Download as docx, pdf, or txt
Download as docx, pdf, or txt
You are on page 1of 19

‫انار کلی’’ ‪ :‬ایک رکا ہوا فیصلہ — بی بی امینہ کا مرزا حامد بیگ کے نئے‘‘‬

‫ناول پہ تبصرہ‬
‫انار کلی’’ کے عنوان سے جنوری ‪۲۰۱۸‬ء میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا ایک‘‘‬
‫ناول منظر عام پر آیا ہے جو اکتیس سال کے طویل عرصے میں تحریر کردہ‬
‫ایک دستاویزی ناول ہے۔یہ ناول تقریبا ً اڑھائی سو صفحات? پر مشتمل ہے جسے‬
‫اوالً ایک ہزار سے زائد صفحات پر لکھا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کی کاٹ چھانٹ‬
‫کی گئی اور کمال مہارت سے اڑھائی سو صفحات میں چار سو اٹھارہ سالہ تاریخ‬
‫ِ ہند کو سمو دیا گیا۔ تاہم ناول نگار کے مطابق ناول کے اصل مسودے کو بھی‬
‫محفوظ رکھا جائے گا تا کہ شائقین ادب خود مالحظہ کر سکیں کہ یہ ناول کیسے‬
‫تحریر کیا گیا۔‬

‫ناول ‘‘انارکلی’’ میں مرزا صاحب نے اٹل حقیقت اور ایک اہم زمینی واقعے کو‬
‫زیر بحث النے کے لیے کہانی کا سہارا لیا ہے اور یہی ان کا اصل فن ہے کہ‬
‫موضوع سے متعلق وہ تمام پہلو جنھیں نظر انداز کر دیا گیا یا مسخ کرنے کی‬
‫کوشش کی گئی‪ ،‬وہ ان تمام باتوں کو سامنے لے آئے اور آخر میں فیصلہ قاری‬
‫پر چھوڑ تے ہوئے ان پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈاکٹر‬
‫صاحب کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے ناول کو تحقیقی مقالہ نہیں بننے دیا‬
‫بل کہ تمام تر معلومات کو کہانی کا حصہ بنا کر اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیا‬
‫ہے اور حقائق کے ساتھ ان کے حوالہ جات? کو بھی کہانی کے اندر ہی‪ ،‬اس قدر‬
‫چابک دستی کے ساتھ گتھم گتھا کر دیا ہے کہ تحریر میں کسی بھی قم کی‬
‫رکاوٹ یا کمی محسوس نہیں ہوتی۔‬

‫ہر ناول کی تحریر کا کوئی بنیادی مقصد ہوتا ہے جو ناول کی تحریر کا باعث‬
‫بنتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ناول کا مقصد میل شأونزم اور اس کی بنیاد پر‬
‫ہونے والی نا انصافیوں کو سامنے لے کر آنا ہے جس کی ایک نمایاں صورت‪،‬‬
‫مرزا صاحب کے نزدیک ‘‘غیرت کے نام پر قتل’’ بھی ہے جو مذکورہ ناول‬
‫کے حوالے سے انا ر کلی کا قتل ناحق ہے۔ اگرچہ یہ مغلیہ دور اور بالخصوص‬
‫طرح کے‬ ‫الہور کا کوئی واحد قتل نہیں۔ اس سے پہلے اور بعد میں بھی اس ٖ‬
‫واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو سب سے زیادہ‬
‫معروف یہی ہے۔عالوہ ازیں بات صرف قتل پر ہی ختم نہیں ہوتی بل کہ انارکلی‬
‫پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان اس قدر طویل ہے کہ چار سو اٹھارہ سال‬
‫بعد بھی نہ تو اس کے قتل کا کوئی فیصلہ ہو سکا اور نہ ہی ایک سو پچپن سال‬
‫سے اپنی قبر سے محروم انار کلی اپنے مدفن میں واپس جا سکی ہے۔ یہی ناول‬
‫نگار کا بنیادی قضیہ ہے جس کی تائید خود ناول کے انتساب سے بھی ہو جاتی‬
‫‪:‬ہے جو اکبر اعظم کے نام کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب? لکھتے ہیں‬

‫جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعٔہ الہور میں جالیا چراغ بجھنے نہ دیا‘‘‬
‫’’اور ایک ننھا سا دیا پھونک مار کر بجھا دیا۔‬
‫چنانچہ تحقیق و تفتیش نے انھیں اس قدر مضطرب کر دیا کہ انھوں نے مغلیہ عہد‬
‫کی عمارات کی مضبوط فصیلوں کو توڑ کر ان کی خستہ حال دیواروں میں‬
‫موجود رازوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ نہ‬
‫صرف کامیاب رہے بل کہ عہد اکبری سے لے کر زمانٔہ حال تک کی معاشرتی‬
‫اور سماجی تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی تاریخ میں بھی ایسی ایسی نا انصافیوں اور‬
‫سرقوں کی نشان دہی کر گئے جن کا بر وقت ادراک نہ ہونے اور وقت کی دھول‬
‫کی دبیز تہوں کے نیچے چھپ جانے کے سبب ادب کے قارئین اور محققین بل‬
‫کہ تمام شائقین ادب ہوا میں معلق تھےاور جھوٹ کو ہی سچ مان بیٹھے‬
‫تھے‪،‬لیکن حقائق کی جمع آوری کے بعداب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ مذکورہ‬
‫معامالت پر اعتماد سے بات کر سکیں اور ان سے متعلق اپنا فیصلہ صادر کر‬
‫سکیں۔ مرزا صاحب کی مساعی نے جن اہم حقائق کی بازیافت کو ممکن بنایا ہے‬
‫‪:‬ان میں سے چند درج ذیل ہیں‬

‫۔ اکبر کے عہد اور بعد کے مٔورخین اور مصنفین نے انارکلی‪ ،‬اس کی موت‪۱‬‬
‫اور سبب چھپانے کی سر توڑ کوشش کی۔اس کوشش میں سب سے نمایاں کردار‬
‫ابو الفضل کا تھا اور اس نے اس لیے پردہ پوشی کی تاکہ شاہی خاندان کے‬
‫ماتھے سے ‘‘زنا بالمحرمات’’ کا داغ دھویا جا سکے۔اس مقصد کے لیے ابو‬
‫الفضل نے ‪۱۵۹۴‬ء میں پاگل کا بہروپ بھر کر انارکلی سے ملنے والے سلیم کو‬
‫‘‘اکبر نامہ ’’میں ایک عام پاگل ہی قرار دیا لیکن یورپی مٔورخین اور سفرنامہ‬
‫نگاروں نے سلیم ہی کے حوالے سے اس واقعے کا ذکر کرکے اس کی‬
‫موجودگی کو ثابت کیا ہے۔مزید برآں دربار اکبری کے شاعر عرفی شیرازی نے‬
‫بھی اپنے اشعار میں انارکلی کے بیک وقت سلیم اور اکبر کے ساتھ تعلقات کا‬
‫ذکر کیا ہے‪،‬جس کی بنا پر بعد میں اسے زہر دے کر قتل بھی کر دیا گیا تھا۔‬

‫ڈاکٹر صاحب کے اس ناول کا مقصد میل شأونزم اور اس کی بنیاد پر ہونے والی‬
‫نا انصافیوں کو سامنے لے کر آنا ہے جس کی ایک نمایاں صورت‪ ،‬مرزا صاحب‬
‫کے نزدیک ‘‘غیرت کے نام پر قتل’’ بھی ہے‬
‫۔ میر عدل میر عبد الحیی کی عدالت میں انارکلی پر ‪۱۵۹۱‬ء میں شہنشاہ اکبر‪۲‬‬
‫کو زہر دینے اور بعد ازاں اکبر کے حرم شاہی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی شہزادہ‬
‫سلیم کے ساتھ پکڑے جانے کے حوالے سے ‘‘زنا بالمحرمات’’کے مقدمات کیے‬
‫گئے۔انار کلی نے اکبر کو زہر دینے کی سازش میں ملوث ہونے کا اقرار اذیت‬
‫ناک سزأوں کے باوجودآخر دم تک نہیں کیا۔لہٰ ذا اسےمٔوخر الذکر مقدمے کے‬
‫لیے سزا ملی اور آئین اکبری کے تحت اس کی ناک اور کان کاٹنے کے بعد اسے‬
‫نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے دیوار میں چنوا دیا گیا۔‬

‫۔ انار کلی ‪۲۹‬؍نومبر تا ‪۶‬؍دسمبر ‪۱۵۹۹‬ء کی درمیانی مدت میں زندہ دیوار میں‪۳‬‬
‫چنوا دی گئی۔ حتمی تاریخ اس لیے نہیں بتائی گئی کیوں کہ ہجری اور عیسوی‬
‫تقویم میں افتراق کی وجہ سے حتمی تاریخ کا تعین انتہائی مشکل ہے۔جہانگیر‬
‫نے بھی انار کلی کی قبر کے تعویز پر ‪۱۵۹۹‬ء اور ‪۱۰۰۸‬ھ ہی لکھوایا کیوں کہ‬
‫کنیز کو سزا ملنے کا سال یہی تھا لیکن چوں کہ سزا حبس دم کی تھی اس لیے‬
‫بھی اس بات کا فیصلہ صرف تاریخ کی مدد سے نہیں کیا جا سکتا کہ دیوار میں‬
‫چنوا دینے کے بعد اس کی سانس کب رکی اور موت کب واقع ہوئی؟‬
‫۔ مقبرہ انار کلی کو سلیم کی ایک بیگم صاحب جمال کا مدفن قرار دیا جاتا ہے۔‪۴‬‬
‫قبر کے اوپر سال وفات ‪۱۰۰۸‬ھ درج ہے جب کہ صاحب جمال کا سال وفات‬
‫‪۱۰۰۷‬ھ تھا۔‬

‫۔ عہد اکبری کی بیش تر عمارات موجود ہیں لیکن اکبری محل اور حرم شاہی‪۵‬‬
‫میں موجود بیگمات اور لونڈیوں کے حجروں کی صرف بنیادیں باقی رہ گئی ہیں۔‬
‫ناول میں نہ صرف محل کے مختلف حصوں بل کہ قلعٔہ الہور کے مسجدی‬
‫دروازے کے قریب ایستادہ اکبری محل سے ملحقہ انار کلی کے حجرے کی بھی‬
‫نشان دہی کی گئی ہے جس میں انار کلی ‪۱۵۹۰‬ء۔تا ‪۱۵۹۱‬ء اقامت پذیر تھی۔‬

‫۔ ولیم فنچ نے اپنی تحقیقات میں جس مسجد کا حوالہ دیا ہے اسے اب تک بابا‪۶‬‬
‫فرید گنج شکر کی مسجد سمجھا جاتا رہا ہے‪،‬لیکن فنچ نے شیخ فرید کی مسجد‬
‫مصطفی خان شیخ فرید بخاری تھے جو ‪۱۶۱۶‬ء‬
‫ٰ‬ ‫بتائی ہے جو گورنر الہور نواب‬
‫تک زندہ رہے۔‬
‫۔شاال مار باغ اور شیش محل کو عہد شاہجہاں کی یادگاریں قرار دیا جاتا ہے‪۷‬‬
‫جب کہ یہ عمارات اکبر کے عہد میں موجود تھیں اور اس وقت ‘شاال مار ’ کو‬
‫‘شالی مار’ کہا اور لکھا جاتا تھا جس کا تذکرہ اس دور کی شاعری میں بھی ہے۔‬

‫۔اکبر کے مذہب کے حوالے سے یہ بحث بھی ملتی ہے کہ ‘‘دین الہٰ ی ’’کا‪۸‬‬


‫کوئی وجود تھا بھی یا نہیں؟ ناول میں نہ صرف اس کی موجودگی کا بیان ہے بل‬
‫کہ اس کے پیروکاروں کی اس دین میں شمولیت کے طریقٔہ کار اور کھانے پینے‬
‫کے باب میں بھی مکمل تفصیل فراہم کی گئی ہے۔‬
‫۔ حضرت داتا گنج بخش کی قبر کے بارے میں یہ بیان کہ یہ اکبری عہد سے‪۹‬‬
‫پہلے قلعٔہ الہور کی زمین پر راوی کے کنارے تھا‪،‬غلط ہے۔‬

‫۔ معروف مالمتی صوفی شاعر شاہ حسین اکبر کا مخالف تھا لیکن اس کا‪۱۰‬‬
‫شہزادہ سلیم کے ساتھ رابطہ تھا۔‬

‫۔محمد حسین آزاد کی کتاب ‘‘دربار اکبری’’ کی پہلی اشاعت (‪۱۸۹۸‬ء)پر‪۱۱‬‬


‫مولوی ممتاز علی نے محمد حسین آزاد کے ساتھ اپنا نام بھی اس بیان کے ساتھ‬
‫لکھا تھا کہ انھوں نے مسودہ از سر نو مکمل کیا ہے؛آزاد کی اغالط کو درست‬
‫کیا ہے اور ستر امرا و اعیان اکبری کے حاالت بہ طور تتمہ قلم بند کیے ہیں۔جب‬
‫آزاد کے بیٹے کی طرف سے ان کے خالف مقدمہ دائر کیا گیا تو انھوں نے‬
‫معافی مانگ لی۔بعد ازاںدوسری اشاعت صرف آزاد کے نام کے ساتھ ہی منظر‬
‫عام پر آئی۔‬

‫۔اردو ادب کا معروف ڈراما ‘‘انارکلی’’ سید امتیاز علی تاج کی تحریر نہیں‪۱۲‬‬
‫بل کہ یہ ایس۔کے۔فیروز کا ڈراما ہے جو انھوں نے ‘‘انارکلی’’ کی اشاعت (‬
‫‪۱۹۳۲‬ء) سے دس سال پہلے داراالشاعت پنجاب کے مالک مولوی ممتاز علی کو‬
‫اشاعت کی غرض سے دیا تھا لیکن تاج نے اسے اپنے نام سے شائع کروایا۔‬

‫۔ انار کلی کی قبر مقبرے میں ہونے کے باوجود اپنی جگہ پر یعنی گنبد کے‪۱۳‬‬
‫عین نیچے نہیں۔گنبد کے نیچے اس کی تالش کے لیے ‪۱۹۹۲‬ء میں ناول نگار‬
‫کی ہی کوششوں سے ملتان سے پیشہ ور بلوا کر بورنگ کروائی گئی تاکہ قبر‬
‫کی موجودگی کا پتا چالیا جا سکے لیکن بور کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں‬
‫آئی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ نیچے کوئی قبر موجود نہیں۔ درحقیقت? ‪۱۸۵۲‬ء‬
‫میں مقبرٔہ انارکلی کو چرچ بنانے کی صورت میں انارکلی کا ماندہ وجودگنبد کے‬
‫نیچے سے نکال کر صدر دروازے سے ملحقہ بائیں برجی کے نیچے دفن کر دیا‬
‫گیا تھا جہاں وہ اب بھی موجود ہے‪،‬لیکن ناول کے عام قارئین کے لیے اس جگہ‬
‫کی نشان دہی کے باوجود اس تک پہنچنا اس لیے مشکل ہےکیوں کہ انھیں معلوم‬
‫نہیں کہ جب یہ عمارت بنی تھی اس وقت صدر دروازہے کے طور پر کون سا‬
‫دروازہ مستعمل تھا؟ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے بقول صرف وہ ہی اس ضمن میں‬
‫راہ نمائی کر سکتے ہیں۔‬
‫پالٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک مربوط اور منظم پالٹ ہے بل کہ ناول‬
‫میں حقیقی اور ‘‘مجازی’’ انار کلی کے حوالے سے دو پالٹ چلتے ہیں اور‬
‫دونوں کے حاالت‪،‬اشتراکات? اور معامالت اس طرح باہم پیوسط ہیں کہ ایک کی‬
‫کہانی دوسرے کو متاثر نہیں کرتی بل کہ اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی کرتی‬
‫چلی جاتی ہے۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ایک ہی طرز کے واقعات کو‬
‫ناول کے ایک ہی باب میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے‪،‬جس سے قاری کی‬
‫توجہ منتشر نہیں ہونے پاتی۔ عالوہ ازیں واقعات کا تاریخی تسلسل قابل داد ہے‬
‫جو ناول کی اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگار کی اکتیس سالہ تحقیق‬
‫اور محنت پر بھی داللت کرتا ہے۔قدم قدم پر اہم سواالت اٹھائے گئے ہیں اور ان‬
‫کے جوابات خود ہی فراہم بھی کر دیے ہیں جو پالٹ میں کوئی خال باقی نہیں‬
‫رہنے دیتے۔ہاں اگر ایک بھی کڑی نکال دی جائے تو خالکا پیدا ہونا یقینی امر‬
‫ہے۔ لیکن یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ناول نگار ہر موقعے پر اعتدال و‬
‫توازن قائم رکھتے ہیں۔وہ پورے ناول میں اکبر اور سلیم کی مخالفت اور انارکلی‬
‫اور اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر کڑھتے ضرور ہیں ‪،‬لیکن اکبر کی‬
‫پدرانہ شفقت کو بھی نظر انداز نہیں کرتے بل کہ ایک دیانت دار فن کار کی‬
‫طرح حقیقیت کو تسلیم کرتے اور اس کی نفسیاتی توجیہ تالشنے کی ضرورت‬
‫محسوس کرتے ہیں اور پھر انھیں حوالوں کی مدد سے ثابت بھی کر جاتے ہیں۔‬

‫کردار نگاری اس ناول کا سب سے متاثر کن جز ہے۔ناول نگا ر کا نقطٔہ نظر‬


‫فلسفیانہ انداز میں کرداروں کا جائزہ لیتا ہے۔وہ کرداروں کی نفسیات کا مشاہدہ‬
‫کرتے ہیں اور ان کرداروں کو لے کر تخلیقی انداز میں اپنی فکر اور اپنی سوچ‬
‫کے ساتھ قدم آگے بڑھاتے ہیں۔ان کے تاریخی کردار تو اپنی جگہ مکمل ہیں ہی‬
‫لیکن اس کے ساتھ ساتھ فلم یونٹ کے افراد اور شہریار مرزا کے کردار بھی‬
‫قابل تحسین ہیں۔ کوئی بھی کردار غیر ضروری نہیں۔تمام کردار ناول نگار کے‬
‫ترتیب دیے ہوئے دائروی عمل کا حصہ ہیں جو اس دائروی عمل میں موجود‬
‫اپنی ذات سے متعلق چھوٹے چھوٹے دائروں کی تکمیل کے لیے اپنا کردار نبھا‬
‫رہے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے قاری کو نہ صرف حیران و پریشان کر دیتے ہیں‬
‫بل کہ بعض اوقات جھنجھوڑ بھی دیتے ہیں۔عالوہ ازیں ناول کا ہر کردار جب‬
‫کچھ بولتا ہے تو ساتھ ساتھ نہایت غور سے کچھ سن بھی رہا ہوتا ہے۔یوں‬
‫خارجیت میں داخلیت اور حاضر میں غائب کی صورت حال دیکھنے کو ملتی‬
‫ہے جو ناول میں شعور کی رو لیے راستہ ہموار کر دیتی ہے‪،‬جس کی سب سے‬
‫زیادہ کار فرمائیاں شہریار مرزا میں نظر آتی ہیں۔‬

‫ناول میں اگرچہ مکالمے کم ہیں لیکن دلچسپ‪ ،‬موزوں اور بر محل ہیں۔ یہ‬
‫کرداروں کے خیاالت‪ ?،‬جذبات اور احساسات کو عیاں کرتے ہیں۔یہ مکالمے نہ‬
‫صرف برجستہ اور آسان زبان میں ہیں بلکہ کرداروں کی تفہیم میں بھی مدد‬
‫دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مرزا صاحب? نے تاریخی کرداروں کے خیالی مکالمے‬
‫بھی لکھے ہیں لیکن ایسے مکالمے ان کی تاریخ نویسی کی راہ میں حائل ہونے‬
‫کے بجائےکرداروں کے خیاالت اور نفسیات کے ساتھ اپنے عہد کے مسائل کی‬
‫طرف بھی قاری کی توجہ دالتے ہیں اور ان کا منااسب حل تجویز کرنے میں مدد‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫تاریخی موضوع ہو اور وہ بھی اکبری عہد اور اس میں منظر نگاری نہ ہو یہ‬
‫کیسے ممکن ہے؟چناں چہ مرزا صاحب? نے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے‬
‫سماجی اور مادی منظر نگاری دونوں کو برتا ہے۔انھوں نے ماحول کو جزئیات‬
‫کی مدد سے قاری کے لیے اس طور سے واضح کر دیا ہے کہ قاری اسی منظر‬
‫اور اسی عہد میں اکبر اور جہانگیر کے شانہ بشانہ چلتا اور سانس لیتا محسوس‬
‫ہوتا ہے۔انار کلی کی موت کا واقعہ واقعہ کوئی معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں ہے۔‬
‫وہ اپنے ساتھ کتنا بدالؤ اور انتشار لے کر آیا‪،‬جو اس حقیقیت سے واقف ہیں وہی‬
‫جانتے ہیں۔ اس کے بیان کے لیے دفتر درکار ہیں لیکن مرزا صاحب نے سماجی‬
‫منظر نامے کو واضح کرتے ہوئے اور اس دور کا کوئی بھی اہم نکتہ نظر انداز‬
‫ت حال کو ناول کے ابواب میں اس طرح بیان کر دیا‬ ‫کیے اس انتشار زدہ صور ِ‬
‫ہے کہ اکبر‪ ،‬سلیم‪،‬انارکلی اور دل آرام‪،‬شہریار مرزا‪،‬شازی حیات کے عالوہ شاہ‬
‫حسین تک اس کی گرفت سے بچ نہیں پائے۔‬

‫اسی طرح اگر مادی منظر نگاری کے معاملے کو دیکھیں تو انھوں نے‬
‫مکانوں‪،‬سڑکوں اور دوسرے مقامات? کی چھوٹی چھوٹی باتوں کوانتہائی تفصیل‬
‫سے بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس ناول میں مصور کے فرائض ادا کیے ہیں جس‬
‫ت مشاہدہ سے کام لے کر ایسی جزئیات کو بیان کیا ہے جن پر قلعٔہ‬
‫نے اپنی قو ِ‬
‫الہور کی سیر کے لیے جانے والے عوام کی نظر تک نہیں پڑتی۔اس منظر‬
‫نگاری میں کرداروں کےحلیے‪ ?،‬ان کے عادات و خصائل سے لے کر ان‬
‫کےطرز رہائش تک سب ہی کچھ شامل ہے۔ حویلی‪،‬بارہ دری‪ ،‬ایوان خاص‪،‬‬‫ِ‬
‫خلوت خانہ‪ ،‬شیش محل‪،‬نو لکھا‪،‬دروازوں‪،‬برجوں‪،‬مقبروں‪ ،‬محرابوں‪،‬بیگمات اور‬
‫لونڈیوں کے حجروں کے طویل سلسلوں کے بیان اور پھر ان تمام مساکن میں‬
‫خوف اور خواہشات کے تصادم‪ ،‬آرزو کے حصول کی جستجو‪ ،‬تعیش‬
‫پرستی‪،‬سزا و جزا کےاحکامات اور احساس جرم نے مل ایک عجیب و‬
‫غریب‪،‬ظلم و دہشت سے بھرپور‪،‬پر اسرار مگر مکمل منظر نامے کو اس طرح‬
‫تشکیل دیا ہے کہ ہر کردار اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے پوشیدہ‬
‫رازوں سے پردہ اٹھانے کی سعی میں مصروف عمل ہے۔‬

‫ناول کا اسلوب رواں ہے۔اسی کی بدولت کہانی سست روی سے نہیں بل کہ سطر‬
‫بہ سطر آگے بڑھتی رہتی ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی توجہ نہیں ہٹتی اور‬
‫نہ ہی بیزاری محسوس ہوتی ہے۔چونکا دینے والی سچائی کو کہانی کے روپ‬
‫میں ڈھالنا ایک عمدہ تکنیک ہے‪،‬جس کی وجہ سے کہانی میں محض فکر ہی‬
‫نہیں سچائی بھی ہے۔ مکالموں کی زبان اور الفاظ کا چنأو کرداروں کے پیشوں‪،‬‬
‫جنس اور نفسیات کے مطابق ہے۔ درست امال کا خیال رکھنے کی حتی االمکان‬
‫کوشش کی گئی ہے اس کے لیے ناول کے آغاز میں ہی ‘‘انتباہ’’ کے عنوان‬
‫‪:‬سےایک عبارت دی گئی ہے جو درج ہے‬
‫مروج غلط امال کے عادی اس ناول کو پڑھتے ہوئے کسی قدر دقت محسوس کر‬
‫’’سکتے ہیں۔‬
‫عالمات کا استعمال کمال ذہانت اور ہوش یاری سے کیا گیا ہے۔خصوصا ً‬
‫‘‘شہریار مرزا’’‪‘‘ ،‬انار کی کلی (شازیہ حیات)’’ اور ‘‘مجنون سلیم اکبر’’ میں‬
‫جو معنویت تالش کی گئی ہے وہ بہت دل چسپ ہے۔اگرچہ کئی مقامات پر تکرار‬
‫سے بھی کام لیا گیا ہے لیکن راقمہ کے خیال میں اس کا مقصد اہم تاریخی حقائق‬
‫اور واقعات اور ان کے وقوع پذیر ہونے کی تواریخ کی ذہن نشینی ہے۔جو ایک‬
‫احسن اقدام ہے۔‬

‫غرض مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تواریخ‪ ،‬فلم‪ ،‬مضامین اور ناولوں‬
‫کی موجودگی میں اتنے عرصے بعد منظر عام پر آنےوالی انار کلی سے متعلق‬
‫تحقیق ایک نئی سمت اور نئی جہت ہی نہیں بلکہ اردو ناول کی تاریخ میں بھی‬
‫ایک ایک نئے سفر اور جدت کی نوید ہے جو آیندہ ناول نگاروں کے لیے تحقیق‬
‫و تفتیش کے پل صراط سے گزرنے کے لیے ایک کڑے امتحان کی پیش گوئی‬
‫بھی ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد ادب کے با ذوق اور سنجیدہ قارئین کے لیےکسی‬
‫بھی دستاویزی ناول میں‪ ،‬بغیر تحقیق و حوالہ جات کے‪،‬کسی ارضی حقیقت کو‬
‫ماننے میں تامل ضرور ہو گا۔‬

‫مزید برآں آخر میں اس اہم سوال کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو ناول کے توسط‬
‫سے مرزا حامد بیگ نے فلم یونٹ کے افراد کے پردے میں اپنے قارئین سے‬
‫پوچھا ہے اور وہ یہ ہے کہ مرزا حامد بیگ انار کلی کے ماندہ وجود کو عین‬
‫اسی جگہ دفنانا چاہتے ہیں جہاں وہ ‪۱۸۵۲‬ء سے پہلے دفن تھی‪،‬لیکن کیا اس‬
‫کاوش میں ہم مرزا حامد بیگ کا ساتھ دیں گے؟؟؟‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?‬
‫مہا بلی اکبر ‪’ ،‬انارکلی‘ کی عدالت میں‪ ،‬ایک متنی جائزہ‬
‫تبصرِۂ کتاب‪ :‬نعیم بیگ‬

‫اکبر اعظم کے نام جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعہ الہور میں جالیا گیا’‬
‫‘‘چراغ بجھنے نہ دیا اور ایک ننھا سا ِدیا پھونک مار کر بجھا دیا۔‬
‫یہ انتساب ہے اس شاہکار دستاویزی ناول کا‪ ،‬جسے میرزا حامد بیگ نے اندازا‬
‫اکتیس برس کی محنت شاقہ کی نذر کیا۔ زمانہ تحریر جب اس قدر طوالت اختیار‬
‫جزوالینفک بننا ہے‪،‬‬
‫ِ‬ ‫کر جائے‪ ،‬تو تاریخ کی وہ گھتیاں جسے کسی عبارت کا‬
‫کھُلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار سے زاید صفحات? پر لکھی‬
‫گئی خونچکاں داستان جب خود احتسابی کی نذر ہوئی‘ تو صرف ڈھائی سو‬
‫کار دارد ہے۔‬
‫صفحات پر مواد کا نچوڑ رہ گیا‪ ،‬جس میں زوائد کا ڈھونڈنا ِ‬

‫فکشن انسانی نفسیات میں ایسے جوہر کی مانند ہمیشہ اپنے انگ انگ میں کوندتی‬
‫ہوئی بجلیاں چھپائے رکھتی ہے‪ ،‬جسے کوئی بھی ذہین ادیب اپنی انگلیوں کی‬
‫پوروں سے چھیڑ کر ایسے سچ کو برآمد کر لیتا ہے‪ ،‬جو بعد ازاں عالمی سچ کا‬
‫روپ دھار لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرزا حامد بیگ کے ناول ’’ انار کلی ‘‘ میں‬
‫ہوا ہے۔ تاریخ کے جن پہلوؤں پر صدیوں کی تاریکی نے گھنے سائے کر رکھے‬
‫تھے‪ ،‬دربار اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل ہو یا بعد ازاں درباری مورخین‪ ،‬ان‬
‫کے قلم مصلحت کی نیو پر خاموش رہے ‪،‬تب وقت کی خاک نے بھی ایک دبیز‬
‫چادر تن دی‪ ،‬لیکن حامد بیگ کے قلم کی نوک نے صدیوں بعد فکشن کے کارن‬
‫ایسی راگنی چھیڑی ہے‪ ،‬جس سے سچائی کے مسحور کن سر اہل علم و فن ‪،‬‬
‫فکر و دانش اور مورخین کو ایک بار پھر نئے آہنگ سے آ شنا کر رہے ہیں۔‬

‫سچائی کیا ہے؟ وہ جو مہابلی کے دربار میں عدل کے نام سے گونجتی تھی‪ ،‬یا‬
‫وہ جو انار کلی کی مہک کو دربار میں پھیلنے سے نہ روک سکی ‪ ،‬اور جس کا‬
‫شکار شیخو اور خود انارکلی ہوئی۔‬
‫سچائی کیا ہے؟ وہ تاریخ جو ابولفضل نے’ آئین اکبری‘ اور ’ اکبر نامہ‘ میں‬
‫سپر ِد ابیض کی یا برطانوی تاجر ولیم فنچ یا طامس ہربرٹ نے رقم کی۔ یہ تو آپ‬
‫ناول پڑھ کر ہی جان پائیں گے‪ ،‬لیکن اس سے پہلے کہ میں ناول کے مندرجات?‬
‫کو متن کی روشنی میں تجزیاتی طور پر سامنے الؤں‪ ،‬مجھے دو اہم پہلوؤں پر‬
‫گفتگو کرنی ہے۔ پہال نکتہ وہ مثبت عمومی تاثر کا ہے جو اس دور کے وقائع‬
‫نویسوں اور مورخین نے رقم کیا‪ ،‬اور مغلیہ دور کے بیشتر شہنشاہوں کے ان‬
‫دعوی کرتے ہیں ‪ ،‬کو معروف‬‫ٰ‬ ‫رویوں پر جو انسانی حقوق پر دال کرنے کا‬
‫معنوں میں انسان دوست قرار دیا۔ اور دوسری سطح وہ ہے جو شاہی ثقافتی‬
‫رویوں کی ہے‪ ،‬جس میں سلطنت مغلیہ کے وسطی ادوار بشمول اکبر اور‬
‫جہانگیر بھی شامل ہیں۔‬

‫ء سے لے کر ‪.۱۵۹۹‬ء تک کا عہد اکبری الہور میں مدفون ہے۔ اس پر‪۱۵۸۴‬‬


‫مصنف کی محققانہ طرز نگارش نے تفصیالً روشنی ڈالی ہے۔ اس سے بُعد نہیں‬
‫کہ ان پندرہ سولہ برسوں میں قلعہ الہور کا آسمان کئی ایک منفی اور مثبت‬
‫روایات کا چشم دید گواہ ہے۔ جس نے دین الہی کی ایک روحانی انجمن کو بنتے‬
‫دیکھا ‪ ،‬مغلوں کا مذہبی جبریت سے انکار‪ ،‬مذہبی کٹر پن کو گھٹا کر اسالم اور‬
‫ہندو مت میں برا ِہ راست تصادم نہ ہونے دینا ‪ ،‬ہندوؤں کے اکثر فرقوں کا اسالمی‬
‫رسم و رواج کو اپنانا‪ ،‬دوسری طرف ہندوؤں کی بعض رسموں کو مسلمانوں کا‬
‫اپنانا ‪ ،‬جیسے بسنت ‪ ،‬مائیوں اور مہندی کی رسومات اور پیلے پہناوے۔‬
‫جہانگیری دور میں گرجاؤں اور گورستان بنانے اور عیسائی مشنریوں کو آزادانہ‬
‫تبلیغ کی اجازت جیسے بیسیوں اقدامات ہیں‪ ،‬جنہیں دربار اکبری اور جہانگیری‬
‫کی تائید اورحمایت حاصل? رہی۔‬

‫تاہم ناول ’ انار کلی‘ میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں دیدہ دانستہ فراموش‬
‫کردہ حقائق کے کھوجنے کو مصنف نے اہم سمجھا‪ ،‬وہیں انسانی حقوق کی‬
‫پامالی کو بھی زیر بحث الیا گیا۔ انار کلی کے واقعہ پر بحیثیت حقیقت نگار‬
‫مصنف نے یہ بات شکوہ گزاری کے طور پر بیان کی ہے کہ ’’ تین سو اکانوے‬
‫برس گذر گئے‪ ،‬نہ مدعیہ کو انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے اور نہ مدعا علیہ کو‬
‫عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جا سکتا ہے‪ ،‬ہاں اگرہم اپنے موضوع سے انصا‬
‫ف کر پائے تو یوں سمجھیے فر ِد جرم عائد ہو گئی‪( ‘‘ ،‬صفحہ ‪)۵۳‬‬

‫آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں ’’ افسوس کہ عہد اکبری کے وقائع نویس اِس‬
‫ضمن میں خاموش ہیں اور عہد موجود کے تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں نے‬
‫مقبر ِہ انار کلی اور انار کلی بازار جیسے واضح نشانیوں کو جھٹالتے ہوئے‬
‫انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے‪ ،‬آج ‪ ۸‬اکتوبر ‪.۱۹۹۰‬ء کو ہم لگ بھگ‬
‫چار سوسال پرانی ایک مبہم سی تصویر پر پڑی ہوئی گرد جھاڑنے کی خاطر‬
‫جمع ہوئے ہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر‪ ،‬جسے ہمارے اجتماعی حافظے اور‬
‫شہر الہور کی سینہ در سینہ روایات نے ہم تک پہنچایا۔‘‘ (صفحہ ‪)۵۳‬‬

‫یہ بھی کہا گیا کہ اکبر اعظم کے معاصر تاریخ نگاروں نے جان بوجھ کر اس‬
‫لرزا دینے والے واقعہ کو قلمبند کرنے سے گریز کیا‪ ،‬کیونکہ انار کلی کو‬
‫‪.۱۵۹۹‬ء میں زندہ دفن کر دینے کے بعد ‪.۱۶۰۵‬ء سے ‪.۱۶۱۵‬ء کے درمیانی‬
‫عرصہ میں جہانگیر کے حکم سے انار کلی کا مقبرہ تعمیر ہوا‪ ،‬جو اس دور کی‬
‫الہور کی شاہی عماراتمیں ایک شاندار اضافہ تھا۔‬

‫عالمی ادب میں ایک قدیم اور گہری روایت ہے‪ ،‬جسے فرانسیسی میں ’ مائز این‬
‫ابیمی ‘ کہا جاتا ہے جس میں کہانی کے اندر ایک اور کہانی بُنی جاتی ہے جو‬
‫بڑی کہانی کے تناظر میں اس چھوٹی کہانی کے مراحل طے کرتی ہے ۔جیسے‬
‫قدیم یونانی شاعر ہومر اپنی نظم ’اوڈیسی ‘ میں اس تکنیک کو پہلی بار استعمال‬
‫میں الیا۔ درحقیقت? کہانی اندر کہانی کی بنت کے ذریعے اس سچ کو اگلوانا از حد‬
‫ضروری ہو جاتا ہے جو مصنف اپنے تئیں پورے ناول میں مرکزی خیال کے‬
‫تحت التا ہے۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں یہی تکنیک استعمال کی گئی ہے ‪ ،‬جسے‬
‫مصنف بڑی ہنر مندی سے عکسی حقیقت کے پیرائے میں ’ انارکلی‘ جیسے‬
‫تاریخی موضوع کی سچائی کو سامنے التا ہے۔‬
‫ناول ’ انارکلی‘ میں مصنف کا مقصد اوال یہی ہے‪ ،‬کہ وہ یہ ثابت کرے ‪،‬کہ انار‬
‫کلی کا کردار کوئی امجیری ‪ ،‬کوئی الوژن ‪ ،‬کوئی واہمہ نہیں بلکہ انارکلی ایک‬
‫حقیقت تھی اور ہے ‪،‬جو مہابلی کے قہر کا نشانہ بنی۔ عین اسی تیکنیک کے تحت‬
‫شکسپئیر اپنے ڈرامے ’ ہیلمٹ ‘ میں سچ اگلوانے کے لیے کردار اوفیلیا کو‬
‫استعمال کیا۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں اردو ادب کے مخصوص لسانی و تہذیبی پس‬
‫منظر میں یہ تکنیک استعمال کی گئی ہے ‪ ،‬جسے مصنف بڑی ہنر مندی سے ’‬
‫انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی عکسی سچائی کو سامنے النے کے لیے‬
‫بروئے کار التا ہے۔‬

‫یہاں کہانی کی ابتدا ہی میں ایک وسط ایشیائی تیموری خون رگوں میں دوڑاتا‬
‫شہر یار مرزا مرکزی تمثیلی کردار کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہ مغلئی‬
‫آنکھوں واال‪ ،‬دراز قد نوجوان طالب علم جو پی ایچ ڈی کے مقالے کی ریسرچ‬
‫کرتے ہوئے کہانی کے اندر اُس وقت داخل ہوتا ہے‪ ،‬جب مری سے ذرا آگے‬
‫خانسپور کے مقام پر سپانسرڈ فلمی یونٹ بمع اپنے تمام ضروری فلمی یونٹ کے‬
‫ہمراہ ’ انار کلی‘ فلم بنانے کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہوتا ہے ۔ فلمی یونٹ‬
‫کے سیٹ ڈیزائنر مسعود احمد ( نک نیم ہد ہد ) شہر یار مرزا کے دیرینہ دوست‬
‫ہیں اور یوں مغلئی آنکھوں واال کردار وہیں فلمی یونٹ کی انچارچ پروڈیوسر‬
‫میڈم ڈاکٹر سرجیت کور کی بیٹی شازیہ سے ملتا ہے ‪ ،‬جسے وہ اپنے تخیل میں‬
‫انار کی کلی پکار اٹھتا ہے۔‬

‫کہانی کی ابتدا میں دو حریف کردارمغلئی آنکھوں واال شہر یار مرزا اور ٹیلی‬
‫ویژن اداکار سنی جو ہمہ وقت اپنے آپ کو ہیرو ہی سمجھتا ہے کو اِس عمدگی‬
‫سے آمنے سامنے الیا گیا ہے کہ وہ ناول کی سطروں سے ہی مالحظہ ہو سکتی‬
‫ہیں ۔ بیڈ منٹن کے کورٹ میں جب سنی دھان پان سی لڑکیوں انار کی کلی‬
‫(شازی) اور صفیہ کو ہرا دینے کے بعد تفاخرانہ انداز سے آس پاس دیکھتا ہے‪،‬‬
‫اور کھُال چیلنج دیتا ہے تو شہر یار مرزا آگے بڑھتا ہے اور یوں ایک نیا کھیل‬
‫شروع ہوتا ہے۔‬

‫جب شہر یار میرزا نے میچ پوائنٹ لو کہتے ہوئے ریکٹ کو جھٹکا دیکر شٹل’’‬
‫کاک دھیرے سے نیٹ کے ساتھ پش کی تو سنی بجائے آگے آنے کے ہانپ کر‬
‫پیچھے ہٹا اور شٹل‪ ،‬اس کے عین سامنے جا گری۔ سنی بغیر کوئی پوائنٹ بنائے‬
‫ایک سیٹ ہار چکا تھا۔ یہ دیکھ کر کورٹ کے اطراف میں ہاہاکار مچ گئی اور‬
‫جب شہریار مرزا نے سنی سے پوچھا کہ ’بیسٹ آف تھری‘ کھیلو گے تو وہ‬
‫پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ریکٹ پھینک کر کورٹ سے باہر چال گیا۔ ایسے میں‬
‫راجہ رسالو کے اشارے پر کچھ منچلے اسے دوبارہ کورٹ میں لے آئے۔ وہ‬
‫شہر یار مرزا کے ہاتھوں مزید خوار کرنے کی کوشش میں تھے کہ ڈاکٹر نذیر‬
‫برالس کی بروقت مداخلت نے سنَی کو بچا لیا۔ وہ یہ میچ کیا ہارا‪ ،‬ہیرو سے‬
‫زیرو ہو گیا۔‘‘ (صفحہ ‪)۶۶‬‬

‫درحقیقت دو کرداروں کے درمیان یہ معمولی سا کھیل اور چیلنج پوری کہانی‬


‫کے اس بڑے سچ کو تقویت دیتا ہے جہاں مہا بلی اور شیخو انار کلی کے‬
‫معاملے میں ایک دوسرے کے م ِد مقابل آ جاتےہیں‬
‫یں ۔‬
‫ناول کا ایک باب یہ واقع یوں پیش کرتا ہے‪ ،‬کہ ایک روز شام کے وقت پہرے‬
‫داروں کی غفلت کی وجہ سے ایک شخص پاگل کا سوانگ رچائے حرم سرا کے‬
‫اس حصے سے پکڑ لیا گیا ‪ ،‬جو صرف شہنشاہ کے لیے مختص تھا‪ ،‬شور مچنے‬
‫پر ظل الہی باہر نکل آئے‪ ،‬گو شہزادہ دانیال نے اس پاگل کو پکڑ رکھا تھا لیکن‬
‫اسے پاگل سمجھ کر چھوڑ دیا گیا۔‬

‫سال ‪.۱۵۹۴‬ء نومبر کا مہینہ‪ ،‬موسم سرما۔ شام کو اندھیرا جلد چھا جاتا ہے۔ وہ’’‬
‫پاگل شخص کون تھا؟ کوئی اور نہیں یقینا ً شہزادہ سلیم جو انار کلی سے ملنے‬
‫حرم شاہی کی نگران پہرہ دار خواتین نے‬
‫ایک پاگل کا بہروپ بھر کر آیا تھا اور ِ‬
‫دیوان عام کے قریب کھڑے شہزادہ دانیال‬
‫ِ‬ ‫چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی‪ ،‬لیکن‬
‫کی اس پر نظر پڑ گئی۔ ‘‘ ( صفحہ نمبر ‪)۱۰۹‬‬

‫ابو الفضل کے مطابق تو اکبر نے اس پاگل شخص کو معافی مانگنے پر جانے ’’‬
‫دیا‪ ،‬لیکن سر ٹامس ہر برٹ نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے ‪ ،‬کہ جہانگیر کے‬
‫معافی مانگنے پر معاف کر دینے کا وعدہ کر کے بادشاہ اسے حرم سرا میں لے‬
‫آیا۔ حرم سرا میں آتے ہی پھر طیش میں آ گیا کہ بیٹے کو ایسے مکے مارے کہ‬
‫وہ گر پڑا۔ ’ اکبر چنگھاڑا‪ :‬ابے او احمق اور گدھے تو نے کس طرح میرے‬
‫وعدے پر یقین کر لیا؟ ‘‘ (صفحہ نمبر‪)۱۰۹‬‬

‫یہ بات پہلے بھی منظر پر آ چکی تھی کہ اکبر کو زہر دینے کی کوشش کی گئی‬
‫تھی ‪ ،‬لیکن شاہی اطباء کے بروقت عالج کی وجہ سے جانبر ہو گیا تھا۔‬

‫لگتا ہے کہ اکبر کو پھر ایک بار شہزادہ سلیم کے اشارے پر اناد کلی کے’’‬
‫ہاتھوں زہر دئیے جانے کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس بد گمانی کی فضا میں چند ماہ‬
‫بعد ‪.۱۵۹۸‬ء میں اکبر نے شہزادہ سلیم کو حکم دیا کہ وہ ماورا النہر کی طرف‬
‫ایک فوجی مہم کی قیادت کرے‪ ،‬لیکن سلیم نے کسی خدشے کے پیش نظر اس‬
‫درو دراز مہم پر جانے سے انکار کر دیا۔ اس سے باپ بیٹے کے درمیان تلخی‬
‫بڑھی۔ تب یقینا ً شاہی حرم سرا میں انار کلی کی حرکات و سکنات پر بہت سی‬
‫نظریں گڑی ہو ں گی۔ ‘‘ ( صفحہ نمبر ‪)۱۱۱‬‬

‫یہ ناول کے حوادث کی تنظیمی خوبی ہے‪ ،‬کہ یہ تاریخی المیہ کسی فرد سے‬
‫کہیں زیادہ اس سے وارد ہونے والے اعمال اور زندگی کا عکس پیش کرتا ہے۔‬
‫جوں جوں مہابلی ‪ ،‬شیخو اور انارکلی کے تاریخی تمثیلی واقعات آگے بڑھتے‬
‫ہیں‪ ،‬اسی طرح ناول کی کہانی میں شہر یار مرزا ‪ ،‬انار کی کلی ( شازی) اور‬
‫سنی کے واقعات وقت کی ڈور پر اسی طرح سیریز آف ایونٹس کی مماثلت میں‬
‫آگے بڑھتے ہیں۔‬

‫سنی کو میں نے دل سے چاہا تھا‪ ،‬پر وہ دھوکے باز نکال‪ ،‬اب تم درمیان میں’’‬
‫آن کھڑے ہوئے۔ میں بٹ گئی۔ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘ ’’ میں ہٹ جاتا ہوں‬
‫درمیان سے‪ ،‬یوں بھی کل خانسپورمیں ہمارا آخری دن ہے‪ ،‬شام کو چل پڑیں‬
‫گے‪ ،‬یہاں سے مری کی طرف۔ مجھے وہاں اتار کر تمہاری بس آگے نکل جائے‬
‫گی۔ پیچھے رہ جاؤں گا میں اور ہوٹل برائیٹ کے برآمدے میں دھری بید کی‬
‫‘‘خالی کرسیاں۔‬
‫کون کہہ رہا ہے تمہیں پیچھے ہٹ جانے کے لیے۔۔۔ الہور سے کوہ مری تک ’’‬
‫کے سفر میں مجھ سے مدیحہ نے سنَی کو چھینا‪ ،‬تم نے سنَی سے مجھے چھین‬
‫لیا۔ اگر دل لگی کرنی ہے تو بے شک پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں راجپوت ہوں مدیحہ‬
‫سے کبھی ہار نہیں ماننے کی۔۔۔۔ ’’ کیا تم رات ایک بجے گرجا گھر کے ساتھ‬
‫والی راہداری پر مجھ سے ملنے آ سکتے ہو۔ میں ماما کو ان کے کمرے تک‬
‫پہنچا کر نکل آؤں گی۔۔۔ ‘‘ (صفحہ نمبر ‪)۱۷۴‬‬

‫انار کی کلی (شازی) اور شہر یار مرزا کی خانسپور میں ہونے والی یہ گفتگو‬
‫کہانی کو ایک نیا موڑ دیتی ہے۔ جب رات ڈھلتے ہوئے گرجے کے بائیں جانب‬
‫راہداری پر سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا شہر یار مرزا انتظار کی گھڑیاں گزار رہا‬
‫تھاکہ دو سایوں نے اسے چونکا دیا‪ ،‬ریسٹ ہاؤس سے کوئی نکل کر گرجے کی‬
‫جانب مڑ گیا۔ مرزا یہی سوچ رہا تھا کہ سایہ اس کی طرف آنے کی بجائے‬
‫دوسری طرف کیوں مڑ گیا ہے تب ایک بوجھل سایہ ریسٹ ہاؤس کی طرف قدم‬
‫بڑھا رہا تھا‪ ،‬جسے چھٹکی ہوئی چاندنی میں پہچان لینا مشکل نہ تھا۔ یہ انار کی‬
‫کلی تھی‪ ،‬اس کے ہاتھ میں چاندی کا کڑا چمک رہا تھا۔۔۔۔ تو پہال سایہ کون تھا ؟‬
‫سنَی تھا یقیناً۔ انار کی کلی نے ایسا کیوں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب کچھ‬
‫میں دیکھ لوں گا۔ اگر وہ مجھے یہاں نہ بالتی تو کیا میں یہ منظر دیکھ سکتا۔‬
‫شہریار چکرا کر رہ گیا ‪ ،‬کیونکہ اس کا احساس فتح مندی ہزیمت میں ڈھل چکا‬
‫تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو جب صبح کے آثار جاگ رہے تھے‪ ،‬اس کی‬
‫ٹانگیں شل تھیں‪ ،‬شہریار چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ‬
‫ہے۔‬

‫تب شازیہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ’’ بولو۔۔۔ کیا میں تمہارے لیے اب’’‬
‫بھی ۔۔۔ ؟‘‘ مغلئی آنکھوں واال چپ کھڑا اسے تکتا رہا۔ پھر یکلخت تیزی سے پلٹا‬
‫‘‘اور بوال ’’ بہت دیر ہوگئی۔‬
‫یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ریسٹ ہاوس سے نکل گیا۔‘‘ ( صفحہ ‪)۱۹۶‬‬

‫ٰ‬
‫دعوی میں کوئی معانی‬ ‫ناول میں دستاویزی واقعات کی روشنی میں مصنف اپنے‬
‫پیدا کر سکا ہے یا نہیں؟ یہ ناول کا قاری یا کوئی تاریخ دان ہی طے کرے گا کہ‬
‫اگا کہ اس دستاویزی سچائی میں حقیقت کا عکس کس قدر نمایاں رہا ہے۔ راقم کا‬
‫منصب نہیں کہ وہ اس پر حدود جاری کرے۔ تاہم یہ کہنا کافی ہوگا کہ ناول کا‬
‫متن حقیقتا ً اپنے جوہر میں واقعات کی اُس تمثیلی عکس کو بیان کرتا ہے‪ ،‬جسے‬
‫افالطون نے عکسی حقیقت قرار دیا ہے۔ گو وہ اپنے فلسفیانہ نظریات کے جوہر‬
‫حامل وجود اور بصری الفاظ کو ثانوی حقیقت کہتا ہے‪ ،‬لیکن یہاں مصنف نے‬ ‫ِ‬ ‫کو‬
‫اسی فلسفے اور ادب کے استاد اول ارسطو کے تخلیقی رحجانات? کی بنیاد پر اس‬
‫پورے تاریخی واقعہ کی مربوط اور حوالہ جاتی عکسی حقیقت کو بیان کر دیا‬
‫ہے۔ مصنف نے اس المیہ کو بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کی غنائیت‪ ،‬تاثر‬
‫آفرینی‪ ،‬طریق کار اور حدود کا مکمل ادراک کیا ہے۔ جس عمل کا عکس پیش کیا‬
‫گیا وہ سنجیدہ‪ ،‬مکمل اور خاص حجم کا حامل ہے۔ اس کی کرافٹ میں فکشن اور‬
‫حقیقت کا الزوال امتزاج رقم کرنے کی شاندار مثال قائم کی گئی ہے۔ راقم کی‬
‫نظر میں اس ناول کی تاریخی حیثیت کے عالوہ بھی اور کئی سامان موجود ہیں‬
‫جس سے ناول کی زبان‪ ،‬ہیئت‪ ،‬تلفیظ (ڈکشن)‪ ،‬المیہ کے عمل اور تاریخی میالن‪،‬‬
‫جذباتی توازن و اعتدال‪ ،‬تکمیل اور قطعیت شامل ہیں۔‬
‫انار کلی‘ جیسے تاریخی المیہ کی داستان کو بیان کرتے ہوئے ناول کے انت ’‬
‫میں مصنف نے کمال مہارت سے ایک ایسی سچائی کو حقیقت کے آہنگ میں‬
‫فکشنالئز کیا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔‬

‫ساری تفصیل سن لی نا آپ نے۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں۔۔۔ میں ہوں نادرہ۔ شہنشاہ’’‬
‫جالل الدین محمد اکبر کی ایک لونڈی‪ ،‬جو انار کلی کہالئی۔ یہ نام سن رکھا ہے نا‬
‫‪ I am‬آپ سب نے۔۔۔ کتنے سال ہوگئے ہیں کہ میں چیخ چیخ کر بتا رہی ہوں کہ‬
‫ایک سو چھبیس سال ہوگئے ہیں‪the sufferer of male chauvinism، ،‬‬
‫مجھے میری قبر سے بے دخل کر دیا گیا ہے‪ ،‬ہللا کا گھر آباد کرنے ے نام پر‪،‬‬
‫گوری چمڑی والوں نے پورے چالیس سال میرے مقبرے کو کھیتڈرل چرچ‬
‫بنائے رکھا۔ اب تو گوری چمڑی والے حاکم نہیں رہے۔۔۔ چار سو اٹھارہ سال‬
‫پرانے میرے بوسیدہ ڈھانچے کو نکالو اور میڈیکو لیگل کروا لو۔ کر لو تسلی‪،‬‬
‫ثابت ہو جائے گا کہ میری ناک اور کان کاٹے گئے۔۔۔ میری موت دم گھٹنے سے‬
‫‘‘ہوئی۔۔۔‬

‫چلو‪ ،‬بی بی چلیں ‪ ،‬پولیس وین سے نیچے اترتی ہوئی لیڈی پولیس آفیسر کی’’‬
‫آواز سنائی دی۔ عین اسی لمحے زرد رنگ کا ایک بڑا چھکڑا آن پہنچا‪ ،‬جس‬
‫سے اتر کر ٹی ایم او آفس کی زرد وردی والے چاک و چوبند اہلکاروں نے آنا ً‬
‫فانا ً وہ چھوٹا سا سائبان کھول دیا اور اس کے سایہ میں سجایا گیا مختصر سا‬
‫سٹیج ڈھا کر سارا سامان چھکڑے میں بھرا اور یہ جا‪ ،‬وہ جا۔‬
‫معنی درج ہیں نا ۔۔۔ نامکمل‪ ،‬داغ‪’’ ،‬‬
‫ٰ‬ ‫تمہاری عربی لغت میں امراۃ کے یہی‬
‫دھبا ۔۔‬
‫شازی چیخی۔‬

‫‘‘ چلو بی بی چلیں۔’’‬


‫دیکھتے ہی دیکھتے پولیس آفیسر نے شازی کو اپنے حصار میں لیا اور ایک‬
‫لیڈی کانسٹیبل کی مدد سے اپنے بازؤں میں بھر کر پولیس وین میں بٹھا لیا۔‬
‫شازی نے بیٹھے بیٹھے اپنا دائیں ہاتھ باہر نکال دو انگلیوں سے وکٹری کا نشان‬
‫بنایا‪ ،‬تو اس کی کالئی میں پہنا چاندی کا کڑا تیز دھوپ میں ڈلک رہا تھا۔‬

‫وین چل پڑی تو مجمع چھٹتا گیا‪ ،‬ٹریفک رواں ہو گئی لوگوں نے ایک ایک کر‬
‫کے اپنی راہ لی اور شہر یار مرزا بہت دیر ہکے بکے وہیں کھڑے رہے۔ وہ‬
‫کچھ بھی تو نہ کر سکے۔‘‘ (صفحہ ‪۲۴۴‬‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?‬

You might also like