Professional Documents
Culture Documents
6480
6480
خورشید کے نشان نے مٹایا نشان ِ شب جب سرنگوں ہوا علم کہکشاں شب
تانی نہ پھر شعاع قمر نے سنسان شب تیر شباب سے ہوئی خالی کمان شب
آئی جو صبح زیور جنگی سنوار کے
شب نے زرہ ستاروں کی رکھدی اتار کے
جس طرح قصیدے میں تشبیب کے بعد گریز آتا ہے بالکل اسی طرح گریز:۔
مرثیہ میں چہرہ کے بعد گریز آتا ہے ۔ دبیر نے اپنے مرثیوں میں عام طورپر گریز کا استعما ل
کیا ہے۔ اور مجموعی طور پر یہ ان کی مراثی میں خاصا جاندار ہے ،اور یہاں پہنچ کر کم از
کم قاری اتنا محسوس کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ شاعر بڑی کوشش کے بعد ایک موضوع
سے دوسرے موضوع کی طرف آرہا ہے۔ مثالً وہ اپنے ایک مرثیے میں حضرت علی اکبر کے
،حال میں چہرے کو مخصوص رنگ و آہنگ عطا کرتے ہیں
مرثیے میں رخصت کا مقام اس وقت آتا ہے جب طرفدارین حسین یا اصحاب رخصت:۔
میدان جنگ میں جانے کی اجازت طلب کرتا ہے۔ اس موضوع کو دبیر
ِ اہل بیت میں سے کوئی
نے جس انداز سے باندھا ہے وہ دیبر کے ہاں اس موضوع کو شمشیر بے زنہار کی حیثیت
حاصل ہو گئی ہے۔ کیونکہ انہوں نے اس کو پیش کرنے میں تاریخی حقیقت سے زیادہ آفاقی
اصلیت سے کام لیا ہے۔
اُردو مرثیوں میں آمد کا موضوع ان مواقع کے لئے اپنا یا جاتا ہے جب آمد:۔
جنگجو میدان ِ جنگ میں وارد ہوتے ہیں مرزا دبیر کے مرثیوں میں ا س موقع پر آمد کی تمام
خصوصات پائی جاتی ہیں چونکہ اس میں جذبات نگاری اور محاکات کا موقع نہیں ہوتا اس لئے
شاعر بغیر کسی ذمہ داری کے اپنے تخیلی قوتوں کا حتی االمکان مظاہر ہ کر سکتا ہے۔ دبیر
نے اس موضوع پر جس حد تک طبع آزمائی کی ہے۔ اما م حسین کی میدان میں آمد کو وہ یوں
بیان کرتے ہیں ۔
رن ایک طرف چرخ کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
کہن کانپ رہا ہے
قصر سالطین زمن
ِ ہر رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے
کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حید ر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمٹتے ہوئے پر کو
سراپا مرثیے کا وہ جزو ہے جس میں مرثیہ نگار اہل بیت کا سراپا سراپا:۔
کھینچتے ہیں ان کی حسن و خوبصورتی بیا ن کرتا ہے۔ ان کی توصیف کرتا ہے دبیر نے بھی
اس جزو پر زور قلم صرف کیا ہے۔ اور بہت ہی نادر سراپے تخلیق کئے۔ امام حسین کا سراپا
یوں کھینچا ہے۔
تعریف کو مداح کمر بستہ اُٹھے ہیں کیا غلغلہ ابروئے پیوستہ اُٹھے ہیں
میزاں کی طرح مصرعہ برجستہ اُٹھے ہاتھوں میں لئے ظلم کا گلدستہ اُٹھے ہیں
ہیں
ابرو کا ُر خ صاف میں پرتو نظر آیا
خورشید کاپہلو میں مہ نو نظر آیا
اردو مرثیہ نگاروں نے میدان کربال میں لڑائی کے نقشے بڑے اہتمام کے رزم :۔
ساتھ رقم کئے ہیں اگر دبیر کے مرثیوں کا مطالعہ کیا جائے وہ ایک اہم رزمیہ شاعر ثابت
ہوتے ہیں ۔ اردو مرثیوں میں رزم کی تیاری کا آغاز ”طلوع سحر“ کے ساتھ ہوتا ہے ۔ جس کے
بعد فوجوں کی صف بندی ہوتی ہے پھر جنگ کا آغاز ہوتا ہے۔
ہٹ کر عقاب پر علی اکبر ہوئے فرما کے علی شہ صفدر ہوئے سوار
سوار
بتیس شہ سوار برابر ہوئے سوار عباس لے کے رایت ِ حیدر ہوئے سوار
چالیس پیدل آگے جلو میں بہم چلے
لی کر یہ فوج لڑنے کو شاہ الم چلے
بین دراصل مرثیے کا آخری جزو ہے اُس میں شہدائے کربال کے لئے بین ہوتا بین:۔
ہے جب کوئی سپاہ اہل بیت شہید ہو جاتا ہے تو اس کی الش خیمے میں الئی جاتی تو خواتین
اس پر بین کرتی ۔ مراثی دبیر کا اہم عنصر بین ہے طبیعت کے لگائو او ر عرصہ دراز کے
مشق کے باعث یہ عنصران کے ہاں کافی کامیاب نظر آتا ہے۔ حضرت علی اکبر کی شہادت پر
حضرت زینب بین کرتی ہے۔ دبیر اس کو یوں بیان کرتے ہیں۔
کس منہ سے کہوں دختر ِ زہراد سر کھولے ہر ارماں کے الشے پہ چلی ہوں
علی ہوں
زینب تھی میں یثرب میں یہاں سب جانتے ہیں حوروں کے دامن میں پلی ہوں
کوکھ جلی ہوں
سوال نمبر . 2مثنوی سحر البیان کے نمایاں اوصاف بیان کریں -
جواب,
مثنوی سحر البیان
اردو زبان میں جن دو مثنویوں کو سب سے زیادہ قبولیت اور شہرت ملی ان میں میر حسن کی ’’سحر البیان‘‘ اور دیاشنکر نسیم
گلزار نسیم ‘‘ کا شمار ہوتا ہے۔ یہ دونوں مثنویاں اپنی اپنی خصوصیات کے لحاظ سے ایک دوسرے کے مماثل قرار دی گئی ِ کی’’
ہیں۔ موالنا حسین آزاد لکھتے ہیں ’’ ہمارے ملکِ سخن میں سینکڑوں مثنویاں لکھی گئی مگر ان میں فقط دو نسخے ایسے ہیں
گلزار نسیم اور تعجب یہ کہ دونوں کے
ِ جنہوں نے طبیعت کے موافقت سے قبول عام کی سند پائی ایک سحر البیان دوسرے
راستے بالکل الگ الگ ہیں‘‘۔
مسمی ثابت ہوئی ،جس نے بھی اس مثنوی کو پڑھا اس کی سحر بیانی کو یقینا ً محسوس کیا۔ اس کی میر حسن کی یہ مثنوی اسم با ٰ
زبان اتنی صاف اور عام فہم ہے کہ یہ کہ پانا مشکل ہے کہ یہ آج سے دوسو سال پہلے کی زبان ہے۔ موالنا آزاد مرحوم لکھتے
ہیں ’’ اس کی فصاحت کے کانوں میں قدرت نے کچھ ایسی سناوٹ رکھی تھی کہ معلوم ہوتا ہے اسے سو برآگے کی باتیں سنائی
دیتی تھیں۔ جو کچھ اس وقت کہا صاف وہی محاورہ اور وہی گفتگو ہے جو آج ہم اور تم بول رہے ہیں‘‘۔
سن تصنیف
میرحسن نے اس مثنوی کو ۱۱۹۹ھ مطابق ۸۵-۱۷۸۴ء میں تحریر کیا۔ میر حسن کی اس مثنوی کو ڈاکٹر گلکرسٹ کی
فرمائش پر میر حسن کے دوست میر شیر علی افسوس نے اپنے مقدمے کے ساتھ ۱۸۰۳ء میں ترتیب دیا ،جسے ۱۸۰۵ء
میں فورٹ ولیم کالج کی طرف سے پہلی بار شائع کیا گیا۔
ت نبیﷺ کے ،حضرت علی کرم ہللا یہ مثنوی تقریبا ً ڈھائی ہزار اشعار پر مشتمل ہے۔ اس میں ۳۸اشعار حمد کے ۲۶اشعار نع ِ
ب پاک کی مدح میں ۴اشعار کہے گئے ہیں۔( اردو کی بہترین مثنویاں ،ص )۳۲:یہ بحر متقاربوجہ کی شان میں ۱۹اور اصحا ِ
مثمن مقصور یا محذوف یعنی فعولن ،فعولن ،فعولن ،فعول یا فعل کے بحر میں لکھی گئی ہے۔
میر حسن نے نواب کے اسی غم و غصہ کو کم کرنے کے لیے مثنوی سحر البیان تحریر کی اور نواب کے حضور میں پیش کیا،
تب جاکے ان کا قصور معاف ہوا۔ لیکن میر کو اس مثنوی سے جتنی توقع تھی پوری نہ ہو سکی۔ نواب کی طرف سے محض ایک
دوشالہ جس کو نواب نے اپنے استعمال کے لیے رکھا تھا عطا کیا۔ میر حسن کا مرتبہ تو بڑھا لیکن دلی مراد پوری نہ ہو سکی۔
میر حسن کے دل میں ہمیشہ یہ مالل رہا کہ نواب آصف الدولہ جیسا سخی آدمی کہ جس کے بارے میں مثل مشہور تھا ’’ جسے نہ
دے موال اسے دے آصف الدولہ‘‘ اس نے اس کے کئی سالوں کے محنت کا یہ صلہ دیا۔
مثنوی سحرالبیان:۔
جذبات نگاری:۔
میر حسن کے ہاں جذبات نگاری کے بڑے ہی اچھے اور موثر مرقعے ملتے ہیں خوشی کے عالم میں خوشی اور غم و الم اور دکھ
کے مواقع پر رقت طاری ہو جاتی ہے ذرا وہ منظر دیکھیے جب بے نظیر چھت پر سے غائب ہو جاتا ہے۔ محل میں کہرام مچ
جاتا ہے۔ والدین کے لئے قیامت آجاتی ہے۔ اور ہر کوئی پریشان اور حیران کھڑا ہے۔
کوئی دیکھ یہ حال رونے لگی
کوئی غم سے جی اپنا کھونے لگی
رہی کوئی انگلی کو دانتوں میں داب
کسی نے کہا گھر ہوا یہ خراب
سنی شاہ نے جس گھڑی یہ خبر
گرا خاک پہ کہہ کے ہائے پسر
ایسی ہی دردناک تصویر اس موقعہ پر نظر آتی ہے جب شہزادی ”بد رمنیر “ شہزادہ ”بے نظیر “ کی جدائی میں بلکتی سسکتی
اور روتی دھوتی دکھائی دیتی ہے مالحظہ ہو،
گیا اس طرح جب مہینہ گزر
کہ وہ ماہ مطلق نہ آیا نظر
تو اس کا ادھر رنگ گھٹنے لگا
جگر خوں ہو مژگاں سے ٹپکنے لگا
جزئیات نگاری:۔
میرحسن نے جس واقعے کا بھی ذکر کیا اس کے ہر اک جز کو مکمل بیان کردیا مثالً جب بادشاہ رمال کو بال کر اوالد کے بارے
میں ان سے دریافت کرتا ہے تو رمال نے اپنا کام یوں شروع کیا ۔
یہ سن کر وہ رمال طالع شناس
لگے کھنچنے زائچے بے قیاس
اس طرح میر حسن نے پوری تفصیل کے ساتھ نجومیوں کے حرکات و سکنات کو بیان کیا ہے۔ اس طرح جب بادشاہ کا بیٹا ہوتا
ہے تو رقص کا اہتمام ہوتا ہے۔ میر حسن نے رقص کا منظر نہایت دلفریب انداز میں پیش کیا ہے انہوں نے ایسی باریک باتوں کا
ذکر کیا ہے جس پر ہر شاعر کی نظرنہیں پڑتی۔
وہ گھٹنا وہ بڑھنا ادائوں کے ساتھ
دکھا نا وہ رکھ رکھ کے چھاتی پہ ہاتھ
تصویر کشی:۔
”سحر البیان“ کا ایک بڑا کما ل اس کی تصویر کشی ہے۔ میر حسن نے جس منظر اور جس حالت کا جہاں بھی نقشہ کھینچا تصویر
کشی کا حق ادا کردیا ۔ موالنا حالی مثنوی ” سحرالبیان“ کی اس خوبی کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں،
” غرض کے جو کچھ اس مثنوی میں بیان کیا ہے اس کی آنکھوں کے سامنے تصویر کھینچ دی ہے۔ اور مسلمانوں کے اخیر دور
ٰ
بعینہ ان کا چربہ اتار دیا ہے۔“ میں سالطین امراءکے یہاں جو حالتیں تھیں اور جو جو معامالت پیش آتے تھے۔
سیرت کشی یا کردار نگاری:۔
”سحر البیان“ میں میر حسن کی سیرت نگاری کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ قصے کے تمام کردار اس آسودہ حا ل
اور فارغ البال معاشرے کے افراد ہیں جہاں دولت عام ہے اور سوائے عشق و عاشقی اور رقص و سرور کی محفلوں کے سوا
کوئی کام نہیں یہی وجہ ہے کہ تقریبا ً تمام ہی کردار بے عملی کا نمونہ ہیں ۔ ڈاکٹر وحید قریشی ”سحرالبیان“ میں کرداروں کی اس
بے عملی کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں،
مثنوی”سحرالبیان “ کا سب سے زیادہ روشن ،رنگین ،شوخ اور متحرک کردار نجم النساءکا ہے۔ بقول عابد علی عابد نجم
النساءکی تخلیق میں میر حسن نے اپنی ساری صنعت گری صرف کر دی ہے۔ احتشام حسین کی رائے میں سحرالبیان میں سب سے
اہم کردار نجم النساءکا ہے۔ بلکہ کہا جاتا ہے کہ ”سحرالبیان“ ہی میں نہیں تمام مثنویوں میں اپنی مثال آپ ہے۔ نجم النساءسحرالبیان
کے کینوس پر پہلی مرتبہ اس وقت نظر آتی ہے
تشبیہات:۔
میرحسن کے ہاں حسین تشبیہات کے خزانے موجود ہیں ان کی تشبیہات کو پڑھ کر دل کلی کی طرح شگفتہ ہو جاتا ہے۔
وہ گورا بدن اور بال اس کے تر
کہے تو کہ ساون کی شام و سحر
نہانے میں یوں تھی بدن کی چمک
برسنے میں بجلی کی جیسے چمک
محاکات:۔
میر حسن کے یہاں محاکات کی حسین مثالیں نظر آتی ہیں میر حسن نے ایک جگہ بدر منیر کے بیٹھنے کا انداز دکھایا ہے
کہ زانو پہ اک پائوں کو رکھ لیا
کہ اک پائوں مونڈھے سے لٹکا دیا
ضرب المثال:۔ ”سحرالبیان“ کے بعض اشعار اس قدر رواں ہیں کہ وہ ضر ب المثال بن گئے ہیں یہ مثنوی کی سادگی و سالست کا
ثبوت ہے مثالً
سدا عیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
کسی پاس یہ دولت رہتی نہیں
سدا ناؤ کا غذ کی بہتی نہیں
مثنوی سحرالبیان:۔
جب قیامت کا ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات محبوب کی جوانی تک پہنچتی ہے اور جب مثنوی کا
ذکر چھڑ جاتا ہے تو بات ”سحرالبیان “ تک پہنچتی ہے یہ حقیقت ہے کہ جس قدر نشہ ،خمار ،
کشش اور ساحری محبوب کی جوانی میں ہوتی ہے اسی قدر یہ خصوصیت دوسری اشیاءمیں
نہیں ہوتی۔ اسی طرح سے اردو میں کافی تعداد میں مثنویاں کہی گئی ہیں مگر جو دلکشی اور
ساحری مثنوی ”سحر البیان“ میں موجود ہے دوسری دوسری مثنویاں ان خوبیوں سے محروم
ہیں اس لیے ہم بال تکلف یہ بات َکہ سکتے ہیں کہ سحرالبیان اردو کی بہترین مثنوی ہے۔
”سحر البیان “ اردو کی ان زندہ جاوید مثنویوں میں سے ہے جو ہر زمانہ میں عوام اور خواص
میں یکساں طور پر مقبول رہی ہیں اس مثنوی کی مقبولیت پر غور کیجئے تو بہت فنی محاسن
ایسے نظر آتے ہیں جو دوسری مثنویوں میں نہیں ملتے ہیں۔ اس لیے ” سحرالبیان “ ایک مقبول
عام مثنوی ہے۔”سحر البیان“ کے فنی محاسن کے سلسلے میں اس کی کردار نگاری پالٹ ،
جذبات نگاری ،مکالمہ نگاری ،مرقع نگاری ،منظر نگاری اور سراپا نگاری کے عالوہ ایک
مربوط معاشرت کے ثقافتی کوائف کی تصویر بے حد کامیاب کھینچی گئی ہے۔
اس مثنوی سے میرحسن اور ان کی سوسائٹی کے مذہبی افکار اور اخالقی اقدار پر روشنی
تصور زندگی کا جزو بن چکے ہیں ۔ِ پڑتی ہے جو اس معاشرت کے روائتی طرز فکر اور
”سحرالبیان“ اس دور کے مذہبی معتقدات ،ذہنی امور اور اخالقی تصورات کی عکاس ہے۔ یہ
مثنوی دراصل اس طرز زندگی کی بہترین نمائندگی کرتی ہے ۔اودھ کی اس فضا میں جہاں
تکلف و تصنع کا دور دورہ تھا ۔ ایک تہذیب بن رہی تھی۔ ”سحرالبیان“ میں اس تہذیب کی
تصویریں بھی محفوط ہیں۔ میر حسن چونکہ دلی سے آئے تھے اور مغل تہذیب کے دلدادہ تھے
اسی لیے اس مثنوی ” گلزار نسیم“ کے مقابلے میں لکھنوی عناصر کم ہیں۔ اس مثنوی کا اسلوب
و لہجہ دہلوی ہے۔ تکلفات و تصنعات کا وہ زور نہیں جو بعد میں گلزار ِ نسیم کی صورت میں
نمودار ہوا۔پروفیسر احتشام حسین اپنے ایک مضمون ”سحر البیان پر ایک نظر“ میں یوں لکھتے
ہیں،
” اگر کوئی شخص اختالف کرنے پر آئے تو اختالف ہر بات سے ہوسکتا ہے اس لیے اگر کہا
جائے کہ میر حسن کی مثنوی سحرالبیان (جس کا پورا نام کبھی کبھی مثنوی سحرالبیان یعنی
مثنوی میر حسن معروف بے نظیر و بدر منیر لکھا جاتا ہے) اردو زبان کی سب سے اچھی
مثنوی ہے تو کہیں کہیں سے یہ آواز ضرور آئے گی کہ یہ رائے درست نہیں ہے لیکن اگر یہ
کہا جائے کہ یہ مثنوی اردو کی بہترین مثنویوں میں شمار کی جاتی ہے تو شاید کسی کو شدت
کے ساتھ اختالف نہ ہوگا۔ کہانی اور انداز ِ بیان میں ضرور کچھ ایسے عناصر ہیں جس کا
مطالعہ اس کی عظمت کا پتا دیتا ہے۔
میر حسن نے کئی اور مثنویاں بھی لکھیں لیکن کسی مثنوی میں یہ نہیں کہا ہے کہ،
ذرا منصفو! داد کی ہے یہ جا
کہ دریا سخن کا دیا ہے بہا
زبس عمر کی اس کہانی میں صرف
تب ایسے یہ نکلے ہیں موتی سے حرف
جوانی میں جب ہوگیا ہوں میں پیر
تب ایسے ہوئے ہیں سخن بے نظیر
نہیں مثنوی ہے یہ ایک پھلجھڑی !
مسلسل ہے موتی کی گویا لڑی
نئی طرز ہے اور نئی ہے زبان
نہیں مثنوی ہے یہ سحر البیان
یہ میر حسن کی تعلی ہو یا روایتی شاعرانہ پیرایہ بیان لیکن ہم اس کو تنقید کی بنیاد بنا کر
”سحر البیان“ پڑھیں تو بعض دلکش نتائج ضرور برآمد ہوں گے۔ ”سحرالبیان “ کا مطالعہ ہم
مندرجہ زیل عنوانات کے تحت کرتے ہیں ہر عنوان میں اس کی خوبیوں اور فنی محاسن پر
تنقید و تبصرہ کرکے اس کی قدر و قیمت نمایاں کی جائے گی۔
سحرالبیان کا پالٹ:۔
جہاں تک اس مثنوی کے پالٹ کا تعلق ہے ،اس میں کوئی نیا پن نہیں اس کہانی کے اجزا
ءمختلف منشور اور منظوم ،قدیم داستانوں میں بکھرے پڑے ہیں اور اس کی کہانی سیدھے
سادھے انداز میں یوں ہے،
کسی ملک میں ایک بادشاہ تھا جو اپنی منصف مزاجی کی وجہ سے رعایا میں ہر دلعزیز تھا ۔
بادشاہ کو تمام نعمتیں میسر تھیں مگر اوالد جیسی نعمت سے محرومی اس کی زندگی کی سب
سے بڑی محرومی تھی۔ اس محرومی و مایوسی کے عالم میں بادشاہ دنیا ترک کر دینے کا ارادہ
کر لیتا ہے۔ وزیروں کے مشورے پر وہ سردست اس فیصلے پر عمل درآمد روک دیتا ہے۔
شاہی نجومی بادشاہ کے ہاں چاند سے بچے کی پیدائش کی خوشخبری دیتے ہیں ۔ اس کی
سالمتی و زندگی میں چند خطروں کی نشان دہی کرتے ہوئے اس احتیاط کی تلقین کرتے ہیں کہ
بارہ سال کی عمر تک اسے محل کے اندر رکھا جائے اور رات کھلے آسما ن تلے سونے نہ دیا
جائے کچھ عرصے بعد واقعی بادشاہ کے ہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اس کا نام اس کی خوبصورتی
اور مردانہ وجاہت کے پیش نظر ” بے نظیر “ رکھا جاتا ہے۔ تمام شاہی تکلفات اور ناز و نعم
کے ساتھ ۱۲سال تک اسے محل کے اندر رکھا جاتا ہے۔ مگر سال کے آخری دن جب اس کی
عمر بادشاہ کے حساب سے پورے بارہ سال ہوگئی تھی (حاالنکہ اتفاق سے ایک دن کم تھا) وہ
رات کو ضد کرکے چھت پر سو جاتا ہے ۔ آدھی رات کے قریب ماہ رخ پری کا گزر وہاں سے
ہوا ۔ اسے سوتے میں دیکھ کر اس پر عاشق ہوئی او ر اپنے ساتھ پرستان میں لے گئی۔
شہزادے کی گم شدگی پر صبح محل میں قیامت کا منظر پربا ہو گیا۔ بڑی تالش کی گئی مگر
شہزادے کو نہ ملنا تھا نہ مال۔ ماہ رخ پری طرح طرح سے شہزادے کو اپنی طرف مائل کرنے
کی کوشش کرتی ہے۔ شہزادہ اپنی صغیر سنی کے باعث اداس ،ملول اور پریشان رہتا ہے۔ اس
پریشانی کو دور کرنے کے لیے ماہ رخ پری اسے کل کا گھوڑا دیتی ہے۔ اس گھوڑے پر سیر
کرتا پھرتا شہزادہ ”بدر منیر شہزادی “ کے باغ میں اترتا ہے دونوں ایک دوسرے کو دیکھ کر
عاشق ہوجاتے ہیں۔ اچانک ایک دن ایک دیوان دونوں کووصل کی حالت میں دیکھ لیتا ہے۔ اس
کی اطال ع ما ہ رخ پری کو ہوتی ہے تو وہ انتہائی غضبناک ہو کر شہزادے کو واپس آنے پر
کوہ قاف کے اندھے کنوئیں میں ڈلوا دیتی ہے ۔ بدر منیر کا عجیب حال ہے اس کی راز دار
سہیلی وزیر زاد ی نجم النساءبے نظیر کی تالش میں نکلتی ہے۔ اور آخر کار بڑی مشکلوں سے
جنوں کے بادشاہ کے بیٹے فیروز شاہ کی مدد سے بے نظیر کو رہائی دالتی ہے۔ دونوں کی
شادی ہوجاتی ہے خود نجم النساءفیروز شاہ کے ساتھ بیاہ کر لیتی ہے۔ اور یوں یہ مثنوی طرب
ناک انجام کو پہنچتی ہے۔
ڈاکٹر وحید قریشی پالٹ کا تجزیہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں ،
” فنی لحاظ سے ”سحرالبیان“ کا جائزہ لیا جائے تو اس ضمن میں میر حسن کی ذہانت ،پالٹ
کی تشکیل میں بروئے کار نظرآتی ہے ”سحرالبیان“ اردو کی چند عظیم مثنویوں میں سے ہے
اس میں اگرچہ محدود زندگی کی تصویر کشی کی گئی ہے لیکن اپنی محدودیت کے باوجود میر
حسن نے جس زندگی کو پیش کیا ہے وہ ہمارے لیے دلچسپی کا وافر سامان مہیا کرتی ہے۔
اعلی صالحیت میں مضمر ہے۔“ٰ مثنوی کی شہرت اور مقبولیت کا راز میر حسن کی
”سحر البیان“ کی فنی خوبیوں میں اس کی نمایاں خوبی تہذیب و ثقافت کی عکاسی ہے۔ سید عابد
علی عابد اس کی تہذیبی و معاشرتی خوبیوں کا بیان یوں کرتے ہیں:
نوابان اودھ و لکھنٶ سے متعلق ہے
ِ ”میر حسن نے جس معاشرت کی تصویر کھینچی ہے وہ
رعایا خوشحال ،پرجا فارغ البال ،ہر ہفتے کوئی نہ کوئی تقریب ،میلے ٹھیلے ،ڈیرے دار
طوائفیں ،شوخ و شنگ اور چست و چاالک ناچنے والیاں ،لوگ موسیقی کے رسیا ،ٹھمریوں
کے بولوں کے شیدائی ،فرمانروا ،داستان گوئی اور داستان طرازی کی طرف مائل ،
خوبصورت باغ لگوانے کے مشتاق ،شہزادیاں اور ناز و نعمت میں پلی ہوئیں ،سات محل کی
خواصیں کہ جن کا نام سن کر آنکھوں میں نور ،دل میں سرور آجائے۔“
میر حسن نے درحقیقت اس تہذیب و معاشرت کا گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ اور وہ اس
سے خوب واقف تھے یہاں ہم موسیقی کی ایک محفل کی تصویر پیش کرتے ہیں جسے میر
حسن کے فنی شعور نے تخلیق کیا ہے۔
موسیقی:۔
جبکہ اس دور کے فرماں رواٶں کے نجوم کے قائل اور رسموں کے گھائل ہونے کا منظر تو
مثنوی کی ابتداہی میں نظر آتا ہے۔ جبکہ مختلف موقعوں پر چند رسوما ت کا بیاں بھی آیا ہے۔
اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو معاشرت و تمدن کی بڑی واضح اور جاندار تصویریں ہمارے
سامنے آجاتی ہیں۔ مثالً شہزادے کی پیدائش پر جس طرح مال اسباب لٹایا جاتا ہے۔ علماو شیوخ
کو جاگیریں عطا کی جاتی ہیں۔ سپاہیوں کو گھوڑے دیے جاتے ہیں ۔ ان سب سے اس معاشرے
اور حکومت کی تصویر ہمارے سامنے آتی ہے۔
اس شعر میں تو آصف الدولہ کا عہد خو د بخود جھلک رہا ہے۔ جو کہ مثنوی کے آخر میں کہا
گیا ہے۔
رہے شاد نواب ِ عالی جناب
کہ آصف الدولہ جس کا خطاب
ڈاکٹر وحید قریشی مثنوی ”سحر البیان “ کے اس پہلو پر گفتگو کرتے ہوئے لکھتے ہیں،
” دراصل ”سحرالبیان “ ایسے معاشرے کی تصویر کشی ہے جسے فراغت حاصل ہے قصے
کے تمام افراد اسی آسودہ حالی اور فارغ البالی کے مظہر ہیں ۔
منظر نگاری:۔
ت نظر کا ثبوت دیا ہے وہ ان کی بھرپور فن کاری کی میر حسن نے منظر نگاری میں جس دق ِ
دلیل ہے واقعات کے ضمن میں مناظر کی جزئیات کی تفصیل ان کے ہاں اتنی گہری اور وسیع
ہے کہ پورا منظر متحرک ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ میر حسن کی منظر نگاری دکھانے
کے لیے ہم نے ”باغ کی تیاری“ کا نقشہ منتخب کیاہے۔ اس باغ کے منظر کو دیکھئیے آخری
مغل عہد کا یہ باغ ہے اس کی تعمیر ،عمارات اور ترتیب کابیان ہو بہو مغل باغات کے مطابق
ہے باغ کا نقشہ اور عمارتوں کا بیان ،بے جان تصویریں نہیں بلکہ ایک ایسا نگار خانہ ہے
جس کی ہر شے متحرک ہے اور اس میں ایک ایسی تہذیب کے چہرے سے نقاب اُٹھائی جا
رہی ہے جس کی تصویر کو میر حسن نے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا تاکہ وہ اپنے عہد کی
تہذیب اور زندگی کی رونقوں کی تصویر پیش کر سکیں ۔ میر حسن فطری مناظر میں دلچسپی
رکھتے تھے۔ سید عابد علی عابد لکھتے ہیں ۔
” میر حسن اس معاملہ میں یکتا ہیں کہ انھوں نے فطری مناظر کی دلکشی اور رعنائی کو اپنی
روح میں جذب کیا اور پھر اس رعنائی کو پڑھنے والوں تک اس طرح منتقل کیا کہ ان کی
ت بدنداں ہے۔“
صنعت گری کا عالم دیکھ کر بڑے سے بڑا نقاد انگش ِ
باغ کی تیاری:۔
اب باغ کی تیاری کا منظر دیکھئیے مختلف پھولوں ،درختوں کے نام ہی سنیے ان کی خوشبو
بھی محسوس کیجئے ۔ میر حسن نے باغ کی فضا بناتے وقت پھل ،پھول ،درخت ،خوشبو،
روشنی ہوا کا حسین امتزاج تیار کر دیاہے جس میں پڑھنے واال کھو کر رہ جاتا ہے۔
غسل کا منظر:۔
رقص و موسیقی اور باغات و عمارات کے تہذیبی نقشے دیکھنے کے بعد ایک روایتی غسل کا
منظر بھی دیکھیے شہزادہ بے نظیر غسل کے لیے آتا ہے ۔ اس مقام پر کیا اہتمام ہوتا ہے
کیسے کیسے لوازمات برتے جاتے ہیں یہ منظر دیکھیے
جلوس کی تیاری:۔
میر حسن نے یہاں جلوس کی تیاری میں اس دور کے روایتی جلوس کی بھر پور عکاسی کر
دی ۔ مختلف سواریوں کا حال لکھا ہے ۔ سنہری روپہلی سواریوں کا جلوس ہے ساتھ پالکیاں ہیں
اور کہار ،زربفت کی کرتیاں پہنے دبے پاٶں آگے بڑھ رہے ہیں اب جلوس میں شہنائیوں کی
صدا آتی ہے اور نوبت کی دھیمی دھیمی صدا کانوں کو بھلی لگتی ہے۔ اس منظر میں نقارچی
بھی نظرآتے ہیں اس میں ہاتھیوں کی قطاریں بھی ہیں،جلوس کے آگے آگے نقیب ،چوبدار اور
جلوہ دار دکھائے گئے ہیں چونکہ شہزادے کا پہال پہال جلوس ہے اس لیے اس کو دیکھنے
خلقت کثرت سے اُمنڈ آئی ہے۔
بجاتے ہوئے شادیانے تمام
چلے آگے آگے ملے شاد کام
سوار اور پیادہ صغیر و کبیر
جلو میں تمامی امیر و وزیر
سوال نمبر 4 .محسن کاکوروی کی نعت گوئ پر مضمون قلم بند کریں-
جواب,
دیدار
ِ محسن کا حال بھی کچھ ایسا ہی نظرٓاتا ہے۔وہ بھی دنیا سے بیزار دکھائی دیتے ہیں اور
احمد کے مشتاق ہوتے ہیں۔کہتے ہیںؐ ؎
تادم مرگ
ٓارزو ہے کہ رہے دھیان ترا ِ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میزان محشرپر
ِ برنگِ زر چڑھے سونا مرا
محمد کا
ؐ جگہ خالی کرو م ّداح ٓاتا ہے
مدحیہ اشعار میں دونوں ہی شعرا بلندی پر نظرٓاتے ہیں اور بھرپورعقیدت ومحبت کا اظہار
؎ کرتے ہوئے ٓاقائے دوجہاں صلی ہللا علیہ وسلم کی تعریف کرتے ہیں ۔ حسان نے کہا
ُخلِ ْق َ
ت مُبرّ ا من ُک ِّل َعی ٍ
ب
ٓاپ سے بڑھ کر حسین شخص ٓاج تک میری ٓانکھ نے نہیں دیکھا اور عورتوں نے ٓاپ سے’’
دیا۔ٓاپ تمام عیبوں اور برائیوں سے اس طرح پاک صاف
ؐ بڑھ کر خوبصورت بچے کو جنم نہیں
ٓاپ اس طرح پیدا ہوئے جس طرح ٓاپ ؐخود چاہتے تھے۔‘‘پیدا کیے گئے ہیں کہ یوں لگتاہے کہ ؐ
شمس وصفِ رخ ٰ
ویسین ہے وصفِ دنداں
حسان کی نعتیہ قصیدہ گوئی کا سوال ہے تو وہ تخیل کا سہارانہیں لیتے بلکہ سادگی
ؓ جہاں تک
کے ساتھ ٓاپ ؐ کے اوصاف بیان کرتے ہیں۔ نعتیہ شاعری نزاکت کی متقاضی ہے۔ ذرا غفلت یا
شعرشان رسالت سے کم معیارکا ہے
ِ الپرواہی شاعر کو کہیں سے کہیں پہنچا سکتی ہے۔اگر
شان رسالت سے بلند ہوکر شعر کہاگیا تو مشکل۔ حسان بن ثابت کا کمال یہ ہے
تومشکل اور اگر ِ
کہ وہ اس مشکل راہ پر ٓاسانی کے ساتھ چلتے ہیں اور کہیں ان کے قدم لغزش نہیں
خوبی شاعری کا اندازہ کیا جاسکتاہے
ٔ :کھاتے۔مندرجہ ذیل اشعار سے ان کی
مہر نبوت درخشاں ہے۔ہللا کی طرف سے وہ دلیل ہے ،چمکتی ہے اور گواہی دیتی ’’ ٓاپ پر ِؐ
ہے۔ہللا نے اپنے نبی کا نام اپنے نام سے مربوط کردیا ،اس لیے مٔوذن پانچوں وقت نماز میں
نبی ہیں جو ناامیدی اور انبیا کے سلسلٔہ بعثت کے طویل وقفے کے
اشہد ۔۔۔۔کہتا ہے ۔یہ ایسے ؐ
بعد ہم تک ٓائے اور اس وقت ٓائے جب زمین پر بتوںکی پرستش ہورہی تھی۔یہ ایک روشن چراغ
،روشنی دینے والے اور ہادی بن کر ٓائے جن کی چمک ایسی ہے جیسے ہندی تلوار چمکتی
)‘‘ہے۔
حسان کی اس سادگی میں حسن بھی ہے اوربھرپور کشش وتاثیر بھی۔یہ بات ہمیں محسن کی
شاعری میں نظر نہیں ٓاتی۔ محسن اپنی نعتیہ شاعری میں زور پیدا کرنے کے لیے تخیالت کا
سہارا لیتے ہیں،الفاظ کی گھن گرج پیدا کرتے ہیں اور تراکیب وتشبیہات کا طمطراق دکھاتے
ہیں۔بقول ان کے صاحبزادے محمد نورالحسن’’مضامین کی بلندپردازی،الفاظ کا شان وشکوہ،
بندش کی چستی ان کا خاصٔہ طبیعت ہے‘‘۔
نعتیہ شاعری کی کسوٹی پر حسان زیادہ کھرے اترتے ہیں۔اس لیے حسان کی نعتیہ قصیدہ گوئی
کونعتیہ شاعری کا معیار بنایاجانا زیادہ مناسب ہوگا۔محسن کی نعتیہ قصیدہ گوئی کا انداز بہت
سی جگہوں پر حسان بن ثابت کی نعتیہ قصیدہ گوئی سے الگ ہے۔ انھوں نے نعتیہ اشعار کہتے
ہوئے طرح طرح سے مضامین باندھے ہیں اور ایسے بھی اشعار کہے ہیں جن پر اعتراضات
کیے گئے ہیں ۔جیساکہ ان کے قصیدہ ’’مدیح خیرالمرسلین‘‘کی تشبیب کو سواالت کے گھیرے
میں لیا گیا۔ اگرچہ ان کے جوابات خود محسن نے دے دیے ہیں مگر پھر بھی ان کے اس
قصیدے کو پڑھنے کے بعد قاری یا سامع کے ذہن میں بعض سواالت ضرور ابھرتے ہیں۔حسان
کے قصائد اس طرح کے گنجلک مضامین سے پاک ہیں۔ ان کے نعتیہ قصیدوں میں تعقی ِد معنوی
ت متخیلہ کا استعمال نہ کرتے تو وہ نعتیہ
نہیں پائی جاتی۔ اگر محسن ضرورت سے زیادہ قو ِ
قصیدہ گوئی میں اور اونچا مقام حاصل کرلیتے ۔ حسان کے برابر وہ ہوتے یا نہیں ؟ اس بارے
کائنات کے تربیت یافتہ
ؐ سرور
ِ میں اس لیے یقین کے ساتھ کچھ نہیں کہا جاسکتاکہ حسان خود
دفاع اسالم کی
ِ ٓاپ نے ان کی شاعری کی تعریف کی تھی اور انھیں شاعری کے ذریعہ تھے ؐ ،
تلقین بھی کی تھی۔
حسان نے اپنے بعض نعتیہ قصائد کی تشبیب میں تغزل کے اشعار ضرور کہے ہیں لیکن وہ
صرف روایتی انداز کے ہیں ،پھر حسان کے یہاں تشبیب بہت مختصر بھی ہوتی ہے اس کے
زور بیانی دکھائی ہے اور اسے کافی طول
ِ برعکس محسن کاکوروی نے تشبیب میں بڑی
وطویل کردیا ہے۔تشبیب میں اپنے قدما کی پیروی کرتے ہوئے محسن تغزل کا رنگ پیدا کرتے
مقام نعت کے مطابق
ہیں لیکن وہ اس میں کچھ زیادہ ہی شوخی کا مظاہرہ کربیٹھتے ہیں جو ِ
؎ محسوس نہیں ہوتی ۔چند اشعار دیکھیے
قدان گو کل
ِ گھر میں اشنان کریں سرو
طول امل
ِ جاکے جمنا پہ نہانا بھی ہے اک
سوال نمبر .5انور مسعود کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری پر سیر حاصل گفتگو کریں
جواب,
ایک شاعر ایک مغموم انسان ہوتا ہے لیکن اس کے لبوں کو ایسی ساخت عطا کی گئی ہے کہ جب وہ آہ
بھرتاہے یا کرب سے چیخ اٹھتا ہے تو اس کی آواز موسیقی کی طرح لگتی ہے۔ لوگ اس کے
گرد مجمع لگا لیتے ہیں اور اس سے کہتے ہیں کہ ہمارے لیے جلد ہی دوبارہ نغمہ سرا ہونا یہ
ایسے ہی ہے کہ جیسے اس سے کہا جائے کہ آئندہ بھی نئے غم تمہاری روح کو زخمی کرتے
رہیں“۔
ایسا ہی کچھ اس شاعر پر بھی صادق آتا ہے جو کہ دنیائے ادب کا ایک بے حد معتبر نام ،طنز
و مزاح کے افق پر سب سے منور ،درخشاں روشن ستارہ جسے دنیا انور مسعود کے نام سے
جانتی ہے۔ الفاظ و محاورات اور زبان و بیان کی بھول بھلیوں میں کسی معصوم بچے کی مانند
بظاہر کھیل کود میں مصروف لیکن اس بازیچۂ اطفال کے توسط سے کسی بھی فلسفیانہ
موضوع کو بیان کر دینا ان کے قلم کا کمال ہے اور پھر شستہ رواں اور بے تکلف الفاظ میں
سجائی شاعری اپنے مخصوص ،لطیف ،بے ضرر اور انتہائی سادہ انداز میں یوں پڑ ھ دینا کہ
حس ظرافت نہ صرف بیدار ہو جائے بلکہ کچھ دیر کیلئے وہ اپنے زمان و مکاں، سامعین کی ِ
مسائل و حاالت سے بے خبر صرف انور مسعود کی آنکھوں سے دنیا دیکھنے لگتے ہیں۔ ان
کی معروف ترین نظمیں” اَج کیہہ پکائیے ،بُنیان ،لسّی تے چاہ ،جہلم دے پُل تے ،انار کلی دیاں
شاناں اور بو ٹی دا قیمہ “ وغیرہ اپنے اندر زبان و بیاں کی چاشنی کے عالوہ اپنے دور کی
پوری تہذیب و ثقافت کی ایک مکمل تصویرلیے ہوئے ہیں۔ یہ نظمیں محض ازرا ِہ تفنن سننے
اور داد و دہش کےلیے نہیں بلکہ اپنے اندر سیاسی سماجی اور معاشرتی شعور و ادراک کی
ایک مکمل سند لیے ہوئے ہیں۔ ایک معاشرہ جس میں چوہدری ہمیشہ چوہدری اور رحما ہمیشہ
جنبش ابرو پر کریال اپنی کڑواہٹ کے باوجود دسترخوان
ِ رحما ہی رہتا ہے۔ جہاں چوہدری کی
کا بادشاہ ٹھہرتا ہے اور اس کی رائے کے ذرا سا لڑکھڑانے پر وہی کریال دوزخ کا ایندھن بن
جاتا ہے جہاں رحما سبزیوں کا نوکر نہیں چوہدری کا جاں نثارخادم ہوتا ہے اور وہ سیدھا سادہ
خوشامدی اور اپنے آقا کے ماتھے کے بل گن کر خود اپنی ہی بات کی تردید کر دینے واال
رحما اس کے فیصلے ،نیت اور رائے سے بخوبی باخبر ہوتا ہے اور ایک طنزیہ لیکن
:نیازمندانہ انداز میں بات ختم کر دیتا ہے
”بُجھ لیا چوہدری جی چھولیاں دی دال اے ”
ان پنجابی نظموں کی پرت در پرت اور تہہ در تہہ دلکشی کو بیان کرنے کےلیے ایک پوری
کتاب درکار ہے۔لیکن میرا موضوع یہاں پر بذلہ سنج ،مرن جان مرنج ،ہنستے مسکراتے اور
اپنے قارئین ،سامعین اور ناظرین کی مسکراہٹوں کو اپنے الفاظ و انداز کے اشارے پر قہقہوں
میں بدلنے والے اس شاعر کے اپنے قہقہے نمناک اور کھوکھلے ہیں۔ انور مسعود کی شہرت
دوام کا باعث یہی مزاحیہ شاعری ہے جو کہ شعر و سخن سے لگاﺅ رکھنے والے افراد سے
لے کر ایک عام سادہ سے شہری کے حافظے میں بھی کسی نہ کسی رنگ اور شکل میں
پس پردہ ایک متین سنجیدہ اور فکر انگیز
محفوظ ہے لیکن ان تمام تر نظموں اور قطعات کے ِ
شاعری بھی ہے جس میں رات بھر جاگنے والے ستاروں کی جھلمالہٹ ہے لیکن شاعری کا یہ
پہلو مزاحیہ شاعری کے ماہ ِکامل کی آب و تاب کے سامنے دھندال جاتاہے اس کی ایک بڑی
وجہ تو یہ کہ انتشار بے یقینی اور افراتفری کے اس دور میں لوگ چند لمحوں کی ہنسی کو
غنیمت سمجھتے ہیں اور کسی کے پاس اتنا حوصلہ اور وقت نہیں ہے کہ وہ ان قہقہوں کے
دیوار گریہ کی حقیقت جاننے لی کوشش کرے۔دوسری بڑی وجہ خود شاعر کا ِ عقب میں کھڑی
مزاج اور حسن ِبیان ہے دنیا بھر میں سینکڑوں سامعین سے کھچاکھچ بھرے ہوئے پنڈال کو
ت زعفران بنا دینے والے شاعر کے ابتدائی کالم سے ہی اس کی طبع عیاں ہے :کش ِ
جو ہنسنا ہنسانا ہوتا ہے
رونے کو چھپانا ہوتا ہے
بقول ان کے وہ آج بھی اس شعر کو بڑے اعتماد کے ساتھ پڑھتے ہیں کہ کرب کی اتھاہ گہرائی
سے پھوٹنے والے قہقہوں کی گونج اتنی بلند آہنگ ہوتی ہے کہ وہ اشکوں کی برسات کی رم
جھم اور کن من پر چھا جاتی ہے۔ عام طور پر جیسا کے پنجابی زبان کے بارے میں رائے ہے
کہ اس میں بے تکلفانہ ہر بات کہ دی جاتی ہے اور ظرافت کا تخلیقی جوہر اس زبان کی
کشادگی اور ادائیگی میں چمک اٹھتا ہے۔انور کے ہاں جو مشاہدہ ،تجربہ اور اس کا اظہار پایا
جاتا ہے وہ اس بے بناوٹ زبان میں جہاں انسان کوکھلکھالکر ہنسنے پر مجبور کرتا ہے وہیں
کچھ سنگین حقائق ایسے ہیں کہ جن پر وہ لب کشائی کرتا ہے تو آنکھیں ،آنچل ،رومال اور
دامن بھیگتے چلے جاتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال ان کی پنجابی نظم ”انبڑی“ ہے۔شاعر
کا اپنا بیان کہ یہ نظم کہنے میں ان کو دس برس لگے۔اور پھر ایک رات ایسا ہو کہ اس نظم نے
خود انہیں کہا کہ” اٹھو اورمجھے لکھو“ نظم لکھنے کے بعد انہیں اندازہ ہوا کہ وہ ایک پابند
معری جو کہ اپنا انداز بیان اور ہئیت ساتھ لے کر آئی۔اور جو شاعر کے نظم نہیں بلکہ نظم ٰ
تخیل سے آزاد ہو کر اس کے الفاظ میں حیات جاوداں پا گئی۔ اس کہانی میں کرداروں کے نام
بھی اصلی ہیں واقعہ حقیقی ہے اور وہ ماسٹر خود انور مسعود ہیں۔ یہ ایک ایسی نظم ہے کہ
جو اپنی بے پناہ قوت اور آتش صفت تاثیر سے شاعر کو جھنجوڑ کر رکھ دے اور اسے مجبور
کرے کہ وہ بے قرار ہو کر اٹھے اور الفاظ کے بکھرے موتیوں کو سمیٹ کر اپنی جادو بیانی
کے دھاگے میں پرو کر ایک ماال کی صورت میں پیش کر دے۔ اس نظم میں احساس کا جو
دریا رواں ہے وہ سامعین کے اشکوں کے سمندر سے جا ملتا ہے۔نہایت سادہ زبان میں تصویر
:کشی کی گئی ہے
“منہ اُتے نیل سن تے سُجّ ا ہویا ہتھ سی۔ اکھاں وچ اتھرو تے ُبالّں وچ رت سی ”
بیٹے کے ہاتھوں مضروب اس ماں کی بے بس اور مقہور محبت التجا میں بدلتی ہے اور وہ اس
کی خاطرپراٹھا اور انڈوں کا حلوہ بناتی ہے اور اس کے ہم جماعت کے ہاتھوں بھیجتے ہوئے
کہتی ہے کہ ” چھیتی نال جائیں بیبا۔۔۔دیریاں نہ الئیں بیبا ۔۔۔۔ اوہدےاں تے لوسدےاں ہو ن گیاں
“آندرا ں ۔ بھکا بھاناں اج اوسکولی ُٹر گیا اے
گوکہ اس نظم میں موضوع کوئی نیا نہیں ہے۔ عورت کے تمام رشتوں پر جسمانی ،ذہنی اور
جذباتی تشدد نہ تو کوئی ڈھکی چھپی بات ہے اور نہ ہی کوئی نئی بات۔ طاقتور کے ہاتھ میں
ہمیشہ الٹھی رہی ہے۔ لیکن یہ نظم جس بات اور جذبے کی پردہ کشائی کرتی ہے وہ یہ ہے کہ
ایک ماں کا مجبور جذبہ جبرو ستم سہہ کر بھی اپنے فطری تقاضے سے بعض نہیں آتا۔ یہ نظم
اپنے تاثر کی نوعیت اور شدت کے اعتبار سے دائم شاداب نظموں میں رہے گی۔پنجابی ادب
میں ” لسی تے چاہ“سے ہٹ کر یہ شیریں بیاں شاعر کی شگفتگی کے پس پردہ معاشرتی نا
ہمواری ،محروی و محکومی اور صبرو و رضا کا ایک بھڑکتا االﺅ دکھائی دیتا ہے اور عورت
رشتے کی جس آگ میں جل کر کندن بنتی ہے اس کی شدت بھی اس نظم کی صورت محفوظ ہو
گئی ہے اور جذبوں کی بے بسی بے توقیری،اور بے وقعتی اس نظم کے قالب میں نسل در نسل
چلے گی۔
اپنی شاعری پر اظہار خیال کرتے ہوئے وہ خود کہتے ہیں کہ” میری شاعری مکئی کی طرح
ہے کہ جب وہ جلتی ہے تو مسکراتی ہے۔ مزاح نگار بھی بادل کی طرح ہوتا ہے کہ جب بجلی
چمکتی ہے تو وہ ہنستا ہوا معلوم ہوتا ہے اور جب بارش ہوتی ہے تو وہ روتا ہو لگتا ہے“۔
درون خانہ ہنگامے جو بھی رہے ہوں انہوں نے جب بھی پنجابی شاعری سے ہٹ کر اردو میں ِ
قلم اٹھایا ہے تو ان کے تخیل سے الفاظ تک کے سفر میں شگفتگی ہمیشہ مضامین کی ہمسفر
رہی ہے۔قومی زیاں ہو یا شخصی جاگیردارانہ نظام کے خالف صدائے احتجاج ہو یا شاعرانہ
بے مائیگی اور بے ہنری کا تذکرہ اس میں مزاح کی حاشیہ آرائی واضح نظر آتی ہے۔قطع ان
“کی” مرغوب ترین“ صنف ہے۔ ایک قطعہ بعنوان ” ،فااعتبرو یا او لی البصار
کبھی حساس اور درد آشنا دل باشعور ذہن اور محب وطن قلم ملکی حاالت اور صورتحال سے
:زخمی ہوتا ہے تو اپنے مخصوص انداز میں نکتہء نظر واضح کرتے ہیں
رہاکچھ بھی نہیں باقی وطن میں
مگر اک خستہ حالی رہ گئی ہے
ترستی ہیں نگاہیں روشنی کو
فقط روشن خیالی رہ گئی ہے
ملکی بقا کے ساتھ ساتھ عوام کا اور ایک عام انسان کی زبوں حالی کا درد بھی ان کے جگر
:میںہے جو ان کو اپنا احتجاج درج کروانے پر مجبور کرتا ہے
ترقی اس قدر برپا ہوئی ہے کسی صورت کوئی گھاٹا نہیں ہے
بس اتنی سی پریشانی ہے انور الیکشن سر پہ ہے آٹا نہیں ہے
غم کو ہنسی میں اڑانے کی ادا ،محسوسات کو الفاظ کا رنگا رنگ پیراہن دینے کا ایک منفرد
اسلوب ،سنجیدہ اور سنگین موضوعات ،جن پر الٹھی چلنے ،گولی چلنے اور فی زمانہ بم
چلنے میں ایک دقیقہ نہیں لگتا نہایت سہولت سے یوں بیان کر دینا کہ ہونٹوں پر مسکراہٹ
آجائے اور ما فی الضمیر بھی ادا ہو جائے۔ اگر شاعر کی شخصیت کو کالم کے ساتھ ہم آہنگ
کر کے دیکھا جائے تو ان کے کالم میں ایک پنہا ںدرد اور سلگتے رہنے کی جو لذت ہے اس
کی وضاحت ہو جائے گی۔وہ کہتے ہیں” جب میں پڑھتا تھا کہ غالب کو آم پسند تھے یا اقبال کو
آم پسند تھے تو میں سوچتا تھا کہ مجھے آم پسند کیوں نہیں ہیں۔غور کرنے پر معلوم ہو ا کہ
“میں نے تو کبھی آم کھائے ہی نہیں تھے
جب امرا کے طبقے سے کوئی اٹھ کر عوام کے غموں کی بات کرے تو وہ محرومی کی شدت
اور بے کسی کی اذیت کو نہ تو سمجھ سکتا ہے ،نہ ہی بیان کر سکتا ہے ان الفاظ و بیان مین
اثر انگیزی مفقود ہوتی ہے۔ انور مسعود کا قلم جب جاگیردارانہ نظام پر لکھتا ہے تو اس کی
سیاہی اس کرب سے آشنا ہے جس میں ایک عام انسان دن رات بسر کرتا ہے یہی وجہ ہے کہ
وہ دور حاضر کا ایسا عظیم مزاح نگار ہے جس کے مزاح میں زندگی کے تمام تر سنجیدہ
موضوعات اپنے سنگین حقائق سمیت سانس لیتے محسوس ہوتے ہیں۔ ملک میں امیروں ،
وزیروں اور وڈیروں کا راج معاشرتی اور طبقاتی تقسیم اور انسان کی تحقیر ان کی سوچ کو
زنجیر بپا کرتی ہے اور وہ رک کر اس نا ہمواری کا تجزیہ کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ”
فیوڈل ازم صرف زمین و جاگیرتک محدود نہیں بلکہ یہ ایک ذہنی رویے کا نام ہے جس میں
انسان جاہ و منصب کے حصول اور احساس برتری کے نشے میں سرشار رہتا ہے تعلیم ایسے
لوگوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ایک قطعہ جس میں ایک عام آدمی اور خاص آدمی کا امتیاز
:ہے
ایسے شاعر کو صرف ایک مزاحیہ شاعر سمجھ لینا اور ان کی شاعری سن کر لمحاتی طور پر
زندگی کی تلخیوں سے صرف نظر کر کے بھرپور ہنسی کے ساتھ محفل کا حصہ بن جانا گو
ان کے فن اور شخصیت کے ساتھ انصاف نہیں۔ لیکن اس کے باوجود یہ شاعرانہ کمال کی زندہ
دالنہ داد ہے کہ ایک شاعر ایسے زندہ ،توانا لیکن سادہ الفاظ سے ایک تصویر پیش کر دینے
پر قادر ہے جو امیروں کے غریب ملک میںعوام کو تھوڑی دیر کیلئے آٹے دال کا بھاﺅ بھال
دینے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ شعری کیفیات کا یہ برمال اظہار فنی اور تکنیکی مہارت ایک
بے بہا انعام ہے۔ اور اس تخلیقی کرب سے وہ کیسے گذرتے ہیں اس کا جواب وہ یوں دیتے ہیں
کہ شعر گوئی اور اس کی آمد کے بارے میںیقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ۔کبھی تو ایسے
تواتر ،تسلسل اور روانی سے مصرعے یلغار کر دیتے ہیں کہ ان کو تحریر کرنا مشکل ہو اور
کبھی کئی کئی دن گذر جاتے ہیں اور ایک مصرع بھی موزوں نہیں ہو پاتا اس کی مثال ماہی
گیر کے ایک جال کی سی ہے کبھی تو اس میں بے شمار مچھلیاں آجاتی ہیں اور کبھی وہ دن
“بھر منتظر ہی رہتا ہے
۔شعر کہنے کےلیے خود سے مالقات ہونا بہت ضروری ہے اپنی ہی ذات کے ساتھ مکالمہ اور
اپنے ہی اقوال و افعال کا بے الگ تجزیہ الزمی عنصر ہے۔ انور مسعود کہتے ہیں کہ ”اگر آپ
بھیڑ کے اندر بھی خود کو تنہا کر سکیں تو آپ شعر کہہ سکتے ہیں“۔ اگرچہ شاعری یا سخن
وری عطیۂ خداوندی ہے اور شعراءبراہ راست تالمیذالرحمان ہوتے ہیں لیکن انور کے ہاں اس
عنایت کے عالوہ ایک موروثی پہلوبھی موجود ہے۔ان کے تایا اور ان کی نانی کرم بی بی
حلقہءسخن وراں میں شامل تھے اور پھر گجرات کی شاعر ساز اور شاعر نواز فضاﺅں کا اثر
شعر گوئی ایک تو ان کے خون میں رواں تھی اور مستزاد امام دین کے محلے کے گلی کوچوں
میں ایام طفولیت گزارنے والے اس شاعر نے ان فضاﺅں سے بھی اپنے سانس معطر کر لئے۔
فارسی ،اردو اور پنجابی تینوں زبانوں پر یکساں قدرت رکھنے کے سبب وہ اکثر اوقات صرف
لفظوں کی ادل بدل سے سنجیدہ موضوعات مین بھی ایسی فضاءپیدا کر دیتے ہیںکہ قاری
مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا۔ اور مسکراہٹ بانٹنا بھی صدقہ جاریہ ـ دور حاضر کے شعرا کی
مشق سخن میں کمی اور بے توجہی لیکن شعر گوئی پر مسلسل اصرار کو ِ ت مطالعہ اور
قل ِ
انہوں نے ایک قطع میں بیان کیا ۔ کسی نے ان کو اپنی کاوش اصالح کے لیے بھیجی۔
آخر میں اس انور مسعود سے بھی مل لیجیے جو پنجاب کے کھیتوں کھلیانوں ،ٹاہلیوں ،
میدانوں ،چوپالوں اور ڈیروں سے ہوتا ہوا انار کلی جا نکلتا ہے ،وہاں کی شاناں دیکھ کر متخیر
اور مرعوب ہوتا ہے ،لیکن یہی شاعر جب مدینہ کی تقدس بھری فضاﺅں میں پہنچتا ہے تو اس
کا انداز اور لہجہ بھی با وضو ہو جاتا ہے۔ اس نور لٹاتی ہوا میں اس کی روح بھی سانس لیتی
محسوس ہوتی ہے۔
ان معطر فضاﺅں سے نکل کر وہ کربال کی تپتی زمین اپنے تلووں تلے محسوس کرتا ہے اور
دوش محمد ﷺ کا رتبۂ عالی بیان کرتا ہے تو اپنی بے مائیگیِ سوار
ِ جب وہ ”سالم“ کہہ کر ،
:کے اعتراف کے ساتھ
دوش محمد ﷺ کا رتبہ عالی ِ سوار ِ
بیان اجمالی
ث عجز ہے میرا ِ حدی ِ
کھلی ہے آج تخیل کی بے پرو بالی
دکھائی دیتی ہیں لفظوں کی جھولیاں خالی
یہاں ضعیف ہر اظہار کا وسیلہ ہے
بس ایک دیدۂ خونبار کا وسیلہ ہے
مثیل شا ِہ شہی ِد شہیر ،نا ممکن ِ
کوئی غریب ہو ایسا امیر ،نا ممکن
حسین سا کوئی روشن ضمیر ،نا ممکن ؓ
جہان عشق میں اس کی نظیر نا ممکن ِ
وہ جاں نثار عجب اک مثال چھوڑ گیا
کہ اس کا صبر ستم کا غرور توڑ گیا
چھپی ہے اس کے تدبر میں معرفت کیسی
ہوس کے ساتھ وفا کی مفاہمت کیسی
ستم گروں کے ستم سے مصالحت کیس
اسی کی دین ہے یہ سوچ کا قرینہ بھی
کہ ایک جرم ہے ظالم کے ساتھ جینا بھی
مہر جہاں تاب ضوفشاں ہے حسین مثال ِ ِ
ایثار بے کراں ہے حسین ِ ہمہ خلوص ہے،
حیات راز ہے اور اس کا رازداں ہے حسین
ریاض دہر میں خوشبوئے جاوداں ہے حسین ِ
وہ ظالموں کو ہمیشہ کا انتباہ بھی ہے
تفسیر ال الہ بھی ہےِ وہ اپنی ذات میں
۔انور مسعود کی شاعری بھی ذہنی فضاﺅں میں طلسمات کی گلکاریاں دکھاتی ہے مضمون ،الفاظ
اور انداز کی آتشبازی سے جادو جگاتی ہے۔خود اس کے لئے شاعر کی اپنی ذات پر کیا گذرتی
ہے یہ ایک علیحدموضوع اورایک الگ افسانہ ہے۔ لیکن وہ اپنی سنجیدہ شاعری میں بھی منوا
چکا کہ انور ،انور اےـ