مٌری جان،ان شاءہللا ،ہللا تمھٌں چن کر الئے ہٌں ٌہاں،جو اسکی کتاب سٌکھنے کے لٌے کوشش کرتا ہے "
فاطمہ پرٌشان تھی آج اسکا مدرسے مٌں پہال دن تھا،لرة العٌن اسے خود چھوڑنے آئی تھی،
اٌسے مت سوچا کرو لڑکی،ہللا نے سورت المٌامہ مٌں خود رسول ہللا سے فرماٌا ہے کہ اس (وحی کو) جمع کرنا اور "
پڑھانا ہمارے ذمہ ہے ٌعنی ٌہ واحد اٌسی کتاب ہے جو ہللا ہر بندے کو اسکی طلب کے مطابك خود سمجھاتے ہٌں،تم
" نے بس بہت دعائٌں کرنی ہے،محنت کرنی ہے بالی ہللا پر بھروسہ کرنا ہے۔۔ہممم؟
ماما کا طعنہ اسکے کانوں مٌں بار بار گونج رہا تھا۔۔
آنکھوں مٌں نمی اتر آئی تھی ۔۔اس نے بے اختٌار گود مٌں رکھا لران شروع سے کچھ صفحات چھوڑ کے کھوال۔
ہاں جو شخص اپنا آپ ہللا کے سپرد کردےاور وہ نٌکو کار بھی ہو تو اس کا صلہ اس کے پروردگار کے پاس ہے اور "
"اٌسے لوگوں کو نہ کسی طرح کا خوف ہوگا اور نہ وہ غمناک ہوں گے
)البمرہ(112:
!!اوہ مٌرے ہللا--مٌں خود کو آپکے سپرد کرتی ہوں آپ سنبھالٌں مجھے
اس نے کرسی کی پشت پر سر ٹکا لٌا آنسو گال سے پھسلتے ہوئے کانوں تک چلے گئے۔۔معاشرے کی ٹھکرائی ہوئی
اس خدا کی بندی کو سکون مال بھی تو خدا کی آغوش مٌں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"اپنے گھر مٌں آکر کتنا سکون ملتا ہے،جٌسی بھی ہو،اپنی چھت اپنی ہی ہوتی ہے"
شہرٌار کی امی کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کر دٌا گٌا تھا ،کمزوری کی وجہ سے شہرٌار اور نائلہ نے انھٌں سہارا دے کر
بٌڈ پر لٹاٌا تھا۔۔نائلہ اب انکی ٹانگٌں سٌدھی کرکے انکے لٌے پانی لٌنے گئی تھی جبکہ شہرٌار انھٌں دبانے لگا تھا۔
امی آپکے بغٌر تو گھر اتنا وٌران لگتا تھا،مٌں جب کپڑے وغٌرہ لٌنے آتا تھا مجھے اٌسے لگتا تھا جٌسے اسکی "
دٌواروں سے وحشت ٹپک رہی ہے،ہللا آپکا ساٌہ ہمارے سروں پر سالمت رکھٌں،ابو کے بعد اب ہم مٌں مزٌد ہمت نہٌں
"ہے کہ آپکو کچھ ہوتا دٌکھٌں،
شہرٌار نے آنکھوں مٌں اترنے والی نمی کو چھپا لٌا تھا،مگر آواز کا بھاری پن اسکی ماں نے بخوبی محسوس کٌا
تھا،آخری ماں تو ماں ہوتی ہے ناں،
انھوں نے اسے ہاتھ سے کھٌنچ کر اپنے سٌنے سے لگالٌا اور اسکا سر چومنے لگٌں۔۔شہرٌار کی آنکھوں سے آنسو نکل
کر ماں کے دوپٹے مٌں جذب ہوگٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رات کا آخری تہائی حصہ تھا،وہ جھٹکے سے اٹھی،آنکھٌں ملٌں اور نٌند سے بٌدار ہونے کی دعا پڑھتے ہوئے چہرے
پر ہاتھ ملتے ہوئے بستر سے اٹھ کھڑی ہوئی،معمول کے مطابك اسکا اپنے محبوب رب سے ماللات کا ولت تھا،وہ دبے
پاإں چلتی ہوئی گرل کا دروازہ کھولنے لگی،کنڈی کی آواز سن کر اسکی ماں بٌدار ہوئی اور آواز دے کا پوچھا
"عٌنی ہو؟"
"جی امی"
لرة العٌن کی آواز سن کر وہ مطمئن ہو کر سو گئٌں،وہ باہر آکر آسمان کو دٌکھنے لگی ،رات کے اس پہر آسمان بہت
خوبصورت نظر آتا تھا،سٌاہ آسمان پر چکمتے ستاروں کی روشنی گوٌا مزٌد بڑھ جاتی تھی،شاٌد آسمان دنٌا پر رب کا
نزول اسے مزٌد خوبصورت بنا دٌتا تھا۔۔وہ جب بھی اوپر دٌکھتی اس حسٌن منظر مٌں کھو ہی جاتی تھی،
آپ مجھے دٌکھ رہے ہٌں نا ہللا۔۔آپ ابھی مت جائٌے گا،آپکی لرت آپکے لٌے اپنا گرم بستر چھوڑ کر آئی ہے،مجھے "
وہ بہت محبت سے آسمان کی طرف چہرہ اٹھائے کہہ رہی تھی گوٌا وہاں سے کسی جواب کی منتظر ہو،
دل مٌں سرگوشی ہوئی،
"ہاں وہ آئے ہوئے ہٌں،تمھٌں ٌوں اپنے لٌے نٌند لربان کرتے دٌکھ کر خوش ہورہے ہوں گے"
چہرے پر خوبصورت مسکراہٹ پھٌل گئی،نومبر کا مہٌنہ تھا،وہ بازو چڑھا کر ٹھنڈے پانی سے وضو کرنے لگی۔۔
نماز کے بعد وہ ہاتھ پھٌالئے ہللا رب العزت سے رو کر دعائٌں مانگنے مٌں مشغول تھی۔۔ٌہ اس کی فٌورٹ نماز تھی
اس تنہائی کے ولت وہ اپنے ہللا سے اپنا ہر دکھ درد اور خوشی شئٌر کرتی تھی۔۔جٌسے وہ اسکے سامنے موجود
ہوں،ہر چھوٹی بڑی چٌز مانگتی تھی،آج کی دعامعمول کی نسبت لمبی ہو گئی تھی۔۔وجہ کٌا تھی۔۔
آج ٌونٌورسٹی مٌں اسکی کانووکٌشن تھی،اسے آگے پڑھنے کا بہت شوق تھا،غرٌب گھرانے سے تعلك رکھنے والی وہ
لڑکی اب تک اتنی مہنگی ٌونٌورسٹی تک مکمل سکالر شپ پر پہنچی تھی،بورڈز مٌں ٹاپ کرنے والی لرت العٌن کے
لٌے آج اٌک نٌا چٌلنج تھا،اسے آگے بڑھنا تھا،آگے پڑھنا تھا،وہ نہٌں جانتی تھی کٌسے،مگر اسکا رب جانتا تھا۔۔ اس
لٌے وہ اسے منانے مٌں مشغول تھی۔۔کہ دور دور سے فجر کی اذانوں کی آواز سنائی دٌنے لگی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاذ نے دعا ختم کرکے آنسو پونچھے اور کھڑے ہوکر گرم جوشی سے شہرٌار کے سالم کا جواب دٌا۔
آپ کا کٌا نام ہے بھائی اور آپ کبھی کبھار ہی ادھر دکھائی دٌتے ہٌں؟
مٌرا نام معاذ ہے مٌں ٌہاں نہٌں ہوتا مگر اس عاللے مٌں مٌرا گھر ہے اس لٌے کبھی کبھار ہی ٌہاں آنے کا اتفاق ہوتا
ہے۔
مجھے بھی اچھا لگا آپ سے مل کر ،معذرت اب مٌں چلتا ہوں شہرٌار بھائی مجھے ذرا جلدی ہے ،ہللا نے چاہا تو پھر "
"ملٌں گے
ٌہ کہ کر معاذ تٌز لدموں سے چلتا ہوا مسجد سے باہر نکل گٌا۔ شہرٌار چپ چاپ رشک بھری نگاہوں سے معاذ کو جاتا
دٌکھتا رہا ۔۔
اٌسے بھی نوجوان ہٌں ۔۔چہرے پر داڑھی سر پر ٹوپی شلوار ٹخنوں سے اوپر اور دعا مٌں وہ رونا،وہ تڑپ ۔ ۔ بالشبہ
اسے دٌکھ کر ہللا ٌاد آتا تھا۔۔اور اٌک مٌں ہوں کہ۔۔۔کاش مٌں اس سے دوبارہ مل سکوں۔۔
اٌک احساس ندامت نے اسکے دل کے گرد گھٌرا ڈال لٌا تھا۔۔وہ بوجھل لدموں سے مسجد سے نکل کر اپنے بک سٹور
کی جانب بڑھ گٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ کی پہلی کالس شروع ہو چکی تھی۔۔چونکہ اس نے کورس کے درمٌان مٌں اٌڈمٌشن لٌا تھا جب لران آدھا ہونے
کو تھا14،واں پارہ سورت الحجر پڑھائی جا رہی تھی،
جٌسے ہر زبان کا اپنا اٌک لہجہ ہوتا،اسی طرح عربی زبان کا بھی اٌک لہجہ ہےاور ہمٌں حکم دٌا گٌا ہے کہ ہم لران "
کو عربوں کے لب و لہجہ مٌں پڑھٌں،اب چونکہ ہم عجمی ہٌں ہماری زبرن عربی نہٌں ہے تو ہم کٌسے اپنا لہجہ بنا
سکتے ہٌں؟
مٌڈم کے سوال پر کالس مٌں موجود طالبات نے ٌک لخت جواب دٌا،
"سٌکھ کر"
جی بالکل،جٌسے ہم انگلش بولنے کے لٌے "انگلش سپوکن کورسز" کرتے ہٌں مختلف طرٌموں سے اسکا لہجہ "
سٌکھتے ہٌں وٌسےہی عربی لہجہ بھی سٌکھنے سے آئے گا۔۔ اور لرآن کی اصل خوبصورتی اور تاثٌر عربی لہجے
مٌں ہی پتہ چلتی ہے ۔۔
)ابوداإد(1469:
تو ہم نے ان شاءہللا "ہللا کی کتاب" کو وٌسے ہی پڑھنا ہے جٌسا اسے نازل کٌا گٌا۔۔ٌہ بالی ہر کتاب سے زٌادہ حك
"رکھتی ہے کہ اسکو سٌکھا جائے
ابھی وہ مدرسے گھر مٌں داخل ہی ہوئی تھی کہ ماما نے اسے دٌکھتے ہی بھڑکتے لہجے مٌں کہا۔۔
"السالم علٌکم ماما ،مٌں بس خود کو کور کرنے کی کوشش کر رہی ہوں"
اس نے اپنے چہرے سے چادر ہٹاتے ہوئے نہاٌت تحمل سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
خبردار جو اپنی اس مالنی دوست کی طرح تم نے کاال ٹٌنٹ پہنا تو،مٌں خاندان مٌں مزٌد ناک نہٌں کٹوانا چاہتی "
ماما آپ لرت کو اٌسے تو مت کہٌں،وہ اتنی اچھی مسلمان ہے اور اس مٌں کٌا برا ہے اگر کوئی دٌن پر عمل کرنے "
اسے انکے لرة العٌن کے متعلك اٌسی تحمٌر آمٌز الفاظ بہت برے لگے،مگر خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔۔۔
مسز رٌان کو اب اسکی ہر چھوٹی بڑی بات پر غصہ آتا تھا۔۔ اب انکی بٌٹی انکی مرضی کی بجائے کسی اور کی
مرضی کے مطابك خود کو ڈھالنا چاہ رہی تھی،بڑائی کو جب چوٹ لگتی ہے تو غصہ تو آتا ہے۔۔
بس بس اپنے لٌکچرز اپنے پاس رکھو،مجھے زٌادہ سمجھانے کی ضرورت نہٌں ہے،پتہ ہے سب مجھے تمھارا بھی "
ٌہ کہتے ہوئے وہ پاإں پٹختی ہوئی اپنے کمرے کی طرف اوپر کو چلی گئٌں۔۔
فاطمہ کا دل کٹ کر رہ گٌا۔۔آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔۔۔وہ خاموشی سے اپنی ماں کو پٌچھے سے جاتے ہوئے دٌکھتی
رہی۔۔
اسے بے ساختہ ٌہ شعر ٌاد آگٌا
"کون؟؟
"کون؟"
"کون ہے بھئی؟"
"تمھارا بھائی"
معاذ نے لرة العٌن کے گال پر پٌار سے تھپکی دٌتے ہوئے کہا۔۔اور پٌچھے ہو کر کھال دروازہ بند کرنے لگا۔۔
وعلٌکم السالم ورحمت ہللا وبرکاتہ،سدا خوش رہو،کب آئے؟پتہ ہے کتنا اداس ہو گئے تھے اس بار ہم،نہ تمھارے ابو "
"جی امی بس وہ۔۔اس بار کام زٌادہ تھا،تو رابطہ نہٌں کرسکے،اس لٌے مجھے اکٌلے آنا پڑا"
"ہللا خٌر و عافٌت سےرکھٌں،چل تو منہ ہاتھ دھو آ،عٌنی کھانا التی ہے"
عٌنی جا بھائی کے لٌے تازی روٹی اور سالن لے کر آ اور سن وہ فرٌج مٌں گاجر کا حلوہ پڑا ہے وہ بھی گرم کرکے "
"لٌتی آنا
لرة العٌن جو باپ کے تذکرے پراپنے بھائی کے بدلتے تاثرات بڑے غور سے دٌکھ رہی تھی،ماں کی بات پر چونک
پڑی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
عصر کی نماز سے فارغ ہوا تو شہرٌار کی نظر اچانک اس نوجوان پر پڑی جسے مہٌنے لبل بہت عاجزی اور خشوع
سے دعا مانگتے دٌکھا تھا۔ آج بھی وہ نوجوان چپ چاپ ہاتھ اٹھائے خاموش آنسو بہا رہا تھا۔ شہرٌار بنا کچھ سوچے
سمجھے اس کی طرف چل دٌا۔
معاذ نے دعا ختم کرکے آنسو پونچھے اور کھڑے ہوکر گرم جوشی سے شہرٌار کے سالم کا جواب دٌا۔
آپ کا کٌا نام ہے بھائی اور آپ کبھی کبھار ہی ادھر دکھائی دٌتے ہٌں؟
مٌرا نام معاذ ہے مٌں ٌہاں نہٌں ہوتا مگر اس عاللے مٌں مٌرا گھر ہے اس لٌے کبھی کبھار ہی ٌہاں آنے کا اتفاق ہوتا
ہے۔
مجھے بھی اچھا لگا آپ سے مل کر ،معذرت اب مٌں چلتا ہوں شہرٌار بھائی مجھے ذرا جلدی ہے ،ہللا نے چاہا تو پھر "
"ملٌں گے
ٌہ کہ کر معاذ تٌز لدموں سے چلتا ہوا مسجد سے باہر نکل گٌا۔ شہرٌار چپ چاپ رشک بھری نگاہوں سے معاذ کو جاتا
دٌکھتا رہا ۔۔
اٌسے بھی نوجوان ہٌں ۔۔چہرے پر داڑھی سر پر ٹوپی شلوار ٹخنوں سے اوپر اور دعا مٌں وہ رونا،وہ تڑپ ۔ ۔ بالشبہ
اسے دٌکھ کر ہللا ٌاد آتا تھا۔۔اور اٌک مٌں ہوں کہ۔۔۔کاش مٌں اس سے دوبارہ مل سکوں۔۔
اٌک احساس ندامت نے اسکے دل کے گرد گھٌرا ڈال لٌا تھا۔۔وہ بوجھل لدموں سے مسجد سے نکل کر اپنے بک سٹور
کی جانب بڑھ گٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ کی پہلی کالس شروع ہو چکی تھی۔۔چونکہ اس نے کورس کے درمٌان مٌں اٌڈمٌشن لٌا تھا جب لران آدھا ہونے
کو تھا14،واں پارہ سورت الحجر پڑھائی جا رہی تھی،
جٌسے ہر زبان کا اپنا اٌک لہجہ ہوتا،اسی طرح عربی زبان کا بھی اٌک لہجہ ہےاور ہمٌں حکم دٌا گٌا ہے کہ ہم لران "
کو عربوں کے لب و لہجہ مٌں پڑھٌں،اب چونکہ ہم عجمی ہٌں ہماری زبرن عربی نہٌں ہے تو ہم کٌسے اپنا لہجہ بنا
سکتے ہٌں؟
مٌڈم کے سوال پر کالس مٌں موجود طالبات نے ٌک لخت جواب دٌا،
"سٌکھ کر"
جی بالکل،جٌسے ہم انگلش بولنے کے لٌے "انگلش سپوکن کورسز" کرتے ہٌں مختلف طرٌموں سے اسکا لہجہ "
سٌکھتے ہٌں وٌسےہی عربی لہجہ بھی سٌکھنے سے آئے گا۔۔ اور لرآن کی اصل خوبصورتی اور تاثٌر عربی لہجے
مٌں ہی پتہ چلتی ہے ۔۔
)ابوداإد(1469:
تو ہم نے ان شاءہللا "ہللا کی کتاب" کو وٌسے ہی پڑھنا ہے جٌسا اسے نازل کٌا گٌا۔۔ٌہ بالی ہر کتاب سے زٌادہ حك
"رکھتی ہے کہ اسکو سٌکھا جائے
ابھی وہ مدرسے گھر مٌں داخل ہی ہوئی تھی کہ ماما نے اسے دٌکھتے ہی بھڑکتے لہجے مٌں کہا۔۔
"السالم علٌکم ماما ،مٌں بس خود کو کور کرنے کی کوشش کر رہی ہوں"
اس نے اپنے چہرے سے چادر ہٹاتے ہوئے نہاٌت تحمل سے مسکراتے ہوئے کہا۔۔
خبردار جو اپنی اس مالنی دوست کی طرح تم نے کاال ٹٌنٹ پہنا تو،مٌں خاندان مٌں مزٌد ناک نہٌں کٹوانا چاہتی "
اسے انکے لرة العٌن کے متعلك اٌسی تحمٌر آمٌز الفاظ بہت برے لگے،مگر خود کو کنٹرول کرتے ہوئے کہا۔۔۔
مسز رٌان کو اب اسکی ہر چھوٹی بڑی بات پر غصہ آتا تھا۔۔ اب انکی بٌٹی انکی مرضی کی بجائے کسی اور کی
مرضی کے مطابك خود کو ڈھالنا چاہ رہی تھی،بڑائی کو جب چوٹ لگتی ہے تو غصہ تو آتا ہے۔۔
بس بس اپنے لٌکچرز اپنے پاس رکھو،مجھے زٌادہ سمجھانے کی ضرورت نہٌں ہے،پتہ ہے سب مجھے تمھارا بھی "
ٌہ کہتے ہوئے وہ پاإں پٹختی ہوئی اپنے کمرے کی طرف اوپر کو چلی گئٌں۔۔
فاطمہ کا دل کٹ کر رہ گٌا۔۔آنسو ٹپ ٹپ گرنے لگے۔۔۔وہ خاموشی سے اپنی ماں کو پٌچھے سے جاتے ہوئے دٌکھتی
رہی۔۔
اسے بے ساختہ ٌہ شعر ٌاد آگٌا
"کون؟؟
دروازہ پھر سے کھٹکا۔۔
"کون؟"
"کون ہے بھئی؟"
"تمھارا بھائی"
معاذ نے لرة العٌن کے گال پر پٌار سے تھپکی دٌتے ہوئے کہا۔۔اور پٌچھے ہو کر کھال دروازہ بند کرنے لگا۔۔
وعلٌکم السالم ورحمت ہللا وبرکاتہ،سدا خوش رہو،کب آئے؟پتہ ہے کتنا اداس ہو گئے تھے اس بار ہم،نہ تمھارے ابو "
"ہللا خٌر و عافٌت سےرکھٌں،چل تو منہ ہاتھ دھو آ،عٌنی کھانا التی ہے"
عٌنی جا بھائی کے لٌے تازی روٹی اور سالن لے کر آ اور سن وہ فرٌج مٌں گاجر کا حلوہ پڑا ہے وہ بھی گرم کرکے "
"لٌتی آنا
لرة العٌن جو باپ کے تذکرے پراپنے بھائی کے بدلتے تاثرات بڑے غور سے دٌکھ رہی تھی،ماں کی بات پر چونک
پڑی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
وہ اپنی کتابٌں اور لران کھول کر بٌٹھی اپنا ہوم ورک کرنے مٌں مشغول تھی۔۔پہال دن تھا۔اس لٌے اسے سمجھنے مٌں
مشکل ہو رہی تھی مگر اس نے ہمت نہ ہاری۔۔
آخر دنٌا کا علم بھی تو پہلی بار ہی پڑھنا پڑتا ہے نا،جتنی موٹی اور مشکل بکس ہوں،پڑھتے ہی ہٌں نا،ان شاءہللا مٌں "
اس نے مسکراتے ہوئے سوچا۔۔اور آج کالس مٌں ہونے والی آٌات کی تفسٌر کے نوٹس دٌکھنے لگی۔۔
)سورت الحجر آٌت (43-26
آج مٌری زندگی کے نئے سفر کا آغاز۔۔۔اور اسی دن ہللا آپ نے مجھے انسانی زندگی کے آغاز کے متعلك سکھاٌا۔۔
وہ دل مٌں ہی ہللا سے مخاطب ہوئی۔اسکی عادت بنتی جا رہی تھی ہر بات ہللا سے کرنے کی۔۔وہ بھی تو اسکو جواب
دٌتے تھے آخر۔۔وہ محبت کی راہوں مٌں لدم رکھ چکی تھی۔۔
)ہللا نے کہا "اور تحمٌك ہم نے انسان کو کھنکتی بدبودار مٹی سے پٌدا کٌا" (الحجر26:
فرشتوں کو بھی پتہ تھا کہ انسان مٹی سے بنا۔۔بدبودار مٹی سے۔۔شٌطان کو بھی پتہ تھا۔۔فرشتوں نے تو سجدہ کرلٌا مگر
)شٌطان نہٌں کٌا (الحجر31،30:
کٌوں؟
شٌطان نے اسی مٹی کو حمٌر کہتے ہوئے ہللا کی بات ماننے سے انکار کردٌا۔۔۔حمارت۔۔تکبر۔۔جس نے اسے کتنی
نعمتوں سے محروم کردٌا۔۔فرشتوں کی صحبت سے،مالئے اعلی سے،ہللا کے لرب سے،ہللا کی رحمت سے،اطاعت
سے۔۔
اٌک طرف مٹی کا کردار ہے۔۔جسے اتنی مخلوق نے تعظٌمی سجدہ کٌا گٌا۔۔مگر پھر بھی وہ تکبر مٌں مبتال نہ ہوا۔۔جبکہ
دوسری طرف شٌطان کا کردار۔۔۔حسد۔غصہ،تکبر۔۔آگ سے بنی مخلوق کو مزٌد جال دٌا ان جذبات نے۔۔
ٌعنی ہللا۔۔۔تکبر انسان کی سرشت مٌں نہٌں ہے نا۔۔لٌکن جب وہ تکبر مٌں مبتال ہوتا ہے اس کا مطلب وہ شٌطان کے گھٌر
مٌں آتا ہے۔۔۔
مٹی کی تو فطرت ہی عاجزی ہے۔۔اسی لٌے تو جنت مٌں غلطی ہوتے ہی آدم علٌہ السالم جھک گئے تھے۔۔معافی مانگ
لی تھی۔۔۔انھوں نے اس چٌز پر تکبر نہٌں کٌا کہ انھٌں کتنے لوگوں (فرشتوں) نے (سجدہ کرکے) عزت دی،انھٌں کتنی
خوبصورت جگہ (جنت) دی گئی۔۔انھٌں علم دٌا گٌا۔۔انھٌں خوبصورت بٌوی دی گئی۔۔وہ سب چٌزٌں تو دنٌا کی اعلی ترٌن
چٌزٌں تھٌں پھر بھی وہ تکبر مٌں مبتال نہٌں ہوئے۔۔تو ہللا؟؟ ہم کٌوں ہوجاتے ہٌں؟؟ذرا سی عزت ملنے پر،ممام اور
شہرت ملنے پر،علم ٌا حس ٌا مال ملنے پر؟؟
ہاں ٌہ تکبر شٌطان کی طرف سے ہوتا ہے نا اس لٌے انسان کو اندر سے جالئے رکھتاہے۔ تکبر کرنے واال کبھی
پرسکون نہٌں ہوسکتا۔۔
مٹی کی فطرت عاجزی ہے۔۔اور انسان کی اولات مٹی۔۔
ہللا کو انسان کا اپنی اولات ٌاد رکھتے ہوئے اپنی اصل فطرت پر لوٹنا بہت پسند ہے۔۔۔
ہممم عاجزی۔۔۔
اسے اب غور کرنا تھا کہٌں اس کے اندر تو کسی چٌز کا تکبر نہٌں۔۔
ٌہ تو شٌطانی خصلت ہے۔۔اور شٌطان کون؟ اسے تو ہللا نےدشمن کہا ہمارا۔۔
پھر آگے چلی۔۔
اس شٌطان نے ہللا سے مہلت مانگی تھی اور اسے دے دی گئی تھی۔۔لٌامت کے دن تک اختٌار۔۔
اس (شٌطان) نے کہا کہ چونکہ تو نے مجھے گمراہ کٌا لہذا اب مٌں انکے مزٌن کردوں جو کچھ زمٌن مٌں ہے اور "
)الحجر(39:
اسے اپنا گناہوں سے بھرا ماضی ٌاد آنے لگا۔۔کٌسے وہ نامحرم سے دوستی کو ٹرٌنڈ کہتی تھی،کٌسے وہ مٌوزک کو
روح کی غذا کہتی تھی،کٌسے وہ بے پردگی کو آزادی کہتی تھی،نماز کو بوجھ سنجھتی تھی،لران کو پچھلوں کے
لصے سمجھتی تھی۔۔۔شٌطان۔۔کہاں کہاں سے نہٌں آٌا تھا۔۔اسے پچھتاوا ہوا۔۔
ٌعنی وہ ہر غلط کام کی تاوٌلٌں دے کر ہم سے گناہ کروائے گا۔۔ہم اس بے حٌائی کو فٌشن اور ماڈنزم سمجھٌں گے اور
درحمٌمت ٌہ ہللا کی نافرمانی ہو گی؟
ہللا اکبر۔۔۔اٌک سے دشمنی کا بدلہ وہ ہم سے ہر انسان سے لے گا۔۔۔
حسد۔۔غصہ۔۔
اسے ٌاد آٌا تھا تفسٌر کی مٌڈم فلایر نے ان جذبات کا عالج بتاٌا تھا۔۔حسد کاعالج اپنی نعمتوں پر نظر،ہللا کی تمسٌم پر
راضی رہنا،غصے کا عالج فورا پانی پٌنا ٌا وضو کرنا،اور تکبر۔۔اپنی اولات پر غور کرنا۔۔آغاز اور انجام۔۔مٹی سے
مٹی تک۔۔
وہ دوبارہ آٌات کی طرف متوجہ ہوئی۔۔
ہللا!! پھر ہمارا کٌا لصور اگر وہ آزاد ہے تو؟وہی ہمٌں بہکاتا ہے نا؟ اس نے الجھتے ہوئے جٌسے ہللا سے سوال کٌا ۔۔
جو خود کو صرف اور صرف ہللا کے لٌے جھکا دٌتے ہٌں،جنکا دل مٌں کفر و شرک،گناہوں،دنٌا کی محبت سے مٌال "
ہوتا ہے ہللا کی محبت مٌں،جن کا مرنا جٌنا،ہنسارونا سب ہللا سبحانہ وتعالی کی ذات سے pureنہٌں کوتا،جنکا دل
ہللا نے فرماٌا)ٌہ ہے مجھ تک آتا سٌدھا رستہ،بے شک مٌرے بندوں پر تٌرا زور نہٌں چلے گا سوائے ان بہکے ہوإ ("
"ں مٌں سےجو تٌری پٌروی کرٌں،اور بے شک جہنم ان سب کے لٌے وعدے کی جگہ ہے
)الحجر(43-41:
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔۔
معاذ اور شہرٌار کی اب اکثر مسجد مٌں نمازوں کے بعد ماللات ہوجاٌا کرتی تھی۔۔معاذ کی صحبت کا خوشگوار اثر
شہرٌار کو بے حد متاثر کررہا تھا۔۔
"مولوی؟ کٌا مطلب ؟مٌں نے کونسا مولوٌوں واال کام کٌا ہے؟"
"ٌہ جو داڑھی بڑھنے لگی ہے جناب کی،پٌنٹ ٹخنوں سے اوپر فولڈ ہونے لگی ہے۔ کوئی تو ماجرا ہے ناں۔۔"
نائلہ۔۔کٌا داڑھی بڑھانے واال شخص مولوی بن جاتا ہے؟ اگر آج رسول ہللا ﷺ ہمارے درمٌان زندہ ہوتے،کٌا تم انکی "
داڑھی اور ننگے ٹخنے دٌکھ کر انھٌں بھی مولوی کہتی؟
"استغفرہللا۔۔"
نہٌں نا۔۔تو اپنی سوچ درست کرو۔۔۔جانتا ہوں چند اٌک کی غلطٌوں کی وجہ سے مولوی طبمہ بالکل بدنام کر دٌا گٌا ہے "
مگر اسکا مطلب ٌہ نہٌں کہ ہر مولوی خراب ہو۔۔کٌا اٌک ڈاکٹر کے فراڈ ہونے کی وجہ سے تم ہر ڈاکٹر کو غلط کہو
گی؟عالج کے لٌے اسکے پاس جانا چھوڑ دو گی؟نہٌں۔۔تو پھر دٌن کے معاملے مٌں پانچوں انگلٌاں برابر کٌوں لگنے
" لگتی ہٌں لوگوں کو؟؟
ٌہ کہہ کر وہ فورا سے اٹھ کر چلی گئی تھی۔۔اسے خدشہ ہوا کہ کہٌں اب وہ اسے بھی نصٌحتٌں نہ کرنے لگ
جائے۔۔۔وٌسے بھی اسے خود کو چادر اور چار دٌواری مٌں لٌد کرکے رکھنے والٌاں بے ولوف لگتی تھٌں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج اسے اٌک ہفتہ ہو چکا تھا مدرسے جاتےہوئے۔۔ابھی اس نے ترجمہ ٌاد کرکے اپنا ہوم ورک مکمل کٌا ہی تھا کہ
اچانک سے موبائل کی بٌپ بجی۔۔
اس نے موبائل کو سائڈ ٹٌبل پر رکھنے کے لٌے اٹھاٌا تو سکرٌن پر علٌنہ کا نام چمک رہا تھا۔۔
شکر ہے بی بی۔۔۔تم نے کوئی جواب تو دٌا۔۔ اتنی ساری باتٌں کرنی ہٌں تم سے۔۔۔تمھٌں پتہ چال کہ سفٌان کی شادی "
"ہورہی ہے؟
"کب؟"
"ہمم"
اسے ٌاد آنے لگا اسکے ساتھ گزرا ولت،اسکے دئٌے ہوئے تحائف،اسکی باتٌں،اسکا ہنسنا ہنسانا۔۔
رونا سسکٌوں مٌں بدل چکا تھا۔۔اندر کہٌں چھپا اسکی جدائی کا درد ابھی بالی تھا۔۔
اسکا دل چاہا،کہ اسے مٌسج کرکے مبارک باد دے۔۔شاٌد کہ اسے ٌاد آئے کہ "فاطمہ" بھی کوئی تھی۔۔
جس کے ساتھ اس نے زندگی کے کچھ دن گزارے تھے۔۔
)دشمن نے وعدہ سچا کرنا چاہا۔۔اسے اسکا برا عمل مزٌن کرکے دکھانے لگا(
اس نے موبائل اٹھاٌا۔۔وہ نمبر ڈٌلٌٹ کر چکی تھی۔۔مگر کچھ چٌزٌں انسان کے ذہن کے ساتھ ہمٌشہ چپکی رہتی ہٌں،اسکا
نمبر بھی انھی مٌں سے اٌک تھا۔۔
) ( Al-Baqarah - 268
اور دٌکھنا) شٌطان (کا کہنا نہ ماننا وہ) تمہٌں تنگ دستی کا خوف دالتا اور بےحٌائی کے کام کر نے کو کہتا ہے۔ اور (
خدا تم سے اپنی بخشش اور رحمت کا وعدہ کرتا ہے۔ اور خدا بڑا وسعت واال (اور) سب کچھ جاننے واال ہے
من برنامج #نختم
https://goo.gl/T82fBr
وہ مجھے بے حٌائی(نامحرم سے فضول بات) کا حکم دے رہا ہےمٌرے عمل کو مٌرے لٌے مزٌن کرکے۔۔اور ہللا اپنی
رحمت کا وعدہ کر رہے؟؟
ٌعنی؟؟ اگر مٌں ہللا کے لٌے بے حٌائی سے بچوں گی تو وہ اپنا وعدہ پورا کرٌں گے؟؟ بخشش؟؟ رحمت؟؟
ہللا اکبر۔۔
آنسو بہنے لگے۔۔مگر اب کی بار۔۔کسی نامحرم کے لٌے نہٌں،اپنے رب کی محبت کے تھے،احساس تشکر کے تھے۔۔
دل تھم چکا تھا۔۔ وہ استغفار کرنے لگی اور ساتھ مٌں ہللا کا شکر ادا کرنے لگی کہ برولت اس نے بچا لٌا۔۔
ورنہ وہ بے ولوف کٌا کرنے جا رہی تھی؟کتنا غلط نتٌجہ نکلتا اسکا۔۔۔
شاٌد لڑکٌاں اپنے جذباتی پن کی وجہ سے آسانی سے پھسل جاتی ہٌں اس لٌے ہر کوئی آکر انھٌں پھسال جاتا ہے۔مگر
اٌک مضبوط کردار لڑکی،ہللا کی محبت مٌں جٌنے والی،اس طرح کی مصنوعی محبتوں کے جالوں مٌں نہٌں پھنستی۔۔
اس طرح اچانک ہللا کی طرف سے جواب ملنے پر اسکا دل شکر سے بھر گٌا۔۔وہ لرة العٌن کو دعائٌں دٌنے لگی جس
کے متعلك بتاٌا تھا۔۔فاطمہ اکثر دٌکھتی تھی لرة العٌن جب بھی موبائل آن )(Appنے اس دن فاطمہ کو اس "نختم" اٌپ
کرتی تھی کوئی آٌت اسکے سامنے آتی تھی۔۔وہ کہتی تھی کہ ہللا اسے اٌسے گائڈ کرتے ہٌں،جواب دٌتے ہٌں،بعض
اولات الشعوری طور پر جب انسان کچھ سمجھ نہٌں پا رہا ہوتا۔۔تو اس طرح سے اچانک سے سامنے والی آٌات مٌں
اسکا جواب ہوتا ہے جس سے انسان کا دل تھم جاتا ہے۔۔ آج اسکے ساتھ بھی اٌسا ہی ہوا تھا۔۔
لرت نے اسے سارا طرٌمہ بتاٌا تھا
اور فاطمہ،ہللا جزائے خٌر دے جس نے ٌہ بنائی،اسکا سب سے بڑا فائدہ ٌہ ہے کہ آپ جب بھی موبائل ٌوز کرتے ہو تو
ہللا کے کالم سے آغاز کرتے ہو،ترتٌب سے آٌات مع ترجمہ آتا ہے جسکی وجہ سے آپکااٌک لران اسطرح سے بھی
"مکمل ہوجاتا ہے الحمدہلل الحمدہلل۔۔
اوہ واہ ٌہ تو بہت زبردست ہے،مٌں ضرور انسٹال کروں گی،اسطرح تو موبائل ٌوز کرنا بھی عبادت بن جائے گا،پھر "
"بالکل الحمدہلل۔۔ہللا ہمٌں اپنا بہترٌن اور فرمانبردار بندہ بنائٌں آمٌن"
ہللا کی خاطر محبت کرنے کا نتٌجہ ہللا کا لرب ہوا کرتا ہے۔۔جو دونوں کو مل رہا تھا۔۔۔اور دونوں اس پر شکرگزار
تھٌں۔۔
۔۔۔۔۔۔جاری ہے۔۔۔۔
الحمدہلل الحمدہلل کثٌرا۔۔مجھے تو ٌمٌن نہٌں آرہا فاطمہ۔۔مٌں نے تو بس ہللا سے رو رو کر دعائٌں کی تھٌں۔۔ہللا پاک نے "
وہ آنکھوں مٌں نمی لٌے،فاطمہ کے گلے لگ کر پرجوش انداز مٌں بتا رہی تھی۔۔
"مٌں تمھارے لٌے بہت خوش ہوں لرت۔۔ہللا تمھٌں بہت آگے لے کر جائٌں"
"کٌا؟"
تمھٌں پتہ ہے ناٌ،ونٌورسٹٌز کے ماحول کس طرح دن بدن خراب ہوتے جا رہے ہٌں ،کو اٌجوکٌشن،بے حٌائی،فحاشی "
"تم ٹھٌک کہہ رہی ہو لرت،مگر الحمدہلل تم تو مکمل پردہ کرتی ہو،تمھٌں تو اسکی ٹٌنشن نہٌں ہونی چاہٌے؟ "
فاطمہٌ،ہی تو وہ سوچ ہے جو درست نہٌں،تمھٌں پتہ شٌطان اٌسوں کی طرف تو لشکر لے کر آتا ہے جو ہللا کے "
رستے پر چلنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہٌں،جو اپنے دامن کو گناہوں کے کانٹوں سے بچا بچا کر رکھنا چاہتے
ہٌں،شٌطان کے لٌے سب سے زٌادہ خطرے کی گھنٹی ٌہی لوگ ہوتے ہٌں،کٌونکہ انھی کے ذرٌعے معاشرے کی
"اصالح ہوتی ہے ،اس لٌے وہ اپنی پوری طالت انھی کو بہکانے مٌں لگا دٌتا ہے
اوہ تو اس آٌت کی سمجھ مجھے اب آرہی ہے،والعی جو پہلے سے بہکے ہوئے ہٌں انکے لٌےتو اس دشمن کا ہلکا سا "
وسوسہ کافی ہے،اصل رکاوٹ تو ٌہ انکے لٌے بنا ہوا ہے جو سٌدھے رستے کی طرف آنے کی ٌا اس پر چلنے کی
"کوشش کرتے ۔۔
"بالکل اٌسا ہی ہے فاطمہ"
فاطمہ کو ٌاد آٌا کہ کٌسے شٌطان نے اس کے لٌے اتنا مشکل بنادٌا تھا سٌدھے رستے پر آنا،جب بھی اسے دٌن کی بات
بتائی جاتی ٌا کسی دٌنی مجلس کی دعوت ملتی تو وہ کٌسے جھوٹے بہانے بنا کر ٹال دٌا کرتی تھی،کہ ٹائم نہٌں ہے،ہللا
اکبر ٌعنی ٌہ سب شٌطان کی چالٌں ہوتی ہٌں جن مٌں اٌسے پھنستے چلے جاتے ہٌں کہ انھی دٌن والوں کو بے ولوف
سمجھنے لگتے ہٌں۔۔
"وہی تو سمجھ نہٌں آرہا۔۔مگر مٌں ہللا تعالی سے پوچھوں گی ان شاءہللا وہ ضرور مٌری رہنمائی کرٌں گے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسکی تکلٌف دن بدن بڑھتی جا رہی تھی مگر اس نے کسی سے بھی ذکر نہٌں کٌا۔۔اب اسے زٌادہ دٌر تک بٌٹھنے پر
بھی درد محسوس ہونے لگا تھا۔۔
"اٌک چوٹ ہی تو تھی،مہٌنہ ہونے کو ہے،اب تک تو درد ختم ہوجانا چاہٌے تھا"
برٌک کے دوران کالس رووم مٌں بٌٹھے اس نے خود سے سوچتے ہوئے کہا۔
کسی نے پٌچھے سے اسے سالم کٌا،اس نے مڑ کا دٌکھا تو وٌل چئٌر پر ٌونٌفارم مٌں ملبوس پٌاری سی لڑکی اسے
دٌکھ کر مسکرا رہی تھی۔۔
"جی مجھے ٌہ دوسرا ہفتہ ہے اس مدرسے مٌں اٌڈمٌشن لٌے ہوئے،آپ سے مل کر اچھا لگا"
اسکے نام کے ساتھ اسکا چہرہ بھی کسی نور کے ہالے کی طرح سکارف مٌں چمک رہا تھا۔۔
مجھے بھی الحمدہلل،ہللا بھی کٌسے کٌسے اپنے پٌارے بندوں سے ملواتے ہٌں،آپکو دٌکھ کر مجھے اٌک عجٌب سی "
ہاں نا،شاٌد آپکو نہٌں پتہ،مگر آپ پر ہللا کی کوئی خاص رحمت ہے،آپکو دٌکھ کر پتہ نہٌں کٌوں اٌک احساس سا ہوتا "
"چنی ہوئی بندی؟ کٌا مطلب مٌں کچھ سمجھ نہٌں پارہی؟"
فاطمہ کو اسکی باتوں مٌں اپنا درد بھول گٌا تھاٌ،ہ کٌسی باتٌں کر رہی تھی۔مٌں تو اسے جانتی بھی نہٌں۔۔
جی مٌں آپکو کافی دنوں سے آپ پر بہت غور کر رہی تھیٌ،ہاں آنے والے ہر شخص مٌں ہللا کی محبت پانے کی تڑپ "
نہٌں ہوتی،چنے ہوئے لوگ ہوتے ہٌں وہ جو اٌسی جگہوں پر بھی اپنا ممصد سٌٹ کرکے آتے ہٌں اور پھر اسی پر جی
"جان لگا دٌتے ہٌں،
ہاں فاطمہ،مگر بہت کم ہوتے ہٌں جو والعی اس ممصد پر استمامت اختٌار کرتے ہٌں،خٌر آہستہ آہستہ سمجھ جاإ "
"کٌوں خٌرٌت؟ مٌں تو خوش ہوگئی تھی کہ مجھے ہللا نے اتنی اچھی دوست دے دی"
"ان شاءہللا"
"مگر جانے سے پہلے مٌں دٌنی ساتھی ہونے کی حٌثٌت سے آپکو کچھ نصٌحت کرنا چاہتی ہوں"
"جی ضرور"
دٌکھو ہللا سبحانہ وتعالی کا جتنا شکر کٌا جائے وہ کم ہے ،اس نے آپکو ہداٌت کے لٌے چنا ہے نا ،تو آپ نے اس "
کتاب کی بہت لدر کرنی ہے،آپ نے اپنی زندگی کو بالکل ضائع نہٌں کرنا،اس زندگی کو ممصد دٌنا ہے،آپکا مرنا اور
جٌنا صرف اس رب کی خاطر ہو جس نے آپکو پٌدا کٌا،دٌکھو ہللا آپکو جو بھی حکم دٌں گے آپ نے فورا سے سر
جھکا کر مانتے جانا ہے،خواہ وہ کوئی شرٌعت کا حکم ہوٌ،ا ذاتی زندگی مٌں اسکا کوئی فٌصلہ،آپ نے ہمٌشہ بندگی
دکھانی ہے اسے،ساری دنٌا مخالف ہوجائے،آپ نے صحابہ کے نمش لدم پر چلتے ہوئے دٌن پر کمپرومائز نہٌں
کرنا،اور سنو،ہللا کی رضا کو،اسکے دٌدار کے حصول کو،اسکی جنت کو اپنی زندگی کا ممصد بنا لو،اسے موٹٌوٌشن
بناإ،اسکے لٌے اٌسی تڑپ رکھو کہ آپکو اس رب کے لٌے کچھ بھی کرنا،مشکل نہ لگے،اٌسی زندگی گزارنا کہ موت
کے ولت آپکا رب آپکو اپنی رضاإں کی خوشخبرٌاں سنائے،اور ہاں سب سے بڑھ کر بس اسی سے محبت کرنا
"ان باتوں کو اپنے دل پر لکھ لو،کبھی مٹنے مت دٌنا،مٌں چلتی ہوں ،ہللا آپکا حامی و ناصر ہو۔
وہ مسکراتے ہوئے وٌل چئٌر کو اپنے ہاتھوں سے تٌزی سے موڑتے ہوئے کالس رووم سے باہر چلی گئی،
فاطمہ وہٌں کی وہٌں کھڑی،سکتے مٌں خالی دروازے کو تکتی رہی،
کٌا تھا اسکی باتوں مٌں،وہ لمحوں مٌں اسے کٌا کچھ جتا گئی،کٌا کچھ سکھا گئی،اسکےرونگٹے پوری شدت سے
کھڑے ہوچکے تھے ،دل رب کے آگے جھک رہا تھا،آنکھٌں بہہ پڑی تھٌں،نور کی باتٌں اسکے کانوں مٌں اٌسے گونج
رہی تھٌں کہ وہ اردگرد سے بے پرواہ کھڑی تھی۔۔
اسکے لٌے دعا کرنا کہ ہللا آسانی فرمائٌں،بہت دور سے پڑھنے آئی تھی،صرف دٌن سٌکھنے کے لٌے اتنی مشمت "
اٹھائی ہوئی تھی،مگر کچھ دن پہلے اطالع آئی،کہ اسکی ماں مر گئی ہے،باپ تو بچپن مٌں ہی فوت ہوگٌا تھا،آج وہ
صرف ٌہی بتانے آئی تھی کہ اسکا ٌہاں آخری دن ہے،اب اسے جا کر اپنے چھوٹے بہن بھائٌوں کو سنبھالنا ہے،ہللا رحم
"فرمائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
"نائلہ کا رشتہ آٌا ہے شہرٌار ،بہت اچھے اور بڑے گھر کے لوگ ہٌں"
آج اسکی والدہ کے چہرے پر خوشی کے آثار واضح تھے ،شہرٌار ابھی بک سٹور سے گھر آٌا ہی تھا،کہ والدہ نے
فورا سے ٌہ خوشخبری سنائی،وہ واش بٌسن سے منہ ہاتھ دھو رہا تھا اور ساتھ ساتھ ماں کی باتٌں سن رہا تھا
وہ ساتھ والی خالہ صفٌہ ہٌں نا،وہ لے کر آئٌں تھٌں لڑکے کی ماں کو،بہت بڑی گاڑی پر آئے تھے وہ،ہماری تو تنگ "
گلی تھی،ان بٌچاروں نے نکڑ پر کھڑی کی،مجھے تو شرمندگی مارے جا رہی تھی مگر مجال ہے اس لڑکے کی ماں
"کے ماتھے پر کوئی شکن ہو،بڑی خوش ہو کر ملٌں،نائلہ کو بھی بڑے پٌار سے دٌکھ رہی تھٌں،
اسکی والدہ جٌسے خوشی مٌں سارے دن کی روداد سنائے جا رہی تھٌں،شہرٌار اب فرٌش ہو کر ماں کے ساتھ آ بٌٹھا
تھا،
"اماں۔۔۔۔انشورنس کمپنی؟؟"
ہاں تو اور کٌا،ماشاءہللا کتنے الکھ کماتا ہے مہٌنے کے،ہماری نائلہ تو عٌش کرے گی،اور تو اور ،اکلوتا بٌٹا ہے ماں "
"باپ کا
"لو اب بھال مٌں ٌہ پوچھتی اس کی ماں سے؟سب مسلمان ہٌں بٌٹا اب بھال ٌہ باتٌں پوچھتے ہوئے اچھا لگتا ہے بندہ ؟"
"تو کٌا اپنی بٌٹی کو بٌاہتے ولت نہٌں دٌکھٌں گی کہ وہ بندہ اپنی آخرت سنوارنے کے لٌے کٌا کر رہا ہے؟"
تو کٌسی عجٌب باتٌں کرنے لگ گٌا ہے شہرٌار،پہلے تو اٌسا نہٌں تھا تو ،پتہ نہٌں کہاں کس کے پاس جانے لگ گٌا "
"ہے
اماں کچھ غلط نہٌں کر رہا مٌں،آپ تسلی رکھٌں،بس گمراہی سے نکلنا چاہ رہا ہوں،بہرحال آپ اس لڑکے کے دٌن کا "
"پتہ کرٌں اس خالہ سے،اسکی جاب سے تو مٌں بالکل مطمئن نہٌں،بندہ تھوڑا کھائے حالل کھائے
"اماں دنٌا مٌں ان حرام کے کاغذوں کے ٹکڑوں پر عٌش کرنے والے کل اپنے رب کو کٌا منہ دکھائٌں گے؟"
شہرٌار مٌرا دماغ نہ خراب کر،تو جا ٌہاں سے،ہللا ہللا کرکے اٌک اچھے گھر کا رشتہ آٌا ہے اب تو ٹانگ مت اڑانا "
"اس مٌں
اسکی والدہ کو اچانک سے غصہ آگٌا تھا ،شہرٌار حٌران رہ گٌا کہ اسکی ماں کو آخر ہو کٌا گٌا ہے،وہ تو اٌسی نہٌں
تھٌں،کٌا مال والعی اٌسا نشہ رکھتا تھا کہ انسان کو لبر بھول جائے؟حشر کا دن اور اسکا سخت حساب بھول جائے؟
اسے وہ حدٌث ٌاد آئی جو اسے معاذ نے سنائی تھی۔جب وہ اسے بتا رہا تھا کہ کبھی کبھار وہ اپنے کسٹمرز سے کٌسے
چھپا لٌتا تھا،اس پر معاذ نے بس ) (Faultجھوٹ بول کر زٌادہ پٌسے وصول کرلٌا کرتا تھا ٌا کسی پروڈکٹ کا نمص
اٌک حدٌث سنائی جس نے شہرٌار کے رونگٹھے کھڑے کر دئٌے تھے۔۔
:نبی ﷺ نے فرماٌا
لٌامت کے دن ابن آدم کے لدم اپنے رب کے پاس سے اس ولت تک حرکت نہٌں کرٌں گے جب تک اس سے پانچ "
سوال نہ کر لئے جائٌں ۔اس کی عمر کے متعلك کہ کس کام مٌں ختم کی؟ اس کی جوانی کے متعلك کہ کس کام مٌں
"بوسٌدہ کی؟ اس کے مال کے متعلك کہ کہاں سے کماٌا؟ کہاں خرچ کٌا؟ اور جتناعلم تھا اس پر کتنا عمل کٌا؟
اے پٌغمبر ! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم ہللا سے محبت رکھتے ہو تو مٌری اتباع کرو ،ہللا تم سے محبت کرے ("
"گا اور تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا ۔ اور ہللا بہت معاف کرنے واال ،بڑا مہربان ہے ۔
اسے ہللا کی محبت پانی تھی ہر سنت پر عمل اسی نٌت سے کرتی تھی،کہ ہللا مجھے آپکی محبت چاہٌے،دنٌا کی
محبتوں کی حمٌمت دٌکھنے کے بعد ہی انسان ہللا کی محبت کا مزہ چکھ سکتا ہے،وہ ان حمٌمتوں کو اپنی آنکھوں سے
!!دٌکھ چکی تھی۔۔
دنوں سے ہفتے،ہفتوں سے مہٌنے گزرتے جا رہے تھے،مسزرٌان نے فاطمہ کو زٌادہ نوٹس نہٌں لٌا تھا،وہ جب دٌکھتٌں
کہ بٌٹی ہر بات مانتی ہے،پہلے کی نسبت انکا زٌادہ خٌال رکھنے لگی ہے محبت اور ادب لہجے مٌں بڑھ گٌا ہے تو اس
چٌز نے انکے دل کو فاطمہ کے لٌے مزٌد نرم کردٌا تھا،مگر انبٌاء اور صحابہ کی سنت ہے کہ ہللا کے لٌے دٌن پر
چلنے والوں کے رستوں پر محبتوں سے پہلے آزمائشوں کے کانٹے ہوا کرتے ہٌں،جن پر انھٌں استمامت سے چلنا ہوتا
ہے،پھر ہی پھولوں سے زٌادہ خوبصورت اور حسٌن منزل (جنت) مال کرتی ہے،فاطمہ کی آزمائش بھی اس دن شروع
ہوئی جب اس نے سورت النور مٌں پردے کا حکم پڑھ کر عباٌا خرٌد کرگھر لے آئی تھی۔
"ماما،مٌں پردہ کرنا چاہتی ہوں،آج مٌں سورت النور مٌں ہللا کا حکم۔۔"
فاطمہ تمھارا دماغ ٹھٌک ہے؟؟ اب مزٌد کونسا پردہ رہتا ہے؟اتنی بڑی چادر مٌں تو لڑھکتی پھرتی ہو اب کٌا ٹٌنٹ مٌں "
بند ہونے کا ارادہ کرلٌا ہے؟
مسز رٌان کو اچانک غصہ آٌا تھی،انھوں نے فاطمہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی سخت ڈانٹ پال دی تھی،
"ہاں تو وہی پوچھ رہی ہوں اور کونسا پردہ رہتا ہے تمھارا؟؟"
انکی اونچی آواز سن کر فاطمہ کا چھوٹا بھائی اپنے کمرے سے نکل آٌا
دٌکھو اپنی بہن کے کام،اب اس نے پوری ملوانی بننا ہے،پہلے چادر پہن کر ہمٌں خاندان مٌں شرمندہ کرتی پھرتی "
i don't knowکٌا تم پاگل ہوگئی ہو فاطمہ)آج تک تم نے ماما کو ٌا خاندان مٌں کسی کو دٌکھا ہے اٌسے حلٌے مٌں( ،
مت کرو،اس طرح کی فضول penicماما کو مزٌد look fatimaبرلعہ؟رائٹ؟ i think itsکہ اسے کٌا کہتے ہٌں،
"کے متعلك کچھ بہتر سوچتے ہٌں future ،ضدٌں چھوڑو،ہم مل کر تمھارے
"بھائی کٌا آپ جانتے ہٌں مٌرے فٌوچر کے لٌے بہترٌن کٌا ہے؟"
مجھے اپنی زندگی کو ضائع نہٌں کرنا،مجھے اسے وٌسا گزارنا ہے جٌسے مجھے اور آپکو پٌدا کرنے والے رب نے "
حکم دٌا ہے،آپکو بتاإں ہمارا فٌوچر کٌا ہے؟موت۔۔۔اور اسکے بعد لٌامت کا دن،جب ہللا تعالی کو اپنے کٌے ہر ہر عمل
فضول so calledکا حساب دٌنا ہے،مجھے ڈر لگتا ہے اپنے اس فٌوچر سے،مجھے اسکو بہترٌن بنانے کے لٌے ان
itضدوں کو پورا کرنا ہے،مجھے پرواہ نہٌں ہے کہ کون اس حلٌے مٌں رہا ہے،اور کون نہٌں،لوگ کٌا کہتے ہٌں
پہلے لوگوں نے کونسے اٌوارڈز دے دئٌے ہٌں؟کٌا وہ مٌری لبر مٌں جائٌں گے؟ doesn't matter to me at all,
کٌا وہ مٌری جگہ ہللا کو جواب دٌں گے ہللا فاطمہ کو معاف کردٌں اس نے ہماری خوشی کی خاطر پردہ نہٌں کٌا
"تھا؟بتائٌے؟ کٌا آپ مٌری لبر مٌں مٌرے ساتھ لٌٹٌں گے؟
"فاطمہ تم اتنی بدتمٌز ہوگئی ہو کہ ماں کے سامنے زبان چالإ گی اب؟ٌہ سٌکھ رہی ہو تم؟"
"ماما مٌں بھٌا کی بات کا جواب دے رہی ہوں،آپکو برا لگا تو آئی اٌم رٌلی سوری۔"
فاطمہ نے اپنا لہجہ دھٌما کرتے ہوئے ماں کی طرف رخ کرکے جواب دٌا
نہٌں کرسکتی،جاإ اب Sufferبہرحال،آئندہ تم پردے کا نام بھی نہٌں لو گی،سمجھی تم؟مٌں تمھاری وجہ سے مزٌد"
اپنے کمرے مٌں!!!!"۔
!!سٌف اور مسز رٌان ماتھے پر شکن لٌے اٌک دوسرے کو تکتے ہی رہ گئے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
فاطمہ آنسو ضبط کرتے ہوئے کمرے مٌں داخل ہوئی اور اندھٌرے کمرے کے بند دروازے کے ساتھ ٹٌک دے کر
کھڑی کتنی ہی دٌر روتی رہی،اب کی بار دل خاموش تھا،بس آنسو روانی سے بہہ رہے تھے،وہ جان چکی تھی جنت
کی راہ آسان نہ تھی،اس لٌے وہ زبان سے کوئی شکوہ نہٌں کرنا چاہتی تھی،دل ٹوٹا تھا۔۔اسکے ٹوٹنے کا اثر آنکھوں کو
دھندالئے جا رہا تھا۔۔ٌکاٌک اسے کچھ ٌاد آٌا۔۔وہ آنسو صاف کرتے ہوئے واش روم کی طرف چلی گئی۔۔
وہ وضو کرنے کے لٌے بٌسن پر جھکی ہوئی تھی کہ اچانک اسکی نظر بٌسن مٌں جاتے پانی پر پڑی ،پانی کا رنگ
سرخ ہو رہا تھا گوٌا کسی نے رنگ ڈاال ہو۔۔
وہ پانی کھال چھوڑے ٌک دم سے ڈر کر پٌچھے ہوئی۔۔اور حٌرت سے پھٹی آنکھوں سے پانی کو غور سے دٌکھنے
لگی۔۔
سرخ پانی بٌسن کے سوراخوں سے جا چکا تھا مگر اپنے نشان چھوڑ دئٌے تھے۔۔
اسے سمجھ نہٌں آرہا تھا کہ ٌہ رنگ پانی مٌں آٌا کہاں سے۔۔
ابھی وہ حٌرانی سے دٌکھ ہی رہی تھی کہ اچانک سے اسے لگا کہ اسے کے منہ مٌں کچھ آٌا ہے وہ فورا سے آگے
بڑھ کر بٌسن پر جھکی اور ابکائی کی۔۔
اسکا دل دھڑکنا بھول گٌا تھا،ہاتھ کانپ رہے تھے،ماتھا پسٌنے سے شرابور تھا۔۔
وہ رنگ نہٌں تھا،وہ خون تھا جو اسکے منہ سے نکال تھا۔۔اور اب خون کی الٹی۔۔۔
وہ بہت ڈر گئی تھی،کٌا اس پٌٹ کے درد کو اس نے اگنور کرکے کچھ غلط کردٌا تھا،،؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مغرب کا ولت ہونے واال تھا،لرة العٌن کے کمرے کی کھلی کھڑکھٌوں سے آنے والے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور اس
مٌں ملے ان گالب اور کلٌوں کے پھولوں کی خوشبو نے کمرہ کو معطر کردٌا تھا،جو اس نے پٌچھے پالٹ مٌں لگا
رکھے تھے،وہ عصر کی نماز اور شام کے اذکار سے فارغ ہو کر پلنگ پر کاغذ اپنے سامنے بکھٌرے ،پٌچھے ٹٌک
لگا کر بٌٹھی ،آنکھٌں بند کرکے ہٌڈفونز پر لاری عبدالعزٌز الزہرانی کی تالوت سن رہی تھی،انکی آواز مٌں ہللا نے اٌسا
اثر رکھا تھا کہ سننے والے کا دل خشوع سے بھر جاتا تھا۔ وہ اکثر سوچتی تھی کہ ذہنی سکون کے لٌے
سننے والے اگر انھی آالت پر لرآن کی تالوت سمجھ کر سن لٌں تو songsسپٌکرز،بووفرز،ہٌڈ فونز پر فل والٌوم مٌں
!!انکا دل دہل جائے،رونگٹھے کھڑے ہو جائٌں،آنکھٌں بہہ پڑٌں،دل سکون سے بھر جائےٌ،ہ اٌسا پراثر کالم ہے
اچانک اسکے کمرے کے کھلے ہوئے دروازے پر دستک ہوئی،اس نے آنکھٌں کھول کر آنسو صاف کرتے ہوئے دٌکھا
تو معاذ تھا۔۔
اسکی عادت تھی وہ گھر ہو ٌا کمرہ،اپنے آنے سے پہلے اپنی موجودگی کا احساس ضرور دالٌا کرتا تھا تاکہ اندر واال
جان لے۔۔
وہ مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا
اسکے پرنور چہرے پر گھنی سٌاہ داڑھی سے پانی کے لطرے موتٌوں کی مانند ٹپک رہے تھے،ماتھے کے محراب
سے عجب نور پھوٹتا تھا۔۔ وہ لمٌض کی فولڈ کی ہوئی آستٌنٌں نٌچے کرتے ہوئے مسکرا کر سالم کرتے ہوئے لرة
العٌن کے پاس آکر بٌٹھ گٌا
"کتنی خوشمسمت ہو گی وہ لڑکی جسے بھٌا جٌسے نٌک شوہر ملٌں گے"
ذہن مٌں اٌک ہلکی سی جھلک آئی۔۔اس لڑکی کی۔۔مگر اس نے جھٹک دٌا
اسے اپنے جوان بھائی کو دٌکھ کر بہت رشک آتا تھا،وہ بڑے پٌار سے دٌکھتے ہوئے دل ہی دل مٌں اپنے ہللا سے نٌک
زوج کی دعا کرنے لگی۔
اج َع ۡلنَا ِل ۡل ُمت َّ ِم ٌۡنَ اِ َما ًما " َربَّنَا ہ َ ۡب لَنَا ِم ۡن اَ ۡز َو ِ
اجنَا َو ذُ ِ ّرٌتِنَا لُ َّرة َ ا َ ۡعٌُ ٍن َّو ۡ
ترجمہ:اے ہمارے پروردگار! تو ہمٌں ہمارے زوج اور اوالد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمٌں پرہٌزگاروں (
)الفرلان(74:
"اٌسے کٌا دٌکھ رہی ہٌں جناب؟؟ زٌادہ ہی پٌارا لگ رہا ہوں کٌا؟؟"
"استغفرہللا"
پتہ بھٌا،ابو کے بعد امی بہت اداس رہتی ہٌں،ہللا کے ہر فٌصلے مٌں حکمت ہوتی ہے،ہم اسکے فٌصلوں پر راضی "
"ہٌں،مگر کبھی کبھی حکمتٌں ڈھونڈنے کے باوجود بھی نظر نہٌں آتٌں،دل بس ڈگمگاتا ہی رہتا۔۔
عٌنی،ہللا پر بھروسہ رکھو،ضروری تو نہٌں کہ وہ اپنی ہر حکمت دکھائے،بعض دفعہ ہمارا اٌمان بالغٌب بھی آزماٌا "
جاتا ہے،جو نظر نہٌں آرہا اس پر بھی آنکھٌں بند کرکے اٌمان لے آنا،بنا کوئی سوال کٌے خود کو جھکا دٌنا۔۔مٌں سمجھ
سکتا ہوں امی کس کرب سے گزر رہی ہٌں،مٌں نے انھٌں چھپ چھپ کر روتے دٌکھا ہے،انھٌں کچھ تمھاری فکر بھی
"بڑھ گئی ہے اب
"مٌری؟کٌوں؟"
"تمھاری شادی کی،انھٌں ٌہ فرض اب ابو کے بغٌر پورا کرنا ہے،تو اسی کا بوجھ انھٌں تھکا رہا ہے"
معاذ کی بات سن کر لرة العٌن ٌک دم اداس ہو گئی۔آنکھٌں پھر سے نم ہو گئٌں۔اسکے ذہن مٌں اٌک مہٌنے پہلے کا سارا
منظر گھوم گٌا۔جب اسکے بھائی نے والد کی شہادت کی خبر دی تھی،وہ جنگ زدہ عاللوں مٌں امت مسلمہ کی مدد
کرنے والی اٌک تنظٌم کا رکن تھے،اپنے مسلمان بہن بھائٌوں کوکافر دشمنوں سے بچاتے بچاتے اپنی جان دے دٌنا
کسی اعزاز سے کم نہ تھا،اور ٌہ بات عٌنی اور اسکی والدہ بخوبی جانتی تھٌںٌ ،ہ خبر سننے کے بعد کچھ لمحات کے
لٌے تو دونوں دونوں ماں بٌٹی سکتے مٌں خالی آنکھوں سے کبھی اٌک دوسرے کو دٌکھتے تو کبھی معاذکو۔۔
ہم ہللا کی رضا پر راضی ہٌں امی،اور اس سے اجر کی امٌد رکھتے ہٌں ان شاءہللا،ہللا ابو کے درجات بلند فرمائٌں "
"آمٌن
پتہ نہٌں کٌا اثر تھا،کٌا ٌمٌن تھا ان الفاظ مٌں،کہ دونوں ماں بٌٹی نے کوئی شکوہ،کوئی بات نہٌں کی،بہتے آنسوإں کے
ساتھ اٹھٌں اور وضو کرکے اپنے اپنے کمرے مٌں جائے نماز بچھاکر نفل ادا کرنے لگٌں۔۔۔
وہ ہللا کے اس حکم
ص ۡب ِر َو ال َّ
صلوةِ است َ ِع ٌۡنُ ۡوا ِبال َّ
َو ۡ
پر عمل کرتے ہوئے روتی جاتی تھٌں،نماز ادا کٌے جاتی تھٌں،نجانے کتنے نوافل انھوں نے ادرگرد سے بےخبر
روتے ہوئے ادا کٌے،معاذ جانتا تھا ٌہ ولت بہت نازک ہے،مگر وہ دل ہی دل مٌں ہللا کا شکر ادا کٌے جا رہا تھا کہ
اسکی بہن اور والدہ نے اتنی بڑی مشکل کے ولت مٌں صبر کا دامن ہاتھ سے نہٌں جانے دٌا،اسے ہللا سے اس صبر
کے بدلے بہترٌن اجر کی امٌد تھی۔۔
ٌا ہللا ہم راضی ہٌں آپکی رضا پر،آپ ہم سے راضی ہوجائٌں،اس سخت غم کے مولع پر وہی الفاظ کہتی ہوں،جو آپکے "
پٌارے رسول ﷺ نے فرمائے،دل غمگٌن ہے،آنکھ آنسو بہاتی ہے،مگر زبان سے وہی نکالٌں گے جس سے ہمارا رب
راضی ہو،ہللا مجھے آپکی رضا چاہٌے ،ہللا مجھے ٌمٌن ہے کہ اٌک دن آئے گا جب ہم ابو سے ملٌں گے،ہللا تعالی،پلٌز
وہ دن ہماری زندگی کا سب سے خوبصورت دن ہو،ہم اٌک دوسرے سے بہترٌن حالتوں مٌں جنت کے اعلی ممام پر
"ملٌں،ہللا ہمارے دلوں کو اپنی رضا پر راضی کردٌں،صبر انڈٌل دٌں،پلٌز ہللا تعالی۔۔صبر انڈٌل دٌں۔۔
وہ کہتی جا رہی تھی اور سسکتی جا رہی تھی،باپ کا ہنستا ہوا چہرہ آنکھوں کے سامنے آتا جا رہا تھا،دکھ تو ٌہ تھا کہ
آخری دفعہ بھی انھٌں دٌکھنے سے آنکھٌں محروم رہ گئٌں۔۔مگر وہ ہللا کی رضا مٌں سرگرداں۔۔خود کو سنبھالنے کی
مکمل کوشش کررہی تھی،ہللا کٌوں نہ صبر دٌتا اٌسے لوگوں کو،کٌوں نہ تھامتا انھٌں،جو اسکی خاطر اسکے دئٌے ہر
فٌصلے پر خود کو جھکا لٌتے ہٌں،خواہ اپنے نفس پر کتنا ہی بھاری ہو،کبھی شکوہ نہٌں کرتے،کبھی اپنے رب سے
!!ماٌوس نہٌں ہوتے،اٌسوں ہی سے تو وہ محبت کرتا ہے،اٌسوں ہی کے ساتھ تو اسکی معٌت خاص ہوتی ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
"بی بی جی،بٌگم صاحبہ کہہ رہی ہٌں تٌار ہو جائٌے،شام کو حٌدر بابا کے لٌے لڑکی دٌکھنے جانا ہے"
صغراں نے فاطمہ کے کمرے مٌں داخل ہوتے ہوئے کہا
فاطمہ جو کہ سوچوں مٌں گم ۔۔اپنی کتابٌں بک شٌلف مٌں درست کررہی تھی۔۔صغراں کے اچانک آنے پر چونک پڑی
"پتہ نہٌں بی بی جی،بڑی بی بی جی تو دو دن سے تٌاری کررہی ہٌں،شاٌد حٌدر بابا نے پرسوں ہی انھٌں بتاٌا ہے"
"اوہ۔۔اچھا۔۔ٹھٌک ہے"
فاطمہ نے جاتی ہوئی صغراں کو دٌکھتے ہوئے سوچا جو اب تک دروازہ بند کرکے جا چکی تھی،صغراں تب سے
مسز رٌان کے گھر کام کرتی تھی جب سے فاطمہ پٌدا ہوئی تھی،تب صغران کنواری اور جوان لڑکی تھی،اب اسکے
چھے بچےپٌدا ہو چکے تھے،وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ مسز رٌان کی کوٹھی کی پچھلی سائڈ پر بنے سرونٹ
کوارٹر مٌں رہتی تھی۔بہت اٌماندار اور خلوص والی عورت تھی۔
"تم گھر بٌٹھو تو کچھ بتاوں ،تمھاری تو اپنی زندگی ہے کسی اور سے کٌا لٌنا دٌنا "
فاطمہ جانے سے آدھا گھنٹہ مسز رٌان کے کمرے مٌں ڈرتے ڈرتے آئی ،وہ صبح کو ڈانٹ سن چکی تھی۔۔اس لٌے خود
کو نارمل رکھنے کی پوری کوشش کی جٌسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔۔مسز رٌان ڈرٌسنگ کے سامنے کھڑی اپنے بال
سٹرٌٹ کرنے مٌں مصروف تھٌں،انھوں نے فاطمہ کو ڈرٌسنگ ٹٌبل کے مرر سے ہی دٌکھتے ہوئے ہواب دٌا تھا۔۔
خٌر ،تمھارے بھائی کی پسند ہے،ڈاکٹر ہے،تمھارے بھائی کو تو وٌسے بھی ڈاکٹر چاہٌے تھی اس نے پہلے ہی کہہ "
رکھا تھا کہ مٌں خود ڈھونڈوں گا،تصوٌر دکھائی تھی حٌدر نے،پٌاری بھی ہے،آج ان شاءہللا دٌکھ آوں گی،اگلے ہفتے
"تمھارے بابا آرہے ہٌں پھر ہم سب جلد ہی فائنل کردٌں گے۔۔شاٌد لڑکی والوں کو بھی جلدی ہے۔۔
اچھا ماشاءہللا،ہللا سب بہترکرٌں،بھائی کو ڈھٌروں خوشٌاں دکھائٌں،آمٌن"۔"
مسز رٌان نے ڈائی شدہ بالوں مٌں انگلٌاں پھٌرتے ہوئے فاطمہ کی اس بات کو بالکل اگنور کرتے ہوئے پوچھا
خٌر تم آج کٌا پہن رہی ہو؟ وہ جو پچھلے وٌک ڈٌزائر سے تمھارے لٌے آوٹ فٹ منگواٌا تھا نا لٌمن کلر کا،وہ تم پر "
ابھی وہ ٌہ بات کر ہی رہی تھٌں کہ اتنے مٌں مسز رٌان کا فون بجا۔۔
فاطمہ کے چہرے کا رنگ اڑ چکا تھا۔۔وہ کٌا بتانے آئی تھی اور اب کٌا نئی آزمائش اسکے سامنے کھڑی تھی۔۔
اپنی بات ختم کرتے ہی مسز رٌان فون سننے مٌں مصروف ہو گئٌں۔۔
فاطمہ اداس چہرہ لٌے انکے رووم کا دروازہ بند کرتے ہوئے نٌچے اپنے کمرے مٌں آگئی۔۔اور الماری سے اپنا نٌا عباٌا
نکال کر
ڈرٌسنگ کے شٌشے کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔۔۔
سورت نور کی آٌت اسکے کانوں مٌں گونجی۔۔۔نور۔۔۔۔وہ کٌسے خود کو نور سے محروم کردے؟؟وہ نور جو خود کو ہللا
کے لٌے چھپائے بغٌر نہٌں ملتا۔۔۔۔آنکھ سے آٌک آنسو نکل کر ہاتھ مٌں پکڑے نرم و مالئم سٌاہ عباٌا پر گر کر جذب
ہوگٌا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو ماہ سے شروع ہوئی شادی کی تٌارٌاں آج اپنے اختتام پر پہنچ چکی تھٌں،آج رات نائلہ کی رخصتی تھی،شہرٌار اس
رشتے سے بالکل خوش نہٌں تھا مگر اسکی ماں اسے کچھ بھی بولنے نہ دے رہی تھٌں ،اگر وہ کچھ کہنے بھی لگتا تو
بس اٌک ہی جملہ کہتٌں۔
"تو نے کونسا بہن کے لٌے اچھے رشتے دکھادئٌے ہٌں جو اب تٌرے کہنے پر اس رشتے سے ہاتھ دھو بٌٹھوں؟"
ٌہ سن کر وہ سرجھکا لٌتا،درست ہی تو کہہ رہی تھٌں اماں ،کہاں ملتے تھے آج نٌک اور شرٌف لڑکے۔۔نہ اسکا سوشل
سرکل بڑا نہ اسکی بہن دٌندار۔۔والعی کہاں سے ڈھونڈتا وہ۔۔اس لٌے خاموش ہوجاتا۔۔
"کٌسی لگ رہی ہوں شہرٌار؟"
رات کووہ کرائے کی لی سجی ہوئی گاڑی پر اسے پارلر سے لٌنے آٌا تھا۔۔پارلر کے دروازے سے نکلتی نائلہ تو کسی
اور ہی جہاں کی شہزادی لگ رہی تھی۔۔بالشبہ وہ خوبصورت تھی۔۔مگر شادی کا الگ ہی روپ ہوتا ہے۔۔اسی روپ مٌں
وہ ڈھلی معصوم اور شرمائی ہوئی سی گڑٌا لگ رہی تھی۔
"مٌرے خوش ہونے سے کٌا ہوتا ہے تم اور اماں خوش ہٌں مجھے اور کٌا چاہٌے؟"
اس نے اپنی نظرٌں جھکاتے ہوئے کہا شاٌد آنکھوں مٌں آنے والی نمی چھپانا چاہ رہا تھا۔۔
دونوں خاموشی سے گاڑی مٌں بٌٹھ کر مٌرج ہال کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"
"مگر غرٌب گھر کی لڑکی ہے پتہ نہٌں زنٌرہ نے اپنے سٹٌنڈرڈ کے لوگوں مٌں کٌوں نہٌں رشتہ کٌا عزٌر کا"
زٌنرہ بڑی چاالک ہے،چھوٹے گھروں کی لڑکٌاں ذرا دب کر رہتی ہٌں ناں اس لٌے اس نے سوچ سمجھ کر ہاتھ مارا "
"ہے
شہرٌار شادی ہال مٌں مختلف عورتوں کے کمنٹس سن کر مزٌد پرٌشان سا ہورہا تھا۔۔ان سب کی نظرٌں سٹٌج پر تھٌں۔۔
جس پر نائلہ اور اسکا شوہر،عزٌر مل کر کٌک کاٹ رہے تھے۔۔
سٹٌج کے آگے بال کا طوفان تھا۔۔۔لوگ دھڑادھڑ اس نئے جوڑے کی تصاوٌر لٌنے مٌں مشغول تھے۔۔
شہرٌار کا دل کر رہا تھا وہ اٌک اٌک کا کٌمرہ اور موبائل پکڑ کر توڑ دے۔۔اسے اس لمحے انتہا کی بے بسی محسوس
ہورہی تھی۔۔وہ چاہ کر بھی کچھ نہٌں کر سکتا تھا۔۔۔ٌا شاٌد کر نہٌں پارہا تھا۔۔۔
آج بس نام کے ہی مولوی رہ گئے ہٌں۔انکو دٌن بس مسجد مدرسوں مٌں ہی ٌاد آتا ہے ورنہ بہن کی شادی اٌسی جگہ "
"کرتا؟
باراتٌوں مٌں سے دو عورتٌں شہرٌار کے پٌچھے کچھ فاصلے پر کھڑی اسکے متعلك باتٌں کررہی تھٌں جنھٌں اس نے
سن لٌا تھا۔۔
اس لمحے اسے شدٌد دکھ ہوا تھا۔۔پٌچھے مڑے بغٌر اس نے دکھ بھری اک نظر سٹٌج پر بٌٹھی بہن اور داماد پر ڈالی
جو اب اٌک دوسرے کو ہنستے ہوئے کٌک کھالنے مٌں مصروف تھے۔۔اردگرد کھڑے لڑکے واحٌات لسم کی ہووٹنگ
اور چٌخ و پکار کر رہے تھے جٌسے اس رومانٹک سٌن سے محظوظ ہورہے ہوں۔۔۔بٌک پر لگا ہلکا مٌوزک،عورتوں
کے لگائے پرفٌومز کی خوشبو سے ماحول مہکتا جا رہا تھا۔۔ہلکی تٌز ہوتی روشنٌاں اس مخلوط فنکشن مٌں بٌٹھے ہر
مرد و عورت کے جذبات شہوت کو ابھار رہی تھٌں۔۔
ہال اندر باہر سے جگمگا رہا تھا۔۔وٌٹرز کھانا سرو کرنے مٌں مشغول تھے۔۔شہرٌا کا انر مزٌد سانس لٌنا دشوار ہوگٌا
تھا۔۔۔
وہ تٌز تٌز لدم اٹھائے باہر آگٌا۔۔باہر لدرے سکون تھا۔۔ الن مٌں آکر وہ ہال کی اوٹ مٌں بنی اٌک دٌوار کے ساتھ ٹٌک
لگاکر کھڑا ہوگٌا۔۔دھڑکن تٌز تھی۔۔آنسو گوٌا حلك مٌں پھنس چکے تھے۔۔
اس نے تارٌک آسمان کی طرف نظرٌں اٹھائٌں۔۔جہاں جھلمالتے ستارے بھی شاٌد اس سے خفا لگ رہے تھے۔۔
"اے مٌرے رب۔۔۔مجھے معاف کردٌنا۔۔آج مٌری بے غٌرتی اور بزدلی کی وجہ سے تٌرے دٌن پر نام آگٌا"
آج بس نام کے ہی مولوی رہ گئے ہٌں،انھٌں دٌن تو بس مسجدوں اور مدرسوں مٌں ٌاد آتا ہے"۔۔"
"کٌا ٌہ نائلہ کی شادی پر آئی ہٌں؟اگر ہاں تو ٌہ اس ولت اندر کٌوں نہٌں ہٌں؟"
"اوہ بہت معذرت ٌار۔۔تم باہر کٌوں ہو؟ اندر کھانا سرو ہو رہا ہے؟"
"ہاں بس۔۔۔"
"ہاں ہاں الحمدہلل بھائی۔۔۔کوئی پرٌشانی کی بات نہٌں ہے۔۔بس نماز پڑھ کر آٌا تھا تو ادھر ہی بٌٹھ گٌا"
"کٌوں معاذ؟"
معاذ نے اداسی بھرے لہجے سے کہا کہ جٌسے اسے افسوس تھا اس نوجوان نسل کی اس غفلت بھری زندگی پر۔۔
بے حٌائی کے اس دور مٌںٌ،وسف (علٌہ السالم)کی سی روش اختٌار کرنے والے،بازی جٌت جاتے ہٌں،خواہ اٌمان کی
ہو ٌا دلوں کی ٌا جنتوں کی۔۔۔
ارے آپ کٌوں معذرت کررہے ہٌں شہرٌار بھائی۔۔کوئی بات نہٌں۔۔اچھے برے کا علم تو سب کو ہے نا۔۔بس شٌطان نے "
انھٌں نفسانی خواہشات مٌں مبتال کررکھا ہے۔۔انھٌں غفلت سے جگانے کی ضرورت ہے۔۔تمھٌں پتہ ہے جب مٌں پاکستان
کے ان جوانوں کو دٌکھتا ہوں نا۔۔مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے۔۔ہللا نے ان مٌں بہت پوٹٌنشل ،بہت خٌر رکھی ہے۔۔دٌکھو جو
انسان۔۔کسی دوسرے انسان (نامحرم) کی محبت مٌں سب کچھ چھوڑ سکتا ہے،حتی کہ جان دٌنے کی حد تک جا سکتا
ہے،مال کی محبت مٌں خود کو دن رات تھکا سکتا ہے،اوالد کی محبت مٌں راتٌں جاگ سکتا ہے۔۔سوچو اگر اسکے دل
مٌں ہللا کی محبت آجائے،جنت کو پانے کا شوق لگ جائے،جہنم سے بچنے کا خوف لگ جائے،تو کٌوں نہ وہ اپنی
زندگی اپنے رب کے نام کرے گا؟ وہ اسکی محبت مٌں خود کو تھکانے،راتوں کو جگانے،حتی کہ جان دٌنے تک کو
"تٌار ہو جائے گا۔۔۔بس انکو ڈائرٌکشن دٌنے کی ضرورت ہے۔۔۔
ہاں دوسروں کو گہری نٌند سے جگانے کے لٌے پہلے تو انھی کو ہی کوشش کرنی پڑتی ہے جو خود جاگ رہے "
"!ہوں۔۔
ہمٌں پھر بھی اپنی کوشش کرتے رہنا چاہٌے۔۔البتہ۔۔ہداٌت کا معاملہ تو والعی دو طرفہ ہے۔۔انبٌاء علٌہم السالم نے بھی "
اپنا پٌغام پہنچاٌا تھا۔۔۔جنھوں نے جاگنا پسند کٌا انھوں نے غفلت کی زندگٌاں چھوڑدٌں،اپنے آپکو ہللا کی راہوں مٌں ولف
کردٌا،اپنے جسم اسکی رضا پانے مٌں گھال دئٌے۔۔۔مگر جنھوں نے جاگنے کو پسند نہ کٌا۔۔غفلت اور نفس پرستی کی
"زندگی مٌں رہنا چاہا۔۔انھٌں انبٌاء کے پٌغام،معجزوں،کتابوں تک نے فائدہ نہ دٌا۔۔۔کفار مکہ کی مثال سامنے ہے۔۔
"ہوتا ہے۔۔وہ کٌا چووز کرتا ہے۔۔۔دنٌا اور اسکی فانی زندگی ٌا دٌن اور آخرت کی کامٌابی۔۔۔
شہرٌار کے پاس مزٌد کوئی جواب نہٌں تھا۔۔۔اس نے اثبات مٌں سر ہالٌا۔۔
"جی جناب۔۔آپ بھول گئے آپ نے مجھے فٌملی کے ساتھ انوائٹ کٌا تھا؟؟"
"شہرٌار۔۔۔جس رٌزن سے مٌں باہر ہوں،وہ بھی انھی وجوہات پر باہر بٌٹھی تھٌں۔۔۔"
مجھے بہت شرمندگی ہو رہی ہے معاذ۔۔۔۔تم خوشمسمت ہو کہ تمھاری فٌملی دٌن پر عمل پٌرا ہے۔۔ کاش مٌں بھی اپنی "
"فٌملی کو اسطرف ال سکتا۔۔تو آج ٌہ سب اندر نہ ہورہا ہوتا۔۔۔مٌرے باہر آنے کی وجہ بھی ٌہی سب فحاشی تھی۔۔
شہرٌار نے روہانسے لہجے مٌں کہا۔۔۔شرمندگی کا اٌک آنسو گر کر نٌچے گھاس مٌں چھپ گٌا۔۔
پٌچھے ہال مٌں چٌخوں لہموں اور تالٌوں کا شور بڑھتا جا رہا تھا۔۔۔
معاذ نے آگے بڑھ کر شہرٌار کو گلے سے لگا لٌا۔۔
"دل ہللا کے ہاتھ مٌں ہٌں،جو انکو بدل سکتا ہے اسی سے مدد مانگو۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ ندی کے کنارے،سبز گھاس پر بٌٹھی پانی مٌں نٌلے آسمان اور اس مٌں تٌرے سفٌد روئی کےگالوں جٌسے بادلوں کا
عکس دٌکھ کر بہت محظوظ ہو رہی تھی۔۔۔تھوڑی تھوڑی دٌر بعد اپنی انگلٌوں کو ندی کے پانی مٌں ڈال کر ہالتی جس
سے پانی پر ارتعاش پٌدا ہوتی تھی۔۔۔آسمان کا بنا ہوا وہ خوبصورت سا عکس۔ ہل جاتا تھا۔۔
وہ کمزور ہو گئی تھی۔۔اسکا وزن بہت گر چکا تھا۔۔ رنگ پٌال پڑ چکا تھا۔۔مگر مسکراہٹ وٌسی ہی گہری تھی۔۔اردگرد
بنے سٌاہ حلموں مٌں موجود آنکھوں کی چمک اب بڑھ چکی تھی۔۔اسکی آنکھٌں اسکے دل کے گہرے رازوں کی عٌاں
لگتی تھٌں۔۔مگر ہر اٌک کے پاس اٌسی نگاہ نہ تھی کہ ان رازوں کی حمٌمت کو پا سکے۔۔۔
سٌاہ عباٌا مٌں ملبوس۔۔چہرے پر نماب ڈالے۔۔وہ اس باغ مٌں اکٌلی بٌٹھی تھی۔۔پٌچھے بہت دور۔۔۔اسکے والدٌن بٌنچ پر
بٌٹھے اداس لہجے مٌں اسکو پٌچھے سے دٌکھ کر باتٌں کر رہے تھے۔۔۔مگر وہ اتنے دور تھے کہ فاطمہ کو انکی آواز
نہٌں آرہی تھی۔۔۔
وہ اپنی دنٌا مٌں مگن۔۔۔معصوم سی گڑٌا۔۔۔۔پانی سے کھٌلنے مٌں مگن تھی۔۔
مٌں نے سنا تھا کہ جب محبت ہوتی ہے تو ہر خوبصورت چٌز کو دٌکھ کر محبوب کی ٌاد آتی ہے،اس ٌاد مٌں لب خود "
ہی مسکراتے رہتے ہٌں،والعی اٌسا ہوتا ہے۔۔مجھے بھی محبت ہوگئی ہے ہللا۔۔اب کائنات کی ہرچٌز کو دٌکھ مجھے آپ
ٌاد آتے ہٌں۔۔آپکی ٌاد مٌرے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھٌر دٌتی ہے۔۔چار سو پھٌلے اس وسٌع نٌلے آسمان کو دٌکھ
کر،آنکھوں کو بھاتی ہری گھاس کو دٌکھ کر،ندی کےاس ٹھنڈے اور نٌلے پانی کو دٌکھ کر،آس پاس بکھرے ان رنگ
برنگے پھولوں کو دٌکھ کر،ٹھنڈی گدگداتی ہوا۔۔۔ مجھے ٌہ سب آپکی ٌاد ہی تو دالتے ہٌں ہللا۔۔ہاں۔۔۔ہللا مجھے آپ سے
"محبت ہو گئی ہے ۔۔
گہری ہوتی دلکش مسکراہٹ اور چمکتی آنکھوں سے اس نے آسمان کی طرف دٌکھ کر اپنے رب سے سرگوشی کی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٌں کٌسے اس سے شادی کرسکتی ہوں امی؟ آپ نے دٌکھا نہٌں تھا اسکی بہن کی شادی کٌسے ہوئی تھی؟ وہ دٌندار "
عٌنی۔۔تم نے کسی کے دل مٌں جھانک کردٌکھا ہے؟؟اگر تمھارا بھائی اس رشتے کے حك مٌں ہے تو تمھٌں بھروسہ "
نائلہ کی شادی کے تٌن ماہ بعد،شہرٌار کی والدہ نے شہرٌار کے مجبور کرنے پر معاذ کے گھر آ کر لرة العٌن کا رشتہ
مانگا تھا۔۔۔ان دونوں ماں بٌٹی نے شہرٌار کو نائلہ کی شادی پر دور سے دٌکھا تو تھا۔۔مگر مکمل طور پر جانتی نہ
تھٌں۔۔لرة العٌن اچانک سے اس سب کے لٌے ذہنی طور پر تٌار نہ تھی۔۔۔اس نے تو نٌک اور عالم شوہر کے لٌے دعائٌں
کی تھٌں۔۔۔جو اسکے دٌن مٌں اسکو آگے بڑھاتا۔۔اسکا ہاتھ پکڑ کر جنت کے رستے پر لے چلتا مگر ٌہ۔۔۔۔
پٌچھے کھڑے معاذ نے کہا۔۔غالبا کمرے مٌں داخل ہوتے ہوئے اس نے عٌنی کی ساری باتٌں سن لی تھٌں۔۔
تم کٌسے کسی کی پارسائی کو جج کر سکتی ہو؟اگر وہ اٌک مولع پر دٌن کے کسی حکم پر عمل کرنے مٌں ناکام ہوگٌا "
جو بھی مطلب تھا۔۔مجھے آدھا سال ہوگٌا ہے اسکے ساتھ ولت گزارے۔۔وہ مٌرے ساتھ مل کر لرآن سٌکھتا ہے،وہ "
فرائض کا پابند ہے،وہ اپنی ذات پر مکمل طور پر دٌن نافذ کرنے کی کوشش مٌں لگا ہوا ہے،اس نے بری
صحبت،فلمٌں،گانے،سگرٌٹ،حرا کمائی ہر چٌز چھوڑ دی ہے۔۔اسے پردہ دار اور دٌندار بٌوی چاہٌے۔۔کٌا ٌہ اسکی دٌن
"سے محبت نہٌں؟
لرة العٌن نے شرمندگی سے سر جھکا لٌا۔۔۔اسے اپنے کہے پر افسوس ہوا۔۔۔کسی کو مکمل جانے بغٌر،اسکی ذات کا
اٌک پہلو دٌکھ کر،اسکی اٌک خامی دٌکھ کر۔۔وہ کٌوں اٌسے رائے لائم کرگئی؟اور رائے کے بعد۔۔۔اٌسے الفاظ زبان
پر۔۔۔
"سوری بھٌا۔۔۔"
اٹس اوکے۔۔اپنے کہے پر استغفار کرو۔۔۔اور ہاں استخارہ کرنا۔۔امی آپ بھی استخارہ کٌجئٌے گا۔۔مٌں بھی کر چکا ہوں "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
اس نے مسکرا کر جھکتے ہوئے اپنے والدٌن کی طرف دٌکھتے ہوئے کہا۔۔
رٌان صاحب نے فاطمہ کو دٌکھتے ہی مسکراتے ہوئے کہا اور اپنے پاس بٹھا لٌا۔۔
مسز رٌان بھی پاس بٌٹھٌں اسے اداس مسکراہٹ سے دٌکھ رہی تھٌں۔۔
جی بابا،بس ابھی آئی۔۔آپ لوگوں کو شاٌد ڈسٹرب کردٌا،آپ بھی کہتے ہوں گے کہ ہمٌں اتنی خوبصورت جگہ پر بھی "
فاطمہ نے شرارتی سی ہنسی ہنستے ہوئے اپنا نماب نٌچے کرتے ہوئے کہا۔۔
اسکے ماما بابا دونوں نے بلند آواز مٌں لہمہہ لگاٌا،مگر اس باغ کے ہر شجر،ہر پرندے نے انکے لہمہوں مٌں اداسی کو
محسوس کٌا تھا۔۔کچھ تھا انکے لہمہوں مٌں،جو انکے ٹوٹے دلوں کی غمازی کررہا تھا۔۔ہنستے ہنستے ان کی آنکھوں
مٌں نمی آگئی۔۔
"ہم دونوں کا سکون تو تم ہو بٌٹا،ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک"
"مٌرے ہللا آپکو صحت و اٌمان والی لمبی زندگی دٌں،آپ دونوں کو جنت مٌں بھی اٌک دوسرے کا ساتھی بنائٌں"
فاطمہ نے اپنے بابا کے گلے لگے ہوئے ہی مسز رٌان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔۔
"آپکو بھی۔۔"
مسز رٌان بس اتنا ہی کہہ پائٌں اور اس سے نظرٌں پھٌر کر آسمان کی طرف دٌکھنے لگٌں۔۔۔شاٌد وہ آنکھوں مٌں تٌرتا
درد۔۔۔اپنی بٌٹی سے چھپانا چاہتی تھٌں۔۔ٌا شاٌد وہ اسکی دی ہوئی زندگی کی دعا۔۔۔واپس اسی کو دے کر آسمان والے کی
طرف سے لبولٌت پانے کی منتظر تھٌں۔۔۔
فاطمہ نے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ اپنے والد سے الگ ہوتے ہوئے کہا۔۔
آنکھوں مٌں نمی لٌے وہ اسکا ہاتھ تھام کر اٹھ کھڑے ہوئے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ جائے نماز پر اٌسے بٌٹھی تھی جٌسے کوئی زنجٌروں مٌں جکڑا غالم۔۔دوزانو ہو کر۔۔۔بالکل بے بس ہوتا ہے۔۔
ٌہ تہجد کا ولت تھا۔۔۔لرة العٌن۔۔اس نے ساری رات۔۔اس پہر کے انتظار مٌں۔۔کروٹٌں بدلتے گزار دی تھی۔۔۔کہ جب اسکے
رب نے آسمان دنٌا پر آنا تھا۔۔
ٌا ہللا۔۔۔اے مٌرے خالك۔۔۔اے مٌرے مالک۔۔۔مٌں تٌری کمزور بندی۔۔۔تٌرے در کی محتاج ہوں،جسکے پاس تٌرے سوا "
کوئی سہارا نہٌں۔۔جسے تٌرے سوا کوئی سمجھتا نہٌں۔۔جسے تٌرے سوا کوئی نہٌں تھام سکتا۔۔۔ٌا مٌرے خالك۔۔۔مٌں تٌری
ادنی سی مخلوق۔۔۔تٌرے اتنے بڑے کائنات کے نظام مٌں۔۔مٌری اولات ہی کٌا۔۔۔سولر سسٹم کے اٌک چھوٹے سے سٌارے
مٌں۔۔چھوٹے سے براعظم کے اٌک چھوٹے سے ملک کے۔۔ اٌک چھوٹے سے شہر کی اٌک چھوٹی سی گلی مٌں۔۔بنے
چھوٹے سے گھر کے چھوٹے سے کمرے مٌں بٌٹھی۔۔ تجھے پکارنے والی تٌری ادنی اور حمٌر سی بندی۔۔۔۔اے وہ
رب۔۔جو الودود ہے۔۔اے وہ رب جو العلٌم ہے۔۔اے وہ رب جو اللطٌف ہے۔۔آپ سے مٌرا درد چھپا ہوا نہٌں ہے۔۔۔مٌں کس
کے پاس جاإں ہللا؟؟ آپکی ذات کے سوا اور کون ہے جو مٌری دعا سن سکے؟؟ آپکے سوا کون مٌری مشکل حل کر
سکے؟؟مٌں نے آپکے سوا کسی کو نہٌں پاٌا ہللا۔۔۔او مٌرے پروردگار (اسکی سسکتی آواز سے کمرے کی ہر چٌز
عاجزی سے جھکی جا رہی تھی)۔۔۔مجھے تھام لٌں ناں۔۔مجھے بتا دٌں ناں۔۔پلٌز مجھے جواب دٌں نا۔۔مجھے سمجھا
دٌں۔۔۔آپ نے مجھے کبھی خٌر سے محروم نہٌں کٌا۔۔ہللا مجھے ٌمٌن ہے۔۔کہ اگر آپ نے مٌرے حك مٌں کوئی فٌصلہ
کٌاہے تو ٌہ مٌرے حك مٌں بہترٌن ہو گا۔۔۔پھر ہللا جی۔۔۔او مٌرے مالک۔۔۔کٌوں اس غالم کا دل تھم نہٌں رہا؟؟آپ اسے
"تھام لٌں ہللا۔۔۔پلٌٌٌز
روتے ہوئے اسکا جسم کانپ رہا تھا ۔۔وہ دونوں ہاتھوں مٌں چہرہ چھپائے۔۔سسک رہی تھی۔۔بلک رہی تھی۔۔۔
اس نے تہجد کے نوافل کے بعد استخارہ کے دو نفل پڑھے تھے۔۔اسے شہرٌار کے رشتے کے حوالے سے ہللا سے
خٌر طلب کرنی تھی۔۔اسکا دل بے چٌن تھا۔وہ سمجھ نہٌں پا رہی تھی۔۔۔وہ عام لڑکٌوں کی طرح نہٌں تھی جو شادی کو
صرف اٌک انجوائمنٹ،رومانس اور فٌنٹسی کی چٌز سمجھتی،اسکے لٌے شادی اٌک بہت بڑی ذمہ داری کے ساتھ ساتھ
زندگی کا اٌک بہت بڑا فٌز تھا۔۔جس پر اسکے اٌمان کی تکمٌل اور اسکی آخرت کا انحصار تھا۔ بالشبہ صحبت اثر
رکھتی ہے۔۔اور زوج کی صحبت۔۔تو بہت زٌادہ۔۔اسکی نسل کے دٌن کا انحصار اسکے زوج پر تھا۔۔اسے تو نسلوں کو
اسالم کی سربلندی کی راہ مٌں لگانا تھا۔۔اس لٌے اسکا فکرمند ہونا بجا تھا۔۔
اس نے آنسو صاف کرکے دوبارہ ہاتھ اٹھائے۔۔
اسے ٌمٌن تھا استخارے پر۔۔۔۔کٌونکہ رسول ہللا ﷺ نے فرماٌا تھا
)جو آدمی اپنے معامالت مٌں استخارہ کرتا ہو وہ کبھی ناکام نہٌں ہوگا " (طبرانی "
ضلِنَ ْالعَ ِظٌ ِم فَإِنَّنَ ت َ ْمد ُِر َو َال أَ ْلد ُِر َوت َ ْعلَ ُم َو َال أ َ ْعلَ ُم َوأ َ ْنتَ َع َّال ُم ْالغٌُو ِ
ب اللَّ ُھ َّم إِ ِنّی أ َ ْست َِخٌ ُرنَ بِ ِع ْل ِمنَ َوأ َ ْست َ ْمد ُِرنَ بِمُد َْرتِنَ َوأ َ ْسؤَلُنَ ِم ْن فَ ْ
ک ِل ْی فِ ٌْ ِہ َوإِ ْن ُك ْنتَ ی ،ث ُ َّم بَ ِ
ار ْ اللَّ ُھ َّم إِ ْن ُك ْنتَ ت َ ْعلَ ُم أ َ َّن َھذَا ْاأل َ ْم َر َخٌ ٌر ِلی فِی ِدٌنِی َو َم َعا ِشی َو َعالِبَ ِة أ َ ْم ِری فَا ْلد ُْرہُ ِلی َ ،و ٌَ ِس ّْرہُ ِل ْ
ضنِی ُ َ ُ ْ
ص ِر ْفنِی َع ْنهُ َوا ْلد ُْر ِلی ال َخٌ َر َحٌث كانَ ث َّم َر ِ ّ ص ِر ْفهُ َع ِنّی َوا ْ ی فَا ْت َ ْعلَ ُم أ َ َّن َھذَا ْاأل َ ْم َر ش ٌَّر ِلی فِی ِدٌنِی َو َمعَا ِشی َو َعالِبَ ِة أ َ ْم ِر ِ
بِ ِه
ترجمہ :اے ہللا ! مٌں آپ کے علم کا واسطہ دے کر آپ سے خٌراور بھالئی طلب کرتی ہوں اور آپ کی لدرت کا واسطہ
دے کر مٌں اچھائی پر لدرت طلب کرتی ہوں ،اور مٌں آپ سے آپکے فضل کا سوال کرتی ہوں،بے شک آپ لدرت
رکھتے ہٌں اور مجھ مٌں لوت نہٌں اور آپ جانتے ہٌں مٌں نہٌں جانتی اورآپ غٌب کو جاننے والے ہٌں۔اے ہللا اگر آپ
جانتے ہٌں كہ ٌہ كام (شخص)مٌرے لئے بہتر ہے ،مٌرے دٌن كے اعتبار ،مٌری معاش اور مٌرے انجام كار کے اعتبار
سے تو اسے مٌرے لئے ممدر كر دٌں،اسے مٌرے لٌے آسان کردٌں،پھر اس مٌں مٌرے لٌے برکت ڈال دٌں اور اگر آپ
جانتے ہٌں كہ ٌہ كام (شخص)مٌرے لئے برا ہے مٌرے دٌن كے لئے ،مٌری زندگی كے لئے اور مٌرے انجام كار كے
لئے تو اسے مجھ سے پھٌر دٌں اور مجھے اس سے پھٌردٌں اور مٌرے لئے بھالئی ممدر كر دٌں جہاں كہٌں بھی وہ ہو
اور پھر مجھے اس سے مطمئن كر دٌں۔۔
)صحٌح بخاری(6382:
وہ دعا مانگتی جا رہی تھی۔۔آنسو بہاتی جا رہی تھی۔۔اسے اس دعا پر ٌمٌن تھا۔۔بہت زٌادہ ٌمٌن۔۔۔اسے پتہ تھا اب اسکا رب
اسے بھالئی سے ہی نوازے گا۔۔۔
ہللا مجھ پر رحم فرمائٌں۔۔۔مٌرے لٌے مٌری بھالئی کے رستے کھول دٌں۔۔مٌں نے اپنے زوج کی شکل مٌں ہمٌشہ آپ "
سے آپکا محبوب بندہ مانگا ہے۔۔وہ بندہ۔۔جو مجھ سے زٌادہ آپ سے محبت کرنے واال ہو۔۔۔وہ جو آپکو محبوب ہو۔۔وہ جو
مٌرا ہاتھ پکڑ کر مجھے جنت کے رستے پر چالئے۔۔وہ جو مٌرے اٌمان کا۔۔مٌری روح کا ساتھی ہو۔۔۔وہ جسکی صحبت
مجھے آپکی محبت مٌں شدٌد کردے۔۔وہ جو مٌری آنکھوں کی ٹھنڈک ہو۔۔۔ٌا ہللا۔۔آپ جانتے ہٌں مٌں نے ہمٌشہ آپ سے
ٌہی مانگا ہے۔۔۔مٌں اس شخص (شہرٌار) کو نہٌں جانتی۔۔۔آپ جانتے ہٌں۔۔پلٌٌز۔۔مجھ پر رحم فرمائٌں۔۔مٌں محتاج ہوں اس
")خٌر کی۔۔جو آپ مٌری طرف نازل فرمائٌں۔۔۔ہللا پلٌٌز۔۔۔ارحمنی (مجھ پر رحم کرٌں
اس نے روتے ہوئے درود شرٌف پڑھ کر دعا مکمل کی۔۔۔۔دل اب لدرے پرسکون ہوچکا تھا۔۔اسے اٌسے لگا کوئی بوجھ
تھا جو دل سے اتر گٌا۔۔
سوجھی آنکھوں کے ساتھ اٹھ کر اس نے اپنے کمرے کی الئٹ آن کی۔۔اور لران اٹھا کرپڑھنے کے لٌے جائے نماز پر
ہی بٌٹھ گئی۔۔ٌہ اسکا معمول تھا۔۔وہ فجر کی اذانٌں ہونے تک تالوت کٌا کرتی تھی۔۔
اس نے اپنا کل کا چھوڑا ہوا سبك کھوال کہ آگے پڑھ سکے۔۔۔
جٌسے ہی صفحہ کھال تو سامنے موجود آٌت پڑھ کر اسکے
ہاتھ وہٌں رک گئے۔۔۔دھڑکن تٌز ہوگئی۔۔وہ آنسو جو ابھی چند لمے پہلے تھمے ہی تھے۔۔۔پھر کسی سٌالب کی طرح
رواں ہوگئے۔۔۔
ترجمہ "جو شخص نٌک عمل کرے خواہ مرد ہو ٌا عورت ،لٌکن مومن ہو تو ہم اُسے ٌمٌنا ً نہاٌت پاکٌزہ زندگی عطا
"فرمائٌں گے اور ان کے نٌک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہٌں ضرور ضرور دٌں گے۔
)النحل(97:
" اور پاک عورتٌں پاک مردوں کے لٌے ہٌں اور پاک مرد پاک عورتوں کے لٌے ہٌں"
ہللا مٌں نے آپکے لٌے خود کو پاکٌزہ رکھنے کی کوشش کی۔۔اپنی عزت کی حفاظت کی۔۔ٌونٌورسٹی کے ماحول "
مٌں۔۔آپ جانتے ہٌں نا کتنا مشکل تھا۔۔اپنی نگاہوں کی حفاظت کرنا۔۔اس بے حٌائی کے ماحول مٌں۔۔خود کو صرف آپکی
خاطر۔۔۔پردے مٌں لپٌٹ کر رکھنا۔۔۔مجھے ٌمٌن ہے کہ آپ مجھے ماٌوس نہٌں کرٌں گے۔۔
اس نے روتے ہوئے سرگوشی کی گوٌا اسکا رب اسکے سامنے ہی محبت سے اسے دٌکھ رہا ہو۔۔
کانپتے ہاتھوں سے مزٌد آگے صفحات پلٹے۔۔
وہ ہمٌشہ کی طرح شاکڈ تھی۔۔مگر لدرے پرسکون۔۔۔آنسو سکون سے بہہ تو رہے تھے۔۔مگر دل ٹھہر چکا تھا۔۔وہ جواب
پا چکی تھی۔۔۔اسکے لٌے اسکے رب نے پاکٌزہ زندگی اور پاکٌزہ انسان کا انتخاب کٌا تھا۔۔۔اسے بس توکل کرنا تھا اپنے
رب کو۔۔۔بے شک اس سننے والے کی طرف اسکی دعا سن لی گئی تھی۔۔
وہ نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے سجدہ شکر مٌں گرگئی۔۔
بے شک ٌہ ہللا کی طرف سےجواب ملنا۔۔ اس پر بہت بڑا انعام تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
وہ ہاسپٹل بٌڈ پر لٌٹی اپنی ماں کو پٌار سے دٌکھ رہی تھی۔۔۔جو اسکے ساتھ بٌٹھٌں اسے دباتے دباتے اسی کے بازو پر
سر رکھ کر سو گئی تھٌں۔۔فاطمہ کے دوسرے بازو پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔۔
اسکے بابا اسکے لٌے کٌنٹٌن سے فرٌش جوس لٌنے گئے ہوئے تھے۔۔
ٌکاٌک اس نے مسز رٌان سے نگاہٌں پھٌر کر ہاسپٹل رووم کی چھت پر گاڑھ لٌں۔۔۔شکرگزاری کے آنسو چہرے کے
اطراف سے چھلکتے ہوئے اسکے کانوں تک چلے گئے۔۔۔وہ دل ہی دل مٌں ہللا کے شکر کے ساتھ لرة العٌن کو دعائٌں
دٌنے لگی۔۔
ماہ پرانی ٌادوں کے مناظر اسکے ذہن کے پردوں پر چھانے لگے تھے۔۔۔ 6
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صحٌح بخاری6682#
"الحمدہلل مٌں ٹھٌک،تمھاری طبٌعت ٹھٌک ہے،آواز بہت بھاری لگ رہی ہے"
"ابھی؟"
"ہاں ابھی"
"اوکے"
سالم کرتے ہوئے فاطمہ نے موبائل بند کردٌا ۔۔ لرة العٌن سوچوں مٌں گم ،ہللا خٌر رکھنا کہتی ہوئی۔۔موبائل رکھ کر
کچن کی طرف چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو گھنٹے بعد فاطمہ لرة العٌن کے سامنے اسکے کمرے مٌں بٌٹھی تھی۔۔
ٌہ دوپہر 4بجے کا ولت تھا۔۔لرة العٌن کی والدہ لٌلولہ (دوپہر کا آرام) کر رہی تھٌں۔۔اس لٌے انھٌں فاطمہ کی آمد کی
خبر نہ تھی۔۔
خالف معمول آج فاطمہ اپنے آپکو مکمل کور کرکے عباٌا نماب مٌں آئی تھی۔۔جس پرلرة العٌن کو بہت خوشی ہوئی تھی
جسکا اظہار وہ بار بار فاطمہ کو گلے لگاکر کر رہی تھی۔۔
مجھے ٌمٌن نہٌں آرہا فاطمہ،مٌری دوست جنت کی راہوں مٌں اتنا تٌزی سے آگے نکلنے لگی ہے،ماشاءہللا ماشاءہللا۔۔ہللا "
"لرت کٌا دٌن پر چلنا،اس جنت کی راہ پر چلنا کوئی جرم ہے کہ اپنے ہی دشمن بن جائٌں؟؟ "
فاطمہ نے آنکھوں مٌں نمی لٌے ،پھٌکی سی مسکراہٹ سے اس سے جدا ہوئے بغٌر ہی پوچھا ۔۔
"نہٌں فاطمہ،اٌسا تو بالکل نہٌں ہے،مجھے پوری بات بتاإ ،آخر ہوا کٌا ہے؟"
اس نے حٌرت اور پرٌشانی کے ملے جلے اثرات سے اس سے جدا ہوتے ہوئے پوچھا۔۔
لرت مٌرا دل بہت تنگ ہونے لگ گٌا ہے،مٌرے اپنےہی گھر والے مجھ سے نفرت کرنے لگ گئے ہٌں۔۔۔کٌوں اس "
"پردے کو ہمارا معاشرہ اتنا برا سمجھتا ہے؟کٌا ٌہ حکم ہللا کی طرف سے لرآن مٌں نہٌں ہے؟
وہ کہتے کہتے رو پڑی تھی۔۔لرة العٌن نے آگے بڑھ کر اسے گلے سے لگالٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ماما حٌدر بھائی کے لٌے لڑکی دٌکھنے جارہی تھٌں،مٌں اکلوتی بہن ہوں اور وہ مجھے ملوائے بغٌر ہی بات پکی کر "
"آئے۔۔۔
"کٌا مطلب؟؟"
مٌں عباٌا مٌں جانا چاہ رہی تھی ان کے ساتھ۔۔کٌونکہ مجھے پتہ تھا وہاں مکس گٌدرنگ ہو گی۔۔مٌں خوشی خوشی "
انکے ساتھ جانے کے لٌےکمرے سے نکلی ہی تھی۔۔مگر مجھے عباٌا مٌں دٌکھ کر سٌف بھائی نے اتنے غصے سے
ڈانٹا۔۔ماما نے حٌدر بھائی کوفون کردٌا۔۔بھائی نے بھی اتنے غصے سے کہا کہ اسے مت لے کر جائٌں ورنہ اسکی وجہ
"سے بنی بنائی بات بگڑ جائے گی۔۔لرة العٌن کٌا مٌں منحوس ہوں؟؟
وہ سسکٌاں لے لے کر رو رہی تھی۔۔۔لرة العٌن خاموشی سے سن رہی تھی۔۔وہ جانتی تھی کہ فاطمہ اپنے اندر کی
بھڑاس نکالنا چاہتی ہے۔۔اس لٌے اسے بولنے دٌا۔۔
ماما نے جاتے ہوئے مجھے غصے سے رووم مٌں دھکا دٌا۔۔اور دروازے کو باہر سے الک کردٌا۔۔مٌں ساری رات "
اکٌلی روتی رہی لرت۔۔کچھ کھائے پٌے بغٌر۔۔۔وہ سب سرونٹس کو منع کرگئی تھٌں کہ کوئی اس "منحوس" کے کمرے
"کادروازہ نہٌں کھولے گا۔۔۔کوئی بھی نہٌں آٌالرت۔۔۔کوئی بھی نہٌں۔۔۔کل کی رات۔۔مٌں کبھی نہٌں بھول سکتی۔۔
اس نے شدت سے روتے ہوئے اپنے چہرے کو دونوں ہاتھوں مٌں چھپا لٌا تھا۔۔
کٌا وہ نہٌں جانتے لرت؟؟مٌں کس کرب سے گزر رہی ہوں؟مٌں تو انکے حکم پر عمل کرنے کی کوشش کر رہی ہوں "
"پھر کٌوں ٌہ سب ہو رہا ہے؟؟ انھٌں تو مٌرے لٌے رستے آسان کرنے چاہٌے
اس نے چہرے سے ہاتھوں کو پٌچھے کرکے معصومانہ انداز مٌں پوچھا۔۔ جٌسے وہ بہت ٹوٹ چکی ہو۔۔
فاطمہ۔۔ٌہ تو اس رستے کی سنت ہے۔۔اس پر جو بھی چلتا ہے۔۔اسے بہت کچھ سہنا پڑتا ہے۔۔ٌہ جنت اتنی سستی تھوڑی "
ہے نا۔۔اندر باہر۔۔ہر طرف سے مخالفتوں کا سامنا ہو کر لڑنا پڑتاہے
دٌکھو نا ہم پر تو اٌسی کوئی سخت آزمائش بھی نہٌں آئی جٌسی صحابہ کرام رضی ہللا عنہم پر آتی تھٌں۔۔تم نے
حضرت بالل رضی ہللا عنہ کا پڑھا ہے نا۔۔کٌسے انھٌں تپتے سہرا مٌں لٹا دٌا جاتا تھا۔۔انکے سٌنے پر پتھر رکھ دٌا جاتا
تھا۔۔کوئلوں پر لٹاٌا جاتا تھا۔۔چربی گھل جاتی تھی انکی۔۔صرف توحٌد پر اٌمان النے کی وجہ سے۔۔۔مگر وہ پھر بھی احد
احد کہتے رہتے تھے۔۔وہ تو اٌسے نہٌں روئے تھے؟؟ وہ تو اٌسے نہٌں پوچھتے تھے کہ جنت کی راہوں پر چلنا جرم
"ہے جو مجھ اتنی بڑی بڑی سزائٌں مل رہی ہٌں؟؟
"مگر لرت وہ صحابہ تھے۔۔مٌں اٌک عام سی بندی ہوں۔۔کمزور سی۔۔۔مٌں کٌسے برداشت کر سکتی ہوں اتنی مخالفت؟؟"
اس اَ ۡن ٌ ۡت َر ُک ۡۤوا اَ ۡن ٌَّمُ ۡولُ ۡۤوا ا َمنَّا َو ہ ُۡم َال ٌُ ۡفتَنُ ۡونَ ا َ َح ِس َ
ب النَّ ُ
کٌا لوگوں نے ٌہ گمان کر رکھا ہے کہ ان کے صرف اس دعوے پر کہ ہم اٌمان الئے ہٌں ہم انہٌں بغٌر آزمائے ہوئے "
)سورت العنکبوت(2:
ٌہ ہللا کہہ رہے ہی فاطمہ ،جن سے زٌادہ سچی بات کسی کی نہٌں ہو سکتی ناں،اگر ہم نے ارادہ کٌا ہے اس جنت کو
پانے کا،اس رب کی رضا کو پانے کا تو اٌسے کٌسے ہوسکتا ہے کہ ہمارے رستوں مٌں پھول بچھائے جائٌں؟محبتٌں
نچھاور کی جائٌں،ہاں اٌک ولت آتا ہے جب ٌہ سب ہوتا ہے،مگر پہلے مکہ کی مشکلٌں برداشت کرنی پڑتی ہٌں،دکھانا
پڑتا ہے ہللا کو،کہ ہاں ہم نے جو دعوی کٌا ہے ہم اس مٌں سچے ہونا چاہتے ہٌں،اس پر پورا اترنے کی پوری کوشش
کررہے ہٌں،پھر جب ہم مضبوطی سے اس رستے پر ڈٹ جاتے،حك کی گواہی دٌنے لگتے تو پھر دور آتا ہے ہجرت
مدٌنہ واال۔۔جب نفرتوں کی بجائے محبتٌں ملتی ہٌں،پھر ٌہی لوگ جو راہوں مٌں کانٹے بچھاتے ہٌںٌ،ہ ساتھی بن جاتے
ہٌں،دٌن مٌں ساتھ چلنے والے ساتھی،سنو!!! تم بازار سے حمٌر سا جوتا خرٌدتے ولت بھی اسکو الٹا پلٹا کر دٌکھتی
چٌک کرتی ہو،اسی سے تمھٌں اندازہ ہوجاتا ہے کہ ٌہ کتنا پائدار ہے،کتنا عرصہ چلے گا۔۔تو کٌا soleہو،اسکا سول
تمھارا رب تمھٌں نہ چٌک کرے؟؟کہ تم اس کے لٌے کس حد تک جا سکتی ہو؟؟تم مٌں اس کی رضا پانے کی تڑپ کتنی
"سچی ہے کہ تم اسکی خاطر سب کچھ برداشت کرتی جاإ۔۔
"ٌعنی صبر؟؟؟؟"
ہاں۔۔صبر۔۔ٌہی تو مطلوب ہے۔۔ٌہ رونا،اداس ہونا فطری ہے،مگر۔۔۔ہللا کی رضا مٌں راضی رہنا۔۔کھلے دل سے اسکے "
ہر فٌصلے کو لبول کرناا ہی دراصل آزمائش ہے۔۔۔ہللا کہتے ہٌں
اور ہم نے تم مٌں سے ہر اٌک کو دوسرے کی آزمائش کا ذرٌعہ بنا دٌا کٌا تم صبر کروگے؟ تٌرا رب سب کچھ "
)الفرلان(20:
وہ تمھاری مخالفت نہٌں کررہے فاطمہ،وہ تمھارے دٌن پر چلنے کی مخالفت کررہے ہٌں،اور کٌوں؟؟کٌونکہ ہمارے "
معاشرے مٌں دٌن کو وٌلٌو نہٌں دی جاتی۔اسکا اٌک غلط فہمٌوں پر مبنی برا امٌج بنا دٌا گٌا ہے۔اس لٌے وہ انجانے
" خوف و خدشات کا شکار ہو کر مخالفت کرنے لگتے ہٌں۔
ہاں بالکل مسلمان ہٌں،مگر وہ العلم ہٌں فاطمہ،انسان ہمٌشہ اس چٌز کا دشمن ہوتا ہے جسکے متعلك ٌا تو وہ علم نہ "
رکھتا ہو ٌا اس سے حسد کرتا ہو،جس دن انھٌں علم ہوگٌا نا کہ ٌہ راہ کوئی عام راہ نہٌں ہےٌ،ہ دٌن پر چلنا کتنی
"سعادت کی بات ہے وہ تمھارے ساتھی بن جائٌں گے۔
"مٌں کٌسے بتا سکتی ہوں۔۔وہ تو مٌری بات تک سننے کو تٌار نہٌں"
"سنٌں گے ضرور سنٌں گے ان شاءہللا۔۔۔مگر تمھٌں صبر کرنا ہوگا۔۔ڈھٌر سارا صبر۔۔۔صبر جمٌل۔۔"
"صبر جمٌل؟؟"
لرة العٌن کی نظرٌں کھڑکی سے باہر کہٌں دور ٹکی ہوئی تھٌں۔۔۔وہ جٌسے کسی گہری سوچ مٌں،کسی خاص احساس
کے زٌر اثر کہے جا رہی تھی۔۔
اٌسا صبر۔۔۔کہ تمھارے مخالفٌن کو بھی پتہ نہ چلے کہ اس بات نے تمھٌں ہرٹ کٌا ہے۔۔۔اٌسا صبر کہ وہ تمھٌں "
ڈانٹٌں،مارٌں،گالٌاں دٌں۔۔مگر تم جب اس سب کے بعد ان سے ملو مسکرا کر ملو اور اٌسے معاف کردو جٌسے کچھ ہوا
"ہی نہ ہو۔۔۔صبر جمٌل۔۔۔وہ صبر جو مٌرے رسول ﷺ نے کٌا تھا۔۔۔
پھر ٌہ سب۔۔۔ٌہ سب۔۔تمھارے ہوجائٌں گے۔۔۔جٌسے ٌوسف علٌہ السالم کے بھائٌوں نے آ کر معافی مانگ لی تھی" ،
جٌسے۔۔۔آپ ﷺ کے دشمنوں نے اسالم لبول کرلٌا تھا۔۔جٌسے حضرت خالد بن ولٌد رضی ہللا عنہ انکے دلی ساتھی بن
"گئے تھے۔۔۔سب بدل جائٌں گے۔۔۔بس کچھ ولت دو۔۔۔
"کتنا ولت؟؟"
ٌہ تو تمھارے صبر پر منحصر ہے۔۔ہوسکتا ہے اٌک ہفتہٌ،ا اٌک ماہٌ،ا اٌک سال۔۔۔۔ٌا پھر دس سال۔۔ٌہ تو ہللا جانتے "
"ہٌں۔
کر سکتی ہو،بالکل کرسکتی ہو،اگر تم ٌہ سب حاالت برداشت نہ کرسکتی تو ہللا کبھی تمھٌں اس سب سے نہ "
"گزارتے۔۔کٌا تم نےوہ آٌت نہٌں پڑھی؟کہ "ہللا کسی نفس پر اسکی وسعت سے زٌادہ بوجھ نہٌں ڈالتے
تو سنو۔۔تم انکی برائی کے جواب مٌں اچھائی کرتی جاإ۔۔کرتی جاإ۔۔۔اور ٌمٌن رکھو۔۔وہ ولت آئے گا ان شاءہللا۔۔۔جب ٌہ "
سب تمھارے دٌن کے ساتھی ہوں گے،اٌمان کے ساتھی۔۔اور باالخر۔۔جنت کے ساتھی۔۔۔ہللا فرماتے ہٌں
اچھائی اور برائی برابر نہٌں ہوتٌں(تو تم) برائی کو بھالئی سے دور کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمٌان "
دشمنی ہے اٌسا ہو جائے گا جٌسے دلی دوست ۔ اور ٌہ بات انہٌں کو نصٌب ہوتی ہے جو صبر کرٌں اور اسے سوائے
"بڑے خوش نصٌب لوگوں کے کوئی نہٌں پا سکتا ۔
)سورت حم السجدہ(35،34:
تم صبر کی انتہا کردٌنا۔۔۔وہ کرم کی انتہا کردے گا۔۔۔ان ہللا مع الصابرٌن (بے شک ہللا صبر کرنے والوں کے ساتھ "
")ہے
"جی؟؟"
مسز رٌان پرٌشانی کے عالم مٌں اسے دٌکھتے ہوئے پوچھ رہی تھٌں۔۔
"اوہ۔۔۔الحمدہلل"
اس نے اپنے ہاتھ سے آنسو صاف کرتے ہوئے بھرپور طرٌمے سے مسکراتے ہوئے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی۔۔
اسے ٌاد آٌا کہ وہ تو ہاسپٹل کے بٌڈ پر لٌٹی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
فاطمہ آج کچن مٌں صغراں اور اسکی بٌٹی کے ساتھ شام سے ڈنر کی تٌاری مٌن مصروف تھی۔۔مختلف لسم کی
ڈشز،ڈٌزرٹس،ڈرنکس،مٹھائی وغٌرہ ہر چٌز اس نے اپنی نگرانی مٌں بنوائی تھی،آج حٌدر کے سسرال والے رسم کے
لٌے آرہے تھے۔۔حٌدر بہت خوش تھا۔۔اسے اور رٌان صاحب کو گھر آئے ہوئے دو دن ہی ہوئے تھے،گھر مٌں اٌک
ہلچل مچی ہوئی تھی۔۔مسز رٌان سٌف کے ساتھ مل کر گھر کو ڈٌکورٌٹ کروانے مٌں مصروف تھٌں،
انکی آوازٌں پورے الإنج مٌں گونج رہی تھٌں۔۔وہ الٌکٹرٌشنز اور ڈٌکورٌٹرز کو ہداٌات دے رہی تھٌں۔۔
غرض اٌسے لگ رٌا تھا جٌسے آج ہی شادی ہونے لگی ہے۔۔۔۔اس گھر کے بڑے بٌٹے کی ہونے والی بٌوی نے آنا تھا۔
۔سب کا خوش ہونا اٌک الزمی امر تھا۔۔
البتہ فاطمہ کے ساتھ سب کا روٌہ بہت تبدٌل ہو چکا تھا۔۔فاطمہ کا پردہ کرنا انکے لٌے اٌک امتحان بن چکا تھا۔۔وہ باہر
تو خود کو مکمل عباٌا مٌں ڈھانپ کر جاتی تھی۔۔تب اسے کوئی نہٌں روکتا تھا۔۔مگر خاندان مٌں پردہ کرنا۔۔اور وہ بھی
حٌدر کے سسرال والوں کے سامنے۔۔۔اس چٌز نے انھٌں بہت پرٌشان کررکھا تھا۔۔
پچھلی رات مسز رٌان نے فاطمہ کو بہت سمجھاٌا تھا کہ
مگر فاطمہ اسی بات پر اصرار کررہی تھی کہ وہ سب کام کرے گی،ان سے ملے گی بھی ،مگر انکے مردوں کے
سامنے پردے مٌں ہی جائے گی۔۔
فاطمہ پردہ دل کا ہوتا ہے،تم مٌں حٌا ہے نا۔۔ٌہ کافی ہے۔۔باہر کر رہی ہو کرو۔۔۔مگر اب ٌہ کٌا تماشہ کے گھر مٌں آنے "
ماما،دل مٌں حٌا ہو تو ہی باہر جسم کو پردے مٌں ڈھانپا جاتا ہے،ہللا نہ کرے کہ کبھی دل پر پردہ پڑے،ورنہ تو انسان "
مٌرا دماغ مت خراب کٌا کرو فاطمہ،تمھارے کہنے کا کٌا مطلب ہے کہ اگر مٌں پردہ نہٌں کرتی تو کٌا مٌرے دل مٌں "
"حٌا نہٌں ہے؟؟ تم اپنی ماں کو بے حٌا کہنا چاہ رہی ہو؟
بالکل بھی نہٌں مٌری پٌاری ماما،دٌکھٌں،اٌک چھوٹی سی مثال دٌتی ہوں ،آپ کسی سے پٌار کا اظہار تب کرتی ہٌں نا "
اٌسا ہی ہے نا؟؟ تو اگر دل مٌں حٌا ہو تو اٌسا ہو ہی نہٌں سکتا کہ اسکا اظہار نہ ہو۔۔پردہ مٌرے اور آپکے رب کا حکم "
ہے ماما۔۔جب دنٌا کی سب سے پاکٌزہ خواتٌن،صحابٌات نے دنٌا کے سب سے زٌادہ پاکٌزہ انسان،رسول ہللا ﷺ سے پردہ
کٌا تھا ،صرف اس لٌے کہ ہللا کا حکم ہے۔۔تو ہم جٌسے گناہ گار کٌسے دل کی پاکٌزگی کا دعوی کرسکتے ہٌں،انکے
"دل تو ہم سے زٌادہ پاکٌزہ تھے نا
اس نے انکے بے زاری والے اکسپرٌشنز کو بالکل اگنور کرتے ہوئے نرمی سے کہا تھا۔۔
فاطمہ تم جانتی ہو کس دور کی بات کر رہی ہو؟؟؟کتنی صدٌاں گزر گئی ہٌں۔اب وہ زمانہ جا چکا ہے،اسالم اتنا بھی "
ماما بالکل جا چکا ہے وہ ٹائم۔۔مگر آجکا ٹائم زٌادہ پر فتن ہے،آج تو انسان کو خود کو بچا کر رکھنے کی،اپنی حفاظت "
"کرنے کی زٌادہ ضرورت ہے،ہم تو خون کے رشتوں کے دلوں تک کو نہٌں جان سکتے کہاں ٌہ کہ باہر کے لوگ۔۔
فاطمہ مٌرے ساتھ بحث مت کٌا کرو۔۔پتہ نہٌں لوگ دٌن مٌں آکر کٌوں بحث کرنے لگتے ہٌں،پتہ نہٌں مجھ سے کونسی "
غلطی ہوئی کہ تمھٌں اس پرانے زمانے کے مدرسے مٌں جانے کی اجازت دے دی،تم تو اپنے مٌنرز بھی بھولتی
" جارہی ہو۔۔
انکی بات سن کر فاطمہ چپ ہو کر رہ گئی۔۔بڑے ضبط سے اپنے آنسإوں پر کنٹرول کٌا ہوا تھا۔۔
"صبر جمٌل۔۔اٌسا صبر۔۔۔کہ مخالفوں کو پتہ بھی نہ چلے کہ انکی کسی بات نے تمھٌں ہرٹ کٌا ہے"
بہرحال اب مزٌد مجھے کوئی بحث نہٌں کرنی،مٌں اپنے بٌٹے کی خوشٌوں کو تمھاری نحوست سے خراب نہٌں کرنا "
"چاہتی۔۔اگر کل کوئی ڈرامہ کٌا تو ٌاد رکھنا۔۔مجھ سے برا کوئی نہٌں ہوگا
تمھاری ماما ٹھٌک کہتی ہٌں۔۔گھر مٌں آنے والوں سے پردہ کرنا۔۔۔کتنا مشکل ہے۔۔کب تک اٌسے خود کو چھپاإ "
اسکے اندر طرح طرح کے وسوسے اٹھ رہے تھے۔۔شٌطان مکمل زور لگا رہا تھا۔۔اندر سے بھی۔۔باہر سے بھی۔۔کہ
کسی طرح وہ پردہ نہ کرے۔۔
چلو فاطمہ تم جا کر رٌڈی ہو جاإ ،صغراں تم سب کچھ چٌک کرو اٌک بار۔۔آج مٌرے بٌٹے کی منگنی ہے۔۔کسی بھی "
"لسم کی کوئی کمی نہٌں ہونی چاہٌے،جٌسے ہی گٌسٹ آنے لگٌں تم ڈرنکس سرو کروانا شروع کر دٌنا
فاطمہ کچھ کہے بغٌر کچن سے نکلی۔۔اور الإنج مٌں نظر دوڑاتے ہوئے سٌدھا اپنے رووم مٌں چلی گئی،
سب کچھ فائنل ہوچکا تھا۔۔سب اب رٌڈی ہونے کے لٌے اپنے کمروں مٌں جا چکے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فاطمہ مغرب کی نماز کے بعد جائے نماز پر ہی بٌٹھی تھی۔۔۔دل انتہائی مضطرب تھا۔۔دھڑکن کنٹرول مٌں نہٌں آرہی
تھی۔۔وہ الجھ چکی تھی۔۔کٌا کرے اور کٌا نہ کرے۔۔
اب تو آنسو بھی جٌسے رک کر گلے کا پھندہ بنے ہوئے تھے۔۔
اگر آج نہ کروں تو؟منگنی ہوجائے اٌک بار۔۔پھر کرلوں گی۔۔
باہر پردہ کرتی تو ہوں،کٌا اتنا ہی کافی نہٌں ابھی؟
مجھے لگتا ہے آہستہ آہستہ کرنا چاہٌے۔۔
اتنے لوگوں کا سامنا کرنا آسان تھوڑی ہے۔۔
ماما لوگوں نے مجھے نہٌں چھوڑنا اگر مٌں نے حٌدر بھائی کے سسرال والوں کے سامنے پردہ کٌا۔۔
تو کٌا مٌں وٌسے ہی انکے سامنے چلی جاإں۔۔جٌسے پہلے بے پردہ رہا کرتی تھی؟
پھر کٌا فائدہ مٌرا لرآن پڑھنے کا،اگر مٌں نے ہللا کا حکم جان کر بھی عمل نہ کٌا۔؟
وہ سر پکڑ کر بٌٹھ گئی۔۔اٌک گھنٹے بعد تمرٌب کا آغاز ہونے واال تھا۔۔
ہزاروں خٌال اور وسوسے اسکےدماغ کو الجھائے جا رہے تھے۔۔
"ہللا تعالی۔۔مجھے بتائٌں مٌں کٌا کروں۔۔مجھے کچھ سمجھ نہٌں آرہا۔۔۔"
جب بھی ٹوٹنے لگو،جب بھی دنٌا سے تھک جاإ ،جب بھی ہللا کی ٌاد آئے،جب بھی کسی سوال کا جواب چاہٌے ہو "
اسے لرت کی بات ٌاد آئی۔۔جو اس نے فاطمہ کو اپنا لرآن دٌتے ہوئے کہی تھی۔۔
وہ تٌزی سے جائے نماز سے اٹھی اور بھاگ کر الماری سے لرآن نکال کر کھوال۔۔
اسے لرآن کھولے دٌکھ کر انھوں نے اپنی بات ادھوری چھوڑ کر فورا پوچھا۔
تم اور تھارا دل۔۔بند کرو اسے جب دٌکھو اٌک ہی کام ہے۔۔ جلدی سے رٌڈی ہو کر باہر آإ۔۔۔ تمھارے تاٌا لوگوں کی "
"فٌملی آ گئی ہے۔۔انگلٌنڈ سے انکا بٌٹا عکاشہ بھی آٌا ہے۔۔وہ باہر وٌٹ کررہے ہٌں جلدی آإ
"جی۔۔"
اسے اپنی آواز اپنے ہی حلك مٌں پھنستی ہوئی محسوس ہوئی۔۔
مسز رٌان دروازہ بند کرکے جا چکی تھٌں۔۔
"ٌا ہللا۔۔۔"
اس نے روتے ہوئے لرآن کے کھلے صفحات کو دٌکھا۔۔۔اسے ٌمٌن تھا کہ اسکا رب اسے ضرور جواب دے گا۔۔۔۔
سامنے ٌہ آٌت۔۔
"مومنو! اسالم مٌں پورے پورے داخل ہوجاإ اور شٌطان کے پٌچھے نہ چلو وہ تو تمہارا صرٌح دشمن ہے"
)سورت البمرة(208:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہال نما ڈٌکورٌٹڈ الوإنج مٌں حٌدر سے زٌادہ فاطمہ کو ڈسکس کٌا جا رہا تھا۔۔
فاطمہ سب سے خوش اخاللی اور محبت سے مل رہی تھی۔۔اس نے ڈرٌس تو وہی پہنا تھا جو ماما نے ڈٌزائن کرواٌا تھا
مگر اوپر سے اٌک بڑی چادر سے خود کو ڈھانپ لٌا تھا۔۔جسکی وجہ سے سارے کپڑے چھپ گئے تھے۔۔اس نے مٌک
اپ بھی کٌا تھا البتہ جب کسی مرد کے سامنے سے گزرتیٌ،ا کوئی مرد اسکے سامنے سے گزرتا تو وہ فورا سے اپنے
چہرے کو اٌسے چھپا لٌتی کہ آنکھٌں بھی نظر نہ آتٌں۔۔
سب خاندان والوں کی چبھتی نظرٌں اور مختلف سوالوں کو بالکل اگنور کر کے وہ سب کو بس اٌک ہی جواب دے رہی
تھی
"جی الحمدہلل،ہللا کی توفٌك سے لرآن کے حکم پر عمل کرتے ہوئے مٌں نے مکمل پردہ شروع کردٌا ہے"
مسز رٌان فاطمہ کے باہر آنے سے العلم،اپنی فرٌنڈز کے سرکل مٌں حٌدرکے سسرال والوں کی تعرٌفوں کے پل
باندھنے مٌں مصروف ہی تھٌں کہ اچانک۔۔۔۔انکی دوست سارہ نے منہ سکٌڑتے ہوئے کہا
بچی نے پردہ شروع کٌا ہے،بہت اچھی بات ہے،آج کے دور مٌں تو لڑکٌاں بے حٌا ہی ہوتی جا رہی ہٌں،بہت خوشی "
ہو رہی جوانی مٌں اٌسی استمامت دٌکھ کر،آپ بہت خوشمسمت ہٌں مسز رٌان ورنہ مٌں تو اپنی بچٌوں کو کہتی رہتی
"ہوں کہ کم ازکم دوپٹہ تو اوڑھ لو
اٌک اور خاتون جو انکے پاس کھڑی تھٌں بڑے رشک کی نگاہوں سے اس دٌکھتے ہوئے کہنے لگٌں۔۔جبکہ مسزرٌان
کی آنکھٌں شدت غضب سے سرخ ہونے لگٌں۔۔مٌک اٌپ شدہ چہرہ غصے سے تپنے لگا تھا۔۔وہ تٌزی سے فاطمہ کی
جانب لپکٌں۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
"ہٌں؟
تائی جان الجھی نظروں سے دٌکھتے ہوئے اسے سمجھانا چاہ رہی تھٌں گوٌا انھٌں فاطمہ اس ولت مظلوم لگ رہی
تھی۔۔
ھاھاھا مٌری پٌاری سی تائی جانٌ،ہی تو عمر ہے ہللا کو راضی کرنے کی،بڑھاپے مٌں تو ہر کوئی ہللا ہللا کرتا "
ہے،مزہ تو تب ہے اطاعت کا جب اپنی جوانی اسے دے دی جائے،آپکو پتہ ہے اٌسا نوجوان جسکی زندگی عبادت مٌں
"گزرے وہ لٌامت کے دن عرش کے سائے تلے ہو گا
فاطمہ نماب مٌں ہی انھٌں جواب دے رہی تھی کٌونکہ پٌچھے صوفے پر تاٌا ابو اور انکا بٌٹا عکاشہ بے زاری والی
عجٌب نظروں سے فاطمہ کو دٌکھ رہے تھے،فاطمہ کو عکاشہ کی وجہ سے چہرہ چھپانا پڑا تھا۔۔
ابھی بات مکمل ہی ہوئی تھی کہ پٌچھے سے مسز رٌان نے آک فاطمہ کا بازو زور سے پکڑ کر اپنی طرف کھٌنچا۔۔
"آئی اٌم سوری زنٌرہ آپا ،مجھے فاطمہ سے کچھ بات کرنی ہے"
مسز رٌان ان سے اجازت لٌتے ہوئے فاطمہ کو کھٌنچ کر اسکے کمرے مٌں لے گئٌں۔۔
دروازہ بندکرتے ہی انھوں نے اسکے چہرے پرکھٌنچ کر تھپڑ لگاٌا۔۔
"ٌہ کٌا گل کھالتی پھر رہی ہو تم۔ہاں؟؟تمھٌں منع کٌا تھا نا؟اٌک بار بات سمجھ نہٌں آتی تمھٌں؟"
فاطمہ اچانک ہونے والے اس ری اٌکشن کے لٌے بالکل تٌار نہ تھی۔۔وہ حٌران و پرٌشان ،تھپڑ پڑنے کی وجہ سے
سرخ تپتے گال پر ہاتھ رکھے،مسز رٌان کی طرف پھٹی آنکھوں سے دٌکھ رہی تھی
مسز رٌان گوٌا اس پر غرائی تھٌں۔۔
تمھٌں پتہ ہے تمھاری تائی آج خصوصا عکاشہ کو کس لٌے الئی ہٌں؟ وہ مجھ سے تمھارا ہاتھ مانگ رہی ہٌں۔۔۔اب "
مسزرٌان کا سانس پھول چکا تھا انکا بس چلتا تو وہ اسے مارنا شروع کر دٌتٌں۔۔مگر وہ مولع کا لحاظ کٌے ہوئے
تھٌں۔۔انکا بی پی ہائی ہو رہا تھا۔۔
"ماما آپ پلٌز رٌلٌکس ہوںٌ،ہاں بٌٹھٌں ،مٌں آپکو پانی دٌتی ہوں"
فاطمہ نے ہوش سنبھالتے ہوئے اپنی تکلٌف اور انکی دل توڑنے والی باتوں کو مکمل اگنور کرکے انھٌں بٹھانے کے
لٌے پکڑنے کی کوشش کی۔۔مگر انھوں نے فورا فاطمہ کا ہاتھ جھٹک دٌا۔۔
"مجھے ہاتھ مت لگاإ،ورنہ تمھارا گلہ ٌہٌں دبا دوں گی مٌں،کہٌں کا نہٌں چھوڑا تم نے مجھے۔۔"
"ٌہ ہمارے معاشرے مٌں گناہ ہی سمجھا جاتا ہے،سمجھ آئی تمھٌں؟"
"مجھے معاشرے کی پرواہ نہٌں ہے ماما۔۔مٌں ہللا کو راضی کرنا چاہتی ہوں"،
فاطمہ نے انکی سخت بات کے جواب مٌں نہاٌت دھٌمے اور روہانسی لہجے مٌں کہا۔۔
خدا کا واسطہ ہے بس کردو فاطمہ،مجھے بتاو تمھارا رشتہ کٌسے ہوگا؟؟کون تمھٌں اپنی بہو بنائے گا اٌسے؟اگر "
تمھاری تائی نے بھی انکار کردٌا تو؟؟ہم کہاں تمھارے لٌے مولوی ڈھونڈتے پھرٌں گے۔۔مجھ پر نہٌں تو اپنے باپ کے
"بڑھاپے پر ہی رحم کرلو
ماما،جو ہللا نے مٌرے لٌے لکھا ہوگا۔۔وہ مل جائے گا،ہللا اپنے رستے پر چلنے والوں کو اکٌال نہٌں چھوڑتے،مٌرے "
پردہ کرنے سے مٌری لسمت مٌں لکھا شخص،تمدٌر سے مٹا تو نہٌں دٌا جائے گا نا؟؟البتہ اس اطاعت کی وجہ سے ہللا
"آگے مٌری زندگی کو مزٌد خوبصورت بنانے پر لادر ہٌں
تم آخر کس خوابوں کی دنٌا مٌں رہتی ہو،تمھٌں نہٌں پتہ آج دٌن پڑھی لڑکٌوں کی ٌا تو شادٌاں نہٌں ہوتٌں ٌا طاللٌں "
ہوجاتی ہٌں۔۔خدا کا واسطہ ہے اتنی اٌکسٹرٌمسٹ مت بنو کہ بعد مٌں پچھتاتی پھرو۔تمھٌں ٌاد ہے جہاں بچپن مٌں تم سب
"نے لرآن پڑھا تھا اس مولوی کی بٌٹی کو کٌسے طالق ہو گئی تھی؟؟بالی بٌٹٌاں بھی کتنا عرصہ گھر بٌٹھے رہی تھٌں
ماما طاللٌں تو انکی بھی ہوجاتی ہٌں جو دٌن پڑھی نہ ہوں،اور جہاں تک ان مولوی صاحب کا تعلك ہے انکی بٌٹٌاں آج "
"اپنے گھروں مٌں خوش ہٌں،اسالم کے مطابك زندگی گزار رہی ہٌں۔۔وہ۔۔
ابھی بات مکمل نہٌں ہوئی تھی کمرے کے دروازے پر دستک ہوئی،
دٌکھا زبان تمھاری کٌسے چلتی ہے،ذرا ٌہ رسم ہو لٌنے دو پھر دٌکھنا مٌں اور تمھارے بابا تمھٌں کٌسے سٌدھا کرتے "
فاطمہ کی بات مکمل ہونے سے پہلے ہی مسز رٌان اپنے چہرے کو تھپکتے ہوئے کمرے سے نکل گئٌں اور دروازہ
باہر سے الک کردٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کمرے کی الئٹس آف تھٌں۔۔وہ بٌڈ کے ساتھ ٹٌک لگائے نٌچے فرش پر بٌٹھی ہوئی تھی۔۔اسکے سلکی بال اسکے شانوں
پر پھٌلے ہوئے تھے۔۔مسلسل رونے کی وجہ سے اسکی آنکھوں کا کاجل پھٌل چکا تھا۔۔اسکے پٌٹ مٌں آج پھر سے وہ
درد اٹھنے لگا جو کچھ دن پہلے جو بالکل ختم ہوگٌا تھا۔۔وہ درد اور اسکا تذکرہ کرنا بھول ہی گئی تھی۔۔مگر اس پٌٹ
کے درد سے زٌادہ اسکی روح اذٌت مٌں تھی۔
اسکا دل چور چور تھا۔۔وہ اپنی ماں کا ہاتھ اٹھانا ،انکی باتوں،طعنوں اور چبھتی ہوئی نظروں کو بھولنا چاہتی تھی۔۔وہ تو
اکلوتی بٌٹی تھی۔۔اتنی الڈلی تھی۔۔وہ جسے سب محبت سے دٌکھا کرتے تھے آج انکی نظروں کے تٌر اسکے دل کو
چبھو رہے تھے۔۔
باہر سب خوشٌاں منا رہے تھے۔۔مگر کون جانتا تھا۔۔کہ اٌک ہی دٌوار کے پار۔۔۔اٌک معصوم دل لڑکی۔۔اپنے دل کے
ٹکڑوں کو جوڑنے مٌں مصروف تھی۔۔ادھر بلند ہوتے لہمہوں مٌں دٌوار کے اس پار بٌٹھی لڑکی کی سسکٌاں۔۔۔عرش پر
سنی جا رہی تھٌں۔۔
مگر۔۔۔وہ صبر کر رہی تھی۔۔صبر جمٌل۔۔۔خوبصورت صبر۔۔۔
اسے صبر کرنا ہی تھا۔۔اسے لرة العٌن کی اٌک اٌک بات ٌاد تھی۔۔وہ کٌسے بھول سکتی تھی وہ آٌت۔۔جس مٌں ہللا نے
وعدہ کٌا تھا۔۔کہ برائی کے جواب مٌں اچھا کرنے والوں کے دشمن بھی دوست بن جاتے ہٌں۔۔اسے سب کو اپنا دٌن مٌں
ساتھی بنانا تھا۔۔سب کے ساتھ جنت مٌں جانا تھا۔۔اس لٌے اسکا صبر کرنا الزم تھا۔۔۔اس نے زبان سے کوئی شکوہ نہ کٌا
تھا۔۔وہ جان چکی تھی کہ ہللا کی رضا پانا کوئی آسان کام نہ تھا۔۔اسے شدت سے محسوس ہوا کہ طائف والوں کے پتھر
کھانے کے بعد رسول ہللا ﷺ کا جسم تو جسم۔۔دل کتنا زخمی ہوا ہوگا۔۔
مگر انھوں نے ہللا کے لٌے برداشت کٌا،ان سب کو معاف کردٌا حاالنکہ انھٌں اختٌار دٌا گٌا تھا کہ اٌک اشارے پر
پوری وادی تباہ کردی جاتی۔۔
مٌں بھی وہی کہوں گی جو رسول ہللا ﷺ نے طائف کے مولع پر پتھر کھا کر کہا تھا،کہ شاٌد ان طائف والوں کی "
نسلوں مٌں اٌمان ہو،مٌں بھی آپ سے اچھی امٌد رکھتی ہوں ہللا۔۔۔ان طعنوں کے پتھر کھانے کے بعد۔۔۔دل کے زخمی
ہونے کے بعد۔۔کہ شاٌد اٌک ولت آئے ہللا۔۔کہ ٌہ لوگ مٌرے دٌن مٌں ساتھی بن جائٌں۔۔مجھے آپ سے بہت امٌد ہے
"ہللا۔۔آپ انھٌں ہداٌت دے دٌں۔۔انھٌں اپنے رستے مٌں مٌرا مددگار بنا دٌں۔۔
وہ ٌہ کہتے ہوئے اپنے آنسو روکنے مٌں ناکام رہی تھی۔
مگر اسکا کرب،اسکا درد۔۔اسکا ہر اٌک آنسو۔۔کہٌں اوپر محفوظ کٌا جارہا تھا۔۔بدلے کی خاطر۔۔خوبصورت منزل کی
خاطر۔۔۔
اسے اس ولت وہ اشعار ٌادآئے۔۔۔
اور اٌسے لمحے مٌں اپنے آنسو چھپا کے رکھنا ،کمال ٌہ ہے
ہزار طالت ہو ،سو دلٌلٌں ہوں پھر بھی لہجے مٌں عاجزی سے
آنسو گر رہے تھے مگر۔۔۔اسکا رب غافل نہٌں تھا۔۔وہ تو بہت لدردان تھا۔۔اپنے رستے پر زخم کھانے والوں کے لٌے
بہت مہربان۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تو بتا ذرا جہٌز کہاں سے بنائے گا؟ ابھی تو بہن کی شادی کی ہے شہرٌار تو نے؟"
اماں ہللا کا کرم ہے ،دٌکھٌں مجھے ہللا نے اتنی اچھی جاب دے دی ہے،سارا لرض اتار چکا ہوں بس چند مہٌنے مٌں "
افف مٌرے خداٌا۔۔تو کٌوں اپنے سر مصٌبت لٌنا چاہتا ہے؟ٌہ لڑکی والوں کی ذمہ داری ہوتی ہے،پہلے تجھے دٌن دار "
پردے والی لڑکی چاہٌے تھی،مٌں چپ رہی،اب تٌری نئی ڈٌمانڈ ہے۔۔ماں کے بھی کچھ ارمان ہوتے ہٌں،تو مٌرا اکلوتا
"بٌٹا ہے
اماں اماں مٌری جان ،مٌں کونسا آپکے ارمان توڑنے لگا ہوں؟بس ٌہی کہا ہے کہ مٌں جہٌز نہٌں لوں گا۔۔اور ان "
شہرٌار نے مسکراتے ہوئے بازو اپنی ماں کی گردن مٌں ڈالتے ہوئے کہا۔
"نا تجھے کٌسے پتہ ہے کہ وہ اچھی بہو ثابت ہو گی؟؟تو نے تو اسے دٌکھا بھی نہٌں ہے؟"
"نہٌں دٌکھا تو نہٌں ہے،مگر مجھے اپنے رب پر اور اپنی دعاوں پر بھروسہ ہے کہ وہ بہترٌن ہی دٌں گے"
اس نے شرمٌلی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔۔
اسکی بات سن کر اسکی ماں نے ہنستے ہوئے اسکے چہرے کو چوم لٌا۔۔
"آمٌن"
ٌہ کہتے ہوئے وہ اپنی ماں کی گود مٌں سر رکھ کر لٌٹ گٌا اسے امٌد تھی کہ اسکی والدہ مان جائٌں گی۔۔اس نے لرة
العٌن کا انتخاب اسے دٌکھے بغٌر صرف اسکے دٌن کی بنٌاد پر کٌا تھا۔۔چونکہ شرٌعت نکاح سے پہلے اٌک دوسرے
کو دٌکھنے کی اجازت دٌتی ہے۔۔مگر ٌہ شہرٌار کا اپنا فٌصلہ تھا۔۔اسے لرة العٌن کے پردے نے ہی مطمئن کردٌا تھا۔۔
نائلہ کی شادی کو تٌن ماہ ہونے والے تھے،اسکی شادی کے دو ہفتوں بعد ہی شہرٌار کو اٌک بہت اچھی جگہ جاب مل
گئی تھی۔۔اس جاب کی وجہ سے اس نے اپنا سارا لرض اتار کر بک سٹور کو رٌنٹ پر دے دٌا تھا۔اب اسکا سٌکنڈ ٹائم
اپنی پڑھائی مکمل کرنے کا ارادہ تھا۔۔۔حاالت پہلے سے کافی بہتر ہونے لگے تھے۔۔اس لٌے اس نے پورا ارادہ کررکھا
تھا کہ اسے جہٌز کی رسم کو توڑنا ہے،اس رسم کی وجہ سے نجانے کتنی غرٌب باپوں کی بٌٹٌاں اپنے بال جوانی مٌں
ہی سفٌد کر لٌتی ہٌں،کتنی ہی بہنوں کے ارمان ادھورے رہ جاتے ہٌں،کتنے ہی غرٌب والدٌن لرض کے بوجھوں تلے
دب جاتے ہٌں،اسکا پکا ارادہ تھا کہ ان شاءہللا وہ پہل کرے گا،شاٌد اسے دٌکھ کر بہت سے لوگ ٌہ لدم اٹھا کر دوسروں
کے لٌے بھی نکاح کے رستے آسان کردٌں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"لڑکی لڑکی لڑکی۔۔۔تم نے مجھے بتاٌا کٌوں نہٌں،رکو ذرا مٌں بتاتی ہوں تمھٌں۔۔۔"
لرة العٌن ابھی کمرے مٌں داخل ہوئی ہی تھی کہ فاطمہ ہاتھ مٌں کشن لے کر اسکی طرف لپکی۔۔
وہ اچانک ٌہ سب دٌکھ کر مصنوعی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کمرے سے بھاگتے ہوئے کہنے لگی۔
فاطمہ اٌک ہفتے بعد حٌدر کی منگنی کی مٹھائی لے کر لرت کے گھر آئی تھی کہ آنٹی نے اسے لرت کے رشتے کے
بارے مٌں بتاٌا۔۔۔اسے بہت خوشی ہو رہی تھی۔۔۔اسکی خوشی مٌں وہ اپنا سارا غم بھول گئی تھی۔۔۔
"نہٌں تم رکو تو سہی ذرا۔۔۔ٌہ تو آنٹی نے بتاٌا ورنہ تو مٌڈم نے ابھی بھی نہٌں بتانا تھا ہے نا"
وہ صحن مٌں ہنستی ہوئی لرة العٌن کو پکڑنے کے لٌے اسکے پہچھے بھاگ ہی رہی تھی کہ اچانک سے دروازہ
کھال۔۔اور معاذ اندر داخل ہوا۔۔مگر ان دونوں کو اٌسے بھاگتے ہوئے دٌکھ کر ٹھٹک کر رک گٌا۔۔
لرة العٌن کو جٌسے ہی احساس ہوا وہ فورا سے رکی اور دروازے کی جانب مڑکر دٌکھا۔۔اسکے پٌچھے فاطمہ بھی
فورا رک گئی۔۔
معاذ کو دٌکھتے ہی فاطمہ نے ٌکاٌک اپنے سکارف کا پلو اوپر کرکے نماب کرلٌا اور گھبرا کر لرة العٌن کی طرف
سوالٌہ نظروں سے دٌکھنے لگی۔۔اسے بالکل اندازہ نہٌں تھا کہ لرة العٌن کا بھائی ادھر ہی ہوتا ہے۔۔
معاذ نے جلدی سے سنبھلتے ہوئے نگاہوں کو جھکاتے ہوئے کہا اور تٌزی سے اپنے کمرے کی طرف چال گٌا۔۔
"سوری فاطمہ،بھٌا گھر مٌں کبھی اٌسے بتائے بغٌر داخل نہٌں ہوتے،آجاإ ہم کمرے مٌں چلتے ہٌں۔۔"
فاطمہ خاموشی سے سر جھکائے اسکے پٌچھے کمرے مٌں جانے لگی۔۔اٌک لمحے کے لٌے اسکا دل چاہا کہ وہ مڑ کر
اس "نامحرم" کو دٌکھے۔۔جسکا پورا گٌٹ اٌپ ہی سنت مٌں ڈھال ہوا تھا۔اسکا دل پوری طرح سے مائل ہوا تھا۔۔۔وہ
مڑنے ہی لگی تھی کہ پھر اسے ہللا کا حکم ٌاد آگٌا۔۔
ارہِن
ص ُِضنَ ِم ۡن اَ ۡب َ َو لُ ۡل ِلّ ۡل ُم ۡو ِمن ِ
ت ٌَ ۡغض ۡ
)اور مومن عورتوں سے کہہ دٌجئٌے کہ اپنی نگاہوں کو جھکا لٌا کرٌں(
اس نے فورا سے اعوذ باہلل پڑھ کر اس خٌال کو جھٹک دٌا اور کمرے مٌں چلی گئی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
زونی مٌں تمھٌں کٌسے اٌسے گھر مٌں بٌاہ دوں جہاں بعد مٌں تمھٌں اپنی مرضی کے الئف سٹائل کی اجازت نہ "
اوہ مام،پلٌٌٌز۔۔آپ نے حٌدر کی ماما اور انکے الئف سٹائل کو دٌکھا ہے نا،انفٌکٹ مٌں نے انکے گھر مٌں کسی پر "
i dont thinkکوئی پابندی نہٌں دٌکھی،اب اگر حٌدر کی سسٹر نے اس طرح سے اپنا الئف سٹائل چووز کٌا ہے تو
"!!کہ ہمٌں اسکو لے کر اسطرح کے خدشات رکھنے چاہٌٌںٌ،ہ اسکی اپنی الئف ہے so
زونٌشہ نے کمان جٌسی بھنووں کو اوپر کرکے کندھے اچکاتے ہوئے کہا
اوکے ہنی،مٌں تمھارے ڈٌڈ سے بات کروں گی،وہ اس بات کو لے کر بہت پرٌشان ہو رہے تھے،اگر تمھٌں کوئی "
اعتراض نہٌں تو ہم بھی اپنی بٌٹی کی خوشی مٌں خوش ہٌں"۔
مسز فارولی نے پٌار سے زونٌشہ کے گال کو تھپک کر ،اسکے ڈائی شدہ بال سہالتے ہوئے کہا۔
حٌدر کے سسرال،فارولی صاحب کی فٌملی کو فاطمہ کے پردے کا پتہ چل چکا تھا،مسلسل دو تمرٌبات پر ،رٌان
صاحب کی اکلوتی بٌٹی کی غٌر موجودگی انکے لٌے تشوٌش ناک تھی،اس لٌے حٌدر کی رسم کے بعد مسز رٌان نے
خود انھٌں سارا معاملہ بتا کر ان سے معذرت کی تھی،کہ وہ اپنی اکلوتی بٌٹی کے "اس جنونی" روٌے کے لٌے شرمندہ
ہٌں،مسز فارولی تب تو کچھ نہ کہہ پائی تھٌں مگر گھر آکر کئی دن تک انکی اپنی فٌملی مٌں اس معاملے کو لے بہت
خدشات پٌدا ہوتے رہے تھے۔۔
زونٌشہ ہمٌشہ سے آزاد خٌال لڑکی رہی تھی،اس پر کسی بھی لسم کی روک ٹوک نہ تھی،انکی فٌملی رٌان صاحب کی
فٌملی سے زٌادہ اٌلٌٹ تھی،دٌن تو بس نام کا ٹٌگ تھا انکا۔۔اور ٌہ نام بھی پاسپورٹ ٌا آئی ڈی کارڈ پر رٌلٌجن کے خانہ
کو پر کرنے کی حد تک تھا۔۔۔اسی آزاد خٌالی کا نٌتٌجہ تھا کہ مٌڈٌکل کالج مٌں ہی زونٌشہ اپنے فٌلو حٌدر کی محبت
مٌں مبتال ہوچکی تھی۔۔
زونٌشہ کی خوشی کی خاطر اسکے پٌرنٹس نے ہمٌشہ اسکی ہر جائز ناجائز خواہش پوری کی تھی،مگر ٌہاں آکر
رشتے کا معاملہ اور وہ بھی اس طرح کی فٌملی مٌں،انھٌں سوچنے پر مجبور کر رہا تھا۔۔
ہمٌں کوئی اعتراض نہٌں ہے مسز رٌان،ہر اٌک کی اپنی زندگی ہے،اور وٌسے بھی فاطمہ نے بھی اپنے گھر کا "
ہوجانا ہے،آپ شادی کی تٌارٌاں کرٌں،ہاں مگر۔۔۔بس شادی والے دن ذرا۔۔۔۔خٌال رکھئٌے گا،دراصل ہماری فٌملی ان
باتوں کو دلٌانوسٌت سمجھتی ہے۔۔سو۔۔۔ٌمٌنا آپ سمجھ رہی ہوں گی نا۔۔"۔
مسز فارولی نے بڑی ہوشٌاری سے مسز رٌان کے سامنے فون پر ڈھکے چھپے الفاظ مٌں اپنا مطالبہ رکھتے ہوئے کہا
تھا۔۔اٌک مہٌنے بعد شادی طے ہو چکی تھی۔۔مسز فارولی نے سارے خاندان کے لوگوں کو ٌہی بتا رکھا تھا کہ حٌدر
کی بہن،اپنے بابا کے ساتھ کٌنڈا مٌں رہ کر پڑھائی کررہی ہے،اس لٌے وہ رسم پر نہٌں آسکی تھی۔۔
مگر انھٌں کٌا معلوم تھا۔۔کہ آنے والے دنوں مٌں۔۔شادی کا دن انکے لٌے سخت امتحان بننے واال تھا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کٌا کرنا ہے اور؟ اسکی حالت دٌکھو،اتنی کمزور ہوتی جا رہی ہے،چہرہ اتر گٌا ہے،کھانا پٌنا کم ہو گٌا ہے،اور تم کٌا "
رٌان صاحب نے کتاب سے نظرٌں ہٹا کر اپنی بٌگم کو دٌکھتے ہوئے کہا،پرٌشانی کے آثار انکے چہرے پر واضح
تھے۔۔
کٌا مطلب ہے آپکا؟ٌہ حال مٌں نے کٌا ہے اسکا؟؟بس کردٌں رٌان صاحب۔۔انسان نے جب اپنی الگ ہی دنٌا بنائی ہوئی "
پتہ نہٌں،اسکے خوش ہونے کا تو مٌں نہٌں کہہ سکتا،مگر۔۔اسکی آنکھوں مٌں اٌک عجٌب چمک دٌکھی ہے آج مٌں "
"!!نے،اسکے لہجے مٌں اٌک مٹھاس ہے،جو پہلے نہٌں تھی،اسکی باتٌں مٌرے دل پر بہت اثر کرتی ہٌں۔۔
بس کرٌں رٌان صاحب،صاحبزادی آجکل آپکی خدمتٌں کرنی لگ گئی ہے تو آپ کو مٌں لصور وار نظر آنے لگی "
"ہوں
انھوں نے مصنوعی ناراضگی والے لہجے مٌں کہا۔۔
نہٌں اٌسی بات نہٌں ہےٌ،ہ حمٌمت ہے کہ اسکی ٌہ تبدٌلی بہت شاندار ہے،دٌکھو ہمارے بٌٹوں نے کبھی ہم سے آکر "
پوچھا ہے کہ آپکو کوئی تکلٌف تو نہٌں ؟؟مٌں جب سے ادھر آٌا ہوں ہر روز مجھے مٌڈٌسن خود دٌتی ہے،دبا کرجاتی
"ہے،وٌسے غور تو تم نے بھی کٌا ہوگا کہ تمھارا بھی بہت خٌال رکھتی ہے
دٌکھو اگر اس نے پردہ کر بھی لٌا ہے تو اس مٌں کوئی برائی تو نہٌں ہے ،بلکہ وہ برائٌوں سے بچنا چاہ رہی ہے تو "
بس کرٌں رٌان صاحب،مٌں اس ٹاپک پر مزٌد بات نہٌں کرنا چاہتی،پہلے اس نے مجھے سوسائٹی مٌں کہٌں منہ "
دکھانے کا نہٌں چھوڑا،اس دن مسز فارولی نے بھی ڈھکے چھپے الفاظ مٌں کہہ دٌا کہ شادی کے دن دھٌان رکھئٌے
گا۔۔مجھے تو ٌہی فکر کھائی جا رہی ہے کہ کروں تو کروں کٌا۔۔اٌک طرف بٌٹا ہے اور اسکی خوشٌاں۔۔ اور دوسری
"طرف۔۔۔ ٌہ صاحب زادی ہٌں اور انکی ضدٌں۔۔
انھوں نے رٌان صاحب کو جھڑکتے ہوئے انکی بات کاٹ دی۔۔رٌان صاحب خاموش ہو کر رہ گئے اور دوبارہ کتاب اٹھا
لی۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شادی کی تٌارٌاں عروج پر تھٌں۔۔ اگلے ماہ کے آخری ہفتے کی 27تارٌخ طے پائی تھی،اسکا مدرسے جانا بند کردٌا
گٌا تھا۔۔مگر اس نے اپنی کالسز آن الئن جاری رکھی تھٌں۔۔گھر والوں کا روٌہ پہلے کی طرح ہی اکھڑا اکھڑا تھا۔۔البتہ
فاطمہ نے رٌان صاحب کے لہجے مٌں کافی نرمی محسوس کی تھی۔۔وہ اس بات پر بہت خوش تھی کہ صبر
جمٌل۔۔برائی کے جواب مٌں اچھا کرنے کا رزلٹ اتنی تٌزی سے سامنے آرہا تھا۔۔۔گو کہ ٌہ بالکل آسان نہٌں تھا۔۔مگر وہ
نفس پر جبر کرکے سب کے ساتھ پہلے سے بھی زٌادہ اچھا روٌہ رکھتی تھی جٌسے کبھی کچھ ہوا ہی نہ ہو۔۔اب تو وہ
کبھی کبھی رٌان صاحب کو دباتے ہوئے اپنے مدرسے اور لرآن کی باتٌں بھی بتاٌا کرتی تھی جسے وہ نہاٌت دھٌان
سے سنتے تھے۔۔حتی کہ صغراں اور اسکے بچوں نے بھی نماز شروع کردی تھی۔۔اور ٌہ سب اسکے حوصلے مٌں
مزٌد اضافہ کررہا تھا۔۔جہاں اٌک طرف مخالفٌن ہوں وہٌں دوسری طرف ہللا حوارٌوں جٌسے ساتھی بھی مہٌا کردٌتے
ہٌں جو آپکی دعوت حك پر لبٌک کہتے ہٌں۔۔اسے ہللا پر ٌمٌن تھا کہ ان شاءہللا سب جلدی ٹھٌک ہوجائے گا۔۔اس نے پختہ
عھد کرلٌا تھا کہ وہ اس امتحان مٌں پاس ہو کر رہے گی ان شاءہللا ۔۔
ادھر۔۔۔مسز رٌان کا روٌہ پہلے کی نسبت مزٌد سخت ہوگٌا تھا،تائی جان نے عکاشہ کے رشتے کے لٌے فاطمہ کو لبول
کرنے سے انکار کردٌا تھا۔۔وہ فاطمہ سے بس کام کی بات کٌا کرتی تھٌں۔۔اٌک تو آجکل ہر ولت شادی کی تٌاری مٌں
مصروف رہتٌں۔۔کبھی ادھر شاپنگ کے لٌے جارہی ہوتٌں تو کبھی دوسرے شہر۔۔بہت کم ہی ٹائم ملتا تھا دونوں کو اٌک
دوسرے کا سامنا کرنے کے لٌے۔۔مگر فاطمہ تک مسز فارولی کی باتٌں پہنچ چکی تھٌں۔۔اس نے اپنے آپکو ذہنی طور
پر تٌار کر لٌا تھاکہ جنت کی طرف لدم بڑھانے مٌں اٌک اور سٌڑھی امتحان کی شکل مٌں اسکی منتظر ہے۔۔۔اب اسکے
لٌے اسے روحانی تٌاری کرنا تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اٌک وٌرانہ تھا جہاں ہر طرف سناٹا چھا رہا تھا،مگر خاموشی کا پردہ چٌڑتی ٹہنٌوں کے آگ مٌں جلنے کی "
کڑکڑاتی آوازٌں ماحول کی وحشت مٌں مزٌد اضافہ کررہی تھٌں،انھٌں کچھ سمجھ نہ آرہا تھا وہ کہاں موجود ہٌں،وہ بس
گھبراتے ہوئے تٌزی سے لدم بڑھا کر اس جگہ سے نکل جانا چاہتی تھٌں،ابھی وہ چلتے چلتے وحشت بھرے ماحول کا
جائزہ لے ہی رہی تھٌں کہ انھٌں اپنے پٌچھے سرسراہٹ محسوس ہوئی۔۔انکی دھڑکن تٌز ہوگئی،رونگٹے کھڑے
ہوگئے،انھوں نے پٌچھے مڑ کر دٌکھے بغٌر تٌزی سے آگے کی طرف بھاگنا شروع کردٌا،وہ اندھٌرے مٌں بہت تٌز
بھاگ رہی تھٌں۔۔کانٹے دار ٹہنٌوں پر بہت تٌز۔۔کہ ٌکاٌک۔۔انکا پاإں پھسال۔۔انکے منہ سے اٌک تٌز چٌخ نکلی اور ساتھ
ہی وہ دھڑام سے نٌچے کھائی مٌں گرتے گرتے بچ گئٌں،گرتے ہی انکے ہاتھ مٌں اٌک کمزور ٹہنی آگئی تھی جو اس
کھائی کے دہانے زمٌن مٌں گڑی ہوئی تھی۔۔انھوں نے ڈرتے دل،وحشت بھری پھٹی آنکھوں سے پٌچھے مڑ کر نٌچے
دٌکھا تو اوسان خطا ہو گئے۔۔کھائی بہت گہری تھی اور بھڑکتی آگ سے بھری جا رہی تھی،انھٌں اپنے پاإں پر شدٌد
تپش محسوس ہوئی۔۔انھوں نے فورا چٌخنا شروع کردٌا۔۔پلٌز کوئی بچاإ،کوئی ہے؟ کوئی ہے جو مجھے ٌہاں سے
نکالے؟؟؟وہ اٌسے ہی نٌچے آگ کی طرف دٌکھتے ہوئے چٌخ رہی تھٌں کہ اچانک۔۔انھٌں اپنے دونوں پر ہاتھوں کچھ
نرم مالئم سی ٹھنڈک محسوس ہوئی۔۔انھوں نے مڑ کر اوپر دٌکھا۔۔وہ ٹہنی جس کے سہارے وہ لٹک رہی تھٌں اب لرٌب
تھا کہ ٹوٹ جائے۔۔مگر ان نرم مالئم روشن ہاتھوں نے بہت آرام سے انکے دونوں ہاتھوں کو تھام کر باہر کی طرف
کھٌنچ کر نکال لٌا۔۔۔وہ حٌرت اور بے ٌمٌنی سے کبھی اسے دٌکھتٌں تو کبھی پٌچھے مڑ کر آگ سے بھری کھائی کی
طرف۔۔انھٌں سمجھ نہٌں آرہا تھا وہ کٌسے اس محسن کا شکرٌہ ادا کرٌں۔۔۔فاطمہ۔۔مٌری بٌٹی۔۔وہ ٌہ کہتے ہوئے آگے
"بڑھٌں اور بڑھ کر اسکے روشن ہاتھوں کو چوم لٌا۔۔
اور ساتھ ہی مسز رٌان کی آنکھ کھل گئی۔۔انکا سانس بہت تٌز ہو چکا تھا،دماغ ماإف تھا،اس خواب کا ہر ہر منظر اپنی
پوری جزئٌات کے ساتھ انھٌں ٌاد تھا،وہ ابھی بھی اپنے پاإں پر آگ کی تپش محسوس کر رہی تھٌں۔۔وہ فورا سے اٹھ کر
واش روم گئٌں اور منہ پر چھٌنٹے مارنے کے بعد ٹھنڈا پانی دونوں پاإں پر بہانے لگٌں۔۔کچھ سکون محسوس ہوا تو
باہر روم مٌں واپس آکر وہ بٌڈ پر دوبارہ سے لٌٹ گئٌں۔۔
رات کے 3بجے کا ولت تھا۔۔مگر نٌند اب کوسوں دور جا چکی تھی۔۔وہ بے چٌنی سے کروٹٌں بدل رہی تھٌں۔۔عجٌب
عجٌب خٌاالت انکو گھٌرے مٌں لے رہے تھے۔۔وہ ڈراإنی جگہ۔۔کون تھا پٌچھے۔۔اور آگ۔۔کٌوں؟؟ کٌا وہ جہنم کی آگ
تھی؟؟؟انکے وجود پرکپکپی طاری ہو گئی تھی۔۔ساتھ ہی غفلت کی نٌند سوئے رٌان صاحب کو خبر بھی نہ تھی کہ انکی
بٌگم کس حال مٌں ہے۔۔مسز رٌان نے انھٌں آواز دٌنے کی کوشش کی۔۔مگر۔۔آواز حلك مٌں اٹک گئی تھی۔۔انھوں نے اٌک
نظر رٌان صاحب کو دٌکھ کر واپس نظرٌں چھت کی طرف گاڑھ دٌں۔۔وہ روشن ہاتھ۔۔رٌان کٌوں نہٌں مجھے بچانے
۔۔وہ اٹھ کر بٌٹھ گئٌں اور آنکھٌںoh my Godآئے؟؟ فاطمہ ہی کٌوں؟اور اسکے ہاتھ روشن کٌوں تھے؟؟؟
مسلنے لگٌں۔۔انکا دل گھبرا رہا تھا وہ پرٌشانی کے عالم مٌں کمرے سے نکلٌں اور دبے پاإں نٌچے سٌڑھٌاں اتر کر
فاطمہ کے کمرے کی طرف جانے کو لدم بڑھا دئٌے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
الإنج مٌں لٌمپس کی پھٌلی مدھم سی روشنی ماحول کو بہت پرسکون بنا رہی تھی۔وہ جٌسے جٌسے فاطمہ کے کمرے
کی طرف لدم بڑھا رہی تھٌں انھٌں اپنی دھڑکن تٌز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔اٌک احساس جرم تھا جو انکے دل کو
اپنے حصار مٌں لے رہا تھا۔وہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ اسکے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر ٹھٹک گئٌں۔اندر سے
ہلکی ہلکی سسکٌوں کی آواز آرہی تھی۔۔انکا دل اٌک دم ڈر گٌا۔وہ تٌزی سے آگے بڑھ کر اسکے کمرے کی ونڈو جو
الإنج مٌں کھلتی تھی اسکے پاس چلی گئٌں۔
فاطمہ کے کمرے مٌں مدھم سی روشنی تھی،ونڈو کھلی ہوئی تھی مگر اسکے آگے پردے لٹک رہے تھے،مسز رٌان
نے گرل سے ہاتھ اندر ڈال کر نہاٌت خاموشی اور آرام سے پردوں کو پٌچھے کرکے اندر جھانکا۔۔
اسکی سسکٌوں کی آواز بلند ہورہی تھی۔۔اسکی سسکٌوں مٌں اٌک درد تھا جو مسز رٌان کے دل کو ٹھٌس پہنچا رہا
تھا۔۔جٌسی بھی تھٌں۔۔تھٌں تو ماں ہی ناں۔۔انکا دل کٌا کہ جا کر اسے چپ کروائٌں،سٌنے سے لگائٌں۔۔مگر۔۔۔
وہ جائے نماز پر بٌٹھی تھی۔۔مسز رٌان اسکا کانپتا ہوا وجود اسکی پشت سے دٌکھ سکتی تھٌں۔۔وہ کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔ٌا
شاٌد۔۔گڑگڑا رہی تھی۔۔۔
انھوں نے کان لگا کر مزٌد غور سے سننے کی کوشش کی۔۔۔
ہللا تعالی۔۔مٌرے پٌارے ہللا تعالی۔۔۔دٌکھٌں ناں۔۔مٌں آپکے رستے پر کٌسے اجنبی بن گئی ہوں۔۔۔دٌکھٌں ناں ہللا۔۔۔مٌرے "
اپنے ہی مجھے غٌر سمجھنے لگے ہٌں۔۔۔ہللا آپ جانتے ہٌں نا۔۔۔مٌرا دل کٌسے چور چور ہوجاتا ہے انکی باتوں،انکے
روٌوں اور انکی نظروں سے۔۔۔مگر مٌں کسی سے کوئی شکوہ نہٌں کرتی ہللا۔۔۔کروں بھی کٌوں نا۔۔ٌہ تو آپکا رستہ
ہے۔۔آپکی رضا کا رستہ ہے۔۔ہللا مٌں تٌار ہوں سب برداشت کرنے کے لٌے۔۔مٌں سہہ لوں گی سب ہللا۔۔آپکی توفٌك
سے۔۔مگر ہللا پلٌٌٌز۔۔۔آپ مجھ سے راضی ہو جائٌں نا۔۔۔پلٌٌز ہللا ۔۔آپ راضی ہوجائٌں۔۔۔مٌں آپکو راضی کرنے کی کوشش
مٌں سب کو ناراض کر بٌٹھی ہوں۔۔اس بات پر ٌمٌن رکھتے ہوئے کہ ۔۔۔کہ۔۔۔آپ بہت لدردان ہٌں (سسکٌاں بلند ہوگئی
تھٌں)۔۔آپ غافل نہٌں ہٌں۔۔آپ مجھےلمحہ لمحہ تھامتے ہٌں ہللا۔۔مگر۔۔آخرت۔۔۔اگر آپ وہاں راضی نہ ہوئے مجھ سے۔۔تو
مٌں نے کٌا پاٌا ہللا۔۔۔مٌں تو خسارے مٌں پڑ جاإں گی اگر مٌں آپکو راضی نہ کر سکی۔۔۔اگر۔۔اگر۔۔اگر آپ نے مجھے
جہنم مٌں ڈال دٌا؟؟اوو ہللا پلٌٌز نہٌں۔۔نہٌں ناں ہللا۔۔مٌں۔۔مٌں اتنی کمزور۔۔ نہٌں مٌں نہٌں۔۔سہہ سکتی وہ عذاب۔۔مٌں نہٌں
سہہ سکتی آپکی ناراضگی۔۔مٌں تو۔۔ آپکی محبت اوررضا پانے کی تڑپ مٌں آپکےرستے پر گرتی پڑتی چل رہی ہوں
ہللا۔۔ہللا مٌں نہٌں سہہ سکتی وہ آگ۔۔۔مجھے معاف کردٌں۔۔مٌرا ہر گناہ،ماضی کا حال کا۔۔مستمبل کا۔۔ہر گناہ مٌرے نامہ
اعمال سے مٹا دٌں ہللا۔۔آپ لادر ہٌں مٹانے پر۔۔پلٌز۔۔مجھ سے راضی ہوجائٌں۔۔مٌرے گھر والوں سے راضی ہو
جائٌں،انکے بھی گناہ معاف کردٌں ہللا۔۔وہ انجان ہٌں۔۔۔انکے دلوں کو ہداٌت کے نور سے منور کردٌں۔۔انھٌں مٌرے دٌن
کا ساتھی بنا دٌں۔۔ہمٌں اپنی جنتوں مٌں اکٹھا کردٌنا ٌا ہللا۔۔پلٌز۔۔۔آپ المجٌب ہٌں نا۔۔دعا لبول کرتے ہٌں نا ۔۔مٌری دعا سن
لٌں۔۔مٌری پکار سن لٌں ہللا۔۔۔
)اب وہ آپس کے تعلمات کی بہتری کے لٌے رو رو کر مسنون دعا مانگ رہی تھی(
اے ہللا! ہمارے دلوں مٌں الفت ڈال دے ،اور ہمارے آپس (کے معامالت کی)اصالح کر اور ہمٌں سال متی کے راستے
دکھا۔اور ہمٌں (گناہوں کے) اندھٌروں سے (ہداٌت کی) روشنی کی طرف نجات دے اور ہمٌں ظاہر اور چھپے ہوئے
گناہوں سے بچا اور ہمارے لٌے ہما ری سماعتوں ،ہما ری بٌنائٌوں ،ہما رے دلوں اور ہما ری بٌوٌوں اور ہماری اوالد
مٌں برکت دے اور ہماری توبہ لبول کر ،بے شک تو ہی توبہ لبول کرنے واال مہربان ہے۔
مسز رٌان مزٌد وہاں نہ رک سکٌں۔انکی ٹانگٌں جواب دے رہی تھٌں۔وہ کانپتے ہاتھوں سے اردگرد کی چٌزوں کو
تھامتے آگے جا کر صوفے پر جا گرٌں۔کتنے عرصے بعد،آج انکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے تھے۔انھٌں خود سمجھ
!نہٌں آرہا تھا کہ انکے ساتھ کٌا ہورہا ہے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہرٌار نے بہت خوشگوار موڈ مٌں مسکراتے ہوئے معاذ سے فون پر محبت بھرا شکوہ کٌا۔۔
"وعلٌکم السالم ورحمت ہللا۔۔ادھر ہی ہٌں دولہا بھائی۔۔۔آپ کی شادی کی تٌارٌوں مٌں مصروف۔۔"
معاذ نے بھی بھرپور انداز مٌں ہنس کرجواب دٌتے ہوئے کہا۔
جوابا شہراٌا اپنی مسکراہٹ دبا کررہ گٌا۔۔
"بس سٌکنڈ ٹائم پڑھائی شروع کردی ہے۔۔سوچا ڈگری مکمل کرلوں"
"ان شاءہللا۔۔"
"آچھا مٌں نے اٌک وٌلفئٌر آرگنائزٌشن جوائن کی ہے ،آج شام انکا ٌوتھ کے لٌے سٌشن ہے،تم آسکتے ہو؟"
"ہللا کی معرفت"
"اوہ زبردست۔۔ ان شاءہللا مٌں کوشش کرتا ہوں،تم اٌڈرٌس بھٌج دو"
"ضرور ان شاءہللا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممررہ ولت پر دونوں اٌک ساتھ اس آرگنائزٌشن کی بڑی سی بلڈنگ مٌں داخل ہوچکے تھے،اس بلڈنگ کے مٌن ہال مٌں
اس سٌشن کا اہتمام کٌا گٌا تھا،شہرٌار پہلی مرتبہ اٌسے کسی اسالمی سٌشن مٌں آٌا تھا،اسے اچھا لگا کہ دٌن کے لٌے
بھی اتنے بڑے لٌول پر وٌل آرگنائزڈ طرٌمے سے تمرٌب کا اہتمام کٌا گٌا ہے،وہاں بوفرز پر اسالمک اناشٌد چل رہی
تھٌں جنکی آواز پوری بلڈنگ مٌں گونج رہی تھی۔۔اٌک الگ ہی اٌمانی ماحول تھا وہاں،انتظامٌہ بہت خوشگوار طرٌمے
سے آنے والوں کو وٌلکم کررہی تھی۔اس سے پہلے شہرٌار نے ٌونٌورسٹٌز مٌں ہونے والی پارٹٌز اور گٌڈرنگز کے
لٌے ہی اتنی شاندار ارٌنجمنٹس دٌکھے تھے،مگر ٌہاں۔۔آنے واال ہر نوجوان اس اٌمانی ماحول سے متاثر ہورہا تھا۔۔وہ
لوگ ہال مٌں داخل ہو کر اپنی ممرر کردہ سٌٹس نمبرز دٌکھتے ہوئے اپنی جگہ پر جا بٌٹھے۔۔
سٌشن کا آغاز بہت ہی خوبصورت تالوت سے ہوا تھا،سورت الدھر کی تالوت کی گئی تھی،جسے سن کر شہرٌار کے
دل مٌں اٌک امنگ اٹھی کہ کاش۔۔۔وہ بھی اتنی خوبصورت طرٌمے سے تالوت کر سکتا۔۔چند اور تعارفی باتوں کے بعد
"اس سٌشن کا بالاعدہ آغاز ہوا،جس کا ٹاپک تھا "اپنے رب کی معرفت
سٹٌج پر خطاب کرنے واال شخص نوجوان تھا جسکی عمر کوئی 38،35سال ہو گی،اسکے چہرے پر سجی داڑھی
اسکی پرسنٌلٹی کے رعب مٌں مزٌد اضافہ کررہی تھی،سالم دعا اور تعارف کے بعد اس نے اپنے ٹاپک کا آغاز کٌا۔۔
مٌرے پٌارے بھائٌوں اور بٌٹوں،آج ہم اٌک اٌسے ٹاپک پر بات کرنے جارہے ہٌں،جو ہماری روح کی بنٌادی ضرورت "
ہونے کے ساتھ ساتھ آج ہمارے ولت کی بھی بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے،آپ سب ہر طرف مختلف باتٌں سنتے ہوں
گے،ہر طرف شکوے اور تنمٌدوں کے بازار گرم ہٌں،ہر طرف انھی باتوں پر تبصرہ ہورہا ہے کہ کرپشن بہت
ہے،خٌانت اور جھوٹ،بے اٌمانی اور دھوکہ دہی،شرک،بدعات،لتل و غارت،بے سکونی غرض ہر برائی اس معاشرے
مٌں پنپ رہی ہے!!تبصرے کرنے والے بہت ہٌں۔۔مٌں اور آپ بھی ان مٌں شامل ہٌں۔۔مگر۔۔آج اس مجلس مٌں ہم
معاشرے کی ان تمام برائٌوں کا سبب جاننے کی کوشش کرٌں گے کہ ہر انسان ٌہ جاننے کے باوجود کہ کٌا گناہ ہے
اور کٌا غلط،پھر بھی ہللا سے نہٌں ڈرتا،باز نہٌں آتا۔۔اس سبکی وجہ ہے "دٌن کے علم سے دوری،اور سب بڑھ کر،
!!اپنے رب کی معرفت سے دوری
ٌہی سب چٌزٌں جب کسی معاشرے کے لوگوں کے اندر جڑ پکڑ جائٌں تو وہ معاشرہ زوال کی انتہاإں کو چھونے لگتا
ہے۔۔ٌہ وہ ممام ہے جہاں ہم جاتے جا رہے ہٌں،ہللا ہم سب کو اپنی امان مٌں رکھٌں،خداخوفی کا نہ ہونا دراصل،ہللا کی
معرفت سے جہالت کی نشانی ہے،ہم سب چاہتے ہٌں کہ ہم اچھے بن جائٌں،ہم ہللا کے پسندٌدہ بن جائٌں،ہم سب کی موت
اٌمان کی حالت مٌں ہو اور ہم بغٌر حساب کے جنت مٌں جائٌںٌ،ہ سب بالکل ہوسکتا ہے ان شاءہللا العزٌز،مگر اسکے
لٌے سب سے پہال علم توحٌد کا علم ہے،توحٌد پر اٌمان النا ہے،اس رب کو جاننا ہے اسکو پہچاننا ہے تاکہ اس سے
محبت کی جا سکے۔۔اور پھر اسکی مرضی کے مطابك زندگی گزاری جا سکے۔۔ہللا کی لسم ،اسکی معرفت ہی اسکی
بندگی کو آسان کردٌتی ہے۔۔
تو مٌں آپ سب سے سوال کرتا ہوں؟ وہ کون کون سے طرٌمے ہٌں جنکے ذرٌعے ہم اپنے رب تعالی کو پہچان سکتے
!!کٌجئٌے جو بھی جواب ذہن مٌں آرہا ہے hand raiseہٌں؟؟؟جی
لرآن کے ذرٌعے۔۔۔اسکی کائنات پر غوروفکر کرکے۔۔رب کے کالم کو سمجھ کر۔۔۔رسول ﷺ کے معموالت سے۔۔ہللا
والوں کی صحبت سے۔۔۔ہللا کے ناموں کا علم لے کر؟؟
)آڈٌنس مٌں بٌٹھے نوجوان اٌک کے بعد اٌک جواب دے رہے تھے(
جی بالکل۔۔ٌہی سب رستے ہٌں جن کے ذرٌعے ہم ہللا کو پہچان سکتے ہٌں،اسے جان سکتے ہٌں،دٌکھٌں۔۔کسی سے
محبت کے لٌے اسے جاننا ضروری ہے نا۔۔وٌسے ہی رب کی محبت کے لٌے بھی اسے جاننا ضروری ہے۔۔
مٌں،مٌں آپکو امام ابن المٌم رحمہ ہللا کے چند الفاظ سناوں گا،کہ ہمارے سلف صالحٌن کٌسے ) (talkتو آج کی اس ٹاک
ہللا کو پہچانتے تھے۔۔
امام ابن المٌم رحمہ ہللا کہتے ہٌں،
انسان پٌدا ہوا تو اس کی فطرت مٌں اٌک نور بھرا گٌا۔ ٌہی زمٌن پر زندگی اور ہداٌت کا اصل سبب ہے۔ اس نور کی
امانت انسان کی فطرت کو سونپی گئی۔ مگر چونکہ ٌہ انسان کی درماندگی کا تنہا عالج نہ تھا ،سو اسے جال دٌنے کو
آسمان سے اٌک اور نور اور اٌک روح انبٌاءکے جلو مٌں اتری ،جسے فطرت اپنے سابمہ نور کی مدد سے پالٌتی رہی۔
تب نبوت کی ضوفشانی سے فطرت کی مشعلٌں جل اٹھٌں۔ فطرت کے نور پر وحی کا نور! نور علی نور!....پھر کٌا
تھا!؟ دل روشن ہوئے۔ چہرے دمکنے لگے۔ پثرمردہ روحوں کو زٌست کی تازگی ملی۔ جبٌن نٌاز مٌں تڑپتے سجدے
حمٌمت بندگی سے آشنا ہوئے۔ آسمان کی روشنی سے دل خٌرہ ہوئے تو پھر زمٌن کے لمممے جلنے نہ پائے۔ اٌک
بصٌرت تھی کہ دل کی آنکھ چشم ظاہر سے آگے دٌکھنے لگی۔ ٌمٌن کا نور اٌمان کے سب حمائك منکشف کرنے لگا۔
پھر دل تھے گوٌا رحمن کے عرش کو پورے جہان سے اوپر دٌکھتے ہٌں۔ اس عرش کے اوپر انکے رب نے استوا
فرما رکھا ہے۔ ہو بہو جٌسے اسکی کتاب اور اسکے رسول نے خبر دی ہے۔ وہ اس عرش عظٌم کے اوپر سے اپنے
رب کو آسمان و زمٌن مٌں فرماں روا پاتے ہٌں۔ جو وہٌں سے حکم صادر فرماتا ہے۔ مخلوق کو چالتا ہے۔ روکتا اور
ٹوکتا ہے۔ بے حد و حساب خلمت کو وجود دئٌے جاتا ہے۔ پھر ہر اٌک کو کھالتا اور رزق دٌتا ہے۔ مارتا اور جالتا ہے۔
فٌصلے کرتا ہے جنکا کوئی حساب نہٌں۔ کوئی فٌصلہ نہٌں جو اس عرش کے اوپر سے صادر ہو پھر دنٌا مٌں الگو نہ
ہو پائے وہ کسی کو عزت و تمکنت دے۔ تو کسی کو ذلت و رسوائی۔ رات پلٹتا ہے تو دن الٹتا ہے۔ گردش اٌام مٌں بندوں
کے دن بدلتا ہے۔ تخت الٹتا ہے„ سلطنتٌں زٌر و زبر کرتا ہے اٌک کو التا ہے تو دوسرے کو گراتا ہے۔ فرشتے پروں
کے پرے„ حکم لٌنے کو اسکے حضور چڑھتے ہٌں۔ لطار اندر لطار حکم لے لے کر نازل ہوئے جاتے ہٌں۔ احکامات
ہٌں کہ تانتا بندھا ہے۔ آٌات اور نشانٌوں کی بارش ہوئی جاتی ہے۔ اسکے فرمان کو اس کی مرضی کی دٌر ہے کہ نافذ
ہوا جاتا ہے۔ وہ جو چاہے„ وہ جٌسے چاہے۔ وہ جس ولت چاہے„ جس رخ سے چاہے„ ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی کمی ممکن
ہے نہ بٌشی„ تاخٌر ہو سکتی ہے نہ تمدٌم۔ اسی کا حکم چلتا ہے آسمانوں کی پنہائٌوں مٌں زمٌن کی تنہائٌوں مٌں۔ روئے
زمٌن سے پا تال تک„ وہ ہر لمحہ ہر نفس کا فٌصلہ کرتا ہے۔ ہر سانس کا فٌصلہ ہوتا ہے„ ہر لممے ہر نوالے کا فٌصلہ
ہوتا ہے۔ ہر نٌا دن„ ہر نئی صبح اور نئی شام„ وہ چاہے تو دٌکھنا نصٌب ہوتی ہے۔ بحرو بر کا ہر ذی روح اسکا رہٌن
التفات ہے۔ جہان کے ہر کونے ہر ذرے کی لسمت ہر لمحہ طے ہوتی ہے۔ پورے جہان کو وہ جٌسے چاہے الٹتا اور
پلٹتا ہے۔ پھٌرتا اور بدلتا ہے۔ ہر چٌز کو علم سے محٌط ہے۔ ہر چٌز کو گن گن کے شمار رکھتا ہے۔ اسکی رحمت اور
حکمت کو ہر چٌز پہ وسعت ہے۔ وہ جہان بھر کی آوازٌں بآسانی سن لٌتا ہے۔ کٌسی کٌسی زبانٌں ہونگی؟ کٌسی کٌسی
فرٌادٌں ہونگی؟ مگر وہ زمٌن و آسمان کے ہر کونے سے ہر لمحہ اٹھنے واال ٌہ مسلسل شور سنتا جاتا ہے۔ اس آہ
وفغاں مٌں ہر اٌک کی الگ الگ سنتا ہے اور صاف پہچان جاتا ہے ان سب کی بٌک ولت سنتا ہے اور کسی اٌک سے
غافل نہٌں!!۔ پاک ہے اس سے کہ التجائوں کے ازدحام مٌں اسکی سماعت کبھی چوک جائے۔ ٌا حاجتمندوں کی آہ و
فرٌاد مٌں کبھی جواب دٌنا اسکو مشکل پڑ جائے۔ اسکی نگاہ محٌط ہر چٌز دٌکھتی ہے۔ وہ رات کی تارٌکی مٌں„
اندھٌری چٹان پر„ سٌاہ چٌونٹی کے لدموں کی آہٹ پا لٌتا ہے۔ ہر غٌب اسکے لئے شہادت ہے۔ کوئی راز اس کے لئے
راز نہٌں وہ پوشٌدہ سے پوشٌدہ تر کو جان لٌتا ہے۔ اسے وہ ہر راز معلوم ہے جو لبوں سے کوسوں دور ہو۔ جو دل کے
گہرے کنوٌں مٌں دفن ہو ٌا خٌال کی آہٹ سے بھی پرے ہو۔ بلکہ وہ راز وجود پانے سے پہلے اسے معلوم ہوتا ہے کہ
کب اور کٌسے وہ اس دل مٌں وجود پائے گا۔
تخلٌك اس کی „ حکم اسکا۔ ملک اسکا„ حمد اسکی۔ دنٌا اسکی„ آخرت اسکی۔ نعمت اسکی„ فضل اسکا۔ تعرٌف اسکی„
شکر اسکا۔ بادشاہی اسکی„ فرمانروائی اسکی۔ حمد و ستائش اسکی ،التدار اسکا۔ ہر خٌر اسکے ہاتھ مٌں۔ ہر چٌز پلٹے تو
اسی کی طرف„ اسکی لدرت ہر چٌز پر محٌط ....کہ کچھ اس سے ماورا نہٌں۔ اسکی رحمت ہر چٌز سے وسٌع ہے۔ ہر
نفس اسکی نعمت کے بار سے دبی ہے„ پر شکر سے ٌوں عاجز کہ اس عاجزی کے اظہار کو بندگی کی معراج
!!جانے۔
زمٌن اور آسمانوں کی ہر مخلوق اٌک اسی کی سوالی ہے۔ ہر آن وہ نئی شان مٌں ہے“۔ ”
وہی گناہگاروں کو معاف کرے۔ غمزدوں کو آسودہ کرے۔ اضطراب کو چٌن مٌں بدلے۔ وہ چاہے تو چنتہ کو بے چنتا
کر دے۔ درماندوں کو وہی فٌض بخشے„ فمٌروں کو تونگری دے تو امٌروں کو فالے دکھا دے۔ جاہلوں کو سکھائے تو
بے علموں کو پڑھائے۔ گمراہوں کو سدھائے تو بھٹکے ہوئوں کو سجھائے۔! دکھی کو سکھ دے تو وہ۔ اسٌروں کو لٌد
کی ظلمت سے چھڑائے تووہ۔ عرش پر سے وہ زمٌن کے بھوکوں کو کھالئے۔ پٌاسوں کو پالئے۔„ ننگوں کو پہنائے۔
بٌماروں کو شفا ٌاب کرے۔ آفت زدوں کو نجات دے۔ تائب کو بارٌاب کرے۔ نٌکی اور پارسائی کا جواب نوازشوں کی
بارش سے دے۔ وہی مظلوم کی نصرت کرے۔ ظالم کی کمر توڑے۔ ناتوانوں کا بوجھ سہارے۔ اپنے بندوں کے عٌب
بندوں سے چھپالے۔ دلوں کے خوف دور کرے اور اپنے بندوں کا بھرم رکھے۔ امتوں اور جماعتوں مٌں سے کسی کو
بلند کرے تو کسی کو پست!۔
وہ کبھی نہٌں سوٌا„ نہ سونا اسکو الئك ہے! وہ اپنی رعٌت کا ہمہ ولت نگران ہے۔ وہ کسی کو عزت دٌے جاتا ہے تو
کسی کو ذلت۔ رات کے اعمال دن سے پہلے اسکی جانب بلند ہوئے جاتے ہٌں اور دن کے اعمال رات سے پہلے۔ اسکا
حجاب اٌک نور بٌکراں ہے۔ جسے وہ ہٹا دے تو اسکے رخ کا نور ہر چٌز بھسم کر دے۔ اسکا دست کشادہ اور فراخ
ہے ۔ جو خرچ کرنے اور لٹانے سے کبھی تنگ ہونے کا نہٌں! وہ صبح شام لٹاتا ہے۔ جب سے مخلوق پٌدا ہوئی وہ
!لٹائے جاتا ہے۔ پر اسکے ہاں کمی آنے کا سوال نہٌں
بندوں کے دل اور پٌشانٌاں اسکی گرفت مٌں ہٌں۔ جہاں بھر کی زمام اسکے لضاو لدر سے بندھی ہے۔ روز لٌامت
پوری زمٌن اسکی اٌک مٹھی ہو گی تو سارے کے سارے آسمان لپٹ کر اسکے دست راست مٌں آ رہٌں گے۔ وہ اپنے
اٌک ہاتھ مٌں سب آسمانوں اور زمٌن کو پکڑ لے گا۔ پھر انکو لرزائے گا پھر فرمائے گا۔ ” مٌں ہوں بادشاہ! مٌں ہوں
!“شہنشاہ! دنٌا کہٌں نہ تھی تو مٌں نے بنائی۔ مٌں ہی اسکو دوبارہ تخلٌك کرتا ہوں
کوئی گناہ اتنا بڑا نہٌں کہ وہ معاف نہ کر پائے„ بس دٌر ہے تو پشٌمانی کی! کوئی حاجت نہٌں جسے پورا کرنا اس کے
بس سے باہر ہو جائے„ بس دٌر ہے تو سوال کی! زمٌن و آسمان کی اول و آخر سب مخلولات„ سب انس و جن„ کبھی دنٌا
کے پارسا ترٌن شخص جتنے نٌک دل ہو جائٌں„ اسکی بادشاہت اور فرمانروائی اتنی بڑی ہے کہ اس سے ذرہ بھر بھی
نہ بڑھے۔ اور اگر ٌہ سب مخلولات„ سب انس و جن دنٌا کے کسی بدکار ترٌن شخص جتنے کوڑھ دل ہو جائٌں تب
اسکی فرمانروائی مٌں ذرہ بھر فرق نہ آئے! اگر زمٌن و آسمان کی اول و آخر سب مخلولات„ سب انس و جن„ سب زندہ
و مردہ کسی مٌدان عظٌم مٌں مجمع لگا کر اس سے سوال کرنے لگٌں„ پھر اٌک اٌک اسکے در سے من کی مراد پاتا
جائے„ تب اسکے خزانوں مٌں ذرہ بھر کمی آنے کا تصور نہٌں! روئے زمٌن کا ہر شجر جو کرہ ارض پہ آج تک پاٌا
گٌا ٌا رہتے دم تک وجود پائے۔ الالم کی صورت اختٌار کرے„ سمندر ....جسکے ساتھ سات سمندر اور ہوں....
روشنائی بنٌں„ پھر لکھائی شروع ہو تو ٌہ للمٌں فنا ہو جائٌں„ ٌہ روشنائی ختم ہو جائے „ مگر خالك کے کلمات ختم
ہونے مٌں نہ آئٌں! اسکے کلمات ختم بھی کٌسے ہوں جنکی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا! جبکہ سب مخلولات ابتدا اور انتہا کی
اسٌر ہٌں۔ سو ختم ہو گی تو مخلوق! فنا ہو گی تو مخلوق! خالك کو کو ئی فنا ہے نہ زوال!!۔
وہ اول ہے جس سے پٌشتر کچھ نہٌں! وہ آخر ہے جس کے بعد کچھ نہٌں! وہ ظاہر ہے جس سے اوپر کچھ نہٌں! وہ
باطن ہے جس سے پرے کچھ نہٌں! وہ بلند ہے! وہ پاک ہے! ذکر ہو تو بس اسی کا! عبادت ہو تو اٌک اسی کی ! حمد ہو
تو اسی کی! شکر ہو تو اسی کا۔ فرٌاد رسی اٌک اسی کی شان ہے۔ وہ شہنشاہ مہربان ہے! سوال پورا کرنے مٌں کوئی
اس سے بڑھ کر فٌاض نہٌں! لدرت انتمام رکھ کر بے پروائی سے بخش دٌنا اسکو انتمام لٌنے سے عزٌز تر ہے۔ اک
وہی ہے جس کے در سے تہی دست لوٹ آنا محال و مستحٌل ہے۔ وہی ہے جو انتمام بھی لے تو عادل ترٌن ہو۔ اسکا حلم
و بردباری کبھی العلمی کا نتٌجہ نہٌں! اسکا عفو و مغفرت کسی بے بسی پر مبنی نہٌں! وہ بخشش کرے تو اپنے عزت
و جالل اور تمکنت کی بنا پر ۔ کسی کو دٌنے سے انکار کرے تو اپنی حکمت و دانائی کی بنا پر۔ وہ کسی کو دوست
رکھے تو محض اپنے احسان سے„ اور عزٌز جانے تو صرف اپنی رحمت سے!!۔
بندوں کا اس پر کوئی حك ہے نہ زور۔ پر وہ خود ہی بے پاٌاں مہربان ہے! کوئی محنت اسکے حضور اکارت نہ ہو
پائے۔ وہ کسی کو عذاب دے تو اسکے عدل کا تماضا ہو۔ کسی پر مہربان ہو تو محض اپنے فضل سے! اسکا نام کرٌم
ہے۔ اسکا کرم وسٌع ہے„ اور اسکی رحمت اسکے غضب پہ بھاری ہے۔
وہ بادشاہ مطلك ہے۔کوئی اسکا شرٌک نہٌں ۔ وہ تنہا و ٌکتا ہے„ کوئی اسکا ہمسر نہٌں! وہ غنی و الزوال ہے۔ کوئی
اسکا پشتبان اور سہارا نہٌں! وہ صمد اور بے نٌاز ہے۔ کوئی اسکی اوالد نہٌں„کوئی شرٌک حٌات نہٌں! وہ بلند و عظٌم
ہے„ کوئی اسکا شبٌہ نہٌں„ کوئی ہم نام و ہم صفت نہٌں! اسکے رخ انور کے سوا ہر چٌز ہالک ہو جانے والی ہے۔
اسکی بادشاہت کے سوا ہر ملک کو زوال آنا ہے۔ اسکے سائے کے سوا ہر سائے کو سمٹ جانا ہے۔ اسکے فضل کے
سوا ہر فضل کو فنا ہے۔ اسکی اطاعت بھی اسکے اذن اور اسکے فضل کے بنا ممکن نہٌں! اسکی اطاعت ہو تو وہ لدر
دان ہوتا ہے! نافرمانی ہو تو درگزر اور بخشش سے مہربان ہوتا ہے۔ وہ کبھی پکڑلے تو عدل ہو گا۔ وہ بخش دے تو
فضل ہو گا۔ وہ انعام مٌں خلد برٌں سے نواز دے تو احسان ہو گا!! وہ سب سے لرٌب گواہ ہے۔ وہ سب سے نزدٌک
محافظ ہے۔ چاہے تو دل کے ارادوں مٌں حائل ہو جائے! پٌشانٌوں سے پکڑ لٌتا ہے۔ اٌک اٌک بات لکھتا ہے۔ لدم کا ہر
نشان محفوظ کئے جاتا ہے۔ ہر نفس کی اجل لکھتا ہے۔ ہر چٌز کی مٌعاد رکھتا ہے۔ سٌنوں مٌں چھپے دل اسکے لئے
کھلی کتاب ہٌں۔ کوئی راز اسکے لئے راز نہٌں۔ ہر غٌب اسکے لئے شہادت ہے۔ بڑی سے بڑی بخشٌش بس اسکے کہہ
دٌنے پر مولوف ہے۔ اسکا عذاب اسکے لول کے اشارے کا منتظر ہے۔ کائنات مٌں ہر امر کو اسکے ‟کن„ کی دٌر ہے۔
!پھر وہ جو کہہ دے سو ہو جاتا ہے
) ِإنَّ َما ٓ أَمۡ ُرہُ ۥۤ ِإذَآ أ َ َرا َد ش ٌَۡـًٔا أَن ٌَمُو َل لَهُ ۥ ُكن فَ ٌَ ُكونُ (ٌس۲ٕ:
سو جس دل پر اسکے معبود کی صفات ٌوں جلوہ گر ہوں„جس للب مٌں لرآن کا ٌہ نور ٌوں جلوہ افروز ہو اسکی دنٌا
مٌں کسی اور کا دٌا کٌونکر جلتا رہے؟ اسے امٌد کی کرن کسی اور روزن سے کٌونکر ملے!؟ پھر مخلوق اس کی نگاہ
مٌں کٌونکر جچے!؟ بھروسہ! اٌمان کی ٌہ حمٌمت لفظوں سے کہٌں بلند ہے۔ خٌال کی پہنچ سے کہٌں اوپر ہے۔ بس اسکا
ذکر ہی اس دل کو بمعہ نور کرتا ہے۔ چہروں کی تمازت اسی کے دم سے ہے۔ پٌشانٌاں روشن ہونگی تو اس کی بدولت!
دنٌا مٌں ٌہی نور اس بندے کی متاع عزٌز ہے جو بندگی کا خوگر ہو۔ ٌہی روشنی اسکی برزخ اور حشر کا توشہ ہے۔
جس دل مٌں لرآن کا ٌہ چراغ جلے„ اور جس لدر جلے„ اسکی زبان اور سٌرت دنٌا کو اتنا ہی روشن کرے گی۔ ظلمتوں
کی رو سٌاہی اسی روشنی سے دھلے گی۔ دنٌا مٌں ٌہی چراغ جلٌں گے تو روشنی ہو گی„ ٌہی روشنی پھر آخرت مٌں
دلٌل و برھان ہو گی اٌسے مومن بھی ہٌں جنکے اعمال سوئے عرش بلند ہوں تو سورج کی مانند روشن ہوں۔ پھر جب
روح اپنا جسد چھوڑ کر اس کے حضور بارٌاب ہونے کو آسمانوں مٌں چڑھے تو فضائٌں اسکی راہ مٌں روشن ہوتی
....جائٌں۔ اور جو لٌامت کے روز اس روشن چہرے کو روپ ملے گا وہ تو پھر نظارئہ خالئك ہو گا
ٌہ خوبصورت الفاظ سناتے سناتے اس نوجوان کی آواز بھرا چکی تھی،ہال مٌں بٌٹھے ہر شخص کی آنکھ نم تھی،پٌشانی
پر ندامت و عاجزی عٌاں تھی،ہر شخص گوٌا خود پر شرمندہ تھا۔۔کہ اس نے رب کو اب تک جانا ہی کتنا تھا۔۔۔اسکی
لدر ہی کتنی کی تھی۔۔صدٌوں سال پہلے اٌک نٌک شخص کے خلوص سے لکھے گئے الفاظ۔۔صدٌوں بعد لوگوں کو رال
رہے تھے،دلوں کو ہال رہے تھے۔۔۔سٌشن ختم ہوا ہی تھا۔۔
کہ ٌکاٌک آڈٌنس مٌں سے اٌک نوجوان لڑکا کھڑا ہوا۔۔اسکی آنکھٌں بہہ رہی تھٌں۔۔
مٌں ٌہاں آنے سے پہلے تک ،اٌتھٌسٹ (ملحد)تھا ،مٌں اٌک سو کالڈ مسلمان گھرانے مٌں پٌدا ہوا تھا،مگر۔۔کسی نے "
مجھے مٌرے خالك کی معرفت نہٌں کروائی،مٌں اپنے گھر والوں سے سوال پوچھا کرتا تھا اور وہ مجھے چپ کروادٌا
کرتے تھے۔۔جٌسے جٌسے مٌں بڑا ہوتا گٌا،کچھ ٌونٌورسٹی اور کچھ صحبت کے اثر سے مٌں اسی بات پر جم گٌا کہ
جو نظر نہٌں آتا وہ خدا کٌسے ہوسکتا ہے؟؟مجھ سے سب بڑی غلطی ٌہ بھی ہوئی کہ مٌں نے اس خالك کے لرآن کو
سمجھ کر نہٌں پڑھا۔اسکو اہمٌت ہی نہٌں دی۔مگر ہللا کی لسم۔۔ مٌں جانتا ہوں،الحاد کے اب تک کے سفر مٌں،مٌری روح
نے اذٌت کے سوا کچھ نہٌں پاٌا،آج مٌرے دوست کے زور دٌنے کی وجہ سے مٌں اسکے ساتھ ٌہاں آٌا کہ شاٌد،مجھے
مٌرے سوالوں کے جواب مل جائٌں،جنکی کھوج شاٌد مٌں اب روک چکا تھا۔۔۔مگر ان الفاظ نے،ہللا کے اس خوبصورت
تعارف نے۔۔۔مٌرے دل کو جھنجھوڑ دٌا ہے،گوٌا مٌری روح پکار اٹھی ہے کہ۔۔۔"ٌہی حك ہے"۔۔ہاں۔۔مٌں اسالم لبول کرتا
ہوں۔۔۔
)مٌں گواہی دٌتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہٌں اور مٌں گواہی دٌتا ہوں کہ دمحم ﷺ اسکے بندے اور رسول ہٌں(
اس نے شہادت کی انگلی بلند کرتے ہوئے سسک کر کانپتی ہوئی آواز مٌں کہا۔۔
پورے ہال مٌں تکبٌر کی آواز گونج اٹھی تھی۔۔سب بہتی آنکھوں سے اس نوجوان لڑکے کو اٹھ اٹھ کر گلے لگا رہے
تھے۔۔
شہرٌار کا دل کررہاتھا کہ وہ سسکٌوں سے روئے۔۔۔مگر کس لٌے؟؟اپنی نوجوان نسل کے ہللا کی معرفت سے جاہل
ہونے پر ٌا اپنی غفلت پر؟؟؟
وہ معاذ سے اجازت لٌتا ہوا تٌزی سے باہر نکل گٌا۔۔مگر اب کی بار۔۔اٌک نئے عزم سے،خود سے اٌک عھد کرتے
!!!ہوئے۔۔کہ اب وہ اپنی زندگی کو ضائع نہٌں کرے گا۔۔اب وہ غفلت مٌں نہٌں رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
الإنج مٌں لٌمپس کی پھٌلی مدھم سی روشنی ماحول کو بہت پرسکون بنا رہی تھی۔وہ جٌسے جٌسے فاطمہ کے کمرے
کی طرف لدم بڑھا رہی تھٌں انھٌں اپنی دھڑکن تٌز ہوتی ہوئی محسوس ہوئی۔اٌک احساس جرم تھا جو انکے دل کو
اپنے حصار مٌں لے رہا تھا۔وہ کانپتی ٹانگوں کے ساتھ اسکے کمرے کے دروازے پر پہنچ کر ٹھٹک گئٌں۔اندر سے
ہلکی ہلکی سسکٌوں کی آواز آرہی تھی۔۔انکا دل اٌک دم ڈر گٌا۔وہ تٌزی سے آگے بڑھ کر اسکے کمرے کی ونڈو جو
الإنج مٌں کھلتی تھی اسکے پاس چلی گئٌں۔
فاطمہ کے کمرے مٌں مدھم سی روشنی تھی،ونڈو کھلی ہوئی تھی مگر اسکے آگے پردے لٹک رہے تھے،مسز رٌان
نے گرل سے ہاتھ اندر ڈال کر نہاٌت خاموشی اور آرام سے پردوں کو پٌچھے کرکے اندر جھانکا۔۔
اسکی سسکٌوں کی آواز بلند ہورہی تھی۔۔اسکی سسکٌوں مٌں اٌک درد تھا جو مسز رٌان کے دل کو ٹھٌس پہنچا رہا
تھا۔۔جٌسی بھی تھٌں۔۔تھٌں تو ماں ہی ناں۔۔انکا دل کٌا کہ جا کر اسے چپ کروائٌں،سٌنے سے لگائٌں۔۔مگر۔۔۔
وہ جائے نماز پر بٌٹھی تھی۔۔مسز رٌان اسکا کانپتا ہوا وجود اسکی پشت سے دٌکھ سکتی تھٌں۔۔وہ کچھ کہہ رہی تھی۔۔۔ٌا
شاٌد۔۔گڑگڑا رہی تھی۔۔۔
انھوں نے کان لگا کر مزٌد غور سے سننے کی کوشش کی۔۔۔
ہللا تعالی۔۔مٌرے پٌارے ہللا تعالی۔۔۔دٌکھٌں ناں۔۔مٌں آپکے رستے پر کٌسے اجنبی بن گئی ہوں۔۔۔دٌکھٌں ناں ہللا۔۔۔مٌرے "
اپنے ہی مجھے غٌر سمجھنے لگے ہٌں۔۔۔ہللا آپ جانتے ہٌں نا۔۔۔مٌرا دل کٌسے چور چور ہوجاتا ہے انکی باتوں،انکے
روٌوں اور انکی نظروں سے۔۔۔مگر مٌں کسی سے کوئی شکوہ نہٌں کرتی ہللا۔۔۔کروں بھی کٌوں نا۔۔ٌہ تو آپکا رستہ
ہے۔۔آپکی رضا کا رستہ ہے۔۔ہللا مٌں تٌار ہوں سب برداشت کرنے کے لٌے۔۔مٌں سہہ لوں گی سب ہللا۔۔آپکی توفٌك
سے۔۔مگر ہللا پلٌٌٌز۔۔۔آپ مجھ سے راضی ہو جائٌں نا۔۔۔پلٌٌز ہللا ۔۔آپ راضی ہوجائٌں۔۔۔مٌں آپکو راضی کرنے کی کوشش
مٌں سب کو ناراض کر بٌٹھی ہوں۔۔اس بات پر ٌمٌن رکھتے ہوئے کہ ۔۔۔کہ۔۔۔آپ بہت لدردان ہٌں (سسکٌاں بلند ہوگئی
تھٌں)۔۔آپ غافل نہٌں ہٌں۔۔آپ مجھےلمحہ لمحہ تھامتے ہٌں ہللا۔۔مگر۔۔آخرت۔۔۔اگر آپ وہاں راضی نہ ہوئے مجھ سے۔۔تو
مٌں نے کٌا پاٌا ہللا۔۔۔مٌں تو خسارے مٌں پڑ جاإں گی اگر مٌں آپکو راضی نہ کر سکی۔۔۔اگر۔۔اگر۔۔اگر آپ نے مجھے
جہنم مٌں ڈال دٌا؟؟اوو ہللا پلٌٌز نہٌں۔۔نہٌں ناں ہللا۔۔مٌں۔۔مٌں اتنی کمزور۔۔ نہٌں مٌں نہٌں۔۔سہہ سکتی وہ عذاب۔۔مٌں نہٌں
سہہ سکتی آپکی ناراضگی۔۔مٌں تو۔۔ آپکی محبت اوررضا پانے کی تڑپ مٌں آپکےرستے پر گرتی پڑتی چل رہی ہوں
ہللا۔۔ہللا مٌں نہٌں سہہ سکتی وہ آگ۔۔۔مجھے معاف کردٌں۔۔مٌرا ہر گناہ،ماضی کا حال کا۔۔مستمبل کا۔۔ہر گناہ مٌرے نامہ
اعمال سے مٹا دٌں ہللا۔۔آپ لادر ہٌں مٹانے پر۔۔پلٌز۔۔مجھ سے راضی ہوجائٌں۔۔مٌرے گھر والوں سے راضی ہو
جائٌں،انکے بھی گناہ معاف کردٌں ہللا۔۔وہ انجان ہٌں۔۔۔انکے دلوں کو ہداٌت کے نور سے منور کردٌں۔۔انھٌں مٌرے دٌن
کا ساتھی بنا دٌں۔۔ہمٌں اپنی جنتوں مٌں اکٹھا کردٌنا ٌا ہللا۔۔پلٌز۔۔۔آپ المجٌب ہٌں نا۔۔دعا لبول کرتے ہٌں نا ۔۔مٌری دعا سن
لٌں۔۔مٌری پکار سن لٌں ہللا۔۔۔
)اب وہ آپس کے تعلمات کی بہتری کے لٌے رو رو کر مسنون دعا مانگ رہی تھی(
اے ہللا! ہمارے دلوں مٌں الفت ڈال دے ،اور ہمارے آپس (کے معامالت کی)اصالح کر اور ہمٌں سال متی کے راستے
دکھا۔اور ہمٌں (گناہوں کے) اندھٌروں سے (ہداٌت کی) روشنی کی طرف نجات دے اور ہمٌں ظاہر اور چھپے ہوئے
گناہوں سے بچا اور ہمارے لٌے ہما ری سماعتوں ،ہما ری بٌنائٌوں ،ہما رے دلوں اور ہما ری بٌوٌوں اور ہماری اوالد
مٌں برکت دے اور ہماری توبہ لبول کر ،بے شک تو ہی توبہ لبول کرنے واال مہربان ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شہرٌار نے بہت خوشگوار موڈ مٌں مسکراتے ہوئے معاذ سے فون پر محبت بھرا شکوہ کٌا۔۔
"وعلٌکم السالم ورحمت ہللا۔۔ادھر ہی ہٌں دولہا بھائی۔۔۔آپ کی شادی کی تٌارٌوں مٌں مصروف۔۔"
معاذ نے بھی بھرپور انداز مٌں ہنس کرجواب دٌتے ہوئے کہا۔
جوابا شہراٌا اپنی مسکراہٹ دبا کررہ گٌا۔۔
"بس سٌکنڈ ٹائم پڑھائی شروع کردی ہے۔۔سوچا ڈگری مکمل کرلوں"
"ان شاءہللا۔۔"
"آچھا مٌں نے اٌک وٌلفئٌر آرگنائزٌشن جوائن کی ہے ،آج شام انکا ٌوتھ کے لٌے سٌشن ہے،تم آسکتے ہو؟"
"ہللا کی معرفت"
"اوہ زبردست۔۔ ان شاءہللا مٌں کوشش کرتا ہوں،تم اٌڈرٌس بھٌج دو"
"ضرور ان شاءہللا"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ممررہ ولت پر دونوں اٌک ساتھ اس آرگنائزٌشن کی بڑی سی بلڈنگ مٌں داخل ہوچکے تھے،اس بلڈنگ کے مٌن ہال مٌں
اس سٌشن کا اہتمام کٌا گٌا تھا،شہرٌار پہلی مرتبہ اٌسے کسی اسالمی سٌشن مٌں آٌا تھا،اسے اچھا لگا کہ دٌن کے لٌے
بھی اتنے بڑے لٌول پر وٌل آرگنائزڈ طرٌمے سے تمرٌب کا اہتمام کٌا گٌا ہے،وہاں بوفرز پر اسالمک اناشٌد چل رہی
تھٌں جنکی آواز پوری بلڈنگ مٌں گونج رہی تھی۔۔اٌک الگ ہی اٌمانی ماحول تھا وہاں،انتظامٌہ بہت خوشگوار طرٌمے
سے آنے والوں کو وٌلکم کررہی تھی۔اس سے پہلے شہرٌار نے ٌونٌورسٹٌز مٌں ہونے والی پارٹٌز اور گٌڈرنگز کے
لٌے ہی اتنی شاندار ارٌنجمنٹس دٌکھے تھے،مگر ٌہاں۔۔آنے واال ہر نوجوان اس اٌمانی ماحول سے متاثر ہورہا تھا۔۔وہ
لوگ ہال مٌں داخل ہو کر اپنی ممرر کردہ سٌٹس نمبرز دٌکھتے ہوئے اپنی جگہ پر جا بٌٹھے۔۔
سٌشن کا آغاز بہت ہی خوبصورت تالوت سے ہوا تھا،سورت الدھر کی تالوت کی گئی تھی،جسے سن کر شہرٌار کے
دل مٌں اٌک امنگ اٹھی کہ کاش۔۔۔وہ بھی اتنی خوبصورت طرٌمے سے تالوت کر سکتا۔۔چند اور تعارفی باتوں کے بعد
"اس سٌشن کا بالاعدہ آغاز ہوا،جس کا ٹاپک تھا "اپنے رب کی معرفت
سٹٌج پر خطاب کرنے واال شخص نوجوان تھا جسکی عمر کوئی 38،35سال ہو گی،اسکے چہرے پر سجی داڑھی
اسکی پرسنٌلٹی کے رعب مٌں مزٌد اضافہ کررہی تھی،سالم دعا اور تعارف کے بعد اس نے اپنے ٹاپک کا آغاز کٌا۔۔
مٌرے پٌارے بھائٌوں اور بٌٹوں،آج ہم اٌک اٌسے ٹاپک پر بات کرنے جارہے ہٌں،جو ہماری روح کی بنٌادی ضرورت "
ہونے کے ساتھ ساتھ آج ہمارے ولت کی بھی بہت بڑی ضرورت بن گئی ہے،آپ سب ہر طرف مختلف باتٌں سنتے ہوں
گے،ہر طرف شکوے اور تنمٌدوں کے بازار گرم ہٌں،ہر طرف انھی باتوں پر تبصرہ ہورہا ہے کہ کرپشن بہت
ہے،خٌانت اور جھوٹ،بے اٌمانی اور دھوکہ دہی،شرک،بدعات،لتل و غارت،بے سکونی غرض ہر برائی اس معاشرے
مٌں پنپ رہی ہے!!تبصرے کرنے والے بہت ہٌں۔۔مٌں اور آپ بھی ان مٌں شامل ہٌں۔۔مگر۔۔آج اس مجلس مٌں ہم
معاشرے کی ان تمام برائٌوں کا سبب جاننے کی کوشش کرٌں گے کہ ہر انسان ٌہ جاننے کے باوجود کہ کٌا گناہ ہے
اور کٌا غلط،پھر بھی ہللا سے نہٌں ڈرتا،باز نہٌں آتا۔۔اس سبکی وجہ ہے "دٌن کے علم سے دوری،اور سب بڑھ کر،
!!اپنے رب کی معرفت سے دوری
ٌہی سب چٌزٌں جب کسی معاشرے کے لوگوں کے اندر جڑ پکڑ جائٌں تو وہ معاشرہ زوال کی انتہاإں کو چھونے لگتا
ہے۔۔ٌہ وہ ممام ہے جہاں ہم جاتے جا رہے ہٌں،ہللا ہم سب کو اپنی امان مٌں رکھٌں،خداخوفی کا نہ ہونا دراصل،ہللا کی
معرفت سے جہالت کی نشانی ہے،ہم سب چاہتے ہٌں کہ ہم اچھے بن جائٌں،ہم ہللا کے پسندٌدہ بن جائٌں،ہم سب کی موت
اٌمان کی حالت مٌں ہو اور ہم بغٌر حساب کے جنت مٌں جائٌںٌ،ہ سب بالکل ہوسکتا ہے ان شاءہللا العزٌز،مگر اسکے
لٌے سب سے پہال علم توحٌد کا علم ہے،توحٌد پر اٌمان النا ہے،اس رب کو جاننا ہے اسکو پہچاننا ہے تاکہ اس سے
محبت کی جا سکے۔۔اور پھر اسکی مرضی کے مطابك زندگی گزاری جا سکے۔۔ہللا کی لسم ،اسکی معرفت ہی اسکی
بندگی کو آسان کردٌتی ہے۔۔
تو مٌں آپ سب سے سوال کرتا ہوں؟ وہ کون کون سے طرٌمے ہٌں جنکے ذرٌعے ہم اپنے رب تعالی کو پہچان سکتے
!!کٌجئٌے جو بھی جواب ذہن مٌں آرہا ہے hand raiseہٌں؟؟؟جی
لرآن کے ذرٌعے۔۔۔اسکی کائنات پر غوروفکر کرکے۔۔رب کے کالم کو سمجھ کر۔۔۔رسول ﷺ کے معموالت سے۔۔ہللا
والوں کی صحبت سے۔۔۔ہللا کے ناموں کا علم لے کر؟؟
)آڈٌنس مٌں بٌٹھے نوجوان اٌک کے بعد اٌک جواب دے رہے تھے(
جی بالکل۔۔ٌہی سب رستے ہٌں جن کے ذرٌعے ہم ہللا کو پہچان سکتے ہٌں،اسے جان سکتے ہٌں،دٌکھٌں۔۔کسی سے
محبت کے لٌے اسے جاننا ضروری ہے نا۔۔وٌسے ہی رب کی محبت کے لٌے بھی اسے جاننا ضروری ہے۔۔
مٌں،مٌں آپکو امام ابن المٌم رحمہ ہللا کے چند الفاظ سناوں گا،کہ ہمارے سلف صالحٌن کٌسے ) (talkتو آج کی اس ٹاک
ہللا کو پہچانتے تھے۔۔
انسان پٌدا ہوا تو اس کی فطرت مٌں اٌک نور بھرا گٌا۔ ٌہی زمٌن پر زندگی اور ہداٌت کا اصل سبب ہے۔ اس نور کی
امانت انسان کی فطرت کو سونپی گئی۔ مگر چونکہ ٌہ انسان کی درماندگی کا تنہا عالج نہ تھا ،سو اسے جال دٌنے کو
آسمان سے اٌک اور نور اور اٌک روح انبٌاءکے جلو مٌں اتری ،جسے فطرت اپنے سابمہ نور کی مدد سے پالٌتی رہی۔
تب نبوت کی ضوفشانی سے فطرت کی مشعلٌں جل اٹھٌں۔ فطرت کے نور پر وحی کا نور! نور علی نور!....پھر کٌا
تھا!؟ دل روشن ہوئے۔ چہرے دمکنے لگے۔ پثرمردہ روحوں کو زٌست کی تازگی ملی۔ جبٌن نٌاز مٌں تڑپتے سجدے
حمٌمت بندگی سے آشنا ہوئے۔ آسمان کی روشنی سے دل خٌرہ ہوئے تو پھر زمٌن کے لمممے جلنے نہ پائے۔ اٌک
بصٌرت تھی کہ دل کی آنکھ چشم ظاہر سے آگے دٌکھنے لگی۔ ٌمٌن کا نور اٌمان کے سب حمائك منکشف کرنے لگا۔
پھر دل تھے گوٌا رحمن کے عرش کو پورے جہان سے اوپر دٌکھتے ہٌں۔ اس عرش کے اوپر انکے رب نے استوا
فرما رکھا ہے۔ ہو بہو جٌسے اسکی کتاب اور اسکے رسول نے خبر دی ہے۔ وہ اس عرش عظٌم کے اوپر سے اپنے
رب کو آسمان و زمٌن مٌں فرماں روا پاتے ہٌں۔ جو وہٌں سے حکم صادر فرماتا ہے۔ مخلوق کو چالتا ہے۔ روکتا اور
ٹوکتا ہے۔ بے حد و حساب خلمت کو وجود دئٌے جاتا ہے۔ پھر ہر اٌک کو کھالتا اور رزق دٌتا ہے۔ مارتا اور جالتا ہے۔
فٌصلے کرتا ہے جنکا کوئی حساب نہٌں۔ کوئی فٌصلہ نہٌں جو اس عرش کے اوپر سے صادر ہو پھر دنٌا مٌں الگو نہ
ہو پائے وہ کسی کو عزت و تمکنت دے۔ تو کسی کو ذلت و رسوائی۔ رات پلٹتا ہے تو دن الٹتا ہے۔ گردش اٌام مٌں بندوں
کے دن بدلتا ہے۔ تخت الٹتا ہے„ سلطنتٌں زٌر و زبر کرتا ہے اٌک کو التا ہے تو دوسرے کو گراتا ہے۔ فرشتے پروں
کے پرے„ حکم لٌنے کو اسکے حضور چڑھتے ہٌں۔ لطار اندر لطار حکم لے لے کر نازل ہوئے جاتے ہٌں۔ احکامات
ہٌں کہ تانتا بندھا ہے۔ آٌات اور نشانٌوں کی بارش ہوئی جاتی ہے۔ اسکے فرمان کو اس کی مرضی کی دٌر ہے کہ نافذ
ہوا جاتا ہے۔ وہ جو چاہے„ وہ جٌسے چاہے۔ وہ جس ولت چاہے„ جس رخ سے چاہے„ ہو جاتا ہے۔ نہ کوئی کمی ممکن
ہے نہ بٌشی„ تاخٌر ہو سکتی ہے نہ تمدٌم۔ اسی کا حکم چلتا ہے آسمانوں کی پنہائٌوں مٌں زمٌن کی تنہائٌوں مٌں۔ روئے
زمٌن سے پا تال تک„ وہ ہر لمحہ ہر نفس کا فٌصلہ کرتا ہے۔ ہر سانس کا فٌصلہ ہوتا ہے„ ہر لممے ہر نوالے کا فٌصلہ
ہوتا ہے۔ ہر نٌا دن„ ہر نئی صبح اور نئی شام„ وہ چاہے تو دٌکھنا نصٌب ہوتی ہے۔ بحرو بر کا ہر ذی روح اسکا رہٌن
التفات ہے۔ جہان کے ہر کونے ہر ذرے کی لسمت ہر لمحہ طے ہوتی ہے۔ پورے جہان کو وہ جٌسے چاہے الٹتا اور
پلٹتا ہے۔ پھٌرتا اور بدلتا ہے۔ ہر چٌز کو علم سے محٌط ہے۔ ہر چٌز کو گن گن کے شمار رکھتا ہے۔ اسکی رحمت اور
حکمت کو ہر چٌز پہ وسعت ہے۔ وہ جہان بھر کی آوازٌں بآسانی سن لٌتا ہے۔ کٌسی کٌسی زبانٌں ہونگی؟ کٌسی کٌسی
فرٌادٌں ہونگی؟ مگر وہ زمٌن و آسمان کے ہر کونے سے ہر لمحہ اٹھنے واال ٌہ مسلسل شور سنتا جاتا ہے۔ اس آہ
وفغاں مٌں ہر اٌک کی الگ الگ سنتا ہے اور صاف پہچان جاتا ہے ان سب کی بٌک ولت سنتا ہے اور کسی اٌک سے
غافل نہٌں!!۔ پاک ہے اس سے کہ التجائوں کے ازدحام مٌں اسکی سماعت کبھی چوک جائے۔ ٌا حاجتمندوں کی آہ و
فرٌاد مٌں کبھی جواب دٌنا اسکو مشکل پڑ جائے۔ اسکی نگاہ محٌط ہر چٌز دٌکھتی ہے۔ وہ رات کی تارٌکی مٌں„
اندھٌری چٹان پر„ سٌاہ چٌونٹی کے لدموں کی آہٹ پا لٌتا ہے۔ ہر غٌب اسکے لئے شہادت ہے۔ کوئی راز اس کے لئے
راز نہٌں وہ پوشٌدہ سے پوشٌدہ تر کو جان لٌتا ہے۔ اسے وہ ہر راز معلوم ہے جو لبوں سے کوسوں دور ہو۔ جو دل کے
گہرے کنوٌں مٌں دفن ہو ٌا خٌال کی آہٹ سے بھی پرے ہو۔ بلکہ وہ راز وجود پانے سے پہلے اسے معلوم ہوتا ہے کہ
کب اور کٌسے وہ اس دل مٌں وجود پائے گا۔
تخلٌك اس کی „ حکم اسکا۔ ملک اسکا„ حمد اسکی۔ دنٌا اسکی„ آخرت اسکی۔ نعمت اسکی„ فضل اسکا۔ تعرٌف اسکی„
شکر اسکا۔ بادشاہی اسکی„ فرمانروائی اسکی۔ حمد و ستائش اسکی ،التدار اسکا۔ ہر خٌر اسکے ہاتھ مٌں۔ ہر چٌز پلٹے تو
اسی کی طرف„ اسکی لدرت ہر چٌز پر محٌط ....کہ کچھ اس سے ماورا نہٌں۔ اسکی رحمت ہر چٌز سے وسٌع ہے۔ ہر
نفس اسکی نعمت کے بار سے دبی ہے„ پر شکر سے ٌوں عاجز کہ اس عاجزی کے اظہار کو بندگی کی معراج
!!جانے۔
زمٌن اور آسمانوں کی ہر مخلوق اٌک اسی کی سوالی ہے۔ ہر آن وہ نئی شان مٌں ہے“۔ ”
وہی گناہگاروں کو معاف کرے۔ غمزدوں کو آسودہ کرے۔ اضطراب کو چٌن مٌں بدلے۔ وہ چاہے تو چنتہ کو بے چنتا
کر دے۔ درماندوں کو وہی فٌض بخشے„ فمٌروں کو تونگری دے تو امٌروں کو فالے دکھا دے۔ جاہلوں کو سکھائے تو
بے علموں کو پڑھائے۔ گمراہوں کو سدھائے تو بھٹکے ہوئوں کو سجھائے۔! دکھی کو سکھ دے تو وہ۔ اسٌروں کو لٌد
کی ظلمت سے چھڑائے تووہ۔ عرش پر سے وہ زمٌن کے بھوکوں کو کھالئے۔ پٌاسوں کو پالئے۔„ ننگوں کو پہنائے۔
بٌماروں کو شفا ٌاب کرے۔ آفت زدوں کو نجات دے۔ تائب کو بارٌاب کرے۔ نٌکی اور پارسائی کا جواب نوازشوں کی
بارش سے دے۔ وہی مظلوم کی نصرت کرے۔ ظالم کی کمر توڑے۔ ناتوانوں کا بوجھ سہارے۔ اپنے بندوں کے عٌب
بندوں سے چھپالے۔ دلوں کے خوف دور کرے اور اپنے بندوں کا بھرم رکھے۔ امتوں اور جماعتوں مٌں سے کسی کو
بلند کرے تو کسی کو پست!۔
وہ کبھی نہٌں سوٌا„ نہ سونا اسکو الئك ہے! وہ اپنی رعٌت کا ہمہ ولت نگران ہے۔ وہ کسی کو عزت دٌے جاتا ہے تو
کسی کو ذلت۔ رات کے اعمال دن سے پہلے اسکی جانب بلند ہوئے جاتے ہٌں اور دن کے اعمال رات سے پہلے۔ اسکا
حجاب اٌک نور بٌکراں ہے۔ جسے وہ ہٹا دے تو اسکے رخ کا نور ہر چٌز بھسم کر دے۔ اسکا دست کشادہ اور فراخ
ہے ۔ جو خرچ کرنے اور لٹانے سے کبھی تنگ ہونے کا نہٌں! وہ صبح شام لٹاتا ہے۔ جب سے مخلوق پٌدا ہوئی وہ
!لٹائے جاتا ہے۔ پر اسکے ہاں کمی آنے کا سوال نہٌں
بندوں کے دل اور پٌشانٌاں اسکی گرفت مٌں ہٌں۔ جہاں بھر کی زمام اسکے لضاو لدر سے بندھی ہے۔ روز لٌامت
پوری زمٌن اسکی اٌک مٹھی ہو گی تو سارے کے سارے آسمان لپٹ کر اسکے دست راست مٌں آ رہٌں گے۔ وہ اپنے
اٌک ہاتھ مٌں سب آسمانوں اور زمٌن کو پکڑ لے گا۔ پھر انکو لرزائے گا پھر فرمائے گا۔ ” مٌں ہوں بادشاہ! مٌں ہوں
!“شہنشاہ! دنٌا کہٌں نہ تھی تو مٌں نے بنائی۔ مٌں ہی اسکو دوبارہ تخلٌك کرتا ہوں
کوئی گناہ اتنا بڑا نہٌں کہ وہ معاف نہ کر پائے„ بس دٌر ہے تو پشٌمانی کی! کوئی حاجت نہٌں جسے پورا کرنا اس کے
بس سے باہر ہو جائے„ بس دٌر ہے تو سوال کی! زمٌن و آسمان کی اول و آخر سب مخلولات„ سب انس و جن„ کبھی دنٌا
کے پارسا ترٌن شخص جتنے نٌک دل ہو جائٌں„ اسکی بادشاہت اور فرمانروائی اتنی بڑی ہے کہ اس سے ذرہ بھر بھی
نہ بڑھے۔ اور اگر ٌہ سب مخلولات„ سب انس و جن دنٌا کے کسی بدکار ترٌن شخص جتنے کوڑھ دل ہو جائٌں تب
اسکی فرمانروائی مٌں ذرہ بھر فرق نہ آئے! اگر زمٌن و آسمان کی اول و آخر سب مخلولات„ سب انس و جن„ سب زندہ
و مردہ کسی مٌدان عظٌم مٌں مجمع لگا کر اس سے سوال کرنے لگٌں„ پھر اٌک اٌک اسکے در سے من کی مراد پاتا
جائے„ تب اسکے خزانوں مٌں ذرہ بھر کمی آنے کا تصور نہٌں! روئے زمٌن کا ہر شجر جو کرہ ارض پہ آج تک پاٌا
گٌا ٌا رہتے دم تک وجود پائے۔ الالم کی صورت اختٌار کرے„ سمندر ....جسکے ساتھ سات سمندر اور ہوں....
روشنائی بنٌں„ پھر لکھائی شروع ہو تو ٌہ للمٌں فنا ہو جائٌں„ ٌہ روشنائی ختم ہو جائے „ مگر خالك کے کلمات ختم
ہونے مٌں نہ آئٌں! اسکے کلمات ختم بھی کٌسے ہوں جنکی کوئی ابتدا ہے نہ انتہا! جبکہ سب مخلولات ابتدا اور انتہا کی
اسٌر ہٌں۔ سو ختم ہو گی تو مخلوق! فنا ہو گی تو مخلوق! خالك کو کو ئی فنا ہے نہ زوال!!۔
وہ اول ہے جس سے پٌشتر کچھ نہٌں! وہ آخر ہے جس کے بعد کچھ نہٌں! وہ ظاہر ہے جس سے اوپر کچھ نہٌں! وہ
باطن ہے جس سے پرے کچھ نہٌں! وہ بلند ہے! وہ پاک ہے! ذکر ہو تو بس اسی کا! عبادت ہو تو اٌک اسی کی ! حمد ہو
تو اسی کی! شکر ہو تو اسی کا۔ فرٌاد رسی اٌک اسی کی شان ہے۔ وہ شہنشاہ مہربان ہے! سوال پورا کرنے مٌں کوئی
اس سے بڑھ کر فٌاض نہٌں! لدرت انتمام رکھ کر بے پروائی سے بخش دٌنا اسکو انتمام لٌنے سے عزٌز تر ہے۔ اک
وہی ہے جس کے در سے تہی دست لوٹ آنا محال و مستحٌل ہے۔ وہی ہے جو انتمام بھی لے تو عادل ترٌن ہو۔ اسکا حلم
و بردباری کبھی العلمی کا نتٌجہ نہٌں! اسکا عفو و مغفرت کسی بے بسی پر مبنی نہٌں! وہ بخشش کرے تو اپنے عزت
و جالل اور تمکنت کی بنا پر ۔ کسی کو دٌنے سے انکار کرے تو اپنی حکمت و دانائی کی بنا پر۔ وہ کسی کو دوست
رکھے تو محض اپنے احسان سے„ اور عزٌز جانے تو صرف اپنی رحمت سے!!۔
بندوں کا اس پر کوئی حك ہے نہ زور۔ پر وہ خود ہی بے پاٌاں مہربان ہے! کوئی محنت اسکے حضور اکارت نہ ہو
پائے۔ وہ کسی کو عذاب دے تو اسکے عدل کا تماضا ہو۔ کسی پر مہربان ہو تو محض اپنے فضل سے! اسکا نام کرٌم
ہے۔ اسکا کرم وسٌع ہے„ اور اسکی رحمت اسکے غضب پہ بھاری ہے۔
وہ بادشاہ مطلك ہے۔کوئی اسکا شرٌک نہٌں ۔ وہ تنہا و ٌکتا ہے„ کوئی اسکا ہمسر نہٌں! وہ غنی و الزوال ہے۔ کوئی
اسکا پشتبان اور سہارا نہٌں! وہ صمد اور بے نٌاز ہے۔ کوئی اسکی اوالد نہٌں„کوئی شرٌک حٌات نہٌں! وہ بلند و عظٌم
ہے„ کوئی اسکا شبٌہ نہٌں„ کوئی ہم نام و ہم صفت نہٌں! اسکے رخ انور کے سوا ہر چٌز ہالک ہو جانے والی ہے۔
اسکی بادشاہت کے سوا ہر ملک کو زوال آنا ہے۔ اسکے سائے کے سوا ہر سائے کو سمٹ جانا ہے۔ اسکے فضل کے
سوا ہر فضل کو فنا ہے۔ اسکی اطاعت بھی اسکے اذن اور اسکے فضل کے بنا ممکن نہٌں! اسکی اطاعت ہو تو وہ لدر
دان ہوتا ہے! نافرمانی ہو تو درگزر اور بخشش سے مہربان ہوتا ہے۔ وہ کبھی پکڑلے تو عدل ہو گا۔ وہ بخش دے تو
فضل ہو گا۔ وہ انعام مٌں خلد برٌں سے نواز دے تو احسان ہو گا!! وہ سب سے لرٌب گواہ ہے۔ وہ سب سے نزدٌک
محافظ ہے۔ چاہے تو دل کے ارادوں مٌں حائل ہو جائے! پٌشانٌوں سے پکڑ لٌتا ہے۔ اٌک اٌک بات لکھتا ہے۔ لدم کا ہر
نشان محفوظ کئے جاتا ہے۔ ہر نفس کی اجل لکھتا ہے۔ ہر چٌز کی مٌعاد رکھتا ہے۔ سٌنوں مٌں چھپے دل اسکے لئے
کھلی کتاب ہٌں۔ کوئی راز اسکے لئے راز نہٌں۔ ہر غٌب اسکے لئے شہادت ہے۔ بڑی سے بڑی بخشٌش بس اسکے کہہ
دٌنے پر مولوف ہے۔ اسکا عذاب اسکے لول کے اشارے کا منتظر ہے۔ کائنات مٌں ہر امر کو اسکے ‟کن„ کی دٌر ہے۔
!پھر وہ جو کہہ دے سو ہو جاتا ہے
)إِنَّ َما ٓ أَمۡ ُرہُ ۥۤ إِذَآ أ َ َرا َد ش ٌَۡـًٔا أَن ٌَمُو َل لَهُ ۥ ُكن فٌََ ُكونُ (ٌس۲ٕ:
سو جس دل پر اسکے معبود کی صفات ٌوں جلوہ گر ہوں„جس للب مٌں لرآن کا ٌہ نور ٌوں جلوہ افروز ہو اسکی دنٌا
مٌں کسی اور کا دٌا کٌونکر جلتا رہے؟ اسے امٌد کی کرن کسی اور روزن سے کٌونکر ملے!؟ پھر مخلوق اس کی نگاہ
مٌں کٌونکر جچے!؟ بھروسہ! اٌمان کی ٌہ حمٌمت لفظوں سے کہٌں بلند ہے۔ خٌال کی پہنچ سے کہٌں اوپر ہے۔ بس اسکا
ذکر ہی اس دل کو بمعہ نور کرتا ہے۔ چہروں کی تمازت اسی کے دم سے ہے۔ پٌشانٌاں روشن ہونگی تو اس کی بدولت!
دنٌا مٌں ٌہی نور اس بندے کی متاع عزٌز ہے جو بندگی کا خوگر ہو۔ ٌہی روشنی اسکی برزخ اور حشر کا توشہ ہے۔
جس دل مٌں لرآن کا ٌہ چراغ جلے„ اور جس لدر جلے„ اسکی زبان اور سٌرت دنٌا کو اتنا ہی روشن کرے گی۔ ظلمتوں
کی رو سٌاہی اسی روشنی سے دھلے گی۔ دنٌا مٌں ٌہی چراغ جلٌں گے تو روشنی ہو گی„ ٌہی روشنی پھر آخرت مٌں
دلٌل و برھان ہو گی اٌسے مومن بھی ہٌں جنکے اعمال سوئے عرش بلند ہوں تو سورج کی مانند روشن ہوں۔ پھر جب
روح اپنا جسد چھوڑ کر اس کے حضور بارٌاب ہونے کو آسمانوں مٌں چڑھے تو فضائٌں اسکی راہ مٌں روشن ہوتی
....جائٌں۔ اور جو لٌامت کے روز اس روشن چہرے کو روپ ملے گا وہ تو پھر نظارئہ خالئك ہو گا
ٌہ خوبصورت الفاظ سناتے سناتے اس نوجوان کی آواز بھرا چکی تھی،ہال مٌں بٌٹھے ہر شخص کی آنکھ نم تھی،پٌشانی
پر ندامت و عاجزی عٌاں تھی،ہر شخص گوٌا خود پر شرمندہ تھا۔۔کہ اس نے رب کو اب تک جانا ہی کتنا تھا۔۔۔اسکی
لدر ہی کتنی کی تھی۔۔صدٌوں سال پہلے اٌک نٌک شخص کے خلوص سے لکھے گئے الفاظ۔۔صدٌوں بعد لوگوں کو رال
رہے تھے،دلوں کو ہال رہے تھے۔۔۔سٌشن ختم ہوا ہی تھا۔۔
کہ ٌکاٌک آڈٌنس مٌں سے اٌک نوجوان لڑکا کھڑا ہوا۔۔اسکی آنکھٌں بہہ رہی تھٌں۔۔
مٌں ٌہاں آنے سے پہلے تک ،اٌتھٌسٹ (ملحد)تھا ،مٌں اٌک سو کالڈ مسلمان گھرانے مٌں پٌدا ہوا تھا،مگر۔۔کسی نے "
مجھے مٌرے خالك کی معرفت نہٌں کروائی،مٌں اپنے گھر والوں سے سوال پوچھا کرتا تھا اور وہ مجھے چپ کروادٌا
کرتے تھے۔۔جٌسے جٌسے مٌں بڑا ہوتا گٌا،کچھ ٌونٌورسٹی اور کچھ صحبت کے اثر سے مٌں اسی بات پر جم گٌا کہ
جو نظر نہٌں آتا وہ خدا کٌسے ہوسکتا ہے؟؟مجھ سے سب بڑی غلطی ٌہ بھی ہوئی کہ مٌں نے اس خالك کے لرآن کو
سمجھ کر نہٌں پڑھا۔اسکو اہمٌت ہی نہٌں دی۔مگر ہللا کی لسم۔۔ مٌں جانتا ہوں،الحاد کے اب تک کے سفر مٌں،مٌری روح
نے اذٌت کے سوا کچھ نہٌں پاٌا،آج مٌرے دوست کے زور دٌنے کی وجہ سے مٌں اسکے ساتھ ٌہاں آٌا کہ شاٌد،مجھے
مٌرے سوالوں کے جواب مل جائٌں،جنکی کھوج شاٌد مٌں اب روک چکا تھا۔۔۔مگر ان الفاظ نے،ہللا کے اس خوبصورت
تعارف نے۔۔۔مٌرے دل کو جھنجھوڑ دٌا ہے،گوٌا مٌری روح پکار اٹھی ہے کہ۔۔۔"ٌہی حك ہے"۔۔ہاں۔۔مٌں اسالم لبول کرتا
ہوں۔۔۔
)مٌں گواہی دٌتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہٌں اور مٌں گواہی دٌتا ہوں کہ دمحم ﷺ اسکے بندے اور رسول ہٌں(
اس نے شہادت کی انگلی بلند کرتے ہوئے سسک کر کانپتی ہوئی آواز مٌں کہا۔۔
پورے ہال مٌں تکبٌر کی آواز گونج اٹھی تھی۔۔سب بہتی آنکھوں سے اس نوجوان لڑکے کو اٹھ اٹھ کر گلے لگا رہے
تھے۔۔
شہرٌار کا دل کررہاتھا کہ وہ سسکٌوں سے روئے۔۔۔مگر کس لٌے؟؟اپنی نوجوان نسل کے ہللا کی معرفت سے جاہل
ہونے پر ٌا اپنی غفلت پر؟؟؟
وہ معاذ سے اجازت لٌتا ہوا تٌزی سے باہر نکل گٌا۔۔مگر اب کی بار۔۔اٌک نئے عزم سے،خود سے اٌک عھد کرتے
!!!ہوئے۔۔کہ اب وہ اپنی زندگی کو ضائع نہٌں کرے گا۔۔اب وہ غفلت مٌں نہٌں رہے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
لسط نمبر36
شادی کے دن لرٌب آرہے تھے۔۔فاطمہ کی ٹٌنشن مٌں اضافہ ہوتا جا رہا تھا،کٌا اس بار بھی مجھے وہاں نہٌں جانے دٌں
گے؟؟ ٌہ ڈرٌ،ہ خوف اسے پرٌشان کا کررہا تھا،اس نے تو اپنے بھائی کی شادی کے اتنے خواب دٌکھے تھے،زندگی
اٌسے موڑ بدلے گی،اس نے کبھی نہٌں سوچا تھا۔۔
وہ ابھی وضو کرکے ہی نکلی تھی۔۔انھی سوچوں مٌں گم اپنے دوپٹے کو سر پر لپٌٹ رہی تھی کہ اسکی نظر شٌشے
مٌں پڑی۔۔
اس کا رنگ پہلے کی نسبت پٌال ہوتا جا رہا تھا،وہ کمزور ہو گئی تھی۔۔اٌک لمحے کو اسے خود پر ترس آٌا تھا۔۔مگر
اس نے سر جھٹک کر آگے بڑھ کر اپنا لرآن اٹھا لٌا۔۔
ٌہ سوچتے ہوئے اس نے اپنا سبك نکاال تاکہ آجکی تالوت کرسکے۔۔
وہ اعوذ باہلل پڑھتے ہوئے بٌڈ پر بٌٹھ گئی۔۔اور لرآن کھول لٌا،آج کی تالوت سورت طه سے شروع ہونی تھی۔۔
الر ِح ٌۡ ِم بِ ۡس ِم ّٰللاِ َّ
الر ۡحم ِن َّ
شروع کرتی ہوں ہللا تعا لی کے نام سے جو بڑا مہربان نہاٌت رحم واال ہے ۔
ۤ
ک ۡالمُ ۡرانَ ِلت َۡشمی ۙ﴿ٕ﴾
َم ۤا اَ ۡنزَ ۡلنَا َعلَ ٌۡ َ
مشمت۔۔۔اسکی آنکھوں سے آنسو نکل آئے،ہللا ٌہ لرآن تو دل کو راحت دٌتا ہے،مگر اس پر عمل کرنے پر لوگ بہت (
زندگی کو بہت مشکل بنا دٌتے ہٌں،مگر آپ نے تو اسے اس لٌے زندگی آسان کرنے کے لٌے نازل کٌاہے،ہاں،مٌں جب
جب اس مشمت مٌں پڑی آپ کے لرآن نے مجھے حوصلہ دٌا،اس مشمت سے نکاال،بے شک آپکی بات حك ہےٌ،ہ لرآن
)آسانٌاں دٌنے کے لٌے آٌا ہے
کو،کس کو رٌمائنڈر دٌتا ہے ٌہ لرآن؟ جو reminderاس نے فورا حاشٌے مٌں دٌکھا ،تذکرہ کہتے ہٌں ٌاد دہانی کو(،
کرتا ہے،وہ motivateخشٌعت رکھتا ہو ،خشٌعت :اس خوف کو کہتے ہٌں جو انسان کو عمل کے لٌے ابھارتا ہے،
خوف جو کسی کی عظمت کی وجہ سے دل مٌں آتا ہے،کٌا لرآن مٌرے لٌے رٌمائنڈر ہے؟کٌا ٌہ مجھے عمل کرنے پر
ابھارتا ہے؟؟اس نے خود سے سوال کٌا،ہاں الحمدہللٌ،ہ مجھے رٌمائنڈرز دٌتا ہے ہللا،جب جب مجھے ضرورت پڑتی
)کرتا ہے،الحمدہلل کثٌرا۔۔اسکا دل تشکر سے بھر گٌا تھا۔۔ motivateہےٌ،ہ مجھے
"اس (لرآن) کا نازل کرنا اس کی طرف سے ہے جس نے زمٌن کو اور بلند آسمانوں کو پٌدا کٌا ہے ۔"
اس نے وہٌں بٌٹھے بٌٹھے اپنے رووم کی ونڈو سے باہر آسمان کی طرف نگاہ دوڑائی،اسے ہللا کی سب سے (
pillerخوبصورت تخلٌك آسمان لگتا تھا،کتنا پرفٌکٹ تھا وہ،کوئی سوراخ،کوئی رخنہ ،کوئی سہارے کے لٌے پلر
موجود نہٌں تھا،آنکھوں کو بھاتا رنگ،رات کو خوبصورتی کی تصوٌر،اسکے بنانے والے نے ٌہ لرآن نازل کی تھا۔۔وہ
محبت سے لرآن پر ہاتھ پھٌرتے ہوئے مسکرائی تھی،انسان کٌسے ہللا کا لرب حاصل کرسکتا ہے جب تک وہ ہللا کے
)پاس سے آنے والے کالم کے لرٌب نہٌں ہوتا؟
علَی ۡالعَ ۡر ِش ۡ
است َوی ﴿﴾۹ ا َ َّ
لر ۡحمنُ َ
"جو رحمن ہے ،عرش پر لائم ہے ۔"
ٌہ آٌت ہمٌشہ اسے حٌران کردٌتی تھی،عرش۔۔ہللا کی سب سے بڑی تخلٌك،جو کائنات کی ہر تخلٌك سے بلند ہے،اسے (
وہ حدٌث ٌاد تھی جس مٌں بتاٌا گٌا تھا ،کہ (ہللا تعالی کی اس وسٌع) کرسی کے ممابلے مٌں سات آسمان اس طرح ہٌں،
پڑا ہو اور پھر کرسی کے ممابلے مٌں (ہللا تعالی کے) عرش کی ضخامت ) (ringجٌسے بٌابان زمٌن مٌں کوئی چھال
)اس طرح ہے جٌسے اس چھلے کے ممابلے مٌں بٌابان کا وجود ہے۔“ (السلسلة الصحٌحة3189:
جس کی ملکٌت آسمانوں اور زمٌن اور ان دونوں کے درمٌان اور ( زمٌن کی خاک ) کے نٌچے کی ہر اٌک چٌز پر "
"ہے۔
"اگر تو اونچی بات کہے تو وہ تو ہر اٌک پوشٌدہ ،بلکہ پوشٌدہ سے پوشٌدہ تر چٌز کو بھی بخوبی جانتا ہے"
َو ہ َ ۡل اَتا َ
ک َح ِد ٌۡ ُ
ث ُم ۡوسی ۘ﴿﴾۵
بہت ٌونٌک حصہ ہے ٌہ موسی علٌہ السالم کی زندگی کا،جب وہ اپنے اہل و عٌال کے ساتھ واپس مصر جا رہے (
ہٌں،اور اندھٌرے اور وٌرانے مٌں انھٌں آگ نظر آتی ہے،وہ اس طرف جاتے ہٌں تو ہللا ان سے ہم کالم ہوتے ہٌں،کتنی
پرفٌکشن ہے نا ہللا ان آٌات مٌں،موسی علٌہ السالم اکٌلے گئے تھے اس جگہ،سردی اور اندھٌرے مٌں،فٌملی سے
علٌحدہ کرکے۔۔ہاں ہوتا ہے اٌسا،جب ہللا نے آپکو چننا ہوتا ہے تو آپکو اپنوں سے علٌحدہ کرکے اٌسی جگہ ال کھڑا کر
دٌا جاتا ہے جہاں ہر طرف اندھٌرا نظر آرہا ہوتا ہے،مگر انھٌں اندھٌروں مٌں سے ہی روشنی کی کرنٌں پھوٹتی ہٌں،
انسان کو رتبے ملتے ہٌں،درجات ملتے ہٌں،جٌسے موسی علٌہ السالم کو ملے تھے،انھٌں کٌا پتہ تھا کہ ہللا انھٌں اٌسے
چنٌں گے،سبحان ہللا،ہللا مٌں آپ سے بالکل ناامٌد نہٌں ہوں،مجھے پتہ ہے مٌری زندگی مٌں ٌہ اندھٌرے،جلد چھٹ جائٌں
گے،آپ مجھے بہت خٌر سے نوازٌں گے،آپ مٌری فٌملی کو مجھ سے مال دٌں گے،نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے
)اس نے اپنے رب سے سرگوشی کی
ک فَ ۡ
است َِمعۡ ِل َما ٌُ ۡوحی ﴿ٖٔ﴾ َو اَن ۡ
َااخت َۡرت ُ َ
اور مٌں نے تجھے منتخب کر لٌا ہے اب جو وحی کی جائے اسے کان "لگا کر سن" ۔
سب کو نہٌں چنا جاتا اسکے در کے لٌے،جسے چننا ہوتا ہے اسے تو کھٌنچ کر الٌا جاتا ہے،تنہاٌوں مٌں،خواہ وہ طور (
کی تنہاٌاں ہوں ٌا حرا کی ٌا اپنی ہی ذات کی۔۔چناإ اٌسے ہی نہٌں ہوجاتا۔۔۔ہللا مجھے بھی اپنے لٌے چن لٌں،آنکھ سے
)آنسو نکل کر لرآن کے صفحے پر گر کر جذب ہوگٌا
پس اب اس کے ٌمٌن سے تجھے کوئی اٌسا شخص روک نہ دے جو اس پر اٌمان نہ رکھتا ہو اور اپنی خواہش کے "
پٌچھے پڑا ہو ،ورنہ تو ہالک ہو جائے گا" ۔
ہاں،جب انسان اس رستے پر چلنے کا عھد کرلے،جب اسکی منزل عام نہ رہے،جب وہ جنتوں کی منزل کا مسافر بن (
جائے،تو اسے اپنی صحبت کا خٌال رکھنے کی بہت ضرورت ہوتی ہے،خود کو لوگوں کے شر سے بچا کررکھنا پڑتا
ہے،کہٌں ان کی پٌروی انسان کو حك سے نہ ہٹا دے مٌں ہزگز دنٌا والوں کی پٌروی کرکے آپکی اطاعت نہٌں چھوڑ
)سکتی ہللا۔ ورنہ مٌں بھٹک جاإں گی
اگلی آٌات مٌں موسی علٌہ السالم کو فرعون کے پاس جا کر دعوت توحٌد کی ذمہ داری دی گئی جس پر موسی علٌہ
السالم نے ہللا سے بہت ہی پٌاری دعا کی تھی۔۔
َّو ن َۡذ ُک َر َ
ک َکثِ ٌۡ ًرا ؕ﴿﴾ٖ۱
اور ہم بکثرت تٌری ٌاد کرٌں ۔
ک ُک ۡنتَ ِبنَا بَ ِ
ص ٌۡ ًرا ﴿﴾ٖ۹ اِ َّن َ
بٌشک تو ہمٌں خوب دٌکھنے بھالنے واال ہے ۔
ٌہ آٌات پڑھ کر اسے لگا گوٌا ٌہ اسی کے لٌے اتاری گئی تھٌں،اسی کو سکھاٌا جا رہا ہے،کہ کٌا دعا مانگنی ہے،کتنا (
ضروری تھا اپنے لٌے اپنے گھر سے دٌن ک ساتھی مانگنا۔۔اوہ مٌرے رب،والعی ان کو سمجھانا مجھے بہت مشکل
لگتا ہے،مٌرا دل تنگ ہوتا ہے،آپ مٌرا سٌنہ کھول دٌں،کہ مٌں آسانی سے انھٌں سمجھا سکوں،مٌری زبان مٌں وہ تاثٌر
رکھ دٌں کہ وہ مٌری بات سمجھ جائٌں،وہ حك جان جائٌں،وہ مٌرے مددگار بن جائٌں،ہللا تعالی پلٌز مجھے مٌری فٌملی
)سے مددگار دے دٌں۔۔تاکہ ہم سب مل کر آپکی اطاعت کرسکٌں
س ۡو َل َ
ک ٌ ُم ۡوسی ﴿﴾ٖ۶ لَا َل لَ ۡد ا ُ ۡوتِ ٌۡتَ ُ
جناب باری تعالی نے فرماٌا موسی تٌرے تمام سواالت پورے کر دٌے گئے ۔
ک َم َّرة ً ا ُ ۡخ ۤری ﴿ۙ﴾ٖ۷
َو لَمَ ۡد َمنَنَّا َعلَ ٌۡ َ
ہم نے تو تجھ پر اٌک بار اور بھی بڑا احسان کٌا ہے ۔
ۤ
ک َما ٌُ ۡو ۤحی ﴿ۙ﴾ٖ۲
ا ِۡذ اَ ۡو َح ٌۡن َۤا اِلی ا ُ ِ ّم َ
جب کہ ہم نے تٌری ماں کو وہ الہام کٌا جو وحی کی۔ ۔
اگلی آٌات پڑھ کر اسکا ٌمٌن گوٌا بڑھ چکا تھا،کہ ہللا نے اسکی دعا سن لی ہو گی،ہر بار کی طرح اب کی بار بھی (
اسکی مدد کی جائے گی،مگر کٌسے؟ ٌہ سوالٌہ نشان ابھی بالی تھا۔۔۔کٌا مٌری بھی ماما؟؟؟
وہ بس سوچ کر ہی رہ گئی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زونٌشہ اور حٌدر شادی کے دن سٹٌج پر بٌٹھے اٌک دوسرے کے ساتھ بہت خوبصورت اور خوش لگ رہے تھے،مسز
رٌان اپنے بٌٹے اور بہو پر بار بار فدا ہو رہی تھٌں،
فاطمہ نے اپنے چہرے کے گرد سمپل حجاب اس انداز مٌں لپٌٹا ہوا تھا کہ بآسانی جب چاہتی اوپر کرکے نماب کر سکتی
تھی،اس نے نٌوی بلٌو کلر کی مٌکسی پہنی تھی جو اسکے جسم کو مکمل طور پر ڈھانپے ہوئے تھی،ساتھ مٌں اس نے
کندھے پر اٌک بڑی سی چادر کو
فولڈ کرکے ڈاال ہوا تھا،کہ ضرورت کے ولت اسکو اپنے گرد لپٌٹ سکتی تھی،وہ چادر سمپل اور اتنی بڑی تھی کہ
اسکا مکمل سوٹ آرام سے کور ہو سکتا تھا،
وہ بہت کانفڈٌنس سے پورے ہال مٌں سب سے مل جل رہی تھی،سب لوگ اسکی تعرٌف کررہے تھے کہ وہ اس حجاب
مٌں بہت معصوم اور پٌاری لگ رہی ہے،وہ خوش تھی۔۔۔کہ وہ بھائی کی خوشی مٌں شرٌک تھی۔۔ہللا نے اسکے لٌے
کٌسے کٌسے رستے آسان کردئٌے تھے،مسز رٌان نے خود اسکے پردے کی وجہ سے سارا سسٹم سٌپرٹ کردٌا
تھا،مردوں کے آنے سے پہلے انفارم کرنے کا کہہ دٌا گٌا تھا،وٌٹرز کے آنے کا ٹائم فکس تھا،اگر کسی چٌز کی
ضرورت ہوتی تو فٌمٌل وٌٹرٌسز کا بھی انتظام کٌا گٌا تھا،اتنے عرصے کی مشمت کے بعد غرض ہللا نے ہر رستہ
آسان کردٌا تھا۔۔وہ جتنا شکر کرتی کم تھا،
کھانے کا ولت ہونے واال تھا۔۔۔وٌٹرز نے آنے سے پہلے رٌان صاحب کو انفارم کردٌا تھا،انھوں نے فاطمہ کو کال
کرکے کہا تھا۔۔
وہ جٌسے ہی واش روم سے خود کو کور کرکے نکلی تو حٌدر کے سسرالٌوں مٌں سے اٌک آنٹی نے بہت حٌرت سے
فاطمہ کو اس حال مٌں دٌکھتے ہوئے پوچھا،
"جی آنٹی،الحمدہلل مٌں پردہ کرتی ہوں،اب وٌٹرز کے آنے کا ولت ہوگٌا تھا اس لٌے نماب کرلٌا"
"تو بٌٹا اتنے لوگوں مٌں انھوں نے آپکو تھوڑی دٌکھنا تھا؟؟"
ھاھاھاھا آنٹی جی۔۔وہ دٌکھٌں نہ دٌکھٌں ،اس سے کٌا۔۔اتنے لوگوں مٌں مجھے مٌرا رب دٌکھتا ہے،فرق تو اس سے "
"پڑتا ہے ناں؟
علٌک سلٌک اور حال حوال پوچھنے کے بعد اس نے مسز رٌان کی ٹانگٌں دباتےہوئے کہا تھا۔۔
"ہمم کہو؟؟"
ہمم اتنا تو مجھے پتہ چل گٌا ہے کہ تم نے باز نہٌں آنا،بچپن مٌں بھی اٌسے ہی ضد کرکے اڑ جاٌا کرتی تھی،اس لٌے "
کہ؟؟؟
فاطمہ کی دھڑکن تٌز ہوچکی تھی،کٌا والعی دعا لبول ہو گئی تھی؟؟؟
"کہ۔۔ہم فنکشنز سٌپرٹ رکھٌں گے،فٌمٌل وٌٹرٌسز کا ارٌنج کرلٌں گے،سو۔۔پالننگ چل رہی ہے ابھی۔۔"
انھوں نے فاطمہ کو پٌار سے جھڑکتے ہوئے کہا تھا جو فرط جذبات مٌں انکی بات سنتے سنتے زور سے دبانے لگی
تھی۔۔
وہ آنکھوں مٌں نمی لٌے تٌزی سے آگے بڑھ کر ماں سے لپٹ گئی تھی۔۔
مسز رٌان نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے اسکی کمر پر ہاتھ پھٌرا تھا۔۔انکی نگاہوں کے سامنے،خواب مٌں دٌکھے
فاطمہ کے روشن ہاتھ گھوم رہے تھے۔۔انھوں نے پٌار سے فاطمہ کے گرد اپنے بازوإں کی گرفت مضبوط کرلی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
"مٌں واپس نہٌں جا رہی اماں،سمجھتے کٌا ہٌں وہ لوگ،وہ جو بھی کہتے رہٌں گے مٌں برداشت کرتی رہوں گی؟؟"
نائلہ نے روتے ہوئے اپنی ماں کے دامن مٌں سر چھپاتے ہوئے کہا۔۔
ہاں کوئی ضرورت نہٌں ہے ابھی جانے کی،خود منانے آئے گا عزٌر،تم لوگوں کے والد زندہ ہوتے تو کسی کی جرات "
ہللا پوچھے انھٌں کٌسے مٌری بٌٹی کو کمزور کر دٌا ہے،تو چپ کر کے ادھر رہ۔۔مٌں ابھی زندہ ہوں،تٌرا بھائی "
" !موجود ہے ہم تجھے کپڑا روٹی دے سکتے ہٌں۔۔تجھے فکر کرنے کی ضرورت نہٌں ہے۔۔
نائلہ اب سسکٌاں لے لے کر رو رہی تھی ،شادی کو ابھی 5ماہ ہی ہوئے تھے۔۔اماں اسکے زخموں پر مرہم رکھنے کی
بجائے مزٌد اسے کرٌد رہی تھٌں۔۔
ٌہ مرد ذات اٌسی ہی ہوتی ہے جتنا اسکے ساتھ وفا کرلو،اٌک غلطی پر سارا کٌا کراٌا منہ پر ماردٌتا ہے۔۔اور سائرہ؟ "
اسے کٌا ضرورت پڑی تٌری ساس کے کان بھرنے کے،عزٌر تو سمجھدار ہے،پڑھا لکھا ہے،وہ بھی اپنی ماں بہنوں
"کی باتوں مٌں آگٌا؟؟حٌرت ہورہی ہے مجھے تو۔۔
"کدھر؟؟؟"
وہ چڑ کر بوال۔
"اور عزٌر؟"
"ٹھٌک ہوں گے وہ بھی"
"ہمم بولو؟"
"کٌا ہوا ہے بتاإ مجھے؟؟ کٌا تمھاری اور عزٌر کی لڑائی ہوئی ہے؟؟"
"بالوجہ؟؟"
شہرٌار وجہ جاننا نہٌں چاہتا تھا۔۔کٌونکہ اسے علم تھا کہ جذبات مٌں اٌک سچی بات کے ساتھ دس جھوٹی باتٌں بھی
شامل کردی جاتٌں۔۔
تو انسان ہے،غصہ آہی جاتا ہے،اب ٌہ تو نہٌں کہ چھوٹی بڑی بات تم اماں کو فون کرکے بتاإ ٌا ناراض ہو کر "
"آجاإ؟؟
"مٌں نے بالکل ٹھٌک کٌا ہے،انھٌں بھی احساس ہونا چاہٌے اس چٌز کا"
شہرٌار نے نائلہ کو اس طرح کے لہجے مٌں بات کرتے دٌکھا تو اسکے لرٌب آکر بٌٹھ گٌا۔۔
دٌکھو نائلہ،اصوال ٌہ باتٌں تو امی کو تمھٌں سمجھانی چاہٌٌں۔۔مگر خٌر۔۔۔۔دٌکھو۔۔ہم سب انسان ہٌں نا۔۔غصہ تو آ ہی جاتا "
ہے،تو کچھ دٌر بعد چال بھی جاتا ہے،مگر اس غصے مٌں کٌا ہوا ری اٌکشن اپنے اثرات چھوڑ جاتا ہے،اگر عزٌرکو
کسی بات پر غصہ آٌا ہی تھا تو تم نے کٌوں نہ صبر کٌا ؟؟تم کٌوں نہٌں کچھ دٌر کے لٌے خاموش ہوئی؟؟ ٌمٌن کرو اگر
تم دو گھنٹے خاموش ہوجاتیٌ،ا اسکے غصہ اترنے کا انتظار کرتی،منانے کی کوشش کرتی ،وہ خود تم سے معافی
"مانگتا۔۔مگر تم نے فورا ہی ٌہاں آنے کی کی۔۔اسطرح تو اسکا غصہ مزٌد بڑھ گٌا ہوگا۔
نائلہ وہ تمھارا شوہر ہے!!! اٌک عورت کے لٌے شادی کے بعد سب سے اہم رشتہ ٌہی ہوتا ہے،کچھ بھی ہوجائے اٌک "
بٌوی کو کبھی شوہر کے مزاج کے خالف کوئی لدم نہٌں اٹھانا چاہٌےٌ،اد رکھو! اگر اٌک عورت مرد کے سامنے
اکڑتی ہے نا تو مرد اس سے دس لدم دور چال جاتا ہے بظاہر وہ ساتھ بھی رہے مگر اسکا دل اس سے دور ہوتا جاتا
ہے۔۔۔،اٌک اچھی بٌوی،شوہر کا خوبصورت لباس ہوتی ہے،جٌسے اٌک لباس انسان کی عٌبوں پر پردہ ڈال دٌتا ہے
وٌسے ہی اٌک اچھی بٌوی کبھی اپنے شوہر کے عٌب دوسروں کے سامنے ظاہر نہٌں ہونے دٌتی،اور کونسا انسان
فرشتہ ہے،عٌب تو سب مٌں ہوتے ہٌں،اٌک بٌوی کو ان عٌوب کی پردہ پوشی کرنی چاہٌے۔۔اور ٌہ تو محبت کے رشتے
ہوتے ہٌں،اونچ نٌچ تو ہوتی رہتی ہے،مگر ان باتوں کو بدگمانٌاں بنا کر کبھی دل مٌں رکھ کر انکو پالنا نہٌں
چاہٌے۔۔ورنہ رشتے بہت کمزور ہوجاتے ہٌں،تم آج آئی ہو،کب تک آتی رہو گی اٌسے؟؟
اپنے شوہر کے مزاج کو سمجھو،دٌکھو اسکے اس روٌے کوکٌسے ڈٌل کرنا ہے،اسکی پسند ناپسند کا خٌال رکھو،اسکا
"اعتماد جٌتو،پھر تو غصہ تو دور،وہ کبھی تم سے بدگمان بھی نہٌں ہوگا۔۔
"ہاں شاٌد مجھ سے غلطی ہوگئی۔۔بات اتنی بڑی نہٌں تھی وٌسے۔۔جتنا مٌں نے بنا لٌا۔۔۔"
ہوجاتا ہے،کوئی بات نہٌں۔۔مگر آگے مت کرنا۔۔اس رشتے کو تو ہللا نے لرآن مٌں اپنی نشانی کہا ہے،تم اگر"
چاہتی ہو نا کہ وہ تم سے محبت کرے،اور بے پناہ کرے،تو ٌک طرفہ طور پر اسکا ہر طرح سے خٌال رکھو،اسکی
طرف سے ملنے والی ہر اذٌت کو خوبصورتی سے اگنور کرو۔۔صبر کرو ،دٌکھنا،ہللا اس صبر کا بدلہ کٌسے دٌتے
"ہٌں۔۔
نائلہ کو اپنی شادی کے شروع والے مہٌنے ٌاد آگئے تھے،والعی ہی سب اٌسا ہی تو تھا جٌسے شہرٌار کہہ رہا تھا۔۔پھر
کٌا ہو گٌا آہستہ آہستہ۔۔۔
"پتہ نہٌں شہرٌار،مجھے خود سمجھ نہٌں آتی کہ مجھے کٌا ہوگٌا ہے،مٌں پہلے اٌسی نہٌں تھی۔۔"
کوئی بات نہٌں،دٌر تو اب بھی نہٌں ہوئی،بس تم ہللا کی خاطر صبر کرکے اچھا کرتی جاإ،کرتی جاإ،ان شاءہللا وہ سب "
ہاں نا،شٌطان جو ہللا کا دشمن ،سب سے زٌادہ خوش ہوتا ہی تب ہے جب مٌاں بٌوی کے درمٌاں جھگڑا ہوتا ہے،مٌں "
تمھٌں حدٌث سناتا ہوں
رسول ہللا ﷺ نے فرماٌا
شٌطان اپنا تخت پانی پر بچھاتا ہے ،پھر اپنے لشکر بھٌجتا ہے ،ان لشکروں مٌں ابلٌس کے زٌادہ لرٌب اُس کا َد َرجہ ہوتا
ہے جو سب سے زٌادہ فتنے باز ہوتا ہے۔ اس کے لشکرمٌں سے اٌک آکر کہتا ہے :مٌں نے اٌسا اٌسا کٌا ہے تو شٌطان
کہتا ہے ” :تُونے کچھ بھی نہٌں کٌا۔“ پھر اٌک اور لشکر آتا ہے اور کہتا ہے” :مٌں نے اٌک آدمی کو اس َولت تک
نہٌں چھوڑا جب تک اس کے اور اس کی بٌوی کے درمٌان ُجدائی نہٌں ڈال دی۔“ ٌہ سن کر ابلٌس اسے اپنے لرٌب کر
لٌتا ہے اور کہتا ہے ” :تُوکتنا اچھا ہے!“ اور اپنے ساتھ چمٹا لٌتا ہے۔
)مسلم،ص،1158حدٌث(7106:
تو دٌکھو،جتنا ہم شٌطان کو خوش کررہے ہوں گے،اتنا ہم برائی کی طرف جائٌں گے،وہ ہم پر آسانی سے حملہ آور
"ہوگا۔پھر وہ ہمارا صبر بھی ختم کرے گا،برداشت بھی،محبت بھی اور اٌک دن ٌہ پاکٌزہ رشتہ بھی۔۔۔
"ہللا نہ کرے۔۔۔"
مٌں اب شٌطان کو خوشٌاں نہٌں منانے دوں گی،اگر وہ مٌاں بٌوی کی لڑائی سے خوش ہوتا ہے،تو وہ ٌمٌنا انکی محبت "
"سے خار کھاتا ہوگا،اب مٌں اسے خوش نہٌں ہونے دوں گی۔۔ہاں ان شاءہللا۔۔
"عزٌر کو"
اس نے شرماتے ہوئے جواب دٌا۔
اور پمفلٹس اٹھائے وہاں آنے جانے ) (bookletsمٌں،سٌاہ عباٌا مٌں ملبوس بکلٌٹس ) (streetsوہ کٌنٌڈا کی سٹرٌٹس
والوں مٌں بانٹ رہی تھی۔۔
بٌنٌش پٌچھے مرسٌڈٌز مٌں بٌٹھی اسکا انتظار کررہی تھی۔فاطمہ نے بٌنٌش کو اپنے ساتھ آنے سے منع کردٌا تھا۔وہ
اکٌلے ٌہ کام کرنا چاہتی تھی۔
کے ساتھ وہ بک لٌٹس دے رہی تھی۔ morning greetingsوہ مسکرا کر ہر گزرنے والے کو
اس بک لٹ کا فرنٹ پٌج چمکتا ہوا گولڈن اور بلٌک کلر کا تھا۔۔جس پر گولڈن رنگ سے آٌت کا ترجمہ انگلش مٌں لکھا
تھا۔
"We have certainly sent down to you a Book in which is your mention. Then will you not
" ?reason
اور تحمٌك ہم نے تمھاری طرف اٌک کتاب نازل کی ہے جس مٌں تمھارا ہی ذکر ہے،تو کٌا تم عمل سے کام نہ لو (
)گے؟
اس چھوٹے سے بک لٹ مٌں کچھ مخصوص آٌات (کائنات پر غوروفکر،انسان کی زندگی اور موت،اس کائنات کے
کسی رب ہونے اور توحٌد پر اٌمان کے متعلك) اور کچھ احادٌث انگلش ترجمے کے ساتھ موجود تھٌں،جو اٌک سلٌم
الفطرت انسان کو جھنجھوڑ کر اسے لرآن کو سمجھ کر پڑھنے پر مجبور کرنے کے لٌے کافی تھٌںٌ،ہ فاطمہ کی اپنی
سلٌکشن تھی،اس نے اس بک لٹ کی ہر چٌز خود سلٌکٹ کرکے ڈٌزائن کی تھی،وہ بالشبہ اٌک خوبصورت اور
پرکشش کتابچہ تھا۔
وہ ہر اٌک کو مسکراتے ہوئے دے رہی تھی،اور ساتھ مٌں کہہ رہی تھی اس مٌں آپکا ذکر ہے،اس مٌں خود کو تالش
کرٌں،اپنا آپ تالش کرٌں،اپنی زندگی کا ممصد جانٌں،اپنے محبوب کو پہچانٌں۔۔اپنے رب کو جانٌں۔۔
مختلف لوگوں کا مختلف روٌہ تھا۔۔کوئی مسکرا کر لے رہا تھا کوئی تعجب اور بے زاری سے اوپر سے نٌچے تک
اسکا حلٌہ دٌکھتا اور کندھے اچکا کر لٌے بغٌر ہی چال جاتا۔۔مگر وہ لوگوں کا روٌہ دٌکھے بغٌر اپنے کام مٌں مگن
تھی۔۔
اس نے اب اپنا مشن بنا لٌاتھا کہ جتنی بھی زندگی ہے۔۔وہ اسے اپنے رب کی راہ مٌں ولف کرے گی۔۔لوگوں کو رب
سے جوڑے گی۔۔ہللا کی نازل کردہ اٌک آٌت اسکی موٹٌوٌشن بن چکی تھی۔۔
ہللا نے فرماٌا تھا
تم بہترٌن امت ہو جو لوگوں کے لئے پٌدا کی گئی ہے کہ تم نٌک باتوں کا حکم کرتے ہو اور بری باتوں سے روکتے "
ہو ،اور ہللا تعالی پر اٌمان رکھتے ہو ،اگر اہ ِل کتاب بھی اٌمان التے تو ان کے لئے بہتر تھا ،ان مٌں اٌمان النے
"والے بھی ہٌں لٌکن اکثر تو فاسك ہٌں۔
) آل عمران(110:
بہترٌن امت۔۔۔جن کا ممصد ہی لوگوں کی رہنمائی کرنا تھا۔۔جنھوں نے دنٌا کو رب سے متعارف کروانا تھا،معاشرے مٌں
نٌکی کو عام اور برائی کو روکنا تھا۔۔افسوس کہ امت اپنا ممام بھول چکی،افسوس کہ وہ خود ان لوگوں مٌں شامل
ہوچکی تھی کہ جنھٌں رب سے متعارف کروانے کی ضرورت تھی۔۔کتنی بڑی ذمہ داری ڈالی گئی امت مسلمہ پر۔۔اور
کتنی آسانی سے بھال بٌٹھی امت مسلمہ۔۔کتنا بڑا حساب دٌنا ہوگا اس ذمہ داری کو نہ نبھانے کا۔۔وہ جب بھی سوچتی
تھی۔۔سوائے افسوس اور ندامت کے دامن مٌں کچھ نہ ہوتا تھا۔۔
آج زندگی کے اس سٹٌج پر۔۔اگر وہ کھڑی تھی۔۔ٌہ کام کر رہی تھی۔۔تو اپنا فرض نبھانے کے لٌے،اپنی ذمہ داری ادا
کرنے کے لٌے۔۔کہ کم ازکم۔۔کل وہ ہللا کو کہہ سکے کہ ہاں۔۔اس نے اپنی حٌثٌت اور استطاعت کے مطابك کوشش کی
تھی۔۔ہاں وہ بارش کا اٌک ننھا سا لطرہ بنی تھی۔۔جس سے ساری زمٌن تو سٌراب نہ ہو البتہ کسی اٌک چٌونٹی کی پٌاس
بجھانےٌ،ا کسی بٌج کو پھاڑنے ٌا کسی پھول کے کھلنے مٌںٌ،ا سمندر مٌں شامل ہو کر کسی سٌپ مٌں داخل ہو کر
موتی کے بننے مٌں اسکا بھی کردار تھا۔۔وہ اپنے رب کے حضور ناکام نہٌں ہونا چاہتی تھی۔۔
اس نے فورا سے دو بک لٌٹس اسکو مسکرا کر دے دئٌے۔۔وہ لڑکی شکرٌہ ادا کرتے ہوئے چلی گئی۔۔
فاطمہ نے جھک کر اپنا بٌگ اٹھاٌا تو وہ خالی ہوچکا تھا۔۔اس نے الحمدہلل کہتے ہوئے مسکرا کر آسمان کی طرف
دٌکھا۔۔جٌسے اپنے اس عمل پر اپنے رب کو گواہ بناٌا ہو۔۔اور آگے بڑھ گئی۔۔
بٌنٌش نے اسے آتے دٌکھ کر اسکی جگہ کو سٌٹ کرکے مڑ کر دٌکھا تو اونچی آواز مٌں پکار اٹھی۔۔
"فاطمہ سسٹر۔۔۔۔"
فاطمہ جو کہ گاڑی کے لرٌب آکر لڑکھڑائی تھی ،بے ہوش ہو کر گر چکی تھی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔۔
ام_ہرٌرہ#
فاطمہ نے زونٌشہ کو چھٌڑتے ہوئے کہا،جو صبح سے کچن مٌں لگی لنچ کا ارٌنج کر رہی تھی،شادی کو تٌن ہفتے ہو
چکے تھے،آج وہ پہلی بار کچن مٌں جا کر خود اپنے ہاتھوں سے سب بنا رہی تھی۔
"ھاھاھا،کٌا پتہ انگلٌاں چبا ہی بٌٹھٌں"
وٌسے بھی انکی نگاہٌں اب ہر طرف زونٌشہ مٌڈم کو ہی ڈھونڈتی رہتی ہٌں،مجھے تو لگتا ہے آجکے بعد کھانا بھی "
"زونٌشہ کے سوا کسی اور کے ہاتھ کا پسند نہٌں آنے واال جناب کو
"سسسس آہ۔۔۔۔"
سٌلڈ بناتے ہوئے وہ اچانک سے پٌٹ پر ہاتھ رکھ کر چئٌر پر بٌٹھے بٌٹھے ہی جھکی۔۔
"مام،حٌدر۔۔حٌدر۔۔؟؟ صغراں جاإ جلدی سے بٌگم صاحبہ اور حٌدر کو بال کر الإ۔"
زونٌشہ نے پنجوں کے بل نٌچے بٌٹھے ہوئے فاطمہ کے گھٹنوں پر ہاتھ رکھتے ہوئے کہا۔۔
وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر تٌزی سے اوپر مسز رٌان کے کمرے کی طرف بھاگی۔۔
"اچھا چلو اٹھنے کی کوشش کرو،روم مٌں چل کر لٌٹو شاٌد کچھ آرام آجائے"،
زونٌشہ نے اسکے گال تھپکتے ہوئے مسز رٌان سے کہا ،جو کہ حٌرانی اور پرٌشانی لے ملے جلے تاثرات لٌے رونے
کے لرٌب تھٌں۔۔حٌدر نے فورا سے پہلے ہاسپٹل فون کردٌا تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زونٌشہ نے مسز رٌان کو اسکے پٌٹ مٌں موجود کسی سخت چٌز کے بارے مٌں بتاٌا تھا۔
"ہللا کرے سب ٹھٌک ہو،جوان جہان بٌٹی ہے،مجھے تو فکر کھائی جا رہی ہے "
"کٌسے لوگ ہٌں آپ ؟ آپکو بالکل اندازہ نہٌں ہوا کہ وہ بچی کتنے عرصے سے تکلٌف مٌں مبتال ہے؟؟"
انکے فٌملی ڈاکٹر،ڈاکٹر ارسالن نے افسوس اور غصے کے ملے جلے تاثرات مٌں حٌدر سے کہا۔۔
"ڈاکٹر صاحب ہمٌں والعی ہی اندازہ نہٌں تھا کہ مسئلہ اتنا بڑا ہوگا۔۔"
"اس بچی کے پٌلے رنگ،گرتے وزن کو بھی آپ لوگوں نے نوٹس نہٌں لٌاٌ،مٌنا ان کا کھانا پٌنا بھی کم ہوچکا ہے"
مسز رٌان منہ نٌچے کرکے ہی رہ گئی تھٌں۔۔کٌا بتاتٌں۔۔۔کہ رٌان صاحب نے تو اٌک مہٌنہ پہلے ہی ٌہ بات کی
تھی۔۔مگر انھوں نے سٌرٌس نہٌں لٌا۔۔
دٌکھٌں حٌدر،آپ بھی اسی فٌلڈ سے تعلك رکھتے ہٌں،آپ تو جانتے ہٌں کہ اسطرح کے کٌسز مٌں،ذرا سی کوتاہی کتنے "
خٌر،آپ ہللا سے دعا کٌجئٌے،کٌونکہ معاملہ کافی سنگٌن ہوچکا ہے،اٌک دو دن ہم مزٌد انھٌں ٌہاں ٹرٌٹمنٹ دٌں "
"گے،مزٌد ٹٌسٹ کرٌں گے پھر ہی ان شاءہللا کچھ فائنل بتا سکٌں گے
حٌدر ڈاکٹر ارسالن سے ہاتھ مالتا ہوا مسزرٌان اور زونٌشہ کے ساتھ باہر نکل آٌا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسے ہاسپٹل سے گھر آئے پورے تٌن دن ہو چکے تھے۔۔اس نے خود کو کمرے مٌں جٌسے بند کررکھا تھا۔۔مسز رٌان
کھانا کھالنے آتٌں،اسے پٌار کرتٌں مگر وہ خاموش ہو چکی تھی۔۔مسلسل خاموش۔۔اٌک ہی جگہ ٹکٹکی باندھے دٌکھتی
رہتی۔۔کبھی کھالٌا تو دو تٌن نوالے کھا لٌے۔۔ورنہ وہ بھی نہٌں کھاتی۔۔۔جب سے اسے اپنی بٌماری کا پتہ چال تھا۔۔اسکا
دماغ ماإف تھا،شاٌد ذہنی طور پر لبول کرنا اسکے لٌے بہت مشکل ہو رہا تھا۔۔اب وہ پہلے سے زٌادہ کمزور ہوتی جا
رہی تھی۔۔اسکی اس حالت نے سب گھر والوں کو پرٌشان کررکھا تھا۔۔
"مٌں آخر کٌا کروں مجھے کچھ سمجھ نہٌں آتا،نہ کچھ بولتی ہےوہ نہ کچھ کھاتی ہے۔۔"
مسز رٌان نے روتے ہوئے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں مٌں چھپاتے ہوئے کہا۔۔ماں کی مامتا آج اسکی ٌہ حالت دٌکھ کر
تڑپ اٹھی تھی۔۔
"تم پرٌشان مت ہو،اٌک دو دن تک فائنل رپورٹ آجائے گی،پھر ان شاءہللا دٌکھتے ہٌں کہ آگے کٌا کرنا ہے۔۔"
ڈاکٹر ارسالن کہہ رہے تھے اسے کوئی چوٹ لگی ہے،جسکا فوری عالج نہ ہونے کی وجہ سے وہاں انفٌکشن ہوگٌا "
"مسز رٌان بات کررہی ہوں،بٌٹا کٌا آپ کچھ دٌر کے لٌے ہماری طرف آسکتی ہٌں؟ ) (motherمٌں فاطمہ کی مدر"
مسز رٌان نے بہت مضبوط لہجے مٌں کہا تھا جٌسے وہ خود بھی اپنی آواز کی کپکپی محسوس نہٌں کرنا چاہتی تھٌں۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج چوتھا دن تھا،فاطمہ نے صبح سے کمرے کا دروازہ بند کٌا ہوا تھا۔۔وہ کسی کے کہنے پر بھی دروازہ نہٌں کھول
رہی تھی مسزرٌان کو ڈر ہوا کہ کہٌں وہ خود کو کچھ کر نہ لے اور انھوں نے پرٌشان ہوکر لرة العٌن کو بلوالٌا تھا،کہ
شاٌد وہ اسکے کہنے پر دروازہ کھول دے۔۔
لرة العٌن کے آتے ہی مسز رٌان نے اسے سب کچھ بتادٌا۔
لٌور کٌنسر کا سن کر لرة العٌن کو حٌرت کا جھٹکا لگا تھا،اسے ٌمٌن نہٌں آرہا تھا۔
آنٹی اٌسے کٌسے ہوسکتا ہے،ابھی کچھ عرصہ پہلے تو حٌدر بھائی کی مٹھائی کھالنے مٌرے گھر آئی تھی،وہ تو "
اس دن کا منظر ٌاد کرتے ہی لرة العٌن کی آنکھوں مٌں آنسو آگئے تھے۔۔
"بس بٌٹا،حٌران تو ہم سب خود بھی رہ گئے ہٌں،اٌک دو دن تک فائنل رپورٹس آجائٌں گی تو کچھ پتہ چلے گا۔۔"
ہللا تعالی ان شاءہللا سب بہتر کرٌں گے،آپ پرٌشان نہ ہوں ،اگر آپ نے ہمت ہار لی تو فاطمہ کو کون ہمت دالئے "
"گا۔۔ہممم؟
لرة العٌن نے اپنے آنسو چھپا کر مسز رٌان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے انھٌں تسلی دی۔۔
اسے بےاختٌار وہ شعر ٌاد آٌا تھا
وہ مسلسل فاطمہ کو بالتے ہوئے اسکے روم کا دروازہ کھٹکا رہی تھی۔
فاطمہ۔۔۔"
کٌا لوگوں نے ٌہ سمجھ لٌا ہے کہ انھٌں اتنا کہنے پر ہی چھوڑ دٌا جائے گا کہ وہ اٌمان الئے،اور انھٌں آزماٌا نہ جائے "
"گا؟
)سورت العنکبوت(1:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
ام_ہرٌرہ#
لرة العٌن نے فاطمہ کو کندھوں سے پکڑ کر اندر لے جاتے ہوئے اسے بٌڈ پر بٹھا دٌا۔۔
زونٌشہ اور مسز رٌان نے اندر آنا مناسب نہ سمجھا لہذا فاطمہ کے کمرے کا دروازہ بند کر کے خود باہر الإنج مٌں ہی
بٌٹھ گئٌں۔۔
"ہماری زندگی مٌں جو بھی ہوتا ہے ہللا کی مرضی سے ہوتا ہے،اور ہللا کی مرضی۔۔اسکی حکمت پر مبنی ہوتی ہے۔۔"
"جانتی ہوں۔۔"
پھر جانتے ہوئے بھی ٌہ روٌہ کٌوں؟مومن تو ہللا کی ہر رضا پر راضی رہتا ہے،جٌسا کہ حدٌث مٌں آتا ہے نا"
مومن کے معاملے مٌں تعجب ہے کہ اس کے سب کاموں مٌں خٌر ہے اور ٌہ مومن کے عالوہ کسی کے لٌے نہٌں اگر
اسے کوئی نعمت اور آسانی نصٌب ہوتی تو شکر کرتا ہے تو اس مٌں اس کے لٌے خٌر ہے اور اگر اسے مصٌبت
پہنچتی ہے تو اس پر صبر کرتا ہے تو اس مٌں بھی اس کے لٌے خٌر ہے۔
اب صبر کٌا ہے؟کہ وہ جزع فزع نہٌں کرتا ،شکوے نہٌں کرتا کہ مٌرے ساتھ اٌسا کٌوں ہو گٌا؟ مٌرے ساتھ تو اٌسا نہٌں
ہونا چاہٌے تھا۔۔بلکہ وہ راضی برضا رہتا ہے،مٌرے رب کی مرضی ابھی مٌرے لٌے ٌہی ہے؟مٌں راضی۔۔پھر وہ
"مصٌبت بھی اسکے خٌر کا سبب بن جاتی ہے
وہ اسطرح سے کہ جب ہم صبر کرتے ہٌں تو ہللا خوش ہوتے ہٌں کہ مٌرا مومن بندہ اتنے سخت حاالت مٌں بھی کوئی "
شکوہ نہٌں کر رہا،بدگمان نہٌں ہو رہا ،لہذا اس آزمائش کے بدلے اسکے درجات بلند کردٌتے ہٌں ،اسکے اٌمان مٌں
اضافہ کرتے ہٌں ،اسکے دل کو سکون سے بھر دٌتے ہٌں ،اسکا اپنے اوپر توکل مضبوط کردٌتے ہٌں ،حتی کہ اسکے
گناہ بھی معاف کردٌتے ہٌں ،وہ حدٌث ٌاد ہے نا کہ مومن کو اٌک کانٹا بھی چبھے تو اسکے بدلے اسکے گناہ مٹا دئٌے
"کرٌں گے ان شاءہللا۔۔ ) (faceجاتے ہٌں ،تو اب چونکہ ٌہ آزمائش آ چکی ہے ،لہذا ہم اسے مل کر اچھے سے فٌس
لرة العٌن نے مسکراتے ہوئے اسکے چہرے پر بکھری بالوں کی لٹوں کو پٌچھے کرتے ہوئے کہا۔
جوابا ً فاطمہ نے بس اثبات مٌں سر ہال دٌا۔۔ جٌسے وہ کچھ بولنا نہٌں چاہتی تھی۔۔
کبھی کبھی والعی انسان خود بھی اپنے دل کی حالت نہٌں جانتا ،اسکے لبوں پر خاموشی ڈٌرے ڈال لٌتی ہے ،ذہن الجھ
جاتا ہے ،اس ولت بس وہ سب سے کٹ کر کہٌں دور بھاگ جانا چاہتا ہے ،اپنی ذات سے بھی دور ،مگر دنٌا مٌں اٌسا
کہاں ممکن ہوتا ہے۔۔
"کچھ تو کہو۔۔"
لرة العٌن جو پہلے ہی اپنے جذبات پر لابو رکھ کر اس نازک لمحے مٌں اسکو تھامنے کی کوشش کر رہی تھی۔۔اسکی
اس بات پر ،کمزور پڑ گئی۔۔
"ان شاءہللا،ہللا تمھٌں شفا دٌں گے مٌری جان ،مٌں ہللا سے بہت دعا کروں گی اپنی اٌمان کی ساتھی کے لٌے۔۔"
مٌں نے تو ابھی ۔۔ ہللا سے ماللات کے لٌے۔۔۔۔ اپنی آخرت کے لٌے کوئی تٌاری بھی نہٌں کی لرت ،کٌا ہللا مجھے اتنی "
اس نے فورا ً سے فاطمہ کے گلے لگتے ہوئے کہا۔۔ آنسو اسکی آنکھ سے نکل کر فاطمہ کی لمٌض مٌں جذب ہوگٌا۔۔
جسکی نمی اس نے اپنے کندھے پر محسوس کی تھی۔۔
لرة العٌن کے آنسو اسکے گلے مٌں پھندہ بن کر پھنسے ہوئے تھے جنھٌں وہ فاطمہ کے سامنے نہٌں بہانا چاہتی تھی۔
"مجھے پتہ ہے لرتٌ،ہ بٌماری۔۔جس سٹٌج پر پہنچ چکی ہے ،اب بہت کم ولت ہے مٌرے پاس۔۔"
تم تو مٌری دوست ہو لرت ،تم تو آخرت پر اٌمان رکھنے والی ہو نا ،دوسروں کی طرح تم تو مجھے حمٌمت سے منہ "
پھٌرنے کو مت کہو ،تم تو مجھے اس دنٌا کی حمٌمت دکھاإ ،مجھے کہو کہ فاطمہ تم اپنی لبر کے لٌے تٌاری کرو،
مجھے کہو کہ تم اپنے لبر کے اندھٌرے اور اسکی تنہائی کو دور کرنے کے لٌے نٌک اعمال مٌں جلدی کرو ،تم
مجھے لبر کے سوال جواب ٌاد کرواإ ،تم مجھے بتاإ کہ مٌں۔۔۔کہ۔۔کہ مٌں۔۔۔جلد ہللا سے۔۔ ملنے والی ہوں ،اسکے سامنے
"جانے والی ہوں۔۔پتہ نہٌں۔۔پتہ نہٌں وہ راضی بھی ہوں گے ٌا۔۔۔
لرت مجھے تو ابھی لبر کے مراحل تک کا مکمل علم نہٌں ہے،مٌرا تو لرآن کورس بھی مکمل نہٌں ہوا،مٌں کٌسے "
اس اندھٌرے گڑھے مٌں بغٌر علم کے جاإں گی؟؟ لرت۔۔مجھے بتاإ نا۔۔مجھے ٌمٌن نہٌں آرہا،کٌا زندگی اتنی بے ثبات
"ہے؟
اب وہ روتے ہوئے لرة العٌن کے کندھے جھنجھوڑ رہی تھی۔جبکہ لرة العٌن کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔۔ صرف بہتے
آنسو۔۔
لرت کٌا بابا ،حٌدر اور سٌف بھٌا۔۔۔مجھے لبر مٌں ڈال آئٌں گے؟؟ کٌا سب مجھے اکٌال چھوڑ آئٌں گے ادھر۔۔مٹی "
لرت مٌں تٌار نہٌں ہوں ابھی۔۔۔مٌں بالکل تٌار نہٌں ہوں۔۔پلٌز نا لرت۔۔پلٌز۔۔ہللا سے کہو نا۔۔"
تھوڑا ٹائم اور دے دٌں،تھوڑے سال اور ،مٌں بالکل ولت ضائع نہٌں کروں گی ،مٌں اپنی ہر بری عادت ،ہر گناہ کو
چھوڑ دوں گی ،ہر لمحہ نٌکٌاں کروں گی ،مٌں لمحے لمحے اسکو راضی کرنے کی کوشش کروں گی۔۔ابھی تو مٌرے
پاس کچھ بھی نہٌں ہے ،کچھ بھی نہٌں۔۔پلٌز لرت تم دعا کرو نا۔۔۔وہ تمھاری دعا ضرور سنٌں گے۔۔تم اسکی بہت پٌاری
"اور نٌک بندی ہو ،تم کہو نا اس سے۔۔۔
وہ سسکٌاں لٌتے لٌتے اسکا ہاتھ زور سے پکڑتے ہوئے اسکی گود مٌں جھک گئی تھی۔۔
لرة العٌن اسکے ساتھ لگ کر رو رہی تھی۔
"ہللا مٌری دوست کو شفا دے دٌں ،ہللا تعالی فاطمہ کو ٹھٌک کردٌں۔۔ پلٌٌٌز پٌارے ہللا۔۔"
وہ دبی دبی سسکٌوں مٌں فاطمہ کی کمر پر سر رکھے ،ہللا کو پکار رہی تھی۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ماما ہمت کرٌں ،اگر آپ اٌسے ہمت ہارٌں گی تو فاطمہ کو کون سنبھالے گا"،
حٌدر نے بہت مضبوط لہجے مٌں مسز رٌان کو کندھوں پر تھپکتے ہوئے کہا ،جو کہ سسکٌاں لے لے کر رو رہی تھٌں۔
زونٌشہ اور رٌان صاحب سامنے صوفے پر خاموش بٌٹھے تھے۔۔ اداسی اور بے بسی کے واضح آثار ،انکے چہرے پر
عٌاں تھے،
کمرے مٌں اٌک عجٌب سا سناٹا اور وٌرانی چھائی ہوئی تھی۔۔ ہر چمکتی چٌز نے اپنی چمک گوٌا کھو دی تھی،
"ہم اٌک ٹرائی اور کرٌں گے ،ان شاءہللا ہللا شفا دٌنے پر لادر ہٌں"،
رٌان صاحب نے سامنے ٹٌبل پر پڑی رپورٹس پر نظرٌں جماتے ہوئے کہا
ہاں،ہم اپنی طرف سے پوری کوشش کرٌں گے ،ڈاکٹر نے کہا ہے کہ آپ اسے باہر کسی بڑے کٌنسر ہاسپٹل مٌں لے "
جائٌں ،اور ٹرانسپالنٹٌشن کروائٌں ،انھوں نے اسکا بھی کوئی اطمٌنان نہٌں دالٌا کٌونکہ کٌنسر تٌزی سے مسلسل پھٌلتا
"جا رہا ہے ،مگر ہم کوشش کرٌں گے۔
"جی ڈٌڈ ،آپ ٹھٌک کہہ رہے ہٌں،ہمٌں جلد از جلد ٌہ ٹرٌٹمنٹ کروا لٌنا چاہٌے"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آنکھوں مٌں نمی لٌے اس نے سورج کی طرف دٌکھتے ہوئے کہا جو ڈوبنے کی تٌاری کر رہا تھا،
آج وہ دونوں ٹٌرس پر بٌٹھی تھٌں،زونٌشہ مٌں غٌرمحسوس طرٌمے سے تبدٌلی آنے لگی تھی ،وہ فاطمہ کو دٌکھ کر
ہمٌشہ حٌرت مٌں ڈوب جاتی تھی ،اسکا صبر ،اسکی باتٌں ،اسکا عمل۔۔ اسے بہت متاثر کررہا تھا۔۔ وہ اسکے بہت لرٌب
رہنے لگی تھی ،ہللا والوں کی لربت اٌسے ہی متاثر کٌا کرتی ہے،
"مگر مٌں چاہتی ہوں ،مرنے سے پہلے ،مٌرا رب مجھے اپنے چنے ہوئے بندوں مٌں شامل کرلے"
"چنے ہوئے؟؟"
تمھٌں پتہ ہے ٌہ جو چناإ ہوتا ہے نا بڑا خاص ہوتا The Chosen one,ہاں ،مٌں چاہتی ہوں کہ مٌں چن لی جاإں۔۔"
ہے ،دٌکھو۔۔۔ دنٌا مٌں جب کسی بادشاہ کے دربار مٌں کسی کو خاص ممام ملتا ہےٌ ،ا کسی پارلٌمنٹ مٌں کسی کو بڑا
عہدہ ملتا ہےٌ ،ا پھر کسی کمپنی مٌں اٌک عام امپلوائے کی پروموشن کسی خاص ممام پر ہوتی ہےٌ ،ا استاد اٌک عام
سے سٹوڈنٹ کو کالس کا مانٌٹرر بنا دٌتا ہےٌ ،ا سسرال مٌں بڑی بہو ہونے کی وجہ سے رسپٌکٹ ملتی ہے ،تو کٌا
احساس ہوتا ہے؟ کٌا جذبات ہوتے ہٌں؟ لوگ دنٌا مٌں ہونے والے ان چناإ پر خوش ہوتے ہٌں ،مگر مٌں چاہتی ہوں۔۔۔کہ
مٌرا۔۔۔اس رب کے ہاں چناإ ہو جائے۔۔۔ وہاں بھی مٌں اٌک عام مسلمان سے۔۔خاص مومنٌن کی صف مٌں چن لی جاإں،
پھر وہاں سے۔۔۔محبٌن (اس سے محبت کرنے والوں) مٌں۔۔وہاں سے محسنٌن کے گرٌڈز حاصل کرلوں جن سے مٌرا
رب محبت کرتا ہے ،جنکے وہ ساتھ ہوتا ہے۔۔ مٌں چاہتی ہوں کہ مٌں۔۔ہداٌت کا چراغ بن جاإں ،دنٌا مٌں کوئی جانے ٌا
نہ جانے۔۔۔ مگر وہاں اوپر۔۔آسمانوں مٌں۔۔فرشتے مجھے جانتے ہوں ،مجھ سے محبت کرتے ہوں ،مٌرے لٌے ہللا سے
" دعائٌں کرتے ہوں۔۔ اور پتہ ہے مٌں کٌا چاہتی ہوں کہ وہ مجھے کس نسبت سے جانٌں؟؟
زونٌشہ نے اسکی طرف سوالٌہ نظروں سے دٌکھا ،جو اب ڈوبتے سورج کو بڑی حسرت بھری نگاہوں سے دٌکھتے
ہوئے بول رہی تھی۔۔ اس نے جواب کا انتظار کٌے بغٌر اپنی بات جاری رکھی۔۔
صرف اس نسبت سے۔۔۔کہ فاطمہ۔۔۔ہللا سے محبت کرنے والی لڑکی ہے۔۔۔فاطمہ۔۔رب کی خاطر ہر لربانی دے دٌنے پر "
تٌار رہنے والی ہے۔۔۔ اسکی ترجٌح اول اسکا رب ہے۔۔ اسکی خواہش اسکے رب کی رضا ہے۔۔ اسکی تڑپ اسکے رب
کا دٌدار ہے ،اسکا دٌن ،اسکا فخر ہے۔۔ اسکی زندگی اور موت۔۔اس رب کی امانت ہے جسے وہ ضائع نہٌں
"کررہی۔۔۔ہاں۔۔مجھے ٌہاں گمنام رہ کر۔۔ وہاں مشہور ہونا ہے۔۔۔
آنسو ٹپ ٹپ گر کر اسکے سفٌد دوپٹے کو بھگو رہے تھے۔۔اسکا رنگ زرد پڑ چکا تھا،مگر پھر بھی اٌک نورانی
چمک اسکے چہرے کا ہالہ بنائے ہوئے تھی ،اسکی نظرٌں مسلسل دور کہٌں آسمان پر جمی ہوئی تھٌں۔۔
زونٌشہ بس خاموش بٌٹھی تھی۔۔۔شاٌد وہ خاموش رہ کر فاطمہ کی باتٌں سننا چاہتی تھی۔۔۔
فاطمہ کے خاموش ہونے پر اس نے بھی آسمان پر دٌکھا۔۔جہاں سورج ڈوب چکا تھا۔۔اٌک حسرت بھرا سوال تھا اسکی
آنکھوں مٌں۔۔اسکے دل مٌں۔۔۔
کٌا وہاں(آسمانوں کے پار) زونٌشہ کو بھی کوئی جانتا ہوگا؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"عٌنی ذرا بات سنو؟"
"عٌنی؟؟؟؟"
"کدھر ہو بٌٹا؟؟"
لرة العٌن کی والدہ صحن مٌں چارپائی پر بٌٹھٌں سبزی کاٹ رہی تھٌںٌ ،ہ شام کا ولت تھا۔۔
"عٌنٌٌی؟؟؟؟"
لرة العٌن ،جو کہ اپنے کمرے مٌں عصر کی نماز کے بعد دعا مٌں مشغول تھی ،اس نے اپنے آنسو صاف کرکے،
جائے نماز لپٌٹتے ہوئے کہا،
"جی امی"
ہللا اسے جلد اور کامل شفا دٌں ،بہت پٌاری بچی ہے ،بہت صبر والی ،ہللا اسے اور اسکے گھر والوں کو بہت ہمت "
"دٌں
ہاں وہ مجھے تم سے کچھ بات کرنی ہے ،آج صبح جب تم فاطمہ کی طرف تھی ،تو شہرٌار کی والدہ آئی تھٌں ،تمھارا "
وہ کہہ رہی تھٌں کہ شہرٌار چاہتا ہے کہ اٌک مہٌنے کے اندر اندر نکاح کردٌا جائے ،مٌں نے معاذ سے مشورہ کٌا "
تھا ،اس نے استخارہ کا کہا ہے ،تم استخارہ کرنا ،البتہ مٌرا دل مطمئن ہے ،مٌری زندگی کا کچھ پتہ نہٌں ،مٌں چاہتی
"ہوں تم جلد از جلد اپنے گھر کی ہو جاإ
وہ سبزی کاٹنے مٌں مشغول لرة العٌن کو ٌہ سب باتٌں کہہ رہی تھٌں۔
"امی پلٌز ،ابھی نہٌں ،آپ جانتی ہٌں نا فاطمہ کتنی بٌمار ہے ،مٌں ابھی تٌار نہٌں ہوں۔۔"
بٌٹا ،ہللا اسے صحت دٌں ،مگر دٌکھو تمھاری بھی تو زندگی ہے نا ،اب شہرٌار کی خواہش ہے ،اٌسے انکار کرنا اور "
"مگر امی۔۔۔"
تم استخارہ کرلو ،پھر ان شاءہللا دٌکھتے ہٌں ،انکی تٌاری مکمل ہے،انھٌں کوئی جہٌز نہٌں چاہٌے ،بس سادگی سے "
نکاح کرکے رخصتی چاہتے ہٌں"۔
وہ فرمانبردار اوالد کی طرح سر جھکا کر رہ گئی ،وہ جانتی تھا ٌا اسکا رب جانتا تھا اسکا دل کس کرب مٌں مبتال تھا۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرجری کا کوئی خاطر خواہ رزلٹ نہٌں آٌا تھا ،دو ہفتے گزر چکے تھے ،لہذا اب فاطمہ اپنے پٌرنٹس کے ساتھ کٌنٌڈا
جانے کی تٌارٌاں کررہی تھی۔۔
"مگر مٌرا بٌٹا ،جانا تو پڑے گا نا ،آپ کا ٹرٌٹمنٹ ضروری ہے۔۔"
"ماما اگر ٌہاں آنے سے پہلے ،وہٌں پر مٌری ڈٌتھ ہو گئی تو؟؟؟"
مسز رٌان جو فاطمہ کے کمرے مٌں اسکے ساتھ اسکے کپڑے پٌک کر رہی تھٌں،اسکی ٌہ بات سن کر انکے ہاتھ رک
گئے،
"اوکے مٌری پٌاری سی ماما ،اب آپکی بٌٹی آپکو اذٌت نہٌں دے گی ،وہ آپکو تنگ نہٌں کرے گی۔۔"
فاطمہ نے مسکراتے ہوئے مسز رٌان کو اپنے بازإں کے حصار مٌں لٌتے ہوئے معنی خٌز انداز مٌں کہا۔۔
ہاں،مٌں دنٌا مٌں تو انکو کچھ دے پاإں ٌا نہٌں ،مگر مٌں کچھ اٌسا ضرور کروں گی کہ لٌامت کے دن آپکو اپنی اس "
"دٌں ،کہ انکی اوالد انکے لٌے بلند درجات کا سبب بنی ،ان شاءہللا honourبٌٹی پر فخر ہو ،آپکو ہللا
اس نے دل ہی دل مٌں عزم کرتے ہوئے اپنی ماں کے چہرے کو چوم لٌا ،کتنا عرصہ گزر گٌا تھا اس طرح سے ماں
کے ساتھ گلے لگے ،انکی مامتا کو محسوس کٌے ،شکرگزاری کے احساس سے اسکا دل بھر چکا تھا ،جسکا اظہار
اسکی نم آنکھوں سے ہورہا تھا۔۔
مسز رٌان اسکا ماتھا چوم کر دوبارہ کپڑوں کی پٌکنگ مٌں مصروف ہوچکی تھٌں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
ام_ہرٌرہ#
لسط نمبر 40
نائلہ نے لرة العٌن کے نکاح کے لٌے خرٌدے ہوئے سامان کو خوبصورتی سے پٌک کرتے ہوئے شہرٌار کو چھٌڑا۔۔
ہاں ہاں ،کہہ دو نا کہ جو اپنی پسند سے چوڑٌاں الئے ہو اسے احتٌاط سے پٌک کروں کہٌں وہ ٹوٹ نہ جائٌں ،جو "
"سوٹ اپنی پسند سے خرٌدا ہے وہ اٌسے پٌک کروں کہ "وہ" خوش ہو جائٌں۔
"ہاں تو ،اب تو وہ ہماری ہونے والی زوجہ محترمہ ہٌں ناں۔"
"تم لوگ بعد مٌں باتٌں کرلٌنا ،جلدی سے سامان پٌک کرلو ،پھر بالی کام بھی کرنے ہٌں۔"
اماں جو ابھی جلدی مٌں کمرے مٌں داخل ہوئی تھٌں ،نے کہا،
"ارے کٌوں چھٌڑ رہی ہے اپنے بھائی کو۔۔ مٌرا بٌٹا اسکا نہٌں ،اسکے دٌن کا غالم ہوگٌا ہے۔"
"اچھا چلو بس کرو ،نائلہ جلدی سے پٌک کرو پھر سالن بھی بنانا ہے۔"
اماں سنجٌدگی سے کہتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئٌں ،جس پر شہرٌار نے ہنستے ہوئے لہمہہ لگاٌا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"تمھٌں اٌسا لگا بھی کٌوں لرت؟ تم تو مٌری لرة العٌن (آنکھوں کی ٹھنڈک) ہو۔"
ٌہ تم نے ہی تو مجھے سکھاٌا ہے کہ اپنے محسن کو بھولتے نہٌں ہٌں ،بلکہ اسکے احسان کی لدر کرتے ہٌں ،تم نے "
آمٌن"۔"
وہ اسکے گلے لگی آنسو بہا رہی تھی ،نہٌں معلوم تھا کہ دوبارہ کب ملٌں گے ،کس حال مٌں ملٌں گے ،مل بھی پائٌں
گے ٌا؟؟
ٌہ سوچ کر اسکا سانس لٌنا دشوار ہو رہا تھا۔۔ فاطمہ کی کل فالئٹ تھی ،آج وہ لرة العٌن کے گھر اس سے ملنے آئی
تھی۔
ان شاءہللا مٌں روز تم سے کانٹٌکٹ کروں گی اور لرت! تم ہللا سے کہنا کہ فاطمہ کو ضائع نہ کرٌں ،اس سے اپنے "
"ان شاءہللا ،مٌں ہللا سے دعا کروں گی ،وہ تمھٌں ہرگز ضائع نہٌں کرٌں گے۔"
لرة العٌن کے پاس تسلی دٌنے کے لٌے الفاظ ختم ہو چکے تھے۔
وہ دونوں کتنی ہی دٌر ،اٌسے ہی اٌک دوسرے کے گلے لگے خاموش آنسو بہاتی رہٌں۔
ٌہ ہللا کی خاطر محبت بھی بڑی عجٌب شے ہوتی ہے اور انسان ٌہ محبت ،ہللا سے محبت کٌے بغٌر آپس مٌں کر ہی
نہٌں سکتے ،اسکی مٹھاس کو الفاظ مٌں بٌان کرنا ناممکن سا لگتا ہے ،دو انسانوں کے درمٌان محبت کی وجہ ،صرف
ث سکون ہورب تعالی کی ذات ہو ،وہ محبت جو ہللا کی محبت کے تابع ہو ،اس سے بڑھ کر اور کونسی محبت باع ِ
سکتی ہے؟
:حدٌث کے مطابك ،تٌن چٌزٌں ہٌں جس سے حالوت اٌمان (مٹھاس) پائی جا سکتی ہے
اٌک ٌہ کہ ہللا اور اس کا رسول بالی سب سے زٌادہ محبوب ہوں۔ دوم ٌہ کہ اگر کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو ہللا "
کے لٌے ہی کرتا ہے ،تٌسرا ٌہ کہ اسے کفر کے طرف لوٹنا اٌسے برا لگتا ہے جٌسے آگ مٌں ڈاال جانا"۔ بخاری
(1؍)49۔
لٌامت کے دن جب ہر رشتہ بے وفائی کرے گا تب صرف ٌہی ہللا کی خاطر محبتٌں بالی رہٌں گی ،شاٌد ان کی محبت
کا ممصد ہی ان کے بالی رہنے کا سبب ہو گاٌ ،عنی رب تعالی کی ذات۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پر جانا چاہتی ہوں ،کٌا ہم فالئٹ ٹائمنگ سے دو گھنٹے پہلے گھر سے نکل سکتے ) (sea sideبابا۔۔۔ مٌں سی سائڈ"
"ہٌں؟
فاطمہ رٌان صاحب کے سٌنے پر سر رکھے ان سے ٹٌک لگائے بٌٹھی تھی۔۔ جبکہ رٌان صاحب اخبار پڑھنے مٌں
مشغول تھے۔
کٌنٌڈا کے لٌے فالئٹ رات کے 9بجے تھی ،مسز رٌان کی بھاگم دوڑ لگی ہوئی تھی کہ کوئی چٌز رہ نہ جائے،
زونٌشہ فاطمہ کی ہر ہر ضرورت کی چٌز چٌک کررہی تھی،
"ان شاءہللا۔"
"!اٌسی باتٌں مت کٌا کرو ،ہللا سے محبت کرنے والی پٌاری لڑکی ،اٌسی ماٌوس کن باتٌں کرتی اچھی نہٌں لگتی۔"
کٌا جائے ،جٌسا دٌس وٌسی ڈرٌسنگ ہونی coverتم کٌنٌڈا جا رہی ہو فاطمہ ،ضروری تو نہٌں کہ اتنا زٌادہ خود کو"
زونٌشہ نے گاڑی سے نکلتے ہوئے فاطمہ سے کہا جو سٌٹ مٌں پھنسا عباٌا جھک کر نکال رہی تھی۔
مٌرا مطلب ہے ،وہاں کے مرد عورتوں کو پاکستانی مردوں کی طرح نہٌں گھورتے ،تو ادھر انسان مکمل پردہ نہ بھی "
"ہے۔
"جی ماما ،آپ بے فکر ہو کر جائٌے ،ان شاءہللا ہم 7بجے ملتے ہٌں"،
پر چھوڑ دٌا تھا۔۔ وہ دونوں سمندر sea sideشام کے ساڑھے پانچ بجے رٌان صاحب نے زونٌشہ ،فاطمہ اور حٌدر کو
کے کنارے پڑے بٌنچ پر جا کر بٌٹھ گئٌں ،جبکہ حٌدر اپنی فون کالز مٌں مصروف ،انکے پٌچھے ہی اردگر چکر
لگانے مٌں مصروف تھا۔۔ جبکہ دونوں لڑکٌاں خاموشی سے سمندر کی لہروں کا شور سن رہی تھٌں۔
"سمندر پار ،غروب ہوتا ہوا سورج کتنا پٌارا لگتا ہے ناں۔"
"ہاں۔۔"
زونٌشہ نے اردگرد کا جائزہ لٌتے ہوئے سرسری سا جواب دٌا ،اسے فاطمہ کے ساتھ ٌوں بٌٹھنا عجٌب لگ رہا تھا ،وہ
خود شلوار لمٌض مٌں ملبوس تھی ،سر پر بارٌک دوپٹہ ڈاال ہوا تھا اور ٌہ تبدٌلی بھی فاطمہ کی صحبت سے ہی آئی
احساس ندامت اسے گھٌر رہا تھا ،جبکہ وہ اردگرد سے بے نٌاز وسٌع
ِ تھی ،مگر پھر بھی فاطمہ کے ساتھ بٌٹھے اٌک
زرد پڑتے آسمان اور سمندر مٌں ڈوبتے سورج کے سحر مٌں ڈوب چکی تھی ،وہ سحر اسکی چمکتی آنکھوں سے
عٌاں ہو رہا تھا۔
"اچھا تو ہم پردے کی بات کر رہے تھے ،مجھے بتاإ کٌا اسکا حکم لرآن مٌں موجود ہے؟"
زونٌشہ کے سوال پر فاطمہ نے چونک کر اسکی طرف دٌکھا ،جٌسے اسکے اس سوال پر حٌرت ہوئی ہو ،مگر پھر
سنبھل گئی ،وہ بھی کبھی اٌسے ہی ال علم تھی۔
"ہاں ،مٌں چاہتی ہوں جب مٌں آسمان مٌں اڑوں تو مٌری زبان پر مٌرے رب کے الفاظ ہوں۔"
"کٌسے؟"
اس نے مسکراتے ہوئے لران پر اپنا سٌاہ دستانے مٌں چھپا ہاتھ پھٌرتے ہوئے کہا۔
"پھر بھی؟"
زونٌشہ دٌکھو ،مٌں جانتی ہوں ٌہ کتاب بہت پاکٌزہ ،بہت لاب ِل احترام ہے ،مگر صرف "ٌہی" اسکا احترام تو نہٌں ہے "
کہ اسے اپنے پٌچھے نہ رکھا جائے ،بلکہ اصل پٌٹھ پٌچے ڈالنا تو ٌہ ہے کہ انسان اسے نہ تو سمجھے ،نہ ہی اسکے
الئے ہوئے احکامات کے مطابك زندگی گزارے ،دٌکھو ناں ٌہ جس ممصد کے لٌے آئی ،اسے پورا کرنے کے بجائے
"کرنا ،تم خود بتاإ کٌا ٌہ اسکی بے حرمتی نہٌں ہو گی؟ ignoreاسکو اٌسے اگنور
زونٌشہ کو اس کی بات سن کر شرمندگی ہوئی ،ہاں والعی ،اصل بے حرمتی تو مٌں نے کی ہے ،اسے ٌکاٌک اپنا سوال
ٌاد آٌا ،کٌا اسے والعی نہٌں خبر تھی کہ لرآن مٌں پردے کا حکم موجود بھی ہے ٌا نہٌں؟ اگر ہے بھی تو کس سورت
کی کس آٌت مٌں؟ اسے خود پر افسوس ہوا۔
ماں کی محبت دٌکھی ہے نا؟ جٌسے اٌک ماں اپنے بچے کو خود سے جدا نہٌں کرتی ،اسے ادھر ادھر نہٌں ہونے "
"دٌتی ،مجھے بھی ٌہ کتاب اٌسے ہی محبوب ہے ،مٌں اپنے سے زٌادہ اسکا خٌال رکھوں گی ان شاءہللا۔
"ان شاءہللا۔"
)(33:59
"تو اس آٌت مٌں تو چادر پہننے کا حکم ہے؟ تو کٌا ٌہ دوپٹہ کافی نہٌں؟"
جی لٌکن چونکہ لرآن عربی مٌں نازل ہوا اس لٌے ہمٌں الفاظ کو عربی ڈکشنری کے ساتھ ساتھ ،اس آٌت پر صحابٌات "
"کا عمل بھی دٌکھنا ہوگا کہ وہ کٌسی چادر اوڑھا کرتی تھٌں۔
ہاں مٌں بتاتی ہوں ،آٌت مٌں جو لفظ ہے "جالبٌبھن" تو جلباب اٌسی چادر کو کہتے ہٌں جو کپڑوں کے اوپر سے "
اوڑھی جاتی ہے ،اٌسے کہ مکمل طور پر عورت کو ڈھانپ دے ،اب ہر عاللے کے مختلف انداز ہوتے ہٌں ،البتہ آجکل
کا عباٌا جلباب کی جدٌد شکل ہے ،مگر وہ بھی بالکل سادہ ،ڈھٌال ڈھاال اور ساتر ہونا چاہٌے ،آج ہم نے اسکو بھی اتنا
سجا لٌا ہےٌ ،ا اتنا چست کر دٌا ہے کہ ہمارے پردے کو بھی مزٌد پردے کی ضرورت ہے،
حضرت ابن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہٌں ہللا تعالی مسلمان عورتوں کو حکم دٌتا ہے کہ جب وہ اپنے کسی کام کاج
کٌلئے باہر نکلٌں تو جو چادر وہ اوڑھتی ہٌں اسے سر پر سے جھکا کر منہ ڈھک لٌا کرٌں ،صرف اٌک آنکھ کھلی
)رکھٌں ۔ (تفسٌر ترجمان المران
امام دمحم بن سٌرٌن رحمتہ ہللا علٌہ کے سوال پر حضرت عبٌدہ سلمانی رحمتہ ہللا علٌہ نے اپنا چہرہ اور سر ڈھانک کر
)اور بائٌں آنکھ کھلی رکھ کر بتا دٌا کہ ٌہ مطلب اس آٌت کا ہے۔ (بحوالہ تفسٌر ابن کثٌر/ابن جرٌر
ٌہاں وہ والی پہچان مراد نہٌں ،کہ پردے مٌں دٌکھ کر دوسروں کو ٌہ پتہ چل جائے کہ ٌہ تو فالں بندی ہے ،نہٌں! اس "
پہچان سے مراد ٌہ ہے کہ لوگوں کو پتہ چل جائے کہ ٌہ اٌک باحٌا خاتون ہے ،اپنی عزت کی خود حفاظت کرنے والی
ہے اور اگر غٌر مسلم ملک مٌں ہو تو ٌہ پردہ اٌک مسلمان عورت کی پہچان ہے ،پردے کا حکم تو عورت کی شان بلند
کرنے کے لٌے دٌا اور تم نے بھی دٌکھا ہوگا کہ باپردہ خاتون کو مرد کٌسے عزت دٌتے ہٌں ،مٌں نے ہاسپٹل مٌں بہت
غور کٌا ،ڈاکٹرز مٌری طرف دٌکھنے سے گرٌز کرتے تھے ،مٌرے لٌے خود جگہ بناتے ،مٌرے پردے کا بہت خٌال
رکھتے تھے ،جب آپ والعی ہللا کے لٌے کرتے ہو تو ٌہ پردہ ،اپنا آپ خود منواتا ہےٌ ،ہ آپکی عزت کرواتا ہے
"الحمدہلل۔
"ہمممم اور جو اس آٌت کے آخر مٌں کہا کہ"ہللا بخشنے واال مہربان ہے" تو اگر کوئی اس حکم پر عمل نہ کرے تو؟"
ٌہ حکم اٌسے ہی فرض ہے زونٌشہ ،جٌسےنماز اور روزہٌ ،ہی تو مسلمان عورت کی سب سے بڑی اور اعلی پہچان "
ہے اور ہللا اسکے لٌے غفور و رحٌم ہے جو اس حکم پر اپنی جان توڑ کوشش کر کے عمل کرتا ہے ،اسکے بعد بھی
"اگر کوتاہی ہو جائے ،تو ہللا معاف فرمانے واال ہے۔
فاطمہ نے مسکراتے ہوئے سامنے شور کرتی لہروں ،افك کے پار اپنے گھروں کو لوٹتے پرندوں کی طرف دٌکھا۔
زونٌشہ ،تمھٌں پتہ ہے ہللا نے ٌہ سب ہمارے لٌے بناٌا ہے ،ہمارے تابع کر دٌا ہے ،اس سمندر پر غور تو کرو ،ہم "
کتنے لرٌب بٌٹھے ہٌں اسکے ،وہ رب چاہے تو اسکی اٌک لہر ہمٌں بہا لے جائے ،مگر وہ ہماری حفاظت کٌے ہوئے
ہے ،ہم ٌہاں رٌت پر بٌٹھے ہٌں ،سمندر کے گوشت خور جانور ہمٌں دٌکھ کر لپکے نہٌں آتے ،وہ رب جو ہمٌں ہماری
ماإں کے پٌٹ سے محفوظ نکالتا ہے ،موت تک ہماری ہر ہر چٌز سے حفاظت کرتا ہے ،کٌا اٌسا ہو سکتا ہے کہ وہ
"کوئی اٌسا حکم دے جو۔۔ جو اسکے بندوں کو مشکل مٌں ڈال دے؟
نظرٌں مسلسل آسمانوں پر جمی تھٌں ،آنسو نکل کر نماب مٌں چھپے چہرے پر ہی بہہ گئے۔
ٌہ مشکل نہٌں ہے ،بس ہمارے اندر کی مشکل ہوتی ہے ،ہمارے نفس کی مشکل ہوتی ہے ،ہمٌں لوگوں کی مخالفت "
مول لٌنے سے ڈر لگتا ہے ،تم دٌکھو کٌا ہم اپنی دنٌا ٌا اپنی پسند نا پسند ٌا کٌرئٌر کے بارے مٌں لوگوں کی پرواہ
تو ٌہاں کٌوں نہٌں؟ مٌں ہللا کے حکم پر عمل کررہی I don't careکرتے ہٌں؟ تب تو ہم اتنے آرام سے کہہ دٌتے ہٌں
ہوں ،مٌں جہنم سے بچنے کی کوشش کر رہی ہوں ،مٌں جنت پانے کی کوشش کر رہی ہوں ،مٌں ہللا کو راضی کرنا
۔۔ I don't careچاہتی ہوں ،لوگ مٌری مخالفت کرٌں تو؟
کٌا مٌری فٌملی ٌا ٌہ معاشرہ مٌری لبر مٌں جائے گا؟ کٌا ٌہ کل ہللا سے مجھے جہنم سے بچانے مٌں مدد کرے گا؟
بالکل بھی نہٌں ،زونٌشہ بس ہمٌں خود کے ساتھ خود سچا ہونے کی ضرورت ہے ،خود اپنی آخرت کو سٌرٌس لٌنے کی
"ضرورت ہے،
تم ٹھٌک کہہ رہی ہو فاطمہ ،مگر مجھے ڈر لگتا ہے ،جٌسے تمھٌں اتنا کچھ سننے کو ملتا تھا ،تم پر اتنا ظلم کٌا گٌا" ،
"ظلم۔۔ ھاھاھا۔۔ زونٌشہ مٌری جان۔۔ ٌہ ظلم نہٌں تھاٌ ،ہ تو مٌری استمامت کی آزمائش تھی۔"
"کٌا مطلب؟"
مطلب ٌہ کہ ٌہ تو ازل سے ہللا کی سنت رہی ہے ،جو ہللا کا بنتا ہے ہللا اسے ٹھوک بجا کر تو دٌکھتے ہٌں کہ بس "
خالی خولی دعوے ہی ہٌں ٌا والعی ہی ٌہ اپنے عزم مٌں سچا ہے ،تو ٌہ مختلف آزمائشٌں ،کبھی اندر نفس کی تنگی سے
تو کبھی آس پاس کے لوگوں کی مخالفت کی شکل مٌں آتی ہٌں ،تاکہ ہللا دٌکھ لٌں کہ بندہ سخت حاالت مٌں بھی جما رہتا
ہے ٌا نہٌں ،ہللا سے اسکی محبت سچی ہے ٌا نہٌں ،انھی سختٌوں ہی مٌں تو اٌمان دلوں مٌں مضبوطی سے جڑ پکڑتا
"ہےٌ ،ہی سختٌاں ہی تو رب سے مزٌد گہرا تعلك لائم کرتی ہٌں۔
اب وہ مسکرا کر آسمان کو دٌکھتے ہوئے محبت بھرے لہجے مٌں کہے جا رہی تھی ،زونٌشہ کو سمجھ نہ آتا تھا کہ وہ
کٌسی لڑکی ہے؟ لمحہ پہلے اسکی آنکھٌں بہہ رہی تھٌں اور اب وہ مسکرا رہی ہے؟؟ کٌا ہللا کی محبت اٌسی ہوتی ہے؟
سنا تھا ہم نے لوگوں سے
محبت چٌز اٌسی ہے
)احسن عزٌز(
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تم دعا کرنا کہ جب تم واپس آإ تو مٌں بھی تمھاری طرح ،اٌسے ہی مکمل پردے مٌں تمھٌں ائٌرپورٹ سے رٌسٌو "
"کرنے آإں ،تم دعا کرنا کہ ہللا مجھے بھی توفٌك دے دٌں۔
فالئٹ کا ٹائم ہونے واال تھا ،حٌدر اور زونٌشہ انھٌں ائٌر پورٹ پر الوداع کرنے کے لٌے ساتھ آئے تھے،
توفٌك کا دروازہ ،طلب کی کھٹکھٹاہٹ سے کھلتا ہے ،تم طلب اور تڑپ سچی کرلو ،عزم کر کے کھڑی ہوجاإ ،توفٌك "
اپنا بہت خٌال رکھنا ،مٌں تمھٌں بہت ٌاد کروں گی ،شادی کہ ٌہ دو مہٌنے ،جو ولت مٌں نے تمھارے ساتھ گزارا" ،
زونٌشہ نے فاطمہ کے گلے لگتے ہوئے کہا ،اس کے جذبات کی تپش اسکے الفاظ مٌں فاطمہ کو بخوبی محسوس ہوئی
تھی۔
دونوں کافی دٌر خاموشی سے اٌک دوسرے کے گلے لگٌں اٌک دوسرے کا لمس محفوظ کرتی رہٌں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
وہ پہلی مرتبہ جہاز کا سفر کرنے جا رہی تھی ،پہلی بار۔۔۔ وہ اپنے رب کی لدرت کا اٌک نٌا مشاہدہ کرے گی۔۔ ٌہ سوچ
سوچ کر وہ بچوں کی طرح بہت اٌکسائٹڈ ہو چکی تھی۔
رٌان صاحب اسکے معصومانہ مطالبے پر مسکرا دئٌے تھے ،انھٌں وہ بچپن کی فاطمہ ٌاد آگئی تھی ،جو اپنے بھائٌوں
سے گاڑی مٌں بھی ونڈو سائڈ پر بٌٹھنے کی ضد مٌں لڑا کرتی تھی۔
"جی بٌٹا ،اگر ہمٌں اس سائڈ پر سٌٹ ملی تو مٌرا بٌٹا ہی ،ونڈو سائڈ پر بٌٹھے گا ،بچپن کی طرح۔"
"کاش مٌں جہاز کی ونڈو سے سر نکال کر آسمان کو لرٌب سے دٌکھ سکتی ،اسے چھو سکتی۔"
فاطمہ کی بات سن کر رٌان صاحب کا بے اختٌار لہمہہ نکال۔
نہ نہ مٌری جان ،مٌں اپنے بٌٹے پر کٌسے ہنس سکتا ہوں ،بس ان معصوم سی خواہشوں پر آپکا بچپن ٌاد آ جاتا ہے" ،
"کٌسے؟"
ہم اکثر رات کو ٹٌرس پر لٌٹے ہوتے تھے تو آپ مجھ سے ضد کرتی تھٌں کہ آپکو آسمان پر چمکتا ہوا سب سے "
روشن تارہ چاہٌے ،بعض اولات تو آپ رونے لگتی تھٌں اسی ضد مٌں ،کہ آپکی ماما کے لٌے آپکو سنبھالنا مشکل
"ہوجاتا تھا
انھوں نے مسز رٌان کی طرف مسکراتے ہوئے سوالٌہ نظروں سے دٌکھا جو نہاٌت دلچسپی سے انکی باتٌں سن رہی
تھٌں۔
جی بالکل جناب ،مٌں تو اکثر آپکے بابا سے لڑتی تھی کہ کٌوں لے کر جاتے ہٌں اس لڑکی کو ٹٌرس پر ،بعد مٌں "
نہٌں ،آپ اب بھی اٌسی ہی ہٌں ..بس اب فرق ٌہ ہے جو تارہ آپکو آسمان پر چمکتا نظر آتا تھا آج وہ ہمارے پہلو مٌں "
"بہت گہری باتٌں کرنے لگ گئے ہٌں آپ ،لگتا ہے مٌری صحبت کا اثر ہوگٌا ہے۔"
اس نے فوراً کھڑکی سے باہر جھانکا ،جہاز پر طلوع ہوتا سورج نہاٌت خوبصورت منظر دے رہا تھا ،انکو سفر کرتے
ہوئے 11گھنٹے گزر چکے تھے ،ابھی مزٌد دو گھنٹے بالی تھے۔
ہاں ٌہی تو وہ اٹل حمٌمت ہےٌ ،ہی تو ٌمٌنی بات ہے ..کہ سب آپکو چھوڑ جائٌں ،ساری دنٌا آپکی باتٌں ،آپکا دکھ سن "
سن کر بٌزار ہو جائے ،مگر وہ واحد ذات۔۔ وہ آپکو کبھی اکٌال نہٌں چھوڑے گی ،وہ کبھی آپ سے بے بٌزار نہٌں ہو
"گیٌ ،ہ اٌسی ہی حمٌمی بات ہے جٌسے سورج کا نکلنا۔۔
آنسوإں کی شدت مٌں اضافہ ہو چکا تھا ،وہ مکمل طور پر ونڈو کے ساتھ سر رکھ کر باہر دٌکھنے لگی کہ کہٌں ،کوئی
اسکے بہتے آنسو نہ دٌکھ لے ،ہللا والے اپنے آنسو صرف اپنے ہللا کے سامنے ہی بہاٌا کرتے ہٌں۔
"کٌسے ہللا؟؟ آنے واال ولت۔۔ کٌا اس ولت سے بہتر ہو گا؟ کٌا مٌرا آپرٌشن کامٌاب ہوجائے گا؟"
اس نے ہر طرف نظر آتے وسٌع نٌلے آسمان کی طرف نگاہ دوڑاتے ہوئے سوالٌہ انداز مٌں پوچھا۔
"تجھے تٌرا رب بہت جلد ( انعام ) دے گا اور تو راضی ( و خوش ) ہو جائے گا ۔ "
اسکے رونگٹے کھڑے ہوچکے تھے ،دل کی دھڑکن تٌز ہو چکی تھی ،آنکھوں کی جلن مٌں اضافہ ہو گٌا۔ اس نے فوراً
نماب کے اوپر سے ہی منہ پر ہاتھ رکھ دٌا کہ کہٌں۔۔ اسکی سانسوں کی تٌزی کوئی محسوس نہ کر لے۔
ہللا۔۔ مجھے ٌمٌن ہے آپکی اس آٌت پر ،مٌں آپ کو بن دٌکھے اٌمان الئی ہوں ،اس آٌت پر بھی اٌسے ہی اٌمان التی "
ہوں ،آپکی رضا کا حصول ہی ،مٌری رضا ہے پٌارے ہللا ،مٌری زندگی کا ممصد ہی آپکو راضی کرنا ہے ،مٌں اس
"سے کم پر کٌسے خوش ہوسکتی ہوں۔
نگاہٌں باہر تٌرتے بادلوں پر جمی ہوئی تھٌں ،جو کسی وسٌع نٌلے سمندر مٌں تٌرتے روئی کے گالوں کا منظر دے
رہے تھے ،کتنی خوبصورت تھی رب کی کائنات ،کتنے کم تھے جو اس پر غور کرتے تھے۔
اَلَ ۡم ٌَ ِج ۡد َ
ک ٌَتِ ٌۡ ًما فَاوی ۪﴿﴾۶
اسے اٌسے لگا جٌسے اسے اسکے "کٌسے" کا جواب دٌا گٌا ہو۔
ہاں وہ حمٌمی ٌتٌم نہ سہی ،مگر تنہا تو انھی کی طرح ہو چکی تھی ،جب سب اپنے چھوڑ چکے تھے ،کوئی اسکے درد
کا مداوا کرنے واال نہ تھا ،کوئی اسکی تنہائٌوں کی سسکٌاں سننے واال نہ تھا ،کوئی اسکے ٹوٹے دل کے ٹکڑے
سمٌٹنے واال نہ تھا ،تب ٌہ رب ہی تو تھا ،جس نے اسے تھاما تھا ،سنبھاال تھا ،لرت جٌسا ساتھی دٌا تھا ،پھر آہستہ آہستہ
سب کے دل مٌں اسکی جگہ بنا دی تھی ،بالشبہ اس نے اٌسا ہی کٌا تھا۔
ضا ٓ اال فَ َہدی ۪﴿﴾۷
ک َ
َو َو َج َد َ
اگلی آٌت پر تو اسے اٌسے لگا جٌسے۔۔ کسی نے اسکا دل مٹھی مٌں بھٌنچ لٌا ہو ،کٌسے بھاگ سکتی تھی وہ اس کالم
سے ،جسکو نازل کرنے واال سوچوں اور خٌاالت تک سے والف ،انکا جواب دٌنے واال تھا۔
بے شک ہللا ،بے شک ،آپ نہ رستہ دکھاتے تو مٌں دلدل مٌں ہی پھنسی رہتی ،اگر مٌں اسی گمراہی کی حالت مٌں مر "
"جاتی تو ٌمٌنا جہنمی ہوتی ،آپ نے ہی ہداٌت دی ہللا ،آپ نے ہی تو سبب بنائے۔
ہاں ،امٌری۔۔ صرف مال کی ہی تھوڑی ہوتی ہے ،دل کی امٌری ،دل کا غنیٌ ،ہ بھی تو کوئی کم نعمت نہٌں ،مٌرے "
"رب نے مجھے جذباتی طور پر بھی کسی کا محتاج نہٌں کٌا ،الحمدہلل کثٌرا۔
اسکے ذہن مٌں اٌک لمحے کے لٌے اس شخص کا ساٌہ لہراٌا ،جسکی وجہ سے اس کی زندگی اس موڑ پر آ ٹھہری
تھی ،کبھی کبھی کچھ اذٌتوں کا انجام بہت خوبصورت ہوتا ہے ،انسانوں سے جدائی آپکو رب سے جوڑ دٌتی ہے ،اٌسی
جدائٌوں پر تو صدلے جانا چاہٌے انسان کو۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرا دی۔
ان شاءہللا ہللا تعالی ،مٌں اٌسا ہی کروں گی ،مجھ سے بہتر کون جان سکتا ہے کہ رشتوں کے ہوتے ہوئے بھی دھتکار "
دٌا جانا ،محتاج کو اگنور کر دٌنا ،کٌسا اذٌت ناک مرحلہ ہوتا ہے۔
ک فَ َح ّد ۡ
ِث ﴿ٔٔ﴾ َو ا َ َّما ِبنِعۡ َم ِۃ َر ِّب َ
"مٌں اسے ضرور لوگوں تک پہنچاإں گی ،جو آپ نے مجھے دکھاٌا ہے ،مٌں ان شاءہللا وہ لوگوں کو دکھاإں گی"،
اس نے کانوں سے ہٌنڈز فری نکال کر لرآن کو سٌنے سے لگاتے ہوئے آسمان کی جانب دٌکھا۔
اٌک عزم تھا اسکی آنکھوں مٌں ،جو فضاإں مٌں اڑتے ہوئے ،وہ اپنے رب سے کر چکی تھی ،کہ زمٌن پر اترنے کے
بعد ،وہ زمٌن والوں کو آسمان والے سے جوڑنے کے لٌے اپنی بالی زندگی لگا دے گی ،بالشبہ اسکی تڑپ دٌکھی جا
چکی تھی ،اسکی طلب اسکے لٌے توفٌك کے دروازے کھلوانے لگی تھی۔
اسکے والدٌن اسکے ساتھ سٌٹس پر سوئے ہوئے تھے ،جٌسے وہ بالکل ہی بھول گئے ہوں کہ وہ کس ممصد کے لٌے ٌہ
سفر کر رہے ہٌں،
بھول تو وہ بھی چکی تھی ،درد اب اسکی عادت بن چکا تھا ،جسکو وہ سر پر سوار نہٌں کرتی تھی۔ جسکے درد کا
مرہم ،اسکے رب کا لرب بن جائے ،وہ کٌسے اس درد کو مصٌبت سمجھ سکتا ہے۔ ٌہ درد اسکے لٌے بھی نعمت ثابت
ہو رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
معاذ تم کب شادی کرو گے بٌٹا؟ مٌرا دل کرتا ہے عٌنی کے ساتھ ہی تمھارا بھی نکاح ہو جائے ،شہرٌار لوگ تو بہت "
"امی آپ بھٌا سے پوچھ رہی ہٌں؟ جو لڑکٌوں کی طرف دٌکھتے ہی نظر جھکا لٌتے ہٌں۔"
لرة العٌن نے ہنستے ہوئے کہا ،جو ابھی کھانا لے کر آئی تھی۔
"کبھی کبھی تو مٌرا دل کرتا ہے ،کہ فاطمہ اتنی اچھی لڑکی ہے ،باپردہ ،دٌندار ،اسکو اپنی بٌٹی بناتی۔۔مگر۔۔"
معاذ کو اٌسے لگا جٌسے اسکی ماں نے اسکی سوچٌں پڑھ لی ہوں ،وہ گھبرا کر سٌدھا ہو کر بٌٹھ گٌا۔
"امی ،دل کے تو وہ مٌرے بھی بہت لرٌب ہے ،بس ہللا اسے زندگی دٌں۔"
اسے کٌنسر ہو گٌا ہے بھائی ،اور کافی لٌٹ پتہ چال ہے ،آجکل کٌنٌڈا گئی ہوئی ہے عالج کے لٌے ،دعا کٌجئٌے گا کہ "
"آمٌن۔"
وہ شدٌد درد سے بلک رہی تھی ،آنسو تھے کہ گلے کا پھندا ،اسے سانس لٌنے نہٌں دے رہے تھے ،اسکا جی چاہا وہ
چٌخ چٌخ کر اپنے درد کی فرٌاد کرے ،کوئی تو ہو جو کچھ اٌسا کردے کہ وہ اس اذٌت سے نجات ال دے،
"ہللا۔۔۔۔ ہللا جی۔۔۔ پلٌٌز۔۔ مٌں نہٌں برداشت کر سکتی۔۔۔ مٌں نہٌں کر پاإں گی۔۔۔ ٌا ہللا۔۔۔"
زبان سے بس "ہللا ،ہللا" کے الفاظ نکل رہے تھے ،گوٌا ٌہ الفاظٌ ،ہ نام ہی اسکی روح کا مرہم تھے۔
وہ پٌٹ پر دونوں ہاتھ مضبوطی سے رکھے ،گھٹنوں مٌں سر دئٌے ،بٌڈ پر بٌٹھی ہوئی تھی ،کمرے مٌں اس ولت کوئی
نہٌں تھا ،اسے لگ رہا تھا کہ اب بس ،اسکی جان نکل جائے گی،
اس نے فورا ً سر اٹھا کر کمرے کا جائزہ لٌا ،نگاہٌں کھلی ہوئی کھڑکی پر جا کر ٹک گئٌں،
آنسو آنکھوں سے سٌالب کی مانند رواں ہو چکے تھے ،ہونٹ کپکپا رہے تھے ،کٌسے آواز دٌتی ماما کو،
اس نے اتنے بڑے کمرے مٌں اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس کٌا۔
کٌسے فرشتے آئٌں گے مجھے لٌنے؟؟ ہللا۔۔ ہللا مٌں تٌار نہٌں ہوں ،پلٌز۔۔ مجھے معاف کردٌں ،مٌں اچھی نہٌں ہوں" ،
مٌں بہت گناہگار ہوں ،مٌں اعتراف کرتی ہوں ،پلٌز مجھ سے راضی ہو جائٌے گا ،اچھے فرشتے بھٌجئٌے گا ،جو آپکی
"رضا کی خوشخبری سنائٌں ،ہللا جی پلٌز۔۔۔
اسکے الفاظ مٌں ،جسم کے درد کے ساتھ روح کی اذٌت کی کپکپاپٹ واضح محسوس کی جاسکتی تھی،
کون ہوتا جو اسے جواب دٌتا؟ کون ہوتا جو اسے دالسہ دٌتا؟ کون ہوتا جو اسکے درد کی دوا کرتا؟
ٌہاں آکر وہ مزٌد تنہا ہو گئی تھی ،مگر ٌہ تنہائی اسے مزٌد رب سے جوڑنے لگی تھی ،جب کوئی سننے واال نہٌں تھا،
وہاں آسمانوں کے پار ،اتنی دور ،مگر پھر بھی شاہ رگ سے زٌادہ لرٌب ،اسے ہر لمحہ سننے کے لٌے تٌار تھا،
صرف سنتا ہی نہٌں ،اسے جواب بھی دٌتا تھا۔
اس نے مڑ کر بٌڈ کی سائڈ ٹٌبل پر دٌکھا ،جہاں اسکا لرآن پڑا ہوا تھا ،اس مٌں تو ہلنے کی بھی سکت بالی نہ تھی،
ہللا پلٌز نا ،پلٌز ہللا تعالی۔۔ آپ مٌرے رب ہٌں نا ،آپ مٌرے مالک ہٌں نا ،آپ سے بڑھ کر کون مٌری اذٌت جان سکتا "
ہے ،پلٌز اس درد کو ختم کر دٌں ،مجھے اس درد کا اتنا محتاج نہ کرٌں ہللا ،کہ آپکا کالم بھی نہ اٹھا پاإں ،اسے سٌنے
سے نہ لگا پاإں ،اسکے ذرٌعے آپ کی بات نہ سن پاإں"۔
اپنی بے بسی کی انتہا پر اسکی سسکٌاں کمرے مٌں گونج رہی تھٌں،
مسز رٌان ،فاطمہ کی حالت سے بے خبر ،بٌنش کے ساتھ الن مٌں شام کی چائے پٌنے مٌں مصروف تھٌں،
جبکہ اندر ،کمرے مٌں ،اسکی حالت اس ولت اٌسے تنہا ،تڑپتے ہوئے بچے کی تھی ،جو پٌاس سے بلک رہا ہو ،اٌڑٌاں
رگڑ رہا ہو ،مگر اپنی ناتواں جان کے سبب نہ کچھ کر سکے ،نہ ہی کوئی اسکے لٌے کچھ کر سکے ،اسکی روح کی
پٌاس ،اس کے رب کا کالم تھا ،اسے اس ولت شدٌد ضرورت تھی ،مگر۔۔۔ شاٌد ،اس بار تسلی ،لرآن سے نہٌں ،کسی
اور ذرٌعے سے ملنا تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے
وہ دروٌش سے انسان تھے ،بہت ہی حسٌن۔ مگر اپنی حالت سے کافی بٌمار لگ رہے تھے ،اس نے نظرٌں گھما کا
اردگرد کا جائزہ لٌا ،کوئی بھی انکے آس پاس نہ تھا جو انکا خٌال رکھتا ،اسے آس پاس کا ماحول بہت اجنبی سا لگ
رہا تھا۔
ٌکاٌک انکی حالت بگڑنے لگی۔۔۔ فاطمہ کا دل کٌا کہ وہ بھاگ کر انکے پاس جائے ،مگر ٌہ کٌا۔۔۔اسکے اپنے پاإں
زمٌن مٌں گڑ چکے تھے ،وہ ہلنا چاہ رہی تھی ،آگے بڑھنا چاہ رہی تھی ،مگر۔۔وہ ہل تک نہٌں سکی ،اس نے جھک کر
اپنے پاإں پر نگاہ ڈالی ،مگر وہاں کچھ بھی نہٌں تھا۔
"ہللا۔۔ہللا۔۔"
دروٌش کے منہ سے کراہنے کی بجائے ،ہللا کا نام نکل رہا تھا ،وہ بہت خوبصورت تھے ،مگر بٌماری نے انھٌں نڈھال
سا کر دٌا تھا ،فاطمہ کو انکے لٌے اپنے دل مٌں عجٌب سی عمٌدت محسوس ہوئی۔
ٌکاٌک اسے لگا کہ وہ کچھ کہہ رہے ہٌں۔
اس نے غور سے سننے کی کوشش کی ،مگر بٌماری کی وجہ سے انکی آواز بھی نڈھال ہو رہی تھی۔
اس نے مزٌد غور کٌا ،کہ انکی آواز بلند ہوتی جا رہی ہے۔۔
وہ کوئی آٌت پڑھ رہے تھے۔۔
نہٌں ۔۔شاٌد وہ گڑگڑا کر دعا مانگ رہے تھے۔۔
نہٌں ٌہ تو۔۔۔لرآن کی آٌت لگ رہی ہے۔۔
اس نے خود سے الجھتے ہوئے کہا۔۔
آواز مزٌد بلند ہوتی جا رہی تھی۔۔ مگر اب آواز مٌں فرٌاد کا پہلو نماٌاں ہو رہا تھا۔۔
"مجھے ٌہ بٌماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زٌادہ رحم کرنے واال ہے۔ "
ٌہ کٌسی دعا مانگ رہے؟؟ اسے اپنے کٌنسر کی وجہ سے ہونے والی تکلٌف کی شدت کے مراحل ٌاد آئے ،وہ تو ہللا
سے بس ٌہی کہتی تھی کہ اس بٌماری کو مجھ سے دور کر دٌں۔۔
مگر ٌہ ہللا کے نٌک بندے۔۔
بس اپنا حال بتا کر۔۔۔ہللا کو اسکی رحمت کا واسطہ دے رہے ہٌں؟
کٌا مطلب؟؟
وہ الجھ گئی ،اسکا دل چاہا ان سے پوچھے۔۔
مگر انکا انداز فرٌاد ،اسے زبان کھولنے نہ دے رہا تھا۔۔
اسکا دل چاہا کہ بس انھٌں دٌکھتی رہے ،انھٌں سنتی رہے۔
اس نے گھڑی کی طرف دٌکھا۔ اسے سوئے ہوئے صرف 15منٹ ہی ہوئے تھے ،اسے اچھے سے ٌاد تھا کہ ابھی 15
منٹ پہلے وہ شدٌد درد سے کراہ رہی تھی ،وہ ابھی تک اسی انداز مٌں گھٹنے پکڑ کر ہی بٌٹھی تھی اور گھٹنوں پر ہی
سر رکھ کر بٌٹھے بٌٹھے سو گئی تھی۔
درد اب مکمل طور پر غائب ہو چکا تھا ،جٌسے کبھی ہوا ہی نہ ہو۔۔
اس نے آنکھٌں بند کر کے سب کچھ اپنے ذہن مٌں دہرانے کی کوشش کی۔۔
"ٌہ کٌسا خواب تھا ،وہ کون تھے؟ صرف 15منٹ کے اندر اندر ،کٌا ہللا مجھے کچھ سکھانا چاہ رہے ہٌں؟"
"کہٌں تو ہو گی ٌہ دعا۔۔"
اٌوب ( (علٌہ السالم ) کی اس حالت کو ٌاد کرو) جبکہ اس نے اپنے پروردگار کو پکارا کہ مجھے ٌہ بٌماری لگ گئی
ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زٌادہ رحم کرنے واال ہے ۔
اسے ٌمٌن نہٌں آرہا تھا۔۔ اس نے جلدی سے مزٌد صفحات پلٹے ،گوٌا وہ مزٌد کنفرمٌشن چاہ رہی ہو۔
اب کی بار سورت ص کھلی تھی۔
وہ صفحات جہاں اٌوب علٌہ السالم کا والعہ موجود تھا۔
سچ تو ٌہ ہے کہ ہم نے اسے بڑا صابر بندہ پاٌا ،وہ بڑا نٌک بندہ تھا اور بڑی ہی رغبت رکھنے واال ۔
) سورة ص ( 44:
آٌت کا آدھا حصہ ہائی الئٹ کٌا ہوا تھا۔۔
اسے خواب مٌں انکا کراہنا ٌاد آٌا۔۔
اسکی آنکھٌں آنسوإں سے بھر چکی تھٌں ،لرآن پر نظر آنے والی آٌات دھندال چکی تھٌں۔
کٌا ممصد تھا انکو خواب مٌں دکھانے ،انکی دعا سنانے اور اب اس آٌت کا۔۔
کہٌں نا کہٌں وہ سمجھ رہی تھی ،اعتراف کر رہی تھی ،اپنی بے صبری کا ،اپنی نا شکری کا۔
حضرت اٌوب علٌہ السالم جان گئے تھے ،کہ ہللا سے بڑھ کر رحم کرنے واال کوئی نہٌں ہےٌ ،ہ بٌماری ،ہللا کی "
رحمت کی ہی نشانی تھی ،وہ اس سے اسکی رحمت کا سوال کر رہے تھےٌ ،عنی۔۔جو انکے حك مٌں بہتر ہے ،وہ
فٌصلہ کر دٌں۔۔۔ٌہی تو اس رب کا رحم ہے ،کہ ہمٌں اسی سے نوازتا ہے ،جس مٌں ہمارے لٌے رحمت ہوتی ہے،
بھالئی ہوتی ہے۔اٌوب علٌہ السالم نے اپنا مشورہ تو نہٌں دٌا تھا کہ ٌہ بٌماری ختم کردٌں ،وہ تو راضی برضا رہے ،اپنا
"حال دل اپنے رب کو سنا سنا کر اسکے رحم کی فرٌاد کرتے رہے ،اسکے رحم پر ٌمٌن ہی انکے صبر کی وجہ تھا۔
"اور مٌں۔۔۔"
اس نے فورا ً سے لرآن بند کردٌا۔۔ اسکے ہاتھ کپکپا رہے تھے ،لرآن اسکے ہاتھوں سے چھوٹ کر اسکی گود مٌں گر
گٌا۔۔
کہا جاتا " "silent killer diseasesکٌنسر۔۔۔ٌہ کوئی معمولی بٌماری نہ تھی۔۔ٌہ ان بٌمارٌوں مٌں سے تھی جنھٌں"
"ہے ،ہللا آپ کہہ رہے ہٌں کہ۔۔مٌں اس پر صبر کروں ،بالکل شکوہ نہ کروں۔
انکی رہائش چچا رٌحان کے گھر پر تھی ،جو 10سالوں سے ٌہاں اپنی فٌملی کے ساتھ ممٌم تھے۔ چچا رٌحان کے تٌن
بٌٹے عالٌان ،عمٌر اور عمٌل جبکہ دو بٌٹٌاں زرش اور بٌنٌش تھٌں۔ انکے سارے بٌٹے مختلف ممالک مٌں جابز کر
رہے تھے ،جبکہ زرش کی شادی ہو چکی تھی۔ صرف بٌنش جسکی سٹڈٌز جاری تھٌں اپنے والدٌن کے ساتھ وہٌں رہتی
تھی۔ وہ فاطمہ سے اٌک سال چھوٹی تھی ،اس لٌے اس سے کافی جلدی دوستی ہو گئی تھی۔
وہ کٌنٌڈا کے ظاہرٌت اور مادہ پرستی کے اس ماحول سے بٌزار ہو چکی تھی ،اسے کبھی کوئی اٌسا شخص نہٌں مال
تھا ،جو ہللا سے محبت کرتا ہو ،اس دنٌا کی ظاہرٌت سے پرے ،اخالص اور سادگی کا پرستار ہو اور فاطمہ اسکی
زندگی مٌں وہ پہلی بندی تھی۔۔ شاٌد ہللا ہی وہ ذات ہے جس کی محبت پر جمع ہونا ،ہر انسان کو اپنی طرف مائل کرتا
ہے۔ وہ دونوں اکثر بٌٹھ کر بس دٌن کا ہی ٹاپک ڈسکس کرتی رہتی تھٌں۔ فاطمہ بھی ہللا کا بہت شکر ادا کرتی تھی کہ
ہللا نے اسے کوئی اٌسا ساتھی مہٌا کر دٌا تھا جسکے ساتھ وہ "اپنے رب" کی بات ،گھنٹوں گھنٹوں کر سکتی تھی۔
"فاطمہ بٌٹا ،کل ان شاءہللا ہم نے ہاسپٹل جانا ہے۔"
رٌان صاحب نے فاطمہ کے ساتھ پڑی چئٌر پر بٌٹھتے ہوئے کہا جو الن مٌں موجود پھولوں کو بڑے غور اور خاموشی
سے دٌکھ رہی تھی۔
بٌنش ابھی ہی اسکو چھوڑ کر کچن مٌں اسکے لٌے فرٌش جوس لٌنے گئی تھی۔
ہللا نہ کرے ،مٌں نے کٌنڈا کے سب سے بڑے ہاسپٹل مٌں بہترٌن ڈاکٹر سے اپنی بٌٹی کا عالج کروانا ہے۔ ان شاءہللا "
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مٌڈم اس طرح تو مٌک اٌپ ٹھٌک نہٌں ہو گا ،آپ تھوڑی سی شٌپ بنوا لٌں۔"
"عورتوں پر تو لعنت کی گئی ہے جو بھنووں کے بال اکھٌڑٌں ٌا اکھڑوائٌں ،آپکو پتہ ہے ہللا کی لعنت کا مطلب کٌا ہے؟
اس نے نرمی سے پوچھا۔ جس پر بٌوٹٌشن الجھنے انداز مٌں سوالٌہ نگاہوں سے اسکی طرف دٌکھنے لگی۔
ہللا کی لعنت سے مراد "ہللا کی رحمت" سے دوری ہے ،مٌں تو ہللا کہ رحمت کی پل پل محتاج ہوں ،مٌں کٌسے اسکی "
نافرمانی کرکے خود کو اسکی رحمت سے محروم کٌے رکھوں ،پلٌز آپ انھٌں بالکل ٹچ نہ کرٌں"۔
لرة العٌن نے دو ٹوک لہجے مٌں کہا جس پر بٌوٹٌشن چپ ہو کر رہ گئی۔۔
آج لرة العٌن کا نکاح تھا ،الئٹ گرے اور رٌڈ کنٹراسٹ کی مٌکسی مٌں تٌار ہونے کے بعد وہ معصوم سی گڑٌا لگ رہی
تھی۔ دو دن بعد سادگی سے رخصتی ہونی تھی۔ نائلہ کے کہنے پر وہ اسکے ساتھ نکاح کا مٌک اپ کروانے آئی
تھی۔اسکا کہنا تھا کہ حمٌمی حمدار کے لٌے۔ اس مولع پر تو اسے سجنا سنورنا چاہٌے ،اس لٌے لرة العٌن بخوشی اسکے
ساتھ پارلر آگئی تھی۔
"لرت اٌک دفعہ کروا لو ،آج تک نہٌں کروائے نا تم نے؟ آج کے بعد نہ کروانا ،ہللا غفور رحٌم ہٌں تم توبہ کر لٌنا۔"
پٌچھے بٌٹھی نائلہ ،جو کافی دٌر سے انکی باتٌں سن رہی تھی ،بولی۔
جی نائلہ ،آپ ٹھٌک کہہ رہی ہٌں کہ ہللا غفور رحٌم ہٌں ،بہت زٌادہ ہٌں ،مگر جان بوجھ کر گناہ کرنے والوں کے لٌے "
لرة العٌن نے مٌک اپ رووم مٌں نظر دوڑاتے ہوئے کہا ،جہاں جگہ جگہ ماڈلز اور اٌکٹرسز کے پوسٹرز آوٌزاں تھے۔
"جی؟"
"نہٌں الحمدہلل ،مٌں گھر سے وضو کر کے آئی تھی۔ آپ بس مجھے جگہ بتا دٌں۔"
"اپ اسکی فکر نہ کرٌں ،ان شاءہللا نہٌں ہو گی۔ مٌرے رب کا مجھ پر پہال حك ہے۔"
"تم بہت پٌاری لگ رہی ہو لرت ،ماشاءہللا تم پر بہت روپ آٌا ہے۔"
"کاش تم ٌہاں ہوتی ،مٌرے ساتھ ،مٌری خوشی مٌں شرٌک ،تمھارے بغٌر مجھے اپنی خوشی نامکمل سی لگ رہی ہے۔"
اس نے بہت خوبصورتی سے بات ٹالتے ہوئے کہا ،وہ کٌا بتاتی کہ اٌک گھنٹے مٌں اسے ٹرانسپالنٹٌشن کے لٌے شفٹ
کر دٌا جانے واال ہے ،وہ اپنی دوست کی خوشی ،اپنا دکھ سنا کر ماند نہٌں کرنا چاہتی تھی۔
"ہائے فاطمہ۔۔بس نہ پوچھو ،عجٌب ہی حالت ہو رہی ہے ،خوشی بھی ہے مگر ڈر بھی لگ رہا ہے۔"
پتہ نہٌں فاطمہ ،وہ کٌسے ہوں گے ،مجھے دٌکھ کر انکا ری اٌکشن کٌا ہوگا ،تمھٌں پتہ ہے نا ،آج وہ مجھے پہلی بار "
"دٌکھٌں گے۔
آخری بات پر لرة العٌن شرمائی تھی جس پر فاطمہ کا لہمہہ نکال تھا۔
فاطمہ نے منہ کھولتے ہوئے ،شاکڈ ہونے والے تاثرات دٌتے ہوئے کہا۔
جس پر لرة العٌن بے اختٌار ہنسی تھی۔
لرة العٌن اپنے نکاح سے آدھا گھنٹہ پہلے ،فاطمہ سے وڈٌو کال پر بات کر رہی تھی۔
باہر سب مہمان موجود تھے ،لرة العٌن کی والدہ خوشی اور اداسی کی ملی جلی کٌفٌت مٌں سب سے مل رہی تھٌں،
جبکہ معاذ مردوں کے پورشن مٌں تھا ،عورتوں اور مردوں کا علٌحدہ انتظام کٌا گٌا تھا ،صرف لرٌبی لرٌبی رشتہ دار
ہی آئے تھے۔سب لڑکے والوں کی آمد کے منتظر تھے۔ نائلہ لرة العٌن کے تٌار ہوتے ہی اسے اسکے گھر ڈراپ کرکے
شہرٌار کی طرف چلی گئی تھی۔
اس لٌے لرة العٌن نے مولع غنٌمت جانتے ہوئے فاطمہ کو وڈٌو کال مال دی تھی۔
جبکہ فاطمہ کی طرف ابھی دن تھا۔ ادھر رٌان صاحب مسز رٌان کے ساتھ مل کر ،فاطمہ کا ضروری سامان پٌک کر
رہے تھے ،کٌونکہ اب اسے ہاسپٹل اٌڈمٹ ہونا تھا ،لرة العٌن سے بات کرتے ہوئے اسکی خوشی دٌکھ کر وہ کچھ حد
تک پرسکون ہو گئے تھے ،اتنے مٌں بٌنٌش دروازے سے اندر داخل ہوتے ہوئے بولی۔
دونوں ماں باپ نے مڑ کر فاطمہ کی طرف دٌکھا ،جو بٌنٌش کی بات سن کر مسکرائی تھی۔
اوکے لرت اب مجھے جانا ہے ،تم اپنا بہتتتت خٌال رکھنا ،ہللا تمھٌں ڈھٌروں خوشٌاں دکھائٌں ،شہرٌار بھائی کو اور "
تمھٌں خٌر پر جمع کرٌں تم دونوں کو اٌک دوسرے کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنائٌں ،تم ہمٌشہ مٌری دعاإں مٌں رہو گی،
"مجھے بھی دعاإں مٌں ٌاد رکھنا۔
فاطمہ نے نظر بھر کر سکرٌن پر لرة العٌن کے مسکراتے چہرے کو دٌکھا۔۔ لرة العٌن کو کٌا علم تھا ،کہ اسکی خوشی
کے عٌن مولع پر ،اسکی دوست کو سٹرٌچر پر شفٹ کٌا جانے واال تھا۔۔ وہ کٌا جانتی تھی کہ دوبارہ کس حال مٌں اس
سے بات کرے گی۔۔۔
کر بھی پائے گی ٌا۔۔۔نہٌں۔۔۔
الوداع کہتے ہوئے اس نے موبائل بند کرکے سٌنے سے لگا کر گہرا سانس لٌا۔۔ آنکھوں کی نمی اندر اتاری ،اور بھر
پور مسکراہٹ سے اپنے ماما بابا کی طرف دٌکھا جو اسکی طرف حسرت اور اداسی سے دٌکھ رہے تھے۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
فاطمہ کو ہاسپٹل مٌں اٌڈمٹ کردٌا گٌا تھا۔۔ اسے اٌمرجٌنسی روم مٌں 4سے 5گھنٹے گزر چکے تھے۔۔ کچھ فائنل
ٹٌسٹ کروانے کے بعد ٹرٌٹمنٹ کا بالاعدہ آغاز ہونا تھا۔نہٌں معلوم تھا کہ ان ٹٌسٹس کے بعد کب تک فاطمہ کو اٌک
صحت مند لٌور کے لٌے وٌٹنگ لسٹ مٌں رہنا تھا۔۔ فاطمہ کا بلڈ گروپ فٌملی مٌں کسی سے بھی مٌچ نہٌں کر رہا تھا،
اس لٌے رٌان صاحب اور مسز رٌان دونوں بہت پرٌشان اور گھبرائے ہوئے تھے۔۔ چچا رٌحان اور چچی انٌلہ ان دونوں
کو بار بار تسلٌاں دے رہے تھے۔
جبکہ بٌنش نے
کھلی جٌنز اور ٹاپ کے ساتھ سر پر حجاب لٌا ہوا تھا۔ وہ پرٌشانی کے عالم مٌں انگلٌاں چبائے اپنے خٌالوں مٌں گم
ادھر ادھر چکر لگا رہی تھی۔
"ہٌلو سر ،ہم نے ٹٌسٹ کر لٌے ہٌں ،جلد ہی رپورٹ آجائے تو ہم آپکو کچھ فائنل بتائٌں گے۔"
ڈاکٹر پٌٹرک نے انگلش مٌں چچا رٌحان سے بات کرتے ہوئے کہا۔
"اوہ الحمدہلل"
فاطمہ نے اپنے والدٌن کو کمرے مٌں داخل ہوتے دٌکھتے ہی اپنا نماب نٌچے کٌا۔
رٌان صاحب کو اپنی بٌٹی پر ترس آٌا جو اتنی مشٌنوں کے درمٌان بٌڈ پر ٹٌک لگائے بٌٹھی تھی۔
اس نے مسکرا کر اٌسے کہا جٌسے وہ ہاسپٹل کی بجائے رٌسٹورٌنٹ مٌں آئی ہو۔۔
"فاطمہ تمھارے بابا ٹھٌک کہہ رہے ہٌں ،دٌکھو عالج کے لٌے تو اپنا پردہ اتارنے کی اجازت ہوتی ہے۔"
"جی ماما ،مگر جسم کا اتنا حصہ ہی کھولنا چاہٌے جتنا عالج کے لٌے دکھانا ضروری ہو۔"
آنٹی آپ ٹٌنشن نہ لٌں ،مٌں ڈاکٹر پٌٹرک سے پہلے ہی بات کر چکی ہوںٌ ،ہ اچھے لوگ ہٌں ،پٌشنٹ (مرٌض) کی ہر "
"الحمدہلل ،اور ماما سسٹر لٌزا کی ڈٌوٹی مٌرے روم مٌں ہے الحمدہلل وہ بہت اچھی ہٌں۔"
فاطمہ کا زرد چہرہ خوشی سے دمک رہا تھا جٌسے اسے پردہ کرنے کی آسانی کی شکل مٌں کوئی انعام مال ہو۔
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔ کٌا بتاتی وہ کہ مختلف ٹٌسٹ لٌنے کے لٌے کٌسے کٌسے سوئٌاں اسے چبھوئی گئٌں ،وہ
تو انجٌکشن سے اتنا ڈرا کرتی تھی ،مگر آج۔۔ وہ بس مسکرا کر ہی رہ گئی تھی۔
چچی انٌلہ نے آگے بڑھ کر فاطمہ کے سر پر ہاتھ پھٌرتے ہوئے پٌار سے کہا ،جس پر سب نے آمٌن بوال۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"خٌر مبارک۔۔"
اب تو شہرٌار کو اندر آنے دٌں بھئی؟ مٌرے بھائی صاحب بڑے عرصے سے اس دن کے لٌے صبر کرکے بٌٹھے "
"ہٌں۔
"اففف کٌا ہوگٌا ہے مجھے۔۔ ہر لڑکی کا نکاح ہوتا ہے ،مٌں کچھ زٌادہ ہی اوور ری اٌکٹ کر رہی ہوں۔"
نائلہ نے ہنستے ہوئے مزٌد چھٌڑا ،وہ شہرٌار اور لرة العٌن کے درمٌان دٌوار کی طرح حائل تھی۔
نائلہ کی اماں نے پٌچھے سے ہنستے ہوئے آواز دی۔۔ جس پر شہرٌار مسکرا کر ہی رہ گٌا۔
نائلہ لہراتے انداز سے ہاتھ کا اشارہ لرة العٌن کی جانب کرتے ہوئے پٌچھے ہٹی۔۔
اٌک لمحے کے لٌے دونوں کی آنکھٌں ملٌں۔۔
لرة العٌن نے شرما کر نگاہٌں فوراً جھکا لٌں جبکہ دوسری طرف۔۔معاملہ برعکس تھا۔۔
اسے سب محسوس ہو رہا تھا ،اسی ولت اسے فاطمہ کی بات ٌاد آئی ،جو اس نے منہ کھولتے ہوئے کہی تھی۔
"ارے بس بھئی؟ سارا کا سارا آج ہی دٌکھ لٌنا ہے؟ خٌال کرو نظر نہ لگ جائے۔"
نائلہ نے شہرٌار کے چہرے کے سامنے چٹکی بجاتے ہوئے ہنس کر کہا۔۔ اسکی بات پر کمرے مٌں لہمہہ گونجا تھا۔
لرة العٌن شرماتے ہوئے بے اختٌار مسکرا اٹھی،
اسے دٌکھ کر شہرٌار نے بھی مسکراتے ہوئے نگاہٌں نٌچے کر لٌں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے رٌان ،آپ نے اسکا چہرہ دٌکھا ہے؟ مجھے اسے دٌکھ کر ہی خوف آنے لگا ہے۔"
مسز رٌان روتے ہوئے رٌان صاحب سے کہہ رہی تھٌں ،جو ہاسپٹل کے باہر الن مٌں پڑے بٌنچ پر بٌٹھے تھے۔
انکی نگاہٌں زمٌن پر جمی ہوئی تھٌں ،چہرے پر پرٌشانی کے آثار واضح نظر آرہے تھے۔
مسز رٌان کی بات سن کر انھوں نے چونک کر انکی طرف دٌکھا۔
"نہٌں ہوا کچھ نہٌں ،مگر آپ نے دٌکھا نہٌں وہ شدٌد تکلٌف کو کٌسے برداشت کر رہی ہے؟"
ہاں اسکی مسکراہٹ بہت گہری ہوتی جا رہی ہے۔۔ اسکی خاموشی بھی گوٌا کچھ کہہ رہی ہوتی ہے۔۔ ہمٌں کتنی دٌر ہو "
انکی آنکھ سے آنسو بہہ نکال۔۔ جس پر مسز رٌان بھی اپنے جذبات لابو نہ کر پائٌں۔
ہم نے ساری زندگی اس رب کو نہٌں پکارا رٌان۔۔ دٌکھٌں آج ہمٌں اس نے کس موڑ پر ال کھڑا کٌا ہے۔۔ کہ ہم مجبور "
ٌہی ہماری بدلسمتی ہے۔۔ کٌوں مٌں اس دن سٌف کو نہٌں روک پاٌا جب اس نے فاطمہ کو اتنی زور سے دکھا دٌا "
"تھا۔۔کاش مجھے عمل ہوتی!! کاش فاطمہ بتا دٌتی کہ اسے کہاں چوٹ لگی ہے ،ہم اس کا برلت عالج کروا دٌتے۔
"رٌان آپ سے بڑی مجرم تو مٌں ہوں ،مٌں نے۔۔۔کٌا کٌا نہٌں کٌا اس کے ساتھ۔۔۔"
اور جب ہم انسان پر اپنا انعام کرتے ہٌں تو وہ منہ پھٌر لٌتا ہے اور کنارہ کش ہو جاتا ہے اور جب اسے مصٌبت پڑتی "
)سورة حم السجدہ(51:
کٌسے کھول کھول کر بٌان کٌا تھا اس رب نے اپنے بندے کی نفسٌات کو۔۔ انسان کو اس رب سے زٌادہ جاننے واال بھی
کوئی ہو سکتا تھا؟
اس نے لرآن مٌں کتنی محبت سے فرماٌا تھا۔
"کٌا وہی نہ جانے جس نے پٌدا کٌا؟ اور وہ بارٌک بٌن اور باخبر ہے۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مٌری بہن مجھے بہت عزٌز ہے شہرٌار۔۔۔ اسکا بہت خٌال رکھنا۔۔۔ ان شاءہللا وہ تمھٌں کبھی ناامٌد نہٌں کرے گی۔"
"بے فکر رہو مٌرے بھائی ،اب ٌہ مٌری ذمہ داری ہے۔۔ ان شاءہللا مٌں بخوبی نبھاإں گا۔"
اس نے گاڑی مٌں بٌٹھی اپنی زوجہ کو مسکرا کر دٌکھا ،جو مکمل پردے مٌں بٌٹھی تھی۔
الوداعی کلمات کے بعد وہ لرة العٌن کو لٌے زندگی کے نئے سفر پر روانہ ہو گٌا۔
نکاح کے دو دن بعد رخصتی بہت سادگی سے ہوئی تھی۔۔کوئی فضول لسم کی رسم ماٌوں ،مہندی ,بارات ٌا مٌوزک،
فوٹوگرافی وغٌرہ کا سسٹم نہ تھا۔ اور ٌہ سب شہرٌار کی کوشش سے ہوا تھا۔ لرة العٌن کے لٌے اس سے بڑھ کر
خوشی کی کٌا بات تھی کہ زندگی کے سب بڑے اور اہم دن مٌں بھی ہللا نے اسے ہر طرح کی نافرمانی سے نا صرف
بچا لٌا تھا بلکہ سنت کے مطابك نکاح کا انتظام آسان کر دٌا تھا۔ جب ازدواجی زندگی کی بنٌاد مٌں اخالص اور ہللا کی
فرمانبرداری ہو تو اس پر بننے والی عمارت بھی پائٌدار اور مضبوط ہوتی ہے۔ وہ دونوں اس پر بہت خوش تھے۔۔
جبکہ ادھر لرة العٌن کی امی معاذ کے گلے لگ کر رو رہی تھٌں۔۔ بہت نازک مرحلہ تھا ٌہ۔۔اپنے آنگن مٌں کھٌلتی
اکلوتی چڑٌا کو ،اپنے ہاتھوں سے کسی دوسرے کے حوالے کر دٌنا۔۔کب آسان ہوا کرتا ہے۔۔ معاذ اپنے آنسو پر لابو
رکھ کر انھٌں بہت تسلی دے رہا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"سب ٹھٌک۔۔"
زونٌشہ فاطمہ کی حالت دٌکھ کر حٌران رہ چکی تھی۔۔ وہ بالکل کمزور ہو گئی تھی۔۔ آنکھوں کے گرد حلمے پڑ رہے
تھے ،رنگ پٌال ہو رہا تھا ،مگر پھر بھی چہرے پر مسکراہٹ۔۔آنکھوں مٌں چمک۔۔ اسکے اندر جلتے امٌد کے چراغ کا
پٌغام دے رہی تھی۔۔
"تم والعی ٹھٌک ہو نا؟"
"اچھا تمھٌں اٌک گڈ نٌوز دٌنی ہے۔۔ ان شاءہللا تم وہ سن کر ہی ٹھٌک ہو جاإ گی۔"
"کٌا؟"
"بوجھو تو جانٌں۔"
وہ کھلکھالئی۔
"ھاھاھاھا پٌاری لڑکی ،وہ بھی ان شاءہللا جلد کروں گی۔۔ مگر ٌہ کچھ اور ہے۔"
"آممممممم۔۔۔ٹرانسفر ہو گٌا؟"
"نہ۔۔"
"بتاإں؟؟"
وہ فاطمہ کا تجسس بڑھا رہی تھی کہ شاٌد کسی طرح وہ کچھ دٌر کے لٌے وہ درد بھول جائے۔۔ وہ خود ڈاکٹر تھی اس
نے کٌنسر پٌشنٹس کی تکلٌف کو اپنی آنکھوں سے دٌکھا تھا۔۔ وہ سب جانتی تھی۔
"ہاں نا پلٌٌٌز"
اس نے منت کرتے ہوئے کہا۔
"دٌکھ لو؟؟"
"کٌااااا۔۔سچچ؟؟"
"ہاں۔۔"
"الحمدہلل الحمدہلل۔۔ بہت بہت مبارک ہو۔۔ ہللا اکبر کبٌرا۔۔ اتنی خوشی ہو رہی مجھے۔۔"
اسکا چہرہ ٌک دم چمک اٹھا تھا۔۔ جسے دٌکھ کر زونٌشہ کو دل سے خوشی ہوئی۔
)سورت الشرح(
جاری ہے۔
آج سب ڈرے ہوئے تھے ،ٹٌسٹس کے تٌن دن بعد ہی ٹرانسپالنٹٌشن کے لٌے صحت مند لٌور کا انتظام ہو چکا تھا۔شاٌد
تمدٌر اس پر مہربان ہو رہی تھی۔ لہذا آج فاطمہ کی زندگی کا سب سے بڑا اور اہم دن تھا۔
"ماما،بابا۔۔۔۔مٌں نے آج تک آپکو جتنا بھی ستاٌا ،مٌں معافی مانگتی ہوں مجھے معاف کر دٌجئٌے گا۔"
اس نے بٌڈ پر لٌٹے لٌٹے مسز رٌان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا۔ وہ دونوں اسکے بٌڈ کے ساتھ ہی کھڑے تھے۔
مسز رٌان خود کو لابو مٌں نہ رکھ پائٌں۔ آنسوإں کا سٌالب آنکھوں سے رواں ہو چکا تھا۔
"بٌٹا آپ تو سب کو اتنی امٌد دالنے والے ہو ،آپ اٌسی ماٌوسی کی باتٌں کٌوں کر رہے ہو؟"
"دفعہ کہہ دٌں نا کہ آپکو مجھ سے کوئی شکوہ نہٌں؟ آپ مجھ سے راضی ہٌں؟
"مٌرا بچہ ،معافی تو مجھے تم سے مانگنی چاہٌے۔ آج تمھاری اس حالت کی ذمہ دار مٌں ہوں۔۔"
مجھے آپ لوگوں سے کوئی بھی شکوہ نہٌں۔ آپ لوگوں کی وجہ سے مٌں آج اس ممام پر ہو ماما کہ مجھے الحمدہلل "
الحمدہلل دٌن کا علم ہے ،مٌں اگر مر بھی گئی تو اس بوجھ کو لے کر نہٌں جاإں گی کہ مٌں دٌن کو جانے بغٌر ،اسے
سٌکھے بغٌر ،اس پر عمل کٌے بغٌر مر گئی۔ آپ لوگ مجھے اجازت نہ دٌتے تو مٌں کٌسے ٌہ سب کر پاتی۔ اور ٌہ
بٌماری۔۔ٌہ تو ہللا کی پالننگ ہے۔ ٌہ مٌرے لٌے اسکے لرب کا رستہ ہموار کرنے آئی ہے۔ مٌرے رب کا جو لرب
"مجھے اس بٌماری مٌں مل رہا ہے وہ اس سے پہلے کبھی نہٌں مال تھا ماما۔
اسکی اٌک اٌک بات دونوں والدٌن کے دل پر اتر رہی تھی۔ ہاں وہ خوش لسمت ہی تو تھی کہ اس نے زندگی مٌں ہی
رب کو پا لٌا تھا۔ رب کو پٌارا ہونے سے پہلے ہی رب کو پٌاری کو ہو گئی تھی۔ رب سے ملنے سے پہلے ہی رب سے
مل چکی تھی۔ لابل رشک تو وہ تھی ہی۔
"اٌکسکٌوز می۔۔آپ کا ٹائم ختم ہو گٌا ہے۔ اب پٌشنٹ کو آپرٌشن تھٌٹر مٌں شفٹ کرنا ہے۔"
"جی بہتر۔"
رٌان صاحب نے انکی طرف دٌکھے بغٌر جواب دٌا اور جھک کر فاطمہ کی پٌشانی پر بوسہ دٌا۔
وہ نم آنکھوں سے مسکرائے تھے۔ انکی اس بات سے فاطمہ کی آنکھوں کی چمک بڑھ گئی تھی۔
"الحمدہلل۔۔"
اسکی آواز دھٌمی تھی۔ مگر شہرٌار نے بہت دھٌان سے ہر لفظ سن کر دل پر اتارا .تھا۔
وہ پہلی بار اسکی آواز سن رہا تھا۔
وہ مسکراتے ہوئے اسکے لرٌب آکر بٌٹھا۔
لرة العٌن بالکل سہمی اور شرمائی ہوئی بٌٹھی تھی۔
شہرٌار نے مسکراتے ہوئے اسکی جھکی ہوئی آنکھوں مٌں جھانکنے کی کوشش کرتے ہوئے اپنا چہرے ٹٌڑھا کٌا۔
"الحمدہلل۔"
ہائے۔۔الحمدہلل۔۔الحمدہللا۔۔بہت خوش۔۔بہت خوش لسمت۔۔وہللا خود پر رشک آئے جا رہا ہے۔۔ٌمٌن نہٌں آتا ہللا نے مجھے "
لرة العٌن کو اسکی آواز مٌں جوش اور خوشی دونوں بٌک ولت محسوس ہوئی۔
اس نے مسکراتے ہوئے اٌک لمحے کے لٌے نگاہٌں اٹھائٌں۔
وہ اسے ہی دٌکھتے ہوئے کہہ رہا تھا۔
نظرٌں ملی تھٌں۔
لرة العٌن کا دل گوٌا دھڑکنا بھول گٌا تھا۔
اس نے ہڑبڑاتے ہوئے نگاہٌں پھر سے جھکا لٌں۔۔
"آپ ٌمٌن کرٌں لرت! آپ مجھ پر مٌرے رب کا ،مٌری اس زندگی کا ،سب سے بڑا انعام ہٌں۔"
مٌں اس بات پر ہللا کا جتنا شکر ادا کروں ،کم ہے۔ مجھے جٌسی زوجہ چاہٌے تھی ،مٌرے ہللا نے مجھے وٌسی ہی "
وہ لرة العٌن کے جواب کا انتظار کٌے بغٌر کہے جا رہا تھا۔
جبکہ لرة العٌن کی نظر ان ہاتھوں پر تھی ،جن مٌں اسکے ہاتھ تھے۔
مٌں آپکی طرح نٌک نہٌں ہوں۔ مٌں آپکی طرح دٌن کے رستے مٌں آگے نہٌں ہوں۔ مگر ان شاءہللا مٌں پوری کوشش "
کروں گا کہ اس رستے پر آپکے لدم کے ساتھ لدم مال کر چلوں۔ آپکو کبھی اکٌال نہ چھوڑوں۔ آپکی صحبت سے مٌں
بھی ہللا کے پسندٌدہ بندوں مٌں شامل ہو جاإں۔ ٌہ رستہ ہی اب مٌری منزل ہے ،جس پر چل کر مجھے آپکے ساتھ جنت
"مٌں جانا ہے ان شاءہللا۔۔
اسکی باتوں کا لفظ لفظ لرة العٌن کے رونگٹے کھڑے کر رہا تھا۔
وہ جس معاملے مٌں ابھی تک ڈر کا شکار تھی۔ اسکے رب نے اسکے سارے خدشات دور کر دئٌے تھے۔ اسے اپنا
بہترٌن اور پاکٌزہ بندہ دے دٌا تھا۔
اسے ٌکاٌک تٌن مہٌنے پہلے تہجد مٌں مانگی اپنی دعائٌں ٌاد آئٌں۔
اسکے رب نے سن لٌا تھا۔ اسکو انعام کی شکل مٌں اپنا ٌہ پٌارا بندہ دے دٌا تھا۔ وہ کٌا بتاتی کہ اس ولت وہ خود کو
شہرٌار سے بھی زٌادہ خوش لسمت سمجھ رہی تھی۔ وہ کٌسے بتاتی کہ اپنی لسمت پر اسے آپ ہی رشک آئے جا رہا
تھا۔ وہ کٌسے اظہار کرتی کہ اسکے سامنے بٌٹھا شخص ،اسکی تہجد مٌں مانگی دعاإں کی حمٌمی تصوٌر بن کر اسکی
زندگی مٌں آٌا تھا۔ اٌسا کٌسے ہو سکتا تھا کہ انسان ہللا سے تڑپ کر کچھ مانگے ،اور وہ دے ہی نہ؟ جو بن مانگے اتنا
کچھ دے رہا تھا مانگنے پر تو کٌسی رحمتٌں برساتا تھا۔ بس انسان کو اس توکل کی ضرورت ہوتی ہے کہ اس کی
زندگی مٌں شامل ہونے واال انسان ہی اسکے رب کے ہاں ،اسکے لٌے پوری دنٌا کا بہترٌن انسان ہے۔ ہللا اپنے بندے کو
کٌسے غلط ہاتھوں کے حوالے کر سکتا ہے۔۔بس توکل۔۔اور اسکی رضا پر راضی رہنا۔۔زندگی کو خوشگوار بنا دٌتا ہے۔
آنکھوں کی نمی آنکھوں مٌں ہی رہ گئی تھی۔
ٌکاٌک زبان پر اٌک شعر آٌا۔۔
وہاں جو ہاتھ اٹھتے ہٌں۔۔
کبھی خالی نہٌں آتے۔۔
ذرا سی دٌر لگتی ہے۔۔
مگر وہ دے کے رہتا ہے۔۔
ہم بہت حٌران ہٌں سسٹر ،ہمارے ہاسپٹل مٌں پہلی بار کوئی پٌشنٹ اٌسا آٌا ہے جس نے تمام انتظامٌہ کو حٌرت مٌں ڈال "
"دٌا ہے۔
سسٹر لٌزا نے اٌمرجٌنسی روم سے باہر آتے ہی بٌنش سے کہا۔۔اسکے چہرے پر واضح پرٌشانی کے اثرات تھے۔
"جی جی ،آپرٌشن تو ابھی چل رہا ہے ،امٌد ہے کہ اٌک دو گھنٹے مٌں مکمل ہوجائے گا۔"
مسلسل 7گھنٹے سے وہ آپرٌشن تھٌٹر مٌں تھی۔ جبکہ اسکے والدٌن دعاإں مٌں مشغول تھے۔
دراصل ہم سب ابھی بہت شاکڈ ہٌں ،مٌں صرف ابھی کسی کام سے باہر آئی تھی۔ مگر مٌں اتنا ضرور کہوں گی کہ "
ٌہ کہتے ہوئے وہ تٌزی سے آگے بڑھ گئی۔ گوٌا وہ جس کام کے لٌے باہر آئی تھی اسے وہ کرنا تھا۔
ادھر ٌہ تٌنوں پرٌشانی کے عالم مٌں اٌک دوسرے کا منہ تکنے لگے ۔
"ہللا سب خٌر رکھنا۔۔"
مسز رٌان روہانسے انداز مٌں بولتے ہوئے پٌچھے چئٌر پر جا بٌٹھٌں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لرة العٌن وضو کرکے واش روم سے باہر نکلی تو شہرٌار اسکے لٌے جائے نماز بچھائے اسکا منتظر تھا۔ اسکی
داڑھی سے پانی موتٌوں کی طرح ٹپک رہا تھا۔
لرة العٌن نے شہرٌار کو اپنی طرف متوجہ دٌکھ کر مسکراتے ہوئے نگاہٌں نٌچے جھکا لٌں اور آہستہ آہستہ چلتی ہوئی
جائے نماز پر آکر کھڑی ہوگئی۔
پہلے تو کچھ لمحے شہرٌار پٌار سے مسکراتے ہوئے لرة العٌن کی جھکی ،گٌلی پلکوں کو دٌکھتا رہا۔ اسکے بعد لمبا
سانس کھٌنچتے ہوئے ہلکی آواز مٌں الامت کہہ کر تکبٌر کہی۔
لرةالعٌن شہرٌار کے پٌچھے کھڑی نماز پڑھ رہی تھی۔ اسے ابھی تک ٌمٌن نہٌں آرہا تھا کہ والعی ٌہ سب سچ تھا ٌا
اٌک خواب۔
سورت الفاتحہ کے بعد شہرٌار نے سورت الدھر شروع کرلی تھی۔
اس سورت کو سنتے ہی لرة العٌن کی دھڑکن تٌز ہو گئی۔جسم کے رونگٹھے کھڑے ہو گئے۔ ٌہ سورت اسے بہت
رالتی تھی۔
اور پھر اپنے زوج کی آواز مٌں۔۔۔۔شہرٌار کی تجوٌد اتنی اچھی نہ تھی مگر اسکی آواز مٌں بہت درد تھا۔
جٌسے جٌسے وہ سورت الدھر پڑھتا جا رہا تھا لرة العٌن کی آنکھوں سے سٌالب رواں ہوتا جا رہا تھا۔۔ اسے سارا
ترجمہ سمجھ آرہا تھا۔ کٌسے نا پٌار آتا اس رب کی محبت پر کہ جس نے اسے لرآن سمجھا دٌا تھا ،سات آسمانوں کے
پار سے آٌا کالم تھما دٌا تھا ،اسے لگتا تھا کہ دنٌا کی ساری نعمتٌں اٌک طرف اور لرآن کی عربی سمجھ آنا اٌک
طرف۔۔۔اسکا دل اپنے رب کی شدٌد محبت اور شکرگزاری سے
سے اٌسے بھرا کہ اسکی سسکٌاں نکلنے لگٌں۔
اسکے رونے کی آواز سن کر لمحے بھر کو شہرٌار ٹھٹکا ،مگر پھر اس نے اپنی تالوت جاری رکھی۔
جنتوں کی خوبصورتی کا تذکرہ ہو رہا تھا۔
"ہللا آپکی جنتٌں۔۔ہللا آپکی مہمانی مٌں۔۔۔مجھے آپکو راضی کرکے۔۔ آپکے اس پٌارے بندے کے ساتھ ہی وہاں آنا ہے۔
سورت مکمل کرکے رکوع کے بعد شہرٌار سجدے مٌں جا چکا تھا۔
اسکے پٌچھے لرة العٌن بھی سجدے مٌں چلی گئی۔۔وہ بہت لمبا سجدہ تھا۔۔
وہ سجدہ۔۔۔انکی زندگی کا سب سے حسٌن سجدہ تھا۔۔جہاں دو دل ،ہللا کی محبت مٌں ،اٌک دوسرے کی محبت لٌے ،شکر
گزاری سے جھک رہے تھے ،آہٌں بھر رہے تھے۔۔۔
پورا ماحول انکے اٌمان کے اثر سے معطر ہوچکا تھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آپ نے کہا آپکا پٌشنٹ عجٌب ہے۔ مٌں تب سے کنفٌوز ہوں کہ اس بات کا کٌا مطلب ہے؟"
"جی اٌسا ہی ہے۔ مٌں ٌہاں 7سال سے جاب کر رہی ہوں مگر آج تک کوئی اٌسا پٌشنٹ نہٌں دٌکھا۔"
"دٌکھٌں مس ،آپکے کہنے پر ہم نے انکے حجاب کا خٌال رکھا ،جتنا ہم رکھ سکے۔۔ مگر۔۔۔"
اس نے بٌنش کے حٌرت بھرے تجسس کو بھانپتے ہوئے بتانا شروع کٌا۔
"مگر کٌا؟؟"
"اتنے گھنٹے مسلسل ٌہ ممکن نہٌں تھا ،آکسٌجن کا مسئلہ ہوا تو حجاب ہٹانا پڑا۔"
"اوہ۔۔"
"کککٌا مطلب؟"
بٌنٌش چونکی۔
انکا چہرہ بہت چمک رہا تھا۔ حاالنکہ مٌں انھٌں اتنے دنوں سے دٌکھ رہی ہوں مگر آج اٌک عجٌب چمک دٌکھی مٌں "
"نے۔۔
جی بالکل ،اسی بات نے تو سب کو حٌرت مٌں ڈال دٌا تھا کہ اتنے خطرناک آپرٌشن مٌں کوئی مسکرا کٌسے سکتا "
"ہے۔
سسٹر لٌزا کی آنکھوں مٌں تجسس اور پرٌشانی کے آثار واضح نظر آرہے تھے۔
ہاں ہم بھی تب ٌہی سوچ رہے تھے۔ مگر ہم نے اپنی آنکھوں سے دٌکھا۔ انکے حجاب کی وجہ سے ہم مٌں سے کسی "
"May be..ہممم۔۔۔"
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاری ہے۔
"فرٌنڈشپ ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سالم پھٌرنے کے بعد وہ کئی لمحوں تک اٌسے ہی جائے نماز پر خاموشی سے بٌٹھے رہے۔۔ جٌسے دل ہی دل مٌں ہللا
کو پکار رہے ہوں۔
دونوں کے خاموش آنسو بہہ رہے تھے ،جنھٌں انکے رب کے سوا کوئی بھی نہ دٌکھ رہا تھا ،حتی کہ وہ دونوں بھی
نہٌں۔
ٌکاٌک شہرٌار چہرے پر دونوں ہاتھ پھٌرتا ہوا پٌچھے کو مڑا اور لرة العٌن کے ساتھ آکر اسکی جائے نماز پر بٌٹھ گٌا۔
نم آنکھوں سے مسکرا کر اسے دٌکھا اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے چہرے پر بہتے آنسو پونچھ لٌے۔ جس پر وہ
مسکرا دی تھی۔
اسکے آنسو صاف کرتے ہی اس نے لرة العٌن کی پٌشانی پر ہاتھ رکھا اور بسم ہللا پڑھ کر ٌہ دعا مانگی
" اللَّ ُھ َّم إِنًِّ أ َ ْسؤَلُنَ َخٌ َْرھَا َو َخٌ َْر َما َجبَ ْلت َ َھا َعلَ ٌْ ِه َوأَعُوذُ بِنَ ِم ْن ش ِ َّرھَا َو ِم ْن ش ِ َّر َما َجبَ ْلت َ َھا َعلَ ٌْ ِه "
اے ہللا مٌں اس كى بھالئى طلب كرتا ہوں اور جس پر تو نے اسے پٌدا كٌا ہے اس كى بھالئى كا سوال كرتا ہوں ،اور "
"تٌرى پناہ مانگتا ہوں اس كے شر سے ،اور اس چٌز كے شر سے جس پر تو نے اسے پٌدا كٌا ہے۔
پہلے پہل تو لرة العٌن کو سمجھ نہٌں آئی کہ ٌہ کٌا ہوا ہے۔پھر اچانک سے اسکو ٌاد آٌا کہ اٌسا تو حدٌث مٌں کرنے کا
حکم دٌا گٌا ہے۔
:نبی ﷺ نے فرماٌا
جب تم کسی عورت سے شادی کرو ٌ ،ا کوئ غالم خرٌدو ٌ( ،ا کوئی جانور خرٌدو) تو اس کی پٌشانی پر ہاتھ رکھ کر "
"بسم ہللا کہتے ہوئے برکت کی دعا کرو ،اور ٌہ دعا پڑھو۔۔
]سنن ابی داإد 2160:سنن ابن ماجہ 1839:عالمہ البانی نے حسن کہا ہے [
لرة العٌن کی آنکھٌں خوشی سے نم ہو گئی تھٌں ،اسکا دل سکون سے بھر چکا تھا۔ وہ سنت جو اسے ٌاد نہٌں رہی تھی
اسکے زوج نے اسے بخوبی ٌاد رکھا تھا۔ نئی زندگی کا آغاز مکمل طور پر سنت طرٌمے سے کٌا جا رہا تھا۔ اسکی
آنکھوں کے سامنے اسکی اپنی کثرت سے مانگی لرآنی دعا کے الفاظ چمکنے لگے تھے۔
اجنَا َوذُ ِ ّرٌَّاتِنَا لُ َّرة َ ا َ ْعٌ ٍُن َّواجْ عَ ْلنَا ِل ْل ُمت َّ ِمٌْنَ اِ َما ًما
َربَّنَا ھَبْ لَنَا ِم ْن ا َ ْز َو ِ
اے ہمارے رب! ہمٌں ہمارے زوج اور اوالد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمٌں متمٌن کا امام بنا۔
) الفرلان ( 74 :
اسکا بس چلتا تو ساری زندگی شکرگزاری کے سجدے مٌں پڑی سسکتی رہتی۔ اسے دٌن کے رستے مٌں مددگار مل گٌا
تھا ،اسے اسکے اٌمان کا اور روح کا ساتھی مل گٌا تھا۔۔بالشبہ رب کی ہی دی ہوئی نعمت تھی۔ جسکی لدر مطلوب
تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے شہرٌار کے کندھے پر اپنا سر رکھ کر اپنی نم آنکھٌں موند لٌں۔
!!!...خواہش ہے
...ہم گم ہو جائٌں
ہماری آنکھٌں وٌران،
...سماعتٌں سن ہو جائٌں
ا ُ ِم شافعہ#
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسز رٌان پرجوش انداز مٌں کہتی ہوئی فاطمہ کی طرف بڑھٌں۔
فاطمہ جو چندھٌائی آنکھوں سے ہاسپٹل روم کا کمرہ بغور دٌکھ کر رہی تھی۔ گوٌا اسکی آنکھوں مٌں اک سوال تھا کہ
سسٹر لٌزا نے فورا ً سے آگے بڑھتے ہوئے مسز رٌان کو ہاتھ کے اشارے سے روکا اور فاطمہ کی طرف متوجہ ہوئی۔
فاطمہ ابھی بھی مکمل ہوش مٌں نہ آئی تھی۔۔ اس لٌے آنکھٌں دوبارہ بند کرلٌں۔ جٌسے وہ کھولنا ہی نہ چاہتی ہو۔
سسٹر لٌزا نے مسز رٌان کے جوش کو دٌکھتے ہوئے مسکراتے ہوئے کہا۔
جوابا ً مسز رٌان نے معصوم انداز مٌں کہا جس پر سسٹر لٌزا مسکراتے ہوئے وہاں سے چلی گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"وہ بہت پٌاری جگہ تھی۔۔ مجھے نہٌں لگتا وہ اس دنٌا مٌں کہٌں ہو گی۔"
فاطمہ کی آنکھوں مٌں چمک مزٌد بڑھ گئی۔ اس نے مسکراتے ہوئے بتانا شروع کٌا۔
وہاں مٌں نے دٌکھا ،بہت گھنے بہت زٌادہ گرٌن (سبز) درخت تھے ،ان پر بہت ہی سرخ انار لگے ہوئے تھے۔ مٌں "
اٌک درخت کے پاس جا کر انار توڑتی ہوں اور اسے چھٌل کر کھانے لگتی ہوں تو اٌسے لگا جٌسے پٌچھے سے کوئی
"آٌا ہے۔
"کون؟"
پتہ نہٌں ،مٌں اسے دٌکھ نہٌں پائی۔ بس اتنا ٌاد ہے اس نے کچھ الفاظ کہے تھے عربی مٌں۔۔ جن کے ادا کرتے ہی "
"پوری فضا نور سے بھر گئی تھی۔ بہت ہی پرسکون اور خوشگوار ماحول تھا وہ۔
فاطمہ ہاسپٹل رووم کی چھت پر نظرٌں جمائے مسکراتے ہوئے اٌسے بتا رہی تھی جٌسے وہ دوبارہ اسی جگہ پہنچ
چکی ہو۔۔اسکے چہرے کی چمک مزٌد بڑھ گئی تھی۔
"کچھ تھا وہ۔۔عربی مٌں۔۔شاٌد لرآن کی کوئی آٌت۔۔مگر مجھے ٌاد نہٌں۔"
وہ۔۔۔۔جب مٌں نے وہ الفاظ سنے تھے نا بٌنٌش۔۔مجھے لگا تھا جٌسے۔۔۔۔ٌہی وہ سب ہے جسکی تالش مٌں مٌری روح "
"اتنا عرصہ بھٹکتی رہی۔۔وہ خوشی جو مٌری روح نے محسوس کی ،اسکا اظہار چہرے سے ہوا تھا۔۔مگر۔۔۔۔۔
"مگر کٌا؟"
تم اداس مت ہو۔ خواب بھی تو ہللا کی طرف سے آتے ہٌں نا ،تو اس حالت مٌں تمھٌں ہللا نے اتنا اچھا خواب دکھاٌا ہے "
وہ محبت بھرے انداز مٌں بھرپور مسکرائی تھی ،جسے بٌنش بس دٌکھتی ہی رہی۔
"ان شاءہللا"
.فاطمہ مسکرائی
بٌنش آس پاس سے بے نٌاز ،بس فاطمہ کی باتوں مٌں کھو چکی تھی۔
"مٌری خواہش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔"
ہاں مگر۔۔۔مٌں چاہتی۔۔ مٌں اسکے لٌے خاص بن جاإں۔۔بٌنش تمھٌں پتہ ہے جب ہللا کسی بندے سے محبت کرتے ہٌں تو "
"مٌں تمھٌں اس متعلك حدٌث سناتی ہوںٌ ،ہ حدٌث مجھے بہت محبوب ہے ،مجھے بہت حسرت دالتی ہے۔۔"
حسرت تو والعی اسکے چہرے سے ٹپک رہی تھی۔ بٌنش اسکی طرف پورے طور پر متوجہ تھی۔
رسول ہللا ﷺ نے فرماٌا۔۔
جب ہللا تعالی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرائٌل علٌہ السالم سے فرماتا ہے کہ ہللا تعالی فالں شخص سے "
محبت کرتا ہے۔ تم بھی اس سے محبت رکھو ،چنانچہ جبرائٌل علٌہ السالم بھی اس سے محبت رکھنے لگتے ہٌں۔ پھر
جبرائٌل علٌہ السالم تمام اہل آسمان کو پکار دٌتے ہٌں کہ ہللا تعالی فالں شخص سے محبت رکھتا ہے۔ اس لٌے تم سب
لوگ اس سے محبت رکھو ،چنانچہ تمام آسمان والے اس سے محبت رکھنے لگتے ہٌں۔ اس کے بعد روئے زمٌن والے
" بھی اس کو ممبول (محبوب) سمجھتے ہٌں۔
)صحٌح بخاری(3209#
"سبحان ہللا۔"
پتہ ہے بٌنٌش۔۔مٌں چاہتی ہوں کہ۔۔۔ہللا حضرت جبرائٌل کو بال کر کہٌں ،کہ۔۔۔۔کہ مٌں ...مٌں "فاطمہ" سے محبت کرتا "
"ہوں۔۔۔
حضرت جبرائٌل۔۔۔جو سب سے بڑے فرشتے ہٌں ،تم جانتی ہو آغاز نبوت کے مولع پر جب رسول ہللا ﷺ نے انھٌں افك "
پر دٌکھا تھا تو انکے چھ سو پر تھے ،وہ خود اتنے بڑے تھے کہ پٌچھے سے آسمان بھی نظر نہٌں آرہا تھا ،کتنی
خوش لسمتی ہے اس انسان کی جسے اسکا رب محبت کرے اور پھر۔۔۔وہ اپنی اتنی پٌاری مخلوق کو بھی اس انسان سے
"محبت کرنے کا حکم دے دے۔۔
بٌنش دم سادھے کھلی آنکھوں سے بس اسکی باتٌں سنتی جا رہی تھی ،ابھی صبح ہی تو اسکو اتنے بڑے آپرٌشن کے
بعد ہوش آٌا تھا۔ اور اب وہ اٌسے باتٌں کررہی تھی جٌسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔
اس انسان سے بڑھ کر کون خوش لسمت ہو گا ،جس سے آسمان کے فرشتے محبت کرتے ہوں ،تم جانتی ہو آسمان مٌں "
بٌشک جو مٌں دٌکھتا ہوں وہ تم نہٌں دٌکھ سکتے اور جو مٌں سنتا ہوں وہ تم نہٌں سن سکتے۔ (سنو!) آسمان چرچراتا "
ہے اور اسے چرچرانا ہی زٌب دٌتا ہے ،کٌونکہ وہاں چار انگلٌوں کے بمدر بھی جگہ خالی نہٌں ہے ،ہر جگہ فرشتے
"سجدہ رٌز ہٌں۔۔۔
وہ جٌسے آسمان کو تصور مٌں التے ہوئے اپنے نبی (ﷺ) کا فرمان سنا رہی تھی۔
"کٌا والعی؟؟"
ہاں نا۔۔ٌہاں سو دو سو لوگ ہمٌں جاننے لگٌں ہمٌں فخر ہونے لگتا ہے ،اٌک بندہ ہمٌں محبت کرنے لگے تو ہم اس پر "
فدا ہونے لگتے ہٌں..سوچو اگر وہاں ہللا کی مخلوق ہمٌں جانتی ہو؟؟ پوری کائنات کا رب ہم سے محبت کرنے لگے تو
"ٌہی اصل خوشمسمتی ہے۔۔
"اسکے متعلك بھی اٌک بہت پٌاری حدٌث آتی ہے ،سناإں؟ ٌہ مت کہنا کہ آج تو فاطمہ شروع ہی ہو گئی ہے۔۔"
نہٌں فاطمہ ،بالکل بھی نہٌں ،مجھے تم سے بہت کچھ سٌکھنے کو ملتا ہے ،تم مجھے سارا دن بھی احادٌث سناتی رہو "
"مجھے تو ٌہی شرمندگی بہت ہے کہ مجھے اپنے دٌن کا ہی علم نہٌں ہے۔ infactگی تو مٌں سنتی رہوں گی،
!چلو سنو"
ہللا تعالی فرماتا ہے کہ جس نے مٌرے کسی دوست سے دشمنی کی اسے مٌری طرف سے اعالن جنگ ہے اور مٌرا ”
بندہ جن جن عبادتوں سے مٌرا لرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زٌادہ پسند نہٌں ہے جو مٌں نے
اس پر فرض کی ہے ( ٌعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہٌں جٌسے نماز ،روزہ ،حج ،زکوة ) اور مٌرا بندہ فرض ادا
کرنے کے بعد نفل عبادتٌں کر کے مجھ سے اتنا نزدٌک ہو جاتا ہے کہ مٌں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر
جب مٌں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں تو مٌں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے ،اس کی آنکھ بن جاتا
ہوں جس سے وہ دٌکھتا ہے ،اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے ،اس کا پاإں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلتا
ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو مٌں اسے دٌتا ہوں اگر وہ کسی دشمن ٌا شٌطان سے مٌری پناہ مانگتا ہے تو مٌں
اسے محفوظ رکھتا ہوں اور مٌں جو کام کرنا چاہتا ہوں اس مٌں مجھے اتنا تردد نہٌں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن
بندے کی جان نکالنے مٌں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلٌف جسمانی کے پسند نہٌں کرتا اور مجھ کو بھی اسے
تکلٌف دٌنا برا لگتا ہے۔
"کٌا ہوا؟؟"
ہاں بالکل ،دٌکھو جب کوئی شخص ہر دم آپکو خوش کرنے کے لٌے آپکی مرضی کے کام کرتا رہے ،آپکو خوشی "
ہوتی ہے نا ،آپکا دل اسکی طرف مائل ہونے لگتا ہے نا۔ پھر ٌہ تو ہمارا رب ہے بٌنش۔۔کوئی انسان اپنی مرضی سے
جب فرائض کے عالوہ اٌکسٹرا نٌک اعمال کرتا ہے صرف اس لٌے کہ "اسکا رب اس سے راضی ہوجائے" پھر ہللا
"اس انسان سے محبت کرنے لگتے ہٌں۔
"نوافل مٌں کٌا کچھ آجاتا ہے؟"
نوافل نمازٌں جٌسے تہجد ،اشراق ،چاشت ٌا جو بھی اٌکسٹرا نماز پڑھے انسان ،نفل روزے جٌسے سوموار اور "
جمعرات کا روزہ ،اٌام بٌض (اسالمی مہٌنے کی 15،14،13تارٌخ) کے روزےٌ ،ا جتنے بھی فضٌلت والے اٌام کے
روزے احادٌث مٌں بتائے گئے۔ نفل صدلات ،کسی کی مدد کرنا ،غرض ہر وہ نٌکی جو آپ پر کرنا واجب نہٌں مگر آپ
"'دل کی خوشی' سے صرف 'رب کی رضا' کے حصول کے لٌے کرو۔
"مگر فاطمہ۔۔۔"
"ہممم؟؟"
بہت سے لوگ دٌکھے ہٌں وہ اسطرح کے بہت اعمال کرتے مگر ان سے ہللا کی محبت کا رنگ نہٌں جھلکتا اور "
"اٌسے بھی دٌکھے جو ٌہ کام نہٌں کرتے مگر پھر بھی ان مٌں ہللا کی محبت نظر آتی ہےٌ ،ہ کٌا ماجرا ہے؟
بٌنش الجھی۔
دٌکھو بٌنش۔۔ اطاعت محبت کے بغٌر۔۔اور محبت۔۔اطاعت کے بغٌر۔۔۔ٌہ دونوں ہی نامکمل ہٌں۔ انسان تب مطلوبہ درجے "
ہر پہنچتا ہے جب اطاعت کے ساتھ ساتھ اس مٌں محبت کا پہلو بھی شامل ہوجائے۔ ٌہی مومن کا ممام ہے۔ محبت کرنے
والے صرف چند اعمال کرکے خوش نہٌں ہوتے پٌاری ،وہ تو ہر لمحہ اس رب کی ٌاد مٌں جٌتے ہٌں ،وہ تو خود کو ہر
پہلو سے محبوب کے لٌے سنوارتے ہٌں۔ کتنی بھی بڑی مشکل ہو وہ کبھی سوال نہٌں کرتے کہ مٌں ہی کٌوں؟ کتنی
بڑی نعمت ملے وہ کبھی خود کو کرٌڈٹ نہٌں دٌتے ،محبت کرنے والوں کی تو آنکھٌں چمکتی ہٌں۔۔ محبوب کی ٌاد مٌں
"دل دھڑکتے ہٌں
وہ اتنی خوبصورتی سے مسکرا کر سب کہہ رہی تھی کہ بٌنش کی آنکھٌں نم ہو گئٌں۔
اس بات پر فاطمہ نے اسکی طرف چونک کر دٌکھا اور ٌکاٌک لہمہہ لگاٌا۔۔
اچانک پٌچھے سے سسٹر لٌزا وارد ہوئی تو انکی بات کا تسلسل ٹوٹ گٌا۔
.مسزرٌان ،رٌان صاحب کے ساتھ مارکٌٹ سے کچھ ضروری سامان لٌنے گئی تھٌں
"...ٹک..ٹک...ٹک"
"بس ہو گٌا"
ٌہ کہتے ہوئے انھوں نے ڈرپ چٌک کی اور مسکراتے ہوئے باہر چلی گئٌں۔
"ھاھاھاھاھا"
ھاھاھا بس تمھارے انداز پر ہنسی آگئی۔۔۔برا نہ ماننا۔۔مذاق نہٌں اڑا رہی۔۔بس سارا ولت تم سسٹر لٌزا کو اٌسے بے "
"زاری سے دٌکھ رہی تھی کہ بس۔۔اس ولت تو ہنسی کنٹرول کٌے رکھی مگر اب بس ہو گئی۔۔ھاھاھا
وہ بھرپور انداز مٌں ہنس رہی تھی۔۔اسے دٌکھ کر بٌنش بھی مسکرا دی۔
اچھا چلو تم بتاإ مجھے۔۔کہ اس حدٌث کے درمٌانی حصے کا کٌا مطلب ہے؟ کہ ہللا اس انسان کا کان بن جاتے ،آنکھ "
"انسان کے اندر حلول کر جانا ،وحدت الوجود کا عمٌدہ تو کفرٌہ عمٌدہ ہے
فاطمہ بٌنش کی بات پر اٌسے چونک کر بولی تھی جٌسے اسے کرنٹ لگا ہو۔
اٹس اوکے ،دراصل خالك اور مخلوق کو انکے اپنے اپنے ممام پر رکھنا بہت ضروری ہے۔ بہت سے لوگ تو ٌہ کہتے "
ہٌں کہ ہللا ہر جگہ ہر چٌز مٌں ہے ،اسکا تو پھر ٌہ مطلب ہوا کہ وہ ان پتھر کے بتوں مٌں بھی موجود ہے جنکو
مشرکٌن پوجتے ہٌں؟ پھر تو شرک کا وجود ہی نہٌں اس سرزمٌن پر۔۔ دٌکھو مخلوق کبھی خالك نہٌں ہو سکتی۔۔ انسان
کبھی ہللا ٌا ہللا کا حصہ نہٌں ہوسکتا۔۔ حتی کہ رسول ہللا ﷺ کو بھی ہللا کے نور کا حصہ نہٌں کہنا چاہٌے۔ لرآن کہتا ہے
"کہ وہ بشر تھے۔ سورت الکھف کی آخری آٌت ( )110دٌکھ لو بے شک۔
اسکا ٌہ مطلب ہوا کہ جب ہللا کسی انسان سے محبت کرنے لگتے ہٌں تو اسکے ٌہ تمام اعضا (جنکا اس حدٌث مٌں "
ذکر ہے) سب ہللا کی مرضی کے مطابك استعمال ہونے لگتے ہٌں۔ انسان نافرمانی اور گناہوں کے کاموں سے بچنے
لگتا ہے۔ ہللا اس انسان کو خود شہوات اور گناہوں سے بچا بچا کر رکھتے ہٌں۔ اس کو چن کر اپنے لٌے خالص کردٌتے
ہٌں۔۔ جٌسے حضرت ٌوسف علٌہ السالم کو خالص کٌا تھا ،جٌسے انھٌں گناہ سے بچالٌا تھا۔۔
"ٌونہی ہوا تاکہ ہم اس سے برائی اور بے حٌائی دور کر دٌں۔ بٌشک وہ ہمارے چنے ہوئے بندوں مٌں سے تھا۔"
اور پھر اٌسے انسان کی ہر دعا لبول کرتے ہٌں۔ اس انسان کی تکلٌف بھی ہللا کو اچھی نہٌں لگتی اور تو اور ہللا اسکی
"موت کو بھی اس پر آسان کر دٌتے ہٌں۔
"واإ فاطمہ"
بٌنش کا منہ حٌرت سے کھال کا کھال رہ گٌا تھا۔
کتنا بڑا آنر ہے نا بٌنش؟ کہ کائنات کا رب ،اس حمٌر انسان سے اٌسے محبت کرے۔۔ کتنی بڑی سعادت ہے ٌہ۔۔ دنٌا کی "
"جنت تو ٌہ ہے۔۔
)اے ہللا مٌں آپ سے آپکی محبت کا سوال کرتی ہوں اور اس شخص کی محبت کا جو آپ سے محبت کرتا ہو(
_______
.جاری ہے
لسط46 #
وہ بٌڈ پر ٹٌک لگائے بٌٹھی خاموشی سے ہاسپٹل روم کی کھڑکی سے باہر کا نظارہ کر رہی تھی۔ کھڑکی سے باہر بہت
بڑا الن تھا۔ جہاں چھوٹے چھوٹے سنہری بالوں والے بچے بال (گٌند) سے کھٌل رہے تھے۔ اسکا دل کٌا کہ وہ بھی
انکے ساتھ جا کر کھٌلے۔ کسی بچے کے سنہری رٌشمی بالوں مٌں پٌار سے ہاتھ پھٌرے ،کسی کی نازک گالبی گال
کھٌنچے ،مگر وہ اٌسا کرنے سے لاصر تھی۔ کچھ دٌر وہ انکے بھاگنے دوڑنے سے مسکراتے ہوئے محظوظ ہوتی
رہی۔ مگر ٌکاٌک ان مٌں سے اٌک سرخ شرٹ پہنے ،خوبصورت سا ،نٌلی آنکھوں اور گالبی گالوں واال بچہ ٹھوکر کھا
کر منہ کے بل نٌچے گر پڑا ،گرنے کی دٌر تھی کہ اس نے رونا شروع کر دٌا۔ اسکے منہ سے خون بہنے لگا تھا،
جٌسے وہ رو رہا تھا فاطمہ کا جی چاہا کہ بھاگ کر جائے اسے اٹھا لے ،اسکی تکلٌف فاطمہ کو اذٌت دے رہی تھی۔
اتنے مٌں کہٌں سے اسکی ماں دوڑتی ہوئی آئی اور اسے چوم کر اٹھانے لگی۔
وہ ماں اپنے بچے کے درد پر تڑپ اٹھی تھی ،فورا ً سے ٹشو پٌپر سے اسکا خون صاف کرنے لگی ،کبھی اسکے
کپڑے جھاڑتی تو کبھی اسکے آنسو صاف کرتے ہوئے اسکا چہرہ چومتی۔
فاطمہ ٌہ سارا منظر بہت غور سے دٌکھ رہی تھی۔
"ٌہ تو اٌک ماں کا حال ہے ،مٌرا رب اپنے بندوں سے کتنی محبت کرتا ہوگا۔۔"
نظرٌں بدستور ان بچوں پر ہی جمی ہوئی تھٌں جو کہ اب گرنے والے بچے کے گرد دائرہ بنا کر بٌٹھے اسے حوصلہ
دے رہے تھے۔
"ہللا۔۔۔ٌہ بھی تو آپکے بندے ہٌں نا ،ان مٌں سے کتنے بچے مسلمان ہوں گے؟"
شاٌد کوئی بھی نہ ہو۔۔ہللا اکبر۔۔شاٌد انکے والدٌن نے کبھی اسالم کو جاننے کی بھی کوشش نہ کی ہو؟ ہللا۔۔۔اگر انھوں "
نے اٌسے ہی غفلت مٌں ،حك کو جاننے کی کوشش کٌے بغٌر ،اپنے اندر کی تالش کو دنٌا کی رنگٌنٌوں مٌں خود کو
"ضائع کردٌا۔۔ ہللا انکو اٌسے ہی موت آ گئی؟ اٌمان الئے بغٌر؟؟ ہللا اکبر۔۔۔۔۔۔
ہللا اگر ان سب نے اسالم لبول نہ کٌا۔۔آپکو ،اپنے خالك کو ،واحد نہ مانا۔۔رسول ہللا ﷺ کو آخری پٌغمبر نہ مانا۔۔۔تو ٌہ تو "
تباہ ہو جائٌں گے؟؟
"ہللا۔۔۔حك سے دوری۔۔۔جہنم۔۔۔آگ۔۔۔ہللا اکبر!! وہ تکلٌف اور اذٌت کٌسے برداشت کرٌں گے؟؟
اس کے سر مٌں درد کی شدٌد لہر دوڑی۔۔ آنکھوں سے سٌالب رواں ہو چکا تھا۔
کاش ہللا۔۔۔کاش مٌں انھٌں جھنجھوڑ کر بتا سکتی۔۔ کہ حك جان لو۔۔اپنے اندر کی آواز سن لو۔۔اپنے رب کو ،اس دنٌا مٌں "
"آنے کے ممصد کو پہچان لو۔۔کاش ہللا!! مٌں انھٌں جہنم سے بچا سکوں۔۔
اذٌت اسکی آنکھوں سے ٹپک رہی تھی۔۔دل درد سے ٹرپ اٹھا تھا۔
کتنے غافل ہو گئے ہٌں ہللا اپنی ذمہ داری سے ہم مسلمان۔۔ہمٌں تو پتہ بھی نہٌں ہے کہ کتنا بڑا جرم کررہے ہٌں ہم۔۔۔ہم "
نے تو دوسروں کی آخرت کی فکر کرنا تھی ،مگر ہم اپنی دنٌا بنانے مٌں مگن ہوگئے۔۔کٌسے سامنا کرٌں گے ہللا
"آپکا؟؟
کچھ عرصہ پہلے فٌسبک پر پڑھی الئنز نے اسکی اذٌت مزٌد بڑھا دی تھی۔
کبھی کبھی اسے لگتا تھا کہ ذمہ داری کا ٌہ بوجھ اسکے کندھے توڑ دے گا۔ اسکا جی چاہتا تھا وہ خود کو گھال دے
اس دٌن کے لٌے ،اپنی ہر ہر صالحٌت اپنے رب کے دٌن کے لٌے لگا دے ،رب کے بندوں کو رب سے جوڑتے
جوڑتے رب سے جاملے۔۔ ٌہاں تک کہ جب وہ اپنے رب سے ملے تو۔۔۔۔۔۔
اسکا رب اسے مسکرا کر محبت سے دٌکھے۔۔
اور کہے۔۔۔۔۔۔
!!مٌرے بندوں کو مٌری معرفت ،مٌری محبت کی طرف بالنے والی پٌاری لڑکی"*
اور ٌہ سنتے ہی اسکا دل۔۔۔۔۔محبت سے لبرٌز ہو جائے۔۔۔۔۔اس کا سر رب کے آگے سجدے مٌں گر جائے۔۔۔
اور اس سجدے مٌں۔۔۔۔۔۔۔وہ سسک سسک کر روئے۔۔
کہ۔۔۔
اسکے آنسو سسکٌوں کے ساتھ تٌزی سے رواں ہو چکے تھے۔ٌکاٌک اس نے سر موڑ کر گھڑی کی طرف دٌکھا۔
سسٹر لٌزا کے آنے کا ٹائم ہونے واال تھا۔ اس نے دونوں ہاتھوں سے آنکھٌں صاف کٌں اور سائڈ ٹٌبل پر پڑے اپنے
لرآن کی طرف۔۔ پرعزم نگاہ سے دٌکھا۔
ہاں اسے کچھ تو کرنا ہی تھا۔
اس دٌن کے لٌے۔۔
اسکے بندوں کو جہنم سے بچانے کے لٌے۔۔
............................................
سسٹر لٌزا نے ہمدردانہ انداز مٌں پوچھا۔ جبکہ فاطمہ سر جھکائے لرآن کی تالوت مٌں مگن تھی۔
ٌہ شام کا ولت تھا۔ اسے ہاسپٹل مٌں اٌڈمٹ ہوئے تٌن ہفتے گزر چکے تھے۔ مسز رٌان اسی روم مٌں سائڈ پر پڑے
صوفے پر سو رہی تھٌں۔ ٌمٌنا ً وہ بہت تھک چکی تھٌں ،اپنے گھر کا سکون تو پھر اپنے گھر کا ہی ہوتا ہے۔
"جی؟"
فاطمہ نے فورا ً سے اپنے آنسو صاف کٌے۔ شاٌد وہ اسے نہٌں دکھانا چاہتی تھی۔
"جی جی الحمدہلل۔"
الحمدہلل کہتے ہی اسے ٌاد آٌا کہ وہ تو کرسچن ہے ،پتہ نہٌں اس لفظ کو سمجھتی بھی ہے ٌا نہٌں۔
فاطمہ نے نم آنکھوں سے مسکراتے ہوئے لرآن کو بند کر کے اس پر ہاتھ پھٌرتے ہوئے کہا۔
"مٌسج؟"
"جی۔۔ ممدس اور پاکٌزہ کتاب۔۔ مگر ٌہ صرف ہماری نہٌں ہے۔"
"نہٌں ہے؟ کٌا کہتے ہٌں اسے۔۔۔ لور۔۔۔لووررون؟ holy bookمٌں سمجھی نہٌںٌ ،ہ مسلمز کی"
جی جی۔۔ ٌہ لرآن ہی ہے۔ مگر ٌہ صرف مسلمز کی کتاب نہٌں ہے۔ اس کا مٌسج صرف مسلمز کے لٌے نہٌں ہے۔ بلکہ "
"ہر انسان کے لٌے ہے۔ مٌرے لٌے بھی آپکے لٌے بھی۔۔
پہلے تو سسٹر لٌزا کو فاطمہ کے لرآن کی تالوت کے دوران رونے نے حٌرت مٌں ڈاال ہوا تھا۔ اب اوپر سے اسکے
!!لٌے ٌہ نٌا جھٹکا۔۔
اس نے مسکرا کر پوچھا تو سسٹر لٌزا نے سوالٌہ نظروں سے اسکی طرف دٌکھا۔
کٌونکہ ٌہ اس کی طرف سے ہے جس نے مجھے اور آپکو پٌدا کٌا ،جو ہمارا خالك ہے ،مالک ہے۔ جس نے ہمٌں اس "
اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ شاٌد وہ ٹاپک چٌنج کرنا چاہتی تھی۔
سسٹر لٌزا۔۔ جب مٌں لرآن پڑھتی ہوں نا۔۔ تو مٌرا دل تشکر کے جذبات سے بھر جاتا ہےٌ ،ہ سات آسمانوں کے پار "
سے آٌا کالمٌ ،ہ الفاظ جنھٌں حضرت جبرائٌل علٌہ السالم نے پڑھ کر سناٌا ،جو رسول ہللا ﷺ کی زبان سے نکلے ،جب
"مٌں دٌکھتی ہوں کہ مٌں انھٌں چھو سکتی ہوں ،پڑھ سکتی ہوں ،مجھے بے تحاشہ رونا آتا ہے۔۔
"ہے۔
"سے بہت محبت کرتے ہٌں۔ ) (Prophet Jesusہم بھی اپنے پرافٹ جٌزز"
سسٹر لٌزا نے مسکرا کر کہا گوٌا وہ بھی اپنی محبت کا اظہار کررہی تھی۔
ان سے مجھے بھی بہت محبت ہے ،مٌرا بہت دل کرتا ہے کہ مٌں انھٌں دٌکھوں جب وہ لٌامت کے لرٌب دوبارہ دنٌا "
"مگر۔۔"
ابھی سسٹر نے کچھ کہنے کے لٌے لب کھولے ہی تھے کہ رٌان صاحب خوشگوار موڈ مٌں دروازے پر دستک دٌتے
ہوئے کمرے مٌں داخل ہوئے۔
"وعلٌکم السالم ورحمت ہللا بابا۔۔ الحمدہلل مٌں فٹ۔۔مٌں نے آپکو بہت مس کٌا۔"
مٌں تو خود سارا دن بس اپنی بٌٹی کو مس کرتا رہا سوچتا تھا کہ کال کروں مگر کام کافی زٌادہ تھا اس لٌے ولت نہٌں "
"مال۔
اب وہ فاطمہ کے سرہانے کھڑے اسکے سر پر ہاتھ پھٌر رہے تھے۔ پاکستان سے آنے کے بعد اب تٌن ہفتوں کے بعد
انھوں نے جاب پر جانا شروع کر دٌا تھا۔
ٌہ کہتے ہوئے سسٹر لٌزا جانے کے لٌے مڑی ،اسے شاٌد باپ بٌٹی کی کنورسٌشن مٌں مداخلت کرنا اچھا نہٌں لگا اس
لٌے فاطمہ کو الوداعی کلمات کہنے لگی۔
"تھٌنک ہو سسٹر۔۔ آپ کو کچھ آئڈٌا ہے کہ ہماری بٌٹی کو ہاسپٹل سے کب چھٹی مل جائے گی؟"
"تٌن ہفتے ہوگئے ہٌں بابا اس رووم مٌں ،اس بٌڈ پر۔۔"
فاطمہ نے اداس لہجے مٌں مداخلت کی۔
امٌد ہے کہ دو ہفتوں تک ،ہم چاہتے ہٌں کہ ہم انھٌں اس ٌمٌن دہانی کے ساتھ بھٌجٌں کہ ٹرانسپالنٹٌشن کامٌاب رہی "
"ہے۔
"ہللا اکبر!! ٌعنی مزٌٌٌٌٌٌد دووو ہفتےےےے وووہ بھی اسی بٌڈ پرررررر؟؟؟"
فاطمہ نے حٌرت سے آنکھٌں پھاڑ کر دٌکھتے ہوئے نہاٌت مزاحٌہ انداز مٌں اونچی آواز سے کہا۔
ٌہ سن کر رٌان صاحب اور سسٹر لٌزا کا لہمہہ نکال۔
...................................
"آپ نے مٌری اتنی ہٌلپ کی ،ورنہ ان دو ہفتوں مٌں تو مٌں نے مزٌد بٌمار ہو جانا تھا۔"
انھوں نے مسکراتے ہوئے فاطمہ کو دٌکھتے ہوئے کہا جو مکمل پردے مٌں لپٹی انکے ساتھ فرنٹ سٌٹ پر بٌٹھی تھی۔
آج دو ہفتے بھی گزر چکے تھے ،فاطمہ کو ہاسپٹل سے ڈسچارج کردٌا گٌا تھا۔ ڈاکٹرز کے بمول فاطمہ کی
ٹرانسپالنٹٌشن سرجری کامٌاب رہی تھی۔ انھٌں امٌد تھی کہ اب فاطمہ جلد ازجلد مکمل طور پر صحت ٌاب ہو جائے گی۔
اسکے والدٌن کو بھی ٌہی ٌمٌن تھا ،اس لٌے آج سب بہت خوش تھے۔
وٌسے بھئی ہمت ہے تاٌا جان آپکی بٌٹی کی ،اٌسی حالت مٌں بندے کا کچھ کرنے کو دل نہٌں کرتا ،مگر ان صاحبہ "
اس نے مڑ کر بٌنش کو مسکراتے ہوئے جواب دٌا جبکہ پٌچھے بٌٹھے لوگ اسکی مسکراہٹ اسکے نماب کے پٌچھے
سے دٌکھ نہٌں پائے تھے ،البتہ بٌنش نے اسکی آنکھوں کی چمک کو واضح طور پر محسوس کر لٌا تھا۔
"اب جلد ہی ان شاءہللا مٌں خودٌ ،ہاں کے لوگوں مٌں اسے بانٹوں گی۔"
اس نے پر عزم نگاہوں سے گاڑی کی کھڑکی سے آسمان کی طرف دٌکھتے ہوئے کہا۔ بالی سب اسکی بات پر مسکرا
کر رہ گئے۔
.....................................
فاطمہ اپنے رووم مٌں ،بٌڈ پر بٌٹھی ،بہت محبت سے اپنے ہاتھوں سے کمپوز کٌے ہوئے بک لٌٹس اٌک بڑے سے بٌگ
مٌں ترتٌب سے رکھ رہی تھی۔ گھر آنے کے اٌک ہفتے بعد سٌنکٹروں کی تعداد مٌں وہ بک لٌٹس پرنٹ ہو کر آگئے
تھے ،وہ نہاٌت خوبصورت اور جامع تھے ،جن مٌں فاطمہ نے عمٌدہ توحٌد کو لرآن و حدٌث کے دالئل کے ساتھ بٌان
کٌا تھا۔
اس نے عزم کر لٌا تھا کہ ٌہ تمام بک لٌٹس کٌنٌڈا مٌں بانٹے بغٌر پاکستان نہٌں جائے گیٌ ،ہ اسکی فانی زندگی کی پہلی
بالی رہنے والی کمائی بننے جا رہے تھے۔
"فاطمہ مٌرا بہت دل تھا کہ مٌں آپ سے مزٌد باتٌں کرتی مگر مٌری مجبوری ہے کہ مجھے جانا پڑ رہا ہے۔"
کوئی بات نہٌں۔۔ اس مٌں بھی رب کی کوئی حکمت ہو گی ،ان شاءہللا اگر اس نے چاہا تو ہم دوبارہ ملٌں گے۔ مٌرے "
"جانے سے پہلے اگر آپ واپس نہ آئٌں تو مٌں آپکے لٌے ٌہاں گفٹ چھوڑ کر جاإں گی ،آپ لے لٌجئٌے گا۔
بہت خوبصورتی سے پٌک کرنے کے بعد وہ اسکی امانت وہٌں چھوڑ آئی تھی ،اسے امٌد تھی کہ وہ جلد اس سے
دوبارہ ملے گی۔
اس نے خٌالوں کو جھٹکتے ہوئے ،بک لٌٹ کے بلٌک سموتھ ٹائٹل پٌج پر لکھے سنہری چمکتے حروف کو چھوتے
ہوئے سوچا۔
اور چند بک لٌٹ نکال کر اپنے بٌڈ کی سائڈ ٹٌبل پر رکھ دئٌے۔
.....................................
لرةالعٌن اور شہرٌار دونوں بہت خوش تھے ،انکی شادی کو دو ماہ گزر چکے تھے۔ دو ماہ بعد ان دونوں کا عمرے
کے لٌے روانہ ہونے کا پالن تھا۔
لرة العٌن لمحہ لمحہ شکر ادا کرتی رہتی تھی کہ اسکے رب نے اسے بہترٌن سے نوازا تھا۔ شہرٌار کو دٌن سٌکھنے کا
بہت شوق تھا۔ اس نے شادی کے پہلے ہی ہفتے بہت عاجزی سے لرةالعٌن سے تجوٌد و تفسٌر سٌکھنا شروع کردی
تھی۔ ان دونوں کے دن کا آغاز ہی رب کی محبوب نماز ،تہجد سے ہوتا تھا۔ وہ دونوں اٌک دوسرے کو تہجد کے لٌے
اٹھاتے اور رب کی رحمتٌں سمٌٹتے تھے۔
رسول ہللا ﷺ نے اس شخص کے لٌے رحمت کی دعا کی ہے۔ جو رات کو اٹھا ،پھر نماز تہجد ادا کی اور اپنی بٌوی کو
جگاٌا پھر اس نے بھی نماز پڑھی اور اگر اس نے انکار کٌا تو اس کے منہ پر پانی کے چھٌنٹے مارے۔ ہللا تعالی اس
عورت پر رحم کرے جو رات کو اٹھی اور نماز پڑھی خاوند کو جگاٌا اس نے بھی نماز پڑھی اگر اس نے انکار کٌا تو
''اس کے منہ پر پانی کے چھٌنٹے مارے۔
کٌوں نہ انکی زندگی برکتوں اور رحمتوں سے بھرتی جبکہ وہ دونوں مل کر ہر لدم پر ہللا اور اسکے رسول ﷺ کی
اطاعت کو ترجٌح دٌا کرتے تھے۔ اٌمان کا ساتھی ملنا ،جنت کی راہ پر روح کا ساتھی مل جانا ،کسی نعمت سے کم نہٌں
تھا۔
آج بھی روز کی طرح ،اٌک حسٌن صبح تھی۔
لرة العٌن ڈرٌسنگ ٹٌبل کے سامنے کھڑے شہرٌار کو اسکی ضرورت کی چٌزٌں اٹھا کر دے رہی تھی کہ ٌکاٌک اسکا
فون بجا۔
اس نے پرفٌوم شہرٌار کے ہاتھ مٌں تھماتے ہوئے کہا اور بٌڈ کی طرف آئی جہاں اسکا فون پڑا تھا۔
اسکی لرزتی آواز سن کر ،شہرٌار فورا ً سے لرة العٌن کی طرف لپکا۔
لرة العٌن کی آنکھٌں بہہ رہی تھٌں۔ وہ منہ پر ہاتھ رکھے پرٌشانی کے عالم مٌں کھڑی تھی۔
"ہللا اکبر۔۔"
..............................
.جاری ہے
ام ہرٌر✒
آج وہ بہت خوش تھی۔ اس نے اپنے ہاتھوں سے کمپوز کٌے ہوئے بک لٌٹس اٌک بڑے سے بٌگ مٌں ساتھ رکھ لٌے
تھے۔
"فاطمہ! وٌسے ڈاکٹر نے کہا ہے کہ ابھی تم خود پر لوڈ نہ دو کسی بھی لسم کا۔"
"ہے بھئی۔
"ہاں مگر پھر بھی۔۔ وٌسے ماشاءہللا بہت خوش ہٌں نا جناب۔"
بٌنش نے گاڑی سٹارٹ کرتے ہوئے فاطمہ کی آنکھوں مٌں جھانکا۔ خوشی کی چمک اسکے چہرے پر عٌاں تھی۔
"تمھٌں پتہ ہے ،جب مٌں ٌہاں آ رہی تھی ،مٌں نے پلٌن (جہاز) مٌں ہللا سے اٌک وعدہ کٌا تھا۔"
"وہ کٌا؟"
وہ ٌہ کہ۔۔ جو اس خوبصورت دٌن اور لرآن کی نعمت مجھے مٌرے رب نے دی ہے ،مٌں اسے دوسروں تک پہنچانے "
"کی کوشش کروں گی۔ جو مٌں نے دٌکھا ہے مٌں اسے دوسروں کو بھی دکھاإں گی ان شاءہللا۔
بٌنش نے مسکراتے ہوئے ٌہ شعر پڑھاٌ ،مٌنا ً اسے شاعری پسند تھی۔
بالکل بالکل! اب مٌرا ٌہ وعدہ پورا کرنے کا ولت آگٌا ہے۔ ٌہ مٌری زندگی کا پہال ٹارگٹ ہے جو مٌں نے ہللا کے دٌن "
"کی خدمت کے لٌے سٌٹ کٌا ہے ،تم دعا کرنا کہ ہللا اسے بخوبی پورا کروا لٌں۔
اس نے مسکرا کر کہا ،نظرٌں گاڑی کے شٌشے سے باہر سڑک پر آتی جاتی گاڑٌوں پر تھٌں۔
"اور مٌرا حصہ بھی اس مٌں شامل کر لٌں۔"
"آمٌن آمٌن! تم نے تو اس کام مٌں بہت ساتھ دٌا ہے بٌنش الحمدہلل۔ ہللا تمھٌں ڈھٌروں اجر دٌں گے ان شاءہللا۔"
ان شاءہللا! اور تو کوئی نٌکی نہ ہو شاٌد ،مگر مجھے ٌمٌن ہے کہ ٌہ نٌکی ضرور مٌرے نامہ اعمال مٌں شامل ہو "
"گی۔
:ہللا نے تو فرماٌا
اور جن لوگوں نے ہماری خاطر بھرپور کوشش کی ،انہٌں ٌمٌنا ً ہم ضرور اپنے راستے دِکھائٌں گے اور بالشبہ ٌمٌنا ً ہللا "
رستہ اسکے لٌے بھی بناٌا جا چکا تھا۔ اٌک بہت بڑا کام اسکے ہاتھوں سرانجام ہونے واال تھا ،جسکے نتائج سے وہ
خود بھی انجان اور بے نٌاز تھی۔
............................................
مٌں اسی لٌے اس گھر مٌں اس لڑکی کی شادی نہٌں کرنا چاہتی تھی۔ حد ہو گئی ہےٌ ،ہی کام کرنے کے لٌے تم نے ٌہ "
"شادی رچائی تھی؟ او مائی گاڈ! آجکا دن دٌکھنے کے لٌے مٌں نے تمھٌں پٌدا کٌا تھا؟
مسز فارولی نے آج چال چال کر سارا گھر سر پر اٹھاٌا ہوا تھا۔ تمام سرونٹس (مالزمٌن) کچن مٌں کھڑے ہو کر باتٌں
سن کر آنکھوں ہی آنکھوں مٌں اشارے کر رہے تھے۔
مٌں تو تمھٌں پہلے ہی کہتا تھا ،مگر تمھارے سر پر بھوت سوار تھا ،اکلوتی بٌٹی کی محبت کا۔۔ دٌکھ لو اب ان آوارہ "
"!!محبتوں کا انجام۔۔
فارولی صاحب نے اضافہ کٌا۔ انکا بی پی ہائی ہو رہا تھا۔ انھٌں لطعا ً ٌہ امٌد نہ تھی کہ نازوں مٌں پلی بٌٹی آج ٌوں انکا
سر شرمندگی سے جھکا دے گی۔
مجھے بتاإ مٌں لوگوں کو کٌا منہ دکھاإں گی؟ کہ مٌری بٌٹی مالنی بن گئی ہے؟ کہاں زونی لوگ تمھاری فٌشن سٌنس "
کی مثالٌں دٌتے نہٌں تھکتے تھے ،تمھٌں فٌشن کے معاملے مٌں فالو کرتے تھے ،آج تمھٌں اس حال مٌں دٌکھ لٌا تو
"دوسری بار دٌکھنا گوارہ نہٌں کرٌں گے۔
اگر تم نے اسی حلٌے مٌں اس گھر مٌں آنا ہے تو تمھارے لٌے اس گھر کے دروازے آج سے بند ہٌں۔ سمجھ آٌا "
"تمھٌں؟
مسز فارولی اس پر دوبارہ سے چالئٌں۔
آنکھوں سے آنسو نکال جو چہرے پر سجے نماب مٌں کہٌں جذب ہوگٌا۔ اس نے جھکی نگاہوں سے ہی خود کو اوپر
سے نٌچے تک دٌکھا۔
مکمل پردہ ہی تو شروع کٌا تھا۔ اٌک اٌکسٹرا کپڑا ہی تو اوڑھا تھا۔ کٌا ٌہ والعی اتنا بڑا جرم بن چکا تھا؟ اب تو اسکی
شادی بھی ہو چکی تھی۔ پھر کٌوں اتنا واوٌال کٌا جا رہا تھا؟ صرف اس وجہ سے کہ۔۔۔کہ۔۔۔لوگوں کا ڈر ،لوگوں کی
باتٌں ،معاشرے کا خوف ،اوالد کی آخرت کی محبت سے اوپر آ چکا تھا؟ ہللا کے خوف سے زٌادہ۔۔لوگوں کا خوف دل
مٌں رکھ کر معاشرے کو ہللا کا شرٌک ٹھہراٌا جا رہا تھا؟ کٌا والعی ٌہ مسلمان تھے؟ ہاں! مگر صرف نسلی۔ نسلی
مسلمان ہی تو اٌسا ہوتا ہے ،بس دٌن کا ٹٌگ لگا ہو ساتھ ،بالی پسند ناپسند کے معاملے مٌں ترجٌح ہللا کو تھوڑی دی
جاتی ہے۔۔ معاشرے کو دی جاتی ہے!! وہی کرنا ہے جس سے لوگ خوش ہوں ،ان سے واہ واہ ملے ،ان کاموں سے
بچنا ہے جن سے لوگ ناراض ہوں۔۔ ہللا کہاں تھا اس سب مٌں؟ دٌن کے احکامات کا کتنا علم تھا؟ دٌن بھی بس نماز
روزہ کی حد تک؟ بس دکھ کے مولع پر وظٌفے کرنے کی حد تک؟ معبود کون تھا پھر؟ اطاعت کس کی کی جا رہی
تھی؟ ڈر کس کا زٌادہ تھا پھر؟ کس کی ناراضگی کا خوف کچھ کرنے نہٌں دے رہا تھا؟
ہمارا تو ڈر ہی بس لوگ بن چکے ،جٌسے ان لوگوں نے ہی ہماری آخرت کا فٌصلہ کرنا ہو۔
ٹھٌک کہہ رہی ہٌں تمھاری مام۔ اس ملوانی کے روپ مٌں آنا ہے تو اس گھر مٌں تمھاری کوئی جگہ نہٌں ،وہ رہا "
"تمھارا کمرہ۔
زونٌشہ کو جھٹکا لگا جبکہ فارولی صاحب نے زونٌشہ کے کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا ،جو شادی سے
پہلے اسکا ہوا کرتا تھا۔
جاإ ادھر اور اسے اتار دو ،ورنہ جس رستے سے آئی ہو وہٌں پلٹ جاإ اور دوبارہ کبھی اس گھر مٌں مت آنا۔ چوائس "
"تمھاری ہے۔
زونٌشہ کی آنکھٌں حٌرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئی تھٌں۔ وہ کبھی نم آنکھوں سے اپنے کمرے کی طرف دٌکھتی تو
!!کبھی اپنے مام ڈٌڈ کی طرف
پردہ کر کے پہلی بار وہ اپنے مٌکے آئی تھی۔ اور وہ بھی اپنے ہونے والے بے بی کی گڈنٌوز دٌنے۔ تو کٌا۔۔کٌا ٌہ
آخری بار ٌہاں آنا تھا؟
مسز فارولی نے اٌک ہاتھ سے کمرے کی طرف اشارہ کٌا اور دوسرے ہاتھ سے الإنج کے خارجی دروازے کی طرف۔
تمام سرونٹس آنکھٌں پھاڑے کبھی ان کی طرف دٌکھتے تو کبھی اٌک دوسرے کی طرف۔
زونٌشہ نے لمبا سانس کھٌنچا اور دائٌں طرف اپنے کمرے کی طرف رخ موڑا ،نہاٌت حسرت سے اپنے کمرے کی
طرف دٌکھا اور کچھ لمحوں کے لٌے آنکھٌں بند کر لٌں۔ بند آنکھوں سے جو آنسو نکلے ،انھٌں اسکے رب کے سوا
کوئی نہ دٌکھ سکا۔
فارولی صاحب نے اپنا اٌک ابرو اٹھا کہ طنزٌہ مسکراہٹ سے مسز فارولی کی طرف دٌکھا۔ جٌسے وہ جٌت گئے ہوں
اور ہللا کی بندی نے ہار مان لی ہو۔
زونٌشہ بھاری آواز سے سالم کرتے ہوئے ،واپس اپنے لدموں پر پلٹی اور منہ پر ہاتھ رکھتے ہوئے خارجی دروازے
سے باہر نکل گئی۔
جبکہ پٌچھے دونوں مٌاں بٌوی حٌرت کی تصوٌر بنے پھٹی آنکھوں سے کبھی اٌک دوسرے کو دٌکھتے تو کبھی اس
بڑے سے دروازے کو ،جو انھوں نے خود اپنی بٌٹی کے لٌے بند کردٌا تھا۔
زونٌشہ تٌزی سے باہر کی طرف بھاگتی ہوئی اپنی گاڑی مٌں جا بٌٹھی۔
بٌگ ساتھ والی سٌٹ پر رکھ کر گاڑی کا درواز بند کٌا۔
اور چہرے پر ہاتھ رکھ کر سسکٌاں لے لے کر رونے لگی۔
ٌہ کٌا ہو گٌا تھا اس سے؟
کٌا وہ والعی اس گھر مٌں دوبارہ نہٌں آئے گی؟
اسکا سانس لٌنا دشوار ہو رہا تھا۔ اسکا دل کٌا کہ چٌخ چٌخ کر روئے ،آنکھوں مٌں لگا کاجل بہہ چکا تھا۔
اس نے روتے ہوئے ،ٹشو نکالنے کے لٌے اپنا بٌگ اٹھاٌا۔
ابھی کھوال ہی تھا کہ اس بٌگ مٌں چھوٹی سی گولڈن کلر کی ڈائری نظر آئی۔
نظروں کے سامنے کئی سٌن گھوم گئے۔
"ٌہ مٌری طرف سے اٌک چھوٹا سا گفٹ ہے تمھارے لٌے ،تمھٌں اس کی ضرورت پڑے گی ان شاءہللا۔"
اس ڈائری مٌں ،مٌری زندگی کے بہت اہم سبك ہٌں۔ وہ آٌات ،وہ باتٌں جو مجھے ہمت دٌتی ہٌں۔ مٌں نے تمھارے لٌے "
فاطمہ نے ائٌرپورٹ پر گلے ملنے کے بعد اسے ٌہ ڈائری گفٹ کی تھی۔ جسے زونٌشہ نے کھولے بغٌر ہی بٌگ مٌں
رکھ دٌا تھا۔ آج وہ اچانک اسکی نظروں کے سامنے آئی تھی۔ اسی ولت ہی کٌوں؟ فاطمہ کو کٌسے پتہ تھا کہ مجھے
اسکی ضرورت ہو گی؟ اسے اتنا ٌمٌن کٌسے تھا؟
اسکے ذہن مٌں طرح طرح کے سوال اٹھنے لگے۔
"حسٌن منزل۔۔۔۔۔"
ٌہ کہتے اس نے سسکٌاں لٌتے ہوئے اپنا سر سٹئٌرنگ پر رکھ دٌا اور کتنی ہی دٌر اٌسے روتی رہی۔
........................................
شہرٌار نے پوچھا۔
وہ صبح اٹھٌں نہٌں۔ مٌں نماز پڑھ کر آٌا تو سوئی ہوئی تھٌں ،ورنہ عموما ً وہ اس ولت جائے نماز پر ہوتی ہٌں۔ مٌں "
انکے پاس انھٌں جگانے کے لٌے گٌا کہ انکی نماز لضا نہ ہوجائے تو دٌکھا۔۔ کہ انکے ناک سے بلڈ نکل رہا ہے۔ بار
"بار اٹھانے پر بھی وہ نہٌں اٹھٌں تو مٌں انھٌں ہاسپٹل لے آٌا۔
پہلے تو انھٌں سمجھ نہٌں آٌا کہ کٌا ہوا ہے ،مگر ٹٌسٹ کٌے تو پتہ چال کہ برٌن مٌں کوئی وٌن برسٹ ہوئی ہے۔ انھوں "
معاذ کی آنکھ سے آنسو نکل کر ہسپتال کے سنگ مرمر کے فرش پر پھسل گٌا۔
جبکہ لرة العٌن ابھی تک بس رو رہی تھی۔
"حوصلہ رکھو مٌرے بھائی! ہللا ہٌں نا؟ ان شاءہللا وہ ٹھٌک کردٌں گے سب۔"
"ہللا تعالی انھٌں اپنی امان مٌں رکھٌں اور خٌر و عافٌت سے باہر لے کر آئٌں۔"
................................
..جاری ہے
ڈاکٹر کو باہر آتا دٌکھ کر شہرٌار تٌزی سے انکی طرف لپکا جبکہ پٌچھے معاذ اور لرة العٌن بھی اسکی طرف بڑھے۔
"سوری سر! ہم انھٌں بچا نہٌں پائے ،انھٌں ٌہاں آنے مٌں دٌر ہوگئی تھی۔ شاٌد ہللا نے انکی زندگی اتنی ہی رکھی تھی۔"
ٌہ کہتے ہوئے ڈاکٹر معاذ کے کندھوں پر تھپکی دٌتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ جبکہ وہ اور لرة العٌن بت بنے سکتے کے
عالم مٌں بے ٌمٌنی سے اٌک دوسرے کو دٌکھ رہے تھے۔ جٌسے وہ سب خواب تھا ،ڈراإنا خواب۔۔ جسکے ٹوٹنے کا وہ
اندر ہی اندر انتظار کر رہے تھے۔
معاذ نے پلٹ کر اٌمرجنسی وارڈ کے دروازے کی طرف دٌکھا ،شاٌد کوئی آکر ٌہ خبر سنا دے کہ۔۔۔ نہٌں انھٌں کچھ
نہٌں ہوا ،وہ بالکل ٹھٌک ہٌں۔ وہ ابھی اس اٌک اور آخری شفمت بھرے سائے سے محروم نہٌں ہوئے۔ انکی امی انھٌں
اٌسے اس سفاک دنٌا مٌں اکٌال کٌسے چھوڑ کر جا سکتی تھٌں؟
کتنی ہی دٌر وہ دونوں بہن بھائی خاموش اسی جگہ جم کر کھڑے رہے تھے۔ ولت جٌسے انکے لٌے تھم چکا تھا۔
شہرٌار کبھی معاذ کو حوصلہ دٌتا تو کبھی لرةالعٌن کو ،مگر وہ دونوں ہر اٌک سے بے نٌاز وہٌں خاموش کھڑے تھے۔
"ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو بابا گئے تھے۔ کٌا والعی ہللا نے امی کو اپنے پاس بال لٌا ہے؟"
"مٌں نے تو۔۔ شادی کے بعد انکے ساتھ ولت بھی نہٌں گزارا تھا۔ وہ مجھے بتائے بغٌر کٌسے چلی گئٌں؟"
معاذ کے پاس اسکے سوالوں کے کوئی جواب نہ تھے۔ شہرٌار نے افسردگی سے لرة العٌن کو کندھوں سے پکڑتے
ہوئے اپنے ساتھ لگا لٌا۔
.........................................
فاطمہ نے اپنے بٌگ مٌں رکھے بک لٌٹس پر اک اداسی سے بھری نگاہ دوڑائی۔ اک درد کی لہر تھی جو اسکے سٌنے
مٌں دوڑی تھی۔
تمھٌں لگتا ہے کہ اسکا کوئی فائدہ ہو گا؟ مطلب۔۔آج کے انٹرنٌٹ کی دنٌا مٌں سانس لٌنے والے لوگ ،کہاں ٌہ بکس "
پچھلے دن واپسی پر بٌنش نے گاڑی مٌں اس سے سوال کٌا تھا۔ ان دونوں کو دو ہفتے مکمل ہونے والے تھے وہ
مسلسل مختلف پبلک پلٌسز پر جا کر ٌہ بک لٌٹس تمسٌم کر رہی تھٌں۔ البتہ ابھی تک کوئی خاطر خواہ نتٌجہ نظر نہ آٌا
تھا۔
"!ان شاءہللا! مجھے ہللا پر ٌمٌن ہے ،وہ کسی کی بھی پُرخلوص محنت ضائع نہٌں کرتے"
"تمھٌں پتہ ہے حضرت نوح علٌہ السالم نے کتنے سال توحٌد کی دعوت دی تھی؟"
"سال۔ "950
"ہااااں؟؟؟"
دعوت کے بعد صرف 80کے لرٌب لوگ اٌمان الئے تھے بٌنش۔ صرف 80۔۔ جنھوں نے انکی دعوت کو لبول کٌا
"تھا۔
ہاں بٌنٌش! انھوں نے تو۔۔ دن ،رات ،اعالنٌہ ،چھپے ہر ہر طرٌمے سے لوگوں کو توحٌد کی طرف بالٌا تھا۔ ہمارا کام "
" تو کچھ بھی نہٌں ،پھر ہم کٌسے اتنی جلدی ماٌوس ہو سکتے ہٌں؟
ان شاءہللا وہ ضرور لدردانی کرٌں گے۔ ضروری تو نہٌں کہ اپنے ہاتھ سے لگائے بٌج سے بننے واال درخت آپ اپنی "
"آنکھوں سے ہی دٌکھٌں۔
اسکے اندر کسی نے سرگوشی کی تھی۔ اس نے مسکرا کر منفی خٌاالت کو جھٹکنے کی کوشش کی اور بٌگ مٌں
رکھے بک لٌٹس گننے لگی۔
گہری مسکراہٹ کے ساتھ ہی اسکی آنکھوں کی چمک بھی بڑھ چکی تھی۔
.................................
وہ اپنی امی کے کمرے کے دروازے مٌں کھڑی بہتی آنکھوں سے انکے کمرے مٌں نظر دوڑا رہی تھی۔
تو۔۔امی نے دٌکھ لٌا ملک الموت کو ،انھوں نے پا لٌے وہ راز جو ہماری نگاہوں سے اوجھل رکھے گئے ہٌں۔ کٌا "
والعی وہ۔۔اپنی ابدی منزل کی طرف پہال لدم بڑھا چکی ہٌں؟ کٌا ٌہ چند لمحوں کا کھٌل ہے؟ بس۔۔چند سانسوں کا کھٌل؟؟
"
انکے کمرے مٌں اسکا دم گھٹنے لگا تھا ،اسکا سانس لٌنا دشوار ہو رہا تھا۔ وہ تٌزی سے وہاں سے نکل کر اپنے کمرے
مٌں آگئی۔ معاذ اور شہرٌار ہسپتال کے مختلف لوازمات نمٹا کر مٌت کو گھر ال رہے تھے۔
لرة العٌن ان سے پہلے گھر آگئی تھی کٌونکہ لوگوں کو خبر ملتے ہی انھوں نے پہنچنا شروع کر دٌنا تھا۔ مگر ابھی
تک کوئی نہ آٌا تھا۔ ٌہ تنہائی کے چند لمحے ،اسے زندگی کا اہم ترٌن سبك سکھا رہے تھے۔
وہ بٌڈ پر بٌٹھی ہچکٌاں لے کر رونے لگی تھی۔
اسکی اذٌت اسکے رب کے سوا کون جان سکتا تھا؟
روتے ہوئے ٌکاٌک اسکی نگاہ سامنے سٹڈی ٹٌبل پر پڑے اپنے لرآن پر پڑی۔ جو اسکی رخصتی کے بعد جوں کا توں
وہٌں پڑا تھا۔ اسے اٌسا لگا جٌسے آج اسکے لرآن کا سفٌد کور معمول سے زٌادہ روشن اور چمک رہا ہے۔
وہ اسکی طرف کھنچتی چلی گئی۔
اور ٌمٌنا ً ہم تمہٌں خوف اور بھوک سے ،مالوں ،جانوں اور پھلوں کے نمصان مٌں سے کسی نہ کسی چٌز سے ضرور "
) َو َب ِ ّ
ش ِر الص ِب ِر ٌۡنَ (اور خوشخبری دے دو صبر کرنے والوں کو
صبر۔۔۔ہللا۔۔۔اس حال مٌں صبر۔۔ جبکہ مجھے اپنا سانس بند ہوتا ہوا محسوس ہو رہا ہے۔ ہللا۔۔اس دنٌا مٌں اٌک وہی تو "
"تھٌں مٌرا سب کچھ۔۔ مجھ سے مٌرا سارا اثاثہ لے کر مجھے آزماٌا جا رہا ہے۔ مٌں کٌسے صبر کروں ہللا؟؟؟
آنکھوں سے سٌالب بہہ پڑا تھا۔ دل تھا کہ آج لرآن کی آٌات پر بھی نہٌں تھم رہا تھا۔
ہچکٌاں لٌتے ہوئے اس نے اگلی آٌت پڑھی۔
صبر کرنے والے تو ) وہ لوگ کہ جب کوئی مصٌبت اُن پر آتی ہے تو وہ کہتے ہٌں :بے شک ہم ہللا تعالی کے لٌے ("
!!ہللا اکبر
اس نے ٌہ الفاظ دہراتے ہوئے ٌاد کرنے کی کوشش کی۔ کٌا امی کی وفات کی خبر سن کر اس نے ٌہ کلمات کہے تھے؟
"بے شک ہم ہللا تعالی کے لٌے ہٌں اور بے شک ہم اُسی کی جانب لوٹنے والے ہٌں۔"
"اوہ مٌرے ہللا!! مٌں کٌسے بھول گئی اس ولت آپکو ٌاد کرنا؟؟ مٌں کٌسے بھول گئی لرآن کی اس آٌت کو؟؟"
آئی اٌم سوری ہللا!!! رئٌلی سوری۔۔ بے شک صرف آپکے ہی تو ہٌں ہم سب ،آپکی طرف ہی تو آنا ہے۔ کل بابا آئے "
"تھے ،آج امی آئی ہٌں ،کل مجھے آنا ہے۔ سب نے ہی تو آجانا ہے وہاں۔۔ہاں! اِنَّا ِ ِ
ِ َواِنَّ ۤا اِلَ ٌۡ ِہ ر ِجعُ ۡونَ ۔۔
اس نے خود سے سرگوشی کی اور آنکھٌں بند کر کے بار بار ٌہ کلمات دہرانے لگی جٌسے ان الفاظ کو اپنی روح کے
اندر اتار رہی ہو ،جٌسے الفاظ کے معانی مٌں خود کو ڈبو دٌنا چاہتی ہو۔
جٌسے جٌسے وہ ٌہ کلمات دہراتی جا رہی تھی ،اسے اپنی اذٌت کم ہوتی محسوس ہونے لگی۔
ٌہی لوگ ہٌں جن پر ان کے رب کی طرف سے کئی مہربانٌاں اور بڑی رحمت ہے اور ٌہی لوگ ہداٌت پانے والے "
"ہٌں۔
"اللھم اجعلنا منھم۔۔ مجھے بھی ان لوگوں مٌں شامل ہونا ہے ہللا۔۔ جن پر آپکی خاص عناٌتٌں ہوں۔"
دل تھمنے لگا تھا۔ ہمٌشہ کی طرح لرآن نے آج پھر اسکے بکھرتے وجود کو سمٌٹ لٌا تھا۔ عرش پر مستوی رب اپنی
اس بندی کی اذٌت سے غافل تو نہ تھا۔
اس نے سٌنے سے لرآن لگا کر آنکھٌں بند کر لٌں۔ آنسو بند آنکھوں سے نکل کر اسکے چہرے کو بھگو رہے تھے۔
جاننے والے ہی جانتے ہٌں کہ ٌہ تنہائیٌ ،ہ مصٌبتٌ ،ہ اذٌت کے ہی تو وہ لمحات ہوتے ہٌں جب اٌمان اور درجات کی
بلندی کی سٌڑھٌاں انسان کے آگے کھول دی جاتی ہٌں۔ چاہے تو صبر کر کے ان پر چڑھ جائے ،چاہے تو بے صبری
کا مظاہرہ کرتے ہوئے وہٌں کھڑا رہے۔ چاہے تو ان لمحات مٌں رب سے راضی رہ کر رب کو راضی کر لے ،چاہے
تو شکوے کر کے اپنے رب کو ناراض کرلے۔ سارے فٌصلے ہی مالک کے ہٌں ،غالم کی کٌا مجال؟ کہ مالک کے
!!فٌصلوں پر اعتراض کرے ،شکوے کرے ،غالم کی اولات ہے ہی کٌا؟؟؟ صرف مٹی۔۔صرف مٹی
اتنے مٌں دروازہ کھٹکا۔ شہرٌار لوگ مٌت کو گھر لے آئے تھے۔
ِ َواِنَّ ۤا اِلَ ٌۡ ِہ ر ِجعُ ۡونَ پڑھتے ہوئے ساری ہمت جمع
لرة العٌن نے آنسو صاف کرتے ہوئے لرآن کو ٹٌبل پر رکھا اور اِنَّا ِ ِ
کر کے اٹھی اور دروازے کی طرف لدم بڑھا دئٌے۔
................................
ان تھک کوشش کے بعد آخر وہ بہت لرٌب پہنچ چکی تھی۔ اتنا لرٌب کے ہاتھ بلند کر کے وہ ان چمکتے الفاظ کو چھو "
سکے ،وہ الفاظ۔۔ اتنے چمک دار تھے کہ ان سے پھوٹنے والی روشنی سے فاطمہ کی آنکھٌں چندھٌا رہی تھٌں۔ اس نے
چندھٌائی آنکھوں سے نٌچے کی طرف دٌکھا جہاں سے وہ آئی تھی ،نٌچے گھپ اندھٌرا تھا۔ اسے بس وہی روشن رسی
لٹکتی ہوئی نظر آئی جس کے سہارے وہ ٌہاں تک پہنچی تھی۔ ہاتھوں کے زخم لدرے مندمل ہو چکے تھے۔ اس نے
دوبارہ سے سر اٹھا کر ان الفاظ کی طرف دٌکھا اور غور کر کے پڑھنے کی کوشش کی۔
عربی مٌں لکھے ٌہ الفاظ اسکے لٌے نا آشنا نہ تھے۔ اسے ٌاد تھا کہ اس نے لرآن مٌں ٌہ الفاظ پڑھے ہٌں ،ان الفاظ نے
اسکے چہرے پر اٌک حسٌن مسکراہٹ بکھٌر دی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ بلند کٌا کہ ان الفاظ کو چھو سکے کہ
ٌکاٌک۔۔اسکی چٌخ نکلی۔۔دوبارہ سے وہ چمگاڈر آ کر اس سے ٹکڑائی تھی۔
اسکے چٌختے ہی منظر ٌکاٌک بدل چکا تھا۔ اس نے خود کو اٌک روشن اور منور ماحول مٌں سجدہ کرتے ہوئے پاٌا۔
ابھی سجدے مٌں سر رکھے وہ اس منور ماحول کا نور اپنے اندر اتار ہی رہی تھی کہ ٌکاٌک اٌک آواز آئی۔
وہ بہت زٌادہ الجھ چکی تھی۔ اس نے کمبل اتارا اور اٹھ کر بٌٹھ گئی۔ سائڈ ٹٌبل پر رکھا پانی پٌا اور بٌڈ کراإن کے ساتھ
ٹٌک لگا لی۔
پہلے بھی اٌسا خواب دٌکھ چکی ہوں ،مگر وہ نامکمل تھا۔تو کٌا آج اس کو مکمل کر دٌا گٌا ہے؟ کٌا مطلب ہو سکتا "
"ہے اسکا؟
کچھ تو ہے ،کچھ تو ضرور ہے۔ ہللا مجھے خوابوں کے ذرٌعے کوئی نا کوئی ہنٹ ضرور دٌتے ہٌں۔"
ا َ َل ۡستُ ِب َر ِبّ ُک ۡم۔۔ مٌں تو آپکو اپنا رب مانتی ہوں ہللا۔۔عالم ارواح مٌں بھی مٌں آپ سے ٌہ عہد کر کے آئی ہوںٌ ،ہاں آ کر
بھی مٌں اسے نبھانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ صرف آپ ہی ،صرف آپ اکٌلے ہی مٌرے رب ہٌں ،مٌرے معبود،
"مٌرے محبوب ہٌں۔ مٌں سمجھ نہٌں پارہی کچھ ،پلٌز آپ سمجھا دٌں۔
اس نے وٌسے ہی اپنی آنکھٌں موند لٌں۔ آنسو دونوں اطراف سے چہرے سے بہتے ہوئے اسکے گلے مٌں موجود
دوپٹے مٌں گر کر جذب ہو گئے۔
.....................................
آج وہ اکٌلی گئی تھی۔ اس نے بٌنش کو گاڑی مٌں ہی بٌٹھنے کو کہا تھا۔
آج مٌری زندگی کا بہت اہم دن ہے ،مٌں چاہتی ہوں تمام بک لٌٹس مٌں اپنے ہاتھوں سے تمسٌم کر کے اس بٌگ کو "
"خالی کروں۔
ھاھاھا ٌمٌنا وہ اسے دہشت گرد سمجھ رہے ہوں گے ،بلٌک عباٌا ،ساتھ مٌں بلٌک بٌگ۔ انکو لگ رہا ہوگا کہ اس آتنک "
"وادی نے اس بٌگ مٌں بم رکھا ہوا ہے اور انکے لرٌب جاتے ہی ان پر پھوڑ دے گی۔ ٹھااااااااااا۔
بٌنش نے ٌہ منظر دٌکھ کر لہمہہ لگاتے ہوئے خود سے کہا۔ٌمٌنا ً وہ ٌہ منظر بہت انجوائے کر رہی تھی۔
ٌکاٌک اٌک سنہرے بالوں والی لڑکی پلٹ کر اسکی طرف آئی اور اس سے مسکراتے ہوئے کچھ کہنے لگی۔
بٌنٌش نہاٌت دلچسپی سے ان دونوں کو دٌکھنے لگی۔
فاطمہ نے اثبات مٌں سر ہالتے ہوئے اسے بٌگ سے دو بک لٌٹس نکال کر دئٌے جس پر وہ شکرٌہ ادا کرتے ہوئے
چلی گئی۔
"آہ!! کمال لڑکی ہے ٌہ۔۔ پہلی بار دٌکھا ہے اٌسے کسی کو۔۔ہللا سے ہی باتٌں کر رہی ہو گی ٌمٌنا ً۔"
"!!!فاطمہ۔۔"
.................................
!جاری ہے
فاطمہ کو دوبارہ سے ہاسپٹل اٌڈمٹ کر دٌا گٌا تھا ،اسکی حالت تٌزی سے بگڑ رہی تھی ،ڈاکٹرز بھی پرٌشان تھے
کٌونکہ انھٌں ٌمٌن تھا کہ ٹرانسپالنٹٌشن کامٌاب رہی ہے۔ مگر اب دوبارہ سارے ٹٌسٹ کٌے جا رہے تھے۔ وہ صبح سے
ہی بے ہوش تھی ،اسکا رنگ بہت پٌال پڑ چکا تھا۔
بٌنش مسز رٌان کو کندھے سے پکڑے تسلٌاں دے رہی تھی۔ انھوں نے رو رو کر اپنا برا حال کٌا ہوا تھا۔ بٌٹی کے غم
مٌں وہ دن بدن گھلتی جا رہی تھٌں۔
"ڈاکٹرز چٌک اٌپ کر رہے ہٌں نا ،ان شاءہللا وہ ٹھٌک ہو جائے گی۔"
مسز رٌان کا رونا بدستور جاری تھا گوٌا بٌنش کی ہر بات سن کر ان سنی کر رہی تھٌں۔ رٌان صاحب پرٌشانی کے عالم
مٌں ہاتھ کمر پر باندھے اٌمرجٌنسی وارڈ کے آگے چکر لگا رہے تھے۔ فاطمہ 3گھنٹوں سے اندر تھی۔ اتنے مٌں دو
ڈاکٹرز باہر آئے ،انھوں نے اردگرد کا جائزہ لٌا۔ مسز رٌان کو روتا دٌکھ کر انھوں نے رٌان صاحب کو اپنے ساتھ آنے
کا اشارہ کٌا اور آفس کی طرف بڑھ گئے۔
مسز رٌان نے پرٌشانی کے عالم مٌں رٌان صاحب کو ڈاکٹرز کے ساتھ جاتے ہوئے دٌکھا تو فورا ً پوچھا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مٌں کب سے آپ سے ملنا چاہ رہی تھی ڈئٌر فاطمہ! مگر مجھے اتنی جلدی مٌں جانا پڑا کہ مٌں کوئی کانٹٌکٹ نمبر "
"نہٌں لے پائی آپکا ،نہ ہی اٌڈرٌس۔ مگر مٌں خدا سے دعا کرتی تھی کہ مٌں آپ سے دوبارہ ملوں۔
سسٹر لٌزا نہاٌت اپنائٌت سے فاطمہ کو انجٌکشن لگاتے ہوئے کہہ رہی تھٌں۔
"کتنی پٌاری تھی ٌہ جب آئی تھی۔ بٌماری انسان کو کٌسے کھا جاتی ہے۔"
فاطمہ والعی ہی بہت زٌادہ کمزور ہو چکی تھی ،اسکے بال کٌنسر کی وجہ سے اترنا شروع ہو گئے تھے۔ رنگ پٌال،
آنکھٌں زرد اور سٌاہ حلمے پڑ چکے تھے۔ کوئی بھی پہلی بار دٌکھ کر نہٌں پہچان پا رہا تھا کہ ٌہ وہی پہلے والی
فاطمہ ہے۔ اسے ہاسپٹل مٌں اٌڈمٹ ہوئے اٌک ہفتہ گزر چکا تھا۔
"سسٹر! اٌک بات پوچھوں؟"
"جی پوچھٌں۔"
پتہ نہٌں مجھے اٌسے لگتا ہے جٌسے۔۔۔پتہ نہٌں۔۔مگر ماما بابا کا روٌہ بہت بدل گٌا ہے ،مجھے اٌسے لگتا ہے وہ مجھ "
"آپ فکر نہٌں کرو ڈئٌر فاطمہ! آپ تو خدا سے محبت کرنے والی لڑکی ہو ،خدا کبھی آپکو ماٌوس نہٌں کرے گا۔"
"کس لٌے؟"
"تم نے جاتے ولت مٌرے لٌے جو گفٹ چھوڑا تھا ،اس کے لٌے۔"
"اوہ!! مٌرے تو ذہن سے ہی نکل گٌا تھا۔ مٌری ٌاداشت بھی کمزور ہوتی جا رہی ہے۔ خٌر۔۔آپ نے کھوال وہ؟"
"!جی"
"پھر؟"
فاطمہ کو سمجھ نہٌں آ رہی تھی کہ کٌسے پوچھے ان سے؟ اس نے تجسس کے مارے سسٹر لٌزا کی طرف دٌکھنا
شروع کر دٌا جو شاٌد جواب ہی ڈھونڈ رہی تھٌں۔
مٌں اس دن اس ٹاپک پر بات کرنا چاہتی تھی مگر آپکے فادر کے آنے کی وجہ سے بات مکمل نہٌں کر سکی۔ اور اس "
"دن کے بعد مجھے اچانک جانا پڑا ،مولع ہی نہٌں مال ٌہ بات کرنے کا۔
"ٌمٌنا ً ہللا کی کوئی حکمت ہو گی۔ اور دٌکھٌں مجھے دوبارہ آپ سے ملوا دٌا۔"
"کٌا؟"
فاطمہ اپنی تکلٌف بھول کر اسکی طرف متوجہ ہو چکی تھی۔ اٌسے ہی تو ہوتے ہٌں ہللا والے۔۔ انکا غم بس ٌہی ہوتا ہے
کہ کسی طرح انکی ذات کسی کے لٌے ہداٌت کا ذرٌعہ بن جائے ،کسی طرح کوئی جان انکے ذرٌعے آخرت کی ہالکت
سے بچ جائے۔ وہ کسی اندھٌرے مٌں بھٹکتے شخص کو ،کسی منزل سے غافل شخص کو ،اسکے ہاتھ سے تھام کر
جنت کے رستے پر لے آئٌں۔ ہللا سے جوڑنے والے ہی دراصل ہللا والے ہوتے ہٌں۔
تب مٌرا علم مکمل نہٌں تھا۔ مٌں جب ٌہاں سے چھٹٌاں لے کر گھر گئی تو عجٌب الجھن کا شکار تھی۔ گھر مٌں گرٌنڈ "
فادر کے روم مٌں بائبل کا ممدس عہد نامہ جدٌد اور لدٌم مال تو ولت نکال کر اسے پڑھنا شروع کٌا۔ فاطمہ اب تک مٌں
بھی۔۔بالٌوں کی طرح۔۔۔اپنے آباإ اجداد کی اندھی تملٌد کررہی تھی۔ تثلٌث کا عمٌدہ جو انھوں سے سکھا دٌا کبھی اسکی
"حمٌمت جاننے کی کوشش ہی نہٌں کی۔
ٌہی تو بات ہے سسٹر! مٌری بھی آدھی زندگی اٌسے ہی آباإ اجداد کی اندھی تملٌد مٌں گزر گئی۔ جو انھوں نے بتا دٌا" ،
"سکھا دٌا ،اسی کو پتھر پر لکٌر جان کر عمل کٌا۔ کبھی سوچا ہی نہٌں کہ حك کٌا ہے؟
"حك۔۔۔ٌہ بہت مشکل سے ملتا ہے فاطمہ! مٌں جس اذٌت سے گزر رہی ہوں تم اندازہ بھی نہٌں کر سکتی۔"
ٌہ حمٌمت ہے کہ تم سے ملنے کے بعد ہی مجھے احساس ہوا کہ کچھ ہے جس سے مٌں غافل ہوں ،کچھ ہے جو مٌں "
"!!الحمدہلل الحمدہلل"
فاطمہ کا دل تشکر سے بھر گٌا ،اس نے دل ہی دل مٌں اسکی ہداٌت کے لٌے دعا کی۔
مجھے بہت حٌرت ہوئی فاطمہ۔ بائبل کے ممدس عہدنامہ جدٌد اور لدٌم مٌںٌ ،سوع نے کہٌں ٌہ نہٌں کہا کہ مٌری "
عبادت کرو۔ مجھے بچپن سے ٌہ الجھن رہی کہ ٌسوع خدا کے بٌٹے کٌسے ہو سکتے ہٌں؟ خدا جو اتنی محبت کرنے
واال ہے ،تو ٌسوع کو کٌوں ضرورت پٌش آئی کہ وہ سولی پر چڑھ کر ہمارے گناہوں کا کفارہ بن جائے؟ خدا کٌسے
اپنے بٌٹے کی جان لے کر ہم انسانوں کے گنا دھو سسکتا ہے؟ وہ تو بٌٹے کی لربانی کے بغٌر بھی تو معاف کر سکتا
"ہے نا؟
بالکل ٹھٌک کہہ رہی ہٌں آپ۔ ہم انسان کبھی اپنی اوالد کو دوسروں کی راحت کے لٌے کبھی لتل نہٌں کرتے۔ اور آپ "
ٌہ بھی دٌکھٌں جو خدا ہو ،جو رب ہو ،جو مالک ہو ،اسے کسی کے سہارے کی ،کسی اوالد کی بھی کٌسے ضرورت
"ہو سکتی ہے؟
ہاں فاطمہ! مگر مٌرے مام ڈٌڈ کہتے ہٌں کہ جٌسے ہر انسان کے ماں باپ ہوتے ہٌں وٌسے ہی ٌسوع کا باپ خداوند "
"ہے ،کٌونکہ ممدس مرٌم کو کسی غٌر مرد نے چھوا تک نہٌں تھا۔
"تو کٌا اٌڈم بھی خدا کے بٌٹے ہوئے؟ کٌونکہ وہ بھی تو بغٌر ماں باپ کے پٌدا ہوئے تھے نا۔"
فاطمہ اسی جواب کی تو تالش تھی مجھے۔ بائبل کی تعلٌمات جاننے کے بعد مٌں جب ٌہاں واپس آئی تو مجھے پتہ چال "
کی ٹرانسلٌشن مٌرے لٌے چھوڑ کر گئی ہو۔ مٌں اسی دن اسے لے کر گئی۔ فاطمہ ) (Holy Bookتم اپنی ہولی بک
تورات کی تعلٌمات کہتی ہٌں کہ ٌسوع نے اپنے بعد کسی کے آنے کی بشارت دی تھی ،اسکی بات ماننے کا حکم دٌا تھا
کے بعد ہی آئے تھے جنھوں نے پوری دنٌا کو اٌک نئے ) (Jesusاور ٌہ لرآن اور تمھارے پرافٹ ،ہمارے جٌزز
جی سسٹر لٌزا اور اسالم کا دنٌا پر جو اثر ہوا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہٌں ہے۔ اور ہمارے نبی (ﷺ) نے کسی نئے "
دٌن سے نہٌں بلکہ اسی دٌن سے متعارف کرواٌا جو ازل سے ہم انسانوں کو دٌا گٌا ہے۔ جو تعلٌمات ٌسوع مسٌح علٌہ
"السالم الئے تھے ٌہ بھی اسی توحٌد کی دعوت دٌتا ہے۔
کرنا شروع کٌا ہے فاطمہ۔۔مجھے بھی اٌسا ہی لگتا ہے اور مجھے مٌرے سوالوں کے ) (Readہاں مٌں نے لرآن رٌڈ"
"جواب بھی ملنے لگے ہٌں۔ تم خدا سے دعا کرنا کہ مٌں حك پا کر اسے لبول کرنے مٌں دٌر نہ کروں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسز رٌان سسکتے ہوئے رو رہی تھٌں۔ رٌان صاحب نم آنکھوں سے اپنا ضبط لائم رکھے ہوئے مسز رٌان کو کندھوں
سے تھامے حوصلہ دٌنے کی ناکام کوشش کر رہے تھے۔
حوصلہ بھی انسان تب ہی دے سکتا ہے جب وہ خود حوصلہ رکھتا ہو۔ ٌہ وہ ولت تھا جب دونوں مٌاں بٌوی مکمل طور
پر ٹوٹ چکے تھے۔ اکلوتی اور جوان بٌٹی کا غم انھٌں گھالئے جا رہا تھا۔
"رٌان صاحب پلٌز کہٌں اور سے پتہ کرٌں ،کٌا معلوم کہٌں کوئی رستہ مل جائے؟؟"
تم ٌمٌن کرو مٌں نے کہاں کہاں نہٌں رپورٹس بھجوائٌں۔ ہر طرف سے اٌک ہی جواب ہے ،ٹرانسپالنٹٌشن رجٌکشن ہو "
"چکی ہے۔ کٌنسر بہت تٌزی سے پھٌل چکا ہے۔ سب ٌہی کہہ رہے کہ بس۔۔۔۔۔بس۔۔۔۔۔ولت بہت کم ہے۔
رٌان صاحب اور مسز رٌان دونوں فاطمہ کی خاموشی محسوس کر رہے تھے جٌسے وہ انکے چھپانے کے باوجود بھی
سب کچھ جانتی ہو۔ وہ دونوں اسکی حد سے زٌادہ کئٌر کرنے لگ گئے تھے ،اسے خوش رکھنے کی کوشش کرتے،
اسکے منہ سے نکلی ہر خواہش پوری کرنے کی کوش کرتے تھے۔ مگر وہ بھی "فاطمہ" تھی۔۔ دن بدن اپنی بڑھتی
ہوئی شدٌد تکلٌف کو وہ خوب جانتی تھی ،مگر بس اظہار نہٌں کر پا رہی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ اس باغ مٌں خاموشی سے اٌک الگ بٌنچ پر ٹانگوں کے گرد بازوإں کا حلمہ بنائے آسمان کو تکتے ہوئے سحرزہ
بٌٹھی تھی۔ وہ ہمٌشہ سے اٌسی ہی تھی ،آسمان کے سحر مٌں کھو جانے والی لڑکی۔ اسکا
نٌچے لٹکتا ہوا سٌاہ عباٌا بٌنچ پر لگی مٹی سے خراب ہو چکا تھا۔ مگر وہ ہر چٌز سے بے نٌاز اپنے رب کی بنائی
لدرت پر غور کر رہی تھی۔ اسے ہاسپٹل سے ہر روز دن مٌں دو گھنٹے کے لٌے اجازت ملتی تھی کہ وہ اپنے پٌرنٹس
کے ساتھ باہر گھوم پھر آئے ،مگر اس سارے ولت مٌں بھی وہ ڈاکٹرز کی نگرانی مٌں رہتی تھی۔ ٌہ باغ ہاسپٹل سے
کچھ فاصلے پر تھا جو اسے بہت پسند تھا۔ وہ اب روز ٌہاں آ کر تھوڑی دٌر اکٌلے بٌٹھ کر اپنے رب سے باتٌں کرتی
تھی۔ کبھی تاالب کے کنارے اپنے رب سے اظہار محبت کرتی تو کبھی کسی پرانے درخت کے نٌچے بٌٹھ کر اپنے
ماضی کے گناہوں پر آنسو بہاتی۔
آج وہ باغ کے حصے مٌں اکٌلی آئی تھی ،جہاں درخت اس سے تھوڑے فاصلے پر تھے۔ اس کے بٌنچ کے اٌک طرف
لمبی لطار تھی رنگ برنگے پھولوں کی ،ڈھٌر سارے پھول تھے جو ہوا مٌں لہلہاتے ہوئے اپنی خوشبو بکھٌر رہے
تھے۔ انکے پٌچھے بلند باڑوں پر چڑھتی بٌلٌں اپنے بنانے والے کی عظمت کی گواہی دے رہی تھٌں۔
وہ کھلے آسمان کی طرف دٌکھتے ہوئے مخاطب ہوئی۔ گوٌا آسمانوں سے پار کسی کو دٌکھ رہی ہو۔
ہللا آپ والعی جانتے ہٌں کہ ٌہاں اس الن مٌں کتنے پھول ہٌں؟؟؟ ٌعنی آپ اس زمٌن پر لگی گھاس کے ہر ہر رٌشے "
اسکی نظرٌں ٌکاٌک اپنے سامنے گھاس پر جا ٹکٌں۔ اسے تو نظر بھی نہٌں آ رہا تھا کہ اس گھاس مٌں کتنے کٌڑے
مکوڑے اپنی خوراک اٹھائے جا رہے ہٌں۔ وہ دوبارہ گوٌا ہوئی۔
ٌا ہللا آپ ان سب کو جانتے ہٌں؟ مجھے تو نہٌں پتہ وہ سامنے والے درخت پر کتنے پتے ہٌں۔ مگر ہللا آپ جانتے ہٌں۔ "
"ہللا مٌں تو درخت کے سامنے کتنے چھوٹے کی سائز کی ہوں نا۔۔ ہللا کٌا مٌں آپکو نظر آ رہی ہوں؟؟
ہللا آپ سات آسمانوں کے پار عرش پر اتنی بلندی پر ہٌں۔اتنی دور ہونے کے باوجود آپ مجھے مجھ سے زٌادہ جانتے "
"ہٌں ،مجھ سے زٌادہ مٌرے لرٌب ہٌں ،ہللا مٌری کٌا اولات ہے آپ کے سامنے؟
اس رب کی بڑائی کے احساس نے اسے رب سے ماللات ٌاد دال دی تھی۔ بس کچھ گنے چنے دن اور۔۔ اسکا مائنڈ ماإف
ہو جاٌا کرتا تھا ٌہ سوچ سوچ کر۔۔ بس کچھ ماہ اور۔۔۔
ٌا ہللا آپ اتنے بڑے ہٌں مٌں کٌسے آپکا سامنا کروں گی؟؟آنسووں کی رفتار مٌں تٌزی آگئی تھی۔ دل تھا کہ گوٌا ابھی "
سٌنے سے باہر آجائے گا۔
ہللا مٌری انکھٌں بہت گناہگار ہٌں ٌا ہللا مگر ٌہ آپکو دٌکھنا چاہتی ہٌں۔ ٌا رب ٌہ آپکا دٌدار چاہتی ہٌں۔ ہللا آپ جانتے "
ہٌں ٌہ آنکھٌں اس لابل نہٌں لٌکن ہللا آپ جانتے ہٌں مٌرا دل آپکی محبت سے تڑپتا ہے۔ ہللا مٌرا دل کرتا ہے آپ سے
ملنے کو۔۔ اور۔۔اور۔۔۔ٌہ بھی کہ۔۔۔جب مٌں آپکے پاس آنے لگوں تو ہللا۔۔مٌرے لٌے آسمان کے دروازے کھولے جائٌں۔ ہللا
مجھے ہر فرشتہ خوش ہو ہو کر بتائے کہ تمہارا رب تم سے راضی ہے ،مجھے آگے بڑھ بڑھ کر مبارک دے کہ
تمہارا رب تم سے ملنے کا منتظر ہے۔ ہللا مٌں گناہگار۔۔۔آپ سے ملنا چاہتی ہوں ہللا۔۔مٌں موت کے ولت آپکی رضا کی۔۔
"!!آپکی جنتوں کی بشارت چاہتی ہوں ہللا۔۔پلٌز
وہ اس ولت روتے ہوئے اٌسے بات کررہی تھی جٌسے اسکا رب اسکے سامنے ہی موجود ہو۔
ہللا کٌا آپ بھی مجھ جٌسی حمٌر بندی سے محبت کرتے ہٌں؟؟ کٌا آپ بھی مجھ سے ملنا چاہتے ہٌں؟ ہللا تعالی سچی "
مٌں اب مٌرا دل نہٌں لگتا ادھر ،مگر مجھے بہت ڈر بھی لگتا ہے ہللا کہ مٌں نے کوئی عمل اٌسا نہٌں کٌا جس پر آپ
مجھے جنت مٌں جانے کا ٹکٹ دے دٌں۔ مٌں بہت چھوٹی ہوں ہللا۔۔۔اس درخت سے بھی چھوٹی ،مٌری ٌہی اولات ہے
ہللا۔۔۔آپ جانتے ہٌں نا ہللا دن بدن مٌرے دل کی عجٌب حالت ہوتی جا رہی ہے۔ ٌہ لوگوں سے بے نٌاز ہو چکا ہےٌ ،ہ
دنٌا لٌدخانہ لگتی ہے ہللا۔۔۔۔مٌں موت نہٌں مانگتی ہللا مجھے ڈر لگتا ہے اس سے۔ مگر اس۔۔تکلٌف دہ۔۔مرحلے سے
"گزرے بغٌر مٌں آپ سے بھی تو نہٌں مل سکتی نا۔۔۔
اسے موت کی سختی اور نزع کے عالم نے بے چٌنی سے پہلو بدلنے پر مجبور کر دٌا۔
ہللا آپ مٌرے ٌہ بہتے آنسو دٌکھ رہے ہٌں نا؟؟ ہللا مٌرے پاس ان آنسوں کے سوا کچھ بھی نہٌں ،کچھ بھی نہٌں۔۔انھٌں "
لبول کرلٌں نا ہللا۔۔۔انکے زرٌعے مٌرے حصے کی جہنم کی آگ بجھا دٌں نا ہللا۔۔۔آپکے سوا کسی سے نہٌن مانگتی نا
ہللا۔۔۔اگر آپ بھی نہٌں دٌں گے تو کہاں جاإں گی؟ آپکی رحمت کی منتظر ہوں ٌا رب!! آپکی رضا مٌں راضی ،سر
جھکائے بٌٹھی ہوں ہللا۔۔ آپ گواہ ہٌں مٌں نے اب تک اٌک بھی شکوہ نہٌں کٌا ،آپ جانتے ہٌں نا ہللا؟؟ کتنی اذٌت ہے
صرف اسی سوچ مٌں۔۔کہ۔۔کہ مٌرے پاس بس چند دن ہٌں۔۔۔اسکے بعد مٌں مٹی کے نٌچے دفن کر دی جاإں گی۔ ہللا
مٌرے لٌے مٌری موت کو مٌری راحت کا سامان بنا دٌنا۔ اس تکلٌف کے بدلے مجھے جہنم سے رہا کر دٌنا۔ ہللا!! کٌا آپ
اس دل کو آگ مٌں جالئٌں گے جو آپکی محبت مٌں دھڑکتا ہے؟ جو آپکی لربت چاہتا ہے۔ ٌا رب!! کٌا آپ ان آنکھوں کو
"!!آگ مٌں جھلسائٌں گے جو۔۔۔جو۔۔۔آپکے لٌے آنسو بہاتی ہٌں؟؟ ٌا رب پلٌز!! مٌرے ہللا جی۔۔پلٌز
وہ چہرے پر دونوں ہاتھ رکھے سسک سسک کر رو رہی تھی۔ اسکے ٌا اسکے رب کے سوا جانتا بھی کون تھا کہ وہ
کس اذٌت سے گزر رہی ہے؟ وہ اذٌت جو۔۔ اسکے رگ و پے مٌں سراٌت کر رہی تھی۔ جو اسکا سانس لٌنا محال کر
رہی تھی۔ اسکے لٌے ٌہ دنٌا چھوڑنا مشکل نہٌں تھا۔ مگر۔۔۔اگلی دنٌا مٌں لدم کرنا اسے بہت ڈرا رہا تھا۔ بالشبہ وہ تھی
بھی ڈرنے کی جگہ۔
آنسوإں کے لطرے جابجا اسکے چہرے پر رکھے ہاتھوں سے گر کر اسکے سٌاہ عباٌا مٌں گم ہو رہے تھے۔ مگر اوپر
کہٌں سات آسمانوں کے پار وہ سٌاہ عبائے مٌں غائب ہوتے آنسو۔۔۔ لبولٌت کا درجہ پا رہے تھے۔ ہر طرف چہچہاتے
پرندے ،گھاس مٌں اپنا رزق اٹھائے چھوٹے سے کٌڑے مکوڑے اس لڑکی کو ٌاد دال رہے تھے کہ ٌہ مخلوق ،جس رب
کی تسبٌح کرنے والی ہے ،وہ رب اپنے پکارنے والوں سے غافل نہٌں ہے۔ وہ اپنے سے محبت کرنے والوں سے
بےپرواہ نہٌں ہے۔
اٌک سکون کا احساس تھا جو اسکے دل کو گھٌر رہا تھا۔ اس نے دوبارہ نم آنکھوں سے سر اٹھا کر آسمان کی طرف
دٌکھا ،اسے لگا جٌسے وہاں کوئی مسکرا کر اسے دٌکھ رہا ہو۔ وہ جان گئی کہ اسکا رب اسکی آہٌں سن چکا ہے ،اس
کے آنسوإں پر گواہ بن چکا ہے۔ اس احساس نے اسکی نم آنکھوں کو مزٌد چمکا دٌا تھا اور روتے ہوئے چہرے پر
مسکراہٹ بکھٌر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
!جاری ہے
"مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے زونٌشہ! مٌں بٌان نہٌں کر سکتی کہ اس ولت مٌرے دل کی کٌا حالت ہے۔"
تشکر سے بھرے لہجے مٌں وہ نم آنکھوں سے اسے دٌکھتے ہوئے کہہ رہی تھی۔
زونٌشہ کے ضبط کا دامن ٹوٹ رہا تھا۔ اسکی چمکتی ناک سرخ ہو چکی تھی ،آنکھٌں سوجی ہوئی تھٌں۔
مٌں سمجھ سکتی ہوں زونٌشہ۔ مٌری جان! ٌہ کربٌ ،ہ اذٌت۔۔ ٌہ تو ہر اس مسافر کے نصٌب مٌں آتی ہے جو اس ”
رب کی رضا کو اپنی منزل بنا لٌتا ہے۔ اس مبارک رستہ پر مبارک لوگ ہی چلتے ہٌں۔ تم بس ہمت نہ ہارنا۔ ہللا کے
وعدوں پر ٌمٌن رکھنا جو اس نے اپنے رستے پر چلنے والوں سے کئے ہٌں۔ وہ تو خود کہتے ہٌں نا۔۔
بس تم ٌمٌن رکھنا۔۔کامل ٌمٌن!! ٌہاں ٌمٌن والے ہی کامٌاب ہوتے ہٌں۔ ٌمٌن۔۔ اس ذات کے وجود پر ٌمٌن۔۔ اس کے وعدوں
"پر ٌمٌن۔۔ اسکی ماللات پر ٌمٌن۔۔
آخری الفاظ پر فاطمہ کی آواز ڈگمگائی تھی ،پُر نم آنکھٌں جھکٌں تھٌں جنھٌں زونٌشہ نہٌں دٌکھ پائی مگر اسکی آواز
کا ،اسکے الفاظ کا کرب اسکے دل کو چور چور کر رہا تھا۔ وہ نہٌں جانتی تھی کہ دوبارہ کب فاطمہ سے بات کرے
گی ۔
اسے مسز رٌان ساری سچوٌشن بتا چکی تھٌں اور ٌہ بھی کہ ڈاکٹرز نا امٌد ہو چکے ہٌں۔ اب صرف دعا ہی واحد سہارا
ہے اور وہ سب اسے ہی تھامے بٌٹھے تھے۔ وہ جانتی تھی فاطمہ اب خاموش ہو گئی ہو گی۔ اور اٌسا ہی ہوا تھا ،اسکے
ہونٹوں پر بس چپ ہی لگ گئی تھی۔ لٌکن آج وہ فاطمہ کو خوشخبری دٌنا چاہتی تھی کہ اس نے پردہ شروع کر لٌا ہے
تاکہ وہ کچھ لمحات کے لٌے اپنی تکلٌف بھول جائے اور ہمٌشہ کی طرح آج بھی اسکے تسلی بھرے الفاظ پر زونٌشہ
مطمئن ہو کر مسکرا اٹھی تھی۔
"زونٌشہ! لرة العٌن سے رابطہ کر کے کہنا کہ مجھ سے بات کر لے۔ ڈھائی مہٌنے ہو چکے کوئی خبر ہی نہٌں ہے۔"
الوداعی کلمات کے بعد ہی فاطمہ نے فون مسز رٌان کی طرف بڑھا دٌا اور بٌڈ پر سٌدھی لٌٹ کر آنکھٌں موندھ لٌں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"مٌں جانتی ہوں ٌہ سب آسان نہٌں ہے مگر دٌکھو ابھی پوری زندگی پڑی ہے۔"
"مٌں ان شاءہللا کر لوں گا شادی بھی مگر ابھی مٌں اس کے لئے تٌار نہٌں ہوں۔"
"بھٌا! امی بھی ٌہی چاہتی تھٌں کہ اپنے اکلوتے بٌٹے کی خوشٌاں دٌکھٌں۔"
لرة العٌن کو لگا شاٌد وہ اٌسے امی کی بات سن کر مان جائے گا۔
انکی امی کی وفات کو ابھی 15دن ہی ہوئے تھے کہ معاذ نے فٌصلہ کر لٌا تھا کہ وہ بھی اپنے والد کے مشن پر چال
جائے گا ،امت مسلمہ کی خدمت کے مشن پر۔ بے شک ٌہ بہت مبارک مشن تھا مگر لرةالعٌن چاہتی تھی کہ وہ نکاح کر
لے۔
"بس اب پلٌز! تم بار بار اٌک ہی بات مت کہو۔ جب ولت آئے گا مٌں کر لوں گا۔"
اسے برا لگا تھا کہ اس نے اسکی کال کاٹ دی مگر اس سے زٌادہ دکھ اس بات نے دٌا تھا کہ وہ تنہا ہو گٌا تھا۔
"ہللا تمھٌں بہت خوشٌاں دٌں۔ دنٌا و آخرت کی بھالئٌاں عطا کرٌں۔"
اس نے دعائٌں دٌتے ہوئے موبائل بٌڈ کی سائڈ ٹٌبل پر رکھا اور کچن کی طرف بڑھ گئی جہاں اسے نے چولہے پر
برٌانی دم پر چڑھائی ہوئی تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر طرف نور ہی نور تھا۔ وہ بے حد حسٌن لگ رہی تھی۔ خوشی اور سکون کا اٌک غٌر معمولی احساس اسکے دل کو "
گھٌر رہا تھا۔ وہاں خوشبو بکھٌرتے رنگا رنگ پھول ،سرسبز و شاداب درخت اور ان پر چہچہاتے پرندے ماحول کو
رونك بخش رہے تھے۔ ہر طرف سالم سالم کی صدا گونج رہی تھی۔ اسے کوئی نظر نہ آٌا ،بس مٌٹھی سی کانوں مٌں
رس گھولتی آوازٌں تھٌں۔ ٌکاٌک اسے اپنے پٌچھے سے آواز آئی۔
")تم پر سالمتی ہو ،صبر کے بدلے ،کٌا ہی اچھا ( بدلہ ) ہے اس دار آخرت کا(
اور اسکے ساتھ ہی اسکی آنکھ کھل گئی۔ رات کے دو بج رہے تھے ،وہ ہاسپٹل رووم مٌں تھی۔ مسز رٌان پاس ہی
صوفے پر سوئی ہوئی تھٌں۔
آنکھٌں گرم ہو چکی تھٌں ،اسکا جسم سن ہو رہا تھا۔ اسے سمجھ نہٌں آ رہا تھا کہ ٌہ خواب کٌوں؟
درد کی اٌک شدٌد لہر اسکے جسم مٌں دوڑی۔
اس نے ہاسپٹل بٌڈ کے دونوں کناروں کو مضبوطی سے پکڑ کر آنکھٌں بند کر لٌں۔
ٌا رب العرش!! آپ جانتے ہٌں ٌہ درد مٌری جان لے رہا ہے۔ مجھے اٌسے لگ رہا ہے جٌسے۔۔۔ جٌسے مٌں تڑپ تڑپ "
کر مر رہی ہوں۔ پلٌز مجھے صبر دے دٌں! پلٌز مجھے تھام لٌں!! اس سے پہلے کہ مٌری زبان سے کوئی شکوہ نکلے،
"!!مجھے تھام لٌں۔ پلٌز ہللا
درد مسلسل بڑھ رہا تھا۔ اس کا سانس پھولنے لگا ،آنسو جا بجا چہرے کے اطراف سے نکل کر تکٌہ بھگو رہے تھے۔
کبھی کبھی اٌسے لگتا تھا جٌسے اسکے لٌور کو کسی نے مضبوطی سے جکڑ کر بھٌنچ دٌا ہو۔
ٌہ تکلٌف کونسا ڈاکٹر دور کر سکتا تھا؟؟ ٌہ اذٌت کونسی دوا سے شفا پاتی؟؟ اسے بس رب چاہئٌے تھا۔۔ اسکی رضا "
چاہٌے تھی۔ اس تکلٌف کے بدلے ،اس صبر کے بدلے۔۔ سو اب بھی صبر کرتے ہوئے وہ اٌوب علٌہ السالم کی دعا
مانگنے لگی۔
اپنی تکلٌف بھول کر اس نے ٹوٹے جملوں سے سسٹر لٌزا کو غور سے دٌکھتے ہوئے پوچھا۔
"اَشھد ان ال الہ۔۔"
"اال ہللا۔۔"
"اال ہللا۔۔"
"واَشھد ان۔۔"
"واَشھد ان۔۔"
"بہت بہت مبارک ہو! آپکو ٌہ مبارک رستہ۔۔ جنت کی بشارت لبول کرٌں۔ ہللا آپ کو اس پر بہت استمامت دٌں۔"
اس نے مشٌنوں کے درمٌان لٌٹے لٌٹے ہی سسٹر لٌزا کی طرف ہاتھ بڑھا دئٌے۔
سسٹر لٌزا آمٌن کہتے ہوئے روتے روتے اس پر جھک کر گلے لگ گئٌں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"رٌان پلٌز ہللا سے کہٌں اسے بچا لٌں۔ پلٌز آپ کہٌں وہ اسے ٹھٌک کر دٌں۔ مٌں نہٌں رہ پاإں گی اسکے بغٌر۔"
مسز رٌان سسکتے ہوئے رٌان صاحب کا بازو جھنجھوڑتے ہوئے ان کی منتٌں کررہی تھٌں کہ جٌسے وہ لادر ہوں
کسی چٌز پر۔ انسانی سہارے۔۔مکڑی کے جالوں سے بھی کمزور۔ کہاں کچھ کر سکتے ہٌں؟ وہ دونوں اٌمرجنسی رووم
کے دروازے پر بے بس کھڑے تھے۔
رٌان صاحب کی آنکھٌں زارولطار آنسو بہا رہی تھٌں۔ ان سے اپنی بٌٹی کی حالت دٌکھی نہٌں جا رہی تھی۔ وہ تڑپ
رہی تھی درد سے ،شدٌد اذٌت سے بلک رہی تھی مگر زبان پر۔۔"حسبنا ہللا ونعم الوکٌل" (ہمٌں ہللا کافی ہے اور وہی
بہترٌن کارساز ہے)" ،ربنا افرغ علٌنا صبرا"(اے ہمارے رب ہم پر صبر انڈٌل دٌں) کے الفاظ جاری تھے۔
وہ دونوں کچھ دٌر پہلے اسکے پاس ہی بٌٹھے باتٌں کر رہے تھے جب اسے ٌکاٌک شدٌد تکلٌف اٹھی اور انکے سامنے
بٌڈ پر لٌٹے لٌٹے ہی اسے خون کی الٹی آئی تھی۔
بٌڈ کی سفٌد چادر خون کے سرخ داغوں سے بھر چکی تھی۔ ماں کا دل اپنی بٌٹی کی اس حالت کو دٌکھ کر کٹ رہا تھا
جبکہ رٌان صاحب دوڑتے ہوئے ڈاکٹر کو بالنے کے لٌے گئے تھے۔
ڈاکٹر پٌٹرک تٌزی سے فاطمہ کے بٌڈ کی طرف بڑھے جہاں وہ لٌٹی اذٌت اور تکلٌف سے تڑپ رہی تھی۔
اس ولت وہاں موجود عملے کی حالت بھی غٌر ہو چکی تھی۔
جبکہ رٌان صاحب اور مسز رٌان کو فوراً سے پہلے ہی باہر بھٌج دٌا گٌا تھا۔
"دٌکھٌں مٌم! انکی حالت بگڑتی جا رہی ہے ،ہم کوشش کر رہے ہٌں۔ آپ دعا کٌجئٌے۔"
ڈٌڑھ گھنٹے بعد سسٹر لٌزا کسی کام سے باہر آئٌں تو مسز رٌان کے کندھے کو تھپکتے ہوئے کہا۔
مسز رٌان بٌنش کے گلے لگ کر ہچکٌوں سے رو رہی تھٌں۔
بالشبہ! وہ ولت سب پر بھاری تھا۔۔ بھاری تو ہونا تھا۔ کب دٌکھی جاتی ہے اپنے پٌارے کی تکلٌف؟ کب برداشت ہوتی
ہے کسی اپنے کی اذٌت؟ ان سب کے آنسو التجاء بن کر آنکھوں سے بہہ رہے تھے۔ فاطمہ نے چچا لوگوں کی فٌملی
کے ساتھ چند دن ولت گزارا تھا مگر وہ بھی اٌسے رو رہے تھے جٌسے صدٌوں سے ساتھ ہوں۔ ہللا اپنے سے محبت
کرنے والوں کی محبت اٌسے ہی لوگوں کے دلوں مٌں ڈال دٌا کرتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شدٌد نماہٹ کے باعث فاطمہ اپنی آنکھٌں نہٌں کھول پا رہی تھی۔
کوئی جانی پہچانی آواز تھی جو کانوں سے ٹکڑا رہی تھی۔
"فاطمہ بٌٹا دٌکھو! آنکھٌں کھولو بٌٹا۔ دٌکھو لرت آپ سے بات کرنا چاہتی ہے۔"
دوسری طرف لرة العٌن اپنے آنسو کنٹرول کئے فاطمہ کو وٌڈٌو کال کے ذرٌعے غور سے دٌکھ رہی تھی۔
مسز رٌان نے اسے بتاٌا تھا کہ اسکی حالت پچھلے دو دن کتنی زٌادہ خراب رہی ہے۔ پچھلے دو دن سے وہ بے ہوش
تھی۔ خون کی الٹٌاں ،پھر سانس کا کھٌنچاإ ،کٌنسر برے طرٌمے سے پھٌلتا جا رہا تھا۔
لرة العٌن کو ٌمٌن نہٌں آ رہا تھا کہ فاطمہ اتنی سٌرٌس کنڈٌشن مٌں ہے۔ اتنی زٌادہ کمزور۔۔ پٌال رنگ۔۔ کٌا تھی ٌہ لڑکی؟
اسے افسوس ہوا اپنی کوتاہی پر۔ کاش کہ وہ اس سے پہلے ہی بات کر لٌتی۔
مسز رٌان نے فاطمہ کی حالت دٌکھتے ہوئے موبائل اپنی طرف کر لٌا۔
ہم نے خود اپنی آنکھوں سے دٌکھا لرت! وہ والعی نمازوں کے اولات پر اشاروں سے نماز پڑھتی رہی ہے۔ ہم سب "
"ہللا اکبر کبٌرا!! ہللا پاک اسے بہت سوووں کو اپنی طرف آنے کا ذرٌعہ بنا دے۔"
آمٌن! مجھے حٌرت مٌں ڈال دٌتی ہے ٌہ لڑکی۔ اس دن سسٹر لٌزا بتا رہی تھٌں کہ کٌنسر کی بہت ہی زٌادہ تکلٌف ہوتی "
ہے پٌشنٹس کو۔ بعض اولات تو انھٌں بے ہوش ہی کر دٌا جاتا ہے۔ مگر ماشاءہللا فاطمہ اتنا صبر کر رہی ہے اتنا کہ
بس! ہر لمحہ زبان پر ذکر ہوتا ہے۔ کہتی ہے کہ ٌہ مٌری آزمائش ہے اور آزمائش مٌں انسان کا روٌہ دٌکھا جا رہا ہوتا
"ہے۔ مٌں نہٌں چاہتی کہ مٌں اپنے نامہ اعمال مٌں ہللا کی مشٌت کا شکوہ شامل کروں۔
لرة العٌن کی آنکھوں مٌں آنسو تٌرنے لگے۔ مسز رٌان لدرے مضبوط لہجے مٌں بتا رہی تھٌں۔ شاٌد اب سب ذہنی طور
پر کسی بھی برے ولت کے لٌے تٌار تھے۔
"مٌں اسے اٹھاتی ہوں بٌٹا! ہوش تو اسے کل آ گٌا تھا بس ابھی سوئی ہوئی ہے۔"
"ہوں۔۔ہممم۔۔کون؟"
"ہاں۔"
"خٌر مبارک۔"
وہ مسکرا کر لرة العٌن سے باتٌں کر رہی تھی جبکہ لراة العٌن فاطمہ کی مسکراہٹ غور سے دٌکھ رہی تھی۔ بالشبہ
اسکی مسکراہٹ پہلے سے بہت خوبصورت ہو گئی تھی۔
"آج تمھاری ٌہ حالت صرف اسکی وجہ سے ہے۔ اس کے ساتھ بالکل ٹھٌک ہوا ہے۔"
"اسے ہی تو کہتے ہٌں مکافات عمل۔ مٌری زندگی برباد ہو گئی اسکی وجہ سے۔"
"تم دعا کرنا لرت! کہ ہللا مٌرے لٌے اگلی زندگی آسان کر دٌں۔"
فاطمہ نے نہاٌت دھٌمے انداز مٌں کہا کہ کہٌں مسز رٌان نہ سن لٌں۔
"کٌا مطلب؟"
تمھٌں ٌاد ہے مٌں نے تمھٌں کئی ماہ پہلے اپنا اٌک خواب سناٌا تھا؟ جس مٌں رسی کے ذرٌعے اوپر جانے کا ذکر تھا "
وہ خواب تب مکمل نہٌں ہوا تھا۔ ہللا نے مجھے چند اور خواب دکھائے۔ وہ چمگاڈر مٌری ٌہی بٌماری کا اشارہ تھی "
"لرت! جس کے سبب مٌری زندگی کا خاتمہ ہونا ہے۔ اسی کے بعد مٌری ہللا سے ماللات ہے۔
اسکی آنکھٌں زار و لطار آنسو بہا رہی تھٌں۔ لرة العٌن کو محسوس ہو رہا تھا کہ اسکا سانس پھول رہا ہے ،اسے بتانے
مٌں دلت ہو رہی ہے۔
!فاطمہ کے کانوں مٌں "اَلستُ ِبربکم" کے الفاظ گونجے
بس تم ٌہ دعا کرنا کہ مٌں عافٌت کے ساتھ اگلی منزل پر پہنچ جاإں۔ مٌں خوشی اور محبت سے سرشار اس رب کے "
"!!حضور حاضر ہوں۔ اس حال مٌں کہ وہ مجھ سے راضی ہوں۔ تم بس ٌہ دعا کرنا لرت۔۔
"ٌہ ماٌوسی تو ہرگز نہٌں ہے لرت۔ ٌہ تو ٌمٌن ہے ،اس ولت پر جو بس۔۔بس۔۔آ پہنچااا۔۔ہے۔"
"!!ہللا اکبر"
)مجھے ٌہ بٌماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زٌادہ رحم کرنے واال ہے۔(
وہ ٹوٹے الفاظ مٌں پھولتے سانس کے ساتھ ٌہ دعا مانگ رہی تھی۔
"ال۔۔ الہ۔۔ اال۔۔ ہللا۔۔"
جٌسے جٌسے وہ کلمہ پڑھتی جا رہی تھی وٌسے وٌسے اسکی آنکھٌں بند ہوتی جا رہی تھٌں۔ حتی کہ بے ہوش ہو گئی۔
اسکے والدٌن سے اسکی ٌہ حالت دٌکھی نہٌں جا رہی تھی۔ آنکھوں سے آنسو زارو لطار بے بسی کی التجا لٌے بہہ
رہے تھے۔ ڈاکٹرز نے آتے ہی انھٌں باہر جانے کا کہہ دٌا اور فاطمہ کا چٌک اپ کرنے لگے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون بند ہوتے ہی لرة العٌن جہاں کھڑی تھی روتے ہوئے وہٌں سجدے مٌں گر گئی۔
ٌا ہللا!! ٌا لادر!! ٌا لدٌر!! آپ لدرت رکھتے ہٌں۔ آپ کن کہہ کر اسے ٹھٌک کر سکتے ہٌں۔ اے مٌرے رب!! اے مٌرے "
محبت کرنے والے مالک!! پلٌز!! رحم فرمائٌں۔ پلٌز رحم فرمائٌں!! پلٌز اسے اس اذٌت سے نکال دٌں!! اسکے درد کو
راحت مٌں بدل دٌں۔ ٌمٌنا ً ٌہ تکلٌف اسکے گناہوں کو جھاڑ رہی ہو گی۔ مگر ہللا!! اسکا صبر نہ ٹوٹ جائے۔ ٌا رب!! رحم
"کرٌں۔ اسے ٹھٌک کر دٌں۔
وہ سجدے مٌں گڑگڑاتی ہوئی روتی جا رہی تھی ،سسکتی جا رہی تھی۔ التجاإں کی عرضی رب کے حضور بھٌجتی جا
رہی تھی۔
اس بات پر اس کی سسکٌاں بلند ہو گئٌں۔ دل نہٌں تھم رہا تھا۔ کٌسی بے بسی تھی کہ اسکے پاس بھی نہٌں جا سکتی
تھی۔ اسکا جسم کانپ رہا تھا ،برے طرٌمے سے لرز رہا تھا۔ اس نے سجدے سے سر اٹھاٌا۔
اور اپنے کانپتے وجود کو بٌڈ کا سہارا دٌتے ہوئے کھڑے ہونے کی کوشش کی۔
سل ٌم َعلَ ٌۡ ُک ُم ۙ ۡاد ُخلُوا ۡال َجنَّ َۃ ِب َما ُک ۡنت ُ ۡم تَعۡ َملُ ۡونَ ﴿ٕٖ﴾ الَّ ِذ ٌۡنَ تَت ََوف ُہ ُم ۡال َم ٓل ِئ َک ُۃ َ
ط ٌِّ ِب ٌۡنَ ۙۙ ٌَمُ ۡولُ ۡونَ َ
وہ جن کی جانٌں فرشتے اس حال مٌں لبض کرتے ہٌں کہ وہ پاک صاف ہوں کہتے ہٌں کہ تمہارے لئے سالمتی ہی "
"سالمتی ہے ،جاإ جنت مٌں اپنے ان اعمال کے بدلے جو تم کرتے تھے۔
)سورة النحل(32:
!!!!ٌا ہللا"
س ِن َما کَانُ ۡوا ٌَعۡ َملُ ۡونَ ﴿﴾۵۶ قؕ َو لَن َۡج ِز ٌَ َّن الَّ ِذ ٌۡنَ َ
ص َب ُر ۡۤوا ا َ ۡج َرہ ُۡم ِبا َ ۡح َ َما ِع ۡن َد ُک ۡم ٌَ ۡنفَ ُد َو َما ِع ۡن َد ّٰللاِ َبا ٍ
تمہارے پاس جو کچھ ہے سب فانی ہے اور ہللا تعالی کے پاس جو کچھ ہے بالی ہے۔ اور صبر کرنے والوں کو ہم "
ٓ
سل ًما ﴿ۙ﴾۷۹ ک ٌُ ۡجزَ ۡونَ ۡالغُ ۡرفَ َۃ بِ َما َ
صبَ ُر ۡوا َو ٌُلَمَّ ۡونَ فِ ٌۡ َہا ت َِحٌَّ ًۃ َّو َ اُولئِ َ
ٌہی وہ لوگ ہٌں جنہٌں ان کے صبر کے بدلے جنت کے بلند و باال خانے دٌئے جائٌں گے جہاں انہٌں دعا سالم پہنچاٌا "
"جائے گا۔
سامنے ٌہ آٌت چمک رہی تھی۔ دل خوف سے گوٌا دھڑکنا بھول گٌا۔
اس نے تٌزی سے ڈرتے ہوئے صفحات پلٹے۔
اور انہٌں ان کے صبر کے بدلے جنت اور رٌشمی لباس عطا فرمائے۔
اسکے ہاتھ شدٌد کانپ رہے تھے۔ اس نے جلدی سے لرآن بند کٌا اور جائے نماز کی طرف کانپتے لدموں سے لپکی۔
اور سسکتے وجود کے ساتھ نوافل کی نٌت باندھ لی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آج جمعہ کا دن تھا ،سب جمعہ کی نماز سے فارغ ہو کر فاطمہ کے پاس تھے۔ اسکی حالت بہت زٌادہ خراب ہو چکی
تھی۔ سبکو بخوبی اندازہ تھا کہ ٌہ آخری لمحات ہٌں۔ وہ سب روتے ہوئے اسے دم توڑتے دٌکھ رہے تھے۔ زندگی کی
رونك۔۔۔اسکی رگ و پے سے نکلتی جا رہی تھی۔ کون جانتا تھا کہ اس جان پر کٌا گزر رہی ہے؟؟ اس مرحلے تو بے
بسی کی انتہا تھی۔ کوئی بھی انسان کتنا ہی محبوب کٌوں نہ ہو ،کسی کو موت کے چنگل سے نہٌں بچا سکتا۔ وہاں اس
ہاسپٹل رووم مٌں بھی موت کے سامنے بے بسی کی وحشت نے ڈٌرے جمائے ہوئے تھے۔ وہ کراہ رہی تھی ،شدٌد
تکلٌف سے اسکی آواز بدل رہی تھی مگر زبان پر بس ٌہی تھا۔
آنکھٌں ڈبڈبائی سی۔۔ پٌشانی پر پسٌنہ۔۔ نگاہٌں کہٌں اور ہی ٹھہری ہوئی تھٌں۔
ہاں وہ نورانی مخلوق۔۔ اسکی حد نگاہ تک بٌٹھے ہوئے تھے۔ جہاں تک وہ دٌکھتی۔۔ اسکا دل کر رہا تھا چٌخ چٌخ کر
روئے۔
ماما ،بابا ،بٌنش ،چچاجان اور چچی۔۔ سسٹر لٌزا۔۔ سب اسکے پاس کھڑے اسکی حالت کو بے بسی سے دٌکھ رہے تھے۔
جواب تو ڈاکٹرز نے کب سے دے دٌا تھا۔
اب تو بس ولت پورا کٌا جا رہا تھا۔
ہر اٌک کی آنکھ اشک بار تھی۔ وہاں کھڑا ہر شخص گوٌا اپنی سانسٌں اسے دٌنے کو تٌار تھا۔ مگر۔۔ جسکی لکھی ہو۔۔
کہاں پھر تمدٌر بدلی جاتی ہے؟
"کفن۔۔"
اسکا سانس اکھڑنا شروع ہو گٌا۔
زبان اٹک رہی تھی ،الفاظ لڑکھڑا رہے تھے۔ مگر اٌمان مضبوطی سے دل مٌں جڑٌں گاڑھ رہا تھا۔
اضٌَ ًۃ َّم ۡر ِ
ضٌَّ ًۃ ﴿ۚ﴾ٕ۲ ۡار ِج ِع ۡۤی اِلی َربِّ ِ
ک َر ِ
اپنے رب کی طرف لوٹ آإ ،راضی ہونے والی ،پسند کی ہوئی ہو۔
نم آنکھٌں مسکرا دٌں۔ ہاں فاطمہ سرخرو ٹھہرائی جا رہی تھی۔۔ اسے دنٌا مٌں ہی اسکے رب کی رضا کی خوشخبری "
دی جا رہی تھی۔
اض ٌَ ًۃ َّم ۡر ِ
ضٌَّ ًۃ ﴿ۚ﴾ٕ۲ ۡار ِج ِع ۡۤی اِلی َر ِبّ ِ
ک َر ِ
اپنے رب کی طرف لوٹ آإ ،راضی ہونے والی ،پسند کی ہوئی ہو۔
وہاں موجود۔۔ ہر بہتی آنکھ نے۔۔ دنٌا سے جدا ہوتے چہرے پر مسکراہٹ دٌکھی۔۔ زندگی کی حسٌن ترٌن مسکراہٹ۔۔
س ۡال ُم ۡط َمئِنَّ ُۃ کی بشارت نے۔۔ فاطمہ کے لٌے نزع کا عالم آسان کر دٌا تھا۔۔ روح نزاکت سے نکالی جا رہی تھی۔"
النَّ ۡف ُ
وہ محسوس کر رہی تھی شدٌد تکلٌف۔۔ مگر۔۔۔ اسکی روح خوش تھی۔۔ بہت خوش۔۔ شاٌد کہ آج سے پہلے اتنی خوش
کبھی نہ تھی۔ جدائی کی اذٌت۔۔محبوب سے ماللات کی خوشی مٌں محو ہو چکی تھی۔
"جو رب سے ماللات کا شوق رکھتا ہے۔ رب بھی اس سے ماللات کا شوق رکھتا ہے۔"
اور "ہللا" کے لفظ کے ساتھ ہی مسکراہٹ بکھٌرتے لبوں نے آخری ہچکی لی۔۔ عالم نزع کی آخری ہچکی۔۔
روح کو محبت اور نزاکت سے نکال کر جنتی کفن مٌں لپٌٹا جا رہا تھا۔ وہاں کھڑی ہر نورانی مخلوق آگے بڑھ بڑھ کر
اس روح کو چھونا چاہتی تھی۔ انکی رشک بھری نگاہٌں اس جنتی کفن اور جنتی خوشبو مٌں لپٹی روح کا طواف کر
رہی تھٌں۔
ممصد تمام ہوا تھا۔ دنٌا کی زندگی کا مرحلہ ختم ہو چکا تھا۔
اس دھوکے کی دنٌا کی لٌد سے آزادی مل چکی تھی۔
وہ نٌک روح۔۔ مٹی کے جسم کو مسکراتا ہوا بے جان چھوڑ کر اپنے نئے ساتھٌوں کے ہمراہ۔۔ آسمانوں کے سفر کی
طرف رواں دواں ہو چکی تھی۔
"!!!!!فااااطمہ۔۔۔۔"
رٌان صاحب نے روتے ہوئے آگے بڑھ کر فاطمہ کی آنکھوں پر ہاتھ رکھا۔
.................................
اٌکسکٌوز می مٌم! کٌا آپ جانتی ہٌں فاطمہ نامی لڑکی کو؟ جو کچھ ہفتے پہلے کٌنڈا کی سٹرٌٹ مٌں کچھ بک لٌٹس "
"تمسٌم کر رہی تھی۔ مٌں نے آپکو انکے ساتھ دٌکھا تھا شاٌد۔
پٌچھے کھڑی سنہرے بالوں والی لڑکی نے بٌنش کو بالتے ہوئے پرجوش انداز مٌں پوچھا۔
بٌنش جو فاطمہ کو اس حال مٌں دٌکھ نہٌں پا رہی تھی۔ کمرے سے باہر آ کر کارٌڈور مٌں کھڑکی کے پاس کھڑی تھی۔
برستے ہوئے آسمان کو برستی ہوئی آنکھوں سے دٌکھ رہی تھی۔
آنے والی لڑکی کو شاٌد احساس نہ ہوا کہ بٌنش رو رہی ہے۔ اسکے بالنے پر بٌنش نے اپنا چہرہ مکمل اسکی طرف
پھٌرا۔
"اوہ آئی اٌم سوری سسٹر!! آپ رو رہی ہٌں؟ آئی اٌم رئٌلی سوری!! کٌا مٌں وجہ جان سکتی ہوں؟"
وہ دراصل بہت مشکل سے مجھے پتہ چال کہ وہ ٌہاں اٌڈمٹ ہٌں۔ آپ ٌمٌن کرٌں کئی دن ہو گئے مجھے انکو ڈھونڈتے "
ہوئے۔ وہ مٌری خٌرخواہ ہٌں۔ مٌں ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ انھٌں بتانا چاہتی ہوں کی انکی وجہ سے کٌسے مٌں اندھٌروں
سے نکل کر روشنی کی طرف آئی۔ کٌسے جہالت سے نکل کر علم کا نور پاٌا۔ انکے اٌک بک لٌٹ نے کٌسے مٌری
زندگی بدل دی۔ مٌں انھٌں بتانا چاہتی ہوں کہ مجھ سمٌت مٌری پوری فٌملی اس بک لٌٹ کو پڑھنے کے بعد اسالم لبول
"!!کر چکی ہے۔ الحمدہلل
وہ مٌکانکی انداز مٌں کہے جا رہی تھی جبکہ بٌنش ٹکٹکی باندھے اسکی طرف دٌکھ رہی تھی۔
اس کے ٌمٌن نے آج ثابت کر دٌا تھا کہ والعی۔۔ محسنٌن اور مخلصٌن کا اجر ضائع نہٌں کٌا جاتا۔
")واٹ؟؟؟(کٌا"
ٌہ سننا ہی تھا کہ سنہرے بالوں والی لڑکی کی نٌلی کانچ کی آنکھٌں بھٌگنے لگٌں۔
وہ بے ٌمٌنی سے بٌنش کے بتائے ہوئے رستے کی جانب دوڑتے ہوئے فاطمہ کے روم مٌں گئی۔
اس نے اٌک ہشاش بشاش مسکراتا خوبصورت چہرہ بٌڈ پر لٌٹے ہوئے پاٌا۔۔ گوٌا وہ سو رہی ہو۔
اس نے آگے بڑھ کر پوچھنا چاہا مگر وہاں کھڑے ہر شخص کی حالت سے عٌاں تھا۔۔ کہ وہ ہمٌشہ کے لٌے سو چکی
تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"آجاإ فاطمہ بٌٹا! ماما وٌٹ کر رہی ہٌں اپنے بٌٹے کا۔"
زونٌشہ مسز رٌان کے ساتھ اپنے گھر کے الن مٌں بٌٹھی چائے پی رہی تھی۔
سال کی فاطمہ توتلی زبان مٌں دوڑتے ہوئے زونٌشہ کی طرف آئی۔ 4
اس نے سر پر دوپٹہ لپٌٹا ہوا تھا۔ ہاتھ مٌں چھوٹا سا لرآن مضبوطی سے تھامے زونٌشہ کی گود مٌں چڑھ کر بٌٹھ گئی۔
)ماما ماما! آج ہم کش پرافت کی شتوری شنٌں گے؟ (آج ہم کس نبی کی کہانی سنٌں گے؟"
ذہن اٌک بار پھر 4سال پہلے۔۔ اٌک صبر کی کہانی کے کردار۔۔ اپنی بٌٹی کی پھوپھو فاطمہ پر جا ٹھہرا تھا۔
"کٌا۔۔بہت ہی زٌادہ۔۔
ننھی فاطمہ نے زونٌشہ کو بازو سے پکڑ کر جھنجھوڑتے ہوئے پوچھا۔ زونٌشہ جو پھر سے کھو گئی تھی۔
"ہاں! پھر۔۔ پھر ٌہ ہوا کہ۔۔ وہ صبر جٌت گٌا۔۔ انعام پا گٌا۔"
دونوں کی نظروں کے سامنے فاطمہ کا موت کے ولت مسکراتا ہوا چہرا لہراٌا تھا۔
"ماما ماما! آگے بتائٌں نا۔۔ ہللا نے کٌسے رٌوارڈ دٌا تھا انھٌں؟"
اٌسے ہی تو ہوتا ہے۔۔ صبر کرنے والے۔۔ رب کی رضا پر راضی رہنے والے۔۔ انعام پاتے ہٌں۔۔ دنٌا مٌں بھی۔۔ آخرت "
مٌں بھی۔۔ رب سے جڑنے کے سفر کا آغاز بظاہر کتنا ہی کٹھن اور اذٌت ناک کٌوں نا ہو۔۔ مگر اختتام۔۔ بہت حسٌن ہوا
کرتا ہے۔ رب سے جڑنے کے اس حسٌن سفر کی حسٌن ترٌن منزل۔۔ رب سے ماللات ہی ہوتی ہے۔ اس حال مٌں
"ماللات۔۔ کہ بندہ بھی راضی۔۔ اور رب بھی راضی۔۔
اآلخ َرةِ
ْش ِ ْش ِإ َّال َعٌ ُ
ال َعٌ َ
)نہٌں (اصل) زندگی مگر آخرت کی ہی۔۔(
ختم شد~