Download as pdf or txt
Download as pdf or txt
You are on page 1of 26

‫سوال نمبر ‪.

1‬دبیر کی مرثیہ نگاری پر مضمون قلم بند کریں‬


‫جواب;‬
‫مرزا سالمت علی دیبر اُردو مرثیہ کی تاریخ کا ایک اہم‬
‫اور بڑا نام ہے۔ صنف مرثیہ کو بام عروج پر پہنچانے میں میرانیس کے ساتھ ساتھ ان کی‬
‫کوشش بھی ہر لحاظ سے قابل ِ داد ہیں ۔ مرزا دبیر نے چونکہ عربی اور فارسی علم و ادب کا‬
‫گہرا مطالعہ کیا تھا۔ اور دوسرے حساس طبیعت کے باعث وہ سنجیدہ ہوگئے تھے اس لئے‬
‫انہیں شعر و سخن کی سلطنت میں یک گونہ عافیت کا احساس ہوا‪ ،‬شاعری سے انہیں فطری‬
‫لگائو پیداہوگیا تھا۔ اور پھر شاید اپنی جنم بھومی دہلی کی تباہی اور دیگر عوامل کے حوالے‬
‫سے انہوں نے بھی مرثیہ گوئی اختیار کر لی ۔ ویسے بھی اس عہد میں اقلیم غزل میں اس قدر‬
‫شعراءکی فراوانی اور کثرت تھی کہ محض توانا اور جاندار غزلیہ شاعری پنپ سکتی تھی اس‬
‫پر مستزاد یہ ہے کہ وہ دور غالب جیسے سورج کا دور تھا۔ جس میں ماہ و انجم ماند پڑ جاتے‬
‫چھوٹے موٹے چراغ کچھ بھی نہ تھے۔ البتہ مرثیہ نگاری میں ابھی ہر طرح کی وسعت کی‬
‫پوری پوری گنجائش موجود تھی۔ اس لئے اپنی موزونی طبع اور حاالت کے مطابق مرزدبیر‬
‫نے مرثےہ نگاری کے میدان کو اپنی شاعری کے لئے چنا۔ اور اسی میں اپنے جوہر دکھانے‬
‫شروع کئے۔ مرزا دبیر نے اپنے مرثیہ نگاری کے اس ذوق کی آبیاری اور اُستادانہ رہنمائی کی‬
‫خاطر اس عہد کے ایک شاعر میر ضمیر کی شاگردی اختیار کی ۔ اور اپنے نام کے ساتھ ساتھ‬
‫استاد کا نام امر کیا۔ اسی عہد میں لکھنو میں علم و ادب اور شعر و سخن کی محفل میں مر ثیہ‬
‫ایک بلند مقام اور تاثیر پیدا کر چکا تھا۔ اور بال مبالغہ برسو ں تک لکھنوکی مرثیہ کی شاعری‬
‫مرزا دبیر ہی کے گرد احاطہ کئے ہوئے تھی بعد میں میر انیس نے بھی اس فن میں اپنی‬
‫اُستادانہ جوہر دکھاکر دبیر کے شانہ بشانہ مرثیہ کی وہ قصر تعمیر کی جس کے قمقموں سے‬
‫آج اردو ادب جگمگ جگمک کر رہا ہے۔ مرزا دبیرکی شہرت و منزلت عالم ِ شباب ہی میں اتنی‬
‫عام ہو چکی تھی کہ شاہ اودھ غازی الدین حیدر نے ان کو شاہی امام باڑے میں دعوت دی ۔ یہ‬
‫وہ زمانہ تھا جب ہر طرف خلیق ‪ ،‬ضمیر ‪ ،‬دلگیر اور فصیح وغیرہ کا طوطی بول رہا تھا ان کا‬
‫کہنہ مشق اساتذہ کی موجودگی میں نوجوان دبیر کی شاہی مجلس پڑھنا اس کے فنی کمال کی‬
‫دلیل ہے۔ جس پر مرزا نو عمری میں فائز ہو چکے تھے۔ ڈاکٹر سید ناظر حسین زیدی دبیر کے‬
‫‪،‬متعلق لکھتے ہیں‬
‫زور بیان ‪ ،‬شوک ِ‬
‫ت الفاظ ‪ ،‬بلند تخیل ‪ ،‬ایجاز مضامین اور صنائع ”‬ ‫ِ‬ ‫دبیر کے کالم کا خاص جوہر‬
‫کا استعمال ہے۔ تخیل کی بلند پروازی ‪ ،‬علمی اصطالحات ‪ ،‬عربی فقروں کی تضمین اور ایجاز‬
‫“مضامین کے زور میں وہ بے مثل ہیں یہ ان کی خاص مملکت ہے۔‬

‫یہ مرثیے کا پہال حصہ ہے اس کو قصیدے کی تشبیب کی طرح سمجھنا‬ ‫چہرہ‪:‬۔‬


‫چاہیے یعنی یہ کہ اس کا تعلق مضامین ِ مرثیہ سے نہیں ہوتا۔ اور اس لئے کسی موضوع کی‬
‫بھی تخصیص نہیں ہوتی۔ دبیر نے عموما ً ‪ ،‬بہار ‪ ،‬طلوع سحر‪ ،‬ہیرو کی تعریف یا مجلس اعز ا‬
‫کی تعریف کے لئے اس حصے کو مخصوص کیا ہے۔ ان تمام موضوعات میں بالخصوص طلو‬
‫ع سحر کو سب سے زیادہ اہمیت حاصل ہے۔ دبیر نے مراثی کے اس حصے پر زور طبیعت‬
‫بہت صرف کیا ہے۔‬

‫خورشید کے نشان نے مٹایا نشان ِ شب‬ ‫جب سرنگوں ہوا علم کہکشاں شب‬
‫تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنسان شب‬ ‫تیر شباب سے ہوئی خالی کمان شب‬
‫آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے‬
‫شب نے زرہ ستاروں کی رکھدی اتار کے‬

‫جس طرح قصیدے میں تشبیب کے بعد گریز آتا ہے بالکل اسی طرح‬ ‫گریز‪:‬۔‬
‫مرثیہ میں چہرہ کے بعد گریز آتا ہے ۔ دبیر نے اپنے مرثیوں میں عام طورپر گریز کا استعما ل‬
‫کیا ہے۔ اور مجموعی طور پر یہ ان کی مراثی میں خاصا جاندار ہے‪ ،‬اور یہاں پہنچ کر کم از‬
‫کم قاری اتنا محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاعر بڑی کوشش کے بعد ایک موضوع‬
‫سے دوسرے موضوع کی طرف آرہا ہے۔ مثالً وہ اپنے ایک مرثیے میں حضرت علی اکبر کے‬
‫‪ ،‬حال میں چہرے کو مخصوص رنگ و آہنگ عطا کرتے ہیں‬

‫گور غریباں میں ہے دھوم آہ و‬


‫ہم ِ‬ ‫محتاج کفن الش ہے کس فخر جہاں کی‬
‫ِ‬
‫فغاں کی‬
‫تابوت پہ سہر ا نہیں میت ہے جواں‬ ‫پوچھو تو زمانے میں ہے یہ رسم کہاں کی‬
‫کی‬
‫مرنا تو ہے برحق سبھی اک روز مریں گے‬
‫لیکن یہ شباب اور یہ اجل یاد کریں گے‬

‫مرثیے میں رخصت کا مقام اس وقت آتا ہے جب طرفدارین حسین یا اصحاب‬ ‫رخصت‪:‬۔‬
‫میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اس موضوع کو دبیر‬
‫ِ‬ ‫اہل بیت میں سے کوئی‬
‫نے جس انداز سے باندھا ہے وہ دیبر کے ہاں اس موضوع کو شمشیر بے زنہار کی حیثیت‬
‫حاصل ہو گئی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس کو پیش کرنے میں تاریخی حقیقت سے زیادہ آفاقی‬
‫اصلیت سے کام لیا ہے۔‬

‫حالت ہوئی تغیر شہ ارض‬ ‫ت وفا کی‬


‫اکبر نے جو طلب کی رضا دش ِ‬
‫و سما ءکی‬
‫چھوڑیں گے قدم راہ نہ‬ ‫فرمایا میں راضی ہوں جو مرضی ہو خدا کی‬
‫تسلیم و رضا کی‬
‫اکبر کی جدائی کا تو مجھ کو نہیں غم ہے‬
‫تصویر نبی مٹتی ہے یہ رنج و الم ہے‬

‫اُردو مرثیوں میں آمد کا موضوع ان مواقع کے لئے اپنا یا جاتا ہے جب‬ ‫آمد‪:‬۔‬
‫جنگجو میدان ِ جنگ میں وارد ہوتے ہیں مرزا دبیر کے مرثیوں میں ا س موقع پر آمد کی تمام‬
‫خصوصات پائی جاتی ہیں چونکہ اس میں جذبات نگاری اور محاکات کا موقع نہیں ہوتا اس لئے‬
‫شاعر بغیر کسی ذمہ داری کے اپنے تخیلی قوتوں کا حتی االمکان مظاہر ہ کر سکتا ہے۔ دبیر‬
‫نے اس موضوع پر جس حد تک طبع آزمائی کی ہے۔ اما م حسین کی میدان میں آمد کو وہ یوں‬
‫بیان کرتے ہیں ۔‬

‫رن ایک طرف چرخ‬ ‫کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے‬
‫کہن کانپ رہا ہے‬
‫قصر سالطین زمن‬
‫ِ‬ ‫ہر‬ ‫رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے‬
‫کانپ رہا ہے‬
‫شمشیر بکف دیکھ کے حید ر کے پسر کو‬
‫جبریل لرزتے ہیں سمٹتے ہوئے پر کو‬

‫سراپا مرثیے کا وہ جزو ہے جس میں مرثیہ نگار اہل بیت کا سراپا‬ ‫سراپا‪:‬۔‬
‫کھینچتے ہیں ان کی حسن و خوبصورتی بیا ن کرتا ہے۔ ان کی توصیف کرتا ہے دبیر نے بھی‬
‫اس جزو پر زور قلم صرف کیا ہے۔ اور بہت ہی نادر سراپے تخلیق کئے۔ امام حسین کا سراپا‬
‫یوں کھینچا ہے۔‬

‫تعریف کو مداح کمر بستہ اُٹھے ہیں‬ ‫کیا غلغلہ ابروئے پیوستہ اُٹھے ہیں‬
‫میزاں کی طرح مصرعہ برجستہ اُٹھے‬ ‫ہاتھوں میں لئے ظلم کا گلدستہ اُٹھے ہیں‬
‫ہیں‬
‫ابرو کا ُر خ صاف میں پرتو نظر آیا‬
‫خورشید کاپہلو میں مہ نو نظر آیا‬

‫اردو مرثیہ نگاروں نے میدان کربال میں لڑائی کے نقشے بڑے اہتمام کے‬ ‫رزم ‪:‬۔‬
‫ساتھ رقم کئے ہیں اگر دبیر کے مرثیوں کا مطالعہ کیا جائے وہ ایک اہم رزمیہ شاعر ثابت‬
‫ہوتے ہیں ۔ اردو مرثیوں میں رزم کی تیاری کا آغاز ”طلوع سحر“ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جس کے‬
‫بعد فوجوں کی صف بندی ہوتی ہے پھر جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔‬

‫ہٹ کر عقاب پر علی اکبر ہوئے‬ ‫فرما کے علی شہ صفدر ہوئے سوار‬
‫سوار‬
‫بتیس شہ سوار برابر ہوئے سوار‬ ‫عباس لے کے رایت ِ حیدر ہوئے سوار‬
‫چالیس پیدل آگے جلو میں بہم چلے‬
‫لی کر یہ فوج لڑنے کو شاہ الم چلے‬

‫واقعات کربال کی مناسبت سے اردو مرثیوں میں شہادت کا موضوع‬ ‫شہادت‪:‬۔‬


‫فطری ہے لیکن دبیر نے شہادت سے قبل ہیرو کی مدح سرائی پر اس قدر مضامین حرف کر‬
‫دئیے ہیں کہ شہادت سے قبل واقعہ کو موڑ دے کر اس کے لئے کوئی نہ کوئی جواز کرنا پڑتا‬
‫ہے۔ دبیر نے حضرت امام حسین کی شہادت کے لئے بھی اس طرح کا ایک جواز پیش کیا ہے۔‬
‫یعنی جب شمشیر ِ امام سے دشمنوں میں کھلبلی مچ گئی اور سر پر سر گرنے لگے ۔ تو اس‬
‫سے بچنے کی انہوں نے یہ تدبیر سوچی۔‬
‫زینب سے کہے کوئی کہ مارے‬ ‫القصہ یہ مکاروں نے کی بچنے کی تدبیر‬
‫گئے شبیر‬
‫پھر فوج پہ حملہ نہ کریں گے شہ‬ ‫سرپیٹتی جو رن میں نکل آئے گی ہمشیر‬
‫دلگیر‬
‫سیدانیوں میں دھوم قیامت کی مچے گی‬
‫گریہ نہ کیا جان کسی کی نہ بچے گی‬

‫بین دراصل مرثیے کا آخری جزو ہے اُس میں شہدائے کربال کے لئے بین ہوتا‬ ‫بین‪:‬۔‬
‫ہے جب کوئی سپاہ اہل بیت شہید ہو جاتا ہے تو اس کی الش خیمے میں الئی جاتی تو خواتین‬
‫اس پر بین کرتی ۔ مراثی دبیر کا اہم عنصر بین ہے طبیعت کے لگائو او ر عرصہ دراز کے‬
‫مشق کے باعث یہ عنصران کے ہاں کافی کامیاب نظر آتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر‬
‫حضرت زینب بین کرتی ہے۔ دبیر اس کو یوں بیان کرتے ہیں۔‬

‫کس منہ سے کہوں دختر ِ زہراد‬ ‫سر کھولے ہر ارماں کے الشے پہ چلی ہوں‬
‫علی ہوں‬
‫زینب تھی میں یثرب میں یہاں‬ ‫سب جانتے ہیں حوروں کے دامن میں پلی ہوں‬
‫کوکھ جلی ہوں‬
‫سوال نمبر ‪ . 2‬مثنوی سحر البیان کے نمایاں اوصاف بیان کریں ‪-‬‬
‫جواب‪,‬‬
‫مثنوی سحر البیان‬
‫اردو زبان میں جن دو مثنویوں کو سب سے زیادہ قبولیت اور شہرت ملی ان میں میر حسن کی ’’سحر البیان‘‘ اور دیاشنکر نسیم‬
‫گلزار نسیم ‘‘ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ دونوں مثنویاں اپنی اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مماثل قرار دی گئی‬ ‫ِ‬ ‫کی’’‬
‫ہیں۔ موالنا حسین آزاد لکھتے ہیں ’’ ہمارے ملکِ سخن میں سینکڑوں مثنویاں لکھی گئی مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے ہیں‬
‫گلزار نسیم اور تعجب یہ کہ دونوں کے‬
‫ِ‬ ‫جنہوں نے طبیعت کے موافقت سے قبول عام کی سند پائی ایک سحر البیان دوسرے‬
‫راستے بالکل الگ الگ ہیں‘‘۔‬

‫مسمی ثابت ہوئی‪ ،‬جس نے بھی اس مثنوی کو پڑھا اس کی سحر بیانی کو یقینا ً محسوس کیا۔ اس کی‬ ‫میر حسن کی یہ مثنوی اسم با ٰ‬
‫زبان اتنی صاف اور عام فہم ہے کہ یہ کہ پانا مشکل ہے کہ یہ آج سے دوسو سال پہلے کی زبان ہے۔ موالنا آزاد مرحوم لکھتے‬
‫ہیں ’’ اس کی فصاحت کے کانوں میں قدرت نے کچھ ایسی سناوٹ رکھی تھی کہ معلوم ہوتا ہے اسے سو برآگے کی باتیں سنائی‬
‫دیتی تھیں۔ جو کچھ اس وقت کہا صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو ہے جو آج ہم اور تم بول رہے ہیں‘‘۔‬

‫سن تصنیف‬
‫میرحسن نے اس مثنوی کو ؁‪ ۱۱۹۹‬ھ مطابق ‪۸۵-۱۷۸۴‬ء میں تحریر کیا۔ میر حسن کی اس مثنوی کو ڈاکٹر گلکرسٹ کی‬
‫فرمائش پر میر حسن کے دوست میر شیر علی افسوس نے اپنے مقدمے کے ساتھ ؁‪ ۱۸۰۳‬ء میں ترتیب دیا‪ ،‬جسے ؁‪ ۱۸۰۵‬ء‬
‫میں فورٹ ولیم کالج کی طرف سے پہلی بار شائع کیا گیا۔‬

‫ت نبیﷺ کے‪ ،‬حضرت علی کرم ہللا‬ ‫یہ مثنوی تقریبا ً ڈھائی ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں ‪ ۳۸‬اشعار حمد کے ‪ ۲۶‬اشعار نع ِ‬
‫ب پاک کی مدح میں ‪ ۴‬اشعار کہے گئے ہیں۔( اردو کی بہترین مثنویاں‪ ،‬ص‪ )۳۲:‬یہ بحر متقارب‬‫وجہ کی شان میں ‪ ۱۹‬اور اصحا ِ‬
‫مثمن مقصور یا محذوف یعنی فعولن‪ ،‬فعولن‪ ،‬فعولن‪ ،‬فعول یا فعل کے بحر میں لکھی گئی ہے۔‬

‫سحر البیان کی وجہ تالیف‬


‫گلزار ارم تصنیف کی‪ ،‬اس مثنوی میں میرحسن‬‫ِ‬ ‫مثنوی سحر البیان تحریر کرنے سے پہلے میرحسن نے ‪۱۱۹۲‬؁ھ میں مثنوی‬
‫نے فیض آباد کی خوب مدح سرائی کی اور لکھنو کی مذمت۔ اس وقت لکھنو اودھ کا دارالخالفہ قرار دیا چکا تھا اور نواب آصف‬
‫الدولہ نے زر کثیر خرچ کر کے لکھنو کو آراستہ کیا‪،‬لکھنو کی مذمت میں اشعار سن کر نواب بہت رنجیدہ ہوئے‪،‬جو میر حسن‬
‫سے خفگی کا سبب بنا۔ بعض لوگوں نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ اسی وجہ سے میر حسن کو شہر سے آوارگی اختیار کرنی پڑی۔‬

‫میر حسن نے نواب کے اسی غم و غصہ کو کم کرنے کے لیے مثنوی سحر البیان تحریر کی اور نواب کے حضور میں پیش کیا‪،‬‬
‫تب جاکے ان کا قصور معاف ہوا۔ لیکن میر کو اس مثنوی سے جتنی توقع تھی پوری نہ ہو سکی۔ نواب کی طرف سے محض ایک‬
‫دوشالہ جس کو نواب نے اپنے استعمال کے لیے رکھا تھا عطا کیا۔ میر حسن کا مرتبہ تو بڑھا لیکن دلی مراد پوری نہ ہو سکی۔‬
‫میر حسن کے دل میں ہمیشہ یہ مالل رہا کہ نواب آصف الدولہ جیسا سخی آدمی کہ جس کے بارے میں مثل مشہور تھا ’’ جسے نہ‬
‫دے موال اسے دے آصف الدولہ‘‘ اس نے اس کے کئی سالوں کے محنت کا یہ صلہ دیا۔‬

‫مثنوی سحرالبیان‪:‬۔‬

‫مثنوی سحر البیان‬


‫جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات‬
‫”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ‪ ،‬خمار ‪ ،‬کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں ہوتی ہے اسی قدر‬
‫یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں نہیں ہوتی ہیں اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور‬
‫ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم ہیں اس لئے ہم بال تکلف یہ بات کہہ‬
‫سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔‬
‫”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں‬
‫اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لئے ”‬
‫سحرالبیان “ ایک مقبول عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پالٹ ‪ ،‬جذبات نگاری‬
‫‪ ،‬مکالمہ نگاری ‪ ،‬مرقع نگاری ‪ ،‬منظر نگاری اور سراپا نگاری کے عالوہ ایک مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے‬
‫حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔‬
‫اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخالقی اقدار پر روشنی پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی‬
‫تصور زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ ”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ‪ ،‬ذہنی امور اور اخالقی تصورات کی‬ ‫ِ‬ ‫طرز فکر اور‬
‫عکاس ہے۔ یہ مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے اودھ کی اس فضا میں جہاں تکلف و تصنع کا دور‬
‫دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے‬
‫اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے اسی لئے اس مثنوی ” گلزار نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب و‬
‫لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے‬
‫ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے ہیں‪،‬‬
‫” اگر کوئی شخص اختالف کرنے پر آئے تو اختالف ہر بات سے ہوسکتا ہے اس لئے اگر کہا جائے کہ میر حسن کی مثنوی‬
‫سحرالبیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحرالبیان یعنی مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر لکھا جاتا ہے) اردو‬
‫زبان کی سب سے اچھی مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست نہیں ہے لیکن اگر یہ کہا جائے‬
‫کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شائد کسی کو شدت کے ساتھ اختالف نہ ہوگا۔ کیونکہ کہانی اور‬
‫انداز ِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جس کا مطالعہ اس کی عظمت کا پتہ دیتا ہے۔‬
‫میر حسن نے کئی اور مثنویاں بھی لکھی ہیں لیکن کسی مثنوی میں یہ نہیں کہا ہے کہ‪،‬‬
‫ذرا منصفو! داد کی ہے یہ جا‬
‫کہ دریا سخن کا دیا ہے بہا‬
‫زبس عمر کی اس کہانی میں صرف‬
‫تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے حرف‬
‫جوانی میں جب ہوگیا ہوں میں پیر‬
‫تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے نظیر‬
‫نہیں مثنوی ہے یہ ایک پھلجھڑی !‬
‫مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی‬
‫نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان‬
‫نہیں مثنوی ہے یہ سحر البیان‬
‫یہ میر حسن کی تعلی ہو یا روایتی شاعرانہ پیرایہ بیان لیکن ہم اس کو تنقید کی بنیاد بنا کر ”سحر البیان“ پڑھیں تو بعض دلکش‬
‫نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ ”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں‬
‫اور فنی محاسن پر تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔‬
‫سحرالبیان کا پالٹ‪:‬۔‬
‫جہاں تک اس مثنوی کے پالٹ کا تعلق ہے ‪ ،‬اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا ءمختلف منشور اور منظوم ‪ ،‬قدیم‬
‫داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے سادھے انداز میں یوں ہے‪،‬‬
‫کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔ بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں‬
‫مگر اوالد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ‬
‫دنیا ترک کر دینے کا ارادہ کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔ شاہی‬
‫نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ لیکن اس کی سالمتی و زندگی میں چند خطروں کی‬
‫نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے‬
‫آسما ن تلے سونے نہ دیا جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی اور مردانہ‬
‫وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم کے ساتھ ‪ ۱۲‬سال تک اسے محل کے اندر رکھا‬
‫جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حاالنکہ اتفاق سے ایک دن‬
‫کم تھا) وہ رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے ہوا ۔ اسے سوتے میں‬
‫دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی۔ او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔ شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو‬
‫جاتا ہے۔ بڑی تالش کی گئی مگر شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ مال۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے‬
‫کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغر سنی کے باعث اداس ‪ ،‬ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس پریشانی کو دور کرنے کے لئے ماہ‬
‫رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “ کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک‬
‫دوسرے کو دیکھ کر عاشق ہوجاتے ہیں اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس کی اطال ع ما‬
‫ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بد‬
‫منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار سہیلی وزیر زاد ی نجم النساءبے نظیر کی تالش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی‬
‫مشکلوں سے جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دالتی ہے۔ دونوں کی شادی وہ جاتی ہے خود‬
‫نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب ناک انجام کو پہنچتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر وحید قریشی پالٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‪،‬‬
‫تہذیب و ثقافت کی عکاسی‪:‬۔‬
‫”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔ سید عابد علی عابد اس کی تہذیبی و‬
‫معاشرتی خوبیوں کا بیان یوں کرتے ہیں‬
‫نوابان اودھ و لکھنو سے متعلق ہے رعایا خوشحال ‪ ،‬پرجا فارغ البال ‪ ،‬ہر‬
‫ِ‬ ‫”میر حسن نے جس معاشرت کی تصویر کھینچی ہے وہ‬
‫ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب ‪ ،‬میلے ٹھیلے ‪ ،‬ڈیرے دار طوائفیں ‪ ،‬شوخ و شنگ اور چست و چاالک ناچنے والیاں ‪ ،‬لوگ موسیقی‬
‫کے رسیا‪ ،‬ٹھمریوں کے بولوں کے شیدائی ‪ ،‬فرمانروا‪ ،‬داستان گوئی اور داستان طرازی کی طرف مائل ‪ ،‬خوبصورت باغ لگوانے‬
‫کے مشتاق ‪ ،‬شہزادیاں اور ناز و نعمت میں پلی ہوئیں ‪ ،‬سات محل کی خواصیں کہ جن کا نام سن کر آنکھوں میں نور ‪ ،‬دل میں‬
‫سرور آجائے۔“‬
‫میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس سے خوب واقف تھے یہاں ہم موسیقی‬
‫کی ایک محفل کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے میر حسن کے فنی شعور نے تخلیق کیا ہے۔‬
‫موسیقی‪:‬۔‬
‫بنا ٹھاٹھ نقار خانے کا سب‬
‫ب عیش و طرب‬ ‫مہیا کر اسبا ِ‬
‫دیا چوب کو پہلے تم سے مال‬
‫لگی پھیلنے ہر طرف کو صدا‬
‫بجے شادیانے جو واں اس گھڑی‬
‫ہوئی گرد وپیش آکے خلقت کھڑی‬
‫امیروں کو جاگیر لشکر کوزر‬
‫وزیروں کو الماس و لعل و گوہر‬
‫جبکہ اس شعر میں تو آصف الدولہ عہد خو د بخود جھلک رہا ہے۔ جو کہ مثنوی کے آخر میں کہا گیا ہے۔‬
‫رہے شاد نواب ِ عالی جناب‬
‫کہ آصف الدولہ جس کا خطاب‬
‫ڈاکٹر وحید قریشی مثنوی ”سحر البیان “ کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪،‬‬
‫” دراصل ”سحرالبیان “ ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جسے فراغت حاصل ہے قصے کے تمام افراد اسی آسودہ حالی اور‬
‫فارغ البالی کے مظہر ہیں ۔‬
‫منظر نگاری‪:‬۔‬
‫ت نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھرپور فن کاری کی دلیل ہے واقعات کے ضمن میں‬ ‫میر حسن نے منظر نگاری میں جس دق ِ‬
‫مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ میر‬
‫حسن کی منظر نگاری دکھانے کے لئے ہم نے ”باغ کی تیاری“ کا نقشہ منتخب کیاہے۔ اس باغ کے منظر کو دیکھئیے آخری مغل‬
‫عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ‪ ،‬عمارات اور ترتیب کابیان ہو بہو مغل باغات کے مطابق ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ‪،‬‬
‫بے جان تصویریں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے جس کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے‬
‫نقاب اُٹھائی جا رہی ہے جسکی تصویر کو میر حسن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاکہ وہ اپنے عہد کی تہذیب اور زندگی کی‬
‫رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن فطری مناظر میں دلچسپی رکھتے تھے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں ۔‬
‫” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انہوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی روح میں جذب کیا اور پھر اس‬
‫ت بدنداں ہے۔“‬
‫رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد انگش ِ‬
‫وہ شہنائیوں کی سہانی دھنیں‬
‫جنہیں گو ش زہرہ مفصل سنیں‬
‫وہ طبلوں کا بجنا اور ان کی صدا‬
‫یہ گانا کہ ”اچھا بنا الڈال!“‬

‫جذبات نگاری‪:‬۔‬
‫میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم و الم اور دکھ‬
‫کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ذرا وہ منظر دیکھیے جب بے نظیر چھت پر سے غائب ہو جاتا ہے۔ محل میں کہرام مچ‬
‫جاتا ہے۔ والدین کے لئے قیامت آجاتی ہے۔ اور ہر کوئی پریشان اور حیران کھڑا ہے۔‬
‫کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی‬
‫کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی‬
‫رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب‬
‫کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب‬
‫سنی شاہ نے جس گھڑی یہ خبر‬
‫گرا خاک پہ کہہ کے ہائے پسر‬
‫ایسی ہی دردناک تصویر اس موقعہ پر نظر آتی ہے جب شہزادی ”بد رمنیر “ شہزادہ ”بے نظیر “ کی جدائی میں بلکتی سسکتی‬
‫اور روتی دھوتی دکھائی دیتی ہے مالحظہ ہو‪،‬‬
‫گیا اس طرح جب مہینہ گزر‬
‫کہ وہ ماہ مطلق نہ آیا نظر‬
‫تو اس کا ادھر رنگ گھٹنے لگا‬
‫جگر خوں ہو مژگاں سے ٹپکنے لگا‬
‫جزئیات نگاری‪:‬۔‬
‫میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جز کو مکمل بیان کردیا مثالً جب بادشاہ رمال کو بال کر اوالد کے بارے‬
‫میں ان سے دریافت کرتا ہے تو رمال نے اپنا کام یوں شروع کیا ۔‬
‫یہ سن کر وہ رمال طالع شناس‬
‫لگے کھنچنے زائچے بے قیاس‬
‫اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ کا بیٹا ہوتا‬
‫ہے تو رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے ایسی باریک باتوں کا‬
‫ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔‬
‫وہ گھٹنا وہ بڑھنا ادائوں کے ساتھ‬
‫دکھا نا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ‬
‫تصویر کشی‪:‬۔‬
‫”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ کھینچا تصویر‬
‫کشی کا حق ادا کردیا ۔ موالنا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں‪،‬‬
‫” غرض کے جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے۔ اور مسلمانوں کے اخیر دور‬
‫ٰ‬
‫بعینہ ان کا چربہ اتار دیا ہے۔“‬ ‫میں سالطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معامالت پیش آتے تھے۔‬
‫سیرت کشی یا کردار نگاری‪:‬۔‬
‫”سحر البیان“ میں میر حسن کی سیرت نگاری کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قصے کے تمام کردار اس آسودہ حا ل‬
‫اور فارغ البال معاشرے کے افراد ہیں جہاں دولت عام ہے اور سوائے عشق و عاشقی اور رقص و سرور کی محفلوں کے سوا‬
‫کوئی کام نہیں یہی وجہ ہے کہ تقریبا ً تمام ہی کردار بے عملی کا نمونہ ہیں ۔ ڈاکٹر وحید قریشی ”سحرالبیان“ میں کرداروں کی اس‬
‫بے عملی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں‪،‬‬
‫مثنوی”سحرالبیان “ کا سب سے زیادہ روشن ‪ ،‬رنگین ‪ ،‬شوخ اور متحرک کردار نجم النساءکا ہے۔ بقول عابد علی عابد نجم‬
‫النساءکی تخلیق میں میر حسن نے اپنی ساری صنعت گری صرف کر دی ہے۔ احتشام حسین کی رائے میں سحرالبیان میں سب سے‬
‫اہم کردار نجم النساءکا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ”سحرالبیان“ ہی میں نہیں تمام مثنویوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ نجم النساءسحرالبیان‬
‫کے کینوس پر پہلی مرتبہ اس وقت نظر آتی ہے‬
‫تشبیہات‪:‬۔‬
‫میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا ہے۔‬
‫وہ گورا بدن اور بال اس کے تر‬
‫کہے تو کہ ساون کی شام و سحر‬
‫نہانے میں یوں تھی بدن کی چمک‬
‫برسنے میں بجلی کی جیسے چمک‬
‫محاکات‪:‬۔‬
‫میر حسن کے یہاں محاکات کی حسین مثالیں نظر آتی ہیں میر حسن نے ایک جگہ بدر منیر کے بیٹھنے کا انداز دکھایا ہے‬
‫کہ زانو پہ اک پائوں کو رکھ لیا‬
‫کہ اک پائوں مونڈھے سے لٹکا دیا‬
‫ضرب المثال‪:‬۔ ”سحرالبیان“ کے بعض اشعار اس قدر رواں ہیں کہ وہ ضر ب المثال بن گئے ہیں یہ مثنوی کی سادگی و سالست کا‬
‫ثبوت ہے مثالً‬
‫سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں‬
‫گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں‬
‫کسی پاس یہ دولت رہتی نہیں‬
‫سدا ناؤ کا غذ کی بہتی نہیں‬

‫سوال نمبر ‪ .3‬مثنوی سحر البیان کی مقبولیت کے اسباب بیان کریں‬


‫جواب;‬
‫مثنی کے معنی دو کے ہیں اصطالح میں ایسی صنفِ‬ ‫مثنی “ سے بنا ہے اور ٰ‬‫مثنوی کا لفظ” ٰ‬
‫سخن کوکہتے ہیں جس کے شعر کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں اور ہر دوسرے شعر میں‬
‫قافیہ بدل جائے ‪ ،‬مثنوی میں لمبے لمبے قصے بیان کئے جاتے ہیں نثر میں جو کام ایک ناول‬
‫سے لیاجاتا ہے ‪ ،‬شاعری میں وہی کام مثنوی سے لیا جاتا ہے۔ یعنی دونوں ہی میں کہانی بیان‬
‫کرتے ہیں‪،‬مثنوی ایران سے ہندوستان میں آئی ۔ اردو مثنوی کی ابتداءدکن سے ہوئی ‪ ،‬دکن کا‬
‫پہال مثنوی نگار نظامی بیدری تھا۔‬

‫مثنوی سحرالبیان‪:‬۔‬

‫جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا‬
‫ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات ”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ‪ ،‬خمار ‪،‬‬
‫کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں‬
‫نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور‬
‫ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم‬
‫ہیں اس لیے ہم بال تکلف یہ بات َکہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔‬
‫”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص‬
‫میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن‬
‫ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لیے ” سحرالبیان “ ایک مقبول‬
‫عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پالٹ ‪،‬‬
‫جذبات نگاری ‪ ،‬مکالمہ نگاری ‪ ،‬مرقع نگاری ‪ ،‬منظر نگاری اور سراپا نگاری کے عالوہ ایک‬
‫مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔‬
‫اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخالقی اقدار پر روشنی‬
‫تصور زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔‬‫ِ‬ ‫پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور‬
‫”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ‪ ،‬ذہنی امور اور اخالقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ‬
‫مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے ۔اودھ کی اس فضا میں جہاں‬
‫تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی‬
‫تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے‬
‫اسی لیے اس مثنوی ” گلزار نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب‬
‫و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں‬
‫نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے‬
‫ہیں‪،‬‬
‫” اگر کوئی شخص اختالف کرنے پر آئے تو اختالف ہر بات سے ہوسکتا ہے اس لیے اگر کہا‬
‫جائے کہ میر حسن کی مثنوی سحرالبیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحرالبیان یعنی‬
‫مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی‬
‫مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست نہیں ہے لیکن اگر یہ‬
‫کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شاید کسی کو شدت‬
‫کے ساتھ اختالف نہ ہوگا۔ کہانی اور انداز ِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جس کا‬
‫مطالعہ اس کی عظمت کا پتا دیتا ہے۔‬
‫میر حسن نے کئی اور مثنویاں بھی لکھیں لیکن کسی مثنوی میں یہ نہیں کہا ہے کہ‪،‬‬
‫ذرا منصفو! داد کی ہے یہ جا‬
‫کہ دریا سخن کا دیا ہے بہا‬
‫زبس عمر کی اس کہانی میں صرف‬
‫تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے حرف‬
‫جوانی میں جب ہوگیا ہوں میں پیر‬
‫تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے نظیر‬
‫نہیں مثنوی ہے یہ ایک پھلجھڑی !‬
‫مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی‬
‫نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان‬
‫نہیں مثنوی ہے یہ سحر البیان‬
‫یہ میر حسن کی تعلی ہو یا روایتی شاعرانہ پیرایہ بیان لیکن ہم اس کو تنقید کی بنیاد بنا کر‬
‫”سحر البیان“ پڑھیں تو بعض دلکش نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ ”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم‬
‫مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر‬
‫تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔‬

‫سحرالبیان کا پالٹ‪:‬۔‬

‫جہاں تک اس مثنوی کے پالٹ کا تعلق ہے ‪ ،‬اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا‬
‫ءمختلف منشور اور منظوم ‪ ،‬قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے‬
‫سادھے انداز میں یوں ہے‪،‬‬
‫کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔‬
‫بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اوالد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب‬
‫سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ‬
‫کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔‬
‫شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ اس کی‬
‫سالمتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ‬
‫بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا‬
‫جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی‬
‫اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم‬
‫کے ساتھ ‪ ۱۲‬سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی‬
‫عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حاالنکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ‬
‫رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے‬
‫ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔‬
‫شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو گیا۔ بڑی تالش کی گئی مگر‬
‫شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ مال۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے‬
‫کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغیر سنی کے باعث اداس ‪ ،‬ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس‬
‫پریشانی کو دور کرنے کے لیے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر‬
‫کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “ کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر‬
‫عاشق ہوجاتے ہیں۔ اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس‬
‫کی اطال ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر‬
‫کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بدر منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار‬
‫سہیلی وزیر زاد ی نجم النساءبے نظیر کی تالش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے‬
‫جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دالتی ہے۔ دونوں کی‬
‫شادی ہوجاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب‬
‫ناک انجام کو پہنچتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر وحید قریشی پالٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ‪،‬‬
‫” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ‪ ،‬پالٹ‬
‫کی تشکیل میں بروئے کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کی چند عظیم مثنویوں میں سے ہے‬
‫اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر‬
‫حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لیے دلچسپی کا وافر سامان مہیا کرتی ہے۔‬
‫اعلی صالحیت میں مضمر ہے۔“‬‫ٰ‬ ‫مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی‬

‫تہذیب و ثقافت کی عکاسی‪:‬۔‬

‫”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔ سید عابد‬
‫علی عابد اس کی تہذیبی و معاشرتی خوبیوں کا بیان یوں کرتے ہیں‪:‬‬
‫نوابان اودھ و لکھنٶ سے متعلق ہے‬
‫ِ‬ ‫”میر حسن نے جس معاشرت کی تصویر کھینچی ہے وہ‬
‫رعایا خوشحال ‪ ،‬پرجا فارغ البال ‪ ،‬ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب ‪ ،‬میلے ٹھیلے ‪ ،‬ڈیرے دار‬
‫طوائفیں ‪ ،‬شوخ و شنگ اور چست و چاالک ناچنے والیاں ‪ ،‬لوگ موسیقی کے رسیا‪ ،‬ٹھمریوں‬
‫کے بولوں کے شیدائی ‪ ،‬فرمانروا‪ ،‬داستان گوئی اور داستان طرازی کی طرف مائل ‪،‬‬
‫خوبصورت باغ لگوانے کے مشتاق ‪ ،‬شہزادیاں اور ناز و نعمت میں پلی ہوئیں ‪ ،‬سات محل کی‬
‫خواصیں کہ جن کا نام سن کر آنکھوں میں نور ‪ ،‬دل میں سرور آجائے۔“‬
‫میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس‬
‫سے خوب واقف تھے یہاں ہم موسیقی کی ایک محفل کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے میر‬
‫حسن کے فنی شعور نے تخلیق کیا ہے۔‬

‫موسیقی‪:‬۔‬

‫جبکہ اس دور کے فرماں رواٶں کے نجوم کے قائل اور رسموں کے گھائل ہونے کا منظر تو‬
‫مثنوی کی ابتداہی میں نظر آتا ہے۔ جبکہ مختلف موقعوں پر چند رسوما ت کا بیاں بھی آیا ہے۔‬
‫اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو معاشرت و تمدن کی بڑی واضح اور جاندار تصویریں ہمارے‬
‫سامنے آجاتی ہیں۔ مثالً شہزادے کی پیدائش پر جس طرح مال اسباب لٹایا جاتا ہے۔ علماو شیوخ‬
‫کو جاگیریں عطا کی جاتی ہیں۔ سپاہیوں کو گھوڑے دیے جاتے ہیں ۔ ان سب سے اس معاشرے‬
‫اور حکومت کی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔‬
‫اس شعر میں تو آصف الدولہ کا عہد خو د بخود جھلک رہا ہے۔ جو کہ مثنوی کے آخر میں کہا‬
‫گیا ہے۔‬
‫رہے شاد نواب ِ عالی جناب‬
‫کہ آصف الدولہ جس کا خطاب‬
‫ڈاکٹر وحید قریشی مثنوی ”سحر البیان “ کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں‪،‬‬
‫” دراصل ”سحرالبیان “ ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جسے فراغت حاصل ہے قصے‬
‫کے تمام افراد اسی آسودہ حالی اور فارغ البالی کے مظہر ہیں ۔‬

‫منظر نگاری‪:‬۔‬

‫ت نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھرپور فن کاری کی‬ ‫میر حسن نے منظر نگاری میں جس دق ِ‬
‫دلیل ہے واقعات کے ضمن میں مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع‬
‫ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ میر حسن کی منظر نگاری دکھانے‬
‫کے لیے ہم نے ”باغ کی تیاری“ کا نقشہ منتخب کیاہے۔ اس باغ کے منظر کو دیکھئیے آخری‬
‫مغل عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ‪ ،‬عمارات اور ترتیب کابیان ہو بہو مغل باغات کے مطابق‬
‫ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ‪ ،‬بے جان تصویریں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے‬
‫جس کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے نقاب اُٹھائی جا‬
‫رہی ہے جس کی تصویر کو میر حسن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاکہ وہ اپنے عہد کی‬
‫تہذیب اور زندگی کی رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن فطری مناظر میں دلچسپی‬
‫رکھتے تھے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں ۔‬
‫” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انھوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی‬
‫روح میں جذب کیا اور پھر اس رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی‬
‫ت بدنداں ہے۔“‬
‫صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد انگش ِ‬

‫باغ کی تیاری‪:‬۔‬
‫اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھئیے مختلف پھولوں ‪ ،‬درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو‬
‫بھی محسوس کیجئے ۔ میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت پھل ‪ ،‬پھول‪ ،‬درخت ‪ ،‬خوشبو‪،‬‬
‫روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیاہے جس میں پڑھنے واال کھو کر رہ جاتا ہے۔‬

‫غسل کا منظر‪:‬۔‬

‫رقص و موسیقی اور باغات و عمارات کے تہذیبی نقشے دیکھنے کے بعد ایک روایتی غسل کا‬
‫منظر بھی دیکھیے شہزادہ بے نظیر غسل کے لیے آتا ہے ۔ اس مقام پر کیا اہتمام ہوتا ہے‬
‫کیسے کیسے لوازمات برتے جاتے ہیں یہ منظر دیکھیے‬

‫جلوس کی تیاری‪:‬۔‬

‫میر حسن نے یہاں جلوس کی تیاری میں اس دور کے روایتی جلوس کی بھر پور عکاسی کر‬
‫دی ۔ مختلف سواریوں کا حال لکھا ہے ۔ سنہری روپہلی سواریوں کا جلوس ہے ساتھ پالکیاں ہیں‬
‫اور کہار ‪ ،‬زربفت کی کرتیاں پہنے دبے پاٶں آگے بڑھ رہے ہیں اب جلوس میں شہنائیوں کی‬
‫صدا آتی ہے اور نوبت کی دھیمی دھیمی صدا کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ اس منظر میں نقارچی‬
‫بھی نظرآتے ہیں اس میں ہاتھیوں کی قطاریں بھی ہیں‪،‬جلوس کے آگے آگے نقیب ‪ ،‬چوبدار اور‬
‫جلوہ دار دکھائے گئے ہیں چونکہ شہزادے کا پہال پہال جلوس ہے اس لیے اس کو دیکھنے‬
‫خلقت کثرت سے اُمنڈ آئی ہے۔‬
‫بجاتے ہوئے شادیانے تمام‬
‫چلے آگے آگے ملے شاد کام‬
‫سوار اور پیادہ صغیر و کبیر‬
‫جلو میں تمامی امیر و وزیر‬

‫سوال نمبر ‪ 4 .‬محسن کاکوروی کی نعت گوئ پر مضمون قلم بند کریں‪-‬‬

‫جواب‪,‬‬
‫دیدار‬
‫ِ‬ ‫محسن کا حال بھی کچھ ایسا ہی نظرٓاتا ہے۔وہ بھی دنیا سے بیزار دکھائی دیتے ہیں اور‬
‫احمد کے مشتاق ہوتے ہیں۔کہتے ہیں‬‫ؐ‬ ‫؎‬

‫دین ودنیا میں کسی کا نہ سہارا ہو مجھے‬


‫صرف تیرا ہو بھروسہ ‪ ،‬تری قوت‪ ،‬ترابل‬

‫تادم مرگ‬
‫ٓارزو ہے کہ رہے دھیان ترا ِ‬

‫شکل تیری نظرٓائے مجھے جب ٓائے اَجل‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫میزان محشرپر‬
‫ِ‬ ‫برنگِ زر چڑھے سونا مرا‬

‫چشم اسود کا‬


‫ِ‬ ‫اٹھوں میں قبر سے مخمور تیری‬

‫دیوان محشر میں‬


‫ِ‬ ‫فرشتے دیکھ کر مجھ کو کہیں‬

‫محمد کا‬
‫ؐ‬ ‫جگہ خالی کرو م ّداح ٓاتا ہے‬

‫ترے دربار میں ہر وقت رہنے کی اجازت ہو‬

‫عیش مخلد کا‬


‫ِ‬ ‫مجھے سرکار سے خلعت ملے‬

‫مدحیہ اشعار میں دونوں ہی شعرا بلندی پر نظرٓاتے ہیں اور بھرپورعقیدت ومحبت کا اظہار‬
‫؎ کرتے ہوئے ٓاقائے دوجہاں صلی ہللا علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہیں ۔ حسان نے کہا‬

‫اَغرّ َعلی ِہ لِل ُّنبو ِۃ َخات ُم‬

‫مِن ہّٰللا ِ َمشہُود َیلُوح َو َی ْش َہ ُد‬

‫ہیں‪ٓ،‬اپ کے پاس خاتم نبوت ہے جس کی گواہی خود ہللا’’‬


‫ؐ‬ ‫یعنی ٓاپ بڑے خوش اخالق وخصال‬
‫نے دی ہے۔‘‘رسول ہللا کی شان میں مندرجہ ذیل مدحیہ اشعار بھی زبردست اہمیت کے حامل‬
‫‪:‬ہیں‬
‫ْ‬
‫ترقط َعینِی‬ ‫َواَحْ َسن ِم ْنکَ َل ْم‬

‫َؤَاجمل مِنکَ َلم َتلِد ال ِّن َساُئ‬

‫ُخلِ ْق َ‬
‫ت مُبرّ ا من ُک ِّل َعی ٍ‬
‫ب‬

‫َکٔا َّنکَ َقد ُخلِ ْق َ‬


‫ت َک َما َت َشاُء‬

‫ٓاپ سے بڑھ کر حسین شخص ٓاج تک میری ٓانکھ نے نہیں دیکھا اور عورتوں نے ٓاپ سے’’‬
‫دیا۔ٓاپ تمام عیبوں اور برائیوں سے اس طرح پاک صاف‬
‫ؐ‬ ‫بڑھ کر خوبصورت بچے کو جنم نہیں‬
‫ٓاپ اس طرح پیدا ہوئے جس طرح ٓاپ ؐخود چاہتے تھے۔‬‫‘‘پیدا کیے گئے ہیں کہ یوں لگتاہے کہ ؐ‬

‫؎ اب ٓاپ ؐ کی شان میں محسن کے مندرجہ ذیل اشعار دیکھیے‬

‫اس کی توصیف میں اک شمہ ہے قرٓان شریف‬

‫کہ لکھا خامٔہ قدرت نے بوج ِہ احسن‬

‫شمس وصفِ رخ ٰ‬
‫ویسین ہے وصفِ دنداں‬

‫والضحی وصفِ جبیں نور ہے وصفِ گردن‬

‫یعنی وہ جس کی ہوئی ذات سراپا برکات‬

‫خلق زماں موج ِ‬


‫ب ایجا ِد زمن‬ ‫ث ِ‬ ‫باع ِ‬

‫ت متخیلہ کو کام میں التے‬


‫محسن کا کمال یہ ہے کہ وہ عقیدت ومحبت کا اظہار کرتے ہوئے قو ِ‬
‫ہیں۔ ان کا مشہورقصیدہ ’’سمت کاشی سے چال جانب متھرا بادل ‘‘اسی نوع کا قصیدہ کا ہے۔اس‬
‫میں انھوں نے دوتہذیبوں کوپیش کیا ہے ۔ایک طرف کفر و شرک کا زور دکھایا ہے اور‬
‫دوسری طرف اسالم کا غلبہ ۔ جس انداز سے یہ قصیدہ کہا گیا ہے وہ بڑانراال ہے ۔ اس میں‬
‫‪:‬ضدین کا اجتماع ہے۔بقول محمدحسن عسکری‬
‫اجتماع ضدین کفر اور اسالم کا ہے۔ امیر مینائی اور خود’’‬
‫ِ‬ ‫اس قصیدے میں سب سے گہرا‬
‫محسن نے تشبیب کا جواز پیش کرتے ہوئے یہ شرعی حیلہ تو ضرور نکاالہے کہ قصیدے میں‬
‫نور ظلمت کفر پر غالب ٓاتے دکھایاگیا ہے۔یہ بات کچھ ایسی غلط بھی نہیں۔‘‘(اردو قصیدہ‬
‫ِ‬
‫)نگاری‪،‬مرتب ام ہانی اشرف‪ ،‬مضمون’’ محسن کاکوروی‘‘ ص‪ ۲۵۰‬از محمد حسن عسکری‬

‫یہ اشعار دیکھیے‬ ‫؎‬

‫ت کاشی سے چالجانب متھرا بادل‬


‫سم ِ‬

‫برق کے کاندھے پہ التی ہے صباگنگاجل‬

‫کالے کوسوں نظرٓاتی ہیں گھٹائیں کالی‬

‫ہند کیاساری خدائی میں بتوں کا ہے عمل‬

‫حسان کی نعتیہ قصیدہ گوئی کا سوال ہے تو وہ تخیل کا سہارانہیں لیتے بلکہ سادگی‬
‫ؓ‬ ‫جہاں تک‬
‫کے ساتھ ٓاپ ؐ کے اوصاف بیان کرتے ہیں۔ نعتیہ شاعری نزاکت کی متقاضی ہے۔ ذرا غفلت یا‬
‫شعرشان رسالت سے کم معیارکا ہے‬
‫ِ‬ ‫الپرواہی شاعر کو کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے۔اگر‬
‫شان رسالت سے بلند ہوکر شعر کہاگیا تو مشکل۔ حسان بن ثابت کا کمال یہ ہے‬
‫تومشکل اور اگر ِ‬
‫کہ وہ اس مشکل راہ پر ٓاسانی کے ساتھ چلتے ہیں اور کہیں ان کے قدم لغزش نہیں‬
‫خوبی شاعری کا اندازہ کیا جاسکتاہے‬
‫ٔ‬ ‫‪ :‬کھاتے۔مندرجہ ذیل اشعار سے ان کی‬

‫مہر نبوت درخشاں ہے۔ہللا کی طرف سے وہ دلیل ہے‪ ،‬چمکتی ہے اور گواہی دیتی ’’‬ ‫ٓاپ پر ِ‬‫ؐ‬
‫ہے۔ہللا نے اپنے نبی کا نام اپنے نام سے مربوط کردیا ‪ ،‬اس لیے مٔوذن پانچوں وقت نماز میں‬
‫نبی ہیں جو ناامیدی اور انبیا کے سلسلٔہ بعثت کے طویل وقفے کے‬
‫اشہد ۔۔۔۔کہتا ہے ۔یہ ایسے ؐ‬
‫بعد ہم تک ٓائے اور اس وقت ٓائے جب زمین پر بتوںکی پرستش ہورہی تھی۔یہ ایک روشن چراغ‬
‫‪ ،‬روشنی دینے والے اور ہادی بن کر ٓائے جن کی چمک ایسی ہے جیسے ہندی تلوار چمکتی‬
‫)‘‘ہے۔‬

‫حسان کی اس سادگی میں حسن بھی ہے اوربھرپور کشش وتاثیر بھی۔یہ بات ہمیں محسن کی‬
‫شاعری میں نظر نہیں ٓاتی۔ محسن اپنی نعتیہ شاعری میں زور پیدا کرنے کے لیے تخیالت کا‬
‫سہارا لیتے ہیں‪،‬الفاظ کی گھن گرج پیدا کرتے ہیں اور تراکیب وتشبیہات کا طمطراق دکھاتے‬
‫ہیں۔بقول ان کے صاحبزادے محمد نورالحسن’’مضامین کی بلندپردازی‪،‬الفاظ کا شان وشکوہ‪،‬‬
‫بندش کی چستی ان کا خاصٔہ طبیعت ہے‘‘۔‬

‫نعتیہ شاعری کی کسوٹی پر حسان زیادہ کھرے اترتے ہیں۔اس لیے حسان کی نعتیہ قصیدہ گوئی‬
‫کونعتیہ شاعری کا معیار بنایاجانا زیادہ مناسب ہوگا۔محسن کی نعتیہ قصیدہ گوئی کا انداز بہت‬
‫سی جگہوں پر حسان بن ثابت کی نعتیہ قصیدہ گوئی سے الگ ہے۔ انھوں نے نعتیہ اشعار کہتے‬
‫ہوئے طرح طرح سے مضامین باندھے ہیں اور ایسے بھی اشعار کہے ہیں جن پر اعتراضات‬
‫کیے گئے ہیں ۔جیساکہ ان کے قصیدہ ’’مدیح خیرالمرسلین‘‘کی تشبیب کو سواالت کے گھیرے‬
‫میں لیا گیا۔ اگرچہ ان کے جوابات خود محسن نے دے دیے ہیں مگر پھر بھی ان کے اس‬
‫قصیدے کو پڑھنے کے بعد قاری یا سامع کے ذہن میں بعض سواالت ضرور ابھرتے ہیں۔حسان‬
‫کے قصائد اس طرح کے گنجلک مضامین سے پاک ہیں۔ ان کے نعتیہ قصیدوں میں تعقی ِد معنوی‬
‫ت متخیلہ کا استعمال نہ کرتے تو وہ نعتیہ‬
‫نہیں پائی جاتی۔ اگر محسن ضرورت سے زیادہ قو ِ‬
‫قصیدہ گوئی میں اور اونچا مقام حاصل کرلیتے ۔ حسان کے برابر وہ ہوتے یا نہیں ؟ اس بارے‬
‫کائنات کے تربیت یافتہ‬
‫ؐ‬ ‫سرور‬
‫ِ‬ ‫میں اس لیے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتاکہ حسان خود‬
‫دفاع اسالم کی‬
‫ِ‬ ‫ٓاپ نے ان کی شاعری کی تعریف کی تھی اور انھیں شاعری کے ذریعہ‬ ‫تھے ‪ؐ ،‬‬
‫تلقین بھی کی تھی۔‬

‫حسان نے اپنے بعض نعتیہ قصائد کی تشبیب میں تغزل کے اشعار ضرور کہے ہیں لیکن وہ‬
‫صرف روایتی انداز کے ہیں ‪،‬پھر حسان کے یہاں تشبیب بہت مختصر بھی ہوتی ہے اس کے‬
‫زور بیانی دکھائی ہے اور اسے کافی طول‬
‫ِ‬ ‫برعکس محسن کاکوروی نے تشبیب میں بڑی‬
‫وطویل کردیا ہے۔تشبیب میں اپنے قدما کی پیروی کرتے ہوئے محسن تغزل کا رنگ پیدا کرتے‬
‫مقام نعت کے مطابق‬
‫ہیں لیکن وہ اس میں کچھ زیادہ ہی شوخی کا مظاہرہ کربیٹھتے ہیں جو ِ‬
‫؎ محسوس نہیں ہوتی ۔چند اشعار دیکھیے‬

‫قدان گو کل‬
‫ِ‬ ‫گھر میں اشنان کریں سرو‬

‫طول امل‬
‫ِ‬ ‫جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک‬

‫دیکھیے ہوگا شری کرشن کا کیوںکر درشن‬

‫سینٔہ تنگ میں دل گوپیوں کا ہے بے کل‬


‫اس شوخی کو محمدحسن عسکری نے محسن کاکمال وامتیاز متصور کیا ہے ۔ وہ لکھتے‬
‫اجتماع ضدین ہی سے نعت میں ان کا امتیازی‬
‫ِ‬ ‫ہیں‪’’:‬موضوع کے تقدسّ اور بیان کی شوخی کے‬
‫رنگ پیدا ہوا ہے ‘‘۔بالشک وشبہ اس نرالے انداز نے انھیں ضرور امتیاز عطاکیا مگر سوال یہ‬
‫اٹھتاہے کہ نعت کے مقام و منصب کے اعتبار سے اس طرح کا انداز اختیارکرنا کیامناسب ہے؟‬
‫کعب بن زہیر کے قصیدے ’ بانت سعاد‘ کی تشبیب بھی تغزل کے گہرے رنگ میں رنگی ہوئی‬
‫ہے مگر اس کے بارے میں یہ کہاجاتا ہے کہ تشبیب کے اشعار انھوں نے اس وقت کہے تھے‬
‫جب وہ اسالم نہیں الئے تھے۔ مشرف بہ اسالم ہونے کے بعد ان کے قصیدوں کا انداز بدل گیا‬
‫تھا ۔ایسا لگتا ہے کہ محسن نے اپنے نعتیہ قصائد میں صنف قصیدہ کی گھن گرج پیدا کی ہے‬
‫اور اپنے عہد کے مطابق اس کے تقاضوں کو پورا کیا ہے اور اس میں وہ کامیاب بھی ہوئے‬
‫ہیں۔انھیں اردوکے سب سے بلند نعتیہ گو شاعر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔بہرکیف حسان اور‬
‫رسول خدا کی گہری عقیدت‬
‫ؐ‬ ‫محسن کے درمیان اتنی مماثلت ضرور ہے کہ دونوں کے قلوب‬
‫میدان شاعری ایک ہے ۔ وہ عربی کے نعتیہ قصیدوں کے‬‫ِ‬ ‫سے منور ہیں‪،‬دونوں کا خصوصی‬
‫سب سے بڑے شاعر ہیں اور یہ اردو کی نعتیہ قصیدہ گوئی کے۔‬

‫سوال نمبر ‪ .5‬انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر سیر حاصل گفتگو کریں‬
‫جواب‪,‬‬
‫ایک شاعر ایک مغموم انسان ہوتا ہے لیکن اس کے لبوں کو ایسی ساخت عطا کی گئی ہے کہ جب وہ آہ‬
‫بھرتاہے یا کرب سے چیخ اٹھتا ہے تو اس کی آواز موسیقی کی طرح لگتی ہے۔ لوگ اس کے‬
‫گرد مجمع لگا لیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ ہمارے لیے جلد ہی دوبارہ نغمہ سرا ہونا یہ‬
‫ایسے ہی ہے کہ جیسے اس سے کہا جائے کہ آئندہ بھی نئے غم تمہاری روح کو زخمی کرتے‬
‫رہیں“۔‬
‫ایسا ہی کچھ اس شاعر پر بھی صادق آتا ہے جو کہ دنیائے ادب کا ایک بے حد معتبر نام‪ ،‬طنز‬
‫و مزاح کے افق پر سب سے منور ‪ ،‬درخشاں روشن ستارہ جسے دنیا انور مسعود کے نام سے‬
‫جانتی ہے۔ الفاظ و محاورات اور زبان و بیان کی بھول بھلیوں میں کسی معصوم بچے کی مانند‬
‫بظاہر کھیل کود میں مصروف لیکن اس بازیچۂ اطفال کے توسط سے کسی بھی فلسفیانہ‬
‫موضوع کو بیان کر دینا ان کے قلم کا کمال ہے اور پھر شستہ رواں اور بے تکلف الفاظ میں‬
‫سجائی شاعری اپنے مخصوص‪ ،‬لطیف‪ ،‬بے ضرر اور انتہائی سادہ انداز میں یوں پڑ ھ دینا کہ‬
‫حس ظرافت نہ صرف بیدار ہو جائے بلکہ کچھ دیر کیلئے وہ اپنے زمان و مکاں‪،‬‬ ‫سامعین کی ِ‬
‫مسائل و حاالت سے بے خبر صرف انور مسعود کی آنکھوں سے دنیا دیکھنے لگتے ہیں۔ ان‬
‫کی معروف ترین نظمیں” اَج کیہہ پکائیے‪ ،‬بُنیان‪ ،‬لسّی تے چاہ‪ ،‬جہلم دے پُل تے‪ ،‬انار کلی دیاں‬
‫شاناں اور بو ٹی دا قیمہ “ وغیرہ اپنے اندر زبان و بیاں کی چاشنی کے عالوہ اپنے دور کی‬
‫پوری تہذیب و ثقافت کی ایک مکمل تصویرلیے ہوئے ہیں۔ یہ نظمیں محض ازرا ِہ تفنن سننے‬
‫اور داد و دہش کےلیے نہیں بلکہ اپنے اندر سیاسی سماجی اور معاشرتی شعور و ادراک کی‬
‫ایک مکمل سند لیے ہوئے ہیں۔ ایک معاشرہ جس میں چوہدری ہمیشہ چوہدری اور رحما ہمیشہ‬
‫جنبش ابرو پر کریال اپنی کڑواہٹ کے باوجود دسترخوان‬
‫ِ‬ ‫رحما ہی رہتا ہے۔ جہاں چوہدری کی‬
‫کا بادشاہ ٹھہرتا ہے اور اس کی رائے کے ذرا سا لڑکھڑانے پر وہی کریال دوزخ کا ایندھن بن‬
‫جاتا ہے جہاں رحما سبزیوں کا نوکر نہیں چوہدری کا جاں نثارخادم ہوتا ہے اور وہ سیدھا سادہ‬
‫خوشامدی اور اپنے آقا کے ماتھے کے بل گن کر خود اپنی ہی بات کی تردید کر دینے واال‬
‫رحما اس کے فیصلے ‪ ،‬نیت اور رائے سے بخوبی باخبر ہوتا ہے اور ایک طنزیہ لیکن‬
‫‪:‬نیازمندانہ انداز میں بات ختم کر دیتا ہے‬
‫”بُجھ لیا چوہدری جی چھولیاں دی دال اے ”‬

‫ان پنجابی نظموں کی پرت در پرت اور تہہ در تہہ دلکشی کو بیان کرنے کےلیے ایک پوری‬
‫کتاب درکار ہے۔لیکن میرا موضوع یہاں پر بذلہ سنج‪ ،‬مرن جان مرنج‪ ،‬ہنستے مسکراتے اور‬
‫اپنے قارئین‪ ،‬سامعین اور ناظرین کی مسکراہٹوں کو اپنے الفاظ و انداز کے اشارے پر قہقہوں‬
‫میں بدلنے والے اس شاعر کے اپنے قہقہے نمناک اور کھوکھلے ہیں۔ انور مسعود کی شہرت‬
‫دوام کا باعث یہی مزاحیہ شاعری ہے جو کہ شعر و سخن سے لگاﺅ رکھنے والے افراد سے‬
‫لے کر ایک عام سادہ سے شہری کے حافظے میں بھی کسی نہ کسی رنگ اور شکل میں‬
‫پس پردہ ایک متین سنجیدہ اور فکر انگیز‬
‫محفوظ ہے لیکن ان تمام تر نظموں اور قطعات کے ِ‬
‫شاعری بھی ہے جس میں رات بھر جاگنے والے ستاروں کی جھلمالہٹ ہے لیکن شاعری کا یہ‬
‫پہلو مزاحیہ شاعری کے ماہ ِکامل کی آب و تاب کے سامنے دھندال جاتاہے اس کی ایک بڑی‬
‫وجہ تو یہ کہ انتشار بے یقینی اور افراتفری کے اس دور میں لوگ چند لمحوں کی ہنسی کو‬
‫غنیمت سمجھتے ہیں اور کسی کے پاس اتنا حوصلہ اور وقت نہیں ہے کہ وہ ان قہقہوں کے‬
‫دیوار گریہ کی حقیقت جاننے لی کوشش کرے۔دوسری بڑی وجہ خود شاعر کا‬ ‫ِ‬ ‫عقب میں کھڑی‬
‫مزاج اور حسن ِبیان ہے دنیا بھر میں سینکڑوں سامعین سے کھچاکھچ بھرے ہوئے پنڈال کو‬
‫ت زعفران بنا دینے والے شاعر کے ابتدائی کالم سے ہی اس کی طبع عیاں ہے‬ ‫‪:‬کش ِ‬
‫جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے‬
‫رونے کو چھپانا ہوتا ہے‬

‫بقول ان کے وہ آج بھی اس شعر کو بڑے اعتماد کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ کرب کی اتھاہ گہرائی‬
‫سے پھوٹنے والے قہقہوں کی گونج اتنی بلند آہنگ ہوتی ہے کہ وہ اشکوں کی برسات کی رم‬
‫جھم اور کن من پر چھا جاتی ہے۔ عام طور پر جیسا کے پنجابی زبان کے بارے میں رائے ہے‬
‫کہ اس میں بے تکلفانہ ہر بات کہ دی جاتی ہے اور ظرافت کا تخلیقی جوہر اس زبان کی‬
‫کشادگی اور ادائیگی میں چمک اٹھتا ہے۔انور کے ہاں جو مشاہدہ ‪ ،‬تجربہ اور اس کا اظہار پایا‬
‫جاتا ہے وہ اس بے بناوٹ زبان میں جہاں انسان کوکھلکھالکر ہنسنے پر مجبور کرتا ہے وہیں‬
‫کچھ سنگین حقائق ایسے ہیں کہ جن پر وہ لب کشائی کرتا ہے تو آنکھیں ‪ ،‬آنچل ‪ ،‬رومال اور‬
‫دامن بھیگتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ان کی پنجابی نظم ”انبڑی“ ہے۔شاعر‬
‫کا اپنا بیان کہ یہ نظم کہنے میں ان کو دس برس لگے۔اور پھر ایک رات ایسا ہو کہ اس نظم نے‬
‫خود انہیں کہا کہ” اٹھو اورمجھے لکھو“ نظم لکھنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ وہ ایک پابند‬
‫معری جو کہ اپنا انداز بیان اور ہئیت ساتھ لے کر آئی۔اور جو شاعر کے‬ ‫نظم نہیں بلکہ نظم ٰ‬
‫تخیل سے آزاد ہو کر اس کے الفاظ میں حیات جاوداں پا گئی۔ اس کہانی میں کرداروں کے نام‬
‫بھی اصلی ہیں واقعہ حقیقی ہے اور وہ ماسٹر خود انور مسعود ہیں۔ یہ ایک ایسی نظم ہے کہ‬
‫جو اپنی بے پناہ قوت اور آتش صفت تاثیر سے شاعر کو جھنجوڑ کر رکھ دے اور اسے مجبور‬
‫کرے کہ وہ بے قرار ہو کر اٹھے اور الفاظ کے بکھرے موتیوں کو سمیٹ کر اپنی جادو بیانی‬
‫کے دھاگے میں پرو کر ایک ماال کی صورت میں پیش کر دے۔ اس نظم میں احساس کا جو‬
‫دریا رواں ہے وہ سامعین کے اشکوں کے سمندر سے جا ملتا ہے۔نہایت سادہ زبان میں تصویر‬
‫‪:‬کشی کی گئی ہے‬
‫“منہ اُتے نیل سن تے سُجّ ا ہویا ہتھ سی۔ اکھاں وچ اتھرو تے ُبالّں وچ رت سی ”‬

‫بیٹے کے ہاتھوں مضروب اس ماں کی بے بس اور مقہور محبت التجا میں بدلتی ہے اور وہ اس‬
‫کی خاطرپراٹھا اور انڈوں کا حلوہ بناتی ہے اور اس کے ہم جماعت کے ہاتھوں بھیجتے ہوئے‬
‫کہتی ہے کہ ” چھیتی نال جائیں بیبا۔۔۔دیریاں نہ الئیں بیبا ۔۔۔۔ اوہدےاں تے لوسدےاں ہو ن گیاں‬
‫“آندرا ں ۔ بھکا بھاناں اج اوسکولی ُٹر گیا اے‬
‫گوکہ اس نظم میں موضوع کوئی نیا نہیں ہے۔ عورت کے تمام رشتوں پر جسمانی‪ ،‬ذہنی اور‬
‫جذباتی تشدد نہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات ہے اور نہ ہی کوئی نئی بات۔ طاقتور کے ہاتھ میں‬
‫ہمیشہ الٹھی رہی ہے۔ لیکن یہ نظم جس بات اور جذبے کی پردہ کشائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ‬
‫ایک ماں کا مجبور جذبہ جبرو ستم سہہ کر بھی اپنے فطری تقاضے سے بعض نہیں آتا۔ یہ نظم‬
‫اپنے تاثر کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے دائم شاداب نظموں میں رہے گی۔پنجابی ادب‬
‫میں ” لسی تے چاہ“سے ہٹ کر یہ شیریں بیاں شاعر کی شگفتگی کے پس پردہ معاشرتی نا‬
‫ہمواری‪ ،‬محروی و محکومی اور صبرو و رضا کا ایک بھڑکتا االﺅ دکھائی دیتا ہے اور عورت‬
‫رشتے کی جس آگ میں جل کر کندن بنتی ہے اس کی شدت بھی اس نظم کی صورت محفوظ ہو‬
‫گئی ہے اور جذبوں کی بے بسی بے توقیری‪،‬اور بے وقعتی اس نظم کے قالب میں نسل در نسل‬
‫چلے گی۔‬
‫اپنی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں کہ” میری شاعری مکئی کی طرح‬
‫ہے کہ جب وہ جلتی ہے تو مسکراتی ہے۔ مزاح نگار بھی بادل کی طرح ہوتا ہے کہ جب بجلی‬
‫چمکتی ہے تو وہ ہنستا ہوا معلوم ہوتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو وہ روتا ہو لگتا ہے“۔‬
‫درون خانہ ہنگامے جو بھی رہے ہوں انہوں نے جب بھی پنجابی شاعری سے ہٹ کر اردو میں‬ ‫ِ‬
‫قلم اٹھایا ہے تو ان کے تخیل سے الفاظ تک کے سفر میں شگفتگی ہمیشہ مضامین کی ہمسفر‬
‫رہی ہے۔قومی زیاں ہو یا شخصی جاگیردارانہ نظام کے خالف صدائے احتجاج ہو یا شاعرانہ‬
‫بے مائیگی اور بے ہنری کا تذکرہ اس میں مزاح کی حاشیہ آرائی واضح نظر آتی ہے۔قطع ان‬
‫“کی” مرغوب ترین“ صنف ہے۔ ایک قطعہ بعنوان‪ ” ،‬فااعتبرو یا او لی البصار‬

‫کس طرح کا احساس زیاں ہے جو ہوا گم‬


‫کس طرح کا احساس زیاں ہے جو بچا ہے‬
‫ملک آدھا گیا ہاتھ سے اور چپ سی لگی ہے۔‬
‫۔۔ اِک لونگ گواچا ہے تو کیا شور مچا ہے‬

‫کبھی حساس اور درد آشنا دل باشعور ذہن اور محب وطن قلم ملکی حاالت اور صورتحال سے‬
‫‪:‬زخمی ہوتا ہے تو اپنے مخصوص انداز میں نکتہء نظر واضح کرتے ہیں‬
‫رہاکچھ بھی نہیں باقی وطن میں‬
‫مگر اک خستہ حالی رہ گئی ہے‬
‫ترستی ہیں نگاہیں روشنی کو‬
‫فقط روشن خیالی رہ گئی ہے‬

‫ملکی بقا کے ساتھ ساتھ عوام کا اور ایک عام انسان کی زبوں حالی کا درد بھی ان کے جگر‬
‫‪:‬میںہے جو ان کو اپنا احتجاج درج کروانے پر مجبور کرتا ہے‬
‫ترقی اس قدر برپا ہوئی ہے کسی صورت کوئی گھاٹا نہیں ہے‬
‫بس اتنی سی پریشانی ہے انور الیکشن سر پہ ہے آٹا نہیں ہے‬

‫غم کو ہنسی میں اڑانے کی ادا ‪ ،‬محسوسات کو الفاظ کا رنگا رنگ پیراہن دینے کا ایک منفرد‬
‫اسلوب‪ ،‬سنجیدہ اور سنگین موضوعات ‪ ،‬جن پر الٹھی چلنے‪ ،‬گولی چلنے اور فی زمانہ بم‬
‫چلنے میں ایک دقیقہ نہیں لگتا نہایت سہولت سے یوں بیان کر دینا کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ‬
‫آجائے اور ما فی الضمیر بھی ادا ہو جائے۔ اگر شاعر کی شخصیت کو کالم کے ساتھ ہم آہنگ‬
‫کر کے دیکھا جائے تو ان کے کالم میں ایک پنہا ںدرد اور سلگتے رہنے کی جو لذت ہے اس‬
‫کی وضاحت ہو جائے گی۔وہ کہتے ہیں” جب میں پڑھتا تھا کہ غالب کو آم پسند تھے یا اقبال کو‬
‫آم پسند تھے تو میں سوچتا تھا کہ مجھے آم پسند کیوں نہیں ہیں۔غور کرنے پر معلوم ہو ا کہ‬
‫“میں نے تو کبھی آم کھائے ہی نہیں تھے‬
‫جب امرا کے طبقے سے کوئی اٹھ کر عوام کے غموں کی بات کرے تو وہ محرومی کی شدت‬
‫اور بے کسی کی اذیت کو نہ تو سمجھ سکتا ہے ‪ ،‬نہ ہی بیان کر سکتا ہے ان الفاظ و بیان مین‬
‫اثر انگیزی مفقود ہوتی ہے۔ انور مسعود کا قلم جب جاگیردارانہ نظام پر لکھتا ہے تو اس کی‬
‫سیاہی اس کرب سے آشنا ہے جس میں ایک عام انسان دن رات بسر کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ‬
‫وہ دور حاضر کا ایسا عظیم مزاح نگار ہے جس کے مزاح میں زندگی کے تمام تر سنجیدہ‬
‫موضوعات اپنے سنگین حقائق سمیت سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ ملک میں امیروں ‪،‬‬
‫وزیروں اور وڈیروں کا راج معاشرتی اور طبقاتی تقسیم اور انسان کی تحقیر ان کی سوچ کو‬
‫زنجیر بپا کرتی ہے اور وہ رک کر اس نا ہمواری کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”‬
‫فیوڈل ازم صرف زمین و جاگیرتک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی رویے کا نام ہے جس میں‬
‫انسان جاہ و منصب کے حصول اور احساس برتری کے نشے میں سرشار رہتا ہے تعلیم ایسے‬
‫لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ایک قطعہ جس میں ایک عام آدمی اور خاص آدمی کا امتیاز‬
‫‪:‬ہے‬

‫مریض کتنے تڑپتے ہیں ایمبولینسوں میں‬


‫ان کا حال ہے ایسا کہ مرنے والے ہیں‬
‫مگر پُلس نے ٹریفک کو روک رکھا ہے‬
‫یہاں سے ”قوم کے خادم“ گزرنے والے ہیں‬

‫بجٹ میں نے دیکھے ہیں سارے ترے‬


‫انوکھے انوکھے خسارے ترے‬
‫اللے تللے ادھارے ترے‬
‫بھال کون قرضے اتارے ترے‬
‫تجھے کچھ ضریبوں کی پرواہ نہیں‬
‫وڈیرے ہیں پیارے دالرے ترے‬

‫ایسے شاعر کو صرف ایک مزاحیہ شاعر سمجھ لینا اور ان کی شاعری سن کر لمحاتی طور پر‬
‫زندگی کی تلخیوں سے صرف نظر کر کے بھرپور ہنسی کے ساتھ محفل کا حصہ بن جانا گو‬
‫ان کے فن اور شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ شاعرانہ کمال کی زندہ‬
‫دالنہ داد ہے کہ ایک شاعر ایسے زندہ ‪ ،‬توانا لیکن سادہ الفاظ سے ایک تصویر پیش کر دینے‬
‫پر قادر ہے جو امیروں کے غریب ملک میںعوام کو تھوڑی دیر کیلئے آٹے دال کا بھاﺅ بھال‬
‫دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ شعری کیفیات کا یہ برمال اظہار فنی اور تکنیکی مہارت ایک‬
‫بے بہا انعام ہے۔ اور اس تخلیقی کرب سے وہ کیسے گذرتے ہیں اس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں‬
‫کہ شعر گوئی اور اس کی آمد کے بارے میںیقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔کبھی تو ایسے‬
‫تواتر‪ ،‬تسلسل اور روانی سے مصرعے یلغار کر دیتے ہیں کہ ان کو تحریر کرنا مشکل ہو اور‬
‫کبھی کئی کئی دن گذر جاتے ہیں اور ایک مصرع بھی موزوں نہیں ہو پاتا اس کی مثال ماہی‬
‫گیر کے ایک جال کی سی ہے کبھی تو اس میں بے شمار مچھلیاں آجاتی ہیں اور کبھی وہ دن‬
‫“بھر منتظر ہی رہتا ہے‬
‫۔شعر کہنے کےلیے خود سے مالقات ہونا بہت ضروری ہے اپنی ہی ذات کے ساتھ مکالمہ اور‬
‫اپنے ہی اقوال و افعال کا بے الگ تجزیہ الزمی عنصر ہے۔ انور مسعود کہتے ہیں کہ ”اگر آپ‬
‫بھیڑ کے اندر بھی خود کو تنہا کر سکیں تو آپ شعر کہہ سکتے ہیں“۔ اگرچہ شاعری یا سخن‬
‫وری عطیۂ خداوندی ہے اور شعراءبراہ راست تالمیذالرحمان ہوتے ہیں لیکن انور کے ہاں اس‬
‫عنایت کے عالوہ ایک موروثی پہلوبھی موجود ہے۔ان کے تایا اور ان کی نانی کرم بی بی‬
‫حلقہءسخن وراں میں شامل تھے اور پھر گجرات کی شاعر ساز اور شاعر نواز فضاﺅں کا اثر‬
‫شعر گوئی ایک تو ان کے خون میں رواں تھی اور مستزاد امام دین کے محلے کے گلی کوچوں‬
‫میں ایام طفولیت گزارنے والے اس شاعر نے ان فضاﺅں سے بھی اپنے سانس معطر کر لئے۔‬
‫فارسی‪ ،‬اردو اور پنجابی تینوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھنے کے سبب وہ اکثر اوقات صرف‬
‫لفظوں کی ادل بدل سے سنجیدہ موضوعات مین بھی ایسی فضاءپیدا کر دیتے ہیںکہ قاری‬
‫مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور مسکراہٹ بانٹنا بھی صدقہ جاریہ ـ دور حاضر کے شعرا کی‬
‫مشق سخن میں کمی اور بے توجہی لیکن شعر گوئی پر مسلسل اصرار کو‬ ‫ِ‬ ‫ت مطالعہ اور‬
‫قل ِ‬
‫انہوں نے ایک قطع میں بیان کیا ۔ کسی نے ان کو اپنی کاوش اصالح کے لیے بھیجی۔‬

‫کیسی یہ غزل آپ نے بھیجی ہے کہ جس پر‬


‫ہنس بھی نہیں سکتا ہوں میں‪ ،‬رو بھی نہیں سکتا‬
‫یوں بحر سے خالی ہے کہ خشکی پہ پڑی ہے‬
‫شعروں میں وہ سکتہ ہے کہ کچھ ہو نہیں سکتا‬

‫آخر میں اس انور مسعود سے بھی مل لیجیے جو پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں‪ ،‬ٹاہلیوں ‪،‬‬
‫میدانوں‪ ،‬چوپالوں اور ڈیروں سے ہوتا ہوا انار کلی جا نکلتا ہے‪ ،‬وہاں کی شاناں دیکھ کر متخیر‬
‫اور مرعوب ہوتا ہے‪ ،‬لیکن یہی شاعر جب مدینہ کی تقدس بھری فضاﺅں میں پہنچتا ہے تو اس‬
‫کا انداز اور لہجہ بھی با وضو ہو جاتا ہے۔ اس نور لٹاتی ہوا میں اس کی روح بھی سانس لیتی‬
‫محسوس ہوتی ہے۔‬

‫رسم زندگی بدلے‬


‫ِ‬ ‫وہ چاہتا تھا رہ و‬
‫انداز بندگی بدلے‬
‫ِ‬ ‫بگڑ گیا تھا جو‬
‫ب زندگی بدلے‬‫بھٹک رہا تھا جو اسلو ِ‬
‫اسے یہ دھن تھی کہ اندر سے آدمی بدلے‬
‫ت گردوں رکاب‪ ،‬کیا کہنے‬ ‫دور حضر ِ‬ ‫وہ ِ‬
‫ب سعادت مآب ‪ ،‬کیا کہنے‬ ‫وہ انقال ِ‬

‫ان معطر فضاﺅں سے نکل کر وہ کربال کی تپتی زمین اپنے تلووں تلے محسوس کرتا ہے اور‬
‫دوش محمد ﷺ کا رتبۂ عالی بیان کرتا ہے تو اپنی بے مائیگی‬‫ِ‬ ‫سوار‬
‫ِ‬ ‫جب وہ ”سالم“ کہہ کر ‪،‬‬
‫‪:‬کے اعتراف کے ساتھ‬
‫دوش محمد ﷺ کا رتبہ عالی‬ ‫ِ‬ ‫سوار‬ ‫ِ‬
‫بیان اجمالی‬
‫ث عجز ہے میرا ِ‬ ‫حدی ِ‬
‫کھلی ہے آج تخیل کی بے پرو بالی‬
‫دکھائی دیتی ہیں لفظوں کی جھولیاں خالی‬
‫یہاں ضعیف ہر اظہار کا وسیلہ ہے‬
‫بس ایک دیدۂ خونبار کا وسیلہ ہے‬
‫مثیل شا ِہ شہی ِد شہیر‪ ،‬نا ممکن‬ ‫ِ‬
‫کوئی غریب ہو ایسا امیر‪ ،‬نا ممکن‬
‫حسین سا کوئی روشن ضمیر‪ ،‬نا ممکن‬ ‫ؓ‬
‫جہان عشق میں اس کی نظیر نا ممکن‬ ‫ِ‬
‫وہ جاں نثار عجب اک مثال چھوڑ گیا‬
‫کہ اس کا صبر ستم کا غرور توڑ گیا‬
‫چھپی ہے اس کے تدبر میں معرفت کیسی‬
‫ہوس کے ساتھ وفا کی مفاہمت کیسی‬
‫ستم گروں کے ستم سے مصالحت کیس‬
‫اسی کی دین ہے یہ سوچ کا قرینہ بھی‬
‫کہ ایک جرم ہے ظالم کے ساتھ جینا بھی‬
‫مہر جہاں تاب ضوفشاں ہے حسین‬ ‫مثال ِ‬ ‫ِ‬
‫ایثار بے کراں ہے حسین‬ ‫ِ‬ ‫ہمہ خلوص ہے‪،‬‬
‫حیات راز ہے اور اس کا رازداں ہے حسین‬
‫ریاض دہر میں خوشبوئے جاوداں ہے حسین‬ ‫ِ‬
‫وہ ظالموں کو ہمیشہ کا انتباہ بھی ہے‬
‫تفسیر ال الہ بھی ہے‬‫ِ‬ ‫وہ اپنی ذات میں‬
‫۔انور مسعود کی شاعری بھی ذہنی فضاﺅں میں طلسمات کی گلکاریاں دکھاتی ہے مضمون‪ ،‬الفاظ‬
‫اور انداز کی آتشبازی سے جادو جگاتی ہے۔خود اس کے لئے شاعر کی اپنی ذات پر کیا گذرتی‬
‫ہے یہ ایک علیحدموضوع اورایک الگ افسانہ ہے۔ لیکن وہ اپنی سنجیدہ شاعری میں بھی منوا‬
‫چکا کہ انور ‪ ،‬انور اےـ‬

You might also like