Professional Documents
Culture Documents
جواب شکوہ
جواب شکوہ
شکوه
2
جیسے لوگ بڑی سرگرمی سے اس کے لیے کام کر رہے تھے اور عرب ،ترکوں کے خالف آمادہ بغBBاوت تھے ۔ نBBو
جوان ترکوں کی تحریک کے زیر اثر ترکی میں الدینیت اور تورانی قوم پرستی فروغ پBار ہی تھی ۔ انBدرونی خلفشBار
کے عالوہ بیرونی طاقتیں عثمانی سلطنت کے لیے نت نئے مسائل کھڑے کBBر رہی تھیں ۔ صBBہیونی ،سBBلطنت عثمBBانیہ
کی بر بادی اور خاتمے کے لیے سازشوں میں مصروف تھے ۔ ہندی مسلمان یا تو کانگریس کے حاشیہ بردار تھے یBBا
ان میں ( اال ماشاء ہللا )قسم کے رہنما پاۓ جاتے تھے جو مغرب سے بے حد مرعوب تھے اور سرسید تحریBBک کے
زیراثر وہ اسالم کے بارے میں معذرت خواہانہ انداز فکر رکھتے تھے ۔ ملک پر انگریزوں کی سیاسی گرفت خاصBBی
مضبوط تھی ۔ ہندوؤں کے دباؤ کی وجہ سے 1911ء میں تقسیم بنگال کی تنسیخ سے مسلمانوں کو بے حد صBBدمہ ہBBوا
اور ان کے اندر مایوی کچھ اور بڑھ گئی
کسی برگزیدہ اور برتBBر ہسBBتی کے سBامنے شBکوہ کBBرنے واال اپBBنی معروضBBات پیش کBBرتے ہBBوئے ،حسBب ضBBرورت
مختلف انداز اختیار کرتا ہے۔ چنانچہ اقبال کے فلوے کا لہجہ بھی متنوع ہے ۔ کہیں بجز و نیاز منBBدی ہے ،کہیں اپBBنی
غیرت وانا کا احساس ہے ،کہیں تندی وخی اور جوش ہے ،کہیں تاسف و مایوسی کا لہجہ ہے اور کہیں Bزاری ددعا کا
انداز ہے۔
اقبال کے فن کا کمال یہ ہے کہ انھوں نے نظم میں بعض مقامات پر نفسیاتی حربوں سے کام لیتے ہوۓ ایک ہی بیBBان
سے دہرا کام لیا ہے ۔ ۱۵و میں بند کے آخری شعر سے نظم کا وہ حصہ شروع ہوتا ہے ،جہاں شBBاعر خBBدا سBBے اس
کی بے اعتنائی اور بے نیازی کا گلہ شکوہ کر رہا ہے ۔اس کے ساتھ وہ کہتا ہے:
خنده زن کفر ہے ،احساس تجھے ہے کہ نہیں ؟
اپنی توحید کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہیں؟
پھر نہ کہنا ہوئی توحید سے خالی دنیا
ہم تو جیتے ہیں کہ دنیا میں ترا نام رہے سے
کیا ترے نام پر مرنے کا عوض خواری ہے؟
اس طعن آمیز انداز سے مخاطب کی انا اور غیرت کو جھنجھوڑ کر یا احساس دالنے Bکی کوشBBش کی گBBئی ہے کہ یہ
مBیرا نہیں ، BتمھBارا مسBBئلہ ہے ۔ نفسBBیاتی حBربے کی ایBک اور مثBال یہ ہے کہ بنBBد ۱۲-۲۲میں شBاعر بظBاہر خBدا بے
اعتنائی کا سبب پوچھ رہا ہے مگر بیان اور سوال کا انداز ایسا ہے کہ شBکوہ کBرنے والے کی اپBنی کمBر دریBBاں ظBاہر
4
ہورہی ہیں ،مثال ":کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب؟‘ کہتے ہوۓ شBBکوہ کBBرنے والے کBBا حBBریص اور اللچی
ہونا ثابت ہورہا ہے ۔اسی طرح " :طعن اغیار ہے ،رسوائی ہے ،ناداری ہے‘ سے پتا چلتBBا ہے کہ شBBا کی کواپBBنی بBBد
اعمالیوں اور خامیوں کا احساس نہیں Bاور نہ اس پBر وہ شBرمندہ ہے۔ اس کے لBیے تBو صBرف لوگBوں کی اٹھBتی ہBوئی
انگلیاں وجہ تکلیف بن رہی ہیں ۔شا کی کی ذہنی کیفیت اس سے بھی واضح ہوتی ہے کہ ایک طرف تBBو اسBBے غBBیروں
کے خزانے معمور ہونے پر کوئی شکایت نہیں ۔ ( یہ شکایت نہیں ،ہیں ان کے خزانے معمBBور ) اور دوسBBری طBBرف
وہ اپنے دل میں دولت دنیا کی حرص بھی رکھتا ہے :
” کیوں مسلمانوں میں ہے دولت دنیا نایاب‘۔
میدانBBداز بیBBان دراصBBل مسBBلمانوں کے دل میں احسBBاس زیBBاں اور غBBیرت ملی پیBBدا کBBرنے کی فن کBBارانہ کوشBBش ہے ۔
نفسیاتی حربے کی ایک مثال ۲۲و میں بند میں ملBBتی ہے ۔ پہلے چBBار مصBBرعوں میں شBBاکی نے دبے Bدبے الفBBاظ میں
اپنی کوتاہی کا اعتراف کیا ہے ۔ مگر وہ اس اعتراف کا عالنیہ اظہار نہیں کرتا اور کرے بھی تو کیسے؟ اس طرح تو
اس کا اپنBBا موقBBف کمBBزور ہوگBBا ۔ لہBBذا وہ اپBBنی کمBBزوری سBBے تBBوجہ دوسBBری طBBرف منعطBBف کBBرانے کے لBBیے فBBورا
( نفسیاتی حربے سے کام لیتے ہوۓ ) مخاطب کو طعنہ دیتا ہے کہ تم غیروں سے شناسائی رکھنے والے ہر جائی ہBBو
۔
تغزل
اقبال بھی دیگر ہم عصر شعرا کی طرح ابتدا میں ایک غزل گو شاعر تھے اور دائم سے با قاعده اصBBالح لیBBتے تھے ۔
رفتہ رفتہ ان کی طبیعت غزل سے ہٹ کر نظم کی طرف مائل ہوتی گئی۔ فنی اعتبار سBBے غBBزل اور اسBBلم میں واضBBح
فرق ہے ۔ مگر اقبال نے غزل گوئی سے دسBBت کش ۴۶ہBBونے کے بBBاوجود غBBزل کی روح کBBو اپBنی نظمBوں میں بھی
برقرار رکھا ۔
اقبال کی طبیعت کا شاعرانہ مزاج جسے غزل اور تغزل کے ساتھ ایک فطری مناسبت اور طبعی لگBBاؤ ہے ،اس نظم
میں بار بارا پی جھلک دکھا تا ہے ۔ بعض مقامات پر اس کا اظہار بہت بھر پور ہے:
تیری محفل بھی گئی ،چاہنے والے بھی گئے
شب کی آ میں بھی گئیں صبح کے نالے بھی گئے
دل تجھے دے بھی گئے ،اپنا صلہ لے بھی گئے
آ کے بیٹھے بھی نہ تھے اور نکالے بھی گئے
آۓ عشاق ،گئے وعدۂ فردا لے کر
اب انھیں ڈھونڈ چراغ رخ زیبا لے کر
بعض اشعار کو اگر نظم کے سیاق وسباق سے الگ کر کے دیکھا جاۓ تو وہ خالص غزل کے اشعار معلوم ہوتے ہیں
:کبھی ہم سے کبھی غیروں سے شناسائی ہے بات کہنے کی نہیں ،تو بھی تو ہBر جBائی ہے بBادہ کش غBیر میں گلشBن
میں لب کو بیٹھے Bسنتے ہیں جام بلف نغمہ کوکو بیٹھے Bوادي نجد میں وہ شور سالسل نہ رہا قیس دیوانه نظBBاره محمBBل
نہ رہا
شکوہ کے بعض حصے ،اشعار اور مصBرعے ایجBاز و بالغت کBا شBاہ کBار ہیں ۔ تBاریخ کے طBول طویBل ادوار ،اہم
واقعات و روایات اور مختلف کرداروں کی تفصیلی خصوصیات کو بڑے بلیغ انBBداز میں نہBBایت ہی اختصBار کے سBBاتھ
بیان کیا گیا ہے ،چند مثالیں
د میں اذانیں بھی یورپ کے کلیساؤں میں
5
فکری جائزہ:
موضوع کے اعتبار سے " شBکوہ" بارگBاہ میں دور حاضBر کے مسBلمانوں کی ایBک فریBاد ہے کہ ہم تBیرے نBام لیBوا
ہونے کے باوجود دنیا میں ذلیل اور رسوا ہیں اور یہ شBBکوہ بھی کہ نBBبی کBBریم صBBلی ہللا علیہ وسBBلم کی امت تBBو ہیں "
کچھ بھی ہیں لیکن تیرے محبوب کی امت میں ہیں " ( آغا حشBBر کاشBBمیری) مگBBر انعامBBات و نوازشBBات کی بBBارش کی
غیر مسلموں پر ہو رہی ہے۔ گویا عالمہ اقبال نے اس نظم میں عBBام مسBBلمانوں کے الشBBعوری احساسBBات کی ترجمBBانی
کی ہے۔ معروف دانشور،نقاد اور شاعر سلیم احمد (م )1983:کے الفBاظ میں " :ایBBک طBرف ان کBBا یہ عقیBBدہ ہے کہ وہ
خدا اور اس کے محبوب صلی ہللا علیہ وسBلم کی سBب سBے چہیBBتی امت ہیں اور اس لBBئے خBBدا کی سBاری نعمتBBوں کی
سBBزاوار اور دوسBBری طBBرف یہ ناقابBBل تردیBد Bحقیقت ہے کہ ان کBBا مکمBBل زوال ہوچکBBا ہے۔ عقیBBدہ اور حقیقت کے اس
ٹکراؤ سے مسلمانوں کا وہ مخصوص المیہ پیدا ہوتا ہے جو "شکوہ" کا موضوع ہے۔ اقبال کے اپنے الفاظ میں:
" وہی بات جو لوگوں کے دلوں میں تھی،ظاہر کر دی گئی
سلسلہ فکر و خیال کی ترتیب کے مطابق نظم کو مندرجہ ذیل حصوں میں تقسBBیم کBBرتے ہBBوئے اس کBBا مطBBالعہ و
تجزیہ کریں گے.
تمہید B:اظہار شکوہ کی توجیہ ۔ بند Bایک – دو •
امت مسلمہ کا کارنامہ۔ بند تین – تیرا •
مسلمانوں کی حالت زبوں ۔ بند چوداں – انیس •
حالت زبوں کی وجہ کیا ہے؟ بند بیس – تئیس •
کیفیت یا س و بیم ۔ بند چوبیس -چھبیس •
دعائیہ اختتام ۔ بند ستائیس – اکتیس •
اظہار شکوہ کی توجیہ: .1
نظم کے پہلے دو بند Bتمہیدی ہیں جن میں اظہار شکوہ کی توجیہ بیBBان کی گBBئی ہے۔ یہ مسBBلمانوں کی موجBBودہ بBBدحالی
اور پستی پر اقبال کے ردعمل کا اظہBBار ہے۔ ان کے خیBBال میں مسBBلمان انحطBBاط کی اس کیفیت کBBو پہنچ چکے ہیں کہ
اس پر خاموش رہنا نہ صرف اپنی ذات بلکہ ملک کے اجتماعی مفاد سے غداری کے مترادف ہے۔ اس موقع پر قصBBہ
درد سنانا خالف ادب ہے اور نالہ و فریاد کا یہ انداز تاریخی کی ذیل میں آتBBا ہے مگBBر ہم ایسBBا کBBرنے پBBر مجبBBور ہیں.
خدا مجھے معاف کرے کہ میں ( تسلیم و رضا کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے ) اس سے شکوہ کرنے چال ہوں ہوں
کسی لمبے چوڑے پس منظر یہ غیر ضروری طBBول طویBBل تمہیBد Bکے بغBBیر بBBاری تعBBالی سBBے بBBراہ راسBBت گفت گBBو،
اسالمی تصور پر مبنی ہے کہ بندہ اپنے خدا سے بال واسطہ ہم کالم ہو سکتا ہے۔ قرآن حکیم نے فرمایBBا ہے " :تمہBBارا
رب کہتا ہے :مجھے پکارو،میں تمہاری دعائیں قبول کروں گا۔" ( سورۃ المومن) 40 :
6
واضح رہے کہ جملہ مذاہب میں یہ انفرادیت سے اسالم ہی کو حاصل ہے ،ورنہ ہندومت اور نصBBرانیت میں میں
پردہت اور پادری بندے Bاور خدا کے درمیان واسطہ بنتے ہیں۔ عالمہ اقبال اس رویہ پر احتجاج کرتے ہیں:
کیوں خالق و مخلوق میں حائل رہیں پردے
پیران کلیسا کو کلیسا سے اٹھا دو
بدقسمتی سے مسلمانوں کے ہاں بھی اب ایک ایسا طبقہ پیدا ہوگیا ہے جBBو بنBBدے اور خBBدا کے درمیBBان توسBBل کBBا
دعوی کر کے کے مذہبی اجارہ داری کے غیر اسالمی تصور کو فروغ دے رہا ہے۔ عابد علی عابد کہتے ہیں " :اقبال
سوچے سمجھے منصوبے کے تحت پڑھنے والوں کو اس طرز طرز تخاطب سب سے آشنا کرنا چاہتBBا ہے .اقبBBال نے
شکوے کے پہلے دو بندوں Bہی میں بات یا موضوع سخن کو اس منزل تک پہنچا دیا کہ بعBد Bکی شBBکوہ سBBرائی اور گلہ
مندی بالکل موزوں اور مناسب معلوم ہوتی ہے "۔
امت مسلمہ کا کارنامہ : .2
تیسرے بند سے نظم کے اصل موضوع پر اظہار خیال کا آغاز ہوتBBا ہے۔ تBBیرھویں بنBBد تBBک اقبBBال نے
امت مسلمہ کے عظیم الشان کارناموں کا تذکرہ کر کے دنیا میں اس کی حیثیت و اہمیت کBBو اجBBاگر کیBBا ہے۔ سBBب سBBے
پہلے پہلے دنیا کی حالت اور تاریخ کا منظر پیش کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:
الف :خدا کی ذات ازل ہی سے جملہ سچائیوں سمیت موجود تھی۔
ب :بڑی بڑی قومیں ( سلجوقی،تورانی،ساسانی،یونانی،یہBBودی،نصBBرانی ) دنیBBا پBBر چھBائی ہBوئی تھی اور ان میں سBBے
بعض کی عظیم الشان سلطنتیں بھی قائم تھیں۔
ج :لوگ شجروہجر کو معبود بنBا کBر شBرک اور گمBراہی و ضBاللت کی تBاریکیوں میں بھٹBک رہے تھے۔ گویBا یہ پس
منظر ہے امت مسلمہ کے بے نظیر کا ناموں کا اور اس سے تاریخ کی اسٹیج پر مسلمانوں کی اہمیت بھی واضح ہوتی
ہے۔ اور اب ان کا نام کا مفصل بیان ہوتا ہے ہے:
اقبال بتاتے ہیں کہ ساری دنیا میں یہ شرف صرف مسلمانوں کو حاصل ہے کہ انہوں نے خدا کے پیغام کو دنیBBا
کے دور دراز کونوں تک پہنچا دیا۔ روم و ایران کی فتح ان کا حیرت انگیز کارنامہ تھا۔ نظم کے اس حصے میں اقبال
نے تاریخ اسالم کے جن ادوار اور واقعات کی طرف اشارہ کیا ہے ،مختصراً کی وضاحت ضروری ہے:
" دیں اذانیں کبھی یورپ کے کلیساؤں میں " کا اشارہ ضلع سلطنت عثمانیہ کے دور کی طرف ہے جBBو مسBBلمانوں
کی سلطنت یونان ،البانیہ ،بلغاریہ ،ہنگری اور آسٹریا تک پھیلی ہوئی تھیں۔
پھر زمانے کا تصور کیجئے جب اٹلی کے کچھ حصوں اسBBپین پBBر بھی مسBBلمانوں کی حکBBومت تھی ۔ یBBورپ
کے ملکوں میں جہاں آج کلیسBBاؤں میں نBBاقوس بجBBتے ہیں ،کبھی ہمBBاری اذانیں گونجBBتی تھیں ۔ اسBBی طBBرح افBBریقہ کے
تپتے ہوئے صحراؤں کا عالقہ مصر ،لیبیا ،تیونس ،الجزائر ،مراکش وغیرہ بھی مسلم سلطنت میں شامل تھا۔
عملی تفسیر اس واقعہ میں ملتی ہے جب حضرت عمر فاروق رضی ہللا تعالی عنہ کے دور میں مسBBلم وفBBات کے قائBBد
ربعی بن عBBامر ،ایBBرانی سBBپہ سBBاالر رسBBتم کی گفت و شBBنید کے لBBئے اس کے دربBBار میں گBBئے آئے تBBو ایرانیBBوں نے
مسلمانوں کو مرغوب کرنے کے لیے دربار کو بڑے بے ساز و سامان سBBے سBBجا رکھBBا تھBBا۔ ربعی اپBBنے نBBیزے سBBے
قیمتی قالین کو چھیدتے Bہوئے درباری ہیبت سے بے پرواہ ہو کر تخت کے قBBریب جBBا پہنچے اور نBBیزہ زمین پBBر مBBارا
جو قالین کو چھیدتا ہوا زمین میں گڑ گیا۔
ساتویں بعد میں بت فروشی اور بت شکنی کی تلمیح سلطان محمBBود غزنBBوی کے عظیم الشBBان تBBاریخی کارنBBامہ
فتح سومنات کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ محمود نے ہندو پجاریوں کی رشوت کو ٹھکراتے ہوئے سBBومنات کے بت کBBو
پاش پاش کر دیا اور کہا " :میں بت فروش کی بجائے بت شکن کہالنا پسند کروں گا" ایاز محمود کا چہیتا غالم تھا۔
در خیبر اکھاڑنے کا واقعہ واہ دور نبBوی صBلی ہللا علیہ وسBلم میں پیش آیBا۔ خیBبر کے یہودیBوں کBا قلعہ تھBا جBو
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی سرکردگی میں حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کے ہBاتھوں فتح ہBوا۔ " شBہر قیصBر"
7
سے مراد قسطنطنیہ ( موجودہ نام استنبول ) ہے جو مسلمانوں نے سلطان محمد فاتح کی سرکردگی میں 1453میں فتح
کیا۔ ایران کے مجوسی آگ کی پوجا کرتے تھے۔ مسلمانوں نے ایران کو فتح کرکے مجوسیت کا خاتمہ کیا اور آتشکدہ
ایران کو ٹھنڈا کردیا۔
بحر ظلمBBات سBBے مBBراد بحBBر اوقیBBانوس ہے۔ " بحBBر ظلمBBات میں دوڑا دیے گھBBوڑے ہم نے " یہ اشBBارہ ہے اس
معBBروف واقعے کی طBBرف جب ایBBک مسBBلمان مجاہBBد عقبہ بن نBBافع میں افBBریقہ کے آخBBری سBBرے تBBک پہنچ BکBBر اپBBنے
گھوڑے کو بحر اوقیانوس میں ڈال دیا اور بڑی حسرت سے کہا " :خدایا اگر یہ بحر دخار درمیان میں حائل نہ ہوتا تو
تیرے راستے میں جہاد کرتا ہوں اسی طرح آگے بڑھتا ہوا چال جاتا "۔ یہ جگہ مراکش میں شرف العقاب کے نام سBBے
موسوم ہے۔
مسلمانوں کی حالت زبوں: .3
امت مسلمہ کے درخشندہ ماضی کی جھلکیاں دکھاتے ہوئے سلسلہ خیBال مسBلمانوں کی موجBودہ حBالت کی طBرف مBڑ
جاتا ہے۔ جہاں اقبال نے دوسری قوموں سے ان کا موازنہ کرکے ان کی موجودہ حالت زبوں کو نمایاں کیا ہے۔ کہBBتے
ہیں کہ دنیا میں مسلمان ہر جگہ ہی غیر مسلم کے مقابلے میں حقیر ،ذلیل اور رسوا ہیں۔ دوسری قومیں ان پر خندہ زن
ہیں ۔ نظم کیسے میں صحیح معنوں میں گلے اور شکوے کا رنگ پایا جاتا ہے ہے۔ اقبBBال نے مسBBلمانوں کی بے بسBBی
اور بے چارگی کا واسطہ دے کر خدا سے پوچھا ہے کہ توحید کے نام لیواؤں پر پہلے جیسا لطف و کرم کیBBوں نہیں؟
اس کے ساتھ ہی شاعر نے ایک طرح کی تنبیہ بھی کی ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو دنیBBا توحیBBد کے نBBام لیBBواؤں
سے خالی ہوجائے گی اور ڈھونڈنے سے بھی ایسے عاشقان توحید کا سراغ نہیں ملے گا۔
حالت زبوں کی وجہ کیا ہے .4
اقبال اس حالت زبوں کا سبب دریافت کرتے ہیں۔ مسلمان آج بھی خBBدا کے نBBام لیBBوا اور اس کے رسBBول صBBلی ہللا علیہ
وسلم کے پیروکار ہیں۔ آج بھی ان کے دلوں میں اسالم کے بارے میں ایک زبردست جوش اور جذبہ اور کیفیت عشBBق
موجود ہے۔ اقبال متاسف ہیں کہ اس کے باوجود ان آیات خداوندی سے محروم ہیں۔
نظم کے اس حصے میں اقبال نے بہت سی تلمیحات استعمال کی ہیں۔ لیلی ،قیس ،دشت و جبل ،شBBور سالسBBل ل
اور دیوانہ نظارہ محمل کی تراکیب و تلمیحات مشہور تاریخی کردار قبیلہ بنو عامر کے قیس مجنBوں سBے متعلBق ہیں۔
روایت ہے کہ قیس بن یعمر لیال کے عشق میں دیوانہ ہو کر نجد کے صحراؤں میں خاک چھانتا پھرتا تھا تھا۔ شاعری
میں بکثرت استعمال کے سبب ان تلمیحات کے مفاہیم و معانی میں بہت گہرائی اور وسعت پیدا ہو چکی ہے۔ اقبال کے
بعض شارحین نے نے نجد کے دشت و جبل میں رم آہو
بھی وہی میں رم آہو سے صفا مروا کی صحیح مراد لی ہے جو حج کا اہم رکن ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضBBی ہللا
تعالی عنہ آنحضور صBBلی ہللا علیہ وسBBلم کے جلیBBل القBBدر صBBحابی تھے۔ اویس قBBرنی مشBBہور تBBابعی ہیں جنہیں اگBBرچہ
حضور صلی ہللا علیہ وسلم کی زیBBارت نصBBیب نہ ہBBو سBکی مگBر آپ صBلی ہللا علیہ وسBBلم سBBے غBایت درجہ محبت و
شگفتگی رکھتے تھے۔ 37ہجری میں میں حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ اور حضرت امیر معاویہ رضی ہللا تعالی
عنہ کے درمیان ہونے والی ایک جنگ میں شہید ہوئے ۔ حضرت بالل حبشی حضور صلی ہللا علیہ وسلم کے برگزیدہ
صحابی اور مؤذن رسول تھے۔ شدید ترین دور ابتال میں بھی ان کے پائے ثبات میں لغBزش نہیں آئی اور وہ توحیBBد پBBر
قائم رہے۔ کفار انہیں دوپہر کے وقت تبدیلی پر لٹا کر سینے پر بھاری پتھر رکھ دیتے اور اسالم تBBرک زور دیBBتے Bہیں
مگر وہ اس حالت میں بھی احد احد پکارتے رہتے۔ رسBول کBBریم صBBلی ہللا علیہ وسBBلم سBBے والہBBانہ عشBBق تھBBا۔ فBاران،
سعودی عرب میں واقع ایک پہاڑ کا نام ہے۔ " سر فاراں پہ کیا دین کو کامل تو نے " سے مراد ہے کہ دین کی تکمیBBل
خطہ عرب میں ہوئی۔
اشBBارہ ہے قBBرآن کBBریم کی اس آیت کی طBBرف طBBرف جس میں فرمایBBا گیBBا ہے ہے " :آج میں نے تمہBBارے دین کBBو
تمہارے لیے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کBBردی اور تمہBBارے لBBئے اسBBالم کBBو تمہBBارے دین کی حیBBثیت
سے قبول کر لیا ہے ".
کیفیت یا س و بیم .5
8
چھبیسویں بند سے اقبال کا لہجہ مائل بہ یBBاس ہے۔ 24اور 25ویں بنBBد دراصBBل نظم کے اس حصBBے کBBا تتمہ ہیں جس
ت زبوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہاں شاعر نے مسلمانوں کی بBBدحالی ،بے چBارگی اور بے بسBی کBامیں مسلمانوں کی حال ِ
ذکر کسی ایک مایوسانہ انداز میں کیا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ساتھ یہ امید و بیم کی کیفیت 26ویں بند میں موجBBود ہے۔
شBBرم طBBرف ہے کہ مایوسBBی اور تBBاریکی کے اس دور میں بھی مسBBلمانوں کے دلBBوں میں ایمBBان یہ رات کی دبی دبی
چنگاریBBاں سBBلگ رہی ہیں اور وہ اسBBالمی نشBBات ثBBانیہ کے لBBئے بے چین و مضBBطرب ہیں ۔ آپ اس حصBBے سBBے نظم
خاتمہ کی طرف چلتی ہے۔
دعائیہ اختتام .6
یاس وبیم کی صورتحال کا نتیجہ غیر یقیBBنی ہے۔ مگBBر بBBات کی خBBواہش یہ ہے کہ دور حاضBBر کے مسBBلمانوں کے دل
پھر دینی جوش و جذبے سے لبریز ہو جائیں۔ کوہ طور پر تجلیات الہی پر نازل ہو کیونکہ طور ،نور خBBدا کی آگ میں
جلنے کے لئے بے تاب ہے یہ مسلمان اسالمی شوکت ورزش کے لیے تڑپ رہے ہیں۔ ( تور جزیرہ میرا نام اس سBBینہ
میں واقع ایک سلسلہ کوہ کی ایک اونچی پہاڑی کا نام ہے جس پر حضرت موسی علیہ السالم اسالم ،ہللا تعالی سBBے ہم
کالم ہوتے تھے تھے ) نظم کی آخری حصے میں شاعر کی آرزو ایک دعا کی شBBکل میں ڈھBBل جBBاتی ہے۔ دعBBا کBBا یہ
سلسلہ خیال ستائیسویں شعر سے شروع ہوکر نظم کے آخری شہر تک چلتا ہے۔ امت مسلمہ کو جن مسائل و مشBBکالت
کا سامنا ہے اقبال ان کے حل کے لیے دعا گBBو ہیں۔ " امت مرحBBوم " کی تBBرکیب بہت معBBنی خBBیز ہے۔ مBBراد یہ ہے کہ
مسلمان بھائیوں سے قوم کے مرد ہو چکے ہیں۔ ان کی حیثیت سلیمان علیہ السالم کے مقابلے میں " مBBورے بہ مBBایہ "
کی سی ہے ۔ شعر کی آرزو ہے کہ یہ کم حیثیت اور فرومایہ قوم انگڑائی لے کر اٹھ کھڑی ہBBوں اور کBBارگر دنیBBا میں
ترقی یافتہ اقوام جیسا بلند مقام حاصل کرلے۔ ( قرآن مجید کی سورۃ النمل میں حضرت سلیمان علیہ السالم اور چیونٹی
کا قصہ مزکور ہے ) ہند کے "دیر نشینوں " سے مراد ہے یہ ہے کہ ہندی مسلمانوں نے اپBBنے بہت سBBے معBBامالت و
معموالت اور ثقافت تمدن میں ہندوؤں کے طور طریقوں اور رسوم و رواج کو اپنا لیا ہے۔
اقبال نے نظم کے اس آخری حصے میں یہ دعا ضرور کی ہے کہ مسلمانوں کا مستقبل روشBBن اور خBBوش
آئند ہو اور ہونا چBBاہیے مگBBر یہ نہیں کہBBا کہ "ہوگBBا" ۔ یعBBنی تیقن کے سBBاتھ امیBBد نہیں Bدالئی کے فی الواقBBع کے سBBنہرا
مستقبل ان کا منتظر ہے ۔ اس کا سبب یہ ہے کہ " شکوہ" کا دور دنیا بھBBر کے مسBBلمانوں کے لBBیے انتہBBائی پBBر آشBBوب
زمانہ تھا اور مستقبل کے بارے میں کسی طرح کی حتمی پیش گوئی مشBBکل تھی۔ مجمBBوعی طBBور پBBر حBBاالت مBBایوس
کون تھے۔ چند ماہ بعد ہی ستمبر 1911میں اٹلی نے طرابلس پBBر حملہ کBر کے مسBلمانوں کBBو ایBک اور چرکBا لگایBBا ۔
اسی مایوسی کے پیش نظر اقبال کو خدا سے "شکوہ" کرنا پڑا .مایوسی کا ایک انداز یہ ہے کہ:
اس گلستاں میں مگر دیکھنے والے ہی نہیں
داغ کو سینے میں رکھتے ہوں وہ اللے ہی نہیں
یعنی مسلمانوں میں درد مند اہل شاز ہیں اور احیائے اسالم کی پکار پر کوئی تBوجہ ہی نہیں دیتBا۔ اس حصBہ میں اقبBال
نے " بلبل تنہا" کا تذکرہ بھی کیا ہے جو اب تک محو ترنم ہے ،وہ اپنی "بانگ درا" سے اہل چمن کے دلوں کو چاک
کر دینا چاہتا ہے۔ ظاہر ہے کہ بلبل سے مراد اقبال کی اپنی ذات ہے۔ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اس عBBالم یBBاس میں بھی ،
مسلم نشات ثانیہ اور احیائے دین کے لئے مجھ سے جو خدمت ہو سکتی ہے ،اسے بجBBا النے کے لBBئے کوشBBاں ہBBوں۔
اگرچہ میں تنہا ہوں اور کوئی شخص میری آواز پر کان نہیں دھرتا:
کاش گلشن میں سمجھتا کوئی فریاد اس کی
خصوصیت کالم:
شکوہ" ہمہ پہلو حسن زبان و بیان کا شاہکار ہے .انتخBBاب الفBBاظ ,بنBBدش تBBراکیب صBBنعت گBBری حسBBن تشBBبیہ و اسBBتعارہ
مناسب بحر موزوں قوافی وسعت معانی اور زبان و بیان کی خوبیBوں کے سBبب نظم اس قBدر دلکش اور جBزبہ انگBیز
ہے کہ قاری کے دل کو متاثر و متحرک کئے بغBBیر نہیں رہBBتی مسBBلمانوں کی بBBدحالی وپسBBتی کBBو حBBالی نے بھی اپBBنی
مسدس میں بیان کیا ہے مگر اقبال کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے تذکرہ کا سپاٹ انداز اختیار کرنے کی بجائے شکوہ کBBا
جدید انداز اختیار کیا ہے اس جدت بیان نے شکوہ کو یادگار نظم بنا دیBا ہے عابBد علی عابBBد کBا خیBال ہے کہ اقبBال کی
9
طویل نظموں میں شکوہ کئی طرح سBے اہم اور معBBنی خBBیز ہے اس کی سBاخت یBا تشBBکیل میں اقبBBال نے پہلی بBBار اس
صنعت گری کی ایک جھلک دکھائی ہے جسے بعد کی نظموں میں عروج کمال پر پہنچنBBا تھBBا دوسBBرے یہ کہ اس نظم
میں محسنات شعر کا استعمال ایسی چابکدستی اور ہنر مندی سے ہوا ہے کہ پڑھنے والے کی توجہ بیشBتر مطBالب پBر
مرکوز رہتی ہے
(شکوہ جواب شکوہ ص )۷
تشبیہ
شکوہ میں متعدد خوبصورت تشبیہ ہے ملتی ہیں مثالً
نظم کے ستائیسویں بند کے پہلے شعر میں اقبال نے امت مسBلمہ کBBو" مBوربے مBایہ "سBے تشBBبیہ دی ہے ہے جBو حBد
درجہ بلیغ ہے فی الواقع مسلمانوں کی حالت اس بے کس چونٹی کی سی ہو چکی ہے جسBBے دنیBBا کی ہBBر قBBوم اور ہBBر
گروہ جب چاہے روندتا اور مسلتا ہوا گBBزر جBBائے مسBBلمان چیونBBٹی کی ماننBBد کBBوئی مBBزاحمت یBBا روک ٹBBوک نہیں کBBر
سکتے
غرض شکوہ اقبال کے ابتدائی دور کی نظم ہونے کے باوجود فنی خوبیوں اور شعری محاسن سے ماالمBBال ہے عابBBد
علی عابد اس کی وجہ یہ بتاتے ہیں کہ اقبال کو آغاز کار ہی میں ایسے ایسے اساتذہ کی صحبت میسر آئی جو مشرق
کے اسلوب انتقاد کے ماہر تھے اور علوم شعری کے راز دار تھے چنانچہ انہی کے فیضان سے اقبال کو معانی بیان
اور علم بدیع کے تمام اسرار و رموز سے کامل آگاہی ہوگی اور اس کی یہی بصیرت تھی جو آخBBر ہBBر شBBعری کBBاوش
میں صنعت گری کا روپ دھار کر نمودار ہوئی
"اقبال کے کالم میں صنعت گری کا وہ اسلوب مخصوص بھی نمایاں طور پر نظر آتا ہے جBBو مشBBرقی علBBوم شBBعر ہی
سے منسوب ہے اور مغربی رنگ بھی جھلکتا ہے کہیں کہیں دونوں میں ایسا امتزاج پیدا ہو گیا کہ شاید وباید "
(شکوہ جواب شکوہ ص ۲٣سے )۲۴
جواب شکوہ
تعارف اور پس منظر:
انجمن حمایت اسالم الہور کے جلسے میں شکوہ پڑھی گئی تو وسیع پیمانے پBBر اس کی اشBBاعت ہBBوئی ۔ بعض لوگBBوں
کا خیال تھا کہ "شکوہ" کا انداز اور لہجہ قدرے گسBBتاخانہ ہے ۔ چنBBانچہ اس کی تالفی کے لBBیے ،اور یBBوں بھی شBBکوہ
ایک طرح کا سوال تھا جس کا جواب اقبال ہی کے ذمے تھBBا ،ڈیBBڑھ سBBال بعBBد انھBBوں نے جBBواب شBBکوہ لکھی ۔ یہ ۳۰
نومبر ۱۹۱۲ءکو ایک جلسہ عام ( یہ سلسلہ امداد مجروحین بتان) میں پڑھی گئی جو نماز مغرب کے بعBBد بBBاغ بBBیرون
موچی درواز و منعقد ہوا تھا ۔ میاں عطاء الرحمن کی روایت ہے کہ جب اقبال کے مداحوں کو خبر ملی کہ انھBBوں نے
شکوہ'' کا جواب لکھا ہے تو اس خبر سے ہر طرف جوش امید پھیل گیا اور شBاید اسBی سBBے فائBBدہ اٹھBBانے کی غBBرض
11
سے موال نا ظفر علی خاں زمیندار والوں نے موچی دروازے کے باہر باغ میں ایک عظیم الشان جلسے کBBا اہتمBBام کیBBا
اور اعالن ہوا کہ اس میں اقبال کی نظم ہوگی ۔ شایقین کBBا ایBBک جم غفBBیر بBBاغ کے پنBBڈال میں جمBBع ہBBوا ۔ میں خBBود اس
جلسے میں موجود تھا۔ اقبال نے نظم پڑھی۔ ہر طرف سے بے پناہ دادلی ۔ ایک ایک شعر نیالم کیا گیا اور ایBBک گBBراں
قدر رقم بلقان فنڈ کے لیے جمع ہوگئی ۔ (سیاره ،اقبال نمBBبر ۱۹۷۷ :ء ص ’ )۱۰۹شBکوہ کی طBرح زیBر مطBBالعہ نظم
کے ترجمے بھی کئی زبانوں میں ملتے ہیں ۔ ضرار احمد نے اس نظم کو بھی مصور کیا تھا
نظر ثانی میں اس کے بعض اشعار میں ترمیم کی گئی اور کئی بنBد نظم سBے خBارج کBBر دیے گBBئے ۔ بعض بنBدوں کی
ترتیب بھی بدل دی ۔ سرود رفتہ میں چار خارج شدہ بند ملتے ہیں ۔ جواب شکوہ ' اور ' شBکوہ کے درمیBان ڈیBڑھ سBال
کا وقفہ ہے ۔ یہ عرصہ دنیا کے ۔ مسلمانوں کے لیے نئے مصائب اور نئی پریشانیاں ساتھ الیا تھا۔ جنBBگ ہBBاے بلقBBان (
۱۳-۱۹۱۲ء) اور کان پور میں شہادت مسجد کے دردناک واقعات نے ہندی مسلمانوں کو افسردہ اور دل گرفتہ کر دیBBا
تھا ۔ اس کی تفصیل کچھ یوں ہے :یورپ کی مسیحی طاقتیں ترکی کی کمزوری سے فائBBدہ اٹھBBاتے ہوۓ اس کBBا زیBBادہ
سے زیادہ حصہ ،خصوصا ترکی کاایور پی عالقہ جو صدیوں سBBے عثمBBانیوں کی مسBBلم سBBلطنت کBBا حصBBہ تھBBا ،اس
سے چھین لینا چاہتی تھیں ۔ اکتو بر۱۹۱۲ء میں بلتانی ریاستوں ( بلغاریہ ،یونان ،سرویا اور مونٹی عمرو) نے تBBرکی
پر حملہ کر دیا ۔ در پردہ بر طانیان کی پشت پناہی کBر رہBا تھBا ۔ بلقBانی ریاسBBتوں کی تقریبBBا تین الکھ متحBBد وفBBوج کے
مقابلے میں ترکی سپاہیوں کی تعداد ایBBک الکھ تھی ۔ مزیBBد بBBرآں بلقBBانی فBBو جیں تBBربیت و تنظیم کے اعتبBBار سBBے بھی
ترکوں پر فائق تھیں ۔ اس نازک موقع پر ترکی فوج کے یہودی اور عیسائی سBBپاہیوں نے میBBدان جنBBگ سBBے راہ فBBرار
اختیار کی ۔ ان کی غBداری سBے ترکBوں کی پوزیشBن اور بھی کمBر در ہوگBئی ۔ بلقBانی فBوجیں ترکBوں کBو پے در پے
شکست دیتی ہوئی نومبر کو سالونیکا پر قابض ہو گئیں ۔ جلد ہی انھوں نے بحیرہ اسکین کے تمام عثانی جز پیروں پBBر
بھی قبضہ کر لیا ۔
۳۰مئی کو صلح نامہ لندن پر دستخط ہوئے جس کی رو سے ترکی کو امینوس اور میBBڈ یBBا کے درمیBBانی خطے کے
مغربی جانب سب عالقے چھوڑنے پBBڑے۔ بحBBیرۂ اتحین کے جزائBBر سBBے بھی دسBBتبردار ہونBBا پBBڑا۔ اسBBی اثنBBا میں مBBال
غنیمت کی تقسیم پر بلقانی اتحادیوں کے درمیان جھگڑا ہو گیا ۔ نقیمت جان کر اور شد ،ڈیوٹیکBBا اور قBBرق کلیسBBا واپس
لے لیے ۔ تا ہم اس جنگ یہ کBBا کم و بیش سBاڑھے پBBانچ الکھ مربBع میBBل رقبہ اس کے ہBاتھ سBے نکBBل گیBا۔ اس سBارے
عرصے میں جنگ بلقان کی مختلف لڑائیوں اور معرکوں کی تفصیل ہندسBBتانی اخبBBارات میں شBBائع ہBBوتی رہیں ۔ ہنBBدی
مسلمان اپنے ترک بھائیوں کی شکست پر بہت مضطرب ہوئے ۔ ترکوں کی مدد کے لیے چندہ جمBBع کBBرنے کی مہمیں
چالئی گئیں ۔ ( جیسا کہ اوپر ذکر آ چکا ہے جواب شکوہ'' کے موقع پر انجمن حمBایت اسBالم کے جلسBے میں جBو رقم
جمع ہوئی ،وہ بھی بلقان فنڈ میں دے دی گئی۔)
شیخ الہند موال نا محمود حسن نے ڈیڑھ الکھ کی خطیر رقم جمع کر کے بھیجی ۔ مBBدد حاصBBل کBBرنے کے لBBیے تBBرکی
سے ہالل احمر کا ایک وفد یہاں آیا۔ موالنا ظفر علی خاں نے ترکی کا دورہ کیا ۔ ہندستان سے ہزاروں مسلمان ترکBBوں
کے شانہ بشاندلڑائی کے لیے ترکی جانا چاہتے تھے مگر انگریزوں نے اجازت نہ دی ۔البتہ موال نا محد علی جBBو ہBBر
نے ڈاکٹر مختار احمد انصاری کی قیادت میں ایک طبی وفد تر کی بھیجا جو خاصی رقم بھی ساتھ لے کر گیا۔
فکری جائزہ:
نظم در حقیقت''شکوہ'' کا جواب ہے ۔ شکوہ میں مسلمانوں کی حالت ز یوں بیان کی گئی تھی اور اس کی وجہ پBBوچھی
گئی تھی ۔ پھر وہاں مایوی اور دل شکستگی کی ایک کیفیت تھی ،جواب شBBکوہ‘ اس کیفیت کی تBBوجیہ ہے اور شBBکوہ
میں اٹھاۓ جانے والے سواالت کے جوابات دیے گئے ہیں ۔ جواب شکوہ'' میں اسBBالمی تBBاریخ کے بعض واقعBBات اور
جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں ۔ نظم کے موضوعات ومباحث کا مطالعہ و تجBBزیہ کBBرتے ہوۓ ہم آسBBانی
کی خاطر اسے ذیل کے عنوانات میں تقسیم کر یں گے
بند۵-۱B: شکوہ کی اثر انگیزی
جواب شکوہ کی تمہید بند6B:
12
نقاب کیا ہے۔ انہوں نے مسلمانوں کی صدیوں کی غالمی اور اس کے زیر اچر پرون چڑھنے والی ذہنی حالت کا کچBBا
چٹا کھوال اور ایک ہمدرد ڈاکٹر کی طرح اس کا آپریشن کیا۔ یہ مسلم دور انحطاط کا مرثیہ ہے۔ خاتمے پرجب اقبال یہ
کہتے ہیں:
تم سبھی کچھ ہو ،بتاؤ تو مسلمان بھی ہو
تو پڑھنے اور سننے واال تBBڑپ کBBر رہ جاتBBا ہے۔ اس حصBBے میں اقبBBال نے ابBBراہیم علیہ السBBالم اور آزر کی تلمیحBBات
استمعال کی ہہیں۔ آزر ،حضرت ابراہیم کے بBاپ تھے ،جBBو قBرآن حکیم کے مطBBابق بت پرسBBت تھے۔ اور روایت کے
مطابق بت گر بھی۔
نویں بند Bمیں " :کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے۔" سے تہجد اور سحر خیزی کی اہمیت جتالنBBا مقصBBود ہے۔
قرآن پاک میں :بال شبہ شب کا اٹھنا نفس کو خوب ہی روندنے واال ہے اور نہایت ہی درست ہے اس وقت کا ذکر۔
اقبال ،مہا راجا سرکش پر شاد کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں ":صبح چار بجے ،کبھی تین بجے اٹھتا ہوں۔ پھBBر اس
الہی میں بہت لذت حاصل ہوتی ہے۔ " دراصل سحر خیزی اقبال کا معمول تھBBااور
کے بعد Bنہیں سوتا۔ اس وقت عبادت ٰ
وہ دریا فرنگ پہ بھی اس معمول پر قائم رہے:
بہ چھوٹے مجھ سے لندن میں بھی آداب سحر انگیزی
امت مسلمہ میں سحر خیزی سے عمو می غفلت پائی جاتی ہے۔ اس لBBیے وہ کم نصBBیب اور محBBروم ہے " :کچھ ہ اتھ
نہیں آتا بے آہ سحر گاہی" اور ااویں بند میں " ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظر فرد ہو۔" کا معنی خیز اشارہ تقBBدیر و توکBBل
کے اس ناقص تصور کی طرف ہے جس نے مسلمانوں کو بے عمل اور بے بنیاد بنا دیا اور وہ ہاتھ پاؤں توڑ کBBر بیٹھ
رہے۔ خانقاہی تصوف انسان کو عضو معطل بنا تا ہے ،اس لیے اقبال اس کے سخت خالف ہیں
کہ رسم خانقاہی ہے ،فقط اندوہ و دل گیری
اسالف سے موازنہ: .4
مسلمانوں کی زبوں حالی کے سلسلہ بیان میں ان کی انفرادی و اجتماعی خامیوں کو مزیBBد اجBBاگرکرنے کے لBBیے نظم
کے اگلے حصBBے ( بنBد )19-18 Bمیں اقبBBال کے مسBBلمانوں کے اسBBالف کBBا ذکBBر چھBBیڑا ہے۔ ان کے نزدیBBک ہمBBارے
اسالف اپنے اخالق و کردار ،علم و فضل اور گفتار و کردار کے اعتبار سے اس قBBدر بلنBBد مBBرتبہ اور عظیم تھے کہ
ہمارے اور ان کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔
بنBBBBBBد 24-23
میں اقبBال نے جدیBد تعلیم اور اس کے زیBر اثBر پیBدا ہBونے والی معاشBرتی اور مجلسBی خرابیBوں پBر تنقیBد کی ہے۔ یہ
صورت حال منتطقی ہے۔ توجیہ یہ کی ہے کہ اگر بیٹا نکھٹو ہو تو میراث سے عBBاق کBBر دیBBا جاتBBا ہے۔ مسBBلمانوں کے
ساتھ یہی کچھ ہوا ہے۔ ان کی موجودہ حاالت کا اسالف سے موازنہ کرتے ہوئے ایک شعر میں نتیجے کو بڑی خBBوب
صورتی سے بیان کر دیا ہے:
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئےتارک قرآن ہو کر
آخBBری ( 25واں بنBBد ) ایBBک انتبBBاہ ہے مسBBلمانوں کے لBBیے۔
یہاں اقبال نے قدرت کے تکوینی نظام کی طرف اشارہ کیا ہے۔ کہتے Bہیں کہ دورجدید نے دنیا کی ہر قوم کBBو آزمBBائش
کے پل صراط پر ال کھڑرا کیا ۔ اسے بخBیر و عBافیت عبBور کBرنے کے لBیے قBومی بیBداری اور اجتمBاعی کBردار کی
ضرورت ہے۔ جو قو ،عہد نو کے تقاضوں کا ساتھ نہیں Bدے سکتی ،زمانہ اسے برق بن کBBر بھسBBم کBBر دیتBBا ہے۔ اور
14
امت مسلمہ بھی اس آزمائش سے دوچار ہے۔ اس سے کامیابی کے سBBاتھ عہBBد ہ بBBرآ ہBBونے کBBا ایBBک ہی طBBریقہ ہے کہ
مسلمان اپنی ایمان میں حضرت ابراہیم اسالم کی سی پختگی عزم اور یقین پیدا کBBریں۔ تBBاکہ زامBBنے کی بBBرق اور آتش
زنی ان کے لیے گل و گلزار ثابت ہو۔
پر امید مستقبل: .5
"شBBBBBکوہ " مسBBBBBلمانوں کے
انحطاط کا مرثیہ تھا۔ "جواب شکوہ " میں ان کی پستی اور حالت زبوں کو مزیBBد تفصBBیل سBBے بیBBان کیBBا گیBBا ہے۔ اس
سے دلوں میں مایوسی کی کیفیت پیدا ہونا قBBدرتی ہے۔ اس کیفیت یBBاس کBBو زائBBل کBBرنے کے لBBیے اقبBBال مسBBلمانوں کBBو
اطمینان دالتے ہیں کہ ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھ رہنا ردانگی نہیں۔بند 31- 26 Bمیں انہوں نے مختلف مثالوں اور تBBاریخی
واقعات کے ذریعے اس امر پر زور دیا ہے کہ:
ہندستان میں مسلم عظمت وسطوت کے ان مٹ نشانات یادگار چھوڑے :پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے ‘ ‘
کا اشارہ اسی طرف ہے ۔
5۔ مسلمانوں پر جو قیامتیں ٹوٹ رہی ہیں ،وہ ایBBک طBBرف ان کے ایمBBان کی آزمBBایش ہے تBBو دوسBBری طBBرف ان کے
جذبہ عمل کے لیے مہمیز ۔ یہ مصائب و آفات انھیں خواب غفلت سے جھنجوڑ نے کا باعث ہوں گے اور وہ ایک نئے
جوش اور ولولے کے ساتھ دشمن کے مقابل صف آرا ہوں گے ۔
ان وجوہات کی بنا پر ا قبال مسلمانوں کے درخشاں مستقبل کے بارے میں بہت پرامید ہیں ۔ کہتے Bہیں :
رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنالی ہے
یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے
مسلمان عالم مایوسی میں سر چھپاتا پھرتا تھا مگر اقبال کے نزدیک یہ ہمت ہار کBBر بیٹھ رہBBنے کBBا نہیں ،میBBدان عمBBل
میں نکلنے کا وقت ہے ۔ وہ مسلمانوں کو ان کے اہم فرض کی طرف متوجہ کرتے ہیں :
وقت فرصت ہے کہاں ،کام ابھی باقی ہے
نور توحید کا اتمام ابھی باقی ہے
دعوت عمل : .6
درخشاں مسBBتقبل سBBامنے ہے اور مقصBBد زنBBدگی (نBBور توحیBBد کBBا اتمBBام ) بھی واضBBع ہے ۔ چنBBانچہ اب اقبBBال
مسلمانوں کو دعوت عمل دیتے ہیں۔ (بند )۳۲-۳۶میں اقبال کی پکار یہ ہے کہ مسلمانوں ہمBBاری قBBدرت کBBا راز جBBذبہ
عشق میں پوشیدہ ہے جس کا کا سر چشمہ حضور اکرمﷺ کی ذات گرامی ہے ۔
بند ۳۴-۳۳میں اقبال نے اس حقیقت پر زور دیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کی ہستی ہے باعث کBBون و مکBBاں ہے ۔ ان کBBا
اشارہ اس حدیث قدسی کی طرف ہے ۔ ‘‘لوالک لما خلقت االفالک ’’اگر ٓاپ ﷺ نہ ہوتے تBBو میں افالک کBBو تخلیBBق نہ
کرتا ۔ اس لئے اقبال کہتے Bہیں کہ اے مسلمانوں تم بھی رسول ﷺ خدا کا پیغام اطراف عالم میں پھیالنے کی بھرپور
کوشش کرو ۔
۳۴بند کے ٓاخری شعر کی تلمیح قرٓان پاک کی سورۃ الم نشرح سے لی گئی ہے "اے نبی ہم نے تیرے ذکر کBBو رفعت
و بلندی بخشی "
اقبال کی اس دعوت عمل کا مرکزی نکتہ چونکہ عشق رسول ﷺ ہے اس لئے نظم کے ٓاخری حصے میں جذبہ عشق
سے سرشار وہی والہانہ کیفیت موجود ہے ۔ اس کے عالوہ اقبال نے ٓاخری بند Bمیں حق کیلئے جہدوجہد عمل پBBر زور
دیتے ہوئے لڑائی کے ہتھیاروں کی نشاندہی بھی کی ہے اقبال کے نزدیک راہ حBق کے مجاہBد کBو عقBل و عشBق کے
الہی ہے اس کBBا سBBب سBBے بBBڑا ہتھیBBار حُب رسBBول ﷺ ہے ۔ ‘‘کی
اسلحے سے لیس ہونا چاہیے ان کا مقصBBد خالفت ٰ
محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں ’’ کا مفہوم ہے کہ اگر مسلمان ٓاپ ﷺ کے بن جائیں تو پھر تقدیر بھی اس کے
سامنے سرنگوں ہو جائے گی ۔ یہ دنیا ہی نہیں Bپوری کائنات اس کے تصرف میں ہو گی ۔ یعنی
ہاتھ ہے ہللا کا بندہ مومن کا ہاتھ
غالب وقار ٓافریں ،کارکشا ،کارسار
"جواب شکوہ" مسدس ترکیب بند کی ہیت میں ۳۲بندوں پBر مشBBتمل ہے۔ یہ بحBBیر رول مثمن محبBون مقطBBوع میں ہے۔
بحر کے ارکان یہ ہیں ما عالتُن ،فَ ِعاَل تُنُ ِ ،فَ َعاُل تُنُ ،فَعلُن۔
اس نظم کے فنی پہلو کی توصیف میں بھارت کے معروف نقاد ڈاکٹر عبد المغی لکھتے ہیں:
16
شاعری کی زبان و بیان کا استعمال اس ملی نظم میں اس شان ہBBواجس جBBا اظہBBار کسBی بھی انسBBانی موضBBوع کی فBBنی
نقش گری میں ہو سکتا ہے۔ ‘جواب ِشBBکوہ’ ایBBک بBBڑی کامیBBاب ،حسBBین پBBر اثBBر اور اہم شBBاعرانہ تخلیBBق ہے۔ جس کے
ارتعاشات ‘‘ ،خضر راہ ’’،اور ‘‘طلBوع اسBالم’’سBے آگے بBBڑھ کBر سBاقی نBBامہ نفBق و شBوق اور مسBجد قBرطبہ کے
مصرعوں اور شعروں میں محسوس کیے جائیں گے۔’’۔
خصوصیت کالم
‘‘جواب شکوہ ’’ کے کالم کی خصوصیات درج ذیل ہیںB:
فنی محاسن :۳ ڈرامائی کیفیت :۲ انداز ولہجہ :۱
عوام و خواص کی توجہ کا مرکز بنتے Bہیں بہت جلد اس کا رد عمل سامنے آیادل سے جو بات نکلتی ہے اثر
رکھتی ہے سب سBBے اہم رد عمBBل تBBو خBBود اقبBBال کBBا تھBBا جBBواب شBBکوہ کی شBBکل میں عBBوام کBBا تBBاثر بBBالعموم
پسندیدگی کا تھا تاہم بعض حلقوں نے اسے خدا کے حضور گسBBتاخی قBBرار دیBBا ردعمBBل کے دونBBوں پہلBBو کBBو
مختلف شعراء نے منظوم صورت میں پیش کیا جو نظم لکھی گئی ان کی کسی قدر تفصیل ڈاکٹر سBBید قمقBBام
حسین جعفری کے مضمون شکوہ جواب شکوہ(ادہی دنیا اپریل مئی ١۹۷١ء) میں دیکھی جا سکتی ہے ۔
19
تمام جوابی نظموں کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ امت مسBBلمہ مBBذہب سBBے روگBBردانی کے سBBبب موجBBودہ حBBاالت
زارکو پہنچی ہے اب اصالح احوال کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے اعمال و کردار کو درست کرے
"شBBکوہ "میں مسBBلمانوں کی زبBBوں حBBالی بیBBاں کی گBBئی تھی اور اس کی وجہ پBBوچھی گBBئی تھی پھBBر وہBBاں
مایوسBBی اور دل شکسBBتگی کی ایBBک کیفیت تھی ۔”جBBواب شBBکوہ“ اس کیفیت کی تBBوجیہ ہے اور شBBکوہ میں
اٹھائے جانے والے سواالت کے جواب دیے گئے ہیں۔ جواب شکوہ میں اسالمی تاریخ کے بعض واقعات اور
جنگ بلقان کی طرف بھی اشارے ملتے ہیں
جواب شکوہ“میں مسلمانوں کے مذہبی ،روحانی اور اخالقی انحطاط کے اسباب نہایت دل کش انداز میں بیان
کیے گئے ہیں اور مسلمانوں کی شیرازہ بندی کا عالج بھی تجویز کیا ہے۔ اور بتایا ہے کہ مسلمانوں کو
چاہیے کہ اپنے کردار سے رسول پاک کے امتی ہونا ثابت کریں اور ان کے دامن سے وابستہ رہنے کا عزم
کریں۔ یہی خداوند ٰ
تعالی تک رسائی کا راز ہے۔
"شکوہ“ کو اگر مذہبی شاعری کی وسواخت کہا جائے تو وسواخت کا خاتمہ عام طور پر محبوب سے صلح
صفائی پر ہوتا ہے اس لحاظ سے ”جواب شکوہ“ تعلقات کے ازسرنو خوشگوار ہونے اور اعتدال پر آنے کا
اعالن ہے۔ بقول عبد القادر سروری
” شکوہ“ اور”جواب شکوہ“ میں سے کسی نظم کا جواب اردو میں نہیں ہے۔ شکوہ میں جس شاعرانہ انداز
سے مسلمانوں کی پستی کا گلہ خدا سے کیا گیا ہے اور ”جواب شکوہ “ میں ابھرنے کی جو ترکیب بتائی
گئی ہے اس میں الہام ِ ربانی کی شان نظر آتی ہے۔
"جواب شکوہ "فکر خیال کی جدت کے ساتھ اعتبار سے بھی اقبال کBBا حسBBن و جمیBBل تخلیقی پیکBBر ہے۔ تBاثر
کی شدت اور گرائی نظم کے ہر حصے میں موجود ہے۔ اختتام خصوصا ً بہت بBBامعنی بBBا یBBغ اور بے نظBBیر
ہے۔ آخری شعر!
:حوالہ جات
ء2004 , الہور, سنگ میل پبلیکیشنز, اقبال کی طویل نظمیں, ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی.1
1977،الہور،اقبال اکادمی پاکستان،اقبالیات کا تنقیدی جائزہ، قاضی احمد میاں اختر.2
ناظم اقبال اکیڈمی ۔الہور، کلیات اقبال، ڈاکٹر عالمہ محمد اقبال.3
4. https://www.rekhta.org/ebooks/dr-allama-iqbal-ke-shikwa-jawab-e-
shikwa-ki-nasri-tarjumani-allama-iqbal-ebooks
5. https://www.rekhta.org/ebooks/iqbal-ki-taweel-nazmein-fikri-aur-
fanni-mutala-rafiuddin-hashmi-ebooks#
6. https://kitabosunnat.com/kutub-library/Shikwa-Jawab-e-Shikwa
7. http://pakistan-posts.blogspot.com/2021/01/iqbal-shikwa.html?m=1