Professional Documents
Culture Documents
انارکلی
انارکلی
ناول پہ تبصرہ
انار کلی’’ کے عنوان سے جنوری ۲۰۱۸ء میں ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کا ایک‘‘
ناول منظر عام پر آیا ہے جو اکتیس سال کے طویل عرصے میں تحریر کردہ
ایک دستاویزی ناول ہے۔یہ ناول تقریبا ً اڑھائی سو صفحات? پر مشتمل ہے جسے
اوالً ایک ہزار سے زائد صفحات پر لکھا گیا تھا۔ بعد ازاں اس کی کاٹ چھانٹ
کی گئی اور کمال مہارت سے اڑھائی سو صفحات میں چار سو اٹھارہ سالہ تاریخ
ِ ہند کو سمو دیا گیا۔ تاہم ناول نگار کے مطابق ناول کے اصل مسودے کو بھی
محفوظ رکھا جائے گا تا کہ شائقین ادب خود مالحظہ کر سکیں کہ یہ ناول کیسے
تحریر کیا گیا۔
ناول ‘‘انارکلی’’ میں مرزا صاحب نے اٹل حقیقت اور ایک اہم زمینی واقعے کو
زیر بحث النے کے لیے کہانی کا سہارا لیا ہے اور یہی ان کا اصل فن ہے کہ
موضوع سے متعلق وہ تمام پہلو جنھیں نظر انداز کر دیا گیا یا مسخ کرنے کی
کوشش کی گئی ،وہ ان تمام باتوں کو سامنے لے آئے اور آخر میں فیصلہ قاری
پر چھوڑ تے ہوئے ان پر اپنی رائے مسلط کرنے کی کوشش نہیں کی۔ ڈاکٹر
صاحب کا ایک کمال یہ بھی ہے کہ انھوں نے ناول کو تحقیقی مقالہ نہیں بننے دیا
بل کہ تمام تر معلومات کو کہانی کا حصہ بنا کر اس میں حقیقت کا رنگ بھر دیا
ہے اور حقائق کے ساتھ ان کے حوالہ جات? کو بھی کہانی کے اندر ہی ،اس قدر
چابک دستی کے ساتھ گتھم گتھا کر دیا ہے کہ تحریر میں کسی بھی قم کی
رکاوٹ یا کمی محسوس نہیں ہوتی۔
ہر ناول کی تحریر کا کوئی بنیادی مقصد ہوتا ہے جو ناول کی تحریر کا باعث
بنتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے اس ناول کا مقصد میل شأونزم اور اس کی بنیاد پر
ہونے والی نا انصافیوں کو سامنے لے کر آنا ہے جس کی ایک نمایاں صورت،
مرزا صاحب کے نزدیک ‘‘غیرت کے نام پر قتل’’ بھی ہے جو مذکورہ ناول
کے حوالے سے انا ر کلی کا قتل ناحق ہے۔ اگرچہ یہ مغلیہ دور اور بالخصوص
طرح کے الہور کا کوئی واحد قتل نہیں۔ اس سے پہلے اور بعد میں بھی اس ٖ
واقعات پیش آتے رہے ہیں لیکن تاریخ پر نگاہ دوڑائی جائے تو سب سے زیادہ
معروف یہی ہے۔عالوہ ازیں بات صرف قتل پر ہی ختم نہیں ہوتی بل کہ انارکلی
پر ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان اس قدر طویل ہے کہ چار سو اٹھارہ سال
بعد بھی نہ تو اس کے قتل کا کوئی فیصلہ ہو سکا اور نہ ہی ایک سو پچپن سال
سے اپنی قبر سے محروم انار کلی اپنے مدفن میں واپس جا سکی ہے۔ یہی ناول
نگار کا بنیادی قضیہ ہے جس کی تائید خود ناول کے انتساب سے بھی ہو جاتی
:ہے جو اکبر اعظم کے نام کرنے کے بعد ڈاکٹر صاحب? لکھتے ہیں
جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعٔہ الہور میں جالیا چراغ بجھنے نہ دیا‘‘
’’اور ایک ننھا سا دیا پھونک مار کر بجھا دیا۔
چنانچہ تحقیق و تفتیش نے انھیں اس قدر مضطرب کر دیا کہ انھوں نے مغلیہ عہد
کی عمارات کی مضبوط فصیلوں کو توڑ کر ان کی خستہ حال دیواروں میں
موجود رازوں کو بے نقاب کرنے کی کوشش کی اور اس کوشش میں وہ نہ
صرف کامیاب رہے بل کہ عہد اکبری سے لے کر زمانٔہ حال تک کی معاشرتی
اور سماجی تاریخ کے ساتھ ساتھ ادبی تاریخ میں بھی ایسی ایسی نا انصافیوں اور
سرقوں کی نشان دہی کر گئے جن کا بر وقت ادراک نہ ہونے اور وقت کی دھول
کی دبیز تہوں کے نیچے چھپ جانے کے سبب ادب کے قارئین اور محققین بل
کہ تمام شائقین ادب ہوا میں معلق تھےاور جھوٹ کو ہی سچ مان بیٹھے
تھے،لیکن حقائق کی جمع آوری کے بعداب وہ اس قابل ہو گئے ہیں کہ مذکورہ
معامالت پر اعتماد سے بات کر سکیں اور ان سے متعلق اپنا فیصلہ صادر کر
سکیں۔ مرزا صاحب کی مساعی نے جن اہم حقائق کی بازیافت کو ممکن بنایا ہے
:ان میں سے چند درج ذیل ہیں
۔ اکبر کے عہد اور بعد کے مٔورخین اور مصنفین نے انارکلی ،اس کی موت۱
اور سبب چھپانے کی سر توڑ کوشش کی۔اس کوشش میں سب سے نمایاں کردار
ابو الفضل کا تھا اور اس نے اس لیے پردہ پوشی کی تاکہ شاہی خاندان کے
ماتھے سے ‘‘زنا بالمحرمات’’ کا داغ دھویا جا سکے۔اس مقصد کے لیے ابو
الفضل نے ۱۵۹۴ء میں پاگل کا بہروپ بھر کر انارکلی سے ملنے والے سلیم کو
‘‘اکبر نامہ ’’میں ایک عام پاگل ہی قرار دیا لیکن یورپی مٔورخین اور سفرنامہ
نگاروں نے سلیم ہی کے حوالے سے اس واقعے کا ذکر کرکے اس کی
موجودگی کو ثابت کیا ہے۔مزید برآں دربار اکبری کے شاعر عرفی شیرازی نے
بھی اپنے اشعار میں انارکلی کے بیک وقت سلیم اور اکبر کے ساتھ تعلقات کا
ذکر کیا ہے،جس کی بنا پر بعد میں اسے زہر دے کر قتل بھی کر دیا گیا تھا۔
ڈاکٹر صاحب کے اس ناول کا مقصد میل شأونزم اور اس کی بنیاد پر ہونے والی
نا انصافیوں کو سامنے لے کر آنا ہے جس کی ایک نمایاں صورت ،مرزا صاحب
کے نزدیک ‘‘غیرت کے نام پر قتل’’ بھی ہے
۔ میر عدل میر عبد الحیی کی عدالت میں انارکلی پر ۱۵۹۱ء میں شہنشاہ اکبر۲
کو زہر دینے اور بعد ازاں اکبر کے حرم شاہی کا حصہ ہوتے ہوئے بھی شہزادہ
سلیم کے ساتھ پکڑے جانے کے حوالے سے ‘‘زنا بالمحرمات’’کے مقدمات کیے
گئے۔انار کلی نے اکبر کو زہر دینے کی سازش میں ملوث ہونے کا اقرار اذیت
ناک سزأوں کے باوجودآخر دم تک نہیں کیا۔لہٰ ذا اسےمٔوخر الذکر مقدمے کے
لیے سزا ملی اور آئین اکبری کے تحت اس کی ناک اور کان کاٹنے کے بعد اسے
نظروں سے اوجھل کرنے کے لیے دیوار میں چنوا دیا گیا۔
۔ انار کلی ۲۹؍نومبر تا ۶؍دسمبر ۱۵۹۹ء کی درمیانی مدت میں زندہ دیوار میں۳
چنوا دی گئی۔ حتمی تاریخ اس لیے نہیں بتائی گئی کیوں کہ ہجری اور عیسوی
تقویم میں افتراق کی وجہ سے حتمی تاریخ کا تعین انتہائی مشکل ہے۔جہانگیر
نے بھی انار کلی کی قبر کے تعویز پر ۱۵۹۹ء اور ۱۰۰۸ھ ہی لکھوایا کیوں کہ
کنیز کو سزا ملنے کا سال یہی تھا لیکن چوں کہ سزا حبس دم کی تھی اس لیے
بھی اس بات کا فیصلہ صرف تاریخ کی مدد سے نہیں کیا جا سکتا کہ دیوار میں
چنوا دینے کے بعد اس کی سانس کب رکی اور موت کب واقع ہوئی؟
۔ مقبرہ انار کلی کو سلیم کی ایک بیگم صاحب جمال کا مدفن قرار دیا جاتا ہے۔۴
قبر کے اوپر سال وفات ۱۰۰۸ھ درج ہے جب کہ صاحب جمال کا سال وفات
۱۰۰۷ھ تھا۔
۔ عہد اکبری کی بیش تر عمارات موجود ہیں لیکن اکبری محل اور حرم شاہی۵
میں موجود بیگمات اور لونڈیوں کے حجروں کی صرف بنیادیں باقی رہ گئی ہیں۔
ناول میں نہ صرف محل کے مختلف حصوں بل کہ قلعٔہ الہور کے مسجدی
دروازے کے قریب ایستادہ اکبری محل سے ملحقہ انار کلی کے حجرے کی بھی
نشان دہی کی گئی ہے جس میں انار کلی ۱۵۹۰ء۔تا ۱۵۹۱ء اقامت پذیر تھی۔
۔ ولیم فنچ نے اپنی تحقیقات میں جس مسجد کا حوالہ دیا ہے اسے اب تک بابا۶
فرید گنج شکر کی مسجد سمجھا جاتا رہا ہے،لیکن فنچ نے شیخ فرید کی مسجد
مصطفی خان شیخ فرید بخاری تھے جو ۱۶۱۶ء
ٰ بتائی ہے جو گورنر الہور نواب
تک زندہ رہے۔
۔شاال مار باغ اور شیش محل کو عہد شاہجہاں کی یادگاریں قرار دیا جاتا ہے۷
جب کہ یہ عمارات اکبر کے عہد میں موجود تھیں اور اس وقت ‘شاال مار ’ کو
‘شالی مار’ کہا اور لکھا جاتا تھا جس کا تذکرہ اس دور کی شاعری میں بھی ہے۔
۔ معروف مالمتی صوفی شاعر شاہ حسین اکبر کا مخالف تھا لیکن اس کا۱۰
شہزادہ سلیم کے ساتھ رابطہ تھا۔
۔اردو ادب کا معروف ڈراما ‘‘انارکلی’’ سید امتیاز علی تاج کی تحریر نہیں۱۲
بل کہ یہ ایس۔کے۔فیروز کا ڈراما ہے جو انھوں نے ‘‘انارکلی’’ کی اشاعت (
۱۹۳۲ء) سے دس سال پہلے داراالشاعت پنجاب کے مالک مولوی ممتاز علی کو
اشاعت کی غرض سے دیا تھا لیکن تاج نے اسے اپنے نام سے شائع کروایا۔
۔ انار کلی کی قبر مقبرے میں ہونے کے باوجود اپنی جگہ پر یعنی گنبد کے۱۳
عین نیچے نہیں۔گنبد کے نیچے اس کی تالش کے لیے ۱۹۹۲ء میں ناول نگار
کی ہی کوششوں سے ملتان سے پیشہ ور بلوا کر بورنگ کروائی گئی تاکہ قبر
کی موجودگی کا پتا چالیا جا سکے لیکن بور کے راستے میں کوئی رکاوٹ نہیں
آئی جو اس بات کا ثبوت تھا کہ نیچے کوئی قبر موجود نہیں۔ درحقیقت? ۱۸۵۲ء
میں مقبرٔہ انارکلی کو چرچ بنانے کی صورت میں انارکلی کا ماندہ وجودگنبد کے
نیچے سے نکال کر صدر دروازے سے ملحقہ بائیں برجی کے نیچے دفن کر دیا
گیا تھا جہاں وہ اب بھی موجود ہے،لیکن ناول کے عام قارئین کے لیے اس جگہ
کی نشان دہی کے باوجود اس تک پہنچنا اس لیے مشکل ہےکیوں کہ انھیں معلوم
نہیں کہ جب یہ عمارت بنی تھی اس وقت صدر دروازہے کے طور پر کون سا
دروازہ مستعمل تھا؟ ڈاکٹر مرزا حامد بیگ کے بقول صرف وہ ہی اس ضمن میں
راہ نمائی کر سکتے ہیں۔
پالٹ کے اعتبار سے دیکھا جائے تو ایک مربوط اور منظم پالٹ ہے بل کہ ناول
میں حقیقی اور ‘‘مجازی’’ انار کلی کے حوالے سے دو پالٹ چلتے ہیں اور
دونوں کے حاالت،اشتراکات? اور معامالت اس طرح باہم پیوسط ہیں کہ ایک کی
کہانی دوسرے کو متاثر نہیں کرتی بل کہ اس میں کچھ نہ کچھ اضافہ ہی کرتی
چلی جاتی ہے۔ اس کا سب سے اہم سبب یہ ہے کہ ایک ہی طرز کے واقعات کو
ناول کے ایک ہی باب میں سمیٹنے کی کوشش کی گئی ہے،جس سے قاری کی
توجہ منتشر نہیں ہونے پاتی۔ عالوہ ازیں واقعات کا تاریخی تسلسل قابل داد ہے
جو ناول کی اہم ضرورت ہونے کے ساتھ ساتھ ناول نگار کی اکتیس سالہ تحقیق
اور محنت پر بھی داللت کرتا ہے۔قدم قدم پر اہم سواالت اٹھائے گئے ہیں اور ان
کے جوابات خود ہی فراہم بھی کر دیے ہیں جو پالٹ میں کوئی خال باقی نہیں
رہنے دیتے۔ہاں اگر ایک بھی کڑی نکال دی جائے تو خالکا پیدا ہونا یقینی امر
ہے۔ لیکن یہاں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ ناول نگار ہر موقعے پر اعتدال و
توازن قائم رکھتے ہیں۔وہ پورے ناول میں اکبر اور سلیم کی مخالفت اور انارکلی
اور اس کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر کڑھتے ضرور ہیں ،لیکن اکبر کی
پدرانہ شفقت کو بھی نظر انداز نہیں کرتے بل کہ ایک دیانت دار فن کار کی
طرح حقیقیت کو تسلیم کرتے اور اس کی نفسیاتی توجیہ تالشنے کی ضرورت
محسوس کرتے ہیں اور پھر انھیں حوالوں کی مدد سے ثابت بھی کر جاتے ہیں۔
ناول میں اگرچہ مکالمے کم ہیں لیکن دلچسپ ،موزوں اور بر محل ہیں۔ یہ
کرداروں کے خیاالت ?،جذبات اور احساسات کو عیاں کرتے ہیں۔یہ مکالمے نہ
صرف برجستہ اور آسان زبان میں ہیں بلکہ کرداروں کی تفہیم میں بھی مدد
دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ مرزا صاحب? نے تاریخی کرداروں کے خیالی مکالمے
بھی لکھے ہیں لیکن ایسے مکالمے ان کی تاریخ نویسی کی راہ میں حائل ہونے
کے بجائےکرداروں کے خیاالت اور نفسیات کے ساتھ اپنے عہد کے مسائل کی
طرف بھی قاری کی توجہ دالتے ہیں اور ان کا منااسب حل تجویز کرنے میں مدد
دیتے ہیں۔
تاریخی موضوع ہو اور وہ بھی اکبری عہد اور اس میں منظر نگاری نہ ہو یہ
کیسے ممکن ہے؟چناں چہ مرزا صاحب? نے موضوع سے انصاف کرتے ہوئے
سماجی اور مادی منظر نگاری دونوں کو برتا ہے۔انھوں نے ماحول کو جزئیات
کی مدد سے قاری کے لیے اس طور سے واضح کر دیا ہے کہ قاری اسی منظر
اور اسی عہد میں اکبر اور جہانگیر کے شانہ بشانہ چلتا اور سانس لیتا محسوس
ہوتا ہے۔انار کلی کی موت کا واقعہ واقعہ کوئی معمولی نوعیت کا واقعہ نہیں ہے۔
وہ اپنے ساتھ کتنا بدالؤ اور انتشار لے کر آیا،جو اس حقیقیت سے واقف ہیں وہی
جانتے ہیں۔ اس کے بیان کے لیے دفتر درکار ہیں لیکن مرزا صاحب نے سماجی
منظر نامے کو واضح کرتے ہوئے اور اس دور کا کوئی بھی اہم نکتہ نظر انداز
ت حال کو ناول کے ابواب میں اس طرح بیان کر دیا کیے اس انتشار زدہ صور ِ
ہے کہ اکبر ،سلیم،انارکلی اور دل آرام،شہریار مرزا،شازی حیات کے عالوہ شاہ
حسین تک اس کی گرفت سے بچ نہیں پائے۔
اسی طرح اگر مادی منظر نگاری کے معاملے کو دیکھیں تو انھوں نے
مکانوں،سڑکوں اور دوسرے مقامات? کی چھوٹی چھوٹی باتوں کوانتہائی تفصیل
سے بیان کیا ہے۔ انھوں نے اس ناول میں مصور کے فرائض ادا کیے ہیں جس
ت مشاہدہ سے کام لے کر ایسی جزئیات کو بیان کیا ہے جن پر قلعٔہ
نے اپنی قو ِ
الہور کی سیر کے لیے جانے والے عوام کی نظر تک نہیں پڑتی۔اس منظر
نگاری میں کرداروں کےحلیے ?،ان کے عادات و خصائل سے لے کر ان
کےطرز رہائش تک سب ہی کچھ شامل ہے۔ حویلی،بارہ دری ،ایوان خاص،ِ
خلوت خانہ ،شیش محل،نو لکھا،دروازوں،برجوں،مقبروں ،محرابوں،بیگمات اور
لونڈیوں کے حجروں کے طویل سلسلوں کے بیان اور پھر ان تمام مساکن میں
خوف اور خواہشات کے تصادم ،آرزو کے حصول کی جستجو ،تعیش
پرستی،سزا و جزا کےاحکامات اور احساس جرم نے مل ایک عجیب و
غریب،ظلم و دہشت سے بھرپور،پر اسرار مگر مکمل منظر نامے کو اس طرح
تشکیل دیا ہے کہ ہر کردار اپنے اپنے حصے کی ذمہ داری نبھاتے ہوئے پوشیدہ
رازوں سے پردہ اٹھانے کی سعی میں مصروف عمل ہے۔
ناول کا اسلوب رواں ہے۔اسی کی بدولت کہانی سست روی سے نہیں بل کہ سطر
بہ سطر آگے بڑھتی رہتی ہے کہ ایک لمحے کے لیے بھی توجہ نہیں ہٹتی اور
نہ ہی بیزاری محسوس ہوتی ہے۔چونکا دینے والی سچائی کو کہانی کے روپ
میں ڈھالنا ایک عمدہ تکنیک ہے،جس کی وجہ سے کہانی میں محض فکر ہی
نہیں سچائی بھی ہے۔ مکالموں کی زبان اور الفاظ کا چنأو کرداروں کے پیشوں،
جنس اور نفسیات کے مطابق ہے۔ درست امال کا خیال رکھنے کی حتی االمکان
کوشش کی گئی ہے اس کے لیے ناول کے آغاز میں ہی ‘‘انتباہ’’ کے عنوان
:سےایک عبارت دی گئی ہے جو درج ہے
مروج غلط امال کے عادی اس ناول کو پڑھتے ہوئے کسی قدر دقت محسوس کر
’’سکتے ہیں۔
عالمات کا استعمال کمال ذہانت اور ہوش یاری سے کیا گیا ہے۔خصوصا ً
‘‘شہریار مرزا’’‘‘ ،انار کی کلی (شازیہ حیات)’’ اور ‘‘مجنون سلیم اکبر’’ میں
جو معنویت تالش کی گئی ہے وہ بہت دل چسپ ہے۔اگرچہ کئی مقامات پر تکرار
سے بھی کام لیا گیا ہے لیکن راقمہ کے خیال میں اس کا مقصد اہم تاریخی حقائق
اور واقعات اور ان کے وقوع پذیر ہونے کی تواریخ کی ذہن نشینی ہے۔جو ایک
احسن اقدام ہے۔
غرض مجموعی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ تواریخ ،فلم ،مضامین اور ناولوں
کی موجودگی میں اتنے عرصے بعد منظر عام پر آنےوالی انار کلی سے متعلق
تحقیق ایک نئی سمت اور نئی جہت ہی نہیں بلکہ اردو ناول کی تاریخ میں بھی
ایک ایک نئے سفر اور جدت کی نوید ہے جو آیندہ ناول نگاروں کے لیے تحقیق
و تفتیش کے پل صراط سے گزرنے کے لیے ایک کڑے امتحان کی پیش گوئی
بھی ہے۔ کیوں کہ اس کے بعد ادب کے با ذوق اور سنجیدہ قارئین کے لیےکسی
بھی دستاویزی ناول میں ،بغیر تحقیق و حوالہ جات کے،کسی ارضی حقیقت کو
ماننے میں تامل ضرور ہو گا۔
مزید برآں آخر میں اس اہم سوال کا تذکرہ بھی ضروری ہے جو ناول کے توسط
سے مرزا حامد بیگ نے فلم یونٹ کے افراد کے پردے میں اپنے قارئین سے
پوچھا ہے اور وہ یہ ہے کہ مرزا حامد بیگ انار کلی کے ماندہ وجود کو عین
اسی جگہ دفنانا چاہتے ہیں جہاں وہ ۱۸۵۲ء سے پہلے دفن تھی،لیکن کیا اس
کاوش میں ہم مرزا حامد بیگ کا ساتھ دیں گے؟؟؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?
مہا بلی اکبر ’ ،انارکلی‘ کی عدالت میں ،ایک متنی جائزہ
تبصرِۂ کتاب :نعیم بیگ
اکبر اعظم کے نام جنھوں نے شہزادہ لوہ کے ہاتھوں قلعہ الہور میں جالیا گیا’
‘‘چراغ بجھنے نہ دیا اور ایک ننھا سا ِدیا پھونک مار کر بجھا دیا۔
یہ انتساب ہے اس شاہکار دستاویزی ناول کا ،جسے میرزا حامد بیگ نے اندازا
اکتیس برس کی محنت شاقہ کی نذر کیا۔ زمانہ تحریر جب اس قدر طوالت اختیار
جزوالینفک بننا ہے،
ِ کر جائے ،تو تاریخ کی وہ گھتیاں جسے کسی عبارت کا
کھُلنے پر مجبور ہو جاتی ہیں۔ لگ بھگ ایک ہزار سے زاید صفحات? پر لکھی
گئی خونچکاں داستان جب خود احتسابی کی نذر ہوئی‘ تو صرف ڈھائی سو
کار دارد ہے۔
صفحات پر مواد کا نچوڑ رہ گیا ،جس میں زوائد کا ڈھونڈنا ِ
فکشن انسانی نفسیات میں ایسے جوہر کی مانند ہمیشہ اپنے انگ انگ میں کوندتی
ہوئی بجلیاں چھپائے رکھتی ہے ،جسے کوئی بھی ذہین ادیب اپنی انگلیوں کی
پوروں سے چھیڑ کر ایسے سچ کو برآمد کر لیتا ہے ،جو بعد ازاں عالمی سچ کا
روپ دھار لیتے ہیں۔ کچھ ایسا ہی میرزا حامد بیگ کے ناول ’’ انار کلی ‘‘ میں
ہوا ہے۔ تاریخ کے جن پہلوؤں پر صدیوں کی تاریکی نے گھنے سائے کر رکھے
تھے ،دربار اکبر کا وقائع نویس ابوالفضل ہو یا بعد ازاں درباری مورخین ،ان
کے قلم مصلحت کی نیو پر خاموش رہے ،تب وقت کی خاک نے بھی ایک دبیز
چادر تن دی ،لیکن حامد بیگ کے قلم کی نوک نے صدیوں بعد فکشن کے کارن
ایسی راگنی چھیڑی ہے ،جس سے سچائی کے مسحور کن سر اہل علم و فن ،
فکر و دانش اور مورخین کو ایک بار پھر نئے آہنگ سے آ شنا کر رہے ہیں۔
سچائی کیا ہے؟ وہ جو مہابلی کے دربار میں عدل کے نام سے گونجتی تھی ،یا
وہ جو انار کلی کی مہک کو دربار میں پھیلنے سے نہ روک سکی ،اور جس کا
شکار شیخو اور خود انارکلی ہوئی۔
سچائی کیا ہے؟ وہ تاریخ جو ابولفضل نے’ آئین اکبری‘ اور ’ اکبر نامہ‘ میں
سپر ِد ابیض کی یا برطانوی تاجر ولیم فنچ یا طامس ہربرٹ نے رقم کی۔ یہ تو آپ
ناول پڑھ کر ہی جان پائیں گے ،لیکن اس سے پہلے کہ میں ناول کے مندرجات?
کو متن کی روشنی میں تجزیاتی طور پر سامنے الؤں ،مجھے دو اہم پہلوؤں پر
گفتگو کرنی ہے۔ پہال نکتہ وہ مثبت عمومی تاثر کا ہے جو اس دور کے وقائع
نویسوں اور مورخین نے رقم کیا ،اور مغلیہ دور کے بیشتر شہنشاہوں کے ان
دعوی کرتے ہیں ،کو معروفٰ رویوں پر جو انسانی حقوق پر دال کرنے کا
معنوں میں انسان دوست قرار دیا۔ اور دوسری سطح وہ ہے جو شاہی ثقافتی
رویوں کی ہے ،جس میں سلطنت مغلیہ کے وسطی ادوار بشمول اکبر اور
جہانگیر بھی شامل ہیں۔
تاہم ناول ’ انار کلی‘ میں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ جہاں دیدہ دانستہ فراموش
کردہ حقائق کے کھوجنے کو مصنف نے اہم سمجھا ،وہیں انسانی حقوق کی
پامالی کو بھی زیر بحث الیا گیا۔ انار کلی کے واقعہ پر بحیثیت حقیقت نگار
مصنف نے یہ بات شکوہ گزاری کے طور پر بیان کی ہے کہ ’’ تین سو اکانوے
برس گذر گئے ،نہ مدعیہ کو انصاف فراہم کیا جا سکتا ہے اور نہ مدعا علیہ کو
عدالت کے کٹہرے میں پیش کیا جا سکتا ہے ،ہاں اگرہم اپنے موضوع سے انصا
ف کر پائے تو یوں سمجھیے فر ِد جرم عائد ہو گئی( ‘‘ ،صفحہ )۵۳
آگے چل کر مصنف لکھتے ہیں ’’ افسوس کہ عہد اکبری کے وقائع نویس اِس
ضمن میں خاموش ہیں اور عہد موجود کے تاریخ دانوں اور تجزیہ کاروں نے
مقبر ِہ انار کلی اور انار کلی بازار جیسے واضح نشانیوں کو جھٹالتے ہوئے
انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا ہے ،آج ۸اکتوبر .۱۹۹۰ء کو ہم لگ بھگ
چار سوسال پرانی ایک مبہم سی تصویر پر پڑی ہوئی گرد جھاڑنے کی خاطر
جمع ہوئے ہیں۔ ایک دھندلی سی تصویر ،جسے ہمارے اجتماعی حافظے اور
شہر الہور کی سینہ در سینہ روایات نے ہم تک پہنچایا۔‘‘ (صفحہ )۵۳
یہ بھی کہا گیا کہ اکبر اعظم کے معاصر تاریخ نگاروں نے جان بوجھ کر اس
لرزا دینے والے واقعہ کو قلمبند کرنے سے گریز کیا ،کیونکہ انار کلی کو
.۱۵۹۹ء میں زندہ دفن کر دینے کے بعد .۱۶۰۵ء سے .۱۶۱۵ء کے درمیانی
عرصہ میں جہانگیر کے حکم سے انار کلی کا مقبرہ تعمیر ہوا ،جو اس دور کی
الہور کی شاہی عماراتمیں ایک شاندار اضافہ تھا۔
عالمی ادب میں ایک قدیم اور گہری روایت ہے ،جسے فرانسیسی میں ’ مائز این
ابیمی ‘ کہا جاتا ہے جس میں کہانی کے اندر ایک اور کہانی بُنی جاتی ہے جو
بڑی کہانی کے تناظر میں اس چھوٹی کہانی کے مراحل طے کرتی ہے ۔جیسے
قدیم یونانی شاعر ہومر اپنی نظم ’اوڈیسی ‘ میں اس تکنیک کو پہلی بار استعمال
میں الیا۔ درحقیقت? کہانی اندر کہانی کی بنت کے ذریعے اس سچ کو اگلوانا از حد
ضروری ہو جاتا ہے جو مصنف اپنے تئیں پورے ناول میں مرکزی خیال کے
تحت التا ہے۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں یہی تکنیک استعمال کی گئی ہے ،جسے
مصنف بڑی ہنر مندی سے عکسی حقیقت کے پیرائے میں ’ انارکلی‘ جیسے
تاریخی موضوع کی سچائی کو سامنے التا ہے۔
ناول ’ انارکلی‘ میں مصنف کا مقصد اوال یہی ہے ،کہ وہ یہ ثابت کرے ،کہ انار
کلی کا کردار کوئی امجیری ،کوئی الوژن ،کوئی واہمہ نہیں بلکہ انارکلی ایک
حقیقت تھی اور ہے ،جو مہابلی کے قہر کا نشانہ بنی۔ عین اسی تیکنیک کے تحت
شکسپئیر اپنے ڈرامے ’ ہیلمٹ ‘ میں سچ اگلوانے کے لیے کردار اوفیلیا کو
استعمال کیا۔ ناول ’ انار کلی ‘ میں اردو ادب کے مخصوص لسانی و تہذیبی پس
منظر میں یہ تکنیک استعمال کی گئی ہے ،جسے مصنف بڑی ہنر مندی سے ’
انارکلی‘ جیسے تاریخی موضوع کی عکسی سچائی کو سامنے النے کے لیے
بروئے کار التا ہے۔
یہاں کہانی کی ابتدا ہی میں ایک وسط ایشیائی تیموری خون رگوں میں دوڑاتا
شہر یار مرزا مرکزی تمثیلی کردار کے روپ میں سامنے آتا ہے۔ یہ مغلئی
آنکھوں واال ،دراز قد نوجوان طالب علم جو پی ایچ ڈی کے مقالے کی ریسرچ
کرتے ہوئے کہانی کے اندر اُس وقت داخل ہوتا ہے ،جب مری سے ذرا آگے
خانسپور کے مقام پر سپانسرڈ فلمی یونٹ بمع اپنے تمام ضروری فلمی یونٹ کے
ہمراہ ’ انار کلی‘ فلم بنانے کے ابتدائی مراحل سے گذر رہا ہوتا ہے ۔ فلمی یونٹ
کے سیٹ ڈیزائنر مسعود احمد ( نک نیم ہد ہد ) شہر یار مرزا کے دیرینہ دوست
ہیں اور یوں مغلئی آنکھوں واال کردار وہیں فلمی یونٹ کی انچارچ پروڈیوسر
میڈم ڈاکٹر سرجیت کور کی بیٹی شازیہ سے ملتا ہے ،جسے وہ اپنے تخیل میں
انار کی کلی پکار اٹھتا ہے۔
کہانی کی ابتدا میں دو حریف کردارمغلئی آنکھوں واال شہر یار مرزا اور ٹیلی
ویژن اداکار سنی جو ہمہ وقت اپنے آپ کو ہیرو ہی سمجھتا ہے کو اِس عمدگی
سے آمنے سامنے الیا گیا ہے کہ وہ ناول کی سطروں سے ہی مالحظہ ہو سکتی
ہیں ۔ بیڈ منٹن کے کورٹ میں جب سنی دھان پان سی لڑکیوں انار کی کلی
(شازی) اور صفیہ کو ہرا دینے کے بعد تفاخرانہ انداز سے آس پاس دیکھتا ہے،
اور کھُال چیلنج دیتا ہے تو شہر یار مرزا آگے بڑھتا ہے اور یوں ایک نیا کھیل
شروع ہوتا ہے۔
جب شہر یار میرزا نے میچ پوائنٹ لو کہتے ہوئے ریکٹ کو جھٹکا دیکر شٹل’’
کاک دھیرے سے نیٹ کے ساتھ پش کی تو سنی بجائے آگے آنے کے ہانپ کر
پیچھے ہٹا اور شٹل ،اس کے عین سامنے جا گری۔ سنی بغیر کوئی پوائنٹ بنائے
ایک سیٹ ہار چکا تھا۔ یہ دیکھ کر کورٹ کے اطراف میں ہاہاکار مچ گئی اور
جب شہریار مرزا نے سنی سے پوچھا کہ ’بیسٹ آف تھری‘ کھیلو گے تو وہ
پھولی ہوئی سانس کے ساتھ ریکٹ پھینک کر کورٹ سے باہر چال گیا۔ ایسے میں
راجہ رسالو کے اشارے پر کچھ منچلے اسے دوبارہ کورٹ میں لے آئے۔ وہ
شہر یار مرزا کے ہاتھوں مزید خوار کرنے کی کوشش میں تھے کہ ڈاکٹر نذیر
برالس کی بروقت مداخلت نے سنَی کو بچا لیا۔ وہ یہ میچ کیا ہارا ،ہیرو سے
زیرو ہو گیا۔‘‘ (صفحہ )۶۶
سال .۱۵۹۴ء نومبر کا مہینہ ،موسم سرما۔ شام کو اندھیرا جلد چھا جاتا ہے۔ وہ’’
پاگل شخص کون تھا؟ کوئی اور نہیں یقینا ً شہزادہ سلیم جو انار کلی سے ملنے
حرم شاہی کی نگران پہرہ دار خواتین نے
ایک پاگل کا بہروپ بھر کر آیا تھا اور ِ
دیوان عام کے قریب کھڑے شہزادہ دانیال
ِ چشم پوشی اختیار کر رکھی تھی ،لیکن
کی اس پر نظر پڑ گئی۔ ‘‘ ( صفحہ نمبر )۱۰۹
ابو الفضل کے مطابق تو اکبر نے اس پاگل شخص کو معافی مانگنے پر جانے ’’
دیا ،لیکن سر ٹامس ہر برٹ نے اپنے سفر نامہ میں لکھا ہے ،کہ جہانگیر کے
معافی مانگنے پر معاف کر دینے کا وعدہ کر کے بادشاہ اسے حرم سرا میں لے
آیا۔ حرم سرا میں آتے ہی پھر طیش میں آ گیا کہ بیٹے کو ایسے مکے مارے کہ
وہ گر پڑا۔ ’ اکبر چنگھاڑا :ابے او احمق اور گدھے تو نے کس طرح میرے
وعدے پر یقین کر لیا؟ ‘‘ (صفحہ نمبر)۱۰۹
یہ بات پہلے بھی منظر پر آ چکی تھی کہ اکبر کو زہر دینے کی کوشش کی گئی
تھی ،لیکن شاہی اطباء کے بروقت عالج کی وجہ سے جانبر ہو گیا تھا۔
لگتا ہے کہ اکبر کو پھر ایک بار شہزادہ سلیم کے اشارے پر اناد کلی کے’’
ہاتھوں زہر دئیے جانے کا خطرہ محسوس ہوا۔ اس بد گمانی کی فضا میں چند ماہ
بعد .۱۵۹۸ء میں اکبر نے شہزادہ سلیم کو حکم دیا کہ وہ ماورا النہر کی طرف
ایک فوجی مہم کی قیادت کرے ،لیکن سلیم نے کسی خدشے کے پیش نظر اس
درو دراز مہم پر جانے سے انکار کر دیا۔ اس سے باپ بیٹے کے درمیان تلخی
بڑھی۔ تب یقینا ً شاہی حرم سرا میں انار کلی کی حرکات و سکنات پر بہت سی
نظریں گڑی ہو ں گی۔ ‘‘ ( صفحہ نمبر )۱۱۱
یہ ناول کے حوادث کی تنظیمی خوبی ہے ،کہ یہ تاریخی المیہ کسی فرد سے
کہیں زیادہ اس سے وارد ہونے والے اعمال اور زندگی کا عکس پیش کرتا ہے۔
جوں جوں مہابلی ،شیخو اور انارکلی کے تاریخی تمثیلی واقعات آگے بڑھتے
ہیں ،اسی طرح ناول کی کہانی میں شہر یار مرزا ،انار کی کلی ( شازی) اور
سنی کے واقعات وقت کی ڈور پر اسی طرح سیریز آف ایونٹس کی مماثلت میں
آگے بڑھتے ہیں۔
سنی کو میں نے دل سے چاہا تھا ،پر وہ دھوکے باز نکال ،اب تم درمیان میں’’
آن کھڑے ہوئے۔ میں بٹ گئی۔ تم ہی بتاؤ میں کیا کروں؟‘‘ ’’ میں ہٹ جاتا ہوں
درمیان سے ،یوں بھی کل خانسپورمیں ہمارا آخری دن ہے ،شام کو چل پڑیں
گے ،یہاں سے مری کی طرف۔ مجھے وہاں اتار کر تمہاری بس آگے نکل جائے
گی۔ پیچھے رہ جاؤں گا میں اور ہوٹل برائیٹ کے برآمدے میں دھری بید کی
‘‘خالی کرسیاں۔
کون کہہ رہا ہے تمہیں پیچھے ہٹ جانے کے لیے۔۔۔ الہور سے کوہ مری تک ’’
کے سفر میں مجھ سے مدیحہ نے سنَی کو چھینا ،تم نے سنَی سے مجھے چھین
لیا۔ اگر دل لگی کرنی ہے تو بے شک پیچھے ہٹ جاؤ۔ میں راجپوت ہوں مدیحہ
سے کبھی ہار نہیں ماننے کی۔۔۔۔ ’’ کیا تم رات ایک بجے گرجا گھر کے ساتھ
والی راہداری پر مجھ سے ملنے آ سکتے ہو۔ میں ماما کو ان کے کمرے تک
پہنچا کر نکل آؤں گی۔۔۔ ‘‘ (صفحہ نمبر )۱۷۴
انار کی کلی (شازی) اور شہر یار مرزا کی خانسپور میں ہونے والی یہ گفتگو
کہانی کو ایک نیا موڑ دیتی ہے۔ جب رات ڈھلتے ہوئے گرجے کے بائیں جانب
راہداری پر سیمنٹ کی بنچ پر بیٹھا شہر یار مرزا انتظار کی گھڑیاں گزار رہا
تھاکہ دو سایوں نے اسے چونکا دیا ،ریسٹ ہاؤس سے کوئی نکل کر گرجے کی
جانب مڑ گیا۔ مرزا یہی سوچ رہا تھا کہ سایہ اس کی طرف آنے کی بجائے
دوسری طرف کیوں مڑ گیا ہے تب ایک بوجھل سایہ ریسٹ ہاؤس کی طرف قدم
بڑھا رہا تھا ،جسے چھٹکی ہوئی چاندنی میں پہچان لینا مشکل نہ تھا۔ یہ انار کی
کلی تھی ،اس کے ہاتھ میں چاندی کا کڑا چمک رہا تھا۔۔۔۔ تو پہال سایہ کون تھا ؟
سنَی تھا یقیناً۔ انار کی کلی نے ایسا کیوں کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ سب کچھ
میں دیکھ لوں گا۔ اگر وہ مجھے یہاں نہ بالتی تو کیا میں یہ منظر دیکھ سکتا۔
شہریار چکرا کر رہ گیا ،کیونکہ اس کا احساس فتح مندی ہزیمت میں ڈھل چکا
تھا۔ جب وہ اس کے قریب پہنچا تو جب صبح کے آثار جاگ رہے تھے ،اس کی
ٹانگیں شل تھیں ،شہریار چپ چاپ کھڑا اسے دیکھتا رہا۔ یہی وہ ٹرننگ پوائنٹ
ہے۔
تب شازیہ اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ ’’ بولو۔۔۔ کیا میں تمہارے لیے اب’’
بھی ۔۔۔ ؟‘‘ مغلئی آنکھوں واال چپ کھڑا اسے تکتا رہا۔ پھر یکلخت تیزی سے پلٹا
‘‘اور بوال ’’ بہت دیر ہوگئی۔
یہ کہہ کر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا ریسٹ ہاوس سے نکل گیا۔‘‘ ( صفحہ )۱۹۶
ٰ
دعوی میں کوئی معانی ناول میں دستاویزی واقعات کی روشنی میں مصنف اپنے
پیدا کر سکا ہے یا نہیں؟ یہ ناول کا قاری یا کوئی تاریخ دان ہی طے کرے گا کہ
اگا کہ اس دستاویزی سچائی میں حقیقت کا عکس کس قدر نمایاں رہا ہے۔ راقم کا
منصب نہیں کہ وہ اس پر حدود جاری کرے۔ تاہم یہ کہنا کافی ہوگا کہ ناول کا
متن حقیقتا ً اپنے جوہر میں واقعات کی اُس تمثیلی عکس کو بیان کرتا ہے ،جسے
افالطون نے عکسی حقیقت قرار دیا ہے۔ گو وہ اپنے فلسفیانہ نظریات کے جوہر
حامل وجود اور بصری الفاظ کو ثانوی حقیقت کہتا ہے ،لیکن یہاں مصنف نے ِ کو
اسی فلسفے اور ادب کے استاد اول ارسطو کے تخلیقی رحجانات? کی بنیاد پر اس
پورے تاریخی واقعہ کی مربوط اور حوالہ جاتی عکسی حقیقت کو بیان کر دیا
ہے۔ مصنف نے اس المیہ کو بیان کرتے ہوئے اس واقعہ کی غنائیت ،تاثر
آفرینی ،طریق کار اور حدود کا مکمل ادراک کیا ہے۔ جس عمل کا عکس پیش کیا
گیا وہ سنجیدہ ،مکمل اور خاص حجم کا حامل ہے۔ اس کی کرافٹ میں فکشن اور
حقیقت کا الزوال امتزاج رقم کرنے کی شاندار مثال قائم کی گئی ہے۔ راقم کی
نظر میں اس ناول کی تاریخی حیثیت کے عالوہ بھی اور کئی سامان موجود ہیں
جس سے ناول کی زبان ،ہیئت ،تلفیظ (ڈکشن) ،المیہ کے عمل اور تاریخی میالن،
جذباتی توازن و اعتدال ،تکمیل اور قطعیت شامل ہیں۔
انار کلی‘ جیسے تاریخی المیہ کی داستان کو بیان کرتے ہوئے ناول کے انت ’
میں مصنف نے کمال مہارت سے ایک ایسی سچائی کو حقیقت کے آہنگ میں
فکشنالئز کیا ہے کہ قاری عش عش کر اٹھتا ہے ۔
ساری تفصیل سن لی نا آپ نے۔۔۔ وہ کوئی اور نہیں۔۔۔ میں ہوں نادرہ۔ شہنشاہ’’
جالل الدین محمد اکبر کی ایک لونڈی ،جو انار کلی کہالئی۔ یہ نام سن رکھا ہے نا
I amآپ سب نے۔۔۔ کتنے سال ہوگئے ہیں کہ میں چیخ چیخ کر بتا رہی ہوں کہ
ایک سو چھبیس سال ہوگئے ہیںthe sufferer of male chauvinism، ،
مجھے میری قبر سے بے دخل کر دیا گیا ہے ،ہللا کا گھر آباد کرنے ے نام پر،
گوری چمڑی والوں نے پورے چالیس سال میرے مقبرے کو کھیتڈرل چرچ
بنائے رکھا۔ اب تو گوری چمڑی والے حاکم نہیں رہے۔۔۔ چار سو اٹھارہ سال
پرانے میرے بوسیدہ ڈھانچے کو نکالو اور میڈیکو لیگل کروا لو۔ کر لو تسلی،
ثابت ہو جائے گا کہ میری ناک اور کان کاٹے گئے۔۔۔ میری موت دم گھٹنے سے
‘‘ہوئی۔۔۔
چلو ،بی بی چلیں ،پولیس وین سے نیچے اترتی ہوئی لیڈی پولیس آفیسر کی’’
آواز سنائی دی۔ عین اسی لمحے زرد رنگ کا ایک بڑا چھکڑا آن پہنچا ،جس
سے اتر کر ٹی ایم او آفس کی زرد وردی والے چاک و چوبند اہلکاروں نے آنا ً
فانا ً وہ چھوٹا سا سائبان کھول دیا اور اس کے سایہ میں سجایا گیا مختصر سا
سٹیج ڈھا کر سارا سامان چھکڑے میں بھرا اور یہ جا ،وہ جا۔
معنی درج ہیں نا ۔۔۔ نامکمل ،داغ’’ ،
ٰ تمہاری عربی لغت میں امراۃ کے یہی
دھبا ۔۔
شازی چیخی۔
وین چل پڑی تو مجمع چھٹتا گیا ،ٹریفک رواں ہو گئی لوگوں نے ایک ایک کر
کے اپنی راہ لی اور شہر یار مرزا بہت دیر ہکے بکے وہیں کھڑے رہے۔ وہ
کچھ بھی تو نہ کر سکے۔‘‘ (صفحہ ۲۴۴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔?