(6497) Assignment No 1

You might also like

Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 19

‫سوال نمبر ‪۱‬‬

‫دو قومی نظریہ کی روشنی میں اسالمیات بطورمظمون کا‬


‫کیا کردار ہے؟ تاریخی پس منظر بیان کریں‬
‫دو قومی نظریے کا پس منظر‬ ‫‪o‬‬

‫جن**گ آزادی ‪1857‬ء کے زخم ابھی ت**ازہ ہی تھے کہ ہن**دوؤں نے ای**ک اور مس**ئلے ک**و‬
‫الکھڑا کیا۔ یہ جھگڑا ہندی اردو جھگڑے ‪1867‬ء کے نام س**ے موس**وم ہے۔ ‪1867‬ء میں‬
‫بنارس کے ہندوؤں نے لسانی تحریک شروع کر دی‪ ،‬جس کا مقصد اردو کی جگہ ہن**دی‬
‫کو سرکاری اور عدالتی زبان کے طور پر رائج کرنا تھا۔ اور عربی رسم الخ**ط کی جگہ‬
‫دیوناگری رسم الخط کو اپنانا تھا۔ اس جنونی اور لس**انی تحری**ک ک**ا ص**در دف**تر الہ آب**اد‬
‫میں قائم کیا گیا‪ ،‬جبکہ پورے ملک میں ہن**دوؤں نے ک**ئی ای**ک ورکن**گ کمیٹی**اں تش**کیل‬
‫دیں‪ ،‬تاکہ پورے ہندوستان کے تمام ہندوؤں کو اس تحریک میں شامل کی**ا ج*ائے اور اس‬
‫کے مقاصد کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔‬
‫اگر غیر جانبداری سے دیکھا جائے تو اردو کے خالف ہندوؤں کی تحریک ای**ک ناقاب**ل‬
‫فہم اور غیر دانشمندانہ اقدام تھا‪ ،‬کی*ونکہ اردو ک*و جن*وبی ایش*یا میں نہ ص*رف متع*ارف‬
‫کرانے اور ہر دلعزیز بنانے بلکہ اسے بام ع**روج پ**ر پہچ**انے کے ل**یے انہ**وں نے بھی‬
‫وہی کردار ادا کیا تھا جو خود مسلمانوں ک**ا تھ**ا۔ اگ**ر اردو ک**ا ک**وئی قص**ور تھ**ا بھی ت**و‬
‫صرف اتن**ا کہ اس نے مس**لمانوں کے ش**اندار ماض**ی ان کے بہ**ادروں‪ ،‬ع**الموں‪ ،‬اولی**اء‬
‫کرام اور سپہ ساالروں کے کارناموں اور کرداروں کو اپنے اص**ناف اور دبس**تانوں میں‬
‫محفوظ کر رکھا تھا۔ کئی مسلمان رہنماؤں نے ہندوؤں ک**و س**مجھانے کی کوش**ش کی۔ ان‬
‫پر واضح کیا گیا کہ اردو انڈو اسالمک آرٹ کا ایک الزمی جزو بن گئی ہے۔ ک*وئی الکھ‬
‫بار چاہے تو جنوبی ایشیا کی ثقافتی ورثے سے اس انمول ہیرے کو نک**ال ب**اہر نہیں ک**ر‬
‫سکتا۔ مگر ان دالئل کا ہن**دوؤں پ**ر کچھ اث**ر نہ ہ**وا۔ سرس**ید احم**د خ**ان نے بھی‪ ،‬ج**و ان‬
‫دنوں خود بنارس میں تھے‪ ،‬اپنی تمام ت**ر مص**الحتی کوشش**یں ک**ر لیں‪ ،‬لیکن ب**ری ط**رح‬
‫ناک**ام رہے‪ ،‬کی**ونکہ سرس**ید ہی کے ق**ائم ک**ردہ س**ائینٹیفک سوس**ائٹی آف ان**ڈیا کے ہن**دو‬
‫اراکین بھی اردو کے خالف تحریک میں پیش تھے۔ ہندی اور اردو کے درمی**ان میں اس‬
‫قضیے کا نتیجہ بڑے پیمانے پر ہندو مسلم فس**ادات کی ص**ورت میں برآم**د ہ**وا۔ ثق**افتوں‬
‫کے اس ٹکراؤ نے سرسید کے خیاالت میں ایک اور انقالب برپا کر دیا۔‬
‫مسلم قیادت اور دو قومی منظر‬

‫‪1‬‬
‫ایک مسلّمہ ت**اریخی حقیقت ہے کہ پاکس**تان ای**ک نظری**اتی مملکت ہے۔ اس کے قی**ام ک**ا‬
‫عظیم اور بلند مقصد و نظریہ ہی اس کے دوام اور بقاء کا بھی جواز ف**راہم کرت**ا ہے۔ وہ‬
‫دین حق جو محمد ع**ربی ص**لی ہللا علیہ وآلہ وس**لم لے‬
‫دین اسالم ہے۔ وہی ِ‬
‫عظیم نظریہ‪ِ ،‬‬
‫کر تشریف الئے۔ جس میں انسانوں کے حقوق‪ ،‬عزت و تکریم‪ ،‬مساوات‪ ،‬برابری‪ ،‬امانت‬
‫و دیانت‪ ،‬سچائی اور انسانیت کی فالح و بہبود کی بات ہوتی ہے۔‬
‫نظام مصطفی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم ہے جس میں س**ب‬ ‫ِ‬ ‫نظریہ پاکستان حقیقت میں وہی‬
‫سے زیادہ انسانیت کے حقوق پر توجہ دی جاتی ہے۔ جو انسان س**از‪ ،‬انس**ان دوس**ت اور‬
‫انسان نواز ہے۔ جس کی اس**اس ’’ال ال**ه اال هّٰللا محم**د رس**ول هّٰللا ‘‘ ہے۔ یہی وہ کلمہ طیبہ‬
‫ہے جس کے اقرار و اعالن سے انسان کے ظاہرو باطن میں انقالب برپ**ا ہوجات**ا ہے۔ ہللا‬
‫تعالی کی وحدانیت کے اقرار کے ساتھ ساتھ تمام معبودا ِن ب*اطلہ اور ظالم**انہ ق**وانین اور‬ ‫ٰ‬
‫انسانیت سوز نظام کا انکار بھی ہوتا ہے۔برصغیر پاک و ہند میں ایس**ٹ ان**ڈیا کمپ**نی کے‬
‫دن بہ دن طاقت پک*ڑنے کے س*بب مس*لمان اخالقی اور معاش*ی ط*ور پ*ر کم*زور ہ*وتے‬
‫گئے۔ ٹیپو سلطان اور نواب سراج الدولہ جیسے سالطین نے دکن اور بنگال میں اس**المی‬
‫تشخص کو سنبھاال دینے کی کوششیں جاری رکھیں لیکن ان کی زندگیوں کے چراغ گ**ل‬
‫ہ**وتے ہی مس**لمان غالمی کی زنج**یروں میں جک**ڑے گ**ئے۔ انگری**زوں نے اورنگ**زیب*‬
‫عالمگیر کے زمانے سے ہی برعظیم پاک و ہند میں ایسٹ ان**ڈیا کمپ**نی کی ص**ورت میں‬
‫ج**و ق**دم جمان**ا ش**روع ک**یے تھے‪ ،‬وہ ب**اآلخر کامی**اب ہ**وئے اور مس**لمانوں کے داخلی‬
‫خلفشار اور معاشی بدحالی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں کی دولت سمیٹنے کے ساتھ ساتھ‬
‫یہاں کی سیاست اور حکومت پر بھی قبضہ کرلیا۔مس*لمانوں کی سیاس*ی م*وت ت*و ہوگ*ئی‬
‫لیکن وہ اسالمی تشخص جو مسلمانوں کی ثقافت سے ظاہر ہوتا تھ**ا وہ کبھی ختم نہ ہ**وا۔‬
‫اس اسالمی تشخص کو برقرار رکھنے میں ان صوفیاء کرام کا کردار ہے جو سیاس**ت و‬
‫حک**ومت س**ے م**اوراء ہ**وکر ہللا اور اس کے رس**ول ص**لی ہللا علیہ وآلہ وس**لم ک**ا پیغ**ام‬
‫لوگوں تک پہنچاتے رہے اور ق**ریہ‪ ،‬نگ**ر نگ**ر لوگ**وں کے دل**وں کی دنی**ا تب**دیل ک**رتے‬
‫*ل ط**ریقت‬ ‫ت اس**المیہ کی عظیم ب**رادری میں ش**امل ک**رتے رہے۔ اہ* ِ‬ ‫رہے اور ان ک**و مل ِ‬
‫صوفیاء کرام نے اپنے حس ِن اخالق‪ ،‬محبت‪ ،‬شفقت‪ ،‬عجز و نیاز‪ ،‬تواضع و انکساری اور‬
‫جذبہ ایثار سے رنگ و نسل کے امتیاز اور غرور کو توڑا اور جذبٔہ اخوت و محبت ک**و‬
‫فروغ دیا اور لوگوں ک**و دی ِن اس**الم کی ل**ڑی میں پ**روتے رہے۔ اس**ی ج**ذبہ ج**اوداں نے‬
‫نظریہ پاکستان کو تقویت دی‬
‫مرش ِد کامل حضرت ابوالحسن علی بن عثمان ہجویری ایسے عظیم ص**وفیاء ک**رام رحمہم‬
‫ت پاکستان کی بنی**اد رکھ**نے‬ ‫ہللا کے ہر اول دستہ سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے مملک ِ‬
‫کا اہم فریضہ انجام دی*ا۔ عالمہ ڈاک*ٹر محم*د اقب*ال کے نزدی*ک آپ نے س*رزمین ہن*د میں‬
‫*غ اس**الم کے راس**تہ میں اس**ؤہ نب**وی ص**لی ہللا‬
‫شجر اسالم کا بیج بویا۔سید ہجویر نے تبلی* ِ‬
‫ِ‬
‫تبلیغ دین کے‬
‫ِ‬ ‫میں‬ ‫پنجاب‬ ‫اور‬ ‫الہور‬ ‫کیں۔‬ ‫حاصل‬ ‫کامیابیاں‬ ‫سے‬ ‫پیروی‬ ‫کی‬ ‫وسلم‬ ‫وآلہ‬ ‫علیہ‬
‫ساتھ ساتھ نظریہ پاکستان کی بھی راہنمائی فرمائی۔س**ید ہج**ویر کے س**اتھ دیگ**ر ص**وفیاء‬
‫کرام رحمہم ہللا بھی یہی فریضہ سرانجام دی**تے رہے۔ پھ**ر حض**رت خ**واجہ معین ال**دین‬
‫چشتی اجمیری برصغیر پاک و ہند میں تشریف الئے اور اجمیر کی سرزمین پر بیٹھ ک**ر‬
‫الکھوں لوگوں کو مشرف بہ اسالم کیا۔ پھر پنجاب میں اہل چش**ت کے ام**ام حض**رت باب**ا‬
‫‪2‬‬
‫فریدالدین گنج شکر پاکپتن شریف جو کبھی ’’اجودہن‘‘ کہالتا تھا‪ ،‬میں تشریف الئے اور‬
‫دین حق کا پیغام پہنچایا۔‬
‫اس طرح صوفیاء کرام کے اس**ماء کی ای**ک طوی**ل فہرس**ت ہے ج**و اس خطے میں آک**ر‬
‫اسالم ک**ا پیغ**ام لوگ**وں ت**ک پہنچ**اتے رہے۔ ب**اآلخر جب برص**غیر پ**اک و ہن**د کے ل**وگ‬
‫انگریزی غالمی میں گھر گئے تو پھر بھی یہی نظریہ کام آیا جو رفتہ رفتہ ایک تحریک‬
‫کی ص**ورت اختی**ار کرگی**ا اور پھ**ر پاکس**تان کے خ**دوخال واض تعلیمی شخص**یت میں‬
‫تدریس اسالمیات کا کردار ‪.‬‬

‫سوال نمبر ‪۲‬‬


‫شخصیت کی تعمیرمیں تدریس اس**المیات کی ظ**رورت پ**ر س**یر‬
‫حاصل بحث کریں۔‬
‫تعلیم کے دو اہم پہلو تدریس و تربیت ہی شخص کی تعلیم کے لیے اسالمیات کے نص**اب‬
‫کے م**واد کے عالوہ کچھ اور بھی اس**ے آزم**اتے ہیں بہت س**ی دفعہ پی**دا ک**رنے س**ے‬
‫روکنے کے لیے ضروری ہے۔میں نواز مندرجہ ذیل ہیں‬
‫(الف)‬
‫اساتذہ کی شخصیت‬
‫اساتذہ بالخصوص تدریس اسالمیات کے ل**یے متعین ان**دازہ جب ت**ک اس**المی زن**دگی ک**ا‬
‫ایک عملی نمونہ پیش نہیں کریں گے اس وقت طلبہ میں صفات پیدا کرنا بہت مشکل ہے‬
‫مث*ال کے ط**ور پ**ر اگ*ر اس*اتذہ نم**از کے پابن*د نہیں ہ**وں گے ت*و تب اس نم*از کی‬
‫پابندی کی توقع کرنا بعید از قیاس ہے۔ خیال باقی صفات اور خصوص**یات ک**ا اطالق اس‬
‫ب**ات کی ض**رورت ہے کہ اس کائن**ات کے معلم کے اعم**ال اور ک**ردار میں اس**الم کی‬
‫عملی طور پر موجود ہوتا ہے وہ معلوم نہ کہ سے موجود ہیں ۔‬
‫(ب)‬
‫مدرسہ کے اخالقی ماحول اور اسالمی فضا کی موجودگی‬
‫طلبہ کی تعلیم و تربیت کے لیے ضروری ہے کہ مدرسہ المعھداالسالمی عکاسی ک**رے۔‬
‫مدرسے کی فضا میں احترام مادری اور ایمانداری کی جھلک نظ**ر آتی ہ**و ۔ چن**انچہ اس‬
‫بات کی یقین دہانی بھی ض*روری ہے کہ مدرس*ے میں کمی مض*مون اس*الم ک*ا موج*ودہ‬
‫دور کے پسندیدہ خصوصیات پیدا ہو سکیں ۔‬

‫‪3‬‬
‫(ج )‬
‫گریسی اور ہم نصابی سرگرمیاں‬
‫تدریس اسالمیات میں جہادی مواد طلبہ ک*و منتق**ل کی**ا جات*ا ہے‪ ،‬اس ب*ات کی ض*رورت‬
‫ہے کہ مدرسے میں ایسی سرگرمیاں اور افعال و اعمال انج**ام دیے ج**ایئں جن کی بن**ا‬
‫پر طلبہ کو اسالمی اقدار کی عملی تربیت ملے اور ان میں اشا‪،‬یراس**الم کے اح**ترام ک**ا‬
‫جذبہ پیدا ہو ۔ مثال کے طور پر صبح کی اسمبلی میں ثناء ک**ا حکم علم**اء اہ**ل ح**دیث ک**ا‬
‫ترجمہ و تشریح کے سامنے بیان کریں ۔‬
‫شخصیت کی جامع مانع تعری*ف کرن*ا مش*کل ہے س*ادہ الف*اظ میں یہ کہ*ا جاس*کتا ہے کہ‬
‫کسی انسان کی شخصیت اس کی ظاہری و ب*اطنی اور غ*یر اکتس*ابی(ق**درتی) و اکتس**ابی‬
‫خصوصیات کا مجموعہ ہے اگر ہم سے کوئی پوچھے کہ تمہارے دوس**ت کی شخص**یت‬
‫کیسی ہے تو ہم جواب میں فورا اس کی چند صفات کا ذکر ک**رتے ہیں کہ وہ محن**تی اور‬
‫مخلص ہیں ان میں سے بہت سی خصوصیات مستقل ہوتی ہیں لیکن طویل عرص**ے کے‬
‫دوران ان میں تبدیلیاں بھی رونما ہوتی رہتی ہیں اور انہی خصوصیات کی بنیاد پ**ر ای**ک‬
‫شخص دوسرے سے الگ نظر آتا ہے اور ہر معاملے میں دوسروں س**ے مختل**ف رویے‬
‫اور کردار کا مظاہرہ کرتا ہے ۔شخصیت اور کردار کی تعمیر دین ک*ا اہم ت*رین موض*وع‬
‫ہے ہللا نے اپ**نی ج**و ہ**دایات انبی**اء ک**رام کے ذریعے دنی**ا میں بھیجی ہیں ان ک**ا بنی**ادی‬
‫مقصد ہی انسان کی شخصیت اور کردار کی صفائی ہے اس**ی ک**ا ن**ام ت**زکیہ نفس ہے کہ‬
‫تعالی ارشاد فرماتے ہیں۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا تبارک و‬
‫ث فِي ااْل ُ ِّم ٖيّنَ َرسُوْ اًل ِّم ْنهُ ْم يَ ْتلُوْ ا َعلَ ْي ِه ْم ٰا ٰيتِ ٖه َويُ َز ِّك ْي ِه ْم َويُ َعلِّ ُمهُ ُم ْال ِك ٰت َ‬
‫ب َو ْال ِح ْك َمةَ‬ ‫هُ َو الَّ ِذيْ بَ َع َ‬
‫ترجمہ ‪" :‬وہی ہے جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی میں س**ے ای**ک رس**ول بھیج**ا ج**و‬
‫انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت‬
‫سکھاتا ہے"‬
‫انسان کی یہ خصوصیات بنیادی طور پر دو قسم کے ہیں ایک ت**و وہ ہیں ج**و اس**ے ب**راہ‬
‫راست ہللا تعالی کی ط*رف س*ے ملیں گے ج**و کہ ق*درتی ص*فات کہالتی ہیں دوس**ری وہ‬
‫خصوصیات ہیں جنہیں انسان اپنے اندر یا تو خود پیدا کر س**کتا ہے ی**ا پھ**ر اپ**نی ق**درتی‬
‫صفات میں کچھ تبدیلیاں پیدا کر کے انہیں حاصل کرسکتا ہے ۔ یہ اقتصادی خصوص*یات‬
‫وصفات کہالتی ہیں ۔قدرتی صفات میں ہمارا رنگ و نسل ‪،‬شکل و ص**ورت کی جس**مانی‬
‫س*اخت ‪،‬ذہ**نی ص**الحیت وغ**یرہ ش**امل ہیں ۔اقتص**ادی خصوص**یات میں انس**ان کی علمی‬
‫سطح اس کا پیشہ اور اس کی فکر وغیرہ شامل ہوتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر ان دون**وں‬
‫طرز کی صفات کو مناسب حد تک ترقی دینے ک**ا ن*ام ہے انس**ان ک*و چ*اہیے کہ وہ اپ**نی‬
‫شخص***یت ک***و دلکش اور پرکش***ش بن***انے کے ل***ئے اپ***نی ق***درتی ص***فات جن ک***و ہم‬
‫غیراقتصادی خصوصیات کہتے ہیں ت**رقی دے ک**ر ای**ک مناس**ب س**طح پ**ر لے آئے اور‬

‫‪4‬‬
‫اکتس**ابی ص**فات کی تعم**یر ک**ا عم**ل بھی ج*اری رکھے۔شخص**یت کے ب**اب میں ہم**ارے‬
‫نزدیک سب سے اعلی و ارفع اور آئیڈیل ترین شخصیت محمد عربی صلی ہللا علیہ وسلم‬
‫کی شخصیت ہے اعلی ترین صفات کا اس ق**در حس**ین ام**تزاج ہمیں کس**ی اور شخص**یت‬
‫میں نظر نہیں آتا‪ ،‬آپ کی عظمت کا اعتراف آپ کے مخالفین نے بھی کیا۔قرآن ک**ریم کی‬
‫روشنی میں تعمیر شخصیت پر نظر ڈالتے ہیں۔‬
‫قرآن حکیم کی روشنی میں تعمیر شخصیت‬
‫ہللا تبارک و ٰ‬
‫تعالی قران حکیم میں ارشاد فرماتے ہیں‪:‬‬
‫خَاب َمنۡ َد ٰ ّسىہَا ۔‬
‫َ‬ ‫قَ ْد اَ ْفلَ َح َمنۡ َز ٰ ّکىہَا ۪ۙ َو قَ ْد‬
‫ترجمہ‪ ":‬یقینا ً فالح پا گیا جس نے (اپنے) نفس کو پ**اک کرلی**ا‪ ،‬اور یقین*ا ً ن**امراد ہ**وا جس‬
‫نے اس ک*و خ*اک میں دب*ا دی*ا"۔یہ ہے وہ حقیقت جس ک*و آش*کارا ک*رنے کے ل*یے ات*نی‬
‫قسمیں کھائی گ**ئی ہیں۔ فرمای**ا جس نے اپ**نے نفس ک**ا ت**زکیہ کی**ا وہ دون**وں جہ*انوں میں‬
‫کامیاب وکامران ہوگیا اور جس نے اسے گناہوں کی خاک میں دبادیا وہ خائب ہوا۔‬

‫سوال نمبر ‪۳‬‬


‫اس**المی اق**دار کے ف*روغ میں ت**دریس اس**المیات کی اہمیت بی*ان‬
‫کریں۔‬

‫تخلیق انسانیت* کے فورا بعد ہی ہللا جل وعالہ نے انسانیت* کی رہنمائی* و رہبری کا انتظام کردیا ۔‬

‫چونکہ انسان کو دنیا میں اختیاردیا* گیاکہ وہ خیر و شر میں سے جسے چاہے اپنی خوشی و‬

‫رغبت سے اختیار کرلے۔مگر انسان کی فطرت میں سہوو غلطی کھانے اور ظاہری رنگ رلیوں‬

‫سے متاثر ہوجانے کا مادہ موجود تھا اور ہے اس کے سبب یقینی* امر تھا کہ انسان برائی و بدی‬

‫اور شر جو بظاہر* فائدہ مند معلوم ہوتاہے کی جانب متوجہ ہوکر اس کو اپنا لے۔ اسی امر کے‬

‫پیش نظر ہللا رب العزت نے انسانو ں کی رہنمائی* و رہبری کی خاطر انبیاء* کرام کواپنا پیغام*‬

‫‪5‬‬
‫دیکر کائنات* میں بھیجا تاکہ وہ انسانوں کو صحیح و غلط میں موجود فرق کے بارے میں آگاہ‬

‫کریں تاکہ حجت تام ہوجائے کہ اگر انسان برے راستے کو چاہتے ہوئے اختیار کرتاہے تو اس‬

‫کے نتیجہ میں سزاکا مستحق قرار پائے اور اگر درست اور نیک کاموں پر عمل کرلے اور خیر‬

‫کے راستے پر چل پڑے تو اس کو انعام و اکرام کے ساتھ جنت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہونے‬

‫کااعزاز دیاجائے۔انبیاء* کرام کی دعوت و رسالت کا لب لباب یہی ہی تھا کہ وہ لوگوں کو تذکیر و‬

‫یاددہانی* کرواتے تھے کہ عالم ارواح میں رب کے ساتھ کیا جانے والے عہد کسی صورت ٹوٹنے‬

‫نہ پائے۔‬

‫انبیاء کی بعثت* کا سلسلہ نبی مکرم ۖپر مکمل ہوا۔آپ کے بعد چونکہ کسی نبی نے نہیں آنا اس لئے‬

‫آپ ۖپر اسالم کی دعوت کو ختم کردیا اب آپ ۖکے بعد آپ کی امت کے کندھوں پر یہ بشیر و نذیر‬

‫کی ذمہ داری آن پڑی کہ وہ اس کو تاروز محشرانجام دیں۔بشیر و نذیر کے فریضہ و منصب کو‬

‫نبھانے کے لئے ضروری و الزم تھا اور ہے کہ داعی کے پاس دین کا کافی و شافی ذخیرہ‬

‫معلومات ہونا چاہیے ۔جس کے لئے الزمی ہے کہ ملت اسالمیہ کے داعی علم کی شمع سے قلوب‬

‫و اذہان کو معطر کریں۔دین اسالم نے ابتداہی سے علم کی اہمیت و افادیت کو نہ صرف تسلیم کیا‬

‫بلکہ اس کے ماخذ و مصادر اور اس کے دائرہ کار کا بھی پہلی وحی میں تعین کردیا گیا۔جس کا‬

‫بامحاورہ ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے”تو پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیداکیا‪،‬پیداکیا*‬

‫انسان کو لوتھڑے سے ‪،‬تو پڑھ عزت و کرم والے رب کے نام سے‪،‬وہ جس نے تعلیم دی قلم کے‬

‫ذریعہ سے ‪،‬سکھایا* انسان کو وہ علم جسے وہ پہلے نہیں جانتاتھا”سورہ علق کی یہ پہلی پانچ‬

‫آیات ہی قرآن کا پہال و اساسی پیغام و دعوت ہے۔موالنا ابولحسن علی ندوی فرماتے ہیں کہ ان‬

‫آیات میں یہ واضح کردیا گیا کہ علم اور مسلمان کاچولی دامن کا ساتھ ہے کہ وہ اسکے بغیرسماج‬

‫میں پنپ نہیں* سکتا‪،‬علم سکھے بغیروہ ترقی وکامرانی کی منازل طے نہیں کرسکتا۔اور ساتھ ہی‬

‫انسان کو اس کی حیثیت* سے بھی مطلع کردیا گیا ہے کہ وہ جتنا بھی بڑا بن جائے اس کو یاد‬

‫رکھنا چاہیے کہ اس کی اصلیت و ابتدا ایک لوتھڑے سے ہی ہوئی ہے۔‬

‫‪6‬‬
‫دنیاوی مناصب و عہدوں کے آجانے کے بعد انسان اپنے سے کمزور و ناتوں لوگوں پر سرکشی‬

‫کرتاہے اور مارے غرور کے ان پر اتراتے ہوئے انسانوں کی تحقیر کا عمل کرتاہے اس سے‬

‫اجتناب کے لئے باور کرادیا گیاکہ ہللا کی ذات و االصفات ہی سب سے زیادہ معززو مکرم ہے‬

‫لہذا انسان کو مغرور و مقہور بننے کی چنداں ضرورت نہیں* ہے۔موالنا فرماتے ہیں کہ علم کے‬

‫حصول کے مختلف ذرائع ہوسکتے ہیں انسانوں سے مالقات و گفت و شنید کے نتیجہ میں بھی‬

‫علم حاصل ہوتاہے ۔مگر یہاں پرقرآن نے واضح بیان کردیا ہے کہ علم حقیقی وہی ہے جس کی‬

‫تعلیم دی جارہی ہے وہ بذریعہ قلم یعنی* لکھی ہوئی صورت میں حاصل ہو۔بدقسمتی سے آج کا‬

‫انسان دنیا میں سائنسی* ترقی و عروج کی وجہ سے ناتواں لوگوں پر ظلم و جور کا بازارگرم‬

‫کرتے ہیں کیوں کہ وہ یہ سمجھتے ہیں جدید ٹیکنالوجی ‪،‬سائنس* اور علوم کائنات* کو مسخر‬

‫کرچکے ہیں تو اس پر اظہار تفاخر کرنا ان کا حق ہے اسی لئے ہللا نے واضح کردیا کہ ان‬

‫لوگوں کے پاس وہی علم ہے جو ہم نے سکھالیا اسے مگر وہ اس سے پہلے کچھ بھی نہ جانتا*‬

‫تھا۔‬

‫پہلی وحی کی روشنی میں یہ بات کھل کرسامنے آجاتی ہے کہ اسالم نے آغازاور اپنے پہلے ہی‬

‫روز سے علم کی دعوت دترغیب دی۔اس طرح قرآن حکیم کی بے شمار آیات اور احادیث کے‬

‫ذخیرہ میں بھی علم کے حصول کے فرض و الزم ہونے اور اس کے حصول میں مشغول و‬

‫مصروف لوگوں کی منقبت* بیان* ہوئی ہے ۔مثال* کے طورپر فرمایا گیا حدیث میں کہ”علم حاصل‬

‫کرو ماں کی گود سے قبر کی پاتال تک”اور”علم* حاصل کرنا ہر مردوعورت پر الزم قرار دیا‬

‫گیا” عالم کو عابد پر وہ فضیلت دی گئی جو نبی کو عام انسانوں کے مقابل* میں حاصل ہے۔اس‬

‫طرح کے متعدد اقوال و فرامین موجود ہیں جن سے علم کی اہمیت* اور اس کی افادیت اور اسالم‬
‫میں اس کے اہتمام* کا پیغام ملتاہے۔صحابہ کرام کو نبی کریم کی اطاعت کرنا اور ۖ‬
‫آپ کے ہرحکم‬

‫پر جانثار کرنے کا پیغام دیا گیا ۔غزوہ تبوک کے موقع پر حضرت کعب ابن مالکاور ان کے‬

‫‪7‬‬
‫دوساتھیوں* نے جمعہ کی نماز شہر میں اداکرنے کی نیت سے سفر جہاد میں نبی کریم ۖکی‬

‫مشارکت نہیں کی تو ہللا نے مسلمانوں کوان سے مقاطعہ کرنے کا حکم نازل فرما دیا۔‬

‫اسی اہتمام* کی وجہ سے صحابہ کرام باوجود تجارت و زراعت اور دنیاوی کاموں میں مشغول‬

‫رہنے کے ایک لمحہ کے لئے دین کی تعلیم سے دور نہیں* ہوئے جیساکہ حضرت انس بن مالک‬

‫کی روایات سے معلوم ہوتاہے کہ صحابہ کرام تعلیم و تعلم کا کس قدر اہتمام* کرتے تھے۔وہ‬

‫فرماتے ہیںکہ”کیا* میں تمہیں* تمہارے ان بھائیوں کے متعلق خبر نہ دوں جن کو ہم رسول ہللا کے‬

‫زمانے میں ”قرائ”کے نام سے پکارتے تھے ‪،‬وہ تعداد میں ستتر تھے ‪،‬رات کو مدینہ میں اپنے‬

‫استاد کے پاس جاتے اور صبح تک پڑھتے رہتے ‪،‬صبح کو ان میں سے جو طاقتور ہوتے وہ‬

‫میٹھا پانی* بھر کر التے اور مزدوری کرتے ‪،‬یا لکڑی کاٹ کر التے اور فروخت کرتے ‪،‬جن کو‬

‫گنجائش ہوتی وہ جمع ہوکر بکری خرید لیتے‪،‬اس کو بنالیتے* اور وہ رسول ہللا ۖ کے حجروں کے‬

‫پاس لٹکی رہتی”۔اسی طرح کا واقعہ حضرت عمر اور ان کے پڑوسی کا بھی ہے کہ وہ ایک‬

‫روز کام کرتے اور دوسرے روز حلقہ تعلیم میں شامل ہوجاتے‪،‬اور جو کچھ نبی کریم ۖکے اسنان‬

‫مبارک سے سناہوتااپنے ساتھی کو بھی سکھا دیتے تھے۔‬

‫اسالمی تعلیم کی اہمیت و افادیت کو بیان* کرنے کے بعد ضروری معلوم ہوتاہے کہ ہم ملک‬

‫پاکستان* کے موجودہ تعلیمی* نظام کامختصراجائزہ لیں۔تاریخ ہمیں* بتاتی* ہے کہ ملک پاکستان‬

‫برصغیر کا وہ عظیم خطہ ارضی ہے جس کو انگریز کی غاصبیت اور ہندوئوں کے اثر و رسوخ‬

‫سے نجات حاصل کرتے ہوئے آزادی حاصل کیاگیا۔* اس امر کے متحقق ہونے کے لئے یہ‬

‫صدابلند کی گئی کہ ہم مسلمانوں کے لئے آزادخطہ چاہتے ہیں اور اس کا ماٹو و نعرہ یہی ہوگا‬
‫کہ ”پاکستان* مطلب کیا ٰ‬
‫الالہ االہللا”۔مگر باعث* افسوس امر یہ ہے کہ ملک پاک میں ابتداہی* سے‬

‫نوجوانوں کی تعلیم و تربیت کو منظم و بہتر بنانے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں* اٹھایاگیا بعض‬

‫اوقات شعبہ تعلیم وتربیت* میں ترمیم و بہتری کے فیصلے ہوئے مگر عمال ان کا نفاذ نہ ہوسکا۔‬

‫جس کا بدیہی نتجہ یہ ظاہر ہورہاہے کہ ملک پاکستان* کا نوجوان اسالمی تعلیمات اور ارض‬

‫‪8‬‬
‫مقدس کی محبت و مودت سے پہلوتہی کرچکا ہے۔جیساکہ ہم جانتے ہیں کہ ہماری سیاسی و‬

‫سماجی قیادت میں بہت سی ایسی شخصیات ہیں جن کو قرآن مجید کی مختصر سورت کی تالوت‬

‫نہیں آتی اور اس کے ساتھ ہی اسالمی تعلیمات* کے مفاہیم سے کوسوں دور ہیں۔جس کے نتیجہ‬

‫میں آئے روز اسالم کے ٹھوس و بین احکامات کو بدلنے اور اس میں ترمیم کرنے کی کوشش‬

‫کی جاتی ہے کہیں حدود آرڈیننس کے نام پر تو کہیں* شعبہ مالیات کو بہتر بنانے کے لئے سودکی‬

‫حلت یا اس میںمو جود سختی کو کم کرنے کا آوازہ لگایا جاتاہے اور پھر کہیں ناموس رسالت‬

‫ایکٹ پر نظرثانی* کا مطالبہ سامنے آتاہے۔اس طرح کے امور کا پیش آنا یہ ثابت* کرتاہے کہ‬

‫ہمارے سماجی و سیاسی ہستیوں* کا اسالمی تعلیمات کو کسی انسانی* و بشری صالحیتوں اور‬

‫کوششوں کا ثمر سمجھاجاتاہے اور اسے وحی ربانی اور نبی کریمۖ کی تعلیمات کا صدق دل سے‬

‫اعتراف و احترام نہیں* سمجھتے۔جبھی تو اس میں تغیر و تبدل کانعرہ لگاتا ہے۔‬

‫اس طرح کے سواالت اور شکوک و شبہات* ہمارے قائدین کے ذہنوں میں کیوں پیداہوتے ہیں ؟اس‬

‫کا صاف و کھراجواب یہی ہے کہ ان کی تعلیم و تربیت* درست خطوط پر نہیں* ہوئی جبھی تو وہ‬

‫اس طرح کے جاہالنہ* مطالبے کرتے نظر آتے ہیں۔ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے سماج میں تعلیم‬

‫ادارے تین حصوں میں منقسم ہیں اول‪:‬دینی تعلیمی ادارے۔ثانی‪:‬سرکاری تعلیمی* ادارے اور‬

‫ثالث ‪:‬پرائیویٹ* و بیرونی تعلیمی* ادارے۔اول درجہ میں دینی تعلیمی ادارے جن کی اہمیت* و افادیت‬

‫سے انکار ناممکن ہے بس المیہ کی بات یہ ہے کہ اسالم کے تصور تعلیم کو محدود مقید کردیاگیا‬

‫ہے کہ قرآن و سنت کی تعلیم اور اس کے مشتقات* کو ہی صرف اختیار کیاگیا* جبکہ مظاہر کائنات‬

‫اور کائناتی* علوم سے پہلوتہی* کی گئی جس کا ثبوت کسی بھی اہل علم وصاحب ذی شعور اور‬

‫اہل سلف کی حیات میں اس کی مثال نہیں* ملتی۔البتہ* جس امر پر اس تحریر کو مرتب کیا گیا وہ یہ‬

‫ہے کہ سرکاری و پرائیویٹ تعلیمی* ادارے جن کی خدمات کا اعتراف امر واجب ہے اور دلچسپ‬

‫حقیقت یہ ہے کہ سائنسی و کائناتی* علوم کی حفاظت اور اس میں تجدید کا فریضہ مسلم علماء ہی‬

‫نے بااعتراف* یونانیوں و دیگرمتطور تہذیبوںکے ساتھ کیا۔مگر بدقسمتی ہے کہ آج وہی مسلمان‬

‫‪9‬‬
‫ایک طرف یاتو ان علوم سے غافل و دور ہے یا پھر انہی میں مشغول رہ کر اپنی زندگی بسر‬

‫کردیتاہے اور اپنے مقصد تخلیق اور اس ابتکاری صالحیت کے مصدر و ماخذ کو بھول بیٹھا‬

‫ہے۔‬

‫پرائیویٹ وبیرونی تعلیمی اداروں میں اسالمیات* کی تدریس کا سر سے انتظام* ہی نہیں۔سائنسی*‬

‫مضامین کے اساتذہ کا تقرر مکمل قابلیت اور معیار کو چک کیا جاتا ہے اور پھر ان کی خدمت‬

‫معاوضہ کی صورت میں بھی بہتر طور پر کی جاتی ہے مگر افسوس ہے کہ اسالمیات کی‬

‫تدریس اور اس کا امتحان متعدد تعلیمی* اداروں میں شامل نصاب ہے ہی نہیں جیسے کہ پنجاب*‬

‫ایجوکیشن فائونڈیشن کے منتظمین* صرف سائنسی مضامین کا ہی امتحان لیتے ہیں جس کے سبب‬

‫وہ سکول جو اس ادارے کے زیرانتظام ہیں وہ اپنی* اسالمی و ایمانی اور قومی ذمہ داری کو‬

‫نبھانے سے اجتناب* کرتے ہیں* ان کا مقصود صرف پیسہ ہوتاہے اور وہ سائنسی مضامین میں‬

‫اعلی درجہ حاصل کرنے والے طلبہ کو ہی اداکیا جاتا ہے۔‬


‫ٰ‬

‫ہم دیکھتے ہیںکہ ہمارے عصری تعلیمی* اداروں کی ترجیحات میں نقص و خلل موجود ہے کہ وہ‬

‫سائنسی و تجرباتی* علوم کے میدان میں اپنی خدمات و کوششوں کو بہتر سے بہتر بناکر* پیش‬

‫کرنے کی جدودجہد کرتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی اس کا ہتمام بھی کرتے ہیں کہ ان کے پاس‬

‫اساتذہ ماہرعلم و فن ہونے چاہیں* مگر غیر سائنسی* علوم اور خصوصا اسالمیات* ایک ایسا‬

‫مضمون بن چکا ہے کہ جس کی تعلیم کے لئے کسی بھی طرح کا اہتمام* نہیں کیا جاتا۔اسالمیات*‬

‫کی تدریس کے لئے ایسے اساتذہ کا تقرر کیا جاتاہے جو صرف زبانی* یا بطور حفظ اس مضمون‬

‫کو یادکرکے بچوں کے سامنے ریکارڈنگ و اپنی صوت وآوازکے ساتھ منتقل کردیں مگر‬

‫خوداسے اس مضمون کی حقیقت و روح کو سمجھنا اور طلبہ کو تفہیم کراناضروری نہیں* سمجھا‬

‫جاتا۔اسالمیات* کے مضمون کی تدریس کے لئے ماہر اسالمیات یا اس شعبہ کے متخصص اساتذہ‬

‫کا اہتما* م اور تالش کرنا ناپید عنقا ہے بلکہ دیگر مضامین کے اساتذہ حصول برکت یا وقت‬

‫گذاری کے لئے اس کی تدریس کا فریضہ انجام دیتے ہیں* ۔سرکاری و غیرسرکاری تعلیمی‬
‫‪10‬‬
‫اداروں میں بچوں کو نصاب میں شامل کتاب* ہی صرف یادکروائی جاتی ہے تاکہ وہ امتحان میں‬

‫پاس ہوسکے مگر اس امرسے اعراض کیا جاتاہے کہ یہ ایک ایسامضمون ہے جس کا پڑھنا اور‬

‫پڑھانادونوں عبادت* ہے ۔مگر چونکہ مادیت اور تجارت کے عنصر نے ہمیں* اندھاوبہرہ کردیا‬

‫ہے کہ ہم اپنی عاقبت کی فکر سے غافل ہوگئے ۔اس کا نتیجہ* یہ نکل رہاہے کہ یہی تعلیم یافتہ‬

‫نوجوان جس کی اسالمی و اخالقی تعلیم و تربیت* میں تغافل سے کام لیا تھا جہاں پر وہ اسالم و‬

‫دین کی تفہیم* و تعلیم سے جاہل ہوتاہے وہیں پر وہ معاشرہ میں فتنہ و فساد کے فروغ دینے کا‬

‫موجب بھی بنتاہے۔وہ نہ تو والدین کا ادب کرتاہے ‪،‬نہ ہی چھوٹوں پر شفقت‪،‬نہ ہی انسانیت کا درد‬

‫ہوتاہے اس کے سینے میں ‪،‬اس کے ساتھ وہ ایک بے حس و بے حیا اور خود غرض انسان بن‬

‫جاتاہے ۔جس کا ظاہری ثمرکرپشن ‪،‬چورپازاری اور لوٹ مار‪،‬رشوت کی صورت میں ملتا ہے۔‬

‫تعلیمی اداروں میں اسالمیات کو بنیادی و اساسی حق دیا ہی نہیں* جاتااس کی تدریس کے لیے‬

‫مفت خدمات پیش کرنے والے حضرات کی جستجو کی جاتی ہے جب ایسا ہوگا تو ظاہر سی بات‬

‫ہے کہ وہ استاذ اس سبق اور مادہ پر اس حیثیت سے محنت نہیں کرے گا کیوں کہ اس کو اپنی‬

‫ذاتی زندگی کے گذربسر کے لیے جیب خرچ کی تو ضرورت ہوتی ہی ہے جو اسے کسی‬

‫دوسرے مقام پر کام کرکے حاصل کرنا پڑتی ہے۔یا پھر سکول و کالج میں موجود یگرمضامین‬

‫کے اساتذة سے خدمات مسعار لی جاتی ہیں اور اس صورت میں بھی اساتذہ طلبہ کے مستقبل‬

‫کے ساتھ کھلوار کررہے ہوتے ہیں۔یہ* ہمارے معاشرے کی بدقسمتی ہے کہ سکول وکالج میں‬

‫اساتذہ یا تدریس کے فرائض کماحقہ ادانہیں* کرتے کہ ان کی حرس و ہوس ہوتی ہے کہ بچہ ان‬

‫الگ فیس اداکرکے اکیڈمی میں ان سے استفادہ کرے ۔اسی طرح سکول وکالج کی انتظامیہ* بھی‬
‫طلبہ سے بھاری بھر فیسیں وصول کرلیتے ہیں مگر ان کی تعلیم و تدریس اور خصوصا ً‬

‫اسالمیات ‪،‬اردو‪،‬مطالعہ پاکستان جیسے مضامین کی معیاری تدریس کا انتظام نہیں کرتے اگر میں‬

‫یوں کہوں کہ وہ ادارے طلبہ کے مستقبل کو تاریک بنانے میں اہم کردار اداکررہے ہوتے ہیں۔‬

‫‪11‬‬
‫اس سلسلہ میں موالنا ابوالحسن علی ندوی تعلیمی* اداروں کی تعریف کرتے ہوئے کہاہے کہ ”عہد‬

‫حاضر کے ماہرین تعلیم نے اتفاق کیا ہے کہ”تعلیم* کوئی ایسا تجارتی سامان نہیں* ہے جو درآمد یا‬

‫برآمد کیا جاسکے ‪،‬مثالًمصنوعات* ‪،‬کچامال یا وہ ایجادات و ضروریات* جو کسی ملک اور عالقہ‬

‫کے ساتھ مخصوص نہیں ‪،‬وہ ایسالباس ہے جو ان اقوام کے قدوقامت و جسامت کی ٹھیک ناپ‬

‫کے مطابق تراشااور سیاجاتاہے* اور پسندیدہ و محبوب علم و فن اور ان مقاصد کو سامنے رکھ‬

‫کرتیارکیا* جاتاہے جن کے لئے وہ ہر طرح کی قربانی دے سکتی ہیں‪،‬تعلیم صرف اس عقیدہ کو‬

‫مضبوط کرنے کا ایک مہذب و شائستہ* طریقہ ہے جس کا حامل یہ ملک یا قوم ہے ‪،‬اس کا مقصد‬

‫فکری طورپر اس کو غذا دینا‪،‬اس پر اعتماد کرنا اور اگر ضرورت ہو تو علمی دالئل سے اس کو‬

‫مسلح کرنا ہے‪،‬وہ اس عقیدہ کے دوام و بقاکا وسیلہ اور بے کم وکاست آنے والی نسلوں تک منتقل*‬

‫کرنے کا ایک طریقہ ہیت‪،‬نظام تعلیم کی بہترین تعریف یہ ہے کہ والدین اور مربیوں اور‬

‫نگرانوں کی اس سعی پیہم کا نام ہے جو وہ اپنی اوالد کو اپنے دین و ملسک پر قائم رکھنے کے‬

‫لئے کرتے رہتے ہیں ۔اور ان بچوں کی اسطرح تربیت* کرنا کہ وہ ان کے ورثہ کے جسے‬

‫انہوںنے اپنے اباو اجدادسے حاصل کیا تھا کے صالح و اہل وارث و امین ثابت ہوں‪،‬اور ان کے‬

‫اندر اس ثروت میں اضافہ اور توسیع اور اس کو ترقی دینے کی پوری صالحیت ہو‬

‫‪12‬‬
‫سوال نمبر ‪۴‬‬
‫تدریس اسالمیات میں مباحسی طریقہ کیوں ظروری ہے‬
‫تخلیق انسانیت کے فورا بعد ہی ہللا جل وعالہ نے انسانیت کی رہنمائی و رہبری کا‬
‫اہتمام کردیا ۔چونکہ انسان کو دنیا میں اختی*ار دی*ا گی*اکہ وہ خ*یر و ش*ر‬
‫میں سے جسے چاہے اپ**نی خوش**ی و رغبت س**ے اختی**ار ک**رلے۔مگ**ر‬
‫انس**ان کی فط**رت میں س**ہوو غلطی کھ**انے اور ظ**اہری رن**گ رلی**وں‬
‫سے متاثر ہوجانے کا مادہ موجود تھا اور ہے اس کے سبب یقی**نی ام**ر‬
‫تھا کہ انسان برائی و بدی اور شر جو بظاہر فائدہ مند معلوم ہوتاہے کی‬
‫ج**انب مت**وجہ ہ**وکر اس ک**و اپن**ا لے۔* اس**ی ام**ر کے پیش نظ**ر ہللا رب‬
‫العزت نے انسانو ں کی رہنمائی و رہبری کی خاطر انبیاء ک**رام کواپن**ا‬
‫پیغام دیکر کائنات میں بھیج**ا ت**اکہ وہ انس**انوں ک**و ص**حیح و غل**ط میں‬
‫موجود فرق کے بارے میں آگاہ کریں ت**اکہ حجت ت**ام ہوج**ائے کہ اگ**ر‬
‫انسان برے راستے کو چاہتے ہوئے اختیار کرت**اہے ت**و اس کے ن**تیجہ‬
‫میں سزاکا مستحق قرار پائے اور اگر درست اور نیک کاموں پر عم**ل‬
‫‪13‬‬
‫کرلے اور خیر کے راستے پر چل پڑے تو اس ک**و انع**ام و اک**رام کے‬
‫ساتھ جنت میں ہمیشہ کے لئے داخل ہونے کااعزاز دیاجائے۔انبیاء کرام‬
‫کی دعوت و رسالت کا لب لباب یہی ہی تھ**ا کہ وہ لوگ**وں ک**و ت**ذکیر و‬
‫یاددہ**انی ک**رواتے تھے کہ ع**الم ارواح میں رب کے س**اتھ کی**ا ج**انے‬
‫والے عہد کسی صورت ٹوٹنے نہ پائے۔‬
‫انبیاء کی بعثت کا سلسلہ نبی مک**رم ۖپ*ر مکم**ل ہ**وا۔آپ کے بع**د چ**ونکہ‬
‫کسی نبی نے نہیں آنا اس لئے آپ ۖپ**ر اس**الم کی دع**وت ک**و ختم کردی**ا‬
‫اب آپ ۖکے بع**د آپ کی امت کے کن**دھوں پ**ر یہ بش**یر و ن**ذیر کی ذمہ‬
‫داری آن پ**ڑی کہ وہ اس ک**و ت**اروز محش**رانجام دیں۔بش**یر و ن**ذیر کے‬
‫فریضہ و منصب کو نبھانے کے لئے ض**روری و الزم تھ**ا اور ہے کہ‬
‫داعی کے پاس دین کا کافی و شافی ذخیرہ معلوم**ات ہون**ا چ**اہیے ۔جس‬
‫کے لئے الزمی ہے کہ ملت اسالمیہ کے داعی علم کی شمع سے قلوب‬
‫و اذہ**ان ک**و معط**ر ک**ریں۔دین* اس**الم نے ابت**داہی س**ے علم کی اہمیت و‬
‫افادیت ک**و نہ ص**رف تس**لیم کی**ا بلکہ اس کے ماخ**ذ و مص**ادر اور اس‬
‫کے دائرہ کار کا بھی پہلی وحی میں تعین کردیا گی**ا۔جس ک**ا بامح**اورہ‬
‫ترجمہ و مفہوم کچھ یوں ہے”تو پڑھ اپ**نے رب کے ن**ام س**ے جس نے‬
‫پیداکیا‪،‬پیداکیا انسان کو لوتھڑے سے ‪،‬تو پ**ڑھ ع**زت و ک**رم والے* رب‬
‫کے نام س**ے‪،‬وہ جس نے تعلیم دی قلم کے ذریعہ س**ے ‪،‬س**کھایا انس**ان‬
‫ک**و وہ علم جس**ے وہ پہلے نہیں جانتاتھ**ا”س**ورہ عل**ق کی یہ پہلی پ**انچ‬
‫آیات ہی قرآن کا پہال و اساسی پیغام و دعوت ہے۔موالن**ا ابولحس**ن علی‬
‫ن**دوی فرم**اتے ہیں کہ ان آی**ات میں یہ واض**ح کردی**ا گی**ا کہ علم اور‬
‫مسلمان کاچولی دامن کا ساتھ ہے کہ وہ اسکے بغیرسماج میں پنپ نہیں‬
‫سکتا‪،‬علم سکھے بغیروہ ترقی وکامرانی کی منازل طے نہیں کرس**کتا۔‬
‫اور ساتھ ہی انسان کو اس کی حیثیت سے بھی مطلع کردی**ا گی**ا ہے کہ‬
‫‪14‬‬
‫وہ جتنا بھی بڑا بن جائے اس کو یاد رکھنا چاہیے کہ اس کی اصلیت و‬
‫ابتدا ایک لوتھڑے سے ہی ہوئی ہے۔‬

‫دنیاوی مناصب و عہدوں کے آجانے کے بعد انسان اپنے س**ے کم**زور‬


‫و ن**اتوں لوگ**وں* پ**ر سرکش**ی کرت**اہے اور م**ارے غ**رور کے ان پ**ر‬
‫اتراتے ہوئے انسانوں کی تحقیر کا عمل کرتاہے اس س**ے اجتن**اب کے‬
‫ل**ئے ب**اور کرادی**ا گی**اکہ ہللا کی ذات و االص**فات ہی س**ب س**ے زی**ادہ‬
‫مع**ززو مک**رم ہے لہ**ذا* انس**ان ک**و مغ**رور و مقہ**ور بن**نے کی چن**داں‬
‫ضرورت نہیں ہے۔موالنا فرماتے ہیں کہ علم کے حص**ول کے مختل**ف‬
‫ذرائع ہوسکتے ہیں انسانوں سے مالقات و گفت و ش**نید کے ن**تیجہ میں‬
‫بھی علم حاصل ہوتاہے ۔مگر یہاں پرق**رآن نے واض *ح* بی**ان کردی**ا ہے‬
‫کہ علم حقیقی وہی ہے جس کی تعلیم دی جارہی ہے وہ بذریعہ قلم یعنی‬
‫لکھی ہوئی صورت میں حاصل ہو۔بدقسمتی سے آج ک**ا انس**ان دنی**ا میں‬
‫سائنسی ترقی و عروج کی وجہ سے ناتواں لوگ**وں پ**ر ظلم و ج**ور ک**ا‬
‫ب******ازارگرم ک******رتے ہیں کی******وں کہ وہ یہ س******مجھتے ہیں جدی******د‬
‫ٹیکنالوجی ‪،‬سائنس اور علوم کائنات کو مسخر کرچکے ہیں ت**و اس پ**ر‬
‫اظہار تفاخر کرنا ان کا حق ہے اس**ی ل**ئے ہللا نے واض**ح کردی**ا کہ ان‬
‫لوگوں کے پاس وہی علم ہے جو ہم نے سکھالیا اسے مگر وہ اس سے‬
‫پہلے کچھ بھی نہ جانتا تھا۔‬

‫پہلی وحی کی روشنی میں یہ بات کھل کرس**امنے آج**اتی ہے کہ اس**الم‬


‫نے آغازاور اپنے پہلے ہی روز س**ے علم کی دع**وت دت**رغیب دی۔اس*‬
‫طرح قرآن حکیم کی بے ش**مار آی**ات اور اح**ادیث کے ذخ**یرہ میں بھی‬
‫علم کے حص**ول کے ف**رض و الزم ہ**ونے اور اس کے حص**ول میں‬
‫‪15‬‬
‫مشغول و مصروف لوگوں کی منقبت بیان ہوئی ہے ۔مث**ال کے ط**ورپر‬
‫فرمایا گیا ح**دیث میں کہ”علم حاص**ل ک**رو م**اں کی گ**ود س**ے ق**بر کی‬
‫پاتال تک”اور”علم حاصل کرنا ہر مردوعورت پر الزم ق**رار دی**ا گی**ا”‬
‫عالم کو عابد پر وہ فضیلت دی گئی جو نبی کو عام انس**انوں کے مقاب**ل‬
‫میں حاص**ل ہے۔اس ط**رح کے متع**دد اق**وال و ف**رامین موج**ود ہیں جن‬
‫سے علم کی اہمیت اور اس کی افادیت اور اسالم میں اس کے اہتمام ک**ا‬
‫پیغام ملتاہے۔صحابہ کرام ک**و ن**بی ک**ریم کی اط**اعت کرن**ا اور آپۖ کے‬
‫ہرحکم پر جانثار ک*رنے ک**ا پیغ**ام دی**ا گی**ا ۔غ**زوہ تب**وک کے موق**ع پ*ر‬
‫حضرت کعب ابن مالکاور ان کے دوساتھیوں نے جمعہ کی نم**از ش**ہر‬
‫میں اداکرنے کی نیت سے سفر جہاد میں ن**بی ک**ریم ۖکی مش**ارکت نہیں‬
‫کی تو ہللا نے مسلمانوں کوان سے مق**اطعہ ک**رنے ک**ا حکم ن**ازل فرم**ا‬
‫دیا۔‬

‫اسی اہتمام کی وجہ س**ے ص**حابہ ک**رام ب**اوجود تج**ارت و زراعت اور‬
‫دنیاوی کاموں میں مشغول رہنے کے ایک لمحہ کے لئے دین کی تعلیم‬
‫سے دور نہیں ہوئے جیساکہ حضرت انس بن مال**ک کی روای**ات س**ے‬
‫معلوم ہوت**اہے کہ ص**حابہ ک**رام تعلیم و تعلم ک**ا کس ق**در اہتم**ام ک**رتے‬
‫تھے۔وہ فرم**اتے ہیںکہ”کی**ا میں تمہیں تمہ**ارے ان بھ**ائیوں کے متعل**ق‬
‫خبر نہ دوں جن کو ہم رسول ہللا کے زمانے میں ”قرائ”کے ن**ام س**ے‬
‫پکارتے تھے ‪،‬وہ تعداد میں ستتر تھے ‪،‬رات کو مدینہ میں اپ**نے اس**تاد‬
‫کے پاس جاتے اور صبح تک پڑھتے رہتے ‪،‬صبح کو ان میں سے جو‬
‫ط**اقتور ہ**وتے وہ میٹھ**ا پ**انی بھ**ر ک**ر التے اور م**زدوری ک**رتے ‪،‬ی**ا‬
‫لکڑی کاٹ کر التے اور فروخت کرتے ‪،‬جن کو گنجائش ہوتی وہ جمع‬

‫‪16‬‬
‫ہوکر بکری خرید لیتے‪،‬اس کو بنالیتے اور وہ رسول ہللا ۖ کے حج**روں‬
‫کے پاس لٹکی رہتی”۔اس**ی ط**رح ک**ا واقعہ حض**رت عم**ر اور ان کے‬
‫پڑوسی کا بھی ہے کہ وہ ایک روز کام ک*رتے اور دوس*رے روز حلقہ‬
‫تعلیم میں شامل ہوجاتے‪،‬اور جو کچھ نبی کریم ۖکے اسنان مبارک س**ے‬
‫سناہوتااپنے ساتھی کو بھی سکھا دیتے تھے۔‬

‫اس**المی تعلیم کی اہمیت و اف**ادیت ک**و بی**ان ک**رنے کے بع**د ض**روری‬


‫معل****وم ہوت****اہے کہ ہم مل****ک پاکس****تان کے موج****ودہ تعلیمی نظ****ام‬
‫کامختصراجائزہ لیں۔تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ملک پاکستان برصغیر ک**ا‬
‫وہ عظیم خطہ ارضی ہے جس ک**و انگری**ز کی غاص**بیت اور ہن**دوئوں‬
‫کے اثر و رسوخ سے نجات حاصل کرتے ہوئے آزادی حاص**ل کیاگی**ا۔‬
‫اس امر کے متحقق ہونے کے لئے یہ صدابلند* کی گئی کہ ہم مسلمانوں‬
‫کے ل**ئے آزادخطہ چ**اہتے ہیں اور اس ک**ا م**اٹو و نع**رہ یہی ہوگ**ا کہ‬
‫الالہ االہللا”۔مگر باعث افسوس امر یہ ہے کہ مل*ک‬ ‫”پاکستان مطلب کیا ٰ‬
‫پ**اک میں ابت**داہی س**ے نوجوان**وں کی تعلیم و ت**ربیت ک**و منظم و بہ**تر‬
‫بنانے کے لئے کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایاگیا بعض اوق**ات ش**عبہ تعلیم‬
‫وتربیت میں ترمیم و بہتری کے فیصلے ہوئے مگر عمال ان ک*ا نف*اذ نہ‬
‫ہوس**کا۔جس ک**ا ب**دیہی نتجہ یہ ظ**اہر ہورہ**اہے کہ مل**ک پاکس**تان ک**ا‬
‫نوج**وان اس**المی تعلیم**ات اور ارض مق**دس کی محبت و م**ودت س**ے‬
‫پہلوتہی کرچکا ہے‬

‫سوال نمبر ‪۵‬‬


‫‪17‬‬
‫تدریس اس*المیات کے جدی*د طریق*وں میں س*ے ک*ون س*ا ط*ریقہ‬
‫بہترین ہے اور کیوں؟‬
‫تدریس کے اہم اصولوں میں سے ہے جو بسا اوقات موضوع کو بطریق احسن س**مجھنے‬
‫میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کے ترقی یافتہ ممال**ک اور ان میں‬
‫جدید طریقہ ت**دریس جو متع**دد* اص**ولوں مثالً ‪Demonstration, Symbol, Teaching Aid, Lesson‬‬
‫‪ ,plan, Psychology, Questionnaire‬اور ‪ Philosophy‬وغیرہ پر منحصر ہے وہ‬
‫نبی اک**رم ص**لی ہللا علیہ وس**لم کے ط**رز ت**دریس کے بالک**ل مش*ابہ ہے کی**ونکہ یہ تم**ام‬
‫خوبی**اں آپ کی ذات اق**دس میں ب**درجہ اتم موج**ود تھیں۔ چن**انچہ ‪ Demonstration‬ک**و‬
‫تدریس میں خاص اہمیت حاصل ہے اس لیے کہ یہ ‪ Practice‬یعنی عم**ل ک**ا ذخ**یرہ پیش‬
‫کرتا ہے تاکہ بتائی جانے والی بات بآسانی ذہن نشین ہو سکے۔ لہذا حیات محمد ص**لی ہللا‬
‫علیہ وسلم کا مطالعہ یہ دریچے وا کرتا ہے کہ آپ نے اپنی پوری زندگی ک**و عم**ل س**ے‬
‫عب**ارت ک**رکے ‪ Demonstration‬ک**ا وہ بہ**ترین نم**ونہ پیش کی**ا کہ ق**رآن بھی اس کی‬
‫گواہی دیئے بنا نہ رہ سکا۔ ارشاد ربانی ہے” لقد کان لکم فی رسول ہللا أس**وۃ حس**نۃ اس**ی‬
‫زکوۃ اور حج نیز زندگی کے تم**ام‬ ‫طرح نبی اکرم صلی ہّٰللا علیہ وسلم نے نماز ‪ ،‬روزہ ‪ٰ ،‬‬
‫مسائل کو بیان کرنے سے پہلے خود اس پ**ر عم**ل ک**رکے اس کی عملی تفس**یر پیش کی‬
‫تاکہ امت مسلمہ اسے بآسانی ذہن نشین کرسکے اور اپنے مسائل کو بطریق احسن انج**ام‬
‫دینے کے قابل ہو سکے۔ آپ کے عم**ل کی تص**دیق اس ح**دیث ش**ریف س**ے ہ**وتی ہے ”‬
‫صلوا کما رأیتمونی اصلی ” ۔ (نماز اس طرح سے پڑھو جیس*ا تم مجھے پڑھتے ہ*وئے‬
‫دیکھ رہے ہو)‪.‬‬
‫یہ حدیث پاک یہ واضح کرتی ہے کہ آپ نے نماز اور دیگر فرائض و احکام کا وہ عم**دہ‬
‫‪ demo‬پیش کیا کہ آج تک عام انسان پیش کرنے سے قاصر ہے اس لئے کہ آج کا انسان‬
‫دوہری پالیسی کا شکار ہے مگر آپ کی ذات قول و فعل میں تضاد سے پاک تھی۔ آپ ک**ا‬
‫قول آپ کا فعل اور فعل آپ کا قول تھا چنانچہ آپ نے نماز کا حکم دینے سے پہلے خ**ود‬
‫نماز پڑھ کر دکھائی۔ روزہ کی فرضیت بتانے سے قبل بھوک و پیاس کی شدت برداش**ت‬
‫کی ‪ ،‬حج کا حکم دینے س*ے پہلے س*فر و حج کی ص*عوبتیں جھیلیں اور جہ*اد ک*ا ج*وش‬
‫دالنے سے پہلے خود می**دان جہ**اد میں ات**رے۔ عالوہ ازیں زن**دگی کے تم**ام مس**ائل مثالً‬
‫نکاح و طالق ‪ ،‬بیع و شراء‪ ،‬اور قیام و طعام غرضیکہ* پوری حی**ات مس**تعار ج**و تعلیم و‬
‫تعلم سے پر ہے ‪ ،‬اپنی عملی زندگی کو اعلی ‪ demo‬کے طور پ**ر پیش ک**رکے انس**انیت‬
‫کو تعلیم و تدریس کے سربستہ رازوں سے بہرہ ور کیا۔‬
‫اس**ی ط**رح س**ے ‪ symbol‬ک**و آج جدی**د ط**ریقہ ت**دریس میں مرک**زی اہمیت حاص**ل ہے‬
‫جسے معلم بطور مثال طالب علم کے سامنے پیش کرت**ا ہے ت**اکہ تم**ام ب**اتیں بآس**انی ذہن‬
‫نشین ہو سکیں۔ اس طریقے کو مزید مؤثر بنانے کے لیے معلم کچھ تص**وراتی* نقش**ے ی**ا‬
‫رموز کا استعمال کرتا ہے تاکہ ذیلی نکات کی وضاحت ہو س**کے۔ ن**بی رحمت ص**لی ہللا‬
‫علیہ وسلم نے اس کی اعلی مثال پیش کرکے امت کو عظیم خزانے سے ماالمال کیا۔ اس‬
‫ضمن میں عبد ہللا بن مسعود رضی ہّٰللا عنہ سے مروی ایک حدیث مشہور ہے‪:‬‬

‫‪18‬‬
‫’’حضور اكرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ای*ک لک*یر کھینچی اور فرمای*ا‪ :‬یہ ہللا ک**ا‪  ‬راس*تہ‬
‫ہے پھر ٓاپ صلی ہللا علیہ وسلم نے اس کے دائیں اور بائیں ج**انب لک**یریں کھینچیں پھ**ر‬
‫فرمای*ا‪  :‬یہ راہیں ہیں ان میں س*ے ہ**ر راہ پ**ر ش**یطان بالرہ**ا ہے پھ**ر ٓاپ ص**لی ہللا علیہ‬
‫وس**لم نے ق**رٓان کی ای**ک ٓایت تالوت فرم**ائی و” أن ه**ذا ص**راطى مس**تقيما ً ف**اتبعوه ‪ .‬وال‬
‫تتبعوا السبل فتف**رق بكم عن س**بيله "(االنع**ام‪ )153 :‬جس ک**ا ت**رجمہ یہ ہے ‘‘اور یقین**ا یہ‬
‫میری راہ ہے جو سیدھی ہے تم اس پر چلو اور دوسروں کی راہوں پر مت چلو وہ تمہیں‬
‫سیدھی راہ سے بھٹکا دینگے ‘‘‪g‬۔‬
‫اس حديث ميں نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ ک**رام ک**و ب*اخبر کی**ا کہ راہ ح**ق‬
‫ایک ہے اور وہ صراط مستقیم ہے۔ ضاللت وگمراہی کے بے ش**مار راس**تے ہیں اور وہ‬
‫شیطانی راہیں ہیں ۔ اس بات کو س**مجھانے کے ل**ئے ن**بی ک**ریم ص**لی ہللا علیہ وس**لم نے‬
‫لکیروں کا استعمال کیا۔‬
‫ام***ام طی***بی اس ح***دیث کی ش***رح میں رقمط***راز ہیں‪ٓ  :‬اپ ص***لی ہللا علیہ وس***لم نے‬
‫سمجھانےاور ذہن نشیں کروانے کے لئے لکیریں کھینچیں کیونکہ مخفی معانی ک**و بی**ان‬
‫کرنے اور پوشیدہ رموز کی توضیح کی غرض سے تص**ویر وتمثی**ل اس**تعمال کی ج**اتی‬
‫ہے تاکہ وہ مرئی اور محسوس چیزوں کی طرح ٓاشکار ہوجائیں اور ب**ات س**مجھنے میں‬
‫انسانی عقل کی مدد کریں ۔‬

‫‪19‬‬

You might also like