Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 20

‫‪1‬‬

‫صفحہ نمبر‬ ‫س یریل عنواں‪/‬موضوع‬


‫نمبر‬

‫‪1-10‬‬ ‫شکوه‬ ‫‪1‬‬

‫‪1-2‬‬ ‫تعارف اور پس منظر‬ ‫‪‬‬ ‫‪2‬‬

‫‪2-4‬‬ ‫فنی تجزیہ‬ ‫‪‬‬ ‫‪3‬‬

‫‪5-8‬‬ ‫فکری جائزہ‬ ‫‪‬‬ ‫‪4‬‬

‫‪8-10‬‬ ‫خصوصیت کالم‬ ‫‪‬‬ ‫‪5‬‬

‫‪11-21‬‬ ‫جواب شکوہ‬ ‫‪6‬‬

‫‪11-12‬‬ ‫تعارف اور پس منظر‬ ‫‪‬‬ ‫‪7‬‬

‫‪12-16‬‬ ‫فکری جائزہ‬ ‫‪‬‬ ‫‪8‬‬

‫‪16‬‬ ‫فنی تجزیہ‬ ‫‪‬‬ ‫‪9‬‬

‫‪17-20‬‬ ‫خصوصیت کالم‬ ‫‪‬‬ ‫‪10‬‬

‫‪20-21‬‬ ‫حاصل کالم‬ ‫‪11‬‬

‫‪22‬‬ ‫حوالہ جات‬ ‫‪12‬‬

‫شکوه‬
‫‪2‬‬

‫تعارف اور پس منظر‪:‬‬


‫شکوہ انجمن حمایت اسالم الہور کے چھبیسو یں ساالنہ جلسے میں پڑھی گئی جوا پر یل ‪۱۹۱۱‬ء میں "ریواز ہوسٹل‬
‫" ‪ ،‬اسالمیہ کالج ریلوے روڈ الہور میں منعقد ہوا تھا ۔اس اجالس کی صدارت فقیر سید افتخارالدین نے کی تھی ۔‬
‫ایک شاعر کی حیثیت سے عالمہ اقبال کی شہرت ومقبولیت میں انجمن کے جلسوں کو بڑا دخ‪BB‬ل ہے ۔ ان جلس‪BB‬وں میں‬
‫نظمیں پڑھنے کی ابتدا انھوں نے ‪ ١۹۰۰‬میں کی نالہ یتیم‬
‫‪١۹۰١‬ء میں یتیم کا خطاب ہالل عید سے ‪۱۹۰۲۰‬ء میں اسالمیہ ک‪BB‬الج ک‪BB‬ا خط‪BB‬اب پنج‪BB‬اب س‪BB‬ے ‪۱۹۰۳‬ء میں اب‪BB‬ر گ‪BB‬وہر‬
‫فریاد امت اور ‪۱۹۰۴‬ء میں تص‪B‬ویر درود پ‪B‬ڑھی گ‪B‬ئی ۔ ‪۱۹۰۵‬ء میں اقب‪B‬ال ک‪B‬وئی نظم نہ پ‪B‬ڑ ھ س‪B‬کے اور اعلی تعلیم‬
‫کے لیے یورپ چلے گئے ۔‬
‫‪۱۹۰۸‬ء میں یورپ سے واپسی کے بعد اقبال نے انجمن کے ساالنہ جلس‪BB‬ے میں ش‪BB‬کوہ پ‪BB‬ڑھی۔اس جلس‪BB‬ے میں عالمہ‬
‫کے والد محترم شیخ نورمحمد بھی موج‪BB‬ود تھے ۔انجمن کے جلس‪BB‬وں کے ل‪BB‬یے اقب‪BB‬ال ج‪B‬و نظم لکھ‪BB‬تے ‪ ،‬ب‪BB‬العموم اس‪BB‬ے‬
‫پہلے سے چھپوا لیا جا تا ۔ نظموں کی یہ مطبوعہ کاپیاں جلسوں میں ف‪BB‬روخت کی ج‪B‬اتیں اور اس کی آم‪BB‬دنی انجمن ک‪B‬و‬
‫چندے کے طور پر دے دی جاتی مگر شکوہ پڑھنے سے پیشتر طبع نہیں ک‪BB‬رائی گ‪BB‬ئی تھی ۔ جلس‪BB‬ے میں نظم پڑھ‪BB‬نے‬
‫سے پہلے اقبال نے ایک قطعہ سنایا اور اس کے بعد شکوہ خالف معمول تحت اللف‪BB‬ظ پڑھن‪BB‬ا ش‪BB‬روع کی ۔ س‪BB‬امعین نے‬
‫ترنم سے سنانے پر اصرار کیا کیونکہ اس سے پہلے وہ اپنی نظمیں ترنم ہی سے پڑھا کرتے تھے ۔ اقبال نے ج‪BB‬واب‬
‫دیا ‪ '':‬یہ اسی طرح سنائی جائے گی کیونکہ میں بہتر جانتا ہوں کہ نظم پڑھنے کا کون سا طریقہ موزوں ہے ۔ چن‪BB‬انچہ‬
‫تحت اللفظ پڑھی گئی مگر بقول غالم رسول مہر ‪ :‬ان‪B‬داز اس درجہ دل آوی‪B‬ز تھ‪B‬ا کہ جن خ‪B‬وش نص‪B‬یبوں نے س‪B‬نی ‪ ،‬وہ‬
‫زندگی کے آخری لمحوں تک اسے نہ بھولیں گے ۔ اس نظم کی جو کا پی اقبال اپنے قلم سے لکھ ک‪BB‬ر الئے تھے ‪ ،‬اس‬
‫کے لیے متعد د اصحاب نے مختلف رقوم پیش کیں ۔ نواب ذوالفقار علی خاں نے ایک سو روپے کی پیش کش کی اور‬
‫رقم ادا کر کے اصل نظم انجمن کو دے دی۔‬
‫عالمہ اقبال جب نظم پڑھ چکے تو ان کے ایک بڑے مداح اور قدرشناس خواجہ صمد آگے ب‪B‬ڑھے اور ج‪B‬وش مس‪B‬رت‬
‫میں اپنا قیمتی دوشاال ان کے شانوں پر ڈال دی‪BB‬ا ۔ اقب‪BB‬ال نے یہ دوش‪BB‬اال اس‪BB‬ی وقت انجمن کے منتظمین‪ B‬ک‪BB‬و دے دی‪BB‬ا ۔ اس‬
‫کے بعد‪ B‬یہ یادگار اور متبرک دوشاال اس مجمع عام میں نیالم کیا گیا اور سب س‪BB‬ے ب‪BB‬ڑی ب‪BB‬ولی ختم ہ‪BB‬ونے پ‪BB‬ر ج‪BB‬و رقم‬
‫وصول ہوئی( ‪ ،‬وہ انجمن حمایت اسالم کی تحویل میں دے دی گئی ۔ (روزگار فقیر اول ‪ :‬ص‪۱۲۳‬‬
‫اقبال نے انجمن کے جلسے میں شکوہ جس شکل میں پڑھی تھی ‪ ،‬بانگ درا میں شامل کر تے وقت اس میں کئی‬
‫مقامات پر تبدیلی کی گئی‬
‫مثالً ‪:‬‬
‫الف ؛ تیرھویں بند کے چوتھے مصرعےکی ابتدائی صورت یہ تھی‬
‫تیرے قرآن کو سینے سے لگایا ہم نے‬
‫سترھویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا‪.‬‬ ‫ب؛‬
‫طعن اغیار ہے رسوائی و ناداری کے‬
‫‪.‬‬ ‫ج؛ پچیسویں بند کا پانچواں مصرع ابتدائی شکل میں اس طرح تھا‬
‫پھر پتنگوں کو مزاق تپش اندوزی دے‬
‫بانگ درا کی اشاعت سے پہلے یہ نظم مختلف رسالوں مثالً پنجاب ریویو مخزن تم‪BB‬دن اور ادیب میں ش‪BB‬ائع ہ‪BB‬وئی تھی‬
‫متعدد‪ B‬زب‪B‬انوں جس میں انگری‪BB‬زی ع‪BB‬ربی پنج‪BB‬ابی زب‪B‬انوں میں اس کے بہت س‪BB‬ے ت‪BB‬راجم بھی ش‪B‬ائع ہ‪BB‬و چکے ہیں ای‪BB‬ک‬
‫آرٹسٹ ضرار احمد کاظمی نے نظم کو مصور کر کے عالقہ کی خدمت میں پیش کیا جس‪BB‬ے انھ‪BB‬وں نے بہت پس‪BB‬ند کی‪BB‬ا‬
‫اور مصور کے نام ایک مکتوب میں اس کی تعریف کی ۔ شکوہ کی ت‪B‬الیف ( اوائ‪B‬ل ‪۱۹۱۱‬ء) کے زم‪B‬انے میں س‪B‬لطنت‬
‫عثمانیہ کے بہت سے عالقے براہ راست برطانوی ‪.‬تس‪BB‬لط میں تھے ۔ ای‪B‬ران پ‪BB‬ر عمال روی ‪ ،‬برط‪B‬انوی اور کس‪B‬ی ح‪BB‬د‬
‫تک جرم اثرات کی حکم‪BB‬رانی تھی ۔ ادھ‪BB‬ر ع‪BB‬رب نیش‪BB‬نلزم کے اث‪BB‬رات ت‪BB‬یزی س‪BB‬ے پھی‪BB‬ل رہے تھے ۔ الرنس آف عربی‪BB‬ا‬
‫‪3‬‬

‫جیسے لوگ بڑی سرگرمی سے اس کے لیے کام کر رہے تھے اور عرب ‪ ،‬ترکوں کے خالف آمادہ بغ‪BB‬اوت تھے ۔ ن‪BB‬و‬
‫جوان ترکوں کی تحریک کے زیر اثر ترکی میں الدینیت اور تورانی قوم پرستی فروغ پ‪B‬ار ہی تھی ۔ ان‪B‬درونی خلفش‪B‬ار‬
‫کے عالوہ بیرونی طاقتیں عثمانی سلطنت کے لیے نت نئے مسائل کھڑے ک‪BB‬ر رہی تھیں ۔ ص‪BB‬ہیونی ‪ ،‬س‪BB‬لطنت عثم‪BB‬انیہ‬
‫کی بر بادی اور خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے ۔ ہندی مسلمان یا تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے ی‪BB‬ا‬
‫ان میں ( اال ماشاء ہللا )قسم کے رہنما پاۓ جاتے تھے جو مغرب سے بے حد مرعوب تھے اور سرسید تحری‪BB‬ک کے‬
‫زیراثر وہ اسالم کے بارے میں معذرت خواہانہ انداز فکر رکھتے تھے ۔ ملک پر انگریزوں کی سیاسی گرفت خاص‪BB‬ی‬
‫مضبوط تھی ۔ ہندوؤں کے دباؤ کی وجہ سے ‪1911‬ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ سے مسلمانوں کو بے حد ص‪BB‬دمہ ہ‪BB‬وا‬
‫اور ان کے اندر مایوی کچھ اور بڑھ گئی‬

‫فنی تجزیہ ‪:‬‬


‫’ شکو‘ مسدس ترکیب بند ہیئت کے ‪ ۳۱‬بندوں پر مشتمل ہے ۔ بحر ک‪B‬ا ن‪B‬ام بح‪B‬ر رم‪B‬ل مثمن مخب‪B‬ون مقط‪B‬وع ہے ۔ بح‪B‬ر‬
‫کے ارکان یہ ہیں‪ :‬فاعالتن فعالتن فعالتن فعلن اقبال کی طویل نظم‪B‬وں میں’ ش‪B‬کوہ‘ ای‪B‬ک منف‪BB‬ر د مق‪B‬ام رکھ‪BB‬تی ہے ۔ یہ‬
‫پہلی طویل نظم ہے جس میں اقبال نے مسلمانوں کے دور عظمت و شوکت اور ان کی موج‪BB‬ودہ زب‪BB‬وں ح‪BB‬الی ک‪BB‬و ای‪BB‬ک‬
‫ساتھ نہایت فن کارانہ انداز میں بیان کیا ہے ۔انداز شکوے کا ہے اور شکوہ بھی ہللا سے ۔ اردو کا ش‪BB‬عری س‪BB‬رمایہ اس‬
‫انداز سے بالکل نا آشنا تھا۔ بقول ماہرالقادری ‪:‬‬
‫اک نئی طرز ‪ ،‬نئے باب کا آغاز کیا‬
‫شکوہ ہللا کا‪ ،‬ہللا سے بصد ناز کیا‬
‫‪ ۴۴‬شاعر نے نظم کا آغاز بہت سلیقے اور ہنر مندی سے کیا ہے ۔اصل موضوع پر آنے سے پہلے اقب‪BB‬ال نے اظہ‪BB‬ار‬
‫شکوہ کی توجیہ پہلے دو بندوں میں کر دی ہے تا کہ ای‪B‬ک نی‪BB‬ا اور ن‪BB‬ا در موض‪BB‬وع اچان‪BB‬ک س‪B‬امنے آنے پ‪B‬ر ق‪BB‬اری ک‪B‬و‬
‫جھٹکا محسوس نہ ہو ۔‬

‫لیجے کا تنوع‪:‬‬ ‫‪‬‬

‫کسی برگزیدہ اور برت‪BB‬ر ہس‪BB‬تی کے س‪B‬امنے ش‪B‬کوہ ک‪BB‬رنے واال اپ‪BB‬نی معروض‪BB‬ات پیش ک‪BB‬رتے ہ‪BB‬وئے ‪،‬حس‪B‬ب ض‪BB‬رورت‬
‫مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے فلوے کا لہجہ بھی متنوع ہے ۔ کہیں بجز و نیاز من‪BB‬دی ہے ‪ ،‬کہیں اپ‪BB‬نی‬
‫غیرت وانا کا احساس ہے ‪،‬کہیں تندی وخی اور جوش ہے‪ ،‬کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں‪ B‬زاری ددعا کا‬
‫انداز ہے۔‬

‫نفسیاتی حربے‪:‬‬ ‫‪‬‬

‫اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی حربوں سے کام لیتے ہوۓ ایک ہی بی‪BB‬ان‬
‫سے دہرا کام لیا ہے ۔ ‪ ۱۵‬و میں بند کے آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے ‪ ،‬جہاں ش‪BB‬اعر خ‪BB‬دا س‪BB‬ے اس‬
‫کی بے اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے ۔اس کے ساتھ وہ کہتا ہے‪:‬‬
‫خنده زن کفر ہے‪ ،‬احساس تجھے ہے کہ نہیں ؟‬
‫اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟‬
‫پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا‬
‫ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے سے‬
‫کیا ترے نام پر مرنے کا عوض خواری ہے؟‬
‫اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجھوڑ کر یا احساس دالنے‪ B‬کی کوش‪BB‬ش کی گ‪BB‬ئی ہے کہ یہ‬
‫م‪B‬یرا نہیں‪ ، B‬تمھ‪B‬ارا مس‪BB‬ئلہ ہے ۔ نفس‪BB‬یاتی ح‪B‬ربے کی ای‪B‬ک اور مث‪B‬ال یہ ہے کہ بن‪BB‬د ‪ ۱۲-۲۲‬میں ش‪B‬اعر بظ‪B‬اہر خ‪B‬دا بے‬
‫اعتنائی کا سبب پوچھ رہا ہے مگر بیان اور سوال کا انداز ایسا ہے کہ ش‪B‬کوہ ک‪B‬رنے والے کی اپ‪B‬نی کم‪B‬ر دری‪BB‬اں ظ‪B‬اہر‬
‫‪4‬‬

‫ہورہی ہیں ‪ ،‬مثال ‪ ":‬کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب؟‘ کہتے ہوۓ ش‪BB‬کوہ ک‪BB‬رنے والے ک‪BB‬ا ح‪BB‬ریص اور اللچی‬
‫ہونا ثابت ہورہا ہے ۔اسی طرح ‪" :‬طعن اغیار ہے ‪ ،‬رسوائی ہے ‪ ،‬ناداری ہے‘ سے پتا چلت‪BB‬ا ہے کہ ش‪BB‬ا کی کواپ‪BB‬نی ب‪BB‬د‬
‫اعمالیوں اور خامیوں کا احساس نہیں‪ B‬اور نہ اس پ‪B‬ر وہ ش‪B‬رمندہ ہے۔ اس کے ل‪B‬یے ت‪B‬و ص‪B‬رف لوگ‪B‬وں کی اٹھ‪B‬تی ہ‪B‬وئی‬
‫انگلیاں وجہ تکلیف بن رہی ہیں ۔شا کی کی ذہنی کیفیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک طرف ت‪BB‬و اس‪BB‬ے غ‪BB‬یروں‬
‫کے خزانے معمور ہونے پر کوئی شکایت نہیں ۔ ( یہ شکایت نہیں ‪ ،‬ہیں ان کے خزانے معم‪BB‬ور ) اور دوس‪BB‬ری ط‪BB‬رف‬
‫وہ اپنے دل میں دولت دنیا کی حرص بھی رکھتا ہے ‪:‬‬
‫” کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب‘۔‬
‫میدان‪BB‬داز بی‪BB‬ان دراص‪BB‬ل مس‪BB‬لمانوں کے دل میں احس‪BB‬اس زی‪BB‬اں اور غ‪BB‬یرت ملی پی‪BB‬دا ک‪BB‬رنے کی فن ک‪BB‬ارانہ کوش‪BB‬ش ہے ۔‬
‫نفسیاتی حربے کی ایک مثال ‪ ۲۲‬و میں بند میں مل‪BB‬تی ہے ۔ پہلے چ‪BB‬ار مص‪BB‬رعوں میں ش‪BB‬اکی نے دبے‪ B‬دبے الف‪BB‬اظ میں‬
‫اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے ۔ مگر وہ اس اعتراف کا عالنیہ اظہار نہیں کرتا اور کرے بھی تو کیسے؟ اس طرح تو‬
‫اس کا اپن‪BB‬ا موق‪BB‬ف کم‪BB‬زور ہوگ‪BB‬ا ۔ لہ‪BB‬ذا وہ اپ‪BB‬نی کم‪BB‬زوری س‪BB‬ے ت‪BB‬وجہ دوس‪BB‬ری ط‪BB‬رف منعط‪BB‬ف ک‪BB‬رانے کے ل‪BB‬یے ف‪BB‬ورا‬
‫( نفسیاتی حربے سے کام لیتے ہوۓ ) مخاطب کو طعنہ دیتا ہے کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہر جائی ہ‪BB‬و‬
‫۔‬

‫تغزل‬ ‫‪‬‬
‫اقبال بھی دیگر ہم عصر شعرا کی طرح ابتدا میں ایک غزل گو شاعر تھے اور دائم سے با قاعده اص‪BB‬الح لی‪BB‬تے تھے ۔‬
‫رفتہ رفتہ ان کی طبیعت غزل سے ہٹ کر نظم کی طرف مائل ہوتی گئی۔ فنی اعتبار س‪BB‬ے غ‪BB‬زل اور اس‪BB‬لم میں واض‪BB‬ح‬
‫فرق ہے ۔ مگر اقبال نے غزل گوئی سے دس‪BB‬ت کش ‪ ۴۶‬ہ‪BB‬ونے کے ب‪BB‬اوجود غ‪BB‬زل کی روح ک‪BB‬و اپ‪B‬نی نظم‪B‬وں میں بھی‬
‫برقرار رکھا ۔‬
‫اقبال کی طبیعت کا شاعرانہ مزاج جسے غزل اور تغزل کے ساتھ ایک فطری مناسبت اور طبعی لگ‪BB‬اؤ ہے ‪ ،‬اس نظم‬
‫میں بار بارا پی جھلک دکھا تا ہے ۔ بعض مقامات پر اس کا اظہار بہت بھر پور ہے‪:‬‬
‫تیری محفل بھی گئی ‪ ،‬چاہنے والے بھی گئے‬
‫شب کی آ میں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے‬
‫دل تجھے دے بھی گئے ‪ ،‬اپنا صلہ لے بھی گئے‬
‫آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے‬
‫آۓ عشاق ‪ ،‬گئے وعدۂ فردا لے کر‬
‫اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر‬
‫بعض اشعار کو اگر نظم کے سیاق وسباق سے الگ کر کے دیکھا جاۓ تو وہ خالص غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں‬
‫‪ :‬کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں ‪ ،‬تو بھی تو ہ‪B‬ر ج‪B‬ائی ہے ب‪B‬ادہ کش غ‪B‬یر میں گلش‪B‬ن‬
‫میں لب کو بیٹھے‪ B‬سنتے ہیں جام بلف نغمہ کوکو بیٹھے‪ B‬وادي نجد میں وہ شور سالسل نہ رہا قیس دیوانه نظ‪BB‬اره محم‪BB‬ل‬
‫نہ رہا‬

‫ایجاز و بالغت‪:‬‬ ‫‪‬‬

‫شکوہ کے بعض حصے ‪ ،‬اشعار اور مص‪B‬رعے ایج‪B‬از و بالغت ک‪B‬ا ش‪B‬اہ ک‪B‬ار ہیں ۔ ت‪B‬اریخ کے ط‪B‬ول طوی‪B‬ل ادوار‪ ،‬اہم‬
‫واقعات و روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑے بلیغ ان‪BB‬داز میں نہ‪BB‬ایت ہی اختص‪B‬ار کے س‪BB‬اتھ‬
‫بیان کیا گیا ہے ‪ ،‬چند مثالیں‬
‫د میں اذانیں بھی یورپ کے کلیساؤں میں‬
‫‪5‬‬

‫کبھی افریقہ کے تپتے ہوۓ صحراؤں میں‬


‫تو ہی کہہ دے کہ اکھاڑ اور خیبر کس نے؟‬
‫شہر قیصر کا جو تھا اس کو کیا سر کس نے؟‬
‫بحر ظلمات میں دوڑا دیے گھوڑے ہم‬
‫ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‬
‫مور بے مایہ کو ہم دوش سلیماں کر دے‬

‫فکری جائزہ‪:‬‬
‫موضوع کے اعتبار سے " ش‪B‬کوہ" بارگ‪B‬اہ میں دور حاض‪B‬ر کے مس‪B‬لمانوں کی ای‪B‬ک فری‪B‬اد ہے کہ ہم ت‪B‬یرے ن‪B‬ام لی‪B‬وا‬
‫ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل اور رسوا ہیں اور یہ ش‪BB‬کوہ بھی کہ ن‪BB‬بی ک‪BB‬ریم ص‪BB‬لی ہللا علیہ وس‪BB‬لم کی امت ت‪BB‬و ہیں "‬
‫کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں " ( آغا حش‪BB‬ر کاش‪BB‬میری) مگ‪BB‬ر انعام‪BB‬ات و نوازش‪BB‬ات کی ب‪BB‬ارش کی‬
‫غیر مسلموں پر ہو رہی ہے۔ گویا عالمہ اقبال نے اس نظم میں ع‪BB‬ام مس‪BB‬لمانوں کے الش‪BB‬عوری احساس‪BB‬ات کی ترجم‪BB‬انی‬
‫کی ہے۔ معروف دانشور‪،‬نقاد اور شاعر سلیم احمد (م‪ )1983:‬کے الف‪B‬اظ میں‪ " :‬ای‪BB‬ک ط‪B‬رف ان ک‪BB‬ا یہ عقی‪BB‬دہ ہے کہ وہ‬
‫خدا اور اس کے محبوب صلی ہللا علیہ وس‪B‬لم کی س‪B‬ب س‪B‬ے چہی‪BB‬تی امت ہیں اور اس ل‪BB‬ئے خ‪BB‬دا کی س‪B‬اری نعمت‪BB‬وں کی‬
‫س‪BB‬زاوار اور دوس‪BB‬ری ط‪BB‬رف یہ ناقاب‪BB‬ل تردی‪B‬د‪ B‬حقیقت ہے کہ ان ک‪BB‬ا مکم‪BB‬ل زوال ہوچک‪BB‬ا ہے۔ عقی‪BB‬دہ اور حقیقت کے اس‬
‫ٹکراؤ سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو "شکوہ" کا موضوع ہے۔ اقبال کے اپنے الفاظ میں‪:‬‬
‫" وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی‪،‬ظاہر کر دی گئی‬
‫سلسلہ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقس‪BB‬یم ک‪BB‬رتے ہ‪BB‬وئے اس ک‪BB‬ا مط‪BB‬العہ و‬
‫تجزیہ کریں گے‪.‬‬
‫تمہید‪ B:‬اظہار شکوہ کی توجیہ ۔ بند‪ B‬ایک – دو‬ ‫•‬
‫امت مسلمہ کا کارنامہ۔ بند تین – تیرا‬ ‫•‬
‫مسلمانوں کی حالت زبوں ۔ بند چوداں – انیس‬ ‫•‬
‫حالت زبوں کی وجہ کیا ہے؟ بند بیس – تئیس‬ ‫•‬
‫کیفیت یا س و بیم ۔ بند چوبیس ‪ -‬چھبیس‬ ‫•‬
‫دعائیہ اختتام ۔ بند ستائیس – اکتیس‬ ‫•‬
‫اظہار شکوہ کی توجیہ‪:‬‬ ‫‪.1‬‬
‫نظم کے پہلے دو بند‪ B‬تمہیدی ہیں جن میں اظہار شکوہ کی توجیہ بی‪BB‬ان کی گ‪BB‬ئی ہے۔ یہ مس‪BB‬لمانوں کی موج‪BB‬ودہ ب‪BB‬دحالی‬
‫اور پستی پر اقبال کے ردعمل کا اظہ‪BB‬ار ہے۔ ان کے خی‪BB‬ال میں مس‪BB‬لمان انحط‪BB‬اط کی اس کیفیت ک‪BB‬و پہنچ چکے ہیں کہ‬
‫اس پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملک کے اجتماعی مفاد سے غداری کے مترادف ہے۔ اس موقع پر قص‪BB‬ہ‬
‫درد سنانا خالف ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز تاریخی کی ذیل میں آت‪BB‬ا ہے مگ‪BB‬ر ہم ایس‪BB‬ا ک‪BB‬رنے پ‪BB‬ر مجب‪BB‬ور ہیں‪.‬‬
‫خدا مجھے معاف کرے کہ میں ( تسلیم و رضا کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے ) اس سے شکوہ کرنے چال ہوں ہوں‬
‫کسی لمبے چوڑے پس منظر یہ غیر ضروری ط‪BB‬ول طوی‪BB‬ل تمہی‪B‬د‪ B‬کے بغ‪BB‬یر ب‪BB‬اری تع‪BB‬الی س‪BB‬ے ب‪BB‬راہ راس‪BB‬ت گفت گ‪BB‬و‪،‬‬
‫اسالمی تصور پر مبنی ہے کہ بندہ اپنے خدا سے بال واسطہ ہم کالم ہو سکتا ہے۔ قرآن حکیم نے فرمای‪BB‬ا ہے‪ " :‬تمہ‪BB‬ارا‬
‫رب کہتا ہے‪ :‬مجھے پکارو‪،‬میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔" ( سورۃ المومن‪) 40 :‬‬
‫‪6‬‬

‫واضح رہے کہ جملہ مذاہب میں یہ انفرادیت سے اسالم ہی کو حاصل ہے‪ ،‬ورنہ ہندومت اور نص‪BB‬رانیت میں میں‬
‫پردہت اور پادری بندے‪ B‬اور خدا کے درمیان واسطہ بنتے ہیں۔ عالمہ اقبال اس رویہ پر احتجاج کرتے ہیں‪:‬‬
‫کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے‬
‫پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو‬
‫بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہاں بھی اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے ج‪BB‬و بن‪BB‬دے اور خ‪BB‬دا کے درمی‪BB‬ان توس‪BB‬ل ک‪BB‬ا‬
‫دعوی کر کے کے مذہبی اجارہ داری کے غیر اسالمی تصور کو فروغ دے رہا ہے۔ عابد علی عابد کہتے ہیں‪ " :‬اقبال‬
‫سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرز طرز تخاطب سب سے آشنا کرنا چاہت‪BB‬ا ہے‪ .‬اقب‪BB‬ال نے‬
‫شکوے کے پہلے دو بندوں‪ B‬ہی میں بات یا موضوع سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ بع‪B‬د‪ B‬کی ش‪BB‬کوہ س‪BB‬رائی اور گلہ‬
‫مندی بالکل موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے "۔‬
‫امت مسلمہ کا کارنامہ ‪:‬‬ ‫‪.2‬‬
‫تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہار خیال کا آغاز ہوت‪BB‬ا ہے۔ ت‪BB‬یرھویں بن‪BB‬د ت‪BB‬ک اقب‪BB‬ال نے‬
‫امت مسلمہ کے عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ کر کے دنیا میں اس کی حیثیت و اہمیت ک‪BB‬و اج‪BB‬اگر کی‪BB‬ا ہے۔ س‪BB‬ب س‪BB‬ے‬
‫پہلے پہلے دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ‪:‬‬
‫الف‪ :‬خدا کی ذات ازل ہی سے جملہ سچائیوں سمیت موجود تھی۔‬
‫ب‪ :‬بڑی بڑی قومیں ( سلجوقی‪،‬تورانی‪،‬ساسانی‪،‬یونانی‪،‬یہ‪BB‬ودی‪،‬نص‪BB‬رانی ) دنی‪BB‬ا پ‪BB‬ر چھ‪B‬ائی ہ‪B‬وئی تھی اور ان میں س‪BB‬ے‬
‫بعض کی عظیم الشان سلطنتیں بھی قائم تھیں۔‬
‫ج‪ :‬لوگ شجروہجر کو معبود بن‪B‬ا ک‪B‬ر ش‪B‬رک اور گم‪B‬راہی و ض‪B‬اللت کی ت‪B‬اریکیوں میں بھٹ‪B‬ک رہے تھے۔ گوی‪B‬ا یہ پس‬
‫منظر ہے امت مسلمہ کے بے نظیر کا ناموں کا اور اس سے تاریخ کی اسٹیج پر مسلمانوں کی اہمیت بھی واضح ہوتی‬
‫ہے۔ اور اب ان کا نام کا مفصل بیان ہوتا ہے ہے‪:‬‬
‫اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ شرف صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ انہوں نے خدا کے پیغام کو دنی‪BB‬ا‬
‫کے دور دراز کونوں تک پہنچا دیا۔ روم و ایران کی فتح ان کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ نظم کے اس حصے میں اقبال‬
‫نے تاریخ اسالم کے جن ادوار اور واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے‪ ،‬مختصراً کی وضاحت ضروری ہے‪:‬‬
‫" دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں " کا اشارہ ضلع سلطنت عثمانیہ کے دور کی طرف ہے ج‪BB‬و مس‪BB‬لمانوں‬
‫کی سلطنت یونان‪ ،‬البانیہ‪ ،‬بلغاریہ‪ ،‬ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھیں۔‬
‫پھر زمانے کا تصور کیجئے جب اٹلی کے کچھ حصوں اس‪BB‬پین پ‪BB‬ر بھی مس‪BB‬لمانوں کی حک‪BB‬ومت تھی ۔ ی‪BB‬ورپ‬
‫کے ملکوں میں جہاں آج کلیس‪BB‬اؤں میں ن‪BB‬اقوس بج‪BB‬تے ہیں‪ ،‬کبھی ہم‪BB‬اری اذانیں گونج‪BB‬تی تھیں ۔ اس‪BB‬ی ط‪BB‬رح اف‪BB‬ریقہ کے‬
‫تپتے ہوئے صحراؤں کا عالقہ مصر‪ ،‬لیبیا‪ ،‬تیونس ‪ ،‬الجزائر‪ ،‬مراکش وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھا۔‬
‫عملی تفسیر اس واقعہ میں ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق رضی ہللا تعالی عنہ کے دور میں مس‪BB‬لم وف‪BB‬ات کے قائ‪BB‬د‬
‫ربعی بن ع‪BB‬امر‪ ،‬ای‪BB‬رانی س‪BB‬پہ س‪BB‬االر رس‪BB‬تم کی گفت و ش‪BB‬نید کے ل‪BB‬ئے اس کے درب‪BB‬ار میں گ‪BB‬ئے آئے ت‪BB‬و ایرانی‪BB‬وں نے‬
‫مسلمانوں کو مرغوب کرنے کے لیے دربار کو بڑے بے ساز و سامان س‪BB‬ے س‪BB‬جا رکھ‪BB‬ا تھ‪BB‬ا۔ ربعی اپ‪BB‬نے ن‪BB‬یزے س‪BB‬ے‬
‫قیمتی قالین کو چھیدتے‪ B‬ہوئے درباری ہیبت سے بے پرواہ ہو کر تخت کے ق‪BB‬ریب ج‪BB‬ا پہنچے اور ن‪BB‬یزہ زمین پ‪BB‬ر م‪BB‬ارا‬
‫جو قالین کو چھیدتا ہوا زمین میں گڑ گیا۔‬
‫ساتویں بعد میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح سلطان محم‪BB‬ود غزن‪BB‬وی کے عظیم الش‪BB‬ان ت‪BB‬اریخی کارن‪BB‬امہ‬
‫فتح سومنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ محمود نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے س‪BB‬ومنات کے بت ک‪BB‬و‬
‫پاش پاش کر دیا اور کہا‪ " :‬میں بت فروش کی بجائے بت شکن کہالنا پسند کروں گا" ایاز محمود کا چہیتا غالم تھا۔‬
‫در خیبر اکھاڑنے کا واقعہ واہ دور نب‪B‬وی ص‪B‬لی ہللا علیہ وس‪B‬لم میں پیش آی‪B‬ا۔ خی‪B‬بر کے یہودی‪B‬وں ک‪B‬ا قلعہ تھ‪B‬ا ج‪B‬و‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی سرکردگی میں حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کے ہ‪B‬اتھوں فتح ہ‪B‬وا۔ " ش‪B‬ہر قیص‪B‬ر"‬
‫‪7‬‬

‫سے مراد قسطنطنیہ ( موجودہ نام استنبول ) ہے جو مسلمانوں نے سلطان محمد فاتح کی سرکردگی میں ‪ 1453‬میں فتح‬
‫کیا۔ ایران کے مجوسی آگ کی پوجا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے ایران کو فتح کرکے مجوسیت کا خاتمہ کیا اور آتشکدہ‬
‫ایران کو ٹھنڈا کردیا۔‬
‫بحر ظلم‪BB‬ات س‪BB‬ے م‪BB‬راد بح‪BB‬ر اوقی‪BB‬انوس ہے۔ " بح‪BB‬ر ظلم‪BB‬ات میں دوڑا دیے گھ‪BB‬وڑے ہم نے " یہ اش‪BB‬ارہ ہے اس‬
‫مع‪BB‬روف واقعے کی ط‪BB‬رف جب ای‪BB‬ک مس‪BB‬لمان مجاہ‪BB‬د عقبہ بن ن‪BB‬افع میں اف‪BB‬ریقہ کے آخ‪BB‬ری س‪BB‬رے ت‪BB‬ک پہنچ‪ B‬ک‪BB‬ر اپ‪BB‬نے‬
‫گھوڑے کو بحر اوقیانوس میں ڈال دیا اور بڑی حسرت سے کہا‪ " :‬خدایا اگر یہ بحر دخار درمیان میں حائل نہ ہوتا تو‬
‫تیرے راستے میں جہاد کرتا ہوں اسی طرح آگے بڑھتا ہوا چال جاتا "۔ یہ جگہ مراکش میں شرف العقاب کے نام س‪BB‬ے‬
‫موسوم ہے۔‬
‫مسلمانوں کی حالت زبوں‪:‬‬ ‫‪.3‬‬
‫امت مسلمہ کے درخشندہ ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے سلسلہ خی‪B‬ال مس‪B‬لمانوں کی موج‪B‬ودہ ح‪B‬الت کی ط‪B‬رف م‪B‬ڑ‬
‫جاتا ہے۔ جہاں اقبال نے دوسری قوموں سے ان کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ حالت زبوں کو نمایاں کیا ہے۔ کہ‪BB‬تے‬
‫ہیں کہ دنیا میں مسلمان ہر جگہ ہی غیر مسلم کے مقابلے میں حقیر‪ ،‬ذلیل اور رسوا ہیں۔ دوسری قومیں ان پر خندہ زن‬
‫ہیں ۔ نظم کیسے میں صحیح معنوں میں گلے اور شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے ہے۔ اقب‪BB‬ال نے مس‪BB‬لمانوں کی بے بس‪BB‬ی‬
‫اور بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیواؤں پر پہلے جیسا لطف و کرم کی‪BB‬وں نہیں؟‬
‫اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دنی‪BB‬ا توحی‪BB‬د کے ن‪BB‬ام لی‪BB‬واؤں‬
‫سے خالی ہوجائے گی اور ڈھونڈنے سے بھی ایسے عاشقان توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔‬
‫حالت زبوں کی وجہ کیا ہے‬ ‫‪.4‬‬
‫اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ مسلمان آج بھی خ‪BB‬دا کے ن‪BB‬ام لی‪BB‬وا اور اس کے رس‪BB‬ول ص‪BB‬لی ہللا علیہ‬
‫وسلم کے پیروکار ہیں۔ آج بھی ان کے دلوں میں اسالم کے بارے میں ایک زبردست جوش اور جذبہ اور کیفیت عش‪BB‬ق‬
‫موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود ان آیات خداوندی سے محروم ہیں۔‬
‫نظم کے اس حصے میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں۔ لیلی‪ ،‬قیس‪ ،‬دشت و جبل‪ ،‬ش‪BB‬ور سالس‪BB‬ل ل‬
‫اور دیوانہ نظارہ محمل کی تراکیب و تلمیحات مشہور تاریخی کردار قبیلہ بنو عامر کے قیس مجن‪B‬وں س‪B‬ے متعل‪B‬ق ہیں۔‬
‫روایت ہے کہ قیس بن یعمر لیال کے عشق میں دیوانہ ہو کر نجد کے صحراؤں میں خاک چھانتا پھرتا تھا تھا۔ شاعری‬
‫میں بکثرت استعمال کے سبب ان تلمیحات کے مفاہیم و معانی میں بہت گہرائی اور وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ اقبال کے‬
‫بعض شارحین نے نے نجد کے دشت و جبل میں رم آہو‬
‫بھی وہی میں رم آہو سے صفا مروا کی صحیح مراد لی ہے جو حج کا اہم رکن ہے۔ حضرت سلمان فارسی رض‪BB‬ی ہللا‬
‫تعالی عنہ آنحضور ص‪BB‬لی ہللا علیہ وس‪BB‬لم کے جلی‪BB‬ل الق‪BB‬در ص‪BB‬حابی تھے۔ اویس ق‪BB‬رنی مش‪BB‬ہور ت‪BB‬ابعی ہیں جنہیں اگ‪BB‬رچہ‬
‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی زی‪BB‬ارت نص‪BB‬یب نہ ہ‪BB‬و س‪B‬کی مگ‪B‬ر آپ ص‪B‬لی ہللا علیہ وس‪BB‬لم س‪BB‬ے غ‪B‬ایت درجہ محبت و‬
‫شگفتگی رکھتے تھے۔ ‪ 37‬ہجری میں میں حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی ہللا تعالی‬
‫عنہ کے درمیان ہونے والی ایک جنگ میں شہید ہوئے ۔ حضرت بالل حبشی حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے برگزیدہ‬
‫صحابی اور مؤذن رسول تھے۔ شدید ترین دور ابتال میں بھی ان کے پائے ثبات میں لغ‪B‬زش نہیں آئی اور وہ توحی‪BB‬د پ‪BB‬ر‬
‫قائم رہے۔ کفار انہیں دوپہر کے وقت تبدیلی پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے اور اسالم ت‪BB‬رک زور دی‪BB‬تے‪ B‬ہیں‬
‫مگر وہ اس حالت میں بھی احد احد پکارتے رہتے۔ رس‪B‬ول ک‪BB‬ریم ص‪BB‬لی ہللا علیہ وس‪BB‬لم س‪BB‬ے والہ‪BB‬انہ عش‪BB‬ق تھ‪BB‬ا۔ ف‪B‬اران‪،‬‬
‫سعودی عرب میں واقع ایک پہاڑ کا نام ہے۔ " سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے " سے مراد ہے کہ دین کی تکمی‪BB‬ل‬
‫خطہ عرب میں ہوئی۔‬
‫اش‪BB‬ارہ ہے ق‪BB‬رآن ک‪BB‬ریم کی اس آیت کی ط‪BB‬رف ط‪BB‬رف جس میں فرمای‪BB‬ا گی‪BB‬ا ہے ہے‪ " :‬آج میں نے تمہ‪BB‬ارے دین ک‪BB‬و‬
‫تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام ک‪BB‬ردی اور تمہ‪BB‬ارے ل‪BB‬ئے اس‪BB‬الم ک‪BB‬و تمہ‪BB‬ارے دین کی حی‪BB‬ثیت‬
‫سے قبول کر لیا ہے "‪.‬‬
‫کیفیت یا س و بیم‬ ‫‪.5‬‬
‫‪8‬‬

‫چھبیسویں بند سے اقبال کا لہجہ مائل بہ ی‪BB‬اس ہے۔ ‪ 24‬اور ‪ 25‬ویں بن‪BB‬د دراص‪BB‬ل نظم کے اس حص‪BB‬ے ک‪BB‬ا تتمہ ہیں جس‬
‫ت زبوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شاعر نے مسلمانوں کی ب‪BB‬دحالی‪ ،‬بے چ‪B‬ارگی اور بے بس‪B‬ی ک‪B‬ا‬‫میں مسلمانوں کی حال ِ‬
‫ذکر کسی ایک مایوسانہ انداز میں کیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ امید و بیم کی کیفیت ‪26‬ویں بند میں موج‪BB‬ود ہے۔‬
‫ش‪BB‬رم ط‪BB‬رف ہے کہ مایوس‪BB‬ی اور ت‪BB‬اریکی کے اس دور میں بھی مس‪BB‬لمانوں کے دل‪BB‬وں میں ایم‪BB‬ان یہ رات کی دبی دبی‬
‫چنگاری‪BB‬اں س‪BB‬لگ رہی ہیں اور وہ اس‪BB‬المی نش‪BB‬ات ث‪BB‬انیہ کے ل‪BB‬ئے بے چین و مض‪BB‬طرب ہیں ۔ آپ اس حص‪BB‬ے س‪BB‬ے نظم‬
‫خاتمہ کی طرف چلتی ہے۔‬
‫دعائیہ اختتام‬ ‫‪.6‬‬
‫یاس وبیم کی صورتحال کا نتیجہ غیر یقی‪BB‬نی ہے۔ مگ‪BB‬ر ب‪BB‬ات کی خ‪BB‬واہش یہ ہے کہ دور حاض‪BB‬ر کے مس‪BB‬لمانوں کے دل‬
‫پھر دینی جوش و جذبے سے لبریز ہو جائیں۔ کوہ طور پر تجلیات الہی پر نازل ہو کیونکہ طور‪ ،‬نور خ‪BB‬دا کی آگ میں‬
‫جلنے کے لئے بے تاب ہے یہ مسلمان اسالمی شوکت ورزش کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ( تور جزیرہ میرا نام اس س‪BB‬ینہ‬
‫میں واقع ایک سلسلہ کوہ کی ایک اونچی پہاڑی کا نام ہے جس پر حضرت موسی علیہ السالم اسالم‪ ،‬ہللا تعالی س‪BB‬ے ہم‬
‫کالم ہوتے تھے تھے ) نظم کی آخری حصے میں شاعر کی آرزو ایک دعا کی ش‪BB‬کل میں ڈھ‪BB‬ل ج‪BB‬اتی ہے۔ دع‪BB‬ا ک‪BB‬ا یہ‬
‫سلسلہ خیال ستائیسویں شعر سے شروع ہوکر نظم کے آخری شہر تک چلتا ہے۔ امت مسلمہ کو جن مسائل و مش‪BB‬کالت‬
‫کا سامنا ہے اقبال ان کے حل کے لیے دعا گ‪BB‬و ہیں۔ " امت مرح‪BB‬وم " کی ت‪BB‬رکیب بہت مع‪BB‬نی خ‪BB‬یز ہے۔ م‪BB‬راد یہ ہے کہ‬
‫مسلمان بھائیوں سے قوم کے مرد ہو چکے ہیں۔ ان کی حیثیت سلیمان علیہ السالم کے مقابلے میں " م‪BB‬ورے بہ م‪BB‬ایہ "‬
‫کی سی ہے ۔ شعر کی آرزو ہے کہ یہ کم حیثیت اور فرومایہ قوم انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہ‪BB‬وں اور ک‪BB‬ارگر دنی‪BB‬ا میں‬
‫ترقی یافتہ اقوام جیسا بلند مقام حاصل کرلے۔ ( قرآن مجید کی سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السالم اور چیونٹی‬
‫کا قصہ مزکور ہے ) ہند کے "دیر نشینوں " سے مراد ہے یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں نے اپ‪BB‬نے بہت س‪BB‬ے مع‪BB‬امالت و‬
‫معموالت اور ثقافت تمدن میں ہندوؤں کے طور طریقوں اور رسوم و رواج کو اپنا لیا ہے۔‬
‫اقبال نے نظم کے اس آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روش‪BB‬ن اور خ‪BB‬وش‬
‫آئند ہو اور ہونا چ‪BB‬اہیے مگ‪BB‬ر یہ نہیں کہ‪BB‬ا کہ "ہوگ‪BB‬ا" ۔ یع‪BB‬نی تیقن کے س‪BB‬اتھ امی‪BB‬د نہیں‪ B‬دالئی کے فی الواق‪BB‬ع کے س‪BB‬نہرا‬
‫مستقبل ان کا منتظر ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ " شکوہ" کا دور دنیا بھ‪BB‬ر کے مس‪BB‬لمانوں کے ل‪BB‬یے انتہ‪BB‬ائی پ‪BB‬ر آش‪BB‬وب‬
‫زمانہ تھا اور مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی حتمی پیش گوئی مش‪BB‬کل تھی۔ مجم‪BB‬وعی ط‪BB‬ور پ‪BB‬ر ح‪BB‬االت م‪BB‬ایوس‬
‫کون تھے۔ چند ماہ بعد ہی ستمبر ‪ 1911‬میں اٹلی نے طرابلس پ‪BB‬ر حملہ ک‪B‬ر کے مس‪B‬لمانوں ک‪BB‬و ای‪B‬ک اور چرک‪B‬ا لگای‪BB‬ا ۔‬
‫اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے "شکوہ" کرنا پڑا ‪ .‬مایوسی کا ایک انداز یہ ہے کہ‪:‬‬
‫اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں‬
‫داغ کو سینے میں رکھتے ہوں وہ اللے ہی نہیں‬
‫یعنی مسلمانوں میں درد مند اہل شاز ہیں اور احیائے اسالم کی پکار پر کوئی ت‪B‬وجہ ہی نہیں دیت‪B‬ا۔ اس حص‪B‬ہ میں اقب‪B‬ال‬
‫نے " بلبل تنہا" کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اب تک محو ترنم ہے‪ ،‬وہ اپنی "بانگ درا" سے اہل چمن کے دلوں کو چاک‬
‫کر دینا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بلبل سے مراد اقبال کی اپنی ذات ہے۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس ع‪BB‬الم ی‪BB‬اس میں بھی ‪،‬‬
‫مسلم نشات ثانیہ اور احیائے دین کے لئے مجھ سے جو خدمت ہو سکتی ہے ‪ ،‬اسے بج‪BB‬ا النے کے ل‪BB‬ئے کوش‪BB‬اں ہ‪BB‬وں۔‬
‫اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا‪:‬‬
‫کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی‬

‫خصوصیت کالم‪:‬‬
‫شکوہ" ہمہ پہلو حسن زبان و بیان کا شاہکار ہے‪ .‬انتخ‪BB‬اب الف‪BB‬اظ‪ ,‬بن‪BB‬دش ت‪BB‬راکیب ص‪BB‬نعت گ‪BB‬ری حس‪BB‬ن تش‪BB‬بیہ و اس‪BB‬تعارہ‬
‫مناسب بحر موزوں قوافی وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبی‪B‬وں کے س‪B‬بب نظم اس ق‪B‬در دلکش اور ج‪B‬زبہ انگ‪B‬یز‬
‫ہے کہ قاری کے دل کو متاثر و متحرک کئے بغ‪BB‬یر نہیں رہ‪BB‬تی مس‪BB‬لمانوں کی ب‪BB‬دحالی وپس‪BB‬تی ک‪BB‬و ح‪BB‬الی نے بھی اپ‪BB‬نی‬
‫مسدس میں بیان کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تذکرہ کا سپاٹ انداز اختیار کرنے کی بجائے شکوہ ک‪BB‬ا‬
‫جدید انداز اختیار کیا ہے اس جدت بیان نے شکوہ کو یادگار نظم بنا دی‪B‬ا ہے عاب‪B‬د علی عاب‪BB‬د ک‪B‬ا خی‪B‬ال ہے کہ اقب‪B‬ال کی‬
‫‪9‬‬

‫طویل نظموں میں شکوہ کئی طرح س‪B‬ے اہم اور مع‪BB‬نی خ‪BB‬یز ہے اس کی س‪B‬اخت ی‪B‬ا تش‪BB‬کیل میں اقب‪BB‬ال نے پہلی ب‪BB‬ار اس‬
‫صنعت گری کی ایک جھلک دکھائی ہے جسے بعد کی نظموں میں عروج کمال پر پہنچن‪BB‬ا تھ‪BB‬ا دوس‪BB‬رے یہ کہ اس نظم‬
‫میں محسنات شعر کا استعمال ایسی چابکدستی اور ہنر مندی سے ہوا ہے کہ پڑھنے والے کی توجہ بیش‪B‬تر مط‪B‬الب پ‪B‬ر‬
‫مرکوز رہتی ہے‬
‫(شکوہ جواب شکوہ ص ‪)۷‬‬

‫صنعت گری ‪:‬‬ ‫‪‬‬


‫صنعت مراعاة النظير‬ ‫‪.1‬‬
‫( ایسے الفاظ کا استعمال جن کو آپس میں سوائے تعداد کے کوئی اور نسبت ہو )‬
‫نالے بلبل کے دنوں اور ہمہ تن گوش رہو‬
‫ہم نوا میں بھی کوئی گل ہوں کہ خاموش رہوں‬
‫ساز خاموش ہیں فریاد سے معمور ہیں ہم‬
‫نالہ آتا ہے اگر لب پہ تو معذور ہیں ہم‬
‫صنعت ترافق‬ ‫‪.2‬‬
‫(جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑھیں اور معنی میں کوئی فرق نہ آئے )‬
‫نقش توحید کا ہر دل پہ بٹھایا ہم نے‬
‫زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے‬
‫صنعت توصیع‬ ‫‪.3‬‬
‫(دو مصروں کے تمام یا زیادہ الفاظ کا ہم قافیہ ہونا)‬
‫کس نے ٹھنڈا کیا آتش كدۂ ایراں کو‬
‫کس نے پھر زندہ کیا تذکر ۂ یزداں کو‬
‫صنعت تلميح‬ ‫‪.4‬‬
‫(کسی مشہور واقعے کہانی انسان آیت قرآنی یا فنی اصطالحات وغیرہ کی طرف اشارہ کرنا)‬
‫ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‬
‫نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز‬
‫صنعت طباق ایجاہی‬ ‫‪.5‬‬
‫(دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہوں)‬
‫آئے آئے عشاق گئے وعدۂ فردا لے کر‬
‫خ زیبا لے کر‬
‫چراغ ُر ِ‬
‫ِ‬ ‫اب انہیں ڈھونڈ‬
‫قوم اپنی جو زرو مال جہاں پر مرتی‬
‫بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی‬
‫‪10‬‬

‫تصویر کشی‬ ‫‪‬‬


‫تصویر کشی کی بہت سی مثالیں نظم میں موجود ہیں‬
‫آگیا عین لڑائی میں اگر وقت نماز‬
‫قوم حجاز‬
‫قبلہ رو ہو کے زمیں بوس ہوئی ِ‬
‫ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز‬
‫نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز‬
‫‪-------------‬‬
‫عہد گل ختم ہوا ٹوٹ گیا ساز چمن‬
‫اڑ گئے ڈالیوں سے زمزمہ پرداز چمن‬
‫ایک بلبل ہے کہ ہے محو ترنم اب تک‬
‫اس کے سینے میں ہے نغموں کا تالطم اب تک‬

‫تشبیہ‬ ‫‪‬‬
‫شکوہ میں متعدد خوبصورت تشبیہ ہے ملتی ہیں مثالً‬

‫نظم کے ستائیسویں بند کے پہلے شعر میں اقبال نے امت مس‪B‬لمہ ک‪BB‬و" م‪B‬وربے م‪B‬ایہ "س‪B‬ے تش‪BB‬بیہ دی ہے ہے ج‪B‬و ح‪B‬د‬
‫درجہ بلیغ ہے فی الواقع مسلمانوں کی حالت اس بے کس چونٹی کی سی ہو چکی ہے جس‪BB‬ے دنی‪BB‬ا کی ہ‪BB‬ر ق‪BB‬وم اور ہ‪BB‬ر‬
‫گروہ جب چاہے روندتا اور مسلتا ہوا گ‪BB‬زر ج‪BB‬ائے مس‪BB‬لمان چیون‪BB‬ٹی کی مانن‪BB‬د ک‪BB‬وئی م‪BB‬زاحمت ی‪BB‬ا روک ٹ‪BB‬وک نہیں ک‪BB‬ر‬
‫سکتے‬
‫غرض شکوہ اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ہونے کے باوجود فنی خوبیوں اور شعری محاسن سے ماالم‪BB‬ال ہے عاب‪BB‬د‬
‫علی عابد اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اقبال کو آغاز کار ہی میں ایسے ایسے اساتذہ کی صحبت میسر آئی جو مشرق‬
‫کے اسلوب انتقاد کے ماہر تھے اور علوم شعری کے راز دار تھے چنانچہ انہی کے فیضان سے اقبال کو معانی بیان‬
‫اور علم بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کامل آگاہی ہوگی اور اس کی یہی بصیرت تھی جو آخ‪BB‬ر ہ‪BB‬ر ش‪BB‬عری ک‪BB‬اوش‬
‫میں صنعت گری کا روپ دھار کر نمودار ہوئی‬
‫"اقبال کے کالم میں صنعت گری کا وہ اسلوب مخصوص بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے ج‪BB‬و مش‪BB‬رقی عل‪BB‬وم ش‪BB‬عر ہی‬
‫سے منسوب ہے اور مغربی رنگ بھی جھلکتا ہے کہیں کہیں دونوں میں ایسا امتزاج پیدا ہو گیا کہ شاید وباید "‬
‫(شکوہ جواب شکوہ ص ‪ ۲٣‬سے ‪)۲۴‬‬

‫جواب شکوہ‬
‫تعارف اور پس منظر‪:‬‬
‫انجمن حمایت اسالم الہور کے جلسے میں شکوہ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پ‪BB‬ر اس کی اش‪BB‬اعت ہ‪BB‬وئی ۔ بعض لوگ‪BB‬وں‬
‫کا خیال تھا کہ "شکوہ" کا انداز اور لہجہ قدرے گس‪BB‬تاخانہ ہے ۔ چن‪BB‬انچہ اس کی تالفی کے ل‪BB‬یے‪ ،‬اور ی‪BB‬وں بھی ش‪BB‬کوہ‬
‫ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھ‪BB‬ا ‪ ،‬ڈی‪BB‬ڑھ س‪BB‬ال بع‪BB‬د انھ‪BB‬وں نے ج‪BB‬واب ش‪BB‬کوہ لکھی ۔ یہ ‪۳۰‬‬
‫نومبر ‪۱۹۱۲‬ءکو ایک جلسہ عام ( یہ سلسلہ امداد مجروحین بتان) میں پڑھی گئی جو نماز مغرب کے بع‪BB‬د ب‪BB‬اغ ب‪BB‬یرون‬
‫موچی درواز و منعقد ہوا تھا ۔ میاں عطاء الرحمن کی روایت ہے کہ جب اقبال کے مداحوں کو خبر ملی کہ انھ‪BB‬وں نے‬
‫شکوہ'' کا جواب لکھا ہے تو اس خبر سے ہر طرف جوش امید پھیل گیا اور ش‪B‬اید اس‪B‬ی س‪BB‬ے فائ‪BB‬دہ اٹھ‪BB‬انے کی غ‪BB‬رض‬
‫‪11‬‬

‫سے موال نا ظفر علی خاں زمیندار والوں نے موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک عظیم الشان جلسے ک‪BB‬ا اہتم‪BB‬ام کی‪BB‬ا‬
‫اور اعالن ہوا کہ اس میں اقبال کی نظم ہوگی ۔ شایقین ک‪BB‬ا ای‪BB‬ک جم غف‪BB‬یر ب‪BB‬اغ کے پن‪BB‬ڈال میں جم‪BB‬ع ہ‪BB‬وا ۔ میں خ‪BB‬ود اس‬
‫جلسے میں موجود تھا۔ اقبال نے نظم پڑھی۔ ہر طرف سے بے پناہ دادلی ۔ ایک ایک شعر نیالم کیا گیا اور ای‪BB‬ک گ‪BB‬راں‬
‫قدر رقم بلقان فنڈ کے لیے جمع ہوگئی ۔ (سیاره ‪ ،‬اقبال نم‪BB‬بر ‪۱۹۷۷ :‬ء ص ‪ ’ )۱۰۹‬ش‪B‬کوہ کی ط‪B‬رح زی‪B‬ر مط‪BB‬العہ نظم‬
‫کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں ۔ ضرار احمد نے اس نظم کو بھی مصور کیا تھا‬
‫نظر ثانی میں اس کے بعض اشعار میں ترمیم کی گئی اور کئی بن‪B‬د نظم س‪B‬ے خ‪B‬ارج ک‪BB‬ر دیے گ‪BB‬ئے ۔ بعض بن‪B‬دوں کی‬
‫ترتیب بھی بدل دی ۔ سرود رفتہ میں چار خارج شدہ بند ملتے ہیں ۔ جواب شکوہ ' اور ' ش‪B‬کوہ کے درمی‪B‬ان ڈی‪B‬ڑھ س‪B‬ال‬
‫کا وقفہ ہے ۔ یہ عرصہ دنیا کے ۔ مسلمانوں کے لیے نئے مصائب اور نئی پریشانیاں ساتھ الیا تھا۔ جن‪BB‬گ ہ‪BB‬اے بلق‪BB‬ان (‬
‫‪ ۱۳-۱۹۱۲‬ء) اور کان پور میں شہادت مسجد کے دردناک واقعات نے ہندی مسلمانوں کو افسردہ اور دل گرفتہ کر دی‪BB‬ا‬
‫تھا ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے‪ :‬یورپ کی مسیحی طاقتیں ترکی کی کمزوری سے فائ‪BB‬دہ اٹھ‪BB‬اتے ہوۓ اس ک‪BB‬ا زی‪BB‬ادہ‬
‫سے زیادہ حصہ ‪ ،‬خصوصا ترکی کاایور پی عالقہ جو صدیوں س‪BB‬ے عثم‪BB‬انیوں کی مس‪BB‬لم س‪BB‬لطنت ک‪BB‬ا حص‪BB‬ہ تھ‪BB‬ا ‪ ،‬اس‬
‫سے چھین لینا چاہتی تھیں ۔ اکتو بر‪۱۹۱۲‬ء میں بلتانی ریاستوں ( بلغاریہ‪ ،‬یونان ‪ ،‬سرویا اور مونٹی عمرو) نے ت‪BB‬رکی‬
‫پر حملہ کر دیا ۔ در پردہ بر طانیان کی پشت پناہی ک‪B‬ر رہ‪B‬ا تھ‪B‬ا ۔ بلق‪B‬انی ریاس‪BB‬توں کی تقریب‪BB‬ا تین الکھ متح‪BB‬د وف‪BB‬وج کے‬
‫مقابلے میں ترکی سپاہیوں کی تعداد ای‪BB‬ک الکھ تھی ۔ مزی‪BB‬د ب‪BB‬رآں بلق‪BB‬انی ف‪BB‬و جیں ت‪BB‬ربیت و تنظیم کے اعتب‪BB‬ار س‪BB‬ے بھی‬
‫ترکوں پر فائق تھیں ۔ اس نازک موقع پر ترکی فوج کے یہودی اور عیسائی س‪BB‬پاہیوں نے می‪BB‬دان جن‪BB‬گ س‪BB‬ے راہ ف‪BB‬رار‬
‫اختیار کی ۔ ان کی غ‪B‬داری س‪B‬ے ترک‪B‬وں کی پوزیش‪B‬ن اور بھی کم‪B‬ر در ہوگ‪B‬ئی ۔ بلق‪B‬انی ف‪B‬وجیں ترک‪B‬وں ک‪B‬و پے در پے‬
‫شکست دیتی ہوئی نومبر کو سالونیکا پر قابض ہو گئیں ۔ جلد ہی انھوں نے بحیرہ اسکین کے تمام عثانی جز پیروں پ‪BB‬ر‬
‫بھی قبضہ کر لیا ۔‬
‫‪ ۳۰‬مئی کو صلح نامہ لندن پر دستخط ہوئے جس کی رو سے ترکی کو امینوس اور می‪BB‬ڈ ی‪BB‬ا کے درمی‪BB‬انی خطے کے‬
‫مغربی جانب سب عالقے چھوڑنے پ‪BB‬ڑے۔ بح‪BB‬یرۂ اتحین کے جزائ‪BB‬ر س‪BB‬ے بھی دس‪BB‬تبردار ہون‪BB‬ا پ‪BB‬ڑا۔ اس‪BB‬ی اثن‪BB‬ا میں م‪BB‬ال‬
‫غنیمت کی تقسیم پر بلقانی اتحادیوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ نقیمت جان کر اور شد‪ ،‬ڈیوٹیک‪BB‬ا اور ق‪BB‬رق کلیس‪BB‬ا واپس‬
‫لے لیے ۔ تا ہم اس جنگ یہ ک‪BB‬ا کم و بیش س‪B‬اڑھے پ‪BB‬انچ الکھ مرب‪B‬ع می‪BB‬ل رقبہ اس کے ہ‪B‬اتھ س‪B‬ے نک‪BB‬ل گی‪B‬ا۔ اس س‪B‬ارے‬
‫عرصے میں جنگ بلقان کی مختلف لڑائیوں اور معرکوں کی تفصیل ہندس‪BB‬تانی اخب‪BB‬ارات میں ش‪BB‬ائع ہ‪BB‬وتی رہیں ۔ ہن‪BB‬دی‬
‫مسلمان اپنے ترک بھائیوں کی شکست پر بہت مضطرب ہوئے ۔ ترکوں کی مدد کے لیے چندہ جم‪BB‬ع ک‪BB‬رنے کی مہمیں‬
‫چالئی گئیں ۔ ( جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے جواب شکوہ'' کے موقع پر انجمن حم‪B‬ایت اس‪B‬الم کے جلس‪B‬ے میں ج‪B‬و رقم‬
‫جمع ہوئی ‪ ،‬وہ بھی بلقان فنڈ میں دے دی گئی۔)‬
‫شیخ الہند موال نا محمود حسن نے ڈیڑھ الکھ کی خطیر رقم جمع کر کے بھیجی ۔ م‪BB‬دد حاص‪BB‬ل ک‪BB‬رنے کے ل‪BB‬یے ت‪BB‬رکی‬
‫سے ہالل احمر کا ایک وفد یہاں آیا۔ موالنا ظفر علی خاں نے ترکی کا دورہ کیا ۔ ہندستان سے ہزاروں مسلمان ترک‪BB‬وں‬
‫کے شانہ بشاندلڑائی کے لیے ترکی جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اجازت نہ دی ۔البتہ موال نا محد علی ج‪BB‬و ہ‪BB‬ر‬
‫نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد تر کی بھیجا جو خاصی رقم بھی ساتھ لے کر گیا۔‬

‫فکری جائزہ‪:‬‬
‫نظم در حقیقت''شکوہ'' کا جواب ہے ۔ شکوہ میں مسلمانوں کی حالت ز یوں بیان کی گئی تھی اور اس کی وجہ پ‪BB‬وچھی‬
‫گئی تھی ۔ پھر وہاں مایوی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی ‪ ،‬جواب ش‪BB‬کوہ‘ اس کیفیت کی ت‪BB‬وجیہ ہے اور ش‪BB‬کوہ‬
‫میں اٹھاۓ جانے والے سواالت کے جوابات دیے گئے ہیں ۔ جواب شکوہ'' میں اس‪BB‬المی ت‪BB‬اریخ کے بعض واقع‪BB‬ات اور‬
‫جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں ۔ نظم کے موضوعات ومباحث کا مطالعہ و تج‪BB‬زیہ ک‪BB‬رتے ہوۓ ہم آس‪BB‬انی‬
‫کی خاطر اسے ذیل کے عنوانات میں تقسیم کر یں گے‬
‫بند‪۵-۱B:‬‬ ‫شکوہ کی اثر انگیزی‬
‫جواب شکوہ کی تمہید بند‪6B:‬‬
‫‪12‬‬

‫حالت زار کے حقیقی اسباب بند ‪۱۷-۷‬‬


‫اسالف سے موازنہ بند‪۲۵ -۱۸ :‬‬
‫پرامید مستقبل بند‪۳۱-۲۲:‬‬
‫دعوت عمل بند ‪۳۶-۳۲‬‬

‫تمہید شکوہ کی اثر انگیزی‪:‬‬ ‫‪.1‬‬


‫انسان نے ہللا تعالی سے جو شکوہ کیا تھا ‪ ،‬پہلے پانچ بندوں میں ( جونگم کا تمہی‪BB‬دی حص‪BB‬ہ ہے ) اس ک‪B‬ا رد عم‪BB‬ل اور‬
‫اثر انگیزی بیان کی گئی ہے ۔ اقبال بتاتے ہیں کہ میرا نالۂ بے باک اس قدر بھر پور اور پر ت‪BB‬اثیر تھ‪BB‬ا کہ آس‪BB‬مانوں پ‪BB‬ر‬
‫بھی اس کی بازگشت سنی گئی ۔ آسمانوں اور اس کے باسیوں (فرشتے ‪ ،‬چاند ‪ ،‬ستارے‪ ،‬کہکش‪BB‬اں وغ‪BB‬یرہ) میں م‪BB‬یرے‬
‫گستاخانہ شکوے سے ایک کھلبلی چ گئی اور یہ ان کا موضوع نخن ٹھہرا۔ چونکہ عام حاالت میں ایک انسان س‪BB‬ے یہ‬
‫توقع نہیں ہوسکتی کہ وہ ہللا کے سامنے ایسی گستاخی کی جرات کرے ‪ ،‬اس لیے اہل آسان حیران تھے کہ کون ن‪BB‬ادان‬
‫خدا کے حضور شوخی کا مرتکب ہورہا ہے مگر جلد ہی انھیں معلوم ہو گیا کہ یہ حرکت کرنے والے حضرت انس‪BB‬ان‬
‫ہیں ۔ فرشتوں کو اس بات کا افسوس تھ‪BB‬ا کہ پس‪BB‬تی ک‪BB‬ا یہ کین ب‪BB‬ات ک‪BB‬رنے ک‪BB‬ا س‪BB‬لیقہ بھی نہیں جانت‪BB‬ا۔ انس‪BB‬ان کے متعل‪BB‬ق‬
‫فرشتوں کا یہ طرز فکر بعینہ وہی ہے جو تخلیق آدم کے وقت تھا‪ ،‬جب فرشتے انسان کی نی‪BB‬ابت الہی پ‪BB‬ر ح‪BB‬یران ہوۓ‬
‫اور کہاکہ ہللا تعالی کا یہ خلیفہ دنیا میں فتنہ وفساد اور خوں ریزی کا مرتکب ہوگا ۔ جہ‪BB‬اں ت‪BB‬ک ش‪BB‬وخی و گس‪BB‬تاخی ک‪BB‬ا‬
‫تعلق ہے ‪،‬اس ضمن میں عابدعلی عابد کہتے‪ B‬ہیں ‪' :‬عالمہ مرحوم سے بہت پہلے صوفیہ اپنی ش‪BB‬طحیات ص‪BB‬وفیوں کی‬
‫الف زنی ) میں اس سے زیادہ گستاخانہ انداز تخاطب اختیار کر چکے ہیں۔ ( شکوہ‪ ،‬جواب ش‪BB‬کوه‪ :‬ص‪ )۵۶B‬بہ‪BB‬ر ح‪BB‬ال‬
‫انسان کے نعرۂ مستانہ کا اثر می ضرور ہوا کہ خود ہللا تع‪BB‬الی نے ش‪BB‬کوہ کے حس‪BB‬ن اور پھ‪BB‬ر اس ک‪BB‬ا ج‪BB‬واب م‪BB‬رحمت‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫شکر شکوے کو کیا حسن ادا سے تو نے‬
‫ہم سخن کر دیا بندوں کو خدا سے تو نے‬
‫جواب شکوہ کی تمہید‪:‬‬ ‫‪.2‬‬
‫چھٹے بند‪ B‬میں خدا کی طرف '' شکوہ" کا حوالہ دے کر جواب دیا گیا ہے ۔ شکوہ میں شاعر نے مسلمانوں کی ب‪BB‬دحالی‬
‫و بے چارگی کا سبب خدا کے عدم لطف و کرم ک‪BB‬و ق‪BB‬رار دی‪BB‬ا تھ‪BB‬ا۔ ہللا تع‪BB‬الی فرم‪BB‬اتے ہیں کہ ہم ت‪BB‬و عنای‪BB‬ات و م‪BB‬دارات‬
‫کرنے پر تلے بیٹھے ہیں ‪،‬کوئی سائل ہے اور نہ امید وار لطف و کرم یعنی طلب صادق موجود نہیں ‪ ،‬ورند انسان کی‬
‫ہر آرزو پوری ہوسکتی ہے ۔ اگر مسلمان اپنی نیت میں اخالص اور عمل میں کھرا پن پیدا کر یں تو خاکستر سے بھی‬
‫ایک نیا جہان پیدا ہو سکتا ہے ۔’ شان کئی‘ س‪BB‬ے م‪BB‬راد کی‪BB‬انی خان‪BB‬دان کے بادش‪B‬اہوں جیس‪BB‬ی عظمت اور ش‪B‬ان وش‪B‬وکت‬
‫ہے ۔اس خاندان نے ایک طویل عرصے تک ایران قدیم پر حکومت کی ۔آخری مصرعے ڈھونڈ نے والوں کو دنیا بھی‬
‫نئی دیتے‪ B‬ہیں میں اش‪BB‬ارہ ہے ک‪BB‬ولمبس ایس‪BB‬ے ب‪BB‬اہمی اور مہم جولوگ‪BB‬وں کی ط‪BB‬رف ہے ۔ ک‪BB‬ولمبس نے محض اپ‪BB‬نی مہم‬
‫جوئی کی بدولت ایک نئی دنیا یعنی براعظم امریکا دریافت کیا ۔ یہ بند ہللا کے جواب شکوہ کی تمہید ہے۔‬
‫حالت زار کے حقیقی اسباب‪:‬‬ ‫‪.3‬‬
‫اب ( بند ‪ )۱۷ -۷‬مس‪BB‬لمانوں کی ح‪BB‬الت زب‪BB‬وں کے حقیقی اس‪BB‬باب کی وض‪BB‬احت کی گ‪BB‬ئی ہے۔ اقب‪BB‬ال کے نزدی‪BB‬ک اس ک‪BB‬ا‬
‫بنیادی سبب مذہب سے بے اعتنائی ہے ‪ ،‬جس کے نتیجے میں مس‪BB‬لمانوں کی ص‪BB‬فوں میں فک‪BB‬ری اعتب‪BB‬ار س‪BB‬ے الح‪BB‬اد و‬
‫کفر اور الدینیت کی تحریکیں پروان چڑھ رہی ہیں ۔ وہ اپنے فرائض ادا کر نے سے جی چ‪BB‬راتے ہیں اوران کے ان‪BB‬در‬
‫مذہب کی حقیقی روح ختم ہوگئی ہے ۔شکوہ میں مس‪BB‬لمانوں نے دہ‪BB‬ائی دی تھی کہ ہم نے باط‪BB‬ل ک‪BB‬و ص‪B‬فحہ ہس‪BB‬تی س‪BB‬ے‬
‫نیست و نابود کر کے قرآنی تعلیمات پھیالنے‪ B‬اور کعبۃ ہللا کو آباد کر نے کی عظیم الشان خدمت انجام دی اد میں بن‪BB‬د )‬
‫میں اس دعوے کی تردید کی جارہی ہے ۔ اس‪BB‬تفہامیہ ان‪BB‬داز کی وجہ ه ط‪BB‬نز یہ ہے ۔ درحقیقت نظم کے اس حص‪BB‬ے میں‬
‫اقبال نے امت مسلمہ کی فکری واعتقادی گمراہی‪BB‬وں‪ ،‬کج روی‪BB‬وں اور عملی کمزوری‪B‬وں ک‪B‬و ب‪BB‬ڑے م‪BB‬ؤثر ان‪B‬داز میں بے‬
‫‪13‬‬

‫نقاب کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی صدیوں کی غالمی اور اس کے زیر اچر پرون چڑھنے والی ذہنی حالت کا کچ‪BB‬ا‬
‫چٹا کھوال اور ایک ہمدرد ڈاکٹر کی طرح اس کا آپریشن کیا۔ یہ مسلم دور انحطاط کا مرثیہ ہے۔ خاتمے پرجب اقبال یہ‬
‫کہتے ہیں‪:‬‬
‫تم سبھی کچھ ہو ‪ ،‬بتاؤ تو مسلمان بھی ہو‬
‫تو پڑھنے اور سننے واال ت‪BB‬ڑپ ک‪BB‬ر رہ جات‪BB‬ا ہے۔ اس حص‪BB‬ے میں اقب‪BB‬ال نے اب‪BB‬راہیم علیہ الس‪BB‬الم اور آزر کی تلمیح‪BB‬ات‬
‫استمعال کی ہہیں۔ آزر ‪ ،‬حضرت ابراہیم کے ب‪B‬اپ تھے‪ ،‬ج‪BB‬و ق‪B‬رآن حکیم کے مط‪BB‬ابق بت پرس‪BB‬ت تھے۔ اور روایت کے‬
‫مطابق بت گر بھی۔‬

‫نویں بند‪ B‬میں ‪" :‬کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے۔" سے تہجد اور سحر خیزی کی اہمیت جتالن‪BB‬ا مقص‪BB‬ود ہے۔‬
‫قرآن پاک میں‪ :‬بال شبہ شب کا اٹھنا نفس کو خوب ہی روندنے واال ہے اور نہایت ہی درست ہے اس وقت کا ذکر۔‬

‫اقبال‪ ،‬مہا راجا سرکش پر شاد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں‪ ":‬صبح چار بجے‪ ،‬کبھی تین بجے اٹھتا ہوں۔ پھ‪BB‬ر اس‬
‫الہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے۔ " دراصل سحر خیزی اقبال کا معمول تھ‪BB‬ااور‬
‫کے بعد‪ B‬نہیں سوتا۔ اس وقت عبادت ٰ‬
‫وہ دریا فرنگ پہ بھی اس معمول پر قائم رہے‪:‬‬
‫بہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر انگیزی‬
‫امت مسلمہ میں سحر خیزی سے عمو می غفلت پائی جاتی ہے۔ اس ل‪BB‬یے وہ کم نص‪BB‬یب اور مح‪BB‬روم ہے‪ " :‬کچھ ہ اتھ‬
‫نہیں آتا بے آہ سحر گاہی" اور ااویں بند میں " ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرد ہو۔" کا معنی خیز اشارہ تق‪BB‬دیر و توک‪BB‬ل‬
‫کے اس ناقص تصور کی طرف ہے جس نے مسلمانوں کو بے عمل اور بے بنیاد بنا دیا اور وہ ہاتھ پاؤں توڑ ک‪BB‬ر بیٹھ‬
‫رہے۔ خانقاہی تصوف انسان کو عضو معطل بنا تا ہے‪ ،‬اس لیے اقبال اس کے سخت خالف ہیں‬
‫کہ رسم خانقاہی ہے‪ ،‬فقط اندوہ و دل گیری‬
‫اسالف سے موازنہ‪:‬‬ ‫‪.4‬‬

‫مسلمانوں کی زبوں حالی کے سلسلہ بیان میں ان کی انفرادی و اجتماعی خامیوں کو مزی‪BB‬د اج‪BB‬اگرکرنے کے ل‪BB‬یے نظم‬
‫کے اگلے حص‪BB‬ے ( بن‪B‬د‪ )19-18 B‬میں اقب‪BB‬ال کے مس‪BB‬لمانوں کے اس‪BB‬الف ک‪BB‬ا ذک‪BB‬ر چھ‪BB‬یڑا ہے۔ ان کے نزدی‪BB‬ک ہم‪BB‬ارے‬
‫اسالف اپنے اخالق و کردار ‪ ،‬علم و فضل اور گفتار و کردار کے اعتبار سے اس ق‪BB‬در بلن‪BB‬د م‪BB‬رتبہ اور عظیم تھے کہ‬
‫ہمارے اور ان کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔‬
‫بن‪BBBBBB‬د ‪24-23‬‬
‫میں اقب‪B‬ال نے جدی‪B‬د تعلیم اور اس کے زی‪B‬ر اث‪B‬ر پی‪B‬دا ہ‪B‬ونے والی معاش‪B‬رتی اور مجلس‪B‬ی خرابی‪B‬وں پ‪B‬ر تنقی‪B‬د کی ہے۔ یہ‬
‫صورت حال منتطقی ہے۔ توجیہ یہ کی ہے کہ اگر بیٹا نکھٹو ہو تو میراث سے ع‪BB‬اق ک‪BB‬ر دی‪BB‬ا جات‪BB‬ا ہے۔ مس‪BB‬لمانوں کے‬
‫ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان کی موجودہ حاالت کا اسالف سے موازنہ کرتے ہوئے ایک شعر میں نتیجے کو بڑی خ‪BB‬وب‬
‫صورتی سے بیان کر دیا ہے‪:‬‬
‫وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر‬
‫اور تم خوار ہوئےتارک قرآن ہو کر‬
‫آخ‪BB‬ری (‪ 25‬واں بن‪BB‬د ) ای‪BB‬ک انتب‪BB‬اہ ہے مس‪BB‬لمانوں کے ل‪BB‬یے۔‬
‫یہاں اقبال نے قدرت کے تکوینی نظام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہتے‪ B‬ہیں کہ دورجدید نے دنیا کی ہر قوم ک‪BB‬و آزم‪BB‬ائش‬
‫کے پل صراط پر ال کھڑرا کیا ۔ اسے بخ‪B‬یر و ع‪B‬افیت عب‪B‬ور ک‪B‬رنے کے ل‪B‬یے ق‪B‬ومی بی‪B‬داری اور اجتم‪B‬اعی ک‪B‬ردار کی‬
‫ضرورت ہے۔ جو قو‪ ،‬عہد نو کے تقاضوں کا ساتھ نہیں‪ B‬دے سکتی ‪ ،‬زمانہ اسے برق بن ک‪BB‬ر بھس‪BB‬م ک‪BB‬ر دیت‪BB‬ا ہے۔ اور‬
‫‪14‬‬

‫امت مسلمہ بھی اس آزمائش سے دوچار ہے۔ اس سے کامیابی کے س‪BB‬اتھ عہ‪BB‬د ہ ب‪BB‬رآ ہ‪BB‬ونے ک‪BB‬ا ای‪BB‬ک ہی ط‪BB‬ریقہ ہے کہ‬
‫مسلمان اپنی ایمان میں حضرت ابراہیم اسالم کی سی پختگی عزم اور یقین پیدا ک‪BB‬ریں۔ ت‪BB‬اکہ زام‪BB‬نے کی ب‪BB‬رق اور آتش‬
‫زنی ان کے لیے گل و گلزار ثابت ہو۔‬
‫پر امید مستقبل‪:‬‬ ‫‪.5‬‬
‫"ش‪BBBBB‬کوہ " مس‪BBBBB‬لمانوں کے‬
‫انحطاط کا مرثیہ تھا۔ "جواب شکوہ " میں ان کی پستی اور حالت زبوں کو مزی‪BB‬د تفص‪BB‬یل س‪BB‬ے بی‪BB‬ان کی‪BB‬ا گی‪BB‬ا ہے۔ اس‬
‫سے دلوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہونا ق‪BB‬درتی ہے۔ اس کیفیت ی‪BB‬اس ک‪BB‬و زائ‪BB‬ل ک‪BB‬رنے کے ل‪BB‬یے اقب‪BB‬ال مس‪BB‬لمانوں ک‪BB‬و‬
‫اطمینان دالتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا ردانگی نہیں۔بند‪ 31- 26 B‬میں انہوں نے مختلف مثالوں اور ت‪BB‬اریخی‬
‫واقعات کے ذریعے اس امر پر زور دیا ہے کہ‪:‬‬

‫با طل سے دبنے والے اے آسماں نہیں ہم‬


‫سو بار کر چکا ہے تو امتحاں ہمارا‬
‫جس دور میں اقبال نے نظم لکھی ‪ ،‬ع‪BB‬الم اس‪BB‬الم میں کچھ ایس‪BB‬ے واقع‪BB‬ات رونم‪BB‬ا ہوۓ ج‪BB‬و مس‪BB‬لمانوں کے ل‪BB‬یے بظ‪BB‬اہر‬
‫مایوس کن تھے ‪ ،‬مثالً ‪۱۹۱۲-۱۳ :‬ء میں ریاست ہاے بلقان نے تر کی پر حملہ ک‪B‬ر دی‪B‬ا ‪ ( :‬ہے ج‪B‬و ہنگ‪B‬امہ بپ‪B‬ا ی‪B‬ورش‬
‫بلغاری کا ) اور ترکی کو پے در پے ہزیمت اٹھانی پڑی ۔ اسی طرح ایران بھی غیر ملکی طاقتوں کی گرفت میں تھا ۔‬
‫چند سال پہلے روس اور برطانیہ نے ایک معاہدہ کر کے ایران میں اپنے اپنے حلقہ ہ‪BB‬اے ار متعین‪ B‬ک‪BB‬ر ل‪BB‬یے تھے ۔اب‬
‫ایران پر روسی دباؤ بڑھتا جارہا تھا ۔ اقبال نے مسلمانوں کی ڈھارس بندھاتے ہوۓ کہا کہ مس‪B‬لمانوں ک‪BB‬و اس ص‪B‬ورت‬
‫حال سے دل شکستہ نہیں ہونا چاہیے کیونکہ قوموں کی تاریخ میں نشیب وفراز تو آتے رہتے ہیں ۔ یہ ن‪B‬تیجہ اقب‪B‬ال نے‬
‫تاریخ سے اخذ کیا ہے اور اس کے لیے ان کے پاس کچھ وجوہات ہیں ‪:‬‬
‫ا ۔ اسالم دوسرے مذاہب سے اور مسلمان دوسری اقوام سے مختلف حیثیت کے مال‪BB‬ک ہیں ۔ اس‪BB‬المی تحری‪BB‬ک کے پس‬
‫منظر میں سیکڑوں برس کی جد و جہد کشمکش اور طاقتور عوامل کارفرما ہیں ۔ ' ' پھل ہے یہ سیکڑوں ص‪BB‬دیوں کی‬
‫چمن بندی کا ' ' سے مراد ہے کہ نخل اسالم کی نشو و نما اور ارتقا میں ان بے شمار فرزندان توحید کی کوششوں ک‪BB‬و‬
‫دخل ہے جنھوں نے علوم وفنون ‪ ،‬حکومت و سیاست اور جنگ و جدل کے می‪B‬دان میں مس‪B‬تحکم روای‪B‬ات ق‪B‬ائم کیں اور‬
‫تاریخ میں ان مٹ اور یادگارنقوش چھوڑے ۔‬
‫‪۲‬۔ پھر عصر حاضر میں یورپ کی تباہی کا سبب قوم پرستی کی لعنت ہے مگر اس‪BB‬الم کے نزدی‪BB‬ک ق‪BB‬وم پرس‪BB‬تی ک‪BB‬ا‬
‫کوئی جواز نہیں ہے۔ ملت اسالمیہ خود کو کسی ای‪BB‬ک جغرافی‪BB‬ائی خطے ی‪BB‬ا لس‪BB‬انی اور نس‪BB‬لی گ‪BB‬روہ ت‪BB‬ک مح‪BB‬دود نہیں‬
‫سمجھتی اس کے نزدیک "ہر ملک ‪ ،‬ملک ماست کہ ملک خداے ماست ' ' ۔‬
‫‪ -۳‬ملت اسالمیہ کو فنا ہو جانے کا اس لیے بھی کوئی خطرہ نہیں‪ B‬کہ اس کے پاس جذ بہ عشق ( با نگ درا ) جیس‪BB‬ی‬
‫قیمتی متاع ہے اور دوسری قومیں اس سے محروم ہیں ۔‬
‫‪۴‬۔ بسا اوقات انسان کی ظاہر بین نگا ہیں احوال و واقعات کی تہ میں چھ‪BB‬پے ہوۓ حقیقی عوام‪BB‬ل ک‪BB‬ا پت‪BB‬ا لگ‪BB‬انے س‪BB‬ے‬
‫قاصر رہتی ہیں ۔ کسی مسلم عالقے پر کوئی آفت ٹوٹتی ہے تو مسلمان سمجھتے ہیں کہ شاید وہ نیست و نابود ہ‪BB‬ورہے‬
‫ہیں ۔ اقبال کے نزدیک یہ عین ممکن ہے کہ ظ‪BB‬اہری آفت ان کے ل‪BB‬یے کس‪BB‬ی وقت ب‪BB‬اعث رحمت ث‪BB‬ابت ہ‪BB‬و ۔ اس ک‪BB‬ا پس‬
‫منظر یوں ہے کہ ‪ ۲۱۲‬ھ میں چنگیز کی فوجوں نے س‪BB‬مرقند ‪ ،‬بخ‪BB‬ارا اور م‪BB‬اوراء النہ‪BB‬ر کے عالق‪BB‬وں ک‪BB‬و رون‪BB‬د ڈاال ‪،‬‬
‫ش‪BB‬ہر اج‪BB‬ڑ گ‪BB‬ئے اور ش‪BB‬ہروں کے ش‪BB‬ہر پیون‪BB‬د ز مین ہ‪BB‬و گ‪BB‬ئے ۔ پھ‪BB‬ر ای‪BB‬ک زم‪B‬انے میں ت‪BB‬ا ت‪BB‬اریوں نے ہالک‪BB‬و خ‪B‬ان کی‬
‫سرکردگی میں بغداد پر حملہ کر کے اسے تباہ کر دیا مگر خدا کی شان کہ ہالک‪B‬و خ‪B‬ان کے بی‪BB‬ٹے اباق‪B‬ا خ‪B‬ان نے ای‪BB‬ک‬
‫مسلمان بزرگ خواجہ شمس الدین کو اپنا وزیر اعظم اور اپنے بیٹے کا اتالیق مقرر کیا ۔ جب اس کا یہ بیٹا نمودارخ‪BB‬ان‬
‫بادشاہ بنا تو اس نے اسالم قبول کر لیا اور اپنا نام احمد خان رکھا ۔ پھر اس کے جانشینوں میں غ‪B‬ازان خ‪B‬ان اس‪B‬الم الی‪B‬ا‬
‫تو اس کے ساتھ دس ہزار ت‪BB‬ا ت‪B‬اری بھی مش‪BB‬رف بہ اس‪B‬الم ہ‪B‬وئے اور اس‪B‬الم ک‪BB‬و ای‪B‬ران ک‪B‬ا ش‪B‬اہی م‪B‬ذہب ق‪B‬رار دی‪B‬ا گی‪B‬ا ۔‬
‫تاتاریوں کے اسالم النے سےمسلمانوں کی بڑی دھاک بیٹھ گئی ۔ مغلیہ خاندان نے جوتا ت‪BB‬اریوں کی نس‪BB‬ل س‪BB‬ے تھے ‪،‬‬
‫‪15‬‬

‫ہندستان میں مسلم عظمت وسطوت کے ان مٹ نشانات یادگار چھوڑے ‪ :‬پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘ ‘‬
‫کا اشارہ اسی طرف ہے ۔‬
‫‪ 5‬۔ مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں ‪ ،‬وہ ای‪BB‬ک ط‪BB‬رف ان کے ایم‪BB‬ان کی آزم‪BB‬ایش ہے ت‪BB‬و دوس‪BB‬ری ط‪BB‬رف ان کے‬
‫جذبہ عمل کے لیے مہمیز ۔ یہ مصائب و آفات انھیں خواب غفلت سے جھنجوڑ نے کا باعث ہوں گے اور وہ ایک نئے‬
‫جوش اور ولولے کے ساتھ دشمن کے مقابل صف آرا ہوں گے ۔‬
‫ان وجوہات کی بنا پر ا قبال مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہیں ۔ کہتے‪ B‬ہیں ‪:‬‬
‫رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنالی ہے‬
‫یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے‬
‫مسلمان عالم مایوسی میں سر چھپاتا پھرتا تھا مگر اقبال کے نزدیک یہ ہمت ہار ک‪BB‬ر بیٹھ رہ‪BB‬نے ک‪BB‬ا نہیں ‪ ،‬می‪BB‬دان عم‪BB‬ل‬
‫میں نکلنے کا وقت ہے ۔ وہ مسلمانوں کو ان کے اہم فرض کی طرف متوجہ کرتے ہیں ‪:‬‬
‫وقت فرصت ہے کہاں ‪ ،‬کام ابھی باقی ہے‬
‫نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے‬
‫دعوت عمل ‪:‬‬ ‫‪.6‬‬
‫درخشاں مس‪BB‬تقبل س‪BB‬امنے ہے اور مقص‪BB‬د زن‪BB‬دگی (ن‪BB‬ور توحی‪BB‬د ک‪BB‬ا اتم‪BB‬ام ) بھی واض‪BB‬ع ہے ۔ چن‪BB‬انچہ اب اقب‪BB‬ال‬
‫مسلمانوں کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ (بند ‪ )۳۲-۳۶‬میں اقبال کی پکار یہ ہے کہ مسلمانوں ہم‪BB‬اری ق‪BB‬درت ک‪BB‬ا راز ج‪BB‬ذبہ‬
‫عشق میں پوشیدہ ہے جس کا کا سر چشمہ حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی ہے ۔‬
‫بند ‪ ۳۴-۳۳‬میں اقبال نے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ہستی ہے باعث ک‪BB‬ون و مک‪BB‬اں ہے ۔ ان ک‪BB‬ا‬
‫اشارہ اس حدیث قدسی کی طرف ہے ۔ ‘‘لوالک لما خلقت االفالک ’’اگر ٓاپ ﷺ نہ ہوتے ت‪BB‬و میں افالک ک‪BB‬و تخلی‪BB‬ق نہ‬
‫کرتا ۔ اس لئے اقبال کہتے‪ B‬ہیں کہ اے مسلمانوں تم بھی رسول ﷺ خدا کا پیغام اطراف عالم میں پھیالنے کی بھرپور‬
‫کوشش کرو ۔‬
‫‪ ۳۴‬بند کے ٓاخری شعر کی تلمیح قرٓان پاک کی سورۃ الم نشرح سے لی گئی ہے "اے نبی ہم نے تیرے ذکر ک‪BB‬و رفعت‬
‫و بلندی بخشی "‬
‫اقبال کی اس دعوت عمل کا مرکزی نکتہ چونکہ عشق رسول ﷺ ہے اس لئے نظم کے ٓاخری حصے میں جذبہ عشق‬
‫سے سرشار وہی والہانہ کیفیت موجود ہے ۔ اس کے عالوہ اقبال نے ٓاخری بند‪ B‬میں حق کیلئے جہدوجہد عمل پ‪BB‬ر زور‬
‫دیتے ہوئے لڑائی کے ہتھیاروں کی نشاندہی بھی کی ہے اقبال کے نزدیک راہ ح‪B‬ق کے مجاہ‪B‬د ک‪B‬و عق‪B‬ل و عش‪B‬ق کے‬
‫الہی ہے اس ک‪BB‬ا س‪BB‬ب س‪BB‬ے ب‪BB‬ڑا ہتھی‪BB‬ار حُب رس‪BB‬ول ﷺ ہے ۔ ‘‘کی‬
‫اسلحے سے لیس ہونا چاہیے ان کا مقص‪BB‬د خالفت ٰ‬
‫محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ’’ کا مفہوم ہے کہ اگر مسلمان ٓاپ ﷺ کے بن جائیں تو پھر تقدیر بھی اس کے‬
‫سامنے سرنگوں ہو جائے گی ۔ یہ دنیا ہی نہیں‪ B‬پوری کائنات اس کے تصرف میں ہو گی ۔ یعنی‬
‫ہاتھ ہے ہللا کا بندہ مومن کا ہاتھ‬
‫غالب وقار ٓافریں ‪،‬کارکشا ‪،‬کارسار‬

‫فنی تجزیہ ‪:‬‬

‫"جواب شکوہ" مسدس ترکیب بند کی ہیت میں ‪ ۳۲‬بندوں پ‪B‬ر مش‪BB‬تمل ہے۔ یہ بح‪BB‬یر رول مثمن محب‪B‬ون مقط‪BB‬وع میں ہے۔‬
‫بحر کے ارکان یہ ہیں ما عالتُن‪ ،‬فَ ِعاَل تُنُ ِ ‪،‬فَ َعاُل تُنُ ‪،‬فَعلُن۔‬
‫اس نظم کے فنی پہلو کی توصیف میں بھارت کے معروف نقاد ڈاکٹر عبد المغی لکھتے ہیں‪:‬‬
‫‪16‬‬

‫شاعری کی زبان و بیان کا استعمال اس ملی نظم میں اس شان ہ‪BB‬واجس ج‪BB‬ا اظہ‪BB‬ار کس‪B‬ی بھی انس‪BB‬انی موض‪BB‬وع کی ف‪BB‬نی‬
‫نقش گری میں ہو سکتا ہے۔ ‘جواب ِش‪BB‬کوہ’ ای‪BB‬ک ب‪BB‬ڑی کامی‪BB‬اب ‪،‬حس‪BB‬ین پ‪BB‬ر اث‪BB‬ر اور اہم ش‪BB‬اعرانہ تخلی‪BB‬ق ہے۔ جس کے‬
‫ارتعاشات ‪‘‘ ،‬خضر راہ‪ ’’،‬اور ‘‘طل‪B‬وع اس‪B‬الم’’س‪B‬ے آگے ب‪BB‬ڑھ ک‪B‬ر س‪B‬اقی ن‪BB‬امہ نف‪B‬ق و ش‪B‬وق اور مس‪B‬جد ق‪B‬رطبہ کے‬
‫مصرعوں اور شعروں میں محسوس کیے جائیں گے۔’’۔‬
‫خصوصیت کالم‬
‫‘‘جواب شکوہ ’’ کے کالم کی خصوصیات درج ذیل ہیں‪B:‬‬
‫فنی محاسن‬ ‫‪:۳‬‬ ‫ڈرامائی کیفیت‬ ‫‪:۲‬‬ ‫انداز ولہجہ‬ ‫‪:۱‬‬

‫انداز و لہجہ‬ ‫‪‬‬


‫تعالی کی ط‪BB‬رف س‪BB‬ے مس‪BB‬لمان‬
‫ٰ‬ ‫نظم کا انداز دوسری طویل نظموں کے برعکس براہ راست خطاب کا ہے۔ ہللا‬
‫امت یا بحیثیت مجموعی امت مسلمہ کو خطاب کرتے ہوئے ‘‘ شکوہ’’ کا جواب دیا گیا ہے۔ ‪ ۳۴‬بن‪BB‬دوں کی طوی‪BB‬ل نظم‬
‫میں ‪ ۳،۲‬بن ایسے ہیں جن میں تغزل کی جھلک ملتی ہے۔‬
‫نظم کا لہجہ اول تا آخر یکساں نہیں ہے۔ بعض حصوں میں لہجہ دھیما اور فہمایش ک‪BB‬ا ہے ۔ جہ‪BB‬اں مس‪BB‬لمانوں‬
‫کی فکری اور عملی گمراہی‪B‬وں کی نش‪B‬ان دہی کی گ‪BB‬ئی ہے وہ‪BB‬اں تنقی‪B‬دی لہجہ ہے۔ کہیں اس تنقی‪BB‬دی لہجے میں ط‪BB‬نزیہ‬
‫رنگ بھی جھلکتا ہے۔ خصوص‪B‬ا ً بن‪BB‬د ‪ ۱۱‬اور ‪ ۱۴‬میں جہ‪B‬اں اس‪B‬تفامیہ ان‪BB‬داز میں ان خوبی‪BB‬وں ک‪BB‬و جنہیں ‘‘ش‪B‬کوہ’’ میں‬
‫مسلمان نے اپنے کارناموں کے طور پر پیش کیا تھا۔ شاعر مسلمان کی خامی‪BB‬اں بن‪BB‬ا ک‪BB‬ر پیش کرت‪BB‬ا ہے۔ بعض حص‪BB‬وں‬
‫میں(بند‪)۱۹،۱۵،۱۴،۲۰ B‬میں تاسف کا لہجہ پایا جاتا ہے۔‘‘جواب شکوہ’’ میں مایو س اور غم زدہ مسلمانوں کو تس‪BB‬لی‬
‫و اطمینان دال نے اور پریشان کن حاال ت میں ان کی ڈھارس بندھانے واال لہجہ دیتا ہے۔ نظم کا لہجہ قدرے پر ج‪BB‬وش‬
‫ہے۔ مگر جوش و خروش کی وہ کیفیت نہیں جو مثالً ‘‘ طلوع اسال م’’ کے آخری حصے میں پائی ج‪BB‬اتی ہے۔اس‪BB‬ے‬
‫دھیمے جوش سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔‬

‫ڈرامائی کیفیت‬ ‫‪‬‬


‫نظم کے پہلے پانچ چھے بندوں میں اہل آسماں پر‘‘شکوہ’’ کا رد عم‪B‬ل دکھای‪B‬ا گی‪B‬ا ہے۔ یہ‪B‬اں اس ط‪B‬رح کی‬
‫ڈرامائی کیفیت موجود ہے۔ شاعر نے پیر گردوں ‪ ،‬سیاروں‪ ،‬چان‪BB‬د‪ ،‬کہکش‪BB‬اں‪ ،‬اور فرش‪BB‬توں کی زب‪BB‬انی اس ڈرامے کے‬
‫مختصر مکالمے کہلوائے ہیں۔ ان مکالموں اور گفتگو کا تحیت اور استفہامیہ انداز ڈرامائیت کو بڑھا دیتا ہے۔ ڈرامے‬
‫کا کالئمکس پر ایک آواز آتی ہے جو اہل آسماں کے سواالت کا ج‪B‬واب ‪ ،‬ای‪B‬ک طوی‪B‬ل مک‪B‬المے کی ص‪B‬ورت میں دی‪B‬تی‬
‫ہے یہ آواز اس ڈرامے کا آخری اور سب سے اہم کردار ہے۔‬

‫دیگر فنی محاسن‬ ‫‪‬‬


‫انداز بیان لہجے اور ڈرامائی کیفیت کی خوبیوں کے عالوہ ‘‘ جواب شکوہ’’ بعض ایسے فنی محاس‪BB‬ن س‪BB‬ے‬
‫مزین ہے جو اسے حسن بیان کا شاہکار بناتی ہے۔ چند پہلو مالحظہ ہوں‪:‬‬
‫حسن بیان‪:‬‬ ‫الف‪:‬‬
‫جس سے ‘‘ شکوہ ’’ کیا جائے جواب میں اس کی طرف سے ب‪BB‬ا لعم‪BB‬وم ع‪BB‬ذرو مع‪BB‬ذرت پیش کی ج‪BB‬اتی ہے مگ‪BB‬ر ‘‘‬
‫جواب شکوہ’’ کا حسن بیان مالحظہ ہو کہ اس میں ‘‘ شکوہ’’ کرنے والے پ‪BB‬ر اس ک‪BB‬ا ش‪BB‬کوہ لوٹ‪BB‬ا دی‪BB‬ا گی‪BB‬ا ہے۔گوی‪BB‬ا‬
‫شکوہ کرنے والے کا منہ بند کر دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں خصوصا ً مندرجہ ذیل اش‪B‬عار اور مص‪B‬رے قاب‪BB‬ل مالحظہ‬
‫ہیں۔ ان میں پوشید طنز کی کاٹ اور اثر انگیزی کا جواب نہیں‪:‬‬
‫شور ہے ہو گئے دنیا سے مسلمان تابود‬
‫ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود؟‬
‫‪17‬‬

‫وضع میں تم ہو نصارا تو تمدن میں ہُنو د‬


‫یہ مسلمان ہیں جنھیں دیکھ کے شرمائیں یہود‬
‫یوں تو سید بھی بھی ہو‪ ،‬مرزا بھی ہو‪ ،‬افغان بھی ہو‬
‫تم سبھی ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟‬
‫ایک جگہ موجود مسلمانوں کا موازنہ ان کے اسالف سے کیا ہے۔‬
‫وہ زمانے معزز تھے مسلمان ہو کہ‬
‫اور تم خواز ہوئے تارک قرآن ہو کر‬
‫مسلمانوں کے شکوے کے جواب میں یہ ایک شعر ہی کافی ہو تا ۔ کیونکہ استدالل الجواب ہے۔‬
‫پاب کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو‬
‫پھر پسر قابل ِ میراث پدر کیوں کر ہو‬
‫تصویر کاری اور تشبیہ‪:‬‬ ‫ب‪:‬‬
‫تصویر کاری اور تشبیہ کی مثالیں ‘‘ جواب شکوہ’’ میں بہت منفرد ہیں۔‬
‫تو ہے‬ ‫کشتی حق کا زمانے میں سہارا‬
‫عصر تو رات ہے‪ ،‬دھندالسا ستارا تو ہے‬
‫نخل اسالم نمونہ ہے برو مندی ہے‬
‫پھل ہے یہ سیکڑوں صدیوں کی چمن بتدی کا‬
‫چند نئی تراکیب‪:‬‬ ‫ج‪:‬‬
‫ف‪B‬رس اع‪BB‬دا‪ ،‬م‪BB‬ردم ‪ ،‬چش‪BB‬م زمیں‪ ،‬غ‪BB‬یر ی‪BB‬ک‪ ،‬بان‪BB‬گ درا ‪،‬‬
‫ِ‬ ‫چند نئی تراکیب جو ‘‘ جواب شکوہ’’ میں ملتی ہیں‪ B:‬صہیل‬
‫ترق طبعی‪ ،‬شعلہ مقالی‪ ،‬قدسی االصل‪ ،‬دانئے‪ B‬رموز کم وغیرہ۔‬
‫صنعت گری کی چند مثالیں مالحظہ ہوں۔‬
‫صنعت تلمیح‬ ‫‪۱‬۔‬
‫تو وہ ہوسف ہے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا‬
‫‪----------‬‬
‫شان رفعنا لک ذکرک دیکھے‬
‫ِ‬ ‫رفعت‬
‫‪---------‬‬
‫ہےعیاں یورش تاتار کے افسانے سے‬
‫یاسیاں مل گئے کعبے کوصنم خانے سے‬
‫صنعت طباق‬ ‫‪۲‬۔‬
‫(دو ایسے الفاظ کا استعمال جو معنی کے اعتبار سے ایک دوسرے کی منہ ہوں)‬
‫منفعت ایک ہے اس قوم کی نقصان بھی ایک‬
‫‪18‬‬

‫ایک ہی سب کا نبی ﷺ ‪ ،‬دین بھی ایمان بھی ایک‬


‫صنعت مراعاۃ النظیر‬ ‫‪۳‬۔‬
‫حرم پاک بھی ‪ ،‬ہللا بھی‪ ،‬قرآن بھی ایک‬
‫کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک‬
‫صنعت ترافق‬ ‫‪۴‬۔‬
‫(جس مصرع کو چاہیں پہلے پڑھیں معنی میں کوئی فرق نہیں آتا)‬
‫غافل آداب سے‪ ،‬سکان زمیں کسے ہیں؟‬
‫شوخ و گستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں؟‬
‫صنعت ترصیع‬ ‫‪۵‬۔‬
‫(دو مصرعوں کے زیادہ یا تمام الفاظ کا ہم قافیہ ہوتا ہے)‬
‫سیکڑوں نخل ہیں‪ ،‬کا ہیدہ بھی با لیدہ بھی ہیں‬
‫سیکڑوں بطن چمن میں ابھی پوشید بھی ہیں‬
‫صنعت تاکید الذم ہما یشبہ المدح‬ ‫‪۶‬۔‬
‫ہجو یا مذمت کی تاکید ایسے لفظوں سے جو مدح سے مشابہت رکھتے ہوں‬
‫ان کو تہزیب نے ہر بند سے آزاد کیا‬
‫الکے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا‬

‫صنعت اطراد‬ ‫‪۷‬۔‬


‫جس کی مدح یا مذمت کی جائے اس کے نام کے ساتھ اس کے پاب کا نام بھی مذکو ر ہو۔‬
‫بہت شکن اٹھ گئے باقی جو رہے بت گر ہیں‬
‫تھا ابراہیم پدر اور پسر آزر ہیں‬

‫حاصل کالم ‪:‬‬


‫"شکوہ" بالکل انوکھی قسم کی نظم تھی اس لیے ملک کے طول و عرض میں نہایت وسیع پیمانے پ‪BB‬ر مقب‪B‬ول‬ ‫‪‬‬
‫ہوئی عالمہ اقبال نے ایک موقع پر بتایا کہ کئی ہزار خطوط اس کی تعریف میں آچکے ہیں‬
‫(روداد ستائیسواں ساالنہ جلسہ انجمن ‪ ١١۲‬اپریل ‪١۹١۲‬ء ص ب )‬
‫بحوالہ(اقبال اور انجمن حمایت اسالم ص ‪)۸٣‬‬

‫عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بنتے‪ B‬ہیں بہت جلد اس کا رد عمل سامنے آیادل سے جو بات نکلتی ہے اثر‬ ‫‪‬‬
‫رکھتی ہے سب س‪BB‬ے اہم رد عم‪BB‬ل ت‪BB‬و خ‪BB‬ود اقب‪BB‬ال ک‪BB‬ا تھ‪BB‬ا ج‪BB‬واب ش‪BB‬کوہ کی ش‪BB‬کل میں ع‪BB‬وام ک‪BB‬ا ت‪BB‬اثر ب‪BB‬العموم‬
‫پسندیدگی کا تھا تاہم بعض حلقوں نے اسے خدا کے حضور گس‪BB‬تاخی ق‪BB‬رار دی‪BB‬ا ردعم‪BB‬ل کے دون‪BB‬وں پہل‪BB‬و ک‪BB‬و‬
‫مختلف شعراء نے منظوم صورت میں پیش کیا جو نظم لکھی گئی ان کی کسی قدر تفصیل ڈاکٹر س‪BB‬ید قمق‪BB‬ام‬
‫حسین جعفری کے مضمون شکوہ جواب شکوہ(ادہی دنیا اپریل مئی ‪١۹۷١‬ء) میں دیکھی جا سکتی ہے ۔‬
‫‪19‬‬

‫تمام جوابی نظموں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امت مس‪BB‬لمہ م‪BB‬ذہب س‪BB‬ے روگ‪BB‬ردانی کے س‪BB‬بب موج‪BB‬ودہ ح‪BB‬االت‬ ‫‪‬‬
‫زارکو پہنچی ہے اب اصالح احوال کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرے‬
‫"ش‪BB‬کوہ "میں مس‪BB‬لمانوں کی زب‪BB‬وں ح‪BB‬الی بی‪BB‬اں کی گ‪BB‬ئی تھی اور اس کی وجہ پ‪BB‬وچھی گ‪BB‬ئی تھی پھ‪BB‬ر وہ‪BB‬اں‬ ‫‪‬‬
‫مایوس‪BB‬ی اور دل شکس‪BB‬تگی کی ای‪BB‬ک کیفیت تھی ۔”ج‪BB‬واب ش‪BB‬کوہ“ اس کیفیت کی ت‪BB‬وجیہ ہے اور ش‪BB‬کوہ میں‬
‫اٹھائے جانے والے سواالت کے جواب دیے گئے ہیں۔ جواب شکوہ میں اسالمی تاریخ کے بعض واقعات اور‬
‫جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں‬
‫جواب شکوہ“میں مسلمانوں کے مذہبی‪ ،‬روحانی اور اخالقی انحطاط کے اسباب نہایت دل کش انداز میں بیان‬ ‫‪‬‬
‫کیے گئے ہیں اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی کا عالج بھی تجویز کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کو‬
‫چاہیے کہ اپنے کردار سے رسول پاک کے امتی ہونا ثابت کریں اور ان کے دامن سے وابستہ رہنے کا عزم‬
‫کریں۔ یہی خداوند ٰ‬
‫تعالی تک رسائی کا راز ہے۔‬
‫"شکوہ“ کو اگر مذہبی شاعری کی وسواخت کہا جائے تو وسواخت کا خاتمہ عام طور پر محبوب سے صلح‬ ‫‪‬‬
‫صفائی پر ہوتا ہے اس لحاظ سے ”جواب شکوہ“ تعلقات کے ازسرنو خوشگوار ہونے اور اعتدال پر آنے کا‬
‫اعالن ہے۔ بقول عبد القادر سروری‬
‫” شکوہ“ اور”جواب شکوہ“ میں سے کسی نظم کا جواب اردو میں نہیں ہے۔ شکوہ میں جس شاعرانہ انداز‬ ‫‪‬‬
‫سے مسلمانوں کی پستی کا گلہ خدا سے کیا گیا ہے اور ”جواب شکوہ “ میں ابھرنے کی جو ترکیب بتائی‬
‫گئی ہے اس میں الہام ِ ربانی کی شان نظر آتی ہے۔‬
‫"جواب شکوہ "فکر خیال کی جدت کے ساتھ اعتبار سے بھی اقبال ک‪BB‬ا حس‪BB‬ن و جمی‪BB‬ل تخلیقی پیک‪BB‬ر ہے۔ ت‪B‬اثر‬ ‫‪‬‬
‫کی شدت اور گرائی نظم کے ہر حصے میں موجود ہے۔ اختتام خصوصا ً بہت ب‪BB‬امعنی ب‪BB‬ا ی‪BB‬غ اور بے نظ‪BB‬یر‬
‫ہے۔ آخری شعر!‬

‫کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں‬


‫یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں‬
‫یہ شعر پوری نظم کا حاصل ہے۔ امت مسلمہ کے شکوے کے جواب میں صرف یہی شعر کافی ہو سکتا ہے۔‬
20

:‫حوالہ جات‬
‫ء‬2004 ,‫ الہور‬,‫ سنگ میل پبلیکیشنز‬,‫ اقبال کی طویل نظمیں‬,‫ ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی‬.1
1977،‫الہور‬،‫اقبال اکادمی پاکستان‬،‫اقبالیات کا تنقیدی جائزہ‬،‫ قاضی احمد میاں اختر‬.2
‫ ناظم اقبال اکیڈمی ۔الہور‬، ‫کلیات اقبال‬،‫ ڈاکٹر عالمہ محمد اقبال‬.3
4. https://www.rekhta.org/ebooks/dr-allama-iqbal-ke-shikwa-jawab-e-
shikwa-ki-nasri-tarjumani-allama-iqbal-ebooks
5. https://www.rekhta.org/ebooks/iqbal-ki-taweel-nazmein-fikri-aur-
fanni-mutala-rafiuddin-hashmi-ebooks#
6. https://kitabosunnat.com/kutub-library/Shikwa-Jawab-e-Shikwa
7. http://pakistan-posts.blogspot.com/2021/01/iqbal-shikwa.html?m=1

You might also like