Document

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 3

‫تحریر‪ :‬مہدی حیات‬

‫عنوان‪ :‬ارون دھتی رائے کی کتابیں اور خیاالت (حصہ اول)‬

‫نامی معروف ناول کی مصنفہ ہیں۔ اس ناول پر ارون دھتی رائے کو ‪ 1997‬میں ‪ The God of Small Things‬ارون دھتی رائے‬
‫بوکر پرائز بھی مال۔ یہ ناول چالیس سے زائد زبانوں میں ترجمہ ہوا اور محض چند سالوں میں اس کی ساٹھ الکھ جلدیں فروخت‬
‫ہوئیں۔ ارون دھتی رائے نے اپنے پہلے ناول کے فوراً بعد اپنی راہ اور موضوع بدل لیا۔ ‪ 1998‬میں بھارت کے جوہری تجربات کے‬
‫چند ہفتے بعد ارون دھتی رائے نے ”تخیل کی موت“ نامی مضمون لکھا جس نے دنیا بھر میں توجہ حاصل کی۔‬
‫اس کے بعد انہوں نے سلسلہ وار سیاسی مضامین لکھے‪ ،‬جن میں بڑے ڈیموں‪ ،‬جمہوریت‪ ،‬عالمگیریت‪ ،‬آزادی اور بھارت کے‬
‫اندرونی حاالت کو موضوع بنایا۔ دی ٹیلی گراف کی رائے ہے کہ‪” :‬ارون دھتی رائے کے مضامین ایسے جملوں سے روشن ہیں جو‬
‫دماغ میں جلتے رہتے ہیں۔ رائے کی سیاست بے حد واضح اور بے خوف تناظر میں وسیع‪ ،‬استحصال کیے گئے لوگوں کے ساتھ‬
‫“اپنی فکر میں استقامت سے جڑی ہوئی۔ ریاست اور اس کے اداروں پر تنقید میں مصروف ہے۔‬
‫ارون دھتی رائے بھارت کی ایسی لکھاری ہیں جن سے بھارت کے دونوں گروہ (دائیں بازو اور بائیں بازو) کبھی خوش نہیں رہے۔‬
‫لکھا تو بھارت کی ریاست‪ B‬کیراال کے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی عدالت میں ان کے خالف ‪ The God of Small Things‬جب انہوں نے‬
‫فوجداری مقدمہ دائر کر دیا گیا۔ ان پر الزام تھا کہ یہ ایک فحش کتاب ہے اور عوامی اخالقیات بگاڑنے کی مرتکب ہوئی ہے۔‬
‫دوسری طرف جب انہوں نے ”تخیل کی موت“ لکھا تو بھارت کے دائیں بازو والے ان پر حملہ آور ہوئے۔‬

‫ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ‪” :‬غالبا ً کئی اعتبار سے میں قوم مخالف کی تعریف پر پوری اترتی ہوں۔ میرے جسم میں قوم پرستی‬
‫والی کوئی ہڈی ہے ہی نہیں۔ یہ میری فطرت میں بھی شامل نہیں ہے۔ اس کے باوجود میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی کہ میں یہاں کی‬
‫نہیں ہوں کیونکہ مجھے جس سے محبت ہے وہ سب چیزیں تو یہاں ہیں۔ قومیت ظاہر کرنے کے لیے قومی پرچم یا آئین یا کسی ایسی‬
‫“چیز کی ضرورت نہیں ہوتی۔‬

‫ارون دھتی رائے کی شہرت یافتہ کتابوں کے اردو تراجم پاکستان میں وین گارڈ بکس نے شائع کیے ہیں۔ ان کے انٹرویوز پر مشتمل‬
‫کتاب ”درندے کی پہچان“ اور سیاسی موضوعات پر لکھے گئے تحقیقی مضامین پر مشتمل کتاب ”سرگوشیاں“ کے نام سے شفقت‬
‫تنویر مرزا صاحب نے ترجمہ کی ہیں۔ ان کی دوسری کتابیں ”ایک عام آدمی کا تصور سلطنت“ ‪” ،‬ال محدود انصاف کا الجبرا“ اور‬
‫”چیک بک اور کروز میزائل“ شفیق الرحمان میاں صاحب کی ترجمہ کردہ ہیں۔‬
‫ہر ریاست‪ B‬کے دو چہرے ہوتے ہیں‪ ،‬ایک وہ چہرہ جو ریاست کے شہریوں اور باہر کے لوگوں کو نظر آتا ہے اور دوسرا وہ بھیانک‬
‫چہرہ جسے ریاست‪ B‬خود اپنے عوام سے بھی چھپاتی ہے۔ ارون دھتی رائے نے اپنے مضامین میں دو ریاستوں (بھارت اور امریکہ)‬
‫کے اس بھیانک چہرے پر سے نقاب ہٹانے کی کوشش کی ہے۔‬
‫نوم چومسکی لکھتے ہیں ‪” :‬ارون دھتی رائے ایک واضح تصور پیش کرتی ہے کہ بھارت ایک نہیں دو ہیں‪ ،‬جو بڑے عزم کے‬
‫ساتھ ایک دوسرے کی مخالف سمت رواں دواں ہیں۔ ایک تو چھوٹا بھارت ہے جو اپنی“ روشن منزل ”کی طرف بڑھ رہا ہے جبکہ‬
‫“باقی ماندہ بھارت تاریکیوں کا جزو بن کر منظر سے غائب ہوتا جا رہا ہے۔‬
‫بھارت میں بی جے پی کو برا بھال کہنے والوں کی کوئی کمی نہیں مگر کانگریس کا نام آتے ہی ایسے نقادوں کی زبان لڑکھڑانے‬
‫لگتی ہے۔ اس حوالے سے ارون دھتی رائے لکھتی ہیں ‪” :‬اندرا گاندھی نے ہی ہماری سیاسی رگوں میں زہر داخل کیا۔ انہوں نے‬
‫مصلحت کا ناگوار مقامی برانڈ ایجاد کیا۔ وہ ان بھوتوں کو گولیوں کا نشانہ بنانا چاہتی تھیں جو انہوں نے خود اسی مقصد کے لئے‬
‫ہی تخلیق کیے تھے۔ وہ اندرا گاندھی ہی تھی جنہوں نے مردے کو کبھی نہ دفنانے کے فوائد دریافت کیے۔انہوں نے متعفن الشوں کو‬
‫صرف اس لئے محفوظ رکھا کہ وہ جب چاہیں‪ ،‬پرانے ناسوروں کا ماتم کرنے کے لئے انہیں باہر نکال لیں۔ بعض پہلؤوں سے دیکھا‬
‫جائے تو بی جے پی وہ بھوت ہے جسے اندرا گاندھی اور کانگریس نے تخلیق کیا۔ اگر آپ کم سخت الفاظ استعمال کرنا چاہیں تو یہ‬
‫وہ بھوت ہے جس نے اپنے آپ کو ان سیاسی خالٔوں‪ ،‬طبقاتی اور مذہبی شکوک و شبہات‪ B‬کے اندر پاال پوسا‪ ،‬جسے کانگریس‬
‫خوراک مہیا کرتی اور زرخیز سے زرخیز تر بناتی رہی۔ بی جے پی نے اپنی آگ جالنے کے لئے براہ راست سڑکوں‪ ،‬گھروں اور‬
‫لوگوں کے دلوں کو منتخب کر لیا۔ جو کانگریس صرف رات کو کرتی ہے‪ ،‬بی جے پی وہ سب دن کے اجالے میں کرنے کو تیار‬
‫“ہے۔‬

‫پاکستان میں آئے روز ڈیموں کے حوالے سے کسی نہ کسی صورت میں بحث جاری رہتی ہے۔ اس میں فوراً بھارت کی مثال دی‬
‫جاتی ہے‪ ،‬جس نے کئی سو ڈیم بنائے۔ مگر کوئی یہ نہیں بتاتا کہ ان ڈیموں کی وجہ سے بھارت کے عوام پر کیا بیتی۔ ارون دھتی‬
‫رائے نے ڈیموں کے پر فریب فوائد پر کئی مضامین لکھے ہیں۔ نہرو کا مشہور جملہ ہے کہ‪” :‬ڈیمز جدید بھارت کی عبادت گاہیں‬
‫ہیں“ ۔ اس لیے بڑے ڈیموں کی مخالفت پر ارون دھتی رائے کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ وہ بھارت میں ترقی کی مخالف ہیں۔‬
‫بھارت کی یہ مصنفہ آخر بڑے ڈیموں کی مخالفت کیوں کرتی ہیں؟ اس سوال کا جواب شاید ان عالقوں کے حاالت ہیں جہاں پر ڈیم‬
‫بنائے گئے‬
‫ارون دھتی رائے اپنے ایک مضمون ”عظیم تر اجتماعی فالح“ میں لکھتی ہیں ‪ 1979 :‬کے ابتدائی تخمینوں میں بتایا گیا کہ سردار‬
‫ساروور ڈیم کی آبی ذخیرہ گاہ کی تعمیر کے نتیجے میں ‪ 6000‬سے زائد خاندان بے گھر ہوں گے۔ ‪ 1987‬میں یہ تعداد دگنی ہو گئی۔‬
‫‪ 1991‬میں انکشاف ہوا کہ ‪ 27‬ہزار کنبے بے گھر ہوجائیں گے۔ جبکہ ‪ 1992‬میں متاثرہ گھرانوں کی تعداد چالیس ہزار سے زائد ہو‬
‫گئی۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ اس ڈیم نے تقریبا ً پانچ الکھ افراد کو بے گھر کر دیا۔‬

‫ارون دھتی رائے معروف امریکی مصنف ڈیوڈ بیرسمین کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہتی ہیں ‪ :‬مدھیہ پردیش میں ‪ 1990‬میں پایہ‬
‫تکمیل کو پہنچنے والے ”برگی ڈیم“ کے بارے میں حکومت نے دعوی کیا تھا کہ یہ ڈیم ستر ہزار افراد کو بے گھر کرے گا اور‬
‫ایک سو دیہات صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے۔ جبکہ حکومتی تخمینوں کے برعکس تقریبا ً دو گنا یعنی ایک الکھ ‪ 14‬ہزار افراد‬
‫بے گھر ہو گئے اور ‪ 162‬دیہات اس کی نظر ہو گئے۔‬
‫ارون دھتی رائے نے بھارتی صحافی شوما چوہدری کو ایک انٹرویو دیا‪ ،‬جس کا نچوڑ کچھ یوں ہے ‪ :‬ڈیم کے متاثرین میں صرف‬
‫ان لوگوں کو شامل کیا جاتا ہے جن کے پاس اراضی ہو‪ ،‬باقی جو لوگ بے گھر ہوئے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے وہ ناجائز قابض‬
‫تھے۔ انہیں بے دخل کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنی راہ لیں۔ کئی عالقوں میں رہنے والے ہزاروں مچھیرے جن کا گزر بسر مچھلیاں‬
‫پکڑنے پر ہوتا ہے وہ متاثرین میں شامل ہی نہیں کیے جاتے۔ ڈیم بنانے سے قبل وعدہ کیا جاتا ہے کہ زمین کے بدلے زمین دی‬
‫جائے گی مگر بعد میں یہ وعدے وفا نہیں ہوتے۔ لوگوں کو زمین کے بدلے معاوضہ صرف نقدی کی صورت میں دیا جاتا ہے اور‬
‫جہاں لوگ یہ قبول نہ کریں وہاں کے لوگوں کو ریاستی دھمکیوں سے قبول کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔‬
‫ارون دھتی رائے کے مطابق بھارت میں بڑے ڈیموں نے تقریبا ً چار کروڑ افراد کو بے گھر کیا۔ جی ہاں چار کروڑ! یہ تعداد دنیا‬
‫کے کئی ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہے‬

‫ارون دھتی رائے اپنے انٹرویوز اور مضامین میں جوہری ہتھیاروں پر بھی کڑی تنقید کرتی ہیں۔ ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ‬
‫بھارت میں جوہری ہتھیاروں پر تنقید کرنا بھی ایک خطرناک کام تصور کیا جاتا ہے۔ ارون دھتی رائے اپنے معروف مضمون ”تخیل‬
‫کی موت“ میں لکھتی ہیں ‪” :‬بھارت کا جوہری بم ہمارے حکمران طبقے کی طرف سے عوام کے ساتھ کیے جانے والے دھوکے کا‬
‫آخری قدم ہے۔ وہ حکمران طبقہ جس نے عوام کو ناکام بنا دیا ہے۔ ہم اپنے سائنس دانوں کی گردنوں میں جتنی تعداد میں پھولوں کے‬
‫ہاروں کا ڈھیر لگا دیں ان کے سینوں پر جتنے بھی تمغے سجا دیں‪ ،‬سچ اور حقیقت یہی ہے کہ چالیس کروڑ عوام کو تعلیم دینے کے‬
‫“مقابلے میں جوہری بم بنانا کہیں آسان کام ہے۔‬

‫ارون دھتی رائے کا کہنا ہے کہ‪” :‬جوہری بم غیر جمہوری ترین‪ ،‬ملک مخالف ترین‪ ،‬انسان مخالف ترین چیز اور مکمل برائی ہے‬
‫جو بنی نوع انسان نے تخلیق کی۔“ وہ مزید لکھتی ہیں ‪” :‬یہ ایک بڑی حماقت ہے کہ ہم جوہری ہتھیاروں کو صرف استعمال کیے‬
‫جانے کی صورت میں ہی مہلک خیال کریں۔ ہماری زندگیوں میں ان کی موجودگی ہی ناقابل تصور‪ ،‬ناقابل بیان تباہی اور بربادی کا‬
‫موجب بن سکتی ہے۔ جوہری ہتھیار ہماری سوچوں کو اپنا غالم بنا لیتے ہیں‪ ،‬ان پر تسلط جما لیتے ہیں‪ ،‬ہمارے رویوں کو کنٹرول‬
‫کرتے ہیں‪ ،‬ہمارے معاشروں کے انتظامی معامالت اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں‪ ،‬ہمارے پاگل پن کو ہماری دیوانگی اور ہماری‬
‫“جنونیت کو خوراک فراہم کرتے ہیں۔‬

‫ارون دھتی رائے نے بھارتی تاریخ کے اہم واقعات‪ B‬بابری مسجد کو گرائے جانے‪ ،‬گجرات اور کشمیر میں مسلمانوں کے قتل عام پر‬
‫بھی کھل کر بوال اور لکھا ہے۔ ایک اہم واقعہ ہندوستانی پارلیمنٹ پر ہونے واال حملہ ہے۔ بھارت نے اس حملے کا الزام پاکستان کی‬
‫دو تنظیموں لشکر طیبہ اور جیش محمد پر عائد کیا۔ ارون دھتی رائے نے اس بارے میں دو مضامین لکھے ہیں‪ ،‬پہال اپنی گہری‬
‫تحقیق سے اور دوسرا اس واقعہ کے پانچ سال بعد شائع ہونے والی ایک کتاب کی روشنی میں۔ وہ دوسرے مضمون میں ریاست اور‬
‫اس کے نظام انصاف پر بہت سے سوال اٹھاتی ہیں۔‬

‫مسئلہ کشمیر کے حل بارے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے ارون دھتی رائے کہتی ہیں ‪” :‬کشمیر ایک ایسا خرگوش ہے جسے‬
‫بھارت اور پاکستان دونوں ملکوں کی حکومتیں اس وقت ٹوپی سے باہر نکال لیتی ہیں جب انہیں کوئی مشکل پیش آ رہی ہو۔ وہ اس‬
‫مسئلے کو حل نہیں کرنا چاہتیں‪ ،‬بلکہ ان کے نزدیک یہ سرے سے کوئی مسئلہ ہے ہی نہیں یہ ایک“ حل ”ہے۔ ہمیں چاہیے کبھی یہ‬
‫“سوچنے کی غلطی نہ کریں کہ بھارت اور پاکستان مسئلہ کشمیر کے حل کے متالشی ہیں اور وہ انہیں مل نہیں رہا۔‬

‫ان حاالت میں رہنے والی مصنفہ نے اس وقت دنیا میں رائج سب سے بہتر نظام حکومت‪” ،‬جمہوریت“ پر بھی بہت سے سواالت‬
‫اٹھائے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ انصاف اور استحکام کے جو خواب ہم نے جمہوریت سے وابستہ کر رکھے تھے شاید جمہوریت وہ‬
‫پورے نہ کر سکے۔ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہالئی جانے والی ریاست کی رہائشی ارون دھتی رائے یہ کہنے پر مجبور‬
‫ہے کہ‪” :‬جدید دنیا کی مقدس گائے یعنی جمہوریت اس وقت بحران سے دوچار ہے اور بحران بھی کافی گہرا ہے۔جمہوریت کے نام‬
‫پر ہر طرح کے حقوق پامال کیے جا رہے ہیں۔ جمہوریت ایک کھوکھلے لفظ‪ ،‬ایک خوبصورت خول سے زیادہ کچھ نہیں۔ یہ ایک‬
‫بے معنی جنس بن کے رہ گئی ہے۔ آپ اسے اپنی مرضی کے مطابق ڈھال سکتے ہیں۔ جمہوریت آزاد دنیا کی وہ طوائف ہے جو‬
‫پرکشش لباس زیب تن کرنے‪ ،‬لباس اتار کر برہنہ ہو جانے‪ ،‬ہر ذوق کے گاہکوں کو مطمئن کرنے اور اپنی مرضی سے استعمال‬
‫“ہونے یا غلط طور پر استعمال کیے جانے کے لیے ہمہ وقت رضامند رہتی ہے۔‬

‫)جاری(‬

You might also like