Professional Documents
Culture Documents
(6497) Assignment No 1
(6497) Assignment No 1
(6497) Assignment No 1
جن**گ آزادی 1857ء کے زخم ابھی ت**ازہ ہی تھے کہ ہن**دوؤں نے ای**ک اور مس**ئلے ک**و
الکھڑا کیا۔ یہ جھگڑا ہندی اردو جھگڑے 1867ء کے نام س**ے موس**وم ہے۔ 1867ء میں
بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کر دی ،جس کا مقصد اردو کی جگہ ہن**دی
کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔ اور عربی رسم الخ**ط کی جگہ
دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔ اس جنونی اور لس**انی تحری**ک ک**ا ص**در دف**تر الہ آب**اد
میں قائم کیا گیا ،جبکہ پورے ملک میں ہن**دوؤں نے ک**ئی ای**ک ورکن**گ کمیٹی**اں تش**کیل
دیں ،تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کی**ا ج*ائے اور اس
کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔
اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اردو کے خالف ہندوؤں کی تحریک ای**ک ناقاب**ل
فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا ،کی*ونکہ اردو ک*و جن*وبی ایش*یا میں نہ ص*رف متع*ارف
کرانے اور ہر دلعزیز بنانے بلکہ اسے بام ع**روج پ**ر پہچ**انے کے ل**یے انہ**وں نے بھی
وہی کردار ادا کیا تھا جو خود مسلمانوں ک**ا تھ**ا۔ اگ**ر اردو ک**ا ک**وئی قص**ور تھ**ا بھی ت**و
صرف اتن**ا کہ اس نے مس**لمانوں کے ش**اندار ماض**ی ان کے بہ**ادروں ،ع**الموں ،اولی**اء
کرام اور سپہ ساالروں کے کارناموں اور کرداروں کو اپنے اص**ناف اور دبس**تانوں میں
محفوظ کر رکھا تھا۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں ک**و س**مجھانے کی کوش**ش کی۔ ان
پر واضح کیا گیا کہ اردو انڈو اسالمک آرٹ کا ایک الزمی جزو بن گئی ہے۔ ک*وئی الکھ
بار چاہے تو جنوبی ایشیا کی ثقافتی ورثے سے اس انمول ہیرے کو نک**ال ب**اہر نہیں ک**ر
سکتا۔ مگر ان دالئل کا ہن**دوؤں پ**ر کچھ اث**ر نہ ہ**وا۔ سرس**ید احم**د خ**ان نے بھی ،ج**و ان
دنوں خود بنارس میں تھے ،اپنی تمام ت**ر مص**الحتی کوشش**یں ک**ر لیں ،لیکن ب**ری ط**رح
ناک**ام رہے ،کی**ونکہ سرس**ید ہی کے ق**ائم ک**ردہ س**ائینٹیفک سوس**ائٹی آف ان**ڈیا کے ہن**دو
اراکین بھی اردو کے خالف تحریک میں پیش تھے۔ ہندی اور اردو کے درمی**ان میں اس
قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فس**ادات کی ص**ورت میں برآم**د ہ**وا۔ ثق**افتوں
کے اس ٹکراؤ نے سرسید کے خیاالت میں ایک اور انقالب برپا کر دیا۔
مسلم قیادت اور دو قومی منظر
1
ایک مسلّمہ ت**اریخی حقیقت ہے کہ پاکس**تان ای**ک نظری**اتی مملکت ہے۔ اس کے قی**ام ک**ا
عظیم اور بلند مقصد و نظریہ ہی اس کے دوام اور بقاء کا بھی جواز ف**راہم کرت**ا ہے۔ وہ
دین حق جو محمد ع**ربی ص**لی ہللا علیہ وآلہ وس**لم لے
دین اسالم ہے۔ وہی ِ
عظیم نظریہِ ،
کر تشریف الئے۔ جس میں انسانوں کے حقوق ،عزت و تکریم ،مساوات ،برابری ،امانت
و دیانت ،سچائی اور انسانیت کی فالح و بہبود کی بات ہوتی ہے۔
نظام مصطفی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں س**ب ِ نظریہ پاکستان حقیقت میں وہی
سے زیادہ انسانیت کے حقوق پر توجہ دی جاتی ہے۔ جو انسان س**از ،انس**ان دوس**ت اور
انسان نواز ہے۔ جس کی اس**اس ’’ال ال**ه اال هّٰللا محم**د رس**ول هّٰللا ‘‘ ہے۔ یہی وہ کلمہ طیبہ
ہے جس کے اقرار و اعالن سے انسان کے ظاہرو باطن میں انقالب برپ**ا ہوجات**ا ہے۔ ہللا
تعالی کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ تمام معبودا ِن ب*اطلہ اور ظالم**انہ ق**وانین اور ٰ
انسانیت سوز نظام کا انکار بھی ہوتا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں ایس**ٹ ان**ڈیا کمپ**نی کے
دن بہ دن طاقت پک*ڑنے کے س*بب مس*لمان اخالقی اور معاش*ی ط*ور پ*ر کم*زور ہ*وتے
گئے۔ ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ جیسے سالطین نے دکن اور بنگال میں اس**المی
تشخص کو سنبھاال دینے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن ان کی زندگیوں کے چراغ گ**ل
ہ**وتے ہی مس**لمان غالمی کی زنج**یروں میں جک**ڑے گ**ئے۔ انگری**زوں نے اورنگ**زیب*
عالمگیر کے زمانے سے ہی برعظیم پاک و ہند میں ایسٹ ان**ڈیا کمپ**نی کی ص**ورت میں
ج**و ق**دم جمان**ا ش**روع ک**یے تھے ،وہ ب**اآلخر کامی**اب ہ**وئے اور مس**لمانوں کے داخلی
خلفشار اور معاشی بدحالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں کی دولت سمیٹنے کے ساتھ ساتھ
یہاں کی سیاست اور حکومت پر بھی قبضہ کرلیا۔مس*لمانوں کی سیاس*ی م*وت ت*و ہوگ*ئی
لیکن وہ اسالمی تشخص جو مسلمانوں کی ثقافت سے ظاہر ہوتا تھ**ا وہ کبھی ختم نہ ہ**وا۔
اس اسالمی تشخص کو برقرار رکھنے میں ان صوفیاء کرام کا کردار ہے جو سیاس**ت و
حک**ومت س**ے م**اوراء ہ**وکر ہللا اور اس کے رس**ول ص**لی ہللا علیہ وآلہ وس**لم ک**ا پیغ**ام
لوگوں تک پہنچاتے رہے اور ق**ریہ ،نگ**ر نگ**ر لوگ**وں کے دل**وں کی دنی**ا تب**دیل ک**رتے
*ل ط**ریقت ت اس**المیہ کی عظیم ب**رادری میں ش**امل ک**رتے رہے۔ اہ* ِ رہے اور ان ک**و مل ِ
صوفیاء کرام نے اپنے حس ِن اخالق ،محبت ،شفقت ،عجز و نیاز ،تواضع و انکساری اور
جذبہ ایثار سے رنگ و نسل کے امتیاز اور غرور کو توڑا اور جذبٔہ اخوت و محبت ک**و
فروغ دیا اور لوگوں ک**و دی ِن اس**الم کی ل**ڑی میں پ**روتے رہے۔ اس**ی ج**ذبہ ج**اوداں نے
نظریہ پاکستان کو تقویت دی
مرش ِد کامل حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری ایسے عظیم ص**وفیاء ک**رام رحمہم
ت پاکستان کی بنی**اد رکھ**نے ہللا کے ہر اول دستہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مملک ِ
کا اہم فریضہ انجام دی*ا۔ عالمہ ڈاک*ٹر محم*د اقب*ال کے نزدی*ک آپ نے س*رزمین ہن*د میں
*غ اس**الم کے راس**تہ میں اس**ؤہ نب**وی ص**لی ہللا
شجر اسالم کا بیج بویا۔سید ہجویر نے تبلی* ِ
ِ
تبلیغ دین کے
ِ میں پنجاب اور الہور کیں۔ حاصل کامیابیاں سے پیروی کی وسلم وآلہ علیہ
ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بھی راہنمائی فرمائی۔س**ید ہج**ویر کے س**اتھ دیگ**ر ص**وفیاء
کرام رحمہم ہللا بھی یہی فریضہ سرانجام دی**تے رہے۔ پھ**ر حض**رت خ**واجہ معین ال**دین
چشتی اجمیری برصغیر پاک و ہند میں تشریف الئے اور اجمیر کی سرزمین پر بیٹھ ک**ر
الکھوں لوگوں کو مشرف بہ اسالم کیا۔ پھر پنجاب میں اہل چش**ت کے ام**ام حض**رت باب**ا
2
فریدالدین گنج شکر پاکپتن شریف جو کبھی ’’اجودہن‘‘ کہالتا تھا ،میں تشریف الئے اور
دین حق کا پیغام پہنچایا۔
اس طرح صوفیاء کرام کے اس**ماء کی ای**ک طوی**ل فہرس**ت ہے ج**و اس خطے میں آک**ر
اسالم ک**ا پیغ**ام لوگ**وں ت**ک پہنچ**اتے رہے۔ ب**اآلخر جب برص**غیر پ**اک و ہن**د کے ل**وگ
انگریزی غالمی میں گھر گئے تو پھر بھی یہی نظریہ کام آیا جو رفتہ رفتہ ایک تحریک
کی ص**ورت اختی**ار کرگی**ا اور پھ**ر پاکس**تان کے خ**دوخال واض تعلیمی شخص**یت میں
تدریس اسالمیات کا کردار .
3
(ج )
گریسی اور ہم نصابی سرگرمیاں
تدریس اسالمیات میں جہادی مواد طلبہ ک*و منتق**ل کی**ا جات*ا ہے ،اس ب*ات کی ض*رورت
ہے کہ مدرسے میں ایسی سرگرمیاں اور افعال و اعمال انج**ام دیے ج**ایئں جن کی بن**ا
پر طلبہ کو اسالمی اقدار کی عملی تربیت ملے اور ان میں اشا،یراس**الم کے اح**ترام ک**ا
جذبہ پیدا ہو ۔ مثال کے طور پر صبح کی اسمبلی میں ثناء ک**ا حکم علم**اء اہ**ل ح**دیث ک**ا
ترجمہ و تشریح کے سامنے بیان کریں ۔
شخصیت کی جامع مانع تعری*ف کرن*ا مش*کل ہے س*ادہ الف*اظ میں یہ کہ*ا جاس*کتا ہے کہ
کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و ب*اطنی اور غ*یر اکتس*ابی(ق**درتی) و اکتس**ابی
خصوصیات کا مجموعہ ہے اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ تمہارے دوس**ت کی شخص**یت
کیسی ہے تو ہم جواب میں فورا اس کی چند صفات کا ذکر ک**رتے ہیں کہ وہ محن**تی اور
مخلص ہیں ان میں سے بہت سی خصوصیات مستقل ہوتی ہیں لیکن طویل عرص**ے کے
دوران ان میں تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہتی ہیں اور انہی خصوصیات کی بنیاد پ**ر ای**ک
شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں س**ے مختل**ف رویے
اور کردار کا مظاہرہ کرتا ہے ۔شخصیت اور کردار کی تعمیر دین ک*ا اہم ت*رین موض*وع
ہے ہللا نے اپ**نی ج**و ہ**دایات انبی**اء ک**رام کے ذریعے دنی**ا میں بھیجی ہیں ان ک**ا بنی**ادی
مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے اس**ی ک**ا ن**ام ت**زکیہ نفس ہے کہ
تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔ ٰ ہللا تبارک و
ث فِي ااْل ُ ِّم ٖيّنَ َرسُوْ اًل ِّم ْنهُ ْم يَ ْتلُوْ ا َعلَ ْي ِه ْم ٰا ٰيتِ ٖه َويُ َز ِّك ْي ِه ْم َويُ َعلِّ ُمهُ ُم ْال ِك ٰت َ
ب َو ْال ِح ْك َمةَ هُ َو الَّ ِذيْ بَ َع َ
ترجمہ " :وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں س**ے ای**ک رس**ول بھیج**ا ج**و
انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت
سکھاتا ہے"
انسان کی یہ خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں ایک ت**و وہ ہیں ج**و اس**ے ب**راہ
راست ہللا تعالی کی ط*رف س*ے ملیں گے ج**و کہ ق*درتی ص*فات کہالتی ہیں دوس**ری وہ
خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کر س**کتا ہے ی**ا پھ**ر اپ**نی ق**درتی
صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کر کے انہیں حاصل کرسکتا ہے ۔ یہ اقتصادی خصوص*یات
وصفات کہالتی ہیں ۔قدرتی صفات میں ہمارا رنگ و نسل ،شکل و ص**ورت کی جس**مانی
س*اخت ،ذہ**نی ص**الحیت وغ**یرہ ش**امل ہیں ۔اقتص**ادی خصوص**یات میں انس**ان کی علمی
سطح اس کا پیشہ اور اس کی فکر وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر ان دون**وں
طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے ک**ا ن*ام ہے انس**ان ک*و چ*اہیے کہ وہ اپ**نی
شخص***یت ک***و دلکش اور پرکش***ش بن***انے کے ل***ئے اپ***نی ق***درتی ص***فات جن ک***و ہم
غیراقتصادی خصوصیات کہتے ہیں ت**رقی دے ک**ر ای**ک مناس**ب س**طح پ**ر لے آئے اور
4
اکتس**ابی ص**فات کی تعم**یر ک**ا عم**ل بھی ج*اری رکھے۔شخص**یت کے ب**اب میں ہم**ارے
نزدیک سب سے اعلی و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد عربی صلی ہللا علیہ وسلم
کی شخصیت ہے اعلی ترین صفات کا اس ق**در حس**ین ام**تزاج ہمیں کس**ی اور شخص**یت
میں نظر نہیں آتا ،آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا۔قرآن ک**ریم کی
روشنی میں تعمیر شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں۔
قرآن حکیم کی روشنی میں تعمیر شخصیت
ہللا تبارک و ٰ
تعالی قران حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں:
خَاب َمنۡ َد ٰ ّسىہَا ۔
َ قَ ْد اَ ْفلَ َح َمنۡ َز ٰ ّکىہَا ۪ۙ َو قَ ْد
ترجمہ ":یقینا ً فالح پا گیا جس نے (اپنے) نفس کو پ**اک کرلی**ا ،اور یقین*ا ً ن**امراد ہ**وا جس
نے اس ک*و خ*اک میں دب*ا دی*ا"۔یہ ہے وہ حقیقت جس ک*و آش*کارا ک*رنے کے ل*یے ات*نی
قسمیں کھائی گ**ئی ہیں۔ فرمای**ا جس نے اپ**نے نفس ک**ا ت**زکیہ کی**ا وہ دون**وں جہ*انوں میں
کامیاب وکامران ہوگیا اور جس نے اسے گناہوں کی خاک میں دبادیا وہ خائب ہوا۔
تخلیق انسانیت* کے فورا بعد ہی ہللا جل وعالہ نے انسانیت* کی رہنمائی* و رہبری کا انتظام کردیا ۔
چونکہ انسان کو دنیا میں اختیاردیا* گیاکہ وہ خیر و شر میں سے جسے چاہے اپنی خوشی و
رغبت سے اختیار کرلے۔مگر انسان کی فطرت میں سہوو غلطی کھانے اور ظاہری رنگ رلیوں
سے متاثر ہوجانے کا مادہ موجود تھا اور ہے اس کے سبب یقینی* امر تھا کہ انسان برائی و بدی
اور شر جو بظاہر* فائدہ مند معلوم ہوتاہے کی جانب متوجہ ہوکر اس کو اپنا لے۔ اسی امر کے
پیش نظر ہللا رب العزت نے انسانو ں کی رہنمائی* و رہبری کی خاطر انبیاء* کرام کواپنا پیغام*
5
دیکر کائنات* میں بھیجا تاکہ وہ انسانوں کو صحیح و غلط میں موجود فرق کے بارے میں آگاہ
کریں تاکہ حجت تام ہوجائے کہ اگر انسان برے راستے کو چاہتے ہوئے اختیار کرتاہے تو اس
کے نتیجہ میں سزاکا مستحق قرار پائے اور اگر درست اور نیک کاموں پر عمل کرلے اور خیر
کے راستے پر چل پڑے تو اس کو انعام و اکرام کے ساتھ جنت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہونے
کااعزاز دیاجائے۔انبیاء* کرام کی دعوت و رسالت کا لب لباب یہی ہی تھا کہ وہ لوگوں کو تذکیر و
یاددہانی* کرواتے تھے کہ عالم ارواح میں رب کے ساتھ کیا جانے والے عہد کسی صورت ٹوٹنے
نہ پائے۔
انبیاء کی بعثت* کا سلسلہ نبی مکرم ۖپر مکمل ہوا۔آپ کے بعد چونکہ کسی نبی نے نہیں آنا اس لئے
آپ ۖپر اسالم کی دعوت کو ختم کردیا اب آپ ۖکے بعد آپ کی امت کے کندھوں پر یہ بشیر و نذیر
کی ذمہ داری آن پڑی کہ وہ اس کو تاروز محشرانجام دیں۔بشیر و نذیر کے فریضہ و منصب کو
نبھانے کے لئے ضروری و الزم تھا اور ہے کہ داعی کے پاس دین کا کافی و شافی ذخیرہ
معلومات ہونا چاہیے ۔جس کے لئے الزمی ہے کہ ملت اسالمیہ کے داعی علم کی شمع سے قلوب
و اذہان کو معطر کریں۔دین اسالم نے ابتداہی سے علم کی اہمیت و افادیت کو نہ صرف تسلیم کیا
بلکہ اس کے ماخذ و مصادر اور اس کے دائرہ کار کا بھی پہلی وحی میں تعین کردیا گیا۔جس کا
بامحاورہ ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے”تو پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیداکیا،پیداکیا*
انسان کو لوتھڑے سے ،تو پڑھ عزت و کرم والے رب کے نام سے،وہ جس نے تعلیم دی قلم کے
ذریعہ سے ،سکھایا* انسان کو وہ علم جسے وہ پہلے نہیں جانتاتھا”سورہ علق کی یہ پہلی پانچ
آیات ہی قرآن کا پہال و اساسی پیغام و دعوت ہے۔موالنا ابولحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ ان
آیات میں یہ واضح کردیا گیا کہ علم اور مسلمان کاچولی دامن کا ساتھ ہے کہ وہ اسکے بغیرسماج
میں پنپ نہیں* سکتا،علم سکھے بغیروہ ترقی وکامرانی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔اور ساتھ ہی
انسان کو اس کی حیثیت* سے بھی مطلع کردیا گیا ہے کہ وہ جتنا بھی بڑا بن جائے اس کو یاد
6
دنیاوی مناصب و عہدوں کے آجانے کے بعد انسان اپنے سے کمزور و ناتوں لوگوں پر سرکشی
کرتاہے اور مارے غرور کے ان پر اتراتے ہوئے انسانوں کی تحقیر کا عمل کرتاہے اس سے
اجتناب کے لئے باور کرادیا گیاکہ ہللا کی ذات و االصفات ہی سب سے زیادہ معززو مکرم ہے
لہذا انسان کو مغرور و مقہور بننے کی چنداں ضرورت نہیں* ہے۔موالنا فرماتے ہیں کہ علم کے
حصول کے مختلف ذرائع ہوسکتے ہیں انسانوں سے مالقات و گفت و شنید کے نتیجہ میں بھی
علم حاصل ہوتاہے ۔مگر یہاں پرقرآن نے واضح بیان کردیا ہے کہ علم حقیقی وہی ہے جس کی
تعلیم دی جارہی ہے وہ بذریعہ قلم یعنی* لکھی ہوئی صورت میں حاصل ہو۔بدقسمتی سے آج کا
انسان دنیا میں سائنسی* ترقی و عروج کی وجہ سے ناتواں لوگوں پر ظلم و جور کا بازارگرم
کرتے ہیں کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں جدید ٹیکنالوجی ،سائنس* اور علوم کائنات* کو مسخر
کرچکے ہیں تو اس پر اظہار تفاخر کرنا ان کا حق ہے اسی لئے ہللا نے واضح کردیا کہ ان
لوگوں کے پاس وہی علم ہے جو ہم نے سکھالیا اسے مگر وہ اس سے پہلے کچھ بھی نہ جانتا*
تھا۔
پہلی وحی کی روشنی میں یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ اسالم نے آغازاور اپنے پہلے ہی
روز سے علم کی دعوت دترغیب دی۔اس طرح قرآن حکیم کی بے شمار آیات اور احادیث کے
ذخیرہ میں بھی علم کے حصول کے فرض و الزم ہونے اور اس کے حصول میں مشغول و
مصروف لوگوں کی منقبت* بیان* ہوئی ہے ۔مثال* کے طورپر فرمایا گیا حدیث میں کہ”علم حاصل
کرو ماں کی گود سے قبر کی پاتال تک”اور”علم* حاصل کرنا ہر مردوعورت پر الزم قرار دیا
گیا” عالم کو عابد پر وہ فضیلت دی گئی جو نبی کو عام انسانوں کے مقابل* میں حاصل ہے۔اس
طرح کے متعدد اقوال و فرامین موجود ہیں جن سے علم کی اہمیت* اور اس کی افادیت اور اسالم
میں اس کے اہتمام* کا پیغام ملتاہے۔صحابہ کرام کو نبی کریم کی اطاعت کرنا اور ۖ
آپ کے ہرحکم
پر جانثار کرنے کا پیغام دیا گیا ۔غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت کعب ابن مالکاور ان کے
7
دوساتھیوں* نے جمعہ کی نماز شہر میں اداکرنے کی نیت سے سفر جہاد میں نبی کریم ۖکی
مشارکت نہیں کی تو ہللا نے مسلمانوں کوان سے مقاطعہ کرنے کا حکم نازل فرما دیا۔
اسی اہتمام* کی وجہ سے صحابہ کرام باوجود تجارت و زراعت اور دنیاوی کاموں میں مشغول
رہنے کے ایک لمحہ کے لئے دین کی تعلیم سے دور نہیں* ہوئے جیساکہ حضرت انس بن مالک
کی روایات سے معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام تعلیم و تعلم کا کس قدر اہتمام* کرتے تھے۔وہ
فرماتے ہیںکہ”کیا* میں تمہیں* تمہارے ان بھائیوں کے متعلق خبر نہ دوں جن کو ہم رسول ہللا کے
زمانے میں ”قرائ”کے نام سے پکارتے تھے ،وہ تعداد میں ستتر تھے ،رات کو مدینہ میں اپنے
استاد کے پاس جاتے اور صبح تک پڑھتے رہتے ،صبح کو ان میں سے جو طاقتور ہوتے وہ
میٹھا پانی* بھر کر التے اور مزدوری کرتے ،یا لکڑی کاٹ کر التے اور فروخت کرتے ،جن کو
گنجائش ہوتی وہ جمع ہوکر بکری خرید لیتے،اس کو بنالیتے* اور وہ رسول ہللا ۖ کے حجروں کے
پاس لٹکی رہتی”۔اسی طرح کا واقعہ حضرت عمر اور ان کے پڑوسی کا بھی ہے کہ وہ ایک
روز کام کرتے اور دوسرے روز حلقہ تعلیم میں شامل ہوجاتے،اور جو کچھ نبی کریم ۖکے اسنان
اسالمی تعلیم کی اہمیت و افادیت کو بیان* کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتاہے کہ ہم ملک
پاکستان* کے موجودہ تعلیمی* نظام کامختصراجائزہ لیں۔تاریخ ہمیں* بتاتی* ہے کہ ملک پاکستان
برصغیر کا وہ عظیم خطہ ارضی ہے جس کو انگریز کی غاصبیت اور ہندوئوں کے اثر و رسوخ
سے نجات حاصل کرتے ہوئے آزادی حاصل کیاگیا۔* اس امر کے متحقق ہونے کے لئے یہ
صدابلند کی گئی کہ ہم مسلمانوں کے لئے آزادخطہ چاہتے ہیں اور اس کا ماٹو و نعرہ یہی ہوگا
کہ ”پاکستان* مطلب کیا ٰ
الالہ االہللا”۔مگر باعث* افسوس امر یہ ہے کہ ملک پاک میں ابتداہی* سے
نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو منظم و بہتر بنانے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں* اٹھایاگیا بعض
اوقات شعبہ تعلیم وتربیت* میں ترمیم و بہتری کے فیصلے ہوئے مگر عمال ان کا نفاذ نہ ہوسکا۔
جس کا بدیہی نتجہ یہ ظاہر ہورہاہے کہ ملک پاکستان* کا نوجوان اسالمی تعلیمات اور ارض
8
مقدس کی محبت و مودت سے پہلوتہی کرچکا ہے۔جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی و
سماجی قیادت میں بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کو قرآن مجید کی مختصر سورت کی تالوت
نہیں آتی اور اس کے ساتھ ہی اسالمی تعلیمات* کے مفاہیم سے کوسوں دور ہیں۔جس کے نتیجہ
میں آئے روز اسالم کے ٹھوس و بین احکامات کو بدلنے اور اس میں ترمیم کرنے کی کوشش
کی جاتی ہے کہیں حدود آرڈیننس کے نام پر تو کہیں* شعبہ مالیات کو بہتر بنانے کے لئے سودکی
حلت یا اس میںمو جود سختی کو کم کرنے کا آوازہ لگایا جاتاہے اور پھر کہیں ناموس رسالت
ایکٹ پر نظرثانی* کا مطالبہ سامنے آتاہے۔اس طرح کے امور کا پیش آنا یہ ثابت* کرتاہے کہ
ہمارے سماجی و سیاسی ہستیوں* کا اسالمی تعلیمات کو کسی انسانی* و بشری صالحیتوں اور
کوششوں کا ثمر سمجھاجاتاہے اور اسے وحی ربانی اور نبی کریمۖ کی تعلیمات کا صدق دل سے
اعتراف و احترام نہیں* سمجھتے۔جبھی تو اس میں تغیر و تبدل کانعرہ لگاتا ہے۔
اس طرح کے سواالت اور شکوک و شبہات* ہمارے قائدین کے ذہنوں میں کیوں پیداہوتے ہیں ؟اس
کا صاف و کھراجواب یہی ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت* درست خطوط پر نہیں* ہوئی جبھی تو وہ
اس طرح کے جاہالنہ* مطالبے کرتے نظر آتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں تعلیم
ادارے تین حصوں میں منقسم ہیں اول:دینی تعلیمی ادارے۔ثانی:سرکاری تعلیمی* ادارے اور
ثالث :پرائیویٹ* و بیرونی تعلیمی* ادارے۔اول درجہ میں دینی تعلیمی ادارے جن کی اہمیت* و افادیت
سے انکار ناممکن ہے بس المیہ کی بات یہ ہے کہ اسالم کے تصور تعلیم کو محدود مقید کردیاگیا
ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم اور اس کے مشتقات* کو ہی صرف اختیار کیاگیا* جبکہ مظاہر کائنات
اور کائناتی* علوم سے پہلوتہی* کی گئی جس کا ثبوت کسی بھی اہل علم وصاحب ذی شعور اور
اہل سلف کی حیات میں اس کی مثال نہیں* ملتی۔البتہ* جس امر پر اس تحریر کو مرتب کیا گیا وہ یہ
ہے کہ سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی* ادارے جن کی خدمات کا اعتراف امر واجب ہے اور دلچسپ
حقیقت یہ ہے کہ سائنسی و کائناتی* علوم کی حفاظت اور اس میں تجدید کا فریضہ مسلم علماء ہی
نے بااعتراف* یونانیوں و دیگرمتطور تہذیبوںکے ساتھ کیا۔مگر بدقسمتی ہے کہ آج وہی مسلمان
9
ایک طرف یاتو ان علوم سے غافل و دور ہے یا پھر انہی میں مشغول رہ کر اپنی زندگی بسر
کردیتاہے اور اپنے مقصد تخلیق اور اس ابتکاری صالحیت کے مصدر و ماخذ کو بھول بیٹھا
ہے۔
مضامین کے اساتذہ کا تقرر مکمل قابلیت اور معیار کو چک کیا جاتا ہے اور پھر ان کی خدمت
معاوضہ کی صورت میں بھی بہتر طور پر کی جاتی ہے مگر افسوس ہے کہ اسالمیات کی
تدریس اور اس کا امتحان متعدد تعلیمی* اداروں میں شامل نصاب ہے ہی نہیں جیسے کہ پنجاب*
ایجوکیشن فائونڈیشن کے منتظمین* صرف سائنسی مضامین کا ہی امتحان لیتے ہیں جس کے سبب
وہ سکول جو اس ادارے کے زیرانتظام ہیں وہ اپنی* اسالمی و ایمانی اور قومی ذمہ داری کو
نبھانے سے اجتناب* کرتے ہیں* ان کا مقصود صرف پیسہ ہوتاہے اور وہ سائنسی مضامین میں
ہم دیکھتے ہیںکہ ہمارے عصری تعلیمی* اداروں کی ترجیحات میں نقص و خلل موجود ہے کہ وہ
سائنسی و تجرباتی* علوم کے میدان میں اپنی خدمات و کوششوں کو بہتر سے بہتر بناکر* پیش
کرنے کی جدودجہد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہتمام بھی کرتے ہیں کہ ان کے پاس
اساتذہ ماہرعلم و فن ہونے چاہیں* مگر غیر سائنسی* علوم اور خصوصا اسالمیات* ایک ایسا
مضمون بن چکا ہے کہ جس کی تعلیم کے لئے کسی بھی طرح کا اہتمام* نہیں کیا جاتا۔اسالمیات*
کی تدریس کے لئے ایسے اساتذہ کا تقرر کیا جاتاہے جو صرف زبانی* یا بطور حفظ اس مضمون
کو یادکرکے بچوں کے سامنے ریکارڈنگ و اپنی صوت وآوازکے ساتھ منتقل کردیں مگر
خوداسے اس مضمون کی حقیقت و روح کو سمجھنا اور طلبہ کو تفہیم کراناضروری نہیں* سمجھا
کا اہتما* م اور تالش کرنا ناپید عنقا ہے بلکہ دیگر مضامین کے اساتذہ حصول برکت یا وقت
گذاری کے لئے اس کی تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہیں* ۔سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی
10
اداروں میں بچوں کو نصاب میں شامل کتاب* ہی صرف یادکروائی جاتی ہے تاکہ وہ امتحان میں
پاس ہوسکے مگر اس امرسے اعراض کیا جاتاہے کہ یہ ایک ایسامضمون ہے جس کا پڑھنا اور
پڑھانادونوں عبادت* ہے ۔مگر چونکہ مادیت اور تجارت کے عنصر نے ہمیں* اندھاوبہرہ کردیا
ہے کہ ہم اپنی عاقبت کی فکر سے غافل ہوگئے ۔اس کا نتیجہ* یہ نکل رہاہے کہ یہی تعلیم یافتہ
نوجوان جس کی اسالمی و اخالقی تعلیم و تربیت* میں تغافل سے کام لیا تھا جہاں پر وہ اسالم و
دین کی تفہیم* و تعلیم سے جاہل ہوتاہے وہیں پر وہ معاشرہ میں فتنہ و فساد کے فروغ دینے کا
موجب بھی بنتاہے۔وہ نہ تو والدین کا ادب کرتاہے ،نہ ہی چھوٹوں پر شفقت،نہ ہی انسانیت کا درد
ہوتاہے اس کے سینے میں ،اس کے ساتھ وہ ایک بے حس و بے حیا اور خود غرض انسان بن
جاتاہے ۔جس کا ظاہری ثمرکرپشن ،چورپازاری اور لوٹ مار،رشوت کی صورت میں ملتا ہے۔
تعلیمی اداروں میں اسالمیات کو بنیادی و اساسی حق دیا ہی نہیں* جاتااس کی تدریس کے لیے
مفت خدمات پیش کرنے والے حضرات کی جستجو کی جاتی ہے جب ایسا ہوگا تو ظاہر سی بات
ہے کہ وہ استاذ اس سبق اور مادہ پر اس حیثیت سے محنت نہیں کرے گا کیوں کہ اس کو اپنی
ذاتی زندگی کے گذربسر کے لیے جیب خرچ کی تو ضرورت ہوتی ہی ہے جو اسے کسی
دوسرے مقام پر کام کرکے حاصل کرنا پڑتی ہے۔یا پھر سکول و کالج میں موجود یگرمضامین
کے اساتذة سے خدمات مسعار لی جاتی ہیں اور اس صورت میں بھی اساتذہ طلبہ کے مستقبل
کے ساتھ کھلوار کررہے ہوتے ہیں۔یہ* ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ سکول وکالج میں
اساتذہ یا تدریس کے فرائض کماحقہ ادانہیں* کرتے کہ ان کی حرس و ہوس ہوتی ہے کہ بچہ ان
الگ فیس اداکرکے اکیڈمی میں ان سے استفادہ کرے ۔اسی طرح سکول وکالج کی انتظامیہ* بھی
طلبہ سے بھاری بھر فیسیں وصول کرلیتے ہیں مگر ان کی تعلیم و تدریس اور خصوصا ً
اسالمیات ،اردو،مطالعہ پاکستان جیسے مضامین کی معیاری تدریس کا انتظام نہیں کرتے اگر میں
یوں کہوں کہ وہ ادارے طلبہ کے مستقبل کو تاریک بنانے میں اہم کردار اداکررہے ہوتے ہیں۔
11
اس سلسلہ میں موالنا ابوالحسن علی ندوی تعلیمی* اداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہاہے کہ ”عہد
حاضر کے ماہرین تعلیم نے اتفاق کیا ہے کہ”تعلیم* کوئی ایسا تجارتی سامان نہیں* ہے جو درآمد یا
برآمد کیا جاسکے ،مثالًمصنوعات* ،کچامال یا وہ ایجادات و ضروریات* جو کسی ملک اور عالقہ
کے ساتھ مخصوص نہیں ،وہ ایسالباس ہے جو ان اقوام کے قدوقامت و جسامت کی ٹھیک ناپ
کے مطابق تراشااور سیاجاتاہے* اور پسندیدہ و محبوب علم و فن اور ان مقاصد کو سامنے رکھ
کرتیارکیا* جاتاہے جن کے لئے وہ ہر طرح کی قربانی دے سکتی ہیں،تعلیم صرف اس عقیدہ کو
مضبوط کرنے کا ایک مہذب و شائستہ* طریقہ ہے جس کا حامل یہ ملک یا قوم ہے ،اس کا مقصد
فکری طورپر اس کو غذا دینا،اس پر اعتماد کرنا اور اگر ضرورت ہو تو علمی دالئل سے اس کو
مسلح کرنا ہے،وہ اس عقیدہ کے دوام و بقاکا وسیلہ اور بے کم وکاست آنے والی نسلوں تک منتقل*
کرنے کا ایک طریقہ ہیت،نظام تعلیم کی بہترین تعریف یہ ہے کہ والدین اور مربیوں اور
نگرانوں کی اس سعی پیہم کا نام ہے جو وہ اپنی اوالد کو اپنے دین و ملسک پر قائم رکھنے کے
لئے کرتے رہتے ہیں ۔اور ان بچوں کی اسطرح تربیت* کرنا کہ وہ ان کے ورثہ کے جسے
انہوںنے اپنے اباو اجدادسے حاصل کیا تھا کے صالح و اہل وارث و امین ثابت ہوں،اور ان کے
اندر اس ثروت میں اضافہ اور توسیع اور اس کو ترقی دینے کی پوری صالحیت ہو
12
سوال نمبر ۴
تدریس اسالمیات میں مباحسی طریقہ کیوں ظروری ہے
تخلیق انسانیت کے فورا بعد ہی ہللا جل وعالہ نے انسانیت کی رہنمائی و رہبری کا
اہتمام کردیا ۔چونکہ انسان کو دنیا میں اختی*ار دی*ا گی*اکہ وہ خ*یر و ش*ر
میں سے جسے چاہے اپ**نی خوش**ی و رغبت س**ے اختی**ار ک**رلے۔مگ**ر
انس**ان کی فط**رت میں س**ہوو غلطی کھ**انے اور ظ**اہری رن**گ رلی**وں
سے متاثر ہوجانے کا مادہ موجود تھا اور ہے اس کے سبب یقی**نی ام**ر
تھا کہ انسان برائی و بدی اور شر جو بظاہر فائدہ مند معلوم ہوتاہے کی
ج**انب مت**وجہ ہ**وکر اس ک**و اپن**ا لے۔* اس**ی ام**ر کے پیش نظ**ر ہللا رب
العزت نے انسانو ں کی رہنمائی و رہبری کی خاطر انبیاء ک**رام کواپن**ا
پیغام دیکر کائنات میں بھیج**ا ت**اکہ وہ انس**انوں ک**و ص**حیح و غل**ط میں
موجود فرق کے بارے میں آگاہ کریں ت**اکہ حجت ت**ام ہوج**ائے کہ اگ**ر
انسان برے راستے کو چاہتے ہوئے اختیار کرت**اہے ت**و اس کے ن**تیجہ
میں سزاکا مستحق قرار پائے اور اگر درست اور نیک کاموں پر عم**ل
13
کرلے اور خیر کے راستے پر چل پڑے تو اس ک**و انع**ام و اک**رام کے
ساتھ جنت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہونے کااعزاز دیاجائے۔انبیاء کرام
کی دعوت و رسالت کا لب لباب یہی ہی تھ**ا کہ وہ لوگ**وں ک**و ت**ذکیر و
یاددہ**انی ک**رواتے تھے کہ ع**الم ارواح میں رب کے س**اتھ کی**ا ج**انے
والے عہد کسی صورت ٹوٹنے نہ پائے۔
انبیاء کی بعثت کا سلسلہ نبی مک**رم ۖپ*ر مکم**ل ہ**وا۔آپ کے بع**د چ**ونکہ
کسی نبی نے نہیں آنا اس لئے آپ ۖپ**ر اس**الم کی دع**وت ک**و ختم کردی**ا
اب آپ ۖکے بع**د آپ کی امت کے کن**دھوں پ**ر یہ بش**یر و ن**ذیر کی ذمہ
داری آن پ**ڑی کہ وہ اس ک**و ت**اروز محش**رانجام دیں۔بش**یر و ن**ذیر کے
فریضہ و منصب کو نبھانے کے لئے ض**روری و الزم تھ**ا اور ہے کہ
داعی کے پاس دین کا کافی و شافی ذخیرہ معلوم**ات ہون**ا چ**اہیے ۔جس
کے لئے الزمی ہے کہ ملت اسالمیہ کے داعی علم کی شمع سے قلوب
و اذہ**ان ک**و معط**ر ک**ریں۔دین* اس**الم نے ابت**داہی س**ے علم کی اہمیت و
افادیت ک**و نہ ص**رف تس**لیم کی**ا بلکہ اس کے ماخ**ذ و مص**ادر اور اس
کے دائرہ کار کا بھی پہلی وحی میں تعین کردیا گی**ا۔جس ک**ا بامح**اورہ
ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے”تو پڑھ اپ**نے رب کے ن**ام س**ے جس نے
پیداکیا،پیداکیا انسان کو لوتھڑے سے ،تو پ**ڑھ ع**زت و ک**رم والے* رب
کے نام س**ے،وہ جس نے تعلیم دی قلم کے ذریعہ س**ے ،س**کھایا انس**ان
ک**و وہ علم جس**ے وہ پہلے نہیں جانتاتھ**ا”س**ورہ عل**ق کی یہ پہلی پ**انچ
آیات ہی قرآن کا پہال و اساسی پیغام و دعوت ہے۔موالن**ا ابولحس**ن علی
ن**دوی فرم**اتے ہیں کہ ان آی**ات میں یہ واض**ح کردی**ا گی**ا کہ علم اور
مسلمان کاچولی دامن کا ساتھ ہے کہ وہ اسکے بغیرسماج میں پنپ نہیں
سکتا،علم سکھے بغیروہ ترقی وکامرانی کی منازل طے نہیں کرس**کتا۔
اور ساتھ ہی انسان کو اس کی حیثیت سے بھی مطلع کردی**ا گی**ا ہے کہ
14
وہ جتنا بھی بڑا بن جائے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی اصلیت و
ابتدا ایک لوتھڑے سے ہی ہوئی ہے۔
اسی اہتمام کی وجہ س**ے ص**حابہ ک**رام ب**اوجود تج**ارت و زراعت اور
دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے کے ایک لمحہ کے لئے دین کی تعلیم
سے دور نہیں ہوئے جیساکہ حضرت انس بن مال**ک کی روای**ات س**ے
معلوم ہوت**اہے کہ ص**حابہ ک**رام تعلیم و تعلم ک**ا کس ق**در اہتم**ام ک**رتے
تھے۔وہ فرم**اتے ہیںکہ”کی**ا میں تمہیں تمہ**ارے ان بھ**ائیوں کے متعل**ق
خبر نہ دوں جن کو ہم رسول ہللا کے زمانے میں ”قرائ”کے ن**ام س**ے
پکارتے تھے ،وہ تعداد میں ستتر تھے ،رات کو مدینہ میں اپ**نے اس**تاد
کے پاس جاتے اور صبح تک پڑھتے رہتے ،صبح کو ان میں سے جو
ط**اقتور ہ**وتے وہ میٹھ**ا پ**انی بھ**ر ک**ر التے اور م**زدوری ک**رتے ،ی**ا
لکڑی کاٹ کر التے اور فروخت کرتے ،جن کو گنجائش ہوتی وہ جمع
16
ہوکر بکری خرید لیتے،اس کو بنالیتے اور وہ رسول ہللا ۖ کے حج**روں
کے پاس لٹکی رہتی”۔اس**ی ط**رح ک**ا واقعہ حض**رت عم**ر اور ان کے
پڑوسی کا بھی ہے کہ وہ ایک روز کام ک*رتے اور دوس*رے روز حلقہ
تعلیم میں شامل ہوجاتے،اور جو کچھ نبی کریم ۖکے اسنان مبارک س**ے
سناہوتااپنے ساتھی کو بھی سکھا دیتے تھے۔
18
’’حضور اكرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ای*ک لک*یر کھینچی اور فرمای*ا :یہ ہللا ک**ا راس*تہ
ہے پھر ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اس کے دائیں اور بائیں ج**انب لک**یریں کھینچیں پھ**ر
فرمای*ا :یہ راہیں ہیں ان میں س*ے ہ**ر راہ پ**ر ش**یطان بالرہ**ا ہے پھ**ر ٓاپ ص**لی ہللا علیہ
وس**لم نے ق**رٓان کی ای**ک ٓایت تالوت فرم**ائی و” أن ه**ذا ص**راطى مس**تقيما ً ف**اتبعوه .وال
تتبعوا السبل فتف**رق بكم عن س**بيله "(االنع**ام )153 :جس ک**ا ت**رجمہ یہ ہے ‘‘اور یقین**ا یہ
میری راہ ہے جو سیدھی ہے تم اس پر چلو اور دوسروں کی راہوں پر مت چلو وہ تمہیں
سیدھی راہ سے بھٹکا دینگے ‘‘g۔
اس حديث ميں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ ک**رام ک**و ب*اخبر کی**ا کہ راہ ح**ق
ایک ہے اور وہ صراط مستقیم ہے۔ ضاللت وگمراہی کے بے ش**مار راس**تے ہیں اور وہ
شیطانی راہیں ہیں ۔ اس بات کو س**مجھانے کے ل**ئے ن**بی ک**ریم ص**لی ہللا علیہ وس**لم نے
لکیروں کا استعمال کیا۔
ام***ام طی***بی اس ح***دیث کی ش***رح میں رقمط***راز ہیںٓ :اپ ص***لی ہللا علیہ وس***لم نے
سمجھانےاور ذہن نشیں کروانے کے لئے لکیریں کھینچیں کیونکہ مخفی معانی ک**و بی**ان
کرنے اور پوشیدہ رموز کی توضیح کی غرض سے تص**ویر وتمثی**ل اس**تعمال کی ج**اتی
ہے تاکہ وہ مرئی اور محسوس چیزوں کی طرح ٓاشکار ہوجائیں اور ب**ات س**مجھنے میں
انسانی عقل کی مدد کریں ۔
19