Professional Documents
Culture Documents
Document
Document
Document
صبغہ راؤ
تحقیق کی طرح تنقید بھی دنیائے ادب کے لیے خاص اہمیت رکھتی ہے۔ ان دونوں کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔ تحقیق اور
تنقید نہر کے دو کناروں کی طرح ہیں۔ جو کبھی بھی آپس میں نہیں مل سکتے مگر ہمیشہ ایک ساتھ رواں رہتے ہیں۔اس لیے ان
دونوں اصطالحات کو ہمیشہ الگ الگ ہی بیان کیا جاتا ہے۔
تنقید کیا ہے؟
ب تفعیل سے تعلق رکھتا ہے۔تنقید کا مادہ نقد ہے۔ اس کے معنی کھرے اور کھوٹے کی پہچان کرنا
تنقید عربی زبان کا لفظ ہے اور با ِ
دور
کے ہیں۔ تنقید ایک ایسی اصطالح ہے جس میں کسی بھی شخص چیز یا پھر صنف کے منفی اور مثبت پہلو گنوائے جاتے ہیں۔ ِ
جدید میں تنقید کو صرف نقص بیان کرنا تصور کیا جاتا ہے مگر ایسا بلکل بھی نہیں ہے۔کسی بھی شے کی صرف خامیاں بیان
کرنے کی اصطالح تنقیص کہالتی ہے جس میں صرف اور صرف منفی پہلوؤں کو اُجاگر کیا جاتا ہے۔ تنقید کا قیام آج سے کئی سو
سال پرانا ہے۔ مغرب میں سب سے پہلے اس اصطالح کو رواج مال تھا انگریزی میں اسے کریٹیسائز کہا جاتا ہے۔ اس کی بہت سی
اقسام ہیں؛
تنقید کی اقسام؛
ڈاکٹرسلیم اختر کے مطابق تنقید دراصل کالس نوٹس کی طرح سے ہے جس کا بنیادی مادہ تو تقریبا ً ایک رہتا ہے مگر مثالیں بدلتی
رہتی ہیں۔اس کی مختلف اقسام درج ذیل ہیں؛
ا۔ آر کی ٹائپل تنقید
یہ نفسیاتی تنقید کی اہم شاخ ہے جس میں کسی ادیب یا ادب کے اجتماعی الشعور پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔
ب۔نفسیاتی تنقید
نفس الشعور کو اہمیت دینے والے ناقدین کا مطالعہ نفسیاتی تنقید کہالتا ہے۔ادبی اصطالح میں کسی ادیب
فرائیڈ کے دریافت کردہ ِ
کے نفس کو پرکھنا بھی مراد لیا جاتا ہے۔
ج۔استقرائی تنقید
یہ ایک ایسی تنقید ہے جس میں کسی ادیب کو خارج سے عائد کردہ اصول و قوانین سے نہیں بلکہ اس کی اپنی تصنیف کے مطابق
پرکھا جاتا ہے۔
د۔تجزیاتی تنقید
اس میں کسی بھی ادب پارے کے بنیادی اوصاف کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔
ہ۔رومانی تنقید
اس تنقید میں ادیب کے رومانوی رنگ کو ملحوظِ خاطر رکھا جاتا ہے۔
و۔سائنٹفک تنقی
یہ ایک ایسی شاخ ہے جس میں سائنٹفک عالم کے مطلق تنقید کی جاتی ہے۔
ز۔عمرانی تنقید
پس منظر سے پرکھا جاتا ہے۔
یہ معاشرے Jکی تنقید ہے اس میں ادیب اور ادب کو معاشرتی ِ
ح۔مارکسی تنقید
اس میں کسی بھی ادب کا مطالعہ موضوع کی طبقاتی کشمکش میں کیا جاتا ہے۔
ط۔نظریاتی تنقید
اس میں نظریاتی بنیادوں پر کام کیا جاتا ہے۔
ی۔عملی تنقید
کسی فنکار یا ادب کا ںظریاتی مطالعہ عملی تنقید کہالتا ہے۔
ک۔ہیئتی تنقید
اس میں کسی بھی صنف کی ہیتوں کا مطالعہ کیا جاتا ہے
تنقید کی اقسام
عمرانی تنقید :عمرانی نقاد سب سے پہلے معاشرے اور اس کے رجحانات کے بارے میں تفصیل جان کر اس زمانے کے ذہنی )1
پس منظر کے بارے میں بات کرتے ہوئے تحریر کو سامنے رکھتا ہے اور دیکھتا ہے کہ ان عوامل نے کس حد تک تحریر پر اثر
کیا اور کس حد تک ان اثرات کی عکاسی تحریر میں موجود ہیں۔ عمرانی تنقید کی مدد سے ہم بہ آسانی جان جاتے ہیں کہ مخصوص
حاالت کا لکھنے والے کے تحریر اور زبان پر کیا اثر ہوتا ہے۔
نفسیاتی تنقید :نفسیاتی تنقید کی بنیاد فرائڈ کے نظریہ الشعور پر رکھی گئی ہے۔ جس میں بعدا زاں ایڈلر اور ژنگ کے خیاالت )2
نے مزید گہرائی پیدا کردی۔ علم نفسیات انسانی ذہن اور کردار کے محرکات Jکو سمجھنے کا نام ہے چنانچہ نفسیاتی تنقید میں بھی
اسی حوالے سے بات کی جاتی ہے۔
جمالیاتی تنقید :جمالیاتی تنقید میں کسی فن پارے میں حسن اور جمال کی اقدار پر بحث ہوتی ہے۔ جمالیاتی تنقید میں فن پارے میں )3
دلکشی اور حسن جیسے عناصر کی تالش اور بیان کو کافی سمجھا Jجاتا ہے۔
مارکسی تنقید :مارکسی تنقید میں ادب ،زندگی اور معاشرے Jکے مادی ارتقا میں شریک ہونے کے ساتھ ساتھ اس ارتقاء کے )4
مدارج عکس بھی پیش کرتا ہے چنانچہ ادب کو امیر اور غریب ،حکمران اور محکوم ،سرمایہ دار اور مزدور ،کسان اور زمیندار
کے درمیان پائی جانے والی طبقاتی کشمکش میں غریب اور پسے ہوئے طبقے کا ساتھ دینا چاہئے۔
رومانی تنقید :اس تنقید کے بارے میں آج تک میں کنفیوز ہو لیکن میرے خیال میں سادہ زبان اور اور اسلوب پر اس تنقید میں )5
زور دیا جاتا ہے۔( اس کے حوالے سے اگر معلوما ت کسی کے پاس موجود ہے تو مہربانی کرکے وضاحت کیجئے۔)
تاثراتی تنقید:تنقید کی ایسی قسم جس میں تاثر کو اولیت دی جائے ،تاثراتی تنقید کہالتی ہے۔ اس تنقید کی بنیاد یہ نظریہ ہے کہ ہر )6
قسم کے ادب کی بنیاد تاثر بخشی پر ہوتی ہے۔
تقابلی تنقید :تقابل دو چیزوں کے درمیان موازنہ کرنے کو کہا جاتا ہے اور تقابلی تنقید میں بھی یہی کام کیا جاتا ہے۔ )7
ہماری تمام تصنیفات کا ہیرو مزدور ہونا چاہئے بالفاظ دیگر محنت کے عمل سے جنم لینے واال …… انسان‘‘۔ اس تنقید کے اہم ’’
نقاد ،لینن ،ماوزے تنگ ،میکسم گورکی ،فیض ،احمد ندیم قاسمی ،عزیز احمد وغیرہ ہیں۔
اس کو ٓاپ تخلیق اور الشعوری محرکات کی طلسم کاری بھی کہہ سکتے ہیں۔ نفسیاتی تنقید کی اساس فرائڈ کا نظریہ ال شعور بنا پھر
اس میں ایڈلر اور ژنگ کی تعلیمات سے مزید گہرائی پیدا کی گئی۔ اس تنقید میں اصناف ادب کے نفسیاتی محرکات کا سراغ ،تخلیق
کار کی شخصیت کی نفسی اساس کی دریافت اور نفسیاتی اصولوں کے سیاق وسباق میں مخصوص تخلیقی کاوشوں کی تشریح و
توضیح اور پھر ان کے ادبی مرتبہ کا تعین شامل ہیں۔ ایچ سمرول نے ’’میڈنیس ان شیکیسپئر ٹریجڈی‘‘ میں شیکسپیئر کی یوں
تشخیص کی کہ وہ مینک ڈیپریسیو تھا۔ یہ نیم دیوانگی کی وہ قسم ہے جس میں مریض پر خوشی اور پژمردگی کے دورے سے
پڑتے ہیں۔ ایک وقت ضرورت سے زیادہ خوش تو دوسرے وقت غم کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ملتا ہے۔ بہت سے شعراء یوں غم
اور خوشی کے درمیان پنڈولم کی طرح جھولتے رہتے ہیں۔ اس نے سوال کیا کہ ’’کیا شیکسپیئر بھی ایسی ہی کیفیات سے دوچار
تھا؟‘‘ اور اپنے استدالل سے اس بات کا جواب بھی دیا کہ جب ہم فلسٹاف اور میکبتھ کا مطالعہ کریں تو اس ضمن میں کسی طرح کا
شک و شبہ نہیں رہتا‘‘۔
اس تنقید نے تو بڑے بڑے تخلیق کاروں کی ابنارملٹی ،جنسی بے راہ روی ،خانگی ناچاقی ،نشہ ،جرم ،ہم جنس پرستی ،ذہنی
امراض ،افیونی ہونے وغیرہ کو بھی چھیڑا ہے اور اس سے نتائج برٓامد کئے ہیں۔ مرزا ہادی رسوا اردو کا پہال نفسیاتی نقاد ہے۔
جس نے ایک طوائف پر ناول ’’امراو جان ادا‘‘ لکھی ہے مرزا نے امریکہ سے فلسفہ میں پی ایچ ڈی کی تھی اس تنقید کے مطابق
کسی تخلیق کار کے ذاتی خطوط سے بھی اس کے الشعور کو جانچا جا سکتا ہے جیسے شبلی کے خطوط عطیہ بیگم کے نام یا
’’شبلی کی حیات معاشقہ‘‘ سے شبلی کے جذباتی کشمکش کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ بقول ڈاکٹر سلیم اختر کے ’’اسی طرح اقبال نے
عطیہ بیگم کو جو خطوط لکھے ،ان میں بھی اس جذباتی کشمکش کا بین السطور مطالعہ کیا جا سکتا ہے۔ (مزید تفصیالت کے لیے
راقم کی کتاب ’’اقبال کا نفسیاتی مطالعہ‘‘ سے رجوع کیا جا سکتا ہے‘‘۔
تنقید
ٹی ایس ایلیٹ کے بقول تنقید ہماری زندگی کے لئےاتنی ہی ناگزیر ہے جتنی سانس۔
عام طور پر لوگ تنقید سے اعتراض مراد لیتے ہیں اس لئے تنقید سے گبھراتے ہیں۔ لیکن تنقید کے مختلف تعریفیں ہیں جن سے اس
عمل کو اعتراض کے حد تک محدود کرنے والوں کا خوف جاتا رہتا ہے اور وہ تنقید کے لئے امادہ ہوجاتے ہیں۔
تنقید کی مختلف مطلب بیان کئے گئے ہیں یعنی چھان پھٹک کرنا ،پرکھنا ،اچھے کو برے سے الگ کرنا وغیرہ۔ اس کے مختلف
دبستان ہیں ،جن کا ذکر ٓارہا ہے ،ہر دبستان کا اپنا نقطہ نظر ہے اور اس کے مطابق وہ تنقید کی تعریف کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ
کیا تنقید صرف کسی فن پارے تک محدود ہوتی ہے؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں بلکہ پورے سسٹم یا تھیوری پر ہوسکتی ہے۔
یہ تخلیق میں حسن اور اسلوب میں حسن کاری کا مطالعہ ہے .ایک جرمن فالسفر بام گارٹن نے سب سے پہلے 1737ء میں جمالیات
کی اصطالح وضع کی تھی۔ جمالیاتی تنقید کی اساس ان مظاہر حسن کے ادراک پر استوار سمجھی جانی چاہئے .جن کا ادبیات میں
کسی نہ کسی ذریعہ سے اظہار کیا جاتا ہے اور جمالیاتی نقاد کے بموجب جن کی پرکھ میں ہی اصل فن پارہ کی شناخت مضمر ہے۔
تخلیق کار کی شعوری کاوش سے جب حسن کی صورت پذیری ہو ،کسی مخصوص انداز سے اس کا اظہار ہو تو یہ جمالیاتی تخلیق
ہوگی۔ والٹر پیٹر جمالیاتی تنقید کا اہم ترین علمبردار ہیں۔ اس کے بعد کروچے ہیں۔
جمالیاتی تنقید ،تنقید کے دیگر دبستانوں سے اس بنا پر ممتاز ہوجاتی ہے کہ اس میں حسن اور حسن کاری کے مطالعہ کو تنقید کی
اساس ہی نہیں تصور کیا جاتا بلکہ ان کے عالوہ اور کسی چیز کو تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ اسی لئے تو جمالیاتی نقاد ادبی تخلیقات میں
حسن اور دلکشی پیدا کرنے والے خصائص کے تجزیہ اور مطالعہ کو اولین اور اساسی اہمیت دیتا ہے۔
جمالیاتی تنقید ،تنقید کے دیگر دبستانوں سے بعض اساسی نوعیت کے اختالفات کی بنا پر یوں ممتاز ہوجاتی ہے کہ ایک تو اس میں
تجزیاتی طریق کار کو بروئے کار نہیں الیا جاتا،اور دوسرے یہ فیصلہ تو صادر کرتی ہے لیکن یہ فیصلہ کسی اصول ،لسانی قانون
یا فنی ضابطہ پر استوار کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ نیاز فتح پوری کی تنقید کو اردو میں جمالیاتی تنقید کا سب سے اچھا نمونہ
قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح عابد علی عابد بھی جمالیاتی تنقید کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔
انتظامیہ ادبیات۔۔۔۔۔۔۔۔